FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

سلسلۂ روز و شب

(اردو ناولوں کا خصوصی مطالعہ اور دیگر مضامین)

               مشرف عالم ذوقی

حصہ اول

اس  کتاب کا دوسرا حصہ ’ناول و مکالمے‘ کے نام سے الگ سے شائع کیا گیا ہے

انتساب

عبد الصمد

حسین الحق

شموئل احمد

علی امام نقوی

غضنفر

کے

 نام

 

سلسلۂ روز و شب نقشِ گر حادثات

سلسلۂ روز و شب اصل حیات و ممات

سلسلۂ روز و شب تار حریر دو رنگ

جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائی صفات

سلسلۂ روز و شب ساز ازل کی فغاں

جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات

                                     — علامہ اقبال

 

اردو ناولوں کی دنیا

سارتر کا ایک کردار اپنی کہانی دیوار میں ایک سوارخ کے بہانے موہوم سی روشنی کا طلبگار تھا۔ صدیوں پر محیط ناول خس و خاشاک زمانے میں تارڑ آزادی اور غلام فضا دونوں ایام میں اسی روشنی کو تلاش کرتے رہے۔ وہ بونے تو نظر آئے۔ جو کنواں کی گہرائیوں سے نکل کر بختے کو تقسیم کا خوف دکھا رہے تھے۔ لیکن ایک تقسیم کے بعد بھی تقسیم کا سلسلہ بند کہاں ہوا  —   ہندو پاک کے ڈراؤنے خواب سے نکل کر یہ داستان سقوط بنگلہ دیش، ایران، افغانستان، عراق کے پس منظر میں جب اپنے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں دکھاتی ہے، تو ارتقا، سائنس اور تیزی سے بھاگتی نئی دنیا کا خوف ذہن و دل پر طاری ہوتا ہے  —   تارڑ کے پاس لفظیات کا خزانہ ہے۔ ہزاروں مثالیں، تشبیہیں ایسی ہیں جو اس سے پہلے مغرب کے کسی ناول کا حصہ بھی نہیں بنیں۔

اردو ناول کی گم ہوتی ہوئی دنیا

               (۱)

وقت کے ساتھ ناول اور فکشن کی دنیا بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارا نقاد آج بھی فکشن اور ناول کو اپنی اپنی تعریف و تشریح کے محدود پیمانے میں قید کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا واقعی کہانی کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ ایک انجام یا کلائمکس ہوتا ہے۔ کہانی ایک صدی سے زیادہ کا سفر طے کر چکی ہے۔ اور ہماری زندگی تہذیب کی اس اندھیری سرنگ میں گم ہے جہاں نہ کوئی آغاز ہے نہ انجام  —   اس تیز رفتار بھاگتی ہوئی زندگی کا کوئی انجام کیونکر لکھا جا سکتا ہے۔ ناول کے ساتھ بھی ٹھیک یہی معاملہ ہے۔ ایک نئی دنیا ہمارے سامنے ہے۔ اس نئی دنیا میں حقیقت فنٹاسی کا فرق اٹھ چکا ہے۔ اچھے ناول کے لیے نئی نئی زمینیں موجود ہیں۔ علامت سے فنتاسی تک کی ایک بڑی دنیاسامنے ہے۔ ایک جرمن ناول نگار جرمنی میں فروخت ہونے والے چاکلیٹ کی الگ الگ قسموں کو لے کر ایک ناول کی تخلیق کرتا ہے۔ ہر چاکلیٹ ایک بچہ، بچہ کے ماں باپ اور ماں باپ کی دنیا سے وابستہ کہانیوں کو سامنے رکھتا ہے اور اسی کے ساتھ ایک حیران کرنے والی دنیا سامنے آتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے تجربے صرف باہر ہو رہے ہیں۔ آج اردو میں بھی اس طرح کے تجربے مسلسل ہو رہے ہیں۔ مثال کے لیے مرزا اطہر بیگ کے ناول ’غلام باغ‘ یا ’ صفر سے ایک تک‘ کا مطالعہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ ناول کی یہ نئی زمین پریم چند اور قرۃ العین حیدر کی زمینی حقیقت سے بہت حد تک مختلف ہے۔

مرزا اطہر بیگ کے ناول صفر سے ایک تک کا موازنہ اندنوں جوائز کے ناول یولیسنر کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے پہلے ناول غلام باغ کو اردو ناول کی تاریخ کا تیسرا بڑا واقعہ قرار دیا گیا۔ صفر سے ایک تک دراصل سائبر اسپیس کے منشی کی سر گزشت ہے اور اس سر گزشت میں انفارمیشن ٹکنالوجی کی نئی دنیا کو ناول کا موضوع بنایا گیا ہے۔ دراصل ان دونوں ناولوں میں مرزا اطہر بیگ نے ایک تخیلاتی دنیا سے کام لیا ہے اور ناول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زبان کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ مرزا اطہر بیگ اپنے ناولوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، یہ جاننا بھی دلچسپ ہے۔

’’دیوانگی ’’غلام باغ‘‘ کے بنیادی موضوعات میں سے ایک ہے۔ فلسفے کے طالب علم کی حیثیت سے بھی یہ موضوع مجھے بہت Fascinateکرتا ہے۔ ہمیشہ سے یہ احساس رہا ہے کہ فرزانگی اور دیوانگی میں بال برابر کا فرق ہے۔ دیوانگی کا موضوع ناول کے پلاٹ سے بھی متعلق تھا۔ اس ناول میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں زبان کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ دیوانگی بڑی حد تک ایک لسانی مسئلہ ہے۔ جب ہمارے لسانی نظام میں کسی سطح پر بگاڑ پیدا ہوتا ہے تب ہی دیوانگی کا اظہار ہوتا ہے۔ بہرحال، یہ ایک علمی مسئلہ ہے، تو ناول کے کردار کئی بار اس سطح پر آتے ہیں، جب دوران گفتگو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کلام ان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ ہذیان کی سطح آ جاتی ہے، مگر بات دیوانگی برائے دیوانگی پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ یہ وجود کی، انسان کے انسان سے تعلق کی ایک اور سطح تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ کبیر اور زہرہ کا تعلق، عورت مرد کے تعلق کی انتہائی شکل تک پہنچنے کی کوشش ہے، جہاں من و تو کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔‘‘

            (مرزا اطہر بیگ سے گفتگو، اجرا،شمارہ ۱۳)

مرزا اطہر بیگ کے ساتھ ہی مستنصر حسین تارڑ بھی ناول کی دنیا کا ایک اہم نام ہے۔ ’خس و خاشاک زمانے‘ تارڑ کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کے بغیر اردو ناولوں پر گفتگو ممکن ہی نہیں ہے۔

اپنے ناول نگار دوستوں سے مخاطب ہوں جو افسانوں اور ناولوں میں تجربوں کا دم بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تجربہ تو ہونا ہی چاہئے، مگر زیادہ تر لوگ تجربہ تب کرتے ہیں جب ان کے پاس وہ فن یا ہنر نہیں ہوتا، جو مکالمہ نگاری پر قدرت رکھتا ہو، جہاں کردار نگاری کا جال بچھایا جاتا ہو، جہاں ایک کہانی صدیوں پر محیط فکر وفلسفے کا نیا باب روشن کرتی ہو …  ہم تجربہ کر رہے ہیں …  یا ایسی کئی کہانیاں اس وقت اچھی لگتی ہیں، جب ہم کسی مخصوص لمحے ان کو پڑھنے بیٹھے ہوں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ان کی چمک ماند پڑنے لگتی ہے …  پھر وہ تجربہ، جو ایک وقت میں سر چڑھ کر بولتا ہے …  وہ ناول یا کہانی وقت کے ساتھ افسانہ گمشدہ بن چکی ہوتی ہے …  علی اکبر ناطق ہوں، خالد جاوید، یا ایسے کئی نام …  یہاں تجربوں کی شاندار روایت رہی ہے …  مگر ڈر ہے …  کہ آنے والی صدی میں کہانیوں کی تفہیم کے لیے فاروقی نہ ہوں گے، تو قاری تک ان کہانیوں کو کون پہنچائے گا۔ مغرب کے ایسے ہزاروں لاکھوں اثاثے تجربے کے نام پر وقت کی بھیڑ میں کھو گئے۔ انکا بھی وہی حشر نہ ہو …

 مستنصر حسین تارڑ کو پڑھتے ہوئے ایک وسیع دنیا آباد ہے …  کیا ایسی کردار نگاری وہ لوگ کرسکتے ہیں جو صرف تجربے کا دم بھرتے ہیں ؟ میرا جواب ہے نہیں …  کیونکہ یہاں ہوا یا خلا میں معلق تحریر نہیں ہے۔ یہاں زندگی کو پیش کرنے کی جرأت کی گئی ہے۔ جو زیادہ مشکل کام ہے اور جنہیں یہ ہنر نہیں آتا وہ تجربے سے کام چلاتے ہیں۔ علی اکبر کے یہاں بیانیہ شاندار ہے۔ تجربے کی دھوپ بھی۔ نیا دینے کی کشمکش بھی۔ خالد جاوید کو بھی اسی راستے پر چلنا ہو گا۔ اور ان لوگوں کو بھی جو محض تجربوں کو ادب سمجھتے ہیں …  ہم سب شب خونی جدیدیت کا حشر دیکھ چکے …  ایک وقت میں چونکا دینے والی کہانیاں اب ماضی کا افسانہ بن چکی ہیں۔ ادب محض لفظوں کی بھول بھلیاں کا نام نہیں …  یہاں منہ میں چھالے اگانے ہوتے ہیں۔ لہو تھوکنا پڑتا ہے …  زندگی قربان کرنی ہوتی ہے …  اور مستنصر حسین کی طرح زندہ کرداروں سے نئے فلسفوں کی دھوپ چرانی ہوتی ہے۔ علی اکبر سے امیدیں ہیں لیکن ابھی منزل دور ہے …  ان لوگوں کو خالد طور، مستنصر، مرزا اطہر بیگ کے ساتھ ہماری داستانوں اور مثنویوں کے خزانے کو بھی ساتھ لینا ہو گا۔ صرف تجربہ عظیم تخلیق کے لیے کافی نہیں۔

سارتر کا ایک کردار اپنی کہانی دیوار میں ایک سوارخ کے بہانے موہوم سی روشنی کا طلبگار تھا۔ صدیوں پر محیط ناول خس و خاشاک زمانے میں تارڑ آزادی اور غلام فضا دونوں ایام میں اسی روشنی کو تلاش کرتے رہے۔ وہ بونے تو نظر آئے۔ جو کنواں کی گہرائیوں سے نکل کر بختے کو تقسیم کا خوف دکھا رہے تھے۔ لیکن ایک تقسیم کے بعد بھی تقسیم کا سلسلہ بند کہاں ہوا  —   ہندو پاک کے ڈراؤنے خواب سے نکل کر یہ داستان سقوط بنگلہ دیش، ایران، افغانستان، عراق کے پس منظر میں جب اپنے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں دکھاتی ہے، تو ارتقا، سائنس اور تیزی سے بھاگتی نئی دنیا کا خوف ذہن و دل پر طاری ہوتا ہے  —   تارڑ کے پاس لفظیات کا خزانہ ہے۔ ہزاروں مثالیں، تشبیہیں ایسی ہیں جو اس سے پہلے مغرب کے کسی ناول کا حصہ بھی نہیں بنیں۔ یہاں کچھ بھی مغرب سے مستعار نہیں، یہاں داستانی رنگ ہے۔ اور ذلیل ہونے کے لیے ہماری، آپ کی خوفناک دنیا منتظر …  ہزاروں کرداروں کو تارڑ نے اس فنکاری سے سمیٹا ہے، کہ یہ کام نہ فاروقی کے بس کا تھا، نہ کسی اور کے  —   میں نے آگ کا دریا دو بار پڑھا ہے۔ اور ان لوگوں سے معذرت کے ساتھ جو ادبی صحیفے کو پڑھتے نہیں، پرستش کرتے ہیں …  کہ یہ ناول آگ کا دریا سے بھی میلوں آگے کی چیز ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ پاکستان میں جہاں بیکار کے ناولوں پر مسلسل لکھا جا رہا ہے، اس ناول پر آفاقیت اور عالمگیریت کے حوالے سے گفتگو کے دروازے کیوں نہیں کھلے۔ ایک ناول نگار کی حیثیت سے میں مستنصر حسین تارڑ کو اس غیر معمولی تخلیق کے لیے مبارکباد دیتا ہوں …  اسے لکھنا آسان نہیں تھا۔ اس میں صدیاں قید ہیں۔ اور صدیوں کو قلمبند کرنے کے لیے، جس غیر معمولی زبان، اسلوب اور لہجے کی ضرورت تھی، تارڑ کے پاس یہ خزانہ موجود تھا۔ یہ ناول اردو زبان کے لیے ایک کرشمہ ہے  —   اس ناول کی آمد سے ہماری زبان کے قد اور وقار میں اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح رضیہ فصیح احمد کے ناولوں خصوصی طور پر صدیوں کی زنجیر کا تذکرہ نہ ہو تو ناول پر گفتگو مکمل نہیں ہوسکتی۔ مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ نقادوں نے ناول پر گفتگو کرتے ہوئے قرۃ العین حیدر کے ارد گرد اپنی محدود دنیا بنا لی تھی۔ اور اس دنیا سے باہر دیکھنا انہیں منظور نہیں تھا۔ جس زمانے میں قرۃ العین گردش رنگ چمن تحریر کر رہی تھیں، اسی زمانے میں سقوط بنگلہ دیش کے حادثے کو سامنے رکھ کر رضیہ فصیح احمد اپنا شاہکار صدیوں کی زنجیر مکمل کر رہی تھیں۔ جس زمانے میں آگ کا دریا لکھا گیا تھا، اسی زمانے میں سنگم لکھا گیا۔ مگر گفتگو آگ کا دریا سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ ہندوستانی منظر نامہ کا حوالہ بھی ضروری ہے کہ اسی زمین نے لہو کے پھول (حیات اللہ انصاری)، بے جڑ کے پودے (سہیل عظیم آبادی) انقلاب (خواجہ احمد عباس) بہت دیر کر دی (علیم مسرور) شکست کی آواز (عبدالصمد) جیسے شاہکار اردو کو دیئے۔ شکست کی آواز کی کہانی محبت سے شروع ہوتی ہے اور جادو پر ختم ہوتی ہے۔ اور یہ جادو ہے، نئی تہذیب کا تحفہ یعنی موبائل فون  —   آج کی تیز رفتار زندگی کا جس کے بغیر تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ شکست کی آواز، صفر سے ایک تک، پوکے مان کی دنیا، لے سانس بھی آہستہ تک آتے آتے ایک نئی دنیا کے دروازے ہمارے لیے کھل جاتے ہیں۔ سائبر اسپیس سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اس کے بھیانک نتائج تک حقیقت یہ ہے کہ ایک خوفزدہ کر دینے والی دنیا بھی ہماری ساتھ ہوتی ہے۔

               (۲)

اردو ناول اپنی عمر کے ۱۴۲ سال مکمل کر چکا ہے۔ ظاہر ہے یہ مدت کوئی کم مدت نہیں ہے۔آغاز سے ہی اردو ناول کو دیگر اصناف پر فوقیت حاصل ہے۔ اردو ناول نگاری کی ابتدا ڈپٹی نذیر احمد سے ہوئی۔ اور ڈپٹی صاحب نے ۱۸۶۹ میں مراۃ العروس کے نام سے اپنا پہلا ناول قلمبند کیا۔ ۱۴۲ سال کی طویل مدت میں ہندو پاک سے شائع ہونے والے ناولوں کی تعداد کسی بھی لحاظ سے ۲۰۰۔۳۰۰ سے کم نہیں ہو گی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں تحریر کیے گئے زیادہ تر ناولوں کی بازگشت سے ہندستانی نقاد محروم رہا۔ اسی طرح بیشتر ہندستانی ناولوں کی گونج پاکستان میں نہیں سنی جا سکی۔ اور یہ قصہ ہنوز جاری ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد،پریم چندر راشد الخیری، شرر، مرزا ہادی محمد رسوا، کے ناولوں سے آگے بڑھیے تو لسانی تہذیبی اور تجربے کی سطح پر بھی ایسے بے شمار ناول ملتے ہیں جنہیں یا تو نظرانداز کیا گیا یا جنہیں نقادوں کی سرپرستی نہیں مل سکی۔ یہ وہی نقاد تھے جنہوں نے قرۃ العین حیدر اور دو ایک ناول نگاروں کو چھوڑ کر بیشتر ناول پر  گفتگو کو ہی تضیع اوقات جانا۔

پاکستانی ناولوں کی ایک جھلک

 شوکت صدیقی۔ خدا کی بستی۔ جانگلوس۔ خدا کی بستی کو شہرت ملی۔ جانگلوس نقادوں سے پڑھا ہی نہیں گیا۔ ہندستان کے زیادہ تر ادیبوں نے صرف جانگلوس کا نام سنا ہے۔ مطالعہ نہیں کیا۔

عرصہ پہلے اردو میں ایک ناول شائع ہوا ’خدا کی بستی‘ اس بستی کے سارے کردار وہی تھے جو خدا کی زندہ بستیوں میں بھی آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اچھے برے، غنڈے، موالی، شدت سے محبت کرنے والے اور اسی شدت سے نفرت کرنے والے بھی۔ چھوٹے موٹے چور اچکے، جیب تراش، سیاست پر باتیں کرنے والے اور اپنے عہد میں ہونے والی سیاست کا ایک حصہ بن جانے والے بھی تخلیق کار تھے  —   شوکت صدیقی اور ناول کا نام تھا خدا کی بستی۔ ناول کا شائع ہونا تھا کہ اردو کی ادبی دنیا میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ اس سے قبل اتنے انوکھے موضوع پر اور اتنے انوکھے انداز سے اردو میں کچھ بھی نہیں لکھا گیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ناول کے کتنے ایڈیشن آ گئے اور آج کی تاریخ میں اردو کو بین الاقوامی پہچان دینے والوں کی قطار میں یہ ناول بھی شامل ہے۔ دنیا کی تقریباً سبھی زبانوں میں اس ناول کے ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔

پاکستان کا انڈر ورلڈ ان کے افسانوں میں ہمیشہ نشانے پر رہا۔ ’خدا کی بستی‘ سے ان کے دوسرے ناول جانگلوس تک اس انڈرولڈ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جانگلوس کے علاوہ ۱۹۹۰ میں ان کا ایک ناول شائع ہوا ’چار دیواری‘ چار دیواری شوکت کے ’ناسٹیلجیا کی کہانی ہے جہاں وہ اپنے بچپن کی یادوں کو اپنے ادب کا حصہ بناتے ہیں۔ اس میں ان کی زندگی بھی ہے اور ان کی ہجرتیں بھی شامل ہیں۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے لیکن پاکستان ہجرت کرنے کے بعد بھی وہ لکھنؤ کو بھول نہیں سکے۔ لکھنؤ آخر آخر تک ان کے وجود کا ایک حصہ بنا رہا ہے۔

’خدا کی بستی‘ کے کھیل نرالے ہیں۔ یہ بستی کل بھی وہی تھی، جو شوکت صدیقی نے دیکھی اور محسوس کی تھی۔ یہ بستی آج بھی وہی ہے۔ لیکن اس گلوبل تہذیب نے ہمارے انسان ہونے کے احساس یا جذبوں کو ہماری روح سے خارج کر دیا ہے۔ اردو ادب اچھے لکھنے والوں سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ ہندستان سے پاکستان تک لکھنے کے نام پر گہرے سناٹے کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔

ایک وقت تھا جب منٹو، بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، غلام عباس، خواجہ احمد عباس اور شوکت صدیقی جیسے تخلیق کاروں کی وجہ سے اردو ادب کو دنیا کے بہترین ادب میں شمار کیا جاتا تھا۔ اردو کی شروعات داستانوں سے ہوئی۔ اور ان افسانہ نگاروں میں داستانیں کہنے کا جادو برقرار تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ داستانیں سنانے والے ماضی کی داستان بنتے چلے گئے۔ قصہ گوئی کی روایت دم توڑ گئی۔ انتظار حسین نے اس بہانے قصہ گوئی کی اس روایت کو زندہ ضرور رکھا ہے، لیکن اردو کو بین الاقوامی سطح پر پہچان دینے والے اب آہستہ آہستہ ہمارے درمیان سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر احسن فاروقی۔شام اودھ، آبلہ دل کا، رخصت اے زنداں، سنگم — یہ ناول ہندستان میں دسیتاب نہیں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دوست ناول نگار بھی احسن فاروقی کے ان ناولوں کی چمک سے کوسوں دور ہیں۔ سنگم اسی پائے کا ناول تھا، جو مقام قرۃ العین حیدر کے آگ کا دریا کو حاصل ہے۔

عزیز احمد۔ خون، مرمر، گریز، آگ، شبنم، (کتنے ناول ہندستانی نقاد یا ادیبوں تک پہنچے؟)ایم اسلم۔ رقص ابلیس،قدرت اللہ شہاب۔ یا خدا،عبداللہ حسین۔(بھاگ، قید، نشیب، اداس نسلیں، نادار لوگ،اداس نسلیں کے علاوہ کتنے ناولوں پر گفتگو کے در وا ہوئے؟ )جمیلہ ہاشمی۔ (تلاش بہار۔ دشت سوس منصور علاج کے دردناک تاریخی قصے کو ناول کی شکل دی گئی ہے۔ تلاش بہار میں مشترکہ تہذیب کا حوالہ ملتا ہے۔ ان تینوں ناولوں کا ذکر اکثر سننے میں آتا ہے لیکن سوال اپنی جگہ قائم ہے۔ کیا یہ ناول ہندستانی ناولوں پر لکھنے والوں کی نظر سے گزرا ہے۔؟)رضیہ فصیح احمد۔آبلہ پا۔ صدیوں کی زنجیر۔ ۷۱ کا سانحہ، سقوط کے واقعات پر تحریر کردہ اس ناول پر کیا ہندستان میں گفتگو کے دروازے کھلے۔؟) غلام ثقلین نقوی۔ (میرا گاؤں۔ فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے بہانے پاکستانی معاشرے کی آواز بن کر ابھرنے والا یہ ناول کیا کسی کو یاد ہے؟)فضل کریم فضلی۔ (خون جگر ہونے تک۔ اس دردناک ناول میں قحط بنگال کو موضوع بنایا گیا ہے۔)

ممتاز مفتی۔( علی پور کا ایلی۔ اللہ نگری، بہت سے لوگ علی پور کا ایلی کا نام تو لیتے ہیں لیکن مطالعہ … ؟)صدیق سالک۔ فطرت،نثار عزیز بٹ۔( نگری نگری پھرا مسافر۔ کاروانِ وجود، دریا کے سنگم)،الطاف فاطمہ۔ (نشان محفل، دستک نہ دو۔ چلتامسافر۔ )رحیم گل۔ جنت کی تلاش،انور سجاد۔ (خوشی کا باغ۔ ذکر آتا ہے لیکن مطالعہ؟)،انیس ناگی۔ (دیوار کے پیچھے، محاصرہ، کیمپ)فہیم اعظمی۔ جنم کنڈلی،بانو قدسیہ۔ راجہ گدھ، (یہ ناول ہندستان سے بھی شائع ہوا ہے)،رشیدہ رضویہ۔ (لڑکی ایک دل کے ویرانے میں )،محمد خالد اختر۔ (چاکیواڑہ میں وصال)امراء طارق۔( معتوب)،مستنصر حسین تارڑ۔( راکھ، بہاؤ، قلعہ جنگی، قربت مرگ میں محبت، ڈاکیا اور جولاہا) انور سن رائے۔ چیخ،عاصم بٹ۔ دائرہ،خالدہ حسین۔ کاغذی گھاٹ،محمد حمید شاہد۔ مٹی آدم کھاتی ہے۔،آمنہ مفتی۔ جرأت رندانہ،اطہر بیگ۔ غلام باغ (اس کا  ذکر آگے آئے گا)،مصطفی کریم۔ راستہ بند ہے۔،شمیم منظر۔ زوال سے پہلے،نسیم انجم۔ نرک،محمد امین۔ بار خدا، کراچی والے،محمد الیاس۔ برف۔

کس کس کا ذکر کیجئے۔ صرف پاکستانی ناول کو لیا جائے تو یہ فہرست کافی لمبی ہو جاتی ہے۔ لیکن ان ناولوں کا ذکر یوں مقصود ہے کہ ہم ان ناولوں کے مطالعہ سے محروم ہیں۔ آج دنیا بھر کے اردو ویب سائٹس اردو کتابوں کو جگہ دے رہے ہیں جہاں اردو کتابیں ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد پڑھی جا سکتی ہیں لیکن یہ ناول بسیار تلاش کے باوجود مجھے ان سائٹس پر نظر نہیں آسکے۔ اس لیے مجموعی طور پریہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم زیادہ تر انہی ناولوں پر کام کرتے ہیں جو آسانی اور سہولت کے ساتھ ہمیں دسیتاب ہیں۔

اشرف،شاد، بابا یحیٰ اور اطہر بیگ کی دنیا

پاکستان میں اردو ناولوں کی ایک بڑی دنیا آباد ہے۔ اور یہ خوشی کا مقام ہے کہ وہاں ناول پڑھے بھی جاتے ہیں۔ (ہندستان کی طرح نہیں کہ خود پیسہ لگائیے اور ناول احباب میں تقسیم کرتے رہیے۔ اگر آپ کا تعلق کسی مخصوص گروہ (گروپ) سے ہے تو پھر تیار رہیے  —   آپ کے ناولوں پر گفتگو کی شروعات ہو گی ورنہ ناول لکھ کر آپ خاموش رہ جائیے) اشرف،شاد کے ناول بے وطن اور وزیر اعظم نے شائع ہوتے ہی دھوم مچا دی۔ بابا یحیٰ کے مہنگے ترین ناول ہاتھوں ہاتھ بک گئے۔ اطہر بیگ کے ناول غلام باغ کے کئی ایڈیشن منظر عام پر آ گئے۔ ۸۷۸ صفحات پر مشتمل اس ناول کا دیباچہ عبداللہ حسین نے تحریر کیا۔

’ غلام باغ اپنے مقام میں اردو ناول کی روایت سے قطعی ہٹ کر واقع ہے۔ بلکہ انگریزی ناولوں میں بھی یہ تکنیک ناپید ہے۔ اس کے ڈانڈے یورپی ناول خصوصی طور پر فرانسیسی پوسٹ ماڈرن ناول سے ملتے ہیں۔‘

 یہ ناول پاکستانی نوجوانوں نے ہاتھ ہاتھ لیا۔ سوچنے کی بات یہ تھی کہ فلسفیانہ مباحث میں الجھی ہوئی، ۸۷۸ صفحات پر مشتمل ناول نوجوانوں میں اتنا مقبول کیسے ہو گیا؟

 مرزا اطہر بیگ سے اس کا جواب سن لیجئے  — ’ قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنا آج کے لکھاری کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔‘

لیکن افسوس کچھ ہندستانی ناول نگار یہ بھول بیٹھے کہ قاری جیسی بھی کوئی شے ہے، جہاں تک ناول کو پہچاننے کی ان کی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔ لیکن اس چیلنج کو حسین الحق،عبدالصمد، پیغام آفاقی، غضنفر، علی امام نقوی، شفق (بادل اور کابوس)، رحمان عباس، (ایک ممنوعہ محبت کی کہانی) نورالحسنین، (اہنکار) احمد صغیر، جیسے ناول نگاروں نے بڑی حد تک قبول کیا۔ لیکن ہم ایک بار پھر ایک ایسے ناخوشگوار موسم کا گواہ بن گئے ہیں جہاں کچھ لوگ ایک مخصوص گروپ سے وابستہ ہو کر ایک بڑی مہم کے ذریعہ اردو قارئین کو اچھے ناول کے نام پر فریب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے پاس پلیٹ فارم ہے۔ رسائل ہے۔ اور وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ اردو ناول نگاری کی ایک وسیع تر دنیا ہے۔ اور ماضی تا حال اچھے لکھاریوں کی کمی کبھی نہیں رہی۔

بہرکیف،گزشتہ ایک صدی میں اپنی فکر اور امتیازات کے حوالے سے ایسے کتنے ہی نام ناول کے افق پر ابھر کرسامنے آئے، جن کو لے کر ناقدین کے یہاں کوئی باقاعدہ نظریہ سازی عمل آرا نظر نہیں آئی۔ کچھ ناول اپنے وقت میں ابھرے۔ یہ مدت دوچارسال رہی۔ پھر یہ گم ہو گئے۔ گیان سنگھ شاطر سے پلیتہ تک مندرجہ ذیل سطور میں، میں نے جو مختصر نوٹس لیے ہیں، انہیں قارئین تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔

گیان سنگھ شاطر (ناول)

ادب، ادب ہوتا ہے۔ادب میں کشف و کرامت اور معجزے جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ مگر جب کبھی گیان سنگھ شاطر جیسی حیرت زدہ کر دینے والی کوئی کتاب سامنے آتی ہے تو اس اکیسویں صدی میں بھی معجزے کا قائل ہونا پڑتا ہے۔

 یہ ایک سوانحی ناول ہے اور اسے قلمبند کرنے والا فن کا ر وہ ہے جس نے اپنی شخصیت کی پرتیں کھولنے کے لیے اس زبان کا انتخاب کیا، جس زبان سے وہ خود بھی انجان تھا۔ لیکن وہ محسوس کرتا تھا کہ جذبات واحساس کے اظہار کے لیے اردو سے بہتر کوئی دوسرا وسیلہ نہیں۔ حقیقت شناسی کی جس سڑاند سے، وہ اپنی ذات کے موتی لٹانا چاہتا تھا، اس کے لیے صحیح معنوں میں اردو زبان کی مٹھاس کی ضرورت تھی۔ اس زبان کی رعنائی، دلکشی، شیرینی، روانی، لطافت، رچاؤ ہی اس آپ بیتی کو بھر پور صحت اور زندگی بخش سکتا تھا۔

یہ ایک انوکھا سوانحی ناول ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ کو اپنی زندگی کے واقعات کس سن سے یاد ہیں تو شاید آپ عمر کے پانچویں یا چھٹے پڑاؤ تک پہنچیں۔ یادداشت پر کچھ زیادہ ہی زور ڈالیں تو شاید پرچھائیوں کی صورت اس سے بھی کم عمر کی کچھ دھندلی دھندلی سی تصویریں آنکھوں کے آگے گڈ مڈ ہو جائیں، مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ پیدائش کے وقت سے لے کر چھوٹی چھوٹی تمام باتیں آپ کو یاد ہوں  —   گیان سنگھ شاطر کی ایک تو سب سے بڑی خوبی مجھے یہ نظر آئی کہ لگتا ہے آنکھیں کھولتے ہی یہ شخص اپنی ذات کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اور ایسا لکھا کہ آپ کسی بھی واقعہ کی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے  —   ایک فن پارہ کی اس سے زیادہ کامیابی اور کیا ہو گی؟ —

یہ کتاب صرف آپ بیتی تک محدود نہیں ہے۔شاطر نے اس میں ایک پورا جہان آباد کر رکھا  ہے۔ جانا پہچانا بھی اور ان دیکھا سا بھی  —   ایک ماں ہے، شفقتوں والی ماں  —   بیٹے پر اپنی دعاؤں کاسایہ کرنے والی ماں  —   اپنے شوہر کے سائے سے ڈر جانے والی ماں  —   اندر ہی اندر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر جانے والی ماں، روایتی زنجیروں میں جکڑی ڈری ڈری سی خوفزدہ سی ماں  —   ایک تایا بھی ہیں جو عورت کی عظمت کے قائل ہیں  —   انتہائی فیاض، بردبار، ایک ایسا انسان جو کسی کا بھی آئیڈیل ہوسکتا ہے  —   اور ایک بھائیا جی جو انسانوں سے حیوانوں جیسا اور حیوانوں سے درندوں جیسا سلوک کرتے تھے  —   تایا جی جہاں عورت کو تخلیق کاسرچشمہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ عورت سرشٹی ہے  —   وہیں بھائیا جی کی رائے بالکل مختلف تھی  —   وہ کہتے تھے — ’’ عورت اور کتیا کی نفسیات ایک سی ہے  —   اسے روٹی کپڑا نہ دو، اس کے چڈے سے لپٹے رہو اور تھن چونگھتے رہو۔ یہی اس کی زندگی ہے اور یہی آسودگی‘‘ —

یہ دو غیر معمولی کردار ایسے ہیں،جو اردو ادب کی تاریخ میں اضافہ تو ہیں ہی، شاطر کا مقام متعین کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔عجیب  و غریب کردار، تایا جی جہاں ایک آئیڈیل کے طور پر دل و دماغ کے گوشہ میں اپنی جگہ محفوظ کرتے ہیں، وہیں بھائیا جی،بھائیا جی کے خیال، بھائیا جی کی مردانگی، بھائیا جی کی عورتوں کے بارے میں سوچ، بھائیا جی کی گفتگو، ان کا لب و لہجہ  —   اگر منٹو کے بارے میں کہا جائے کہ اس نے صرف ٹو بہ ٹیک سنگھ دیا ہوتا تب بھی اردو ادب ان کا احسان مند ہوتا  —   یہی بات ان کرداروں کے حوالے سے کہی جا سکتی ہے۔ ایسے ناقابل فراموش کردار دے کر گیان سنگھ شاطر اردو زبان کا دامن وسیع کر گئے ہیں۔

ایک طرف جہاں یہ انوکھے کردار ہیں اور شاطر کا بچپن ہے، اس کا نسائی حسن ہے، اس کی جوانی ہے، جوانی کی ترنگیں ہیں، سرمستیاں ہیں اور مجبوریاں ہیں، وہیں سرزمین پنجاب میں اگی ہوئی وہ حیرانیاں ہیں، جنہیں دیکھنے کی تاب رکھنے والی آنکھیں ہونی چاہئیں اور جسے اپنے مخصوص انداز بیان میں، شاطر نے انوکھا پنجاب بنا دیا ہے۔ بیدی نے اپنی کہانیوں میں جس پنجاب کا چھلکا بھر اتارا تھا، بلونت سنگھ نے جس کے گودے میں پنجابی مردوں کی آن، بان اور شان دیکھنے کی جرأت کی تھی، شاطر نے اس پورے پنجاب کو تہہ در تہہ اس طرح کھول دیا ہے کہ آنکھیں ششدر رہ جاتی ہیں۔

اس انوکھی اور نادر تحریر کے لیے گیان سنگھ شاطر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اردو ادب کو گیان سنگھ شاطر جیسا شاہکار دے کر قابل قدر اضافہ کیا ہے۔  مگر افسوس گیان سنگھ کی اشاعت کے دو ایک برس بعد ہی شاطر ایسے کھوئے کہ اس وقت وہ کہاں ہیں۔ کوئی نہیں جانتا۔ نہ انہوں نے کوئی افسانہ خلق کیا اور نہ اس ناول کے بعد دوسرا کوئی ناول۔ مگر اپنے اس ناول کی وجہ سے وہ اردو ناول کی دنیا میں اپنی ایسی موجودگی درج کرا گئے ہیں، جسے بھولنا آسان نہیں ہو گا۔

فائر ایریا(مصنف : الیاس احمد گدی)

’فائر ایئریاُالیاس احمد گدی کا پہلا ناول ہے — فائر ایریا لکھنے کے دو تین سال بعد ہی الیاس احمد گدی انتقال بھی کر گئے  —  بہر کیف الیاس احمد گدی اردو کی افسانوی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے  —   وہ چند لوگ جو علامت اور تجرید کے بہاؤ میں بہے پھر واپس آ گئے   —   ایسے چند گنے چنے لوگوں میں الیاس احمد گدی کو آسانی سے رکھا جا سکتا ہے۔ ایسا اس لیے بھی کہ الیاس احمد گدی کہانی کہنے کے فن سے واقف تھے اور انہیں ماجرا سازی کا ہنر آتا تھا۔

کچھ برس پہلے ہندی میں مشہور کتھا کار سنجیو کا ایک ناول شائع ہوا تھا  —   ساودھان! ’نیچے آگ ہے‘  —   یہ ناول فائر ایریا یعنی کولفیلڈ میں کام کرنے والے ان مزدوروں کی زندگی پر مبنی تھا جو اندر دہک رہی آگ کی بھٹی میں اپنے حال اور مستقبل کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ تب خیال آیا تھا یہ ناول غیاث صاحب نے کیوں نہیں لکھا؟ یا اس موضوع پرالیاس صاحب نے قلم کیوں نہیں اٹھا یا  —   جب کہ دونوں کا تعلق اسی فائر ایریا شہر سے ہے جہاں اکثر کولیری میں ہوئے حادثات میں مزدوروں کی زندگیوں کاسودا ہوتا رہتا ہے۔

 اس لحاظ سے میں الیاس احمد گدی کو یاد کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اس بہانے انہوں نے کولیری کی اس دنیا میں جھانکنے کی کوشش کی، جہاں گھٹن ہے، گھپ اندھیرا ہے، کھولتے ہوئے گرم لاوے ہیں …  اندر آگ ہے اور اس آگ میں کندن کی طرح تپتا ہوا مزدور ہے۔ جو ہوا، خوشبو، سردوگرم کے احساسات، محبت و نفرت کے جذبات، زندگی کی خوشیاں، دھوپ کی تپش،بہاروں کے قافلے اور اپنے خوابوں، ارمانوں تک کو بھول بیٹھا تھا  —   یہ مزدور اپنے سرد و گرم احساس کی واپسی کے لیے الیاس احمد گدی جیسے اہل قلم کی پر زور تحریر کا منتظر ضرورت تھا۔ بڑے کینوس پر اگر ناول کی بساط بچھائیے تو اسی حساب سے کردار بھی آئیں گے، واقعات و حادثات کے لشکر ہوں گے جو کردار کے شانہ بشانہ چلیں گے  —   الیاس  احمد گدی نے فنی گرفت کے ساتھ ان کرداروں کو کولیری کے حبس زدہ ماحول میں چھوڑ دیا جہاں سہدیو ہے، کالا چند ہے، مجمدار ہے، ورما صاحب ہیں … ختونیا ہے، اس کا جوان انقلابی بیٹا ہے، اس کا مرحوم شوہر ہے اور کولیری کے مالک ہیں  —   استحصال ہے اور استحصال کرنے والے ہیں …  آگ کی بھٹی ہے۔ اٹھتے ہوئے شعلے ہیں …  شعلوں میں گھرے ہوئے انسان ہیں …  جدوجہد ہے اور پھر ایک دھیما احتجاج …  ایک خاموشی بھرا غصہ …

الیاس احمد گدی نے اس ناول میں کہیں شاعری نہیں کی ہے۔ ماحول ویسا ہی پیش کیا ہے جیسا کولیری کا ہونا چاہئے۔ کرداروں کے مکالمے ویسے ہی رہنے دیے ہیں جیسا کہ یہ بول سکتے ہیں۔ علاقائی زبان کے علاوہ بہار کی دوسری بولی ٹھالی پر بھی مضبوط گرفت دیکھی جا سکتی ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فائر ایریا کی تخلیق وہ شخص کر رہا ہے جو بہار کے جغرافیائی حدود، زبان، ماحول اور کلچر سے بخوبی واقف ہے، اور اس واقفیت نے فائر ایریا کو ایک عمدہ اور کامیاب ناول بنا دیا ہے۔ یہ مکمل طور پر ریسرچ کا موضوع تھا۔ ایسے ناول کی تخلیق ہوا میں ممکن نہیں تھی۔ اور خوشی ہے کہ الیاس احمد گدی نے کولیری کی عام زندگی کو حقیقت نگاری کے جلوے کے ساتھ اس ناول میں سمو دیا۔آج الیاس احمد گدی کی کہانیاں کسی کو یاد نہیں لیکن الیاس احمد گدی اس ناول کے ذکر کے ساتھ اب بھی زندہ ہیں۔

 شفق (کابوس اور بادل)

شفق کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اردو ناولوں پر جب بھی گفتگو کے دروازے کھلتے ہیں تو شفق کا نام ضرور آتا ہے۔ شفق کو سب سے زیادہ مقبولیت کانچ کے بازیگر سے ملی۔ اس کے بعد شفق نے دو ناول لکھے۔ بادل اور کابوس۔ کابوس کو بادل کا ایکسٹینشن کہا جا سکتا ہے۔ کابوس کے بہانے شفق دراصل اپنے عہد کا رزمیہ لکھ رہے تھے۔

عہد حاضر کے دس بڑے ناول نگاروں کا تذکرہ ہو تو شفق کا نام ضرور لیا جائے گا۔ ایک زمانہ تھا جب اردو میں ناول غائب ہو چکا تھا۔ 1980کے آس پاس شفق نے کانچ کا بازیگر لکھا۔ اور اردو جدید ناول کی دنیا میں ہنگامہ مچ گیا۔ شفق کے اس ناول کا آنا کسی دھماکے سے کم نہیں تھا۔ اس ناول کے ذریعہ نہ صرف اردو ناولوں پر از سرنو گفتگو کے دروازے کھلے بلکہ اس ناول نے ان لوگوں کو بھی چونکا یا جو ایک عرصے سے اردو کی خدمات انجام دہے رہے تھے۔ اردو کے چار بڑے ستونوں میں سے ایک عصمت چغتائی نے لکھا —

شفق تمہارے پاس الفاظ کا بڑا بھر پور خزانہ ہے  —   الفاظ میں شعلگی ہے  —   اس قلم کی بے حرمتی ہو گی اور اگر تم اس وقت اگلا قدم نہیں اٹھاؤ گے  —   خوفزدہ انسان پلٹ کر پھن مارسکتا ہے  —   یہ نظام ٹوٹ رہا ہے  —   اس سے پہلے کہ پیوند لگانے والے آگے بڑھیں پلٹ کر اس دشمن کی کلائی مروڑ دو  —   ایسے ہی وقت میں ہمیشہ بیرونی طاقتوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ کیا ہندستانی خوداعتمادی سے آنے والے وقت کی پیشین گوئی نہیں کر سکیں گے — ؟ گیلے کپڑے کو صرف،ایک حد تک نچوڑا جا سکتا ہے پھر اس کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں  —   فرد ایک اژدہا ہوتا ہے اس میں کروڑوں گونگے انسانوں کی زبان شکنی ہوتی ہے۔

                                     —  — عصمت چغتائی

 شفق نے عام طور پرسماجی رشتوں اور عالمی دہشت پسندی سے وابستہ واقعات و حادثات کو اپنی کہانیوں اور ناول کا موضوع بنایا ہے۔ لیکن ان ناولوں میں انسانیت کاپیغام نمایاں طور پر نظرآتا ہے  —

کابوس اور بادل شفق کے ایسے ناول ہیں جو فرقہ واریت کی مدھم روشنی میں محبت کی الکھ جگاتے ہیں۔

شموئل احمد (ندی)

اچھے ناول کبھی کبھی جنم لیتے ہیں  —   ندی جیسا اچھا اور بڑا ناول اردو ادب میں ایک قابل قدر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت اور مرد کے مابین تعلق پر ایک دو نہیں ہزارہا کہانیاں قلمبند کی جاچکی ہیں، ہر دور میں،ہر زبان میں، جنس کے رشتہ کے وسیع پس منظر میں کچھ نہ کچھ ہمیشہ لکھا جاتا رہا ہے۔ اور ہر بار جب اس رشتے کی کوئی نئی گرہ سامنے آتی ہے تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یا خدا اس جسم میں کیسے کیسے راز دفن ہیں  —   کیسی کیسی ان بجھ پہیلیاں  —

کبھی ندی کو غور سے دیکھیے اور محسوس کیجئے۔ روانی سے بہتی ہوئی ندی کی موسیقی پر کان دھریے  —   شموئل نے ندی کا سہارا لے کر عورت کی تہہ دار معنویت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو اظہار کی زبان دی ہے  —   اور محض کامیاب ہی نہیں ہوئے ہیں بلکہ اردو کو ایک نہ بولنے والا شاہکار دے کر حیرت زدہ بھی کر گئے ہیں۔

 ۱۱۶ صفحات پر مشتمل ناول دراصل طویل مختصر کہانی ہے۔ ندی میں کردار کم سے کم ہیں  —   ایک عورت ہے۔ ندی کی طرح رعنائیاں، شوخیاں، سرمستی اور فطرت میں بہاؤ ہے۔ ایک مرد ہے جو اصولوں کا پابند ہے۔ وہ زندگی کو اصولوں کی پابندیوں میں دیکھتا ہے اور بندھے ٹکے فارمولوں پر جینے کا خواہش مند ہے …  اور خاموشی سے گنگناتی ہوئی ندی ہے جسے شموئل نے زندگی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کہانی پہلے صفحے سے ہی ایک بے حد حسین غزل یا کسی مغنیہ کے سحر آفریں کلام کی طرح شروع ہوتی ہے  —   چند مثالیں دیکھیے۔

 ’’عجیب گاؤدی شخص ہے …  بار بار گھڑی دیکھتا ہے۔ آنے سے قبل فیصلہ کر لیتا ہے کہ کتنی دیر بیٹھے گا …  بات کرنے کا اس کے پاس کوئی موضوع نہیں۔موسم کا لطف اٹھانے سے بھی قاصر ہے۔ کتابوں سے دل چسپی نہیں  …  جس کو بارش سے دلچسپی نہیں … ‘‘

 ’’اصول، ترتیب، عقیدہ …  یہ سب آدمی کو داخلیت میں باندھتے ہیں ‘‘۔

’’کتنی عجلت میں ہے وہ جیسے وارڈ روب میں کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔ اس کا عمل میکانکی ہے۔اور وہ کچھ بھی تو محسوس نہیں کر رہی ہے۔ نہ رینگتی چونٹیوں کا جال نہ مندمند چنگاریاں سی …  نہ سانس کے زیر و بم میں فرق …  تب اس کو لگا وہ آہستہ آہستہ ندی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اب اترے گی کہ اترے گی … ‘‘

’’کتنا کنڈیشنڈ ہے وہ …  پالتو کے کتے کی طرح …  صرف گھنٹی کی آواز پہچانتا ہے …  بھوک کی شدت نہیں … ‘‘

اصول، قاعدہ، ضابطگی، بندش …  لڑکی کا اپنا ایک رومانی سنسار ہے، تصور کی حسین وادیاں ہیں، جہاں حسین گل بوٹے کھلے ہیں۔ اور جن پر سررکھ کر وہ کوئی دل کش سا خواب بننا چاہتی ہے۔ شموئل نے بار بار احساس کرایا ہے کہ کوئی ضروری نہیں ہے،رومان کی ان سر پھری وادیوں میں سیر کرتی عورت ذاتی زندگی میں اتنی پریکٹیکل نہ ہو جس قدر اسے ہونا چاہئے  —   اس لڑکی میں وہ تمام تر خوبیاں ہیں۔ ہزار صفات کے باوجود اسے کبھی کبھی بکھراؤ بھی پسند ہے۔ بے اصولی بھی۔ کچھ نیا کر گزرنے کی للک بھی۔ اور وہ جب اس کی زندگی میں آتا ہے تو وہ اصول،عقیدے کی چہار دیواری میں قید ہونے لگتی ہے اور محسوس کرتی ہے …  جتنا وہ کھل کر جینا چاہتی تھی، اب اتنی ہی بندھن کی زندگی جی رہی ہے۔ لیکن کیا یہ ایڈجسٹمنٹ ہے؟ نہیں یہ موت کا عمل ہے  —   وہ آہستہ آہستہ مر رہی ہے۔ وہ ا پنی داخلیت میں مر رہی ہے۔ اس کے اندر پڑی پڑی کوئی چیز مرجھانے لگی ہے۔ وہ اپنے ہی گھر میں قید ہے اور یہ گھر نہیں ریمانڈ ہوم ہے۔

 عورت کی ذہنی جسمانی آزادی کو ایک بڑے وسیع کینوس پر جو کوڈ اور استعارہ شموئل نے فراہم کیا ہے۔ اس کی تعریف کرنی ہو گی  —   کتاب شروع سے آخر تک پیچیدہ ہوتے ہوئے بھی ندی کو تیز تند موجوں کی طرح بہا لے جاتی ہے  —   جو نفسیاتی پیچیدگیاں اور محض دو کردار کے توسط سے جنم لینے والے Events شموئل نے اس ناولٹ میں جمع کیے ہیں، ان کے انداز شاعرانہ ہوتے ہوئے بھی اپنی جامعیت میں ایک جہانِ کشادگی لیے ہوئے ہیں … لیکن افسوس،ندی میں جو خوبیاں تھیں۔ وہ ان کے دوسرے ناول میں پیدا نہیں ہوسکیں۔

نام کتاب:آخر داستان گو(مصنف:مظہر الزماں خاں )

مظہر الزماں خاں کا شمار جدید افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ نئی الف لیلیٰ کے قصے کچھ اتنے گنجلک ہیں کہ قارئین کو متوجہ کرنے کی کوشش میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکے۔داستان گوئی کی روایت یا چلن نے اردو کو کیسے کیسے نایاب شہ پارے دیے۔ الف لیلیٰ (قدیم) کے دائمی حسن میں اتنی کشش تھی کہ اس نے سارے عالم میں اپنا لوہا منوا لیا۔مظہر الزماں خاں نے اپنے مخصوص انداز میں اس جدید الف لیلیٰ کو آج کی تہذیب سے ملانے کی کوشش تو کی ہے مگر یہیں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے بڑے فنکار زندگی کی حقیقت سے آنکھیں چرانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔ مظہر الزماں خاں کی حیثیت میرے نزدیک بڑے بھائی کی ہے۔ مجھے اس بات کا شدیداحساس ہے کہ مظہر الزماں خاں نے ابھی بھی اپنی ادبی شخصیت کی پرتیں چھپا کر رکھی ہیں  —   وہ برسوں سے جدیدیت کے جس خول میں گرفتار تھے، اس میں آج بھی نظر بند ہیں۔ جبکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جدیدیت اب گزرے زمانے کا قصہ ہے۔ بہرکیف، میں بڑے بھائی کی واپسی کا منتظر ہوں۔

غضنفر۔ (پانی،مم، کہانی انکل، دویہ بانی، شوراب وغیرہ)

غضنفر نے ان دس پندرہ برسوں میں سات یا آٹھ ناول تحریر کیے۔ غضنفر کے ناول پانی نے اپنے موضوع اور فکر کے لحاظ سے ناقدین کو چونکا یا اور اس کے بعد سے ہی ناول نگار غضنفر نے کہانیوں سے الگ اپنا نیا سفر شروع کیا۔ دویہ بانی اور شوراب تک آتے آتے غضنفر اس حقیقت نگاری کو سلام کر چکے تھے جہاں فکر اپنے بادبان کھولتی ہے اور ناول کرداروں، واقعات کے ساتھ ایک بڑی دنیا آباد کرتا ہے۔ یہاں قارئین کے لیے کوئی چیلنج نہیں ہے۔

ابھی حال میں پلیتہ، لے سانس بھی آہستہ کے ساتھ ساتھ غضنفر کا ناول مانجھی بھی منظر عام پر آیا ہے۔ پچھلے ۲۰ برسوں کے ناول کے منظر نامے پر غور کیا جائے تو غضنفر ایک کامیاب ناول نگار کے طور پر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ گنگا، جمنا، سرسوتی ندیوں کے بہانے غضنفر نے اس ہندستانی معاشرے کو قریب سے جاننے کی کوشش کی ہے، جس کو نمایاں طور پر پیش کرنا سب کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ آج ان ندیوں کے بہانے ماحولیاتی خطرے کا رونا رویا جا رہا ہے  —   اسی ماحولیاتی آلودگی سے ہمارا معاشرہ بھی دوچار ہے۔ محبت اور بھائی چارے کی پرانی رسم ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ اور ایسے نازک موضوع پر دہشت اور وحشت کی گفتگو سے الگ غضنفر نے ایک ایسی راہ کو اختیار کر لیا ہے جو ان کے وسیع مطالعہ و مشاہدے کی گواہی دیتی ہے۔ قدرت نے انسان کی معصومیت چھین لی اور پرندوں کے لیے ندی کے کنارے تنگ کر دیے۔ مانجھی بیچ منجدھار ہے اور اس سوچ میں گم کہ راستہ کیسے ملے گا۔ سادگی سے پر غضنفر کا یہی اسلوب ہے جو ان کے دوسرے ناولوں کا بھی خاصہ ہے اور غضب یہ کہ اس سادگی میں ہزاروں فلسفے پوشیدہ ہیں۔

عبدالصمد (دو گز زمین، خوابوں کاسویرا، مہاتما)

دو گز زمین اور مہاتما پر بہت زیادہ لکھا جا چکا ہے۔ عبدالصمد ادب سے سیاست تک کاسفر طے کر چکے ہیں۔ ان کے ناولوں میں جو سیاسی پختہ شعور دیکھنے کو ملتا ہے، وہ انہی کا حصہ ہے۔ دو گز زمین اور خوابوں کاسویرا میں تقسیم اور ہجرت کی کہانیاں،آج کے تناظر میں کچھ ایسا فکری ڈیسکورس پیدا کرتی ہیں جن پر مسلسل گفتگو کے دروازے کھلتے رہے۔ عبدالصمد کا مخصوص بیانیہ ان کی پہچان ہے۔ اس بیانیہ پر عبد الصمد کو دوسروں سے کہیں زیادہ عبور حاصل ہے۔

حسین الحق: (بولو مت چپ رہو، فرات)

جدت اور حقیقت نگاری کے امتزاج سے ناول بننے کے فن میں ماہر حسین الحق تہذیب اور مشرقی اقدار کے مابین راستہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک طرف تصوف کا دامن دوسری جانب جدید علوم سے آشنائی، لیکن ایک ادیب اور ناول نگار کی سطح پر حسین سماجی حقیقت نگاری کو علامتیں بنا کر زندگی کے ایسے عکاس بن جاتے ہیں کہ ان کی رواں دواں نثر کو پڑھتے ہوئے قاری ششدر رہ جاتا ہے۔

پیغام آفاقی (پلیتہ)

۶۰۰ صفحات پر پھیلی یہ دنیا جو سزائے کالا پانی کے پس منظر سے جب آج کی دنیا کا تعاقب کرتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ کہیں کچھ بھی بدلا نہیں ہے۔ ایک چھوٹے سے گلوبل گاؤں میں داخل ہونے کے باوجود یہ دنیا شر، فساد اور جنگوں کی بھوکی دنیا اب تک بنی ہوئی ہے۔ نظام وہی ہے۔ انصاف کی عمارت وہی   —   شاید اسی لیے پیغام آفاقی نے بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ اس ناول کو بارودی سرنگوں کے نام منسوب کیا ہے  —   پلیتہ کی کہانی نو جوان خالد سہیل کی پراسرار موت سے شروع ہوتی ہے۔ مو ت کے بعد خالد سہیل کی کچھ تحریریں اس کے کمرے سے پائی گئیں اور یہ خیال کیا جا ر ہا تھا کہ ان تحریروں میں کچھ ایسی باتیں ضرور ہوں گی  —   جس کی وجہ سے نئی کتاب، کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی موت ہو گئی تھی۔ غور کیا جائے تو خالد سہیل کا کردارمحسن حامد کے شہرہ آفاق ناول The Reluctant Fundamentalist کے کردار چنگیز سے بالکل الگ نہیں ہے —  چنگیز جسے امریکہ جیسے ملک میں اپنے لیے ایک بڑی کمپنی کی کرسی تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ چنگیز جسے اپنے مسلمان ہونے پر فخر تھا۔ جو داڑھی رکھتا تھا  —   لیکن ۱۱؍۹ کے حادثے کے بعد اس کی شخصیت نہ صرف آفس والوں کی نظر میں مشکوک ہو گئی بلکہ اسے نوکری سے بے دخل بھی ہونا پرا۔ مذہب، دہشت گردی اور بنیادپرستی سے پیدا شدہ سوالوں میں ہمیں امریکہ کا ایسامسخ شدہ چہرہ دکھائی دیتا ہے جہاں خوف ہے، ڈپریشن ہے  —   اور اسی لیے امریکہ ہر بار چنگیز جیسے ذہین نوجوانوں سے خطرہ محسوس کرتا ہے  —   پلیتہ میں خالد سہیل کی شکل میں یہی سلگتی ہوئی آگ ہمیں قدم قدم پر دکھائی دیتی ہے۔

یعقوب یاور (دل بُن)

’دل بن‘  یعقوب یاور کا تمدن سندھ کے پس منظر میں ایک نیم تاریخی ناول ہے۔ دنیائے ادب میں ایسے ادبی ناولوں کی مثال کم نہیں جن کے موضوعات تواریخ کے خستہ اور بوسیدہ صفحوں سے اٹھائے گئے تھے اور ایسے شہہ پاروں کی ادبی قدر و قیمت بھی متعین کی گئی تھی۔ لیکن ایسے شہہ پاروں کو نیم تاریخی ناول کے لیبل کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا تھا …  اس لیے ان کی ادبی افادیت مسلم رہی …  تواریخی ناولوں کو عام طور پر ادب میں شمار نہیں کیا جاتا۔ یعقوب یاور سے یہیں غلطی ہو گئی۔ اتنے خوبصورت، بامعنی اور مشکل موضوع پر لکھے جانے والے ناول کو تاریخ کہہ کر انہوں نے خود ہی اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی ہے۔

جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، اسی موضوع پر(شاید) موہن جوداڑو  ہڑپا تہذیب کو بنیاد بنا کر مستنصر حسین تارڑ نے ایک ناول لکھا تھا …  بہاؤ …  تارڑ نے اس عہد کو اس قدر فنکاری کے ساتھ پیش کیا تھا کہ ایک حادثہ/ واقعہ نے ہمیں اسی عہد میں پہنچا دیا تھا۔ اس وقت مجھے خیال آیا تھا کہ اس طرح کے موضوع پر کوئی ناول اپنے یہاں ہندوستان میں کیوں نہیں لکھا گیا۔

تیرتھ رام فیروز پوری اور مظہر الحق علوی کے بعد مغربی ادب کے تراجم کی باگ ڈور یعقوب یاور نے بھی سنبھالی ہے۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ یقیناً وہ ایک بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ یعقوب یاور کو ان تراجم سے کئی فائدے ہوئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ناول لکھنے کے فن سے واقف ہیں۔ جزئیات نگاری، کردار نگاری اور واقعہ کو پیش کرنے کا ہنر انہیں آتا ہے۔ آج اردو ادب میں جن زیادہ تر ناولوں کے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں۔ وہاں سب سے بڑا مسئلہ Readability کا رہا ہے۔ ناول کا کرافٹ کیا ہے، ہمارے زیادہ تر ناول نگار اس سے واقف نہیں  …  یعقوب کمال فنکاری سے یہ مشکل مرحلے طے کر گئے ہیں۔

کہانی کا بنیادی نقطہ جبر واستحصال کی وہی علامتیں ہیں جن سے ہمارے عہد کے ہر طبقہ کی عورتیں آج بھی گزر رہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں واقعہ تین ہزار سال قبل مسیح سے پندرہ سوسال قبل کے درمیان سے اٹھایا گیا ہے۔ یہ کہانی عظیم دیوانئی کی ہے جو اس ظلم شب کے خلاف اپنے ضمیر اور وجود کی آواز پر اٹھ کھڑی ہوئی اور …

’’یہ ہتیا میں نے کی ہے‘‘ دیوانئی نے مختصر سا جواب دیا۔ مہاویر حیران تھے ایک معمولی داسی نگر ماتا سے ایسی باتیں کیسے کرسکتی ہے لیکن دیوانئی جرم کا اعتراف کر رہی تھی۔‘‘

اس طرح دیوانئی اس قدیم تمدن میں ظلم و جبر کے خلاف روشنی کی علامت بن کر ابھری۔ دیو پتروں نے اسے سزا تو سنائی مگر اس نے وجود کی آزادی کے ساتھ جینے کا سندر سچا راستہ سب کو سمجھا دیا …

ناول میں تمدن سندھ سے متعلق کئی خوبصورت تواریخی پس منظر بھی ہیں جن سے گزرنا خوشگوار حیرت سے دوچار ہونا ہے۔ مجموعی طور پر ناولوں کی بھیڑ میں یہ ناول ایک خوبصورت با معنی الکھ جگانے میں کامیاب رہا ہے۔

جتیندر بلو(وشواس گھات)

جتیندر بلو نے اس سے قبل بھی کامیاب ناول تحریر کیے ہیں۔ ’’پرائی دھرتی اپنے لوگ‘‘ اور ’’مہا نگر‘‘ کا کچھ زیادہ تذکرہ بھلے نہ ہوا ہو، لیکن ناول کی تکنیک، ماجرا سازی اور اسلوب کی سطح پر یہ دونوں ناول بھی کافی اہم ہیں اور اب انسانی نفسیات اور ہجرت کے مسئلہ پر مبنی اس تیسرے ناول نے اچانک آگے بڑھ کر ہمیں چونکا دیا ہے۔ غور کیا جائے تو ناول تہذیبی اور صارفی معاشرے کی دین ہے۔ نئی نئی تکنالوجی کی دریافت اور ’’پھیلتے بازار‘‘ میں رشتے، تعلقات اپنی اہمیت ختم کر چکے ہیں۔ انسان مشین کا ایک بیکار کل پرزہ ثابت ہو چکا ہے …  گلیمر کی چکا چوند اور دولت کمانے کی ہوس نے ’’وشواس گھات‘‘ کا باریک تانا بانا تیار کیا ہے …  دیو کی اڑنا چاہتا ہے … اڑان سب کے حصے میں نہیں آتی۔ وہ بھی دیو کی جیسے لوگوں کے لیے، جس کے ہاتھ پاؤں اور کان کافی بڑے ہیں۔ ایک پری میچیور بچہ۔ جو وقت سے قبل ہی اس دنیا میں آ گیا …

’’وشواس گھات‘‘ میں یہ پری میچیور بچہ صارفی معاشرے کی ایک ایسی علامت بن گیا ہے، جسے Ignore کر کے ہم ناول کی، اصلی تھیم کی جڑ تک نہیں پہنچ سکتے …  دو بڑی بڑی جنگوں کے بعد تیسری جنگ عظیم کی مسلسل تیاریوں نے اس بچے کو جنم دیا ہے …  یہ وقت سے پہلے جنمے بچے، تیزی سے بڑھتے کنڈوم کلچر میں سب کچھ جان چکے ہیں اور ایک لمبی اڑان ہی ان کی زندگی کا مقصد ہے …  لیکن Richard Baugh کے مشہور ناول Jonathan Seagullکی طرح یہ بچے اپنی اڑان پہچانتے ہیں۔ لیکن جو لوگ پری میچور نہیں ہیں یا قبل از وقت پیدا نہیں ہوئے وہ اصول اور ضابطے کی دیوار پہلے سے ہی توڑ چکے ہیں اور یہاں مجھے بار بار دوستوفسکی کے ایڈیٹ کی یاد آتی ہے۔ شاید دوستو فسکی کا ایڈیٹ بھی پری میچیور تھا۔ تبھی تو زندگی کی خوبصورتی اور دلکشی پر یقین رکھتا تھا۔

دیو کی اعلی تعلیم کے لیے باہر چلا گیا۔ واپس آیا تو اس کے حصے کی زمین پر بڑے بھائی اور بھاوج کی مہر لگ چکی تھی۔ وہ محض Puppet بن کر نہیں جی سکتا تھا۔ نتیجہ یہ کہ کسی کا بھی احسان اٹھائے بغیر، نندنی کے ساتھ وہ واپس انگلینڈ لوٹ جاتا ہے۔ یہاں اپنی جگہ بناتا ہے۔ نندنی کی پیٹنگس میں دلچسپی تھی اور یہ دلچسپی اور اڑنے کی خواہش اس قدر زور پکڑتی ہے کہ نندنی کسی دوسرے مرد کے ساتھ ہم بستر ہونے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتی …  اور پھر ایک دن ٹیبل لینڈ پر اس کی ہتیا کر دی جاتی ہے۔ دیو کی جیون مرتیو کے سچ، اور جھوٹ سے آتم منتھن کرتا ہوا یکایک گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔

کہانی میں زبردست Readability ہے جو منٹو، اپندر ناتھ اشک، ممتاز مفتی جیسے ادیبوں کی تحریروں کی یاد دلاتی ہے۔ ناول کے لیے ان دنوں فضا سازگار ہے اور یہ ایک مردہ ہوتی زبان کے لیے نیک شگون بھی۔

جن زیادہ تر ناولوں پر ادھر پچھلے کچھ ایک برس میں گفتگو کے دروازے کھلے ہیں، ان کے مقابلے، فکر اور فن دونوں کی سطح پر بلو کا یہ ناول زیادہ بلند ہے …  اہم بات یہ ہے کہ اس میں کہیں جذباتی پن نہیں ہے۔ چچھلی گفتگو نہیں ہے زبردستی کے ٹھونسے گئے فلسفے نہیں ہیں …  ایک غیر ملک میں رہنے والا آدمی پورے معاشرے میں تیزی سے پھیلتے صارفی کلچر کو نہ صرف دیکھ رہا ہے، بلکہ اپنی تحریر میں نشانہ بھی بنا  نی ام تک رشتہی تشکیل: اعجا عبیسی تشکیلؒ اعجز عبیدرہا ہے۔

احمد صغیر (جنگ جاری ہے۔ دروازہ ابھی بند ہے)

احمد صغیر کے دو ناول منظر عام پر آئے۔ جنگ جاری ہے اور دروازہ ابھی بند ہے۔ ان دونوں ناولوں میں ٹوٹتے بنتے انسانی، اخلاقی اقدار اور آج کے مسائل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ احمد صغیر کے ناولوں پر ابھی گفتگو کے دروازے کم کم کھلے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہار سے باہر کے نقاد علاقائی تعصب کا شکار  ہو کر موضوع اور اسلوب سے الگ زبان کا قصہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور بغیر مطالعہ کے کسی کی تخلیقی فکر کا مذاق اڑانے سے آسان کام کوئی دوسرا نہیں  —   صغیر نے دونوں ناولوں میں محنت کی ہے اور ایک ایسے نظام کی حقیقت شعاری میں کامیاب ہوئے ہیں جہاں دہشت پسندی ہے، سلگتا ہوا گجرات ہے اور سہمے ہوئے لوگ ہیں۔ شاید اسی لیے پروفیسر قمر رئیس کو کہنا پڑا تھا۔

’احمد صغیر ہمارے عہد کے ایسے جیالے اور با ضمیر قلمکار ہیں جو کسی سمجھوتے میں یقین نہیں رکھتے۔‘

نورالحسنین (ایوانوں کے خوابیدہ چراغ)

نورالحسنین نے اہنکار سے ناول نگاری کا آغاز کیا۔ ایوانوں کا خوابیدہ چراغ کے ذریعہ وہ اہم ناول نگاروں کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایوانوں کے خوابیدہ چراغ میں تاریخ کو گواہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کہانی ۱۸۵۷ کے غدر سے شروع ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ غدر کے واقعات کو مورخین نے توڑ مروڑ کے پیش کیا ہے۔ کیونکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے غدر کے دوران لکھی گئی کتابوں کو نذر آتش کر دیا۔ نورالحسنین نے غدر کے واقعات میں محبت کی چاشنی ملا دی اور واقعات کے رنگ بکھیر دیئے۔ یہ ایک اہم تاریخی ناول ہے۔ اپنے تخیل کی مدد سے نورالحسنین نے غدر کے واقعات کو محسوسات کی زبان دے کر ادب میں تبدیل کر دیا ہے۔

رحمان عباس (ایک ممنوعہ محبت کی کہانی)

رحمن عباس کے ناول ایک ممنوعہ محبت کی کہانی کی دنیا پلیتہ سے مختلف ہے۔ رحمن کی نثر میں ترقی پسند اور جدیدیت کا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ رحمن نے اپنے پہلے ناول سے ہی اردو دنیا کو چونکا یا تھا مگر برا ہو ادب میں بنیاد پرستی کو ہوا دینے والوں کا، کہ یہ ناول نہ صرف متنازع ہوا بلکہ رحمن عباس کو وہ صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں جس نے آگے چل کر رحمن کو یہ ناول لکھنے پر مجبور کیا۔ رحمن عباس مسلم گھرانوں کے ثقافتی، خانگی اور تہذیبی رویوں سے ناراض نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ صاف ہے، اس معاشرے میں تبدیلی و ترقی کی مدھم رفتار۔ زیادہ ترمسلم گھرانے آج بھی پندرہویں صدی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس ان کی اپنی سہولت کے حساب سے ایک شرعی زندگی ہے۔ جس میں مذہب کے علاوہ نئی دنیا کی کوئی روشنی ان کے جہاں کو منور نہیں کرتی۔ پہلے ناول کے تحفہ کے طور پر مذہب اور بنیاد پرستی کے خطرناک رجحان کی سیر کرنے والے رحمن نے اسی لیے یہاں محبت کی ایسی کہانی پیش کی ہے، جہاں مسلمانوں سے متعلق، نئی دنیا اور فکر و آگہی کے کتنے ہی سوال سراٹھاتے نظر آتے ہیں۔

اس کے علاوہ جوگندر پال (نادید، خواب رو، پار پرے)ظفر پیامی(فرار)، انور عظیم (جھلستے جنگل)، انور خاں (پھول جیسے لوگ)، یعقوب یاور (دل من)، سلیم شہزاد(دشتِ آدم)، صلاح الدین پرویز(نمرتا)، شاہد اختر (شہر میں سمندر)،تسنیم فاطمہ( ایک اور کوسی)، سید محمد اشرف (نمبردار کا نیلا) شموئل احمد (ندی، مہاماری)، آچاریہ شوکت خلیل(اگر تم لوٹ آتے ) ساجدہ زیدی(مٹی کا مرمر)نند کشور وکرم(یادوں کے کھنڈر، انیسواں ادھیائے) ثروت خاں ( اندھیرا اپگ) عشرت ظفر (آخری درویش)ترنم ریاض (مورتی، برف آشنا پرندے، حبیب حق (جسے میر کہتے ہیں صاحبو) ڈاکٹر محمد حسن (سوانحی ناول غم دل وحشت دل) اقبال مجید( نمک) احمد صغیر (جنگ جاری ہے) کوثر مظہری (آنکھ جو کچھ سوچتی ہے) محمد علیم(میرے نالہ کی گمشدہ آواز) شمس الرحمن فاروقی(کئی چاند تھے سرآسماں )،خالد جاوید(موت کی کتاب)،ایک طویل فہرست ہے جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

فاروقی صاحب اور خالد جاوید کے ناولوں پر گفتگو کے دفتر نہیں بلکہ’’ بنگلے‘‘ کھل چکے ہیں۔ میرے لیے یہ خوشی کا مقام ہے کہ جدیدیت کے پلیٹ فارم سے آنے والے ناولوں کو تحریک کی شکل میں قارئین تک پہنچائے جانے کا کام جاری ہے۔ اور اس سلسلے میں جدیدیت کی تحریک کو فروغ دینے والے رسائل بھی خاطرخواہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ آنے والے وقتوں میں اردو ناول پر مکالموں کی ایک صحت مند فضا پیدا ہو گی۔

یہاں اپنے موقف کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ اقبال نے کہا تھا۔

سمندر سے ملے پیا سے کو شبنم

بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے

قاری کو پیاسا تصور کریں تو ناول کے تعلق سے اس کی رسائی صرف شبنم تک ہوتی رہی ہے۔ ناول تو ایک سمندر ہے۔ مگر المیہ یہ کہ ناولوں پر کام کرنے والے ناقدین ان چند دو ناولوں کو ہی خاطر میں لاتے رہے جن پر پہلے سے ہی دفتر کے دفتر کھل چکے تھے۔ سن ۲۰۱۱ تک آتے آتے صرف فہرست سازی رہ گئی تھی اور ایسے میں اچھے بڑے اور برے ناولوں کا تجزیہ کیسے ممکن تھا۔ ناقدین کا رونا یہ کہ جو کتابیں آسانی سے انہیں دسیتاب ہوں یا مصنف اپنی کتاب خود ان تک پہنچانے کا سامان کرتے تو ٹھیک۔ ورنہ بیشتر ناول نہ مطالعہ کا حصہ بنتے ہیں اور نہ ان پر کبھی بھولے سے کوئی تحریر سامنے آتی ہے۔ زمانہ قبل قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کا دریا کا موازنہ ڈاکٹر احسن فاروقی کے ناول سنگم سے کیا گیا۔ لیکن اب سنگم بھی دستیاب نہیں۔ دو ناولوں کے موازنہ سے کوئی ناول بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا لیکن سیاسی وسماجی اور تاریخی سطح پر ناول کے مختلف پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔ ہندستان کی ہی بات کریں تو کئی ناول آئے اور گم ہو گئے۔ عشرت ظفر کا ناول تلاش بسیار کے باوجود کہیں نہیں ملے گا۔ ناول کا معاملہ کہانیوں سے مختلف ہے  —   ناول ایک عہد کا ترجمان ہوتے ہیں جن پر تاریخ کی گونج بھی صاف صاف سنائی دیتی ہے۔ اس لیے ہندو پاک، دونوں ملکوں کی جانب سے یہ کوشش تیز ہونی چاہئے کہ ان ناولوں کے تجدید اشاعت پر زور دیا جائے جواب ناپید ہو چکے ہیں یا بمشکل جنہیں حاصل کیا جا سکتا ہے۔

کچھ نئے ناول

دیکھتے ہی دیکھتے ایک نئی صدی کے گیارہ سال گزر گئے۔ان گیارہ برسوں میں ہندستانی اردو ادب میں کئی نئے موڑ آئے۔ صدی کی شروعات میں ایسا لگ رہا تھا کہ اردو ادب کا زوال نزدیک ہے۔ نئی نسل کا آنا رک گیا تھا۔اچھے رسائل جو مدت سے اپنی چمک بکھیر رہے تھے، اچانک بند ہو گئے۔ شب خون جیسے رسالہ نے بھی دم توڑ دیا۔اردو ادیب خاموشی سے یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔

لیکن سن ۲۰۰۷ تک آتے آتے یہ پورا منظر نامہ تبدیل ہو چکا تھا  —   اچانک ایک ساتھ کئی اچھے دستخط ہمارے سامنے آ گئے۔ آجکل اردو نے افسانہ نمبر شائع کیا۔ مژگاں کلکتہ نے ۱۸۰۰ صفحات پر مشتمل اردو ادب پر مبنی ایک خاص نمبر شائع کیا جو بہت مقبول ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ادیبوں کی نئی کہکشاں ہمارے سامنے تھی۔

خوش آئند بات یہ تھی کہ نئی نسل پورے جوش کے ساتھ کہانی اور ناول کی دنیا میں  قدم جمانے لگی تھی۔ہندستان سے پاکستان تک اردو میں اچھے افسانوں اور ناول کی باڑھ آ گئی تھی۔ پاکستان سے حامد سراج، حمید شاہد، مبین مرزا، اے خیام اور آصف فرخی جیسے لوگ اردو افسانے کی نئی تاریخ لکھ رہے تھے وہیں ہندستان میں نئی نسل اپنی چمک بکھیر رہی تھی۔ رضوان الحق، نیلوفر، سید جاوید حسن، تسنیم فاطمہ، احمد صغیر، صادق نواب سحر، رحمان عباس جیسے لکھنے والوں کا ایک کارواں سامنے آ چکا تھا۔

سید جاوید حسن۔سیاہ کاریڈور میں ایلین — ( ناول)  —   اردو کی نئی نسل میں تیزی کے ساتھ ایک نام جڑ گیا ہے  —   سید جاوید حسن۔ جاوید نے فرقہ واریت کو لے کر کئی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔ ہندی میں بھی تین کہانی کے مجموعے آ چکے ہیں۔ بازگشت کے نام سے ایک کہانی کا مجموعہ اردو میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ جاوید حسن کی خوبی یہ ہے کہ ان کی تخلیقات میں سماجی اور سیاسی سطح پر نئے ابعاد دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جاوید ان فنکاروں میں سے ایک ہیں جو یوں تو تقسیم کے کافی بعد پیدا ہوئے لیکن جب ان کے اندر کی تڑپ جاگتی ہے تو وہ آج کے ہندستان اور فرقہ واریت کا ذکر کرتے ہوئے سیدھے تقسیم تک پہنچ جاتے ہیں  —   اپنے عہد کی گھٹن، خونی دنگے، بابری مسجد اور گودھراجیسے فسادات بار بار جاوید حسن کی کہانیوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔’ سیاہ کاریڈور میں ایلین، میں، جاوید حسن کی خوبی یہ ہے کہ یہاں ۱۹۸۴ اور اے نیمل فارم کا خالق جارج آرویل بھی ایک کردار ہے۔پریم چند اور قرۃ العین حیدر بھی۔ اس طرح شیکسپیئر بھی ایک کردار ہے اور دلچسپ یہ کہ یہ سارے کردار ہندستان کی فرقہ واریت کو اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ سیاہ کاریڈور میں ایک ایلین چھپا ہوا ہے  —   جو ہندستان کے تقدس، بھائی چارہ، اتحاد کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ یہ پورا ناول ایک خوبصورت سیاسی منظرنامہ کو سامنے رکھتا ہے جہاں پاکستان بننا بھی ایک ناسور ہے  —   مسلم نوجوانوں کو لگتا ہے کہ آج بھی ان کی شناخت کی باتیں کرتے ہوئے ہر بار کہیں نہ کہیں سے ایک پاکستان نکل کر سامنے آ جا تا ہے۔ دراصل جاوید حسن آج کی باتیں کرتے ہوئے فرقہ واریت کی جڑوں تک پہنچنا چاہتے ہیں جن سے آج مسلم نوجوان خوفزدہ ہے  —   اعظم گڑھ سے لے کر بٹلہ ہاؤس اور بابری مسجد فیصلے تک وہ لگاتار ایک انجانے خوف کے درمیان زندگی بسر کر رہا ہے۔

نیلوفر (آٹرم لین۔ناول)

سن ۲۰۱۰ میں ناول نگاروں کے درمیان ایک نیا نام شامل ہوا —  ڈاکٹر  خوشنودہ نیلوفر۔ نیلوفر ابھی ابھی تعلیمی زندگی سے باہر نکلی ہیں۔ آٹرم لین، یہ وہ علاقہ ہے جہاں زیادہ تر دہلی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے نوجوان ٹھہرتے ہیں۔ مکھرجی نگر سے لے کر آس پاس کے زیادہ تر گھروں میں ان نوجوانوں کو پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہنے کی اجازت مل جاتی ہے۔لیکن کون محفوظ ہے — ؟ یہاں ایک  ایجوکیشن مافیا ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔

نیلوفر نے ایلیکزینڈر سولینسٹین کے مشہور ناول گلاگ آرکی پلاگو اور کینسر وارڈ کے طرز پر اس ناول کی بساط بچھائی ہے۔ یہاں الگ الگ لوگ، الگ الگ کمرے اور الگ الگ چہرے ہیں۔ یہاں وہ نوجوان بھی ہیں جو چھوٹے شہروں سے بڑے بننے کا خواب لے کر دہلی جیسے بڑے شہروں میں آ جاتے ہیں۔ لیکن اچانک یہ خواب ٹوٹتا ہے۔ لڑکی ہونے کا احساس انہیں کہیں بھی محفوظ رہنے نہیں دیتا۔یونیورسٹی میں بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری دینے کے نام پرایجوکیشن مافیا ان کے ساتھ ’بھوگ سے سنبھوگ‘ تک کا ہر سفر طے کرنا چاہتا ہے۔ دیکھا جائے تو کچھ ایک برس میں ایسے کتنے ہی چہرے بے نقاب ہو کرہمارے سامنے آئے ہیں۔ نیلوفر کا یہ ناول اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ انہوں نے اس ایجوکیشن مافیا کو بہت قریب سے جانا ہے اور اس ناول کے بہانے اس کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے جہاں کچھ نوجوانوں کے ہاتھ میں سوائے خود کشی کے کچھ نہیں آتا۔

صادقہ نواب سحر۔’کہانی کوئی سناؤ متاشا،(ناول)

پچھے دس برسوں میں صادقہ سحرنے تیزی سے اردو ادب میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ شاعری سے کہانی تک ان کی کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔’کہانی کوئی سناؤ متاشا دراصل متاشا کے بکھرے خوابوں کی کہانی ہے۔ متاشا کی زندگی کا ہر حصہ ایک کہانی ہے۔ یہاں پھسلن ہی پھسلن ہے اور سنبھالنے والا کوئی نہیں۔

آج کے عہد میں جہاں ایک مہذب دنیا سانس لے رہی ہے  — ایک لڑکی ہونے کا احساس آج بھی سیمون دبوارکے اس جملے کی سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔ جہاں سیمون نے کہا تھا کہ عورت پیدانہیں ہوتی بنائی جاتی ہے۔ صادقہ نواب کی یہ کتاب پاکستان میں بھی شائع ہوئی ہے۔

شوفر/ ظفر عدیم

ظفر عدیم کو شاعری کرتے ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے  —   ظفرعدیم ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ ایک معیار قائم کیا ہے  —   لیکن برا ہو نقادوں کا کہ ظفر عدیم کی شاعری ہمیشہ سے نظر انداز کی جاتی رہی ہے۔ ظفر عدیم نوجوانی میں انجو نام کا ناول تخلیق کرچکے ہیں۔ ۲۰۰۷ میں ظفر عدیم ایک نیا ناول لے کر آئے  — شوفر — ایک شوفر کی معرفت دراصل یہ ناول ایک پورے نظام کی مضحکہ خیزی کی علامت بن جاتا ہے۔ ظفر عدیم کے یہاں محبت بھی ایک علامت ہے جو کنزیومر ورلڈ اور کساد بازاری کے اس دور میں گم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک تہذیب آچکی ہے۔ اور محبت اپنا مفہوم کھو چکی ہے۔

قومی اور بین اقوامی مسائل کو لے کر عالمی اور وسیع تر تناظر میں ناول لکھے جانے کی شروعات ہو چکی ے۔ معاصر ناول نگار فنکارانہ چابکدستی اور بڑے وژن کو لے کر زندگی اور عہد کے مختلف النوع گوشوں پر سیاسی وسماجی بصیرت کے ساتھ قلم کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں  —   کچھ پرانے ناولوں کی جانب اشارہ کرنے کا موقف یہ تھا کہ ایسے بہت سے قلمکار جنہوں نے لکھنے کا حق تو ادا کیا مگر کبھی سنجیدگی سے ان کے ناولوں کو سامنے لانے کی ذمہ داری محسوس نہیں کی گئی۔ اس لیے رضیہ فصیح احمد سے رشیدہ رضویہ تک از سر نو گفتگو کے دروازے کھلنے چاہئیں۔ ان سطور کے لکھے جانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ناقدین نے قارئین کو یوں بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو معاشرہ اور ناستلجیاتی موضوعات کے علاوہ اردو ناولوں نے کبھی عالمی نظام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی  —   یہ اردو ناولوں پر سراسر غلط الزام ہے۔ پچھلے پچاس برسوں کے ناولوں کا تجزیہ کیجئے تو ایسے کتنے ہی نام ہیں جن کی کتابیں مغرب کی کتابوں پر بھاری پڑیں گی۔ مستنصر حسین تارڑ افغان کے پس منظر میں سلگتے ہوئے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں تو انیس ناگی قلعہ جنگی اور کیمپ میں عالمی دہشت گردی کے درمیان پناہ کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ شوکت صدیقی جانگلوس کے بہانے دیہی مافیا کو بے نقاب کرتے ہیں تو طوفان کی آہٹ میں مصطفی کریم پلاسی کی جنگ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے ساتھ سراج الدولہ کے شکست کی کہانی کو آج کی صدی اور کشمکش سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقبال مجید کسی دن اور نمک میں انسانی شکست و ریخت کا المیہ بیان کرتے ہیں تو پیغام آفاقی پلیتہ کے بہانے عالمی سطح پر گونجتی ہوئی ایک عام مسلمان کی چیخ کو ناول کا حوالہ بناتے ہیں۔ غرض ہندستان سے پاکستان تک موضوعات کی کمی نہیں ہے۔ رشیدہ رضویہ تاریخ وسیاست کے منظرنامہ کے ساتھ حکمرانوں اور جنگوں کے درمیان عام انسانوں کی تباہ کاریوں اور بربادیوں کی کہانیاں سناتی ہیں تو تسنیم فاطمہ اور احمد صغیر کے ناول سیلاب اور گجرات دنگوں کی عبرت ناک داستان کو سامنے رکھتے ہیں۔ معاصر ناول نگار عوام الناس پر سیاست وسماج کے گہرے اثرات کو نہ صرف اپنے مشاہدہ کی آنکھ دیکھ رہا ہے بلکہ ذمہ داری اور کرب کے ساتھ انہیں صفحہ قرطاس پر بکھیر رہا ہے۔ ضرورت ایسے ناقدین کی ہے جو سامنے آئیں اور ۱۴۲سال کے طویل سفر میں ذمہ داری کے ساتھ بکھرے ہوئے ناول کے اوراق کو جمع کریں اور ادب میں اپنی ذمہ داری کو انجام دیں۔ مجموعی طور پر دو ایک ناول نگاروں کو چھوڑ دیں تو اتنے سارے ناموں میں ابھی بھی انصاف کی کمی اور گفتگو کی گنجائش نظر آتی ہے۔

٭٭٭

 

گرتی دیواریں۔ ایک جائزہ

بظاہر ’گرتی دیواریں ‘ عنوان سے اقدار کی شکست و ریخت، معاشرے کی زبوں حالی، رشتوں کے زوال اور ختم ہوتی تہذیب کے المیہ کا تصور ہی سامنے آتا ہے۔ اپنے آپ میں یہ عنوان بڑا معنی خیز ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے مصنف اپنے عہد کی زندہ سچائیوں کو بے نقاب کرنا چاہتا ہے۔ اور جیسا کہ ناول کے آخری پیرا گراف میں مصنف اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتا ہے:

’’چیتن کو محسوس ہوا، جیسے یہ دیوار اس کے اور اس کے بیوی کے درمیان ہی نہیں، نیلا اور ترلوک کے درمیان بھی ہے۔ نیلا اور ترلوک کے درمیان ہی نہیں، بلکہ اس غلام دیش کے بیشتر مرد عورتوں، فرقوں اور قوموں کے درمیان ایسی لا تعداد دیواریں کھڑی ہیں  —   کویراج میں اور اس میں  —   اس میں اور جے دیو میں۔ جے دیو میں اور یاور ام میں۔ ان دیواروں کی کوئی انتہا نہیں۔ اس تاریک خاموشی میں چیتن نے بے شمار لوگوں کی خاموش سسکیاں سنیں جو ان دیواروں میں بند تھے۔اور نکلنے کی راہ نہ پا رہے تھے۔ ان دیواروں کی بنیادیں کہاں ہیں ؟ یہ کب گریں گی، کیسے گریں گی۔‘‘

یہاں ان سوالوں پر آ کر ناول ختم ہو جاتا ہے اور سچ پوچھیے تو ناول کے اختتام سے ہی بہت سارے سوالات پھوٹ پڑتے ہیں۔ یعنی عنوان سے دیواروں کے پس منظر میں جو سوالات ابھرے تھے۔ وہ سوالات آخر تک حل نہیں ہوتے۔ یا یوں کہنا بہتر ہو گا کہ انجام میں بہت ساری دیواروں کے ٹوٹنے یا گرنے کا تصور مسائل کو اور بھی پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ مثلاً جن دیواروں کے گرنے یا ٹوٹنے کا مصنف منتظر ہے، وہ دیواریں فاصلے کی بھی ہوسکتی ہیں، فرق کی بھی، نفرت کی، اونچ نیچ کی، تعصب کی، ذات پات کی، دراصل ایسے بہت سارے سوالات یا بہت ساری دیواروں کو مصنف نے ایک جھٹکے سے گرانے کی کوشش کی ہے۔ اور جہاں کہیں بھی ایسے خیالات کو جبراً آفاقی بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔ وہاں ان کے بہت زیادہ مبہم گنجلک پیچیدہ ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

یقینی طور پر گرتی دیواریں کے سہارے اشک نے جس ناول کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کی زمین بے پناہ اور عظیم تھی۔ مگر خطرات اور بہکنے، بھٹکنے کے خدشات بھی یہیں سے شروع ہو جاتے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے علی گڑھ سے نکلنے والے رسالے ’الفاظ‘ نے اشک پر ایک گوشہ شائع کیا تھا۔ ایک مضمون میں اشک کی جھکی طبیعت کی کچھ جھلکیاں پیش کی گئی تھیں۔ مثلاً اشک پہلے اردو میں لکھتے تھے۔ کسی دوست نے چیلنج کیا کہ آپ ہندی میں نہیں لکھ سکتے  —   اشک طیش میں آ گئے اور ہندی میں لکھنا شروع کیا۔ پھر لکھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اردو میں لکھنا بھول گئے۔ پھر کسی نے اعتراض کیا کہ آپ اردو میں نہیں لکھ سکتے۔ غرض کہ اشک ہر بار چیلنج پر چیلنج قبول کرتے گئے۔ یہاں تک کہ ایک بار کسی دوست نے کہا، اشک صاحب سب کچھ درست، مگر میرا دعویٰ ہے کہ آپ ضخیم ناول نہیں لکھ سکتے۔ اور اشک نے اس چیلنج کو بھی قبول کیا کہ وہ اردو ہندی زبان کا سب سے ضخیم ناول تحریر کریں گے۔ تب سے وہ گرتی دیواریں لکھنے میں مصروف ہو گئے۔

جیسا کہ پیش لفظ میں تحریر ہے۔ گرتی دیواریں اشک نے ستمبر ۱۹۳۹ میں شروع کیا اور ۱۹۴۴ میں مکمل کیا۔ یعنی آزادی ملنے سے قبل یہ معرض تحریر میں آ چکا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کئی غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہونے کے کافی دیر بعد یہ اردو میں شائع ہوا۔

اس ضخیم ناول کے تین حصے ہیں۔ اور اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ اشک نے واقعی بڑی محبت اور محنت سے اس کا پلاٹ گڑھا ہے۔ طرز نگارش میں روسی مصنفین کی جھلک ہے۔ خاص کر نکولائی گوگول کی جھلک بہت زیادہ ہے۔ اشک کی ایک اہم خوبی ہے کہ وہ قصے کو چمکانے یا رواں دواں زبان میں لکھنے پر بہت زور دیتے ہیں۔ کہیں کہیں ان کی جزئیات نگاری بہت معنی خیز اور حسین لگتی ہے تو کہی کہیں بوجھل اور بے رس بھی لگنے لگتی ہے۔ دراصل روسی مصنفین میں گوگول سے زیادہ تر لوگوں کی یہی شکایت رہی کہ گوگول کی کہانی کے فریم میں اگر کوئی کردار سکنڈ بھر کے لیے بھی جلوہ گر ہوا تو گوگول اس کا پورا شجرہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ گرتی دیواریں کی طوالت اس سبب سے بھی ہے کہ اشک نے کچھ زیادہ ہی غیر ضروری واقعات اور کرداروں کا سہارا لیا ہے۔ جو آخر تک یا تو یاد نہیں رہتے یا پھر جن کی چنداں ضرورت نہیں تھی یا جو ہوتے نہیں تو کہانی زیادہ رواں دواں ہو جاتی۔

سب سے پہلے کہانی کا جائزہ لیتے ہیں۔ جالندھر کے قریب کی بستی غزاں سے یہ کہانی شروع ہوتی ہے۔ ناول کا آغاز دلچسپ ہے۔

’’آخر ایک دن تنگ آ کر چیتن اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنے کے لیے چپ چاپ بستی غزاں کی طرف چل پڑا۔‘‘

بستی غزاں کے تعارف کے ساتھ ہی کہانی کے مرکزی کردار کھلتے چلے جاتے ہیں، بہتر معلوم ہوتا ہے کہ کرداروں کے سہارے کہانی کی سمت و رفتار کا جائزہ لیا جائے۔ اس ضخیم ناول میں یوں تو بہتیرے کردار ہیں لیکن تین ایسے اہم کردار ہیں جن کے سہارے کہانی اپنے مقام کا تعین کرتی ہے۔ پہلا اہم کردار تو چیتن کا ہی ہے جو کہانی کا ہیرو ہے۔ دوسرا اس کی پتنی چنداں کا، تیسرا چندا کی چھوٹی بہن نیلا کا۔ نیلا جو چیتن کو عزیز ہے۔ دوسرے معنوں میں اس کی محبوبہ ہے۔

چیتن کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ اس کردار کو اشک نے اتنے Dimension دیئے ہیں کہ کئی مقام پر یہ کردار اس قدر الجھ جاتا ہے کہ اسے سمجھنا کار مشکل معلوم ہوتا ہے۔ بازار شیخاں چھتی گلی اور لال بازار کی بھیڑ سے بچتا چیتن اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنے نکل پڑتا ہے۔ لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ راہ میں ایک خوشگوار حادثہ اس کا منتظر ہے۔ موٹی سی بھدے نین نقش والی چندا تو اسے متاثر نہیں کر پاتی، ہاں وہیں اسکول سے نکلتی، ناپ ناپ کر قدم رکھتی ایک خوبصورت سی کم سن لڑکی اس کے ہوش وحواس پر سوار ہو جاتی ہے۔ شومی قسمت دیکھئے کہ نہ چاہنے کے باوجود چیتن کی شادی چندا سے ہو جاتی ہے۔ اور وہ لڑکی نیلا چندا کی چھوٹی بہن نکل آتی ہے۔ چیتن وقت اور زمانے کے سخت و گرم کا شکار ہونے کے باوجود نیلا کے لیے وہی نرم رویہ رکھتا ہے تو نیلا بھی خاموش دبی زبان میں اس سے اظہار محبت کرتی رہتی ہے۔

چندا عام گھریلو عورت ہے۔ ایک سگھڑ ہندو عورت جو اپنے پتی کو پرمیشور کا درجہ دیتی ہے اور وہ جیسا کہتا ہے کرتی ہے۔ اس معاملے میں چندا کی تعریف کرنی ہو گی کہ یہی چندا جو ایک چھوٹے سے پنڈتائی، گھرانے سے اٹھ کر چیتن کی زندگی میں آ گئی اور اس کے سارے برے دنوں کی گواہ رہی مگر جب چیتن نے اسے انگریزی سکھانا چاہا، نئے طور طریقے سکھانے چاہے، تو چندا نے یہاں بھی وقت، تبدیلیوں اور چیتن کا ہی ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ چندا کی موجودگی میں ہی چیتن نیلا سے بھی پریم کی لکا چھپی، کا کھیل کھیلتا رہا اور اگر چندا محسوس بھی کرتی تھی، تب بھی اس کی زبان پر کسی حرف شکایت نے جنم نہیں لیا۔ چیتن جب اپنے شاعرانہ مزاج اور سادہ زندگی کے سہارے وقت کے تھپیڑوں کی مار سہتا رہا تو چنداں ہر لمحہ اس کی محبت کی اسیر بنی رہی۔ اور جب چیتن روزگار کی کڑی دھوپ سہتا ہوا اس سے الگ رہنے پر مجبور ہوا تو چنداں کی میٹھی میٹھی چٹھیاں اس کو مضبوطی اور حوصلہ فراہم کرتی رہیں۔ جب کہ چیتن کے خط میں چنداں سے زیادہ نیلا کی باتیں ہوتیں مگر چنداں کو کبھی بھی اپنے پتی پر شک نہیں ہوا یا وہ آنکھیں موندے اپنی پتی ورتا نبھانے میں ہی مصروف رہی۔

نیلا چنداں کی چھوٹی بہن ہے اور کسی شاعر کے تصور کی طرح حسین ہے۔ چیتن نیلا سے دل ہی دل میں پیار کرتا ہے اور پیار کے اظہار کے دبے چھپے مواقع بھی نکال لیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ چیتن نیلا کا آدرش ہے۔ نیلا مجبور ہے کہ چیتن اس کا جیجا ہے۔ اس کی بڑی بہن کا پتی۔ ایک موقع ایسا بھی آتا ہے جب تاریکی کا فائدہ اٹھا کر چیتن اسے اپنی بانہوں میں بھر لیتا ہے۔ اس واقعے کا نیلا پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ اس سے کٹی کٹی رہنے لگتی ہے۔ وہ سامنے آتا ہے تو وہ بھاگ جاتی ہے۔ کہانی کا آخری موڑ دلچسپ ہے۔ نیلا کی شادی ایک ادھیڑ عمر کے ملیٹری اکاؤنٹنٹ سے ہو جاتی ہے۔ ملٹری اکاؤنٹنٹ کے ساتھ اس کا بھتیجا ترلوک بھی ہے۔ جو نیلا کو چھیڑتا رہتا ہے۔ چیتن کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اس بوڑھے سے حسد نہیں ہے جس کے ساتھ نیلا باندھ دی گئی ہے۔ بلکہ ترلوک بار بار اس کی نظر کے سامنے آ کر اسے بے چین کر جاتا ہے۔

’’ترلوک سے یہ جلن کیسی؟ اسے نیلا کے شوہر سے کیوں نہ حسد ہو جس نے نیلا کا سب کچھ ہتھیا لیا۔ اس کے اس بھولے بھالے نوخیز بھتیجے سے کیوں ہوا؟‘‘

دراصل نیلا کے تن اور من دونوں سے محروم ہو جانا چیتن کو منظور نہ تھا۔ نیلا کی رخصتی کا وقت ہو چلا تھا، مگر چیتن بیماری کا بہانہ بنا کر اس ساعت کے ٹلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ تبھی نیلا سیڑھیوں پر چھم چھم کرتی اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ آنکھیں پر نم ہیں، گلہ رندھا ہوا ہے۔ نیلا چلی جاتی ہے۔ چیتن تماشائی سا دیکھتا رہ جاتا ہے۔

کہانی کو آگے بڑھانے میں کئی کردار سہارا دیتے ہیں  —   جیسے چیتن کا ایک بڑا بھائی ہے، جو اپنی ذات میں خود ایک دلچسپ کردار ہے۔ ایسے کئی اور بھی دلچسپ کردار ہیں جو زندگی سے جڑے مختلف پہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں۔ مگر دیکھا جائے تو اصل کہانی انہی کرداروں کے سہارے چلتی ہے۔ شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی چیتن کا اپنی سالی میں دلچسپی لینا اور اس پر اپنی روح تک قربان کر دینا۔ اس طرح کی کہانیاں ہمارے سماج میں نئی نہیں ہیں۔ جب سے سماج ہے، تب سے یہ کہانیاں قائم ہیں۔ یہ دیواریں اسی سماج سے بلند ہوئی ہیں، یا اٹھی ہیں، یا اٹھائی گئی ہیں۔ عقل، مذہب، اخلاق، سماج، بیاہ۔ اشک کو یہ سب دیواریں معلوم ہوتی ہیں۔ اور وہ ان دیواروں کے ٹوٹنے یا گرنے کے منتظر ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اس مقام پر آ کر کہانی بہت محدود ہو جاتی ہے۔ عنوان کے تقاضے سے کہانی کی جو عظمت ذہن میں قائم ہوئی تھی، اختتام پر آ کر وہ مسمار ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے دوسروں کی نظروں میں یہ ایپک ناول بڑا ادبی کارنامہ رہا ہو۔

مگر میری حقیر رائے میں یہ معمولی پریم گرنتھ سے آگے کی چیز نہیں ہے۔ یہ کہانی غلام ہندستان کی پیداوار ہے۔ جب اچانک مٹھی بھر فرنگی گھوڑوں کی ٹاپ کے نیچے آ کر ہندستانی قدروں، تہذیب، اخلاق اور رشتوں کا جنازہ اٹھنے لگتا ہے۔ پڑھنے سے پہلے احساس ہوا تھا کہ اشک اس ناول کے ذریعہ اپنے عہد کے وہ ناقابل فراموش موتی ہمارے سامنے رکھیں گے، جس میں غلام ہندستان اور ہندستان کے باسیوں کا دل دھڑکتا محسوس ہو گا۔ مگر اس ناول کا ایک المیہ یہ بھی کہا جائے گا کہ اگر اسے آزادی کے بعد لکھے گئے ناول کے طور پر پڑھا جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مطلب یہ کہ اشک اپنے عہد کو آئینہ نہ دکھا سکے جب کہ موضوع کا تقاضا تھا کہ اس میں لٹتی ختم ہوتی، پامال ہوتی تہذیب کا کچھ تو عکس ہوتا۔

اشک نے دیواروں کو گرتے دیکھا بھی تو محبت کے تقاضوں میں  —   محبت بھی دیکھی تو ایک شادی شدہ مرد میں  —   ایک سالی کے لیے، چیتن تمام تر ہمت، حوصلے، شاعرانہ اور انقلابی مزاج کے باوجود آخر میں ایک ناکام اور نا مراد عاشق ہی ثابت ہوتا ہے۔ ایسے میں اشک کی آنکھیں اپنے ہی سماج میں اٹھی ہوئی وہ بلند دیواریں دیکھ ہی نہیں سکتی تھی، جو زمانے، وقت اور اپنوں نے اٹھا رکھی تھیں۔

’’عقل، مذہب، اخلاق، سماج، بیاہ، یہ سب دیواریں جو حقیقی زندگی میں اس محبت کو گھیرے ہوئے تھیں، تصور کی دنیا میں یکایک زمین دوز ہو گئی تھیں۔‘‘

دراصل اشک لکھنا وہی چاہتے تھے، جیسا میں نے اوپر عرض کیا ہے۔ مگر ناول کو ضخامت عطا کرنے کے چکر میں وہ قلم کو قابو میں رکھنا بھول گئے۔ اور کہانی ان کی گرفت سے نکل کر معمولی پریم پر سنگوں میں کھو گئی۔ اختتام پر آ کر جب اشک کو اس بات کا احساس ہوا تو ناول کو آفاقی رنگ دینے کی خواہش میں وہ طرح طرح کی دیواریں گرتے چلے گئے۔

’’نیلا اور ترلوک کے درمیان ہی نہیں، بلکہ اس غلام دیش کے بیشتر مرد عورتوں فرقوں اور قوموں کے درمیان۔ ان دیواروں کی کوئی انتہا نہیں۔ ان دیواروں کی بنیادیں کہاں ہیں۔ یہ دیواریں کب کریں گی۔‘‘

The Scarlet and the Black میں استانداد نے ایک جگہ ان دیواروں کے گرنے کے عمل کو تہذیب کے ختم ہونے کا سانحہ قرار دیا تھا۔ استانداد کے لفظوں میں تہذیب ایک ایسا خوبصورت آرکٹکچر ہے جس کی بنیاد میں ہزاروں برسوں کا داغ لگا ہوتا ہے۔تہذیب کا ختم ہونا ایسا ہے، جیسے ملک کی حفاظت کرنے والی دیوار ہی ڈھا دی جائیں۔

اشک گرتی دیواریں کے تصور کو عظیم رنگ دینے میں ناکام رہے۔ اس کے پیچھے وجہ جو بھی رہی ہو۔ لیکن یہ تلخ سچ ہے کہ ہم کوئی بڑی زمین اپنی کہانی کے لیے اٹھا تو لیتے ہیں نبھا نہیں پاتے۔

ہاں، گرتی دیواریں میں اشک ایک اچھے آبزرور (Observer)کیمرہ مین اور فوٹو گرافر ضرور رہے ہیں، شاید اسی لیے روسی نقاد الیکسی بار انکوف کو اس ناول کے بارے میں کہنا پڑا۔

’’جیسے مصنف کسی سکینڈل پوائنٹ پر بیٹھا سامنے سے گزرنے والی زندگی کے رنگا رنگ اور اور پر شور جلوس کا نظارہ کر رہا ہے۔ وہ کبھی دور بین سے اسے دیکھتا ہے، کبھی خوردبین سے، کبھی خود اس جلوس کا حصہ بن جاتا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

پلیتہ اور ایک ممنوعہ محبت کی کہانی۔ مختصر جائزہ

ناول پر سنجیدگی سے قلم اٹھانے والوں کی کمی ادبی سفر کی شروعات سے ہی محسوس کی جاتی رہی ہے۔ مشکل یہ ہے آزادی کے ۶۵۔۶۰ برسوں میں قرۃ العین حیدر کے ناول ہی اظہار و افکار کا پیمانہ بن کر رہ گئے تھے۔ لیکن ڈاکٹر محمد احسن فاروقی اور جوگندر پال جیسے نقادوں کو قرۃ العین حیدر کا فلسفہ کچھ زیادہ متاثر نہ کر سکا۔ یہاں تخلیقی معنویت کو لے کر اس امر کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ذہین دانشوروں کے پاس اردو ناولوں کے تبصرہ و تجزیہ کے لیے جو پیمانہ آج بھی موجود ہے، وہ مغرب سے مستعار ہے۔ نتیجتاً تہذیبی اور لسانی سطح سے آگے نکل کر کبھی ناول کے نئے موضوعات کو بحث میں شامل نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں ممتاز علی خاں اور انور سدید، ہندستان میں علی احمد فاطمی، جیسے لوگوں کو چھوڑ دیا جائے تو ناول پر مجموعی بحث یا نئے ناولوں کا احاطہ کبھی نہیں کیا گیا۔ رفیعہ شبنم عابدی سے لے کر یوسف سرمست تک پرانے ناول اور پرانے موضوعات کی تکرار تو مل جائے گی لیکن وہ جوش یا امنگ نظر نہیں آئے گی جو نئے ناولوں کی طرف آپ کو متوجہ کرتی ہے یا بے قرار کرتی ہے۔ دراصل ناول کے تئیں یہ بیقراری یا بے چینی اب مفقود ہو چکی ہے۔ ہندستان یا پاکستان دونوں جگہوں پر ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو ناولوں پر کام تو کرنا چاہتے ہیں مگر تعصب اور اقربا پروری کی عینک لگا کر۔ اس سے بڑا نقصان قارئین کو ہوتا ہے جو اچھے ناولوں کی چمک سے دور رہ جاتے ہیں۔ ہندستان میں ڈاکٹر انور پاشا اور ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نئے ناولوں پر گہرائی سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن یہاں اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ پاکستان کے لوگوں تک ہندستانی ناولوں کی رسائی کم ہے، اس لیے اگر پاکستان کے نقاد نئے ناولوں پر گفتگو کرتے ہیں تو عبدالصمد کے اکادکا ناول، غضنفر، پیغام کا مکان یا ذوقی کے بیان، پوکے مان کی دنیا تک آ کر ٹھہر جاتے ہیں۔ اس سے برا حال ہندستان کا ہے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگوں کی رسائی پاکستان کے ناولوں تک بالکل بھی نہیں ہے۔ اس لیے یہ کوشش دونوں ملکوں کی طرف سے کی جانی چاہئے کہ جیسے بھی ممکن ہو، ناول سرحدی دیواریں توڑ کر آرام سے ایک دوسرے کے حوالہ یا مطالعہ کا حصہ بن سکیں۔ یہ کام دونوں ملکوں کے پبلشر آرام سے کر سکتے ہیں۔

ناول کی ایک نئی دنیا ہمارے سامنے آباد ہو چکی ہے۔ ہندستان سے پاکستان تک ہمارے ناول نگارمسلسل ناول میں نئے موضوعات کو تلاش کر رہے ہیں۔ فکر و آگہی اور اسلوب کی سطح پر بھی نئے ناول اقدار کی پامالی اور تہذیبوں کا نوحہ جیسے موضوعات سے دور نکل آئے ہیں۔۶۰۰ صفحات پر مشتمل پیغام آفاقی کے ناول پلیتہ میں آپ نئی صدی کی بازگشت کو بہ آسانی محسوس کرسکتے ہیں۔

’’اچانک اسے محسوس ہوا جیسے وہ بلند آواز میں چلاتے ہوئے بے خبر سوئی ہوئی پوری دنیا کو خالد کی قبر دکھائے۔ وہ اس وقت جو کچھ محسوس کر رہا تھا وہ اسی طرح کا عرفان تھا جو عظیم فلسفیوں اور پیغمبروں کو صدیوں میں کبھی کبھی ہوتا ہے۔ ایسا عرفان جو انہیں اپنی شدت اور متانت سے چیخنے،چلانے اور لوگوں کو بیدار کرنے کیلئے جھنجھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اپنے پیچھے بے شمار صدیوں کو چھوڑتی ہوئی،دنیا ابھی ابھی اکیسویں صدی میں داخل ہوئی تھی  —   اور اس کو آگے کا سفر طے کرتے ہوئے مزید صدیوں سے گزرنا تھا۔ اس کے لیے اسے ہر قدم پر بہترین راستے کا انتخاب کرتے جانا تھا۔ جیلانی نے محسوس کیا کہ اس سلسلے میں اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے ایک پیغام ہے۔ ‘‘

۶۰۰ صفحات پر پھیلی یہ دنیا جو سزائے کالا پانی کے پس منظر سے جب آج کی دنیا کا تعاقب کرتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ کہیں کچھ بھی بدلا نہیں ہے۔ ایک چھوٹے سے گلوبل گاؤں میں داخل ہونے کے باوجود یہ دنیا شر، فساد اور جنگوں کی بھوکی دنیا اب تک بنی ہوئی ہے۔ نظام وہی ہے۔ انصاف کی عمارت وہی   —   شاید اسی لیے پیغام آفاقی نے بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ اس ناول کو بارودی سرنگوں کے نام منسوب کیا ہے  —   پلیتہ کی کہانی نو جوان خالد سہیل کی پراسرار موت سے شروع ہوتی ہے۔ مو ت کے بعد خالد سہیل کی کچھ تحریریں اس کے کمرے سے پائی گئیں اور یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ ان تحریروں میں کچھ ایسی باتیں ضرور ہوں گی  —   جس کی وجہ سے نئی کتاب، کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی موت ہو گئی تھی۔ غور کیا جائے تو خالد سہیل کا کردارمحسن حامد کے شہرہ آفاق ناول The Reluctant FuNdamentalist کے کردار چنگیز سے بالکل الگ نہیں ہے —  چنگیز جسے امریکہ جیسے ملک میں اپنے لیے ایک بڑی کمپنی کی کرسی تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ چنگیز جسے اپنے مسلمان ہونے پر فخر تھا۔ جو داڑھی رکھتا تھا  —   لیکن ۱۱؍۹ کے حادثے کے بعد اس کی شخصیت نہ صرف آفس والوں کی نظر میں مشکوک ہو گئی بلکہ اسے نوکری سے بے دخل بھی ہونا پرا۔ مذہب، دہشت گردی اور بنیادپرستی سے پیدا شدہ سوالوں میں ہمیں امریکہ کا ایسامسخ شدہ چہرہ دکھائی دیتا ہے جہاں خوف ہے، ڈپریشن ہے  —   اور اسی لیے امریکہ ہر بار چنگیز جیسے ذہین نوجوانوں سے خطرہ محسوس کرتا ہے  —   پلیتہ میں خالد سہیل کی شکل میں یہی سلگتی ہوئی آگ ہمیں قدم قدم پر دکھائی دیتی ہے۔

 ’اس دنیا سے حکمرانوں کا اقتدار ختم ہونا چاہئے۔‘

**

’میں اپنا یہ دعویٰ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ میری مرضی کے خلاف میرے اوپر کوئی حکومت تھوپی نہیں جا سکتی۔

**

اس دنیا کو ایسے فلائی اوورس کی ضرورت ہے جس سے ہو کر ہم دنیا کو بانٹنے والی لال بتیوں کے اوپر سے گزر جائیں۔

سول سوسائٹی کے لوگوں کی ایک نئی صبح نمودار ہو رہی ہے  —   اور خالد سہیل اس صبح کی علامت بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ خالد کی موت کے بعد تفتیش شروع ہوتی ہے۔ اور ناول نگار اس تفتیش کے بہانے ہمیں انڈمان کے جزیرے اور کالا پانی کی سیر کراتا ہے۔ اور یہ اندھیر یگ ماضی سے حال کی بوسیدہ زمین تک ہمیں اس طرح نگل جاتا ہے کہ جدید جمہوری نظام کا مکروہ چہرہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ برٹش حکومت اور جزائر انڈمان کی خوفناک تنہائیوں میں سزا پانے والے مجرم  —   ایک سفر شروع ہوتا ہے۔ گزرے ہوئے کل اور آج کی جدید جمہوریت کے خدوخال ابھرتے ہیں اور خالد سہیل کی موت کی ایسی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

 مکان کی اشاعت کے ۲۰۔۱۸ برس بعد پلیتہ کا شائع ہونا میرے نزدیک کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ پیغام آفاقی نے نہ صرف اسلوب پر محنت کی ہے بلکہ ماضی اور حال کے تصادم سے ایک نئی بستی یا ایک نئی دنیا آباد کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اور اس دنیا میں ہر وہ مسئلہ ناول کا حصہ بنتا ہے جو ہمارے آج کے عہد سے وابستہ ہے۔ فیمننزم، مارکیٹ اکانومی، گلوبلائزیشن، کرپشن، انسانی ولسانی حقوق، کارپوریٹ کلچر، ورلڈ وار یا ورلڈ وار کی طرف بڑھتے قدم، پولرائزیشن، اور ان کے مابین حیات انسانی کے فلسفوں کی تلاش نہ صرف اس ناول کے مطالعہ کے لیے مجبور کرتی ہے بلکہ بنیادی مغالطوں سے بھی ہمیں باہر کا راستہ دکھاتی ہے کہ اردو ناول میں بڑے موضوعات شامل نہیں کیے جا رہے ہیں۔ پیغام نے آج کے عہد کی بدنظمی، لاقانونیت، بد امنی اور دیوالیہ پن کی جو تصویر ہمارے سامنے رکھی ہے، وہیں سے ایک نئے معاشرتی وسیاسی نظام کا چہرہ بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اور شاید اس لیے کہ سچا ادیب امیدو یقین کے سورج پر نگاہیں مرکوز رکھتا ہے اور وہ اپنی تحریروں سے اس تاریکی کو بدلنے کا ہنر جانتا ہے۔

’’جیلانی نے اپنا اکاؤنٹ کھولا تو ہزاروں چھوٹے چھوٹے میسج آئے پڑے تھے جو اس سے اگلے بلاگ کا تقاضہ کر رہے تھے لیکن ادھر جیلانی نے لیپ ٹاپ کھولا ہی تھا اپنا نیا بلاگ بھیجنے کے لیے کیونکہ اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے ایک بامعنی خبر تھی۔

اس نے بلاگ لکھا اور پبلش کا وہ بٹن دبا دیا جس کے دبتے ہی اس کے قارئین کے موبائل فونوں تک بلاگ کے پبلش ہونے کا میسج پہنچ جاتا تھا۔

 بلاگ کا عنوان وہی تھا جو پہلے ٹی۔ وی چینلوں پر جا چکا تھا۔ ‘‘

**

Shall we contribute to a bloodless revolution- an evolution, a metamorphosis- unfurling flag of a tension free society. shall we fight out the tension That killed Khalid Suhail?

**

مجموعی طور کہا جا سکتا ہے کہ نئے ناول موضوعات کے پرانے بتوں کو توڑتے ہوئے تہذیبی ارتقا کے عمل میں، جنگوں کے امکانات سے الگ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انسان ابھی مرا نہیں ہے۔ مایوسی کفر ہے۔ پلیتہ، نے ابھی آگ نہیں پکڑی ہے اور زندہ رہنے کی خواہش ہی نسلِ انسانی کاسب سے بڑا تحفہ ہے۔

رحمن عباس کے ناول ایک ممنوعہ محبت کی کہانی کی دنیا پلیتہ سے مختلف ہے۔ رحمن کی نثر میں ترقی پسند اور جدیدیت کا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ رحمن نے اپنے پہلے ناول سے ہی اردو دنیا کو چونکا یا تھا مگر برا ہو ادب میں بنیاد پرستی کو ہوا دینے والوں کا، کہ یہ ناول نہ صرف متنازع ہوا بلکہ رحمن عباس کو وہ صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں جس نے آگے چل کر رحمن کو یہ ناول لکھنے پر مجبور کیا۔ رحمن عباس مسلم گھرانوں کے ثقافتی، خانگی اور تہذیبی رویوں سے ناراض نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ صاف ہے، اس معاشرے میں تبدیلی و ترقی کی مدھم رفتار۔ زیادہ ترمسلم گھرانے آج بھی پندرہویں صدی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس ان کی اپنی سہولت کے حساب سے ایک شرعی زندگی ہے۔ جس میں مذہب کے علاوہ نئی دنیا کی کوئی روشنی ان کے جہاں کو منور نہیں کرتی۔ پہلے ناول کے تحفہ کے طور پر مذہب اور بنیاد پرستی کے خطرناک رجحان کی سیر کرنے والے رحمن نے اسی لیے یہاں محبت کی ایسی کہانی پیش کی ہے، جہاں مسلمانوں سے متعلق، نئی دنیا اور فکر و آگہی کے کتنے ہی سوال سراٹھاتے نظر آتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ رحمن عباس نے اس ناول کا انتساب ان لوگوں کے نام معنون کیا ہے۔

 ’ان تمام محبتوں کے نام جنہیں سماج، مذہب اور اخلاقیات کے خود ساختہ دائرے قبول کرنے سے ڈرتے ہیں۔‘

اور یہیں وہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رحمن عباس نے جن خود ساختہ دائروں کی جانب اشارہ کیا ہے، وہ کیا ہیں ؟ کیا وہ آج کی بدلی بدلی شکلوں میں اب بھی موجود ہیں  — ؟ مراۃ العروس،بنات النعش (ڈپٹی نذیر احمد) اور اصلاح النساء (رشیدۃ النسا) جیسے ناولوں میں مذہبی سروکار اور اخلاقی رویوں کی جانب جو اشارے ملتے تھے، کیا وہی سماج اور معاشرہ آزادی کے ۶۵ برس بعد آج بھی موجود ہے؟ اس میں دو رائے نہیں کہ ایسے اصلاحی ناول مذہبی وژن کے سہارے مسلم سماج کی غلط اور کمزور تربیت کا دم بھر رہے تھے۔ایسے ناول اس عہد میں بھی ثقافتی، سماجی اور اخلاقی سطح پر لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان فرق پیدا کرتے ہوئے ایک پوری نسل کو کمزور اور دبو بنانے کی سعی کر رہے تھے۔ (جہاں تک مجھے یاد ہے، اس زمانے میں بھی رقیہ سخاوت حسین جیسی عورتیں سامنے آ چکی تھیں۔ان کی ایک کہانی مجھے یاد ہے جہاں عورتیں مردوں کی طرح باہر کی دنیا آباد کرتی تھیں اور مردوں نے خود کو گھر کے کام کاج کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس عہد کے احتجاج کا یہ پہلو بھی دیکھیے)۔ سرشار کے تاریخی ناول، مرزا محمد ہادی رسوا کا امراؤجان، راشد الخیری کے ناولوں سے آگے بڑھتے ہیں تو حقیقت نگاری بے بس نظر آتی ہے۔ وہ ترقی پسندی سے کہیں بھی آنکھیں چار کرنے میں کمزور اور لاچار نظر آتی ہے۔ عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر کے عہد تک یہ تہذیبی رویے بدلے تھے۔ قرۃ العین کے ناولوں میں ایلٹ کلاس۔طبقۂ اشرافیہ کی عورتیں بھی کردار تھیں جو موسیقی کی تعلیم لے رہی تھیں، جو پینٹنگس کرتی تھیں، جو ہوٹلوں اور کلبوں میں جاتی تھیں۔ لیکن ان سب کے باوجود مسلم معاشرہ وہی تھا۔ تبدیلیاں دو ایک فیصد لوگوں کے گھروں کو منور کر رہی تھیں مگر پسماندگی فکر میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا تھا۔ رحمن عباس کے لیے ۶۵۔۶۰ برسوں کی یہ مسلم آبادی مسلسل ان کی فکر کو مہمیز کر رہی تھی۔ اور اسی لیے انہوں نے کوکن کے تہذیبی و ثقافتی رویوں کے خلاف جب قلم اٹھایا تو یہ لکھنے پر مجبور ہوئے —  کہ شاید خود ساختہ دائرے انہیں قبول نہ کر پائیں۔ اور ان کا یہ اندازہ بھی بہت حد تک چست اور درست ثابت ہوا۔

سورل پہاڑیوں پر آباد چھوٹا سا گاؤں  —   عبدالعزیز اس گاؤں کا باشندہ ہے۔ یہاں سکینہ بھی ایک کردار ہے۔ گاؤں میں تبلیغی جماعت کے لوگ آتے ہیں۔ مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے۔ سکینہ بھی نماز پڑھنے لگی۔ اس کے ابا اسے تبلیغی نصاب پڑھ کر سناتے تھے۔ سکینہ کی شادی ہو جاتی ہے اور کہانی یہاں سے ایک نئے اور دلچسپ موضوع کی طرف اپنے قدم بڑھاتی ہے۔

 سکینہ کی سہیلی شبنم اس سے کہتی ہے۔ ’’عورت اپنے شوہر میں ایک دوسرے آدمی سے محبت کرتی ہے۔ جو اسے کبھی نہیں ملتا۔ ہر مرد اپنی عورت میں کئی عورتوں کو ڈھونڈتا ہے جن میں سے بعض سے وہ ملتا رہتا ہے، سکینہ کے ذہن میں عبدالعزیز کی یادوں کے ننھے ننھے جگنو روشن ہونا شروع ہوتے ہیں اور ممنوعہ محبت نئے فلسفوں کی آنچ میں پگھل پگھل جاتی ہے۔ رحمن عباس نے معاشرتی مضحکہ خیزی، پرانی قدروں اور طوطے کی طرح رٹائی جانے والی تہذیبوں کو نئے حقائق کے ساتھ پیش کرنے میں وہ فنکاری دکھائی ہے،جہاں اچھے اچھے تخلیق کار کا قلم بھی خاموش رہ جاتا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ آج ساری دنیا کے مسلم قلمکار کہیں نہ کہیں تہذیبوں کے تصادم کو اپنا موضوع بنا رہے ہیں۔ نئی تہذیب اور نئی دنیا کا سب سے بڑا موضوع ہے۔ دہشت گردی —  شاید اسی لیے نجیب محفوظ ہوں یا اوہان پامک، خالد حسین ہوں یا پیغام آفاقی اور رحمن عباس، ان کی فکر اور نشانے پر مسلم معاشرہ ہے۔ رحمن عباس کوکن کے مسلم معاشرے کو علامت بنا کر ہندستانی مسلمانوں کی زبوں حالی اور موجودہ فکر کو نشانہ بناتے ہیں۔ اور پیغام آفاقی، خالدسہیل کو عالمی نظام میں مسلمانوں کی حصہ داری کی علامت بنا دیتے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ خالد سہیل مرگیا یا ہار گیا  —   خالد سہیل نے وراثت کے طور پر اپنے عہد کو چیلنج کرنے والی جو نشانیاں چھوڑی ہیں، ان کے پیچھے نوجوان مسلمانوں کی ایک قطار صاف طور پر نظر آتی ہے  —   جو اب جھکنے کے لیے یا اس پر آشوب موسم میں قتل ہو جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سکینہ اس نظام میں ایک روشن سوال بن کر ابھرتی ہے کہ دین کے محافظ کب تک جسم کی ضرورتوں کو تنگ نظری کی عینک سے دیکھتے رہیں گے۔ محبت کا اپنا فلسفہ ہے اور محبت زمان و مکان کی ہر بندشوں کو توڑ کر اپنا الگ گھونسلہ بناتی ہے۔

 یہ خوشی کا مقام ہے کہ نئے ناول نئے نئے موضوعات کے ساتھ مسلمانوں خصوصاً اجتماعی انسان کے مسائل اور درد و غم کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ ناول پرانے دائروں کو توڑتے ہوئے نئے دائرے بنانے کی پیش قدمی کر رہے ہیں، اردو دنیا کو ان ناولوں کا استقبال کرنا چاہئے۔

٭٭٭

 

غضنفر اور مانجھی

ناول کی کائنات، کہانیوں کی کائنات سے ان معاملوں میں بھی مختلف ہے کہ یہاں رواں دواں زندگی کو سلیقہ کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ کہانی محض اس زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہوتی ہے۔ بڑا ناول نگار جب ایک ساتھ مختلف کرداروں اور ان کی زندگی کے ساتھ چلتا ہے تو اپنے وژن کو موضوع کی وحدت سے ایک سانچے میں ڈھالتے ہوئے اپنی تخلیقی ذہانت کا ثبوت بھی فراہم کرتا ہے۔ ایسا کئی بار ہوتا ہے جب ذہن میں محض ایک چھوٹی سی کہانی کی بنیاد پڑتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ کہانی ایک بڑے ناول کی شکل اختیار کر لیتی ہے — اس گھٹن آلودہ زندگی سے کہانیاں بننے کی جرأت مندی اپنے تمام اوصاف اور لوازم کے ساتھ نہ صرف غضنفر کے یہاں موجود ہیں بلکہ غضب یہ کہ ناول کی تخلیق سے پہلے یہ فنکار ان لوازم کا استعمال اپنی چھوٹی سی کہانی کے لیے کرتا ہے۔ اور اس طرح غور کریں تو ’مانجھی‘ بھی پہلے ایک چھوٹی سی کہانی کے فارم میں ہمارے سامنے آئی اور غضنفر کے خوبصورت بیانیہ اور اسلوب نے اسے کہانی سے ایک بڑے ناول میں تبدیل کر دیا  —   کہانی کا ناول بن جانا منزل عشق کی کمزوری نہیں، بلکہ عروج ہے کہ ہمارا لکھاڑی محض ایک چھوٹے سے واقعہ پر قناعت نہیں کرتا بلکہ تخلیقی کیفیت، مشاہدے کی گہرائی کے ساتھ تخیل کی نزاکتوں کا احترام کرتے ہوئے اسے وقت کا آئینہ دکھاتا ہے اور سچ پوچھئے تو مانجھی ہمارے عہد کا ایک ایسا آئینہ ثابت ہوا ہے جہاں ساجھی وراثت یا مشترکہ کلچر کا وہ عکس دیکھا یا محسوس کیا جا سکتا ہے، جسے اس سے قبل لکھنے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی گئی۔

’’کاش یہ سنگم ہماری سرحدوں پر بھی پہنچ جاتا اور ہر ایک سرحد سے ہو کر یہ دونوں ندیاں گزرتیں اور اپنے وزن اور رنگ کا ایک ایک کو احساس دلاتیں۔

وی۔ ان رائے! یہ سنگم سرحدوں پر پہنچ جاتا تو بھی کیا ہوتا؟ یہاں یہ ہے تو کیا ہو رہا ہے؟ سنگم کو دیکھنے والی آنکھ اور اس کو محسوس کرنے والے دل کی بھی ضرورت ہے مگر ایسی آنکھیں اور ایسے دل کہاں سے آئیں گے؟ وی ان رائے کے اندر بیٹھا کوئی اور وی ان رائے ان سے سوال کرنے لگاُ‘ …

قرۃ العین حیدر سے عبد الصمد اور پیغام آفاقی تک آتے آتے اردو ناول کا کینوس، اسلوب اور لہجہ بہت حد تک بدل چکا تھا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ وقت کے ساتھ اسے بدلنا بھی چاہئے تھا۔ پریم چند معاشرہ کی کمزوریوں پر تحریر سے شمشیر کا کام لے رہے تھے تو قرۃ العین حیدر محض اپنے عہد کا نوحہ لکھنے میں مصروف  —   یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آزاد ہندستان میں تقسیم سے پیدا شدہ اثرات میں اظہار کی صورتوں کو تہذیبی تصادم کی آنکھ سے دیکھتی رہیں اور رنجیدہ ہوتی رہیں کہ جدید تقاضوں نے وہ تہذیب گم کر دی جس کے سایہ میں ان کی تربیت ہوئی تھی۔ اور اس طرح غور کریں تو وہ ایک ہی کہانی یا اپنی ہی کہانی نئے نئے عنوان سے قلمبند کرتی رہیں۔ دیکھا جائے تو ۸۰ء کے بعد کا فنکار محض اس تہذیبی Nostalgia کا شکار نہیں تھا۔ وہ آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ اپنے سماج، اپنے معاشرے، اپنے مذہب سے باہر نکل کر نئے بیان اور اظہار کا متلاشی تھا۔ وہ اپنے ملک کی بات کرتے ہوئے محض اپنی شخصیت تک محصور نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ اقبال کے شاہیں کی طرح اپنے پر پھیلانا جانتا تھا اور اس لیے جب غضنفر مانجھی، کی بات کرتے ہیں تو یہاں آج کا پورا ہندستان موجود ہوتا ہے۔ صرف ہندو اور مسلمان نہیں  —   وہ مذہب کی بات کرتا ہے تو سب سے پہلے اس گریٹ ڈپریشن کے بارے میں سوچتا ہے جس کی کمان امریکہ کے ہاتھوں میں ہے  —   وہ جمنا کی لہروں پر اڑتے پرندوں کو دیکھتا ہے تو اسے یہ فکر پریشان کرتی ہے کہ کیا ایک بار پھر ہم ان آزاد پرندوں کی طرح ہوسکتے ہیں ؟ اتنی ساری نفسیاتی الجھنوں اور کشمکش کے باوجود  —   وہ مانجھی کے بہانے سنگم کا رخ کرتا ہے تو یہاں اس کے سامنے نئی شکل میں، ٹوبہ ٹیک سنگھ موجود ہوتا ہے۔ منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ  —   ایک سرحد اور ایک مردہ جسم  —   ایک مردہ جسم جو سرحدوں کی قلعی کھول دیتا ہے۔ ایک سنگم جہاں ندیوں کا ملن ہوتا ہے  —   اور آسمان پر اڑتے ہوئے پرندے سنگم کا ایک نیا استعارہ لکھ دیتے ہیں۔

’’سرسوتی جی واستوں میں ہیں یا ان کا وجود محض ایک متھ، مطلب کہانی بھر ہے؟‘‘

’’ہیں صاحب! سرسوتی جی ہیں۔ وہ دکھائی بھی دیتی ہیں۔‘‘

’’ان کا رنگ ان میں سے کس کی طرح ہے؟ گنگا کی طرح یا جمنا کی طرح؟‘‘

’’ان دونوں سے الگ ہے صاحب۔‘‘

’’کوئی روپ تو ہو گاُ‘

’’ہاں ہے مگر وہ ہرا اجلا، نیلا پیلا جیسا رنگ نہیں ہے‘‘

’’تو پھر کیسا ہے۔‘‘

’’وہ وچتر رنگ ہے۔ اس میں جمنا جی کا رنگ بھی شامل ہے اور گنگا جی بھی پرنتو گنگا جی کا یہ رنگ نہیں نہیں، ان کا وہ رنگ اور جمنا جی بھی پہلے والا رنگ۔ اس میں چاند، سورج اور ستاروں کا رنگ بھی گھلا ہوا ہے اور آسمان کا رنگ بھی۔ شاید زمین کا رنگ بھی اس میں موجود ہے۔ صاحب میں بتا نہیں سکتا کہ واستوں میں وہ رنگ کیسا ہے۔ پرنتو ہے بہت ہی اچھا رنگ … ‘‘

**

’’اس سمے ہم جمنا میں ہیں۔ اس پانی کو دھیان سے دیکھیے۔ اس کا رنگ ہرا ہے۔ یہ رنگ پہلے اور بھی زیادہ ہرا تھا۔ دھیرے دھیرے اس میں سیاہی گھلتی گئی اور اس کا ہرا پن ہلکا ہوتا گیا۔ اس کے ہرے پن کے بارے میں بہت سی کہانیاں کہی جاتی ہیں :

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جمنا جی کسی پہاڑ سے زمرد بہا کر لاتی تھیں اور وہ زمرد جمنا کے پانی کو ہرا بھرا رکھتا تھا۔ بعد میں زمرد کا وہ پہاڑ کہیں غائب ہو گیا۔

ہمارے تاؤ ایک دوسری کہانی سناتے ہیں کہ جس طرح یہ دھرتی گائے کے سینگوں پر ٹکی ہے اسی طرح جمنا جی بھی ایک پہاڑی طوطے کے پروں پر بیٹھی ہیں۔ یہ اسی طوطے کے ہرے پروں کا کمال تھا کہ جمنا جی کا پانی کافی ہرا دکھائی دیتا تھا اور اب جو ہرا پن کم ہوا ہے اس کا کارن یہ ہے کہ پانی میں کچھ راکشس گھس آئے ہیں اور انہوں نے اس طوطے کے پروں کو نوچنا شروع کر دیا ہے۔‘‘

گنگا، جمنا اور سرسوتی۔ اور ان سے وابستہ کہانیاں۔ لیکن پانی کا اپنا رنگ کہاں ہوتا ہے؟ آپ غور کریں تو غضنفر نے پانی، مم اور مانجھی کے ساتھ ایک مکمل عہد کو اس طرح پیش کیا ہے جس طرح سارترنے Iran in the Soul  میں۔ عہد اور عہد سے وابستہ مکالموں کو اپنے فلسفوں سے نئی راہ دکھائی تھی۔ اسی طرح پانی سے نکلی کہانی مم اور مانجھی تک پہنچتے پہنچتے ان دہشت زدہ سوالوں میں الجھ جاتی ہے جہاں نہ کوئی راستہ ہمارے لیے ہے نہ غضنفر کے لیے  —   مانجھی کون ہے؟ پانیوں کا رنگ تبدیل کیوں ہو رہا ہے؟ پانی کا رنگ سبز ہو رہا ہے۔ نیلا بھی ہوسکتا ہے۔ آلودگی بڑھ گئی ہے لیکن یہ آلودگی صرف ماحولیاتی نہیں ہے بلکہ اس میں سیاسی وسماجی تبدیلیوں کا عکس بھی دیکھا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسے مقام پر آ گئے ہیں جہاں ہمارا نائک وی ان رائے کھڑا ہے۔ اور مسلسل حیران ہو رہا ہے —

یہاں یہ اظہار ضروری ہے کہ حقیقتیں انسانی تجربہ، سائنس اور تکنالوجی سے بھی مختلف اور دلفریب ہیں۔ اور اسی لیے ان دنوں فکشن میں موہوم حقیقت نگاری کے تجربے ہو رہے ہیں۔ آج کے مشینی عہد میں انسان کا مسئلہ سنگین ہے۔ حقیقت صرف وہ نہیں ہے جو دکھائی دے رہی ہے۔ ایک حقیقت پردے میں ہے اور آپ پر مسلسل شب خون مار رہی ہے۔ اس لیے آج کے عہد میں یہ فیصلہ مشکل ہے کہ کون سی حقیقت ہم سے زیادہ قریب ہے۔ مانجھی میں کہانی کے پردے میں اسی موہوم حقیقت نگاری کا سراغ ملتا ہے  —   ایک کہانی جو واضح طور پر مشترکہ کلچر، مشترکہ وراثت، گنگا و جمنی تہذیب، ہندو مسلم اتحاد کو لے کر اپنا سفر طے کرتی ہے، وہیں اس کی موہوم حقیقت نگاری کے پس منظر میں تباہی کا وہ خوفناک منظر بھی ہے، ایک دنیا جس سے دو چار ہوئی ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غضنفر نے یہ ناول سن ۲۰۱۱ میں تحریر کیا جب نئی صدی کے ان گیارہ برسوں میں ان آنکھوں نے وہ بھی دیکھا، جسے دیکھنے کی تاب تھی نہ خواہش  —   معاشیات اور اقتصادیات کی سطح پر بھی بڑی مچھلی کہے جانے ممالک خون کے آنسو رو رہے تھے۔ شب کے ٹھہرے ہوئے پانی میں دہشت کی اچھال تھی۔ زینہ زینہ اترتی ہوئی رات میں انسانی مستقبل کی تاریخ کو گرہن لگ چکا تھا۔ اور اس کی آنچ میں ملک ہندستان کی تہذیبی وراثت گم ہو رہی تھی۔

’’ ایک جانب سے ترشول والے شخص کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں حیران تھیں کہ وہ اس شخص کو پہچانتی تھیں۔ وہ شخص اس کے ڈیڈی کے پاس آیا جایا کرتا تھا۔ کئی بار اس بچے نے اسے چائے بھی لا کر دی تھی۔

’’یہ کیا کر رہے ہو؟ یہ بے چارہ تو معصوم ہے۔ اس کا کیا دوش؟ اسے چھوڑ دو۔‘‘ ایک بوڑھا آدمی بھیڑ سے نکل کر بچے کے پاس آ گیا تھا۔

’’نہیں، ہم اپنے شترو کی سنتان کو نہیں چھوڑیں گے۔ یہ انہیں سنتان ہے جنہوں نے ہمارے لوگوں کے گلے سے ہماری مالا اتار کر اس کی جگہ اپنی مالا ڈال دی تھی۔‘‘ ترشول دھاری اپنے عمل کی منطق بتا رہا تھا۔

’’مانا کہ اس کے لوگ ہمارے لوگوں کے من کو طرح طرح کا لالچ دے کر بدل رہے ہیں پرنتو اس بالک کا اس سے کیا لینا دینا؟ یہ بے چارہ تو ٹھیک سے یہ بھی نہیں جانتا ہو گا کہ یہ کون ہے؟ اسے چھوڑ دو، اسے مارنے سے کچھ نہیں ملے گا۔‘‘ بوڑھا آدمی بچے کو بچانے کے لیے بے چین تھا۔

’’نہیں ہم نہیں چھوڑیں گے۔ آگے چل کر یہ بھی وہی کرے گا جو اس کے داداؤں نے کیا اور آج اس کے باپ چاچا کر رہے ہیں۔ آپ ہٹ جائیے۔ ہمیں اپنا کام کرنے دیجئے۔‘‘ ترشول کے آب کی طرح ترشول بردار کا چہرہ بھی دھار دار ہو گیا تھا۔

’’نہیں میرے رہتے ہوئے آپ اسے نہیں مار سکتے۔‘‘ وہ بڈھا بھی اپنی ضد پہ اڑ گیا تھا۔

’’ہٹ جائیے نہیں تو … ‘‘ دھار دار چہرے سے چنگاریاں چھوٹنے لگی تھیں۔ ’’نہیں، میں اپنے جیتے جی یہ ادھرم نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ بچانے والا خود مرنے کے لیے تیار ہو گیا تھا۔

’’ہٹ جائیے ورنہ یہ ترشول آپ کے سینے میں بھی اتر جائے گا۔‘‘

’’اتر جائے، پرواہ نہیں ! مگر میں ہر حال میں اس بچے کی رکشا کروں گا۔ اسے بچاؤں گا۔‘‘ بوڑھا بچے کے آگے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔

’’تو ٹھیک ہے، مریے‘‘ ترشول ہوا میں لہرایا تھا اور پلک جھپکتے ہی بڈھے کے سینے میں پیوست ہو گیا تھا۔‘‘

تیرتھ کو نکلے قدم الہ آباد پہنچتے ہیں۔ الہ آباد، جہاں سنگم ایک مسٹری، ایک رہسیہ کی طرح آج بھی درشن دینے والوں کو مگدھ کرتا ہے۔ یہاں وی ان رائے کو ایک ادھیڑ عمر کا ملاح ملتا ہے  —   اور رائے کو اجمیر والے خواجہ کی یاد آ جاتی ہے  —   ادھیڑ عمر ملاح چاہتا تو دوسرے ملاحوں کی طرح سنگم کا ایک چکر کاٹ کر ناؤ کو کنارے لے آتا۔ لیکن تب وہ کہانی کی فصل تیار نہیں ہوتی جو کائنات اور دھرتی کے وجود سے جنم لینے والی تھی  —   ایک ایسے سفر کی شروعات ہونی تھی جہاں نئے تناظر میں ارنیسٹ ہیمنگ وے کے دی اولڈ مین اینڈ دی سی کے بہاؤ کو دیکھا جا سکتا تھا۔ یہاں بھی سرواٹیول کی جنگ تھی۔ لیکن یہ انسان ہیمنگ وے کے بوڑھے کی طرح فاتح نہیں تھا، جو ۳۵ دن کی مکمل شکست کے بعد بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا  —   یہاں تو ایک کمزور انسان تھا۔ وی ان رائے، جو سنگم کے دیدار کے بہانے تہذیبوں کے تصادم اور مستقبل کے خطرات کا ٹھہر ٹھہر کر مطالعہ کر رہا تھا  —   پھر اس سفر میں متھ، جاتک گا تھائیں اور سنگم کے گندے پانی سے وابستہ کہانیوں کے پردے اٹھنے لگتے ہیں اور اس طرح اٹھتے ہیں کہ اچانک انسان ہونے کا طلسم عریاں ہو جاتا ہے  —   شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں، جا تک کتھاؤں اور داستان الف لیلیٰ کی طرح ایک کہانی میں کئی کہانیاں اس طرح موتی کے دانوں کی طرح جڑتی چلی جاتی ہیں کہ آپ انہیں الگ نہیں کرسکتے۔ عورت مرد، دیو دیویاں، دولت اور طاقت اور ایک موہوم سا سچ  —   گم ہوتا ہوا انسان —

’’ٹھیک سے تو نہیں بتا سکتا پرنتو اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ جب جب کوئی مجھے اس مدرا میں نظر آتا ہے تولگتا ہے کہ وہ سنسار کے ان سنکٹوں کو دیکھ رہا جن کے گھیرے میں گھر کر مانو تا سسک رہی ہے اور ان سمادھانوں کو ڈھونڈ رہا ہے جن سے سنکٹوں کا ندان ہوتا ہے۔‘‘

اس ناول کو تاریخ کے تسلسل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہزاروں برسوں کے جہد مسلسل میں مصروف انسان آج بھی اپنی شناخت کے لیے حیران اور پریشان ہے۔ تقسیم نے خوابوں کو رسوا کیا۔ دلوں کی تقسیم ہوئی۔ اپنی اپنی جنتوں میں گم ہونے کے باوجود خوف کے زنداں سے کوئی باہر نہیں نکل سکا۔

’’ناؤ سنگم سے پلٹ کر گھاٹ کی طرف جانے لگی۔

پرندوں کا ایک غول پھر سے ان کے سروں پر منڈرانے لگا۔

دانوں کا پیکٹ دوں صاحب؟ ملاح نے وی ان رائے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’نہیں، ابھی کچھ دانے بچے ہیں۔‘‘ اور ناؤ سے پیکٹ اٹھا کر بچے ہوئے دانے کو آہستہ سے گنگا میں الٹ دیا۔

پرندوں کی طرف دانہ ڈالنے کا انداز اس بار ویسا نہیں تھا جیسا کہ جمنا میں اترتے وقت دکھائی دیا تھا۔ ‘‘

یہ کہانی وی ان رائے کی نہ ہو کر ہم سب کی کہانی ہے  —   اپنی فطرت میں بالکل تنہا رہنے والا انسان دراصل اس ٹھوس اور خطرناک حقیقت سے بھی کہیں نہ کہیں آنکھیں چرانے کی کوشش کر رہا ہے، جہاں گرد و غبار کے طوفان نے جینا مشکل کر رکھا ہے  —   اپنی آسائش اور سہولت کے لیے ہم دھرم اور تیرتھوں میں پناہ تلاش کر لیتے ہیں اور یہاں کی آلودگی بھی ہمارے زخموں کا مداوا نہیں کرتی، الٹے زخموں پر نمک چھڑکتی ہے۔ مستقبل عذاب میں گھرا ہے اور بوڑھا مانجھی نیا کو کھیتے ہوئے ماضی کی حسین کہانیوں میں پناہ تو لیتا ہے مگر اسے خوف بھی ہے کہ آلودگی پرندوں سے پناہ چھین رہی ہے۔ پھر ایک دن یہ پرندے گم ہو جائیں گے  —   یہ ناول گلوبلائزیشن کے زیر اثر نئی تہذیب، نئے خواب کے ساتھ ایک بے رحم مکالمہ کرتی ہے۔ اس لیے کہانی کے پردے میں جو کچھ ہے، اس سے کہیں زیادہ پردے کے باہر بھی ہے۔

٭٭٭

 

بلونت سنگھ کا پنجاب

               (’’کالے کوس، رات چاند اور چور‘‘ کے حوالے سے)

’’جہاں ہم کھڑے ہیں

کہانی وہیں سے نکل رہی ہے

ممکن ہے، ہماری آنکھوں کے سامنے سے

یا ہمارے قدموں تلے کی زمین سے

یا کہیں سے بھی —

کیا تم انہیں نہیں دیکھ پا رہے ہو

کیسے افسانہ نگار ہو — ‘‘

                         — اوتومونو یاکاموچی (جاپانی شاعر)

بلونت سنگھ کا شمار ایسے فن کاروں میں ہوتا ہے جو اوتومونو یاکاموچی کے اس خیال پر پورے اترتے ہیں  —   سچی بات یہ ہے کہ زمین سے جڑے ایسے زندہ ادیب اردو زبان نے کم ہی دیے ہیں  —   یوں ترقی پسندیت یا اشتراکی کی نظریہ کی وکالت کرنے والے تو اردو زبان میں ہر دور میں رہے۔ مگر ایسے سچے فن کار کم ہیں، جنہوں نے اس نظریہ کو اپنے خون سے سینچا اور اس کی پرورش کی۔

موجودہ دور کے ادبی سوداگروں کی طرح بلونت سنگھ نے اپنے ادب کو ریاکاری اور بے مقصدی کے سانچے میں مقید نہیں کیا  —  وہ سماجی، اخلاقی قدروں کے زبردست حامی رہے ہیں  —   خوف و جہر کے صنم خانوں کو توڑنے میں ان کا عقیدہ رہا ہے  —   دراصل وہ ایک ایسے خوف نما پنجاب کا خواب دیکھ رہے تھے، جہاں موتی کی لڑیوں کی طرح پورا ہندستان ایک مضبوط مالا میں گتھا ہوا تھا  —   وطن کی تقسیم اصل میں دو دلوں کی تقسیم تھی۔ اپنی لہو روتی آنکھوں سے مار کاٹ اور ہجرت کی کتنی ہی المناک کہانیاں ان کی آنکھوں کے سامنے سے گز رچکی تھیں  —   اب ہندستان اور اس کے مستقبل کو وہ ایک مضبوط چٹان کی مانند دیکھنا چاہتے تھے۔

اس لیے جہاں وہ کھڑے تھے، وہیں سے اٹھے جس زمین سے اٹھے۔ وہیں سے کہانیوں کی کیاریاں بنائیں، وہیں کی مٹی اٹھائی  —   اسی پودے، اسی خوشبو کو سنبھالا  —   جہاں کھڑے تھے اور نظریں جہاں دیکھ رہی تھیں۔ وہیں سے کہانیوں کی تلاش شروع کی  —   اور تلاش بھی کیسی   —   کہانیاں تو بکھری پڑی تھیں  —   ہجرت کا درد اور تقسیم ہوئی آنکھوں کا نوحہ بس ابھی نیا نیا تھا …  ابھی تو زخم تازہ تھا  —

وہی زمین  —   وہی مٹی  —   وہی خوشبو  —   جگاسے کالے کوس تک کے فاصلے کو بلونت سنگھ کے افکار و خیالات میں نمایاں تبدیلیاں آئیں  —   مطالعہ اور ان کے تجربات و مشاہدات نے ان کے تخلیقی سفر میں نئی نئی راہیں کھولیں اور وہ آگے بڑھتے چلے گئے  —   پنجاب،پنجاب کے رہن سہن، رسم و رواج کو موضوعِ تحریر بنانے والوں کی کمی نہیں رہی۔ مگر میرا خیال ہے کہ بلونت سنگھ کا پنجاب اور تھا اور وہ انوکھا پنجاب جو ان کی تخلیقات میں نظر آتا ہے صرف اور صرف انہی کی دریافت ہے  —   پنجاب کی بنداس طبیعت، شوخی، سرمستی اور نثار ہو جانے والے رویوں پر یوں تو ہزاروں قصے لکھے گئے، مگر جس طور پر بلونت سنگھ نے لکھا وہ انوکھا تھا  —   بلونت سنگھ مثالی مرد کی تعریف کے قائل نہیں تھے  —   ان کے کردار جیالے، جواں مرد اور نڈر تو ہوتے تھے، مگر ان میں عام انسانی کمزوریاں بھی رہتی تھیں۔ ہاں، ان کمزوریوں کے باوجود وہ انسان شکست کے قائل نہیں تھے۔ ہیمنگ وے کی طرح وہ انسان کو فاتح کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے  —   ہر حال میں فاتح اور بلند  —   بلونت سنگھ کی کہانیوں میں محبت کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مگر یہ محبت محض دو دلوں سے نکلی ہوئی چنگاری نہیں ہے  —   بلونت سنگھ اس محبت کو آفاقی بنانے کا ہنر جانتے تھے۔ وہ محبت کا کینوس اتنا وسیع کر دیتے ہیں کہ اس میں پوری دنیا سماجاتی ہے  —   ایسی محبت جو پشکن تالستائے، دوستو فسکی اور ترگنیف کے یہاں نظر آتی ہے۔ مگر اوروں کے یہاں جس کی نظیر نہیں ملتی —

حقیقتاً بلونت سنگھ کا پنجاب کوئی معمولی نہیں ہے۔ جیسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹالسٹائی دوستو فسکی، گوگول یا پشکن کاروس صرف انہی کاروس نہیں ہے بلکہ بسیط کائنات کی علامت ہے  —   بلونت سنگھ کا پنجاب بھی ہندستان سرزمین کا ایک معمولی خطہ نہیں ہے، اسے بڑے کینوس ہی دیکھنا اور محسوس کرنا چاہیے۔ بلونت سنگھ کے پنجاب اور ان کے کرداروں کو تاریخ کی رفتار کا، سماجی تبدیلی، ظلم و جبر کی قوتوں سے نبرد آزما علامت کے طور پر دیکھنا زیادہ مناسب ہے۔

بلونت سنگھ کی کہانیوں یا ناولوں میں روسی مصنفین کا اثر بہت نمایاں ہے۔ جیسے روسی مصنفین کے یہاں کا ادب قزاقوں کی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے بلونت سنگھ کے یہاں قزاقوں کی جگہ ڈکیتوں نے لے لی ہے۔ یہ ڈکیت ایسے ہی جیالے اور نڈر ہیں جیسے روسی مصنفین کے قزاق  —   مثال کے طور پر ’’کالے کوس‘‘ کا ورسا سنگھ یا پھر رات،چاند اور چور کے پالا سنگھ کو دیکھیے۔ جس طرح دوستو فسکی مکمل مرد کے تصور کو ایڈیٹ اور ridiculous man میں تلاش کرتا ہے۔ ممکن ہے بلونت سنگھ اس تلاش کے لیے پالا سنگھ اور ورسا سنگھ جیسے کرداروں کا سہارا لیتا ہو —

یہاں میرے پیش نظر بلونت سنگھ کے دو ناول ہیں ’’کالے کوس‘‘ اور ’’رات چاند اور چور‘‘ آئیے سب سے پہلے کالے کوس کا جائزہ لیتے ہیں

’’کالے کوس‘‘ میں بھی روسی مصنفین کا اثر غالب ہے۔ مگر اس ناول میں بلونت سنگھ جس ادیب سے سب سے زیادہ متاثر نظر آتا ہے، وہ ہیمنگ وے ہے  —   ہیمنگ کا محبوب موضوع جنگ تھا  —   ان کی جدوجہد، جنگ اور سبق لے جانا، یہ ایسے موضوعات تھے، جس پر ہیمنگ وے کی گرفت سخت تھی۔ جدوجہد، نیکی اور برائی کی جنگ یہاں بھی موجود ہے  —   یہی اصل جنگ بھی ہے ایک ایسی جنگ جس نے ملک کو تقسیم کے دوراہے پر کھڑا کر دیا تھا اور چاروں طرف خون کی ندیاں بہہ گئی تھیں  —   کالے کوس اپنے دامن میں تقسیم کی یہ خون آشام کہانی بھی رکھتا ہے۔ پر زور کہانی اور حادثات و واقعات پر تخلیق کار کی فن کارانہ گرفت نے کالے کوس کو کافی اہم ناول بنا دیا ہے۔

جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہے کہ کالے کوس کی ابتدا محبت کے کھٹے میٹھے تجزیوں سے ہوتی ہے۔

ورسا سنگھ چار گاؤں کا بدنام زمانہ نوجوان ہے  —   نڈر اور بہادر  —   ناول تین حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا حصہ میلہ ہے۔ میلہ یعنی زندگی سے عبارت ہے۔ آنے اور جانے والوں کا قافلہ چلتا رہتا ہے  —   دوسرا حصہ جھمیلا ہے، دنیا میں آنے کے بعد جو واقعات و حادثات انسان کا مقدر بنتے ہیں یہ وہی جھمیلے ہیں۔ تیسرا حصہ ہولا ہے  —   یہ حصہ اپنے دامن میں تقسیم کی آگ کو چھپائے ہے۔ لوٹ مار اور مار کاٹ کی لہو آگیں فضا ہے  —   اور ایک انسان ہے جو ان سب سے نبرد  طرح پوا وارااعجاز عبیدالآزما ہے  —   اور بے شک فتح انسان کے مقدر میں لکھی ہے۔ وہ ہر جنگ کی کاٹ رکھتا ہے۔ اور جدوجہد کے پاؤں مسلسل اسے سفر پر اکساتے رہتے ہیں۔ میلوں، ٹھیلوں جھمیلوں سے فارغ ہو کر انسان ایس محبت کی بستی میں پہنچ جاتا ہے جو ان سب سے نبرد آزما ہے اور جیسے آفاقیت حاصل ہے  —   دراصل یہ تینوں حصے خوب صورت استعارون کی طرح ستاروں کی مانند روشن ہیں اور کہانی کی ترسیل میں معاون ثابت ہوتے ہیں  —

چار گاؤں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے، لیکن یہاں سکھ بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ پیشورا سنگھ ایک جہاندیدہ بزرگ کی حیثیت رکھتے ہیں  — گووندی انہیں کی الہڑ لڑکی ہے۔ گووندی ورسا سنگھ کی شجاعت کی داستانیں سن سن کر اس سے محبت میں گرفتار ہو گئی ہے  —   پیشورا سنگھ کو خود بھی ورسا بہت پسند ہے۔ لیکن انہیں چوٹ تب پہنچتی ہے جب وہ ورسا سے گووندی کے رشتے کی بات کرتے ہیں اور انہیں ورسا سے ٹکا سا جواب سننے کو ملتا ہے۔

’’سردار جی! میں ازاربند کا ذراسا کمزور ہوں۔ اور یوں بھی راہ چلتی لڑکیوں سے میری کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘

ظاہر ہے اس جواب نے ایک غیرت مند لڑکی کے باپ کو چوٹ ضرور پہنچائی ہو گی، مگر پیشوا سنگھ اس نشتر کو برداشت کر جاتا ہے۔ شکست کے آنسوؤں کو پی جاتا ہے۔

کہانی کا سب سے مضبوط کردار صورت سنگھ ہے۔ یہ پیشورا سنگھ کا پڑھا لکھا ڈاکٹر لڑکا ہے جو ایک لڑکی مہندرا کور سے محبت کرتا ہے  —   دونوں مل کر گاؤں میں ڈسپنسری کھولنا چاہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بہانے گاؤں والوں کے دکھ سکھ کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔

صورت کا کردار دراصل میکسم گورکی کے مشہور ناولـ’مدر‘ کے پاویل ولاسوف سے ملتا جلتا ہے۔ صورت سنگھ ایک انقلابی نوجوان ہے، جو گاؤں میں تعلیم کی نئی روشنی دیکھنے کا خواہش مند ہے  —   یہ نوجوان پاویل کی طرح شروع سے آخر تک خود کی تیار کی ہوئی الجھنوں میں گرفتار رہتا ہے  —   یہ ترقی پسند نوجوان ہے اور کے سہارے بلونت سنگھ اپنے نظریے کی وضاحت کچھ اس طرح کرتے ہیں۔

’’مان لو کہ ہمارے چاروں گاؤں والے، چھوٹے بڑے مل کر بیٹھیں اور یہ طے کر لیں کہ چاروں گاؤں کے ساتھ لگی ہوئی ساری زمین سب کی ملی جلی ہے  —   یعنی کوئی زمین کا مالک نہ ہو، کوئی چھوٹا بڑا نہ ہو، کوئی اونچ نیچ نہ ہو  —   سب کو برابر کا حصہ ملے۔ ملی جلی آمدنی میں سے سب کی ضرورتیں پوری کی جائیں خاص کر ان لوگوں کی جو بوڑھے ہیں، اپاہج ہوں، اندھے ہیں  —   اور کسی وجہ سے کام کے لائق نہیں ہیں ‘‘

صورت سنگھ برابری اور مساوات کا قائل ہے۔ شروع میں اس کی بات کوئی نہیں سمجھتا۔ یہاں تک کہ مہندری کو سمجھانے کے لیے اسے اپنی بات کی مزید وضاحت کرنی پڑتی ہے۔

’’ان کھیتوں اور پیڑوں کو دیکھو۔ ان انسانوں پر نگاہ ڈالو  —   اس ہوا کو محسوس کرو  —   اس بھینی بھینی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو کا تصور کرو۔ یہ سب سچ مچ ہمارے دوست ہیں۔ ان کے ہمارے درمیان صرف ایک پردہ حائل ہے۔ کیا ہم اس پردہ کو ہٹا نہیں سکتے  —   بس ذرا دل کو مضبوط رکھنے کی ضرورت ہے مہندری  —   میں نے تمہیں پہلے ہی بتایا تھا کہ حالات کیسے ہو جائیں گے لیکن یہ صرف تمہاری محبت ہے کہ ہم اس کرم بھومی میں کود پڑے‘‘

بھولے بھالے معصوم گاؤں والوں پر صورت سنگھ کی تقریر اور باتوں کا رد عمل یہ ہوا کہ خود اس کا باپ پیشورا سنگھ بھی اس نے ناراض رہنے لگا  —   اس کی انقلابی باتیں سن سن کر ورسا سنگھ بھی اس کا دشمن بن گیا۔ گاؤں میں ڈسپنسری کھلنے کے حادثہ کو سب کے سب غلط نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ خاص کر مہندری کے کردار کو  —   جس کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ شرم و حیا بھول کر ایک جوان لڑکے کے ساتھ رہ رہی ہے  —   گاؤں والوں نے تو اس کو کرسٹینا تک کہنا شروع کر دیا تھا  —   مگر مہندری کو پتہ تھا کہ وہ کتنا بڑا کام کر رہی ہے۔ اور صورت نے کتنی بڑی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ایک دن میں گاؤں والوں کا ذہن تو نہیں بدلا جا سکتا، مگر وہ لوگ اگر ایک ذہن بھی بدلنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو آگے چل کر گاؤں کی فضا دوسری ہوسکتی ہے۔ اس کا احساس دونوں کو تھا۔ اور یہی احساس پاویل کی طرح انہیں مزید جدوجہد کے لیے حوصلہ اور اطمینان فراہم کر رہا تھا۔ ڈسپنسری کھل جانے کے بعد مہندرا اور صورت سنگھ کی خوشی کا اندازہ اس گفتگو سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔

’’ہوں۔‘‘

’’چپ کیوں ہو۔‘‘

’’نہیں مہندری۔ میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘

’’کیا دیکھ رہے ہیں سرکار؟‘‘

’’میں پنجاب کو د یکھ رہا ہوں۔‘‘

’’آج کیا نئے سرے سے دیکھ رہے ہیں ؟‘‘

’’ہان مہندری، میں پنجاب کو ہر بار نئے سرے سے دیکھتا ہوں۔ مجھے کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم نادان بچے ہوں اور اپنی زمین سے محبت میں، ہم سے جو بن پڑتا ہے کرتے ہیں  —   لیکن شاید ہم بہت کم جانتے ہیں، بہت کم کرتے ہیں اور شاید جو کچھ ہمیں کرنا چاہئے وہ ہماری سمجھ میں نہیں آیاُ‘

بلونت سنگھ جس پنجاب کو ہمارے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ ان مکالموں کے ذریعے آسانی سے اس کی وضاحت ہونے لگتی ہے۔ میں نے کہیں ذکر کیا ہے کہ بلونت سنگھ تخلیق کار سے زیادہ کیمرہ مین ہیں۔ ورسا سنگھ اور ان کے ڈکیت دوست دوسرے گاؤں میں ڈاکے کی یوجنا بناتے ہیں۔ یہ منظر جس طرح سے بلونت سنگھ نے قلمبند کیا ہے اس کا جواب نہیں۔ ڈاکہ زنی کا یہی منظر ہو بہو ان کے ناول رات چاند اور چور میں بھی ہے۔ یہاں بھی سانڈنیوں کے حملے کا ذکر ہے اور مجموعی طور پر دونوں کی فضا ایک سی ہے بہر کیف ڈاکہ ڈالنے کے دوران ورسا سنگھ کی زندگی میں ایک نئی لڑکی بیلا داخل ہوتی ہے گووندی کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے ارمان لہو لہو ہو جاتے ہیں  —

یہ ۱۹۴۶ء کے دنوں کی بات ہے جب بیلا کو زخمی حالت میں لیے ورسا ڈرسہما ہوا صورت سنگھ کی ڈسپنسری میں داخل ہوتا ہے۔ یہ وہ ورسا نہیں تھا جس نے کچھ مدت پہلے ڈسپنسری میں آگ لگائی تھی اور صورت سنگھ سے جس کی ہلکی سی جھڑپ ہو چکی ہے۔ مہندری بیلا کے زخموں کا اعلان کرتی ہے۔ دراصل ایسا کرتے ہوئے ورسا سنگھ کے دل میں جمی ہوئی نفرت کی گرد کو وہ باہر نکالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

’انسان فاتح ہے اور انسان کبھی نہیں مٹ سکتا — ‘ بلونت سنگھ کی کم و بیش تمام تر تخلیقات کا بنیادی نقطہ یہی خیال رہا ہے  —   اور یہاں اس نکتہ پر، بلونت سنگھ پر ہیمنگ وے کا اثر پوری طرح غالب نظر آتا ہے۔ ہیمنگ وے بھی انسان کی عظمت اور وقار کا دلدادہ تھا  —   ’د  اولڈ مین اینڈ د  سی‘میں سینٹا گو کی اس آواز کو محسوس کیجئے۔

’انسان شکست کے لیے نہیں بنا ہے …

وہ مر سکتا ہے لیکن مٹ نہیں سکتا …

انسان کے لیے اذیت اور تکلیف کی کوئی اہمیت نہیں …  انسان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے … ‘

’کالے کوس‘ کی کہانی میلہ جھمیلا سے ہو کر جب ہولا کی طرف بڑھتی ہے تو فرقہ وارانہ فسادات کے طوفان میں گھر جاتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب سارے ہندستان میں نفرت کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ دلوں کے ٹکڑے ہو چکے تھے۔ چار گاؤں میں بھی زبردست قیامت برپا ہوئی۔ ہندومسلم دونوں ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ امرتسر اور لاہور جانے والی گاڑیوں میں ہندو اور مسلمانوں کی کٹی ہوئی لاشیں آتی تھیں۔ یہ سارے دلدوز مناظر بلونت سنگھ نے ایسی فنکارانہ چابکدستی سے قلمبند کیے ہیں کہ آنکھیں  بھر آتی ہیں  —   چار گاؤں میں بھی جب تباہی آئی تو یہاں کے سکھوں کو بھی ہجرت کرنا پڑی۔ ورسا سنگھ کسی طرح ایک بڑے جتھے کو لے کر امرتسر پہنچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، لیکن اسے دوسرے عزیزوں کی آمد کا انتظار تھا۔ لیکن تبھی اسے پتہ چلتا ہے کہ امرتسر والی گاڑی تو بیچ میں ہی کاٹ دی گئی۔

لیکن ورسا سنگھ کو پتہ چل جاتا ہے کہ گووندی زندہ ہے، گووندی جو زندگی بھر اس سے محبت کرتی رہی۔ اور وہ زندگی بھر جس سے دامن بچاتا رہا۔ گووندی کے لیے اس کے دل میں محبت کا پیدا ہونا کسی معجزے سے کم نہ تھا  —   جب ورسا کو پتہ چلتا ہے کہ گووندی چار گاؤں میں ہے اور یہ علاقہ مسلمانوں کے اختیار میں ہے اور وہاں جانا موت کو دعوت دیتا ہے تو وہ سر پر کفن باندھ لیتا ہے اور چار گاؤں کی طرف کوچ کر جاتا ہے۔ وہاں کے مسلمان اسے گلے سے لگا لیتے ہیں اور گوووندی کو اسے سونپ دیتے ہیں۔

’رات چاند اور چور‘ کا موضوع بھی کم و بیش وہی ہے جو کالے کوس کا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں میلہ جھمیلا تو ہے، لیکن ہولا نہیں ہے  —   رات چاند اور چور عنوان کا تعلق ناول کے اس مرکزی تھیم سے ہے، جب ایک رات چاند بدلیوں میں چھپا تھا، آندھیاں چل رہی تھیں اور سانڈنیوں کے قافلے کے ساتھ ناول کے ہیرو پالا سنگھ نے دوسرے گاؤں پر ڈاکہ ڈالنے کا منصوبہ تیار کیا تھا  —   اس واقعہ یا حادثے کو ناول میں مرکزی حیثیت حاصل ہے  —   کالے کوس کی طرح اس ناول کا ہیرو بھی ڈکیت ہے اور چوریاں کرتا ہے۔ جوانمرد ہے۔ بہادر ہے، بے خوف ہے  —   پالا سنگھ جب سات سال کے بعد گاؤں لوٹتا ہے تو اسے سب کچھ بدلا سا نظر آتا ہے  —   وہ جیل کاٹ کر آیا ہے۔ پھر اسے سب کچھ یاد آنے لگتا ہے —

پالا سنگھ سرنوں سے محبت کرتا ہے لیکن سرنوں شاید کسی اور کی محبت میں گرفتار تھی۔ یہ پرتھی پال سنگھ تھا جو فوج میں ملازم تھا۔ گاؤں آتا جاتا رہتا تھا۔ پڑھا لکھا تھا  —   پرتھی پال بھی سرنوں سے محبت کرتا تھا  —   پرتھی پال ان دنوں گھر آیا ہوا تھا۔ جانے سے پہلے وہ سرنوں کو جو چٹھی لکھتا ہے، وہ سرنوں کی ماں چنداں کو مل جاتی ہے۔ چنداں ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے۔ سرنوں کو اپنے ماں باپ کی اذیت سہنی پڑتی ہے — سرنوں پر تھی پال سے ملتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ وہ اسے بھگا لے جائے۔ لیکن پرتھی پال منع کر دیتا ہے۔

ادھر پالا سنگھ دوسرے گاؤں میں ڈاکے کا منصوبہ بناتا ہے  —   لیکن خدا کا حکم یوجنا ناکام ہو جاتی ہے  —   پالاسنگھ ناکام ہو کر گاؤں لوٹتا ہے۔ ادھر سرنوں کی شادی اس کی مرضی کے بغیر حوالدار سے کر دی جاتی ہے۔

رات کا اندھیرا ہے۔ دھند ہے  —   پالا سنگھ کو کھیتوں کے پاس ایک سایہ نظر آتا ہے۔ یہ پرتھی پال ہے جو اپنی محبوبہ کے دیدار کا خواہشمند ہے۔ غصہ میں ڈوبا ہوا پالاسنگھ پرتھی پال سنگھ کو مار ڈالتا ہے اور اسے سزا ہو جاتی ہے۔

سزا کاٹنے کے بعد وہ سرنوں سے ملنے آتا ہے۔ سرنوں ایک خوبصورت عورت میں تبدیل ہو چکی ہے اس کا ایک چھوٹا سا بچہ ہے۔ وہ پالا سنگھ سے دریافت کرتی ہے۔

 ’’سچ مچ اس غریب نے آپ کا کیا بگاڑا تھا جو آپ اس کی جان لینے پر تل گئے۔‘‘

کہانی محبت کی کشمکش نفرت کی شدت کو عبور کرتے ہوئے جس منزل پر پہنچی تھی، اس سے لگا تھا کہ یقیناً اب کوئی چونکانے والی باتی ہو گی۔ مگر بلونت سنگھ کہانی کو دوسرا ہی موڑ دے دیتے ہیں۔ پالا سنگھ گھر میں اکیلی عورت (سرنوں ) اور اس قدر قریب دیکھ کر بیخود ہو جاتا ہے اور جبراً اسے اپنی ہواس کا شکار بنا بیٹھتا ہے۔

قیامت گزر جاتی ہے تو سرنوں اسے باہر جانے کا اشارہ کر کے دروازہ بند کر لیتی ہے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔

کہانی جب تک اپنے اختتام تک نہیں پہنچی تھی، احساس ہوا تھا کہ ہو نہ ہو سرنوں اب پالا سنگھ سے عشق کا چکر چلائے گی پھر اپنی انتقامی کارروائی پوری کرے گی۔ جب وہ اپنے محبوب پرتھی پال سنگھ کو معصوم اور بیچارہ کے نام سے یاد کرتی ہے تو اس احساس کو مزید تقویت ملتی ہے۔ ممکن ہے بلونت سنگھ کے ذہن میں کمزور عورت کا تصور رہا ہو، جو جنم سے کمزور ہو رہی ہے، مدافعت کی قوت جس میں برائے نام نہیں تبھی تو جیسا ماں باپ نے چاہا سرنوں ویسا ہی کرتی رہی۔ یہاں تک کہ آخر میں اس کے عاشق نامراد نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا اور چلتا بنا  —   اور وہ پھر سے ستی ساوتری بن کر دروازہ بند کر کے بیٹھ گئی۔ یاپالاسنگھ کی معرفت یہ کہنا چاہا ہو کہ مجرم ذہنیت کو بدلا ہی نہیں جا سکتا  —   مجرم، مجرم ہوتا ہے۔ واقعات و حادثات کی ضرب بھی اسے بدل نہیں سکتی۔

’رات چاند اور چور‘ ان کمزوریوں کے باوجود اس پنجاب کی عکاسی کرنے میں مکمل طور پر کامیاب ہے۔ جس پنجاب میں بلونت سنگھ نے ایک مسکراتے ہوئے پنجاب کا تصور کیا تھا  —   ہیمنگ وے کی طرح بلونت سنگھ بھی انسان کی قوت برداشت اس کے ضبط و تحمل، صبر واستقلال اور عزم حوصلے کے قائل تھے  —   وہ انسانی خوبیوں کو اس کی ذات کی گونا گوں صفات میں تلاش کرتے تھے  —   ایک بڑے ناول کے دامن میں واقعات و حادثات کے جو سمندر ہوتے ہیں، وہ سب ان دونوں ناولوں میں موجود ہیں۔ محبت کی جولانیاں، نفرت کی شدت، جنگ، میلے، ٹھیلے، اکھاڑے، کشتی، ڈاکہ زنی، سانڈنیوں کا حملہ، ڈاکوؤں کی زندگی، انسانی فطرت کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ دراصل بلونت سنگھ کہانی کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاں جو ڈرامائی فضا کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ اس کا جواب نہیں۔

بلونت سنگھ کی زبان رواں دواں ہے جب کہ بیدی فلیٹ اور گلیمرلیس زبان استعمال کرتے ہیں۔

بلونت سنگھ کے یہاں بیدی کی طرح تہہ دار معنویت یا پیچیدگی نہیں ہے وہ کردار کی داخلی اور خارجی دونوں محرکات پر زور دیتے ہیں۔ ان کی طرز تحریر روز مرہ میں بولی جانے والی عام بول چال پر مبنی ہے۔

 … وہ حزیان نگاری پر بہت زور دیتا ہے۔ اس کا ہر کردار چہرے مہرے، بولی ٹھالی سے لے کر اپنے مکمل حلیے کے ساتھ قاری کے دل و دماغ پر منقوش ہو کر رہ جاتا ہے۔ فن کار جو کہنا چاہتا ہے اس کی ترسیل کے لیے اسے عمدہ بات کوئی اور دوسری نہیں کہ قاری اس کے کردار کو جسم و روح کے ساتھ محسوس کرے اور اس کی باتوں کی تہہ میں ڈوب سکے۔ یوں تو کردار نگاری میں منٹو کا بھی جواب نہیں۔ مگر مجھے لگتا ہے  —   بلونت سنگھ کو نظر انداز کیا گیا۔

دراصل بلونت سنگھ نے اسی نکتہ کو اپنا وسیلہ اظہار بنایا۔ اپنی تخلیقی ذہانت اور فنی انضباط کے ادراک کے لیے انہوں نے پنجاب کو بطور استعارہ استعمال کیا  —   یہ سچ ہے کہ بلونت سنگھ کے افسانوی بیان میں کوئی تہہ داری یا پیچیدگی نہیں ملے گی۔ مگر ان کے کردار ہماری عام زندگی سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا ضروری ہو گا کہ پنجاب کو موضوع بنانے والے دوسرے فن کاروں کی نسبت ہم سے زیادہ قریب ہیں  —   ہاں ان کے فن کی قدر و قیمت کا جو اندازہ لگایا جانا چاہئے تھا وہ اب تک نہیں لگایا جا سکا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اردو افسانوی ادب میں ان کے مقام کا صحیح تعین ہوسکے۔

٭٭٭

 

عالمی ادب اور حیات اللہ انصاری کا فن

ناول زندگی کا دوسرا نام ہے۔ مگر یہ زندگی اتنی مختصر بھی نہ ہو کہ اس میں کوئی نشیب و فراز ہی نہ ہو۔ اس لیے ناول کو ایک ایسی زندگی سے معنون کرنا چاہئے جس میں ارتقا و منتہی کی تمام داستانیں سمٹ آئیں۔ ایک معمولی آدمی کی زندگی بھی ہزاروں واقعات کا آئینہ ہوتی ہے۔ ایک انسان کی زندگی میں جہاں غم اور خوشی کے سینکڑوں پہلو ہوتے ہیں۔ وہیں اس کے مشاہدات، تجربات اور اس کی فکری و جذباتی صلاحیتوں کا عکس بھی نظر آتا ہے۔ ایک چھوٹا سا بچہ اپنی ماں کی آغوش میں کھیل رہا ہے۔ کون جانتا ہے، ماں کے آنچل میں منہ چھپائے رونے والا شیر خوار بچہ اچانک بڑا ہو کر ایک فوجی میں تبدیل ہو جائے گا۔ اور ملک پر آئی ہوئی آفت کا اس شدت سے جواب دے گا کہ دیکھنے والی آنکھیں بھی تھرا جائیں گی۔ اور پھر تاریخ اس کی کہانی ہر دور میں لکھا کرے گی۔ اس شیر خوار بچے کی مکمل زندگی کو اس کی تمام تر داخلی اور خارجی کیفیت کے ساتھ دلچسپ انداز بیان میں، واقعات کی ایک کڑی کو دوسری کڑیوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے صفحہ قرطاس پر سلیقے سے پیش کرنے کا نام ہی ناول ہے۔

المیہ ہے کہ آزادی کے ۳۸ سال بعد بھی ہماری غریب زبان اردو کے دامن میں پرورش پا رہے تخلیق کار اپنے لہو کی روشنائی سے تخلیق کا حق ادا کرنے کے فرض سے محروم ہی رہے ہیں۔ جس کا ثبوت ہے کہ ہمارا ادب آج تک کسی عالم انعام سے نوازا نہیں جا سکا ہے۔ ذرا دیکھئے تو معلوم ہو کہ خود آزادی کا کینوس ہی اتنا بڑا اور وسیع ہے کہ اگر اس کو صحیح ڈھنگ سے تمام تر سیاسی، تمدنی، معاشرتی اور سماجی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا جائے تو اس سطح پر لکھے جانے والا ناول عالمی ادب کے پیمانے پر پورا اتر سکتا ہے۔

آزادی کے بعد کا جو معاشرہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم جس گھٹن بھری فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ جہاں ہندستان کی آزادی ایک پاکستان کی محتاج ہوتی ہے  —   جہاں پاکستان بھی ٹکڑوں میں بٹ کر ایک بنگلہ دیش بنتا ہے  —   جہاں ترقی کے نام پر ان ملکوں کے درمیان ایک دیوار اٹھ جاتی ہے۔ اور جہاں ہندوستان میں پنجاب کا بھیانک المیہ سامنے آتا ہے۔ ملک کی ممتاز رہنما اندرا گاندھی کو بربریت کے ساتھ قتل کر دیا جاتا ہے۔ جہاں ہر روز ہندو مسلم فساد ہوتے رہتے ہیں۔ جہاں بد نصیب طیارے کے حادثے سے ملک کا سیاسی ڈھانچہ چرمرا رہا ہے۔ واقعات کی یہ کڑیاں ہیں جو ایک دوسرے کو جوڑتی ہوئی نئی تہذیب کا مذاق اڑاتی ہیں۔ یہ فضا بھی ناول کے حق میں ہے کہ اگر سلیقے کے ساتھ اور فنکارانہ طور پر انہیں صفحہ قرطاس پر بکھیرا جائے تو اس طرح کا ناول موضوع کے لحاظ سے کامیاب ہی نہیں ہو گا۔ بلکہ عالمی ادب کا بھی بھرپور احاطہ کرے گا۔ اپنے ماحول اور اپنے عہد سے متاثر ہونا عام سی بات ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ تخلیق کار اپنے ماحول اور اپنی چھوٹی سی دنیا سے کس طور پر اور کس سطح پر متاثر ہوا ہے۔ عالمی سطح پر جتنی بھی تخلیق ہوئی ہے ایسی ہر تخلیق میں ایک پورے عہد کو بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

 کہتے ہیں ناول ایک دور کا نام ہے  —   ایک تہذیب کا نام ہے۔ اس لیے تخلیق کار کا ذہن اتنا وسیع ضرور ہو کہ وہ ایک مکمل عہد کا نچوڑ پیش کرسکے۔ اب چاہے تالستائی ہوں، ترگنیف ہوں، دوستووسکی ہوں،پشکن یا گوگول ہوں یا الکزنڈر سولنسٹین ہوں۔ ان کے ناول اٹھائیے اور پڑھیے۔  وہاں کے سیاسی، سماجی ہر طرح کے حالات کا اندازہ آپ کو ہو جائے گا۔ انقلاب اور عام رجحان کی تفصیل آپ کو معلوم ہو جائے گی۔ پشکن نے سپاہی کی بیٹی لکھا۔ تالستائی نے جنگ اور امن لکھا۔ دوستوفسکی نے بڑھتے ہوئے جرائم کو محسوس کیا تو اس کا حل (Crime and punishment ) میں ڈھونڈھا۔ یہی نہیں اس نے اپنے ملک کے اخلاق، جرائم اور سیاسی وسماجی تبدیلیوں کو محسوس کیا تو ایک سے بڑھ کر ایک کتابوں کی قطار لگا دی۔ ایڈیٹ، برادر کرامازوف،پوزینرڈ۔ سیاسی وسماجی حالات پر طنز کے لیے دوستوفسکی نے احمق کے کردار کو سامنے رکھا۔ یہ احمق ان کے طویل افسانے داسٹوری آف اے ریڈیو کلس مین میں بھی موجود تھا۔ دوستوفسکی نے ایک احمق کردار کا سہارا لیا۔ یہ احمق جو ہوشمندوں اور عقلمندوں کی دنیا میں سب سے بہتر ہے۔ محض اس احمق کردار کے ذریعہ دوستوفسکی اپنے موضوع اور اپنے کینوس کو وسعت عطا کرتا ہے اور پھر اس دائرہ کور وسعت عطا کرتے ہوئے وہ مذہب، سیاست سے سماج کے تمام مسائل پر جامع تبصرہ کرتا ہے۔ اب چاہے( Crime and punishment) کا ر سکولینکو ہو یا وہ ایڈیٹ جو شرفاء کی محفل میں عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے۔ مگر اس کی یہ حرکتیں اس کے مضبوط وجود کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ وہ محض تصور کی وادی میں نہیں بلکہ اپنے وجود کے سہارے جیتا ہے۔ محفل میں لوگوں کی آنکھوں سے بچتا ہوا خوفزدہ ہو کر جب اس کے ہاتھوں سے شراب کا جام چھوٹ کر زمین پر گر پڑتا ہے تو پرنسز اس کی اس حرکت کا بھی لطف لیتی ہے۔ اور اسے کہنا پڑتا ہے کہ ہم لوگوں کے درمیان بظاہر احمق نظر آنے والا یہ شخص سب سے عقلمند ہے۔ خود کو پوشیدہ رکھ کرہی اپنی ذات کے کارنامے دکھائے جا سکتے ہیں۔ آج دنیا میں یہی ہو رہا ہے  —   ہر شعبے میں دوستوفسکی کا احمق داخل گیا ہے۔ دوستوفسکی معمولی آدمی کے درد کو اٹھاتا ہے اور اتنی بلندی تک لے جاتا ہے کہ اس کی ہر تخلیق شاہکار ہو جاتی ہے۔ سولنسٹین نے کینسروارڈ اور گلاگ آرکیپلاگو لکھا۔ یہ ایسے روس کی تصویر تھی جس سے تمام لوگوں نے نفرت اور کراہیت محسوس کی۔ اور بالآخر سولنسٹین کو روس سے بھاگنا پڑا۔ گلاگ آرکیپلاگو میں اسٹالن عہد کی شاندار عکاسی تھی۔ یہاں میرا موضوع یہی ہے کہ ادیب اور شاعر جب تک اپنے عہد سے متاثر نہ ہو وہ کوئی بڑی تخلیق نہیں کرسکتا۔ حیات اللہ انصاری کی یہی خوبی انہیں دوسرے ناول نگاروں میں ممتاز کرتی ہے کہ ملک میں پیدا شدہ تبدیلیوں کا جتنا گہرا اثر انہوں نے قبول کیا، شاید کسی دوسرے نے نہیں کیا۔

یہ حقیقت ہے کہ ناول سے ہماری اور آپ کی دنیا میں تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ روسی ناولوں کو ہی لیجئے تو بہت حد تک روسی معاشرہ پر ان ناولوں نے اپنا اثر ڈالا تھا۔

 ناولوں نے محض عہد کو ہی پیش نہیں کیا بلکہ اچھے نتائج بھی برآمد کیے۔ جہاں تک انقلابی فضا کا تعلق ہے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے درمیان کے یورپ کو دیکھ لیجئے۔وکٹر ہیوگو نے لا میز ریبل میں انسان دوستی کا ایک نیا چہرہ پیش کیا  —   اس کا ایک مشہور ناول نارٹے ڈیم کا کبڑا بھی ہے۔ ایک بوڑھے کبڑے کردار کو وکٹر ہیوگو نے نئی معنویت کے ساتھ پیش کیا۔وہ پیرس کا سب سے بدصورت آدمی ہے۔ اور جس کس ایک حبشی عورت پانی پلا رہی ہوتی ہے۔ اس بوڑھے کردار کے ذریعہ ہیوگو وہاں کی لعنت کو دھونے کی کوشش کرتا ہے۔ پورا فرانس اندھی آنکھوں کا شکار ہو رہا تھا۔ Norte dame کے اس کبڑے کے ذریعہ ہیوگو معاشرتی برائیوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کوشش اس وقت اور زور پکڑتی ہے جب لامیز ریبل میں ایک بدمعاش اچکا ایک پادری کے سایہ شفقت میں آ کر انسانی روح میں داخل ہوتا ہے۔ اور پادری سے بھی کہیں زیادہ عظیم بن جاتا ہے  —   ان ناولوں میں فرانس جھانکتا ہے۔ فرانس کی روح بولتی نظر آتی ہے۔ پورے یورپ کا عکس نظر آتا ہے  —   لوگوں کی ذہنیت ان کے مذاق، لبادے، رہن سہن، مذہبی اثرات، سیاسی سماجی تبدیلیاں۔ ناول پڑھتے جائیے۔ پورا عہد آپ کی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح یکے بعد دیگرے آتا چلا جائے گا۔

ایک بڑے ناول کی پہچان یہی ہے۔ اسی بات پر مجھے نتیتھنل ہیسٹن کے ناول دی اسکارلٹ لیٹر کی یاد آتی ہے۔ یہ ناول انیسویں صدی کے انگلینڈ کو دکھانے کے لیے کافی ہے۔ بیچاری ہیسٹر پرائن جسے شادی سے قبل ماں بن جانے کے جرم میں سزادی جاتی ہے۔ اس کی چھوٹی سی پیاری سی بچی ہے۔ جو پوپ اسے سزا سناتا ہے وہی اس چھوٹی سی معصوم بچی کا باپ ہے۔ عیسائی مذہب کے کٹر قسم کے لوگوں کا مذاق اڑانے کے لیے یہ ناول کافی ہے۔ انتہائی خوبصورت انداز میں لکھا گیا یہ شاہکار اس دور کے حالات، اور زندگی کے تمام شعبوں کو اپنی مضبوط گرفت میں لیتا ہے۔

اگر ہم عالمی ادب کا جائزہ سرسری طور پر لینا چاہیں تو یہ ناممکن سی بات ہے۔ یہ تمہید محض اس لیے  کہ حیات اللہ انصاری کے فن پر گفتگو سے پہلے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ عالمی ادب کا ہلکا سا جائزہ قاری کے سامنے رکھ دیا جائے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے نام ایک پورے عہد کو منسوب کیا گیا۔ جنہوں نے وقت کی رفتار بدلی۔

George orwell ایک ایسا ہی ناول نگار تھا جس نے دو عظیم جنگوں کی فضا میں جب دہشت اور خوف کی فضا کو محسوس کیا تو ۱۹۸۴ جیسا لرزہ خیز ناول لکھ دیا۔

اس ناول کا پلاٹ Animal farm سے کہیں زیادہ وسیع اور عظیم تھا۔ یہاں ایک نمایاں فرق ہمارے اور ان کے ادب کے درمیان دیکھنے میں آتا ہے۔ ہم اپنے خیالات کو محدود کرتے ہیں اور وہ پھیلاتے ہیں۔ اپنے موضوع کو آفاقی بناتے ہیں۔ ہم محض اپنے گھر اپنے وطن کارو نا روتے ہوئے ناول ختم کر دیتے ہیں  —   ہمارے کرداروں میں وہ جان نہیں ہوتی ہے۔ جو ناول ختم ہو جانے کے بعد ہمیں یاد رہ جائیں۔ وہ کردار نگاری پر خصوصی توجہ دیتے ہیں کہ ناول ختم کر دیجئے اس کے باوجود کردار برسوں آپ کے ذہن پر ڈیرہ جمائے رہیں گے اور اپنے نقوش چھوڑ جائیں گے۔

ہمارے یہاں تخیل و بصیرت کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرداروں کاسہارا بھی کم لیا جاتا ہے۔ خیالات محدود اور ناول کا کینوس چھوٹا ہو جاتا ہے۔ مگر یہیں پر Orwell سوچتا ہے۔۱۹۴۸ کے آس پاس وہ یہ ناول تحریر کر رہا ہے۔ اور ۱۹۸۴ میں پیش آنے والی باتیں اس کے سامنے ہیں۔ وہ سلسلے وار ان باتوں پر غور کرتا ہے اور تب ایک واضح نظریہ حیات اس کے سامنے آتا ہے۔اچھے اور برے کا خیال اور ڈکشنری سے لفظوں کو نکال دیئے جانے کی بات سے آپ چونک جاتے ہیں۔ اس مشینی بے راہروی کی فضا میں ایک ڈکٹیٹر ایسا ہی سوچ سکتا ہے۔ اب چاہے بورس سپترناک کی ڈاکٹرز واگو ہو، جوزف کا نریڈ کی دی ہارٹ آف ڈارکنس گرا ہم گرین کی انگلینڈ میڈمی، ہرمان میلر کی موی ڈک، ہیمنگ وے کی دی اولڈ مین اینڈ دی سی — گوگول کی ڈیڈ سول  —   یہ تمام ناول اپنے عہد کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں ہر ناول کی اپنی الگ تکنک ہے۔ الگ انفرادی حیثیت ہے۔ مگر یہیں ایک بات سامنے آتی ہے۔ تخلیق کار جب تک اپنے طور پر مسائل کے اندر نہیں جائے گا۔ حالات کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ نہیں لے گا۔ نیز اپنا ایک الگ نظریہ حیات نہیں دے گا، وہ کوئی بڑی تخلیق نہیں کرسکتا۔ اور نہ ہی اس کی تخلیق کو عالمی ادب کے مقابلے رکھا جا سکتا ہے۔

یہ باتیں میں یوں ہی نہیں لکھ رہا بلکہ ایک ناول نگار کے طور پر میں خود بھی ان پر خطر راستوں سے گزرا ہوں۔ ۱۹۸۲ میں، میں ناول نیلام گھر لکھ رہا تھا۔ اس ناول کے لیے میں دن رات پریشان تھا۔ کرداروں کے انتخاب اور لفظوں کی بھول بھلیوں نے میری راتوں کی نیند چھین لی۔ میری مشکل یہ تھی کہ نیلام گھر کے ذریعہ میں ایک مکمل عہد کو پیش کرنا چاہتا تھا اور یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔

 بیشک عالمی ادب کسی پیمانے کا نام نہیں ہے۔ مگر مغرب کے شاہکار دیکھنے کے بعد اور اپنے ادب کو دیکھنے کے بعد ایک بڑا فرق نظر آتا ہے۔ اور وہی فرق اس سوال کو کھڑا کرتا ہے کہ ہم ان بلندیوں پر کیوں نہیں ہیں جہاں مغرب کے فنکار کھڑے ہیں۔

شیکسپئر سے جیمس جوائز تک ڈرامہ اور ناولوں کی ایک بڑی دنیا آباد ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا ادبی افق کمزور ہے اور ہمارے پاس کوئی نیا فلسفہ بھی نہیں ہے۔ ’’لہو کے پھول‘‘ میں نے بہت عرصہ پہلے پڑھی تھی۔ اور اس ناول کو پڑھنے کے بعد میں نے محسوس کیا تھا کہ میں واقعی کسی عظیم ناول کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ ناول ضخیم ہے۔ مگر لہو کے پھول کاکینواس وسیع ہے۔ اس ناول پر کچھ لکھا جائے اور عالمی ادب کا جائزہ ہی نہیں لیا جائے تو یہ انصاری صاحب کے ساتھ زبردست نا انصافی ہو گی  —   یوں بھی اردو میں ناول لکھے ہی جاتے کہاں ہیں۔ جو تھوڑے بہت ناول ہیں وہ ناول کم تبلیغ، فلسفہ، تقریریں، زیادہ لگتے ہیں۔ کسی نے بھی ملک کے مسائل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ سب سے دلچسپ اور پریشانی والی بات یہ ہے کہ اس غریب زبان نے شاید اس ناول کو بھی قبول نہیں کیا۔ آپ صرف ناول کا نام سن سکتے ہیں۔ یہ ناول آپ کو کسی لائبریری میں بھی نہیں مل سکتا ہے۔

 ہمارے درمیان ایک ایسا فنکار موجود ہے۔ جس نے اپنے عہد کے نشیب و فراز کو سمجھا ہے۔ آزادی کے لیے جدوجہد، تقسیم ہند کے واقعات اور بعد کی پیدا شدہ تبدیلیوں کو اپنے عینک سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ آزادی کا دیوانہ تھا۔ وہ گاندھی کا بھگت تھا۔ ایک خوبصورت ہندستان کے تصور نے اس کے تخلیقی ذہن کو جھنجھوڑ دیا۔ مغربی فنکاروں کے یہاں بھی ہندستان کا ذکر آپ کو مل جائے گا۔ خاص کر پرل اس۔ بک کے ناولوں میں۔ مگر وہ شخص جو خود اس ملک میں رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ اگر اس کے دل میں اپنے وطن کے لیے محبت ہے تو اس کا تصور کیا رہا ہو گا۔ مگر وہ دیکھ رہا ہے کہ انگریزی سامراج کی گرفت۔ ہندستان پر مضبوط اور گہری ہوتی جا رہی ہے  —   ہندستانی عوام پس رہے ہیں۔ غلامی نے ان کے شیشوں کے خواب چکنا  چور کر دیے ہیں۔ یہ جدوجہد کا دور تھا۔ لوگ آزادی کے دیوانے ہو رہے تھے۔ حیات اللہ انصاری بھی اس صف میں شامل ہو گئے  —   لہو کے پھول میں وہ اس بات کا خود اعتراف کرتے ہیں۔

’’اس دور کی حیرت انگیز کامیابیوں میں ایٹمی طاقت کی دریافت اور انسان کا چاند پر پہنچ جانا ہی نہیں بلکہ اہنسا کے زور سے ہندستان کا آزادی حاصل کر لینا بھی ہے۔‘‘

حیات اللہ انصاری کا وہی نظریہ تھا جو گاندھی جی کا نظریہ تھا۔ جو تالستائی کا نظریہ تھا۔ یعنی اہنسا کے اصولوں پر چلو اور اسی راستے سے آزادی حاصل کر لو۔ اسی بات نے ان کے دل میں گاندھی جی کے لیے عقیدت پیدا کر دی۔ اور وہ عقیدت مندوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ جو شخص ملک کی آزادی حاصل کرنے کے فعل کو ایٹمی طاقت کی دریافت اور چاند کی فتح کے کارنامے سے منسوب کرتا ہو  …  آپ سمجھ سکتے ہیں۔ ایسا شخص اپنے آس پاس کے ماحول سے بھی کس قدر با خبر ہے۔ لہو کے پھول، کے پیش لفظ کی شروعات ہی ان جملوں سے ہوتی ہے۔ اور پڑھنے والا محض ان جملوں سے ہی محسوس کر لیتا ہے کہ وہ ایک بڑی تخلیق کا مطالعہ کرنے والا ہے۔

’’لہو کا پھول‘‘ آزادی کے جدوجہد کی کہانی ہے۔ انقلاب کا تصور ہے۔ جو ہندستانیوں کے دلوں میں کیسے جاگا اور کیسے نفرت کا بیج بن کر پھیل گیا۔ یہ بیج کب پھوٹا۔ بغاوت کی صدا کب بلند ہوئی۔ آزادی کے مومنٹو نے کیا کیا کارنامے انجام دیئے۔ یہ ہندستان کی جدوجہد کا البم ہے۔ ایک پورا ہندستان اس میں قید ہے۔ بڑے چھوٹے مسائل، بادشاہ سے لے کر بھکاری تک، اچے لچے، لفنگے، بھک منگے، حسن، عشق فلسفہ، غم خوشی شرافت، خود غرضی، قربانی، محبت، ملال، سیر و تفریح پہاڑیوں کے مناظر، اور اس وقت کے تمام چھوٹے بڑے مسئلے۔ فنکار نے موضوع کے لحاظ سے ناول کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا۔ اردو میں اس نوعیت کا اور اتنا ضخیم ناول آج تک نہیں لکھا گیا۔

ایسا لگتا ہے جیسے انصاری صاحب کسی مغربی سیاح کو جس نے ہندستان کو غلط طور پر لیا ہے، روک کر کہہ رہے ہیں۔ آپ ہندستان میں ہیں، جہاں صرف غریبی نہیں۔ ہاں دیکھ لیجئے  —   صرف غریبی نہیں یہاں سب کچھ ہے۔ وہ سب کچھ جو آپ کے یہاں بھی ہے اور ہر ملک میں ہوتا ہے۔ مگر جس کی تصویر آپ شروع سے ہی غلط پیش کرتے رہے ہیں۔ نواب، راجہ مہاراجہ، والیان ریاست، بھک منگے اور زندگی کا ہر شعبہ، ہر شعبہ کی دلچسپیاں،تفریح گاہیں، محبت، ایثار، وعدہ، وفا، بے وفائی ایک پوری دنیا — فنکار کی عظمت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ اس مختصر سے ڈھانچے کے بعد میں آپ کا ذہن اس جانب موڑتا ہوں کہ آخر وہ کیسے خیالات رہے ہوں گے جو اس ناول کے لکھے جانے کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ ظاہر ہے اختصار میں ہی سہی، مگر اس ناول کا خلاصہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں میں صرف یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ اتنے بڑے کینوس کو سمیٹنے کی ضرورت کیسے پیش آئی۔ آج صرف ۳۸ سالوں میں ہم نے آزادی کو اپنی تخلیق سے جدا کر دیا ہے۔ اور آزادی کے بعد کے مسائل سے دور ہو گئے ہیں۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ اس وقت کیسی کیسی تحریکیں چل رہی تھیں۔ لوگ کیا سوچ رہے تھے۔پیش لفظ سے میں چند اقتباس نقل کرنا چاہوں گا۔

’’جس زمانے میں ہندستان میں عدم تشدد کی تحریک چل رہی تھی۔ اسی زمانے میں عالمی سطح پر تشدد کی بھی آزمائش ہو رہی تھی کہ وہ مسائل کے حل کرنے میں کسی حد تک کارآمد ہوسکتا ہے۔

انگلستان اور فرانس کے سامراج کے مقابل میں جرمنی میں تانیثیت، اٹلی میں فسطائیت، اور جاپان میں فوج پرستی ترقی کر رہی تھی۔ اور اس کی وجہ سے دونوں گروہ میں اسلحہ اور فوج کی دوڑ ہو رہی تھی۔ پھر آگے چل کر اس دوڑ نے دوسری عالمی جنگ کی شکل اختیار کر لی۔ اور وہ بھیانک لڑائی ہوئی جس کی سفاکیاں اور درندگی تاریخ میں مثال بن گئیں۔ لیکن اس کے باوجود جنگ نے کوئی خاص مسئلہ نہیں کیا۔ اس کے برخلاف عدم تشدد نے ہندستان کو آزاد کرا دیا۔ اور ایسی طاقت پیدا کر دی جو بائیس سال سے رجعت پسندی کا مقابلہ کر رہی تھی۔ بہت سے مسائل اس میں شک نہیں کہ عدم تشدد سے حل نہ ہوسکے۔ لیکن اس کے باوجود جو کچھ حل ہو گیا وہ بے حد بڑی چیز ہے۔ سب سے بڑی چیز ہے ایک فنکار کے پاس محسوس کرنے کی اپنی طاقت ہونی چاہئے۔ جس کی عدم موجودگی اسے بڑا فنکار بنانے سے روکتی ہے۔ حیات اللہ انصاری منطقی دلائل تو رکھتے ہی ہیں ساتھ ہی تمام اٹھے ہوئے مسائل پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ پھر ان کا تجربہ کرتے ہیں اور بعد میں دلائل سے کام لیتے ہیں مندرجہ بالا پیراگراف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کے تیور اور شطرنج کی چالوں کی انہیں کیسی سوجھ بوجھ تھی۔ عالمی سیاست پر ان کی کیسی گرفت تھی اور وہ دیکھتے ہیں کہ جنگ کے باوجود کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے۔ یہ عدم تشدد کا جذبہ ان کے ناول کا بنیادی جز ہے۔ اور اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں۔ اہنسا کی تحریک نے ۲۸ سال میں ہندوستان کو آزاد کرا لیا۔ اور پھر ایک ایسی طاقت ور حکومت کی بنیاد ڈالی جو بائیس سال سے مضبوطی سے قائم ہے۔ زمینداری کا خاتمہ، والیان ریاست کا خاتمہ، جمہوریت کا قیام اور اس کے ساتھ سوشلزم اور پنج سالہ منصوبوں کا چلانا ایسے ایسے حیرت انگیز کارنامے بھی اس نے دکھائے ہیں  —   اس کے مقابل میں دوسرے ملک جو ہندستان کے ساتھ آزاد ہوئے تھے، طرح طرح کے انقلابوں اور تبدیلیوں کا شکار رہے۔ اور پھر وہاں کی آزادی اور جمہوریت جلد ہی ڈکٹیٹرس میں تبدیل ہو گئی۔

وقت کے ساتھ ساتھ بہت ساری تبدیلیاں آتی ہیں۔ ظاہر ہے تبدیلیاں ہمارے ملک میں بھی آئی ہیں۔ اس لیے موجودہ ہندستان سے حیات اللہ انصاری کے وقت کے ہندوستان کا موازنہ کرنا صحیح نہ ہو گا۔ ہندستان نے آزادی کے بعد کتنی ہی کروٹیں لی ہیں  —   فرسودہ روایات کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدلا ہے۔ آج پھر ایک عجیب سا خوف ہمارے اندر پلنے لگا ہے۔ غیر محفوظ جذبہ ہمارے سینے میں بیدار ہو گیا ہے۔ صورت حال بدلتی رہتی ہے۔ اور آزادی کے باوجود یہ بھرم قائم رہتا ہے کہ ہم آزاد نہیں ہیں۔ اسی لیے ناول کو اسی پس منظر میں دیکھنا بہتر ہو گا، جس تاریخ دور میں اس  خیال نے حیات اللہ انصاری کے دل میں پناہ لیا  —   تبدیلیاں تو موسم کی طرح ہیں ان کا اثر زندگی کے مختلف شعبوں پر کس طرح پڑتا ہے اور یہ اثر انصاری صاحب اپنے شاہکار میں کس طرح قبول کیا ہے، وہ دیکھیں۔

’’خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہندستان کی اس عظیم جدو جہد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اگر چہ ان میں کم ہی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے سمجھا بھی ہے کہ دیکھنے والوں نے کیا چیز دیکھ لی ہے۔ اور محسوس کیا ہے۔ اس کے مستقبل ساز نتیجوں کو ہندستان کا انقلاب ایک عجوبہ روزگار چیز تھا۔ اس نے قوم کے کردار کے ساتھ ساتھ فرد کے کردار کو بھی اونچا کیا۔ اس ۲۸ سالہ انقلابی دھارے نے ہندستان کی زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا ہے۔ تہذیب کے خشک مقاموں کی آبپاشی کی ہے۔ اور بنجر زمین کو روئیدگی کے قابل بنایا ہے۔ صرف سیاست میں ہی نہیں بلکہ اقتصادیات سماجیت، اخلاقیات اور عام رہن سہن ہر چیز میں نمو پیدا ہو گیا۔‘‘

دیہاتوں اور شہروں کی خلیج مٹ گئی۔ ہریجن ابھرنے لگے۔ ہندستان کے اصل مسائل یعنی غریبی، مکاری، جہالت، فرقہ واریت، صوبہ واریت، اور دوسری چیزیں سب مایوسی سے نکل کر حل کی تلاش میں بھٹک گئیں۔ اوب پر اخلاقیات اور فکر پر بھی گہرا اثر پڑا  —   ظاہر ہے موضوع کے لحاظ سے ’’لہو کے پھول‘‘ کا کینوس کتنا بڑا تھا۔ ہندستان کی آزادی اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے اثر کو دکھانے کے لیے یہ بیحد ضروری تھا کہ ایک بڑے کینوس کا انتخاب کیا جائے  —   جس میں صرف وطن اور وطن کے مسائل ہی نہ ہوں۔ بلکہ حیات و کائنات کے فلسفے کو پیوست کرنے کی بھی گنجائش ہو۔ انقلاب پورے ملک کے ڈھانچے کو بدل دیتا ہے۔ عام رہن سہن سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں ایک نیا تغیر و انقلاب آ جاتا ہے۔ ہر دور کی ایک تاریخ ہوتی ہے اور یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہر دور کو محفوظ کیا جائے  —   تاکہ آنے والی نسلوں کی رہبری ہوسکے۔ ناول کا یہ عظیم مقصد صرف جدوجہد آزادی اور آزادی کے بعد اٹھے ہوئے سوالوں کا جواب ہی نہیں دیتا بلکہ ایک ضروری سوال بھی کھڑا کرتا ہے۔

’’مگر کیوں محفوظ کیا جائے اس دور کو؟‘‘

’’کیا صرف اس غرض سے کہ عالمی عجائب گھر میں ایک عجوبہ کا اضافہ ہو جائے۔‘‘

افسوس صد افسوس ہم ایک خوبصورت ہندستان کا تصور لے کے چلے تھے۔ مگر یہ تصور فرقہ واریت کے راکچھس نے ختم کر دیئے۔ کوئی دور خوبصورت نہیں ہوتا۔ ہر دور کی یہ خوبی ہے کہ چند اچھی کہانیوں کے ساتھ بری اور خونی کہانیوں کی داستانیں بھی ان کے سینوں میں موجود ہوتی ہیں۔ ہندستان آزاد ہو گیا۔ آزادی کے متوالوں نے اپنی جان پر کھیل کر مادر وطن کی لاج تو رکھ لی۔ مگر رام راج کاسنگ بنیاد نہیں نہیں رکھ سکے۔ آزادی کے بعد کا یہ ماحول خود حیات اللہ انصاری کے سامنے بھی تھا۔ وہ پیش لفظ میں خود ہی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔ ’’انسان تاریخ کے تجربوں سے سبق سیکھتا تو ہے۔ لیکن معمولی سا سیکھتا ہے۔ اور جو سیکھتا ہے وہ بھی بہت سی ادھر ادھر کی چیزوں  جدھر بھی نظر دوڑائیے انسان کی کمزوری کی مثالیں مل جائیں گی۔ فرقہ واریت کی وجہ سے ہی ہندستان تقسیم ہوا ہے۔‘‘

لیکن اس پر بھی فرقہ واریت زندہ ہے۔

ناول کا موضوع اگر صرف فرقہ واریت ہوتا تو ہم اسے ایک کمزور ناول قرار دے سکتے تھے۔ فرقہ واریت کہاں نہیں رہی ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہے۔ ہر ملک میں اس کی جڑیں مضبوط ہیں۔ ظاہر ہے یہ مسئلہ ایسا ہے جس کے حل ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔

ہم ارتقا کے ایسے دہانے پر پہنچ چکے ہیں جہاں اب ہم تہذیب یافتہ ہونے کے عمل سے نہیں گزر سکتے۔ حیات اللہ انصاری ان سے الگ گوشت پوست کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ اس خوبصورت خواب کو جسے بہ انداز تعبیر آزادی کہا گیا، انصاری صاحب ایک خوبصورت جسم میں قید دیکھتے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اتنی کم مدت میں آزادی کے اس خوبصورت خواب کو فراموش کر دیا گیا۔ کیا یہ انتہائی افسوس کی بات نہیں کہ ایک شخص وطن کے لیے قربانی پیش کرتا ہے۔ اور آپ اس کی قربانی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ جس نے قربانی دی، قربانی کے بعد یاد رکھے جانے کا فعل اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا مگر اس کے ساتھ ساتھ رہنے والی اور دیکھنے والی آنکھیں جب محسوس کریں گی کہ اسے بھلا دیا گیا ہے تو کیا وہ اسے برداشت کرنے کے بے رحم عمل سے گزر سکیں گی۔ ہم کتنے سرد ہو گئے ہیں کہ اب بدن میں کوئی چنگاری باقی نہیں۔ مشینی پتلوں کی طرح جذبات واحساسات سے بیگانہ کر دیا ہے۔ اب ضرورت ہے پھر ایک گوشت پوست والے بدن کی کہ اسے سمجھا جائے اور زندگی کی گرمی کو محسوس کیا جائے۔ حیات اللہ انصاری آگے لکھتے ہیں۔

’’ہندستان کی جدوجہد آزادی ہندستان کی تاریخ کا جز بن چکی ہے۔ اور نصابی کتابوں میں داخل ہو چکی ہے۔ لیکن تاریخ چاہے جتنی اچھی لکھی گئی ہو وہ زندگی کی نقاشی میں ناکام رہتی ہے۔ ہم تاریخ کے محتاج ہیں اور اس کے پڑھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن میں جب کوئی ایسا واقعہ تاریخ کی کتابوں میں دیکھتا ہوں جس سے خود گزر چکا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی شخص سرجن کی میز پر بے ہوش پڑا ہے اور نشتر اس کے اعضا کو کاٹ کر الگ کر چکے ہیں۔ وہ زندہ تو ہے لیکن ثابت جس اور کردار کے بغیر، کیا تاریخ اس طرح نہیں لکھی جا سکتی کہ وہ گوشت پوست کے ساتھ زندہ ہو جائے اس سے سبق آموز واقعات نتائج نکالے جا سکیں اور جو آنے والی نسلوں کے لیے ڈکشنری کا کام دے۔‘‘

لہو کے پھول صرف آزادی کی جدو جہد کا البم ہی نہیں ہے بلکہ انسانی جدوجہد کی داستان بھی ہے۔ ایک چھوٹی سی زندگی سچ،جھوٹ، نفرت، زندگی، موت اور جنگ کے کتنے ہی فلسفوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ ایک جنگ ختم ہوتی ہے اور دوسری جنگ کی شروعات ہو جاتی ہے۔  خدا نے کن کہا اور تب سے لے کر آج تک ہم فیکون کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اور سب کچھ وہی ہے۔ وہی غلامی۔ آزادی۔ پھر غلامی پھر جنگ۔ صورت حال وہی رہتی ہے، نقشے بدلتے رہتے ہیں۔ حیات اللہ انصار تحریک آزادی کے اس عہد سے گزرے ہیں جس سے گزرنے والے اگر اپنے آپ کو خوش قسمت ٹھہراتے ہیں تو غلط نہیں  —   انہوں نے غلامی دیکھی ہے۔ آزادی بھی اور آزادی کی جنگ میں حصہ بھی لیا ہے۔ صرف حصہ ہی نہیں لیا بلکہ یہ سوچتے بھی رہے کہ آزادی کے لیے کون سا راستہ بہتر ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے جس کی آنکھوں کے سامنے پورا ملک ہو۔ ملک کی پوری تہذیب، پورا معاشرہ، پوری تحریک ہو، ایسا ادیب اپنے عہد سے وابستہ مسائل کو اٹھانے کی کوشش کرے گا تو ظاہر ہے اس کے قلم سے شاہکار ہی جنم لے گا۔

’’میں سوچنے لگا کہ کیوں نہ ایک ایسا ناول لکھوں جو میرے نقطہ نظرسے ہندستان، ہندستانی عوام، جدوجہد آزادی اور لیڈروں کو پیش کر دے۔‘‘

 غرض کہ یہ کام آسان نہ تھا  —   ایک پورے عہد کو سمیٹنا بلا شک و شبہہ ایک بڑا کارنامہ تھا۔ یہ کام وہی کرسکتا ہے جو پوری طرح سے اس تحریک میں شامل رہا ہو۔ وہ خود کہتے ہیں۔

’’آزادی کی جدوجہد میرے لیے ایک ذاتی سی چیز ہے۔ کیونکہ میں اس میں شامل رہا ہوں۔‘‘

یہاں میرا موضوع یہی تھا کہ میں یہ دکھا سکوں کہ ہندستان میں عالمی پیمانہ کو سامنے رکھ کر کوئی کتاب لکھی گئی ہے یا نہیں۔حیات اللہ انصاری کے فن نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔ لہو کے پھول بیشک ایک بڑا کارنامہ ہے۔ مگر جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ صورت حال بدلتی رہی۔ آج پھر ہندستان خراب دور سے گزر رہا ہے۔ حیات اللہ انصاری نے جس ہندوستان کا تصور کیا تھا وہ تصور شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ یہاں مجھے البیر کامو کی یاد آتی ہے۔ اور اس کے مشہور ناول دی پلیگ کی۔ ناول کے آخر میں ڈاکٹر ریوکس سوچ رہا ہے  —   ملک پر آیا ہوا خطر ہ ٹل چکا ہے۔ جس بحران اور عذاب سے پورا ملک دوچار تھا۔ لوگ مر رہے تھے۔ پلیگ نے انسانی ذات کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ مگر یہیں سے ایک جنگ شروع ہوتی ہے۔ فطرت سے انسان کی جنگ۔ اور انسان اپنی فتح کے لیے ہر بار لڑ نا سیکھ جاتا ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہیمنگ وے کے سمندر اور بوڑھے آدمی کی طرح پلیگ میں بھی انسان کی فتح ہوتی ہے۔ لیکن کیا پلیگ ختم ہو گیا — ؟ ناول کے آخر میں ڈاکٹر ریو کو کہنا پڑتا ہے  —   پلیگ پھر آئے گا۔ جب تم برائیاں کرو گے۔ نفرت پھیلاؤ گے۔ ایک دوسرے کا قتل کرو گے۔ اور تمہاری یہی برائیاں، تمہاری نفرتیں پلیگ بن کر پھر سے نازل ہوں گی۔ اس ناول کے آخر میں بھی یہی سوال کیا گیا ہے۔ کیا غلامی ختم ہو گئی۔ پندرہ اگست ۱۹۴۷ کی آزادی کے بعد ملک تو آزاد ہوا لیکن کیا ذہنی اور جسمانی طور پر ملک کے رہنے والے بھی آزاد ہوسکے — ؟ اس کا جواب ہے۔ نہیں۔ آزادی کی جدوجہد ابھی بھی باقی ہے۔ لہو کے پھول میں انصاری صاحب نے اسی نازک مسئلے کو اٹھایا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج بھی لہو کے پھول اور خواجہ احمد عباس کے شہرۂ آفاق ناول’’ انقلاب‘‘ پر گفتگو کے دروازے ابھی تک کھلے نہیں ہیں۔

نوٹ: (یہ مضمون ۱۹۸۴ میں، معلم اردو کے حیات اللہ انصاری نمبر میں شائع ہوا۔ اس وقت میری عمر ۲۲ سال تھی اور حیات اللہ انصاری حیات تھے۔ ۱۹۸۵ میں، میں دہلی آ گیا۔ اور انصاری صاحب سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ م۔ع۔ذ)

٭٭٭

 

حامد سراج کا ناول ’’میّاُ‘

ماں …

میّا …

آنکیں کھلتے ہی، آنکھوں میں بسنے والا سب سے پہلا ’’روپ متی‘‘ چہرہ اِسی میّا کا ہوتا ہے۔ لیکن ماں کا دکھ کس نے دیکھا ہے۔ ماں کا سکھ کس نے جانا ہے____ شری کرشن کی بنسریا چپکے چپکے، ایک سفید جھوٹ کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے___

’میاّ موہے، میں نہیں ماکھن کھایو … ‘

لیکن میاّ تو صاف دیکھ رہی ہے۔ بال شری کرشن کے ہونٹوں پر مکھن لگا ہے …  اور شری کرشن اپنی میاّ سے صفائی پر صفائی دیے جا رہے ہیں۔ ’میں تو گائے چرانے مدھوبن میں گیا ہوا تھا۔ دوستوں سے پوچھو___ سانجھ ڈھلے واپس آیاؤ ____میاّ موہے، میں نہیں ماکھن کھایو …

محبوب نے اپنے عشق سے دریافت کیا____ بولو، تمہیں کیا چاہئے۔؟

عشق نے امتحان لیا____ ماں کا دل لے آؤ

رات آدھی سے زیادہ گزر گئی۔ آسمان پر ستارے واپسی  کے آدھے راستے طے  کر چکے ہیں ____ محبوب کے ہاتھوں میں خنجر چمکتا ہے____ ماں بستر پر غنودگی کے عالم میں سوئی پڑی ہے____ محبوب کا خنجر، ماں کے سینے کے آر پار اُتر جاتا ہے۔ ہاتھوں میں ماں کا دل ہے …  وہ ’دلِ بیتاب‘ سے ملنے کی آرزو لئے آگے بڑھتا ہے____ ٹھوکر لگتی ہے____ ماں کے دل سے آواز آتی ہے____ بیٹا، تمہیں چوٹ تو نہیں لگی____‘

پیار تو دونوں کرتے ہیں۔ باپ بھی اور ماں بھی____ لیکن ’میاّ‘ کی کہانیوں سے صفحے در صفحے آباد ہیں۔ باپ میں ایک ذمہ دار وجود سانس لیتا ہے تو ماں، بچے پر نہال ونہال____ بچہ چاہے جیسا بھی ہو، اچھا بُرا۔ چور ڈاکو۔۔ یا پھر____ ماں تو ماں ہوتی ہے____ عمر کے ’ڈینے‘ نکلتے ہی، پرواز کے آسمان ناپتے ہی، ہوا میں ہولے ہولے اُڑنے تک، بچہ، ماں کی نظر میں بچہ ہی رہتا ہے۔۔ یعنی کائنات کا ایک ننھا سا کھلونا____ ماں دیکھتی ہے اور آنکھوں میں ایک نہ ختم ہونے والی چمک، ایک کبھی نہ بجھنے والی مسکان پیدا ہو جاتی ہے____

میاّ کے مطالعے سے گزرنے کے بعد میں ہفتوں سو نہیں پایا____ وہ رات بے قراری کی رات تھی۔ میں بالکنی پر آ گیا۔ دیر تک ٹہلتا رہا۔ ہاتھوں میں سگریٹ مچلتا رہا۔ ایک کے بعد ایک____ سامنے آسمان کھلا تھا۔ ستاروں کی چادر تنی تھی۔ مگر میں کیا دیکھ رہا تھا۔۔ بہت سے چمکتے، ننھے منے ستاروں میں سے، کسی ایک ستارہ میں، کس کی جھلک دیکھنے کو بیتاب تھا____ اندر کے کسی گوشے میں چپکے سے ایک آواز تھرائی____ ماں۔۔

ڈیر حامد سراج!

میں تو فکشن لکھتا تھا____

تم نے میاّ لکھ دی____ ماں کبھی فکشن، نہیں ہوتی۔ ماں تو بس ماں ہوتی ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی____

مومن کا زمانہ ہوتا تو کہتا____ ’’میرا سارا دیوان لے جاؤ۔ مجھے میاّ دے دو۔‘‘

 ڈیر حامد سراج، جن کے پاس میاّ ہوتی ہے، وہی جانتے ہیں کہ اُن کے پاس دنیا کی کتنی بڑی طاقت ہے ____وہ کسی سے بھی مقابلے کے لئے تیار ہوسکتے ہیں۔ برسوں پہلے سلیم جاوید نے ایک فلم لکھی تھی ____دیوار ____امیتابھ کی زندگی میں یہ فلم ایک میل کا پتھر ثابت ہوئی۔ اِس فلم میں دو بھائی تھے۔ مفلسی اور ظلم سے لڑتا ہوا ایک بھائی انڈرورلڈ کا سرغنہ بن جاتا ہے۔ دوسرا بھائی ششی کپور ایک پولیس انسپکٹر۔ سرغنہ کے پاس آرام وآسائش کے سب سامان ہوتے ہیں۔ ایک بار وہ اپنی دولت کی چمک، کو بھائی کے سامنے گنواتا ہوا پوچھتا ہے____ میرے پاس بنگلہ ہے، گاڑی ہے، دولت ہے، تمہارے پاس کیا ہے؟

بھائی جواب دیتا ہے____ ’’میرے پاس ماں ہے۔‘‘

شاید ماں پر لکھنا سب سے مشکل کام ہے۔ 1983 کے آس پاس کا زمانہ رہا ہو گا جب میری ماں دنیا کی تمام آرام وآسائش کو ٹھکرا کر ہمیشہ کے لئے وداع کی گھاٹیوں میں اُتر گئی۔ عرصہ گزر گیا____ مدتِ مدید کی تھکن اوڑھنے کے باوجود آج بھی وداع کی گھاٹیوں میں پلٹ کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی____ 21-22 برس گزرنے کے بعد بھی، آج بھی یہ عالم ہے کہ پلٹ کر البم سے ماں کی تصویر دیکھی نہیں جاتی۔ ماں چپکے سے، لاشعور کے ایک گوشے میں رکھ دی گئی ہے۔ یہ گوشہ کھولتے ہوئے بھی ڈر سا محسوس ہوتا ہے۔ ماں ہے، مگر نہیں ہے۔ ماں کہیں نہیں ہے۔ احساس اور البم کی تصویروں میں بھی____ کیونکہ وہاں سے ممتا کی جو سڑک شہر خموشاں تک جاتی ہے، وہاں تک تنہائی کے اداس قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے بھی ہول آتا ہے____!

لیکن مائی ڈیر حامد سراج، تم نے یہ معرکہ طے کیا ہے۔ گو کہ یہ کہانی ماں سے شروع ہو کر ماں پر ہی ختم ہو جاتی ہے اور کیسی نازک حقیقت کہ اِس کہانی میں جو جدوجہد ہے، کشمکش ہے، وہ Survival for Existence  کے لئے نہیں، بلکہ ماں کے لئے ہے۔ جو جنگ ہے وہ مارکس یا اِشتراکی نظرئیے کے لئے نہیں بلکہ ماں کے لئے ہے____ شاید یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جہاں ایک بڑی جنگ صرف ماں کے لئے لڑی جا رہی ہے____ ماں جو زندگی اور موت کی کشمکش میں بیٹے کے لئے دنیا کی سب سے بڑی جنگ بن گئی ہے____ اور ایسے موقع پر دنیا کے سارے فلسفے سو گئے ہیں اور اگر کوئی فلسفہ باقی ہے تو صرف ___ماں !

’’میں نے لوح دل پر تیرا نام لکھا …  تم کو پکارا …  آواز دی

ماں …

اور میری آنکھوں میں سمندر اُتر آئے

قلم کی ناؤ بے رحم سمندر کی سفاک موجوں کا کہاں تک مقابلہ کرے … ؟

یوں لگتا ہے دل کے توے پر لفظ جل گئے ہیں۔

جلے ہوئے لفظوں کی راکھ میں انگلیاں پھیرتے ان گنت قرن گزر گئے۔

آج پھر …

میں دشت تنہائی میں آبلہ پا بے سائبان کاندھے پر یادوں کی زنبیل اُٹھائے سایہ، خنجر کا متلاشی سوچ رہا ہوں کہ ماں کے بعد بھی کیا کہیں کوئی سایہ ہوتا ہے؟‘’

’’ ماں …

تمہیں پت جھڑ کے موسموں میں ہی جانا تھا۔

تمہارے بعد موسم نہیں بدلے

تمہیں لحد میں اُتار کر پلٹے تو زمانے بدل گئے تھے

ہم متروک عہد کے انسان دوبارہ غار کی تلاش میں ہیں۔

ایک ہی موسم ہی پت جھڑ …  کا …

ماں تم موجود تھیں …  تو …  کانٹے پھولوں میں بدل جایا کرتے تھے۔‘‘

ماں، جو زمین اوڑھ کر سوگئی____ جس کے جاتے ہی موسم پت جھڑ کا ہو گیا____ دھوپ غائب اور آنگن میں خاموشی اُتر آئی____ حامد سراج نے اردو فکشن کی تاریخ میں ’میاّ‘ لکھ کر ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے، جو اِس سے قبل کسی بھی قلم کار کے حصے میں نہیں آیا تھا۔ فرانز  کفکا اگر باپ کی یادوں کو تحریری شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں گلے شکووں کے ’طوفان‘ کے علاوہ احساس و جذبات کی وہ حکایت خونچکاں نہیں ملتی جو حامد سراج کی تحریر میں پائی جاتی ہے۔ میاّ فکشن نہیں ہے۔ ایک ایسی درد بھری سچائی ہے، جس سے گزرنا بھی جگر والوں کا ہی کام ہے۔ یہ ہم سب کے لئے ایک بے مثال تحفہ ہے اور جی کرتا ہے کہ سرحد کی دیواریں گرا کر میاّ کے خالق کو زور سے لپٹا لوں کہ یار من، تم نے میاّ کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیا ہے____ میکسم گورکی کی ماں تو مزدوروں کی تھی ____

لیکن تمہاری میّا تو مزدوروں کی بھی اور ہم سب کی میّا ہے____

تم نے تو میّا میں ’صدیاں ‘ رکھ دیں ____

تم نے میّا کو فکشن کی لازوال بلندیوں پر پہنچا دیا____

یار من، لیکن اتنا تو بتا دو۔ کہ تم نے لکھا کیسے …

کوئی بھی فنکار ماں کو کیسے لکھ سکتا ہے …

ماں تو فکشن ہی نہیں ہے____ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ماں کبھی مری ہی نہیں، تم نے تو میّا کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیا ہے____

٭٭٭

 

نند کشور وکرم کا ناول ’انیسواں ادھیائے‘

(  مذہب کا جبر یا تسلی خُدا کی )

آزادی کے ۶۲۔۶۱ سال گزر گئے ہیں لیکن زمانے کے سرد و گرم دیکھتی ہوئی یہ زبان مری نہیں۔زندہ رہی۔اس زبان کا جادو برقرار رہا۔اپنے دیش میں حاشیے پر ڈال دئے جانے کے باوجود اُردو کی مٹھاس عام بول چال سے فلموں میں اپنا اثر دکھاتی رہی۔آج بھی جگجیت سنگھ،پنکج ادہاس کی آواز میں اُردو شاعری کو پسند کرنے والے موجود ہیں۔جو تنہائی میں گاڑی چلاتے ہوئے،کبھی اپنے دوستوں میں شاعری کے بہانے، اُردو زبان کے لئے اپنی ’’خاموش پسندیدگی‘‘ کا اظہار کر دیتے ہیں۔اسی لئے چھوٹے بڑے شہروں میں مشاعرے آج بھی زندہ ہیں۔یہاں تک کہ  ٹی وی چینل بھی مشاعرے دکھاتے ہوئے اپنی ٹی آر پی کا اندازہ  جانتے ہیں کہ اُردو اُن  کے دیش کی زبان ہے۔اور یہ بھی کہ اُردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں یہ تو پورے دیش کی زبان ہے۔شاید اسی لئے  بُرے سے بُرے حالات میں بھی اُردو کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔بلکہ اس کے چاہنے والوں کا دائرہ  بڑھتا  ہی جا رہا ہے۔

اس’’ تمہید‘‘ کی ضرورت یوں پڑی کہ آج ’’اُردو جگت‘‘ کے ان صفحات پر اُردو کے ایک ایسے عاشق دیوانے کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں جس کی دیوانگی، قیس سامری سے کچھ زیادہ  … جنون، حضرت فرہاد سے دو قدم آگے اور اُردو سے محبت رانجھا سے کہیں زیادہ رہی ہے۔جیسے ایک سیلابی ندی ہوتی ہے یا سنامی کی لہریں۔جو نہ آگے دیکھتی ہیں نہ پیچھے۔بس سب کچھ بہا کر لے جاتی ہیں۔شاید اُردو انہی عاشقوں کی بدولت ہی زندہ ہے۔

اُردو کے اس عاشق، قیس،فرہاد اور رانجھے کا نام ہے … نند کشور وکرم۔

ہندی سے اُردو اور اُردو سے ہندی میں شاید جتنے کام وکرم صاحب نے کئے ہیں کسی اور نہ کئے ہوں گے۔اپنی ساری زندگی دیوانگی اور جنون کے نام کر دی۔قرۃ العین حیدر کی موٹی موٹی کتابوں سے ہندوستان اور پاکستان کا اب تک لکھا گیا شاہکار،خاموشی سے ہندی کی جھولی میں ڈال دیا۔تین درجن سے بھی زائد کتابوں کا ترجمہ کم نہیں ہوتا اور ترجمہ بھی ایسا اور اس محنت کے ساتھ کہ قاری کو تخلیق کے ساتھ ساتھ مصنف کے بارے میں بھی پوری معلومات مل جائے۔

وکرم صاحب شروع سے ہی اُردو اور ہندی دونوں زبانوں کے لئے پُل کا کام انجام دیتے رہے ہیں … لیکن بے حد خاموشی کے ساتھ۔

۱۷؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کو راولپنڈی، پاکستان میں پیدا ہوئے نند کشور وکرم کا دونوں زبانوں  سے لگاؤ جنون کی حد تک ہے۔وہ ایک مدت تک  پبلی کیشنز  ڈویژن کے  رسالے ’’آج کل‘‘ سے وابستہ رہے ہیں۔کہانیاں لکھیں،ناول لکھے۔مگر زندگی کا مقصد بس ایک ہی رہا۔دونوں زبانوں کے ادب کو ایک دوسرے کے قریب کیسے لایا جائے۔ظاہر ہے ترجمہ یا انوواد کوئی آسان کام نہیں۔فرہاد کے پتھر تراشنے اور نہر نکالنے سے بھی کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔سارا دن اور ساری رات انوواد اور ترجمے کے حوالے کرنا۔کیا منٹو،عصمت،کرشن چندر،منٹو ممتاز مفتی، انتظار حسین،منشا یاد، شاید ہی اُردو کا کوئی بڑا نام ہو جس کے ترجمے نہ کئے ہوں۔اسی طرح ہندی کے بڑے ادب کو مستقل اُردو میں پہنچانے کی کارروائی جاری رہی۔کرشنا سوبتی سے نرمل ورما تک کی تحریریں اردو رسائل کی زینت بنتی رہیں ۔ہندوستان سے پاکستان تک ان کے تراجم چھپتے رہے۔

لیکن وکرم صاحب کو انعام و اکرام کی پروا کبھی نہیں رہی۔اور المیہ یہ رہا کہ جن کی جیبوں میں  یہ انعام رہے وہ اُردو کی سیاست  تو کرتے رہے لیکن ادب کے ایسے سچے مسافر کی طرف بھولے سے بھی دیکھنا جنہوں نے کبھی گوارا نہیں کیا۔۸۰ سال کی عمر میں بھی وکرم صاحب  پر بوڑھاپے کی ذرا بھی آنچ نہیں آئی۔اُن کا جوش آج بھی دیکھتے بنتا ہے۔ابھی حال ہی میں وہ ۳َدسمبر ۲۰۰۸ء کو اپنی اہلیہ کے ساتھ راولپنڈی پاکستان چلے گئے۔۸۰ سال کی عمر میں جہاں شاید تیرتھ یاتراؤں پر جانے کی خواہش ہوتی ہے،وکرم صاحب کے لئے راولپنڈی جانا کسی  تیرتھ یاترا سے کم نہیں تھا۔راولپنڈی میں اُن کے ایک دوست رہتے ہیں گلزار جاوید جو راولپنڈی سے ’’ چہار سو‘‘ نام کا ماہنامہ نکالتے ہیں۔اس رسالے کی  ہر شمارہ میں ایک خصوصی گوشہ ہوتا ہے۔ دیویندر اسر، شہر یار، گوپی چند نارنگ سے لے کر نند کشور وکرم تک یہ رسالہ کتنے ہی ہندوستانی ادیبوں پر خصوصی گوشے شائع کر چکا ہے۔گلزار نے اس یاترا کا پروگرام تیار کیا۔پنجہ صاحب، پنڈی،لاہور، اسلام آباد کوری۔پنڈی اور کوری  ایسے مقامات تھے جہاں وکرم صاحب کا بچپن گزرا تھا۔۸۰سال کی عمر میں ایک بار پھر اپنے بچپن کو دیکھنا، بھولی بسری یادوں میں گم شدہ چہروں کی پہچان کرنا،کتنا عجیب لگتا ہے۔وہ کوری اور پنڈی میں اُن تمام جگہوں پر گئے جہان بچپن کی ننھی منی شرارتیں سانسیں لیا کرتی تھیں۔وہ کنواں جہاں بچپن کے شرارتی قدم چلتے چلتے رُک جایا کرتے تھے، وہ آج بھی ہے۔وہ وہاں سے لوٹ تو آئے لیکن اُن یادوں کی ایک سی ڈی(CD) بنا کر لے آئے کہ گزری یادوں کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کیا جا سکے۔

بٹوارہ دوسروں کی طرح وکرم صاحب کے لئے بھی ایک ناسور ہے جسے وہ اس عمر تک کبھی بھول نہیں پائے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی کہانیوں سے، اُن کے ناولوں تک میں اس ’’ناسٹلجیاُ‘ کو بار بار دیکھا جا سکتا ہے۔پاکستان سے ہجرت،اُردو سے والہانہ لگاؤ اور خود کو آج بھی کوری کے اُس گھر میں محسوس کرنا جہاں نہ پائے ہیں نہ ستون اور نہ کمرے۔ صرف یادوں کی صورت میں صرف زمین رہ گئی ہے۔یہی یادیں اُن کے ناول ’’یادوں کے کھنڈر‘‘ میں ان کے دکھتے زخموں کی داستانیں شدت سے بیان کر جاتی ہیں۔

وکرم صاحب ۱۹۸۴ ء سے ’’عالمی اُردو ادب‘‘  نامی رسالہ نکال رہے ہیں۔اب تک اس کے ۲۸ شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ہندی قارئین کے لئے اس  جریدے کا تعارف کرانا بھی کسی کرشمے جیسا ہے۔ایک اکیلا آدمی جو کوئی ادارہ ہے نہ کسی سے مدد لیتا ہے ایک ایسا جریدہ قاری کے لئے مرتب کرتا ہے جس میں گزشتہ سال کے ادب سے متعلق سبھی ریکارڈ درج ہوتے ہیں۔ہندوستان  سے پاکستان تک نثر نظم تنقید و تحقیق میں کتنی کتابیں شائع ہوتی ہیں،تمام اُردو دنیا سے وفات پانے والے ادیبوں کی  پوری جانکاری ؍ مکمل سوانحی حالات۔اُردو کی حصول یابیاں۔ یونیورسٹیوں میں طلباء کے ذریعے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے لئے لئے گئے موضوعات کی مکمل رپورٹ۔اس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اُردو لائبریریوں اکادمیوں کے کاموں کی پوری تفصیل اور مزے کی بات یہ کہ ایسی تفصیلات میں ہندوستان یا پاکستان شامل نہیں بلکہ پوری دنیا میں اُردو جہاں کہیں بھی ہے،آپ اس کے بارے میں عالمی اُردو ادب کے ذریعے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اور تعجب یہ ہے کہ  ایک اکیلا آدمی پورے سال دوڑ دھوپ کر کے خطوط لکھ کر ایسی رپورٹ اکٹھی کرتا رہتا ہے۔

او ر شاید اسی لئے میں نے ’’اُردو جگت‘‘ کے اس کالم میں ایسے آدمی کا ذکر ضروری سمجھا ہے جو ایک ادارے کی طرح کام کر رہا ہے۔اُردو سے متعلق آپ کچھ بھی جاننا چاہیں کسی بھی ادیب، صحافی نقاد کی تصویر اگر آپ کو کہیں نہیں مل رہی ہے تو وکرم صاحب کے خزانے میں مل جائے گی۔

 جو کام اکادمیاں یا بڑے بڑے ادارے نہیں کر رہے وہ وکرم صاحب اکیلے کر رہے ہیں۔اُردو(ہندوستان سے پاکستان) سے جُڑے  ہر بڑے کتھا کار کی کتابیں (سن ۱۹۵۰ء کے آس پاس) آپ کو ہندی میں مل جائیں گے۔وہ کتابیں جو نہ آپ کو راج کمل، میں ملیں گی نا وانی پرکاشن میں۔اندر پرستھ پرکاشن(اشوک شرما) کے لئے وکرم صاحب نے اپنی جو خدمات پیش کی ہیں وہ ہمیشہ یاد رکھنے وا الی ہیں۔ کیونکہ بھارت کے کسی بھی بڑے  اشاعتی ادارے نے اردو کتابوں کا ایسا نایاب ذخیرہ آج تک کبھی شائع نہیں کیا۔

عالمی اُردو ادب  کے ساتھ ہر سال وکرم صاحب منتخب افسانوں کی ایک کتاب بھی شائع کرتے ہیں۔یہ اُس سال کے  شاہکار افسانوں کا انتخاب ہوتا ہے۔اس انتخاب میں کم و بیش ۱۶ افسانے ہوتے ہیں جن میں  تقریباً آٹھ افسانے پاکستانی رسائل سے اور آٹھ اُردو کے ہندوستانی رسائل سے لئے جاتے ہیں۔

۸۰ سال کی عمر میں بھی ادب کو لے کر اُن کے  جوش میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔وہ ایک دم ترو تازہ ہیں۔مستقبل میں اپنے قارئین کو دینے کے لئے اُن کے پاس نئے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ فی الحال وہ اُردو اور ہندی کے نئے ادیبوں کی تحریروں کے پروگرام کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔

’انیسواں ادھیائے‘ !حقیقت یہ ہے کہ میرا اور اس کتاب کا برسوں کا رشتہ ہے۔مَیں دوستی  میں سرحدوں اور عمر کا قائل نہیں۔دہلی آنے کے بعد،شروعات کے دو تین مہینوں میں ہی،جن دوستوں کا بے پناہ پیار میرے حصے میں آیا اُن میں وکرم صاحب بھی ایک تھے۔ اس طرح دہلی میں ابھی پاؤں جمنے بھی نہ پائے تھے کہ قدم خود بخود جے۔۶ کرشن نگر کی طرف اُٹھ گئے۔۱۹۸۵ سے آج تک یعنی سن ۲۰۰۲ء تک ہمارے آپس کے تعلقات کا جائزہ لیجئے تو سترہ بہاروں اور سترہ خزاؤں کا حساب ملتا ہے۔اور آپ جانتے ہیں سترہ برسوں کی دوستی کم نہیں ہوتی۔

پچھلے دس برسوں میں ’انیسواں ادھیائے‘ کے بارے میں، وکرم صاحب سے کچھ نہ کچھ سنتا آ رہا تھا۔مَیں شری کرشن جی کا بھکت ہوں اور بھگوت گیتا کا مطالعہ برسوں میرے حصے میں رہا ہے اور مجھے قدم قدم پر اس الہامی کتاب نے چونکایا بھی ہے۔بھگوت گیتا کے اٹھارہ ادھیاؤں  میں زندگی اور موت کا فلسفہ قید ہے۔وحدت الوجود اور وحدت الشہود سے لے کر زندگی اور نروان کے ایسے ایسے مارگ گیتا میں دکھائے گئے ہیں کہ عقل دنگ حیران رہ جاتی ہے۔

جب پہلی بار وکرم صاحب نے ’’انیسواں ادھیائے‘‘ کا ذکر کیا تھا تو میری کوئی خاص دلچسپی اس کتاب میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ’’ انیسواں ادھیائے ‘‘ کے طور پر وکرم صاحب آخر کیا پیش کر سکتے ہیں ؟لیکن آہستہ آہستہ جو کچھ سامنے آ رہا تھا وہ مجھے چونکا دینے کے لئے کافی تھا۔ان دس برسوں میں متعدد موقعوں پر وکرم صاحب نے مجھے اس کے ابواب  سنائے۔ انجام …  موت … خُدا  … ایسے کتنے ہی عنوان اپنی گہرائی اور شدت کے ساتھ،سمندر کی تیز لہروں کی طرح،مجھے بہاتے ہوئے دُور لے گئے۔

سوچتا ہوں کیا یہ وہی وکرم صاحب ہیں جو ہر بات پر مسکراتے رہتے ہیں۔ممکن ہے گیتا  کے اِن فلسفوں کو نئی صدی کے تناظر میں دیکھنے والی اُن کی آنکھیں،ہر لمحہ اپنے محاسبہ اور تجزیہ میں لگی رہی ہوں۔ممکن ہے عمر کے پاؤں کافی دُور نکل آنے کے فلسفے نے اچانک ان اٹھارہ ادھیاؤں میں ایک نئے اور خوبصورت ادھیائے کا اضافہ کر دیا ہو۔

’انیسواں ادھیائے‘ پہلے صفحہ سے ہی حیرانیوں کی دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔ایک طرف دھرت راشٹر ہیں دوسری طرف سنجے۔ آپ دنیا کو کیسی آنکھ سے دیکھنا چاہتے ہیں گجرات جیسے المیہ سے دو چار آنکھیں دھرت راشٹر کا مطالبہ کرتی ہیں۔اور سنجے سے دور رہنے کو کہتی ہے۔وہاں بھی ایک کورو کھشیتر تھا اور یہاں بھی ایک کورو کھشیتر تھا۔کل کی مہابھارت  کے لئے ارجن اور شری کرشن مل گئے تھے۔آج کی مہابھارت میں کون ہے؟ میڈیا … سیکولر پارٹیاں یا … ؟

خُدا کے وجود پر یقین نہ رکھنے والے نند کشور وکرم کے لئے زندگی اور موت کے یہ فلسفے کیسے ہیں ؟یہ دنیا کیسی ہے؟دنیا کا رقص کیا ہے،سیاروں کا فلسفہ کیا ہے،خزاں کی رُت کیسی ہے،دن کا اُجالا اور رات کی خاموشی کیسی ہے،دنیا کا سناٹا اور مذہب کی وادیاں کیسی ہیں۔ تسلی کیا ہے۔خدا کیا ہے، اقرار کیا ہے، انکار کیا ہے۔فلسفہ ویدانت سے آگے نکل کر فکر کی یہ کشتی کسی ایک سمندر کا رُخ نہیں کرتی۔یہ سارے سمندروں کا پانی پی کر امر بن جاتی ہے … وہ سوالوں کے ’اگنی گربھ‘  میں اُتر جاتے ہیں اور دھرت راشٹر کی طرح سنجے سے کہتے ہیں،دیکھو کورو کھشیتر میں کیا چل رہا ہے؟ اور سنجے اپنے خیالات کے اسکرین پر جو کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں،وہ سب کچھ دھرت راشٹرکو بتانا شروع کرتے ہیں۔

۷۳۔۷۲ سال کی زندگی میں وکرم صاحب نے زندگی کو جیسادیکھا اور جو کچھ محسوس کیا،زندگی سے متعلق جیسے جیسے سوالوں سے گزرے، وہ سارے سوال’انیسواں ادھیائے‘ کے طور پر قاری کے سامنے رکھ دئے۔دراصل یہ سوالات اُن کی زندگی بھر کی کمائی ہے۔زندگی بھر کا حاصل۔یہ اُن کے اب تک کے تجربوں کا نچوڑ ہے۔ … ایک ایسی اندھیری سرنگ جہاں کسی بھی مذہب والے کے لئے  بھٹکنے،گُم ہونے  کے تمام راستے یا بھول بھلیاں موجود ہیں۔اس لئے کسی کمزور دل والے قاری کواس کتاب کا مطالعہ بہت سنبھل سنبھل کر کرنا چاہیے،ورنہ ممکن ہے اس ’گجراتی عہد‘ میں جہاں ہر لمحہ گاندھی پر گاڈسے حاوی ہوتا جا رہا ہے،خُدا سے بے یقینی کی فضا اور مذہب سے بیزاری کا جذبہ پیدا ہوتا جا رہا ہے۔یہ کتاب اچانک آپ کو ایک گہرے سناٹے میں محصور کر لے … اس طرح کہ جب آپ باہر آئیں تو آپ بھی وکرم صاحب کی سطح پر سوچتے ہوئے،اپنے لئے تسلی کے الگ نروان کا راستہ اختیار کر لیں۔

یہ سوچنا ضروری ہے کہ وکرم صاحب نے آخراس انوکھی کتاب کو لکھنے کا فیصلہ کیوں کیا؟یہ ایک بہت ہی اہم سوال ہے(وقت اور مدت گزرنے کے ساتھ ہی اس کتاب کا ایک اتہاس بننا طے ہے)اس لئے آگے بھی،مستقبل کے محقق ان امور پر کھل کر گفتگو کریں گے کہ آخر وہ کون سے مسائل رہے ہوں گے جب وکرم صاحب  نے ’انیسواں ادھیائے‘  جیسی مشکل کتاب کو لکھنے کا فیصلہ کیا ہو گا۔اور یقیناً اس کتاب کے گہرے مطالعے  کے بعد مَیں پختہ یقین کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ تقسیم اور ہجرت کے واقعات نے اپنے جو نقوش وکرم صاحب کے ذہن پر مرتب کئے،اُن سے بچ بچا کر گزر جانا ممکن نہیں تھا۔اپنے طویل مضمون ’فرقہ واریت …  کچھ شیڈس ‘ میں مَیں نے تفصیل سے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس وقت،اس ہنگامی صورتِ حال میں جو ادب تحریر ہوئے،وہ جذباتیت اور فرقہ واریت کی عینک سے تحریر ہوئے۔کرشن چندر سے لے کر احمد ندیم قاسمی تک … جو بچ گئے جیسے رامانند ساگر وغیرہ۔۔۔تو بعد میں اندر کے فرسٹریشن یا نام نہاد سیکولر زم کے ختم ہوتے ہی یہ بھگوا رنگ میں رنگتے چلے گئے لیکن … تقسیم اور آزادی  کے بعد کے برسوں میں وکرم صاحب لگاتار سوالوں کے پُلِ صراط سے گزرتے رہے۔ممکن تھا یہ آپ بیتی انہوں نے آج سے چالیس پچاس سال پہلے مکمل کی ہوتی تو اس میں وہ رنگ نہ آ پاتا جو آج پیدا ہوا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ وکرم صاحب نام نہاد سیکولرزم کی باریک رسی پر نہیں چلے۔وہ اندر باہر دونوں طرف سے مضبوط تھے،مذہب کے جبر سے انسان کو آزاد کرانے کی کوشش نے،جو سوالات پیدا کئے تھے،وہ آہستہ آہستہ ’انیسواں ادھیائے‘ میں پھیلتے چلے گئے۔

بھگوت گیتا کے اٹھارہ ادھیائے کے بعد۔۔۔یہ انیسواں ادھیائے۔جدید زندگی کا  ننگاسچ کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔اور درحقیقت اُنیسواں ادھیائے کے ایک ایک لفظ میں رن بھومی کا وہ مہابھارت چُھپا ہے کہ سنجے کی دور درشٹی بھی کانپ اُٹھتی ہے۔اور دھرت راشٹر چِلا اُٹھتے ہیں۔’’بھگوان ان آنکھوں میں پرکاش کبھی مت دینا۔

حیات و ممات سے گزرتے ان انیس ادھیاؤں میں نند کشور وکرم نے اپنے انوکھے تجربات کی وہ دھوپ رکھ دی ہے جس کی ایک ایک کرن اپنے قاری کو جلانے یا  جھلسانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔

برسوں پہلے مَیں نے الکزنڈرسونسٹن کی کتاب پڑھی تھی۔’’کینسر وارڈ‘‘۔ گلاگ آرکیپالگو ‘‘ دونوں میں مجموعی طور پر ایک ہی فضا تھی۔یعنی پہلی بار میں ہر باب الگ الگ کہانیوں کے حصے معلوم ہوتے تھے،لیکن اُن کے مکمل مطالعے سے’ایک بھیانک  سچ کے پُلِ صراط ‘سے گزرنا پڑتا تھا۔۔دیکھا جائے تو نند کشور وکرم یہاں اس معاملے میں الکزنڈر سونسٹن کے کافی قریب ہیں۔یہاں بھی انیسواں ادھیائے زندگی کے الگ الگ فلسفوں سے گزرتے ہوئے یہ تاثر دے جاتے ہیں کہ،جیسے یہ الگ الگ کہانیاں ہوں لیکن قاری جب ان ادھیاؤں کی آگ کے دریا سے گزر چکا ہوتا ہے تو اپنی روح میں اُترتے ہوئے  … سارترے کےIron in the Soul  سے بچنے کا کوئی سا بھی راستہ اُس کے پاس نہیں ہوتا ہے۔

ہم گجرات،نریندر مودی اور جارج فرنانڈیز کے جس عہد میں داخل ہوئے ہیں،ہم ’اڈوانی فلسفے کے جس ’ بھگوا رنگ‘سے ہر روز مرتے ہوئے گزر رہے ہیں،وہاں اس کتاب کی اہمیت ہمارے نزدیک اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ صرف ایک کتاب یا آپ بیتی نہیں ہے ایک ایسی کڑوی سچائی ہے جس کے لئے ہمیں کچھ دیر ٹھہر کر سوچنا چاہیے۔

اگر اسے مبالغہ آرائی نہ سمجھا جائے تو ’انیسواں ادھیائے ‘میں اپنی تلاش (مَیں کون ہوں ؟) سے خدا کی تلاش تک کا یہ سفر ایسا انوکھا اور بھیانک ہے جو ادب میں بہت دنوں تک گفتگو کے نئے دروازے کھولنے میں کامیاب رہے گا اور اُردو ادب میں ایک ناقابلِ فراموش اضافے کا باعث ہو گا۔

٭٭٭

 

نادیدہ بہاروں کی تلاش: اکیسویں صدی اور عورت کا نیا منظرنامہ

اکیسویں صدی کی شروعات ہی اہم ناولوں سے ہوئی ہے۔ پاکستان اور ہندستان دونوں ملکوں میں جس رفتار سے ناول لکھے جا رہے ہیں، ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پاکستان کا منظرنامہ دیکھیے تو عاصم بٹ سے لے کر مستنصر حسین تارڑ، مرزا اطہر بیگ، زاہد حسن، صلا ح الدین عادل، شمشاد احمد جیسے بے شمار نام ہیں، جن کے تخلیقی سوتوں نے ناول نگاری کے فن کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ ہندستان کی بات کریں تو اکیسویں صدی  کی ابتدائی دہائی میں ذوقی (لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ) پیغام آفاقی (پلیتہ) غضنفر (مانجھی) نور الحسنین (ایوانوں کے خوابیدہ چراغ)رحمن عباس (تین ناول)، اختر آزاد (لیمنٹیڈ گرل)، ترنم ریاض (برف آشنا پرندے)، ثروت خان کے دو ناول اور بے شمار ناول سامنے آئے۔ یہاں اہمیت اس بات کی ہے کہ ان میں کئی ناول ایسے ہیں جو تخلیقی اعتبار سے متنوع رنگ اور حیات و کائنات کے نئے فلسفے کو پیش کرتے ہیں۔ ورجینا الف، سیمون دبوار، جین آسٹن سے لے کر اردو میں قرۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی تک عورتوں کے مختلف رنگ دیکھے جا سکتے ہیں۔ قرۃ العین کا ادب تہذیب و  تمدن سے گہری وابستگی کا اعلان تو کرتا ہی ہے، تہذیب کے ختم ہونے کا ماتم بھی کرتا ہے  —   لیکن ظاہر ہے، اکیسویں صدی کی شروعات تک یہ دنیا پوری طرح سے بدل چکی ہے۔ آج کی عورت وہ عورت نہیں ہے جسے قرۃ العین چاندنی بیگم اور سیتارامچندانی کے طور پر دیکھ رہی تھیں۔ ارتقاء کی ریس میں یہ عورت کہیں بھی مردوں سے کم تر نہیں ہے۔

شائستہ فاخری نے اپنے ناول نادیدہ بہاروں کی تلاش میں در اصل عورت کو مردوں کے حصار سے باہر نکالا ہے۔ وہ اکیلے رہ سکتی ہے۔ بغیرکسی مرد کے سائبان کے  —   وہ اکیلے جی سکتی ہے۔ وہ اکیلے ہی مسائل کے ایورسٹ کی چوٹیاں سر کرسکتی ہے۔ وہ اکیلے ہی اپنے بچوں کی پرورش کرسکتی ہے۔ اور اسے دنیاوی کسی بھی معاملے میں کسی مرد کی ضرور نہیں ہے۔ کیونکہ عورت کمزور وہاں ہوتی ہے، جہاں وہ مرد کی ضرورت اور طلب محسوس کرتی ہے۔ لیکن عورت جب مرد کی ضرورتوں کو خارج کر کے اپنا الگ مقام بنانا چاہتی ہے، اس وقت اس کا رول کیا ہو گا  —   اور یہی وہ پڑاؤ ہے جہاں شائستہ فاخری نے اپنے ناول کو وہ عروج دیا ہے  —   اور میں کہہ سکتا ہوں کہ شائستہ نے علیزہ کو اتنا مضبوط کردار سونپ دیا ہے کہ شاید ہی مضبوطی کی کوئی رسم اس کے بعد باقی رہ جاتی ہو۔

ناول کی شروعات تو شب آخری چراغ آفریدم سے ہوتی ہے۔

’صبح کی جھل مل روشنی میں

مچھلیاں سطح آب پر تیرتی تھیں۔

دل دور

آسماں دور

سمندر دور

موسم و گل کا انتظار کرو‘

موسم و گل کی تلاش میں مسکراہٹ، محبت اور فنا کی لازوال کہانی شروع ہوتی ہے۔ ننھی سی ایلیزا ہے۔ اپنے عالیشان گھر میں بھٹکتی ہوئی ایک روح۔ لیکن اس روح کے حصے میں صرف گھٹن آئی تھی۔ گھر کی چہار دیواری کسی قید خانے سے کم نہیں تھی۔ علیزہ کی شادی فرحان مرزا سے ہوتی ہے تو وہ محسوس کرتی ہے، اسے ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے میں بھیج دیا گیا ہے۔ لیکن وہ اس بات سے خوش تھی کہ شاید ہر لڑکی یہی نصیب لے کر آتی ہے۔ ایک بیحد ڈرامائی موڑ پر علیزہ کی زندگی میں اعیان آتا ہے۔ اور فرحان مرزا علیزہ کو طلاق دے دیتے ہیں۔ لیکن اچانک ہی انہیں اپنی بھول کا احساس ہوتا ہے۔

وہ دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس بھول کے لیے فرحان مرزا کو اعیان کا ساتھ چاہئے تھا۔ اعیان مرزا کی بے رخی اور کمزوری علیزہ میں ایک نئی عورت کو بیدار کرتی ہے۔ ایک ایسی عورت کو جسے علیزہ نے اپنے بچپن میں ہی دیکھ لیا تھا  —   مگر کسی حد تک اس چہار دیواری میں اس نے اس عورت کا گلہ گھونٹ دیا تھا۔ علیزہ ایک خطرناک فیصلہ کرتی ہے اور اپنی بچپن کی سہیلی اور دوست کی مدد سے ایک ایسا تجربہ کرتی ہے، جو صرف اردو ناول ہی نہیں دنیا کے کسی بھی زبان کے لیے، کسی بھی ناول نگار کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ وہ ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ حاملہ ہوتی ہے۔ علیزہ پیدا ہوتی ہے۔ اور نئی زندگی کے خواب علیزہ کی زندگی میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن کہانی یہاں مکمل نہیں ہے۔ یہ کہانی مکمل تب ہوتی ہے جب علیزہ اپنا گھر بناتی ہے۔ اپنا گھر  —   ایک خوبصورت خوابوں کا گھر۔ ایک مضبوط گھر۔ سوال ہے، شائستہ فاخری نے ناول کو یہاں لا کر کیوں ختم کیا ہے — ؟ اور یہی جواب علیزہ کے کردار کو وہ مضبوطی دے جاتی ہے، جس کے بارے میں سوچنا بھی محال لگتا ہے  —   پہلے اپنے گھر کی بندشیں۔ کسی بھی بڑی ہوتی لڑکی کے لیے ایک گھٹن بھری چہار دیواری۔ شناخت کا مسئلہ۔ اور اپنے ماں باپ کے گھر کے بعد شوہر کا گھر۔ ایک دوسرا قبرستان۔ اور یہاں بھی شناخت کا المیہ۔ علیزہ کو اپنی مضبوطی اور شناخت کے لیے ایک گھر بھی چاہئے تھا جہاں وہ مردوں کے سماج پر یہ دعویٰ ٹھوک سکے کہ آج کی نئی تہذیب میں یہ عورت کچھ بھی کرسکتی ہے۔ وہ اپنے خوابوں کا گھر بھی بنا سکتی ہے —

اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں شائع ہونے والا یہ ناول عورت کے وجود اور کردار کو نئے انداز سے متعارف کراتا ہے۔ یہ عورت کی فتح کی کہانی ہے۔ اور میرے خیال میں یہ کہانی عورت کی زبانی اب تک نہیں لکھی گئی تھی۔

٭٭٭

 

آدمی، سماج اور خدا  (خدا کے سائے میں آنکھ مچولی پر ایک مذاکرہ)

 ٍ           بلند اقبال: کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ انسانی سماج اور حیوانی سماج میں کیا فرق ہوتا ہے؟ انسانی سماج اور حیوانی سما ج میں انسانیت کا فرق ہوتا ہے۔لیکن انسانیت تو evil genius ہوتی ہے۔ میں   Catherine Jinns   کے ناول Evil Genius کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں بات کر رہا ہوں واقع انسانی مزاج کی۔ انسانی سماج اور حیوانی مزاج میں فرق ہوتا ہے۔ حیوان جب غصے میں آتا ہے تو وہ واقع غصے میں آتا ہے اور جب پیار کرتا ہے تو وہ واقع پیار کرتا ہے،مگر انسانوں کے ساتھ مسئلہ ذرا مختلف ہے۔ انسان جب پیار کرتا ہے تب ضروری نہیں کے وہ پیار کرتا ہے۔ جب نفرت کرتا ہے تب ضروری نہیں کے نفرت کرتا ہو۔ جب غصہ کرتا ہے تب ضروری نہیں کے غصہ کرتا ہو۔  مطلب انسان کے جھوٹ، انسان کی سچائیاں، دشمنیاں، نفرتیں اور پیار میں بہت فرق ہوتا ہے۔ انسانی مزاج ذو معنی ہوتا ہے۔ انسان کے اندرونِ خانہ ان کے کچھ اور معنی ہوتے ہیں۔انسانی مزاج کے ان ہی رویوں کی وجہ سے ایک ذومعنی اور دوغلی سوسائٹی پیدا ہو گئی ہے۔ایک ایسی سوسائٹی جس میں انسان کا پتہ نہیں چلتا۔ بات صرف یہاں تک ہوتی تو اور تھی لیکن انسان کا مسئلہ کچھ اور آگے بڑھ گیا ہے۔ انسان نے خدا کے ساتھ بھی کچھ ایساہی دوغلا رشتہ بنا لیا ہے۔ انسان اور خدا کے درمیان بھی ایک چارسوبیسی کا رشتہ پیدا ہو گیا ہے۔ خدا ایک  external force ہے یا  internal force یہ بحث نہیں ہے یہ علیحدہ نظریات ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ یکسٹرنل یا انٹرنل فورس ہوں  تب بھی خود کو دھوکا دینے والی بات بن جاتی ہے۔ خود کو دھوکا دینے یا قدرت کو دھوکا دینے والی بات بھی ایک عجیب بات ہے۔ انسان یہاں بھی کچھ عجیب نظر آتا ہے۔ ایک طرف ہم عباد ت کر رہے ہوتے ہیں دوسری طرف ہم چوری چکاری، رشوت خوری  اور برائی کر رہے ہوتے ہیں۔ عبادتوں کو بھی ہم نے بنیا کے ترازو میں بدل دیا ہے۔ایک پلڑا بدی سے بھرا ہوا چلا ہے اور دوسرے پلڑے میں ہم قدرت کو عبادتوں سے راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ میں گزشتہ کئی دنوں سے انسانی مزاج کے اس پہلو پر غور و فکر کر رہا تھا کہ آخر خدا کے ساتھ ہمارا یہ کیسا رشتہ ہے ؟ ہمارا رشتہ اس قدر چارسوبیسی والا اور دوغلا کیوں ہے؟ کیا واقع خدا کے ساتھ ہمار ا کوئی رشتہ ہے؟ایک مذاکرہ اس موضوع  پر کرنا تھا کہ آخر وہ  key words  کیا ہیں۔

            اسی دوران میرے پاس بمبئی سے رحمن عباس کا ناول ’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی ‘ آیا۔ یہ خوبصورت ناول اسی موضوع پر لکھا گیا ہے۔ چنانچہ یہ دو باتیں ایک ساتھ جمع ہو گئیں۔ رحمن عباس کے اس ناول کی خوبی یہ کے وہ اس موضوع پر بے رحمانہ انداز میں بحث کرتا ہے۔۔ رحمن عباس نوجوان ناول نگار ہیں۔ اس ناول سے پہلے ان کے دو ناول’ نخلستان کی تلاش‘ اور ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘ کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔ ’ خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘ ان کا تیسرا ناول ہے۔ اس ناول کی چند سطریں ملاحظہ ہوں۔ پھر ہم اس ناول اور اس کے موضوع کے حوالے سے مشرف عالم ذوقی اور نعمان شوق سے بھی گفتگو کریں گے۔ دیکھیں گے وہ اس ناول کے بارے میں، انسان اور قدرت کے درمیان جاری رشتے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ جو کہیں نہ کہیں چارسوبیسی والا رشتہ ہے۔ عبدالسلام اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ رحمن عباس لکھتے ہیں :’عبدالسلام کے مطابق خدا سب کی ڈھال ہے اور چوری چوری چپکے چپکے سب کے ساتھ تھوڑا بہت وقت گزار لیتا ہے۔ توگڑیا، اڈوانی اور مودودی کا خدا ہے۔اسامہ، صدام اور ملا عمر کا خدا ہے۔ جارج بش، پوتن اور ٹونی بلیر کا خدا ہے۔ میڈونا، مادھوری دکشت اور کرشمہ کپور کا خدا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ آدمی سوچتا ہے جب تک دوسرے اسے احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے وہ بے آدمی ہے۔ اس احساس کو برداشت کرنے کی صفت انسانی ذہن نے ابھی ایجاد نہیں کی ہے۔ انسان خدا سے کٹ کر خود کر دریافت کرنے کی اجتماعی کوشش کم از کم مزید ۵  ملین برسوں تک نہ کر پائے۔ یا شاید کبھی نہ کر پائے۔ مگر انسان خدا سے جڑا بھی تو نہیں رہتا۔ وہ خدا کو شلوار کی طرح پہن لیتا ہے۔ تلک کی طرح لگا لیتا ہے یا ٹوپی کی صورت اوڑھ لیتا ہے۔ یا مزار کی صورت اس کے گرد قوالیاں منعقد کرتا ہے۔ خدا کو استعمال کرتا ہے، اپنے آپ کو سماج میں مناسب مقام دلوانے کے لیے، قبولیت کے لیے۔۔گویا صحرائے زندگی میں خدا ایک چادر ہے جو ہمارے سروں پر ہمیشہ رہے۔ ڈر ہے اس سائے سے باہر نکلتے ہی دھوپ کی تمازت سے ہمارے دلوں کے نرم ریشے تحلیل ہو جائیں گے۔‘ (صفحہ نمبر۲۵)

دوستوں اب ہم  مشرف عالم ذوقی صاحب سے بات کریں گے۔

            بلند اقبال۔ مشرف عالم ذوقی دلی سے ہمارے ساتھ ہیں۔ ذوقی صاحب آج Password  پروگرام میں خدا اور اس کے انسان کے ساتھ رشتے پر بات کر رہے ہیں۔

            مشرف عالم ذوقی: بلند صاحب یہ خوشی کا مقام ہے کہ ان دنوں ہمارے یہاں بہت سارے ناول لکھے جا رہے ہیں، مثلاً پیغام آفاقی کا ناول ’ پلیتہ‘، غصنفر کا’ مانجھی‘، شائستہ فاخری کا ناول’ نادیدہ بہاروں کے نشان‘، نورالحسنین کا ناول اور رحمن عباس کا یہ ناول جس پر آج ہم بات کر رہے ہیں۔ رحمن عباس کے اس ناول کے بارے میں میرا یہ خیال ہے کہ یہ ایک مشکل ناول ہے اور کئی قرأت کا مطالبہ کرتا ہے اگر آپ  نے  Oscar Wilde  کے ناول پڑھے ہیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آسکر وائلڈ کے ناول کی طرح یہاں بھی قدم قدم پر پر اسراریت کے ساتھ فلسفوں کے دھند بھی نظر آتی ہے۔ یہ ناول پہلی قرأت میں ’ خدا کی بستی‘ کی یاد تازہ کراتا ہے۔ خدا کی بستی کوئی بڑا ناول     نہیں تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ’خدا کی بستی‘ پانچ سوسے زائد صفحات پر مشتمل تھا اور رحمن عباس کا یہ ناول آرنسٹ ہیمنگ وے کے ناول   The old man and the Sea  کی طرح محض سو صفحات پر مشتمل ہے۔ مگر جیسے ’بوڑھے آدمی اور سمند ر ‘  کو اس کے موضوع کے لحاظ سے ہم آج بھی یاد کرتے ہیں اسے طرح رحمن عباس کے ناول کو بھی اپنے موضوع کے لحاظ سے برسوں یاد کیا جائے گا۔ ایک بات اور بھی ہے ’خدا کی بستی‘ کا کینواس چھوٹا تھا۔’ خدا کی بستی‘ میں ڈکنس کے ناولوں کے طرز پر کردار بحال کئے گئے تھے۔مگر موضوع میں فکر کے عناصر کم تھے۔ رحمن عباس کے اس ناول میں فکر حاوی ہے اگر اس کےclauses  کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے سائے میں آنکھ مچولی کھیلنے والوں نے خود کو محبت سے دور کر دیا ہے۔ بلند اقبال صاحب، اصل میں اس ناول کا موضوع یہی’ محبت ‘ہے۔ اسی لیے عبدالسلام جیسا کردار، دنیا کی عیار ی اور مکاری سے گزرنے کے بعد آخر میں اپنے لیے موت کا انتخاب کر لیتا ہے۔

            بلند اقبال: صحیح! میں جو باتیں کرنا چاہتا تھا وہ ناول کا بھی موضوع ہے۔ ہمارا قدرت سے رشتہ اس قدر دوغلا کیوں ہے۔ یہی بنیادی موضوع ناول کا بھی ہے۔

            مشرف عالم ذوقی: اگر آپ نے اس ناول کا مطالعہ کیا ہے تو آخر میں ایک جملہ آتا ہے کہ محبت نہ ہو تو آدمی دل کے پراسرار کنویں میں گر کر مر جائے گا۔ اصل میں یہ جملہ اس ناول کی کلید اور کنجی ہے۔دیکھا جائے تو مکمل ناول اس جملے کے ارد گرد گھومتا ہے۔ یہ جملہ عبدالسلام کی ڈائری میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ اسی طرح ایک اور جملہ بہت اہم ہے کہ’ خدا کے بغیر اس تنہا زندگی میں معنویت کو ن پیدا کر سکتا ہے۔ سوائے محبت کے‘۔۔۔ یہاں اشارہ واضح ہے۔جب ہم محبت کرتے ہیں تو خدا کے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ عشق عبادت ہے۔ یہ ناول بڑا ہے، بہت بڑا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی ‘ کو لے کر رحمن عباس بہت آگے تک نکل تو گئے لیکن آگے چل کر وہ ایک جگہ چک گئے اور انھوں نے عبدالسلام کی ذات کو مار ڈالا۔ مجھے لگتا ہے اگر وہ اس کردار کو نہیں مارتے۔۔تو پھر اسی کا ایک دوسرا پہلو ہے کہ دنیا آج بھی اتنی خراب نہیں ہے۔یہاں آج بھی بہت اچھے لوگ بستے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ رحمن عباس کے ناول کے کردار عبدالسلام کو( اس کے معیار کے مطابق )جو لوگ ملے وہ بہت اچھے لوگ نہ ہوں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسی خدا کے سائے میں سیاست بھی چل رہی ہے۔ اسی کے سائے میں نفرت، عیاری اور مکاری کی داستانیں بھی لکھی جا رہی ہیں۔میرا سوال یہی ہے کہ عبدالسلام (جو بہت خوب صورت کردار ہے) اس کو وہ چیزیں۔۔۔جو اسے زندگی سے قریب کرسکتی تھیں، کیا نظر نہیں آئیں ؟ جب کہ اس کی محبت بھی شامل تھی اور بہت ممکن تھا کہ اگر وہ اپنی محبت کو بہت positive  انداز میں لیتا تو وہ موت کے راستے کا انتخاب نہیں کرتا۔

            بلند اقبال: ذوقی صاحب !ناول کے حوالے سے آپ نے دلچسپ باتیں کی ہیں۔ اچھا تجزیہ پیش کیا ہے۔ میرا آج کا سوال بھی یہی ہے کہ ہمارا خدا سے رشتہ اتنا کمزور کیوں ہے۔ برائے راست کیوں نہیں ہے۔ کوئی کمینٹ؟

            مشرف عالم ذوقی: میں ایک بات اور کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے یہاں جو ناول ان دنوں میں آئے ہیں مثلاً پیغام آفاقی کا ناول  ’پلیتہ‘ اس میں بھی کردار ہے مر جاتا ہے بلکہ اس کی موت کے بعد کہانی شروع ہوتی ہے۔ یہاں بھی یہی بات ہے کہ عبدالسلام مر جا تا ہے۔    خالد جاوید کا ناول ہے’ موت کی کتاب‘ اس میں بھی ایک طرح کی negativity    ہے۔ مجھے لگتا ہے ہمارے فن کار زندگی کا وہ چہرہ دیکھ رہے ہیں جہاں کچھ باقی نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے دنیا اتنی خراب نہیں ہوئی ہے جتنی ہم محسوس کر رہے ہیں۔ ابھی بھی بہت کچھ باقی ہے۔دنیا آج بھی بہت خوب صورت ہے۔ رحمن عباس کے اس سے پہلے جو ناول ہیں ’نخلستان کی تلاش‘ جو بہت مقبول ہوا تھا اس کے بعد ان کا دوسرا ناول ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘ ان ناولوں میں negativity نہیں ہے۔ مثبت اشارے ہیں۔ اس ناول میں اگر رحمن عباس نے ناول کے آخر میں مرکزی کردار کو مارا نہیں ہوتا تو یہ اس وقت کا اہم ترین ناول ہوتا۔ اس کے باوجود یہ بڑا ناول ہے۔ جس طرح بمبئی کے کردار لے کر رحمن عباس نے ناول لکھا ہے۔ اس طرح کے کردار بہت دیر بعد ہمارے سامنے آئے ہیں۔ حالانکہ یہ ہمارے آس پاس کے کردار ہیں۔ ندا فاضلی نے جو بات کہی تھی کہ ایک آدمی میں کئی آدمی رہتے ہیں۔۔۔ یہ ناول وہاں کی عورتوں کے جنسی اور مذہبی فرسٹریشن کو بیان کرتا ہے۔ مذہب نے کس طرح سے بہت ساری چیزوں کو چھپا لیا ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے عبدالسلام جو کچھ دیکھ رہا تھا اس دنیا کو دیکھنے کی اس میں طاقت نہیں تھی۔

            بلند اقبال: مشرف عالم صاحب اس تجزیے کے لیے شکریہ۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید