FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اردو ماہیا:ایک علمی و تحقیقی مکالمہ

 

 

 

                رضینہ خان/حیدر قریشی

 

 

 

 

 

 

                رضینہ خان(دہلی)

 

اردو ماہیا اور حیدر قریشی

 

لوک ادب قوم کا وہ سرمایا ہے جس میں معاشرے کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور ثقافت کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ماہیا سر زمین پنجاب کا عوامی گیت ہے۔ یہ لوک روایت سے جڑی صنف ہے۔ ماہیا ’’ ماہی ‘‘ سے بنا ہے۔ ماہی سے مراد ’’محبوب ‘‘  کے ہے۔ ماہیا دراصل تین مصرعوں والی وہ نظم ہے جس کا پہلا اور تیسرا مصرعہ ہم وزن ہوتا ہے۔ جبکہ درمیانی مصرعہ پہلے اور آخری مصرعوں سے دو حرف کم ہوتا ہے۔ اردو ادب نے دوسری زبانوں کی طرح پنجابی زبان کے اثرات بھی قبول کیئے ہیں، ماہیا ان میں سے ایک ہے۔ اردو ماہیے کی ابتدا فلموں اور ریڈیو کے ذریعہ ہوئی، اور چونکہ یہ بنیادی طور پر ایک گائی جانے والی صنف سخن ہے بایں وجہ اس  کے لئے بحر اور وزن کی جگہ دھن، ردم اور آوازوں کا تعین کیا گیا۔

ماہیے میں عموماً پنجاب اور پنجاب کے تہذیبی و ثقافتی اثرات، معاشرتی روایات، یہاں کے لوک حوالے، نشو و نما پاتے رہے ہیں لیکن اردو زبان کی شیرینی نے اس صنفِ سخن کو اور بھی نکھار دیا۔ اردو زبان نے اسے علاقائی حدود سے نکال کر عالمی ادب کی قطار میں لا کھڑا کیا۔ دراصل یہ صنف ہائیکو اور ثلاثی کی طرح تین مصرعوں کی ایک نظم ہے جو کہ عروضی اعتبار سے دونوں سے مختلف ہے۔ محض تین مصرعوں کی ترتیب کی بناء پر ماہیا ہائیکو اور ثلاثی کو ایک خیال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ماہیے کی تحریری صورت کے سلسلے میں دو آراء ہیں۔ پہلے موقف کے مطابق ماہیا تین مصرعوں کی نظم ہے اور دوسرے موقف کے مطابق ماہیا ڈیڑھ مصرعوں کی نظم ہے۔ دراصل یہ اختلاف رائے صرف ماہیے کو تحریری صورت میں پیش کرنے کا ہے وگرنہ مذکورہ بالا دونوں ہیئتوں میں ماہیے کا اصل وزن محفوظ ہے۔

اردو ماہیے سے متعلق ہونے والی تمام مباحث میں حیدر قریشی کو مرکزیت حاصل ہے۔ یورپ میں مقیم حیدر قریشی نے اردو ادب کی بہت سی اصناف میں فن کے جوہر دکھائے اور ان اصناف کو ایک نئی معنویت اور گہرائی سے روشناس کرایا ہے۔ ان کا تعلق ستر کی دہائی کے اردو ادبا کی نسل سے ہے۔ ان کی ادبی جہت کا ایک رنگ ماہیا نگاری بھی ہے۔ انہوں نے اردو ادب میں نئی صنف ’’ماہیا ‘‘ کو نہ صرف متعارف کرایا بلکہ اردو ادب کو ایک نیا دلکش لب و لہجہ بھی عطا کیا ہے۔ ’’محبت کے پھول‘‘ حیدر قریشی کے ماہیوں کا مجموعہ ہے۔ جسے 1996ء میں نایاب پبلی کیشنز، خان پور نے شائع کیا۔ اس کے علاوہ شعری مجموعہ ’’ درد سمندر ‘‘ میں غزل اور نظم کے ساتھ ماہیے بھی شامل ہیں۔ ماہیے کی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے حیدر قریشی لکھتے ہیں :

یہ تخلیق کار کو خلا سے اتار کر زمین پر لاتا ہے۔ ماہیے میں زندگی اور دھرتی سے گہری وابستگی ہے۔ پھر اس میں ژولیدہ ابہام گوئی کی کوئی گنجائش نہیں۔

آگے  وہ کہتے ہیں کہ:

ان دو خصوصیت کی بنا پر ماہیا ایسے وقت پر مقبول ہوا جب جدید شاعری کے نام پرانتہا پسندتجربوں کے ذریعے ہمارے انتہا پسند تخلیق کاروں نے شاعری کا رشتہ معنویت کی بجائے لا یعنیت سے جوڑ  لیا تھا۔ ادب دھرتی سے کٹ کر خلا میں معلق سا ہو گیا تھا۔ ایسے حالات میں ماہیے نے نہ صرف اپنی دھرتی کی اہمیت کا احساس دلایا بلکہ بامعنی تخلیق کے لیے لفظ و معنی کے ہم رشتہ ہونے کی ضرورت کا احساس بھی دلایا ہے۔ ( ۱)

اگست ۱۹۹۰ء ’’ اوراق‘‘ میں سب سے پہلے ممتاز عارف نے ماہیے کے وزن کا مسئلہ اٹھایا۔ ان کے خیال میں تین مصرعوں پر مشتمل اردو ماہیے پنجابی ماہیے کی روایت پر پورے نہیں اتر تے ہیں۔ اسی وقت حیدر قریشی بطور ماہیا نگار ماہیے کی تحقیق و تنقید کی طرف متوجہ ہوئے۔ ماہنامہ ’’ ادب لطیف‘‘ لاہور ۱۹۹۰ء کے شمارے میں ان کے ماہیے شائع ہوئے۔ انہوں نے ماہیے کے لوک کلچر کو ابھارنے کی سعی کرتے ہوئے اسے اردو میں متعارف کرایا۔ یوں اردو ماہیا برصغیر سے نکل کر مغربی ممالک تک پھیل گیا۔

اردو ادب میں اِس لوک کلچر کو ادبی شکل دینے میں حیدر قریشی کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے پنجابی، اردو اور فلمی نغموں کے طور پر لکھے جانے والے ماہیوں کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ ماہیے کے حوالے سے ان کا پہلا مضمون1992ء دسمبر میں شائع ہوا۔ 1990 سے 2000 ء تک تقریباً دس سال انہوں نے ماہیے کی ہیئت اور وزن کے بارے میں مختلف رسائل میں خطوط اور مضامین کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اردو ماہیے سے متعلق ان کا موقف مختصراًَیہ ہے۔

۱۔   ماہیے کے تین مصرعے ہوتے ہیں۔

۲۔  ماہیے کے تین مصرعوں میں سے پہلا اور تیسرامصرعہ وزن کے اعتبار سے برابر ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرے مصرعے میں ایک سبب کم ہو جاتا ہے۔

۳۔  ماہیے کا وزن

فعلن فعلن فعلن

فعلن فعلن فع

فعلن فعلن فعلن

ان کا خیال ہے کہ جن شعرا ء کے ماہیے تین برابر وزن کے مصرعوں پر مشتمل ہیں وہ درست ماہیے نہیں۔ نیز یہ کہ جو شعرا ء تین برابر مصرعے میں ماہیے کہتے ہیں، وہ ایسا سہل پسند ی کی وجہ سے کرتے ہیں۔ درمیان والے مصرعے میں ایک سبب سے کم کرنا ان کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اس سلسلے میں انور سدیدکا خیال ہے :

’’ یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بعض شعراء نے محض لاعلمی میں ماہیا کے تین مصرعوں کو ہم وزن کر دیا تو جناب حیدر قریشی نے اس ’’ بے شعوری ‘‘ غلطی کی طرف نہ صرف توجہ دلائی بلکہ اس غلطی کے استیصال کیلئے تحریک بھی جاری کر دی۔ ۔ ۔ ۔ کوششیں رنگ لا رہی ہیں اور اب ماہیا او زان کی صحیح تکنیک میں لکھا جا رہا ہے۔ ‘‘  ( ۲)

ہر دور میں علمی یا فنی سطح پر نئے تجربات کے حوالے سے تخلیقی عمل کو بحث و دلائل کی روشنی میں درست یا نادرست قرار دیا جاتا ہے۔ حیدر قریشی نے بھی ماہیے سے متعلق ایک پوری تحریک چلائی اور اس کی ہیئت کی پہچان کرائی ہے۔ جہاں انہوں نے اوزان متعین کئے ہیں وہیں اس کے مزاج کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔

جہاں تک ماہیے کے مزاج کے مسئلے کا تعلق ہے۔ اس کے بارے میں وزن کی طرح کوئی حتمی و دو ٹوک بات کرنا ممکن نہیں ہے۔ وزن کو ماہیے کا جسم سمجھ لیں تو مزاج اس کی روح ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حمد یہ، نعتیہ ماہیے، ظلم و جبر کے خلاف احتجاج والے ماہیے بھی پنجابی ماہیے کے اس عمومی مزاج سے بالکل مختلف ہیں۔  جو عام طور پر پنجابی ماہیے کی شناخت ہے۔ جس طرح ماہیے کے مزاج کا زیادہ تر انحصار قاری یا سامع کے ذوق اور مزاج پر ہے ویسے ہی ماہیا نگار کا ذاتی ذو ق اور مزاج بھی اس کے ماہیوں میں فطری طور پر آئے گا۔ کوئی نظم نگار شاعر ماہیا کہے گا تو ان میں نظم کے اثرات آئیں گے کوئی غزل گو شاعر جب ماہیے کہے گا تو اس کے ماہیے میں غزل کے اثرات کچھ نہ کچھ تو ضرور آئیں گے اسی طرح اردو کا گیت نگار اگر ماہیے کہے گا تو گیت کی ہندی روایت بھی اپنا اثر دکھائے گی۔ نظم، غزل اور گیت کے اثرات اردو ماہیے کے تشخص کو ختم نہیں کریں گے بلکہ اسے تازہ خون فراہم کریں گے۔ ان اثرات سے ماہیے کا مزاج مزید بہتر ہو گا۔ ( ۳)

حیدر قریشی کے ماہیوں کے موضوعات ( سیاسی، سماجی، معاشرتی، عشقیہ، فلسفیانہ، اصلاحی، مذہبی) تقریباً وہی ہیں جو انہوں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں برتے ہیں۔ چونکہ ماہیا لوک روایت سے وابستہ ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے ماہیوں میں اپنی تہذیب و تمدن کا رنگ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ پنجاب کی سرزمین کا منظر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

مکھ دھرتی کا نورانی

جھومر پیڑ اس کے

کھیت اس کی ہیں پیشانی

 

چشمے کہساروں کے

فیض یہ دھرتی ماں

کے دودھ کی دھاروں کے

ماہیے کے حوالے سے ان کا کام بہت بڑا اور اپنے آپ میں وسعت لیے ہوئے ہے۔ اردو میں ماہیے کی تحقیق اور تنقید کے سلسلے میں حیدر قریشی کی تین کتابیں (اردو میں ماہیا نگاری، اردو ماہیے کی تحریک اور اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما) شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی تنقیدی و تحقیقی تصنیف ’’ اردو میں ماہیا نگاری‘‘ ۱۵۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب 1996ء میں مکمل ہوئی اور 1997ء میں فرہاد پبلی کیشنز اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ انہوں نے اس کتاب میں 1990ء سے لے کر 1996ء تک ماہیے کے حوالے سے چلنے والی بحثوں کو اپنے تاثرات کے ساتھ اس میں پیش کیا۔ حیدر قریشی لکھتے ہیں۔

’’ اس کی بیشتر روداد میں نے اپنے تاثرات کے ساتھ اس کتاب میں یک جا کرنے کی کوشش کی ہے۔ کوشش کا لفظ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ 1992ء میں جب ماہیے پر پہلا تنقیدی مضمون شائع ہوا، انہیں ایام میں مجھے ترک وطن کرنا پڑا۔ بیرون ملک آ کر شاید میں تمام رسائل پر پوری نظر نہیں رکھ سکا۔ ماہیے کی بحث جب عروج پر پہنچی میں وطن عزیز سے دور تھا اس کے باوجود مقدور بھر اس کی بحث میں شریک رہا۔ ‘‘  ( ۴)

زیر نظر کتاب میں ماہیے کے وزن کا مسئلہ، اردو میں ماہیا نگاری کی ابتدا، اردو ماہیے کے موضوعات وغیرہ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ ایک جگہ ماہیے کے وزن کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ جب ماہیے کو تحریری صورت میں دیکھنے کے باعث اس کے دوسرے مصرعے کے وزن کا مسئلہ اتنا الجھا ہوا ہے تو کسی درست نتیجے تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے ؟۔ ۔ ۔ اس سلسلے میں میرا مؤقف یہ ہے کہ ماہیا اصلاً لوک گیت ہے جس کی اپنی دھن ہے۔ بس اسی دھن میں ہی اس کا اصل وزن موجود ہے۔‘‘ ( ۶۶)انہیں دھنوں کو بنیاد بنا کر آگے لکھتے ہیں ’’ ماہیے کا پہلا مصرع اور تیسرا مصرع ہم وزن ہوتے ہیں لیکن دوسرا مصرع ان کے وزن سے ایک سبب یعنی دو حرف کم ہوتا ہے۔ ‘‘  ( ۵)

اردو میں ماہیا نگاری کی ابتدا کے حوالے سے حیدر قریشی کا موقف ہے کہ چراغ حسن حسرت ماہیا لکھ تو رہے تھے لیکن یہ وزن کے اعتبار سے مناسب نہیں تھے۔ مذکورہ کتاب میں حیدر قریشی اپنے مضمون ( اردو میں ماہیا نگاری کی ابتدا) میں چراغ حسن حسرت اور قمر جلال آبادی کے ماہیوں کے بارے میں رقم طراز ہیں۔ ’’ چراغ حسن حسرت۔ ۔ نے 1937ء میں پنجابی ماہیے کے حسن سے متاثر ہو کر اردو میں چند ماہیے کہے۔ ۔ پنجابی ماہیے کی جادوگری اور چراغ حسن حسرت کی ماہیے سے محبت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن حسرت پنجابی ماہیے کے وزن کی نزاکت کا خیال نہیں رکھ سکے۔ ‘‘ ( ۶)

ان کی دوسری کتاب ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘  تنقیدی مضامین اور خطوط پر مبنی ایک موضوعی کتاب ہے۔ جو فرہاد پبلی کیشنز راول پنڈی سے 1999ء میں شائع ہوئی ہے۔ ماہیے کے دوسرے مصرعہ، ماہیے کے وزن، اردو ماہیا کل اور آج، ماہیے کی کہانی، اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما، اردو ماہیے کی تحریک جیسے موضوعات اس کتاب میں زیر بحث ہیں۔ خط بنام ایڈیٹر ’’ تجدید نو ‘‘( لاہور)خط بنام ایڈیٹر ماہنامہ ’’ صریر ‘‘ (کراچی) بھی اس کتا ب کا حصہ ہے۔ کچھ لوگوں نے ماہیا نگاری کے ابتدائی نقوش کی تلاش میں چراغ حسن حسرت کو ہمت رائے شرما کی جگہ اوّلیت کا تاج پہنانے کی کوشش کی ہے۔ ٹھیک اسی وقت حیدر قریشی نے اپنے دو مضامین( اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما اور اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما۔ فلم خاموشی اور تحقیقِ مزید) میں خصوصی طور پر ہمت رائے شرما کی اولیت کو چند حقائق کی بنیاد پر ثابت کیا ہے۔ اسی دوران انہوں نے خود حمید نسیم کی خودنوشت’’ نامکمل کی جستجو‘‘ کے حوالہ سے ایک نکتہ نکالا جس سے لگتا تھا کہ چراغ حسن حسرت نے جنوری 1936ء میں ماہیے لکھے ہیں۔ اس طرح ہمت رائے شرما نے 1937ء میں ماہیے کہے۔ زمانی لحاظ سے ہمت رائے شرما کو فوقیت دینے کے لئے حیدر قریشی نے ’’مسلم انڈینز آف بائیوگرافیکل ڈکشنری‘‘ از احمد سعید ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری۔ ایم اے او کالج لاہور کا حوالہ پیش کر کے اپنے موقف کو مضبوط بنا یا ہے۔

انہوں نے اپنی کتاب ’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما ‘‘ میں اردو ماہیے کے بانی سے متعلق  جدید تحقیق کے ذریعہ ہمت رائے شرما کو اردو ماہیے کا بانی قرار دیا ہے۔ جبکہ اس سلسلے میں ان کی سابقہ تحقیق تھی کہ’’ یہ ماہیے اردو کے سب سے پہلے ماہیے ہیں جو پنجابی ماہیے کے وزن پر پورے اترتے ہیں۔ اس لحاظ سے قمر جلال آبادی اردو کے سب سے پہلے ماہیا نگار قرار پاتے ہیں۔ ‘‘ ( ۷)

بحث کے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں۔

اردو ماہیے کی تحریک ابھی ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے۔ کل تک ہم سمجھتے رہے تھے کہ صرف فلم’’ پھاگن‘‘ اور’’ نیا دور ‘‘میں قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی نے اردو ماہیے لکھے تھے لیکن اب تک یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ ان سے پہلے ہمت رائے شرما اور قتیل  شفائی نے فلم ’’ خاموشی ‘‘ اور فلم’’ حسرت ‘‘ ( پاکستان) میں اردو ماہیے پیش کئے تھے۔ اب تک سات فلموں میں گائے گئے اردو ماہیے دریافت ہو چکے ہیں اور لوک فنکار عطا ء اللہ خان نیازی عیسیٰ خیلوی کے  (پرائیویٹ)گائے اردو ماہیے بھی سامنے آ چکے ہیں۔ (۸)

اردو میں ماہیا کے بانی کے حوالے سے اپنے پہلے مضمون ’’ اردو میں ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘ میں انہوں نے کہا کہ ہمت رائے شرما نے درست وزن کے ساتھ اردو ماہیے سب سے پہلے 1936ء میں کہے۔ اپنے اس قول کی وضاحت انہوں نے ان الفاظ میں کی:

میں نے ہمت رائے شرما جی کے بارے میں اپنے پہلے مضمون میں یہ لکھا تھا کہ ہمت رائے شرما جی نے درست وزن کے اردو ماہیے سب سے پہلے 1936ء میں کہے تھے اس لئے انہیں ابھی تک کے ماہیے کے بانی قمر جلال آبادی اور ساحرلدھیانوی پر اولیت حاصل ہے۔ اسی طرح میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ’’ تحقیقی اور تاریخی لحاظ سے انہیں چراغ حسن حسرت کے ثلاثی گیت پر بھی اولیت اور فوقیت حاصل ہے ‘‘۔ اس سلسلے میں میرے  پیش نظر دو  اہم باتیں تھیں۔  ۱۔ چراغ حسن حسرت کے ثلاثی قسم کے ’’ماہیے ‘‘پیش کرنے والوں نے ان کا سال اشاعت 1937ء بتایا تھا جو1936ء کے بعد آتا ہے۔ ۲۔ پروفیسر آل احمد سرور نے ’’ کوہسار جرنل ‘‘ کے شمارہ دسمبر 1997 ء میں حسرت کے مبینہ ماہیوں کو نظم قرار دیتے ہوئے حمیدنسیم کی خودنوشت’’ ناممکن کی جستجو‘‘ کا حوالہ دیا تھا۔ چونکہ مجھے جرمنی میں حمید نسیم کی کتاب دستیاب نہ تھی اس لیے میں نے پروفیسر آل احمد سرور کے بیان پر انحصار کر لیا۔ لیکن مضمون کی اشاعت کے بعد اب مجھے ’’ ناممکن کی جستجو‘‘ کے متعلقہ صفحات ملے ہیں تو اندازہ ہو ا کہ آل احمد سرور صاحب کو سہو ہوا تھا۔ کیونکہ حمید نسیم نے اس میں ’’ حسرت ‘‘ کے ثلاثی قسم کے گیت کو ماہیا ہی لکھا ہے۔ مزید یہ کہ حمید نسیم کی یاد داشت کے مطابق حسرت نے جنوری 1936ء میں مذکورہ’’ ماہیے ‘‘ ایک مشاعرہ میں سنائے تھے۔ ( ۹)

اس مدلل بحث کے بعد حیدر قریشی کے مضمون ’’اردو ماہیے کے بانی: ہمت رائے شرما‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔

ابھی تک کی تحقیق کے مطابق قمر جلال آبادی اردو ماہیے کے بانی تھے۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمت رائے شرما جی اردو ماہیے کے بانی ہیں۔ سہ ماہی ’’ کوہسار جرنل ‘‘ بھاگل پور شمارہ اگست 1997ء میں انہوں نے اپنی تحقیقی کاوش ’’ اردو ماہیا کی روایت سے متعلق ہمت رائے شرما کی وضاحت‘‘ کے زیر عنوان پیش کی ہے۔ (۱۰)

اردو ماہیے کے بانی کے حوالے سے مناظر عاشق ہرگانوی کی تحقیق ہے کہ ’’ اردو ماہیے کے بنیاد گزاروں میں ابھی تک کی تحقیق کے مطابق چراغ حسن حسرت، ساحر لدھیانوی اور قمر جلال آبادی کے نام آتے رہے ہیں لیکن میری حالیہ تحقیق یہ ہے کہ اولیت کا سہرا ہمت رائے شرما کے سر ہے۔ (۱۱)حیدر قریشی نے حسرت، علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر، سیدہ حنا اور دیپک قمر وغیرہ کو اس وقت کی ماہیا تحریک کے بنیاد گزاروں میں شامل کیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاہم حسرت سے لے کر دیپک قمر تک ان سارے ’’ بنیاد گزاروں ‘‘کا ماہیا کے لئے اتنا ہی کردار ہے کہ انہوں نے ماہیا نما ثلاثی لکھ کر اصل ماہیے کے لیے راہ ہموار کر دی۔ ‘‘ ( ۱۲)

حیدر قریشی نے اپنے تین مضامین بہ عنوان ’’ اردو ماہیے کا بانی ہمت رائے شرما‘‘ مطبوعہ ’’انشا‘‘ (کلکتہ)، ستمبر اکتوبر1998ء، ’’اوراق ‘‘ (لاہور) جنوری، فروری : 1998ء اور ’’جدید ادب ‘‘( جرمنی) شمارہ : مئی 1999ء میں یہ دعویٰ کیا کہ ہمت رائے شرما اردو کے پہلے ماہیا نگار شاعر ہیں۔ اس لیے کہ ہمت رائے شرما نے فلم ڈائریکٹر آر۔ سی۔ تلوار کی مئی 1936ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ خاموشی ‘‘ کے لیے ماہیے لکھے تھے۔ انہوں نے ہمت رائے شرما کی جانب سے فراہم کردہ کتابچہ کا عکس دیکھ کر اپنے تینوں مضامین میں بُک لیٹ سے متعلق جو تفصیلات فراہم کی ہیں وہ درج ذیل ہیں :

سرور ق پر ہیروئن رمولا کی تصویر ہے۔ دائیں طرف اوپر انگریزی میں درمیان میں ہندی میں اور نیچے اردو میں فلم کا نام خاموشی لکھا ہوا ہے اور آخر میں صرف انگریزی میں ڈائریکٹر آر۔ سی۔ تلوار کا نام لکھا ہوا ہے۔ سرورق کے اندر کی طرف فلم کے پروڈیوسر، ڈائریکٹر، کاسٹ اور اہم ٹیکنشز وغیرہ کا نام درج ہے۔ یہ سارے نام انگریزی  میں لکھے ہیں۔ پروڈیوسرایل۔ آر۔ پرشر ہیں ( ایل آر= لاہوری ) ’’ پروڈیوسر انڈر دی بینز آف تلوار پروڈکشنز (انڈر نیو مینجمنٹ ) مئی 1936ء‘‘درج ہے۔ انگریزی کے اصل الفاظ ہی یہاں پر درج کر دیا ہوں : ( ۱۳)

Producer under the banner of ……TALWAR PRODUCTIONS

( under new management (May, 1936)

وہیں مرزا حامد بیگ اس تحقیق کو رد کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

’’ سکرین پلے اور ڈائیلاگ امتیاز علی تاج، گیت کار ہمت رائے، موسیقار جی۔ اے۔ چشتی آرٹ ڈایریکٹر ہمت رائے اور اداکاروں کی لسٹ میں یہ نام شامل ہیں۔ رمولا ( ہیروئن ) کلیانی، رام دلاری، شیام ( ہیرو) سندر سنکھ، گاما، لیلیٰ مشرا، امرناتھ پاسان، منورما، نند کشور، ہمت رائے وغیرہ۔ (۱۴) اس کتابچہ کے حوالے سے ہمت رائے شرما کا دعوی ٰ ہے کہ درج ذیل اردو ماہیے انہوں نے فلم ’’ خاموشی ‘‘ کے لیے 1936ء میں کہے تھے۔ جو فلم کے لئے عکس بند بھی کئے گئے۔ ‘‘

سرمست فضائیں ہیں

پیتم پریم بھری

پھاگن کی ہوائیں ہیں

 

اشکوں میں روانی ہے

آنسوپی پی کر

مدہوش جوانی ہے

 

کچھ کھو کر پاتے ہیں

یاد میں ساجن کی

یوں دل بہلاتے ہیں

 

کیا اشک ہمارے ہیں

آنسو مت سمجھو

ٹوٹے ہوئے تارے ہیں

فلم ’’خاموشی‘‘ کے سال تکمیل کو لے کر ہونے والی بحث میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ بُک لیٹ ہمت رائے شرما نے خود شائع کر دی یا کم از کم اس بُک کے سرورق کے مندرجات خصوصاً ’’ مئی1936ء‘‘ کی تاریخ ان کے ذہن کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ فلم ’’خاموشی‘‘ کے ہیرو شیام اور ویمپ منورما کی کم عمری کو موضوعِ  بحث لاتے ہوئے مرزا حامد بیگ نے حیدر قریشی کی اس تحقیق کو رد کرنے کی کوشش کی۔ جس کے جواب میں ’’ جدید ادب ‘‘ ( جرمنی)کے اُسی شمارے ( شمارہ : 2، مئی 2000ء) میں حیدر قریشی نے لکھا۔

ماہیے کی بحث شروع ہونے سے کئی سال پہلے 1984ء میں ہمّت رائے شرما جی کا شعری مجموعہ ’’ شہاب ثاقب‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس میں شرما جی کے وہی دس ماہیے شامل ہیں جو فلم خاموشی سے منسوب ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اُس زمانے میں بہت ہی کم عمر کی لڑکیاں فلموں میں آتی رہیں ہیں۔ مثلاً مشہور فلمی ویمپ للیتاپوار جو شروع میں ہیروئن آئیں، گیارہ برس کی عمر میں فلموں میں آئیں۔ معروف گلوکارہ اور ہیروئن ثریا، کلیانی ( اصل نام زرینہ)پروڈیوسر ولی کی بیوی اور اپنے زمانے کی مشہور ہیروئن ممتا شانتی یہ نام تو مجھے فوراً یاد آ گئے یہ سب گیارہ برس کی عمر میں فلموں میں آ گئیں تھیں۔ ( ۱۵)

منجملہ یہ کہ ماہیا ایک لوک گیت ہے۔ اس کی یہ بحث علمی، ادبی اور تحقیقی ہے۔ ماہیا کو لے کر ہونے والی تمام بحث میں حیدر قریشی کا مقام متعین کرنا تحقیق کا ایک الگ پہلو ہو سکتا ہے۔ حیدر قریشی کی اردو ماہیا سے وابستگی قابل ذکر ہے۔ اسے پنجاب میں لکھنے کا رواج نہ تھا۔ یہ محض گائی جانے والی صنف تھی۔ شروع میں پورا ماہیا ایک لائن میں لکھ دیا جاتا تھا۔ پھر اسے ڈیڑھ مصرعہ اور تین مصروعوں میں بھی لکھا جانے لگا۔  اگر چہ ماہیا کو تین مصرعوں کی ہیئت میں واضح پذیرائی مل چکی ہے اور یہی اس کی مقبول اور مروجہ صورت بھی ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ماہیا عوامی گیت ہے۔ بنا بریں وہی ماہیا حقیقی معنوں میں ماہیا ہے جو روانی کے ساتھ گنگنایا جا سکے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حواشی:

۱۔  سعید شباب، انٹرویوز، ہالینڈ: نظام آرٹ اکیڈمی، 2004، ص، 30-31

۲۔  ’’ اردو ماہیا اور حیدر قریشی‘‘، ادب ساز، ( دہلی)، شمارہ: جنوری تا جون 2008ص، 15۔

۳۔   ایضاً، ص16۔

۴۔  حیدر قریشی، اردو ماہیا تحقیق و تنقید، لاہور:الوقار پبلی کیشنز، 2010، ص، 25۔

۵۔  ایضاً، ص، 29۔

۶۔  ایضاً، ص، 31

۷۔ ایضاً، ص، 41۔

۸۔  ایضاً، ص، 533۔

۹۔   ایضاً، ص، 533۔ 633۔

۱۰۔  ایضاً، ص، 339۔

۱۱۔   ایضاً، ص 340۔

۱۲۔  ایضاً، ص، 134۔

۱۳۔  ایضاً، ص، 325۔

۱۴۔  جدید ادب، ( جرمنی)، شمارہ : 1(مئی 1999) ص، 31۔

۱۵۔  ایضاً، ص : 46-45

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

قومی کونسل برائے فروغ  اردو زبان و غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام

سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سیمنار، منعقدہ  11، 12، 13 /ستمبر2015ئ، ایوان غالب، نئی دہلی

میں مورخہ12؍ ستمبر2015ء کو پڑھا گیا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

                حیدر قریشی(جرمنی)

 

رضینہ خان کا مقالہ اور چند وضاحتیں

 

جواہر لال یونیورسٹی دہلی کی ریسرچ اسکالررضینہ خان نے 12؍ستمبر2015ء کو قومی کونسل اور غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے ایک سیمینار میں اپنا مقالہ ’’اردو ماہیا اور حیدر قریشی‘‘(۱)پڑھا تھا۔ انہوں نے تقریب کے بعد اپنا مقالہ مجھے بھی عنایت کیا۔ جسے پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ تاہم تحقیقی زاویے سے ایک دو مقامات پر مجھے ایسے محسوس ہوا کہ بات پوری طرح واضح نہیں ہو پائی۔ سیمینارز میں وقت کی کمی کے باعث مقالہ میں اختصار کی مجبوری بھی اس کا سبب ہو سکتی ہے۔ اور بلا ارادہ تحقیق میں تھوڑی سی کمی رہ جانے کی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ رضینہ خان میرے افسانوں کے حوالے سے ایم فل کا مقالہ لکھ چکی ہیں (۲)۔ یہ مقالہ میرے تئیں ان کے تحقیقی و تنقیدی اخلاص کا اظہار بھی ہے اور ان کے نگران پروفیسر مظہر مہدی کی علمی و ادبی محبت کا مظہر بھی۔ اس کے لیے میں ان دونوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔

اب میں مزید کسی تمہید کے بغیر براہِ راست اپنی وضاحتوں کی طرف آتا ہوں۔ رضینہ خان نے مجھ سے منسوب یہ بات لکھی ہے کہ: ’’ ہمت رائے شرما نے فلم ڈائریکٹر آر۔ سی۔ تلوار کی مئی 1936ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ خاموشی ‘‘ کے لیے ماہیے لکھے تھے۔ ‘‘(مقالہ:رضینہ خان)

میں نے کہیں بھی ایسا نہیں لکھا کہ فلم خاموشی 1936ء میں ریلیز ہوئی ہے۔ 1936ء میں اس پر کام شروع ہوا اور 1937ء میں یہ فلم ریلیز ہوئی۔ ممکن ہے ایک آدھ سال کی مزید تاخیر بھی ہو گئی ہو۔ 1936ء میں ریلیز کیے جانے والی بات کی تصحیح ضروری ہے۔ ویسے یہ معمولی سا سہو ہے۔

رضینہ خان نے مرزا حامد بیگ کے اس الزام کو پیش کیا ہے کہ:

’’ بُک لیٹ ہمت رائے شرما نے خود شائع کر دی یا کم از کم اس بُک کے سرورق کے مندرجات خصوصاً ’’ مئی 1936ئ‘‘ کی تاریخ ان کے ذہن کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ ‘‘

لیکن اس کے جواب میں میری وضاحت پورے پس منظر کے ساتھ سامنے نہیں آسکی۔ اس سلسلہ میں مرزا حامد بیگ کے اس الزام کو بھی سامنے رکھ لیا جائے۔

’’اس جعل سازی سے پردہ اُٹھ جانے کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فلم خاموشی کے لیے اردو ماہیے ہمت رائے شرما نے لکھے بھی تھے یا نہیں ؟کیا فلم میں یہ ماہیے شامل کئے گئے ؟اور اگر شامل کیے گئے تو فلم کا گیت کار ہمت رائے کون تھا؟‘‘(۳)

یہ ساری باتیں میرے پیش نظر تھیں اور تب میں نے اپنے جواب میں جو لکھا تھا اس کے تین اقتباس پیش ہیں۔

’’یہ گھٹیا الزام کہ ہمت رائے شرما جی نے فلم ’’خاموشی‘‘ کی بک لیٹ جعلی طور پر تیار کی ہے، یا کم از کم اس میں مئی 1936ء کی تاریخ انہوں نے خود لکھوا لی ہے، سراسر بہتان ہے اور میں ذاتی طور پر اس کی کھلے لفظوں میں تردید کرتا ہوں کیونکہ میں ان سے خط و کتابت کے علاوہ متعدد بار ٹیلی فون پر بات کر چکا ہوں۔ وہ طویل عرصہ سے فالج کا شکار ہیں۔ بات کرتے کرتے کئی بار بات بھول جاتے ہیں ذراسی بات پر بچوں کی طرح بلکنے لگتے ہیں۔ ایسی حالت اور ایسی کیفیت کا حامل کوئی شخص ایسی کاریگری نہیں کرسکتا جو مرزا حامد بیگ نے ان سے منسوب کر دی ہے۔ حامد بیگ نے اگر شرما جی کے تعلق سے میری دوسری تحریریں بھی تحقیقی زاویے سے پڑھ لی ہوتیں تو اس تحقیقی جہالت اور بد اخلاقی کے مرتکب نہ ہوتے۔ شرما جی کی علالت اور مذکورہ کیفیت کا میں اپنے مضمون’ اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما،‘ مطبوعہ ’’انشاء‘‘ کلکتہ شمارہ ستمبر۔ اکتوبر 1998ء اور ’’اوراق‘‘ لاہور شمارہ جنوری۔ فروری 1999ء میں ذکر کر چکا ہوں۔ حامد بیگ نے وہ مضمون پڑھ رکھا ہوتا تو جعل سازی کا گھٹیا الزام لگانے میں اتنی دلیری نہ دکھاتے۔

ماہیے کی بحث شروع ہونے سے کئی سال پہلے 1984ء میں ہمت رائے شرما جی کا شعری مجموعہ ’’شہاب ثاقب‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس میں شرما جی کے وہی دس ماہیے شامل ہیں جو فلم ’’خاموشی‘‘ سے منسوب ہیں۔ اسی مجموعہ کے فلیپ پر شرما جی کے تعارف میں یہ الفاظ بھی درج ہیں :

’’ہمت رائے شرما ایک با کمال فنکار ہیں۔ 23نومبر 1919ء کو شرما صاحب نارودال ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ 17سال کی عمر میں فلم ’’خاموشی‘‘ کے گیت لکھے ‘‘۔

1984ء میں ہمت رائے شرما جی کو یا ان کے تعارف نگار کو کوئی ایسی غرض لاحق نہ تھی کہ ایسی بات لکھ کر خود کو ماہیے کا بانی بنوانا ہے، کیونکہ تب ماہیے کا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ ویسے مرزا حامد بیگ جیسے محقق یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ شرما جی نے تب سے ہی پلاننگ کر لی تھی۔ ‘‘(۴)

’’ تحقیقی حوالے سے مرزا حامد بیگ اس لئے بھی قابل اعتبار نہیں رہتے کہ وہ ماہیے کی اب تک کی تحقیقی پیش رفت سے ہی غافل ہیں۔ انہوں نے فلم ’’باغبان‘‘ بننے کا سال 1944-45ء بیان کیا ہے جبکہ یہ سال 1937ء ہے۔ جب دستیاب معلومات کے باوجود غفلت کا یہ عالم ہے تو پھر تحقیق کرنے اور ٹامک ٹوئیاں مارنے میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ ‘‘(۵)

’’ ہمت رائے شرما جی کے سارے ماہیے ان کے شعری مجموعہ ’’ شہاب ثاقب‘‘ میں بھی شامل ہیں اور یہ مجموعہ ماہیے کی حالیہ بحث سے کہیں پہلے ( بیس سال کی تاخیر کے باوجود ) 1984ء میں چھپ چکا ہے۔ ان حقائق کے ہوتے ہوئے مرزا حامد بیگ کا ایسے سوال اٹھانا ان کی جہالت ہے یا پھر دیدہ دانستہ شرارت ہے کہ:

’’ فلم ’’خاموشی‘‘ کے لئے اردو ماہیے ہمت رائے شرما نے لکھے بھی تھے یا نہیں ؟ کیا فلم میں یہ ماہیے شامل کئے گئے ؟ اور اگر فلم میں یہ ماہیے شامل کئے گئے تو فلم کا گیت کار ہمت رائے شرما کون تھا؟ جب تک سنیما اسکرین پر یا وڈیو کیسٹ کے ذریعے فلم ’’خاموشی‘‘ کے تعارفی ٹائٹلز میں ہمت رائے شرما کا نام نہ دیکھ لیا جائے تب تک یہ معاملہ التوا میں رہے گا‘‘۔

جب ہمت رائے نام ملنے پر بھی آپ نے یہ شرارت کرنی ہے کہ یہ گیت کار ہمت رائے کون ہے ؟ تو ٹائٹل پر ان کا نام مل جانے کے بعد بھی آپ کا یہ سوال تو قائم رہے گا۔ سو تا دمِ تحریر دستیاب حقائق کی بنیاد پر ہمت رائے شرما جی نے مئی 1936ء سے پہلے، اردو میں سب سے پہلے ماہیے لکھے تھے اور وہی اردو ماہیے کے بانی ثابت ہوئے ہیں۔‘‘(۶)

رضینہ خان نے اپنے مقالہ میں لکھا ہے :

’’زمانی لحاظ سے ہمت رائے شرما کو فوقیت دینے کے لئے حیدر قریشی نے ’’مسلم انڈینز آف بائیوگرافیکل ڈکشنری‘‘ از احمد سعید ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری۔ ایم اے او کالج لاہور کا حوالہ پیش کر کے اپنے موقف کو مضبوط بنا یا ہے۔ ‘‘(۷)

یہاں بے شک میری توصیف کی گئی ہے لیکن زمانی لحاظ سے ہمت رائے شرما جی کو فوقیت دینے کے حقائق سامعین؍قارئین کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ سو مناسب سمجھتا ہوں کہ مذکورہ حقائق کو بھی یہاں پیش کر دوں۔

’’حمید نسیم نے اپنی کتاب ’’ناممکن کی جستجو‘‘ کے صفحہ 44اور 46پر جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ ڈاکٹر تاثیر جنوری 1936ء میں ایم۔ اے۔ او کالج امرتسر میں پرنسپل بن کر آئے۔ انہوں نے آتے ہی ایک مشاعرہ برپا کرایا جس میں صوفی تبسم، پنڈت ہری چند اختر، مولانا سالک اور چراغ حسن حسرتؔ کو لاہور سے مدعو کیا گیا۔ اسی مشاعرہ میں حسرت نے اپنے مشہور مبینہ ’’ماہیے ‘‘’ پہلی بار سنائے۔ اس بیان کے مطابق حسرتؔ نے اگر جنوری 1936ء میں ’’ماہیے ‘‘ سنائے ہیں تو ان کا سالِ تخلیق بھی کم از کم جنوری 1936ء بنتا ہے۔ یوں انہیں زمانی طور پر شرما جی پر فوقیت مل سکتی ہے۔ لیکن ایک اور حوالہ ملنے سے حسرت کا سالِ تخلیق تو 1936ء رہتا ہے لیکن انہیں شرما جی پر زمانی فوقیت نہیں رہتی۔ ہر لحاظ سے شرما جی کو ان پر فوقیت رہتی ہے۔ اور وہ حوالہ ’’مسلم انڈینز آف بائیو گرافیکل ڈکشنری‘‘ از احمد سعید ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری، ایم۔ اے۔ او کالج لاہور کا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 327پر ڈاکٹر تاثیر کے جو کوائف درج کئے گئے ہیں ان میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ ڈاکٹر تاثیر نے ایم۔ اے۔ او کالج امرتسر کے پرنسپل کی حیثیت سے 20مئی 1936ء کو کام شروع کیا۔ سو اگر انہوں نے آتے ہی مشاعرہ کرایا اور اس سلسلے میں آٹھ دس دن لگ گئے تو مشاعرہ کا مہینہ جون بنے گا۔ اگر حسرت نے جو ن 1936ء میں ’’ماہیے ‘‘ سنائے تو یہ ’’ خاموشی‘‘ کے گیت تخلیق ہونے اور بک لٹ چھپنے کے بعد کی بات ہو جاتی ہے۔ تاہم اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حسرت نے اپنے ’’ماہیے ‘‘ 1936ء میں تخلیق کئے تھے اور یہ 1937ء میں فلم ’’باغباں ‘‘ میں شامل بھی کر لئے گئے تھے۔ اب ایک طرف تحقیق کا یہ مرحلہ ہے، دوسری طرف ہمارے ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ہیں جو حسرتؔ کے ’’ماہیے ‘‘ 1944-45ء میں ہونے کا حکم سنا رہے ہیں۔ اور ایسی تحقیق کے زعم میں ہم لوگوں کے کام کو ’’تحقیق پر آیا ہوا برا وقت‘‘ کہہ کر طنز بھی فرما رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ’’محقق ‘‘ ہی ایسا حکم صادر کر سکتے ہیں۔ پھر بھی انہیں یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ کسی کے ایک آدھ مضمون کو آدھا ادھورا پڑھ کر اور کسی اور آدھے ادھورے حوالے کی بنیاد پر نام نہاد تحقیق کی جائے تو ہلدی کی گانٹھ ملنے پر پنساری بننے والی مثال فٹ بیٹھ جاتی ہے۔‘‘(۸)

میری ان وضاحتوں کے بعد زیرِ بحث موضوع کے وہ سارے تحقیقی پہلو کھل کرسامنے آ گئے ہیں جو رضینہ خان کے مقالہ میں ضمناً یا  اشارتاً بیان ہوئے تھے۔ ان سارے حقائق کے سامنے ہونے کے بعد تحقیق کے طالب علم اور علماء بہتر طور پر نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔

آخر میں رضینہ خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے دہلی کے ایک اہم سیمینار کے لیے ماہیا کو اپنا موضوع بنایا۔ ان کے مقالہ سے مجھے مزید حقائق کو بیان کرنے کے لیے مثبت تحریک ملی ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ اب اردو ماہیا سے دلچسپی رکھنے والے تخلیق کاروں میں تخلیق کاری کی ایک نئی لہر اُٹھے گی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حوالہ جات:

(۱)  ’’اردو ماہیا اور حیدر قریشی‘‘ از رضینہ خان۔ اسی مکالمہ میں شائع کیا گیا ہے۔

(۲)رضینہ خان کا ایم فل کا مقالہ ان لنکس پر مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

http://work-on-haiderqureshi.blogspot.de/2014/05/blog-post_6154.html

https://archive.org/details/MaqalaM.PhilByRazeenaKhan

(۳)اردو ماہیا میں اولیت کا قضیہ مضمون مرزا حامد بیگ۔ مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔ شمارہ  مئی 2000ئ۔ ص 34

(۴)مرزا صاحب کے جواب میں از حیدر قریشی۔ بحوالہ’’ اردو ماہیا تحقیق و تنقید‘‘ ص۔ 506-507

(۵)       ایضاً   ص۔ 507

(۶)     ایضاً ص۔ 509-510

(۷)   ’’اردو ماہیا اور حیدر قریشی‘‘ از رضینہ خان

(۸)مرزا صاحب کے جواب میں از حیدر قریشی۔ بحوالہ’’ اردو ماہیا تحقیق و تنقید‘‘ ص۔ 508-509

٭٭٭

ماخذ: حیدر قریشی کی ای میلز

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید