FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

کچھ مغربی ادیب

 

 

                غلام شبیر رانا

 

 

 

مشل فوکو

 

(Michel Foucault)

(1926 – 1984)

 

مشل فوکو کا شمار عالمی شہرت کے حامل مفکرین میں ہوتا ہے۔ ایک ممتاز فلسفی، سوشل سائنس کے ماہر، نامور مورخ اور نظریہ سازتخلیق کار کی حیثیت سے اس نے شہرت اور بقائے دوام کے دربار میں عزت و احترام کے بلند منصب تک رسائی حاصل کی۔ فرانس کے علمی اور ادبی افق پر 1960 سے1970 کے عرصے میں جو درخشاں ستارے طلوع ہوئے، ان کے افکار کی ضیا پاشیوں سے مہیب سناٹوں کا خاتمہ ہوا اور سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں مدد ملی۔ مشل فوکو کا شمار تاریخ ادب کے اس ا ہم دور میں فرانس کی علمی و ادبی کہکشاں کے تابندہ ستاروں میں ہوتا ہے۔ اس نے طرز کہن کو ترک کر کے آئین نو پر عمل کرنے کو شعار بنایا اور مسحور کن انداز گفتگو کے اعجاز سے اس نے ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ حرفِ صداقت پر مبنی دبنگ لہجے، ٹھوس استدلال، واضح انداز فکر اور پس ساختیاتی انداز فکر کے ساتھ اس کی قلبی وابستگی اور والہانہ لگاؤ نے اسے ایک منفرد اور ممتاز مقام عطا کیا۔ مشل فوکو نے اپنے پیش رو مفکرین سے ہٹ کر اپنے لیے جو طرز فغاں ایجاد کی اسے یقین تھا کہ مستقبل میں یہی طرز ادا قرار پائے گی۔ اس سے قبل لیوی سٹراس اور رولاں بارتھ نے زبان اور لسانیات کے موضوع پر اپنے خیال انگیز اور فکر پرور مباحث سے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کی سعی کی۔ یہ فاضل زبان اور لسانیات کو جس طریقۂ کار کے آلہ کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کرتے رہے اپنی نوعیت کے اعتبار سے اگرچہ وہ ایک منفرد انداز تھا لیکن مشل فوکو نے اسے لائقِ اعتنا نہیں سمجھا اور اپنے لیے ایک الگ انداز فکر اپنایا۔ کورانہ تقلید سے اسے شدید نفرت تھی اس لیے اس نے پامال راہوں پر چلنے کے بجائے ندرت اور تنوع کی مظہر نئی سوچ کو زادِ راہ بنایا۔ مشل فوکو کے افکار کے سوتے تاریخ کے مسلسل عمل، سماجی اور سیاسی مآخذ اور ڈسکورس سے پھُوٹتے ہیں۔ مشل فوکو کی حیات کے افسانے میں لچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ بات حیران کُن ہے کہ کہیں کہیں سے یہ قصہ قاری کو ابہام کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ اس کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ گیا مگر اس کا پُورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ اس کی ذاتی زندگی میں دلچسپی اور دل کشی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ اگر کسی شخص کی یہ رائے ہے کہ اس کا کام اس کی ذاتی زندگی کے معتبر حوالے کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں تو اس موقف کو تسلیم کرنے میں اسے کوئی تامل نہیں۔ شر ط صرف یہ ہے کہ استفسارت اور وضاحت طلب امور کے بارے میں ناگزیر ضروریات کے بارے میں اسے مطمئن کر دیا جائے۔ وہ جواب دینے کے لیے تو تیار رہتا تھا لیکن اکثر سوال اس کے کڑے معیار اور میرٹ پر پورے ہی نہیں اترتے تھے۔ اسے اپنے غم کا بھید کھولنے میں تامل نہ تھا لیکن جب کوئی محرم ہی نہ ملے تو حساس تخلیق کار اپنی جان پر گزرنے والے صدمات کا حال کس کے رو بہ رو بیان کرے۔ وہ تو اپنی زندگی کے جملہ نشیب و فراز بیان کر نا چاہتا تھا لیکن جب کوئی سنتا نہ ہو تو وہ بولتا کیسے اور قبر میں شور برپا کرنے کا کیا فائدہ ہے۔ چلتے پھرتے ہوئے مُردوں، سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں کے سامنے زندہ انسانوں کے مسائل بیان کرنا آج کے دور کا لرزہ خیز اعصاب شکن المیہ قرار دیا جاتا ہے۔ مشل فوکو کے اسلوب کی صد رنگی قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔

مشل فوکو نے تاریخ، سوشیالوجی، نفسیات اور فلسفہ کے اہم شعبوں میں اپنی معرکہ آرا کامرانیوں سے عالمی ادبیات میں تہلکہ مچا دیا۔ پس ساختیات نے ادب اور لسانیات کو افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجو کے فکری سفر پر مائل کیا۔ علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ دنیا میں کسی بھی قوم کی تہذیبی و ثقافتی عظمت کا تعلق سنگ و خشت کی بلند و بالا عمارات سے نہیں بل کہ افکارِ تازہ سے ہے جن کے اعجاز سے مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کیا جا سکتا ہے۔ مشل فوکو نے پسِ ساختیاتی فکر کا عمیق جائزہ لینے کے بعد قارئین ادب کو اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ محض متن پر انحصار کرنا درست اندازِ فکر نہیں بل کہ متن کا ڈسکورس ہی گنجینۂ معانی کا طلسم ہے۔ اس نے زندگی بھر اس بات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی کہ فکر و خیال کی جو لانیوں اور تخلیق فن کے لمحوں میں متن کا ڈسکورس کلیدی کردا ر ادا کرتا ہے۔ اس نے ساختیاتی انداز فکر کے بجائے پسِ ساختیات سے وابستگی کو اپنا مطمحِ نظر بنایا اور زندگی بھر اس پر کار بند رہا۔ کالج آف فرانس، پیرس میں اس کے افکار کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی ہے جہاں اس نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی پسِ ساختیات پر خیال افروز مباحث کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ موت کے بے رحم ہاتھو ں نے اس شمع فروزاں کو گُل کر دیا اور لسانیات کا ہنستا بولتا چمن دائمی سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسے زندگی بھر اس بات کا قلق رہا کہ بعض لوگ اسے ایک ساختیاتی انداز فکر کے حامل شخص کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بے پر کی اڑانے والوں کی بے سرو پا باتوں کی اس نے بہت تردید کی لیکن کسی نے اس جانب توجہ نہ دی۔ اس نے پس ساختیاتی فکر کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی اور وہ اپنے فکری سفر پر مطمئن تھا۔ مشل فوکو کے اسلوب کی انفرادیت کی دلیل یہ ہے کہ اس نے اپنے لیے ایک ایسا راستہ منتخب کیا جو اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ اس نے پامال راہوں سے بچ کر نئی منزلوں کی جستجو کو شعار بنایا۔ ساختیات کے بارے میں یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس نے نہ صرف عام احساس اور عقل عام پر مبنی عام فہم انداز کو لائق اعتنا نہیں سمجھا بل کہ اسے یکسر لائق استرداد بھی قرار دیا۔ ساختیاتی فکر نے عقل عام کی منزل سے آگے گزرنے کی راہ دکھائی اور اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ اس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ تہذیبی اور ثقافتی عوامل کے بارے میں حقیقی اندازِ فکر اپنا سکے۔ مشل فوکو نے ساختیات کی اس کیفیت کے بارے میں جانتے ہوئے اس سے آ گے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کا خیال تھا کہ عقلِ عام کی تہی دامنی، بے بضاعتی اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی امکان تک رسائی کی صلاحیت سے وہ یکسر محروم ہے۔ مشل فوکو کے افکار کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ عقلِ عام کو چراغِ راہ سمجھنے میں بھی اُسے تامل ہے۔

ماہرین لسانیات اور ممتاز نقادوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مشل فوکو نے ادب اور لسانیات میں جو کڑا اور منضبط رویہ اپنایا وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ عملی زندگی میں اس نے تقلید کی مہلک کورانہ روش کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور پاسبانِ عقل کو دل کے ساتھ رکھنے پر اصرار کیا۔ مطالعۂ ادب میں بھی اس نے جانچ پرکھ کو شعار بنایا۔ اس عالمِ آب و گِل کاروانِ ہستی مسلسل رو میں ہے اور رہروانِ راہِ فنا نے سالہا سال کے تجربات کے بعد جن معائر اور صداقتوں کے بارے میں عمومی استحسان کا اظہار کیا اور انسانی کردار میں ان کے اعجاز سے نیکی، خیر اور دردمندی کی نمو کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، ان کے بارے میں بھی وہ تحفظات رکھتا تھا۔ عملی زندگی میں اس کی تنقیدی فعالیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مسلمہ صداقتوں، اقوالِ زریں، ضرب الامثال اور مروج دستور العمل کو من و عن تسلیم کرنے میں تامل کرتا تھا اور اقتضائے وقت کے مطابق ان کی جانچ پرکھ پر اصرار کرتا تھا۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ وہ ان تمام امور کی ہر صورت میں تردید، تکذیب یا انھیں غلط ثابت کرنے پر کمر بستہ نہیں تھا بل کہ اس کی دلی تمنا تھی کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں ان تمام امور کا از سرِ نو جائزہ لینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس سے عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ وہ ہمیشہ اس بات پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا تھا کہ تاریخ کے مسلسل عمل کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے لوحِ جہاں پر نقش ماضی کے متعدد حقائق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خیال و خواب بن کر معدوم ہو جاتے ہیں۔ اس تمام صورت حال کو سائنسی اندازِ فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے تاریخی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ باطنِ ایام پر نظر رکھنے والے اس امر سے آگاہ ہیں کہ ماضی کے حالات و واقعات جب ابلقِ ایّام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہونے لگتے ہیں تو ایسے پُر آشوب دور میں تاریخ کا مسلسل عمل انھیں تاریخ کے طوماروں سے نکال کر فکر و خیال کی نئی شمعیں فروزاں کرتا ہے، جس سے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوتا ہے۔ اس پیہم رواں عمل کی بدولت عہدِ ماضی کے متعدد راز ہائے سر بستہ کی گرہ کشائی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ اسی کو تاریخی شعور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہوائے جور وستم اور یاس و ہراس کی فضا میں بھی تاریخی شعور کے وسیلے سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کیا جا سکتا ہے اور طلوعِ صبحِ بہاراں کی اُمید بر آتی ہے۔ تاریخی شعور سے فِکرِ انسانی کو اس انداز میں جِلا مِلتی ہے کہ موقع پرستی و جاہ طلبی، خو د غرضی و مفاد پرستی، بُغض و عداوت، عصبیت و تنگ نظری، ہو ا و ہوس، استحصال اور منافقت اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد ملتی ہے۔

تاریخی شعور کے بارے میں مشل فوکو کے خیالات نہایت اُمید افزا رہے۔ اس کا خیال تھا کہ تاریخی شعور سے فکرِ انساں کوایسی لائق صد رشک تابانیاں نصیب ہوتی ہیں جن کی بدولت اقوامِ عالم کی سماجی اور معاشرتی زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کی تفہیم میں بہت مدد ملتی ہے۔ ہلاکت آفرینیوں اور ناگہانی آفات کی صورت میں مسلسط ہونے والے موجودہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن دور میں تاریخ کے مسلسل عمل کو پیشِ نظر رکھنا اقتضائے وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ زمانے میں زندگی کی برق رفتاریاں جہاں کئی آسائشیں لائی ہیں وہاں زندگی کی اقدار عالیہ کو بھی یہی برق رفتاریاں بہا لے گئی ہیں اور کئی آلائشوں نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بروز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ اس کے تدارک کے لیے علم، ادب، فلسفہ اور سائنس کے بارے میں مثبت شعورو آگہی کو پروان چڑھانا از بس ضروری ہے۔

یہ تاریخ کا مسلسل عمل ہی ہے جو افراد کو اس صلاحیت سے متمتع کرتا ہے جو معاشرتی زندگی کو درپیش مسائل کے بارے میں سنجیدہ اور حقیقت پسندانہ اندازِ فکر اپنانے پر آمادہ کرتی ہے۔ مشل فوکو اس امر کا شاکی تھا کہ ان عوامل کے بارے میں بالعموم سنجیدہ رویہ اپنانے میں تامل کیا جاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ معاشرے کے با اثر طبقے نے معاشرتی زندگی کو درپیش مسائل اور ان کے پسِ پردہ کار فرما عوامل کے بارے میں کوئی واضح، ٹھوس اور قابلِ عمل لائحۂ عمل مرتب کرنے کے بجائے کم زور، ثانوی اور ناگوار طور پر مسلط کرد ہ طریقِ کار اپنا کر حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا لیا ہے۔ ان لرزہ خیز، روح فرسا آلام اور پُر آشوب حالات میں جب لوگوں نے مصلحت اندیشی کے تحت حرفِ صداقت لکھنا ترک دیا تھا مشل فوکو نے حریتِ ضمیر سے جینے اور حریتِ فکر و عمل کا علم بلند رکھنے پر اصرار کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہزار خوف ہو لیکن زبان ہمیشہ دل کی رفیق ہو، خواہ کچھ بھی ہرجانہ دینا پڑے سچ ہی لکھا جائے۔ وہ اس بات کا داعی تھا کہ حق گوئی اور بے باکی ہی جواں ہمت افراد کا امتیازی وصف ہوتا ہے۔ زندگی میں سچ کا بو ل بالا کرنے کے لیے ایسا ڈسکورس منتخب کیا جائے جس میں صداقت رچ بس جائے، لفظ بولیں اور الفاظ سے صداقتوں کی مہک قریۂ جاں کو معطر کر دے۔ صبح پرستوں کی یہ دیرینہ روایت ہے کہ وہ حرفِ صداقت کے تیشے سے منافقت، مکر اور جبر کی فصیل کو منہدم کرنا اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جری اور سچے تخلیق کار کے اسلوب میں اس کی شخصیت کے تمام انداز دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ اس نے اپنے دبنگ لہجے سے جس طرح صداقت اور تاریخ کو یک جان دو قالب بنا کر پیش کیا وہ اس کے منفرد اسلوب کا واضح ثبوت ہے۔ اس نے دنیا بھر کے قارئین ادب پر واضح کر دیا کہ صداقت اور تاریخ کے مسلسل عمل کو کسی بھی صورت میں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ صداقت کی تاریخی تناظر میں تحقیق کو شعار بنانے والے اس زیرک تخلیق کار نے افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہاں تازہ تک ر سائی کی جو مساعی کیں انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ حق گوئی کی مشکلات سے عہدہ بر آ ہونا اس کا مطمح نظر نہ تھا بل کہ وہ یہ چاہتا تھا کہ حرف صداقت لکھنے والے ادیبوں کو جن صبر آزما حالات کا سامنا کر نا پڑتا ہے اس کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی اور مثبت انداز فکر کو پروان چڑھایا جائے۔ جابر سلطان کے سامنے حق و صداقت کا علم بلند رکھنا اور زیرِ تیغ کلمۂ حق ادا کرنا حریتِ فکر و عمل کے مجاہدوں کا امتیازی وصف ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب مصلحت اندیشی کو وتیرہ بنا لیا جائے اور صداقت کی خاطر جان کی بازی لگانے کی روش ترک کر دی جائے تو یہ بہت بُرا شگون ہے۔ اس کے بعد ایسا مسموم ماحول پیدا ہو جاتا ہے جس میں پورا معاشرہ بے حسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ا س حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب سچائی کا صورت گہنا جاتا ہے تو سفاک ظلمتیں مقدر کی سیاہی کی صورت میں مسلسط ہو جاتی ہیں۔ تہذیب و تمدن کو بھی اس لرزہ خیز کیفیت سے شدید ضعف پہنچتا ہے۔ مشل فوکو حرفِ صداقت کی ہمہ گیر اثر آفرینی اور دائمی تابندگی پر کامل یقین رکھتا تھا۔ بیسویں صدی کے اس جری اور ممتاز فلسفی کے متنوع خیالات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر متاع لوح قلم چھن بھی جائے تو حریت فکر کے مجاہد خون دل میں انگلیاں ڈبو کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ مشل فوکو نے صداقت کی جانچ پرکھ اور سچائی کی تلاش میں علوم کی حقیقت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ علوم کی اصلیت کے متعلق قاری کیا رائے قائم کرے اس کا کوئی جواب شل فوکو کے پاس نہیں۔

1950کے اوائل میں مشل فوکو کی جو تحریریں سامنے آئیں ان کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اسلوب پر نطشے کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس نے ہیگل اور کارل مارکس کے افکار سے بھی اثرات قبول کیے۔ صداقت کی جستجو اور نئے تعلقات کی آرزو میں وہ اپنے دل میں اپنی تمناؤں، اُمیدوں اور اُمنگوں کو سموئے اور خواہشات کی مشعل تھامے سفاک ظلمتوں میں بھی سر گرم عمل رہنے پر اصرار کرتا ہے۔ اس نے جنس کو بھی ایک نیا مفہوم دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ جنس کو محض تسکین پر محمول نہ کیا جائے بل کہ اسے تخلیقی زندگی کے ایک نئے امکان کی حیثیت سے ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔ اس کی مشہور تصنیف ’’جنس کی تاریخ ‘‘ کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب مکمل نہ ہو سکی لیکن اس میں مشل فوکو نے جنس کو تاریخی تناظر میں دیکھتے ہوئے کئی اہم امور کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ اس کتاب میں مشل فوکو نے جنس اور جذبات کے بارے میں جو تجزیے پیش کیے ہیں انھیں کسی مستحکم انداز فکر کا مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس تصنیف میں قدیم اور جدید تاریخ کے معتبر حوالوں کی کمی قاری کو کھٹکتی ہے۔ مشل فوکو کی تصانیف کا جس قدر کثرت اور تواترسے مطالعہ کیا جائے اتنی ہی سرعت سے اس کے اسلوب کی اثر آفرینی کا طلسم بھی ٹوٹتا چلا جاتا ہے۔ مشل فوکو کی تحریروں کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے بعض اوقات گمان گزرتا ہے کہ سترہویں صدی سے قبل کے حالات اور فرانس سے باہر واقع جدید دنیا کے معمولات اور فکری ارتقا کے بارے میں مشل فوکو کی واقفیت محدود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی عہد کے ادب اور فنون لطیفہ کے بارے میں مشل فوکو کی آرا پر مکمل طور پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

تاریخی حقائق کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں دیدہ وروں نے اپنی انجمن خیال سجائے رکھی اور اپنے لیے فکر و خیال کی نئی بستیاں بساتے رہے۔ خوب سے خوب تر کی جستجو کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا اوراس کے اعجاز سے سماجی اور معاشرتی زندگی میں سدھار کے امکانات پیدا ہوئے۔ اپنے عظیم ترین اور اصلاحی مقاصد کے حصول کے لیے ممتاز دانش وروں نے ایک لائق صد رشک و تحسین لائحۂ عمل مرتب کیا اس لائحۂ عمل کو مشل فوکو ایپس ٹیم(Episteme)سے تعبیر کرتا ہے۔ ہر زمانے کے ایپس ٹیم میں اُفقِ علم پر متعدد آفتاب و ماہتاب طلوع ہوتے رہے ہیں جن کے افکار کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں، اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا اور فکر و نظر کو مہمیز کرنے میں مد د ملی۔ ان نابغۂ روزگار ہستیوں کی تخلیقی کامرانیوں کی بدولت عام انسان کی فکری تہی دامنی، تخلیقی بے بضاعتی اور محدود سوچ کے باعث معاشرتی زندگی کو فکر و خیال میں ندرت اور تنوع کی جس کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا بڑی حد تک ازالہ ہو جاتا ہے۔ مشل فوکو نے ساد، رلکے، نطشے، فرائڈ اور مارکس کو ایسے یگانہ ء روزگار فاضل قرار دیا ہے جن کے افکار کی جو لانیوں، رفعت تخیل اور فکری کامرانیوں سے عام تخلیق کار اور افراد معاشرہ کے ڈسکورس میں رونما ہونے والے خلا کو پُر کرنے میں مدد ملی اور حریت فکر کا علم بلند ہوا۔ مشل فوکو ان مشاہیر کی عظمت کا مداح ہے اور واضح کرتا ہے کہ ان لوگوں نے جو طرزِ فغاں اپنائی وہ اپنی مثال آ پ ہے۔ انھیں محض تخلیق کار اور مصنف سمجھنادرست نہیں۔ ان کے اشہب قلم کی جو لانیوں سے جمود کا خاتمہ ہوا، سعیء پیہم کے جذبات کو مہمیز ملی اور فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔ اس طرح ایک ایسا اچھوتا اور دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آیا جس نے قاری کو مسحور کر دیا۔ یہی وہ ہستیاں ہیں جنھوں نے متن کی تخلیق کے قواعد اور امکانات کی تفہیم کی نوید سنائی اور جہانِ تازہ تک رسائی کو یقینی بنانے کی مقدور بھر سعی کی۔ ایک عام ناول نگار جو محض اپنے متن کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، اس سے ان کا موازنہ درست نہیں۔ ایک عام ناول نگار اور ان یگانۂ روزگار ہستیوں میں بعد المشرقین ہے۔ مثال کے طور پر جب فرائڈ نے خوابوں کی تعبیر اور مزاح اور اس کے لا شعورسے تعلق کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کارل مارکس نے کمیو نسٹ مینی فیسٹو اور کیپیٹل جیسی تہلکہ خیز تصانیف پیش کیں تو پوری دنیا میں ان کی منفرد سوچ کو پذیرائی ملی۔ انھیں محض مصنف قرار دینا سرا سر نا انصافی ہے۔ ان یادگارِ زمانہ لوگوں کے افکار کا پرتو ہر عہد کے علم و ادب میں دکھائی دے گا۔ تاریخ ہر دور میں ان کے کام اور نام کی تعظیم کرے گی۔ انھوں نے اپنے فکر پرور اور بصیرت افروز خیالات سے افکارِ تازہ کے مظہر ڈسکورس کے امین غیر مختتم امکانات کے استحکام اور تنظیم کی مساعی کو نصب العین بنایا اور منطقی استدلال کے بنیاد گزار کی حیثیت سے جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ اس سے بڑھ کر بو العجبی کیا ہو گی کہ مشل فوکو نے جن مشاہیر کے کمالات کو لائق تحسین سمجھا ان کی حق گوئی، صداقت، بے باکی اور نئے تخلیقی تجربات کو بہ نظر تحسین دیکھا، ان کے ڈسکورس کا پرتو اس کے اپنے اسلوب میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ ایسی پیچیدہ صورت حال ہے جس کے بارے میں ناطقہ سر بگریباں ہے کہ اس کے بارے میں کیا کہا جائے اور خامہ انگشت بدنداں ہے کہ اس تضاد کے متعلق کیا لکھا جائے۔ سچ ہے کواکب جس طرح دکھائی دیتے ہیں ویسے ہوتے نہیں۔ معاصر علمی، ادبی اور فکری کیفیات کا تاریخی تناظر میں جائزہ لینے کے بعد مشل فوکو اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کے دور کی ایپس ٹیم اپنی تکمیل کے قریب ہے اس کے بعد نئے دانائے راز روشنی کا سفرجاری رکھیں گے۔

اس حقیقت کو فراموش نہیں کر نا چاہیے کہ جب تخلیق کار الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے سے ڈسکور س کو نکھار عطا کرتا ہے تو یہ فعالیت اس کی انفرادیت کی دلیل بن جاتی ہے۔ وہ روایت کی اساس پر افکارِ تازہ کا قصر عالی شان تعمیر کر نے کا آرزو مند ہو تا ہے اور اپنی تمام صلاحیتوں اور قوتوں کی تجسیم کو شعار بنا تا ہے۔ جہاں تک تاریخ کے مسلسل عمل اور اس کے مضمرات کا تعلق ہے مشل فوکو نے نطشے کے اثرات قبو ل کر تے ہوئے اس امر سے اتفاق کیا کہ تار یخ کا معروضی مطالعہ بعید از قیاس ہے۔ کو ئی بھی مورخ تاریخ لکھتے وقت سائنسی انداز فکر نہیں اپنا سکتا۔ وہ اپنے اسلوب میں دل کشی اور نکھار پیدا کرنے کی غرض سے رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے کئی استعاروں اور مہم جوئی کے کئی واقعات کو جگہ دے سکتا ہے اور اس طرح شعور و ذہن کو نئی تابانیوں سے آشنا کر سکتا ہے۔ ہیگل نے لکھا تھا :

’’چونکہ انسانی آزادی اوراحساسِ آزادی ایک چیز ہے لہٰذا آزادی کا ارتقا شعور و ذہن کا ارتقا ہے۔ اس عمل میں ہر قسم کے افکار تشکیل پاتے ہیں۔ اس لیے فلسفہ تاریخ صرف                    انسانی عمل ہی کو ظاہر نہیں کرتا بل کہ وہ کائناتی عمل سے بھی پردہ اُٹھاتا ہے۔ ‘‘(1)

مشل فوکو کے جن شاگردوں نے کے پسِ ساختیاتی افکار کو اپنے فکر و فن کی اساس بنا کر ان کی ترویج و اشاعت پر توجہ دی، ان میں ممتاز فلسطینی فلسفی ایڈورڈ سعید( EDWARD SAID)کا نام قابل ذکر ہے۔ ایڈورڈسعید کے اسلوب پر بھی مشل فوکو کے ما نند نطشے کے افکار کا پرتو نمایاں ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی امریکہ میں انگریزی ادبیات کی تدریس پر مامور اس فاضل پروفیسر نے اپنے استاد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زندگی بھر ڈسکورس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ مشل فوکو کی تمام اہم تصانیف میں ڈسکورس کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اس نے ڈسکورس کا جس تواتر کے ساتھ ذکر کیا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کی اس نے اظہار و ابلاغ کی قوت کوڈسکورس کا ثمر قرار دیا اور یہ کہ انسانی فہم و ادراک کے جو ہر کا کرشمہ ڈسکورس کی صورت میں دامنِ دل کھینچتا ہے۔ مشل فوکو کا خیال تھا کہ انسانی فہم و دراک اور بصیرت کے بارے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس کی تکمیل فرد کی زندگی میں نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر طب، ریاضی اور سائنس ہی کو لے لیں، یہ سب علوم تاریخ کے مسلسل عمل کے نتیجے میں آنے والی نسلوں کے لیے سر چشمۂ فیض ثابت ہوئے ہیں۔ کانٹ نے کہا تھا :

’’انسانی عقل و فہم کی نشو و نما کا عمل انفرادی زندگی میں نہیں بل کہ تاریخی عمل میں پُورا ہوتا ہے۔ انسان چونکہ عقل و فہم کا مالک ہے اس لیے اس کی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے لیے

تاریخی عمل ضروری ہے۔ یہ تاریخی عمل عقل و ادراک کو ترقی دیتا ہے اس لیے انسانی تاریخ عقل، فہم اور ادراک کی تاریخ ہے۔ ‘‘ (2)

مشل فوکو نے تاریخ کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ تاریخ نویسی میں مشل فوکو زبان و بیان کی دل کشی اور رنگینی کو الفاظ کی بازی گری پر محمول نہیں کرتا بل کہ وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے وسیلے سے قوت کی تحصیل کی مساعی ثمر بار ہوں۔ اگر تاریخ نویسی میں ایسا ڈسکورس اپنایا جائے جہاں تخیل کی شادابی اور افسانوی انداز سے سے قارئین کو سبز باغ دکھایا جائے تو اسے تاریخی ناول نگاری کا نام دیا جائے گا۔ اُس کا استدلال ہے کہ قوت کا حصول ڈسکورس ہی کا مرہون منت ہے۔ فرد کی عملی زندگی میں کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ اشیا کے ساتھ تشدد کو روا رکھے جانے کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ مشل فوکواسے ڈسکورس کی ایک صورت کا نام دیتا ہے۔ اس نے تخلیق کار کے منصب اور ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا کہ مصنف کو توازن، اعتدال اور انصاف کو شعار بنانا چاہیے۔ معاشرتی زندگی مختلف اداروں کے اشتراکِ عمل سے رواں دواں ہے۔ اسے چاہیے کہ اداروں کے نظامِ کار کو پیشِ نظر رکھے جو ڈسکورس کی کائنات کے دائرۂ کار کا تعین کرتا ہے۔ تہذیب کی تمام اقسام، ڈسکورس کی جملہ صورتوں پر یکساں طور پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اس طرح خاص نوعیت کے سلسلہ وار اور پیچیدہ مراحل کے نتیجے میں ڈسکورس ایک خاص آہنگ میں سامنے آتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ گا کہ ڈسکورس کا دائرۂ کار لا محدود ہے جو کسی فردِ واحد پر انحصار نہیں کرتا۔ ڈسکورس گلدستۂ معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھنے اور ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باندھنے کی فعالیت ہے۔ خزاں کے سیکڑوں مناظر کے مسموم ماحول میں بھی قوی ڈسکورس طلوع صبحِ بہاراں کے ہزارہا جلووں سے فیض یاب ہونے کے لا تعداد امکانات سامنے لا سکتا ہے۔ مشل فوکو نے ما بعد الطبعیات کے بارے میں بھی اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا۔ پس ساختیاتی فکر کے مطابق ایغو کا خلاف بھی اس کے جذبات اس کی تحریروں میں نمایا ں ہیں۔

مشل فوکو نے اظہار و ابلاغ کی روح پرور اور وجدانی اثر آفرینی اوراس کی محیر العقول قوت کے نمو پانے کے محرکات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس کا خیال تھا کہ محض متن پر انحصار کرنا سرابوں میں بھٹکنے کے مترادف ہے۔ متن پر کلیتاً انحصار اور اکتفا کرنے والوں کا خیال ہے کہ معنی خیزی کے سوتے قوت اور نظریے سے پھوٹتے ہیں جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ بادی النظر میں یہ بات واضح ہے کہ دلوں کو مرکزِ مہرو وفا کرنے اور قلب و روح کو مسخر کرنے والی لا زوال قوت کا سرچشمہ ڈسکورس ہے۔ اسی کے معجز نما اثر سے فکری، جذباتی، احساساتی اور ذہنی کیفیات کی جلوہ گری کا اہتمام ہوتا ہے۔ انسانی زندگی میں رونما ہونے والے حالات، واقعات، نشیب و فراز، الم و انبساط کو محض حادثاتی ہر گز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بل کہ یہ سب تغیرات اور ارتعاشات ایک نظام کے تابع ہیں۔ ان حالات میں یہ ڈسکورس ہی ہے جو سماجی اور معاشرتی زندگی کی اجتماعی کیفیات کے بارے میں حقیقی منظر نامہ سامنے لاتا ہے۔ یہاں گمان گزرتا ہے کہ مشل فوکو نے نطشے کے افکار کو ایک منفرد انداز میں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ جہاں تک ڈسکورس کا تعلق ہے مشل فوکو نے اسے فکر انساں کی ایک ایسی اہم فعالیت سے تعبیر کیا ہے جسے اظہار و ابلاغ کے محور کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی مسحورکُن کیفیت جو تاریخ کے مسلسل عمل کی آئینہ دار ہو ڈسکورس کا امتیازی وصف ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک زیرک، فعال، مستعد اور مستقبل پر نظر رکھنے والے تخلیق کار کے افکار و تصورات کی تفہیم اس کے عہد میں ممکن نہ ہو لیکن زمانہ آئندہ یا بعید آئندہ میں اس کے تصورات کو حقیقی تناظر میں دیکھا جا سکے اوراس کی شخصیت کے محدود زاویوں کے بجائے اس کے منتخب ڈسکورس کے بارے میں چشم کشا صداقتیں سامنے آئیں۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے اور افراد کا وجود خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتا ہے لیکن یہ ڈسکورس ہی ہے جو لفظ کی حرمت اور تخلیق کی جاذبیت کو تا ابد بر قرار رکھتا ہے۔ کہنے والا تو عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھا ر جاتا ہے لیکن اس کا ڈسکورس باقی رہ جاتا ہے۔ ڈسکورس کی جاذبیت اور اذہان کی تطہیر و تنویر اور جِلا کا اہتمام کر کے دل میں اُتر جانے والی اثر آفرینی اس کے دوام کی ضمانت ہے۔ ڈسکورس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مشل فوکو نے لکھا ہے:

All discourses, whatever their status, form, value, and whatever the treatment to which they will be subjected, would then develop in the anonymity of a murmur. We would no longer hear the questions that have been rehashed for so long:, who really spoke? Is it really he and not someone else? with what authenticity or originality? And what part of his deepest self did he express in his discourse? Instead, there would be other questions, like these :, What are the modes of existence of this discourse? Where has it been used , how can it circulate, and who can appropriate it for himself? What are the places in it where there is room for possible subjects? Who can assume these various subject- functions? And behind all these questions, we would hear hardly anything but the stirring of an indifference:, What difference does it make who is speaking? (3)

جنوں کی حکایات خوں چکاں رقم کرتے وقت مشل فوکو نے اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا۔ فہم و ادراک کو وہ انسان کے جو ہر سے تعبیر کرتا ہے۔ جس طرح فطرت ہمہ وقت لالے کی حنا بندی میں مصروف عمل ہے بالکل اسی طرح ذہن و ذکاوت اور بصیرت میں بھی فطرت کے تقاضوں کے مطابق نشوونما کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ بعض اوقات ایسابھی ہو تا ہے کہ فکر انسانی کی تکمیل افراد کی زندگی میں نہیں ہو پاتی، ان کی داستان ان کے دل میں نا گفتہ ہی رہ جاتی ہے، یہیں سے جنوں کے بار ے میں کئی خیالات سامنے آتے ہیں۔ سماجی زندگی میں کچھ حدود اور قیود کا تعین کر دیا جاتا ہے جن کے ذریعے یہ فیصلہ کیا جاتا کہ کس شخص کا رویہ ذہنی بیداری کا مظہر ہے۔ اگر کوئی شخص خرد کی گتھیوں کو نہ سلجھا سکے اور بے مقصد اور مہمل انداز اپنائے تو یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ شخص مخبوط الحواس اور فاتر العقل ہے۔ تاریخ کے مسلسل عمل کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سماجی اور معاشرتی زندگی کی پر امن بقائے باہمی کا دارو مدار فہم و ادراک اور ذہن و ذکاوت کے مسلمہ معائر پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ اگر کہیں ان معائر سے انحراف کی صورت پیدا ہوتی ہے تو اسے جنون پر محمول کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے فکر و خیال کا ایک حصا ر تشکیل دیا جاتا ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کو ئی اپنا گریبان چاک کرے اور ذہن و ذکاوت، فکر و خیال اور تہذیب و ثقافت کے حصار سے باہر نکلنے کی کو شش کرے تو اس کیفیت کو دیوانگی کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ مشل فوکو کا خیال تھا کہ دیوانہ پن ایک فطری کیفیت ہے۔ فرد کا سینہ و دل جب حسرتوں سے چھا جاتا ہے تو غم و آلام اور یاس کے ازدحام میں وہ دل کو نہیں سنبھال سکتا۔ یہ انتہائی نا مساعدحالات ہیں جو فرد کو جنون کے کرب ناک حالات کی جا نب دھکیل دیتے ہیں۔ یہی جنون جب بڑھنے لگتا ہے تو فرد کو پا گل اور سودائی بنا دیتا ہے۔ اس موضوع پر اس نے جو مباحث پیش کیے ہیں ان کے مطالعہ سے مشل فو کو کی نفسیات پر گرفت کی حقیقی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مشل فوکو کے اسلوب پر ناقدین نے کھل کر لکھا ہے۔ مشل فوکو کی خودرائی بعض اوقات مضحکہ خیز صورت اختیار کر لیتی ہے اور قاری یہ سوچنے لگتا ہے کہ کون سی اُلجھن کو سلجھانے کی سعی کی گئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جزا و سزا، جنس اور جذبات، دیوانگی اور فرزانگی، تہذیب و ثقافت، ادب و لسانیات، نفسیات و ادویات، سماجیات و فنون لطیفہ، زندان کے اثرات اور ملاقات و بشریات، غرض ہر اہم موضوع پر اُس نے بر ملا اظہار خیال کیا ہے لیکن کئی مقامات پر کسی ٹھوس استدلال اور معتبر حوالے کے بغیر وہ اپنی دھُن میں مگن پرورش لوح و قلم میں مصروف رہا۔ اس کی زبردست خواہش تھی کہ پسِ ساختیاتی فکر کو پروان چڑھانے کے لیے ہر وہ التزام کیا جائے جو اس مقصد کے لیے نا گزیر ہو۔ جنس اور جذبات کو بھی اس نے نفسیات اور تاریخ کی کسوٹی پر پرکھنے کی سعی کی۔ قدرتِ کاملہ کی طرف سے اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا دئیے جاتے ہیں۔ شدید خواہشات جب اصولوں کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتی ہیں تو پاش پاش ہو جاتی ہیں اور سعی پیہم سے فطرت کے تقاضوں کو بدلنا بعید از قیاس ہے۔ المیہ یہ ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنس کے بارے میں اس کی آزاد خیالی اور آزاد روی نے عجیب رنگ اختیار کر لیا۔ یہاں تک کہ ایڈز کے مہلک وار نے اس تخلیق کار سے قلم چھین لیا اور اُس کی پُر اسرار زندگی کی متعدد باتیں نا گفتہ ہی رہ گئیں۔ کسی بھی مصنف کی تمام تحریروں کو مشل فوکو نے ادب تسلیم نہیں کیا اس کا سبب یہ ہے کہ بالعموم مصنف اپنے انتقال سے قبل ان خام تحریروں اور مخطوطات کی اصلاح نہیں کر سکا۔ بعض تحریریں ایسی بھی ہوتی ہیں جنھیں خود مصنف قابل اشاعت نہیں سمجھتا۔ اس لیے ان تحریروں کو ادب کا حصہ قرار دینے میں اسے تامل رہا۔ مشل فوکو نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے تمام احباب کو یہ تا کید کر دی تھی کہ اُس کا کوئی مخطوطہ اس کی وفات کے بعد شائع نہ ہو۔ اس کی زندگی میں جو تحریریں اُس کی منظوری سے شائع ہوئیں وہی اس کا ادبی اثاثہ ہیں۔ جو تحریریں اس کی زندگی میں منصۂ شہود پر نہ آ سکیں اس کی موت کے بعد انھیں کسی صورت میں شائع نہیں ہو نا چاہیے۔ اس کا استدلال یہ تھا کہ اس نے جو کچھ دیکھنا تھا وہ دیکھ لیا جب وہ عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ لے تو اس کی غیر مطبوعہ تحریروں کو بھی ہر صورت میں معدوم ہونا چاہیے۔ دنیا دائم آباد رہے گی مشل فوکو اب اس دنیا میں نہیں رہا لیکن اس کے بعد دشتِ جنوں کی پُر خار راہوں میں خارِ مغیلاں پر قدم رکھنے والا کوئی آبلہ پا دکھائی نہیں دیتا۔ تاریخ کے مسلسل عمل کو زندگی بھر زادِ راہ بنانے والا اپنے عہد کا با اثر ترین اور سب سے متنازعہ فلسفی اور مورخ اب خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ تاریخ اس کے مقام اور مرتبے کا تعین کیسے کرے گی اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دئیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا

مشل فوکو ایک کثیر التصنیف ادیب تھا۔ اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :

  1. Discipline &Punish,
  2. The History of Sexuality,
  3. The Order of Things,
  4. Madness and Civilization,
  5. The Birth of Biopolitics,
  6. The Birth of Clinic,
  7. Power/Knowledge,
  8. Archeology of Knowledge,
  9. Security, Territory, Population,
  10. Writings on Art and Literature,
  11. The will to Knowledge

 

   ماخذ

 

(1) بہ حوالہ مبارک علی ڈاکٹر :تاریخ اور فلسفہ تاریخ، فکشن ہاؤس، لاہور، اشاعت اول، 1993، صفحہ140۔

(2)   ایضاً                                                                     ، صفحہ127۔

(3)David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearson Education, Singapore, 2004, Page. 186-

٭٭٭

 

 

 

 

ژاک لاکاں

(Jacques Lacan)

 

ژاک لاکاں (عرصۂ حیات:پیدائش13۔ اپریل، 1901وفات9ستمبر 1981)نے ابتدائی تعلیم پیرس میں حاصل کی۔ اس کا والد صابن اور تیل کا تاجر تھا۔ ژاک لاکاں فوج میں بھرتی ہونا چاہتا تھا لیکن اس کی جسمانی کم زوری سد راہ بن گئی۔ اس کے بعد اس نے میڈیکل کے شعبے کا انتخاب کیا۔ میڈیکل کی تعلیم امتیازی حیثیت سے مکمل کرنے کے بعد اس نے سائیکاٹری میں اختصاصی مہارت حاصل کی اور 1931میں ایک سائیکاٹرسٹ کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس کی شادی 1934میں میری لوزی (Marie Louise)سے ہوئی جو نہایت کام یاب رہی اور اس کے تین بچے پیدا ہوئے جن کی تعلیم و تربیت میں اس کی بیوی نے اہم کردار ادا کیا۔ زمانہ طالب علمی ہی سے ژاک لاکاں کو نفسیات اور فلسفے کے مضامین سے گہری دلچسپی تھی۔ زمانہ طالب علمی کے اس عرصے میں اس نے ممتاز ماہر نفسیات اور بابائے تحلیل نفسی سگمنڈ فرائڈ (Sigmund Freud 1856-1939)کی تصانیف کا عمیق مطالعہ کیا اور اس سے گہرے اثرات قبول کیے۔ نیورالوجی، سائیکو تھراپی اور تحلیل نفسی میں ستاروں پر کمند ڈالنے والے آسٹرین دانشور سگمنڈ فرائڈ نے لا شعور اور بچوں کی جنس کے موضوع پر جو تھیوری پیش کی اسے بیسویں صدی کی اہم ترین تھیوری کی حیثیت حاصل ہے۔ 1930میں سگمنڈ فرائڈ کو گوئٹے پرائز ملا۔ سگمنڈفرائڈ کی شخصیت اور اس کے تحلیل نفسی کے نظریے کے بارے میں ژاک لاکاں نے کچھ مضامین بھی لکھے جنھیں قارئین نے بہت سراہا۔ سگمنڈ فرائڈسے عقیدت کی بنا پر1936میں وہ فرائیڈین تحلیل نفسی تحریک (Freudian Psychoanalytical Movement)سے وابستہ ہو گیا۔ وہ اس تحریک کا انتہائی فعال، مستعد، اور سر گرم کا رکن تھا لیکن اس کی حق گوئی اور بے باکی اس کے ناقدین کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی اور وہ اسے اپنی راہ سے ہٹانے کے ہر وقت سازشوں میں لگے رہتے تھے۔ ایک راسخ العقیدہ محقق، زیرک نقاد، رجحان ساز فلسفی اور با کمال ماہر نفسیات کے طور پر اس کی پہچان ہو چکی تھی۔ اپنے اصلی اور بنیادی مباحث، باریک بینی پر مبنی استدلال، نفسیاتی تجزیہ کی تھیوری کے موضوعات پر تنقیدی مضامین لکھ کر اس نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس نے جو طرز ادا اختیار کی وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہ تھی۔ اس کے حاسدوں نے جب اس کے تخیل کی جو لانیوں اور فقیدالمثال کامرانیوں کو دیکھا تو وہ دل ہی دل میں جلنے لگے۔ بے کمال لفاظ حشراتِ ادب ہر دور میں اہل کمال کے در پئے آزار رہے ہیں۔ ژاک لاکاں کو ً ٓادل مسوس کر رھکہا اور پہوصاکمعاشرے میں جو عزت و احترام کا مقام نصیب ہوا، اسے دیکھ کر سب بے کمال سنگِ ملامت لیے نکل آئے اور اس کے در پئے پندار ہو گئے۔ ان انتہائی تکلیف دہ حالات میں اُسے بین الاقوامی تحلیل نفسی ایسو سی ایشن سے الگ کر دیا گیا۔ ژاک لاکاں نے جب تیر کھا کر کمین کی جانب نظر دوڑائی تو اپنے ہی دوستوں سے آنکھیں چار ہو گئیں۔ ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ سے اپنی قلبی وابستگی اور والہانہ عقیدت کی وجہ سے1964میں ژاک لاکاں نے پیرس میں اپنی ایک تنظیم قائم کی جس کا نام ایکول فرائیڈین(Ecole Freudienne) رکھا۔ سگمنڈ فرائڈ کے نظریۂ تحلیل نفسی پر تحقیق و تنقید و توضیح اس کی زندگی کا نصب العین بن گیا۔ اس کے مقالات کا مجموعہ ایکرٹس(Ecrits)1964میں شائع ہوا۔ اس کی کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی وہ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر جا پہنچا اور پُوری دنیا میں اس کے اشہب قلم کی جو لانیوں کی دھوم مچ گئی۔ اس کا شمار نہ صرف فرانس بل کہ پوری دنیا کے انتہائی با اثر اور رجحان ساز دانش وروں میں ہونے لگا۔ ژاک لاکاں کی اس معرکہ آرا کتاب کا شمار بیسویں صدی میں شائع ہونے والی دنیا کی سو(100) سب سے زیادہ موثر اور مقبول کتب میں ہونے لگا۔ اس کتاب کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں میں کیے گئے اور ان تراجم کی اشاعت سے نئے مباحث کا آغاز ہوا۔ اس کی مشہور کتاب ایکرٹس (Ecrits) کا انگریزی زبان میں ترجمہ سب سے پہلے ایلن شریڈن(Alan Sheridan) نے 1977میں کیا۔ اس کے بعد برو س فنک(Bruce Fink) نے بھی اسے انگریزی کے قالب میں ڈھالا، یہ ترجمہ 2006میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منصۂ شہود پر آیا اور اسے عالمی سطح پر بے حد پذیرائی نصیب ہوئی۔ لسانیات کے نہایت اہم اور وسیع شعبے میں پس ساختیاتی فکر کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں ژاک لاکاں کی خدمات کا ایک عالم معترف تھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں ژاک لاکاں کو غیر متوقع پریشانیوں اور ذہنی صدموں سے دوچار ہونا پڑا۔ عالمِ پیری میں جب اس کے اعضا مضمحل ہو گئے اور عناصر میں اعتدال عنقا ہو گیا تو کئی مارِ آستین اس پر ٹوٹ پڑے اور متعدد سانپ تلے کے بچھو اپنی نیش زنی سے اسے اذیت دینے لگے۔ یہ سب اس کے کینہ پرور، پُرعناداوراحسان فراموش شاگرد تھے جن کے بے قرینہ اور نا روا سلوک نے اس حساس تخلیق کار کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کرچی کر دیا۔ ایسے چربہ ساز، سارق، کفن دُزد قماش کے مسخرے جب حادثۂ وقت کے نتیجے میں غاصبانہ طور پر جام پر قابض ہو نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تومے خانے کی توہین، رندوں کی ہتک اور انسانیت کی بے توقیری اور توہین و تذلیل ان کا وتیرہ بن جاتا ہے۔ ان محسن کش متفنی شاگردوں کا بڑھتے ہوئے منحرف المرکز روّیے نے ژاک لاکاں کی زندگی اجیرن کر دی۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کر تے وقت جب وہ ان شاگردوں پر اپنے الطاف و عنایات اور مروّت و شفقت کا احوال دیکھتا تو اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔ اگرچہ یہ المیہ اس کے لیے سوہان روح بن گیا تھا اس کے با وجود اس نے اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا اور اس موضوع پر لب اظہار پر تالے لگا لیے۔

یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں اس بے حس معاشرے میں زیرک اور رجحان ساز دانش وروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ جب جاہل اپنی جہالت کا انعام حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائے تو وقت کے اس حادثے کو کس نام سے تعبیر کیا جائے۔ ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں ژاک لاکاں کو بھی سنگِ ملامت برداشت کرنے پڑے۔ سگمنڈ فرائڈ کے بعد جس ماہر نفسیات کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہ ژاک لاکاں ہے۔ اُسے تحلیل نفسی کے انتہائی متنازعہ ماہر کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ جہاں تک قارئین میں مقبولیت کا تعلق ہے ژاک لاکاں نے سگمنڈفرائڈ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ سگمنڈفرائڈ کی اہمیت بہت زیادہ ہے لیکن ایک فرائیڈین کی حیثیت سے جو شہرت اور مقبولیت ژاک لاکاں کے حصے میں آئی اس میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں۔ سگمنڈفرائڈ کی تھیوری کو اپنے فکری سفر میں زاد راہ بنانے والے اس نابغۂ روزگار دانش ور نے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند منصب تک رسائی حاصل کی اور جریدۂ عالم پر اس کا دوام ثبت ہو گیا۔ ژاک لاکاں کا خیال تھا کہ لا شعور کی تشکیل بھی بالکل اسی انداز میں ہوئی ہے جس طرح زبان کی تشکیل ہوئی ہے۔ داخلی احتیاج ایک تخلیق کار کو ایسے قلبی اور روحانی اضطراب میں مبتلا کر دیتی ہے کہ جو اسے تخلیق فن پر مائل کرتا ہے۔ اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ سیر جہاں کے دوران اس کی جان نا تواں پر جتنے بھی موسم اترے ہیں وہ انھیں پیرایہ ء اظہار عطا کرے۔ تخلیق ادب میں ایک تخلیق کار کی شعوری سوچ اور گہرے غور و خوض کا بے حد اہم کردار ہے جسے تحلیل نفسی کے ماہرین نے تخلیقی فعالیت کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ تخلیق کار کی تخلیقی فعالیتیں اپنی اصلیت کے اعتبار سے نئے اور متنوع تجربات کے ابلاغ کو یقینی بنانے کا وسیلہ ہیں۔ اس نے سگمنڈ فرائڈ کے تصور کو آگے بڑھا کر اسے حیاتیاتی عمل سے لسانیات کی اساس پراستوار کرنے کی سعی کی۔ اس نینفسیات موضوعات Id-Ego-Super Egoکو تحلیل نفسی میں جس انداز میں پیش کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ژاک لاکاں نے تحلیل نفسی کی بنیاد پر جو تنقید لکھی وہ اس کا منفرد تجربہ تھا جسے عالمی سطح پر زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ سگمنڈفرائڈ نے ذہن کو شعور اور لا شعور میں تقسیم کیا ژاک لاکاں نے اس موضوع پرداد تحقیق دی۔ پس ساختیات سے متعلق اس نے بیگانگی، موضوعیت، جنسی اختلافات، محرکات، قانون اور تفریح جیسے موضوعات پر نہایت دل نشیں انداز میں اپنے خیالات پیش کیے۔ بیسویں صدی کے فرانسیسی فلسفے، سو شیالوجی، تانیثیت، ادب، فنون لطیفہ، نفسیات بالخصوص تحلیل نفسی پر ژاک لاکاں نے جن خیال افروز مباحث کا آغاز کیا، پوری دنیا میں اس کی باز گشت سنائی دی۔ ژاک لاکاں نے واضح کر دیا کہ متن فنا کی دستبرد سے ہمیشہ محفوظ رہتا ہے، اس کی اپنی سائیکی اور اپنا جہاں ہوتا ہے۔ حرف صداقت کو دوام حاصل ہے اور ایسی تحریریں جو ازلی اور ابدی صداقتوں کی امین ہوں، وہ فنا کی دستبرد سے محفوظ رہتی ہیں۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کوخس و خاشاک کے ما نند بہا لے جاتے ہیں لیکن دل سے نکلنے والے سچے الفاظ کو دوام حاصل ہے۔ صداقت کے لیے جان کی بازی لگانے والے اپنے وجود کا اثبات کرتے ہیں اور ان کی تخلیقی فعالیت انسانیت کی فلاح کی ضامن ثابت ہوتی ہے۔ سگمنڈ فرائڈ نے بھی صداقت کی اہمیت پر بہت زور دیا۔ اس سلسلے میں ژاک لاکاں نے لکھا ہے:

Freud is referring to this connection with truth when he declares that it is impossible to meet three challenges: to educe, govern and psychoanalyze: Why are they impossible ,if not for the fact that the subject can only be missed in the under takings, slipping away in the margin Freud reserves for truth:(1)

صداقت کے ساتھ جو لوگ عہد وفا استوار رکھتے ہیں وہی علاج گردش لیل و نہار کی استعداد سے متمتع ہوتے ہیں۔ تحلیل نفسی سے شروع ہی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زبان کے ذریعے جو الفا ظ ادا کیے جاتے ہیں اگر ان میں صداقت کی آمیزش ہو تو ان کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نفسیات میں ان کی اہمیت اور افادیت مسلمہ ہے۔ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ کسی نفسیاتی مریض کی تحلیل نفسی کے لیے اس کی گفتگو اور الفاظ کو نقطۂ آغاز سمجھا جا سکتا ہے۔ ان الفاظ سے فرد کے جذبات و احساسات اور فکری منہاج کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ سگمنڈ فرائڈ نے اسی جانب اشارہ کیا ہے کہ اظہار و ابلاغ میں حرف صداقت کی تاثیر مسلمہ ہے۔ جذبات کا انسلاک مفاہیم سے نہیں بل کہ نشان نما سے ہوتا ہے۔ الفاظ اور ان سے وابستہ مطالب کے بارے میں ژاک لاکاں نے اسی خیال کو وسعت دی، اس نے لا شعور کے بارے میں بتایا کہ اس کی تشکیل بھی زبان کے مانند ہوئی ہے جو کہ اشارات کے ایک نظام کی شکل میں فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے۔ ژاک لاکاں نے لکھا ہے سچ کی معجز نما اثر آفرینی خود اپنا اثبات کرتی ہے:

For these undertakings truth proves to be complex in its essence, humble in its offices and foreign to reality, refractory to the choice of sex,akin to death and,on the whole rather inhumna ,Diana perhaps:::::Actaeon, too guilty to hunt goddess, prey in which is caught, O huntsman, the shadow that you became, let the pack go without hastening your step, Diana will recognize the hounds for what they are worth:” (2)

ژاک لاکاں نے اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ اس عالم آب و گِل میں ہر مرحلۂ زیست پر صداقت کی اثر آفرینی کا غلغلہ ہے۔ صداقت کی اقلیم کو اندیشۂ زوال نہیں۔ ژاک لاکاں نے یہ بھی واضح کیا کہ تحلیل نفسی کے اعجاز سے سماجی زندگی کا وسیع تر تناظر میں مطالعہ ممکن ہے۔ اس میں دیگر سماجی نظریات کی نسبت کہیں زیادہ وسعت، تنوع اور بو قلمونی پائی جاتی ہے۔ تحلیل نفسی ہمیں جانچ پرکھ کی قوی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ لا شعوری خواہشات کے طلسم کا اسیر ہو جانے کے اسباب کی گرہ کشائی تحلیل نفسی ہی سے ممکن ہے۔ نیرنگیء زمانہ اور ہر عقدۂ تقدیر جہاں کی تفہیم میں تحلیل نفس کلیدی کردا ر ادا کرتی ہے۔ رخش عمر مسلسل رو میں ہے اور انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کا پاؤں رکاب میں ہے۔ شقاوت آمیز نا انصافیوں اور ہلاکت خیزیوں کے موجودہ زمانے میں فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بروز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں تحلیل نفسی زندگی کا وسیع تر تناظر میں جائزہ لینے کی راہ دکھاتی ہے۔ ژاک لاکاں نے اپنے تجزیاتی مطالعہ سے یہ واضح کر دیا کہ سائیکی کس طرح افراد کے فکر و خیال کی دنیا پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے زیر اثر افراد کی فعالیت کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ زندگی کے مختلف پیچیدہ مراحل پر سائیکی جس انداز میں رنگ جما تی ہے ژاک لاکاں نے اپنے تجربات، مشاہدات اور تجزیات کے وسیلے سے اسے پرکھنے کی سعی کی ہے۔ انسانی تجربات کو ژاک لاکاں نے لسانی تناظر میں جانچنے کا منفرد تجربہ کیا جس کے نتائج پر وہ مطمئن تھا۔

ممتاز ماہرلسانیات سوسئیر (Ferdinand de Saussure 1857-1913)کے خیالات پر ژاک لاکاں نے گرفت کی اور ان پر نظر ثانی کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ نشان مستحکم نہیں ہوتا بل کہ پیہم تغیر پذیر رہتا ہے اور جہاں تک الفاظ اور ان کے مفاہیم کا تعلق ہے یہ بھی تخمین و ظن کی حیثیت رکھتے ہیں ژاک لاکاں نے لفظ پر اپنی توجہ مر کوز رکھی۔ اس چیز کو جس کی نمائندگی کے لیے لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے اسے ثانوی اہمیت کا حامل سمجھا۔ ایغو کے عکس کو زیر بحث لاتے ہوئے ژاک لاکاں نے بہت دلچسپ نتائج اخذ کیے۔ اس نے آئینہ کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا اور اپنے موقف کی احسن طریقے سے وضاحت کی۔ آئینہ کے مرحلے کا طریق کار ایک ایسا عمل تھا جس میں اس نے دو اقدار کو مد نظر رکھا پہلے درجے پر اس نے تاریخی قدر کو رکھا۔ یہی وہ قدر ہے جو بچے کی ذہنی نشو و نما میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس نے دوسری قدر کو رکھا ہے جو بڑھتی ہوئی عمر اور جسم کی نشو و نما ہے۔ سوچ کے ساتھ ان کا جو چولی دامن کا ساتھ ہے، ژاک لاکاں نے اسے اجاگر کیا ہے۔ اس اہم تعلق کو متشکل کر کے ژاک لاکاں نے تحلیل نفسی کے موضوع پر اپنے خیالات کی موثر انداز میں وضاحت کی ہے۔ ژاک لاکاں نے زبان کو اپنی شناخت کاوسیلہ سمجھا اور اپنی ذات کو لسانیات کیا تھاہ وسعتوں میں یوں ضم کر دیا کہ دونوں یک جان د قالب دکھائی دیتے ہیں۔ اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ جب بھی علم، ادب، لسانیات اور فلسفہ کے موضوعات پر تاریخی تناظر میں بات کی جائے گی تو یہ امر چنداں اہمیت کا حامل نہیں کہ اس کی ماضی میں کیا حیثیت تھی یا زمانہ حال میں وہ کس منصب پر فائز ہے یا اس وقت وہ کس مر حلۂ زیست سے گزر رہا ہے اور اسے کن مسائل اور دشواریوں کا سامنا ہے۔ مورخ کومستقبل پر نظر رکھنی چاہیے کہ آنے والے دور میں تخلیق کار کے خیالات کو کس طرح سمجھا جائے گا۔ اس کی ساری جد و جہد کا محور مستقبل کے لیے بہتر حکمت عملی مرتب کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے آئینۂ گفتار کے ذریعے قاری کو آنے والے دور کی ایک دھندلی سی تصویر دکھانے کی کوشش کی ہے تا کہ اقتضائے وقت کے مطابق مستقبل کی فکری منہاج کے تعین کی اُمید بر آئے اور اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر آئے۔

ایک کثیر التصانیف دانش ور کی حیثیت سے ژاک لاکاں نے اپنی وقیع تصا نیف سے علم و ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا اسے تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس کا پیچیدہ مگر بصیرت افروز اسلوب قاری کو فکر و خیال کی حسین وادیوں کی سیر کراتا ہے۔ اس کی تحریر کا ایک ایک لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم ہے جس سے ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت سامنے آتی ہے اور مرحلۂ شوق کبھی طے نہیں ہوتا۔ ایغو الاصل فلسفیوں کے افکار کی عمارت کو پس ساختیات کے حرف صداقت کے تیشے سے منہدم کرنے میں ژاک لاکاں نے جس انہماک کا مظاہرہ کیا وہ اس کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جا تا ہے۔ سگمنڈ فرائڈ کے بعد ژاک لاکاں نے تحلیل نفسی پر سب سے زیادہ وقیع کام کیا۔ تاریخ ہر دور میں اس کے اہم کام اور عظیم نام کی تعظیم کر ے گی۔ ژاک لاکاں کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :

1:Anxiety, 2:Ecrits, 3:The Seminar Of Jacques Lacan 10 volumes, 4:The Triumph of Religion, 5:On the name of Father, 6:The four fundamental concepts of Psycho-Analysis, 7:The Ethics of Psycho-Analysis, 8:The Psychoses, 9:My Teaching

ژاک لاکاں نے پامال راہوں سے بچ کر اپنے لیے ایک نیا اسلوب منتخب کیا۔ اس نے فکر انسانی کی پرواز، تخیل کی جو لانیوں اور مستعمل علامات میں ایک واضح فرق کی جانب متوجہ کیا۔ معاصر تنقیدی تھیوری پر ژاک لاکاں کے تصورات کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ ژاک لاکاں کے بارے میں عمو می تاثر یہ ہے کہ اس نے فرائڈ کے نظریات کی توضیح کو نصب العین بنایا۔ وہ خود کو فرائڈین سمجھتا تھا اور اس پر وہ مطمئن بھی تھا لیکن اس کے نظریات صر ف فرائڈ تک محدود نہیں رہتے بل کہ وہ فرائڈ کے نئے مطالعات پیش کر کے از سر نو اس کے نظریات کے بارے میں متنوع مباحث کا آغاز کرتا ہے۔ اس کا یہ اسلوب اپنی الگ شناخت رکھتا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لاکانین مکتبۂ فکر ہے جس میں نئے زمانے نئی صبح و شام پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ پس ساختیات کے مباحث میں اس کا دبنگ لہجہ اس کی مستحکم شخصیت کی پہچان ہے۔ ژاک لاکاں نے اپنے ذہن و ذکاوت کی جو لانیوں سے ایک ایسے موزوں لسانی ماڈل کا تصور پیش کیا جس کے وسیلے سے سماجی زندگی کے جُملہ نشیب و فراز اور ارتعاشات کا احاطہ ممکن ہے اور معاشرے میں انسانی موضوعات کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ اہم موضوع جس ندرت، تنوع اور لسانی اہمیت کا حامل ہے اسے بہت سراہا گیا۔ انسانی خواہشات کا موضوع بھی ژاک لاکاں کی توجہ کا مرکز رہا۔ انسان تمناؤں میں اس قدر اُلجھ جاتا ہے کہ اسے تمنا کے دوسرے قدم کی بھی خبر نہیں رہتی۔ ہزاروں ایسی خواہشیں اس کے دل میں پیدا ہوتی ہیں کہ ہر خواہش پر اس کا دم نکلتا ہے۔ بادی النظر میں ہر خواہش کا اختتام دوسروں کی خواہشات سے وابستہ ہے۔ ہر خواہش کے نمو پانے کے متعدد اسباب و محرکات ہو تے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی دل میں کوئی خواہش پیدا ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی ہم دوسروں کی جانب ملتجیانہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ اس خواہش کے بارے میں وہ کیا خواہش رکھتے ہیں۔ دوسروں کی خواہشات کے احترام میں ہمیں اپنی کئی خواہشوں کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے، جب ہمارے دل سے کوئی خواہش رخصت ہوتی ہے تو ہم اسے آنسوؤں اور آہوں کا نذرانہ پیش کر کے الوداع کہتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی خواہش کرنے والے کے پیش نظر ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ دوسرا کیا خواہش رکھتا ہے۔ آلام روزگار کے مسموم ماحول میں خواہشات کے گُل ہائے رنگ رنگ اکثر مُرجھا کر بکھر جاتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ خواہشات کبھی معدوم نہیں ہوتیں۔ تمام نا آسودہ خواہشات فرد کے لا شعور میں ٹھکانا کر لیتی ہیں اور وہ ان لخت لخت خواہشات کو جو اس کے لا شعور میں جگہ بنا لیتی ہیں، اپنی متاع زیست سمجھ کر اپنے دل میں سنبھالے ہجوم غم کی ظلمتوں میں ان سے ضیا حاصل کرتا ہے اور دل کو سنبھالنے کی سعی میں مصروف رہتا ہے۔ ژاک لاکاں خواہشات کی اسی بے کراں وسعت اور حیران کُن قوت اور مسحور کُن اثر آفرینی کو لا شعور سے تعبیر کرتا ہے۔ ژاک لاکاں جس موضوع پر بھی اظہار خیال کرتا ہے اس موضوع کو ناقابل فراموش بنا دیتا ہے۔ اپنی حقیقت سے آگاہ ہو کر اس نے فکر و احساس کو جس منفرد انداز میں پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے وہ زبان و بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس اور علمی فضیلت کا ثبوت ہے۔ ایک زیرک اور بلند پایہ ادیب اور فلسفی کی حیثیت سے اس نے جو ڈسکورس پیش کیا ہے وہ قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ اس کے ڈسکورس کے سوتے لا شعور سے پھوٹتے ہیں اور اس کی تاثیر قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ اپنے ڈسکورس کے بارے میں ژاک لاکاں نے لکھا ہے:

"My discourse proceeds in the following way: sustained only in its topological relation with the others:”(3)

ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ لا شعور کی وضاحت کی اور اس کے بعد اسی کی اساس پر اپنے منفرد انداز میں نظریہ لا شعور کو پیش کیا۔ سگمنڈ فرائڈ کے بحرِ خیالات کا پانی اس قدر گہرا تھا کہ وہ خود بھی اس کی غواصی کر کے لا شعور کے بارے میں حقائق کے گہر ہائے آب دار بر آمد کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ژاک لاکاں نے زندگی بھرسگمنڈ فرائڈ کے تصورات تک رسائی اور ان کی تفہیم کی مقدور بھر کوشش کی۔ سگمنڈ فرائڈ کے وہ تصورات جن کی گُتھیاں سُلجھانے میں خودسگمنڈ فرائڈ کو بعض پیچیدگیوں اور اُلجھنوں کے باعث تامل رہا، ژاک لاکاں نے ان پر از سر نو غور و خوض کیا، نئے مطالعات پر توجہ دی اور متعدد نئے مباحث کا آغاز کیا۔ سگمنڈ فرائڈ کے ساتھ ژاک لاکاں کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی بھی عجب گُل کھِلاتی ہے، جو بعض اوقات آشفتہ سری کی حدوں کو چھُو لیتی ہے۔ جب وہ سوز وساز کے عالم میں ہو تو سگمنڈ فرائڈ کے تعریف و توصیف اور تشریح و تفہیم کے نادر پہلو زیر بحث لاتا ہے اور جب اس پر پیچ و تاب کی کیفیت کا غلبہ ہو تو وہ سگمنڈ فرائڈ کے متن کی تشریح کے دوران نہ صرف اصل متن کو پس پشت ڈال دیتا ہے بل کہ اس پر تنقید بھی کرتا ہے اور اپنا الگ زاویۂ نگاہ پیش کرتا ہے۔ مروج تنقیدی نظریات کے بارے میں ژاک لاکاں نے ہمیشہ اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ تمام نظریات رومانویت اور رجعت پسندی کی اساس پر استوارہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ فکر و خیال کو ان کے حصارسے نجات دلا کر لا محدود وسعتوں سے آشنا کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اپنے خیالات کی تونگری، جدت اور تنوع کو بروئے کار لاتے ہوئے ژاک لاکاں نے لا شعور اور زبان کے امتزاج سے متکلم موضوعات کا جو نظریہ پیش کیا وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس نے افکار تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہانِ تازہ کی جانب فکری سفر جاری رکھا۔ اس کا خیال تھا کہ سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ لا شعور کی تفہیم پر بالعموم سنجیدہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اس نے سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ لا شعور کے بارے میں پائی جانے والے اختلاف آرا کو لائق اعتنا نہیں سمجھا۔ اس کا کہنا ہے:

"The Freudian unconscious has nothing to do with the so called forms of unconscious that preceded it, not to say accompanied it, and which still surround it today”.(4)

ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کے نظریات کی از سر نو توضیح کر کے اس جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سعی کی۔ سگمنڈ فرائڈ نے لا شعور کو متشکل کرنے کی جو کاوش کی وہ ایک منفرد سوچ کی مظہر ہے۔ لا شعور کی ساخت کا حوالہ دے کر سگمنڈ فرائڈ نے فکر و نظر کے نئے دریچے وا کر دئیے۔ سگمنڈ فرائڈ کے معاصرین اور اس کے بعد آنے والے دانش ور لا شعور کے اہم ترین موضوع پر اس کے خیالات کی اہمیت و افادیت کا احساس و ادراک نہ کر سکے۔ ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ لا شعور کے بارے میں صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

Freud’s unconscious is not at all the romantic unconscious of imaginative creation: It is not the locus of of night: This locus is no doubt not entirely unrelated to the locus towards which Freud turns his gaze _ but the fact that Jung ,who provides a link with the terms of the romantic unconscious, should have been repudiated by Freud is sufficient indication that psycho-analysis is introducing something other. (5)

سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ لا شعور کی وضاحت کرتے ہوئے ژاک لاکاں نے اس جانب اشارہ کیا کہ سگمنڈ فرائڈ کے معاصرین اور ناقدین اس کے اسلوب کو سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ لاشعور کے بارے سگمنڈ فرائڈ کے تصورات انتہائی پیچیدہ کیفیات کے مظہر ہیں۔ اس موضوع پر حقائق کی گرہ کشائی عام قاری کے بس سے باہر ہے۔ سگمنڈ فرائڈ نے لا شعور کی ساخت کا جو منظر نامہ قاری کے سامنے رکھا ہے وہ اس قدر منفرد سوچ کا مظہر ہے کہ اسے پڑھ کر قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور لا شعور کی ہمہ گیر قوت اس پر ہیبت طاری کر دیتی ہے۔ وہ کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتا اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ کو ن سی اُلجھن کو سلجھانے کی سعی کی گئی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خود فرائڈ کے بحر تخیل کی گہرائی اس قدر تھی کہ وہ خود بھی اس کی غواصی کر کے وہاں سے گہر ہائے آب دار برآمد نہ کر سکا۔ اس نے لا شعور کی ساخت کا جو تصور پیش کیا وہ خود اس کی حقیقت سے آگاہ نہ کر سکا۔ اس نے اساطیر اور ما بعد الطبیعات کا حوالہ دے کر اپنے لیے عافیت کی راہ تلاش کر لی اور قاری سرابوں میں سر گرداں پھرنے پر مجبور ہو گیا۔ سگمنڈ فرائڈ نے لا شعور کے بارے میں جو خیالات پیش کیے وہ اس کے فکری میلانات کے آئینہ دار تھے۔ اس کی علمی سطح فائقہ ان سے عیاں تھی لیکن عام قاری کی اس تک رسائی ممکن نہ تھی۔ لا شعور کی دیوی کی جستجو میں تو سگمنڈ فرائڈ یقیناً کامیاب ہو گیا لیکن اس دیوی کے بے پناہ حسن و جمال، جاہ و جلال، تاب و تواں اور حشر سامانیوں کی تاب نہ لا سکا اور اس کے بعد محواستعجاب رہا۔ ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کے لا شعور کے بارے میں پیش کیے گئے تصورات کی وضاحت اس انداز میں کی کہ اپنی گُل افشانیِ گفتار سے قاری کو ایک جہانِ تازہ میں پہنچا دیا۔ ژاک لاکاں نے لا شعور کے مباحث میں زندگی کی جمالیاتی اور اخلاقی اقدار کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ ہ جانتا تھا کہ ان کے اعجاز سے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ ژاک لاکاں نے اس امر پر توجہ مر کوز رکھی کہ تخلیق فن کے لمحوں میں قارئین کے لیے راحت اور مسرت کی جستجو کو شعار بنایا جائے۔ اس سلسلے میں فرائڈ نے کہا تھا:

’’انسان کی بنیادی خواہش یہ ہے کہ لذت یا خوشی حاصل کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس چیز کا انتخاب کیا جائے جس سے خوشی حاصل ہو۔ ‘‘(6)

یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ژاک لاکاں نے اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین کو مثبت شعور و آگہی سے متمتع کر نے اور اس کے لیے مسرت اور راحت کی جستجوکو ہمیشہ اہم خیال کیا۔ وہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہا۔ اس نے پس ساختیات اور تحلیل نفسی جیسے اہم موضوعات کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا اور قارئین کے لیے مسرت کی تلاش کا عمل جاری رکھا۔ ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ کی کیفیت میں اس کی تحریریں فکر و نظر کو مہمیز کر کے جمو د کا خاتمہ کر کے سوچ بچار، سعیء پیہم اور تحقیق و تنقید پر آمادہ کرتی ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ نے لا شعور اور تحلیل نفسی کے موضوع پر جن بصیرت افروز خیالات کا اظہار کیا ہے، ژاک لاکاں نے اس کی تشریح کر تے وقت تمام اہم نفسیاتی امور کو پیشِ نظر ر کھا ہے۔ ورق ورق اور تہہ در تہہ موضوعات تک رسائی ایک کٹھن مر حلہ تھا لیکن ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کے 1920پیش کیے جانے والے لا شعور اور تحلیل نفسی کے چشم کشا تصورات کے اس مرحلے کا نہایت خوش اسلوبی سے طے کیا ہے۔ سگمنڈ فرائڈ نے فرد کی سائیکی کے مطالعہ کے دوسرے مرحلے میں ایک خاص انداز فکر اور نمونہ سامنے رکھا ہے۔ اس کے مطابق فرد کی سائیکی تین عوامل اڈ (Id)، ایغو (Ego) اور سپر ایغو(Super ego) میں منقسم دکھائی دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے سگمنڈ فرائڈ نے جسے اڈ کا نام دیا ہے وہی لا شعور سے قریبی تعلق رکھتی ہے تاہم ان تینوں کو باہم مربوط سمجھنا چاہیے۔ ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کی رحلت کے بعد نفسیات اور تحلیل نفسی کے موضوع پر فکر پرور مباحث کاسلسلہ جاری ر کھا۔ اس نے تحلیل نفسی جیسے اہم موضوع پر حقائق کی تفہیم کی ر اہ دکھائی۔ اس نے چشم بینا پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ تحلیل نفسی کے بارے میں پایا جانے والا ابہام دور کیا جائے اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ تحلیل نفسی کیا نہیں ہے۔ یہ امر غور طلب ہے کہ تحلیل نفسی کے موضوع پر جو کچھ لکھا جا رہا ہے اس کا تحلیل نفسی سے کوئی تعلق بھی ہے۔ اس نے حقائق کی جستجو میں جس انہماک کا ثبوت دیا وہ اس کی ذہنی اُپج اور بصیرت کا ثبوت ہے۔

ژاک لاکاں کی تحریروں کے بارے میں عمو می تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ان کی تہہ تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ژاک لاکاں جس شدت کے ساتھ سگمنڈ فرائڈ کے نظریات کی تشریح و توضیح پر زور بیان صرف کرتا ہے، اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ سگمنڈ فرائڈ کے نظریات پُر اسراریت کے پردوں میں نہاں ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں قاری کسی واضح نتیجے تک پہنچنے کے بجائے تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیے مارنے پر مجبور ہے۔ ایک ماہر نفسیات تحلیل نفسی کو موزوں طور پر رو بہ عمل لا کر فرد کے لا شعور کی کیفیت، تضادات اور ارتعاشات کی تہہ تک پہنچتا ہے اور ان کے تدارک پر توجہ مرکوز رکھتا ہے لا شعور کے زیر اثر شعور کو جن حالات کاسامنا کرنا پڑتا ہے تحلیل نفسی میں انھیں کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ایک تخلیقی فن کا ر محض فن ہی کو منصۂ شہود پر لانا اپنا نصب العین نہیں بناتا بل کہ اپنی تخلیقی فعالیتوں اور بصیرتوں کے معجز نما اثر سے نئی صداقتوں تک رسائی کی نوید بھی سناتا ہے۔ روشن مستقل کے خواب دیکھنا کسے عزیز نہیں، خوابوں کی خیاباں سازیاں فرد کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ خواب سے خیال کا معاملہ بھی تحلیل نفسی کا اہم موضوع ہے۔ ژاک لاکاں نے لا شعور کی بحث میں اس بات کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ لاشعور کی تشکیل بھی اسی انداز میں ہوتی ہے جس انداز میں زبان کی نمو کے عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ژاک لاکاں نے جدید لسانیات کے اصول و ضوابط کی روشنی میں تحلیل نفسی کے مطالعہ کی جس سعی کو اپنا نصب العین بنایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ سوسئیرنے نشان اور نشان نما کے موضوعات پر جن خیالات کا اظہار کیا، وہ افکار تازہ کی مثال ہے جن سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات سامنے آئے۔ اپنے مضمون ,,The insistence of letter in the unconcious,,میں ژاک لاکاں نے اس جانب اشارہ کیا ہے۔ یہ مضمون ڈیوڈ لاج(David Lodge)کی تالیف (Modern Criticism and Theory)میں شامل ہے۔ اپنے اس فکر انگیز مضمون میں ژاک لاکاں نے سگمنڈ فرائڈ کے لسانیات کے بارے میں نفسیات اور لا شعورسے متعلق افکار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

"Freud shows us in every possible way that image’s value as signifier has nothing whatever to do with what it signifies, giving as an example Egyptian Hieroglyphics in which it would be sheer buffoonery to pretend that in a given text the frequency of a vulture which is an aleph, or a chick which is a vau, and which indicate a form of the verb, to be, or a plural, prove that the text has anything at all to do with these ornithological specimens: Freud finds in this script certain uses of the signifier which are lost in ours, such as the use of determinatives, where a categorical figure is added to the literal figuration of a verbal term; but this is only to show us that even in this script, the so-called, ideogram, is a letter. (7)

ژاک لاکاں نے اس انگارۂ خاکی کو وحدت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہم مجبوروں پر مختاری کی تہمت نا حق لگا دی گئی ہے۔ قادر مطلق کی منشا کے مطابق فطرت کے تقاضوں سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک مسلسل عمل کا مظہر ہے۔ رخش عمر مسلسل رو میں، انسان کا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی اس کے پاؤں رکاب میں ہیں۔ کاروان ہستی کا تیز گام قافلہ راہ عدم کی جانب گامزن ہے۔ فرد کی زندگی میں تغیر و تبدل کا غیر مختتم سلسلہ جاری رہتا ہے جو متعدد تضادات اور ارتعاشات کا مظہر ہے۔ انسان اس دنیا میں مانند شرار آتا ہے اور اس کی ہستی نا پائیدار کسی بھی وقت دم دے کر اسے چنگاری کی طرح راکھ میں بدل سکتی ہے۔ انسان کو اپنی حقیقت اور اصلیت کا یقین ہونا چاہیے۔ اگر یقین عنقا ہونے لگے تو تہذیبی و تمدنی انتشار و انحطاط کو نوشتۂ تقدیر سمجھ لینا چاہیے۔ اسے یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ عالم و جود میں آتے ہی انسان سب سے پہلے لسانی عمل کا آغاز کرتا ہے۔ پیدائش کے وقت نو مولود کا رونا نہ صرف اس کی زندگی کی علامت ہے بل کہ طویل اور پیچیدہ لسانی عمل کا نقطۂ آغاز بھی ہے۔ فرد کی فکری منہاج کے تعین و تفہیم میں لسانیات اور تحلیل نفسی کا کردار بہت اہم ہے۔ تحلیل نفسی کو ژاک لاکاں نے ایک ایسا وقیع اور آبرو مندانہ آلے سے تعبیر کیا ہے جس کے وسیلے سے شخصیت اور لسانی معائر کی تفہیم ممکن ہے۔ اس نے سنجیدگی، متانت اور ثقاہت و شعار بنا کر حریت فکر کا علم بلند رکھا۔ اس نے جس بے تکلفی اور بے ساختگی کو اپنے اسلوب کی اسا س بنایا وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ پس ساختیات اور لا شعور کے موضوعات پر اس کے افکار کی لا محدود وسعت ذہن و ذکاوت کو جِلا بخشتی ہے۔

تخلیق ادب کے بارے میں یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ تخلیق کار کے داخلی اور خارجی محرکات کی مطابقت تخلیقی عمل کو نمو بخشتی ہے۔ تخلیقی عمل کو اوج کمال تک پہنچانے میں متعدد لا شعوری محرکات اہم کر دار ادا کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے کی صلاحیت جذبِ دروں اور ُمو ذہن و ذکا ا وجود کر وجدان کی ایک توانا لہر کی مرہونِ منت ہے۔ وجدان کی یہ لہر اس قدر مسحور کن ہوتی ہے کہ تخلیقی فن کار دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس کی شان دل ربائی کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اظہار و ابلاغ کی صورت میں الفاظ جو دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں ان کے پس پردہ زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ ژاک لاکاں نے ادب اور تحلیل نفسی کے موضوع پر جن خیالات کا اظہار کیا وہ اس کی منفرد سو چ اور بصیرت کے مظہر ہیں۔ ژاک لاکاں نے ادب اور تحلیل نفسی کے بارے میں پہلے سے مروج و مقبول تصور کو لائق اعتنا نہ سمجھا۔ اکثر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ تحلیل نفسی کو ادب سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچتا جب کہ ادب کو تحلیل نفسی سے فیض یا ب ہو نے کے متعدد مو اقع ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر فنون لطیفہ کی تخلیق، ان کی ماہیت اور تخلیق فن کے پس پردہ کار فر ما لا شعوری محرکات کے بار ے میں تحلیل نفسی ہی خضر راہ بن کر ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے۔ کہا جا تا ہے کہ اس کے عوض ادب تحلیل نفسی کو کچھ عطا کر نے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہے۔ ژاک لاکاں نے اس تا ثر کو یک طرفہ، نا کا فی، مبہم اور نا قابل تسلیم سمجھتے ہوئے اپنا الگ نظر یہ پیش کیا۔ اس نے یہ بات زور دے کر کہی کہ لا شعور کی ساخت اور تشکیل بھی زبان ہی کے ما نند ہو تی ہے۔ لا شعور اور زبان کے ما بین جس گہری مماثلت کی جا نب ژاک لاکاں نے قارئین کو متوجہ کیا ہے، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ لا شعور کی خا ص زبان کا مطالعہ یقیناً ممکن ہے۔ اس کے بعد ادب کا مطالعہ بھی لا شعور کے مطالعہ کے لیے اپنائے جا نے والے خاص معا ئر کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں حسن و دل کشی اور چاہت و محبت کی کبھی کمی نہیں رہی لیکن کائنات کے اسرارو رموز کی گرہ کشائی میں تا حال کامیابی نہیں ہو سکی۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی پر بالعموم توجہ نہیں دی گئی۔ سگمنڈفرائڈ کے دور سے لے کر زمانہ حال تک انسانی زندگی کا محور وہ چیز نہیں رہی جو وقت کا اہم ترین تقا تھا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ فرد کی تحلیل نفسی پر اس قدر بھر پور توجہ دی جائے کہ وہ اپنی حقیقت کا شناسا ہو سکے۔ ہر زبان کے ادب اور فنون لطیفہ میں تحلیل نفسی کو لا شعور سے تعبیر کر تے ہوئے ژاک لاکاں نے اذہان کی تطہیر و تنویر اور فکر و خیال کو مہمیز کر نے کی ایک منفرد سو چ کو پروان چڑھا نے کی سعی کی۔ ژاک لاکاں کی ان خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس دنیا میں چراغ زیست ہمیشہ فروزاں رہے گا، فصل بہار کی رنگینیاں اور دل کشیاں بھی جاری رہیں گی۔ کئی تابندہ ستارے غروب ہوں گے اور ان کی جگہ نئے ستارے طلوع ہو تے رہیں گے۔ جبین دہر پر حسین خیالات کی افشاں کی تابانیوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا لیکن عصر حاضر میں ایسا رجحان ساز فلسفی کہاں سے لائیں جسے ژاک لاکاں جیسا کہا جا سکے۔ زندگی بھر خرد کی گتھیاں سلجھانے والا یہ تخلیق کار عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار چکا ہے۔ اس کی حیات کے افسانے تاریخ کے طوماروں میں دب کر ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جائیں گے لیکن اس کے لسانی اور فلسفیانہ افکار کی سدا بہار بو قلمونیوں اور جدت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مجھے عبد المجید سالک کا یہ شعر یا د آ رہا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ژاک لاکاں اپنے مداحوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے:

ہمارے دور میں ڈالیں خِرد نے اُلجھنیں لاکھوں

جنوں کی مشکلیں جب ہوں گی آساں ہم نہیں ہوں گے

 

مآخذ

 

(1)Jacques Lacan :Ecrits, Translated by Bruce Fink, Norton &Company London,2006,Page 362:

(2) do Page 362

(3)Dylan Evans: An introductory of Lacanian Psychoanalysis, Routledge, London, 2006, Page, 80

(4) Jacques Lacan: The four fundamental concepts of psychoanalysis, translated by Alan Sheridan, Norton & company London, Page 24-

(5) do ..Page 24-

(6) بہ حوالہ محمدحسن عسکری:ستارہ یا بادبان، مکتبہ سات رنگ، کراچی، طبع اول، 1963، صفحہ 100۔

(7)David Lodge: Modern Criticism and theory, Pearson, Singapore, 2004: Page ,7 ud reserves for truth:(1ے کا منصوبہ ہے۔ کو منظر عام پر آنے والا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

روسی ہئیت پسندی(Russian Formalism ) : ایک مطالعہ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

روسی ہئیت پسندی کی متنوع تحریک نوجوانوں کے دل کی امنگ اور جذبات و احساسات کی ترنگ خیال کی جاتی ہے۔ اس میں جن نوجوان تخلیق کاروں نے سنگ سنگ چلنے اور پرورش لوح و قلم کرتے وقت نئے افکار کی جستجو کا فیصلہ کیا ان میں سے بیش تر کی عمریں بیس برس کے قریب تھیں۔ اُٹھتی جوانی میں فکر و خیال کی نئی مشعل فروزاں کرنے کی تمنا دل میں لیے ان نوجوانوں نے فرسودہ اور پامال راہوں سے گریزاں رہ کر نئی راہوں کی جستجو کو اپنا شعار بنایا۔ جدت، تنوع اور تازگی کی جستجو ان کا مطمح نظر تھااس لیے وہ مہیب سناٹوں، اداس سکوت، جان لیوا تاریکیوں اور ہراساں شب و روز کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی کے متمنی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لکیر کا فقیر بننے کی قدیم فرسودہ روش کو ترک کر کے تخلیقِ ادب کے لیے ایسا لائحۂ عمل مرتب کیا جائے جو اوہام کی تشکیک، شہرت کے بھوکے اصنام کی ستائش کی عقوبت اور فرسودہ اسالیب کی قدامت کی نحوست کی پیدا کردہ ظلمت سے نجات دلا سکے اور اس نئے زاویۂ نگاہ سے ندرت، تنوع اور قوسِ قزح کے مانند ایسے دل کش اور حسین رنگ سامنے آئیں جو طلوعِ صبح بہاراں کے نقیب ثابت ہوں۔ ادبی تنقید کے اس دبستان نے سال 1910 میں سابق سویت یو نین میں اس وقت نمو پائی جب جنگی جنون میں مبتلا طالع آزما اور مہم جُو عناصر نے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی تھیں۔ کبر و نخوت اور حرص و ہوس کی چیرہ دستیوں کے باعث دنیا شدید سیاسی عدم استحکام کا شکار تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے شعلے جواٹھائیس جولائی4 191کو بھڑکے پُوری دنیا کے امن و سلامتی کو خاکستر کرنے کے بعد گیارہ نومبر 1918کو بُجھ گئے۔ اس تباہ کُن جنگ کے دوران انسانیت کو جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا اس نے حساس تخلیق کاروں کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا۔ مصیبت زدہ لوگ انتہائی مایوسی کے عالم میں زندگی گزار رہے تھے۔ یہ خوف ناک جنگ جہاں ہلاکت خیزیوں، ویرانیوں، بربادیوں، قحط، بیماریوں اور مفلسی کا سبب بن گئی تھی وہاں اس کے باعث ایسے مسموم حالات پیدا ہو گئے جن کے نتیجے میں عالمی افق پرہوس، افراتفری اور خود غرضی کا عفریت منڈلانے لگا۔ اس جنگ کے بعدسماجی اور معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں لرزہ خیز اور اعصاب شکن صورت حال سامنے آئی۔ اس طویل اور خون ریز جنگ کے نتیجے میں معاشرتی زندگی میں خوف، دہشت، عصبیت اور لذتِ ایذاجیسے عوارض پیدا ہو گئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں یہ غیر محتاط عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ اس کا عصبیت اور جذبات سے کوئی تعلق نہیں لیکن جنگی جنون نے سائنس کو بھی خوف ناک تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ہوس جاہ و منصب کے خبط میں مبتلا طالع آزما اور مہم جُو عناصر نے سائنس دانوں کو بھی تباہ کن سامان حرب اور جوہری اسلحہ کی تیاری پر مامور کر دیا۔ متعصب سائنس دان مخالف اقوام کے نہتے عوام پر کوہِ ستم توڑنے کی خاطر اپنے اپنے ملک کے اسلحہ خانوں کو بھرنے میں لگ گئے اس کے نتیجے میں سائنس کے غیر متعصب ہونے کا تاثر زائل ہو گیا۔ دکھی انسانیت جو رہینِ ستم ہائے روزگار تھی سائنس کی تباہ کاریوں کا شکار ہو گئی۔ اس ہولناک جنگ نے لوگوں کے مزاج میں بیزاری، مایوسی اور چڑچڑا پن پیدا کر دیا تھا۔ فکر و خیال کی تہی دامنی کا یہ حال تھا کہ متشکک مزاجی نے انھیں اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ تہذیب و تمدن اور شائستگی و اخلاق کے دعوے کرنے والی اقوام کی محاذِ جنگ پر سفاکی اور رعونت، حساس اور درد مند تخلیق کاروں کو خون کے آ نسورلاتی تھی۔ جنگ میں جارحیت کے مرتکب ممالک کے جنگی جرائم عالمی تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔ ان درندوں نے انسانیت کو پتھر کے زمانے کے ماحول میں دھکیلنے کی جو مذموم کوشش کی وہ ہر دور میں قابل نفرت سمجھی جائے گی۔ روسی ہئیت پسندوں نے کوشش کی کہ ادب پاروں سے جمالیاتی تاثیر کشید کر کے اس سے جنگ کے زخموں کے اندمال کا مرہم اور سمے کے سم کا تریاق تلاش کیا جائے۔

انسانی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ آلامِ روزگار کے مہیب بگولوں کے سامنے یہ شمع کے مانند ٹمٹماتی رہتی ہے اور بالآخر اس کی روشنی ماند پڑنے لگتی ہے اور یہ ہمیشہ کے لیے گُل ہو جاتی ہے۔ فرد کی زندگی کی نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی تابانیوں کی سب کہانیوں کو ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد ڈھانپ لیتی ہے جس کے بعد رفتہ رفتہ سب حقائق خیال و خواب بن کر نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ گردش ایام کے باعث ماضی کے واقعات پر پڑ جانے والی گرد کو تاریخ صاف کرتی ہے اور گزشتہ زمانے کے لوگوں کے خیالات سے روشناس کراتی ہے۔ اس کے اعجاز سے زمانۂ حال کے ادبیات کے قارئین کو جب ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کا موقع ملتا ہے تووہ تحقیق و تجسس اور حیرت کے جذبات سے سرشار ہو کر اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسی تجسس کو تاریخی شعور سے تعبیر کیا جاتا ہے جو خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار اور صیقل کر کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتا ہے اور فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا مؤثر وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ روسی ہئیت پسندوں نے ادب اور فنون لطیفہ کے ارتقا کی تفہیم اور احتسابِ ذات کے لیے تاریخی شعور کی بیداری پر زور دیا۔ روسی ہئیت پسندوں نے ادب پارے کو زبان کی ایسی خاص صورت سے تعبیر کیا جو روزمرہ استعمال کی زبان کی مسخ شدہ شکل سے انحراف کر کے قاری کو جہانِ تازہ کی سیر کرائے جہاں خلوص و مروّت، ایثار و دردمندی اور پیمانِ وفا کے سب استعارے اسے مسحور کر دیں۔ ایک زیرک تخلیق کار اپنے ذہن و ذکاوت اور ذوقِ سلیم کو بروئے کار لا کر زبان کی جدت اور تنوع کے مظہر ایسے نئے اور نادر خد و خال وضع کرتا ہے جو قاری کو پرانے تصورات کو بدل کر نئے حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے پر مائل کرتے ہیں۔ روسی ہئیت پسندوں کا خیال تھا کہ خوش کلام ادیب جب بولتا ہے تو اس کے منھ سے پھول جھڑتے ہیں۔ اس طرح ادبی زبان تکلم کی وہ دل کش اور حسین صورت سامنے لاتی ہے جو اپنی صوتی ساخت کے اعجازسے زبان کو ارفع معیار تک پہنچا دیتی ہے۔ ذات کی تکمیل ایک کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے جس کے لیے فرد کی ملت، جماعت، سماج اور معاشرے سے وابستگی ناگزیر ہے۔ یہ فرد کی معاشرتی زندگی ہی ہے جس میں وہ اچھائی اور بُرائی میں امتیاز کے لائقِ صد رشک و تحسین قرینے سیکھتا ہے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اخلاقی نمو اور بالیدگی کے لیے معاشرتی زندگی ایک معدن کی حیثیت رکھتی ہے جہاں سے حسن اخلاق کے لعل و جواہر حاصل کر کے زندگی کو ثروت مند بنایا جا سکتا ہے۔ روسی ہئیت پسندوں نے تخلیق کار کو حسنِ اخلاق سے کام لیتے ہوئے ذاتی محنت اور لگن سے ایسے ادب کی تخلیق پر مائل کرنے کی کوشش کی جو نہ صرف روحِ عصر سے مطابقت رکھتا ہو بل کہ اپنی اثر آفرینی کے اعجاز سے آفاقی نوعیت کا حامل ہو اور اس سے معاشرے اور سماج کو خوشیوں کا گہوارہ بنایا جا سکے۔

روسی ہئیت پسندی نے سال 1930تک سویت یونین میں تنقیدی سفر جاری رکھا۔ اس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ افق ادب پر اٹھنے والا فکر و خیال کا یہ طوفان تھم گیا اور رفتہ رفتہ یہ سب مد و جزر ایام گزشتہ کی تاریخ کا حصہ بن گیا اور ماضی کی کئی ادبی تحریکوں کی طرح یہ تحریک بھی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ جب روسی ہئیت پسندی کو خود اس کی اپنی جنم بھومی میں قدغنوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس جان کنی کے عالم میں بھی اس کے گرویدہ ادیبوں نے اس سے جو عہدِ وفا استوار کیا تھا اسی کو علاج گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے اس کی ترویج و اشاعت پر توجہ مرکوز رکھی۔ روسی ہئیت پسندوں نے مواد اور ہئیت کے بارے میں اپنی منفرد سوچ کو پروان چڑھانے کی سعی جاری رکھی۔ ان کا خیال تھا کہ ادبی فعالیت کی تفہیم کے لیے ادب پارے کی ہئیت اور مواد کا بہ نظر غائر جائزہ لینا از بس ضروری ہے۔ روسی ہئیت پسندوں نے ادبی تنقید میں پہلی بار ہئیت اور مواد کا داخلی انسلاک کر کے اپنے انفرادیت کا لوہا منوایا۔ روسی ہئیت پسندوں نے اس بات پر زور دیا کہ ادب پاروں کے معانی کی ترسیل کا راز ہئیت میں پوشیدہ ہے۔ ادب پارے کی ہئیت کا جائزہ اصل عبارت کے معانی کی تفہیم میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ہئیت کا جائزہ لیے بغیر معانی کے گنج گراں مایہ تک رسائی ممکن ہی نہیں۔ تخلیق فن کے مراحل سے گزرتے ہوئے تخلیق کار جب اپنی تخلیق زیبِ قرطاس کرتا ہے تو اصل عبارت کی ہئیت کا تجزیاتی مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف مواد کا مخزن ہے بل کہ اس کے وسیلے سے قاری ان تمام وسائل اور آلات کے بارے میں بھی آ گہی حاصل کر سکتاہے جنھیں اصل عبارت میں رو بہ عمل لاتے ہوئے تخلیق کار نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔ اس طرح روسی ہئیت پسندوں نے اپنے اس موقف کی وضاحت کی کہ یہ ہئیت ہی ہے جو اصل عبارت کے تصور کی تفہیم کی استعداد سے متمتع کرنے کا سب سے مؤثر اور اہم ترین وسیلہ ہے۔ سال 1914 سے لے کر سال 1930تک سویت یونین(سابقہ) سے تعلق رکھنے والے جن رجحان ساز ادیبوں نے فکر و خیال کی اس شمع کو فروزاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ان میں سے کچھ اہم ادیبوں کے نام حسب ذیل ہیں :

1۔ وکٹر شکلو وسکی( Viktor Shklovsky B:24-01-1893 D: 06-12-1984)

2۔ یوری تائینیانو(Yuri Tynianov B:18-10-1894 D:20-12-1948)

3۔ والڈیمرپروپ(Vladimir Propp B:17-04-1895 D:22-08-1970)

4۔ بور س ایکن بام   (Boris Eikenbaum B:16-10-1886 D:02-11-1959)

5۔ رومن جیکب سن(Roman Jakabson B:11-10-1896 D:18-07-1982)

6۔ بورس تو ماشکوسکی(Boris Tomashevsky B:29-11-1890 D:24-08-1970)

7۔ گریگوری گکووسکی(Grigory Gukovsky B:01-05-1902 D: 02-04-1950)

8۔ جان مکار وسکی(Jan Mukarovsky,B:11-11-1891,D:08-02-1975)

روسی ہئیت پسندی کی تشریح و تجزیاتی مطالعہ میں میخائل باختن(Mikhail Bakhtin B:17-11-1895,D:07-03-1975) نے گہری دلچسپی لی اور نہایت مدلل انداز میں اس کے قواعد و ضوابط پر روشنی ڈالی۔ اس کے مداح یوری لوٹ مین(Yuri Lotman B:28-02-1922,D28-10-1993) نے روسی ہئیت پسندی کے بارے میں حقیقی انداز فکر پروان چڑھانے کے سلسلے میں فعال کردار ادا کیا۔

روسی ہئیت پسند ی کے علم برداروں نے ایک تخلیقی ادب پارے کے متن کے بجائے اس کی ہئیت کو زیادہ اہمیت کا حامل گردانتے ہوئے صرف ہئیت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ ادبی تنقید میں انھوں نے ہئیت کے تجزیاتی مطالعہ ہی کو اپنا مطمح نظر ٹھہرایا۔ ان کا خیال تھا کہ متن سے دامن بچا کر ہئیت کی غواصی کرنے سے مفاہیم کے گہر ہائے آب دار تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ تخلیقی فعالیت اور اس کے پس پردہ کار فرما عوامل کے بارے میں حقیقی شعور و نیانو letter:انیندآگہی کو پروان چڑھانے میں کامیابی صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب ہئیت کے مطالعہ میں انہماک کا مظاہر کیا جائے۔ روسی ہئیت پسندی نے اس جانب متوجہ کیا کہ ایک زیرک نقاد جب ادبی تخلیقات کی ہئیت کی تنقید و تجزیہ کو شعار بناتا ہے تو متن کی تخلیق اور اس کے پس پردہ کار فرما لا شعور ی محرکات کی گرہ کشائی سہل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ہئیت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور ہئیت کے تجزیے کے وسیلے سے تخلیق فن کے اسرار و رموز سمجھنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ وہ ا س نتیجے پر پہنچے کہ ادب پارے مجموعی اعتبار سے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جب کہ ہئیت کو اولین اور کلیدی مقام حاصل ہے۔ جہانِ فن میں ہئیت کو جامِ جہاں نما کی حیثیت حاصل ہے جس کے مطالعہ سے معجزۂ فن کے بارے میں متعدد گتھیوں کو سُلجھایاجا سکتا ہے۔ روسی ہئیت پسندوں کی یہ دلی تمنا تھی کہ زبان کو نئی تاب و تواں اور نیا آہنگ عطا کیا جائے۔ وہ ادبی زبان کو روزمرہ استعمال کی بیزار کُن یکسانیت، بے مزہ روایتی اسالیب اور مضمحل انداز سے نجات دلانا چاہتے تھے۔ متن کے گرویدہ زبان کے نادان دوستوں نے کڑے معائر اور سخت قواعد و ضوابط کے باعث زبان کو چیستان بنا دیا تھا۔ ادبی زبان جن کڑے معائر، بے جا قدغنوں اور جکڑ بندیوں کے بوجھ کے نیچے سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے ان سے زبان کو آزاد کرانے کے لیے روسی ہئیت پسندوں نے حریتِ فکر و عمل کی راہ اپنائی۔ ان کی ہئیت پسندی دراصل ان کی جدت اور تنوع کی مظہر تھی۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جہاں تک جدید اسلوبیات اور تجزیاتی مطالعہ کا تعلق ہے اس کے سوتے روسی ہئیت پسندی ہی سے پھوٹتے ہیں۔

تخلیقِ ادب میں فکر و خیال کو محیطِ بے کراں کی حیثیت حاصل ہے جب کہ نئی سوچ کو محض ذرا سی آب جُو خیال کیا جاتا ہے۔ بادی النظر میں یہ بات واضح ہے کہ تصورات و تخیلات کے ندی نالوں اور دریاؤں کا مدو جزر سمندر کے سامنے ہیچ ہے۔ روسی ہئیت پسندی نے جب اپنے فکر ی سفر کا آغاز کیا تو ابتدا ہی سے اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا acerative and accusory tone of پڑا۔ روسی ہئیت پسندی نے جب متن کے بجائے ہئیت کے ترفع پر اصرار کیا تو ادبی حلقوں نے اسے قبول کر نے میں اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا۔ روسی ہئیت پسندوں نے سبک نکتہ چینیوں کی کبھی پروا نہ کی اور اپنی دُھن میں مگن اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے ہئیت کی متن پر بالادستی کو ثابت کرنے میں مصروف رہے۔ انھوں نے اپنے دلائل میں اس موقف پر اصرار کیا کہ تخلیقِ ادب کے لمحوں میں ایک مستعد اور فعال تخلیق کار اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کے لیے جو پیرایۂ اظہار منتخب کرتا ہے وہ اس کی شخصیت کی طرح جداگانہ انداز کا حامل ہوتا ہے۔ وہ اپنے اسلوب میں جن الفاظ کو شامل کرتا ہے وہ منفرد نوعیت رکھتے ہیں۔ یہ الفاظ ہی ہیں جو گنجینۂ معانی کا طلسم بن کر اظہار و ابلاغ، تکلم کے سلسلہ ہائے دور دراز اور دِل و نگاہ کے جُملہ استعاروں کے امین بن کر دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ ایسی زبان اپنی خاص فعالیت کی وجہ سے نئے رنگ اور منفرد آہنگ لیے سامنے آ تی ہے۔ اس خیال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے روسی ہئیت پسندوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فروغ ادب کے ساتھ قلبی وابستگی رکھنے ولا ایک سنجیدہ اور مخلص تخلیق کار اپنے ما فی الضمیر کے اظہار اور اپنے خیالات کے ابلاغ کے لیے جو زبان استعمال کرتا ہے وہ بہ ہر حال اس زبان سے جداگانہ نوعیت کی ہوتی ہے جو روزمرہ زندگی کے معمولات میں مستعمل ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عملی زندگی میں بنیے، بقال اپنی تجوری بھرنے، محنت کش اپنا پیٹ پالنے اور گڈریے مویشیوں کو چراگاہوں میں ہانکنے کے لیے جو بات چیت کرتے ہیں اس کا انداز سطحی سا ہوتا ہے۔ ان کاخیال تھا کہ روزمرہ زندگی میں مستعمل زبان محض عام نوعیت کی معلومات کی ترسیل کے لیے استعمال میں لائی جاتی ہے۔ ا س کے بر عکس ادبی زبان کا دائرہ کار بے حد وسیع ہوتا ہے اور یہ ادبی زبان ہی ہے جو دل کی بات لبوں تک لانے، قلب و جگر کے افسانے نگاہوں کی زباں سے بیان کرنے اور اسے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کا جداگانہ انداز ہے۔ خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر پرورش لو ح و قلم کو شعار بنانے والے، قلم و قرطاس سے عہدِ وفا استوار کرنے والے اور اپنی قلبی واردات کو رقم کرنے والے ذوق سلیم سے متمتع تخلیق کار کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے کی بات ہی نرالی ہوتی ہے۔ اس کا اول الذکر لہجے سے موازنہ کرنا کور مغزی اور بے بصری کی دلیل ہے۔ وہ روزمرہ زندگی کی عام بول چال کی زبان کو غبارِ راہ سمجھتے تھے جب کہ ان کا خیال تھا کہ تخلیقی فعالیت کے دوران اپنائے جانے والے اسلوب کی زبان اس قدر بلند آہنگ ہوتی ہے کہ وہ وسعتِ افلاک میں گھنگھور گھٹا کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نسیم سحر کے شانہ بہ شانہ بلندیوں کی جانب سر گرمِ سفر رہتی ہے اور ستار ے بھی اس کی گرد راہ کے مانند ہیں۔ ادبی فعالیت کی تکمیل کے لیے ادبی اور لسانی گرامر کی احتیاج سے کون واقف نہیں۔ تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں خیال و خواب، احوال و اقوال، کہانی یا آفاتِ نا گہانی کی اس انداز میں لفظی مرقع نگاری کر تا ہے کہ اس کے دبنگ لہجے سے زبان کو نئی تاب و تواں نصیب ہوتی ہے اور اس میں ہر قسم کے مضامین کے اظہار و ابلاغ کی استعدادپوری قوت، شدت اور جوبن کے ساتھ ظہور میں آتی ہے۔ حسین الفاظ اور متنوع ا سالیب سے مزین اور ادبی گرامر سے نکھر کر ادبی زبان معجزۂ فن سے ایسے تخلیقی فن پارے پیش کرتی ہے جو قارئین کو اپنی جاذبیت اور مسحور کُن دل کشی سے اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ اس طرح ذوق سلیم سے متمتع قارئین ہر قسم کی پا بندیوں اور نا روا حدود و قیود سے نجات حاصل کر کے آزادانہ طور پر ادب پارے کا استحسان کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ کلیشے کی بھرمار سے پامال، گِھسی پٹی اور عام زبان سے انحراف کر کے ادبیت سے لبریز زبان کے استعمال سے وہ مروّج زبان کو اس قدر ثروت مند بنا نے کے خواہاں تھے جو عصری آ گہی کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہو۔ ان کی مجوزہ زبان جہاں عزم جواں کی نقیب ہے وہاں یہ ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کی تڑپ بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ وہ محض تفحص الفاظ اور رنگِ بیاں کے نئے مناظر سے آشنا نہیں ہوتے بل کہ سارے جہاں کے اسرار و رموز کا ایک منفرد روپ اپنی نگاہوں کے سامنے جلوہ گر دیکھ کر حیرت سے ان کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں۔ روسی ہئیت پسندی کے علم برداروں نے زبان کے حوالے سے نحو، ساخت اور منظر کشی کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ ادب اور غیر ادب کے درمیان جو حدِ فاصل ہے اس کی جانب انھوں نے متوجہ کیا اور ذوق سلیم کو مہمیز کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ ان کے اسلوب کا اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے زبان و بیان کی ندرت سے عام باتوں کو بھی خاص انداز عطا کر دیا۔ روزمرہ کے معمولات میں معروف اور مانوس باتوں کو بھی انھوں نے نا مانوس اور اجنبی بنا کر اس طرح پیش کیا کہ قاری چونک اٹھے۔ اجنبیانے (Defamiliarization)کی یہ اختراع روسی ہئیت پسند وکٹر شلووسکی(Victor Shlovsky) نے سال 1917میں متعارف کرائی۔ اس کا خیال تھا کہ کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے اصل میں نہیں ہوتے۔ ان کے ظاہری روپ کے پردے میں نہاں ان کا اصل روپ دکھانا ضروری ہے۔ جس طرح ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ہوتے ہیں جب کہ کھانے کے لیے اور دانت ہوتے ہیں اسی طرح ادب پارے کی ظاہری اور مانوس کیفیت کے بجائے اس کی باطنی کیفیت پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔ ادب پارے میں اتنی جان ہونی چاہیے کہ وہ ہر قسم کی بیساکھیوں سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنے وجود کا اثبات کر سکے۔ وقت کے یہ رنگین اور حسین ستم دیکھ کر چشم زار رونا معمول بن جاتا ہے جب پرانے آشنا چہرے پلک جھپکتے میں اجنبی بن جاتے ہیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ سب رشتے ناتے سراب بن کر اپنی پہچان کھو دیتے ہیں۔ دکھوں کی بھر مار میں بے وفائیوں کی مار کھاتے کھاتے انسان مارِآستین سے مات کھا جاتا ہے۔ ان حالات میں سمے کے سم کا ثمر جب رگِ جاں میں اُتر جاتا ہے تو نہ تو کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی بچ نکلنے کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔ جب زمین دِل کے مانند دھڑکنے لگے، خیابانِ ہستی سے طائرانِ خوش نوا کوچ کر جائیں اور ہر طرف زاغ و زغن اور کرگس و بُوم منڈلانے لگیں، بُور لدے چھتنار اورسرو و صنوبر ایندھن کے لیے کٹ جائیں اور ان کی جگہ پوہلی، حنظل، تھوہر اور زقوم اُگائے جائیں تو ماحول کی اس اجنبیت کو شامتِ اعمال کے باعث رونما ہونے والے کسی نا گہانی حادثے کا انتباہ سمجھنا چاہیے۔

پامال راہوں پر چلنے سے گریزاں اور کورانہ تقلید کی مہلک روش سے نجات حاصل کر کے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی تمنا اپنے دِل میں لیے روسی ہئیت پسندوں نے اقتضائے وقت کے مطابق الفاظ میں نُدرت، تنوع، تازگی، جدت، جاذبیت اور دل کشی کی نمو پر توجہ دی۔ یہ توانا تخلیقی عمل ایسی حسین صد رنگی کا مظہر ہو کہ ایک پُھول کا مضمون بھی سو رنگ سے باندھ کر قاری کو چشم تصور سے نئی دنیا کی تابانیاں دکھا سکے۔ روسی ہئیت پسندوں نے ادب کے عام تصور کی تشریح کو بہت اہمیت دی۔ اس مکتبۂ فکر نے یک زمانی (Synchrony)اور کثیر زمانی (Diachrony) عوامل کے بارے میں صراحت کی۔ تخلیق فن کے لمحوں میں ادبیت اور ادبی فعالیت کو جو کلیدی حیثیت حاصل ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سوسئیر (Saussure)نے جن لسانی عوامل کی جانب متوجہ کیا ان کا عمیق مطالعہ کرنے کے لیے زبان کے کثیر زمانے کے حامل (Synchronic)نظام کی احتیاج ہے۔ تنقید اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے جب سوسئیر اورروسی ہئیت پسندوں کے افکار کا جائزہ لیتے ہیں تو اس بارے میں غیر امید افزا صورت دکھائی دیتی ہے۔ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ اس وقت کون سے الجھن کو سلجھایا جائے۔ تاریخ کے مسلسل عمل کے نتیجے میں زبان جس معاشرتی ارتقا اور تغیر پذیر معاشرتی کیفیات کے مراحل سے گزری ہے، ان کے بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں ملتا۔ اس کے باوجود یہ تاثر عام ہے کہ روسی ہئیت پسندوں نے جس درد مندی، خلوص اور پُر سوز نگاہ سے فکشن کی شعریات پر توجہ دی اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ لسانیات اور فکشن کے موضوع پر ان کے اسلوب میں جو تازگی، ندرت، شگفتگی، تنوع اور اچھوتا پن دیکھنے میں آیا وہ ادبی حلقوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ یہاں تک کہ یورپ نے بھی روسی ہئیت پسندوں کے خیالات سے استفادہ کیا۔ گزشتہ صدی کے وسط میں روسی ہئیت پسندوں کی تصانیف کے انگریزی زبان میں تراجم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یورپ کے ممتاز دانش وروں نے روسی ہئیت پسندی کے موضوع پر اپنے مضامین لکھ کر اس کے بارے حقائق کی گرہ کشائی کی۔ ان میں وکٹر ارلیچ(Victor Erlich)، لی ٹی لیمن(Lee.T.Lemon)اور میریسن جے ریس(Marison J.Rreis) کے نام قابل ذکر ہیں۔ وکٹر ارلیچ نے روسی ہئیت پسندی کے موضوع پر اپنے تراجم کی کتاب سا ل1965میں پیش کی۔ یہ کتاب(Russian Formalism,History -Doctorine)جو چار وقیع مقالات پر مشتمل ہے اور اس میں مترجم کا عالمانہ مقدمہ بھی شامل ہے قارئین میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بعد سال 1971میں شائع ہونے والی لڈسلاو مٹجیکا   (Ladislav Matejka)اور کرسٹینا پمروز (Krystyna Pomorska) کی کتاب (Readings In Russian Poetics:Formalist and Structuralist Views) کا وسیع پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ روسی ہئیت پسندوں کے افکار کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دینے لگی۔

اپنی تخلیقی فعالیت میں ادبیت(Literariness)کوروسی ہئیت پسندوں نے سدا مرکز نگاہ بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ادبیت ہی ہے جسے تخلیقِ ادب کا جوہر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے اسلوب سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ تخلیقی موا دکو اجتماعی کیفیات کا مظہر اور اسلوب کو انفرادی نوعیت کا حامل سمجھتے تھے۔ روسی ہئیت پسندوں نے رومانویت کے سرابوں میں بھٹکنے کے بجائے ادب کا مطالعہ سائنٹفک تجربات کی اساس پر کرنے کی راہ دکھائی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے دور میں ان کا یہ انداز فکر اقتضائے وقت کے عین مطابق سمجھا گیا اور اس کی بھر پور پذیرائی ہوئی۔ زندگی کے نشیب و فراز، ارتعاشات اور تجربات و مشاہدات ایک حساس تخلیق کار کے ذہن پر جو نقوش مرتب کرتے ہیں وہ انھیں من و عن صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیتا ہے۔ انسانی ہمدردی اور جذبۂ انسانیت نوازی سے سرشار ادیب لفظ کی حرمت اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہے اور حق گوئی و بے باکی کو شعار بناتا ہے۔ تخلیقی عمل میں پائی جانے والی ادبیت قاری کے ذوقِ سلیم اور اخلاقیات کی نمو میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اب یہ ادب کے سنجیدہ قاری کی ذمہ داری ہے کہ وہ تخلیق کار کے فکری میلانات اور جذبات و احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ روسی ہئیت پسندوں نے پلاٹ اور کہانی میں پائی جانے والی حدِ فاصل کی طر ف متوجہ کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ پلاٹ ہر اعتبار سے ادبی نوعیت و اہمیت رکھتا ہے۔ جہاں تک کہانی کا تعلق ہے، اسے خام مواد کا ایک منتشرانبارسمجھنا چاہیے جسے تخلیق کار کی صناعی کی احتیاج ہوتی ہے۔ تخلیق کاراس خام مواد کو ایک مرصع ساز کی طرح استعمال میں لاتا ہے۔ تخلیق کار اپنی فنی مہارت سے اس مواد کی ترتیب و تزئین میں انہماک کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اسے منفرد رنگ میں پیش کرتا ہے۔ پلاٹ محض کہانی کے واقعات پر مشتمل نہیں ہوتا بل کہ یہ ان متعدد وسائل کا بھی احاطہ کرتا ہے جنھیں استعما ل کر کے تخلیق کار یہ کہانی تخلیق کرتا ذبھر پور پزہے۔

روسی ہئیت پسندی نے متن کی تخلیق کو متعدد ادبی وسائل اور منفرد تعاملات کا ثمر قرار دیا۔ ان کا خیال تھا کہ ادب پارے کو کسی فردِ واحد کے تجربات، مشاہدات، بیرونی دنیا کے مظاہر اور معاشرتی زندگی کے میلانات یا ذاتی زندگی کے احوال کا باب نہیں سمجھنا چاہیے۔ انھوں نے پہلی بار پلاٹ اور کہانی کے مابین پائی جانے والی حدِ فاصل کی جانب بھی متوجہ کیا۔ پلاٹ کا تعلق ان امور سے ہے کہ فرد کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو کس انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان تمام واقعات کو تسبیحِ روز و شب کی ڈوری میں تاریخ کے تسلسل کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیسے پرویا جاتا ہے اسے کہانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سماجی اور معاشرتی زندگی میں دستیاب ادبی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک تخلیق کار اپنی تخلیقی فعالیتوں کے اعجاز سے روزمرہ زندگی کی عام کہانیوں سے پلاٹ کو اساس فرہم کرتا ہے۔ روسی ہئیت پسندوں کی ادبی سر گرمیوں کو جوزف سٹالن( Joseph Stalin B:18-12-1878 ,D:05-03-1953) کے آمرانہ عہد حکومت(03-04-1922 To 16-10-1952) میں فسطائی جبر کے ساتھ دبا دیا گیا۔ روسی ہئیت پسندی کی تحریک سے وابستہ ادیب غیر روایتی ماہرین لسانیات اور ادبی مورخ تھے۔ انھوں نے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپناتے ہوئے روشنی کا سفر جاری رکھا۔ ادبی نظریات کی مثل بھی سیل رواں کی سی ہے، جس طرح ندی نالے راہ نہیں پاتے تو ان میں طغیانی اور چڑھاؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح اظہار و ابلاغ اور روشنیوں کی راہ میں جو دیوار بنتا ہے، اس کا جانا ٹھہر جاتا ہے۔ 1930 میں روسی ہیئت پسندی کو زیرِ عتاب ٹھہرایا گیا تو اس مکتبۂ فکر کے حامیوں نے دوسرے علاقوں میں اس کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہوائے جوروستم میں بھی انھوں نے رخِ وفا اور آس کا دیپ بجھنے نہ دیا۔ روسی ہئیت پسندی سے وابستہ کچھ پُر عزم تخلیق کار چیکوسلواکیا میں انجمن خیال سجاکر تخلیقی فعالیت میں مصروف رہے۔ اکثر نقادوں کی رائے ہے کہ روسی ہئیت پسندوں نے مستقل مزاجی کو بالعموم شعار بنانے میں تامل کیا اور ان کے اسلوب سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کے انداز فکر میں یکسانیت اور ہم آہنگی کا فقدان رہا۔ خاص طور پر ادبی تھیوری، تاریخ اور اس کے مسلسل عمل اور طریقِ کار کے مسائل پر ان میں اتفاق رائے کی کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ انھیں اپنے تئیں مکتبِ فکر یا دبستان ادب کہنے میں تامل رہا۔ سال 1930 کے بعد روسی ہئیت پسندوں نے ادبی تاریخ، فکشن کے تجزیاتی مطالعہ، سوانح نگاری، فلم اور ڈراما، تعلیم اور تعلم اور ادب پاروں کے متن کی توضیح کے شعبوں میں اپنی ادبی سر گرمیاں جاری رکھیں لیکن جلد ہی سیل زماں کے تھپیڑے موجِ خیال کے ان بگولوں کو اُڑا لے گئے اور روسی ہئیت پسندی کی یادیں تاریخ کے طوماروں میں دب گئیں۔ روسی ہئیت پسندوں کے درج ذیل دو نمائندہ مکاتب فکر موجود تھے۔ روسی ہئیت پسندی کے یہ دونوں مکاتب فکر اپنے اپنے زاویۂ نگاہ کے مطابق سر گرمِ عمل رہے۔

1 ۔ ماسکو لنگوسٹک سرکل(Moscow Linguistic Circle)

2۔ پراگ سکول     (Prague School)

ماسکو لنگوسٹک سرکل نے سال 1915تا سال 1924کے عرصے میں اپنے بانی فلپ فیڈروچ فرنٹوناؤ ( Flip Fedorovich Fortunatov) کی قیادت میں اپنی سر گرمیاں جار ی رکھیں۔ اس یگانۂ روزگار فاضل نے تنقید، صوتیات، لسانیات اور ساختیات میں خوب داد تحقیق دی۔ ہند یورپین، بالٹک اور سیلوک زبانوں پراس کا تحقیقی کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ لسانیات میں عہد بہ عہد رونما ہونے والے ہم وقتی اور کثیر الوقتی امتیازات اور اس کے زیر اثر واقعات کے تغیرات کے بارے میں اس کے تصورات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

پراگ سکول نے سال1926 تا سال 1939   اپنے بانی وائلم میتھیوسز(,B:03-08-1882,D:04-012-1945 Vilem Mathesius) کی قیادت میں روشنی کا سفر جاری رکھا۔ اس سکول سے وابستہ ممتاز نقادوں نے لسانی مباحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ روسی ہیئت پسندوں کے خیالات سے امریکی ادبیات پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔ سویت یونین میں پابندی کے بعدروسی ہئیت پسندی کے علم بردار جن ممتاز ادیبوں نے امریکہ کا رخ کیا ان میں دو نام بہت اہم ہیں۔

رومن جیک سن (Roman Jakson )

رین ویلک(Rene Wellek ,B:22-08-1903,D:11-11-1995)

رومن جیکب سن نے زبان کے ساختیاتی تجزیہ کے موضوع پر اپنے فکر انگیز اور خیال پرور مضامین سے اسلوبیاتی تجزیہ و تحلیل کو بلند آہنگ اور نیا رنگ عطا کیا۔ اس کے جرأت مندانہ اور منفرد خیالات کی وجہ سے اس کا شمار بیسویں صدی کے انتہائی مؤثر ماہرین لسانیات میں ہوتا ہے۔ زبان کے تجزیاتی مطالعہ کے دوران اس نے زبان کے چھے وظائف کی جانب متوجہ کیا۔ اس کا خیال تھا کہ زبان کی حوالہ جاتی، شاعرانہ، جذبات و احساسات، آہنگ، رسمی اور تحدید کے سلسلے میں کار کر دگی قابل توجہ ہے۔ امریکہ میں رومن جیکب سن کے خیالات میں گہری دلچسپی لی گئی۔ امریکہ میں جدید اسلوبیات اور بیانیہ کے مباحث میں اس کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جہاں تک امریکی ہئیت پسندی کا تعلق ہے وہ بنیادی طور پر نئی تنقید کے ساتھ وابستہ ہے۔ روسی ہئیت پسندوں کی آمد کے بعد امریکہ میں جو فکری مد و جزر رو نما ہوااس سے جمود کا خاتمہ ہوا اور خوب سے خوب تر کی جستجو کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا جس نے ادبی حلقوں کو مسحور کر دیا۔ امریکی ادبیات پر روسی ہئیت پسندی کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ امریکی ہئیت پسندی اور روسی ہئیت پسندی میں پائی جانے والی گہری مماثلت ان کی مظہر ہے۔ امریکی ہئیت پسندی کی آزادانہ حیثیت میں نمو سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ اس انداز فکر کو مہمیز کر نے میں روسی ہئیت پسندی کا بالواسطہ اثر شامل ہے۔ سائنسی انداز فکر کی حامل زبان اور ادبی زبان میں پائے جانے والے فرق کو روسی ہئیت پسندوں نے واضح کرنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ سائنسی انداز فکر کی امین زبان کا جھکاؤ ہر موضوع کی جانب بالکل سائنسی انداز میں ہوتا ہے۔ اس کا اسلوب اٹل اور مسلمہ صداقتوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس زبان میں سائنس اور ریاضی کے مانند نشانات اور علامات کی موجودگی سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ اس میں ایک ٹھوس اور بے لچک انداز ہے۔ اس زبان کے اپنے قاعدے، ضابطے اور منطق ہے جس سے انحراف ممکن نہیں۔ ممتاز نقاد رین ویلک (Rene Wellek)نے اپنے ایک مضمون میں سائنٹفک زبان اور ادبی زبان کا امتیاز کرتے ہوئے لکھا ہے :

"Compared to scientific language, literary language will appear in some ways deficient.It abounds in ambiguities, it is, like every other historical language, full of homonyms, arbitrary or irrational categories such as grammatical gender; it is permeated with historical accidents, memories, and associations.”   (1)

یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس زمانے میں معاشرتی اور سماجی زندگی میں رونما ہونے والے انقلاب اور روسی ہئیت پسندوں کے خیالات کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ بعض غیر محتاط مطالعات کے باعث روسی ہئیت پسندی کے بارے میں یہ تاثر سامنے آتا ہے کہ روسی ہئیت پسندی کے حامی خارزار سیاست سے دور رہنا چاہتے تھے۔ وہ جنگ کی ہلاکت خیزیوں سے اس قدر لرزاں تھے کہ حکومت و سیاست کی بساط سے انھیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ اپنی دھن مین مگن تخلیق ادب کی دنیا میں مست تھے اور جاہ و منصب اور ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز تھے۔ انھوں نے روسی ہئیت پسندی کے سائے میں سکون محسوس کیا۔ اس کے بارے میں روس کے رجحان ساز ادیب اور نقاد وکٹر ارلیچ (Victor Erlich,B:22-11-1914,D:29-11-2007)نے لکھا ہے :

"The question of ,Formalism versus Revolution, is not so simple as it may seem on the surface. The charge of escapism, mercilessly abused by heavy-handed bureaucrats of, social, criticism, ought to be handled with great care. If we define this term as withdrawl from active involvement in contemporary political battles, the label could scarcely be applied to such formalist theoreticians as O. Brik or L. Jakubinskij.           (2)

روسی ہئیت پسندی کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس نے انتہائی نامساعدحالات میں بھی حریت فکر کا علم بلند رکھا۔ دو الگ الگ دبستانوں کے باوجود ہئیت کے موضوع پر ان کے خیالات میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی تھی۔ وکٹر ارلیچ نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا جسے تمنائے سروری نہ ہو۔ ہوس نے نوع انساں کو جس فکر ی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے اس سے دامن بچانا بہت مشکل ہے۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                            دنیا جانتی ہے کہ او سپ برک(Osip Brik B:16-01-1888,D:22-02-1945) اور ایل۔ جکبن سکج (Lev Petrovic Jakubinskij,B:1892,D:1945)کی استثنائی مثالیں موجود ہیں جنھوں نے ہوا کا رخ دیکھ کر مصلحت اندیشی کو شعار بنایا۔ اس کے باوجود ان کی کوئی احتیاط کارگر نہ ہوئی اور ہوائے جورو ستم کے مہیب بگولوں نے ان کی شمعِ زیست گُل کر دی۔ اسی کا نام تو تقدیر ہے جو ہر لمحہ ہر گام دیکھتے ہی دیکھتے انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہے۔ جنگ و جدال کے اس زمانے میں حالات حد درجہ غیر امید افزا تھے۔ معاشرتی زندگی میں جان لیوا حادثات اور مصائب و آلام کے غیر مختتم سلسلے نے زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو جنگ کے شعلوں نے بھسم کر دیا۔ ان غیر یقینی حالات میں معاشرتی اور سماجی زندگی کے معمولات درہم برہم ہو گئے اور شقاوت آمیز نا انصافیوں نے معاشرتی زندگی کا پُورا نظام تہس نہس کر دیا۔ جنگوں کی تباہیاں جب مقدر کی سیاہیاں بن گئیں تو بے یقینی کی اس لرزہ خیز کیفیت کے باعث تہذیب و تمدن کا شیرازہ بکھر نے کا اندیشہ بڑھنے لگا۔ تہذیب و تمدن کی زبوں حالی کاسب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ معاشرت و ثقافت کی تمام رعنائیاں ماند پڑنے لگیں اور قحط الرجال نوشتۂ تقدیر کی صورت میں سامنے آیا۔ روسی ہئیت پسندوں کا خیال تھا کہ زمانۂ امن میں تو انسانیت کے وقار عزت نفس اور خود داری کے بھرم کو ملحوظ رکھنے کی مساعی کسی حد تک جاری رہتی ہیں اور زندگی کی تاب و تواں بھی بر قرار رہتی ہے۔ اس کے بر عکس زمانۂ جنگ میں آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والی مظلوم انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک، بے توقیری اور قتلِ عام کے سانحات اس قدر فراواں ہو جاتے ہیں کہ سانس گِن گِن کر زندگی کے دن پورے کرنے والی مظلوم اور بے بس و لاچار انسانیت زندہ در گو ر ہو جاتی ہے۔ عالمی جنگ نے زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر دیا۔ جنگ کے بعد آفت رسیدہ ممالک کے خزاں رسیدہ موسم میں اخلاقیات کے سب اثمار و اشجار سُوکھ گئے۔ روسی ہئیت پسندوں نے ادبی تنقید کو جس وسعت سے آشنا کیا اس کی بنا پر اکثر ناقدین انھیں جدید ادبی تنقید کے بنیاد گزاروں میں شامل کرتے ہیں۔ جن روسی ہئیت پسندوں نے ان تمام حالات سے گہرے اثرات قبول کیے ان میں رومن جیکب سن کا نام نمایاں مقام رکھتا ہے۔ جو ناتھن کیولر(Jonathan Culler)نے رومن جیکب سن کے تجزیاتی اسلوب کے بارے میں لکھا ہے :

"Jakobson, thinking in distributional terms, takes position to be the crucial factor: since, on purpose laid, directly precedes, to make, he relates it to, heaven, which directly precedes, that leads. But the reader would make this connection only if he approached the poem without paying any attention to logical and thematic relations, position does play a role, but not in the way that Jakobson implies; it is subordinated to thematic considerations. The reader can notice that the phrase, on purpose laid; which appears between, bait, and, to make, has no constituent corresponding to it in the final line of the sonnet. The logical parallelism has been violated, and this has considerable significance: the vituperative and accusory tone of, on purpose laid, has vanished by the time we reach the couplet.” (3)

روسی ہئیت پسندوں کا خیال تھا کہ لسانیات کا مطالعہ قاری کو متن کے جملوں کی تفہیم اور ان کی تہہ میں نہاں گہر ہائے آب دار تک رسائی کی مطلوبہ استعدا داور بصیرت سے متمتع کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے بجائے لسانیات اپنی محدود کار کردگی کی بنا پرکسی حد تک اس عقدے کو وا کرنے کی سعی کرتی ہے کہ بولنے والا اور اس کے منھ سے نکلنے والے جملے کس طرح گنجینۂ معانی کا طلسم بن گئے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ اگر لسانیات سے یہ مقاصدوابستہ کر لیے جائیں کہ وہ معانی کے تعین میں بھی اپنا کردار ادا کرے تو اس کے نتیجے میں اظہار و ابلاغ کا تمام منظر نامہ ہی دھندلا جائے گا۔ اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ والی کیفیت پیدا ہو جائے گی جس کے نتیجے میں ایسا گورکھ دھندا سامنے آئے گا کہ نہ صرف زبان بل کہ بولنے ولا اور سننے والا بھی احساسِ زیاں کے باعث ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اس الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانا سائے کے تعاقب اور سرابوں میں سر گرداں ہونے کے مترادف ہے اور یہ صورت حال کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہو گی۔ اپنے ایک اہم تنقیدی مضمون ’’Linguistics and Poetics‘‘ جو ممتاز محقق اور نقاد ڈیوڈ لاج(David Lodge) کی مرتب کردہ کتاب ’’ماڈرن کرٹسزم اینڈ تھیوری ‘‘ (Modern Criticism And Theory)میں شامل ہے میں رومن جیکب سن نے لکھا ہے :

” Language must be investigated in all the variety of its functions .Before discussing the poetic function we must define its place among the other functions of language. An outline of these functions demands a concise survey of the constitutive factors in any speech event, in any act of verbal communication.                                (4)

اس نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے قارئینِ ادب کو اس جانب متوجہ کیا کہ جب بھی کوئی خطاب کرنے والا کسی خطاب سننے والے کے نام کوئی پیغام ارسال کرتا ہے تو اسے قابلِ عمل اور فعال بنانے کے لیے ایسے حوالہ جاتی سیاق و سباق کی احتیاج ہوتی ہے جو خطاب سننے والے کے فہم کی گرفت میں آسکے۔ اسے ایک اشارہ سمجھناچاہیے جو زبانی نوعیت کا ہو یا اسے زبانی نوعیت کا حامل بنا دیا گیا ہو۔ یہ بات طے ہے کہ خطاب کے ذریعے پیغام بھیجنے والے کے لیے اس کی ترسیل اوراس طرح بھیجے گئے پیغام کو وصول کرنے والے کے لیے اس کی تفہیم صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ اس عام نوعیت کے اورسمجھنے میں سہل نشان یا کوڈ سے مکمل طور پر یا جزوی طور پر آگاہ ہوں۔ اس کوڈ کے ذریعے پیغام کی ترسیل اور وصولی کے عمل کو محفوظ اور معتبر بنایا جا سکتا ہے۔ کوڈ لگانا اور کوڈ کھولنااسی نشان کا مرہونِ منت ہے۔ سب سے آخر میں رابطہ کا مرحلہ آتا ہے جس کے طبعی اور نفسیاتی پہلو قابل توجہ ہیں جن کی وجہ سے خطاب کرنے والا اور خطاب سننے والااُس استعداد سے متمتع ہوتے ہیں جس کی بدولت وہ آپس میں معتبر ربط رکھنے میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان تمام امور کی وضاحت کے لیے رومن جیکب سن نے جو شکل اختراع کی وہ یہاں پیش کی جاتی ہے :

سیاق و سباق اور تناظر

خطاب کرنے والا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیغام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب سننے والا

رابطہ

کوڈ

مندرجہ بالا چھے عوامل یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اظہار و ابلاغ کے سلسلے میں زبان جو اہم کردار ادا کرتی ہے وہ ان عوامل کا ثمر ہے۔ عملی زندگی میں تکلم کا سلسلہ بہت احتیاط طلب سمجھا جاتا ہے۔ زبان جب کوئی واضح پیغام ارسال کرتی ہے تو اس مقصدکے لیے کچھ بنیادی عوامل کی فعالیت کا آ ہنگ اس میں شامل ہونا ضروری ہے۔ روسی ہئیت پسندی کے زیر اثر اس نے جو ادبی تھیوری پیش کی وہ اس کی جدت طبع، منفرد سوچ اور فکری تنوع کی مظہر ہے۔ اگرچہ اس ادبی تھیوری میں ترجمانی کے عناصر بھی جلو گر ہیں لیکن شعری زبان پر اس کی توجہ قابل قدر ہے۔ شعری زبان کو عام لب و لہجے کی حامل جداگانہ انداز کی مظہر زبان بنانے کے متعلق اس کی سوچ حیرن کن ہے۔ روسی ہئیت پسندی کے یہ رجحانات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فرانسیسی ساختیات کے میلانات میں دکھائی دینے لگے۔ رومن جیکب سن نے پیغام رسانی کے لیے مستعمل زبان کے بارے میں اپنے زاویۂ نگاہ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ شکل پیش کی :

حوالہ جاتی

عملی                                                شاعرانہ                                                   جذباتی

رسمی

مافوق لسانی

زبان کے شعریاتی فرائض کے سلسلے میں روسی ہئیت پسندوں نے منفرد انداز فکر اپنا یا۔ ان کا خیال تھا کہ شعریات اور لسانیات کی گرامر کے مطالعہ سے ایسا ڈھانچہ مرتب ہو تا ہے جس کی تشریح و توضیح کی احتیاج ہوتی ہے۔ اس موضوع پر رومن جیکب سن نے اپنی تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے فکرِ نو کی بھر پور ترجمانی کی۔ مطالعۂ ا دب کو ایک اہم موضوع سمجھتے ہوئے اس نے اس کی جانب پورے انہماک کی ضرورت پر زور دیا۔ اس نے ادبی گرامر کی متنوع اشکال سے اس امر کی وضاحت کی کہ اظہار ایک محنت طلب کام ہے اس کے پس پردہ جو عوامل کار فرما ہوتے ہیں ان پر توجہ دینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ رومن جیکب سن کی علمی و ادبی خدمات کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی۔ اس زیرک نقاد نے اپنی فہم و فراست، تخلیقی فعالیت اور تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے مطالعۂ ادب کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ جدیدلسانیات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی مساعی ثمر بار ہوں۔ اپنے معاصرین کے ساتھ مِل کر اس نے جدید لسانیات کے تحقیق و تجزیے اور تنقید کے مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ اس سلسلے میں اس نے ادبی گرامر کی تشریح اور تفہیم کی خاطر کئی اشکال کے ذریعے اس امر کی جانب متوجہ کیا کہ قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والے جذبات و احساسات سے لبریز کلمات کے پسِ پردہ جو عوامل کار فرما ہیں ان سے آ گہی ضروری ہے۔ تخلیق ادب کے لاشعوری محرکات کے معجز نما اثر سے ایک تخلیق کار ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اور اس کے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی بات قاری کے دل میں اُتر کر اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔

ادب میں غیر معروفیت، اجنبیانہ اور انوکھے پن کے بارے میں روسی ہیئت پسندوں نے منفرد انداز فکر اپنایا۔ ہر روز کے معمولات، مسلسل تعارف اور پیہم دید وا دید سے دل کشی اور تجس عنقا ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہر چیز کو معمولات زندگی کا تسلسل سمجھا جاتا ہے۔ ادب میں ندرت، جدت، تنوع اور تازگی صرف اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب کوئی انوکھی، چونکا دینے والی اور حیران کن بات سامنے آئے۔ روسی ہئیت پسندوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ پہلے سے موجود اشیا میں بھی انوکھا پن تلاش کیا جا سکتا ہے۔ انسانی زندگی کے تجربات و مشاہدات صرف اسی صورت میں پُر لطف اور پر کشش ثابت ہو سکتے ہیں جب انھیں منفرد اور اچھوتے انداز میں بیان کیا جائے۔ عالمی ادبیات میں جنس کے موضوع پر کئی مانوس افعال کو غیر مانوس الفاظ کے فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے سے فحاشی کا تدارک کرنے میں مدد ملی۔ اردو ادب میں ابن انشا نے اپنی گل افشانی ء گفتار سے جو سماں باندھا ہے اس میں مزاحیہ صورت واقعہ کو سامنے لاتے وقت اجنبیانے کے عمل کو بہ طور حربہ استعمال کرنے کا گما ن ہوتا ہے۔ ابن انشا کی ظریفانہ تحریر کا آغاز ہی قاری کو چونکا دیتا ہے۔ عام طور پر کہانی لکھنے والا اس جملے سے آغاز کرتا ہے۔ ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ‘‘مگر ابن انشا نے ثابت کر دیا کہ عکس و آہنگ کے بغیر فن کا تصور ہی عبث ہے۔ کسی بھی چیز کی انعکاسی کیفیت اس کے معروف اور انوکھے روپ کو ہمارے سامنے لا کر ہمیں حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ ابن انشا نے تقلید کی روش سے بچتے ہوئے ایک نامانوس اور اجنبی انداز سے کہانی یوں شرع کی ’’دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔ ‘‘یہی منفرد اسلوب زندگی کی نا ہمواریوں کے ہمدردانہ شعور کا آئینہ دارہے جس کا نہایت فن کارانہ انداز میں اظہار کیا گیا ہے۔

اجنبیانے (Enstrangement)کا عمل بہت احتیاط کا متقاضی ہے۔ اس کے دوران پہلے سے موجود نشانات کے نا موافق یا متضاد نشانات کا انتخاب مناسب نہیں۔ اس طرح قاری کے لیے تفہیم میں دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اجنبیانے کے عمل کے پسِ پردہ جوسوچ کار فرما رہی اس کے دو پہلو نمایاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ قاری کے ذہن میں موضوع کے بارے میں تجسس(Curiosity) پیدا کیا جائے۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ قاری دورانِ مطالعہ تذبذب (Suspense)کا شکار ہو جائے اور یہ سوچنے لگے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا اور یوں ہوتا تو کیا نتائج سامنے آتے۔ روسی ہئیت پسندوں نے ان اہداف تک رسائی کے لیے اجنبیانے کے عمل کا سہارا لیا۔ وکٹر شکلووسکی نے اجنبیانے کے بارے میں اپنے مضمون ’’Art As Device ‘‘ میں لکھا ہے :

"To this device of estrangement belong also constructions such as ,,Pestel and the mortar, or, the devil and the infernal regions. (5)

ڈیوڈ لاڈج (David Lodge) نے اجنبیانے کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :

"Habitualization devours works, clothes, furniture, one’s wife, and the fear of war……And art exists that one may recover the sensation of life, it exists to make one feel things, to make stony stony. The purpose of art is to impart the sensation of things as they are perceived and not as they are known”     (6)

اجنبیانا(Defamiliarization/Enstrangement) روسی ہئیت پسندی کے اسلوب کا امتیازی پہلوقرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں لی ٹی لیمن نے لکھا ہے :

"According to Shklovsky, the chief technique for promoting such perception is, Defamiliarization. It is not so much device as a result obtainable by any number of devices. A novel point of view, as Shklovsky points out, can make reader perceive by making the familiar seem strange.”                                                                                          (7)

ادبی گرامر کے منفرد اور پیچیدہ موضوع پر اپنی بحث و تمحیص کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے ہوئے رومن جیکب سن نہایت پُر جوش انداز میں اپنے موقف کے حق میں دلائل دیتا چلا جاتا ہ۔ اپنے زورِ بیان میں وہ اس قدر محو ہو جاتا ہے کہ پُر زور استدلال کے جوش میں وہ اپنے تجزیاتی مطالعات کی تنسیخ کر جاتا ہے۔ اس کا یہ کہنا کہ لسانیات نے شعریات کے مختلف نمونوں کے لیے خود کار دریافت کا مظہر ایک قابل عمل طریق کار فراہم کیا ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد حیرت ہے کہ وہ اس بات کا احساس پیدا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے کہ ادبی شعریات کی جن متنوع ساختوں کا اس نے بر ملا ذکر کیا ہے وہ سب کیسے لسانی ساختوں کی مخفی تکثیریت سے نمو پانے کے بعد منصۂ شہود پر آئیں۔ اس موقع پر ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس بارے میں کیا کہا جائے اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس موضوع پر کیا لکھا جائے۔ قاری حیرت و استعجاب کے عالم میں پکار اٹھتا ہے کہ اب ان گتھیوں کو کیسے سلجھایا جائے؟

اکثر کہا جاتا ہے کہ نالہ، فریاد، آہ اور زاری کے لیے کسی لَے یا نَے کی پا بندی لازم نہیں۔ مگر روسی ہئیت پسندوں نے انھیں بھی پابندِ نَے کرنے کی کوشش کی اور انھیں ایک خاص ہنگ کا تابع قرار دیا۔ آزاد اور پابند موٹف(Free And Bound Motifs)کے بارے میں روسی ہئیت پسندوں کے خیالات گہری معنویت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے موٹف کا تعلق فکر و خیال کی ایک تحریک(Motivation) سے جس کے زیرِ اثر تخلیقی عمل ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے۔ موٹف(Motif) پلاٹ کی سب سے چھوٹی اکائی ہے جسے کسی فعل کے واحد اشارے پر محمول سمجھنا چاہیے۔ جب کوئی خاص موٹف کسی متن میں بار بارسے آئے تو اسے لیٹ موٹف (Leitmotif) کہا جاتا ہے۔ جہاں تک پابند موٹف (Bound Motif)کا تعلق ہے کہانی کو اس کی احتیاج ہوتی ہے۔ اس کے برعکس آزاد موٹف(Free Motif)کہانی کے لیے نا گزیر نہیں۔ ادبی نقطۂ نظر سے اس کا جمالیاتی سوز و سرورکہانی کو زرنگار بنا دیتا ہے۔ آزاد موٹف کے سلسلے میں ترک و انتخاب تخلیق کار کا صوابدیدی اختیار ہے، اسے کہانی کا جزو لا ینفک نہیں سمجھناچاہیے۔ روسی ہئیت پسندوں نے آزاد اور پا بند موٹف کے حوالے سے اظہار و ابلاغ کے جن متنوع مباحث کا آغاز کیا وہ ادب میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے۔ انھوں نے داستان، افسانے، کہانی یا کسی ادبی تخلیق کے اس انتہائی چھوٹے بیانیہ عنصر کو موٹف سے تعبیر کیا جس کی مزید تخفیف خارج از امکان ہے۔ پلاٹ کا انتہائی مختصر بیانیہ جسے وہ موٹف سے تعبیر کرتے تھے جب مجتمع صورت میں منصہ شہود پر آتا ہے تو کہانی آگے بڑھتی ہے۔ انھوں نے اس بات کی بھی صراحت کر دی کہ جہاں تک موٹف کی درجہ بندی کا تعلق ہے موٹف کو منطقی (Logical) کے بجائے موضوعاتی(Thematic)حیثیت حاصل ہے۔ موٹف (Motif)کے بارے میں میکس لوارز (Max Louwerse) کے خیالات قابلِ توجہ ہیں۔ اس نے موٹف کے بارے میں تماش وسکی (Tomashevsky)کے حوالے سے لکھا ہے :

(8) "The smallest, irreducible thematic element Tomashevsky calls motif.”

روسی ہئیت پسندی کے آخری دور میں حاوی محرک(The Dominant)کے تصور نے قارئینِ ادب کو جہانِ تازہ کی عطر بیزیوں سے مسحور ہونے کی راہ دکھائی۔ حاوی محرک تخلیقی فعالیت کا ایک ایسا جزو ہے جس پر تخلیقی عمل کے دوران توجہ مرکوز رہتی ہے۔ جب زمانہ، حیات اور کائنات ایک ہیں تو قدیم و جدید کے سب قصے کیا حیثیت رکھتے ہیں ؟تیزی سے بدلتے ہوئے حالات افراد کی سوچ پر دُور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ عالمی ادب کے ارتقا کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ادبی تحریکوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں فکری بالیدگی اور نئے تصورات کی نمو میں اہم کردار ادا کیا۔ رومانویت نے سال1798تا سال1900 کے عرصے میں وادی ٔ خیال میں مستانہ وار گُھومنے، حسن و رومان کے دل کش نظاروں سے حظ اٹھانے اور فطرت کی رنگینوں اور رعنائیوں سے فیض یاب ہونے کی راہ دکھائی۔ اس کے بعد جدیدیت نے سال 1900تا سال 1945 کے برسوں میں فکر و نظر کو مہمیز کیا اور جب جدیدیت کی تابانیاں کسی حد تک ماند پڑنے لگیں تو مابعد جدیدیت نے سال 1945تا سال2001خوب رنگ جمایا اور اب تک ٹمٹما رہی ہے۔ اسی طرح گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں ساختیات، اس کے ردِ عمل میں پسِ ساختیات اور ردِ تشکیل کی غالب حیثیت کسی سے مخفی نہیں۔ اسلوب میں حاوی محرک کی ہمہ گیر تاثیر اور تسخیر قلوب کا جادوسرچڑھ کر بولتا ہے۔ حاوی محرک اپنی نوعیت کے اعتبار سے اسلوب میں تخلیقی عمل کے نباض ایسے حاکم کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے جسے نہ صرف مفاہیم کے تعین کے تمام اختیارات حاصل ہیں بل کہ باقی ماندہ اجزا کے تغیر و تبدل میں بھی وہ کلید ی کردار ادا کرتا ہے۔

بعض ناقدین کی رائے ہے کہ جب روسی ہئیت پسندوں کو خود ان کے اپنے وطن میں کٹھن حالات کا سامنا تھا اور وہ نہایت بے سروسامانی کے عالم میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ سٹالن کے عہد میں روسی ہئیت پسندوں کو بدعتی قرار دیا گیا۔ اس وقت میخائل باختن نے(Mikhail Bakhtin,B:17-11-1895,D:07-03-1975) یہ کوشش کی کہ ر وسی ہئیت پسندی اور ما رکسزم کے مابین ربط کی کوئی راہ تلاش کی جائے۔ بادی النظر میں اس کے پسِ پردہ یہ سوچ کار فرما دکھائی دیتی ہے کہ مقتدر حلقوں کی نظر میں معتوب ٹھہرنے والی روسی ہئیت پسندی کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا ہو سکے۔ اس بات کی صداقت اس لیے محلِ نظر ہے کہ میخائل با ختن خود بھی حکم ران طبقے کا معتوب تھا اوراس کی شخصیت خاصی متنازعہ بن گئی تھی۔ اس نے کسی مصلحت کی پروا کیے بغیرفسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا جس کی بنا پر اس کی پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری روک لی گئی۔ اسے سٹالن کے دور میں اندرونی جلا وطنی کی اذیت و عقوبت برداشت کرنا پڑی جب وہ قزاقستان میں بھیج دیا گیا۔ جبر کے خلاف اس کی مزاحمت نے اسے نیک نامی عطا کی۔ اپنے خیالات کی ترویج کے ا ہم مقصد کے لیے باختن سرکل (Bakhtin Circle)کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس سر کل میں جو ادیب شامل تھے ان کے نام درج ذیل ہیں :

میٹوی اسوچ کاگانMatvei Isaevich Kagan (1889-1937))

پاول نکولاوچ میڈو (1891-1938) Pavel Nikolaevich Medvedev)

لیو ویسل وچ پمپیانسکیLev Vasilievich Pumpianskii (1891-1940))

ایون ایونوچ سولر ٹنسکیIvan Ivanovich Sollertinskii (1902-1944))

ولینٹن نکلوچ ولشنوو     Valentin Nikolaevich Voloshinov (1895-1936))

اگرچہ میخائل باختن نے اپنی انجمن خیال الگ سجا رکھی تھی لیکن روسی ہئیت پسند بالخصوص رومن جیکب سن اسے اپنی صف میں شامل سمجھتاتھا۔ میخائل باختن کے مارکسیت کے حامی ادیبوں سے گہرے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہ تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی سے وہ روسی ہئیت پسندی کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس نے سال 1928میں روسی ہیئت پسندی کے بارے میں اپنے ایک اہم مضمون میں اس کے نظریات پر کئی سوال اُٹھائے۔ مضمون ’’The Formal Method In Literary Scholarship ‘‘ اس کی وسعت نظر کا مظہر ہے۔ میخائل باختن نے لفظ اور اُس کے کثیر صوتی پہلو کے بارے میں اپنے خیالات سے لسانیات میں تہلکہ مچا دیا۔ اس نے ادبی ڈسکورس کے موضوع پر بھی اپنے متنوع اور منفرد اسلوب سے ادبی حلقوں کو متاثر کیا۔ جب روسی ہئیت پسندوں نے تلخ سماجی حقائق سے چشم پوشی کو شعار بنایا تو میخائل باختن نے اس پر گرفت کی۔ میخائل باختن نے جن موضوعات میں گہری دلچسپی لی ان میں اخلاقیات (Ethics)اور جمالیات(Aesthetics)ہیں۔ اس نے اخلاقیات اور جمالیات کے باہمی ربط کواپنی تحقیق کاموضوع بنایا۔ ثقافت کے سماجی پہلو پر میخائل باختن نے سیر حاصل بحث کی۔ اس نے مروج ادبی تھیوری کے موضوع پراپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا۔ میخائل باختن کا شمار بیسویں صدی کے انتہائی مؤثر نقادوں میں ہوتا ہے۔ سوشل سائنسز کے اس روسی ماہر کاشمار عالمی شہرت کے حامل دانشوروں میں ہوتا ہے۔ میخائل باختن کاخیال تھاکہ تخلیقی فعالیت میں زبان کااستعمال جب مکالماتی صورت میں ہوتا ہے تو اس کی دل کشی پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہے اس لیے زبان کا استعمال ہر صورت میں مکا لماتی صورت ہی میں مستحسن ہے۔ اس طرح مکالماتی عمل کے بعد ردِ عمل جب سامنے آتا ہے تو حقائق کی گرہ کشائی سہل ہو جاتی ہے۔ مکالمات کی ادائیگی کے دوران لہجے اور زبان کا زیرو بم جملوں کے مفہوم کو واضح کرتا چلاجاتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تکلم کے ہر سلسلے کے سوتے گزشتہ جُملوں کی ادائیگی کے انداز سے پُھوٹتے ہیں اور ان کی تشکیل مستقبل کی توقعات کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کے دُور رس اثرات محض ادبی مطالعات تک محدود نہیں رہتے بل کہ ان کا دائرۂ کار سرحدِ ادراک سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ میخائل باختن نے لسانیاتی عمل کے بارے میں اپنا جو موقف پیش کیا اس میں ناول اور طربیہ کو ادبیات میں سطحی کے بجائے مرکزی حیثیت کا حامل قرار دیا گیا۔ میخائل باختن کی پر کشش ادبی تھوری نے انسانیت نوازی کے روایتی انداز اور قدامت پسند مارکسیت سے الگ راہ تلاش کی۔ اس میں ردِ تشکیلی نقطۂ نظر کی جھلک اس کی منفرد سوچ کی آئینہ دار ہے۔ میخائل باختن کی زندگی میں اور اس کی وفات کے بعد اس کے نظریات پر تحقیق و تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے خیالات کا پر توساختیات   اور پسِ ساختیات میں نمایاں ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک سائنس دان اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لا کرنت نئی ایجادات سے زندگی کو متنوع اور دل کش بنا دیتا ہے۔ اس کی ایجادات کی وجہ سے زندگی کے حالات کی کایا پلٹ جاتی ہے اور معاشرتی زندگی میں ایک انقلاب رو نما ہوتا ہے۔ ایک تخلیق کار اپنی بصیرت اور روحانیت کے امتزاج سے وہ معجزۂ فن دکھاتا ہے کہ دیکھنے والے پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں اپنی تمام بصیرتوں اور فعالیتوں کورو بہ عمل لاتے ہوئے تخلیق کار ید بیضا کا جو معجزہ دکھاتے ہیں وہ سائنس دان کے تجربات اور ایجادات سے کہیں بڑھ کر کٹھن اور محیر العقول ہوتے ہیں۔ زیرک تخلیق کار کی تخلیق کا ایک ایک لفظ پارس کی حیثیت رکھتا ہے جو انسان کے فکر و خیال کو ستاروں سے بھی آگے بلند پروازی پر مائل کرتا ہے اور ذہن و شعور کو فہم و ادراک کی سد ا بہار صلاحیت سے مزین کر کے تاریخی شعور سے ثروت مند بناتا ہے۔ یہ ذہنی شعورنسل در نسل فکر ی بیداری اور ارتقا میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ایک تحریک جب اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے تو پھر اس کا احیا ممکن ہی نہیں اور اس کی تقلید سعیٔ لا حاصل ہے تا ہم اس تحریک کا مطالعہ عہد بہ عہد فکری ارتقا کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ روسی ہئیت پسندی اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے لیکن ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ایوانِ ادب میں جِدت فکر کے علم برداروں کی صدا کی باز گشت سن کر نمودِ سحر کے امکانات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے :

جب بند آنکھیں کُھلیں گی نئے زمانوں میں

پُرانے دوست ملیں گے نئے مکانوں میں

٭٭٭

 

                                               مآخذ

  1. Rene Wellek: Theory Of Literature ,Harcourt ,Brace and company, New York, 1949 , Page 12
  2. Victor Erlich : Russian Formalism ,History -Doctrine, Mouton Publishers New York ,1980 Page,79
  3. Jonathan Culler: Structuralist Poetics, Routledge, London,1975,                          Page, 85
  4. 4. Roman Jakobson:”Linguistics and Poetics "article in Modern Criticism and theory, Edited by David Lodge, Pearson Singapore, 2003, Page, 33
  5. Viktor Shklovsky: Theory Of Prose, Translated by Benjmin Sher, Dalkey Press, U.S.A, 1990. Page 12.
  6. David Lodge: The Art Of Fiction, Viking Penguin, New York, 1992,                       Page 53
  7. Lee T. Lemon: Russian Formalist Criticism, University Of Nebraska, London ,1965, Page 5
  8. Max Louwerse: Thematics, Interdisciplinary Studies, University of Munich, 2002, Page 3.

٭٭٭

 

 

 

 

میخائل باختن(Mikhail Bakhtin): ایک مطالعہ

 

میخائل باختن( پیدائش:سترہ نومبر 1895، وفات:سات مارچ 1975)کا شمار روس کے ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے۔ ادبی تنقید و تحقیق، فلسفۂ لسانیات، علم بشریات، ادبی تھیوری، علامتی ابلاغیات اور اخلاقیات کے شعبوں میں اس کے فکر پرور اور خیال افروز مباحث سے جمود کا خاتمہ ہوا اور افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجو کا ولولۂتازہ دلوں میں لیے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کا جذبہ نمو پانے لگا۔ میخائل باختن نے اپنے ذوقِ سلیم اور ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اشہبِ قلم کی جولانیوں سے علم و ادب کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ جرأت اظہار کی مظہراسلوبیاتی تازگی، موضوعاتی تنوع، اظہار و ابلاغ کی ہمہ گیری اور نُدرت و جدت اس کی گُل افشانیِ گفتار کے امتیازی اوصاف سمجھے جاتے ہیں۔ اپنی وسیع النظری کو بروئے کار لاتے ہوئے میخائل باختن نے سوشیالوجی، تاریخ، فلسفہ، علم بشریات، نفسیات، تنقید اور تخلیق ادب کو نئے اور ارفع معائر سے آشنا کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ ادب اور جمالیات جیسے اہم موضوعات پر اس کے فکر پرور اور خیال افروز تصورات کو سال 1920 کے عشرے میں روسی ادبیات میں فکری منہاج کو نئی جہت عطا کرنے کی اہم کوشش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فرانسیسی زبان سمجھنے والے ممالک اور یورپ میں میخائل باختن کے افکار کے تجزیاتی مطالعہ کا سلسلہ سال 1960میں شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی پذیرائی کے ایک غیر مختتم دور کا بھی آغاز ہو گیا۔ میخائل باختن کی وفات کے بعد جن ممتاز نقادوں نے کثیر اللسانی ممالک اور فرانسیسی زبان سمجھنے والے علاقوں میں اس کے افکار کی تشریح پر توجہ دی ان میں جو لیا کر سٹیوا ( Julia Kristeva)اور تزویتان تودوروف(Tzvetan Todorov) کے نام قابل ذکر ہیں۔ ہوائے جور و ستم میں بھی شمعِ وفا کو فروزاں رکھتے ہوئے حق و صداقت کا علم تھام کر مظلوم انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے سینہ سپر ہو جانا حریت ضمیر سے جینے والوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ حریت فکر و عمل اور جرأتِ اظہار کا تقاضا یہ ہے کہ جب لبِ اظہار پر تالے لگا دئیے جائیں تو فسطائی جبر، شقاوت آمیز نا انصافیوں اور مکر و فریب کی اساس پر استوار فصیل کو تیشۂ حرف سے منہدم کرنے کی مقدور بھر سعی کی جائے۔ کسی بھی مصلحت کے تحت جبر اور نا انصافی کے سامنے سپر انداز ہو جانا بہ جائے خود ایک اہانت آمیز فعل اور صریح ظلم ہے جس کے باعث کینہ پرور، حاسد اور جابر قوتوں کو کُھل کھیلنے کو موقع مِل جاتا ہے۔ سال 1980کے بعد یورپ میں میخائل باختن کی مقبولیت میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ جدید دور میں تصوریت اور واقعیت کے تصادم نے ذاتی مخاصمت، اختلافِ رائے اور نظریاتی کج بحثی کی دبیز گرد میں زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات اس طرح نہاں ہو گئی ہیں کہ کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ حساس تخلیق کار محو حیرت ہیں کہ ہوس نے نشاطِ کار کے کیا ڈھنگ سیکھ لیے ہیں ؟

معاصر یورپی مفکرین کے تصورات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے دیارِ مغرب میں فکر و خیال کی دنیا میں ایک اضطراری اور ہیجانی کیفیت کا غلبہ ہے۔ وہاں بہ یک وقت کئی فکری بحران سر اُٹھا رہے ہیں جن میں تصوریت اور واقعیت میں پیہم بڑھتے ہوئے فاصلے، متضاد سوچ، متصادم اور متحارب روّیے ایسی گتھی اور ڈور کی شکل اختیار کر گئے ہیں کہ جس کو سلجھانے والوں کو اس کا سرا کہیں نہیں ملتا۔ فکر و خیال کی حسین وادیوں پر تشکیک کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ان حالات میں ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس کے بارے میں کیسے لب کشائی کی جائے اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس تمام صورتِ حال کو کس طرح احاطۂ تحریر میں لایا جائے۔ یہاں یہ امر وضاحت طلب ہے کہ کیا فکر و نظر کے اس لرزہ خیز بحران سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد دستیاب ہے ؟میخائل باختن نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے :

"We believe that only dialectical materialism can be this basis. The task of uniting a wide synthesis and general philosophical orientation with a mastery of the material diversity and historical generation of ideological phenomena is resolved and even contradictory on any other basis. Between the insipid empiricism of positivism and the abstract disinterestedness of idealism tertium non datur for the bourgeois world view. A semi-mystical” philosophy of life” which only exists because it is enigmatic and incomplete, can only provide a seeming solution to crisis.” (1)

سال 1920میں میخائل باختن نے تین حصوں پر مشتمل انسانی سائیکی کا ایک ماڈل پیش کیا جسے آرکیٹکٹونک ماڈل (   Architectonic Model ) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسانی سائیکی کا یہ ماڈل اس کی جدت پسند طبیعت اور ندرت تخیل کا نمونہ ہے۔ اس میں اور سگمنڈ فرائڈ کے خیالات میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ اس ماڈل کا اہم پہلو ’’میں ‘‘ ہے۔

’’میں ‘‘(خود اپنی ذات کے لیے): کیا میں خو دبھی اپنی حقیقت کا شناسا ہوں ؟’’میں ‘‘ اندرونی طور پر اپنے ضمیر کی آوازسُن کر کیا محسوس کرتا ہوں ؟کیا میرے ضمیر کی آواز میرے قلب کو سوز اور روح کو احساس سے متمتع کرتی ہے اور میں ضمیر کی آوازسُن کر اپنے بحرِ خیالات کے گہرے پانی کی غواصی کر کے عرفانِ ذات کے گہر ہائے آب دار تلاش کرنے پر قادر ہوں ؟

’’میں ‘‘(دوسروں کے لیے ): ’’میں ‘‘کسی دوسرے کو باہر سے کس انداز میں دیکھتا ہوں ؟ کسی دوسرے کی ظاہری شکل و صورت اور روّیہ دیکھ کر میرا تاثر کیا ہوتا ہے؟

اس کے بعد فرد اپنی روزمرہ معاشرتی زندگی اور سماجی مسائل کے بارے جو طرزِ عمل اپناتا ہے وہ اسی ’’میں ‘‘کے مدار ہی میں گھومتا ہے۔

میخائل باختن ایک کثیر التصانیف ادیب تھا سال 1990کے بعد میخائل باختن کا شمار کلاسیک مصنفین میں ہونے لگا تھا۔ اپنے عہد کے اس ممتاز ادیب پر تحقیقی کام کے لیے باختن سنٹر یونیورسٹی آف شیفلڈ برطانیہ ( The Bakhtin Centre University Of Sheffield England ( کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہاں میخائل باختن کی تصانیف کے تراجم اور ان کے اصل متن برقی کتب کی صورت میں ڈیجیٹل کتب خانے میں پوری دنیا مطالعہ اور تحقیق کے لیے فراہم کر دئیے گئے ہیں۔ یہاں گزشتہ پندرہ برس سے سالانہ بین الاقوامی با ختن کانفرنس کے انعقاد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں اب اس ماہر لسانیات کے کام کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ ماسکو میں بھی میخائل باختن کے اسلوب پر تحقیقی کام جاری ہے اورسات جلدوں پر مشتمل اہم تجزیاتی مطالعات کی اشاعت ہو چکی ہے۔ ثقافتی تھیوری پر میخائل باختن کے کام پر پوری دنیا میں تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ اس نے اپنی تخلیقی فعالت سے عالمی ادب کی ثروت میں جو قابل قدر اضافہ کیا، اس کا ایک عالم معترف ہے۔ تنقید اور تخلیقِ ادب میں اس کے دبنگ لہجے کی بازگشت ہر دور میں سنائی دے گی۔ اس کی تصانیف درج ذیل ہیں :

1The Dialogic Imagination

2Problems of Dostoesky’s Poetics

3Rabelais and his work

4Speech Genres and other Late Essays

5Towards Philosophy of the Act

6Art and Answerability

7The Formal Method in Literary Scholarship

8The Bakhtin Reader

میخائل باختن کے خیالات سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ ہم سب ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں فکر و خیال کے تاج محل تعمیر دوسروں کے الفاظ کی اساس پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اہلِ جہاں لفظوں کے ایسے تخیلاتی مکانوں میں اپنی فکری زندگی کے دِن پورے کرنے پر مجبور ہیں جو دوسروں کے الفاظ سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اپنے ذہن و ذکاوت، ذوقِ سلیم اوروسعت نظر کو بروئے کار لاتے ہوئے میخائل باختن نے فکشن کو ایک ایسی صنفِ ادب کے طور پر متعارف کرایا ہے جس کے ہمہ گیر، جامع اور کثیر صوتی متنوع ڈسکورس کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ تخلیقِ ادب میں براہِ راست مکالمات، گل افشانیِ گفتار یا تحریر کی تفہیم کا موروثی تکلم کے ردِ عمل پر مبنی ایک سلسلے سے گہرا تعلق ہوتا ہے جو لسانی روابط کو منفرد روپ میں سامنے لاتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ فکشن جیسی صنفِ ادب کی جداگانہ نظریاتی کیفیات کہانی میں ایسا دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتی ہیں کہ سارا کھیل رعنائیوں اور رنگ و خوشبو کی دِل ربائیوں سے لبریز ہو جاتا ہے۔ ادب کے ناقدین کہانی اور کھیل کی جداگانہ نظریاتی کیفیات کی حتمی صورت اور نقطۂ عروج کی تفہیم میں پوری طرح کام یاب نہیں ہو سکے۔ ڈرامے ہی کو لے لیں جہاں ان کیفیات کی اثر پِ eech Genelosophy o           یری کی ممکنہ آخری حدود کا تعین نہیں ہو سکااور نہ ہی ان کی فعالیت اور جمالیاتی اثرات کی وسعت کا جائزہ لیا جا سکا ہے۔ فکشن میں اس تمام تخلیقی فعالیت کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ فیصلہ کن ڈسکورس کی تہہ تک پہنچنے کی خاطر ان کیفیات اور ان کے پس پردہ کار فرما فعالیت اور اثر پذیری کا حتمی جائزہ لینے کی مساعی ہر چند کہیں کہ ہیں نہیں ہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ الفاظ کی معنویت کا تعلق سرحد ادراک سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ ہر لفظ گنجینۂ معانی کے طلسم کی صورت میں فکر و خیال کی ایک ایسی سرحد پر اپنے وجودکا اثبات کرتا ہے جہاں اس کے اپنے سیاق وسباق اور اجنبی لفظ کے سیاق و سباق کے نقطۂ اتصال پر قلزم معانی کی صد رنگی کی مظہر دل کش کیفیات کا منظر نامہ فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ زمانے میں اقدار اور روایات کی کایا پلٹ گئی ہے۔ تخلیقِ ادب کے معائر بھی سیلِ زماں کی تند و تیز موجوں کی زد میں آ گئے ہیں۔ فکر و خیال اور دانش و حکمت کی تمام مروّج اور مقبول صورتیں منقلب ہونے لگی ہیں۔ جدید دور میں عالمی ادبیات سے وابستہ جن ممتاز دانش وروں نے عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ان میں میخائل باختن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کی حیات اور علمی و ادبی خدمات اور تخلیقی کامرانیوں پر تحقیقی کام کا سلسلہ جاری ہے۔ میخائل باختن کی زندگی میں اور اس کی وفات کے بعد دنیا بھر میں اس کے اسلوب، تنقیدی و تحقیقی بصیرت، منفرد اندازِ فکر اور جرأتِ اظہار کو جس طرح لائق رشک و تحسین سمجھا گیا تاریخِ ادب میں ایسی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔ گلشنِ ادب کی فضاؤں میں ہر طرف اس کی یادیں پھیلی ہوئی ہیں جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے اس کے پُر اعتماد لہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ عالمی ادبیات کے قارئین کی انجمنِ خیال میں اس یگانۂ روزگار ماہر لسانیات کے افکارِ تازہ کی تابانیوں اور خطر پسند طبع کی جو لانیوں سے نہ صرف اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا بل کہ قارئینِ ادب کو جہانِ تازہ تک رسائی کے لیے نشانِ منزل بھی مِل گیا۔ اپنی ادبی اور لسانی تھیوری کے ذریعے میخائل باختن نے فکری جمود کا خاتمہ کر کے تقلید کی مہلک روش سے بچنے کی جو راہ دکھائی وہ ہر دور میں قارئینِ ادب کے لیے نشان منزل ثابت ہو گی۔ اس نے روسی ہئیت پسندی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے فکری سیلِ رواں کے سامنے مدلل مباحث کا بند باندھنے کی جو کوشش کی وہ اس کی فکری اُپج کا منھ بولتا ثبوت ہے۔

روس میں سینٹ پیٹرز برگ (Saint Petersburg ) سے عالمی کلاسیک کی ڈگری حاصل کر نے کے بعد اس روسی دانش ور نے لسانیات کا مطالعہ اپنا مطمح نظر بنا یا۔ وہ 1920 میں شعبہ تدریس سے منسلک ہوا۔ سال 1921میں میخائل باختن نے دِل کی بات مانتے ہوئے الینا الیکزنڈرونا اوکلوچ(   Elena Aleksandrovna Okolovich)سے شادی کر لی۔ شادی کے بعد بھی اس کی دِل کی کلی نہ کِھل سکی اور گردشِ ایام مسلسل اس کے ساتھ رہی۔ تمام دشواریوں، انتہائی صبر آزما حالات اور کٹھن مسائل کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہوئے اس نے حریت فکر کی شمع فروزاں رکھنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ اس کا شما ر ان ممتاز روسی دانش وروں میں ہو تا ہے جنھوں نے روسی ہیئت پسندی پر گرفت کی اور اس کے خلاف مدلل مباحث کا آغاز کیا۔ میخائل باختن نے اوائل عمری ہی سے روسی ہئیت پسندی کے بارے میں دبے لفظوں میں اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا تھا۔ اس زمانے میں روس میں سٹالن نے تحریروں کی اشاعت پر سخت سنسر شپ عائد کر رکھی تھی یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں روسی ہئیت پسندی کے خلاف اس کے جو مضامین شائع ہوئے وہ گم نام نوعیت کے تھے اور ان پر اس کا واضح نام کہیں درج نہ تھا۔ اس نے بالعموم اپنے مضامین P.N.Medvedev اور V.N.Voloshinov کے نام سے لکھے۔ فرائیڈ کے تجزیاتی مطالعہ پر اس کا مضمون سال1927میں شائع ہوا۔ تنقیدی نوعیت کا ایک مضمون جو سال 1928میں :The Formal Method in literary Scholarship”‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون میں مصنف نے روسی ہئیت پسندی بالخصوص ان کے تصورِ تاریخ پر سخت حملے کرتے ہوئے اس پر شدید نوعیت کے اعتراضات کیے۔ اس مضمون پر مصنف کا نام باختن ایسوسی ایٹ، پی این میڈیو (Bakhtin’s Associate, P.N.Medvedev) کا نام درج تھا۔ اس کا مضمون’’ مارکسزم اور فلسفۂ زبان‘‘ بھی اس زمانے میں موضوع بحث بن گیا۔ اس کے باوجود دیدۂ بینا رکھنے والے اور باطنِ ایام سے آگاہ دانش ور اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئے کہ روسی ہئیت پسندی جیسے اہم موضوع پر چشم کشا صداقتوں سے لبریز یہ مضمون کُلی طور پر یا جزوی طور پر میخائل باختن ہی کے تنقیدی خیالات کا آئینہ دار ہے۔ جلد ہی الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کا یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور میخائل باختن اپنے نام سے بر ملا مضامین لکھ کر اپنے دبنگ لہجے سے قارئین کو متوجہ کرنے لگا۔ جب سال 1929میں اس کا مضمون ’’دوستو وسکی کے فن کے مسائل ‘‘Problems Of Dostoevsky’s Art))اس کے اپنے نام سے شائع ہوا تو تو قارئینِ ادب نے اس مضمون کو بے حد سراہا۔ اپنے اس مضمون میں میخائل باختن نے واضح کیا دوستو وسکی کے فن کو محض سادہ بیانیہ سمجھنا درست نہیں بل کہ یہ مختلف نوعیت کے کثیر صوتی انفرادی بیانیوں کا حسین گل دستہ ہے۔ مصنف کے اسلوب کے تنوع اور انفرادیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس نے تخلیق کار کے کثیر صوتی لہجے کو اہم قرار دیا۔ دوستو وسکی کا اسلوب کئی آوازوں کا مخزن ہے جنھیں کسی واحد نقطۂ نظر میں مدغم کر کے پیش کرنا بعید از قیاس ہے۔ اس نے ہر بیانیہ کو ایک انفرادی روپ میں پیش کر کے زبان و بیان اور اسلوب پر اپنی خلاقانہ دسترس سے قاری کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ دوستو وسکی کااسلوب اپنے لیے خود ہی راہیں تلاش کر لیتا پنے تحٖفپزہے جس کی روانی اور بے کرانی دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ مصنف کے تابع نہیں اور اقلیم سخن میں اس کی خودمختاری مسلمہ ہے۔ ہر بڑے تخلیق کار کو غیب سے موضوعات اور مضامین کے بارے میں وجدانی کیفیت سے سب کچھ عطا ہوتا ہے اور یہ یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ذاتی کاوش کا ثمر نہیں بل کہ نوائے سروش ہی صریر خامہ میں ڈھل گئی ہے۔ حیران کن بات یہ کہ دوستو وسکی کے اسلوب میں ہر بیانیہ انفرادی روپ میں جلوہ گر ہو کر گرگٹ کے مانند رنگ بدلنے پر قادر ہے۔ بیانیہ میں موسم کے مانند بدلتے روپ عجیب پر اسرار شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ان معاملات کی تہہ تک پہنچنا اور ان کے پس پردہ حقائق کی گرہ کشائی قاری کے لیے ایک کٹھن مر حلہ بن جاتا ہے۔ ادب کی انواع کو زیر بحث لاتے ہوئے میخائل باختن نے لکھا ہے:

A literary genre, by its very nature, reflects the most stable, "eternal’ tendencies in literature’s development. Always preserved in a genre are undying elements of the archaic. True, these archaic elements are preserved in it only thanks to their constant renewal, which is to say, their con temporization. A genre is always the same and yet not the same, always old and new simultaneously. Genre is reborn and renewed at every new stage in the development of literature and in every individual work of a given genre. This constitutes the life of the genre. Therefore even the archaic elements preserved in a genre are not dead but eternally alive; that is, archaic elements are capable of renewing themselves. A genre lives in the present, but always remembers its past, its beginning. Genre is a representative of creative memory in the process of literary development. Precisely for this reason genre is capable of guaranteeing the unity and uninterrupted continuity of this development. For the correct understanding of a genre, therefore, it is necessary to return to its sources. (2)

میخائل باختن نے ان کاموں کا بھی ذکر کیا ہے جن کا حوالہ دیا گیا ہے اور ان کا بھی جو دوستو وسکی کے کام میں مذکور ہیں۔ میخائل باختن نے ایک ہی زبان میں پائے جانے والے الفاظ کے لیے جو اصطلاح وضع کی اسے کثیر المطالب(Hetroglossia)سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کرداروں کے مکالمات، بیانیہ کے نشیب و فراز اور جذبات کا مد وجزر سب مختلف نوعیت کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس طرح دوسرے کی گفتگو کسی دوسرے کی زبان میں اظہار کی راہ تلاش کر کے سماعتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میخائل باختن نے فکشن کے عمیق تجزیاتی مطالعہ سے یہ نتائج اخذ کیے کہ صرف کردار ہی بیانیہ نہیں ہیں جو ایک دوسرے سے ہم کلام ہو کر زندگی کے ارتعاشات، گردشِ حالات، سماجی تضادات کے آئینہ دار واقعات، کہانی کے نشیب و فراز کو سامنے لاتے ہیں بل کہ ناول بہ جائے خود ایک مکالمہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ مصنف کی تسبیح روز و شب کے دانے دانے کو شمار کرتے ہوئے اس کے تمام افعال کے بارے میں حقیقی تناظر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے لفظی مرقع نگاری کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ میخائل باختن نے ناول کی مکالماتی کیفیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ یہ محض علامتی یا حوالہ جاتی صورت حال کی عکاسی نہیں بل کہ اس سے دو طرفہ روابط کے نمو پانے کا قوی احساس فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرتا چلا جاتا ہے۔

بعض ناقدین کی رائے ہے کہ جب روسی ہئیت پسندوں کو سٹالن کے عہد میں بدعتی قرار دیا گیا اور انھیں خود ان کے اپنے وطن میں کٹھن حالات کا سامنا تھا اور وہ نہایت بے سروسامانی کے عالم میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس وقت میخائل باختن نے(Mikhail Bakhtin,B:17-11-1895,D:07-03-1975)یہ کوشش کی کہ ر وسی ہئیت پسندی اور ما رکسزم کے مابین ربط کی کوئی راہ تلاش کی جائے۔ بادی النظر میں اس کے پسِ پردہ یہ سوچ کار فرما دکھائی دیتی ہے کہ مقتدر حلقوں کی نظر میں معتوب ٹھہرنے والی روسی ہئیت پسندی کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا ہو سکے۔ اس بات کی صداقت اس لیے محلِ نظر ہے کہ میخائل با ختن خود بھی حکم ران طبقے کا معتوب تھا اوراس کی شخصیت خاصی متنازعہ بن گئی تھی۔ رومن جیکب سن نے اس بات کا بر ملا اعتراف کیا کہ میخائل باختن کا شمار روسی ہئیت پسندی کے زیرک نقادوں میں ہوتا ہے۔ اس نے کسی مصلحت کی پروا کیے بغیرفسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا جس کی بنا پر ربلیس (Rabelais ) پر اس کے متنازعہ کام پر اس کی پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری روک لی گئی۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے ممتاز مصنف، ادیب اور معالج ربلیس(پیدائش:1494، وفات:نو، اپریل1554) نے نشاۃ الثانیہ کے دور میں انسانیت نوازی پر کام کیا۔ ربلیس کی کئی باتیں قاری کے دِل میں اتر جاتی ہیں۔ ( مثال کے طور پر اس نے کہا تھا کہ حریت ضمیر کے بغیر تو سائنس بھی روح کی موت قرار پاتی ہے، راست گوئی کے عصا سے ہر ابلیس نما دروغ گو اژدہا کا سر کچل کر اسے پشیمان اور خجل کیا جا سکتا ہے، محبت کے مارے سوز دروں سے جب کچھ اشارے کرتے ہیں تو یہ اشارے عام الفاظ سے کہیں بڑھ کر زود اثر، دور رس، دل کش اور ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ )میخائل باختن نے اس امر کی طر ف توجہ مبذول کرائی کہ گزشتہ کئی صدیوں سے ربلیس کی تصانیف کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بارے میں حقائق غلط فہمیوں کی گر د میں اوجھل ہوتے چلے گئے۔ میخائل باختن نے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک، شقاوت آمیز ناانصافیوں اور اہانت آمیز سلوک پر دِل بُرا نہ کیا اور صبر کی روایت میں خاموشی اختیار کر لی۔ اسے سٹالن کے دور میں سال 1929میں سائبیریا میں اندرونی جلا وطنی کی اذیت و عقوبت کی سزا دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد اس کی علالت کے باعث جلاوطنی کم کر کے اسے قزاقستان میں چھے برس کی اندرونی جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا۔ جبر کے خلاف اس کی مزاحمت نے اسے نیک نامی عطا کی۔ عالمی ادبیات میں جب بھی دانش و حکمت اور فکر و خیال کے ارتقا کی تاریخ رقم کی جائے گی، اس میں میخائل باختن کا نام ان دانش وروں میں ممتاز حیثیت سے شامل ہو گا جنھوں نے فسطائی جبر کا ہر انداز لائق استرداد ٹھہراتے ہو ئے حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھا اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی۔ اپنے خیالات کی ترویج کے ا ہم مقصد کے لیے باختن سرکل (Bakhtin Circle)کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس سرکل کو سال 1930میں تحلیل کر دیا گیا۔ اس میں مذہب، سیاست اور ادب کے موضوع پر بحث ہوتی تھی۔ اس سر کل میں جو ادیب شامل تھے ان کے نام درج ذیل ہیں :

میٹوی اسوچ کاگانMatvei Isaevich Kagan (1889-1937)

پاول نکولاوچ میڈو (1891-1938) Pavel Nikolaevich Medvedev)

لیو ویسل وچ پمپیانسکیLev Vasilievich Pumpianskii (1891-1940)

ایون ایونوچ سولر ٹنسکیIvan Ivanovich Sollertinskii (1902-1944)

ولینٹن نکلوچ ولشنوو     Valentin Nikolaevich Voloshinov (1895-1936)

اگرچہ میخائل باختن نے اپنی انجمن خیال الگ سجا رکھی تھی لیکن روسی ہئیت پسند بالعموم اور رومن جیکب سن بالخصوص اسے اپنی صف میں شامل سمجھتاتھا۔ میخائل باختن کے مارکسیت کے حامی ادیبوں سے گہرے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہ تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی سے وہ روسی ہئیت پسندی کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس نے سال 1928میں روسی ہیئت پسندی کے بارے میں اپنے ایک اہم مضمون میں اس کے نظریات پر کئی سوال اُٹھائے۔ مضمون ’’The Formal Method In Literary Scholarship ‘‘ اس کی وسعت نظر کا مظہر ہے۔ میخائل باختن نے لفظ اور اُس کے کثیر صوتی پہلو کے بارے میں اپنے خیالات سے لسانیات میں جمود کا خاتمہ کرنے کی سعی کی۔ اس نے ادبی ڈسکورس کے موضوع پر بھی اپنے متنوع اور منفرد اسلوب سے ادبی حلقوں کو متاثر کیا۔ جب روسی ہئیت پسندوں نے تلخ سماجی حقائق سے چشم پوشی کو شعار بنایا تو میخائل باختن نے اس پر تنقید کی۔ میخائل باختن نے جن موضوعات میں گہری دلچسپی لی ان میں اخلاقیات (Ethics)اور جمالیات(Aesthetics) شامل ہیں۔ اس نے اخلاقیات اور جمالیات کے باہمی ربط کواپنی تحقیق کاموضوع بنایا۔ ثقافت کے سماجی پہلو پر میخائل باختن نے سیر حاصل بحث کی۔ اس نے مروّج ادبی تھیوری کے موضوع پراپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا۔ میخائل باختن کا شمار بیسویں صدی کے انتہائی مؤثر نقادوں میں ہوتا ہے۔ سوشل سائنسز کے اس روسی ماہر کا شمار عالمی شہرت کے حامل دانشوروں میں ہوتا ہے۔ میخائل باختن کا خیال تھا کہ تخلیقی فعالیت میں زبان کااستعمال جب مکالماتی صورت میں ہوتا ہے تو اس کی دل کشی پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہے اس لیے زبان کا استعمال ہر صورت میں مکالماتی صورت ہی میں مستحسن ہے۔ اس طرح مکالماتی عمل کے بعد ردِ عمل جب سامنے آتا ہے تو حقائق کی گرہ کشائی سہل ہو جاتی ہے۔ مکالمات کی ادائیگی کے دوران لہجے اور زبان کا زیرو بم جملوں کے مفہوم کو واضح تر کرتا چلا جاتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تکلم کے ہر سلسلے کے سوتے گزشتہ جُملوں کی ادائیگی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک سائنس دان اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لا کرنت نئی ایجادات سے زندگی کو متنوع اور دل کش بنا دیتا ہے۔ اس کی ایجادات کی وجہ سے زندگی کے حالات کی کایا پلٹ جاتی ہے اور معاشرتی زندگی میں ایک انقلاب رونما ہوتا ہے۔ ایک تخلیق کار اپنی بصیرت اور روحانیت کے امتزاج سے وہ معجزۂ فن دکھاتا ہے کہ دیکھنے والے پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں اپنی تمام بصیرتوں اور فعالیتوں کورو بہ عمل لاتے ہوئے تخلیق کار ید بیضا کا جو معجزہ دکھاتے ہیں وہ سائنس دان کے تجربات اور ایجادات سے کہیں بڑھ کر کٹھن اور محیر العقول ہوتے ہیں۔ زیرک تخلیق کار کی تخلیق کا ایک ایک لفظ پارس کی حیثیت رکھتا ہے جو انسان کے فکر و خیال کو ستاروں سے بھی آگے بلند پروازی پر مائل کرتا ہے اور ذہن و شعور کو فہم و ادراک کی سد ا بہار صلاحیت سے مزین کر کے تاریخی شعور سے ثروت مند بناتا ہے۔ یہ ذہنی شعورنسل در نسل فکر ی بیداری اور ارتقا میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ تخلیقی فعالیت کے لمحوں میں گفتگو اور پیچیدہ نوعیت کا ثقافتی ڈسکورس جو پیرایۂ اظہار کی صورت میں منصۂ شہود پر آتا ہے وہ اپنے دامن میں وادیِ خیال کے متعدد گل ہائے رنگ رنگ سموئے ہوتا ہے۔ ان کی مسحور کُن عطر بیزی سے دامن دِل معطر ہو جاتا ہے۔ اس کے جلوے تمام اصنافِ ادب میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ادب، سائنس، تاریخ اور فنون لطیفہ کا کوئی بھی شعبہ ان کی ہمہ گیر اثر آفرینی سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ یہ ڈسکورس ایک کثیر صوتی نظام کے امتزاج کا ثمر ہے۔ اسی کے فیضان سے متعدد الفاظ موزوں اظہار اور مناسب ابلاغ کی صورت میں فکر و خیال کو گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہ سب کثیر صوتی شکل میں جلوہ گر ہو کر آہنگ، اسلوب اور اظہار کے ایسے ڈھنگ سکھاتے ہیں جن میں متنوع صورتیں، نئی آوازیں، منفرداسالیب، اہم حوالہ جات اور خود متکلم کے کئی مفروضے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک ایک لفظ کئی کئی طرفیں رکھتا ہے جو قاری پرسوچ کے نئے در وا کرتا چلا جاتا ہے۔ اپنے منفرد اسلوب سے میخائل باختن نے واضح کر دیا کہ ادائے مطلب و تاثر کی ہر سطح جو براہِ راست اظہار اور گفتگوسے متعلق ہو یا اس کا انسلاک پیچیدہ نوعیت کے ثقافتی میلانات کے اظہار کے روز افزوں سلسلے سے ہو، سب کے سب ردِ عمل اور اظہار کی ایک وسیع دنیا کا ماحول اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ اظہار کی اس دنیاکے دستور ہی نرالے ہیں جہاں ہر لحظہ نیا طُور نئی برق تجلی کا کرشمہ دامنِ دل کھینچتا ہے۔ یہاں کی زندگی پیہم رواں اور ہر دم جواں دکھائی دیتی ہے۔ اس گفتگو میں تکراری کیفیات اور حوالہ جات کی فراوانی ہے۔ اس میں دل کش گفتگو کے نئے سلسلے اور مسحور کُن بیانات کے وسیع تناظر پہلے سے موجود بیانات کے بارے میں جو قابل فہم مفروضے پیش کرتے ہیں انھیں پڑھ کر قاری حیرت واستعجاب کے قلزم کی غواصی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہی کیفیات مستقبل کے ردِ عمل کے بارے میں تخمین و ظن کی صلاحیت سے بھی متمتع کرتی ہیں۔ اس نے لسانی عمل کے بارے میں اس جانب متوجہ کیا کہ کسی بھی براہِ راست تقریر کی تفہیم اور ایک پیہم رواں کلام کو ایک ردِ عمل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ہر تفہیم کا انسلاک ردِ عمل سے ہوتا ہے اور وہ لازمی طور پرکسی ایک یا دوسری صورت میں منصۂ شہود پر آتی رہتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ سماعتوں سے پیہم گزرنے والے مطالب کے سلسلے تکلم کا روپ دھار کر وادیِ خیال میں گونجنے لگیں اور اس دنیا کے آئینہ خانے میں یہ عجیب صورت پیدا ہو جائے کہ سامع روپ بدل کر متکلم بن جائے اور سب کو حیرت زدہ کر دے۔ میخائل باختن نے اس جانب متوجہ کیا کہ لسانیات میں تخلیق اور اس کے لا شعوری محرکات کو پیش نظر رکھنا از بس ضروری ہے۔ تخلیقی عمل میں الفاظ کے ترک و انتخاب کا مرحلہ بہت احتیاط طلب سمجھا جاتا ہے۔ ایک تخلیق کار جب قلم تھام کر تخلیقی عمل میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھانے کا آغاز کرتا ہے تووہ سب سے پہلے موزوں الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ الفاظ وہ دیگر بیانات سے حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اپنے پسندیدہ مطلوبہ الفاظ کی جستجو میں وہ کئی بیانات کی خوشہ چینی کرتا ہے۔ ان بیانات کا زبان کی نوعیت، مرکزی خیال، تخلیق کی ماہیت، اسلوب اور ساخت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔

لسانی عمل میں کئی قوتیں پیہم مصروفِ عمل رہتی ہیں اور ان کی مؤثر فعالیت کے معجز نما اثر سے جہاں فکر و خیال کی نئی شمعیں فروزاں ہوتی ہیں وہاں اظہار و ابلاغ کے متعدد نئے در بھی وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ غیر محتاط اور سطحیت پر مبنی اندازِ فکرسے لسانی عمل کی تفہیم میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ میخائل باختن کا خیال تھا کہ زبان کواس نوعیت کے غیر حقیقی اندازِ فکرسے نجات دلانا لسانیات کے ارتقا کے لیے نا گزیر ہے جس کے مطابق زبان کو بالعموم محض گرامر اور قواعد و انشا کے مختلف مدارج کا ملخص سمجھا جاتا ہے۔ زبان کے بارے میں میخائل باختن کا استدلال یہ تھا کہ فکری و علمی تصورات، فلسفیانہ مباحث، تاریخی حقائق، تخلیقِ ادب کے گنج گراں مایہ اور نت نئے تجربات سے زبان سیر شدہ ہو جاتی ہے۔ معاشرتی زندگی میں رونما ہونے والی اجتماعی سماجی اور سیاسی کیفیات اور ثقافتی مرکزیت کی نمو کے لیے جو ربط نا گزیر ہے زبان اسے پروان چڑھانے میں خضرِ راہ کا کام کرتی ہے۔ جو زبان افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب عازمِ سفرہونے پر مائل کرتی ہے، اس کے فکری سرمائے اور علمی میراث کے لیے کسی قسم کے اعتذار کی ضرورت نہیں۔ زبان ہمارے اسلاف کے افکار و خیالات کی امین ہے، یہ ایک جامِ جہاں نما ہے اور اس کا ہر لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم ہے۔ اس نے زبان کے بارے میں اس ٹھو س اور قابل فہم حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ زبان کے اعجاز سے اظہار و ابلاغ کے بیش تر کٹھن مراحل اور زیادہ سے زیادہ جذباتی نشیب و فراز طے کیے جا سکتے ہیں۔ دل کے افسانے جب نگاہوں کی زباں تک پہنچ جائیں تو ان کی ادائیگی کے لیے الفاظ کی جستجو ناگزیر ہے۔ معاشرتی زندگی میں فرد کاواسطہ کئی تضادات اور ارتعاشات سے پڑتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں معتبر ربط استوار کرنے، باہمی تعلقاتِ کار کو پروان چڑھانے، دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے، دلی جذبات و احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر زیبِ قرطاس کرنے میں زبان کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ میخائل باختن نے لسانی عمل کو متعدد عوامل اور قوتوں کے باہم ملاپ کا ثمر قرار دیا۔ اس کا خیال تھا کہ زبان جن قوتوں کے زیرِ اثر مطالب کی تفہیم کی خاطرٹھوس تکلمی اور نظریاتی نوعیت کا اشتراک و اتحاد قائم کر کے اظہار و ابلاغ کی مرکزیت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے وہ قوتیں مجموعی طور پر ایک وحدانی زبان کی استعدادِ کار اور اس کی تخلیقی فعالیت کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسلوبیاتی درجہ بندی کے پیچیدہ مراحل میں حد بندی کا مرحلہ اس وقت سامنے آتا ہے جب ان مختلف النو ع مدارج کا تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے ساتھ مشروط انسلاک کر کے اس متاعِ الفاظ کو زادِ راہ بنایا جائے جس کے بارے میں نظریاتی ڈسکورس کے پیش کیے گئے مفروضے قارئین کے لیے منفرد تجربے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ زبان میں معنی خیزی کی بات ہو یا ذاتی خیال میں تغیر و تبدل کا معاملہ، ڈسکور س کا تذکرہ ہو یا انفرادی سوچ کے مکمل انہدام کا روّیہ ہر صورت میں میخائل باختن کے خیالات بالکل انوکھے انداز میں سامنے آتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے قاری یہ بات سمجھ جاتا ہے کہ جہاں تک متن سے مفاہیم کی جواب دہی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں قارئین ہی متن کی موزوں صورت میں ترجمانی کرنے کے بعد کوئی حتمی رائے دے سکتے ہیں۔

کسی بھی زبان کے بارے میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس میں پایا جانے والا مخزنِ الفاظ ہی اس زبان کا بیش بہا اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ زبان کے دامن میں موجوداس گنج گراں مایہ کو کسی فردِ واحد کی ذاتی ملکیت سمجھنا لسانی ارتقا کی راہ میں سد سکندری بن کر اظہار و ابلاغ کے لیے بہت بُرا شگون ثابت ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں زندہ زبانیں فیض کے ایسے اسباب بناتی ہیں جو سب کے لیے اپنے دروازے ہمہ وقت کُھلے رکھتی ہیں کہ جس کے جی میں آئے وہ اذہان کی تطہیر و تنویر کے اس منبع سے فیض یاب ہو۔ تاہم یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ بعض الفاظ، تراکیب، تلمیحات اور محاورات منفرد اسالیب، خاص انفرادی پیرایۂ اظہار، سیاق و سباق اور ممتاز اندازِ بیان کی پہچان بن جاتے ہیں۔ تاریخ کا مسلسل عمل اور حقیقی تاریخی قوتیں لسانی عمل کے ارتقا میں لسانی میں پیہم مصروف ہیں۔ کسی بھی زبان میں تکلم کے مائل بہ ارتقا ہونے اور پرورشِ لو ح و قلم کے سلسلے میں معاشرتی عوامل اور ان قوتوں کا کردار بہت اہم ہے۔ لسانی قوتو ں اور معاشرتی عوامل کے زیرِ اثر تکلم کے منفرد سلسلے سدا اپنا رنگ دکھاتے رہتے ہیں اور ان کی تابانیاں کسی عہد میں بھی ماند نہیں پڑتیں۔ دنیا کی ہر زبان کی تزئین، ترقی، استحکام، حیات آفریں خیالات کی نمو اور بقائے دوام کے فروغ کا جب ہم بہ نظر غائر جائزہ لیتے ہیں اور اسلوب کا عمیق مطالعہ کرتے ہیں توکسی خاص انفرادی تخلیق یا ایسی مخصوص نوعیت کی تخلیقی کاوش پر نگاہ مرکوز کرتے ہیں تو ایسے فن پاروں میں یہ سب الفاظ جہاں تخلیق کار کی شخصیت کے سب اسرار و رموز کو سامنے لاتے ہیں وہاں ان کی مدد سے تخلیق کار کی انفرادی سوچ، ذوقِ سلیم اور تخلیقی وجدان کے راز ہائے سر بستہ بھی آشکار ہو جاتے ہیں۔ الفاظ ایک جامِ جہاں نما کے مانند فطرت کے مقاصد کی ترجمانی کرتے ہوئے ہر عقدۂ تقدیرِ جہاں کی گرہ کشائی کر دیتے ہیں۔ زبان کی تصوراتی کائنات ہی اس زبان کو اقوام عالم کی صف میں معزز و مفتخر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے۔ ایک مشترک وحدانی زبان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لسانی معائر کے کے ایک ایسے نظام کی مظہر ہوتی ہے جو ستاروں سے بھی آگے موجود کائنات کے متعدد اسرار و رموز کی تفہیم پر قادر ہے۔ الفا ظ یدِ بیضا کا معجزہ دکھا کر تخلیق کار کے انفرادی تخلیقی عمل کے دوران نمو پانے والے جذبات، احساسات، تجربات، مشاہدات اور کارِ جہاں کے بارے میں مجموعی تاثرات کو مکمل سیاق و سباق کے ساتھ جس انداز میں سامنے لاتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میخائل باختن نے واضح کر دیا کہ الفاظ کی اس معجز نما اثر آفرینی میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ میخائل باختن نے اسلوب میں مکالمات کی اہمیت کے بارے میں لکھا ہے :

"The dialogic orientation of discourse is a phenomenon that is, of course property of any discourse.” (3)

میخائل باختن کے اسلوب کا مطالعہ کرتے وقت قارئین اکثر اس الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ میخائل باختن کا تعلق کس مکتبۂ فکر سے تھا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیا میخائل باختن مار کسزم پر یقین رکھتا تھا یا اس نے یاس و ہراس اور جبر کے ماحول کی عائد کردہ کڑی سنسر شپ سے بچنے کی خاطرمارکسزم کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ سماجی اعتبار سے دیکھا جائے تو میخائل باختن انسانی جسم اور ذہن و ذکاوت کے باہم ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے اور باہمی تفاعل پر یقین رکھتا تھا۔ وہ معانی اور ڈسکورس کی بحث کو جس انداز میں آگے بڑھاتا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس کے خیالات پسِ ساختیات کے قریب تر ہیں۔ اس نے تنقیدی تھیوری، تحلیل نفسی، وجودیت اور فکشن کے اہم موضوعات پر جو پیرایۂ اظہار اپنایااس کا مطالعہ کرنے سے یہ تاثر پختہ تر ہو جاتا ہے کہ میخائل با ختن نو مارکسسٹوں ( neo-Marxists)کا ہم آوا ز ہے۔ وہ اپنی دُھن میں مگن تخلیقی کام میں مصروف رہا اور چپکے سے زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔

ایک تحریک جب اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے تو پھر اس کا احیا کسی طرح ممکن ہی نہیں اور اس کی تقلید سعیٔ لا حاصل ہے تا ہم اس تحریک کا مطالعہ عہد بہ عہد فکری ارتقا کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ میخائل باختن کی وسعت نظر نے یورپ کی ثقافتی تاریخ، لسانیات اور ادبی جمالیات پر دُور رس اثرات مرتب کیے۔ اپنی جلا وطنی کے زمانے میں وہ ہڈیوں کے سوزش اور پیپ آور انتہائی تکلیف دہ متعدی مرض ورم نخاع العظم (Osteomyelitis) میں مبتلا ہو گیا۔ ہڈیوں کے اس روگ کے باعث سال 1938میں وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا۔ جلا وطنی کی عقوبت، ہڈیوں کی شدید تکلیف اور ایک ٹانگ سے محرومی کے نتیجے میں اس کے قویٰ اس قدر مضمحل ہو گئے کہ رفتہ رفتہ اس کے عناصر میں اعتدال عنقا ہونے لگا۔ ان اعصاب شکن مصائب و آلام اور مسموم حالات نے ا س کی تخلیقی اور تنقیدی فعالیت اور فکر و خیال کی پختگی کو بُری طرح متاثر کیا۔ یہاں تک کہ اس کی تنقیدی آرا کی ثقاہت پر بھی سوالیہ نشان لگنے لگے۔

٭٭٭

 

       مآخذ

 

  1. 1. M.M.Bakhtin, P.N.Medveden: The Formal Method in Literary Scholarship, Translated by Albert J-Webrle, Johns Hopkins University Press, London, 1978, Page 6
  2. Mikhail Bakhtin:Problems Of Dostovesky’s Poetics, University Of Minnesota Press , U.S.A, 1999, Page 106
  3. M.M.Bakhtin: The Dialogic Imagination, University Of Texas Press, London, 1981, Page 279.

٭٭٭

 

 

 

 

     الگرڈاس جولین گریماس: تمام مرحلے صوت و بیاں کے ختم ہوئے

 

 

فرانسیسی نقاد الگر ڈاس جولین گریماس(Algridas Julian Greimas) کا شمار بیسویں صدی کے دنیا کے اُن انتہائی ممتاز،معتبر اور مؤقر ماہرین لسانیات میں ہوتا ہے جنھوں نے لسانیات اور ادبی تنقید میں تقلید کی مہلک روش سے گلو خلاصی حاصل کر نے کے بعد جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرار کیا۔الگرڈاس جولین گریماس(پیدائش:نو مارچ1917،وفات:ستائیس فروری 1992)نے اپنے معاصر ماہر لسانیات رولاں بارتھ(پیدائش:بارہ نومبر 1915،وفات:چھبیس مارچ1980)کے ساتھ مِل کر جدید لسانیات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ فرانس میں مقیم نامور ماہر علم بشریات،ساختیات کے علم بردار، ادیب،دانش ور اور ماہر لسانیات کلاڈ لیوی سٹراس (پیدائش: اٹھائیس نومبر 1908،وفات:تیس اکتوبر 2009)سے بھی متاثر تھا۔اپنے منفرد اور توانا اسلوب میں اس نے روسی ماہر لسانیات ولاد میر پروپ(پیدائش:سترہ اپریل1995،وفات:بائیس اگست1970) کو پیشِ نظر رکھا۔اس نے مقدور بھر کوشش کی کہ روسی لوک کہانیوں پر تحقیقی کام کرنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل کے نظریات کی ترویج و اشاعت کو یقینی بنایا جائے۔ وہ لوک کہانیوں اور لوک گیتوں میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ 1928میں روسی زبان میں ماسکو سے شائع ہونے والی ولاد میر پروپ کی معرکہ آرا تصنیف’’Morphology of Folk tales‘‘اسے بہت پسند تھی۔اہل مغرب اس اہم کتاب سے طویل عرصہ تک بے خبر رہے یہاں تک کہ اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ 1958میں ہوا تو مغربی دانش وروں کو اس اہم کتاب کے مصنف کے اشہب قلم کی جو لانیوں کا اندازہ ہوا۔ولاد میر پروپ کی اس تصنیف سے جو ممتاز ادیب بہت متاثر ہوئے ان میں کلاڈ لیوی سٹراس، ایلن ڈنڈیز(Allen Dundes) ہنری بریمنڈ(Henri Bremond) اور الگرڈاس جولین گریماس کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ان تمام دانش وروں نے قدیم لوک داستانوں اور لوک گیتوں پر تحقیقی کام کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔

تولا(روس )میں جنم لینے والے الگرڈاس جولین گریماس نے ایک زیرک، فطین،متجسس اور ہونہار طالب علم کی حیثیت سے زمانہ طالب علمی ہی سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس کے والدین کا تعلق لتھوانیا سے تھا۔ اس نے 1934 میں امتیازی حیثیت سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد لتھوانیا کے دوسرے بڑے شہر اور ملک کے ممتاز تعلیمی مرکزکاناس(Kaunas) میں واقع پبلک یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔اپنی انڈرگریجویٹ تعلیم سال 1939 میں گر ینوبل(Grenoble) یونیورسٹی فرانس سے مکمل کی۔اس نے گریجو یٹ سٹڈیزکا آغاز تو فرانس میں کر دیا مگر 1940 میں اسے بعض نا گزیر حالات کے باعث لتھوانیاواپس آنا پڑا۔ یہاں اس نے تدریس اور صحافت کے شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہوئے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔صحافتی زند گی میں اس نے تخلیقِ ادب،تحقیق اور تنقیدِ ادب کے موضوع پر اپنی گل افشانی ٔ گفتار سے سماں باند ھ دیا۔ اس کے تنقیدی مضامین ملک کے ممتاز ادبی جرا ئد میں توا تر سے شائع ہو نے لگے۔ اس نے علم و ادب، فنون لطیفہ، تہذیب، ثقافت،تاریخ اور علم بشریات کے موضوع پر کھل کر لکھا۔1940 سے 1950 کے عرصے میں اس کی تنقیدی بصیرت کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔ اس عرصے میں اس کی درج ذیل دو کتابیں بہت مقبول ہوئیں :۔

1On Gods and Men

2 In search of national memory

سال1944 میں اس نے لتھوا نیا سے ہجرت کی او رسور بون (Sorbonne )میں تحقیق و تنقید کی اعلا تعلیم کا آغاز کیا اور یہیں سے اس نے 1949   میں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس نے فیشن کے ذخیرہ الفاظ پر جس محنت سے داد تحقیق دی اسے وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی اور ممتاز ماہرین لسانیات بھی باریک بینی اور تجسس پر مبنی اس کی تحقیق و تنقید پر دنگ رہ گئے۔اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے اُسے دائر ۃالمعارف، قاموس اور لغت سے گہری دلچسپی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیقی مراحل میں اس کا اختصاص لغت نو یسی (Lexicography ) ہی تھا۔اپنی عملی زندگی میں تحقیق اور تنقید کو شعار بنانے والے ایک وسیع النظر، محنتی اور دُور اندیش لغت نویس (Lexicography) کی حیثیت سے اس نے الفاظ کے عام استعمال اور ان میں نہاں گنجینۂ معانی کے طلسم سے مدلل انداز میں بحث کی۔اس نے واضح کیا کہ بصیرت سے متمتع ایک وسیع المطالعہ زیرک تخلیق کار جب قلم تھام کر اپنی عملی زندگی کے متنوع تجربات،مشاہدات اور جذبات و احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالتا ہے تو وہ یدِ بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ادبی تخلیقات میں بیانیہ کے معنیاتی تجزیہ کو جس مہارت سے اس نے پیش کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ پر خلاقانہ دسترس کے اعجاز سے وہ ایک پھول کا مضمون بھی سو رنگ سے باندھنے پر قادر تھا اور اس کی تحریریں اس کا بے مثال نمونہ ہیں ۔اس کے وسیع مطالعہ،محنت اور قابلیت کی بنا پر دنیا بھر میں اس کے مداحوں اور خوشہ چینوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی علمی،ادبی،تنقیدی،تحقیقی اور لسانی کا مرانیوں کی ہر طرف دُھوم مچ گئی۔ سال 1950میں اس نے مصر کے قدیم شہر سکندریہ میں علم و ادب کو پروان چڑھانے والے معلم (Docent)کا منصب قبول کر لیا۔سکندریہ جو 331قبل مسیح میں قائم ہوا تھا مصر میں تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔یہاں اس کا تقرر فرانسیسی زبان کی تدریس کے شعبے میں ہوا۔ممتاز ماہر لسانیات رولاں بارتھ سے اس کے معتبر ربط کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا۔اس نے رولاں بارتھ کو رومن جیکب سن (Roman Jakobson)کے لسانی تصورات سے آگا ہ کیا۔ روس سے تعلق رکھنے والے نامور ادیب رومن جیکب سن(پیدائش:دس اکتوبر 1896،وفات اٹھارہ جو لائی1982) کا شمار ساختیاتی فکر کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔زبان سے وابستہ اظہار و ابلاغ کی مختلف کیفیات،اسالیب اور سانچوں کے بارے میں رومن جیکب سن کے خیالات سے انھوں نے گہرے اثرات قبول کیے۔الگرڈاس جولین گریماس کی قابلیت سے متاثر ہو کر دنیا کی متعدد جامعات نے اسے اپنے ہاں تدریسی خدمات انجام دینے کی دعوت دی۔انقرہ یونیوسٹی میں اسے فرانسیسی زبان اور گرامر کی تدریس پر مامور کیا گیا۔جلد ہی وہ استنبول یو نیورسٹی چلا گیا یہاں سے وہ فرانس کی پایوٹیرز یونیورسٹی( ُPoitiers University) پہنچا۔ فرانس کی اس مشہور یونیورسٹی نے 1431میں روشنی کے سفر کا آغاز کیا جہاں تئیس سو کے قریب اساتذہ چوبیس ہزار طلبا و طالبات کی تدریس میں مصروف ہیں۔سال 1965میں اس نے رولاں بارتھ کی جگہ لی اور اسے اس عظیم جامعہ میں سوشل سائنسز کے ڈائریکٹر کے منصب پر فائز کیا گیا۔اس نے پچیس سال تک یہاں خدمات انجام دیں۔

اپنی کتاب ’’Semantique Structurale‘‘میں الگرڈاس جولین گریماس نے ولادمیر پروپ کے لسانیات اورساختیات کے بارے میں خیالات کی وضاحت اور صراحت کرتے وقت بیانیہ کے مفاہیم کے تجزیاتی مطالعہ پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ’’Structural Semantics‘‘ اور ’’Semiotics and language‘‘کے نام سے ہو چکا ہے تاہم اس کے متعدد مقالات کا تا حال انگریز زبان میں ترجمہ نہیں ہو سکا۔اہلِ نظر اس حقیقت سے بہ خوبی آگا ہ ہیں کہ ولاد میر پروپ نے محض لوک داستانوں میں پائے جانے والے کہانی پن کے محرکات کو زیر بحث لانے پر اکتفا کیا لیکن الگرڈاس جولین گریماس نے اسلوب اور بیانیہ کی تمام ممکنہ صورتوں،الفاظ و معانی کے نمونوں اور سانچوں اور بیانیہ کی ساخت اور شعریات کے گُل دستۂ معانی کے دھنک رنگ منظر نامے سے قوس قزح کے رنگوں کے مانند جھلکنے والے شعریات کے طلسم کو موضوع بنایا ہے۔اس نے معانی میں نہاں امتیازات و افتراقات کے تجزیاتی مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور معا ت انجا سماں با ابو اللثمعنیاتی اکائیوں کے مابین پائے جانے والے افتراقات کو معنی خیزی کے عمل انگیز کی حیثیت سے دیکھا۔ اس نے استدلال سے ثابت کیا کہ شکست و فتح،بلند و پست،نشیب و فراز اور ہجر و وصال کی کیفیات کی تفہیم صرف متضاد مفاہیم کی مرہون منت ہے۔سچ تو یہ ہے کہ مرنے کے بغیر جینے کی شان دِل رُبائی کا کوئی تصور ہی نہیں۔

سلسلہ ء روز و شب نقش گر حادثات ہے۔اس وسیع و عریض عالم آب و گل کے مظاہر،دراز کا ر جہاں ،اسرار و رموز اور تعاملات ا س حقیقت کے مظہر ہیں کہ یہ کائنات ابھی شاید نا تمام ہے اسی لیے دما دم صدائے کن فیکون کانوں میں گونجتی ہے۔جہاں تک تخلیق ادب کا تعلق ہے تو اس کے سوتے بھی زندگی کی معنویت کی روانی اور اسی معنی خیزی سے پھوٹتے ہیں ۔ادب کے بارے میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایک فعال مستعد اور زیرک تخلیق کار اپنی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے محض گنجینہ ء معانی کے طلسم کی گرہ کشائی نہیں کرتا بلکہ ایک رنگ کے خوب صورت پھول کا مضمون سو رنگ سے باند ھ کر نئے معانی کو سامنے لاتا ہے۔اس کی یہ حیران کن فعالیت ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے اور نئے معانی کی تخلیق اور نئے مفاہیم کی آفرینش سے ایک دھنک رنگ منظر نامہ مرتب ہوتا ہے الگرڈاس جو لین گریماس کے خیال کے مطابق فکر و خیال کی اسی جولانی کو تخلیق ادب پر محمول کرنا چاہیے۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کی کسی بھی زبان کا ادب محض لفظی مرقع نگاری کے ذریعے تمام مناظر،مطالب اور مفاہیم تک رسائی کے امکانات سامنے نہیں لاتا بلکہ اس کے معجز نما اثر سے ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے غیب سے نئے نئے مضامیں خیال میں آتے چلے جاتے ہیں اور اس طر ح ا یک ایسا غیر مختتم سلسلہ شروع ہو                جاتا ہے جو نت نئے معانی اور مفاہیم کی تشکیلات پر منتج ہوتا ہے۔ اس لیے اس نے ادب کو معنی خیزی کا نقیب قرار دیا۔یہ معنی خیزی اس قدر وسیع،جامع اور ہمہ گیر ہوتی ہے کہ ہر لحظہ اس کی نئی شان قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔زبان کے بارے میں اس کے تصورات ساختیاتی فکر کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔اس نے زبان کے ہمہ گیر اثر کو زیر بحث لاتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سائنسی طریقِ کار کے تحت ایک خاص لسانی نظام تشکیل پاتا ہے۔اس کے معجز نما اثر سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہانسانی تہذیب و معاشرت کے تمام عناصر جن میں ادب اور فنون لطیفہ بھی شامل ہیں سب نشانات کے ایک خاص نظام کا حصہ ہیں۔

تاریخ اور اس کے مسلسل عمل الگرڈ اس جولین گریماس نے ایک ایسے علم سے تعبیر کیا ہے جو چونکا دینے اور ورطہ ء حیرت میں ڈال دینے کی صلاحیت سے متمتع ہے۔ پہلی اوردوسری عالمی جنگ کی زخم خوردہ دُکھی انسانیت کو سمے کے سم کے ثمر نے طبعی اور نفسیاتی اعتبار سے مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔ان تباہ کُن عالمی جنگوں کے مسموم اثرات نے بے بس انسانیت کی روح کو زخم زخم اور دلوں کو کرچی کرچی کر دیا۔ عالمی جنگوں کے نتیجے میں پھیلنے والی وسیع پیمانے پر تباہیوں نے آبادیاں کھنڈر،رُتیں بے ثمر،بستیاں پُر خطر،کلیاں شرر، زندگیاں مختصر اور آہیں بے اثر کر دیں۔طالع آزما اور مہم جُو عناصر کی خون آشامی اور موقع پرست عناصر کی نمک حرامی کے باعث مرگِ نا گہانی کی تمنا لیے مظلوم انسانیت اپنے گلے میں اپنی ہی بانہیں ڈالے حسرت و یاس کا پیکر بن گئی۔جدیدیت نے ان حالات میں نمو پائی۔دنیا بھر کے دانش ور ایسے نظریات کے متلا شی تھے جن سے فکر و خیال کی واد ی میں منڈلانے والے یاس و ہراس کے سائے چھٹ جائیں۔ 1950 میں فرانس سے ساختیات کا غلغلہ بلند ہوا۔ یورپ میں روبن جیکب سن،کلاڈلیوی سٹراس اور رولاں با رتھ کی ساختیاتی فکر پر مرکوز رہی۔ ان کا خیال تھا کہ نشا نات کی سا ئنس (Semiotics   )کو رو بہ عمل لا کر فکری اضمحلال سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

ان کا خیال تھا کہ اس عا لم آب و گل میں افراد کے اعمال، افعال، رابطے اور جذبات کا اظہار و ابلاغ ان سب کا انسلا ک نشان سے کیا جا سکتا ہے اور نشانات من ما نے طریقے سے متعین کیے گئے ہیں۔ ان تمام نشانات میں کو ئی وراثتی مفاہیم نہاں نہیں بل کہ ان نشانوں کو ذاتی پسند یا نا پسند اور من ما نے اندازسے مفاہیم دیئے گئے ہیں۔ الفا ظ اور نشانات کی معنی خیزی کا عمل دراصل افتراقات کے قا بل تعین نظام کے سہا رے پروان چڑھتا ہے۔ اس طر ح متن کے مطالب کی جانب مر حلہ وار اور سائنسی انداز کے تحت پیش قدمی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس کی معنی خیز تحریروں میں سو سیئر کے تصورات کی بازگشت سنا ئی دیتی ہے۔ سوسئیر اور لیوی سٹراس کی طر ح اس نے بھی کئی پر اسرار مفرو ضوں کی گرہ کشا ئی کر نے کی سعی کی اور یہ کہا کہ نا خن پر قرض ہے گرہ نیم باز کا اور اس طرح ان مفروضوں کو بامعنی اکائیوں میں منقسم کر ق ہر مر حلے پر اس ماڈل سے معاماکے جہانِ معانی تک رسائی کی راہ دکھائی۔ مفروضے اور متن سے معانی اخذ کرنے میں ساختیاتی فکر نے افتراقات پر انحصار کرتے ہوئے روشنی کے نئے سفر کا آغاز کیا۔ساختیاتی فکر کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اسے یورپی ذہن نے پروان چڑھایا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ متعدد امریکی مفکرین بھی اس سے براہِ راست متاثر ہوئے۔نوم چو مسکی (Noam Chomsky)کی تحریروں میں ساختیاتی فکر کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔اس نے الفاظ اور آوازوں کے باہمی ارتباط اور افتراقات کو جہانِ تازہ کی جانب پیش قدمی سے تعبیر کیا۔ تخلیقی عمل میں الفاظ کے متکلم ہونے اور ان کے آہنگ سے اظہار اور ابلاغ پر یقیناً دور رس اثرات مرتب ہوئے۔لسانیات کی کشتِ ابلاغ میں الفاظ کے بیج بو نے سے جو گُل کھلتا ہے ساختیات نے اس سا ئنسی عمل کو مر حلہ وار سمجھنے کی مقدور بھر کو شش کی۔

چارلس سینڈرز پیرز ( ( Charles Sanders Peirceاور سوسئیر(Saussure) کی طرح اس نے بھی اظہار و ابلاغ کے لیے استعمال ہو نے والے الفاظ کی گرائمر کی تہہ تک پہنچنے پر اصرار کیا اور اس فکری انتشار کی وجوہ کو منظر عام پر لا نے کی کو شش کی۔ جس نے معاشرتی زند گی کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ انسب دانش وروں کا خیال تھا کہ نشانات کے مفاہیم کے سوتے ان میں پائے جا نے والے افتراقات سے پھوٹتے ہیں۔حریت فکر کے ایک مجاہد کی حیثیت سے اس نے ہمیشہ تقلیدی رجحانات کے مسموم اثرات سے بچنے کی راہ دکھائی،اس نے ادبی،لسانی،تہذیب اور ثقافتی اقدار و روایات کے پرانے اور فرسودہ تصورات کی اسا س پر استوار کاخ و ایوان کو تیشہ ء حرف سے منہدم کر دیا۔زبان کو اس نے کبھی شفاف میڈیم تسلیم نہ کیا اور ان لوگوں کے انداز فکر کو گمراہ کن قرار دیا جو زبان کو ایک شفاف میڈیم کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ادبی تنقید کو اس نے ایسا دلکش اسلوب اور ڈسکورس عطا کیا کہ اسے تخلیق کی دل کش رعنائیو ں سے مزین کر دیا۔اس کا خیال تھا کہ بادی النظر میں ماضی،حال اور مستقبل کے متعلق مثبت شعور و آگہی کے سوتے تاریخ کے حقیقی شعور ہی سے پھوٹتے ہیں ۔تاریخ کے مسلسل عمل سے آگاہی کی صورت میں انسان اپنے حال کو سنوارنے کے لیے بہتر لا ئحۂ عمل اختیا کر سکتا ہے۔اس کے اعجاز سے ایک مثبت انداز ِ فکر پروان چڑھتا ہے اور انسان یہ محسوس کر لیتا ہے کہ ستارو ں سے آگے اور بھی کئی جہاں ہیں۔اس کی نگاہ بلند ہو جاتی ہے اور وہ ستارو ں پہ کمند ڈالنے کی صلاحیت اپنے اندر موجزن محسوس کرتا ہے۔آج کے دور میں زندگی کی برق رفتاریو ں نے فاصلو ں کی طنابیں کھینچ لی ہیں ۔تاریخ کے مسلسل عمل سے آگاہی کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لانے والے محنتی، اولو العزمان دانش مند جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر کی راہ اپناتے ہیں۔جب ایک جر ی تخلیق کار حق گوئی،بے باکی اور صداقت کی مشعل تھام کر تخلیقِ فن پر مائل ہوتا ہے تو اس کا وجود مہیب سناٹو ں میں حق کی آواز اور ہولناک تاریکیوں میں ستارہ ٔ سحر اور جانگسل تنہائیوں ایک قابل اعتماد ساتھی کی حیثیت سے حوصلے اور ہمت کی نوید بن جاتا ہے۔

الگرڈاس جولین گریماس کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ چربہ ساز،سارق،کفن دزد،جعل ساز اور خفاش عناصر نے گلشن ادب پر دھاوا بو ل دیا ہے۔ان لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں کے باعث فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم اب تک نہیں آسکا۔قلم فروش ادیبوں کے قبیح کردار کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس نے واضح کیا ہے کہ ان سفہا،اجلاف و ارزال اور ساتا روہن کی وجہ سے ادب نے الفاظ کے سرطان کی صورت اختیار کر لی ہے۔جب بھی لفظ کی حرمت کو پامال کیا گیا رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں ۔ایک سچے تخلیق کار کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے تخیل کی جولانیوں سے رنگ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اپنے الفاظ میں اس طر ح اتار ے ہیں ہے کہ قاری ان کی رو ح کی گہرائیو ں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے مسحور ہو جائے۔الگر ڈاس جولین گریماس کی تحریروں میں یہی اثر آفرینی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔اپنے تخیل کی جولانیوین لوگوں کے انداز فکر کو گمرا ں سے قاری کو ورطہ ٔ حیرت میں ڈالنے میں اُسے ید طولیٰ حاصل ہے۔ادبی دبستانوں   کی تنگ نظری اور ہر قسم کی عصبیت سے دامن بچاتا ہو ا وہ اپنے لیے ایک الگ اور منفرد راہ کا انتخاب کرتا ہے اس کی اس انفرادیت میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں ۔اپنی ادبی زندگی اور تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت الگرڈ جولین گریماس نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اس کا تعلق قلم و قرطاس کے حوالے سے تخلیق ادب سے ہے۔اس نے کبھی تنقید،لسانیات یا دیگر نظریات کے حوالے سے احساس تفاخر کا اظہار نہیں کیا بل کہ اپنے فطری عجز و انکسار کو سدا زادِ راہ بنایا۔اپنی بیس کے قریب وقیع تصانیف سے اس نے لسانیات کی ثروت میں اضافہ کیا۔اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :

1 Of gods and men

2 On Meanings

3 The Social Sciences

4 The semiotics of passions

5 Structural semantics

6 Semantic and language

رخش حیات مسلسل رو میں ہے اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں ہے۔ اس عالم آب و گل کی ہر شے مسافر ہے اور ہر چیز راہی ہے۔ قید حیات و بند و غم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اعمال و افعال کا منظر نامہ سیل زماں کے تھپڑوں کی زد میں ہے۔ دنیا ایک ایسی پہیلی ہے جس کے اسرار،کردار اور واقعات ہمیشہ ناقابل فہم ہوتے ہیں ۔ جہاں تک کہانیوں اور حکایات کا تعلق ہے اِن کے اسلوب اور اظہار و ابلاغ کی راہیں جداگانہ نوعیت کی ہیں۔ پروپ نے افسانوی دنیا کے قواعد و ضوابط اور طرز ادا کو محدود نوعیت کا حامل قرار دیا تھا اور اسے ساختیات کے دائرہ کا ر میں لاتے ہوئے اس کی تفہیم و تعبیر کی سعی پر زور دیا تھا۔اپنی تنقیدی کتب میں الگرڈ جولین گریماس نے اس جا نب متوجہ کیا کہ کہانی، افسانہ، داستان اور حکایت کو ایک منفرد انداز میں دیکھنا چاہیے۔ الفاظ و معانی اور پیرایۂ اظہار کے لحاظ سے ان کی معنیاتی ساخت فکر و نظر کے نئے دریچے وا کر تی ہے۔ پر و پ نے افسانوں کے کرداروں کو سات مداروں میں سر گرم عمل دکھایا جب کہ الگرڈجولین گریماس کا خیال ہے کہ کردار تین جوڑوں کی صورت میں فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں ۔ اپنے اس ستد لال میں الگرڈاس جولین گریماس نے بالعموم سو سیئر اور رومن جیکب سن کے عناصر میں پائے جانے والے ارتباط و تضاد کے دوہرے تفاعل کو پیش نظر رکھا ہے۔اس نے لسانی تفاعل کے جس خاص آہنگ پر اپنی توجہ مرکوز رکھی وہی اس کی پہچان بن گیا۔اس کے اعجازسے تخلیق فن کے لمحوں میں معنیاتی نمونوں کی خاص انداز میں ترتیب و تنظیم اور صورت گری کی راہ ہموار ہو گئی۔اس کے ساتھ ساتھ اظہار و ابلاغ اور فکر و خیال کو نئی جہات سے متعارف کرانے میں بھی مدد ملی۔اس نے لسانیات اور لغت نویسی کے شعبوں میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان سے قارئینِ ادب کے ذہن و ذکاوت کو صیقل کرنے اور ذوق سلیم کو بیدار کرنے میں مدد ملی۔جہانِ تازہ کے نقیب اس کے خیالات سے یورپ کے علمی و ادبی حلقوں نے بھر پور استفادہ کیا۔اس نے خود شناسی اور اپنے من کی غواصی کر کے زندگی کے گوہر مراد پانے کی جو راہ دکھائی وہ ہر دور میں لائق توجہ سمجھی جائے گی۔جدید لسانیات اور ساختیاتی فکر نے اس کے روح پرور تصورات کو خضر راہ سمجھا اور اس کی تحسین کی۔اس کی انجمن خیال جن چار صلاحیتوں کو رنگ،خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروں کی حیثیت حاصل ہے ان میں تمنائیں ،دستیاب وسائل،استعدادِ کار اور خود شناسی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔الگرڈاس جولین گریماس نے اظہار و ابلاغ کے لیے جو طریقہ وضع کیا اسے ایکٹینل ماڈل کے نام سے شہرت ملی۔اپنے پیش کیے ہوئے ایکٹینل ماڈل (Actanial Model)میں الگرڈ جولین گریماس نے افسانوی ادب کی تفہیم کے سلسلے میں کئی چشم کشا صداقتوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔داستان،کہانی یا عملی زندگی کے حقائق ہر مرحلے پر اس ماڈل سے معاملت کی تہہ تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔یہ ماڈل در اصل گراف کی مدد سے کہانی کے بیانیہ کو آگے بڑھانے کی ایک سعی ہے۔اس کے ذریعے کہانی کے با معنی ڈھانچے کی حدود و قیود کی تفہیم ممکن ہے۔اس کے علاوہ کہانی کے منظر نامے کے اسرار و رموز ی گرہ کشائی میں بھی یہ ماڈل معاون ثابت ہو سکتاہے ساٹھ کے عشرے میں اس ماڈل کی وسیع پیمانے پر پذیرائی ہوئی۔ ادبی ڈسکورس کے بارے میں اس نے اس امر کی صراحت کی کہ اس کے دو انداز ہوتے ہیں۔ان میں ہر صورت میں فاعل پر براہِ راست اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔جہاں تک مفعول کا تعلق ہے تو یہ علم ہی ہے جس کے عملی زندگی کے ساتھ بہت گہرے ناتے ہیں۔ ہم سب تمنائے علم لیے روشنی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تخلیق کار جب اپنے تاثرات کو کسی متن کی صورت میں پیش کر دیتا ہے تو اس کا تخلیقی کام اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ اِس کے بعداُس ادب پارے کے استحسان کی ذمہ داری قاری پر عائد ہو تی ہے۔متن کی قرا ٔت اور تفہیم کے سلسلے میں قاری کے اہم کردار کو الگرڈاس جو لین گریماس نے بہت اہم قرار دیا۔ ابتدا میں ساختیات نے نثر پر اپنی تو جہ مر کوز رکھی لیکن جلد ہی ساختیاتی مفکر ین نے شاعری کے موضوعات میں بھی دلچسپی لینا شرو ع کر دی۔ اس کے بعد ادب کی شعریات ان کی توجہ کا مرکز بن گیا۔سال 1970تک سیمیالوجی (Semiology)کی اصطلاح صرف فرانس میں مستعمل تھی لیکن اب اسے سیمیاٹکس (Semiotics) کے نام سے پُوری دنیا میں مقبولیت حاصل ہے۔ یہ سائنس معاشرتی زندگی میں موجود اشارات سے مفاہیم اخذ کرتی ہے اس کے بعد یہی مفاہیم سماجی نفسیات کے اسرار و رموز اور نشیب و فراز سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں جو ارتقائی مدارج طے کرتے ہوئے عام نفسیات کا حصہ بن جاتے ہیں۔اس عمل کو باقاعدہ سائنس کے مطالعہ کی سطح تک پہنچانے میں الگرڈ اس جولین گریماس اور اس کے ساختیاتی فکر کے علم بردار معاصرین کا کردار تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Sender    à    Object     à    Receiver

|

Helper     à    Subject    à    Opponent

جیسا کہ اوپر دئیے گئے ماڈل سے ظاہر ہے الگرڈاس جولین گریماس نے کہانی کے بیانیہ کے عمل کو چھے اقدامات میں تقسیم کر کے اس کی تفہیم کی جانب پیش قدمی کی راہ دکھائی ہے۔اس کا یہ اقدام جدید اندازِ فکر کا مظہر اور اس کی فکری اُپج کا آئینہ دار ہے۔ ادبی تنقید کے متعدد روایتی قسم کے معائر،اسالیب اور نمونوں کی نوعیت اور وقعت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے الگرڈاس جولین گریماس نے ان کے وجود اور جواز کو چیلنج کیا۔تخلیقی فعالیت اور متن جیسے اہم موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس نے واضح کیا کہ ادبیات کی تمام اصناف کا تعلق اشارات (Codes)کے ایک جامع نظام سے ہے۔اس کے خیالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک تخلیقِ ادب کو کسی واحد تخلیق کار کی انفرادی فعالیت اور اس کی تنہا ذہنی کاوش سے تعبیر کرنا درست اندازِ فکر نہیں بل کہ اس نوعیت کی تخلیقی فعالیت کے پسِ پردہ متنوع عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ان تمام عوامل کے باہمی تفاعل سے فکر و خیال کی رعنائیاں جب تخلیق کی جلوہ آرائیوں کا رُوپ دھارتی ہیں تو ایسا حسین اور دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آتا ہے جو قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے۔تخلیقِ ادب کے مراحل میں حقیقت نگاری کے بارے میں بھی اس نے ساختیاتی فکر کو بہ نظرِ تحسین دیکھتے ہوئے اسے اپنے تخلیقی عمل اور وجدان کی اساس بنایا۔اس نے اس امر پر اصرار کیا کہ کوئی بھی متن صداقت کا پرتو لے کر کس طرح منصۂ شہود پر آ سکتا ہے۔ محض سطحی مشاہدات،عام تخمین و ظن اور فرضی معلومات کی بنا پر کسی متن کے بارے میں یہ تاثر قائم کر لینا کہ اس میں حقائق کی ترجمانی کی گئی ہے مجذوب کی بڑ کے سوا کیا ہے؟ایک تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں جب قلم تھام کر اپنے تخلیقی وجدان کو رو بہ عمل لاتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہو کر اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتا ہے تو جو کچھ اس کے دِل پر گزرتی ہے وہ اسے زیبِ قرطاس کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس کی گل افشانیِ گفتار پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے اور اس کی اسلوب کی شگفتگی کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس تخلیقی عمل میں وہ ہر لمحہ اپنی پسند اور مرضی کے مطابق تخلیقی کام انجام دیتا ہے۔ پرورش لوح و قلم کے دوران انتہائی نا مساعد حالات میں بھی رخِ وفا کو تازہ رکھنا ایک تخلیق کار کی منشا اور مرضی پر مبنی ایسا فعل سمجھنا چاہیے جو اس کی اُفتاد طبع کا مظہر ہوتا ہے۔اپنے جذبات،احساسات،تجربات، مشاہدات اور مجموعی تاثرات کی لفظی مرقع نگاری کے اپنے محبوب مشغلے کے دوران وہ جو خاص نوعیت کے خاکے بناتا ہے،اُن میں اپنی پسند اور نا پسند کا خیال رکھتے ہوئے رنگ آمیزی بھی کرتا چلا جاتا ہے۔تخلیقات کو گُل ہائے رنگ رنگ سے مزّین کرنے کا یہ تخلیقی عمل در اصل اقلیمِ ادب میں جس کا وہ مطلق العنان حاکم ہے، اس کی من پسند فعالیت ہے جس میں وہ اپنی مرضی سے ہر کام کر گزرتا ہے۔ تخلیق کار کی من مانی فعالیت کے نتیجے میں منظر عام پر آنے والے ایسے تخلیقی کام کو حقیقت نگاری پر محمول کرنا صداقتوں کی تکذیب اور حقائق کی تمسیخ کے مترادف ہے۔ایک زیرک نقاد کی حیثیت سے اس نے قاری کو اس بات کا ذمہ دار قرار دیا کہ وہ تخلیقی فن پارے کے متن کے بارے میں کوئی رائے قائم کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔الگر ڈاس جولین گریماس نے ایک ادیب کی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے رو نما ہونے والے متن کو فن کے ایک ایسے لچک دار نمونے سے تعبیر کیا جسے قارئین کسی بھی سمت موڑنے پر قادر ہیں۔اس کے خیالات سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ ممکن ہے جس متن کے بارے میں ایک خاص وقت میں کوئی خاص رائے قائم کر لی جائے مگر سیلِ زمان کے تھپیڑے انھیں بہا لے جائیں۔اس کے بعد مستقبل کے قارئین کوئی مختلف نوعیت کی رائے قائم کر لیں۔ یہ بھی ممکن ہو کہ ان دونوں آرا کے درمیان بعد المشرقین ہو۔اس کے نتیجے میں امکانی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مستقبل کے قارئین ان نتائج کو لائقِ اعتنا نہ سمجھتے ہوئے انھیں پشتارۂ اغلاط قرار دے کر ان سے گلو خلاصی حاصل کر لیں۔اس بنا پر یہ بات قابل فہم ہے کہ ادبی تخلیق اور متن کے بارے میں قابل قدر تجزیاتی رائے دینے کے سلسلے میں قاری ہی کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ادب پا رے کے بارے میں تنقید اور تجزیہ پر مبنی کو ئی بھی محاکمہ قاری کے دائرہ کار میں شا مل ہے تخلیق کار کا اس کام سے کو ئی تعلق نہیں ہو نا چاہیے۔ بہ قول شاعر   ؎

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دئیے میں جا ن ہو گی وہ دیا رہ جائے گا

الگرڈاس جو لین گریماس نے اپنے ماڈل کے ذریعے نہ صرف تخلیقی فعالیت کی وسعت اور ہمہ گیری کو واضح کیا بل کہ ساختیاتی شعریات اور تھیوری پر بھی اپنے خیالات کا بر محل اظہار کیا۔اس زمانے میں کئی اورساختیاتی مفکرین نے بھی ادبی شعریات اور تھیوری کے موضوع پر خیال افروز مباحث کا سلسلہ شروع کیا۔ان میں جو نا تھن کیولر(Jonathan Culler)کا نام قابل ذکر ہے۔ امریکہ کی ممتاز جامعہ’’ کارنل یونیورسٹی نیو یارک‘‘ میں شعبہ انگریزی کے پروفیسرجو نا تھن کیولر(Jonathan Culler)ساختیاتی تھیوری پر خیال افروز مباحث کے سلسلے کو مزید آگے بڑھایا۔ساختیاتی شعریات پر جوناتھن کیولر کی معرکہ آرا تصنیف (Structuralist Poetics) پر اسے فروغ علم و ادب کو مطمح نظر بنانے والی ماڈرن لنگویج ایسوسی ایشن امریکہ کی جانب سے 1974میں جیمز رسل لاول انعام (James Russel Lowell Prize) سے نوازا گیا۔اس بیش بہا اور با وقار ایوارڈ کا اجرا 1969میں ہوا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔جو ناتھن کیولر نے اپنی تنقید میں متن کے بجائے قاری کو موضوع بنایا اور اس بات پر زور دیا کہ ادب کا سنجیدہ قاری جب متن سے نتائج اخذ کرنے کے بعد اپنے خیال کے مطابق متن کی ترجمانی کرتے وقت کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد اپنی کوئی حتمی رائے قائم کر لیتا ہے تو اس کے بعد نہ تو وہ از خود اس سے دست بردار ہوتا ہے اور نہ ہی کسی نقاد کے سامنے قاری کی اس رائے کو نظر انداز کرنے کا کوئی جواز ہے۔بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جہاں تک ادبی اہلیت، ادب فہمی کی صلاحیت،اور تخلیقی فعالیت کا تعلق ہے اس میں تخلیق کار کے بجائے قاری کا ذوق ِسلیم کلیدی اہمیت کا حامل ثابت ہوتا ہے۔بیانیہ کے ساختیاتی اجزا کے بارے میں الگرڈاس جو لین گریماس نے جن ا مور کی جانب متوجہ کیا ہے ان کی بازگشت ہر عہد کی تنقید میں سنائی دے گی اور اہلِ نظر فکر و خیال کی نئی انجمن سجاتے رہیں گے۔

اس خامشی پہ ختمِ سفر کا گُماں نہ کر

آسودگانِ خاک نئی منزلوں میں ہیں

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے مضامین کی فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید