FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نثرِ اقبال کا تنوع

               ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

 

 

علامہ محمد اقبال بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں ۔  ان کی بلند پایہ، خوب صورت اور دل نشیں شاعری میں ایسی کشش ہے کہ اس کا قاری یاسامع’’سبحان اللہ ‘‘اور ’’واہ واہ‘‘ کہتے ہوئے اس کی داد دینے پر خود کو مجبور پاتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اقبال کے شیدائی، ان کے مداح، ان کے قارئین وسامعین اور ان کی شاعری پر سر دھُننے والے، حتیٰ کہ بعض واجب الاحترام بلند پایہ اقبال شناس بھی اقبال کی شاعری کے دائرے سے نکل کران کی نثر کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔  اگر نثر کی طرف متوجہ ہوتے بھی ہیں تو اس طرح نہیں، جیسا ہونا چاہیے۔

ہم اقبال کو کم ہی پڑھتے ہیں اور اس نثر میں جو اقبال کی دل نواز شخصیت کے پہلو موجود ہیں، ان سے ناواقف ہی رہتے ہیں ۔  شخصیت کے علاوہ ان کے فکر کی قوسِ قزح، ان کے ذہنی ارتقا کے نشیب و فراز اور بحیثیت مجموعی اس میں جو اقبال کے سوز و سازِ رومی اور پیچ و تابِ رازی ملتے ہیں، ہم اسے جاننے سے محروم رہتے ہیں ___ نثرِ اقبال کے قارئین کم کم ہیں، اس لیے جہاں اقبال کی شاعری کے مجموعے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں چھپے ہیں، وہاں ان کی نثری کتابیں بہت کم شائع ہونے کی نوبت آئی ہے اور یہی وجہ (اور غالباً ان کی نثر سے اسی اِعراض و اغماض ہی کا نتیجہ) ہے کہ اقبالیاتی تنقید اور تجزیے کا ننانوے فیصد بلکہ شایداس سے بھی زیادہ اقبال کی شاعری سے بحث کرتا ہے اور ان کی نثر جو فکر اقبال کی دو ٹوک، غیر مبہم اور واضح صورت ہے، اس کا حوالہ کم، بہت ہی کم دیا جاتا ہے۔

اقبال کی نثر پر گنتی کے چند تنقیدی مضامین ملتے ہیں، مگر وہ بھی نثر اقبال کا کامل احاطہ نہیں کرتے۔  اقبال کی نثری تحریروں میں سب سے زیادہ توجہ ان کے انگریزی خطبات(The Reconstruction) پر دی گئی ہے۔  خطبات سے دل چسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ خطبات سے اِعتنا کے نتیجے میں کیسے کیسے مبحث سامنے آئے، اور اندازہ ہوا کہ علامہ نے کیا کیا نکتہ افروزی کی ہے، جس سے علم و دانش کے نئے نئے دریچے وَا ہوئے ہیں ۔

پون صدی سے خطبات پر مذاکرے ہو رہے ہیں، مضمون لکھے جا رہے ہیں، کتابیں چھپ رہی ہیں، خطبات کے بعض نکات پر اعتراضات ہوئے ہیں، ان کے جوابات بھی دیے گئے ہیں، غرض بحث و مباحثہ جاری ہے، گویا صاحبانِ فکر و نظر کے لیے خطبات کے موضوعات آج بھی ترو تازہ ہیں ( اور یہ امراس کتاب یعنی Reconstruction کے سدا بہار ہونے کا ثبوت ہے۔  )اسی طرح کیا یہ نہ ہونا چاہیے تھا کہ اقبال کی باقی انگریزی اور اردو نثر کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کیا جاتا، اقبالیاتی تحقیق و تنقید میں شاعری کی طرح اسے بھی کام میں لایا جاتا مگر ایسا نہ ہو سکا، یہ اقبالیات کی بد قسمتی ہے__اسی خیال سے راقم اس نظر انداز کردہ، مگر اہم موضوع پر چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔

نثرِ اقبال کا مطالعہ کرتے ہوئے سب سے پہلے اقبالیات کی یہ کمی کوتاہی سامنے آتی ہے کہ ماسوا انگریزی خطبات کے، ان کی دیگر نثری کتابیں، مضامین، خطوط اور بیانات وغیرہ خاطرخواہ طریقے سے مدون نہیں ہو سکے۔  (کجا یہ کہ نثری کلیات اصولِ تحقیق کے مطابق مرتّب و مدون ہو کر شائع ہو جاتی۔  ) چنانچہ ایک آدھ مجموعے کے علاوہ، نثرِ اقبال کا کوئی ایسا مجموعہ نہیں ملتا جو بہ لحاظِ صحتِ متن کلی طور پر اطمینان بخش ہو۔

اقبال کی شاعری کے سلسلے میں تو یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ کلیات اقبال اردو کا ایک(اقبال اکادمی پاکستان کا مرتّبہ و شائع کردہ)نسخہ متن کی غلطیوں سے پاک ہے۔  اگرچہ اس میں بھی کلامِ اقبال کی ترتیب وہ نہیں جو خود علامہ اقبال نے قائم کی تھی۔  رہافارسی کلیات، تو اس کا غلام علی اڈیشن گذشتہ ۳۹برس سے پروف اور املا کی اغلاط کے ساتھ چھپ رہا ہے ___ دوسرا نسخہ اقبال اکادمی کا ڈی لکس اڈیشن ہے جو ۱۹۹۰ء میں ایک بار چھپ کر ختم ہو گیا اور اب دستیاب نہیں ہے۔  مگر یہ ایک الگ موضوع ہے۔

علامہ اقبال کی شاعری اردو کی ساڑھے تین اورفارسی کی ساڑھے پانچ یعنی کل نو کتابوں پر مشتمل ہے۔  اس کے مقابلے میں ان کی اردو اور انگریزی نثر کی کتابوں کی تعداد پندرہ بنتی ہے جن میں علم الاقتصاد، انگریزی خطبات، پی ایچ ڈی کا مقالہ ‘اردو مضامین اور متفرق تحریروں کا ایک مجموعہ، انگریزی مضامین اور خطبات و بیانات کا ایک مجموعہ شامل ہیں ۔  بہت سی غیر مدوّن نگارشات اس کے علاوہ ہیں ۔  نثرِ اقبال کی یہ مقدار ان کی شاعری سے زیادہ ہے۔  بلا شبہہ فقط مقدار کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اصل چیز تو معیار ہے۔  اگر علامہ کی نثر کا، فکر و فن کے اعتبار سے مطالعہ کیا جائے اور اس کی جانچ پرکھ کر کے اس کی تعیینِ قدر کی جائے تو بھی مایوسی ہرگز نہیں ہوتی بلکہ نثر اقبال، ان کے سوانح، شخصیت، افکارو تصورات، ان کے ذوق علمی، ان کے دینی وسیاسی تفکر اور ’’شخص اور شاعر‘‘ کے بہت سے پہلوؤں کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔  فکرِ اقبال کے متعدد عنوانات کے بارے میں جس قدر تفصیل ان کی نثر میں ملتی ہے، وہ شاعری میں موجود نہیں ۔  ذیل میں ہم مختصراً چند پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں :

               ۱-  سوانح

بے شک علامہ کے حالات پر بہت سی قابل قدر سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں اور بعض نہایت اہم سوانحی مضامین بھی ملتے ہیں، جو قدر و قیمت میں کتابوں سے کم نہیں لیکن بشمول زندہ رود، اس سارے سوانحی ذخیرے کی تحریر و تصنیف میں اقبال کی نثر سے، جو ان کی سیرت وسوانح کا ایک بنیادی اور اولین ماخذ ہے، پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ ۱؎ یہ نثر ہمیں ان کے بارے میں بہت صحیح اور نادر معلومات مہیا کرتی ہے۔

اقبال کی نثر میں ان کی ولادت سے لے کر بڑھاپے تک کی نادر معلومات ملتی ہیں ۔  ان کی صحت اور بیماریوں اور علاج معالجے پرچوں مرگ آید۲؎ کے  نام سے جو کتاب دستیاب ہے، وہ بیشتر اقبال کی نثر اور خطوں ہی سے تیا ر کی گئی ہے۔  اسی طرح حیاتِ اقبال کے دیگر پہلو بھی نثرِ اقبال کے ذریعے سامنے آتے ہیں، مثلاً حصول تعلیم کے لیے انگلستان و جرمنی کا سفر، والدین سے ملاقات کے لیے سیال کوٹ کے سفر، بڑے بھائی شیخ عطاء اللہ سے ملاقات کے لیے ایبٹ آباد، کیمبل پور اور کوئٹے کے سفر، وکالت کے سلسلے میں سری نگر، جھنگ، لکھنؤ اور متعدد دوسرے شہروں کے سفر، گول میز کانفرنسوں میں شرکت اور ضمناً پیرس، ہسپانیہ، روم، مصر اور بیت المقدس کے سفر، افغانستان کا سفر، سرہند شریف کا سفر اور علاج معالجے کے لیے دہلی اور بھوپال کے اسفارکی تفصیلات نثر کی مدد کے بغیر مکمل نہیں کی جا سکتیں ۔  نثر میں ہمیں اقبال کے اپنے حالات کے ساتھ ساتھ ان کے وابستگان اور متعلقین(آباء و اجداد، والدین، اساتذہ، اعزہ، بیگمات اور بچوں کے حالات)کے بارے میں بھی بہت کچھ معلومات ملتی ہیں ۔

 ایک خط میں سفرکوئٹہ کی مشکلات کا ذکر ہے اور پتا چلتا ہے کہ علامہ نے اپنے بھائی شیخ عطا محمد کی محبت میں کتنی تکلیف اٹھائی، لکھتے ہیں :

گھوڑے کا سفر اور گھوڑے سے اکتائے تو اونٹ کاسفر، خدا کی پناہ، پہلے روز۳۷ میل کا سفر گھوڑے پر کیا۔  آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مجھے کس قدر تکلیف ہوئی ہو گی لیکن جو تکلیف محبت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو، وہ لذیذ ہو جاتی ہے۔ ۳؎

یہ بھی اقبال کی ایک نثری تحریر ہی سے پتا چلتا ہے کہ سرداربیگم اس قدر نیک، وسیع القلب اور فراخ حوصلہ تھیں کہ جب ان کے سوتیلے بیٹے آفتاب نے والدسے رقم کا جائز یا ناجائز مطالبہ کیا، اور علامہ نے رقم دینے سے معذوری ظاہر کی تو سردار بیگم آفتاب کو رقم بھیجنے کے لیے اپنا زور بیچنے پر تیار ہو گئیں ۔ ۴؎

یہ معلوم ہے کہ علامہ کے بڑے فرزند آفتاب اقبال بعض وجوہ سے علامہ اقبال سے دور رہے۔  اقبال کی نثر سے ان وجوہ کا اندازہ ہوتا ہے۔  آفتاب ایک زمانے میں علامہ کے نام پر ان کے ایک قدردان سراکبرحیدری سے کچھ رقوم لیتے رہے۵؎ مثلاً اپنے لندن کے زمانۂ طالب علمی میں آفتاب نے سراکبر حیدری سے ۱۹۰؍پونڈ کی رقم بطور قرض حاصل کی، بعد ازاں مہاراجا کشن پرشاد شادؔ کے دستخطوں سے اس قرض کو عطیہ (donation)قرار دے کر معاف کر دیا گیا۔  آفتاب نے پھر اپنی مالی مشکلات اور والد کے عدم التفات کا ذکر کرتے ہوئے اکبر حیدری کو لکھا کہ وہ[سراکبر]میرے والد کو اپنے بیٹے کی مالی امداد پر آمادہ کریں ۔  سراکبر نے اقبال کو ایک محتاط سا خط لکھا، تب انھیں اندازہ ہوا کہ صورتِ حال کیا ہے؟

 علامہ نے سراکبر کو بتایا: یہ کہانی بڑی لمبی اور تکلیف دہ ہے اور اگر آپ کو صحیح صورتِ حال کا علم ہوتا تو شاید آپ مجھے خط نہ لکھتے۔  میں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر آفتاب کی مالی مدد کی ہے، حالانکہ مجھ سے اور خاندان کے دوسرے افراد سے اس کا رویہ نہایت قابلِ اعتراض رہا ہے۔  لکھتے ہیں :

No father can read with patience the nasty letters which  he has written to us and which he is doing now, is only the part of the black-mailing scheme.۶؎

مزید لکھا:

It is impossible for me to describe how he has behaved in all these years.۷؎

علامہ اقبال جرمن زبان سیکھنے کے لیے چند ماہ ہائیڈل برگ میں مقیم رہے، جہاں انھوں نے اپنی استانی ایماویگے ناسٹ سے جرمن زبان و ادب کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔  اس کے ساتھ قلب و نظر کے معاملات بھی پیش آئے مگر ان کی نوعیت اور اصلیت صرف خطوں سے پتا چلتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ ایما کے رویے نے اقبال کواس قدر متاثر کیا کہ وہ محسوس کرنے لگے: ایما ہی ’’میری زندگی کی حقیقی قوت‘‘ ہے اور جرمنی میرا ’’دوسرا روحانی وطن‘‘ ہے۔  اقبال کچھ عرصہ ایما کے سلسلے میں ذہنی کشمکش کا شکار رہے، اس کی تفصیل نثر اقبال مہیا کرتی ہے۸؎ (یہ اقبال کی مضبوط باطنی قوت تھی کہ وہ اس کش مکش سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے۔  )

علامہ نے اردو، فارسی کلام میں کئی جگہ اپنے فرزند جاوید اقبال سے براہ راست خطاب کیا ہے وہ جاوید کے مستقبل کے بارے میں بہت فکرمند رہتے تھے۔  اس کے مستقبل کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے انھوں نے کیاکیا؟اس کاپتا اُن کے نثری وصیت نامے اور راس مسعود کے نام، ان کے متعدد خطوط سے چلتا ہے جن میں انھوں نے تین چار نہایت قابل اعتماد دوستوں اور عزیزوں کو جاوید اور منیرہ کا Guardian (سرپرست) مقرر کیا۔ ۹؎

               ۲۔  شخصیت

تاریخ میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جب کسی شاعر کی شاعری کو پڑھ یا سن کر قارئین یا سامعین اس کے معتقد اور گرویدہ ہو گئے لیکن جب سفر و حضر میں اسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو ان کی عقیدت اور گرویدگی، تنفر اور ذہنی دوری میں بدل گئی۔

ہمیں یہ دعویٰ نہیں کہ علامہ اقبال نہایت عملی مسلمان (Practicing Muslim) یا ایک متحرک اور فعال سیاسی کارکن (Activist)تھے۔  گو ان کے معتقدین کی خواہش ضرور تھی کہ کانگریس یامسلم لیگ کے کارکنوں کی طرح وہ بھی میدانِ عمل میں نکل کھڑے ہوں، ان کے شانہ بشانہ آزادیِ ہند کی تحریکوں میں حصہ لیں اور نعروں کی گونج میں سامراج برطانیہ کے خلاف دھواں دھار تقریریں کریں ۔  اس سلسلے میں اقبال سے مولانا محمد علی جوہر کا بے تکلفانہ مطالبہ اور اقبال کا تفنن بھرا جواب بہت معروف ہے۔ ۱۰؎

درحقیقت اقبال جیسے شاعر سے، ایک سیاست دان کی سی مستعدی یا ایک متقی شخص کے زہد و تقویٰ کی توقع بھی نہیں رکھی جا سکتی اور نہ رکھنی چاہیے۔  علامہ کا ایک مخصوص مزاج تھا، مگر یہ ضرور ہے کہ جیسا ہمیں نثرِ اقبال سے معلوم ہوتا ہے، وہ شخصی طور پر بہت نیک خو، معتدل اور متحمل مزاج، وضع دار، نمود و نمائش اور بناوٹ سے گریزاں اور ملنسار شخص تھے۔  آسانی سے غصے میں آتے اور نہ مشتعل ہوتے تھے۔

بطورِ انسان اقبال میں کیا خوبیاں تھیں ؟اسی طرح ان میں کیا کمزوریاں اور کوتاہیاں تھیں ؟ والدین، دوست، احباب، اساتذہ، عزیزوں، رشتہ داروں، شاگردوں اور خردوں سے ان کا رویہ اور سلوک کیسا تھا؟ اس طرح کے سوالوں کے جواب بھی ان کی نثرسے ملتے ہیں ۔  اور یہی جوابات اقبال کی حقیقی شخصیت کوسامنے لاتے ہیں ۔

شاعروں کو عموماً یہ غَرّہ ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ لکھ دیں، حرفِ آخر ہے اور کسی کو حق نہیں کہ وہ ان کی کسی فنی خامی یا فکری کجی و کمی کی نشان دہی کرے۔  علامہ اقبال اوّل تو تسلسل کے ساتھ اپنے شاعر ہونے کی تردید کرتے رہے، اور جب ان کے کلام پر کچھ لوگوں نے اعتراضات کیے تو علامہ نے اس کا برا نہیں مانا۔  اعتراضات بھی بڑے طنزیہ انداز میں کیے گئے تھے مثلاً بالکل ابتدائی دور میں ’’تنقیدِ ہمدرد‘‘ نے ان کی شاعری پر سخت گرفت کی اور انھیں فنِ شعر سے نابلد ٹھہرایا۔  اقبال کی ایک غزل انھی دنوں شائع ہوئی تھی، اس کے حوالے سے ’’تنقیدِ ہمدرد‘‘ نے لکھا:’’ہم سمجھتے تھے کہ پروفیسر اقبال صاحب اردو میں غزل نہیں کہتے۔  آج ان کی ایک غزل نظر آ گئی۔  اس غزل کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسرصاحب ذہین اور طبیعت دار تو ہیں لیکن بے استادے اور بے گُرے ہیں ۔  اگر دہلی یا لکھنؤ کے کسی کہنہ مشق شاعر کو اپنا کلام دکھلایا کرتے تو یہ خامیاں نہ رہتیں ‘‘۔ ۱۱؎

علامہ اس اعتراض اور معترض کے استہزائیہ اور طنزیہ لب و لہجے سے بے مزہ نہ ہوئے___ بلکہ بڑے حوصلے اور تحمل سے اپنی شاعری کے بعض اسقام تسلیم کیے۔  پھر قدماء کی اسناد کے ساتھ تنقیدِ ہمدرد کے اعتراضات کا ایک ایک کر کے تفصیلی جواب دیا۔  انھوں نے اپنی ’’بے علمی اور کم مایگی‘‘ کا اعتراف کیا اور یہ کہا کہ ’’مجھے زبان دانی کا دعویٰ ہے نہ شاعری کا‘‘۔ ۱۲؎ ’’تنقیدِ ہمدرد‘‘ کے لب و لہجے کے برعکس اقبال کا انداز علمی تھا ا ور ان کے جوابات میں کہیں بھی غصے کا شائبہ تک نہ تھا۔  مزید برآں ان جوابات سے ان کی علمیت اور زبان و بیان پران کی گرفت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وہ متقدمین کی اردو اور فارسی شاعری کا نہایت وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔

 خطوط اقبال سے پتا چلتا ہے کہ اقبال ایک طالبِ علم کی طرح اپنے دوستوں کو دعوت دیتے تھے کہ انھیں ان کے کلام کی لغزشوں سے آگاہ کیا جائے مثلاً:نواب حبیب الرحمن خاں شروانی نے اقبال کی کسی نظم پر اپنی رائے لکھی تو جواباً علامہ نے کہا:’’نظر ثانی کے وقت آپ کی تنقیدوں سے فائدہ اٹھاؤں گا۔  اگر میری ہر نظم کے متعلق آپ اس قسم کا ایک خط لکھ دیا کریں تو میں آپ کا نہایت ممنون ہوں گا‘‘۔ ۱۳؎ سید سلیمان ندوی نے رموز بے خودی پر ریویو لکھا تو نہ صرف ان کا شکریہ ادا کیا بلکہ لکھا:’’ اگر آپ ان لغزشوں کی طرف بھی توجہ فرماتے تو میرے لیے آپ کا ریویو زیادہ مفید ہوتا۔  اگر آپ نے غلط الفاظ و محاورات نوٹ کر رکھے ہوں، تو مہربانی کر کے مجھے ان سے آگاہ کیجیے کہ دوسرے اڈیشن میں ان کی اصلاح ہو جائے‘‘۔ ۱۴؎

سید سلیمان ندوی اور مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی سے اپنی لغزشوں کی نشان دہی کے لیے درخواست کرنا اقبال کے حد درجہ انکسار کی دلیل ہے۔  وہ جو بار بار اپنے شاعر ہونے سے انکار کرتے ہیں تو یہ بھی ان کا طبعی انکسار ہے، ورنہ ایک بے مثل شاعر ہونے کا  اعزاز ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔  نثرِ اقبال میں ان کے شخصی انکسار کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں مثلاً:شاکر صدیقی نے اصلاح کے لیے انھیں اپنا کلام بھیجا تو علامہ نے جواباً لکھا ’’اردو زبان میں آپ سے زیادہ نہیں جانتا کہ آپ کے کلام کو اصلاح دوں ‘‘۔ ۱۵؎ مگر انھی کے نام، ایک اور خط میں بعض الفاظ و تراکیب کی صحت اور استعمال کے بارے میں ایسی وضاحتیں کرتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی مہارت زبان کو(وہ خود لاکھ انکار کرے) تسلیم کرنا چاہیے۔

اصلاح کلام کا ذکر آیا تو بتانے کی بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص علامہ سے اپنی کتاب پر رائے مانگتا یا کوئی شاعر اپنا مجموعۂ کلام ان کی خدمت میں بھیجتا اور تقریظ کے لیے اصرار کرتا تو اس کا دل رکھنے کے لیے تقریظ لکھ دیتے ‘خواہ دو چار سطریں ہی کیوں نہ ہوں ۔  ان کے کلماتِ تقریظ عموماً حوصلہ افزا ہوتے، مثلاً: ’’آپ کی کتاب عام مسلمانوں کے لیے ہدایت کا مرقع ثابت ہو گی‘‘۔ ۱۶؎ فتح قسطنطنیہ کے مصنف حاجی بدر الدین احمد کو لکھا :’’آپ کی کتاب… نہایت دلچسپ اور مفید معلومات کا خزینہ… ہے۔  آپ نے یہ کتاب لکھ کر اردو لٹریچر میں ایک مفید اضافہ کیا‘‘۔ ۱۷؎

منشی پریم چند کو ان کی کتاب پریم پچیسی پریہ رائے دی:

آپ نے اس کتاب کی اشاعت سے اردو لٹریچر میں ایک نہایت قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔  ان کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف انسانی فطرت کے اسرار سے خوب واقف ہے اور اپنے مشاہدات کو ایک دل کش زبان میں ادا کر سکتا ہے۔ ۱۸؎

شاعری اور نثری کتابوں پر تقاریظ سے قطع نظر، کئی طرح کے حاجت مند ان کے پاس آتے تھے۔  کسی کو ملازمت کی تلاش ہوتی، کسی کو داخلے کے لیے ان کی سفارش مطلوب ہوتی تو کسی کو اپنی کسی صنعت یا اپنے فن کے بارے میں ان کی رائے درکار ہوتی۔  علامہ ان سب کی حوصلہ افزائی کے لیے اچھے الفاظ اور مناسب انداز میں تحسینی کلمات یا رقعہ لکھ دینے میں تامل یا بخل نہ کرتے۔  انھوں نے مختلف اوقات میں بنگلور کی معسکر لائبریری، کاسموپولیٹن کمیٹی، محمد عاشق جراح کی جراحی، حکیم ظفر یاب علی کے یونانی دوا خانے اور اردو مرکز لاہور وغیرہ کے لیے تحسینی کلمات لکھ کر دیے۔ ۱۹؎

نثرِ اقبال میں حوصلہ افزائی کے ایسے واقعات بیسیوں کی تعداد میں ملتے ہیں جو ان کی فیاضانہ طبیعت کی دلیل ہیں ۔

علامہ اقبال نے سراج الدین پال کے نام ایک خط میں لکھا ہے:’’حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے‘‘۔ ۲۰؎ اقبال کی نثر کو پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بھلائی کی تھی۔  وہ بیسیوں دینی مسائل پر گفتگو کرتے اور اپنی رائے دیتے نظر آتے ہیں ۔  ماسواچند امور کے، ان کا فہم دین مثبت اور راست فکر ہے۔

مولانا غلام رسول مہرکوبرسوں سفروحضر میں علامہ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا۔  وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت مجھے علامہ اقبال کے قریب لے آئی اور اسی وجہ سے مجھے دین کو سمجھنے کا موقع ملا۔  لکھتے ہیں :

چند روز حضرت کی خدمت میں گزار کر اندازہ ہوا کہ دینِ  حق کیا ہے؟ اور ا س کا مقصود کیا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔  اگر میں کہوں کہ ازسرنواسلام میں داخل ہوا تو اس پر حیرت نہ ہونی چاہیے۔  پہلا اسلام رسمی تھا۔  حقیقی اسلام یا روح اسلام کی چاشنی سے اب ابتدائی لذت اندوزی کی نوبت آئی۔ ۲۱؎

مگر علامہ اقبال کا انکسار ملاحظہ ہو کہ وہ کہتے ہیں ۔  ’’میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ ۲۲؎ بڑے آدمیوں کی طرح یہ انکسار ان کی شخصیت اور کردار کا نمایاں وصف تھا۔

اوپر کی سطور میں یہ ذکر ہو چکا ہے کہ جب ’’تنقید ہمدرد‘‘ نے ان کے کلام پر اعتراضات کیے تو علامہ نے اپنی ’’بے علمی اور کم مایگی ‘‘کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ :’’مجھے زبان دانی کا دعویٰ ہے نہ شاعری کا‘‘۔  یہ بھی ان کا انکسارتھا۔  اسی طرح جب وہ شاکر صدیقی کو لکھتے ہیں، ’’اردو زبان‘ میں آپ سے زیادہ نہیں جانتا‘‘۲۳؎ اسی طرح جب وہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو لکھتے ہیں کہ ’’میں اردو زبان کی بحیثیتِ زبان خدمت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا‘‘۔ ۲۴؎ تو یہ سب ان کے حد درجہ منکسرالمزاج ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

علامہ اقبال ایک لحاظ سے روحانی شخصیت کے مالک تھے۔  لفظ’’روحانیت‘‘سے ذہن تصوف کی طرف نہیں جانا چاہیے کیونکہ اقبال کے ہاں روحانیت کی سب سے پہلی نشانی تعلق باللہ ہے جسے وہ انسان کی بنیادی ضرورت سمجھتے تھے۔  اکبر الٰہ آبادی کو لکھتے ہیں :’’مومن کو چاہیے کہ خدا ہی کاہو رہے‘‘۔ ۲۵؎

علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد پنشن پا کر گھر آ چکے تھے، لیکن پھرکسی ملازمت کی تلاش کرنے لگے۔  جھنگ ڈسٹرکٹ بورڈ میں انجینئر کی اسامی کے لیے اس خیال سے انٹرویو دینے گئے کہ دفتر میں بیٹھے کام کرتے رہیں گے۔  پتا چلا فرائض منصبی میں وقتاً فوقتاً پورے ضلعے کا دورہ کرنا بھی شامل ہے۔  بڑھاپے میں یہ ان کے بس کی بات نہ تھی، واپس آ گئے۔  علامہ کو پتا چلا تو انھیں لکھا:

ضرورتوں کا احساس بعض اوقات آپ کے دل کو ملازمت پر انگیختہ [کذا]کرتا ہے مگر خدا پر بھروسا کرنا چاہیے۔  ان شاء اللہ خودبخود سامان ان کے پورا ہونے کے نکل آئیں گے۔  آپ اطمینان فرمائیں، مجھے اس کی ذات پر بھروسا ہے۔ ۲۶؎

ایک ڈیڑھ برس بعد اسی تسلسل میں انھیں پھر لکھا:’’آپ اپنے تمام معاملات خدا کے سپرد کر کے اپنے قلب کو افکار سے فارغ کر لیں ۔  اللہ تعالیٰ غیر متوقع سامان کر دے گا مجھے اس کا پورا یقین ہے‘‘۔ ۲۷؎

اقبال خود بھی اللہ سے اپنے مضبوط تعلق کی وجہ سے کسی غلط کاری یا نا جائز مقصد کے حصول بلکہ جائز مقاصد کے حصول کے لیے ناجائز ذرائع اور طریقوں سے اجتناب کرتے تھے۔  ۱۹۲۶ء میں جب وہ پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے تو کچھ لوگوں نے برادری کی عصبیت سے فائدہ اٹھانے کی بات کی۔  علامہ نے محض اپنے کشمیری ہونے کی حیثیت سے فائدہ اٹھانے سے دو ٹوک انکار کر دیا۔  اس موقعے پر ان کے جذبات کیا تھے۔  ملاحظہ کیجیے:

جو لوگ مجھے کشمیری سمجھ کر پرچیاں (ووٹ)دینے کے آرزو مند ہوں، وہ پرچیاں نہ دیں، جو لوگ فرقہ بندی کی بنا پر میری امداد کے خواہاں ہوں، وہ اس امداد سے بصد خوشی دست کش ہو جائیں ۔  میں مسلمان ہوں اور کلمہ گو کا خادم ہوں، مسلمانوں کی نمائندگی کرنا چاہتا ہوں ۔  جو شخص میری اس حیثیت کو پسند کرے، وہ میری امداد کرے۔  میں اسلام کے سوا کسی دوسرے رشتے کا معتقد نہیں ۔ ۲۸؎

یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت دنیاوی پیمانوں، رواجوں اور رجحانات سے ماورا تھی۔  ان کی سوچ کا انداز ہی مختلف تھا۔  زندگی کے مقاصد بھی کچھ اور تھے۔  دو ایک اقتباسات دیکھیے۔  سیدنذیرنیازی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :’’ایک مسلمان کے لیے رضائے الٰہی ہی ہر شے پر مقدم ہے اور صبرمسلمان کے لیے سب سے بڑی سعادت ہے‘‘۔ ۲۹؎ اپنے والد شیخ نور محمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’دعا کریں کہ اللہ ہمارے ساتھ انصاف نہ کرے کیوں کہ ہم اس کے انصاف کے متحمل نہیں ہوسکتے البتہ وہ ہم پر اپنا فضل و رحم کرے‘‘۔ ۳۰؎

بعض جرأت مند لوگ آخری عمر میں اپنے ’’اعترافات‘‘ قلم بند کرتے ہیں ۔  ہمارے ہاں بھی کچھ لوگوں نے روسوکی پیروی کرنے کی کوشش کی ہے۔  دراصل ’’اعتراف‘‘ شخصیت کو ناپنے کا ایک ذریعہ ہے۔  علامہ اقبال کو دیکھیے، ان کا اعتراف کس نوعیت کا ہے۔  لکھتے ہیں :

میں جو اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ پڑھنے میں گنوائی۔  خدا تعالیٰ نے مجھ کو قوائے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے اگر یہی قوا دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے تو آج خدا کے رسولؐ کی میں کوئی خدمت کر سکتا اور جب مجھے خیال آتا ہے کہ والد مکرم مجھے علوم دینی ہی پڑھانا چاہتے تھے تو مجھے اور بھی قلق ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ صحیح راہ معلوم بھی تھی، تو بھی وقت کے حالات نے اس راہ پر چلنے نہ دیا۔  بہرحال جو کچھ خدا کے علم میں تھا ہوا  اور مجھ سے بھی ہوسکا، میں نے کیا۔  لیکن دل چاہتا ہے کہ جو کچھ ہوا، اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے تھا اور زندگی تمام و کمال نبی کریم کی خدمت میں بسر ہونی چاہیے تھی۔ ۳۱؎

اقبال نے جو یہ کہا ہے کہ ’’میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ پڑھنے میں گنوائی ‘‘تو یہ بات محلِ نظر ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ’’گنوانے‘‘ میں بھی انھوں نے بہت کچھ پالیا مثلاً جب وہ کہتے ہیں کہ ’’یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا‘‘۔ ۳۲؎ تو انھیں یورپ سے، ایمان کی اس دولت سے زیادہ قیمتی چیز کیا مل سکتی تھی۔

اوپر کے اقتباس میں اقبال نے ’’نبی کریمؐ کی خدمت ‘‘ کی بات کی ہے۔  اس ضمن میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’نبی کریمؐ پر درود بھیجنا چاہیے، کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس امّت کی دعاسن لے اوراس کی غریبی پر رحم فرمائے‘‘۔ ۳۳؎

علامہ اپنے بھتیجے شیخ اعجاز احمد سے خاص تعلق رکھتے تھے، ایک طرح سے وہ، اس کے سرپرست تھے۔  اعجاز نے اپنی ملازمت کے ابتدائی دنوں میں چچاسے بعض پریشانیوں کا ذکر کیا تو اُسے نصیحت کرتے ہوئے لکھا:

تمام معاملات کو اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے اور ہر طرح کا فکر دل سے نکال دینا چاہیے۔  خدا تعالیٰ کارساز ہے اور انسان کا فکر ہی اس کے لیے باعثِ آزار ہے۔  غرض یہ ہے کہ انسان کو اپنی صحت کی حالت کے مطابق اپنے فرائض کی ادا میں کوتاہی نہ کرنا چاہیے اور نتائج خدا کے سپرد کر دینے چاہییں ۔ ۳۴؎

کچھ عرصے بعد، اعجاز کو زندگی کی اونچ نیچ سمجھاتے ہوئے لکھا:

میرے نزدیک صحتِ جسمانی کی سب سے بڑی ضامن مذہبی زندگی ہے۔  میں نے تم کو لکھا بھی تھا کہ قرآن پڑھا کرو اور جہاں تک ممکن ہو، نماز میں بھی باقاعدہ ہو جاؤ تو سبحان اللہ مگر قرآن پڑھنے پر میں زیادہ اصرار کرتا ہوں کہ اس کے پڑھنے کے فوائد میرے تجربے میں آ چکے ہیں ۔  اس کے علاوہ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنا اِکسیرہے۔  باقی جہاں تک ممکن ہو، زندگی کو سادہ بنانے کی کوشش کرو۔  تم نے مجھ سے مسواک کے متعلق سوال کیا تھا۔  میری مراد اس سے دیسی مسواک تھی، نہ انگریزی طرز کے منجن۔  یورپ کی بنی ہوئی چیز خوب صورت ضرور ہوتی ہے مگراس میں ایک اخلاقی زہر ہوتا ہے۔  جس کا اثر آج کل کے مادی طبیعت والے انسان فوراًمحسوس نہیں کر سکتے۔ ۳۵؎

یہ پند و نصیحت اور یہ تلقین فقط دوسروں کے لیے نہیں تھی۔  نثر اقبال سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے خود بھی اپنی زندگی کے پانچ پریشان کن اور تکلیف دہ برسوں میں فقط اللہ پربھروسا کرتے ہوئے نہایت صبر و ضبط سے کام لیا۔  ۱۹۰۹ء سے ۱۹۱۴ء تک کا زمانہ ان کی ازدواجی زندگی کے بحران کا زمانہ تھا۔  اس زمانے کی، ان کی اندرونی کشمکش اور اضطراب کا اندازہ عطیہ فیضی کے نام خطوں سے لگایا جا سکتا ہے جن میں انھوں نے شدید ذہنی کوفت اور مایوسی کے نتیجے میں سپیرابن جانے، خود کشی کر لینے یا شراب نوشی میں پناہ لینے کا ارادہ کیا، لیکن یہ ان کے وقتی جذبات واحساسات تھے جن پر ان کا، رضائے الٰہی کو ہر شے پر مقدم سمجھنے اور تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دینے کا یقین، غالب آیا۔

وہ رموز بے خودی کے حوالے سے تربیتِ خودی کے دوسرے مرحلے ’’ضبطِ  نفس‘‘ کی کیفیت کو اپنے اندر پختہ کر چکے تھے۔  ان کی ذہنی پریشانیاں اردوفارسی شاعری سے اور نہ ۱۹۱۰ء کی ڈائریStray Reflections سے آشکار ہوتی ہے۔  مزید برآں اس زمانے میں علامہ قومی اور ملکی و ملی مسائل میں بھی برابر دل چسپی لیتے رہے۔  بالآخر ان کے اپنے قول کے مصداق کہ ’’تمام معاملات کو اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے‘‘ اور ’’خدا تعالیٰ کارساز ہے‘‘، پانچ سال کے بعد وہ بحران ختم ہوا اور ان کی ازدواجی زندگی ہموار ہو گئی۔

یہ معلوم ہے کہ علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیگم( یعنی والدہ آفتاب اقبال) میں ذہنی اور طبعی ہم آہنگی نہ تھی۔  طبائع کے اختلاف نے اقبال کو بیگم سے دور رکھا۔  اس طرح کی صورت حال میں فَاعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔  یعنی انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دینا خاصا مشکل ہوتا ہے مگر علامہ ممکنہ حد تک والدہ آفتاب اور آفتاب کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔  ایک معاہدے کے تحت، جو علامہ کے والد اور غالباً والدہ کی موجودگی، اور ان کی رضا مندی سے طے ہوا تھا، علامہ اپنی بیگم یعنی والدہ آفتاب کو۳۵؍ روپے ماہوار بھیجتے رہے۔  بعد ازاں یہ رقم بڑھا کرپچاس روپے کر دی گئی جو اس زمانے میں ایک خاتون کے اخراجات کے لیے ایک معقول رقم تھی۔  اسی طرح سینٹ اسٹیفنزکالج دہلی میں زیر تعلیم آفتاب اقبال کو بھی۳۵؍ روپے ماہوار بھیجے جاتے تھے۔  بھتیجے اعجاز احمد کو لا کالج کے اخراجات کے لیے ۳۰روپے ماہواراورسیالکوٹ ایک سوروپے ماہوار بھیجے جاتے تھے۔ ۳۶؎

               ۳۔  ذوقِ مطالعہ و تحقیق

علامہ اقبال ایک بہت بڑے عالم تھے۔  آج کل کی اصطلاح میں اونچے درجے کے ’’سکالر‘‘۔  وہ اعلیٰ درجے کا علمی و تحقیقی ذوق رکھتے تھے۔  ان کا مطالعہ صرف شعر و ادب تک محدود نہ تھا بلکہ قرآن، حدیث، فقہ، تصوف، تاریخ، معاشیات، فلسفہ، نفسیات، عمرانیات اور فزکس وغیرہ کا بھی خاصا مطالعہ رکھتے تھے، اس کی تفصیل ہمیں ان کی نثری تحریروں سے ملتی ہے۔

ذوقِ مطالعہ کی تسکین کے لیے ایک تو وہ دوستوں اور کتب خانوں سے کتابیں مستعار لے کر پڑھتے، مثلاً:سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں : ’’مولوی نور الحق صاحب کی مدد سے مباحثِ مشرقیہ دیکھ رہا ہوں ۔  اس کے بعد شرحِ مواقف دیکھنے کا قصد ہے۔ ۳۷؎ بغرض علاج بھوپال میں مقیم تھے تو لکھا :’’یہاں حمیدیہ لائبریری اور بعض پرائیویٹ احباب سے کتابیں منگوا کر دیکھتا رہا‘‘۔ ۳۸؎

سید سلیمان ندوی ہی کے نام خطوط سے پتا چلتا ہے کہ جب انھیں کسی علمی یا فقہی مسئلے میں اشکال پیدا ہوتا تو سب سے پہلے لاہور کے علماء سے رجوع کرتے۔  سید سلیمان ندوی کے بیشتر خطوط علمی اور دینی مسائل سے متعلق استفسارات پر مشتمل ہیں ۔  کہیں کسی حدیث کی تحقیق کر رہے ہیں ۔  کہیں توہین رسالت کی تعزیر پر سوالات لکھ کر بھیج رہے ہیں ۔  ایک خط میں لکھتے ہیں :

مولانا حکیم برکات احمد بہاری ثم ٹونکی کا رسالہ تحقیق زمان مطبوعہ ہے یا قلمی؟ اگر قلمی ہے تو کہاں سے عاریتاً ملے گا؟ علیٰ ہٰذا القیاس مولانا اسمٰعیل شہید کی عبقات، قاضی محب اللہ کی جوہر الفرد اور حافظ امان اللہ بنارسی کی تمام تصانیف کہاں سے دستیاب ہوں گی؟۔ ۳۹؎

 اگر ضرورت کی کتاب لاہور سے نہ ملتی تو جہاں سے بھی دستیاب ہونے کا امکان ہوتا، خریدنے کی تدبیر کرتے، مثلاًسیدسلیمان کو لکھتے ہیں :

سید نجیب اشرف صاحب نے اپنے مضمون میں محمد دارابی کے لطیفۂ غیبیہ کا ذکر کیا ہے۔  یہ چھوٹی سی کتاب ہے اور میں نے ایران سے منگوائی ہے۔  اگر وہ آپ دیکھنا چاہیں تو بھیج دوں ۔  ندوے والے اسے دیکھیں گے تو کوئی نہ کوئی بات پیدا کریں گے‘‘۔

اسی خط میں تفہیماتِ الٰہیہ کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ چھپ گئی ہے یا نہیں ؟۔ ۴۰؎

سیدسلیمان ندوی کے شاگردِ عزیز مولانا مسعود عالم ندوی عربی رسالے الضیاء کے اڈیٹر تھے، انھیں لکھا:

فضل الرحمن انصاری کی اے نیو مسلم ورلڈ اِن میکنگ پر آپ کا ریویو نظر سے گزرامگراس سے یہ نہ معلوم ہوا کہ کتاب کہاں دستیاب ہو سکتی ہے ؟اگر زحمت نہ ہو تو مہربانی کر کے جو نسخہ آپ کے پاس ہے قیمتاً ارسال فرما دیجیے یا جہاں سے کتاب مذکورہ دستیاب ہو سکتی ہے، وہاں لکھ دیجیے کہ مجھے ایک نسخہ بذریعہ ویلیو[وی پی پی]ارسال کر دیں ۔ ۴۱؎

سیدسلیمان اور مسعودعالم کے نام خطوں میں ایسی کتابوں کا ذکر ملتا ہے جو علامہ کے زیر مطالعہ رہتی تھیں ۔  کبھی مصر کے بیرسٹرمحمدلطفی جمعہ کی حیات الشرق کا ذکر کرتے ہیں، کبھی نواب صدیق حسن خاں کی عربی تصانیف کا حوالہ دیتے ہیں ۔  اگر صرف خطوں کی مدد سے، علامہ کی زیر مطالعہ کتابوں کی فہرست بنائی جائے تو اس میں علوم و فنون کا حیرت انگیز تنوع نظر آئے گا۔  یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عربی اور فارسی مآخذ پر گہری نظر رکھتے تھے اور ان سے براہ راست استفادہ کیا کرتے تھے۔  جب کوئی اشکال پیدا ہوتا تو علماء سے استفسار کرنے میں کسی طرح کا تامّل نہ کرتے۔  اگر مقامی علماء سے استفسار کرنے سے مسئلہ حل نہ ہوتا تو بیرون لاہور کے کسی عالم سے مراسلت کرتے۔

علامہ اقبال مختلف علوم و فنون کی تازہ ترین علمی تحقیق سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے بلکہ خود بھی تحقیق کرتے۔  جب کسی علمی مسئلے پر قلم اٹھاتے تو خوب تحقیق کر کے اور چھان پھٹک کر کے لکھتے۔  گویا آج کل کی اصطلاح میں وہ ایک ریسرچر بھی تھے۔  ۱۹۳۵ء میں جب انھوں نے قادیانیت کے مسئلے پر قلم اٹھایا تو جو کچھ لکھا، پوری تحقیق کر کے لکھا۔  یہی وجہ ہے کہ کسی سے ان کا جواب نہ بن پڑا۔  سید سلیمان ندوی کے نام ان کے خطوط شاہد ہیں کہ انھیں قادیانی مسئلے کا صحیح اِدراک اسی مطالعے اور تحقیق کے بعد ہوا۔ ۴۲؎

علامہ نے علوم شرق و غرب کا مطالعہ کیا تھا جن میں مستشرقین کی تصانیف، بطور خاص علوم اسلامیہ کے متعلق مغربیوں کی تحقیقات شامل ہیں ۔  پورپ کے سہ سالہ قیام کے دوران میں متعدد مستشرقین سے ملاقاتیں اور شخصی ربط و ضبط بھی رہا۔  اسی زمانے میں، اور بعد ازاں یورپ کے دو سفروں میں انھوں نے برطانیہ، جرمنی، ہسپانیہ اور اٹلی کے تعلیمی، علمی اور تحقیقی اداروں کا مشاہدہ کیا۔  علامہ اس نتیجے تک پہنچے کہ:’’جہاں تک اسلامی ریسرچ کا تعلق ہے فرانس، جرمنی، انگلستان اور اٹلی کی یونی ورسٹیوں کے اساتذہ کے مقاصد خاص ہیں جن کو عالمانہ تحقیق اور احقاقِ حق کے ظاہری طلسم میں چھپایا جاتا ہے‘‘۔ ۴۳؎ ایک اور خط میں لکھا:’’میں یورپین مستشرقین کا قائل نہیں کیوں کہ ان کی تصانیف سیاسی پراپیگنڈے یا تبلیغی مقاصد کی تخلیق ہوتی ہیں ‘‘۔ ۴۴؎ علامہ اپنے استاد پروفیسرآرنلڈ اور نامورمستشرق پروفیسر براؤن کے مقاصدِ تحقیقات کے بارے میں بھی کسی قدر تحفظات رکھتے تھے۔ ۴۵؎

علامہ اقبال نے اپنے علمی اور تحقیقی ذوق کی مناسبت سے متعدد علمی مسائل و موضوعات پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا اور اس طرح ان کے قلم سے بعض شاہ کار تحریریں وجود میں آئیں ۔  انھوں نے اردو انگریزی میں بہت سے مقالات لکھے، ان سے ان کے تحقیقی ذوق اور صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔  اقبال کے یہ سارے علمی اور تحقیقی مضامین مقالاتِ اقبال۴۶؎ اور Speeches Writings and Statements of Iqbal۴۷؎ کی صورت میں مدوّن ہو کر دستیاب ہیں ۔  (اگرچہ اردو مقالات کی تدوین خاصی ناقص ہے)۔

علامہ کی بعض علمی کاوشیں ایسی ہیں جنھیں ان کے ’’باقیاتِ نثر‘‘ میں شمار کرنا  چاہیے، مثلاً:تصوف کے موضوع پر جو کچھ لکھنا چاہتے تھے، اس کے فقط دو باب لکھ کر رہ گئے۔  (یہ ابواب ڈاکٹر صابر کلوروی نے تاریخِ تصوف کے نام سے شائع کر دیے ہیں ۔ )۴۸؎ آخر عمر میں وہ رائج الوقت تصوف سے شدید بے زاری کا اظہار کرنے لگے تھے چنانچہ اس موضوع پر مزید کچھ لکھنے سے ہاتھ اٹھا لیا۔  مطالعہ ٔ بیدل برگساں کی روشنی میں کے نام سے ان کا ایک طویل غیر مطبوعہ انگریزی مقالہ محمد سہیل عمر صاحب نے دریافت کیا اور ڈاکٹر تحسین فراقی نے اس کا اُردو ترجمہ ایک فاضلانہ مقدمے اور حواشی و  تعلیقات کے ساتھ شائع کر دیا ہے۔ ۴۹؎ علامہ نے ایک اور طویل مضمون The Problem of Time in the Muslim Philosophy کے عنوان سے لکھا تھا۔  یہ علامہ کی زندگی میں چھپا نہیں، ان کے ترکے سے ان کا دست نوشت صرف ایک ورق دستیاب ہوسکا، اسے بھی فراقی صاحب نے ترجمے اور توضیحات کے ساتھ مرتب کر کے شائع کر دیا۔ ۵۰؎

اقبال کی نثر سے ان کے متعدد تحریری منصوبوں کا انکشاف ہوتا ہے۔  خطوں میں انھوں نے زیادہ تر اپنے ایسے علمی منصوبوں کا ذکر کیا ہے جو ’’بسے گفتنی ہا کہ ناگفتہ ماند‘‘ کے مصداق اقبال کے ذہن سے صفحہ ٔ قرطاس پر منتقل نہ ہوسکے۔  ہم انھیں ’’اقبال کی موعودہ تصانیف‘‘ کا نام دے سکتے ہیں، مثلاً:

الف۔  دل و دماغ کی سرگذشت:اقبال کی نثر میں اس طرح کے جملے ملتے ہیں :’’میں اپنے دل و دماغ کی سرگذشت بھی مختصر طور پر لکھنا چاہتا ہوں ‘‘۔ ۵۱؎ ایک اور جگہ کہا ہے کہ اگر کبھی فرصت ہوئی تو یہ اس لیے لکھوں گا کہ (میرے )خیالات کا تدریجی انقلاب اوروں کے لیے سبق آموز ہو گا۔ ۵۲؎

ب۔  مقدمۃ القرآن:اس موعودہ کتاب میں علامہ اپنے مطالعہ ٔ قرآن کے نتائج بیان کرنا چاہتے تھے۔  آخری زمانے میں قرآن حکیم پر کچھ لکھنے کی خواہش شدید تر ہو گئی تھی اور اس ضمن میں ان کے عزائم بلند تھے، مثلاً:’’کچھ مدت کے لیے مقدمۃ القرآن کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دوں گا۔  باقی اب زندگی میں مجھ کو کوئی دلچسپی نہیں رہی‘‘۔ ۵۳؎ اسی سلسلے میں ایک بار یہ کہا:’’ان شاء اللہ یورپ کی تمام Theoriesکو توڑ  انقلاب اور ر‘‘ کے بہت سے پہلوؤپھوڑ  کر رکھ دوں گا۔  ارادہ ہے قانون کی تمام کتب بیچ کر فقہ، حدیث اور تفاسیر خرید کروں گا۔  ‘‘۵۴؎

ج۔  اسلامی فقہ کی تاریخ:علامہ، اسلامی فقہ کی تاریخ اور اوراس کی تدوینِ نو سے بہت دل چسپی رکھتے تھے۔  ایک خط میں لکھتے ہیں :’’فقہِ  اسلام میں اس وقت ایک مفصل کتاب بزبانِ انگریزی زیرِ تصنیف ہے۔  جس کے لیے مَیں نے مصر و شام سے مسالہ جمع کیا ہے‘‘۔ ۵۵؎ لیکن غالباً وہ کچھ نہ لکھ سکے۔  ان کے ادبی ترکے میں ایسے کسی مسوّدے کا سراغ نہیں ملا۔

 بعض علمی و تحقیقی اداروں کے قیام سے ان کی دل چسپی کا پس منظر تدوینِ فقہ کی یہی دیرینہ آرزو ہے۔  انھوں نے پٹھان کوٹ کے چودھری نیاز علی خاں کے ادارے دارالاسلام کی مجلس میں باقاعدہ شمولیت بھی اسی لیے اختیار کی تھی۔

د۔  فصوص الحکم پر تنقید:۱۹۱۶ء میں سراج الدین پال کے نام خط میں لکھتے ہیں :’’جہاں تک مجھے علم ہے فصوص میں سواے الحاد وزندقہ کے اور کچھ نہیں ۔  اس پر میں ان شاء اللہ مفصل لکھوں گا‘‘۔ ۵۶؎

ہ۔  Songs of Modern David:۱۹۲۴ء کی ایک نثری تحریر سے ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے :’’ایک چھوٹی سی کتاب لکھ رہا ہوں ۔  نامSongs of Modern David ہو گا‘‘۔ ۵۷؎

و۔  گیتاکا ترجمہ:۱۹۲۱ء کے خط میں مہاراجا کشن پر شاد کو لکھتے ہیں :’’زمانے نے مساعدت کی تو گیتا کے اردو ترجمے کا قصد ہے۔  ‘‘۔ ۵۸؎

متذکرہ بالا اور بعض دیگر موعودہ تصانیف کی تحریر و تصنیف کے بارے میں علامہ، دوستوں کے ساتھ گفت گوؤں میں اپنا عزم برابر تازہ کرتے رہے مگر افسوس کہ اپنے سارے تصنیفی موعودات کو ناتمام ہی چھوڑ گئے۔

               ۴۔  تفہیم و شرحِ اشعار

خطوں میں، علامہ نے اپنے بعض اشعار اور افکار و نظریات کی وضاحت کی ہے، بعض استفسار کنندگان کو آئندہ کے لیے تفہیمِ  اشعار و افکار کا راستہ بھی بتایا ہے، مثلاً :پروفیسر آل احمد سرور کے ایک استفسار کے جواب میں انھوں نے لکھا :’’میرے نزدیک فاشزم، کمیونزم یا زمانۂ حال کے اور اِزم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔  میرے نزدیک صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسا ن کے لیے ہر نقطہ ٔ نگاہ سے موجبِ نجات ہوسکتی ہے‘‘۔ ۵۹؎

ایک اعتبار سے علامہ کی یہ وضاحت ان کے حسب ذیل اشعار کی شرح ہے:

ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب

ہر دو یزداں ناشناس، آدم فریب

زندگی ایں را خروج، آں را خراج

درمیانِ ایں دو سنگ، آدم زجاج۶۰؎

 دراصل ’’خضرِ راہ‘‘ اور پیام مشرق کے بعض اشعار پڑھ کر کسی کامریڈ نے اخبار میں لکھ دیا تھا کہ: ’’علامہ اقبال یقینا ایک اشتراکی ہی نہیں بلکہ اشتراکیت کے مبلِّغِ اعلیٰ بھی ہیں ۔  ‘‘ اس کی تردید میں اقبال نے فوراً روزنامہ زمیندار میں ایک خط چھپوایا، جس میں وضاحت کی کہ

(کسی نے) میری طرف بالشویک خیالات منسوب کیے ہیں …بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہو جانے کے مترادف ہے۔ …میں مسلمان ہوں ۔  میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔  سرمایہ داری کی قوت جب حدِّ اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لیے ایک قسم کی لعنت ہے… قرآنِ کریم نے اس قوت کو مناسب حدود میں رکھنے کے لیے قانونِ میراث، حرمتِ ربا اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے۔  [اس کے ساتھ یہ بھی لکھا :] ’’روسی بالشوزم یورپ کی عاقبت نا اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست ردِ عمل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں ۔ ۶۱؎

علامہ کی یہ تفصیلی وضاحت نہ صرف ان کے مذکورہ بالا اشعار کی شرح ہے، بلکہ اس سے سرمایہ داری اور کمیونزم کے بارے میں ان کے دو ٹوک خیالات واضح ہوتے ہیں ۔

اوپرذکرہواپروفیسر آلِ احمد سرور کے استفسارکا۔  علامہ نے اسی خط میں انھیں دو مشورے دیے یا نصیحتیں کیں :

آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے میرے کلام کا بھی بالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا۔  اگر میرا یہ خیال صحیح ہے تو میں آپ کو یہ دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس طرف بھی توجہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی باتیں خودبخود آپ کی سمجھ میں آ جائیں گی۔

اسی خط میں سرورصاحب کے لیے دوسری نصیحت یہ تھی کہ :

میرے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالنے سے پہلے حقائقِ اسلامیہ کا مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ آپ انھی نتائج تک پہنچیں جن تک میں پہنچا ہوں ۔ ۶۲؎

علامہ اقبال نے مسولینی پر ایک نظم لکھی جو مجموعی طور پر اس کی تعریف میں جاتی ہے۔  (بال جبریل، ص۵۰۔  ۵۱) لیکن جب مسولینی نے حبشہ پر حملہ کیا تو علامہ نے ’’ابی سینیا‘‘کے عنوان سے دوسری نظم لکھ کر، مسولینی اور اطالیہ کی مذمت کی۔  ایسی نظموں کے حوالے سے کہا گیا کہ علامہ کے کلام میں تضاد اور تناقض ہے۔  اس کی وضاحت علامہ نے نثر میں اس طرح کی ہے:

مسولینی کے متعلق جو کچھ میں نے کہا ہے‘ اس میں آپ کو تناقض نظر آتا ہے۔  آپ درست فرماتے ہیں، لیکن اگر بندۂ خدا میں Devilاور Saint دونوں کی خصوصیات جمع ہوں تو میں اس کا کیا علاج کروں ۔  مسولینی سے اگر کبھی آپ کی ملاقات ہو تو آپ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس کی نگاہ میں ایک ناممکن البیان تیزی ہے جس کو شعاعِ آفتاب سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔  کم از کم مجھ کو اسی قسم کا احسا س ہوا۔  ۶۳؎

نظم ’’خضر راہ ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی نے لکھا تھا:’’نظم خضر راہ جوشِ بیان میں اقبال کی پچھلی نظموں سے کم ہے‘‘۔ ۶۴؎ علامہ نے جواباً ۲۹؍ مئی۱۹۲۲ء کے خط میں ’’جنابِ خضر کی پختہ کاری‘‘۶۵؎ ان کے تجربے، واقعات و حوادث عالم پر ان کی نظراورسورہ کہف کی روشنی میں ان کے اندازِ طبیعت کے حوالے سے جوشِ بیان میں کمی کی وضاحت کی۔ ۶۶؎

حکیم محمد حسن عرشی نے اقبال کے اس شعر:

اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں

تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے۶۷؎

کے حوالے سے پوچھا کہ ’’مجذوبِ فرنگی‘‘ کون ہے ؟ علامہ نے انھیں لکھا : ’’مجذوبِ فرنگی‘‘ سے مراد حکیم نٹشا ہے‘‘۔  عرشی صاحب نے پوچھا: ضربِ کلیم کا ’’محراب گل‘‘ کون ہے ؟ علامہ نے وضاحت کی کہ ’’یہ فرضی نام ہے‘‘۔ ۶۸؎

’’فلسفۂ غم‘‘ بانگِ درا کی معروف نظم ہے مگراس کا پس منظر کیا ہے ؟ اس کی وضاحت اقبال نے ایک شذرے میں کی ہے۔  بتا یا کہ یہ اشعار اپنے دوست اور ہم جماعت میاں فضل حسین صاحب بیرسڑ ایٹ لا کی خدمت میں، ان کے والدِ  بزرگوار کی ناگہانی رحلت کے موقع پر بطور تسلی نامہ کے لکھے تھے۔ ۶۹؎

اسی طرح علامہ کی نثر کا مطالعہ کرتے ہوئے بعض اوقات احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی کسی شعر کا مفہوم بیان کر رہے ہیں ۔  نثرِ اقبال میں اس طرح کی متعدد مثالیں مل جائیں گی۔

               ۵۔  شرحِ افکار و تصورات

اشعار کی تشریح ایک اعتبار سے افکار  و تصورات کی تشریح ہے۔  علامہ نے اپنے بعض معروف افکار و تصورات کی وضاحت مضامین اور خطوں میں کی ہے جسے شرح نویسوں یا نقادوں کی تشریحات سے زیادہ مستند اور قابل ترجیح سمجھناچاہیے۔

اسرار خودی(طبع اوّل) کے دیباچے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی شا ید اس لیے کہ وہ بعد کے اڈیشنوں سے نکال دیا گیا۔  علامہ نے اس دیباچے میں بڑی خوبی سے اور عالمانہ لب و لہجے میں فلسفۂ خودی، اس کے پس منظراوراس کی ضرورت و اہمیت سمجھانے کی کوشش کی ہے۔  لکھتے ہیں :

لفظ خودی سے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے۔  اس کا مفہوم محض احساسِ نفس یا تعیینِ  ذات ہے‘‘۷۰؎

یہ دیباچہ اور اسرارِ خودی کے معترضین کے جواب میں علامہ کے متعدد مضامین۷۱؎ تصور خودی کی بخوبی تشریح کرتے ہیں ۔

مسئلہ ملکیتِ زمین، معاشیات کا ایک اہم موضوع ہے۔  زمین کا مالک کون ہے؟ جاگیردار اور زمیں دار یاکسان اور کاشت کار، یا حکومت اور پارٹی؟پھر یہ کہ ملکیت محدود ہے یا لامحدود؟ ہمیشہ کے لیے ہے یا کچھ عرصے کے لیے؟ اقبال بر عظیم کے ایک بڑے اہم قومی، سیاسی لیڈر تھے۔  اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک مفکر تھے۔  فلسفی مفکر، اس لیے ملکیتِ زمین کے باب میں ان کے خیالات اور ان کے نقطہ نظر کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں ۔  خوش قسمتی سے انھوں نے اس موضوع پر کلام منظوم و منثور دونوں جگہ اظہار خیال کیا۔  شاعری میں بال جبریل کی نظم ’’الارض للہ‘‘ میں، جاوید نامہ کی نظم ’’ارض مِلکِ  خداست‘‘ میں اور ارمغان حجاز کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘میں علامہ اقبال نے اپنا نقطۂ نظر واضح کر دیا۔  ’’بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ سرزمیں ‘‘۔  اس کی تائید و وضاحت ان کے بعض خطوں سے ہوتی ہے، مثلاً خواجہ عبدالرحیم کے نام ۱۷؍ جنوری ۱۹۳۲ء کے خط میں لکھتے ہیں :’’اسلام کے نزدیک زمین وغیرہ امانت ہے۔  ملکیتِ  مُطلقہ جس کو قدیم و جدید قانون تسلیم کرتے ہیں، میری ناقص رائے میں اسلام نہیں ہے۔  ‘‘۷۲؎ ایک اور خط میں لکھتے ہیں :’’اسلام کے نزدیک ملکیت صرف اللہ کی ہے۔  مسلمان صرف اس کا امین ہے جو اس کے سپرد کی گئی ہے۔  میری رائے میں اگر کوئی مسلمان اپنی پرائیویٹ زمین وغیرہ کا غلط استعمال کرے تو حاکمیتِ اسلامیہ کا حق ہے کہ وہ اس سے بازپرس کرے‘‘۔

علامہ اقبال ابتدائی زمانے میں تصوف کے قائل تھے لیکن بعد ازاں جب انھوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کے سلسلے میں نسبتاً وسیع مطالعہ کیاتو انھیں اندازہ ہوا کہ تصوف خصوصاً تحریکِ تصوف، اسلام جیسے عملی مذہب سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی، نہ روحِ دین سے اس کا کوئی تعلق ہے۔  شاعری میں وہ اس کا اظہار عمر بھر کرتے رہے مثلاً :

رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوزِ مشتاقی

فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی۷۳؎

ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے

اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا۷۴؎

تھا جہاں مدرسۂ شیری و شاہنشاہی

آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی۷۵؎

تمدن، تصوف، شریعت، کلام

بتانِ عجم کے پجاری تمام۷۶؎

یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سُرور

تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں ۷۷؎

مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں

بہانہ بے عملی کا بنی شرابِ الست۷۸؎

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری۷۹؎

گویا اس قابلِ مذمت تصوف نے مسلمانوں کے زوال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  مگرکیسے؟ اس کی وضاحت نثر میں ملتی ہے۔  علامہ اسرارخودی طبع اوّل کے دیباچے میں بتاتے ہیں کہ زوال و انحطاط میں شنکر اچاریہ، ابن عربی اور وجودی ایرانی شعراء کے نظریات اور شاعری نے بھی اپنا حصہ ادا کیا اور اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر تقریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کر دیا۔ ۸۰؎ مزید برآں اقبال کا نظریۂ تصوف کیا ہے؟اور وہ تصوف کے خلاف کیوں ہیں ؟ اس کی بہتر تشریح اور وضاحت شاعری سے زیادہ ان کی نثر کرتی ہے، مثلاً:

تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے(اور یہی مفہوم قرون اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا، ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ ۸۱؎

۱۹۱۷ء میں انھوں نےIslam and Mysticismکے عنوان سے ایک مختصر سامضمون لکھا جس میں وہ کہتے ہیں :

The present-day Moslem prefers to roam about aimlessly in the dusky valleys of Hellenic-Persian Mysticism, which teaches us to shut our eyes to the hard Reality around, and to fix our gaze on what it describes as "Illuminations”__blue, red and yellow Reality springing up from the cells of an overworked brain. To me this self-mystification, this Nihilism, i.e.. seeking Reality in quarters where it does not exist, is a physiological symptom which gives me a clue to the decadence of the Muslim world. The intellectual history of the ancient world will reveal to you this most significant fact that the decadent in all ages have tried to seek shelter behind self-mystification and Nihilism.82

(آج کل کا مسلمان یونانی و عجمی تصوف کی ان تاریک وادیوں میں بلا مقصد و مدّعا بھٹکنا چاہتا ہے جس کی تعلیم یہ ہے کہ گرد و پیش کے حقائقِ ثابتہ سے آنکھیں بند کر لی جائیں اور توجہ اس نیلی پیلی اور سرخ روشنی پر مرکوز کر دی جائے جسے’’تجلّیات‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔  یہ حقیقتاً دماغ کے ان خانوں سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتی ہے جو ریاضت کی کثرت و تواتر کے باعث ماؤ ف ہو چکے ہیں ۔  میرے نزدیک یہ خود ساختہ  تصوف اور فنائیت یعنی حقیقت کو ایسے مقام پر تلاش کرنا جہاں اس کا وجود ہی نہ ہو، دراصل ایک بدیہی علامت ہے جس سے عالم اسلام کے رو بہ انحطاط ہونے کا سراغ ملتا ہے۔  )

اس مضمون میں وہ ایک جگہ اس امر پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ تصوف کے حامی نبیﷺ کی زندگی کے باطنی پہلو کے بھی قائل تھے، چنانچہ شریعت اور طریقت کی تقسیم اسی بے بنیاد نظریے کا شاخسانہ ہے۔  اقبال کہتے ہیں :

Do not listen to him who says there is a secret doctrine in Islam which cannot be revealed to the uninitiated.   Herein lies the power of  this pretender and your thraldom.83

(اس آدمی کی بات پر دھیان نہ دیجیے جو یہ کہتا ہے کہ ا سلام کا ایک باطنی پہلو یا مخفی اصول بھی ہے جسے غیر محرموں یا ناشناساؤں پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا)۔

وحدت الوجود، تصوف کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔  اس کے متعلق علامہ اقبال کے خیالات محتاجِ وضاحت نہیں ہیں، مثلاً وحدت الوجود کے سب سے بڑے مبلغ شیخ اکبر ابن عربی کی معروف تصنیف فصوص الحکم کے بارے میں لکھتے ہیں :’’فصوص میں سواے الحاد و زندقہ کے اور کچھ نہیں ۔ ‘‘۸۴؎ اسی طرح سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :’’تصوفِ[ وجودیہ] سرزمینِ اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے، جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے۔  ‘‘۸۵؎ علامہ اقبال نہایت سنجیدگی سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مسلمانوں کے زوال و انحطاط اور جمود کا بنیادی سبب رائج الوقت یا عجمی تصوف ہے۔  رموز بے خودی میں وہ اسے’’برفابِ عجم‘‘ قرار دیتے ہیں :

شل ز برفابِ عجم اعضاے اُو

سرد تر از اشکِ او صہباے اُو۸۶؎

چنانچہ علامہ نے۱۹۱۷ء کے مذکورہ بالامضمون میں مسلم نوجوانوں کو متصوفین سے دور رہنے کی تلقین ہے:

Moslem young men Beware of the mystifier. His noose has now been too long round your neck. The regeneration of the Moslem world lies in the strong uncompromising, ethical Monotheism which was preached to the Arabs thirteen hundred years ago. Come, then, out of the fogs of Persianism and walk into the brilliant desert sunshine of Arabia.87

(مسلم نوجوانو!اس[تصوف کی] شعبدہ بازی سے خبردار رہو۔  شعبدہ بازوں [صوفیہ] نے اپنی کمند سے تمھاری گردنوں کو جکڑ لیا ہے۔  دنیائے اسلام کی نشاتِ ثانیہ کا انحصار اس پر ہے کہ لگی لپٹی رکھے بغیر اُس [خالص]توحید کو وثوق کے ساتھ اپنا لیا جائے جس کی تعلیم تیرہ سوسال پیشتر عربوں کو دی گئی تھی[میری نصیحت ہے کہ] عجمیت کے دھندلکے سے باہر نکلو اور عرب کے درخشاں صحرا کی روشن فضا میں آ جاؤ۔  )

علامہ کے نزدیک زوال مسلم کا بنیادی سبب تصوف تھا۔  کئی جگہ وہ تصوف اور اس کے ساتھ ہی فلسفے سے بھی بیزاری کا اعلان کرتے ہیں، مثلاً علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے پروفیسر عمر الدین کو ایک خط میں لکھتے ہیں :

I have however, lost much of my interest in Muslim Philosophy and Mysticism. To my mind the fiqh of Islam, i.e. the law relating to what is called muamilat is far more important in the Economic and cultural history of the world than mere speculation which has been unconscious cause of split in Islam.88

(فلسفہ و تصوف سے میری دل چسپی ختم ہو چکی ہے۔  یہ تو محض قیاس آرائیاں ہیں اور انھوں نے اسلام میں تفرقے کے لیے غیر شعوری کردار ادا کیا ہے۔  دنیا کی معاشی اور تہذیبی تاریخ میں فلسفہ و تصوف کی نسبت، اسلامی فقہ، یعنی وہ قوانین کہیں زیادہ اہم ہیں جن کا تعلق زندگی اور معاشرے کے روز مرہ مسائل و معاملات سے ہے۔  )

اس طرح کے خیالات کا اظہار علامہ نے اپنی نثر میں کئی جگہ کیا ہے مگر تصوف کے بارے میں علامہ کی رائے بالکل یک طرفہ نہیں ہے۔  وہ ’’اسلامی تصوف‘‘ کے فروغ کو سوسائٹی کے لیے مفید سمجھتے ہیں اور قدیم صوفیہ کی خدمات کا بھی اعتراف کرتے ہیں ۔  اس کی تفصیل بھی ان کی نثری تحریروں میں ملتی ہے۔

               ۶۔  سیاسی تفکر

اقبال کی نثرسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عملی سیاسیات کا مزاج نہ رکھتے تھے چنانچہ وہ ہندستان کی ’’بے ڈھب اور بے اصولی سیاست سے بیزار‘‘ اور زیادہ تر اس سے ایک فاصلے پر رہے۔  پنجاب اسمبلی کی سہ سالہ رکنیت کے سوا، انھوں نے عملی سیاسیات میں شامل ہو کر کوئی مستقل سرگرمی نہیں دکھائی۔  آخری زمانے میں مسلم لیگ پنجاب نے انھیں صدر بنایا، مگر یہ وہ زمانہ تھا جب اپنی خراب صحت کی وجہ سے ان کے لیے کہیں آنا جانا بھی ممکن نہ تھا۔

البتہ سیاسی تفکر ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔  وہ سیاست کے اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھتے تھے۔  کانگریس، مسلم لیگ، یونینسٹ پارٹی اور دیگر گروہوں کی پالیسیوں، ا ن کے رہنماؤں کی سرگرمیوں اور ان کی سیاسی قلا بازیوں سے بخوبی واقف تھے مگر ان تمام باتوں کو نظر میں رکھتے، اور بعض اوقات انھیں نظر انداز کرتے ہوئے ان کی توجہ ہندستانی مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور اُن کے سیاسی مستقبل پر مرکوز رہی۔

۱۹۲۹ء میں وہ پنجاب اسمبلی کی رکنیت سے سبک دوش ہو چکے تھے لیکن مسلمانوں کے مسائل سے غافل نہ تھے۔  ان کے مستقبل کو بہتر بنانے اور سنوارنے کے بارے میں برابر سوچتے رہتے اور طرح طرح کی تدابیر پر غور کرتے مثلاً۱۹۳۰ء میں نارتھ انڈیاکانفرنس کی تجویز یا برکت علی محمڈن ہال میں ۲۳؍ نومبر کو اکابرین لاہور کا اجلاس جس میں طے پایا کہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے مسلم زعماء پر مشتمل کانفرنس منعقد کی جائے۔

اس طرح کی ساری تجاویز اور کاوشیں ان کے سیاسی تفکر کا نتیجہ تھیں اور ان کاوشوں کا مقصد یہ تھا کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحدکے مسلمان سوچیں کہ ان کے لیے جائز مراعات و حقوق کے لیے کیا کیا اقدامات کیے جانے چاہییں اور اس پر بھی غور کریں کہ مستقبل میں ہندستان کا نقشہ کیا صورت اختیار کرنے والا ہے؟ اگر ہندستان متحدہ صورت میں آزاد ہونے والا ہے تو شمال مغربی حصے میں مسلم اکثریتی علاقے اندرونی خود مختاری کیسے حاصل کرسکتے ہیں ؟ خطبۂ الٰہ آباد علامہ کے اسی سیاسی تفکر کا نتیجہ تھا اور کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ خطبہ ان کی سیاسی بصیرت کا شاہ کار ہے اور یہ شا ہ کار نثر میں ہے۔

 اگر آپ ذرا پیچھے چلیں تو معلوم ہو گا کہ اقبال۱۹۰۸ء سے۱۹۳۰ء تک قریباً ۲۳؍ سال مسلمانوں کے ملی تشخص اور اپنے نظریہ ٔ ملت کی وضاحت کرتے رہے لیکن ہندستان میں اس نظریے کے متشکل ہونے کی کیا صورت ہوسکتی تھی؟ اس کی تفصیل ان کی شاعری میں نہیں، ان کی نثر(خطبۂ الٰہ آباد)میں ملتی ہے۔  یقیناً سیاسی تفکر کا اظہارجس خوبی سے خطبۂ الٰہ آباد میں ہوا، شاعری میں ایسا واضح اور دو ٹوک اظہار نہیں ملتا۔

علامہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد یعنی نثر کے ذریعے ۱۹۳۰ء میں ہندی سیاست میں ایک علیٰحدہ مسلم مملکت کا بیج بویا تھا۔  گو انھوں نے خطبے میں واضح طور پر الگ ملک کا مطالبہ نہیں کیا تھا، لیکن خطبۂ الٰہ آباد ہی ‘قرار دادِ پاکستان اور پھر حصولِ پاکستان کے لیے جد و جہد کی بنیاد بنا۔  آج ہم اسی بیج سے اُگے ہوئے درخت(پاکستان) کے سائے میں بیٹھے ہیں ۔  اسی کا پھل( اور پتا نہیں کیا کچھ) کھا رہے ہیں ۔

بھارت میں رہنے والے اقبال کے بہت سے ہندواورمسلم مدّاح وقتاً فوقتاً کہتے ہیں کہ پاکستان کا تصوّر زبردستی اقبال کے سرمنڈھ دیا گیا ہے، درحقیقت وہ تقسیم کے حامی نہیں تھے مگر بھارت ہی کے ایک دانش وَر اور معروف نقاد پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے اسی سلسلے میں ایک بار لکھا تھا کہ اگرچہ اقبال کی شاعری سے پتا نہیں چلتا کہ وہ ایک مسلم مملکت قائم کرنے کے حامی تھے لیکن خطبۂ الٰہ آباد سے یہ بالکل واضح ہے کہ انھوں نے ہندی مسلمانوں کو ایک علیٰحدہ مملکت کا تصور دیا۔  اسی طرح جگن ناتھ آزاد بھی علامہ کو پاکستان کے بنیاد گزاروں میں خیال کرتے تھے۔  یہ ہے خطبۂ الٰہ آباد کی معنویت جو نثر اقبال کی معنویت بھی ہے۔

خطبہ الٰہ آباد سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کی مجوزہ اسلامی ریاست کے مقاصد کیا تھے؟ جب وہ کہتے ہیں کہ اسلام جملہ امور زندگی پر محیط ہے اور یہ دین وہ دین نہیں جسے مسیحیت نے امور سیاست سے جدا کر دیا تھا، تو اظہر من الشمس ہے کہ وہ مجوزہ پاکستان میں دین کی عمل داری اور خدا کی(نہ کہ عوام کی)حاکمیت چاہتے تھے۔

تفکر، اقبال کے مزاج کا ایک نمایاں جزو، بلکہ جزوِ لاینفک ہے۔  تفکر، سیاست کے سلسلے میں ہویا دین کے بارے میں، اقبال کے نزدیک اس کی غایت فقط یہ تھی کہ نہ صرف ہندی بلکہ کُل عالم کے مسلمانوں کا مستقبل مامون و محفوظ ہو جائے۔  دینی تفکر نے ایک طرف تو ان کے انگریزی خطبات کی شکل اختیار کی اور فکر اسلامی کی تشکیل جدید کی راہ ہموار کی، دوسری طرف اسی دینی تفکر کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے مستقبل کے سلسلے میں طرح طرح کی تجاویز پیش کرتے رہے اور اس کا پتا ان کی نثر سے چلتا ہے۔  ۱۹۳۱ء میں انھوں نے تجویز پیش کی کہ اس نازک زمانے میں اسلام کی حفاظت کے لیے ایک ٹرسٹ کی شکل میں قومی فنڈ قائم کیا جائے کیونکہ:

بغیر اس کے اسلام کے سیاسی ودینی مقاصد کی تکمیل و اشاعت ناممکن ہے۔  مسلمان اخباروں کو قوی کیا جائے، نئے اخباراور نیوزایجنسیاں قائم کی جائیں، مسلمانوں کو مختلف مقامات میں دینی اور سیاسی اعتبار سے منظم کیا جائے۔  قومی عساکر بنائے جائیں اور تمام وسائل سے اسلام کی منتشر قوتوں کو جمع کر کے اس کے مستقبل کو محفوظ کیا جائے۔ ۸۹؎

ان کی نثر میں اس طرح کی کئی تجاویز ملتی ہیں ۔

اب تک کی گزارشات میں چھے نکتوں کے تحت، اقبالیات میں نثر اقبال کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔  اسے’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ ہی خیال کرنا چاہیے کیوں کہ اس وضاحت کے لیے، ا سی طرح کے دس بارہ مزید نکات پیش کیے جا سکتے ہیں ۔  چونکہ ’’بیانِ مسئلہ‘‘خاصی حد تک واضح ہو چکا، اس لیے فی الوقت انھی چھے نکات پراکتفامناسب ہے۔

البتہ نثرِ اقبال پر بات کرتے ہوئے ایک اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ جس طرح اقبال ایک صاحبِ اسلوب شاعر ہیں، اسی طرح کیا وہ ایک صاحبِ اسلوب نثرنگار بھی ہیں ؟ہمارے متعدد نام وَر نقادوں اور اقبال شناسوں نے اس موضوع پر گفت گو کی ہے اور بیشتر نے اقبال کو صاحبِ طرز نثر نگار قرار دیا ہے۔

بلا شبہہ اقبال کی نثر میں خلوص و صداقت، وضاحت و صراحت، استدلال اور توانائی اور تاثیر سبھی کچھ ہے مگر میری ناقص رائے میں انھیں صاحبِ طرز نثرنگار کہنا مشکل ہے۔  وہ صاحبِ اسلوب شاعر تو ہیں، اگر ان کا نام لیے بغیر ان کے اشعار پڑھے جائیں تو فوراً  پتا چل جاتا ہے کہ یہ اقبال کی شاعری ہے یعنی اقبال کا ایک خاص رنگ ہے۔  اگر کوئی شاعر کوشش کر کے ان کے رنگ میں کہے تواس پر بھی اقبال کے شعر کا گمان ہونے لگتا ہے، مثلاً اقبال کے ایک معاصر صادق حسین شاہ کا یہ شعر:

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

بار بار کی وضاحتوں کے باوجود اقبال کے ساتھ چپکا ہوا ہے۔ ۹۰؎

جس بنا پر اقبال کو صاحبِ اسلوب نثر نگار کہنے میں مجھے تامّل ہے، وہ یہ ہے کہ سینتیس برس کی مدّت پر پھیلی ہوئی اقبال کی نثر نگاری۹۱؎ یک رنگ نہیں بلکہ کئی رنگوں کا نگار خانہ ہے مثلاً مخزن کے مضامین اور علم الاقتصاد کا ایک خاص رنگ ہے۔  اس میں استدلال کی قوت تو ہے مگر انشا پردازی کمزور ہے۔  البتہ مولوی انشاء اللہ خاں کے نام انگلستان سے لکھے ہوئے خطوط خوب صورت نثر کا نمونہ پیش کرتے ہیں ۔  اس میں مکتوب نگار کا مشاہدہ خوب صورت الفاظ میں ڈھل جاتا ہے۔  اس میں منظر نگاری کے عمدہ نمونے بھی ہیں ۔ ۹۲؎ جناب ممتازحسن نے شاید انھیں خطوں کے پیش نظر لکھا تھا کہ اقبال ’’کہیں کہیں تو نثر میں شاعری کر جاتے ہیں ‘‘۔ ۹۳؎ اقبال کی نثر میں مخزن کی رومانوی نثر کا اثر بھی نظر آتا ہے۔  وہ اچھی نثر کے بہترین عناصر (تشبیہ، استعارہ، محاورہ، روزمرہ اور علمی اصطلاحات)کا خیال رکھتے ہیں ۔  علم الاقتصاد اپنے دور میں اردو نثر کا ایک اچھا نمونہ تھی لیکن بعد ازاں جب یہ دور گزر گیا تو علامہ کی نثر نے بھی قدرے دوسرا رنگ اختیار کیا۔  نثرِ اقبال کے موضوعات مختلف ہیں، اس لیے اسلوب بھی یکساں نہیں ہے۔

علامہ کی نثر کا بڑا حصہ ان کے خطوط پر مشتمل ہے۔  خطوں کے بہت سے مجموعے ملتے ہیں ۔  تقریباً ڈیڑھ ہزار خطوں میں اقبال نے طرح طرح کے موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے اور ان کے مکتوب الیہان بھی مختلف ہیں چنانچہ خطوط میں اسلوب برابر کچھ نہ کچھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔  قصہ کوتاہ یہ کہ علامہ اقبال کو صاحبِ طرز نثر نگار قرار دینا آسان نہیں ہے۔  اس سلسلے میں ان کا پورا نثری ذخیرہ گہرے مطالعے اور تامّل کا تقاضا کرتا ہے۔

اپنی بات ختم کرنے سے پہلے اقبال کا ایک نثر پارہ پیش کرنا چاہتا ہوں ۔

علامہ نے ’’من نواے شاعرفرداستم‘‘ کَہ کر خود کو آنے والے زمانوں کا شاعر قرار دیا ہے۔  شاعری کی طرح ان کی نثر کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کی چشم نگراں ہمارے شب و روز کے احوال دیکھ دیکھ کر ہماری قومی زندگی پر تبصرہ کر رہی ہے۔  بڑی صحیح باتیں کہی ہیں اس صاحبِ  بصیرت نابغۂ عصر نے۔  موجودہ حالات کے تناظر میں اقبال کی نثر ہمیں کیا پیغام دے رہی ہے، سنیے!

If today you focus your vision on Islam and seek inspiration from the ever-vitalising idea embodied in it, you will be only reassembling your scattered forces, regaining your lost integrity, and thereby  saving your self from total  destruction.94

(اگر آج آپ اپنی نظریں اسلام پر جما دیں اور اس کے زندگی بخش تخیل سے تقویت حاصل کریں تو آپ اپنی پراگندہ قوتوں کو از سرنوجمع کر لیں گے اور اپنے کھوئے ہوئے صلابتِ کردار کو دوبارہ حاصل کر لیں گے، اسی طرح آپ اپنے آپ کو مکمل تباہی سے بچا لیں گے۔)

اقبال کی نثر کا مطالعہ کر کے، ہم اپنی بقا اورسلامتی کے طریقے دریافت کرسکتے ہیں ۔

٭٭٭

 

 

حواشی و حوالہ جات

۱-        تفصیل کے لیے دیکھیے، زندہ رود کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ از راشد حمید پورب اکادمی اسلام آباد، ۲۰۰۷ء۔

۲-        از ڈاکٹر تقی عابدی، ناشر:اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۷ء۔

۳-        خطوط اقبال، مرتبہ رفیع الدین ہاشمی۔  مکتبہ خیابانِ ادب لاہور، ۱۹۷۶ء، ص۶۷۔

۴-        اعجاز احمد، مظلوم اقبال۔  مکتوب۹؍ جون ۱۹۱۴ء بنام شیخ اعجاز احمد، کراچی، ۱۹۷۵ء، ص۲۴۰۔

۵-        تفصیل کے لیے دیکھیے، اقبال: نئی تحقیق: سیدشکیل احمد۔  اقبال اکیڈیمی حیدرآباد دکن، ۱۹۸۵ء، ص ۴۶-۵۸۔

۶-        ایضاً، ص ۵۲۔

۷-        ایضاً، ص ۵۵۔

۸-        تفصیل کے لیے دیکھیے، اقبال یورپ میں از ڈاکٹرسعیداختردرّانی۔  فیروزسنزلاہور، ۱۹۹۹ء۔

۹-        ڈاکٹر جاوید اقبال، زندہ رود، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۰۴ء، ص۶۱۴-۶۱۵۔  نیزا قبال نامے، مرتب: ڈاکٹر اخلاق اثر۔  مدھیہ پردیش، اردو اکادمی، بھوپال، ۲۰۰۶ء، ص۲۱۸۔

۱۰-     مولانا محمد علی جوہر ایک بار لاہور آئے اور اقبال سے اپنے بے تکلفانہ انداز میں کہنے لگے:’’ظالم! ہم تو تمھارے شعر پڑھ پڑھ کر جیل جاتے ہیں، لیکن تم دھُسا اوڑھے، حقے کے کش لگاتے رہتے ہو‘‘۔  اقبال نے برجستہ جواب دیا:مَیں تو قوم کا قوال ہوں اور قوال خود وجد و حال میں نہیں ہوتا، ورنہ قوالی ختم ہو جائے۔  [آثار اقبال، مرتب:غلام دستگیر رشید، سیدعبدالرزاق حیدرآباد دکن، ۱۹۴۶ء، ص۲۸۔ ]

۱۱-     اقبال کی صحت زبان، مرتب و ناشر:ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری لکھنؤ، ۱۹۹۸ء ص۲۴۔

۱۲-     مخزن لاہور، اکتوبر۱۹۰۲ء بحوالہ:مقالات اقبال، مرتبین:عبد الواحد   معینی+محمد عبداللہ قریشی۔  القمر انٹرپرائزز لاہور، ۲۰۱۱، ص۷۳۔

۱۳-     اقبال نامہ، مرتب:شیخ عطاء اللہ۔  اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۸ء، ص۷۰۔

۱۴-     ایضاً، ص۱۱۴۔

۱۵-     انوار اقبال، مرتب:بشیر احمد ڈار۔  اقبال اکادمی پاکستان کراچی، ۱۹۶۷ء، ص۱۱۰۔

۱۶-     بنام محمد عبدالقادر بدایونی، اقبالیات لاہور، جنوری تا مارچ۱۹۸۸ء ص۲۸۔

۱۷-     انوار اقبال، ص۲۴۲۔

۱۸-     ایضاً، ص۲۔

۱۹-     تفصیل کے لیے دیکھیے: نگارشاتِ اقبال، مرتبہ:زیب النساء۔  اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۳ء۔

۲۰-     اقبال نامہ، ص۸۸۔

۲۱-     غلام رسول مہر، اقبالیات، مرتب:امجدسلیم علوی۔  مہرسنزلاہور۱۹۸۸ء، ص۲۰۔

۲۲-     بنام صوفی تبسم، اقبال نامہ، ص۹۶۔

۲۳-     انوار اقبال، ص۱۱۰۔

۲۴-     اقبال نامہ، ص۴۰۲۔

۲۵-     ایضاً، ص۴۰۱۔

۲۶-     مظلوم اقبال، ص۳۰۴۔

۲۷-     ایضاً، ص۳۳۳۔

۲۸-     روزنامہ زمیندار، ۵؍دسمبر۱۹۲۶ء، بحوالہ علامہ اقبال اور روزنامہ زمیندار، مرتب:ڈاکٹر اخترالنساء۔  بزم اقبال لاہور، ۲۰۱۱ء، ص۱۸۳۔

۲۹-     مکتوبات اقبال، مرتب:سیدنذیرنیازی۔  اقبال اکادمی پاکستان کراچی، ۱۹۵۷ء، ص۷۲۔

۳۰-     مظلوم اقبال، ص۲۵۳۔

۳۱-     ایضاً، ص۲۸۱، ۲۸۲۔

۳۲-     انوارِ اقبال، ص۱۷۶۔

۳۳-     مظلوم اقبال، ص ۲۸۱۔

۳۴-     ایضاً، ص۳۲۴۔

۳۵-     ایضاً، ص۳۲۴۔

۳۶-     ایضاً، ص۳۰۳۔

۳۷-     اقبال نامہ، ص۱۴۳۔

۳۸-     ایضاً، ص۱۸۸۔

۳۹-     ایضاً، ص۱۴۳۔

۴۰-     ایضاً، ص۱۴۱۔

۴۱-     ایضاً، ص۲۹۷-۲۹۸۔

۴۲-     ایضاً، ص۱۸۶۔

۴۳-     ایضاً، ص۲۹۶۔

۴۴-     ایضاً، ص۴۱۵۔

۴۵-     مکتوباتِ اقبال، ص ۹۷۔

۴۶-     مرتبین:سیدعبدالواحدمعینی+محمد عبداللہ قریشی۔

۴۷-     مرتب: لطیف احمد شروانی۔  اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۹ء۔

۴۸-     علامہ محمد اقبال، تاریخ تصوف، مرتب:صابر کلوروی۔  مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور، ۱۹۸۵ء۔

۴۹-     ناشر:یونی ورسل بکس، لاہور، ۱۹۸۸، طبع دوم، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۵ء۔

۵۰-     مشمولہ:جہات اقبال:ڈاکٹرتحسین فراقی۔  بزم اقبال لاہور، ۱۹۹۳ء، ص۱۲ -۲۹۔

۵۲-     ایضاً، ص۱۳۳۔

۵۲-     ایضاً، ص۳۱۳۔

۵۳-     انوار اقبال، ص ۲۰۶۔

۵۴-     ملفوظات، مرتب:محمود نظامی۔  امرت الیکٹرک پریس لاہور، س ن، ص۲۲۷۔

۵۵-     شاد اقبال، ص ۴۶۔

۵۶-     اقبال نامہ، ص۹۵۔

۵۷-     مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خاں، مرتب:عبداللہ شاہ ہاشمی۔  اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۲ء ص۱۲۳۔

۵۸-     اقبال بنام شاد، ص۲۵۷۔

۵۹-     اقبال نامہ، ص۵۷۹-۵۸۰۔

۶۰-     اقبال، کلیاتِ اقبال فارسی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۴ء، ص۶۵۔

۶۱-     روزنامہ زمیندار، ۲۳؍ جون۱۹۲۳ء بحوالہ: خطو ط اقبال، ص ۱۵۸۔  ۱۵۶۔

۶۲-     اقبال نامہ، ص۵۸۰۔

۶۳-     ایضاً، ص۵۸۰۔

۶۴-     معارف، مئی۱۹۲۲ بحوالہ اقبال:سید سلیمان ندوی کی نظر میں، مرتب:اختر راہی۔  بزم اقبال لاہور، ص۶۳۔

۶۵-     اقبال نامہ، ص ۱۴۰۔

۶۶-     ایضاً، ص ۱۴۰۔

۶۷-     اقبال، کلیاتِ اقبال فارسی، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۷ء، ص۳۸۵۔

۶۸-     اقبال نامہ، ص۸۸۔

۶۹-     مخزن، لاہور، جولائی ۱۹۱۰ء، ص۵۵، بحوالہ نگارشات اقبال، ص ۷۹۔  ۸۰۔

۷۰-     اسرار خودی، طبع اول، ص ’’ل‘‘۔

۷۱-     مشمولہ:مقالاتِ اقبال حوالہ نمبر۱۲۔

۷۲-     انوارِ اقبال، ص۲۴۵۔

۷۳-     اقبال، کلیاتِ اقبال اردو، ص۳۹۳۔

۷۴-     ایضاً، ص۶۸۶۔

۷۵-     ایضاً، ص۴۰۰۔

۷۶-     ایضاً، ص۴۵۱۔

۷۷-     ایضاً، ص۵۴۷۔

۷۸-     ایضاً، ص۵۵۱۔

۷۹-     ایضاً، ص۷۴۱۔

۸۰-     اسرارخودی طبع اوّل، بحوالہ مقالات اقبال، ص۱۵۵، ۱۵۶۔

۸۱-     اقبال نامہ، ص۱۰۰۔

۸۲-     Speeches، ص۱۵۴۔

۸۳-     ایضاً، ص۱۵۴۔

۸۴-     اقبال نامہ، ص۹۵۔

۸۵-     ایضاً، ص۱۱۲۔

۸۶-     اقبال، کلیاتِ اقبال فارسی، ص۱۷۲۔

۸۷-     Speeches، ص۱۵۶۔

۸۸-     Letter of Iqbal، مرتب:بی اے ڈار۔  اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۷۸ء، ص۲۲۴۔

۸۹-     اقبال نامہ، ص۶۲۶۔

۹۰-     یہ شعر صادق حسین شاہ کے مجموعۂ کلام برگِ سبز میں شامل ہے۔  اس موضوع پر گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور کے مجلہ فاران۲۰۰۶ء میں ’’ناصر زیدی:گمان کی لغزشیں ‘‘کے عنوان سے پروفیسر سیف اللہ خالد کا دل چسپ مضمون قابل مطالعہ ہے۔

۹۱-     پروفیسرمحمدعثمان نے لکھا ہے کہ اقبال کی نثری تحریروں کا آغاز۱۹۰۴ء سے ہوتا ہے۔  (حیاتِ اقبال کا ایک جذباتی دور:مکتبہ جدید لاہور، ۱۹۷۵ء، ص۱۴۶)غالباً انھوں نے ’’قومی زندگی‘‘(مخزن، اکتوبر ۱۹۰۴ئ)کو اقبال کا پہلا نثری مضمون خیال کیا ہے۔  درحقیقت اقبال ’’قومی زندگی‘‘ سے پہلے کم از کم دو اردو(’’بچوں کی تعلیم و تربیت ‘‘مخزن جنوری ۱۹۰۲ء، اور ’’اردو زبان پنجاب میں ‘‘ مخزن اکتوبر۱۹۰۲ء اور ایک انگریزی مضمون The Doctrine of Absolute Unity as Expounded  by Abdul Karim al-Jilani. (Speeches، ص۷۷-۷۹) لکھ چکے تھے۔

۹۲-     خطوطِ اقبال:ص۷۶-۱۰۳۔

۹۳-     اقبال اور عبدالحق، مرتب:ممتازحسن۔  مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۷۷ء، ص۲۶۔

۹۴-     Speeches، ص۲۹۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/iqbaliyat/jan12/2.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید