FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ایک انجانے خوف کی ریہرسل

افسانے

               مشرف عالم ذوقی

 

اصل کتاب سے یہ افسانے نکال دئے گئے ہیں کہ یہ اس سے پہلے تین جلدوں میں شائع ’ذوقی کی پچیس کہانیاں‘ اور مزید کتابوں میں شامل ہیں:

وارن ہسٹنگز کی ٹوپی

ڈراکیولا

پیرا مڈ

بازار، طوائف اور کنڈوم

بے حد نفرتوں کے دنوں میں

کوئی ہے۔۔۔۔

واپس لوٹ جاؤ

ٹِشو پیپر

اس بار نہیں

٭٭٭

ایک انجانے خوف کی ریہرسل…. 1

انتساب… 4

سرخ لفظ… 5

شاہی گلدان.. 7

امام بخاری کی نیپکن…… 28

اس بار نہیں….. 49

ایک انجانے خوف کی ریہرسل…. 71

بارش، جنگل اور وہ 84

پارکنسن ڈزیز.. 102

آخری فریم.. 118

کہانی تمہیں لکھنے والی ہے !!! 133

میڈونا کی اُلٹی تصویر.. 141

فساد کے بعد کی ایک لنچ پارٹی.. 154

فیصلہ….. 162

الفتح لنا۔ ۔ ۔ الفتح لنا۔ ۔ ۔. 168

گراؤنڈ زیرو ۔۱ 177

انعمتہ اور بیکری.. 185

فدائین کی ماں.. 191

مودی نہیں ہوں میں… 200

انتساب

محترم ڈاکٹر محمد حسن

کے نام  …

 

سرخ لفظ

اس پُر ہیبت حقیقت کے مقابل، جسے تمام انسانی زمانوں میں ایک یوٹوپیا کی حیثیت حاصل رہی ہو گی، ہم، کہانیوں کے موجد، جن کے نزدیک ہر بات قابلِ یقین ہے، اس بات پر یقین کرنے کے بھی پوری طرح حق دار ہیں کہ ایک بالکل دوسری قسم کے یوٹوپیا کی تخلیق میں خود کو منہمک کر دینے کا وقت ابھی ہاتھ سے نہیں گیا۔ زندگی کا ایک نیا اور ہمہ گیر یوٹوپیا، جہاں کسی کو دوسروں کی موت کے حالات کا تعین کرنے کا اختیار نہیں ہو گا، جہاں محبت سچی، اور خوشی ممکن ہو گی اور جہاں سو سال کی تنہائی کی سزا بھگتنے والی قوموں کو، آخر کار اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے، اس زمین پر ایک اور موقع دیا جائے گا۔

گابرئیل گارسیامارکیز ____

 

 

شاہی گلدان

شاہی گلدان نئے گھر میں قدم رکھنے کے بعد بھی موجود تھا۔ اور صرف موجود ہی نہیں تھا بلکہ اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لیے بھی ہمیں پریشانیوں میں ڈال گیا تھا۔ اب اسے رکھا کہاں جائے …

 ’رکھنے ‘ کی یہ بات ابّا کو کچھ ایسے ناگوار گزرتی تھی‘ جیسے کسی نے اچانک شاہی تاج ان کے سر سے چھین لیا ہو۔

 ’کیا مطلب‘ …  ارے شاہی گلدان ہے۔ کیوں نہ اسے ڈرائنگ روم میں رکھ دیا جائے۔ ‘

 ’ڈرائنگ روم؟‘ فرحین کے لیے اپنے نئے گھر کے خوبصورت ڈرائنگ روم میں اس کی کہیں کوئی جگہ نہیں تھی۔ کیونکہ گھر آنے والے رئیس زادے اور دوست نہ اسے کوئی اینٹک پیس سمجھتے اور نہ اس سے وابستہ کہانی میں ان کی آنکھیں گم ہو چکی شہنشاہیت کی سڑک تک جانے کی ہمت کر سکتی تھیں۔ بس وہ کھل کر ہنس دیتے   — ’بھابھی …  تم بھی نا …  کسی کباڑی بازار سے لیا کیا …‘

اشرف کے لیے اس شاہی گلدان کی کشش صرف اتنی تھی کہ ابا کا احترام اس عمر میں کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تھا۔ اور ابّا وقت کے ساتھ آج بھی شہنشاہیت کے اسی قلعے میں قید تھے، جہاں سے شاید باہر نکلنا اب اس عمر میں ان کے لیے آسان نہیں رہ گیا تھا۔

ہاں، اگر اس نشانی سے جڑی نفرت کو دیکھنے کی بات تھی تو وہ بس امّی کی آنکھوں میں دیکھی جا سکتی تھی  — جہاں گلو کو ما تو اتر آیا تھا، مگر آنکھوں میں چھائے گھنے اندھیرے کے کہرے کے باوجود شاہی گلدان کی تاریخ تک، بے رحم ماضی کے اوراق پلٹتی ان کی آنکھیں اگرچہ کچھ بول نہیں پاتیں، لیکن خاموشی میں ساری کہانی سنا ڈالتیں …  ’کہ لو کہاں کا شاہی گلدان۔ بچوں نے توایک گھر بنا لیا اور ایک ہم تھے کہ شادی کے بعد تمہارے چھپّر کھٹّے میں آئے تو ساری زندگی تنگی کے سائے میں اسی چھپر کھٹ میں گذر گئی۔ بس لے دے کر زندگی بھر اس شاہی گلدان کی کہانی کہتے رہے …  کہ بڑے بادشاہوں کے خاندان کے ہو۔ لیکن کہاں کے بادشاہ۔ تین وقت کی روٹی تو سڑک کا بھکاری بھی پیدا کر لیتا ہے …‘

میرا نام اشرف ہے۔ اشرف جہانگیر۔ بچپن میں تاریخ کی کتابیں مجھے پسند نہیں تھیں۔ بڑا ہوا تو تاریخ سے نفرت ہو گئی۔ تاریخ میرے لیے ایک خوفناک آئینے کی مانند تھا، جس میں اپنی صورت دیکھنے کا احساس ہی مجھ میں خوف بھر دیتا تھا۔ تاریخ کے اوراق مجھے بے رحم لگتے تھے۔ کیونکہ بچپن کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی گھر کی ٹوٹتی محرابوں سے جھانکتی خاموشی مجھے زخمی کرتی تھی۔ ابّا نے میری پیدائش کے بعد ہی خود کو مسجد کے حوالے کر دیا تھا۔ تنگی کے اس ماحول میں جب امّی کا چڑچڑا پن اور غصہ ابّا کے کمزور وجود پر ظاہر ہوتا تو ابّا سب کچھ بھول کر بس اس شاہی گلدان کو لے کر اپنی بے چارگی دکھانے آ جاتے۔

 ’لو میں کیا کروں۔ سب تقدیر کے کھیل۔ ‘  کسے معلوم تھا کہ تیموریہ خاندان کا زوال آ جائے گا اور ایک دن ان کی اولادیں پیسے پیسے کو ترس جائیں گے …

صبا مجھ سے دو سال چھوٹی تھی۔ امّی ابّو کو لڑتے دیکھ بس خاموشی سے اپنے کمرے میں بند ہو جاتی  — اور تکیے پر گر کر آنسو بہانا شروع کر دیتی۔

تاریخ کے بے رحم اوراق پر ’تیموریہ ٹھونگا بھنڈار‘ کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھتا ہوں اور جھلک میں ابّا کی بدقسمتی کی اُس کہانی کو محسوس کر سکتا ہوں، جب انہوں نے شروع، شروع ایک چھوٹی سی دکان میں ٹھونگا کا یہ کاروبار شروع کیا تھا۔ پیٹ کی دوزخ کو شانت کرنے کے لیے شاہی تخت سے ٹھونگے کی طرف ہجرت کرتے ہوئے کتنا کچھ ٹوٹ گیا تھا ان کے اندر۔ تاریخ کے اس بے رحم قلعے میں جھانکتے ہوئے وہ آنسو آج بھی نظر آ جاتے ہیں، جو صبح ابّا کی خشک آنکھوں میں نظر آیا کرتے تھے۔ سرخ پھولی آنکھیں رات کی ساری روداد سنا ڈالتیں کہ ’شاہی حجرے ‘ سے حال کے مقبرے کو دیکھنے کا تصور کیسے ہوتا ہے   — ابّا حال سے پریشان تھے اور تاریخ اُنہیں خوش کرتی تھی۔

شاید انہی دنوں تاریخ سے نفرت کی کہانی کی شروعات ہو چکی تھی۔ تاریخ کی یادگاریں اور مقبرے مجھے بس ان گھنونے مکڑی کے جالوں کی طرح لگتے، جن میں پھنس کر کسی کیڑے کی موت ہو گئی ہے۔ اس وقت کی جد و جہد میں ہم بھی انسان کہاں تھے۔ کیڑے تھے   — مردہ کیڑے اور شاہی داستانیں سنانے والا ٹوٹا پھوٹا گھر کسی مقبرے کی طرح لگتا، جس سے نجات حاصل کرنے کی فکر لمحہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔

کیا تاریخ کو کسی تشریح و توضیح کی ضرورت ہوتی ہے ؟ یا تاریخ کسی نہ کسی صورت میں زمانہ اور عہد کے مطابق خود کو نئے سانچے میں ڈھال لیتا ہے۔ میری بڑھتی عمر کے ساتھ گھر کے اجنبی سے ماحول میں امید کی ایک نئی کرن چمکی تھی  — اور ساتھ ہی تبدیل شدہ تاریخ یا اس کی تشریح کا ایک نیا چہرہ دیکھا تھا میں نے۔ دو جگہ سے میری بحالی کی خبر آئی تھی۔ ایک جگہ نئے کالج میں لکچرر کے طور پر اور دوسرا ایک رپیوٹیڈ فرم میں فیلڈ افسر کے طور پر  — میں نے یہ بات ابّا اور گھر کے کسی فرد کو نہیں بتائی۔ کیونکہ ان میں سے ہی کسی ایک کو جوائن کرنے کے فیصلے پر پہنچنا تھا مجھے۔ یہ احساس تھا کہ غربت کی اس تاریخ میں تھوڑی سی تبدیلی تو آئے گی۔ مگر یہ تبدیلی ایک نئی شکل میں بھی آئی تھی  — یا تبدیلی ایک نئی تعریف کے ساتھ آئی تھی۔

اُنہیں دنوں شہر کے ایک کالج میں طالب علموں کی دو جماعت کے درمیان جھگڑا ہوا اور یہ جھگڑا اتنا طول پکڑا کہ سارا شہر اور شہر کی چھوٹی چھوٹی سڑکیں دہشت میں ڈوبے نوجوانوں کی چیخ و پکار سے لرز گئیں۔ جلدی جلدی دکانیں بند ہونے اور شٹر گرنے لگے۔ جو دکانیں کسی وجہ سے کھلی تھیں وہ لوٹ لی گئیں۔ لوگ چھتوں سے، کھڑکیوں سے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اس وقت شہر کے کالجوں میں مشتعل طالب علموں کی ایسی جھڑپیں کوئی نئی بات نہیں تھی۔

میں کمرے سے باہر آیا تو اماں اور صبا گھبرائے ہوئے میری طرف دیکھ رہے تھے۔

 ’’ابا نہیں آئے … ؟‘‘

پتہ نہیں …  کہاں ہوں گے ؟

سڑک سے آ رہی چیخ و پکار کی آوازوں کے درمیان کی میں خوفزدہ تھا۔ دو گھنٹے بعد ابّا لوٹ آئے۔ آواز میں لرزش …  یہ بتانے کہ کمبخت نے دکان لوٹ لی۔ ٹھونگے سڑ ک پر پھینک دیئے۔ مشین کے کل پرزے الگ کر دیئے۔ ڈرائنگ روم میں رکھے شاہی گلدان کو دیکھتی ابّا کی آنکھیں پڑھتا ہوا میں تاریخ اور تشریح و توضیح کی نئی سڑک سے گزر رہا تھا۔ ابّا خوفزدہ اور پریشان ہونے کا ناٹک کر رہے تھے۔ ابّا کہیں سے بوجھل یا پریشان نہیں تھے۔ اس بات سے بھی نہیں کہ دکان لوٹ لی گئی تو اب یہ گھر کیسے چلے گا۔ ان کی نظریں ایک ٹکی شاہی گلدان پر گڑی تھیں اور اسی احساس نے مجھے تاریخ کی نئی تعریف سے متعارف کرایا تھا۔ موجودہ وقت کے بھیانک اوراق کی جگہ انہوں نے سنہری تاریخ کو ترجیح دی تھی۔

 ’اب کیا ہو گا؟‘ اما نے آنگن سے برآمدے میں بھاگتے چمگادڑ کو دیکھ کر گردن جھکا لی تھی۔ تب میں آہستہ سے بولا تھا  — اب ابّا کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ میری نوکری لگ گئی ہے۔

نہیں، شاید اس لمحہ ابّا کی آنکھوں میں جو چمک لہرائی تھی، وہ ان تیموریہ بادشاہوں کی آنکھوں میں بھی نہیں ہو گی، جب وہ جنگ کے میدان سے فتح کے احساس کے بعد محل لوٹتے ہوں گے۔

محبت آپ کی زندگی کو با معنی بنا دیتی ہے۔ شاید اب بہتر اور معقول وقت ہے کہ اس دبلی پتلی سی، لمبی سی فرحین کا تذکرہ بھی کر دیا جائے۔ میری چھت کے سامنے والی چھت پر آنچل کا کونا بار بار ہونٹوں سے دبائے اور بار بار آنچل کے سرکنے سے پریشان۔ میری نگاہوں کا سامنا ہوتے ہی گھبرا جانے والی فرحین۔ کب صبا کی دوست بن کر گھر آنے جانے لگی، پتہ بھی نہیں چلا۔ لیکن اپنی آمد سے اس نے گھر کے سارے لوگوں کا دل جیت لیا تھا  — ابّا کے سر میں تیل دیتی ہوئی۔ کبھی امی سے چھین کر روٹیاں بناتی ہوئی۔ صبا کے بال سنوارتی یا گھر کے چھوٹے چھوٹے کام میں اپنی حصہ داری کا احساس دلاتے ہوئے اس نے خاموشی سے جیسے اعلان کر دیا تھا  — ’میرا گھر ہے، میں جو کچھ کر رہی ہوں اپنے گھر کے لیے کر رہی ہوں   — پہلے تھوڑی سی بات چیت پھر جھجھک۔ پھر ابّا امّی اور صبا کی موجودگی میں تھوڑا سا مذاق۔ ‘

 ’’نماز کیوں نہیں پڑھتے ہیں یہ … ؟‘‘

 ’’زیادہ کتابیں پڑھنے سے کیا ہو گا؟‘‘

 ’’کم سے کم جمعہ کے دن تو مسجد جایا کریں۔ ‘‘

 ’’ابّا آپ تو بولا کریں۔ ‘‘

یا پھر صبا سے کہ تمہارے بھیّا ہر وقت غصے میں کیوں رہتے ہیں ؟

اور ایک دن خاموشی سے گھر کے ایک گوشے میں، میں نے اس فرحین کی بچی کو تنہا پاکر اچانک سینے سے بھینچ لیا تھا  — ’اوئی اللہ‘ کہہ کر بھاگنے کے بجائے وہ جیسے میرے سینے میں خرگوش کی طرح دبک گئی تھی۔ آنکھیں نیچی کیے۔ لرزتی ہوئی۔ مگر جیسے برسوں سے پیاسی ندی کو تھوڑا سا سکون ملا تھا۔

وہ آہستہ سے بولی تھی  — ’کوئی آ جائے گا۔ ‘

 ’’پھر آپ شرارت کرتی ہی کیوں ہیں ؟‘‘

اس کے کان کی لویں سرخ تھیں۔ آنکھوں کی پتلیاں لرزتی ہوئی۔ آنچل ذرا سا سر کا تھا۔ وہ ہونٹ دابے آہستہ سے بولی۔

 ’نماز پڑھنے جایا کیجئے، گھر میں رونق رہتی ہے۔ ‘

دیکھئے فرحین …  میں نے ایک جھٹکے سے اسے بانہوں میں دوبارہ بھینچا تھا  — میں مذہب کا احترام کرتا ہوں۔ تم اس ٹوٹتے اجڑتے گھر کی ویرانی دیکھ رہی ہو نا …  اس گھر نے اور اس گھر سے پیدا شدہ بہت سارے سوالات نے میرے اندر کے مذہب کو کب مجھ سے دور کر دیا، میں نہیں جانتا  — مگر ڈرو مت۔ میں اتنا دور نہیں گیا کہ واپس بھی نہ آسکوں، مگر مجھے میرے عقیدوں کے لیے مجبور مت کرنا۔ ‘

جاتے جاتے، وہ سہمی سہمی سی آنکھوں سے اتنا کہہ گئی تھی۔ چلو تمہارے بدلے کی نماز میں پڑھ لوں گی۔ تمہارے لیے اللہ میاں سے معافی بھی مانگ لوں گی۔

آنچل برابر کرتی فرحین تیزی سے بھاگی تھی  — ٹھیک اسی لمحہ جلد بازی میں دیوار سے ٹکرانے کے دوران سوکھی سفیدی کا ایک بڑا جھول گرا تھا۔ شاید یہ حال کی دستک تھی۔ اور تاریخ کا ذرا سا حصہ اس لمحاتی رومانی ماحول کے احساس سے ٹپک گیا تھا۔

پرانے گھروں کی دیواروں پر چھپکلیاں اتنی کیوں گھومتی ہیں۔ اچانک ہی میری نظر دیوار کی جانب گئی تو وہاں دو چھپکلیاں چوکنّی نگاہ سے میری طرف دیکھ رہی تھیں …  میں چھت کی کمزور اور بارش میں لرز رہی دیواروں کو دیکھ رہا تھا۔ آس پاس کی دیواریں بھی چولہے کے دھوئیں سے سیاہ پڑ گئی تھی …  چھت کو سہارا دینے کے لیے بانس کے موٹے لٹھے لگے تھے۔ اب یہ لٹھے صدیاں گزارتے ہوئے تھکے اور پکے آم کی طرح گرنے کے انتظار میں تھے۔ ایک خوشبو ابھی چپکے سے مجھے چھو کر گئی تھی۔ ایک مکان پرانا پڑ گیا تھا۔ ابّا کے ٹھونگے لوٹ لیے گئے تھے   — اور بے نور شاہی گلدان کی تاریخ کی چمک ابّا کی آنکھوں کو سحر زدہ کر گئی تھی  — فرحین جاتے جاتے اپنے جسم کی خوشبو اور انگارے میرے جسم میں چھوڑ گئی تھی  — اور دو نوکریوں میں سے ایک کو چننے کے خیال میں، اسی لمحہ دہلی والی رپیوٹیڈ مگر پرائیویٹ فرم کو دل ہی دل میں اپنی منظوری دے دی تھی …  چھوٹے آنگن سے بڑے آنگن کا سفر  — سیاہ تاریخ سے دہلی کی زندہ اور موجودہ تاریخ کو دیکھنے کی باری تھی  — جہاں قدم قدم پر تیموریہ بادشاہوں کی نشانیاں خوبصورت ماضی کی دستکیں سنا رہی تھیں۔

 ۔۔ گھر میں میرے دہلی جانے کی خبر پھیل گئی تھی۔ اس لیے رات دسترخوان پر طلباء کے ہنگامے یا ابّا کی دکان لوٹنے کی کہانی کہیں نہیں تھی۔ ابّا کی آنکھوں میں ماضی کی حسین سڑک نظر آ رہی تھی، اور ماضی کی ان سڑکوں پر قلعہ معلی کی لال اور سفید برجوں کے کلس چمک رہے تھے …

 ’تو تم دہلی جا رہے ہو …‘

ابّا کی آواز ایسی تھی، جیسے اپنے آبا و اجداد کے گھر جا رہا ہوں   — اپنا پشتینی مکان دیکھنے۔

رات کے کھانے کے بعد ہم چھت پر آ گئے   — آسمان پر چاند روشن تھا۔ بادلوں کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں تھا۔ چھت پر پلنگڑیاں بچھ گئی تھیں …  ایک پر میں، ایک پر صبا اور سامنے والے کارنس کے قریب ابّا کی پلنگڑی بچھی تھی۔ ابّا چاند نہارتے ہوئے جیسے شاہی گلدان کی تاریخ میں گم ہو چکے تھے …

 ’’مئی کا مہینہ تھا وہ …  اب بھلا کیا یاد رہے گا۔ باتیں بھی پرانی پڑ گئیں۔ اور ایک دن باتیں بس پرانی ہو کر کھو جاتی ہیں۔ پشتینی کہانیاں بس ماہ و سال ہوتی ہوئی ایسی معلوم ہوتی ہیں جیسے سارا واقعہ ابھی ان آنکھوں کے سامنے گزرا ہو …

صبا اٹھی۔ ابا کے پائتانے بیٹھی …  آہستہ سے سر دبانے لگی۔ ابّا کی آنکھیں بند تھیں۔

 ’بہت بھاری غدر ہوا تھا۔ غدر۔ لیکن ایک تاریخ کے گزر جانے کے بعد صرف تاریخ کے چھینٹے رہ جاتے ہیں۔ اور ان چھینٹوں کو اگلے زمانے کے لوگ اپنے اپنے طریقے سے دہراتے ہیں۔ غدر تو بس غدر تھا۔ کون غدّار تھا، اپنے یا انگریز۔ کہنا مشکل  — 90سال کے بوڑھے   پینشن یافتہ بادشاہ کو کمی کس بات کی تھی  — بیٹھے بٹھائے لاکھ روپے مل جاتے تھے   — انگریز حاکم ان کی صلاح سے ہی کام کیا کرتے۔ سات یا آٹھ بجے ہوں گے۔ بادشاہ تسبیح خانے میں تھے۔ شاید نماز پڑھ چکے تھے   — کھڑکی کے پاس آئے تو دریائے جمنا سے دھوئیں کے بادل منڈرا رہے تھے۔ بادشاہ نے انجانے خطرے کی بو سونگھ لی۔ گھبرائے ہوئے واپس آئے۔ اونٹ برداروں کی ٹولی کو بھیجا کہ ماجرا کیا ہے۔ اونٹ بردار واپس آئے اور گھبرائے لہجہ میں بتایا کہ میرٹھ سے غدّاروں کی پلٹن آئی ہے۔ تلواریں گھماتے، گھوڑے دوڑاتے پاگل فوجی ہیں جو میرٹھ سے ہنگامہ کرتے ہوئے آ رہے ہیں۔ صاحب لوگوں کے بنگلے جلا دیئے گئے۔ جو انگریز سامنے آیا، اس کا قتل کر دیا گیا …  سارے شہر میں بھگدڑ مچ گئی۔ میرٹھ سے آئے انقلابی شہر میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ انگریزوں نے ہوشیاری سے اسے بند کرا دیا۔ دہلی پر موت برس گئی۔ غدر کی آگ دور تک پھیل گئی اور اس مار کاٹ، تباہی کے بعد تھوڑا سکون ملا تو یہ آوازیں گردش کر رہی تھیں۔ خلق خدا کا، ملک بادشاہ کا …  لیکن تجربوں کی لمبی راہ داری سے گزرنے والا بوڑھا بادشاہ جانتا تھا کہ ان غداروں نے ان کی زندگی کے چین و سکون کے دن چھین لیے ہیں۔ آنے والے دن بربادی کی کہانیاں لے کر آئیں گے۔ اور وہی ہوا تھا …

ابّا نے گلا کھکھارا …  ایک لمحے کو چپ ہوئے پھر جیسے ایک بار پھر وہ تاریخ کی تاریک گپھاؤں میں قید تھے۔

 ’بادشاہ کی مجبوری تھی، غداروں کا ساتھ بھی دینا تھا اور نہیں بھی دینا تھا۔ ان سے دوبارہ بادشاہ بننے اور انگریزوں کو بھگانے کی اپیل کرنے والی ان کی ہی رعایا تھی  — اور اس وقت بادشاہ کی مجبوری تھی یا تیموریہ سلطنت کی سنہری تاریخ کا دباؤ کہ بادشاہ ان غداروں سے ناراض ہوتے ہوئے بھی ان کی ہر بات ماننے کو مجبور تھے …  اور پھر …  بھلا انگریز مکاروں کے سامنے، یہ جذباتی ہندوستانی کب تک چلتے  —کشمیری گیٹ، کا بلی گیٹ سے انگریزی فوجیں شہر میں داخل ہو گئیں …  چاروں طرف مار کاٹ مچ گئی۔

پھر وقت نے کروٹ بدلی، شاہ زیب، ہمارے خاندان کا شجرہ ان سے ہو کر گزرتا ہے۔ ٹنّی بیگم پائیں باغ میں تھی۔ بیگمات اور محل کی عورتوں کو ایک بڑے سے ہال میں جمع کیا جا چکا تھا۔ خبر ملی تھی کہ بادشاہ نے ہمایوں کے مقبرے میں، چھپنے کی تیاری کر لی ہے اور حکم ہوا ہے کہ اپنی اپنی جان بچانے کی کوشش کی جائے کیونکہ انگریزوں کا قہر کسی وقت بھی محل پر ٹوٹ سکتا ہے۔ محل میں افراتفری کا ماحول تھا۔ جان بچانے کی ناکام کوشش کی جا رہی تھیں۔ شاہ زیب جانتے تھے کہ اس غدر کے ماحول میں اپنے عزیز ایک دوسرے سے بچھڑ جائیں گے۔ زخمی انگریزوں کے دل میں ہمدردی کہاں   — لیکن وہ محل سے کسی شاہی نشانی کے بغیر نکلنا نہیں چاہتے تھے اور یہی شاہی گلدان …

محل چھوڑتے ہوئے بس یہ شاہی نشانی کپڑوں کی ایک پوٹلی میں عقیدت کے ساتھ باندھی۔ ٹنّی بیگم کا ہاتھ تھاما اور باہر نکل گئے …  تب تک خبر آ چکی تھی کہ بادشاہ قیدی بنا کر دہلی لائے گئے۔ شہزادوں کو خونی دروازے کے نزدیک گولی مار دی گئی …  اور تینوں شہزادوں کے سر نڈھال بادشاہ کے سامنے ’سرخوان پوش‘ سے ڈھک کر بھجوائے گئے …  اُف یہ ظلم کی انتہا تھی۔ ‘

شفاف آسمان پر بادلوں کے کچھ ٹکڑے اچانک آ گئے تھے۔ اور ان ٹکڑوں نے اچانک چاند کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔

ابّا سونے کی تیاری میں تھے …  ’اور اس کے بعد سے یہ شاہی گلدان‘ …  وہ بیحد آہستہ سے بولے   — ’آخری نشانی …  اسے دیکھ لیتا ہوں تو پھر اپنی بربادی یاد نہیں رہتی۔ ‘

ابّا ایک بار پھر ماضی کی گپھاؤں میں چلے گئے۔ اور مجھے دہلی جانے کی تیاری مکمل کرنی تھی۔

 ۔۔ میں جانتا تھا، ہر عہد اپنے حساب سے تاریخ کی تشریح و توضیح پیش کرتا ہے۔ کبھی وقت اسے خونخوار اور ناقابل برداشت بنا کر پیش کرتا ہے تو کبھی تاریخ کے خوفناک چہرے میں اپنے لیے پانی جیسا ایک شفاف چہرہ بھی ڈھونڈ لیتا ہے۔ لیکن دہلی جانے کے بعد کے تجربے ماضی کی اس سنہری تاریخ سے اس طرح بھی جڑ سکتے ہیں، مجھے اندازہ نہ تھا۔ اس لیے اس تحریر میں صرف شاہی گلدان کی تاریخ نہیں ہے، بلکہ اس تاریخ سے جڑی شاخیں بھی ہیں، جنہیں چھوٹی چھوٹی ندیوں کی طرح ایک بڑی تاریخ یعنی سمندر میں سما جانا تھا۔ نہیں، شاید اس طرح آپ اس بات کی حقیقت نہیں سمجھ پائیں گے جو میں کہنے جا رہا ہوں۔ اس لیے تھوڑا ٹھہر ٹھہر کر مجھے ساری تفصیل صاف کرنی پڑے گی۔ دہلی جاتے ہوئے ابّا خوش تھے …

 ’’لو تاریخ نے ہمیں ایک موقع اور دیا … ؟‘‘

 ’لال قلعہ پر پرچم کشائی کا یا شاہی قلعے میں اپنا پشتینی تخت تلاش کرنے اور شہنشاہیت کے اعلان کا …‘ میں بہت آہستہ سے بولا تھا۔

دہلی کے چار پانچ برسوں کی زندگی میں اپنے لیے ایک خوبصورت ’فلور‘ حاصل کرنے میں مجھے زیادہ مشکلوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہاں، وہ کہانی آپ شروع میں ہی سن چکے کہ ابّا شاہی گلدان کو ڈرائنگ روم میں نشانی بنا کر رکھنے کی ضد کر رہے تھے اور اپنی بات کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب بھی ہوئے تھے۔ صبا کی شادی ہو گئی اور وہ اپنے سسرال میں خوش تھی۔ فرحین نے گھر کی ذمے داری سنبھال لی تھی۔ ان چار پانچ برسوں کی خوشیوں اور الجھنوں نے کچھ کچھ دہلی وال تو مجھے بنا ہی دیا تھا  — اب یہ اشرف جہانگیر بہت حد تک بدلا ہوا، شاید مضبوط ہونے کی حد تک، تاریخ سے آنکھ ملانے کی ہمت کر رہا تھا۔ شروع میں فرحین نے بھی جاب کرنے کا خیال کیا تھا  — مگر آرام دہ زندگی کے احساس نے اسے ’جاب‘ پر گھر کو فوقیت دی تھی —

گھر کے باہر برآمدے میں پھولوں کے گلدستے ایک قطار سے سجے تھے۔ اس دن چھٹی کا دن تھا۔ لیموں کے بونسائی پودے کو لے کر فرحین سے میری تھوڑی سی جھڑپ ہوئی تھی۔

 ’پاگل ہو، پودا سوکھ جائے گا …‘

 ’نہیں سوکھا تو … ؟‘

 ’سوکھ جائے گا …‘

 ’اور نہیں سوکھا تو … ؟‘

 ’چلو وقت آنے پر دیکھیں گے۔ ‘

چھٹی کے دن فرحین برآمدے میں آئی۔ پھر تیزی سے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے برآمدے میں کھینچ لے گئی۔ گلدستے کے پودے میں چھوٹے چھوٹے لیموں کے جاگنے کی پہلی آہٹ مل چکی تھی۔ میں بھونچکا تھا۔ اچانک مجھے یقین نہیں ہوا۔ فرحین ہنسے جا رہی تھی۔ جیسے تاریخ نے اپنے پاؤں پھیلائے۔ جیسے وجود میں برسوں سے سوئی ہوئی شہنشاہیت چپکے سے جاگی۔ میں جو کہہ رہا تھا، شاید مجھے بھی نہیں پتہ تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں …  مذاق ہی سہی …  مگر میرے اندر سے شاید کوئی شکست یافتہ شہنشاہ بول رہا تھا۔

 ’ہاں، چلو ہار گیا۔ بولو کیا مانگتی ہو۔ چاہو تو آزاد ہو جاؤ۔ طلاق لے لو مجھ سے۔ ‘‘

 ’طلاق‘   — فرحین کانپ گئی۔ اچانک نکلے اس مکالمے سے جیسے ہوا ٹھہر گئی۔ پودے سے جھانکتے ننھی لیموں کی کونپلوں نے جیسے ٹھنڈی ہوا کے خوف سے خود کو ہلکے ہرے پتوں میں چھپا لیا …

 ’کیا …  کیا بولے تم …‘ فرحین ڈری ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔

نہیں، مجھے خود حیرت تھی۔ اس بے تکی بات کا یہاں کوئی مطلب نہیں تھا۔ شاید نیوز چینلوں پر آنے والے مسلسل اس طرح کے مکالموں نے مجھے اس حیران کن لمحہ ایک سنگدل حکمراں میں تبدیل کر دیا تھا۔

تو کیا میرے اندر سچ مچ ایک تانا شاہ چھپا تھا۔ ایک ایسی بات جس کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایک ایسی بات جس نے قہقہہ لگاتی فرحین کی آنکھوں میں ایک بھیانک ڈر پیدا کر دیا تھا۔ میں نے شاید تاریخ کی نکلتی شاخوں میں اس بونسائی لیموں سے نکلے یا ٹپک رہے خون کو دیکھ لیا تھا۔

اس رات فرحین کی آنکھیں نم تھیں۔

 ’تم نے ایسا کیوں کہا، میں نہیں جانتی، مگر کچھ تو ہو گا تمہارے اندر۔ تم بتاؤ نا بتاؤ۔ گھر سے غائب رہتے ہو۔ بڑے آدمی ہو۔ عورتوں کے فون آتے ہیں۔  مٹنگس چلتی ہیں۔ سچ بتاؤ اشرف، ایک سکنڈ کے لیے بھی تمہیں فواد کا خیال نہیں آیا۔ ‘

میں نے دیکھا، فواد بستر پر سو گیا تھا۔

 ’میں شرمندہ ہوں …‘

میں خود سے لڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر آخر تک ’میں شرمندہ ہوں ‘ یہ جملہ میرے ہونٹوں پر نہیں آ سکا۔ آخر ایسا کیا کیا تھا میں نے۔ بس ایک چھوٹا سا مذاق  — مذاق میں طلاق کی بات کرنے سے طلاق تھوڑے ہو گئی۔ میاں بیوی میں ایسے مذاق تو ہو ہی سکتے ہیں ‘۔ مگر جیسے فرحین زخمی تھی۔

شاید وہ اس مذاق پر دیر تک روتی رہی تھی۔ اس کی آنکھیں پھولی ہوئی تھیں۔

 ’تم نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟‘

 ’یہ میرا اور خدا کا معاملہ ہے۔ ‘

 ’نہیں، یہ صرف تمہارا اور خدا کا معاملہ نہیں  —فرحین چیخی تھی  — اب فواد بھی ہے۔ پانچ سال کا ہو گیا۔ اسے اپنے مذہب کو جاننا ہے   — قرآن شریف شروع کرانا ہے۔ کل ابّا بھی کہہ رہے تھے اشرف مت بنانا …  فرحین ایک لمحہ کو ٹھہری  — ’’نماز پڑھتے تو اللہ کا ڈر ہوتا تمہیں۔ پھر اتنی بڑی گالی نہیں دیتے۔ تم کیا جانو، ہم شادی شدہ عورتوں کے لیے طلاق موت سے بھی زیادہ ہے۔ ایک بار پھر وہ بلک بلک کر رو پڑی تھی۔ اور شاید اس بار ایک شکست خوردہ شہنشاہ حقیقت میں تیز آواز میں دہاڑا تھا — ‘‘

 ’پاگل ہو گئی ہو تم۔ ایک چھوٹے سے مذاق کو بھی ڈائجسٹ کرنے کی کیپسٹی نہیں ہے تم میں۔ کیا تمہارے سامنے مجھے ہر لفظ کو ناپ تول کر بولنا پڑے گا۔ بس ایک مذاق تھا۔ ایک چھوٹے سے مذاق کا افسانہ بنا لیا تم نے۔ چھٹی کا دن مشکل سے ملتا ہے۔ اس چھٹّی کے دن کو بھی عذاب بنا دیا تم نے …‘

میں اتنے زور سے چیخا تھا کہ شاید لال قلعہ کے بجھے ہوئے کلسوں تک میری آواز گونج گئی ہو۔ فواد اٹھ کر رونے لگا تھا۔ میں دل کا غبار نکال کر نیچے ڈرائنگ روم میں آیا تو اچانک نگاہ، اس شاہی گلدان کی طرف چلی گئی۔ لگا، اس گلدان سے سچ مچ ایک رشتہ رہا ہے میرا  — ایک ایسا رشتہ شاید جسے میں جان رہا تھا  — لیکن میں نے جان بوجھ کر اپنے آپ سے چھپانے کی کوشش کی تھی۔

مجھے احساس تھا۔ کمرے سے ابا کی خاموش آنکھیں مجھے دیکھ رہی تھیں۔ اور شاید ان کے پیچھے اماں بھی ہوں گی۔ بے نور آنکھوں والی اماں  …  شاید یہ میرے لیے تبصرے یا مکالمے  کا وقت تھا  — تو کیا آج جو کچھ بھی ہوا وہ اس شاہی گلدستے سے جڑی تاریخ کی نئی تشریح و توضیح تھی … ؟ میں جس طرح فرحین پر چلایا تھا، یا جس طرح ایک کمزور لمحے حیوانیت یا درندگی مجھ پر سوار ہوئی، وہ شاید اس سے پہلے مجھ پر کبھی نہیں حاوی ہوئی تھی … ؟ کیا میرے اندر کے لہو میں سوئے ہوئے حکمراں یا تانا شاہ نے کوئی کروٹ لی تھی۔ یا پھر یہ ایک عام سی بات تھی  — ایک ایسی کہانی جو گھر گھر میں روز دہرائی جاتی ہے۔ لیکن شاید میرے اب تک کے ’بی ہیویر‘ کے خلاف  — اور مجھے فرحین کو اس بات کا احساس کرانا تھا کہ بونسائی لیموں والے واقعہ کے ساتھ میں نے جو کچھ بھی کہا‘ وہ صرف ایک چھوٹا سا مذاق تھا۔ اور شاید اسے مذاق ثابت کرنے کے لیے دو تین بار، ایک بار تو، ایک بیحد رومانی لمحہ فرحین کو بازوؤں میں بھرتے ہوئے، بوسہ لیتے ہوئے، میں نے اس سے کہا  — تو تم مجھ سے طلاق کیوں نہیں لے لیتی۔ اور اتنا کہہ کر میں زور زور سے ہنسا تھا  — دیکھا، کیسے ڈر گئی۔ ارے …  ایسے طلاق تھوڑے ہی ہوتی ہے۔ جسٹ کڈنگ، لیکن تمہارا چہرہ اتنا پھیکا کیوں پڑ جاتا ہے …‘

مگر شاید مجھے یہ علم نہیں تھا کہ کبھی کبھی تاریخ اپنی ہی تشریح و توضیح میں اس قدر سخت ہو جاتی ہے کہ دو زندگیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں۔

 ۔۔ میں دہلی کی جس کمپنی میں، ’ون آفد ڈایرکٹرس‘ میں تھا، اس کا نام میکلارڈ کمپنی ہے۔ میکلارڈ نے صابن، تیل سے لے کر باسمتی چاول تک کے پراڈکٹ مارکیٹ میں اتارے تھے۔ اور کچھ ہی برسوں میں میکلارڈ گروپ ہر گھر کی پہلی پسند کے طور پر جانا جانے لگا تھا۔ میرے ذمے ان دنوں فارین ڈیلی گیٹس کو انٹرٹین کرنے سے لے کر نئے پروڈکٹ پر ایڈ فلم بنانے تک کی    ذمے داری شامل تھی۔ ایسی ہی ایک ایڈ فلم کے لیے میں نے بالی وڈ کے ایک بڑے اور قیمتی ڈائرکٹر کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ڈائرکٹر نے بجٹ اور تھوڑی بہت صلاح کے بعد ایڈ کے لیے کریکٹ کی دنیا کے ایک کھلاڑی کی خدمات لی تھیں۔ اس کھلاڑی کا اب تک کوئی ایڈ کسی چینل پر نہیں آیا تھا۔ اور شاید یہیں سے میری بدقسمتی یا ستاروں کی گردش کی کہانی بھی شروع ہوئی تھی۔ ایڈ فائنل ہوا۔ بجٹ فائنانس سے ہو کر میرے پاس آیا اور میرے سائن کے بعد ڈائرکٹر نے دس سے چالیس سکنڈ تک کی تین تین فلمیں تیار کر لیں۔ فلمیں اچھی بنی تھیں۔ لیکن بدقسمتی کی کہانی کی شروعات بھی یہیں سے ہوئی۔ بورڈ آف ڈائرکٹرس کے پینل کو کھلاڑی پر ایک سنجیدہ اعتراض تھا کیونکہ کھلاڑی کے ڈرگس لینے اور بیوی کو مارنے کی کہانی کچھ ہی دنوں پہلے نیوز چینلوں پر ہائی لائٹ ہوئی تھی۔ بورڈ آف ڈائرکٹرس کا خیال تھا کہ ایڈ آتے ہی ہندستانی خاندان اس اشتہار کی مخالفت کرے گا  نتیجہ پروڈکٹ فلاپ کیونکہ ہمارا پروڈکٹ، گھر گھر کا پراڈکٹ کہلاتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا طویل ہوا کہ سارے بورڈ ڈائرکٹرس میری مخالفت میں کھڑے ہو گئے۔ دوسری جانب اکیلا میں تھا۔ اور یہی وہ دن تھے ‘ جب فرحین کی ناراضگی کی کہانی بھی شروع ہوئی تھی۔ برآمدے میں بونسائی لیموں کے پودے پر تو شباب آ گیا تھا، مگر ہماری گرہستی کو جیسے نظر لگ گئی تھی۔ میری خواہش ہوتی تھی کہ رات کو واپس آؤں تو فرحین سے باتیں کروں مگر فرحین کی ناراضگی کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ گھر آ کر جیسے میرا بلڈ پریشر ایک دم سے بڑھ جاتا۔ میں آفس سے گھر لوٹتے ہوئے سکون اور شانتی کی امید لے کر آتا تھا، لیکن فرحین کی موجودگی اب مجھے چڑپڑا کرنے لگی تھی۔ جیسے اس کی حرکت پر گھر آنے کے بعد میرے اندر بیٹھا جانور خاموشی سے مجھے بتاتا رہتا کہ ان سب کی ذمے دار کوئی اور نہیں فرحین ہے اور جیسے اس وقت میرا دماغ آگ کے شعلوں کی طرح جلنے لگتا۔ میں امید کر رہا تھا کہ ان حالات میں مجھے بیوی کی مدد ملے گی، حوصلہ ملے گا مگر مدد اور حوصلہ دور ہمارے چھوٹے سے مذاق کو جیسے فرحین نے اپنی نہ ختم ہونے والی ناراضگی سے جوڑ لیا تھا۔ میرے ساتھ مشکل یہ تھی کہ آفس میں چلنے والی سازش یا مخالفت پر گھر میں کسی سے بات بھی نہیں کر سکتا تھا۔

اور اس رات …  شاید اندر دبا لاوا آتش فشاں بن گیا تھا۔ ایک بار پھر ایڈ فلم کو لے کر بورڈ آف ڈائرکٹرس کی میٹنگ ہوئی۔ شاید زندگی میں، میں اتنا ہیوملیٹ، کبھی نہیں ہوا تھا …  میں گھر آیا تو میرا دماغ سوچنے سمجھنے سے انکار کر چکا تھا۔ ایک فائل کی تلاش میں فرحین سے میری جھڑپ ہو گئی۔ مجھے نہیں پتہ میں غصے میں کیا کیا بولتا رہا۔ میری آنکھیں لال تھیں۔ لوٹتے ہوئے میں نے شراب کے دو پیگ بھی لیے تھے۔ کچھ اس کا بھی اثر تھا۔ میں زور زور سے چلّا رہا تھا۔

 ’’کیوں میری جان کی دشمن بنی ہو تم۔ مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتی۔ آئی ہیٹ یو۔ میری زندگی کو دوزخ بنا کر رکھ چھوڑا ہے تم نے۔ اور میں پورے ہوش و حواس میں تمہیں …  طلاق دیتا ہوں …  طلاق …  طلاق  …  طلاق۔ ‘‘

جیسے ہوا رک گئی۔

وقت رک گیا۔

بالکل فلمی منظر …  فرحین کا چہرہ سفید پڑ گیا  — آنسو پلکوں سے زار و قطار گر رہے تھے   — اچانک آواز آئی۔

 ’’قریشہ، دلہن کو اپنے ساتھ کمرے میں لے جاؤ۔ ‘‘ میں مڑا۔ دروازے پر ابّا غصے سے آگ بگولہ کھڑے تھے۔ اماں کا چہرہ فق تھا۔

 ’’اگر مولویوں کے حساب سے یہ طلاق جائز ہے تو دلہن اسی لمحے سے تم پر حرام ہوئی۔ ‘‘ رات کافی ہو گئی ہے۔ اب صبح مسجد میں جا کر اس پر فتویٰ لینا پڑے گا۔

ابّا کا چہرہ سخت تھا۔ مذہب سے کوئی سمجھوتہ نہیں۔

جب تک مجھے کچھ سمجھ میں آتا، اماں فرحین کا ہاتھ تھامے اپنے کمرے میں جا چکی تھیں   — اور اماں کے کمرے سے فواد کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔

تنہا کمرہ جیسے کچھ دیر پہلے آئے ’زلزلے ‘ کا گواہ بن گیا تھا۔ غصے کے عالم میں دیئے گئے طلاق کے دو دو گواہ اماں اور ابّا کی شکل میں موجود تھے۔ اور میں جانتا تھا، ابّا چاہے تیموریہ سلطنت کے زوال کی علامت یا نشانی کے طور پر ہوں لیکن مذہب کے معاملے میں میں وہ کسی کٹّر سلطان سے کم نہیں۔ کمرے میں سگریٹ کا دھواں پھیل رہا تھا۔ خالی بستر مجھے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ آج ساری رات مجھے اسی خالی بستر پر گزارنی تھی۔ اور اس کے بعد جو ہنگامے شروع ہونے والے تھے، میں نے اس کا اندازہ لگانا شروع کر دیا تھا۔ آفس کی پریشانیاں ہی کم نہیں تھیں، اور اب میں اپنی ہی نادانی سے ایک اور پریشانی کو جنم دے چکا تھا۔

صبح ہو گئی۔

ابا مذہبی معاملوں میں اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے تھے۔ فرحین کا سامان میرے کمرے سے اماں کے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا۔ میں نے بیماری کا بہانا بنا کر آفس سے چھٹّی کر لی تھی۔ آنکھیں فرحین کو ڈھونڈ رہی تھی۔ وہ معصوم سی شرمیلی لڑکی، چھپ چھپ کر اسے دیکھنے والی۔ میری آہٹ پاکر آنچل کا کونا دانتوں سے دبا لینے والی …  ایک بار پھر تاریخ زندہ تھی اور وقت کے ساتھ اپنی بوسیدگی اور افسردگی کی تشریح و توضیح کر رہی تھی۔

دس بجے ابّا مسجد گئے۔ اور آدھے گھنٹے میں ہی مسجد کے ’مولی صاحب‘ اور دو اماموں کو لے کر آ گئے۔ مجھے بلایا گیا۔ ڈرائنگ روم میں ابا سمیت ان تین اماموں کی موجودگی کے باوجود خطرناک حد تک سناٹا پسرا تھا  — جیسے یہ امام یا مولوی کسی گھریلو جھگڑے کو سلجھانے نہیں بلکہ کسی کی میت میں آئے ہوں

 ’…  آپ نے بہت اچھا کیا، جو ہمیں خبر کی۔ خوشی ہے، اسلام زندہ ہے، اسلام در اصل ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر نظر رکھتا ہے۔ ‘

ابا الجھن میں تھے   — ’لیکن کیا کیا جائے ؟ فتویٰ کیا کہتا ہے، شریعت کیا کہتی ہے ؟‘

چشمہ لگائے سفید داڑھی والے امام فرقان کو میں پہچانتا تھا۔ ورنہ بڑے شہروں میں جان پہچان کے موقع ہی کیا ملتے ہیں۔ اتفاق سے پڑوس میں مسجد نہ ہوتی اور مسجد کو ابّا نے آباد نہ کیا ہوتا، تو ممکن تھا، یہ معاملہ اتنا آگے بڑھتا بھی نہیں۔ لیکن اب یہ معاملہ گھریلو نہیں تھا۔ مذہب کا معاملہ تھا، اور گواہی میں ابّا اور امی بھی شامل تھے۔

 ’لڑائیاں پہلے بھی ہوئیں ؟‘

 ’ہاں۔ ‘

 ’لیکن اس بار تین طلاق …  بڑی بھی اس واقعہ کی گواہ ہیں ؟‘

 ’ہاں۔ ‘ ابا کا لہجہ سہما ہوا تھا۔

 ’یہاں تو یہ معاملہ مسلک سے بھی جڑا ہے۔ آپ کو تو پتہ ہے بریلویوں کے گاؤں میں، دار العلوم کے مولوی نے نماز جنازہ پڑھا دی تو کیا فتویٰ آیا —؟

مولوی صاحب کو یہ بات بری لگی تھی  — ’ہاں یاد ہے، ایک بریلوی مولانا کا فتویٰ آیا کہ جو لوگ نماز جنازہ میں شامل تھے ‘ ان کی بیویوں کا نکاح حرام ہے۔ پتہ ہے  ایسے فتوے دین کا رتبہ گراتے ہیں۔ مذہب کو بدنام کرتے ہیں ‘‘

دوسرے امام بولے   — وہ غصے میں تھے۔ ’ایسا آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ بات مسلک کی ہے تو بریلوی مولانا نے کوئی غلط فتویٰ نہیں دیا۔ ‘

کمرے میں شاہی گلدان اپنے نکمے پن کی کہانی سناتا ہوا خاموش تھا  — میری نگاہ اس طرف گئی پھر جھک گئی۔ تینوں مولانا فتوے کو لے کر الجھ گئے تھے۔ ابا نے بیچ بچاؤ کیا۔

 ’ارے بھائی …  ہم نے بیٹے کو بلایا ہے۔ اس نے غصے میں طلاق دی۔ اب کرنا کیا ہے ؟‘

 ’آپ کا مسلک‘ …  امام صاحب مسکرائے۔

 ’مسلک نہیں جانتا۔ نماز پڑھتا ہوں۔ سب کا احترام کرتا ہوں۔ ‘

 ’لو، مسلک نہیں تو پھر کس کا فتویٰ مانیں گے۔ بریلویوں کا یا دیوبندیوں کا؟‘

 ’اسلام کا — ‘  ابا ناراض تھے   — ’قرآن پاک کیا کہتا ہے، حدیث کیا کہتی ہے۔ غصے میں طلاق ہوئی یا نہیں ؟‘

 ’طلاق کی پہلی ادائیگی غصے کی ہوتی ہے۔ باقی دو ادائیگی کے درمیان آپ کے سوچنے کی پوری گنجائش رہتی ہے ‘ اسی لیے منہ سے تین بار طلاق، طلاق، طلاق نکالنے کا چلن ہے …‘

 ’کیوں میاں، اس سے پہلے بھی کبھی بیوی کو غصے میں طلاق دینے کی نوبت آئی؟ میرا مطلب ہے منہ سے تین بار بولنے کی نوبت‘ …  اب تیر میری طرف تھے۔

دوسرے امام صاحب نے بھی دریافت کیا …  ’کبھی اس سے پہلے غصے میں طلاق … ؟‘

میں نے بات درمیان میں کاٹی  — ’غصے میں نہیں مذاق میں۔ ‘

 ’مذاق —؟‘ آنکھیں بند کیے مولانا ابرار جھٹکے میں اٹھ کر بیٹھ گئے   — ’یعنی طلاق مذاق میں بھی دیا جاتا ہے  —؟ امام صاحب ابا کی طرف مخاطب ہوئے …  ’نوجوانوں نے مذہب کو بھی مذاق بنا رکھا ہے۔ ‘

 ’یعنی مذاق میں کتنی بار …‘ امام صاحب جیسے پیچھے پڑ گئے تھے۔

 ’شاید دو بار …‘

 ’یعنی کل رات ملا کر تین بار  …‘

اس بار سفید داڑھی والے امام نے ابّا کی طرف دیکھا۔ بھائی میں تو یہی جانتا ہوں کہ ایک ساتھ تین طلاق کہنے سے بھی طلاق ہو جاتی ہے۔

 ’اور انہوں نے تو تین بار …‘

 ’لیکن دو بار مذاق میں  — ‘ مولی صاحب ٹھہرے   — ’کوئی شخص تین بار طلاق دے تو بیوی سے اس کا تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ اب اس سے نکاح کی صورت صرف یہ ہے کہ کسی دوسرے شخص سے اس عورت کے نکاح کے بعد پھر طلاق ہو جائے اور دونوں نکاح کے لیے تیار ہوں …‘

سامنے کا رنس پر دیکھا شاہی گلدان جیسے مسکرا رہا تھا۔ میرے کان کے پردے پھٹ رہے تھے   — مولانا، امام صاحب اور ابا کی گفتگوئیں کہاں کس مقام تک پہنچیں ‘ میں نہیں جانتا  — لیکن شاید اب میں آگے کچھ بھی نہیں سن رہا تھا …  دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ صرف آدھے ادھورے سے کچھ لفظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ عدّت، دوسرا نکاح  — پھر طلاق۔ قرآن شریف اور حدیث کے کو ٹیشنس …  شاید ابا بتا رہے تھے کہ وہ کسی مسلک کو تو نہیں ‘ لیکن دیو بندیوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔

اور بڑے امام نے اٹھتے ہوئے کہا تھا  — پھر دیو بند سے فتویٰ لیا جائے گا۔ آپ گھبرائیں نہیں، لیکن دلہن پر اب عدت لازم ہے۔ کیونکہ یہ شرعی معاملہ ہے …

سب چلے گئے۔

ڈرائنگ روم میں اب کوئی نہیں۔ میں اکیلا ہوں۔ شاید ہمیشہ سے اکیلا رہا ہوں۔ میری نسیں پھٹ رہی ہیں۔ اپنی زندگی جینے کے لیے بھی مجھے مذہب کے فتوی کی ضرورت پڑ گئی ہے   — کہاں ہوں میں۔ کہاں کھڑا  — میری اپنی آزادی کہاں ہے ؟ انسانی زندگی کو مذہب کے فتووں سے آزاد کیوں نہیں کیا جاتا …

میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ لگا، اپنے پشتینی مکان میں ہوں۔ گھومتی چمگادڑیں   — دیوار پر دوڑتی چھپکلیاں، ٹوٹتی محرابیں، بے رنگ و روغن دیواریں …  میں ایک بار پھر ماضی کی گپھاؤں میں تھا …  گپھا میں پھیلے ہوئے خوفناک سانپ …  تاریخ چہرہ کہاں بدلتی ہے۔ لوٹ گھوم کر وہیں آ جاتی ہے۔ شاید، ہاں …  تشریح و تعریف بدلتی رہتی ہیں۔ کسی فیصلے میں پہنچنے تک میں نے ڈرائنگ روم میں رکھے شاہی گلدان کو اس بار نظر اٹھا کر دیکھا اور ڈرائنگ روم سے باہر نکل گیا۔

اور آخر میں فیصلہ

Give me a theme

The little poet cried

And I will do my part

‘T is not a theme, u need

The world replied

you need a heart.

مجھے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے   — شاید اسی لئے تاریخ مجھے بد ہیئت اور بد صورت لگتی ہے   — شاید اسی لیے میں نے خود کو حال کی سرنگوں کو سونپ دیا ہے۔ اپنی تمام تر آزادی کے احساس کے ساتھ  — میں کچھ بھی پسند کروں   — ایک بنجر زمین  — خزاں کا موسم، میری گمنامی میری اپنی ہو  — میرا لہجہ، میری فکر اور میرے فیصلوں پر میری اپنی مہر ہو  — میں کچھ بھی پسند کروں   — بچوں کو  — پھولوں کو یا عورت  — جنگلی اور قبائلی تہذیب سے الگ  — سفید سیاہ اور نفرت کے بادلوں سے الگ  — میرا راستہ‘ میرا اپنا راستہ ہو —

لیکن  — زندگی کے ایسے ہر گوشہ، ہر راستے میں مذہب کیوں آ جاتا ہے ؟ اس لیے مجھے دنیا کا یہ جواب منظور ہے   — کہ تمہیں ایک دل کی ضرورت ہے   — ایک دھڑکتے انسانی دل کی  — اور اس دل پر کوئی روک کوئی بندش نہیں ہے  —

اور اسی لیے اب ضرورت تھی کہ جو فیصلہ میں نے تمام تر غور و فکر کے بعد کر لیا ہے، اسے گھر کے لوگوں کے سامنے بھی رکھا جائے۔ مجھے علم تھا کہ مذہب کی نہ نظر آنے والی شاخیں میرے گھر میں دراڑ ڈال سکتی ہیں۔ مگر میں نے سب کچھ سوچ لیا تھا۔ شام تک کتنی ہی بار میں فرحین کا چہرہ دیکھنے کے لیے ترس گیا۔ ابّا مغرب کی نماز کے بعد لوٹے تو میں امّاں کے کمرے سے فرحین کا ہاتھ تھامے ڈرائنگ روم میں لے آیا  — فواد، فرحین کی گود میں تھا  — فرحین کا چہرہ ایک ہی دن میں کسی بے جان بت میں تبدیل ہو گیا تھا۔

میں نے نگاہیں اٹھائیں۔ ابا کی طرف دیکھا  — قدرے ٹھہر کر اماں کی طرف۔ پھر آگے بڑھا  — شاہی گلدان کو ہاتھوں میں اٹھایا اور اسے زمین پر زور سے دے مارا۔

 ’سنیے ابّا۔ اب ہم سلطان نہیں ہیں۔ عام آدمی ہیں۔ سلطان ہونے کی نشانی ٹوٹ چکی ہے  — ‘ میں ذرا زور سے بولا  — اور یہ عام ادمی کا فتویٰ ہے …‘ میں نے فرحین کا ہاتھ تھام لیا  — مجھے فرحین کے ساتھ رہنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ آپ کا فتویٰ بھی نہیں۔ ‘

میری آواز بلند تھی  — ’آپ کا مذہب بھی نہیں  — ‘

میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ ابّا شاہی نشانی کے ٹوٹنے سے زیادہ زخمی ہوئے تھے یا مذہب کی پیروی نہ کیے جانے سے۔ لیکن ابھی ایک ردّ عمل باقی تھا  — بیڈ روم میں داخل ہونے کے بعد، میرا ہاتھ چھڑا کر فرحین نے تلخ لہجے میں دریافت کیا تھا  — ’شاہی گلدان توڑنے کی کیا ضرورت تھی —؟‘

لیکن اس کے بعد کے لفظ کسی دھماکے سے کم نہیں تھے   — ’فیصلہ تم نے اکیلے کیسے کر لیا۔ مجھ سے نہیں پوچھا  — کہ میں شریعت کو مانتی ہوں یا نہیں ؟‘

میں ایک بار پھر سنّاٹے میں تھا۔ یا ایک بار پھر شاہی گلدان کے ٹوٹنے کے باوجود میرے اندر کوئی سویا ہوا شہنشاہ بیدار ہو گیا تھا۔

مجھے احساس ہوا، بونسائی نیبو کے پیڑ کا قد ذرا سا اور بڑھ گیا ہو —



 

امام بخاری کی نیپکن

 ’’ادب کے لئے مذہب ایک ’اسنابری‘ ہو جاتا ہے

جنگ کے نتائج کے نتائج کے طور پر، مذہب میں نئے نئے راستوں کے منہ کھل گئے /

اور شاعر، خدا کو فیشنیبل رومالوں کی طرح استعمال کرنے لگے /

اس کے باوجود۔ بہت ہی معمولی رومال …‘‘

 … کافکا سے ایک مکالمہ

نیپکن ہے ؟

ارے نہیں۔ نیپکن کا کیا کرنا ہے ؟ نیپکن کو بھول گئے تھے، صلاح الدین قریشی۔ ابھی دن ہی کتنے گزرے ہیں۔ خدا قسم۔ کیا وہ جانتے تھے کہ نیپکن کیا بلا ہے۔ پہلی بار اپنے شہر کے ایم۔ ایل۔ اے کے ساتھ لنچ کرتے ہوئے وہ زور سے چونکے گئے۔

 ’کیا___ کھانے کے بعد نمکین۔ میٹھا تو سنا ہے سر …‘

 ’ارے ہم ہاتھ پوچھنے کو بول رہے ہیں۔ آپ بُڑبکے رہ گئے صلاح الدین قریشی۔ ‘

لیکن ٹھیک یہی ’لطیفہ‘ اِس واقعہ کے دوسرے ہی دن انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ بھی دُہرایا تھا۔ نیپکن کے نام پر ’تیسرے نمبر کی بیوی قریشہ بھی چونکی تھی۔ ‘ پگلا گئے ہیں کیا آپ۔ ارے کھانے کے بعد لوگ تو میٹھا مانگتے ہیں۔ ‘ زور زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے صلاح الدین قریشی نے رنگین، کچھ ’لنگی‘ اسٹائل کا نیپکن ہاتھ میں اُٹھاتے اور ہاتھ پوچھتے ہوئے ایم۔ ایل۔ اے صاحب والا جملہ دہرایا تھا۔ ’بڑبک، کوئی کیا کہے گا۔ نیپکن بھی نہیں جانتی کیا۔ ارے اِیہے ہے …

 ’تو کیا۔ ہاتھ نہیں دھوئیں گے ؟‘

 ’پونچھ لیا۔ ‘ صلاح الدین قریشی فخر سے مسکرائے تھے۔ سب بڑے لوگ یہی کرتے ہیں۔ وہاں کا پانی سے ہاتھ دھونے کی فرصت ہوتی ہے۔ کھایا پیا___پونچھ لیا۔ ایسے۔

بیوی کی آنکھوں میں حیرانی کی کیسی چمک تھی، صلاح الدین قریشی کے لئے ٹھہر کر اِسے دیکھنا اہم نہیں تھا۔ اہم تھا تو صرف یہ سوچنا کہ اب وہ بھی بڑے آدمیوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایک بڑے آدمی یا ایک بڑا مسلمان …

دلچسپ یہ تھا کہ اِس چھوٹے سے نیپکن کے ٹکڑے میں برسوں کی تاریخ سما گئی تھی۔

دلّی کی جامع مسجد۔ مغلوں کی حکومت …  تہذیب کے سنہرے برس یا ماضی کے جھروکوں میں بند تہذیب کی نشانیاں، اردو اخباروں سے اُچھل اُچھل کر دل و دماغ میں جگہ بناتے امام بخاری اور اُن کے خاندان کی تاج پوشی کی خوبصورت کہانیاں ___ دیکھا جائے تو سب کچھ یکایک ہوا تھا۔ دلّی، جامع مسجد، بخاری اور نیپکن___ یکایک ہی، اگر اِسے صرف محاورہ نہیں مانا جائے تو پیالے میں ’طوفان‘ جمع ہو گیا تھا۔

تین بیویوں والے صلاح الدین قریشی کو جیسے من مانگی مرادیں مل گئی تھیں۔

سیاست کا نشہ یکایک نہیں چڑھتا۔ آہستہ آہستہ چڑھتا ہے اور جب چڑھتا ہے تو آنکھوں پر کالی پٹّی باندھ دیتا ہے۔ دور کیوں جائیں، بچپن میں صلاح الدین قریشی نے ابا کے ساتھ فتوحہ کی سڑکوں پر وہ منظر دیکھا تھا۔ جادوگر کھرانا آنکھوں پر پٹّی باندھے موٹر سائیکل دوڑا رہا تھا___ فتوحہ، مین روڈ کے دونوں طرف، آنکھوں میں چمک لئے کھڑے لوگوں کے درمیان یہ دانتوں سے انگلی کاٹنے والا منظر تھا___

 ’سب نظربندی کا کمال۔ ‘

ابا کہتے تھے ___ ہنستے تھے ___ ’وہ اپنی نہیں، تمہاری آنکھوں پر پٹّی باندھ دیتا ہے۔ ہوsہوs

 ’لیکن …‘

 ’آنکھ بند کر چل سکتے ہو کیا؟ ہوsہوs پھر ابا دنیا بھر کے جادوگروں کے قصّے لے کر بیٹھ جاتے۔ ایسی ایسی کہانیاں، ایسے ایسے کرشمے، کہ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے، ابا کو نہار رہا ہوتا۔ تب پہلی بار مذہب کے کرشمے  کے بارے میں بھی، اُس کے دل میں ایک چھوٹا سا وہم پیدا ہوا تھا۔ بڑے بھائی، سلیمان قریشی جو اُس سے کم سے کم 9-10 سال بڑے تھے، سمجھایا تھا۔

 ’جادوگروں اور پیغمبروں میں فرق ہوتا ہے۔ مذہب ایک اندھے عقیدے کا نام ہے۔ راستہ ذرا سا بھی مڑا تو دوزخ کا دروازہ حاضر …‘

تب یہی کوئی پندرہ سال کی عمر رہی ہو گی۔ بڑے ہوتے صلاح الدین قریشی کے دماغ میں کھُرانا جادوگر، موٹر سائیکل اور پٹّی بندھی آنکھوں کی جو تصویر کل سمائی، اُس نے پھر حافظے سے نکلنے کا نام نہیں لیا۔ ہاں، بڑے ہونے تک وہ اس نتیجے پر ضرور پہنچ چکا تھا کہ سیاست کی جادوگری، جادوگر کے کرشمے سے بھی کہیں زیادہ بڑی اور بھیانک ہے اور یہاں جو کرشمہ ہو سکتا ہے، وہ بڑا سے بڑا جادوگر بھی نہیں دکھا سکتا۔ یہی وہ وقت تھا، جب مذہب ناگ پھنی کے پودے کی طرح صرف چھونے کے احساس سے بھی چبھنے لگا تھا۔ کبھی ڈھیروں سوال کھڑے کرتا۔ اُڑن کھٹولے سی فنتاسی، کہانیاں، جادوگر کے ڈبّے سے نکلنے والے چوزے کی طرح اُسے گھیر کر بیٹھ جاتے۔ الگ الگ کمروں میں عقیدت و احترام سے نماز ادا کرتے بھائی بہنوں کا چہرہ نظر آتا تو کھڑکی سے باہر جھانکتی آنکھوں میں ایک لمحہ کو شرمندگی کا احساس پیدا ہو جاتا۔

امّی کہتی___ ’نماز پڑھا کر بیٹے۔ طبیعت کو سرشاری ملتی ہے۔ ‘

ہاتھوں میں تسبیح لئے ابا اُس کے پاس آ کر رُک جاتے۔ ’اب بڑے ہو گئے ہو۔ جتنا کہنا تھا۔ کہہ لیا لیکن___ نماز پڑھو گے تو روح کو ٹھنڈک ملے گی۔ ویسے بھی ماحول اچھا نہیں ہے …‘

 ’ماحول … ؟‘

ابا کے ساتھ ٹہلتے ہوئے صلاح الدین کی آنکھوں میں کتنے جلتے دیئے ایک ساتھ لرز کر رہ جاتے۔

ابا آہستہ آہستہ لفظ چبا رہے ہوتے ___ ’میاں آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہو رہا ہے ہمارا۔ پہلے لباس گیا۔ پھر نشانیاں ___ تہذیب کی اپنی نشانیاں ہوتی ہیں۔ کل جن پر ہم فخر کیا کرتے تھے۔ صدیوں کی بادشاہت۔ تاریخی مقامات۔ وقت میں بھی دیمک لگتی ہے صاحبزادے …  ہے …  ہے …  تہذیبوں کے چراغ گُل ہو گئے۔ پچھلی بار دلّی گیا تو آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

 ’کیوں بھلا؟‘

جامع مسجد کا کیا حشر کر دیا ہے جاہلوں نے۔ اردو بازار ایک گندہ مچھلی بازار بن کر رہ گیا ہے۔ یہ محض عمارتیں نہیں ہیں صاحبزادے۔ تہذیبی وراثت ہیں۔ نشانیاں ہیں۔ انہیں کھو کر ہم کہیں نہیں ہیں۔ ایک راز کی بات سنو …‘ ابا کی سرمہ لگی آنکھوں میں فانوس روشن تھے ___ ’سیاست میں اب اِسی دروازے سے آنا ہو گا۔ ‘

 ’یعنی جو راستہ اردو بازار سے ہو کر جاتا ہے … ؟‘

ابا چپ تھے۔

 ’اردو بازار سے جامع مسجد اور لال قلعہ تک۔ لال قلعہ سے …‘

ابا ایک بار پھر خاموش تھے۔

 ’سیاست نہیں ابا۔ یہ راستہ مسلمانوں کی سیاست سے ہو کر جاتا ہے ___‘ صلاح الدین کے دل میں آیا کہ پوچھیں، کہ کیا سیاست میں آنے کے لئے اس راستے کی پونچھ پکڑنا ضروری ہے ابا___؟‘

لیکن تب تک جامع مسجد سے بلند ہونے والے سیاسی خطبوں نے جتا دیا تھا کہ ابا نے کتنا پہلے مسلمانوں کی سیاست کے دروازے کو دیکھ، جانچ اور پرکھ لیا تھا۔ پہلی بیوی کی اچانک موت دوسری سے دل نہ ملنے اور طلاق دینے کے بعد تیسری قریشہ سے ’ٹانکا‘ جڑنے تک     صلاح الدین سیاست میں آنے کا من بنا چکے تھے۔ وہ بھی مسلمانوں کی سیاست میں ___ لیکن وہ یہ بھی جان رہے تھے کہ معاملہ جتنا سیدھا سیدھا نظر آتا ہے، اُتنا ہے نہیں۔ بلکہ کہا جائے تو ٹیڑھی کھیر ہے۔

 ’بانس پر چڑھنے کا تجربہ رکھتے ہیں کیا؟ نہیں نا۔ پھسل جائیے گا …‘

صلاح الدین کے سیاست میں آنے کی خبر ملتے ہی یہ پہلا جھٹکا ملا تھا، ربانی گوشت والے کی دکان سے ___ صبح صبح گوشت لانے والی عادت ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اس سے دو فائدے تھے۔ قاعدے سے دیکھیں تو ذات برادری۔ لیکن وقت کے ساتھ پیشے بدل گئے تھے۔ پہلے یہاں ربانی کا باپ بیٹھتا تھا اور ابا گوشت لانے جاتے تھے ___ لیکن بچپن سے ہی ابا کی انگلیاں تھامے، قصائی ٹولہ کی گلیاں ناپتے صلاح الدین کو بھی اچھا بُرا گوشت سمجھنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ کبھی کبھی کسی دن نہیں آنے پر ربانی مذاق بھی جڑ دیتا___ ’آ جایا کرو صلاح الدین بابو۔ گوشت کی بوٹیاں، کاٹھ کے ٹھیہے پر کاٹتا ہوا وہ دوسرا لقمہ جڑ دیتا___ ایمان بھی تازہ رہتا ہے اور ذات برادری بھی …  وہ کیا کہتے ہیں …  ’انڈر اسٹینڈنگ‘ بھی باقی رہتا ہے …‘

بس اسی بات پر صلاح الدین کے اندر تک آگ لگ جاتی تھی۔ س … سالہ … قریشی ہونے مطلب یہ تو نہیں کہ اُن کا خاندان بھی یہی کاروبار کرتا رہا ہو …  مگر وقت گزرتے ہی سیاست میں آنے کا خیال آتے ہی اُسے سمجھایا گیا تھا …  میاں پہلے اپنا ایک منچ تو بنا لو___ قریش منچ۔ رجسٹریشن کرالو___ مہینے میں ایک بار میٹنگ کر لو۔ اردو اخبار تو کچھ بھی چھاپتے رہتے ہیں۔ لیٹر پیڈ پر رجسٹریشن نمبر ہو گا تو آپ کی ہر خبر شائع ہو گی۔ یہی تو راستہ ہے میاں۔ ’بڑی سیاست‘ میں جو بھی واقعہ پیش آتا ہے، قریش منچ کے پیڈ پر ایک خبر بنا کر بھیج دو۔ ہر پارٹی کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے، جن کے پاس 20-25لوگ ہوں۔ ضرورت پڑے تو قصائی ٹولہ کے چھوکروں کو ٹرک میں بٹھاؤ اور نیتا کے گھر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر آؤ۔ یہی شارٹ کٹ ہے میاں جی___ سب یہی کرتے ہیں …  خبریں چھپنے لگیں گی تو لوگ بھی جاننے لگیں گے۔ نیتا لوگ بھی پوچھیں گے ___ کون ہے یہ صلاح الدین قریشی___ بس بن گئی نا دھاک۔ سینہ چوڑا کرو اور قریشی برادری کا نام اونچا کرو۔

مگر ’بانس پر چڑھنے ‘ کا تجربہ والی بات کہہ کر ربانی گوشت والے نے صلاح الدین کے، سیاست کی طرف بڑھتے پاؤں کو روکنے کی کوشش ضرور کی تھی اور یہاں بھی سیاست سے بھرا ہوا داؤ کھیلا تھا صلاح الدین نے۔ آنکھیں بھر کر دیکھا ربانی کو۔ کپڑے اُدھاڑے بیٹھا تھا۔ چالیس، بیالیس کی عمر۔ آس پاس والے سب ڈرتے تھے  اُس کے نام سے۔ یہ بھی سننے میں آیا تھا۔ کئی قتل کر چکا ہے۔ مگر پولس ہاتھ رکھنے سے ڈرتی ہے۔

آنکھ بھر کر دیکھا صلاح الدین نے۔ پھر ریل کو پٹری پر لانے کی کوشش کی۔

 ’کیوں ___؟ پھر کوئی بانس پر چڑھے ہی نہیں، کیونکہ تجربہ نہیں ہے …‘

 ’یہ تو میں نے نہیں کہا …  گوشت کاٹتے کاٹتے ربانی چونکا۔ ‘

 ’ہم تو منچ بناچکے ہیں ربانی بھائی …‘ یہ صلاح الدین کی طرف سے پھینکا گیا سکسر تھا …

 ’کیا؟‘

دیکھتے نہیں۔ دیش بھر میں مسلمانوں کا، کیا حال ہو رہا ہے۔ توڑنے والے مسجد توڑ کر مندر بنا دیتے ہیں اور جو یہاں کی بھی مسجد توڑی جانے لگی تو … ؟‘

لال آنکھیں لئے لوہے کے ’چاپڑ‘ کو گھڑاک سے کھلّی پر دے مارا ربانی نے …  آنکھیں غصّے میں اُبل رہی تھیں۔ کوئی ایسا کر کے دکھائے تو …  دس …  پندرہ …  ایک سانس میں وزنی گالیوں کا بخار کم پڑا تو صلاح الدین مسکرائے …

 ’اب بتائیے۔ منچ چاہئے کہ نہیں۔ آپ کہتے ہیں۔ بانس پر کون چڑھے گا۔ اِدھر تو ہم بانس پر چڑھنے کا من بنا چکے ہیں۔ آپ چڑھائیں گے بانس پر۔ آپ کے ساتھ ہم چڑھیں گے۔ اب بولئے …

 ’معنے … ؟‘

 ’معنے یہ ربانی بھائی کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے …‘

ربانی نے اپنے لئے بھائی کا لفظ سنا تو اُس کا سینہ چوڑا ہو گیا …

 ’مطلب سمجھائیے۔ ‘

 ’قریش منچ کے آپ سکریٹری ہیں آج سے ___ دفتر ہو گا، ہمارے گھر کے پچھواڑے والا کمرہ۔ ‘

 ’ہم سکریٹری ہیں …‘

گوشت کاٹنا چھوڑ ربانی نے پھٹی آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھا۔ چاپڑا اور کھلی کو کنارے کرتے ہوئے، ٹھیل اُسے گوشت کا پولیتھن تھما کر، ’اُگھاڑی‘ ہوئی شرٹ دو بار ننگے بدن پر ڈال کر ایسے اُٹھا، جیسے کوہ نور ہیرا حاصل ہو گیا ہو …

 ’آپ عظیم ہیں صلاح الدین بابو …‘

 ’نہیں۔ اس میں عظیم ہونے جیسی کوئی بات نہیں۔ منچ بن چکا ہے۔ کل کو ہم پارٹی سے بھی جڑیں گے  یا اپنی پارٹی بنائیں گے۔ مگر طے رہا۔ آپ ہمارا ساتھ دیں گے۔ ‘

 ’یہ بھی بھلا پوچھنے کی بات ہے۔ ‘

صلاح الدین کے تیزی سے بڑھتے قدم کو ایک بار پھر ربانی گوشت والے نے ٹوکا تھا___

 ’سنیئے … ’سنیئے صلاح الدین بابو۔ وہ کیا کہتے ہیں …  لیٹر پیڈ پر ہمارا نام چھپے گا نا …‘

 ’کیا بات کرتے ہیں آپ۔ سکریٹری ہیں۔ آپ کا نام نہیں چھپے گا تو کس کا چھپے گا …‘

ربانی کی آنکھوں میں چمک تھی___ ایسی چمک جو تازہ گوشت میں ہوتی ہے۔

 ۔۔ سیاست کا پہلا قلعہ اس آسانی سے فتح ہو جائے گا، یہ سوچنا بھی صلاح الدین کے لئے مشکل تھا۔ ربانی کو شامل کئے جانے والی بات پر پہلا اختلاف تو گھر سے ہی شروع ہوا۔ قریشہ نے ڈرائنگ روم میں زور زور سے ہونے والی گفتگو سن لی تھی۔ چائے کے بہانے ’ذرا اِدھر تو آئیے ‘  کا فرمان جاری کرنے والی قریشہ کے چہرے پر ناراضگی تھی …

 ’کیا بات کرتے ہیں …  وہ گوشت والا …‘

 ’تم نہیں سمجھو گی قریشہ …‘

 ’اب وہ گوشت والا آپ کی برابری کرے گا۔ یہی سمجھانا چاہتے ہیں نا آپ … ؟‘

 ’نہیں، یہ نہیں سمجھانا چاہتے ہیں …‘

 ’پھر کیا سمجھانا چاہتے ہیں۔ آپ ہی بتائیے …‘

 ’باہو بلیوں کا زمانہ ہے۔ ٹی وی نہیں دیکھتی ہو کیا۔ جیسے اکھاڑے میں پہلوان اُتارے جاتے ہیں، ویسے آج کل پارٹی میں یہ ’باہو بلی‘ اُتارے جاتے ہیں …

قریشہ کے چہرے پر آنے والی چمک نے ظاہر کر دیا تھا کہ وہ میاں کی سیاست کے اِس توڑ کو سمجھ چکی ہے۔ صلاح الدین نے آرام کی سانس لی۔ قریشہ تو مان گئی لیکن شاید ابا حضور کا زمانہ ہوتا تو وہ ہرگز نہیں مانتے۔ لمحہ بھر میں صلاح الدین ایوبی سے لے کر اسلامی تاریخ کے اوراق اُلٹ پلٹ دیئے جاتے۔ جس کا مفہوم ہوتا کہ اسلام ’باہوبلیوں ‘ یا تلوار کے بل پر نہیں، اپنے اعمال سے پھیلا ہے۔ یہ تو یہودیوں کی سازش ہے کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کو بدنام کر دیا جائے۔

اباّ کے انتقال تک گھر کا بٹوارہ ہو چکا تھا۔ سلام بھائی کے گھر کے آگے بندھی ہوئی خصّی، بکریوں کی فوج اُسے ناگوار گزرتی تھی۔ وہ پنج وقتہ نمازی تھے۔ گھر میں بچے بچیوں کی لمبی فوج تھی، جن کی روزانہ کی چیخ پکار بٹوارے والی دیوار سے آتی ہوئی صلاح الدین قریشی کے مزاج کو ناگواری میں بدل دیتی تھی۔ کہاں تو نمازی پرہیزگار___ ہر سال بچو ں کی لائین لگا دی___ ٹھیک ہے، بچے ہو گئے تو اُن کی ڈھنگ سے پرورش تو کیجئے ___ بس، مسلمان صرف آبادی بڑھانے پر دھیان دیتے ہیں۔ اس لئے آر ایس ایس والے اِن سے چڑھتے ہیں۔

پہلے چھوٹا سا کباڑا کا بزنس شروع کیا صلاح الدین قریشی نے۔ بزنس میں فائدہ ہوا۔ چودہ طبق روشن ہو گئے ___  مگر ’صلاح الدین کباڑی والے ‘ کا نام اُن کے ’ایستھیٹک‘ کو بوجھل کر دیتا تھا۔ پیسے کی ریل پیل شروع ہو چکی تھی۔ فتوحہ مین مارکیٹ میں کپڑوں کی دکان کھل گئی۔ قسمت یہاں بھی چمکی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مین مارکیٹ میں کپڑوں کے تین شوروم کھل گئے۔

کہتے ہیں، پیسے آتے ہیں تو آگے کے دس دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ پھر کیا تھا، ایم ایل اے اور ایم پی کے یہاں بھی آنا جانا شروع ہو گیا اور یہ وہی پارٹی تھی، جہاں پہلی بار صلاح الدین قریشی نے ’نیپکن‘ کا استعمال کیا تھا___ نیپکن کو نمکین سمجھنے والی بات پر ٹھہاکہ لگاتے ہوئے ایم ایل صاحب نے ہی سب سے پہلے اُسے سیاست میں آنے کی دعوت دی تھی۔

 ’ہم آپ کا احسان بھولے نہیں ہیں۔ الیکشن میں آپ کے لوگوں نے بڑی مدد کی ہے …‘

 ’سوتو ہے …  اب آپ ہماری مدد کیجئے نا …‘

 ’سب سے پہلے اپنے شہر کے مسلمانوں کو جوڑیئے، میرا مطلب ہے، ایک کیجئے ___ چلئے مانتے ہیں، قریشی برادری پر آپ کا کنٹرول ہے اور باقی برادری پر___؟ ہم تو ایسے ناپتے ہیں صلاح الدین صاحب …‘ ایم پی نے کھانے کے بعد باہر نکلی آرام چیئر پر اپنے پاؤں پسارتے ہوئے کہا___ ’سمجھئے ‘ ہی یاں روپئے میں دس آنا مسلمان ہیں تو آپ کے حصے میں ایک آنا بھی نہیں آیا___ پورے دس آنا کو اپنے قبضے میں کیجئے نا …‘

 ’لیکن یہ کیسے ہو گا …‘

 ’تھوڑا اس شہر سے باہر نکلئے ___ باہر___ ایک پالٹکس جامع مسجد کی بھی ہے ___ ہے کہ نہیں ؟ وہاں بھونپو پر بخاری ایک بات بولتے ہیں۔ ہی یاں آگ لگ جاتی ہے ___ کاہے ؟ کاہے کہ دلّی کی جامع مسجد بولتی ہے …‘

 ’وہ امام ہیں بڑے آدمی ہیں ___‘ صلاح الدین قریشی کہتے کہتے ٹھہرے۔

 ’آپ لوگ اُن کی آواز پر ناچتے ہیں کہ نہیں۔ ‘

 ’سب ناچتے ہیں۔ ‘

 ’کاہے ناچتے ہیں ؟ امام ہیں تو نماز پڑھائیں۔ پولٹکس میں آنے کی کیا ضرورت تھی …  مسکراتے ہوئے ایم ایل اے صاحب نے گولڈ فلیک کا سگریٹ جلالیا۔ مسکرائے ___ ’تو مانتے ہیں نا آپ ___کہ سیاست میں دم ہے۔ سیاست سب کو نچا سکتی ہے۔ آپ بھی ناچئے …‘

 ’ہم کیسے نچائیں ___ اور ایک بات جان لیجئے۔ امام صاحب کی مسلمانوں پر گرفت کمزور ہو گئی ہے۔ جب سے انہوں نے فرقہ پرست پارٹی کا ہاتھ تھاما ہے، مسلمان اُنہیں اپنا نیتا تسلیم نہیں کرتے …‘

 ’یہی تو …  یہی تو آپ غلط سوچتے ہیں صلاح الدین۔ ایم ایل اے صاحب سنجیدہ  تھے ___ ’اس ملک میں مسلمانوں کی آواز آج بھی امام ہیں۔ آپ نہیں ہیں۔ وہ پارٹی بدلیں یا بلڈر بن جائیں ___ سرکار کو مسلمانوں کے کسی بھی مسئلہ پر بات کرنی ہو گی نا، تو وہ آپ کے پاس نہیں آئیں گے۔ امام کے پاس ہی جائیں گے ___ باقی معاملے، مقدمے بازیاں تو چلتی ہی رہتی ہیں سیاسی سنکٹ کو کیسے ٹالنا ہے، یہ آپ نہیں امام جانتے ہیں اور جان لیجئے۔ آج کے زمانے میں بدلو اور دل بدلو کچھ نہیں ہوتا۔ نام بکتا ہے ___ لوگ، پچھلا، ماضی سب کچھ بھول جاتے ہیں ___ آپ پہلے امام صاحب کی پونچھ پکڑیئے ___ تھوڑا لائم لائٹ میں آئیے۔ پھر مرضی آپ کی___ چاہیں تو آپ اُن کی پونچھوا چھوڑ دیجئے۔ جس پارٹی کی چاہیں، پونچھ پکڑ لیجئے اور ہاں سنئے۔ ‘

 ’کیا؟‘

 ’سنا ہے وہ کوئی اپنی مسلم پارٹی بنانے جا رہے ہیں۔ انہیں پورے دیش کے مسلمانوں کا  ساتھ چاہئے ___‘ ایم ایل اے صاحب ہنسے تھے ___ پونچھ پکڑنے کا یہ بالکل صحیح ٹیم ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں۔ یہی ہے …  رائٹ چوائس بے بی … اہا‘۔

 ۔۔ حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری کی نیپکن سے سیدھے سروکار ہونے کا قصّہ بھی یہیں سے جڑا تھا___ اور سچ پوچھئے تو ایک وقت تھا، جب بڑے بخاری کی ایک آواز سے پورے ملک کے ماحول میں گرمی آ جاتی تھی۔ لوگ انتظار کرتے تھے۔ کب جمعہ آتا ہے، کب دلّی کی شاہی مسجد سے مسلمانوں کے لئے نیا فرمان جاری ہوتا ہے۔ صلاح الدین قریشی، شاہی مسجد اور بخاریوں کے ’نشاۃ ثانیہ‘ سے واقف تھے۔ کہاں تو سمرقند و بخارا اور کہاں جامع مسجد سے جڑی ہوئی شاہی وراثت لیکن اس شاہی وراثت میں پہلے بھی کم پیوند نہیں لگے ___ جب ایمرجنسی کے دنوں میں اندرا جی کی بات پر، ’نسبندی پر مسلمانوں کا جھکاؤ‘ جیسے فیصلے پر بڑے بخاری نے آرام سے قرآن اور حدیث کی روشنی میں اپنا فیصلہ جاری کر دیا تھا___ کیا ہندی اور انگریزی اخبار___ اردو اخباروں میں تو بخاری ہی بخاری تھے ___ تب ٹی وی کہاں تھا___ چینل کہاں تھے ___ کالے چشمے اور رعب دار سفید چہرے والی تصویر اپنے آپ میں کافی تھی۔ جس کا خوف آرام سے ہندو محلے میں محسوس کیا جا سکتا تھا___ لیکن یہیں سے بڑے بخاری کے لئے مخالفت کا بازار بھی گرم ہوا تھا۔ سیدھے سادھے کٹر پنتھی مسلمانوں کو نسبندی کرائے جانے کی بات آسانی سے ہضم نہیں ہوئی۔ کچھ نے تو اُسے مغل شاہی مسجد کے حجرے میں، وزیر اعظم کے ذریعہ بھیجے گئے نمائندے سے خفیہ اور منافع بخش سمجھوتے کا نام دیا تھا۔ تب ایک زمانہ تھا، جب بڑے بخاری کے خلاف میں لکھی گئی تحریریں یا اخبار ورسائل جامع مسجد کے گلیاروں میں نذرآتش کر دیئے جاتے تھے لیکن ’اس خفیہ سمجھوتے ‘ سے مخالفت کا بازار بھی کھلا، ساتھ ہی مستقبل میں آنے والی حکومتوں کے لئے بھی___ مسلمانوں کے ہر طرح کے مسائل کو سلجھانے کے لئے، شاہی مسجد کے دروازے کھل گئے۔

کہتے ہیں دلّی بولتی ہے اور سارا ہندستان سنتا ہے ___ شاہی مسجد کے گلیاروں سے نکلتی آوازیں فتوحہ کے گلی کوچوں میں بھی آرام سے پھیل جاتی تھیں ___ تب ابا زندہ تھے ___ اباّ جو کہا کرتے تھے کہ قومیں اپنی نشانیوں سے پہچانی جاتی ہیں …  لیکن اِن نشانیوں کے پالنہار اب سمجھوتہ پرست ہو گئے ہیں۔ موقع پرست___ ایسے موقع پرست، مسلمانو ں کے قائد نہیں ہو سکتے۔ برصغیر کی 800 سالہ مسلم دور حکومت میں بنائی گئی مسجدیں اور یادگار آج زوال کے قریب ہیں تو ان کا ذمے دار کون ہے ___؟ اباّ، مولانا عبدالکلام آزاد جیسے کمزور مسلمان رہنماؤں کی مثال لے کر آ جاتے تھے۔ جن کی کانگریس سے خوشامد اور چاپلوسی کی کہانیوں نے کتاب لکھنے اور رسالہ نکالنے سے الگ، کبھی انہیں ایک بہتر قائد بننے نہیں دیا___

اباّ کہتے تھے ___ آٹھ سو برسوں کی حکومت۔ بھلانے میں وقت لگتا ہے بیٹے۔ وشو ہندو پریشد جیسے نیتاؤں کو یہی تو ہضم نہیں ہوتا۔

لیکن اباّ اپنی داستانوں میں مغلیہ حکومت کے زوال اور انگریزوں کے عروج کا قصّہ مسلم حکمراں کی کمزوریوں اور عیاشیوں سے تعبیر کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ذرا سی کرسی اور پاگل پن کا نشہ تغلق سے بخاریوں تک پھیلا ہوا تھا___ ایک بار تنقید کے دروازے کھلتے ہیں تو تسلیوں کے دس دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ اُنہی دنوں چھوٹے بخاری کے امام سے ’بلڈر‘ بن جانے کا بھی دھماکہ ہوا تھا___ پھر بجرنگ اور شیوسینا کے طرز پر ’آدم سینا‘ بنانے اور آدم سینا‘ میں شامل ناموں کو سرکاری خفیہ فائل تک پہنچانے کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا۔

حقیقت یہ تھی کہ شاہی وراثت کے مینار اور گنبد ذرا سا دھندلے پڑ گئے تھے ___ شاہی مسجد سے آتی صداؤں میں اب پہلے جیسی گرمجوشی اور تمازت نہیں رہ گئی تھی۔ کالے فریم سے جھانکتی آنکھیں اپنا خوف اور رتبہ کھو رہی تھیں ___ ملک میں فرقہ پرستی کے رتھ گھومنے، بابری مسجد کے مسمار ہونے کے بعد سے لے کر مسلم سیاست میں اُٹھا پٹک تو کافی ہوئی لیکن دوسرے مسلم نیتاؤں کے ساتھ بخاری خاندان کا اثر بھی زائل ہوتا رہا___ ایک وقت وہ بھی آیا جب بڑے بخاری  مسلسل اپنی مخالفت سے گھبراکر، اپنا تاج اپنے بیٹے کو سونپ کر، شاہی محل کے گلیاروں میں اوجھل ہو گئے ___ نئے امام بنے بخاری حکمراں، فرقہ پرست پارٹی کا ساتھ دینے کے لئے نہ صرف بدنام ہوئے بلکہ رہی سہی کسر چھوٹے بخاری نے پوری کر دی، جو بہار کے چھوٹے شہروں سے فتوحہ تک حکمراں پارٹی کی حمایت میں لگاتار دورے کر رہے تھے۔

صلاح الدین قریشی ایک بھیانک ’اگنی پریکشا‘ سے گزر رہے تھے۔ سچ اور غلط کی تعریفیں کسی قدیم زمانہ کی یاد دلاتی تھیں۔ کہاں اس گلوبل تہذیبی، گاؤں میں ماضی کے ایسے اوراق یاد رکھے جاتے ہیں ___ یاد رکھا جاتا ہے تو صرف حال۔ ممکن ہے آپ کا مستقبل خوبصورت ہو اور آپ کا حال شاندار مگر آپ کا ماضی تو وہی رہتا ہے۔ آلودہ اور داغدار___

اباّ کی باتیں کہیں دھُند میں اُتر گئی تھیں۔ قریش منچ کی آئندہ میٹنگ میں بخاری کو خط بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جسے تھوڑی بہت تنقید کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔ قریش منچ کے خوبصورت لیٹر پیڈ پر، محلے کے صحافی نبی احمد سے لیٹر ڈرافٹ کرایا گیا اور خط شاہی مسجد کے پتہ پر بھیج دیا گیا اور اتفاق دیکھئے ___ ایک ہی ہفتہ کے اندر جامع مسجد کے خوبصورت لفافے اور پیڈ پر جواب بھی آ گیا تھا۔ فوراً ملنے کو کہا گیا___ بلکہ یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ہو سکے تو بیوی اور بچوں کے ساتھ آئیے ___

قصّہ کوتاہ، لنگی جیسے دکھنے والی نیپکن کی کہانی تھوڑا اور آگے بڑھی۔

 ۔۔ چار خانے کی لنگی، وہ بھی گھٹنے تک موڑ کر باندھنے والے، ربانی گوشت والے سے شروع شروع میں، صلاح الدین کو پریشانیوں کا سامنا تو کرنا پڑا لیکن برادری والوں کو ایک جٹ کرنے میں اُس کا بڑا ہاتھ رہا___ چار خانوں کی لنگی کی جگہ اُس نے کُرتا پائجامہ بھی پہننا شروع کر دیا تھا۔ اردو اخباروں میں قریش منچ کی چھپی خبروں میں اب اُس کا نام بھی آنے لگا تھا۔ یہ سب باتیں ربانی کو اب بڑا آدمی سمجھنے میں مدد دے رہی تھی اور ربانی گوشت والا ان سب کے لئے صلاح الدین کا شکر گزار تھا، جس نے چاپڑ سے بوٹی بوٹی گوشت کاٹنے والے کے اندر ایک مسلم سیاستداں کو ڈھونڈ نکالا تھا …  اور بقول ربانی، ’پالیٹشین‘ ایسے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ کوئی آسمان سے تھوڑے ٹپکتے ہیں …‘

ربانی گوشت والے کی دو ایک باتوں سے صلاح الدین کو شروع شروع میں الجھن کا سامنا تو کرنا پڑا لیکن بعد میں اُس کے بھی نتیجے اچھے نکلے۔ جیسے ایک بار اُس کی غیر موجودگی میں ربانی نے قصاب ٹولہ کے قصابوں کی ایک ایمرجنسی میٹنگ بلالی___ مُدّعا تھا گوشت کی قیمت میں اضافہ اور دوسرا، قصاب کے پیشے کو عزت کی نظروں سے دیکھا جائے ___ اُن دنوں وہ کپڑے کے شوروم کی خریداری کے لئے باہر گیا تھا۔ واپس آنے پر پٹنہ سے شائع اردو اخباروں میں ربانی کی چھپی خبروں پر اُسے تعجب کی بجائے غصّہ آیا لیکن اس کا اظہار کرنے سے  وہ قاصر تھا___ لیکن اسی کا دوسرا پہلو تھا، جو اُسے ایک صحافی دوست نے سمجھایا کہ عوام کے درمیان بڑی بڑی خبروں کی بجائے ایسی خبروں کا اثر زیادہ ہوتا ہے جو چھوٹے طبقے سے جڑی ہوں ___ خاص طور سے جن میں چھوٹے چھوٹے مسائل پر دھیان دیا گیا ہو___ ہاں ایسی خبروں سے قریش منچ کو فائدہ ہوا لیکن زیادہ اُچھل کود مچانے اور نئی تکنالوجی کے غیر ضروری استعمال سے ربانی گوشت والے کو کافی نقصان بھی سہنا پڑا تھا___ ہوا یوں کہ اُس میٹنگ کے بعد، دبئی اور یو اے ای سے آنے والوں کے منہ سے ڈبہ بند گوشت کے بارے میں سنتے سناتے ربانی نے اپنے پیشے کو نئی تکنالوجی کے آئینہ میں اُتارنے کی پہل کر ڈالی۔ ٹین کے ایک سائز کے ڈبے خریدے گئے ___ ’قریش مٹن کارنر‘ کا لیبل چپکایا گیا___ ربانی تو اُس پر قریش منچ کا لیبل چپکانا چاہتا تھا، لیکن منچ سے جڑے لوگو ں کی مخالفت کا ڈر بھی تھا___ فتوحہ میں سائنس پڑھنے والے طلباء سے مشورہ ہوا۔ پلیٹ کے اندرونی حصّے کو سوڈیم اور کیلشیم کے ذریعے جمانے کی کوشش کی گئی۔ شروع میں ایسے 100 ڈبوں کو جانچ کے طور پر تیار کرنے کی ذمے داری تھی مگر بُرا ہو سائنس کا، جس نے کبھی بھی ربانی جیسے لوگوں کا ساتھ نہیں دیا___ ڈبے سے بدبو آنے لگی___  ناکام تجربہ کا وقت وہی تھا، جس کے ٹھیک دوسرے دن صلاح الدین اپنی بیوی قریشہ کے ساتھ امام بخاری سے ملنے کے لئے ٹرین پکڑنے والے تھے۔ ڈبہ بند گوشت کے ناکام تجربہ کے باوجود مطمئن، ربانی اور منچ سے جڑے دوسرے لوگ ٹرین تک دونوں شوہر بیوی کو چھوڑنے آئے۔ سارا معاملہ سیاست سے جڑا ہوا تھا___ جیسے وہاں سے واپس آتے ہی صلاح الدین قریشی، مسلم سیاست میں کسی نئے باب کی شروعات کرنے جا رہے ہوں۔

دلّی پہنچنے، جامع مسجد کے قریب رفیق ہوٹل میں کمرہ لینے، فون پر گفتگو کے بعد دوسرے دن سات بجے ملنے کا وقت اور رات کا کھانا ساتھ میں کھانے کی اجازت مل چکی تھی۔ پتہ نہیں کیوں، اِن سب سے گزرنے کے دوران اُسے وہ منظر بار بار یاد آتا رہا، جو اُس نے فتوحہ کی سڑکوں پر___ آنکھ پر پٹّی باندھے موٹر سائیکل چلاتے جادوگر کو اباّ کی انگلیاں تھامے کبھی دیکھا تھا۔

 ۔۔ اباّ نے کہا تھا، تہذیبیں اور قومیں اپنی نشانیوں سے بھی جانی جاتی ہیں لیکن نشانیاں کہاں ___ دھندلی ہوتی نشانیوں کے ساتھ پرانی دلّی کے بازار آباد تھے ___ اردو بازار، مچھلیوں کی بدبو اور سڑک پر افراتفری کے ماحول کوئی نئے نہیں تھے۔ نئے تھے تو اِس بار دیوار پر لگے ہوئے، امام مخالف پوسٹر، جن کے بارے میں صلاح الدین نے سنا تو تھا، لیکن ایسے ’تاریخی پوسٹروں ‘ کے دیدار پہلی بار ہوئے تھے۔

شام کی بتیاں جل چکی تھیں۔ پرانے بازار کی رونق اپنے عروج پر تھی۔ جامع مسجد کے ٹھیک پیچھے بنا جنت نشاں، مغلیہ سلطنت کے دور کی یاد دلانے کے لئے کافی تھا۔ یہی وہ جگہ تھی، جہاں امام نے اُن کی ملاقات کی جگہ مقرر کی تھی۔ صلاح الدین نے سن رکھا تھا کہ اس جنت نشاں میں کچھ بیش قیمت جنگلی پرندے بھی ہیں۔ جیسے کرشن مرگ، بلیک بک، پاڈا ہرن، ہاگ ڈیر۔ وہی جنگلی جانور  جن کے ’غیر ضروری استعمال‘ پر منیکا گاندھی کا قہر برستا تھا، یا سلمان خاں جیسے ہیرو کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی تھی …  لیکن امام کا معاملہ اور پولیس ایسے ’مذہبی سنتوں ‘ کی مخالفت میں کھڑی نہیں ہو سکتی۔ جامع مسجد کی لمبی، نہ ختم ہونے والی سیڑھیاں بتا رہی تھیں کہ اسی، پہلی سیڑھی سے آخری سیڑھی تک، مسلم سیاست کے تمام داؤ پنچ کھیلے جاتے ہیں …  اِن سیڑھیوں سے گزرنے اور جنت نشان میں پہنچنے تک صلاح الدین کی جگہ قریش منچ کا ڈائریکٹر لے چکا تھا۔ جسے آنے والے مستقبل کی تیاریوں کی اینٹ یہیں سے رکھنی تھی___ پہلی اینٹ۔

جنت نشاں کے باغوں میں قمقمے روشن تھے۔ قریشہ کے لئے سب کچھ نیا تھا اور حیرت میں ڈالنے والے۔ میاں جی کی حیثیت اور بڑھتے رتبے سے ایسا سروکار شاید پہلی بار ہوا تھا۔

پھر جیسے ایک جھماکہ ہوا۔ بخاری آ گئے تھے۔ اُن کے شامل کچھ لوگ تھے، جن سے آہستہ لب ولہجہ میں بات کرتے ہوئے اُنہوں نے پلٹ کر اُن دونوں کی طرف دیکھا تھا۔ پھر امام نے کچھ اشارہ کیا۔ ایک نوکر نفیس ٹرے میں شاہی چائے اور کچھ میووں کی پلیٹ رکھ کر کچھ دور پر کھڑا ہو گیا۔ بخاری نے قریب آ کر سلام کیا۔ ہاتھ ملایا اور خبر پوچھی۔ قریشہ سے پوچھا دلّی پہلی بار آئی ہیں، یا پہلے بھی آئی تھیں، پھر جواب کی پروانہ کرتے ہوئے، سیدھے اپنی گفتگو پر آ گئے۔

 ’آزادی کے بعد مسلمانوں کی حیثیت کو کسی نے بھی نہیں سمجھا۔ ایک نے بھی نہیں ‘ …  وہ تھوڑا رُکے، گلا کھکھار کر پھر بولے۔ ’آپ کیا سمجھے۔ ہم پارٹی بدل رہے تھے۔ مسلمانوں کی آزمائش تھی تو آزمائش ہماری بھی تھی۔ کہاں چلیں، کدھر چلیں۔ کانگریس کو بھی دیکھا۔ پھر سوچا بھاجپا کو بھی دیکھا جائے۔ دیکھنے میں کیا ہرج ہے۔ ‘

چشمہ سے جھانکتی آنکھیں جیسے صلاح الدین کے اندر تک اُتر گئی تھیں۔ آزادی کے بعد مسلمان بہت بری حالت میں رہے، آپ کو تو احساس ہو گا۔ ایک نفسیاتی ڈر کے سائے میں۔ اقلیت۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی اپنی پارٹی ہو، تو آپ زیادہ بھروسہ کر سکتے ہیں …  مسلمانو ں کی پارٹی۔ مجھے ہر شہر میں ایسے لوگ چاہئیں جو ہماری نمائندگی کر سکیں۔ آپ کریں گے … ؟

خوشبوؤں سے معطر فضا نے صلاح الدین کو کہیں اور ہی پہنچا دیا تھا___ کبھی یہاں سے شاہی سواریاں گزرتی ہوں گی۔ ممکن ہے کبھی شاہی دربار بھی رہے ہوں۔ پھولوں کے گلیاروں سے آتی مہکتی خوشبوؤں کے درمیان وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ وہ یہاں کس مقصد سے آیا ہے …

 ’’وہ ہمیں دلتوں سے بدتر بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں۔ سارے سرکاری چہرے ایک جیسے ہیں۔ سب مسلمانوں پر اپنی روٹیاں سیکنا چاہتے ہیں۔ کیوں ؟ کیونکہ آپ سیکنے دیتے ہیں۔ اس لئے، آپ سیکنے مت دیجئے ___ آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ کا کاروبار کر رہے ہیں۔ آپ اپنا کاروبار خود سنبھالئے ___ اپنا مستقبل خود لکھئے ___ ذرا سوچئے، سبھی ممکنات کے باوجود کیا آپ کی اقلیت آبادی کا کوئی شخص وزیر اعظم ہو سکتا ہے ___؟ ہو سکتا ہے ___ آج نہ کل وہ اکثریت میں بھی آ جائے۔ کیوں ؟ کل کس نے دیکھا ہے ___ اسی لئے چھوٹے شہروں  میں چھوٹی سطح پر بھی مجھے آپ جیسے نمائندوں کی ضرورت ہے …‘‘

چشمے کے اندر سے چمکتی بخاری کی آنکھوں نے پانسا پھینکا___ ’سوچئے مت ساتھ دیجئے۔ ساتھ دینے کا وقت ہے۔ تنقید کا وقت نہیں۔ پھر دیر ہو جائے گی …  مسلمانوں کو آپ جیسے سیاسی لیڈروں کی ضرورت ہے ___ محنتی اور جاں باز۔ وہ آہستہ سے بولے ___ اور جن کے پاس پیسہ کی بھی طاقت ہو۔ ‘

ٹھیک یہی وقت تھا، جب خدمت گار نے آ کر بتایا۔ کھانا لگ چکا ہے …

انتہائی لذیذ ترین کھانے کے دوران نیپکن نے اپنا جلوہ دکھایا تھا۔ صلاح الدین چپ تھے ___ چپ سے زیادہ ’حیران‘ اور جذباتی___ جامع مسجد کے گلیاروں میں لگے مخالف پوسٹر اور دنیا بھر کے الزام، الزام سے الگ جو شخص سامنے تھا، وہ ہزاروں طرح کی مخالفت کے باوجود مسلمانوں کی نمائندگی کرتا تھا۔ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندگی۔

سرپر آسمان روشن تھا۔ پھولوں کی کیاریوں میں قمقمے روشن تھے۔ جنت نشاں کے جنتی گلیارے میں آسمان کی ٹھنڈک کے سائے میں ___ تمام سیاسی لفظوں کے ساتھ، بالکل اچانک کھانا ختم کرتے کرتے ایک لفظ چپکے سے داخل ہو گیا …

 ’نیپکن … ؟‘

 ’کیا؟‘

 ’نے …پ … کن …‘

پتھر کی میز پر چنے ہوئے مخملی دسترخوان پر، خوبصورت قابوں، پلیٹوں کے درمیان ایک انتہائی حسین گلاس میں گلدستے کی صورت نیپکن نظر آ رہے تھے۔ صلاح الدین نے مڑ کر دیکھا …  قریشہ نے کھانا ختم کرتے ہوئے ایک نیپکن نکال لیا تھا۔ انتہائی سفید خوبصورت نیپکن …  جیسے کوئی سفید طلسماتی چادر ہو، جس کا ذکر اُس نے ’داستانِ امیر حمزہ‘ جیسی کتابوں میں کبھی پڑھا تھا مگر  صلاح الدین کو اُلجھن قریشہ کے اس طرح چونکنے اور پھسپھسانے کے لہجے پر ہو رہی تھی۔ کمبخت …  اِس میں حیرانی کی کون سی بات ہے۔ نیپکن دیکھا نہیں کیا___ جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو___ اب تو وہ گھر بھی لانے لگا ہے ___ اور تو اور، دعوت پارٹی کے موقع پر بھی نیپکن کا ہی استعمال کرتا ہے …  مگر یہ نیپکن …  شاہی نیپکن، جس کے ذکر کے ساتھ جنت نشاں کی وہ وادیاں بھی شامل ہیں، جہاں کسی زمانے میں مغلیہ حکومت کی سرگوشیاں بھی اپنا سر نکالتی ہوں ___

 ’سنئے نا …  رکھ لوں …  یادگاری کے طور پر …‘ ایک اُڑتی نظر امام صاحب کے سپاٹ چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے قریشہ، صلاح الدین کے کان کے پاس پھسپھسا رہی تھی …

 ’کیوں۔ ہاتھ دھونا ہے کیا۔ یہ لیجئے نا …‘ امام نے اشارہ کیا۔ چاندی کے خوبصورت کٹورے میں لیموں کے ٹکڑے کے ساتھ گرم پانی بھی موجود تھا۔

 ’جی …  میں کہہ رہی تھی …  نیپکن …‘ ڈرتے ڈرتے قریشہ نے اِس بار صلاح الدین کی طرف بغیر دیکھے اپنے دل کی بات کہہ دی …  ’نشانی کے طور پر رکھ لوں … ؟‘

 ’ارے …  ہاں …  ہاں …  کیوں نہیں …  ضرور___‘ امام صاحب ہنس رہے تھے۔ ’رکھ لیجئے نا …  نشانیاں …‘ وہ تھوڑا مسکرائے تھے …  ’قومیں اپنی نشانیوں کے ساتھ بھی جانی جاتی ہیں …‘

ایک لمحے کو چونک گئے تھے صلاح الدین …  برسوں پہلے اباّ نے بھی تو یہی کہا تھا …  دلّی میں آٹھ سو برسوں کی نشانیاں دھندلی اور ختم ہونے لگی تھیں …  اب ایک نشانی نیپکن کے طور پر …  ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ لہرائی۔ صلاح الدین نے دیکھا، قریشہ اپنے پرس میں شاہی نیپکن کو حفاظت کے ساتھ رکھ رہی ہے۔

نیپکن کا سفرا بھی جاری تھا۔ اِس واقعہ کے کچھ ہی دن بعد دلّی سے فتوحہ پہنچنے پر اِسی نیپکن نے سیاست کی ایک نئی بساط بچھائی تھی۔

 ۔۔ ہوا کچھ یوں کہ قریش منچ کے چمک جانے کے بعد سے ہی سدانند بابو اُس پر ڈورے ڈالتے رہے تھے۔ بہار میں برسوں سے حزب مخالف کا رول نبھانے والے سدا نند بابو ایم ایل اے کے چناؤ میں کئی بار ہار چکے تھے۔ چھوٹے شہر میں ملنا ملانا تو ہو ہی جاتا ہے، لیکن وہ ایک ایسی پارٹی سے منسلک تھے جہاں ملنے ملانے کے جرم میں اپنے ہی لوگوں کے ذریعے وہ تنقید کے شکار بھی ہو سکتے تھے ___ فتوحہ جیسے شہر میں تنگ مذہبی پارٹی والے نیتاؤں سے ملنے ملانے کو یوں بھی اچھا تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ دس بیس برسوں میں فرقہ پرستی کے اندھڑ نے اُسے سدانند بابو سے دور رکھا تھا جبکہ قاعدے سے دیکھیں تو دونوں ایک ہی عمر کے تھے ___ صلاح الدین اور سدانند دونوں نے ایک ساتھ ہی اسکول اور کالج کا سفر طے کیا تھا___ لیکن جن سنگھ والی ذہنیت سے جڑا سدا نند کبھی بھی مسلمانوں کے درمیان اپنی جگہ نہیں بنا پایا___ لگاتار چلنے والے سیاسی اُٹھا پٹخ کے درمیان اِدھر صلاح الدین سیاست کے نئے باب پڑھنے لگے تو اُدھر سدانند، صلاح الدین کے سہارے مسلمانوں کے درمیان اپنی ساکھ بنانے کو بے چین تھے۔ بچپن کا کلاس میٹ___ مانے گا  کیسے نہیں۔ راجنیتی میں کوئی دھرم ایمان ہوتا ہے ___ ہوتا ہے ووٹ بینک___ اصل تو یہی ہے۔ قریش منچ کے دفتر میں صلاح الدین سے ملنے آنے والے سدانند بابو نے چلتے وقت ایک شگوفہ اور جڑ دیا۔

 ’کل بھابھی کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھاؤں گا …  کھلاؤ گے نا؟ نان ویج۔ بہت دن ہو گئے یار …‘

 ’کیوں نہیں …‘ دلّی سے لوٹے صلاح الدین کو سدانند کی تجویز میں سیاست سے جڑی کوئی بات نظر نہیں آئی۔

صلاح الدین مطمئن تھے ___ قریش منچ کے بڑھتے اثر کو کیش کرنے کے لئے دوسری پارٹیاں بھی اُن کے پاس آئیں گی___ سیاست میں مستقبل کے بیج تو ایسے ہی پھوٹتے ہیں۔ اب چاہے امام ہوں یا سدانند___ ملنا تو سب سے ہی پڑے گا۔ تبھی اپنا راستہ چننے میں اُسے آسانی ہو گی۔

اور یہ دوسرے دن کا قصّہ ہے۔ جب نیپکن ایک ’زندہ اور سلگتا ہوا مسئلہ‘ بن کر ایک بار پھر اُس کے سامنے آیا تھا۔

قریشہ صبح سے ہی کھانا بنانے میں جٹی تھی۔ پلاؤ، قورمہ۔ بہار میں عام طور پر بریانی کا رواج نہیں ہے۔ فتوحہ میں تو بالکل بھی نہیں مگر بھلا ہو ٹی وی چینلوں کا، جس نے بریانی، حیدرآبادی بریانی کا نام لے کر منہ کا ذائقہ بڑھا دیا تھا۔ کئی لوگوں سے قریشہ نے بریانی بنانے کا طریقہ پوچھا۔ ایک دو بار، اچھا بُرا بنانے کی پریکٹس بھی کی۔ آہستہ آہستہ کامیابی ملی تو گھر میں بریانی بننے کا رواج شروع ہو گیا۔ ہاں، یہ الگ بات تھی کہ صلاح الدین کو بریانی کا حساب پسند نہیں تھا۔ وہ کہتا بھی تھا۔ چاول میں گوشت ڈال دو۔ یہ گوشت کے ساتھ انصاف نہیں ہے ___ بریانی بن گئی۔ گوشت کے اور ائیٹم بھی تیار ہو گئے۔

رات 9بجے سدانند ’پارٹی جیپ‘ پر آیا___ اکیلے ___ پہلے وہ قریش منچ کے پیچھے والے دفتر میں بیٹھا صلاح الدین کو اپنی پارٹی کا منتر پلاتا رہا___ یہ بتانے کی کوشش کرتا رہا، کی اب پارٹی میں ’بھید بھاؤ‘ کا دور ختم ہو چکا ہے ___ اب تو اُس کی پارٹی میں مسلم جوان نیتا بھی شامل ہیں ___ اُس نے یہ بھی کہا، آئندہ آنے والے چناؤ میں اُس کی پارٹی کا مستقبل روشن ہے۔ قریش منچ چاہے تو آسانی سے مسلم ووٹوں کے بٹوارے کو روکا جا سکتا ہے …  سیاست میں ہم گھوڑے ہوتے ہیں۔ گھوڑا گھاس سے یاری کرے گا تو کھائے گا کیا …  ہو …  ہو …  ہو …‘

تیز ٹھہاکے، قہقہوں کے درمیان کھانے کا دور چلا اور یہیں وہ حادثہ ہو گیا، جس کے بارے میں صلاح الدین انجان تھے ___ قورمہ، بریانی، نان پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد جب سدانند نے نیپکن کہا، تو وہ آہستہ سے بولے …  چلئے بیسن پر ہاتھ دھولیں …

 ’ارے یار …  یہ دلّی والوں نے اب عادت خراب کر دی ہے۔ نیپکن ہی بڑھانا۔ رکھتے ہونا؟‘ سدانند بابو نے پھر ٹھہاکا لگایا___ رکھتے ہو یا ابھی بھی فتوحہ کے فتوحہ ہو …‘

اپنی طرف سے مطمئن صلاح الدین آگے بڑھے۔ چلمن کے اُس پار قریشہ کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ پہلے سوچا، آواز دے کر بلا لیں۔ پھر اتنا ’ماڈرن‘ بننا اچھا نہیں لگا صلاح الدین کو۔ چلمن کے پار کھڑی قریشہ کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا تھا۔

 ’نیپکن تو نہیں ہے۔ ‘

 ’نہیں ہے۔ ابھی تو لایا تھا۔ ‘

 ’ختم ہو گئی۔ ‘

 ’دیکھو شاید کہیں کوئی ٹکڑا۔ ‘

 ’دیکھ لیا، نہیں ہے …‘ کہتے کہتے اچانک قریشہ کو یاد آ گیا …  ارے ہاں ہے …‘

 ’ہے تو پھر لاتی کیوں نہیں …‘

 ’وہ پرس میں …  قریشہ نے یاد دلانے کی کوشش کی___ ’بھول گئے۔ دلّی میں …  امام صاحب کے ہی یاں …‘

سدانند بابو امام صاحب کی نیپکن میں ہاتھ پونچھتے ہوئے اب بھی ہنس رہے تھے ___

 ’کھانا مزیدار تھا …  لیکن ہماری تجویز کے بارے میں سوچئے گا ضرور۔ ‘

نشانیاں دھندلی ہو گئی تھیں۔

سدانند کی جھوٹی رکابی میں مڑا تڑا شاہی نیپکن، گوشت کی چوسی گئی، بڑی چھوٹی ہڈّیوں کے درمیان چھپ گیا تھا___



 

ایک انجانے خوف کی ریہرسل

آج ہم سبھی امریکہ کا حصہ بن چکے ہیں /

اب کہیں کوئی جمہوریت باقی نہیں ہے /

  — ایک اخبار کے اداریہ سے

آپ غلط فہمی میں ہیں کہ ہمارا پیچھا کیا جا رہا ہے۔

آپ کو نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم سبھی دہشت گرد ہیں۔

محسن حامد (Reluctant Fundamentalist سے )

 ۔۔

 ’’آگے سڑک ٹوٹی ہے صاحب۔ ‘‘

گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی تھی۔ ڈرائیور نے پیچھے مڑ کر ہم دونوں کی طرف دیکھا  — ’گاڑی بیک کرنی ہو گی صاحب — ‘ ڈرائیور ہنس رہا تھا  — ’اصل بھارت تو جھٹکوں میں بستا ہے صاحب۔ آپ بھی جھٹکے کھاتے ہوئے چلیے۔ کیونکہ یہاں سے صرف ٹوٹی، دھنسی ہوئی سڑکیں ابھی آگے دس پندرہ کیلو میٹر تک رہیں گی۔ ابھی دو دن پہلے اس طرف گنا مزدوروں نے کافی ادھم مچایا تھا صاحب۔ اور ان کی غلطی بھی کیا تھی۔ ڈیزل، بجلی مزدوری، بیج، کھاد سب کی قیمتیں تو آسمان چھو گئیں صاحب۔ گنا مزدور آندولن نہ کریں تو کیا کریں …‘

گاڑی آواز دیتی ہوئی، بیک ہوئی  — پھر جھٹکے سے پیڑوں کے بیچ راستہ بناتے ہوئے چلنے لگی۔

 ’آپ کو تو سب معلوم ہو گا صاحب۔ اس بار کا معاملہ ویسا نہیں۔ مزدور پہلی بار گنا کے کھیتوں میں آگ لگانے پر مجبور ہو گئے۔ اتر پردیش میں کسان ۲۱۰ بیگھا زمین کا گنا آگ کے حوالے کر چکے۔ میرٹھ میں بھی گنوں کی فصلوں میں کتنے ہی کسانوں نے آگ لگا دی۔ اس نے گھوم کر دیکھا  — سچ پوچھو تو ہم ڈر جاتے ہیں صاحب۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے۔ روز ہونے والے دنگوں سے اور  …  وہ ہنسا تھا  — جمہوریت سے   — آپ کو ڈر لگتا ہے صاحب … ؟

سامنے دور تک ننگے پیڑ کی قطاریں …  دھول بھری سڑکیں …  پیڑوں کے درمیان اوبڑ کھابڑ راستہ پر گاڑی چلانا آسان نہیں تھا  — نیلے آسمان پر بادلوں کے بہت سارے ٹکڑے جمع ہو گئے تھے۔ یہ دسمبر کا مہینہ تھا۔ صبح پانچ بجے ہم گھر سے چلے تھے   — کہاسے کی چادر نے سارے شہر کو اپنا شکار بنا لیا تھا  — گاڑی میں بیٹھنے سے قبل تک وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ سردی کی وجہ سے دانت بج رہے تھے۔ گہری دھند کے باوجود ’ساتھی‘ کے چہرے کی نمی محسوس کی جا سکتی تھی۔ اس کی آنکھیں سہمی ہوئی تھیں اور پتلیوں میں کوئی ڈر بیٹھ گیا تھا۔ وہی ڈر، جسے گاڑی میں بیٹھنے سے قبل اس نے اپنے ہونٹوں سے ادا کیا تھا۔

 ’اسے گم ہوئے کئی روز گزر گئے ہیں …‘

 ’پھر آپ نے گمشدگی کی رپورٹ درج نہیں کی۔ ‘

 ’نہیں  — ‘ ایک بے حد سفاک اور تھرایا سا لہجہ — ‘ آپ جانتے ہیں، اس کا نام اسامہ ہے …  اور وہ …، کہتے کہتے اس نے اپنی پلکوں کو جنبش دی …  ’اس کے چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا …  اور وہ ڈرنے لگا تھا …‘

 ’مائی گاڈ  — لیکن کیوں … ؟‘

 ’بس ڈرنے لگا تھا …  ڈر کی کوئی وجہ نہیں ہوتی …  چار سال کی عمر سے …‘

تب ہم گاڑی میں بیٹھ چکے تھے   — اور ہمارے ڈرائیور نے تب تک اپنے ہونٹوں کو بند رکھا تھا  — ہاں دو تین بار اس نے پلٹ کر ہماری طرف دیکھا تو میں نے اپنے ساتھی کی آنکھوں میں گہرے ہوتے ہوئے شک کو پڑھ لیا تھا —

میں نے ڈرائیور کو پیچھے نہ گھومنے کی تنبیہ کی تھی  — اور ساتھ ہی میں نے اس کے چہرے پر ناگواری کے عکس کو دیکھ  لیا تھا  — اور اب میں اپنے ساتھ کے چہرے  کا جائزہ لے رہا تھا  — صبح کے سات بج گئے تھے۔ گاڑی کے شیشہ چڑھے تھے۔ گرم لبادے کے باوجود ریڑھ کی ہڈیوں تک ٹھنڈ اترتی جا رہی تھی …

 ’تو وہ آپ کا بیٹا ہے …  اور آپ نے اس کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی …‘ میرے لہجہ میں سختی تھی  — ’صرف اس لیے کہ اس کا نام اسامہ تھا۔ اور اس کے چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی اترنے لگی تھی …‘

 ’’آپ اسے معمولی بات سمجھ رہے ہیں …‘ اس بار اس نے شک کی آنکھوں سے مجھے گھور کر دیکھا تھا  — ’دنیا کے کسی بھی ملک میں اس نام کا آدمی ہونا اور چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی کا اُگنا  — نہیں آپ سنجیدگی سے میری باتوں کو نہیں لے رہے۔ اور معاف کیجئے گا میں نے پورے ہوش و حواس میں ایک اور لفظ کی ادائیگی کی تھی ’…  کہ وہ ڈر گیا تھا — ‘ وہ ڈر گیا تھا۔ اور پھر ایک دن وہ غائب ہو گیا۔ اور معاف کیجئے گا  — تمام ممکنات اور سوالوں کو سامنے رکھنے کے باوجود میں گمشدگی کی اطلاع یا ایف آئی آر درج کرانے پولس اسٹیشن گیا تھا۔

اور ممکن ہے، میری رپورٹ درج کر لی جاتی …

 ’پھر کیوں نہیں درج کرائی …‘

 ’نہیں   — ایسے نہیں سمجھیں گے آپ  — میں بالکل ویسے بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔ جیسا کہ یہ واقعہ میرے ساتھ پیش آیا  — ایک تو بیٹے کی گمشدگی  — اس کی ماں نے گھر پر روتے روتے اپنی جان ہلکان کر لی تھی  — اور اس پر سے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد میرا پولس اسٹیشن جانا  — معاف کیجئے گا۔ پولس اسٹیشن جانا محض پولس اسٹیشن جانا نہیں تھا۔ اس میں 62 سال لگ گئے تھے  — ‘

 ’62 سال —؟‘ میں اس طرح چونکا جیسے گاڑی نے دوبارہ جھٹکے کھائے ہوں …

 ’اس کا چہرہ صفر میں ڈوبا تھا  — ’ہاں، 62 سال  — یہ صرف میرے بیٹے کی گمشدگی کا سوال نہیں تھا  — خیر سے اس کا نام اسامہ تھا۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا …  اس کے چہرے پر …‘ وہ ٹھہرا  — میری طرف دیکھا  — ’چونکیے مت۔ پورے 62 سال۔ آزادی سے اب تک اس ملک کی عمر گن لیجئے   — گہرے سناٹے میں، میں نے انگریزوں کے کوڑے بھی کھائے۔ گولیوں کی آوازیں بھی سنیں   — پھر وہ سب سہتا گیا …  یا وہ سب کسی فلم کے منظر کی طرح میری آنکھوں کے فریم میں ابھرتا رہا …  نہیں، معاف کیجئے گا  — ان خوف زدہ لمحوں کی کہانی سے مجھ سے کہیں زیادہ آپ واقف ہوں گے   — مگر اس ایچ او کے پاس جاتے ہوئے شاید میں اپنے لیے ایک مضبوطی قائم کر چکا تھا اور یہ میرے لیے یا میری زندگی کے لیے سب سے زیادہ چونکانے والا لمحہ تھا …  دو دن قبل اس ایچ او کے بیٹے کا انتقال ہوا تھا  — اور یہ جاننا آپ کے لیے ضروری ہے   — اور شاید یہی وجہ تھی کہ میں اس کے اندر بیٹے کے درد کے ساتھ پہلی بار ایک انسان کو دیکھ رہا تھا  — ایک ایسے انسان کو شاید جسے میں دیکھ ہی نہیں پاتا کہ اگر اس کا اپنا بیٹا دو دن پہلے نہیں مرا ہوتا۔ شاید وہ بہت کچھ کر چکا ہوتا  — جو وہ مجھے ٹہل ٹہل کر بتا رہا تھا۔ ایس ایچ او نے سگریٹ سلگا لی تھی  — کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر بیک وقت اداسی اور خوف دونوں کو پڑھا جا سکتا تھا  — ’تو آپ کا بیٹا غائب ہے ؟ دھوئیں کے چھلّے بناتا ہوا وہ ٹھہرا  — اسامہ، قد پانچ فٹ دس انچ  — چہرے پر ہلکی داڑھی  — اور آپ چاہتے ہیں کہ اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کی جائے …  اس نے چھلا بنانا بند کیا  — کچھ دیر تیز تیز ٹہلتا رہا  — پھر رکا  — ’وہ فائیلوں کے ڈھیر دیکھ رہے ہیں۔ جانتے ہیں ہم اپنے ناکامی پر کامیابی کی مہر کیسے لگاتے ہیں  —؟ اس نے ہنسے کی کوشش کی تھی  — دو دن پہلے میرا جوان بیٹا مر گیا۔ سمجھ رہے ہیں آپ  — ہمدردی ہے  مجھے آپ کے بیٹے سے۔ ورنہ دوسری صورت میں   — ان نا کام فائلوں میں ایک فائیل کو اس کی کامیابی کی رپورٹ مل جاتی  — ایسے   — اس نے نشانہ لگایا۔ ان کاؤنٹر  —سمجھ رہے ہیں آپ …  گجرات سے اعظم گڑھ اور دلّی تک کے تار جوڑ دیتا …  اسامہ نام ہی  کافی تھا۔ کچھ بھی کرنے کے لیے …

ریڑھ کی ہڈیوں میں برف جمتی ہوئی محسوس ہوئی۔ گہری دھند کے درمیان کانپتے ہوئے سورج کے طلوع ہونے کی گواہی مل چکی تھی  — اب ’ساتھی‘ کی باری تھی۔

لیکن آپ اسے کیوں تلاش کرنا چاہتے ہیں … ؟

اچانک خاموشی چھا گئی تھی۔ میں ایک لمحے کے لیے اس کی طرف مڑا  — پھر گہری خاموشی میں ڈوب گیا  — آخر میں اسے کیوں تلاش کرنا چاہتا تھا —؟ یقیناً آپ کو میرے بارے میں جاننا چاہئے   — جیسے میں کون ہوں۔ کب پیدا ہوا  — مجھے مسکرانے دیجئے   — سلمان رشدی کے، مڈنائٹس چلڈرن کے اس ٍٍکردار کی طرح جب ۱۴ اگست ۱۹۴۷، رات کے بارہ بجے گھڑی کی دونوں سوئیاں آپس میں مل رہی تھیں۔ اور ٹھیک یہ وہی لمحہ تھا جب اس کے باپ کو ایک ٹھوکر لگی تھی (رشدی: مڈنائٹس چلڈرن کا ایک ٍٍکردار) …  میں ہوا میں چھوٹتی  آتش بازیوں یا آتش بازیوں سے پیدا ہونے والے خوف کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا  — لیکن یہی وقت تھا جب میں پیدا ہوا  — پھر ان 62 برسوں میں ایسی کتنی ہی آتش بازیوں کی زد میں آیا …  یا ان کا گواہ بنا  — یا جیسے ہر بار ایسے حالات میں، میں آئینہ کے سامنے کھڑا ہو جاتا …

 ’تو کیا تم ڈر رہے ہو … ؟‘

 ’نہیں …‘

 ’لیکن تم ڈر رہے ہو …  تم ذرا ذرا سی باتوں سے ڈر جاتے ہو …  تم ڈر جاتے ہو کہ تم اپنے ہی ملک میں بہت سارے لوگوں یا آنکھوں کے درمیان اجنبی بنا دیئے گئے ہو  — تم اپنے پہناوے اپنے لباس سے ڈر رہے ہو …  تم ڈر رہے ہو کہ تمہارے چہرے پر گھنی ہوتی داڑھی کو کچھ گمنام آنکھیں بغور دیکھ رہی ہیں   — تم ایک معمولی آتش بازی سے بھی ڈر جاتے ہو …  تم ڈر جاتے ہو کہ سپر اسٹار شاہ رخ خاں کو مذہب کے نام پر امریکہ ایئر پورٹ پر روک دیا جاتا ہے …  اور ایک آسٹریلین نوجوان ڈاکٹر کو اپنے لباس اور حلیے کی وجہ سے، نفرت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے …  9/11 سے لے کر 26/11 تک  — افغان سے عراق، اور پاکستان سے لشکر اور طالبان تک …  تم بار بار ڈرتے رہے ہو …  اور شاید پہلی بار تم اس لڑکے میں اپنے ڈرنے کی وجہ تلاش کر رہے ہو …

 ’پتہ نہیں  — ‘ آئینہ میں ایک ڈرا سہما چہرہ موجود تھا …

 ’سب پتہ ہے تمہیں۔ جیسے وہ لڑکا ڈر گیا تھا۔ اپنے نام سے   — یا اپنے چہرے پر پہلی بار اگنے والی ہلکی ہلکی داڑھی سے …‘

آنکھوں کے پردے پر محسن حامد کے ناول  Reluctant Fundamentalistکے ہیرو چنگیز کا چہرہ ابھرتا ہے   — ’میری داڑھی سے مت ڈریے۔ مجھے تو امریکہ سے محبت ہے ‘ …  آئینہ میں ایک کمزور چہرہ جھانکتا ہے۔ مکالمے بدل گئے ہیں   — ’میری داڑھی سے مت ڈریے۔ مجھے اپنے وطن سے محبت ہے …  یہاں کی جمہوریت سے۔ آتش بازیوں سے  …  اور …‘

گاڑی اوبڑ کھابڑ راستوں پر آگے بڑھ رہی ہے   — میرا ساتھی مجھے غور سے دیکھ رہا ہے …  میں بے رحم لمحوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہوں …

 ’ہاں تم بتا رہے تھے کہ وہ چار سال سے  …  ڈرنے لگا تھا … ؟

 ’ہاں جیسے …‘

 ’’کسی آہٹ سے، دستک سے  …  کسی کی اونچی آواز سے   — وہ رونا شروع کر دیتا اور دھوئیں سے …  تب گھر میں گیس نہیں آئی تھی۔ صبح اٹھتے ہی مٹی کے چولہے سلگ جاتے۔ چولہے سے اٹھنے والے دھوئیں اسے برداشت نہیں ہوتے تھے …

 ’کیا آپ نے کسی ڈاکٹر سے …‘

اس نے میری بات درمیان  میں ہی روک دی  — ’’نہیں   — وہ دبلا پتلا تھا۔ اس کی آنکھیں ہر وقت سوچ میں ڈوبی رہتی تھیں۔ جیسے وہ دنیا اور اس  کے نظام کو سمجھنا چاہتا تھا۔ بڑی گہری آنکھیں تھیں اس کی۔ مگر سامنے والے کی طرف دیکھتے ہوئے وہ آنکھیں جھکا لیتا تھا …  وہ بے حد ذہین تھا۔ عمر کے دسویں سال میں اپنے ملک پر ایک مضمون لکھنے کے لیے باضابطہ اسے اس کے اسکول سے ایک ٹرافی ملی تھی۔ اس نے اپنے ملک پر، ملک کے احسانوں پر ایک شاندار مضمون لکھا تھا  — ہمیں بھی بلایا گیا تھا۔ وہ اسٹیج  پر تھا۔ اسے ٹرافی دی جا رہی تھی۔ اور میں اس کا چہرہ پڑھ رہا تھا  — اُف  — بے حد گہری اور سہمی آنکھیں۔ کسی دس سال کے بچے کی ایسی سہمی اور خوف زدہ آنکھیں شاید میں نے پہلی بار دیکھی تھیں۔

 ’حیرت ہے …‘

 ’وہ بولتا نہیں تھا  — اور شاید آپ کو حیرت ہو کہ وہ اپنے ملک کے لیے کچھ نیا، کچھ بہت اچھا کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک اچھا اسپورٹس مین تھا۔ اور شاید اسی لیے اسکول میں ہونے والے ہر ٹورنامنٹ یا کلچرل فنکشن میں اس کی شرکت ہوتی۔ وہ آگے ہی آگے رہنا چاہتا تھا مگر ہر بار ایوارڈ یا ٹرافی لیتے ہوئی اس کی آنکھیں   — میں ہر بار اس کی آنکھوں میں پہلے سے کہیں زیادہ خوف کو پڑھ لیتا تھا  — سنہ ۲۰۰۳ء تب اس کی عمر ہی کیا تھی۔ پڑوس کے ایک مکان میں آگ لگ گئی تھی۔ اس نے ایک چھوٹے سے بچے کو بچایا تھا  — سب اسے تلاش کر رہے تھے …  مگر وہ گھر میں چارپائی کے نیچے سہما سا چھپ گیا تھا …

 ’’تو اس نے کچھ بتایا نہیں آپ کو …  کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ وہ کیا سوچتا رہتا ہے …‘‘

 ’ہاں بتایا اس نے …  ابھی کچھ دن پہلے   — گمشدگی سے شاید دو ایک روز قبل …  اس نے ایک خواب کے بارے میں بتایا تھا۔ ایک ڈراؤنا خواب …  جو اسے کئی دنوں سے مسلسل پریشان کیے جا رہا تھا  — ٹھہریے، میں کچھ دیر کے لیے اسامہ بن جاتا ہوں۔

اور وہ خواب آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔

 ۔۔ تمہارا نام؟

اسامہ عبد اللہ …

 ’اُسامہ —؟‘ ہنسنے، ٹھہاکہ لگانے کی آواز …  اسامہ …  ہا …  ہا ئء ماں باپ کو کوئی اور نام نہیں ملا؟‘

 ’یہ تو ماں باپ جانیں …‘

 ’امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ ٹاور توڑنے کے بعد یہاں بھی پہنچ گئے …  جاؤ، اوبامہ تمہیں تلاش کر رہا ہے۔ ‘

 ’مجھے کیوں تلاش کر رہا ہے ؟‘

 ’جان سے مارنے کے لیے …  ہنسنے کی آواز …  ہاء ء ہا …  اسامہ نام ہے اور پوچھتے ہو، امریکہ کیوں تلاش کر رہا ہے۔ بش تلاش کرتے کرتے ہار گیا۔ اسے کیا پتہ، تم یہاں چھپے ہو …

 ’میں کہیں نہیں چھپا، در اصل مجھے کہیں چھپنے کی ضرورت بھی نہیں ہے …‘

 ’ہوں …‘ ایک لمبی ہوں، کے بعد ٹھہاکے رک گئے …  سالے ہم سے زبان لڑاتا ہے۔

 ’نہیں۔ ‘

 ’پھر یہ کیا تھا … ؟

 ’کیا ہم اپنے بچاؤ کی کوشش بھی نہیں کر سکتے  —؟ اچانک وہ کہتے کہتے ٹھہر گیا تھا  — لیکن سوال پوچھنے والا انسپکٹر ابھی بھی اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا …  سرمہ لگی آنکھیں، چہرے پر دو پلّی ٹوپی، ہلکی سی داڑھی۔ کرتا پائجامہ …  جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ اب تک پکڑے گئے تمام دہشت گردوں سے اس چہرے کو ملانے کی کوشش کر رہا ہو۔

 ’تم کراچی گئے ہو؟‘

 ’نہیں ؟‘

 ’پاکستان میں کہیں بھی؟‘

 ’نہیں۔ ‘

 ’اچھا۔ کشمیر … ؟‘

 ’نہیں …‘

 ’اچھا …  تم عبد اللہ بھٹ سے کتنی بار ملے ؟‘

 ’عبد اللہ بھٹ …  یہ کون ہے ؟‘

 ’جو پوچھا جائے وہی بتاؤ، کتنی بار ملے ؟‘

 ’جب جانتا ہی نہیں تو ملنے کا سوال کیا؟‘

 ’اچھا جاوید ملک سے تمہاری فون پر کتنی بار بات ہوئی … ؟‘

 ’یہ جاوید ملک کون ہے ؟‘

 ’تو، اسے بھی نہیں جانتے   — انظار شیخ؟ لطیف عجمی؟‘

 ’میں ان میں کسی کو نہیں جانتا …‘

 ۔۔ ساتھی کے چہرے پر خاموشی تھی۔ ’’شاید اب میں آسانی سے اس کی تمام کیفیت کا تجزیہ کر سکتا ہوں   — دو دن پہلے کالج میں اس کی دو لڑکوں سے کہا سنی ہوئی تھی۔ شام کے وقت سائیکل سے آتے ہوئے ایک پولس والے نے اسے روک کر کچھ پوچھا تھا  — شاید میں  اس کے چہرے کے مسلسل اتار چڑھاؤ کو بخوبی پڑھ رہا تھا  — جیسے ایک سال پہلے 26/11   — اور اس کی برسی سے محض کچھ روز پہلے اس کا غائب ہونا  — مجھے اس کا تجزیہ کرنے دیجئے   — وہ اس حادثے سے باہر نہیں نکل سکا۔ اور جیسا کہ ایسے مریضوں کے ساتھ عام بات ہے، ایسے مریض Traumatic stress Disorder کے شکار ہو جاتے ہیں   — ٹھہریے   — میں آپ کو بتاتا ہوں، جیسے وہ خوفزدہ ہو کر گھنٹوں میں اپنے سر کو چھپا لینا  — گھبراہٹ اور خوف سے وہ ہماری طرف یوں دیکھتا تھا، جیسے کوئی تیز دھماکہ ہمیں اس سے الگ تو نہیں کر دیگا —؟ جیسے وہ جاگتے ہوئے بھی خوفزدہ خوابوں کی زد میں رہتا تھا۔ جیسے اس دن …  ٹی وی دیکھتے ہوئے اس کے منہ سے گھٹی گھٹی سی آواز نکلی تھی …  مجھے معاف کیجئے گا۔ پہلی بار اس نے گالی دی تھی۔ ایک بھدی گالی  — میں مہذب انداز میں بتاتا ہوں اس نے کیا کہا تھا  — اس نے کہا تھا۔ ’’ہم جینا چاہتے ہیں ایک خوشحال جمہوریت میں۔ لیکن کچھ لوگ جمہوریت کی قبر کھود رہے ہیں …‘‘

 ’نئے چیلنج، سائنسی انقلاب اور تیزی سے بدلتی تکنالوجی کے درمیان ہم آج بھی جمہوریت کی آس لگائے بیٹھے ہیں   — عجیب سا ملک ہے یہ …  یہاں اس کی قبر کھودنے والے بھی ہیں اور بچانے والے بھی …  وہ میری آنکھوں میں جھانک رہا تھا  — پھر بھی جتنا بچا پاتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ ہر بار ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ مل جائے گا نا …  میرا بیٹا …  اسامہ …‘ اس کے چہرے پر سختی  تھی۔ میں نے سمجھایا تھا اسے   — ابھی ہلکی ہلکی اس داڑھی کی ضرورت نہیں۔ پاگل مت بنو …  مگر وہ کسی کی سنتا ہی کب تھا …

دھوپ نکل گئی تھی   — ہوا میں دھول اڑ رہی تھی۔ گاڑی پیڑوں کی قطار سے ہوتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی  — سناٹے میں لفظ گم ہو گئے تھے …

 ’تو آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وہ …‘

 ’گمشدگی کے بعد ہم نے ہمت نہیں ہاری  — ہم اس کی تلاش میں بہت ساری جگہوں پر گئے۔ پھر ابھی دو دن پہلے ہمارے ایک پڑوسی نے بتایا  — وہاں دھماکے ہو رہے ہیں …  چٹانیں  ٹوٹ رہی ہیں۔ ڈینامائیٹ کی سرنگیں بچھی ہیں …  بہت سارے مزدور کام کر رہے ہیں …  اور ان مزدوروں میں …‘

ایک دھماکہ ہوا تھا …  آگے کچھ فاصلے پر کچھ لوگ نظر آ رہے تھے … کچھ حرکتیں تھیں۔ ادھر اُدھر بھاگتے ہوئے لوگ تھے۔ کھلا میدان تھا  — اور پیڑوں کی قطار کے پاس پھاوڑے لیے زمین کھودتے ہوئے کچھ مزدور اپنا کام کر رہے تھے۔ ذرا فاصلے سے آتی ہوئی دھماکوں کی آوازیں اب قریب آ گئی تھیں   — گاڑی کے شیشہ گرا دیئے گئے تھے   — آخر اس پوری تلاش کا مقصد کیا تھا —؟ ہم کیوں تلاش کرنے نکلے تھے ؟ کنزیومر ورلڈ …  گلوبل وارمنگ کے اس عہد میں، ایک بے حد مہذب  دنیا میں   — جس کے  ختم ہونے کی پیشن گوئی  سے ساری دنیا ڈری ہوئی ہے۔ جہاں ہالی وڈ ۲۰۱۲ جیسی خوفناک تباہی کے مناظر کو کمزور انسانی آنکھوں کے سامنے رکھتا ہے۔ وہیں ایک دوسرا فلمساز ایک نوجوان لڑکی اور ویمپائر کی انوکھی محبت کو دکھا کر داد تحسین وصول کرتا ہے   — ایک ختم ہوتی ہوئی دنیا اور ایک ویمپائر کی محبت  — والٹیر نے کہا تھا  —  خدا نہیں ہوتا تو ہم اسے بنا لیتے۔ محبت نہیں ہوتی تو …  ہم اسے بنا لیتے  —؟ بے رحم پیشن گوئیوں کے درمیان انسانی محبتیں بھی اب خون سوچنے والے ویمپائر کے پاس گروی پڑی ہیں …

ڈرائیور نے زور سے بریک لیا۔ کچھ چیختے ہوئے لوگ ہماری گاڑیوں کی طرح سرعت سے بڑھے تھے۔ وہ زور زور سے ہاتھ ہلا رہے تھے   — ان کے کپڑے پیلے رنگ کے تھے   — سر پر پیلے رنگ کے پیٹ تھے   — آگے درختوں اور زمینوں پر چاروں طرح ڈینجر زون کے بورڈ آویزاں تھے  —

ہم گاڑی سے اتر آئے۔ وہ ہمیں گالیاں دے رہے تھے …  ’یہاں چاروں طرف ڈینامائٹ بچھا ہے   — راستہ بند ہے۔ چار دن پہلے سے ہم نے لاؤڈاسپیکر پر آپس پاس کے تمام گاؤں میں اعلان کرا دیا تھا۔ ابھی دو دن پہلے پانچ اسکول کے بچوں کی موت ہو گئی  — اور صبح بھی کچھ باہری لوگ …  وہ دیکھیے …‘

دوسرا آدمی بھدی بھدی گالیاں دے رہا تھا …  ساتھی کے چہرے پر نا امیدی اور ناکامی کا ملا جلا رنگ غالب آ گیا تھا۔ میں اس کی گالیوں سے پریشان تھا۔ میں سمجھانا چاہتا تھا  — ’گالی مت دو …  کچھ گم ہو گیا ہے۔ ہم کسی کی تلاش میں آئے ہیں۔ یہاں اکثر کچھ نہ کچھ گم ہو جاتا ہے۔ تلاش تو کرنا پڑتا ہے نا … ؟ میں اسے ملک کی، جمہوریت کی باتیں سمجھانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ چیخ رہے تھے۔

 ’یہاں قبریں کھد رہی ہیں۔ وہ دیکھو …‘

پانچ چھ مزدور، ہاتھ میں پھاؤڑا لیے گڈھا کھودنے میں لگے تھے  …  پیڑوں کے درمیان سے آگے دور تک پہاڑوں اور  چٹانوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ نظر آ رہا تھا …

اچانک ہوا ایک بار پھر تیز ہو گئی تھی۔ سرد لہر جسم میں اترتی جا رہی تھی …  چاروں طرف ڈینجر زون اور ’خطرہ‘ کے بورڈ کے درمیان جیسے ہم بے بس کھڑے تھے   — لاؤڈ سپیکر پر چٹان کے گرائے  جانے کی وارننگ دی جاچکی تھی …  دور بہت سے بھاگتے مزدوروں کا جمگھٹ دکھائی دے رہا تھا  — ایک بھیانک تیز آواز  — لڑھکتی گرتی چٹانیں   — دھماکے سے بے نیاز پھاوڑے سے گڈھا کھودتے مزدور …

ہمیں وارننگ دی جا رہی تھی …

 ’’آپ لوٹ جائیے۔ سنبھل کر جائیے   — آپ آگے نہیں جا سکتے   — کسی سے مل نہیں سکتے   — یہاں تو روز ہی کسی نہ کسی کی جان جاتی ہے۔ روز ہی گڈھا کھونا پڑتا ہے …‘‘

چٹانوں کے گرنے لڑھکنے کا سلسلہ جاری ہے …  ہم دوبارہ گاڑی کی طرف واپس آ گئے ہیں۔ ڈرائیور اپنی جگہ اسٹیرنگ سنبھالے بیٹھا ہے …  ساتھی خاموش ہے …  شاید اتنے سارے چہروں کے بیچ اس داڑھی والے چہرے کو وہ کھوج نہیں سکا ہے …

کانوں میں اب بھی دھماکوں کی آواز گونج رہی ہے۔ اب کوئی چارہ نہیں ہے۔ واپس لوٹنا ہے …  اچانک مجھے خیال آیا۔ میں نے اس بچے کی عمر تو پوچھی نہیں …

بے حد سرد ماحول میں، میرے تھرائے ہوئے لفظ گونجے تھے …  ’اچھا اس کی عمر کیا ہو گی؟ میرا مطلب ہے کب پیدا ہوا تھا وہ … ؟‘

یہی کوئی پانچ …  بولتے بولتے وہ ٹھہرا  — نہیں …  چھ دسمبر۔ اب سترہ سال کا ہو گیا ہے …، اس کے لہجے کی برف پگھلی تھی …  تلاش ابھی ختم نہیں ہوئی …  وہ میری طرف دیکھ رہا تھا …  ’ہم اس کی تلاش آگے بھی جاری رکھیں گے …  کیوں … ؟‘

گاڑی میں بیٹھنے تک چٹان کے ٹوٹنے کی دوسری وارننگ لاؤڈ سپیکر پر دی جا رہی تھی  — اس بار ہم نے تیز ی سے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔



 

بارش، جنگل اور وہ

 ’نہیں، محبت یہ نہیں ہوتی ہے۔ ‘

 ’نہیں، محبت وہ بھی نہیں ہوتی ہے …‘

 ’ٹھہریئے۔ محبت کے بارے میں آپ جو کچھ بھی کہیں گے، وہ جلد بازی ہو گی۔ آپ نے محبت کی ہے۔ محبت کو دیکھا ہے، آپ نے ؟‘

کافی ہاؤس، میز کے شور شرابے کے درمیان میں اپنے دوستوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوا بولا  — جبکہ ایسا کرتے ہوئے ’مجھے ‘ او ہینری کی، مختصر ترین کہانی کا ’بھوت‘ محسوس کرنے کی غلطی‘ وہاں بیٹھے میرے تمام دوستوں نے کی تھی۔

تبھی تو، ایک مسکرایا تھا  — ’محبت کو دیکھا ہے، کہہ کر غائب تو نہیں ہو جاؤ گے ؟

ہو جاؤں گا۔ اگر ایک سگریٹ نہیں پلاؤ گے۔ ‘

ذہن میں ٹرین کی سیٹیاں گونج رہی تھیں، پتہ نہیں، کسی خالی کمپارٹمنٹ میں   — بھائیں، بھائیں کرتے سنّاٹے   — ٹرین کی سیٹیوں کے شور کے درمیان او ہینری کا وہ کردار اب تک موجود تھا یا نہیں   — لیکن ایک معمولی سگریٹ کا کش، دھوئیں کے مرغولے، آنکھوں میں اُتری یاد، اور کسی حسین چہرے کا قرب محسوس کرتے ہوئے ٹھنڈی رومانی ہوا کا لمس مجھے ایک نئی دنیا میں پہنچانے کے لئے کافی تھا —

نہیں، تب یہ سوچنا آسان نہیں تھا۔ تب یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا  — کیا محبت ایک بار ہی ہوتی ہے اور دوسری بار؟ دوسری بار کیا ایک آسودہ حال مرد میں محبت کی جگہ ہوس کی ان دیکھی سونامی لہریں لے لیتی ہیں  —؟ اچھا مان لیا کوئی ہے، جس نے محبت کی  — نباہ بھی کیا اور پھر شادی کے بعد —؟ آگ کے دریا میں ایک دوسری شکل نظر آتی ہے تو —؟ ایک دوسرا جسم، دوسرا چہرہ  — نہیں   — نیپولین سے نہرو تک مجھے تاریخ کی سرنگوں میں جانے کی ضرورت نہیں۔ مگر شاید محبت سو شکل بدلنے کے بعد بھی محبت ہی رہتی ہے۔ اگر آپ ویسے ہی بھیگتے ہوں، ویسے ہی ڈوبتے ہوں اور ہر بار ویسا ہی محسوس کرتے ہوں تو …

چھپ سے، ایک معصوم سا چہرہ کوندا تھا آنکھوں میں۔

 ’نوڈلس کھلاؤ گے ؟‘

 ’نہیں۔ ‘

 ’کیوں ؟‘

 ’میں نوڈلس نہیں کھاتا۔ ‘

 ’مت کھاؤ۔ مگر کھلا تو سکتے ہو۔ ہا  …  ··ہا ··‘

وہ ہنسی تو جیسے پھول بکھر گئے۔ مگر اُس کی ہنسی مجھے پھوٹی آنکھوں نہیں بھائی۔ کھلکھلانا بند ہوا تو اُس نے آہستہ سے میرے ہاتھوں کو چھوا، جیسے انگلیاں گن رہی ہو۔ آگ کی ایک لپٹ اٹھی۔ لیکن اُس کی نازک عمر سے گذرتے ہی سرد ہو گئی۔

 ’کیوں۔ کیا ہوا۔ ‘

 ’کچھ بھی تو نہیں۔ ‘

 ’پھر ہاتھ کیوں چھڑایا —؟‘

 ’بس۔ ‘ مجھے اس کی گھورتی آنکھوں سے وحشت ہو رہی تھی۔

 ’بس نہیں، ڈر گئے تھے …  ہا ·· ہا ··‘ اس کی آنکھوں میں غضب کی شرارت پیدا ہوئی۔ پھر وہ زور سے تالی بجا کر ہنسی … ڈر گئے …  ڈر گئے …

 ’ہاں ڈر گیا تھا، لیکن تم یہ سب کرتی ہی کیوں ہو۔ ‘

 ’پہلے تم بتاؤ‘ تم ڈرتے کیوں ہو …‘

میرے اندر جلنے والی ’اگنی پریکشا‘ کو سمجھ پاتی ہوئی وہ زور زور سے ہنس پڑی  — ’ایک دم سے آگ بن جاتی ہوں نا میں۔ ایک ایسی لڑکی، جو تمہاری گود میں کھیلی ہے   — اب جسے چھوتے ہی تم تھرتھراہٹ اور ’گلٹ‘ کے درمیان کا سفر شروع کر دیتے ہو  — سنو‘ اب میں تمہاری گود میں نہیں سما سکتی۔ ذرا اٹھانے کی کوشش کرو مجھے۔ ‘

شانتا کو اس لیے کوئی شکایت نہیں رہی اُس سے کہ وہ ہماری شادی کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ ہمارے پڑوس میں   — باپ پینٹر تھے۔ ایک بڑے آرٹسٹ  — عام طور پر چھوٹے شہروں میں ایسے آرٹسٹ اپنی تمام تر ممکنات کے باوجود اپنے لیے جب ایک بڑا /آسمان اور حسین تلاش نہیں کر پاتے تو فرسٹریشن کو محسوس کرنے لگتے ہیں   — ڈھلّن کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ اخبار، رسائل، کتابوں کے ڈھیر اور چہرے پر بڑھی ہوئی داڑھی  — وہ سمجھتا تھا کہ صرف اُسے میں سمجھتا ہوں۔ اپنی بڑھی ہوئی داڑھی کو کھجلاتا ہوا وہ کسی فلاسفر میں بدل جاتا  — ’’نئے صارف سماج میں ایک دن اپنے فن کے لیے یہ کہ پریشانی تو پیدا ہونی ہی تھی۔ پیسوں کی حکمرانی ہو گی تو فن اپنی پہچان کھو دیگا۔ ہم جیسے کہاں رہیں گے، جس کے پاس ڈووشن اور کمیٹ مینٹس کے سوا کچھ نہیں ہے …‘

میں اُسے ایم ایف حسین جیسے فنکاروں کا حوالہ دیتا  — جو کروڑوں میں کھیل رہے تھے، تو ڈھلّن اچانک بجھ جاتا  — سب پیسوں کا کھیل  — فنکار کی روح تک گروی پڑ لی ہے۔ کتنے بنتے ہیں حسین؟ بڑے بڑے آرٹ سینٹرس اور نمائش گاہوں تک کتنوں کی چیز پہنچ پاتی ہے۔ نمائش میں آنے والے کتنے لوگ فن کی پرکھ رکھتے ہیں۔ صرف بکتے ہیں نام۔ بڑے ناموں کی بولی لگتی ہے اور کسی پینٹی، کنڈوم یا انڈر ویئر کی طرح گھر کی سجاوٹ کا ایک دانشورانہ عمل سمجھ کر گھر لے جاتے ہیں چند خریدار …  ڈرائنگ روم میں آرٹسٹ کے شاہکار کو سمجھنے کی کوشش نہیں جاتی قیمت بتائی جاتی ہے۔ فنکار صرف بکنے کی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ابھی حال میں سنا، حسین کو کسی نے 35 کروڑ دے کر ایک سال کے لئے خرید لیا …  ڈھلّن غصے میں تھا  — ’پیسوں کی طاقت نے احتجاج کی طاقت ختم کر دی ہے۔ اور ایک دن …  نئے نظام میں تمام فنون، صرف بکنے کا سامان بن کر رہ جائیں گے۔

ڈھلّن کے جانے کے بعد ساکشی آ گئی۔ شانتا باہر گئی تھی۔ آتے ہی مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی …

 ’’تمہارا باپ ہر وقت غصے میں کیوں رہتا ہے، میں نے پوچھا۔ ‘‘

 ’وہ ساری دنیا سے لڑتے رہتے ہیں۔ ‘

 ’مگر کیوں ؟‘

 ’اُنہیں اچھا لگتا ہے …‘ کہتے کہتے وہ ٹھہر گئی تھی …  اس کی آنکھیں سنجیدہ لگیں۔ چہرے کا رنگ جیسے اچانک بدل گیا  — ایک سرخ رنگ اس کے چہرے پر ہوا کے جھونکے کی طرح آیا اور اس نے نظر جھکا لی۔

 ’باپ ساری دنیا سے ناراض رہتا ہے اور تم … ؟‘‘

ساکشی دھیرے سے ہنسی، ’میں تو بس محبت جانتی ہوں۔ یہ لفظ ہی مجھے دیوانہ کر دیتا ہے۔ اڑنے کا من ہوتا ہے …  آسمان چھونے کا۔ تتلیاں بن جانے کا …  اور …  بارش کا جھرنا …‘ وہ میری طرف دیکھ رہی تھی …  اور تم … ؟‘

  — میں نہیں جانتا — ‘

 ’’سب جانتے ہو تم …  مگر ڈرتے ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کیوں ڈرتے ہو۔ بیٹی کی عمر کی ہوں تمہاری …  یہی نا … گر بیٹی تو نہیں نا …‘‘ وہ ہنس رہی تھی۔ میں خود نہیں جانتی ایسا میرے ساتھ کیوں ہوا۔ مگر شاید چھوٹے پن سے ہی تمہاری عادت پڑ گئی تھی اور پھر اچانک ایک دن …  آئینہ دیکھتے ہوئے آئینے میں تمہیں پایا تو حیران رہ گئی۔ تم موجود تھے آئینے میں۔ میری طرف دیکھتے ہوئے …  گہری آنکھوں سے۔ کنپٹّی کے بال تھوڑے سے سفید نظر آئے مجھے …  جی چاہا …  پاپا کا برش اٹھاؤں آور اُنہیں کالے سے پنٹ کر دوں۔ پھر دیکھا تمہیں   — لگا، کالے سے زیادہ سفید میں جم رہے ہو تم …  اپنی پوری مردانگی میں اور میچیوریٹی میں  — ‘‘

کمرہ جیسے خاموش اور بوجھل ہو گیا۔ ہوا رُک گئی۔ وقت ٹھہر گیا۔ بدن میں ایک تھرتھراہٹ سی ہوئی۔ ساکشی کچھ آگے بڑھی تھی۔ اب اس کے چہرے پر شرم و حیا  کا ذرا بھی نام و نشان نہیں تھا۔ ایک محبت کرنے والی مضبوط عورت کا جنم ہوا تھا اس میں   — جو اپنے محبت کے حق کے لئے لڑ سکتی تھی۔ یہ حق بیوی سے بھی چھین سکتی تھی۔ اس لئے کہ ان سب کا جواب تھا اس کے پاس  — دھیرے سے اُس نے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے چھوا اور جیسے صرف انگلیوں کے لمس سے ایک کنپکنپی سی دوڑ گئی ہو …  کسی گہرے نشے کی طرح اُس نے ہاتھوں کو چوم لیا …  ’اُس کی آنکھوں میں روشنی کے انگنت ستارے جھلمل کر رہے تھے۔ مانو، مت مانو …  تم بھی محبت کرتے ہو مجھ سے …  بولو کرتے ہو یا نہیں …‘

اُس کے ہونٹ چپکے سے میرے ہونٹوں پر آ گئے …  جیسے چھناکا ہوا۔ کسی نئے کھلے گلاب کے احساس میں بھی اتنی تازگی نہیں ہوتی۔ نہ اتنی گرمی، نہ اتنی جلن، نہ اتنی آگ …  اور اسی لمس کے ساتھ شانتا کے احساس نے گناہ کا احساس بھی کرایا تھا۔ جھٹکے سے اپنے جسم کو الگ کیا تو ساکشی مجسم سوالی بنی، آنکھوں میں غصہ لئے پوچھ رہی تھی۔

 ’مجھے میرے حق سے محروم کیوں رکھتے ہو‘ وہ غصے میں تھی۔ کیوں کیا الگ مجھے   — جبکہ تم بھی یہی چاہتے تھے۔ سچ بولنا سیکھو  — سب کے لئے سچ بولتے ہوئے اپنے آپ سے جھوٹ کیوں بولتے ہو؟ کہہ دو میرا آنا اچھا نہیں لگتا۔ یا اس طرح میرا چومنا …  لیکن تم ڈرتے ہو۔ اس ڈر کو خود سے الگ کیوں نہیں کرتے تم؟ ایک سچ شانتا ہے تو ایک سچ میں ہوں۔ شانتا کا کوئی سچ نہیں ہے، یہی نا؟ اور شانتا کا اگر کوئی ایک سچ ہوتا تو؟ کیا کر لیتے ؟ یا کیوں کچھ کرنا چاہئے تھا تمہیں ؟‘

ساکشی کی آنکھیں میری آنکھوں میں اُتر گئی تھیں   — سارے سچ الگ ہوتے ہیں۔ یہ بھی مجھے بتانا پڑے گا تمہیں۔ اور یہ بھی کہ محبت ایک فطری عمل ہے، محبت کی نہیں جاتی  — ’صرف تم سے اس لئے پیار نہیں کروں کہ تم میرے باپ کی عمر کے ہو، یا میرے باپ کے دوست ہو، ایسا تو کسی مذہبی کتاب میں بھی نہیں کہا گیا …  پھر کیوں نہ کروں تمہیں پیار، کیوں نہ چاہوں۔ ‘

دیوار پر عرصے سے رکی ہوئی پینڈولم گھڑی جیسے چلنے لگی ہو۔ ایک بار کو لگا، کمرے میں زلزلہ کا جھٹکا آیا ہو …  در دروازے، کھڑکیاں سب جھول رہے ہوں …  اندر جیسے ایک گہرا سنّاٹا پھیل گیا تھا  — اور سنّاٹے کی متعدد شاخیں جیسے زندہ ہو گئی تھیں   — کمرے میں آئے زلزلے کی زد میں  —

 ۔۔ میں، یعنی آدتیہ کپور۔ میں نہیں جانتا، ایسی کوئی کہانی اگر آپ کے ساتھ شروع ہوئی ہوتی تو آپ کیا کرتے۔ خاموشی سے اندر ایک ’گلٹ‘ کو چپ چاپ بڑا ہوتے دیکھنا کیسا ہوتا ہے ؟ آپ مجھے یہ دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں۔ میرا بیٹا ہے آلوک۔ دہرہ دون میں پڑھتا ہے۔ گیارہ سال کا ہے۔ ساکشی صرف سات سال بڑی ہے اس سے۔ دونوں سامنے ہوتے ہیں تو بھائی بہن لگتے ہیں۔ دونوں بھائی بہنوں کی طرح جھگڑا بھی کرتے ہیں۔ اب اُسی دن کی بات ہے …  آلوک کو تلاش کرتی ہوئی وہ کمرے میں آ گئی  — ہمیشہ کی طرح ہوا کے رتھ پر سوار  — گھر میں آلوک کی موجودگی کا احساس میرے ’گلٹ‘ کو اور بڑھا دیتا ہے۔ ساکشی نے دھیرے سے میرے ہاتھوں کو تھام لیا …

 ’کہہ دو تم مجھے پیار نہیں کرتے …‘

 ’نہیں کرتا …‘

 ’آلوک کی قسم؟‘

 ’آلوک کی قسم …‘ آہستہ سے میرے منہ سے نکلا اور جیسے ایکدم سے چونک گیا۔ کہیں اندر ساکشی کے لیے خوشگوار ہوا کے کچھ جھونکے ہوئے تو …  یہ آلوک کی قسم کیو ں کھا لی میں نے …  ہے بھگوان …  یہ مجھے کیا ہو گیا …‘

دوسرے دن صبح آلوک سے لڑتی ہوئی وہ میری طرف دیکھ کر ہنسی تھی  — ’قسم سے آزاد ہو جاؤ۔ آلوک کے لیے سو روپے کا پرساد چڑھا کر آ رہی ہوں میں …‘ اس کے سفید دانت موتیوں کی طرح باہر نکل کر آ گئے تھے …

 ’کیسا پرساد …‘ شانتا باہر نکل آئی تھی۔

 ’مندر گئی تھی …  بس آلوک کی لمبی عمر کے لئے بھگوان کو پرساد چڑھا دیا …

تنہائی کے لمحوں میں ایک بار پھر وہ میرے سامنے تھی  — ’جھوٹی قسم مت کھایا کرو۔ پاپ لگتا ہے۔ بار بار پرساد چڑھانے کے لیے پیسے دو گے مجھے   — اپنی دوسری پتنی کو  — چھوٹی پتنی کو؟‘

ساکشی ہنستے ہوئے بھاگ گئی تھی …  ’میں ‘ یعنی آدتیہ کپور …  وہ ٹھہاکے ابھی بھی میرا تعاقب کر رہے ہیں۔ خاص کر اُس کے آخری لفظ …‘ میرا بھی بیٹا ہے وہ  …  میں نے جنم نہیں دیا تو کیا ہوا …‘

جیسے اندر کتنے ہی گلیشیئر ایک ساتھ ٹوٹتے بہتے جا رہے ہیں …

نہیں، تب یہ سوچنا شاید آسان بھی نہیں تھا کہ محبت کیا بس پہلی بار ہوتی ہے۔ اور دوسری بار —؟ گھر یا خاندان میں بٹ جانے کے بعد بھی کیا ایک گمنام سی خواہش کہیں باقی رہ جاتی ہے   — کہیں کوئی اندر دبی ہوئی ’چور‘ خواہش  — جو گیلی لکڑی میں آگ کے شعلے سی بھڑک جاتی ہے   — نہیں، تب شاید کچھ بھی سوچنا آسان نہیں تھا۔ شانتا کے لئے ساکشی ہر بار ایک چھوٹی سی بچی تھی  — جو بچپن میں روتی ہوئی، اپنے گھر سے بھاگ کر خاموشی سے اُس کی گود میں سما جاتی  — تب کی یادوں کی ایک لمبی دنیا آباد  — ایک چھوٹی سی بلّی تھی  — کٹی  — جاڑے کے دنوں میں کٹی چپ سی اس کے لحاف سے سماجاتی۔ ساکشی اس سے کہانیاں سنتی تھی، ایک بار کہانیاں سنتے ہوئے کٹی کی جگہ ساکشی لحاف میں گھس آئی تو پہلی بار چونکا تھا وہ  — ساکشی کے ہاتھ گرم تھے۔ چہرے کا رنگ بدلا تھا۔ وہ تھوڑا جھکی تھی۔ تب تیرہ کی تھی ساکشی۔ پورا جسم خاموشی سے جیسے اس کے جسم پر ڈال دیا  — اس کے ہونٹ سوکھے پڑے تھے …  کھڑکی کے پچھواڑے ایک جنگل آباد تھا …  شانتا ہاتھوں میں چائے لے کر آئی، تو آدھی نیند میں سوئی ساکشی کو دیکھ کر بولی …  ’ہماری بھی بیٹی ہوتی تو …‘ شانتا شاید پہلے ’مس کریج‘ کو یاد کرتے ہوئے لوٹ گئی تھی …  لیکن ’ہماری بھی بیٹی ہوتی تو‘ …  اس لفظ نے جیسے اندر ایک آگ سی لگا دی تھی۔ کہیں کونے میں بیٹھی کٹی نے آہستہ سے میاؤں کیا تھا۔ اُس نے کٹّی کی طرف دیکھا  — ساکشی کو لے کر اس کی آنکھوں میں واضح طور پر ایک غصہ سا جھلک رہا تھا۔ میرے اندر کنپکنپی سی تھی  — آہستہ سے ساکشی کے ہاتھ میرے سینے تک آ گئے تھے اور …  میں …  اس عجیب سی حالت کو لے کر شاید کسی نفسیاتی دباؤ میں تھا  — کھڑکی کھولی۔ اندھیرے میں گھنا جنگل آباد تھا۔ جنگل کے ایک طرف دو تین چھوٹی چھوٹی کوٹھریاں تھیں۔ اور کچھ دوری پر ایک چھوٹی سی مسجد۔ لیکن اس وقت جیسے گھنے جنگل کی ویرانی نے مجھے اپنے میں ڈھک لیا تھا …

کیا یہ میرے اندر کسی ’لولیتا‘ کی واپسی تھی۔ رات کے وقت کسی لمحے شانتا کو اپنی بانہوں میں لئے دیر تک ساکشی کا چہرہ آنکھوں کی اسکرین پر فریز تھا۔ ایک ٹک۔ جیسے ستاروں کے کارواں کے درمیان بس ایک چہرہ ٹھہر گیا ہو  — بس گیا ہو …  یا پھر شانتا سے مباشرت کے وقت جب اچانک چھوٹی سی ’لولیتا‘ کا چہرہ آنکھوں میں کوندتا تو جیسے اپنے بنائے گئے اخلاقیات کے خول میں ننگا ہو جاتا  — شانتا غائب ہو جاتی  — اندھیرے میں کہیں ساکشی ہوتی۔ ساکشی کی شرارتی انگلیاں جوان سانچے میں آہستہ آہستہ ڈھلنے والا اس کا تو بہ شکن جسم ہوتا  — اچانک جیسے ہزاروں کی تعداد میں چیونٹیاں میرے اندر داخل ہو جاتیں۔ جسم یکایک آگ سے برف بننے لگتا تو شانتا کروٹ لے کر پوچھتی …  کیا ہو گیا  — ممکن ہے بڑھتی عمر کو لے کر سیکس کے لئے میرے خاموش رویّے کو لے کر، وہ اپنے سوالوں کی گواہ تو بن جاتی  — لیکن اُس کے جسم سے ہٹنے کے بعد بھی ساکشی لہراتی، بل کھاتی مجسم سوال بنی اپنی بڑی بڑی خوفزدہ آنکھوں کے ساتھ، رات کے سنّاٹے میں بھی مجھے دیکھ رہی ہوتی —

 ’ڈرتے کیوں ہو۔ میں بھی ایک سچ ہوں۔ جیسے ایک سچ شانتا ہے۔ میں ندی کو مانتی ہوں۔ کیونکہ اس میں لہر ہے، جوش ہے، روانی ہے   — مجھے بہنا اچھا لگتا ہے   — مگر عمر کے احساس کو نہیں مانتی میں …‘

ساکشی کے بڑے ہونے کے احساس تک، کتنی ہی کہانیاں اس کی زندگی میں شامل ہوتی چلی گئیں   — کبھی کوئی شادی بیاہ  — ساکشی کا نئے کپڑے پہن کر سب سے پہلے اس کے پاس آنا  — شانتا کا رسوئی میں ہاتھ بٹانا  — مگر عام طور پر کھانا کھلانے کے لئے وہ ہر بار شانتا سے لڑ جاتی  — مجھے ’کھلانے دو نا‘ …  ایک بار پیار سے شانتا نے کہا تھا  — ’میرے سارے حق چھینتی جا رہی ہے وہ …‘

تب چھن  …  سے ہوا تھا …

اُس رات پھر بستر پر سانپ بنتے ہاتھوں کو شانتا نے یکایک احتجاج میں بدل دیا …  ’شاید اپنی بٹیا بھی اتنا نہیں کرتی، جتنا ساکشی کرتی ہے …‘

باہر گھنا جنگل آباد تھا۔

سانپ بنتے ہاتھ …  چھپکلی کی طرح دیوار سے گرے …  سرد ہو گئے …  وہ ایک بار پھر اپنے محاسبہ کے پُل سے گزر رہا تھا  — وجود میں دہشت طاری تھی —

 ’…  آدتیہ کپور …  یہ سب کیا ہے۔ پرورٹیڈ تو نہیں ہو رہے تم …  ساکشی تمہاری بیٹی کی طرح ہے …  ساکشی کی آواز حملہ کرتی …  ’طرح نا …  بیٹی تو نہیں ہوں۔ ‘ آدتیہ کپور …  آواز پھر حملہ کرتی …  جیسے سنسان جنگل آنے والی تیز ہوا کے تھپیڑوں کے درمیان سلگتا ایک جسم آہستہ آہستہ سرد پڑ جاتا ہے۔

اس کے ٹھیک دوسرے دن کا واقعہ …  شانتا سویرے ہی ناشتہ سے فارغ ہو کر چلی گئی تھی۔ پڑوس میں کوئی پوجا پاٹھ تھا۔ ساکشی جیسے انتظار میں تھی۔ شانتا کے باہر نکلتے ہی جسم لہراتی کمرے میں حاضر۔ یہ ٹھیک وہی وقت تھا، جب وہ ٹاویل باندھے غسل کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ کھٹکا ہوا اور سامنے ساکشی کھڑی تھی۔

ہوا رُک گئی۔ جیسے وقت ٹھہر گیا۔ ساکشی اب سترہ کی ہو گئی تھی …  وہ آنکھیں پھاڑے میری طرف دیکھ رہی تھی اور اچانک جیسے میرے اندر کوئی شعلہ سالپکا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک گناہ کا احساس  — آگے بڑھنا چاہا تو ساکشی سامنے آ کر دیوار کی طرح تن گئی …  اس کی آنکھیں جل رہی تھی …  ہاتھ کانپ رہے تھے …  گالوں، ہونٹوں پر تھرتھراہٹ تھی۔ اُس کے ہاتھ آگے بڑھے۔ ننگے سینے پر سانپ سے رینگے   — میں نے یکایک آنکھیں موند لیں   — جیسے یکایک زلزلہ کا احساس ہوا ہو  — زمین میں درار پڑ گئی ہو  — مکان ہلنے لگا ہو۔ ساکشی کے پیاسے ہونٹ میرے ہونٹ پر آ گئے اور یکایک آدھی رات کے سنّاٹے میں شانتا کے بولے گئے جملوں کی آندھی چل پڑی …  شاید اپنی بٹیا بھی اتنا نہیں کرتی جتنا کہ ساکشی …  کرتی ہے۔

ہوا رک گئی …  ساکشی کے ہاتھ انگارہ بن گئے تھے۔ دہکتے آگے کے شعلے   — لیکن جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی تھی۔ اپنی ہی آگ سے گزرتا ننگا سا، لڑکھڑاتا۔ ساکشی کو ذرا سا دھکا دیا تو وہ جیسے امربیل‘ کی طرح لپٹ گئی  — اور دوسرے ہی لمحہ  — میں جیسے گناہ اور پچھتاوے کی آگ کے درمیان تھا  — میں نے ایک تیز تھپڑ لگایا تھا۔ تھپڑ کی گونج ہوئی تھی۔ تیزی سے ساکشی ہٹی  — غور سے اُس کی طرف دیکھا  — پھر تیزی سے ہنستی چلی گئی۔

 ’لو آج حق بھی لے لیا۔ ‘

 ’حق …‘

 ’تمہارے تھپڑ  — اس نے چہرہ گھمایا …  اس کے گال لال ہو رہے تھے۔ آگے بڑھ کر اس نے سچ مچ میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے۔ پھر تیزی سے پیچھے ہٹی  — ’اب مٹاؤ خود کو  — اس نے گال کی طرف اشارہ کیا  — یہ تم ہو۔ تمہارا نشان  — میں اسے زندہ رکھوں گی۔ وہ ہنس رہی تھی …  ’جاؤ نہا لو …  مگر ایک بات کہوں گی۔ ڈرتے ہو تم۔ لیکن سچائی یہی ہے، سوچتے ہو میرے بارے میں   — شاید سارے کے سارے لمحے   — آزاد نہیں ہو پاتے میرے احساس سے۔ اور نہ ہو پاؤ گے کبھی۔ ‘

وہ جانے کو مڑی  — پھر ٹھہری  — ’دنیا بدل رہی ہے آدتیہ۔ تم بھی بدل جاؤ۔ ‘

 ’آدتیہ‘ …  آج پہلی بار اس نے میرا نام لیا تھا۔ آدتیہ۔ یہ نام …  جیسے ذہن میں گونج رہا تھا۔ میں شاور کے نیچے کھڑا تھا۔ پانی میں بھیگتا ہوا۔ شاور سے پانی کے قطرے ٹپ ٹپ سر پر پڑ رہے تھے   — مگر اس کی آواز لگاتار حرکت میں تھی …  آدتیہ  …  آدتیہ …  آدتیہ …

لفظ بازگشت کر رہے تھے …  بھیگے ننگے بدن میں یہ گونج بھیانک حد تک اپنے ’ظلم‘ اور بربریت‘ کا احساس کرا رہی تھی …

میری زندگی میں آنے والی تبدیلی کو شاید شانتا نے کبھی نہ سمجھ پانے کا من بنا لیا تھا۔ لیکن کیا سچ مچ کوئی تبدیلی میرے اندر آئی تھی؟ کسی گناہ کے عمل سے گزرتے وقت کتنی ہی بار اپنے ہی خیالوں کا قتل ہوتے دیکھتا رہا  — چھوٹی چھوٹی باتوں میں ساکشی اب اپنے پیار کا حق مانگنے لگتی تھی۔ مجھے لگتا تھا، اس کشمکش کو میرے یا ساکشی کے علاوہ بھی سارے ‘ سمجھ رہے ہوں گے   — جیسے آسمان، زمین، میرے بیڈ روم میں لگا آئینہ  — میرے گھر کے جاگتے کونے کترے …  جہاں ساکشی ہر بار اپنے جوان ہونے کے احساس کے ساتھ مجھے محبت کا سبق بھی پڑھا جاتی تھی  — شاید وقت کے بہاؤ سے کمزور ہوا تھا میں۔ اس کا لمس ایک نہ چاہنے والی خوشی دینے لگا تھا  — مگر تبھی مجھ میں ‘ یا میرے اندر دوبارہ روشنی ہو جاتی  — اور جیسے آگے کا گولا برف کی سلّیوں کے درمیان داخل ہوتا ہوا سرد سا ہو جاتا۔ مجھے تعجب یہی تھا کہ گھر کے کونے کترے سے دیواروں تک کو خبر ہونے کے باوجود شاید اس سچ کا احساس کسی انسانی جسم کو نہیں تھا  — نہ آس پاس کے لوگوں کو  — نہ میرے گھرنہ ساکشی کے گھر والوں کو  — سوچتا تھا، ایسی بہت سی کہانیاں وقت کے صفحات پر  بے رحمی سے پھیل جاتی ہیں پھر ختم ہو جاتی ہیں   — ان دنوں ڈھلّن اچانک ہی ساکشی کی شادی کو لے کر فکر میں پڑ گئے تھے۔ کچھ بیوی کا بھی دباؤ تھا۔ کچھ ٹوٹتی صحت اور زندگی سے ہارنے جیسی مایوسیوں کا …  کہ اب جلد ہی ڈھلّن ساکشی کی ذمے داری سے بری ہونا چاہتے تھے۔

یکایک کہیں ڈال سے ایک پتّہ ٹوٹا۔ کوئی خاموش سی چیخ گونجی  … اور گھنے جنگل سے آتی سرسراتی ہوا نے جیسے اندر تیز طوفان اٹھا دیا  — آنکھوں سے کچھ فاصلے پر کھڑی ساکشی سہمی ہوئی ایک ٹک اُس کی طرف دیکھ رہی تھی  — چوکی پر تکیے سے ٹیک لگائے ڈھلّن سر نیچا کئے آہستہ آہستہ اپنے الفاظ کی برف بٹا رہے تھے …

 ’’فن کی قدر و قیمت بدل گئی  — محاورے بدل گئے   — دنیا اکیسویں سے بائیسویں صدی میں داخل ہو گئی۔ مگر …  دوسرے کو کب تک الزام دیتے رہیں   — ہم ہی نہیں بدلے   — نظریئے بدل گئے   — رنگ اور کینوس بدل گئے …  ہم بھی تھوڑا بدل جاتے تو …  کھوں …  کھوں …‘‘

ڈھلّن کو کھانسی اٹھی تھی  — آج فن مصوری ایلیٹ طبقے کی چیز ہو گئی ہے   — اور ہم ابھی بھی قدیم آرٹ کے طور پر اُسے ڈھوئے جا رہے ہیں  — نئی ذہنیت کی ذرا سی روشنی اپنے آرٹ کو دی ہوتی تو …  شاید ابھی اتنا بڑھاپا نہیں آتا …  کھوں …  کھوں …  ڈھلّن ٹھہرے …  اپنی بربادی اور ناکامیوں کے درمیان میری اپنی زندگی تو کٹ گئی مگر ساکشی …

ساکشی دیوار کے سائے سے لگی کھڑی تھی …

ڈھلّن دھیرے سے بولے تھے ’  — ایک لڑکا نظر میں ہے۔ پینٹر ہے۔ اتفاق سے پچھلے ہفتہ ملاقات ہوئی۔ وہ میری طرح نہیں   — لیکن مجھے گرو مانتا ہے   — اس کی اُڑان لمبی ہے۔ سوچتا ہوں …  ساکشی کا …‘

جیسے ایک کے بعد ایک گولے چھوٹتے چلے گئے۔ ساکشی دیوار سے لگ گئی۔ جب میں نے اس طرف نگاہ کی۔ محسوس ہوا، وہ اپنے احساسوں کی جھاگ میں کانپ رہی ہو  — چہرا پیلا پڑ گیا ہو۔ شانتا باورچی خانہ سے چلی آئی تھی۔

 ’’بھیّا اچھا کیا آپ نے۔ اچھے لڑکے ملتے کہاں ہیں۔ دیکھو تو کیسے شرما گئی …‘

ساکشی تیزی سے بھاگی تھی  — میں بے حس اور حیرت زدہ تھا  — بھلا میرے سوا اس کے آنسو کس نے دیکھے تھے۔ لیکن وہ آنسو، عام آنسوؤں کی طرح مجھے کمزور نہیں لگے۔

میں یکایک خاموش ہو گیا تھا۔ یکایک پہلی بار لگا، جیسے کسی نے میرے اندر زور سے مکّا مارا ہو۔ ساکشی کو لے کر اب تک ایسا کوئی احساس میرے اندر کبھی نہیں جنما  — مگر اس وقت اچانک غیر متوقع طور پر اس کی شادی کی بات کو لے کر …

ڈھلّن چلے گئے تو میں ایک بار پھر کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا  — باہر جنگل آباد تھا۔ درخت ہل رہے تھے۔ جنگل سے آتی ٹھنڈی ہوا، مجھے آنے والے وقت کے بھیانک تھپیڑے کا قصہ سنا رہی تھی  — مگر مجھے کیا خبر تھی  — کہ جنگل کی آگ اتنی تیزی سے بھی بھڑک سکتی ہے۔

 ۔۔ اس دن بارش ہو رہی تھی۔ پیٹ پیٹ کر مسلا دھار بارش اور یہی وہ وقت تھا، جب اس کہانی کا پردہ اٹھنے ولا تھا  — بارش مجھے بے حد پسند ہے۔ بارش کی ہزاروں پیاری یادیں ہیں میرے پاس۔ بارش آج بھی ایک خوبصورت فینٹیسی ہے میرے مجھے کسی یوٹوپیا یا کسی بے حد خوبصورت دنیا میں پہنچانے کے لیے   — بارش میرے لئے صرف ایک بارش نہیں، بلکہ میرے اپنے جذبات کے رم جھم جھرنے میں بھیگنے جیسا پیارا احساس ہے   — جیسے سمندر کی لہریں ہوتی ہیں …  سنّاٹی، اندھیری رات میں ساحل پر کھڑے سمندر کی اٹھتی لہروں کو پتہ نہیں کبھی آپ نے دیکھا ہے یا نہیں۔ ان کے شور سنئے   —  اور سنّاٹے میں دور سے چلی آ رہی لہروں کو یکایک اچھال لیتے ہوئے دیکھئے   — کچھ یکایک ’اچھلا‘ تھا میرے اندر  — میرے پورے وجود کو جھنجھوڑتا ہوا  — سمندر کی لہروں کی طرح۔ اور اس دن کی خوبی یہ تھی کہ مسلا دھار بارش ہو رہی تھی‘ اور جیسے زندگی کا سوال نامہ تیار کرنے والے نے میرے لیے اگنی پریکشا کے ایسے سوال تیار کیے تھے کہ مجھے خود پر تعجب تھا۔

اور اس واقعے کے ایک دن پہلے یا تو سب کچھ معمول پر تھا یا سب کچھ معمول پر نہیں تھا  — ہاں، اس دن بارش کے اشارے مل چکے تھے۔ اس دن کئی واقعے سرزد ہوئے   — ڈھلّن ساکشی کی شادی کی تاریخ رکھ آئے تھے   — دو مہینے بعد شادی تھی  — سب کچھ میرے گھر پر ہی تھا  — بار بار، کچھ فاصلے پر بیٹھی اپنے ناخنوں کو چباتی ساکشی، پلٹ کر میری طرف دیکھ لیتی۔ اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑا ہوا تھا۔ اس دن صبح سویرے فون کی گھنٹی نے ایک منحوس خبر بھی سنائی تھی۔ شانتا کے اکلوتے چاچا گزر گئے تھے۔ وہ صبح سے روئے جا رہی تھی۔ آلوک کو لے کر تین بجے کی گاڑی پکڑنی تھی۔ تیسرا واقعہ مجھ سے جڑا تھا۔ مجھے بخار تھا۔ شانتا کو یہ بھی فکر تھی کہ گھر پر کوئی نہیں ہو گا۔ میری دیکھ بھال کون کرے گا۔

 ’بھائی صاحب، یہ تو کچھ بھی نہیں جانتے، گھر میں کون چیز کہاں رکھی ہے۔ انہیں کچھ بھی نہیں پتہ۔ میں تو کل ہی چل دوں گی۔ مگر آج رات …‘

شانتا، سورگیہ چاچا کی یاد میں پلّو سے آنکھیں پوچھ رہی تھی  — ڈھلّن نے پلٹ کر دیکھا تھا  — ٹھیک یہی وقت تھا جب جنگ کی طرح بارش نے، نگاڑے کی تھاپ پر، اپنی پہلی موجودگی کا احساس کرایا تھا  — کڑکڑاتے بادلوں کی گونج اٹھی تھی۔ لیکن بادلوں کی گھڑگھڑاہٹ میں ساکشی کے برف ہوتے لفظ بجنے لگے تھے  —

 ’تم جاؤ دیدی۔ میں ہوں نا۔ آج رات میں یہیں رک جاؤں گی۔ ان کی پوری طرح سے دیکھ بھال کروں گی۔ ‘

 ’لو …  پرابلم ہی سالو …‘ ڈھلّن ہنسے  —

شانتا محبت سے مسکرائی  — بس ساکشی ہے تو مجھے کوئی فکر نہیں۔ ساکشی انہیں سنبھال لے گی۔

ساکشی کا چہرہ جذبات سے عاری تھا  — سرجھکائے، ہاتھوں کے ناخن اپنے رس بھرے ہونٹوں سے کترتی …

پھر ایک ساتھ کتنے ہی بادل گرج اٹھے۔

میرے اندر سمندر کی لہریں پہلے سرد تھیں لیکن جیسے جنگ کا بگل بجنے کے بعد  — ان لہروں کا جوار بھاٹا اٹھنا شروع ہو گیا تھا۔

ڈھلّن چلے گئے۔ دو بجے آلوک کو لے کر شانتا چلی گئی۔ میں اندر چلنے والی کشمکش کو سنبھالتا آگے بڑھا تو مجھے باہر کا دروازہ بند کرنے کی آہٹ سنائی دی  — یہ ساکشی تھی  — اور اب پورے گھر میں صرف ہم دونوں تھے   — اور یہی وہ لمحہ تھا جب بارش کی تھوڑی تھوڑی بوندیں برسنی شروع ہو گئی تھی۔

میں کمرے میں آ گیا …  سانسیں پتہ نہیں کیوں تیز تیز چل رہی تھیں۔ دروازہ کھلا رکھا تھا۔ ساکشی کے ہونے کا احساس مجھے اندر تک برانگیختہ کر رہا تھا  — شاید میرا بخار بڑھ گیا تھا  — پیشانی جل رہی تھی۔ کنپٹّیاں سلگ رہی تھی …  میں ہر آہٹ پر کان لگائے ہوا تھا …  ایک دو …  لیکن ساکشی نہیں آئی …  کہاں رہ گئی۔ پاؤں میں ذرا سی حرکت ہوئی۔ اٹھا …  چل کر ذرا باہر آیا۔ باہر چوکے پر ساکشی اوندھی لیٹی تھی …  وہ رو رہی تھی …  اس کی سسکیاں مجھے اندر تک چوٹ پہنچا رہی تھیں۔ بارش دھیمی دھیمی ہو رہی تھی …  ساکشی سے ذرا سے فاصلے پر، چھجے سے پانی ٹپک رہا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ اندر کے بخار کو بہنے سے روکا  — ساکشی کے پاس گیا تو اندر دبا لاوا پھٹ جائے گا۔ جیسے کوئی جوالا مکھی ہوتا ہے …  سویا ہوا جوالا مکھی  — مجھے لگا، میرا لمس پاتے ہی پھٹ جائے گی وہ …  چھجّے کے پاس والا برامدہ بھیگ گیا تھا …  میں نے اپنے پاؤں واپس کھینچے …  بستر پر آ گیا …  لیٹ گیا …

سامنے دیوار گھنٹی ٹن …  ٹن …  ۳ کے گھنٹے مار رہی تھی  — پینڈولم جھول رہا تھا۔ اچانک جیسے پورا جسم ایک پینڈولم ہو گیا  — وہ آ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں۔

اس کے ہاتھوں میں چائے تھی۔ چائے پاس والی میز پر رکھ دی  — دوا کے ٹیبلیٹ اس کے ہاتھ میں تھے   — پانی گلاس اور ٹیبلیٹ لے کر وہ پاس آئی۔ آہستہ سے پیشانی کو چھوا اور چونک گئی۔

 ’دوا کھالو۔ جانتی ہوں سوئے نہیں ہو  — ناٹک مت کرو  — تیز فیور ہے۔ ‘

میں نے دیکھا، اس کی آنکھیں رونے سے پھول گئی تھیں   — اس نے آسمانی رنگ کی شلوار پہن رکھی تھی۔ آسمانی بوٹے والا جمپر …  اس کے ہاتھ بے حد پیارے تھے   — پہلی بار اس کے ہاتھ سے دوا لیتے ہوئے جیسے میں اس کے جسم کو دیکھ رہا تھا — جوانی کے سارے رنگ اور آگ اور اُس کے بدن میں سمٹ آئے تھے   — گورا رنگ، لمبے بال، لانبی گردن …  بے حد نازک اٹھے ہوئے ہونٹ  — مجھے دیکھتا پاکر اس نے نظریں جھکا لیں۔ پھر ٹھہری نہیں۔ کمرے سے باہر نکل گئی۔

میرے اندر جیسے اتھل پتھل مچی تھی۔ ایک بھیانک کشمکش تھا …  ہر لمحہ اپنے ہی اندر کی آگ سے لڑتا، الجھتا  — کوئی دو گھنٹے گزر گئے   — اُٹھ کر برامدے تک گیا تو پایا ساکشی اسی حالت میں سو گئی تھی  — جیسے تھوڑی دیر قبل اُسے روتی حالت میں دیکھ کر آیا تھا …  اس کا سینہ روشن تھا  — شلوار اور جمپر سے جیسے آگ کی جھانس اٹھ رہی تھی …  پاؤں بے حد خوبصورت۔ انگلیاں جیسے تراشی گئی ہوں   — بارش تھوڑا سا رُکی تھی …  لیکن تھوڑی دیر بعد ہی بادلوں کی گڑگڑاہٹ شروع ہو گئی۔ اس بار اس گرگراہٹ میں جوش بھی تھا  — ایسا لگتا تھا جیسے اب بارش ہوئی تو رکے گی نہیں۔

سات بجے ساکشی دوبارہ اٹھ گئی  — میرے لیے روٹی کے پھلکے لے کر آئی  — مجھے احساس تھا مجھ سے کہیں زیادہ جدو جہد سے وہ دوچار ہو گی — لیکن وہ چپ کیوں ہے ؟ آج ساری رات اسے یہیں رہنا ہے   — لیکن ساکشی کہاں سوئے گی  — ساکشی چپ کیوں ہے۔ کیا نئی الجھنوں سے اُس نے سمجھوتہ کر لیا ہے ؟

لیکن شاید نہیں۔ اب سوئے ہوئے آتش فشاں کے جاگنے کا وقت تھا  — رات کے نو بج گئے تھے   — ساکشی مجھے کھانا کھلا چکی تھی اور دوا بھی  — باہر موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ بارش کی بوندیں ایک عجیب سا سنگیت پیدا کر رہی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر کھڑکی کا دروازہ کھولا۔ باہر جنگل آباد تھا۔ گیلا جنگل …  تبھی بجلی چمکی تھی۔ اور جنگل اندھیرے میں چمک گیا تھا۔ ڈراؤنے پیڑ پودے …  تبھی آہٹ ہوئی  — ہاتھوں میں تکیہ لیے ساکشی میرے بستر پر آئی تھی  — تکیہ میرے تکیے کے پاس رکھ دیا۔ اس سے پہلے کہ میں تعجب سے دیکھتا۔ اس نے میری زبان بند کر دی۔

 ’تمہارے ساتھ سوؤں گی …  میرے پاس صرف آج کا دن ہے۔ ‘

بجلی تیزی سے چمکی تھی۔

باہر جنگل آباد تھا۔ رہ رہ کر بجلی چمک جاتی —

 ’ایک دن کے لیے تم مل گئے …  ایک دن کے لیے تمہارا گھر مل گیا …  جانتے ہو یہ سات گھنٹے کس طرح کاٹے ہیں میں نے ؟ اکیلے رہ کر بھی تمہارے ساتھ۔ چوکے پر لیٹی لیٹی تمہارا احساس کرتی رہی  — پور پور میں …‘

اس نے چنری کنارے ڈال دی  — شانتا کے وارڈ روب کی طرف اس طرح بڑھی جیسے اس کا وارڈ روب ہو  — اور یہ گھر، یہ کمرہ اس کے لیے بالکل بھی اجنبی نہ ہو  — وارڈ روب سے اپنے لیے بلیو رنگ کی نائٹی نکال لی  — ’تھوڑا ڈھیلی ہو گی۔ ہے نا؟ ساکشی زور زور سے چیخی تھی  — بولتے کیوں نہیں ہو تم …  زبان کیوں سل گئی ہے تمہاری۔ ‘

نائٹی کو چہرے کے پاس لے جا کر وہ پھپھک کر رو پڑی —

 ’دو مہینے بعد میری شادی ہو جائے گی۔ مجھے برش اور کینوس کی دنیا میں نہیں جانا تھا  — کیوں جانے دیا مجھے  —؟ تم کیوں نہیں رکھ سکتے تھے مجھے ؟‘

باہر ایک بار پھر بجلی زور سے چمکی تھی۔

ساکشی سامنے آ کر ٹھہر گئی  — اس کا جسم جل رہا تھا …  آگے بڑھ کر اس نے میرے ہونٹوں پر اپنی آگ رکھ دی —

اس کے جسم سے ’جھاس‘ اٹھ رہی تھی  — مجھے مکمل کر دو۔ ادھورا نہیں رہنا مجھے۔ بھگوان کے لیے اپنے اور میرے درمیان آج عمر کے چھلکے کو لے کر مت آنا …  زندگی دو مجھے …  مکمل کر دو مجھے …‘

پیچھے پلٹ کر کھلی کھڑکی سے بارش میں بھیگتے جنگل کو دوبارہ نہیں دیکھ پایا  — شاید بجلی چمکی تھی  — یا زور سے ان جنگلوں پر گری تھی بجلی  — سارا جنگل آگ کے شعلوں میں جل اٹھا تھا جیسے …  میں بے حد کمزور تھا اس لمحہ …

یا شاید میں اسی لمحہ کے لئے پیدا ہوا تھا …

آپ نے محبت کو دیکھا ہے کبھی  — نہیں سچ بتائیے گا  — دیکھا ہے محبت کو —؟ او ہینری کے بھوت کی طرح اچانک میں گم ہو گیا تھا  — بھیگا جنگل آباد تھا۔ اور اس جنگل میں بارش رنگوں میں ساکشی نے میری جگہ لے لی تھی …

پھر کتنے ساون …  کتنی خزاں گذر گئی  — مجھے کچھ یاد نہیں  —

اور شاید یاد رکھنا ضروری بھی نہیں  —



 



 

پارکنسن ڈزیز

 ’’محبت/ اپنی پوری آگ اور شدت سے /

زلزلہ کے تیز جھٹکے کی طرح ہلا دیتی ہے آپ کو اندر تک/

محبت اپنی تمام تر تمازت اور احساس کے ساتھ/

مسلسل آپ کو ہلاتی رہتی ہے …‘‘

 ۔۔ اس کمرے میں کھڑکی نہیں تھی۔ روشن دان نہیں تھا۔ کمرہ بند کرتے ہی ایر کنڈیشنڈ کی ٹھنڈک کے ساتھ بھیانک ڈپریشن کا بھوت، اچانک ہی شیشے کی چمچماتی زمین پر چلتے ہوئے اپنے پاؤں پھیلا لیتا تھا۔

 ’یو …  نو …  ہا ss ہاss‘

وہ ہنس رہا تھا  — وہ یعنی رمیش کالرا۔ ’میری ڈوانہ‘ کمپنی کے کال سینٹر میں اب اس کی حیثیت اور رتبہ میں اضافہ ہو چکا تھا۔ یہ اس کے لیے ایک ایسی خوبصورت اُڑان تھی‘ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اچانک کسی ’دانشور‘ میں تبدیل ہو جاتا تھا۔

 ’مین گیٹ، پھر برآمدہ پار کرتے ہی وہ بوڑھا کمزور جسم دکھائی دے جاتا تھا۔ رمیش کے پرسنل کمرے میں داخل ہوتے ہوئے   — وہیں جالی لگے دروازے کے پاس کرسی پر بیٹھا ہوا …  مگر وہ ہل رہا تھا …  نہیں، بادلوں میں پھنسے ہوائی جہاز میں بھی آپ ایسے نہیں ہلتے۔ سامنے کوئی دشمن یا دہشت گرد اچانک آپ پر پسٹل یا بندوق تان دے تو …  تب بھی نہیں۔ شتابدی ایکسپریس کے پسینجر بھی ایسے نہیں ہلتے ہوں گے۔ سردی سے ٹھٹھرتی ویران راتوں میں، اور ذرا تھوڑی سی بارش ہو جائے تو …‘ تب بھی بے حد کم کپڑوں میں سمٹی ہوئی ’بے چارگی‘ اور مفلسی‘ ایسی نہیں ہلتی آتی ہے، جیسے …  شاید اسی لیے رمیش کالرا کی ہر ہنسی مجھے وہیں لے جا رہی تھی  — اُس ہلتے ہوئے بوڑھے کی طرف۔ جو آپ کی ہنسی‘ قہقہے سے بے نیاز صرف ہلے جا رہا تھا۔

 ’ہوss ہوss‘ رمیش میری طرف مڑا — بوڑھے آدمی ہلنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ اپنے لمبے تجربہ کی سڑک تک …  وہ سب کو اتنا ہلا چکے ہوتے ہیں کہ  — ان کے پاس اس عمر میں پہنچنے کے بعد …  یو نو …  صرف ہلنا ہی باقی رہ جاتا ہے …‘

رمیش نے قہقہہ لگایا تھا۔ ایک زوردار قہقہہ۔ کسی پر جوش گھوڑے کی طرح ہنہناتے ‘ ہلتے اس کے پورے وجود نے مجھے ایک ساتھ آج پیش آنے والے کتنے ہی واقعات کی یاد تازہ کر دی تھی۔

آج کا پورا دن ہی بوڑھوں کے نام تھا۔ جوان آدمی کے پاس اپنے سے زیادہ بوڑھی عمر کے قصے ہوتے ہیں   — بوڑھوں میں ان کی کشش در اصل ان کے لیے ایک فکر اور چیلنج جیسی ہوتی ہے   — دیکھو۔ تم بھی وہی ہونے جا رہے ہو۔ یعنی بس کچھ دنوں کے بعد۔ لاچاری کے پائیدان پر کھڑے۔ کچھ نوجوان اس ’دل دہلا‘ دینے والے قصے کو اس لیے بھی نہیں سننے کا بہانہ کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ مستقبل کے سہمے ہوئے آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے بھی ڈر جاتے ہیں۔

رمیش نے پھر ٹھہاکہ لگایا  — ’’ہوئے  ہوئے  میرے جذباتی دوست۔ انہیں ٹھنڈک برداشت نہیں ہوتی۔ میرے بے حد جذباتی دوست …  اسی لیے وہ ہلتے رہتے ہیں۔ ‘‘

 ’’اوہ ! یقینی طور پر میرے عزیز دوست۔ لیکن میں کہہ سکتا ہوں۔ ایک دن وہ اپنے اکیلے پن کی زندگی سے گھبرا کر اتنی زیادہ گرمی محسوس کریں گے …  کہ …  نہیں تم ہنس رہے ہو …  یقین کرو۔ میرے عزیز دوست۔ ان کا ہلنا بند ہو جائے گا …‘‘

پہلی بار مجھے بھی اس بات کا احساس نہیں تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں یا جس جسم کو ابھی کچھ دیر پہلے میں نے یوں ہلتے ہوئے دیکھا تھا، اس کے بارے میں میرا یہ سوچنا، یقیناً  رمیش کے لیے یہ ہنسنے والی بات تھی اور اس وقت وہ یہی کر رہا تھا۔

ہوSS  ہوss  یعنی تم بھی …  پورے مسخرے ہو یار …  وہ پیٹ پکڑ کر ہنس رہا تھا …  یعنی، آج بھی تم کسی کرشمہ یا جادو پر بھروسہ کرتے ہو؟

ہر عمل کا اس کے برابر اور برخلاف ایک ردّ عمل ہوتا ہے   — اس لیے کرشمہ تو ہوا تھا لیکن اس کرشمہ کا رنگ روپ مختلف تھا۔

 ۔۔ بولتے ہوئے اس کی ناک ذرا سا سکڑ جاتی تھی۔ منہ سے ادا کیے جانے والے مکمل جملوں کے دوران تھوڑے سے لفظ اس کی سانسوں کے نام ہو جاتے تھے۔ آگے کے بال تیزی سے اڑنا شروع ہو گئے تھے۔ رمیش کالرا کی زندگی کے بہت سے موڑ ایسے تھے، جسے شاید صرف میں جانتا تھا۔ ذہین، مگر ذہانت کا غلط استعمال کرنے والا، پر وقار، اڑنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکنے میں کوئی جھجک نہیں۔ اس لیے جھوٹ اس کے لیے ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر رہا۔ یعنی ایسے لوگوں میں آپ اس کا شمار کر سکتے ہیں، جو جھوٹ کو اپنے مستقبل کے منصوبوں کے طور پر بھی لیتے ہیں   — رمیش کی شادی دلچسپ حالات میں ہوئی۔ بیوی ہائی فائی گھر کی تھی۔ ان دنوں رمیش کے جھوٹ بولنے کے دلچسپ سلسلے کا آغاز ہو چکا تھا۔ بچپن سے اس کے شاہانہ مزاج نے اسے بتایا تھا  — اڑنا ہے تو گلا کاٹنا سیکھو۔ سیاسی نیتاؤں کے گھر کے چکر  — کسی کو کام دلا کر کچھ پیسہ بنا لینا  — پھر ڈسکو تھے۔ فائیو اسٹار ہوٹل لابی میں بے وجہ جا بیٹھنا۔ تھوڑی سی ہیرا پھیری نے سیکنڈ ہینڈ کار بھی دلوا دی  — ایک خوبصورت سی ٹاٹا سفاری اسے کوڑیوں کے مول مل گئی۔ ہوا یوں کہ یہ سفاری ایک ڈاکٹر کی تھی۔ اور ڈاکٹر کے بندے کا ایک پھنسا کام ہمارے رمیش کالرا نے اپنی وزیر تک پہنچ کے حساب سے کرا دیا تھا۔ ٹاٹا سفاری کا ایکسیڈنٹ ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے اسے منحوس سمجھ کر دوسری لینے کا فیصلہ کیا۔ اور اس طرح کوڑیوں کے مول یہ گاڑی رمیش کالرا کے پاس آ گئی۔ اور یہیں فائیو اسٹار ہوٹل میرانڈا کی لابی میں اچانک اس کی ملاقات مسکان سے ہوئی تھی  — اسکرٹ، سلیو لیس، بے بی شرٹ جس سے اس کا آدھا پیٹ نظر آ رہا تھا۔ سوالو ں کا تبادلہ ہوا  — رمیش نے دھیرے سے کہا  — آئی اے ایس کا امتحان دیا ہے …  بس گوٹی فٹ تھی۔ تیر سیدھے نشانہ پر لگا تھا —

کپڑوں کی سمجھ بوجھ اچھی تھی۔ یہ لگاتار فائیو اسٹارس ہوٹل میں جانے کی وجہ سے ہوا، یا جو بھی وجہ ہو، مگر اچھی اسٹائلش انگلش اور اچھے پہناوے سے یہ یقین کرنا مشکل کہ بار بار ناک سکوڑنے والا کالرا بھی آئی اے ایس بننے کا خواب دیکھ سکتا ہے۔

شاید یہی مسکان کے، کالرا سے قریب آنے کی کہانی تھی۔ اس کہانی میں آگے بھی بہت کچھ شامل رہا۔ جیسے مسکان کے بزنس مین والد سے ملاقات۔ ان کا دل جیتنا، ٹاٹا سفاری کی شاندار سواری  — اور کالرا کا مخصوص اسٹائلش انداز۔

کہیں ایک بوڑھے اور لاغر جسم میں پرانی اور ختم ہوتی ہوئی تہذیب کے آثار باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ اخلاقیات کی پرانی نشانیاں کالرا کے باپ میں زندہ تھیں۔ وہ پرانے زمانے کے تھے۔ پرانے انداز سے سوچتے تھے۔ اس لیے اُن کے وجود میں یہ نشانیاں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی زندہ تھیں   — دو کمرے والے ایک پرانے گھر میں رہنے والا رنویر کالرا‘ رمیش کے لیے ایک بوجھ یا دھبّے سے زیادہ نہیں تھا  — بس، پیدا کرنے کے جرم نے اس ہونی یا ’کباڑ کو تسلیم کر لیا تھا  — ماں کا انتقال ہو چکا تھا۔ دو بہنوں کی شادی ہو چکی تھی۔ شادی کے لیے ایک اچھے گھر کا بندوبست بھی کرنا تھا۔ بینک سے ایک بڑی لون پوری پلاننگ کے طور پر رمیش نے سینکشن کرا لیا  — کہ بزنس مین کی سونا دینے والی مرغی کے آتے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔

اور یہی وہ وقت تھا، جب مکمل سورج گرہن لگا تھا  — اور یہی وہ وقت تھا جب خاموش خاموش بیٹے کی حرکتوں کو دیکھتے سمجھتے، اس سے گالیاں کھانے والا باپ رنویر کالرا ہلنے لگا تھا  — جیسے گھوڑے ہلتے ہیں۔ شاید یہ برسوں سے اندر دبی ہوئی خاموش چنگاریوں کا نتیجہ تھا کہ وہ ایک ایسے مرض میں مبتلا ہو گئے   — جو ان کے خاندان یا ان کے آباء و اجداد میں کسی کو نہیں تھا۔

بینک سے لون مل جانے کے فوراً بعد پریت وہار میں کالرا نے ایک کوٹھی بھی خرید لی اور اس کوٹھی کی بھی الگ کہانی تھی  — یہ کوٹھی ایک بیوہ کی تھی، جس کے بیٹے غیر ملک میں آباد ہو گئے تھے۔ رمیش کے مسلسل آنے جانے اور چھوٹے موٹے کام کر دینے سے بیوہ پر رمیش کا جادو چل گیا تھا۔ بیوہ کو پریت وہار کی اپنی کوٹھی چھوڑ کر‘ روہنی کے چھوٹے سے گھر میں جانا تھا، جہاں اس کی ایک منہ بولی بیٹی رہتی تھی  — اور یہیں سے دو مہینے بعد اُسے غیر ملک بیٹے کے پاس چلے جانا تھا۔ کوٹھی کی قیمت طے ہوئی۔ دو قسطوں میں پیسے ادائیگی کی بات ہوئی۔ ساری لکھا پڑھی کرتے ہوئے رمیش نے صاف بتا دیا کہ کوٹھی اپنے نام رجسٹری کرانے کی منشا صرف اتنی ہے کہ کل کو ادائیگی کے لیے جواب دہ وہی رہے۔ آدھی کہانی یہ ہے کہ بیوہ کو یہ ملک چھوڑنے تک آدھی ادائیگی نہیں ہو سکی  — اور وہ رمیش کے نام ایک چھوٹا سا مقدمہ دائر کر گئی۔ لیکن ایسے کتنے ہی مقدمے اس کے نام چلے بھی بند بھی ہو گئے۔

مسکان گھر آئی تو جیسے ایک کے بعد ایک دھماکے ہوتے گئے   — لیکن رمیش کی اپنی دنیا میں اس کے آنے کے باوجود کہیں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی  — مثلاً مسکان نے پوچھا —

 ’’تم آئی ایس کی تیاری نہیں کر رہے تھے  —؟‘‘

 ’’نہیں۔ ‘‘

 ’’کیوں بولا جھوٹ ؟‘‘

 ’’تم کو امپریس کرنے کے لیے۔ ‘‘

کوٹھی کے ایک کمرے میں وہ بوڑھی جھریوں والا آ چکا تھا  — جس کے علاج پر پیسے خرچ کرنے کا خیال رمیش کے لیے ایسا ہی تھا، جیسے ریس کورس میں کسی مرے گھوڑے پر داؤ لگانے کا خیال —

مسکان کئی دنوں تک روتی رہی۔ بزنس مین باپ نے سمجھایا  — اور اس طرح ساجھے میں ایک کال سینٹر میری ڈوانا کمپنی کی باگ ڈور اس کے ہاتھوں میں آ گئی  — اور یہ وہی وقت تھا، جب وہ اپنے حسین خوابوں کا جوا کھیلنے کے بعد شاید اپنے آپ میں خود ایک خواب بن گیا تھا  — جذبات، محبت، اصول، رشتوں سے دور اس کے لیے سب کچھ پیسہ تھا۔ پیسوں کی ریس میں کسی بھی حد تک آگے نکلنے تک‘ اس نے اپنے سارے دروازے کھلے رکھے تھے   —

اور ان سے الگ، گھر میں اس بوڑھے اور لاغر جسم کی موجودگی تھی  — جو سارا دن کرسی پر بیٹھا ہلتا رہتا تھا  — اور میرے لیے اگر کہیں کوئی حیران کر دینے والی شئے تھی، تو بس بوڑھے رنویر کالرا کا مسلسل ہلتا ہوا جسم  — جھریوں بھرے چہرے کے گوشت ڈھیلے پڑ گئے تھے۔ آنکھوں سے عینک ہٹ گئی تھی۔ کرتا یا پائجامہ ڈھیلا ڈھالا  — ایسا لگتا جیسے کسی ’بجو کا‘ کو کپڑے پہنا دیئے گئے ہوں   — بے حرکت لنج پنج ہاتھ …  آنکھیں کہاں دیکھتی ہیں اور کہاں نہیں، تب یہ سب طے کر پانا مشکل تھا  — لیکن کیا وقت کے ساتھ اس جسم میں کسی تبدیلی یا کرشمے کی کوئی امید کی جا سکتی تھی  — شاید نہیں۔ اسی لیے اس چھٹی والے دن رمیش کے گھر آنے کے بعد میں پھر اس کمرے میں گیا، جہاں رنویر نامی ’بجوکے ‘ کو کرسی پر ہلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا  — کافی دیر تک اُسے غور سے دیکھنے کے بعد میں تھوڑا فکر مند اور غصے کی حالت میں تھا۔

 ’ہاں، ہلو، ہل سکتے ہو تم۔ اس لیے کہ پورا ملک اس وقت ہل رہا ہے۔ جنتا ہل رہی ہے۔ سرکار ہل رہی ہے، سیاست ہل رہی ہے، لوک سبھا سے سڑک تک سب کچھ ہل رہا ہے۔ اور جان لو تمہاری ان کمزور بنیادوں کو ہلانے کے لیے اب کسی زلزلہ یا سانحہ کی ضرورت نہیں   — اس لیے کہ ملک سے انسان اور سماج سے سیاست، مذہب سے حکومت، تہذیب تک کوئی بھی چیز جامد نہیں   — نہیں۔ سب ہلے جا رہی ہے۔ ‘

 ’کوئی کرشمہ ہوا —؟ ہو sss  ہو …‘ میری ڈوانا کمپنی کا مالک اب میرے سامنے تھا  — ’سنو ساتھی۔ کرشمہ صرف یہاں ہوتا ہے   — وہ اپنے دماغ کی طرف اشارہ کر رہا تھا  — اور ایک بار پھر یہ بتانے کو بے چین تھا کہ اب وہ میری ڈوانہ کمپنی کا ساجھیدار نہیں، بلکہ مالک بن چکا ہے   — تھوڑی سی رشوت، تھوڑا سا جھوٹ، تھوڑی سی جعلسازی، اور ایک بار پھر مسکان کے  بزنس مین باپ کو گہری شکست دینے کے بعد  — اب اس کے تیور بدل گئے تھے۔ اس کا پرانا ساجھیدار یا پارٹنر مسکان کے باپ کا دوست تھا  — اور یہ پارٹنر شپ اس نے مسکان کے والد کے کہنے پر ہی قبول کی تھی  — مگر بقول رمیش کالرا …  ایک ایک کر کے آپ کو اپنی حفاظت دینے والی ساری اینٹیں ہٹانی پڑتی ہیں …

 ’اس سے تو آپ گر جائیں گے …  مطلب آپ خطرہ کے اندر ہوں گے۔ ‘

 ’نہیں نا …‘ وہ ہنس رہا تھا۔ خود مختار۔ اپنی مرضی کا مالک  — حفاظت کی ساری اینٹوں کے ڈھہتے ہی آپ ہوشیار اور اپنی حفاظت کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں۔ کسی پر بھروسہ نہیں۔ ‘

وہ کسی فلاسفر کے انداز میں کھڑکی کی طرف دیکھتا ہوا کہہ رہا تھا  — ’وقت کے ساتھ خواب، محنت اور جدو جہد کے انداز بدل گئے۔ اس لیے کامیابی کی چابی کے لیے زمین بھی بدلنی پڑی  — بدلتے ہوئے بازار کو دیکھنا پڑا اور اس کی تائید میں کھڑے ہونے کے لیے تھوڑا سا خود غرض بننا پڑا  — در اصل یہ سب کچھ نیا نہیں ہے میرے دوست۔ دوسروں سے کچھ الگ ہٹ کر جینا، جیسا کہ میں چاہتا تھا  — چاہتا ہوں، ہمیشہ سے   — وہ دھیرے سے بولا۔ اس نئی عالم کاری تہذیب میں ہمیں اپنا جغرافیہ اور تاریخ اپنی صلاحیت کے مطابق ہی لکھنا پڑتا ہے نا  — اس لیے ایثار سے تیاگ اور تپسیا سے آدرش تک …  سب اپنے لیے ہی محدود — ‘

وہ آہستہ سے کھکھارا  — لیکن تھوڑی سی خود غرضی کا حصہ رکھ چھوڑا ہے   — ہندوستانی ہوں نا۔ اُس اکیلے پن کی خاموش وادیوں میں رکھی اُس کرسی کے لیے جس پر تمہارا کرشمہ ہل رہا ہے   — ایک دن ہلنا بند  — اور کرسی کسی دوسرے کمرے میں رکھ دی جائے گی۔ اُس دن خود غرضی کی کہانی کا یہ باب بھی اپنی تکمیل کو پہنچ جائے گا —

 یہ ایک بھیانک سچ تھا۔ اور شاید اسی لیے میں اس نظام کے اس ناقابل فراموش لمحے سے کوئی امید لگائے بیٹھا تھا کہ اس بوڑھے کا ہلنا بند ہو  — کیونکہ ایک بھی آدمی بدلتا ہے ، کہ پرانے سڑے ہوئے مارکسی اصولوں پر چلنے کی عادت نے اچانک ہی ہم دونوں کے درمیان ہونے والے مکالمہ کو ایک معنی خیز یا بیکار شرط میں تبدیل کر دیا تھا۔ اور ہر بار رمیش اپنے ہونے کی بے رحم حقیقت کے ساتھ، وقت، تاریخ اور تہذیب کی چڈّی چدّی کرنے میں مصروف ہو جاتا  — میرے راستے مختلف تھے۔ شاید اسی لیے اس کے اندر لگاتار چلنے والی تبدیلیوں کو میں ایک بھیانک تہذیبی سانحہ کے طور پر دیکھنے کے لیے مجبور تھا۔ دنیا کے نئے سوفٹ ویئر، آؤٹ سورسنگ، مال، ریلیٹی شوز، پھیلتے ہوئے شہروں کے درمیان شاید ہم کسی قدیم عہد کے ڈائنا سور میں تبدیل ہو چکے تھے اور رمیش مزاجاً بازار اور اس کے نظام کے ساتھ چلتا ہوا صرف اپنا سفر طے کر رہا تھا۔

لیکن یہاں ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا تھا۔ میری ڈوانا کمپنی سے کھنّہ کا بوریا بستر ہٹانے کے فوراً بعد وہاں شلپی نے ایک ڈائرکٹر کے طور پر اپنا چارج سنبھالا تھا، اور مجھے ایک نئی تبدیلی کے اشارے مل گئے تھے۔ پھر جو خبریں اڑتی اڑتی مجھ تک پہنچی تھیں اس میں خوشبو، بارش، تتلی اور عیاری سب کے تھوڑے تھوڑے حصے موجود تھے   — مجھے معلوم ہو گیا تھا، شلپی نے ہمارے اس جھوٹوں کے شہنشاہ کو اپنے مایا جال میں جکڑ لیا ہے۔ شاید اپنے ہی حالات سے لڑتے لڑتے یا جد و جہد کرتے ہوئے ہم ایک عورت کے جسم کے آگے ہتھیار ڈالنے کو مجبور ہو جاتے ہیں۔ اور زندگی میں ہونے والے حادثے، بہت سی الجھی بکھری کہانیوں کو صرف ایک عورت کی موجودگی سلجھانے کی وجہ بن جاتی ہے۔

 ۔۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ اس واقعے کے کچھ ہی مہینوں بعد، مجھے ایسے ’غضبناک‘ حالات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے   — رمیش نے مجھے بلایا تھا۔ لیکن وہ آواز کسی کسی سپر ہیرو یا کسی چٹان کی طرح مضبوط شخص کی یا مہانایک نہیں تھی۔ مجھے اس آواز میں ایک ہارے ہوئے مرد کا چہرہ بھی نظر آیا تھا۔ بہرحال، یہ کچھ مہینوں بعد ہی رمیش سے میری دوسری یا تیسری میٹنگ تھی، مگر وہ اپنے اسی کمرے میں، پتہ نہیں، کیوں مجھے برسوں کا بیمار نظر آ رہا تھا  — جب کہ وہ خود کو نارمل دکھانے کی تیاری تو شروع میں کرتا رہا، لیکن جلد ہی ٹوٹنے بھی لگا۔

اس کمرے میں کھڑکی نہیں تھی۔ روشن دان نہیں تھا۔ کمرہ بند کرتے ہی ایئر کنڈیشنڈ کی ٹھنڈک نے اچانک ہی میرے اندر پاؤں پھیلانے شروع کر دیئے تھے۔ رمیش کرسی پر بیٹھا تھا۔ ہونٹوں پر سگریٹ — کسی گہری سوچ میں ڈوبا …

 ’یو نوsss ہو sss ہو …‘ آج ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ لفظ کسی تنگ گلی میں گم تھے۔

 ’سنا‘ مسکان تمہیں چھوڑ رہی ہے …‘

اس نے پلٹ کر دیکھا  — ’شادی کے دو سال ہو گئے جس دن سے آئی، اسی دن سے چھوڑ رہی ہے …‘

 ’وہ چاہتی کیا ہے ؟‘

 ’سمپل۔ طلاق چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ذہنی اذیت طلاق کے لیے آج ایک معمولی بہانہ بن چکا ہے۔ جس کے پیش نظر کوئی بھی عورت کسی بھی مرد سے طلاق لے سکتی ہے ‘ رمیش کے لفظ دھماکہ خیز تھے …  لیکن وہ ابھی تک تو ایسا نہیں کر پائی …

 ’دو سال زیادہ مدت تو نہیں ہوتی۔ ‘

 ’ہاں۔ ‘

 ’تمہیں نہیں لگتا، اپنی اڑان میں تم نے اپنی ہی زندگی اور گھر بار داؤ پر لگا دیا۔ ‘

 ’مجھے کبھی ایسا نہیں لگا — ‘ رمیش نے ایشٹرے میں سگریٹ کی راکھ جھاڑی  — سب کو اڑنے کا حق ہے۔ آخر سیاست کیا ہے ؟ ایک دوسرے کو دھکّا دینے کی منشا۔ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کے ساتھ کیا کیا؟ اور سنجے گاندھی کا ہیلی کاپٹر سے ہونے والا حادثہ  — لوگوں نے اسے اندرا جی کے ساتھ جوڑا تھا یا نہیں۔ سیاست کے لیے اورنگ زیب نے باپ کو قید کر لیا اور اپنے ہی بھائیوں کا قتل کر ڈالا۔ سمراٹ اشوک نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا کیا؟ میں نے کسی کا قتل تو نہیں کیا …‘

 ’سیاست اور گھر میں فرق ہے …‘

 ’کوئی فرق نہیں۔ گھر ہو سماج، سب کی اپنی اپنی سیاست ہوتی ہے …‘

 ’کیا شلپی بھی اسی سیاست کا حصہ ہے۔ ‘

اچانک جیسے اس کے اندر دھماکہ ہوا تھا۔ اس نے بجھی سگریٹ ایشٹرے میں ڈال دیا۔ اس کے چہرے میں بھیانک تبدیلی آئی تھی۔ وہ اٹھا اور کھڑکی کی جانب بڑھ گیا۔ ایر کنڈیشنڈ بند کیا۔ کھڑکی کھولی۔ جیسے حبس اور گھٹن سے نجات چاہتا ہو۔ سامنے ہی کرسی پر وہ لاغر جسم موجود تھا۔ ویسے ہی ہلتا ہوا  — لیکن شلپی کے نام پر آج میں نے ہلنے کی پہلی لہر کالرا میں دیکھی تھی۔ کچھ بھیانک ہوا تھا۔ شاید جس کا اُسے احساس نہیں تھا  — یا جسے وہ بتانا نہیں چاہتا تھا …  وہ دوبارہ واپس آیا تو اچانک جیسے بہت کچھ اس کے اندر گذر چکا تھا  — وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح کرسی پر بیٹھا پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔

اور قارئین شاید یہی وہ منظر تھا، جس کے لیے یہ کہانی پیدا ہوئی تھی …  ایک پاگل کر دینے والا سنسنی خیز منظر  — کالرا اور آنسو۔ ہزاروں کی آنکھوں میں بے رحمی کے آنسو رکھنے والا کالرا کسی واقعہ یا حادثے سے اتنا بھی لہولہان ہو سکتا ہے کہ رو پڑے، میرے لیے شاید ایسا سوچنا، بھی نا ممکن تھا  — لیکن ایسا ہوا تھا …  وہ رو رہا تھا …  اس کے آنسو آنکھوں سے ڈھلکتے ہوئے اس کے رخسار کو  تر کر گئے تھے   — میں اس پر جھکا ہوا تھا۔ رولو …  تمہیں رو لینا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں۔ خود کو ہلکا کرنے کا حق ہے تمہیں۔ میری موجودگی اگر تمہیں پریشان کر رہی ہے تو میں بعد میں بھی …‘

ایک جھٹکے سے رمیش نے میرا ہاتھ تھام لیا  — نہیں رکو  — تم کہیں نہیں جاؤ گے …  کیونکہ اب جو میں بتانے والا ہوں، وہ شاید کسی کو نہ بتا پاؤں۔ ‘

وہ اپنی آنکھیں خشک کر رہا تھا، جیسے خود کو یا بکھری کہانیوں کو جوڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔

 ’لیکن یہ کہانی شروع کیسے کروں۔ کیا کوئی یقین کر پائے گا۔ ‘

رمیش کالرا کی پیشانی پر پسینے کے قطرے اکٹھے ہو گئے تھے   — دنیا کی ساری کہانیاں محبت سے شروع ہوتی ہیں اور محبت پر ختم  — دنیا کا در اصل اپنی کوئی فلسفہ بھی نہیں ہے۔ محبت ہی فلسفہ ہے۔ کیوں کہ محبت فاتح عالم ہے اور کیا کوئی یقین کرے گا، میرے جیسا آدمی، جسے آپ پتھر، مورت یا کوئی بھی نام دیں وہ کم ہی ہو گا۔ لیکن میرے اندر بھی اور یہاں برائے مہربانی یہ بھی سن لیجئے کہ مسکان میرا پیار نہیں تھی  — اور شاید زندگی کے ان بدنصیب لمحوں میں وہ میری شریک حیات کم۔ ایک بزنس مین کی بیٹی زیادہ رہی۔

رمیش نے رومال سے پسینہ پوچھا  — ’بچپن میں کہانیاں بھی پڑھی تھیں۔ موپاساں، چیخوف، اوہینری جیسے تخلیق کاروں کو پڑھتے ہوئے اچانک‘ چونکا دینے والے مناظر میں یقین کرنا مشکل ہو جاتا کہ ایسا بھی ہوتا ہے   — یا ہو سکتا ہے۔ یا پھر وہ …  کیا بھلا سا نام ہے۔ ہاں، اسٹفن زوگ۔ ایک عورت کی زندگی کے 24گھنٹے۔ یہ 24گھنٹے اس عورت نے ایک ایسے عاشق کو دیئے جو عاشق بننے کے قابل نہیں تھا۔ سوچتا ہوں، کیا زوگ نے یہ کہانی میرے لیے لکھی تھی۔ ‘

وہ ایک دم سے اچانک آئی  — میرے کیبن میں۔ صبح کے گیارہ بج رہے ہوں گے۔ نہیں میں اس پورے لمحے کا نقشہ کھینچ سکتا ہوں۔ شاید ایسا، پہلے کا رمیش کالرا نہیں کر سکتا تھا  — کیونکہ وہ اپنے ساتھ محبت کا خمار اور نشہ لے کر آئی تھی۔ جینس نیلے رنگ کی، جس میں بہت سے گل بوٹے جھول رہے تھے   — اس کی سفید خوبصورت سینڈل تک ٹچ کرتے ہوئے   — جینس کے اوپر سفید ٹی شرٹ  — یہ وہی وقت تھا، جب کمرے میں داخل ہوتے ہوئے میری صبح کی چائے لانے والے چپراسی کو جھٹکا لگا تھا  — میرے کمرے میں، گملے میں رکھے ’نیلا مبر‘ بو نسائی کا پہلا پھول کھلا تھا  — اور گیارہ کی گھنٹی مارنے کے ساتھ ہی دیوار گھڑی کی بیٹری بیٹھ گئی تھی  — تم سمجھ رہے ہو نا، وہ آئی اور اپنے ساتھ وقت کو بھی فریز کر دیا۔

 ’نہیں   — میں خالی ہاتھ‘ نہیں جانا چاہتی۔ یوں بھی میں صرف جیتنے کے لیے دنیا میں آئی ہوں …‘ اپنی تمام تر مضبوطی اور اپنے دیوانہ بنا دینے والے حسن سے واقف دوشیزہ نے اپنا رزیوم آگے کیا  — برائے مہربانی دیکھ لیں۔ لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ میں آپ کے اس کال سینٹر کو ایک نئی زندگی دے سکتی ہوں۔

وہ پیچھے ہٹی  — ’سر دیکھئے مجھے۔ میرا تجربہ صرف اس کورے کاغذ پر نہیں لکھا  — یہاں بھی لکھا ہے۔ میری آنکھوں میں۔ میرے جسم میں۔ ‘

یہ سب کچھ انوکھا تھا  — جیسے کوئی فنتاسی حادثہ ہو رہا ہو  — میرے جیسا شخص، جو بزنس میں صرف ’ریوڈ‘ یا بھدی‘ زبان ہی بولنا جانتا تھا  — یا جسے خود پسندی میں ڈوبے فخریہ کلمات کبھی پسند نہیں آتے …  مگر میں کیا کرتا۔ میں اس کے چکا چوند حسن کے آگے سرنگوں تھا۔ یا پھر یوں کہنا چاہئے۔ میں شاید اندر ہی اندر پگھل رہا تھا یا کانپ رہا تھا …

شلپی زندگی میں آئی تو جیسے وہ سب کچھ ہونے لگا، جواس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا۔ جیسے ایک تاروں بھری رات۔ باہر بالکنی میں، چاند دیکھتے ہوئے میں مدہوشی میں ڈوبا ہوا کوئی فلمی گانا گنگنانے لگا  — جیسے اس رات مسکان کے لیے میرے اندر شاید پہلی بار ایک شوہر یا محبوب نے جنم لیا  — وہ میرے محبت بنتے ہاتھوں کا لمس سمجھ گئی تھی  — یا یہ چھٹی حس دنیا کی تمام عورتوں کے اندر ہوتی ہے کہ وہ مرد کے ہاتھوں میں پرائے پیار کی خوشبو کو پہچان جاتی ہیں۔ مسکان نے میرے ہاتھوں کو بے رحمی سے جھٹک دیا تھا —

 ’ہٹو  — ان ہاتھوں میں کسی اور کا احساس ہے   — تمہاری ہتھیلیوں کی جلد میں کوئی اور ہے، جو محبت بننے کی تیاری کر رہی ہے …  سنو۔ یہ میں نہیں ہوں رمیش کالرا۔

مسکان دوسری طرف کروٹ بدل کر لیٹ گئی تو اچانک احساس ہوا، صرف میرے ہاتھ یا میری ہتھیلیاں نہیں، بلکہ میرے پورے جسم پر شلپی آہستہ آہستہ پھسلنے لگی ہو  — اس رات میں نے خود سے سونے سے پہلے کہا تھا  — تم ایک شاعر بن جاؤ گے کالرا، تو ناکام ہو جاؤ گے   — تمہاری ترقی یا کامیابی کا سارا دارو مدار ہی بے ایمانی، جھوٹ اور وہاں ہے   — جہاں محبت کا کوئی راستہ نہیں جاتا  — مگر اس دن کیبن کے اس کمرے میں   — شاید یہ میرے ہی سوچے سمجھے منصوبے کا ایک حصہ تھا۔ مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا  — رمیش اچانک رکا  — کیا محبت آپ کو دوستو وسکی کے ایڈیٹ یارڈ وکلس مین میں تبدیل کر دیتا ہے   — یا جیسا  زوگ کی اس کہانی میں ہوا  — اس شادی شدہ دوشیزہ کے ایک نوجوان شخص کے ساتھ بھاگ جانے پر  — کیا یہ بات نفرت کے قابل نہیں کہ کوئی عورت کسی اجنبی کے ساتھ بھاگ جائے، جبکہ اس کا شوہر اس کے بچے بھی ہیں   — مسکان کے رہتے شلپی کا خیال  — لیکن شاید میرا دل اس محبت کی خاموش اجازت دے چکا تھا  —

 کیونکہ یہ بچپن سے آج تک کے سفر میں پہلی ایسی کوشش تھی۔ جسے میں بغیر غرض‘ محبت کی حد تک آدمی بنتے ہوئے نبھا رہا تھا —

 میں بس ایک ٹک رمیش کالرا کو دیکھے جا رہا تھا  — نہیں۔ ممکن ہی نہیں کہ یہ شخص رومانس بھی کر سکے   — بازار کی نئی تہذیب نے سیکس کے معنے بدلے ہیں شاید —سیکس اندر ہی اندر رومانس کے کاکٹیل سے جڑ گیا ہے   — اور اس وقت یہی کاکٹیل رمیش کے چہرے سے جھلک رہا تھا۔ اس نے گہری سانس لی۔ پھر کہنا شروع کیا۔

 ’آفس میں ایک میرا اپنا پرائیویٹ کیبن ہے۔ سب کچھ میرے منصوبے کے مطابق ہوا تھا۔ ورلڈ اسپیس ریڈیو پر خوبصورت مگر سنسنی خیز گیت گونج رہا تھا۔ کمرے کو خوشبو دار بنانے کے لیے میں نے اسپرے بھی کیا تھا۔ دس بجے تک سارا اسٹاف آ جاتا ہے۔ مجھے انتظار تھا تو شلپی کا۔ شاید میں نے بہت کچھ سوچ رکھا تھا۔ اور یقین تھا، کھلے دماغوں والی شلپی کے لیے شاید کچھ بھی قابل اعتراض نہ ہو گا۔ وہ کمرے میں آئی تو، خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئی جیسے وہ میرے اندر تک جھانکنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ ایک دم سے سامنے آ کر تن گئی — ‘

 ’’میں سوالوں کو ربر کی طرح کھینچنے میں یقین نہیں رکھتی۔ مجھے پانا چاہتے ہو؟ اس نے رمیش کے ہاتھوں کو تھاما …  ’تو کھولو مجھے …‘ شلپی کا وجود مونا لزا کی طرح ہو رہا تھا، شاید جس کی انوکھی مسکراہٹ کو اس کا خالق بھی نہیں سمجھ سکا ہو گا۔

کپڑے کھل گئے تھے …  لیکن شلپی میں ویسی ہی بے نیازی بھری تھی …  وہ اپنے ننگے جسم کے ساتھ جیسے اس کے سامنے کھڑی اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی  — ’عورت کا بدن ساز ہے۔ لیکن ہر مرد اس ساز کو بجانے کا ہنر نہیں جانتا بتا سکتے ہو میرے جسم میں سب سے زیادہ آگ کہاں ہے   — یہاں …  اس نے مصفیٰ سینہ کے پاس اشارہ کیا۔ یہاں …  یہاں …  یہاں۔ اس کے ہاتھ …  آہستہ آہستہ ہونٹ اور بدن کے دوسرے نازک حصے سے ہوتے ہوئے کان کی لووں کے پاس آ کر ٹھہر گئے   — یہاں …  اپنے ہونٹ لاؤ۔ ساری  — اس وقت آپ کو سر نہیں کہہ سکتی۔ کھڑکی کے پاس ایک آر پار دیکھنے ولا شفّاف شیشہ لگا تھا، جس سے آگے کی دنیا تو دیکھی جا سکتی تھی، مگر باہر سے اندر کی دنیا کو دیکھ پانا مشکل۔ باہر ایک قطار سے ملٹی، اسکائی اسکیپر بلڈنگس کو دیکھتے ہوئے یکایک وہ پلٹی  — گدھ، مائی گاڈ۔ سامنے والی بلڈنگس پر گدھ —

میرے اندر کا آتش فشاں ایک دم سے برف میں تبدیل تھا۔ اس نے کپڑے پہن لیے  —

 ’ساری سر …  آپ سمجھ سکتے ہیں نا۔ صبح گیارہ بجے۔ آپ کی کھڑکی کے ٹھیک سامنے والی بلڈنگ پر گدھ  — بچپن سے میں گدھوں کو نہیں دیکھ سکتی …‘ کپڑے پہن کر وہ کمرے سے باہر تھی۔ جب میں تھوڑے وقفہ بعد خود کو اس دھماکہ خیز حالت سے معمول پر لانے میں کامیاب ہوا تو وہ کیبن میں فائلوں میں سر دیئے بیٹھی تھی …

رمیش کالرا نے ٹھنڈی سانس بھری  — ممکن ہے یہ اس کی طرف سے میرے لیے ایک اذیت سے پُر کارروائی ہو، جس نے مجھے ایک ذہنی اور جسمانی تکلیف پہنچائی تھی۔

وہ کھڑکی کی جانب بڑھا  — وہ میرے اندر اس لمحہ اپنا سارا بولتا حسن اور اپنے ہونے کا نشہ چھوڑ گئی تھی۔ یہ آگ آگے آنے والے لمحوں میں نہ صرف بے حد غضبناک ہوتی جا رہی تھی، بلکہ مجھے ذہنی تناؤ بھی دینے لگی تھی۔ وہ ہر وقت اپنی تمام تر خوبصورتی اور حسن کے ساتھ میرے ذہنی تناؤ کو مسلسل بڑھا رہی تھی  — کبھی سوچتا، وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہی ہے یا …  سچ مچ وہ بالکل    بے نیاز ہے   — جیسے وہ جسمانی سطح پر ایک ہی وقت وائلڈ بھی ہے اور برف بھی  — شاید اپنے غیض و غضب میں وہ مجھے مسلسل نامرد بنا رہی تھی۔ کیونکہ ہر بار اس کے قریب ہونے کے باوجود …  میں اسے ہمبستری کی دعوت نہیں دے سکتا تھا۔ پتہ نہیں یہ بے بسی تھی، یا ایک انجانے گدھ کی آمد کا حادثہ  — اب مجھے اپنے گھر کے باہر بھی گدھ دکھائی دینے لگے تھے اور اس دن …

رمیش کالرا نے کھڑکی بند کر دی  — اس رات بھی وہی انتشار مجھ پر حاوی تھا۔ مسکان چیخ رہی تھی …  ’آج دفتر گئی تھی۔ کھنّہ انکل کو الگ کرنے کے بعد پتہ ہے، تمہارا دفتر مسلسل خسارہ دکھا رہا ہے۔ اور تم …  تمہارے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اب تم کام کے لیے بالکل بھی سیریس نہیں ہو۔ ریمیمبر۔ وہ تمہارا دفتر ہے، تو میرا بھی ہے …‘

مسکان ٹھہر گئی تھی۔ لیکن پتہ نہیں، میں کب تک زور زور سے چیختا رہا۔ اور کیا کیا بولتا رہا۔ مجھے خود خبر نہیں۔ لیکن ہوش آنے تک، بیمار بستر پر لیٹے ہوئے میرے وجود کو مسکان نے ایک جھٹکا دیا تھا  — پہلا ذہنی اسٹراک ہے۔ خطرے کی بات ابھی نہیں ہے   — کہہ کر وہ ہنسی تھی  — دوسرے ہی لمحہ اس نے ایک لفاف میری طرف بڑھا دیا  — یہ شلپی کا رزائنیشن لیٹر ہے۔ اسے کہیں اور کسی بڑی کمپنی میں جاب مل گئی ہے  —

 ۔۔ تو اس نے تمہیں چھوڑ دیا —

 ’پتہ نہیں۔ ‘

 ’لیکن، جیسا کہ مسکان نے کہا، اسے کہیں اور جاب مل گئی۔ ‘

 ’کہہ نہیں سکتا۔ ‘ رمیش نے ٹھنڈی سانس لی  — جیب سے سگریٹ نکالا۔ اور ایک سگریٹ اپنے منہ سے لگاتے ہوئے جیسے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

 ’میں سیاست کا بہت چھوٹا کھلاڑی تھا دوست۔ شاید میں اتنی ہی سیاست کر سکتا تھا، جتنی میری خود غرضی مجھ سے کرا سکتی تھی۔ لیکن رشتوں کی سیاست آپ کو مار دیتی ہے دوست  — وہ اچانک غائب ہو گئی اور شاید یہی وہ وقت تھا، جب اسے لے کر میری دماغی حالت بگڑ چکی تھی  — میں نے اس کے جسم کی خوبصورتی دیکھی تھی، یا شاید اسے پتہ تھا کہ شلپی کے ذریعہ ہی مجھے ایک  بے حد حقیر سی سیاست کے ذریعہ فاتح کیا جا سکتا ہے۔ ‘

رمیش نے سگریٹ کی راکھ ایشٹرے میں جھاڑ دی  — میں پاگلوں کی طرح شلپی کو تلاش کر رہا تھا، اور اس رات۔ تقریباً گیارہ بجے۔ گاڑی پارٹیکو میں لگاتے ہوئے میں نے شلپی کو مسکان کے ساتھ باہر نکلتے اور گاڑی میں دوڑ کر جاتے دیکھا۔ میرے سامنے آنے پر بھی مسکان گھبرائی نہیں، بلکہ کسی فاتح کی طرح میرے سامنے تنی رہی  — لیکن فی الوقت میں ایک نئے ذہنی اسٹراک سے نجات پانے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس لیے میرے پاس میرے لفظ غائب تھے   — شاید اسی رات مجھ پر دوسری بار حملہ ہوا تھا  —

ہم باہر آئے …  تو یکایک مجھے جھٹکا سا لگا تھا  — مین گیٹ، برآمدہ پار کرتے ہی وہ بوڑھا جھولتا اور ہلتا ہوا جسم سامنے تھا۔ میں یکایک چونکا تھا —

  — تم نے دیکھا رمیش —

 ’ہاں ‘

 ’  — نہیں۔ تم نے دیکھا یا نہیں  —؟

رمیش بغیر کچھ کہے اس بوڑھے کی جانب دیکھ رہا تھا، جو مسلسل ہلے جا رہا تھا —

 ’یہ مسکرایا بھی تھا۔ اور میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، جس وقت ہم باہر نکلے اور اچانک اس کی طرف نگاہ گئی  — ایک سیکنڈ کے لیے۔ اس نے اپنا ہلنا بند کر دیا تھا …  تم کیا کہتے ہو … ؟

رمیش جو اب دینے کی حالت میں ذرا سا ’ہل‘ گیا تھا۔ میں نے دوسری بار بوڑھے کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔



 

آخری فریم

اُس کا مرنا طے تھا___

لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ جینا چاہتا تھا___

اور مشکل یہ تھی کہ پچھلے تین چار دنوں سے لگاتار ملک الموت اُسے پریشان کر رہا تھا___

 ’سب سے مل لو۔ ‘

 ’کیوں ؟‘

 ’کیونکہ گڈ بائی، خدا حافظ کہنے کا وقت آ گیا ہے ___‘

 ’ابھی تو میں …  ابھی کیوں … ؟‘

اُس کی عمر زیادہ نہیں تھی۔ یہی کوئی چالی بیالیس سال۔ یعنی ایسی عمر، جہاں پہنچ کر جوان رہنے کا احساس کچھ زیادہ ہی آپ کو پریشان کرنے لگتا ہے ___

 ’عمر سے کیا ہوتا ہے … ؟ملک الموت ہنسا۔

 ’ہوتا کیوں نہیں ہے ___‘

 ’’نہیں ہوتا۔ ‘‘ ملک الموت سنجیدہ تھا۔ ’شکر کرو۔ پہلے آ گیا، موقع دے رہا ہوں ___ مرنے کا الہام سب کو نہیں ہوتا۔ وصیت کر جاؤ۔ سب کو بلا لو …  بیٹے کو، بیٹی کو …  بیوی کو …‘

 ’ڈراؤ مت۔ ‘

 ’میں ڈرا نہیں رہا۔ احساس کرا رہا ہوں ___ تم مرنے والے ہو اور …‘

 ’نہیں، اب میں جینا چاہتا ہوں۔ ‘

ملک الموت ہنسا___ ’پاگل مت بنو۔ مرنے کی دعا مانگتے مانگتے تم نے ہی مجھے بلایا ہے۔ ‘ وہ ہنسا تمہاری دعا سن لی گئی۔ خوش قسمت ہو۔ آج کل وہاں سب کی دعائیں نہیں سنیں جاتیں …

 ’پھر میری کیوں سنی گئی۔ ‘

 ’اس معاملے میں بھی خوش قسمت ہو۔ ‘

 ’مرنے کے معاملے میں ؟‘

 ’ہاں …‘ ملک الموت سنجیدہ تھا۔ ’’ذرا باہر نکل کر دیکھو۔ تم نہیں جانتے، کتنے کتنے لوگ مرنا چاہتے ہیں۔ مگر موت سب کے نصیب میں کہاں ___‘‘

ملک الموت اُس پر جھک گیا تھا ___ ’بولو۔ کب آ جاؤں …  شکر کر …  اس معاملے میں بھی خوش قسمت ہو۔ میں کبھی خبر کر کے نہیں آتا …‘

 ’پھر مجھ ے اتنی محبت کیوں …‘

 ’تم اتنی دردمندی سے، اُس کے حضور میں گڑگڑا، گڑگڑا کے مجھے مانگ رہے تھے کہ ترس آ گیا۔ ذرا یاد کر‘

اُسے یاد کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ سارے منظر صاف تھے۔ زندگی میں سب کچھ بہت جلد کر لینے کا احساس۔ ہر لمحہ جیسے ایک اونچی اڑان اُس کے حصّے میں تھی۔ کم کم سایہ، زیادہ زیادہ دھوپ وہ اس دھوپ میں ننگے ننگے پاؤں چلا تھا___ اور اسی طرح، ننگے ننگے پاؤں چلتے ہوئے ’وہ‘ ٹکرائی تھی۔ برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکروں سے کھیلنے والی___

 ’تھوڑی سی برف ملے گی؟‘

 ’کیوں نہیں۔ ‘

پھر وہ برف کے ٹکڑوں سے کھیلنے والی اُس کے گھر آ گئی۔ کبھی نہیں جانے کے لئے ___ بچے ہو گئے۔ اب بچے برف میں ھیلتے تھے اور دروازے کے باہر برف کے ڈھیر لگنے لگے تھے۔ یکایک زمین غائب ہو گئی۔ برف پگھلنے لگی۔ اُس کی سانس ڈوبنے لگی۔ ہوش میں آیا تو زندگی سے ایڈونچر غائب ہچکے تھے۔ بدن بیماریوں کا گھر تھا___ اُسے یاد آیا، اُڑتے رہنے کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اُس نے کہیں بھی سمجھوتہ نہیں کیا تھا ___اور اب چالیس بیالیس سال کا کمزور جسم آرام چاہتا تھا۔ ابدی سکون___ اور اس سکون کے لئے وہ گھنٹوں عبادت میں ڈوبا رہتا۔ روتا، گڑگڑاتا۔ گھر میں بوجھل سا ماحول تھا___ برف کے ٹکڑوں سے کھیلنے والی کو، اسکیٹنگ کے لئے باہر جانا ہوتا تھا اور بچے، اُس کی بیماری سے گھبرا کر صاف لفظوں میں اپنی ناراضگی کا اظہار کر دیتے تھے ___

 ’چیخو مت۔ اس سے بہتر ہے کہ …‘

 ’بہتر ہے کہ …‘

 ’تم اچی طرح جانتے ہو۔ ’بیوی ہنسی تھی___ باہر برف ہے اور بہت سی تتلیاں۔ تمہاری چیخ سے تتلیاں اُڑ جاتی ہیں۔ ‘

کمرے کے گھنے اندھیرے میں پگھلنے والی ایک چھوٹی سی برف پر لکھ ہوتا تھا___ ’ابدی سکون۔ ‘

وہ اس سکون کے، نہ ختم ہونے والے نشہ میں ڈوبنا چاہتا تھا___

 ’کچھ یاد آیا___‘ ملک الموت سنجیدہ تھا۔

 ’ہاں۔ ‘

 ’تو چلو۔ ‘

 ’کیوں۔ پریشانی میں ایسی باتیں تو سب کرتے ہیں۔ لیکن اب میں …‘

ملک الموت کو حیرانی تھی۔ ’تم انسان کبھی میری سمجھ میں نہیں آئے۔ خیر۔ اپنے اور اپنے گھر کے بارے میں سب کو جانتے ہو تم …  پھر بھی …‘

 ’جینا اس سے مختلف ہے۔ ‘

 ’مرنا سب سے مختلف ہے۔ ‘

 ’زندگی خوبصورت ہے۔ ‘

 ’موت اُس سے زیادہ دلکش۔ ‘

 ’زندگی …‘

ملک الموت اس مکالمے سے پریشان تھا۔ ’اچھا سنو۔ چلو۔ تمہارے اس مسئلے کا بھی حل نکالتے ہیں۔ ایسا کرو۔ کی ایسے دو آدمی کا نام لو جو بے حد خوش رہتے ہوں۔ ‘

 ’پھر کیا ہو گا؟‘

 ’اگر مان لو ان کی خوشی، نقلی ہو، تو … ؟‘

 ’مان ہی نہیں کتا۔ ‘

 ’مان لو___ مان لو اس کے باوجود وہ مرنا چاہتے ہوں۔ ‘

 ’ایسا ہو ہی نہیں سکتا___‘ جواب دیتے ہوئے اُس کے سامنے ایسے دو آدمیوں کا چہرہ گھوم گیا تھا اور اُسے یقین تھا کہ اگر ملک الموت نے اس بوجھل گفتگو کو مزید آگے بڑھایا تو جیت اُسی کی ہو گی …‘

 ’مان لو …‘

 ’ٹھیک ہے …  پھر میں مرنے کے لئے تیار ہو جاؤں گا۔ ‘

 ’اب پہلے آدمی کا نام لو …‘

ملک الموت کو شاید بہت جلد بازی تھی۔ ایک لمحے کو اُس کی آنکھیں بند ہوئیں۔ پھر اپنے باس جارج ویلیم کا دھیان آ گیا۔ خیر سے منسٹر بھی تھا۔ ایک بے حد کامیاب آدمی۔ ایک خوشحال زندگی___ ایک بے حد چاہنے والی بیوی۔ بے حد پیار کرنے والے بچے۔ ہر جگہ ہر موقع پر اُس کے ساتھ___ ہنستے مسکراتے ___ اور وہ اپنی ہر گفتگو میں اپنی کامیابی کا سہرا اپنی سر باندھتا تھا___

اُس نے نام بتایا___ ملک الموت ہنسا___ لو دیکھو اُس کی ہتھیلیاں روشن تھیں اور اسکرین بن گئی تھیں۔ وہ سب کچھ صاف صاف دیکھ سکتا تھا___

صبح کا وقت۔ جارج ولیم بیوی بچوں کے ساتھ ہے۔ ہمیشہ قائم رہنے والی مسکراہٹ کے ساتھ۔ سیکوریٹی گارڈس ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ کی عمارت کی سنگ بنیاد کا منظر___ وہ فیتہ کاٹتا ہے۔ تالیاں بجتی ہیں ___ منظر آگے بڑھتا ہے۔ سب کو نمسکار کرتا جارج ویلیم اپنی بڑی سے گاڑی میں بیٹھتا ہے۔ گاڑی کوارٹر کی طرف روانہ ہوتی ہے۔ ‘

اُ کے چہرے پر طمانیت بھری مسکراہٹ تھی___ ’دیکھا؟‘

 ’اب آگے دیکھو___‘

روشن اسکرین پر اب ڈائننگ ٹیبل ہے ___ ہنستا مسکراتا خاندان ایک ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہا ہے۔ ایک مشہور چینل کا پریس رپورٹر انٹرویو لے رہا ہے۔ کیمرہ آن ہے ___ پریس رپورٹر مسکرا مسکرا کر سوال پوچھتا ہے۔ وہ جواب دے رہا ہے۔ ’بس یہی مختصر سی خوراک___ وہ بیوی کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے۔ کھانا میری بیوی بناتی ہے۔ میرے لئے۔ یہ دلیہ۔ یہ فیرنی۔ وہ اپنے بچوں کی طرف دیکھتا ہے۔ بچے مسکرا رہے ہیں۔ جارج ویلیم بتا رہا ہے …  یہ سب میری زندگی ہیں …  نہیں روح___ بس اور کیا چاہئے مجھے۔ کچھ بھی نہیں۔ ہتھیار، میزائیل کچھ بھی نہیں۔ جنگ، ہماری نجی خوشحالی کو بھی تباہ کرتی ہے …‘

اُس نے تالیاں بجائیں ___ ’دیکھا___‘

 ’اب دیکھو۔ ‘ ملک الموت کے چہرے پر سنجیدگی تھی___

 ’اب کیا دیکھوں۔ اب اس سے زیادہ خوشی کیا ہوتی ہے ___‘

 ’آگے  … آگے دیکھو …‘

ہتھیلیوں پر اسکرین روشن تھا اور وہ یکایک چونک گیا تھا۔ رات۔ رات کا وقت___ دوسرے کمرے میں جارج ویلیم سو رہا ہے ___ بیوی کرسی پر بیٹھی ہے۔ ایک بڑی مونچھوں والا آدمی ٹہل رہا ہے جتنے پیسے چاہئیں۔ رشتے مت دیکھئے …  رشتہ تو جذباتی کر دیتے ہیں۔ ‘

 ’پیسہ بہت ہے ہمارے پاس‘ جارج ویلیم کی بیوی کا چہرہ سپاٹ ہے ___

 ’اور اگر آپ کو وہی کرسی آفر کی جائے جو ___جارج کے پاس ہے …‘

 ’آہ …  آپ سب جانتی ہیں۔ سب جانتی ہیں۔ آپ کو کرسی چاہئے تو___ جارج کو مرنا ہو گا …‘

ہتھیلیاں اندھیرے میں ہیں۔ اسکرین پر بلیک آؤٹ۔

دیکھا___؟ ملک الموت ہنسا۔

 ’دیکھا۔ ‘

 ’پھر___؟‘

اُس کے لہجے میں کھوکھلا پن تھا۔ بچے بھی توہیں۔ جارج تو پوتے والا ہے ___ بیٹے کا بڑا لڑکا اب کالج میں ہے ___‘

 ’اچھا ___لو وہ بھی دیکھو …‘

ہتھیلیوں پر اسکرین روشن ہو گیا ہے۔ جارج کا بیٹا پریشان ٹہل رہا ہے۔ بیٹے کی بیوی یعنی جارج کی بہو غصّے میں ہے۔ تمہیں کیا ملا۔ ہاں۔ کبھی تمہارے لئے ایم ایل اے یا ایم پی بننے کی بھی سفارش نہیں کی۔ کیوں ڈھو رہے ہو بڈھے کو___ پیسہ مانگو اور باہر چلو۔ ‘

ایک کمزور آواز ___ ’وہ راضی نہیں ہوں گے۔ ‘

بہو بگڑتی ہے ___ ’تو مرو۔ نمائش کے گڈے، گڑیے بنا کر زندگی گزار دو۔ وہ جہاں جائے گا، ہمیں سجا کر لے جائے گا۔ دو چار ہمارے بارے میں ڈائیلاگ بولے گا۔ سنو___اُسے  زہر دے دو___ بہت سے دشمن ہیں اُس کے۔ پارٹی بھی یہی چاہتی ہے۔ تمہارے لئے کھلا آفر ہے ___ کچھ نہیں ہو گا بڈھے کی موت کا۔ سب خوشی منائیں گے۔ حکومت کچھ دن تک قتل کی تحقیقات کے لئے کیش بیٹھا دے گی۔ بس …‘

اُسے چکر آ رہے تھے۔ وہ زور سے چیخا___ ’بس کرو۔ ‘

 ’ہو گیا۔ اتنے میں ہی …‘

اُس کے پیشانی پر پسینے کے قطرے جھلملا گئے تھے۔ مائی گاڈ۔ یہ سب …‘

 ’یہی تمہاری دنیا کا سچ ہے۔ ‘

 ’کیا جارج یہ جانتا ہے … ؟‘

 ’لو، تم خود ہی دیکھو لو___‘

ہتھیلیوں پر، اسکرین پھر روشن تھا۔ جارج ٹہل رہا ہے۔ ایک بے چین آتما۔ آنکھوں میں نیند نہیں۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ لیٹ جاتا ہے ___ اور یہ کیا۔ وہ رو رہا ہے …

 ’وہ کچھ کہہ رہا ہے …‘

ہاں تم بھی سنو …‘

اسکرین پر اب کلوز میں جارج کا چہرہ ہے …  وہ رو رہا ہے ___ ’میں سب جانتا ہوں۔ لیکن کیا کروں۔ یہ ناٹک کرنا پڑتا ہے۔ میں جانتا ہوں مجھ سے کوئی خوش نہیں ___ نہ پارٹی۔ نہ عوام۔ نہ بیوی۔ نہ بچے ___ کوئی بھی نہیں … میں بھی نہیں ___ میں نے یہ سب کچھ کیسے کیا، میں جانتا ہوں۔ مجھے اٹھا لے۔ سکون دے دے۔ یا پھر میری زندگی سے راتیں چھین لے۔ تنہائی چھین لے۔ خاموشی کے لمحے چھین لے ___‘

اسکرین پر ایک بار پھر اندھیرا تھا۔

 ’مائی گاڈ‘ ___لیکن اتنی دیر میں وہ اپنے آپ کو آگے کے مکالمے کے لئے تیار کر لیا تھا___ لیکن ایک آدمی کا سچ___‘

 ’اِسی لئے ___ میں نے تمہیں دو آپشن دیے ہیں۔ تمہاری زندگی میں تمہیں سب سے زیادہ خوشحال نظر آنے والے دو آدمی …‘

 ’کیا یہ کم نہیں ہے۔ ‘

 ’نہیں۔ سب کی زندگی ایک سی ہے اور کوئی بھی تمہاری طرح جینا نہیں چاہتا۔ دو کافی ہیں۔ دو مثالوں میں، تم اپنی پوری دنیا پڑھ سکتے ہو۔ اچھا جلدی سے دوسرے کا نام لو …‘

 ’سوچنے تو دو …‘

اُس نے اپنے ذہن کو چاروں طرف دوڑایا___ اپنے وسائل، اپنے رتبے کا سہارا لیا___ پھر نیچے والی پائیدان پر آ گیا ایک موٹرسائیکل ___مشکل سے خریدا گیا ایک چھوٹا سا گھر___ صوفیہ اور اُس کا دوست …‘

 ’صمد …‘ ملک الموت نے اُس کا خیال پڑھ لیا تھا۔

 ’ہاں۔ ‘

 ’تم ان کی شادی میں گواہ تھے۔ ‘

 ’ہاں۔ کیونکہ …‘

بتاؤ مت۔ مجھے سب پتہ ہے۔ لومیرج کی تھی۔ گھر والے خلاف تھے۔ شادی کو 5سال ہو گئے۔ بچہ نہیں ہے۔ ‘

 ’ہاں۔ مگر اس کے باوجود۔ ‘

 ’تم جاتے رہتے ہو …‘

 ’کہاں ؟‘

 ’ارے ‘ ان کے گھر …‘

 ’ہاں۔ ‘

 ’باہر بھی ملتے ہو___‘

 ’ہاں۔ سنیما۔ ریستوراں، کیفے۔ ‘ وہ جذباتی ہو رہا تھا۔ خوشحال زندگی کے لئے امیری کا تحفہ ضروری نہیں۔ ایک معمولی مڈل کلاس کا آدمی بھی …‘

 ’لکچر مت دو۔ اسکرین پر دیکھو۔ ‘

ملک الموت نے ہتھیلیاں سامنے رکھ دی تھیں۔ اسکرین روشن تھا ___صبح کا وقت۔ ڈائننگ ٹیبل۔ دونوں پاس پاس بیٹھے ناشتہ کرتے ہیں۔ صوفیہ، دوست کو کھلا رہی ہے۔ دوست ہنس رہا ہے …  ’لگتا نہیں ہے کہ ہماری شادی کو …‘

 ’5سال ہوئے ہیں۔ ‘ صوفیہ ہنستی ہے۔

دوست اُسے کھاتے ہوئے، گود میں کھینچتا ہے۔ صوفیہ کھکھلاتی ہے۔ دوست اُس کے ہونٹوں کا بوسہ لیتا ہے۔ ‘

 ’جھوٹا کر دیا۔ ‘

 ’جھوٹا نہیں۔ پاک کر دیا ’پوتر‘ ___ دوست ہنستا ہے …

سین تیزی سے بدلتے ہیں ___ دونوں باہر آتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر بیٹھے ہیں اور …

 ’دیکھا‘ ___ اُس نے اپنے ماتھے کا پسینہ پوچھا۔ جیسے موت اُس کی ہتھیلیوں سے دور نکل گئی ہو___ ’کتنے خوش تھے دونوں …  دیکھا۔ زندگی یہ ہے ___‘

 ’نہیں۔ ‘

 ’تم اپنے وعدے سے ہٹ رہے ہو۔ ‘

ملک الموت نے ہتھیلیاں تان دی تھیں ___ اسکرین ایک بار پھر روشن تھا___ دونوں پارک میں ہیں۔ ایک دوسرے کے بانہوں میں بانہیں ڈالے ___ دونوں کچھ محبت بھری باتیں بھی کر رہے ہیں۔

 ’ساؤنڈ …  کر دو۔ ‘

 ’کیوں۔ ‘

 ’میرے دوست ہیں۔ ‘

 ’دوست کی محبت بھری باتیں نہیں سن سکتے۔ ‘

 ’اچھا نہیں لگتا اور پھر___ اخلاقیات بھی کوئی چیز ہے …‘

 ’اچھا چلو___ آواز مت سنو___‘

محبت اور دیوانگی کے عالم میں صوفیہ اور دوست کو دیکھ کر اُس میں کچھ کچھ زندگی لوٹی تھی۔ دو ایک بار کھانسی آئی۔ آنکھوں کے آگے گہرا اندھیرا بھی چھایا لیکن پھر وہ ہتھیلیوں کے اسکرین پر لوٹ آیا …

 ’دیکھا …  یہی سچ ہے …‘

 ’نہیں۔ ‘ ملک الموت سنجیدہ تھا۔ اب آگے دیکھو___ ’رات کا وقت۔ بستر۔ صوفیہ اور دوست قریب قریب۔ ہنسنے اور کھکھلانے کی آوازیں۔ پھر ایک دوسرے سے لپٹنے اور بوسہ بازی کے مناظر___ وہ تیزی سے چیخا___

 ’بند کرو یار۔ یہ ایڈلٹ فلم زندگی میں بہت دیکھی ہے۔ ‘

 ’دوست کی نہیں دیکھ سکتے۔ ‘

 ’نا___‘

 ’بھابھی ہے، اس لئے۔ ‘

 ’ہاں۔ تقدس کا جذبہ بھی کوئی چیز ہے۔ ماں، بہن، بھابھی …‘

 ’چلو، تمہارے اندر اخلاقیات زندہ ہے۔ بڑی بات ہے …‘

 ’تو تم ہار گئے …‘

 ’ہار گئے ___؟ ملک الموت ہنسا___ پاگل تو نہیں ہو گئے۔ ابھی تو تم نے صرف ان کی زندگی کا ایک رُخ دیکھا ہے ___ بھوشن کو جانتے ہو۔ ‘

 ’ہاں۔ صوفیہ کا منہ بولا بھائی۔ ‘

 ’نہیں۔ بوائے فرینڈ۔ ‘

 ’نہیں ‘ وہ غصّے میں چیخا___ ’دوست بھی بھوشن کو جانتا ہے اور بُرا نہیں مانتا۔ ‘

 ’اچھا___ تو دیکھو___‘

ہتھیلیاں روشن تھیں۔ اسکرین پر پہلے پارک میں صوفیہ نظر آئی۔ کیمرہ پُل بیک ہوتے ہی، اُس کے پیچھے بھوشن نظر آیا۔ بھوشن صوفیہ کے چہرے پر جھکا ہوا تھا …  کچھ کہہ رہا تھا۔ صوفیہ کی آنکھیں جل رہی تھیں۔ ہونٹ تھرتھرا رہے تھے اور ادھر___ اُس کے اندر بیماریوں کے ’سیاّل‘ دھوم دھڑاکا مچانے لگے تھے۔ نروس بریک ڈاؤن___ ہائیپر ٹینشن بڑھا ہوا شوگر___ دماغ پر دھائیں دھائیں …  پھیلتا اندھیرا بدن میں تھرتھراہٹ___

 ’لیکن بھوشن تو …‘

وہ کہتے کہتے ٹھر گیا۔ اس ’شریف‘ سے آدمی سے وہ کتنی کتنی بار ملا ہے۔ خود بھوشن اُس کی کتنی عزت کرتا ہے ___

 ’دیکھا‘ ___ملک الموت سنجیدہ ہے ___

اُس کے اندر طوفان آیا ہوا ہے بدن میں آگ لگی ہوئی ہے۔

 ’یہ سین کافی لمبا ہے۔ دیکھو گے ___ ابھی جو کچھ دیکھا، وہ تو کچھ بھی نہیں ہے …‘

 ’نہیں …‘

اُس کی سانس ڈوب رہی تھی۔

ملک الموت نے اُسے جھنجوڑا___ سنو۔ اب دوسرا منظر بھی دیکھ لو___

اس کی آنکھوں کا اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا___

 ’دوسرا منظر۔ ‘

 ’ہاں۔ ‘

 ’کیا منظر۔ ‘

 ’اپنے دوست سے نہیں ملو گے۔ شریف اور مہذب آدمی۔ محبت کا مارا۔ بیچارا___ لو دیکھو لو___‘

اسکرین روشن تھا اور یہ کیا یہ تو جیسے کوئی ایڈلٹ منظر تھا۔ یہ دوست کا گھر تھا۔ بیڈروم …  لڑکی کو وہ پہچانتا نہیں تھا مگر یہ لڑکی صوفیہ نہیں تھی۔ دونوں کے بدن پر اس وقت برائے نام بھی لباس نہیں تھے ___

 ’صوفیہ ابھی نہیں آئے گی …‘ دوست ہنس رہا تھا۔

 ’جانتی ہوں۔ ‘ لڑکی ہنس رہی تھی …

 ’صوفیہ سے بور ہو گیا ہوں۔ ‘

لڑکی کھکھلا رہی تھی___ ’اور مجھ سے۔ ‘

 ’تم آگ ہو اور اُسے تو برف کی پہاڑیوں سے لایا تھا …‘

کھکھلاہٹ۔ قہقہہ___ اور دوسرے میں گُم ہوتے ہوئے گوشت کی دو خوبصورت اُوبڑ کھابڑ پہاڑیاں۔ اور ___

اُس کی سانسیں گم ہو رہی تھیں۔ برف کی پہاڑیاں ___ وہ بھی تو ’اُسے ‘ برف کی پہاڑیوں سے ہی لایا تھا___ وہ بھی تو ایسا ہی کچھ …  برف کی پہاڑیوں سے گھبرا کر___ اُس کے بچے۔ اُس کا گھر۔ اُس کی بیوی___ سانسیں دھونکنے کی طرح چل رہی تھیں۔ سویوّں کے لچھے کی طرح ایک دوسرے پر الجھتی، ٹوٹتی ہوئی۔ پھر اُس نے زور سے چیخنے کی کوشش کی اور یہ کیا۔

گردن ڈھلک گئی تھی۔

سانسیں گم تھیں ___

اسکرین پر اندھیرا تھا۔ ملک الموت نے نبض دیکھی۔ ہلایا ڈلایا۔ پھر خود سے بڑبڑایا۔ کم بخت، کچھ لوگ اُس کی موجودگی کا فائدہ بھی نہیں اٹھاتے۔ وہ ہنس رہا تھا___ لیکن اس ہنسی میں ’زندگی‘ سے زیادہ مکاّری شامل تھی___ کیونکہ وہ انتہائی چالاکی سے دونوں کہانیوں کے آخری فریم کو کھا گیا تھا___ اب، جبکہ اُس کی روح اُس کی مٹھیوں میں تھی، وہ اپنی آنکھوں کے اسکرین پر بچے ہوئے آخری فریم کو دیکھ کر لطف اٹھا سکتا تھا___

اب آخری فریم سامنے تھا___

اور اس فریم میں جارج ویلیم تھا۔ چہرہ جھکا ہوا۔ شرمسار___ کیمرہ بین ہوتے ہی گھر کے دوسرے افراد نظر آ جاتے ہیں۔ جارج ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہا ہے۔

 ’آہ، موت …  موت کا احساس …  نہیں آپ سب مجھے ایسی آنکھوں سے مت دیکھو۔ یقیناً میں تم سب کا مجرم ہوں۔ یقیناً اپنے گھر، اپنے گھر کے لوگوں کا۔ مگر آہ___! اس سے زیادہ اپنے ملک …  اپنی وفاداریوں اور ایمانداریوں کا …  اور اس سے بھی زیادہ___ نہیں ___ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ سب میری باتیں سنیں گے۔ آہ! صرف موت۔ موت جو ہتھیار اور میزائلس کی خرید و فروخت، جو تمام تر مکاّریوں سے زیادہ سچ ہے۔ نہیں، میں کنفیشن نہیں کرنا چاہتا۔ حق بھی نہیں ہے مجھے۔ مگر آہ … ! صرف یہ سوچ کر شرمسار ہو رہا ہوں کہ …  تم لوگ پیدا بھی نہیں ہوئے۔ پیدا ہو کر بھی نہیں پیدا ہوئے۔ زندہ ہو کر بھی نہیں جئے …‘

جارج کچھ دیر کے لئے رُکا۔ اپنے پوتے کو قریب کھینچا ___ ’نہیں۔ میرے پیارے جمّی___ ہم سب کو اپنی زندگی جینے کا حق ہے اور جینا بھی چاہئے ___ اس لئے تمام تر مکاّریوں کو …  نہیں ___ مجھے کہنے سے مت روکو …  میں الوداع کرنا چاہتا ہوں۔ ہاتھ ہلا کر الوداع___ بس اتنی سی زندگی سکون میں گزر جائے گی نا___

 ’بہت سے لوگ مارے گئے ہیں ‘ ___پوتا کہتے کہتے ٹھہرا___ بہت سے لوگ مارے جا رہے ہیں …‘

 ’آہ کنفیشن! نہیں۔ مجھے ایسی آنکھوں سے مت دیکھو پوتے ___ مگر موت کا احساس …  تم سمجھ رہے ہونا‘۔ ’ہاں ‘ ابھی اتنا بہت ہے …‘ بیٹا کہتے کہتے ٹھہرا۔ ’یہ احساس …  یعنی یہ میزائلوں کا احساس …  یعنی ابھی یہ مارے جانے والے لوگوں کا احساس …‘

بیوی کے چہرے پر شرمندگی تھی___ کبھی کبھی ہم ایک نہ ختم ہونے والی شرمندگی میں جیتے ہیں ___

بہو آہستہ سے بولی ___اور اسی شرمندگی میں مر جاتے ہیں۔ مگر___ کیا اتنا کافی ہے ؟

ملک الموت مکاّری سے مسکراہٹ نہیں، انسان ہونے کے لئے اور جارج ویلیم جیسا آدمی ___نہیں ___ انسان ہونے کی جون میں پیدا ہونے کے بعد اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ اب دوسری کہانی کا آخری بچا فریم بھی سامنے تھا___ صوفیہ اور دوست دونوں ایک دوسرے کو ٹٹول رہے تھے ___ دوست کی آنکھوں میں نئے لمحوں کی اُڑان تھی___ ہاں، تم سمجھ رہی ہونا۔ ہاں تمہیں سمجھنا بھی چاہئے اور یہ کوئی جرم نہیں ہے ___ دراصل … اپنے اپنے وقت  کے تقاضے کو سمجھنے میں، ہم سے کافی دیر ہو جاتی ہے ___ تم، کسی کے بھی ساتھ۔ تمہاری مرضی___ جا سکتی ہو۔ اور میں …  اپنی قسم کی زندگی___ نہیں، زیادہ خوش مت ہوؤ۔ یہ سب نئی زندگی کے رنگ ہیں اور اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے …  تم …‘‘

 ’انسان کمبخت‘ …  ملک الموت خود کو نڈھال محسوس کر رہا تھا۔ ممکن ہے باقی بچے فریم سے اُسے زندگی مل جاتی۔ ممکن ہے …  وہ بے حد تکان اور سانسوں کو ٹوٹتا محسوس کر رہا تھا۔ اُس نے ژوں کے ساتھ گھوم کر غائب ہونا چاہا___ مگر …



 

کہانی تمہیں لکھنے والی ہے !!!

بوڑھوں کے تیور صرف بوڑھے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ بڑھاپا بچوں اور جوانوں کی سمجھ میں آنے والی چیز ہیں ہے۔ کیا پتہ وہ کب کس بات پر خوش ہو جائیں، کب کس بات پر منہ پھلا دیں، کس بات پر اُداس ہو جائیں۔ بڑی خبطی سی شے ہے بڑھاپا۔ ایک جگہ بیٹھے بیٹھے بھی طبیعت گھبرا جاتی ہے۔ مگر اب پہلے والی بات نہیں رہی۔ اٹھنے پر سر گھومنے لگتا ہے، پیر کے جوڑوں میں درد شروع ہو جاتا ہے، ہاتھ الگ کانپنے لگتا ہے۔ سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو لیٹے لیٹے پوتے کو صدا لگاتا ہوں …

 ’’ببلو …  او ببلو … !‘‘

دوسرے ہی لمحہ وہ بھاگتا ہوا کمرے میں آ جاتا ہے … ’’جی دادا …‘‘

اشارے سے اٹھانے کے لئے کہتا ہوں۔ ببلو پیٹھ کی طرف ہاتھ لگا کر بٹھا دیتا ہے۔ اُٹھ جاتا ہوں تو پھر سوالوں کے ایک لمبے سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ کیا کروں۔ کہاں جاؤں ؟ ایک جگہ بیٹھنے کی بھی عادت نہیں رہی۔ کتنے ہی دوست ہیں جو لاٹھی ٹیکتے ہوئے چلا کرتے ہیں۔ ان مضبوط ہاتھوں پر ہمیشہ سے فخر رہا تھا___ آج تھک ضرور گیا ہوں مگر لاٹھی پکڑنے کی کمزوری نہیں کر سکتا۔ کمرے سے باہر نکل کر بہوؤں کو صدا لگاتا ہوں :

 ’’شاداں  …  عصمت …  ناہید … کوئی ہے …  ذرا چائے بنا دینا …‘‘

باورچی خانے میں کچھ بھَن بھَن سی ہوئی ہے۔ جانتا ہوں، بہوؤں کے درمیان اس بے وقت کی فرمائش اور اس خبطی عادت کو لے کر ناک سکوڑی جا رہی ہو گی___‘‘ ابا پریشان کر دیتے ہیں۔ یہ بھی کوئی وقت ہے چائے پینے کا؟ مگر چائے تو بنانا ہی ہو گی۔ ‘‘

بڑھاپے میں کب کس چیز کی طلب ہو گی، پہلے سے سوچا نہیں جا سکتا۔ اپنے آپ کو کس قدر توڑتے ہوئے اور موت سے جوڑتے ہوئے کبھی ضرورت اور کبھی بلا ضرورت کسی بھی اجنبی خواہش کی صدا لگانا پڑتی ہے۔ بہوئیں کیا جانیں کہ اس عمر میں بڑھاپا کتنی عجیب عجیب سی خواہشوں کو سُلا کر کے بڑھاپا کہلاتا ہے ___ بوڑھا رو نہیں سکتا، بوڑھا آدمی زیادہ ہنس نہیں سکتا …  یہ سب عیب پاگل پن میں گنے جائیں گے۔ بچے جمع ہو جائیں گے …  کیا بات ہے ابا؟ بہوئیں پوچھیں گی، پوتے پوتیاں گھبرا جائیں گی۔ اور پھر ان سے کیا کہوں گا کہ مجھے اکیلا چھوڑ دو بچو! بوڑھے آدمی کو بھی اکیلے پن میں یاد ستا سکتی ہے۔ گزری ہوئی بھولی بسری پرانی یادیں اچانک سناٹے میں آ کر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ بوڑھے آدمی کو بھی اکیلے پن میں یاد ستا سکتی ہے۔ گزری ہوئی بھولی بسری پرانی  یادیں اچانک سناٹے میں آ کر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ بوڑھے آدمی کا بھی کوئی ماضی ہوتا ہے، کوئی بیوی ہوتی ہے۔ بیوی___ جواب نہیں رہی۔ وقت کی دوڑ میں دو تین سال ہی پیچھے نہیں چھوٹی بلکہ صدیوں کے لمبے سفر کا فاصلہ طے کر گئی۔ !

دھم سے آ کر چوکی پر بیٹھ گیا ہوں۔ کتنا تھک جاتا ہوں۔ صرف کمرے سے باہر چوکی تک کا سفر …  گزری یادوں سے ابھی ابھی جی رہے لمحہ تک کا سفر …  بوڑھا جی کھول کر رو بھی تو نہیں سکتا …  اپنے آپ کو دابے رہنا پڑتا ہے …  بچوں میں، پوتے پوتیوں میں …  بہوؤں میں …  افکار نو کے طلسم کدے میں خود کو پناہ دینی پڑتی ہے، کہ اے بوڑھے ___! تمہارے ہی دم سے یہ رونقیں جوان ہیں …  تمہاری اُداسی، تمہاری خاموشی بچوں کے ہنستے مسکراتے چہروں کی چمک چھین لے جائے گی …  سب کے سب پریشان ہو جائیں گے۔ صرف تمہارے لئے۔ !!

عصمت چائے لے رک آ جاتی ہے۔

پیچھے مسکراتی ہوئی ناہید کھڑی ہے۔ ’’آبا! آپ کمرے سے باہر نکل آئے اس وقت؟‘‘

ناہید کا سوال جیسے سنا ہی نہیں …  ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی ہے۔ سب کو بوڑھے کا کتنا خیال ہے۔ عصمت  سے پوچھتا ہوں … ’’چائے میں کتنی شکرین ڈال۔ ‘‘

شاداں کہہ رہی ہے۔ ’’ابا! آپ کو اس وقت کمرے سے باہر نہیں نکلنا چاہئے تھا، ٹھنڈک بہت ہے۔ ‘‘

بوڑھا صرف سنتا ہے۔ بہوئیں کتنا سوچتی ہیں۔ کوئی تکلیف نہیں ہو ابا کو___ کیسے کہوں کہ بڑھاپے میں خبطی موڈ کے سہارے ہی جینا پڑتا ہے۔ کوئی وقت نہیں ہوتا باہر نکلنے کا۔ جب موڈ بن جائے کچھ کرنے کا خیال آ جائے اور نہیں کروتو اپنا ہی آپ ڈسنے لگتا ہے آخر زندگی بھر ایک آفیسر کی زندگی جیا ہوں۔ بڑا عہدہ، بڑا رتبہ اور آفیسر جب سرکس کے رنگ ماسٹر کی طرح ہاتھ میں بیلٹ لے کر اپنے آپ کی مجبوری پر حاوی ہو جائے تو کوئی بھی خواہش دبائی نہیں جا سکتی۔ ضدی بچے کی طرح ہر خواہش کا مزا لینے کا دل چاہتا ہے۔

 ’’ٹھنڈک بہت ہے ابا! اور آپ نے اوپر صرف کرتا ہی پہن رکھا ہے۔ ‘‘ !

چائے کی چسکیاں لینا ہوا ٹھہر جاتا ہوں، خود کا جائزہ لیتا ہوں۔ ہاں ٹھنڈک کچھ بڑھ گئی ہے۔ عصمت نے ٹھیک ہی کہا ہے۔ چائے کا کپ لے کر اپنے کمرے کی طرف لوٹ پڑتا ہوں۔ کچھ دیر اور بستر میں آرام کرنا چاہئے۔ وقت گزاری کے لئے میگزین سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں پڑھتے رہو جب تک نیند نہیں آ جائے اور اس عمر میں رکھا بھی کیا ہے۔ بچوں کی شادگی ہو گئی۔ اب فکر ہے تو موت کی۔ آنکھیں بند کب ہوتی ہیں، بلاوا کب آتا ہے ؟ اکیلے جیتے ہوئے کسے اچھا لگتا ہے کتنے ہی دوست ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔ جو باقی ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔ سنتے ہوئے کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ ارے فلاں چلا گیا؟ کچھ دیر کے لئے سن سے ہو جاتا ہوں اندر کچھ ٹوٹ پھوٹ سا جاتا ہے۔ مگر ایسی خبروں کے لئے جیسے اب خود کو پوری طرح سے تیار کر چکا ہوں۔ شروع شروع تو ایسے کسی دوست کے بارے میں سنتے ہوئے تو واقعی بہت صدمہ ہوتا تھا مگر اب___ اثر تو ہوتا ہے مگر اتنا نہیں …  شاید اس لئے کہ اس عمر میں ایسی ہی خبروں کے سننے کی امید رہتی ہے …  کچھ دیر کے لئے مرنے والے کی خصوصیت گنوائی جاتی ہے …  پھر معمول کی طرح روزمرہ کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں …  شاید میرے بعد بھی میرے دوست احباب ایسا ہی کریں گے۔ ؟

کچھ دیر کے لئے ٹھہر گیا ہوں۔ اپنی موت کے بارے میں جب جب سوچتا ہوں تو ایسے ہی کچھ دیر کے لئے پورا وجود برف کی طرح جما ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پھر برف پگھلنے لگتی ہے، اور اس لفظ سے دور نکلنے کی کوشش کرتا ہوں …  مگر یہ بھی سچ ہے کہ اب زندگی کے لئے کوئی خاص خوشی نہیں رہ گئی، بلکہ خود ہی ہر روز حساب لگایا کرتا ہوں …  آج ایک روز اور گزر گیا …  آسیہ کو گئے کتنا عرصہ ہوا؟ …  آسیہ! بوڑھی آنکھیں کچھ سوچ کر گیلی ہو جاتی ہیں اور پھر کہیں سے کوئی پرانی صدا پورے وجود کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے …  صاحب …  صاحب کلب نہیں چلئے گا …  صاحب کو چائے دو …  صاحب کے کھانے کا وقت ہو گیا …‘ ’

آسیہ پورے گھر میں دوڑ رہی ہے اور یہ بھی عجیب بات رہی کہ وقت کی دوڑ جاری رہی۔ وہ ریٹائر بھی ہو گئے مگر آسیہ بوڑھی نہیں لگی۔ ہاں وہ خود بوڑھے ضرور ہو گئے …  وقت بوڑھا لگا …  اتنی ہٹی کٹی آسیہ، زندگی کی بے معنویت میں بھی ساتھ رہنے کا وعدہ کر کے آئی تھی …  مگر اتنی جھوٹی نکلی کہ کینسر کے معمولی سے مرض میں زندگی کے اس پختہ وعدے کی اینٹ کو توڑ کر ہمیشہ کے لئے بادلوں کے بیچ اوجھل ہو گئی …  اور پہلی بار محسوس ہوا تھا کہ اب زندگی نہیں کٹ سکتی …  نہیں گزر سکتی___ بڑھاپا ایک مرض ہے، ایک روگ ہے جو بوڑھی بیوی کے سہارے کاٹا تو جا سکتا ہے مگر اکیلے نہیں کٹ سکتا___ بچوں میں، بہوؤں میں، پوتے پوتیوں میں خوشیوں کا عکس تو ڈھونڈا جا سکتا ہے مگر زندگی کی وہ چمک جو کئی سال پہلے قبرستان کے اندھیرے میں دفن کر آیا ہوں ___ بس اسی دن سے جینے کی خواہش بھی سو گئی اور انگلیوں پر گزرے ہوئے دنوں کا حساب شروع ہو گیا۔ تکلیف دہ رات کا ایک لمبا سلسلہ …  گلوکوز کے انجکشن …  دوائیاں اور بڑھتے ہوئے سارے جسم میں پھیلتے ہوئے درد کا احساس بڑھتا گیا مجّو ٹھیک کہتے ہیں … دوائیاں بیکار ہیں، بڑھاپے میں دوائیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بڑھاپے میں سیکڑوں قسم کے مرض ہو ہی جاتے ہیں۔ کس کس کا علاج کرایا جائے اور یہ بھی سچ ہے کہ صبح کی روشنی میں کمرے میں سمٹے ہوئے تمام دوست احباب اب زندگی کی بات نہیں کرتے بلکہ سب کے سب بڑی آسانی سے موت کی باتیں کیا کرتے ہیں پتہ نہیں کب موت آئے گی؟ کب بلاوا آئے گا؟ پہلے عجیب لگتا تھا مگر اب ان باتوں کی عادت پڑ گئی ہے۔ خود کو ان باتوں کے لئے پوری طرح تیار کر چکا ہوں …  ہاں آج صبح ایک جھٹکا سا لگا …  دس بجا تھا، جب مجّو، فاروق، ظفر یہ تمام لوگ کرسیوں پر بیٹھے گپ شپ میں مشغول تھے۔ علی کا انتظار تھا۔ علی ابھی تک نہیں آئے تھے۔ سب علی کو ہی یاد کر رہے تھے کہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے دروازے پر رک کر خاص انداز سے علی کا سلام مارنا___ ’’محبوب بھائی! سلام علیکم!‘‘

 ’’آہا … !‘‘ لیٹے ہی لیٹے کتاب سے نظریں اٹھا کر علی کو دیکھتا ہوا میں جواب اچھالتا۔ علی لاٹھی ایک طرف رکھ کر بیٹھ جاتے۔

مجّو کی آنکھوں میں گلوکوما اُتر آیا تھا۔ سورج کی تیز شعاعوں کے بیچ علی کے چہرے کو شناخت کرتے ہوئے دھندلی دھندلی آنکھیں کچھ روشن سی ہو جاتی ہیں۔ پھر مجّو مذاق پر اُتر آئے …

 ’’بھائی علی! آج قورما پلاؤ کھایا ہے کیا۔ بہت خوش نظر آ رہے ہو۔ ؟‘‘

 ’’قورما اور پلاؤ تو اب آپ ہی کے یہاں کھائیں گے مجّو بھائی۔ ‘‘ علی کی کھنکتی ہوئی آواز اُبھرتی___ ’’بھابھی کے ہاتھ کا بنا ہوا___!کھلائیں گے نا___؟‘‘

 ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ شاید پہلی بار مجّو بڑے اطمینان سے بولے تھے ___ لاٹھی سے زمین کھودتے ہوئے۔

 ’’پرسوں عمران آئیں گے، کچھ پیسہ ہو جائے گا۔ جمعہ کو کھانے پر آؤ۔ قورما اور پلاؤ دونوں چلے گا۔ ‘‘

 ’’ہم سب شرکت کریں گے۔ ‘‘ فاروق نے حسب معمول ٹہوکا لگایا تھا۔

مجّو نے دعوت دی ہے …  لیٹے لیٹے تھک گیا ہوں۔ اُٹھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ علی کہتے بھی ہیں کہ آپ لیٹے رہئے محبوب بھائی۔ مگر دل نہیں مانتا۔ چائے کے لئے پوتے کو آواز دیتا ہوں …

 ’’ببلو! چائے لے آؤ۔ ‘‘

جمعہ کو اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں، بس آنے ہی والا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مجّو جیسے کنجوس آدمی نے دعوت کیسے دے دی۔ شاید دوست پر پیار آ گیا ہو گا …  سب ہنسے جا رہے تھے۔ بات بات پر قہقہے لگا رہے تھے …  علی کا معمول تھا روز دس بجے آتے۔ لاٹھی ٹیکتے ہوئے …  آج بھی قد آور جسم …  بیوی رخصت ہو چکی تھیں …  لا ولد تھے …  یہی غم کھائے جا رہا تھا۔ مجّو لڑکیوں کی شادی کولے کر پریشان تھے۔ سب کے الگ الگ مسئلے۔ سب کے الگ الگ غم___ اور اس دن ساڑھے دس بج گئے مگر علی نہیں آئے۔ مجّو بھی لاٹھی ٹیکتے ہوئے انتظار کر رہے تھے …  آج علی نہیں آئے۔ کل ہی جمعہ ہے …  آج عمران شام تک آئیں گے۔ انگلیوں پر حساب چل رہا ہے۔ ٹھیک اسی وقت علی کے گھر سے لڑکا آتا ہے۔

 ’’علی صاحب گزر گئے۔ ‘‘

 ’’کیا___؟‘‘ کمرے میں اچانک بالکل سنّاٹا پھیل جاتا ہے ___ مجّو نے فاروق کو دیکھا۔ فاروق نے ظفر کو۔ ظفر نے میری طرف …  میں نے اُٹھنے کی کوشش کی …  کوئی کچھ نہیں بولا …  ہاں ایک چیختا ہوا کوّا سامنے کی منڈیر پر آ کر بیٹھ گیا۔ مجّو تیزی سے اُٹھے۔ لاٹھی پکڑتے ہوئے باہر آئے۔ کوّے کو ہکلاتے  ہوئے بولے۔ جا …  ہٹ … ہٹ … کوّا ویسی ہی بے سری آواز نکالتا ہوا پھر آسمان کی جانب پرواز کر گیا۔ کتنی ہی ٹھنڈی اور گرم سانسیں کمرے میں گونج گئیں …  بدن میں کچھ دیر کے لئے طوفان سا آ گیا …

 ’’علی چلے گئے۔ !‘‘

کمرے میں پھر سناّٹا ہے …

 ’’جنازہ کب جائے گا۔ ؟‘‘

 ’’شام کو عصر کی نماز کے بعد۔ ‘‘

کانپتے ہوئے ہونٹ پھر گونگے بن گئے ___

 ’’کیا ہوا تھا علی کو؟‘‘

 ’’کچھ بھی نہیں۔ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ صبح کو آرام سے اُٹھے۔ پانی مانگا۔ پھر سینے کے پاس ہلکا ہلکا درد محسوس کیا تو لیٹ گئے ڈاکٹر کو بلانے کو کہا۔ اس سے پہلے کہ ڈاکٹر آئے، وہ جا چکے تھے۔ ‘‘

لڑکا جا چکا ہے یہ منحوس سی خبر دے کر ___ایک عجیب سی بے یقینی پورے کمرے میں پھیل گئی ہے۔ سامنے والی کرسی خالی پڑی ہے۔ کل اسی پر تو بیٹھے تھے علی۔ پرسوں بھی۔ اس سے پہلے بھی۔ شاید وہ جب جب آئے اسی مخصوص کرسی پر بیٹھے …  مجّو چپ ہیں۔ لاٹھی ہلا رہے ہیں، بیچارے کو کل دعوت دی تھی …  کیا معلوم تھا …  آنکھیں پھر بے رونق ہو گئی ہیں …

 ’’بہت اچھا فٹ بال پلیئر تھا علی۔ ‘‘ میں آہستہ سے کہہ پاتا ہوں ___ ’’زندگی بھر ساتھ رہے۔ ساتھ پڑھے لکھے، ساتھ ساتھ نوکری کی، ریٹائر بھی ایک ہی سال میں ہوئے …  مجھ سے اچھا فٹ بال کھیلتا تھا وہ …  اس عمر میں بھی کیسی اچھی ہیلتھ تھی …  چلا گیا …‘‘

دھوپ کچھ سخت ہو گئی ہے۔ ببلو چائے لے کر آ گیا ہے۔ سب چائے پینے لگتے ہیں۔ علی کی کرسی خالی ہے۔ رہ رہ کر دھیان اسی خالی کرسی پر جا رہا ہے۔ مگر اب ان باتوں کا سلسلہ علی سے موڑ دیا گیا اور کیا ضروری ہے کہ اس سلسلے کو قائم رکھا جائے …  کون جانتا ہے کب کس کی باری آ جائے …  سب تو ایک ہی صف میں کھڑے ہیں … ایک لائن سے جانے کو تیار۔ مگر علی …

علی روز آتے تھے مگر اب کبھی نہیں آئیں گے۔ روز ہنستے ہنساتے تھے …  اب یہ دن کبھی نہیں لوٹیں گے۔ مجّو کو روز چھیڑتے تھے اور مجّو انہیں روز چھیڑتے تھے۔ اب یہ لمحے دور چلے گئے ہیں کیا یہ کوئی بڑا حادثہ نہیں …  پھر گفتگو کا سلسلہ صرف علی پر کیوں نہیں ٹھہرتا کیا کوئی حادثہ اس ے بھی بڑا ہو سکتا ہے …  مگر یہ آنسو کہاں چلے گئے ہیں …  ظفر، فاروق، مجّو علی کی بات کیوں نہیں کرتے …  ایک جھٹکے کے بعد اب سب معمول پر لوٹ آئے ہیں۔

علی کا تذکرہ ہر لمحہ پرانا پڑتا جا رہا ہے ___ دوپہر ہو گئی ہے شام کو علی کے جنازے میں شرکت کرنا ہے …  محفل برخاست ہو گئی ہے۔ پہلے لاٹھی ٹیکتے ہوئے مجّو گئے …  پھر فاروق۔ پھر ظفر …  اب ہم تنہا رہ گئے ہیں ___ اب کچھ ہی دیر میں بہوؤں کی پکار سنائی دے گی___ ’’ابا! کھانا کھا لیجئے۔ ‘‘

رات کا ایک بج گیا ہے، مگر نیند آنکھوں میں نہیں ہے علی کو مٹی دے کر مغرب کے بعد ہی لوٹ آیا تھا___ عمر کی اس منزل پر زندگی کے بارے میں غور کرتا ہوں تو زندگی نہ کوئی پہیلی لگتی ہے، نہ کوئی معمہ …  بلکہ قبرستان کی چہار دیواری نظروں میں گھوم جاتی ہے کیا زندگی صرف یہی ہے، ایک ہی محور پر لگی ہوئی۔ اب یا تو کچھ عجیب نہیں لگتا___ یا پھر سب کچھ عجیب لگتا ہے تو پھر اندر سے ایک صدا سنائی دیتی ہے ___ ہوشیار ہو جاؤ___ کہانی تمہیں لکھنے والی ہے ___!

 ’’کہانی___ اور وہ بھی مجھے لکھنے والی ہے ___ ہنسی آتی ہے ___ کیسے یقین کروں۔ مجھ جیسوں پر کہانی___ اور کون لکھے گا؟ خود کہنی لکھے گی___ چپ ہو گیا ہوں، جانے کیا سوچ کر___ یہ آواز رات کے ایک بجے اس تنہا کمرے میں مجھے بار بار پریشان کر رہی ہے ___‘‘

ہوشیار ہو جاؤ___ کہانی تمہیں لکھنے والی ہے۔ اس لئے کہ تم نے ایک پوری زندگی دیکھی ہے ___ ایک زندگی جھیلی ہے۔ تم موت کے بارے میں بھی جانتے ہو اور زندگی کے بارے میں بھی___ بہت سے لوگ موت کے اس اندھیرے کنوئیں میں جھانکنے سے ڈرتے ہیں اور تم___ عمر کے اس موڑ پر___ زندگی اور موت کے اسی فاصلے کو طے کرنا ہے ___ اور آنکھیں موند کر سو جانا ہے ___ حقیقت بس اتنی سی ہے ___ کھانے کے بعد تمہیں بھی نیند آ جائے گی___ اور تم سو جاؤ گے ___ بے مقصدیت کا یہ فر آہستہ آہستہ اپنی آخری منزل کو پالے گا___ پھر ایک لمبی خاموشی___ اور بند کتاب …‘‘

اور محبوب! یہ بھی دیکھو کہ___ رات کے ایک بج چکے ہیں اور تم سونے کی کوشش کر رہے ہو۔ اور علی کی باتیں کہیں نہیں ہیں ___ روز آنے والے علی کی باتیں کہیں نہیں ہیں … اس لئے ہوشیار ہو جاؤ___ خود احتسابی کا جرم نہ کرو۔

کہانی تمہیں لکھنے والی ہے – کہانی تمہیں لکھنے والی ہے۔ کہانی تمہیں لکھنے والی ہے … !!

٭٭٭

 

میڈونا کی اُلٹی تصویر

 ’’وہ محبت بھی کر سکتے ہیں اور نفرت بھی

وہ غصّہ سہ بھی سکتے ہیں / اور کر بھی سکتے ہیں

تم یہ مت سمجھو کہ وہ کسی کام کے نہیں

ہمیشہ قائم رہنے والی یہ دنیا سب کا اتعمال کھوج نکالتی ہے۔

ہاں استعمال،

جن کے بارے میں تم کبھی سوچتے ہو

کہ کوڑھیوں کا استعمال کیا ہے۔

اور دنیا کے سینے پر دھبّے کی طرح جی رہے اپاہج ٹولیوں کے وجود کا۔ ‘‘

بے معنی ان فلسفوں میں جان یوں ہی نہیں پڑی تھی بلکہ لاشعوری طور پر ہی سہی، کہیں سے یہ میری سوچ کا ایک حصہ ضرور رہے تھے۔ میں نے ہنسی میں اس بات کو ٹالنا چاہا اور چمکتی آنکھوں سے وشن کی طرف دیکھا۔

تم کیا سوچتے ہو؟

کس کے بارے میں۔

اس نے اخبار سے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ میں نے نظر کی سیدھ میں اشارہ کر دیا۔ سامنے ایک قطار سے جھگی جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ بیچ میں سڑک تھی اور اس طرف میرا ڈی ڈی اے کا فلیٹ۔ اکیلے ہونے کے اپنے کئی فائدے ہیں۔ جیسے یہ کہ خالی ہوں تو کچھ نہ کچھ سوچتے رہے۔ یہ کیا ہوا؟ وہ کیسے ہوا؟ یہ کیسے جیتے ہیں۔ وہ کیسے رہتے ہیں …  اور آپ اگر ادب یا صحافت سے جڑے ہوں، تو ایسی ہر چیز، تصویر کے ہر فریم میں آپ کو کہانی نظر آئے گی۔ خالی پن کا ایک فائدہ میں ادھر پھر محسوس کر رہا تھا۔ جب ان جھگی جھونپڑی والوں سے ہو کر میری محسوسات کے صحرا میں کھلبلی مچی تھی۔ اب بھلا ان کا استعمال کیا ہے۔ یعنی، یہ دنیا میں تو آ گئے ؟ اب جیسے ہم ہیں۔ ہم پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، تبادلہ خیال سے نئے نئے زاویئے اور نئے نئے فلسفے سامنے آتے ہیں۔ یعنی کچھ تو دے رہے ہیں۔ مالک کو___ دنیا کو ___چلئے یہ بحث بہت لمبی ہو جائے گی مگر ان کا فائدہ۔ آپ کہہ سکتے ہیں یہ مزدور ہیں تو گھر بناتے ہیں اور جس کسی بھی چھوٹے موٹے پیشے سے منسلک ہیں، آپ کو سکھ تو پہنچاتے ہیں۔ لیکن میں اس استعمال کو نہیں جانتا۔ کوئی بڑا استعمال یا___ پتہ نہیں میں کیا سوچ رہا تھا۔ شاید پوری طرح میں خود اپنی سوچ کو سمیٹ نہیں پایا تھا___

کبھی کبھی چھٹی کے موقع پر وشن بھی چلا آتا۔ وشن اخبار میں میرا ساتھی ہے۔ کرائم رپورٹر۔ کرائم کا صفحہ وہی دیکھتا ہے۔ اکثر وہ عجیب چٹخارے دار خبروں کے ساتھ میرے کمرے میں آ دھمکتا ہے۔ پھر اس کی خر مستیاں شروع ہو جاتی ہیں …  کہ سالے بھابھی لے آ …  چل چائے پلا۔ خالی خولی آلتو فالتو سوچتا رہتا ہے۔

میں نے اچانک وشن سے سوال پوچھ لیا تو وہ چونک پڑا۔

میں نے بات آگے بڑھائی …  تم کیا سمجھتے ہو ان کا کوئی استعمال ہے ؟ یا ہو سکتا ہے …  یہ پڑھے لکھے بھی نہیں۔ اپنے طور پر کوئی نظریہ بھی نہیں بن سکتے۔ ذہن کا استعمال نہیں جانتے۔ پھر یہ کیوں ہیں ؟ کس لئے ہیں … دو وقت کی روٹی پیدا کر لی … بس … ؟

 ’اور تم … ؟

میں جانتا تھا وشن یہی کہے گا۔ میں نے ہنس کر کہا۔ میرا استعمال ہے …  میں کچھ تو دے رہا ہوں۔ ملک کو …  دنیا کو …  تحریر کے ذریعہ پورے نظام کو بدل سکتا ہوں۔ ہوا کا رخ مور سکتا ہوں …  اور کیا چاہئے تمہیں۔

وشن نے پھر اخبار پر نظریں جما دیں۔ صرف اتنا کہا___ تم کہہ سکتے ہو، ابھی تمہارا سوال میں پوری طرح نہیں سمجھ سکا … جب سمجھوں گا، تب کہوں گا___ اور  …

لیکن شاید اس وقت تک اپنا وال میں خود پوری طرح نہیں سمجھ سکتا تھا۔ ہاں جھونپڑی کے لوگوں میں میری دلچسپی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ صبح صبح جب بالکنی پر آتا تو سامنے کے چاپاکل، پر ان کی عورتیں، مرد، بچے سب مل کر نہا رہے ہوتے۔ جھونپڑی بہاری جا رہی ہوتی۔ چھوٹے چھوٹے چولہے سلگ جاتے۔ لیپا پوتی کا کام بھی چل رہا ہوتا۔ پھر نہا دھو کر جھونپڑیوں میں کھونسی گئی، لکڑی کی کانتی کی بنی ٹوکریاں نکال دی جاتیں اور کچھ اپنا راستہ ناپ لیتے۔ میں جانتا تھا۔ یہ مزدور ہوں گے۔ لیکن ان میں سب مزدور نہیں تھے۔ کچھ کے دھندے مجھے نہیں معلوم تھے کچھ تو بہت سویرے ہی نکل جاتے۔ اس لئے کہ جس وقت میں سو کر اٹھتا، اس وقت کچھ جھونپڑیاں بالکل شانت نظر آتیں اور دروازے پر چمار کی کثرتوں والا چمڑا پردے کے طور پر چھول رہا ہوتا۔ مطلب ان جھونپڑیوں کے باسی کام پر چلے گئے۔ میرے خیال میں اس کام کی نوعیت بھیک جیسی ہو گی۔ اس لئے کہ یہ ’’کامی‘‘ آدمی جب واپس آتے تو شکل صورت سے بھی بھکاری ہی معلوم دیتے۔

اس دن صبح ہی صبح دروازہ زور زور سے تھپتھپائے جانے پر میری نیند ٹوٹ گئی۔ سوچا، بھنگی ہو گا یا فلیٹ کا چوکی دار۔ اس لئے کہ اتنی صبح صبح کسی کے آنے کی امید نہیں تھی۔ دروازہ کھولا تو سامنے اسی جھونپڑپٹی کی ایک عورت کھڑی تھی۔ عمر تیس کے آس پاس جسم بھرا بھرا۔ جسے میں نے اکثر چاپاکل کے پاس نہاتے دیکھا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ پچھ پاتا، وہ خود ہی بول پڑی۔

کچھ کام ہو تو بولیں بابوجی۔ ہم سب کام جانتے ہیں۔ پانی بھرنے سے لے کر کھانا پکانا، جھاڑو بہارن، برتن دھویل سب کام۔ ڈیم پر کام بند ہے نا بابوجی …  سو ہرا تو بیگاری ہو گئی۔ ‘‘

اس کا لہجہ کچھ کچھ اپنے علاقے جیسا تھا۔ بھوجپوری … میرے شہر ے ہے کیا؟ اس علاقائی تعصب نے فوراً اس سے سوال جڑ دیا۔

 ’’کہاں کی رہنے والی ہو؟‘‘

 ’’ہم بہار سے آئیں ہیں بابو جی۔ ‘‘

 ’’بہار کہاں کی؟‘‘

 ’’بھوجپور۔ سوندیا  ہمار گھر ہے بابوجی۔ ‘‘

سوندیا بھوجپور کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ مجھے مزہ آیا۔ اپنے علاقے کی ہے۔ ’ہم سب کام جانتے ہیں بابو جی‘ ___ وہ پھر بولی۔

شاید میرے اتنے سارے سوال کو اس نے میری منظوری سمجھ لی تھی۔ وہ دندناتی ہوئی اندر آئی۔ دوہی کمرے تھے۔ ایک کچن کم باتھ روم۔ دوسرا میرا بیڈروم۔ کچن میں ڈھیر سارے گندے برتنوں کو دیکھ کر بولی۔

 ’’بس پٹاپٹ۔ برتنوا سب دھوئے دیتے ہیں۔ ناستے میں کا کھائیں گے بابوجی …‘‘

پھر ہفتوں گذر گئے۔ صبح ہوتی۔ دروازے پر تھاپ پڑتی اور بسمیتا اپنا کام سنبھال لیتی۔

اس دن وہ پھر حاضر تھی مگر عام دنو ں کی طرح نہیں۔

بابوجی …

برتن دھو لئے ___؟

ہاں بابو جی …

ناشتہ … ؟

وہ بھی بن گئیل بابوجی …

وہ پھر کھری رہی۔ عمر کے اتنے گلیمر جھیلنے کے بعد اتنا تو جان ہی گیا تھا کہ ہر خاموشی کے پیچھے کوئی قصّہ ہے اور ہر مسکراہٹ کسی نہ کسی وجہ پر آ کر ختم ہوتی ہے …

بابوجی …

پیسے چاہئیں ؟

لگا، کوئی تھرتھراتا مکالمہ  اس  کے ہونٹوں تک آ کر چپ لگا گیا ہے۔ کچھ کہتے کہتے ٹھہر  سی گئی ہے …  لگا، اس  کے جسم سے میزائلیں چھوٹ رہی ہوں …

اس دن وشن محض اس بات پر خفا تھا کہ اپنا ملک میزائلیں کیوں خرید رہا ہے جو اربوں روپے ان میزائلوں پر خرچ ہوتے ہیں، وہ کس کے ہیں اور پھر خبر کیا ملتی ہے …  فلاں میزائل پھس پھس نکل گئی۔ ایک اور ناکام تجربہ۔ کروڑوں بھوکی انتڑیوں اور سے پیٹوں والے بھوکے ننگوں  کے ملک کو میزائلوں کا کیا کام؟

چھجے پر کھرے ہو کر سامنے والی جھگیا گنتا ہوں۔ ایک  … دو … دس … بارہ …  بیس …  پچیس آواز لہراتی ہے …

ڈیم بن رہا ہے بابو جی …  ہم تو کموا کی تلاس میں دوڑت رہتے ہیں بابوجی۔ اپنے یہاں بہار میں کام نئی کھے نا۔ سو ہمرا مرد ہم کالے کے ای ہاں چلا آیا۔ آج ہیاں …  کل اوہاں، ہم بھی ماٹی ڈھوتے تھے بابو جی۔ ٹھیکیدار کہلس ہے …  ابھی کام بند ہے۔ بعد میں ہو گا تو بلائے گا۔

 ’’تمہارا مرد کون ہے۔ ‘‘

وہ مسکرائی تھی۔

اسے پتہ ہے تم یہاں کام کرتی ہو؟

ہاں بابوجی۔ او کرا کے پتہ نہیں رہے گا۔

اس نے جیسے میرا مذاق اڑایا تھا …

چھجے سے جھونپڑیوں کو تکتی آنکھیں جب کمرے میں لوٹتی ہیں بسمیتا کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ میزائلیں بھی نہیں۔ جذبات بھی نہیں …  بسمیتا کی پیٹھ ہوتی ہے۔ ساڑی کے پلو سے جھانکنے والے انگارے ہوتے ہیں اور دیوار پر ٹنگی ہوئی میڈونا کی تصویر ہوتی ہے۔ تصویر ہلتی ہے۔ سرگوشیاں کرتی ہے …  پھر کوئی نہیں ہوتا اپنے آس پاس … سٹی انتڑیاں بھی نہیں …  بھوکے پیٹ بھی نہیں …  اور ہر خاموشی کے پیچھے کوئی نہ کوئی قصّہ ہوتا ہے اور ہر مسکراہٹ …

اور ___دروازے پر بسمیتا کھری ہے …  مجھے لگا میری قد سے بڑھ گئی ہوں …  میرے آدرشوں سے …  میری سوچ سے …  دھت …  کچھ بھی تو نہیں ہوا …  بھاوکتا سے صرف ہم ہی کھیلتے ہیں …  اوڑھتے جو ہیں۔ پڑھتے جو ہیں …  لکھتے جو ہیں …  بسمیتا کے لئے وہ عام دنوں جیسا ہی ایک دن تھا۔ اس کا مرد بیمار تھا اور اسے پیسے چاہئے تھے۔

وشن سنتا ہے …  کبھی کبھی اس کی مٹھیاں بھنچتی ہیں۔ گندی سی گالی دیتا ہے … گندی سی گالی دیتا ہے …  سالے …  ان پونجی پتیوں کے سب سے بڑے دلال تو ہم ہیں …  ذرا سا موقع مل جائے تو … ا س نے پھر ایک سڑی ہوئی گالی دی …  لفظ …  صرف لفظ …  جذبات بھی لفظ ہے …  جس سے کھیلتے رہتے ہی ہم …  بچوں کے کھلونوں کی طرح …  کبھی نوچتے ہیں …  کبھی توڑتے ہیں …  کبھی جوڑنے کی کوش کرتے ہیں …  پھر توڑتے ہیں …

لگا، وشن اندر کے آدمی کو ہتھوڑے سے توڑ رہا ہے۔ کچکڑے کا آدمی …  یہ بچکانہ فلسفے کیوں پال پوس کر اپنے اندر بڑا کرتے ہیں ہم …

رات، خیالوں کی سیج پر جب کوئی ترقی پسندانہ جذبہ اندر سے سر نکالتا، تب کتنا اجنبی محسوس کرتا خود کو___ تب کاغذ پر ناچتی، سنہرے لفظوں سے لکھی گئی کوئی نظم … کسی فساد زدہ علاقے، دورہ کے بعد چبھتی ہوئی وحشیانہ آنکھیں …  اجڑے مکان …  آنکھوں کے ویرانے پن اور سناٹے میں جیسے پوری تصویر اتری ہوئی۔

لو دیکھو …

مجھے بھی دیکھو …

سنو! میں گوتھنا چاہتا ہوں تمہیں …

ایک ہی بار میں، وہ بھی کچے لفظوں کی گانٹھ سے

اور سنو___

ایک نہیں، ہزاروں بار گونتھا ہے تمہیں

اور گانٹھ ٹوٹ گئی ہے۔

سنو، تمہیں اپنے جذبات سے گوتھنا چاہتا ہوں

سنو، تمہیں اپنے احساس سے گوتھنا چاہتا ہوں

مگر سنو___

مجھے جیون کی عام ہلچل میں اپنے ساتھ ست باندھنا

نہیں چل پاؤں گا میں

میرے ٹھٹھرے ہوئے ہیں ہاتھ …

پیر کھردرے، پتھریلے رستوں پر کبھی نہیں چلے۔

میں نے لکھی ہیں صرف وہی کویتائیں چاند ستاروں کی شکل میں

جو آسمان سے پرتوں کی طرح اترتی تھیں میرے خیالوں میں

اور مجھے لکھنے کی دعوت دی تھی …

نو … میں گونتھنا چاہتا ہوں تمہیں …

 ’’کرے جذبات سے زیادہ بھی کچھ رہا ہے تمہارے پا۔ ‘‘ وشن ہنستا ہے …  زیادہ تسلی مت مار۔ ایک دن تمہیں ہمیں …  سب کو مل کر اجتماعی خودکشی کرنی پڑے گی … سچ، اپنے سڑے ہوئے جسم سے ایسی سڑہن آئے گی کہ …

میڈونا کی تصویر ہلتی ہے …

بسمیتا ساڑی برابر کرتی ہے …

پوچھتا ہوں۔ تمہارا مرد جانتا ہے یہ سب؟

وہ ہنستی ہے …  کیسے نہیں جانے گا بابو جی …  اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں ہمرے پاس …‘‘

 ’’پوچھا بھی ہے ___‘‘

نہیں۔ پوچھا نہیں۔ ’’کبھی کبھی پٹائی کر دیتا ہے جوروں سے۔ ‘‘ وہ ہنستی ہے …  بس سمجھ جاتی ہوں …  اندر کے مرد نے جور مارا ہے …  مجھے لگا، وہ کہہ رہی ہو …  کشمکش چلتی ہے اس کے اندر بھی۔ خود سے لڑتے لڑتے جب ہار جاتا ہے تو اس کی پٹائی کر دیتا ہے۔ دیکھو … وہ پیٹھ اور سینے کے آس پاس کے نشانات دکھاتی ہے …  اچھا چلتی ہوں۔ مرد رستہ دیکھتا ہو گا___

پھر وہی چھجہ۔ اس کا مرد بیڑی پیتا ہوا، آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اندر ایک کھینچا تانی چلتی ہے۔ سوچتا ہو، دیوار لگی ہوئی میڈونا کی تصویر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں۔ مگر غلط کیا کیا ہے میں نے …  تیس، بتیس، چلو تیس مان لیتے ہیں۔ 30برس میں ہم ہندستانی، عورت کے بدن اور اس کے گداز کا تصور صرف کتابوں اور خیالوں کے سہارے کرتے ہیں یا اس سے زیادہ اور کیا جانتے ہیں … بس اندر پل رہے انقلاب والا آدمی جب گھر آ کر میڈونا کی تصویر سے رشتہ جوڑتا ہے تو … ؟ روٹی کی آگ سے بھی زیادہ ضروری کی ایک آگ ہے۔ 30سال گذر جانے کے بعد بھی ہم جسے جسم کے قید خانے میں تپاتے رہتے ہیں۔ آگ بھڑکتی ہے تو شرافت کے نام پر اسے سو جانے کو کہتے ہیں …  سوجا …  شریف آدمی … شادی؟ایک لڑکے سے شادی کون کرے گا۔ صحافت کے پیشے میں آنے کے بعد ہی لگا تھا ماں باپ نے شادی کی ذمے داری اپنے کندھے سے اتار کرا س پر ڈال دی ہو …  اب تم جانو___

لڑائی، باہر کی اور اندر کی اندر باہر، دونوں کی بھوک شانت ہو، تب تو مشعل اٹھائی جائے ___روٹی اور جسم دونوں کی پیاس بجھے، تبھی تو کسی نظریہ پر آ کر ٹھہرا جائے۔ بسمیتا کے جسم سے میڈونا کی تصویر کی طرف لوٹتے ہوئے لگتا ہے …  اس نے کوئی غلطی نہیں کی ___لیکن …

بوڑھا چھجے سے دیکھ رہا ہے …  کام ختم ہوا یا نہیں …  پتنی آ رہی ہے یا نہیں …

میڈونا کی تصویر ہلتی ہے …  اسے لگتا ہے …  وہ پسینے پسینے ہو رہا ہے …  نہیں … کل سے وہ منع کر دے گا کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ باہر جا رہا ہے …  ہاں یہ کہنا زیادہ ٹھیک رہے گا …  وہ دیکھ لے گی تو … ؟ وہ کچھ پیسے ہاتھوں میں رکھ دے گا …  اب ضرورت نہیں ہے …  مت آنا۔ بس اور کیا___؟

نہیں ___ اور سے زیادہ کچھ ہے۔ باہر کے مسائل، باہر کی ہی میز پر میزائل اور توپ کیوں بنتے ہیں …  گھر آ کر پھس پھس کیوں ہو جاتے ہیں اور مشعلیں اندر پلتا ہوا انقلاب سب کمرے میں آنے تک، بستر کی ہزار سلوٹوں میں کہاں گم ہو جاتا ہے۔ پھر وہی سوال …

مُردے ہو تم …

اور۔ بجھی ہوئی ہے تمہارے انقلاب کی مشعل

دیکھو، محسوس کرو، تمہارے اندر آگ لگی ہے۔

جسم کے پور پور میں آگ بھری ہے

اتنا زیادہ اپنے آپ سے مت لڑو

مت لڑو …

خود سے بار بار ہزاروں، بے غیرت قسم کے سوال کرتا کمرہ … ایسا کیوں ہے وشن؟ وشن چپ ہے۔ پاؤ سے زمین کریدتا ہے۔

جینؤن کون ہے وشن؟ ہم___ کیا نہیں ؟ خود کے جیننوئن ہونے سے انکار ہے کیا۔ ہم بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ سوچتے ہیں۔ پھر___ یہ آگ آڑے کیوں آ جاتی ہے۔ ایک خاص عمر میں۔ یہ آگ سب کو ڈستی ہے۔ ہمارے جیسوں کو بھی۔ شادی کی عمر نکل جانے کے بعد بھی ہمی ڈراتی رہتی ہے۔ مذاق اڑاتی ہے …  کر لو شادی۔ گدھے ہو۔ اب کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔

وشن کے چہرے پر گہری لکیریں ہیں …  نو۔ میں پھر کہتا ہوں …  ایک دن، ہم تم اب خودکشی کر لیں گے …  کیوں ؟ ہم تم سب گڑکے ڈھیر میں پڑے بورژوا ہیں بس___ خودکشی بزدل لوگ کرتے ہیں نا …  نہیں ایک دن سب احساس کی سطح پر اتنے طاقت ور ہو جائیں گے کہ …

سناٹا۔ گہرا سناٹا۔ زندگی کے اتنے پڑاؤ پار کرنے پر بھی سچ مچ کی زندگی سے اتنا سا بھی واسطہ نہیں ہے کیوں ؟وقت کتنی جلد اپنے احساس کو بوڑھا اور اپاہج بنا دیتا ہے۔

اس دن بسمیتا اداس تھی۔

بابوجی …  میں جا رہی ہوں …  ڈیم پر کام لگ گی ہے نا …  اس لئے  …

کنٹریکٹر پیسہ لے کر بھاگ گیا بابوجی …

پھر تم لوگوں کا کیا ہو گا___

یہ جگہ چھوڑ دیں گے ___ ہمارا مرد کام ڈھونڈ رہا ہے۔

لگا، بسمیتا کا جسم دیمک کا گھر بن گیا ہو …  باس آنے لگی ہو جسم سے

سنو۔ میں اپنا کام کر لوں گا___ دہ کچی سی مسکراہٹ۔ فل ٹائم بیچلر ہوں۔ یوں بھی زندگی بھر اکیلے ہی تو کام کرنا ہے مجھ رہی ہونا تم …  برتن بھی دھولوں گا، ب ایک ادھار لی گئی مسکراہٹ …  اور …  لگا تھا، بسمیتا کے جانے کے بعد کچھ ٹوٹے گا ضرور۔ ہاں، وشن کے چہرے پر ایک قاتل مسکراہٹ دیکھ رہا تھا …

پھر کئی دن گزر گئے۔ جھگیاں ویسی ہی رہیں۔ شام میں ہر روز دفتر لوٹتے ہوئے لگتا ہے …  آج جھگی نہیں ملے گی۔ سب لوٹ چکے ہوں گے …  نہیں بھی لوٹے ہوں تو۔ مجھے کیا۔ لیکن لگتا ہے اندر ایک اداسی سی پسری جا رہی ہو۔

ایک دن بسمیتا کو ٹوکا بھی۔

 ’’کام نہیں ہے تو تم لوگ بہار لوٹ کیوں نہیں جاتے ؟‘‘

وہ جیے اس سوال سے دکھ گئی ہو اور وہاں سے تو ای ہاں آئے ہیں بابو جی …  کام کی تلاش میں۔ سب کچھ چھوڑ کر___

محسوس ہوا، جسے ایک گندی گالی بکی ہو۔ بسمیتا نے …  میں کون سا الگ ہوں ان سے کیا میں جا سکتا ہوں۔ لوٹ کر واپس بہار___ اپنے وطن …  وہاں اکھڑے اکھڑے سے سوال منتظر ہوں گے، شرما کے شرمائے سے جواب سننے کو___ ہم بس پیدا ہو جاتے ہیں، بے حیا پودوں کی طرح کہیں بھی، پیدا ہو جاتے ہیں کسی بوجھ کی طرح۔ ہم جلتی ہوئی گرمی میں، دھوپ کے سائے میں۔ تپتی ہوئی سڑک پر بھی سو جاتے ہیں …  کہ ہمیں زندگی کی طرف جاتے ہوئے کسی راستے کا کوی علم نہیں ہوتا …  پھر ہمارے ہاتھ پاؤں برے ہوتے ہیں اور ہم سے کہا جاتا ہے۔ محبت کرو …  رزق تلاش کرو …  اور ہم گھر بار سب کچھ چھوڑ کر نکل جاتے ہیں …

پھر شام ہو جاتی ہے …

پھر شام ڈھل جاتی ہے …

 ’پھر؟‘

وشن میری طرف دیکھتا ہے ___

ہم سے پوچھو۔ کیا ہم واپس گھر لوٹ سکتے ہیں۔ وہ بھی نہیں گئے۔ بس جھونپڑی بدل گئی، یہاں وقت نہیں کمرے بدلتے ہیں، جھونپڑی بدلتی ہے اور جھونپڑی اُجڑ گئی۔ جھونپڑی بدل گئی ___جانے سے پہلے ایک دن اس نے مجھ سے سو روپئے مانگے۔ گھر پر چولہا جلانے کے لئے بھی کچھ نہیں تھا اور دوسری شام۔ کہانی ختم ہو گئی۔ میں دفتر سے لوٹا تو جھگی اجڑ چکی تھی۔ کوئی نہیں تھا۔ کچھ جھگیاں باقی تھیں، جو سمیٹی جا رہی تھیں۔ بس کہانی ختم ہو گئی۔ یہ کہانیاں ایسے ہی شروع ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں …

نہیں ___

پہلی بار دیکھا، وشن کے چہرے پر وحشت کی ہزاروں آنکھیں ابل پڑی ہیں۔ اچانک بڑھ کر اس نے میری ہتھیلیاں تھام لیں …  سنو، ہم سب وقت کا استعمال ہیں بس ___

میرا ہاتھ پکڑے پکڑے وہ بالکنی تک لے آیا …  وہاں سامنے دور تک ایک خالی پن تھا …  جہاں کل تک جھگیاں ہوا کرتی تھیں …  دیکھو … سب کچھ صاف …  کہانی ختم ہو گئی …  کہانی میں تھا ہی کیا …  اس خالی پن میں ہوتا بھی کیا جو کہانی بنتا۔ وہ بھی اپنے وطن سے منہ چھپائے پھرتے ہیں اور تم بھی …  تم اس سے زیادہ کماتے ہو …  تم نے سو روپئے اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے اور کہانی ختم۔ بھول گئے ___

وشن کی آنکھوں میں ڈھیر سارا خون سمٹ آیا ___یاد ہے ایک بار تم نے ایک انوکھے لفظ کو اپنی زبان سے صدا دی تھی۔ استعمال___ تم ہر چیز کا استعمال ڈھونڈھتے ہونا …  اور بغیر استعمال والی چیز تمہیں بے مصرف، بے معنی لگتی ہے …  کیوں ؟ تم جاننا چاہتے ہونا …  کہ ان جیوں کا استعمال کیا ہے …  یہ …  جو تمہاری حقارت، نفرت اور غصّہ سے جنمے ہیں …  جو نہ ہوں تو تمہارا وجود نہ ہو۔ ہاں تمہارا وجود …  جو بس ان کے ہی سہارے ٹکا ہے۔ ان جیوں کے ___ تم روتے ہو، ہنستے ہو، گندگی کرتے ہو۔ سامانوں کا بوجھ بڑھاتے ہو۔ ہر جگہ تم ان کی مدد پر ٹکے ہو۔ یہ نہ ہوں تو تم جیسوں کے کام دھندے رک جائیں۔ ہاں۔ یہ عورت ان میں سے ہی ایک ہے۔ جس نے سمجھا کہ تم اسی کے گاؤں کے ہو …  وہ تمہارا کھانا بھی گرماتی تھی اور ضرورت پڑنے پر تمہیں بھی___ تم حیت کرو گے۔ اسے اپنا استعمال معلوم تھا۔ استعمال کہ وہ۔ تمہیں خوش کر رہی ہے …  ایک استعمال اور بھی تھا کہ اس کے بنائے کھانے تمہارے جسم میں جاتے تھے اور اس کے بدن کی گرمی تمہارے اندر کے انٹلکچول کو ذہنی طور پر تندرست رکھتی تھی۔ اس لئے کہ۔ ساری غلاظت اس کے بدن میں انڈیل کر تمہارے سو کالڈ قلم کو سوچنے اور لکھنے کا وقت مل جاتا تھا___

وشن نے گھور کر میری طرف دیکھا___ مگر میرے جینئس فرینڈ۔ تمہارا استعمال کیا ہے۔ تم لکھتے ہو۔ ہے نا؟ زمانے میں سدھار کرتے ہو۔ غریبوں کی لڑائی لڑتے ہو۔ بکتے ہو تم۔ فراڈ ہو تم سب۔ صرف اپنی آتما خوش کرتے ہو تم۔ غریبی کاغذ پر اتارتے ہوئے اچھا لگتا ہے تمہیں لیکن آج تک کبھی کوئی لڑائی نہیں لڑی تم نے اور تم لڑنے کے لائق بھی نہیں ہو___

اچانک وہ ٹھہرا۔ ٹھنڈی سانس بھری۔ میری آنکھ میں جھانکا___ سب کچھ جائز ہے ہمارے لیے کہ ہم اس عہد کے دانشور ہیں …

اس نے ایک ٹھہاکا لگایا۔ مارو گولی یار۔ آؤ میرا ہاتھ تھام لو۔ میں نے کہا تھا …  ہم تم سب ایک دن خودکشی کر لیں گے۔ سچ اپنے سڑے ہوئے جسم سے اتنی سڑن آئے گی کہ …  آؤ خودکشی کر لیں۔ سمجھو یہ گہرا دریا ہے اور ہم کود رہے ہیں … آ … آ … لو کود  گئے …

اس نے میرا ہاتھ تھاما۔ آنکھیں بند کیں اور جیسے خیالی دریا میں چھلانگ لگا دیا۔

پھر خود ہی ہنسا۔ دھت۔ ہم ڈھنگ سے مر بھی نہیں سکتے ___



 

فساد کے بعد کی ایک لنچ پارٹی

وہ ایکیوریم کے قریب آ کر ٹھہر گیا تھا۔ شیشے کے اندر ایک عجیب و غریب دنیا روشن تھی۔ پانی، جلتے بجھتے قمقموں کی طرح روشنی کی بارش کر رہے تھے۔ اور ان کے درمیان سونے کی طرح جھلمل کرتی مچھلیاں، اپنے رقص سے ماضی کے سارے قصّے بھلانے میں اس کی مدد کر رہی تھیں۔ اُس نے غور سے دیکھا …  ایکیوریم کی بلوا ہی زمین پر ایک ٹنی فش ساکت تھی۔ خاموش مردہ حالت میں۔ ہلتی ڈولتی ناچتی مچھلیوں کے درمیان ’بلوا ہی‘ ریت کے چمکتے پتھروں کے پاس بے دم —

 ’مر گئی ہے ؟‘

 ’نہیں مری نہیں ہے، ‘

 ’نہیں  — مر گئی ہے۔ ‘

 ’نہیں ناٹک کر رہی ہے …  ابھی اٹھے گی۔ دوسری مچھلیوں کے ساتھ  — پھر شروع ہو جائے گا رقص۔ ‘

 ’’میری بلا سے ‘‘ …  اُسے مچھلیوں پر ناراضگی تھی …  ’’میری بلا سے …  مر گئی تو میں کیا کروں۔ چھو کر دیکھ …  اے …  ایک …  دو …  تین …‘‘

وہ آہستہ آہستہ اپنی انگلیاں ایکیوریم کے شیشے کی طرف بڑھا رہا ہے …

کنارے دائیں طرف کونے میں کل ملا کر چار لوگ کھڑے تھے۔ ہاتھ میں شراب کے گلاس تھے۔ ان میں سے ایک کی نظر ایکیوریم کی طرف چلی گئی۔ اس نے باقی کو اشارہ کیا۔

 ’دیکھ  …  دیکھ …  وہ کیا کر رہا ہے۔ ‘

 ’بیچاری مچھلیاں۔ ‘

 ’مچھلیاں نہیں۔ اُسے  …  اُسے دیکھ …‘

 ’’اوہ …  ہاؤ رومانٹک …‘‘

 ’’  — رومانٹک؟‘‘

  — ہاں …

  — تمہیں ہر چیز میں رومانس دکھتا ہے۔

  — رومانس ہوتا ہی ایسا ہے …

  — لیکن اس میں رومانٹک جیسا کیا ہے ؟

  — دیکھ اس کی آنکھوں میں، اُف …  ایک نہیں ختم ہونے والی جستجو۔ اور جستجو کس شئے کے لیے ہے، وہ تمہارے سامنے ہے   — باریک شیشے کے محل میں ناچتی ڈولتی جل پریاں …  ہاؤ رومانٹک۔

 ’  — یہ جل پریاں نہیں ہیں۔ ‘

  — وہی تو، جل پریاں نہیں ہیں، ہوتی بھی تو …  مجھے فیوژن پسند نہیں ہے۔ دو چیزوں کو ملا کر ایک ریمپ پیش کر دینا۔ یہ مچھلیاں ہیں …  شیشے کے محلوں میں بے نیازی سے ناچنے والی …  ایک سپنیلی دنیا، سپینلا آئی لینڈ …

  — لیکن اسے تو دیکھ …

  — دیکھنے کی چیز وہی ہے، یعنی وہ، کس طرح سے اُسے چھونے یا دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اُس کی باڈی لینگویج دیکھی؟ دیکھ …  اس کی آنکھیں چھوٹی ہیں  — بدن میں لوچ ہے   — ہاتھ میں چھو لینے کی جستجو کے ساتھ پیشینس یعنی صبر بھی ہے …  اور پاؤں میں …  جیسے گھنگھرو باندھ دو  — صرف کویل کے چہچہانے کا سُر ابھرے …

  —  لیکن گھنگرو میں تو …

  — ایک ہی بات ہے …

  — نہیں ایک بات نہیں …  دیکھو …  اس نے ہاتھ پیچھے کر لیا ہے۔

  — میں کہتا ہوں وہ پھر ہاتھ آگے بڑھائے گا …

  — میں کہتا ہوں …

  — شرط لگا لو …

  — لگ گئی …

  — کتنے کی شرط …

  — جام خالی ہو رہا ہے

  — بات مت پلٹو …

  — لگ گئی شرط

  — نہیں شرط نہیں …  کہیں تم نے کچھ ایسا ویسا مانگ لیا تو …

  — مثلاً؟

  — شبنم کو،

 ’شبنم‘ وہ جو دنگے میں ملی تھی۔ دانی لمڈا کے ایک گھر میں۔ بے سہارا …  اوہ شٹ۔ اُس کے بدن کا ایک ایک گداز یاد ہے   — اُس کے گھر کے سارے لوگ …‘ وہ ہنس رہا تھا  — اوپر چلے گئے تھے۔ پھر شاید تم اُسے گھر لے گئے تھے   — داسی بنانے یا …  لیکن وہ ہے مزیدار چند …  لیکن تم بھلا شبنم کو کیوں دو گے ؟‘

  — نہیں شبنم نہیں

  — شبنم کو نہیں مانگوں گا …

مت مانگو۔ یو  ڈرٹی فول

  — مثلاً  …  وہ  …  وہ جو تمہارا انکلیو بن رہا ہے، اُس میں سے …

  — طے رہا، یہ بھی نہیں مانگوں گا …

  — مثلاً؟

  — مثلاً یہ کہوں کہ وقت آنے پر۔

  — چوتیے …  سالے …

ان میں سے ایک نے زور سے گلاس زمین پردے مارا۔ باقی نے روکنے کی کوشش کی  — نو …  نو …  نو …  مسٹر …

چھناک کی آواز کے ساتھ بھی کہیں کچھ نہیں بدلا تھا۔ منظر بالکل ویسا ہی تھا جیسا پہلے تھا۔ پارٹی میں کافی لوگ تھے، سب اپنے آپ میں مصروف، جیسے گلاس سے ہونے والے دھماکے، شیشے کی کرچیوں کے بکھرنے کی کسی کو بھی ذرا بھی پروا نہیں ہو  — کسی نے بھی اُس طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔

ہو sss ہو ہوsss

چاروں اب ہنس رہے تھے …

ایکیوریم کے پاس کھڑے چاروں اب دونوں پیر سکوڑ کر کسی فکر میں ڈوب گئے تھے۔

  — دیکھ  …  دیکھ اس کو …

ہوsss ہو ہو sss

  — ارے یہ تو وہی بات ہوئی، نا چت نا پٹ والی، سکّہ کھڑا ہو گیا۔

  — لیکن تُو اتنا غصہ کیوں ہوا …

  — کیوں نہیں، سالے اچھا بھلا موڈ  خراب کر دیا۔

  — تو شبنم کیوں نہیں مانگ سکتا تھا، کیوں …  ارے کیا وہ بس میری ہے …  اُسے تو …

  — ہاں اُسے تو …

دوسرے نے لمبی سانس بھری۔

  — اور سالے تو اِس انکلیو میں …  ایک چھوٹی سی جگہ …  کیا وہ صرف اس لیے میری ہے کہ میں نے اُسے   — وہ ’لوٹا ہے ‘ کہتے کہتے ٹھہر گیا تھا۔ وہ کیا غالبؔ کا شعر ہے …

  — غالبؔ کا تمہیں، میرؔ کا …

  — ابے سالے میرؔ کا نہیں، بہادر شاہ ظفرؔ کا  …  اس نے پڑھ کر بتایا …

کتنا ہے بد نصیب ظفر‘ دفن کے لیے

دو گز زمین بہ نہ مل  سکی کوئے یار میں

  — کیا شعر ہے یار …  جب سنتا ہوں جھوم جاتا ہوں، لیکن  …  سالا مجھے تیری اسی بات پر غصہ آیا، کیا وہ زمین میری ہے۔

  — نہیں

  — اس کی ہے ؟

  — نہیں …

  — پھر؟ کس کی ہے سب کو پتہ ہے، پھر تو ایک زمین کا ٹکڑا کیوں نہیں مانگ سکتا تھا۔

  — غلطی ہو گئی …

  — نہیں غلطی نہیں ہوئی۔ کیوں کہ ابھی بھی آپ اُس بچکانی ذہنیت سے باہر نہیں نکلے ہیں، جس میں ہمارے رنگ …  ہماری چیزیں …  یعنی اتنا تو آپ سب کو سمجھنا ہی چاہئے کہ وہ سب …  اور اس سے زیادہ میں کیا کہوں۔

پارٹی سے اُس کو کوئی بہت زیادہ غرض نہیں تھی۔ ایسی پارٹیاں اُس نے بہت دیکھی تھیں۔ یا کہا جا سکتا ہے، اس سے بھی اچھی پارٹیوں کے کتنے ہی قصّے نہ صرف اس نے سنے تھے، بلکہ دیکھے بھی تھے۔ خاص کر جنگ کے خاتمہ کے بعد جشن منانے کے طور پر دی جانے والی  پارٹیاں، میجر جنرل، بڑے عہدے، سیاست سے متعلق گفتگوؤں سے پرہیز کرتے فوجیوں کی بیویاں، آپس میں ہنسی مذاق کرتیں   — ایک بار ایسی ہی کسی پارٹی کے لیے اُسے کینٹین کا انتظام دیکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔

 ’لیکن یہ پارٹی تو …‘

 ’جنگ اور فساد …‘

 ’’نہیں اُسے کچھ بھی سوچنا ہے، سوچنے سے دماغ کی رگیں تن جاتی ہیں …  دماغ پھٹنے لگتا ہے، ’’گھر جانا ہے …‘‘

ستّار نے ٹھان لیا تھا۔ گھر جانا ہے …  گھر …  اُسے گھر جانے سے کوئی روک نہیں سکتا اور کوئی روکے گا بھی کیوں ؟

 ’’مزا آیا؟‘‘

کٹّو نانگدیو پوچھ رہے تھے  —

 ’’ہوں …  ہوں …  ہوں …‘‘

‘‘ کیوں دل لگا کہ نہیں ستّار …‘‘

 ’’کیوں نہیں لگے گا، چھپ چھپ کر ہماری عورتوں کو دیکھ رہا تھا …  کیوں بے  …‘‘

ستیش پانڈیا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی …

 ’’ہوں …  ہوں …‘‘

 ’’تو کیا ارادہ ہے اب …‘‘

 ’’گھر جاؤں گا …‘‘

 ’’کیوں …‘‘

 ’’گھر جاؤں گا …  اس کے ہونٹوں پر طفلانہ مسکراہٹ تھی، آپ جانے دیں گے نا … ؟‘‘

 ’’ہاں …  ہاں …  کیوں نہیں …‘‘

 ’’میں گھر جاؤں گا …‘‘

اُس نے تیسری بار کہا۔

 ’’ہاں …  ہم کہاں روک رہے ہیں ستّار۔ چلے جانا، مگر ابھی …  تم سمجھ رہے ہو نا …‘‘ کسی پاگل بچّے کی طرح سُنی ان سنی کرتے ہوئے ایک بار پھر وہی پرانا ٹیپ چل گیا تھا …

 ’’مجھے گھر جانا ہے، آپ جانے دیں گے نا …‘‘

وہ ایک بار پھر ایکیوریم کے قریب آ کر ٹھہر گیا جہاں اندر کی ’بلوا ہی‘ زمین پر وہ ٹنی فش مردہ حالت میں پڑی تھی۔ اس کی آنکھیں ایک ٹک ٹنی فش پر ٹک گئی تھیں۔ ہلتی، ڈولتی، ناچتی دوسری مچھلیوں کے کھیل میں اب اس کی کوئی دلچسپی نہ تھی۔



 

فیصلہ

میں اُسے تین چار دنوں سے دیکھ رہی تھی۔ کب، کہاں …  شاید یہ سب سلسلہ وار بتا پانا میرے لیے ممکن نہیں ہے یا پھر آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں ایک ایسے نفسیاتی خوف کا شکار ہوں، جس کی وجہ سے کچھ بھی بتا پانے میں قاصر ہوں۔ راتوں کو اچانک انجانے خوف سے میری آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ پھر لگتا ہے کسی اجنبی سڑک یا بس میں ہوں۔ پھر لگتا ہے پولس کی ایک وین میرے سامنے یا بس کے آگے آ کر رکتی ہے۔ چاروں طرف پولس والے پوزیشن لیے …  پھر سڑک پر گول گول دائروں کے درمیان پڑی ایک خون سے سنی ہوئی لاش  — ان کاؤنٹر یا فرضی مڈبھیڑ کی ایک کہانی۔ عہدے اور ترقی کا خواب دیکھنے والے اپنی بہادری کی رپورٹ حکومت تک پہنچانے میں مصروف …

نہیں، شاید اب یہ سب آپ کو بتانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے کہ میں کون ہوں اور کہاں رہتی ہوں۔ میں اسی قوم کی ایک اقلیت لڑکی ہوں، اعداد شمار کے مطابق، جنہیں اب 20-25 کروڑ سے کم شمار کرنا ایک بھول ہی کہی جا سکتی ہے۔ میں یہ بھی نہیں جانتی کہ ہمارے رہنماؤں، سیاسی لیڈروں نے اتنی بڑی آبادی، جو کسی ملک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے، ہوتے ہوئے بھی ہمیں اقلیت ہونے کی ذہنیت میں کیوں قید کر رکھا ہے   — جانے دیجئے، میں سیاسی کھیلوں کے اس چکر میں نہیں پڑنا چاہتی۔ میں تو صرف اس خواب کی طرف آنا چاہتی ہوں، جس نے مجھے یکایک چونکا دیا تھا۔

سفید، میلے کرتے پائجامے میں۔ چپّل ٹوٹی ہوئی۔ آنکھوں پر ایک بے حد پرانے قسم کا چشمہ  — آنکھیں ایسی کہ خطرناک نظر آنے والے گدھوں کی آنکھوں میں بھی وہ چمک نہ ہو۔ مگر اس وقت اس چمک کی جگہ ایک گہری سنجیدگی نے لے لیا تھا۔

وہ میرے کمرے میں تھا لکھنے والی میز پر۔ میری اجازت کے بغیر۔ کاغذ بکھرے پڑے تھے۔ سگریٹ پی پی کر اس نے اپنے دانت سیاہ، اور انگلیوں کو زرد کر لیا تھا۔ بال بکھرے تھے، جس میں کنگھا کرنے کی ضرورت اس نے بالکل بھی محسوس نہ کی تھی۔

میں اسے گذشتہ تین دن سے دیکھ رہی تھی۔ پہلے دن تو میں ڈر ہی گئی تھی۔ میرے کمرے میں ایک مرد …  میں نے ڈر کر تھوڑا کانپتے ہوئے پوچھا تھا۔

 ’کون ہو تم … ؟‘

 ’آہ …  !مسٹیک ہو گیا۔ ‘ وہ بہت آہستہ سے بولا۔

 ’کیا لکھ رہے ہو …‘

اس نے میری طرف نگاہ مرکوز کی  — ’کچھ لکھنا چاہتا ہوں، مگر  …  میرے لفظ کھو گئے ہیں۔ یاد ہے ایک زمانہ تھا جب میں ہر دن آرام سے ایک کہانی لکھ دیتا تھا۔ ‘

 ’بنو مت۔ ہر دن ایک کہانی   — ایسا صرف ایک مہینے ہی ہوا تمہارے ساتھ۔ سگریٹ اور شراب کے پیسے نہیں ہوتے تھے تمہارے پاس۔ تم ایک کہانی لکھتے تھے۔ میگزین کے مدیر کو دیتے تھے۔ اور پیسہ لے کر شراب کی ایک بوتل لے آتے تھے۔ تم  …  تمہیں تو اپنی پیاری بیوی کی بھی کوئی فکر نہیں تھی …‘

لیکن شاید جیسے اس نے میرا سوال سنا ہی نہیں۔ وہ کہیں اور دیکھ رہا تھا …  ’میرے پاس لفظ ہی لفظ تھے۔ تب بھی جب ٹوبہ ٹیک سنگھ، ٹھیک نو مینس لینڈ پر اپنی آنکھیں بند کرنے والا تھا …  اور  …  وہ بھیانک ٹھنڈا گوشت‘  …  شاید مجھے سب کچھ یاد رہا ہے …  وہ قیامت کی دوپہر …  جب ڈاکٹر کی آواز پر وہ لڑکی اپنی شلوار کا ازار بند کھولنے لگی تھی۔ نہیں تب بھی میرے پاس لفظ تھے …

 ’اور اب …‘

لیکن میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ غائب تھا …

میں اس رات اس ڈراؤنے خواب سے بری طرح چونک گئی تھی۔

چلئے اپنا نام بھی بتا دیتی ہوں۔ کوثر بی یا جو بھی نام آپ کو پسند ہو، آپ خود کیوں نہیں رکھ لیتے۔ میں پیدا ہوئی تب بھی باہر شعلے بھڑک رہے تھے …  بڑی ہوئی تو یہ شعلے تب بھی رہ رہ کر بھڑک جاتے۔ باہر کی وحشت اور دہشت کے گھنگھرو کچھ اتنے بے سرے تھے کہ بچپن میں ہی کتابیں دوست بن گئیں اور کتابوں کو پڑھتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی اس بڑی بڑی خطرناک آنکھوں والے منٹو سے میری دوستی ہو گئی  — مگر میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ دبلا پتلا بیمار سا دیکھنے والا ادیب کبھی اس طرح میرے اور میرے خواب کے درمیان بھی آ سکتا ہے۔

نہیں، اس دن کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ شہر میں ایک بار پھر دہشت کے گدھ منڈرا رہے تھے   — اقلیتوں کے محلے میں پولس جیپوں کی آمد و رفت بڑھ گئی تھی۔ دو تین سال قبل ہونے والے حادثے لوگوں کو اب بھی یاد تھے۔ حادثے، شکل بدل کر ایک بار پھر زندہ تھے۔ میں کوئی صحافی نہیں اور وہ سب تو آپ ٹی وی پر چینلوں پر دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ بس مجھے اتنا یاد ہے، اس صبح تیز بارش ہوئی تھی  — ہم سہمے ہوئے گھر میں نظر بند تھے   — اپنے ہی گھر میں پرائے ہونے کا احساس کیسا ہوتا ہے، آپ سمجھ سکتے ہیں۔ اس دن شام کو کھانا ہم لوگوں نے جلدی کھا لیا تھا۔ ٹی وی پر فرضی مٹھ بھیڑوں کی کہانیوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی  — اس لیے سب سونے چلے گئے تھے۔ میں کمرے میں آ گئی …  کھڑکی بند کی اور بستر پر خاموش سی لیٹ گئی۔

نہیں، آہ! اس بھیانک خواب کے لیے میں آپ سے معافی چاہتی ہوں۔ لیکن اس رات منٹو ایک بار پھر میرے کمرے میں تھا۔ اور یہ کوئی میری آنکھوں کا وہم نہیں تھا۔

 ’چلو باہر گھومنے چلتے ہیں …‘

 ’پاگل ہو …  باہر …  کرفیو جیسا سنّاٹا ہے۔ ‘

 ’جانتا ہوں۔ ماحول اچھا نہیں …‘

 ’پھر پولس پکڑ لے گی۔ ‘

 ’پکڑے گی نہیں  — ‘ وہ ہنس رہا تھا  — ’ان کاؤنٹر کر دے گی …‘

 ’سب جانتے ہو تم  …  پھر بھی باہر گھومنے، سیر کرنے کی بات …‘

وہ اچانک سنجیدہ ہو گیا …  ’کچھ نہیں ہو گا۔ میل دو میل کا چکر لگا کر واپس آ جائیں گے …‘

 ’میل۔ دو میل …  پیدل؟‘

 ’شی …  ایک گاڑی لے آیا ہوں۔ چرا کر  …‘ وہ ہنس رہا تھا۔ یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ میں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے بھی ڈرائیونگ کی تھی۔ ‘

 ’جانتی ہوں اور ان کی گاڑی کو ٹکّر دے ماری تھی …‘

منٹو ہنس رہا تھا۔ ’فکر مت کرو۔ اس بار احتیاط سے چلاؤں گا۔ ‘

میں نے گھڑی دیکھی۔ رات کے تین بج چکے تھے۔ سڑک ویران تھی۔ میں نے کھڑکی کھولی …  زمین اب بھی گیلی تھی۔ پتہ نہیں بیالیس۔ تینتالیس سال کے اس دبلے پتلے ادیب میں، وہ کیسی کشش تھی کہ میں اس کے ساتھ چل پڑی۔ بارش سے بھیگی سڑک، کتّوں کے بھونکنے اور رونے کی آوازیں …  ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی تیز بھاگ کھڑی ہوئی …  تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر اونگھتی پولس جیپیں لیکن منٹو اپنے خیالوں میں گم تھا  — وہ جیسے شہر اور شہر کی اس ویرانی کو اپنی آنکھوں میں بھر لینا چاہتا تھا …  دو ایک جگہ پولس نے کچھ روک کر کچھ سوال کئے۔ منٹو نے ہنس کر کیا جواب دیئے میں نہیں جانتی۔ میں نے صرف اتنا دیکھا کہ اندھیرے میں، اس نے اپنی پیشانی پر چندن کا ٹیکہ ڈال رکھا تھا۔ میرے اندر کے خوف کو دیکھ کر وہ ہنس پڑا —

 ’میں نے کہا تھا نا‘ کچھ نہیں ہو گا …  بس کچھ اور دور  …‘

ہم چار پانچ کلو میٹر سے زیادہ دور چل چکے تھے۔ اس بار منٹو نے گاڑی جس سڑک کی طرف موڑی کہ اچانک میں چلّا پڑی  — ’کہاں جا رہے ہو تم …‘

 ’شی …‘ اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھی  — تاریخ اتنی جلد نہیں مرتی۔ کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں۔ بس چلتی چلو۔ ‘ میں کہنا چاہتی تھی کہ تاریخ تو کبھی نہیں مرتی مگر جانے کیا سوچ کر میں خاموش رہی۔

اب چار بج چکے تھے۔ ہم اقلیتوں کی ایک غریب بستی میں تھے۔ جہاں گھوڑے والے اور روزانہ مزدوری کرنے والے مزدوروں کے چھوٹے چھوٹے کچّے پکّے مٹّی کے گھر بنے ہوئے تھے۔ کتّے اب بھی بھونک رہے تھے۔ ان گھروں میں کچھ کی صبح ہو چکی تھی۔ کچھ گھروں میں چولہے سلگ گئے تھے۔ ایک دو گھروں کے آگے کچھ بچے بھی نظر آئے …  عورتیں جھونپڑوں کے اندر باہر کرتی نظر آئیں …  اور اچانک وہ حادثہ ہو گیا تھا …  ایک بھیانک حادثہ  — گاڑی کے آگے اچانک آ گئے تھے   — ایک چھوٹا سا، اقلیت کا بچہ اور ایک گائے کا چھوٹا سا بچھڑا  — بے فکری میں گاڑی چلاتے منٹو کے لیے ایک سکینڈ میں فیصلہ لینے کا وقت تھا۔ ’نہیں ‘ آپ چاہیں تو کہانی یہاں چھوڑ سکتے ہیں۔ میں آگے اسے پڑھنے کے لیے نہیں کہوں گی …  کیونکہ آگے جو کچھ آپ پڑھیں گے ، وہ غیر اخلاقی، انسانیت سوز، اذیت ناک اور بے حد تکلیف دہ ہے   — انسانی حقوق کے خلاف بھی ہے   — آخری کچھ سکنڈ میں میں نے زوروں سے اپنی آنکھیں بھینچتے ہوئے گائے کو اچھل کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا …  منٹو نے گاڑی اس اقلیت بچے کی طرف  — نہیں۔ میں پھر کہتی ہوں، مہربانی کر کے اس لمحہ بولے گئے بے رحم اور سفاک مکالمے کو آپ اس کہانی سے خارج کر سکتے ہیں۔

ہم واپس گھر پہنچ چکے تھے۔ منٹو کھڑکی کی سلاخوں کے پاس تھا۔ اس کے چشمے پر دھول جم گئی تھی۔ وہ جلدی جلدی سگریٹ کے کش لے رہا تھا۔

 ’تم اس بچے کو بچا سکتے تھے …‘ میں زور سے چیخی۔

 ’گائے اور بچے میں سے ایک‘ …  شاید مجھ سے کہیں زیادہ شدت سے منٹو چیخا تھا  — ’ایک اقلیت بچے کا حادثہ دو گھنٹے میں بھلا دیا جائے گا۔ اس بستی میں گائے کے بچھڑے کا مرنا جانتی ہو …‘

منٹو پلٹا۔ میز پر بکھرے کاغذوں کے چیتھڑے کر کے اس ڈسٹ بین میں ڈال دیئے۔

منٹو غائب تھا …  لیکن وہ کرسی جس پر ابھی کچھ لمحہ قبل وہ بیٹھا تھا، وہ ابھی بھی ہل رہی تھی۔



 

الفتح لنا۔ ۔ ۔ الفتح لنا۔ ۔ ۔

میسوپوٹامیہ، بے بی لون، دجلہ اور فرات___کتنی صدیوں نے، کتنے یگوں نے یہاں اپنے ماضی اور تہذیب کا عکس دیکھا ہے ؟

ایک عمارت بھر بھرا کر گرتی ہے۔ ایک بازار___ ایک گھر___ ایک لڑکی، جو ایک لڑکے سے محبت کرتی ہے اور ایک بچہ___ بچے کی صرف ایک خواہش ہے، وہ اپنے بڑے بھائی کے کنچوں (شیشے کی گولیاں ) سے کھیلے۔ ۔ ۔

 ’’___امریکی فوج بم، گولوں کی برسات کر رہے ہیں۔ ‘‘

 (ارون دھتی رائے کے ایک مضمون سے )

گول گول کنچے کی گولیاں۔ کنچے کی گولیاں نہیں ہیں۔ بھائی نے چھپا دیا ہے۔ نہیں، بھائی ساتھ لے کر گیا ہے۔ بھائی کو ماموں لے گئے۔

 ’غالی بچہ ہے۔ میرے ساتھ جنگ کرے گا …‘

 ’کس کے لئے ؟‘

 ’کافروں کے خلاف۔ امریکہ کے خلاف …‘

بچہ صرف سات سال کا ہے۔ بچہ اندھیرے میں کنچے ڈھونڈھ رہا ہے۔ یہیں تو تھے …  بھائی یہیں رکھتا تھا۔ کبھی کبھی تکیے کے نیچے۔ المیرا کے دائیں طرف …  وہاں، سوراخ میں بھی رکھ دیتا تھا۔ کنچا نہیں مل رہا ہے …

شہر گھپ اندھیرے میں ہے۔ اما حسنہ عبداﷲ بھاگ بھاگ کر اندھیرے میں باہر جاتی ہے۔ پھر واپ آتی ہے۔ کبھی کبھی اپنی زبان میں بڑبڑاتی ہے ___ بالروح وبالدم -فدیناک یا صدام___‘‘ جیسے آتش بازیاں چھوٹتی ہیں تیز دھماکہ، آسمان پر مسلسل دھماکے کے ساتھ روشنیوں کی آنکھ مچولی۔ آنکھیں، کان، دل، دماغ …  جسم جیے ہر طرح کے خطرے، اندیشے کو اندر ہی اندر Defuse کر چکا ہے۔ پھر دھماکہ …  مسلسل آسمان پر ایک کے بعد ایک دھماکے ___ بچہ کنچے ڈھونڈ رہا ہے …

 ’اماں … اماں …‘

عورت گھبرائی سی اندر آتی ہے …

 ’کنچے …‘

عورت خبر لائی ہے …  ہوائی اڈہ امریکی فوجیوں کے ہاتھ چلا گیا۔ اسٹریٹجی بدل گئی ہے ___ آپریشن عراقی فریڈم اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ بصرہ کے بعد اب بغداد بھی ان کے قبضے میں ہے۔ ریڈیو اور سیٹیلائٹ چینلوں پر ان کے قبضے ہو چکے ہیں۔ ریپبلکن گار آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ فوجی اب بغداد کے رہائشی علاقوں پر بم باری کر رہے ہیں۔ تیز ہزار سے بھی زائد عراقیوں کے ہلاک ہونے کی خبر آ چکی ہے ___

 ’اماں … کنچہ …‘

 ’بچہ رو رہا ہے ___ کنچے …  روشنی اماں۔ کنچے۔ ابو___ کنچے …  بھائی …  کنچے …‘

عورت ایک عجیب سی خبر لے کر لوٹی ہے۔ ٹگرس ندی کا پانی سرخ ہو گیا ہے۔ ایک ہفتہ سے ساری ساری رات پانی اُبلتا رہا___ پانی سے عجیب عجیب آوازیں آتی ہیں ___ جیسے کوئی چیخ رہا ہو …  غالی …  غالی …  آگے بڑھو …  آگے بڑھو …  ملک کو کافروں سے بچا لو___ نصرانیوں سے، یہودیوں سے …  غالی غالی …  وہ پہلے بھی خوفناک سائرن کی اِن آوازوں کو سن چکی تھی …  وہ پہلے بھی یہ منظر دیکھ چکی تھی۔ تب شادی نہیں ہوئی تھی۔ تب عبداﷲ نہیں ملے تھے ___ تب یہ دونوں بچے وجود میں نہیں آئے تھے ___ لیکن تب بھی ٹگر ندی کا پانی لال سرخ ہو گیا تھا۔ لہریں اُچھل اُچھل کر آسمان جنتی بلند ہو جایا کرتی تھیں …  اور لہریں بھوکے پیاسے لوگوں کو جہاد کے لئے تیار کرتی تھیں …  غالی غالی …  بالروح …  بالدم …  فدیناک یا صدام!

شہر گھپ اندھیرے میں ہے ۰

گھر کی ہر شئے اندھیرے میں ڈوبی ہے۔ دن کا اُجالا، اپنی زندگی آمیز چمک میں اِن دھماکوں کو باندھ لیتا ہے مگر رات کے پُر اسرار اندھیرے میں یہ گرہ کھل جاتی ہے ___ عورت صدمے جیسی کیفیت میں ہے ___ شوہر غائب ہے۔ بڑے کو ماموں لے گیا اور چھوٹا کنچے ڈھونڈ رہا ہے …

چپ چپ …

 ’اماں روشنی …‘

کافر آ جائیں گے …  دھماکے سن رہے ہونا …

 ’اماں … کنچے …‘

کنچے بھائی لے گیا …

بچے کو پھر ایک جگہ تلاش کے لئے نظر آئی ہے۔ کپڑوں کا صندوق۔ بھائی کے کپڑوں کا صندوق۔ اندھیرا، نئی تلاش کے نام پر آنکھو میں روشنی بن کر اُبھرتا ہے ___

عورت گہری اداسی میں ڈوب گئی ہے ___ امریکی کنکریٹ کی عمارتوں کو نشانہ بنا رہے ہی۔ کروزمیزائلس کے دھماکے قریب میں بھی ہوئے تھے … بچوں کا اسکول …  پاک، تہمینہ اور ناوجہ کے مکانات …  اس کی قریبی سہیلیاں ___ اب صرف اندھیرا ہے …  کروزمیزائلس کے دھماکے میں سہیلیاں گم ہو گئیں۔ دجلہ اور فرات کا پانی چڑھ آیا تھا۔ ٹگرس ندی کی سرخ لہریں اُچھل اُچھل کر چیخ رہی تھیں …  غالی …  غالی …  عورت، بچے کے ساتھ سہیلیوں کو تلاش کرنے گئی تھی مگر___ وہاں سہیلیاں کہا تھیں۔ سہیلیوں کے گھر والے کہاں تھے۔ وہر اور بچے کچھ بھی نہیں تھے ___ عراقی اور ریپبلکن گارڈس کے لوگ جمع تھے ___ ملبے کے ڈھیر تھے ___ آسمان پر پھیلتا دھواں تھا___ ٹوٹے مکانات___ کنکریٹ کے ڈھیر___ سیٹیلائٹ ڈشوں کے تار … اُدھڑے پلاسٹر …  اور دور تک بس دھواں ہی دھواں …

عورت حیران پریشان سی، سہمے سہمے چہروں میں اپنی سہیلیوں کو تلاش کرتی ہے …  ناوجہ، تہمینہ …  دجلہ اور فرات کی لہروں میں گم آوازیں پیچھا کرتی ہیں ___

 ’جنگ ہوئی تو ہم، فدائین میں شامل ہو جائیں گے …‘

 ’اور تم حسنہ …‘

 ’اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں …  لیکن وہ جنگ کیوں چاہتا ہے ___ ہماری اس کی برابری کیا ہے۔ ہم چین سے ہیں۔ سکون سے ہیں ___ کویت کے ساتھ ہونے والی غلطی کا خمیازہ تو ہم پہلے ہی کافی بھگت چکے ___ لاکھوں بے گناہ، ٹینک، جہاز، بم گولے، ہیلی کاپٹر، کروز میزائلس، گیس ماسک اور اس کے بعد___ وہ زخموں پر مرہم لگانے پہنچ جاتے ہیں۔ پروٹینس فو، ٹائیلٹ پیپر سے لے کر___ وٹامن اور بوتل بند پانی کے ساتھ ہماری آزادی کے نام پر ___‘

ناوجہ کی آنکھوں میں اندیشے کی بجلی چمکی تھی___ ’’گیارہ ستمبر، ورلڈ ٹریڈ ٹاور___ اور پنٹاگن پر حملے کے لئے امریکہ، صدام کو گنہگار اور قصوروار سمجھتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ آج بھی القاعدہ کی ڈور جن کے ہاتھوں میں ہے، صدام ان میں سے ایک ہے …‘‘

تہمینہ نے کہا___ جنگ میں ہم بچے اور شوہر کے ساتھ مورچے پر ہوں گے ___ امریکی بیڑے ریت کے سمندر میں بھٹک جائیں گے ___ فدائین___ ہم فدائین میں شامل ہوں گے …

ماحول میں اُڑتی ہوئی ریت دھواں دھواں آسمان …  ملبہ صاف کرتے ہوئے گارڈ …  ایک لمحے کو خیال آیا۔ گارڈ سے دریافت کرے …  میرے شوہر، عمر 38سال___ دائیں رخسار پر بڑا سا منہ۔ آنکھوں پر چشمہ___ قد چھ فٹ دو انچ۔ پچھلے جمعہ سے کوئی اتہ پتہ نہیں …

گارڈس چیخ رہے ہیں۔ برقعہ پہنے عورتیں زور زور سے رو رہی ہیں …  بچے دھمال کر رہے ہیں ___وہ واپس لوٹی تو کچھ بچے کروز میزائلس داغنے کا کھیل، کھیل رہے تھے۔ وہ ایک لمحے کو ٹھہری___ پھر واپس لوٹ آئی ___

عورت کو سب کچھ یاد تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں بھولی۔ اس دن پہلی بار خطرے کا سائرن چیخا تھا۔ وہ اپنے شوہر کو اپنے ہاتھو سے کھلا رہی تھی۔ بڑا، گیارہ سال کا، ہاتھوں میں ریموٹ لئے کبھی الجزیرہ کبھی ابوظہبی کے چینلس لگا دیتا …

وہ چیخی۔ سبحان …  نہیں۔ اﷲ کے واسطے …  ایک جگہ ٹھہرو سبحان …  سنا تم نے …

شوہر مسکرایا___ اپنے چینلس ہیں۔ جنگ کے دوران بس انہی کی سچائیوں کو قبول کرنا___ تمہیں پتہ ہے یوروپ کے ایک کروڑ سے بھی مائد گھروں میں یہ چینلس پہنچ چکے ہیں ___‘ وہ فخریہ طور پر مسکرایا۔ ہماری آواز …  میں غائب بھی ہو جاؤں تو … لاپتہ …‘

عورت نے شوہر کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ عربی میں ناراضگی کا اظہار کیا___

 ’’سنو۔ کمزور مت بنو۔ ‘‘ شوہر نے عورت کے ہاتھوں کو تھام کر اپنے سے قریب کر لیا تھا۔ میری بات غور سے سنو ___یہ جنگ ہم پر تھوپی گئی ہے ___ سن رہی ہونا۔ بچوں کو بھی بزدل مت بنانا۔ بڑا گیارہ سال کا ہے۔ میرے بعد، اسے بھی جنگ کے لئے تیار کر دینا___ اپنی عزت کے لئے جنگ ضروری ہے …

اس کی آنکھیں خلاء میں دیکھ رہی تھیں۔ مورت کی آنکھوں میں نمی لہرائی تھی۔

شوہر نے اپنی آواز پر قابو پاتے ہوئے کہا___ ’’یہ بہت بڑی مچھلیوں سے جنگ ہے ___ چھوٹی مچھلیوں کو صرف اپنی حفاظت کرنی ہے ___ جنگ وہ لڑ رہے ہیں۔ ہم نہیں۔ ہم صرف اپنا بچاؤ کر رہے ہیں۔ اپنے ملک، اپنے گھر کا بچاؤ___ ہمارے پاس سامنا کرنے کے لئے اُن کے جیسی میزائلس اور ہتھیار نہیں ہیں ___ ہم اپنے گھر، اپنے خاندان، اپنی قوم اور اپنی عزت کے لئے لڑ رہے ہیں ___ اس لئے سمجھ رہی ہونا۔ میں لاپتہ ہو جاؤں تو …‘‘

عورت نے بے رحمی کے انداز میں، اپنے آپ کو سخت بنا لیا تھا۔ شوہر کے لاپتہ ہونے پر اس نے بزدلی کا راستہ نہیں اپنایا۔ چپ چاپ بڑے کو ماموں کے ہاتھوں سونپ دیا۔ سونپتے وقت اس نے آنکھیں بند کیں ___ کلمہ پڑھا___ بڑے کے چہرے پر پھونک ماری۔ نہ پٹایا۔ نہ پیار کیا۔ نہ جاتے وقت پلٹ کر دیکھا۔ نہ آنکھوں میں آنسو لائی___ وہ چپ چاپ کمرے کے ادھڑے پلاسٹرس کو دیکھ رہی تھی جنگ کے خاتمہ کے بعد، سفیدی کرانے کے بارے میں غور کر رہی تھی___ دو سال پہلے عید کے موقع پر___ سفیدی کو دو سال کیوں لگے ___ عبداﷲ، بصرہ چلے گئے تھے۔ تجارت کے کام سے۔ بصرہ___ لیکن، وہ تو سفیدی کر ہی سکتی تھی۔

چھوٹا اُس وقت بھی کنچے تلاش کر رہا تھا …

 ’’اماں …  کنچے …  بھائی …  کنچے …‘‘

اُسے یقین تھا، صبح ہوتے ہی چھوٹا، کنچے کے ذکر کو بھول جائے گا۔

وہ اُسے کھیلنے کے لئے کچھ نئے کھلونے دے دے گی۔

پانچ بجے کے آس پاس کروز میزائلس دغنی بند ہو گئی تھی۔ عورت کو جھپکی آ گئی تھی۔ بچہ فرش پر بچھے قالین پر سو گیا تھا۔ نیند ٹوٹی تو کھڑکی سے ہلکی ہلکی سفیدی جھانکنے لگی تھی۔ آنکھیں ابھی بھی نیند سے بوجھل تھیں۔ اس نے آگے بڑھ کر کھڑکی کا شیشہ کھولا۔ پردے ہٹائے۔ ابھی اندھیرے اور اُجالے کی کشمکش جاری تھی۔ بچے نے آہٹ سن کر کروٹ بدلی۔ بلیک آؤٹ سے چندھیائی آنکھوں کو مدھم روشنی سے ذرا سی راحت ملی۔ بچے نے ایک لمحے کو آنکھ کھولی___ پھر وہی پران ٹیپ چالو کیا___ ’اماں۔ کنچے، لیکن چھوٹے نے اماں کے جواب کا انتظار نہیں کیا۔ پھر کروٹ بدل کر سو گیا___‘‘

اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا___ سڑکوں پر لوگ نکلنے لگے تھے۔ ریپبلکن گارڈ اور بہت سے عراقی مرد، زور زور سے گفتگو میں لگے تھے ___ وہ غسل خانے میں آئی۔ برش کیا۔ منہ پر پانی ڈالا  ___ فریج سے بوتل بند پانی نکالا۔ ایک لمحے کو نگاہ قالین کی جانب چلی گئی۔ چھوٹا غائب تھا___ اس نے گھڑی کی سوئیوں کی جانب دیکھا۔ آواز لگائی___ ایک کمرے سے دوسرے کمرے …  دوسرے تیسرے کمرے کی طرف___ مگر چھوٹا نہیں تھا___ باہر شور بڑھ گیا تھا۔ دھماکے ابھی رُکے ہوئے تھے۔

 ’’جبار …  جبار …‘‘

عورت کا دل دھک سے رہ گیا۔ جبار کہاں گیا۔ چھوٹا کہاں گیا۔ ابھی تو یہیں تھا۔ فرش پر سو رہا تھا___ بلیک آؤٹ میں، کروزمیزائلس کے دھماکوں کے بیچ___ بھائی اور کنچے کی کشمکش میں …

باہر شور بڑھ گیا تھا___ کچھ لوگ چلا رہے تھے …

جبار … جبار …

اس نے کھڑکی سے جھانکا___ پھر جیسے سن … ن …  سے رہ گئی___ دروازے پر آئی۔ لوگ جمع تھے۔ لوگ تیز تیز آواز میں کچھ بول رہے تھے ___ وہ تیزی سے پلٹی۔ دروازہ کھول کر باہر آئی اور جیسے اپنی جگہ تھم سی گئی___

آگے، کچھ فاصلے پر جبار اور کچھ بچے کھرے تھے۔ ریپبلکن گارڈس کے آدمی چیخ رہے تھے۔ عورتیں چلا رہی تھیں۔ مرد شور کر رہے تھے …

 ’’نہیں  … پھینک دو۔ پھینک دو …  بچے …  واپس آ جاؤ …‘‘

اُس نے غور سے دیکھا___ جسم کے اندر اندر جیسے تیز بجلی اُترتی چلی گئی۔ بچوں کے ہاتھوں میں گول گول کوئی چیز تھی۔ نہیں گولے۔ گولے نہیں، بم گولے۔ بم گولے نہیں، ہتھ گولے ___

دھوپ نکل آئی تھی۔ آسمان پر چڑیوں کا نام و نشان نہیں تھا۔ دور دھواں اُٹھ رہا تھا۔ دھماکے شروع ہو گئے تھے۔ کروز میزائلیں داغی جانے لگی تھیں …

ریپبلکن گارڈس کے آدمی چیخ چیخ کر بتانے کی کوشش کر رہے تھے …  رات کے وقت …  نہیں۔ حمزہ اور نجف کالونیوں میں۔ رہائشی علاقوں میں ___امریکی فوجیوں کی جانب سے گولے پھینکنے گئے ___ یہ گولے پھٹ نہیں پائے ___ کبھی بھی پھٹ سکتے ہیں …  فی امان اﷲ۔

وہ عربی زبان میں زور زور سے باتیں کر رہے تھے …

 ’’دے …  دو …‘‘

 ’’انہیں ڈی فیوز کرنا ہو گا …‘‘

 ’بچو …  یہ کھلونے نہیں ہیں۔ بم ہیں …  بم …‘

بچو۔ پیارے بچو …

 ’واپس آؤ___‘

عورتیں چیخ رہی تھیں۔ مرد گھبرائے سے لگ رہے تھے۔ گارڈس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ سب دبے پاؤں بچوں کو گھیرنے کی نئی اسٹریٹجی بنا رہے تھے ___

 ’جبار …  خدا کے واسطے جبار___‘

وہ گلہ پھاڑ کر چیخی___ ٹھیک اُسی وقت ذرا دور پر آسمان میں ایک میزائل پھٹا تھا___ روشنی کے تیز دھماکوں کے بیچ بارودی دھواں تا حد نظر چھاتا ہوا محسوس ہوا___

بچے گا رہے تھے …  الفتح لنا …  الفتح لنا …

بچے شور کر رہے تھے …  الفتح لنا …  الفتح لنا …  الفتح لنا …

بچے نئے کھلونوں کو پاکر جوش میں تھے …  الفتح لنا …

ریپبلکن گارڈس اس کے لوگ، مرد، عورتیں، بوڑھے، دھیرے دھیرے بچوں کی جانب بڑھنے کا حوصلہ کر رہے تھے ___

بچے اپنی دھن میں، کھلونے لہراتے اب تیز تیز گانے لگے تھے …  الفتح لنا …  الفتح لنا …

دھوئیں کا غبار جیٹ رفتار سے لہراتا ہوا، کچھ دیر کے لئے سب کے چہرے کو گم کر گیا تھا مگر اس اندھیرے میں بھی بچوں کے گیت سنے جا سکتے تھے۔



 

گراؤنڈ زیرو ۔۱

یہ آخری میٹنگ تھی۔

طے ہو چکا تھا کہ اس کے بعد کوئی میٹنگ نہیں ہو گی۔ کمرے میں ہلکا اندھیرا تھا جو گفتگو ہو رہی تھی، وہ بے حد ڈراؤنی تھی۔ کبھی تو ایک دم سناٹا چھا جاتا کہ جیسے اب کمرے میں کوئی بھی نہیں ہے۔ سارے اُٹھ کر چلے گئے۔ پھر یکایک شور ہنگامہ شروع ہو جاتا۔ ڈاکٹر چپ چپ سگار کے کش کھینچتا رہا۔ سگار سے اس کوی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ لیٹن امریکہ کا تحفہ تھا، جو ایک دوست نے بطور خاص اسے پیش کیا تھا۔ بس کبھی کبھار ___یا ایسے موقع پر جب ڈاکٹر کو کوئی اہم مسئلہ سلجھانا ہوتا ہو …

تو آپ کیا سوچ رہے ڈاکٹر؟

میں کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔ ڈاکٹر آہستہ آہستہ کش کھینچتا رہا۔

نہیں۔ سوچ لیجئے۔ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے۔

سوچ رہا ہوں۔

صوفے پر بیٹھی ہوئی لڑکی اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ خاصے غصّے میں تھی۔ سوچنے کے لئے رکھا ہی کیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ فیصلہ لینے مکیں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر کش کھینچتا رہا۔ اس کی آواز بے حد سرد تھی اور اس بے حد سرد، کپکپا دینے والے موسم میں کچھ اس کے دانتوں کا بھی اثر تھا، جو بج رہے تھے …  بس، گھر کا معاملہ ہے۔ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہوتے ہوئے دشواری آتی ہے۔

اور ایسی صورت میں جب گھر بدلنا ضروری ہو گیا ہو۔

اور گھر بدلے بغیر چارہ بھی نہیں ہو۔ لڑکی جوان تھی اور تندرست بھی۔ اس کی آنکھوں میں آ کرکچھ تلاش کیا جا سکتا تھا، تو وہ بے شک نفرت اور زہر کی پوٹلی تھی۔ ’’آپ جانتے ہیں۔ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ بے شک آپ جانتے ہیں کہ میرے ساتھ کیا ہو چکا ہے اور اس کے بعد بھی … ؟‘‘

 ’’گھر بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ دبلی پتلی عورت تھی۔ صوفے پر سمٹی ہوئی۔ آنکھوں میں جیسے آنسو خشک ہو گئے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ بڑبڑا رہی تھی۔ آسان نہیں ہوتا … ؟‘‘

نوجوان، جس کی عمر پچیس اور تیس کے درمیان ہو گی، کھڑکی کے پاس کھڑا تھا۔ وہ ایک دم سے غصّے میں پلٹا۔

آخر۔ کیوں مکان چھوڑیں ہم۔ اس مکان میں خرابی ہی کیا ہے۔

خرابی نہیں۔ زندگی۔ زندگی کے لئے، لڑکی زور سے چیخی۔

 ’’ان کے مکان میں جانے کے بعد کیا سب دکھ ٹھیک ہو جائے گا۔ پھر ہم آرام سے جی پائیں گے ؟ نوجوان کو یقین نہیں تھا۔ ‘‘

شاید … شاید …  اور کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے۔

ڈاکٹر۔ تم نے کیا سوچا ہے۔ صوفے پر بیٹھا آدمی پچپن۔ ساٹھ کی لسٹ میں تھا۔ وہ بولنے پر نہیں، سننے پر یقین رکھتا تھا۔ یوں بھی، اس کے کان مفلر سے بند تھے۔ ہاتھوں میں دستانہ تھا اور اس نے لانگ فر، کا کوٹ پہن رکھا تھا۔

میں ابھی آیا۔

سگار بجھ چکا تھا۔ کمرے سے ملحق ایک چھوٹا سا لیب تھا۔ ڈاکٹر کی تجربہ گاہ۔ ڈاکٹر جب بہت پریشان ہوتا تو وہ اسی تجربہ گاہ کا سہارا لیا۔ وہ کمرے سے اُٹھ کر تجربہ گاہ میں ہو گیا۔ شیشے کے بنے چھوٹے چھوٹے گھروندوں، میں اس کی بے حد پیاری چیزیں بند تھیں۔ بے حد پیاری چیزی۔ تجربے سے جڑی چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بھی اسے بے پناہ پیار آتا تھا۔ ممکن ہے، دوسروں کی نظر میں گھروندے میں رکھی ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہ ہو، مگر ڈاکٹر کے لئے ان میں قیمتی زندگیاں قید تھی اور جیسا کہ وہ اپنے ڈاکٹر ساتھیوں سے اپنے پیشے کی تعریف میں کہتا تھا۔ ’خدا کے نمائندے اور بیشک سب کچھ انسانی جان کو بچانے کے لئے۔ ‘

ڈاکٹر نے فخریہ طور پر لیب میں رکھی چیزوں کا جائزہ لیا۔ نیم کے پتے، کریلے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے۔ ایک کین میں مرے ہوئے گرگٹ اور چوہوں کے ڈھیر پڑے تھے۔ شیشے کے تیسرے گھروندے میں کچھ الگ الگ مردہ سانپوں کی قسمیں تھی۔ افیم اور زہریلے پتوں کی کچھ نایاب قسمیں، جو ڈاکٹر نے گھر کے پچھواڑے اُگے جنگل سے برآمد کی تھیں اور انہیں دریافت کرنے کے بعد کیسا خوش ہوا تھا۔ اب ڈاکٹر نے آہستہ سے وہ شیشی اُٹھا لی، جس پر اس نے سرخ روشنائی سے پوٹاشیم سائینئیڈ لکھا تھا۔ اتنا لکھ کر بھی تسلی نہیں ہوئی، تو اس کے نیچے اس نے بڑے بڑے حروف میں Poison لکھ دیا تھا۔ دراصل میڈیکل پڑھائی کے دنوں میں ہی اس کے دل میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ پھر زہر کو زہر کیوں نہیں۔ وہ زہر کو زہر کے تریاق کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا۔ یعنی انسانی زندگی بچانے کے لئے …  تجربہ گاہ میں داخل ہوتے ہی وہ ڈاکٹر کم سائنسداں زیادہ بن جاتا۔ زہریلے پتوں اور جانوروں پر وہ پوٹاشیم سائینائیڈ کے عجیب عجیب ٹسٹ کرتا اور مطمئن ہو جاتا، کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، اچھی نیت اور انسانی کے لئے کر رہا ہے۔ وہ پوٹاشیم سائینائیڈ اور اس کے ذائقے سے جڑی دلچسپ کہانیوں پر جی کھول کر ہنستا تھا۔ جیسے اس نے راکشس کے پنجرے میں قید طوطے کا راز جان لیا ہو۔ اس کا ذائقہ کھٹا تھا، یا میٹھا، ڈاکٹر ایسی بچکانی بحثوں سے بہت آگے نکل گیا تھا۔

تجربہ گاہ میں شیشے کے گھروندے اس کے سامنے کھلے ہوئے تھے۔ مگر۔ ڈاکٹر کا ذہن تو کہیں اور تھا۔ نیم کے ہرے ہرے پتے، پوٹاشیم سائینائیڈ کی ایک بوند۔ کھڑکی کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوا نوجوان۔ چوہے کی چوں چوں کی آواز ٹھنڈا جسم …  مردہ گرگٹ اور سانپ …  ڈاکٹر کو پہلی میٹنگ یاد آ گئی۔ میٹنگ، اس گھر کے لئے ضروری ہو گئی تھی۔

مجھے جاب سے نکال دیا گیا ہے، یہ نوجوان تھا۔

ڈاکٹر کے دوست کے جانے والے شخص نے لانگ اوور کوٹ سے ہاتھ باہر نکالا۔

زمین تنگ ہو گئی ہے۔

دبلی پتلی عورت صوفے پر، ایک ٹک چھت کو گھورتی ہوئی بولی۔ ہم کہیں نہیں جا سکتے۔ کہیں نہیں …

اور یہ دوسری یا تیسری میٹنگ تھی، جب دوست نے سردی سے ٹھٹھرتی ایک شام کمرے میں داخل ہوتے ہی اعلان کیا تھا۔

وہ بھی گھر تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

لیکن  … لیکن کیوں۔ ؟

مفلر میں چہرے کو چھپاتے ہوئے اس نے آہستہ سے کہا۔ دوسرے کئی دوستوں نے بھی یہی کیا ہے۔ وہ بہت آہستہ سے بولا۔ دنیا بدلتی ہے تو دیکھنے کا نظریہ بدل جاتا ہے اور جب سچ یہی ہے۔ بس یہی۔ اس نے زور دیا …  جینے کا آخری ہتھیار …

سردی اور ٹھٹھرن سے پیدا شدہ خاموشی پر، اس نے لگ بھگ چلاتے ہوئے اپنا مکالمہ پورا کیا۔ آخر آپ لوگ سمجھتے کیوں نہیں؟

پانچویں یا چھٹی میٹنگ میں دُبلی پتلی عورت نے بھی صاف صاف لفظوں میں اعلان کر دیا۔

اب وہ کوئی پارٹیوں میں نہیں جائے گی۔

کیوں ؟

عورت نے آنکھیں جھکا لیں۔ ’’مجھے آنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ ‘‘

 ’وہی تو۔ وہی تو …‘ دوست زور زور سے ہنس رہا تھا۔ آج اس نے اوور کوٹ نہیں پہن رکھا تھا۔ جب اُسے احساس ہوا کہ اس کے قہقہے میں کوئی بھی شریک نہیں ہے اور سب کے سب اسے کئی برسوں کے بیمار مریض کی طرح گھور رہے ہیں، تو وہ یکایک سنبھل کر اپنی بات مکمل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ ’’یعنی آپ میری بات سمجھ تو رہے ہیں نا اور یقیناً میرے لئے یہی بہت ہے۔ ‘‘

پوٹاشیم سائینائیڈ اور اس سے جڑی کہانیاں۔ ڈاکٹر کے دماغ میں میزائلیں چھوٹ رہی تھی۔ اسے میڈیکل کالج کا زمانہ یاد تھا۔ ’لیب‘ میں دوستوں کے ساتھ اس موضوع پر ہونے والی گفتگو یاد تھیں۔

مرنے سے پہلے، سالے ایک بار ایکسپریمنٹ ضرور کر لینا۔ انسانیت کے نام پر۔ دوستوں کے قہقہے چھوٹ گئے تھے۔

اور یہ ساتویں میٹنگ تھی۔ باہر کہرا گر رہا تھا۔ زمین سے آسمان تک دھند کی چادر پھیل گئی تھی۔ کمرے میں خاموشی تھی۔

لڑکی رو رہی تھی۔

عورت کا سر جھکا تھا۔ نوجوان کھڑکی کی طرف منہ دیئے اپنے ناخن چبا رہا تھا۔

دوست دھیرے دھیرے کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مجھے۔ میری بات سمجھنے کی کوشش کیجئے۔

ڈاکٹر نے سگار جلا لیا۔

وہ مکان بدلنے کا پروانہ لے کر گھر گھر جا رہے ہیں۔ اب اس محلے کی باری ہے۔ آپ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔ ہمارے پاس دوہی راستہ ہے …  یا تو …

دوست کے دانت بج رہے تھے …

ٹھنڈک سے سگار بجھ گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر نے اپنے جسم میں تیز گرمی اُترتی ہوئی محسوس کی۔

اور یہ آخری میٹنگ تھی۔ کیونکہ اس کے بعد کسی میٹنگ کے ہونے کا امکان نہیں تھا۔ وہ لوگ مکان بدلنے کا فرمان لے کر دوسرے دن حاضر ہونے والے تھے۔ وہ بے حد شائستہ لوگ تھے۔ نرم مزاج۔ کم سخن۔ بے حد ملائم۔ روئی جیسے۔ وہ جرم نہیں کرتے تھے۔ زیادہ سوال نہیں پوچھتے تھے۔ بس، وہ خاموشی سے اپنا کام کر جاتے تھے۔

افیم اور جنگلی ہرے ہرے پتے۔ چوہے اور گرگٹ کے جسم کے کٹے ہوئے حصے۔ باہر کمرے میں شور بڑھ گیا تھا۔ ڈاکٹر نے پوٹاشیم سائینائیڈ کی شیشی تھام لی۔ اسے لڑکی کے زور زور سے چیخنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ آپ جانتے ہیں انہوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے۔ ڈاکٹر نے ہاتھوں میں سرینج تھام لی۔ دوست زور زور سے کچھ کہہ رہا تھا۔ عورت رو رہی تھی۔ نوجوان تیز آواز میں کہہ رہا تھا۔ کیا جانتا ہوں، اب مجھے کہیں بھی …  لڑکی اور نوجوان کی آوازیں ایک دوسرے میں Mixہو رہی تھیں۔ ڈاکٹر آہستہ آہستہ سرینج میں زہر بھر رہا تھا۔ اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے جھلملا گئے تھے۔ اس نے چمڑے کے دستانے اُتارے۔ جیب سے رومال نکالا۔ چہرہ صاف کیا۔ رومال جیب سے نکال کر سرینج کی طرف دیکھا۔ اسے کوٹ کی جیب کے حوالے کیا۔

اب وہ کمرے میں جانے کے لئے تیار تھا۔

ڈاکٹر جس وقت اپنے کمرے میں واپس آیا، لڑکی کا مکالمہ چل رہا تھا۔ ’’آپ لوگ آپ لوگ جانتے ہیں نا۔ میرے ساتھ کیا ہوا۔ ان کے الفاظ میں کہوں تو …  مجھے شدھ کیا گیا۔ اس لئے کہ میں ابلوتر تھی۔ مجھے شدھ کرنا ضروری تھا مگر اس کے باوجود۔ اس کے باوجود میرے لئے وہاں کوئی جگہ نہیں تھی۔ ‘‘

وہ آنے والے ہیں۔ نوجوان کھڑکی کے پار دیکھ رہا تھا۔

سنئے غور سے سنئے۔ مکان بدلنے کے لئے ہم کوئی جرح نہیں کریں گے۔ یہ دوست تھا۔ دبلی پتلی عورت کی خشک آنکھوں میں آنسوؤں کے تیز تیز قطرے اُٹھ آئے تھے۔ اب وہ رو رہی تھی۔

تمہیں کچھ کہنا ہے ڈاکٹر … ؟ دوست نے آخری بار ڈاکٹر کی آنکھوں میں جھانکا۔

ہاں۔

کسی حتمی فیصلے تک پہنچتے ہوئے ڈاکٹر اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ ایک دم شانت تھا۔ کوٹ کی جیب سے۔

پہلی بار اس نے غور سے ایک ایک کر کے کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا جائزہ لیا۔ سامنے والی دبلی پتلی عورت اس کی بیگم تھی۔ ایک الٹرا ماڈ عورت۔ کئی پارٹیوں کی شوقین۔ یعنی عائشہ زین العابدین۔ نوجوان، اس کا بیٹا تھا۔ کمپیوٹر انجینئر۔ اپنے کام کا ماہر صرف اور صرف کام پر یقین رکھنے والا۔ بے حد خوبصورت دیکھنے والی لڑکی اس کی پیاری پیاری بٹیا تھی۔ لڑکی کا نام شائستہ تھا اور لڑکے کا آفاق۔ چلتے چلتے دوست کا نام بھی بتا دیتے ہیں۔ دوست کا نام میر خاں تھا۔ ڈاکٹر کے گاہکوں کا آنا ایک دم سے بند ہو گیا تھا۔ مجبور دوست کو دکان بند کرنی پڑی۔

قارئین!یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ واقعہ، گودھرا حادثے کے دو تین برس بعد پیش آیا تھا۔ یعنی تب کی بات ہے، جب بھارت، ہندو راشٹریہ ہونے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ تشدد کے بادل چھٹ گئے تھے۔ وہ بے حد معصوم اور پیاری پیاری باتیں کرنے والے لوگ تھے۔ وہ جرح نہیں کرتے تھے۔ وہ صرف دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگا دیکھنا چاہتے تھے۔ اہنسا کے راستے پر چلتے ہوئے ان کا بس ایک ہی منتر تھا۔ اپنا دھم چھوڑ کر میرے دھرم میں آ جاؤ اور اس کے بعد قارئین وہ اتنا مان سمان دیتے تھے  …  اتنا مان سمان دیتے تھے کہ …

ڈاکٹر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ ایک دم سے شانت تھا۔ کوٹ کی جیب سے سرینج نکالتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپ نہیں رہے تھے۔ وہ پوری طرح اپنی کارروائی سے مطمئن تھا۔ اس نے دوست کی طرف دیکھا۔ پھر باری باری سے اپنے بچوں اور بیوی کی طرف۔

تو وہ آ رہے ہیں اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر ٹھہر ٹھہر کر بول رہا تھا مگر راستہ ہر بار پیدا ہو جاتا ہے۔ اندھیری سے اندھیری سرنگ سے بھی ایک راستہ موہوم سی روشنی کی طرف جاتا ہے لیکن راستہ سچ مچ نہیں ہے اور جب دو بھیانک راستوں میں سے ایک راستے کا انتخاب کرنا ہو تو …

ڈاکٹر نے بچوں کو غور سے دیکھا …  ہم ڈاکٹر بھی کبھی کبھار ہار جاتے ہیں۔ کوئی کوئی مرض ایسا ہوتا ہے کہ مریض اپنی موت کی دعائیں مانگتا ہے مگر موت نہیں آتی۔ وہ گھٹتا رہتا ہے۔ مگر …  ڈاکٹر نے سرینج پر اپنے ہاتھوں کی گرفت سخت کی۔ کبھی کبھی ایسی کسی صورتحال کے لئے ہمارے میڈیکل سائنس میں ایک ٹرم عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر ایک لمحے کے لئے۔ پھر اس نے دھیرے سے کہا۔ مرسی کلنگ یا مرسی ڈیتھ۔ اس کی دھیمی آواز باہر سے آتی تیز ٹھنڈ میں دب کر رہ گئی تھی۔

اور آخر میں۔ لڑکے یعنی آفاق زین العابدین کا بیان:

کہانی ختم ہو گئی۔ لیکن پیارے قارئین، ابھی ابھی ہمیں ایک بیان ملا ہے۔ یہ بیان کسی کورٹ کچہری میں دیا گیا بیان نہیں ہے بلکہ یہ بیان ہمیں اسی گھر کی ایک بک کے ذریعے ملا ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ جس میں مختصراً بس اتنا تحریر ہے۔

 ’’اس بدقسمت رات۔ اﷲ ایسا دن کسی کو بھی نہ دکھائے۔ میں نے آگے بڑھ کر سرینج توڑ ڈالی۔ ابا لیبارٹری کے، انہی بدبو دیتے، مردہ کیڑے مکوڑے اور زہریلے پتوں کے درمیان رہ گئے۔ ہم بچپن سے ورثے میں ملا نام یا گھر بدلنے پر راضی نہیں تھے۔ ابا کی طرح کمزور بھی نہیں۔ ہم کہاں جا رہے ہیں، ہمیں خود نہیں پتہ۔ ہاں، ہمیں تلاش کرنا ہو تو یہ ضرور دیکھ لینا کہ وہاں بارودی سرنگ کے پھٹنے کا دھماکہ سنائی دے رہا ہے، یا نہیں۔ ہم اتنا جان گئے ہیں، کہ اگر ہمیں جینا ہے تو ہمیں جینے سے کوئی روک نہیں سکتا۔

تحریر کے نیچے ہندی میں کیا گیا ایک دستخط تھا، جس پر صاف صاف آفاق زین العابدین کا نام پڑھا جا سکتا تھا۔



 

انعمتہ اور بیکری

 ۔۔

سب کچھ ٹھیک تھا اماّں / تیرے کھائے اچار کھٹاس/تیری چکھی ہوئی مٹّی اکثر پہنچتے تھے میرے پاس/ میں بہت خوش تھی اماّں / مجھے لینی تھی، جلدی ہی اپنے حصّے کی سانس/ مجھے لگنی تھی اپنے حصّے کی بھوک/ مجھے دیکھنی تھی اپنے حصّے کی دھوپ/ ابوّ کی ہتھیلی کا سایہ تیرے پیٹ پر دیکھا تھا میں نے / مجھے اپنے حصّے کے ابوّ دیکھنے تھے …  پھر جانے کیا ہوا/ میں تیری کو کچھ کے ملائم گنگنے اندھیرے سے نکل کر/ کھلتی دھوپ پھر تیز آگ میں پہنچ گئی …

___انشو  مالویہ کی ایک نظم سے

چاروں طرف گہرا سناّٹا ہے اور اس سناّٹے میں اپنی آواز تک سنائی نہیں دیتی۔ جسم بے حس ہے اور روح کے اندر جیسے کسی نے چپکے سے خنجر اُتار دیا ہو۔ مگر___ کوئی چیخ نہیں ___ سناّٹا اور گہرے سناّٹے میں دو آنکھیں میرے سامنے معلق ہو گئی ہیں ___ میں کچھ بھی نہیں بھولا …  مجھے ایک ایک کر کے ساری باتیں یاد آ رہی ہیں ___

 ’’وہ آ رہی ہے …‘‘

پہلی بار اِس آواز کی ’گونج‘ کے ساتھ ہی میں نے اپنا غصّہ ظاہر کر دیا تھا۔

 ’’نہیں، اُسے روک دو۔ یہ کوئی آنے کا موسم نہیں ہے۔ تم نے باہر نہیں دیکھا!‘‘

 ’’باہر … ؟‘‘

 ’’باہر جنگل جل رہے ہیں۔ صُجیں جل رہی ہیں۔ راتیں جل رہی ہیں۔ دھوپ میں حدّت ہے اور …‘‘

 ’’تبسم نے پہلی بار میری آنکھوں میں جھانکا___ ڈراؤ مت، صبحیں پہلے بھی جلی تھیں۔ راتیں بھی۔ پھر سب ٹھیک ہو گیا۔ ‘‘

اِس بار ٹھیک نہیں ہو گا۔ تم نے سنا نہیں۔ رات میں کیسی کیسی ڈراؤنی آوازیں گونجتی ہیں، جیسے ___ سناّٹے اور دھوپ اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کر ہزاروں بد روح لڑکوں پر اکٹھے سوار ہو گئی ہوں …‘‘

 ’’ڈراؤ مت___‘‘ ہاں سنو، تبسم نے مسکرانے کی کوشش کی ___ ’’وہ آ رہی ہے۔ ‘‘

 ’’اس لئے وہ بولنا بھول گئی تھی …‘‘

چلنا بھول گئی تھی …

بڑھنا بھول گئی تھی …

جبکہ عمر کے گھوڑوں نے آہستہ آہستہ اُڑنا سیکھ لیا تھا …

ڈاکٹر کہتے ہیں …  ’’تبسم کے چہرے پر خوف ہی خوف تھا۔ ‘‘

وہ بستر پر لیٹی تھی۔ میں انعمتہ میں گُم تھا___ ’’یہ آنکھیں میری ہیں …  یہ ہونٹ …  یہ چھوٹے چھوٹے پاؤں …  یہ ہاتھ …‘‘

ڈاکٹر کہتے ہیں …  ’’تبسم بولتے بولتے رُک گئی …‘‘ ’’وہ ٹھہر گئی ہے۔ اُس کی سانسیں ٹھہر گئی ہیں۔ اُس کے ہاتھ …  اُس کے پاؤں …  وقت ٹھہر گیا ہے …  عمر ٹھہر گئی ہے …‘‘

میں نے انعمتہ کو دونوں ہاتھوں میں بھر لیا ہے ___ ’’نہیں یہ ایسی ہی ہے بس، مجھے یہ ایسے ہی قبول ہے …  بس ایسے ہی …‘‘

دو بڑی بڑی آنکھیں میری آنکھوں میں جھانک رہی ہیں۔ ’’پاپا، میں نہ بڑھوں تو … ؟ میں نہ اُڑوں تو …‘‘

 ’’نہیں …  سب ٹھیک ہے …‘‘ میں تبسم کی طرف مڑتا ہوں ___ آہ، سب ٹھیک …  جوتے کا فیتہ باندھنے اور ٹائی کی ناٹ باندھنے تک …  لوگ مر رہے ہیں۔ آہ، سب ٹھیک___ گلاس میں اسکاچ اُنڈیلنے اور آئینہ میں چہرہ دیکھنے تک …  لوگ مر رہے ہیں …  آہ، سب ٹھیک …‘‘

 ’’دیکھو …  وہ تمہاری طرف دیکھ رہی ہے …  ہنس رہی ہے …‘‘

 ’’ہاں، وہ ہنس سکتی ہے، اس لئے کہ اُس نے سب کچھ دیکھا ہے۔ جانا ہے۔ وہ ہنس سکتی ہے …  وہ ہم سب پر …  یعنی جو کچھ ہو رہا ہے …  نہیں ___ شاید میں غلط کہہ رہا ہوں …  وہ جو کچھ دیکھ رہی ہے …  وہ ایسی بہت ساری باتوں پر ہنس سکتی ہے …‘‘

 ’’دیکھو …  وہ تم سے باتیں کر رہی ہے … !‘‘

پتلے پتلے نازک ہونٹ کھلے تھے …  آنکھوں میں جمی برف پگھلی تھی___ برف پگھلنے سے ایک نظر نہ آنے والی کھڑکی سے خوشبو کا قافلہ نکلا تھا۔ قافلے میں فرشتے ہی فرشتے تھے، جو انعمتہ کو گھیرے کھڑے ہو گئے تھے …

 ’’آہ … خوشبو … تم محسوس کر رہے ہو؟‘‘ تبسم چونک گئی ہے۔

 ’’ہاں …‘‘

 ’’دیکھو تو سہی …  انعمتہ پھر ہنس رہی ہے …‘‘

 ’’انعمتہ، ہنس سکتی ہے …  کیونکہ فرشتے آ گئے ہیں۔ ‘‘

 ’’فرشتے !‘‘ تبسم زور سے چونکی۔ انعمتہ کو دیر تک گھورتی رہی۔ پھر بولی …  آہ، کھانا …  میری بٹیا کھانا کب سے شروع کرے گی، دودھ پر آخر کب تک رہے گی۔

 ’’اب بہانہ مت بناؤ پاپا۔ تم میرے آنے سے خوش نہیں ہو۔ ‘‘

 ’’خوش تو بہت ہوں بٹیا مگر …‘‘

 ’’بیکری‘‘ …  بٹیاں ہنس رہی تھی___ چلو برتھ ڈے نہیں مناؤں گی۔ ٹھیک۔ تمہیں میرے لئے بیکری سے کیک نہیں منگوانا پڑے گا …  ٹھیک …

 ’’ہاں۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ کیونکہ کیک اور بریڈ کے نام پر …‘‘

 ’’چھی … چھی …  پاپا …  کھانے کے بارے میں ایسا نہیں بولتے ___ مگر جانتے ہو، آنے سے پہلے میں نے یہ منظر دیکھ لیا تھا۔ میں نہیں جانتی، انصاف کی عمارتوں میں کیا ہوتا ہے۔ مگر میں روئی تھی پاپا۔ ایک لمحہ کو دل، یہاں …  تمہاری اِس دنیا میں آنے کے لئے بدل بھی گیا تھا …  سوچتی تھی …  یہاں ایسا ہی ہوتا ہے …  میں تو گھبرا گئی تھی پاپا …  ایک میری دوست بھی تھی …  بس وہ آنے والی تھی …  آنے والی تھی …  آنے والی …‘‘

چلتے چلتے جیسے ٹیپ پھنس گیا تھا۔

 ’’کیا ہوا؟‘‘

 ’’کچھ نہیں۔ ‘‘ وہ زور سے چلاّئی۔ آنکھوں سے رِم جھم آنسو کی برسات ہو رہی تھی۔ وہ کوثر آنٹی کی بٹیا تھی___ نرمدا پٹیا میں ___ وہ مجھ سے ڈھیر ساری باتیں کرتی تھیں۔ کبھی کبھی فرشتے ہمیں گھنٹوں باتیں کرتے دیکھ کر ڈانٹ بھی دیتے تھے …  چپ رہو۔ دنیا کے طور طریقے ابھی سے مت سیکھو۔ آنسو اُس کے گال پر بہہ آئے تھے …

 ’’وہ کوثر انٹی کی بٹیا تھی …  میرے ساتھ ہی آنے والی تھی، مگر وہ___ غصّے میں تھی۔ تم نے رُلا دیا …‘‘

 ’’چل اب نہیں رُلاؤں گا …‘‘

وہ پھر جیسے یادوں کے غبار میں کھو گئی تھی۔ ’’کوثر انٹی کی بٹیا …  کتنی پیاری سی تھی۔ مجھ سے بھی زیادہ پیاری۔ مجھ سے باتیں کرتی تھیں۔ اماّں کے کھائے اچار کی باتیں۔ کوکھ میں چھن کر آنے والی، سورج کی کرنوں کی باتیں۔ اپنے حصّے کی سانس اور اپنے حصّے کی دھوپ کی باتیں ___ اپنے ابوّ کی ہتھیلی کا ’سایہ‘ اُس نے امّی کے پیٹ پر دیکھا تھا۔ اُس کو اپنے حصّے کا پورا پورا دیکھنا تھا …  وہ مچھلی کی طرح تیرتی تھی۔ لیکن ایک دن …‘‘

انعمتہ کے چہرے پر لرزہ تھا۔ ’’سب کچھ میرے سامنے ہوا پاپا …  میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اچانک گنگنے ملائم اندھیرے سے نکل کر تیز دھوپ میں پہنچ گئی …‘‘

وہ ناپید رہ گئی۔ میرے سامنے ہی سب کچھ …  میرے سامنے ہی ہوا …  پاپا …  ’’وہ کانچ تھی …  آگ کی آنچ میں پگھل پگھل گئی۔ ‘‘

انعمتہ رو رہی تھی___

 ’’نہیں، روؤ مت۔ ‘‘

میں انعمتہ پر جھک گیا ہوں۔ وہ مسکرائی ہے۔ میں نے ایسی عجیب و غریب مسکراہٹ آج تک حسن سے چہرے پر بھی، سجی ہوئی نہیں دیکھی۔ وہ اِس دنیا کی مسکراہٹ نہیں تھی۔ اُس کی مسکراہٹ کا ہر لفظ سنا جا سکتا تھا۔

 ’’سنو پپاّ …  میں آئی …  میں نے دیکھا، مگر میں فاتح نہیں ہو سکی۔ میں فتح حاصل کرنے آئی بھی نہیں تھی۔ بس، اپنے حصّے کے پاپا …  اپنے حصّے کی تمام چیزیں …  میں نے بس دو سالوں میں ہی سمیٹ لی۔ اب میرا یہاں کیا کام پاپا …  آج رات تیز بارش ہو گی اور کل صبح میں واپس ’اﷲ گاؤں ‘ چلی جاؤں گی___ مگر …  رونا مت۔ یاد کی کوئی بارش میرے نام کر لینا …  بارش کی کسی ایک بوند پر میرا نام لکھ لینا اور …‘‘

میں جیسے کسی درد کے سمندر میں بہہ رہا ہوں۔

ایک کوکھ میں چھٹک گئی

دوسری، بارہ آ کر چٹک گئی

تیسرا میں ہوں، جو ہزاروں طرح کا خوف، دہشت کے ساتھ اُس گجراتی ماحول کے ’باتنا شور‘ میں بھٹک رہا ہوں۔ لیکن میرا ایک سچ اور بھی ہے۔ اُس دن سے روٹی کھائی نہیں جاتی۔ بیکری کسی بُرے خواب کی مانند لگتی ہے … !



 

فدائین کی ماں

بیٹا لڑائی جھگڑا کر کے گیا تھا …

اسی لئے ماں بیٹے کے لئے فکر مند تھی، ورنہ اور کوئی بات نہیں تھی۔ وقت بھی کیسے پلین کی طرح اُڑ جاتا ہے۔ ماں کو کبھی کبھی بچے پر پیار بھی آتا تھا۔ مگر وہ بہت زیادہ بچے کے بارے میں نہیں سوچتی تھی اور سچ پوچھئے تو اب سوچنے کے لئے رکھا بھی کیا تھا۔ بیٹا جاتے جاتے پانچ ہزار کے نوٹوں کی ایک چھوٹی سی گڈی اس کے ہاتھ پر رکھ گیا تھا۔

 ’’رکھ لے۔ ‘‘

 ’’کیوں ؟‘‘

 ’’بس رکھ لے ___‘‘

 ’’لیکن کیوں رکھ لوں ؟‘‘

 ’’ماں ہے، نا___!‘‘ بچے کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔

ماں نے غور کیا۔ دو ایک برس میں بچے کی شوخی ’کافور‘ کی طرح اُڑ گئی تھی۔ بچے کے اندر، بچے کا باپ اتر آیا تھا۔

 ’’تمہارے لئے بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

 ’’اچھی بات ہے۔ یہ پیسہ رکھ لے۔ ‘‘

 ’’لیکن کیوں …  کیا کروں گی؟‘‘

 ’’کچھ بھی۔ اپنے لئے کپڑے لے آنا۔ ‘‘ بیٹا کہتے کہتے ٹھہرا۔ گھر کی دیوار اور چھت کو غور سے دیکھا۔

 ’’اب کی برسات میں دیوار گر سکتی ہے۔ چھت بھی چور ہی ہے۔ پانچ ہزار کافی ہوں گے۔ ‘‘

 ’’لیکن میں نہیں رکھوں گی۔ ‘‘

 ’’کیوں ؟‘‘

 ’’بڑی رقم ہے۔ ‘‘ ماں بچے کو پرکھ رہی تھی۔ ’’کہاں سے لایا؟‘‘

 ’’کام ملا ہے۔ بتایا تھا نا۔ ‘‘ لیکن اتنی بڑی رقم … ؟‘‘

 ’’چوری نہیں کی ہے۔ ‘‘

 ’’جانتی ہوں۔ ‘‘

 ’’جانتی ہے تو رکھتی کیوں نہیں۔ ‘‘

ماں سلائی مشین پر بیٹھ کر پیر چلانے لگی۔ ہنسی مذاق کرنے کی خواہش ہوئی۔ ’’سن! جان گر سلامت ہے۔ اتنا پیسہ اپنی بیوی کو دینا۔ مجھ کو مت دے۔ ‘‘

بیٹا روانی میں بول گیا …  ’’بیوی نہیں آئے گی میری۔ رکھنا ہے تو رکھ لے۔ نہیں تو خیرات کر دینا۔ ‘‘ اس کے بعد بیٹا ٹھہرا نہیں، دروازے سے تیزی سے نکل گیا۔

ماں کی آنکھوں نے بہت دور تک بچے کا پیچھا کیا۔ چہرہ سیاہی مائل، باپ کی طرح نکلتا ہوا قد، تقریباً چھ فٹ، اجلی قمیص، کرتا، سر پر ٹوپی۔ ماں نے انگلیوں پر حساب لگایا …  ہاں رے، پورے اکیس کا ہو گیا۔ رمضان میں تو بائیسواں چڑھ جائے گا۔ ماں کو غصّہ تھا۔ کتنی بار سمجھایا۔ شادی کر کے کیا کروں گا۔ کہاں رکھوں گا؟ ابا تم کو رکھ پائے کیا؟ یہ تمہاری عمر تھی، مشین چلانے کی …‘‘

 ’’سب قسمت کی بات۔ ‘‘ خوشی سے کون مشین چلاتا ہے لیکن پیٹ کی دوزخ نے کب کس کو بخشا ہے۔ اﷲ جنت نصیب کرے۔ عمرو میاں جب تک زندہ رہے، کوئی کمی نہیں رہنے دی۔ مزدور آدمی تھے گھر بلڈنگ بنوا رہے ہیں۔ خوف کا نام و نشان نہیں۔ لمبے تگڑے۔ تب پرانی چھتہ حویلی ٹوٹ رہی تھی۔ سنا تھا، ہوٹل بن رہا ہے۔ خستہ عمارت۔ عمرو میاں صبح سات بجے ہی نکل جاتے۔ کنٹریکٹر اسی ٹیم بلواتا تھا۔ رمضان کا ستائیسواں روزہ تھا۔ بھوکے پیاسے عمرو میاں۔ وقت ہو گا، کوئی چار کے آس پاس کا۔ وہ عمرو میاں کے لئے افطار تیار کرنے میں لگی تھی۔ تبھی ان کے ساتھی بھاگے ہوئے آئے۔

 ’’بھابھی! غضب ہو گیا‘‘ چھن …  جیسے گرم گرم تیل میں پھلکیاں تلی جا رہی ہوں۔

 ’’ہائے اﷲ۔ ‘‘ کیسی بے پردگی۔ عمرو میاں کے دوست سامنے کھڑے تھے۔

 ’’چھتہ حویلی کی دیوار گر گئی، عمرو میاں پر تکفین کے لئے ہم لوگ گھر لا رہے ہیں۔

ماں نے آنسو پونچھے۔ الطاف بار بار باپ کے جنازے کو چھوتا تھا۔ چہرے سے کپڑا ہٹاتا تھا۔ ’ابا جاگو کھانا کھالو‘ لوگ رو رہے تھے۔ ماں بے ہوش پڑی تھی۔ شام، مغرب بعد لالٹین جل گئی۔ پہلی بار اس نے بیٹے کو کافی قریب سے زوروں سے لپٹا یا تھا۔ ’بے سدھ ہو گئی‘ بیٹے کا جسم کڑا تھا۔ عمر تھی دس سال۔ ماں نے آنسو پونچھے۔ چلو بیٹا تو ہے۔ عمر کی فاختہ کے اڑنے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دس سال گزر گئے۔ الطاف اور گھر کا خرچ پورا کرنے کے لئے گھر میں، پیر سے چلنے والی سلائی مشین بھی آ گئی اور پھر ادھر ادھر سے محلے والوں کے کپڑے بھی آنے لگے۔ پرب تہوار کے کپڑے۔ ماں عمرو میاں کی بیوہ تھیں اور الطاف …  ایک نمبر کا کھلنڈرا۔ ماں کو الطاف سے کوئی امید نہیں تھی۔

مگر ایک دم، اچانک۔ پچھلے دو برسوں سے۔ ماں کو احساس ہوا تھا۔ الطاف میں ایک سنجیدہ چہرے والا آدمی آ گیا تھا۔

پانچ ہزار کی گڈی اس نے پرانے صندوق میں رکھے کپڑوں کے درمیان چھپا دی۔ یہ تیسرے دن کا واقعہ ہے۔

دو دن، دو رات ماں، بیٹے کا انتظار کرتی رہی۔ بیٹا نہیں آیا۔ بیٹا بڑا ہونے کے نام پر ایسا پہلے بھی کیا کرتا تھا۔ ماں کے لئے انتظار معنی نہیں رکھتا تھا۔

قریب ہی جھبرو میاں درزی والے کا گھر ہے۔ جھبرو، عمرو میاں کے دوست تھے لیکن، کیسی دوستی، جھبرو میاں کی تو تین منزلہ عمارت ہے۔ دو لڑکے، تین لڑکیاں۔ بڑا درزی ہے۔ خوب چلتی ہے۔ کہاں عمرو میاں۔ جب تب بچے آ جاتے ہیں۔ چلونا اماں۔

 ’’کیا ہے، رے …‘‘ ’’ٹی وی دیکھنے۔ ‘‘ ماں کو ٹی وی دیکھنا اچھا لگتا تھا۔ ٹی وی جھبرو میاں کے ڈرائنگ روم میں تھا۔ سب ٹی وی کے قریب بیٹھ جاتے۔ دونوں لڑکے، تینوں لڑکیاں بھی۔ ہنگامے ہوتے۔ تالیاں پیٹی جاتیں۔ کمینٹس چلتے رہتے اور …  ماں نہال ہو جاتی۔

اسی دن …  دوپہر، کوئی دو بجا ہو گا۔ چھوٹی بیٹی عطیہ بھاگ کر آئی …  ’’چلونا، اماں۔ ‘‘

 ’’کیا ہے۔ ‘‘ ٹی وی دیکھنے۔ ‘‘

 ’’کوئی پروگرام آ رہا ہے کیا؟‘‘

عطیہ نے پوچھا …  ’’الطاف بھیا کہاں ہیں ؟‘‘

 ’’تین دن سے گھر نہیں آیا۔ ‘‘

 ’’چلو اماں۔ ‘‘ ’’چلو‘‘ دروازہ بند کرتی ہوں۔ ‘‘

ماں نے دروازہ اڑکایا، عطیہ کے ساتھ تیز تیز چلتی ہوئی جھبرو میاں کے ڈرائنگ روم میں پہنچ گئی۔ سلام کلام کے بعد، صوفے پر جھبرو میاں کی بیوی کے پاس ہی بیٹھ گئی مگر یہ کیا … ٹی وی پر پولس کے سپاہی۔ دنادن گولیاں چل رہی ہیں …  ’’یہ کیا ہو رہا ہے ؟‘‘

 ’’مندر پر آتنک وادیوں نے حملہ کیا ہے، یہ جھبرو میاں کا چھوٹا والا بیٹا تھا …  ’’اماں ! یہ سب بھی دیکھا کرو۔ ‘‘

 ’’آتنک وادی نہیں رے۔ ‘‘ بڑے والے نے شان سے کہا …  ’’گجرات قتل عام کا جواب ہے۔ فدائن حملہ …‘‘

 ’’فدا … فدائین …‘‘ اماں کانپ گئیں …

ٹی وی اسکرین پر پولس کے سپاہی بڑے بڑے بم گولے لے جاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔

 ’’باپ رے باپ۔ یہ کیا کریں گے …‘‘ کچھ نہیں اماں۔ یہ سب فدائین کو گھیرنے کی تیار ہے …

 ’’فدا … فدائین …‘‘ اماں کانپ گئیں …  ’’یہ فدائین کون ہیں ؟ جھبرو میاں نے قہقہہ لگایا …  ’’ارے !‘‘ جو مذہب پر فدا ہے وہ فدائین۔ جو اﷲ میاں پر، اسلام پر فدا ہے۔ دیکھو تو، کافروں کے سینے پر کیسے سانپ لوٹ گیا۔ ‘‘

ان کی اہلیہ زور سے ہنسی …

 ’’فدا … فدائین۔ ‘‘ ماں ڈر رہی تھی۔

بچوں نے ہنگامہ کیا …  ’’بولو مت اماں۔ ٹی وی دیکھو۔ دیکھو، کیا خبریں آ رہی ہیں۔ ‘‘

ٹی وی سے خبریں چیخ رہی تھیں …  ’’صبح، سمے 7بجے مندر میں ہونے والی ’آرتی‘ کے سمے اچانک کچھ آتنک وادی گھس گئے۔ اندھا دھند گولیاں چلنے لگیں۔ آتنک وادیوں نے 50لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ لگ بھگ 100لوگ اب بھی گھائل ہیں۔ مارے گئے لوگوں میں مہیلائیں اور بچے بھی ہیں۔ آتنک وادی اب بھی مندر میں گھسے ہوئے ہیں۔ ’’سرکچھابلوں ‘‘ نے آتنک وادیوں کو باہر نکالنے کے لئے چاروں اور سے مندر پریسر کو گھیر لیا ہے۔ دلّی سے پہنچے کمانڈوز نے سارے ’مندر پریسر‘ کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ ‘‘

 ’’کیا کر لیں گے …‘‘ بڑا چیخا … ’’گجرات میں مار کے دیکھ لیا نا …‘‘ ’’ارے چپ …‘‘ جھبرو میاں نے ڈانٹا۔

جھبرو میاں کی بیوی بولیں … لیکن گجرات میں ان لوگوں نے اچھا نہیں کیا۔ مسلمانوں کی جان نہیں ہوتی کیا؟‘‘

 ’’تو کیا، ہندوؤں کی نہیں ہوتی۔ ‘‘ جھبرو میاں صفائی دیتے ہوئے پلٹے …  ’’ارے یہ الطاف کہاں ہے ؟‘‘

 ’’پتہ نہیں !‘‘ ’’پتہ نہیں ؟‘‘ ’’تین دن سے غائب ہے۔ ‘‘

ٹی وی اسکرین پر دنادن گولیاں چل رہی تھیں۔ اچانک مندر ’پریسر‘ سے بھاگتے آتنک وادی پر کیمرہ چارج ہوا۔ نیوز ریڈر کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ’’آتنک وادی مین گیٹ سے گھسے تھے۔ دونوں آتنک وادیوں کی عمر 20سے 25برس کے درمیان ہے۔ ‘‘

جھبرو میاں فیملی کی سانسیں آدھی نیچے، آدھی اوپر۔ یہ کسی فلم سے بھی زیادہ رونگٹے کھڑے کرنے والا منظر تھا۔ گولیوں کے بیچ ایک آتنک وادی گرا تھا۔ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا تھا۔ خبر میں بتایا جا رہا تھا … ایک آتنک وادی ڈھیر ہو چکا ہے۔ آپ اُس کی لاش دیکھ رہے ہیں۔ دوسرے آتنک وادی کو سرکچھابل کے لوگ تلاش کر رہے ہیں۔ مندر پریسر میں پھنسے لوگوں کو سرکچھا دستے نے اپنے قابو میں کیا ہوا ہے۔ یہ آتنک وادیوں کے لئے ’’وِدڈرال موڈ‘‘ ہے۔ یعنی اب وہ باہر آنے یا مارے جانے کے انتظار میں ہیں۔ ’’یہ سب کیا ہو رہا ہے …‘‘ ماں کی آواز لڑکھڑا رہی تھی۔ ’’وہ کون گر گیا ہے … ؟‘‘

 ’’فدائین۔ دیکھو میں سمجھاتا ہوں۔ ‘‘ بڑا ماں کے پاس آ گیا …  فدائین بننا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ یہ جانتے ہیں۔ مرنا ہے، تو مرنا ہے، لیکن مرنا مذہب کے لئے جہاد کے لئے۔ آپ بس، اسلام کو بدنام کئے چلے جا رہے ہو۔ گجرات میں کیا ہوا اماں۔ سیاست تھی، نا، بس، جھوٹی سیاست کے لئے قتل کرایا گیا ہزاروں مسلمانوں کا …  میں تو کہتا ہوں …‘ اس درمیان چھوٹا والا اُٹھ کر باہر گیا۔ دوسرے ہی لمحہ دوڑ کر اندر آ گیا۔ اس کے چہرے پر ہوائی اُڑ رہی تھی۔

 ’’پتہ نہیں کیا بات ہے۔ محلے میں پولس کی گاڑیاں راؤنڈ کر رہی ہیں۔ فوجی گاڑیاں ہیں۔ ‘‘

جھبرو میاں بولے …  ’’آخر مندر پر حملہ ہوا ہے۔ میں نے سنتے ہی دکان پر تالا لگوا دیا۔ بھائی زمانہ اچھا نہیں۔ ‘‘

بیچ میں چائے کی پیالیاں بھی چلیں۔ تبصرے ہوتے رہے۔ لیکن ماں کی آنکھیں اسکرین کی ’لاش‘ پر مرکوز تھیں۔ ایسے بھی کوئی مرتا ہے کیا۔ پتہ نہیں کس کا بیٹا ہے ؟

این ایس جی کمانڈوز نے دونوں آتنک وادیوں کو مار گرایا تھا۔ اسکرین پر ’آپریشن وجے ‘ کی جھلکیاں دکھائی جا رہی تھیں۔ اینکر بتا رہا تھا …  ابھی تک کسی گروپ نے مندر پریسر پر فدائین حملے کی ذمے داری نہیں قبول کی ہے۔ آتنک وادیوں کے پاس سے اردو میں لکھا گیا ایک پرزہ برآمد ہوا ہے …‘‘

 ’’میں جا رہا ہوں۔ کھانا بنانا ہے۔ ’’تم نے کھانا کھایا اماں ؟‘‘ یہ ’بڑا‘ تھا۔

جھبرو میاں بولے …  ’بیگم عمرو بھائی کی بیوہ کے لئے کھانا لگا دو‘۔ ’ناجی۔ جی اچھا نہیں ہے۔ ‘

 ’’یہ سب دیکھ کے جی کس کا اچھا ہو گا اماں، لیکن اب تم کھا کر جاؤ گی‘‘۔ یہ عطیہ تھی …

ٹی وی چلتا چھوڑ دیا گیا تھا۔ اماں کھانے میں لگ گئیں۔ گھنٹے دو گھنٹے اور گزر گئے، شام ہو گئی، لیکن کرنا کیا تھا۔ یہاں اماں کا دل بھی لگتا تھا۔ جھبرو میاں کا سارا گھر ان پر جان دیتا تھا۔ تب تک، چھوٹا والا گھبرایا ہوا دوبارہ اندر داخل ہوا۔

 ’کچھ گڑبڑ ہے ابا …  باہر کافی بھیڑ لگی ہے۔ ‘

 ’اچھا کئی گاڑیاں ہیں۔ پورے محلے کو گھیر لیا گیا ہے۔ ‘

 ’لیکن کیوں کمبخت؟‘

 ’کچھ لوگ اماں کا …‘ ’اماں ‘ …  جھبرو میاں اُچھلے۔

 ’سمجھ میں نہیں آتا لیکن جو پتہ پوچھ رہے تھے، وہ اماں کا ہے ‘۔ ’کیوں … ؟‘

محلے میں واویلا مچا تھا۔ کئی گاڑیاں تھیں، محلہ دیکھتے ہی دیکھتے پولیس چھاؤنی میں تبدیل ہو گیا۔ کسی نے بتایا۔ پورے محلے کی تلاشی ہو گی۔ اماں جھبرو میاں کے ساتھ باہر آئیں۔ انسپکٹر، ماں کے مکان کے پاس تحقیقات کر رہا تھا۔ اماں تیزی سے لپکیں …

 ’کیا ہے ؟ الطاف کون ہے۔ ‘

 ’جھبرو میاں کا سر گھوم گیا۔ ان کے بچے بھی آگے بڑھے۔ ’کیا بات ہے انسپکٹر صاحب؟‘

 ’مندر پریسر پر حملہ ہوا ہے۔ دیکھا؟‘

 ’ہاں ٹی وی پر سب کچھ دیکھا۔ ‘

 ’الطاف کس کا بیٹا ہے ؟‘

جھبرو میاں نے اشارہ کیا۔ اماں کا چہرہ سَن …

 ’کمانڈوز نے دونوں آتنک وادیوں کو مار گرایا۔ ایک اس کا بیٹا ہے، الطاف۔ پوچھ تاچھ ہو گی۔ تلاشی ہو گی۔ آپ لوگ یہی کرتے ہیں۔ فدائین بناتے ہیں۔ ‘ انسپکٹر گالیاں دے رہا تھا۔ ’آپ کو تھانے چلنا ہو گا۔ ‘

اماں کا سر گھوم گیا۔ ٹی وی اسکرین کی تصویر آنکھوں کے آگے دوڑ گئی، لیکن اسی لمحہ ماں نے اپنے آپ کو سخت کر لیا۔

جھبرو میاں اور بچے پیچھے ہٹ گئے تھے۔

 ’چلوں گی …‘ اماں کی آواز شانت تھی۔

انسپکٹر نے تلاشی کا اشارہ کیا۔ اماں سیڑھیوں پر بیٹھ گئیں۔ کمانڈوز واپس آ گئے۔

اماں نے ضبط نفس رکھتے ہوئے پوچھا …

 ’الطاف سے مل سکتی ہوں ؟‘ ’نہیں !‘

 ’پوسٹ مارٹم … ؟‘

 ’اجازت نہیں ہے۔ لاش یہاں لائی بھی نہیں جائے گی وہیں رہے گی۔ ابھی ’ڈی بریفننگ‘ چلے گی۔ جانے کیا کیا ہو گا۔ ‘

 ’لیکن مجھے بیٹے سے ملنا ہے۔ ‘ ’کیوں ‘ انسپکٹر غصّے سے بولا …  ’اماں فدائین کو زندہ کرو گی کیا؟‘

 ’نہیں۔ لیکن میں ملنا چاہتی ہوں۔ ‘

 ’لیکن کیوں ؟‘ دیر سے ضبط کئے گئے آنسو اماں کی آنکھوں سے چھلک گئے …

 ’’تھوکنا چاہتی ہوں میں، الطاف پر۔ تھوکنا چاہتی ہوں۔ سب کے سامنے۔ آپ کے، ٹی وی کے، ملک کے، سب کو گواہ بناکر۔ ارے جو میرا نہیں ہوا۔ ملک کا نہیں ہوا۔ وہ اﷲ اور رسول کا کیا ہو گا۔ ‘‘

اماں نے پچ …  سے دوسری طرف منہ کر کے تھوک دیا تھا۔ جیسے دیر سے چل رہی کشمکش سے اسے نجات مل گئی ہو۔ اب وہ پُر سکون تھی۔

 ’چلئے۔ جہاں لے چلنا ہو۔ میں تیار ہوں۔ ‘



 

مودی نہیں ہوں میں

یہ انہیں دنوں کا واقعہ ہے، جب ’گودھرا‘ کی آگ نے یکایک ’بابری مسجد‘ کے دنوں کی یاد تازہ کر دی تھی۔

اذان ہو چکی تھی۔ مرغ نے ’دربے ‘ سے منہ نکال کر دو ایک دفعہ ’بانگ‘ کا سر بلند کیا۔ پھر چپی اوڑھ لی۔

مرتضیٰ وضو سے فارغ ہوئے تو بٹیا سامنے تھی۔

آنکھوں نے اشارے میں فرمان جاری کر دیا___ ’کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘

بٹیا اُداس سی ان کی طرف دیکھتی رہی۔ کچھ بولی نہیں۔

 ’بازو‘ میں پنڈت جی کا گھر تھا۔ پنڈت جی گھڑی نہیں باندھتے تھے۔ وقت آنکھوں کی پلکوں میں رکھا ہوتا تھا۔ آنکھیں بند کیں، اور پتہ لگا لیا۔ پانچ بج کر دس منٹ۔ نہ ایک منٹ کم، نہ ایک منٹ زیادہ۔ یہ سب تو وقت کے لمبے کارخانے کا تجربہ ہے۔ نگاہ اٹھائی، تو آسمان پر اندھیری بدلیاں جمع ہو کر کسی انجان ’دیوتا‘ میں بدل گئی تھیں۔

جھکے، نمستے کا انداز اختیار کیا۔ غسل سے فارغ ہو گئے تھے۔ مگر کچھ چھوٹ رہا تھا۔ گذشتہ چند سالوں سے چل رہے اصولوں میں تبدیلی آ گئی تھی۔

رام نام جپتے رہے، مگر جیسے آج پوجا کا ’ذائقہ‘ ہی چلا گیا تھا۔ ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھا۔ بادلوں کا کارواں جیسے کسی لاش کو لئے جا رہا تھا۔ وہ ایک دم سے سہم گئے۔

اچانک جیسے مندر کی گھنٹیاں ٹن ٹنا اُٹھیں۔

وہی، پانی کی لہروں جیسی آواز___

 ’میں گن رہی تھی۔ پورے 273بار …‘

 ’کیا گن رہی تھی___؟‘

معصوم ہونٹ مسکرائے ___ ’وہی رام جی کا نام …‘

 ’اچھا!‘

 ’یہ ہر دفعہ اتنی ہی گنتی کیوں ہوتی ہے۔ ‘

 ’کیونکہ تمہاری گنتی کمزور ہے۔ ‘

 ’میری گنتی کمزور کیوں ہو گی۔ مجھے تو بیس تک کے پہاڑے بھی یاد ہیں۔ ‘

 ’میں کیا جانوں۔ روز ہی درختوں کے اردگرد رام نام کا ورد کرتے کرتے اچانک پاؤں اپنے وقت پر رُک جاتے ہیں۔ ‘

 ’نہیں، تم دل ہی دل گنتی گنتے ہو گے۔ ‘

 ’ارے نہیں رے۔ ‘

 ’نہیں، کیسے نہیں۔ ‘

پھر بٹیا کے ساتھ پنڈت جی کی جنگ شروع ہو جاتی۔ کبھی کبھی اس ’جنگ‘ میں بھگوان اور اﷲ دونوں شامل ہو جاتے۔

بٹیا مسکرا کر پوچھتی___ ’تم ہندو کیوں ہو؟‘

پنڈت جی غصّہ ہو کر پوچھتے ___ ’مرتضیٰ مسلمان کیوں ہے ؟‘

بٹیا مسکرا کر پوچھتی___ ’تم لوگ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہونا … ؟‘

 ’پنڈت جی تاؤ کھا جاتے ___ ’ہاں، جیسے مرتضیٰ ہندوؤں سے کرتا ہے۔ ‘

بٹیا مسکراتی تو پنڈت جی بھی مسکرا اُٹھتے ___ ’سب بھگوان کا کرشمہ ہے بٹیا۔ کسی کو وہاں پیدا کیا، کسی کو یہاں۔ ‘

بٹیا پھر شرارت سے ہنسی___ ’مجھے تو اچھے گھر پیدا کیا، مسلمانوں کے گھر۔ تمہیں تو ڈھنگ کا کپڑا بھی پہننا نہیں آتا۔ ‘

پنڈت جی غصّے میں پیچھے دوڑتے ___ ’تیرے باپ کو آتا ہے ؟مرتضیٰ کو آتا ہے ؟ ٹھہر! ابھی بتاتا ہوں …‘

وہ یکبارگی تیزی سے لپکے۔ لیکن کہاں، کون تھا؟ صبح نور کا تڑکا تھا۔ آسمان پر چھٹتی بدلیاں تھیں۔ باہر آئے تو مرتضیٰ کھڑے تھے۔ ہمیشہ کی طرح مذاق کے انداز میں نہیں، پُر سکون لہروں کی طرح۔

 ’چلو!‘

کوئی کچھ نہیں بولا۔ صبح ابھی پوری طرح جھلملائی نہیں تھی۔ سڑک سنسان تھی۔ وہ کچھ دور تک ساتھ چلے۔ پنڈت جی نے کچھ بولنے کی حالت میں کئی بار مرتضیٰ کا چہرہ دیکھا۔ پھر رُک گئے۔ کیا بولیں ؟

یہی حال مرتضیٰ کا تھا۔

آگے سڑک دائیں طرف مڑ گئی تھی۔ پھر اگلا موڑ ’رمنہ میدان‘ تھا۔ یہاں ٹھہرتے، بنچ پر بیٹھتے۔ دو قدم آگے تالاب تھا۔ وہاں کچھ وقت گزارتے، گفت و شنید ہوتی۔ پھر واپس چلے آتے۔

رمنہ میدان آ گیا تھا۔

پنڈت جی نے خاموشی کا خاتمہ کیا۔

 ’بٹیا نہیں آئی!‘

 ’ہاں ‘۔

 ’کیوں۔ ‘

 ’میں نے منع کر دیا تھا۔ ‘

 ’کیوں منع کر دیا تھا … ؟‘

 ’بس، منع کر دیا تھا۔ ‘

کوئی دلیل نہیں۔ پنڈت جی نے لمحے بھر کو، جذباتی ہو کر، مرتضیٰ کو دیکھا۔ پھر رُک گئے۔ یہاں ایک غیر جذباتی سپاٹ چہرہ تھا۔ ایک دم سپاٹ۔ کچھ بھی لکھا ہوا نہیں۔ کیا کہتے۔ یہی حال مرتضیٰ کا تھا۔ بٹیا کو منع کیوں کیا؟ کیا ضرورت تھی۔ بغیر ماں کی بچی، ذرا دیر کو بہل جاتی تھی۔

میدان میں لوگوں کا آنا جانا شروع ہو گیا تھا۔ بینچ خالی پڑی تھی لیکن دونوں میں سے کوئی بیٹھا نہیں۔ وہ تھوڑی دور تک چلے۔ تالاب کے قریب رُک گئے۔ کنارے بیٹھ گئے۔

 ’پہلے یہاں کا پانی کتنا صاف تھا!‘

 ’ہاں۔ ‘

 ’کم بختوں نے …‘ پنڈ جی کہتے کہتے ٹھہر گئے۔

 ’گالی کیوں دیتے ہو۔ گنگا، جمنا، سرسوتی اور وہ کاویری …‘

مولوی نے پانی میں ایک کنکری پھینکی۔

’کا … وے … ری …‘ پنڈت جی نے دہرایا___ ’پانی میں آلودگی کافی بڑھ گئی ہے !‘

 ’ہاں ‘

 ’پہلے اتنی نہیں تھی۔ ‘

 ’ہاں۔ ‘

 ’اب کافی بڑھ گئی ہے۔ ‘ پنڈت جی اس بار خود کو روک نہیں سکے ___ ’بٹیا کیوں نہیں آئی؟‘

مرتضیٰ نے ایک لمحہ کو اپنی آنکھیں پنڈت جی کی آنکھوں میں ’پیوست‘ کر دیں۔ جیسے کہہ رہے ہوں، ’کیوں نہیں بھیجی، اس کا فسانہ پڑھ لو پنڈت۔ ‘

پنڈت جی آنکھوں کے اس حملے سے ایک دم گھبرا گئے۔ بات ہی کتنی سی تھی۔ گودھرا کی آگ یہاں بھی آ گئی تھی۔ تھوڑے سے لوگ تھے۔ مٹھی بھر۔ شہر بند کرایا۔ تب مرتضیٰ نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے تھے۔ ’عصر‘ کی نماز پڑھ کر۔ ایک بدمعاش نے مرتضیٰ کی داڑھی پکڑ لی۔ کسی نے دو ایک ہاتھ بھی جڑ دیا۔

وہ مندر میں تھے۔ بس اتنی ہی خبر تھی۔ اتنا ہی ردّ عمل۔ ’ہر ایک عمل کا اس کے برابر اور برعکس ایک ردّ عمل ہوتا ہے۔ ‘ بس۔ اتنا ہی ردّ عمل لیکن ردّ عمل کی زد میں آئے تھے، مرتضیٰ۔ مرتضیٰ کی جگہ کوئی بھی آ سکتا تھا۔ وہ تو محلے والوں نے بیچ بچاؤ کیا۔ پولس آئی۔ محلے میں ’چوکی‘ بیٹھ گئی۔

لیکن___ پنڈت جی کے دماغ میں آندھیاں چلتی رہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ وہ کیا منہ دکھائیں گے بٹیا کو۔ کافی دیر تک مندر میں پڑے رہے۔ پوچھنے والا ہی کون ہے۔ آگے، نہ پیچھے۔ ہمت نہ ہوئی بٹیا کو منہ دکھانے کی۔ رات کے نو بجے ذرا سی ہمت جٹائی۔ مرتضیٰ کے ’چوکھٹ‘ کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ دروازہ کھلا۔ لاش جیسا سرد چہرہ۔ قریب ہی چٹائی پر بٹیا بیٹھی تھی۔ پژمردہ چہرہ۔

پنڈت جی آگے بڑھے۔ وہیں چٹائی پر بیٹھ گئے۔ مرتضیٰ دوبارہ لیٹ گئے۔

پنڈت جی کافی دیر بٹیا سے بات کرنے کی ہمت جٹاتے رہے۔ ننھی ننھی آنکھوں میں آنسو بھی تو نہیں تھے۔ کمبخت اِسی بہانے باتیں کرنے کو دو الفاظ مل جاتے۔

بدن بے حس ہو رہا تھا … بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔

 ’کچھ بولو گی نہیں۔ ‘

بٹیا چپ تھی۔

 ’میری کیا غلطی ہے ؟‘

بٹیا اس بار بھی چپ تھی۔

 ’چل۔ میں ہی مجرم۔ میں ہندو ہوں۔ برا ہوں۔ اگلی بار مسلمانوں میں جنم لوں گا …‘

جذبات بادلوں کی طرح پھر گھر گھر آئے تھے۔ رکے نہیں پنڈت جی۔ واپس آ گئے۔

تالاب میں ایک کے بعد ایک کنکریاں پھینکنے کا سلسلہ جاری رہا۔ کافی دیر بعد مرتضیٰ بولے ___ کافی سمجھایا۔ کل ساری رات صدمہ جیسی حالت رہی۔ رات میں تیز بخار بھی تھا۔

 ’پھر …‘ پنڈت جی چیخے ___ ’بلایا کیوں نہیں ؟‘

 ’نہیں بلایا۔ بٹیا ڈری ڈری تھی۔ ‘

 ’کس سے ڈری تھی؟‘

مرتضیٰ چپ تھے۔

پنڈت جی نے ایک موٹا سا پتھر پانی کی طرف اُچھال دیا تھا۔

 ’چلو۔ بٹیا سے ملنا ہے۔ ‘

آناً فاناً گھر تک کے فاصلے مٹ گئے۔ پنڈت جی بے حد غصّے میں تھے۔ بٹیا کی پیشانی چھو کر دیکھا۔ ایک ہاتھ مارا۔

 ’بول میری کیا غلطی ہے ؟‘

بٹیا چپ۔ ایک ٹک پنڈت جی کی طرف دیکھ رہی تھی۔

 ’بخار ہے۔ مجھے بلایا کیوں نہیں ؟‘ لیپ لگا دیتا۔ مولوی کی پھونک اثر کھو چکی ہے۔ شلوک پڑھ کر تجھے پھونکتا۔ پھر دیکھتی۔ ‘

بٹیا کی آنکھوں میں اب بھی کوئی چمک نہیں ہے۔

 ’بولے گی نہیں …  نہیں بولے گی___! نہیں بولے گی تو یہ شہر چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ میرا جرم تو بتا دے بٹیا …‘

اس بار پنڈت جی رونے رونے کو ہو گئے۔ ایک دم سے چیخ پڑے ___ ’سن ہندو ہوں۔ مودی نہیں ہوں میں ‘۔

بٹیا اور مرتضیٰ، حیران سے، ان کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔

دوسرے ہی لمحہ بٹیا پنڈت جی کے گلے سے لگ کر زور زور سے رو پڑی تھی!

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل بھی فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید