FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ترجمہ نگاری

ادبیات میں زر نگاری اورسحر نگاری کی ایک درخشاں روایت

 

 

                ڈاکٹر غلام شبیر رانا

 

دو تحریر ی زبانوں میں ترجمے کا عمل سنجیدہ فعالیت، گہری معنویت اور لسانی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ترجمہ ایک ماخذی زبان کے تحریری متن کو دوسری ترجمہ والی زبان کے تحریری متن میں تبدیل کرنے کی کاوش ہے۔ جہاں تک ماخذی زبان سے ترجمہ قبول کرنے والی زبان کواسالیب اور مفاہیم کی ترسیل کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ ترجمہ اپنے مآخذ کے قریب تر تو ہو سکتا ہے لیکن اس کی اپنے مآخذ کے ساتھ من و عن مطابقت بعید ازقیاس ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں برصغیر کی مقامی زبانوں میں ادیبوں کی تخلیقی فعالیت نے خُوب رنگ جمایا ہے۔ اس خطے کے فن کاروں نے ستاروں پہ کمند ڈالنے، خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے اور قلب و رو ح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر کر اپنی اثر آفرینی کا لوہا منوانے والی تخلیقات پیش کر کے لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ ابد آشنا تاثیر کی حامل اِن طبع زاد تخلیقات نے سنگلاخ چٹانوں ، جامد و ساکت پتھروں، بے حِس پہاڑوں اور چلتے پھرتے ہوئے مُردوں اور مجسموں کو بھی موم کر دیا اور اپنی مسحور کُن تخلیقی فعالیت سے جہانِ تازہ کی نوید سنائی۔ اس کے باوجوداس مردم خیز دھرتی کے زیرک تخلیق کار عالمی کلاسیک سے بے نیاز نہ رہ سکے اور اخذ، استفادے اور تراجم کا ایک لائق صد رشک و تحسین سلسلہ ہر دور میں جاری رہا۔ تراجم کو تخلیقی آہنگ سے مزین کرنے میں ان مترجمین کے کمالِ فن کا عدم اعتراف نہ صرف تاریخِ ادب کے حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب ہو گی بل کہ یہ ایک ایسی غلطی ہو گی کہ جسے نا شکری اور احسان فراموشی پر محمول کیا جائے گا۔ عالمی کساد بازاری اور قحط الرجال کے مسموم ماحول میں چربہ ساز، سارق، کفن دُزد اور حیلہ جُو عناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے گلشنِ ادب کی حسین رُتوں کو بے ثمر کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ تخلیق ادب جو دیدۂ بینا کا معجزہ تھا اسے کاتا اور لے دوڑا قماش کے مسخروں، اجلاف و ارذال اور سفہا نے بچوں کا کھیل بنا دیا ہے۔ سراپابے بصری اور کور مغزی کا نمونہ بنے یہ ا بلہ اپنی جسارتِ سارقانہ، دُزدیِ عاجلانہ اور سرقہ کو نہایت ڈھٹائی سے رتبۂ الہام دینے اور قارئینِ ادب کی آنکھوں میں دھُول جھونکنے پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں۔ عالمی کلاسیک کے براہِ راست تراجم مترجم کی فکری بالیدگی، عظمتِ کردار، عزتِ نفس، اعلا ذہن و ذکاوت اور ذوقِ سلیم کے مظہر ہوتے ہیں۔ اس کے بر عکس چربہ ساز، سارق اور کفن دُزد عناصر کی جسارت سارقانہ ان ننگِ انسانیت کرگس زادوں کے ذہنی افلاس، نمود و نمائش کی ہوس، علمی تہی دامنی، فکری بے بضاعتی اور جہالت کو سامنے لاتی ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ عالمی کلاسیک کا کسی دوسری زبان میں براہِ راست ترجمہ کرنا چربہ سازی اور سرقہ سے بدر جہا بہتر ہے۔ مترجم دو ثقافتوں کے مابین ایک غیر جانب دار ثالث کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی علمی فضیلت، دونوں زبانوں کے ادب پر خلاقانہ دسترس، دیانت اور ثقاہت کی بنا پر دونوں ثقافتوں کو اس سے انصاف کی توقع ہوتی ہے۔ وہ محض ایک زبان کے الفاظ کے متبادل دوسری زبان کے الفاظ کا انتخاب کر کے مفاہیم اور مطالب کو پیش نہیں کرتا بل کہ وہ اپنی بصیرت اور ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے فکر و خیال کے ارتقا، زبان کی ثروت مندی اور عصری آگہی کے بارے میں تفہیم کے نت نئے امکانات سامنے لانے پر قادر ہوتا ہے۔ وہ مقامی اور دیسی ثقافت کی ترقی اور اسے عالمی معیار عطا کرنے کی خاطر ہر قسم کی علاقائی، لسانی اور مقامی حدود سے آگے نکل کر سوچتا ہے اور نئے زمانے، نئی صبح و شام کی جستجو اس کا مطمح نظر ٹھہرتا ہے۔ ترجمہ کو محض ایک بین اللسانی عمل سے تعبیر کر نا درست انداز فکر نہیں بل کہ ترجمہ نگاری اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انتہائی پیچیدہ اور معنی آفریں فعالیت ہے۔ تراجم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سال 1953سے ہر سال تیس ستمبر کو ترجمہ کا عالمی دن منانے کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ اس کے ہمہ گیر تعلیمی، تخلیقی، نفسیاتی، تہذیبی اور ثقافتی پہلوؤں پر توجہ دینا از بس ضروری ہے۔ کسی زبان سے ترجمہ کرتے وقت مترجم کی حیثیت ایک دو لسانی ثالث کی ہوتی ہے جسے دونوں زبانوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کر نا ہوتا ہے۔ تراجم کی لسانی، ادبی اور تاریخی اہمیت کا ادبی تاریخ کے ہر دور میں اعتراف کیا گیا ہے۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میں پروفیسر رانا عبدالحمید خان(پرنسپل) کی ہدایت پر سال 1926میں شعبہ تالیف و ترجمہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس شعبے میں پروفیسر غلام رسول شوق، پروفیسر حکیم محمد حسین، لال چند لالہ اور سردار پریم سنگھ نے تراجم پر توجہ مرکوز رکھی۔ کالج کا ادبی مجلہ اردو، انگریزی اور ہندی تین زبانوں میں شائع ہوتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعداس مجلے میں ہندی حصہ کی جگہ پنجابی حصے نے لے لی۔ اس رجحان ساز ادبی مجلے میں بھی عالمی ادب کی منتخب تحریروں کے تراجم شائع ہوتے رہے۔ اس تاریخی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے جن ممتاز طالب علموں نے تراجم کے فروغ میں فعال کردار ادا کیا ان میں رجب الدین مسافر، کبیر انور جعفری، محمد شیر افضل جعفری، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر عبدالسلام، مجید امجد، صاحب زادہ رفعت سلطان، امیر اختر بھٹی، حاجی محمد یوسف، سردار باقر علی خان، سید جعفر طاہر، عبدالغنی، خادم مگھیانوی، مہر محمد امیر خان ڈب، میاں رب نواز، میاں محمد علی، محمد خان، سید مظفر علی ظفر، غلام علی خان چین، ڈاکٹر محمد کبیر خان، محمد شریف خان، نور احمد ثاقب، محمد حیات خان سیال، حاجی محمد حسین، دیوان احمد الیاس نصیب، رانا ارشد علی خان، عاشق حسین فائق، مہر بشارت خان، سجاد بخاری اور گدا حسین افضل کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میں شعبہ انگریزی ادبیات کی شیکسپئیر سوسائٹی(Shakespeare Society) جو سال 1926سے تراجم کے فروغ میں فعال کردار ادا کر رہی تھی اس کے زیر اہتمام کئی انگریزی ڈراموں کا اردو میں ترجمہ کیا گیا اور انھیں کالج کی ڈرامیٹک کلب نے کالج کے سٹیج پر پیش کیا۔ گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں پروفیسر خلیل اللہ خان نے انگریزی زبان کے عظیم ادیب اور ڈرامہ نگار شیکسپئیر کے مشہور طربیہ اور المیہ ڈراموں کے اردو تراجم کیے اور انھیں گورنمنٹ کالج جھنگ کی ڈرامیٹک کلب کے زیر اہتمام سٹیج پر پیش کر کے بر صغیر میں اردو سٹیج ڈرامے کی تاریخ میں انقلاب بر پا کر دیا۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میں تدریسِ اردو پر مامور اس عظیم ماہر تعلیم، ترجمہ نگار، ڈرامہ نگار اور ڈرامے کے اس نابغۂ روزگار ہدایت کار نے تراجم کے فروغ میں جو اہم کردار ادا کیا اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔ ان کے تراجم کے مخطوطے گورنمنٹ کالج جھنگ کی ڈرامیٹک کلب کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ پروفیسر خلیل اللہ خان کی اچانک وفات نے ڈرامہ کے شائقین کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا۔ ان کی الم ناک وفات کے بعد ان کی یاد میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان اور اس کالج کے سابق طالب علم )سائنس بلاک کے سامنے واقع ایک وسیع میدان میں خلیل اللہ خان میموریل سٹیج تعمیر کیا گیا ہے۔ اس تاریخی سٹیج پر ہر سال مارچ کے مہینے کے وسط میں ڈرامہ فیسٹیول کا انعقاد ہوتا ہے جس میں نئے تخلیق کاروں کے ڈراموں کے علاوہ پروفیسر خلیل اللہ خان کے عالمی ادب سے کیے گئے کسی ایک منتخب ڈرامے کو بھی سٹیج پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس وقت پروفیسر خلیل اللہ خان کے فرزند پروفیسر ریحان خلیل جو گورنمنٹ کالج جھنگ میں شعبہ انگریزی سے وابستہ ہیں، ڈرامیٹک کلب کے نگران ہیں ۔ وہ اپنے عظیم والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بڑے انہماک سے عالمی ادب کے بلند پایہ ڈراموں کے تراجم میں مصروف ہیں۔ پروفیسر خلیل اللہ خان کے ترجمہ کیے گئے درج ذیل ڈرامے آج بھی بے حد مقبول ہیں :

جولیس سیزر(Julius Ceasr)، ہیملٹ (Hamlet)، اوتھیلو(Othelo)رومیو اور جو لیٹ (Romeo and Juliet)، میکبتھ (Macbeth)، وینس کا تاجر (Merchant Of Venice)، جیسا تم پسند کرو (As you like it)

اعلا و ثانوی تعلیمی اداروں، کالجز اور جامعات میں اساتذہ اور طلبا و طالبات نے ہمیشہ عالمی ادب کی نمائندہ عظیم تخلیقات میں گہری دلچسپی لیے۔ اس طرح تراجم کا قابل قدرسلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رہا ہے۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے سابق پر نسپل پروفیسر سید عبدالباقی (عثمانیہ ) نے تراجم کی اہمیت کو اجاگر کرنے پر زور دیا۔ اپنے ذوقِ سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے انھوں نے خود بھی انگریزی زبان کے کلاسیکی ادب کے بلند پایہ ادب پاروں کے اردو زبان میں تراجم کیے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ تعلیمی اداروں اور جامعات میں کیے جانے والے تراجم کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتاہے کہ ایک فرانسیسی طالبہ نے عثمانیہ یو نیورسٹی(حیدر آباد دکن) کے شعبہ ترجمہ میں بر صغیر کی مقامی زبانوں میں کیے جانے والے تراجم پر اپنا پی ایچ۔ ڈی سطح کا تحقیقی مقالہ مکمل کیا۔

اس نا تمام کائنات میں دما دم کُن فیکوں کی جو صدا سنائی دے رہی وہ اس حقیقت کی غماز ہے کہ زندگی مسلسل تغیر و ارتقا کی زد میں ہے اور سیکڑوں دورِ فلک ابھی آنے والے ہیں ۔ ادب اور فنون لطیفہ میں نئے تجربات کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں تخلیقِ ادب اور تنقید و تحقیق کے نئے میلانات اور متنوع تجربات نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے ان حالات میں تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک میں بسنے والے تخلیق کار اپنی زبان کو روایتی کیفیات، سکوت و انجماد کے صدمات اورفرسودہ تصورات کے جان لیوا سانحات سے نجات دلا کر نئے تجربات سے روشناس کرانے کی کوششوں میں ہمہ وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ تہذیب و تمدن کے فروغ کی یہ انفرادی نوعیت کی مساعی جہاں نئے اور دل کش اسالیب کو رو بہ عمل لانے پر آمادہ کرتی ہیں وہاں ان کے معجز نما اثر سے زبان میں وسعت اور ہمہ گیر ترقی کے نئے امکانات بھی پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ادب اور ثقافت کے شعبوں میں ترجمہ نگاری کی افادیت و اہمیت مسلمہ ہے۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں تخلیقی ادب کا ترجمہ دراصل دوسری تہذیب سے قریبی ربط کا مؤثر وسیلہ ہے۔ اس طرح دوسری زبان کی فکری منہاج، معمولاتِ زندگی اور تہذیبی اورثقافتی اقدار کے بارے میں حقائق سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ مترجم کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس دنیا میں اس طرح زندگی بسر کی جائے کہ عالمی سطح پر تہذیبی و ثقافتی تقابل، انجذاب اور نمو کو یقنی بنانے کی کوششیں   پیہم جار ی رہیں۔ اس عمل سے اخلاقی اورقدرتی محاسن کی نمو میں بہت مدد ملتی ہے۔ پاکستانی زبانیں اس خطے کے قومی کلچرکی آئینہ دار ہیں۔ یہاں کے باشندے اپنی مقامی زبانوں کے فروغ میں جس قدر دلچسپی لے رہے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ قومی کلچر اور قومیت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ پاکستانی قوم کو اپنے اسلاف کے علمی و ادبی کارناموں پر ہمیشہ ناز رہاہے۔ اپنے آبا کی ادبی میراث کو وہ دِل و جاں سے عزیز رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ علوم و فنون کے نئے چشموں سے سیراب ہونے کے بھی آرزو مند ہیں تا کہ جدید دور کے نئے تجربات کے ذریعے احساس، شعور اور تخلیق کی نئی شمعیں فروزاں کر کے مہیب سناٹوں ، جان لیوا سکوت اورسفاک ظلمتوں کی پیدا کردہ تقلیدی روش، بے عملی، کاہلی اور اضمحلال کے مسموم اثرات سے نجات حاصل کی جا سکے۔

تر اجم کے ذریعے تاریخی شعور اور تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں مثبت اندازِ فکر پروان چڑھانے کی مساعی ثمر بار ثابت ہوتی ہیں۔ دور دراز علاقوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ، تمدن اور معاشرت کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے دِل میں احتساب ذات کا روّیہ بیدار ہوتا ہے۔ اس طرح قومی کلچر میں انجذاب اور قبولیت کا غیر مختتم سلسلہ چل نکلتا ہے۔ تراجم کے ذریعے معاشرتی زندگی میں رائے عامہ کو عصری آگہی کے اعجاز سے بیدار کیا جا سکتاہے۔ عصبیتوں کے پھُنکارتے ناگوں کا سر اخوّت و مروّت کے عصا سے کُچلا جا سکتا ہے۔ بے لوث محبت، بے باک صداقت اور حریتِ فکر و عمل کا پرچم تھا م کر جہد و عمل کا لائق صد رشک و تحسین سلسلہ افراد کی ذہنی بیداری اور فکر و خیال کی جدت کو یقینی بنا دیتا ہے۔ حبس کے ماحول میں تراجم تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند قریۂ جاں کو معطر کر دیتے ہیں۔ تخلیق ادب کے نئے اسالیب، حسین و دل کش سانچوں ، نئی اصناف اور افکار کی بو قلمونی کے دھنک رنگ مناظر تراجم کا ثمر ہیں۔ ثقافتی میراث اور علوم و فنون کی نسل در نسل منتقلی بلا شبہ زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کاروں کی مساعی کی مرہونِ منت ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ عالمی ادب کے وسیع مطالعہ کو شعار بنا تے ہیں۔

ہر تخلیق کار جب اپنے تخلیقی عمل کا آغاز کرتا ہے تو وہ زبان میں ادبی شعریات کے متنوع خد و خال سامنے لانے کی مقدور بھر سعی کرتا ہے۔ زبان کو ثروت مند بنانے کے سلسلے میں اس کی تخلیقی فعالیت وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد مترجم اپنے ذوقِ سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زبان کو دوسری زبان کے ادب کے اُن عظیم فن پاروں سے مالا مال کرنے کا آرزو مند ہوتا ہے جن کی پوری دنیا میں دھُوم مچی ہوتی ہے۔ ترجمے کے ذریعے اس کی یہ خدمت اس کی اپنی زبان کو دوسری زبانوں کے ادبیات کی مسحور کُن عطر بیزی سے مہکانے کی لائقِ تحسین کاوش سمجھی جاتی ہے۔ عالمی کلاسیک اُفقِ ادب پر مثل آفتاب ضو فشاں ہوتی ہیں ایک حساس تخلیق کار نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی ایسی تخلیقات کی ضیا پاشیوں سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ دنیا کی بڑی زبانوں کے نابغۂ روزگار ادیبوں نے عالمی ادبیات کا دامن اپنے متنوع تخلیقی تجربات سے مالا مال کر دیا۔ دنیا کی بڑی زبانوں کے عظیم ادب پاروں کا چھوٹی اور نسبتاً کم ترقی یافتہ زبانوں میں ترجمہ لسانی ارتقا کے لیے نا گزیر ہے۔ عالمی کلاسیک کا کوئی شاہ کارجب مترجم کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے تو معاً اس کے دِل میں یہ خیال آتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اس کے اہلِ وطن اور ہم زبان بھی اس لافانی تخلیق سے حظ اُٹھا سکیں ۔ ایسی بیش بہا تخلیق کامطالعہ کرتے وقت وہ یقیناً تنہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ عالمی ادب کی اس ابد آشنا تخلیق کا اپنی زبان میں ترجمہ کر لیتاہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اب اس کے سارے ہم زبان اور راز داں بھی اس عمل میں شریک ہو گئے ہیں ۔ اس وقت اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا جب وہ اس نوعیت کی دوہری شرکت کو یقینی سمجھ لیتا ہے۔ سب سے پہلے تووہ تخلیق کا ذاتی طور پر مطالعہ کرتا ہے اس کے بعد ترجمہ کی صورت میں اپنے معاصرین کو بھی اس میں شامل کر لیتا ہے۔ یہ دوہری شرکت اس کے لیے دہری خوشیوں کی جو نوید لاتی ہے وہ اس کے لیے سرمایۂ زیست بن جاتی ہے۔ یہاں مناسب ہو گا کہ کچھ بڑے مترجمین کی علمی و ادبی خدمات پر ایک نظر ڈالی جائے۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر پشاور سے تعلق رکھنے والے دانش ور محمد طحٰہ خان نے اپنی زندگی تصنیف و تالیف کے کاموں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کی زندگی میں ان کی بیس وقیع تصانیف شائع ہوئی جن سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا۔ نظم اور نثر کا یہ گنج گراں مایہ جو بیس تصانیف پر مشتمل ہے انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند منصب پر فائز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوا۔ ان کی اہم تصانیف میں بنیادی اردو، داستان کر بلا، ظریفانہ شاعری کی کلیات اور کلیات رحمٰن بابا کا منظوم اردو ترجمہ شامل ہیں ۔ کلیات رحمٰن بابا کو پشتو زبان سے سے اردو زبان میں ترجمہ کرنے پر انھوں نے بہت جاں فشانی، توجہ اور قلبی وابستگی کا ثبوت دیا۔ یہ کٹھن اور صبر آزما کام پر ان کی تین سال کی شبانہ روز محنت کا ثمر ہے۔ ان کے ترجمے ’’متاع فقیر "کو پوری دنیا میں زبردست پزیرائی ملی۔ اردو زبان میں تراجم کے حوالے سے یہ بہت بڑی کامیابی تھی، اس کی بہ دولت پاکستانی ادبیات کو عالمی ادبیات میں ممتاز مقام حاصل ہوا۔ کلیات رحمٰن بابا کے اردو ترجمے کی اہمیت اور افادیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا اور اس شاہ کار ترجمے کا مخطوطہ برٹش میوزیم لندن میں محفوظ کر لیا گیا۔ یہ ان کا ، پشتو اور اردو زبان کا اور خاص طور پاکستان کا بہت بڑا اعزاز ہے کہ دنیا بھر کے ادیب ان کے افکار کی جو لانیوں سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی ان کی شان دارمساعی کو دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں سراہا گیا۔ ممتاز ادیب پروفیسر آفاق صدیقی جنھوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے سندھی کلام ’’شاہ جو رسالو”کا اردو میں ترجمہ کیا تھا وہ محمد طحٰہ خان کے بہت بڑے مداح تھے۔ محمد طٰہ خان تراجم کی اہمیت پر ہمیشہ زور دیتے تھے۔ پروفیسر اسیر عابد نے دیوان غالب کا جو منظوم ترجمہ پیش کیا اسے وہ پاکستان کی علاقائی زبانوں اور قومی زبان کے مابین ربط کی ایک صورت سے تعبیر کرتے تھے۔ محمد طٰہ خان کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے خوشحال خان خٹک کے پشتو کلام کا اردو ترجمہ کیا۔ ان کی علمی، ادبی اور قومی خدمات کی بنا پر جریدہ ء عالم پر ان کا دوام ثبت ہو گیا۔ حکومت پاکستان نے ان کی فقید المثال ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں 2007میں پرائڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا۔

رحمٰن بابا کے کلام کے منظوم اردو ترجمے میں محمد طٰہ خان کی فنی مہارت زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس اور علم عروض پر عبور کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ انھوں نے رحمن بابا کے کلام کے فنی محاسن کو قارئین ادب کے سامنے لانے کے سلسلے میں جس تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا ہے وہ ان کے تبحر علمی کی دلیل ہے۔ خاص طور پر صنائع بدائع کو ترجمے میں بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ان کے ترجمے میں تخلیق کی چاشنی کا کرشمہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ رحمٰن بابا کی کئی غزلیں ایسی ہیں جن کا ترجمہ کرتے وقت محمد طٰہ خان نے اسی بحر، ردیف اور قافیے کو استعمال کیا ہے جو رحمٰن بابا نے کیے ہیں ۔ بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ رحمٰن بابا نے خود اردو زبان میں شاعری کی ہے اور اپنے اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائی ہیں ۔ نیچے دی گئی اردو زبان میں ترجمہ شدہ غزل میں محمد طٰہ خان نے رحمٰن بابا کی پشتو غزل کی طرح صنعت عکس و تبدیل کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اس صنعت میں ایک با کمال تخلیق کار پہلے مصرعے میں جو مضمون پیش کرتا ہے دوسرے مصرعے میں اس کا عکس شعر کی باز گشت کی صورت میں قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔

سر ہوا ساماں ہوا، صدقہء جاناں ہوا

صدقہ ء جاناں ہوا، سر ہوا ساماں ہوا

سب گل و ریحاں ہوا گیسوئے جاناں مجھے

گیسوئے جاناں مجھے سب گل و ریحاں ہوا

جو زیاں نقصاں ہوا، ہجر میں اے جاں ہوا

ہجر میں اے جاں ہوا، جو زیاں نقصاں ہوا

وصل کہ ہجراں ہوا دونوں مجھے ہیں عزیز

دونوں مجھے ہیں عزیز، وصل کہ ہجراں ہوا

آخری شعر میں رحمٰن بابا نے جو مضمون پیش کیا ہے وہی مضمون ان سے پونے دو سو سال بعد مرزا اسداللہ خان غالب نے کچھ اس طرح اپنے ایک شعر میں بیان کیا ہے :

وداع و وصل جداگانہ لذتے دارد

ہزار بار برو، صد ہزار بار بیا

غالب کے اس مشہور شعر کو صوفی غلام مصطفی تبسم (پیدائش: امرتسر (بھارت )1898، وفات: لاہور (پاکستان)1978)نے پنجابی زبان کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے :

بھانویں ہجر تے بھانویں وصا ل ہووے وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں

میرے سو ہنیا جا ہزار واری، آ جا پیاریا تے لکھ وار آ جا

اپنی پشتو شاعری میں رحمٰن بابا نے صنعت تشابہ کو جس مہارت سے استعمال کیا ہے وہ ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ اس نوعیت کے فنی تجربوں کے ذریعے اس نابغہء روزگار تخلیق کا ر نے پشتو شاعری کو نئے تخلیقی امکانات سے رو شناس کرایا۔ محمد طٰہ خان نے رحمٰن بابا کی شاعری کے منظوم ترجمے میں ان تجربات کی جانب مبذول کرائی ہے۔ نیچے دی گئی غزل میں صنعت تشابہ کے ذریعے کلام میں حسن پیدا کیا گیا ہے۔ اس قسم کے شعری تجربوں کے چشمے رحمٰن بابا کی شاعری اس طرح پھوٹتے ہیں کہ گلشن ادب میں تخلیقات کے گل ہائے رنگ رنگ ان سے سیراب ہو جاتے ہیں ۔

برابر ہے یہاں شمس و قمر اور شکل دلبر کی

مقابل قامت محبوب ہے سرو صنوبر کی

نہ میں ہوں شہد کی مکھی نہ میں گل کا شکر خورا

لب محبوب سے لیتا ہوں لذت شہد و شکر کی

عجب معجز نمائی ہے مشام جاں نے پائی ہے

غبار کوچہء جاناں میں خوشبو مشک و عنبر کی

فراق یار سے، غارت گری سے، قتل سے توبہ

کہ تینوں میں یہاں تکلیف ہوتی ہے برابر کی

پاکستان کے ذرائع ابلاغ کی ترقی میں محمد طٰہ خان نے گہری دلچسپی لی۔ وہ ایک با کمال براڈ کاسٹر تھے۔ وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر جو پروگرام بھی پیش کرتے اسے بہت پذیرائی ملتی۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے مشاعروں میں ان کی شرکت سے محفل کی شان دو بالا ہو جاتی۔ انھوں نے تخلیق فن کے لمحوں میں جو کچھ بھی لکھا وہ تپاکِ جاں سے لکھا ان کا منفرد اسلوب قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔ اردو زبان میں تراجم کے فروغ کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

اردو ادب میں تراجم کا باقاعدہ سلسلہ جو منشی تیرتھ رام فیروز پوری( پیدائش :1885، وفات:1954) سے پہلے جاری تھا، منشی تیرتھ رام فیروز پوری کے انگریزی کی جاسوسی کہانیوں کے اردو تراجم سے مزیدتیز ہو گیا۔ مولانا ظفر علی خان اور ظفر عمر زبیری اس کے معاصر تھے۔ یہ دونوں گریجویٹ تھے مگر منشی تیرتھ رام فیروز پوری میٹرک سے آگے نہ جا سکا۔ اس کے ساتھی ظفر عمر زبیری نے ’’نیلی چھتری "کے عنوان سے انگریزی ناول کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ اُسے قارئین ادب نے بہ نظر تحسین دیکھا اور اُردو زبان میں تراجم کی صورت میں تازہ ہوا کی ایک ایسی لہر آئی جس نے نہ صرف فکر و نظر کی کایا پلٹ دی بل کہ اس کے معجز نما اثر سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام بھی ہوا۔ منشی تیرتھ رام فیروز پوری کی آنول نال تو فیروز پور میں گڑی تھی لیکن سال 1930میں میٹرک کرنے کے بعد وہ روزگار کی تلا ش میں جب لاہور پہنچا تو دِل اسی شہر بے مثال میں لگ گیا۔ جب سال 1947میں وہ لاہور سے ہجرت کر کے بھارت روانہ ہوا تو جالندھر میں مستقل ٹھکانہ بنا لیا لیکن لاہور کی یادیں اس کی زندگی کا بیش بہا اثاثہ تھیں وہ ہمیشہ لاہور کی ان حسین یادوں کے سحر میں کھویا رہتا۔ اس زمانے میں لاہور میں شمس العلما مولوی ممتاز علی کے ادارے دار الاشاعت پنجاب کے زیر اہتمام خواتین کے رسالے ’’تہذیب نسواں "اور بچوں کے مجلے ’’پھول” میں اس کے تراجم شامل ہوتے تھے۔ اسی ادارے کے مجلات کے معاونین میں غلام عباس، مولانا عبدا لمجید سالک اور احمد ندیم قاسمی بھی شامل تھے۔ سال 1918میں امتیاز علی تاج نے شیکسپئیر کے مشہور ڈراموں کے اردو تراجم پیش کیے جن میں "A Midsummer Night’s Dream”کو ’’ساون رین کا سپنا ” کے نام سے بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ منشی محبوب عالم کے ادارے ’’پیسہ اخبار پریس "کے زیر اہتمام شائع ہونے والے مقبول ہفت روزہ ’’پیسہ اخبار” میں بھی اس کے تراجم شائع ہوئے۔ منشی تیرتھ رام فیروز پوری کا نام ہی اس زمانے میں ترجمے کے بلند معیار اور ادبی وقار کی پہچان سمجھا جاتا تھا۔ اس کے تراجم قارئین کی راتوں کی نیند داُڑا دیتے تھے۔ منشی تیرتھ رام فیروز پوری نے ایک سو پچاس کے قریب انگریزی کتب کے تراجم کیے جو ساٹھ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل تھے۔ ان تراجم سے قارئین نے نسل در نسل استفادہ کیا۔ بھارت منتقل ہونے کے بعد اس کے مضامین اور تراجم اس دور کے مقبول ادبی مجلہ ’’ادیب "الہ آباد میں سال 1910تا سال 1913کی اشاعتوں میں تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ ترجمہ نگاری کی اس لہر کے اُردو ادب پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ سید سجاد حیدر یلدرم اور متعدد ادیبوں نے تراجم کے ذریعے اپنے متنوع تجربات سے اُردو زبان و ادب کا دامن گُل ہائے رنگ رنگ سے مزین کر دیا اور اردو میں ترجمہ نگاری کی روایت پروان چڑھنے لگی۔ مظہر الحق علوی نے انگریزی زبان کے نامور ناول نگار ایم۔ جی۔ لیوس (Mathew Gregory Lewis)کے ناول کا اردو ترجمہ ’’ خانقاہ”پیش کیا تو اِسے قارئین نے بہت پسند کیا۔ مصنف ایم۔ جی۔ لیوس (پیدائش :09-07-1775 وفات:10-05-1818)کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے انگریزی زبان میں پُر اسرار اور ہیبت ناک ناول لکھ کر اپنے منفرد اسلوب کا لوہا منوایا۔ لفظی مرقع نگاری سے ماحول کو ہیبت اور دہشت سے لبریز بنانے کے سلسلے میں ایم۔ جی۔ لیوس کی تصانیف کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ خانقاہ میں مصنف نے تارک الدنیا راہبوں ، پادریوں اور گوشہ نشین مر د و خواتین کی جعل سازی، دوہری شخصیت، ملمع سازی، مکر کی چالوں ، منافقت، عیاری اور جنسی جنون کا پردہ فاش کیا ہے۔ اُس نے واضح کیا ہے کہ بادی النظر میں کواکب جس طرح دکھائی دیتے ہیں اُ س طرح ہر گز نہیں ہوتے۔ تارک الدنیا راہبوں کی مثال بالکل ہاتھی کے دانتوں جیسی ہے جو کھانے کے اور جب کہ دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ یہ بازی گھر کھُلا دھوکا دے کر سادہ لوح لوگوں کی آنکھوں میں دھُول جھونک کر اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں۔ اس ناول میں ابلیس نژاد درندوں کو آئینہ دکھایا گیا ہے جنھوں نے تقدس اور پارسائی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، ان بد قماش درندوں کے مظالم، جنسی جنون، شقاوت آمیز نا انصافیوں، مریضانہ ذہنیت، کور مغزی، بے بصری اور بے رحمانہ عصبیت کے باعث زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر، کلیاں شرر اور آہیں بے اثر ہو کر رہ گئی ہیں ۔ خانقاہ جب پہلی بار 1796میں شائع ہوا تو یورپ کے متعصب پادریوں نے اس کے خلاف شدید ردِ عمل کا اظہار کیا۔ اپنے بارے میں تلخ حقائق کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اس قدر سیخ پا ہوئے کہ اس ناول کے مطالعہ، اس کے کتب خانوں اور گھروں میں رکھنے کی ممانعت کر دی گئی۔ چربہ ساز، سارق، کفن دُزد، جو فروش گندم نُما اور بگلا بھگت ننگِ انسانیت کم ظرف مسخروں کا چِیں بہ جبیں ہونا قابل فہم ہے۔ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرنے اور اُن سے تائب ہونے کے لیے جِس ظرف کی ضرورت ہوتی ہے یہ لوگ اُس سے عاری ہوتے ہیں۔ انگریزی زبان کے اس شاہ کار ناول کے ترجمہ کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو اردو زبان کے ممتاز شاعر اور ادیب شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی (پیدائش :05-12-1898 وفات :27-02-1982)کی نظم ’’فتنہء خانقاہ "یاد آتی ہے جوش کی اس نظم سے چند اشعار پیش خدمت ہیں :

ایک دِن جو بہرِ فاتحہ ایک بِنتِ مہر و ماہ

پہنچی نظر جھکائے ہوئے سُوئے خانقاہ

زُہاد نے اُٹھائی جھجھکتے ہوئے نِگاہ

برپا ضمیرِ زُہد میں کُہرام ہو گیا

اِیماں دِلوں میں لرزہ بر اندام ہو گیا

مظہر الحق علوی نے عالمی ادبیات کے اعلا فن پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال کر دو تہذیبوں کے سنگم کو یقینی بنا دیا۔ برام سٹوکر(Bram Stoker)جس کا عرصۂ حیات (پیدائش :8-11-1847، وفات:20-04-1912) ہے اپنے عہد کا مقبول مصنف تھا۔ اُس کے ناول ڈریکولا(Dracula) کا ترجمہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ برطانیہ کی ایک ممتاز ناول نگار میری شیلے (Mary Shelley) جِس کا عرصۂ حیات پیدائش :30-08-1797، وفات :01-02-1851ہے، کے ناول فرنکنسٹائن (Frankestein)کا اردو ترجمہ قارئین ادب ہمیشہ یاد رہے گا۔ تین جلدوں پر مشتمل یہ انگریزی ناول لندن سے پہلی بار 1833میں شائع ہوا۔ اِ س ناول کی پُوری دنیا میں دھُوم مچ گئی۔ مظہر الحق علوی نے اِس ناول کا جو ترجمہ کیا ہے وہ جہاں اُن کے ابد آشنا تخلیقی وجود کا اثبات کرتا ہے وہاں قاری کو زندگی کے اسرار و رموز سے بھی آگاہ کرتا ہے ٍ۔ اس کے علاوہ انھوں نے انگریزی زبان کے مشہور ادیب اور ناول نگار رائیڈر ہیگرڈ (Rider Haggard)کے ناولوں پر بھی توجہ مرکوز رکھی۔ اس مصنف نے شی سلسلہ (She Series)کے جو ناول لکھے وہ ہیبت ناک مہماتی اسلوب اور سنسنی خیز فضا کے باعث قارئین میں بے حد مقبول ہوئے۔ مظہر الحق علوی نے اس سلسلہ کو نہایت دل نشیں اسلوب کے ساتھ اُردو کے قالب میں ڈھالا۔ وہ رائیڈر ہیگرڈ (پیدائش :22-06-1856وفات :14-05-1925)کے اسلوب سے بہت متاثر تھے۔ رائیڈر ہیگرڈ کے ضخیم مہماتی ناولوں کا اردو ترجمہ کر کے انھوں نے اپنے ذوق سلیم کا ثبوت دیا۔ ان کے جو تراجم قارئین ادب میں بہت مقبول ہوئے ان میں ’’روح کی پکار "، ’’خونخوار "، فرعون کی آپ بیتی "، آدم خور قبیلہ "، ’’فرعون و کلیم "، ’’بھونرا” اور، ’’ الیشہ "، اپنے دور میں اس قدر مقبول ہوئے کہ ان کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔

مظہر الحق علوی نے اپنی زندگی تصنیف و تالیف کے کاموں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کی زندگی میں ان کی ایک سو سے زائد وقیع تصانیف شائع ہوئی جن سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا۔ تخلیقی ادب اور عالمی ادبیات کے تراجم کا یہ گنج گراں مایہ جو ایک سو سے زائد تصانیف پر مشتمل ہے انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند منصب پر فائز کرنے کا وسیلہ ثابت ہو گا۔ ان کی اہم تصانیف میں انگریزی ناولوں کے تراجم، طبع زاد افسانے اور بچوں کی کہانیاں شامل ہیں ۔ اردو زبان میں تراجم کے حوالے سے مظہر الحق علوی کی خدمات بہت اہم ہیں ۔ ان کی بدولت اُردو ادبیات کو عالمی ادبیات میں ممتاز مقام حاصل ہوا۔ اُردو زبان میں ترجمہ نگاری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یہاں مناسب ہو گا کہ اُردو میں ترجمہ نگاری کے ارتقا اور اس کے اعجاز سے منصہء شہود پر آنے والی تصانیف پر طائرانہ نگاہ ڈال لی جائے۔ محمد طٰہ خان کے کلیات رحمٰن بابا کے اردو ترجمے کی اہمیت اور افادیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا اور اس شاہ کار ترجمے کا مخطوطہ برٹش میوزیم لندن میں محفوظ کر لیا گیا۔ یہ ان کا پشتو اور اردو زبان کا اور خاص طور پاکستان کا بہت بڑا اعزاز ہے کہ دنیا بھر کے ادیب ان کے افکار کی جو لانیوں سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ محمد طٰہ خان نے ہمیشہ مظہر الحق علوی کی تر جمہ نگاری کو بہ نظر تحسین دیکھا۔ تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی ان کی مساعی کو دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں سراہا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ مترجم دو مختلف زبانوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتا ہے اور ترجمہ کی فعالیت کے دوران دونوں زبانوں بیچ بچاؤ کرتا ہو ا دونوں کے باہم روابط کے مؤقر، محفوظ اور معتبر استفادے کے پہلو تلاش کرتا ہوا جہانِ تازہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھنے کی سعی کرتا ہے۔ ممتاز ادیب پروفیسر آفاق صدیقی جنھوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے سندھی کلام ’’شاہ جو رسالو”کا اردو میں ترجمہ کیا تھا وہ مظہر الحق علوی کے بہت بڑے مداح تھے۔ محمد طٰہ خان تراجم کی اہمیت پر ہمیشہ زور دیتے تھے اور مظہر الحق علوی کے اسلوب کو منفرد اور مثالی اسلوب سے تعبیر کرتے تھے۔ پروفیسر اسیر عابد نے دیوان غالب کا جو منظوم پنجابی ترجمہ پیش کیا اسے وہ پاکستان کی علاقائی زبانوں اور قومی زبان کے مابین ربط کی ایک صورت سے تعبیر کرتے تھے۔ پروفیسر اسیر عابد نے مظہر الحق علوی کے تراجم کا عمیق مطالعہ کیا اور ان سے گہرے اثرات قبول کیے۔ اُردو زبان میں ترجمہ نگاری کی اِس لہر نے تخلیق کاروں کے فکر و نظر کو اِس طرح مہمیز کیا کہ وہ ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی کیفیت سامنے لانے کی جستجو دِل میں لیے نئے تصورات کی اساس پر اپنے قصر شاعری کی تعمیر کرتے ہیں ۔ ان کے فکر و خیال کے سوتے زندگی کے مسائل اور واقعات سے پھوٹتے ہیں ۔ ان کے خیالات قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں ۔ ان کی شاعری متعدد نئے تجربات کے یقینی ابلاغ کی صورت میں قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ ان کے شعری تجربات قاری کو ایک منفرد، متنوع، دل کش اور مانوس تجربے سے آشنا کرتے ہیں ۔ ان کا شگفتہ، عام فہم اور پر لطف پیرایۂ بیان ایک ایسے وسیع تر تناظر میں سامنے آتا ہے جو قاری کو شعور اور فکر و خیال کی وسیع و عریض وادی میں مستانہ وار گھومنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ دل کی بات اس خلوص سے لبوں پر لاتے ہیں کہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔ ان کی دروں بینی اور جذبوں کی صداقت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ وہ اپنی داخلی کیفیات کو مخفی نہیں رکھتے بل کہ اپنے جذبات واحساسات کو من و عن الفاظ کے قالب میں ڈھال کر اپنے متنوع تجربات سے قاری کو ایک جہان تازہ کی نوید سناتے ہیں ۔

ہوک سی اٹھی دل میں آنسوؤں نے شہ پائی

دیکھ اے غم دوراں پھر کسی کی یاد آئی

بے کھلی کلی دل کی بے کھلے ہی مرجھائی

تم کہاں تھے گلشن میں جب نئی بہار آئی

دل کے ایک گوشے میں تیرے پیار کی حسرت

جیسے شہر خوباں میں کوئی شام تنہائی

کون ہاں وہی آفاق جانتے ہیں ہم اس کو

ہوشیار دیوانہ، با شعورسودائی

پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی ایک کثیر التصانیف ادیب تھے۔ ان کی کتب کو دنیا بھر میں شرف پذیرائی ملا۔ ان کی علمی، ادبی، صحافتی اور قومی خدمات تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ انھوں نے تراجم، شاعری، تنقید، تحقیق اور تدریس کے شعبوں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کی تصانیف کی متعدد جہتیں ہیں جو کہ ان کے صاحب اسلوب ادیب ہونے کی دلیل ہے۔ انھوں نے تمام اصناف ادب میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی ترجمہ نگاری نے ان کو منفرد اور ممتاز مقام عطا کیا۔ سندھی کلاسیکی شاعری بالعموم اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا بالخصوص اردو زبان میں جو ترجمہ اس عظیم تخلیق کار نے کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ا ن تراجم کے اعجاز سے جہاں فکر و خیال کو ندرت ملتی ہے وہاں اس کے بصیرت افروز مباحث سے علوم کو ایک جہان تازہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ان تازہ افکار کے وسیلے سے قاری کو نئے خیالات، نئے تصورات اور نئے علوم سے آگاہ ہونے کا موقع ملتا ہے۔ انھوں نے اپنے مسحور کن اسلوب سے ذہنی بالیدگی اور وسیع النظری کو یقینی بنایا۔ ان کے تراجم نے اردو زبان و ادب کو متعدد نئے، منفرد، حسین اور سدا بہار اسالیب سے روشناس کرایا۔ انھوں نے اردو زبان کے ذخیرہ ء الفاظ میں تراجم کے ذریعے اضافہ کیا۔ ان کی اس علمی خدمت کے ذریعے اردو زبان کے دامن میں گل ہائے رنگ رنگ کی فراوانی ہو گئی۔ نئے مضامین اور موضوعات کی آمد سے تخلیقی یکسانیت اور جمود کا قلع قمع ہو گیا۔ تجربات، مشاہدات، ابلاغ اور اسالیب کے نئے در ہو تے چلے گئے۔ اردو میں تر جمہ نگاری کی جو شمع انھوں نے فروزاں کی اس کی بہ دولت سفاک ظلمتیں کافور ہو گئیں اور تراجم کی لہر سے ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ ان کی تصانیف نے اردو زبان و ادب کے قارئین اور تخلیق کاروں کو جدت تخیل اور فکر ی تنوع کی وہ راہ دکھائی جس سے وہ پہلے نا آشنا تھے۔ ان کی درج ذیل تصانیف ان کے لیے شہرت عام اور بقائے دوام کا وسیلہ ثابت ہوں گی۔

ادب جھروکے (مضامین)، ارمغان عقیدت، ادب زاویے، احوال سچل (انتخاب کلام سائیں سچل سرمست )، بابائے اردو وادیِ مہران میں ، بوئے گل نالۂ دل (شیخ ایاز کا اردو کلام )، بڑھائے جا قدم ابھی (سال اشاعت1965)، بساط ادب (تنقیدی و تحقیقی مضامین )، پیام لطیف (شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام اور پیام )پاکستان ہمارا ہے (ملی نغمے )، تاثرات (تنقیدی مضامین)، جدید سندھی ادب، جدید سندھی ادب کے اردو تراجم (تحقیق)، ریگ زار کے موتی (شمالی سندھ کے شعرا)، ریزۂ جاں (شعری مجموعہ ) سال اشاعت 1966، سیرۃالبشر (تہذیب کا سفر )، سر لطیف (گیت )، شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور عصر حاضر، شخصیت ساز (مضامین)، شاعر حق نما (سچل سرمست کی شاعری اور شخصیت )، شاہ جو رسالو: تصنیف شاہ عبداللطیف بھٹائی (منظوم اردو ترجمہ )، صبح کرنا شام کا (خود نوشت )سال اشاعت 1998، عکس لطیف (شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شخصیت اور شاعری )سال اشاعت 1974، قلب سراپا (شاعری )سال اشاعت 1964، کوثر و تسنیم (حمد و نعت )سال اشاعت 1949,، کلاسیکی ادب :ایک مطالعہ، شاہ عبداللطیف لطیف کی شاعری اور شخصیت (تحقیق اور تنقید )، شکیلہ رفیق : فن اور شخصیت (تنقید )

ثقافت کے بارے میں یہ بات مسلمہ ہے کہ یہ افراد کی معاشرت، جبلت اور طرزِ زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس میں فکر و خیال اور جبلتوں کے اضطراری انعکاس کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ اس کی جلوہ آرائی سے تہذیب و تمدن کے ارتقا کے احساس و ادراک میں مدد ملتی ہے۔ ثقافتی اقدار کی بالیدگی جہاں قلبی وجدان، ذہنی سکون اور اطمینان کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے وہاں اس کے اعجاز سے روحانی سوز و سرور کی لازوال دولت بھی میسر آتی ہے۔ تراجم کے ذریعے ثقافتی میراث کی منتقلی کا افادیت سے لبریز عمل سدا جاری رہتا ہے۔ زبان میں مضامین، موضوعات، اور خیالات کی تونگری، تخلیقی فعالیت کی ہمہ گیری اور جذبۂ شوق کی بے کرانی تراجم کی مرہونِ منت ہے۔ مترجم جب قلم تھام کر ترجمے پر مائل ہوتا ہے تو وہ ثقافتی اقدار کی ترسیل کے لیے اس بات کا التزام کرتا ہے کہ اس کے ترجمے پر قاری کو پختہ یقین ہو۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اگر کسی تخلیق یا ترجمے پر قاری کا اعتماد اور یقین متزلزل ہو جائے تو سارا عمل سرابوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور ساری محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ شوکت جمیل نے غالب کی شاعری کو انگریزی زبان کے قالب میں ڈھال کر جہاں غالب کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کا ثبوت دیا ہے وہاں پوری دنیا کو غالب کی عظمتِ فکر سے روشناس کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ پنجابی تہذیب و ثقافت کے شیدائی پروفیسر اسیر عابد نے تراجم کو ثقافتی ارتقا کے لیے نا گزیر سمجھتے ہوئے اس طرف توجہ دی۔ پروفیسر اسیر عابد نے دیوانِ غالب کا جو منظوم پنجابی ترجمہ پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس منظوم ترجمے کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا                                     (غالب)

اوکھی گل اے کم کوئی آسان ہووے

ایہہ وی سوکھا نہیں ، بندہ انسان ہووے                             (اسیرعابد)

دِ ل نہیں ورنہ دکھاتا تجھ کو داغوں کی بہار

اِس چراغاں کا کروں کیا کار فرما جل گیا                             (غالب)

دِل ہونداتے آپے تینوں بلدے داغ وِکھاندا

میں ایہہ دِیوے کتھے بالاں بالن والابلیا                             (اسیر عابد)

تُو اور سُوئے غیر نظر ہائے تیز تیز

میں اور دُکھ تری مژہ ہائے دراز کا                                 (غالب)

اودھرتُوں پیا ویکھیں غیراں ولے ڈُونگھی ڈُونگھی اَکھ

ایدھر مینوں رڑکاتیریاں لمیاں لمیاں پلکاں دا                                     (اسیرعابد)

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی

کیوں ترار اہ گزر یاد آیا                                                       (غالب)

اینویں کیویں لنگھ حیاتی جانی سی

خورے کاہنوں تیرا لانگھا یاد پیا                                                 (اسیرعابد)

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا                                                     (غالب)

اَت اُجاڑاں جیہیاں اَت اُجاڑاں نیں

تھلاں بریتے ڈِٹھیاں جھُگا یاد پیا                                             (اسیرعابد)

موت کا ایک دِن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی                                                   ( غالب)

پکی گل اے مرنااِک دِن مِتھیااے

نیندر کا ہنوں جھلی آؤندی نہیں                                                 (اسیرعابد)

آگے آتی تھی حالِ دِل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی                                                 (غالب )

اَگے دِل دے حالوں ہاسڑ آؤندی سی

ھُن کسے وی گلوں بھیڑی آؤندی نہیں                                 (اسیرعابد)

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی                                                 (غالب)

منیا متھے ٹیکیاں اجر ودھیرے نیں

ایسے پاسے طبع کُپتی آؤندی نہیں                                       (اسیر عابد)

حُسن غمزے کی کشا کش سے چھُٹا میر ے بعد

بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد                               (غالب)

رُوپ سنگھاراں دی کھیچل تُوں چھُٹیا میرے پِچھوں

شُکر اے !ظالم لوکاں وی سوں ڈِٹھا میرے پِچھوں                       (اسیرعابد)

منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا

ہوئی معزولی ٔ انداز و ادا میرے بعد                                 (غالب)

عشق دی جوگ کماون والے، ٹلے منھ نہیں کر دے

ہِیراں ڈِنگے چِیر، نہ متھے ٹِکا میرے پِچھوں                       (اسیر عابد )

آئے ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالب

کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد                     (غالب )

عشق دی بے وسیاں اُتے غالب روندا ٹُریا

ویکھ ایہہ ہڑھ کہیڑے و یہڑے وڑدا میرے پِچھوں                 (اسیر عابد)

عالمی ادب سے بر صغیر کی مقامی زبانوں میں تراجم کے اعجاز سے مقامی زبانوں کے ادبیات کی ثروت میں اضافہ ہوا۔ سال 1982میں ادب کا نوبل انعام لینے والے، طلسمی حقیقت نگاری کے علم بردار عالمی شہرت کے حامل ادیب گبریل گارسیا مارکیز کی تصنیف ’’A Chronicle Of Death Fore Told ” کو افضل احسن رندھاوا نے پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالا۔ یہ ترجمہ ’’پہلوں توں دسی گئی موت دا روزنامچہ ” کے عنوان سے سامنے آیا جسے بہت پذیرائی ملی۔ پنجابی زبان سے اردو زبان میں تراجم کی روایت اب مستحکم صورت اختیار کر چکی ہے۔ مشرقی پنجاب (بھارت)کے قصبے جیتو کی بھینی فتح سے تعلق رکھنے والے گُور دیال سنگھ(پیدائش:دس جنوری 1933) کا شمار پنجابی زبان کے ممتاز ادیبوں اور اہم ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس کے سماجی حقیقت نگاری سے مزین دل کش اسلوب کے حامل مقبول ناول ’’مڑھی دا دیوا”(چھوٹے مندر کا ٹمٹماتا ہو ا چراغ)جو سال 1964میں شائع ہوا قارئین میں بہت مقبول ہوا۔ اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ ’’The Last Flicker”کے نام سے گُوردیال سنگھ نے سال 1960 میں کیا۔ حال ہی میں اس کا اردو ترجمہ لاہور میں مقیم ادیب محمد اسلم نے کیا ہے۔ اس ناول کا مکمل اردو ترجمہ لاہور سے 1935سے مسلسل شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی مجلے ’’ادب لطیف "نے اپنی دسمبر 2015کی اشاعت میں شائع کیا ہے۔ اس ناول میں پنجاب کے دیہاتوں کی زندگی کی حسین لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے۔ فرد کی زندگی سے وابستہ جذبات، احساسات، پیمان وفا، رقابت، تنہائی اور حسد کے ہاتھوں رو نما ہونے والے مد و جزر کا احوال اس میں پوری شدت سے جلوہ گر ہے۔ سماجی تنظیمی ڈھانچے کے سخت گیر ضوابط، معاشرتی زندگی کے تضادات اور معاشرتی زندگی میں ظالم و سفاک، موذی و مکار درندوں کی شقاوت آمیز ناانصافیوں کے باعث فرد کے داخلی احساسات، عزت نفس اور انا کو مکمل طور پر منہدم کرنے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ مجبور اور دکھی انسانیت کے صدمات کے سب ہنگامے اس ناول کا موضوع ہیں۔ محترمہ کشور ناہید نے عالمی ادب کی عظیم ادب پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال کر جس خوش اسلوبی سے اردو کے دامن میں گلہائے رنگ رنگ سجائے ہیں وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ ان کے اسلوب کے کثیر اللسانی تجربات اور زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کے اعجاز سے اظہار و ابلاغ کے نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چلّی(Chile)سے تعلق رکھنے والے شاعر پابلو نرودا(Pablo Neurda,B:12-07-1904,D:23-09-1973)کا شمار عالمی شہرت کے حامل ادیبوں میں ہوتا ہے۔ پابلو نرودا کو سال 1953میں لینن امن انعام سے نوازا گیا اور سال 1971میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ پابلو نرودا نے حریتِ فکر و عمل کا علم بلند رکھتے ہوئے حریتِ ضمیر سے جینے کے کے لیے جو طرزِ فغاں اپنائی اس نے تیسری دنیا کے مظلوم عوام کے لیے طرزِ ادا کا درجہ حاصل کر لیا۔ پاکستان میں محترمہ کشور ناہید نے پاکستانی زبانوں کی ترقی اور قومی کلچر کے فروغ کا عزم کر رکھا ہے، انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے پابلو نرودا کی شاعری کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان تراجم کے ذریعے اصل ادب پاروں میں نہاں تخلیق کار کے انفرادی آہنگ اور اجتماعی شعور کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں اور قاری ان تراجم کے وسیلے سے نہ صرف ماضی کے حالات اور حال کے تغیرات و ارتعاشات سے آگاہ ہوتا ہے بل کہ آنے والے دور کی ہلکی سی تصویر بھی دیکھ سکتا ہے۔ کو لمبیا یونیورسٹی کی طرف سے محترمہ کشور ناہید کو بہترین مترجم کا ایوارڈ ملا اس کے علاوہ انھیں آدم جی ایوارڈ (1969)منڈیلا ایوارڈ (1997)بچوں کے ادب پر یونیسکو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر انھوں نے عالمی کلاسیک کے تراجم پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ محترمہ کشور ناہید نے جس غیر معمولی تخلیقی فعالیت اور بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے ترجمے کو تخلیق کی چاشنی سے آشنا کیا ہے اس کا اندازہ ان کے تراجم سے کیا جا سکتا ہے۔ ان تراجم نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ تہذیب و ثقافت کی ترسیل زمان و مکان کی حدود سے آگے نکل جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے تخلیق کاروں نے ہر عہد میں ا س جانب متوجہ کیا کہ اگر کسی خطے میں آئینِ نو سے ربط پیدا نہ ہو سکے اور وہاں طرزِ کہن پر اڑنے کی روش عام ہو جائے تو یہ تمدن و معاشرت، تہذیب و ثقافت اور تاریخ کے مسلسل عمل اور تاریخی شعور کے ارتقا کے لیے انتہا ئی برا شگون ہے۔ اس سے علوم فنون کے قصرِ عالی شان کی تعمیر کا تسلسل مکمل انہدام کے قریب پہنچ جا تا ہے جسے پھر مستحکم بنیادوں پر استوار کر نے میں کا میا ب ہو نا ممکن ہی نہیں     ؎

پتھر ہو کہ موتی جام کہ دُر جو ٹُوٹ گیا سو ٹُوٹ گیا

زندہ قومیں اپنی علمی میراث کی نہ صرف حفاظت کر تی ہیں بل کہ اس میں اضافے کے لیے مسلسل جدو جہد کر تی رہتی ہیں ۔ اپنے اسلاف سے ملنے والی علمی میراث میں اضافہ کے لیے ضروری ہے کہ نئی تصانیف کے سا تھ سا تھ ترا جم کے ذریعے بھی اس کی ثروت میں اضافے کی کوشش کی جائے۔ معاشرتی زندگی کے ذہنی اور جذباتی روپ دیکھتے ہوئے تخلیق کار علوم و فنون کے نئے آفاق کی جستجو میں جس انہماک کا مظاہرہ کرتا ہے اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بر صغیر کی مقامی زبانوں کے ادب پاروں کے انگریزی تراجم اب یورپ میں مقبول ہو رہے ہیں ۔ پاکستان کے شہر قصور میں آسودۂ خاک پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر بلھے شاہ کی شاعری کا انگریزی ترجمہ جو کرتار سنگھ دگل نے کیا ہے وہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

بلھے شاہ (سید عبداللہ شاہ قادری، پیدائش: سال 1680، وفات : سال 1757 (کا پنجابی کلام درج ذیل ہے:

گھڑیالی دیوو نکال نی

میرا پِیا گھر آیا

گھڑی گھڑی گھڑیال وجاوے

رین وصل دی پَیا گھٹاوے

میرے من دی بات نہ پاوے

چا سٹو گھڑیا ل نی

بلھے شاہ کے مندرجہ بالا کلام کا پنجابی ترجمہ جو کرتار سنگھ دگل(پیدائش:راول پنڈی، یکم مارچ، 1917، وفات:امرتسر چھبیس جنوری( 2012 نے کیا ہے وہ پیش خدمت ہے:

Sack the gong man

My love has come home today

He strikes the gong time again and again

And shortens my night of dance and song

If he were to listen to me

He would throw away the gong

آزادی کے بعد پاکستان میں تراجم کی جو نئی لہر آئی ہے اس نے ہر صنف ادب کو نیا آہنگ عطا کیا ہے۔ کئی ممتاز ادیبوں نے تخلیقی عمل کے ساتھ ساتھ تراجم کو اپنی دلچسپی کا محور بنایا۔ توحید احمد نے برطانیہ کی ممتا ز ٹرانسلیشن تھیورسٹ اور تقابلِ ادبیات کی دانش ور سوزن بیسنٹ(Susan Bassnet,B:1945 )کی دو کتب کا عمدہ پیرائے میں ارد و ترجمہ کیا۔ ترجمہ نگاری کے اسلوب اور فن کے موضوع پر لکھی گئی یہ دونوں کتب فن ترجمہ نگاری کے بارے میں معلومات کا مخزن ہیں اور انھیں ترجمہ نگاری کے قواعد و ضوابط کی تفہیم اور تراجم کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔ توحید احمد نے ’’علوم ترجمہ” اور ’’تقابلی ادب ” کے نام سے سوزن بیسنٹ کی درج ذیل کتب کا اردو ترجمہ کیا:

(1993) 1Foregrounding translation(1980)

2.Comparative literature as a literary strategy

برطانیہ کی یونیورسٹی آف واروک (University Of Warwick )میں دس سال تک پرو وائس چانسر کے منصب پر فائز رہنے والی اور بیس سے زیادہ کتب کی مصنفہ اس زیرک، فعال، مستعد اور معاملہ فہم خاتون نے فن ترجمہ نگاری کے فروغ کے لیے انتھک جد و جہد کی۔ اس جامعہ کے مرکز ترجمہ میں اس کی تدریسی خدمات کا ایک عالم معترف ہے سال 2009 میں جب یہ ترجمہ مرکز بند ہوا تو اس میں ان کی خواہشات کے مطابق تراجم کا بیش بہا ذخیرہ جمع ہو چکا تھا۔ محترمہ یاسمین حمید نے حال ہی میں اردو زبان کے تریسٹھ ممتاز پاکستانی شعرا کی دو دو منتخب نظموں کے انگریزی تراجم پر مشتمل اپنی مرتبہ وقیع کتاب ’’پاکستان اردو درس” پیش کر کے تراجم کی ثروت میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے قبل ڈاکٹر نجم السحر، مشرف علی فاروقی اور صدیق اعوان نے تراجم کے فروغ کے لیے بہت کام کیا۔ اردو زبان میں ترجمے کی روایت بہت قدیم اور عظیم ہے۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں جب معروف صوفی شیخ سعد اللہ گلشن نے ولی (پیدائش :اورنگ آباد مہاراشٹر، سال1667، وفات، احمد آباد گجرات، سال 1707) کو فارسی ادب کے مضامین اور خیالات سے استفا دہ کا مشورہ دیا۔ سعد اللہ گلشن نے کہا کہ فا رسی زبان کے مضامین کو اپنی غزل میں استعمال کرو تو اپنی اصلیت کے اعتبار سے یہ تخلیق کار کو تراجم کی طرف مائل کرنے ہی کی ایک صورت ٹھہرتی ہے۔ اس طرح ولی ؔسے مجید امجد تک وجہی سے حسرت کاس گنجوی تک متعدد اردو ادیبوں نے عالمی ادبیات کی نمائندہ تخلیقات کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور تراجم کا یہ لائقِ صد رشک و تحسین سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اردو نثر میں بھی تراجم کے ذریعے اردو ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ میر امن نے با غ و بہار میں تر جمے کا جو معیار پیش کیا وہ ہر اعتبار سے لائق تحسین ہے اور اردو نثر میں تراجم کے ذریعے بہت وسعت پیدا ہوئی۔ سید سجاد حیدر یلدرم(پیدائش:1880، وفات:1943) نے تر کی ادب کے افسانوں کو اس فنی مہارت سے اردو کے قالب میں ڈھالا کہ ترجمے پر تخلیق کا گمان گزرتا ہے۔ ترکی کے عثمانیہ عہدِ حکومت کے دوران ترکی کے متعدد تخلیق کار حکو مت وقت کے عتاب اور ہوائے جورو ستم کے مسموم ماحول سے بچنے کے لیے اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر پیرس چلے گئے۔ ان تخلیق کاروں کی علامت نگاری اور ادبی جمالیات پر سیدسجاد حیدر یلدرم نے بھر پور توجہ دی اور انھیں اردو زبان میں متعارف کرانے کی کوشش کی۔ افسانوں کے تراجم میں انھوں نے تمام کرداروں کو اردو زبان اور اس کے قارئین کی ضرورت کے تحت اپنی تہذیب اور معاشرت میں ڈھالا۔ رومان پسندی پر مبنی سیدسجادحیدر یلدرم کی سال 1900میں ’’معارف” کے صفحات رنگ جمانے والی اس کاوش کو سر سید احمد خان اور ان کے ممتاز رفقائے کار کی علی گڑھ تحریک کی مقصدیت اور عقلیت پسندی کا ردِ عمل خیال کیا جاتا ہے جس کی تازگی، ندرت اور تنوع قاری کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ ممتازافسانہ نگارسعادت حسن منٹو کا ابتدائی ادبی سر مایہ روسی زبان کے افسانوں کے تراجم پر مشتمل ہے۔ مترجم نہایت محنت کے ساتھ تخلیق کار کے فکر و خیال کی تہہ تک پہنچنے کی سعی کرتا ہے اور تخلیقی فعالیت کی باز یافت کو اپنا مطمح نظر قرار دیتا ہے۔ ترجمے کے کسی علاقے کی تاریخ، تمدن و معاشرت اور تہذیب و ثقافت پر دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے ترجمے کو علم بشریات کے ماہرین نے ہمیشہ اہم قرار دیا ہے اور اس عمل کو علم بشریات سے وابستہ علم سے تعبیر کیا ہے۔ تراجم کے اعجاز سے زمانے اور گردشِ لیل و نہار کے متعدد نئے مناظر سامنے آتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تراجم کی محض لسانی اہمیت ہی کا نہیں بل کہ اس کی بشریاتی ضرورت اور افادیت کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔

گورنمنٹ کالج، لاہو رمیں سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام عالمی ادب کے تراجم کی سمت میں سال 1953کے بعد سے مثبت پیش رفت ہوئی۔ یہاں تخلیق اور ترجمے کے ایک لائق صد رشک و تحسین سلسلے کا آغاز ہوا۔ چیخوف کے مشہور افسانوں کے اردو تراجم اس سلسلے کی کڑی ہیں۔ اس عرصے میں جن ممتاز ادیبوں نے تراجم کی طرف توجہ دی ان میں اشفاق احمد، حنیف رامے، سلیم گیلانی، مظفر علی سید، صدیق کلیم، جیلانی کامران اور انعام الحق کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ انعام الحق نے ٹالسٹائی کی تخلیقات کے تراجم پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر نجم السحرنے روسی زبان کے اصل مآخذ سے اردو زبان میں تراجم کر کے اردو ادب کی ثروت میں قابل قدر اضافہ کیا۔ عالمی ادبیات کی نمائندہ تصانیف کے تراجم سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کر نے کی مساعی لائق تحسین ہیں۔ گورنمنٹ کالج، لاہور میں تدریسی خدمات پر مامور پروفیسر قیوم نظر نے تراجم کے فروغ میں گہری دلچسپی لی۔ وہ حکومت پنجاب کے قائم کردہ دفتری اردو زبان کے ترجمہ بورڈ کے سیکرٹری بھی رہے۔ ترجمہ نگاری میں ان کی مہارت کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ والٹ وٹمن کی تخلیق ’’خوب صورت عورتیں ” میں پری چہرہ اور مہ جبیں حسیناؤں کے شباب کو ڈھلتے سائے سے تعبیر کر کے شاعر نے حسن کی نا پائیداری کو واضح کیا ہے۔ اس نظم کا اردو تر جمہ جو قیوم نظر نے کیا ہے وہ ملاحظہ ہو:

خوب صورت عورتیں

تخلیق : والٹ وٹمن                         اردو تر جمہ : قیوم نظر

عورتیں بیٹھی ہیں یا محو خرام ناز ہیں ، کچھ ڈھلتا سایہ ہیں

تو کچھ اٹھتی بہار

خوب صورت ہیں بہت اٹھتی بہاریں ، لیکن ان سے خوب تر ہے

ڈھلتے سایوں کا نکھار     (1)

مترجم اپنے ذاتی جذبات اور احساسات اور خیالات سے گریز کر تے ہوئے اصل ماخذ زبان کے تخلیق کا ر کے جذبات، احساسات اور خیالات کو تر جمے والی زبان میں اس طرح منتقل کر نے کی کو شش کر نے کی کو شش کر تا ہے کہ اس کی اپنی شخصیت نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور قاری وجدان کی کیفیت سے سر شار ہو کر اصل ماخذ زبان کے تخلیق کار کی شخصیت اور جذبات و احساسات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی سے متمتع ہوتا ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بہ روز گمبھیر ہوتا چلا رہا ہے۔ یاس و ہراس کے مسموم ماحول میں ہو س کے مارے طالع آزما عناصر کی غاصبانہ دستبرد کے باعث زندگی کا تمام منظر نامہ گہنا گیا ہے۔ مترجم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سمے کے سم کا تریاق تلاش کیا جائے اور اصل ماخذ زبان میں فطرت کے تخلیقی نظام میں جلوہ آرا جمالیاتی اسالیب اور حیات کی وہ تاب و تواں جو نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہو اسے ترجمے والی زبان میں پیش کیا جائے تا کہ اس زبان میں بھی فکر و خیال کی تازگی، اسلوب کی ندرت اور رعنائی کی جھلک دکھائی جا سکے۔ اصل ماخذ والی زبان سے تر جمہ والی زبان میں نئے خیالات کی منتقلی مترجم کے لیے ایک ایسی فعالیت ثابت ہو تی ہے جو اس کی زندگی کی تمام مصروفیات پر حاوی ہو جاتی ہے۔ اس کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ قارئینِ ادب کو ذہنی سکون کی دولت سے متمع کیا جائے خواہ اس مقصد کے لیے اسے اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپانے پڑیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ زمانے میں برق رفتار ترقی نے ثابت کر دیا ہے کہ پرِ زماں تو پروازِ نور سے بھی کہیں بڑھ کر تیز ہے جس نے سماجی اور معاشرتی زندگی کی کایا پلٹ دی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اجتماعی اور معاشرتی اقدار میں نہایت سرعت سے تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ۔ مترجم کو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ عالمی ادب میں ان حالات میں اسلوبیاتی تغیر و تبدل کا جو غیر مختتم سلسلہ جاری ہے اس کا مطالعہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور مقامی زبان کی ادبی روایات کو پیہم رواں دیکھنے کا آرزو مند ہوتا ہے اور اس عالم آب و گل میں موجود مظاہر فطرت کی طرح وہ اپنی مادری زبان کی ادبی روایات کو تابندہ اور ضو فشاں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلوب اور ہئیت کے جمالیاتی عناصر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترجمہ نگاروں نے تراجم کے ذریعے جو صد رنگی کیفیت پیش کی ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ اس طرح بیرونی ثقافت اور مقامی ثقافت میں جذب و قبول کا دل کش سلسلہ شروع ہو گیا۔ پاکستانی ثقافت کی موجودہ صورتِ حال مخلوط اور مرکب نوعیت کی ہے جس نے صدیوں کا ارتقائی سفر طے کیا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کر نے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ٹیکسلا، ہڑپہ اور موہنجودڑو سے جو تہذیبی و ثقافتی آثار ملے ہیں وہ ہر اعتبار سے قابل فخر ہیں۔ ادب اور فنون لطیفہ ایک حرکی عمل کے تحت مسلسل مائل بہ ارتقا رہتے ہیں ۔ خوب سے خوب تر کی جستجو ہی زندگی کی تاب و تواں اور حرکت و عمل کو ظاہر کرتی ہے۔ ترجمہ نگار کی زندگی میں ترجمہ نگاری کے دوران کئی سخت مقامات آتے ہیں لیکن مآخذ زبان سے ترجمہ والی زبان میں ثقافتی ورثہ کی منتقلی کا حرکیاتی کردار ادا کرنے میں وہ جس انہماک کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اس کی مستقل مزاجی کی دلیل ہے۔ وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے روشنی کا یہ سفر جاری رکھتا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ تراجم کی فیض رسانی کا سلسلہ لمحوں پر نہیں بل کہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔ اس کی وہ فعالیت جسے موجودہ مادی دور میں کم اہمیت دی جاتی ہے آنے والی نسلیں اس کی اہمیت کا اندازہ لگائیں گی اور ان کے کام کی حقیقی تحسین کر سکیں گی۔ اردو زبان کی ظریفانہ شاعری کے فروغ میں سید ضمیر جعفری نے فعال اور مؤثر کردار ادا کیا۔ سید ضمیر جعفری نے اپنی مشہور کتاب ’’ولایتی زعفران” میں انگریز ی زبان میں لکھی گئی انگریز شعرا کی مقبول نظموں کو جس فنی مہارت کے ساتھ اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انگریزی نظموں کے یہ منظوم تراجم اصل مآخذ کے قریب تر ہیں۔ کرنل محمد خان کی ترجمہ نگاری کی خاص بات یہ ہے کہ اپنے تراجم میں انھوں نے کرداروں اور مقامات کو بھی مقامی آہنگ عطا کیا ہے۔ ان تراجم کے مطالعہ سے قاری دیارِ مغرب کے بجائے اپنی دھرتی کا ماحول دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے۔ بر صغیر کے مقامی باشندے سسی و پنوں ، شیریں و فرہاد اور راول وجگنی کی کہانیوں میں تو دلچسپی رکھتی ہے لیکن انھیں دیار غیر کے ماحول اور وہاں کے کرداروں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اسی لیے ایک زیرک مترجم کی حیثیت سے کرنل محمد خان نے یہی کوشش کی ہے کہ ترجمے کو مقامی رنگ اور دیسی ماحول سے مزین کیا جائے۔ ذیل میں کرنل محمد خان کی اردو نثر میں ترجمہ نگاری کا ایک نمونہ پیش کیا جاتا ہے جسے قارئینِ ادب نے پسند کیا۔ اصل ماخذ کے ایک اقتباس اور ترجمہ سے ایک ٹکڑے کے مطالعہ سے قارئین کو مترجم کے منفرد اسلوب کو سمجھنے میں مدد ملے گی جسے ترجمہ نگاروں نے بالعموم پیشِ نظر رکھا ہے   :

One afternoon I found Petey lying on his bed with an expression of such distress on his face that I immediately diagnosed appendicitis.

"Don’t move” I said, "Don’t take a laxative. I’ll get a doctor.’’

"Raccoon,” he mumbled thickly.

"Raccoon?” I said, pausing in my flight.

"I want a raccoon coat,” he wailed.

I perceived that his trouble was not physical, but mental. "Why do you want a raccoon coat”?

"I should have known it,” he cried, pounding his temples. "I should have known they’d come back when the Charleston came back. Like a fool I spent all my money for textbooks, and now I can’t get a raccoon coat”.

"Can you mean” I said incredulously, "that people are actually wearing raccoon coats again”?

"All the Big Men on Campus are wearing them. Where’ve you been”?

"In the library,” I said, naming a place not frequented by Big Men on Campus.

He leaped from the bed and paced the room. "I’ve got to have a raccoon coat,” he said passionately.

I’ve got to”.

"Petey, why? Look at it rationally. Raccoon coats are unsanitary. They shed. They smell bad. They weigh too much. They’re unsightly. They..”

"You don’t understand,” he interrupted impatiently. "It’s the thing to do. Don’t you want to be in the swim?”

"No,” I said truthfully.

"Well, I do,” he declared. "I’d give anything for a raccoon coat. Anything”?

My brain, that precision instrument, slipped into high gear. "Anything?” I asked, looking at him narrowly.

"Anything,” he affirmed in ringing tones.(2)

کرنل محمد خان نے امریکی مزاح نگار میکس شلمین(Max Shulman B: 14-03-1919 D:28-08-1988)کے مضمون کے مندرجہ بالا انگریزی اقتباس کو جس خوش اسلوبی سے اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے وہ قاری کو مقامی ماحول میں سب حقائق کو سمجھنے کے قابل بناتا ہے۔ ترجمے کا یہ اقتباس درج ذیل ہے:

ترجمہ: دوسرے روز کیا دیکھتا ہوں کہ شاہد بستر میں لیٹا ہوا ہے اور چہرے پر اس قدر جان لیوا کرب طاری ہے گویا پیٹ کا السر پھٹنے والا ہو۔ میں نے متفکر ہوتے ہوئے کہا:

’’شاہد تمھاری حالت اچھی نہیں ۔ اب ہلنا مت میں ڈاکٹر کو بلاتا ہوں۔ ”

شاہد ایک نحیف آواز میں بولا ’’ ڈاکٹر نہیں ، پوستین۔ ”

’’ کیا ہوا ہے پوستین کو؟” میں نے دروازے سے مڑتے ہوئے پوچھا۔

’’ مجھے پوستین چاہیے ” شاہد نے دہرایا۔

مجھے پتا چل گیا کہ شاہد کا عارضہ جسمانی نہیں ، روحانی نہیں بل کہ پوستینی ہے۔ بہر حال پوچھا:

’’کیا کرو گے پوستین کو؟”

’’پہنوں گا اور کیا کروں گا۔ ارشاد نے پہن رکھی ہے۔ ندیم نے پہن رکھی ہے۔ میں ہی احمق تھا۔ سارے پیسے کتابوں پر خرچ کر دئیے اور اب پوستین کے لیے جیب میں کوڑی بھی نہیں۔ ”

لیکن شاہد میاں ، ’’ پوستین تو ایک پرانا فیشن ہے۔ کبھی ہمارے دادے، نانے پہنا کرتے تھے۔ ”

’’تمھیں دادے، نانے نظر آرہے ہیں ۔ مگر کیمپس کے لڑکے نظر نہیں آتے ؟ دیکھتے نہیں ہمارے کتنے ہم جماعت پوستینیں پہنے پھر رہے ہیں ؟ تم ہوتے کہاں ہو؟”

’’ میں لائبریری میں ہوتا ہوں ۔ ” میں نے لائبریری اس لیے کہا کہ بڑے لوگ اکثر لائبریری سے پرہیز کرتے ہیں ۔

شاہد اٹھ کھڑا ہوا اور کسی قدر چلّا کر کہنے لگا :

’’ تم لائبریری کے کیڑے ہو تو ہو، میں نہیں ۔ مجھے بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے۔ میں پوستین لے کر رہوں گا۔ ”

میں نے پیار سے سمجھایا ’’ دیکھو شاہد ذرا عقل سے کام لو۔ پوستین مضر صحت چیز ہے۔ اس سے بُو آتی ہے۔ یہ بھاری بھی ہے اور بھدی بھی۔ پھر جہاں بیٹھو تھوڑی سی اُون بہ طور یادگار جھڑ جاتی ہے۔ ”

’’بھئی رہنے دو اپنی فلاسفی کو۔ پوستین فیشن ہے اور میں پوستین لے کر رہوں گا۔ خواہ مجھے کچھ قربانی ہی کرنا پڑے۔ ”

’’پیاری سے پیاری چیز بھی قربان کر دو گے؟”

’’بالکل کر دوں گا۔ ”

سید ضمیر جعفری نے ’’ولایتی زعفران” کے عنوان سے انگریزی زبان کے ممتاز مزاح گو شعرا کی ظریفانہ شاعری کا منظوم اردو ترجمہ پیش کیا ہے۔ یہ تراجم اپنی شگفتگی اور بے ساختگی کی وجہ سے بہت پسند کیے گئے۔ فریڈرک اوگڈن ناش (Frederic Ogden Nash,B:19-08-1902,D:19-05-1971)کا شمار ممتاز امریکی مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس کی گل افشانیِ گفتار سے محفل کشتِ زعفران میں بدل جاتی ہے۔ مثلاً

Why did the Lord give us agility,

If not to evade responsibility?

فریڈرک اوگڈن ناش کی ظریفانہ شاعری کا منظوم ترجمہ کرتے وقت سیدضمیر جعفری نے تخلیق کار کے اصل متن کے قریب تر پہنچنے کے لیے نہایت سہل، سادہ اور عام فہم اسلوب اپنایا ہے۔ نظم ’’چالاک مسافر”قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے کہ کس طرح در بہ در اور خاک بہ سر پھرنے والا ایک خستہ حال فاقہ کش مسافر چند لمحوں کے لیے باغ میں پناہ لینے کے بعد اپنے مکر کی چالوں سے باغ کے مالک کو باغ سے ایسے نکال دیتا ہے جیسے دودھ سے مکھی نکال کر باہر پھینک دی جاتی ہے۔ اس قسم کے طالع آزما اور عیار گھُس بیٹھیے حادثۂ وقت کے نتیجے میں معاشرتی زندگی میں اپنی جہالت کا انعام پا کر ہر طر ف ہنہناتے پھرتے ہیں۔ انگریزی سے ترجمہ کی گئی نظم ’’چالاک مسافر ” زندگی کی بے اعتدالیوں کے ہمدردانہ شعور کی مظہر ہے :

چالاک مسافر

مسافر کی آواز

اجازت ہو تو آ جاؤں

تمھارے باغ کے اندر

ذرا سی دیر سستا لوں

مسافر ہوں

تھکا ہارا ہوا بھی ہوں

باغ کا مالک

چلے آؤ       چلے آؤ

مسافر شوق سے آؤ!

مسافر

اجازت سے سخی داتا

کہ اِن لوکاٹ کے سر سبز پیڑوں سے

یہ میٹھے رس بھرے میوے

یہی دو چار دانے (خیر ہو تیری)

چمن سے توڑ کر کھا لوں

کہ بھُوکا ہوں کئی دِن سے

مالک

مسافر!شوق سے کھاؤ

کچھ اپنے ساتھ لے جاؤ

مسافر گرج دار آواز میں

ارے تُو کون ہے کُبڑے، یہاں کیا کام ہے تیرا

یہ سارا باغ ہے میرا

نِکل جا مجھ کو باغیچے کا پھاٹک بند کرنا ہے

نکلتا ہے کہ دُوں گردن پہ اِک تھپڑ کرارا سا       (4)

اردو سمیت بر صغیر کی تمام مقامی زبانوں کی حیثیت علمی و ادبی خزائن کو وصول کرنے والی زبانوں کی ہے۔ ان زبانوں نے اقتضائے وقت کے مطابق اصل ماخذ زبانوں سے نئے خیالات اور نئے اسالیب قبول کرنے میں کبھی تامل نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان زبانوں کے دامن میں تراجم کی صورت میں گل ہائے رنگ رنگ کی فراوانی نہاں خانۂ دِل کو معطر کر دیتی ہے۔ ان تراجم کو مواد، موضوعات، پیغامات اوراسالیب کے اعتبار سے اصل مآخذ کے قریب ترین متبادل کی حیثیت سے قارئینِ ادب نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ تراجم میں لسانی اور اسلوبیاتی تجربات قارئین اور تخلیق کاروں کے دلوں کو خوب سے خوب تر کی جانب عازمِ سفر رہنے کا ولولۂ تازہ عطا کرتے ہیں۔ یہ عمل ترجمہ والی زبان کو ارتقائی مدارج طے کرنے میں مد دیتا ہے۔

٭٭

 

                               مآخذ

 

(1)     بہ حوالہ : صدیق کلیم : نئی تنقید، سوندھی ٹرانسلیشن سو سائٹی، گو رنمنٹ کا لج لاہور، `1965 صفحہ 213

2 Max Shulman :”Love is a fallacy” included in Modern American Prose ,edited by Brother Antony Cyril,The Macmillan Company New York,1961,Pge,96

(3)محمد خان کرنل:بدیسی مزاح، جنگ پبلشرز، لاہور، اشاعت دوم، جون 1997، صفحہ 82۔

(4)سید ضمیر جعفری:نشاط تماشا( فکاہی کلیات)سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1993، صفحہ276۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید