FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دل آگاہ کا شاعر۔۔ایک اور اکبر الہ آبادی

 

 

 

               پروفیسر سید مجاور حسین رضوی

 

 

 

 

 

 

آپ نے الہ آباد دیکھا ہے؟

یہ درست ہے کہ آزادی کے بعد اس شہر نے وزیر اعظم دئیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا سنگم صرف گنگا جمنا کے وصال کا نام نہیں ہے بلکہ یہ شہر دلوں کا سنگم بھی ہے۔ جمنا تو بہت ساری جگہوں سے گزرتی ہے مگر جمنا کے ہونٹوں پر جس طرح الہ آباد میں غزل رقصاں نظر آتی ہے وہ شاید آگرہ میں ہو تو اور تو کہیں نہیں ہے! یہاں تو گنگا کی ہر بوند میں روایات کے سمندر نظر آتے ہیں۔ یہ شہر دل کی دھڑکنوں کا، علم کے نشے سے بوجھل آنکھوں کا، پر کیف انگڑائیوں کا شہر ہے۔

لیکن یہ شہر جو شہر گل عذاراں ہے اور جو نگارستان عیش ہے، وہیں اس شہر میں ایک ایسی سڑک ہے جس کے ہر ذرہ میں تاریخ لپٹی ہوئی ہے، سنار گاؤں سے پیشاور جانے والی شاہراہ اعظم چپ چاپ پڑی ہوئی تاریخ کے ستاروں کو طلوع و غروب ہوتے دیکھا کرتی ہے۔ وسط شہر میں اس کے کنارے داہنی طرف بہت بڑی سی مسجد ہے اور تھوڑاسا صلیبی زاویہ لئے ہوئے گرجا گھر ہے۔ مسجد کے سامنے کوتوالی ہے۔ گرجا گھر کے پاس نیم کا پیڑ اور لوک ناتھ کا تاریخی محلہ ہے۔

۱۸۵۷ء میں یہ سڑک شہیدان وطن کے خون سے لالہ زار بن گئی تھی۔ مہنگاؤں کے مولوی لیاقت علی، قاضی محسن علی اور اسی طرح کے بہت سے سورماؤں نے انگریزوں سے ٹکر لی تھی۔ ہاں وہ شہر جہاں خسرو باغ کا سبزہ شاداب تھا اور درخت پھلوں سے لدے رہتے تھے۔ وہ شہر خون سے لالہ زار ہوا تھا اور درختوں پر بلند ہوتے ہوئے مجاہدوں کے سرنظر آئے جنہوں نے ایسے چراغ روشن کئے تھے، جن کی روشنی کو تاریخ بھی نہ دھندلا سکی۔

ایسے میں تصور کیجئے! بارہ تیرہ سال کا ایک لڑکا متوسط طبقہ کا! ان واقعات کے بارے میں سنتا ہو گا تو اس پر کیا کچھ نہ گزرتی ہو گی۔ کیا اس نے یہ نہ سوچا ہو گا کہ الہ آباد میں اکبر کا بنوایا ہوا قلعہ اور اب دھیرے دھیرے اس شہر کی تاریخ کا سہاگ چھن گیا ہے۔ وہ سر برہنہ اپنے ہی ملک میں اجنبی بن گئی ہے۔

یہ لڑکا اپنے ہم نام کو تو ضرور یاد کرتا ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ اس لٹی ہوئی بساط، اجڑی ہوئی محفل اور نفسیاتی طور پر کچلی ہوئی شخصیت کو یقیناً کچھ ہی دنوں بعد قفس کی تیلیاں نشیمن کے تنکوں سے زیادہ اچھی لگنے لگی ہوں گی۔

ایسے میں اگر کہیں پناہ مل سکتی تھی تو پھر شعر و نغمہ کی محفلوں میں ہی مل سکتی تھی اس لئے ادبی وراثت کے طور پر غزل کا جادو مسحور کرنے لگا۔ کوٹھوں پر رقص، گھنگھروؤں کی جھنکار، طبلوں کی تھاپ اور نازو انداز کے ساتھ سنائی جانے والی غزلیں گونجنے لگیں۔

شعر و سخن کا ماحول، روایات کی پاسداری، طبع موزوں۔ چنانچہ سترہ سال کی عمر میں غزل لکھی تو اس طرح کے شعر کہے

 

چشم عاشق سے گرے سخت دل بیتاب و اشک

آپ یوں دیکھتے تماشا جان کر سیماب و اشک

 

یہ قافیہ پیمائی یا فنی لوازم کی پابندی بہت دنوں تک ساتھ رہی۔ بائیں برس کے ہوئے تو ایسے شعر کہے

 

لکھا ہوا ہے جو رونا میرے مقدر میں

خیال تک نہیں جاتا کبھی ہنسی کی طرف

 

یہ شعر پڑھنے کے بعد ذرا اکبر کی بعد کی شعری زندگی کے ایک رخ کے بارے میں سوچئے۔ وہ جس کا خیال تک ہنسی کی طرف نہ جاتا تھا۔ زیادہ تر ہنساتا ہی رہا اور دراصل اس کا سبب تھا۔

اعجاز صاحب بتاتے تھے کہ اکبر کا قد ’’فتنہ‘‘‘‘ یعنی قلیل تھا، اس پر شکل و صورت کے اعتبار سے نہ صرف یہ کہ جاذبیت نہ تھی بلکہ کچھ بے ڈھنگے پن کیا احساس ہوتا تھا اس طرح کی شخصیت عموماً احساس کمتری کا شکار ہوتی ہے۔

یہ ذاتی احساس کمتری جب ماحول کے جبر سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو کھیائی ہوئی شخصیت وجود میں آتی ہے۔ دراصل طنز، استہزاء اور تمسخر، کھسیاہٹ کی پیداوار ہیں۔ سیاسی طور پر ہندوستان کی صورتحال جو کچھ تھی وہ اپنی جگہ پر۔ تہذیبی طور پر اتنی زبردست یلغار ہوئی تھی کہ اپنے گھر کی کوئی چیز بچتی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اپنے گھر میں خود اجنبی ہو رہے ہیں۔ تہذیبی طور پر ایک حساس دل ویسی ہی کیفیت سے دوچار تھا۔ جیسی کیفیت اس لڑکے کی ہوتی ہے جو اپنے سے طاقتور سے پٹ جانے کے بعد اسے چونچ دکھا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔

اکبر کے یہاں بھی دراصل یہی کیفیت ہے، اسے طنز و مزاح نہیں اعلان بے بسی سمجھئے جو کچکچلاہٹ اور کھسیاہٹ کا رد عمل ہے۔ چنانچہ اکبر کی شعری شخصیت کا وہ رخ جسے عرف عام میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری کہا جاتا ہے۔ دراصل مغربی یلغار کو چونچ دکھانے کے مترادف تھا۔

اکبر بے حد ذہین اور حساس تھے۔ اپنی شعری روایات سے باخبر تھے۔ انہیں یقیناً یاد رہا ہو گا کہ انشاء نے دوسری زبانوں خصوصاً انگریزی کے الفاظ کھپا کر صنعت ملمع کے سہارے سے ایک بے تکی شکل بنا کے گدگدایا ہے۔ اکبر نے بھی اپنے گرد و بیش سے اثر لیتے ہوئے نئی تیز روشنی میں بسورتے ہوئے، منھ بناتے ہوئے لیکن آنکھیں بند کر کے لفظی پتھراؤ شروع کر دیا۔

البتہ جب کبھی انہیں فرصت ملتی تھی وہ غزل کے آہوئے رم خوردہ سے گفتگو کر کے اپنی وحشت کم کر لیا کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے اشعار کی نصف سے کچھ کم تعداد غزلوں کی ہے۔ ان کی غزلیں مشرق شعری روایات کی پاسدار ہیں لیکن کہیں کہیں ایک نیا راستہ بھی تلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان غزلوں میں بالکل نئی دنیا ہے۔ عشق کی دنیا اور یہ عشق حقیقی بھی ہے اور مجازی بھی۔ مجازی عشق میں کہیں کہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یسے ذاتی تجربات میں جو اشعار میں ڈھل گئے ہیں۔ یہاں وہ ’’مسٹر۔ سسٹر‘‘ والے اکبر نہیں ہیں بلکہ ایک معصوم صفت بھولے بھالے مگر ’’پورے‘‘ آدمی ہیں جو رنگینیوں پر پھسل جاتا ہے۔ انگڑائیوں سے جس کا بدن ٹوٹتا ہے جو کسی ندیدے بچے کی طرح مٹھائی دیکھ کر منھ بھی چلنے لگتا ہے اور موقع محل دیکھ کر مٹھائی پار بھی کر جاتا ہے۔ ان کے کلام کے اس رخ پر امیر و داغ کے اثرات ہیں ، کسی حد تک ان کی بے حجابی ہے مگر ان کا پھوہڑ پن نہیں ہے۔ داغ و امیر کا عشق ’’باریش‘‘ کچھ اس انداز میں بھی آتا ہے کہ شرافت ’’شر‘‘ اور ’’آفت‘‘ میں بدل جاتی ہے۔ شیخ اور واعظ میں یہی شرافت ہے۔ اس پر شوخ طنز دیکھئے

 

دل بھی کانپا ہونٹ بھی تھرانے، شرمایا بھی خوب

شیخ کو لیکن تیری مجلس میں پینا ہی پڑا

 

نا تجربہ کاری سے واعظ کی ہیں یہ باتیں

اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے

 

جلیل مانک پوری نے میخانے کی دنیا بہت بعد میں اس انداز سے سجائی تھی جہاں توبہ شکنی بھی تھی اور بادل کا رنگ دیکھ کر نیت بھی بدل جاتی تھی۔ لیکن اکبر رنگ شراب سے ہی نیت بدل لیتے ہیں

 

رنگ شراب سے میری نیت بدل گئی

واعظ کی بات رہ گئی ساقی کی چل گئی

 

اور جب ذکر شراب ہے تو پھر شباب کے بھی تقاضے ہیں۔

 

نگاہ ناز بتاں پر نثار دل کو کیا

زمانہ دیکھ کے دشمن سے دوستی کر لی

 

بیان حور اور ذکر سلسبیل اس لئے بھی اچھا لگتا تھا کہ جوانی تھی اور عقیدہ عشرت امروز کا تھا۔ کبھی داغ کا رنگ ابھر آتا ہے تو کہتے ہیں

 

زبان و چشم بتاں کا نہ پوچھئے عالم

وہ شوخیوں کے لئے یہ نہیں حیا کے لئے

 

اکبر اس رنگ کے ساتھ غزل میں حسن مکالمہ کے قائل ہیں۔ مکالمہ ڈرامائیت تو پیدا کرتا ہی ہے، شاعر کے جذبات کو قاری کے بھی قریب لے آتا ہے، جو اشعار پیش کئے جا رہے ہیں ان میں یہ غور نہ کیجئے کہ شوخی، بے حجابی کی سرحدوں پر کھڑی ٹھٹھا لگا رہی ہے بلکہ صرف یہ سوچئے کہ جب دنیا جوان ہوتی ہے تو عشق کرنا ہی پڑتا ہے اور جب عشق ہوتا ہے تو کچھ اس طرح کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔

 

’’دل میں جو ہے وہ ہو گا شب وصل میں ضرور؟‘‘

ہو گا حضور آپ کی شرم و حیا سے کیا

 

میں حال دل تمام شب ان سے کہا کیا

ہنگام صبح کہنے لگے کس ادا سے ’’کیا‘‘

 

آپ کے سر کی قسم میرے سوا کوئی نہیں

بے تکلف آئیے کمرے میں تنہائی تو ہے

 

اکبر نے بھی غزل کی روایات کے مطابق بوسہ کو عشق کی منزلِ اولیں قرار دیا ہے ان کے یہاں بوسہ بے اذن، بوسہ بالجبر، بوسہ با رضا، بوسہ زلف، بوسہ رخ، بوسہ لب، بوسہ قدم ملتا ہے۔ بوسہ زلف کا ذکر کچھ زیادہ ہے۔ کچھ شعر ملاحظہ ہوں :

 

اس بت نے کہا بوسہ بے اذن پہ ہنس کر

بس دیکھ لیا آپ کا ایمان یہی ہے

 

کیوں زلف کا بوسہ مجھے لینے نہیں دیتے

کہتے ہیں کہ واللہ پریشاں نہ کریں گے

 

مطلب یہ ہے کہ تمہیں اپنی زلف کا بڑا خیال ہے کہ وہ برہم نہ ہو۔ وعدہ کیا جاتا ہے کہ بوسہ دو تو زلفیں پریشاں نہ ہونے پائیں گی۔ دراصل یہ بہت باسلیقہ بوسہ ہے کہ جس میں زلف پریشاں ہو۔ بوسہ کبھی اضطراری اور کبھی ارادی بھی ہوتا ہے، کبھی والہانہ ہوتا ہے۔ دراصل بوسہ اعتراف حُسن کا دوسرا نام ہے اکبر اس اہم نکتہ کو سمجھاتے ہیں۔

 

لیا ہم نے بوسہ رخ تو نہ بدگماں ہو اے جاں

کوئی پھول دیکھ لیتے تو اسے بھی پیار کرتے

 

پیار کی یہ کیفیت مزاج یار میں برہمی نہیں پیدا کرتی۔ مکالمہ کا لطف لیتے ہوئے ان اشعار پر بھی غور کیجئے

 

جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر

ہنس کے کہنے لگے اور آپ کو آتا کیا ہے

 

کہا جو میں نے کہ دل چاہتا ہے پیار کروں

تو مسکراکے وہ کہنے لگے کہ ’’پیار کے بعد؟‘‘‘‘

 

کچھ آج علاج دل بیمار تو کر لیں

اے جان جہاں آؤ ذرا پیار تو کر لیں

 

ان کے محبوب کے پاس کہیں بھی غصہ نہیں ہے بلکہ عموماً وہ ہنس کے ہی گفتگو کرتا ہے اور اس کا انداز یہ ہے

 

کس ناز سے کہتا ہے شب وصل وہ ظالم

برہم نہ کرے گیسوؤں کو پیار تمہارا

 

روایتی معاملہ بندی کے اشعار ان کے یہاں اکثر ملتے ہیں ، ان میں فحاشی تو نہیں ہے لیکن پڑھئے تو زہد و تقویٰ کا بدن ٹوٹنے لگتا ہے۔ جذبات انگڑائیاں لینے لگتے ہیں۔

 

محروم ہی رہ جاتی ہے آغوش تمنا

شرم آ کے چرا لیتی ہے سارا بدن ان کا

 

یہ انتہائیت، یہ نشاطیہ رنگ، یہ انگڑائیوں اور بدن چرا لینے کا تذکرہ یا کچھ لوگوں کی زبان میں ارضیت اور جنسیت فراق صاحب سے بہت پہلے سے موجود تھی۔ اس کا سلسلہ تو محمد قلی سے شروع ہوا تھا۔ اکبر نے اس میدان میں بھی چونکا دیا تھا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ ان کے ’’مسٹر‘‘ اور ’’سسٹر‘‘ کے چکر میں ادھر نظر ہی نہیں گئی۔

انہیں اس کا احساس ہے کہ انسانی زندگی میں جنس ناگزیر حیثیت رکھتی ہے، اس سے کون بچ سکتا ہے! کہتے ہیں۔

 

موسیقی و شراب و جوانی و حُسن و ناز

بچتا ہے کون اور خدا بھی بچائے کیوں

 

ٹک ٹکی بندھ گئی ہے بوڑھوں کی

دیدنی ہے تیرے شباب کا رنگ

 

یہ عمر، یہ جمال یہ جادو بھری نگاہ

پھر واعظوں کا اس پر یہ کہنا کہ ’’باز رہ‘‘‘‘

 

اکبر یہ جانتے ہیں کہ

 

بوس و کنار و وصل حسیناں ہے خوب شغل

کمتر بزرگ ہوں گے خلاف اس خیال کے

 

ضمناً یہ عرض کرنے کو دل چاہتا ہے کہ عہد اکبری کے بزرگ یقیناً اس خیال کے خلاف نہ تھے۔

حالانکہ دور حاضر کے بزرگان جدید پیار کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں ، آج کے شاعر سے نئے

بھول کر اپنا زمانہ یہ بزرگان جدید

آج کے پیار کو معیوب سمجھتے ہوں گے

اکبر اس سے باخبر ہیں کہ جوانی جب بھی آتی ہے بدنامی بردوش آتی ہے۔

 

خوب جی بھر کے ہو لئے بدنام

حق ادا کر دیا جوانی کا

 

غزل کا یہ تیز معاملہ بندی والا انداز ہی ان کے یہاں نہیں ہے بلکہ انہوں نے غزل کی روایات اور ان کے ان تلازموں کو بھی برتا ہے جن میں معنویت، تہہ داری اور کہیں کہیں نازک خیالی بھی نظر آتی ہے۔ ان کے اکثر اشعار پر غالب کا گہرا اثر ہے۔ کہیں کہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ غالب کا کلام سامنے رکھ کر لکھا ہے۔

 

عشق میں حُسن بتاں وجہ تسلی نہ ہوا

لفظ چمکا مگر آئینہ معنی نہ ہوا

 

اور کہیں بھونڈی تقلید بھی ملتی ہے، کہتے ہیں

 

تو کہئے اگر وقعت عاشق نہیں دل میں

ے کون سی سیکھی ہے زباں آپ نے ’’تیں‘‘‘‘ کی

 

یہ لفظ ’’تیں ‘‘ اپنی خالص الہ آبادیت کے ساتھ محبوب کے ارزل ہونے کا پتہ دیتا ہے اور غالب بیچارے ’’تو‘‘ ہی پر کبیدہ خاطر تھے۔ اکبر ’’تو‘‘‘‘ پر راضی ہیں۔ ’’تیں‘‘ ‘‘ پر برہم! محبوب اس سے بھی گیا گزرا ہے۔

غالب کی مشہور زمین ’’حال اچھا ہے‘‘‘‘ میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور کچھ اشعار لکھے ہیں۔ لیکن غالب کا اثر ان کی غزلوں میں شوخی، ظرافت اور مکالمہ کے انداز میں جھلکتا ہے۔ یہ شعر دیکھئے۔

 

کبھی لرزتا ہوں کفر سے میں کبھی ہوں قربان بھولے پن پر

خدا کا دیتا ہوں واسطہ جب تو پوچھتا ہے وہ بت ’’خدا کیا‘‘‘‘

 

کبھی غالب کا وہ گاڑھا رنگ بھی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جو ذہن کو ہچکولے دیتا ہے

 

خدا بننا تا مقصد اس لئے مشکل یہ پیش آئی

نہ کھینچتا دار پر ثابت اگر کرتا خدا ہونا

’’

ہونا‘‘ اور ’’بننا‘‘ میں جو نازک فرق ہے۔ وہ غالب کی ہی دین ہے اور اب غالب ہی کے رنگ میں یہ ضرب المثل شعر سنئے

 

ذہن میں جو گھر گیا لا انتہاء کیوں کر ہوا

جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا

 

غالب کا مشہور قطعہ ’’اے تازہ وار دان بساط ہوائے دل‘‘ ذہن میں رکھئے اور اب یہ شعر پڑھئے

 

نہ وہ احباب نہ وہ لوگ، نہ وہ بزم طرب

صبح دم وہ اثر جلسہ شب کچھ بھی نہیں

 

اکبر اپنے بہت ہی کم عمر ہم عصر اقبال سے بے حد متاثر تھے چنانچہ اکثر اقبال کا انداز بھی اپنانے کی کوشش کی ہے

 

یہ عشق ہی ہے کہ منزل ہے جس کی الا اللہ

خرد نے صرف رہ لا الہ پائی ہے

 

عارضی ہیں موسم گل کی یہ ساری مستیاں

لالہ گلشن میں اگر ساغر بدوش آیا تو کیا

 

لیکن غالب اور اقبال ان کے بس کی بات نہیں تھے اس لئے انہوں نے اس رنگ کو اپنایا نہیں ، ترک کیا اور غزل کی وہ روایات جو انہیں وراثت میں ملی تھیں اسے ہی آگے بڑھاتے ہوئے اس طرح کے شعر کہے

 

کرتی ہے بے خودی یہ سوز دروں کو ظاہر

اے شمع ہم تو عاشق تیری زبان پر ہیں

 

زندگانی کا مزا دل کا سہارا نہ رہا

ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ دہا

 

یہ اسے کرتی ہے روشن وہ مٹاتا ہے اسے

رات سے پوچھو کہ بہتر شمع ہے یا آفتاب

 

کبھی کبھی ایسے معرکہ شعر بھی مل جاتے ہیں۔

 

عشق نازک مزاج ہے بے حد

عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا

 

غزلوں میں سہل ممتنع کا انداز بھی جھلکتا ہے

 

اب کہاں اگلے سے وہ راز و نیاز

مل گئے، صاحب سلامت ہو گئی

 

ہمیں تو آٹھ پہر رہتی ہے تمہاری یاد

کبھی تمہیں بھی ہمارا خیال آتا ہے؟

 

مسرت ہوئی ہنس لئے وہ گھڑی

مصیبت پڑی رو کے چپ ہولیے

 

اکبر نے اس عہد کے شعری مزاج کے مطابق مشکل قوافی میں بھی ا چھے شعر نکالے ہیں۔

 

یوں خیال گل رخاں میں ہے منور داغ دل

جل رہا ہو جس طرح پھولوں کی چادر میں چراغ

 

موضوع کے اعتبار سے ان کا ایک رخ معاملہ بندی کا تھا، تو دوسرا رخ تصوف ہے۔ دراصل بنیادی چیز اپنے جذبے، عقیدے یا عشق سے وفاداری ہے، عرفان یا بصیرت عطا کرنے والا جذبہ ہے، وہ تصوف کو عرفان اور بصیرت و آگہی کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے اس شعر سے ان کے نظریہ عشق پر روشنی پڑتی ہے۔

 

عجیب نسخۂ عرفاں دیا تصوف نے

کہ نشہ تیز ہوا اور شراب چھوٹ گئی

 

عقل زاہد، عشق صوفی میں بس اتنا فرق ہے

اس کو خوف آخرت ہے اس کو ذوق آخرت

 

خوف و ذوق کے لطیف رشتے پر جس انداز سے اکبر نے روشنی ڈالی ہے وہ بس انہیں کا حصہ ہے۔ انہوں نے تصوف سے اسی ذوق و عرفان کا اکتساب کیا ہے اس لئے ان کا تصور اخلاقی، روایتی اخلاق سے الگ ہے۔ وہ بے ثباتی دنیا کا تذکرہ اس انداز سے کرتے ہیں۔

 

ایک ساعت کی یہاں کہہ نہیں سکتا کوئی

یہ بھلا کون بتائے تمہیں کل کیا ہو گا

 

لیکن وہ اس بے ثباتی کے ساتھ مجہولیت کے قائل نہیں ہیں ، فعالیت کے قدردان ہیں ، ان کی اخلاقیات حالی طرح جذبے سے بے نیاز نہیں ہے بلکہ اقبال کی طرح بے چینی اور تڑپ پیدا کرنے والی ہے۔ وہ جہد و عمل کی تحریک دیتے ہیں اور بصیرت و آگہی کو سرمایۂ حیات سمجھتے ہیں۔ ان اشعار کے سحرجلال کو اکبر کی اخلاقیات کا مصحف کہنا چاہئے۔

 

سینے میں دل آگاہ جو ہو کچھ غم نہ کرو ناشاد سہی

بیدار تو ہے مشغول تو ہے نغمہ نہ سہی فریاد سہی

 

ہر چند بگولہ مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے

اک وجہ تو ہے، اک رقص تو ہے بے چین سہی برباد سہی

 

وہ خوش کہ کروں گا قتل اسے یا قید قبض میں رکھوں گا

میں خوش کہ طالب تو ہے مرا صیاد سہی جلاد سہی

 

وہ گفتار کا غازی بننے پر زور نہیں دیتے بلکہ کردار کا غازی بنانا چاہتے ہیں۔ تقریر نہیں تاثیر کے قائل ہیں۔ شعر دیکھئے

 

باطن میں ابھر کر ضبط فغاں لے اپنی نظر سے کار زیاں

دل جوش میں لا فریاد نہ کر تاثیر دکھا تقریر نہ کر

 

دل آگاہ کا یہ شاعر ہر قیمت پر یہ چاہتا ہے کہ شمع بصیرت نہ بجھنے پائے وہ زمانے کے رنگ میں ڈھلنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ تہذیب نفس کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں۔

 

بدل گئی ہوں ہوائیں تو روک دل کی ترنگ

نہ پی شراب اگرموسم بہار نہ ہو

 

اہل نظر سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ موسم بہار اگر نہیں ہے اور شراب اگر نہ پینے پر زور ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلے بہار پیدا کی جائے تب شراب پی جائے۔

ان کی شاعری کا یہ رخ بھی قابل توجہ ہے کہ وہ سفلہ پروری، زمانہ سازی، موقع پرستی، کم نظری برداشت نہیں کر پاتے۔ دل آگاہ کا شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے۔

 

کم بضاعت کو جو اک ذرہ بھی ہوتا ہے فروغ

خود نمائی کو وہ اڑ چلتا ہے جگنو کی طرح

 

وہ کتنی خوبصورتی سے کہتے ہیں

 

معذور ہوں میں حضرت کو اگر مجھ سے ہو گلا بیباکی کا

نیکی کا ادب تو آساں ہے مشکل ہے ادب چالاکی کا

 

اس دور میں اشراف پر جو گزر رہی تھی اس کا ایک رخ ملاحظہ ہو

 

ادھر وہی طبع کی نزاکت ادھر زمانے کی آنکھ بدلی

بڑی مصیبت شریف کو ہے امیر ہو کر غریب ہونا

 

یہ شعر پڑھئے تو ایسا لگتا ہے کہ دور حاضر میں بیٹھا ہوا یہ درد مند بوڑھا ایٹمی توانائی کے اس دور کا سچا نقشہ کھینچ رہا ہے۔

 

لاکھوں کو مٹا کر جو ہزاروں کو ابھارے

اس کو تو میں دنیا کی ترقی نہ کہوں گا

 

اور انقلاب کے شائقین کے لئے اور دور حاضر کے ایک المناک بین الاقوامی سیاسی حادثے پر اکبر کی پیشن گوئی بھی ملاحظہ ہو۔

 

ہم انقلاب کے شائق نہیں زمانے میں

کہ انقلاب کو بھی انقلاب ہی دیکھا

 

ان اشعار کے خوش رنگ گلستاں میں وہ جو زندگی بھر اپنی بدصورتی کے ساتھ سارے زمانے کو ہنساتا رہا، اب ذرا اس کا درد و کرب بھی دیکھ لیجئے اس کی اپنی ذاتی زندگی میں ۱۹۱۰ء میں اہلیہ کا صدمہ، ہاشم کی موت، ساری زندگی کی دربدری، مدخولہ، گورنمنٹ ہونے کی وجہ سے شدید گھٹن اور ان سے بڑھ کر تنہائی کا احساس، دوستوں کا ساتھ چھوڑ جانا، اپنے ہی وطن میں رہ کر اجنبی کی طرح زندگی گزارنا۔ غرض کہ درد و کرب کی دنیا ہے جو اس ستم ظریف شاعر کے یہاں نظر آتی ہے، کہتے ہیں۔

 

اس انقلاب پر جو میں روؤں تو ہے بجا

مجھ کو وطن میں اب کوئی پہچانتا نہیں

 

وہ مرے پیش نظر تھے فلک نہ دیکھ سکا

چھٹے تو پھر میں انہیں آج تک نہ دیکھ سکا

 

سیر غربت کوئی جلسہ جو دکھا دیتی ہے

یاد احباب وطن مجھ کو رلا دیتی ہے

 

خبر ملتی نہیں مجھ کو کچھ یاران گذشتہ کی

خدا جانے کہاں ہیں کس طرح ہیں کیا گزرتی ہے

 

اور اب یہ شعر ہر ڈھلتی ہوئی عمر کے آدمی کا المیہ بن جاتا ہے

 

اب جسم میں باقی ہے مسرت کا لہو کم

احباب میں مرحوم بہت ’’سلمہ‘‘‘‘ کم

 

اور اس شعر کے درد کو دیکھئے

 

بزم عشرت کہیں ہوتی ہے تو رو دیتا ہوں

کوئی گزری ہوئی محبت مجھے یاد آتی ہے

 

دل آگاہ کا یہ شاعر غزل میں نشاطیہ شاعری کا وہ رخ پیش کرتا ہے جو ذہنی عیاشی نہیں ہے بلکہ اس میں حقیقی تجربہ بھی جھلکتا ہے۔ ان اشعار میں ایک انسان کے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ آج بھی یہ انسان اصطلاحوں کے جنگل میں ثقیل الفاظ کے پتھروں سے سنگ سار ہو رہا ہے۔ وہ جو ایک شاعر ہے نرم و نازک جذبات و احساسات والا، دل آگاہ کا شاعر۔ اور اس پر پتھر برسائے جا رہے ہیں کہ یہ شاعر نہیں مصلح قوم ہے، معمار قوم ہے، تہذیبی محرکات کا ادا شناس ہے۔ کوئی اسے ترقی پسند کہتا ہے ، کوئی رجعت پسند، کوئی حقیقت پسند اور وہ ان پتھروں کے نیچے کراہتے ہوئے کہتا ہے

 

’’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا‘‘‘‘

 

اس کی آہ تو سن لیجئے! دل آگاہ کا یہ شاعر جب آہ کرتا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اسے شاعر کی حیثیت سے دیکھا بی جائے، اس کی شناخت اور پہچان ایک ایسے انسان کی بھی ہو جو شخصیت پر پڑے ہوئے سارے غلاف ہٹا کر اپنی ذات کا درد و کرب سنانا چاہتا تھا۔

بے شک اس نے ہنسایا ہے لیکن اس ہنسی کے پس منظر میں اس کی آہ بھی شامل ہے۔ دراصل ذرا غور کیجئے تو یہ محسوس ہو گا کہ اکثر جسے ہم قہقہہ سمجھتے ہیں وہ صرف آہ ہوتی ہے!

اس کے مجلسی تبسم پر نہ جائیے۔ اس کی روح کی حقیقت اس کے آنسوؤں میں دیکھئے !

٭٭٭

تشکر: پروفیسر رحمت یوسف زئی جن کے توسط سے کتاب کا مواد حاصل ہوا

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید