FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               فرحت حسین خوشدل

 

 

 

حمد باری تعالیٰ

ہر جگہ ہر نظر دیکھ سکتی نہیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

میرے لب پر فقط کلمۂ  آفریں ،  تو حیات آفریں تو حیات آفریں

تو ہی مسجود ہے تو ہی مقصود ہے میں ہوں بندہ ترا تو ہی معبود ہے

تیری وحدانیت پر ہے سب کو یقیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

میری عاجز نظر میری قاصر زباں تیری عظمت کا کیسے کرے گی بیاں

تو نے انساں کو بخشا ہے نورِ مبیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

شکر ہر حال میں صبر ہر حال پر ہے نظر تیری دنیا کے احوال پر

حکم تیرا ہے مجھ کو نہ ہو تو حزیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

تو ہی ذیشان ہے تو ہی ہے محترم خوف عصیاں سے ہے سب کی کیوں چشم نم

تیرے در پر جھکے انس و جاں کی جبیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

تو نے بخشا مجھے دولتِ علم و فن ہیں عطا کر دہ تیرے ہی یہ جان و تن

ہے رگِ جاں میں خوشدلؔ کے تو بالیقیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

٭٭٭

 

 

حمد باری تعالیٰ

اے خدا تیری عظمت کا کیا ہو بیاں ، تیرے اک لفظِ کن سے ہے سارا جہاں

تو یہاں تو وہاں ،تو عیاں تو نہاں ،تیرے اک لفظِ کن سے ہے سارا جہاں

تیری عظمت بتائی نبی نے ہمیں ،تیری وحدانیت پر یقیں ہے ہمیں

سب کا خالق ہے تو جتنے ہیں انس و جاں ، تیرے اک لفظِ کن سے ہے سارا جہاں

ہر نفس میں ثنا تیری کرتا رہوں ، تیرے احکام پر ہی میں چلتا رہوں

حمد لکھتا رہوں دم بہ دم میں یہاں ’تیرے اک لفظ کن سے ہے سارا جہاں

ارض کعبہ کو بھی ارض طیبہ کو بھی، دیکھ لوں آنکھ سے ہے تمنا مری

ہو عنایت تری میں وہاں دوں اذاں ، تیرے اک لفظِ کن سے ہے سارا جہاں

تیری وحدانیت میرا ایمان ہے، میرے پیش نظر صرف قرآن ہے

دے ہدایت مجھے میں رہوں خوش گماں ، تیرے اک لفظ کن سے ہے سارا جہاں

دل میں روشن نبی کی ہو قندیل بھی، تیری حمد و ثنا کی ہو تکمیل بھی،

کلمۂ  حق ہو خوشدلؔ کو بس حرزِ جاں ،تیرے اک لفظِ کن سے ہے سارا جہاں

٭٭٭

 

 

حمد باری تعالیٰ

خدایا میں کروں تیری ثنا اول سے آخر تک

کہاں ممکن، کروں میں حق ادا اول سے آخر تک

مرے اعمال کب ہیں عفو کے قابل مرے مولیٰ

تری رحمت کی ہو مجھ پر ردا اول سے آخر تک

سنا ہے حشر میں شان کریمی کام آئے گی

بس اک امّید ہے روز جزا اول سے آخر تک

یقیناً لوح بھی تیری قلم تیرا جہاں تیرا

مجھے مل جائے بس تیری رضا اول سے آخر تک

شریعت ہو طریقت ہو کہ ہو وہ معرفت یارب

بصیرت کی نظر تو کر عطا اول سے آخر تک

کروں میں بندگی تیری دعا مانگوں تو بس تجھ سے

خدایا بخش خوشدل ؔ کی خطا اول سے آخر تک

٭٭٭

 

نعت پاک

نعت کی ہو صدی

آپ کا ہے کرم اے رسولِ خدا

ہوں مرے رہنما آپ کے نقش پا

آپ کے نقش پا سے ملے روشنی

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

عظمتِ مصطفی پر ہے ایماں مرا

کلمۂ  حق کے پڑھنے سے عقدہ کھلا

آپ کی پیروی سب پہ ہے لازمی

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

میرا ایمان ہے آپ ہی کی رضا

آپ ہی کی رضا ہے رضائے خدا

فرش سے عرش تک مہرباں آپ ہیں

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

آپ اعلیٰ نسب آپ دار الادب

آپ امی لقب، آپ شہرِ ادب

علم کی آپ ہی روشنی روشنی

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

مدحتیں، عظمتیں ختم ہیں آپ پر

رب کی کل نعمتیں ختم ہیں آپ پر

آپ پر رب کی اتری کتاب آخری

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

شمع وحدت ہے روشن فقط آپ سے

رب کی مدحت ہے روشن فقط آپ سے

آپ ہی سے ملی حمد کی آگہی

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

شہر دل، قریۂ  جاں میں بس آپ ہیں

میرے دل کے دبستان میں بس آپ ہیں

آپ ہی سے ملی اک نئی زندگی

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

حشر میں آسرا ہے شہِ دوسرا

نقشِ پا میں نے ڈھونڈا ہے بس آپ کا

آپ ہی کی کروں پیروی پیروی

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

فرش سے عرش تک کا یہ لمبا سفر

عقل ششدر ہے حیراں ہے اس راز پر

عشقِ صدیق نے دی سند آخری

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

آپ خیرالبشر ہیں مجھے ہے خبر

علم و عرفاں کے ہیں آپ ہی بحر و بر

آپ ہی سے ملی ہر گھڑی رہبری

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

میں لکھوں روز اک نعتِ شاہِ ہُدیٰ

ہے تمنا یہ برسوں سے خیرالوریٰ

نعت کی ہو صدی، یہ صدی، یہ صدی

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

نام احمد کی خوشبو سے سرشار ہے

مجھ کو حسان کا لہجہ درکار ہے

ہو عطا سیدی، سیدی، سیدی

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

نعت کی رہ گزر پر چلوں دمبدم

نعت کا حق ادا ہو بدرجہ اتم

رب سے مانگوں یہی میں دعا آخری

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

عشقِ احمد سے دل میرا مسرور ہے

نعت کی نعمتوں سے یہ معمور ہے

مجھ کو نعمت ملی دنیوی، اخروی

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

کر رہی ہے بیاں، میرے دل کی زباں

منکشف رب پہ ہیں میرے احوال جاں

دور ہو غم مرا دور ہو بے بسی

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

اک یہی آرزو ہے مری اے شہا

نعت خوشدل لکھے آپ کی بارہا

مجھ کو بھی ہو عطا نعت کی آگہی

یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی

٭٭٭

 

 

نعت پاک

بعد ثنائے ربِّ معظَّم، نعتِ نبی ہو جاری پیہم

ذکر نبی ہو لب پر ہر دم ، صَلَّ اللہ عَلَیْہِ وَ  سَلَّمْ

ساقیِ کوثر صاحبِ قرآں ، شافعِ محشر فخرِ رسولاں

خُلق میں یکتا خَلق میں اعظم، صَلَّ اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّم

سارے نبیؑ میں آپ کا رتبہ، سب سے ارفع سب سے اعلیٰ

فضلِ مجسم رحمتِ عالم، صَلَّ اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّم

میرے نبی کی شان تو دیکھو، ہر لمحہ ہر آن تو دیکھو

قول خدا پہ ڈالیں نظر ہم،صَلَّ اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّم

عشقِ حقیقی، عشقِ الٰہی دونوں کے ہیں آپ ہی داعی

مہر و وفا اور عشق کے سنگم، صَلَّ اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّم

عشقِ نبی ہی عشق خدا ہے، شرطِ ایماں شرطِ وفا ہے

قرآں میں یہ ذکر ہے پیہم، صَلَّ اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّم

قول و فعل اگر یکساں ہو ، عشقِ نبی کا گر عرفاں ہو

ورد زباں ہو مدّھم مدّھم، صَلَّ اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّم

قرباں خوشدلؔ شاہ امم پر، سب کی نظر ہے ان کے کرم پر

محسن انساں ہادی عالم، صَلَّ اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّم

٭٭٭

 

 

نعت پاک

آپ آئے تو مہک اٹھا بصیرت کا گلاب

خُلق کی خوشبو میں پوشیدہ ہے سیرت کا گلاب

شخصیت کو آپ کی طہٰ کہا فرقاں کہا

آپ ہیں سارے جہاں کے حق میں رحمت کا گلاب

آپ کی طاعت میں پوشیدہ ہے رب کی بندگی

فاَتَّبِعُوْنِیْ میں پنہاں ہے اطاعت کا گلاب

آپ آئے تو جہالت کے اندھیرے مٹ گئے

مل گیا ہے نسلِ آدم کو ہدایت کا گلاب

آپ آئے تو زباں کو تابِ گویائی ملی

آپ نے بخشا زمانے کو فصاحت کا گلاب

آپ نے آ کر بدل دی کفر و ظلمت کی فضا

ہر طرف کھلنے لگا دنیا میں وحدت کا گلاب

آپ نے طائف کی وادی میں دعا یہ رب سے کی

کھل اٹھے ویران وادی میں بھی امّت کا گلاب

تیرگیِ نسلِ آدمؑ نورِ حق سے مٹ گئی

آپ نے بتلایا کیا ہے آدمیّت کا گلاب

حضرتِ صدیقؓ، فاروقؓ، اور عثمانؓ و علیؓ

سارے ہی اصحاب پر یکساں تھا شفقت کا گلاب

عمر بھر نعتِ نبی خوشدل ؔ رہے لب پر ترے

یونہی بس کھلتا رہے ہونٹوں پہ مدحت کا گلاب

٭٭٭

 

 

نعت پاک

اپنی پہچان ہے سیّد خوش لقب سے

ان کا لطف و کرم ہے زمانے پہ جب سے

ہر صحیفے نے بعثت کی ان کی خبر دی

منتظر نسلِ انساں نہ تھی جانے کب سے

آپ آئے تو انسانیت جاگ اُٹّھی

تھی جدا گفتگو، تھا جدا لہجہ سب سے

آپ اُمّی تھے دنیا کی نظروں میں لیکن

سب کی دانائیاں ہیں سب ان کے سبب سے

نام جب ان کا آیا تو دل جاگ اُٹھّا

ان سے رشتہ نہ جانے ہمارا ہے کب سے

میرے حرف و نوا میں ہر اک لفظ خوشدلؔ

جب کہوں نعت نکلے کمالِ ادب سے

٭٭٭

 

 

نعت پاک

جب کبھی تذکرۂ  شہرِ پیمبر لکھنا

قریۂ ِ جاں پہ جو اترا ہو وہ منظر لکھنا

ان کو الفاظ و معانی کا سمندر لکھنا

نعت کہنی ہو تو پہلے پسِ منظر لکھنا

نقشِ پا احمدِ مرسل کا میسر ہو اگر

ان کے ہر نقش کو تم میل کا پتھر لکھنا

ان کے آنے سے جہاں نور سے معمور ہوا

ان کے احسان کا تم تذکرہ کھل کر لکھنا

ہو چکے حج کا فریضہ جو ادا تو مولیٰ

میں مواجہ کے قریں پہنچوں مقدّر لکھنا

حمد لکھنی ہے تمہیں حبّ خدا میں خوشدلؔ

نعت لکھنی ہو تو پھر خوب سنبھل کر لکھنا

٭٭٭

 

 

نعت پاک

ان کی مدحت کی بدولت ہوا سینہ روشن

نعت لکھتا ہوں تو ہو جاتا ہے خامہ روشن

آپ آئے تو یہ اعجاز جہاں نے دیکھا

سارے  عالم پہ ہوئے نقش صحابہ روشن

جس سے تفریق عرب  اور عجم ختم ہوئی

علم والوں پہ ہے  وہ آخری خطبہ روشن

٭٭٭

 

 

نعت پاک

قلم خوشبو کا مل جائے صحیفہ نعت کا لکھّوں

ادب گاہِ حرا لکھّوں انہیں بعد از خدا لکھّوں

نہیں آسان ہے حمد و ثنا اور نعت کا لکھنا

نبی کو میں نبی لکھّوں خدا کو میں خدا لکھّوں

سند بن جائے اک اک حرف میری نعت کا مولیٰ

امام احمد رضاؔ جیسی میں نعت مصطفیٰ لکھّوں

٭٭٭

 

نعت

مری ہر نعت کا لہجہ نیا اوّل سے آخر تک

مرا ہر شعر ہے رب کی عطا اوّل سے آخر تک

میں اپنے دل سے کچھ لکھتا نہیں مدح محمد میں

ثنا خواں ہوں بحکم کبریا اوّل سے آخر تک

یقیناً دور ہوں گے مسئلے سب عصر حاضر کے

ترے پیش نظر ہوں مصطفیٰ اوّل سے آخر تک

شفاعت کی طلب سب کو یقیناً حشر میں ہو گی

نبی کے عشق میں تو ڈوب جا اول سے آخر تک

وہی ملجا و ماوی ہیں یقیناً سن لے اے خوشدلؔ

نبی کا جو ہوا اس کا خدا اوّل سے آخر تک

٭٭٭

 

 

نعت رسول

ہے ہم کو آپ کے رب کا سہارا محترم آقا

نہیں دنیا میں کوئی بھی ہمارا محترم آقا

عمل ہو آپ کے گر اسوۂ  حسنہ پہ انساں کا

چمک جائے مقدر کا ستارا محترم آقا

بٹے ہیں مسلکوں کے تنگ خیموں میں ابھی تک ہم

خسارہ ہی  خسارہ  ہے  ہمارا  محترم آقا

٭٭٭

 

 

نعت پاک

قرطاس دل پہ جب لکھا نغمہ رسول کا

  لفظوں میں میں نے دیکھا سراپا رسول کا

 ایمان کی سلامتی کرتی ہے یہ  طلب

   ہر دم  ہو  میرے سامنے اسوہ رسول کا

عہد گزشتہ لوٹ کے آئے گا ہے یقیں

   پورا  اگر کریں گے  تقاضہ  رسول  کا

٭٭٭

 

 

نعت حبیب خدا

خُلق اور خَلق میں بس آپ ہیں عالی مقام

جملہ مخلوقات میں ہیں آپ سب سے محتشم

نعت گوئی کا ادا حق ہو یہ ممکن ہے کہاں

فضل ربی کی بدولت لکھ رہے ہیں نعت ہم

آفتاب نور ہیں فضل و کرم میں طور ہیں

اے نبیِ محترم ہیں آپ دریائے کرم

یا نبی دیدار کی لذت ہمیں بھی ہو نصیب

رحمۃ للعالمیں ہم پہ بھی ہو چشم کرم

خاتمہ بالخیر ہو رب سے دعا کرتا ہوں میں

نعت گوئی کے توسط سے ہے امّید کرم

فضل و جاہِ شاہِ بطحا کی ہے حد خوشدلؔ کہاں

تجھ سے کیا ممکن ہے توصیف شہ خیرالامم

 

٭٭٭

 

 

دیارِ حرم

نظر خواب میں جب پڑی ہے حرم پر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

مجھے لے کے آیا جو میرا مقدر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

جو کعبے کو دیکھا تو دیکھا یہ منظر، نظر سب کی ہے آج باب کرم پر

بڑا جاں فزا ہے یہ کعبے کا منظر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

یقیں ہے یہ مجھ کو دعا جتنی مانگوں، وہ منظور ہوں گی جو دل سے پکاروں

ہے میزاب رحمت مرے آج سر پر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

مَیں حاضر ہوں، حاضر ہوں، حاضر خدایا، یہ تیرا کرم ہے جو مجھ کو بلایا

یہی ایک نعرہ ہے سب کی زباں پر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

مری چشم پر نم نے دی جب گواہی، تو کعبے کے اندر سے آواز آئی

چلے آؤ یہ گھر ہے رحمان کا گھر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

یہ فیضان تیرا ہے جن و بشر پر، طواف حرم کا ہے دلچسپ منظر

مودب کھڑے ہیں تونگر گدا گر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

مقام ابراہیم پر مَیں جھکا ہوں، ترے آگے میں دست بستہ کھڑا ہوں

ترا در لگے مجھ کو آغوش مادر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

خطا مجھ کو سب یاد آنے لگی ہے، مری چشم پرنم سے بہتی ندی ہے

گنہگار بندہ ہوں اے بندہ پرور، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

ان آنکھوں نے دیکھا صفا اور مروہ، ہے حسرت مری دیکھوں میں خاک طیبہ

ہے طیبہ کا نقشہ مرے دل کے اندر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

بقول عمر بوسۂ  سنگ اسود، بھی ہے دستور اتباع محمد

اسے چوم لینا بھی ہے وصل دلبر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

نظر ملتزم پر ہے میری برابر، ہے باب کرم پر نظر بندہ پرور

سمیٹے ہے مجھ کو مطاف اپنے اندر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

تری حمد جاری ہے سب کی زباں پر، تو کر مغفرت آج خوشدل ہے در پر

ہو مقبول حج تو وہ ہے حج اکبر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر

٭٭٭

 

زائرین حرم

اے ارض مقدس کے راہی ایماں کی حرارت لے جانا

ایماں کی حرارت ساتھ رہے وہ ذوق عبادت لے جانا

ماضی میں جو تم سے بھول ہوئی، اس بھول پہ ہو کر شرمندہ

آنکھوں میں ندامت کے آنسو، اشکوں کی ندامت لے جانا

اے زائر ارض پاک حرم، کعبے میں پہنچ کر سر تیرا

معبود کے آگے جھک جائے، ایقاں کی صداقت لے جانا

جب گنبد خضریٰ پر پہنچو تو حد ادب ملحوظ رہے

اس در پہ پہنچنے کی خاطر، حد درجہ محبت لے جانا

خوشدل کی زباں پر صبح و مسا، لبیک کا ہے روشن کلمہ

کہہ اٹھیں ملک سبحان اللہ، وہ شوقِ زیارت لے جانا

٭٭٭

 

سلام ان پر

حضور ہی ہیں چراغ وحدت، درود ان پر سلام ان پر

زباں پہ میری ہے ان کی مدحت، درود ان پر سلام ان پر

ملی ہے ان سے رہ ہدایت، درود ان پر سلام ان پر

مرے نبی ہیں شفیع امت، درود ان پر سلام ان پر

جو سارے نبیوں کے پیشوا ہیں، تمام عالم کے رہنما ہیں

خدا کی نعمت ہے ان کی بعثت، درود ان پر سلام ان پر

تمام عالم پہ مہرباں ہیں، وہ رحمت حق کے پاسباں ہیں

کتاب دیتی ہے یہ شہادت، درود ان پر سلام ان پر

وہ جن کو رب سے عطا ہوئی ہے تمام عالم کی رہنمائی

ہے جن کی باتوں میں علم و حکمت، درود ان پر سلام ان پر

عمل کا دعویٰ نہیں ہے میرا، شفیع محشر پہ ہے بھروسہ

باذن ربی کریں شفاعت، درود ان پر سلام ان پر

ہے لب پہ نعت نبی کا نغمہ، زبان و دل پر ہے ان کا کلمہ

ہر ایک دل میں ہے ان کی چاہت، درود ان پر سلام ان پر

مرے نبی کے کرم کا سایہ، ہے جیسے نعمت کا بہتا دریا

تمام عالم پہ ان کی رحمت، درود ان پر سلام ان پر

جو سبز گنبد کے پاس پہنچے، تو یاد آئے نبی کے مژدے

کریں گے ہم سب کی وہ شفاعت، درود ان پر سلام ان پر

دعائیں دیں جس نے دشمنوں کو، قبائیں دیں جس نے قیدیوں کو

ہے دل میں خوشدل بس ان کی عظمت، درود ان پر سلام ان پر

٭٭٭

تشکر: مدیرِ اعلیٰ غلام ربانی فداؔ، ’جہانِ نعت‘ کے گوشۂ خوشدل سے ماخوذ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید