FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

غزل نما۔ ۔ غزل کا ایک نیا روپ

               ترتیب: ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی

               جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

غزل نما:صنفی تشکیل اور تشخص

نگاہِ شوق سے نئے منطقے روشن ہوتے ہیں !

               حقانی القاسمی

ممکنات کی دنیا ہر ایک پر منکشف نہیں ہوتی۔ ایک متجس ذہن ہی اختراع اور ایجاد جیسے تخلیقی یا اکتشافی عمل سے گزرسکتا ہے۔ تجربہ تخیل اور داخلی قوت سے ہی اختراع کی راہیں روشن ہوتی ہیں۔ ذہن کی آنکھیں جب مشاہدات کی منزلوں سے گزرتی ہیں تو نئے خیالات کی لہریں وجود میں آتی ہیں اور اس کے لئے کسی بھی کیفیت کی قید نہیں ہے، خواب میں بھی اتفاقیہ بھی اور دیوانگی اور شعور میں بھی یہ اکتشافی عمل وقوع پذیرہوسکتا ہے۔ آئن اسٹائن کے ذہن میں نظریہ اضافیت کا عکس عالم خواب میں نظر آیا تو شعور کی روکی تکنیک جیمس جوائس کے شعور کی رہین منت تھی مگر انتظارحسین کی بات مان لی جائے تو یہ تکنیک تو در اصل دیوانگی کی دین ہے۔ انہوں نے حسن عسکری کے حوالے سے بہت پتے کی بات لکھی ہے کہ مولانا محمد حسین آزاد نے دیوانگی بھی نئی تکنیک میں کی ہے۔ یہ کہتے کہتے کسی قدر سنجیدہ ہوئے اور کہنے لگے عجب ہے، جوائس وغیرہ نے ہوش وہواس میں رہ کر کتنے تردوسے جس تکنیک کو برتا تھا اسے آزاد نے عالم دیوانگی میں کس بے تکلفی سے استعمال کیا ہے۔ انتظارحسین نے اسی لیے آپ حیات کو اردو کا پہلا ناول قرار دیا ہے، جس میں شعور کی رو کی تکنیک ہے۔

اختراع اور ایجاد کے لئے ذہانتیں مخصوص ہوتی ہیں تمام علوم فنوں میں اختراع کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور ان اختراعات اور ایجادات کی وجہ سے ان کی اہمیت برقرار ہے۔ ادب میں بھی ایسے اختراع اور ایجاد کرنے والے رہے ہیں جنہوں نے نئی شاخ نئی لہر، نئی ہئیت نئے اسلوب، نئے اظہارسے ادب کی ثروت اور وسعت میں اضافہ کیا ہے اور اس سے ادب کونیا تحرک ملا ہے۔ آج بھی دنیا ایڈگرایلن پوکوجاسوسی ناول کے معمار Savinien cyrano De Bergeracکوسائنس فکشن کے موجد، مراساکی، شکی بو کو رومانی ناول کے بنیاد گزار اور میری شیلی کولٹریری  ہورر کی اساس رکھنے والی اور Procopiusکو اسکینڈل لٹریچر کے واضع کے طور پر یاد رکھتی ہے اردو ادب بھی ایسے تجربوں سے عاری نہیں ہے یہاں کی ذہانتوں نے بھی مختلف اصناف میں تجربے کیے ہیں اور مختلف صنفوں کی تشکیل بھی کی ہے، جیسے کہہ مکرنی، تروینی، ہائیکو، آزاد غزل اور دیگر اصناف ایسا ہی ایک صنفی تجربہ غزل نما بھی ہے جس کا ہیئتی انصرام متعین کرتے ہوئے مناظر عاشق ہرگانوی نے لکھا ہے کہ غزل نما کے تمام اشعار غزل ہی کی طرح ایک ہی بحر میں لکھے جاتے ہیں، مناظر عاشق ہرگانوی نے لکھا ہے کہ غزل نما میں شعر کا مصرع خود بھی ایک بحر میں ہوتا ہے مثلاً شعر کے پہلے مصرع میں اگر فاعلاتن چار بار آتا ہے تو دوسرے مصرع میں دو بار فاعلاتن آئے گا، اسی طرح مصرع اول میں اگر آٹھ بار فعولن آیا ہے تو مصرع ثانی میں چار بار فعولن آئے گا۔ یہ التزام غزل نما کے تمام اشعار میں یکساں ہو گا۔ غزل نما کے لئے سالم بحروں میں طبع آزمائی افضل ہے، خواہ وہ مفرد ہو یا مرکب بحر ہو، غیر یکساں یا مختلف افاعیل والی مزاحف بحروں میں غزل نمالکھنامستحسن نہیں۔ البتہ یکساں زخاف والے ارکان میں غزل نما کے اشعار لکھے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ صوتی اور بصری اعتبار سے یہ ارکان سالم بحروں کے ارکان جیسے ہوتے ہیں۔

برائے تفہیم غزل نما کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔

کئی صدیوں سے ویراں ہے خدا کا گھر ذرا ٹھہرو

جھکا لیں سرذراٹھہرو

ہمیشہ رات ہی میں کیوں سفر کرتا ہے صحرا میں

کوئی لشکر ذرا ٹھہرو

یہ کیسا شہر ہے جاناں کہ سب انگلی اٹھاتے ہیں

محبت پر ذرا ٹھہرو

چمن میں رقص کرتا ہے گلابوں کی قطاروں کا

وہی منظر، ذرا ٹھہرو

صدائیں دے رہا ہے گاؤں کا کچا مکان محضر

کبھی آ کر ذرا ٹھہرو

مشرف حسین محضر

ڈاکٹر فراز حامدی کی بھی غزل نما کا ایک منظر ملاحظہ ہو:

نہیں آتے مجھے حیلے، میں مکاری نہیں کرتا

یوں دلداری نہیں کرتا

قلم سے گیت لکھتا ہوں لہو کی روشنائی سے

میں گل کاری نہیں کرتا

وطن سے جس کونسبت ہے وطن سے جس کو رغبت ہے

وہ غداری نہیں کرتا

ہمیں تو اس پہ حیرت ہے زنا کاروں کی بستی میں

زنا کاری نہیں کرتا

زمانہ مجھ سے واقف ہے مرے ظاہرسے باطن سے

اداکاری نہیں کرتا

اگرچہ خامیاں ہوں گی مگر میں برملا کہہ دوں

سیہ کاری نہیں کرتا

وہ غالب ہو کہ مومن ہو مجھے تسلیم ہے، لیکن

طرف داری نہیں کرتا

مناظر عاشق ہرگانوی نے غزل نما کی صنفی تشکیل کاسہراشاہدجمیل کے سرباندھاہے اور دلائل کے ذریعہ ٹائم لائن کی بنیاد پر ثابت بھی کیا ہے۔ ہفت وار غنچہ بجنور یکم اکتوبر ۱۹۷۳میں شائع شاہد جمیل کی پہلی تجرباتی غزل نما کے حوالے سے لکھا ہے کہ شاہد جمیل کی ذہانت نے ۱۹۷۳میں غزل نما کی نئی دنیا تخلیق کی تھی اور اردو شاعری کی اختراعی ارضی سطح کو چھونے اور برتنے کی گل افشانی کی تھی صوفی منش مزاج کی وجہ سے انہوں نے نہ تو دعویٰ کیا اور نہ ہی مشتہر کرنے کی کوشش کی، لیکن اتنا دعوے کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ غزل نما کے اصل موجد شاہد جمیل ہیں۔ مناظر عاشق ہرگانوی کے اس خیال سے بہتوں کو اختلاف ہوسکتا ہے کیوں کہ اس دشت میں کئی اور دیوانے بھی ہیں، جو دامن دشت کو گلزار بنانے کے مدعی ہیں۔ لیکن انہوں نے جس شہادت، سیاق، معیار معقولیت اور معروضیت کے ساتھ اپنی رائے پیش کی ہے اس کی تردید تغلیط شاید آسان نہ ہو، مناظر عاشق کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے ذہن کے Inboxمیں اتنے سارے تازہ ترین نئے نکات کے ذخیرے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ دراصل ان کے یہاں دو متضاد ذہنی لہروں کا انضمام بھی ہے اور افتراق بھی وہ ایک لمحے میں معروضی ہوتے ہیں تو دوسری ساعت میں موضوعی تخلیق اور تنقید کے امتزاج کی وجہ سے ان کی یہ کیفیت ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھنور میں بھی نئی موج کی شناخت کر لیتے ہیں۔ غزل نما بھی ایک نئی تجرباتی لہر ہے، جس کے ہیئتی تعین کی شکلیں انہوں نے شاہد جمیل کے تجربو ں میں تلاش کیں۔ پھر تو غزل نما بھی ایک نئی تجرباتی لہر ہے، شاہد جمیل کے علاوہ صابر عظیم آبادی نذیر فتح پوری، فراز حامدی، رؤف خیر، محبوب راہی، محمد نورالدین موج، قمر برتر، یوسف جمال، منصور عمر، عثمان قیصر، شاہد نعیم، حفیظ انجم، امام اعظم، احسان ثاقب، شارق عدیل، عبیداللہ ساگر، مظفرحسن عالی، شمیم انجم وارثی، رفیق شاکر، مجیب الرحمن بزمی، حفیظ انجم کریم نگری، مشرف حسین محضر، نینا جوگن، قدر پاروی، م اشرف، سیدعبیداللہ ہاشمی، زیڈانورسہسرامی اور مناظر عاشق ہرگانوی کی تجرباتی تخلیقات شامل ہیں جو بقول ہرگانوی ایک سمت نما ہے جس سے تحرک پیدا ہو گا، روشنی منعکس ہو گی اور اردو غزل کونیا افق ملے گا۔

مگر مناظر عاشق کی اس بات سے بھی بہتوں کو اتفاق نہیں ہو گا کہ غزل نما کا یہ تجربہ ادبی معاشرہ کو شاید ہی قبول ہو۔ ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ جس طرح ساڑی میں عورت Sensuousنظر آتی ہے اور منی اسکرٹ میں اس کی لطافت، نزاکت ادا ختم ہو جاتی ہے، اسی طرح غزل کو مختلف یا اپیبریویٹ کرنے سے غزل کی موزونیت موسیقیت اور کیفیت مجروح ہو جائے گی۔ لیکن میرے خیال میں جب پورا عہد ہی اپنا ذائقہ اور ذوق بدل رہا ہے تو غزل کی ہیئتی صوری تبدیلی یا تحول صورت میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تجربوں سے ہی کائنات وسیع ہوتی ہے۔ تجربے نہ ہوں تو تعطل کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمیں ہر نئے تجربے کا خیر مقدم کرنا چاہئے تاکہ تحرک کی صورت برقرار رہے اور ادب کا قافلہ رواں دواں رہے۔ نئے پانی سے تخلیق کا رشتہ قائم رہے تو پھر تخلیق بھی تر و تازہ اور سرسبز شاداب رہتی ہے ورنہ تخلیق کو مرجھاتے ہوئے دیر نہیں لگتی غزل نما بھی غزل کی توسیع کا ایک تجربہ ہے کہ بقول غالب

بقدر شوق نہیں ظرف تنکنائے غزل

٭٭٭

 

غزل نما:شاہد جمیل و غزل نمائی کے شعرا

               یوسف جمال

سالاربنگلوربابت اگست ۱۹۸۱میں جب ظہیر غازی پوری کی ایک آزاد غزل قدرے تصرف کے ساتھ، غزل نما، کے نام سے آئی تو سب سے پہلے یوسف جمال نے ہی اس کے خلاف پر زور احتجاج کرتے ہوئے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی گفتنی سے ملتے جلتے الفاظ کے سہارے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا کہ ظہیر آزاد غزل کو غزل نما بنا کر اس کا موجد بننا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ مناظر نے کہا، فردیات و ابیات کا روپ دے کراسے غزل نما نہیں کہہ سکتے محض ارکان کی کمی بیشی سے اسے غزل نما کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ظہیر نے دیکھا اگر آزاد غزل کے موجد مظہر امام ہیں تو کیوں نہ اس سانچے میں قدرے تراش خراش سے کام لے کر ایک نئی صنف کو ڈھال دیا جائے تواس کا بھی نام ایجاد کردوں کی فہرست میں آ جائے گا۔ بس اس سوچ کولے کروہ انگلی کٹانے پر برسرِ پیکا رہو گئے کم از کم اس بہانے ہی اس کا بھی نام شہیدوں میں شمار ہو جائے، مگر وہ اس میں اپنی توقع کے خلاف بری طرح فلاپ ہوئے شومی قسمت، ان کے حصے میں پشیمانی ہی ہاتھ آئی۔ شاہد جمیل کی شخصیت دنیائے ادب میں گہری پہچان رکھتی ہے۔ ان کی متنوع قلمی صلاحیتوں سے ہی غزل نما معرضِ وجود میں آئی ہر چنداس میں بھی آزاد غزل کی طرح مصرعوں میں کمی بیشی نظر آتی ہے لیکن آزاد غزل متعینہ بحور میں ہونے کے باوجود کبھی اس کا اولیٰ مصرع بڑا ہوتا ہے تو ثانی مصرع چھوٹا ہوتا ہے اور کبھی پہلا مصرع پر مشتمل ہوا کرتا ہے۔ مگر شاہد جمیل نے اپنی تخلیقی و شعری مہارت اور ذکاوت کے زیر اثر غزل نما کو ایک نیا رنگ اور خوش فکر مزاج دے کر آزاد غزل سے اس کا رشتہ منقطع کر دیا اور اس طرح انہوں نے اپنی انفرادیت  کو برقرار رکھتے ہوئے الگ تھلگ اور جداگانہ ایک نئی صنف کی بنا ڈالی مجھے بھی مناظر عاشق کی زبان میں کہنے کی اجازت دی جائے شاہد جمیل نے صحیح منفرد اور متوازن ہئیت میں تجربہ کیا ہے۔ غزل نما کا ہر پہلا تیسرا پانچواں یعنی ہر اولیٰ مصرع میں مثلاًساتواں وغیرہ رکن کے حساب سے مساوی ہوتے ہیں جبکہ ثانی مصرع میں جتنے رکن ہیں اسی مناسبت سے دوسراچوتھا، چھٹا، آٹھواں وغیرہ مصرعوں میں اتنے ہی رکن ہوتے ہیں۔ اس کی وضاحت کے لئے شاہد جمیل کی غزل نما کے چند اشعار کافی ہوں گے۔

آئینے اور عکس کے جھگڑے کے پیچھے جو کوئی ہے

میں اسے پہچانتا ہوں

اس کی یادیں، اس کی باتیں، اس کے موسم، اس کے البم

درد کو گردانتا ہوں

ترا مجھ میں اسرارکیا تھا؟تجھے خواب میں دیکھتا تھا

تراسامناکر رہا ہوں

زمانہ اسی کی طرح ہے، جو بالکل مری ہی طرح ہے

زمانے سے کیوں ڈر رہا ہوں

مناظر عاشق ہرگانوی نے شاہد جمیل سے قبل کاظم نائطی کو غزل نما کا موجد قرار دیا تھا جس پر علیم صبا نویدی گویا ہوئے کہ کاظم نائطی نے آزاد غزل کو غزل نما کا نام دے کراسے مشتہر کیا تھا اس پر کسی طرح کا رد عمل نہیں ظاہر کیا گیا۔ لیکن پھر ڈاکٹر ہرگانوی کے ہی مطابق شاہد جمیل کی محنت جو خلاقانہ ذہانت سے آراستہ تھی بار آور ثابت ہوئی کہ شاہد جمیل ہی غزل نما  کے ایجاد کردہ ہیں۔ یقیناً وہی غزل نما کے خالق ہیں ویسے بھی دیکھا جائے تو ظہیر غازی پوری نے اپنی جس آزاد غزل کو غزل نما کا نام دیا تھا وہ اگست ۱۹۸۱کازمانہ تھا اور کاظم نائطی کی آزاد غزل، غزل نما کے نام سے شائع ہوئی تھی تو وہ ۱۹۷۹کا دور تھا لیکن شاہد جمیل کی پہلی غزل نما اکتوبر۱۹۷۳میں رونق غنچہ بنی تھی۔ زمانوں کے لحاظ سے بھی غزل نما کے موجد و بانی صرف اور صرف شاہد جمیل ہی ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ شاہد جمیل ایک کثیر المطالعہ، کثیر الجہت اور کثیر الخیال کے نہایت ہی بیدار مغز شاعر ہیں، ان کے دیگر کلام کی طرح غزل نما کا جائزہ لیا جائے تواس میں بھی غزل کی طرح مکمل طور پر فنکارانہ چابک دستی دکھائی دیتی ہے۔ جا بجا جمالیاتی کیفیات کی جلوہ گری کے ساتھ ساتھ مختلف گوشوں کی شعری اساس بھی ہے جس میں گہرائی اور گیرائی کے علاوہ خارج اور داخل کا ایک جہان ملتا ہے ظاہر اور باطن کی جھلکیاں اس انداز سے موجود ہیں کہ ہر پڑھنے والا متحیر ہو کر رہ جاتا ہے ان کی شاعری کہیں سے بھی جامد نظر نہیں آتی بلکہ زندگی کے عناصر رنگ و بو کے جھونکے لیے ہوئے قاری کومسحورکر دیتے ہیں اور یہی وہ ساحرانہ شعری کیفیات ہیں جو حیات و کائنات کے نشیب و فراز کا ڈاکٹر مناظر عاشق کی حیثیت دنیائے ادب میں ایک سازکادرجہ رکھتی ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ غزل نما کے کئی دعویدار غزل نما کے موجد بننے کی ڈفلی بجا رہے ہیں تو انہوں نے اپنی فطری نیز کھوجی طبیعت کے زیر اثر نہایت عرق ریزی سے اس کی تاریخ کو کھنگال ڈالا تب  جا کے حقیقت کا انکشاف ہوا تینوں فنکاروں کے شعوری طور پر محاکمہ و تجزیہ کے بعد ہی منکشف ہوا کہ شاہد جمیل ہی ہیں جنہوں نے غزل نما کی بنا ڈالی۔ سچائی سامنے آ گئی، کھوکھلے دعویداروں کے چہروں سے میلی نقاب اتر گئی اور وہ بغلیں بجاتے رہ گئے۔ سطحی شہرت کے خواہاں اولیت کا تاج سروں پر سجانے کے لئے کیا کیا نہ گل کھلائے لیکن ڈاکٹر مناظر نے ان کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھول دی۔ انہوں نے شاہد جمیل کو غزل نما کا موجد کہنے پرہی اکتفا نہیں کیا بلکہ با شعور  شعرا کو بھی غزل نما کی جانب راغب کر کے ان سے غزل لکھوائی۔ آج انھی کی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ آناً فاناً غزل نما کا پہلا انتخاب منظر عام پر لا کر اہل ادب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اتنے ہی پر، انہوں نے بس نہیں کیا اپنے مؤقرومستندادبی رسالہ کوہسارکاغزل نما نمبر، بھی نکالا اور دوسری کتاب غزل نماسمت وسفر بھی شائع کی۔

ہاں تو بات غزل نما کے انتخاب کی ہو رہی تھی۔ میرے ادبی ایقان کے بموجب غزل نما کے انتخاب کو دیکھ کر گمان ہی نہیں ہوتا بلکہ میری اس سوچ کو بھی تقویت پہنچتی ہے کہ غزل نما، مجموعہ اپنی افادیت اور جاذبیت کے پیش نظر عنقریب مقبولیت کی سندپالے گی اور جو تجربہ کی صورت میں نظر آ رہی ہے کیا عجب کل نئی صنف کا تمغہ پا کر ادب میں اپنی جگہ بنا لے گی۔ کوہسارکے نمبر اور دوسری کتاب سے یقینا اس صنف کواستحکام ملے گا۔

انتخابی غزل نما میں جن شعرا کی تخلیقات شامل مجموعہ ہیں یہ سارے فنکار شاہد جمیل کے شانہ بہ شانہ چلنے پر ہی آمادہ نہیں ہیں بلکہ انہوں نے غزل نما سے اپنی ٹھوس وابستگی کا اظہار بھی کیا ہے۔ قصہ کوتاہ شعرا نے غزل نما میں جس قبیل کے اشعار کی تخلیق کی ہے اس سے غزل نما کی ایک خوشگوار فضا کی سازگاری اور ہمواری میں خاصہ معاون ثابت ہو گی۔

مجموعہ غزل نما میں میر کارواں شاہد جمیل کے کارواں میں صابر عظیم آبادی، نذیر فتح پوری، فراز حامدی، رؤف خیر، محبوب راہی، محمد نورالدین موج، قمر برتر، یوسف جمال، منصور عمر، عثمان قیصر، شاہد نعیم، امام اعظم، شمیم انجم وارثی، رفیق شاکر، مجیب الرحمن بزمی، حفیظ انجم کریم نگری، مشرف حسین محضر، نینا جوگن، قدرپاروی، م، اشرف، سید عبیداللہ ہاشمی، زیڈ انور سہسرامی، مناظر عاشق ہرگانوی جیسے قدرآوراورمستندشعراشامل ہیں، قاری جنہیں طرح دار اور تازہ گو شعرا کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ ان کے ہمہ گیر شعری تشخص سے انکار ممکن نہیں۔ ان میں سے کسی کی بھی غزل نما پر نظر ڈالی جائے ہر غزل نما سے ان کی مکمل اور پربسیط انفرادیت جھلکتی ہے۔ ان کے شعروں میں متحیرانہ تجسس کی ایسی روشنی ہے، جسے پر کیف اور اچھوتے انداز اور خوش کن خیالوں سے بھی معنون کرسکتے ہیں۔ جہاں اس میں حیات کے مختلف النوع تضادات دیکھنے کو ملتے ہیں تواس کے نشیب و فراز سے ادراک بھی حاصل ہوتا ہے۔ زمانے کے گرم وسردجھونکے بھی محسوس ہوتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے سے عار نہیں کہ غزل نما کے شعرا قطعی مثبت سوچ کے مظہر کیوں نہ ہوں، سچائی یہ ہے کہ ان کے برمحل الفاظ نہایت مربوط، مستحکم اور شعوری احساسات سے آراستہ اس طرح توانا ہوتے ہیں کہ معنویت مختلف اشکال میں آ کر دلوں کو فرحت بخشتی ہے۔ ان اشکال میں اسراروتجسس بھی ہے، بھی ہے نئی جہتوں کی رونمائی اور سروروانبساط کی تجسیم کاری کا نمونہ بھی ہے جس سے ان کی شاعری کشمکش، زہر خندی اور چشم گریاں جیسی کیفیات کے پہلو بہ پہلو کرب و اذیت کے حصارسے باہر نکلنے کی جدوجہد پر زورِ احتجاج کی صورت لیے سامنے آتی ہے۔ شعروں میں جذبوں کی کیفیت کی عکاسی ہے تو فی زمانہ عشق سے فراریت کے باوجود حسن و عشق کے میلان کی ایک پر تکلف فضا کا منظر بھی ملتا ہے۔ ایک ایسا سحرطراز منظر جو عصر حاضر کی پرفسوں روشنی سے اکتساب کے ساتھ میں اور ہم کے امتیاز کو بھی مٹاتا ہے۔ گویا تمام تر علامتیں، پیکر تراشیاں اور استعارے ان کے اشعار کے خاصہ ہیں۔ یہ سارے لوازمات و تلازمے ان کے شعروں میں ان زاویوں سے منعکس ہیں کہ قاری اپنے آپ کواسی جہان کاباسی سمجھنے پر  مجبور اور ان کی بے پناہ شاعرانہ قوتوں کا قائل ہو کر رہ جاتا ہے۔ تقریباً ہر شاعر نے اپنی فطری اور انوکھی سوچ کوجس قبیل سے صفحہ قرطاس پر رقم کیا ہے اس سے پڑھنے والے پر دم بخود کی سی کیفیت ہی نہیں چھا جاتی بلکہ زندگی کی شگفتگی اور تازگی کا احساس بھی جنم لیتا ہے۔ خارج اور داخل کی گہرائیوں میں ڈوبنے اور ابھرنے کے لطف سے بھی دوچار ہوتا ہے۔ کثیف فضاؤں سے بچنے کی ترغیب اور ظاہری و باطنی منزل کی جانب سے سفر کرنے کا تقاضا بھی سامنے آتا ہے۔ جا بجا شعروں میں فن شناسی کے جواہر بکھرے دکھائی دیتے ہیں ان شعروں میں مثبت فکروں کی دلنواز شعاعیں ذہن و دل میں نقش کالحجر بن جاتی ہیں۔ غزل نما کی جاذبیت اور سحرآفریں آغاز کو دیکھتے ہوئے اس کے روشن امکانات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ غزل نما شعری ادب میں نئی صنف کی حیثیت سے اضافے کی موجب ہی نہیں بنے گی بلکہ اپنے نقوش بھی مرتب کرے گی نیز شاہد جمیل اور ان کے ہمدوش شعرا کو بھی آنے والی نسل فخرسے یاد کرے گی!

٭٭٭

 

غزل نما کے بارے میں

               ڈاکٹر فراز حامدی

’’غزل نما کے موجد شاہد جمیل ہیں، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی نئی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ اس تحقیقی کارنامے کے لئے لاریب مناظر عاشق صاحب دادوستائش کے مستحق ہیں۔ مناظر صاحب کی اس تحقیق سے پہلا فائدہ تو یہ ہوا کہ ظہیر صاحب کی جھوٹی دعویداری کا سلسلہ کچھ برسوں میں ہی ختم ہو گیا ورنہ یہ ڈرامہ نہ جانے کہاں جا کر ختم ہوتا اور یہ بھی ممکن تھا کہ یہ ختم ہی نہیں ہوتا نیز ظہیر غازی پوری اختراع کار کے عہدے پر ہمیشہ کے لئے براجمان ہو جاتے۔ دوسرافائدہ یہ ہوا کہ جو قلمکار اس کہانی کوسننے اور سنانے میں اپنا وقت ضائع کر رہے تھے اب وہ بھی اپنے ادبی و اشاعتی کاموں میں مصروف ہو جائیں گے، ظاہر ہے کہ اس دوران ان قلمکاروں کاجو بھی ادبی نقصان ہوا اس کے ذمہ دار ظہیر غازی پوری ہی ہیں۔ خاکسار نے چند سال قبل اپنے ایک مضمون میں اس بات کی وضاحت بھی کی تھی کہ ظہیر غازی پوری کا دعویٰ چھوٹا ہے وہ شاعر ہیں لیکن ان میں اختراعی صلاحیتیں نہیں ہیں :

’’یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے‘‘

میں ظہیر صاحب کی اس اداکاری سے بھی واقف ہوں کہ پہلے تو وہ نئی اختراع اور اختراع کار سے اتفاق کرتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد مخالف ہو جاتے ہیں، مظہر امام کی آزاد غزل، اور خاکسار فراز حامدی کی دوہا غزل کے ساتھ بھی ان کا رویہ کچھ ایسا ہی رہا۔ جبکہ ان دونوں اصناف کے فروغ میں وہ پیش پیش رہے ہیں مجھے انہوں نے چھ عدد دوہا غزلیں بھیجی تھی ان کی دو دوہا غزلیں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے عالمی انتخاب بہ عنوان دوہا غزل، دوہا گیت میں بھی شامل اشاعت ہیں۔ اسی طرح علامہ انور شیخ مرحوم کی اختراعات سے بھی ظہیر غازی پوری کو الرجی رہی ہے جبکہ بہت سے شعرا نے انور شیخ کی اختراعات کوپسند کیا ہے اور ان کی تقلید کی ہے اس بات کے ثبوت میں قارئین ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی صاحب کے مندرجہ ذیل انتخاب کی ورق گردانی کرسکتے ہیں :

 تکونی کا انتخاب، کہمن کا انتخاب، غزالہ کا انتخاب۔

اور قارئین انور شیخ صاحب کی نئی اصناف سے متعلق خاکسار کی مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی متعدد شعرا کی غزلہ ردیفی دو آتشہ قافیائی دو آتشہ اور تلخی کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

قرار دل، انور شیخ کی نئی اصناف کا انتخاب،

خمارِ دل، انور شیخ کی نئی اصناف کا انتخاب،

متذکرہ بالا اختراعات ایجادات جنہیں عالمی سطح پر قبولیت اور مقبولیت حاصل ہے لیکن ظہیر غازی پوری نہ ان اختراعات سے خوش ہیں اور نہ ان کے اختراع کاروں سے ایک اختراع کاردوسرے اختراع کار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کی اختراع سے خوش ہوتا ہے اور اگر اختراع اسے پسند ہے تو اس کی تقلید بھی کرتا ہے۔ اگر ظہیر غازی پوری میں اختراعی صلاحیت ہوتی تو وہ بھی دوسروں کی اختراعات سے خوش ہوتے۔ اور ان کی مقبولیت اور فروغ کے لئے حتی المقدور کوشاں رہتے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ظہیر غازی پوری یکسوئی کے ساتھ شعر و ادب کی خدمت کرتے رہیں اور اختراع کار بننے کی کوشش میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ خاکسارنہ کاظم نائطی کو اختراع کارتسلیم کرتا ہے اور نہ ظہیر غازی پوری کو ہاں شاہد جمیل کو اختراع کار ضرور تسلیم کرتا ہے چونکہ وہ اختراعی ذہن کے مالک ہیں۔ اگر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اپنی تحقیق سے یہ ثابت بھی کرتے ہیں تومیں ان تینوں حضرات میں سے شاہد جمیل کو ہی غزل نما کا موجدتسلیم کرتا ہوں کیونکہ میں ان کی ادبی صلاحیتوں سے واقف ہوں۔ شاہد جمیل صاحب سے میری ملاقات رانچی کے ادبی اجلاس میں ہو چکی ہے، ہم دو دن ساتھ رہے اس دوران ادبی فلمی سماجی، مذہبی اور طنزیہ و مزاحیہ موضوعات پر گفت  وشنید رہی بحث و مباحثۃ رہے، ہنسی مذاق بھی ہوا۔ میں ان دو دنوں میں ان کی خدا داد صلاحیتوں کا معترف ہو چکا تھا۔ واقعی وہ ایک ذہین و فطین شخصیت ہیں، ہنس مکھ انسان ہیں اور ان میں اختراعی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں، ایسا ہی انسان غزل نما کا موجد ہوسکتا ہے اور مجھے یہاں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی صاحب کی نئی تحقیق سے ہٹ کر شاہد جمیل کو غزل نما کا موجد کہنے اور لکھنے میں خوشی ہو رہی ہے۔

کچھ جدت پسندشعرانے اصناف سخن کی قدیم ہئیت میں قطع و برید کر کے اختراعات شروع کیں تاکہ وہ اپنے آپ کو ایک اختراع کار کی حیثیت سے دنیائے شعروسخن میں مستحکم کرسکیں اور کچھ جدت پسند شعرا نے دوسری زبانوں کی اصناف کو اردو میں منتقل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور مقبول بنانے کی قابل ذکر مساعی کیں۔ مرحوم انور شیخ نے اپنی جدت طراز اور اختراع کار طبیعت سے مغلوب ہو کر تقریباً۱۲۔ ۱۳نئی اصناف سے اردو دنیا کوروشناس کرایا اور ان اصناف کی ایجاد کاسہرا اپنے سرباندھا ان کی اصناف کی تقلید بھی خوب ہوئی ان کی اصناف کے انتخاب بھی شائع ہوئے اور آج بھی انور شیخ صاحب کی ایجاد کردہ شعری اصناف اردو شعرا کے اظہار میں شامل ہیں۔ خاکسار بھی ایک اختراع کار کی حیثیت سے اردو دنیا میں اپنی شناخت قائم کر چکا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میری اختراعات شعرا کے اظہار میں شامل ہیں اور کچھ اختراعات سے متعلق انتخاب اور مقلدین کے شعری مجموعے بھی اشاعت پذیر ہو کر مقبول خاص و عام ہو چکے ہیں، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔ بے شک ہئیت میں تبدیلیاں ہوسکتی ہیں اور شعرا اپنی مرضی کے مطابق جادوسخن میں گامزن ہو کر سنگ میل قائم کرنے میں آزاد با اختیار ہیں لیکن شعرا حضرات پابند غزل پرہی حملہ کرنا کیوں پسند کرتے ہیں۔ نئی اصناف بھی تو ایجاد کی جا سکتی ہیں۔ جیسے، تلخی، کہمن، تکونی، یا پھر اردو شاعری میں متعدد اصناف موجود ہیں ان پر بھی تو حملہ کیا جا سکتا ہے۔

الغرض شاہد جمیل باقاعدہ طور پر غزل نما کے موجدتسلیم کیے جا چکے ہیں، یہاں اس بات کو واضح کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ شاہد جمیل صرف شاعر و ناقد ہی نہیں ایک آفیسر بھی ہیں اور دفتر کی مصروفیات صرف شاہد جمیل کوہی نہیں بلکہ دیگر آفیسر شعرا اور بزنس مین شعرا کو بھی شعر و ادب سے لا پرواہ بنا دیتی ہیں اور اس لاپرواہی کے سبب شاہد جمیل اپنی اختراع کی نہ پبلسٹی کرسکے اور نہ ایک اختراع کار ہونے کا وقت پر دعویٰ ہی پیش کرسکے۔ ان کی اس لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کے سبب جھوٹے دعویدار اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے سچ اور جھوٹ کے درمیانی فاصلے کوہی ختم کر دیا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہماری ادبی دنیا میں جاگتے ذہن کے قلمکار بھی موجود ہیں۔ جن میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا نام سرِ فہرست نظر آتا ہے۔ یہ ان کی ادب نوازی اور اخلاص مندی ہے کہ انہوں نے اس گتھی کو سلجھایا اور مستحق اختراع کار کو اس کا حق دلوایا۔

اب شاہد جمیل کی غزل نما نے اپنے پر پرواز نکال لیے ہیں۔ بہت سے شعرا اسے مقبول عام بنانے میں کمربستہ ہو گئے ہیں۔ محترم مناظر عاشق ہرگانوی نے غزل نما کے عنوان سے ۲۹شعرا کے کلام پر مشتمل مجموعہ بھی ۲۰۱۰میں شائع کر دیا ہے، جس میں بعض شعرا کی غزل نما فکر و فن کے لحاظ سے بڑی قابل قدر ہیں، غزل میں ہر دو مصرعے ہم وزن ہوتے ہیں لیکن غزل نما کے ہر شعر میں ڈیڑھ مصرعہ ہوتا ہے۔ یہ غزل کی طرح کسی بھی بحر میں لکھی جا سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے پہلے مصرع میں جتنے ارکان ہوں گے بقیہ آدھے مصرع میں اس کے آدھے ارکان ہونا ضروری ہے یعنی غزل نما کا پہلا مصرع اگردس ارکان میں کہا گیا ہے تو بقیہ آدھا مصرع پانچ ارکان میں نظم کیا جاتا ہے۔ یعنی پابند غزل میں جو مفہوم دو بھر پور مصرعوں میں ادا کیا جاتا ہے اسے ڈیڑھ مصرعے میں ادا کر کے یہ ہئیت متعین کی گئی ہے۔ راقم الحروف فراز حامدی کی نظر میں یہ تبدیلی قابل قبول ہے۔

٭٭٭

 

غزل نما کی اولیت کامسئلہ

               نذیر فتح پوری

میں بنیادی طور پر تحقیق میں کم دلچسپی اس لیے رکھتا ہوں کہ یہ بہت چھان بین کا کام ہے، لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیونکہ تحقیق ہی ایک ایسا عمل ہے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتا ہے۔ اگر تحقیق کا فن رائج نہ ہوتا تو نہ جانے کتنے مفروضے ادب میں اسناد کے درجے کو پہنچ چکے ہوتے کوئی بھی دعویٰ بغیر دلیل کے راسخ نہیں مانا جائے گا ایک بات دوسری بات کو رد کرتی ہے اسے مان لینے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔

جہاں تک غزل نما میں اولیت کی بات ہے، ظہیر غازی پوری نے جب اس میدان میں اپنے نام کی اولیت کا اعلان کیا تب تک دوسری تحقیق سے پردہ نہیں اٹھا تھا۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے سب سے پہلے ۱۹۷۹مین کہی کاظم نائطی کی غزل نما کے حوالے سے جو ہفت روزہ اتحاد مدارس میں شائع ہوئی تھی۔ کاظم نائطی کو غزل نما کا بنیاد گزار قرار دیا، جبکہ ظہیر غازی پوری کی غزل نما۱۹۸۱میں روزنامہ سالانہ بنگلور میں شائع ہوئی۔

کاظم نائطی کی یہ تخلیق غزل نما ہی کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ ابھی یہ مسئلہ زیر بحث ہی تھا کہ اس پردے سے ایک اور پردہ اٹھا اور اتفاق سے یہ  پردہ بھی مناظر عاشق ہرگانوی کی تجسس پسندطبیعت ہی نے اٹھایا وہ خود رقمطراز ہیں :

لیکن ۲۰۰۹میں میری تحقیق نے نئی کروٹ لی ہے۔ غزل نما کے موجد کاظم نائطی اب نہیں رہے ہیں بلکہ شاہد جمیل کے سریہ سہرابندھتا ہے، اپنی سابقہ تحقیق کو اپنی نئی تحقیق کے حوالے سے دریافت کیا جن کی پہلی غزل نما یکم اکتوبر۱۹۷۳میں شائع ہوئی تھی اور دوسری غزل نما بھی ۲۴؍ نومبر۱۹۷۳کے غنچہ میں شائع ہوئی، اس پوری تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ ظہیر غازی پوری کی غزل نما سے سات سا ل پہلے شاہد جمیل نے اس میدان میں اپنا علم لہرا دیا  تھا، جس پر روشنی ڈالتے ہوئے مناظر صاحب رقطراز ہیں کہ:

شاہد جمیل کی ذہانت نے ۱۹۷۳میں غزل نما کی نئی دنیا تخلیق کی تھی اور اردو شاعری کی اختراعی ارضی سطح کو چھونے اور برتنے کی گل افشانی کی تھی۔ صوفی منش مزاج کی وجہ سے انہوں نے نہ تو دعویٰ کیا اور نہ ہی مشتہر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اتنا دعوے کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ غزل نما کے موجد شاہد جمیل ہیں۔ مناظر صاحب کا دعویٰ چونکہ دلیل کے ساتھ ہے اس لیے اسے رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہونا چاہئے۔

حیدر قریشی ہندوستان میں اردو ماہیے کا پہلا شاعر آزادی کے بعد راقم الحروف کو  قرار دیتے ہیں لیکن کچھ احباب اس پر خاموش ہیں۔ ممکن ہے ان کے پاس دوسرے ثبوت موجود ہوں۔ یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ آزاد غزل پرسب سے پہلے تضمین راقم الحروف نے لکھی تھی، لیکن میں نے شاہد جمیل ہی کی طرح نہ اس کا دعویٰ کیا نہ اس کی تشہیر کرنے کی کوشش کی۔ لہذا یہ سہرامیرے سرنہیں بندھا اس آزاد غزل کے بانی مظہر امام بھی ہمیشہ خاموش رہے۔ وہ مجھے اہمیت نہیں دینا چاہتے تھے۔ اب مناظر صاحب کو دیکھ لیں۔ انہوں نے اپنے تئیں کبھی اولیت کاسہرا اپنے سرنہیں باندھا وہ دوسروں کے لئے ہی ثبوت فراہم کرنے میں منہمک رہے حالانکہ ادب میں بہت سے کام ایسے ہیں جو مناظر سے پہلے کسی نے نہیں کیے لیکن اس سے مناظر کی ادبی حیثیت نہ مجروح ہوتی ہے نہ ان کے مقام و مرتبے پر کوئی منفی اثر پڑتا ہے۔

آنجہانی کالی داس گپتا رضا نے فرمایا تھا، اگر تحقیق آپ کے خلاف بھی جائے تو اسے تسلیم کر لینا چاہئے۔ اس لیے دوسری تحقیق کے رونما ہونے تک مناظر صاحب کی تحقیق کو قبول کرتے ہوئے شاہد جمیل کی غزل نما کا بنیادگزارتسلیم کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں۔

ہمارے یہاں مشکل یہ کہ سچائی کے اظہار سے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں دوستیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ روابط میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ نہ ہم متن پر توجہ دیتے ہیں نہ مواد پر، حالانکہ تحقیق کی عمارت حوالوں مثالوں ہی کی بنیاد پر ایستادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ کو کسی کی بات غلط لگتی ہے تو حوالہ ڈھونڈ کر اسے غلط ثابت کریں اوراس کے بعد اگر کوئی نہ مانے تو یہ ادبی بد دیانتی ہے۔ ہم کو چاہئے کہ ہم تخریب سے تعمیر کا پہلو نکالیں نہ کہ تعمیر ہی کو تخریب کے حوالے کر دیں۔ اس سے ادب کا نقصان ہو گا۔ سچائی پر قدغن لگے گی۔ کھوکھلی دعوے بازی کو فروغ ملے گا۔ ایک تخلیق کار کی شناخت اس کی تخلیقی توانائی اور فکر کی پرواز سے ہو گی۔ ہم چاہیں لاکھ بنیاد گزاری کا تاج اپنے ہاتھ سے اپنے سرپررکھیں لیکن آپ کے حوالے اورجوازمستندنہیں تو اہل نظر آپ کو ناقابل اعتنا ہی سمجھیں گے۔ ایسے میں آپ کسی کونہ دوش دیں نہ اپنا دشمن تصور کریں۔

٭٭٭

 

غزل نما: وجود کی واضح شناخت

               رفیق شاہین

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی محتاجِ تعارف نہیں ہیں، کون نہیں جانتا کہ آپ کے نام کا اجالا مہر نصف النہار کی طرح نہ صرف بر صغیر ہند و پاک کو بلکہ پوری ادبی دنیا کو تاباں و درخشاں کیے ہوئے ہے۔ ادبی سطح پر آپ ایک کثیر الجہات قلمکار و فنکار اور صحافی کی حیثیت سے تحقیق، تنقید، مضمون نگاری، افسانہ نگاری، شاعری اور صحافت میں اپنے ہنر مندانہ و فنکارانہ جمال  و جلال اور کمال کامسحورکن مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ نے فرمایا ہے کہ ہمارے تخلیق کاروں کو تخلیقی عمل کے شانہ بہ شانہ جودتِ طبع کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادب میں تجربات کاسلسلہ جاری رکھنا چاہئے تاکہ باغِ ادب وسعت پذیر ہوتا رہا ہے۔ ایلیٹ کے اس منشور یا نظریے کا احترام کرتے ہوئے اور اس کی حمایت میں سرگرم عمل ہو کر تجربات و ایجادات کے استقبال، ان کی سرپرستی اور ان کے احیا و ترویج میں جس خلوص اور جوش و جذبے کا مظاہرہ مناظر عاشق ہرگانوی نے کیا ہے اس کی مثال کرۂ ارض پر کہیں نہیں ملتی۔ انہوں نے گروپ بندی، طبقاتی امتیاز، تعصب و جانبداری اور سود و زیاں کو بالائے طاق رکھ کروہ چاہے انور شیخ کے کہمن، تکونی اور نغمانہ ہوں، چاہے ڈاکٹر فراز حامدی کے اردو گیت، دوہا حمد، دوہا نعت، دوہا گیت، دوہا غزلوں، دوہا نظموں، دوہا قطعوں، دوہا سانٹ، دوہا ترائیلے اور دوہا مثلث جیسے تجربات ہوں یا ڈاکٹر اسلم حنیف اور شارق عدیل کی توشیحی غزل ہو، چاہے رفیق شاہین کی گیت نما غزل، ماہیا نظم اور دوہا بحر میں غزل نما ہو یا رؤف خیر کے یک سطری افسانے ہوں یا کوثر صدیقی کی ثلاثی ہو انہوں نے ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نئے تجربات کونہ صرف خوش آمدید کہہ کر کہسار، کی زینت بنایا ہے بلکہ ان کو فروغ دلانے اورمستحکم کرنے میں حکمت عملی، تدبر اور ذاتی رسوخ سے بھی کام لیا ہے نیز اس کام میں بقدر ضرورت رقم خرچ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ان کی مرتبہ اور مقبول خاص و عام کتاب دوہا غزلیں، دوہا گیت، کی اشاعت و اجرا کا بنیادی مقصد ڈاکٹر فراز حامدی کے تجربات کو مقبول عام کرانا تھا اور اس میں ان کی کامیابی و ظفریابی اظہر من الشمس ہے۔ آج عالمگیرسطح پر دنیا بھر کی ادبی بستیوں میں شد و مداور ذوق و شوق سے دوہا غزلیں اور دوہا گیت لکھے اور پسندکیے جا رہے ہیں اس کے کریڈٹ میں مناظر صاحب کا بھی برابر کا حصہ ہے تجربات سے ان کا عشق توسرحدوں کی قید و بند کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، انہوں نے اردو ماہیاکو مستحکم کرنے اور اسے مقبول عام بنانے کے لئے عالمی ماہیا تحریک کے قافلہ سالار حیدر قریشی، جرمنی کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے تحقیقی تنقیدی اور تخلیقی ہرسطح پران کی معاونت پر ان کی معاونت کی اور اسی طرح جاپان سے مستعار لی گئی صنف ہائیکواورسین ریو کے فروغ میں بھی ان کی کد و کاوش اور جد و جہد شامل رہی ہے۔ ان کی اب تک شائع ہوئی ایک سوپینتالیس تصنیفات و تالیفات میں بہت سی کتابیں ایسے ہی تجربات پر مشتمل ہیں۔

ان کی حال ہی میں عالمی منظر نامے پر طشت از بام ہونے والی کتاب غزل نما بھی نئے تجربے غزل نما کو دور تک پہنچانے اور بطور نئی صنف اسے شرف قبولیت سے سرفرازکرنے کی ایک اچھی کوشش ہے۔ سوصفحات کو محیط، رنگین سرورق اور روشن کتابت و طباعت سے آراستہ اس مجلد کتاب میں انتیس شعرائے کرام کی کئی کئی غزل نما مع ان کے مختصر تعارفی خاکے اور ان کی تصاویر کے ساتھ شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

کتاب کا دیباچہ بعنوان، گفتنی، مناظر عاشق کے اپنے زور قلم کا نتیجہ ہے جس میں انہوں نے غزل نما کی ایجاد پر دعویداری، ہیئت وساخت اور اس کی افادیت کے حوالے سے خاصی بحث و تمحیص سے کام لے کر غزل نما کے سارے خارجی و داخلی اور متنی و فنی پہلوؤں کو کھول کر بیان کر دیا ہے۔ دراصل غزل نما  کا تصور ڈاکٹر مظہر امام کی ایجاد آزاد غزل کے بطن سے معرض وجود میں آیا ہے۔ ۱۹۸۷میں جبکہ مظہر امام سری نگر کشمیر دوردرشن کے ڈائریکٹر تھے، میں نے وہیں ان کے چیمبر میں انہیں سے صحیح طور پر آزاد غزل کوسمجھ کر آزاد غزلیں کہیں اور چھپوائی تھیں، آزاد غزل بھی ردیف قافیے کی پابند تھی اور فرق بس اتنا تھا کہ کم  و بیش ارکان کی مددسے ہر شعر کے مصاریع قامت میں چھوٹے بڑے کر دیے جاتے تھے۔ چھوٹے تو کتنے چھوٹے اور بڑے تو کتنے بڑے اس کی کوئی قید نہ تھی ظہیر غازی پوری کو آزاد غزل طریقہ ڈھونڈ نکالا کہ جس بحر میں غزل کا مطلع ہواسی بحر میں ہم وزن مصاریع اور ردیف قافیے کی پابندی کے ساتھ اس طرح شعر کہے جائیں کہ ہر شعر کے ارکان مختلف الوزن ہوں۔ اس طرح تمام شعر اپنے قامت میں چھوٹے بڑے بھی ہو جائیں گے اور آزاد غزل کے اشعار کی انفرادیت و شناخت بھی برقرار رہے گی۔ لہذا اسی تناظر میں غزل تخلیق کر کے اپنے اس تجربے کو تجرباتی آزاد غزل کے زیر عنوان ظہیر غازی پوری نے ۱۹۸۱میں سالاربنگلورکے ادبی ایڈیشن میں شائع کرایا تھا۔

لیکن اس سے بھی قبل مدراس کے شاعر کاظم نائطی مختلف الوزن اشعار کا مجموعہ غزل۱۹۷۹میں لکھ چکے تھے جسے انہوں نے اسی سال مدراس کے ہفت روزہ اتحاد میں غزل نما کے زیر عنوان شائع بھی کرایا تھا، جس کے چند اشعار بطور مشتے نمونہ ازخروارے درج ذیل ہیں :

بڑی وحشتیں تھیں صدائیں بہت تھیں

مرے گرد و پیش ایسی ہنگامہ آرا فضائیں بہت تھیں

برا لفظ نوکِ زباں پر جو لاتے تامل تھا تم کو

مجھے کوسنے کو دعائیں بہت تھیں !

نگاہوں کی پوروں پہ آبی بدن کی جو لاشیں پڑی ہیں

انہیں بس کسی کی دہکتی نظر کی چتائیں بہت تھیں

مخالف کئی لوگ تھے ہم سے کاظم

مگر گفتگو میں انائیں بہت تھیں

کاظم نائطی کی غزل نما سے صاف ظاہر ہے کہ یہ مظہرامام کی تقلید میں کہی گئی جوسوفیصدی آزاد غزل ہے اور صرف اس کا نام تبدیل کیا گیا ہے لہذا ظہیر غازی پوری کے تجربے کواس سے گزند پہنچنے کاتوسوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر مختلف وجوہات کی بنا پر ظہیر غازی پوری کے اس تجربے کوپاکستان کے پروفیسرسجادمرزا اورشاہین فصیح ربانی نے ظہیر صاحب کےاس خیال سے کہ غزل نما میں اشعار کے چھوٹے بڑے ہونے کے باوجود شعر کی وحدت کی وجہ سے غزل کا تاثر برقرار رہتا ہے، اتفاق نہیں کیا اور ان کے اس تجربے کو ناقابل قبول قرار دے دیا۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی ناوک حمزہ پوری، ڈاکٹر اسلم حنیف، سعیدرحمانی، فیضی سنبل پوری اور شارق عدیل نے بھی ان کے اس تجربے کو اچھی نظرسے نہیں دیکھا اور مناظر عاشق ہرگانوی جنہوں نے اب تک ہر تجربہ کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے تجربات کا کھلے دل سے خیرمقدم کیا ہے، مگر اس بار قطعاً غیر متوقع طور پر انہوں نے بھی ظہیر صاحب کی غزل کے تجربے کو بیک جنبش قلم مستردکر دیا ہے اور ان کے بجائے شاہد جمیل کے غزل نما کے تجربے سے نہ صرف اتفاق کیا ہے بلکہ اس کے پھلنے اور پھولنے کا معقول بندوبست بھی کر دیا ہے۔

چونکہ شاہد جمیل کے ڈیڑھ شعری غزل نما کا تجربہ ظہیر غازی پوری کے تجربے سے سات آٹھ سال پہلے ۱۹۷۳میں بجنور کے ایک ہفتہ وار غنچہ میں بعنوان غزل نما شائع ہو چکا ہے اس لئے لیے غزل کے موجد کہلانے کا اعزاز بھی خود بخود شاہد جمیل کی جھولی میں پہنچ جاتا ہے ظہیر غازی پوری کے تجربے کے استردادکی ارباب نقد و نظر کی نگاہ میں درج ذیل وجوہات ہیں :چونکہ غزلیہ آہنگ چھوٹے بڑے اشعار کی موجودگی میں غزل نما میں بھی مفقود ہے اس لیے آزاد غزل کو آئینہ دکھانا مضحکہ خیز ہے۔ ایک ہی بحر کے کم و بیش ارکان میں کہی جانے والی غزلوں سے اشعار لے کر  اور انہیں یکجا کر کے جس طرح آزاد غزل کاشعر اپنے بڑے چھوٹے مصاریع کے سبب اپنی پہچان آپ ہے اسی طرح شاہد جمیل کا ڈیڑھ مصرعی اشعار پر مبنی غزل نما ان تمام الجھنوں سے پاک وصاف بھی ہے اور اپنے وجود کی واضح شناخت بھی رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے بہت سے شعرا شاہد جمیل کی تقلید میں غزل نما تخلیق کرنے کے لئے بہ رغبت و رضا اور خوشی میدان عمل میں اتر آئے اور بقدر تعداد ان تخلیقات کا ذخیرہ کافی اکٹھا ہو گیا جسے مناظر عاشق صاحب کی مرتبہ کتاب غزل نما میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ غزل نما کی نہ تو بحر مخصوص ہے اور نہ وزن مصرع ثانی مصرع اولیٰ کا نصف ہونا چاہئے علاوہ ازیں یہ بات بھی ذہن نشیں کرنا ضروری ہے کہ اس کے سارے مصرع اولیٰ ہم وزن ہونے چاہئیں اور اسی طرح نصف مصرعے کی شکل میں سبھی ثانی مصاریع کا بھی آپس میں ہم وزن ہونا ضروری ہے۔ یعنی اگر چار مفاعیل کا مصرع اولیٰ ہو تو مصرع ثانی دو مفاعیل کے وزن پر ہونا چاہئے اس کی مثال میں اپنی ہی غزل نماسے پیش کر رہا ہوں :

زرکی تقسیم ایسی بدتر کیوں خاص بندے ہی صاحب زر کیوں

بھوکے ننگے ہمیں قلندر کیوں

جو کہ غاصب بھی لشکری بھی ہیں جو کہ جابر بھی عسکری بھی ہیں

وہی دنیا کے ہیں سکندرکیوں

ملی جن کو طاقت خدا ہو گئے ہیں

قضا ہو گئے ہیں

نہیں وہ جو شاہین ساون سہانے

بلا ہو گئے ہیں

میں نے دوہا پیکر غزل نما، کا تجربہ بھی کیا ہے جس کے سبھی اولیٰ مصاریع دوہے کے وزن اور۱۳۔ ۱۱۔ ۲۴ماتراؤں کے پاسدارہیں اور ثانی مصاریع حسبِ آہنگ مختصر ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:

ماتھے جھومر تھا مرے، تیرے سرپرتاج

خواب یہ دیکھا آج

اس فاقہ کش سے خفا، خفا نہ ہو کیوں رزق

کرے جو کام نہ کاج

رہنے بھی دے چارہ گر، پیار کاہے یہ روگ

جس کا نہیں علاج

غرضیکہ غزل نما میں ۲۹شعرائے کرام جن میں شاہد جمیل، ڈاکٹر امام اعظم ڈاکٹر محبوب راہی، ڈاکٹر نذیر فتح پوری، ڈاکٹر فراز حامدی، رؤف خیر اور صابر عظیم آبادی جیسے نابغوں اور رفیق شاکر شارق عدیل، شمیم انجم وارثی، احسان ثاقب، نینا جوگن، قمر برتر، حفیظ انجم کریم نگری اور مشرف حسین محضرجیسے مشاہیر شامل ہیں اور جس طرح انہوں نے اپنی اپنی غزل نما میں فکرواحساس کی جمالیات کے رنگ بکھیرے ہیں اور بصری درد و کرب کے نقوش کو ابھارا ہے اس کے پیش نظر غزل نما کے پھولنے اور پھلنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔

٭٭٭

 

غزل نما کے تعلق سے

               پروفیسرمحمد محفوظ الحسن

غزل نما نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ غزل نہیں غزل جیسی ہی کوئی چیز ہے غزل میں اسے ایک تجربہ کہہ سکتے ہیں یہ تجربہ کامیابی کی کس منزل تک پہنچے گا اس کے بارے میں قطعی طور پر ابھی کوئی فیصلہ صادر کرنا ممکن نہیں کہ ادب میں کسی صنف کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ ممکن بھی نہیں۔ ایک زمانے میں نثری نظم نام کی غیر معنویت کے باوجود پر ناک بھنوں چڑھانے والوں کی کمی نہیں تھی مگر نثری نظم اردو ادب میں چل ہی نہیں نکلی دوڑ رہی ہے کیا عجب کہ وہ زمانہ بھی آ جائے جب غزل نما بھی دوڑنے لگے مختلف رسالوں میں غزل نما کی اشاعت اور پھر غزل نما کے ایک مجموعہ کی اشاعت جس میں تقریباً ڈھائی درجن فنکاروں کی تخلیقات شامل ہیں، یہ اشارہ کر رہی ہے کہ ہونہار بروا کے ہوت چکنے پات، مناظر عاشق ہرگانوی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے غزل نما کا مجموعہ مرتب کر کے اردو والوں کے سامنے بقول ان کے سمت نما کا کام کیا ہے جس سے تحرک پیدا ہو گا، روشنی منعکس ہو گی اور اردو کو ایک نیا افق ملے گا۔

یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غزل نما ہے کیا؟مناظر صاحب نے غزل نما کے پہلے انتخاب میں غزل نا کی تعریف اور اس کے وزن و بحر پر تفصیلی گفتگو کی ہے میں عروض سے اتنا واقف نہیں مگر اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر مناظر نے بہت کھوج بین کے بعد ان بحروں اور زحافات کی نشاندہی کی ہے جن سے غزل نمام یں اثر، روانی، نغمگی اور دلکشی باقی رہے اور کچھ ارکان کی دوسرے مصرعے میں کمی کے با وصف یہ صنف کانوں کو نہ صرف بھلی لگے بلکہ ذہن و شعور کو بھی جلا بخشے غزل نما کی بحر و وزن کے تعلق سے مناظر عاشق کی یہ بات قابل توجہ ہے شاہد جمیل کی غزل نما کوسامنے رکھتے ہوئے انہوں نے یہ باتیں تحریر کی ہیں، اس سے غزل نما کے صحیح خدوخال کی وضاحت بھی ہوتی ہے اور آزاد غزل اور غزل نما کا فرق بھی واضح ہو جاتا ہے۔ لکھتے ہیں :دونوں مصرعوں کے ارکان میں کمی بیشی اس طرح کی گئی ہے کہ پہلا مصرع جتنے ارکان میں ہے تیسر، پانچواں ساتواں، نواں، گیارہواں وغیرہ بھی اتنے ہی ارکان میں ہوں گے اور دوسرامصرع جتنے رکن میں ہے چوتھا، چھٹا، اٹھواں، دسواں، بارہواں وغیرہ مصرعے بھی اتنے ہی رکن میں ہوں گے باقی سبھی لوازم ایک جیسے ہوں گے یعنی مناسبت اور مطابقت کے باوجود ایک باریک فرق ہے اس مساوی الوزن ارکان کی نا برابری کا نام غزل نما رکھا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب سے پہلے غزل نما کس نے لکھی۔ اس سلسلے میں ظہیر غازی پوری کا نام لیا گیا ہے، لیکن مناظر عاشق ہرگانوی کی یہ تحقیق ہے کہ سب سے پہلا شاعر جس نے غزل نما ر توجہ صرف کی اور اپنی اختراعی قوت کا مظاہرہ کیا وہ شاہد جمیل ہیں، جنہوں نے بچوں کے ایک رسالہ، غنچہ، بجنور، یوپی میں یکم اکتوبر۱۹۷۳میں ایک تخلیقی تجربہ کیا اور شائع کرایا۔ پھر۲۴نومبر۱۹۷۳کے شمارے میں دوسری تخلیق بھی بچوں کی خاطر انہوں نے شائع کرائی۔

تحقیق کا کارواں دواں ہے۔ اگر یہ رک جائے تو ادب کی سمت و رفتار بھی تھم جائے گی۔ نیز ادبی تحقیق میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ اس میں کبھی اس کے کبھی اس کے سرسہرابندھتاہی رہتا ہے۔ اس میں نہ تو برا ماننے کی کوئی بات ہے اور نہ ہی کسی کا برا چاہنے کی کوئی بات مثال کے طور پر ایک زمانے تک اردو کے پہلے سانٹ نویس ہونے کاسہرا اختر شیرانی کے سرتھا۔ میں نے اپنی تحقیق سے یہ سہرا اتارکرعظیم الدین احمد کے سرباندھ دیا۔ مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ اردو کے پہلے سانٹ نویس عظیم الدین ہیں مگر پہلا مطبوعہ سانٹ اختر شیرانی کاہی ہے بعد میں ڈاکٹر حنیف کیفی نے میری تحقیق کومزیدمستحکم کیا اور یہ شواہد کے ساتھ ثابت کر دیا کہ اردو کے پہلے سانٹ نویس عظیم الدین ہی ہیں اور پہلا مطبوعہ سانٹ بھی ان کاہی ہے ممکن ہے کل کو کوئی اور کسی دوسرے کو ثابت کر دے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟

مگر یہاں بھی دو حضرات کے تعلق سے گفتگو کی گئی ہے، دونوں کے بارے میں محققین و ناقدین نے لکھا ہے کہ ظہیر غازی پوری ہوں یا کاظم نائطی، دونوں کی تخلیقات کا تعلق آزاد غزل سے ہے اور غزل کی یہ آزادی بھی بغیرکسی پابندی کے ہے، جبکہ غزل نما آزادی کے ساتھ پابندی کی بھی حامل ہونی چاہئے۔ پروفیسر سجادمرزانے صریر فروری۱۹۹۹میں ظہیر غازی پوری کی اختراع کو فردیات سے تعبیر کیا ہے اور شاہین فصیح ربانی نے ان کے تجربے کو مختلف الاوزان اشعار کا نام دیا ہے اور سہ ماہی ترویج کے سلسلہ نمبر۳کے حوالے سے فیضی سنبل پوری، اسلم حنیف اور ناوک حمزہ پوری کے خیالات کو حوالہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کی شاعری کو غزل زن یا ابیات کا نام دیا جا سکتا ہے۔ مناظر عاشق ہرگانوی بھی اس کے تخلیقی جواز پرسوالیہ نشان لگاتے ہیں، اس کی وجہ اس کا مختلف الاوزان ہونا ہی ہے کاظم نائطی کے تعلق سے مناظر عاشق ہرگانوی کے حوالے سے علیم صبا نویدی نے خود ہی تحریر کیا ہے کہ انہوں نے جب مختلف شعرا بشمول یوسف جمال، فرحت قادری، کرامت علی کرامت، خالد رحیم نے آزاد غزل کی تحریک چلائی تھی تو اس زمانے میں کاظم نائطی نے آزاد غزل کو غزل نما کا نام دے کر اتحاد، میں شائع کرایا تھا۔ یہ بات ۱۹۷۹کے آس پاس کی ہے۔ ظاہر ہے کہ آزاد غزل کو غزل نما کے نام سے شائع ہونے سے دونوں حضرات کے نام اس کے اختراع کار کی حیثیت کے لئے جانے لگے۔ لیکن ظہیر نے اس سلسلے میں ۱۹۸۱میں تجربہ کیا جبکہ نائطی نے۱۹۷۹میں، مگر دونوں تجربے غزل میں قسم کی آزادی برت کر کیے گئے جبکہ شاہد جمیل نے ۱۹۷۳میں جو تجربہ کیا وہ پوری طرح غزل کے دائرے میں رہ کر ہی کیا۔ ہاں ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں ارکان کی کمی کی مگر ایسا نہیں کیا کہ دوسرے مصرعے میں ایک، چوتھے میں تین، چھٹے میں دو رکن کم کیے بلکہ ہر شعر کادوسرا مصرعہ مساوی الوزن رکھا۔ یہ تجربہ قابل احترام و اعتبار تھا اور اپنے آپ میں مذکورہ تجربوں سے اولیت کا درجہ رکھتا تھا لہذا شاہد جمیل کو اولیت دی گئی، تو برا کیا ہے۔ ظہیر غازی پوری یا کاظم نائطی کے تجربوں کو بنیاد بنا کر کوئی اصول بھی مرتب نہیں کیا جا سکتا، جبکہ شاہد جمیل کے اختراعی تجربے کو بنیاد بنا کر ایک مسلم اصول بنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے بھی شاہد جمیل اولیت کے حقدار ہیں شاہد جمیل کے تجربے کو بنیاد بنا کر غزل نما کی تخلیق کا جو اصول واضح ہوتا ہے وہ مناظر عاشق کے لفظوں میں یوں ہے:غزل نما کے تمام اشعار غزل ہی کی طرح ایک ہی بحر میں لکھے جاتے ہیں جن میں ردیف و قافیہ ہوتے ہیں۔

غزل نما کے شعر کا مصرع ثانی اوزان، ارکان کے اعتبارسے مصرع اول کا نصف ہوتا ہے جس میں ردیف و قافیہ ہوتے ہیں۔ یہ مصرع خود بھی ایک بحر میں ہوتا ہے مثلاً شعر کے پہلے مصرع میں اگر فاعلاتن چار بار آیا ہے تودوسرے مصرعے میں دو بار آئے گا۔ اسی طرح اگر مصرع اول میں مفعولن آٹھ بار آیا ہے تو مصرع ثانی میں چار بار آئے گا۔ یہ التزام غزل نما کے تمام اشعار میں یکساں ہو گا۔ غزل نما کے لئے سالم بحروں میں طبع آزمائی افضل ہے خواہ وہ مفرد بحر ہو یا مرکب بحر ہو۔ جس طرح تخلیق کے بطن سے تنقیدی احوال جنم لیتے ہیں اسی طرح کسی صنف کا اختراع کار ہی اپنی اختراعی تخلیق کے ذریعہ اس صنف کی پہچان قائم کراتا ہے۔ سوشاہد جمیل نے یہ کام کر دکھایا ہے لہذا اردو کے پہلے غزل نما نگار ہونے کاسہرا ان کے سرپربندھنازیب دیتا ہے۔ شاہد جمیل سے مناظر عاشق ہرگانوی تک جن تقریباً ڈھائی درجن شعرا کا کلام کتاب، غزل نما میں جمع کیا گیا ہے اس کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر ایمانداری اور خلوص کے ساتھ، شہرت اور نام آوری کے جذبے سے دور رہ کر کوئی تجربہ کیا جاتا ہے تواسے قبولیت نصیب ہوتی ہے۔ شاہد جمیل اور مناظر عاشق ہرگانوی دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ایک نے تجربہ کیا دوسرے نے اس تجربے پر پڑی وقت کی گرد کو جھاڑ کر ایک سمت دکھائی میں غزل نما کی اس پیش کش کو خوش آمدید کہتا ہوں اس توقع کے ساتھ کہ اس سے ادب میں نئے تجربات کی راہیں مزید ہموار ہوں گی اور زبان و ادب کے خزانے میں بیش بہا موتیوں کا اضافہ ہوتا رہے گا۔ غزل نما کا یہ انتخاب یقیناسمت نما ہے۔

٭٭٭

 

غزل نما کے پہلے انتخاب پر تبصرہ

               رؤف خیر

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی تقریباً ڈیڑھ سوکتابوں کے مصنف، مؤلف، مرتب ہیں، تقریباً ہر ادبی وسماجی موضوع پر ڈاکٹر نے لکھا ہے اور مدلل لکھا ہے اور کھل کر لکھا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ نئے اذہان و اصناف کی پذیرائی بھی کی ہے۔ بعض نئی اصناف پر احباب سے تخلیقات لکھوا کر کتابی شکل دی ہے۔ جیسے تکونیاں، جس میں دو مختلف کردار پیش کیے جاتے ہیں اور تیسرا کردار بہ حیثیت مبصر ان دونوں کا حتمی جائزہ لیتا ہے۔ تکونیاں کے نام سے ڈاکٹر صاحب نے ایک کتاب ہی مرتب کر دی۔ اسی طرح اب غزل نما کی ماہئیت کا تعین کیا اور اس کی اولیت کاسہراشاہد جمیل کے سرباندھا اور دلائل و براہین سے ثابت کیا کہ غزل نما کے موجد ہونے کا اعزاز نوجوان شاعر شاہد جمیل کو جاتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے اس کا تجربہ کیا اور ان کی غزل نماسب سے پہلے ہفتے وار غنچہ بجنور کے یکم اکتوبر ۱۹۷۳کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ بچوں کے لئے لکھی ہوئی ان کی غزل نمادلچسپ توہے ہی ان کے لئے اک نئی صنف سخن کی بنیاد بھی بن گئی

نہ ہنسنے ہنسانے میں دل لگ رہا ہے نہ پڑھنے پڑھانے کو جی چاہتا ہے۔

فقط مار کھانے کو جی چاہتا ہے

بچے کی نفسیات کا خاکہ ایک اور غزل نما میں شاہد جمیل نے بڑے دلچسپ انداز میں کھینچا ہے، جو ۲۴؍ نومبر ۱۹۷۳کے غنچہ بجنور، ہی میں شائع ہوئی تھی۔

نہ ادھر جائے ہے نہ ادھر جائے ہے کیا کہوں ذہن کس طرح ڈر جائے ہے

صورت مولوی جب نظر آئے ہے

غزل نما دراصل ڈیڑھ شعر پر مشتمل صنف ہے اگر پہلا مصرع آٹھ سالم ارکان پر مبنی ہو تو دوسرامصرع اس کا عین آدھا یعنی چار ارکان کا ہونا چاہئے اسی طرح اگر پہلا مصرع چھ ارکان کاہو گا تو دوسرامصرع اس کا آدھا یعنی تین ارکان کاہو گا۔ یہی غزل نما کی خصوصیت ہے اگر ایک غزل کا پورا ایک شعر مساوی ارکان پر مشتمل ہو تو وہ تو غزل ہے آزاد غزل میں قافیہ و ردیف کی پابندی تو کی جاتی ہے مگر مصرعوں میں یکسانیت نہیں پائی جاتی اس کے برخلاف غزل نما کا ہر  شعر ڈیڑھ مصرعے کا ہوتا ہے۔ یہی اس کی خصوصیت بھی ہے، خوبی بھی ہے اور اس کی غنائیت میں ایک طرح سے ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ غزل نما کوروشناس ادب کروانے کے لئے ڈاکٹر مناظر عاشق نے سنجیدہ اقدام کیا اور کئی شاعروں سےڈیڑھ مصرعوں کی پابندی والی غزل نما لکھوائی اور پوری ایک کتاب مرتب کر ڈالی۔ ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں میں ناچیز رؤف خیر کے ساتھ ساتھ صابر عظیم آبادی، نذیر فتح پوری فراز حامدی، محبوب راہی، نورالدین موج قمر برتر، یوسف، جمال منصور عمر، عثمان قیصر، شاہد نعیم، حفیظ انجم، کراچی و کریم نگر، امام اعظم،  احسان ثاقب، شارق عدیل، عبیداللہ ساگر، مظفرحسن عالی، شمیم انجم وارثی، رفیق شاکر، مجیب الرحمن بزمی، مشرف حسین محضر، نینا جوگن، قدر پاروی، م اشرف، عبیداللہ ہاشمی، انور سہسرامی اور خود مناظر عاشق ہرگانوی اور شاہد جمیل ہیں۔ اس طرح ۲۹شعرا کی تخلیقات پر مشتمل اس کتاب غزل نما کو اپنی جامع و مانع تعریف کے ساتھ متعارف کرانے کاسہرڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے سرجاتا ہے۔ ایک نئی صنف کو اپنی جگہ بنانے میں کچھ دن ضرور لگتے ہیں مگر بنیاد تو قائم ہوئی، غنائیت میں مستزادکاسالطف پیدا ہوتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔

ہاں کہانی کو حقیقت کی طرح گردانتا ہوں

آپ کو پہچانتا ہوں

شاہد جمیل

اکثرسیرچمن سے یارو لوٹ کے جب گھر آیا ہوں

بس کانٹے لایا ہوں

ڈاکٹر فراز حامدی

پتا بھی ہے کچھ تم اپنے بچوں کو اپنا دشمن بنا رہے ہو

جو اپنی مرضی چلا رہے ہو

رؤف خیر

بات لب پہ نہ لاؤ بے مقصد کام کر کے دکھاؤ بے مقصد

وقت کو مت گنواؤ بے مقصد

نورالدین موج کراچی

تمہاری گلی ہے نشانہ ہمارا

ٹھکانہ ہمارا

شاہد نعیم، جدہ

مری پیاس میں ایک صحرا رواں ہے

سمندرکہاں ہے

ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی

ان سے ملنے کے سب سلسلے ہی گئے

وہ چلے ہی گئے

نینا جوگن

مثالیں بہت دی جا سکتی ہیں۔ کتاب کی خوبی یہ بھی ہے کہ ہر شاعر کی تصویر، تعارف اور دو دو غزل نما دے کراس صنف کومستحکم کرنے کے تن کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق کے ساتھ ساتھ ان کی آواز پر لبیک کہنے والے سارے ہمنوا قابل مبارکباد ہیں۔ نرالی دنیا پبلی کیشنر نے بڑے خوبصورت انداز میں چھاپنے کی اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے اسے سلیقے سے پیش کیا ہے۔

٭٭٭

 

غزل نما: شعرا کی توجہ کی متقاضی

               کوثر صدیقی

زندگی سے متعلق تمام شعبوں میں تجربوں کی اہمیت غیر متنازعہ ہے۔ ادب میں بھی نئے تجربے ہوتے رہنا ضروری ہیں۔ گزشتہ صدی میں تجربوں کے طفیل میں ہی اردو شاعری میں کئی اصناف مثلاً ماہیا، ہائیکو، سانٹ، آزاد نظم، آزاد غزل، تنکا، رینگا، سین ریوز، ترانہ وغیرہ معرض، وجود میں آئی جس سے اردو شاعری کا دامن وسیع ہوا۔ ان اصناف کو مقبولیت کے پیمانے سے ناپنا ایک علیحدہ بحث طلب موضوع ہے جس کا یہاں موقع نہیں ہے۔

جب کوئی نئی صنف وجود میں آنے کے بعد اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاتی ہے اور اہلِ نظر کو اپنی طرف توجہ کرتی ہے تو اس کاحسن و شباب دیکھ کر اس کے بہت سے ماں باپ پیدا ہو جاتے ہیں اور ان کی چھینا جھپٹی میں اصل خالق گم ہو جاتا ہے۔ تحقیق وجستجو کرنے والے اپنی تحقیق کی بنا پر اپنے چہیتوں کو خالق کا تاج پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

غزل نما کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس کے موجد ہونے کے دعویداروں میں سب سے پہلے ظہیر غازی پوری منظر پر آئے جن کی تجرباتی غزل پہلی باراگست ۱۹۸۱میں روزنامہ سالار بنگلور کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد مناظر عاشق ہرگانوی نے تمل ناڈو کے شاعر کا ظم نائطی کو غزل نما کا موجد قرار دیا۔ ان کی تحریر کے مطابق کاظم نائطی کی پہلی غزل نما ۱۹۷۹میں مدراس کے ہفت روزہ اخبار، اتحاد، میں شائع ہوئی۔ مذکورہ انکشاف سے ظہیر غازی پوری کا دعویٰ خارج ہونے کے بعد کاظم نائطی کے سرغزل نما کے موجد ہونے کاسہرابندھ گیا، لیکن ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی تازہ تحقیق نے کاظم نائطی کے سرسے یہ سہرا اتار کر شاہد جمیل کے سرباندھ دیا شاہد جمیل کے غزل نما کے موجد ہونے کے ثبوت میں ان کے ایک مقالے کا مندرجہ ذیل اقتباس پیش ہے۔

انہوں نے (شاہد جمیل نے )صحیح، منفرد اور متوازن ہئیت میں تجربہ کیا ہے۔ اس میں دونوں مصرعوں کے ارکان میں کمی بیشی اس طرح کی گئی ہے کہ پہلا مصرع جتنے ارکان میں ہے، تیسرا پانچواں، ساتواں، نواں، گیارہواں وغیرہ بھی اتنے ہی رکن میں ہوں گے اور دوسرا مصرعہ جتنے رکن میں ہے، چوتھا، چھٹا، آٹھواں، دسواں، بارہواں وغیرہ مصرعے بھی اتنے ہی رکن میں ہوں گے۔ باقی سب لوازم ایک جیسے ہوں گے۔ یعنی مناسبت اور مطابقت کے باوجود ایک باریک فرق ہے۔ ایسی مساوی الوزن ارکان کی نا برابری کا نام غزل نما رکھا گیا ہے جس کا پہلا تجربہ ہفتہ وار غنچہ بجنور کے یکم اکتوبر۱۹۷۳کے شمارے میں ملتا ہے۔ شاعر شاہد جمیل کا پہلا تجربہ دیکھے:

نہ ہنسنے ہنسانے میں دل لگ رہا ہے، نہ پڑھنے پڑھانے کو جی چاہتا ہے

فقط مار کھانے کو جی چاہتا ہے۔

ہر اک فرد میری خوشامد کرے اور اس طرح دل کومسرت ہو حاصل

وہ نخرے دکھانے کو جی چاہتا ہے!

یہ ہے میرے تھپڑ کی نغمہ سرائی، بہت دیر سے رو رہی ہے جو بے بی

کہ اب چپ کرانے کو جی چاہتا ہے

عذابِ سکونِ دل و جاں ہے یہ سب، کتابیں، قلم کاپیاں کہ انہیں اب

کہیں پھینک آنے کو جی چاہتا ہے

بصد شوق و اخلاص مجھ کو اے شاہد اسی وقت بھیا کے تھپڑ ملے ہیں

جب انگور کھانے کو جی چاہتا ہے،

گفتنی، مناظر عاشق ہرگانوی

شاہد جمیل کی ایک دوسری غزل نما جو۲۴اکتوبر۱۹۷۳کے غنچہ، بجنور میں شائع ہوئی ملاحظہ فرمایئے۔

نہ ادھر جائے ہے نہ ادھر جائے ہے، کیا کہوں ذہن کس طرح ڈر جائے ہے

صورتِ مولوی جب نظر آئے ہے

چوٹی باجی کی صاف، ابا کی جیب ختم اور بھیا کی ساری کتب حوض میں

میری سادہ طبیعت جب اٹھلائے ہے

گینڈا، کہہ چڑانے سے موٹے میاں گالیاں بکتے ہیں توبلاسے بکیں

اس طرح میرا جی تو بہل جائے ہے

آنکھیں دھنس دھنس گئیں چہرے زردا گئے، قہراس پر ہو یا رب ترا کہ بہت

امتحاں کا زمانہ ستم ڈھائے ہے

لوگ کہتے ہیں میں کچھ بھی پڑھتا نہیں، یہ غلط ہے میں پڑھتا ہوں ہر دم مگر

 علم ہی مجھ تک آنے سے گھبرائے ہے

کوئی مہماں کی آمد کی اڑتی خبر، گھر میں سب کے لئے ہے مصیبت اگر

تو مرے واسطے سرخوشی لائے ہے

قابلِ دید ہوتے ہیں شاہد بہت، مرغیوں کے بدن روشنائی ہیں تب

جب کبھی مجھ پہ فرزانگی چھائے ہے

شاہد جمیل کی مندرجہ بالا غزلیں چونکہ بچوں کے لئے ہیں اس لیے ان میں حسن و عشق یا عصری تقاضوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود چونکہ ہر شعر کافیس مضمون جدا ہے اور غزل کے ردیف و قافیہ کی پابندی ہے اس لیے یہ نظم کے ذیل میں ہرگز نہیں آتی۔ اس کے علاوہ ہر غزل کے پہلے مصرعے کے ارکان کی تعداد کے مقابلے میں دوسرے مصرعے میں ارکان کی تعداد آدھی ہے اس لیے یہ غزل نما کی تعریف میں ہی آتی ہے۔ غزل نما کو وجود میں آئے اگر چہ قریب چار دہے گزر چکے ہیں مگر ہمارے شعرا نے اس کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ کچھ اہل نظر نے اسے ایک صنف کے بطورتسلیم کیا ہے تو کچھ نے اسے سرے سے ہی خارج کر دیا۔ جن شعرا نے اسے تسلیم کیا انہوں نے بھی کسی ایک ہئیت پر اتفاق نہ کرتے ہوئے مختلف بحروں میں اشعار کہہ کران کے مصرعوں میں کمی بیشی کر کے غزل نما کہی ہیں، چند نمونے کے اشعار ملاحظہ ہوں :

کاظم نائطی:

بڑی وحشتیں تھیں صدائیں بہت تھیں، فعولن چار بار

مرے گردو پیش ایسی ہنگامہ آرا فضائیں بہت تھیں، فعولن چھ بار

برے لفظ نوک زباں پر جو لائے تامل تھا تم کو، فعولن چھ بار

مجھے کوسنے کو دعائیں بہت تھیں، فعولن چار بار

نگاہوں کے پوروں پہ آبی بدن کی جو لاشیں پڑی ہیں، فعولن چھ بار

انہیں بس کسی کی دہکتی نظر کی چتائیں بہت تھیں فعولن چار بار

مخاطب کئی لوگ تھے ہم سے کاظم، فعولن چار بار

مگر گفتگو میں انائیں بہت تھیں، فعولن چار بار

حنیف ترین:

زندگی ہے یہی، فاعلن دو بار

علم فن آگہی، فاعلن دو بار

رابطہ اخلاص کی بات اب کیا کریں، فاعلن چار بار

دوستی بھی نہ جب رہ گئی دوستی، فاعلن چار بار

غم انڈیلے ہیں قرطاس پر، فاعلن تین بار

لوگ سمجھے انہیں بھی خوشی، فاعلن چار بار

پتتے صحرا میں ہم آ گئے ہیں مگر، فاعلن چار بار

آگ اگلنے کوکیسے کہیں شاعری، فاعلن چار بار

آج گھر گھر میں ہے، فاعلن دو بار

شور، شر، دشمنی، فاعلن دو بار

ابتدا میں شاہد جمیل کی دو غزل نما کے جو نمونے پیش کیے گئے ہیں ان دونوں کے پہلے مصرعہ میں مساوی الوزن ارکان آٹھ بار اور دوسرے مصرعے میں چار بار استعمال کیے گئے ہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک غزل نما کے لئے یہ بہترین ہئیت ہے اور اس کو قبول کر کے شعرا کو غزل نما کی شناخت قائم کرنے کی کو کوشش کرنی چاہئے، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے بھی اسی ہئیت کو قبول کرنے کی سفارش کی ہے۔ ان کے ایک متعلقہ مقالے کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

یکساں/سالم/غیر تبدیل شدہ/ غیر مزاحف ارکان پر مبنی بحروں پر غزل نما کی تخلیق بہرحال افضل ہو گی۔ حالانکہ مزاحف  بحر میں پہلا مصرع لکھنے کی صورت میں قدرتی طور پر دوسرے مصرعے کے لئے پہلے مصرعے کا نصف دوئم حصہ خودبخودسامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ لہذا اصول نمبر دو کی پابندی نہ ہونے کے باوجود آہنگ کی روسے اسے جائز قرار دینے کی سفارش کی جاتی ہے۔ لیکن یہ مستحسن نہیں کیونکہ دوسرے مصرع کو بہر حال آزادانہ طور پر بحر میں ہونا چاہئے۔

بیشتر شعرا نے مذکورہ ہئیت میں ہی غزل نما کہی ہیں۔ نمونے ملاحظہ ہوں :

مناظر عاشق ہرگانوی

مری پیاس میں ایک صحرا رواں ہے

سمندرکہاں ہے

نذیر فتح پوری

، اکثرسیرچمن سے یارو لوٹ کے جب گھر آیا ہوں

بس کانٹے ہی لایا ہوں

محبوب راہی

 سربہ سجدہ دیر سے راہی پڑا جو رو رہا ہے

داغ عصیاں دھو رہا ہے

قمر برتر

اب جوانسان میں شیطان کا انداز ہے

کیساآغازہے

شاہد نعیم

عجیب آدمی تھا دل میں چپکے سے اتر گیا

نہ جانے پھر کدھر گیا؟

کوثر صدیقی

نشتردست گلچیں کے چلے ہوئے

پھول کیسے ہنسے

کوئی بھی صنف سخن ہو، جب تک سنجیدگی کے ساتھ اس پر توجہ نہ دی جائے، محنت اور ریاض کر کے اچھے سے اچھے فن پارے پیش کرنے کی کوشش نہ کی جائے، معتبر اور وقیع، تخلیق ممکن نہیں ہے غزل نما کو بھی مسند شعر و ادب پر متمکن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ شاعری میں نئی اصناف کو متعارف کرانے اور انہیں وقیع بنانے والے ہم خیال شعرا مع اساتذہ اس صنف کی طرف متوجہ ہوں

٭٭٭

 

غزل نما:تخلیقی جہت

               شارق عدیل

اردو شعر و ادب کی تمام تر وادیوں کی سیر کرتے ہوئے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنے قدموں کے نشانات بہت ہی روشن انداز میں ہر مقام پر ثبت کر دیے ہیں، اس بنا پر انہیں اردو کا ہر چھوٹا بڑا شاعر و ادیب جانتا ہے اور ان کی قدر کرتا ہے۔ ان کی مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور شعر و ادب کے پارکھی حضرات کی دادوتحسین کو بٹورتے ہوئے اعتبار کی سند بھی حاصل کر چکی ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کو تحقیق کی مشکل ترین راہوں میں سفر کرنے کا بھی شوق ہے اور وہ تحقیق کے صادق احساسات کو اپنے اندر ہمکتے ہوئے پوری طرح محسوس کرتے ہیں۔ اردو میں ماہیے کہ پیش روکی صورت میں ہمت رائے شرما کا نام بھی انہی کی تحقیق کا روشن پہلو ہے جس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔

غزل نما کا شعری تجربہ بھی ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ ظہیر غازی پوری غزل نما کے موجد ہونے کا دعویٰ پیش کرتے تھے جو ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی تحقیق کی روشنی میں باطل ہو گیا۔

آزاد غزل کا تجربہ جس وقت رد و قبول کی منزل سے گزر رہا تھا، کلاسیکل غزل کے شعرا غزل کی ہئیت میں کسی بھی تبدیلی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے مگر اس وقت بھی تجربہ پسنداحساسات کے حامل شعرا آزاد غزل کے تجربے کو تخلیقی اور صنفی اعتبار سے قبول کرنے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے اور ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی آزاد غزل کو ایک سمت عطا کرنے میں د و جان سے جٹے ہوئے تھے۔ چونکہ آزاد نظم کا تجربہ ان کے سامنے تھا جو کم و بیش ارکان کے ساتھ ردیف و قافیے کی قید سے آزاد تھا مگر آزاد غزل کے موجد مظہر امام نے آزاد غزل کو بحر کی پابند فضاسے تو آزاد کر دیا مگر ردیف و قوافی کی زنجیریں آزاد غزل کے لئے لازمی قرار دے دیں، جو غزل کے احساس سے یکسرعاری نہیں تھیں، مگر ظہیر غازی پوری کو غزل کے مساوی الوزن دونوں مصرعوں میں کم و بیش ارکان کی گھس پیٹھ کھٹکتی تھی اس لیے انہوں نے آزاد غزل کو اپنے انداز میں پیش کر دیا جس کے ہر شعر کا وزن الگ ہونے کے ساتھ ہم وزن تھا، ایسی صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ ظہیر غازی پوری آزاد غزل کی ہئیت سے متفق نہیں تھے اس لیے انہوں نے آزاد غزل کو ایک نیا رنگ و  آہنگ دینے کی کوشش کی جسے آزاد غزل کے موجد مظہر امام اور ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے ساتھ بہت سے شعرا نے قبول نہیں کیا۔ ظہیر غازی پوری کو یہ خیال تو بہت بعد میں آتا ہے کہ وہ اپنی آزاد غزل کوکسی نئی شعری صنف کے نام سے متعارف کروائیں۔ چونکہ ہئیتی اعتبارسے ان کی آزاد غزل مظہر امام کے تجربے سے مختلف تھی سوانہوں نے اپنی آزاد غزل کو غزل نما کے نئے شعری تجربے کے نام سے پیش کر دیا، خاکسار نے بھی ظہیر غازی پوری کی غزل نما کی ہئیت میں چند اشعار کہے جن کو یہاں پیش کرنا اس لئے ضروری خیال کرتا ہوں کہ ان کی شعری صنف کی ہئیت بھی پوری طرح سے سامنے آ جائے:

جو با ذوق تنہائیاں بزم احساس آکرسجائیں

تمنا یہی ہے کہ وہ میر و غالب کی غزلیں سنائیں

جسارت کروں جب بھی پرواز کی میں تو کر دے خدا یوں پروں کو منور

پشیماں ہوں مجھ سے سپاہی کے لشکر فضائیں زمیں تا فلک جگمگائیں

جو ہم زیست میں کر لیں احساسِ حق و مروت کو شامل

تو ممکن نہیں ہے عدو بھی ہمارے مقابل میں آئیں

ہمارے ہیں مژگاں پہ آنسو

سیدشب نہ کھولے جٹائیں

کہاں تک سیہ شب کے پھن کو کچلنے کی خاطر جیالے چراغوں میں اپنے لہو کو جلائیں

چلو آج دنیا کو شارق

دعا کے کرشمے دکھائیں

مگر غزل نما کے نام سے ان اشعار کو تخلیق کرتے ہوئے یہ خیال ذہن میں مسلسل گونجتا رہا کہ حسب ضرور ایک شعر تحریر کرنے کی صورت میں یہ جواز کیسے فراہم ہو گا کہ یہ غزل نما کا شعر ہے۔ جبکہ آزاد غزل کے ساتھ اکیلے شعر کی شناخت کا بھی کوئی بکھیڑا نہیں ہے اگر ظہیر غازی پوری اپنی تخلیق کردہ آزاد غزل کو غزل نما کا نام نہیں دیتے تو کوئی بحث ہی نہیں ہوتی مگر افسوس وہ اپنے ہی پیش کردہ تجربے کو کوئی مناسب نام نہیں دےسکے اور شاہد جمیل کی پیش کردہ غزل نما کے ماتھے سے نام کو نوچ کر اپنی آزاد غزل کے ماتھے پر جھومر کی طرح سجادیا، اور اس  پر غور کرنے کی زحمت کو آج تک گوارہ نہیں کیا کہ مانگے کے اجالوں کاسفر ہمیشہ سے مختصر ہی رہا ہے۔ غزل نما کے حوالے سے ڈاکٹر مناظر عاشق کی تحقیق روز روشن کی طرح ایک دم شفاف ہے۔ کسی بھی رخ سے کسی بھی قسم کی دھندکی ہلکی سی لکیر بھی کسی مقام پر نظر نہیں آتی ہے اور شاہد جمیل کی پیش کردہ غزل نما اپنی ہئیت اور اپنی شناخت کی سطح پر ڈٹے رہنے کا بھرپور جواز رکھتی ہے۔ آزاد غزل کے مصاریع کی قدر  و قامت طے نہیں ہے۔ ظہیر ظازی پوری کی آزاد غزل کے ارکان پابند صورت میں ہر شعر کے ساتھ کم و بیش ہو جاتے ہیں، مگر شاہد جمیل کی غزل نما مطلع سے مقطع تک اپنی ہئیت پر مضبوطی سے جمی رہتی ہے۔

میرے لبوں پرنا م اس کا جب روشن ہو جاتا ہے

دل درپن ہو جاتا ہے

شارق عدیل

غزل نما کی تخلیق کے لئے ایک وزن اور دیکھتے ہیں مفاعی لن، مفاعی لن، مفاعی لن، فعولن، اگر ہم اس وزن کو غزل نما کے دوسرے مصرعے میں پہلے اور آخری رکن کواستعمال کریں تو مزید عروضی اوزان غزل نما کی کاشت کے لئے حاضر ملیں گے جبکہ ظہیر غازی پوری کی آزاد غزل چند بحور کی راگنی الاپ کر خاموش ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا مرتب کردہ غزل نما کا پہلا انتخاب ۲۰۱۰میں کتابی صورت میں منظر عام پر آیا ہے۔ اس میں انتیس شعرا کا کلام شامل کیا گیا ہے، جن میں اردو شعر و ادب کے مشہور و معروف قلمکاروں کی تعداد خاصی نظر آتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شعرا نے شاہد جمیل کی غزل نما کو نئی شعری صنف کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔ غزل نما کے اول انتخاب سے چند شعرا کی کاوشیں ملاحظہ فرمائیں :

ہاں، کہانی کو حقیقت کی طرح گردانتا ہوں

آپ کو پہچانتا ہوں

شاہد جمیل

اکثرسیرچمن سے یارو لوٹ کے جب گھر آیا ہوں

بس کانٹے ہی لایا ہوں

نذیر فتح پوری

ہمیشہ تم ستاتے ہو یہ دلداری نہیں لگتی

مجھے یاری نہیں لگتی

ڈاکٹر فراز حامدی

پتا بھی ہے کچھ تم اپنے بچوں کو اپنا دشمن بنا رہے ہو

جو اپنی مرضی چلا رہے ہو

رؤف خیر

سربہ سجدہ دیر سے راہی جو پڑا رو رہا ہے

داغِ عصیاں دھو رہا ہے

ہم کو جانا نہیں تھا گئے ہی نہیں

وہ بلاتے رہے

ڈاکٹر امام اعظم

پھر قلم کودیں نئے لہجوں کی اک زندہ بشارت

آدمی سہماہواہے

وصالِ یار کاموسم بھی وہ جانے نہیں دیتے

شکارا ڈھونڈ لیتے ہیں

ڈاکٹرمظفرحسن عالی

آج کا انساں حقیقت میں بڑا کم ظرف ہے

اس کا مت احسان لو

حفیظ انجم کریم نگری

فضا آنگن کی بدلے گی در و دیوار مہکیں گے

مرے دلبر ذرا ٹھہرو

مشرف حسین محضر

غزل نما کے اول انتخاب میں شامل بقیہ شعرا کا بھی معتبر مقام حاصل ہے۔ یوسف جمال، منصور عمر، عثمان قیصر، حفیظ انجم، عبیداللہ ساگر، شمیم انجم وارثی، رفیق شاکر، مجیب الرحمن بزمی، نین اجوگن، قدر پاروی، م، اشرف، سیدعبیداللہ ہاشمی، زیڈ انور سہسرامی اور  ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ظاہر ہے اتنے سارے شعر ا تو ظہیر غازی پوری سے عناد نہیں رکھتے ہوں گے اس لیے انہیں چاہئے کہ وہ شاہد جمیل کی ایجاد کردہ شعری صنف غزل نما کی حقیقت کوتسلیم کریں اور اپنی شعری صنف جو کبھی آزاد غزل کے نام سے پیش کی گئی تھی اس کو غزل نما کے بجائے اب کسی اور نام سے متعارف کروائیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ مضمون کے آخر میں غزل نماسے حوالے سے ایک شعر پیش کرنے کے بعد اجازت چاہتے ہیں :

غزل نما کا ہر ایک مصرع یہ کہہ رہا ہے سخنوروں سے

غزل نماسے وفائیں کرنا

شارق عدیل

٭٭٭

 

غزل نما کی مقبولیت

               ڈاکٹرسید احمد قادری

اردو شاعری میں ایک طرف جہاں بہت ساری قدیم شعری اصناف معدوم ہو گئیں، وہیں دوسری طرف بہت ساری صنفیں اپنے تجرباتی دورسے گزرتی ہوئی مقبول ہو رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک صنف غزل نما ہے، جس کے شعری محاسن اور فنی محرکات پر بحث و مباحثہ کم ہوا، اس صنف کے موجد کون ہیں اس پر زیادہ بحث ہوئی بلکہ ایک اخبار میں تو یہ مباحثہ بہت ہی سطحی ہو کر سامنے آیا، ویسے اتنا تو طے ہے کہ جس غزل نما پر شاہد جمیل نے یکم اکتوبر۱۹۷۳کے ہفتہ وار غنچہ، بجنور میں یا کاظم نائطی نے ۱۹۷۹میں ہفتہ وار اخبار اتحاد مدراس میں اور ظہیر غازی پوری نے اگست ۱۹۸۱کے روزنامہ سالار بنگلور کے ادبی ایڈیشن میں طبع آزمائی کی، اس وقت تک اس صنف نے اپنی کوئی واضح شکل اختیار کی تھی اور نہ ہی اسے کوئی نام دیا گیا تھا، ان تینوں شعرا نے اپنے طور پر تجربہ کیا، بعد میں اس تجربہ میں لوگ دھیرے دھیرے شامل ہوتے گئے، ویسے اس صنف کا نام غزل نما کس نے دیا یہ امر بھی بڑی اہم ہے اور میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ غزل نما کوکس نے Coinکیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق غزل نما پر اب تک پچاسوں شعرا طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ شعری آہنگ، فکری آگہی اور فنی ندرت سے سجا نے سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے نتیجہ میں اب یہ غزل نما اپنے اس صنف میں شاہد جمیل کی جو پہلی کوشش ہے، اس میں جو بیان ہے وہ بہت ہی فطری ہے کچی عمر میں اسیی قسم کے احساسات اٹکھیلیاں کرتے ہیں، ہاں، ان میں جو پیکر عطا کیا گیا ہے، وہ بڑا اہم ہے اور جب فکری سطح پر بالیدگی آئی، تب وہ غزل نما میں ایسے اشعار پیش کرنے لگے:

اس کی یادیں، اس کی باتیں اس کے موسم، اس کے البم

درد کو گردانتا ہوں !

بڑی شہرتوں میں گھرے ہیں، سکندربنے پھ ررہے ہیں

میں جن کا مقدر رہا ہوں۔

ایسے بامعنی اور خوبصورت اشعار کہنے کے بعد شاہد جمیل اگر یہ کہتے ہیں کہ:

غزل میری ویسی نہیں ہے، مگر مجھ کو شاہد یقین ہے

میں بہتوں سے بہتر رہا ہوں !

اس شعر میں شاہد جمیل کی خوداعتمادی کا پرتو نمایاں ہے غزل نما کی جو ہئیت ہے اور اس کے جو فنی تقاضے ہیں، انہیں پورا کرتے ہوئے رؤف خیر نے اپنے ایک شعر میں انگریزی کے دو حروف AKشامل کر کے ایک نیا تجربہ پیش کیا ہے، اس تجربہ کو آنے والے دنوں میں قبول کیا جاتا ہے یا رد کیا جاتا ہے، یہ تو وقت بتائے گاویسے رؤف خیر کا یہ انداز اچھا لگا۔ رؤف خیر کہتے ہیں :

ہمیں سے ہم کو لڑا رہے ہو، ہمیں سے کم کو کٹا رہے ہو

یہ کس پہ اے کے چلا رہے ہو!

رؤف خیر کے اس شعر میں معنویت بھی ہے، فکر بھی ہے، اور فنی ادراک بھی ہے، اپنے ایک اور شعر میں رؤف خیر نے غزل نما کا تعارف یوں کرایا ہے

غزل نما ڈیڑھ مصرعوں پر ہی مشتمل ہے، یہ بات طئے ہے

یہ خیر تم جو سنارہے ہو!

غزل نما کو جو شرف قبولیت حامل ہو رہا ہے اور جس طرح شعرا اس صنف میں دلچسپی دکھا رہے ہیں، یقیناً اس دلچسپی کے اظہار میں شعرا اپنے اپنے طور پر اس میں حسن و معنی پیش کر رہے ہیں، یوسف جمال جسیے معروف شاعر جب اس صنف کو جلا بخش رہے ہیں، پھر اس کی شہرت اور مقبولیت کو کون روک سکتا ہے۔ یوسف جمال غزل نما کے موجد شاہد جمیل سے کچھ اس اندازسے مخاطب ہیں :

جمال تیری غزل نما پر جمیل شاہد نہ کہہ اٹھے کیوں

غزل نما کو نئی جلادی!

غزل نما کو جلا اور فروغ دینے میں اردو کے ہر دلعزیز شاعر و ادیب مناظر عاشق ہرگانوی کی کوششیں قابل قدر ہیں جس طرح سے انہوں نے اس صنف کو متعارف کرایا، اس کے ہیئتی تجربے اور اس کے فکری و فنی محاسن کو مختلف مقالوں میں بحث و مباحثہ کا موضوع بنایا، ساتھ ہی ساتھ شعرا کو غزل نما کہنے کی تحریک دی، یہ سب آنے والے دنوں میں ادبی تاریخ کا حصہ بنیں گے، انہوں نے غزل نما کے اپنے اشعار میں بھی ایک طرف جہاں اپنے احساسات و جذبات کی بھر پور ترجمانی کی ہے، وہیں وہ غزل نما کی اہمیت، انفرادیت خصوصیت اور آفاقیت کو واضح بھی کرتے ہیں، اس ضمن میں ان کے چند اشعار توجہ طلب ہیں :

غزل نما کو دیکھ یہ غزل سے کچھ الگ تو ہے

پھڑکتی ان کی رگ تو ہے!

غزل کی بھیڑ بھاڑ میں غزل نما پہ غور کر

میاں یہ کچھ الگ توہے!

ڈاکٹر ہرگانوی کے اسی طرح کے دوسرے اشعار بھی غزل نما کے سفر کو آگے بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل قریب میں غزل نما اپنی جملہ خصوصیات کی بنا پر اپنا ایک خاص مقام بنانے میں کامیاب ہو گی!

٭٭٭

 

 

غزل نما اور اس کا پہلا انتخاب

               محمد نورالدین موج

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے میدانِ شعروسخن میں نئے نئے جوہر دکھائے ہیں اور دکھا رہے ہیں۔ اس میدان کارزار میں ماہر فن بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ غزل نما اور اس کا پہلا انتخاب، میں سارے ہی قلمکار کامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔ مناظر صاحب کا مقصد صرف یہ ہے کہ اک زمانہ ہو گیا لوگ پرانی اور روایتی روش پر گامزن ہیں۔ کیوں نہ اب نئے راستے تلاش کیے جائیں اس تلاشِ راہِ نو کو قلمکاروں نے لبیک کہا اور شامل کارواں ہوتے گئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مناظر صاحب خود بھی نئی راہ کی تلاش میں ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے رہے ہیں۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ جو ماہر تیراک ہیں انہیں جھیل اور سمندرسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ آنکھیں بند کر کے بلا خوف و خطر کود پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر مناظر صاحب یقیناً خوش ہوں گے۔ یہی معاملہ ادھر بھی ہے۔ عبیداللہ ساگر، عثمان قیصر اور راقم الحروف اس بحر کے شناور ہیں۔ نئی نئی منزلیں اور راہیں ہم بھی تلاش کر رہے ہیں اور مناظر صاحب کی ڈگر کو اپنا بھی رہے ہیں، ان کاساتھ بھی دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر مناظر صاحب کتاب، غزل نما، میں ایک جگہ لکھتے ہیں :غزل نما کا یہ انتخاب سمت نما ہے جس سے تحرک پیدا ہو گا اور روشنی منعکس ہو گی اور اردو غزل کو ایک نیا افق ملے گا۔ لیکن معذرت کے ساتھ میرا خیال ہے کہ اردو غزل کی بجائے اردو غزل گو کو نیا افق ملے گا۔ ڈاکٹر صاحب سے درخواست ہے کہ میرے اس خیال پر نظر ثانی فرما لیجئے گا۔

غزل نما کی یہ تحریک نہایت کامیاب ہے۔ میں نے غزل نما کے بارے میں جو بات محسوس کی ہے وہ یہ کہ چند ایسے ارباب سخن کو میں جانتا ہوں جو غزلیں تو کہتے ہیں لیکن ان کے اشعار میں خیالات کی وسعت یا خاص پیغام نہیں ہوتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ غزل نما میں ان ہی شعرا کرام کے خیالات اور الفاظ کی بندش اور برجستگی اس قدر کھل کرسامنے آئی کہ بے ساختہ واہ واہ کہنا پڑا۔ اس سے یہ اندازہ ہو گیا کہ غزل کی بہ نسبت غزل نما میں وہ زیادہ کامیاب ہیں۔ اس کتاب میں شامل تھام شعرائے کرام کو مبارکباد دیتا ہوں کہ سبھوں نے بہت اچھے انداز اور کامیابی کے ساتھ غزل نما کو نبھایا ہے۔ مختصر یہ کہ غزل نما کی جو ترکیب ہے اس کے ثانی مصرعے میں بڑی برجستگی پائی گئی ہے جس سے غزل نما خوبصورت اورحسین غزل نما کے لئے مناظر صاحب نے جن بندشوں اور شرائط کا انتخاب کیا ہے وہ اس لحاظ سے درست ہے کہ بحرسالم ہی اس کے لئے مناسب ہے۔ کیونکہ ثانی مصرعے کے لئے انہیں ارکان میں سے انتخاب کرنا ہے۔ اگر مصرعہ مختلف الارکان میں ہو تو پھر یہ فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے کہ ثانی مصرعے کے کن ارکان کا انتخاب کرنا ہے۔ شاہد جمیل نے ایسی ہی بحروں کو اپنا کر موجد ہو نے کاسہرا اپنے سرباندھاہے۔ انہوں نے یقینا نئی روشنی دکھائی ہے۔

غزل نما کا انتخاب، میں صفحہ نمبر آٹھ پر مناظر عاشق نے آسان بحر کا انتخاب ہی نہیں کیا بلکہ اس کے ٹکڑے کر کے بھی واضح کر دیا ہے کہ جہاں تک چھوٹی بحر کا استعمال ہو زیادہ بہتر ہے۔

مری نظروں میں اس اعتبارسے غزل نما کو ایک انفرادیت حاصل ہے!جس طرح ہائیکو، ثلاثی، ماہیا، دوہا وغیرہ ایک صنف ہے، اسی طرح سے غزل نما بھی ایک صنف ہے۔ دیگر اصناف کی صورت اس صنف میں بھی حمد نعت یا منقبت کہی جا سکتی ہیں۔ میری نظروں میں صنف کی حیثیت پا جانے کے بعد قدرتی طور پر اس کا میدان وسیع ہو گیا ہے۔ لہذا میری رائے یہ ہے کہ غزل نما کی صنف میں حمد، نعت وغیرہ بھی کہی جائے اس کا آغاز میں نے خود حمد اور نعت سے کیا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ اس صنف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خنجر بہاری نے بھی ہزلیہ غزل نما، کہہ ڈالی۔ ایک شعر ملاحظہ فرمائے:

ذرا بھی دیر وہ کرتے نہیں تہمت لگاتے ہیں

حوالہ ڈھونڈ لیتے ہیں

غزل نما کے پہلے انتخاب میں تمام شعرا کامیاب ہیں، لیکن چند ایک کے اشعار بہت ہی خوب ہیں۔ مثلاً:

اس کی یادیں، اس کی باتیں، اس کے موسم، اس کے البم

درد کو گردانتا ہوں

شاہد جمیل

مڑ مڑ کے کیوں دیکھ رہے ہورستے میں

پیچھے کوئی اور ہے کیا

نذیر فتح پوری

چھاؤں گھنی دیتا ہوں آتے جاتے ہر اک راہی کو

میں برگدکاسایاہوں

نذیر فتح پوری

قلم سے گیت لکھتا ہوں لہو کی روشنائی سے

میں گل کاری نہیں کرتا

عجیب آدمی تھا، دل میں چپکے سے اتر گیا

نہ جانے پھر کدھر گیا؟

شاہد نعیم

وہ نماز یوں سے ہے دور دور

وہ امام ہے!

امام اعظم

مٹی کا  تھا ٹوٹ گیا گھر آنگن برباد ہوا

موسم کی نادانی میں

مظفرحسن عالی

پہیلی کی مانند ہے زندگی بھی

تو بوجھے تو دیکھوں

حفیظ انجم نگری

ایک دل تھا جو ہر دم مرے ساتھ تھا

آپ لے ہی گئے

نینا جوگن

قدم قدم پر دھوکا بزمی، چلنا  پھرنا مشکل ہے

کون کرے دلداری جی

مجیب الرحمن بزمی

جو جھوٹی شان کا آئینہ خود پہ ڈال لیتا ہے

سدابے چہرہ ہوتا ہے

م۔ اشرف

غزل کی بھیڑ بھاڑ میں غزل نما پہ غور کر

میاں یہ کچھ الگ توہے

مناظر عاشق ہرگانوی

غزل نما کی محبت کے سرشارجذبے میں رنگین و معطر پھول سجے نظر آتے ہیں۔ زبان اور بندش کی لہروں سے حقیقت اور سچائی کا کینوس وسعت رکھتا ہے اور اپنی ہی پہچان کی انفرادیت سے خیال اور احساس کو مہمیز ملتا ہے۔ اس صنفِ سخن کی کیفیت اور کسک سے ایسی ہی داستان مرتب ہوتی ہے، جس کے لیے موجد شاہد جمیل اور خصوصی طور پر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی مبارک کے مستحق ہیں۔

٭٭٭

 

غزل نما کے ہر شعر کا آہنگ ایک ہی رہتا ہے

               مشرف حسین محضر

غزل نما کے حوالے سے کئی مضامین نظر سے گزر چکے ہیں، جو ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور ظہیر غازی پوری کے ہیں، اگر غزل نما کے تجربے کو سامنے رکھ کر دونوں ارباب فکر و فن کے مضامین کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح صاف ہو جاتی ہے کہ ظہیر غازی پوری نے ہئیت کی تبدیلی کے ساتھ آزاد غزل ہی کہی تھی جسے بعد میں میں انہوں نے غزل نما کا نام دے دیا، مگر اس طرف انہوں نے قطعی توجہ نہیں کی کہ ان سے قبل شاہد جمیل غزل نما کا تجربہ کر چکے تھے جو ہئیت کے اعتبار سے ان کی غزل نما سے پوری طرح مختلف ہے، جسے مناظر عاشق ہرگانوی نے تحقیق کی روشنی میں مکمل طور پر ثابت کر دیا ہے۔

غزل کی بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے مصرعے سے لے کر آخری مصرع تک کسی ایک ہی عروضی وزن کی پابندی کرتی ہے اور اشعار ضرور معنوی اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ شاہد جمیل غزل کی اس مخصوص خوبی کو نظر انداز نہیں کرتے ہیں اور غزل نما کے اشعار کو ایک ہی آہنگ میں تخلیق کرتے ہیں، تاکہ غزل نما پوری طرح غزل کے تخلیقی جوہر سے بیگانہ روی کا شکار نہ ہونے پائے۔

غزل نما کے تجربے سے قبل مظہر امام کی آزاد غزل کا تجربہ کافی ہنگامہ خیز ثابت ہوا تھا۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور ڈاکٹر کرامت علی کرامت آزاد غزل کے تجربے کا خیر مقدم کر رہے تھے تو ڈاکٹر اسلم حنیف غزل کی ہئیت میں کسی بھی تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے، اور ان کے دلائل خاصے علمی نوعیت کے تھے۔ غزل کے حوالے سے ان کا اپنا موقف تھا اور وہ آج بھی اس پر قائم ہیں، ان کا خیال ہے کہ غزل کی پابند فضا کو برقرار رکھتے ہوئے اختراعی وزن میں تخلیق کردہ غزلیات پر  آزاد غزل کا عنوان ڈالا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کی آزاد غزل کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

وطن کی عظمتوں کو ہم بھی چاٹتے رہیں

اگر نگاہ میں گزشتہ واقعے رہیں

ابد سے جا ملے مرے سفرکی داستاں

ہمیشہ ضوفشاں خرد کے طاقچے رہیں

یہ غزل ان کی تجرباتی شعری اصناف پر مشتمل کتاب، اردو زبان و ادب کا پہلا منفرد شاعراسلم حنیف میں آزاد غزل، کے عنوان کے ساتھ ہی درج ہے۔ غزل کی پابند ہئیت کے مد نظر ڈاکٹراسلم حنیف کی بات پر غور کیے جانے سے قبل ہی آزاد غزل کا تجربہ اک شور میں تبدیل ہو چکا تھا، نئے قلمکار شعر و ادب کے ہر خطے میں تبدیلیوں کا مطالبہ کر رہے تھے اس لیے آزاد غزل کا تجربہ غزل کی ہئیت میں ایک خوشگوار تبدیلی کے طور پر محسوس کیا گیا اور قدیم و جدید شعری اقدار کے مبلغ شعرا کے درمیان ایک بحث کاسلسلہ چل پڑا۔ ظہیر غازی پوری بھی آزاد غزل کے تجربے سے متعلق کسی بھی بحث سے بے خبر نہیں تھے مگر وہ غزل کے شعر میں کم و بیش ارکان کے حامی بھی نہیں تھے اور یہی سبب تھا کہ انہوں نے اپنی تخلیق کردہ آزاد غزل کے ہر شعر کو پابند رکھا، مگر کم و بیش ارکان کے ساتھ۔ ڈاکٹر حنیف ترین نے غزل نما کا پہلا مجموعہ کشتِ غزل نما کے نام سے شائع کرایا جو ظہیر غازی پور ی کی غزل نما کی ہئیت میں تھا جس پر ر د عمل اختلاف اور اعتراف دونوں ہی صورتوں میں منظرِ عام پر آیا تھا، مگر اس بار بحث کی کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی جو شعرا کو خیال کے الگ الگ خیموں میں بانٹ دیتی ہے۔

ظہیر غازی پوری کی آزاد غزل کی ہئیت میں ڈاکٹر حنیف ترین کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں جنہیں غزل نما کا نام دیا گیا ہے:

تابش سے دن کی رات کا پیکر سجالگے

اندر ہو روشنی تو اندھیرا برا لگے

آنکھوں میں درد کا

دریا رکا لگے

یہ ہے ظہیر غازی پوری کی آزاد غزل کی ہئیت جس کو وہ غزل نما کہتے ہیں، آیئے اب ایک نظر مظہر امام کی آزاد غزل پر بھی ڈالتے چلیں تاکہ کوئی مغالطہ ہی نہ رہے۔

تو جو مائل بہ کرم تھا تو زمانے کا مجھے ہوش نہیں رہتا تھا

میں کہ خود سرتھا ترے زیر نگیں رہتا تھا

شاخ در شاخ گلابوں کی دھنک پھوٹی تھی

اک پرندہ تھا یہیں رہتا تھا

مظہر امام اور ظہیر غازی پوری کی آزاد غزلیات ہئیت کے اعتبارسے ایک دوسرے سے مختلف ہیں جبکہ ان دونوں کو آزاد غزل ہی کے عنوان سے پیش کیا گیا تھا، جبکہ شاہد جمیل کا شعری تجربہ غزل نما، آزاد غزل کے بعد ضرور وجود میں آیا تھا مگر آج تک اپنی ہئیت کے حصار میں رہ کر ہی اپنے ہونے پر اصرار کر  رہا ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

نہ ہنسنے ہنسانے میں دل لگ رہا ہے نہ پڑھنے پڑھانے کو جی چاہتا ہے

فقط مار کھانے کو جی چاہتا ہے

ہر اک فرد میری خوشامد کرے اور اس طرح دل کومسرت ہو حاصل

وہ نخرے دکھانے کو جی چاہتا ہے

شاہد جمیل کی تحریر کردہ غزل نما کے مطلع کا پہلا مصرع آٹھ فعولن پر تخلیق کیا گیا ہے اور دوسرا مصرع چار فعولن پر تخلیق کیا گیا ہے اور یہی التزام آخر تک برقرار رکھا گیا ہے جس کی بنا پر تمام اشعار کا آہنگ غزل نما کے مطلع کی پیروی کرتا ہوا نظر آتا ہے اور یہی بات شاہد جمیل کی غزل نما کو ذہنی طور پر قبول کرنے کے لئے شعرا کو آمادہ کرتی ہے جس کے ثبوت میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا مرتب کردہ غزل نما کا پہلا انتخاب پیش کیا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

غزل نما کا قضیہ

               ایم زیڈ خان

رسالہ، ادب ساز، دہلی کے ۲۰۱۰کے شمارہ ساحرلدھیانوی نمبر، میں گوشہ اختلاف کے کالم کے تحت ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے مضمون کے جواب میں ناوک حمزہ پوری کا غزل نما کے تعلق سے چھپا مضمون دیکھ کر اور پڑھ کر کچھ بہت زیادہ حیرت نہیں ہوئی کیونکہ مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ ناوک صاحب کچھ ایسا ہی کریں گے۔ لوگ ناموری کے لئے یا کہہ لیں خبروں میں وہ متنازعہ، بنے رہنے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں اور کسی حد تک جا سکتے ہیں تسلیمہ نسرین لجا اور سلمان رشدی سیٹنک ورسز کی مثالیں کچھ زیادہ پرانی نہیں ہوئی ہیں۔ صرف متنازعات کھڑا کر دینا ان کی فطرت میں شامل ہو جاتا ہے۔ شاید انہیں کسی قسم کی روحانی تسکین ملتی ہویا کچھ اور؟خدا جانے! اس سے قبل میں اپنی بات آگے بڑھاؤں، یہ عرض کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ اس قضئے کی شروعات کیسے اور کہا ہوئی۔ غزل نما کے تعلق سے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی صاحب کا ایک مضمون غزل نما کا موجد کون، پندار، پٹنہ، فاروقی تنظیم، رانچی، اور روزنامہ سہارا میں اپریل ۲۰۰۹میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد فاروقی تنظیم، رانچی میں مضمون کی حمایت اور مخالفت میں درجنوں خطوط شائع ہوئے۔ غزل نما کے موجد ہونے کا تاج چھنتا دیکھ ظہیر غازی پوری سے رہا نہ گیا اور انہوں نے اپنا ایک طویل مضمون، غزل نما اور مناظر عاشق کی غلط بیانیاں لگاتار تین قسطوں میں فاروقی تنظیم، رانچی میں چھپوا کر تنازعہ کو ہوا دے دی، کیونکہ اس مضمون میں ڈاکٹر مناظر عاشق کی ذات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس مضمون کے رد عمل میں راقم الحروف کا ایک مضمون، غزل نما اور ظہیر غازی پوری کی لن ترانیاں، فاروقی تنظیم، رانچی میں شائع ہوا تھا۔ جس میں ڈاکٹر مناظر کی اردو خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نئی تحقیق کے حوالے سے یہ بات کہنے کی کوشش کی گئی تھی کہ تکنیک، ہئیت ور فنی اعتبار سے شاہد جمیل کا۱۹۷۳میں کیا گیا لاشعور تجربہ ہی غزل نما ہے جو ظہیرغازی پوری کے شعوری تجربہ کے آٹھ سال قبل وجود میں آیا تھا، پھر اسے ظہیر صاحب کو قبول کرنے میں کیا حرج ہے؟کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظہیر صاحب کو مان لینا چاہئے تھا اور ایسی ہی گزارش ناوک صاحب نے بھی اپنے ایک مراسلہ کے توسط سے کی تھی بحث کا یہ طویل سلسلہ فاروقی تنظیم کے صفحات پر تقریباً تین ماہ تک چلا۔ اخلاقیات کی حدود کو پار کرتا مباحثے کا یہ سلسلہ مدیر فاروقی تنظیم کے ۱۶، جولائی ۲۰۰۹کے نوٹ، کے بعد تھم گیا، پھر اس لایعنی بحث کو فنون، اورنگ آباد گل بن لکھنو، اور دوسرے رسائل میں لے جایا گیا۔

ان سب کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ نہ غزل نما کے تعلق سے ایک معیاری کتاب ترتیب دی جائے تاکہ اس کتاب کی روشنی میں صحیح اور غلط کا فیصلہ ہوسکے اور میں نے جھارکھنڈ سے کتاب کی اشاعت کا اعلان فنون اپریل ۲۰۰۹کے شمارے میں ایک مراسلہ کے ذریعے کر دیا اور اسی تعلق سے میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے ادب ساز میں چھپے تحقیقی مضمون کے حوالے سے ہند و پاک کے دو درجن سے زائد مشاہیر ادب سے غزل نما کے بارے میں جامع مضمون کی گزارش کی تھی۔ میں نے مناظر کے مضمون کی زیراکس کاپی بھیج کر ناوک سے جامع مضمون بھیجنے کی گزارش کی تو مضمون اور میرا خط ملنے کے بعد ناوک نے مجھ سے فون پر رابطہ قائم کیا اور کہنے لگے، میں زوردار مضمون لکھوں گا جو آپ کی کتاب کو ہٹ کر دے گا، ان کی مراد متنازعہ مضمون سے تھی، کمپوزنگ کے لئے مبلغ ۳۰۰روپیہ بھیج دیں۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ آپ اپنا مضمون مجھے بھیج دیں، میں رانچی میں کمپوز کر ا لوں گا وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوئے اور اصرار کرتے رہے کہ بذریعہ منی آرڈر روپیہ ارسال کر دیں۔ ان کے اصرار پر میں نے روپیہ بھیج دیا۔ ڈیڑھ دو ماہ کے بعد مجھے بذریعہ ڈاک مضمون تحقیق یاسوکن ڈاہ، موصول ہوا، مضمون کے غیر ادبی عنوان کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ کس سمت جا رہا ہے۔ اس کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مضمون غزل نما کی بحث کو کنارہ کر ڈاکٹر مناظر عاشق کی شخصیت پرسوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ اس میں ادبی بحث کو غیر ادبی تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادب میں ذاتیات پر اس قسم کے رکیک حملے کی قطعی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ اس سے نقصان تو ادب ہی کا ہوتا ہے۔

بہرکیف میں مضمون پڑھ کر اپنے آپ کونہ روک سکا اور اپنے رد عمل کا برملا اظہار کرتے ہوئے ناوک صاحب سے فون پر کہا کہ آپ کا یہ مضمون ذاتیات کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں آیا۔ یہ تنازعہ پیدا کرے گا۔ اس مضمون میں غزل نما کے فنی اور تکنیکی پہلوؤں پر بحث نہیں کی گئی ہے۔ میرے تیکھے و تلخ رد عمل پر ناوک صاحب، ڈاکٹر ہرگانوی کی ذات کوسامنے رکھ کر بے جا دلیلوں سے مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کرنے لگے لیکن میں ان کی دلیلوں سے مطمئن نہیں ہوا۔ اور سب سے غیر اخلاقی حرکت جو ناوک صاحب سے سرزدہوئی ہے وہ یہ کہ انہوں نے اس مضمون کو ہندوستان کے کئی رسائل و جرائد  میں چھپنے کے لئے بھیج دیا۔ فاروقی تنظیم، میں بھی یہ مضمون بھیج گیا تھا پتہ نہیں، کیوں نہیں چھپ پایا؟

یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ناوک صاحب نے یہ مضمون میری گزارش پر میری زیر ترتیب کتاب کے لے لکھا تھا۔ اس کا معاوضہ بھی مجھ سے لیا تھا۔ اخلاقی طور پر اس مضمون پر میرا پہلا حق تھا۔ بنا میری اجازت اسے دوسری جگہوں پر چھپوانا وہ بھی کتاب کے منظر عام پر آنے سے قبل غیر اخلاقی فعل ہے۔ ناوک صاحب مضمون کے اخیر میں ایک تنبیہی نوٹ دے کر مجھ سے امید بھی کرتے ہیں، گمان ہے یہ مضمون آپ کی کتاب کی دلچسپی بڑھائے گا، کتاب چھپ جانے سے پہلے اس مضمون کی بھنک کسی کونہ لگے۔ اس مخصوص قسم کی بھنک پر انہوں نے کافی زور دیا ہے۔ بھنک کیا لگے انہوں نے خود ہی پورے ہندوستان بھر میں ڈھنڈورا پیٹ دیا۔ کتاب چھپنے سے قبل یہ تین جگہوں سے چھپ چکا ہے۔ اب کتاب کے لئے اس کی کیا افادیت ہے۔ ناوک صاحب ایک طرف مجھے اخلاقیات کادرس دیتے ہیں اور دوسری طرف خود اخلاقی قدروں کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں یہ کیسا اخلاقی سبق ہے؟اس مضمون کو کتاب چھپنے سے قبل کئی رسائل میں چھپوانے میں ناوک صاحب کی کیا مصلحت تھی محترم اتنی عجلت میں کیوں تھے۔ اتنا ڈھنڈورا پیٹنے کی کون سی ضرورت آن پڑی تھی؟لیکن مجھے لگتا ہے اس کے پیچھے ایک ہی مقصد کار فرما تھا کہ کسی طرح غزل نما کے بہانے مناظر صاحب کی شخصیت کو داغدار کیا جائے، اور انہیں نشانہ ہدف بنایا جائے۔ ان کی کردار کشی کران کی ادبی خدمات، ۱۴۰کتابیں، پر سوالیہ نشان کھڑا کیا جائے۔ لیکن عزیز محترم اس میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ مجھے اور دوسروں کو بھی جواب سے تعلق رکھتے ہیں یہ قطعی پسند نہیں ہو گا کہ ادب کے نام پر غیر ادبی بات پھیلائی جائے۔ کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالے جائیں، اخلاقی حدوں کو پار  کر غیر اخلاقی حرکتیں سرانجام دی جائیں۔ نام و نمود کی خاطر مذہب کاسہارا لے کرکسی کی دل آزاری کے سامان فراہم کیے جائیں اس سے احتراز بہتر ہے ورنہ ادب کی دنیا کیچڑوں سے لت پت ہو جائے گی۔

مثبت بحث کو راہ نہ دے کر ذاتیات کو گرفت میں لانا ارادہ قطعی غیر اخلاقی و غیر ادبی فعل ہے۔ ناوک صاحب جیسے بزرگ شاعر سے اس قسم کے غیر اخلاقی فعل کی امید نہیں تھی۔ ناوک صاحب ظہیر غازی پوری کی ہم نشینی کی اندھی حمایت میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ اخلاقی قدریں ہی پامال ہو گئیں۔ اصولوں اور اعلیٰ قدروں کی دہائی دینے والے ناوک صاحب سے صرف اتنی گزارش ہے کہ سماج کے لئے تعمیری ادب تخلیق کریں۔ بے ادبی بے اصولی کو ادب میں راہ نہ دیں ورنہ ادب کے گلشن میں تنازعات کے صرف خار ہی خار نظر آئیں گے۔

ناوک صاحب کی قلابازیاں ملاحظہ ہوں، وہ فاروقی تنظیم، رانچی کے ۱۶؍ جولائی ۲۰۰۵کے شمارہ میں چھپے ایک مراسلہ میں شاہد جمیل کے سرغزل نما کے موجد ہونے کاسہراباندھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لکھتے ہیں، اگر ظہیر غازی پوری سے قبل شاہد جمیل نے یہ ہئیت برتی اور اس کے مطبوعہ شواہد ان کے پاس ہیں تو سیدھے سیدھے ظہیر صاحب کو ان کی اولیت تسلیم کر لینی چاہیے، اب یہ ضرور ہے کہ مطبوعہ شواہد کی روشنی میں شاہد جمیل کو غزل نما کا بانی تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں، مدیر کے نوٹ کے بعد جھار کھنڈ میں یہ بحث بند کر دی جاتی ہے۔

مذکورہ کلمات سے، کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؟ناوک صاحب سوکن ڈاہ والے مضمون میں کیا فرما رہے ہیں اور ان کا یہ مراسلہ کیا کہہ رہا ہے؟اس میں حتمی رائے دے رہے ہیں کہ شاہد جمیل کو غزل نما کا موجد مان لینے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہیں پھر یہ قلابازیاں کیوں ؟کیوں شاہد جمیل کی غزل نما کو بچوں کی اچھل کودسے زیادہ نہیں مان رہے ہیں ؟اور کیوں خود کوسعی رائیگاں بنانے پر تلے ہیں ؟اپنے آپ میں سوکن ڈاہ کا جذبہ پیدا کر کے گرہن کیوں لگا رہے ہیں۔ غزل نما شاہد جمیل کے نام سے منسوب ہے جس سے فکر انگیز فضا قائم ہوتی رہے گی!

٭٭٭

 

غزل نما کا موجد کون؟

               آزاد گورواسپوری

شاعر، ادیب اور فنکار قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، جو اپنی تخلیقات کے ذریعے سماج کی بہبودی کے لئے لگاتار کوشاں رہتے ہوئے مینارہ نور کا کام سر انجام دیتے ہیں۔ اصل میں شاعر اپنے ایام کا نباض یعنی نبض شناس ہوتا ہے جس کی رہنمائی میں سماج نئی منزلوں سے آشنائی حاصل کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ شاعر معیاری و اصلاحی ادب کی تخلیقات کے ذریعے ہی زموں، ملکوں اور زبانوں کی سرحدوں کو پار کر کے انسانی زندگی کو خوبصورت رنگ و روپ عطا کرتا ہے۔

لیکن آج کی شاعری میں واردات قلب جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی جدیدیت زدہ نئی پود اس سے واقف ہے اور فنی لوازمات کا بھی یہی عالم ہے جس کا رد عمل یہ ہوا کہ آج شاعری صرف خیال تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جدید شاعری میں تو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ شاعر کہنا کیا چاہتا ہے لیکن اس کے باوجود جدید شاعر یہ سمجھتا ہے کہ مستندہے میرا فرمایا ہوا۔ اسی بے راہ روی اور طبیعت کی نامور زینت کے باعث جناب مظہر امام نے آزاد غزل کی داغ بیل ڈالی اور جب اس وقت کے مشاہیراساتذہ نے اس کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کر دیے تو جناب مظہر امام نے کنارہ کشی اختیار کرنے میں ہی عافیت محسوس کی اور اپنی چند ایک آزاد غزلیات کے ہمراہ پردہ نشین ہو گئے۔

کچھ حضرات نے جب یہ دیکھا کہ غزلیہ شاعری کی طرح آزاد غزل تخلیق کرنے میں فنی لوازمات کی چنداں ضرورت نہیں ہے تو کئی لوگ راتوں رات شاعر بن گئے۔ جبکہ ایک قاری کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہ تھی اور اس سے ادب کو جو نقصان پہنچ رہا تھا وہ باعث تشویش تھا۔ اور شاعر کے اعلیٰ مذاق کے علاوہ شاعری بھی متاثر ہو رہی تھی۔ بعض حضرات آزاد غزل کے تن مردہ میں روح پھونکنے کی کوشش کرتے رہے ان میں مناظر عاشق ہرگانوی کا نام پیش پیش ہے۔ اور پھر ایسا ہوا کہ انہوں نے غزل نما کی ڈفلی بجا دی، اس صنف کے بارے میں یہ افواہ چھاپی جاتی رہی کہ اس کے موجد ظہیر غازی پوری ہیں جبکہ جناب مناظر ہرگانوی کی گراں مایہ تحقیق نے اس دعویٰ کو صد فیصد غلط ثابت کر دیا ہے۔ کیونکہ موصوف کے پاس پختہ ثبوت موجود ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ غزل نما کے موجد جناب شاہد جمیل ہیں اور ان کی تخلیق کردہ تحریر بعنوان غزل نما ہفتہ وار غنچہ، بجنور کے یکم اکتوبر ۱۹۷۳کے شمارہ میں اشاعت پذیر ہوئی تھی جبکہ ظہیر غازی پوری کی آزاد غزل نما پہلی بار اگست ۱۹۸۱میں روزنامہ سالار بنگلور کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوئی۔ وہ بھی آزاد غزل کے نام ہے۔ پھر بھی ہر دو غزل نما کی اشاعت کے درمیان آٹھ سال کا طویل ترین عرصہ موجود ہے۔ اگر جناب شاہد جمیل کی غزل نما جنوری ۱۹۸۱میں بھی اشاعت پذیر ہوئی ہوتی تب بھی انہیں ہی غزل نما کے موجد کے اعزازسے سرفراز کیا جاتا۔

ظہیر غازی پوری صاحب عرصہ دراز سے شعری ادب سے منسلک ہیں۔ انہیں مزید نام کی ہوس سے باز رہنا چاہئے خود ستائی و خود نمائی سے سوائے ذلت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا:

گوکاسہ طلب ہے لبالب بھرا ہوا

پھر بھی لب ہوس پہ ہے کافی نہیں ہے یہ

آزادگورواسپوری

اب جبکہ بزرگ شاعر ناوک حمزہ پوری بھی جناب شاہد جمیل کے حق میں اپنا فیصلہ صادر فرما چکے ہیں کہ شاہد جمیل ہی کو غزل نما کا موجد تسلیم کر لیا جائے، تو ظہیر غازی پوری صاحب کو نہایت ہی خندہ پیشانی سے اسے تسلیم کر لینا چاہیئے، اور اس فضول کی بحث سے کنارہ کش ہو جانا چاہئے، اسی میں ان کی بھلائی ہے۔

٭٭٭

 

غزل نما ایک فطری رویہ

               پروفیسرایم اے ضیا

غزل نما کے موجد شاہد جمیل ہیں۔ اس قول سے اختلاف کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ غزل نما غزل ہی کی طرح ہوتی ہے اور اس میں وہ سارے لوازماتِ غزل کی شعری حکمت عملی کو اپنایا جاتا ہے غزل جس چیز سے بوجھل ہو جاتی ہے اس سے بچنے بچانے کی حتی المقدور کوشش غزل نما میں غیر دانستہ طور پر ہو جاتی ہے۔ غزل میں مصرعے برابر کرنے کے چکر میں بھرتی کے الفاظ کی بہتات بھی ہو جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں غزل کوسنبھالے رکھنا اور اس کے نازک مزاج پر بار نہ آنا اور اس کے دھان پان مزاج پہ آنچ نہ آنے دینا ایک ماہر ہنر مند شاعر کا کام ہوتا ہے، لیکن ہر ماہر اور قادر الکلام شاعر جہاں غزل کا شاعر ہوتا ہے وہاں وہ غزل نما کا بھی شاعر ہوتا ہے۔ یہ تو ایک Spontaneous Flowبےباک روانی کا نتیجہ ہوتا ہے اور وہ غیردانستہ طور پر ایک ہی بحر کے چھوٹے بڑے مصرعے ترتیب دے دیتا ہے اور وزن کے مطابق چھوٹے مصرعے میں لفظوں کی چابک دستی سے مصرعوں کو برابر کر دیتا ہے۔ اردو کا کوئی غزل گوشاعرایسا نہیں ہو گا جس نے لاشعوری طور پر غزل نما نہ لکھی ہو یہ الگ سی بات ہے کہ شعوری طور پر اس نے اس غزل نما کو غزل میں تبدیل کر دیا ہو۔ ایسا ہی نہیں فکر و فن کے رویوں سے آزاد جب کوئی غزل لکھنے لگتا ہے تو وہ اوزان اور بحور اور تقطیع میں نہیں الجھتا بلکہ جو شعر جس صورت میں بھی نازل ہونے لگتے ہیں اسے وہ اسی صورت میں لکھتا جاتا ہے بعض لوگوں نے اس صورتِ حال کو عیب مان لیا اور اسے منظر عام پر لانے کی کوشش نہیں کی لیکن جو لوگ حوصلہ ہمت رکھتے تھے، انہوں نے بغیر کسی ہچک اپنی وہ غزل شائع کی جیسے فراق نے اپنے اس فکری رویے کو گڑبڑ غزل کا نام دیا، مظہر امام نے اپنے اسی رویے کو آزاد غزل سے موسوم کیا۔ لیکن غزل نما ان ساری چیزوں سے مختلف ہے کیونکہ اس میں شاعراس فکری رویے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے اور مصرعوں کے ساتھ ٹکڑوں کی اہمیت کوسمجھتا ہے۔

میں نے غزل نما پر غور کیا اور مناظر عاشق ہرگانوی کی رائے کا مطالعہ کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ غزل نما گڑبڑ غزل، آزاد غزل اور کسی اور طرح کی غزل اگر کہیں جاتی ہے تو اس کا فارم بدلتا رہتا ہے لیکن غزل نما کی ہئیت کسی مصرعہ میں تبدیل نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی شعر وہ لخت ہیں ہوسکتا اور پابندی کی صورت بھی برقرار رہتی ہے موسیقیت غزل سے کسی صورت کم نہیں ہو گی۔ اس میں بھرتی کے الفاظ نہیں ہوتے اور شاعر کسی پیچ و خم کے مغالطے میں نہیں آتا۔ شاہد جمیل اس رویے سے واقف تھے اور عروضی مغالطوں کو اچھی طرح سے سمجھتے تھے اسی لیے غزل نما کو غزل نما کی حیثیت Establishedکرنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے، بحروں کے تعلق سے مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنی کتاب غزل نما، میں بہت ساری باتیں کہی ہیں۔ جنہیں میں وہ ہرانا نہیں چاہتا لیکن وہ تین جملے یاد دہانی کے لئے تحریر کر  رہا ہوں۔

شاہد جمیل نے ایک اور غزل نما ۲۰۱۰میں کہی جو کہسارجنرل، کے شمارہ نمبر۱۷۰؍ فروری ۲۰۱۰میں شامل ہے۔ اس غزل نما کی اشاعت کے بعد متاثر ہو کر چند دوسرے شاعروں نے طبع آزمائی کی تب غزل نما کا پہلا انتخاب شائع کرنے کا خیال آیا۔

مناظر عاشق ہرگانوی نے لکھا ہے کہ پھر چند شعرا کو طبع آزمائی کا خیال آیا لیکن میرا خیال ہے غزل نمادانستہ اور غیردانستہ طور پر غزل کا شاعر لکھتا ہی رہتا ہے یہ الگ سی بات ہے کہ اس کی ایجاد کر کے شاہد جمیل نے اسے Establishedکر دیا اور یہ حقیقت ہے کہ ان کے اس شعری رویے سے وہ تمام غزل گو شعرا جو اس حقیقت کو جانتے بھی اور اس مرحلے سے گزرتے بھی تھے ان کو حوصلہ مل گیا شاہد جمیل کا یہ رویہ غزل نما کی شناخت کی بنیادیں قائم کرنے میں اردو ادب میں ہمیشہ یاد کیا جائے گا ابھی تو محض پذیرائی حاصل ہو رہی ہے کل اس رویے کو بے انتہا مقبولیت بھی حاصل ہو گی۔

٭٭٭

 

غزل نما:تعارف و تبصرہ

               ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل

اردو شاعری کی آبرو غزل گزشتہ چار دہوں میں ہئیت اور فارم کے لحاظ سے کئی تجربوں سے گزر کر آزاد غزل، دوہا غزل، ماہیا غزل، غیر مردف بے بحری غزل، غزل شکن اور غزل نما میں منقسم ہو چکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ اپنی ذاتی علمیت کے اظہار میں اس فہرست میں مزید اضافہ ہواس تجربے سے غزل کی روح زخمی ہو رہی ہے غزل کی روایت مجروح ہو رہی ہے یا اس سے اس قابلِ احترام صنف کو فائدہ پہنچ رہا ہے، اس کا جواب صرف اول کے ناقدین ہی بہتر طریقے سے دے سکتے ہیں۔ اس وقت تو ہمیں غزل نما کے تعلق سے اظہار خیال کرنا ہے۔ مناظر عاشق ہرگانوی کی کتاب جو۹۶صفحات پر مشتمل ہے، عہد حاضر کے انتیس نامور شعرا کی غزل نما کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے، جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں شاہد جمیل، صابر عظیم آبادی، نذیر فتح پوری، فراز حامدی، رؤف خیر، محبوب راہی، نورالدین موج، قمر برتر، یوسف جمال، منصور عمر، عثمان قیصر، شاہد نعیم، حفیظ انجم، امام اعظم، احسان ثاقب، شارق عدیل، عبیداللہ ساگر، مظفرحسن عالی، انجم وارثی، رفیق شاکر، مجیب الرحمن بزمی، انجم کریم نگری، مشرف حسین محضر، نینا جوگن، قدر پاروی، م، اشرف، عبیداللہ ہاشمی، انورسہسرامی اور مناظر عاشق ہرگانوی۔

ابتدا میں، گفتنی، کے عنوان سے مناظر عاشق ہرگانوی کا غزل نما کے موجداوراس کے ہیئتی انصرام کے متعلق چھ صفحات کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جس میں دلائل سے اس حقیقت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ اس کے موجد شاہد جمیل ہیں۔ غزل نما کے چند اشعار سے اس نئی صنف کی افادیت و اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اسے اب مری کیا پڑی ہے کہ وہ اور کی جنوری ہے

میں جس کادسمبررہاہوں، شاہد جمیل

شاعر سے، دیوانے سے کیوں ڈرتے ہو

وہ کوئی چت چورہے کیا

نذیرف تح پوری

ہمیں تواس پہ حیرت ہے زنا کاروں کی بستی میں

زناکاری نہیں کرتا

فراز حامدی

جوانوں کے مخبر ہیں، یہ مولوی محترم اور کیا ہیں

بڑے ذی حشم اور کیا ہیں

رؤف خیر

جاگ اٹھاسارازمانہ اور جس کو جاگنا ہے

وہ مسلسل سورہاہے

محبوب راہی

لٹیرے کوسب سلطنت سونپ دی ہے

خدا مہرباں ہے

مناظر عاشق ہرگانوی

ثابت ہوا کہ غزل نما کے اشعار غزل ہی کی طرح ایک ہی بحر میں لکھے جاتے ہیں۔ اس میں ردیف قافیہ بھی ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ غزل کے مقابلے میں غزل نما کے شعر کا ثانی مصرع، اول مصرع کا نصف ہوتا ہے۔ اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ذکاوت، ذہانت، علمیت اور مشق سخن لازمی ہے۔ بصورت دیگر کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا، فن غارت ہو جائے گا۔ یہ کتاب نفیس کاغذ پر چھپی ہے۔ ٹائٹل خوبصورت اور طباعت معیاری ہے۔ اسے خرید کر پڑھنا چاہیے اور اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہئے۔

٭٭٭

 

غزل نما:قابلِ مطالعہ صنفِ سخن

               ڈاکٹر عبد القدیر مقدر

اردو شاعری کے جمود کو دراصل سرسید تحریک نے توڑا۔ پھر حالی نے ہماری روایتی شاعری میں تغیر پیدا کرنے کے لئے اصلاحی کوششیں کی اور یہ احساس دلایا کہ انگریزی ادب و شاعری سے استفادہ کیا جانا چاہئے چنانچہ انگریزی ادب کی مختلف اصناف اور ادب وتنقیدسے استفادہ کا رجحان پیدا ہوا۔ روایتی خیالات و کیفیات، مصنوعی روش کو ترک کرتے ہوئے حقیقت پسندی اور عقلیت کے امکانات روشن ہوئے، شاعری میں فنی پختگی، فکری گہرائی اور بے پایاں شاعرانہ صلاحیتوں نے ترقی کے مزید امکانات پیدا کر دیے اقبال کے فلسفیانہ طرزِ تخیل اور فکر واحساس نے غزل کی بوسیدہ اور غیر فطری بساط ہی الٹ دی۔ روسی انقلاب پیدا ہوا تو شاعری پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔ اس طرح ترقی پسند تحریک نے نئے نئے تجربوں کے ذریعے اردو شاعری کو بھی متاثر پیدا کیا ساتھ ہی ترقی پسند جدیدیت نے زندگی کے تقاضوں سے روشناس کیا۔ ہندوستان میں اگرچہ حلقہ ارباب ذوق نے روایت کی روح کو متاثر کیے بغیر تخیلات میں تبدیلی لائی اور غزل کی ہئیت کو مجروح کیے بغیر حقیقت پسندی کو اختیار کیا۔ مابعد جدید ہماری شاعری میں جو تجربے کیے جا رہے ہیں دراصل انگریزی ادب ہی سے ماخوذ ہیں۔ اردو میں آزاد نظم کے بعد آزاد غزل کا تجربہ سامنے آیا، اس طرح زبان میں تبدیلیاں لائی گئیں۔ پھر غزل نما کی موجودہ صورت اختیار کی گئی، جس کے موجود شاہد جمیل ہیں اور جنہیں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے دریافت کیا حالانکہ شاہد جمیل سے قبل کاظم نائطی کو انہوں نے ہی موجد قرار دیا تھا لیکن تحقیق سے موجد کی حیثیت سے شاہد جمیل کا نام آیا جنہوں نے ۱۹۷۳میں غزل نما کا تجربہ کیا تھا اور وہ غنچہ بجنور میں شائع کرایا تھا۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی بحث و تمحیص کے بعد رقمطراز ہیں لیکن ۲۰۰۹میں میری تحقیق نے نئی کروٹ لی۔ غزل نما کے موجود کاظم نائطی بھی اب نہیں رہے بلکہ شاہد جمیل کے سریہ سہرابندھتا ہے انہوں نے صحیح، منفرد اور متوازن ہئیت میں تجربہ کیا ہے۔ اس میں دونوں مصرعے کے ارکان میں کمی بیشی اس طرح کی گئی ہے کہ پہلا مصرعہ جتنے ارکان میں ہے، تیسرا، پانچواں ساتواں، نواں، گیارہواں، وغیرہ بھی اتنے ہی ارکان میں ہوں گے اور دوسرامصرع جتنے رکن میں ہے چوتھا، چھٹا، آٹھواں، دسواں، بارہواں، وغیرہ مصرعے بھی اتنے ہی رکن میں ہوں گے۔ باقی سبھی لوازم ایک جیسے رہیں گے۔ یعنی مناسبت اور مطابقت کے باوجود ایک باریک فرق ہے۔ اسی مساوی الوزن ارکان کی نا برابری کا نام غزل نما رکھا گیا ہے۔

شاہد جمیل کی اور اردو کی پہلی غزل نما کا مطلع ملاحظہ کیجئے:

نہ ہنسنے ہنسانے میں دل لگ رہا ہے، نہ پڑھنے پڑھانے کو جی چاہتا ہے

فقط مار کھانے کو جی چاہتا ہے

اور شاہد جمیل کی دوسری اور اردو کی بھی دوسری غزل نما کا مقطع دیکھئے۔

قابل دید ہوتے ہیں شاہد بہت مرغیوں کے بدن روشنائی میں تب

جب کبھی مجھ پہ فرزانگی چھائے

شاعروں نے اس ہئیت کوپسندکیا اور طبع آزمائی کی۔ مناظر عاشق ہرگانوی نے ۲۹شعرا کی غزل نما کا انتخاب کتابی شکل میں غزل نما کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس میں ہر شاعر کی دو دو غزل نما کے ساتھ سوانح اور تصویر بھی شامل ہیں اس انتخاب سے غزل نما جیسی صنف کواستحکام ملا ہے۔

٭٭٭

 

غزل نما:اظہار کے آئینے میں

               معتبر شاہجہاں پوری

اردو شاعری کا جدید دور حالی کی نئی طرز فکر سے باقاعدہ شروع ہوا اس سے قبل ولی دکنی سے حالی تک کی شعری روایات کاسلسلہ محض اردو ادب کی کلاسیکی روایت پراستوار رہا جو اپنے انداز فکر کے اعتبار سے قدیم اردو زبان و بیان اور روزمرہ محاورات کے ساتھ گنے چنے مضامین اور محدود موضوعات پر مشتمل رہا۔ حالی کے بعد اسے اردو شاعری میں نئی نئی راہیں جدید خیالات، موضوعات کا تنوع، نئی طرز تحریر نئے نئے پیرایہ بیان اور اسالیب کی تراش خراش کا کام  شروع ہوا اور نئے تخلیقی تجربات وجود میں آئے۔

غرض کہ انسان کے ثقافتی، معاشرتی اورسماجی و ادبی ماحول کے روایتی تانوں بانوں سے ہٹ کر مختلف موضوعات سخن تجرباتی طور پر پیش کیے گئے جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ اس طرح جدت کا یہ سفر بڑی حد تک اپنی ارتقا کی منزل کی طرف گامزن ہوا۔ کسی بھی زبان کا ادب اپنے ماحول کی روایت سے رشتہ جوڑے بغیر ترقی نہیں کرسکتا اور اسی میں اس کے فن کی بقا کا راز مضمر ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہو تاکہ وہ محض روایت پرستی کے سائے میں پروان چڑھے، اپنے دور کے جدید طرز فکر سے کسی بھی طرح پیچھے رہے بلکہ ایسا مثبت و متوازن رویہ اختیار کیا جائے جس سے انفرادی ادبی میلانات، شخصی رجحانات اور فکری میں تازہ کاری کا احساس ابھرکرسامنے آئے۔

دورِ حاضر کے ایسے ہی روشن خیال شعرا کی ایک بڑی تعداد نے اردو کی شعری رویت کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی جو لہجہ و آہنگ نت اسالمیت، منفرد اوزان جن میں غیر مروجہ اور قلیل الاستعمال بحریں اور وزن، نئی بندشوں کے ساتھ نئے خیالات، مضامین کا اچھوتا پن منزل کی ہئیت کو ایک منفرد اندازسے نئے قنی قواعد و ضوابط کی پابندی کے ساتھ پیش کیا گیا اور برسہابرس کی ان تھک محنت کاوش کے بعد اردو شاعری کی مقبول ترین صنف سخن غزل میں سے غزل نما  کا وجود پیدا  ہوا جو بہر حال غزل ہی کا اٹوٹ انگ ہے جو اپنی ہئیت کی نئی پہچان کے ذریعے غزل سے مختلف ہے جس میں غزل کی تمام تر خوبیاں اپنی قدیم و جدید روا ات کے ساتھ جلوہ گر دکھائی دیتی ہیں۔

غزل سے غزل نما کا یہ ابتدائی ہئیتی ڈھانچہ شاہد جمیل نے ۱۹۷۳میں صرف پیش ہی نہیں کیا، ان کی اس ادبی تحقیقی کوشش کو خاص پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے تحقیق سے ثابت کر دیا کہ اس صنف کے موجد شاہد جمیل ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کو انہوں نے مسکت جواب دیا شاہد جمیل نے غزل نما کے تمام فنی اسرار و رموز پر متوازن انداز فکر سے نظر ڈالی اور ایک منفرد و متوازی راہ اختیار کرتے ہوئے مصرعوں کے ارکان کی کمی بیشی کی۔ اولیٰ اور ثانی مصرعوں میں ارکان کی تعداد یعنی پہلے مصرعے میں جتنے ارکان مقرر کیے دوسرے مصرعے میں عین اس کی نصف تعداد استعمال کرنے کی پابندی اور صرف سالم ارکان کی بحروں ہی کا استعمال درست قرار دیا، جس سے غزل نما کا ایک مخصوص و منفرد لہجہ سامنے آیا غزل کی طرح غزل نما کا میدان سخن بھی وسیع ہے مگر اس قدر نہیں جتنا کہ غزل کا۔ تاہم غزل نما کے ڈیڑھ مصرع میں اپنے خیالات و افکار اور ما فی الضمیر کو ایک مخصوص طرز فکر کے ساتھ ساتھ باآسانی بیان کیا جا سکتا ہے۔

غزل نما کے ڈیڑھ مصرعے کی افادیت غزل کے دو متوازن مصرعوں کے برابر تو یقیناً نہیں ہے تاہم اس جدت طرازی سے فکر کے نئے نئے راستے ضرور کھلتے ہیں، جو بقائے فن کے لئے ضروری ہی نہیں بلکہ معاشرے، سماج اور فرد کی نئی آواز اور پہچان کے رشتے بنانے میں معاونت بھی کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

غزل نما:ایک تاثر

               رفیق شاکر

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی مرتب کردہ کتاب نقش طراز سال رواں مجھے ملی۔ میں ان کو عرصہ سے پڑھ رہا ہوں، لیکن تحریری رابطہ پہلی دفعہ ہوا نقش طراز کے لئے میں نے قطعہ تاریخ کہا جس کے جواب میں ڈاکٹر موصوف نے کوہسار، کا شمارہ بھجوایا اور تحریر فرمایا کہ مذکورہ رسالہ میں غزل نما کے نمونے ہیں، دو غزل نما مع تصویر و تعارف روانہ کیجئے۔ میں نے لکھا کہ تاج محل کے ہوتے تاج محل نما کی کیا تک یعنی غزل کے ہوتے غزل نما کی کیا ضرورت؟

بہرکیف ڈاکٹر صاحب کی ایما پر شاہد جمیل کی ایجاد کردہ غزل نما کہنے کا پہلا تجربہ کیا۔ ڈیڑھ مصرعہ پر مشتمل یہ صنف بظاہر بہت آسان لیکن عملا ً انتہائی مشکل ہے۔ اس وقت طلب تجربہ میں لطف بھی آیا۔

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی ترتیب، غزل نما، جو انہوں نے مختلف شعراسے کہلوائی ہے۔ پیش نظر ہے، جس میں ۳۰شعرا کی ۶۰غزل نما مع تصویر و تعارف پڑھنے کا موقع ملا طبیعت مسرورہو گئی۔ اس مجموعہ میں ہندوستان کے ہر علاقے کے شعرا کے ساتھ پاکستان اور سعودی عرب کے شعرا نے بھی محفوظ کیا اس طرح غزل نما کی افادیت کا احساس ہوا اور مقبولیت کا اندازہ ہوا۔

غزل کا ہر شعر دو مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے تو غزل نما کا ہر شعر ڈیڑھ مصرعہ پر غزل کی طرح غزل نما میں بھی وزن، بحر، ردیف، قافیہ کی پابندی ضروری ہے۔ فرق صرف مصرعوں کا ہے کہ غزل نما کے پہلے مصرعہ میں بحر کے پورے ارکان ہوتے ہیں تودوسرے مصرعہ میں آدھے ارکان یعنی پہلے مصرعہ میں فعولن فعولن فعولن فعولن چاروں ارکان لیے جائیں گے، تودوسرے مصرعہ میں فعولن فعولن صرف دو ارکان لیے جائیں گے۔ غزل نما میں سالم بحور کا استعمال افضل مانا جاتا ہے۔ بہرحال غزل نما کی انفرادیت کے پیش نظر انتخاب غزل نما پہلی کتاب ہوتے ہوئے انتہائی کامیاب ہے، یہ فیصلہ ہمارا ہے آخر میں قطعہ تاریخ ملاحظہ کیجئے۔

قطعہ تاریخ طباعت

جانفزا مجموعہ غزل نما

مناظر عاشق نے مجموعہ جو غزل نما کا دیا ہے ہم کو

کہ جیسے صحرائے ریگ میں بھی یہ ایک پھیلا ہوا شجر ہے

ملی ہے تاریخ طبع مجھ کو غزل نما کی رفیق شاکر

کہ نو شگفتہ غزل نما کا، یہ ڈیڑھ مصرعہ بھی خوب تر ہے

٭٭٭

 

غزل نما:غزل سے نکلی ہوئی تازہ شاخ

               پروفیسر وہاب اشرفی

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی کسی کتاب کا مطالعہ اور اس پر رائے زنی میرے لیے ہمیشہ ایک مشکل مرحلہ رہا ہے، ۔ آپ ہمہ صفت موضوع پر مختلف ادبی جہات کو اس طرح اپنے احاطے میں رکھتے ہیں کہ میرے جیسے ایک عام قاری کے لئے حیرت کی سبیل بن جاتی ہے۔

انہوں نے بعض ایسی کتابیں لکھیں اور مرتب کی ہیں جنہیں حقیقی معنی میں تازہ بکار کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ تازہ بکاری دراصل موضوع کے نئے پن کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

میرے پیشِ نظر ڈاکٹر ہرگانوی کی نئی مرتبہ کتاب، غزل نما، ہے۔ غزل ایک عرصے سے بحث و تمحیص کا موضوع رہی ہے۔ اس پر تنقید کا ایک انبار ہے اگر کوئی چاہے تو ایسی آرا کو ایک جگہ جمع کرے تو متعدد کتابیں سامنے آ جائیں۔ غزل کی جب نوعیت ایسی ٹھہری تو پھر اس کی شاخیں نکلنی تھیں۔ سوفطری طور پر نکل رہی ہیں۔ آزاد غزل، کے بعد غزل نما غزل سے نکلی ہوئی ایک تازہ شاخ ہے جس کے موجد شاہد جمیل ہیں۔ اس صنف کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتا۔ لیکن مناظر عاشق ہرگانوی کی کتاب کے مطالعے سے اس نئی صنف کے بہت سے رموز مجھ پر واشگاف ہوئے۔ دراصل اس کے ۲۹لکھنے والوں نے جو اہم شعرا بھی ہیں۔ اس کے بعض نکات کو واضح کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ پہلا مضمون جو لازماً پیش لفظ ہے، انتہائی تجزیاتی ہے۔ اس سے اس صنف کے کتنے ہی اہم پہلو اور نکات واضح ہو جاتے ہیں۔ اسے دفاعی تحریک بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی صنف کی اشاعت اور ترویج کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی بھرپور Advocacyکی جائے۔ یہ کام ڈاکٹر مناظر نے بطریق احسن کیا ہے۔ یہاں کوئی مبہم بیان نہیں بلکہ ہر نقطے کی تجزیاتی وضاحت ہے۔ اس سے ہوا یہ کہ اس، گفتنی، کو پڑھنے کے بعد متعلقہ شعرا کی غزل نما پڑھنے کا چاؤ بڑھ جاتا ہے۔ اور ایک مذاق سلیم پیدا ہوتا ہے جس سے اس نئی صنف کی نوعیت کی تفہیم کے لیے راہیں نکلتی ہیں۔ جن ۲۹شعرا کا کلام درج ہے ان میں چند بے حد معروف ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غزل نما کی طرف قابل لحاظ شعرا بھی توجہ کر رہے ہیں۔ اس سے اس ہئیت کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی دوسری کتابوں کی طرح، غزل نما، ہر حلقے میں پڑھی جائے گی۔ اور اس پر بحث و تمحیص کاسلسلہ قائم ہو گا۔

٭٭٭

 

غزل نما میں علیم صبا نویدی کی خوں ریزی

               ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی

علیم صبا نویدی کی ۲۰۱۱میں نئی کتاب غزل شکن، کے نام سے آئی ہے۔ اس میں آزاد غزلوں کے ساتھ غزل نما بھی شامل ہیں جو صفحہ ۶سے ۱۸تک محیط ہیں۔

غزل نما کے حوالے سے بات کروں تو کئی نکتے گمراہ کن ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے۔

 الف۔ کتاب کے سرورق سے لے کر آخری صفحہ تک دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف اور صرف آزاد غزل کا مجموعہ ہے جبکہ اس میں غزل نما بھی شامل کی گئی ہے۔

ب۔صفحہ۶ پر غزل نما کی سرخی لگا کر سوالیہ نشان قائم کیا گیا ہے اگر یہ غزل نما ہے تو سوالیہ نشان کا جواز کیا ہے؟

ج۔ صفحہ ۶ پر ہی غزل نما کی سرخی کے نیچے درج ہے ایک نیا تجربہ!

سچائی یہ ہے کہ اب یہ نیا تجربہ نہیں رہا۔ بعض شاعروں نے فردیات اور ابیات کو غزل نما کا نام دیا کاظم نائطی نے ۱۹۷۹میں مدراس کے ہفت روزہ اتحاد میں اس صنف سخن کی تحریک چلائی تھی اور خود انہوں نے تجربہ کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کاظم نائطی کی پوری توجہ آزاد غزل کی طرف ہو گئی تھی لیکن انہوں نے اپنے تجربے کا نام غزل نما دیا تھا۔ مگر پھر میری تحقیق سے یہ پہلو سامنے آیا کہ غزل نما کے موجد شاہد جمیل ہیں جن کی دو غزل نما ۱۹۷۳میں شائع ہو چکی تھیں۔ اس لیے علیم صبا نویدی  نے اسے نیا تجربہ لکھ کر کیا ثابت کیا ہے

غزل نما کے لئے درج ذیل ہئیت شاہد جمیل کی غزل نما سے سامنے آئی ہے اور اسے ہی اپنا کر پچاسوں شاعر نے تجربے کیے ہیں :

غزل نما کے تمام اشعار غزل ہی کی طرح ایک ہی بحر میں لکھے جاتے ہیں جن میں ردیف و قافیہ ہوتے ہیں۔

غزل نما کے شعر کا مصرع ثانی اور زان ارکان کے اعتبار سے مصرع اول کا نصف ہوتا ہے جس میں ردیف و قافیہ ہوتے ہیں۔ یہ مصرع خود بھی ایک بحر میں ہوتا ہے مثلاً شعر کے پہلے مصرع میں اگر آٹھ بار فعولن آیا ہے تو مصرع ثانی میں چار بار فعولن آئے گا۔ یہ التزام غزل نما کے تمام اشعار میں یکساں ہو گا۔

غزل نما کے لئے سالم بحروں میں طبع آزمائی افضل ہے خواہ وہ مفرد بحر ہو یا مرکب بحر ہو۔ غیریکساں یا مختلف افاعیل والی مزاحف بحروں میں غزل نما لکھنا مستحسن نہیں۔ البتہ یکساں زحاف والے ارکان میں غزل نما کے اشعار بخوبی لکھے جا سکتے ہیں کیونکہ صوتی اور بصری اعتبارسے یہ ارکان سالم بحروں کے ارکان جیسے ہی ہوتے ہیں۔

غزل نما کے ان تینوں اصول کوسامنے رکھ کر علیم صبا نویدی کی غزل نما کا جائزہ لیں تو یہ اندازہ فوراً ہو جاتا ہے کہ وہ عروض و اوزان میں لنگ کھاتے ہیں پہلی غزل نما، صفحہ۶، کا مطلع ہے۔

دلدلی زمینوں سے کیا خزانے نکلیں گے

صرف ڈھانچے نکلیں گے

پہلا مصرع فاعلن مفاعیلن فاعلن فعاعیلن اور دوسرا مصرع فاعلن مفاعیلن میں ہے یہ اظہر من الشمس ہے کہ نویدی نے شاہد جمیل کی ہئیت میں غزل نما کہی ہے۔ لیکن کتاب میں ایک نیا تجربہ لکھ کر کھلم کھلا ادبی ڈکیتی، کی ہے۔ خود کوPresentکرنے کی یہ احمقانہ چالاکی ہے۔ شترمرغ کی طرح آنکھیں موند کر دزد روز روشن کا تمغہ بردار کہلوانا کہاں کی دانش مندی ہے۔

نویدی کی دوسری غزل نما کا مطلع دیکھئے

سفرہو گا جدھر اک راستہ ہو

مفاعیلن مفاعیلن فعولن

یہ ایک غیرسالم بحر ہے اور دوسرا مصرع پہلے کا نصف نہیں ہے۔ پوری غزل نما اصول کے خلاف ہے۔

نویدی کاتیسراکلام

پشت پرجیسے نمک کی بوریاں ہیں

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن

گھلنے والی نیکیاں ہیں

فاعلاتن فاعلاتن

پہلے مصرعہ میں اگر چار فاعلاتن ہوتے تو غزل نما کے اصول کے مطابق یہ شعردرست ہوتا۔ سبھی اشعار

لنگڑے لولے ہیں۔ غزل نما نہیں ہے۔

نویدی کا چوتھا کلام

مطلع:خوشی نصیبی ساتھ ہے

فاعلاتن فاعلن

میرے کاندھے پر کسی کا ہاتھ ہے

فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

یہ کلام غزل نما ہر گز نہیں ہے، اصول سے ناواقفیت ظاہر ہوتی ہے۔ دوسرے مصرعہ میں ایک رکن زیادہ ہے۔ پھرسالم بحر میں نہیں ہے۔

پانچواں کلام

مطلع: تعلق پرسش احوال تک ہے

مفاعیلن مفاعیلن فعولن

صرف قیل و قال تک ہے

فاعلاتن فاعلاتن

یہ کلام بے بحر ہے، دونوں مصرعوں کی بحر الگ الگ ہے پھر کسی شعر کے پہلے مصرعہ میں رکن کم ہے اور دوسرے مصرع میں زیادہ ہے۔ اسی ڈھب پر ساراکلام ہے۔

صفحہ۱۱کا کلام:

مطلع:آپ کی کیا ذات ہے

فاعلاتن فاعلن

جو ملا وہ سیدالسادات ہے

فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

یہ کلام بھی صفحہ۹ کے ڈھب پر ہے اور غزل نما کے اصول کے خلاف ہے۔

صفحہ۱۲کا کلام:

مطلع: جاں مری چلاتی ہے دیکھو

عیل مفاعیل فعولن

سینے میں بھلاکس کی صدا آتی ہے دیکھو

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

ارکان کا خون صاف چلاتا نظر آتا ہے دوسرے مصرعے کی بحر، مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن، میں سے کچھ حصے مفعول مفا، کو تہہ تیغ کر نے کے بعد باقی ماندہ حصے، عیل مفاعیل فعولن، کو پہلا مصرع بنایا گیا ہے۔ سارے مصرعے ایسے ہی الٹے سیدھے اور بے تکے طریق پر ہیں۔

صفحہ۱۳کا کلام:

اپنے مزاج کی کئی باتیں یہاں نہیں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

پھر بھی یہ دنیا گراں نہیں

لات مفاعیلن فاعلن

پہلے مصرع کے وزن سے مفعول فاع، کاٹ کر نکالنے والے نویدی نے دوسرے مصرع کے وزن کی شروعات لات سے کی ہے۔ ارکان اور اوزان کے ساتھ ایسی جوتا لات شاید ہی پہلے کسی شاعر نے کی ہو۔ اس قسم کی اوٹ پٹانگ، لات، گزاری دوسرے مصرعوں میں بھی ملتی ہے۔ بحر بھی سالم نہیں اور دوسرا مصرع پہلے مصرع کا نصف بھی نہیں ہے۔

صفحہ۱۴کا کلام:

مطلع:

خواب اور خیال اپنی افتادہ کے موافق،

مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن

اپنی شرافتیں اور اپنی عداوتیں سب اجداد کے مطابق

مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن

یہاں افتادہ غلط ہے۔ افتاد صحیح ہے، پھر دوسرا مصرع پہلے مصرع  کا نصف نہ ہو کر الٹے زیادہ ارکان پر مشتمل ہے جو غزل نما کے خلاف ہے۔ بقیہ اشعار بھی ان ہی بدعنوان کے شکار ہیں :

صفحہ۱۵کا کلام:

مطلع:

بیکار تھا جذبات کا دیوان

فاعیل مفاعیل فعولات

چھپنے سے رہا میرے خیالات کا دیوان،

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولات

بے چارے لرزتے ارکان، بقیہ اشعار کا ہر مصرع اول فاعیل مفاعیل فعولات کے بدلے مفعول فعولن پر ہے، مثلاً محشرمیں طلب کر/غالب کی قسم ہے/ بھول آئے نکیرین/مت ڈھونڈکہیں اور /تھامے ہے مجھے بھی۔ وغیرہ وغیرہ۔

صفحہ۱۶کا کلام:

مطلع لوگ جب نکلے سمندرکی طرف

فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

ہم چلے گھر کی طرف

 فاعلاتن فاعلن

اس کلام میں کل چھ اشعار ہیں جن میں صرف چار میں اسی وزن کا انصرام ملتا ہے غزل نما کے اصول کے مطابق اس قبیل کی بحروں میں مصرع دوم کی یہ صورت جائز قرا ردی گئی ہے۔ بشرطیکہ دوسرے مصرعے میں ارکان کی تعداد پہلے مصرع کا نصف ہو۔ اس بابت میں نے غزل نما کے پہلے انتخاب کے پیش لفظ میں سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ علیم صبا نویدی کے تیسرے شعر اور پانچویں شعر کے مصرعہ ثانی اس طرح لکھے گئے ہیں :

اول سے آخر کی طرف

بے باک منظر کی طرف

ان دونوں میں الف زائد اور بے زائد کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ اور اس طرح یہ مصرع، فاعلاتن فاعلن، سے نکل کر، مستفعلن مستفعلن، جیسی دوسری بحر کے علاقے میں چلا گیا ہے۔ آخر اور ساغرکاقافیہ بھی محل نظر ہے:

صفحہ ۱۷کا کلام:مطلع:

وہی اچھے لگے ہیں

مفاعیلن فعولن

اگر مجھ کو وہ کڑوے لگے ہیں،

مفاعیلن مفاعیلن فعولن

غزل نما کا یہ اصول نہیں ہے اس لیے غلط ہے۔

صفحہ۱۸کا کلام:

مطلع: تیراکیوں ہے میلا روپ، فعلن فعلن فعلن فاع

گدلی چادر میں کیوں ہے، چندھیا جانے والا روپ

فعلن فعلن فعلن فع، فعلن فعلن فعلن فاع

صفحہ۱۷کے کلام کی طرح اس میں بھی ارکان کی تعداددوسرے مصرعے میں زیادہ ہے اس لیے غزل نما کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔

قرولی، چھری اور شمشیر کے ذریعہ غزل نما کے مصرعوں میں ارکان کی خون ریزی کی ایسی مثال شایددوسری جگہ نہ ملے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://urduyouthforum.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید