FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ادب جزیرے

حقانی القاسمی

 

ساحر اور معیار عظمت کی منطق

ساحر کو کسی سند کی ضرورت نہیں کہ ان کے کلام میں ماور ائے زماں زندہ رہنے کی بھرپور قوت موجود ہے

 وجودیاتی یا علمیاتی بیان کی حاجت بھی نہیں کہ ساحر کی شاعری اتنی شفاف، واضح، غیر مبہم ہے کہ براہ راست قاری کے ذہن، ذوق اور ضمیر سے مکالمہ کرتی ہے۔

’تشریحی تنقید‘ کی مہملیت، شاعری کو موت تو دے سکتی ہے، زندگی نہیں۔ اچھا ہوا کہ ناقدوں نے ساحر پہ کم لکھا اور ساحر کی شاعری تنقید کا بار احسان اٹھانے سے بچ گئی۔ ورنہ یہ شاعری بھی تنقید کی تاریکیوں میں بھٹکتی ہوئی دم توڑ دیتی کہ جس تنقید میں ہر ’شب‘ کو ’شب قدر‘ اور ’ہر سنگ‘ کو’ لعل بدخشاں ‘ کی حیثیت حاصل ہو، ایسی تنقید کی ہیئتِ ممقوت سے ہی تخلیق کو وحشت ہونے لگتی ہے کہ یہ تو تخفیفِ قدر کا باعث ہے۔ ہمارے عہد کا عمومی مشاہدہ بھی یہ ہے کہ جن تخلیق کاروں کو نقاد ان فن Establish کرتے ہیں ، انہیں منہدم ہونے میں زیادہ مدت نہیں لگتی کہ نقاد کلیہ تو مرتب کر لیتا ہے مگر اطلاقات کی صورتیں ، معیارات تلاش کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اس لیے تنقیدی کلیے کی بلند بالا عمارت بہت جلد مسمار ہو جاتی ہے کہ سارے معیار فرضی اور تصوراتی ہوتے ہیں۔

ساحر کو نقاد کی ضرورت ہو بھی تو کیوں؟نقاد عوام کے ذہن سے تخلیق کار یا تخلیق کا رشتہ ہی تو جوڑتا ہے او ریہ کام تو خود ساحر کی شاعری نے کر دکھایا کہ ساحر کی تخلیق کا عوام سے براہ راست ترسیلی رشتہ ہے۔ دونوں کے مابین کوئی دیوار بھی حائل نہیں۔  ’شعر فہمی، تو خیر ساحر کے قاری کا مسئلہ رہا ہی نہیں اور نہ ہی کسی لفظ یا محاور ے کی وجہ سے ان کے ساتھ مہملیت کا معاملہ سامنے آیا ہے کہ ان کے الفاظ اور محاور ے گنجلک، پیچیدہ نہیں ہوتے جس کی وجہ سے قاری ان کی شاعری کو ناآشنائی کی وجہ سے اس طرح مہمل قرار دے جیسے ایک مقتدر نقاد نے، ’’افسانہ زلف یار سر کر‘‘ کو اس لیے مہمل قرار دیا تھا کہ وہ سرکر دن کے محاور ے سے ہی ناواقف تھے۔

ساحر کی شاعری کے ساتھ ترسیل کی ناکامی کا المیہ جڑا ہوا نہیں ہے۔ اس کے ثبوت کے لیے ان کے کلیات کا ایک بڑا حصہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ساحر نے تلخابہ تنہائی، دست فرط یاس، پس پردہ تشہیر وفا، رسم القطاع، عہد الفت جیسی تراکیب کا استعمال کیا ہے، ان سے عام قاری کا ذہن ناآشنا ہوتے ہوئے بھی سیاقو سباق کے ذریعہ آہنگ میں اس کے مفہوم کو تلاش کر ہی لیتا ہے جیسے امیر خسرو کیز حال مسکیں پہ عام آدمی بھی سر دھننے لگتا ہے۔ مگر یہاں ایک سوال ہے کہ کیا ترسیل کی تاثیر یا توانائی ہی شعری عظمت کا معیار ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر سادہ اور سلیس شعر کہنے والا ہر فرد عظیم قرار پائے گا۔

لیکن شاید ایسا نہیں ہے!

شاعرانہ عظمت کی بھی اپنی منطق اور منطقے ہیں گو کہ تنقید اس منطق اور منطقے کو بھی حسب منشا تبدیل کرتی رہتی ہے۔ پھر بھی شاعرانہ عظمت کے معیار کا تعین کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھائی جا سکتی، کوئی نہ کوئی معیار تو وضع کرنا ہی ہو گا، چاہے وہ سب کے لیے قابل قبول نہ ہو۔

 ’عظمت شعر‘ کا ایک معیار تو وہ ہے جو لیوس نے وضع کیا ہے:

 ’’اچھا شاعر وہ ہے جو دوسروں سے زیادہ حیات آشنا اور اپنے زمانہ کا بہتر شعور رکھتا ہو‘‘۔

اور دوسرا ورڈ زورتھ کا ہے جس نے کہا:

 ’’بڑا تخلیق کار وہ ہے جو انسانی احساس کا دائرہ اس طرح وسیع کر کے دکھائے جو پہلے کبھی نہ ہوا ہو‘‘۔

جب کہ محمد حسن عسکری جیسے بیدار، باخبر فرانسیسی ادبیات سے آگاہ ناقد نے عظمت شعر کو عرفان حقیقت سے مربوط کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ:

 ’’اگر کوئی شعر ادبی معیاروں پر پورا اترتا ہے تو وہ شاعری کے دائرے میں داخل ہے۔ اگر اس کے ساتھ ساتھ یہ شعر عرفان حقیقت میں بھی معاون ہوتا ہے تو عظیم شعر ہے‘‘۔

چوتھی بات شاہ وہاج الدین کی ہے جو زیادہ قرین قیاس لگتی ہے کہ:

 ’’بڑا وہی ہے جس کی تخلیق میں انفس کا عنصر غالب ہو‘‘۔

ان کے خیال میں ’’انسان کے پیش نظر معرفت کے لیے صرف دو ہی تعینات ہیں۔ انفس اور آفاق۔ تکمیل اس میں ہے کہ دونوں کی شناخت ایک ساتھ ہو اور انفس کی شناخت کو آفاق کی شناخت پر غلبہ ہو کیونکہ آفاق جسم ہے اور انفس اس کی روح ہے۔ ‘‘

ان چاروں اقوال کی روشنی میں ساحر کی شاعری میں عظمتوں کی جستجو کی جائے تو ساحر تخلیق کی راہ میں ایک نشان منزل کی حیثیت سے سامنے آئیں گے۔

(۱)

پہلا قول ساحر کی عظمت پہ مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کہ ساحر حیات آشنا بھی ہیں اور روح عصر سے آگاہ بھی۔ حیات کی کیفیات اور عصر کی تغیرات، تحولات اور ترجیحات سے مکمل آشنائی کے اشارے ان کے اشعار میں ملتے ہیں۔ ان کے یہاں حیات ایک تسلسل میں ہے اور یہ تسلسل ہی حقیقت ہے۔

ہر قدم مرحلہ دارو صلیب آج بھی ہے

جو کبھی تھا وہی انسان کا نصیب آج بھی ہے

نسل در نسل انتظار رہا

قصر ٹوٹے نہ بے نوائی گئی

زندگی کا نصیب کیا کہئے

ایک سیتا تھی جو ستائی گئی

دوسرے فن کاروں کے مقابلے میں ساحر کو زندگی کی حقیقتوں کا ادراک زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ساحر نے زندگی کی تفہیم اور اس کے رموزو اسرار کی تعبیر کے باب میں صرف اور صرف اپنی آنکھوں پہ اعتبار کیا۔ ان کی اپنی نظر نے ہی حیات کے بہت سے راز منکشف کر دیے، جو سربستہ تھے۔ زندگی کے مدو جزر، نشیبو فراز کو سمجھنے کے لیے ان کا اپنا الگ زاویہ تھا اور اس انفرادی زاویہ نظر نے انہیں زندگی کے ٹھوس حقائق سے آشنا کیا۔

لے دے کے اپنے پاس فقط ایک نظر تو ہے

کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

آنکھوں سے بڑی کوئی ترازو نہیں ہوتی

تلتا ہے بشر جس میں وہ میزان ہیں آنکھیں

ساحر کا تصور حیات وسیع ہے مگر کیا محض تصور حیات ہی شعری عظمت کے لیے کافی ہے۔ ممتاز پاکستانی ناقد سلیم احمد کا خیال ہے کہ:

 ’’شاعری کی حقیقی قدرو قیمت کا تعین صرف اس امر سے نہیں ہوتا کہ ہم نے زندگی یا انسان کا کون سا تصور اپنے ذہن میں قائم کیا ہے۔ یہ بات بھی دیکھنے کی ہوتی ہے کہ ہم نے اس تصور کو زندگی کے ٹھوس تجربات سے ٹکرا کر دیکھا ہے یا نہیں ‘‘۔

ساحر کا تصور حیات یا رویائے زیست ٹھوس تجربات پر ہی محیط ہے–:

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ ساحر کے تمام تر تصورات، تجربات پر ہی مبنی ہیں اور یہ تجربات ایک حساس فنکار کے ساتھ ساتھ اس انسانی وجود کے ہیں جو صدیوں سے صلیب پہ لٹکا ہوا ہے اور اذیت جس کی تقدیر ہے، تلخیاں جس کے شبو روز کا منظر نامہ ہے۔

ساحر کے تصور اور تجربے میں گہری مماثلت ہے۔ ان کا تصور بھی عظیم ہے اور تجربہ بھی وسیع۔

 ’’شاعر کا تجربہ جتنا گہرا اور ہمہ گیر ہو گا، اتنا ہی زیادہ اس میں متاثر کرنے کی صلاحیت ہو گی‘‘ فیض احمد فیض

مگر پھر ایک سوال ہے کہ کیا تجربے کی گہرائی اور ہمہ گیری، کسی شاعر کو عظیم بنا سکتی ہے۔ وارث علوی کا خیال ہے کہ:

 ’’وہ فن کار جس کے تجربات کا دائرہ وسیع ہو، لازمی طور پر بڑا فن کار نہیں بنتا۔ تجربات کی کثرت اور رنگارنگی کسی فنکار کے فن کی صفت ہو سکتی ہے، قدر نہیں۔ ذاتی تجربات کا دائرہ محدود ہونے کے باوجود فن کار بڑا فن تخلیق کر سکتا ہے‘‘۔

قول ثانی بھی ساحر کی تخلیقی عظمت کے حق میں ہے کہ ساحر نے انسانی احساس کے دائرے کو وسیع کیا ہے۔ ساحر کے احساس کا رشتہ مختلف زمانوں اور عوالم سے ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانے ان کے احساس سے مربوط ہیں اور وہ چاروں عوالم جو حقیقت کی منزلیں ہیں ، ناسوت، ملکوت، جبروت اور لاہوت، وہ شعوری یا لاشعوری طور پر ان کے احساس کا حصہ ہیں۔ متحرک اور مضطرب احساس کی پوری کائنات ان کی تخلیق میں سانس لیتی نظر آتی ہے۔ ان کے معمورہ احساس میں ایک حشر سا برپا ہے۔ ان کی سائیکی اور شعور میں تموج و تلاطم ہے۔ اسی لیے وہ آشفتہ شاعر کبھی صبح کے دامن میں عکس شام کی جستجو کرتا ہے، کبھی پردہ شب کو چاک کرنے کی بات کرتا ہے اور کبھی یہ سوچتا ہے کہ:

میری راتو ں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں

ذہن ہمہ وقت تصادم، کشاکش اور تناؤ سے گزرتا ہے۔ کہیں خوف اور خواب کا تصادم ہے، کہیں جنگ اور امن، کہیں طبقاتی نظام کہیں صارفیت، کہیں زرعی اور صنعتی تمدن کی کشمکش ساحر نے متضاد اور متعارض احساسات کو اپنی شاعری میں ڈھالا اور احساس کی غیر مرئی اور غیر متشکل صورتوں سے بھی عوام کو روشناس کرایا۔ وہ احساس جو ذہن کے کسی خلیے میں گردش کرتے رہتے ہیں ، مگر انہیں اظہار کی راہ نہیں ملتی۔ ساحر نے اس داخلی احساس کی تمام تر صورتوں کو شاعری کی شکل عطا کی اور یہی شاعر کا منصب ہے۔

 ’’بظاہر شاعر انہیں کچھ نہیں دیتا لیکن بباطن یعنی شعر کے پردے میں ان کی داخلی زندگی کے تمام زخموں کو مندمل کر دیتا ہے۔ شاعر انہیں زندگی کا نسخہ دیتا ہے ان کے انتشار کو ہم آہنگی میں بدل دیتا ہے۔ ان کے کرخت تجربوں کو مترنم بنا دیتا ہے۔ ان کے ذہن کی دھندلی تصویروں کو واضح کر دیتا ہے۔ شاعری میں ہماری زندگی کے گرد آلود تجربے اپنے حقیقی خطو خال سے روشناس ہوتے ہیں۔ ‘‘ فراق گورکھپوری

ساحر نے بھی دنیا کو بہت کچھ دیا اور اگر کچھ نہ بھی دیا ہو تو خواب ضرور دیے ہیں۔ وہ خواب جو تعمیر کائنات کے لیے ضروری ہیں اور علوئے انسانیت کے لیے لازمی۔ ’خواب‘ ساحر کی شاعری کا ’اسم اعظم‘ ہے۔ خواب میں تبدیلی کائنات کی بڑی قوت پنہاں ہوتی ہے۔ خوابو ں کی روشنی سے ہی دنیا کے اندھیرے ختم ہوں گے۔ اگر یہ خواب بھی مرگئے تو کائنات ایک بے کیف، بنجر ویرانے میں تبدیل ہو جائے گی۔

ساحر کو خواب میں پنہاں اور تغیر تبدیلی کی قوت کا بھرپور احساس تھا، اسی لیے خواب کی عظمتو معنویت کو اس طرح روشن کیا:

یہ خواب ہی تو اپنی جوانی کے پاس تھے

یہ خواب ہی تو اپنے عمل کی اساس تھے

یہ خواب مر گئے ہیں تو بے رنگ ہے حیات

یوں ہے کہ جیسے دست تہ سنگ ہے حیات

ساحر کے خواب بھی آفاقی ہیں۔ اقتصادی آزادی، امن انصاف اور مساوات کے خواب نسل انسانی کی بقا کے خواب اور شاید اسی خواب میں ان کے خیال کی عظمت کا راز بھی پنہاں ہے۔ بقول محمد حسن عسکری:

 ’’خیالات و احساسات کی افادیت جانچنے کے لیے کوئی مجرد اور مطلق معیار کام نہیں دے گا بلکہ ان کا صرف ایک پیمانہ ہے کہ یہ خیالات نسل انسانی کی بقا میں کس حد تک معاون ہو سکتے ہیں؟‘‘

ساحر کی طویل نظم ’پرچھائیاں ‘ پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ساحر کے خیالات نسل انسانی کی بقا کے لیے نہایت مفید اور معاون ہیں۔ خود ساحر نے لکھا ہے کہ:

 ’’ہر نوجوان نسل کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہا سے جو دنیا اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے، وہ آئندہ نسلوں کو اس سے بہتر اور خوب صورت دنیا دے کر جائے۔ میری یہ نظم اس کوشش کا ادبی روپ ہے۔ ‘‘

نسل انسانی کی بقا کا شدید احساس نہ ہوتا تو ساحر یوں نہ کہتے:

ہمارا خون امانت ہے نسل نو کے لیے

ہمارے خون پہ لشکر نہ پل سکیں گے کبھی

کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے

تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں

جنوں کی ڈھال ہوئی ایٹمی بلاؤں سے

زمیں کی خیر نہیں ، آسماں کی خیر نہیں

گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار

عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں

گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار

عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں

اسی خوف نے ساحر کو خواب بننے کے لیے مہمیز کیا:

آؤ کہ کوئی خواب بنیں ، کل کے واسطے

ورنہ یہ رات، آج کے سنگین دور کی

ڈس لے گی جانو دل کو کچھ ایسے کہ جانو دل

تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں

خوف اور خواب کی کشمکش نے ساحر کی شاعری کو ایک نیا زاویہ عطا کیا ہے اور یہ بھی ساحر کا ’نشان انفراد‘ ہے۔

قول ثالث بھی ساحر کی عظمت کے گراف کو بلند کرتا ہے کیونکہ ساحر کی شاعری ’ عرفانِ حقیقت‘ میں بھی معاون ہے۔ ساحر نے جس طرح حقیقتوں کا عرفان حاصل کیا ہے، ویسا بہت کم شاعروں کو نصیب ہوا ہے۔ ساحر نے حقائق کو متقارب اور متعارض دونوں صورتو ں میں محسوس کیا ہے کہ یہ کائنات بنیادی طور پر متضادات، متعادیات اور متبائنات کا مجموعہ ہے۔ حقیقتیں بھی متضاد شکلوں میں منکشف ہوتی ہیں۔ ساحر نے حیات و کائنات کی حقیقتوں کی جستجو کی ہے اور پھر متضاد حقیقتوں کے امتزاج سے ایک تصور کو تشکیل کیا ہے۔ ظلمت میں نور، سادگی میں عیاری، جنگ میں امن، محبت میں نفرت، اور اس طرح کے تنوع و تضاد سے شعری تعبیرات تلاش کی ہیں۔

عرفان حقیقت کا عکس ساحر کی بہت سی نظموں میں ہے اور یہ سچ ہے کہ ساحر کی نگاہ میں حقیقت زیادہ واضح انداز میں روشن ہوئی ہے۔ بغیر کسی ابہام و اسہال کے:

علم سولی پہ چڑھا تب کہیں تخمینہ بنا

زہر صدیوں نے پیا تب کہیں نوشینہ بنا

سینکڑوں پاؤں کٹے تب کہیں اک زینہ بنا

۰۰۰

مرے جہاں میں سمن زار ڈھونڈنے والے

یہاں بہار نہیں آتشیں بگولے میں

دھنک کے رنگ نہیں سرمئی فضاؤں میں

افق سے تا بہ افق پھانسیوں کے جھولے ہیں

۰۰۰

بنام امن ہیں جنگ و جدل کے منصوبے

بہ شور عدل، تفاوت کے کارخانے ہیں

ساحر نے فلسفہ کی پر پیچ راہوں میں الجھے بغیر حقیقت کا عرفان حاصل کیا اور اسے اپنے شعری احساس و آہنگ میں شامل کر کے ان انسانوں کو حیات و کائنات کے اسرار سے آشنا کیا جن کے لیے ’عرفان حقیقت‘ کی منزل شاید ہی کبھی روشن ہو پاتی۔ ساحر نے حیات و کائنات کی کلیت میں حقیقت کو تلاش کر لیا اور حقیقت بس اتنی سی ہے کہ:

راستہ منزل ہستی کا مہیب آج بھی ہے

ساحر نے نہ صرف منزل ہستی کا راستہ دریافت کیا بلکہ انسانوں کے داخلی مسائل کا حل بھی ڈھونڈ نکالا کہ:

 ’’زندگی کے خارجی مسائل کا حل شاعری نہیں لیکن وہ داخلی مسائل کا حل ضرور ہے‘‘۔۔۔ فراق گورکھپوری

ساحر لدھیانوی کی شاعری میں انسانی وجود کو داخلی بحران کی تمام تر شکلوں سے آگاہ کرنے او ران سے نجات دلانے کی کوشش کار فرما ہے۔ اے شریف انسانو!، خون پھر خون ہے، مگر ظلم کے خلاف، ایسی ہی نظمیں ہیں جن میں ساحر نے انسانیت سے ہم آہنگ ادب کی تشکیل کی ہے اور انفرادیت پر اجتماعیت کو ترجیح دی ہے اور یہی ’اجتماعیت‘ کا انفرادی تصور ان کی تخلیقی عظمت کا ایک اور روشن حوالہ بن جاتا ہے۔

چوتھا قول بھی ساحر کو تخلیقی انبوہ میں ایک نوع کا امتیاز عطا کرتا ہے کہ ساحر کی شاعری میں بھی آفاق سے زیادہ انفس کا عنصر غالب ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اس انسانی روح کی شناخت کی ہے جو حد درجہ مضطرب اور ملہتب ہے۔ انسانی روح کی دریافت کا عمل بہت مشکل ہوتا ہے مگر ساحر نے اس روح تک رسائی حاصل کی اور اس کے اضطرابات اور ہیجانات سے انسان کو روشناس کرایا۔ ’چکلے‘ ایسی ہی ایک نظم ہے جس میں انسانی روح کی کراہ صاف سنائی دیتی ہے۔ ساحر نے ایک ’مجرد جسم‘ کو روح کی آنکھ سے دیکھا ہے اور اپنے روحانی کرب کا اظہار استفہامیہ انداز میں کر کے انسانی ذہن، ضمیر کو بھی جھنجھوڑا ہے۔

یہ پر پیچ گلیاں یہ بے خواب بازار

یہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار

یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

تعفن سے پر نیم روشن یہ گلیاں

یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں

یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن

تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن

یہ بے روح کمروں میں کھانسی کی ٹھَن ٹھَن

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

 ’’کھانسی کی ٹھَن ٹھَن ‘‘بیمار انسانی روح کی علامت ہے۔ اخلاقی روحانی قدروں کا زوال ہوتا ہے تو صرف اور صرف انسانی وجود میں کھانسی کی ٹھَن ٹھَن رہ جاتی ہے اور ساحر کو پورے انسانی معاشرے میں ٹھَن ٹھَن پہ ٹھَن ٹھَن کی آواز سے وحشت ہونے لگتی ہے۔ ساحر نے اس نظم میں اس روح کی تشخیص کی ہے جسے بازار نے جسم محض میں تبدیل کر دیا ہے۔

نظم کے ایک ایک بند میں روح کے کرب کی لہر نمایاں ہے۔ جب کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ’چکلے‘ جیسے موضوع پر ساحر کی یہ کوئی بالکل نئی نظم ہو۔ یہ موضوع ادب کے لیے ماء مستعمل ہے مگر ساحر نے اس ’مستعمل‘ میں بھی احساس و اظہار کے امتزاج سے ایک نئی معنویت پیدا کر دی ہے۔ کیفی اعظمی کا یہ خیال بھی اس نظم کی انفرادیت کا اعتراف ہی ہے۔

 ’’ساحر نے ثنا خوان تقدیس مشرق کو جس شدت سے، جس نفرت اور خلوص سے جھنجھوڑا ہے اس کی مثال مجھے دوسرے فن پاروں میں نہیں ملتی۔ چکلے میں ساحر کی غیریت، اس کی روح، اس کے احساس کی تلملاہٹ، بلندی کے انتہائی نقطے پر نظر آتی ہے۔ اس کے لہجے کی مخصوص افسردگی یہاں ایک بے پناہ بہاؤ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ‘‘

اس موضوع نے اگر ساحر کی روح کو مرتعش نہیں کیا ہوتا تو شاید یہ نظم وجود ہی میں نہ آتی۔ اگر آ بھی جاتی تو اتنی شدت اور تاثیر کے ساتھ نہ آتی۔ ساحر نے ہمیشہ وہی کچھ لکھا ہے جس نے ان کے ذہن، جذبہ کو ہی نہیں بلکہ پورے وجود میں تحریک پیدا کی۔ ساحر کی بیشتر نظموں میں ان کی روح کا ارتعاش نظر آتا ہے اور یہ ارتعاش، ان کا نقطہ امتیاز ہے:

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں

روح کیا ہوتی ہے اس سے انہیں مطلب ہی نہیں

وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں

ساحر، انسانی روح کے رمزو ایما سے آگاہ تھے۔ اسی لیے تخلیق کی اصل روح کی عظمت کو منہدم ہوتے ہوئے دیکھنا انہیں گوارہ نہ تھا۔ ’روح‘ کو بازار میں بدلتے دیکھ کر ان کی برگشتگی بڑھ جاتی تھی۔ مرد معاشرے نے جب روح کے حقیقی جوہر کو مسلنے کی مسلسل کوششیں کیں تو ساحر کا غصہ آتش فشاں کی طرح پھوٹ پڑا۔ اس غصہ میں ’روح‘ کی بازدید کا نیک عمل پوشیدہ ہے:

مردوں نے بنائیں جو رسمیں ان کو حق کا فرمان کہا

عورت کے زندہ جلنے کو قربانی اور بلیدان کہا

عصمت کے بدلے روٹی دی اور اس کو بھی احسان کہا

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا

عورت انسانی روح کی اساس ہے، اس سے انحراف انسانی کائنات کو شدید اخلاقی بحران اور انتشار میں مبتلا کر سکتا ہے۔

ساحر نے اپنی فکر میں انفس، کو اولیت دی ہے اسی لیے ان کے شعروں میں جسم سے زیادہ روح کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

انسانی روح کے زخموں کے احساس نے ساحر کو سراپا التہاب بنا دیا تھا، ان کے پورے ذہنی وجود کو ’انگارے‘ میں تبدیل کر دیا تھا، اسی لیے انہوں نے انسانی روح کی سالمیت اور بقا کے لیے آتشیں نظمیں لکھیں ، انقلابی شعر کہے اور ہر اس احساس پر کاری ضرب لگائی جس سے انسانوں کی زبونی اور زوال میں اضافہ ہو۔ فرقہ وارانہ فسادات اور جنگ میں سب سے زیادہ زخم انسانی روح جھیلتی ہے۔ ساحر نے روح کی گہرائی میں اتر کر ہی ایسے شعر کہے ہیں :

طرب زاروں پر کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری

دل زندہ ترے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری

]زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی

جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری

یہ منظر کون سا منظر ہے، پہچانا نہیں جاتا

سیہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پہ کیا گزری

چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آ گئے لیکن

خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گزری

ساحر کا ایک ایک شعر دل میں نشتر بن کر چبھتا ہے۔ شاعری میں کرب کی وہی ساری کیفیت اتر آئی ہے جس سے فسادات میں لوگ گزرتے رہتے ہیں ، اس کیفیت کا انعکاس اس سے بہتر طور پر شاید ممکن نہ ہو۔ پروفیسر نظیر صدیقی کا بھی یہی خیال ہے:

 ’’فسادات پر نظم و نثر دونوں میں بہت کچھ لکھا گیا لیکن ان میں سے بہت کم چیزیں زندہ رہ سکیں یا رہیں گی۔ خود ساحر نے فسادات پر نظمیں اور غزلیں لکھی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ فسادات پر لکھی جانے والی شاعری میں ساحر کی یہ غزل:

طرب زاروں پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری

دل زندہ ترے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری

کامیاب ترین غزلوں میں سے ہے اور اس کے چھ شعروں میں ہر شعر جو زبان زد خاص و عام ہے، بہت ممکن ہے کل بھی زندہ رہے‘‘

ایک اور نظم ہے جس میں انسانی روح کی آواز ہے، لَے ہے، فریاد ہے۔ یہ ایک ایسا تخیل ہے کہ تیر ہو تاریک ذہن میں یہ جنم ہی نہیں لے سکتا، انسانیت سے عاری ذہنوں میں ایسے احساس و آہنگ کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہوتی۔ نظم کا عنوان ہے ’اے شریف انسانو!‘ اور اس کا آغاز یوں ہوتا ہے:

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسل آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امن عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر

روح تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اور وں کے

زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لیے اے شریف انسانو!

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں

فکر کی روشنی کو عام کریں

امن کو جن سے تقویت پہنچے

ایسی جنگوں کا اہتمام کریں

جنگ وحشت سے بربریت سے

امن، تہذیبو ارتقاء کے لیے

جنگ مرگ آفریں سیاست سے

امن، انسان کی بقاء کے لیے

جنگ، افلاس اور غلامی سے

امن، بہتر نظام کی خاطر

جنگ بھٹکی ہوئی قیادت سے

امن، بے بس عوام کی خاطر

جنگ، سرمائے کے تسلط سے

امن، جمہور کی خوشی کے لیے

جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف

امن، پرامن زندگی کے لیے

ساحر کو انسانی روح کا حقیقی عرفان ہے اسی لیے ان کی شاعری روح کی آزادی کا نغمہ ہے۔ وہ ہر اس زنجیر کو توڑ دینا چاہتے تھے جس سے انسانی ذہن، ضمیر اور روح غلام بن جائے۔ ان کے اشعار میں اقتصادی، سیاسی، سماجی آزادی اور مساوات کے جذبے ملتے ہیں او ریہ ان کے مخصوص شعری موضوعات ہیں۔ یہ موضوعات بھی ان کی فن کارانہ عظمت کی علامتیں ہیں ، مگر یہاں پھر ایک سوال ہے کہ کیا صرف ان موضوعات کی وجہ سے کوئی فنکار عظیم بن سکتا ہے۔ پروفیسر وارث علوی کا خیال ہے کہ:

 ’’فنکار اس وجہ سے بڑا فنکار نہیں ہوتا کہ اس نے جنگ، امن، قومی آزادی اور انقلاب جیسے اہم اور شاندار موضوعات پر قلم اٹھایا۔ یہ موضوعات اس کی بڑائی کا تعین نہیں کرتے، فن کار کی بڑائی کا تعین اس کا فن ہی کر سکتا ہے۔ ‘‘

]وارث علوی کے خیال سے اختلاف کریں یا اتفاق مگر یہ حقیقت ہے کہ محض موضوع عظمت کا معیار نہیں ہے۔

 ’’موضوع نظم کی قدرو قیمت کا تعین نہیں کرتا بلکہ مواد اور فارم گویا پوری نظم سے نظم کی قدر کا تعین ہوتا ہے۔ ‘‘ وارث علوی۔

اور یوں بھی موضوعات تو مشترک ہوتے ہیں۔ محض موضوعی اساس پر امتیاز یا انفراد کا تعین آسان عمل نہیں ہے۔ بقول سلیم احمد:

] ’’موضوعات ذرا مجرد سی چیز ہیں اور کئی شاعروں میں مشترک بھی ہو سکتے ہیں۔ موضوعات میں جان تو ان تشبیہوں ، استعاروں اور علامتوں سے آتی ہے، جو موضوع کے ارد گرد صرف ہالہ ہی نہیں بناتے، اسے روشنی بھی دیتے ہیں۔ ‘‘

سلیم احمد کے اس خیال سے ساحر کی فنکارانہ عظمت کی ایک اور راہ نکلتی ہے۔ اب ساحر کے یہاں استعارات، علامات اور تشبیہات میں تفرد کی تلاش لازمی ہے کہ اسی سے ساحر کی تخلیقی امتیازات کی سطحیں روشن ہوں گی۔

اس محاذ پر بھی ساحر سرخرو نکلے کہ ان کے یہاں استعارے، علامت اور تشبیہ کی ایک متنوع اور مختلف کائنات روشن ہے۔

عکس مے ہو کہ جلوہ گل ہو

رنگِ رخسار تک نہیں پہنچا

تیرے لہو کی آنچ سے گرمی ہے جسم کی

مے کے ہزار وصف سہی مے میں کچھ نہیں

یہ تری یاد ہے یا میری اذیت کو شی

ایک نشتر سا رگ جاں کے قریب آج بھی ہے

گیسوؤں کی چھاؤں میں دل نواز چہرے ہیں

یا حسیں دھندلکوں میں پھول ہیں چناروں کے

عرصہ ہستی میں اب تیشہ زنوں کا دور ہے

رسم چنگیزی اٹھی، توقیر دارائی گئی

موت پائی صلیب پر ہم نے

عمر بن باس میں بتائی گئی

کھلتا ہے ہر ایک غنچۂ نو جوش نمو سے

یہ سچ ہے مگر لمس ہوا بھی ہے کوئی چیز

’تشبیہات‘ علامات و استعارات میں جدتو ندرت نے بھی ساحر کی تخلیقی عظمت کو ایک اور نشان عطا کر دیا ہے۔ اس لیے یہ بات بلا لیت و لعل کہی جا سکتی ہے کہ ساحر ایک عظیم شاعر ہے جس نے فن کے جملہ مطالبات کو پورا کیا اور وہ سارے عناصر کی شاعری میں موجود ہیں ، جو کسی فن کار کو عظیم قرار دینے کے لیے ناگزیر ہیں اور وہ سطحیں بھی جو سلیم احمد نے اچھے شعر کے لیے ضروری قرار دی ہیں :

 ’’شاعری میں اچھے شعر کے لیے بیک وقت تین سطحیں ضروری ہیں۔ ایک سطح پر وہ خدا سے انسان کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے، دوسری سطح پر کائنات سے انسان کے تعلق کو اور تیسری سطح انسان اور انسان کے تعلق کی ہے۔ اشعار کی بلندی اور پستی کا تعین اس امر سے ہوتا ہے کہ وہ ان تینوں سطحوں میں کس کس تک پہنچتا ہے۔ ‘‘

ساحر کے یہاں ان تینوں سطحوں میں بلندی کے سارے آثار نظر آتے ہیں۔ ساحر نے خدا، انسان اور کائنات اور انسانوں کے انسان کے تعلق کے اظہار میں تخیل کی نئی بلندیاں طے کی ہیں۔

زمیں بھی تیری ہے، ہم بھی ترے یہ ملکیت کا سوال ہے

یہ قتل و خون کا رواج کیوں ہے یہ رسم جنگ و جدال کیا ہے

قدرت نے تو بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی

ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا

۰۰۰

انصاف کا ترازو جو ہاتھ میں اٹھائے

جرموں کو ٹھیک تولے

ایسا نہ ہو کل کا اتہاس کار بولے

مجرم سے بھی زیادہ

منصف نے ظلم ڈھایا

انصاف کا ترازو جو ہاتھ میں اٹھائے

یہ بات یاد رکھے

سب منصفوں کے اوپر

 اک اور بھی ہے منصف

۰۰۰

مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے

کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم

آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں

فکر کی روشنی کو عام کریں

امن سے جن کو تقویت پہنچے

ایسی جنگوں کا اہتمام کریں

زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی

جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری

ساحر، اردو شاعری کا پورا آدمی ہے کہ کائنات کے پہلے شاعر آدم و حوا کی طرح اس نے بھی ’باغ بہشت‘ سے نکل کر اذیتوں میں اپنی پناہ تلاش کی تھی اور عوامی بھیڑ میں اپنے کھوئے ہوئے جذبہ و احساس کو دریافت کیا تھا، وہ احساس جو ایک درد مند اور حساس دل میں ہوتا ہے۔ ساحر لوڈھوال کے جاگیردار چودھری فضل محمد ذیل دار (سرمایہ دار والد) کے سایہ عاطفت میں رہتے تو شاید زندگی کے بہت سارے تجربات و حوادث سے محروم رہ جاتے۔ ذہن میں نہ تلخیاں آتیں اور نہ تخلیقی احساس کو اظہار کی راہ ملتی۔ ساحر عیش و عشرت میں ہوتے تو پھر نہ وہ حرف احتجاج بلند کر پاتے اور نہ ہی انسانی دکھ درد کا احساس ہوتا۔ نہ استحصالی معاشرہ کے خلاف بغاوت کرتے۔ ساحر کو تجربوں کی جو بے پناہ دولت ملی، وہ اذیت اور دربدری کا ثمرہ تھی۔ ان کی تخلیق کے حسن میں ’دکھ‘ کی خوبصورتی یا المیہ کی جمالیات بھی شامل ہے۔ دکھ ہی نے ان کا رشتہ عام لوگوں سے جوڑا، مزدوروں ، محنت کشوں ، طوائفوں کا دکھ بھی اپنے ذاتی دکھ اور مشاہدہ کی ہی توسیع تھی۔ اپنی ذات میں جب پوری کائنات شامل ہو جاتی ہے تو احساس کا دائرہ خود بخود پھیلنے لگتا ہے اور پھر سارے جہاں کا درد، اپنا درد محسوس ہونے لگتا ہے:

مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے

مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا

مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے

کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو

غریبوں مفلسوں کو بے کسوں کو بے سہاروں کو

حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو

تو دل تاب نشاط بزم عشرت لا نہیں سکتا

میں چاہوں بھی تو خواب اور ترانے گا نہیں سکتا

یہ سرکشی، تلخی، برگشتگی، دراصل ایک نفسیاتی رد عمل ہے اس سماج کے خلاف جہاں ایک باپ جبرو اقتدار اور ارتکاز قوت کی ایک علامت بن کر ابھرتا ہے اور جو اپنی گیارہویں بیوی، سردار بیگم کو ایک پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے زوجیت کے حقوق سے محروم رکھتا ہے۔ اور اسی لیے ’باپ‘ جس طبقہ اور سماج کا نمائندہ ہے، اس طبقہ سے ساحر کی نفرت بڑھنے لگتی ہے اور اس طبقہ سے محبت ہو جاتی ہے جو ’باپ‘ کے ظلم کا شکار ہوا ہے۔ احمد راہی نے صحیح لکھا ہے کہ:

 ’’ساحر کی زندگی میں ایک محبت ہے، ایک نفرت

محبت اس نے صرف اپنی ماں سے کی ہے اور نفرت صرف اپنے باپ سے‘‘

محبت اور نفرت کی یہ دونوں علامتیں ساحر کی شاعری میں مختلف شکلوں میں رونما ہوئی ہیں۔ ساحر کی تخلیقی سائیکی اور ان کے پورے تخلیقی اور فکری نظام کو صرف ان دونوں علامتوں کے لوازمات اور متعلقات کے آئینے میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

ساحر کی شاعری ان ہی دونوں علامتوں کی توسیع و تمدید اور تشریحو تعبیر ہے۔ یہی دونوں علامتیں ساحر کی ذات سے نکل کر کائناتی حقیقت میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور ذاتو کائنات کی یہی وحدت ساحر کی تخلیقی عظمت کا نقطۂ امتیاز بن جاتی ہے اور پورے آدمی کی شاعری کا نشان اختصاص بقول سلیم احمد یہ ہے کہ:

جس کا احساس، جذبہ اور عقل ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے بلکہ ایک وحدت بناتے ہیں اور یہ وحدت اپنے اندر بھی ہم آہنگ ہوتی ہے اور خارجی حقیقت سے بھی ہم آہنگی رکھتی ہے جو خود ایک ہم آہنگ وحدت ہے‘‘۔

احساس، جذبہ اور عقل کی وحدت ساحر کی کئی نظموں میں نمایاں ہے۔ تاج محل، نورجہاں کے مزار پر اور پرچھائیاں ایسی ہی نظمیں ہیں :

ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں

اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟

میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا

تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا

مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی

اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے

کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

لیکن ان کے لئے تشہیر کا سامان نہیں

کیوں کہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

۔۔۔ تاج محل

پہلوئے شاہ میں یہ دختر جمہور کی قبر

کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتہ دیتی ہے

کتنے خوں ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب

کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتہ دیتی ہے

کیسے مغرور شہنشاہوں کی تسکیں کے لیے

سالہا سال حسیناؤں کے بازار لکھے

کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لیے

سرخ محلوں میں جواں جسموں کے انبار لگے

کیسے ہر شاخ سے منہ بند مہکتی کلیاں

نوچ لی جاتی تھیں تزئین حرم کی خاطر

اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں

ظل سبحان کے الفت کے بھرم کی خاطر

۔۔ نورجہاں کے مزار پر

سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے

چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

اس شام مجھے معلوم ہوا کھیتوں کی طرح اس دنیا میں

سہمی ہوئی دوشیزاؤں کی مسکان بھی بیچی جاتی ہے

اس شام مجھے معلوم ہوا، اس کارگہ  زرداری میں

دو بھولی بھالی روحوں کی پہچان بھی بیچی جاتی ہے

اس شام مجھے معلوم ہوا جب باپ کی کھیتی چھن جائے

ممتا کے سنہرے خوابوں کی انمول نشانی بکتی ہے

اس شام مجھے معلوم ہوا جب بھائی جنگ میں کام آئیں

سرمائے کے قحبہ خانے میں بہنوں کی جوانی بکتی ہے

۔۔ پرچھائیاں

ساحر کے یہاں یہی وحدت مجنوں گورکھپوری جیسے ناقد کو بھی نظر آتی ہے۔

 ’’وہ خارجی عوارض اور داخلی تاثرات کو سلیقے کے ساتھ سمو کر ایک آہنگ بنانے کا فن خوب جانتے ہیں۔ ان کے ہر مصرعے میں مادی محرکات و موثرات کے احساس کے ساتھ وہ کیفیت بڑے سلیقے کے ساتھ گھلی ملی ہوتی ہے، جو بے ساختہ داخلی ابھار کے ساتھ پیدا ہو سکتی ہے‘‘۔

اگر یہی وحدت تخلیقی عظمت کی علامت ہے تو ساحر لاریب عظیم شاعر ہیں ، مگر ہماری تنقید کا المیہ یہ ہے کہ یہاں معیار کی منطق تبدیل ہوتی رہتی ہے، اس لیے اب یہی کہنے میں عافیت ہے کہ ساحر تنقیدی تعینات سے ماور ا ہیں۔ استقرائی، تفکری یا تشریعی، یہ تمام تنقیدی طریق کار ساحر کی تعین قدر میں معاون نہیں ہو سکتے۔

ساحر کی تخلیق (فلمی، ادبی) ان کی عظمت کی شہادت کے لیے کافی ہے۔ ان کے تخلیقی تجربے کا تنوع اور اظہار کے نئے وسائل، تکنیک کے نئے ذرائع ہی وافر ثبوت ہیں کہ ساحر لدھیانوی (8مارچ 1921۔ 25اکتوبر 1980) ، اپنے عہد کے مختلف منفرد اور عظیم شاعر ہیں جو اپنی ترسیلی قوت کی بنیاد پر براہ راست قاری سے ایک ذہنی اور جذباتی رشتہ قائم کرنے میں کامیاب ہیں ، جس کی ایک نمایاں مثال نظم ’پرچھائیاں ‘ ہے جو ایسی حکائیہ تکنیک میں ہے کہ کسی بھی اردو شاعر نے نظموں میں یہ استعمال نہیں کی ہے۔ علی سردار جعفری جیسے ممتاز نظم نگار شاعر اور ناقد نے بھی اس نظم کی بیانیہ سادگی میں مخفی قوت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ لکھا کہ:

 ’’ہماری بعض بہترین نظمیں عام انسانوں کی سمجھ کی سطح سے بہت اونچی ہیں ، لیکن ساحر کی نظم ’پرچھائیاں ‘ اپنی سادہ کہانی اور آسان بیانی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ وسیع حلقوں تک پہنچ سکے گی۔ اس کے نوے فیصدی سے بھی کچھ زیادہ الفاظ ہماری روز مرہ گفتگو کے الفاظ ہیں۔ کلاسیکیت اور روایت کے نام پر ساحر نے اپنی نظم کو اجنبی اور غیر مانوس الفاظ سے بوجھل نہیں بنایا ہے۔ ساحر کی کامیابی اس میں ہے کہ اس نے اپنے سادہ اور آسان الفاظ سے اس عہد کی بعض اہم حقیقتوں کو ایسے مصرعوں میں ڈھال دیا ہے جو زبان پر چڑھ بھی جاتے ہیں اور دل پر اثر بھی کرتے ہیں ‘‘۔

ساحر کا یہ بھی کمال ہے کہ انہوں نے نثری اسلوب کو شاعرانہ شدت کے ساتھ پیش کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ’’اچھی شاعری وہ ہے جو نثر سے زیادہ سے زیادہ قریب ہو لیکن نثری نہ ہو۔ ‘‘

ساحر نے نثر اور شاعری کے فاصلوں کو بھی کم کیا ہے۔ ان کی نظموں میں جو فکری و لسانی ارتباط و ارتکاز ہے، وہی ان کی نظمیہ شاعری کا حسن ہے۔ ساحر ایک مربوط و منضبط فکر کے حامل ہیں او ریہ صفت ان کی تخلیق میں ہے۔ کوئی تو وجہ ہو گی کہ ساحر کے اکثر مصرعے کسی سماجی، سیاسی مضمون کا موثر اور متحرک عنوان بن جاتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ درجنوں صفحات پر محیط کسی سماجی یا سیاسی مضمون کے مقابلے میں ساحر کی چند نظمیہ سطریں زیادہ اثر انگیز اور معنی خیز ہوتی ہیں۔

ساحر بڑا شاعر ہے اس لیے بھی کہ ان کی شاعری میں اقتدار، آئین، سماج اور سیاست سے سوال ہے۔ او ریہ وہ سوال ہیں جو کائناتی اور انسانی وجود سے ہمیشہ ہی جڑیں گے۔ جب تک کائنات ہے، ان سوالوں کے سلسلے جاری رہیں گے۔

دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا

خوش حالی عوام کے اسباب کیا ہوئے؟

میرا خیال ہے کہ ان سوالوں کی دوامیت میں بھی ساحر کی فنی عظمت مضمر ہے۔

تنقید کا کوئی بھی زاویہ ہو، ہر میزان پر ساحر کی شاعری کھری اترے گی، ان کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہے گا۔ ساحر کا مقام شاعری کے عیشۃ راضیہ میں متعین ہے۔ اس کے لیے کسی تنقیدی فرمان کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری تنقید کے لیے تخلیق کاروں کے مدار جو مراتب کا تعین جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور یوں بھی خود ساحر کو ایسی تنقید پر اعتبار ہی کہاں تھا۔

مجھ کو اس کا رنج نہیں ہے لوگ مجھے فن کار نہ مانیں

فکرو سخن کے تاجر مرے شعروں کو اشعار نہ مانیں

یہ شعر شاید اسی بے اعتباری اور عدم اعتماد کا مظہر ہے۔ اور ساحر کو تنقید کی طوطا چشمی کا شدت سے احساس تھا کہ انہوں نے خود بھی اپنے زمانے کی آنکھیں اور چہرے دیکھے تھے۔ اور ان آنکھوں اور چہروں کے بدلتے رنگ اور تاثرات بھی، اسی لیے انہیں پہلے ہی سے یہ ادراک تھا کہ:

کل کوئی مجھ کو یاد کرے، کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے

مصروف زمانہ میرے لیے کیوں وقت اپنا برباد کرے

یقینا زمانہ مصروف بھی ہے اور لوگوں کو اپنے وقت کی قدرو قیمت کا پہلے سے بھی کہیں زیادہ احساس ہے، پھر بھی عجب بات ہے کہ ساحر کی قرأت کا تسلسل قائم ہے جب کہ بہت سے شعرا قرأت کے باب میں ’وقفۂ موقوف‘ میں ہیں ، مگر محض قرأت ہی تو مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ساحر کے مدرکات و مکاشفات کی تعبیرو تفہیم کے لیے نئی قرأت کی ضرورت ہے تاکہ ساحر کی تخلیقی کاملیت، حسیت اور معنویت کے نئے باب روشن ہوں اور ساحر کا وہ’ مافیہ‘ اپنی کلیت میں سامنے آئے جو ان کے نظمیہ اسپیس میں پنہاں ہے۔ اور اس ساحر کی تلاش کی جائے جو اپنی تخلیق کی وجہ سے مختلف طبقات، درجات اور ادبیات میں اپنی الگ الگ مساواتوں Equations کے ساتھ زندہ ہے۔ مختلف الخیال طبقات کی یہی مساواتیں ساحر کو ہر عہد میں نئی زندگی اور نئی معنویت عطا کرتی رہیں گی۔

اور یہ تنقید کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے کہ تنقید تو کسی بھی تخلیق کے سر پر ’تاج زریں ‘ رکھ دیتی ہے، مگر ہوتا یہ ہے کہ ایک مدت کے بعد تاج کے ساتھ ساتھ سر بھی غائب ہو جاتے ہیں۔ ساحر کو ایسے تاج سے ویسے بھی وحشت ہے:

کشکول فن اٹھا کے سوئے خسرواں نہ جا

اب دست اختیار جم و کے میں کچھ نہیں

یہاں پر ’خسرواں ‘ سے ساحر کی مراد میرے خیال میں شاید ’نقاد‘ ہی ہے مگر میرا خیال بھی تو ’نقد ناقدین‘ کی طرح غلط ہو سکتا ہے۔

(میں اکثر حوالوں سے گریز کرتا ہوں لیکن یہاں حوالے اور اقتباسات ضرورتِ شعری کی بنا پر دیے گئے ہیں )

٭٭٭

شاعری کی سانسوں میں صندل

یہ شاعری رادھا کے بد  کی طرح گوری چٹی مگر رات کی طرح پراسرار ہے!

تخیل میں تحیر، اظہار میں استعجاب ہو تو ایسی شاعری سے قاری کا طلسمی رشتہ قائم ہوتے دیر نہیں لگتی۔ فہیم جوگاپوری کے یہاں ’تحیر‘ کی وہ تمام تجلیات اور کیفیات ہیں جن کی وجہ سے ان کی شعری رہ گزر ’اور وں ‘ سے الگ ہو گئی ہے۔

یہی تو پیاس میری چاہتی ہے

لبِ ساحل سمندر ٹوٹ جائے

یہ تو اچھا ہوا بادل نے ہمیں روک لیا

ورنہ نکلے تھے سمندر کو جلانے ہم بھی

دیکھ کر سوکھ گیا کیسے بدن کا پانی

میں نہ کہتا تھا مری پیاس سے دریا کم ہے

ہم اہل غم کو حقارت سے دیکھنے والو

تمہاری ناؤ انہی آنسوؤں سے چلتی ہے

آپ کے سر پہ جو یہ تاجِ حشم رکھا ہے

ہم فقیروں نے اسے زیر قدم رکھا ہے

ایسے اشعار پڑھتے ہوئے قاری معانی کی لہروں میں ڈوبتا ابھرتا خود کو ایک ایسی تخلیقی کائنات میں محسوس کرتا ہے جہاں ’معروض‘ کی صورتیں بدلی ہوئی نظر آتی ہیں اور فنتاسی، ایک نئی حقیقت میں منقلب ہوتی ہوئی کہ شاعری تخیل کی زبان ہوتی ہے اور تخیل میں کوئی بھی معروض، حقیقی نہیں ہوتا بلکہ خیالات اور احساسات اس ’معروض‘ کی صورت اور معنویت متعین کرتے ہیں۔

تخیل کی سطح پر تحیر کی اسی آمیزش نے فہیم جوگاپوری کے اظہار کو جدت اور ندرت عطا کی ہے اور ’سوچ تحیر‘ کے یہی سلسلے نئی زمینیں تلاش کرتے رہتے ہیں اور یہی جستجو تخلیق کار کے باطن میں ایک نیا لینڈ اسکیپ خلق کرتی ہے۔

فہیم جوگاپوری کا اپنا تخلیقی لینڈ اسکیپ ہے جس میں ان کے تجربات اور تعاملات (Interactions) کے رنگ واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں اور ’سکوت‘ میں بھی ’صدا‘ کو محسوس کیا جا سکتا ہے:

شام خاموش ہے پیڑوں پہ اجالا کم ہے

لوٹ آئے ہیں سبھی ایک پرندہ کم ہے

اپنے مہمان کو پلکوں پہ بٹھا لیتی ہے

مفلسی جانتی ہے گھر میں بچھونا کم ہے

کشتیاں درد کے ساگر میں بھٹک جائیں گی

ہو گئی شام چراغوں کو جلالو پہلے

کردار دیکھنا ہو تو صورت نہ دیکھئے

ملتا نہیں زمیں کا پتہ آسماں سے

جس نے چھپا کے بھوک کو پتھر میں رکھ لیا

دنیا کواس فقیر نے ٹھوکر میں رکھ لیا

یہ کائنات کے ادراکی مشاہدات پر مبنی تخیلی، تخلیقی عمل ہے، جس سے قاری کے ذہن کی زمین کو بھی نئی روئیدگی ملتی ہے اور خیال کے افق کو نئی تابانی بھی کہ اس شاعری میں صرف ذات کا انعکاس نہیں ہے بلکہ ارتعاش بھی ہے۔ یہ شاعری فہیم جوگاپوری کے وجود کی داخلی و خارجی کائنات کا عکس نامہ ہے اور ان کے مزاجی تاثر Dispositional Affect کا اشاریہ بھی۔ ان کے درون کے نفی و اثبات کی پیمائش بھی اسی سے ہو سکتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ ان کے ہاں کتنی مثبت تاثریت Positive Affectivity ہے اور کتنی Negative یا نفی و اثبات کی سطحوں کا تناسب کیا ہے؟ کون سے برین کیمیکل زیادہ متحرک ہیں۔ ایک تخلیق کار کے Neurochemical Systems سے آگہی بھی ضروری ہے کہ ہم Brain Biochemistryکے عہد میں جی رہے ہیں اور یوں بھی جذبے کی شدت، حدت اور قوت کا اندازہ ’نظام دماغ‘ کو جانے بغیر ممکن نہیں ہے کہ تخلیق بھی دماغ کے کیمیائی عناصر کے امتزاج سے ہی وجود میں آتی ہے اور کیمیاوی اثرات کے تحت ہی اپنا رنگ بدلتی ہے۔ اس لیے ’تخلیق‘ میں موجود کیمیائی عناصر کے اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ تخلیق کار کے برین میکانزم کا مکمل طور پر پتہ چل سکے۔

فہیم جوگاپوری کی شاعری/ تخلیق کے کیمیائی تجزیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ’تخلیقی نظام‘ پر کوئی ایک کیمیائی عنصر حاوی نہیں ہے۔ ان کا تخلیقی ذہن، موسم، ماحول، وقت اور حالات کے اعتبار سے نئی نئی تجرباتی زمینوں اور ادراکی سطحوں کا لمس حاصل کرتا رہتا ہے۔ ان کا ذہن ایک ہی نقطہ یا احساس پر مرکوز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ایک ہی لہجہ یا آہنگ نہیں ہے، بلکہ مختلف آہنگ کا امتزاج ہے اور وہ بھی انفرادی نزہت و نکہت لیے ہوئے:

واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے

وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے

کھنکتی چوڑیاں ، خوشبوئیں ، پیاری باتیں

تمام وصل کے ہیں استعارے شام کے بعد

ہم فقیروں نے کبھی بیچا نہیں اپنا ضمیر

درہم و دینار سے دستار کا سودا نہ کر

کھلا تھا سامنے اک روز باب شہر بدن

کسے بتائیں جو دیکھے نظارے شام کے بعد

ان اشعار میں احساس کی سطح پر جو تضاد اور تخالف ہے، وہ فہیم جوگاپوری کے فکری تنوع کے ساتھ اس بات کا بھی پتہ دیتے ہیں کہ ان کے مشاہدات کی سمتیں کیا ہیں۔ کائنات کے اشیاء اور حقائق کی تفہیم یا تعبیر کے باب میں ان کا زاویہ نظر کیا ہے۔ ان کے تخلیقی ذہن کے فکری جغرافیہ کے ساتھ ساتھ یہ شاعری اس بات کا بھی پتہ دیتی ہے کہ فہیم جوگاپوری کے یہاں اپنے عہد کی حسیت کے انعکاس، ہم عصر حقیقتوں کے اکتشاف و اظہار، عصری واردات اور مسائل سے اموشنل انٹی میسی (Intimacy) کے ماسوا ماضی کی قدروں کی گمشدگی اور معصومیت کی جستجو ملتی ہے:

ماتھے پہ شکن آنکھوں میں جنگل کی اداسی

دیکھو تو ذرا عہد یہ میرا تو نہیں ہے

پرانی قبر سے لپٹا ہے پاگلوں کی طرح

یہ کون شخص ہے مٹتی ہوئی لکیر کے ساتھ

ستارو آؤ بدل آفتاب کا ڈھونڈیں

دیار غم سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈیں

فہیم جوگاپوری کی شاعری میں صرف جذبے کی داخلیت نہیں ہے، بلکہ زبان کی داخلیت بھی ہے۔ جذباتی اظہاریت اور زبان کی داخلیت نے اس شاعری کو قوت و تاثیر عطا کی ہے۔ یہ ایسی شاعری ہے جس کے وجود کی دیواریں نہ خستہ ہیں اور نہ ہی کسی ستون یا نقد ستارہ کی دست نگر۔ اس شاعری میں خیال کی پر آہنگ لہریں نثریت کے انتشار کو مربوط کرتی ہوئی شعری پیکر میں ڈھل کر نئی کیفیات خلق کرتی ہیں اور یہی کیفیات قاری کی باطنی دنیا کو شاداب کرتی ہوئی اپنے مکمل معنوی تلازمات کے ساتھ قاری کے شعور و احساس کا حصہ بن جاتی ہیں اور تب ایک نئی زمین و زماں قاری کے روبرو ہوتے ہیں اور ان میں تحیرات کے فانوس جھلملا رہے ہوتے ہیں ، یہی ’فانوس تحیر‘ فہیم جوگاپوری کا تخلیقی شناس نامہ ہے۔

یہ کنڈوم نما (Condomonius) مکانات میں محصور شاعری نہیں ہے بلکہ کھلی فضا اور تازہ شگفتہ ہوا کی شاعری ہے جس کی وجہ سے گھٹن اور حبس کا احساس نہیں ہوتا۔ اس شاعری میں روایت کی مہک بھی ہے اور جدیدیت کا جمال بھی۔ اس شاعری کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں خارجی معروضات کے ساتھ داخلی احساسات کا نہایت خوبصورت اشتراک ہے۔ لفظیاتی نظام کے تعلق سے بھی فہیم جوگاپوری اپنی الگ سخن کائنات آباد کیے ہوئے ہیں۔ ’فارمل‘ کے بجائے انہوں نے ’’نیچرل‘ زبان استعمال کی ہے۔ ان کے لفظ آسان اور ترسیل و تاثیر کی قوت سے معمور ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں علاقائی الفاظ نے بھی ان کے لفظیاتی نظام کو لذت کے ساتھ جدت عطا کی ہے۔

’ادھوری بات‘ تشنگی کا استعارہ ہے۔ میر تقی میر کی تشنہ لبی کی طرح۔ اور یہی احساس تشنگی تخلیق کو ’تکمیل‘ سے ہمکنار کرتا ہے اور تخلیق کار کے اس اضطراب اور تہیج کو زندہ رکھتا ہے جو نئے تخلیقی کینوس کی جستجو کے لیے ضروری ہے۔

٭٭٭

 

تخیلی انبساط کا شاعر۔۔۔ مجیب الرحمن

احساس و آہنگ کا ایک بڑا حصہ کائنات سے غائب ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر اجتماعی لاشعور کا وہ آہنگ جس سے انسانی مستقبل مربوط ہے۔ غیر انسانی آہنگ کے عروج کے اس دور میں اس مقدس آہنگ کی بازیافت ضروری ہے کہ کائنات کہیں معدوم نہ ہو جائے اور جہاں تک میری اپنی بات ہے تو میری سب سے بڑی کائنات میری جنم بھومی ’’ار ریا‘‘ ہے جس کے آہنگ سے میں خود کو الگ نہیں رکھ پاتا کہ وہ آہنگ میرے داخلی وجود میں کچھ اس طرح رچ بس گیا ہے کہ کائنات کا ہر شہر ’’ار ریا‘‘ کا ایک اجنبی سا حصہ لگتا ہے۔ گو کہ ار ریا کی باد صبا اور بوئے گل سے میرا رشتہ مغائرت کا ہو چکا ہے، مگر یہ عجب نوع کا  ناستلجیا ہے کہ ار ریا کے ہجر یا حسرت وصل میں جتنی مدت گزرتی ہے، اتنی ہی سوز میں شدت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ یہ میرے درون میں کچھ اس طرح سے شامل ہے کہ ایلیٹ اور ایذرا پاؤنڈ کے ہاں بھی ار ریا کا انش تلاش کرنے لگا ہوں ، شاید اس جنون میں میرے لاشعور کے تسلسل کا عمل دخل زیادہ ہے جس کی لہر مجھے اس مٹی سے الگ ہی نہیں ہونے دیتی اور ایک وجہ شاید تنقید کے ایک نئے جزیرے سے آشنائی بھی ہو سکتی ہے اور وہ ہے ecopoetics کا نیا تنقیدی منطقہ، شاعری کی پرکھ اور پہچان کا ایک نیا طریق کار جس میں اس موسم، ماحول، فضا کو جلا وطن نہیں کیا جا سکتا، جس سے تخلیق کار کے ذہنی نظام کا مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔

مجیب الرحمن کے مجموعہ ’نغمہ بہار‘ کی قرات کے دوران مجھے ان کے تخلیقی وجود میں اسی مٹی کا آہنگ اور احساس نظر آیا، جو ان کی زادگاہ ہے یعنی ار ریا۔ ان کے داخلی جذبہ (Inner emotion) اور تخلیقی وژن میں اس مٹی کی مہک اور خوشبو بھی محسوس ہوئی۔ ان کے داخلی شعور میں وہی موسم، مٹی اور رنگ و بو شامل ہے اور اسی داخلی شعور سے تخلیق کار کی توانائی کا بھی احساس ہوتا ہے۔

مجیب الرحمن کی شاعری مٹی کے اسی معصوم احساس و ادراک پر مبنی ہے، شہر کے شیز و فرینیا نے ان کی تہذیبی شناخت اور کردار کو سلب نہیں کیا ہے۔ اس لیے اپنی تخلیق میں وہ اپنے اس مکمل ’تہذیبی کردار‘ میں نظر آتے ہیں جسے شہر کی سفاکیت عموماً چھین لیتی ہے۔

مجیب الرحمن کے تخلیقی نظام پر وہی عنصر حاوی ہے جس میں اپنی مٹی کی سلاست، نفاست، نزاکت شامل ہے اور وہ اشارت و عبارت بھی جو شہر کی روشنی میں کھو جاتی ہے۔ عہد طفلی کا وہ لاشعور ابھی روشن ہے جس سے ان کے تخلیقی احساس کو یادوں کا نگار خانہ میسر ہوا ہے۔ مجیب الرحمن کی شاعری کی ایک بڑی خوبی اس محبت کی بازیافت ہے، جو ان دنوں شاعری سے غائب ہوتی جا رہی ہے۔ گلوبلائزیشن اور مادیت پرستی کے اس دور میں شاید یہ بہت بڑا اجتماعی المیہ ہے جس کا احساس صرف اور صرف خلاق اور دراک ذہنوں کو ہی ہے۔ ولیم بلیک، ولیم ورڈس ورتھ، سمویل ٹیلر کولرج، لارڈ بائرن، پی بی شیلے، جون کیٹس کے نغمات محبت نے نہ صرف انسانی ادراک و احساس کو معطر و منور کیا تھا بلکہ انسان کے ذہنی وجود کی تقلیب و تطہیر میں بھی نمایاں کردار عطا کیا تھا۔ انسانی کائنات سے بوئے عشق اور آہنگ محبت کا خاتمہ کیا کسی المیے سے کم ہے؟

محبت کا ہی تو آہنگ ہے جس نے انسانی ذہنوں کو روشنی عطا کی ہے۔ انسانی احساس و جذبہ میں حدت و شدت پیدا کی ہے۔ یہی تو انسانی وجودات کے داخلی ربط کا ایک ذریعہ ہے، یہی کیمیائی عنصر ہے جو انسانی وجود کو مجلی و معفی کرتا ہے۔ یہی آہنگ ہے جو انسانی وجود کو مرتعش و مضطرب رکھتا ہے اور یہی انسان کو آنند بھی عطا کرتا ہے۔

مجیب الرحمن کی شاعری اسی ’آنند‘ سے عبارت ہے۔ انہوں نے اپنے داخلی تخیلی انبساط میں قاری/کائنات کو بھی شریک رکھا ہے اور اپنے و جود میں مخفی آہنگ کی توانائیوں کا اکتشاف کر کے تخیل کی جمالیاتی مسرت سے قاری کو محروم نہیں رکھا ہے اور ساتھ ہی حیات کائنات اور اس کی میکانزم کے تعلق سے ہمارے تجسس کی تسکین کا سامان بھی کیا ہے۔

مجیب الرحمن کی شاعری میں دو لہریں نمایاں ہیں۔ ایک لہر شعور ذات کی ہے اور دوسری لہر خود فراموشی کی اور دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ باب محبت کی  شاعری عرفان ذات سے عبارت ہے جبکہ بادہ و مے کی شاعری خود فراموشی کی مکمل انبساطی کیفیت لیے ہوئے ہے۔ شعری اظہار میں احساس محبت کے رنگ یوں ہیں :

مسکرا کر پاس آنا، روٹھ کر جانا ترا

کیا مزہ دیتا ہے تجھ کو مجھ کو تڑپانا ترا

٭٭٭

جسم گداز کی ہے لطافت عذاب جاں

اور اس پہ نازنیں کی نزاکت عذاب جاں

سوچا تھا دل لگا کے مزہ آئے گا ضرور

اک ناگہاں بلا ہے محبت عذاب جاں

تم بے وفا ہوئے تو نئی بات کیا ہوئی

برسوں سے ہے یہ رسم و روایت عذاب جاں

٭٭٭

آغوش آرزو میں تو زلفیں بچھا کے دیکھ

جوش جنوں کے حوصلے بھی آزما کے دیکھ

٭٭٭

ساون کی اک لہر کوئی جیسے گزر گئی

جب بھی تمہاری زلف ہوا میں بکھر گئی

٭٭٭

مجھ پر بھی اپنا طرز ستم آزما کے دیکھ

 میری طرف بھی جان جگر مسکرا کے دیکھ

میری گرفت ہوش کو تو آزما کے دیکھ

اے چشم فتنہ ساز تو شب بھر پلا کے دیکھ

٭٭٭

الجھی ہے زلف یار میں میری نگاہ شوق

مجھ کو نہ کعبہ اور نہ بت خانہ چاہئے

یہ رنگ عاشق اور معشوق کے مزاج، ماہیت اور کردار کا بھی تعین کرتے ہیں اور اس پورے تلازمہ کی بھی جو کلاسیکی روایتی شاعری کا حصہ یا شناخت نامہ ہیں۔ اس میں میر کی محزونی محرومی بھی ہے اور غالب کا نشاط غم بھی۔ داخلی وجود میں رقصاں جذبہ و احساس کی یہ خوب صورت تعبیریں ہیں جن میں کلاسیکی فکر و فرہنگ سے کسب فیض کی روایت بھی روشن ہے، شاید اسی وجہ سے ان کے کچھ شعروں کی گونج داخلی سماعت میں بھی سنائی دیتی ہے۔

کلاسیکی شعری روایت سے آگہی کی وجہ سے مجیب الرحمن کے ساتھ معاملہ غالب کا سا ہے کہ   ؎

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

مگر یہاں بادہ و مے ایک تہذیبی علامت اور کلچرل سمبل ہے۔ یہ وہ مے نہیں ہے بلکہ اس ’مے‘ کی تہذیبی مابعد الطبیعاتی معنویت ہے اور اس مے کا رشتہ معرفت الٰہی سے ہے۔ یہ مے لا الہ الا اﷲ ہے جسے پینے کے بعد انسان پر وجدان و عرفان کی نئی منزلیں روشن ہوتی ہیں۔

کیا کہوں کیا کیا ہوا کل رات بزم ناز میں

یہ نگاہ شوق اس کافر پہ جم کر رہ گئی

تھی شہید آرزو یہ شمع جل کر رہ گئی

رات بھر تڑپا کے مجھ کو وہ ستم گر رہ گئی

٭٭٭

بدلنے رخ اگر ساقی تو مے خانے نہیں جاتے

زبردستی اٹھانے ہم وہ پیمانے نہیں جاتے

٭٭٭

توبہ توبہ توڑ دی ہے گھٹا نے برس کے آج

ساقی شراب وہ نرگس مستانہ چاہئے

٭٭٭

فضائے مے کدہ میں ایک ہی مذہب ہے مے نوشی

ادھر پنڈت، ادھر زاہد وہاں سکھ رام پیتے ہیں

٭٭٭

رسم مے نوشی یہی ہے بڑھ کے خود ہی جام لے

بزم میں سب ایک ہیں ، پیر مغاں کچھ بھی نہیں

سرشار نگاہوں سے پھر اس نے پلا ڈالی

توبہ کی قبا میری ساون میں اڑا ڈالی

٭٭٭

رخ زیبا سے اے ساقی دیکھ کے بدلی میری نیت

اٹھے جب مے کدے سے سامنے پیمانے آئے ہیں

٭٭٭

پی کر ہی آج اٹھے گا دیوانہ ساقیہ

باقی نہیں ہے مے تو نظر سے پلا کے دیکھ

بھر کے میں نے جام جو اس چشم میگوں کو دیا

کیا پلاتا میں اسے اس نے پلا کے رکھ دیا

مجیب الرحمن کے تخلیقی شعور میں وہی بادہ معرفت اور شراب عشق ہے جو انسانی روح، ضمیر، ذہن کا تزکیہ تطہیر اور کتھارسس کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں ’مے‘ کا مطلب ہے روحانی وجد(Spiritual Ecstasy)۔

مجیب الرحمن کی شاعری میں جو Sensual Images ہیں ، ان کی تفہیم کے لیے فارسی کی غزلیہ صوفیانہ روایت سے آگہی ناگزیر ہے۔ خاص طور سے عشق اور شراب کے امیجز کو صوفی مابعد الطبیعات کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

مجیب الرحمن کی خمریہ شاعری کو مشہور صوفی شاعر ابن الفرید کی الخمریہ، حافظ شیرازی، جامی اور دیگر فارسی اور عربی کے شاعروں کے تسلسل میں ہی سمجھا جانا چاہئے، جن کے ہاں شراب کی سمبالزم(Symbolism) مابعدالطبیعاتی معنویت کی حامل ہے اور اس کا استعاراتی استعمال بالکل اسی طرح ہوا ہے، جیسے ابوسعید ابوالخیر، خواجہ عبد اﷲ ہارون، سلطان باہو، بلہے شاہ، فخر الدین عراقی، علامہ اقبال، جے دیو، عمر خیام، میرا بائی، رومی اور تکا رام کے ہاں ملتا ہے۔

’نغمہ بہار‘ انسانی وجود کے رومانس، جذبہ اور جمالیاتی تخیل کا خوب صورت اظہاریہ ہے۔ اس میں Intoxication کی جو کیفیت ہے، وہ ان کی تخلیقی حرارت اور تابندگی کو قائم رکھے گی اور قاری کے جذبہ و احساس کو بھی مرتعش کرتی رہے گی۔

یہ شاعری انسانی تجربہ کے ادراک و احساس سے عبارت ہے اور اس میں زمین کا وہ آہنگ ہے، جو ہر رنگ میں زندہ و تابندہ رہتا ہے۔ جون کیٹس کی زبان میں کہیں تو

The poetry of the earth is never dead

’نغمہ بہار‘ فطرت حیات اور انسان کے تعلق سے شاعر کا جو تعبیری اور وجدانی وژن ہے، وہی اس کی توانائی اور قوت ہے اور یہی اس دور جمود میں ان کی شاعری کا جواز بھی ہے۔

٭٭٭

 

جہان دانش: خدا بخش لائبریری پٹنہ

کتاب کلچر کے زوال کے اس صنعتی عہد میں کتب خانہ اور خاص طور پر خدا بخش لائبریری کا ذکر اس لئے بھی ضروری ہے کہ انہی کتب خانوں نے مطالعہ کے ذوق جذبہ اور جنون کو زندہ رکھا ہے۔ ورنہ کتاب اور قاری کے درمیان فاصلہ نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ اس ڈجیٹل ایج (Digital Age) میں کتابوں کی معنویت مجروح ہوتی جا رہی ہے۔ انٹر نیٹ، ای میڈیا اور ای بکس کی وجہ سے مطبوعہ مواد سے آنکھوں کا رشتہ کم ہوتا جا رہا ہے، جو کہ مہذب دنیا کے لئے نہایت تشویش ناک اور خطرے کی بات ہے۔ اس کی وجہ سے ذہن کی سطح پر زوال کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں اور ذہنی ارتقاء کی راہیں مسدود ہوتی جا رہی ہیں۔ جبکہ کتابوں کے مطالعہ سے نہ صرف نفسیاتی طور پر انسان صحت مند رہتا ہے بلکہ جسمانی طور پر بھی اس کے فوائد کسی سے مخفی نہیں۔ مطالعہ کے ذوق کاانحطاط گمبھیر صورتحال کو جنم دے سکتا ہے، اس زوال کے عروج کو روکنے کے لئے لفظوں سے اپنا رشتہ جوڑنا ہی پڑے گا کہ یہی الفاظ ذہن اور ضمیر کو روشنی عطا کرتے ہیں اور لفظوں سے ہی افکار کی نئی دنیا روشن ہوتی ہے اور ذہنی آفاق کو نئی وسعتیں ملتی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ الفاظ ہی زندہ رہیں گے اور ان کی زندگی کا بڑا ذریعہ ہمارے کتب خانے ہیں۔

خدا بخش لائبریری کی تاسیس میں بھی شائد یہی جذبہ موجزن تھا اور اسی جذبہ کی روشنی نے اسے شہرت، عزت اور آفاقیت عطا کی ہے۔ یہ صرف نادر و نایاب مخطوطات و مطبوعات کا مرکز نہیں بلکہ ہماری تہذیبی اقدار کا مظہر بھی ہے اور تہذیبی شناخت کا ایک اہم حوالہ بھی۔ اس کا شمار صرف ہندوستان کی بڑی لائبریریوں میں نہیں ہوتا بلکہ عالمی سطح پر اسے کچھ امتیازات بھی حاصل ہیں۔ یہی وہ کتب خانہ ہے جہاں تاریخ خاندان تیموریہ کا نادر و نایاب نسخہ ہے جو دنیا کی کسی اور لائبریری یا میوزیم میں نہیں ہے اور یہیں 1611میں لکھا گیا جہانگیر نامہ ہے جس پر اور نگزیب کے صاحب زادہ کے دستخط ان کی شاہی مہر کے ساتھ ثبت ہیں۔ دیوان ہمایوں کا واحد نسخہ صرف اسی کتب خانہ کی رونق ہے۔ ان کے علاوہ دیوان حافظ کا وہ نسخہ بھی ہے جس کے حاشیہ پر شہنشاہ ہمایوں کی ایک تحریر ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران میں قیام کے دوران اسی دیوان سے ہمایوں فال نکالا کر تے تھے۔ ’پادشاہ نامہ‘ کا ایک نسخہ بھی ہے جس پر کنگ جارج پنجم کے دستخط ہیں۔ عہد عباسی کے مشہور خطاط یاقوت مستعصمی کی خطاطی سے مزین قرآن کریم کا نسخہ ہے۔ جس پر667ہجری مرقوم ہے۔ ہرن کی کھال پر خط کوفی میں تین آیتیں ہیں جو شاید دور صحابہ کی ہیں۔ مصحفی کے آٹھوں دواوین کے واحد نسخے کے علاوہ بعض ممتاز افراد کی اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتابیں بھی اس لائبریری کی ثروت میں اضافہ کرتی ہیں۔ دارا شکوہ کی تصنیف ’سفینۃ الاولیاء اور جامی کی سلسلۃ الذہب بخط مصنف اس لائبریری میں موجود ہیں۔ نادر و نایاب مخطوطات کے اس ذخیرہ میں بہت سی ایسی بیش قیمت کتابیں ہیں جن سے علوم و فنون کی نئی تحقیق میں مدد مل سکتی ہے اور نئے نظریئے سامنے آ سکتے ہیں۔ ایسی کتابوں میں الزہراوی کی کتاب التصریف جو کہ جراحت پر ایک مستند کتاب ہے اور کتاب الحشیش قابل ذکر ہیں۔

عالمی سطح پر خدا بخش لائبریری کی عظمت اور معنویت مسلم ہے۔ دنیا کی عظیم ترین لائبریریوں میں نیویارک پبلک لائبریری، سینٹ پیٹربرگ کی رشین نیشنل لائبریری، لندن کی برٹش لائبریری، پیرس کی Bibliotheque national de France، میڈرڈ میں نیشنل لائبریری آف اسپین، واشنگٹن میں لائبریری آف کانگریس اور دیگر لائبریریاں ہیں جن میں ہمارے تاریخی و ادبی ثقافتی آثار محفوظ ہیں۔ گو کہ دنیا کا ایک بڑا علمی ذخیرہ نذر آتش یا غرق آب کر دیا گیا پھر بھی کتابوں کی ایک بڑی کائنات ہے۔ بغداد، غرناطہ، قسطنطنیہ اور اسکندریہ میں بڑے بڑے کتب خانے رہے ہیں۔ خدا بخش لائبریری پٹنہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جہاں نادر اور نایاب کتابوں کا اتنا عمدہ اور قیمتی ذخیرہ ہے کہ جو بھی اس لائبریری کی زیارت کے لیے آتا ہے، پرانی کتابوں میں بسی ہوئی خوشبو اسے اس قدر متاثر کرتی ہے کہ وہ مسحور و مدہوش ہو جاتا ہے۔ علوم و معارف کے اتنے اہم ذخیرے کو دیکھ کر لارڈلٹن، لارڈارون، لارڈمنٹو، لارڈریڈنگ، سی وی رمن، جی سی بوس جیسی اہم شخصیتوں کا حیرت زدہ ہونا حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس لائبریری میں اتنا قیمتی ذخیرہ ہے کہ برٹش میوزیم نے اس کے عوض غیر معمولی رقم کی پیشکش کی مگر خدا بخش کے جذبے نے اس پیشکش کو یکسر مسترد کر دیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ ’’مجھ غریب آدمی کو یہ شاہی پیشکش منظور نہیں۔ ‘‘یہ لائبریری اتنی اہم ہے کہ ایڈنبرگ کے ممتاز مستشرقV.C.Scott O’ Connor نے خدا بخش لائبریری کو دنیا میں مسلم لٹریچر کا سب سے عمدہ ذخیرہ قرار دیا۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :

"The Patna Oriental Public Library is one of the finest collections on Moslim literature in the world.”

1925 میں مہاتما گاندھی نے اس لائبریری کو دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا تھا اور جواہر لال نہرو نے 1953 میں جب اس لائبریری کا دورہ کیا تو انہیں خوشگوار حیرت ہوئی۔ اسی طرح Lord Mountbatten جو پہلے گورنر جنرل تھے انہوں نے لائبریری کو دیکھ کر نہایت ہی معنی خیز جملہ کہا تھا۔

"A unique collection of which this great country may justly be proud.”

ٹیگور نے 2دسمبر1913 کو یہ لکھاکہ ’’میں نے خدا بخش لائبریری میں روشنی کے سمندر میں کھلے کنول میں چھپے شہد کا ذائقہ محسوس کیا۔ ‘‘اس طرح یہ لائبریری نہ صرف اپنی عظمت کے اعتبار سے منفرد ہے اور یہاں نایاب کتابوں کا عمدہ ذخیرہ ہی نہیں بلکہ مغل راجپوت، ترکی اور ایرانی مصوری کے نایاب نمونے بھی ہیں۔ ایسی پینٹنگس اور منی ایچرس ہیں جو ہندو دیوتاؤں کے ہیں اور وہ صرف اسی لائبریری میں ہیں۔ نایاب کتاب تاریخ خاندان تیموریہ میں 133اور یجنل  تصویریں ہیں جو ایرانی فنکار عبدالصمد کے شاگردوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ پادشاہ نامہ میں 12تصویریں ہیں۔ اس کتب خانے میں قدیم مصوری اور خطاطی کے نمونے یقینی طور پر اس عہد کے اسلوب اور طرز حیات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ صرف نمونے ہی نہیں بلکہ اس عہد کے طرز احساس کے عکاس بھی ہیں۔

خدا بخش لائبریری میں عربی، فارسی، اردو، ترکی، پشتو، سنسکرت اور ہندی میں تقریباً21,125 مخطوطے ہیں جب کہ مطبوعہ کتابوں کی تعداد تقریباً 250,00ہو گی جو عربی، فارسی، اردو، ہندی، پنجابی، انگلش، فرانسیسی، جرمن، روسی اور جاپانی زبانوں میں ہیں۔ آج اس کتب خانے کاحزفان ستارشمار ہندوستان کی اہم لائبریریوں میں ہوتا ہے جب کہ آغاز میں صرف1400مخطوطات تھے، جو خدا بخش کے والد مولوی محمد بخش نے بڑی محنت سے جمع کی تھیں۔

خدا بخش لائبریری دراصل خدا بخش خاں کے جذبے اور جنون کا مظہر ہے جنہوں نے اپنے والد کی وصیت کے مطابق ذخیرہ کتب میں توسیع کے لیے مقدور بھر کوشش کی اور ان کی کوشش رنگ لائی۔ انہوں نے کتابوں کو جمع کرنے کے لیے اپنا سارا سرمایہ خرچ کیا اور اس کے لیے باضابطہ ایک شخص کو مامور کیا جس نے مصر، شام، دمشق، بیروت، ایران اور عرب سے قیمتی مخطوطے حاصل کیے۔ اس شخص کا نام محمد مکی تھا۔ خدا بخش خاں نے اپنے والد کے خواب میں رنگ بھرنے کے لیے کسی قسم کی دشواریوں کی پرواہ نہیں کی۔ عزم محکم، یقیں پیہم اور وسیع تر وژن نے ان کی مشکل راہوں کو آسان کر دیا۔ خدا بخش خان نے اپنا سارا کچھ کتابوں پر خرچ کیا۔ یہاں تک کہ انہیں اپنے علاج کے لیے قرض لینا پڑا اور حکومت بنگال نے قرض کی ادائیگی کے لیے 8000 کی خطیر رقم عطا کی۔ ان کے والد کے خوابوں کا تاج محل خدا بخش لائبریری کی شکل میں مرجع خلائق ہے۔ جس کی بنیاد خدا بخش کے والد نے کتب خانہ محمدیہ کے نام سے ڈالی تھی۔ 1888میں خدا بخش خاں نے لائبریری کے لیے دو منزلہ عمارت بنوائی جس پر 80,000 کی لاگت آئی۔

 اس لائبریری کاباضابطہ آغاز29اکتوبر1891 میں سرچارلس ایلیٹ(Sir Charles Elliot) گورنر آف بنگال نے کیا۔ لائبریری کا نام لائبریری کے ٹرسٹی حکومت بنگال کے ٹرسٹ ڈیڈ (Trust Deed) کے مطابق بانکی پور اور ینٹل لائبریری رکھا گیا۔ 26دسمبر 1969 میں حکومت ہند نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت اسے قومی اہمیت کا ادارہ تسلیم کیا اور اس کے انتظام و انصرام اور ترقی و توسیع کے لیے فنڈ فراہمی کی ذمہ داری بھی لی۔

خدا بخش لائبریری اب تحقیقی ادارے میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں مختلف موضوعات پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ لائبریری کی فہرست بھی تیار کی جاتی رہی ہے۔ فہرست سازی کا کام 1904 میں گورنر لارڈ کرزن کے ایما پر مشہور دانشور سر ڈینسن راس (Edward Dennison Ross) کی زیر نگرانی شروع ہوا اور کیٹلاگ اور اشاریے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ ڈاکٹر عظیم الدین احمد نے 34جلدوں میں Catalogue of Arabic and Persian Menuscripts in the oriental public libraryکے نام سے مرتب کی۔ اس کے علاوہ مفتاح الکنوز کے نام سے 3جلدوں میں عبدالحمید ایڈورڈ ڈینی سن راس نے فہرست تیار کی۔ جس کی تیسری جلد سید اطہر شیر کی مرتب کر دہ ہے۔ عابد امام زیدی نے بھی خدا بخش اور ینٹل پبلک لائبریری کی فہرست مخطوطات اردو مرتب کی۔ زیڈ اے ڈیسائی نے یہاں کے عربی اور فارسی مخطوطات کی فہرست تیار کی اور ایم ذاکر حسین نے تین جلدوں میں وضاحتی فہرست ترتیب دی۔ اس طرح خدا بخش لائبریری کے مخطوطات اور مطبوعات کی وضاحتی فہرست نہ صرف اسکالرز اور محققین کے لیے مشعل راہ ہے بلکہ اس کے ذریعے کسی بھی موضوع کی نئی جہتوں کی جستجو میں بھی مدد ملتی ہے۔

خدا بخش لائبریری کا ایک تحقیقی جرنل ’خدا بخش جرنل‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ یہ مجلہ کثیر لسانی ہے۔ مشرقی اسلامی مطالعات اور تاریخ و تہذیب پر مرکوز اس جرنل میں نہایت وقیع عالمانہ اور دانشورانہ مضامین شائع ہوتے ہیں۔ یہ جرنل 1977سے شائع ہو رہا ہے۔ جرنل کے علاوہ مخطوطات کی تدوین، ترتیب اور اشاعت کا بھی اہتمام خدا بخش لائبریری نے کیا ہے۔ اس لائبریری نے اب تک جو کتابیں شائع کی ہیں ، موضوعی اعتبار سے ان میں جدت اور ندرت ہے۔ خاص طور پر قدیم تذکرے اور ان کی تلخیصات کی اشاعت نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ ان تذکروں سے ادب کی ایک مبسوط تاریخ کی ترتیب و تدوین میں مدد ملتی ہے اور مختلف عہد کے تخلیقی مزاج و منہاج کا پتہ چلتا ہے۔ علمی ادبی تحقیق کو بھی ان کتابوں سے بہت سی جہتیں ملی ہیں اور تحقیق کی نئی راہیں بھی کھلی ہیں۔ مختلف موضوعات اور اصناف پر محیط کتابوں میں ہندوستانی تاریخ اور تہذیب سے متعلق کتابیں بھی شامل ہیں۔ یہ ہندوستانی تاریخ اور تہذیب کی نئی سمتوں کاتعین کرتی ہیں اور تاریخ وتہذیب کی نئی تفہیم اور تعبیر کی صورتیں بھی پیدا کرتی ہیں۔ یہ موضوعات فی نفسہ بھی اہم ہیں اور کچھ محققین کے ذہن رسانے بھی ان موضوعات کو معنویت عطا اخزوں سے کیا کم ہے!!!نی شہزاد قیس کی ویب سائٹ پر ہے۔ مکمل کتاب کے لئے وہیں سے پی ڈی ایف فائل ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔کی ہے۔ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور تاریخ کے حوالے سے بھی کچھ کتابیں خدا بخش لائبریری نے شائع کی ہیں جو دو قوموں کے درمیان در آئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہیں اور مسخ شدہ حقائق کو نئی صورتوں میں پیش کرتی ہیں۔ تعصب زدہ تاریخ نے جس نظریاتی شدت اور فکری فسطائیت کو جنم دیاہے، اس تاریخ کی تنسیخ کاعمل بھی ضروری ہے ورنہ جھوٹ کو سچ میں تبدیل ہوتے زیادہ دیر نہیں لگتی اور پھر اس سچ کو جھوٹ ثابت کرنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ 1857 کی مثال سامنے ہے جہاں ایک سچ صدیوں سے کراہ رہا ہے مگر وہ ایک ایسے خزینے میں مدفون میں ہے جو شاید سرکاری تحویل میں ہے وہ اگر سامنے آ جائے تو تاریخی منطق تبدیل بھی ہو سکتی ہے اور تحریک آزادی کے تعلق سے ایک بالکل چونکانے والا نظریہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔ مگر کچھ مخصوص ذہن وفکر کے لوگ صحیح حقائق کو منظر عام پر لانے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں کہ اس کی وجہ سے ان کی فکری اور نظری منطق کا مغالطہ لوگوں پر آشکار ہو جائے گا۔ علمی سطح پر یہ جو روش کچھ مخصوص ذہن و فکر رکھنے والوں کی وجہ سے پنپ رہی ہے اس کی بیخ کنی نہایت ضروری ہے۔ خدا بخش لائبریری کے توسیعی خطبات اور ادبی علمی تقریبات کا موضوع بھی یہی مسائل و مباحث ہوتے ہیں جو یقیناً ملک اور سماج کو ایک نئی مثبت اور صحت مند فکر، احساس یا نئے جذبے سے روشناس کراتے ہیں۔

خدا بخش لائبریری صرف ہندوستانی محققین کے لیے اہم مرکز نہیں ہے بلکہ غیرملکی محققین بھی اس کتب خانے سے استفادہ کرتے ہیں۔ تحقیق کے سفر میں خدا بخش لائبریری کی کتابیں نہ صرف ان کی معاون و مددگار ہوتی ہیں بلکہ ذہن کو نئی جہتوں اور زاویوں سے روشناس بھی کرتی ہیں۔

خدا بخش لائبریری میں عربی، فارسی تحقیقات کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس کے تحت فیلوشپ بھی دی جاتی ہے، اسلامی اور مشرقی مطالعات اور تاریخی تناظرات سے متعلق تحقیق کا جو جذبہ ہے یقیناً قابل رشک ہے مگر خدا بخش لائبریری جیسے بڑے اداروں کو اب اپنی تحقیق کامنہج بدلنا چاہئے اور (Jacques Paul) کی طرح (Mign Graeca) اور (Migne Latina) جیسی 379جلدوں پر محیط  انسائیکلوپیڈیا ترتیب دینی چاہئے جو جامع الفنون ہو۔

خدا بخش لائبریری کی یہ خوش بختی رہی ہے کہ اس کے سلسلہ ملازمت سے وابستہ بہت سی مشہور شخصیات رہی ہیں مولانا مسعود عالم ندوی جیسی شخصیت بھی اس لائبریری سے وابستہ رہی ہے جن کے علمی تبحر کا اعتراف زمانہ کرتا ہے۔ ایک نابغہ روزگار شخصیت جنہیں عربی زبان پر گہرا عبور تھا اور جن کی تصنیفات محمد بن عبدالوہاب ایک مظلوم اور بدنام مصلح، ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک، مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار و خیالات پر ایک نظر، اشتراکیت اور اسلام حوالہ جاتی حیثیت رکھتی ہیں۔ عربی زبان کے محقق مولانا مسعود عالم ندوی اوگانوی1937 میں خدا بخش لائبریری سے وابستہ ہوئے کیٹلاگس کی ترتیب میں تحقیق کی عمدہ مثال قائم کی۔ اسی طرح اس لائبریری سے پروفیسر عبدالرشید جیسی شخصیت کی وابستگی ریفرینس اسسٹنٹ کی حیثیت سے رہی ہے جو عربی زبان کے محقق اور پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ عربی کے حیثیت سے معروف و ممتاز ہیں۔ دیوبند کے فیض یافتہ پروفیسر عبدالرشید نے طبقات الشافعیہ کی تدوین کی۔ ملک کے موقر مجلات میں ان کے شائع شدہ مقالات ان کی مطالعاتی وسعت اور لسانی قدرت کا ثبوت ہیں۔

اس لائبریری کو ہمیشہ بے لوث اور مخلص ڈائریکٹر ملے ہیں۔ اس لائبریری کے ڈائرکٹر عابد رضا بیدار جیسے دانشور رہے ہیں جن کا زمانہ خدا بخش لائبریری کا عہد زریں ہے۔ ان کے پاس ایک وژن تھا اور منفرد سوچ تھی اور ان کا طریقہ کار سب سے الگ تھا۔ ان کے دور میں لائبریری کی شہرت و عظمت میں غیر معمولی اضافہ بھی ہوا اور لائبریری عام توجہ کا مرکز بھی بنی۔ لائبریری کی تحقیقی سرگرمیوں میں نئی جان آئی اور سچ مچ قومی اور عالمی سطح پر خدا بخش لائبریری کو جو شناخت میسر ہے، وہ عابد رضا بیدار کی پیہم جد و جہد اور کوششوں کا ثمرہ ہے۔ گو کہ وہ بعض افراد کی شر پسندی کا شکار بھی ہوئے اور انہیں دائرہ اسلام سے خارج بھی کیا گیا اور یہ معاملہ اخبارات میں اچھالا گیا شاید مئی1992 میں ایس ایم محسن کی کتاب کی تقریب میں انہوں نے کفر کی نئی تشریح پر زور دیا تھا اور ہندوؤں کو زمرۂ کفار سے نکالنے کی درخواست کی تھی۔ اسی عالمانہ سوال پر انہیں کافر قرار دے دیا گیا بہرحال عابد رضا بیدار کی علمی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ وہ ایک بلند پایہ دانشور، محقق ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف زمانہ کرے گا۔ ان کے علاوہ خدا بخش لائبریری پٹنہ کے ڈائرکٹر میں حبیب الرحمن چغانی اور ڈاکٹر ضیاء الدین انصاری جیسی شخصیتیں بھی رہیں جو علمی دنیا میں تعارف کی محتاج نہیں۔ خدا بخش لائبریری کے موجودہ ڈائریکٹر ڈاکٹر امتیاز احمد تاریخ میں استناد کا درجہ رکھتے ہیں انہوں نے عبدالرحیم خانخاناں پر نہایت وقیع کام کیا ہے۔ پٹنہ یونیورسٹی سے تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر امتیاز احمد نے متنازعہ فلم ’’جودھا اکبر‘‘ کے بارے میں بھی اپنی تاریخی بصیرت اور علمیت کا ثبوت دیا اور ان کے حوالے سے انگریزی اخبارات میں جودھا اکبر کے بارے میں بہت ساری تفصیلات سامنے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ جودھا بائی اکبر کی بیگم نہیں تھی۔ ابوالفضل کے اکبر نامہ، عبدالقادر بدایونی کے منتخب التواریخ اور نظام الدین بخشی کے طبقات اکبری میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ انیسویں صدی میں جودھا کا نام اس وقت سامنے آیا جب کرنل ٹوڈ نے اپنی کتاب Annals and Antiquity of Rajasthan میں اس کا ذکر کیا۔

خدا بخش لائبریری کے ان ڈائریکٹرز کے امتیازات ان کے کارناموں سے روشن ہیں۔ ان کے تحقیقی مقالات ان کے مطالعے کی وسعت اور وژن کی ہمہ جہتی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان اہل نظر نے علم و ادب کی تازہ بستیاں آباد کی ہیں اور اس کے لیے کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہیں۔ خود ان کے کارنامے بولتے ہیں۔ خدا بخش لائبریری کی توسیع میں ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے خدا بخش لائبریری کے سرمائے کا نہ صرف تحفظ کیا بلکہ تحفظ کی نئی صورتیں اور شکلیں بھی تلاش کیں۔ چنانچہ اس لائبریری کا امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں ہاتھ سے لکھے مسودوں کو افادۂ عام کے لیے Computerizedکمپیوٹرائیزڈ  کیا گیا جو دراصل جواہر لال نہرو کے ان جملوں کی تعبیر ہے جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ ان مخطوطات کو جدید ترین تکنیک سے ری پروڈیوس کیا جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی اسے دیکھ سکیں اور استفادہ کر سکیں۔

خدا بخش لائبریری مسلسل ارتقا کی راہ پر گامزن ہے۔ فروری2003 میں نیشنل مشن فارمینواسکرپٹس کاآغاز ہواتواس کے لیے ایک نوڈل ایجنسی کے طورپر خدا بخش لائبریری کاانتخاب کیاگیا۔ اس کے تحت اسے MRCاور MCCکی ذمے داریاں دی گئیں۔

خدا بخش لائبریری کی شہرت اور مقبولیت کے کئی حوالے ہیں۔ نادر و نایاب کتابیں ، تصاویر اور مطبوعہ کتابوں کی کثیرتعداد اور ان سب کے پیچھے بس ایک جذبہ تھاکہ اچھی اور عمدہ کتابوں کا ایک ذخیرہ دنیا کو عطا کریں۔ حیرت ہوتی ہے کہ خدا بخش خاں نے کتنی نیک نیتی کے ساتھ اس کام کاآغاز کیا تھا کہ آج خدا بخش لائبریری شہرہ آفاق حیثیت کی حامل ہے اور پوری دنیا کے محققین اس لائبریری سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں۔ خدا بخش  خاں کے جذبہ وجنون کو سلام کرناچاہئے جنہوں نے اپنی ساری سرگرمیوں کو لائبریری میں محدود کر دیا تھا۔ ان کے ذہن میں بس ایک ہی خواب تھا ایک کتب خانے کا قیام جس سے سبھی استفادہ کریں۔

اپنے ذہن میں پاکیزہ خواب سجا کر دنیا کو ’تخیل کی توانائی‘ اور علم کی طاقت عطا کرنے والے خدا بخش کا تعلق ضلع سیوان کے ایک گاؤں اوکھی سے تھا ان کے والد محمد   بخش پٹنہ کے مشہور وکیل تھے جنہیں نادر کتابیں جمع کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ وہ آمدنی کا ایک بڑا حصہ کتابیں خریدنے پر صرف کرتے تھے۔ 2اگست1842 میں خدا بخش خاں کا جنم ہوا۔ 1859 میں انہوں نے پٹنہ ہائی اسکول سے میٹرک کاامتحان پاس کیا اور پھر پٹنہ یونیورسٹی سے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور پیش کار کی حیثیت سے پیشہ ورانہ زندگی کاآغاز کیا۔ 1877 میں وہ پٹنہ میونسپل کارپوریشن کے پہلے وائس چیئرمین بنے۔ سرکاری وکیل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1891 میں انہیں خان بہادر کاخطاب ملا اور 1903 میں سی آئی بی C.I.B.کے خطاب سے سرفراز ہوئے۔ 1895 میں حیدرآباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے تقرری ہوئی جہاں تقریباًتین سال تک رہے اور پھر پٹنہ واپس آکر وکالت کاآغاز کیا مگر بیمار پڑنے کی وجہ سے ان کی مصروفیات محدود ہو گئیں۔ ان پر فالج کاحملہ ہوا۔ اور 3اگست1908 میں 66سال کی عمر میں انتقال فرماگئے اور لائبریری کے احاطے میں ہی سپردخاک ہوئے۔

ان کی خدمات کو یاد رکھنے کے لیے خدا بخش لائبریری نے خدا بخش ایوارڈ کے سلسلے کا بھی آغاز کیا ہے۔ جس کے تحت علوم و ادبیات کے مختلف میدانوں میں امتیازی کارنامہ انجام دینے والوں کی خدمات کا اعتراف کیاجاتا ہے۔ چنانچہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے سلسلے میں ڈاکٹربی این پانڈے اور سبھدرا جوشی، فارسی زبان وادب میں پروفیسرنذیراحمد، پروفیسرامیرحسن عابدی، عربی زبان وادب میں پروفیسر عبدالحلیم ندوی جیسی ہستیوں کو خدا بخش ایوارڈ عطاکیے گئے۔ ہندوستانی تاریخ اور ثقافت کے میدان میں بین الاقوامی شہرت کے حامل ممتازمورخ پروفیسر عرفان حبیب خدا بخش ایوارڈ سے سرفراز کیے گئے تووہیں صوفی ازم میں نمایاں خدمات انجام دینے کے لیے پروفیسر جگتار سنگھ گریوال کا انتخاب کیاگیا۔ ایوارڈ کایہ سلسلہ یقینی طورپر قابل تحسین ہے کہ اس کے ذریعہ نہ صرف خدمات کااعتراف ہوتا ہے بلکہ کام کرنے کے جذبے کو بھی تحریک ملتی ہے۔

خدا بخش لائبریری کی عظمتوں کا اعتراف زمانے کو ہے۔ اہل دانش و بینش نے بھی خدا بخش لائبریری کی خدمات کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لیااور اس کتب خانے کی عظمت و اہمیت کے حوالے سے مضامین لکھے۔ پروفیسرسیدنجیب اشرف ندوی نے مجلہ معارف اعظم گڑھ (مارچ1923) میں کتاب خانہ مشرقی پٹنہ کے عنوان سے مضمون لکھا اور Vincet نے An Eastern Library کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ مبارزالدین رفعت نے ایک مشرقی کتب خانہ کے نام سے کیا۔ یہ کتاب انجمن ترقی اردو علی گڑھ سے 1950میں شائع ہوئی۔ ان کے علاوہ J.I.Hasler نے دی مسلم ورلڈ میں The Oriental Library Bankipur کے عنوان سے مضمون لکھا۔ یہ مضامین خدا بخش لائبریری کی عظمت کا ثبوت بھی ہیں اور اس بات کااشارہ بھی کہ ہندوستان میں بہت کم کتب خانے ایسے ہیں جہاں اتنا عمدہ اور قیمتی ذخیرہ اور نسخہائے خطی ہیں۔                                ٭٭٭

 

زندہ لفظوں کا روشن مینار رامپور رضا لائبریری

رامپور میں بھی ایک تاج محل ہے۔

اس تاج محل سے بالکل مختلف جس کے بارے میں ساحر لدھیانوی جیسے حساس شاعر نے کہا تھا

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

آگرہ کا یہ تاج محل فردیت کی علامت ہے تو دار السرور رامپور کا تاج محل اجتماعیت کا استعارہ۔ شاہجہاں کا تاج محل مظہر الفت اور نشان سطوت شاہی کے ساتھ محض ایک مقبرہ ہے مگر مہابھارت کے عہد میں پنچال بادشاہت کا حصہ رہ چکے رامپور کے تاج محل میں زندہ لفظوں کے روشن مینار ہیں۔ اس میں انسانی تہذیب و تاریخ کے اجتماعی شعور اور لاشعور کے ساتھ ساتھ عجائبات اور نوادرات کا خزینہ ہے۔ اس تاج محل میں احساس کی قندیلیں ہیں ، ذہن کی جولانیاں ہیں ، فکر کی تابانیاں ہیں ، خیال کی رعنائیاں ہیں۔ جمنا کنارے شاہجہاں کا تاج محل تو صرف سنگ و خشت کا ایک خوبصورت مجسمہ ہے جبکہ کوسی (جس کا پانی بقول غالب اتنا میٹھا کہ پینے والے کو شربت صاف کا گماں گزرے، ہاضم اور سریع النفوذ پانی) ، ناہل، رام گنگا کے درمیان واقع رامپور کے تاج محل کی اساس عرفان و آگہی کی اینٹوں پر ہے۔ 1648 میں پایہ تکمیل کو پہنچنے والے مغل طرز تعمیر کے شاہ کار تاج محل سے صرف احساس کا ارتعاش ہوتا ہے جبکہ 1744 میں نواب فیض اﷲ خاں کی تشکیل کر دہ ریاست رام پور میں واقع تاج محل سے انسان کا باطن آگہی کی آگ سے روشن ہوتا ہے اور باطن میں صنوبر کے درخت اگتے ہیں۔ ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کر دہ  تاج محل میں صرف تخیل کا رومان ہے جبکہ اجتماعی حافظے اور انسانی احساس کے تحفظ کے لیے تعمیر کر دہ رامپور کا تاج محل تخیل اور تعقل کی جولان گاہ ہے۔ یہاں وہ تہذیبی، ثقافتی، علمی سرمایہ ہے جس سے کوئی بھی قوم اپنی تاریک تقدیر کو تابندہ کر سکتی ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ روہیلہ پٹھان جن کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں ان میں کیسے یہ احساس بیدار ہوا کہ تلواروں سے نہیں ، تحریروں سے تقدیریں بدل سکتی ہیں کہ تلواریں نگوں ہو جاتی ہیں مگر تحریریں ہمیشہ سربلند رہتی ہیں۔ تلواروں سے جنگیں تو جیتی جا سکتی ہیں مگر دل، ذہن اور ضمیر نہیں۔ اس تبدیلی احساس نے ان کے اندر علم و ادب کی ایک ایسی کائنات کو روشن کر دیا جس سے صرف ان کے ذہن منور نہیں ہوئے بلکہ اس کی تابانی دور دور تک پھیلی اور اسی تابانی کی تشکیل کتابوں کے تاج محل رضا لائبریری کی شکل میں ہوئی اور اس کے معمار ہیں وہ نوابین رامپور جو علم و ادب کے شیدائی تھے، جن کی علم دوستی اور ادب پروری نے ایک چھوٹے سے شہر رامپور کو بلدۂ کمال و جمال میں تبدیل کر دیا اور ملک بھر کے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں نے اس سرزمین کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز کیا۔

غدر کے زمانے میں دلی میں ابو ظفر محمد سراج الدین بہادر شاہ ظفر (24 اکتوبر 1775- 7 نومبر 1862) کا دربار ویران ہوا، تو رامپور کا دربار آباد ہوا۔ کتنے شعرا و ادبا نے یہاں اقامت اختیار کی اور نوابین کی سرپرستی نے ان کے احساس و اظہار کی تابندگی کو مزید جلا بخشی۔ نوابین رام پور شعر و ادب کا شائستہ مذاق رکھتے تھے بلکہ بعض نوابین تو خود شعر گوئی میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ نواب یوسف علی خاں بہادر فردوس مکاں (1816-1865) بھی شاعر تھے۔ ان کا تخلص ناظم تھا۔ تلمیذ غالب ناظم کا ’آب زر‘ سے لکھا ہوا دیوان لائبریری میں محفوظ ہے۔ ان لوگوں کی وجہ سے رامپور کی سرزمین تخلیقی اعتبار سے باغ و بہار بن گئی۔ غالب (27 دسمبر1797 – 15 فروری1869) جیسے شاعر نے بھی یہاں  کے راج دوارا میں ڈاک خانے سے متصل مکان میں اقامت اختیار کی جو اب ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی کے مطابق لکشمی نواس میں بدل گئی ہے اور غالب نواب کلب علی خاں بہادر خلد آشیاں (1834-1887) جنہیں 23 جنوری 1875 میں فرزند دل پذیر دولت انگلشیہ کا خطاب ملا تھا اور  1877 میں 15بندوقوں کی سلامی دی گئی تھی اور جو بقول غالبؔ بہ اعتبار اخلاق آیتہ رحمت اور خزانہ فیض کے تحویلدار تھے۔، کے الطاف خسروانہ سے مستفیض ہوئے، جس کا اظہار اپنے ایک شعر میں غالبؔ نے یوں کیا

در پہ امیر کلب علی خاں کے ہوں مقیم

شائستہ گدائی ہر در نہیں ہوں میں

اور میر مہدی مجروح کو یہ لکھا کہ جو لطف یہاں ہے وہ اور کہاں ہے، Romantic Disposition کے شاعر مومن خاں مومن (1851-1800) ، نواب مرزا خاں داغ دہلوی (1905-1831) اور امیر مینائی لکھنوی (1900-1826)  جیسے شاعروں کا بھی اس شہر سے رشتہ رہا ہے۔

ارباب کمال کی اس سرزمین رام پور میں بکھنگم پیلس (Buckingham Palace) کا مثنیٰ نظر آنے والی رضا لائبریری کی پرشکوہ عمارت  Indo-Sarasenic طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ کتب خانہ جس کا سفر نواب سید علی محمد خاں (1705-1749) کے صاحبزادے نواب سید فیض اﷲ خاں (1733-1794) کے دور میں 1774 میں توشہ خانے سے شروع ہوا تھا، نواب سید محمد سعید خاں بہادر جنت آرام گاہ (1786-1855) کی خصوصی توجہ سے اس کے لیے ایک الگ کمرہ مختص کیا گیا، لکڑی کی الماریاں تیار کی گئیں اور ایک افغانی اسکالر آغا یوسف علی محوی کو لائبریری کی ترتیب و تنظیم کے لیے مامور کیا گیا اور لائبریری کی کتابوں کے لیے فارسی میں ایک مہر بنائی گئی جس پر یہ شعر کندہ تھا

ہست ایں مہر بر کتب خانہ

والیٔ رامپور فرزانہ

لائبریری کو نوادرات سے مالامال کرنے کے لیے نواب کلب علی خاں کی مساعی جمیلہ بھی کم نہیں رہی ہیں۔ انہوں نے نایاب مخطوطے اور پینٹنگس اور اسلامی خطاطی کے نمونوں کے لیے بے پناہ کوششیں کیں۔ مختلف ملکوں کا دورہ کیا اور انہی کی وجہ سے لائبریری کو قرآن کریم کا وہ نسخہ ملا، جو چمڑے پر لکھا ہوا ہے اور حضرت علی سے منسوب ہے۔ ان کے بعد نواب مشتاق علی خاں بہادر عرش آشیاں (1856-1889) نے لائبریری کی ترقی اور توسیع کے لیے بجٹ مختص کیا اور نئی عمارت تعمیر کی۔ عالیجاہ فرزند دل پذیر دولت انگلشیہ مخلص الدولہ ناصر الملک امیر الامرا نواب سر سید محمد حامد علی خاں بہادر جنت مکاں (1875-1930) نے اپنے عہد میں عالیشان عمارتیں بنوائیں۔ انہوں نے ہی خاص باغ میں قلعہ کے اندر حامد منزل تعمیر کروائی، جس کے چیف انجینئرW.C.Wright تھے۔ اسی حامد منزل میں  1957 میں لائبریری منتقل کر دی گئی اور پھر جب فرزند دل پذیر نواب ڈاکٹر سر سید محمد رضا علی خاں بہادر فردوس مکیں (1966-1906)  مسند نشیں ہوئے تو انہوں نے لائبریری کی تنظیم نو کی۔ وہ خود بھی ہندوستانی موسیقی کے دلدادہ تھے، اس لیے انہوں نے ہندوستانی موسیقی سے متعلق بہت سے نایاب مخطوطے خریدے۔  1949 میں وفاق ہند میں رام پور ریاست کے الحاق کے بعد یہ لائبریری ٹرسٹ کے حوالے کر دی گئی اور یکم جولائی 1975 میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت یہ لائبریری مرکزی حکومت کی تحویل میں چلی گئی اور اس وقت نواب سید مرتضیٰ علی خاں (1982-1923) نو تشکیل شدہ بورڈ کے وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔

نواب رضا علی خاں سے موسوم یہ لائبریری اب خود مختار قومی ادارہ ہے جہاں ملک اور بیرون ملک کے اسکالرس آتے ہیں اور تحقیقات عالیہ سے دنیا کو فیضیاب کرتے ہیں۔ نوادرات اور مخطوطات کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کی شناخت ہے۔ نواب لوہارو کے علمی ذخیرہ کی شمولیت سے اس کی افادیت میں اور اضافہ ہوا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی (3 جون 1857- 18 نومبر 1914) جیسے دانشور اور مفکر نے 6 اپریل 1914 کو جب اس لائبریری کی زیارت کی تو انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’ہندوستان میں اس سے بہتر کوئی ذخیرہ نہیں ہے۔ میں نے شام، ترکی اور یورپ کی لائبریریاں بھی دیکھی ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان تمام لائبریریوں سے زیادہ عمدہ ذخیرے کی حامل ہے۔ ‘‘

اس لائبریری میں 20 ہزار مخطوطے، 5ہزار منی ایچر پینٹنگس، 3 ہزار اسلامی خطاطی کے نایاب نمونے اور 80 ہزار مطبوعہ کتابیں ہیں جن میں سنسکرت، ترکی، تمل اور ہندی کتابیں بھی شامل ہیں اور ایسے نوادرات بھی ہیں جن کی نظیر دنیا کے کتب خانوں میں نہیں ملتی۔ علوم و معارف کے اس قدیم خزینے کو دیکھ کر کویت میوزیم کے سابق ڈائریکٹر نے کہا کہ کویت میوزیم سے زیادہ نایاب اور قیمتی مخطوطات یہاں ہیں۔  تاریخ، فلسفہ، مذاہب، سائنس، آرٹ، ادب، طب، فلکیات، نجومیات، ریاضیات، طبقات الارض، فنون لطیفہ سے متعلق مخطوطات ہیں۔ جس کی تفصیلات مولانا امتیاز علی خاں عرشی کی 6 جلدوں پر محیط عربی مخطوطات کی فہرست، حافظ احمد علی شوق کی مرتب کر دہ فہرست اور حکیم محمد حسین خاں شفا کی مخطوطات رام پور میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ واحد کتب خانہ ہے جہاں اونٹ کے چمڑے پر لکھا ہوا کوفی رسم الخط میں قرآن کریم کا ایک نسخہ ہے جو حضرت علی سے منسوب ہے۔ بغداد کے وزیر اعظم ابن مقلہ کا لکھا ہوا قرآن کریم کا ایک نسخہ صرف یہاں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ راج کمار منوہر اور راج کماری مدھو مالتی کی داستان عشق پر مبنی ملک منجن کی مدمالتی اور ملک محمد جائسی (1664-1542) کی اودھی زبان میں لکھی ہوئی مشہور عشقیہ داستان پدماوت کی مکمل کاپی صرف یہیں محفوظ ہے۔ مولانا امتیاز علی خاں عرشی کے بقول جو اس لائبریری کے ناظم تھے۔ ’’اس لائبریری کی سب سے پرانی کتاب قرآن مجید کا ایک نسخہ ہے، جسے بغداد کے وزیر اعظم ابن مقلہ (ابو علی محمد بن علی بن حسن بن عبد اﷲ بن مقلہ بیضاوی، 272ہجری میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ 3عباسی خلفا مقتدر باﷲ، قاہر باﷲ اور راضی باﷲ کے دور میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے، حاسدین کی وجہ سے جیل میں ان کے ہاتھ کاٹ ڈالے گئے مگر اس کے باوجود وہ اپنے بازو کے ساتھ قلم باندھ کر خطاطی کرتے تھے۔ ثلث، ریحان، محقق، توقیع، نسخ اور رقع انہی کی ایجاد ہے۔ ابجد کی نئی ترتیب بھی ان ہی کی دین ہے۔ راضی باﷲ کے عہد میں اس نابغہ عصر کو قتل کر دیا گیا۔ح ۱)  نے 939ء سے دو تین سال پہلے لکھا تھا۔ یہی وہ شخص ہے، جس نے کوفی خط کو ایسا موڑ دیا کہ موجودہ خط نسخ پیدا ہو گیا۔ تذکرہ نگاروں نے بتایا ہے کہ ابن مقلہ نے اپنی زندگی میں قرآن مجید کی صرف دو کاپیاں تیار کی تھیں۔ رضا لائبریری کی خوش قسمتی ہے کہ ان میں سے ایک یہاں محفوظ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صرف ایک یہی نسخہ ہزارہا پونڈ قیمت کا ہے۔ یہ نسخہ اس لحاظ سے بھی نادر ہے کہ کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب کا بہت پرانا نمونہ ہے۔ قرآن مجید کی جو تفسیریں دنیا میں موجود ہیں ، ان میں سب سے پرانی امام سفیان ثوری کی تفسیر ہے، اس کتاب کا یکتا نسخہ بھی یہاں موجود ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر حکومت ہند کی مدد سے لائبریری نے ابھی حال ہی میں اسے شائع کر دیا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی کا ایک عرب شاعر جریر بن عطیہ ہے۔ اس کا دیوان کئی بار چھپ چکا ہے، مگر رضا لائبریری میں اس کی جو کاپی محفوظ ہے اس میں ابن حبیب بغدادی کی مفصل شرح بھی شامل ہے۔ جو لوگ ابن حبیب بغدادی سے واقف ہیں ، وہ اس شرح کی اہمیت کو پہچان گئے ہوں گے۔ فارسی قلمی کتابیں بھی اپنی تعداد اور حسن و خوبی کے لحاظ سے عربی کے ہم پلہ ہیں ان میں خصوصیت کے ساتھ تصوف، طب، تاریخ اور ادب پر اتنی اور ایسی ایسی کتابیں محفوظ ہیں کہ کوئی تحقیقی کام کرنے والا بھی ان سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ’’تفسیر طبری‘‘ کے فارسی ترجمے کی پہلی جلد یہاں ہے، جو اپنی قدامت اور خوشخطی دونوں کے لحاظ سے ایک قیمتی ہیرا ہے۔ ’’تفسیر زاہدی‘‘ فارسی نثر کے پرانے نمونوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے تین مکمل نسخے یہاں ہیں ، جو خط بہاری کے بھی عمدہ نمونے مانے جاتے ہیں۔ کلیات سعدی، کلیات خسرو اور شاہنامہ فردوسی کے بھی بہت اعلیٰ اور پرانے نسخے محفوظ ہیں۔ عہد فیروز شاہی کی ایک فارسی کتاب محفوظ ہے، جو ہے تو فن ریاضی پر مگر اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں دفتری اصطلاحیں کیا تھیں اور مختلف انتظامی عہدوں کے فرائض کیا قرار دیے گئے تھے۔ اس کا نام ’’دستور الالباب فی علم الحساب‘‘ ہے۔ اس کی قدر و قیمت کی ہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا تک سے اس کے مائیکرو فلم طلب کیے گئے ہیں۔ طب کی مشہور کتاب ’’ذخیرۂ خوارزم شاہی‘‘ (ایران کے نامور طبیب سید اسمٰعیل جرجانی کا یہ طبی انسائیکلوپیڈیا ابن سینا کے القانون کی طرح ہے، جس میں منافع الاعضا، تشریح الاعضا، علم الجنین، تشخیص، سلعات، سرطانات، حفظان صحت اور دیگر طبی موضوعات و مباحث ہیں۔ح الف) کا ایک ایسا نسخہ یہاں محفوظ ہے، جو مؤلف کے انتقال سے صرف 34 برس بعد 565ھ میں لکھا گیا ہے۔ اردو کی قلمی کتابیں اگرچہ تعداد میں عربی و فارسی سے کم ہیں ، مگر قدر و قیمت کے اعتبار سے کسی طرح کم وزن نہیں۔ دیوان زادہ شاہ حاتم، کلیات میر، کلیات سودا، کلیات جرأت، کلیات حسن، دیوان سوز اور دیوان غالب کے بڑے اہم مخطوطے یہاں ملتے ہیں۔ انشاؔ کی ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ کے دو قلمی نسخے یہاں محفوظ تھے، جن کی مدد سے اس کہانی کا صحیح ترین ایڈیشن تیار کیا جا سکا۔ یہاں غالب کا وہ اردو دیوان بھی موجود ہے، جسے غالب نے 1857 سے کچھ قبل مرتب کر کے نواب صاحب رام پور کو تحفے میں پیش کیا تھا۔ ہندی کی قلمی کتابوں میں بھی بہت سے نایاب نسخے ہیں۔ ملک منجن کی ’’مدمالتی‘‘ کی پوری کاپی صرف یہاں ہے۔ ملک محمد جائسی کی ’’پدماوت‘‘ کی جو کاپی یہاں ہے، وہ ’’پدماوت‘‘ پر کام کرنے والوں کے نزدیک بڑی قیمتی ہے، اس لیے کہ اس میں ہر لفظ کا صحیح تلفظ بتایا گیا ہے اور سطروں کے بیچ میں ہر ہندی لفظ کے فارسی معنی لکھے گئے ہیں۔ اس سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اب سے تین سو سال پہلے ’’پدماوت‘‘ کو کیسے پڑھا گیا تھا اور اس کا کیا مطلب سمجھا گیا تھا۔ سید غلام نبی رسلین بلگرامی کی ’’انگ درپن‘‘ اور شاہ محمد کاظم کی ’’نعمات الاسرار‘‘ اور شاہ عالم ثانی کی ’’نادرات شاہی‘‘ بھی رضا لائبریری کی دستار کا پھول ہیں۔ ‘‘

رامپور رضا لائبریری میں رشید الدین فضل اﷲ کی منگول قبائل کی تاریخ پر محیط جامع التواریخ، شاہنامہ فردوسی، دیوان حافظ، سنسکرت کے پنج تنتر کا عربی ترجمہ کلیلہ و دمنہ کے مصور نایاب مخطوطے ہیں۔ فارسی نستعلیق میں بالمیکی کی رامائن اور بھگوت گیتا کی 13خطی جلدیں ہیں۔ فارسی میں رامائن کا مصور نسخہ دیکھ کر ہندوستان میں سنگاپور کے سفیر نے کہا کہ انہوں نے رنگین تصویروں والی ایسی قدیم کتاب نہیں دیکھی ہے۔ اس لائبریری میں مشہور رومانی رزمیہ شاعر حکیم  نظام الدین ابو محمدالیاس نظامی گنجوی (1202-1140) کی خمسہ نظامی گنجوی بھی ہے جس میں مخزن الاسرار، مثنوی خسرو و شیریں ، لیلیٰ و مجنوں ، ہفت پیکر، سکندر نامہ پانچ مثنویاں ہیں جس کی وجہ سے یہ خمسہ کہلاتی ہے اور وہ دیوان جامی بھی جس پر شہنشاہ اکبر کی ماں علی اکبر کی بیٹی حمیدہ بانو بیگم کی مہر ثبت ہے۔ نفحات الانس کا وہ نسخہ بھی اسی کتب خانے میں ہے جس کے سرورق پر بقول مولانا عرشی ’’داراشکوہ کی دو دستخطی تحریریں ثبت ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے خود اس کتاب کی تصحیح کی ہے اور دوسری بار جب اس کا مطالعہ کیا ہے تو اس وقت وہ نو شہرہ (صوبہ سرحد) میں مقیم تھا۔ یہ زمانہ وہی ہے جبکہ دارا شکوہ (1659-1615) سکینتہ الاولیا لکھنے میں مصروف تھے۔ اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس نے نفحات کے اسی نسخے کو اپنی تصنیف میں پیش نظر رکھا تھا۔ ‘‘  مشہور رباعی گو منازل السائرین، زاد العارفین، کتاب اسرار کے مصنف اور مناجات کے لیے معروف خواجہ عبداﷲ انصاری (1088-1006) کا رسالہ خواجہ عبد اﷲ انصاری بھی ہے جس کے آخری صفحے پر شاہ جہاں کی بڑی بیٹی جہاں آرا بیگم (1681-1614) کے دستخط ثبت ہیں اور یہ وہی نسخہ ہے جو شہنشاہ جہانگیر کے بیٹے السلطان الاعظم و الخاقان المکرم ابوالمظفر شہاب الدین محمد صاحبقرانی ثانی شاہجہاں (1666-1592) نے جہاں آرا کو دیا تھا۔ صد پند لقمان جیسی اہم کتاب بھی، جو ہرات کے میر علی (م 1544) جیسے خطاط کے خط نستعلیق میں ہے۔  مولانا امتیاز علی عرشی کے بقول پہلے مغل بادشاہ بابر (1530-1483) کی ترکی نظموں کا وہ مجموعہ بھی یہاں موجود ہے جسے اس نے خود پڑھ کر درست کیا اور آخر میں اپنے قلم سے ایک رباعی کا اضافہ کر دیا۔ اس کے شروع میں بیرم خاں کی تحریر اور آخر میں شاہجہاں کی تصدیق ہے۔ ‘‘

رضا لائبریری کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں مغل،  ترک، راجپوت، پہاڑی، اودھ اور فارسی پینٹنگس کے نایاب نمونے بھی ہیں۔ خاص طور پر جلال الدین محمد اکبر کے بیٹے نور الدین سلیم جہانگیر (1627-1569) کی وہ پینٹنگ ہے جس میں وہ جھروکے سے باہر دیکھ رہے ہیں۔ 17ویں اور 19ویں صدی کے بہت سے پورٹریٹس ہیں جو ہندوستانی آرٹ کے شائقین کے لیے نمونہ حیرت بھی ہیں۔ Barbara Schmitz اور Ziyaud-Din A. Desai نے رضا لائبریری میں مصور مخطوطوں اور مغل اور فارسی پینٹنگس کے تعلق سے 276 صفحات پر مشتمل ایک کتاب تحریر کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رضا لائبریری میں مصوری کے ایسے نادر و نایاب نمونے ہیں جو یقینا ہندوستانی آرٹ کو ایک نئی سمت سے آشنا کر سکتے ہیں۔ Indian Paintings Under the Mughal کے مصنف Percy Brown نے 22 ستمبر 1917 میں جب اس لائبریری میں مصوری کے شاہکار دیکھے تو انہوں نے کہا یہ تصویریں مسرت کا سرچشمہ ہیں اور ان میں بعض نایاب اور نادر ہیں۔

رضا لائریری میں بقول سید احمد رامپوری فنان و خطاط ’’مشاہیر خطاطین کی نایاب وصلیاں بھی ہیں ، جن میں میر علی ہروی، محمود شہابی، میر عماد، آقا عبدالرشید دیلمی، سید علی خاں حسینی جواہر رقم، حافظ نور اﷲ، خلیل اﷲ، محمد معز الدین محمد حسینی، محمد حسین کشمیری زریں قلم کے نام اہم ہیں۔ سید احمد ہی کے مطابق ’’رام پور رضا لائبریری میں میر علی ہروی کی وہ نادر نایاب وصلیاں محفوظ ہیں ، جو دبستان ہرات اور دبستان بخارا میں تیار ہوئیں۔ ہرات کے نقش و نگار پر اصفہانی تزئین کاری کا غلبہ ہے اور بخارا کی وصلیوں پر ازبکستانی فن کا غلبہ۔ ‘‘ اسی تعلق سے رضا لائبریری کے افسر بکار خاص ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی نے ’خط کی کہانی تصویروں کی زبانی‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ ’’رام پور رضا لائبریری میں خوش نویسان قدیم سلطان علی مشہدی، میر علی ہروی، میر عماد الحسن، محمد حسین کشمیری، آغا عبدالرشید دیلمی، عبدالباقی حداد اور دوسرے نامور خوش نویسان جن کی تعداد 400 سے زیادہ کی ڈھائی ہزار سے زیادہ نادر و نایاب وصلیاں محفوظ ہیں ، جو کبھی شاہان مغلیہ کے کتب خانوں کی زینت تھیں۔ ‘‘

اسی لائبریری میں فلکیاتی آلات بھی ہیں ، قبل جدید عہد کے تقریباً 18 ایسے فلکیاتی آلات ہیں جن سے سائنس اور ٹکنالوجی کی تاریخ کی تشکیل کے سلسلے میں ہمیں مدد مل سکتی ہے۔ خاص طور پر السراج دمشقی، ضیاء الدین محمد، محمد ابن جعفر کے گلوب، جمال الدین محمد علی الحسینی کا جیب الزاویہ، مرزا افضل علی کا شب نما و روز نما اور اصطرلاب دائرہ نما موجود ہیں۔ Sreeramula Rajeswara Sarma نے Astronomical instruments in the Rampur Raza Library میں ساری تفصیلات درج کی ہیں۔

کسی بھی ادارے کی عظمت اور وقعت کا معیار اس سے وابستہ افراد بھی ہوتے ہیں۔ اس باب میں بھی رضا لائبریری کو اختصاص حاصل ہے کہ وہاں سے ممتاز مجاہد آزادی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پہلے چانسلر مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں (1863-1927)  کی وابستگی رہی ہے۔ جنہوں نے کتب خانے کے افسر اعلیٰ کی حیثیت سے طب کی نادر کتابیں جمع کیں اور کتب خانے کے وقار میں اضافہ کیا۔ تذکرہ کاملان رامپور اور تاریخ کتاب خانہ رضا کے مصنف حافظ احمد علی خاں شوق (1863-1932) ، تاریخ اودھ اور اخبار الصنادید کے مصنف علامہ نجم الغنی خاں ، ممتاز محقق مولانا امتیاز علی خاں عرشی (8 دسمبر 1904 – 25 فروری 1981) جیسی علم و فضل میں بے مثال ہستیاں بھی بحیثیت ناظم کتب خانہ رضا لائبریری سے وابستہ رہی ہیں۔ مولانا امتیاز علی خاں عرشی نے 31 جولائی 1932 میں ناظم کتب خانہ کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تھا اور اپنی مدت کار میں انہوں نے ابو عبید القاسم بن سلام الہروی بغدادی کی کتاب الاجناس کی تدوین و تصحیح کے بعد اشاعت کا اہتمام کیا۔ اس کے علاوہ مجالس رنگیں (سعادت یار خاں رنگیں ) ، سید علی احمد یکتا کی تصنیف دستور الفصاحت (فارسی) ، جلال الدین شاہ عالم ثانی کے مجموعہ کلام نادرات شاہی، دیوان الحادرہ (عربی) ، کنور پریم کشور فراقی کی وقائع عالم شاہی، دیوان غالب، مرزا محمد حارث بدخشی دہلوی کی تاریخ محمدی اور تاریخ اکبری کی اشاعت انہی کے دور میں عمل میں آئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہی امام سفیان بن سعید بن سرور الثوری الکوفی کی تفسیر القرآن کریم، انشا اﷲ خاں انشا (1817-1757)  کی رانی کیتکی کی کہانی اور ان کی غیر منقوط کتاب سلک گوہر کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ منشی امیر احمد امیر مینائی کا تعلق بھی اس کتب خانے سے رہا ہے۔ خط نسخ کے ماہرین مرزا غلام رسول، مرزا احمد حسن اور خط نستعلیق کے ماہر میر عوض علی عدیل ملیح آبادی بھی اس کتب خانے سے  جڑے رہے ہیں جن کی وجہ سے فن خطاطی کو نہ صرف نئی جہت ملی، کتابوں کی تزئین کاری کے نئے امکانات روشن ہوئے بلکہ خوش نویسی کے فن کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ ایسے تزئین کاروں اور خوش نویسوں میں مولوی الٰہی بخش مرجان رقم، حکیم محمد مرتضیٰ، مولوی کریم اﷲ خاں لودھی، میر ناظر علی، میر رجب علی اور میر احمد حسن الحسینی، سید عزت علی، مہدی مرزا، محمد اکبر، محمد عبید اﷲ، جلیل احمد خاں ، سید سعادت علی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ان لوگوں کی تزئین کاری اور تذہیب کاری کی وجہ سے لائبریری کی وقعت میں اضافہ ہوا۔

رضا لائبریری میں شعبہ اشاعت بھی قائم ہے جس کے زیر اہتمام بہت سی نادر و نایاب کتابوں اور مخطوطوں کی اشاعت عمل میں آئی۔ رضا لائبریری سے شائع ہونے والی بیشتر کتابیں حوالہ جاتی حیثیت کی حامل ہیں۔ محققین اور ناقدین کو ان کتابوں سے کافی رہنمائی ملتی رہی ہے۔ ان کتابوں میں وقائع عالم شاہی (فارسی) ، تاریخ اکبری (فارسی) ، تاریخ محمدی (مرزا رستم بدخشانی مرتبہ نثار احمد فاروقی) ، انگ درپن، اخبار الصنادید، تاریخ شاہیہ نیشا پوریہ، واقعات مشتاقی (شیخ رزق اﷲ مشتاقی انگریزی ترجمہ و ترتیب: پروفیسر اقتدار حسین صدیقی اور وقار الحسن صدیقی) ، فرہنگ قؤاس، یقظۃ النائمین (شاہ حامد ہرگامی) ، مدھو مالتی، دستور الفصاحت کے علاوہ اور  و داق گل، مکاتیب شاہ ولی اﷲ (مرتب نثار احمد فاروقی) ، اردو زبان اور لسانیات (پروفیسر گوپی چند نارنگ) ، گھومتی ندی (وارث کرمانی) ، اردو شاعری کے نیم وا دریچے (وارث کرمانی) ، 19ویں صدی کے اردو اخبارات (ڈاکٹر شعائر اﷲ خاں ) ، سرگذشت دہلی (درخشاں تاجور) ، رامپور کا دبستان شاعری (شبیر علی خاں شکیبؔ) ، ادب گاہ رامپور (ہوش نعمانی) ، فلسفہ الہندیہ القدیمہ (مولانا عبد السلام خاں ) ، خط کی کہانی تصویروں کی زبانی (سید احمد رامپور، فنان و خطاط) رام پور رضا لائبریری (مونوگراف۔۔۔ وقار الحسن صدیقی) رام پور رضا لائبریری کی علمی وراثت جیسی کتابیں شامل ہیں۔  16 اگست 1993 سے ممتاز آرکیالوجسٹ ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی نے افسر بکار خاص کی حیثیت سے عہدہ سنبھالتے ہی لائبریری کی اشاعتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور مخطوطات اور نوادرات کے تحفظ کے لیے بھی کوششیں کی ہیں۔ لائبریری کی ترتیب اور تنظیم نو میں ان کی مساعی جمیلہ ناقابل فراموش اور قابل تحسین ہیں۔ وقار الحسن صاحب کی دلچسپی اور لگن کی وجہ سے ہی لائبریری کا ترجمان ’’رضا لائبریری‘‘ جرنل کے نام سے تواتر کے ساتھ شائع ہو رہا ہے جس میں نہ صرف متنوع موضوعات ہوتے ہیں بلکہ مختلف ادبیات کے حوالے سے گرانقدر تحقیقی مضامین کی شمولیت ہوتی ہے۔ نئے تحقیقی انکشافات اور نئی جہتوں کی جستجو اس مجلے کا امتیاز ہے۔ جرنل سے ہندوستانی تہذیب و تاریخ کے تعلق سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور رضا لائبریری رام پور کی علمی و تحقیقی پیش رفت کا بھی پتہ چلتا ہے۔  جرنل کے شمارہ 13، 12 کی فہرست سے اس کے تنوع کا احساس ہوتا ہے۔ فارسی ادبیات، اردو ادبیات، تحفظ مخطوطات، اسلامیات، غالبیات، اودھ اور روہیل کھنڈ، شخصیات، وفیات کے ذیلی ابواب کے تحت قیمتی نگارشات شامل ہیں۔ وقار الحسن صدیقی نے تاریخی، تہذیبی وراثت کے تحفظ کے لیے گرانقدر کوششیں کی ہیں اور لائبریری کو بقول مشفق خواجہ ایک عظیم الشان علمی ادارے میں تبدیل کر دیا ہے جہاں اسکالرز مختلف موضوعات پر کام کرتے ہیں اور کچھ اسکالرز مخطوطات کی فہرست سازی اور نوادرات کے تحفظ میں بھی مصروف ہیں۔ مختلف موضوعات پر سیمنار بھی کرائے جاتے ہیں جس سے تاریخ اور تہذیب کی نئی صورتیں اور شکلیں سامنے آتی ہیں۔

یہ لائبریری اتنی اہمیت اور معنویت کی حامل ہے کہ اس کے نوادرات مخطوطات کے حوالے سے مشاہیر نے مضامین لکھے ہیں ، جن میں قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی کا کتب خانہ رامپور ’معارف‘ اعظم گڑھ (مارچ1929) ، سید ہاشم ندوی رام پور اور لکھنؤ کے کتب خانے کی سیر اور اس کی روداد ’معارف‘ اعظم گڑھ (1929) ، مہدی خواجہ کا کتاب خانہ رضا رامپور جنرل آف عربک اینڈ پرشین انسٹی ٹیوٹ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

رام پور کی رضا لائبریری دراصل کوہ نور ہیرا کی مانند ہے، وہی کوہ نور جو اس سرزمین کے راجہ سروا کے پاس تھا، جو شاید مہابھارت کی جنگ میں مارے گئے تھے۔

٭٭٭

 

مضمون اور مائیگرین۔۔ ’نقد نو‘ کے حوالے سے

نئی نسل میں نقال ہیں یا قوال؟

 چھوٹے لوگوں کی اس بڑی زبان میں اردو تنقید کا حصہ وہ افراد بھی ہیں جو غلط اردو لکھتے، بولتے ہیں اور متن کا مفہوم بھی غلط سلط سمجھتے ہیں ، مگر فہم و ترسیل کی قوت سے محروم ہو کر بھی محض بیساکھی کے سہارے بڑے بننے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ نئی نسل کے نقاد کی حیثیت سے یہ لوگ خود کو تنقید کے فریم میں آویزاں کرنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں ، مگر بات وہی ہے کہ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ آج کی نسل نقال بن کر رہ گئی ہے یا یوں کہیں کہ قوال بن گئی ہے۔ یہ نسل انٹرنیٹ، جدید ترین ذرائع ابلاغ، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی نہ کوئی نیا نقطہ نہ کوئی جزیرہ تلاش کر سکی ہے۔ ایک قدم بھی آگے بڑھتی تب بھی سمجھا جا سکتا تھا کہ اس نسل کا تنقید کے میدان میں خود مکتفی وجود ہے۔ اگر ’دین بزرگاں ‘ کی ہی تقلید کرنی تھی تو پھر الگ سے دکان کی ضرورت ہی کیا ہے؟

جو نسل ’مقدمہ شعرو شاعری‘ سے باہر نہ نکل سکی ہو اس کے بارے میں کچھ لکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ حالی کی تنقید کے حوالے سے گفتگو کی جائے اور مقدمہ شعر و شاعری کا مکمل محاکمہ ہو۔۔۔ تو صاحبان عرض ہے کہ خواجہ الطاف حسین حالی بہت بڑے نقاد تھے او ران کا مقدمہ اردو تنقید میں سنگ میل یا نشان راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حالی کی وفات کو ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے مگر اردو تنقید اس نشان راہ سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکی اور کیونکر بڑھتی کہ بقول قرۃ العین حیدر ’’ہمارے یہاں کے جو نقاد ہیں انہیں زیادہ پڑھنے کا شوق نہیں ہے "They Just Want to write” ’’ہمارے اکثر نقاد جو ہیں وہ زیادہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ ایک ڈھرے پر چلتے ہیں ‘‘۔ حالی کے تنقیدی نظریات کی تشریح و تعبیر کی جاتی رہی، مگر کسی ایسے نظریے کی تشکیل نہیں ہو سکی، جسے مکمل تنقیدی نظریہ کہا جا سکے اور جو کسی سے ماخوذ یا مستعار نہ ہو۔ جب ذہن میں تحرک، توانائی نہ ہو، صرف تقلید اور تتبع ہی مطمح نظر ہو تو پھر قدم کیسے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

معاصر تنقیدی نظر نامے پر نئی نسل کے حوالے سے جتنے بھی نام درج کیے جاتے ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ  وہ بزرگ نقادوں سے کس اعتبار سے مختلف ہیں۔ نئی نسل میں کوئی بھی ایسا نام نہیں ہے، جن کی تحریروں کا  فکریات اور لفظیات کی سطح پر معروضی تجزیہ کیا جائے تو اس میں فاروقی اور نارنگ کے نظری عناصر نہ ملتے ہوں ، جس نسل کا خارجی یا داخلی وجود ہی نہ ہو، اس کے تنقیدی طریق کار کے بارے میں گفتگو کار عبث کے سوا کیا ہے۔ ان دونوں سے الگ ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کی تحریر میں کوئی نئی نظر ہو۔ لفظیات کی سطح پر دیکھا جائے تو  ۔ کوئی نیا لفظ، نئی اصطلاح، نئی ترکیب جو تنقید کی نئی جہت کی طرف اشارہ کر سکے، تلاش بسیار کے باوجود بھی نہیں مل پاتا۔ لفظیات اور فکریات میں جب اتنی مماثلت ہو تو پھر الگ تنقیدی وجود کی بات کہاں تک صحیح نظر آتی ہے۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ بزرگ نقادوں کا بھی خود مکتفی تنقیدی وجود نہیں ہے۔ ان کا وجود بھی مستعار ہی ہے اس لیے بات یہیں دم توڑ دیتی ہے۔ نئی نسل کی الگ تنقیدی شناخت کا مسئلہ نہایت مبہم اور ژولیدہ ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ بغیر زمین کے محض خیال میں کوئی نیا ملک تشکیل دے دیا جائے۔ نئی نسل کی تنقید اصل میں معشوق کی موہوم کمر ہے، جس کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے۔

 دراصل ماحولیات نے افراد کو اتنا Impotent بنا دیا ہے کہ اب اس نسل کے لیے کسی نئے نظریے کی تخلیق ممکن ہی نہیں۔ بالخصوص جو دوسروں کے Sperm کے سہارے ہوں ان سے تو ایسی توقع کرنا ہی فضول ہے۔ تنقید کے لیے جس Virility کی ضرورت ہے کیا نئی نسل اس سے محروم نہیں ہے؟ صحافت میں ’’عنینوں ‘‘ کی کارکردگی قابل ستائش ہو سکتی ہے کہ اس کا بیشتر انحصار ’’متاع غیر‘‘ پر ہے، مگر تخلیق و تنقید کے لیے تخلیقی اور تنقیدی قوت شرط ہے۔ کوئی ’’عنّین‘‘ (تخلیقی قوت سے محروم) ، نقاد یا تخلیق کار نہیں بن سکتا۔ حسن عباس رضا کی ایک نظم سے اس کی تفہیم کی جا سکتی ہے۔

کیا تم کو معلوم ہے…؟

شاعری

پورا مرد اور پوری عورت مانگتی ہے

تم نے کسی ہجڑے کے لب پر

شعر کا پھول کھلتے دیکھا ہے

اس کی اجڑی ویران آنکھ میں

نظم کا دیپ جلتے دیکھا ہے…؟

یہ تو ہو سکتا ہے

(اور اکثر ایسا ہوتا آیا ہے)

شاعر ہجڑے ہو جاتے ہیں

لیکن کوئی ہجڑا شاعر نہیں ہو سکتا

شاعری

پورا مرد

اور پوری عورت مانگتی ہے۔

بانس پر چڑھ کر بلندی حاصل کرنا الگ بات ہے مگر زمین پر رہ کر اپنے قد و قامت کی پیمائش بڑی مشکل ہوتی ہے۔ جامعات کی سیڑھی سے سر بلند ہونا اور ہے اور اپنے تنقیدی تحرک، ابتداع اور ابتکار سے بلندی حاصل کرنا اور۔ اردو میں ایسی بلندیاں بہت ہی جلد پستیوں میں بدل جاتی ہیں۔ ہم روز ایسی بلندی، ایسی پستی کا تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ اردو میں تو خاص طور پر تنقید میں یہی طفل تماشا دیکھنا ہی شب و روز کا مقدر ٹھہرا۔ سیمیناروں اور ادبی جلسوں میں اس کے سوا کچھ اور دیکھنے کو ملتا بھی کہاں ہے۔ اس میں بھی نئے چراغ جو جلتے ہیں اس میں لو ہی نہیں ہوتی۔ المیہ یہ ہے کہ باضابطہ مشتہرین کا ایک گروپ 4تیار ہو گیا ہے جو ایک دوسرے کی مدح میں نثری قصیدے لکھ کر اردو تنقید کے لوح پر اپنے نام نقش کرنے کے لیے ہر طرح کے حربے آزما رہا ہے۔ تنقید میں اپنا نام نصب کروانے کے لیے یہ گروپ جتنی محنت کرتا ہے کاش وہ اتنی اپنی تحریر پر کر لے تو ادب میں تھوڑی بہت شناخت تو صدقے میں بھی مل جاتی ہے۔

نئی نسل لکھتی ہے، لکھتی رہے۔ اچھا ہے مگر کسی طرح کا ادعا اس کے لیے موزوں نہیں کہ اس کے دعوے کے لیے خارجی طور پر کوئی دلیل موجود نہیں۔ تنقید جس ارتکاز اور امعان نظر کی متقاضی ہے، اس ارتکاز سے یہ نسل مکمل طور پر محروم ہے کہ اس نسل کی آنکھیں صرف چند چنندہ تحریروں اور نظریوں پر ہی مرکوز ہیں اور اسی مرکوزیت کی وجہ سے نئی نسل کے لیے آگے کا راستہ بند ہے۔ راستے ژولیدہ ہوں اور منزل مبہم تو پھر کسی نئے نشان کے وضع کرنے کا حوصلہ کس میں ہو گا۔

نئی نسل بزرگوں کی تحریریں پڑھ رہی ہے، کچھ کچھ سمجھ بھی رہی ہے، اس عہد زوال آشنا میں اس نسل کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ اگر ان تحریروں کے رموز و اشارات اور بین السطور میں مضمر مفاہیم کو بھی سمجھ لیتی ہے تو یہ اور اچھی بات ہے۔ ان بزرگوں سے اخذ و استفادہ کر کے لکھ لیتی ہے تو یہ اس نسل کی تنقیدی قوت کی انتہا ہے۔

نئی نسل کے تعلق سے یہ منفی خیالات نہیں ہیں بلکہ معروضی ہیں اور اس سے الگ اگر کوئی معروضی بنیادوں پر اس کی تردید کرے تو مجھے اپنے خیال سے منحرف ہونے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہو گی۔ دراصل آج کی نسل جس طرح تنقید کا تاش محل تیار کر رہی ہے اور اسے تاج محل کا مد مقابل سمجھ رہی ہے تو ایسی ذہنیت ادب کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔ تاش اور تاج کے عدم تفریق کا یہ رویہ بہتر نہیں ہے۔ دونوں نسلوں کے درمیان کی ذہنی سرحدیں واضح ہیں۔

             ٭      بزرگوں میں جذب و انجذاب کی قوت تھی مگر نئی نسل میں صرف اخذ و استفادہ کی صلاحیت ہے۔

             ٭      بزرگوں نے تخلیق کی روح کو سمجھا مگر نئی نسل ادب کے ابجد سے بھی ناآشنا ہے۔

             ٭      بزرگوں کے پاس تیسری آنکھ ہے جب کہ نئی نسل کے پاس چشم غلط بیں ہے۔

             ٭      ذہنی طور پر بزرگوں میں فاعلیت تھی جب کہ نئی نسل ذہنی مفعولیت کی شکار ہے۔

             ٭      بزرگ نسل کلاسیکی ادب سے آگاہ تھی جب کہ نئی نسل کی تنقیدی کلاس سے کلاسیکیت ہی غائب ہے۔

یہ غلام طبع نئی نسل، تنقیدی خود مختاری کا اعلان کیسے کر سکتی ہے، وہ جن نظریاتی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اسے کوئی صاحب شعور آزادی نہیں بلکہ غلامی کی زنجیریں ہی کہے۔ جب تک یہ نسل مکمل طور پر تمام تنقیدی زنجیروں سے نجات حاصل نہیں کر لیتی تب تک اس کا اپنا الگ وجود قائم نہیں ہو سکتا۔ قائم بالغیر وجود کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہوتی ہے، جس کے پاس صرف مانگے کا اجالا ہو وہ نور مجسم ہونے کا دعویٰ کرے تو بھلا اس کی بات پر کون یقین کرے گا۔

مروجہ، مفروضہ یا مجوزہ نئی نسل کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ، سوائے غلط زبان و بیان کے اور اگر یہی وجہ امتیاز ٹھہرا تو پھر کیا غلط ہے کہ نئی نسل کو ایک دبستان نقد کی حیثیت دے دی جائے اور کسی بر خود غلط کو اس کا امام بھی بنا دیا جائے، کم از کم یہ بیچارے بھی نئی نسل میں دو رکعت کے امام تو کہلائیں گے ہی۔ یہ نئی نسل ہے کیا بلا؟ میری سمجھ سے باہر ہے، کس عمر، کس ذوق و شوق کے لوگ اس میں شامل ہیں۔ تخلیق کی عمر طبعی عمر سے مختلف ہوتی ہے۔ تو کیا نئی نسل کا تعین عمر، دہائی یا تخلیق کے اعتبار سے کیا جائے یا اس کے تعین کی حدیں کیا ہوں گی؟ نئی نسل کی آگہی کے حدود کیا ہیں ، تنقیدی عرفان کا دائرہ کیا ہے، یہ نسل کتنی زبانوں سے آگاہ ہے یا پھر صرف اردو پر انحصار ہے، اس کے اندر اخذ و اکتساب کی کتنی قوت ہے، ذہن نصاب میں محصور ہے یا نہیں وہ اپنے بنیادی سر چشموں سے آگاہ بھی ہے یا نہیں۔ آگہی کا وسیلہ کیا ہے، ترجمہ یا براہ راست تخلیق، بہت سارے پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہے۔ نئے سائنسی علوم اور ادب اور ان کے انطباقات سے واقف ہے یا نہیں۔ علوم کی نئی شاخوں سے آگہی کے بغیر تو معاملہ ہی کورا رہ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ صرف تکرار یا اعادہ کے عمل سے ہی گزر سکتا ہے اس کے لیے کسی نئی جہت کا اکتشاف ممکن نہیں ہے۔

نئی نسل کی تنقید کو تکرار، قند مکرر یا اعادے کا نام دینے کے سوا مجھے کوئی دوسرا لفظ موزوں نظر ہی نہیں آتا، شاید اس سے بہتر کوئی تعبیر ممکن ہی نہیں۔ A to Z نئی نسل کی تنقیدی تحریریں کھنگال لیجئے نہ نیا طور نظر آئے گا نہ برق تجلی، بس مرحلہ شوق ہی شوق۔

اور المیہ یہ ہے کہ نئی نسل کی یہ تحریریں مائیگرین (Migrane) کا سبب بن جاتی ہیں۔ پرانے زمانے کے قلم کاروں کو پڑھنے سے ذہن کو فرحت ملتی تھی مگر ان دنوں تحقیق و تنقید کے نام پر جو تحریریں شائع ہو رہی ہیں ، زیادہ تر مائیگرین کا سبب بن جاتی ہیں۔ مائیگرین کے طبعی اسباب کچھ بھی ہو سکتے ہیں مگر بعض تنقیدی مضامین سے جو مائیگرین کی شکایت ہوتی ہے وہ زیادہ خطرناک ہے۔ نئی نسل کی تحریروں کا المیہ یہی ہے کہ بجائے موجب فرحت و نشاط کے درد سری کا باعث ہو جاتی ہیں۔ نہ فکر اور نہ زبان کی ساخت درست، جملے اس قدر پیچیدہ کہ نہ مبتدا معلوم اور نہ خبر کا پتہ۔ قاری ان کے جملوں کے جنگلوں میں سرگرداں ، ان کے لفظوں کے جوڑنے ہی میں اتنی مشقتوں سے گزرتا ہے کہ آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہیں جٹا پاتا۔ نئی نسل کی تنقید سے شاید مائیگرین کی ہی توقع کی جا سکتی ہے۔ Clarity of Mindنہ ہونے کی وجہ سے بھی ان کی تحریریں ژولیدہ بیانی کا نمونہ بن جاتی ہیں۔ جب تک لکھنے کا والے کا تصور، تخیل اور ادراک و اظہار واضح نہ ہو اور اس کے سامنے موضوع کے جملہ جہات روشن نہ ہوں تب تک اس کی لکھی ہوئی تحریر ایک معمہ، چیستاں ہی بنی رہے گی۔ آج کن لوگوں کے مضامین سے قاری کو مائیگرین کا مرض لاحق ہو سکتا ہے اس کی نشاندہی کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ جامعات کے جامع فضلاء کی ایک لمبی قطار ہے اور ان کے معجون مرکب مضامین۔

ماضی کی بہت سی باتوں اور بیانات کو ڈس آن کرتے ہوئے مجھے اب یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ تنقید کے باب میں نئی نسل کے پاس نہ کشتی ہے نہ بادبان، اسے اپنی شناخت کے تعین کرنے کے لیے ایک اور صدی درکار ہے جب پورا عالمی نظام تبدیل ہو گا، نئے علائم و اشارات وجود میں آئیں گے۔ الفاظ اپنا معنیاتی پیرہن بدلیں گے اور احساس و اظہار کو نئی قبائیں ملیں گی۔

نئی نسل جب تک تنقید میں کوئی نیا بر اعظم دریافت نہیں کر لیتی تب تک اس کا وجود مشکوک و مشتبہ ہی رہے گا۔ چاہے لاکھ دعوے کیے جائیں انفرادی شناخت کا مگر جب تک نئی نسل کے خد و خال واضح نہیں ہوں گے، اس سے منسوب کوئی بھی شئے موہوم ہی ہو گی۔ پہلے نئی نسل کا تعین ہو اور پھر نئی نسل کی تخلیق اور تنقید کے حوالے سے گفتگو، تو کچھ بات بنے گی۔

اس مضمون میں وہ افراد قطعی شامل نہیں ہیں ، جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی تنقیدی تحریروں میں کوئی نیا نکتہ نمایاں ہے اور ان کی لفظیات یا فکریات بزرگ نقادوں کی ’تابع مہمل‘ نہیں ہے۔ ان کی تنقیدی راہ و روش اگر ان سے الگ ہے تو وہ اس مضمون کے منفی دائرے سے باہر ہیں ، جو تنقید میں اپنے لفظی و فکری امتیازات کی وجہ سے نئی نسل کے دائرے سے باہر آ چکے ہیں۔

٭٭٭

 

تخلیق کے نسائی رنگ

سائنس کی نئی تھیوری کے لحاظ سے جنس سے ذہن کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ تمام مردوں کے پاس نہ مردانہ ذہن یعنی Male Brain ہوتا ہے اور نہ ہی تمام عورتوں کے پاس  فیمیل برین۔ کچھ ذہن مشترکہ نوعیت کے بھی ہوتے ہیں۔ ایک ذہن empathising ہوتا ہے جسے ای ٹائپ برین کہا جاتا ہے۔ ایک Systemising ہوتا ہے جو ایس ٹائپ برین کہلاتا ہے، ایک Balancad برین ہوتا ہے جسے بی ٹائپ کہا جاتا ہے۔ اوّل الذکر برین empathising زیادہ تر عورتوں میں ہوتا ہے اور Systemising برین مردوں میں ہوتا ہے۔

بہت سے مردوں میں Anima (زنانہ صفات) اور بہت سی عورتوں میں Animus (مردانہ صفات) پائے جاتے ہیں۔  ان صفات کی نمود ذہن اور احساس کی سطح پر ہوتی ہے۔ جسم کی سطح پر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ یونان کے مشہور مورخ ہیرو ڈوٹس نے سیتھن قوم کے بارے میں لکھا ہے کہ اس قوم کے مردوں پر نسائیت اس قدر حاوی تھی کہ وہ عورتوں جیسا لباس پہنتے تھے اور امور خانگی انجام دیتے تھے۔ کوئی قوق قبیلہ کے سارے مرد عورت نما تھے۔ الاسکا کے کادیاک جزیرے کی نیاگا قوم کے مرد نسائی طرز معاشرت اور احساس کے حامل تھے کہ عورتوں کی طرح خاوند رکھتے تھے۔ یہ لوگ اخنوتشیق کہلاتے تھے۔ ہیلوگا بالوس جیسے عورت نما مردوں (Male Feminisme) کی مثالوں سے قدیم تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ یونانیوں کے دیوتا پیکر حسن و جمال اپولو میں زنانہ، مردانہ دونوں خوبیاں تھیں۔ یونانیوں کا صنم اکبر زیوس مرد بھی ہے، عورت بھی۔ اس طرح مصر کی ملکہ ہتشپ مردانہ لباس پہنتی تھی اور مصنوعی داڑھی لگاتی تھی۔ لیڈس، میری اینڈرسن اور سیکڑوں عورتیں تا حیات مرد بن کر زندگی گزارتی رہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مرد اور عورت بھی ایک ذہنی کیفیت سے عبارت ہے۔ جسمانی ساخت عورت اور مرد کی صنفی شناخت کا محض ایک مظہر ہے اور اب تو میڈیکل سائنس کی تحقیق یہ ہے کہ عورتوں کی Clitorisمردوں کے Miniature Penis کے مشابہ ہے اور مردوں کا Penis عورتوں کے Large Clitoris کی طرح ہے اور اس کا ادراک جنسی تحرک و اہتزاز اور آرگزم تک پہنچنے کے دوران ہوتا ہے۔

 خالد سہیل کی کہانی ’’ہم زاد‘‘  مرد عورت کی جسمانی تقطیب کو مسترد کرتی ہوئی کیفیت اور صورتِ حال کی غماز ہے۔ اردھ ناریشور پر مبنی اس طرح کی درجنوں کہانیاں لکھی جا چکی ہیں :

 ’’میں نے آپ کو صاف صاف بتا دیا کہ میں ایک عورت ہوں لیکن مرد کے جسم میں قید ہوں۔ میرے اندر کی عورت باہر آنا چاہتی ہے۔ وہ کھلی فضا میں سانس لینا چاہتی ہے۔ وہ آزاد ہونا چاہتی ہے، لیکن میرا جسم وہ قید ہے، وہ کوٹھری ہے، وہ قبر ہے جس نے اسے زندہ درگور کر رکھا ہے۔ ‘‘

آپ نے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ انسان کی جنسی زندگی بہت پیچیدہ ہوتی ہے اور بہت سے مراحل سے گزرتی ہے۔ اگر کوئی شخص چند بنیادی باتوں سے واقف نہ ہو تو وہ جنسی زندگی کی نشو و نما کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ پھر آپ نے اس ارتقاء کے مختلف مدارج کی تشریح کی تھی۔

 ’’آپ نے سمجھایا تھا کہ کسی بچے کا لڑکا ہونا اس کی جینز (Genes) پر منحصر ہوتا ہے جو اس کے کر دموسومز (Chromosomes) کا حصہ ہوتی ہیں۔ عورتوں میں دو ایکس (XX) اور مردوں میں ایک ایکس اور ایک وائی (XY) کروموسومز ہوتے ہیں۔ اس پہلے مرحلے پر ہم اسے (Genetic Sex) کہتے ہیں۔ ‘‘

دوسرا مرحلہ بچوں کے جنسی اعضا کی نشو و نما کا ہوتا ہے جسے ہم (Anatomic Sex) کہتے ہیں۔ لڑکیوں میں Ovarles اور Uterus اور لڑکوں میں (Penis اور Testicles) تشکیل پاتے ہیں۔ اس دن مجھے بھی پہلی دفعہ پتہ چلتا کہ سب (Fetus) بنیادی طور پر مادہ لاتے ہیں لیکن وہ (Fetus) جو (Y) کروموسومز سے متاثر ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ نر کا روپ دھار لیتے ہیں اور لڑکے بن کر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اس تبدیلی میں نقص رہ جائے تو پھر Hermaphroonte جنم لیتے ہیں جن میں نر و مادہ آپس میں خلط ملط ہو جاتے ہیں۔ شاید انہی لوگوں کو لوگ ہجڑا کہہ کر بلاتے ہیں۔

تیسرے مرحلے سے بچہ تین اور پانچ سال کی عمر کے دوران گزرتا ہے۔ اس وقت بچے کو یہ شعور ہونے لگتا ہے کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی اور اس کی عادات و اطوار اس کے شوق، پسند و ناپسند میں اس کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔ وہ یہ موڑ ہوتا ہے جہاں سے مردانگی اور نسوانیت کا احساس شروع ہو جاتا ہے۔ یہ شناخت کا مرحلہ (Gender Identity) کہلاتا ہے اور یہی شناخت کا مرحلہ تھا جو میرے مسائل کی بنیاد تھا۔ اگر کسی انسان کا جسم لڑکوں کا ہو اور وہ لڑکی محسوس کرے  یا جسم لڑکی کا ہو اور وہ خود لڑکا محسوس کرے تو ہم اسے Transexual کہتے ہیں۔ ‘‘

 ’’تقریباً دو ہفتے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک فنکار ایک بت بنا رہا ہے۔ وہ مرد کا بت ہے لیکن اس کے مداح ایک عورت کا بت چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ بت کا Penis ہتھوڑے کی ضربوں سے توڑ دیتا ہے اور اس کی جگہ بت کے پستان بنا دیتا ہے اور ایک خوبصورت مجسمہ تیار کر دیتا ہے۔

مجھے امید ہے کہ آپ میرے ان پریشان خیالات کو کہیں محفوظ کر لیں گی۔ لیکن جانے سے پہلے میں اپنی آخری خواہش، آخری آرزو، آخری تمنا یا یوں کہیں کہ آخری وصیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرنے کے بعد مجھے اس ننھے فرشتے کے پہلو میں دفن کیا جائے اور میری قبر پر ایک کتبہ آویزاں ہو۔ جس پر جلی حروف میں لکھا جائے۔ ’اس جگہ ایک ایسی عورت دفن ہے جسے ساری عمر لوگ مرد سمجھتے رہے۔ ‘‘

                                                                            (ہم زاد۔۔۔ خالد سہیل)

ورجینیا وولف نے ادب اور آرٹ میں مردانہ اور نسوانی ذہن کی تفریق کو بے معنی قرار دیا ہے  اور یہ ثابت کیا ہے کہ ذہن یا احساس کی سطح پر مرد اور عورت کے مابین اشتراک اور افتراق کا تعلق شعور، لاشعور اور تخیل سے ہے۔ جینیاتی تفریق سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ایک عورت کا ذہن شعوری طور پر زیادہ متحرک ہے اور سخت ترین حقائق سے روبرو ہونے کی قوت رکھتا ہے تو اُس کا مطلب ہے کہ اس کے ذہن کا میل پارٹ زیادہ کارگر ہے اور اِسی طرح مردانہ ذہن پر لاشعوری احساسات اور جذبات کا غلبہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے ذہن کا Femaleness زیادہ فعال ہے۔  اور دیکھا جائے تو اس تفریق کو اربابِ دانش نے بھی مسترد کر دیا ہے۔ اربابِ تصوف اور اہل بینش نے رابعہ بصری کو مرد قرار دیا ہے کہ اہل وحدت اور ارباب محبت کے یہاں مرد، عورت کا کوئی علیحدہ وجود نہیں ہے۔ وہاں مسئلہ صرف طالب المولیٰ مذکر کا ہوتا ہے۔ حضرت جامی نے رابعہ کو مکمل مرد کہا تھا اور اِس بات کی وضاحت کی تھی کہ سورج کے لیے صیغہ تانیث نہ باعث شرم ہے اور نہ چاند کے لیے صیغۂ تذکیر باعث افتخار۔ پس ثابت ہوا کہ تذکیر و تانیث کی تقسیم جاگیردارانہ بورژوائی، اقتداری ذہن کی ایجاد ہے۔ اِس کا نظامِ فطرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عورت مرد کے درمیان تفریق صرف جینیاتی سطح پر ہو سکتی ہے، ذہنی سطح پر یہ تقسیم لایعنی ہے۔

پھر بھی مروجہ تصور کے مطابق نسائی احساس کی کئی سطحیں ہیں۔ ایک کالی کے روپ میں ہے تو دوسری اناپورنا کا روپ ہے۔  ایک سوچ کی وہی سطح ہے جو پروین شاکر یا شفیق فاطمہ شعری کی ہے جو پُرش اور پراکرتی کے ملن کو نقطۂ تکمیل سمجھتی ہے۔ مرد عورت کے مکمل وصال سے درجۂ کمال تک پہنچنے پر یقین رکھتی ہے۔ یہ گندھاری اور انسویا کا روپ ہے اور ایک سطح وہ ہے جو بعض فیمنزم کی علمبردار خواتین کی تخلیقات میں نظر آتی ہے جو مرد کو عورت کی ضد کے طور پر دیکھتی ہے۔ سوزاں اسٹن فرڈ کے مطابق عورت dual consciousness کی ہوتی ہے اور Elaine Showalter کے مطابق Feminine نے Angle of the House کا رول قبول کر لیا ہے۔ Female Self-assertiveness کو نکارنا ہی Feminineہے۔ یہاں فیمینائن اور فیمینزم کی مختلف صورتوں کے حوالے سے نسائی تخلیقات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

کرشنا سوبتی نے ’ہم حشمت‘ میں اردھ ناریشور کے تصور پر مبنی جو کچھ لکھا ہے وہ بھی اِسی حقیقت کا اظہار ہے کہ عورت اور مرد کی ذہنی اور جذباتی تقسیم بہتر نہیں ہے۔ کرشنا سوبتی کا اپنا الگ طرزِ تحریر اور فکری نظام ہے۔  انہوں نے عورتوں کی داخلی دنیا کے درد و کرب اور کشمکش کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ عورت اور مرد کی نفسیات اور ان دونوں کے مابین بنتے بگڑتے نازک رشتوں کی کہانیاں جادوئی اسلوب میں لکھی ہیں کہ پڑھنے والا ان میں کھو سا جاتا ہے، قاری  خود کو عجیب سی طلسماتی دنیا میں قید سا محسوس کرتا ہے اور پھر جب آنکھ کھلتی ہے تو وہ ایک نئی فکر اور تازہ سوچ لے کر باہر آتا ہے۔

کرشنا سوبتی نے سلگتی ہوئی ان عورتوں کی کہانیاں لکھی ہیں اور عورت کے ہر درد و کرب کو اپنے اظہار کا پر اثر پیرہن عطا کیا ہے۔ ان کے ناول اور افسانوی مجموعے ’’زندگی نامہ‘‘ تقسیم ملک کے کولاژ پر مبنی ہے۔ اس ناول پر ۱۹۸۰ء میں انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔

 ’’مترومرجانی‘‘ توان کا بہت ہی مشہور ناول ہے جس میں نسائی جنسیت کا خوبصورت بیان ہے۔ ایک اَن پڑھ دیہاتی عورت کی کہانی جو اپنے نامرد شوہر اور طوائف کے پیشے کے درمیان اپنے شوہر کا انتخاب کرتی ہے اور اس طرح وہ خاندانی نظام سے جڑ جاتی ہے اور اپنے جنسی جذبات کو کچل دیتی ہے اور اپنے جنسی تشنگی کا اظہار اپنی جٹھانی سے یوں کرتی ہے ’’دیور تمہارا میرا روگ نہیں پہچانتا… بہت ہوا ہفتے… پکھواڑے… اور میری اس دیہہ میں اتنی پیاس ہے، اتنی پیاس ہے کہ مچھلی سی تڑپتی ہوں۔ ‘‘  اور ناول ’’دل و دانش‘‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنے تشخص کے لیے بغاوت پر آمادہ ہو جاتی ہے اور بالآخر اسے حاصل کر کے ہی دم لیتی ہے۔ ’’دل و دانش‘‘ میں جو کہانی ہے وہ چاندنی چوک دہلی کی ایک حویلی کے اردگرد گھومتی ہے۔ اس کا مرکزی کردار مہک بانو ہے جو ایک وکیل کرپا e٭نارائن کی داشتہ اور رکھیل ہے۔ وکیل صاحب کی زندگی ان کی بیوی اور مہک بانو کے دو پاٹوں کے بیچ الجھی ہوئی ہے کیونکہ وکیل کی بیوی کسی بھی طور پر اس داشتہ کو قبول نہیں کرتی اور جب مہک بانو اپنی بیٹی معصومہ کی شادی کرانا چاہتی ہے تو وکیل صاحب کہتے ہیں کہ اس کی شادی اس شرط پر ہو گی کہ وہ اسے اپنی گود لی ہوئی بیٹی کی حیثیت سے شادی کرائیں گے اور اس کی ماں کبھی اس کے پاس نہیں جائے گی۔ وہیں سے وکیل اور مہک بانو کے درمیان تعلقات میں دراڑیں آتی ہیں۔ بالآخر یہ بغاوت میں بدل جاتی ہے۔ وہ دوسرے وکیل کے در پہ دستک دیتی ہے جہاں اسے انور علی خاں ملتے ہیں ، مقدمہ چلتا ہے اور وکیل صاحب کے پاس مہک بانو کے جو زیورات ہوتے ہیں وہ اسے مل جاتے ہیں اور پھر معصومہ کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنی بچی کو نیک خواہشات پیش کرنے کے لیے پہنچ جاتی ہے۔ یہیں سے کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے اور قارئین کے ذہنوں میں تجسس کی ایک نئی دنیا بساتی ہے۔

اس میں کرشنا سوبتی نے اردو فارسی ملی جلی ہوئی خوبصورت زبان استعمال کی ہے۔ اور داشتاؤں کی زندگی پہ انتہائی خوب صورت انداز میں روشنی ڈالی ہے کہ آخر ان داشتاؤں کا کیا قصور ہے، انہیں کوئی سماجی حیثیت کیوں حاصل نہیں ہے۔ مرد اسے اپنی عیاشی کے لیے کیوں استعمال کرتا ہے اور عورت کو ایک بازاری چیز کیوں سمجھتا ہے۔ مرد حاوی سماج کی اس تاریکی کے خلاف یہ دراصل زبردست جنگ ہے۔

کرشنا سوبتی نے سماج کے ٹوٹے بکھرے رشتوں اور حساس مسائل پر انتہائی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں اور ہر کہانی ایک نیا ذائقہ اور لطف دیتی ہے اور ضمیر کو جھنجھوڑتی بھی ہے۔

ان کے برخلاف ترنم ریاض ایک sweet temper افسانہ نگار ہیں۔ اُن کی کہانیوں میں صوفیانہ لَے اور سرمستی ہے۔ تصوف کا ایک طیف ہے جو ان کے تخیل پر محیط ہے۔ رابعہ عدویہ بصری کی طرح ان کی کہانیوں میں پاکیزگی، عطوفت، امومت اور ممتا ہے۔ وہ عورت اور مرد کے خانے میں تقسیم ہو کر کہانیاں نہیں لکھتیں بلکہ اُن کی کہانیاں فرد کائنات کی کہانی ہوتی ہے جس کے جذباتی ارتعاشات کو ہم ان کی کہانیوں میں محسوس کر سکتے ہیں۔ ترنم ریاض عالمی حالات و واقعات سے مکمل طور سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی کائنات اور حیات کے مسائل کو انسانی نظر سے دیکھتی ہیں۔ اپنے مقدمے میں وہ لکھتی ہیں :

 ’’نئی صدی میں داخل ہوتے ہوئے اور عالمی گاؤں (Global Village) کی جاندار شے ہوتے ہوئے بھی میری اپنی اندر کی ایک دنیا ہے۔ میں تخلیقی عمل کو شاعری موسیقی یا آرٹ تک ہی محصور نہیں دیکھ سکتی۔ مجھے احساس ہے کہ تیکنالوجی کی بادشاہت قائم کرنے والا بل گیٹس بھی ایک تخلیق کار ہے جس کی پھیلتی ہوئی سلطنت نے دنیا کے ہر قلم کار کے تخلیقی عمل کو متاثر کیا ہے۔ میری نظر میں نام چومسکی بھی ایک بہت بڑا تخلیق کار ہے کہ اُس کی تحریریں امریکی سیاسی اور معاشی نظام کے بخیے اُدھیڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ ایک امریکی شہری ہونے کے با وصف امریکی سماج پر اُس کی طنزیہ تحریریں کسی فن پارے سے کم نہیں ہیں۔ ولیم سمرسٹ ماہم ایڈگرایلن پو اور آلودس ہاکسلے سے اُس کے موضوعات کہیں زیادہ وسیع ہیں۔ چیخوف، موپاساں اور ترگینف ایک مخصوص دور کی پیداوار ہیں۔ اُن کا مقام اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ لیکن سول زی نیژن کی کینسر وارڈ ایک ایسا شاہکار ہے جو ایک زوال پذیر معاشرے کی عکاسی اس طرح کرتا ہے کہ اِس کی تعبیر کچھ دہائیوں کے بعد ایک عظیم سلطنت سوویت یونین کے ٹوٹ کر بکھر جانے میں نظر آتی ہے۔ میری نظر میں ایلوِن ٹافلر کا مقام تخلیق کاروں کی اوّلین فہرست میں شامل ہونا چاہیے۔ گو کہ اُس نے رسمی طور پر ایک بھی کہانی نہیں لکھی، لیکن نظامِ تعلیم سے لے کر جنگی نظام تک ہر موضوع پر تحریریں قلم بند کی ہیں۔ یہ عظیم فنکار بھی میری زیرِ نظر رہتے ہیں۔ میرے قلم میں وسعت بخشتے رہتے ہیں۔ ‘‘

اُن کے یہاں جوشش باراں نہیں ہے اور نہ ہی تمرد و طغیانی و آشفتہ جولانی بلکہ تحمل، تدبر اور تفکر ہے۔ اُن کا ردِّ عمل کسی بھی سطح پر ہیجانی یا جذباتی نہیں ہوتا بلکہ نہایت مثبت ہوتا ہے۔ وہ عورت مرد کے تعلقات اور دونوں کے مابین رشتوں کے رموز سے واقف ہیں اور  اپنے متعینہ حدود و حریم میں رہ کر مسائل پر غور و فکر کرتی ہیں۔ درد و کرب کے باوجود آتش فشاں نہیں بنتیں بلکہ نہایت قرینے اور خوش سلیقگی کے ساتھ اپنے غم و غصے، خفگی، برہمی کا اظہار کرتی ہیں۔ اُن کی تخلیق سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ ایسی عورت کی ہے جس کے ایک ہاتھ میں مشعل اور دوسرے ہاتھ میں پانی سے لبالب پیالہ ہے۔ اُن کی کہانیوں میں خدا کی رحیمی کے اسرار نظر آتے ہیں۔ ان کی کہانی آہستہ رو آب اور سبک خرام پانی کی طرح استقامت کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ کہانی میں نہ کوئی شور و غوغا ہے، نہ مصنوعی فضا آفرینی۔ فطری فضا میں اُن کی کہانی اتمام کی منزل تک پہنچتی ہے۔ کہانی میں اپنا فلسفہ، اپنا ادراک، اپنا وژن نہیں بگھارتیں۔

ترنم ریاض کی کچھ کہانیوں میں مردانہ جبر کے خلاف ہلکی سی آہٹ تو ملتی ہے مگر وفاداری بشرط استواری کی فضا قائم و دائم رہتی ہے۔  ان کا یہ غصہ مرد کو ’متغائر‘ سمجھ کر نہیں بلکہ اپنی ذات اور حیات کا ایک حصہ مان کر ہی ظاہر ہوتا ہے اور برہمی کی یہ کیفیت مرد سے متعلق نہیں ہے بلکہ مسائل سے متعلق ہے اور یہ مسائل پوری کائنات کے مشترک ہوتے ہیں اور یہ عورت اور مرد دونوں کے پیدا کر دہ ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعہ ’یہ تنگ زمین‘ کا فکری افق نہایت وسیع ہے تو ’’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘‘ میں ان کا تخلیقی فن ایک قدم اور آگے بڑھا ہے۔ کہانی کتاب کا عنوان ہی ان کی تخلیقی فکر کو پوری طرح ظاہر کرتا ہے اور یہ نسائی احساس کا اشاریہ بھی ہے۔ انہدام کسی وجود کا ہویا عمارت کا یا تہذیب کا، تشخص کا، جب انہدامی قوتیں حد سے آگے بڑھ جاتی ہیں  اور ظلم کا دائرہ پھیل جاتا ہے تو غیبی قوتیں خودبخود نمودار ہوتی ہیں۔ ترنم ریاض کے اس عنوان میں جو رمز اور تہہ داری ہے، وہی ان کی تخلیقی فکر کا نشان بھی ہے۔ گویا ترنم ریاض منتظر فردا ہیں اور صابر و شاکر خموشی کی زبان بن کر غیبی نصرت کی امید لگائے بیٹھی ہیں۔ یہ عنوان اُن کے Sensitivity of mind کو مکمل طور سے ظاہر کرتا ہے۔ تمام کہانیاں بشمول عنوان کتاب ان کے Femaleness of mind کا اشاریہ ہیں اور اُن کی نسائی حسیت اور ادراک کا اظہارنامہ بھی۔

ترنم ریاض کے برعکس شہناز شورو phallo-centric سوسائٹی کے مکمل طور پر خلاف ہیں۔ اُن کے افسانوی مجموعہ ’’لوگ، لفظ اور انا‘‘ میں مزاحمتی رویہ مکمل طور سے روشن ہے۔ اس میں جو تپش اور تمازت ہے، وہ ہر حسّاس قاری محسوس کر سکتا ہے۔  ان کا بنیادی مسئلہ عورت ہے۔ وہ عورت جو یہ کہتی ہے کہ you had killed my smile۔ دراصل عورت کی اسی مسکان کی واپسی کا  ایک تخلیقی اظہاریہ ہے یہ افسانوی مجموعہ۔ اس میں شہناز نے بلند ہمتی اور بلند حوصلگی کے ساتھ درد کی ڈور سے بندھی ہوئی عورتوں اور آنسوؤں کے حجاب میں لپٹی ہوئی خواتین کے داخلی اور خارجی منظر نامے کو اجاگر کیا ہے۔ ہر ایک افسانہ ایک پرشن اٹھاتا اور احتجاج کرتا ہوا نظر آتا ہے۔  شہناز کے افسانے پڑھ کر شہر زاد کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ وہ شہر زاد جو کہانی کہنا جانتی تھی اور کہانی کی پُراسراریت سے آگاہ بھی تھی۔ ایک فلسفیانہ ٹچ دے کر شہناز نے ان افسانوں کی شدت کو اور بڑھا دیا ہے۔ خود کلامی، بے ترتیبی اور انتشاری داخلی کیفیات کو خوبصورت اظہاری جمالیات سے سجایا ہے۔ ایک اقتباس دیکھئے:

 ’’مجھے معلوم ہوا کہ تم نے پھر Abortion کروا لیا ہے۔ تم… تم کیا چاہتی ہو آخر میں بپھر گیا۔

بچے کیوں نہیں چاہتیں تم۔ میں چاہتا ہوں اپنا شناخت…

شناخت کا لفظ زہر بن گیا ہے تمہارے ہونٹوں پر…

 ’’تم شناخت نہیں ملکیت چاہتے ہو۔ جسے تم اپنی مرضی سے خرید و فروخت کر سکو۔ حکم چلا سکو۔ حکم عدولی کی سزا دے سکو اور اپنے ماضی کو ان میں زندہ دیکھو… اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ‘‘

 ’’تم نہیں جانتیں اولاد کیا ہوتی ہے۔ کتنا سرور ہوتا ہے اس لفظ میں …‘‘

 ’’میں جانتی ہوں … سب جانتی ہوں … کتنا سرور ہوتا ہے۔ بس اولاد پیدا کرنے سے غرض ہوتی ہے۔ جانور ہو تم سب لوگ اپنی جسمانی عیاشی میں یہ نہیں سمجھتے کہ آنے والے کا کیا ہو گا۔ کیا دیکھے گا وہ، کیا بھگتے گا وہ۔

تم اولاد نہیں پیدا کرنا چاہتے۔ جسمانی لذت برتنا چاہتے ہو۔ اگر اولاد کو وجود میں لانے کا Procedure اتنا ولولہ انگیز نہ ہو، اشتہا مر جائے تو میں دیکھتی ہوں کہ کتنی اولادیں پیدا ہوتی ہیں … تم میں سے کسی کو اولاد کی ضرورت نہیں۔ یہ صرف بڑھاپے کے خوف کی وجہ سے اولاد۔ اولاد کی مالا جپی جاتی ہے۔ ‘‘

ذکر اساس معاشرہ اور مرد حاوی سوچ کے خلاف  شہناز کا مزاحمتی رویہ، ان کی بہت ساری کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ ’الیوژن‘ ایک ایسی ہی کہانی ہے جس سے مرد اور عورت کے رشتوں کے حوالے سے اس سچویشن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے:

 ’’عورت ہر دور میں غلام نہیں رہی ہے۔ قدیم تواریخ کا مطالعہ کرو گے تو معلوم ہو گا کہ عورت حکمراں رہی ہے۔ مادری سماج میں عورت کے نام سے اولاد پہچانی جاتی تھی۔ وہ سربراہ ہوا کرتی تھی۔  یہ تو بدلتے ڈھلتے سماج اور معاشرے نے اپنی حالت تبدیل کی تو پھر مرد کو عورت پر بالا دستی حاصل ہو گئی۔ کیا تم وہ دور پسند کرتی ہو جہاں عورت تو بالا دست ہے مگر نہ تو اس کی شناخت ہے نہ اہمیت… نہ اسے معلوم ہے کہ اس کی کوکھ سے پیدا ہونے والے بچے کا باپ کون ہے… وہ مختلف مردوں کے ساتھ ہمبستری کیا کرتی تھی۔ کیا آزادی اور برتری اسی کا نام ہے؟

عورت تعجب زدہ ہو کر بولی۔

اس دور میں بچے کی ماں اہم تھی، باپ نہیں ، آج عورت زیردست ہے اور اسکی کوئی شناخت، کوئی اہمیت اور کوئی حیثیت نہیں ہے… تو پھر وہی دور کیوں نہ ہو؟ اور کیا اب بھی ایک عورت کو دس دس مرد ہمبستری کے لیے نہیں رکھتے؟ کم از کم قدیم دور میں وہ اپنی مرضی سے تو وقت مقرر کر سکتی تھی کہ کتنی راتیں ہیں اور کتنے مرد… اور آج جبر کا یہ حال ہے کہ ایک رات میں اس کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے پھر یا قبر اس کا مقدر بنتی ہے یا پھر معاشرے کے الاؤ میں ایندھن بن کر جینا پڑتا ہے۔

کیا میرا چاہنا اور میرا نہ چاہنا۔ مگر جو یہ ترازو کے دونوں پلڑے ہیں ، ایک دوسرے سے اس قدر شاکی ہیں کہ ایک آسمان پر تو دوسرا پاتال میں۔ اس میں Balance کی قدر تو قائم ہونا۔ اگر Chastity کی اہمیت اتنی زیادہ ہے تو مرد کے لیے دوہرا معیار کیوں ہے۔ اسے بھی کنوارے پن سے محروم ہونے کی پاداش میں عورت Reject کیوں نہیں کرتی۔ مرد ہی چھینے مرد ہی دھتکارے۔ مرد ہی لذت سمیٹے، مرد ہی گناہ گار ہونے کی مہر لگائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے بھلا!

یہاں سارا مسئلہ عورت کی شناخت اور اس کے حقوق کا ہے۔

ڈاکٹر فہیم اعظمی نے ابتدائیے میں شہناز شورو کے افسانوی فن اور فکری افق کے حوالے سے کافی اچھی بحث کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’شہناز شورو کی بیشتر کہانیاں ہمارے سماج میں عورتوں کے استحصال، عورتوں کے جذبات و محسوسات سے صرف نظر کرنے کے رویے، ان کے ذہن کو ناقص اور ان کی حیثیت کو مرد کی کنیز کے طور پر متعین کرنے کی روایت کے خلاف احتجاج معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ان کی تمام کہانیوں میں مرد اور عورت کے حیاتیاتی رشتوں کو تسلیم کیا گیا ہے… شہناز شورو کی کئی کہانیوں میں تمثیلی انداز اور شعوری رو اکثر نظر آتی ہے جو ان کہانیوں میں تخیل اور فکر کے عناصر کی نشان دہی کرتی ہے۔ ‘‘ شہناز شورو نے اپنے فن کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ افسانے میری داخلی بھول بھلیوں میں الجھنے کھوجنے اور رستہ نہ ملنے کی خلش، تڑپ اور بے بسی کا احساس ہیں۔ خوش آئند بات یہی ہے کہ میں اپنے ذہنی ارتقاء سے مایوس نہیں ہوں۔ میں اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتی ہوں تو اپنی ہی سوچ پر ہنستی ہوں اور یہی ہنسی میرے ارتقاء کا احساس ہے۔

پاکستان کا نسائی تخلیقی ذہن کافی زرخیز رہا ہے۔ حجاب امتیاز علی، الطاف فاطمہ، بانو قدسیہ، خدیجہ مستور، رضیہ فصیح احمد، جمیلہ ہاشمی، ہاجرہ مسرور، فرخندہ لودھی، زاہدہ حنا، خالدہ حسین، عذرا اصغر، بشری رحمن، شکیلہ رفیق، نیلوفر اقبال، عطیہ سید، نیلم احمد بشیر، فردوس حیدر یہ ایسے نام ہیں جنہوں نے اردو فکشن کو نئے امکانات سے آشنا کیا اور افسانوی افق کو وسعت عطا کی۔ شہناز اسی سلسلے کا ایک نمایاں نام ہے۔

شہناز شورو کی کہانیاں واقعتاً ایسی ہوتی ہیں جنہیں پڑھ کر آدھی دنیا آنچل کے بجائے پرچم اٹھا سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانے کے ذریعے خاموش زبانوں کو گویائی عطا کی ہے۔ شبنم کو شعلہ اور آنسو کو انگاروں کو بدل دیا ہے۔ جلبابی ادب کی بھیڑ میں یہ ایک موثر آواز ہے جو صرف جزیرۂ نسواں کو نہیں بلکہ منطقۂ مرداں کو بھی متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

مزاحمتی تیور کی ایسی ہی کہانیاں فہمیدہ ریاض، عذرا عباس، زاہدہ حنا، فاطمہ حسن  کے یہاں ملتی ہیں۔ زاہدہ حنا کی کہانی ’’زمین آگ کی، آسماں آگ کا‘‘ مشہور زمانہ شاہ بانو کیس سے متعلق ہے جس میں نسائی مظلومیت Subjugation of women اور اس کے رد عمل کا نہایت جذباتی مگر منطقی، معروضی بیان ہے۔ فہمیدہ ریاض کی ’پرسنل اکاؤنٹ‘ میں بھی فیمنزم کی مضبوط آواز گونجتی محسوس ہوتی ہے۔ اُن کی کئی کہانیاں اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ نسائی مسائل و متعلقات کے اِردگرد گھومتی ہیں۔ عذرا عباس کی ’’نیند میں ڈر‘‘ اور ’’کھڑکی کے اندر کا منظر‘‘ اسی نوع کی مزاحمتی کہانیاں ہیں۔ فاطمہ حسن کا ’’چھتیس  نمبر‘‘ مختصر ہوتے ہوئے بھی معنی خیز ہے۔

شہناز شورو کی کہانیوں میں مزاحمتی رنگ ہے تو نجمہ محمود کی کہانیوں میں اصلاحی رنگ نمایاں ہے۔ اُن کی کہانیاں میر، غالب، اقبال، ٹیگور، خلیل جبران، شیکسپیر اور رومی کی ذہنی اور فکری بازیافت ہیں اور یہ افسانے ایسے ہیں کہ گم اس میں ہیں آفاق… یہ کہانیاں حکایات لقمان، منطق الطیر اور طوطی نامہ کے سلسلے کی توسیع ہیں جن کے مقاصد اصلاحی تھے۔

یہ کہانیاں دراصل مجمع البحار ہیں ، کئی عظیم دریاؤں کا سنگم۔  ان میں مذہب، نفسیات، فلسفہ، تصوف کا زبردست منتھن ہے۔ اتنا زبردست کہ ایک کا سرا ہاتھ لگتا ہے تو دوسرے کا سرا چھوٹ جاتا ہے۔ یہ کہانیاں زندگی کے متنوع مظاہر کی تفسیر و تعبیر ہیں۔ ’پانی اور چٹان‘ کی زیادہ تر کہانیاں بقول مصنفہ تشکیل معاشرہ اور اصلاحِ سماج کے لیے لکھی گئی ہیں۔ مگر جملۂ معترضہ کے طور پر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جو کہانیاں تشکیل معاشرہ کے لیے لکھی جاتی ہیں ، وہ اکثر فنی اور فکری اعتبار سے لاتشکیلی ہو جاتی ہیں۔ ان کی کہانیوں کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں اس قدر فطرت ہے اور فطرت سے اتنی وابستگی کہ ان کے افسانوں پر ورڈس ورتھ کی شاعری کا گماں گزرتا ہے۔ فطرت کی طرف مراجعت اور ذہنی و فکری اعتکاف کا منظر ان کے کئی افسانوں میں نمایاں ہے۔ مثلاً:

 ’’فطرت میں کتنے اسرار پوشیدہ ہیں ، کیسی گہرائیاں ہیں پانی کی لہروں کے نیچے۔ زمین پر بسنے والے انسانوں میں جن کے مختلف رنگ روپ ہیں۔ لہریں ابھرتی ہیں ، ڈوبتی ہیں … اور سمندر کا حصہ بن جاتی ہیں ، انسان جنم لیتے ہیں مرتے ہیں لیکن زندگی چلتی رہتی ہے… رواں رہتی ہے۔ آج اسے فطرت کے مکمل حسن کا ادراک ہوا تھا۔

اس کے سامنے تھیں دریا کی لہریں … سامنے رنگ بدلتا آسمان، زمین پر سبزے کا جادو۔۔۔ اور تصور میں ایک انسان کا پیکر اور کانوں میں گونجتے ہوئے یہ الفاظ۔۔۔

 ’’بس اتنا ہی کاپھی ہے بہن جی…بس بس اتنا ہی کاپھی ہے۔ ‘‘ اور کھڑکی کے اس پار کھجور کے درختوں کا بکھرتے پانیوں پر پڑتا ہوا عکس جادو جگا رہا تھا۔

اُسے محسوس ہوا جیسے وہ ایک لہر ہے اور سمندری کائنات کا ایک حصہ ہے۔ لہر لہر سمندر!‘‘

اسی طرح ’پانی اور چٹان‘ ان کی فطرت سے گہری وابستگی اور ذہنی اور فکری شناخت کا اشاریہ ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے:

 ’’پکے صحن کو پار کرتی وہ ذرا نشیب میں واقع کچے صحن کی طرف بڑھی جو خاصا وسیع تھا جس میں پھلوں اور پھولوں کے درخت تھے… اور پھر اس کا پسندیدہ کنج… گلاب اور بیلے کی کیاریاں۔ بیلے کی بھینی بھینی، بے خود کرنے والی مہک کو خود میں اتارا۔ گلاب کا ایک پھول توڑ  ذراءا مقا اس کی نرمی کو محسوس کیا۔ گہری گہری سانسیں لے کر تازی ہوا کو اپنی رگوں میں سرایت کیا۔ ایک لطیف مسکراہٹ اس کے لبوں پر آئی… اور پورا وجود ایک عارفانہ جذبے سے سرشار ہو گیا… اور … صبح کو خوش آمدید کہتی ہوئی چڑیوں کا گیت فضا میں بکھر رہا تھا۔ پو پھٹ چکی تھی… دور مشرق میں سورج کی پہلی کرن نمودار ہو رہی تھی!

کاش میں تا عمر تنہا رہ سکتی۔ اس نے انتہائی شدت سے سوچا۔ تنہائی کی برکتیں لامحدود۔ ایک میں اَنیک ’’ہم یکے باشند ہم شش صد ہزار‘‘ وہ ساری عمر تنہا ہی رہے گی۔ اس نے فیصلہ کیا۔ اشوک کے با وقار درختو! گواہ رہنا۔

وہ اپنے کمرے میں واپس آ گئی… اس کی نظر دیوار پر لگی پینٹنگ پر گئی… تنہا چٹان اور پاس ہی لہریں مارتا پانی اور اس پانی پر بہتی کشتی!

کوئل اپنا نغمہ فضا میں بکھیر رہی تھی!

فطرت کے علاوہ ذات کے گمشدہ حصوں کی دریافت اور اپنے جڑوں کی تلاش کا عمل بھی ان افسانوں میں نمایاں ہے۔ انہوں نے زوال پذیر انسانی معاشرے کی کہانی اور اخلاقی انحطاط کا فسانہ بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نجمہ محمود کو مرد معاشرے کی جڑوں میں کثافت نظر آئی ہے اور بعض کہانیوں میں وہ اسی کثافت کے خلاف آمادہ جنگ ہیں ، اور اس طہارت کی بازیافت کرنا چاہتی ہیں جو طہارت حضرت رابعہ بصری کو میسر تھی:

 ’’تجرد کی زندگی تو سب سے اچھی زندگی کہی گئی ہے۔ لیکن شاہینہ بیگم تم رابعہ بصری نہیں ہو، انتہائی معمولی متنفس ہو۔ وہ پہنچی ہوئی خاتون تھیں لیکن… سر سید نے تو کہا تھا۔ ’’انجمن خاتونان پنجاب‘‘ کے جلسے میں کہ تم میں ہزاروں رابعہ بصری موجود ہیں۔  لیکن شادی کے بغیر یہ دنیا والے کیا زندہ رہنے دیں گے ذرا لڑکی بڑی ہوئی فوراً انگلیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ابھی تک شادی کیوں نہیں ہوئی اور المیہ ہے کہ اگر شادی کے بعد کچھ ہی عرصہ میں وہ کمسن لڑکی اتفاق سے بیوہ ہو گئی تو پھر کوئی اس کی دوسری شادی کے سلسلے میں فکرمند نہیں ہوتا، کسی کو اس کی تنہائی کا خیال نہیں آتا وسیمہ بیچاری کی مثال سامنے ہے۔ چھوٹے سے بچے کے ساتھ بیوگی کی زندگی گزار رہی ہے۔ ماں باپ کب تک زندہ رہیں گے۔ قدم قدم پر مشکلات، عدم تحفظ… کیسا عجیب سماج ہے۔ ‘‘

Inner Space سے جنم لیتی ان کہانیوں میں دکھ بھی ہیں ، درد بھی اور تنہائی کا گہرا احساس بھی۔ مگر ایک بات طے ہے کہ ان افسانوں میں پروفیسر نجمہ محمود کے تخلیقی جنون کا شعلہ بھڑک رہا ہے۔ ان کہانیوں میں کہیں کہیں ان کی اپنی زندگی اور ذات بھی شامل ہو گئی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہانیاں ان کی داخلی خارجی زندگی اور فکری تموجات کا ایک منظرنامہ بھی ترتیب دیتی ہے۔

سجاد ظہیر اور پروفیسر وحید اختر نے نجمہ محمود کے بارے میں جو بشارت دی تھی، وہ بشارت ’پانی اور چٹان‘ کے ذریعے سچ ثابت ہو رہی ہے۔ نجمہ محمود کی تخلیقی مسافرت کی یہ داستان بڑی طویل ہے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں کو آفاقی عشق کی کہانیاں کہا ہے۔ سچ مچ اس میں آفاقیت بھی ہے اور عشق بھی اور عشق سے جڑے ہوئے سارے درد و آلام بھی۔ میں نے اس دشت عجیب، صحرائے غریب میں بہت ہی مختصر مسافرت کی  لیکن محسوس ہوا کہ محترمہ کے تحت الشعور میں جو کہانیاں محفوظ تھیں ، وہ کہانیاں اب پانی اور چٹان کے ذریعے قاری تک پہنچیں گی اور قاری کو اس میں باغ سراپا بہار بھی نظر آئے گا اور آتش صحرا بھی۔  ہاں ان کی کہانیاں بوجھل ہیں مگر بیلے، پام، بوگن ویلیا اور کروٹن کی خوشبو اس بوجھل فضا کو خوشگوار بنا دیتی ہے اور یہی ایک کہانی کار کا تخلیقی معجزہ ہے کہ وہ اپنے دھڑکتے، سلگتے، مہکتے لفظوں سے ایک ایسی فضا تشکیل کرے جس فضا میں بہت سارے رنگ ہوں اور بہت سارے خواب…

افسانے کے علاوہ شعری تخلیق میں بھی مختلف نسائی رنگ ہیں۔ ایک رنگ شہلا نقوی کی شاعری کا ہے جو اپنی شاعری میں ایک Female machismo کی مثال بن کر سامنے آتی ہیں۔

پھن کو پھیلائے ہوئے کالا ناگ

یوں تعاقب میں پھرا کرتا ہے

آنکھ کھلتے ہی ہر اک لڑکی نے

اونچ نیچ اپنے گھرانے میں سنی

سر سے کھسکا ہوا تیرا آنچل

بیسوا تجھ کو بنا سکتا ہے

اور مسجد سے جمعے کے خطبے

میری ہم جنسوں کی نفرت سے بھرے

پھیل جاتے ہیں گلی کوچوں میں

                                    (زنا بالجبر)

یہ ہے شہلا نقوی کا انقلابی تیور۔۔۔ منبری مولویوں کے موٹے عماموں کے نیچے دبے، عورتوں کے تئیں نفرتوں کے کہسار اور شرعی حصاروں میں جکڑے ہوئے کہنہ ذہنوں کے خلاف نئے زمانے کی عورت کی گرج دار آواز اور کالے مذہبی ناگوں کے پھن کو کچلنے والی ایک جری عورت کی یلغار… مولوی اساس معاشرہ پر ایک کاری وار، شہلا کی یہ نظم اذانِ سحر اور ساز بیداری ہے۔ نسائی شناخت کے لیے برسوں سے بر سر پیکار عورت کا یہ مخاطبہ نہیں بلکہ مقاومہ اور مزاحمت ہے۔ یہ دیدۂ خوناب سے ٹپکا ہوا آنسو ہے جو انگارہ بن گیا ہے۔ یہی ’’لفظ انگارے‘‘ نقوی کی نظموں میں لپکتے اور ’’خرمن مرداں ‘‘ کو خاشاک کرتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ نقوی اس طبقۂ اناث کی نمائندہ ہیں جسے ’ذکر اساس سماج‘ نے صدیوں سے دیواروں میں قید کئے رکھا جس کے سچے جذبوں کو مذہبی جبر کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جس کی صادق آواز کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی، جس کی صدیاں مجبوریوں اور مظلومیت کی نذر ہو گئیں۔ اسی لیے اب عورت صدیوں کے زندانوں کی زنجیریں توڑ کر اپنی آواز سے مردوں کی بے حس، مردہ کائنات کو بیدار کرنا چاہ رہی ہے۔ شہلا نقوی دراصل اسی باغیانہ نسائی سوچ کی زائیدہ ہیں جس کا منشور یہ ہے:

بنت حوا ہی نہیں

نصف بنی آدم ہیں

اور اسی احساس کے ساتھ وہ خاموشی کا زنگ آلود قفل توڑ کر ’’نسا مرکزیت‘‘ مستقبل کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی ہے، اب نہ باد و باراں ، نہ آندھی نہ طوفاں اس کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں … یہ ’’شگفتن لب‘‘ مرد غالب معاشرے کو خواہ کتنا ہی ناگوار گزرے مگر عورت اب ہر سو بلند بانگ لہجے میں پکارے گی اور اپنی مظلومیت کی داستان، کائنات کے ہر صفحے پر رقم کر دے گی کیونکہ وہ جان چکی ہے:

اپنی تاریخ کے دریا کا بہاؤ/ جس کو روکنے کی سدا تدبیریں تھیں / بند اور پشتے بنے اس پہ ہزاروں لیکن/ پل کوئی نہ بن سکا اس کے کناروں پہ کبھی۔

نسائی مزاحمت کے اس بہاؤ کو بند اور پشتے اب کبھی نہیں روک سکتے… نقوی نے عورت کے دکھ درد، کرب کو اس کے مکمل سیاق و سباق اور صحیح تناظر میں دیکھا ہے، اس لیے وہ طبقہ اناث کی آہوں ، سسکیوں اور چیخوں کو آواز عطا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ یہ جانتی ہیں کہ مرد اساس معاشرے پر مجہولیت کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے اور ذہنوں میں ایک ’حجابِ مستور‘ ہے کہ عورت کی مظلومیت، مقہوریت، بیکسی، بے بسی ان پر روشن نہیں ہو پاتی ہے۔ اسی لیے اس طبقۂ نسواں کا درد لیے شہلا نقوی مرد فرقہ واریت اور صنفی امتیازیت کے خلاف نعرہ بلند کرتی ہیں اور ’’ذکر فرقہ واریت‘‘ کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں۔ انہیں یہ گیان ہے کہ مرد کے ذہنوں میں ظلمات کے جنگل آباد ہیں اور ان کے ہاتھوں سے وہ صحیفے کھو گئے ہیں جن میں امن، عقل و فہم اور مروت کی عبارتیں درج تھیں ، اس لیے وہ ان کھوئے ہوئے صحیفوں کو یاد دلا کر اس مادری نظام کو روشن کرنا چاہتی ہیں جو تہذیب انسانی کا نقش اولیں تھا۔ عمرانیات کے محققین کہتے ہیں کہ ابتداء میں نظامِ امہاتی ہی رائج تھا۔ یونان کے مشہور مؤرخ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ ابتدائی اقوام میں ماں کے نام پہ ہی بچوں کا نام رکھا جاتا تھا۔ ایشیاء کوچک کی لائسی قوم اور جزیرہ سماترہ میں اب بھی یہی امہاتی نظام رائج ہے۔ حضرت یعقوبؑ کا اپنے سسرال میں رہنا اور حضرت موسیٰؑ کا اپنی بیوی صفورہ کے میکے میں طویل قیام کرنا اسی نظامِ امہاتی کا اشاریہ ہے۔

یوں تو شہلا کی ساری نظموں میں باغیانہ تیور اور نسائی وکالت ہے مگر یہ بے جا وکالت نہیں۔ صحیح زاویے سے دیکھیں تو یہ حرفِ صداقت ہے، ایک سچا تانیثی بیانیہ ہے جسے مرد مہابیانیوں نے برسوں اپنے جبڑوں تلے دبائے رکھا۔ ہفت افلاک کی سیر کرتے ہوئے مردوں نے اپنی زمین اور جڑ کو فراموش کر دیا۔ وہ زمین جو عورت کی ایک علامت ہے۔ مردوں نے اسی زمین سے کسب فیض کیا اور اسی کو پاؤں تلے روندا… ’’نمک کا ٹیلہ‘‘ اسی احساس کا اظہار ہے:

قریۂ دل پہ جو برسے/ عذاب، بجر کے سنگ/ تو جاں بچانے کو نکلے/ وہاں سے مرد و زن/ افق سے جوڑ لیا/ مرد نے جو تار نگاہ/ جما کے اپنے قدم/ اک نئی منزل کو چلا/ زمین نے عورت کے/ پاؤں تھام لیے/ قدم اٹھا نہ سکی/ دیکھ رہی ہے/ وہ انجماد ہوا میں تھا/ سانس لے نہ سکی/ بس اس کا جسم ہی/ اشکوں کو جذب کرتا رہا/ بنا وہ منجمد آنسو/ ہوا مجسم اشک/ نمک کا ٹیلہ/ جو بارش کی آرزو میں رہا

یہ Pillar of Salt بحر مردار کے کنارے ایک ٹیلہ ہے جو بروایت حضرت لوط کی معذب زوجہ ہیں۔ اس نظم میں زمین سے عورت کی علامتی تجسیم کی گئی ہے کہ جس طرح زمین ہر طوفان ہر دکھ ہر عذاب سہ کر اپنے محور پر قائم رہتی ہے، اسی طرح عورت بھی ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ بارش (یعنی آسمان) کی آرزوؤں میں رہتی ہے کہ آسمان کی بارش سے ہی زمین زرخیز ہوتی ہے۔ یہ دراصل اس بات کا اشاریہ ہے کہ آسمان و زمیں کے وصال اور عورت مرد کے ملن کے بغیر شکتی، زرخیزی ممکن نہیں۔ یہاں بھی عورت ایک استقامت کا استعارہ ہے کہ وہ نمک کا ٹیلہ بن کر اپنی زمین سے جڑی ہوئی ہے۔

شہلا نقوی کی نظموں میں تخلیقی اور ذہنی تحرک کا ایک جہاں آباد ہے۔ ایک ذہنی ارتکاز اور فلسفیانہ عمق ہے جو گہرے تفکر اور تدبر کا نتیجہ ہے۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ نقوی کی نظموں میں جو نمک ہے وہ غزلوں میں نہیں۔ مگر ان نظموں کی ناک بڑی ٹیڑھی ترچھی ہے اور ہونٹ لہو میں تر! غزلوں میں ذہنی تھکن، کثافت اور بوجھل پن کا احساس حاوی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہلا کی افتاد طبع غزل کے لیے موزوں نہیں بلکہ ان کی اصل مناسبت نظم سے ہے۔ پھر بھی ان کی تخلیق کے آنچل میں غزل کے دو چار اچھے شعر مل جاتے ہیں :

نہ چھوڑا اس لیے کہ گھر کا دل بھی ٹوٹ سکتا ہے

وگرنہ کٹ ہی جاتی زندگی بے خانماں میری

وہ اور ہیں جو ستاروں پہ ڈالتے ہیں کمند

زمیں کے عشق میں ہم پاس سے پلٹ آئے

یہ ہے زمین سے جڑی ہوئی شاعری کا احساس۔ شہلا کے دل میں انسانی درد کا دریا موجزن ہے۔ اس لیے سطح دریا پہ ایسے شعر بھی تیرتے نظر آتے ہیں :

موت کے کھیت سے لاشوں کی ایک فصل کٹے گی پھر

ظلم کے مندر سے نفرت پوجا کا اٹھا اک شور

ڈھا کر انسانی عظمت کی مسجد اس کی اینٹیں

ہاتھ میں لے کر سچ کا خون کرنے کو بڑھا اک شور

دراصل یہی مذہبی جنوں و نفرت کا شور ہے جس میں عورت کی چیخ و آہ بھی گھٹ کر رہ گئی ہے۔ شہلا نقوی اسی گھٹی ہوئی آواز کی بازیافت کے لیے کوشاں ہے۔ وہ آج کے عہد کا نیا نسائی صحیفہ مدوّن کر رہی ہیں تاکہ عورتوں کو اُس انسانی احترام کے دائرے میں با وقار مقام ملے جو اسے           کبھی قدیم الایام میں حاصل تھا اور پھر سے مادری نظام کا وہ وقار بلند ہو جو ہماری تہذیب اولیں کی اساس تھا۔

شہلا نقوی کی شاعری ’کالی‘ یعنی جلال کا ایک روپ ہے۔ اس میں عورت ’’پھنکار‘‘ میں ڈوبی نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری کا اس جہت سے مطالعہ کیا جائے تو بہت ساری مخفی جہتیں منور ہو جائیں گی…

شہلا نقوی کے برعکس فرحت زاہد کی شاعری کا رنگ مختلف ہے۔ ان کی شاعری میں جلال کا نہیں جمال کا رنگ نظر آتا ہے:

چوڑیوں سے کنگن تک لڑکیاں ادھوری ہیں

خواب گہ سے چلمن تک لڑکیاں ادھوری ہیں

پھول اور شگوفوں پر

تتلیاں تو آتی ہیں

تتلیاں ضروری ہیں

خواب گر نہ دیکھیں تو

لڑکیاں ادھوری ہیں

جویل نے لکھا ہے: ’’ہماری حیات مختصر، خواب میں ملفوف ہے، خواب ہی ہمارا جھولنا ہے خواب ہی ہماری قبر ہے اور خواب ہی ہمارا گھر…‘‘ شاید یہی خواب ہیں جن کی وجہ سے ہم عذاب رتوں سے گزرتے ہیں۔ پھر لڑکیوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ گہری نیند میں کھوئے ہوئے مردوں کی آنکھوں میں اپنے خوابوں کی تعبیریں تلاش کرتی ہیں … ست رنگی خوابوں کے طلسمی نگر کی باسی فرحت زاہد کی آنکھوں سے خواب کا رشتہ بہت پرانا لگتا ہے۔ اس کی آنکھ اور خواب کے وصال سے ہی تخلیق کے طلسماتی محل میں وہ چمک دمک اور رنگ جمال ہے کہ آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ فرحت کی شاعری میں ’خواب‘۔۔۔ ایک نسائی استعارہ ہے جو ان کی غزلوں ، نظموں میں چاند کی طرح چپکے سے روشن ہو جاتا ہے۔ ’’ادھورے سفر کے مسافر‘‘ میں خواب میں گاڑی چلانے کا منظر ہو یا Menopause میں خوابوں میں اُترے، پھول گلابوں کے، خواب سے ان کا رشتہ کہیں نہیں ٹوٹتا۔ خواب ایک تسلسل اور دوام کی طرح ان کی شاعری میں رواں دواں ہے اور اسی خواب ناک فضا نے ان کی شاعری کو انفرادیت اور عظمت کی راہ دکھائی۔

خوابوں کی بارش میں بھیگتی شاعرہ فرحت زاہد کے جہانِ شعر کی سیر کرتے ہوئے جانے کیوں ’بن جیوتسنا‘ آنکھوں میں لہرانے لگتی ہے۔ کالی داس کے شکنتلا کی بن جیوتسنا۔۔۔ چنبیلی کے پودے کا، آم کے پیڑ سے وصال کا یہ منظر شکنتلا کی آنکھوں میں جانے کیسے کیسے خواب اور کیسی کیسی آرزوئیں جگاتا تھا، جیوتسناتکمیلیت کا بھرپور مظہر تھا اور اسے دیکھ کر شکنتلا پہروں اداس رہتی اور شرد رت کی چاندنی کی تلاش میں بھٹکتی کنول کے نازک پتے پر ناخنوں سے اپنے دل کا حال لکھتی تھی۔ جیوتسنا کو دیکھ کر وہ ایک خواب ناک فضا میں کھو جاتی تھی، ایسا کیوں ہوتا تھا کیا کسی نے سوچا ہے؟ شاید تکمیلیت کی خواہش ہی اس کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ ہر ادھوری لڑکی کے خوابوں کی منزل جیوتسنا ہی ہوتی ہے۔ فرحت زاہد کی شاعری بھی ادھورے پن سے تکمیلیت تک کے سفر کی کہانی سناتی ہے۔ اِس دشوار گزار سفر میں عورت جن انجانی راہوں ، دکھ بھرے راستوں سے گزرتی ہے۔  اس کا بیان بھی اس شاعری میں موجود ہے۔ اسی سفر میں وہ کالی رات بھی آتی ہے جو سارے خواب نگل جاتی ہے:

خوابوں کے سب تارے جل کر راکھ ہوئے

اب ہم سے کیا مانگ رہی ہے کالی رات

سکھ کے کتنے دنوں پر بھاری ہوتی ہے

تنہائی کی وحشت لیے دکھ والی کالی رات

یہ ہے وہ کالی رات، مفارقت کی رات جو کئی صدیوں پر محیط، ہجر کی عظیم رات سے آن ملی ہے جس رات کے زنداں میں عورت آج بھی قید ہے۔ صدیاں بدل گئیں مگر عورت کی تقدیر نہیں بدلی۔ عورت آج بھی وہیں اسی مقام پر کھڑی ہے۔ اس کے دُکھ درد اب بھی ویسے ہی ہیں۔ لڑکی ابھی تک ادھوری ہے مگر اسے اتنا یقین ہے:

دیکھ لینا یہ وقت بدلے گا

خود کو منوائے گی یہی لڑکی

                                 (فرحت زاہد)

اس کے باوصف فرحت زاہد مرد اساس ذہنیت کی ردِّتشکیل کے لیے وہ مزاحمتی، مقاومتی رویہ اختیار نہیں کرتی جو آج کی فیمنزم کا نصب العین اور لائحۂ عمل ہے بلکہ وہ عورت کے ادھورے پن کی تکمیل بڑی کوملتا اور سجلتا سے کرنا چاہتی ہے۔ وہ ’’ذکر اساس‘‘ سماج کے سلاسل کی ساخت شکنی کے لیے ’’کالی‘‘ کا روپ نہیں دھارتی بلکہ ’’انا پورنا‘‘ بن کر ایک مستحکم نسائی معاشرے کی تشکیل کرنا چاہتی ہے۔ فرحت کی شاعری کے جو نسائی کردار ہیں وہ مثبت زاویۂ نظر کے حامل، ممتا اور محبت کے مثالی پیکر، سدھارتھ کی یشودھرا، تلسی داس کی رتناولی، لچھمن کی ارملا اور گورانگ مہاپربھو کی وشنوپریا جیسے ایثار اور قربانی سے بھرپور نسائی پیکر ہیں جو مرد کے وجود میں مدغم ہو کر ہی اپنے خوابوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ فرحت کے یہاں مشرقی نسائیت کی یہی خوبصورت جہت روشن ہے:

سورج سر پہ اوڑھ کے نکلوں جب بھی میں گھر سے

دھوپ کے ہر خیمے کے اندر تیرا سایہ ہو

خوشبو بن کر تیری یادیں سانسوں میں مل جائیں

میں ہی تیرے پاس رہوں تو جب بھی تنہا ہو

جیون کے سب سپنے تیرے ہو جائیں لیکن

میرا ایک ہی سپنا ہو اور وہ بھی تیرا ہو

چنا نہ میں نے کوئی گھر تمہارے گھر کے سوا

ہزار اور بھی در تھے تمہارے در کے سوا

فرحت کی شاعری میں عشق کی تہذیبی قدر کے سارے نسائی ابعاد منور ہیں اور اُن کے یہاں انتہائی شگفتہ اور کومل نسوانی جذبات ہیں۔ یہی ان کی شاعری کا نشانِ امتیاز ہے۔ لہجے میں نسائیت اور تخاطب میں نسائی ادا ہے یعنی فرحت زاہد کی شاعری ایک مکمل نسائی اظہار ہے۔ یہ اور بات کہ ان کی شاعری صرف نسائی محور پر نہیں گھومتی بلکہ بہت سے سلگتے عصری موضوعات سے بھی ان کی شاعری مملو ہے۔ انہیں نئے زمانے کا گیان ہے اور نئے حالات کا ادراک بھی، بدلتے زمانے کا احساس بھی۔ ان کی شاعری گھر آنگن کی بھی ہے اور گھر باہر کی بھی اور دونوں صورتوں میں ان کی شاعری ادھوری نہیں بلکہ مکمل ہے۔ جذبہ اور احساس کی تکمیلیت کی معراج کو ان کی شاعری نے چھو لیا ہے۔ فرحت زاہد کو پرانے تہذیبی اور تنقیدی معیار کے حوالے سے دیکھا جائے اور قدیم الایام کے نقطۂ نظر سے ان کی شاعری کا غائر مطالعہ کیا جائے تو ان کی شاعری ’’اناپورنا‘‘ یعنی جمال اور کمال کا ایک روپ ہے جس میں عورت، جھنکار، میں ڈوب جاتی ہے…

اسی طرح کچھ آب بیتیاں ایسی ہیں جس میں کئی طرح کے نسائی رنگ ملتے ہیں۔ ایک خودنوشت ’’جنت سے نکالی ہوئی حوا‘‘ ہے جس میں مکمل طور سے پروٹیسٹ ہے تو دوسری خودنوشت اجیت کور کی ’’خانہ بدوش‘‘ ہے، جس میں خودسپردگی کا جذبہ احساس نمایاں ہے۔

اور خودنوشت سوانح پڑھتے ہوئے جارج برناڈشا کے اس قول کے قریب نہیں پھٹکتا کہ ’’خود نوشت سوانح جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے‘‘ اور نہ ہی دوستوفسکی کے اس دستک پہ دھیان دیتا ہوں کہ ’’صداقت اور حقائق پر مبنی خود نوشت کی تخلیق ناممکن ہے۔ ‘‘ مجھے پتہ ہے کہ ہر کوئی روسو نہیں بن سکتا۔ سینٹ آگسٹائن کی طرح Confessions نہیں لکھ سکتا… اور پھر آدمی سچ بولے بھی تو کیوں؟ سچ تو صلیب تک لے جاتا ہے اور پھر مشرق کا محجوب منافق معاشرہ اسکی اجازت بھی نہیں دیتا کہ آدمی وہ سچ لکھے جس  کی سزا بدنامی، ذلت اور رسوائی ہوتی ہے۔ اب یہاں ہر کوئی میڈونا یا برگتی بردوت کی طرح  Naked Truth  تو نہیں لکھ سکتا۔ مشرق میں رہ کر کوئی میرن کی طرح اپنی خود نوشت Faithfull میں یہ تو نہیں لکھ سکتا کہ It was the last great f… I have ever had. یہ لکھنے کے لیے صرف جرأت رندانہ نہیں بلکہ تھوڑی سی مغربی بے حیائی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک فروغ فرخ زاد اور کشور ناہید کا سچ ہی ہمارا معاشرہ سہن ہی نہیں کر سکتا تو پھر کسی اور سچ کو کیسے برداشت کر پائے گا؟ نوال السعداوی نے ‘The Hidden face of Eve’ میں جو بھیانک سچ لکھا ہے اس کی آگ میں مصری معاشرہ اب بھی جل رہا ہے۔ ‘Labia majora’ (شفرِ کبیر) اور ‘Labia minora’ (شفرِ صغیر) کے کاٹنے کی درد بھری داستان لکھنے کے جرم میں معاشرے نے اسے معتوب قرار دیا ہے۔ ایسے میں بھلا سچ لکھنے کی غلطی کرنے کی جرأت کون کر سکتا ہے؟  بالخصوص اگر سچ اور خودنوشت سوانح کا تعلق کسی خاتون سے ہو تو معاملے کی نزاکت اور بڑھ جاتی ہے…

 مجھے عورتوں کی آپ بیتیاں Fascinate کرتی ہیں اور اچھا لگتا ہے عورتوں کے باطنی مدو جزر میں جھانکنا۔ ان کی تنہائیوں ، اداسیوں اور درد کے ساتھ کچھ ساعتیں گزارنا۔ امرتا پریتم کی ’رسیدی ٹکٹ‘ آج بھی ذہن کو مشتعل کرتا ہے۔ پدما سچدیو کی ’’بوند باؤڑی‘‘ پڑھتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔ کشور ناہید کی ’’بری عورت کی کتھا‘‘ پیاری لگتی ہے۔ سعیدہ احمد کی ’’ڈگر سے ہٹ کر‘‘ بھی اچھا تاثر پیدا کرتا ہے۔ ادا جعفری کی ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ بھی ’آدھی دنیا‘ کے درد سے باخبر کرتی ہے۔ ہندی اور دیگر علاقائی ادب میں بھی عورتوں نے اچھی آتم کتھائیں لکھی ہیں۔ اجیت کور کا ’خانہ بدوش‘ کسم انسل کا ’جو کہا نہیں گیا‘ اور کرشنا اگنی ہوتری کا ’لگتا نہیں ہے دل مرا‘ ایسی خود نوشت ہیں جن میں ان خواتین نے نسائی، تخلیقی اظہارات اور لمحاتِ گزراں کے نئے تجربے پیش کیے ہیں۔ تسلیمہ نسرین اور تہمینہ درانی بھی اچھے مونتاژ تیار کرتی ہیں۔ لیکن ان دونوں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ مشرقی معاشرے میں ان کی تحریریں مضر سمجھی جاتی ہیں۔  تہمینہ درانی تو خیر معروضی اندازِ فکر رکھتی ہیں۔ مگر تسلیمہ نسرین بقول شخصے Freedom of mind کے نام پر Freedom of Vagina کی ہی وکالت کرتی ہیں۔ یہ بات میں نہیں ، شوبھا  ڈے نے کہی ہے۔ جو ظاہر ہے کہ تسلیمہ نسرین کو مجھ سے یا کسی اور سے کہیں زیادہ جانتی اور سمجھتی ہیں۔

 ’’جنت سے نکالی ہوئی حوا‘‘ بھی ایک خودنوشت سوانح حیات ہے۔ اس میں زندگی کے بہت سارے نشیب و فراز، ھبوط و صعود کے قصے سلگ رہے ہیں۔ یہ یادوں ، جذبات اور احساسات کا ایک کولاژ ہے اور یہ صرف ایک اکیلی عورت کی داستان نہیں ہے بلکہ اجتماعی نسائی معاشرے کا منظرنامہ ہے۔ وہ دکھ ہیں ، وہ درد ہیں ،  جنہیں سہ کر شبنم میں بھی شعلگی آ جاتی ہے۔ ’جنت سے نکالی ہوئی حوا‘ نام سے ہی اپنے حسن کا پتہ دیتی ہے اور مصنفہ کے خوبصورت تخیل کی کہانی سناتی ہے۔ میری نظر میں یہ ایک Bio mythography ہے۔ اس سے صرف نفیس بانو شمع کی داخلی زندگی کی داستان نہیں معلوم ہوتی بلکہ پورا ایک سماجی، ثقافتی معاشرہ ہمارے سامنے آتا ہے اور مرد معاشرہ تو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا نظر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کا رویہ ذکر اساس سماج کے تئیں بہت ہی متشددانہ یا جارحانہ ہے۔ بلکہ انہوں نے مرد اور عورت کے رشتے کے حوالے سے اپنے درد کے جس ساز کو چھیڑا ہے، اس ساز سے ہر ایک دل کا تار جڑا ہوا ہے۔ ان کی داستان پڑھتے ہوئے جیکولین کنیڈی انیسِس کی اس بات پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ:

”I don’t think there are any men who are faithful to their wives.”

نفیس بانو شمع کی اس داستان میں جتنے نسائی کردار ہیں ، سب کشتہ تیغ ستم ہیں۔ ان کی زندگیاں ، ان کی آرزوئیں ، تمنائیں سبھی اجڑ چکی ہیں۔ رابعہ ہوں یا شاہ جہاں ، نایاب ہوں یا افروز، رشیدہ خاں ہوں یا ثروت بیگم، یہ سبھی کردار درد کی ڈور میں بندھے ہوئے ہیں جن کی قسمت میں صرف اور صرف مردوں کی بے وفائی لکھی ہے اور آنکھوں میں صرف آنسو …شاہجہاں کی کہانی نفیس بانو کی زبانی سنئے:

 ’’جدید طرز کے عمدہ لباس میں ملبوس میک اَپ سے آراستہ، گلے میں قیمتی ہیرے کا ہار، انگلیوں کی تعداد سے زیادہ انگوٹھیاں ، کانوں میں جھولتے ہوئے ڈائمنڈ کے بیش قیمت بندے اس بات کے غماز تھے کہ وہ بہت خوش ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ایک عورت نے کتنے سلیقے سے اپنے غموں کو ہیرے جواہرات سے ڈھانپ رکھا تھا۔ لوگ اسے زندہ دل، ہنس مکھ اور چنچل کہتے تھے۔ ہر محفل میں لوگوں کا دل بہلانا، روتی ہوئی آنکھوں کو ہنسا دینا، یہ اس کا خاص فن تھا۔ اس کا سراپا ہر زاویہ سے زندگی کی مکمل تصویر لگتا تھا۔ مگر یہ تو وہی جانتی تھی کہ وہ لمحہ لمحہ آنسوؤں کو پیتی ہے۔

تیس سال کی عمر میں تین شادیاں کرنے والی یہ عورت غلط نہ تھی۔ ہمارے معاشرے میں تو مرد کے لیے بڑی وسعت ہے لیکن عورت کے لیے دوسری تیسری شادی کا تصور ہی غلط سمجھا جاتا ہے۔ کسی عورت کو شوق نہیں ہوتا کہ وہ مختلف بستروں کی زینت بنے، مرد کی کمزوری اگر عورت ہے تو عورت کے لیے بھی سب سے بڑا سہارا مرد ہوتا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو مگر عورت کو طلاق دینا آج کل مرد کے لیے فیشن بن گیا  ہے۔ اگر عورت دوسری شادی نہ کرے تو کیا کرے۔ سماج میں اسے تنہا بھی تو نہیں رہنے دیا جاتا۔

                                                                           (یوں جوانی شہید ہوتی رہی)

نفیس بانو شمع نے بہت ہی Shocking Portrait پیش کیا ہے۔ یہ کہانی صرف ایک وجود پر مرتکز نہیں ہے۔ بلکہ بہت سارے وجود اس کہانی کی Fabrics سے جڑے ہوئے ہیں۔

غازی پور کے قصبہ ’’بھتری‘‘ سے شروع ہونے والی یہ کہانی بمبئی سے ہوتی ہوئی دلی کے ایک ویران مکان میں آکر ختم ہو جاتی ہے۔ نفیس بانو شمع کے تخیل کا کمال ہے کہ انہوں نے گاؤں کی تاریکی میں روشنی اور روشنیوں کے شہر میں تاریکی تلاش کی ہے۔ اس داستان میں نظام الدین اولیاء کے آستانے کا نور بھی ہے، اور نگ زیب کے مزار کا جلال و جمال بھی۔  ’’جنت سے نکالی ہوئی حوا‘‘ میں جہاں ایک طرف سماجی خبر نامہ ہے، وہیں ادبی منظرنامہ بھی ہے۔ ادب اور سماج کے گہرے ارتباط کو نفیس بانو شمع نے بڑی ہی فنی چابک دستی کے ساتھ پیش کیا ہے اور اپنے تخلیقی محرکات اور مہیجات کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے۔ یہ ایک طرح سے نگار خانۂ رقصاں ہے جس میں بہت سارے چہرے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ٹوٹتے بکھرتے نظر آتے ہیں۔ نفیس بانو شمع نے اپنے Silcky, Juicy style میں جنت سے نکالی ہوئی حوا کی پوری درد انگیز داستان لکھ دی ہے۔ یہ ایسی درد بھری داستان ہے جسے پڑھ کر مرد موم نہ ہوں لیکن پتھر ضرور موم ہو جائیں گے۔

اجیت کور کی خانہ بدوش پڑھتے ہوئے مشہور رقاصہ اساڈورا ڈنکن Isadora Duncan یاد آ گئیں جنہوں نے اپنی آپ بیتی My life میں لکھا ہے کہ ’’آج تک کسی عورت نے اپنی زندگی کی صداقت ظاہر نہیں کی۔ مشہور عورتوں کی خودنوشت سوانح عمریوں میں ان کے ظاہری وجود کا حساب کتاب ملتا ہے۔ غیر ضروری تفصیلات اور واقعات جن سے ان کے حقیقی زندگی کی ایک جھلک بھی سامنے نہیں آتی۔ نشاط اور کرب کے عظیم لمحوں سے متعلق سب کی سب حیرت ناک طور پر خاموش ہیں۔ ‘‘ اگر ایسا ڈورا اجیت کور کی خودنوشت پڑھ لیتیں تو شاید انہیں اپنی بات میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتی۔ یہ سچ ہے کہ جیسی بیباکی، حق گوئی، ژان ژاک روسو اور والٹ وٹمین نے کی ہے، کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ انہوں نے اپنے روح کی صداقت کو پیش کیا اور زندگی کے محجوبات سے پردہ اٹھایا۔

اجیت کور کی یہ خود نوشت سوانح ایک ایسی کتاب ہے جس میں درد کے الاؤ ہر ایک سطر میں جلتے اور سلگتے محسوس ہوتے ہیں کیونکہ یہ کہانی ایک ایسے وجود کی ہے جو پوری زندگی آگ کی سرخ لپٹوں میں جلتی رہی۔ جو رات کو آگ میں نہاتی ہے۔ جلتی آگ کے ساتھ نوکیلے پتھریلے راستے طے کرتی ہے۔ جس سے  سانس کی تار ٹوٹنے لگتی ہے اور اس کی شریر اور آتما لہولہان ہو جاتی ہے۔ ایک انت ہین درد اس کی شریر اور آتما سے پیوند کی طرح چپک جاتا ہے۔ اس کے لیے زندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔ بیٹی کی قبر میں اس کا آدھا جسم، آدھی روح دفن ہے۔

اجیت کور کی یہ آتم کتھا محبت کے سچے جذبے کی کہانی ہے۔ وہ جذبہ جس میں وحشت جنوں بھی ہے اور رنگ ایثار بھی۔ یہ کہانی صرف اجیت کور کی نہیں بلکہ پورے نسائی وجود کی کہانی ہے۔ میں نے اسے نسائی وجود کی کلیت کے تناظر ہی میں پڑھا ہے۔ عموماً آپ بیتیاں لکھتے ہوئے لوگوں کو ’’داغِ عیوب برہنگی‘‘ کے نمایاں ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے اور سماج کا خوف بھی لاحق ہوتا ہے۔ مگر اجیت کور نے انتہائی بیباکی اور بے خوفی کے ساتھ آپ بیتی لکھی ہے اور اپنی دربدری، ذہنی جسمانی جلاوطنی اور تنہائی کی آگ میں جلنے کی داستان بڑے ہی دلسوز انداز میں لکھی ہے۔

یہ ایک عورت کی جدوجہد کی داستان ہے۔ ایک ناپسندیدہ شوہر سے نجات حاصل کر کے ایک محبوب کی آغوش میں اپنی زندگی بسر کرنے کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں اوما نامی ایک شخص عاشق کردار ہے۔ وہ شادی شدہ ہے۔ پھر بھی اجیت کور ان سے Live-in کا رشتہ کرتی ہیں اور Other Womanکی حیثیت سے گزارتی ہیں۔ ایسا سچ لکھنے کے لیے بہت جگر حوصلہ چاہیے۔ نازک نحیف ہاتھ، حنائی انگلیاں اس طرح کی کہانیاں لکھتے ہوئے ہزار بار سوچتی ہیں۔ مگر اجیت کور نے اپنی زندگی کے ایک ایک سچ کو بہت ہی بے خوفی کے ساتھ بیان کر دیا ہے اور یہی بے خوفی ان کی آتم کتھا کا وہ جوہر ہے جو انہیں امتیازی نشان عطا کرتا ہے۔

ایک حساس دراک عورت کی Traumatic past کی اس کہانی میں ہمیں جذبے اور رومانس کے بہت سارے شیڈس نظر آتے ہیں۔ خانہ بدوش کا ایک ایک شبد دراصل آنسوؤں میں بھیگا ہوا، درد میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ ایک جلتے وجود کی آتم کتھا ہے اور یہی جلنا اور سلگنا ہی آج کی عورت کی کہانی ہے۔ اس کے باطن میں جو درد کی جوالا مکھی اور احساس کا آتش فشاں ہے، وہ اس آتم کتھا کو ایک نیا معنیاتی اور موضوعاتی تناظر عطا کرتا ہے۔ عورت مرد کے رشتوں کی نوعیت اور تعلقات کی معنویت کو جس طرح اس خودنوشت میں آشکار کیا گیا ہے اس سے اس کا وقار بلند ہوتا ہے۔

اجیت کور نے بہت ساری کہانیاں لکھی ہیں ، بہت سارے ناول لکھے ہیں اور تخلیقی سطح پر بہت سرگرم بھی رہتی ہیں۔ یہ خود نوشت سوانح ان کی ایک ایسی داستانِ حیات ہے جسے ہر عورت کو پڑھ کر احساس ہو گا کہ دراصل کسی نہ کسی سطح پر ہر عورت جلا وطن ہے، خانہ بدوش ہے، عورت کے نصیب میں اپنا گھر نہیں ، دربدر بھٹکنا ہی عورت کا مقدر ہے اور آتش نہفتہ میں جلتے رہنا ہی اس کی تقدیر ہے:

 ’’سرخ لپٹوں کے ہیولیٰ میں میں روز جلتی ہوں۔ دن میں کم رات میں زیادہ اس آگ میں روز نہانا میری تقدیر ہے۔  یہ تقدیر اب تو بائیس برس بیت گئے، صرف درد ہی ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ سات برس پہلے چودہ اور پندرہ اگست کے بیچ والی رات میرے ماتھے ہی نہیں میرے سارے بدن پر لکھی گئی تھی اور پھر اگلے سات دن کوئی میرا گوشت کھرچ کھرچ کر اس تقدیر کو میرے بدن پر نقش کرتا رہتا تھا۔ ‘‘

’عورت نامہ‘ کا ایک باب

٭٭٭

 

ظفر گورکھپوری کی شاعری میں مٹی کی میٹافزکس

احساس کی نئی اشارتوں اور اظہار کی نئی عبارتوں سے شاعری  کا  سماگم نہ ہو تو قاری کے ذہن کا حصہ بنے بغیر وہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اسی شاعری کو زندگی نصیب ہوتی ہے جس میں تخیل کی نئی منطق اور خلوت لفظ کے منطقے روشن ہوں۔

ظفر گورکھپوری کی شاعری میں زندگی کے جملہ عناصر موجود ہیں کہ انہوں نے اس منبع کو تلاش کر لیا ہے جہاں دوامیت کی لہریں موجزن ہیں۔ ان میں آنسو کو آفتاب بنانے کی توانائی موجود ہے اسی لئے موضوعات اور اسالیب کے ازدحام میں بھی اپنی راہ  اوروں سے الگ رکھتے ہیں۔ انہوں نے خلوت لفظ پر احساس کی بنیاد رکھ کر انبوہ میں اپنی انفرادیت قائم کر لی ہے۔ ان کے لفظوں میں ہی ان کے جہان معنی مضمر ہیں۔ جلوہ گاہ حسن معنی کے رمز کو سمجھا ہے۔ اور آئینہ ربط معانی پر ارتکاز بھی ہے۔ یہی ارتکازیت ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ موضوعی سطح پر بہت سے شاعروں کی شراکت تو ممکن ہے کہ ایک ہی موسم، ماحول، فضا میں رہنے والے ایک ہی طرح سوچ سکتے ہیں۔ مگر انداز بیان اور اسلوب اظہار میں اشتراکات کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

آج کی شاعری کے مسائل کیا ہیں ، وہی صنعتی تمدن کا المیہ، صارفیت، بازاری معیشت، انسان کی گمشدگی، بے چہرگی، قدروں کا زوال، انتشار، انارکی، تہذیبوں کا تصادم،۔۔۔۔ یہ وہ موضوعات ہیں جن پر تخلیقات کی تعداد کم نہیں ہے۔ ظفر گورکھپوری کی شاعری کے موضوعات بھی کم و بیش یہی ہیں اور ان میں اتنی عمومیت آ گئی ہے کہ اختصاص کا کوئی پہلو تلاش کرنا کارے دارد ہے۔ مگر ظفر گورکھپوری نے اپنے شعری بیانیہ کے تحرک اور توانائی سے اس عموم میں بھی خصوص کی راہ نکال لی ہے اور یہی ان کا کمال ہنر ہے۔ زمینوں کی دنیا کی بے زمینی کا احساس اپنے آپ میں نیا پن لئے ہوئے ہے۔

دعا، مسکان، آنسو کچھ نہیں ہے، کچھ دنوں سے

زمینوں کی یہ دنیا بے زمیں ہے، کچھ دنوں سے

زمینوں کے سارے انسلاکات اور تلازمات ان کے شعروں میں بانداز دگر سامنے آئے ہیں۔ زمین اپنی کیفیت اور کمیت، وسعت اور تنگی، مرگ اور زندگی، طغیان و بحران، حرکت و جمود، بلندی پستی، سرمستی و افسردگی، غم و نشاط، منفی مثبت، تیقن اور تشکیک، تصادم اور توافق۔۔ ان تمام تضادات کے ساتھ ان کی شاعری میں موجود ہے۔

کل نہ ہو گا کوئی بچوں کو بتانے والا

یہ جو دیوار ہے، دیوار سے پہلے کیا تھا

گھر ہوا ویراں ، اندھیرا کھڑکیوں تک آ گیا

کیسے دن آئے کہ جنگل بستیوں تک آ گیا

مٹی جن کیفیتوں کے کرب یا طرب سے گزرتی رہی ہے، ان کیفیتوں کا مکمل اظہار ان کی شاعری ہے۔ صرف کرب ہی ان کا موضوع نہیں ہے بلکہ اس میں ھرب بھی شامل ہے۔ مٹی کا نوحہ ہے تو نغمہ بھی ہے کے مٹی مسلسل تبدیلیوں کے عمل سے گزرتی ہے اور اسی میں اس کی تجدید و تازگی مضمر ہے۔ ایک ہی کیفیت یا محور پر مٹی منحصر نہیں رہ سکتی کہ یہ خلاف فطرت ہے۔ ان کا کرب صرف اتنا ہے کہ انسانوں نے مٹی کے جوہر یا زمین کی زندگی کو سلب کر لیا اور مٹی اپنے عنصری جوہر سے محروم ہو گئی۔

ہجوم، سانسوں کا زہر، سیلاب شور ہر سو

کچھ اس طرح تھا کہ شہر قسطوں میں مر رہا تھا

نواح جاں سے چولھے تک وہ ہر منظر پہ بیٹھی ہے

جسے قدموں میں ہونا تھا وہ دنیا سر پہ بیٹھی ہے

یہ شہر آواز کا جنگل، گزرنا جب یہاں سے

مسافر اپنے حصے کی سماعت ساتھ رکھنا

یہاں پتھر کی عمارات اگ آئیں کیسے

اس جگہ کھیل کا میدان ہوا کرتا تھا

یہ کوئی اور ہی دنیا ہے، وہ دنیا تو نہیں

سانس لینا جہاں آسان ہوا کرتا تھا

یہ زمینی مظاہر یا ارضی مناظر کی تبدیلی کا بیان محض نہیں بلکہ زمین کی طبیعاتی اور ما بعد الطبیعاتی تقلیب کا منظر نامہ ہے۔ ظفر گورکھپوری کا سارا مسئلہ شعری زمینی طبعیات اور مابعد الطبعیات سے جڑا ہوا ہے۔ زمین کی میٹا فزکس تبدیل ہوتی ہے تو طبعی ماہیت میں بھی بدلاؤ آتا ہے۔ گاؤں اور شہر کی صورت میں زمین کی طبعی تقسیم، دراصل مابعد الطبیعاتی تبدیلی کا مظہر ہیں۔ شہر اور گاؤں دو الگ جغرافیائی اکائیاں نہیں بلکہ فکری ثنویت اور تفریق کی علامت ہیں۔ یہ انسانی وجود کی تقسیم کے علامتی مظاہر اور دو متضاد قدروں کی علامت ہیں۔ یہ انسان کی داخلی اور خارجی جہتوں اور کیفیتوں کا اشاریہ ہیں۔ یہ تضادات نئے مادی دور کی دین ہیں۔ ماضی اس طرح کی تقسیم سے ماور ا تھا۔ جغرافیائی وحدت کا تصور زندہ تھا۔ مگر انسانی تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ وحدت کا تصور ریزہ ریزہ ہوتا گیا اور تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو گیا۔ زمین کے ساتھ انسانی شخصیت بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی گئی۔ ظفر گورکھپوری نے اپنی شاعری میں اسی منقسم شخصیت کے وجودی، روحانی کرب کو پیش کیا ہے۔ ظفر کی شاعری زمین اور انسان کے اس بنیادی رشتے کی جستجو سے عبارت ہے جو ایک کلیت کی ڈور سے بندھی ہوئی تھی مگر اب یہی کل، اجزائے پریشاں میں تبدیل ہو کر اپنے خواص کھو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ایک طبعی اور وجودی کشمکش شروع ہو گئی۔ پرانی دنیا کے متوازی ایک نئی دنیا کا جنم ہوا۔ اس دنیا نے میکانکی معاشرہ  کی تعمیر کر کے مابعد الطبیعاتی معاشرہ کے درو دیوار منہدم کر دئے۔ ظفر گورکھپوری کے یہاں ان دو معاشروں کے تضادات، اپنی تمام تر ہیئتوں کے ساتھ نمایاں ہیں۔

یہ کائنات اور معاشرہ کی بدلتی کیفیات پر حیرانگی یا تشویش کا اظہار ہی نہیں ہے بلکہ اس میں روح کا کرب بھی شامل ہے۔

ایک مٹھی جو یہ سبزہ ہے، اسے نم رکھو

جانے کس وقت یہ سورج کا نوالہ ہو جائے

زمین پاؤں سے باندھے رکھو اسی میں ہے خیر

کہیں سے کب وہ کدھر ہانک دے، ہوا ہی تو ہے

بوجھ جو سانسوں پہ ہے، کم نہیں ہونے والا

شہر میں حبس زیادہ ہے، کہیں چلتے ہیں

یہ شہر بھیدوں بھرا، یہاں آدمی ملیں گے

مگر کسی کے بھی دوش پر سر نہیں ملے گا

زمیں پہ پکی عمارتیں اگ رہی ہیں ایسے

دوانے سر پھوڑنے کو پتھر نہیں ملے گا

ہمیں نے اس کے لئے راستے بنائے تھے

کہ گھر تک آ گیا بازار، یہ تو ہونا تھا

سروں کی بھیڑ کہو یا دلوں کی تنہائی

وہ بمبئی ہو کراچی ہو، نام کوئی ہو

شور حد سے سوا، بھیڑ بے انتہا شہر سے گاؤں تک

 سر ہزاروں مگر آدمی لا پتہ، شہر سے گاؤں تک

انسان کی سفاک تمناؤں کے ہاتھوں

لا چار زمیں کی طرح کٹتا رہا پانی

وہ جو ہری بھری دنیا کے خواب بیچتا ہے

لہو سے کتنی زمینوں کو لال اس نے کیا

پرانی دنیا کی گمشدگی اور نئی دنیا کی نمود ہمارے عہد کا ایک بڑا المیہ ہے۔

گھر میں چڑیوں کے چہکنے کی صدا تو آئے

کھڑکیاں کھول کہ کچھ تازہ ہوا تو آؤ

۔۔۔۔۔۔۔

شہر کے سفاک جنگلوں میں مقید آنکھوں میں اپنے گاؤں سے مہجوری کے آنسو رواں ہیں۔ شخصیت کی تقسیم کا کرب ان کے شعروں میں نمایاں ہے

مٹی تجھ سے کیا رشتہ ہے جس دن ہم نے چھوڑا گاؤں

دیر تلک دیواریں روئیں ، دور تلک ساتھ آیا گھر

ہمارے کاندھوں پہ کل پوری شخصیت تھی اپنی

یہاں کچھ ہے، کوئی حصہ کہیں ہے، کچھ دنوں سے انسان کی داخلی دنیا کے اضطراب اور خارجی دنیا

کے انتشار کی تصویریں اس شاعری میں نمایاں ہیں

بمبئی، دلی اور کراچی سارے بستر مرگ پہ ہیں

ندی پاٹ کے، جنگل کاٹ کے اور نہ کوئی شہر نکال

میرے اطراف ظفر ایک منافق بستی

اور لباسوں کی طرح چہرے بدلتے ہوئے لوگ

مسائل، شور مہنگائی، ضرورت، وحشتیں ، نعرے

بہت بچھو ہیں رستے میں سنبھل کر گھر سے باہر آ

اس شہر کے باشندے محروم سماعت ہیں

اپنے ہی کو پل دو پل حال اپنا سنائیں چل

ماضی کی قدروں اور روایات سے انہیں گہرا لگاؤ ہے

بکھرتی مرتی روایات میں بہت کچھ ہے

نہ ہوکے کچھ بھی، ابھی ہاتھ میں بہت کچھ ہے

ہے شرط یہ کہ نیا ذہن اسے تلاش کرے

ابھی پرانے خیالات میں بہت کچھ ہے

روایتی تھا، پرانی تھیں اس کی سب سوچیں

پر آدمی تھا بڑا بھولا بھالا، اچھا لگا

انسان اور فطرت کے درمیان بڑھتی دوریوں کا درد ہے۔ عالم طبعی سے انسان کے ٹوٹتے رشتوں کی وجہ سے جدید دنیا جس بحران سے دوچار ہے اور طبعی ماحول میں جو عدم توازن ہے، اس کی طرف شعروں میں اشارات موجود ہیں۔

ظفر گورکھپوری کے تخلیقی اظہار و احساس کا مرکز مٹی ضرور ہے مگر ان کے فکری خلقیہ میں ہندو طبیعیات کے وہ عناصر خمسہ شامل ہیں جن کو مخاطب کرتے ہوئے بھر تری ہری نے کہا تھا:

اے زمین میری ماں ہوا میرا باپ اے آگ میری دوست

پانی میرے عزیز قریب، خلا بھائی

یہاں میں دست بستہ تمہارے سامنے اپنا سر خم کرتا ہوں

ظفر گورکھپوری کے یہاں ان عناصر خمسہ سے مختلف سطحوں پر مخاطبہ جاری ہے

یہ ہوا جو ہے بیابانی، کہاں لے جائے گی

یہ مرے تالاب کا پانی، کہاں لے جائے گی

ہوا تو میرے لئے آسماں پہ سر نہ پٹک

میں مشت خاک، مجھے جانتے ہیں تارے سب

ہوا جو سب کے لبادوں کو چاک کرتی ہے

میں اس ہوا کو سر عام بے لبادہ کروں

پتھریلے کناروں سے پٹکتا رہا سر کو

دریاؤں کے ہمراہ بھی تنہا رہا پانی

پانی جہاں سب کا تھا، ہوا تھی جہاں سب کی

شہروں سے تو آرام ہمیں بن میں بہت تھا

تشخص ذات کا بحران اس شاعری کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مٹی اسی تشخص کا استعارہ ہے، مٹی ہی ذات ہے اور انسانی وجود کا مبدا و معاد بھی یہی ہے۔ لوازم خویش کی شناخت کا عمل شاعری میں نمایاں ہے:

سیاہ رات کا جنگل نگل نہ جائے مجھے

کہاں گئے مرے اندر کے ماہ پارے سب

اپنے اندر کوئی زندہ بھی کہیں ہے کہ نہیں

گاہے گاہے سہی، کچھ شور مچا کر دیکھیں

دل کہیں زندہ ہے سینے میں ، پتہ کیسے چلے

کچھ نہیں اور تو، رونے کی صدا تو آئے

یہ شاعری ایلیٹ کے ویسٹ لینڈ کی طرح اس آباد خرابے کا منظر نامہ ہے، جہاں اجتماعیت مرگ پذیر ہے، اور انسانی جذبہ و احساس بھی عالم نزع میں ہے۔ مییکانکی سطح پر انسانوں کے مابین رشتے تو قائم ہیں مگر روحانی اور جذباتی رشتے معدوم ہو چکے ہیں۔ آبادیاں ویرانیوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ تخلیق انسان کا مقصد اپنی معنویت کھو چکا ہے۔ نئی دنیا کے یہی المیے، تخلیقی ذہن کو احساس کے اس کرب سے گزارتے ہیں :

گھر ہوا ویراں ، اندھیرا کھڑکیوں تک آ گیا

کیسے دن آئے کہ جنگل بستیوں تک آ گیا

جھانک کر دیکھو گے تو خود سے حیا آئے گی

دوست آبادی کے پیچھے بڑی ویرانیاں ہیں

کل ہمیں اور تمہیں یاد بھی شاید نہ رہے

ان مقامات پہ بازار سے پہلے کیا تھا

کل نہ ہو گا کوئی بچوں کو بتانے والا

یہ جو دیوار ہے، دیوار سے پہلے کیا تھا

ظفر گورکھپوری کی شاعری میں نئی دنیا کی نمود کا نوحہ ہے اور شہر کی سفاکیت کا بیان بھی لیکن کیا اس تغیر کے نوحہ کا جواز ہے یا شہر صرف شر کا استعارہ ہے۔ تغیر یا تبدیلی پر تشویش کا اظہار اس معنی میں غیر فطری ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ اور اصول تجدد امثال کے تحت ہر شے اپنی کیفیت اور ماہیت تبدیل کرتی رہتی ہے۔ جہاں تک شہروں کی بات ہے تو ہماری تہذیبی قدروں کا بنیادی رشتہ شہروں سے ہی رہا ہے اور وہیں سے تہذیبیں ، دوسرے علاقوں میں پھیلی ہیں  تکسیلا۔ کاشی اور کوسمبی جیسے شہروں سے ہی سنسکرتی کا تصور ملا ہے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ آخر گوتم بدھ کے مرید آنند نے کیوں کہا کہ افسوس ہے کہ ان کے مرشد کے لئے کشی نگر جیسے چھوٹے شہر میں مرنا مقدر تھا، بدھ کو جن شہروں میں مرنا چاہئے تھا وہ شراوستی، کمہا راج گرہ سکیات، کوسمبی اور کاشی ہیں تو پھر ان موضوعات کی بنیاد پر ظفر گورکھپوری کی شاعری کی تفہیم اور تعیین کا کوئی منطقی جواز نظر نہیں آتا۔ اور نہ  ہی یہ موضوعات کسی فنکار کو اختصاص عطا کر سکتے ہیں۔ ظفر گورکھپوری کا المیہ تبدیلی، تغیر نہیں بلکہ عدم توازن ہے اور اجتماعی احساس و آہنگ کی گمشدگی ہے اور زمین ہی اجتماعی آہنگ اور احساس کا مکمل استعارہ ہے۔ وہ تبدیلی میں مضمر تخریب کے نوحہ خواں ہیں ، تشکیل اور تعمیر کے نہیں ،:

اسی بے چہرگی میں ڈھونڈنا ہو گا کوئی چہرہ

گڑھے گی زندگی اک اور چہرہ، یوں نہیں ہو گا

رات میں پورا چاند اگانا سہل نہیں

کم سے کم اک شمع جلائی جا سکتی ہے

ان کا المیہ خواب کی گمشدگی یا خاتمہ ہے

انسان کے کھاتے میں یہ نقصان بڑا ہے

اشکوں کی جگہ آنکھ سے سپنے نکل آئے

ظفر گورکھپوری کا موضوعاتی کینوس بہت وسیع ہے۔ زمین یا گھر کے حوالے سے ان کے شعری امتیازات کی تخصیص یا تفردات کی نشان دہی، ایک بحر بے کنار کو آبجو میں تبدیل کرنے کے مترادف ہو گی۔ ان کے یہاں حیات و کائنات کی مختلف اور متضاد لہریں ہیں۔ تجلی ادراک کے منظر نامے ہیں۔ قطرے میں دریا، ذرے میں آفتاب، ایک مٹھی مٹی میں پنہاں سمندر کی جستجو ہے

جان چھڑکتے ہیں کہ اپنے جیتے جی

دھرتی پر مٹھی بھر سبزہ رہ جائے

ظفر گورکھپوری کی جستجو کی راہ بہت لمبی ہے

پنگھٹ، بگیا، کچے رستے، اجیالوں میں نہائے ہوئے

رادھا کے گالوں میں سورج، سکھیوں کی چولی میں چاند

تو محض ان کے پڑاؤ ہیں ، ان کے تخیل کی منزلیں جہان قدم کا حیرت کدہ ہیں۔

شہر آباد کریں ، پھر اسے تاراج کریں

اس کے ملبے پہ نئے شہر کا نقشہ رکھ آئیں۔

۔ ظفر کی شاعری میں منفعل مٹی کا احساس نہیں ہے بلکہ مٹی کی فاعلیت اور حرکیت کے اظہارات ہیں۔ ان کی شاعری کی تہ میں افسردگی اور اضمحلال کے دکھ سے زیادہ وہ چنگاریاں ہیں جن میں مٹی کی تقلیب کی قوت موجود ہے۔ اسے نہ مٹی کا حزن نامہ قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس تخلیق کی تعبیر قنوطیت یا یاسیت کے سیاق و سباق میں کی جا سکتی ہے کہ یہ تو ایک مشت شرار کا نوحہ ہے، جو ذرا سی دیر میں نغمہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسے نغمہ ماتم بھی کہا جا سکتا ہے۔ ابو المعانی عبد القادر بیدل  کا نہایت معنی خیز  مصرعہ ہے:

سخت سامان چراغاں داشت ایں مشت شرار

مٹی، زمین یا گھر کے حوالے سے ظفر کے منفعل یا ماتمی احساس کی تعبیر و تشریح میرے خیال میں اس شاعری کے ساتھ نا انصافی ہو گی کہ جن علامات، استعارات یا لفظیات، تصورات کو ظفر کے امتیازات کے بطور پیش کیا جاتا ہے، ان میں تو قدیم و جدید شعراء بھی ان کے شریک ہیں۔ گھر، زمین، مٹی کے تعلق سے شاعروں نے جو کچھ کہا، سوچا ہے اس کی تفصیلات پروفیسر مغنی تبسم کے مضامین محمد علوی۔ گھر اور جدید غزل، جدید غزل کی لفظیات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ظفر کی شاعری دو نیم، دو لخت شخصیت کا اظہاریہ ہے جو ان کی شاعری میں زمین، مٹی یا گھر جیسی علامتوں کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ یہ سب انسانی وجود کی محض علامتیں ہیں کہ اصل انسان ہے اور یہ صرف تصور ہیں۔ انسان ہی حقیقت ہے جس کی وجہ سے افلاک کی تخلیق ہوئی جس میں ایک فلک زمین بھی ہے۔ زمین اور گھر انسانی تشخصات کے اشارے ہیں۔ زمین اور گھر کی ماورائی شخصیت کو سمجھے بغیر ظفر گورکھپوری کے تمام فکری، فنی زاویوں کو سمجھنا دشوار ہے ویسے ان کا شعری اسلوب نہ گنجلک ہے اور نہ ہی اتنا ژولیدہ کہ اس کی لغوی تشریحات کے لغو عمل سے قاری کے ذہن کو زیاں سے دو چار کیا جائے۔

٭٭٭

 

اپنی آواز میں گم

’داخلی آشوب‘ وقار مانوی کی شاعری کا کلیدی عنصر اور قفل ابجد ہے!

 شاعری، ان کی سائیکی کا شناس نامہ ہے۔

 ان کے ہاں ، حزن، کی حیثیت فاعلی عنصر کی ہے۔

 ان کی شاعری میں ایک ’’غیر مرئی لہر‘‘ ہے۔

 انسانی احساس اور فکر کی ’’ثنویت‘‘ ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔

 یہ شاعری’ کشاکش ہائے ہستی‘ کا نہایت خوب صورت اور داخلی تجربوں پر محیط بیان ہے۔

 وقار مانوی کے تخلیقی تجربے کا رشتہ اس اصل سے ہے جس کی طرف مرزا غالب نے یوں اشارہ کیا ہے:

 نشوونما ہے اصل سے غالب فروع کو

 خاموشی ہی سے نکلے ہے، جو بات چاہیے

 بزرگوں کی بازگشت کے باوجود احساس و اظہار کی سطح پر ان کے یہاں جزوی طور پر ’ترتیب نو‘ کا عمل روشن ہے۔

 وقار مانوی کی شاعری ’کثرت نظارہ‘ کی شہادت دیتی ہے۔

 اظہار میں سادگی اور تخیل میں کشادگی ہے۔

 مختلف سطحوں پر وقار مانوی کی شاعری کی قرأت سے کم و بیش یہی نتائج نکلتے ہیں۔ مگر یہ نتائج بھی نامکمل ہیں کہ وقار مانوی کے داخلی شعور سے مکالمہ کے بغیر ان کی شاعری کے اسرار، اوصاف اور ممیزات روشن نہیں ہو سکتے۔ اور مکالمہ کا عمل یوں مشکل ہے کہ ’کل آہنگ‘ کی جستجو میں ان کا باطن، ظاہر سے وصال میں تشنہ رہ جاتا ہے۔ یا ظاہر و باطن سے مکمل ترسیلی رشتہ قائم نہیں ہو پاتا۔ ہاں کچھ اشعار ایسے ضرور ہیں جو ان کے ’داخلی شعور‘ کی سمت رہ نمائی کرتے ہیں :

 ہوں مطمئن کہ ہوں آسودہ غم جاناں

 مجال کیا کہ خوشی دیکھے آنکھ بھر کے مجھے

 اک وہ کہ گھر سے دور ہیں پھر بھی ہیں مطمئن

 اک ہم کہ ہم کو چین نہیں اپنے گھر میں بھی

 زمانہ تو ہمارا سوگ مرنے پر منائے گا

 مگر اس زندگی کا سوگ ہم اکثر مناتے ہیں

 درد اپنا ہی کسی اور کے دل میں نہ ملا

 اپنی آنکھوں میں تو دیکھے ہیں پرائے آنسو

 سوزش غم سے اب آنکھوں میں نمی تک بھی نہیں

 روئیں بھی اب تو یہ رونا ہے کہ ہائے آنسو

 ہے اپنے اپنے کرب میں ہر شخص مبتلا

 اس دور میں کسی کو کسی کی خبر نہیں

 یہ ان کے احساس کے اشارے ہیں جس میں ’حزن‘ کا عنصر حاوی ہے، مگر ان کے المیہ اظہار اور حزن کی موسیقیت کو محسوس کرنے کے لیے داخلی آنکھ  سماعت کی ضرورت ہے کہ انہوں نے اپنے وژن کی منطق خود ترتیب دی ہے اور اس ترتیبی عمل میں ان کے مشاہدات و تجربات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے مشاہدے اور تجربے، عمومی تجربات و مشاہدات سے مختلف ہیں۔ وہ اکسراتی نگاہ رکھتے ہیں اور باطنی تجربوں سے احساس کی روشنی کشید کرتے ہیں۔ چونکہ شاعر کا ’مقام نظر‘ بلند ہے اس لیے احساس و اظہار میں پستی نہیں ہے اور نہ ہی تصور حیات میں نشیب و فراز ہے بلکہ وہ پختگی ہے جو تجربات کی بہت سی کائناتوں کی سیر کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ وقار مانوی کی شاعری میں وہی تجربے بولتے ہیں :

 اے وقار اپنوں میں بھی اپنائیت رہتی نہیں

 ایسی ملتی ہے سزائے جرم ناداری کہ بس

 بات ساری وقت کی ہے، وقت اگر اچھا نہ ہو

 پھیر لیتا ہے نظر اچھے سے اچھا آشنا

 مفلسی میں بیچنا پڑ جاتا ہے مٹی کے بھاؤ

 ایک اک فن پارہ اپنا ایک اک شہکار و فن

 خلوص کی بھی کبھی قدر تھی مگر اب تو

 ہے دور پیسے کا، پیسا نہیں تو کچھ بھی نہیں

 ہر اک رشتہ یہاں مطلب براری تک ہی رہتا ہے

 اگرچہ نامناسب ہے ہر اک کو مطلبی کہنا

 ان تجربوں میں سوز غم ہائے نہانی اور کشاکش غم پنہاں کی تصویریں بھی نمایاں ہیں۔ آتش دل کی وحشت بھی ہے اور آشوب غم کے ساتھ حسرت اظہار بھی۔

 وقار مانوی کے فکری تلازمات کلاسیکی شعراء اور اساتذہ سے مستنیر و مستفاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں روایت کی روشنی بھی ہے اور ہند ایرانی شعریات و جمالیات سے ربط بھی۔ ان کے بیشتر اشعار میں وہی کلاسیکی رنگ و آہنگ ہے۔ مثال کے طور پر وقار مانوی کا یہ شعر:

 ٹوٹ گئی امید سحر بھی

 جا شب ہجراں اب کہیں مر بھی

 سودا کی یاد دلاتا ہے:

 سودا تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات

 آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی

 غالب کا ایک شعر ہے:

 یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل

 گرمی بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک

 یہی احساس، وقار کے یہاں یوں اظہار میں بدل گیا ہے:

 صبح کو آئے، دن بھر ٹھہرے، شام کو واپس جانا ہے

 اتنی دیر بسیرا جگ میں ، اتنی دیر ٹھکانا ہے

 اس طرح کے اور بہت سے اشعار ہیں جن سے ’صدائے بازگشت‘ کا احساس ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وقار مانوی نے کلاسیکی روایت سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا ہے۔ ان کی شاعری پر اساتذہ کے اثرات ہیں ، مگر وہ انفعال نہیں جو ’زبونی ہمت‘ کی وجہ بن جائے۔ ان کے یہاں تتبع ہے مگر تجدید و تجدد بھی ہے۔ فکر کی سطح پر یکسانیت کا احساس ہو سکتا ہے یا موضوع میں مماثلت ہو سکتی ہے مگر ان کا طرز اظہار الگ ہے۔ ان کا ٹریٹ منٹ مختلف ہے اور اس وجہ سے وقار مانوی کی زنبیل میں کچھ ایسے شعر ہیں جو انبوہ کا حصہ یا بھیڑ میں گم ہونے والے نہیں ہیں۔ ان کا تخیل تاب و تواں ہے، اس لیے ان کی پرواز پست نہیں ہے:

 اپنی گلی میں رہنے دے مجھ کو میں یہاں

 پہنچا ہوں ایک عمر کی آوارگی کے بعد

 دیکھیں تو چل رہا ہے زمانہ ہمارے ساتھ

 سوچیں اگر تو کوئی شریک سفر نہیں

 خشک ہے آنکھوں کا سیلاب رواں اے چشم نم

 اب کہیں تو کون مانے گا کہ دریا جل گیا

 خیال کی سطح پر عموماً ایک غزل کئی شاعروں کی محسوس ہوتی ہے اور سچ کہئے تو دود چراغ کشتہ، جیسی لگتی ہے جس میں نہ فکر کی بلندی ہوتی ہے، نہ اظہار کا علو مگر وقار مانوی کے یہاں خیال کے عمومی اظہار سے انحراف ملتا ہے او ریہ اچھی بات ہے کہ شاعر اپنے اظہار کے کینوس کو کچھ ایسا رنگ دے جو منفرد اور مختلف ہو۔ ’انداز بیاں ‘ کی انفرادیت ہی کسی تخلیق کو اعتبار کی مہر عطا کرتی ہے، ورنہ خیال تو ازل سے ارضی فضاؤں میں گونج رہے ہیں۔ مسئلہ صرف اس ’گونج‘ کی ’گرفت‘ کا ہے اور وقار مانوی اس باب میں کامیاب و کامراں ہیں کہ ’گونج‘ کو گرفت میں لے کر اظہار و احساس کا اپنا چہرہ، دریافت کر لیا ہے، جزوی طور پر ہی سہی، مگر اپنا تشخص تو قائم ہے اور شاعری کا تفاعل بھی شیخ احمد گجراتی کے خیال میں یہی ہے کہ نئی دنیائیں خلق کرنا، اشیاء کی ترتیب بدل ڈالنا، اونچ کو نیچ اور نیچ کو اونچ ثابت کرنا تاکہ اشیاء کو پھر سے نیا بنایا جا سکے‘‘۔ اس خیال کے آئینہ میں دیکھا جائے تو وقار مانوی کے یہاں اس نوع کی تقلیبی صورتیں نمایاں ہیں اور احساس و اظہار کی یہی ترتیب نو ان کی انفرادیت کا نقش و نگار ہے۔

 آج جب کہ اردو شاعری کا ’ذہنی افق‘ سکڑ سا گیا ہے ایسے میں وقار کے یہاں ’صحرا کی سی وسعت‘ دیکھ کر مسرت ہوتی ہے کہ حیات و کائنات کے بہت سے مسائل و موضوعات، نئی ترتیب کے ساتھ سامنے آ گئے ہیں ، جس میں ان کا اپنا Idiom ہے اور اس کے ساتھ ہی محدود سطح پر ان کے ’’تخیلات کی دوشیزگی اور تحت الشعور کی عصمت بھی محفوظ‘‘ ہے

 کائنات کے طلسم پیچ و تاب کی تفہیم آسان نہیں ہے۔ مگر وقار مانوی نے اپنی شاعری میں اس کائنات کے طلسم کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

 یہ زندگی وہ شب غم ہے جس میں تا بہ سحر

 کبھی کبھی تو خوشی خواب بھر نہیں ملتی

 لبادہ تن پہ خوشی کا، خوشی نصیب نہیں

 غرض کہ زندہ ہیں اور زندگی نصیب نہیں

 زندگی نام کی شے گزری نہیں پاس سے بھی

 عمر بھر سانس ہی لینے کے گنہ گار رہے

 عبرت کا ہے مقام کہ ہم اہل دل وقار

 زندہ ہیں اور ربط نہیں زندگی کے ساتھ

 اتنا مغرور نہ ہو زندگی فانی پر

 دیکھ ناداں نہ بنا، ریت کا گھر پانی پر

 عرصہ زیست ہے اک راہ گزر کی صورت

 اور طے بھی اسے کرنا ہے سفر کی صورت

 حیات و کائنات کی تفہیم کے یہ وہ زاویے ہیں جو وقار مانوی کی شاعری میں روشن ہوئے ہیں کہ کائناتی مدو جزر اور حیات کے نشیب و فراز پر ان کی ’نگاہ‘ ہے جب کہ آج کے بیشتر تخلیق کاروں کا باب حیات و کائنات میں معاملہ صرف ’نگہ‘ کا ہے۔ وقار کی ’نگاہ‘ اور دیگر کی ’نگہ‘ کے فرق کو شاعری کے حوالے سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

 آج کے پر انتشار اور بے حس مشینی عہد میں جب کہ حیات و کائنات کے مفاہیم ہی بدل گئے ہیں تو زندگی کا وہ مفہوم جو مادیت کے بجائے روحانیت پر مرکوز ہو، جس میں انسانیت کی اعلیٰ قدروں کا تحفظ ہو، اخلاقیات کا پاس ہو، وہ زندگی زیادہ بامعنی ہو جاتی ہے۔ وقار مانوی کے یہاں زندگی کا وہی تصور ہے جس کا رشتہ روایت سے ہے، ان کی شاعری میں بھی روایتی قدروں کا گہرا عرفان ہے۔ عرفان کے یہی سلسلے ان کی شاعری کو صارفیت اور سین سیکس کے شماریاتی عہد اور موجودہ انسانی اخلاقی بحران کے تناظر میں معنی خیز بناتے ہیں :

 اک ہم کہ جس کے ساتھ رہے عمر بھر رہے

 اک تم کہ چار دن نہ گزارے کسی کے ساتھ

 ہم نے تمہارے عیب کو بھی کہہ دیا ہنر

 تم عیب ڈھونڈتے ہو ہمارے ہنر میں بھی

 ہوں کسی آنکھ میں یکساں نظر آئے آنسو

 ہم سے دیکھے گئے اپنے نہ پرائے آنسو

 وقار مانوی کے یہاں شکست خواب کا المیہ بھی ہے اور خواب آرزو سے انکار بھی۔ ان کی شاعری میں حیات و کائنات کی معنویت اپنے تمام تر تموج اور اضطراب کے ساتھ روشن ہوتی ہے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں سے راہ فرار اختیار نہیں کرتے، زندگی کو اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ زندگی کا یہ شعور طویل تجربے و مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ تجربات و حوادث نے حیات و کائنات کے تعلق سے ان کے طرز فکر اور احساس کو تبدیل کیا ہے اور یہ تبدیلی ان کی شاعری کے بین السطور سے عیاں ہے۔

 وقار مانوی اپنے فکری کینوس کے اعتبار سے اس بحرانی عہد کے معتبر شاعر قرار پاتے ہیں کہ ان کے احساس و اظہار میں توانائی ہے۔ ہاں اگر تھوڑی سی ’رعنائی‘ زیادہ ہوتی توا کی شاعری کا لطف کچھ اور ہوتا۔ ان کی شاعری میں سب کچھ ہے، بس اس ایک ’ادا‘ کی کمی ہے جس کی طرف انہوں نے یوں اشارہ کیا ہے:

 بہ یک ادا جو ادا کر گیا وہ جان ادا

 وہ بات کہہ نہ سکے ہم ہزار غزلوں میں

 یہی ادا، اشارت شاعری کو میر تقی میر جیسی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہے۔ وقار مانوی کی شاعری میں ارباب نظر کو اس ’ادا‘ کی تلاش کرنی چاہیے کہ یہی ’ادا‘ غزل کو انفراد و اعتبار عطا کرتی ہے اور شاید اسی ادا کی آرزو میں وقار مانوی کی آواز بھی گم ہے:

 اپنی آواز میں اک عمر سے گم ہوں مجھ کو

 میرے جیسی کوئی آواز سنا دی جائے

 اپنی آواز میں گم یہ شاعر ہمارے عہد کے غزلیہ اظہار کا وقار ہے، مگر المیہ ہے ہے کہ یہ دور بے ’وقاری‘ کا ہے بقول وقار:

 یہ وقت وہ ہے کہ قدموں میں بیٹھنے والا

 یہ چاہتا ہے کہ دستار چھین لے مجھ سے

 (Oddٹائم میں لکھا گیا مضمون ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے)

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید