FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

میں نے اسلام کیوں قبول کیا

مختلف نو مسلموں کی داستانیں

جلد دوّم

تدوین: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

میں کیسے مسلمان ہوئی

 

ڈاکٹر ارم (بیجاپور، کرناٹک)

 

 

 

میرا نام ارم ہے۔ میرے والد ڈاکٹر انل مودی بیجاپور (کرناٹک) کے رہنے والے تھے۔ وہ آن جہانی پیلو مودی جو سوشلسٹ پارٹی کے صدر تھے، کے حقیقی بھتیجے تھے۔ انھوں نے امریکہ سے ایم ڈی کیا تھا اور بہت اچھے فزیشن تھے۔ بعض دوستوں اور جاننے والوں کے اصرار پر وہ میرٹھ (یوپی) آ گئے تھے اور بینک اسٹریٹ پر ایک کوٹھی خرید کر اس کے ایک حصے میں اپنا کلینک بنایا تھا۔ میرے دو بھائی مجھ سے چھوٹے ہیں۔ ایک کا نام طارق اور دوسرے کا نام شارق ہے۔ بارہویں کلاس تک میری تعلیم بیجاپور میں ہوئی تھی۔ میرٹھ آنے کے بعد میں نے میرٹھ کالج میں بی ایس سی میں داخلہ لیا۔ بی ایس سی کے بعد پی ایم ٹی مقابلے میں بیٹھی اور مولانا آزاد میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کے تین سال مکمل کرنے کے بعد اپنی بوا کے اصرار پر لندن چلی گئی۔ وہیں ایم بی بی ایس اور اس کے بعد ایم ایس کیا۔ ردولی ضلع بارہ بنکی (یوپی) کے ایک سید گھرانے میں ڈاکٹر سید عامر سے میری شادی ہوئی، جو اچھے نیرولوجسٹ ہیں۔ لکھنؤ سنجے گاندھی پی جی آئی میں ہم دونوں کا تقرر ہو گیا۔ الحمد للہ ہم دونوں پروفیسر ہو گئے۔ ہماری بوا جو لندن میں رہتی تھیں، ان کے کوئی اولاد نہیں ہے، ان کا بہت اصرار تھا کہ ہم دونوں لندن آ جائیں۔ ان کے حد درجہ اصرار پر ٢٠٠١ء میں تین سال پہلے ہم نے ملازمت چھوڑ دی اور لندن چلے گئے۔ ہماری نند کی شادی میرے چھوٹے بھائی شارق سے ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے ہمارا ہندوستان آنا ہوا ہے۔

 

میرے والد صاحب کو اسلامی معاشرت بہت پسند تھی۔ بریانی، قورمہ اور کباب کہ وہ دل دادہ تھے۔ نہ صرف یہ کہ وہ اردو جانتے تھے ، بلکہ فارسی بھی اچھی جانتے تھے۔ پارسی مذہب سے ان کا خاندانی تعلق تھا۔ اس کے باوجود انھوں نے میرا نام ارم، میرے چھوٹے بھائیوں کا شارق اور طارق رکھا۔ خود اپنا نام ڈاکٹر انل وارث مودی لکھنے لگے تھے۔ بیجاپور میں ہم رہتے تھے۔ جنوبی ہند کا ماحول بڑا صاف ستھرا ہے۔ ہم لوگ میرٹھ آئے تو یہاں ماحول عجیب تھا، خصوصاً میرٹھ کالج میں دیہات کے جاٹ اور چودھری طلبہ بڑی چھچھوری حرکتیں کرتے تھے۔ وہ اس قدر رکیک حرکتیں کرتے تھے کہ مجھے خیال ہوا کہ مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑے گی اور کسی دوسرے کالج کو سلیکٹ کرنا پڑے گا، لیکن اللہ کو اسی گندے ماحول سے میری ہدایت کا فیصلہ کرنا تھا۔ انھیں گندے لوگوں میں چند شریف لڑکے بھی پڑھتے تھے۔ ان میں محمد کلیم صدیقی تھے، جن کی شرافت سے ہمارے سب ساتھی، یہاں تک کہ اساتذہ بھی مرعوب تھے۔ ان کو لوگ احتراماً کلیم بھائی کہتے تھے۔ میں نے بارہا دیکھا کہ لوگ کسی فلم کی بات کرتے ہوتے، کلیم بھائی آ جاتے، لوگ فوراً خاموش ہو جاتے۔ اپنی کلاس میں وہ ذہین سمجھے جانے والے لوگوں میں تھے۔ آواز بھی بہت اچھی تھی۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے اور اچھے مصور بھی تھے۔ ہمارے کالج میں پورے صوبے کا مقابلہ تھا۔ اس میں انھوں نے اول درجے کا انعام حاصل کیا تھا۔ کلیم بھائی کو کلاس میں اس طرح کی گندی حرکتوں سے بہت اذیت ہوتی تھی۔ میں گھر میں والد صاحب سے ان کی شرافت کا ذکر کرتی۔ پاپا مجھ سے ان کو کبھی گھر لانے کو کہتے تھے۔ وہ روزانہ اپنے گاؤں پھلت سے کھتولی کے راستے بذریعہ ریل میرٹھ چھاؤنی اور پھر میرٹھ کالج سے اپ ڈاؤن کرتے۔ کبھی کبھی بیگم پل سے وہ گاؤں جاتے ہوئے پیدل ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتے۔ ایک روز صبح میں نے ان کو آواز دی اور اپنے والد سے ملوایا۔ میرے والد ان سے اور وہ خود میرے والد سے بہت متاثر ہوئے۔ ہماری کلاس کے زیادہ تر چھچھورے لڑکے میرٹھ کالج کے ہوسٹل میں رہتے تھے۔ رکشا بندھن کا تیوہار آیا۔ کلیم بھائی ساڑھے آٹھ بجے ہمارے گھر آئے اور مجھ سے کہا: ارم بہن! کلاس کے گندے ماحول سے ہم لوگ عاجز ہیں۔ چلو، کچھ راکھیاں خرید لو اور ہوسٹل چلتے ہیں۔ میں نے پچیس راکھیاں خریدیں اور کلیم بھائی کے ساتھ ہوسٹل پہنچی اور ان تمام جاٹ اور چودھری اسٹوڈنٹس کو بھیا بھیا کہہ کر راکھیاں باندھ دیں۔ وہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے اور ہماری کلاس کا ماحول بدل گیا۔ اس حکمت عملی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے پاپا ممی کو بھی بتایا، جس کی وجہ سے ہماری ممی پاپا ان کا حد درجہ احترام کرنے لگے۔ مجھے اردو زبان سیکھنے کا شوق تھا۔ میرے پاپا کی خواہش تھی کہ میں اردو پڑھوں۔ ان کا خیال تھا ، بلکہ وہ بہت زور دے کر کہتے تھے کہ اردو زبان سے اچھی اور شائستہ تہذیب آتی ہے۔ میں نے کلیم بھائی سے فرمائش کی کہ وہ ہمیں اردو پڑھا دیں۔ انھوں نے وقت نہ ہونے کا عذر کیا، مگر انھوں نے اردو ڈپارٹمنٹ جا کر ایک صاحب مولوی مسرور کو تلاش کیا، جو اردو میں ایم اے کر رہے تھے او ران کو تیار کیا کہ مجھے اردو پڑھائیں۔ وہ مجھے لائبریری میں آدھا گھنٹہ روزانہ پڑھانے لگے۔ مجھے اردو بہت جلد آ گئی۔ کلیم بھائی نے مجھے ”اسلام کیا ہے؟” اور ”مرنے کے بعد کیا ہو گا؟” پڑھنے کو دیں۔ مجھے ان کتابوں نے بہت متاثر کیا۔ ”مرنے کے بعد کیا ہو گا؟” نے تو میری نیند اڑا دی۔ مجھ پر موت کے بعد کے عذاب کا سخت خوف تھا۔ میں نے اپنا حال کلیم بھائی کو بتایا تو انھوں نے مجھے مرنے کے بعد کی عافیت کے لیے ایمان قبول کرنے کو کہا ۔ میں نے پاپا سے مشورہ کیا۔ انھوں نے مجھے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کو کہا کہ تم بڑی ہو گئی ہو۔اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکتی ہو۔ یکم جنوری ١٩٧٤ء کو میں نے لائبریری میں ہی کلیم بھائی کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ الحمد للہ میرے والدین نے میرے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ٧٩ء میں بوا کے اصرار پر میں لندن چلی گئی اور ٨٤ء میں ایم ایس سی کر کے میرٹھ واپس آئی۔ کلیم بھائی کو میرے والد نے شادی کے سلسلے میں اختیار دے دیا۔ الحمد للہ انھوں نے میرے لیے انتہائی موزوں رشتہ تلاش کیا اور ردولی (یوپی) کے ایک سید گھرانے میں میری شادی ہو گئی۔ میرے شوہر ڈاکٹر سید عامر ڈی ایم ہیں اور اچھے نیرلوجسٹ ہیں۔ وہ بہت دین دار اور خلیق انسان ہیں۔ جہاں رہے، لوگ ان کی قدر کرتے ہیں۔ ان کی شرافت سے مرعوب رہتے ہیں۔ وہ اپنے فن میں بھی ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔

 

لندن آنے کے بعد الحمد للہ ہم لوگ شریعت پر عمل کے سلسلے میں زیادہ حساس ہو گئے۔ میرے شوہر نے یہاں آ کر داڑھی رکھ لی ہے۔ خود میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ مجھے بے پردگی سے کم از کم عریانیت سے سخت کراہت ہو گئی ہے۔ ہم دونوں الحمد للہ تہجد پابندی سے پڑھتے ہیں۔ شفا کا اللہ کے ہاتھ میں ہونا اب ہمارے لیے حق الیقین ہو گیا ہے۔ مسلمان مریض بھی خاصی تعداد میں ہمارے یہاں آتے ہیں۔ مریض کو اوٹی (آپریشن روم) میں میز پر لٹا کر پہلے میںاس کو کلمہ پڑھواتی ہوں۔ اس کو تسلی بھی دیتی ہوں اور یہ بھی سمجھاتی ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ موت واقع ہو جائے، اس لیے اچھی طرح دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر لیجیے۔ غیر مسلم مریض بھی آتے ہیں۔ ہماری کلینک ایک روحانی شفا خانہ بھی ہے۔ ہم دونوں کی میزوں پر اچھا اسلامی لٹریچر رہتا ہے، جس میں سے اپنے اپنے حصے کا ہر مریض لے کر جاتا ہے۔ اصل میں ہم نے مغرب کوبہت قریب سے دیکھا ہے۔ بے حیائی اور مادیت زدہ مغربی دنیا بے چین ہے اور ان میں اکثر لوگ زندگی کی لذت او رسکون سے محروم خودکشی کے کنارے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی بے چینی اور اضطراب کا علاج صرف اسلام کی مقدس تعلیمات میں ہے۔ کاش ان کو اس نعمت سے آشنا کرایا جائے۔

 

الحمد للہ ہم دونوں کی دعوت پر ان تیس سالوں میں دو سو تہتر لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ ہمارے سسر شیخ ابو الحسن علی حسنی ندویؒ سے بیعت تھے۔ میرے شوہر بھی ان کے ایک خلیفہ شیخ ولی آدم صاحب سے بیعت کا تعلق رکھتے ہیں۔ ہم لوگ اپنے لندن میں قیام کا مقصد اسلام کی دعوت سمجھتے ہیں۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ میری بوا جو مجھے میرے باپ سے زیادہ چاہتی تھیں، انھوں نے ہمارے لندن آنے کے دو ماہ کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور گزشتہ سال ان کا بہت اچھی ایمانی حالت میں کلمۂ  طیبہ پڑھتے ہوئے مصلے پر انتقال ہوا۔

 

الحمد للہ، کلیم بھائی نے مجھے اس پر زور دیا کہ میں روزانہ کا نصاب طے کر کے اسلام کا مطالعہ کروں۔ میں نے ارادہ کیا کہ اوسطاً ٥٠ صفحے روزانہ پڑھوں گی، مگر ٥٠ صفحوں کا نصاب تو مجھ سے نہیں ہو سکا، البتہ اگر میں یہ کہوں کہ ان تیس سالوں میں میں نے ٢٥ صفحے روزانہ سے کم نہیں پڑھے ہوں گے تو یہ بات بہت احتیاط کے ساتھ سچ ہو گی۔ میں نے ایک سو سے زائد سیرت کی کتابوں کو پڑھا ہے۔ شیخ علی میاںؒ کی سب کتابیں اور شیخ تھانوی ؒ کی ساری کتابیں تقریباً میں نے پڑھی ہیں۔ شیخ ابو الاعلیٰ مودودیؒ کو بھی میں نے پڑھا ہے۔ اس کے علاوہ لندن میں اسلام پر روز نئی کتابیں چھپتی ہیں، ہم لوگ عیسائیوں کے یہاں چھپنے والی کتابوں کو بھی دیکھتے رہتے ہیں۔

 

الحمد للہ، ٢٥ صفحات سے کم تو اوسط کسی طرح بھی نہیں رہا ہو گا۔ اس اوسط سے سال میں دس ہزار کے قریب صفحات ہو جاتے ہیں۔ شروع میں مجھے مطالعے کا شوق نہیں تھا۔ کلیم بھائی نے مجھے زور دیا کہ زبردستی مطالعہ کیا جائے۔ اب یہ حال ہے کہ کھانا نہ کھانے سے ایسا نہیں لگتا ، جیسا مطالعہ کرنے سے تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ کئی بار نئی کتابیں نہیں ملتی تو پرانی کتاب دوبارہ پڑھتی ہوں۔ اس طرح الحمد للہ، ہمارے یہاں ایک اچھا کتب خانہ جمع ہو گیا ہے۔ اور اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ذہن میں بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔

 

میرے تین بچے ہیں۔ بڑے بیٹے کا نام حسن عامر ہے اور چھوٹے کا حسین عامر ہے اور بچی کا نام فاطمہ زہرا ہے، دونوں بیٹے ڈیوز بری کے مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حسن نے جس کی عمر دس سال سے زیادہ ہے، حفظ مکمل کر لیا ہے اور عالمیت کا پہلا سال ہے۔ حسین کی عمر نو سال ہے، اس کے سولہ پارے ہو چکے ہیں۔ فاطمہ ایک اسلامی اسکول میں دوسری کلاس میں پڑھ رہی ہے۔ ان کے والد نے اس کو قرآن حکیم گھر پر پڑھایا ہے۔ ہم دونوں نے پروگرام بنایا ہے کہ اپنے بچوں کو روزگار سے بے فکر کر دیں گے اور اتنا نظم کر دیں گے کہ ان کو کمانے کی فکر نہ رہے اور وہ یک سوئی کے ساتھ زندگی کو دعوت کے لیے وقف کر سکیں۔

 

الحمد للہ، میں نے جس سال ایم ایس سی کیا، فارغ ہو کر میں ہندوستان آئی تو میں نے کلیم بھائی کو بلایا اور والد صاحب پر کام کرنے کی درخواست کی۔ انھوں نے والد صاحب کو بہت سی کتابیں دیں۔ شیخ علی میاںؒ کی کتاب ”نبی ِ رحمت” نے ان کو بہت متاثر کیا۔وہ اسلام سے تو پہلے سے ہی متاثر تھے، مگر اتنی عمر تک ایک مذہب میں رہنے اور خاندان کے لوگوں خصوصاً اپنے چچا پیلو مودی صاحب اور ان کے خاص دوست آر کے کرنجیا کی وجہ سے ان کو جھجھک تھی۔ میری شادی ڈاکٹر عامر سے انھوں نے باقاعدہ اسلامی طریقے بلکہ مسلمانوں کے طریقے یعنی رواج کے مطابق کی اور خوب خرچ کیا۔ ظاہر ہے کہ خوب خرچ کرنا اسلامی طریقہ نہیں، مگر مسلمانوں نے اسی طریقے کو اختیار کر رکھا ہے۔ والد صاحب ہم لوگوں کے پی جی آئی ملازمت کے دوران ایک بار گومتی نگر (یوپی) میں ہمارے یہاں آئے۔ ہم دونوں نے چھٹی لے لی اور ان سے اسلام قبول کرنے پر اصرار کیا۔ وہ شروع میں ٹالتے رہے کہ رسم کیا ہوتی ہے؟ میں دل و دماغ سے تم لوگوں سے پہلے سے مسلمان ہوں، مگر میرے شوہر نے کہا: بلاشبہ اصل چیز تو دل و دماغ کا اسلام ہے اور ہم اسی اسلام کی روح کو مانتے ہیں، مگر روح کے لیے جسم بھی ضروری ہے۔ اگر جسم نہ ہو تو روح کس چیز میں پڑے گی۔ آپ کلمہ پڑھ لیجیے۔ وہ تیار ہو گئے اور انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ممی بھی ان کے ساتھ تھیں۔ پاپا کے مسلمان ہونے کے بعد ممی کو منانا ہمارے لیے آسان ہو گیا۔ انھوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔ میرٹھ آ کر دو ماہ کے بعد ان کو سخت ترین ہارٹ اٹیک ہوا۔ ان کے دل کی شریانیں خراب ہو گئی تھیں۔ ہم ان کو لکھنؤ لے کر آئے، لیکن اللہ کی مرضی لکھنؤ میں ہی ان کا انتقال ہو گیا اور وہیں تدفین ہوئی۔ الحمد للہ، ان کا آخری وقت ایمان کے لحاظ سے بہت اچھا تھا اور وہ اپنے اسلام پر حد درجہ اللہ کی تعریف اور شکر کرتے تھے۔

 

مجھ سے چھوٹے بھائی طارق نے سی اے کیا ہے اور ممبئی میں ایک بڑے کارخانے میں منیجر ہیں۔ ان کی شادی ممبئی کے ایک تبلیغی گھرانے میں ہوئی ہے۔ چھوٹے بھائی شارق نے ایم بی اے کیا ہے۔ وہ لکھنؤ میں ایک ہوٹل کے منیجر ہیں۔ ان کی شادی میرے شوہر کی چھوٹی بہن راشدہ سے ہو رہی ہے۔

 

یوں تو یہ علم اور عقل کا زمانہ ہے۔ بے چین اور بلکتی انسانیت کے لیے علم اور عقل کے پیمانے پر پورا اترنے والے مذہب کا تعارف ہی انسان کو حد درجہ متاثر کرتا ہے، مگر میں اپنے قبول اسلام اور اپنے واسطے سے ہدایت پانے والے لوگوں کے حالات پر غور کرنے سے اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ آپ اپنی دعوت سے لوگوں کو قائل تو کر سکتے ہیں، مگر اس درجہ متاثر کرنے کے لیے کہ ایک زندگی کے طریقے پر رہنے والا آدمی مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ ہو جائے، اس کے لیے آپ کی دعوت کے ساتھ آپ کے کردار کی عظمت ضروری ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے گھرانے کو مشرف باسلام کرنے، بلکہ ہم دونوں کو دعوت پر کھڑا کرنے میں کلیم صدیقی کی فطری شرافت اور مجسم دعوت کردار سب سے اہم ذریعہ رہی ہے۔ کتابوں کے ساتھ نبیوں کو بھیجنا خود میرے خیال کی بڑی دلیل ہے۔ انسان کو کتاب کے ساتھ افراد چاہییں۔ یعنی قول کے ساتھ کردار کی ضرورت ہوتی ہے، تب کہیں انقلاب برپا ہوتا ہے۔

 

ایک مسلمان کی ذمہ داری پوری انسانیت تک اسلام کے پیغام کو پہنچانا ہے۔ اس میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی مکلف بنایا گیا ہے، بلکہ اسلامی دعوت کی ترتیب تو تاریخ اسلام میں یہ ملتی ہے کہ اسلامی دعوت کی مدعو مردوں سے پہلے عورتیں ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے رفقا، محسنین اور محرم راز مردوں کے ہوتے ہوئے غار حرا میں پہلی وحی کے نزول کے بعد، اپنی دعوت کا سب سے پہلا مدعو اپنی رفیقۂ حیات خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بنایا تھا۔ میدان دعوت میں غیر مسلم اقوام خصوصاً مغربی دنیا سے قریب ہو کر ان کو اس حقیقت سے بھی واقفیت ہو گئی کہ جس مادیت اور عریانیت زدہ مغربی تہذیب کی چکا چوند سے ہم مرعوب ہو رہے ہیں اور اس کو ہم ترقی کی معراج سمجھ رہے ہیں، وہ کس درجہ پستی کا شکار ہے۔ و ہ بے چینی اور اضطراب میں خودکشی کے دہانے پر کھڑی اسلامی تعلیمات کی کس قدر پیاسی ہے اور دین ِ اسلام کی نعمت سے نواز کر اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر کس قدر بڑا احسان کیا ہے۔

 

٭٭٭

 

 

میں کیوں مسلمان ہوئی؟

 

آیت حریری / سارجنٹ پیک

 

 

 

عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا اور سعودی عرب کی درخواست پر امریکی فوجیں وہاں پہنچیں تو خوش نصیبی سے میں بھی ان دو سو خواتین میں شامل تھی، جو اس فوج کا حصہ تھیں اور دمام چھاؤنی میں تعینات ہوئیں۔ میں وہاں کوارٹر ماسٹر کی خدمات انجام دے رہی تھی۔ ہماری بٹالین پانچ کمپنیوں پر مشتمل تھی، جو ایک ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی۔ ان میں دو سو خواتین بھی تھیں۔ کوارٹر ماسٹر کی حیثیت سے میری ڈیوٹی فوجیوں کے لیے لباس، غذا اور رسد کا انتظام کرنا تھی اور اس حوالے سے ہمیں مقامی طور پر مختلف اشیا کی خریداری کرنی ہوتی تھی، چنانچہ اس مقصد کے لیے معاون کے طور پر ہمیں ایک مقامی باشندہ ملازم رکھنا پڑا۔ یہ لبنان کا ایک مسلمان حسین حریری تھا۔ یہی شخص اسلام سے میرے تعارف کا سبب بنا اور یہی بعد میں میرا رفیق زندگی بھی قرار پایا۔

 

ہوا یوں کہ چند ہی روز میں میں نے اندازہ کر لیا کہ حسین حریری منفرد کردار اور اخلاق کا مالک ہے۔ میرا اب تک کا مشاہدہ تھا کہ امریکی مردوں کی غالب اکثریت عورت کے معاملے میں بہت ہی غیر سنجیدہ ہے۔ وہ اسے عیش اور تفریح کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور اپنے عمل سے وہ عورت کے لیے احترام کا اسلوب اختیار نہیں کرتے اور جوں ہی انھیں موقع ملتا ہے وہ عورت کا تمسخر اڑانے، اس کی تذلیل کرنے یا ہوس کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے، لیکن حسین حریری کا رویہ قطعی مختلف تھا۔ وہ دن کا بیش تر حصہ میرے ساتھ گزارتا، لیکن کبھی بھول کر بھی اس نے کوئی چھچھوری حرکت نہ کی۔ وقار اور سنجیدگی اس کی شخصیت کا لازمی جزو تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں امریکی مردوں کی طرح کبھی جنسی بھوک نہیں دیکھی، وہ کبھی بے باکی سے مجھ سے نگاہیں دوچار نہ کرتا اور عموماً نظریں جھکا کر وقار کے ساتھ پیش آتا۔ اس حوالے سے میں نے بات کی تو اس نے بتایا کہ اسلام غیر عورتوں سے بے تکلف ہونے سے منع کرتا ہے اور ایک مسلمان کے لیے اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کو چھونا تک حرام ہے۔

 

حریری کی یہ بات سن کر مجھے بڑی ہی خوش گوار حیرت ہوئی۔ میں نے تو عام امریکیوں کی طرح سن رکھا تھا کہ مسلمان بڑے ہوس پرست ہوتے ہیں اور گوری چمڑی کی خوب صورت عورت دیکھتے ہی ان کی رال ٹپکنے لگی ہے اور وہ اسے حاصل کرنے کے لیے ہر جتن کرتے ہیں۔ لیکن حسین حریری تو بالکل ہی مختلف کردار کا مظاہرہ کر رہا تھا اور عورت کے حوالے سے اس نے مجھے جن اسلامی تعلیمات سے متعارف کرایا تھا، وہ اسلام کی بالکل ہی جدا تصویر پیش کر رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے دل میں حسین کے ساتھ ساتھ اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوتا جا رہا تھا۔ میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اسلام کے بارے میں مجھے تعارفی لٹریچر فراہم کرے۔ چنانچہ حسین حریری نے مجھے قرآن کا ایک انگریزی ترجمہ دلا دیا اور جب میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا تو اس کتاب کا اسلوب مجھے اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ میں نے دیکھا کہ قرآن کی تعلیمات بڑی سادہ ہیں اور فطری بھی۔ عیسائیت میں تثلیث کا عقیدہ کبھی میری سمجھ میں نہیں آیا تھا اور یہی حال کفارے اور پیدایشی گناہگار کے نظریے کا تھا، لیکن عام لوگوں کی طرح ان عقیدوں کو میں محض رسمی طور پر بغیر سوچے سمجھے اختیار کیے ہوئے تھی، لیکن اب جو قرآن کو پڑھا تو بالکل ہی نئی دنیا نظر آئی۔ یہاں توحید کا تصور بڑا ہی واضح تھا۔ اللہ ایک ہے، اس کاکوئی شریک اور ساجھی نہیں، ہر طرح کے اختیارات اور کائنات کا اقتدار کلی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کو عقل و فہم اور ضمیر دے کر اس لیے ایک خاص مدت کے لیے دنیا میں بھیجا جاتا ہے، تاکہ اللہ دیکھے کہ وہ یہاں مختلف معاملات میں اپنی مرضی چلاتا ہے یا اللہ کے احکام پر کاربند رہتا ہے۔

 

یہ عقیدہ بھی مجھے عین عقلی معلوم ہوا کہ موت جسم پر وارد ہوتی ہے، روح نہیں مرتی اور انسان کے ایک ایک لمحے کا حساب محفوظ رکھا جا رہا ہے۔ اور ایک وقت آئے گا، جب لازماً اس کے اعمال کا حساب ہو گا اور اس کے مطابق اسے جزا یا سزا ملے گی۔

 

قرآن کے مطالعے اور حسین حریری سے گفتگو کے نتیجے میں جب اسلام کی حقیقت میری سمجھ میں آ گئی اور میں نے اسے عین عقل اور وجدان کے مطابق پایا تو ایک روز میں نے اسے قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ حسین بہت ہی خوش ہوا۔ اس نے مجھے تین بار کلمۂ  شہادت پڑھایا۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ کیا، اور اس طرح میں اسلام کی مبارک و مقدس چھتری تلے آ گئی۔ اس نعمت پر میں خدائے قدوس کا جس قدر شکر ادا کروں، کم ہے۔ اس کے بعد جلد ہی میں اور حسین باہم شریک حیات بن گئے۔ میری زندگی ایک نئے انقلاب سے روشناس ہوئی۔

 

میں نے پنج گانہ نماز شروع کر دی۔ حسین نے مجھے سادہ اور سفید رنگ کے اسکارف خرید دیے۔ میں سرکاری فرائض سے فارغ ہو کر رہائش گاہ پر آتی تو سیاہ گاؤن پہن لیتی اور سر پر سیاہ اسکارف باندھ لیتی۔ اس طرح میں دیکھنے میں بالکل سعودی خواتین کی طرح نظر آتی۔ ایک روز میں سفید اسکارف باندھ کر کھڑی تھی۔ امریکی فوجی ادھر سے ادھر جا رہے تھے۔ ان میں بعض نے تعجب سے کہا: ”ادھر یہ نن کہاں سے آ گئی؟” میں نے کمرے میں جا کر آئینے میں دیکھا۔ واقعی اس لباس میں میں ہو بہو ایک نن نظر آ رہی تھی۔ ایک روز سیاہ اسکارف باندھ کر میں حسین کے ساتھ باہر گھوم رہی تھی کہ ہر شخص تجسس سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ تب میں نے ایک شخص کو روک کر کہا ”میں اسٹاف سارجنٹ پیک ہوں، آپ کو مجھ سے کچھ کہنا ہے؟” اس نے تعجب سے مجھے دیکھا اور کھسیانا ہو کر چل دیا۔ تاہم سرکاری فرائض کے دوران مجھے وہی صحرائی فوجی وردی پہننی پڑتی۔ میں نے اسکارف کے بارے میں متعلقہ افسر سے بات کی، لیکن اس کی اجازت نہ ملی۔

 

قبول اسلام کے ایک ماہ کے بعد میں دوبارہ امریکہ آ گئی اور فورٹ پریگ کی چھاؤنی میں تعینات ہوئی۔ میں چاہتی تھی کہ ڈیوٹی کے دوران مجھے اسکارف اور لمبا ساتر لباس پہننے کی اجازت مل جائے۔ اس کے لیے میں فوجی ملازمین کے قانونی مشیر جج ایڈووکیٹ جنرل سے ملی، تاکہ اپنے حقوق کے حوالے سے مجھے یہ رعایت حاصل ہو جائے، لیکن موصوف نے میرے اس نوعیت کے کسی حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

 

اس دوران میں مجھے پتا چلا کہ فوٹ پریگ سٹی میں چند مسلمان خواتین نے ایک اسلامی تبلیغی و سماجی ادارہ قائم کر رکھا ہے، جسے سسٹرز گروپ (Sisters Group) کہا جاتا ہے۔ میں بھی اس کی ممبر بن گئی اور اس کی سرگرمیوں میں شامل ہونے لگی۔ اس کی ایک رکن خاتون کے خاوند نے ایک اسلامک کمیونٹی سینٹر قائم کر رکھا تھا اور خاصا باخبر آدمی تھا۔ اس خاتون نے اپنے خاوند سے میرے مسئلے کی بات کی اور موصوف نے بھاگ دوڑ کر ایسے قوانین کی نقل حاصل کر لی، جو ہر شہری کو اس کے مذہبی فرائض پر کاربند ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ میں دوبارہ جج ایڈووکیٹ جنرل سے ملی، متعلقہ حقوق کی نقل اسے پیش کر کے اپیل کی اور اس نے مجھے ڈیوٹی کے دوران براؤن رنگ کا اسکارف لینے کی اجازت دے دی۔ اس نے کہا: ”ان قوانین کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اب ”نہیں” کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں رہا۔”اور اس طرح اللہ کے فضل سے میں سرکاری فرائض کے دوران بھی اسکارف پہننے لگی۔

 

لیکن مسئلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ مجھے فوج میں اور امریکی معاشرے میں رہتے ہوئے بار بار لوگوں کی سوالیہ نظروں اور استفہامیہ گفتگوؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک روز ایک صاحب نے طنزیہ انداز میں کہا: ”تم نے سر پر کیا چیتھڑا باندھ رکھا ہے؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟” ”یہ چیتھڑا نہیں ہے جناب! میں مسلمان ہوں اور میرے مذہبی فرائض کا ایک حصہ ہے۔ ایک مسلمان عورت سر کھلا نہیں رکھ سکتی۔”

 

وہ بہت حیران ہوا اور متاثر بھی۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اسکارف دیکھ کر تجسس سے رک جاتے ہیں، لیکن میرا رینک دیکھ کر خاموشی سے مرعوب ہو کر چل دیتے ہیں۔ یہ سارے لوگ E-4 یا کم تر رینک کے ہوتے ہیں جبکہ میں E-6 رینک سے تعلق رکھتی ہوں، جو فوج کا قابل لحاظ درجہ ہے۔

 

اسی طرح ایک بار مجھے کمانڈر سارجنٹ میجر نے انٹرویو کے لیے بلایا۔ یہ میرا سینئر ترین افسر ہے اور NCODP یعنی نان کمیشنڈ آفیسر ڈویلپمنٹ پروگرام کے انچارج کی حیثیت سے ہر ماہ دو تین افسروں سے ملاقات کیا کرتا ہے۔ وہاں بھی میرے اسکارف اور ساتر لباس کی بات چلی تو ایک خاتون آفیسر نے کہا کہ فوج میں اس قسم کے حقوق کی کوئی گنجائش موجود ہے؟ ”کیوں نہیں” میں نے کہا: ”دیکھیے، یہاں کبھی بھی اس امر کا لحاظ نہیں رکھا جاتا کہ کس کا کیا مذہب ہے، بلکہ ایک فوجی کی حیثیت سے اس کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ آپ عیسائی مذہب کے فوجیوں کے جذبات کا لحاظ کرتے ہیں۔ لوتھرز کو مطلوبہ حقوق حاصل ہیں اور یہودیوں کا تو خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہودی سپاہیوں اور افسروں کو رعایت حاصل ہے کہ وہ سور نہیں کھاتے، اس لیے وہ میس میں کھانا نہ کھایا کریں اور اپنی خوراک کا الگ انتظام کر لیں، اسی طرح شادی شدہ لوگوں کو حق حاصل ہے کہ وہ شام کو اپنے گھروں میں چلے جایا کریں اور انھیں راشن کے بجائے نقد رقم فراہم کر دی جاتی ہے، تاکہ وہ اپنی مرضی سے اپنی ضرورت کی اشیائے خور و نوش خرید لیں۔ ظاہر ہے جب مذہب اور خاندان کی بنیاد پر مختلف لوگوں کو رعایات حاصل ہیں تو ایک مسلمان کی حیثیت سے مجھے یہ حق کیوں نہیں مل سکتا کہ میں اپنے عقیدے کے مطابق سر کو ڈھانپ سکوں؟”

 

میری بات سن کر متعلقہ افسر سوچ میں پڑ گیا اور پھر سر ہلا کر کہنے لگا: ”کیوں نہیں؟ آپ کو اس کا پورا حق حاصل ہے اور اس حق کا تحفظ کریں گے۔”

 

٭٭٭

 

 

 

میں نے اسلام کیوں قبول کیا

 

ڈاکٹر الفریڈ ہوف مین(جرمنی)

 

 

 

میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ اس کا جواب دینا بہت مشکل ہے۔ ویسے اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے۔ یہ سوال ایسا ہے جیسے کسی شوہر سے پوچھا جائے کہ وہ اپنی بیوی سے کیوں محبت کرتا ہے یا اسی طرح بیوی سے دریافت کیا جائے کہ وہ اپنے شوہر سے کیوں محبت کرتی ہے، تو اس کا کوئی منطقی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ پھر بھی میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے قبول اسلام کے بہت سارے اسباب و محرکات تھے۔ میں ١٩٣٠ء میں ایک راسخ العقیدہ کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا ۔ اس وقت جرمنی میں نازی حکومت تھی۔ دوسری عالمی جنگ اپنے شباب پر تھی۔ جرمنی برطانیہ اور امریکہ وغیرہ سے برسرپیکار تھا اور وہاں بی بی سی سننے کی سزا موت تھی۔ میں طلبہ کی ایک خفیہ عیسائی تنظیم Jesuits سے وابستہ ہو گیا۔ اس کے ممبران میں تقریباً ٨٠ فیصد طلبہ ایسے تھے جو اپنی کلاس میں نمایاں تھے۔ ہم تنظیم کے پلیٹ فارم سے خفیہ عیسائیت کی تبلیغ کر رہے تھے۔ جب ہٹلر کی فوجیں جنگ میں ناکام ہوئیں اور امریکی فوجیں ہمارے شہر میں داخل ہوئیں تو لگتا تھا کہ موت ہمارے ساتھ ساتھ ہے، اس کی وجہ سے میرے اس یقین میں اضافہ ہوا کہ موت کبھی بھی آ سکتی ہے۔

 

ایک کیتھولک راسخ العقیدہ گھرانے میں پیدائش کے باوجود عیسائی عقائد میرے حلق سے نیچے نہیں اتر رہے تھے۔ تین خداؤں کا عقیدہ، مریم کا خدا کی ماں ہونا، پیدایشی گناہ گار ہونا یا آدم نے جو گناہ کیا، اس کا بوجھ ہر انسان کو اٹھانا اور انسانوں کو گناہوں سے نجات دلانے کے لیے عیسیٰ کا صلیب پر چڑھنا، یہ سب عقائد میری سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ ان کے مقابلے میں مجھے اسلامی عقائد اور تعلیمات مدلل اور معقول معلوم ہوتے تھے۔ جب میں اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے ان کے بارے میں دریافت کرتا تو ان کا جواب یہ ہوتا کہ یہ سب راز ہیں، بس ان پر عقیدہ رکھنا چاہیے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ میں ان پر یقین کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن وہ میری سمجھ میں تو آئیں۔ میں سوچتا تھا کہ کیا اللہ تعالیٰ کے پاس انسانیت کو راہ راست پر لانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں تھا کہ اس نے ایک بچے کو جنم دیا، پھر اسے ذلت کے ساتھ صلیب پر چڑھا دیا، اس طرح سے اس نے انسانوں کی معافی کا انتظام کیا۔ ایک اور بات یہ ہے کہ عیسائیت اس کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ محبت پر مبنی ہے، جبکہ میں نے دیکھا کہ اکثر عیسائیوں کا طرز عمل اس سے میل نہیں کھاتا۔

 

جرمنی میں ابتدائی تعلیم کے بعد میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ گیا۔ اور وہاں سماجیات کا مطالعہ کیا۔ امریکہ میں قیام کے دوران میں اکثر شام کو سڑکوں پر دوڑتی ہوئی کاروں سے لفٹ لیتا اور مختلف مقامات کی سیر کرتا تھا۔ ایک دن میں جس کار میں بیٹھا تھا، اس کی شدید ٹکر دوسری کار سے ہو گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے بچا لیا۔ اس وقت ڈاکٹروں نے مجھ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تم سے کوئی کام لینا چاہتا ہے، ورنہ ممکن نہیں تھا کہ تم اس حادثے میں بچ جاتے۔ اس سے میرے اس یقین میں اضافہ ہوا کہ جو کچھ کرتا ہے، اللہ کرتا ہے، پھر میرے پیشاب میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا، جب میں جرمنی میں فارن سروسز میں شامل ہوا اور مجھے سعودی عرب جانے کے لیے کہا گیا۔ چیک اپ کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ مجھے کینسر ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ بات صحیح نہیں تھی۔ میری کیتھولک بیوی اس سے قبل کینسر سے مر چکی تھی۔ پھر بھی میں پریشان نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے صبر سے کام لیا۔ کچھ باتوں کی وجہ سے مجھے ایک گردے سے محروم ہونا پڑا، اس وقت بھی میں نے یہی سوچا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہے کہ اس نے ایک ایسی بیماری میں مجھے مبتلا کیا اور میرا ایک گردہ نکال دیا گیا۔

 

فارن سروس کے دوران مجھے الجزائر جانے کا موقع ملا۔ وہاں میں ایک خاص مشن پر تھا۔ اس وقت الجزائر فرانس کے ماتحت تھا اور فرانس میں سامراجیت وہاں کے لوگوں پر بے پناہ ظلم کر رہی تھی، جو ناقابل بیان ہے۔ ہر ماہ وہاں ایک ہزار افراد فوجیوں کی گولیوں سے بھون دیے جاتے تھے۔ پھر بھی میں نے دیکھا کہ وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر بہت اعتماد ہے (واضح رہے کہ الجزائر کو ساٹھ کی دہائی میں آزادی ملی) ایک بار ایک ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے کہا کہ ہماری آبادی ایک کروڑ ہے۔ اگر یہ لوگ ہم میں سے دس بیس لاکھ یا اس سے زیادہ افراد کو بھی مار ڈالیں ، تب بھی ہم آزادی کی مانگ سے باز نہیں آئیں گے اور صبر و ثبات اور اللہ پر اعتماد کی جو قوت ہمارے اندر ہے، وہ ختم نہیں ہو سکتی۔ وہاں کے لوگوں کی ایمانی قوت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے وہاں یہ بھی دیکھا کہ کیتھولک عیسائی ہونے کی وجہ سے اللہ، وحی، آخرت، فرشتوں اور اخلاقی اصولوں کے بارے میں میرے جو عقائد ہیں، ویسے ہی عقائد ان کے بھی ہیں، اسی دوران رمضان کا مہینا آیا اور مجھے قرآن مجید کا فرانسیسی ترجمہ پڑھنے کو ملا، جو اگرچہ معیاری نہیں تھا، پھر بھی اس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قرآن مجید کے مطالعے کے دوران میں مجھے وہ آیت ملی، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اس آیت پر میں غور کرتا رہا۔ ایک بار جب میں جنوبی الجزائر کے ایک نخلستان میں مقیم تھا تو میں نے وہاں ایک شخص سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔ اس نے کہا کہ یہ آیت دو افراد کے درمیان معاملے پر روشنی نہیں ڈال رہی ہے، بلکہ اسلام کے بنیادی اصول کو پیش کر رہی ہے کہ کوئی شخص نہ تو دوسرے کے گناہوں کا ذمہ دار ہے اور نہ اس کا بوجھ اٹھائے گا۔ آدم کا گناہ منتقل ہوتا ہوا کسی دوسرے انسان تک نہیں پہنچا ہے۔ ہر انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان کسی وسیلے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح میرے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ عیسائیت پوری کی پوری مفروضات پر قائم ہے۔ پھر مجھے محسوس ہوا کہ امت مسلمہ میں صاحب ایمان آزاد لوگ ہیں۔ ان میں ہر شخص ذمہ دار ہے اور عیسائیت میں موجود علاقائی تعصب سے پاک ہے، غرض یہ کہ قرآن مجید کی اس تعلیم نے مجھ پر گہری چھاپ چھوڑی کہ کوئی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، جبکہ عیسائیت کی تعلیم ہے کہ انسان آدم کے گناہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور عیسیٰ نے تو انسانوں کے گناہوں کا بوجھ اٹھایا ہے۔ گناہوں سے نجات اور پیدایشی گناہ گار ہونے کے بارے میں میرے جو اشکالات تھے، ان کا جواب قرآن میں مل گیا اور میں نے دل سے اسلام کو اپنا لیا ۔

 

اس کے بعد میں نے صحیح البخاری، صحیح مسلم، جامع الترمذی، سنن ابی داؤد وغیرہ حدیث کی کتابوں، ابن کثیر کی تفسیر، امام طبری کی تاریخ، ابن سینا، ابن رشد اور ابن خلدون وغیرہ کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور اسلام میرے دل و دماغ میں داخل ہوتا گیا۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ میں اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کی طرف جا رہا ہوں، بلکہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میری گھر واپسی ہے۔ میں بھٹکا ہوا تھا۔ اب میری اصل منزل مل گئی، اسی زمانے میں جب میرا لڑکا اٹھارہ سال کا ہوا تو میں نے اس سے کہا کہ تمھاری اٹھارہویں سالگرہ پر تمھیں ایک ایسی چیز تحفے میں دوں گا ، جس کی مادی اہمیت تو کچھ بھی نہیں ہے، لیکن وہ بیش قیمت تحفہ ہو گا، جو میری اب تک کی زندگی کے تجربات و مشاہدات اور تاثرات پر مشتمل ہو گا، پھر میں عقائد کے بارے میں جو کچھ سمجھا تھا اور جس نتیجے پر پہنچا تھا، وہ چودہ صفحات پر مرتب کر کے اسے اٹھارہویں سال گرہ پر تحفے میں دیا۔ جب ١٩٨٠ء میں جرمنی کے محکمہ خارجہ نے اسلام کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا تو اس میں میں نے وہ مضمون پڑھا۔ اس سیمینار کا مقصد جرمن سفارت کاروں کو دین ِ اسلام اور مسلم ملکوں کے حالات سے واقف کرانا تھا، اسی دوران میری ملاقات ایک مصری امام سے ہوئی۔ ان سے میں نے کہا کہ میں اسلام سے ہمدردی رکھتا ہوں اور میں نے انھیں مضمون پڑھنے کو دیا۔ انھوں نے کہا کہ چودہ صفحات پر مشتمل تمھارا یہ مضمون یہ ظاہر کرتا ہے کہ تم مسلمان ہو چکے ہو۔ یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی، پھر انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے اس مضمون میں جو کچھ لکھا ہے، کیا تم اس پر یقین رکھتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، پھر میں نے کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔

 

جب میں نے ”DIARY OF GERMAN MUSLIM” لکھی اور سے جرمنی کے محکمہ خارجہ کو دکھایا تو اس کا اچھا رد عمل تھا۔ محکمے نے اسے بہت پسند کیا اور کہا چونکہ جرمنی کے بہت سارے سفیر مسلم ممالک میں ہیں، اس لیے ان سب کو اسلام سے واقف ہونا چاہیے۔ اسلام کے بارے میں یہ بہت اچھی کتاب ہے، پھر محکمے نے حکم دیا کہ یہ کتاب مسلم ممالک میں موجود جرمنی کے تمام سفرا کو مطالعے کے لیے بھیج دی جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ تمام سفرا نے کتاب کو پسند کیا اور تعریف کی۔ اس کے بعد میں سولہ ممالک کی تنظیم ناٹو (NATO) کے محکمہ اطلاعات کا ڈائرکٹر بن گیا۔ ناٹو کے مرکزی دفتر میں سالانہ تقریباً تیس ہزار لوگ معائنے کی غرض سے آتے تھے۔ انھیں ہم فلم دکھاتے۔ ناٹو کی کارروائیوں سے آگاہ کرتے۔ ان کے ساتھ دوپہر کے کھانے میں مجھے ہمیشہ شریک ہونا پڑتا تھا تو میں پلیٹ اور چمچہ لے کر خاموشی کے ساتھ ایک گوشے میں بیٹھ جاتا۔ کھاتا نہیں تھا۔ لوگ پوچھتے کہ کیا تم بیمار ہو؟ میں جواب دیتا: نہیں، میں مسلمان ہوں۔ بغیر حلال کیے جانور یا دیگر ناپاک چیزیں نہیں کھاتا ہوں اور جب رمضان کا مہینا آتا تو میں کہتا کہ روزے سے ہوں۔ ظہرانے کے دوران اسلام اور مسلمانوں پر گفتگو ہوتی رہتی تھی، اس کے بعد میرا تقرر الجیریا میں جرمنی کے سفیر کی حیثیت سے ہوا۔ اس تقرر سے پہلے محکمہ خارجہ میں یہ بحث ہوتی رہی کہ کیا ایک عیسائی ملک کا سفیر ایک مسلم بھی ہو سکتا ہے؟ آخر کار حکومت جرمنی نے فیصلہ کیا کہ کوئی جرمنی شہری کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتا ہے اور وہ جرمنی کا سفیر بھی بن سکتا ہے۔

 

اس دوران فوکا یامہ نے اپنی کتاب "END OF HISTORY’ لکھی۔ اس میں اس نے بڑی خوش اسلوبی سے بتایا کہ اب انسانیت کی تاریخ آخری دور میں داخل ہو چکی ہے، اس کا زوال ہو چکا ہے اور اب کوئی ایسا نظریہ نہیں بچا ہے، جو انسانیت کو بچا سکے۔ دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ سوویت یونین کا بکھراؤ، کمیونسٹ نظریے کی ناکامی، مغرب کا اخلاقی زوال اور سرمایہ دارانہ نظام کا استحصال وغیرہ اس کتاب کے اہم موضوعات تھے۔ کتاب میں یہ بھی بتایا گیا کہ اب دنیا میں جمہوریت، ماڈرنزم اور سیکولرزم کا وجود رہ گیا ہے۔کتاب پڑھنے کے بعد میں نے یہ طے کیا کہ اس کتاب کا جواب ضرور دوں گا، چنانچہ اس کے جواب میں میں نے "ISLAM THE ALTERNATVIE” لکھنا شروع کیا اور دن رات ایک کر کے تین ہفتے کے اندر اسے تیار کر دیا۔ اس کتاب میں میں نے یہ بتایا کہ تاریخ ختم نہیں ہوئی، بلکہ اسلام انسانیت کا نجات دہندہ ہونے کی وجہ سے موجودہ نظام کی ناکامی کے بعد واحد متبادل ہے اور موجودہ دنیا کو تباہی سے صرف اسلام ہی بچا سکتا ہے۔ پوری دنیا کو اسلام کے بارے میں غور و خوض کرنا چاہیے، اسلام فرد اور سماج کے تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ یہ ایک اللہ کا نام ہے، جو انسانی فطرت کے مطابق ہے، اسے اسی اللہ نے بنایا ہے، جس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اس کتاب کو میں نے آٹھ پبلشرز کے پاس بھیجا۔ دو نے شائع کرنے پر رضا مندی ظاہر کی اور ایک کے ساتھ میں نے معاہدہ کر لیا۔ جرمنی کے ایک اہم پبلشرز نے ١٩٩٢ء کے موسم بہار میں کتاب شائع کی۔ کتاب کا بازار میں آنا تھا کہ ہر طرف سے مذمت ہونے لگی ۔ پریس ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گیا۔ اخبارات کے پہلے صفحے پر میری مذمت کی جانے لگی اور یہ لکھا جانے لگا کہ یہ شخص کہتا ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹے جائیں، زانیوں کو سنگسار کیا جائے، بے چاری ہوف مین کی بیوی کی تین سوتنیں آئیں گی۔ محکمہ خارجہ میں خطوط کا انبار لگ گیا، جن میں میری اور میری کتاب کی خوب مذمت کی گئی۔ جب ہنگامہ زیادہ ہوا تو وزیر ِ خارجہ نے اپنے تین معاونین کی مدد سے کتاب کا گہرا مطالعہ کیا اور اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ اسلام کو Objective طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اسلام کا تعارف کرانے والی ہے اور جرمنی کے ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ ہندو، مسلم، بدھ اور عیسائی جو کچھ بننا چاہے، بنے اور جس مذہب پر چلنا چاہے، چلے، لیکن اخبارات کے حملے جاری رہے اور وہ لکھتے رہے کہ ایک جرمن سفیر لوگوں کو خودکشی کی ترغیب دے رہا ہے۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ ایک شخص نے چار ہفتے تک میرے پاس کام کیا، پھر کسی وجہ سے خود کشی کر لی۔ وہ خود کشی بلاوجہ میرے کھاتے میں ڈال دی گئی، اسی طرح اخبارات نے یہ لکھا کہ اس شخص نے سفارت خانے کی خواتین اسٹاف کو اسکارف اوڑھا دیا ہے، حالانکہ یہ بات بھی غلط تھی۔ جہاں میں تھا، وہاں مسلم خواتین سر کو نہیں ڈھانکتی تھیں تو دیگر تمام جرمن خواتین کو سر کیسے ڈھانکیں گی۔ یہ اتفاق تھا کہ میری مذکورہ کتاب ایسے وقت میں منظر عام پر آئی جب سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب "SATANIC VERSES” (شیطانی آیات) کے خلاف ہنگامہ جاری تھا اور اس سے ایک سال قبل مغربی ممالک نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ ان حالات میں یہ کتاب کافی مقبول ہوئی ، غرض یہ کہ یہ وہ حالات ہیں، جن میں میں نے اسلام قبول کیا۔

 

٭٭٭

 

 

 

 

میں نے اسلام کیوں قبول کیا

 

سسٹر امینہ جناں،امریکہ

 

 

 

میں جنوری 1945ء میں امریکہ کی ریاست لاس اینجلس کے علاقے ویسٹ میں پیدا ہوئی۔ میرے والدین پروٹسنٹ عیسائی تھے اور ننهيال و ددھیال دونوں طرف مذہب کا بڑا چرچا تھا۔ میں اسکول کے آٹھویں گریڈ میں تھی کہ میرے والدین کو فلوریڈا منتقل ہونا پڑا اور باقی تعلیم وہیں مکمل ہوئی۔ میری تعلیمی حالت بہت اچھی تھی، خصوصاً بائبل سے مجھے خاص دلچسپی تھی اور اس کے بہت سے حصے مجھے زبانی یاد تھے۔ اس سلسلے میں میں نے متعدد انعامات بھی حاصل کیے۔ میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اور ویمن لبریشن موومنٹ (تحریک آزادی نسواں) کی پر جوش کارکن تھی۔

 

ہائی اسکول کی تعلیم ختم ہوئی تو میری شادی ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی میں ماڈلنگ کے پیشے سے منسلک ہو گئی۔ خدا نے مجھے اچھی شخصیت عطا کی تھی اور میں خوب محنت کرتی تھی، اس لیے میرا کاروبار خوب چمکا۔ پیسے کی ریل پیل ہو گئی۔ شوفر، بہترین گاڑیاں غرض آسائش کا ہر سامان میسر تھا۔ حالت یہ تھی کہ بعض اوقات ایک جوتا خریدنے کے لیے میں ہوائی سفر کر کے دوسرے شہر جاتی تھی۔ اس دوران میں میں ایک بیٹے کی ماں بھی بن گئی، مگر سچی بات ہے کہ ہر طرح کے آرام و راحت کے باوجود دل مطمئن نہ تھا۔ بے سکونی اور اداسی جان کا گویا مستقل آزار بن گئی تھی اور زندگی میں کوئی زبردست خلا محسوس ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے ماڈلنگ کا پیشہ ترک کر دیا۔ دوبارہ مذہبی زندگی اختیار کر لی اور مختلف تعلیمی اداروں میں مذہبی تبلیغ کی رضاکارانہ خدمات انجام دینے لگی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے مزید تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ خیال تھا کہ اس بہانے شاید روح کو کچھ سکون ملے گا۔ اس وقت میری عمر تیس سال تھی۔

 

اسے خوش قسمتی ہی کہیے کہ مجھے ایک ایسی کلاس میں داخلہ ملا، جس میں سیاہ فام اور ایشیائی طالب علموں کی خاصی بڑی تعداد تھی۔ بڑی پریشانی ہوئی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ مزید گھٹن یہ دیکھ کر محسوس ہوئی کہ ان میں خاصے مسلمان تھے اور مجھے مسلمانوں سے سخت نفرت تھی۔ عام یورپین آبادی کی طرح ،میرے خیال میں بھی، اسلام وحشت و جہالت کا مذہب تھا اور مسلمان غیر مہذب، عیاش، عورتوں پر ظلم کرنے والے اور اپنے مخالفوں کو زندہ جلا دینے والے لوگ تھے۔ امریکہ اور یورپ کے عام مصنفین اور مؤرخین یہی کچھ لکھتے آ رہے ہیں۔ بہرحال شدید ذہنی کوفت کے ساتھ تعلیم شروع کی، پھر اپنے آپ کو سمجھایا کہ میں ایک مشنری ہوں۔ کیا عجب کہ خدا نے مجھے ان کافروں کی اصلاح کے لیے یہاں بھیجا ہو، اس لیے مجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے چنانچہ میں نے صورت حال کا جائزہ لینا شروع کیا تو حیرت میں مبتلا رہ گئی کہ مسلمان طالب علموں کا رویہ، دیگر سیاہ فام نوجوانوں سے بالکل مختلف تھا۔ وہ شائستہ، مہذب اور با وقار تھے۔ وہ عام امریکی نوجوانوں کے برعکس نہ لڑکیوں سے بے تکلف ہونا پسند کرتے، نہ آوارگی اور عیش پسندی کے رسیا تھے۔ میں تبلیغی جذبے کے تحت ان سے بات کرتی، ان کے سامنے عیسائیت کی خوبیاں بیان کرتی تو وہ بڑے وقار اور احترام سے ملتے اور بحث میں الجھنے کے بجائے مسکرا کر خاموش ہو جاتے۔

 

میں نے اپنی کوششوں کو یوں بے کار جاتے دیکھا تو سوچا کہ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ اس کے نقائص اور تضادات سے آگاہ ہو کر مسلمان طالب علموں کو زچ کر سکوں، مگر دل کے گوشے میں یہ احساس بھی تھا کہ عیسائی پادری، مضمون نگار اور مؤرخ تو مسلمانوں کو وحشی، گنوار، جاہل اور نہ جانے کن کن برائیوں کا مرقع بتاتے ہیں، لیکن امریکی معاشرت میں پلنے بڑھنے والے ان سیاہ فام مسلمان نوجوانوں میں تو ایسی کوئی برائی نظر نہیں آتی، بلکہ یہ باقی سب طلبہ سے مختلف و منفرد پاکیزہ رویے کے حامل ہیں، پھر کیوں نہ میں خود اسلام کا مطالعہ کروں اور حقیقت ِ حال سے آگاہی حاصل کروں۔ چنانچہ اس مقصد کی خاطر میں نے سب سے پہلے قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھنا شروع کیا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ کتاب دل کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی اپیل کرتی ہے۔ عیسائیت پر غور و فکر کے دوران اور بائبل کے مطالعے کے نتیجے میں ذہن میں کتنے ہی سوال پیدا ہوتے تھے، مگر کسی پادری یا دانشور کے پاس ان کا کوئی جواب نہ تھا اور یہی تشنگی روح کے لیے مستقل روگ بن گئی تھی، مگر قرآن پڑھا تو ان سارے سوالوں کے ایسے جواب مل گئے، جو عقل اور شعور کے عین مطابق تھے۔ مزید اطمینان کے لیے اپنے کلاس فیلو مسلمان نوجوانوں سے گفتگوئیں کیں۔ تاریخ ِ اسلام کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ میں اب تک اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں میرا نقطۂ نظر صریحاً بے انصافی اور جہالت پر مبنی تھا۔

 

مزید اطمینان کی خاطر میں نے پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کیا تو یہ دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ امریکی مصنفین کے پروپیگنڈے کے بالکل برعکس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کے عظیم محسن اور سچے خیر خواہ ہیں، خصوصاً انھوں نے عورت کو جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا ، اس کی پہلے یا بعد میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماحول کی مجبوریوں کی بات دوسری ہے، ورنہ میں طبعاً بہت شرمیلی ہوں اور خاوند کے سوا کسی مرد سے بے تکلفی پسند نہیں کرتی۔ چنانچہ جب میں نے پڑھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بے حد حیا دار تھے اور خصوصاً عورتوں کے لیے عفت و پاکیزگی اور حیا کی تاکید کرتے ہیں تو میں بہت متاثر ہوئی اور اسے عورت کی ضرورت اور نفسیات کے عین مطابق پایا۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کا مقام جس درجہ بلند فرمایا، اس کا اندازہ اس قول سے ہوا کہ ”جنت ماں کے قدموں میں ہے” اور آپ کے اس فرمان پر تو میں جھوم اٹھی کہ ”عورت نازک آبگینوں کی طرح ہے” اور ”تم میں سے سب سے اچھا شخص وہ ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے۔”

 

قرآن اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے میں مطمئن ہو گئی اور تاریخ اسلام کے مطالعے اور اپنے مسلمان کلاس فیلو نوجوانوں کے کردار نے مسلمانوں کے بارے میں میری ساری غلط فہمیوں کو دور کر دیا اور میرے ضمیر کو میرے سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔ تو میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کا ذکر میں نے متذکرہ طالب علموں سے کیا، تو وہ21مئی 1977ء کو میرے پاس چار ذمے دار مسلمانوں کو لے آئے۔ ان میں سے ایک ڈینور (Denever) کی مسجد کے امام تھے۔ چنانچہ میں نے ان سے چند مزید سوالات کیے اور کلمہ شہادت پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئی۔

 

میرے قبول اسلام پر پورے خاندان پر گویا بجلی گر پڑی۔ ہمارے میاں بیوی کے تعلقات واقعی مثالی تھے اور میرا شوہر مجھ سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا، مگر میرے قبول اسلام کا سن کر اسے غیر معمولی صدمہ ہوا۔ میں اسے پہلے بھی قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی اور اب پھر سمجھانے کی بہت سعی کی، مگر اس کا غصہ کسی طرح ٹھنڈا نہ ہوا ور اس نے مجھ سے علیحدگی اختیار کر لی اور میرے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ عارضی طور پر دونوں بچوں کی پرورش میری ذمہ داری قرار پائی۔

 

میر ے والد بھی مجھ سے گہری قلبی وابستگی رکھتے تھے، مگر اس خبر سے وہ بھی بے حد برافروختہ ہوئے اور غصے میں ڈبل بیرل شاٹ گن لے کر میرے گھر آئے تاکہ مجھے قتل کر ڈالیں۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں بچ گئی اور وہ ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کر کے چلے گئے۔ میری بڑی بہن ماہر نفسیات تھی، اس نے اعلان کر دیا کہ یہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہو گئی ہے اور اس نے سنجیدگی سے مجھے نفسیاتی انسٹی ٹیوٹ میں داخل کرانے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کر دی۔ میری تعلیم مکمل ہو چکی تھی، میں نے معاشی ضرورتوں کے پیش نظر ایک دفتر میں ملازمت حاصل کر لی، لیکن ایک روز میری گاڑی کوحادثہ پیش آ گیا اور تھوڑی سی تاخیر ہو گئی تو مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ فرم والوں کے نزدیک میرا اصل جرم یہی تھا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

 

اس کے ساتھ ہی حالت یہ تھی کہ میرا ایک بچہ پیدایشی طور پر معذور تھا۔ وہ دماغی طور پر بھی نارمل نہ تھا اور اس کی عام صحت بھی ٹھیک نہ تھی، جبکہ بچوں کی تحویل اور طلاق کے مقدمے کے باعث امریکی قانون کے تحت مقدمے کے فیصلے تک میری ساری جمع پونجی منجمد کر دی گئی تھی۔ ملازمت بھی ختم ہوئی تو میں بہت گھبرائی اور بے اختیار رب جلیل کے حضور سر بسجود ہو گئی اور گڑ گڑا کر خوب دعائیں کیں۔ اللہ کریم نے میری دعائیں قبول فرمائیں اور دوسر ے ہی روز میری ایک جاننے والی خاتون کی کوشش سے مجھے ایسٹر سیل پروگرام میں ملازمت مل گئی اور میرے معذور بیٹے کا علاج بھی بلا معاوضہ ہونے لگا۔ ڈاکٹروں نے دماغ کے آپریشن کا فیصلہ کیا اور اللہ کے فضل سے یہ آپریشن کامیاب رہا۔ بچہ تندرست ہو گیا اور میری جان میں جان آئی۔، لیکن آہ! ابھی آزمائشوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تھا۔ عدالت میں بچوں کی تحویل کا مقدمہ دو سال سے چل رہا تھا، آخر کار دنیا کے اس سب سے بڑے ”جمہوری” ملک کی” آزاد ” عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو تو اسلام سے دستبردار ہونا پڑے گا کہ اس قدامت پرست مذہب کی وجہ سے بچوں کا اخلاق خراب ہو گا اور تہذیبی اعتبار سے انھیں نقصان پہنچے گا۔

 

عدالت کا یہ فیصلہ میرے دل و دماغ پر بجلی بن کر گرا۔ ایک مرتبہ تو میں چکرا کر رہ گئی۔ زمین آسمان گھومتے ہوئے نظر آئے، مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس کی رحمت نے مجھے تھام لیا اور میں نے دو ٹوک انداز میں عدالت کو کہہ دیا کہ میں بچوں سے جدائی گوارا کر لوں گی، مگر اسلام اور ایمان کی دولت سے دستبردار نہیں ہو سکتی، چنانچہ بچی اور بچہ دونوں باپ کی تحویل میں دے دیے گئے۔

 

اس کے بعد ایک سال اسی طرح گزر گیا۔ میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنا تعلق گہرا کر لیا اور تبلیغ دین میں منہمک ہو گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساری محرومیوں کے باوجود ایک خاص قسم کے سکون و اطمینان سے سرشار رہی۔ میرے خیر خواہوں نے اصرار کے ساتھ مشورہ دیا کہ مجھے کسی با عمل مسلمان سے عقد ثانی کر لینا چاہیے کہ عورت کے لیے تنہا زندگی گزارنا مناسب و مستحسن نہیں ہے۔ چنانچہ ایک مراکشی مسلمان کی طرف سے نکاح کی پیشکش ہوئی تو میں نے قبول کر لی۔ یہ صاحب ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ قرآن خوب خوش الحانی سے پڑھتے اور سننے والوں کو مسحور کر دیتے۔ میں دین سے ان کے گہرے تعلق سے بڑی متاثر ہوئی اور ان سے نکاح کر لیا۔ عدالت نے میری رقوم وا گزار کر دی تھیں، چنانچہ میں نے اپنے خاوند کو اچھی خاصی رقم دی کہ وہ اس سے کوئی کاروبار کریں، مگر وائے ناکامی کہ شادی کو صرف تین ماہ گزرے کہ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی۔ اس نے کہا مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں، میں تمھارے لیے سراپا احترام ہوں، مگر اکتا گیا ہوں، اس لیے معذرت کے ساتھ طلاق دے رہا ہوں۔ میں نے اسے جو بھاری رقم دی، چونکہ اس کی کوئی تحریر موجود نہ تھی، اس لیے وہ بھی اس نے ہضم کر لی اور اس کی مدد سے جلد ہی دوسری شادی رچا لی۔

 

طلاق کے چند ماہ بعد اللہ نے مجھے بیٹا عطا فرمایا۔ اس کا نام میں نے محمد رکھا۔ اب یہ بیٹا ماشاء اللہ دس برس کا ہے۔ وجیہ و شکیل اور بڑا ذہین ہے۔ اسے ہی دیکھ دیکھ کر میں جیتی ہوں۔ اب میں نے اپنے آپ کو اللہ کے فضل سے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کر دیا ہے اور جی چاہتا ہے کہ بقیہ زندگی اسی مبارک فریضے کی نذر ہو جائے۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ میں نے قرآن کو خوب پڑھا ہے۔ امریکہ میں اس وقت قرآن کے ستائیس ترجمے دستیاب ہیں، میں نے ان میں سے دس کا بالاستیعاب مطالعہ کر لیا ہے۔ عربی زبان بھی سیکھ لی ہے اور جہاں ترجمے میں کوئی بات کھٹکتی ہے، فون پر عربی کے کسی سکالر سے معلوم کر لیتی ہوں۔ الحمد للہ میں مختلف کتب حدیث یعنی بخاری، مسلم، ابو داؤد اور مشکوٰۃ کا کئی کئی بار مطالعہ کر چکی ہوں اور اسلام کو جدید ترین اسلوب میں سمجھنے کے لیے مختلف مسلمان علما کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی رہتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ جب تک ایک مبلغ قرآن، حدیث اور اسلام کے بارے میں بھرپور معلومات نہ رکھتا ہو تو وہ تبلیغ کے تقاضوں سے کما حقہ عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔

 

ایک زمانہ تھا کہ میں اتوار کا دن آرام کرنے کے بجائے کسی سنڈے اسکول میں بچوں کو عیسائیت کے اسباق پڑھاتی تھی۔ آج اللہ کے کرم سے میں اتوار کا دن اسلامک سنٹروں میں گزارتی ہوں اور وہاں مسلمان بچوں کو دینی تعلیم دینے کے علاوہ دیگر مضامین بھی پڑھاتی ہوں۔ لاس اینجلس میں مختلف مقامات پر مختلف نوعیت کی نمائشوں، کانفرنسوں اور مجالس مذاکرات کا اہتمام کر کے غیر مسلموں تک دین اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ میں نے آپ لوگوں کو تبدیلی مذہب کے لیے نہیں بلایا، بلکہ اس لیے زحمت دی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں اسلام سے کیوں وابستہ ہوں، زندگی کی کیا حقیقت ہے؟ اور انسان اور اللہ کا باہمی تعلق کیا ہے؟ میں بحمد للہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی اسلامی تعلیمات پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔

 

یہ بھی اللہ ہی کی توفیق ہے کہ میں نے مختلف مقامات پر مسلم وومن اسٹڈی سرکل قائم کیے ہیں، جن میں غیر مسلم خواتین بھی آتی ہیں۔ میں انھیں بتاتی ہوں کہ اسی امریکہ میں آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے عورتوں کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی تھی اور ایک عورت کو گھوڑے سے بھی کم قیمت پر یعنی ڈیڑھ سو روپے میں خریدا جا سکتا تھا۔ بعد کے ادوار میں بھی عورت کو باپ یا شوہر کی جائیداد میں سے کوئی حصہ نہ ملتا تھا، حتیٰ کہ اگر وہ شادی کے موقع پر ایک لاکھ ڈالر شوہر کے گھر میں لے جاتی اور چند ہی ماہ بعد طلاق حاصل کرنا پڑتی تو وہ ساری رقم شوہر کی ملکیت قرار پاتی تھی۔ تعلیم کے مواقع بھی اسے میسر نہ تھے۔ اور اس ایٹمی و سائنسی دور میں بھی صورت حال یہ ہے کہ امریکہ میں عملاً عورت دوسرے درجے کی شہری ہے۔ وہ مردوں کے برابر کام کرتی ہے، مگر معاوضہ ان سے کم پاتی ہے، وہ ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ پندرہ برس کی کم عمر کے بعد والدین بھی اس کی کفالت کا ذمہ نہیں لیتے اور اسے خود ملازمت کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ شادی کے بعد طلاق کا خوف اسے ہمہ وقت گھیرے رکھتا ہے اور طلاق کے بعد جو یورپین زندگی کا لازمہ بن گئی ہے، نہ والدین اور نہ بھائی اس کا غم بانٹتے ہیں۔ بچوں کی ذمہ داری بھی اس کے سر پڑتی ہے اور سابق شوہر بچوں کا بمشکل تیس فی صد خرچ برداشت کرتے ہیں، یعنی پچاس ڈالر ماہوار کے حساب سے ادا کرتے ہیں، جس سے ایک بچے کا جوتا خریدنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

 

میں خواتین کو بتاتی ہوں کہ اس کے برعکس اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے خواتین کو جو حقوق عطا کیے تھے، اس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بحیثیت بیٹی، بہن، بیوی اور ماں اسے خاص احترام اور حقوق حاصل ہیں۔ باپ، خاوند، بھائیوں اور بیٹوں کی جائیداد سے اسے حصہ ملتا ہے اور طلاق کی صورت میں اولاد کی کفالت کا ذمہ دار شوہر ہوتا ہے۔ شادی کے موقع پر خاوند کی حیثیت کے مطابق اسے معقول رقم (یعنی مہر) کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ خاوند کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھے اور اس کی غلطیوں کو معاف کرے اور اس باپ کے لیے جنت میں اعلیٰ ترین انعامات کی خوش خبری دی گئی ہے، جو اپنی بچیوں کی محبت اور شفقت سے پرورش کرتا اور ان کی دینی تربیت کر کے انھیں احترام سے رخصت کرتا ہے اور اس اعزاز کی تو کہیں ادنیٰ سی بھی مثال نہیں ملتی کہ ماں کے قدموں میں جنت قرار دی گئی ہے اور باپ کے مقابلے میں اسے تین گنا واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے۔

 

میں جب یہ تقابلی موازنہ کرتی ہوں تو امریکی عورتوں کے منہ حیرت سے کھلے رہ جاتے ہیں۔ وہ تحقیق کرتی ہیں ، مطالعہ کرتی ہیں اور جب انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ میں صحیح بات کرتی ہوں اور واقعتاً اسلام نے عورت کو غیر معمولی حقوق و احترام عطا کیا ہے، تو وہ اسلام قبول کر لیتی ہیں، چنانچہ اللہ کا شکر ہے کہ اب تک میرے ذریعے سے تقریباً چھ سو امریکی خواتین دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکی ہیں۔

 

خواتین میں تبلیغ کے ساتھ ساتھ میرا ہدف شعبہ تعلیم ہے، جس کے نصابات میں اسلام کے بارے میں طرح طرح کے اعتراضات و الزامات ہیں۔ ٹی وی پروگراموں میں بھی جا بے جا اسلام کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے، چنانچہ میں نے عزم کر لیا ہے کہ اس تکلیف دہ صورت حال کی اصلاح کرنی چاہیے، اس کے لیے میں اکیڈمی آف ریلی جیس سائنس کے کار پردازوں سے ملی، یہی لوگ نصابات اور ٹی وی پروگراموں میں اسلام کی غلط تصویر کشی کے ذمہ دار ہیں۔ میں نے اصرار کے ساتھ ان سے بحث مباحثہ کیا اور انھیں قائل کیا کہ اگر نشان دہی کر دی جائے تو وہ متعلقہ حصوں کی اصلاح کر دیں گے، چنانچہ میں نے مسلمان والدین کو توجہ دلائی۔ امریکہ میں مختلف قسم کی انجمنوں سے رابطہ قائم کیا اور انھیں آمادہ کیا کہ وہ بچوں کی نصابی کتب میں غلط اور قابل اعتراض باتوں کی نشان دہی کریں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اسلامک فاؤنڈیشن (IFOD) کا قیام عمل میں آیا، جس کے تحت نصابی کتابوں میں اسلام کے خلاف منفی اور قابل اعتراض مواد کی نشان دہی کی جاتی ہے، اسی طرح امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اسلامیات کا مضمون یہودی، عیسائی اور ہندو پڑھاتے ہیں۔ ہم نے  IFOD   کی وساطت سے یہ مطالبہ کیا کہ اسلامیات کی تدریس پر صرف مسلمان اساتذہ کا تقرر کیا جائے، مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ ہم یہ مطالبہ منظور کرا لیں گے۔

 

آخر میں یہ خوش کن خبر بھی سناتی جاؤں کہ میرا وہ خاندان جس نے میرا مکمل سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا، اللہ کے فضل سے اس کے بیش تر افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔ میرے والد جو مجھے قتل کرنے کے درپے تھے، مسلمان ہو چکے ہیں اور والدہ ، سوتیلے والد، دادی، دادا اور خاندان کے کئی دیگر افراد بھی حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ میرا وہ بیٹا جو اپنے عیسائی باپ کے پاس رہتا تھا اور جس کی مذہبی تربیت عیسائیت کے عین مطابق بڑے اہتمام سے ہو رہی تھی، ایک روز میرے پاس آیا اور کہنے لگا : ”ممی! اگر میں اپنا نام تبدیل کر کے فاروق رکھ لوں تو آپ کے نزدیک کیسا رہے گا؟” میں پہلے حیرت اور پھر مسرت کے بے پناہ احساس سے سرشار ہو گئی، میں نے اسے گلے سے لگا لیا، پیار کیا اور اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے فوراً ہی کلمہ پڑھ لیا۔ فاروق اب بھی باپ کی تحویل میں ہے، مگر راسخ العقیدہ مسلمان ہے۔ میری وہ بہن جو مجھے پاگل سمجھتی تھی، ایک تقریب میں اس نے میری تقریر سنی، تو بے اختیار تعریف کرنے لگی۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ بھی ایک روز دائرۂ اسلام میں آ جائے گی۔یہ بھی اللہ کی عنایت ہے کہ امریکہ میں رہتے ہوئے باپردہ زندگی گزار رہی ہوں۔ اس ملک میں چہرے پر نقاب ڈال کر ادھر ادھر جانا تو ممکن ہی نہیں کہ اس سے بے شمار مشکلات آڑے آتی ہیں، تاہم چہرے اور ہاتھوں کے سوا میں سارے جسم کو ڈھیلے لباس میں مستور رکھتی ہوں، تاہم اس میں بھی قدم قدم پر تعصب اور تنگ نظری کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ایک مرتبہ میں اسی لباس میں ایک بینک میں گئی تو جب تک وہاں موجود رہی، بینک کا گن مین میرے سر پر رائفل تانے کھڑا رہا۔ ایک پی ایچ ڈی خاتون ملازمت کے لیے منتخب ہوئی مگر اسے پہلے روز ہی اس لیے فارغ کر دیا گیا کہ وہ حجاب میں تھی۔ اس نوعیت کی مثالیں بے شمار ہیں۔ ایک بار میں نے ریڈیو پر بچوں کا پروگرام کیا، اسے ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا، مگر تقریب سے ایک روز قبل جب کمیٹی کے ارکان سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے مجھے اسلامی لباس میں دیکھا تو کمال ڈھٹائی سے انھوں نے ایوارڈ منسوخ کر دیا۔بہرحال یہ ہے امریکہ کا ماحول اور یہ ہیں وہ رکاوٹیں، جن میں رہ کر مجھے تبلیغ دین کا کام کرنا پڑ رہا ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے استقامت عطا کرے اور میں آخر وقت تک نہ صرف خود ایمان و یقین سے سرشار رہوں، بلکہ یہ روشنی دوسروں تک بھی پہنچاتی رہوں

 

٭٭٭

 

 

 

میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

 

ارشاد احمد / حاکم سنگھ

(ڈوڈہ، جموں و کشمیر)

 

 

 

میرا پیدایشی نام حاکم سنگھ ہے۔ میں سناتن دھرم کے سوریہ ونشی گوتر خاندان میں گاؤں درون جمہانی تحصیل ٹھاٹھری ضلع ڈوڈہ ریاست جموں و کشمیر میں ١٩٦٩ء میں پیدا ہوا۔ میرے دادا جی کا نام روپا چودھری تھا۔ وہ اپنے زمانے کے بڑے رئیس زمیں دار تھے۔ میرے پتا (والد) کا نام بدری ناتھ ہے۔ یہ اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے۔ میری دادی کے انتقال کے بعد دادا روپا چودھری نے دوسری شادی کی، جن سے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔ اس طرح سے میرے والد صاحب کے دو بھائی اور ایک بہن اور بن گئے۔ میرے والد صاحب کو دادا نے سنٹرل واٹر کمیشن C.W.C محکمے میں نوکری دلائی تھی، لیکن کچھ عرصے بعد زمیں داری کا کام کاج ہونے کی وجہ سے دادی کے کہنے پر والد صاحب سے نوکری چھڑائی گئی۔ اب والد صاحب نے کھیتی باڑی کا کام کاج سنبھالا اور اسی دور میں والد صاحب کی شادی بھی ہو گئی۔ اس طرح ہم پانچ بھائیوں اور ایک بہن نے اپنے ماں باپ کے گھر جنم لیا۔ مجھ سے ایک بھائی اور ایک بہن بڑے ہیں۔ تین بھائی مجھ سے چھوٹے ہیں۔ میں بچپن سے ہی دھارمک وچار (دینی ذہن) کا ہوں اور صفائی پسند ہوں۔ اپنے آبائی دھرم (مذہب) کا پورا مطالعہ بچپن سے ہی کرتا رہا ہوں۔ برہم سوتر ”ایک برہما دویتے نستے ناہی نہ ناستے کنچن” کی مالا (تسبیح) غور سے جب بھی جپا (پڑھا ) کرتا تھا تو سکون محسوس کرتا تھا لیکن جب سماج میں لوگوں کو اس کے بالکل الٹ کرتے دیکھتا تھا تو مایوسی کے عالم میں کھو جاتا تھا۔ بڑے بڑے ہندو (سناتن دھرمی) Scholars کو مختلف اوتاروں اور تینتیس کروڑ دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے دیکھ کر پریشانی کے جال میں پھنسا رہتا تھا، یہی ایک خاص وجہ تھی، جو اپنی قوم کی ریتی رواج یا سوسائٹی کے اثرات قبول کرنے سے بارہ تیرہ سال کی عمر سے مجھے روکے ہوئے تھی۔

 

زندگی کے اسی دور میں ایک نئی گھٹنا (واقعے) نے دل کے دروازوں کو مزید وا کیا۔ ١٩٨٠ء کی بات ہے، جمعہ کا دن تھا۔ میرا ننھیال پرنوت گاؤں میں ہے۔ میرے والد اور والدہ پرنوت گئے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے حکم کے مطابق اسکول سے چھٹی کے بعد پرنوت پہنچ گیا۔ نانی نے مجھ سے کہا کہ گیہوں کی کٹائی ہو رہی ہے۔ آپ کے والد، والدہ کھیت پر ہیں آپ وہیں جائیں۔ اور ساتھ میں پانی کا ایک گاگر بھی ساتھ لے جائیں۔ میں پانی کی گاگر لے چلا۔ کچھ دور جا کر دو بوڑھی عورتیں گیہوں کاٹتی ہوئی نظر آئیں۔ تپتی دھوپ میں مجھے دیکھ کر انھوں نے پانی پلانے کو کہا۔ میں ان کے لیے اجنبی تھا۔ پانی پینے سے پہلے ہاتھ دھوتے ہوئے بڑھیا پوچھتی ہے آپ کا نام؟ میں نے بتا دیا۔ والد کا نام؟ وہ بھی بتا دیا۔ یہاں کس کے گھر آئے ہو؟ میں نے ایک بھگت (عبادت گزار) گھرانے کے ایک بڑے آدمی کا نام بتا دیا کہ اس کے گھر آیا ہوں۔ یہ سنتے ہی بڑھیا نے پانی پینے سے انکار کر دیا۔ اس واقعے سے میرے دل کو بہت ٹھیس پہنچی۔ مجھے حق کی تلاش تو پہلے ہی سے تھی۔ اب میں تحقیق کے ایک اور سمندر میں جا پہنچا۔ دل سوچنے پر مجبور ہوا کہ پہلے تو ان بوڑھیوں نے مجھے مجبور کر کے پیاس کی وجہ سے بے تابی سے پانی پلانے کے لیے پاس بلایا، لیکن تعارف سنتے ہی ان کی پیاس کہاں چلی گئی؟ وہ کون سی خوبی ہے، جو ان میں ہے اور اس گھر میں نہیں ہے، جس گھر کے بڑے آدمی کا نام میں نے لیا تھا؟ یا پھر مجھ میں ہی وہ کون سی خامی ہے، جسے دیکھ کر انھوں نے ایک دم ہاں کو ناں میں بدل دیا؟ میرا وقت بھی برباد کیا اور میرا پانی بھی ہاتھ دھونے میں ضائع کیا۔ میں تو ہر روز نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑوں میں اسکول جایا کرتا ہوں اور یہ بڑھیا تو میلے کچیلے کپڑوں میں ہے۔ نسوار کے استعمال سے اس کے دانت کالے سیاہ ہو چکے ہیں۔ منہ سے نسوار کی بدبو آ رہی ہے۔ سر کے بالوں کی یہ حالت ہے کہ مشکل سے مہینے میں ایک بار ہی نہائی ہو گی۔ یہ کون سے اور کس قسم کے لوگ ہیں؟ اس قسم کے بہت سے خیالات دل میں ابھرتے رہے۔ سوچتے سوچتے میں اس کھیت میں پہنچ گیا، جہاں میرے باپ کئی دیگر لوگوں کے ساتھ گیہوں کی کٹائی کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر والد صاحب میرے پاس پانی پینے پہنچے۔ میں نے پانی پلایا۔ میں نے والد صاحب کو پیش آمدہ واردات کے بارے میں علیحدگی میں سنجیدگی سے بتایا۔ سب کچھ غور سے سننے کے بعد والد صاحب نے مجھے سمجھانے کی بھر پور کوشش کی۔ کئی من گھڑت اور بے سند مثالیں اور قصے کہانیاں سنائیں۔ ہندو سماج یعنی سناتن دھرم میں اونچ نیچ اور جاتی واد (ذات پات) کے اس بھید بھاؤ کو لے کر کئی بے سند کتابوں کا حوالہ بھی دیا، لیکن میرے دل میں ایک بات بھی نہیں اتری، بلکہ ایک اور نئی پریشانی پیدا ہوئی کہ ہمارے سماج میں کچھ لوگ اپنے آپ کو پاک دامن یعنی ”شدھ” اور دوسروں کو ناپاک یعنی ”اشدھ” ٹھہرائے ہوئے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے اور کیسے ہوا ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے میں نے کبھی سکھ برادری میں جا کر تو کبھی پنڈت برداری میں تو کبھی راجپوت برادری میں تو کبھی میگھ برادری میں جا کر تحقیق کی، جس سے مجھے یہ معلومات ہوئیں کہ اچھوت یعنی ”اشدھ” ناپاک جن کا نام گاندھی جی نے ‘ہریجن” یعنی ایشور کے بیٹے رکھا تھا، جب تک وہ ہندوؤں میں رہیں گے، وہ انسانوں جیسے شرف و وقار سے محروم ہی رہیں گے، کیونکہ ہندوؤں کی مذہبی تعلیم کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ اچھوت ہندو برادری سے نکالے ہوئے لوگ ہیں۔ وہ نہ تو ہندوؤں کے مندروں میں داخل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ان کنوؤں اور نلوں سے پانی لے سکتے ہیں، جن سے اونچی ذات والے ہندو لیتے ہیں اور نہ وہ ان کے ساتھ کھا پی سکتے ہیں اور نہ رہ سکتے ہیں۔ دور افتادہ دیہاتوں میں اب تک اونچی ذات والے ہندو بہت تھوڑے معاوضے پر ان سے خدمت لینا اپنا جائز حق سمجھتے ہیں۔ ہری جنوں کو اس کی بھی اجازت نہیں ہے کہ اور لوگوں کے مانند جوتے چپل پہن کر چل پھر سکیں۔

 

ایک سو بیس پچیس ملین یہ اچھوت ہندوستان میں تمام پست قبائل سے بھی پست تر لوگ ہیں۔ اور صرف اونچی ذات والوں کے نوکر چاکر اور خادم سمجھے جاتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ اچھوت اپنے ان گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، جو انھوں نے پچھلے جنم میں کیے تھے اور پھر بعض ادیان علم کو صرف پروہتوں (پجاریوں) اور ایک مخصوص طبقے تک محدود رکھتے ہیں۔ اور ان ادیان کی اساس اس تصور پر ہے کہ ایشور (خدا) نے انسان کو مختلف طبقوں میں اس لیے جنم دیا ہے کہ بعض طبقے اس کے محبوب اور بعض طبقے اس کے مغضوب ہیں، چنانچہ مشہور ہندوستانی فلسفی منو اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ” برہما نے اپنے منہ سے برہمن کو، ہاتھ سے کھتری کو، ران سے ویش کو، اور پاؤں سے شودر کو پیدا کیا ہے۔” (1:31) اس لیے ان کی نظر میں بعض طبقے پست ہیں اور انھیں پست ہی رکھا جانا چاہیے، چنانچہ اسی باب کے نمبر ٥١ میں وہ فرماتے ہیں: ”ایشور نے شودر کو صرف ایک فرض نبھانے کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ بلا چون و چرا برہمن ، کھتری اور ویش کی خدمت کرتا رہے۔” ( 1 تا 91) اس لیے وہ برہمنوں کو حکم دیتے ہیں کہ شودر کے سامنے وید نہ پڑھے۔ یہ سب باتیں جن کی میں تحقیق کرتا گیا، مجھے دن بدن اچنبھے اور حیرت میں ڈالتی گئیں۔ رفتہ رفتہ مجھے سماج کی ہر چھوٹی بڑی ذات والے سے نفرت سی ہونے لگی۔

 

غور و فکر کے نتیجے میں الجھن بڑھتی گئی اور میں تنہائی پسند ہو گیا۔ بچپن ہی سے میرا نصب العین یہ تھا کہ اپنی ذات کا عرفان حاصل کروں اور اس کے ساتھ ساتھ کائنات کے وجود میں لانے والے کی معرفت حاصل کروں اور اس بات کی واقفیت بھی کہ اس ہستی کی عبادت کیسے کی جائے۔ اس کھوج میں مجھے کبھی سکھ بننا پڑا، کبھی عیسائیوں کی مجالس میں جانا پڑا تو کبھی ست سنگھ آنند مارگ کے درس سننے پڑے۔ مگر توحید پر مبنی برہم سوت کے خلاف سب کو شرک میں ملوث پایا۔ اس کے علاوہ چھوت چھات، بھید بھاؤ اور اونچ نیچ کی لعنت میں بھی سب کو گرفتار پایا۔ ہندو سماج کو اس تضاد عملی پر غور کرنا چاہیے۔ میں ہندو سماج میں ہزاروں نہیں، بلکہ کروڑوں دیوی دیوتاؤں کی پوجا پرستش کرتے دیکھ کر پریشان ہو اٹھتا۔ اور اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر جیتا تھا، اسی دور کی بات ہے کہ ١٩٨١ء میں گورنمنٹ مڈل اسکول میں پانچویں کلاس میں پڑھ رہا تھا، مجھے دیوی دیوتاؤں سے چڑ تھی، لیکن ماں باپ نے کسی دیوتا کی منت مانتے ہوئے میرے سر کے بال کٹوا کر ایک لمبی چوٹی سر پر چھوڑ دی تھی کہ ہمارا بچہ ٹھیک ٹھاک صحت مند رہے تو ہم یہ چوٹی دیوتا کے دربار میں جا کر کٹوائیں گے۔ اور وہاں بکرے یا بھیڑ کی بَلی (قربانی) بھی کریں گے۔ مجھے تو اس چوٹی سے نفرت اور چڑ تھی، بچے الگ میری چوٹی سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے۔ ایک دن اسکول میں میں نے بچوں کی شرارت کا بہانہ بنا کر اپنے سر کی اس لمبی چوٹی کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں میں جکڑ کر پوری طاقت سے اکھاڑ ڈالا اور اسکول کے باہر کھیت میں اس چوٹی کو جا پھینکا۔ اس عمل سے میرا سر لہو لہان ہو گیا۔ چوٹی کی جگہ پر ایک گہرا زخم بن گیا۔ اسکول کے کچھ سینئر طلبہ نے یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ انھوں نے اس کی اطلاع اسکول کے ذمے داروں کو دی۔ اسکول کا اسٹاف مجھے دیکھنے کلاس میں آیا۔ مجھے خون سے بھرا دیکھ کر انھوں نے مجھے سنبھالا۔ میرے بڑے بھائی مول راج جی کو بھی پتا چلا، وہ بھی آئے۔ وہ بھی حیران تھے کہ اتنے سارے بالوں کا گچھا کیسے اکھڑ سکتا ہے۔ کئی استاد اور بچوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔ میرے بڑے بھائی دکھی تھے کہ جب والدین گھر میں پوچھیں گے تو وہ اس کا کیا جواب دیں گے! بہرحال بڑے بھائی نے کچھ دوستوں کو ساتھ لے کر کھیت میں جا کر چوٹی کو ڈھونڈ نکالا اور گھر آ کر والدین کو پوری بات سنائی اور چوٹی بھی دکھائی۔ والدین مجھے دیکھ کر بہت گھبرائے کہ نہ جانے میرے دماغ پر اس زخم کا کیا اثر پڑے گا، اس کے علاوہ دیوتا کی ناراضی کا مسئلہ علیحدہ تھا۔ اب وہ اپنے آپ کو مصیبت میں گھرا سمجھنے لگے۔ مجھے یہ بالکل احساس ہی نہیں تھا کہ زخم کی وجہ سے سر میں درد ہے۔ دیوتاؤں کی تو مجھے بالکل پروا ہی نہیں تھی۔ ان کی عقیدت سے میرے مولائے کریم نے مجھے پاک رکھا تھا۔

 

١٩٨٢ء میں میں چھٹی کلاس میں پہنچا تو ہمارے اس گورنمنٹ مڈل اسکول میں محمد شریف صاحب گاؤں ردرانہ، بھدرواہ سے ٹرانسفر ہو کر آئے۔ یہ اگرچہ کلین شیو تھے اور ان کی شکل و صورت ہندوؤں جیسی ہی تھی، لیکن بول چال، رہن سہن میں اور پڑھانے میں دوسرے اساتذہ سے مختلف تھے۔ میں ان کی ہر بات اور کام پر نظر رکھتا تھا۔ اتفاق سے انھوں نے میرے ننھیال گاؤں پرنوت میں نانا ہی کے گھر کا کمرہ کرائے پر لیا تھا، جس کی وجہ سے میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہو گئے۔ تعلیم میں ذہانت کی وجہ سے سب اساتذہ مجھے پسند کرتے تھے۔ میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں اور استادوں کی مذہبی روش پر بھی نظر رکھتا تھا۔ اپنوں کی عبادت کے طور طریقے سے تو میں واقف تھا ہی، اب مجھے اپنے ان نئے استاد کے مذہبی طور طریقوں پر نظر رکھنی تھی۔ اتفاق سے ایک دن میں اپنے ننھیال گاؤں پرنوت گیا۔ میں نے دیکھا کہ ماسٹر محمد شریف صاحب کچھ اٹھک بیٹھک سی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ میں دروازے سے چھپ کر دیکھ رہا تھا۔ نانی سے پوچھا کہ ماسٹر صاحب یہ کیا کر رہے ہیں؟ پتا چلا کہ یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کا مذہب اسلام ہے۔ یہ مسلمان کہلاتے ہیں۔ یہ ایشور (خدا) کو اسی طرح یاد کرتے ہیں۔ میں پھر جھانک کر دیکھنے لگا کہ ان کا دیوتا کہاں ہے؟ وہ کس کی طرف متوجہ ہیں؟ کوئی تصویر کوئی مورتی، کوئی نقشہ جو سامنے ہو، میں اسے دیکھوں، لیکن کافی دیکھ ریکھ کے بعد بھی میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس طرح میرے لیے تحقیق کا ایک اور نیا دروازہ کھل گیا۔ نماز کا معنی و مفہوم کیا ہے؟ مسلمان نماز کیوں پڑھتے ہیں؟ ہم ہندو نماز کیوں نہیں پڑھتے ہیں؟ ہمیں کسی نے نماز کیوں نہیں سکھائی؟ مسلمانوں نے نماز کیوں سیکھی؟ یہ مسلمان ٣٣ کروڑ دیوی دیوتاؤں کے عقیدت مند کیوں نہیں ہیں؟ یہ سب تو ماسٹر صاحب سے میں پوچھ نہیں سکتا تھا۔ اس وقت میں کم عمر تھا اور ماسٹر صاحب سخت مزاج کے تھے، اس لیے میرے دل کی بات میرے دل میں ہی رہ گئی۔ لیکن اس بات نے مجھے اور خاموش مزاج بنا دیا۔ ١٩٨٥ء میں میں نے ماڈل ہائی اسکول، بھلیہ میں نویں کلاس میں داخلہ لیا۔ یہ اسکول ہمارے لیے اس اعتبار سے نیا تھا کہ اسکول میں ہندو مسلم دونوں قسم کے طالب علم پڑھتے تھے۔

 

میری کلاس میں چار مسلمان لڑکے تھے۔ میں نے دیکھا کہ جب بھی آپس میں ملتے ہیں تو السلام علیکم کہتے اور مصافحہ کرتے ہیں۔ میرے لیے یہ بھی ایک نئی چیز تھی کہ یہ لوگ آپس میں السلام علیکم اور ہمیں السلام علیکم کے بجائے آداب عرض کیوں کہتے ہیں۔ اس اسکول میں اکثریت چونکہ ہندو طلبہ اور اساتذہ کی تھی، اس کی وجہ سے یہ مسلمان طالب علم کچھ دبے دبے سے رہتے تھے۔ میں نے ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کو السلام علیکم کہنا شروع کیا۔ اس پر ہمارے یہ مسلمان دوست بہت خوش ہوئے۔ آہستہ آہستہ مجھے انھیں السلام علیکم کہنے کی عادت پڑ گئی اور اس طرح میری ان سے بے تکلفی بڑھتی گئی۔ میں نے ان سے السلام علیکم کا مطلب پوچھا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ اس کا مطلب اللہ سے دعا کرنا ہے کہ اللہ کی تم پر سلامتی ہو لیکن دریافت کرنے پر وہ قرآن کا ترجمہ و تشریح نہیں کر پائے۔ دل میں سوالوں کا ایک سیلاب تھا، جن کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ماحول مجھے بے تاب کیے ہوئے تھا۔ ١٩٨٦ء میں میں نے میٹرک فرسٹ گریڈ میں ٧٥٠ نمبروں میں سے ٥٠٦ نمبر حاصل کر کے پاس کیا۔ میں نے P.U.C میں میڈیکل سبجیکٹ لے کر داخلہ لیا۔ میرا مزاج حقیقی معبود کا متلاشی تھا۔ ذہنی پریشانی بڑھتی گئی۔ جیسے تیسے میں صرف 10+2 تک ہی پڑھ سکا۔ آگے پڑھنے کی تمنا ختم ہو گئی۔ معبود حقیقی کی تلاش کے لیے ١٩٨٩ء سے ١٩٩٥ء تک برابر کھوج میں لگا رہا۔ اس بیچ گورنمنٹ سروس کے لیے ایک دو بار آرڈر بھی آئے، لیکن کبھی دل کی یہ کیفیت ہوتی تھی کہ اپنے سے اوپر صرف مالک حقیقی کو ہی دیکھنا پسند کرتا تھا۔ اسی خیال سے سروس جوائن ہی نہیں کرتا تھا۔

 

نومبر ١٩٩٢ء میں میری شادی ہوئی۔ اسی دور میں میں نے فارمسسٹ (Pharmacist) کا کورس کیا۔ اپریل ١٩٩٥ء میں میں نے باتھری گاؤں میں میڈیکل شاپ شروع کی، اس وقت اس علاقے میں ملی ٹینسی زوروں پر تھی۔ علاقہ اگرچہ کافی بڑا تھا، لیکن دکانیں صرف آٹھ دس تھیں، ان میں صرف میں ہی ہندو تھا۔ پورے علاقے میں پانچ فی صد ہی ہندو لوگ تھے۔ ٩٥ فیصد مسلمان پورے علاقے میں آباد تھے۔ میرے ارد گرد کے مسلمان دکان دار اذان سنتے ہی مسجد کی راہ لیتے تھے۔ میں اکیلا پورے بازار میں رہ جاتا تھا۔ کبھی فوج، کبھی STF کے جوان آ کر میری دکان کے باہر بینچوں پر بیٹھ جاتے تھے۔ ان کی زندگی بندروں کی سی لگتی تھی۔ جو ملا کھاتے، جو منہ آیا بکتے۔ جسے چاہے لوٹتے۔ جسے چاہا مارتے پیٹتے اور جسے چاہا ستاتے۔ نہ اپنا پتا نہ اپنے پیدا کرنے والے کا پتا۔ اپنی ماں بہن کو گالی۔ دوسرے کی ماں بہن کی ایسی کی تیسی بکتے پھرتے، البتہ میں جب ان سے پوچھتا کہ فلاں شخص کیوں خاموش ہے تو جواب ملتا کہ خود ہی اسے پوچھو۔ تعارف ہونے پر نام ہی سے پتا چل جاتا کہ مسلمان ہے۔ میں حیران رہ جاتا کہ جس مستی سے دوسرے لوگ آرمی میں رہ رہے ہیں، یہ آدمی اس موج مستی سے کیوں دور رہتا ہے؟ میری دکان کے ساتھ ہی نثار احمد ملک ٹی اسٹال کا کام تھا۔ میں نے جب ان سے لفظ مسلمان کے معنی و مطلب پوچھے تو انھوں نے بتایا کہ اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کرنے والے شخص کو مسلمان کہتے ہیں۔ میں مطمئن ہو گیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مسجد میں جا کر آپ چیخ چیخ کر اذان پڑھتے ہیں، اذان کا کیا مطلب ہے؟ ذرا مجھے سمجھائیے۔

 

نثار احمد ملک صاحب نے میرے کہنے سے نہ صرف نماز کے بارے میں تفصیل سے سمجھایا بلکہ اس کا پورا ترجمہ مجھے لکھوا دیا۔ نماز کے بارے میں جان کاری سے میرے دل کے اندر برہم سوتر کا مفہوم تازہ ہو گیا، کیونکہ نماز میں پڑھی جانے والی ایک سورت سورۂ اخلاص کا معنی و مفہوم بھی یہی تھا۔ مجھے برسوں سے اسی کی تلاش تھی، میں جب کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا تو وہاں توحید کے راز بھی ملتے تھے، لیکن سماج کے لوگوں کو اس کے بالکل برعکس دیکھ کر دم گھٹنے لگا تھا، لیکن آج تو میں بے حد خوش تھا کہ مجھے ایک نیا راز ہاتھ لگا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ مسلمان بھائیوں نے اس راز کو میرے آبا و اجداد سے چھپائے رکھا تھا۔ اب میں نے بھائی نثار احمد صاحب سے پوچھا: اسلام آپ کا مذہب ہے۔ سنا ہے اسے قبول کرنے کے لیے کچھ کلمے پڑھنے پڑتے ہیں۔ میرے ہندو بھائی ان کلمات کا نام لینا، پڑھنا اور سننا بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ میں بچپن میں اپنی برادری میں ایک علاقے میں بطور مہمان گیا تھا۔ وہاں شام کو ہم برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک گاؤں کی مسجد سے اذان کی آواز زور زور سے آنے لگی۔ میں نے میزبان سے استفسار کیا کہ یہ کون ہے، جو اتنے زور زرو سے چلا رہا ہے؟ میں اذان سے واقف نہیں تھا۔ خیر، میزبان نے فوراً کانوں میں انگلیاں دیتے ہوئے کہا: حاکم سنگھ! فوراً کان بند کرلو۔ ہمیں اس آواز کو نہیں سننا چاہیے۔ میں نے بھی کانوں میں انگلیاں ڈال لیں، تاکہ اگر یہ مصیبت ہے تو اس مصیبت سے میں بھی بچ جاؤں، لیکن دل میں سوال پیدا ہوا کہ یہ چلانے والے لوگ بھی تو انسان ہی ہیں، انھیں کچھ کیوں نہیں ہوتا؟ کیا ہمیں ہی اسے سن کر کوئی مصیبت آ سکتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ آج ١٩٩٦ء میں اس اذان سے ڈرنے کا بھی پردہ فاش ہو گیا۔ جب نثار احمد ملک صاحب نے اذان کا ترجمہ کر کے مجھے بتایا۔ میں نے ان چھ کلمات کے بارے میں بھی جاننا چاہا تو انھوں نے شوق سے چھ کلمے لکھوائے اور ان کا معنی و مطلب بھی اچھی طرح سمجھایا۔

 

ان کلمات کو سمجھنے کے بعد میرے دل کی گتھی سلجھنے لگی اور دل کی دنیا آباد ہونے لگی۔ میں نے بہت پہلے پُران میں پڑھا تھا کہ سلمال دویپ (جزیرے) میں ایک انتم (آخری) مہارشی کلکی اوتار وشنوویش کے گھر میں جنم لے گا۔ وہ پوری دنیائے انسانیت و دنیائے جنات کے اوتار ہوں گے۔ اونچ نیچ، گورے کالے کے بھید بھاؤ کو ختم کر دیں گے۔ ایک مہابر پھوکی عبادت کرنے کا پرچار (تبلیغ) کریں گے۔ انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار کی ماتا (ماں) کا نام سومتی ہو گا۔ کلکی اوتار اناروں اور کھجوروں والی جگہ میں پیدا ہو گا۔ انتم (آخری) مہارشی کلکی کی پیدائش عظیم ترین فرزند کے ہاں ہو گی۔ کلکی کی تعلیم کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ ایک پہاڑی میں پرسورام سے تعلیم حاصل کرے گا۔ انتم مہارشی کلکی شوا سے گھوڑا حاصل کرے گا۔ کلکی اپنے چار رفیقوں کے ہمراہ شیطان کو مات دے گا۔ انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار فرشتوں سے امداد حاصل کرے گا۔ کلکی خوب صورتی میں لاثانی ہو گا۔ انتم (آخری) مہارشی کلکی کا جسم معطر ہو گا۔ کلکی کی یوم پیدائش بارہ تاریخ کو ہو گی۔ انتم (آخری) مہارشی اچھا گھڑ سوار اور حامل تلوار ہو گا۔ اس کے والد اس کی پیدائش سے قبل اور والدہ اس کی پیدائش کے کچھ سمے (وقت) بعد اس جہان فانی کو خیر باد کہیں گے۔ جگت گرو (رہنمائے عالم) کے پاس ایک برق رفتار گھوڑا ہو گا، جس پر سوار ہو کر وہ زمین اور سات آسمانوں کی سیر کرے گا۔

 

پران تمام دنیا کوسات دویپوں (جزیروں) میں تقسیم کرتا ہے۔ عرب سلمال دویپ (جزیرے) میں واقع ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جگت گرو یا نراشنز یا انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار عرب میں پیدا ہو ں گے۔ وشنوویش (وشنو بھگت) وشنو کے معنی خدا (اللہ) کے ہیں، بھگت کے معنی اللہ کے بندے کے ہیں۔ اس طرح ایشور کی یاوشنو کی بھگتی (عبادت) کرنے والے کو وشنو بھگت (اللہ کا بندہ) کہتے ہیں اور یہی معنی عبد اللہ کے ہیں۔ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد کا نام نامی ہے۔ کلکی کی والدہ محترمہ کو سومتی کہا گیا ہے، جس کے لغوی معنی شانتی یا امن کے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ کا نام آمنہ ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اناروں اور کھجوروں والی جگہ میں پیدا ہوئے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بھی عرب کے عظیم فرزند عبد المطلب کے گھر میں ہوئی، جو خانۂ کعبہ کی دیکھ بھال کرنے والے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک پہاڑی پر ایک غار میں جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے تعلیم حاصل کی، یعنی ان پر وحی نازل ہوئی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ ذو الجلال سے براق حاصل کیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چار رفیقوں ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کی مدد سے بت پرستی کو مٹا کر شیطان کو مات دی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ بدر میں فرشتوں کی مدد حاصل رہی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خوب صورتی میں بے مثال تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم پاک بھی انتہائی معطر اور ان کا پسینہ خوش بو دار تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بھی ١٢ ربیع الاول کو ہوئی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اچھا گھڑ سوار ہونا ثابت ہے اور آپ اپنے ہمراہ تلوار رکھا کرتے تھے۔ یہ سب باتیں میرے ذہن و قلب میں پہلے سے نقش تھیں، جن کو میں نے بہت پہلے پڑھا تھا، اس لیے کلمۂ طیبہ ‘لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ’ میرے لیے سمجھنا مشکل نہ تھا، کیونکہ میں ایک برہما دویتیہ نست ناہی نہ نست کنچن کی مالا تو جپتا ہی تھا۔ مجھے صرف انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار ، جگت گرو (عالمی رہنما) نراشنز محمد کی تصدیق چاہیے تھی۔ جس کے میں انتظار میں تھا، وہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے پورے طور سے حاصل ہو گئی، اتنا ہی نہیں وہ میرے اندر ایک بہت بڑا انقلاب برپا کر گئی۔

 

قرآن مجید سمجھنے کے لیے میں نے قرآن مجید ہندی مترجم مع عربی متن ترجمہ مولوی فتح خان صاحب جالندھری، تصحیح مولوی عبد المجید سرور صاحب حاصل کیا۔ میں اب صبح و شام قرآن مجید کا مطالعہ سوچ سمجھ کر کرنے لگا۔ جب بھی قرآن مجید پڑھنے بیٹھتا تو مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ اس میں مجھ سے ہی ہدایت کی راہ پر آنے کو کہا جا رہا ہے اور عذاب کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ ہدایت کی راہ پر آنے کے بعد نیک عمل کرنے پر جن انعامات کی خوشخبری دی جا رہی ہے، وہ سب مجھے ہی بتائی جا رہی ہے۔ میرے دل نے میرے جسم کو کوسنا شروع کیا کہ یہ اللہ کی آخری کتاب اپنے آخری پیغمبر پر انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اتاری گئی ہے، جس کے ذریعے سے اخروی اور ابدی زندگی سنور سکتی ہے اور اللہ وحدہ لا شریک کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس پر عمل نہیں کیا گیا تو منافقوں کے ساتھ قیامت کے دن اٹھایا جاؤں گا۔ جو بھی خدائی علم حاصل ہوا ہے، فوراً اس پر عمل کرو اور دیر نہ کرو۔ اگر موت نے کسی وقت آ دبوچا تو وقت نکل چکا ہو گا۔ پھر اس پروردگار کے ہاں کیا جواب دے گا؟ کئی روز تک میں اسی غور و فکر میں لگا رہا۔ بت پرستی کی ہر قسم کا تو میں بچپن سے ہی منکر تھا، اب صرف مجھے اپنی رفیقۂ حیات کے قلب میں اس بات کو اتارنا تھا۔ بے چاری معصومہ کو نہ اپنے مذہب کا پتا تھا اور نہ کسی اور مذہب کا، اس لیے میں اسے ہر روز کچھ نہ کچھ دینی بات سنا دیتا تھا اور اسے یقین دلاتا تھا کہ یہ جو میں باتیں سناتا ہوں، یہ ٹائم پاس کرنے کے لیے راجے مہاراجاؤں کے قصے کہانیاں نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے، جس پر ہر انسان کو عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ اس مذہب کی پائے تکمیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ہمیں جس انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار، جگت گرو (عالمی رہنما) ، نراشنز وغیرہ کی آمد کا انتظار تھا، وہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور کلکی اوتار بالکل ہم معنی شخصیت ہیں، جو اس دنیا میں بمقام سلمال دویپ (عرب جزیرے) میں تشریف لائے اور اس دنیائے فانی سے تشریف بھی لے گئے ہیں۔ ہمیں اس کی خبر ہی نہیں تھی۔ ہم تک اس علم کو کسی نے پہنچایا ہی نہیں ہے، اب جب کہ ہم کو اس بات کا پتا چل چکا ہے تو ہمیں اسلام قبول کرنے میں پہل کرنی چاہیے اور پھر ان تمام اصحاب کو بھی آگاہ کرنا چاہیے، جو کلکی اوتار کے ظہور کے منتظر ہیں۔ ان ہی شب و روز کے درمیان میں نے ایک رات خواب دیکھا، جو اس طرح ہے:

 

میں ایک وسیع عالی شان محل میں کھڑا ہوں۔ محل بے حد خوب صورت ہے۔ فرش پر جب نظر ڈالتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان گنت ہیرے جواہرات، لعل، یاقوت، موتی اس قدر کثرت سے بکھرے پڑے ہیں کہ میرے پاؤں تلے جو جگہ ہے، صرف وہی پاؤں کے فرش پر رہنے کی وجہ سے خالی ہے۔ باقی محل کا پورا فرش بھرا پڑا ہے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ان چیزوں کو دیکھ کر یہ خیال بھی دل کو ڈرانے لگا کہ میں یہاں اچانک کیسے پہنچا! یہ کیا ماجرا ہے! جس کسی کا یہ محل ہے، اگر اس نے مجھے یہاں کھڑا دیکھا تو وہ میرے بارے میں کیا سوچے گا۔ میں یہاں کس راستے سے آیا ہوں! مجھے یہاں سے کس راستے سے باہر نکلنا ہے۔ اس محل کی یہ چمچماہٹ جو اس دنیا میں ہو ہی نہیں سکتی، تو پھر یہ کیسے اور کیوں ممکن ہے! میں اسی سوچ میں پریشان تھا کہ مجھے اچانک ایک سیڑھی جو مجھ سے کافی دوری پر تھی، دکھائی دیتی ہے۔ میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے، باہر نکلنے کے لیے یہی مناسب راستہ ہو، لیکن وہاں کیسے پہنچا جائے، کیونکہ پورے محل کا فرش ان چیزوں سے بھرا پڑا ہے۔ خیر ایک ترکیب ذہن میں آئی کہ نیچے جھک کر ان چیزوں کو آرام کے ساتھ ہٹایا جائے۔ صرف پاؤں رکھنے کے لیے جگہ بنائی جائے، اسی طرح آہستہ آہستہ اس سیڑھی تک پہنچ سکتا ہوں۔ میں نے ٹھیک ایسے ہی کیا، میں سیڑھی کے قریب پہنچا، اوپر والی چھت جہاں یہ سیڑھی جا رہی تھی، میں جانا چاہتا تھا، لیکن سیڑھی کے ہر زینے پر یہ چیزیں بے شمار رکھی ہوئی ہیں۔ سیڑھی کے دونوں کناروں پر پھولوں کے پودے ہیں۔ پھولوں سے روشنی کی کرنیں میرے اوپر پڑ رہی ہیں۔ میں اچنبھے میں پڑا ہوا ہوں کہ یہ کیا بات ہے! یہ کس کا اتنا بڑا عالی شان محل ہو سکتا ہے، جو اس قدر سجایا گیا ہے۔ خیر میں اسی ترکیب سے سیڑھیاں چڑھتا گیا۔ جس ترکیب سے میں پیچھے سے آیا تھا۔ کچھ دیر بعد جب میں اوپر والے محل میں پہنچا تو وہاں پر فرش پر سبز رنگ کی بہت بڑی قالین بچھی دیکھتا ہوں۔ ایک طرف سے یہ محل خالی پڑا ہوا ہے، تو دائیں طرف جب نظر ڈالتا ہوں تو باریش، سفید، لمبے کپڑوں میں ملبوس بہت سارے بزرگوں کو دیکھتا ہوں، جو شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے ہیں۔ مجھے ان کی اس بھنبھناہٹ کی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں ان کی طرف چل دیا۔ مجھے اپنی طرف آتا دیکھتے ہی وہ سب کے سب کھڑے ہو گئے۔ ان لوگوں اور ان کے امام صاحب کے دائیں طرف ایک عالی شان نشست تھی، جو تکیوں سے سجی ہوئی تھی۔ مصافحے کے بعد مجھے اس پر بیٹھنے کے لیے کہا گیا۔ میں اس عالی شان گدی پر ان کے کہنے پر بیٹھ گیا، پھر وہ سب لوگ بھی بیٹھ گئے۔ امام صاحب سے مصافحے کے وقت میرے دل کی کیا کیفیت ہوئی، یہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا ہوں۔ ان کی شکل و صورت کے دیدار سے دل پر کیا اثر پڑا، یہ بھی لفظوں میں بیان ناممکن ہے۔ گدی پر بیٹھنے سے جسم کو کیا محسوس ہوا، اس کے بھی بیان سے قاصر ہوں۔ اتنے میں آنکھ کھل گئی۔ جسم پسینے سے شرابور تھا۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اب اس منظر کو میں ہو بہو کئی بار اپنے دماغ کی آنکھوں سے دیواروں پر بھی دیکھنے لگا، اسی خیال میں اکثر کھو جانے لگا۔ چہرے پر داڑھی جو روزانہ میں تراشتا تھا، کافی دراز ہو گئی۔ اس کی طرف کئی مہینوں تک خیال بھی نہ آیا۔ دل ان ہی بزرگوں کی صحبت و نشست میں بیٹھنے کے لیے اداس ہونے لگا۔ ان سے مصافحہ کرنے کو دل اکثر تڑپنے لگا۔ یہ میرے دل کے اندر کی بات تھی، جسے میں نے اپنی رفیقۂ حیات سے بھی چھپائے رکھا تھا۔ وہ کئی بار اصرار کرتی کہ آپ کو کیا ہوا ہے؟ تباتے کیوں نہیں؟ چہرے کا کیا حال بنا رکھا ہے؟ حجامت کیوں نہیں کرتے ہو؟ میں خاموش مسکراتے ہوئے بات کو ٹال دیتا۔

 

اسی علاقے کے میرے ایک دوست جن کا نام محمد شریف بٹ ہے۔ یہ گاؤں بموں میں رہتے ہیں۔ میرے پاس اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دن وہ میری دکان میں تشریف لائے، جبکہ میں اس خواب کو اپنے دماغ کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ محمد شریف صاحب میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ خیر، انھوں نے کچھ صبر کرنے کے بعد مجھے جھنجھوڑا کہ بھائی حاکم سنگھ آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ آپ پہلے کی طرح نہیں رہے ہیں! میں کب سے یہاں بیٹھا ہوا ہوں۔ آپ تو دوسری طرف کہیں متوجہ ہیں! کیا بات ہے؟ آپ سہمے سہمے کیوں لگ رہے ہیں؟ فوج یا STF کے آدمی نے کہیں ڈرایا تو نہیں ہے یا کسی ملی ٹینٹ کی طرف سے خط تو نہیں آیا ہے۔ جو بھی بات ہے، آپ مجھے اپنے دل کی بات ضرور بتا دیجیے۔ میں نے انھیں جواب دیا کہ میرا فوج یا STF یا ملی ٹینسی سے کوئی دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔ میں آپ کو کیا بتاؤں! انھوں نے مجھے بہت مجبور کیا تو میں نے جو خواب دیکھا تھا، انھیں سنا دیا۔ محمد شریف صاحب نے مجھے تسلی دی کہ آپ خوش قسمت ہیں، جو آپ نے ایسا خواب دیکھا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر فضل و احسان ہے۔ میں اس کی تعبیر تو آپ کو نہیں بتا سکتا، البتہ مشورہ دے سکتا ہوں کہ ہمارے علاقے کے ایک مشہور بزرگ ہیں، جن کا نام جناب غلام قادر غنی پوری صاحب ہے، ان سے اس خواب کی تعبیر پوچھ سکتے ہیں۔ آپ آج ہی رات کو میرے گھر چلیں، رات کو وہاں میرے گھر میں ٹھہریں۔ صبح سویرے ہی ان سے ملاقات کر کے خواب کی تعبیر پوچھ لیں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ ہم یکم جنوری ١٩٩٧ء کی رات کو محمد شریف بٹ صاحب کے گھر ٹھہرے۔ صبح یعنی ٢ جنوری ١٩٩٧ء کی صبح کو جناب غلام قادری غنی پوری صاحب کے گھر کی طرف چل دیے۔ راستے میں محمد شریف صاحب نے کہا کہ ہم جب بھی کسی خانقاہ یا مدرسے میں جاتے ہیں تو باوضو ہو کر جاتے ہیں، کیونکہ وہاں قرآن پڑھا اور سنا سنا سنایا جاتا ہے۔ وہاں بزرگ بھی باوضو رہتے ہیں، اس لیے ہمیں بھی باوضو ہی ہو کر جانا چاہیے۔ یہ اپنے دل کا فتویٰ ہے۔ شرعی فتوا نہیں ہے۔ میں نے ان سے عرض کیا: ہم اچھی چیز کو ہی اپنائیں گے۔ وضو کر کے ہی جائیں گے۔ انھوں نے مجھے وضو کرنا سکھایا، بہرحال ہم باوضو ہو کر بزرگ کے گھر پہنچے۔ وہاں پر کافی لوگوں کی بھیڑ تھی۔ یکے بعد دیگرے سب فارغ ہوئے۔ ہمارا نمبر بھی آ گیا۔ تعارف کے بعد میں نے اپنا خواب انھیں سنایا اور اس کی تعبیر چاہی۔ بزرگ نے سب کچھ سن کر کچھ دیر خاموشی کے بعد قرآن کی کچھ آیات لکھ دیں اور صبح و شام ان کو پڑھنے اور ہر چالیس دن کے بعد ملاقات کرنے کے لیے کہا۔ میں اس سے زیادہ ان سے اور کچھ نہیں پوچھ سکا۔ میں اس فیصلے پر پہنچا کہ میرے اس خواب کی تعبیر یہی قرآن کی آیات ہیں، جن کا مجھے ورد کرنا ہے۔ ہم وہاں سے واپس لوٹ آئے۔ راستے میں میں نے شریف صاحب سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ مجھے ذرا ہندی میں لکھوائیے، میں عربی نہیں جانتا ہوں۔ انھوں نے مجھے ترتیب سے وہ سب کچھ لکھوایا، جو بزرگ نے لکھ کر دیا تھا۔ جب اس کا میں نے ترجمہ پڑھا تو اس کا مضمون اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر مشتمل تھا۔ بس، پھر کیا تھا، مجھے خواب کے ذریعے سے اپنی منزل آپ مل گئی تھی، جس کی تلاش میں میں برسوں سے بے تاب تھا۔ آج میرا وہ خواب پورا ہو چکا تھا۔ اب مجھے اسے ظاہر ہی کرنا تھا۔ میں وقتاً فوقتاً بزرگ کے پاس حاضری دیتا رہا۔ وہاں مجھے توحید کا درس بھی ملتا رہا، روح کی اصلاح بھی ہوتی گئی۔ ٢٥ اپریل ١٩٩٧ء کو جناب غلام قادر غنی پوری صاحب نے میرا نام ارشاد احمد رکھا۔ اب میری زندگی کی دنیا بدل گئی۔ اب میں مستند اسلامی لٹریچر خرید کر پڑھنے لگا۔ جوں جوں مطالعہ کرتا گیا، میرے ایمان کی کیفیت بڑھتی گئی۔ کچھ مہینوں کے بعد میں نے چھپ کر مسلم بنے رہنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس لیے بزرگ سے ملاقات کرنے کے بعد عرض کیا۔ مجھے کورٹ جا کر اپنے اسلام قبول کرنے کی قانونی کارروائی کروانی چاہیے، کیونکہ میرے چہرے پر اب لمبی داڑھی ہو چکی تھی، لباس بھی اپنے آپ بدل گیا تھا۔ شناختی کارڈ پر جو فوٹو اور نام تھا، اب میری شکل اس سے نہیں ملتی تھی۔ ماں باپ، بھائی بہن وغیرہ کو بھی اپنے اس فیصلے سے آگاہ کرنا تھا۔ بس اسی غرض سے ایک دن میں اپنے گھر آیا۔ والد اور والدہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میں پانچ چھے مہینوں کے بعد گھر آیا ہوا تھا۔ چہرے پر داڑھی دیکھ کر ماں نے کہا: بیٹا، وہاں کیا حجامت بنانے کی بھی فرصت نہیں ہے؟ آپ پہلے کھانا وغیرہ کھا لیجیے اور پھر حجامت کر کے نہا لیجیے اور ذرا آرام کیجیے۔ میں نے کھانا وغیرہ کھایا۔ حجامت والی بات کو باتوں باتوں میں ٹال دیا۔ آرام کرنے کے بجائے ماں کے سامنے رسوئی میں بیٹھ کر ہاتھ میں تسبیح لیے اول کلمہ پڑھتا رہا۔ ماں نے پوچھا: یہ کیا پڑھ رہے ہو؟ ان کے لیے یہ کوئی نئی بات تو تھی نہیں، کیونکہ میں بچپن سے اسی مزاج کا تھ۔ یوں بھی کبھی کبھی ان کے سامنے ایسے ہی برہم سوتر کی مالا جپا کرتا تھا۔ میں نے جواب دیا: میں پہلے ایک کم برہما دوتیے نستے ناہے نانستے کنچن کی مالا چپتا تھا، اب میں ‘لا الہ الا اللہ’ کی تسبیح کر رہا ہوں۔ ماں کے پوچھنے پر میں نے کہا: انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار، نراشنز ، جگت گرو (عالمی رہنما) جو عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے تشریف لائے تھے۔ اور اس دنیائے فانی کو خیر باد کہہ کر تشریف لے بھی گئے ہیں، ہمیں ان کا پتا ہی نہیں تھا۔ مجھے کچھ مہینے پہلے ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ ا ب میں انھیں دنیائے فانی کا آخری نبی مانتا ہوں۔ ان کے لائے ہوئے دھرم (مذہب) کو مان چکا ہوں۔ جو جو تعلیمات انھوں نے نسل انسانی کو دی ہیں، انھیں تسلیم کرتا ہوں کہ اپنی طرف سے انھوں نے ایک بات بھی نہیں کہی ہے۔ سب کی سب ایشور (اللہ) کے حکم سے فرمائی ہیں، اس لیے آپ بھی ان پر ایمان لے آئیے۔ دوسروں کو بھی ان پر ایمان لانے کو کہیے اور اس پرانے دادا پردادا کے دین کو خیر باد کہیے، کیونکہ ان کے ظہور کے بعد پرانے جتنے بھی ادیان ہیں، وہ منسوخ ہو چکے ہیں۔ اب جو بھی ان پر عمل کرے گا، وہ آخرت میں ناکام ہو گا۔ اور جو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو گا، وہ آخرت میں کامیاب اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرے گا۔، یہی وہ کلکی اوتار ہیں، جگت گرو (عالمی رہنما) ہیں، نراشنز ہیں، جن کا برسوں سے بڑے گیانیوں (عالموں) اور پروہتوں (مذہبی امور انجام دینے والوں) کو انتظار ہے۔ ماں نے جواب دیا: اچھا! آپ کا دل جس راہ میں خوش رہتا ہو، قبول کریں۔ آپ سے تو ہماری کچھ پیش نہیں چلتی ہے۔ آب جس طریقے سے بھی اس اوپر والے کی عبادت کرنا چاہتے ہیں، کریں۔ میں نے ماں سے پوچھا : مجھے نماز پڑھنی ہے۔ یہاں رسوئی میں پڑھ سکتا ہوں؟ ماں نے بخوشی اجازت دے دی۔ میں نے ماں سے کوئی صاف چادر لانے کو کہا۔ ماں نے صندوق میں سے اپنے سر کی نئی چادر نکال کر مجھے نماز پڑھنے کے لیے دے دی۔ میں نے نماز عصر، مغرب اور عشا اسی چادر پر پڑھی۔ شام کو سب گھر والوں سے اس بارے میں تفصیل سے بات ہوئی۔ میں نے انھیں آگاہ کیا کہ اسلام قبول کرنے کے لیے بعد میرے رہنے سہنے، کھانے پینے، عبادت کے طور طریقے آپ سے الگ ہوں گے، اس لیے آپ سب میرے ساتھ اسلام قبول کر لیجیے۔ سب نے انکار کیا کہ ہم اپنے دادا پردادا کے دین سے نہیں پھر سکتے ہیں۔ آپ اپنی زندگی کو جس طرح سے گزارنا چاہتے ہیں، گزاریے۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ صرف ایک بات یاد رکھنا کہ ماں باپ کو کبھی بھی نہیں بھولنا۔ میں نے انھیں جواب دیا کہ اسلام تو مجھے آپ کی سیوا (خدمت) کرنے کا حکم دیتا ہے۔ آپ اسلام میں داخل ہوں یا نہ ہوں۔ میری پوری کوشش ہو گی کہ میں اسلام کے حکم سے آپ ہی کا بیٹا رہوں گا۔ آپ کا سیوک (خادم) اور آپ کے سکھ دکھ کا پورا خیال رکھا کروں گا۔

 

٢٧ ستمبر ١٩٩٨ء کو میں ماسٹر بشیر احمد صاحب گاؤں گڑمالو والے کو ساتھ لے کر بھدرداہ سیشن کورٹ روانہ ہوا۔ رات کو ہم دونوں بھدردا میں مولوی حفظ الرحمن صاحب کے مدرسے میں ٹھہرے۔ مولوی صاحب بھی بہت خوش ہوئے۔ صبح ٢٨ ستمبر ١٩٩٨ء کو میں ماسٹر بشیر احمد صاحب اور مولوی حفظ الرحمن صاحب کے ہمراہ تقریباً ١١ بجے کورٹ میں پہنچا۔ مولوی صاحب کی جان پہچان کورٹ کے جج صاحب سے اچھی تھی، اس لیے مولوی صاحب نے چپراسی کے ذریعے ایک چھوٹے سے کاغذ کے ٹکڑے پر ملنے کا سندیش (پیغام) بھیجا۔ جج صاحب نے فوراً اندر سے چپراسی کو بھیجا کہ انھیں اندر آنے دیا جائے۔ ہم تینوں جج صاحب کے پاس گئے۔ انھوں نے ہمیں گیسٹ روم میں بٹھایا اور تھوڑی دیر کے بعد خود بھی تشریف لائے۔ تعارف کے بعد میں نے اپنے آنے کی غرض بیان کی۔ جج صاحب نے تفصیل جاننا چاہی تو میں نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ انھیں اپنے بچپن سے لے کر آج تک کے روحانی سفر کا حال سنایا۔ میری روداد سن کر جج صاحب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ انھوں نے تبدیلی مذہب کے متعلق سب کاغذات جلد مکمل کر دیے۔ جج صاحب نے کافی دیر تک مجھے گلے سے لگائے رکھا اور میری پیشانی پر بوسے دیتے رہے۔ میں جج صاحب کا یہ ہمدردی بھرا کردار دیکھ کر بہت ہی متاثر ہوا۔ ان جج صاحب کا نام ضیاء الاسلام سہروردی صاحب ہے۔ بڑے نیک سیرت و نیک صورت انسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین!

 

میں ١٤ مارچ ١٩٩٩ء کی شام والی گاڑی سے باتھری سے ڈوڈہ سٹی کے لیے اہلیہ اور بچوں کے کپڑے لے کر روانہ ہوا۔ March Closing کا بھی مہینا تھا، اس لیے کافی سارے پیسے بھی میرے پاس تھے۔ بس دیر سے ٹھاٹھری اسٹیشن پر پہنچی۔ اس اسٹیشن سے STF کے دس بارہ جوان اپنے آفیسر سمیت بس میں سوار ہوئے۔ کچھ دور جانے کے بعد انھوں نے گاڑی کو روکا اور سبھی STF کے جوان نیچے اتر گئے۔ مجھے بھی گاڑی سے نیچے اترنے کو کہا۔ میں ان کی اس بات کو نہیں سمجھ پایا۔ خیر میں نے سوچا کہ میرے لباس کی وجہ سے شاید ان کو کچھ شک ہوا ہے، تلاشی کے بعد مجھے چھوڑ دیں گے۔ یہ سوچ کر میں گاڑی سے نیچے اترا، لیکن انھوں نے کہا کہ اپنا پورا سامان بھی نیچے اتارو۔ میں نے سامان نیچے اتارا۔ میں نے ان سے اپنی اور اپنے سامان کی تلاشی لینے کو کہا، لیکن انھوں نے تلاشی نہیں لی، بلکہ ڈرائیور کو زبردستی بس آگے سفر پر لے جانے کا حکم دیا۔ مجھ سے زبردستی سامان اٹھوا کر اپنے ساتھ رات کو فکسو پوسٹ پر لے گئے۔ ان کا انچارج آفیسر سمپال نام کا تھا۔ جاتے ہی پوسٹ کے اندر ایک کمرے میں کپڑے اتروائے گئے۔ پاجامہ بھی نکلوایا گیا۔ میرے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف پیٹھ پر خوب کس کر باندھ دیے گئے۔ یہ سب اس آفیسر نے خود اپنے سامنے پونچھ علاقے کے کچھ سپاہیوں سے کروایا۔ ساتھ ہی وہ انتہائی گندی گندی گالیاں بکتا جا رہا تھا۔ مجھ سے اب پوچھ گچھ شروع ہوئی کہ آپ کتنے ملی ٹینٹوں کو جانتے ہیں؟ کس کس کے ساتھ آپ کا تعلق ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میں نہ کسی ملی ٹینٹ کو جانتا ہوں اور نہ کسی سے میرا کوئی تعلق ہے۔ اس پر وہ مجھے اتنا مارتے پیٹتے کہ میں درد سے چلا اٹھتا۔ میری سانس رک جاتی۔ میں ان کے بار بار پوچھنے پر یہی کہتا رہا کہ میں صرف ایک اللہ کو اور اس کے آخری رسول کو ہی جان سکا ہوں۔ اس کے علاوہ میرا کسی سے کوئی واسطہ ہے نہ تعلق۔ اس بیان پر انسپکٹر سمپال نے دو آدمیوں کو میرے اوپر مسلط کر دیا، ان میں سے ایک آدمی مسلسل کافی دیر تک میری دائیں ٹانگ پکڑ کر کھینچتا رہا تو دوسرا بائیں ٹانگ بے دردی سے زور سے کھینچتا رہا۔ جس سے میری کمر کے نیچے والے سارے جوڑ کڑکڑا اٹھے۔ میں جب تکلیف سے چلاتا، انسپکٹر سمپال میرے منہ میں ٹاٹ بھر دیتا، تاکہ کوئی میری آواز باہر نہ سننے پائے۔ اور دو آدمی میرے دونوں پاؤں کے تلووں پر زور زور سے ڈنڈے برساتے۔ جب انسپکٹر سمپال میرے منہ میں ٹاٹ بھرتا تو کہتا: یہ لے مسلمان کی جنت کے میوے کھا۔ اس کی اس بات سے مجھے معلوم ہوا کہ مجھے یہ سزا اسلام قبول کرنے پر دی جا رہی ہے۔ اسی طرح سے دو گھنٹے تک ان لوگوں نے مجھ پر جو ظلم کیا، اس میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ یہاں تک کہ میں بے ہوش ہو گیا۔ میری بے ہوشی میں بھی وہ مجھے مارتے پیٹتے رہے۔ اچانک جس کمرے کو بند کر کے وہ مجھے پیٹ رہے تھے، اس کے دروازے کو کسی نے زور زور سے کھٹکھٹایا۔ انھوں نے مجھے چھوڑ کر جلدی سے دروازہ کھول دیا، پھر وہ آپس میں کانا پھوسی کرنے لگے اور کچھ نچلی منزل کی طرف دوڑ پڑے۔ انھوں نے مجھے کچھ وقفے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔ خیر کچھ دیر کے بعد وہ انسپکٹر واپس کمرے میں آیا اور میرے دونوں ہاتھ کھول دیے، پھر وہ مجھ سے نرم نرم باتیں کرنے لگا اور پوچھنے لگا کہ کیا تو جادو جانتا ہے؟ بول تو نے کیا کیا سیکھا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ میں جادو وادو کچھ نہیں جانتا ہوں، اور نہ اس بارے میں مجھے کچھ علم ہے۔ بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں جانتا ہوں۔ یہ سن کر وہ آگے کچھ نہیں بول پایا۔ اس نے مجھے اٹھنے کے لیے کہا۔ میں اٹھ نہیں سکتا تھا، دو آدمیوں نے مجھے پکڑ کر اٹھایا اور مجھے اسی کمرے میں سہارا دے کر چلانے لگے، پھر اس انسپکٹر نے حکم دیا کہ اس کو نیچے والے کمرے میں لے جایا جائے،جہاں ان کے کچھ اور آدمی بھی رہتے تھے۔ مجھے وہاں لے جایا گیا۔ وہاں میرے پاس کوئی دودھ کا گلاس لے کر آتا، کوئی پانی کا گلاس ، کوئی کھانے سے بھری پلیٹ لے کر آتا۔ مجھے کیا کھانا پینا تھا۔ میں تو اندر سے چور چور تھا، آخر کار وہ سب سو گئے اور کچھ ادھر ادھر چلے گئے۔ میرے سامنے ان کا ایک آدمی مجھے دیکھ کر سسکیاں لے کر رو رہا تھا۔ میں نے اس سے اس کے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا: دراصل انھوں نے آج آپ کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اللہ نے انھیں ناکام کر دیا۔ میں نے اس سے پوچھا: وہ کیسے اور کیوں میری زندگی کو ختم کرنا چاہتے تھے؟ اس نے کہا کہ آپ کو چھوڑنے کی وجہ میں بیان کر سکتا ہوں، لیکن زندگی کو کیوں ختم کرنا چاہتے تھے، یہ مجھے معلوم نہیں۔ جب آپ کو انھوں نے دو گھنٹے تک بری طرح مارا پیٹا، آپ کی چیخیں کمرے کو ہلا رہی تھیں کہ اچانک اس کمرے میں ایک آگ کا گولا نمودار ہوا۔ وہ پھٹ گیا، ہم یہاں تین چار ہی آدمی تھے، باقی سبھی آپ کو مار پیٹ رہے تھے۔ جب وہ آگ کا گولا پھٹا تو چاروں طرف آگ ہی آگ ہو گئی، ہم ڈر گئے۔ ہمارے پاس جتنا پانی تھا، آگ بجھانے کے لیے آگ پر پھینکا، لیکن ایک عجیب بات ہوئی کہ ہم سب دنگ رہ گئے کہ پانی نے جیسے مٹی کے تیل کی طرح آگ پکڑ لی۔ آگ اور زیادہ پھیل گئی۔ ہم سب اوپر والی منزل میں دوڑ کر گئے، جہاں دوسرے آپ کو مار پیٹ رہے تھے۔ ہم نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا اور سمپال صاحب کو سب معاملہ سنایا۔ یہ نفری سمیت وہاں آیا۔ بڑی مشکل سے سب نے مل جل کر آگ بجھائی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد انھوں نے آپ کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ بلکہ آپ سے ہمدردی جتا رہے ہیں۔ میں خود یہ بات سن کر حیران رہ لیا اور اللہ کے حضور سجدۂ شکر میں گر پڑا۔ یہی میرا اللہ ہے جو ناممکن کو ممکن کر دکھاتا ہے۔ ہزاروں بار بھی اگر اس کی راہ میں قربان ہو جاؤں تب بھی اس کا شکر نہیں ادا کر سکتا ہوں۔ اس کا مجھ جیسے ناچیز پر بے پناہ فضل و احسان ہے۔ دوسری صبح مجھے ڈوڈہ JIC میں لا کر بند کر دیا گیا۔ یہاں پر ان دنوں کھجوریہ نام کا JIC انچارج ہوا کرتا تھا۔ بہت ظالم آدمی تھا۔ اسے بھی اس سمپال انسپکٹر نے جاتے جاتے میرے سامنے بتا دیا تھا کہ یہ آدمی جادو جانتا ہے۔ اس کا خیال رکھنا۔

 

اس رات کومیں JIC ڈوڈہ میں نظر بند رہا۔ کجھوریہ نے بھی کافی بدتمیزی کی۔ دوسرے دن میرا فرضی بیان اس نے خود ہی اپنی مرضی سے لکھا اور جامہ تلاشی کی رپورٹ بھی بنائی اور میرے ریمانڈ آرڈر کے لیے جج صاحب کے پاس پیشی کا منصوبہ بنایا۔ میرے جسم کے دائیں طرف کے حصے کو کچھ ہو گیا تھا۔ دایاں ہاتھ ٹیڑھا میڑھا ہو گیا تھا، اس لیے برائے نام انھوں نے مجھے ڈاکٹر کو بھی دکھانا تھا، چنانچہ مجھے ہتھ کڑی لگا کر چار پانچ سپاہیوں سمیت ڈسٹرکٹ ہاسپٹل ڈوڈہ میں تشخیص کے لیے لایا گیا۔ ایمرجنسی میں کوئی ڈاکٹر صاحب تھے، جنھیں میں نہیں جانتا تھا۔ ڈاکٹر نے پولیس انچارج کو ڈانٹا کہ اس کا کیا چیک اپ کرنا ہے۔ اس کو تو بہت زیادہ توڑ پھوڑ دیا گیا ہے، اس لیے اسے جلد از جلد ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرو۔ یہ سن کر بھی پولیس انچارج کو رحم نہیں آیا اور بروفین کی تین چار ٹکیاں ہاسپٹل کے اندر کی دکان سے لیں اور جج صاحب کے پاس ریمانڈ کے لیے پیش کیا گیا۔ جج صاحب جموں سائڈ کے تھے اور جے آئی سی انچارج کھجوریہ بھی جموں کی طرف کا تھا۔ کھجوریہ جج صاحب کی کرسی کے پاس ہی جا بیٹھا تھا۔ جج صاحب میری فائل جو کھجوریہ نے تیار کی تھی، غور سے پڑھ رہے تھے۔ پوری فائل دیکھنے کے بعد انھوں نے کھجوریہ سے کہا: اس فائل میں جامہ تلاشی رپورٹ نہیں ہے۔ وہ کہاں ہے؟ کھجوریہ یہ بار بار ان سے کہا: جناب! اسی میں ہے، وہ پھر دیکھتے اور پھر پوچھتے، اس میں جامہ تلاشی رپورٹ کہاں ہے؟ کھجوریہ پھر کہتا: جناب! اسی میں ہے۔ اس پر جج صاحب کو کچھ شک ہوا۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر پوچھا: بیٹے! بولو یہاں کیسے پہنچے ہو؟ میں زیادہ تو کچھ بول نہیں سکتا تھا، لیکن میں نے اپنا دایاں ہاتھ جو بالکل ٹیڑھا میڑھا ہو گیا تھا، مشکل سے اوپر اٹھا کر انھیں دکھایا۔ اور عرض کیا کہ انھوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے، جن کو حکومت نے لوگوں کی رکھوالی کے لیے گاؤں گاؤں میں تعینات رکھا ہے۔ جج صاحب میرے حال کو دیکھتے ہی کھجوریہ پر انتہائی غصے میں آ کر برس پڑے اور پولیس کو ہی حراست میں بند کرنے کی دھمکی دی کہ آپ لوگوں نے یہ غیر قانونی کام کیسے کیا ہے؟ میں تم سب کو گرفتار کرواؤں گا۔ اسے فوراً ہسپتال میں داخل کراؤ۔ اس طرح سے میں ایک مہینے کچھ دن ڈسٹرکٹ ہاسپٹل ڈوڈہ میں زیر علاج رہا۔ پانچ دس دن تک پولیس کے آدمی بھی میرے ساتھ دن رات ہسپتال میں رہے، لیکن اس کے بعد اچانک و ہ سب رفو چکر ہو گئے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس کے بعد جناب غلام قادر غنی پوری صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ خاص ڈوڈہ شہر میں ہی اپنا کاروبار کرو۔ یہاں ہمارے علاقے کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، چنانچہ ڈوڈہ میں میں نے دکان کرایے پر لے کر کاروبار شروع کیا۔ الحمد للہ ڈوڈہ کے معزز مسلمانوں نے مجھ سے بھر پور تعاون کیا اور ان کی ہمدردی و خلوص میرے شامل حال رہا۔ میں ان تمام حضرات کا بے انتہا مشکور ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین!

 

الحمد للہ ١٩٩٩ء سے آج تک میں نے یہاں ڈوڈہ میں اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ کئی غیر مسلم بھائیوں تک دین کی دعوت پہنچائی ہے۔ ان میں متعدد نے قبولیت اسلام کے بعد اپنے نام بھی بدل لیے ہیں اور کئی اپنے نام بدلنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ میں ان سے اکثر عرض کرتا ہوں کہ مذہب اسلام رنگ ونسل، قبیلے اور علاقائیت سے ماورا مذہب ہے۔ جو ایک منفرد فضیلت کا حامل ہے۔ اسی لیے جب کوئی فرد اسلام قبول کرتا ہے اور مذہب اسلام کو قریب سے دیکھتا ہے تو وہ روحانی طور پر ایک گونہ سکون و اطمینان و انبساط کی کیفیت محسوس کرتا ہے، اگرچہ اپنے آبا و اجداد کے مذہب کو چھوڑنا ایک بڑا کٹھن مرحلہ اور مشکل فیصلہ ہے، لیکن اسلام کی آفاقی تعلیمات اوراس کی وسعت نظری انسان کو اس انتخاب میں مدد دیتی ہے۔

 

میں اپنے دینی بھائیوں سے یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ آپس کے مسلکی اختلافات کو اپنے درمیان سے دور کریں۔ اپنے ایمان کی نعمت کو پہچانیں، کیونکہ ایمان کی ایک دن کی زندگی بغیر ایمان والی سیکڑوں زندگیوں سے بہتر اور افضل ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام سرانجام دینے کی اپنی امت کو تلقین کی ہے، ان کے امتی ہونے کی حیثیت سے سارے انسانوں کو اس دین کی روشنی کی طرف دعوت دیں، اور منسوخ شدہ ادیان کے اندھیروں سے بھی دنیائے انسانی کو واقف کرائیں۔ خود کو ایک باعمل مسلمان بنائیں اور قرآن اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کریں۔

 

٭٭٭

 

 

 

آمنہ تھامس (کیرالا)

 

انّامّا تھامس

 

 

 

میں Annamm Thomas جنوبی بھارت کے ایک پروٹسٹنٹ (پنٹا کوسٹل) عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی۔ میرا باپ شروع میں ایک رومن کیتھولک عیسائی تھا۔ بائبل کی تعلیمات کی روشنی میں انھوں نے رومن کیتھولک عقائد کا جائزہ لیا اور محسوس کیا کہ رومن کیتھولک نہ صرف مورتیوں کی پرستش کرتے ہیں، بلکہ اپنے بزرگوں (مقدس ہستیوں مثلاً پادری اور بشپ وغیرہ) کو مشکل کشا سمجھ کر ان سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ بائبل کی تعلیمات رومن کیتھولک عقائد کی نفی کرتی تھیں، اس لیے وہ پروٹسٹنٹ بن گئے۔ بالآخر وہ ایک مقامی چرچ میں فل ٹائم مسیحی مبلغ مقرر کر دیے گئے۔

 

میں خود بھی ایک متحرک اور خدا پرست عیسائی تھی، لیکن اب میں بہت خوش ہوں کہ میں ایک مسلمہ ہوں۔ اتفاق سے مسلمان نہیں بنی، بلکہ خوب سوچ سمجھ کر میں نے اسلام کا انتخاب کیا ہے۔ رب کائنات جس نے صحیح راستے یعنی اسلام کی طرف رہنمائی کی، اس کا میں جس قدر بھی شکر ادا کروں، کم ہے۔ میرا قبول اسلام مختلف مذاہب کے تقابلی مطالعے کا نتیجہ ہے۔ تقابلی مطالعے نے میرے ذہن کو قائل کیا کہ اسلام ہی ایک سچا مذہب اور اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے۔ تقابلی مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچی کہ رب کائنات اور رب واحد ”اللہ تعالیٰ” پر ایمان رکھنے کا تقاضا ہے کہ میں اسلام قبول کر کے مسلمان بن جاؤں، اگرچہ مجھے اس کے لیے سماجی زندگی میں کتنے ہی مسائل کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔

 

میں ایک سرگرم عیسائی مبلغہ اور ہیلتھ کیئر کرسچین فیلو شپ کی ممبر تھی۔ یہ تنظیم میڈیکل فیلڈ سٹاف کے ان افراد پر مشتمل تھی، جنھوں نے اپنی زندگی عیسائیت کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کی زندگی کا مقصد غیر عیسائیوں میں عیسائی تعلیمات پھیلانا اور انھیں عیسائی بنانا تھا۔ بطور عیسائی میں سوچتی تھی کہ یسوع کی رضا حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عیسائیت کی تبلیغ کو میں اپنے لیے فرض عین سمجھوں، لیکن بچپن ہی سے میرے ذہن میں عیسائی عقائد بالخصوص ”عقیدۂ تثلیث، یسوع کی موت اور ان کا دوبارہ زندہ ہونا” کے بارے میں کئی سوال تھے۔ بطور عیسائی مجھ سے توقع کی جاتی تھی کہ عیسائی پادریوں نے مجھے جو کچھ پڑھایا ہے، بالخصوص ”عہد نامۂ جدید” کی تعلیمات پر میں اندھا ایمان رکھوں۔ بذات خود بائبل نے مجھے شک میں مبتلا کر دیا کہ آیا یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بھی کہ نہیں، کیونکہ اس کی تعلیمات ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ ”عہد نامۂ جدید” کی تعلیمات ”عہد نامۂ قدیم” کی تعلیمات کی متضاد ہیں۔ سینٹ پال کی تعلیمات، عیسائیت آج جن کی پیروکار ہے، وہ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام دونوں کی تعلیمات کی متضاد ہیں۔

 

اللہ کا سچا کلام کون سا ہے، ”عہد نامۂ جدید ” یا ”عہد نامۂ قدیم”؟ اس بارے میں میں ابہام کا شکار تھی۔ اگر دونوں اللہ کے سچے کلام ہیں تو پھر عیسائی ”عہد نامۂ قدیم ” کے قوانین اور قواعد و ضوابط کی پابندی کیوں نہیں کرتے، حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام خود ”عہد نامۂ قدیم” کی تعلیمات کے پابند تھے۔ عقیدۂ تثلیث کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام ”ایک خدا میں تین” میں ایک ہیں۔ اگر وہ واقعی ”ایک خدا میں تین” میں ایک ہیں تو پھر انھیں تمام دنیا کے گناہوں کی خاطر صلیب پر کیوں مرنا پڑا؟ اگر عیسیٰ علیہ السلام ”ایک خدا میں تین” میں ایک ہیں تو پھر کسے خوش کرنے کے لیے انھوں نے صلیب پر مرنا پسند کیا؟ اگر عقیدۂ تثلیث عیسائیت کا اہم اور بنیادی ستون ہے تو پھر شروع کے عیسائیوں (٣٢٥ ء سے قبل) نے اسے اپنے ایمان کا حصہ کیوں نہ بنایا؟ سینٹ پال جسے عیسائیوں کا حقیقی اور سچا بانی تصور کیا جاتا ہے، وہ بھی سچے خدا کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ جب ٣١٨ء میں عقیدۂ تثلیث پر کلیسائی عہدے داروں میں تنازع بہت زیادہ بڑھ گیا، تو اسکندریہ سے پادری آریوس (Arivus) بشپ الیگزینڈر اور شہنشاہ کانسٹنٹائن جھگڑے میں کود پڑے۔ جب تنازع کے حل کے لیے مذاکرات ناکام ہو گئے تو شہنشاہ کانسٹنٹائن نے چرچ کی تاریخ میں پہلی رومن کیتھولک کلیسائی کونسل (Ecumenical Council) کا اجلاس طلب کیا، تاکہ وہ اس مسئلے کو حل کرے۔ ٣٢٥ء میں ٣٠٠ بشپ Nicea میں اکٹھے ہوئے اور تثلیث ڈاکٹرائن پر بحث کی۔ عیسائیوں کے خدا کی تین ماہیتیں اور نوع سامنے آئے یعنی باپ ، بیٹا اور روح القدس۔

 

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی، مگر اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے کا خون نہ بہانے دیا تو پھر اس (اللہ تعالیٰ) نے اپنے بیٹے (عقیدۂ تثلیث کے مطابق عیسیٰ اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں) کو اپنی خوشی کے لیے خون کیوں بہانے دیا؟

 

ہم آدم و حوا کے بچے ہیں۔ انھوں نے ایک گناہ کیا اور عیسائی عقیدے کے مطابق ہر انسان پیدایشی گناہ گار ہے۔ جہاں تک بائبل کا تعلق ہے، وہ اس عقیدے کی تصدیق نہیں کرتی کہ ”کرے کوئی بھرے کوئی”، مثلاً کتاب یرمیاہ کے باب ٣١ کی آیت نمبر ٢٩۔٣٠ میں ہے: ”پھر یوں نہ کہیں گے کہ باپ دادا نے کچے انگور کھائے اور اولاد کے دانت کھٹے ہو گئے۔ کیونکہ ہر ایک اپنی بدکرداری کے سبب سے مرے گا۔ ہر ایک جو کچے انگور کھاتا ہے، اس کے دانت کھٹے ہوں گے۔”بائبل کی کتاب احبار کے باب ٢٤ کی آیت نمبر ١٥ میں ہے: ”اور تو بنی اسرائیل سے کہہ دے کہ جو کوئی اپنے خدا پر لعنت کرے گا، اس کا گناہ اسی کے سر لگے گا۔ ” کتاب حزقی ایل کے باب ١٨ کی آیت ٢٠ میں ہے: ”جو جان گناہ کرتی ہے، وہی مرے گی۔ بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔ صادق کی صداقت اسی کے لیے ہو گی اور شریر کی شرارت شریر کے لیے۔”

 

اگر یسوع مسیح ”ایک خدا میں تین” میں ایک ہیں تو پھر وہ صلیب پر کیوں چلائے: ‘الوہی، الوہی لما شبقتنی؟’ جس کا ترجمہ ہے: ”اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟” (مرقس ١٥: ٣٤)

 

کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ مذکورہ بالا الفاظ کسی خدا کی زبان سے نکلے ہیں؟ یہ تو کرب و اذیت میں مبتلا ایک بے بس اور لاچار آدمی کی پکار ہے۔ جس میں وہ اپنے خالق اور آقا سے مخاطب ہے۔

 

الحمد للہ، اب میں خوش اور مطمئن ہوں۔ میں اعتماد سے کہہ سکتی ہوں کہ ”قرآن مجید” نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہر اس سوال کا تسلی بخش جواب دے دیا ، جو میرے ذہن میں تھا۔ قرآن مجید تو خود ایک معجزہ ہے۔ یہ ایک بے نظیر و بے مثال اور منفرد کتاب ہے۔ اس کی یہ انفرادیت شکوک و شبہات سے بالا ہے کہ یہ کوئی انسانی تخلیق نہیں ہے۔ یہ تو کسی سپر ہستی کی تخلیق کردہ ہے۔ اس کتاب میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کسی فرد کا کوئی ذاتی مسئلہ ہو یا سیاسی یا معاشرتی مسئلہ، قرآن مجید سب کا حل پیش کرتا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ حیرت انگیز اور تحسین آفریں خصوصیت یہ ہے کہ ١٤٠٠ سال سے زیادہ عرصے سے اس میں کسی حرف تو کجا اعراب تک کی کمی بیشی نہیں ہوئی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ قیامت تک اس میں کوئی تحریف نہیں ہو سکتی اور وہ خود اس کا محافظ ہے: ”اس ذکر (قرآن) کو ہم نے ہی نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کے نگہبان ہیں۔” (الحجر ١٥: ٩) ”یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے۔ جو ایک محفوظ کتاب میں ثبت ہے۔”(الواقعہ ٥٦: ٧٧۔ ٧٨) اس کے بالمقابل بائبل میں مسلسل تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ عیسائی پادری اور اسکالر اس میں جمع تفریق کرتے رہے اور اس میں اس قدر تحریف ہو چکی ہے کہ اسے ہم خدا کا کلام نہیں کہہ سکتے۔ عیسائیوں کی اکثریت بائبل اور اناجیل کی تاریخ سے آگاہ نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عہد نامۂ جدید میں شامل چاروں اناجیل کے چاروں مصنفین ”مرقس، متی، یوحنا اور لوقا ”عیسیٰ علیہ السلام کے حواری تھے، لیکن یہ درست نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی بھی عیسیٰ علیہ السلام کا ہم عصر نہ تھا اور نہ کسی نے براہ راست عیسیٰ علیہ السلام کو وعظ کرتے سنا۔ چاروں اناجیل ٧٠ء اور ١١٥ء کے درمیانی عرصے میں یونانی زبان میں لکھی گئیں، جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کی زبان آرامی تھی۔ سب سے پہلے ”مرقس کی انجیل” لکھی گئی اور یہ روم میں عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیے جانے کے چالیس سال بعد لکھی گئی۔ ”متی کی انجیل” ٩٠ء میں یونانی میں ”Anti loch” میں لکھی گئی۔ تیسری انجیل ”انجیل لوقا” یونان میں ٨٠ء میں لکھی گئی۔ ”انجیل یوحنا” ١١٠ء اور ١١٥ء کے درمیان ایفی سس (Ephesus) میں یا سا کے قریب کی دوسری جگہ کسی نامعلوم مصنف نے لکھی۔ یہ سامی مخالف تھا اور اس نے یہودیوں کو یسوع مسیح کے دشمن کے طور پر پیش کیا۔

 

میں اسلام کے بارے میں کچھ نہ جانتی تھی۔ ایک روز میری ایک مسلمان سہیلی نے مجھے ایم اے نبی کی کتاب ”کرسچین مسلم ڈائیلاگ” اور احمد دیدات کی Choice Islam and Christianity تحفے میں دی۔ دونوں کتب میری زندگی میں نکتۂ انقلاب ثابت ہوئیں۔ ان کتب کے مطالعے سے میں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے عقیدے کی پشت پر کوئی ٹھوس سچائی ہے۔ اس کے بعد میں نے اسلام اور عیسائیت کا تقابلی مطالعہ شروع کیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک غیر مسلم اسلام کے بارے میں جو تصور رکھ سکتا ہے، اسلام اس سے بالکل مختلف ہے۔ بطور غیر مسلم میرا اپنا یہ خیال تھا کہ مسلمان متشدد لوگ ہیں، جو امن پر یقین نہیں رکھتے اور نہ قادر مطلق اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ مطالعے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اسلام کے تو معنی ہی ”امن” اور اپنے آپ کو اللہ کی رضا کے حوالے کر دینے کے ہیں۔ میری اس سہیلی نے مجھے احمد دیدات کی مزید کتب دیں اور جماعت اسلامی ہند دہلی کے اعلیٰ سطح کے دانشوروں اور بزرگ ارکان کے ذریعے سے میرے شکوک و شبہات دور کرنے کی کوشش کی۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ”رسالۂ دینیات”، Towards Understanding Islam نے اسلام کا ایک مکمل تصور میرے سامنے رکھا۔ اس مطالعے نے مجھے بے چین کر دیا کہ پوری کائنات کے خالق اور رب ”اللہ تعالیٰ” پر سچا ایمان رکھنے والی کی حیثیت سے مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟

 

اسلام سے متعلق میرا مطالعہ جاری تھا کہ بہتر مستقبل کے لیے میں سعودی عرب آ گئی۔ یہاں میں نے مسلمانوں اور ان کے طرز زندگی کا نہایت قریب سے مشاہدہ کیا۔ یہاں میں نے محسوس کیا کہ قادر مطلق خدائے حق نے یہودیوں سے اپنی بادشاہت چھین کر مسلمانوں میں قائم کی ہوئی ہے، جیسا کہ یسوع مسیح نے پیشین گوئی کی تھی: ”اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے، دے دی جائے گی۔” (متی ٢١: ٤٣) ایسا ہی موسیٰ علیہ السلام نے بائبل کی کتاب ”احبار” میں فرمایا تھا۔

 

سعودی عرب میں مجھے تقابل ادیان کے مطالعے کا سنہری موقع ملا۔ لٹریچر، آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں کے علاوہ چلتی پھرتی زندہ شہادتوں نے میری بڑی مدد کی۔ یہ زندہ شہادتیں وہ انسان تھے، جنھوں نے سچائی اور دین حق کا راستہ پانے کے لیے بڑی تحقیق اور محنت کی تھی۔ جب انھیں صراط مستقیم مل گیا تو انھوں نے عیسائیت کو خیر باد کہہ کر اسلام قبول کر لیا۔ ان لوگوں کی تحقیق اور تجربے میرے لیے نہایت سود مند اور مشعل راہ ثابت ہوئے۔

 

امریکی نو مسلمہ مسز خدیجہ واٹسن جو کسی امریکی یونیورسٹی میں شعبۂ الٰہیات (Dept of Theology) کی پروفیسر رہ چکی ہیں، کے ساتھ براہ راست مکالمہ روحانی تسکین کی تلاش میں میرے لیے نہایت نفع بخش رہا، اسی دوران، میں نے انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ نو مسلموں کی رودادوں کا مطالعہ کیا۔ ان میں پروفیسر عبد الاحد داؤد (سابق نام ریورنڈ ڈیوڈ بنجمن کلدنی۔ ایک بشپ اور رومن کیتھولک پادری ”محمد ان دی بائبل” کا مصنف) قسیس (پادری) چارلس ولیم پکتھال کے بیٹے محمد پکتھال کی داستانیں خاصی اہم تھیں۔ ان کے مطالعے نے ”اسلام ہی سچا دین ہے” کے حوالے سے میرے اعتماد میں کافی اضافہ کیا۔

 

اب سب سے بڑا مسئلہ جس کا مجھے سامنا تھا، وہ یہ تھا کہ میں اپنے آپ کو صحیح طریقے سے عبادت کرنے کے قابل نہ پاتی تھی۔ میں یہ تو جان گئی تھی کہ خدائے واحد ہی ہر چیز کا خالق ہے، لیکن مجھے یہ یقین نہیں تھا کہ سچا الٰہ واحد عیسائیت میں ہے یا اسلام میں۔ یہ حقیقت ہے کہ دونوں مذاہب ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں،مگر عبادات کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔ اب پھر کیا کروں؟ یہ سوال مجھے مسلسل پریشان کر رہا تھا۔ میں نے اپنی یہ پریشانی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے گزارش کی: ”اے میرے اللہ ! میں دعا کے لیے تیرے حضور میں حاضر ہوں۔ تم سے زیادہ مجھے کوئی نہیں جانتا۔ تم ہی جانتے ہو کہ میں کیا ہوں اور کہاں ہوں۔ میرے دل میں کیا ہے اور میں کیا چاہتی ہوں، لیکن میں نہیں جانتی کہ تم اسلام اور عیسائیت میں سے کس کو ترجیح دیتے ہو، کس کو پسند کرتے ہو۔ اب میں عیسائی نہیں ہوں، کیونکہ عیسائیت میں ”خدا کے تصور” کے بارے میں میرے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں اور نہ میں مسلمان ہوں، کیونکہ میں ایک مسلمہ کی طرح زندگی نہیں گزار رہی۔ اے میرے اللہ! صحیح مذہب کے انتخاب میں میری رہنمائی فرما۔ میں صرف سچائی کی تلاش میں ہوں، اس لیے مجھے گمراہ ہونے سے بچا لے۔ اگر مذہب عیسائیت سچا ہے تو پھر مجھے اس پر جما دے اور اس کے بارے میں میرے ذہن میں جو شکوک و شبہات ہیں، وہ دور کر دے۔ اگر اسلام سچا ہے تو پھر اس کی سچائی کی توثیق کر اور میرے دل میں اس کو مستحکم کر دے۔ میری مدد کر اور میرے اندر اس قدر جرأت پیدا کر دے کہ میں اپنے مستقبل کے دین کے طور پر اسے قبول کر لوں۔”

 

قرآن و بائبل کے تقابلی مطالعے اور خلوص دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا نے اسلام کی طرف مائل میرے دل کو تقویت بخشی اور میں اندر ہی اندر مسلمان ہو گئی۔ میں نے مسلمانوں کی طرح نماز پڑھنی شروع کر دی۔ نماز پڑھنے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اسلام کی سب سے زیادہ پرکشش چیز نماز ہی ہے۔ عیسائیت کی نماز میں ایک عیسائی یسوع مسیح کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرتا ہے، لیکن اسلام میں نماز کا مطلب ہے کہ دنیا کے تمام امور سے کٹ کر اللہ بزرگ و برتر کی حمد و ثنا اور بڑائی بیان کرنا، اس کے انعام و اکرام پر اس کا شکر ادا کرنا۔ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ کون سی چیز ہمارے لیے مفید ہے اور سود مند ہے اور وہی ذات یکتا ہماری تمام ضروریات پوری کرتی ہے۔

 

١٤٢١ھ کے رمضان المبارک کا بھی میں نے مشاہدہ کیا۔ میں تو اسے ایک معجزہ ہی تصور کرتی ہوں، کیونکہ میرے خیال میں مسلمانوں کی طرح روزے رکھنا میرے لیے ناممکن تھا۔ میں نے تجربے کے طور پر روزے رکھنے شروع کیے کہ جان سکوں کہ آیا میں اسلام کے احکام پر عمل کر سکوں گی یا نہیں۔ الحمد للہ میں پورے تیس روزے رکھنے میں کامیاب رہی۔ تاہم میں نے اب بھی روایتی طریقے سے اسلام قبول نہ کیا، کیونکہ میں اپنی فیملی اور سہیلیوں کے ممکنہ رد عمل کے خوف میں مبتلا تھی۔ میں سوچتی تھی کہ کہیں وہ مجھے اپنے آپ سے دور نہ کر دیں اور میں تنہا نہ ہو جاؤں۔ اس خوف کے باوجود سورۂ توبہ کی آیات ٢٣ اور ٢٤ کے مطالعے نے مجھے اسلام قبول کرنے کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا کہ ایک سچے مسلمان کے لیے اس خوف کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہیے۔ مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

”اے ایمان والو! اگر تمھارے باپ اور تمھارے بھائی ایمان کے مقابلے میں کفر کو عزیز رکھیں تو ان کو اپنا رفیق نہ بناؤ اور تم میں سے جو انھیں رفیق بنائیں گے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔ (اے پیغمبر! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھاری برادری اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑ جانے کا تم کو اندیشہ ہے اور وہ مکانات جو تمھیں پسند ہیں (اگر یہ ساری چیزیں) اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کی راہ میں جہاد سے تمھیں زیادہ پیاری ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے اور اللہ کا مقررہ قانون ہے کہ وہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (التوبہ: ٩: ٢٣۔٢٤)

 

ان آیات کے مطالعے سے میں نے محسوس کر لیا کہ اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی طرف میری رہنمائی کر دی ہے اور اب عیسائیت کی طرف دیکھنا میرے لیے اچھا نہ ہو گا۔ الحمد للہ، ١٢ ذی قعدہ ١٤٢١ھ (٦ فروری ٢٠٠١ء) کو اسلامک ایجوکیشن سنٹر طائف میں ، میں نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا۔ میں اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوں، جس نے میری رہنمائی کی اور جس کی رحمتوں کے باعث آج میں مسلمان ہوں۔ قبول اسلام سے قبل اور بعد میں مجھے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی تنقید اور دیگر مشکلات کا مقابلہ کرنے کی میرے اندر ہمت پیدا کر دی اور دین اسلام پر مجھے استقامت دی۔ الحمد للہ!

 

٭٭٭

 

 

سنتھیا سے آمنہ تک

 

آمنہ

 

 

میرے والدین کے لیے ”مسلمان” کا لفظ اجنبی نہ تھا۔ میں نہیں جانتی کہ اسلام اور اسلام کے پیروکاروں کے بارے میں امریکہ کا رویہ بلا تفریق رنگ و نسل کیوں معاندانہ اور مخالفانہ ہے۔ میری زبان سے یہ سننے کے بعد کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں، میرے والدین کو بے حد تعجب ہوا، خاص طور پر میری ماں کو بے پناہ صدمہ ہوا۔ میرے لیے اس کا یہ رد عمل بہت پریشان کن تھا۔ میں اسے ایک مظلوم عورت سمجھتی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ میرے مسلمان ہونے پر زیادہ واویلا نہ کرے گی، مگر ہوا اس کے برعکس۔ میرے والد کے چہرے پر نفرت، حقارت اور استہزا کے ساتھ ساتھ لاپروائی کی جھلک بھی دکھائی دے رہی تھی اور میری ماں مسلسل بولتی جا رہی تھی۔ آج جب وہ منظر مجھے یاد آتا ہے تو میں بے اختیار مسکرا دیتی ہوں، لیکن اس وقت میرا رد عمل کچھ مختلف تھا۔ میں یہ محسوس کرنے لگی تھی کہ میں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کچھ جلدی کر دیا ہے، اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ میرے ایمان میں کوئی کمی تھی، بلکہ یہ کہ میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب تک میں مسلمانوں کے پورے طور و اطوار باطنی و ظاہری طور پر اپنا نہیں لیتی، تب تک اسلام لانے کا اعلان نہ کروں گی۔ اس لمحے میں خاصی جذباتی ہو گئی تھی۔ میں نے اپنے مسلمان ہونے کا ذکر بڑے جوش اور جذبے سے کر دیا۔ میرے والد بڑبڑاتے ہوئے باہر چلے گئے۔ میری والدہ مجھے سمجھانے لگیں۔ ”ممی!” میں نے کہا: ”جو ہونا تھا ہو چکا ہے۔ میں جو قدم آگے بڑھا چکی ہوں، وہ پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔ ” میری ماں نے اور زیادہ شدت سے مجھے سمجھانا بجھانا شروع کر دیا۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنا وقت بلاوجہ ضائع کر رہی ہیں، میں مسلمان ہو چکی ہوں اور اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ میری والدہ نے سوچا شاید میں ضد کر رہی ہوں یا جذباتی ہو گئی ہوں۔ انھوں نے اپنا طویل لیکچر ادھورا چھوڑا اور مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں۔

 

میں مسلمان کیوں ہوئی؟یہ بات مجھ سے کئی لوگوں نے پوچھی ہے اور میں کئی بار جواب دے چکی ہوں۔ اس کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اس سوال کا جواب بڑے سکون اور اطمینان سے دینا چاہیے۔ میرے گھریلو حالات، امریکہ میں کالوں کی مجموعی حالت اور اس سے بھی زیادہ میری معذوری اور اپاہج پن نے مجھے اسلام کی طرف راغب کیا۔ اس کی تفصیل بھی سن لیں۔ ایک اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے میں ہر روز میلکم ایکس اور مسلمان ہونے والے حبشیوں کی اصلاحی تحریک کے بارے میں پڑھتی تھی۔ چونکہ پولیو کی وجہ سے میں معذور اور اپاہج ہو چکی تھی اور سوائے مطالعے کے میرا کوئی شغل نہ تھا، اس لیے مجھے غور و فکر کی عادت پڑ گئی تھی۔ جب میں پڑھتی کہ میلکم ایکس اور رضاکار ساتھی لوگوں سے منشیات کی عادت چھڑانے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو مجھے بڑی حیرت ہوتی۔ میں سمجھتی یہ صرف ایک خبر ہے، جس میں صداقت نہیں ہے، لیکن پھر میں سوچتی کہ یہ خبر کس طرح جھوٹی ہو سکتی ہے اور کس حد تک جھوٹی ہو سکتی ہے؟ میرے پاس میرے اپنے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا، مگر اس زمانے میں میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ مجھے اسلام کے بارے میں کچھ پڑھنا چاہیے۔ میں نے کچھ کتابیں حاصل کیں اور پڑھنے لگی۔ اسلام کے بارے میں ان کتابوں نے مجھے خاصا متاثر کیا۔ جب میں نے یہ کتابیں پڑھ لیں تو میرے دل میں قرآن پڑھنے کا خیال پیدا ہوا اور میں نے انگریزی میں ترجمۂ قرآن کا ایک نسخہ حاصل کر لیا۔ قرآن پاک کے اس ترجمے نے مجھے عجیب طرح کا روحانی سرور بخشا، جسے میں بیان نہیں کر سکتی۔ آج میں سمجھتی ہوں کہ اگر کوئی شخص دلچسپی، انہماک اور لگن سے قرآن پاک کا مطالعہ کرے تو وہ اس مقدس کتاب کی حقانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

 

قرآن پاک کے مطالعے نے مجھے کئی دن بے چین رکھا۔ میرے دل میں ایک عجیب طرح کا جذباتی مد و جزر پیدا ہو گیا تھا۔ جی چاہتا ہے کہ اب میلکم ایکس سے ملوں، مگر وہ اس شہر سے بہت دور تھے۔ میں نے اخبار کے ذریعے یہ پتا چلایا کہ یہاں ہمارے شہر میں کون ایسا شخص ہے، جو مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے، اس کا پتا مجھے مل ہی گیا۔ میں نے اس شخص، محمد یوسف کو فون کیا اور ان سے ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ دوسری طرف مجھے بڑی ہمدرد اور نرم آواز سنائی دی۔ محمد یوسف نے مجھ سے کہا کہ میں جس وقت چاہوں، ان سے مل سکتی ہوں۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں کل بعد دوپہر ان سے ملوں گی۔ وقت طے ہو جانے کے بعد میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ جب میں اگلے دن محمد یوسف سے ملنے گئی تو وہ مجھے دیکھ کر کچھ پریشان ہو گئے۔ میں نے ان کی پریشانی کے سبب کو بھانپ لیا۔ وہ کسی صحت مند اور توانا لڑکی سے ملنے کی توقع رکھتے تھے۔ جب انھیں وہیل چیئر میں بیٹھی،  حرکت سے معذور مجھ جیسی لڑکی دکھائی دی تو وہ کچھ پریشان ہو گئے، مگر میری مسکراہٹ اور خوش دلی نے ان کی پریشانی کو جلد ہی ختم کر دیا۔ محمد یوسف میری ہی طرح تھے، حبشی۔ کبھی ان کا نام جان بلیگڈن تھا۔ اب وہ محمد یوسف جیسے خوب صورت نام کے مالک تھے۔ وہ اس شہر کے مسلمانوں کے سربراہ یا امام تھے۔ وہی مسجد میں نماز پڑھاتے اور وہی قرآنی تعلیمات کا درس دیتے تھے۔ وہ ہمدردی بھرے لہجے میں مجھ سے میرے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں بڑے غیر محسوس انداز میں انھوں نے مجھ سے میرے اور میرے کنبے کے بارے میں سب معلومات حاصل کر لیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ مسلمان کیوں ہوئے؟

 

محمد یوسف مسکرا دیے، پھر انھوں نے دھیمے سے بڑے میٹھے لہجے میں جواب دیا: ”میں اس لیے مسلمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ مرضی تھی کہ وہ مجھے سیدھا راستہ دکھائے۔ ” ان کا یہ جواب میں آج تک نہیں بھولی ہوں اور زندگی بھر نہ بھول سکوں گی۔ کیونکہ میں بھی یہی سمجھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ جس انسان کو سیدھے راستے پر لانا چاہتا ہے، اس کے دل میں اسلام کے لیے محبت پیدا کر دیتا ہے۔

 

محمد یوسف نے مجھے بتایا کہ وہ بھی حبشیوں کے غریب اور نادار علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے بچپن غربت اور افلاس میں گزارا۔ بڑے ہوئے تو وہ ایک ایسے ہوٹل میں ملازم ہو گئے، جہاں انھیں برتن مانجھنے کے لیے رکھا گیا تھا، مگر ان سے ضروری کام اور بھی لیا جاتا تھا۔ انھیں کچھ پیکٹ دے دیے جاتے کہ وہ انھیں کسی جگہ پہنچا آئیں۔ اس کام کے عوض انھیں انعام میں ایک آدھ ڈالر مل جایا کرتا تھا۔ ایک دن ان کے جی میں آئی کہ اس پیکٹ کو کھول کر دیکھنا چاہیے۔ جب انھوں نے کھول کر دیکھا تو اس میں انھیں حشیش ملی۔ انھوں نے حشیش مہنگے داموں میں بیچ دی اور ہوٹل واپس نہ گئے۔ مگر ہوٹل کی انتظامیہ نے انھیں ڈھونڈ نکالا۔ پیکٹ مانگا اور جب پیکٹ نہ ملا تو ان کی خوب پٹائی کی۔ وہ کئی دن بستر سے نہ اٹھ سکے۔ اس واقعے کے بعد وہ گناہوں کی دنیا میں پہنچ گئے۔ تیس برس کی عمر تک انھوں نے ہر برا کام کیا۔ وہ عورتوں کی دلالی کرتے، قحبہ خانوں کی نگرانی کا فرض انجام دیتے۔ ہیروئن اور دوسری منشیات کا خفیہ دھندہ کرتے کرتے خود بھی ان منشیات کے عادی ہو گئے۔ انھیں کئی بار سزا ہو چکی تھی، مگر وہ سزا کے خوف سے بے نیاز ہو چکے تھے۔ ایک بار جب وہ جیل میں تھے تو کچھ لوگ ان سے ملنے آئے۔ یہ رضا کار مسلمان تھے، جو قیدیوں میں اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے۔ ان کی تبلیغ سے محمد یوسف بے حد متاثر ہوئے اور ان کا جی چاہنے لگا کہ وہ با عزت اور بے فکر زندگی بسر کریں۔ جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو خاصے بدل چکے تھے، مگر انھیں زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اس لیے انھوں نے یہی سوچا کہ اب پھر انھیں جرم کی زندگی بسر کر کے ہی اپنا پیٹ پالنا پڑے گا۔ وہی رضا کار جنھوں نے جیل میں ان کے خیالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ان سے ملے۔ انھوں نے ان کے لیے روزگار کا بندوبست کیا۔ کچھ نقد رقم دی، تاکہ جب تک انھیں تنخواہ نہیں ملتی، وہ اس رقم سے گزر اوقات کریں اور انھیں اپنے ساتھ رکھتے، یوں محمد یوسف جو کبھی جانی بلیگڈن تھے، مسلمان ہو گئے۔

 

اسلام کے ساتھ ان کی شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ ایک برس میں انھوں نے کلام مجید عربی میں پڑھ لیا۔ اس راہ میں انھیں بہت سی دقتیں اور پریشانیاں آئیں، مگر وہ کسی پریشانی سے نہ گھبرائے۔ قرآن مجید کی تعلیم کے بعد وہ اسلامی قواعد اور طرز زیست کو اپنانے میں کامیاب ہو گئے۔ چار سال کے بعد انھیں اس علاقے میں مسلمانوں کا امام مقرر کر دیا گیا۔ امام بننے کے بعد انھوں نے اپنی تگ و دو سے زمین کے لیے چندہ جمع کیا اور وہاں ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کرا دی۔ اس مسجد کی تعمیر میں خود انھوں نے اور دوسرے مسلمانوں نے حصہ لیا تھا۔ وہ خود مزدوری کرتے اور اس کا معاوضہ نہ لیتے تھے۔

 

میں محمد یوسف کی زندگی اور ان کی باتوں سے سے بے حد متاثر ہوئی اور ان سے کہا کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔ محمد یوسف صاحب نے پہلی بار مجھے بھرپور نظروں سے دیکھا اور بولے: ”اللہ مبارک کرے، مگر مسلمان ہونا بہت مشکل ہے۔ ””میں ہر مشکل پر قابو پا لوں گی۔ ””الحمد للہ” انھوں نے کہا: ”کیا تمھیں کلمہ اور نماز آتی ہے۔ ” میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ انھوں نے مجھے ایک چھوٹی سی کتاب دی۔ اس میں رومن حروف میں کلمہ اور نماز لکھی ہوئی تھی۔ کہنے لگے:” اسے یاد کر لو اور اگر ہو سکے تو سہ پہر کو میرے پاس تھوڑی دیر کے لیے آ جایا کرو۔ میں نے چند دنوں میں نہ صرف کلمہ اور نماز ازبر کر لی، بلکہ ان کے معنی بھی سمجھ لیے۔ اس دوران میں محمد یوسف سے بھی ملتی رہی اور ان سے دین ِ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہی۔

 

جمعہ کا دن تھا، مسجد میں تمام مسلمانوں کے سامنے میں نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئی۔ میرا نام آمنہ رکھ دیا گیا۔ مسلمان ہونے کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ کھانے کے ساتھ تھوڑی بہت شراب پینے کی جو عادت تھی، اس کو ترک کر دیا۔ میں سگریٹ بھی پی لیا کرتی تھی، اس کو بھی چھوڑ دیا اور مسلمان عورتوں جیسا لباس سلنے کے لیے دے دیا۔ میں سمجھتی تھی کہ جب میں مسلمان عورتوں کی طرح لمبے چغے میں اپنا جسم چھپاؤں گی اور سر کو بھی ڈھانپوں گی تو وہیل چیئر میں بیٹھی ہوئی خاصی مضحکہ خیز دکھائی دوں گی۔ میں نے ہر طنز اور مذاق کا سامنا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب میں پہلی بار مسلمان عورتوں کا لباس پہن کر گھر سے نکلنے لگی تو میری ماں نے مجھے حیرت سے دیکھا۔ ”سنتھیا! یہ کیا پہن رکھا ہے تم نے؟” ان کے چہرے پر طنز تھا۔ میرے والد نے بھی جو رات بھر شراب پینے کے بعد اب کرسی پر بیٹھے اونگھ رہے تھے، اپنی سرخ آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور قہقہہ لگایا۔ ”ممی” میں نے کہا: ”یاد رکھیے میرا نام آمنہ ہے، سنتھیا نہیں۔ ” ”آمنہ کیا نام ہوا یہ بھلا” ماں نے کہا: ”لڑکی تیرا دماغ تو نہیں چل گیا۔ ”میں نے اپنی والدہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میں انھیں بتا چکی ہوں اور اب میں مسلمان کی طرح باقاعدہ زندگی کا آغاز کر رہی ہوں۔ ”تمھاری جگہ جہنم میں ہے، تم ….” اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتیں، میں نے ان کی بات کاٹ کر کہا: ”ممی! آپ کو میرے معاملات میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی بات کرنی ہے تو جب میں دفتر سے آؤں گی تو کر لینا، اس وقت مجھے دیر ہو رہی ہے۔ ” میں وہیل چیئر کو دھکیلتی ہوئی باہر نکل گئی۔ حبشیوں کی اس گندی بستی میں جس کسی نے مجھے اس لباس میں دیکھا، وہ پہلے تو حیران ہوا، پھر مذاق اڑانے لگا، مگر میں نے کسی کی ایک نہ سنی اور اپنی راہ چلتی رہی۔ جب میں اپنے اخبار کے دفتر پہنچی تو وہاں بھی شدید رد عمل پیدا ہوا۔ بہت سے لوگ میرے ارد گرد جمع ہو گئے، جب میں نے انھیں بتایا کہ میں مسلمان ہو گئی ہوں اور مسلمان عورتیں ایسا ہی لباس پہنتی ہیں تو بعض لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی اور بعض لوگ بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔ اتفاق سے اس روز تنخواہ کا دن تھا۔ تنخواہ ملی تو میں نے اس کا ایک چوتھائی حصہ اپنے علاقے کی مسجد کے فنڈ میں جمع کرا دیا۔ جب میں گھر لوٹی تو میری والدہ میرا انتظار کر رہی تھیں۔ میرے والد بھی گھر پر موجود تھے۔ میں تنخواہ کا نصف حصہ اپنی والدہ کو دے دیا کرتی تھی۔ اس رقم سے میرے والد اپنے نشے کے لیے کچھ پیسے اینٹھ لیا کرتے تھے۔ میں نے جب اپنی تنخواہ کی کچھ رقم ماں کو دی تو انھوں نے حیرت سے مجھے دیکھا اور پوچھا: ”تم نے اس بار دس ڈالر کم کر دیے ہیں۔ ” ”ہاں! اب ہر ماہ آپ کو اتنی رقم ہی ملے گی۔ میں نے اپنی تنخواہ کا ایک چوتھائی مسجد کو دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ” میری یہ بات سنتے ہی وہ مجھے،  مسلمانوں اور مسجد کو کوسنے لگیں۔ میں نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں بہت دیر تک اپنی والدہ کو بکتے جھکتے سنتی رہی۔ بیچ بیچ میں میرے والد کی آواز بھی سنائی دیتی تھی: ”اب سنتھیا ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ مسلمانوں نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ ہم نے تو کبھی گرجے کو چندہ نہیں دیا۔ یہ تنخواہ کا ایک چوتھائی مسجد کو دینے لگی ہے۔ ” میرے والد اور والدہ کے نزدیک مسلمان لٹیروں سے کم نہ تھے، جو ان کی بیٹی کی کمائی لوٹ کر لے گئے تھے۔ آہستہ آہستہ میں نے اپنی زندگی اسلام کے قوانین و ضوابط کے مطابق ڈھال لی۔ وہ لوگ جو پہلے مجھ پر انگلیاں اٹھاتے تھے، مجھ سے بھی لاپروا ہو گئے اور میرے اور اسلام کے خلاف زہر اگلنے سے بھی، اور پھر کرسمس کا تہوار آ گیا۔ ہم خواہ کتنے ہی غریب اور بدحال کیوں نہ ہوں، کرسمس کو ٹھاٹ باٹ سے منانے کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔ کرسمس کے روز شراب پانی کی طرح بہائی جاتی ہے۔ جب میں نے مہمانوں کے ساتھ شراب کے جام کو چھونے سے ہی انکار کر دیا تو ہمارے گھر میں قیامت برپا ہو گئی۔ والد تو صبح سے نشے میں دھت تھے، والدہ بھی دو ایک بار مہمانوں کے ساتھ پی چکی تھیں۔ نشے کی حالت میں وہ سب مجھ پر برسنے لگے، مہمان بھی نشے میں تھے۔ وہ بھی جو ان کے منہ میں آیا بکنے لگے۔ ان سب کی حالت قابل رحم تھی۔ میں نے سوچا کہ مجھے اس کمرے سے چلے جانا چاہیے، مگر جب میں اپنی وہیل چیئر کو دھکیل کر جا رہی تھی تو ایک مہمان لڑکا اور میرے والد میرے پیچھے لپکے اور وہیل چیئر کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ میں نے کہا راستہ چھوڑ دیں، مجھے جانے دیں۔ ”یہ پی لو، پھر چلی جانا۔ ” لڑکے نے میرے راستے سے ہٹے بغیر شراب کا جام میرے آگے کیا۔ ”میں لعنت بھیجتی ہوں اس پر۔ ”میرے منہ پر ایک زور دار طمانچہ لگا، جو میرے والد نے مارا تھا۔ میرا سر چکرا گیا۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے، مگر میرے والد اور اس لڑکے میں تو جیسے شیطان کی روح حلول کر گئی تھی۔ وہ مجھے پیٹنے لگے۔ انھوں نے مجھے روئی کی طرح دھنک دیا۔ میں خاموشی سے یہ ظلم برداشت کرتی رہی۔ وہ گالیاں بک رہے تھے، نشے میں ان کے منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی۔ جب وہ تھک کر بیٹھ گئے تو میں کسی نہ کسی طرح اپنے کمرے میں پہنچ گئی۔ اس رات میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔

 

میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ اپنے امام مسجد محمد یوسف کو ساری بپتا سنانی چاہیے اور پھر یہ گھر چھوڑ دینا چاہیے، لیکن جوں جوں میرا غصہ اور جوش ٹھنڈا ہوتا گیا، میری سوچ بدلتی گئی۔ میں نے سوچا کہ مجھے اپنی پریشانیاں لے کر محمد یوسف کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ ان کا حل ضرور تلاش کرنا چاہیے اور اپنے والدین کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔ ان کا مجھ پر حق ہے اور میرا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ میں ان کی زندگی بدلنے کی کوشش کروں، چنانچہ اس روز میں نے ایک اہم فیصلہ کیا اور اگلے روز میں نے اپنے اس فیصلے سے امام مسجد محمد یوسف کو مطلع کر دیا۔

 

میں نے اخبار کی ملازمت چھوڑ دی اور رضا کار بن گئی۔ مجھے معمولی سا گزارہ الاؤنس ملنے لگا۔ جب میرے والدین کو میرے اس فیصلے کا علم ہوا تو وہ بہت سٹپٹائے۔ وہ یہ سوچ ہی نہ سکتے تھے کہ میں اچھی بھلی ملازمت چھوڑ دوں گی۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ فکر نہ کریں، ان کو ان کا حصہ ملتا رہے گا۔ میں اخبار کے لیے دن میں لکھوں گی اور جو معاوضہ مجھے وہاں سے ملے گا، وہ میں ان کو دے دیا کروں گی۔ میری اس عملی زندگی کا آغاز اس وقت ہوا، جب میں مسلمان رضا کار بن گئی۔

 

محمد یوسف نے مجھے بہت سی ہدایات دیں اور جس کام کے لیے مجھے چنا گیا، اس راہ کے خطرات سے آگاہ کیا۔ مجھے خود بھی اندازہ تھا کہ یہ راستہ پر خطر ہے، مگر اسلام نے مجھے حوصلہ بخشا۔ اس کی وجہ سے میں کسی خطرے کو خاطر میں نہ لا رہی تھی۔ میں جیلوں میں جانے لگی۔ وہاں میں قیدیوں سے ملتی، ان کے سامنے اسلام کی عظمت بیان کرتی، ان کو ان کی زندگی کے گھناؤنے پہلو دکھا کر ان کو بہتر زندگی بسر کرنے کا مشورہ دیتی۔ کچھ قیدی وقت کاٹنے کے لیے میری باتوں کو توجہ سے سنتے۔ کچھ میرا مذاق اڑاتے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے میری جسمانی معذوری پر بھی قہقہے لگائے، مگر میں مطلق ہراساں نہ ہوئی، نہ میری ہمت نے جواب دیا۔ ان قیدیوں میں سے ایک حبشی قیدی اربنٹو بھی تھا، اس نے میری باتوں سے خاصا اثر قبول کیا اور ایک دن کہنے لگا: ”تم بڑی ہمت والی لڑکی ہو۔ اگر تم واقعی چاہتی ہو کہ برائی کا خاتمہ ہو جائے تو برنارڈو کا خاتمہ کر دو؟” ”برنارڈو کون ہے؟” میں نے پوچھا۔ ”برنارڈو اس شہر میں ایک بڑی مافیا فیملی کا سربراہ ہے۔ وہی شخص ہے، جو اس شہر میں منشیات کا اجارہ دار ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو لوگوں کو منشیات نہ ملیں اور نہ ہی لوگ ان کے عادی ہوں۔ وہ بڑا خطرناک آدمی ہے۔ آج میں جس حالت کو پہنچا ہوں، اس کا ذمہ دار بھی برنارڈو ہے۔ ””میں برنارڈو سے کیسے مل سکتی ہوں؟” اس نے میرے کان میں مجھے برنارڈو کا پتا بتا دیا۔ جب میں جانے لگی تو اربنٹو کا لہجہ یک سر بدل گیا تھا۔ وہ ندامت کے ساتھ کہنے لگا: ”مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے تم سے برنارڈو کا ذکر کیا۔ تم اس سارے واقعے کو بھول جاؤ۔ تم اندازہ نہیں کر سکتی ہو کہ برنارڈو کتنا خطرناک آدمی ہے۔ ””مگر میں اس سے ملنے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔ ” میں نے عزم سے کہا۔ ”تم اس سے مل کر کیا کرو گی؟” اس نے پوچھا۔ ”اس کو سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کروں گی۔ ”وہ ہنسنے لگا۔ اس کے قہقہے دور تک میرا پیچھا کرتے رہے۔

 

صبح کا وقت تھا، جب میں وقت طے کیے بغیر برنارڈو کے عالی شان گھر کے اندر داخل ہوئی۔ اس گھر کو دیکھ کر کوئی شخص اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ اس گھر میں رہنے والا شخص کوئی بہت بڑا مجرم ہے۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ ایک ملازم نے مجھے روک کر پوچھا۔ وہ میرے لباس اور میری وہیل چیئر کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ”مجھے مسٹر برنارڈو سے ملنا ہے۔ ” میں نے کہا۔ ”نہیں” اس نے قہقہہ لگا کر کہا: ”مسٹر برنارڈو سے ملنا اتنا آسان نہیں۔ ””آخر کیوں؟” میں نے کہا۔ ”وہ بھی انسان ہے اور انسان انسانوں سے ملا جلا کرتے ہیں۔ ” ہم دونوں میں تو تکرار ہونے لگی، اسی وقت ایک ادھیڑ عمر کا مضبوط جثے والا آدمی ایک کمرے سے باہر نکلا اور غصے سے بولا: ”یہ کیا ہو رہا ہے ؟ شور کیوں مچا رکھا ہے؟” ملازم نے اس شخص کے سامنے سر جھکا کر کہا: ”یہ لڑکی آپ سے ملنے پر اصرار کر رہی ہے۔ ””مجھ سے؟” اس نے پوچھا: ”کیا کام ہے؟” میں آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ ” میں نے کہا۔ برنارڈو نے کچھ تعجب سے میری طرف دیکھا۔ پھر ملازم کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ جب ملازم چلا گیا تو برنارڈو نے بڑی نخوت سے کہا: ”میں اس طرح کسی سے ملاقات نہیں کرتا ہوں۔ تم معذور ہو اس لیے رک گیا ہوں۔ کہو، میں تمھاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟ ”میں نے اس کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: ”مسٹر برنارڈو! کیا واقعی آپ اس معذور لڑکی کے کسی کام آنا چاہتے ہیں؟”اس نے جواب دینے سے پہلے کچھ سوچا، پھر مسکرا کر کہا:”ہاں، کہو میں تمھاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟ ”میں نے پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ میں نے محسوس کیا کہ مسٹر برنارڈو کچھ بے چینی محسوس کر رہا ہے۔ وہ مجھ سے نظریں چرا رہا تھا۔ ”مسٹر برنارڈو! ” میں نے کہا: ”اللہ نے آپ کو سب کچھ دیا ہے، اب آپ کو ہدایت کی ضرورت ہے، سچی ہدایت کی۔ ” ”لڑکی! میں نہیں جانتا تم کون ہو۔ میرا وقت بہت قیمتی ہے۔ دو منٹ میں اپنی بات ختم کرو۔” میں نے جب بات شروع کی تو برنارڈو کا چہرہ طیش اور غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے غصے کو دبا کر کہا: ”تم پاگل ہو، نکل جاؤ یہاں سے۔ تمھیں کس نے بتایا کہ میں یہ کام کرتا ہوں؟ میں تمھیں اور تم کو یہ بتانے والے کو زندہ نہ چھوڑوں گا۔ ” میں نے بڑے اطمینان سے کہا: ”آپ کے اس غصے اور جوش ہی سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مجھے آپ کے بارے میں جو اطلاع ملی ہے، وہ درست ہے۔ ” ”تم بکتی رہو، چلی جاؤ یہاں سے،  مجھے تمھارے اپاہج پن کا خیال آ رہا ہے ورنہ..” ”میں جانتی ہوں مسٹر برنارڈو! آپ بہت طاقت ور ہیں، سارا شہر آپ کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ ” ”آخر تم چاہتی کیا ہو؟” برنارڈو نے گرج کر کہا۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ خلق خدا کے فائدے کے لیے اپنا یہ دھندا چھوڑ کر کوئی اور کام کریں اور اگر آپ سے یہ ممکن نہیں تو پھر مجھ معذور لڑکی پر کرم کریں۔ مجھے ہر روز پانچ منٹ ملاقات کا وقت دے دیا کریں۔ ”وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگا، پھر اس نے قہقہہ لگایا اور بولا: تم ضد کی پکی ہو، تم کل پھر آ سکتی ہو اسی وقت۔ میں وہاں سے نکلی تو بے حد مطمئن تھی۔

 

برنارڈو اطالوی نژاد تھا۔ دل کا کھلا۔ اس کی زندگی میں شاید ہی مجھ جیسا کوئی انسان ملا ہو۔ وہ میری ذات میں دلچسپی لینے لگا۔ ایک دن کے بعد دوسرا دن… وہ مجھے ہر روز بلاتا۔ مجھ سے باتیں کرتا۔ پانچ منٹ کی گفتگو کا دائرہ پھیل کر گھنٹوں تک پہنچ گیا۔ میں اس کے سامنے انسانوں کی بدحالی کا ذکر کرتی۔ منشیات کی تباہ کاریاں بیان کرتی۔ اسلام کی حقانیت کا ذکر کرتی۔ آہستہ آہستہ اس کے خیالات میں کچھ لچک پیدا ہونے لگی۔ ”آمنہ!” .. ایک دن اس نے مجھ سے کہا۔ میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو؟ مسلمان کیا ہوتے ہیں؟ مگر میں ایک بات جان گیا ہوں کہ تم انسان کی نفسیات کو خوب سمجھتی ہو۔ ”اسلام انسان کا مذہب ہے مکمل دین۔ ” میں نے جواب دیا۔ ”اس لیے اسلام مسلمانوں کو انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ ”میں نے محسوس کیا کہ اب جب میں اس سے ملنے جاتی ہوں تو وہ کچھ بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس نے ایک دن مجھ سے کہا: ”آمنہ! واقعی انسان کی زندگی فانی ہے اور انسان کو دنیا میں اچھے کام کرنے چاہییں، دوسروں کا بھلا سوچنا چاہیے۔ ” ”الحمد للہ….” میں نے جواب دیا… ”اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ بات آپ ذہن میں سما گئی ہے۔”

 

چند دنوں بعد برنارڈو نے اپنا دھندا چھوڑ دیا۔ وہ راہ راست پر آ گیا۔ اس نے بلا ہچکچاہٹ قبول کر لیا کہ وہ مافیا کا رکن ہے۔ اس نے مافیا کے سربستہ رازوں کو کھول کر رکھ دیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ صدر فورڈ کے عہد صدارت میں برنارڈو کے اس عمل سے امریکہ میں کتنا تہلکہ مچا تھا! برنارڈو نے اخبار نویسوں سے کہا تھا: ”ایک اپاہج اور چلنے پھرنے سے معذور لڑکی نے مجھے یہ طاقت پرواز بخشی ہے کہ میں نے برائی کی زنجیروں کو توڑ دیا ہے اور کھلی آزاد فضا میں اڑنے کی ہمت اپنے اندر محسوس کر رہا ہوں۔ ”اس روز میں بہت روئی تھی، جب مجھے خبر ملی کہ برنارڈو کو جیل میں گولی مار دی گئی ہے۔ اس کو مافیا کے آدمیوں نے قتل کر دیا تھا۔ اس کا زندہ رہنا ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ وہ ایک ایسا انسان تھا، جو راستی کی راہ پر چل نکلا تھا۔ وہ زندہ رہتا تو بڑا مصلح ثابت ہو سکتا تھا۔ برنارڈو کے تائب ہونے کی وجہ سے مجھے پریس نے بڑی شہرت دی۔ میری تقریریں شائع ہونے لگیں۔ اخباروں اور رسالوں میں میرے انٹرویو شائع ہوئے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر مجھے بلایا گیا اور میری خدمات کو بے حد سراہا گیا۔ عالمی ہیوی ویٹ چمپین محمد علی مجھ سے ملنے آئے۔ انھوں نے میری بڑی تعریف کی۔ صدر فورڈ نے مجھے وہائٹ ہاؤس میں بلایا اور میری تعریف کی۔ اس شہرت اور عزت کے باوجود مجھ میں تکبر پیدا نہیں ہوا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ہے۔

 

اسلام نے میری زندگی میں جو انقلاب پیدا کیا، میں ساری دنیا میں پھیلانا چاہتی ہوں اور اگر یہ میرے بس میں نہیں تو میرے دل میں یہ خواہش ضرور ہے کہ اسلام کی برکات اور فیوض سے امریکہ کے سیاہ فام ضرور فیض یاب ہوں۔

 

میرے والد شراب سے توبہ کر چکے ہیں اور وہ ہر نشہ چھوڑ چکے ہیں۔ میری والدہ میری عزت کرتی ہیں، اگرچہ انھوں نے اپنا مذہب نہیں چھوڑا، مگر ان کی زندگی میں بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔

 

پچھلے چند برسوں میں میری کوشش کی وجہ سے ساڑھے تین سو افراد نے منشیات سے توبہ کر لی ہے اور اکیس مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کیا ہے۔

 

میں ایک اپاہج عورت ہوں، مگر میں اپنے آپ کو اپاہج نہیں سمجھتی، کیونکہ میرا ایمان ہے کہ جو شخص مسلمان ہو جائے، وہ کبھی اپاہج نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ اس کا سہارا بن جاتا ہے۔ میری زندگی اسلام کے لیے وقف ہو چکی ہے۔ میں اسلام کے لیے کام کروں گی اور اسلام کی روح انسانوں میں پھونک دینا چاہتی ہوں۔

 

جب بھی کوئی انسان برائی کا راستہ ترک کرتا ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ اسلام کی فتح ہوئی ہے۔ تو یہ ہے میری کہانی… سنتھیا سے آمنہ بننے کی!!

 

٭٭٭

 

 

 

میں نے اسلام کیوں قبول کیا

 

(امیرہ ،امریکہ)

 

 

میں نے ارکنساس (امریکہ) میں ایسے والدین کے گھر جنم لیا، جو ارکنساس ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ ماضی میں جہاں تک میں جھانک سکتی ہوں، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ میری فیملی کے بزرگ جنوبی ریاستوں سے یہاں آ کر آباد ہوئے۔ میری ساری پرورش ایک فارم پر ہوئی، جہاں صبح سویرے اٹھ کر بڑی تعداد میں گایوں کا دودھ دوہنا ہوتا ہے۔ مرغیوں کو خوراک دینی ہوتی ہے اور روز مرہ کے دیگر کام کرنے ہوتے ہیں۔ میرا باپ ایک بیپٹسٹ منسٹر (چرچ کا پادری) تھا۔ بیپٹسٹ (Baptist) عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے، جیسے کیتھولک اور میتھو ڈسٹ وغیرہ۔ یہ تمام عیسائی مذاہب ہیں، مگر مختلف نظریات و مسالک کے حامل ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہیں، جیسے مسلمانوں میں شیعہ اور سنی۔ اس سلسلے میں مجھے آپ سنی کہہ سکتے ہیں۔

 

جس قصبے میں میری رہائش تھی، وہاں سب گوری نسل کے لوگ آباد تھے اور سارے کے سارے عیسائی تھے،اس لیے میں کسی دوسرے مذہب اور کلچر سے متعارف نہ ہو سکی، لیکن مجھے ہمیشہ یہ تعلیم دی گئی کہ اللہ نے ہم سب انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے۔ رنگ، نسل، کلچر اور مذہب کی بنیاد پر کسی کو کمتر نہیں سمجھا جا سکتا۔ بعد میں مجھ پر منکشف ہوا کہ ایسی تبلیغ کرنا اور تعلیم دینا، اس وقت تک ان کے لیے آسان ہے، جب تک وہ الگ تھلگ رہیں اور دنیا کے دوسرے مذاہب ان کی دنیا میں داخل نہ ہوں۔

 

پہلی بار میں نے کسی مسلمان کو اس وقت دیکھا، جب یونیورسٹی آف ارکنساس کے کالج میں داخل ہوئی۔ مسلمان لڑکیاں مختلف قسم کے عجیب و غریب لباس پہنے ہوئے تھیں، جبکہ لڑکے سروں پر تولیے (عمامے) لپیٹے ہوئے اور رات کا لباس (Night Gowns ) پہنے ہوئے تھے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں بڑی دیر تک ان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔ پہلی بار جب مجھے ایک مسلمان لڑکی سے ملاقات کرنے کا موقع ملا تو اس سے سوال پوچھتے ہوئے میں نے اطمینان محسوس کیا۔ اس کی باتوں نے میرے قلب و دماغ میں ایک پیاس لگا دی۔ الحمد للہ یہ پیاس کبھی نہ بجھی۔

 

میں اس لڑکی کو کبھی نہیں بھلا سکتی۔ اس کا تعلق فلسطین سے تھا۔ میں اس کے پاس گھنٹوں بیٹھی اس کے ملک اور کلچر کی کہانیاں سنتی رہتی۔ اس کی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ مسحور کیا، وہ اس کا مذہب ”اسلام” تھا۔ یہ لڑکی اندر سے انتہائی مطمئن تھی۔ میں نے ایسی مطمئن ، پرسکون اور پراعتماد خاتون اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ مجھے آج بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیا علیہم السلام کے بارے میں اس کی بتائی ہوئی ہر بات یاد ہے۔ اگرچہ اس کا آج تک میں نے کسی سے اظہار نہیں کیا۔ میرے ذہن میں اکثر ”تثلیث” کے بارے میں سوال پیدا ہوتے تھے کہ ہم عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت کرتے ہیں، براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کیوں نہیں کرتے؟ عیسیٰ علیہ السلام کی ذات ہی پر زور کیوں دیا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی ہے؟

 

اسلام سے متعلق میری دوست نے وہ سب کچھ کیا، جو وہ کر سکتی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسلام کوئی عام مذہب نہیں ہے، بلکہ انسان کے لیے یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ میری دوست نے چھ ماہ بعد اپنی گریجویشن مکمل کر لی اور واپس فلسطین چلی گئی۔ فلسطین پہنچنے کے دو ہفتے بعد ہی اسے اس کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا۔ اس کی موت کی خبر سے مجھے شدید صدمہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا، جیسے میرے بدن کا ایک حصہ مر گیا ہو۔ جب وہ اپنے گھر واپس جا رہی تھی تو ہم جانتے تھے کہ اس دنیا میں شاید ہی ہم ایک دوسرے سے دوبارہ مل سکیں۔ جاتے وقت اس نے ایک انتہائی اہم بات بڑے یقین سے کہی تھی کہ وہ اگلے جہاں جنت میں مجھ سے ملے گی۔

 

اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے کئی افراد سے میری ملاقات اور دوستی ہوئی۔ میری سہیلی کی موت سے مجھے جو صدمہ پہنچا تھا، اس صدمے کو برداشت کرنے کے لیے انھوں نے میری بڑی مدد کی۔ اس سانحے کے بعد عربی زبان سے بھی مجھے محبت ہو گئی۔ یہ بہت ہی خوب صورت زبان ہے۔

 

میں گھنٹوں قرآن کے ٹیپس (Tapes) سنتی، اگرچہ میں کبھی بھی نہ سمجھ پائی کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ آج بھی یہ صورت ہے کہ میں بڑی چاہت سے قرآن کو سنتی ہوں، اگرچہ کچھ سمجھ نہیں پاتی، لیکن قرآن کی تلاوت میرے قلب اور روح کو اپنے اثر میں لے لیتی ہے۔ کالج میں عربی زبان سیکھنے کے لیے میرے پاس بالکل وقت نہیں تھا۔ کالج سے فارغ ہونے کے بعد جب میں اپنی کمیونٹی میں واپس آ گئی تو مسلمانوں سے میرا مزید رابطہ نہ رہا، لیکن میری روح میں اسلام کی جو طلب اور عربی زبان سے جو محبت پیدا ہو چکی تھی، اس نے مجھے کبھی نہ چھوڑا۔ اس کے باعث میرے والدین اور کئی دوستوں کا غصہ بھی بڑھا۔ والدین اور دوستوں کے رویے نے مجھے کنفیوژ کر دیا، کیونکہ مجھے تو ہمیشہ یہ تعلیم دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں ہم سب برابر ہیں۔ میں سوچنے لگی کہ اس تصور مساوات میں میرے دوستوں اور فیملی کے لیے شاید کچھ استثنا ہو۔

 

یہ ١٩٩٥ء کا موسم بہار تھا، جب اللہ تعالیٰ نے میری زندگی میں ایک فرد کو داخل کیا۔ ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے، یہ فرد اس کا ایک خوبصورت نمونہ تھا۔ اس فرد کے باعث ایک بار پھر اسلام میرے ذہن پر چھا گیا۔ میں نے اس سے سوال پوچھنے شروع کر دیے۔ پھر ایک دن پہلی بار مجھے مسجد بھی لے جایا گیا۔ یہ ایسی یادیں ہیں، جو میرے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئیں۔ اس نے اسلام سے متعلق مجھے جو بھی دیا، میں نے پڑھ ڈالا، ٹیپس مسلسل سنے۔ یہ سلسلہ ٨ ماہ تک جاری رہا۔ پھر وہ لمحہ آ گیا یعنی باطل کو چھوڑنے اور حق کو قبول کر لینے کا لمحہ۔ ١٥ فروری ١٩٩٦ کو میں نے اسلام قبول کر لیا۔ (الحمد للہ)

 

اسلام قبول کر لینے کے بعد آزمایشوں کا دور شروع ہو گیا۔ سب سے پہلی آزمائش میری منگنی کا ٹوٹنا تھا۔ میرے (مسلمان فلسطینی) منگیتر کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ اس کی شادی کسی امریکی لڑکی سے ہو، اگرچہ ہمارے درمیان منگنی کا تعلق و رشتہ ختم ہو گیا، پھر بھی اس کا احترام و قدر کرتی ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ثابت قدم رکھا اور میں ان شاء اللہ اسلام کے راستے کو کبھی نہ چھوڑوں گی۔

 

جب میں نے ایک عرب یعنی غیر ملکی سے منگنی کی تو میرے والدین کو شدید جھٹکا لگا۔ انھوں نے میرے ساتھ بات چیت بند کر دی۔ میری بیش تر امریکی سہیلیاں بھی مجھے چھوڑ گئیں۔ جب میں نے اسلام قبول کیا تو میری فیملی نے مجھے ذہنی امراض کے ہسپتال لے جانا چاہا۔ جب وہ اس میں ناکام ہو گئے تو انھوں نے مجھ سے اظہار لا تعلقی کر دیا۔ وہ مجھے فون کرواتے کہ انھیں یقین ہے کہ میں دوزخ میں جلوں گی۔ میری اکثر سہیلیاں بھی اپنے فون میں اسی خواہش کا اظہار کرتیں، اگرچہ اس سے مجھے شدید دکھ پہنا۔ میرے اور میرے گھر والوں میں کئی اختلاف پیدا ہو گئے، تاہم میں پھر بھی ان سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتی ہوں، اللہ کا شکر ہے جس نے میرے ایمان کو قوت بخشی اور مضبوط بنایا۔

 

اسی اثنا میں دہشت گردوں نے ہمارے شہر میں بم دھماکے کر دیے۔بم دھماکوں کے چار دن بعد کی بات ہے کہ ایک دوپہر کو جب میں اپنے گھر واپس لوٹی، تو میں نے دیکھا کہ کھڑکیوں پر کسی نے فائرنگ کی ہوئی ہے اور میری ایک گاڑی پر ”دہشت گردوں سے محبت کرنے والی” (Terrorist Lover) پینٹ کیا ہوا ہے۔ میں نے پولیس فون کیا مگر پولیس میری کسی قسم کی مدد کرنے کو تیار نہ تھی۔ اسی رات جب میں انٹرنیٹ کے ”مسلم چیٹ” پر گپ شپ لگا رہی تھی، میں نے فائرنگ کی آواز سنی۔ پہلے حملے میں جو کھڑکیاں بچ گئی تھیں، اب دوسرے حملے میں انھوں نے سب کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ باہر جو میرے پیارے جانور تھے، ان سب کو بھی انھوں نے مار دیا۔

 

پولیس آئی اور مجھے کہا کہ ”جب تک حملہ آوروں کی شناخت نہ ہو اور ان گاڑیوں کے بارے میں معلومات نہیں دی جاتی ہیں، جن پر وہ آئے تھے، حملہ آوروں کا سراغ لگانا ناممکن ہے”۔ میں نے ان سے التجا کی کہ وہ میری گاڑیوں کو چیک ہی کر دیں کہ سفر کے لیے ان میں کوئی خطرہ تو نہیں پیدا کر دیا گیا۔ میں ہوٹل جانا چاہتی ہوں اور اس کے لیے محفوظ سفر کی خواہاں ہوں۔ انھوں نے مجھے صاف جواب دے دیا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے، کیونکہ ہمیں خدشہ ہے کہ تمھارے دہشت گرد دوستوں نے ہمیں ٹریپ کرنے کے لیے اندر بم نہ رکھ دیے ہوں۔ میں اللہ کے حضور جھک گئی اور رو کر اس سے رحم اور راہنمائی کی دعا کرنے لگی۔

 

ایک رات پارکنگ لاٹ میں ایک نامعلوم شخص نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ اس نے مجھے پیٹنے ، زخمی کرنے، میری کلائی اور پسلیاں توڑنے کی کوشش کی۔ اس آدمی کو پکڑ لیا گیا۔ ایک روز جب میں ڈارئی کلینر کے پاس اپنے کپڑے لینے گئی تو مجھے بتایا گیا کہ وہ گم ہو گئے ہیں۔ ان کپڑوں میں میرے تمام اسکارف ، جلباب وغیرہ شامل تھے۔ ان کے لیے یہ اشیا گم کرنا کتنا آسان تھا!

 

یہ قصبہ بہت چھوٹا ہے اور قرب و جوار میں کوئی مسلمان بھی نہیں ہے۔ قریب ترین مسجد ١٢٠ میل دور ہے۔ اگرچہ یہاں تنہا ہوں اور کوئی دوسر امسلمان نہیں، جس کے پاس ملنے کے لیے جا سکوں اور اس سے کچھ سیکھ سکوں، لیکن الحمد للہ، اللہ ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے۔ میرے پاس اسلام کا جو بھی تھوڑا بہت علم ہے، یہ انٹرنیٹ پر اسلام کے بارے میں دستیاب معلومات پڑھ کر اپنے سچے دوستوں کے ذریعے اور انٹرنیٹ فیملی کے ذریعے سے حاصل ہوا ہے۔ میں اپنے فلسطینی بھائی کی محبت، مدد، دوستی اور اس کی دعاؤں کے لیے اس کی خصوصی شکر گزار ہوں۔انٹرنیٹ کے میرے دوسرے مسلمان بھائیو اور بہنو! میں آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے چاہتی ہوں اور آپ کی شکر گزار ہوں۔

 

میں نے یہ داستان کسی قسم کی ہمدردی حاصل کرنے کی امید پر نہیں لکھی ہے، لیکن میں سب سے یہ ضرور کہوں گی کہ میرے لیے مسلسل دعا کرتے رہیں۔ امریکا اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ جو نا انصافیاں ہو رہی ہیں اور ان کے ساتھ جس تعصب کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، ان شاء اللہ یہ جلد اپنے انجام کو پہنچے گا۔ میں جانتی ہوں کہ ناانصافیوں اور تعصب کے خلاف جنگ میں میں تنہا نہیں ہوں، یہی وقت ہے کہ میڈیا لوگوں کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر لائے۔

 

آخری بات اپنی پیاری سہیلی سے جس نے سب سے پہلے اپنے اسلامی علم میں مجھے شریک کیا۔ میں جانتی ہوں کہ ١٥ فروری ١٩٩٦ء کو جب میں نے کلمہ شہادت پڑھا تھا تو تم جنت میں خوشی سے مسکرا اٹھی تھی۔ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ان شاء اللہ ہم ایک بار پھر ملیں گے۔

 

 

 

٭٭٭

ماخذ:

http://www.suayharam.org/

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید