FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

شعریات

 

 

 ڈاکٹر عتیق اللہ

 

 

 

 

 

221!غالب اپارٹمنٹس،پیتم پورہ۔دہلی۔ 110034

7015708 / 9810533212

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

گوپی چند نارنگ

کے

نام

ترے فلک ہی سے ٹوٹنے والی روشنی کے ہیں یہ عکس سارے

کہیں کہیں جو چمک رہے ہیں حروف میری عبارتوں میں

 

 

 

 

 

 

شعرِ میر میں بیان اور بیان کنندہ کی نوعیت

 

افلاطون اور پھر ارسطو نے بیان کنندہ کی تین قسمیں بتائی ہیں۔

الف: وہ جو اپنے مخاطبہ میں صرف اور صرف اپنی آواز کا استعمال کرتا ہے۔ اس نوعیت کے مخاطبہ میں مخاطب پردۂ غیاب میں بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بیان کنندہ کا خطاب محض اپنے آپ سے ہو یا ایسی فرض کردہ ہستی سے ہو، جس کے وجود و عدمِ وجود پر وثوق سے کوئی حکم ہی نہیں لگایا جا سکے۔

ب: وہ مخاطبہ جس میں کسی دوسرے شخص یا بہت سے اشخاص کی آواز کو تصرف میں لایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ آواز بیان کنندہ کی اپنی نہیں ہوتی، بلکہ ایسی مثال میں اس کی ہستی دوسری ہستی کے لیے ایک میڈیا کا کردار ادا کرتی ہے۔ افسانوی ادب میں اس قسم کی آواز سے بالعموم سابقہ پڑتا ہے۔ مصنف اپنے ہی عائد کردہ جبر کے تحت اپنی شخصیت اور اپنے جذبوں کے تئیں ایک اجنبی ہستی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مصنف اور ہستیِ دیگر کی روشنی میں اس صورتِ حال کو ایک متناقض صورتِ حال سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

بیان کنندہ اور دوسروں کی آواز سے مرّکب ممزوجہ، ہم اسے ممزوجہ آواز بھی کہہ سکتے ہیں۔

میر کو ہم بنیادی طور پر غزل کا ہی شاعر قرار دیتے ہیں۔ غزل کے شاعر سے یہ توقع ہی فضول ہے کہ وہ کسی ہستیِ دیگر کی آواز میں بات کرے گا یا ممزوجہ آواز پر اس کی تاکید ہوگی۔ میر نے بھی صرف اور صرف اپنی ہی آواز میں گفتگو کو ترجیح دی ہے مگر اس کے معنی ٹی۔ایس۔ایلیٹ کی تین آوازوں میں سے اس پہلی آواز کے بھی نہیں ہیں۔ جس کا مخاطب خود شاعر کی ذات ہوتی ہے یا کوئی ذات ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ میر کی آواز اس دوسری آواز سے کسی نہ کسی حد تک ضرور مماثل ہے جس کا خطاب ایلیٹ کے لفظوں میں کسی سامع یا سامعین سے ہوتا ہے۔اس ضمن میں ’’میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی‘‘، والی صرف ایک غزل کی مثال ہی کافی ہے جس میں بالآخر نویں شعر پر آ کر میر ہستیِ دیگر سے اس کی سرد مہری کا شکوہ براہِ راست ان الفاظ میں کرنے لگتے ہیں۔

سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا

سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی

مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو

شہرِ دلّی میں ہے سب پاس نشانی اس کی

آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہے

دردمندی میں گئی ساری جوانی اس کی

میں یہاں خطاب کے لفظ کے ساتھ دوسرے کی شمولیت اور شرکت جیسے لفظ کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ میر جب بھی خطاب کرتے ہیں یا کسی دوسری ہستی کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں تو ان کا اشارہ ہستیِ دگر میں ضم ہونے کے علی الرغم ہستیِ دگر کی شرکت کی طرف ہوتا ہے۔

دیکھو تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

شب ہا بحالِ سگ میں اک عمر صرف کی ہے

مت پوچھ ان نے مجھ سے جو آدمی گری کی

میر کے اشعار میں شمولیت محض انسان کی شمولیت ہی پر حد قائم نہیں کرتی بلکہ فطرت کے مظاہر بھی اس میں شامل ہیں۔ میر نے جا بجا کلی، غنچہ، گل، صبا، بلبل اور طائر وغیرہ سے یا تو براہِ راست مکالمے کی طرح ڈالی ہے، یا انہیں اپنے جذبے کے مناسب کشود کے لیے معروضی تلازمے کے طور پر برتا ہے یا ان کی مدد سے کوئی دلیل قائم کی ہے یا اپنے ہی کسی دعوے یا خیال کو مستحکم کیا ہے۔

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات

کلی نے یہ سن کر تبسّم کیا

اس شعر میں شاعر کا مقصود غالباً یہی بتانا ہے کہ موجودات کی ہر شے ایک محدود و مقر رہ مہلت کی حامل ہے اور ان میں بھی پھول جیسی حسین شے کی زندگی کی مہلت یا مہلتِ انبساط لمحہ دو لمحہ سے زیادہ نہیں۔بے ثباتی دنیا کا مضمون بالخصوص مشرقی شاعری کا ایک اہم حاوی مضمون ہے، جسے شعراء مختلف اسالیب میں باندھتے آئے ہیں۔ میر کا زیادہ پسندیدہ مضمون جبر و اختیار سے متعلق ہے۔ غور کیا جائے تو اس شعر کی تہہ میں بھی جبر و قدر کا یہی مفہوم کارفرما ہے۔ شاعر نے فطرت کے محض ان اجزا کو ذریعہ بنا کر بے ثباتی دہر کے دعوے کو مستحکم کیا ہے، جو خوبصورت ہیں، اس طرح کلی کے تبسّم میں رقت اور المناکی کے طنز آمیز پہلو تو مضمر ہیں ہی عبرت کا بھی ایک پہلو مقتدر ہے جس سے متن، اخلاقی قصد کا حوالہ بن جاتا ہے۔ کسی جمالیاتی ترکیب میں اخلاقی عنصر کو بخوبی نبھا لینا اتنا آسان نہیں ہوتا میر اور ان کے بعد غالب ہی کو یہ شعار آتا تھا۔

اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گزار

کہیو ہم صحرا نوردوں کا تمامی حال زار

خاکِ دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی

آسماں کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار

محولہ بالا پوری کی پوری غزل میں بیان کی سطح قطعی آشکار ہے اسے بیان واقعہ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ شاعر نے یہاں کھل کر شمولیت کا اقرار کیا ہے اور آواز وہی جو ایلیٹ کی دوسری اور افلاطون کی پہلی آواز سے مرکب ہے ’’کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات‘‘، میں بیان بلکہ بیانِ واقعہ کی جہت اندر کی طرف ہے اور معنی پر ابہام کی ایک ہلکی سی دھند بھی محیط ہے۔تاہم میر یہاں بھی کم سے کم لفظوں میں ایک پوری واردات کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔

میر کے بارے میں عام رائے یہ رہی ہے کہ وہ ایک جذباتی شاعر ہیں ان کے سارے جذبوں میں عشق کا جذبہ سب سے ہمہ گیر ہے۔ گویا عشق کا جذبہ ان کی پہلی واردات ہے اور ان کے دیگر جذبے اسی ایک جذبے سے ماخوذ ہیں یا ا سی سے نمو پاتے ہیں۔ اس خیال کے بھی اپنے جواز ہیں کہ عشق کا جذبہ جسے بعض شعرا نے محض اکتساب کے ذریعے اخذ کیا ہے اور تھوڑا بہت اپنے تخئیل کا آب و رنگ دے کر اسے ایک نیا تجربہ بنانے کی سعی کی ہے۔ میر کے یہاں بھی اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہم ان مثالوں کو بین المتونی اثر و تعامل کا نتیجہ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن میر کا اپنا ایک انفراد بھی ہے کہ وہ اس جذبے یا دوسرے لفظوں میں اس قسم کے مضامین کو بڑے الہڑ، بڑے شوخ اور بڑے بے نیازانہ طریقے سے ادا کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں آواز تو میر کی اپنی ہوتی ہے لیکن اس کی تاکید جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں اپنے جذبوں میں دوسرے کی شمولیت پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میر کے بہترین اور منتخب اشعار میں اکثر متکلم صیغۂ غائب میں آیا ہے۔ کہیں کہیں اور اکثر ڈرامائی لمحوں میں متکلم اور غائب دونوں بڑی خوبی کے ساتھ گڈ مڈ ہو جاتے ہیں جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے:

سن سن کے دردِ دل کو بولا کہ جاتے ہیں ہم

تو اپنی یہ کہانی بیٹھا ہوا کہا کر

میر جذبوں کے اظہار میں اتاؤلے نہیں ہو جاتے یعنی اظہار میں وہ بے ساختگی جو فوری ردّ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے اور جسے عام طور پر میر سے مختص کیا جاتا ہے میر کے یہاں کم سے کم ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ انسانی جذبوں اور انسانی تجربوں کے شاعر اسی لیے ہیں کہ واردات اور اظہار کے مابین ایک خاص مہلتِ زماں کی فصل کا انہیں ہمیشہ لحاظ رہا کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں واردات اور اظہار کے مابین ایک خاص مہلتِ زماں کا فاصلہ اظہار میں جذباتی دھند کو بھی رفع کرتا ہے۔ ورڈزورتھ نے شاعری کو emotions recollected in tranquility کہا تھا اس خیال سے ایک یہ تاثّر بھی لیا جا سکتا ہے کہ عالمِ سکون میں جذبوں کی باز آفرینی سے اس لجلجے پن کا اندیشہ کم سے کم رہ جاتا ہے جس کا واقع ہونا فوری اظہار میں ہمیشہ اندر از امکان ہوتا ہے۔ میر کے جذبوں میں بالیدگی، بلوغت، گوناگونی اور اکثر کھلنڈرے پن کی سی کیفیت اسی معنی میں پائی جاتی ہے کہ انہیں نہ تو محض چند مخصوص جذبوں کا رسیا ہونا گوارہ ہے اور نہ جذبوں کا فوری اظہار ان کے لیے جمالیاتی طمانیت کا مؤجب ہوتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اگر کسی غزل گو شاعر کے یہاں جذبوں کا اظہار، واقعاتی بیان یا بیانِ واقعہ کی شکل اختیار کرتا ہے تو وہ اس کی نا اہلی کی دلیل ہے۔ میر فوری ردّہائے عمل سے گریز ضرور برتتے ہیں لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے جذبوں اور تجربوں میں شدت ہی ناپید ہے۔ واقعاتی بیان سے بھی میری مراد یہ نہیں ہے کہ واقعاتی بیان،سچے جذبوں کو مسترد کرنے کا نام ہے۔

میرا مدّعا تو صرف یہ ہے کہ میر کو بیان واقعہ سے خاصی دلچسپی ہے۔انہیں اپنے نجی تجربوں ،ذاتی وارداتوں اور حتیٰ کہ روایتی شاعرانہ مضامین کو کبھی گہری سنجیدگی اور کبھی بڑے چٹخارے کے ساتھ بیان کرنے کا ہنر آتا ہے۔ میر کو کسی ایک خاص کیفیت کسی ایک خاص اور حاوی تجربے اور حتّیٰ کہ محض عشق کے جذبے کا شاعر قرار دینے کے معنی میر کی غیر معمولی تخلیقی استعداد سے انکار کرنے کے ہیں۔

آنے کو میری فرصت، کتنی دو دم، دو پل، ایک گھڑی

رنجش کیوں، کا ہے کو خشونت، غصہ کیا ہے، جاتا ہوں

ہائے سبک ہونا یہ میرا فرطِ شوق سے مجلس میں

وہ تو نہیں سنتا دل دے کر ، میں ہی باتیں بناتا ہوں

گھر سے اٹھ کر لڑکوں میں بیٹھا بیت پڑھی دو باتیں کیں

کس کس طور سے اپنے دل کو اس بن میں بہلاتا ہوں

قتل میں میرے یہ صحبت ہے غم غصے سے محبت کے

لوہو، اپنا پیتا ہوں ، تلواریں اس کی کھاتا ہوں

سرماروں ہوں ایدھر اودھر دوٗر تلک جاتا ہوں نکل

پاس نہیں پاتا جو اس کو کیا کیا میں گھبراتا ہوں

محفلِ محبوب میں تحقیر آمیز تجربے کی ایک صورت مذکورہ بالا پہلے شعر میں وہ ہے جسے میر بڑی معصومیت سے قبول کر لیتے ہیں دوسرا تجربہ غالب کے اس شعر میں ادا ہوا ہے:

میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کر ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

غالب کے شعر میں ایک لطیف طنز پنہاں ہے۔ شاعر نے خود اپنے آپ کا مذاق اڑا کر اپنی تحقیر و تذلیل کے ذریعے نفسیاتی اخراج کی ایک صورت نکالی ہے۔ ڈرامہ یہاں بھی ہے۔ غیر، یعنی رقیب غیاب میں ہونے کے باوجود اپنے پورے وجود کے ساتھ تیسرا زاویہ مکمل کر رہا ہے۔ غالب عاشق کی روایتی مجہولیت کے مقابلے پر معشوق کی ذہنی چابک دستی، تیزی اور طرّاری کا ثبوت فراہم کر کے قدرے تسکین حاصل کرتے ہیں جب کہ میر کے محولہ شعر میں عاشق justification کی طرف مائل ہے۔ وہ گلہ گزار بھی ہے اور دوسرے لفظوں میں فریاد کناں بھی کہ ’’ارے بھائی تمہاری محفل میں ہمیں کوئی ساری کی ساری زندگی تو گزارنی ہے نہیں۔ زندگی نے ہمیں فرصت ہی کتنی دی ہے پل دو پل۔ ناراض کیوں ہوتے ہو۔ کیوں پیچ و تاب کھاتے ہو اتنا ہی برا لگا تو لو چلے جاتے ہیں……. بیانِ واقعہ کی صورت دونوں اشعار میں موجود ہے۔ غالب کے شعر میں زمانے کے عدم تعین کا الگ لطف ہے اور میر کے صیغۂ حاضر کی واردات کا ایک علیحدہ مزہ۔ دونوں اشعار میں ڈرامائی عنصر کی کارفرمائی ہے۔ ڈرامہ اور بیان میں ضد ہے لیکن شعر کی ترکیب میں ڈرامائی واردات کو بیانیہ میں ادا کیا گیا ہے۔ ایک نکتہ اور ہے: پہلے مصرعے میں دو دم، دو  پل،ایک گھڑی میں جواز کے ساتھ اصرار و اعتماد بھی چھپا ہوا ہے کہ یوں نہیں تو ہستیِ دگر کو یوں ماننا پڑے گا۔ پھر یہ کہ رنجش کے ساتھ کیوں، خشونت کے ساتھ ’’کا ہے‘‘ اور غصہ کے ساتھ ’’کیا‘‘ جیسے استفہامیہ کلمات سے عاشق اور معشوق کے تین کردار واضح ہوتے ہیں عاشق پہلے بڑی سادگی سے پیش آتا ہے کہ بھائی کس بات کا لڑائی جھگڑا ہے، کیوں، کا لفظ رنجش کے بعد آیا ہے جس سے آہنگ کا دھیما پن بھی ظاہر ہوتا ہے جب کہ خشونت سے پہلے استفہامیہ کا استعمال کیا گیا ہے کہ ’کا ہے کو،یہاں پہلے ٹکڑے کی نرمی، احتجاج میں بدل جاتی ہے عاشق پہلے نرمی برتتا ہے پھر تھوڑا سا سنبھلتا ہے اور معشوق کے نفرت انگیز اور تحقیر آمیز رویے کا جواز بھی مانگتا ہے اور معترض بھی ہوتا ہے کہ ہمیں آپ نے کیا ایسا ویسا سمجھ رکھا ہے گویا ہم بھی کوئی آن کوئی مان رکھتے ہیں۔ اس کے بعد تیسرا ٹکڑا’’ غصہ کیا ہے‘‘ کا ہے۔ یہاں میر نے ’’غصہ کیوں ہے‘‘ نہیں کہا ہے۔ کیوں کہ’’ کیا ہے‘‘ میں آہنگ ایک دم بلند ہو جاتا ہے کہ غصہ کس لیے کرتے ہو۔ ہم تم کو یہ اجازت ہی نہیں دیتے کہ تم ہم پر غصہ کرو۔ یہی بات ہے تو تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش، میر ’’جاتا ہوں‘‘۔ کہہ کر ڈرامائی واقعے کو اپنے کلائمکس پر پہنچا دیتے ہیں اس کے بعد پہلا مصرع پھر پڑھئے۔

آنے کی میری فرصت کتنی دو دم، دو پل ایک گھڑی

یہاں تکرار میں اصرار کا پہلو تو مخفی ہے ہی جب کہ جواز مقدر ہے فرصت، مہلت کے علاوہ فراغ کے دورانیے کے معنی بھی فراہم کرتا ہے۔ یہاں میر نے کتنی ، کا استفہامیہ استعمال کر کے یہ باور کرایا ہے کہ اس کے بعد ذرا رکیں، ٹھہریں، گویا کتنی اور دو دم کے درمیان ایک انتہائی خفیفpoetic pause ہے بلکہ اسے سکوتیہ silence کہنا درست ہوگا۔ کہ اب قاری شاعر کے جواب سے پہلے خود اس سکوتیے کو اپنے معنی سے پر کرے۔ میر کہتے ہیں ’دو دم، دو پل، ایک گھڑی‘۔ دم بمعنی سانس مراد زندگی بھی ہے۔ زور اور قوت بھی اور ایک لمحہ بھی، پل بھی وقت کے ایک خاص میزان کے معنوں میں مستعمل شد فگتےئیج ہے۔پلیٹس نے اس کے لیے ایک گھنٹہ مقرر کیا ہے اور ایک غیر مقر رہ خفیف مہلتِ زماں بھی۔ اس طرح ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ میر نے دم، پل اور گھڑی کو معنیِ مترادف کے طور پر استعمال نہیں کیا ہے انہوں نے پہلے دم کہا ہے یعنی لمحہ دو لمحہ پھر پل کہا ہے یعنی ایک منٹ اس کے بعد (گویا بالترتیب) گھڑی کہا ہے یعنی اس سے طویل مہلت۔ پہلے خفیف تر مہلتِ زماں کا حوالہ ہے پھر اس سے طویل اور اس کے بعد اس سے طویل تر۔ گویا شاعر یہ بتلانا چاہتا ہے کہ زندگی ہی نہیں وقت نے بھی اتنی فرصت کہاں مہیا کی ہے کہ اطمینان کے ساتھ کہیں پل دو پل، گھڑی دو گھڑی بھی گزار سکیں۔

بیان کنندہ کی حیثیت سے میر بار بار اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ درج ذیل اشعار میں بھی بیان واقعہ کی سطح نمایاں ہے۔ میں یہاں بھی یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایک صورت اُ س بیانِ واقعہ کی ہے جس کے حوالے سے شاعر اپنے سوانح کو موضوع بناتا ہے جیسے درج ذیل اشعار میں ہے۔

یہ میر ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا

انداز سخن کا سببِ شور و فغاں تھا

جادو کی پُڑی پرچۂ ابیات تھا اس کا

منہ تکیے غزل پڑھتے، عجب سحرِ بیاں تھا

جس راہ سے وہ دل زدہ دلّی میں نکلتا

ساتھ اس کے قیامت کا سا ہنگامہ رواں تھا

افسردہ نہ تھا ایسا کہ جوں آب زدہ خاک

آندھی تھی، بلا تھا، کوئی آشوبِ جہاں تھا

یا وہ غزل جس کا پہلا شعر ہے:

یادِ ایّامے کہ ہنگامہ رہا کرتا تھا رات

شور و شر سے مرے اک فتنہ رہا کرتا تھا رات

دوسری صورت شعر کے construct کے اندر مضمر ہوتی ہے جسے قاری اپنے ذہن میں واقعے کی صورت میں مرتب کرتا ہے میں نے اپنے مضمون کی ابتدا میں جس آواز کے تعلق سے کہا تھا کہ وہ میر کی آواز ہے اس میں شمولیت کا مقصد بھی پنہاں ہے۔ دوسری مثال کے طور پر درج ذیل چند اشعار پر اکتفا کر کے میں اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں۔

یوں اٹھے آہ، اس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

چمن میں دلخراش آواز آتے ہی چلی شاید

پسِ دیوارِ گلشن، نالہ کش ہے کوئی پر بستہ

ترے کوچہ میں یکسر عاشقوں کے خارِ مژگاں ہیں

جو تو گھر سے کبھو نکلے تو رکھیو پانو آہستہ

 

 

 

شعرِ نظیر اور اجتماعی ضمیر سے ہم آہنگی

 

نظیر اکبر آبادی کے یہاں زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہے۔جو تنوع اور تضادات ہی نہیں بوالعجبیوں سے بھی معمور ہے۔ جس کے مظاہر میں کمال اور تکمیل کے قماشات کم، بے تعیّنی اور بد ہیئتی کی قدر نسبتاً زیادہ آشکار ہے۔نظیر حیات و کائنات کو اُن کے اُن تمام رنگوں کے ساتھ قبول کرتے ہیں جو ہلکے بھی ہیں گہرے بھی ، ایک دوسرے میں مدغم بھی ایک دوسرے سے ممتاز بھی۔ زندگی جیسی جو کچھ ہے اسی دھج میں اس کا استقبال کسی کے لئے جبر کا حکم رکھ سکتا ہے لیکن نظیر کے یہاں محض ایک کھیل تماشہ ہے۔ نظیر کا تصور ایسی بہت سی موسمی اور تہذیبی رسومات اور تہواروں کے عاشق کے کردار کے طور پر بھی ابھر تا ہے جو ہر رنگ میں مست اور ہر حال میں الست ہے۔ انسان جس کے لئے مستقلاً ایک امکان کا نام ہے۔اس کے ہزار رنگ ہیں وہ آجر بھی ہے اجیر بھی، فاتح بھی ہے مفتوح بھی، جابر بھی ہے مجبور بھی۔ وہ جتنا خوش خلق اور یار باش ہے اتنا ہی کم انگیز اور دیر آگیں بھی اور بدی ہی نہیں نیکی بھی جس کی توفیق میں ہے۔ نظیر اس وسیع و عریض پیش و پس کو ایک عام انسان کی نگاہ سے دیکھتے اور فقیرانہ شان سے دوسرے انسانوں کو بسر کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ عیش و طرب کی دلدادگی کے معنی قطعی یہ نہیں ہیں کہ نظیر hedonistہیں ۔وہ سامان عیش کو بڑی سادہ لوحی کے ساتھ خدا کی نعمتوں کے نام سے ضرور یاد کرتے ہیں لیکن بار بار یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ خدا کی ان بیش بہا نعمتوں پر دوسرے فلاکت زدہ انسانوں کا بھی کوئی حق ہے۔ انسانوں کو راہِ راست پر لانے کا ان کے پاس ایک ہی نسخہ ہے جسے موت کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موت کی یاد دہانی ان کی نظموں میں معمول کا حکم رکھتی ہے ۔ غور کیا جائے تو یہ فقیرانہ وضع اپنی ایک معنویت بھی رکھتی ہے۔ نظیر نے اپنی جوانی اور بلوغت کا زمانہ جس جغرافیائی کرُے میں گذار ا تھا ۔وہ برج کا گڑھ تھا ایک طرف شاہان وقت برج کے دیوانے تھے دوسری طرف غالب کی تخلیقی زندگی کا وہ دور عروج تھا جو بیسویں صدی کے ربع اول کو محیط ہے ۔کہاں غالب کی فلسفیانہ مو شگافیاں اور تہذیبِ لسان کا گہرا شعور اور کہاں نظیر کی وارفتہ مزاجی اور آزادہ روی جو کسی بھی لسانی اور عرف عام میں تہذیبی تحریم کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ایک کا دور شباب ہے اور دوسرے کا عہد پیری۔ غالب آگرہ کو تج کر دہلی کو اپنا مستقر بنا لیتے ہیں جو اہل زبان کا گڑھ ہے اور کھڑی بولی کا دہانہ جب کہ نظیر دہلی پر آگرہ کو فوقیت دیتے ہیں۔ دہلی کے مقابلے میں اس دور کے آگرہ کے لوگ بالعموم مذہبی تشرع کے برخلاف دگریت، عمومی روا داری اور کھلے پن میں زیادہ اطمینان حاصل کر تے تھے کہ انہی اقدار کے توسط سے وحدت انسانی کا تصور مستحکم ہو تا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی سنتوں کے تکئے مرجع ہر خاص و عام تھے  اور ان کے دروازے ہر کس و ناکس کے لئے کھلے رہتے تھے ۔ ان معنوں میں نظیر ہماری لسانی تہذیب کے اس روایتی دھارے سے دہ چند دور نظر آتے ہیں جس کی جمالیات پر مدنیت کا گہرا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ ایک اعتبار سے وہ میر، مصحفی، ناسخ اور غالب کے معاصر بھی ہیں لیکن کسی حد تک میر کے علاوہ ان میں سے کسی سے ان کی راہ نہیں ملتی۔ انہیں رحیم اور کبیر کے لوک سلسلے ہی کی ایک کڑی سمجھنا چاہیے۔اگرچہ نفسی ایثار پیشگی اور بے غرضی جیسی اقدار جن سے بشریت کا تصور کمال حاصل کرتا ہے اور جن سے وسیع المشربی کے تصور کو مناسب اساس ملتی ہے ہمیشہ سے اردو شاعری کے خمیر میں شامل رہی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ نظیر و کبیر نے پوری آواز کی بلندی اور شفاف لسان کے ساتھ اپنی ترجیحات کو زبان دینے کی سعی کی ہے یہاں پر دہ داری کم پر دہ دری کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔

غزل کا لسانی شعار، اجمال و ایجاز  کا جس طور پر پابند ہوتا ہے اور مضامین میں جس طرح تکرار اور باز آفرینی ایک روایت کے طور پر بر سر کار ہوتی ہے اسے Deconstructکرنے کا ایک طریقہ نظم کے تجربے سے ہو کر جاتا ہے ۔ اور یہ تجربہ نظیر کی اپنی ملک ہے۔ نظیر کے موضوعات کا افق اسی لئے وسیع اور کشادہ ہے کہ غزل کے روایتی نظام لسان اور مضامین کے سانچوں سے ان کی نظم پہلو بچا کر چلتی ہے ۔ ہمیں نظیر کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کرنا چاہیے جو ایک تیزی سے مدنیت میں ڈھلتے ہوئے اخلاق باختہ سماج میں ایک بو ہمین کے طور پر زندگی جینے کے درپے ہیں ۔ اسی آزادہ روی کا عکس ان کی شاعری میں بھی در آیا ہے کہ متداول مضامین شعر اور لسانی خوشے اور سانچے تیز مروجہ ایلوژن انہیں اپنی طرف راغب نہیں کر سکے اس کے برعکس ان صوفی منشی شعرا کے تخلیقی وجدان کے وہ قریب رہے جن کا درس ہی استغنا تھا اور فقر ہی جن کی تعلیم تھی۔ وہ راست رو بے لاگ اور صاف گو ہی نہیں بلا خوف بھی تھے ۔اقتدار کی ہوس سے بے نیاز اور مقتدرہ Establishmentکی ترغیبات سے بے پرواہ۔ خاکساری اور خاک بسری میں انہیں بیش از بیش طمانیت میسر آتی تھی ۔ انہوں نے زندگی  اور اس کے دیگر متعلقات کو ہر جگہ دقت کے بجائے بڑی سہولت کے ساتھ اخذ کیا ہے۔ وہ ہر جا ایک جہانِ دیگر کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اس جہانِ دیگر کی تہہ بہ تہہ خاک چھاننے لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نظیر کے کلام میں مترادفات ہی نہیں ضدوں کا بھی ایک طویل سلسلہ قائم ہو جاتا ہے ۔ہر جز کی سو سو تفصیلات ہو تی ہیں ۔ بار بار فوکس بدلتا ہے کوئی چیز تنہا نمودار نہیں ہوتی دوسری اشیا کے جمگھٹے میں اس کا وجود کوئی معنی فراہم کر تا ہے۔ یوں بھی نظیر پُر تکلُّف محفلوں کے نہیں گردو غبار سے اٹی ہوئی بھیڑ کے آدمی ہیں۔ بھیڑ ہی ان کی شاعری اور ان کی شخصیت کو ایک خاص معنی بھی مہیا کر تی ہے ۔یہ وہ معنی ہے جو نظیر کے علاوہ کسی بھی اردو شاعر پر چست نہیں بیٹھتا ۔

نظیر کو بڑی آسانی سے سادہ لوح، ان گھڑ اور اکھڑ بھی کہا جا سکتا ہے۔ جن کا فن جذبے کی معصومیتوں کو بالعموم تازہ دم رکھتا ہے۔ انہیں معنوں میں ان کے اظہار میں فلسفیانہ ترجیحات اور مو شگافیوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہو تی بلکہ زبان اور اظہار کے موجود اور دستیاب اسالیب ان کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں بنتے۔ یہ ہنر پہلے جعفر زٹلی کے ہاتھ آیا تھا ان کے بعد سودا نے بھی کہیں کہیں اسے برتا ہے۔ سودا بھی کم کھلنڈرے نہ تھے۔انہوں نے زبان پر اپنی حاکمانہ قدرت کا کم مظاہرہ نہ کیا تھا ۔ تیسری مثال انشاء کی تھی جو یقیناً اس ذیل میں سودا سے بڑا نام ہے۔ لیکن ان شعرا کو سادہ لوح نہیں کہا جا سکتا جس سے فطرت کی گود میں پلے ہوئے primitive اور rustic شعرا کا تصور وابستہ ہے ۔

عموماً منھ پھٹ کی وہ صورت جو مکر اور فریب کا پردہ چاک کر تی ہے، وہ من مانا پن جو ہمیشہ اپنی راہ آپ بنانے کی طرف مائل رہتا ہے نظیر کے شیوہ گفتار کی خاص پہچان ہے لوک شاعری بھی انہی تخصیصات پر منتج ہو تی ہے اور بھکتی کال کے شعرا کا بھی یہی منصب رہا ہے۔ اور اجتماعی ضمیر سے ہم آہنگی کی راہ اسی نوع کی شاعری سے ہو کر جا تی ہے۔ میں نے اپنے مضمون کی ابتدا میں یہ بات کہی تھی کہ زندگی جیسی جو کچھ ہے ا سی دھج میں اس کا استقبال کسی کے لئے جبر کا حکم رکھ سکتا ہے لیکن نظیر کے یہاں محض ایک کھیل تماشہ ہے۔ سودا کے لئے بھی یہ ایک تماشہ ہی تھا۔ غالب کے لئے کھیل اور نظیر کے لئے عیش و عبرت کا مقام۔ سودا کو اخلاق آموزی سے کد ہے جو غالب کے با ب میں گناہ ہے لیکن نظیر جنہیں ہر حال اور ہر کیفیت میں جینے کا ہنر آتا ہے پند و نصائح کی مار مارنا بھی جانتے ہیں۔ سودا جب بھولے بھٹکے اخلاق کا درس دیتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی عصا بدست منبر پر کھڑے ہو کر ڈانٹ پھٹکار رہا ہے جب کہ نظیر اس قسم کے سارے کام کھیل کھیل میں انجام دے دیتے ہیں ۔

یہ اسپ بہت کودا اچھلا اب کوڑا مارو زیر کرو

جب مال اکٹھا کرتے تھے اب تن کا اپنے ڈھیر کرو

گڑھ ٹوٹا ، لشکر بھاگ چکا ، اب میان میں تم شمشیر کرو

تم صاف لڑائی ہار چکے ، اب بھاگنے میں مت دیر کرو

تن سوکھا کبڑی پیٹھ ہوئی گھوڑے پر زین دھرو بابا

اب موت نقارہ باج چکا، چلنے کی فکر کرو بابا

(فقیر کی صد ا)

ہر منزل میں اب ساتھ ترے یہ جتنا ڈیرا ڈنڈا ہے

زر دام درم کابھانڈا ہے بندوق میرا اور کھانڈا ہے

جب نایک تن کا نکل گیا، جو ملکوں ملکوں ہانڈا ہے

پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے، نہ حلوا ہے نہ مانڈا ہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

(بنجارا)

جو فقر میں پورے ہیں وہ ہر حال میں خوش ہیں

ہر کام میں ہر دام میں ہر حال میں خوش ہیں

گر مال دیا یار نے تو مال میں خوش ہیں

بے زر جو کیا تواسی احوال میں خوش ہیں

افلاس میں ادبار میں اقبال میں خوش ہیں

پورے ہیں وہی مرد جوہر حال میں خوش ہیں

(قناعت)

یاں کا یہی مزا ہے کھانا دیا کھلانا

بھوکے کو دال روٹی ، ننگے کو کچھ اُڑھانا

سب اس گھڑ ی اڑا لے جو تجھ کو ہو اڑانا

غافل پھر اس گلی میں تجھ کو نہیں ہے آنا

دل کی خوشی کی خاطر چکھ ڈال مال دھن کو

گر مرد ہے تو عاشق کوڑھی نہ رکھ کفن کو

نظیر فنتاسیہ سازی کے آرٹ سے بھی اکثر کام لیتے ہیں۔ بیانیہ کے علاوہ ڈرامہ سازی کا فن بھی انہیں خوب آتا ہے ۔ یہ خوبی ان کی اکثر نظموں میں مزاح کے تاثر کو شدید اور دو بالا کر دیتی ہے ۔ طفلی و جوانی کے ایام ہوں یا بڑھاپے کا زمانہ نظیر کی حس مشاہد ہ اس قدر تیز اور چیزوں کی فہم اتنی گہری ہے کہ وہ اپنے تجربے کے ہر ہر پہلو اور شئے کے ہر ہر زاویے اور ہر ہر بُعد کو بڑے لطف اور سہولت کے ساتھ ادا کر جاتے ہیں ادا کرنے میں سادگی کے باوجود ان کے کردار جو اکثر type کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں ۔ اس حد تک ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں کہ ہم انہیں بڑی آسانی کے ساتھ کارٹون کا نام دے سکتے ہیں۔ اور کارٹون کی ایک خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ مسخ و مخدوش ہونے کے باوجود اصل کے بنیاد ی شناخت میں آنے والے آثار اس میں موجود ہوتے ہیں۔ نظیر کے مزاح میں اسی لئے عبرت کا پہلو نمایاں ہے کہ ان کے ٹائپ اور مسخ شدہ کرداروں کو سمجھنے میں ہمیں دیر نہیں لگتی۔ وہ جتنا ہمیں ہنسانے کی طرف مائل ہوتے ہیں اس سے زیادہ انتباہ اور عبرت ان کی تہہ میں کارفرما ہوتی ہے۔

پوچھیں جسے کہتا ہے وہ کیا پوچھے ہے بڈھے

آویں تو یہ غل ہو کہ کہاں آوے ہے بڈھے

بیٹھیں تو یہ ہو دھوم کہاں بیٹھے ہے بڈھے

دیکھیں جسے کہتا ہے وہ کیا دیکھے ہے بڈھے

سب خیر کو ہوتا ہے بڑا ہائے بڑھاپا

عاشق کو تواللہ نہ دکھلائے بڑھاپا

(بڑھاپا)

کسی نے بھاگ کر جلدی سے جا گھر کا لیا آنگن

گرا کوئی گڑھے میں اور کوئی بھاگا کہیں دشمن

کسی کے چھن گئے کپڑے ا چکوّں کی گئی واں بن

کسی کی اڑ گئی پگڑی کسی کا پھٹ گیا دامن

گئی ڈھال اور کسی کی گر پڑی شمشیر آندھی میں

(آندھی)

کرتی ہے گرچہ سب کو پھسلنی ذلیل و خوار

عاشق کو پر دکھاتی ہے کچھ اور ہی بہار

آیا جو سامنے کوئی محبوب گل عذار

گرنے کا مکر کر کے اچھل کود ایک بار

اس شوخ گلبدن سے لپٹ کر پھسل پڑا

(پھسلن)

جانوروں پر اکثر نظموں میں ان کی ایک مخصوص Allegorical sensibility کام کرتی ہے۔ اردو شعر ا میں نظیر سے زیادہ غیر انسانی کرداروں کی نفسی باریکیوں اور ان کے بیوہار کا قدر شناس کو ئی اور نہیں ہے حتّیٰ کہ بعض انسانی ٹائپ کر داروں کی طرح جانوروں کو بھی انہوں نے ٹائپ کے طور پر خلق کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی نہیں نباتات میں پھولوں، پھلوں، پودوں اور رنگوں کو بھی روح و نطق سے سرفراز کیا ہے۔ یہاں بھی ان کی حّسِ مزاح ،انسانی کرداروں کے ہی مختلف رنگ و روپ سے دوچار کراتی ہے اس ذیل میں ’’تماشا گاہِ عالم‘‘ اور ’’ہنس نامہ‘‘ جیسی نظموں کا انفراد سب سے جدا ہے۔ نظیر ہی نہیں دینا بھر کا لو ک ادب تمثیل کی اسی حس کی نیر نگیوں سے معمور ہے جس میں فنتاسیہ بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

 

 

 

 

غالب کے کلام میں تطابق بہ نفی کی صورتیں

 

غالبؔ کے اس شعر سے ہم سب بخوبی واقف ہیں:

رموزِ دیں نشناسم درست و معذورم

نہاد من عجمی و طریقِ من عربیست

یعنی میں دین کے اسرار و رموز سے قطعاً آ گاہ نہیں ہوں بلکہ اس لحاظ سے معذورِ محض ہوں کیوں کہ میں اپنی طبیعت اور سرشت کے اعتبار سے عجمی ہوں اور مسلک کے اعتبار سے عربی۔

غالبؔ کے یہاں ایک طرف دیر و حرم یا کفر و ایمان کی کشمکش نمایاں ہے جس میں تضاد کا پہلو شامل ہے تو دوسری طرف عجمی و عربی کشاکش ہے۔ اقبال رموزِ دیں سے آگاہ ہی نہیں رموزِ دیں کے عارف بھی تھے اور اسی آگہی نے ان کے جذبوں کی ایک خاص نہج پر تربیت کی تھی۔ غالبؔ اس تربیت ہی کے قائل نہ تھے کیوں کہ غالبؔ نے اگر عربی طرزِ زیست سے کوئی چیز اخذ کی تھی تو وہ تھا حسنِ عمل، اور عجمی آدابِ زندگی نے انہیں خیالِ حسن کا سلیقہ عطا کیا تھا۔ انہی دونوں طرز ہائے فکر و عمل نے انہیں حیات و کائنات کی ایک خاص فہم اور انہیں انگیز کرنے کی ایک خاص تہذیب بخشی تھی۔

زندگی اور اس کے معاملات کے تعلق سے غالبؔ نے کبھی تغافل نہیں برتا بلکہ جن سیاسی، سماجی اور تہذیبی صورتِ حالات کا انہیں سامنا تھا، وہ ہر خاص و عام کے لیے حوصلہ شکن تھے۔ وہ دخانی کشتیوں، نئے نظامِ رسل و رسائل ، بھاپ انجنوں ، تار برقی کی سہولتوں کو لبیک کہتے ہیں اور لعبتانِ فرنگ کی کافر اداؤں پر نہال ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ انھیں ہر انگریز افسر بلکہ برطانوی باشندہ دانش میں یکتا اور بینش میں بے مثال نظر آتا ہے لیکن یہ بھی غالب کا یک حسنِ ادا تھا۔ انہوں نے یہ ضرور کہا تھا اور ایک انتہائی معاملہ فہم اور حساس بصیرت رکھنے والی شخصیت ہی ایک غیر یقینی اور تغیر آشنا دور میں یہ کہہ سکتی تھی کہ مردہ پرور دن مبارک کار نیست۔مگر کیا واقعی غالب مستقبل پرست تھے یا ان معنوں میں وہ مستقبل پرست تھے کہ تاریخ کے عدم استقلال اور جدلی کردار پر ان کا یقین مسلّم تھا۔ دراصل تاریخ ہی نہیں انسانی طبائع اور نفسیات کے تقاضوں اور مطالبات پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ اور وہ زندگی کے اس راز سے کماحقہٗ واقف تھے:

ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں

فکر کے اسی پہلو نے غالبؔ کو تضاد فہمی کی ترغیب بھی دی اور یہ بھی جتلایا کہ حقائقِ عالم کی ترکیب و تشکیل میں محض یکساں خواص ہی کی اہمیت نہیں ہے بلکہ افتراق اور تضاد کا بھی بڑا دخل ہے۔ چیزیں بظاہر جیسی جو کچھ نظر آتی ہیں وہ نہ تو ویسی ہیں اور نہ محض ان کا ظاہرا، یک طرفہ اور نمایاں رخ ہی کل حقیقت ہے کیوں کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ گویا کچھ ہماری بصارت کی معذوری اس کا سبب ہے اور جسے فریبِ نظر کا نام دیا جاتا ہے تو دوسری طرف شئے خود اپنے میں، اپنی ذات، اپنے خواص میں یکسو ہے نہ یکساں بلکہ تبدیلی اس کا خاصہ ہے اور تبدیلی خود دیکھنے والے کی طبیعت کا بھی خاصہ ہے۔ اسی نکتے کو ملحوظ رکھتے ہوئے غالبؔ نے عالم تمام کو حلقۂ دامِ خیال قرار دیا تھا۔تاہم اپنی اصل میں غالب جیسی با عمل،معاملہ فہم اور حسّاس شخصیت کے لیے نہ تو عالم تمام حلقۂ دامِ خیال تھا اور نہ جنونیوں، مجذوبوں یا غافلوں کا مامن و مسکن۔ غالبؔ کے لیے زندگی محض جہدِ مسلسل کا نام تھی۔

زخمی ہوا ہے پاشنہ پائے ثبات کا نَے بھاگنے کی گَوں نہ اقامت کی بات ہے

جہاں فرار کی کوئی راہ ہو نہ اقامت کی کوئی سبیل، وہاں محض شکوہ، محض احتجاج، محض نوحہ ہی ممکن ہے۔ لیکن بعض طبائع ہر جنبش کو کسی دوسرے سلسلۂ جُنبانی کا کرشمہ سمجھتے ہیں اور ہر حرکت کو دیگر متعلق اور غیر متعلق حرکات کے لابُدی نتیجے سے تعبیر کرتے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے کہ نفی کے اندر ہی اثبات کی رمق بھی کہیں کارفرما ہے اور اثبات ہی میں نفی کا ایک شائبہ برسرِ کار ہے۔ غالبؔ فطرت کے اس راز کے محرم ضرور تھے لیکن ان کی طبیعت کی شوخی انہیں زندگی کو برتنے اور اسے آزمانے کا ایک علیٰحدہ اسلوب مہیا کرتی ہے اور یہ اسلو ب تھا تطابق بہ نفی کا اسلوب۔

غالبؔ کے کلام میں سب سے زیادہ مثالیں انہیں اشعار پر گواہ ہیں جن میں غالبؔ نفی کے سامنے یا تو سینہ سپر ہو جاتے ہیں اور سپاہیانہ جلال ان میں عود کر آتا ہے یا طنز و تمسخر اور طعن و تشنیع کے حربوں سے کام لے کر گفتگو کا رخ ایک غیر متوقع سمت کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ کبھی نظر انداز اور صرفِ نظر کرنے میں انہیں طمانیت حاصل ہوتی ہے اور کبھی نفی سے اس طرح تطابق کرتے ہیں کہ اس میں ارتفاع یا sublimation کی ایک صورت نکل آتی ہے۔

دستگاہِ دیدۂ خوں بارِ مجنوں دیکھنا

یک بیاباں جلوۂ گل ،فرش پا انداز ہے

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب

اک آبلہ پا وادیِ پر خار میں آوے

عجب نشاط سے جلّاد کے چلے ہیں ہم آگے

کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے

جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی

لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عَدو کی

نگہِ گرم سے اک آگ ٹپکتی ہے اسدؔ

ہے چراغاں خس و خاشاکِ گلستاں مجھ سے

رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا کہیے

کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے

ایسا نہیں کہ ۱۸۵۷ء کی بغاوت اور اس بغاوت میں ناکامی کے بعد ہی معاشرت میں اختلال پیدا ہوا بلکہ پوری انیسویں صدی ایک زبردست تہذیبی اور سماجی انتشار سے دوچار تھی۔ مرکزیت پارہ پارہ ہو رہی تھی بلکہ ہو چکی تھی۔ ہر ایک ذہن میں کل جو ابھی پردۂ غیاب میں تھا، کئی شبہات و سوالات کی دھُند میں اٹا ہوا تھا ۔ غالبؔ کے انتخابِ کلام کا بیشتر حصّہ ربعِ اول ہی کی تخلیق ہے جب کہ انہوں نے اپنی عمر کے پچیس برس بھی پورے نہیں کیے تھے۔ عمر کے اس حصے میں ان کی فکر میں جو صلابت اور لفظوں کے برتاؤ میں جو پختگی اور تخیل میں جو حیرت آثاری ہے وَ نیز قریب و بعید اشیاء اور ان کی ضدوں میں جو مناسبتیں قائم کی گئی ہیں غالبؔ کی طریقِ رسائی کے خاص پہلو ہیں۔ عہدِ غالبؔ کے انتشار کے متقابل ذہنِ غالبؔ کی مرکز جوئی یقیناً گہری توجہ کی مستحق ہے۔ غالبؔ نے ان ضدوں کے مابین اور ان بظاہر ضدوں کے بطن میں جو مناسبتیں محسوس کیں یا قائم کی ہیں ، ان کو ہم بڑی آسانی سے رعایت کا نام بھی دے سکتے ہیں کیوں کہ رعایت، محض یکساں انسلاکی رشتوں ہی سے عبارت نہیں ہوتی بلکہ ضدوں کو پہلو بہ پہلو رکھ کر معنی کے نئے انضمامات قائم کرنے کی گنجائش بھی مہیّا کرتی ہے۔

غالبؔ اگر بڑے حسن و خوبی کے ساتھ نفی سے تطابق کی ایک راہ نکالتے ہیں تو یہ ان کے حساس تخیل کا ایک معمولی سا کمال ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں:

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

برق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم

یہاں آزادوں جیسا لفظ صرف اور صرف غالب ہی کی دین ہے۔ اسے ہمارے عہد کے بوہیمین کا بدل بھی کہہ سکتے ہیں اور ان صوفی منش قلندروں سے بھی متعلق کر کے دیکھ سکتے ہیں جو دنیوی حرص و آز ، نفاق و افتراق اور ہر تکلف و آسائش سے بری اور بلند ہوتے ہیں۔ خاکساری جن کی شناخت ہوتی ہے اور دلوں پر حکمرانی جن کی توفیق۔ غالبؔ کہتے ہیں کہ ہمارا شمار تو ان بے نیاز ہستیوں میں کرنا چاہیے جنہیں اگر کوئی غم بھی ہوتا ہے تو محض بہ قدر یک ساعت، اس کی دلیل وہ ان لفظوں میں بہم پہنچاتے ہیں کہ چوں کہ ہم آزاد منش قلندر ہیں اس باعث برق جیسی غارت گر قوت سے اپنے ماتم خانے کی بجھی ہوئی شمعوں کو روشن کر کے منفی سے ایک مثبت کام لے لیتے ہیں نہ اس لیے کہ چونکہ ہم منفی سے مثبت کام لینے کا ہنر یا حوصلہ رکھتے ہیں اس باعث ہمارا شمار آزادوں میں ہوتا ہے۔ محولہ بالا شعر کی روشنی میں یہ اشعار بھی دیکھیے کہ تطابق بہ نفی کی صورت میں شاعر یکے بعد دیگرے بہم ضدوں کو کس طرح بروئے کار لایا ہے:

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

جہاں میں ہوں غم و شادی بہم ہمیں کیا کام

دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں

اب ذرا غالبؔ کے اس شعر پر غور فرمائیں:

جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق

میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں

غالبؔ کے اس شعر میں بھی چیزوں سے ربط پیدا کرنے، انہیں قبول کرنے یا رد کرنے کا اپنا ایک اسلوب ہے۔ غالبؔ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ مگر غالبؔ کا اصل اندازِ نظر ان کے انہیں اشعار سے مترشح ہوتا ہے۔ جنہیں وہ تقدیر پر اکتفا کرنے یا فارغ ہونے کے برخلاف ایک دوسری راہ نکالنے کی سعی کرتے ہیں۔ غالبؔ جوڑے دار ضدوں یعنی binary oppositions کو پہلو بہ پہلو رکھ کر معنی کو ایک نیا اور مختلف تناظر عطا کرتے ہیں بلکہ اکثر ہماری حیرتوں کو برانگیخت کرتے اور انہیں ایک نئے طور پر ترتیب بھی دیتے ہیں۔ غالبؔ جہاں مستعمل اور متداول ضدوں یا جوڑے دار ضدوں جیسے سرد!گرم ، سیاہ!سفید، رحمت!زحمت، زمین! آسمان، ہجر!وصال، انکار!اقرار، شام!صبح، وغیرہ کے طور پر اخذ کرتے ہیں وہاں ان کے لفظی متضاد پیرایوں کے بجائے معنی یا کیفیت کی سطح پر قاری کے ذہن میں متضاد تاثر کو برانگیختہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک مشکل تر عمل ہے ایک دوسرے یا تیسرے درجے کا شاعر سامنے کی روزمرّہ ضدوں پر اکتفا کر لیتا ہے جب کہ بڑا شاعر ہمیشہ توقع کو رد کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔

محولہ بالا شعر میں غالبؔ نے ایک طرف جوئے خوں کو آنکھوں سے بہنے پر کسی طرح کی شکایت کی ہے نہ احتجاج اور نہ ہی وہ اس صورتِ حال کا ماتم کرتے ہیں اور نہ داد خواہ ہوتے ہیں بلکہ منفی حالت ہی میں انہیں ایک مثبت صورت بھی جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے، وہ جوئے خوں میں بھی عافیت کی ایک راہ نکال لیتے ہیں کہ میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں۔ یہاں خوں کی چمک اور جوئے خوں کے بہنے میں شمع کی لو کی لرزش سے جو مناسبت قائم کی ہے اس نے پیکروں کا ایک چکا چوند کرنے والا سلسلہ سا قائم کر دیا ہے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ صرفِ نظر یا نظر انداز کرنے کا فن بھی غالبؔ کو خوب آتا ہے مگر اس سے زیادہ چیزوں سے الجھنے اور انہیں الجھانے ،انہیں برتنے اور ان سے لطف اندوز ہونے یاا ن سے نشاط انگیز اذیت اٹھانے کی طرف ان کی طبیعت کچھ زیادہ ہی مائل رہتی ہے۔ آپ غالبؔ کی تراکیب ہی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ وہ لفظ اور لفظ کے مابین کوئی باریک سی درز بھی چھوڑنے کے قائل نہیں ہیں ان کی ترجیح کسی ایک لفظ کے بجائے لفظ کو دیگر لفظوں کے ساتھ خوشوں یا گچھوں کی شکل میں دیکھنے یا دکھانے پر ہوتی ہے۔ ان کاٹھ دار اور کسی بندھی ترکیبوں سے ان کی جذباتی شدتوں کا بھی بخوبی پتہ چلتا ہے۔ یہ صورت اکثر ان اشعار میں زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔ جن میں وہ چیزوں سے الجھنے، انہیں الجھانے یا اذیت کے لمحوں میں نشاط کے لطیف تجربے سے دوچار ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں

جاں دادۂ ہوائے سرِ رہ گذار تھا

عشرتِ پارۂ دل ، زخمِ تمنا، کھانا

لذتِ ریشِ جگر غرقِ نمک داں ہونا

جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ

مبارک باد اسد غم خوارِ جانِ درد مند آیا

دلِ حسرت زدہ تھا، مائدۂ لذتِ درد

کام یاروں کا بقدرِ، لب و دنداں نکلا

مقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے

خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب ہے

عشرتِ قتلِ اہلِ تمنا مت پوچھ

عیدِ نظارہ ہے شمشیر کا عُریاں ہونا

ان اشعار میں یقیناً مسوکیت masochism کا میلان واضح ہے، فرد کی ذات جس میں عین مرکز میں آ جاتی ہے، مسوکیت پسند جسمانی یا جذباتی اذیت سے محظوظ ضرور ہوتا ہے۔مگر وہ دوسروں کے باب میں ایذا پسند یا آزار دوست نہیں ہوتا۔ غالب اپنے ٹھیٹھ معنی میں انسان دوست اور وسیع المشرب واقع ہوئے ہیں۔ لیکن جذباتی اذیت کے لمحوں میں ان کا مقصد تطابق بہ نفی ہوتا ہے وہ بڑی خوش دلی کے ساتھ اپنی نا آہنگیوں کو نفسیاتی سطح پر انگیز کر لیتے ہیں۔ اس قسم کے اشعار کی پہلی قرأت یقیناً پڑھنے والے کے ذہن پر کچوکے لگاتی ہے بلکہ ہمارے اندر تلخ آمیز تاثر پیدا کرنے کی موجب بھی ہوتی ہے لیکن دوسری اور تیسری قرأت کے بعد ہم پر غالبؔ کی وہ پختہ تر ذہانت منکشف ہو جاتی ہے جس کا مقصود ہمیں یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوں؟ جو لوگ کمالِ ہوشیاری سے نفی کو انگیز کرنے کے فن سے واقف ہیں اور نہایت خوش دلی کے ساتھ نفی سے مطابقت پیدا کر لیتے ہیں۔ زندگی کا ہر جبر ان پر آسان ہو جاتا ہے اور ہر اذیت ان پر تلافی کے ایک امکان کے طور پر صادر ہو تی ہے۔

ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگِ گراں اور

زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک

کیا مزا ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک

داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی واہ واہ

یاد کرتا ہے مجھے دیکھے ہے وہ جس جا نمک

مژدہ اے ذوقِ اسیری کہ نظر آتا ہے

دام خالی، قفسِ مرغِ گرفتار کے پاس

جگرِ تشنۂ آزارِ تسلی نہ ہوا

جوئے خوں ہم نے بہائی بُنِ ہر خار کے پاس

نشاطِ داغِ غمِ عشق کی بہار نہ پوچھ

شگفتگی ہے شہیدِ گلِ خزانیِ شمع

مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے

پُر گل، خیالِ زخم سے دامن نگاہ کا

غالبؔ نے اپنے ایک فارسی شعر میں یہ غلط نہیں کہا تھا:

عمر ہا چرخ بہ گردو کہ جگر سوختہ ای

چوں من ازدودۂ آزرنفساں برخیزو

غالبؔ تو عشقِ ویراں ساز کو استعارے کی زبان میں ہستی کی رونق قرار دیتے ہیں اور اس انجمن کو بے شمع کہتے ہیں جس کے خرمن میں برق نہیں ہے۔ زخم تو زخم ، زخموں کی بخیہ گری اسی لیے انہیں مرغوب ہے کہ زخمِ سوزن کی اپنی ایک لذت ہے، دل جیسی چیز اگر دونیم نہ ہوتی ہو تو ان کا اصرار خنجر سے سینے کو چیرنے پر ہوتا ہے۔ اور مژہ اگر خونچکاں نہیں ہے تو وہ دل میں چھری چبھونے کی تاکید کرتے ہیں۔

ایک طرف دشت میں انہیں عیش ہے کہ گھر یعنی گھر کی عافیت تک یاد نہ رہی اور دوسری طرف وہ اس لق و دق بیاباں میں ایک دیوار کے طالب ہیں کہ شوریدگی کے ہاتھوں جو سر وبالِ دوش بن گیا ہے ا س کا مداوا بجز سنگِ دیوار کے کچھ اور نہیں۔

ان تمام صورتوں میں یقیناً جذبات اور محسوسات کی سطح پر بڑی شدت اور تندی ہے لیکن بظاہر اس جوش اور تشنج کے پیچھے غالبؔ کا ایک وسیع تر نظریۂ زندگی کام کر رہا ہے۔ قیام اور عافیت ان کے یہاں موت ہی کی مترادف صورتیں ہیں۔ ان کے مخاطبوں میں اقرار پر انکار، وفا پر جفا، تعمیر پر تخریب، مرہم پر زخم اور گھر پر بیاباں کو جو فوقیت حاصل ہے وہ ان کی طبیعت کی یک گو نہ بے اطمینانی اور بے تابی کی مظہر تو ہے ہی،لیکن اس سے زیادہ تطابق بہ نفی کی وہ صورت ہے جس میں مختلف ضدوں کے درمیان زندگی بسر کرنے کی ایک نئی اور ہم میں سے اکثر کے لیے ایک اجنبی راہ نکالنے کا راز مضمر ہے۔ میر کا اپنا ایک قرینہ تھا اور انہوں نے گزران کی ایک صورت کچھ اس طور پر نکالی تھی:

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں

تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

 

 

 

اردو غزل کی روایت اور فراق

 

فراقؔ ہمارے قریبی پیش رو ہیں۔ان کی شاعری ، ان کی تنقید، ان کے مختلف زبانی دعوے، بیانات اور پھر ان کی شخصیت ہمارے اس قریب ترین ماضی کا تجربہ ہے، جس کے نقوش ہمارے ذہنوں سے ابھی محو نہیں ہوئے ہیں۔ فراق کی زندگی میں فراق کی ذہانت کا بڑا رُعب تھا اور اسی رُعب کا نتیجہ تھا کہ فراق کی شاعری کو اپنی بیش تر صورتوں میں ان کی شخصیت ہی نہیں ان کے بلند بانگ دعووں اور تنقیدی فرمودات کی روشنی میں دیکھنے، سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ کیا واقعی فراق وہ نہیں تھے،جو اپنی شاعری میں دکھائی دیتے تھے یا فراق وہ تھے جنہیں ان کے دعاوی نے نظم و رقم کیا تھا: ’’ عالمی زندگی کے پاکیزہ محرکات کو گویائی عطا کرنا! اظہار میں صراحت کے بجائے اشاریت کو ترجیح دینا !رسمی عشقیہ شاعری کے اوچھے پن ، اس کی سطحیت اور بیمار تخیل سے گریز اور اس میں زندگی کی اعلیٰ ترین قدروں کو سمونا! زبان و بیان میں ایک عالم گیر انسان کے دل کی دھڑکن اور ایک آفاقیت پیدا کرنا اور جنسی متعلقات کی رمزیت، پاکیزگی بلکہ روحانیت اور ان ذرائع سے تعمیر انسانیت  وغیرہ وہ مقاصد ہیں جنہیں انہوں نے زبانِ شعر عطا کی تھی۔

جس شاعر نے خود اپنی شاعری کے بارے میں اس قسم کے دعوے کیے ہوں، اس کی شاعری کچھ زیادہ ہی توجہ اور انہماک کا مطالبہ کرتی ہے۔ کیوں کہ شاعر بذاتِ خود اپنے منہ میں زبان رکھتا ہے اور کچھ جواز بھی۔

مجموعی طور پر شاعری کے تعلق سے ان کے وہ تنقیدی یا تاثراتی بیانات اور دعوے جن میں بڑ بولا پن صاف جھلکتا تھا کسی منطقی اساس پر استوار نہ تھے مگر تھے وہ اسی شاعر کے تاثرات جو خود نقاد بھی تھا۔ بعض حضرات نے ان کے فنی اسقام اور عیوب پربھی گرفت کی مگر فراق کی طاقت ور اور نفسیاتی سطح پر بر خود غلط انا کم ہی کسی کو خاطر میں لاتی تھی۔ فراق اپنی شاعری کے خوب و زشت کو عظیم کلاسیکی شعراء کے خوب و زشت کی مثالوں کی روشنی میں فنی مقدر کا نام دیا کرتے تھے۔سچائی ان کی خلاقانہ اور شاعرانہ مشابہتوں سے معمور جملوں اور عبارتوں کے جھرمٹ میں کھو جاتی تھی، اور اس طرح کھو جاتی تھی کہ پڑھنے والے کو بھی کسی گمشدگی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ یہ تھا فراق کی زبان کا اپنا جادو، اپنا کمال۔

سجاد باقر رضوی نے ان کی شاعری کو زندگی کا بھرپور تجربہ اور ان کی تنقید کو شاعری کا بھرپور تجربہ قرار دیا تھا جو اتنا غلط بھی نہ تھا۔ حسن عسکری تو بہ اصرار کہا کرتے تھے کہ فراق کی شاعری اور تنقید کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ گویا تنقید ان کی شاعری کا جواز، ان کی شاعری کی دلیل تھی۔فتح محمد ملک نے (قدرے اونچی لے میں) فراق کی شاعری کی آواز کو جنوبی ایشیاء کی تہذیبی دنیا میں معقولیت کی سب سے توانا آواز سے موسوم کیا۔ اسلوب احمد انصاری نے انہیں ہندوستان کی نشاۃ الثانیہ کا ایک ممتاز نمائندہ کہا۔نظیر احمد صدیقی اپنی تمام خامیوں کے باوجود انہیں ایک بڑا شاعر کہتے ہیں۔ جب کہ سید محمد عقیل رضوی انہیں بڑا ہی نہیں عہدِ آفریں بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مظہر امام نے لکھا ہے کہ صباح الدین عبدالرحمن ان کو خاتم المتغزلین کہتے تھے ، اسی نسبت سے مظہر امام نے انہیں کلاسیکی غزل کا آخری بڑا شاعر قرار دیا ہے رشید احمد صدیقی انہیں اردو غزل کے رمز آشنا سے تعبیر کرتے ہیں۔ فراق کے بڑے مداحوں میں نیاز فتحپوری،مجنوں گورکھ پوری، شمیم حنفی، اسلوب احمد انصاری، وحید اختر اور حسن عسکری پیش پیش ہیں۔ محمد حسن عسکری، ان تمام لوگوں میں سب سے بڑے مداح ہیں کہ وہ نگاہِ یار کے آشنائے راز بھی تھے اور اسی لیے فراق کی شاعری اور تنقید پر ان کی تحریریں، حسنِ کرشمہ ساز، کا حکم رکھتی ہیں۔ عسکری کے لیے فراق اردو شاعری میں ایک نئی آواز ، نیا لب و لہجہ ، نیا طرزِ احساس، ایک نئی قوت بلکہ ایک نئی زبان لے کر آئے تھے۔ اس کے برعکس اثر لکھنوی کے نزدیک انہیں نہ تو زبان و بیان پر قدرت تھی اور نہ اپنے مضامین کے لحاظ سے ان کی رباعیاں تہذیب و اخلاق سے کوئی معاملہ رکھتی ہیں بلکہ وہ اردو میں کوک شاستر ترتیب دینا چاہتے تھے۔ گیان چند اور رشید حسن خاں نے فراق کی شاعری میں عروضی اسقام اور لفظوں کے بے محل استعمال کی بہت سی مثالوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان تحریروں میں تنقید کا عمل کم سے کم ہے، اسی لیے اعتراف کی نسبت اعتراض کچھ زیادہ ہی ہے۔

متذکرہ بالا اسمائے خواص کے علاوہ ایک نام اور ہے جو سب سے زیادہ نمایاں اور توجہ کا مستحق ہے۔ا ور وہ ہے شمس الرحمن فاروقی کا نام۔ فاروقی نے فراق کے اردگرد بھرم کا جو ایک دبیز جال سا بنا ہوا تھا اسے چاک کرنے کی کوشش کی۔ فاروقی کے تجزیے میں ٹھہراؤ اور قطعیت ہے۔ وہ چیزوں کو سمجھنے اور سمجھانے میں کبھی جلد بازی سے کام نہیں لیتے۔ فراق کی شاعری پر ان کے خیالات کو محض یہ کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا کہ وہ جارحانہ ہیں۔ فاروقی سے وہاں یقیناً اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ جہاں وہ کلّیے قائم کرتے ہیں مگر دوسرے لحاظ سے دیکھا جائے تو کلّیہ سازی بھی تنقید کے زمرے کی چیز ہے، اور جس سے اکثر تخصیصات کا determination قائم ہوتا ہے۔ تنقید میں اگر یہ گنجائش بھی نہ ہو تو تنقید لکھی ہی کیوں جائے۔فاروقی کی تنقیدات میں اس قسم کی دو صورتیں نمایاں ہیں۔

۱۔ خالص علمی بنیادوں پر ان تصورات کی از سرِ نو توضیح یا ان کی نفی یا ان کی نئی تعریف متعین کرنا ان کا مقصود ہوتا ہے جو غلط طور پر یا محض چلن کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ عامۃ الناس بلکہ خواص میں بھی رائج ہیں۔ ہمارے بزرگوں سے بھی جو غلطیاں سرزد ہو چکی ہیں، وہ غلطیاں بھی چوں کہ ہمارے بزرگ علماء کی سند رکھتی تھیں اس لیے ان پر کسی نے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ فاروقی چلن کو سند ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ عروض ، آہنگ اور بیان سے لے کر میرو غالب کی تشریحات تک ان کے اس رویے کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔

۲۔ انکار کی یہ روش فاروقی کے ان تنقیدی مخاطبات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جن میں وہ کسی شاعر یا نظریے کے تعلق سے کوئی پرانا بھرم توڑنا چاہتے ہیں، اور شکست و ریخت کے عمل سے کسی مقبولِ عام کلّیے پر ضرب کاری پڑتی ہو۔ اس معنی میں فاروقی کم از کم اپنی تنقید میں نہ تو خواہ مخواہ کی ہمدردی کے قائل ہیں اور نہ خلوص جیسے لفظ کو درخورِ اعتناء سمجھتے ہیں۔ وہ ہماری توجہ برانگیخت کرتے ہیں، از سرِ نو سوچنے کے لیے اکساتے ہیں۔ انکار و استرداد کا حوصلہ بخشتے ہیں کہ تنقید محض میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو، کا دوسرا نام نہیں ہے۔

فاروقی اس نکتے سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ محض قبولیت یا محض اقرار یا محض تکرار اور بحالی یا مزید بحالی کے رجحان سے ان کی وہ شخصیت نمایاں نہیں ہو سکتی جو اپنی منطق میں دوسروں سے مختلف کہلائی جائے۔ ایک تنقید نگار ہونے کے ناطے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جس کے پاس علم کی طاقت اور زبان کی غیر معمولی قدرت ہے۔ وہ بڑی آسانی سے نت نئے استدلال قائم کر سکتا ہے اور اپنے فیصلوں کو بطریقِ احسن صحیح ٹھہرا سکتا یا منوا سکتا ہے۔ اسی حوالے سے ہمارے بعض نقادوں نے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ٹھہرایا ہے، کیوں کہ سچ ہمیشہ بین بین ہوتا ہے۔ اس کی شکلیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں۔ سچ کی اسی بازی گری کی وجہ سے مغالطے بھی زیادہ پروان چڑھتے ہیں۔ ہمارے بڑے اور قابلِ ذکر نقادوں کی تحریریں اس قسم کے مغالطوں سے خالی نہیں قرار دی جا سکتیں۔ ہر بڑی تنقید جہاں بہت سے مغالطوں کو رفع کرتی ہے، وہاں کچھ نئے مغالطے بھی پیدا کرتی ہے، اور یقیناً ہمارے دور میں بڑی تنقید کا تصور شمس الرحمن فاروقی کے نام سے جڑا ہوا ہے، اسی نسبت سے انہیں اکثر اور صریحاً مغالطوں کو راہ دینے میں بھی بڑا لطف آتا ہے۔

فاروقی کا ایک مضمون بہ عنوان ’’اردو غزل کی روایت اور فراق‘‘ ہے۔ اس مضمون کے علاوہ بھی انہوں نے اکثر مضامین میں فراق کی شاعری کے تعلق سے کسی نہ کسی تاثر کا اظہار ضرور کیا ہے۔ جن میں غزل، جدید غزل یا جدید غزل کے پیش روؤں کی بات اٹھائی گئی ہے۔ شعر شور انگیز میں بھی جہاں کہیں موقع ملا ہے، انہوں نے فراق کو تختہ مشق ضرور بنایا ہے بلکہ ان کا تمسخر اڑایا ہے۔ مضمون ہٰذا میں فراق کی شاعری یعنی غزلیہ شاعری کو اردو غزل کی روایت کے تسلسل میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

متذکرہ مضمون میں فاروقی نے اپنی ہی بعض آراء کے برخلاف کچھ نئی ترجیحات قائم کی ہیں۔ یعنی فراق کی غزل کے بارے میں ان کے خیالات کافی بدل چکے ہیں۔اس تبدیلی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انہوں نے فراق کو پہلے کی نسبت بہتر شاعر مان لیا ہے ، بلکہ فراق بقول ان کے اپنے ہم عصر اوسط درجے کے شعراء یعنی فانی،یگانہ، جوش اور حسرت جیسے شعراء میں بھی ممتاز ترین نہیں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ فراق صاحب نے جذبۂ عشق کے بعض ایسے پہلوؤں اور عشق کے تجربے کی بعض ایسی کیفیتوں کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش ضرور کی ہے جو بہت کم شعراء کی گرفت میں آ سکے ہیں، لیکن وہ بڑے شاعر نہ تھے۔ ان کے ہم عصر (فانی، یگانہ،جوش، حسرت وغیرہ) اوسط درجے کے شاعر تھے اور فراق صاحب ان ہم عصروں میں ممتاز ترین بھی نہیں ہیں۔لیکن اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اردو شاعری کی روایت سے پوری طرح بہرہ مند نہ تھے۔‘‘

غالباً فاروقی نے قابلِ ذکر شعراء کے تین زمرے متعین کیے ہیں۔ اوّل،دوم اور سوم:اوّل سے مراد وہ بڑے شاعر جنہیں ہم کلاسیک کے درجے پر فائز کر سکتے ہیں،اغلب ہے کہ یہ فہرست میر، سودا، غالب، انیس اور اقبال کے ناموں پر مشتمل ہوگی۔ دوم سے مراد وہی اوسط یعنی درمیانے درجے کے شعرا جیسے میر حسن، درد ، مصحفی اور ذوق وغیرہ۔حسرت، یگانہ اور فانی جیسے فراق کے معاصرین بھی فاروقی کی نظر میں اوسط درجے کے شاعر ہیں اور فراق ان میں بھی ممتاز ترین نہیں قرار دیے جا سکتے۔اتنا ہی نہیں فاروقی کی نظر میں وہ اردو شاعری کی روایت سے بھی بہرہ مند نہ تھے۔ یعنی وہ ہماری شاعری کی روایت ہی سے بے خبر تھے۔ اور اسی باعث فراق کا کلام عیوب و اسقام سے بھرا ہوا ہے۔ بقول فاروقی: ان کے یہاں حشو و زوائد ، عجز نظم، الفاظ میں عدم مناسبت ، دوسرے شعراء سے مستعار مضامین کو پست کر کے بیان کرنا جیسے عیوب عام ہیں یا فراق ان کے علاوہ بھی کچھ ہیں۔ یعنی اس چھان پھٹک کے بعد جو فراق بچتا ہے وہ بھی اپنی مائگی میں بہت کوتاہ ہے۔

فاروقی نے جن عیوب کا ذکر کیا ہے، ان میں سے بعض عیوب پر سوالیہ نشان لگایا جا سکتا ہے یعنی یہ کہ اگر زید کی نظر میں کسی شعر میں حشو ہے تو ممکن ہے بکر اسے حشو نہ مانتا ہو۔ بکر اپنے دلائل سے زائد کو ناگزیر میں بدل سکتا ہے بلکہ اسے جزو کلمہ کی ناگزیریت ثابت کر سکتا ہے۔ یہی صورت عجزِ نظم اور الفاظ میں عدم مناسبت کی ہے۔ دوسری شعراء سے مستعار مضامین سے پست یا بلند کر کے بیان کرنے والے عیب میں بھی ردو قدح کی بڑی گنجائش ہے۔ مثالوں سے قطع نظر انہوں نے غالب کے کلام میں جن اشعار کو میر سے مستعار بتایا ہے اور سبقت ہی نہیں فوقیت کا سہرا بھی میر ہی کے سر باندھا ہے، فاروقی سے بہت کم لوگ متفق ہیں۔ فاروقی اکثر ایک کے بعد ایک بہت سے دلائل مہیا کرتے ہیں پھر بھی انہیں اطمینان نہیں ہوتا، بالآخر تاویل سے کام لینے لگتے ہیں۔ انہیں جسے بلند ثابت کرنا ہے تو پھر ان کا رویہ ہی مختلف ہوتا ہے۔ مگر جوان کی نگاہ سے اتر جاتا ہے پھر اس میں انہیں بہت کم خوبی نظر آتی ہے۔ اسی کم اور زیادہ کی نسبت سے وہ اس کے درجے کا بھی تعین کر دیتے ہیں۔ ان معنوں میں فاروقی کو درجہ بندی سے ایک خاص رغبت ہے۔

آمدم برسرِ مطلب، درحقیقت فاروقی کی نظر میں ان شعراء کا درجہ بلند ہے جن کا کلام لفظی نوک پلک کے اعتبار سے درست ہے۔ ظاہر ہے شعر کی لسانی قواعد کی رو سے ہمارے بیشتر اساتذہ کرام کا کلام میرو غالب سے زیادہ صحیح تر ہے، لیکن ہم بخوبی واقف ہیں کہ عیوب و اسقام سے قطعی پاک ہونا اچھی اور بڑی شاعری کی قطعی دلیل نہیں ہے،ورنہ ناسخ، داغ، امیر مینائی، اور اثر لکھنوی وغیرہ سے بڑا شاعر کوئی اور نہ ہوتا۔ ان شعراء کی شاعری بالعموم عیوب سے پاک ہے مگر ان میں اس بصیرت  اور اس خلّاقانہ جوہر کا تکلیف دہ حد تک فقدان ہے جو شعر کو شعرِ دیگر بنا دیتا ہے۔ بے عیبی کے معنی مکمل کے ہیں نہ خوبصورت ترین کے۔ اسی باعث اساتذہ کا کلام عیب سے تو خالی ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی دوسری نمایاں خوبی بھی نہیں ہوتی، کم از کم وہ خوبی یا خوبیاں جو فراق کی شاعری کے انفراد کا تعین کرتی ہیں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ فراق کی شاعری حشو و زوائد سے پاک ہے لیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ کسی شعر میں کوئی لفظ یا کوئی ٹکڑا کسی کے لیے محض بھرتی یا برائے بیت کا تاثر فراہم کر سکتا ہے اور کسی کے لیے اس کی موجودگی قطعی ناگزیر ہو سکتی ہے۔ اسے آپ حسن کی کرشمہ سازی کہہ لیجئے یا حسنِ نظر کی۔چوں کہ ہر شخص میں ذوقِ شعر و حسِ شعر کی صلاحیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ فاروقی زبان و بیان کے جن دلائل اور منطق کی روشنی میں کسی شعر کے بارے میں رائے قائم کریں وہ دوسروں کے لیے بھی قابلِ قبول ہو۔ وہ یقیناً شعر کی بہتر فہم بھی رکھتے ہیں۔ اچھے شعر کی باریکیوں اور نزاکتوں سے بھی بڑی حد تک آگاہ ہیں۔ مگر علم کی سطح پر نہ سہی احساس کی سطح پر یقیناً کچھ نہ کچھ چھوٹ جاتا ہے اور جو چھوٹ جاتا ہے وہی شاعری ہوتی ہے۔ فراق کے جن اشعار پر انہوں نے تفصیل سے بحث کی ہے، میں ان میں سے محض چند ہی پر اکتفا کروں گا اور کوشش کروں گا کہ ان مباحث میں وہ ساری باتیں آ جائیں جنہیں فراق کی شاعری کے تعلق سے فاروقی نے اٹھایا ہے۔

فراق کا شعر ہے:

تارے بھی ہیں بیدار، زمیں جاگ رہی ہے

پچھلے کو بھی وہ آنکھ کہیں جاگ رہی ہے

اس شعر میں عسکری نے ڈرامائی تاثر کا تجربہ کیا تھا، جب کہ فاروقی کے نزدیک مصرعِ اولیٰ میں ’بھی‘ بے محل ہے جسے زمین کے بعد ہونا چاہیے تھا۔ دوسرے یہ کہ پچھلے پہر رات کو تارے تو بیدار ہی رہتے ہیں۔ زمین البتہ سوتی رہتی ہے۔ تیسرے یہ کہ مصرعِ ثانی میں ’کہیں‘ قافیہ برائے قافیہ ہے۔

اس مضمون کو فراق نے اپنے کئی اشعار میں باندھا ہے۔ رات کے پچھلے پہر کی کیفیت ہو کہ زمین کا سویا ہوا ہونا یا جاگنا، اس قسم کے مضامین سے فراق کو خاص رغبت ہے۔ فاروقی نے اس شعر پر غور کرتے ہوئے یہ خیال نہیں کیا کہ کسی مصرعے کی نثر کرنا اور بات ہے اور نظم میں لفظوں کا باندھنا دوسری بات ہے۔ ظاہر ہے فراق نے یہاں ردیف و قافیے کی مناسبت سے زمیں جاگ رہی ہے (جزو مصرعہ) کو تارے بھی ہیں بیدار (جزو مصرعہ) کے بعد رکھا ہے۔ اکثر جن اشعار پر ہم تعقید کا حکم لگاتے ہیں وہاں بھی یا تو ’ادائیگی میں زور‘ کی خاطر ہم شعر میں نحوی قواعد کے برخلاف لفظوں کو الٹ پلٹ دیتے ہیں یا قافیے اور وزن کے جبر سے اس قسم کی صورتیں واقع ہوتی ہیں۔ اسی طرح حروف تاکید کے استعمال میں بھی اکثر شعر کا نحو نثر کے نحو کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ شعر میں مقدم کی جگہ مؤخر اور مؤخر کی جگہ مقدم کا آ جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ جہاں تک معنی مقصود (اگر ہم واقعی کسی معنی کو معنی مقصود کا نام بھی دے سکیں) کی ترسیل کا سوال ہے یعنی مقدم اور مؤخر کو الٹ پلٹ دینے سے معنی مقصود کے سمجھنے میں دشواری پیدا ہوتی ہے، محض بلاغت کے اصولوں پر مبنی ہے، شعری وجد ان ان اصولوں کو قطعی اور مطلق نہیں مانتا۔ فاروقی بار بار اپنی تحریروں میں ضعف تالیف کا بھی حوالہ دیتے ہیں، جس کے معنی ہیں اضمار قبل الذّکر یعنی مرجع سے پیش تر ضمیر کو لانا۔ اسے بھی خلافِ نحوِ قواعد کا نام دیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک ان قواعد کو محض نثر کے لیے مختص کر دینا چاہئے کیوں کہ اکثر نحو ی ترتیب پلٹ دینے سے شعر کے مجموعی آہنگ میں ایک خوش گوار سمعی حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ clauses کی یہ فوقیتی ترتیب شعر میں ہمیشہ ممکن نہیں ہوتی اور نہ ہی پسند کی جا سکتی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تخلیقی فن پارے میں جدلی طور پر ایک رَو سر گرم کار ہوتی ہے، جس کی اپنی منطق ہوتی ہے اور جو عموماً نحو کے قواعد کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اب رہی یہ بات کہ رات کے پچھلے پہر میں تارے تو بیدار ہی رہتے ہیں اور زمین سوئی رہتی ہے۔ یہ کوئی سائنسی تحقیق نہیں ہے بلکہ اس قسم کے تجربات کی فہم محض احساس پر مبنی کیفیت سے متعلق ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر شخص کا تجربہ دوسرے سے مختلف اور منفرد ہوتا ہے۔

جہاں تک ’کہیں‘ کے محل کا سوال ہے محض آنکھ کے جاگنے میں وہ بات پیدا نہیں ہو سکتی تھی جو کہیں سے پیدا ہو رہی ہے۔ کہیں سے ذہن میں یک دم ایک distant image خلق ہوتا ہے، جو بہ یک وقت احساسِ تجسّس کو بھی برانگیخت کرتا ہے اور وسیع تر space کا تاثر بھی فراہم کر رہا ہے۔ یعنی وہ چیز جو آنکھوں سے اوجھل بھی ہے،دور بھی اور جو اپنے مقامِ موجود کے لحاظ سے غیر متعین بھی۔ مقام کی عدم تعین کے باعث ہی فوری طور پر ہمارا احساس افق تا افق پھیل جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس شعر کی ساری رمزیت، ساری حیرت اسی لفظ ’کہیں‘ کے محل میں چھپی ہوئی ہے۔

فاروقی محولہ بالا شعر کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اگرچہ اس شعر کا خیال کوئی ایسا نیا نہیں کیوں کہ اس طرح کے تمام اشعار کا سلسلہ کم سے کم غالب تک پہنچتا ہے:

ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے

پر تَو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے

مگر کہاں فراق کا سیدھا سادا کیفیاتی شعر اور کہاں غالب کا شعر جو دلیل کی بنیاد پر قائم ہے۔غالب کے استدلال میں بڑا اعتماد پایا جاتا ہے۔فراق کی احساس اور کیفیت کی دنیا میں استدلال کا کہاں گزر؟ غالب کے شعر میں اثر پذیری کے عمل میں استقلال، استمرار اور تواتر کی صورت ہے جب کہ فراق ’پچھلے کو بھی‘ کی شرط لگا کر اس آنکھ کے جاگنے کو ایک خاص مہلت کا پابند بنا دیتے ہیں۔ ’ستاروں کی بیداری‘ یا ’ستاروں کا تھکا تھکا ہونا‘ رات کے پچھلے یا شام کی گہری گھنی خاموشی اور اداسی، زمین کا جاگنا یا زمین کے ذرات کا گہری سانس لینا، پچھلی رات چراغوں کا نیند میں ڈوب جانا، شام کے سائے کا دور دور پھیل جانا وغیرہ وہ کیفیاتی صورتیں ہیں، جن کو بنیاد بنا کر فراق نے بے شمار شعر کہے ہیں۔ فراق کے اسی طرح کے اشعار کی روشنی میں ان کے احتساسی شعور کا مطالعہ کیا جانا چاہئے۔ ان کے جذباتی تجربوں کی رنگا رنگی، تازہ کاری اور انوکھے پن کو انہی اشعار میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح وہ ایک بسیط عالمِ سکوت کو شاعری کی زبان عطا کر دیتے ہیں۔فراق ہی ہمارے وہ پہلے شاعر ہیں جن کے یہاں پہلی بار poetry of silence کی جھلک ملتی ہے ۔جب شاعر ہر چیز سے پرے اور واقعے سے ورا دیکھنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے، تب ہی اسے سکوت کی آواز بھی سنائی دے سکتی ہے اور آوازوں کے اندر سکوت کا تجربہ بھی حاصل ہو سکتا ہے۔

زمینِ رہ گزر کے ذرے گہری سانس لیتے ہیں

سکوں آثار کتنی ہے ادائے کم روی تیری

تجھے تو ہاتھ لگایا ہے بارہا لیکن

ترے خیال کو چھوتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں

جو چھپ کے تاروں کی آنکھوں سے پاؤں دھرتا ہے

اسی کے نقشِ کف پا سے جل اٹھے ہیں چراغ

فراق ہی کا ایک اور شعر ہے:

دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست

خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا

فاروقی اسے میر کے درج ذیل شعر سے مستعار بتاتے ہیں اور دوسری جگہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ فراق صاحب نے حسبِ معمول میرؔ کا مضمون پست کر دیا ہے۔ میر کا شعر ہے:

ہر ذرہ خاک تیری گلی کا ہے بے قرار

یاں کون سا ستم زدہ ماٹی میں رُل گیا

کہاں دل دکھوں کا رونا اور کہاں کسی ستم زدہ کا ماٹی میں رُل جانا۔ کہاں محض بے قراری کی کیفیت اور کہاں خاک کا اتنا چمک جانا۔ میرؔ نے ذرۂ خاک کی بے قراری کے ذریعے عاشقِ ستم زدہ کی دیوانگی اور شوریدگی کی طرف اشارہ کیا ہے، جب کہ فراق یہ بتاتے ہیں کہ خاکِ کوئے یار میں جو چمک پیدا ہے وہ دل دکھوں کے رونے یعنی دل دکھوں کے آنسوؤں کے مٹی میں رُل جانے کے باعث ہے۔ میرؔ کے مصرعِ اولیٰ سے یک لخت ایسا پیکر بھی نہیں ابھرتا جیسا کہ فراق کے شعر سے قائم ہوتا ہے اور ’اتنا‘ میں جو اسرار کی کیفیت پنہاں ہے اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ فاروقی اپنے موازنے میں میر کے شعر کو اس لیے بھی بلند بتاتے ہیں کہ دوسرے مصرعے میں استفہام نے حسن کا ایک اور پہلو پیدا کر دیا ہے۔ برخلاف اس کے فراق صاحب کے شعر میں صرف ایک پہلو ہے اور انداز بھی خبریہ ہے، جب کہ خود ’شاید‘ میں ایک اسرار کی کیفیت چھپی ہوئی ہے، جو نا راست استفہام ہی کی ایک صورت ہے۔ خود ’اتنا‘ میں ایک استفہام کا پہلو برآمد ہوتا ہے کہ کتنا؟ اور پھر فراق کے اس شعر کا انداز خبریہ کیسے ہو گیا۔ ہاں اگر ’شاید‘ کا لفظ درمیان میں نہیں آتا تو اسے خبریہ کہہ سکتے تھے۔ نہ تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ واقعتاً دل دکھے اس جگہ روئے ہیں جہاں کی خاک اتنی چمک رہی ہے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا ہے کیوں کہ خاک یوں ہی نہیں چمک جاتی ہے۔ہر ایک بات کا کوئی سبب تو ہوتا ہے۔ ہماری شاعر ی میں خاکساری یا خاک آلودگی کا استعارہ عاشق سے منسوب ہے۔ اسی طرح جس گلی کی خاک چمک رہی ہے وہ دوست یعنی معشوق کی گلی ہے اور معشوق کی گلی کی مناسبت سے دل دکھے عاشقوں کے رونے کی بات کہی گئی ہے۔

فاروقی نے ایک دوسری جگہ اپنی گفتگو میں دل دکھے کو خلاف از محاورہ قرار دیا ہے۔ ان کی ترجیح دل جلے پر ہے اور اسی لیے دل جلے ان کی زبان پر اتنا چڑھا ہوا ہے کہ شعر شور انگیز جلد اول صفحہ ۲۹۶ پر فراق کے اسی شعر کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس میں دل دکھے کی جگہ دل جلے مندرج ہے۔فاروقی نے یہ خیال نہیں کیا کہ دل جلے کی ترکیب ان عاشقوں کے لیے مخصوص ہے جو کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ وہ روتے یا کڑھتے نہیں ہیں بلکہ اپنی آتشِ سوزاں سے گھر تو گھر سارا جہان پھونک دیا کرتے ہیں۔ان میں ایک طنطنہ اور خودرائی بھی ہوتی ہے۔ واسوخت جیسی صنف میں ایسے ہی دل جلے عُشاق کی زبان میں بات کی جاتی ہے اور خوب خوب جلی کٹی سنائی جاتی ہے۔ دل جلے کے برعکس دل دکھے میں بڑی نرمی اور نسائیت ہے، اور یہ ہندی گیتوں ، بارہ ماسوں، امروکی شٹکوں نیز ودّیا پتی کے گیتوں وغیرہ کا اثر ہے۔ شعر ہذا میں چوں کہ رونے کی بات کہی گئی ہے اس لئے رونے والے عاشقوں کے لیے دل دکھوں کی ترکیب زیادہ مناسب ہے۔ فاروقی ’اے کوئے دوست‘ میں ’اے‘ پر بھی معترض ہیں۔یہاں چوں کہ ’کوئے دوست‘ کی خاک کی چمک کا تذکرہ ہے، اس لیے تاکید دوست پر نہیں بلکہ کوئے دوست پر ہے۔ کوئے دوست ہی منادی ہے اور حرفِ ندا کے طور پر ’اے‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔

شاعر کا مدعا یہ بتانا نہیں ہے کہ’’ کوئے دوست‘‘ میں خاک کے چمکنے کا راز معشوق کے بلند مرتبے میں مضمر ہے یا یہ کہ چونکہ وہ گلی معشوق کی ہے یا براہ راست حسن سے نسبت ہے اس لیے اس کی خاک چمک رہی ہے بلکہ شاعر کا مقصود تو یہ جتلانا ہے کہ نامراد عشاق نے دوست یا کوئے دوست سے تو کچھ نہیں پایا یعنی اپنی وفاؤں کا صلہ پایا نہ اپنے بے لوث جذبۂ عشق کی داد پائی اور نہ وصل نصیب ہوا لیکن وہ دوست کی گلی کے ذرّے ذرّے کو اپنے آنسوؤں سے منور ضرور کر گئے۔ یہاں پہنچ کر شعر میں چھپی ہوئی آئرنی کا ایک اور پہلو اُجاگر ہو جاتا ہے۔ اسی مضمون کو فراق نے دوسری جگہ اس طرح باندھا ہے:

یہ کب کی چوٹ دب کر رہ گئی ہے ذرّے ذرّے میں

زمیں کے سینہ خستہ سے اب تک درد اٹھتا ہے

فراق کے اکثر اشعار میں حروفِ ندا جیسے اے، ارے، او اور حروف تاسف جیسے ہائے، وائے، آہ، اُف اور ہاے رے وغیرہ کا استعمال کئی جگہ ملتا ہے۔ اسی کے پہلو بہ پہلو منادیٰ کے طور پر دوست ،یار، یارو اور ندیم جیسے الفاظ سے بھی انھیں خاص اُنس ہے۔ فاروقی نے متذکرہ بالا شعر میں بھی ’اے‘ بلکہ’ کوئے دوست ‘کے حوالے کو بھی غیر ضروری قرار دیا ہے۔ یعنی یہ بھرتی ہے۔ درج ذیل شعر میں بھی انھیں یہی عیب دکھائی دیتا ہے:

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ اب مجھ سے تری رنجشِ بے جا بھی نہیں

جب کہ یہاں مخاطبہ کی صورت واضح ہے۔ تری سے مخاطب کی موجودگی بھی ثابت ہے۔ چونکہ شاعر گلہ گلزار ہے اور گلہ گزاری محض گلہ گزاری یا داد خواہی نہیں، اس میں تاسف کا اظہار بھی مقصود ہے۔ ایسی صورت میں’ اے دوست‘ یا’ آہ‘ کیوں کر غیر ضروری ہو سکتا ہے۔ ان حروف اور فقروں کو حذف کر کے پڑھا جائے تو درج ذیل اشعار کا سارا بھرم ہی چکنا چور ہو جائے گا۔

غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہو یا تجھے بھلانے میں

ترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست

وصال کو مری دنیائے آرزو نہ بنا

ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

فراق

ہو گیا مہماں سرائے کثرتِ موہوم آہ

وہ دلِ خالی کہ تیرا خاص خلوت خانہ تھا

کون سا دل ہے وہ کہ جس میں آہ

خانہ آباد تو نے گھر نہ کیا

درد

ہر نقشِ پا پہ تڑپے ہے یارو! ہر ایک دل

ٹک واسطے خدا کے یہ رفتار دیکھنا

کس کو گل گشت چمن کا ہے دماغ اے باغباں

کھینچ کر میرا گریباں یاں لے آئی ہے بہار

سودا

یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب

بندے ہیں اپنے جی جلانے کے

میر

کل آنے کی کس کے خبر آئی تھی کہ ہمدم

ہم آج تلک آپ میں آئے نہیں کل کے

کیا یاد آئے ہے وہ لگے جانا اپنا آہ

اور مسکرا کے اس کا یہ کہنا پرے پرے

تھا جن سے اختلاط سو اب دل لگی یہ ہائے

کرتے ہیں بات بھی تو قیامت ڈرے ڈرے

جرأت

در اصل فراق نے جہاں جہاں روئے سخن کسی جانب کیا ہے وہاں کسی شخص یا اشخاص کی جانب ان کی توجہ اور ان کی گفتگو کا رُخ پھیرنے کا عمل ظاہر ہوتا ہے۔ کہیں مخاطبے میں روئے سخن بظاہر ذاتِ دگر سے ہے،بہ باطن ان کا خطاب خود سے ہے۔کہیں (بالعموم) جمع کے صیغے میں جب وہ خطاب کرتے ہیں تو ان کا قصد اپنے تجربوں میں دوسروں کی شمولیت ہوتا ہے۔ وہ اکثر مخاطبے کے ذریعے اپنی situations کو واقعیت کا رنگ دینا چاہتے ہیں۔ جہاں کہیں ذاتِ دگر کی موجودگی موجودگی کا محض گمان ہوتی ہے وہاں بھی فراق کا مقصد محض اپنی تنہائی کو انگیز کرنا ہوتا ہے۔ خواہ وہ ایک بھرم ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فراق بار بار خطابیہ کلمات کا استعمال کرتے ہیں۔ فراق نے یہ ہنر بھی اپنے اساتذہ کرام ہی سے سیکھا ہے۔ ہمارے قدیم اور موخر شعراء کے یہاں اس قسم کے کلمات کی فراوانی ہے۔

فاروقی نے اپنے مضامین اور گفتگو میں فراق کے تقریباً پچیس تیس اشعار کا محاسبہ کیا ہے۔ ان میں زیادہ تر لفظوں کے بے محل استعمال کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ بقول ان کے وہ لفظی مناسبتوں اور رعایتوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے کیوں کہ وہ غزل کے مزاج ہی سے بے خبر تھے۔ بلا شبہ فراق کے کلام میں لفظوں کے بے محل استعمال کی بہت سی مثالیں موجود ہیں مگر فراق کی شاعری کے حجم کو دیکھتے ہوئے ان کی مقدار قلیل تر ہے۔ فراق کی شاعری اپنے مجموعی کردار میں جو تاثر فراہم کرتی ہے وہ ایک سطح پر ان کے اس شعور کا مظہر ہے جو اردو غزل کی روایت سے وابستہ ہے دوسری سطح پر وہ بعض اعتبار سے اردو غزل کی روایت سے انحراف پر مرجح ہے اس باب میں وہ مختلف بھی ہیں اور غیر معمولی بھی۔ افتراق پذیری کی یہ صورت ان کے عشقیہ جذبات و تجربات میں تو سب ہی نے محسوس کی ہے اور اس پہلو کو بنیاد بنا کر کافی کچھ لکھا بھی گیا ہے۔ مگر فراق کی انفرادیت کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جن پر ابھی تک گفتگو نہیں ہوئی ہے۔

فراق کی انفرادیت کے تعین کے لیے محض کلاسیکی لسانی قواعد یعنی شعری لسانیات کا علم اور محض اسی علم کی روشنی میں فراق کی شعری شخصیت کا تجزیہ ناکافی ہوگا۔ فراق بڑے خلاق ذہن کے مالک تھے۔ میں قطعاً یہ نہیں مانتا کہ وہ اردو شاعری کی روایت یا غزل کی روایت ہی سے بہرہ مند نہ تھے۔ خود فاروقی نے اسی عنوان سے اپنے گذشتہ مضمون میں ایک جگہ لکھا ہے جو ان ہی کی قائم کردہ دلیل کو رد بھی کرتا ہے۔

’’فراق مزاج کے اعتبار سے سودا کے نزدیک ہیں، اس کا ثبوت نہ صرف وہ مضامین ہیں (کچھ مضامین فراق نے ذوق، داغ، ناسخ، مصحفی، مومن اور حسرت پر تفصیل سے لکھے ہیں) بلکہ وہ اشعار بھی ہیں خاص کر شروع کے جن میں سودا اور مومن کا لفظی توازن موجود ہے بلکہ آج بھی ان غزلوں میں ایسے اشعار کافی تعداد میں مل جاتے ہیں‘‘۔

اردو غزل کی روایت سے ایک خاص قسم کی وابستگی کے پیش نظر نیاز فتح پوری نے بہت پہلے انھیں مومن اسکول کا نمائندہ بھی کہا تھا۔ یہ دوران کی انفرادیت کی تشکیل کا پہلا مرحلہ تھا جس میں تقلید اور پیروی کا عنصر زیادہ حاوی تھا۔ بعد ازاں وہ روایت کو ایک مسلسل سرچشمۂ حیات کے طور پر اخذ کرتے ہیں۔ بالخصوص روایت کے جامد تصور کی نفی ان کے مقصود میں شامل ہو گئی۔ یعنی وہ تصور جس کے ذیل میں روایت قطعی اور مطلق قرار دی جاتی ہے اپنے زبان و بیان کے ضابطوں کے لحاظ سے نہیں ان اخلاقی اصولوں اور شعری کرداروں(عاشق، معشوق، رقیب، ناصح وغیرہ) کی اخلاقیات کے اعتبار سے بھی یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ ان سے صرفِ نظر کرنے کے معنی بے اصولے پن کے ہیں ڈاکٹر مسیح الزماں نے سودا کے حوالے سے لکھا ہے:

’’مسلّمات و لوازماتِ شعر سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ مرزا فاخر مکین سے متعدد ایسی غلطیاں ہوئی ہیں کہ انھوں نے عاشق کے جذبات رشک و غیرت کے بجائے بے غیرتی و بے حمّیتی۔ لذتِ دشنامِ یار کے بجائے تلخیِ دشنامِ یار اور کوئے یار میں چکر لگانے کے بجائے وہاں سے فرار ہونے کے مضامین باندھے ہیں۔‘‘

اتنا ہی نہیں مسلمہ تشبیہات سے گریز پر بھی گرفت کی جاتی تھی۔ اس اعتبار سے صرف جوش اور فراق ہی کا موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جوش کی تشبیہات میں جدت کے ساتھ روایت کا عمل خاصہ نمایاں ہے۔ جوش نے قدیم اور موخر فارسی شعراء سے بھی بہت کچھ اخذ کیا ہے۔ ان کا ذخیرہ الفاظ قصیدہ کے لغات سے ماخوذ ہے اسی لئے ان کی شاعری کا مجموعی آہنگ کافی حد تک مانوس اور بلند ہے۔ جب کہ فراق بہت کم اپنے حدود اور اپنے آہنگ سے ورا جاتے ہیں۔ وہ اردو غزل کی روایت میں سنسکرت ،لوک اور ہندوی روایت کا رنگ رس بھی شامل کر دیتے ہیں۔ فراق کی خلاقی کا یہ ایک پہلو تھا جس نے ان کی غزل کو نسبتاً نا مانوس اور انوکھا بنا دیا۔

اردو شاعری کی روایت میں قصیدے کے لغات کی خاص اہمیت ہے۔ کیا مثنوی کیا مرثیہ اور کیا غزل ہمارے تمام اصنافِ سخن پر ان مسلمات اور لوازماتِ شعر کی حکمرانی رہی ہے جن کا تعلق قصیدے سے رہا ہے۔ اس لیے قصیدہ اُمّ الاصنافِ سخن ہے۔ ہمارے تہذیب شعر کے سفر میں قصیدے کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ قصیدے کی روایتِ لسان ہماری شعری بافت میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ بڑی شاعری یا عظیم شاعری کا تصور بھی اسی سے وابستہ ہو کر رہ گیا ہے۔ غالب، اقبال اور راشد ہماری نظر میں اسی لئے بڑے ہیں کہ ان کے یہاں ایک ایسی زبان کا عمل ہے جو ہمارے غیر معمولی، پیچیدہ ،گہرے اور بسیط جذبوں وارداتوں اور افکار و خیالات کو قدرے متین اور فلسفیانہ اسلوب کے ساتھ نظم کر سکنے پر قادر ہے۔ اس طرح کی قدرت قصیدے کی زبان ہی کو حاصل ہے۔ یہی سبب ہے کہ غزل جیسی غنائی صنفِ سخن پر بھی اسی کا اجارہ ہے۔ جس کسی شاعر نے اس سے گریز یا انحراف کرنے کی کوشش کی ہے اسے مشکل ہی سے شرفِ قبولیت حاصل ہوا؟ شاید اسی بنیاد پر فاروقی کی نظر میں ناسخ بڑے سے کم شاعر نہیں ہیں۔ اگرچہ جدید ادوار میں قصیدے کی لسان سے انحراف کی کئی جانب سے کوششیں ہوئی ہیں مگر ہمارے مجموعی لاشعور میں قصیدے کی لسان کی جڑے اتنی گہری پیوست ہیں کہ ان سے انقطاع اتنا آسان بھی نظر نہیں آتا۔

اردو شاعری کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میراجی نے ان جدید ادبی اور غیر ادبی(جیسے نفسیاتی) میلانات سے متاثر ہو کر قصیدے کی فضا میں پروان چڑھنے والی لسان کے بر خلاف شاعری کی ذاتی اور تخلیقی زبان کا تصور دیا تھا۔ ان سے قبل اختر شیرانی آرزو لکھنوی یا عظمت اللہ خاں کے یہاں روایتی زبان سے انحراف تو ملتا ہے مگر وہ ہندی تلقیط (ڈکشن) یا سلیس اور وارداتی زبان کے تصور سے زیادہ آگے نہیں جا سکے۔ میراجی کے عہد ہی میں راشد نے (مادرا کے بعد) تخلیق زبان کے ساتھ کلاسیکی مگر بلند کوش عمل لسان کو بھی بر قرار رکھنے کی سعی کی، ان کی دانش کے تجربے میں بھی پیچیدگی اور آفاقیت تھی۔ اردو شاعری میں آفاقیت کا تصور اپنی ایک دوسری نوعیت اور مثال میں غالب اور اقبال سے وابستہ ہے۔ فراق نجی اور تخلیقی زبان کا تجربہ اس نہج پر نہیں کر سکتے تھے۔ جس نہج پر میراجی نے کیا تھا۔ فراق کلاسیکی اردو شاعری کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ ان کی ذہنی اور فنی تربیت میں کلاسیک ہی کا بڑا ہاتھ تھا۔ اسی باعث وہ اپنی لسانی عادتوں پر آسانی سے ضرب نہیں لگا سکتے تھے۔ انھوں نے ایک تیسری راہ نکالی اور وہ تھی احساس اور تجربے کی زبان جسے ایک دوسری سطح پر نجی اور تخلیقی زبان کا تجربہ کہنا چاہئے۔

اس طرح فراق کے یہاں ایک طرف کلاسیکی وضع کی زبان کا تجربہ اور بین المتونی تجربوں کی باز آفرینی نہایت واضح ہے اور جو ہمارے لیے مانوس ہے۔دوسری طرف لسان کا وہ تجربہ مترشح ہے جس سے ان کے ضمیر کا اپنا پن عیاں ہوتا ہے یعنی وہ زبان جو ایک دم ہماری توقع کے بخلاف نا مانوں کاری کا تاثر فراہم کرتی ہے۔ فاروقی نے فراق کے انحراف کے اس رویے پر ہمدردانہ فہم کے ساتھ غور نہیں کیا جب کہ وحید اختر نے اس نکتے کو پا لیا۔ وہ لکھتے ہیں۔

’’فراق کی غزل کلاسیکی روایت کا عطر مجموعہ ہے ان کی شمعِ سخن میں تمام اساتذہ کی آوازیں روشن ہیں اس لحاظ سے وہ کلاسیکی غزل کے آخری بڑے شاعر ہیں اسی کے ساتھ دوسری طرف وہ جدید غزل کے پہلے شاعر بھی ہیں۔ روایت سے اتنا گہرا رشتہ رکھتے ہوئے ایک بہت بڑے انحراف کا نقطہ آغاز بننا بہت مشکل ہے مگر فراق نے یہ کام کیا۔‘‘

سب سے پہلے میں انہی مثالوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جن پر کلاسیکی وضع کی زبان اور بین المتونی تجربوں کی باز آفرینی کا حکم لگایا جا سکتا ہے۔

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی

کچھ انتشارِ دہر کی تنظیم کر گئی

کیا چیز تھی تری نگہ گاہ گاہ بھی

نیکی بدی کی فطرتیں دہر کی سب حقیقتیں

نامِ خدا بدل گئیں حسن کی کافری تو دیکھ

اے دل گھنے گھنے سے یہ گیسوئے خم بہ خم

تیرے غم کثیر اسی سلسلے کے ہیں

حیات ہو کہ اجل سب سے کام لے غافل

کہ مختصر بھی ہے کارِ جہاں دراز بھی ہے

ہر سانس موج بادہ سر جوش ہے فراق

ہستی کو ماورائے فنا و دوام دیکھ

منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی تھیں

وہی اندازِ جہان گزراں ہے کہ جو تھا

تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراق

شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا

بات یہ ہے کہ سکون دل وحشی کا مقام

کنج زنداں بھی نہیں وسعتِ صحرا بھی نہیں

محولہ بالا اشعار میں اکثر لفظ بندی اور استعاری نیز تراکیب فراق کی کلاسیکی اور ان کے کلاسیکی اسالیب کی طرف رغبتوں پر گواہ ہیں زبان کا یہ عمل ان اشعار میں بھی نمایاں ہے جن میں عشقیہ جذبوں اور تجربوں کی کیفیت نئی ہے یعنی ہمارے غزلیہ حسن و عشق کی شاعری سے جو بالکل مختلف تاثر کے حامل ہیں فراق کا ہجر نہ تو مکمل ہجر ہے اور نہ وصل مکمل وصل خوشی نہ تو مکمل خوشی ہے اور نہ غم مکمل غم۔ یہاں عاشق کی توقعات میں اگر خیرہ کن تبدیلی واقع ہوئی ہے تو اسے فراق کے تیزی سے بدلتے ہوئے عہد کا فطری نتیجہ کہنا زیادہ درست ہوگا۔ اسی نسبت سے معشوق کی توقعات بھی کافی بدل چکی ہیں۔ عاشق اعتماد کے ساتھ مکالمے کے درپے نظر آتا ہے۔ اسے اپنے جذبوں کی پردہ داری سے زیادہ پردہ دری سے رغبت ہے۔ اسی لئے فراق کہیں کہیں بڑے منہ پھٹ بھی دکھائی دیتے ہیں۔

کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

آج آغوش میں تھا اور کوئی

دیر تک ہم تجھے نہ بھول سکے

کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے

ترے دم بھر کے آ جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں

بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی

ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے

نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگزر پھر بھی

شبِ فراق اٹھے دل میں اور بھی کچھ درد

کہوں یہ کیسے تری یاد رات بھی آئی

اس پرسشِ کرم پہ تو آنسو نکل پڑے

کیا تو وہی خلوص سراپا ہے آج بھی

نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید

مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا

فراق کے ان جذبوں اور ان کیفیتوں کی گونج ناصر کاظمی احمد ندیم قاسمی سلیم احمد، جاں نثار اختر، خلیل الرحمن اعظمی، باقی صدیقی، فارغ بخاری، شاذ تمکنت احمد فراز سے لے کر بانی تک بڑی آسانی سے ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ فراق کی وہ مخصوص تلفیظ اور اسلوب بھی ان شعراء کے لسانی عمل پر اثر انداز ہوا ہے، جس میں سر گوشی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ فراق ان لمحوں میں فطرت سے ایک داخلی رشتہ قائم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس طرح فطرت کے عوامل اور اشیاء کے مابین جو دوئی پائی جاتی ہے وہ اسے تابہ دیر برداشت نہیں کرتے۔ ان کا وحدت گر ذہن ان میں یگانگت قائم کر دیتا ہے۔ ان کے حواس بیدار ہو جاتے ہیں اور احساس کے توسط سے وہ تمام چیزوں کے باطن کو اجاگر کرنے لگتے ہیں میں نے اس سے قبل یہ عرض کیا تھا کہ وہ ہمارے پہلے شاعر ہیں جن کے یہاں Poetry of Silence کی جھلک جھرمٹ خلق ہوئے ہیں اور انہی کے تعامل سے فضا آفرینی کا کام لیا گیا ہے۔ اگر زمان ان کے عشقیہ تجربات میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے تو ان اشعار میں مکان یا Space ایک متحرک کردار کے طور پر ابھرتا ہے جن پر کیفیت غالب اثر کی حیثیت رکھتی ہے۔

ہم اہل انتظار کے آہٹ پہ کان تھے

ٹھنڈی ہوا تھی، غم تھا ترا، ڈھل چلی تھی رات

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اُداس اُداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

میں آسمانِ محبت سے رخصت شب ہوں

ترا خیال کوئی ڈوبتا ستارہ ہے۔

تمام خستگی و ماندگی ہے عالم ہجر

تھکے تھکے سے یہ تارے تھکی تھکی سی یہ رات

دلوں میں داغ محبت کا اب یہ عالم ہے

کہ جیسے نیند میں ڈوبے ہوں پچھلی رات چراغ

خیالِ گیسوئے جاناں کی وسعتیں مت پوچھ

کہ جیسے پھیلتا جاتا ہو شام کا سایہ

جیسے سکون تھرتھرائے جیسے سکوت کچھ سنائے

جیسے سگندھ مسکرائے حسن کی طرفگی تو دیکھ

فراق کی غزل کے بغور مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔

۱۔فراق اردو شاعری کی تاریخ کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جس میں مختلف عالمی رجحانات کے تحت ’نئے ‘پر زیادہ زور تھا۔

۲۔فراق اساساً کلاسیکی ذہن کے حامل تھے مگر تھے بڑے پڑھے لکھے اور باخبر انسان۔ انھیں کسی نہ کسی حد تک ان اسالیب و رجحانات کا بھی یقیناً علم ہوگا جن میں روایت سے انکار کی روش زیادہ غالب اثر رکھتی تھی۔ فراق نے راست نہ سہی نا راست طور پر اس کے اثرات بھی قبول کیے۔ نتیجۃً ان کے یہاں نیا طرز احساس بھی پیدا ہوا اور اظہار میں تحت بیانی کی کیفیت بھی جس میں رمزیت اور اشاریت کا پہلو بھی شامل ہے۔

۳۔ان کی غزل کا آہنگ ناسخ، غالب یا اقبال کی طرح بلند نہیں ہو سکتا تھا کیوں کہ حسن و عشق اور ہجر و وصل کے وہ تجربے جو انھوں نے سنسکرت اور ہندوی شاعری سے اخذ کیے تھے اور جن کے حوالے سے ان کے احساس جمال کی تربیت ہوئی تھی اردو غزل کے اسلوب کا پہلی بار حصہ بن رہے تھے۔ اسی لئے پہلی نظر میں وہ قدرے نئے، نامانوس اور غیر محتاط معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا آہنگ چونکہ بلند نہیں ہے اس لیے ان کا غیر معمولی پن فوراً ظاہر نہیں ہوتا۔ آہستہ آہستہ ان کی مغائرت رفاقت میں بدلتی ہے اور اس لیے فراق کی شاعری گہری توجہ اور ارتکاز کے ساتھ پڑھنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

۴۔اپنے بہترین لمحوں میں فراق کی غزل قطعی منفرد اور مختلف ہے۔ یہ چیز ان کے عشقیہ تجربوں اور عورت کی جسمانی کیفیتوں کے اظہار سے بھی عیاں ہے اور اس دھیمے لہجے سے بھی جو رمز آگیں ہے اور جس کا سارا تناظر احتساسی کیفیات سے معمور ہے۔ فراق کی انفرادیت کے تعین میں ان پہلوؤں پر خاص طور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

۵۔فراق کی غزل غالب کے بعد پہلی بار نئے عہد کی بے چینیوں کو اپنی گفتار بناتی ہے وہ ہمارے عہد کے انسان کی بصیرت اس کی دانش و بینش اور اس کی بعض ایسی نفسیاتی پیچیدگیوں کی مظہر ہے جسے اردو غزل کی روایت میں پہلے تجربے کا نام دیا جا سکتا ہے۔

۶۔فراق اپنے معاصر اہم غزل گو شعراء سے اس لیے بھی ممتاز ہیں کہ انھوں نے غزل کے امکانات کو وسیع کیا۔ اسے ایک غنائیہ صنف کے طور پر قائم رکھنے کی سعی کی اور یہ بھی بتایا کہ اسے کس کس طور پر آزمایا اور برتا جا سکتا ہے۔ اسی بنا پر فراق کی غزل کئی اطراف رکھتی ہے اور اس کا ہر رخ ایک نئے تنوع سے متعارف کراتا ہوا نظر آتا ہے۔

 

 

 

اخترالایمان : ایک تاثر

 

گزشتہ کئی مہینوں سے ہمارے سروں پر خوف کی ایک تلوار لٹک رہی تھی، سو وہ گر پڑی۔ آخر اخترالایمان بھی ہم سے رخصت ہو گئے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہمارے دور میں اخترالایمان اور مجید امجد جیسے شاعر نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ کھری اور چوکھی شاعری سے ہم محروم رہ جاتے۔ اخترالایمان ، میرا جی کے قریب رہے مگر میرا جی کا اثر ان کی شاعری کے لسانی کردار پر بہت کم پڑا۔ ترقی پسندوں کے مقبولِ عام موضوعات و مسائل کو انہوں نے بھی چھیڑا مگر اپنے طور پر، چیزوں کو انہوں نے اپنے زاویے سے دیکھا اور اپنے ذاتی تاثرات ہی کو اپنا رہ نما اصول بنایا۔ وہ اپنی سوچ، اپنے جذبوں میں کھرے تھے اسی لیے انہوں نے کبھی ایسے لسانی پیرائے استعمال نہیں کیے جن کا مقصود پر دہ دری کم، پردہ داری زیادہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ اپنے قاری سے مکالمہ ان کا مقصد تھا۔

اٹھاؤ ہاتھ کہ دستِ دعا بلند کریں

ہماری عمر کا اک اور دن تمام ہوا

خدا کا شکر بجا لائیں آج کے دن بھی

نہ کوئی واقعہ گزرا نہ ایسا کام ہوا

زباں سے کلمۂ حق راست کچھ کہا جاتا

ضمیر جاگتا اور اپنا امتحاں ہوتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’شیشہ کا آدمی‘‘

ہمارے ادوار میں ن۔م۔راشد کو غالب و اقبال کے سلسلے ہی کی ایک کڑی کہا جاتا ہے اور وہ بھی دانش وری کے سلسلے کی کڑی۔ دراصل شاعری میں فلسفیانہ رنگ و آہنگ کی جس روایت کا ذکر کیا گیا ہے، اخترالایمان کو بھی اسی سلسلے میں شامل سمجھنا چاہیے۔ حیات و کائنات کے تعلق سے ان کا بھی ایک واضح وژن ہے۔ جس کا اظہار انہوں نے چکاچوند کرنے والی استعاراتی زبان میں نہیں کیا، جو اکثر فلسفیانہ بینش سے عاری ہوتی ہے۔  اور فلسفیانہ مغالطے زیادہ پیدا کرتی ہے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ محض نا راست زبان کے استعمال ہی سے شاعری گمبھیر ، گہری اور معنی یاب ہوتی ہے۔ اخترالایمان نے زیادہ سے زیادہ راست زبان استعمال کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سچے اور کھرے جذبوں کی شاعری بھی اپنا ایک وسیع تر اثر بلکہ فکر انگیز اثر رکھتی ہے۔ انہوں نے غزل کی روایتی تلفیظ diction ، جو عین ہماری توقع پر پورا اترتی ہے اور جسے راشد اور فیض نے اپنی شاعری میں برقرار رکھا ہے، کے مقابلے پر نظم کی زبان خلق کرنے کی سعی کی ہے یہ زبان آج کے مشینی شہروں کی شور انگیز زبان ہے، کھردری، ناہموار، بے لطف۔

زمیں اپنے محور پہ گردش میں ہے حسبِ دستور یونہی

برق کے قمقمے جگمگانے لگے شہر میں لالٹینوں کے بدلے

پکّی سڑکوں کا اک جال سا بچھ گیا بگیوں کی جگہ موٹریں آ گئیں

مشرقی پیرہن کی جگہ کوٹ پتلون اب عام ہے ہر طرف ہر جگہ

بیٹھنے،اٹھنے،کھانے پینے کے دیرینہ آداب و اطوار سب اٹھ گئے

اور اعدادِ مردم شماری بتاتے ہیں آبادی پہلے سے کچھ دس گنی ہو گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’گگو لو‘‘

اخترالایمان نے کسی دیباچے میں یہ لکھا ہے کہ ان کی بیش تر نظمیں علامتی ہیں۔ آب جو کے دیباچے میں انہوں نے مسجد، موت، قلوپطرہ، پگڈنڈی، جواری، اور تنہائی جیسی نظموں میں چھپے ہوئے علامتی مفاہیم کی طرف بھی اشارے کیے ہیں۔ باوجود اس کے وہ نہ تو ان معنوں میں علامتی شاعر ہیں جن معنوں میں ہم میراجی اور ن۔م۔راشد کو علامتی شاعر کہتے ہیں اور نہ ان معنوں میں جس معنی میں علامت کو ہم اس کے ٹھیٹھ اصطلاحی معنی میں اخذ کرتے ہیں۔راشد کے یہاں علامات ضرور خلق ہوئی ہیں مگر اپنی بیش تر صورتوں میں وہ زبان کو پیچیدہ بنا کر پیش کرتے ہیں، اسی لیے ان کے یہاں mannerism کی صورت واضح ہے۔ جب کہ اخترالایمان ہمارے عہد کے بیقوارہ baroque شاعر ہیں، اسی معنی میں عمیق حنفی کو بھی میں بیقوارہ کہتا ہوں۔ جہاں تک علامتیت کا تعلق ہے اخترالایمان نے اپنی چند نظموں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے علامتی معنی کی طرف متوجہ کیا ہے۔ جیسے ان کی نظم ’’مسجد‘‘ میں مسجد(مذہب کا علامیہ) اس کی ویرانی (عام مذہب سے دوری کی علامت)ندی(عدم کو وجود اور وجود عدم میں بدلنے والی قوت) وغیرہ وغیرہ۔ دراصل اس طرح کی علامتی تفہیم، علامت کے تخلیقی تصور کو انتہائی محدود کر دینے کے مترادف ہے۔ علامت وہاں واقع ہوتی ہے جہاں ہمیشہ معنی کے کسی نہ کسی جز پر اخفا کا مہین پردہ پڑا رہتا ہے اور ہم معنی نہیں محض معنی کی جھلک یا نمود ہی سے مستفیض ہوتے ہیں۔ علامت چوں کہ از خود خلق ہوتی ہے اسی لیے اس میں معنی، دھند میں اٹی ہوئی کیفیت کا حکم رکھتے ہیں اور جو کبھی مکمل صورت میں افشا نہیں ہوتے۔ ان معنوں میں اخترالایمان قطعی علامتی شاعر نہیں ہیں۔ البتہ ابتدا ہی سے ان کی بعض نظموں میں تمثیلی عناصر کارفرما ہیں۔مثلاً سب رنگ، تاریک سیارہ، ایک کہانی، خاک و خون اور اعتماد جیسی نظمیں، ان نظموں میں علامتی معانی کی تلاش ضرور کی جا سکتی ہے مگر اپنی تکنیک میں یہ تمثیلی ہیں۔ دراصل اخترالایمان نے علامت کو تمثیل کا متبادل سمجھ لیا ہے۔ راشد کی بعض نظموں میں علامتیں ایک دوسرے سے اس قدر گتھی ہوئی ہیں کہ پہلی اور دوسری قرأت تک ہم محض اس کی لسانی فضا اور اس کے جادو کے اسیر بنے رہتے ہیں۔ بعد ازاں آہستہ آہستہ اس کی بعض گرہیں ہم پر کھلتی ہیں۔ اور بعض پھر بھی الجھی ہی رہتی ہیں اسی لیے ابہام کی کیفیت کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہتی ہے جب کہ اخترالایمان کی نظم پہلی قرأت ہی میں اپنا پورا سیاق و سباق واضح کر دیتی ہے، دوسری اور تیسری قرأت میں ہم پر اس کے اور بہت سے دوسرے معنی بھی کھلتے ہیں بالکل اس طرح جیسے منٹو کے کسی افسانے کی ایک جہت تو وہ ہوتی ہے جو سب پر عیاں ہے دیگر وہ جہتیں ہیں جو افسانے کے کرداروں ، ان کی حرکات، ان کے مکالمات، بیچ بیچ میں سکوتیوں ، وقفوں، مختلف situations یا خود افسانہ نگار کے داخلی تجزیوں میں پنہاں ہوتی ہیں، بہ غور مطالعے ہی سے انہیں اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ابہام یا معنی کی کثرت محض علامت سے واقع نہیں ہوتی، تخلیق میں اور بہت سے ایسے محسوس و غیر محسوس امور ہوتے ہیں ، جو ایک سے زیادہ قرأت کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اک محقق نے انسان کو بوزنہ جب کہا

میں وہیں سجدۂ شکر میں گر گیا

اپنی کوتاہیوں،خامیوں کے لیے

آفرینش سے اب تک جو شرمندہ تھے

آج وہ بوجھ،بارے ذرا کم ہوا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’تسکین‘‘

اخترالایمان کی شاعری ہمارے ادوار کا شہر آشوب ہے۔ اس کا لسانی پیرایہ بڑی حد تک راست سہی، مگر جو چیز اسے فکر و فہم کے اعتبار سے پیچیدہ بنا دیتی ہے وہ ہے اس کا تہجینی اسلوب ہے، اکثر وہ اپنی بات رمز آگیں طنز سے شروع کرتے ہیں۔ (ان نظموں میں بھی جن میں کردار سازی کی گئی ہے) مگر جوں جوں نظم آگے کی طرف بڑھتی ہے اس میں طعن و تعریض کا پہلو زیادہ شدید ہوتا چلا جاتا ہے۔ نوا تلخ ہو جاتی ہے اور آہنگ درشت و بلند ۔ ان کی غصہ وری اور بر افروختگی ایک ایسے شخص کا ردِّ عمل ہے جو انسانیت کا ایک خوش آگیں خواب دیکھتا ہے مگر تعبیر میں اسے سوائے محرومی اور تاسف کے کچھ نہیں ملتا۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ جلی کٹی سنانے سے بھی معمولات میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوا ہے تو وہ آپ اپنے کو پھبتی کا نشانہ بنانے لگتا ہے۔ اسی عنوان سے اخترالایمان نے اپنے کئی دوسرے کرداروں کا بھی تمسخر اڑایا ہے۔ جس میں تضحیک کا پہلو کم عبرت کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ مجھے اسی لیے اخترالایمان کی شاعری طنز یا irony سے زیادہ تہجین یا ہجا satire کی طرف مائل دکھائی دیتی ہے۔ وہ مستقلاً انسانی حماقتوں، بدکاریوں، ظالمانہ بے حسی اور اخلاقی بے مائگی پر بے دردی کے ساتھ ملامت و مذمت کرتے ہیں اس مذمت میں اکثر تنفیر و تحقیر کا لہجہ بھی حاوی ہو جاتا ہے جس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ وہ قاری کے اندر بھی اسی قسم کا ردِّ عمل پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ خود گزرے ہیں۔اپنے اس منصب میں اخترالایمان پوری طرح کامیاب ہیں۔ عین اس وقت جب کہ ہمارے ترقی پسند شعرا دنیا اور نظام کو بدلنے کا نعرہ لگا رہے تھے۔ اخترالایمان نے انسان کو اپنے ضمیر میں جھانکنے کی دعوت دی کہ پہلے خود تمہیں بدلنا ہوگا۔ اپنے ذہن و ضمیر کو ان کثافتوں سے پاک کرنا ہوگا۔ جو گھن کی طرح پوری انسانیت کو کھوکھلا کرنے کے در پے ہیں۔

ایک شب خیز نے یہ سوچ کے اس دنیا کا

سلسلہ یوں ہے کہ جو باپ ہے بیٹا ہو وہی

اپنے ہم راہ لیا لختِ جگر کو اک رات

راہ ماری کے لیے چل پڑا تاریکی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’بیٹے نے کہا‘‘

حسب نسب ہے نہ تاریخ و جائے پیدائش

کہاں سے آیا تھا،مذہب نہ ولدیت معلوم

مقامی چھوٹے سے خیراتی اسپتال میں وہ

کہیں سے لایا گیا تھا وہاں پہ ہے مرقوم

مریض رات کو چلاتا ہے ’’مرے اندر

اسیر زخمی پرندہ ہے اک، نکالو اسے

گلو گرفتہ ہے یہ حبسِ دم ہے خائف ہے

ستم رسیدہ ہے،مظلوم ہے بچا لو اسے‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’سبزہ بے گانہ‘‘

عجم کے شہروں میں اک شہر کا ہے یہ قصہ

یہ رفت و بود کا اک سلسلہ جو قایم ہے

بھنور میں جس کے ہر اک چیز ڈوب جاتی ہے

سنا ہے اس میں کسی قصبہ کا رئیس بڑا

پھنسا کچھ ایسا کوئی چال کار گر نہ ہوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’قبر‘‘

ایسے بیٹھے تھے اِدھر بھیا تھے دائیں جانب

ان کے نزدیک بڑی آپا شبانہ کو لیے

اپنے سسرال کے کچھ قصے،لطیفے باتیں

یوں سناتی تھیں ہنسے پڑتے تھے ہم سب کے سب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’کل کی باتیں‘‘

بعض سنجیدہ ترین نظموں کے اختتامیوں میں انٹی کلائمکس کے تاثر کو ابھارا گیا ہے۔ایک دم سقوط کی یہ صورت حسِ مزاح کو بر انگیخت نہیں کرتی بلکہ بالواسطہ طور پر ہماری بے حسی اور فہم پر تازیانے کا کام کرتی ہے۔طنز کا یہ طریق اخترالایمان کا اپنا ہے۔ ’’زندگی کا وقفہ‘‘ جیسی متین نظم جس میں وقت اور زندگی کی لغویت کو موضوع بنایا گیا ہے، ان مصرعوں پر ختم ہوتی ہے:

سانس رک جائے جہاں سمجھو وہیں منزل ہے

اور اس دور سے تھک جاؤ تو سگرٹ پی لو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’زندگی کا وقفہ‘‘

’’حمام باد گرد‘‘ جیسی نظم جس کا کینوس بڑا وسیع ہے اور جسے ہمارے عہد کی قلیل ترین طنزیہ نظموں میں شمار کیا جانا چاہیئے،ان مصرعوں پر ختم ہوتی ہے:

میں وہ سب جانتا ہوں تم نہیں جس سے ابھی واقف

چلو اک بار پھر دنیا میں جاؤ ایک موقع اور دیتا ہوں

مگر اس بار کچھ تھوڑا سا قدغن ہے

غلط سمجھے ہو ضبطِ نفس کو تم سے نہیں کہتا

اشارہ ضبطِ تولید اور آبادی کی جانب ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’حمام باد گرد‘‘

’’آثارِ قدیمہ‘‘ کا خاتمہ اس مصرعے پر ہوتا ہے:

آؤ چلو کتوں کا دربار سجائیں،کووں کی بارات نکالیں

یا ’’کل کی بات‘‘ کے یہ آخری مصرعے دیکھیں :

یک بیک شور ہوا ملک نیا ملک نیا

اور اک آن میں محفل ہوئی درہم برہم

آنکھ جو کھولی تو دیکھا کہ زمیں لال ہے سب

تقویت ذہن نے دی ٹھہرو،نہیں خون نہیں

پان کی پیک ہے یہ امّاں نے تھوکی ہوگی

جدیدیت کے شور و غوغا میں ہمارے نقادوں نے اخترالایمان کی شاعری کی طرف بہت کم توجہ دی ہے۔ کیوں کہ ان کا اسلوب اور تلفیظ diction مقبولِ عام علامتی پیرائے کی نفی کرتا ہے۔ جدید شاعری میں لکھے جانے والے مضامین میں تو انہیں خوب خوب سراہا گیا مگر علیٰحدہ سے ان کی شاعری کے متفرق پہلوؤں پر بہت کم لکھا گیا ، چوں کہ وہ ترقی پسند شعرا سے ایک الگ راہ نکال رہے تھے اور نا بستہ تھے اس لیے جدید نقادوں نے نئی شاعری کی گفتگو میں ہمیشہ انہیں شامل رکھا مگر دستارِ فضیلت ہمیشہ ن۔م۔راشد کے سر ہی باندھتے رہے اور ظاہر ہے اپنے اظہار کے پیرایوں میں اخترالایمان ، راشد کی عین ضد ہیں۔ جب راشد کو جدیدیت کا ایک کوہ وقار معیار بنا لیا جائے تو اخترالایمان جیسے،روکھے، پھیکے، شاعر تو اس معیار سے بہت پست رہ جائیں گے اور ہوا بھی یہی۔ وہ decorum آخر اخترالایمان جیسے منہ پھٹ شاعر کے یہاں کہاں ملے گا۔ اخترالایمان کی شاعری کو انگیز کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذوق کی دوسری نہج پر تربیت کرنی ہوگی۔ غزل کی شعری لسانیات سے پرے ہو کر نظم کا مطالعہ کرنا ہوگا۔

اخترالایمان اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ مجھے امید ہے کہ اب ان کے بعد ان کی شاعری کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان کی تخلیق کے کئی ایسے گوشے اور ابعاد اجاگر ہوں گے۔ جو اب تک ہماری نظروں سے اوجھل تھے۔ ہم بے حس لوگ (اخترالایمان نے اکثر اس بے حسی اور جمود کا ماتم کیا ہے) اکثر اپنے اہم فن کاروں کی موت کا اسی طرح استقبال کرتے آئے ہیں۔

 

 

مجروح کی غزل اوراس کے اطراف

 

مجروحؔ کا پہلا مجموعہ کلام ’’غزل‘‘ کے نام سے ۱۹۵۳ میں شائع ہوا ۔جب کہ فیض کا مجموعۂ کلام نقشِ فریادی ۱۹۴۱ کی اشاعت ہے اور دوسرا مجموعۂ کلام دستِ صبا ٹھیک اس کے گیارہ برس بعد یعنی ۱۹۵۲ میں منظرِ عام پر آیا ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب غزل گو شعر أ میں صرف اور صرف فراق گورکھپوری ہی کا طوطی بول رہا تھا ۔ یگانہ ‘فانی‘ حسرت اور جگر کی غزل کی پذیرائی کی اپنی وجوہ تھیں۔نظم کے بلند آہنگ کے سامنے غزل کا تحت الحن روکھا پھیکا لگنے لگا تھا اور اردو شاعری کا سامع اور قاری ہی نہیں ہمارا ادبی دانشور طبقہ بھی نظم کی امکا ن افزا کشادگیوں کا نہ صرف یہ کہ اعتراف کرنے لگا تھا بلکہ غزل اس کے لئے تضیع اوقات کی چیز بن کر رہ گئی تھی ۔یگانہ، فانی اور حسرت کی غزل کلاسیکی روایتوں کی پاس داری کے باوجود اتنی روایتی نہ تھی جتنی امیر مینائی یا ان کے بعد سائل  اور بے خود وغیرہ کی غزل تھی۔ فراق ان سب سے کم عمر تھے لیکن وہ فیض،مجروح اور ناصر کاظمی کے پیش رو بھی تھے۔ فراق کے ذہنی سلسلے ہمارے ان اساتذہ اکرام ہی سے ملتے ہیں جنہیں ہم دوم یا سوم درجے کا شاعر کہتے ہیں ۔فراق نے بابِ تنقید میں اپنی تحسین کا محور بھی انہیں شعر أ کو بنایا تھا ۔ دراصل فراقؔ نے ان شعرا سے بعض فنی ّرموز کا درس حاصل کیا تھا اور طول کلامی یا بسیار گوئی بھی انہیں سے سیکھی تھی ۔ جس سے انہیں فائدہ کم نقصان زیادہ میسر آیا ۔ نئے علوم، انگریزی رومانی اور سنسکرت کلاسیکی شاعری کا جو تناظر انہیں ملا تھا اسی کا نتیجہ ہے کہ فراقؔ کی غزل محض و صرف روایتی ہونے سے بال بال بچ گئی ۔ اسی تازہ کاری نے فراق کو یگانہ ‘ حسرت اور فانی سے ایک علیحدہ منصب بھی عطا کیا ۔وہ اسی سلسلے کے شاعر ہونے کے با وصف بعض بصیرتوں کے اعتبار سے ان سب سے علیحدہ اور مختلف بھی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کی نسلوں پر فراق کے مقابلے میں یگانہ اور حسرت کے اثرات بڑی حد تک دھند لے اور غیر محسوس ہیں۔ جب کہ مجاز ،جذبی اور خود مجروح نے فانی سے تھوڑی بہت راہ و رسم ضرور دکھائی ۔مجاز کو بہت کم مہلت ملی اور جذبی کی غزل میں اقبال کے بلند آہنگ نے فانی کے اثر کو تقریباً زائل کر دیا ۔ وہ مجروح ہی ہیں جو ابتداً جگر ، فانی اور فراق کے اثرات کے امتزاج سے غزل کو ایک نئے طرزِ کلام سے آشنا کراتے ہیں ۔فراق کا اثر ایک تحکم کے طور پر ناصر کاظمی سے ہوتا ہوا شاذ تمکنت، اطہر نفیس اور احمد فراز تک پہنچتا ہے۔ بلکہ فراق کے اثرسے فیض اور مخدوم بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکے۔مجروح ،جگر کے گوشۂ جگر تھے ، اُن کی بائکلہ جیل سے قبل یعنی ۱۹۴۷ تک کی غزل پر عشق و سرمستی کی وہ کیفیت بھی تہِ موج اپنا اثر دکھا رہی ہے جو جگر کا ایک خاص شیوہ ہے ۔وہ آہنگ بھی اس لحن میں شیرو شکر ہونے کے درپے ہے جسے فانی سے ایک نسبتِ خاص ہے ۔ وہیں ان اثرات کی دھند میں ایک روشن کرن بھی بر سرِ کار نظر آتی ہے ۔ جس کا سرچشمۂ وجود فراق کی اقلیم میں تہہ نشست ہے ۔مثلاً

وہ تک رہے تھے ہمیں ہنس کے پی گئے آنسو

وہ سن رہے تھے ہمیں کہہ سکے نہ افسانے

کس کس کو ہائے تیرے تغافل کا دوں جواب

اکثر تو رہ گیا ہوں جھکا کر نظر کو میں

محتسب ! ساقی کی چشم نیم وا کو کیا کروں

مے کدے کا در کھلا، گردش میں جام آ ہی گیا

وہ بعدِ عرض مطلب، ہائے رہے شوقِ جواب اپنا

کہ وہ خاموش تھے اور کتنی آوازیں سنیں میں نے

یہ رکے رکے سے آنسو یہ دبی دبی سی آہیں یونہی کب تلک خدایا غم زندگی نباہیں

بہانے  اور بھی ہو تے جو زندگی کے لئے ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے

مجروح مرے ار مانوں کا انجام شکستِ دل ہی سہی

جی کھول کر خود پر ہنس نہ سکوں اتنا بھی مجھے غم کیا ہوگا

اس نظر کے اٹھنے میں،اس نظر کے جھکنے میں

نغمۂ سحر بھی ہے آہِ صبح گاہی بھی

وہ آ رہے ہیں سنبھل سنبھل کر نظارہ بے خود فضا جواں ہے

جھکی جھکی ہیں نشیلی آنکھیں، رکا رکا دور آسماں ہے

ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اک سجدہ

سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے

مجروح صرف ان اثرات ہی کا نام نہیں ہیں ۔ جن کا حوالہ میں نے اوپر دیا ہے بلکہ ان اثرات کے درمیان ان کی وہ آواز بھی آہستہ مگر یکساں روی کے ساتھ اپنا نقش گہرا کر رہی تھی جو بعد ازاں ان کی انفرادیت کے تعین میں سب سے کاری ثابت ہوئی ۔

مجروح کی کم گوئی کے تو بہت سے اسباب تھے ۔ایک گفتگو میں انہوں نے اپنی غیر ادبی مصروفیات کے علاوہ اپنی بیماری کو بھی اس کا ایک سبب بتایا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلمی دنیا کی مصروفیات ان کے تخلیقی اظہار کی راہ میں مانع آتی رہیں اور جس بلند کو ش منزل کے امکان سے ان کے ابتدائی مرحلے کی غزل عبارت تھی اسے پر پرواز نہ مل سکے ۔ تخلیق کی دیوی کل وقتی انہماک کا مطالبہ کرتی ہے ۔ ذرا سی چوک ہوئی اور آپ فراموش گاری کی گہری گاڑھی دھند میں ڈبو دیے گئے ۔مجروح کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ وہ جب خوابِ غفلت سے اٹھے تو سارا منظرنامہ ہی بدل چکا تھا ۔ فراق کے بعد ناصر کاظمی اور فیض احمد فیض کی غزل کا ڈنکا بج رہا تھا ۔ اور تو اور احمد مشتاق درمیان میں آ گئے تھے ۔ خود احمد فراز جیسے فیض زدہ ترقی پسند رومانی شاعر کی کئی غزلیں فضا میں گونج رہی تھیں اور وہ اپنے معاصر ین میں سب سے مقبول شاعر کے طور پر قائم ہو چکے تھے ۔ ایسے حالات میں مجروح کو اپنے وجود کا احساس دلانا کارِ دار د تھا ۔ تاہم ان کے بعض غلط، صحیح دعاوی کے باعث جہاں ایک طرف ان کی سنجیدگی پر حرف آیا وہیں ایک بڑے حلقے کی توجہات بھی ان کی طرف منعطف ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک متنازعہ شخصیت بن گئے ۔ اس نزع کا سب سے بڑا سبب فیض کا آسیب تھا ۔انہوں نے اپنے وجود کی بہ حالی کے لئے فیض کے بت کو توڑنا ضروری سمجھا ۔ان کا دعویٰ تھا کہ

۱) ترقی پسندوں کی عدم توجہی اور مخالفت کی وجہ سے غزل کو جو ہزیمت اٹھانی پڑی تھی ۔ ان کی غزل ہی اس کے تدارک کا سبب بنی۔

۲) سب سے پہلے انھیں نے سیاسی و سماجی مضامین کو بڑی خوبی کے ساتھ غزل میں نظم کر کے یہ ثابت کیاکہ غزل ہر دور کا ساتھ دے سکتی ہے ۔

۳) فیض کی سیاسی غزل ان کے بعد کا تجربہ ہے ۔

۴) ایک غزل گو کی حیثیت سے فیض سے وہ بڑے ہیں۔

دراصل ان دعووں کے پشت پر مجروح کا frustrationسب سے بڑا محرک ہے ۔ پہلی بات یہ کہ غزل کے لئے فضا سازی کا اصل کام تو اصغر گونڈوی ‘ فانی‘ یگانہ ‘ حسرت اور جگر نے کیا تھا اور وہ بھی عین اس وقت جب عظمت اللہ خاں اس کی گردن مار دینے کے درپے تھے ۔ جوش نے اسے مجذوب کی بڑ قرار دیا تھا اور کلیم الدین احمد نے سیدھے سیدھے اسے نیم وحشی صنف کہہ کر اپنے ہاتھوں اپنی پیٹھ تھپتھپانے کا سامان مہیا کیا تھا ۔ پھر ۴۶ سے ۵۰ تک ناصر کاظمی اپنی بہترین تخلیقی سعادتوں کا اظہار غزل کے پیرائے ہی میں کر رہے تھے ۔ فیض کے ان اشعار کو کیا نام دیں گے جو ۴۰۔ ۱۹۳۹ کی یاد گار ہیں اور جو بلا شبہ ان کی اگلی جست کا پتہ دیتے ہیں ۔

تیری خاموشیوں میں لرزاں ہے میرے نالوں کی گمشدہ آواز

توہے اور اک تغافل پیہم میں ہوں اور انتظارِ بے انداز

فریبِ آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی

ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آوازِ پا سمجھے

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا

تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روز گار کے

نہ جانے کس لئے امید وار بیٹھا ہوں

اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں

کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسنِ دو عالم سے

مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جا تی

محولہ اشعار نقشِ فریادی بابت ۱۹۴۱ سے ماخوذ ہیں ۔ دستِ صبا ۱۹۵۲ کی غزلیں ایک بڑی جست کا حکم رکھتی ہیں ۔خود ناصر کاظمی کی ۴۸۔ ۱۹۴۷ کی غزلیں جو برگِ نے میں شامل ہیں سلسلۂ غزل کو ایک نئی طرح سے آشنا کر رہی تھیں۔اس معنی میں آئندہ کی غزل کی فضا سازی فیض اور ناصر کاظمی نے کی تھی نہ کہ مجروح نے۔ فیض اور مجروح نے اپنے لئے جو ڈ کشن منتخب کیا تھا وہ بڑا choosy تھا جسے ہم چوکھا ، کاٹھ دار ، جامع  اور صلابت آمیز کہہ سکتے ہیں ۔ ناصر کاظمی کی بعض غزلوں کے استثنا کے ساتھ فیض اور مجروح کی غزلوں میں اشعار کی تعداد سات سے زیادہ کم ہی ہوتی ہے ۔ غزلوں کی تعداد کے لحاظ سے ناصر کاظمی کے بعد فیض  اور فیض کے بعد مجروح کانا م آتا ہے ۔ناصر کاظمی اور مجروح کا سارا اثاثۂ شعر ، غزل سے وابستہ ہے ۔جب کہ فیض کی تخلیقی سعادتوں کا ایک دوسرا بڑا محور نظم بھی تھا ۔ فیض کے تعلق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کی غزلوں کی کمی کو ان کی نظم پورا کر دیتی ہے ۔ کیوں کہ ان کی نظم کی تلفیظ اور لہجے کی کشادگی اور نفاست ایک قدرِ مشترک کے طور پر غزل میں بھی یکساں طور پر موجود ہے بلکہ ان کی نظم اور غزل کے اسلوب میں اس طرح کا dichroism یادو رنگا پن کم سے کم ہے، جس سے ایک ہی نوعیت ،دو رنگ نمائی کی مظہر بن جاتی ہے ۔

مجروح کی کم گوئی کا ایک سبب تو وہی ہے جوان کی فلمی مصروفیت سے تعلق رکھتا ہے ۔دوسرے دو اسباب ایسے ہیں جن کی طرف ہمارے نقاد وں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے ۔ میری نظر میں پہلا سبب ان کی غزل کا بستہ و پیوستہ اسلوب ہے ۔جو بے حد مرتکز ، مجمل ، پرکار، چست اور شستہ ہے ۔ اس قسم کا سگھڑ پن یا خوش سلیقگی فیض کا بھی شیوہ ہے ،لیکن وہ اپنی نظم اور غزل دونوں میں کہیں کہیں کچھ آزاد یوں کے لیے راہ نکال لیتے ہیں ۔ مجروح بہت conscious ہو کر غزل کہتے ہیں ۔ اس لئے وہ اسے آزادی کے ساتھ کھل کھیلنے کے مواقع فراہم نہیں کرتے۔ ان کا تربیت یافتہ مہذب کردار اور تعقل گنجائش مہیا کرنے کے بجائے حد بندی قائم کر دیتا ہے۔

اس طرح ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو وں اور وجدان کی بہت سی امکانی سرگرمیوں سے ان کی غزل محروم ہو گئی ۔لیکن حاصل جمع کے طور پر اپنی کلیت میں بھی مجروح کم اہم نام نہیں ہے ۔ ترقی پسند انجمن میں شرکت سے قبل کے چند اشعار میں وہی کیفیت اپنی ابتدا میں بھی مترشح ہے جو ۴۷۔ ۱۹۴۶ کے بعد ایک احاطہ گیر خصوصیت میں بدل جاتی ہے ۔ میں نے اپنے ابتدائے مضمون میں صرف ان اشعار کا ذکر کیا تھا جن میں مجروح کے پیش رو شعرا کا کسی نہ کسی طور پر اثر شامل ہے۔ جب کہ درج ذیل اشعار وہ بنیاد قایم کر تے ہیں جو آگے چل کر ان کی انفرادیت کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

ترے خانماں خرابوں کا چمن نہ کوئی صحرا

یہ جہاں بھی بیٹھ جائیں وہیں ان کی بارگاہیں

شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی

کبھی اک چراغ بجھا دیا کبھی اک چراغ جلا دیا

پستی زمیں سے ہے رفعتِ فلک قائم

مری خستہ حالی سے تیری کج کلاہی بھی

شمع بھی اجالا بھی میں ہی اپنی محفل کا

میں ہی اپنی منزل کا راہ بر بھی راہی بھی

مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بد ل گئے

ترا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے

دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوشِ بہار

رقص کرنا ہے تو پھر پانو کی زنجیر نہ دیکھ

غالب کی طرح مجروح کی غزل کو بھی ہم غیر متعلقات اور دوسرے لفظوں میں فضولیات سے پاک کہتے ہیں ۔ یعنی ایسا اسلوب جو حشو اور زائد سے عاری ہی نہ ہو بلکہ اپنے constructمیں ہر اُور اَور چھور سے کسا بندھا اور جامع و مانع بھی ہو ۔ لیکن غالبؔ اپنی استعداد کا دوسرے کئی زمروں میں مظاہرہ کرتے رہے۔ان کے تخلیقی سفر میں مختلف موڑ تو واقع ہوئے لیکن قیام کہیں نہیں ہے۔قیام ہے بھی تو تغافل کہیں نہیں ۔غالبؔ کا دیوان مختصر ہے جسے انتخاب ہی کہنا چاہیے۔لیکن اس انتخاب کے پیچھے ایک ایسا ذہن بھی کام کر رہا ہے ۔ جو نفی کو انگیز کرنے کا فن اور حالات سے جنگ آزمائی کے ایک ہزار طریقے جانتا ہے۔ مجروح کو بار بار اپنے کو انکشاف اور بہ حال کرنے کے مواقع تو ملے لیکن وہ پوری شدت کے ساتھ اپنے لسانیات شعری پر حاوی اور قادر نہیں ہو سکے ۔انہیں پوری جرأت کے ساتھ اپنے آپ کو بار بار رد کر کے ایک نئے معرض میں خلق کرنے کی ضرورت تھی۔ ان کے تہذیب شعر کی مقتضیات میں سے ایک تقاضہ یہ بھی تھا کہ وہ بلا تعطل کار گہ شعر سے اپنے آپ کو وابستہ کر رکھتے ۔انہوں نے اپنے اسلوب کی جو راہ اختیار کی تھی وہ بڑی دقت طلب اور صبر آزما تھی ۔ اپنے آپ کو وہ مہلت ہی مہیا نہ کر سکے کہ ان کی تلفیظ خود ان کے لئے سیال بن جاتی۔ شعور سے پرے ہونے کا وہ گُر ان کے ہاتھ نہیں لگا جو بحالتِ شعور، شعور سے پر ے ہوتا ہے ۔ جو کیا نہیں جاتا بس ہو جاتا ہے۔ ہونے اور کرنے کا یہ فرق وہاں مٹ جاتا ہے جہاں فن کار بڑی بے دردی کے ساتھ اپنے آپ کو توڑ نے پھوڑنے اور طرف طرف بکھیر نے کے عمل سے گزرتا ہے ۔مجروح کا المیہ یہ ہے کہ وہ مجتمع کرنے کی دھن میں اپنے آ پ سے بڑی حد تک بے خبر رہے ۔

مجروح کی کم گوئی کا ایک سبب اور بھی ہے اور وہ ہے ہیرلڈبلوم کے لفظوں میں The anxiety of influenceایک تو فیض کا خوف اور آسیب ان کی گردن پر سوار رہا دوسرے نظم کی غیر معمولی مقبولیت نے ان کے ذہن کو محبوس کر دیا۔ ۱۹۳۶ سے ۱۹۵۵ تک کا زمانہ ترقی پسند نظم کے عروج سے عبارت ہے ۔نظم کے شور و غوغا میں غزل کی آواز دب کر رہ گئی تھی ۔ فیض تو نظم کہہ کر تسلی حاصل کر لیتے تھے لیکن مجروح نے نظم کو اپنا محاورہ غالباً اسی لیے نہیں بنایا کہ ایک خاص غزل گو شاعر کے لیے نظم میں اپنے انفراد کو آشکار کرنا اور قائم رکھنا اتنا آسان نہ تھا۔ مجروح کو غزل میں یقیناً ایک ہنر ہاتھ لگ گیا تھا لیکن وہ اس کی مناسب توسیع نہ کر سکے ۔جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اثر پذیری کی اس تشویش نے مجروح کو تردّد میں رکھا کہ ان کے معاصر اور قریبی پیش رو شعرا کی بلند اور شور آگیں آوازوں کے درمیان ان کے لحن کو شاید کوئی وقعت نہ مل سکے ۔پھر یہ بھی کہ ۵۰ء  تک ان کا شعری اثاثہ ہی کیا تھا ۔ جس کے منافع پروہ باقی زندگی ایک طویل بے خبری میں گزار دیتے۔

ہیرلڈبلوم نے تو اس نفسیاتی نکتے کی طرف متوجہ کیا تھا کہ

’’ اکثر شعرا اپنے ماضی قریب و بعید کے پیش روؤں کی عظمتوں سے مرعو ب ہو تے ہیں ۔‘‘

در اصل آبأ و رفتگاں ان کے لئے ایک ایسے چھتنار درخت کا روپ دھارن کر لیتے ہیں جن کی چھانو تلے نئے پودوں کے پھلنے پھولنے کا امکان تقریباً ختم ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر اپنے پیش روسے پوری قوت کے ساتھ متاثر بھی ہوتا ہے، مرعوب بھی اور خوف زدہ بھی ۔وہ اس سے محبت کا دم بھی بھرتا ہے اس کی تحسین بھی کرتا ہے اور حتیٰ کہ اس سے نفرت بھی۔بلوم کہتا ہے کہ

’’ اس قسم کے تردّدات ہی اوریجنل اور انفرادی آواز کا سبب بھی بنتے ہیں۔‘‘

جب کہ مجروح نفی کو انگیز کرنے کی صلاحیت ہی پیدا نہ کر سکے ۔ انہوں نے انفرادی آواز تو پائی لیکن اپنی تخلیقی استعداد کا کھل کر بلکہ بے دردی کے ساتھ مظاہرہ نہ کر پائے ۔

مجروح کے چند ایسے اشعار پر میں اپنی گفتگو ختم کرنا چاہوں گا جن میں ان کی انفرادیت کا نقش گہرا ہے اور جن سے طریقِ ادائگی کے ان مضمرات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی جو بڑی حد تک مجروح کا اجارہ ہیں۔ چند مخصوص مضامین اور الفاظ کی گونج یقیناً ترقی پسند شعرا اور بالخصوص فیض کے یہاں بھی دستیاب ہے لیکن اس کے معنی قطعی یہ نہیں ہیں کہ فیض اور مجروح کا اسلوب یکساں ہے ۔

مجروح کے انفراد اور ان کے اپنے پن کی چند مثالیں کچھ اس طرح ہیں ۔

سر پر ہوائے ظلم چلے سو جتن کے ساتھ

اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ

جاؤ تم اپنے بام کی خاطر ‘ ساری لویں شمعوں کی کتر لو

زخم کے مہر و ماہ سلامت،جشنِ چراغاں تم سے زیادہ

جلا کے مشعلِ جاں ، ہم جنوں صفات چلے

جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ

جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

بے تیشۂ نظر نہ چلو راہِ رفتگاں

ہر نقشِ پا بلند ہے دیوار کی طرح

آنے دے باغ کے غدّار مرا روز حساب

مانگے تنکا نہ ملے گا یہی گلزار سہی

ہجوم دہر میں بدلی نہ ہم سے وضعِ خرام

گری کلاہ ہم اپنے ہی بانکپن میں رہے

جنونِ دل نہ صرف اتنا کہ اک گلِ پیرہن تک ہے

قد و گیسو سے اپنا سلسلہ دارو رسن تک ہے

شبِ ظلم نرغۂ راہ زن سے پکارتا ہے کو ئی مجھے

میں فرازِ دار سے دیکھ لوں کہیں کاروانِ سحر نہ ہو

 

 

 

 

جدید اردو نظم: ہیئت اور تجربے: (۱۹۶۰ء کے بعد )

 

جدید نظم،ہئیت اور تجربے جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، ایک طویل تر بحث کا متقاضی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہم جس جدید نظم کے زمان کا تعین ۱۹۶۰ء سے کر رہے ہیں۔ اس کا ایک واضح پس منظر ہے اور اس پس منظر کو اگر ذہن میں رکھ کر گفتگو کی جائے تو یہ سلسلہ ماضیِ قریب میں میراجی، ن۔م۔ راشد اور ان کے بعد مجید امجد اور اخترالایمان سے جا ملتا ہے۔یعنی ۱۹۶۰ء کے بعد جن کی آوازوں نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا ان میں ایک گروہ تو وہ تھا جو ترقی پسند تحریک کے زمانہ عروج سے لکھتا آ رہا تھا۔ ترقی پسند معمر دستے کے مقابلے پر یہ گروہ ان نوجوانوں پر مشتمل تھا جو ترقی پسند انتہا پسندی کے خلاف تھے اور جن کا طرزِ احساس نیا تھا۔ یہ مختلف کی جستجو میں تھے، آزادیِ ضمیر اور آزادیِ اظہار کے حامی، انفرادیت کے جو یا اور ذاتی تجربے کے مؤیّد۔ دوسرا گروہ اس تازہ کار نسل پر مشتمل تھا جس کا تعلق ترقی پسندی یا ترقی پسند تحریک سے محض اکتسابی تھا۔ پہلے گروہ کے مقابلے پر دوسرے گروہ کو ایک بنی بنائی فضا میسر آئی تھی۔ مگر جدیدیت کی تعبیر و تخصیص میں اس گروہ کا بھی ایک اہم کردار ہے۔

میری نظر میں پہلا گروہ خلیل الرحمن اعظمی، باقر مہدی، قاضی سلیم، عمیق حنفی ، شفیق فاطمہ شعریٰ،وحید اختر،بلراج کومل،محمد علوی،محمود ایاز، شاذ تمکنت ، شہاب جعفری اور ساجدہ زیدی جیسے ناموں پر مشتمل ہے۔

دوسرے گروہ میں شہرِ یار، ندا فاضلی، زبیر رضوی، شمسُ الرحمٰن فاروقی، کمار پاشی، عادل منصوری، حمید الماس،بمل کرشن اشک ہیں، ان کے بعد صادق، علی ظہیر ، صلاح الدین پرویز، رؤف خلش، عبدالاحد ساز اور شاہد کلیم ہیں۔ ان کے بعد بھی چند نام اور ہیں جو ۱۹۸۰ء کے بعد نمایاں ہوئے ہیں مثلاً بلقیس ظفیرالحسن،گلزار، رفیعہ شبنم عابدی، عنبر بہرائچی ، ستیہ پال آنند،ش۔ک۔نظام،جینت پرمار، شریف ارشد، عین تابش وغیرہ۔

یہ فہرست یقیناً نا مکمل ہے۔ گر وہی تخصیص میں عمر کو پیمانہ نہیں بنایا گیا ہے کیوں کہ ان میں بعض شعراء نے اپنا تخلیقی محاورہ بعد میں بدلا اور پہچان بھی بعد میں بنائی۔

جس گر وہ کے دورانِ عمل ان کی شناخت قائم ہوئی تھی میں نے اسی گروہ کے ساتھ انہیں شامل کیا ہے۔ باوجود اس کے مذکورہ فہرست اور ترتیب پوری طرح نہ تو مکمل ہے اور نہ تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے قطعی درست ۔

اردو میں جدید ادبی تاریخ کا وہ دو رجو ۱۹۶۰ء کے بعد تقریباً تیس بتیس برسوں پر محیط ہے ادبی تنازعوں و مناظروں سے معمور ہے۔ نئی نسلوں کو اس پورے تخلیقی اور تنقیدی منظر نامے کا علم ہونا چاہیے کہ نئے شعراء اور نئے نظریہ سازوں نے ادب و تنقید کی جمالیات جب ترتیب دی تھی ان کے سامنے کون کون سے چیلنج اور خطرات تھے ۔ پیش رو ادبی مقتدرہ establishment کی گمراہیوں کو نشانہ بنانا اور انہیں رفع کرنا بھی ان کا مقصود تھا جو عالمی تناظر میں کسی وقت قطعی تازہ کار و تازہ دم تھیں ۔ اگرچہ اس گروہ کی شناخت میں انحراف، اختلاف اور انکار کا پہلو سب سے زیادہ روشن ہے مگر یہ انکار ان عادات و اقدار کا رد عمل ہے جو ادب میں غلط طریقے سے رائج ہو چکے تھے۔ تاریخ و سیاست کے وسیع تر اثر و عمل کی اپنی جگہ اہمیت ہے مگر ادب میں محض انہیں قوتوں کے اثر و تعامل کا جا اور بے جا اطلاق کرنے ا ور ادب کو انہیں کا حاصل جمع قرار دینے کا رویہ بہت دور اور دیر تک نہ رہنمائی کر سکتا ہے اور نہ قائم رہ سکتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ تاریخ، تہذیب اور سیاست کے اطلاق کو مسئلہ بنا کر جب خالص جمالیاتی بنیادوں پر جدیدیت کی تخصیص قائم کی گئی تو اس گمراہی نے بھی جنم لیا کہ ان قوتوں اور حقائق کا شعور بھی شاید غیر ضروری ہے۔ نتیجتہً پہلی نسل کے شعراء کے یہاں جو وسعتِ کلامی، اشیا فہمی اور حیات و کائنات کا ادراک ہے اور ان وجوہ سے ان کے یہاں جو تنوع دکھائی دیتا ہے بعد ازاں اس کی قابلِ لحاظ توسیع نہیں ہو سکی۔ اس عبارتِ معترضہ سے قطع نظر نئے شعراء نے اپنے بڑوں کے پھیلائے ہوئے مغالطوں اور خوش فہمیوں کو دور ہی نہیں کیا بلکہ ادب و شعر کے وسیع تر پس منظر میں جمالیاتی اور بشری قدروں سے متعلق سوالات بھی اٹھائے اور ان کے جواب بھی فراہم کیے۔

ان ذہنوں نے نئی شعری لسانیات کی آگاہیاں فراہم کیں ۔ تخلیقی عمل کے علاوہ تخلیقی زبان اور معنی کے اضافی کردار کو موضوعِ بحث بنایا اور جدید تصوراتِ شعر کے پہلو بہ پہلو کلاسیکی نظامِ بلاغت اور نظامِ بدیعیات سے روشنی اخذ کر کے اپنے استدلال کو مستحکم کیا۔ علاوہ اس کے ان نئے فلسفیانہ ا ور نیم فلسفیانہ افکار و تصورات سے بھی باخبر کیا گیا جس نے نئے انسان کی بصیرتوں کو توانگر کیا تھا اور چیزوں کی فہم کا نیا شعور بخشا تھا۔ اس عمل نے یقیناً ، نئی رغبتوں پر مہمیز کی اور نئے ذہنوں میں روایت کو سمجھنے کی ایک نئی کرید بھی پیدا ہوئی۔

اب ان شعراء کی تخلیقی عمر چالیس پینتالیس کو پہنچ رہی ہے۔ ایک بڑے عرصے تک ان کا غلغلہ بلند رہا۔ یہی نام ہماری تنقید کا کل بھی آموختہ تھے اور آج بھی ہیں۔ ان کے تخلیقی سوتے ابھی خشک نہیں ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنی پیش رو نسل سے جن بعض بنیادوں پر انحراف یا اختلاف کیا تھا وہ جتنی بامعنی کل تھیں اتنی ہی آج بھی ہیں۔ اسی طرح یہ شعراء آج بھی اتنے ہی بامعنی ہیں جتنے کل تھے۔ ان کے اسالیب اتنے متنوع،منفرد اور واضح تھے جن کی گونج بعد کی نسلوں میں بہت دور تک سنائی دیتی رہی۔

مغرب میں ہئیت formسے مراد متعین عروضی اور قافیہ اساس مصرعہ جاتی تنظیم کے بھی ہیں جیسے سانیٹ، اوڈ اور بیلڈ وغیرہ، ان کا شمار genre یعنی صنف میں بھی کیا جاتا ہے اور type اور kind جیسے الفاظ بھی صنف کے مترادف کے طور پر مستعمل ہیں۔ ہمارے یہاں قصیدہ، مثنوی اور غزل کا اپنا انفرادی نظامِ ہئیت ہے اور یہ ہی اصناف بھی ہیں۔ بعض اصناف مواد اور ہئیت دونوں کو جامع ہیں جیسے قصیدہ، اور بعض کی تخصیص اپنی تکنیک یعنی اس مخصوص عمل سے قائم ہوتی ہے جو اپنے آخری شمار میں کسی منطقی ہئیت پر منتج ہوتی ہیں اور جس سے کسی تخلیق کی بافت متعین ہوتی ہے جیسے غزل اور مثنوی اسی کے ذیل میں ترکیب بند، ترجیع بند اور مستزاد وغیرہ کا بھی شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اصناف جیسے مرثیہ اپنے مقصد اور مواد سے پہچانا جاتا ہے۔ ہئیت کو محض اظہار یا expression بھی کہا جا سکتا ہے اور اگر مواد، موضوع یا مضمون اس کی ضد ہے تو خیال ایک ایسا موزوں متبادل لفظ ہے جو ان تمام الفاظ کو حاوی ہے۔ یعنی کیسے کہا گیا ہے اگر اظہار ہے، تو کیا کہا گیا ہے وہ خیال ہے جو سانس کی طرح کسی پیکر تخلیق میں رواں دواں ہے۔ مگر جدید شعریات کی روشنی میں باہمی ضد کی یہ صورت جمالیاتی اور تخلیقی واحدیت اور سالمیت کی نفی کرتی ہے۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ ہر تخلیق اپنی شکل خود بناتی ہے خواہ اس کا کوئی نفسیاتی جواز ہو۔ یا وہ کرشمہ ہو فیضان و وجدان یا داخلی حرکیت کا یا نتیجہ ہو تہذیبی و لسانی غیر ارادی جبر کا۔ تو کیا ہم اپنے تمام کلاسیکی منظوم سرمائے کو مشتبہ قرار دے دیں گے یا جو ہمارے عہد میں شہر آشوب، طویل پابند نظمیں، مرثیے اور مثنویاں لکھی گئی ہیں ان کے بارے میں ہماری رائے کیا ہوگی۔ظاہر ہے تخلیق کے ساتھ بالیدگی کے تصور کے اطلاق میں ہمیں قدرے احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ آج ہم معرّیٰ ، آزاد اور نثری نظم کے دور میں جی رہے ہیں اور ہماری سماعتوں اور بصارتوں کے معیار بھی کافی حد تک بد ل چکے ہیں باوجود اس کے کلاسیکی ضابطہ بند ہیئت والی بے شمار نظمیں ہمیں آج بھی پوری قوت کے ساتھ متاثر کرتی ہیں۔ اور ہم انہیں بار بار پڑھتے ہیں اور ہر بار نئی بصیرتیں اور نئی حیرتیں ہمارے حصے میں آتی ہیں۔ دراصل معروف و متداول ہئیتیں کورے formatہیں جن کی حدود ہی میں آپ کو اپنی خلاقی کے جوہر دکھانے پڑتے ہیں۔ شاعر کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس کے قدرتِ کلام ، تخئیل کی حساسیت اور زبان و بیان کی مشق پر ہے۔ اگر شاعر اپنے جذبوں اور لفظوں پر قادر ہے اور گہری تخلیقی حس رکھتا ہے اور اپنی زبان کو حسی اور تخلیقی تجربہ بنانے کے فن سے بھی واقف ہے تو وہ غیر شاعرانہ حقائق کو بھی شاعرانہ بنا سکتا ہے۔ پابند نظم میں بھی بحر، آہنگ، بندوں کی تشکیل، قافیے اور ردیف کا التزام، یا صنف کی مقر رہ ساخت وغیرہ امور جن سے ہئیت کا ظاہرہ پن مشکل ہوتا ہے نظم کے کل معنی ہی کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ یہاں پہنچ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نظم بنی نہیں ہے، واقع ہوئی ہے۔ اور اس کا معنی و موضوع وہی ہے جو ہئیت ہے اور جو ہئیت ہے وہی اس کا معنی و موضوع ہے۔

جدید شعراء کے یہاں ۶۰ء تا حال گویا تقریباً ان پینتیس برسوں میں ہئیت کے کئی قابلِ ذکر تجربے ملتے ہیں۔ ان میں بعض معرّیٰ میں ہیں مگر معرّیٰ اب اتنا پسندیدہ فارم نہیں رہا دوسرے آزاد اور نثری نظم کے تجربے ہیں جو یقیناً عصر رواں میں سب سے مرغوب ہئیتیں ہیں۔ تیسرے کلاسیکی اصناف اور ہئیتوں کی طرف رومانی رغبت ہے اور یہ رومانی رغبت جہاں ایک طرف پرانی ہئیتوں اور تکنیکوں کے احیا کے رجحان کا پتہ دیتی ہے وہاں ماضی کے بہترین تہذیبی ورثے کی بازیافت کی تڑپ بھی اس میں مضمر ہے۔

۶۰۔۱۹۵۵ تک معرّیٰ نظم لکھنے والوں میں بزرگ جدید شعراء کی تعداد زیادہ تھی۔ ان کی ابتدائی نظموں پر اخترالایمان اور مجید امجد سے زیادہ یوسف ظفر، قیوم نظر ، ضیا جالندھری، اور اعجاز بٹالوی کا اثر غالب تھا۔ بعد ازاں اس اثر پذیری کا رخ اخترالایمان اور راشد وغیرہ کی طرف مڑ گیا۔

باقر مہدی، عمیق حنفی، قاضی سلیم، خلیل الرحمن اعظمی،شفیق فاطمہ شعریٰ ، بلراج کومل، اور وحید اختر کی بیش تر ابتدائی نظمیں معرّیٰ میں ہیں یہ حضرات بہت بعد میں باقاعدگی کے ساتھ آزاد نظم کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے وحید اختر اور بلراج کومل کے استثنا کے ساتھ شعوری طور پر غزل کی تلفیظ (ڈکشن) ،مفرّس تراکیب اور اسمائے صفات کی تکرار سے اپنی نظم کو بڑی حد تک محفوظ رکھا۔ روزمرہ کے مانوس الفاظ اور قرب و جوار کی اشیاء کو انہوں نے اپنا شعری تجربہ بنایا، فلسفیانے کی کوشش کم سے کم کی گئی۔ بالخصوص دھیما آہنگ ، اور داخلی گفتار جو کہ خلیل الرحمن اعظمی کا صیغہ کلام بن گئی تھی۔ اس کا تسلسل اور اس کی بہترین صورت بعد کے اکثر شعرا میں بھی دکھائی دیتی ہے۔

یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ خلیل مرحوم کی اکثر نظموں میں جملوں کی سی صاف ستھری نحوی بندش کے ساتھ ساتھ لہجے کا کھردرا پن بھی موجود ہے اور یہ کھردرا پن اور نثریت، باقر مہدی،عمیق حنفی، قاضی سلیم اور بلراج کومل کی شاعری میں بھی برقرار ہے۔ اس نثریت کا ایک سبب تو یہ ہے کہ کلاسیکی تنظیم و تضبیط decorumاور روایتی موسیقی آمیز آہنگ میں جو یکساں روی اور ہماری بصری اور سمعی حسوں کو طمانیت بہم پہنچانے کی صفت تھی، شور و غوغا سے بھرے ہوئے نئے تہذیبی تناظرات میں برقرار نہ رہ سکی۔ اب ناہمواری، بدنظمی اور انتشار کا جواز دوسرے بہت سے راست اور نا راست رشتوں کے سیاق پر منتج تھا۔ اس طرح سب سے زیادہperfection یعنی تکمیل کے تصور پر کاری ضرب لگی۔ یہی قطعی تبدیل شدہ وسیع و عریض سیاق ان شعراء کی لفظیات کا اصل مخرج بھی ہے۔ ان اسماء و الفاظ اور اشیاء کو کبھی ہماری شاعری نے انگیز نہیں کیا تھا۔ اسی لیے ان کی اجنبیت مقدر ٹھہری، خلیل مرحوم نے بھی غزل کی لفظی رعایتوں سے دامن بچایا تھا۔ اخترالایمان کی طرح قاضی سلیم بھی غزل سے شاکی تھے۔یہ شعراء جن میں عمیق حنفی، بلراج کومل اور باقر مہدی بھی شامل ہیں۔ میرا جی، ن۔م۔راشد، اخترالایمان، مختار صدیقی اور مجید امجد سے بڑی حد تک متاثر تھے۔ راشد کی طرف بلراج کومل ہی نہیں بعد کی نظموں میں ساجدہ زیدی بھی مائل ہیں بلکہ ساجدہ زیدی کے ذہنی رشتے راشد ہی سے جا کر ملتے ہیں۔ اخترالایمان کی معرّیٰ نظموں کی تکنیک قاضی سلیم کو بے حد مرغوب تھی مگر قاضی سلیم کی طبعی دردمندی اور طنزیہ گفتار سے عدم رغبت نے اسے پھیلنے نہیں دیا۔ یہ پھیلاؤ ان کی آزاد نظم میں دکھائی دیتا ہے جو اتنی کٹی پھٹی اور اکھڑی ہوتی ہے کہ ہم آسانی کے ساتھ نثر کی طرح اس کی قرأت کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ صورت ان کی نئی پابند نظموں یعنی مثنویوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اس ادا کو قائم رکھنے کے لیے پنگل کا سہارا لیا ہے اسی ترجیح کی بدولت مصرعہ بہ مصرعہ نثر جیسی نحوی ترتیب قایم ہو جاتی ہے جو معاً مجید ا مجد کی یاد دلاتی ہے۔ اسی بنا پر مجید امجد کی اکثر نظموں پر نثری نظم کا گمان ہوتا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ مجید امجد طویل مصرعوں کے عادی ہیں اور قاضی سلیم ایسی بحر کا انتخاب نہیں کرتے جو طویل مصرعوں کی متقاضی ہو۔ جہاں یہ صورت نکلتی ہے وہاں وہ زحافات سے کام لے لیتے ہیں۔ قاضی سلیم اور بلراج کومل کی نظموں میں متوقع اور غیر متوقع کئی شعری وقفےpauses تواتر کے ساتھ واقع ہوتے ہیں۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے نظم کی ساری کڑیاں درہم برہم ہو گئی ہیں مگر اصلاً اس قسم کے باریک اور خفیف تعطلات اور وقفوں سے معمور نظمیں بہ غور قرأت کا مطالبہ کرتی ہیں۔

خدایا !

ترے پاس کیا کوئی ایسا فرشتہ نہیں

جو مردہ،بے دفن،بے قبر کے جسم کو

آ کے اپنے پروں پر اٹھا لے

اور تجھ کو یہ تیری امانت ابھی سونپ دے

میں نہیں چاہتا

اب کوئی اور آ کر

مجھے آخری غسل دینے کی خاطر

مرے جسم کے سارے کپڑے اتارے

برہنہ مجھے دیکھے۔۔۔۔اور چیخ مارے

کہ یہ کون ہے؟۔۔۔۔کس سیہ کار کا جسم ہے

اور وہ شخص اس چیخ پر کوئی پتھر دبا کر

بہت منھ بنا کر

بڑی اونچی سی ناک پر اپنا رومال رکھ کر

ادا کر کے سب اپنی رسمیں

مجھے ایک تاریک اور تنگ سی کوٹھری میں چھپا دے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ کتبہ‘‘:۱:خلیل الرحمٰن اعظمی

بند آنکھ کی بہشت میں

سب دریچے سب کواڑ کھل گئے

اپنی خلق کی ہوئی

حسین کائنات میں

دھند بن کے پھیلتا سمٹتا جا رہا ہوں میں

خدائے لم یزل کی سانس کی طرح

میرے آگے آگے ایک ہجوم ہے

جس کو جو بھی نام دے دیا۔۔۔۔وہ ہو گیا

میرے واسطے سے

۔۔۔۔۔۔سب کے سلسلے بندھے ہوئے ہیں

۔۔۔۔۔۔سب کی موت زندگی

میرے واسطے سے ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’رستگاری‘‘ قاضی سلیم

نہ جانے کیا کیا فریب دل کو دیے ہیں اب تک

مگر ابھی نصف شب کٹی ہے

کبھی یہاں ہوں،کبھی وہاں ہوں

اب یہ نغمہ،نہ آنکھ پُر نم

کتاب! آخر کتاب کب تک؟

یہیں پہ سامنے وہ چپ چاپ سو رہی ہے

تمام ماحول ایک سنسان بے دلی،خستگی میں گم ہے

تمہاری تصویر ہنس رہی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’بیوی کے نام‘‘ :بلراج کومل

یہاں میں عمیق حنفی کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنا چاہوں گا۔ عمیق حنفی بہ یک وقت راشد، میراجی، مختار صدیقی ، اخترالایمان ، رفیق خاور اور جعفر طاہر سے متاثر تھے۔ ان کے اسالیب اور ہئیتیں کیا ہیں رنگا رنگ تجربات بلکہ تجربوں کا اژدہام ہیں۔ اور ان تجربات کو جو چیز اور زیادہ انوکھا ا ور منفرد بناتی ہے وہ ا ن کا لسانی شکست و ریخت کا عمل، اور ہر بار نئے لغوی ا ور تعبیری الفاظ اور مشعرات: allusions کی جستجو ہے۔ وہ ہمارے واحد جدید نظم گو شاعر ہیں جو مختار صدیقی کے بعد مختار صدیقی سے زیادہ آزادیوں کو بروئے کار لائے اور موسیقی ہی کے ’’سر اور تال ‘‘ ارتعاشات اور حرکات کے سہارے غنا کے بجائے ردّ غنا کے انوکھے تجربے کیے۔اخترالایمان کے بعد ان کی مثال بیروک یا بیقوارہ baroque شاعر کی ہے جو اپنے لفظوں سے مصوری کے علاوہ موسیقی سے بھی بخوبی کام لینا جانتا ہے۔ وہی استعجاب انگیز مگر استادانہ فنکاری جو بہ یک وقت کئی حسوں کو بروئے کار لاتی اور mannarism کا ایک قبائلی تصور عطا کرتی ہے۔ بیقوارہ اسلوب کی بھی پہچان ہے ۔سند باد سے لے کر صلصلۃ الحبرس اور بعد کی نظموں تک ان کی ہئیتوں اور ان کے لسانی تجربات میں حیرت انگیز انتشار، الجھاؤ ا ور تناؤ ہے۔ جو ان کی خلاقانہ صناعی اور زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت کا بھی مظہر ہے۔یہی وہ صفات ہیں جو شفیق فاطمہ شعریٰ کے شعری اسلوب کی انفرادیت کا تعین کرتی ہیں۔

شہر کے آرے چلاتے،بے سُرے،بد رنگ،شور و غل سے دور

پاک رنگوں کا صنم آباد

پاک آوازوں کا اک گندھرو لوک

شہر والوں میں ہے جنگل جس کا نام

صبح جس کی ایک ارژنگ اور البم جس کی شام

وہ لچکتی فصل کے پہلو میں کہنی مار کر کلکاریاں بھرتی ہوا

جھن جھنا اٹھتے ہیں موئے،چم چماتے تار

ٹیپ پر جاتی ہے بل کھاتی ہوئی آواز

چھڑ گئی ہو دور جیسے جل ترنگ

دوڑتی ہے سنسنی ایسی امنگ

جیسے پانی میں ہزاروں مچھلیاں اک ساتھ کودیں اور چادر چیر جائیں

جیسے پکّے کام والی ساڑھیاں لہرائیں،سر سرسرائیں

کن کنائیں جیسے ہنسوں کے ہجوم

گن گنائیں سرمدی نغمے نجوم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’جنگل‘‘ :عمیق حنفی

سفینہ در سفینہ درج

مسافتوں کے گیت

انڈیلتے رہے بچشمِ ناصبور

خواب دیکھنے کی تاب

چمن چمن بہ لحن بے ہراس

انکشافِ راز عندلیب

اور مَیں۔۔۔۔۔۔۔

ادب مرا سبو۔۔۔۔

لحاظ آشنا،سکوتِ کیف

نیاز میری خو،۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’نگاہ آرتی‘‘ :شفیق فاطمہ شعریٰ

عمیق حنفی کی مختصر اور طویل نظموں میں ان تجربات کی بھی کمی نہیں ہے جن کے خمیر میں فکر اور فلسفہ رچ بس کر شیر و شکر ہو گیا ہے۔ وحید اختر کی فکر کا کینوس بھی بے حد وسیع اور صلابت آمیز ہے۔ ان کے یہاں راشد اور سردار جعفری کی آزاد اور معرّیٰ کے اثرات موجِ تہہ نشیں کی طرح گرم کار ہیں۔ وحید اختر کو پابند اور آزاد ہر دو نظم کی تکنیکوں پر مہارت حاصل ہے۔ موجودہ دور میں عمیق حنفی کے بعد غالباً وہی ایک ایسے شاعر ہیں جنہیں قادرالکلام کہا جا سکتا ہے۔ ان کی پابند نظموں میں بھی ان کا وفورِ علم اور روح کی بے چینی آزادی کی راہ نکال لیتی ہے۔ جس طرح راشد نے جدید انسان کی روحانی تشنہ سری، سراسیمگی اور نا رسائیوں کو مسئلہ وجود بنایا تھا اور ان احساسات اور جذبات کو جہاں تہاں ابھرنے سے روکنے کی شعوری کوشش کی تھی جو محض خفیف ترین مہلت ز ماں کو محیط ہوتے ہیں، وحید اختر کا فکر اور لسان کا شعار بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ وحید اختر جہاں طنزیہ اسالیب کی طرف مائل ہیں وہاں یقیناً ان کی آواز بلند ہو جاتی ہے۔ اپنی فضا اور سمت کے لحاظ سے یہ شہر آشوب کی شاعری ہے جس میں واسوخت، کا سماں تو ہے مگر گِلہ گزاری نہیں، احتجاج تو ہے مفاہمت نہیں اور احتجاج کی یہ لے جو بے حد تیکھی، تحفظ شکن اور کہیں کہیں تلخ کام بھی ہے ان کی عادی فارسی آمیز تلفیظ، جز بہ جز فارسی آمیز کلمہ بندی، اور متواتر اسمائے صفات کے استعمال کے باوجود دیر پا اثر رکھتی ہے۔ احتجاج کی یہی لے جو راشد کے ایران میں اجنبی پر محیط ہے وحید اختر کی انقلاب ایران کے سلسلے کی نظموں میں بھی در آئی ہے۔ دونوں کا جائے وقوع ایک ہے دونوں ہی مغرب کی چیرہ دستیوں، منافقتوں ، سیاسی بازی گری، اور لوٹ کھسوٹ سے نالاں ہیں، سردار جعفری نے پورے ایشیا کو اس چنگل میں پھنسا ہوا دیکھا تھا مگر ان کے طنز میں طعن، تشنیع اور سگ خوئی بھی شامل تھی۔ جب کہ راشد اور وحید اختر کے یہاں فکر کی متانت پوری طرح قایم ہے۔ ماضی اور حال کے سلسلے گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔ وہ تاریخ کے گم شدہ اوراق کی بازیافت بھی کرتے ہیں اور اس سارے خیرو شر کو انسان کی سرشت اور انسان کی ضمیر کے نہاں خانوں سے باہر نکال لاتے ہیں جن سے تاریخ اپنی تشکیل کرتی ہے۔

وحید اختر کے مسائل و موضوعات ہی کچھ ایسے ہیں کہ نظم جہاں سے شروع ہونی چاہیے وہیں سے شروع ہوتی ہے۔ کبھی وہ تمہید باندھتی ہے کبھی فضا خلق کرتی ہے اور کبھی پس منظر مہیا کرتی ہے۔ دیگر شعراء کی نظموں میں یک لخت شروع ہونے کی صورت بھی کافی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ جو اکثر کہیں سے بھی شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ چیز ہمارے براعۃُ استہلال یا پیش سایہ افگنی :foreshadowingکے تصور کے قطعی رد سے عبارت ہے۔

کسی بھی قسم کا وقوعہ جب عین توقع کے مطابق رونما ہوتا ہے تو اس سے قاری کو یقیناً بڑی تشفی اور طمانیت ہوتی ہے مگر قاری اس استعجاب،جادو اور حیرت سے محروم رہ جاتا ہے جو توقع کے رد سے پیدا ہوتی ہے۔ شہرِ یار اور ندا فاضلی کی نظموں میں یہ عمل زیادہ نکھری ہوئی صورت میں واقع ہوا ہے۔ ان شعراء کی نظموں کے اختتام میں بھی نامانوس کاری: defamiliarity کی صورت نمایاں ہے۔ انجام بھی چوں کہ تشفی بخش نہیں ہوتے اس لیے قاری یا تو اچانک کسی ذہنی تناؤ کے تجربے سے دوچار ہوتا ہے یا نظم اصلاً اسی آخری نقطے سے شروع ہوتی ہے اور قاری کو اسے اپنے طور پر اپنے ذہن میں مرتب کرنا پڑتا ہے۔ تخلیقی شرکت کی یہ وہ صورت ہے جس سے ہماری قرأتیں اب تک محروم تھیں۔

ہم سب اپنی اپنی لاشیں توہّم کے کاندھوں پر لادے سست قدم و اماندہ

خاک بہ سحر ،دامانِ دریدہ،زخمی پیروں سے کانٹوں انگاروں پر چلتے رہتے ہیں

ہم سب ایک بڑے قبرستان کے آوارہ بھوت ہیں

جن کے جسم تو ہاتھ لگانے سے تحلیل خلا میں ہوں

جن کی روحوں کا ظاہر سے ظاہر گوشہ ہاتھ نہ آئے

ہم کو ماضی سے ورثے میں کہنہ قبریں ، گرتے ملبے اور آسیب زدہ

کھنڈروں کے ڈھیر ملے ہیں

وہ روشن شب تاب دیے جن سے ماضی کو نور ملا تھا

اس آسیب زدہ ماحول میں یوں جلتے ہیں

جیسے اک پُر ہول بیاباں کے تیرہ سناٹے میں

کچھ بھوتوں نے

رہِ گم کردہ سیّاحوں کو بھٹکانے کی خاطر آگ جلائی ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’کھنڈر،آسیب اور پھول‘‘ : وحید اختر

شہر یار، محمد علوی اور ندا فاضلی کا شعری فن ان کی نظم کی داخلی تجرید اور ایجاز میں کھلتا ہے۔ ان شعراء کی نظمیں تلخ و شیریں تاثر پارے ہیں جو زیادہ سے زیادہ کو کم سے کم میں سمیٹ لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ تاثر ندا فاضلی کی ان نظموں میں بھی قایم ہے جو اپنے موضوع سے پہچانی جاتی ہیں۔ جدید شعراء میں ندا فاضلی کی نظم گیت کے کرافٹ سے قریب ہونے کے باوجود ہئیت و تکنیک کا منفرد ترین تجربہ ہیں۔ زبان ان کے یہاں گیلی مٹی کی طرح نرم و ملائم بن جاتی ہے حتیٰ کہ ان کی نظموں کی ہئیتیں بھی اسی صفت سے مملو ہیں۔ جس لفظ کو جہاں سے چاہا موڑ دیا، کہیں خفیف اور مہین وقفے چھوڑ دیئے اور کہیں جوں کی توں خالی جگہیں باقی رہنے دیں۔

ندا فاضلی انسانی خباثتوں کے نوحہ گر کم، گلہ گزار زیادہ ہیں بلکہ اکثر یہ گلہ گزاری زیرِ لب مگر اثر گیر احتجاج میں بدل گئی ہے۔ جب کہ محمد علوی کی نظمیں ایسے لمحوں میں دبی دبی چیخیں بن جاتی ہیں جو عالمِ سکوت میں سماعتوں کے پردے تک چاک کر دیتی ہیں ۔ کبھی ان نظموں کا مخاطب انسان ہوتا ہے کہ وہی حاضر و ناظر ہے۔ محمد علوی کو جب انسان سے مایوسی ہوتی ہے تو پھر وہ اس خدا کے حضور پہنچ جاتے ہیں جس پر انہوں نے سوالیہ نشان ثبت کر رکھا ہے۔ علوی نے ان نظموں میں بڑی فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ انسان کی کمینگی، درندگی اور خباثتوں کی مذمت اور ملامت کی ہے جن مین تمثیلی سطح پر حیوانی کرداروں کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ ماضیِ قریب میں اس تکنیک کو اخترالایمان نے بھی اپنی بعض طویل نظموں میں برتا ہے جب کہ محمد علوی اختصار کے شاعر ہیں۔ یہ نظمیں اپنے باطن میں فیبل کی طرح اخلاق کے درس پر تو ختم نہیں ہوتیں مگر اخلاق کے بحران سے پیدا ہونے والی اذیت ناک غیر بشری صورتِ حالات کا احساس ضرور دلاتی ہیں۔علوی نے اپنا سفر چھوٹی چھوٹی قطعہ بند معرّیٰ نظموں سے شروع کیا تھا اور معرّیٰ کا در و بست ان کی ابتدائی مختصر اور مختصر تر ین آزاد نظموں میں بھی قایم ہے۔ درمیان میں انہوں نے آزاد نظمیں زیادہ کہیں مگر اب پھر وہ معرّیٰ کی طرف لوٹ آئے ہیں کہ یہی ان کی پرانی روش بھی تھی۔

میں اپنے گھاؤ گن رہا ہوں

آنسوؤں کی اوس میں نہا کے بھولے بسرے خواب آ گئے

خون کا دباؤ اور کم ہوا

نحیف جسم پر کسی کے ناخنوں کے آڑے ترچھے نقش

جگمگا اٹھے

لبوں پہ لکنتوں کی برف جم گئی

طویل ہچکیوں کا ایک سلسلہ

فضا میں ہے

لہو کی بو ہوا میں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’اپنی یاد میں‘‘ :شہر یار

الّھڑ سی لڑکی

شام کی اوڑھنی میں

صبح کے پھول ٹانک رہی ہے

جنگل سے گاؤں کی اور

اُجلی اُجلی

بھیڑیں ہانک رہی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’الّھڑ لڑکی‘‘ :محمد علوی

دیواریں

دیواروں جیسی

دروازے دروازوں جیسے

آنگن

کمرے

کھڑکی ،چوکھٹ

سب ویسا ہی

کاغذ پر نقشے جیسا ہی

فرق اگر ہے

تو اتنا ہی

دھرتی پر جو گھر بنتا ہے

پتھر مٹی سے بنتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’فرق اگر ہے تو اتنا ہی‘‘ :ندا فاضلی

لسانی شکست و ریخت اور نئی لسانی تشکیلات نیز مختلف ترین شعری اور تکنیکی تجربوں کے لحاظ سے عادل منصوری ایک نمایاں دستخط ہیں۔ انہیں مجموعہ اضداد بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ زبان و بیان کی زیادہ سے زیادہ آزادیاں برتتے ہیں اسی لیے ان کی اکثر نظمیں انوکھے لسانی تجربوں سے گزرتی ہیں۔ وہ ایک طرف مذہبی تلمیحات و عقائد سے وابستگی کا دم بھرتے ہیں اور دوسری طرف جنسی علائم ، جنسی جذبات اور احساسات کو بھی بلا تامل اپنی نظموں میں جگہ دیتے ہیں۔ دراصل لسان اور ہئیت کے تجربوں ہی میں ان کے بہترین تخلیقی شعور کی نمائندگی ہوتی ہے بالخصوص وہ نظمیں جو عمل تجرید کا بڑا عمدہ نمونہ ہیں۔

پلیٹ فارم کی بھیڑ سے

پچھلے جنم کے چہرے والا آدمی

مجھے گھور رہا ہے

گھورتی بھیڑ سے

میرا چہرا ڈھونڈ رہا ہے

یا

پلیٹ فارم کے چہرے میں

پچھلے جنم کی بھیڑ کو

مَیں گھور رہا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’نظم‘‘ :عادل منصوری

موجودہ عہد کے معاشرتی انتشار، روحانی بحران اور اضطراب اور ایک مستقل نا آسودگی کے احساس نے ماضی کی طرف مراجعت پر مہمیز کی ہے۔ ماضی کی طرف لوٹنے کی ایک صورت تو وہ ہے جو عقیدے کی بازیافت کی شکل میں عادل منصوری کی نظموں میں ملتی ہے مگر وہ خود اس رجحان کی توسیع نہیں کر سکے۔ دوسری صورت ان متروک اسالیب و آثار کی جستجو سے عبارت ہے جو تقریباً فراموش کردہ ہیں۔ فاروقی کی بعض نظمیں اسی ذیل میں آتی ہیں۔ اس طرح بعض شعرا نے ماضی کے عطیات کو نئے معنی دیئے ہیں۔ یہ روش ایک عظیم اخلاقی بحران سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے سے مماثل ہے۔ کمار پاشی نے جب ہندی اساطیر سے تخلیقی رشتہ قائم کیا تو اس کا اثر ان کے وژن پر بھی پڑا ۔ یہ وژن ان کی نسبتاً مختصر نظموں کے علاوہ ولاس یاترا جیسی طویل نظم میں بھی دیکھا جا سکتا ہے مگر اپنی نظموں میں وہ جس قدر رواں اور تخلیقی زبان پر قادر ہیں، ولاس یاترا میں وہ محض بیان پر اتر آئے ہیں۔ زبان میں بھی اکھڑا اکھڑا پن ہے۔ چاسنالا  یا فسادات پر لکھی ہوئی نظموں میں کمار پاشی کی شعری تکنیک نہایت سلیس اور بے پیچ ہے۔

آسماں کی وسعتوں میں

میری نظریں

ڈھونڈتی ہیں،اس حسیں ماضی کو،جس کی

یاد کے سائے بھی گھلتے جا رہے ہیں اب ہوا میں

اور میری آنکھوں سے اوجھل ہو رہے ہیں لمحہ لمحہ

میں پرانا سا کوئی انسان ہوں،محسوس یہ ہوتا ہے مجھ کو

میں نے ہر ساون میں دھویا ہے بدن کو

اور یہ دھرتی مجھے روزِ ازل سے جانتی ہے

یاد ہے وہ دن مجھے اچھی طرح سے

کھولتے،چنگھاڑتے لاوے کے بے پایاں سمندر سے اُچھل کر

ہم اکٹھے ہی گرے تھے

اور صدیوں بعد ہوش آیا،کھلی جب آنکھ میری

مَیں نے دیکھا :

مَیں تو صدیوں پہلے پیدا ہو چکا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’جنم دن‘‘ :کمار پاشی

اسطور سازی کی دوسری مثال زبیر رضوی ۔۔۔۔۔۔ کے یہاں دکھائی دیتی ہے کمار پاشی نے وقت کو تسلسل میں دیکھا ہے۔ زبیر رضوی کے تخلیقی سفر میں ان کی رومانی اور گیت آمیز شاعری پہلے مرحلے پر ہے دوسرے پر مدنی یعنی جدید حسیت آمیز شاعری اور تیسرے مرحلے پر رومانیت کا وہ عنصر نمو پاتا ہے جو ماضی کے اجنبی کروں کا متلاشی ہے۔ دراصل وہ نظمیں جن میں مدنی شعور اور مدنی تجربات کا رنگ گہرا ہے ان میں آزاد و معرّیٰ کی تکنیک نمایاں ہے۔ ان نظموں کی لسانی فضا کی تشکیل بھی ان الفاظ و اشیاء سے ہوئی ہے جن کا تعلق شہری زندگی کی تہذیب اور رشتوں کے نئے پیچ و خم سے ہے۔ یہ نظمیں انتہائی مانوس ہیں اور انسانی مخلص جذبوں کو لبِ گفتار عطا کرنے کے باعث ہمارے دلوں کو چھو لیتی ہیں۔ زبیر رضوی کا شعری تجربہ علی بن متقی رویا کے سلسلے کی نظموں میں چونکا نے والا ہے۔ یوں تو زبیر اپنی ہر صورت میں سلیس اور محتاط کلام کے عادی ہیں۔ ان کو بیش از بیش معرّیٰ یا معرّیٰ جیسی آزاد نظم یا صاف ستھری بے عیب آزاد نظم کی تکنیک ہی مرغوب تھی۔ علی بن متقی رویا میں وہ نہ صرف اظہار کی نئی تکنیک کی طرف مائل ہوئے ہیں بلکہ اپنے حافظے سے ان لسانی پیرایوں کو بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال لائے ہیں جو وقت کے گرد و غبار کی تہوں میں دب گئے تھے کھو گئے تھے۔ انہوں نے اس سلسلے کی اپنی ہر نظم پرانی بات ہی سے شروع کی ہے اور ہر نظم ایک لازمی انجام تک پہنچتی ہے۔ ہماری قدیم حکایتیں، اکثر لوک کتھائیں اور بیش تر الف لیلوی قصے بھی اسی طرح شروع ہوتے ہیں کہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے یا انگریزی میں once upon a time وغیرہ وغیرہ۔ زبیر نے اپنے روایتی محتاط رویے کے مطابق یہاں بھی نظم کو بہت زیادہ پھیلنے نہیں دیا ہے اور نہ ہی لسانی پینترے بازی، یا لسانی زور آزمائی کی طرف راغب ہوئے ہیں۔ کیوں کہ نظم وہ نہیں ہے جو خارجی ہئیت سے آشکار ہے وہ تو ساری کی ساری اس کے باطن میں پھیلتی اور بڑھتی چلی جاتی ہے بلکہ بیش تر صورتوں میں نظم ، نظم کے اختتام سے شروع ہوتی ہے کہ نظم کا لازمی انجام ہی اس کا ابتدائیہ بھی ہے۔

مخمور سعیدی کو اساساً غزل کا شاعر کہا جاتا ہے۔مخمور کی غزل کی پہچان بھی غزل کا وہ شعور ہے جس کی ترجیح غزل کے روایتی ڈھانچے پر اصولاً کاربند رہنے پر ہوتی ہے لیکن مخمور کو غزل کے عمومی استعاروں اور لفظی خوشوں کی تکرار سے کم سے کم نسبت ہے۔ مخمور کی غزل مخمور کے ذہنی و وجدانی تجربے کا نام ہے اور یہی وہ صفت ہے جو ان کی نظموں کا بھی شعار بنی ہے ۔اتنا ہی نہیں اپنے لفظیات میں مخمور کی غزل اور نظم میں مجھے اس قسم کی دوئی بھی نظر نہیں آتی جو اکثر شعراء کے یہاں دو لختی کا موجب بن جاتی ہے۔ مخمور نے اپنے مدنی شعور اور وسیع تر اخلاقی اختلال کے تجربے کو جس زبان میں ادا کیا ہے وہی میرے نزدیک اس عہد کی نظم کی مثالی زبان کا درجہ بھی رکھتی ہے۔

بچھڑ کر تجھ سے

کس اندھی ڈگر پر چل پڑے ہم

ہماری گم رہی پر

ہمارے روز و شب سے

ستارے، چاند، سورج ، سب خفا ہیں

دھوئیں کے بادلوں نے

ان آنکھوں کی بصارت چھین لی ہے

یہ دل،اک گنبدِ بے در کہ جس میں

کہیں سے روشنی آتی نہیں ہے

گزرتی صبح،ڈھلتی شام، گہراتی ہوئی شب

کوئی منظر، نظر کے سامنے لاتی نہیں اب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’اندھا سفر‘‘:مخمور سعیدی

۱۹۸۰ کے بعد نثری نظم کی ہئیت کو وسیع تر قبولیت ملی۔زبیر رضوی کے علاوہ بلراج کومل اور شہر یار کی کئی نظمیں اسی تجربے کی حامل ہیں۔ صحیح تو یہ ہے کہ ان شعراء کے یہاں نثری نظم کی ہئیت شعری تجربہ نہیں بن سکی۔ ۸۰ء ۔۱۹۷۰ء کے بعد جن شعراء نے اپنی انفرادیت کی طرف توجہ دلائی ان میں صلاح الدین پرویز ، علی ظہیر، حمید الماس، عبدالاحد ساز، شاہد کلیم، زاہدہ زیدی، شمس الرحمن فاروقی اور صادق کے نام نمایاں ہیں۔ صادق نے بہ یک وقت مختصر اور طویل نظمیں کہی ہیں۔ یہ نثری بھی ہیں اور آزاد بھی۔ ان کی رومانی نظموں میں داخلی سوگواری، روحانی بے چینی اور جنسی نا آسودگی جیسے جذبات کے اظہار کی صورت نمایاں ہے اور ان میں ادائیگی کی زبان بھی بڑی حساس اور سکوت آمیز ہے۔ دستخط اور سلسلہ کی نظموں میں ہندی آمیز لفظیات کی فراوانی تھی۔ مگر یہ صورت بھی ان نظموں ہی میں موجود ہے جو برافروختگی، غصہ وری اور احتجاج سے مملو ہیں۔ مجذوب جیسی نظم میں متصوفانہ سریّت موجِ تہہ نشیں کے طور پر کارفرما ہے اسی سلسلے کی بہت سی نظموں میں آہنگ بلند ہو گیا ہے اور لہجے میں خطابت شامل ہو گئی ہے۔

شمس الرحمن فاروقی، صلاح الدین پرویز، زاہدہ زیدی، بلقیس ظفیرا لحسن، ستیہ پال آنند،ش۔ک۔نظام، گلزار اور عنبر بہرائچی کا کلام خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ یہ اور ان کے علاوہ بھی چند نام ہیں شریف ارشد، عین تابش، رفیعہ شبنم عابدی، ع۔رشید، خلیل مامون، عبدالرحمن طارق اور شہناز نبی وغیرہ۔ا ن کے کلام میں لسانی، ہیئتی اور تکنیکی سطح پر بڑی تازہ کاری ہے۔ وہ لسانی اور ہئیتی تجربات جو عمیق حنفی کی نظموں کو توانگر اور ذخّار بنا دیتے ہیں۔ عمیق حنفی کے بعد صرف اور صرف صلاح الدین پرویز کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ انہیں موجودہ عہد کا عادل منصوری بھی کہا جا سکتا ہے وہ عادل منصوری جس کا تخلیقی سفر منقطع نہیں ہوا تھا بلکہ جاری ہے۔ ان نظموں کی فضا اسلامی تہذیبی اسالیب، مشعرات، علائم اور نت نئے لسانی مرکبات سے مشکل ہوئی ہے اور جو اپنے وسیع معنی میں رومانی اور سرّی ہیں۔ صلاح الدین پرویز نے معرّیٰ ، آزاد، پابند اور گیتوں کی تکنیکوں کے انضمام سے اپنی نظموں کو نئی صورت عطا کی ہے اور اپنی اس صورت میں وہ یقیناً سب سے علاحدہ اور مختلف ہیں۔

میں عہد کرتا ہوں :

میں الحمرأ نہیں بناؤں گا

سرخ اینٹوں والا

جہاں حبشی غلاموں کو،آنکھوں میں سلائیاں پھیر کے

رباب بجانے پر مامور کیا جاتا تھا

ان کے نغموں سے تالاب کا رنگ نیلے سے لال ہو جا تا تھا

میں عہد کرتا ہوں :

میں بناؤں گا تیرے لیے ایک گھر

جس کے آنگن میں سیڑھیاں ہوں گی

میں بعدِ نمازِ مغرب،سیڑھیاں چڑھ کے چھت پہ آؤں گا

دیکھنے کے لیے تجھے آسمان پر۔۔۔۔پکاروں گا زور زور سے

ماہِ اندلس ! ماہِ اندلس

آہ میری آنکھوں کو تو تو نظر نہیں آئے گی

لیکن ہواؤں میں اڑتے ہوئے ایک پیس اکورڈ کے چند ٹکڑے

میرے ہاتھوں میں ضرور آ جائیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ماہِ اندلس‘‘ :محمد صلاح الدین پرویزؔ

چھٹے اور ساتویں دہے میں نظم گو شعراء کا سیلاب سا امڈ پڑا تھا اب اس میں خاصی کمی سی واقع ہو گئی ہے۔ اس تعداد کو خاصی بھی کہا جا سکتا ہے مگر ان میں بڑی تعمیم اور تکرار ہے۔ یہ بھی شاید صحیح ہو کہ نظم میں اپنی انفرادیت قائم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اس لیے بیش تر شعرا غزل گوئی کی طرف مائل دکھائی دیتے ہیں۔اور نظم گو شعرا کے مقابلے میں اکثر غزل گو شعرا اپنی انفرادیت بھی منوا چکے ہیں۔ ان حالات میں ان نظم گو شعرا کا دم غنیمت ہے۔ جن کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں اور جن میں صلاح الدین پرویز اور گلزار تک کئی تجربہ پسند شعرا کے نام آتے ہیں۔

 

 

 

خواتین کی نظموں میں فکر کے اسالیب

 

اردو ادب کی تاریخ اور وہ بھی ماضی کی تاریخ شاعرات کے ذکر سے خالی نہیں ہے۔ مگر حیرت کا مقام یہ ہے کہ ان میں ایک بھی ایسا دستخط نہیں ہے جس کی شناخت قابلِ ذکر قرار دی جا سکے۔ ہماری شاعرات نے کلام تو کیا مگر مکالمے سے وہ محروم رہیں۔ اس صورتِ حال کی جڑیں ہمارے اس اقداری نظم میں گہری چلی گئی ہیں جو اپنے کسی بھی آخری شمار میں مرد اساس ہے۔ مادری نظام کے بعد انسانیات نے جوں ہی پدری نظام میں قدم رکھا تمام اقدار و افکار کا پیمانہ، مرکز اور محور مرد بن گیا۔ اساطیری دیویاں ما قبل تاریخ کی خرافات ٹھہریں اور خدا، دیوتا ، فرشتے، اوتار اور پیغامبر وغیرہ کا صیغہ آہستہ آہستہ تذکیر میں بدل گیا۔ معاشرے کے اس نفاق و تضاد کو کیا نام دیجئے کہ عورت دیوی بھی ہے اور داسی بھی ، مرد کا حصہ انصاف ہے اور عورت کا رحم، مرد جلال اور غضب ہے، عورت جمال اور عفو، گھر کے اندر وہ کلموہی ہے حالانکہ اسے مہیلا بھی کہا گیا ہے اور مہہ کے معنی پوجا کے ہیں اور وہ عبادت کے لائق ہے۔ وہ جو ایک طاقت ہے۔ آنند ہی آنند ہے جس کا یک خفیف سا تبسم تخلیق کا ایک لازوال سرچشمہ ہے اور جس کی ذہانت کا لوہا رشی منی تک مانتے آئے ہیں۔

بشریات کے ابتدائی آزاد قبائلی ادوار ، کم از کم اس قسم کی دوئی سے عاری ہیں۔ معاشرے میں جیسے ہی ذاتی ملکیت کا تصور اور شعور پیدا ہوا۔ بار آور زمینوں کی طرح عورت بھی ایک خرید و فروخت کی جنس commodity بن گئی ۔ وراثت کا مسئلہ پیدا ہو ا ۔ مرد کی محنت اور قوت کو بھی غلام بنا لیا گیا اور معاشرتی سطح پر سارا نظام مختلف طبقوں ، ذاتوں اور فرقوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ استحصال کی یہ صورتیں اقتصادی اور تہذیبی ارتقا کے پہلو بہ پہلو بدلتی رہیں۔ عالمی مذاہب کے علاوہ فلسفیوں، شاہانِ وقت اور اخلاقی و سماجی قائدین و مصلحین نے بھی مرد کے انا و مفادات کے تحفظ اور بالا دستی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی نیز عورت کے تئیں یہ حکم صادر فرمایا کہ ؂’’ اے ماؤ ، بہنو، بیٹیو، دنیا کی عزت تم سے ہے۔‘‘ صدیوں کے اس جبر و احتساب نے عورت کی سائکی ہی بدل کر رکھ دی۔ وہ جنسِ لطیف اور جنسِ نازک کہلائی شرم و حیا اس کا زیور، بچوں کی پیدائش اور نگہ داشت اس کا ذمہ، امورِ خانہ داری میں مہارت اس پر فرض، مرد کی خوشنودی اور حکم کی تابع داری اس کا شعار ٹھہرا۔ اس طور پر وہ اپنے مجازی خدا کی تابع مہمل بن کر رہ گئی۔

اردو ادب میں پہلی بار رشید جہاں اور ان کے بعد عصمت چغتائی اور عصمت کے بعد زاہدہ حنا تک بے شمار فکشن نگار خواتین ہیں جنہوں نے عورت کے وجود، اس کی حسیت ، اس کی ذہنی نفسیاتی پیچیدگیوں اور مطالبوں نیز خاموشیوں کو قوتِ گویائی عطا کی ہے۔ اب وہ پروفیشنل ہے۔ مردوں کے درمیان مردوں کی مکاریوں اور سازشوں سے آگاہ۔ ذمہ دار اور فہیم۔ اس کی اپنی رائے ہے، نظریہ ہے، تصور ہے۔ یہ لَے جدید شاعرات کے یہاں بھی پوری شدت کے ساتھ کارفرما ہے۔ کہیں پست، کہیں بلند، کہیں خفیف اور کہیں محیط ۔

جن شاعرات نے عورت کے حقوق منوانے کی بات کی ہے۔ ان میں بڑا اعتماد اور ایقان ہے۔ ان کے لہجے میں سہمنا کی کے بجائے بلا خوفی ہے۔ اسی لیے انہیں ان مراعات سے کد ہے جن سے رحم اور ترس کی بو آتی ہے۔ وہ معاشرہ جس کی کم و بیش نصف آبادی عورت پر مشتمل ہے محض اس لیے اسے اپنے حقوق اور آزادیوں سے محروم نہیں رکھا جا سکتا کہ وہ عورت ہے۔ گویا وہ انسان نہیں کوئی اور چیز یا مخلوق ہے۔ اس کے لیے اختیارات و قوانین کا محضر نامہ الگ، باریابی کی شرائط علاحدہ، رد و قبولیت کے معیار جدا کیوں ۔؟ صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ یہ سوال بار بار ہماری شاعرات نے اٹھایا ہے۔ انہیں اس ضابطۂ اخلاق سے سخت چِڑ ہے جس پر جاگیرداری منشا و رضا کے دستخط ثبت ہیں کہ وہ محض ایک زینتِ خانہ ہے۔ جنسِ عیش تو بن سکتی ہے خود کار و خود ساز نہیں بن سکتی۔ گویا نام نہاد اخلاقی اور سماجی جبر اور دباؤ اس کی تقدیر ہے۔

جدید شاعرات کے یہاں اس صورتِ حالات کا ردِ عمل تو یکساں ہے مگر اظہار کے پیرایوں اور شدتوں میں امتیاز کی سطحیں مختلف ہیں بعض شاعرات کی آواز بے حد بلند ہے اور انہوں نے پوری قوت کے ساتھ اپنے لحن کو پر پرواز عطا کی ہے۔ ان میں سب سے اہم اور توانا نام کشور ناہید کا ہے۔ وہ محض شاعرہ ہی نہیں، حقوقِ نسواں کی تحریک کی زبردست مؤیّد و علم بردار بھی ہیں۔ انتظار حسین نے انہیں بڑی نیک نیتی کے ساتھ اردو شاعری کی جھانسی کی رانی کے نام سے موسوم کیا ہے۔ کسی نے پھولن دیوی کے نام سے یاد کر کے اپنے دل کے پھپولے نکالے ہیں۔ میں انہیں صرف کشور ناہید ہی کہوں گا کہ وہ عورت جو عورت کے وجود و حقوق کو منوانے کی تحریک چلا رہی ہے ان خطابات و القاب میں الجھ کر نہ رہ جائے۔

کشور نے تخصیص کے بجائے تعمیم پر اصرار کیا ہے ۔ طبعی، حیاتیاتی اور نوعی انفرادیت پر بشری یگانگت کو ترجیح دی ہے۔ وہ عورت کو کسی خانے میں رکھ کر دیکھنے کی درپے ہیں نہ دکھانے کی کہ کسی بھی طرح کی تخصیص کے مطالبے کے معنی پھر کسی نئے خانے کی جستجو کے ہیں۔ اس قسم کی علاحدگیاں پھر نئی نا مانوسیت اور اجنبیت کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔ کشور ناہید کے ساتھ فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر نے بار بار جہاں ایک طرف صنفی مساوات پر اصرار کیا ہے وہاں اس کے جواز کو بھی ایک مسئلہ بنایا ہے۔محض مراعات کی بخشش مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پہلے عورت کے نفسیاتی، جذباتی اور مابعد الطبیعاتی وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا تب کہیں بشری باہمی شرکتیں مکمل ہو سکتی ہیں ۔

یہ سب رشتے

کچے رنگوں کے کچے دھاگے ہیں

سب پتھر ہیں

ان کے اوپر چلو تو سبھی لہو لہان

ان کو سہو تو بھی لہولہان

پر اپنے لیے جینا کیوں ممکن نہیں

میری بنّو!

سورج مکھی کی طرح

گھر کے حاکم کی رضا پر

گردن گھماتے گھماتے

میری ریڑھ کی ہڈی چٹخ گئی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاروب کش: کشور ناہید

گھاس بھی مجھ جیسی ہے

ذرا سر اٹھانے کی قابل ہو

تو کاٹنے والی مشین

اسے مخمل بنانے کا سودا لیے

ہموار کرتی رہتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھاس تو مجھ جیسی ہے: کشور ناہید

وہ نفرتوں کو بوسوں کا رنگ دے کر

میرے منہ پر نیلے نیلے داغ ڈال کر

یہ جتانا چاہتا ہے

کہ اسے میرے جسم کو ہر طرح کا استعمال کرنے کا حق ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے منہ پر طمانچہ مار کر

تمہارے ہاتھوں کی انگلیوں کے نشان

پھولی ہوئی روئی کی طرح

میرے منہ پر صد رنگ غبارے چھوڑ جاتے ہیں

تم حق والے ہو

تم نے مہر کے عوض حق کی بولی جیتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلام گھر : کشور ناہید

نہیں نہیں

اس کرن میں لپٹا

وجود میرا

میرا نہیں ہے__ !

میں طور کے سنگ زار پر

اپنے خون میں تر

جبیں ، جھکانے سے پیش تر ہی

جھلس چکی ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔آتش سوزاں: پروین سید فنا

ہر نئے سال کی اک تازہ صلیب

میرے بے رنگ دریچوں میں گڑی

قرضِ زیبائی طلب کرتی رہی

اور میں تقدیر کی مشاطہ مجبور کی مانند ۔۔۔ اِدھر

اپنے خوابوں کا لہو لے لے کر

دستِ قاتل کی حنا بندی میں مصروف رہی

اور یہاں تک کہ صلیبیں مری قامت سے بڑی ہونے لگیں

۔۔۔۔۔۔۔۔ بائیسویں صلیب: پروین شاکر

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ حقیقت کی فہم میں ہماری شاعرات کا ردِ عمل بڑی حد تک یکساں ہے۔ اظہار کی سطحوں میں نمایاں فرق ہے۔ بعض شاعرات (جن میں پروین شاکر ، فہمیدہ ریاض، ثمینہ راجہ اور ماہِ طلعت زاہدی وغیرہ شامل ہیں) کے جذبوں میں دھیما پن اور تفکر کا رنگ گہرا ہے۔ یہ اپنے اظہار کو بہت کم داخلی تجزیوں سے گزارتی ہیں۔ جذبے کی آزاد روی پر قدغن لگانا انہیں خوب آتا ہے۔ جذبے کی بے محابا توسیع جب مقصودِ شعر بن جاتی ہے تو آہنگِ شعر بھی بدل جاتا ہے۔ اور معنی شعر کی سطح بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔

کشور ناہید کے تجربات میں تنوع، تہہ داری اور تفکر نمایاں خصوصیت رکھتے ہیں۔ ان کی غصہ وری اپنا مقام اور جواز بھی رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنی فکر کو مدتوں ضبط و احتیاط سے sustain کیا ہے۔ ان کے لہجہ میں نشتر ناکی ہے سفاکی نہیں، برافروختگی ہے، ہیجان نہیں، احتجاج ہے تند خوئی نہیں ۔فہمیدہ ریاض نے بھی اپنی بعد کی نظموں میں جہاں کہیں مردوں یا مبنی بر مرد معاشرے اور نظام پر گرفت کی ہے اس میں فکر کو برانگیخت کرنے کا پہلو زیادہ حاوی ہے۔ اس قسم کی نظموں میں اعتماد کی لَے زیادہ مستحکم ہے اور شعر میں بلوغت کے آثار تہِ نشست ہیں۔

یہ لونڈیاں ہیں

کہ یرغمالی ، حلال شب بھر رہیں، دمِ صبح در بدر ہیں

یہ باندیاں ہیں

جناب کے نطفۂ مبارک کے نصف ورثے سے معتبر ہیں

یہ بیبیاں ہیں

کہ زوجگی کا خراج دینے، قطار اندر قطار باری کی منتظر ہیں

یہ بچیاں ہیں

کہ جن کے سر پر پھرا جو حضرت کا دستِ شفقت

تو کم سنی کے لہو سے ریشِ سپید رنگین ہو گئی ہے

حضور کے حجلۂ معطّر میں زندگی خون رو گئی ہے__ایک نظم: فہمیدہ ریاض

فہمیدہ نے پوری آواز کی بلندی کے ساتھ خطاب کیا ہے۔ ان کا مرسِل اِلیہ حرم سرائی تہذیب کا وہ نمائندہ ہے جس کے تمول کے فتراک میں عورت ہنوز بے بس گوریا کی طرح پھنسی ہوئی ہے۔ ہماری شاعرات کے یہاں چڑیا، گوریا اور پرندے کی علامات انہیں معنی کی طرف مرکوز ہیں۔ پروین شاکر کی گذشتہ دس بارہ برسوں کی شاعری کی حدیں موضوعاتی سطح پر کافی وسیع ہو گئی ہیں۔ ان کے contents کے ماخذ سیاست ، سالوسی اور مکر کی دُھری پر گردش کرنے والا نظام اور وہ اخلاقیات ہے جو ذہنی پستی کے مین ہول میں پڑا سڑ رہا ہے۔ ان نظموں میں طنز اور خطابت کے ساتھ فکر اپنے معمول میں برقرار ہے۔

تباہی کے قاصد، مری جاں، مرے سبز پا

خداوندِ ابلیس تیرے ارادوں میں برکت کرے

کتابِ نحوست سے نکلی ہوئی تیری بد فال کو

حافظِ خوش فہم کی طرح وصفِ تکمیل دے

دید موعودہ کی ممکنہ دسترس دیکھ

نان و نفقہ کی تجھ کو بھلا فکر کیا

غم کا موضع

اداسی کی تحصیل

تنہائی کا پرگنہ

مری عمر بھر کی کفالت کو کافی رہیں گے

مرے بُوم نر، حاجبِ بارگاہِ حماقت

قاضیِ شہر بہرام کو حکم ہو

صیغۂ عقد پڑھ _________ ایک معقول نکاح: پروین شاکر

فکر کا رشتہ جب ڈھیلا پڑنے لگتا ہے تو اظہار میں بالعموم طعن و تشنیع کی لَے زیادہ اونچی ہو جاتی ہے۔ طنز سے رمز محو ہو جاتا ہے اور تکلم کی وضع واسوخت میں بدل جاتی ہے۔ یہ افتاد دو صورتوں کو واضح کرتی ہے کہ خیر اور معاوناتِ خیر سے توقع کا اٹھ جانا، زیست کرنے پر موت کو ترجیح دینا یا موت کو یاد کر کر کے ذہنی و نفسیاتی طمانیت حاصل کرنا، یہ رویہ قنوط و کلبیت کی سمت اشارہ کرتا ہے دوسری صورت اپنی بے بضاعتی اور نا طاقتی کے مفروضے کو حقیقی تصور کر کے tess d’urberville کی طرح اس نام نہاد اخلاقی نظام کی دہلیز پر اپنی جانِ عزیز قربان کر دینا جس سے شعوری جنگ کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے۔ دونوں صورتوں میں سنسنی خیزی اور فوری پن کا عمل نمایاں ہے۔ اس نوع کی نظموں میں صدمہ و ضرب پہنچانے کی بھرپور صلاحیت ہے مگر اثر کی اس قوت سے یہ محروم ہیں جو آہستہ آہستہ دل و دماغ میں جگہ بناتا اور خاصے بڑے عرصے تک قائم رہتا ہے۔

اب میں تم سے سب سے نفرت کرتی ہوں

کیوں کہ تم سب بھی تو مجھ سے نفرت ہی کرتے ہو۔

________________ایک وقت آئے گا: فرخندہ نسرین حیات

میں وعدہ کی زنجیروں میں اپنی زندگی کی پہلی

صبح سے بندھی ہوئی ہوں۔

اس کا سرا کس کے ہاتھ میں ہے

میرے ہاتھ کھول دیئے جائیں

تو میں اس دنیا کی دیواروں کو اپنے خوابوں

کی لکیروں سے سیاہ کردوں

اور آسمان کی چھت گرادوں

قہر کی بارش برسوں

اور اس دنیا کو اپنی ہتھیلی پر بٹھا کر مسل دوں

_________مری زنجیر کھول دی جائے: عذرا عباس

کچھ دن پہلے تک میں کبوتر تھی

آنکھیں بند کر کے سوچتی

کہ دنیا سے بلیوں کا وجود مٹ چکا ہے

اور اس سے بھی پہلے

میں چکور اور تیتر کے درمیان کوئی شۓ تھی

سبحان تیری قدرت کی، بولی بولتی تھی

اور چاند نی رات میں بے قرار رہتی تھی

جب میں اس سے بھی پہلے کتیا تھی

تو سارا سارا دن

اپنے مالک کے پانو چاٹتی رہتی تھی

مگر میرے پیار کا یہ صلہ ملا

کہ وہ ایک اور کتیا لے آیا

اس سے پہلے کے جنم میں

میں ایک خوبصورت ہرنی تھی

وہ زمانہ سب سے اچھا تھا

مگر بہت جلدی گزر گیا

اور مجھے کتیا بن جانا پڑا_______ جنم جنم کی کہانی: فرخندہ نسرین حیات

باہر سے نا آہنگی کے نتیجے میں جہاں ایک طرف ذہنی پسپائی اور علاحدگی کے احساس نے جنم لیا ہے وہاں اپنی ذات کی توثیق اور اپنے وجود کے اثبات و جواز جیسے مسائل نے بھی نمو پائی ہے۔ وہ انسان جسے طبعاً نا اہل و مجہول قرار دیا جاتا رہے جس کی آزادیِ رائے پر بندش اور روح و ضمیر کے مطالبات پر قدغن لگتی رہی ہو، نفسیاتی طور پراس کی شخصیت کی آزادانہ سطح پر نشوونما ہو سکتی ہے نہ اس کا ذہن رسا و بالیدہ ہو سکتا ہے۔ نیر جہاں، بلقیس ظفیر الحسن، شائستہ حبیب ، رفیعہ شبنم عابدی،عذرا پروین، شہباز نبی اور عذرا عباس کی اکثر نظموں میں جینے کی ازلی خواہش کے ساتھ اپنے طور پر جینے اور فکر کرنے کا شدید مطالبہ بھی پایا جاتا ہے۔ ان شاعرات نے اپنی محرومیوں اور ناپسندیدگیوں کو شعری زبان عطا کرنے کے علاوہ جس تنہائی اور بے چارگی کا بار بار حوالہ دیا ہے وہ ان کا وجودی مسئلہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ساجدہ زیدی اور صفیہ ا ریب کے یہاں پایا جاتا ہے ۔ اور نہ ہی یہ عرف عام میں بیگانگی پر منتج ہے جس کی مثالیں زاہدہ زیدی کے کلام میں وافر ہیں۔ سیدھے سادھے لفظوں میں یہ نتیجہ ہے غیر مکمل سپردگی کا یا صرف اور صرف یک طرفہ سپردگی کا،تقریباً تمام شاعرات نے ذاتِ و گر میں پوری طرح شرکت کا دم بھر ا ہے۔ یہ شمولیت ایک دوسرے کی توثیق سے اپنے معنی کی تکمیل کرتی ہے۔ ان شاعرات نے جہاں رفاقتوں میں کسی درد کو محسوس کیا ہے وہیں ان کے باطن سے ایک چیخ بھی برآمد ہوئی ہے اور وہ معاً اقرار کے بجائے انکار کے دامن میں پناہ لینے لگتی ہیں۔ بہ باطن مقصود خواہ کچھ ہو۔ یہ رویہ اس امر پر گواہ ہے کہ تخلیقی اظہار کے تجربے سے دوچار ہونے والی عورت اپنے ہونے کا ثبوت دوسروں سے مانگتی ہے۔ ایک سطح پر انسان اپنی ذات میں پورا ہے مگر دوسرے کی توثیق یا باہمی توثیق ہی سے اصلاً اس کی تکمیل ہوتی ہے۔

میں دھڑکن ہوں

اور اپنا سینہ تو ڑ کے

اس کے دل میں سمانا چاہتی ہوں ، جو

میری حدوں سے باہر ہے

میں دھرتی ہوں

بادل کے لیے آغوش کشا

اور دھوپ میں جلتی رہتی ہوں

میں پچھلی رات کا سپنا ہوں

اور جاگنے والی آنکھوں سے

ہونے کی گواہی مانگتی ہوں__میں کون سی ورت میں زندہ ہوں: ماہِ طلعت

دشتِ حالات میں

چشمۂ زندگی کی طلب

میں مسافت کے زخموں سے بے حال ہوں

سوچتی ہوں کدھر جاؤں گی

سوچتی ہوں کہ مر جاؤں گی

کاش! کوئی مسیحا ہو، عیسیٰ نفس ہو

یبوست کے صحرا میں ابرِ کرم بن کے برسے

نئے موسموں ، منزلوں، رفعتوں کی علامت بنے

مجھے زندگی دے

مجھے میری پہچان دے _____________ وہ : میمونہ روٗحی

میں پھولوں کی خوشبو کو اپنے گھر میں پھلتے پھولتے دیکھنا

چاہتی ہوں

میں قیدن، اپنی امیدوں کی

آدرشوں کی

پروازوں کی

میں خوشبو بن کر چار چوفیرے دھرتی پر گرتے رہنا

چاہتی ہوں

میں سچ مچ جینا چاہتی ہوں ________خواب کی تعبیر: شائستہ حبیب

مجھے کمرے کی اس کالی کثافت سے ذرا باہر نکالو

دھوپ میں رکھو

ہوائے تازہ میں کھلنے دو

شبنم سے نہانے دو

مری رگ رگ میں پنہاں ہے کلوروفل کا سرمایہ

اسے ملنے دو سورج کی سنہری گرم کرنوں سے

نمو آسا ذرا ہونے دو مجھ کو اپنی مٹی میں

کہ میں زندہ رہوں گی تازہ کرنوں کے خزانے سے

ہواؤں سے

مجھے کمرے کی تاریکی سے باہر تو نکالو _______ فوٹوسنتھیسس : شہناز نبی

تمہاری طرح میں بھی چاہتوں اور نفرتوں سے __ روز ملتی ہوں

تمہاری طرح اِک انسان میں بھی ہوں

(تمہاری پالتو بلی نہیں میں! جسے بستر میں تم اپنے سلا کر

اس کی خر خر سے بہت محظوظ ہوتے ہو)

تمہاری طرح مجھ کو بھی خدا نے ___ اک وجود اپنا دیا ہے

کسی کم تر خدا کی خلق کردہ کیوں سمجھتے ہو

تمہارا جو خدا ہے، وہ ہی میر ابھی خدا ہے

تمہاری وضع کردہ زندگی جیتی رہوں میں

یہ تم کیوں چاہتے ہو؟

مجھے محفوظ رکھنے کا بہانہ مت تراشو__ شکریہ

تمہاری طرح اپنی زندگی میں آپ جینا چاہتی ہوں

مجھے جینے کا حق اتنا ہی ہے__ جتنا تمہیں ہے___ نظم: بلقیس ظفیرالحسن

ان شاعرات کے فکرو اظہار ، سوچ اور بیان کے درمیان پوری یگانگت ہے۔ اسی طرح ان جذبوں کے اظہار میں بھی یہ کھری  اور سچی ہیں جنہیں اب تک لبِ گویا نہ ملے تھے۔ کالی داس، امرو اور ودیا پتی کے علاوہ مقامی بولیوں کے لوک گیتوں میں نسوانی جذبات کو بڑی سچائی اور تاثیر کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے۔ ان میں تنوع بھی ہے اور بلا کی تازگی بھی۔ ان مثالوں میں عورت، عاشق ہے اور مرد محبوب۔

ہمارے یہاں ریختی کا بہ حیثیت ایک صنف کے مناسب نہج پر ارتقا ممکن نہیں ہو سکا۔ ریختی میں دونوں طرح کی مثالیں ملتی ہیں۔ محبوب اور عاشق دونوں مرد ہیں۔ کئی دکنی شعراء کے یہاں اظہارِ عشق عورت کی جانب سے ہوا ہے۔ شمالی ہند میں جس ریختی نے فروغ پایا وہ فیوڈل طبقے کے ذہنی تعیش کی ایک مثال ہے۔ ریختی گو شعرا نے عورتوں کے جذبات کو عورتوں کی زبان اور محاورے ہی میں ادا کیے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند پہل ثابت ہوتی اگر ہمارے شعراء نے اسے محض ہوس پرستانہ جذبات کو برانگیخت کرنے یا لذت بہم پہنچانے کا ذریعہ نہ بنا لیا ہوتا۔ قدیم یونانی شاعرہ سیفو اور ہمارے ادوارکی اخما توو ا اور یوگو سلاویہ کی عائشہ ظہیر ووچ جیسی شاعرات کی طرح۔۔۔۔۔۔اردو شاعرات نے بھی اپنے باطن کے نازک ترین ارتعاشات کو پرسکوت اندازِ تکلم عطا کیا ہے۔ ان میں تنہائی اور کم آمیز رفاقتوں سے الجھنے والی ہلکی ہلکی آنچ بھی ہے سینہ سوزی بھی، وہ سرشاری اور مکمل پن بھی ہے جو باہمی یگانگتوں سے نمود پاتا ہے۔ ایک لڑکی ہے جو ابھی ابھی کم سنی کی حد کو پار کر کے عمر کے اس مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جہاں حیاتیاتی تقاضوں کی بوطیقا ہی بدل جاتی ہے۔یہ دوشیزہ خواب پرست ہے۔ کسی رومان پارے کے شہزادے کو اپنے تخیل کی کوکھ میں بسائے ہوئے نت نئے خط و خال تراشتی، محو کرتی، پھر تراشتی پھر محو کرتی ہے۔ وہ مکمل سپردگی چاہتی ہے۔ اس حد تک کہ تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری۔

یہ شاعری وہ ہے جس سے ہماری روایات بے بہرہ تھیں اور سماعتیں نا آشنا، اردو شاعری میں یہ قطعی نیا تجربہ تھا ان شاعرات نے اپنے بیان میں عنفوانِ شباب کے اوّلین نسوانی جذبوں کے کچے اور انوکھے تجربوں اور وارداتوں کو بے باکی سے زیادہ بے تکلفی کے ساتھ ادا کر دیا ہے۔ (کیوں کہ ایریکا ژونگ جیسی بے باکی اب بھی ہماری شاعرات کی جرأتوں سے بعید ہے۔)نفسیاتی اور حیاتیاتی سطح پر یہ کیتھارسس کی ایک صورت ہے، داخلی گھٹن کے اخراج کا ایک ذریعہ۔

ان لمحوں کو پروین شاکر نے قدرے شائستہ اور رمزیاتی اسلوب میں ادا کیا جو مرد کی چھون سے بکھرتی نہیں پور پور سے جڑ جاتی ہے۔ مساموں سے لویں اٹھتی ہیں۔ تن من کی ساری فضا دھنک کے ست رنگوں سے چور ہو جاتی ہے۔ پروین شاکر کی ترجیحات بھی عورت کی آزادی، غیر متعلق جکڑ بندیوں سے رہائی اور اپنے طور پر زندگی جینے اور فکر کرنے پر ہیں۔ مرد کے تعلق سے کسی نفرت کا اظہار ان کے منصب میں شامل نہیں۔ واٹرلو ، بے نسب ورثے کا بوجھ اور ناٹک وغیرہ جیسی نظموں کا دامن مذمت و ملامت یا تضحیک و تعریض کے اجزا سے خالی ہے۔

میرا بھی اک سورج ہے

جو میرا تن چھولے

تو مجھ میں قوسِ قزح کے پھول اگائے

ذرا بھی اس نے زاویہ بدلا

اور میں ہو گئی

پانی کا اک سادہ قطرہ

بے منظر، بے رنگ ______________ پرزِم : پروین شاکر

جب کبھی رات سے اک تارۂ نم ناک نے کی

کوئی سر گوشی

صورتِ زخم کھلی

مجھ میں آہٹ تری۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہانہ: شاہدہ حسن

شبنم شبنم بھیگی اس صبح کو

جب میں، خواب کا ہاتھ تھام کر

اٹھ بیٹھی ہوں

اور خواہش نے

چپکے سے تیر انام لیا ہے

دل اجڑے موسم کی شاخوں پر

نئی نویلی کرن کا ما تھا چوم کے پھر سے کھل اٹھا ہے

میں بھی کل کو بھول کے خوش ہوں

آج تو میرے نام ہوا ہے ________ آج کا گیت: ماہِ طلعت زاہدی

کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض نے ان لمحوں میں سے صرف انہیں کو کسب کیا ہے جن سے ان کی ذات کا اثبات ہوتا ہے۔ فہمیدہ نے پہلی بار ایک شادی شدہ عورت کے انتہائی نازک ترین احساسات و جذبات کو تخلیقی طور پر محسوس کیا اور کرایا ہے۔ ایسے لمحوں میں وہ ایک بھری پری عورت معلوم ہوتی ہیں۔ ایک ایسی عورت جو اپنی رفاقتوں اور شرکت و پور پور سے مکمل ہے۔

لاؤ ہاتھ اپنا لاؤ ذرا

چھو کے میرا بدن

اپنے بچے کے دل کا دھڑکنا سنو

ناف کے اس طرف

اس کی جنبش کو محسوس کرتے ہو تم؟

بس یہیں چھوڑ دو

تھوڑی دیر اور اس ہاتھ کو میرے ٹھنڈے بدن پر یہیں چھوڑ دو

میرے بے کل نفس کو قرار آگیا ____ لاؤ ہاتھ اپنا لاؤ ذرا: فہمیدہ ریاض

ایسا نہیں ہے کہ ہماری شاعرات صرف اپنی رومانی آرزو مندی، ذہنی و نفسیاتی تطابق اور عدم تطابق، سپردگی اور بے گانگی جیسے موضوعات ہی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ موجودہ دور میں پروان چڑھنے والے فلسفیانہ و نیم فلسفیانہ رجحانات و تحریکات نیز اسالیب فکرو فن سے بھی ان کی آگہی تونگر ہوئی ہے۔ ان کے شعری تجربات اپنے عہد سے پوری طرح متعلق ہیں۔ وہ معنی جن سے ہماری ہستیوں کو نیا طرز ملا۔ جن کے حوالے سے ہم نے اپنے عہد کے انسانوں کے داخلی اور خارجی، نفسیاتی، اور روحانی مسائل کا مشاہدہ و مطالعہ ایک مختلف نقطۂ نگاہ سے کیا اس کا ادراک ہماری شاعرات کو بھی خوب ہے۔ ایک بے چین روح ہے جو ان کی تخلیقات میں موجزن ہے۔ بنیادی طور پر تخلیق کار ہونے کے ناطے یہ شاعرات حیات و کائنات کے بارے میں اپنا ایک وژن رکھتی ہیں۔ مگر جس معاشرے اور نظام کی بنیاد ہی خامی پر ہو وہاں یک آہنگی  اور اثبات وجود کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ ان شاعرات نے اس نفاق کو غیر منطقی، غیر حقیقی اور غیر فطری گردانا جو انسانی رفاقتوں کے مابین پیدا ہو جاتا یا کر دیا جاتا ہے۔ ہماری شاعرات اس فضا کے خلاف صف آرا بھی ہیں اور کبھی کبھی اپنے داخل کی آوازوں میں گم بھی ہو جاتی ہیں۔ وہ شاعرات جن کے تصورات اور اظہار کے اوضاع میں تجرید کا پہلو غالب ہے ان میں شفیق فاطمہ شعریٰ ، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، صفیہ اریب اور پروین فنا سید کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

وہ نام جن کے تجربات نے ذات کے مطالبات کا احترام کرتے ہوئے حیات و کائنات کے دیگر طبیعاتی اور مابعد الطبیعاتی مسائل و موضوعات پر بھی اپنے فن کی اساس رکھی ہے ان میں عرفانہ عزیز، شائستہ حبیب، نسرین انجم بھٹی، ماہ طلعت زاہدی، اور عذرا عباس پیش پیش ہیں۔ بانو طاہرہ سید کلاسیکی ہیں اور وہ اسی پر قانع بھی ہیں۔ ادا جعفری نے ترقی پسند حوالے سے اپنی شناخت قائم کی تھی مگر جوں ہی صورتِ حالات نے ایک نئی کروٹ لی انہوں نے نئے معانی سے بھی اپنے آپ کو مربوط کر لیا۔ ادا کو اظہار پر قدرت ہے اسی لیے نئی تعبیرات اور نئی معنویتوں سے تخلیقی رشتہ استوار کرنا ان کے لیے مشکل نہ تھا۔

شفیق فاطمہ شعریٰ وہ نام ہے جس میں سب سے زیادہ خلاقی تھی اور جس نے آج سے تقریباً تیس برس پہلے اپنی انفراد یت منوالی تھی۔ وہ مزاجاً کلاسیکی ہیں۔ اسی لیے ان کے موضوعات بھی سماوی، مجرد اور بلند کوش ہوتے ہیں۔ تلفیظ اور طرز میں بھی وہ ہمیشہ غیرمعمولی اور مختلف کی جویا نظر آتی ہیں۔ ان کی تلفیظ جہاں مفر س و معر ب پر اپنی بنائے کار رکھتی ہے وہاں نامانوس تلمیحات و مرکبات، متشدّد کلمات اور شعری سطروں کو غیر متوقع طور پر توڑ دینے یا توسیع کرنے کا عمل نظم کی بنیادی فہم کو بغایت سنجیدہ بنا دیتا ہے۔ یہی نہیں انہوں نے ہندی گیتوں کی زبان کو بھی بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ایک طرف اقبال، ن۔م۔راشد اور میراجی سے ان کے ذہنی رشتے ملتے ہیں تو دوسری طرف ’فدائیت نموئے خواب ‘‘جیسی نظموں میں ان کی عربی پسندی معاً عبدالعزیز خالد کی یاد دلاتی ہے۔ اتنے فرق کے ساتھ کہ شعریٰ کی تقریباً ہر نظم ہئیتی قطعیت سے گریز کی ایک مثال ہے اور خالد کا فن اس تجربے سے نا آشنا ہے۔ شعریٰ کا طرزِ احساس نیا اور ان کے معانی وسیع مخارج پر محیط ہیں۔ یادِ نگر، صدا بصحرا، زوالِ عہد تمنا ، بازگشت، ارضِ موعود یا شفیع الامم اور چراغِ تہِ داماں جیسی نظمیں کلاسیکی ضبط کے با وصف فکر و فن کے نئے تجربے کا حکم رکھتی ہیں۔

یہ کیسی آگہی ہے جس کی مشعل ہاتھ میں لیکر

سدا تنہائیوں کے دیس میں پھرتی ہوں آوارہ

یہ ایک بیم شکستِ خواب یہ چھولوں تو کیا ہوگا

اسی سے ہو گئی ہر صورت موجود صد پارہ

بجز اِک روحِ نالاں ، چشمِ حیراں، عمر سرگرداں

نہیں تقصیرِ پروازِ نظر کا کوئی کفارہ

____________صدا بصحرا: شفیق فاطمہ شعریٰ

فتیلے گل چھڑا بھی دے تمام کا تمام سجل

فتیلے تھام خود کو تھام

مگر فتیلہ نیم تیرہ دائرہ

کہ کھوہ کھوہ رینگتا ٹٹولتا رہا سبیل

جہت جہت پسی ہوئی سی راکھ راکھ سہمناک بے تہی

ہر اک پکار اضطرار، اضطرار زیرِ لب کی

ضرب ضرب رائیگاں

نہ سنگ بستہ جوف کوہ شق نہ دل کو

پیستی

ستونِ دار و بست مطلعِ فلق

تبھی وہ بین ما وطین حرز جان آدمِ قدیم ارتسام

جس پہ پو پھٹی

درود

اور درود ہی وہ صخرۂ دوام جس پہ پو پھٹی

_____________ فدائیت نموئے خواب: شفیق فاطمہ شعریٰ

ساجدہ زیدی نے ترقی پسند ادبی تحریک کے زوال کے دنوں میں سماجی شعور پر مبنی شاعری کی جس کی حیثیت آواز میں آواز ملانے سے زیادہ کچھ نہ تھی۔’’جوئے نغمہ‘‘ کی بیشتر شاعری اسی قسم کی یکسانیت کی شکار ہے۔ ۶۰ء کے بعد خالی خو لی رجا کا تصور تفکر میں بدل جاتا ہے ہئیت و تلفیظ میں جو قطعیت تھی اب اس کی جگہ نا مانوسیت لے لیتی ہے۔ ساجدہ کا صیغۂ کلام بھی ’’میں ‘‘ ہے۔ اور ان کی بیشتر نظمیں اسی ’’میں‘‘ کا سراغ ہیں جو کبھی محض اپنی ہستی تک محدود ہو جاتا ہے۔ اور کبھی آفاق کی حدوں کو چھو لیتا ہے۔ شب چراغ، ادراک کا یہ لمحۂ مختصر، سمندر کے سینے کے خاموش اسرار، آتشِ سیّال اور رقصِ درد دِ گر جیسی نظموں کی بنائے کار انہیں تاثرات کی توسیع ہیں۔

زاہدہ زیدی کا مرغوب موضوع نیستی اور بے معنویت کے پہلو بہ پہلو تخلیق اور تخلیق کا کرب ہے۔ ان کے شعر کے موضوعی مضمرات اصلاً وجودی تجربات ہی سے عبارت ہیں۔ وہ اس معنیِ گریز کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں جو رگِ حیات میں مخفی ہے اور اس رمز کے کشود کی متمنی ہیں جو بطنِ کائنات میں نہاں ہے۔ اکثر ایک صوفیانہ جذب و کشف کی لہر سی ان کی نظموں کو باطنی دھند میں لپیٹ لیتی ہے۔زاہدہ زیدی اور ساجدہ زیدی عورتوں کی اس مخصوص زبان اور موضوعات کی قائل نہیں ہیں جنہیں تانیثیت کے تحت فروغ دیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک مرد عورت کی تخصیص ایک گمراہ کن نظریہ ہے۔

آسماں سے پرے

آسماں۔۔۔آسماں

ایک آتش بکف

ایک شعلہ بجاں۔۔۔۔۔۔ آسماں

حدِّ احساس تک

اک خلابے کراں

اک فضا بے اماں

۔۔۔۔۔۔۔

چاک کی طرح ہر دم رواں

ایک سنگ گراں

روز و شب کی جنوں خیز چکّی میں پستا ہوا

ہر تراشیدہ احساس

ہر کاوشِ جسم و جاں

۔۔۔۔۔۔

سرنگوں دور تک

جام و مینائے فکر و نظر

محفلِ شوق

ناآشنائے رموزِ دگر

گرمیِ فکر و احساس

۔۔۔جی کا زیاں

۔۔۔۔۔

زرد ماحول میں پیچ کھاتا

تن آسانیوں کا دھواں

ہر طرف شور کرتے ہوئے

زنگ آلودہ،نادار الفاظ

حسنِ ازل۔۔۔بے زباں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’حسنِ ازل۔۔۔بے زباں‘‘:زاہدہ زیدی

نشاط و الم،

کیف و کم،

رنج و راحت،

من و تو،

اندھیرے اجالے کی تکرارِ پیہم

جنون و خرد کی صف آرائیاں

خیر و شر کے تضاداتِ باہم

مگر سینۂ بحر عریاں نہیں

اس پہ رنگیں حبابوں کی چادر پڑی ہے

کے خاموش تہہ میں لرزتی ہوئی

خیرہ کن روشنی

سات پردوں میں مستور ہے

ابلنے

بکھرنے

تڑپ کر نکلنے سے معذور ہے

چشمِ نظارہ جو دور ہے۔۔۔۔

دور ہے۔۔۔۔دور ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ ایک نظم‘‘:ساجدہ زیدی

عرفانہ عزیز کا بھی سارا کرب موجودہ عہد کی دو لختی پر منتج ہے۔ وہ جہاں کہیں نفاق، بدی، بشری اقدار کی پامالی، انسانی بنیادی معصومیت اور سادگی کی شکست کا منظر دیکھتی ہیں تڑپ اٹھتی ہیں۔ بقول ان کے’’ میں نے انسان کو طفلکِ معصوم پایا اور میرا جذبۂ عاطفت ان راہوں کا متلاشی رہا ہے جو نسلِ آدم کو تختۂ دار کی طرف لے جانے کے بجائے انسانی زندگی کی عالم گیر آسودگی پر ختم ہوتا ہے۔‘‘

عرفانہ کا یہ رومانی آدرش بڑا دلنشیں ہے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ قنوط ہمارے دور کی شاعری کی پہچان بن چکا ہو۔ عرفانہ کا یہ رجائی تصور خوش آئند ہے۔ صد رنگ،رمزِ ہستی، انتظار، تلاش اور دشتِ زرنگار، جیسی نظمیں انہیں بیش بہا انسانی جذبوں پر استوار ہیں۔

محض عورت کے دکھ درد اور جذباتی پسپائیوں کو موضوع بناکر اگر شاعری کی جائے تو اس کا حصار تنگ اور حلقہ اثر محدود ہو جاتا ہے۔ بلا شبہ کشور، فہمیدہ، رفیعہ شبنم عابدی ،بلقیس ظفیر الحسن ، پروین شاکر، پروین فنا سید، شعریٰ، ساجدہ، زاہدہ،شہناز نبی، ادا جعفری ،عذرا پروین اور ثمینہ راجہ نے اپنے موضوعات کو وسعت ہی نہیں دی ہے بلکہ اپنے اسالیب، لفظیات اور نظم کی تکنیکوں میں بھی تداول اور روایت سے گریز کر کے اندر کی اپج اور ضمیر کی آواز پر اپنے تجربات کی بنیاد رکھی ہے۔

یہاں میں بالخصوص شائستہ حبیب، نسرین انجم بھٹی، رفیعہ شبنم عابدی، نور جہاں ثروت، عذرا پروین، ماہِ طلعت زاہدی، نجمہ شہریار ، نیر جہاں ، اور محمودہ غازیہ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ان شاعرات نے گھر آنگن سے متعلق لطیف اور نازک جذبوں ، خوشیوں، اور دکھڑوں کو موضوع بنانے کے علاوہ اپنے حصاروں سے ادھر کی اس زندگی کا بھی مشاہدہ کرنے کی سعی کی ہے جس کے اپنے بحران ، کشاکشیں، تصادمات اور آویزشیں ہیں۔ ان شاعرات کی حسیت عصری اور جدید ہے۔ ان شاعرات نے ایریکا ژدنگ جیسی بستر کی شکنوں، مساموں کی خاموش آوازوں اور دوسرے مرد کی لطیف خوشبو اور گرمی کو حاصل کلام نہیں بنایا اور نہ ہی اخما تو وا کی ہتھیلیوں کے زخموں، کہنیوں کے کھرنڈوں اور جسم کی بے زبانیوں کو زبان دی ہے اور نہ ہی ظہیر ووچ کی طرح اپنے محبوب کو دوبارہ اپنی کوکھ سے جنم دینے، بوسوں میں پوشیدہ نونہالوں جیسے نرم و نازک جذبوں کو صیغہ آواز میں باندھنے کی سعی کی ہے۔ ان کے یہاں رزم کی وہ صورت ہویدا ہے جو ہمارے دور کے ریکارڈ موریلز ، وائٹ ساروف اور کوہتس پاپا کونگوس جیسے شعرا کے منطقوں کی یاد دلاتی ہے۔ بھوک، افلاس، پسماندگی ، جہالت ، تشدد اور استحصال کی ایک تصویر وہ تھی جو ترقی پسند ہاتھوں نے گہرے اور بھڑک دار رنگوں میں بنائی تھی اور جو عبرت سے زیادہ نمائش کی چیز معلوم ہوتی تھی۔ ان خواتین نے انہیں اپنی واردات بنا کر پیش کیا ہے ۔ ان تجربات میں راست و نا راست کی حدیں گڈ مڈ ہو گئی ہیں۔ یہ نظمیں اکثر نثری ہیں اور تکنیک میں بیانیہ ہیں اور ان میں کہیں کہیں تمثیل کے وسیلے کو بھی بروئے کار لایا گیا ہے۔ اس ضمن میں نسرین انجم بھٹی کی نظم ’’چوہے‘‘ ایک نادر مثال ہے۔ تمثیل کا یہ جوہر شائستہ حبیب کی نظموں کا بھی خاصہ ہے انہوں نے اس اسلوب کو کام میں لے کر نظم کے داخلی کینوس کو وسیع کیا ہے اور طنز کے ان امکانات کو بروئے کار لائی ہیں جو جدید شاعرات کی نگاہ سے تا ہنوز مخفی تھے۔

 

 

 

اردو زبان کے عوامی اور احتجاجی کردار کے تناظر میں وطنی شاعری

 

اردو زبان کی تاریخ ، ہماری تہذیبی زندگی بلکہ ہمارے اجتماعی لاشعور کی تاریخ ہے جس نے ایک سطح پر لنگو افرینکا کا ایک عظیم تہذیبی اور تاریخی کار انجام دیا تو دوسری طرف کم سے کم عرصہ میں اپنی اس تخلیقی اہلیت اور تموّل کا بھی ثبوت فراہم کیا جس کی بہترین مثال ہماری شاعری اور داستانوں کا غیر معمولی سرمایہ ہے۔میرے نزدیک کسی قوم کے تخیل کی بلندی کو ناپنے کا اگر کوئی پیمانہ ہے تو وہ سائنس ہے نہ فلسفہ بلکہ شاعری ہے۔ جس قوم کی شاعری جتنی بلند ہوگی، اتنا ہی اس کا تخیل بھی بلند ہوگا۔ اور اتنی ہی اس میں عوام الناس کے درمیان ترسیل و ابلاغ کی صلاحیت بھی زیادہ ہوگی۔

اردو زبان نے بلاشبہ اپنے صحیح معنی میں انفراد کے پہلو بہ پہلو اجماع کے سیاسی اور سماجی شعور، ان کی جذباتی اور داخلی کشمکشوں، ان کی تہذیبی حسیت نیز ان کی آرزوؤں اور امنگوں، کلفتوں اور ہزیمتوں کو اس طور پر رقم کیا کہ آج یہ سرمایہ ہمارے لیے اپنی تاریخ کا ایک معتبر ترین سراغ بن گیا ہے۔ اردو زبان کی اسی صلاحیت نے اسے ہر عہد میں ایک نئے معنی بھی دیے ہیں اور ادائیگی کے گوناگوں طریقوں سے بھی سرفراز کیا ہے۔ا س کے پس منظر کی تشکیل میں وسطِ ایشیا سے لے کر عرب و عجم نیز ایران کی فہم و دانش کے سانچوں اور مفاہموں conventions کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے۔ ماضی بعید میں کبھی یہ سانچے سنسکرت کے ذریعہ وسطِ ایشیا اور ایران کی سرزمین سے ہوتے ہوئے ہم تک پہنچے تھے، اور کبھی تہذیبی سطح پر سُمیرین آدابِ زندگی کو ہم نے اپنے طرزِ احساس سے منسلک کیا تھا، ہڑپّا اور موہن جوداڑو کے آثار اس معاملت کے ٹھوس مظہر ہیں۔ جس زبان کے تہذیبی خمیر میں ہندوستانی فکر و فسوں کے علاوہ اتنی بہت سی دیگر تہذیبوں کا رنگ و آہنگ بھی شیرو شکر ہو گیا ہو، اس کی رسائی اور اس کی لطافت کے اپنے معنی ہیں۔ اردو لسانی مذاق اور ہماری وسیع تر شعری تخیل کی تشکیل نیز اس احساسِ جمال اور ادراکِ حقیقت کی تربیت میں انہیں تمام مذکورہ بالا جغرافیائی وحدتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس کے باعث ہمارا تخیل غیر معمولی بلندیوں سے ہم کنار ہوا ہے۔ غالب یا اقبال کی شاعری محض ان کے انفرادی تخیل کی بلندی کی آئینہ دار نہیں ہے بلکہ وہ پورے قوم کے تخیل کی بلندی کی ایک مثال ہے کہ اپنے فکر اور اپنے وجدان کے کن عظیم الشان منازل تک ہم نے رسائی حاصل کی ہے۔

اردو شاعری کی ترجیحات میں بزم آرائی کو ایک خاص منصب ضرور ملا ہے لیکن رجز بھی ا س کے لہو کو گرم رکھنے کے بہت سے بہانوں میں سے ایک ہے۔ اس رجزیہ آہنگ کی ایک لے وہ ہے جو انیس و دبیر کے نہاں خانۂ ضمیر سے بلند ہوتی ہے اور عین اس دور میں بلند ہوتی ہے جو پورے ہندوستان کے لیے سیاسی و تہذیبی سطح پر ابتلا و کشمکش بلکہ غیر یقینی کا دور تھا۔ لکھنؤ اور فیض آباد کی بہ ظاہر خوش آثار زندگی کے بطن میں کتنے اندیشے تہِ نشست ہیں اور کتنے خطرات منہ بسورے پڑے ہوئے ہیں، اس کا پیش از وقو ع احساس محض ایک تخلیقی وجدان ہی سے ممکن تھا اور اس امکان کی واضح تر نمود کی اگر کوئی بہتر مثال ہو سکتی ہے تو وہ ہے ہمارا عوامی اور ادبی مراثی کا وافر اور بیش قیمت سرمایہ۔

ابھی واجد علی شاہ معزول نہیں ہوئے تھے، ابھی قوم ۱۸۵۷ء کی لہو رنگ واردات سے دوچار نہیں ہوئی تھی۔ ابھی بہادر شاہ پر جلا وطنی کا پہاڑ نہیں ٹوٹا تھا، مگر شمشیرو سناں ، دشنہ و خنجر، صید و صیاد، زنجیر و زنداں، قاتل و مقتول، باغبان و گل چیں ، بہار و خزاں، گل و گلستان، خرمن و نشیمن، جور اور ستم جیسے الفاظ میں جو دور رس استعاراتی معنی مخفی ہیں اور جو مختلف صورتِ حالات میں فارسی اور ہماری شاعری میں ہمیشہ مستعمل رہے ہیں، ان کی بہت سی جہتوں میں سے ایک جہت ۱۷۵۷ء کی پلاسی کی لڑائی اور پھر بکسر کی لڑائی کے بعد کی اس دل دوز تاریخ سے نسبت رکھتی ہے جس کے جلو میں یکے بعد دیگرے کئی شکستوں کے نالے تھے اور کئی ہزیمتوں کے زخم۔

یہ کوئی اتفاق نہ تھا کہ مغلیہ سلطنت کا عہدِ زوال اور اردو زبان کے ارتقا کا زمانہ تقریباً ایک ہی ہے۔ یہ بھی اتفاق نہ تھا کہ ہمارے شعراء نے عرب و ایران کے نغمے نہیں گائے۔بلکہ سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی سطح پر بحران کے دنوں میں عموماً زیادہ فکر انگیز، زیادہ اثر انگیز، زیادہ تیکھی، تلخ، تجربہ گیر اور انفرادی و اجتماعی محسوسات پر مبنی شاعری کا امکان نسبتاً زیادہ ہو جاتا ہے۔ انیسویں صدی میں اردو شاعری کے اسی کردار نے کئی نئے اسالیب کی راہ بھی روشن کی۔ہمارے اصناف و اسالیب میں جتنا تنوع اور جتنی رنگارنگی ہے اور اس کا حلقہ ابلاغ و اثر جس قدر وسیع ہے، اس کا سلسلہ ماضی میں ۱۸ویں صدی کے پس منظر تک پہنچتا ہے۔

ہمارے شعرا نے امیر خسرو اور قلی قطب شاہ کی اس روایت کو زندہ و قائم رکھا، جس نے ملکِ عزیز سے محبت کرنے کی ایک خوبصورت طرح ڈالی تھی۔ انہیں ادوار میں ہمارے شعراء نے جہاں مدح سرائی میں زبان و بیان کے اس جوہر کا ہمیں احساس دلایا جس سے بلاشبہ غیر معمولی تخلیقی استعداد کا تصور وابستہ کیا جا سکتا ہے، تو دوسری طرف ہماری اکثر ہجائیہ شاعری اور شہر آشوبوں نے حق گوئی ، بے باکی اور خود احتسابی کے جذبوں پر مہمیز کی اور اردو زبان کی ا س مزاحمانہ صلاحیت کی طرف متوجہ کیا جس نے بعد ازاں آزادی کی تحریک کو نعرۂ انقلاب کی شکل میں گھروں گھر پہنچا دیا۔ اس باب میں کیا شاہ کیا امیر، کیا سپاہی کیا عمال، کیا ادارہ کیا ادارت کسی کو معاف نہیں رکھا۔ یہ شاعری مجموعاً ہمارے سیاسی، سماجی ا ور اقتصادی ہی نہیں تہذیبی اور اخلاقی انتشار و انحطاط کی بھی ایک معتبر تاریخ رقم کرتی ہے۔کہنے کا مقصود یہ کہ اپنے آغاز و ارتقا ہی سے اردوزبان کا عوام سے گہرا رشتہ قائم ہو گیا تھا اور وہ ہر دور میں اپنے عہد کے ضمیر کی آواز بن کر نمایاں ہو رہی تھی۔

داغ چھوٹا نہیں یہ کس کا لہو ہے قاتل

ہاتھ بھی دکھ گئے دامن ترا دھوتے دھوتے

سراج الدین آرزو

در و دیوارِ چمن آج ہے خوں سے لبریز

دستِ گلچیں سے مبادا کوئی دل ٹوٹا ہے

اشرف علی فغاں

اُگائیں باغ میں لالہ زمیں سے

ہوا خونِ شہیداں سے چمن سرخ

میر عبد الحئی تاباں

ان اشعار کی تہہ میں ملکِ عزیز کی تباہی و بربادی کا جہاں ایک طرف شکوہ ہے وہیں دبی چھپی ایک احتجاج کی لہر بھی ہے لیکن یہی شکوہ اور احتجاج کبھی لعن طعن اور کبھی طنز و تشنیع کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے، جس میں قنوط اپنی انتہا پر سگ خوئی اور احساسِ شکست با لآ خر دشنام میں بدل جاتا ہے۔

آدمی درکار نئیں سرکار میں حیوان ڈھونڈ

کون پوچھے یاں سپاہی کے تئیں گھوڑا نئیں

میر زائی سے ہوئے نا مرد دلّی کے امیر

ناز کے مارے پھری جاتی ہے مژگاں کی پناہ

زبانی ہے شجاعت ان سبھوں کی

امیر اس جگ کے ہیں سب شیر قالیں

آبرو

یہی وہ سلسلہ ہے جو بعد ازاں میر اور سودا کے نطق کو ایک نئی آب بخشتا ہے، سودا تو عالم کی گفتگو میں بوئے خوں کی رمق دیکھتے ہیں اور اپنے عہد کی بے بسی اور بے خبری پر آواز کی بلندی کے ساتھ احتجاج بھی کرتے ہیں۔

ہزار حیف کوئی باغ میں نہیں سنتا

چمن چمن پڑی کرتی ہیں،بلبلاں فریاد

وہ سودا ہی ہیں جو باخبری کے کرب سے واقف ہیں اور اس بے خبری کو عیش سے تعبیر کرتے ہیں جو دنیا و مافیہا سے بے نیازی پر اکتفا کر لیتی ہے اور جس کے لیے جہادِ زندگانی کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا۔

سودا جو بے خبر ہے کوئی وہ کرے ہے عیش

مشکل بہت ہے ان کو جو رکھتے ہیں آگہی

میر نے اس مضمون کو ایک نیا تناظر دینے کی کوشش کی ہے۔

سرسری تم جہان سے گزرے

ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

میر جیسے دل زدہ کے لیے اس قسم کے حالات لطمہ ہائے موج سے کم نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میر کے بیش تر استعاروں میں ان کے عہد کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔

تلوار کے تلے ہی گیا عہدِ انبساط

مر مر کے ہم نے کاٹی ہیں اپنی جوانیاں

یہ عیش گہ نہیں ہے، یاں رنگ اور کچھ ہے

ہر گل ہے اس چمن میں ساغر بھرا لہوکا

چمن کا نام سنا تھا ولے نہ دیکھا ہائے

جہاں میں ہم نے قفس ہی میں زندگانی کی

انشا، جرأت اور مصحفی نے نسبتاً زیادہ صراحت بلکہ منہ پھٹ انداز میں گفتگو کو ترجیح دی تھی کہ پردہ داری ان کے زخموں کا مداوا نہیں ہو سکتی تھی۔ ان کے ردّ ہائے عمل میں جو غم و غصہ کی ایک موجِ تندہے اس کے بے باکانہ اظہار ہی میں ان کی طمانیت کا سامان بھی مضمر تھا۔ کوئی برگِ گل پر قانع ہو جاتا ہے تو کسی کے لیے نوکِ سنگ ہی سروں کا مداوا ہوتی ہے۔

سمجھے نہ امیران کو کوئی نہ وزیر

انگریزوں کے ہاتھ ایک قفس میں ہیں اسیر

جو کچھ وہ پڑھائیں سو یہ منہ سے بولیں

بنگالے کی مینا ہیں یہ پورب کے امیر

جرأت

ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی

کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی

مصحفی

ہوائے دہر گر انصاف پر آئی تو سن لینا

گل و بلبل چمن میں ہوں گے باہر باغباں ہوگا

آتش

دل ملکِ آنگریز میں جینے سے تنگ ہے

رہنا بدن میں روح کا قیدِ فرنگ ہے

ناسخ

واجد علی شاہ کی مثنوی ’’حزنِ اختر‘‘ برق لکھنوی کا شہرِ آشوب بابت معزولیِ واجد علی شاہ ، فدا علی عیش کی مسدس بعنوان انقلابِ لکھنؤ اور مثنوی ’’اشکِ غم‘‘ ، منیر شکوہ آبادی کی مسلسل غزلیں، غالب، ذوق اور نصیر کے بے شمار اشعار کے علاوہ مومن کی مثنوی ’’جہاد نامہ‘‘ بہادر شاہ ظفر کی قفس و صیاد کے پردے میں نالہ و بکا اور محمد حسین آزاد کی ’’تاریخِ انقلابِ عبرت افزا‘‘ جیسی نظموں میں سقوطِ لکھنؤ اور سقوطِ دہلی کا سارا کرب سمٹ آیا ہے۔

میر تقی میر نے ’’نکات الشعرا‘‘ میں ایک سے زیادہ بار اردو شاعری اور سپہ گری کے گہرے تعلق کی بات کہی ہے۔میر نے فوجیوں کے ساتھ مسافت بھی کی تھی اور جنگوں کو قریب سے دیکھا بھی تھا، خود غالب کو اپنے آبا کے پیشہ سپہ گری پر بڑا فخر تھا۔ شاہ عالم ثانی، واجد علی شاہ اور بہادر شاہ ظفر کے ناموں سے ہم بخوبی واقف ہیں، ان کے کلام میں ان کے ذاتی غم و آلام کے علاوہ ان تجربات کا بھی اثر ہے جن کا تعلق دربار کی شورشوں اور انگریزوں کی فتنہ طرازیوں سے تھا۔ یہی وہ دور تھا جب کہ بلیٹنوں کی طرح بعض خفیہ اردو اخبارات اور پمفلیٹس اور ہاتھ سے لکھے ہوئے بے نام اعلانات اور اشتہارات بلکہ بعض منظوم اشتہارات نے دہلی اور اس کے گرد و نواح میں انگریزوں کے خلاف ایک محاذ قائم کر دیا تھا۔

۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے دوران بہادر شاہ ظفر کے احکامات، دیگر والیانِ ریاست کے مکاتیب اور فرامین، فتاوائے جہاد اور بیش تر روزنامچوں کی زبان اردو ہی تھی ۔ ایسے شعراء کی ایک لمبی فہرست ہے جو کسی نہ کسی الزام میں انگریزوں کے معتوب ہوئے تھے بعض کی جاگیر یں ضبط کر لی گئی تھیں ،بعض کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا ۔ بعض کو سولیوں پر لٹکا دیا گیا اور بعض کو ملک بدر یاشہر بدر کر دیا گیا۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ منیر شکوہ آبادی جیسے شاعر کو کالے پانی کی سزا دی گئی تھی۔ دہلی اردو اخبار کے مدیر مولوی باقر کو گولی سے اڑا دیا گیا تھا اور امام بخش صہبائی جیسے عالم ان کے کنبہ کے دیگر ۲۱ نفوس کے ہم راہ شہید کر دیے گئے تھے۔معین الدین عقیل نے لکھا ہے کہ ’’بدرالاسلام عباسی بدایونی نے جنگِ آزادی کے موقعہ پر ایک نظم لکھی تھی، جس کا ایک مصرعہ تھا:

ع سر کمپنی کا کٹ کے بکا پاؤ آنے میں

اس نظم کے کہنے پر انہیں سزائے موت دی گئی۔‘‘

۱۸۵۷ء کی پہلی جنگِ آزادی میں شرکت کی پاداش میں منیر شکوہ آبادی کو جب انڈومان بھیج دیا گیا تو وہاں انہوں نے اسیری کے مصائب پر قصیدہ موسوم بہ ’’فریادِ زندانی‘‘ لکھا۔ جس میں انہوں نے قصیدے کی مروجہ تلفیظ کے برخلاف روزمرہ تجربے میں آنے والی زبان کا بڑے مؤثر طریقے سے استعمال کیا ہے۔

نکلو اکر وطن سے بھر دیا جنگل میں لاکھوں کو

جگہ رہنے کی اب پاتے نہیں غولِ بیابانی

اگر اشیا میسر ہیں تو خود محتاج ہیں قیدی

بڑی قسمت جو روٹی دال مل جائے بہ آسانی

کرو، آرہ کشی یا مٹی کھودو، چکّیاں پیسو

اگر ہو جاں بلب منہ میں نہ ٹپکائے کوئی پانی

منیر نے’ فریادِ زندانی‘ کے علاوہ دوسرے قصائد میں بھی قید و بند کی سخت گیری، اسیرانِ وطن کی زبوں حالی اور کسمپرسی کو زبانِ حال میں ادا کیا ہے۔ اپنی گرفتاری کے ڈر سے جب وہ روپوش ہوئے تو انہیں کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی تفصیل بھی انہوں نے اپنی ایک نظم میں بیان کی ہے۔

روز ہوتا ہوں نئے شخص کے گھر میں روپوش

آج پھانسی کی خبر ہے تو اسیری کی کل

مال و سرمایہ و اسباب ہوا سب برباد

پر کتابوں کے تلف ہونے سے ہے کربِ اجل

وطنی اور قومی شاعری کا باقاعدہ دور ۱۸۶۷ء سے شروع ہوا۔حالی، آزاد اور اسمٰعیل میرٹھی اور بعد ازاں اقبال نے وطنیت کے جدید تصور کے تحت نظموں کو فروغ دیا۔ ’’مسدّسِ مدّ و جزرِ اسلام‘‘ نے اقبال کو شعر، عقیدہ اور تاریخ کے آمیزے کا ایک دھندلا سا خاکہ مہیا کیا اور غالب نے اردو زبان میں کارفرما اس تخلیقی استعداد کے احساس کو تقویت پہنچائی کہ کس طرح عقیدہ، فکرِ محسوس میں بدل سکتا ہے اور تاریخ ایک روحانی تجربے کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔

اقبال کی شاعری میں وطنیت کا پہلا باب، احساسِ تفاخر سے مملو ہے، دوسرے میں تنبیہ الغافلین کا سماں ہے اور تیسرے میں آفاقیت کا وہ رنگ ہے جسے انہوں نے زمین کے تعلق سے عقیدۂ اسلام سے اخذ کیا تھا لیکن وطن کے تعلق سے اقبال کے اس تصور کا ہماری وطنی شاعری پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ انیسویں صدی کے ربعِ آخر سے بیسویں صدی کے ربعِ اوّل تک حب الوطنی کا موضوع اکثر ہماری شاعری کا عنوان بنا رہا۔ البتہ ان نظموں میں احساسِ تفاخر کے پہلو بہ پہلو اپنے ہم وطنوں کی ناعاقبت اندیشیوں، غرض مندیوں اور تفرقہ پردازیوں پر سخت گرفت بھی کی گئی ہے۔ اقبال کے علاوہ بیش تر شعرا کی نظموں میں اعتماد و رجا کا فقدان ہے۔ اقبال نے محکومی اور غلامی جیسے موضوع کو اپنے ایک خاص فلسفیانہ مفہوم میں اخذ کیا تھا۔ ان کے عشق، عمل یا خودی کے تصورات میں جس وسیع تر تخیل اور تفکّر کی کارفرمائی ہے اس کے ایک معنی ہماری صورتِ حال کے تقاضوں سے متعلق تھے اور جس میں آزادگی، تحرک اور جہد کا ایک عمومی پیغام پنہاں ہے تو دوسرے معنی میں اس کی وہ فلسفیانہ جہت ہے جو بالخصوص فرد کو اپنے لامحدود اختیار، قوت اور رسائی کے احساس سے متصف کرنے کے در پے نظر آتی ہیں۔

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب

اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی

بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر

کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

اقبال کے قریبی پیش روؤں اور حتیٰ کہ معاصرین جیسے شبلی اور ظفر علی خاں کی سیاسی نظموں میں وقتی اور ہنگامی موضوعات کا دخل زیادہ تھا۔ انہوں نے تقریباً ہر اہم قومی اور ملّی واردات کو اپنی نظموں کا عنوان بنایا اور اقبال کے برخلاف ایک ایسی زبان کو ترجیح دی جس کا آہنگ بلند تھا اور جذبے کی لےَ اونچی۔ فکر کی وہ آنچ، علم کی وہ تاب، ایک خفیف لمحہ زماں کو ایک وسیع تر بساط پر پھیلا دینے کا وہ عمل جو اقبال کے خصوص میں نظر آتا ہے۔ ان کے دیگر ہم عصروں، قریبی پس روؤں یا پیش روؤں کے بس کی بات نہ تھی۔ چوں کہ آزادی یاجد و جہدِ آزادی کے موضوع کی اپنی ایک عمومی اور وقتی معنویت تھی اور اس مسئلے کا تعلق پورے ہندوستان کے عوام کی تقدیر سے تھا اس لیے آزادی کا مسئلہ پوری قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا تھا۔ جہاں خطاب پوری قوم سے ہو اور مسئلہ ایک عمومی قدر کا حامل ہو، وہاں ایک ایسی زبان کو ترجیح دی جاتی ہے جو ہر موضوع و مسئلے کے اظہار پر قدرت رکھتی ہو، جس میں اجتماعی اور تہذیبی علامات ہی کا وافر ذخیرہ نہ ہو بلکہ اس کے لغات کا دائرہ بھی وسیع ہو، نیز جو عقلی اور جذباتی سطح پر گہرا اور دیر پا اثر قائم کر کے عوام الناس کو ایک خاص مقصد کے لیے متحد و منظم کر سکتی ہو۔ بلا شبہ اردو میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے اور جنگِ آزادی کے دنوں میں ہمارے شعرا نے اس صلاحیت سے بیش از بیش فائدہ بھی اٹھایا ہے۔

جوش، چکبست، سرور جہاں آبادی، اختر شیرانی،ساغر نظامی،حفیظ جالندھری ، علی اختر، ساغر نظامی اور تلوک چند محروم وغیرہ نے برطانوی اقتدار کے ظلم و جبر ،مکر ور یا ، حرص و آز، استحصال اور منافقت کو مختلف اسالیب میں طشت از بام کیا۔ ان شعراء میں سب سے کاری اور ہمہ گیر آواز جوش کی ہے۔ موضوع کے تقاضے کے تحت وہ تنقید بھی کرتے ہیں، تضحیک بھی، تحقیر بھی کرتے ہیں اور تنبیہ بھی۔ وہ جہاں ایک طرف برطانوی سامراج کو لتھاڑتے ہیں تو دوسری طرف اپنی قوم کی بے حسی، نا اہلی اور کم ہمتی انہیں ایک لعنت سے کم نظر نہیں آتی۔ اسی بے حسی کو اقبال نے اپنا موضوع بنایا تھا اور ان سے بھی قبل حالی، قوم کی غفلت کا رونا دل کھول کر رو چکے تھے۔ لیکن اقبال کی تعبیرات کا دائرہ خاصہ وسیع تھا اور ان کے مقاصد مختلف تو تھے ہی، بھڑک دار بھی کم نہ تھے۔ جب کہ جوش کے مقاصد قطعی واضح اور دو ٹوک تھے اور ان کی ادائیگی میں انہوں نے کسی بھی قسم کے لسانی مکر سے کام نہیں لیا تھا۔

سنو اے ساکنانِ بزم گیتی صدا کیا آ رہی ہے آسماں سے

کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر غلامی کی حیاتِ جاوداں سے

جوش کی کئی نظموں کا جلی اور خفی عنوان ہی آزادی کا خواب ہے۔ آزادہ روی اور بغاوت ان کی فطرت کا خاصہ ہے اور یہی خاصہ انہیں ملکِ عزیز کی آزادی کے نغمے گانے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔

ترقی پسند شعری اسلوب میں جو احتجاج کی ایک تند لےَ ہے اور طنز کے شعار میں جو تضحیک و تمسخر کی آمیزش ہے نیز لہجے میں جو رجا اور اعتماد کی رمق ہے، اس کے پشت پر جوش کے اثرات ہی کام کر رہے ہیں، ترقی پسند شعرا کو آزادی، امنِ عالم، انقلاب، استحصال ، جنگ اور مساوات جیسے موضوعات سے خاص دلچسپی تھی۔ مگر ان موضوعات کی ادائیگی میں جوش کے تلخ، تُند اور متشدّد لہجے سے غیر ضروری طور پر کام لیا گیا، گویا جنگِ آزادی میں جس طرح ایک گرم دل کہلاتا تھا، اسی راہ پر ہمارے بعض شعرا بھی گامزن تھے۔ترقی پسند مصنفین کے تصورِ انقلاب میں آزادی کا تصور بھی پنہاں تھا۔ مجاز، فیض اور سردار جعفری کی شاعری کا ایک معتدبہ حصہ آزادی کے نغموں سے لبالب ہے۔ ن۔م۔راشد اور اخترالایمان کی نظموں میں وہ بلا واسطگی اور ہئیت و موضوع کے برتاؤ میں بھی تعمیم کی وہ صورت موجود نہ تھی جو ایک سطح پر ان کی معاصر شاعری کا پسندیدہ کردار بن گیا تھا، راشد جیسی برافروختگی ، اخترالایمان کی شاعری کا بھی ایک اہم نشان ہے مگر ان کی گفتار میں طنز کی آمیزش، غم و غصہ کی شدتوں کو کمالِ ہنر مندی کے ساتھ دبا دیتی ہے باوجود اس کے آزادی کے موضوع پر لکھی ہوئی ان نظموں کی اپنی معنویت ہے۔

آزادی سے قبل ہمارے بیش تر شعرا نے ان جذبوں کو بڑی تاثیر کے ساتھ ادا کیا تھا اور ان کی خاص اصرار کے ساتھ قدر افزائی کی تھی، جن کا تعلق آزادی کی عظیم عوامی تحریک سے تھا۔اس معنی میں اردو زبان کا ایک خاص رول تھا، اس رول سے صرفِ نظر کرنا ہماری بد توفیقی ہوگی اور اس کا اعتراف نہ کرنا ہماری بدنصیبی۔

 

 

 

غالب کے بعض فنّی مقتضیات

 

غالباً ہم سب ہی اس خیال سے متفق ہیں کہ غالب اپنے فنّی مقتضیات میں بڑے خود دار واقع ہوئے تھے۔ اسی باعث ان کے یہاں اظہار کی منطق میں تعمیم کے مقابلے پر تخصیص کا پہلو زیادہ نمایاں تھا۔ تعمیم خصوصیت رکھتی ہے یکساں روی، مشابہتوں کے ایک عمومی طور اور فہم عامّہ کی توثیق کے ساتھ۔ غالب کی بنائے ترجیح بیش تر صورتوں میں اختصاص پر ہے، جس کی ترکیب کے مشتملات بھی گوناگوں ہیں اور جن کا تعلق احساس و وجدان کے تجربے کی علیٰحدہ منطق سے بھی ہے نیز رد و قبولیت کی بعض نجی اور صرف نجی ترجیحات سے بھی۔ انہِیں معنوں میں غالب کا ذہن امتیاز اور افتراق کی طرف زیادہ مائل رہتا ہے۔ غالب بالخصوص تعمیم کی اس منطق سے اپنے آپ کو قطعاً دور رکھتے ہیں جو شاعر کو اس فریب میں مبتلا رکھتی ہے کہ زندگی ایک واضح تر حقیقت ہے، جسے بہ آسانی اپنی فہم کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ چیزیں اگر سوال ہیں تو ان کے شافی و کافی بلکہ کلّی جواب بھی ممکنات میں سے ہیں۔ چیزیں کتنی ہی پردۂ غیاب میں ہوں، پیچیدہ ہوں یا ہزار صورت اور ہزار بعد رکھتی ہوں ، انہیں کھولا جا سکتا ہے، دیکھا اور دکھایا جا سکتا ہے، ان کے بارے میں کوئی نہ کوئی مدلّل اور حتمی ترجیح قائم کی جا سکتی ہے۔ اختصاص کا ایک پہلو غالب کے اس متفکرانہ ذہن کے ساتھ خصوصیت کا حامل ہے، جو چیزوں کے ہر اور چھور کے غائر مشاہدے کی طرف مائل رہتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے غالب کے ان اشعار پر توجہ کریں جو فلسفہ نہیں محض فلسفے کے التباس کے مظہر ہیں۔ حقیقت نہیں بلکہ حقیقت کا محض تاثر مہیا کرتے ہیں۔ زندگی اس طور پر رگِ جاں سے قریب تر ہے کہ اس کی شفافیت معدوم و  محوسی محسوس ہونے لگتی ہے۔ دور کی چیزیں ہی کچھ کی کچھ نظر نہیں آتیں، نزدیک اور بہت نزدیک کی اشیاء بھی اپنے مظہر میں کچھ کی کچھ دکھائی دیتی ہیں۔ جب آدمی باطن کی آنکھ کو کام میں لاتا ہے تو بہ ظاہر شے کا تاثر یا بصارت کا تجربہ، کچھ اور ہی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ دیکھنے والے کے نقطۂ نظر پر بھی منحصر ہے کہ وہ کس زاویے سے دیکھ رہا ہے یا دیکھنا چاہتا ہے یا دوسروں کو دکھانا چاہتا ہے۔ غالب کے ان اشعار میں اختصاص کا یہ پہلو قطعی واضح ہے کہ وہ شے نہیں شے کا تاثر مہیا کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ یہ تاثر ہی بہ یک وقت ایک سے زیادہ معنی کو برانگیخت کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ یہاں پہنچ کر اس دعوے کو دہرانے اور یاد دلانے کی غالباً ضرورت نہیں رہ جاتی کہ فلسفے کے التباس میں جو دھند سی ہوتی ہے وہ فلسفے سے زیادہ سِرّی اور معنی خیز ہوتی ہے۔ اسی معنی میں غالب کا استدلال، ایک شاعر کا اشیائے محسوسات کو اپنے طور پر نام زد کرنے کے ایک لفظی کھیل سے عبارت ہے۔

فشارِ تنگئ خلوت سے بنتی ہے شبنم

صبا جو غنچے کے پردے میں‌جا نکلتی ہے

 

کشا کش ہائے ہستی سے کرے کیا سعئ آزادی

ہوئی زنجیرِ موجِ آب کو فرصت روانی کی

لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا

ہیں زوال آمادہ اجزاء آفرینش کے تمام

مہرِ گردوں ہے چراغِ راہ گزارِ باد یاں

رفتارِ عمر، قطعِ رہِ اضطراب ہے

اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے

ہے خیالِ حسن میں حسنِ عمل کا سا خیال

خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا

نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز

میں ہوں اپنی شکست کی آواز

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا

نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

 

میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ غالبؔ کا فن اشیائے محسوسات کو نامزد کرنے کے لفظی کھیل سے عبارت ہے۔ میرے اس خیال سے یہ مغالطہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ غالب کا شعر محض ایک خاص لسانی تفاعل سے سروکار رکھتا ہے۔ معنی کاری سے اسے کوئی نسبت نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ معنی کاری کو لسانی تفاعل سے اگر ایک علیحدہ منصب دیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوگا کہ شاعر کے اپنے intentions اس پر واضح اور دو ٹوک ہیں دوسرے یہ کہ اپنے منشا کی ہو بہو ترجمانی اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ دونوں چیزیں میرے نزدیک بڑی مغالطہ آمیز ہیں اور خاص کر غزل کی شاعری کے اپنے حدود میں تو ان کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ لسانیاتِ شعر بلکہ لسانی تہذیب کی روایت اور صنفی ساختی نظام کے اپنے مقتضیات ہوتے ہیں۔ یہ تقاضے ہی تخلیقی عمل کے دوران بار بار مزاحمت کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ حقیقت یا منشاء یا ابتدائی خیال کو بہرحال تہس نہس ہونا پڑتا ہے۔ شاعر کا تخیل اگر سریع الحس، رواں اور حرکت آفریں ہے تو کوئی بھی مزاحمت پھر اس کے لئے ایک دیر پا مسئلے کے طور پر برقرار نہیں رہتی۔ شاعر کے سامنے ایک سے زیادہ امکان افزا راستے کھلے ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غالب کا کلام جو حاصل جمع یا آخری شمار کے طور پر ہمارے سامنے ہے اس قسم کے کئی مراحل سے گزر کر اس سطح تک پہنچا ہے۔ معنی ،غالب کے اسی ذہنی نظام میں گھلے ملے ہوتے ہیں جس میں زبان اور وہ قواعدِ شعری بھی حل ہے، جو صرف اور صرف غالب کے اسلوبِ شعر کی انفرادیت کی تعیّن کرتی ہے۔ خود غالب نے اپنے ایک خط میں یہ واضح اشارہ کیا ہے کہ:

 

’’میدائے فیاض سے مجھے وہ دستگاہ ملی ہے کہ اس زبان کے قواعد وضوابط میرے ضمیر میں اس طرح جاگزیں ہیں جیسے فولاد میں جوہر۔‘‘

 

اس اقتباس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالب کے تخلیقی عمل کے دوران لفظ و معنی دونوں کا ورود وقوع ہم وقتی ہوتا ہے۔ یعنی دونوں ایک مرکب شکل میں ایک ساتھ واقع ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کے شاعر ہونے کے باوجود غالب کی فکر میں کم سے کم دو لختی پائی جاتی ہے۔ اگر زبان لاشعوری طور پر عمل آور نہ ہو تو ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی کسی بھی اظہار کی منزل کو بغیر لکنت اور تعلیق کے سر ہی نہیں کر سکتے۔ غالب کے شعر کا بناؤ اس قدر چست و پیوست نیز تہہ بہ تہہ کسا ہوا اور گٹھا ہوا ہوتا ہے کہ اس میں لفظ اور لفظ کے درمیان معنی خیز سکوتیے silences یا وقفے pauses یا محذوفات کی صورتیں تو تواتر کے ساتھ واقع ہوتی ہیں لیکن مصرعوں کے لسانی جماؤ میں لکنت کہیں حائل نہیں ہوتی۔ لکنت کو ہم ان رخنوں اور تاملات سے تعبیر کر سکتے ہیں جو ادائیگی کے تسلسل میں مانع آتے اور شعری قواعد کے مطابق جمی ڈھلی ہوئی ترتیبِ لفظ سے ایک خاص قسم کے آہنگ کی اکائیوں کو منتشر کر دیتے ہیں۔ استعمالاتِ لفظ کے اس طریقِ خاص اور لفظ و معنی کی یگانگت کے تصور کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان چند مثالوں پر غور کریں:

 

کہوں کیا گرم جوشی مے کشی میں شعلہ رویاں کی

کہ شمعِ خانۂ دل ، آتشِ مے سے فروزاں کی

وحشتِ آتشِ دل سے شبِ تنہائی میں

صورتِ دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے

خانہ ویراں سازیِ حیرت تماشا کیجئے

صورتِ نقشِ قدم ہوں رفتۂ رفتارِ دوست

دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں

آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لئے ہوئے

ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا

ہیں بس کہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے

ہر گوشۂ بساط ہے، سر شیشہ باز کا

وہ تشنۂ سرشارِ تمنا ہوں کہ جس کو

ہر ذرہ بہ کیفیتِ ساغر نظر آوے

اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو

تو ڑا جوتو نے آئینہ تمثال دار تھا

ہنوز محرومئ حسن کو ترستا ہوں

کرے ہے ہر بُنِ مو کام، چشمِ بینا کا

 

اب اسے خیال کہئے، مضمون کہئے یا معنی کہئے، اس کی وقعت کا سبب لسانی پیرائے کی ندرت ، لطافت اور وہ طرفگی ہے جو غالب کے شیوۂ گفتار کا سب سے نمایاں نشانِ امتیاز ہے۔

 

غالب بہ ظاہر اپنی زندگی اور اپنے خطوط میں جس قدر اپنے مجلسی ہونے کا شائبہ فراہم کرتے ہیں یا عملاً اپنی پینشن کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ وہ بہ باطن اتنے ہی نظری اور خود کوش ہیں۔ غالباً اس لئے بھی کہ ان کی حیات و کائنات کی فہم ان کے معاصرین سے قطعاً مختلف اور دانش ورانہ تھی۔ وہ محض روایت کے طور پر نام نہاد مسلمات اور زیست بسری کے مقبولِ عام معیاروں اور مذہبی عقائد و رسومات کی سخت گیر پابندیوں کو قبول نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی انانیت صدمات سے چور ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طور پر اپنی تشفی کے سامان ڈھونڈھ ہی لیتی ہے۔ وہ اپنی شکستوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں تو بڑے متناقضانہ خوش طبعی کے ساتھ جیسے ساری ذلتیں اور سارے اعزاز، سارے سود اور سارے زیاں، ساری فتحیں اور ساری ہزیمتیں آنی جانی اور سرسری ہیں، ان میں دائمیت کسی کو حاصل نہیں۔ اسی لئے ہر شئے اور ہر وقوعہ انہیں حیرت آثار اور دھند میں اٹا ہوا نظر آتا ہے۔اسی لئے ہر چیز ان کے لئے تشکیک کا باعث اور ایک مجسم سوال بن جاتی ہے۔

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا

بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

نہیں گر سر و برگِ ادراکِ معنی

تماشائے نیرنگ صورت، سلامت

لافِ تمکیں، فریبِ سادہ دلی

ہم ہیں اور راز ہائے سینۂ گداز

اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے

جتنا کہ وہمِ غیر سے ہوں پیچ و تاب میں

مری ہستی فضائے حیرت آبادِ تمنا ہے

جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عَنقا ہے

سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی

عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا

 

غالباً حیات و کائنات کی محدودیت کا احساس ضد کے طور پر ان میں لا محدودیت کے مقصود اور آرزو کو جنم دیتا ہے۔ کبھی کبھی وہ حسرتِ تعمیر پر اکتفا ضرور کر لیتے ہیں لیکن اس قسم کا اکتفا محض شاعرانہ اکتفا ہے ورنہ فضائے بسیط space اور اس کی لا محدودیت نیز دوری distance غالب کی اصل ذہنی اور وجدانی پناہ گاہ ہے۔ فضائے بسیط اور دوری دونوں احساس کی سطح پر ایک ہی معنی کے حامل ہیں۔ فضائے بسیط مکان ہی میں دوری اور دوری ہی میں فضائے بسیط کا تصور بھی پنہاں ہے۔ دوری میں ایک رومانی کشش ہے، زمان کے اعتبار سے بھی اور مکان کے اعتبار سے بھی۔ انیسویں کار بع اول یا 1857 کے گرد و پیش کے زمانے کے خلفشار ،انتشار اور افراتفری نے انسانیت کو جس بے یقینی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا، وہاں ایک دانش ورانہ ذہن کی سب سے محفوظ قلم رو اس کے اندر کی اقلیم ہی ہوتی ہے۔ غالب مجلسی زندگی کے دلدادہ ضرور تھے اور ان کا حلقۂ احباب بھی کافی وسیع تھا، لیکن باطن کی سطح پر یہ وسعت بھی ان کے لئے کچھ کم تنگ نہ تھی۔ ایک ایسی روح کی طرح وہ حیران و سرگرداں نظر آتے ہیں جسے کسی کل چین نہیں ہے۔ علائی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

 

’’قلندری و آزادگی و ایثار و کرم کے جو  دواعی میرے خالق نے مجھ میں بھر دیئے ہیں، بہ قدرِ ہزار ایک ظہور میں نہ آئے نہ وہ طاقتِ جسمانی کہ ایک لاٹھی ہاتھ میں لوں اور اس میں شطرنجی اور ایک ٹین کا لوٹا مع سوت کی رسّی کے لٹکا لوں اور پیادہ پا چل دوں۔ کبھی شیراز جا نکلا، کبھی مصر میں جا ٹھہرا، کبھی نجف جا پہنچا۔ نہ وہ دست گاہ کہ ایک عالم کا میزبان بن جاؤں۔ اگر تمام عالم میں نہ ہو سکے، نہ سہی، جس شہر میں رہوں، اس شہر میں تو کوئی ننگا بھوکا نظر نہ آئے۔‘‘

 

محولہ بالا اقتباس میں غالب نے اپنے نفس کی ساری گرہیں کھول کر رکھ دی ہیں۔ ان کے نثری بیان میں بھی تخیل کی وہی سرگرمی اور وہی لپک اور وہی سریع الحسی پائی جاتی ہے، جس کا سراغ ان کے اشعار میں پسِ پردہ ملتا ہے۔ وہ دشت کی وسعت ہویا بیابان کی نا پیدا کنار فراخی و کشادگی، زمین سے آسمان تک کا پھیلا ؤ ہو کہ ایک جہان سے دوسرے جہان تک کی دوری گویا تمام عالم محسوسات و موجودات کے معلوم اور نا معلوم حدود اور ان کے مابین کے تمام بعد اور فاصلے غالب کی محض ایک جست بھرکے ہیں۔ غالب ہر مقام پر انجماد کے مقابلے میں حرکت اور قیام کے مقابلے میں رفتار اور عافیت کے مقابلے میں آوارگی کو اسی بنا پر ترجیح دیتے ہیں کہ نفسِ آرزو کی سرگرمی ہمیشہ تازہ دم رہے۔

 

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب؟

ہم نے دشتِ امکاں کوا یک نقشِ پا پایا

میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا

میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

نہ پوچھ وسعتِ مے خانۂ جنوں غالب

جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاکِ پا انداز

سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسد

پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے

احباب ، چارہ سازیِ وحشت نہ کر سکے

زنداں میں بھی خیال، بیاباں نورد تھا

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

حبابِ موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا

میں کہ اک آفت کا ٹکڑا وہ دِل وحشی کہ ہے

عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

عرش سے ادھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا

 

 

ہماری قرأت کا تجربہ اور غالب

 

غالب کے فن اور اس کی مختلف جہتوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تاہم جب بھی غالب کے کلام کو از سرنو پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے، غالب ایک نئے بُعد کے ساتھ ہمارے تجربے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ ہمیں ہر بار نئے طور پر چیلنج بھی کرتے ہیں، ایک نئے رابطے کو راہ دینے کے لئے ہمیں اکساتے بھی ہیں۔ ہماری ذہنی شیرازہ بندی کو برہم بھی کرتے ہیں اور پھر ایک ایسے امکان سے بھی ہمیں دوچار کراتے ہیں کہ سارا ذہنی انتشار کسی نئے زاویے کے ساتھ ایک نئی ترتیب پا لیتا ہے۔ غالب کا یہ بھی ایک طرزِ خاص ہے کہ وہ کبھی پوری آواز میں بات نہیں کرتے اور نہ ہی ہم اُن سے اور نہ ہی وہ ہم سے پوری طرح متفق ہوتے ہیں۔ یہی عدم اتفاقی ہمارے ذہنوں میں ہمیشہ کرید کا باعث بنی رہتی ہے۔ دراصل غالب کے شعر کی ہر قرأت ایک کم قرأت ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا کہ every reading is miss reading یعنی ہر قرأت پر کچھ نہ کچھ چھوٹ جاتا ہے جو چھوٹ جاتا ہے اسے گرفت میں لانے کی جب ہم دوسری اور تیسری بار کوشش کرتے ہیں تب ضروری نہیں کہ ہمیں پوری تشفی ہو جائے کیونکہ غالب کو جتنا ہم construct کرتے جاتے ہیں غالب ہمیں کچھ کم deconstruct نہیں کرتے۔ جیسا کہ میں نے اپنے مضمون کے آغاز میں غالب کی شاعری اور اس کی قرأت کے تفاعل کے ضمن میں تاکیداً اس نکتے پر اصرار کیا تھا کہ جب بھی غالب کو از سر نو پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے، غالب ایک نئے بُعد کے ساتھ ہمارے تجربے کا حصہ بن جاتے ہیں۔یہ بُعد اصلاً معنی کی تعلیق سے پیدا ہوتا ہے۔ اسے معنی کی کثرت کا نام دیا جائے یا معنی کی تعلیق کا، نتیجہ معنی کے عدم استحکام کی صورت ہی میں ظاہر ہوتا ہے۔ باوجود اس کے غالب کا شعر اپنی تمام تر پیچیدگیوں اور کم آمیزیوں کے برخلاف پہلی قرأت میں ہی ایک ایسا تاثر ضرور خلق کر دیتا ہے جس کے باعث ہم پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جوں جوں ہم معنی کے تجسس میں آگے بڑھتے ہیں ۔ معنی کی گرہیں جتنی کھلتی ہیں اتنی ہی الجھتی بھی چلی جاتی ہیں۔ جس معنی پر ہم بالعموم اکتفا کر لیتے ہیں وہ محض ایک فریب ہوتا ہے۔ غالب کے یہاں فریبِ مسلسل کی یہ کیفیت ہی ہربار معنی کے نئے بُعد کی راہ بھی روشن کرتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ غالب کا ذہن ایک طویل مشق و ممارست کے بعد لاشعوری طور پر معمول اور توقع کو رد یا deconstructکرنے کی طرف مائل رہتا ہے۔ میرے نزدیک ایک بڑی مشق اور تجربے کے بعد ہمارا ذہن استعمالات زبان کے ایک خاص طریق کا عادی ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جسے ہم عادت کہتے ہیں اصلاً لاشعوری عمل ہی پر اس کی اساس ہوتی ہے۔

 

غالب کے مشابہات میں ضد کا پہلو اسی بنا پر واقع ہوتا ہے کہ وصل کے بالمقابل فصل میں انہیں زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے۔ غالب کے لسانِ شعری میں conceitکی، جسے اسلوب احمد انصاری نے رمزِ بلیغ کا نام دیا ہے، ایک خاص اہمیت ہے۔ در اصل کنسیٹ بھی ایک بلیغ استعارہ ہی ہوتا ہے ، جو اکثر پہلی سطح پر ہماری قرأتوں کو بڑی حد تک نا مانوسیت کے احساس سے دوچار کراتا ہے۔ جس میں صریحاً غیر مساوی اشیا یا جذبوں کے مابین مشابہت قائم کی جاتی ہے۔ یہ تشابہ بہ ظاہر بعیدی، بباطن متعلق ہوتا ہے۔ اس معنی میں مشابہت ہمیشہ پہلے مرحلے میں عدم مناسبت کا تاثر فراہم کرتی ہے بعد ازاں غور کرنے پر وہ مناسب اور صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اصلاً کنسیٹ متخالف اشیا و حقائق کے درمیان داخلی ربط تلاش کرنے کا نام ہے۔ غالب کے کلام میں مشابہت کا یہ عمل فکر و جذبے کے خلاقانہ انضمام، تعقل و تخیل کے کمال آفریں امتزاج، احساس و استدلال کے نادر اشتراک نیز تاثر و تصور کو جمالیاتی وحدت میں ضم کرنے سے عبارت ہے۔ غالب کے conceits میں جہاں بڑی جدت،ندرت اور تازہ کاری کا احساس ہوتا ہے وہیں ان مثالوں کی بھی کمی نہیں ہے، جن میں دماغی عرق ریزی، تخیل کے جمالیاتی وحدت گر عمل پر غالب آ گئی ہے۔ لیکن اس قسم کے اشعار کی تعداد کلامِ منسوخ ہی میں زیادہ ہے۔

 

سترہویں صدی میں جہاں ایک طرف ڈن نے متخیلہ اور متفکرہ کے جمالیاتی اشتراک کی بہترین مثال قائم کی تھی وہیں بعض اس کے معاصرین اپنے کلام میں تعقل و تخیل میں وہ یگانگت خلق نہیں کر سکے جسے تجربے کی سالمیت کا نام دیا جاتا ہے نیز جسے ہم خیال و جذبے کی وحدت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ رچرڈ کراشا کی نظمThe weeper میں conceits حد اعتدال سے اس قدر پرے ہیں کہ بَعد کے ادوار میں اکثر نقادوں نے انہیں مذاق کا موضوع بنایا ہے۔ شعرائے الزیبتھ کے عشقیہ سانیٹس میں بھی اس نوع کے دور از کار conceits کی کافی مثالیں ملتی ہیں۔ شیکسپیئر نے از راہِ تفنن ان پر گہرا طنز بھی کیا ہے جیسے:

 

میرے محبوب کی آنکھیں ایسی نہیں ہیں جیسے کہ آفتاب

(سچ تویہ ہے) کہ مرجان کی سرخی اس کے لبوں سے زیادہ سرخ ہے

 

میں نے دیکھے ہیں دمشق کے گلابی اور سفید پھول

لیکن ایسے پھولوں کی (شادابی) اس کے رخساروں میں نہیں

 

کچھ خوش بوئیں اور زیادہ لطیف ہیں

بہ نسبت میری محبوبہ کی سانسوں کی بھاپ(کی خوش بو) کے

 

شیکسپیئر ہی کے یہاں لمسی احساس سے مملو، بعض conceits یقیناً بڑے توجہ خیز ہیں جیسے رومیو جیولیٹ میں جب رومیو پہلی مرتبہ جیولیٹ کو دیکھتا ہے، تو اس کے تاثر کے اظہار میں رمزِ بلیغ کا استعمال ہی بڑا برمحل ہوا ہے۔

 

دیکھو! اس نے کیسے اپنے ہاتھوں کو اپنے گالوں پر دھر رکھا ہے

کاش! میں اس کے ہاتھوں کا دستانہ ہی ہوتا

تو (اس طرح) اس کے گال تو میں چھو سکتا تھا۔

 

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ غالب کا ذہن معمول اور توقع کو رد کرنے میں زیادہ رغبت رکھتا ہے۔ رمزِ بلیغ کی مشابہتوں میں بھی ایسے الفاظ اور لفظوں کے ایسے خوشوں سے ہمیں سابقہ پڑتا ہے جو نامانوس ہی نہیں ہوتے بلکہ جن کی معنوی سمت اندر کی طرف ہوتی ہے۔ ان کے بارے میں ہم کوئی فیصلہ کن تصور نہیں قائم کر سکتے۔ نارتھروپ فرائی نے اس قسم کے لفظی ڈھانچوں کے سلسلے میں لکھا ہے کہ:

 

’’ادب کے لفظی ڈھانچوں کی معنوی سمت اندر کی طرف ہوتی ہے۔ اسی لئے ادب میں خارجی معنی کے معائر ثانوی کہلاتے ہیں اور اسی سبب نہ تو وہ سچے ہوتے ہیں اور نہ باطل اور نہ تکرار بالمعنی کے حامل ، اس جملے کی طرح کہ ’نیک بد سے بہتر ہے‘۔‘‘

 

فرائی یہ بھی کہتا ہے کہ ادب میں صداقت اور اصلیت کے سوالات ثانوی درجہ رکھتے ہیں۔ جبکہ قائم بالذات لفظوں کے ڈھانچے خلق کرنا ادب کا بنیادی منصب ہے۔ ظاہر ہے جہاں ایسے خود کار لفظی ڈھانچوں کی کمی پائی جاتی ہے وہاں صرف زبان رہ جاتی ہے اور ہماری قرأت کسی نئے تجربے سے متصادم نہیں ہوتی۔ غالب کے conceits میں اس نوع کے خود کار لفظی ڈھانچے ان کے تخیل کے انتہائی حساس عمل پر گواہ ہیں۔ مثلاً:

 

ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق

لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر

عجز سے اپنی یہ جانا کہ وہ بد خو ہوگا

نبضِ خس سے تپشِ شعلۂ سوزاں سمجھا

قمری، کفِ خاکستر و بلبل، قفسِ رنگ

اے نالہ، نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

پا بہ دامن ہو رہا ہوں بس کہ میں صحرا نورد

خارِ  پا ہیں جوہرِ آئینۂ زانو مجھے

 

اس آخری شعر کے مفہوم میں جو معنوی پیچیدگیاں ہیں اور مشابہتوں میں جس نوعیت کا بعیدی ربط ہے، شمس الرحمن فاروقی نے اسے اپنی بحث کا خاص موضوع بنایا ہے۔ طباطبائی، بیخودؔ موہانی اور حسرت موہانی وغیرہ کی قرأتیں وہاں تک نہیں پہنچ پائی تھیں جہاں تک فاروقی پہنچے ہیں۔ اصلاً یہ شعر بھی conceit ہی کی ایک نادر مثال ہے۔ یہاں پا بہ دامن ہونا یا گھٹنے پر سر لٹکائے ہوئے بیٹھنا صحرا نوردی کے باعث پیدا ہونے والی واماندگی کا نتیجہ ہے یا مایوسی کا، اِس مخمصے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے فاروقی یہ توضیح کرتے ہیں کہ:

 

’’اب جو میں آئینۂ زانو (یعنی گھٹنے کی گول ہڈی) کو دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کانٹے جو عالمِ صحرا نوردی میں میرے پاؤں میں چبھے تھے، وہی اس آئینے کا جوہر ہیں یعنی یہ آئینہ اس لئے لائقِ دیدار بنا کہ میرے پاؤں میں کانٹے چبھے تھے۔ نہ میرے پاؤں میں کانٹے چبھتے اور نہ میں اس طرح پاؤں توڑ کر گھٹنے پر سر ٹیک کر بیٹھتا کہ آئینۂ زانو میں منھ دیکھنا نصیب ہوتا۔ صحرا نوردی کے باعث میرا آئینۂ زانو جوہر دار ہوا اور اب جب صحرا نوردی ترک ہے تو بھی وہ کانٹے اپنا جوہر دکھا رہے ہیں۔‘‘

 

اس شعر میں پا بہ دامن ہونے اور آئینۂ زانو کے جوہر دار ہونے میں جو پیکر خلق ہوئے ہیں، ان کی خوبی اپنی جگہ یہاں پر غور کر نے کا مقام یہ  ہے کہ صحرا نوردی اور پا بہ دامن ہونے میں حرکت اور سکون کی دو متضاد کیفیتوں کو غالب نے بڑی حساسیت کے ساتھ ایک واحدے میں ڈھال دیا ہے۔ اس معنی میں غالب کا ذہن اساساً وحدت گر ہے، جوبرہم بھی کرتا ہے تو شیرازہ بندی سے پہلو نہیں بچاتا۔ شمیم حنفی نے غالب کے معنویت کو عنوان بناکر جہاں کئی نکتوں کی طرف بڑے بلیغ اشارے کئے ہیں وہاں وہ غالب کے اس خاص وحدت گرانہ عمل کو بھی حوالہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

’’غالب انسانی وجود اور کائنات کی وحدت میں یقین رکھتے تھے۔ ان کے شعور کا بنیادی سروکار اجزائے عالم کی شیرازہ بندی اور یکساں انہماک اور تعلقِ خاطر کے ساتھ باہم متصادم حقیقتوں کے تجزیے سے تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شعور کی وحدت کا جیسا گیان غالب رکھتے تھے اسے آج بھی ہماری فکری شاعری کے سیاق میں ایک سب سے مختلف ایک علیٰحدہ مظہر کی حیثیت حاصل ہے۔‘‘

 

غالب کے تمام نفسی تجربوں کو ان کے اس وژن کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جسے انہوں نے ایک لامحدود رقبے پر پھیلی ہوئی انسانیت کے ذہنی اور مابعد الطبیعیاتی تجربوں سے کشید کیا ہے۔ اس وسعت میں مکان کی تحدید بالخصوص تہس نہس ہو جاتی ہے اور زمان کے اور ان زمانوں کی للک دل کی گہرائیوں میں جگہ  بنا لیتی ہے، جو اَن دیکھے ہیں لیکن غالب کا قیاس اور احتمال ان کا سراغ لگا لیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غالب کا انسان بھی لخت لخت صورت میں ہم سے مخاطب نہیں ہوتا وہ اپنی مجموعیت اور وحدت ہی میں انسان ہے۔ اگرچہ غالب کا پہلا ہی شعر  یعنی:

نقش ،فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟

کاغذی ہے  پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

 

خالقِ کائنات پر گہرے طنز کا مظہر ہے اور جو کنایۃً زندگی کا بد ہیئتی، بے حرمتی اور لغویت یا absurdity کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے۔ تاہم غالب کے اس شیوۂ گفتار میں داد خواہی یا گلہ گزاری کم، احتجاج کا پہلو زیادہ حاوی ہے۔ کیونکہ یہاں ان کا وجودی انسان ایک مسخی کردار  یعنی caricature کی شکل میں ان کا تجربہ بنتا ہے۔ لغویت کی ایک مثال یہ بھی ہے جس میں غالب نے کسی تلخی اور کڑواہٹ کے بغیر ان بہت سی نا آہنگیوں اور عدم مطابقتوں کو مترشح کر دیا  ہے جو نظامِ زندگی کے ایک خوبصورت تصور کو چیلنج کرنے کی طرف مائل ہیں۔ یہاں ان مثالی اقدار کی پائمالی کا بھی شکوہ زیر لب ہے، جن کی بحالی کا تصور بھی اب غالب کے نزدیک محال ہے۔

بے دلی ہائے تماشہ کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بے کسی ہائے تمنا ! کہ نہ دنیا ہے، نہ دیں

ہر زہ ہے نغمۂ زیر و بمِ ہستیِ و عدم

لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں

نقشِ معنی ہمہ ، خمیازۂ عرضِ صورت

سخنِ حق ہمہ، پیمانۂ ذوقِ تحسیں

لافِ دانش غلط و نفعِ عبادت معلوم

دردِ یک ساغرِ غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں

مثلِ مضمونِ وفا، باد بہ دستِ تسلیم

صورتِ نقشِ قدم، خاک بہ فرقِ تمکیں

عشق ، بے ربطئ شیرازۂ اجزائے حواس

وصل، زنگار رخِ آئینۂ حسنِ یقیں

کوہکن گرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب

بے ستوں آئینۂ خوابِ گرانِ شیریں

کس نے دیکھا، نفسِ اہلِ وفا آتش خیز

کس نے پایا، اثر نالۂ دلہائے حزیں

سامعِ زمزمۂ اہلِ جہاں ہوں لیکن

نہ سر و برگِ ستائش نہ دماغِ نفریں

 

 

مصنف کی اجازت اور تشکّر کے ساتھ (مصنف کی کتاب ’ترجیحات‘ اور مختلف مضامین سے مرتب)

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید