FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اندازِ بیاں اور۔۔ غالب

               ماخذ: اخبار اردو

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

اسد اللہ خاں  غالب اور مولانا محمد علی جوہر

               فہمیدہ ریاض

غالب کے اشعار کا سب سے پہلا انگریزی ترجمہ

کامریڈ (Comrade)ہفتہ وار انگریزی اخبار، مولانا محمد علی جوہرؔ کی امیدوں  کا مرکز، ان کے سیاسی نظریات کا ترجمان اور حق و صداقت کا نقیب تھا۔

اس پرچہ میں  مولانا نے مختلف سیاسی اور سماجی مسائل پر لکھتے ہوئے جا بجا غالبؔ کے اشعار کا استعمال کیا اور ان کا انگریزی ترجمہ بھی دیا۔ اس طرح غیر اردو داں  طبقے سے غالبؔ کو متعارف کرانے کا اولیت کا سہرا مولانا کے سر ہے۔

جن اشعار کو مولانا نے انتخاب کیا ہے۔ ان کے ذریعے انھوں  نے قوم میں  سیاسی شعور پیدا کیا۔ خود داری کے جذبہ کو ابھارا اور آزادی کی خواہش اور خواہش کے حصول کے جذبہ کو تیز تر کیا۔

مولانا کی اہمیت اس لحاظ سے سب سے زیادہ ہے کہ پہلی مرتبہ انھوں  نے غالبؔ کے اشعار کا انگریزی ترجمہ کیا۔ ان کے استعمال سے ان کی سیاسی اور سماجی اہمیت اور افادیت کو واضح کیا اور بتلایا کہ ہماری تحریک آزادی میں  غالب کس طرح شریک رہے۔ حسن و عشق کے افسانوں  سے ہٹ کر انھوں  نے زندگی کے وسیع تجربوں  کو کس طرح سمیٹ کر الفاظ میں  مؤثر انداز میں  پیش کیا ہے۔

مولانا محمد علی کو غالبؔ سے روحانی تعلق تھا۔ اپنی تحریروں  میں  سب سے زیادہ غالبؔ کے اشعار محمد علی نے استعمال کیے۔ افکار کے ہجوم میں  بار بار ان کے اشعار کو یاد کیا۔ پڑھا اور سنایا۔ نا امیدی اور غموں  کی یورش میں  غالب کے اشعار سے اپنے غم کو ہلکا کیا۔ مرزا غالبؔ کے مزار کی تعمیر و مرمت اور غالب کے شایان شان یادگار قائم کرنے کی تجویز سب سے پہلے مولانا نے پیش کی۔ ۱؂

مولانا محمد علی نے کامریڈ میں  غالب کے جو اشعار پیش کیے ہیں  ان سے مولانا کی (۱) ذہنی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ ( ۲ ) ان کے دل کا معاملہ کھلتا ہے۔

ان اشعار میں  جو ذہنی اضطراب ہے وہ مولانا کے ذہن میں  رچا بسا ہوا ہے۔ وہ اشعار اس مرد مجاہد کے دل کی کیفیتوں  کو ظاہر کرتے ہیں۔ غالب کی مانند مولانا کی آرزوئیں  اور خواہشیں  نا تمام رہ گئیں۔ خواب ٹوٹ گئے۔ غالب کے اشعار میں  وہی درد و کرب ہے جو مولانا کی روح محسوس کر رہی ہے۔

’’ترجمے میں  اصل کی خوبیاں  بہت مشکل سے آتی ہیں۔ مترجم لوگوں  کو اس عظیم زبان کے چند خوبصورت نمونے دکھانا چاہتا ہے جو شعلوں  کی طرح روشن ہیں۔ جن سے وہ خود گرمی لیتا ہے۔ جس کی گرمی اس کے جذبات کی گرمی سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ ‘‘

کامریڈ اور ہمدرد کی ضمانت کی ضبطی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

It is at times such as this that iron enters into the soul of a man and his reason deserts him. It is such a condition that Ghalib has depicted for us in his well known verse.

وفا کیسی، کہاں  کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں  کیوں  ہو

What fidelity and what love! When it has come to battering one’s head, why then should it be the stone of thy threshold, o stone- hearted one.

محمد علی نے غالب کے اشعار کا جو انگریزی ترجمہ کیا ہے وہ ادبی خدمت یا ترجمے کی نیت سے نہیں  کیا۔ وقت کا تقاضا تھا۔ رجحانات کی ہم آہنگی تھی۔ ان اشعار میں  مولانا کو اپنا کرب ملا۔ یہ ترجمہ سادہ نثر میں  ہے، لفظی ہے۔ مولانا کی انگریزی زبان و ادب پر قدرت، علمی ژرف نگاہی، روایتی تحریر اور فنی بصیرت نے ترجمہ کو خاصے کی چیز بنا دیا ہے۔

کسی زبان کی شاعری کا ترجمہ کرنا مشکل کام ہے۔ غالب کے اشعار کے ترجمے میں  یہ بات اور دقت طلب ہو جاتی ہے۔ غالب کے الفاظ میں  جو معانی کا طلسم ہے۔ ان کے اشعار میں  جذبات اور احساسات کی جو گرمی اور سردی ہے۔ ایسے بیان کرنا، سمجھانا آسان نہیں۔ اس کو دوسری زبان کے پیکر میں  پیش کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ مولانا اس حقیقت سے واقف تھے۔ اسی لیے انھوں  نے باقاعدہ طور پر سنجیدگی سے اس کام کا ارادہ یا کوشش نہیں  کی۔ ورنہ اس میں  بھی ان کے جوہر نمایاں  ہوتے۔ تاہم جو کچھ کیا ہے اس کی اہمیت، افادیت، ادبیت سے انکار نہیں  کیا جا سکتا۔

ترجمہ صرف کام چلانے کی خاطر کیا گیا تھا۔ چند اعتبار سے اس ترجمے کی اہمیت مسلم ہے۔

( ۱ ) غالب کے اشعار کا پہلا ترجمہ ہے۔

( ۲ ) ترجمہ دیانت داری سے کیا گیا ہے۔

( ۳ ) ترجمہ نثر میں  ہے۔ کیفیات اور احساسات سے پُر ہے۔

( ۴ ) شعر کے اصل مفہوم کو سامنے رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ وہ کہیں  مجروح نہیں  ہوتا۔

( ۵ ) مفہوم کو صحت کے ساتھ انگریزی میں  پیش کر دیا ہے۔

( ۶ ) غالب کے اکثر مترجمین نے اشعار کا ترجمہ کرنے میں  غلطیاں  کی ہیں۔ مولانا محمد علی کے ترجمہ میں  یہ غلطی نہیں  ہے۔

( ۷ ) بعض اشعار کو مولانا نے مختلف موقعوں  پر استعمال کیا ہے اور موقعہ کی مناسبت سے ترجمہ کیا ہے۔

ہو چکیں  غالب بلائیں  سب تمام

اک مرگِ ناگہانی اور ہے

All afflictions o Ghalib!, are over only one remains, a sudden death. ۲؂

دوسری مرتبہ اس کے ترجمے میں  trialsکا لفظ استعمال کیا ہے۔

All trials are now over, o Ghalib, Sudden death is the only one that remains.. ۳؂

غالب کے اشعار کے ذریعے مولانا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس طرح ان کے نہاں  خانۂ دل کے حجابات بھی اٹھ گئے اور ان اشعار کے واسطے سے کامریڈ کے پڑھنے والوں  سے مولانا مخاطب ہوئے۔ اس ترجمے کا ایک انداز خطابیہ بھی ہے، ملاحظہ کیجیے۔

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

آؤ نہ ہم بھی سیر کریں  کوہ طور کی

Why need it be supposed that all would receive the similar answer? Come, let us also climb the Mount Sinai. . ۴؂

مولانا محمد علی کے ترجمۂ غالب کی افادیت اور اہمیت سے انکار نہیں  کیا جا سکتا لیکن (۱) اس ترجمے کی اہمیت ادبی نہیں۔ (۲) یہ ترجمہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ (۳) صحافتی عجلت میں  ترجمہ کیا گیا ہے۔

ذیل میں  غالب کے اشعار اور ان کا انگریزی ترجمہ درج کیا جاتا ہے۔

نکالا چاہتا ہے کام طعنوں  سے تُو اے غالب

ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں  کیوں  ہو

Thou wishest to have thine own way by taunting him. O Ghalib! But why should he favour thee, merely because thou accuses him of unkindness.. ۵؂

نا صح سے نہ لڑتے ہیں  نہ واعظ سے جھگڑتے ہیں

ہم سمجھے ہوئے ہیں  اسے جس بھیس میں  جو آئے

Why fight with our counselor or quarrel with the sermoniser. we understand every one in what so ever guise he may come. . ۶؂

ہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے کیوں  نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں  مزار ہوتا !

If by dying we are ashamed, why did we not drown ourselves? Never would the pier have been carried nor would have been a grave anywhere.. ۷؂

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زُود پشیماں  کا پشیماں  ہونا

He has resolved to give up oppressing his friends after having killed me on the premature repentance of the penitent .. ۸ ؂

جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید

مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو

When the tavern is deserted, what matters the place ? It may be a mosque , a school or the abode of the saint.. ۹؂

نہ لٹتا دن کو تو یوں  رات کو کیوں  بے خبر سوتا

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں  رہزن کو

If I had not been robbed in the day could I have slept so soundly at night? The fear of the theft is gone and I gratefully pray for the thief.. ۱۰؂

نظر لگے نہ کہیں  ان کے دست و بازو کو

یہ لوگ کیوں  مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

I fear lest the evil eye should effect the strength of his hand and arm. why do these people stare at the wound of my heart?. ۱۱؂

ہو چکیں  غالب بلائیں  سب تمام

اک مرگِ ناگہانی اور ہے

All afflictions O Ghalib! are over only one remains a sudden death. . ۱۲؂

۱۹۱۲ء میں  ترکی کے سیاسی حالات کی ابتری کے سلسلے میں  مولانا جوہر نے غالب کے اس شعر کو نقل کیا تھا۔

چت رنجن داس کی موت کے بعد محمد علی نے ۲۶ جون ۱۹۲۵ء کے کامریڈ کے ایک مضمون کے سلسلے میں  پھر اس شعر کو نقل کیا اور اس کا یہ ترجمہ کیا۔

All trials are over now , o Ghalib! Sudden death is the only one that remains.. ۱۳؂

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی

Every one of lust has become a worshipper of beauty, the honour of the cult of beauty is now gone.. ۱۴؂

۱۹۱۳ء میں  لکھنؤ میں  مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا۔ مولانا نے اس وقت کے حالات کے پیش نظر سلف گورنمنٹ Self Govt.)) کے خیال کی مخالفت کی۔ اس وقت مولانا نے غالب کا ذیل کا اشعر استعمال کیا تھا۔

وفا کیسی، کہاں  کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھراے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں  کیوں  ہو

Fidelity and love! What fidelity and love? When it comes to breaking one’s head, why need it be the stone of thy threshold. O heart of stone.. ۱۵؂

۱۹۱۴ء میں  کامریڈ کی ضمانت ضبط کئے جانے کا نوٹس ملا۔ مولانا نے پھر اس شعر کو نقل کیا ہے۔ اور اس کا ترجمہ یوں  کیا ہے۔

What fidelity and what love! When it has come to battering one’s head, why then should it be the stone of thy threshold O, stone hearted one.. ۱۶؂

کمزوریوں  نے کام سب آسان کر دیئے

اب ضبطِ آہ و نالہ بھی مشکل نہیں  رہا

Weakness has made everything easy. It is not difficult to suppress the sighs and the wails.. ۱۷؂

غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں

مولانا نے غالب کا یہ شعر کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ ’’گپ‘‘ کامریڈ کا مقبول کالم تھا۔ کچھ عرصے تک وہ یہ کالم نہ لکھ سکے۔ ۲۱ جنوری ۱۹۱۴ء کے شمارے میں  گپ کا کالم پھر لکھا تو یہ شعر استعمال کیا اور یہ ترجمہ کیا۔

What is there that does not go just as before with out Ghalib ! why shed copious tears and why wail for him.. ۱۸؂

۷ نومبر ۱۹۱۴ ء کو کامریڈ کی ضبط�ئ ضمانت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ خریدار بقایا رقم ادا کر دیں  تو کامریڈ ایک سال کے اندر نکلے گا۔ ورنہ

What is there that can not go just the same without Ghalib. Then why weap fast , falling tears and why make mean.. ۱۹؂

۱۹۵۰ء میں  ہمدرد اور کامریڈ کی مالی حالت کی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے پھر اس شعر کو دہرایا اور یوں  ترجمہ کیا۔

What purpose is left unserved without Ghalib why weap copiously and where fore cry "alas” and slack.. ۲۰؂

دونوں  جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا

یاں  آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

After giving away the two worlds he thought he has got rid of us. And we are embarrassed by the gift and inclined to think it would be ungracious.. ۲۱؂

٭٭٭

ماخذ:

http://www.nla.gov.pk/uakhbareurdu/january2012/Jan_5.html

 

حافظ اور غالب، انداز بیاں  کے تناظر میں

               قور الدین خورشید

فارسی شاعری میں  حافظ کو جو مقام حاصل ہے وہی مقام اردو شاعری میں  غالب کو بھی حاصل ہے۔ فارسی شاعری میں  مقبولیت کے حوالے سے چار شاعر سامنے آتے ہیں  : فردوسی، خیام، سعدی اور حافظ۔ فردوسی کا شاہنامہ، خیام کی رباعیات، سعدی کی گلستان و بوستان فارسی ادب کے شہ پارے ہیں  اور اس میں  کوئی شک نہیں  لیکن غنائیت میں  حافظ کی شاعری ان عظیم شعراء کی شاعری سے آگے نکلتی نظر آتی ہے اور یہی شعری غنائیت حافظ کو مقبولیت میں  ان شعراء سے آگے لے جاتی ہے۔

اردو شاعری میر تقی میر کے ارد گرد گھومتی نظر آتی رہی، مگر اپنے کو اور سودا کو پورا شاعر گردانتے تھے، خواجہ میر درد کو آدھا اور میر سوز کو پونا، بعد کے شاعروں  نے بھی میر کو استاد مانا جن میں  غالب بھی شامل ہیں  :

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ

آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں

ریختہ کے تمہی استاد نہیں  ہو غالب

کہتے ہیں  اگلے زمانے میں  کوئی میر بھی تھا

لیکن پھر یہی غالب آگے جا کر کہہ اُٹھے :

ہیں  اور بھی دنیا میں  سخنور بہت اچھے

کہتے ہیں  کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں  اور

حافظ بھی اپنے بارے میں  یہ کہہ چکے ہیں  :

من و سفینۂ حافظ کہ جُز درایں  دریا

بضاعتِ سخن دُرفشاں  نمی بینم

دیوانِ حافظ اور دیوانِ غالب کا مطالعہ کریں  تو اکثر موضوعات میں  بھی دونوں  کے ہاں  مطابقت نظر آتی ہے جو اہلِ نظر کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی جس کی چند مثالیں  دی جا رہی ہیں  :

سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر، نالۂ دل

ایں  ہمہ از اثرِ لطفِ شما می بینم

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغ محفل

جو تری بزم سے نکلا وہ پریشاں  نکلا

ہر چند پیر و خستہ دل و ناتواں  شدم

ہرگہ کہ یاد روئے تو کردم جواں  شدم

اُن کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں  کہ بیمار کا حال اچھا ہے

آفریں  بر دلِ نرمِ تو کہ از بہرِ ثواب

کشتۂ غمزۂ خود را بنماز آمدۂ

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زُود پشیماں  کا پشیماں  ہونا

جامِ جمشید بمن رہ کہ نیر زد بر من

گنجِ قاروں  بجو و ملک سلیماں  دُبدوجَو

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے

سب کہاں  کچھ لالہ و گل میں  نمایاں  ہو گئیں

خاک میں  کیا صورتیں  ہوں  گی کہ پنہاں  ہو گئیں  !

در چمن ہر ورقے دفترے حالے دگرست

حیف باشد کہ زکارِ ہمہ غافل باشی

یہ تو مطابقت کی بات ہو گئی جس کی مثالیں  بھی پیش کر دی گئیں۔ اب آئیے دونوں  کے اندازِ بیان کے بارے میں  بھی کچھ بات ہو جائے، اس کے لیے بھی اوپر دیے گئے اشعار کا ہی جائزہ لیتے ہیں : حافظ کے پہلے شعر کو لیتے ہیں  اور پھر ساتھ ہی درج شدہ غالب کا شعر دیکھتے ہیں  اور دیکھتے ہیں  کہ انداز بیاں  کے حساب سے غالب کا شعر حافظ سے آگے نکلتا نظر آتا ہے۔

غالب کو اپنے انداز بیان کے بارے میں  کما حقہ‘ ادراک تھا اور ایسا ادراک کہ میر جیسے شاعر کو بھی چیلنج کر دیا۔ یہ الگ بات کہ تا حیات وہ اپنے ہم عصروں  کی طعن و تشنیع کا نشانہ بنتے رہے لیکن پھر بھی انھیں  اپنی شاعری اور اپنے انداز بیان کی اوّلیت کا پورا اندازہ، یقین کی حد تک تھا۔ غالب کو جو ماحول ملا تھا اس ماحول میں  اُن کا یہ یقین، اللہ اکبر۔ یہاں  تک کہ اُن کے اپنے ہمدرد بھی اُن کے شعری رویے اور انداز بیان سے مطمئن نہیں  تھے اور یہاں  تک ہوا کہ اُن کے اردو دیوان کی قطع و بُرید کر ڈالی۔ وہ تو شکر ہے کہ اُن کا باقی ماندہ کلام دست بزدرِ زمانہ سے محفوظ رہا ورنہ آج ہم غالب کے اردو کلام کے بقیہ حصے سے محروم رہتے جو غالب کے ساتھ بے انتہا زیادتی ہوتی۔ غالب کی فارسی شاعری کا اپنا مقام ہے لیکن غالب کو بڑا بلکہ عظیم شاعر اُس کے اردو کلام نے بنایا، ایک زمانہ اُس کا مخالف تھا اور اس مخالفت میں  حد کا عنصر غالب تھا، ایسے حالات تھے لیکن پھر بھی غالب شعر کہتے رہے :

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

گر نہیں  ہے مرے اشعار میں  معنی نہ سہی

یہ جو اوپر مثالیں  دی گئی ہیں۔ مطابقت کی، اندازِ بیان کی یہ مشتے از خروارے‘ ہے۔ میری نظر میں  یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے، مطابقت بھی اور انداز بیان بھی بلکہ اصل موضوع میری رائے میں  انداز بیان ہے۔ مطابقت تو اس کا ایک جُزوی حصہ ہے، یہ انداز بیان ہی ہے جو کسی شاعر کے کلام کو نیا پن دیتا ہے اور مجھے اس حوالے سے غالب منفرد نظر آتے ہیں  اور اس سلسلے میں  اب میں  جو مثال دینے والا ہوں  اس سے میری اس بات کی تصدیق ہو جائے گی۔ تھامس گِرے کی ایک مشہور نظم ہے

Elegy Written in a Country Church yard

یہ ایک طویل نظم ہے جو ۱۲۸ لائنوں  پر مشتمل ہے۔

اب دیکھیے رفتگان کے بار ے میں  غالب کیا کہتے ہیں  :

سب کہاں  کچھ لالہ و گل میں  نمایاں  ہو گئیں

خاک میں  کیا صورتیں  ہوں  گی کہ پنہاں  ہو گئیں

کتابیات :

۱۔ دیوان حافظ، چاپ دوم، موسہ چاپ و انتشارات امیر کبیر، سال یک ہزار و سیہ صد و سی و ہفت۔

۲۔ دیوان غالب اردو (نسخۂ عرشی) مرتبہ امتیاز علی خان عرشی، مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۹۲ء

3. Poetry Electival, ed. john Bellenbindire, Dell, 1966

۴۔ دیوانِ حافظ (مترجم)، مولانا قاضی سجاد حسین (دہلوی)، مشتاق بک کارنر، لاہور۔

۵۔ آبِ حیات، محمد حسین آزاد، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، اردو بازار لاہور۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.nla.gov.pk/uakhbareurdu/february2012/Feb-8.html

 

غالب کا ایک غیر مدون، نو دریافت فارسی مکتوب بنام سرسید احمد خان

سیدِ عالی جناب، خدا آپ کو سلامت رکھے۔

جناب کے فرمانِ الفت آثار کے پہونچنے سے مجھے خوشی ہوئی۔ لیکن جس کام کی تعمیل کا حکم دیا گیا ہے اس سے رنجیدہ (ہوا)۔ کسی (شاعر) کے ایک دو شعر لے کر اس کلام پر اپنی طرف سے دو چار اشعار کا اضافہ کر دینا (بھلا) کون سا اصولِ سخن وری اور اندازِ معنی پروری ہے۔ خاص طور پر یہ دو اشعار کہ جن میں  سوائے عربی کے بھاری بھرکم الفاظ کے کوئی نازک خیالی موجود نہیں۔ اور مزید یہ کہ یہ ایسی بحر میں  کہے گئے ہیں  کہ ایرانیوں  میں  سے بھی کسی نے اس بحر میں  غزل نہیں  کہی۔ اس میں  دو اشعار بڑھا کر چاہے اس کو مسدّس نام دیں  یا ترجیع بند کے نام سے پکاریں۔ خصوصاً یہ اس لائق ہیں  کہ بھکاری ان کو یاد کر لیں  اور دروازے دروازے پُر سوز لَے میں  گاتے پھریں  اور خاتم المرسلین کا کوئی عاشق یہ اشعار سنکر بے خود ہو جائے اور کوئی اپنا گریبان پھاڑ ڈالے۔ نہیں  نہیں  ہر گز نہیں۔

مخدومی مولوی غلام امام شہید سلمہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کہا ہے خوب کہا ہے اور اس سے بہتر نہیں  کہا جا سکتا۔ لیکن یہ شاعری اور سخنوری نہیں  ہے۔ یہ کوئی دوسری چیز ہے جسے مجلسِ مولود شریف کہا جا سکتا ہے۔ اس فقیر نے نعت اشرف المرسلین علیہ و آلہٖ السلام میں  قصیدے اور مثنویاں  کہی ہیں۔ ان تمام میں  سے ایک مثنوی نقل کر کے ارسال کر رہا ہوں۔ اس کو دیکھیں  اور پڑھیں  اور اس خادم سے ایسے اشعار کی کہ جو شیوۂ سخنوری کے خلاف ہوں  آرزو نہ کریں  اور مجھے اپنا خادم تصور کریں۔ اور اپنے برادر بزرگ کی خدمت میں  میرا سلام پہونچائیں۔ والسلام۔ ازاسداللہ خاں۔

               توضیحات

’’یہ خط سرسید احمد خان کے نام اس وقت لکھا گیا جب وہ فتح پور سیکری میں  بہ حیثیت منصف تعینات تھے اور چونکہ مین پوری سے ان کا تبادلہ فتح پور سیکری کے لئے بتاریخ ۱۰ جنوری ۱۸۴۲ء ہوا اور جہاں  وہ ۱۸ فروری ۱۸۴۷ء تک رہے اس لیے یہ حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ خط ۱۰جنوری ۱۸۴۲ء کے بعد ۱۸ فروری ۱۸۴۷ء تک کسی تاریخ کو لکھا گیا۔ خط کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ تاجدار مغلیہ کے دربار سے ان کو ’’جواد الدولہ سید احمد خان بہادر عارف جنگ کا خطاب مل چکا تھا لیکن تاحال وہ ’’سر‘‘ نہیں  ہوئے تھے۔ خط کی شان نزول یہ ہے کہ سرسید احمد خان نے غالبؔ کو غلام امام شہید کے دو نعتیہ اشعار بھیج کر ان پر تضمین کرنے کی فرمائش کی تھی۔ غلام امام شہید الہ آباد کے رہنے والے اور محمد حسین قتیلؔ کے شاگرد تھے۔ نواب محی الددلہ اور راجہ گردھاری پرشاد کی بے انتہا قدر و منزلت کے سبب حیدر آباد میں  متمکن تھے جہاں  مولود پڑھنے اور نعت گوئی کے سبب ان کے عقیدت مندوں  کا ایک وسیع حلقہ تھا۔ غالبؔ نے جنہیں  محمد حسین قتیلؔ سے کلکتہ کے قیام کے زمانے سے پُرخاش تھی اور شہید سے اس لیے بیر تھا کہ حیدرآباد میں  اُن کی انتہائی قدر و منزلت ہو رہی تھی، اس فرمائش کو اپنی کسرِ شان سمجھا اور جواب میں  لکھ بھیجا کہ یہ اشعار سچی شاعری اور سخنوری کے محیط سے باہر ہیں۔ ہاں  البتہ اس لائق ضرور ہیں  کہ بھکاری ان کو لہک لہک کر دروازے دروازے گاتے پھریں۔ ’’نعت میں، میں  نے بھی قصیدے اور مثنویاں  لکھی ہیں۔ ان میں  سے ایک مثنوی ارسال کر رہا ہوں۔ اس کو دیکھیں  اور پڑھیں  اور اس خاد م سے ایسے اشعار کی جو شیوۂ سخنوری کے خلاف ہوں  آرزو نہ کریں۔ ‘‘

یہ خط نثار احمد فاروقی کی ’’تلاش غالبؔ ‘‘ مطبوعہ غالب انسٹی ٹیوٹ ۱۹۹۹ ء سے لیا گیا ہے۔ جس میں  خط کے ماخذ کے بارے میں  مندرجہ ذیل تحریر ملتی ہے۔ ’’اس خط کا ماخذ ایک قلمی نسخہ ہے جس میں  بہارِ دانش وغیرہ متعدد کتابیں  ہیں۔ یہ (نسخہ) انجمنِ محمّدیہ آگرے کے کتب خانے میں  محفوظ ہے۔ اُسی کے ایک سادہ ورق پر کسی نے غالبؔ کا یہ خط نقل کر دیا ہے۔ اس کی پیشانی پر ایک مہر بھی لگی ہوئی ہے (اصلح الدین۱۲۶۷ھ) صاف پڑھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خط غالبؔ کی زندگی میں  نقل ہوا ہے۔ ‘‘

تلاش غالب – از نثار احمد فاروقی، غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی ۱۹۹۹

_______________

۱؂ : مترجم تقریباً بارہ چودہ سال سے غالبؔ کے فارسی خطوط پر بڑی یکسوئی سے کام کر رہا ہے۔ نتیجۃً غالبؔ کے وہ تمام مکتوبات جو متداولہ کتابوں  میں  موجود ہیں  کلیات مکتوبات فارسی غالبؔ کے عنوان سے نیشنل بک فاؤندیشن اسلام آباد سے سنہ ۲۰۰۸ء میں  طبع ہو چکے ہیں۔ اب دوسرا قدم غالبؔ کے پراگندہ فارسی خطوط کی جمع آوری کا ہے۔ اس ضمن میں  بھی غالبؔ کے بہت سے نو دریافت خطوط ابتدائی مراحل سے گزر کر اردو ترجمے اور حواشی کے ساتھ غالبؔ شناسوں  اور تشنگانِ ادب تک پہنچ چکے ہیں۔ زیرِ نظر خط بھی اسی کوشش کا مظہر ہے۔ چنانچہ اخبارِ اردو (مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد) کی وسعتِ رسائی اور ہر دل عزیزی کو نظر میں  رکھتے ہوئے مترجم اس کے موقر قارئین سے درخواست کرتا ہے کہ اس کارِ خیر میں  اُس کی عملی اور مستعد معاونت کریں  اور جہاں  کہیں  غالبؔ کے فارسی مکتوبات/مکتوب ملیں /ملے یا ملنے کا امکان ہو مترجم کو براہ راست مندرجہ ذیل پتے پر مطلع کریں۔ غالب شناسی کے حق میں  یہ عظیم خدمت ہو گی۔ یقیناًسیکڑوں  نہیں  تو دسیوں  غالبؔ کے انتہائی اہم خطوط گوشۂ لا علمی میں  پڑے ہماری توجہ کے منتظر ہیں۔

٭٭٭

ماخذ

http://www.nla.gov.pk/uakhbareurdu/may2012/May_iv.html

 

 

بقائے باہمی کا تصور غالب کی نظر میں

               مقصود الہٰی شیخ

غالب شناسی کے لئے ان کی شاعری، شخصیت، نظریات اور کسی حد تک ان کے خاندانی پس منظر سے واقفیت ضروری ہے۔ شائقین ادب اور ادبی ذوق رکھنے والے طلبا یہ جاننا چاہتے ہیں  کہ دو سوسال گزر جانے کے باوجود غالب کی مقبولیت اور عظمت کم نہیں  ہوئی بلکہ اس میں  اضافہ ہوا ہے۔ تو اس کا سبب کیا ہے ؟ ہم کو زیادہ نہیں  تھوڑا سا پلٹ کر دیکھنا ہو گا۔ اس زمانے کی تاریخ اور سیاسی حالات پر نگاہ کرنی ہو گی۔

غالب سے پہلے ان کے خاندان میں  کوئی شاعر تھا ؟ اس کا کھوج نہیں  ملا۔

اس کا مطلب ہے وہ اپنی صدی کی پیداوار تھے۔ ان کی قابلیت، ذہانت اور خداداد تخلیقی صلاحیتوں  سے ثابت ہوا کی وہ ایک نابعہ تھے!

ان کے دادا قوقان بیگ اپنے والد ترسم خان سے ناراض ہو کر بر صغیر آئے اور رہ بس گئے۔ قوقان بیگ لاہور پہنچ کر نواب معین الملک عرف میر منو کے یہاں  ملازم ہو گئے۔ میر منو کی وفات کے بعد پنجاب میں  ابتری پھیل گئی اور مرزا قوقان بیگ پھر بے گھر ہو گئے اور دہلی چلے آئے۔ آگے چل کر اس سے زیادہ اس حوالے کی ضرورت پڑے گی نہ اس کا کوئی جواز ہو گا۔ مؤرخ و محقق تفصیلات کی گہرائی میں  اتر کر اپنی تشنگی بجھا سکتے ہیں۔ بات ہے، ہم اپنے گھروں  میں  پڑتال کریں  تو اولاد زیادہ سے زیادہ دادا یا پر دادا کا نام جانتی ہو گی۔ در حقیقت عام بندے کا گڑی نال کھودنے کے لئے افریقہ جانا لازم نہیں۔

مرزا غالب کے اپنے قول کے مطابق سو برس سے ان کا پیشہ سپاہ گری تھا۔ اس کے علاوہ ان کے اجداد کی زمینداریاں  بھی تھیں۔ یہ لوگ ترک تھے اور سمر قند سے بر صغیر آئے۔ غالب کو اپنے ترک ہونے اور اپنے خاندان کی اونچان پر بڑا فخر تھا جبکہ دلچسپ بات یہ سامنے آتی ہے کہ غالب جن آباء اور ان کے پیشوں  کا حوالہ دیتے اور عزت و فخر محسوس کرتے تھے۔ ان سے ان کا اپنا تعلق دال برابر نہ تھا۔ وہ کاتب تقدیر سے کچھ ایسا ویسا ہی لکھوا لائے تھے۔ بے چاروں  نے مرتے دم تک غربت جھیلی اور افلاس کا منہ دیکھا۔ مہاجن سے ادھار کھایا، جواء کھیلا، گرفتار ہوئے۔

مختصر، شاعری اور خواری ہی حصے میں  آئی۔ ماتھے پر پھر بھی شکن نہ آئی۔

غالب کو مشکل وقت اور بے روز گاری میں  زیست کرنا، دوسروں  کے ساتھ مل جل کر امن کے ساتھ رہنا، نبھانا آتا تھا۔ تلخی ء حیات نے ان کو بقائے باہمی کے گر سکھادیئے تھے۔ ان میں  ضروری لچک پیدا ہو گئی تھی اور وہ "کسی دوسرے” کے لئے اپنا مذہب تک ترک کرنے پر تیار ہو جاتے تھے۔

ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ اپنا مذہب چھوڑ کر

میں  ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں  ہو گیا

غالب سیدھے سادھے تھے نہ الٹے سلٹے۔ وہ ان سانچوں  سے ہٹ کر کچھ نئے تھے۔ شوخی شرارت ان میں  کوٹ کوٹ کی بھری تھی۔ استطاعت نہ سہی استعداد تھی۔ قدرت نے قابلیت اور لیاقت کے ساتھ نازک جذبوں  کی ترسیل اور تخلیقی صلاحیتوں  سے سخاوت کے ساتھ نوازا تھا۔ شاعری میں  اپنے تئیں  تلمیذ الرحمان کہتے تھے۔ معاشرے اور طبقاتی اونچ نیچ کا ادراک تھا، چلبلے تھے، معصوم نہ تھے۔ خود ہی سوال کرنا اور جواب دینا اور ہے کہ جب سے وہ چےچھ عر جواب میں  ایک اور استفہام و استعجاب گوندھ دینا غالب کے بائیں  ہاتھ کا کھیل تھا، کرشمہ تھا۔ جرات اظہار و خود اعتمادی سے جھولی بھری تھی۔ واجبی سے مسلمان تھے۔ نماز سے فرار تھا۔ روزے بھی نہیں  رکھتے تھے۔ قرض لے کر شراب پیتے تھے۔ گرد و پیش کا ماحول ہی کچھ ایسا تھا ” وہ کون تھا جو خرابات میں  خراب نہ تھا”۔

مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو

یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

غالب نے عذر تو پیش کر دیا لیکن وہ اسے عیب نہ سمجھتے تھے ان کے اندر رومانیت کا انبار تھا اور وہ اس میں  شرابور تھے۔ یہاں  قابل غور نکتہ یہ ہے کہ وہ خود اپنی خواہش کی دونوں  عوامی اور خصوصی سرور کی سطحیں  ایک کر چکے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی تجزیہ کرے تو اس نوعیت کے اشعار سے غالب کے مزاج کے پرت کھل جاتے ہیں۔

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں  اس کی ہیں

تیری زلفیں  جس کے بازو پر پریشاں  ہو گئیں

تودوسری طرف :

اسد خوشی سے مرے ہاتھ پانو پھول گئے

کہا جو اس نے ذرا میرے پانو داب دے

نوبت اس سے آگے تک پہنچتی ہے:

دھوتا ہوں  جب میں  پینے کو اس سیم تن کے پانو

رکھتا ہے ضد سے کھنچ کے باہر لگن کے پانو

حسن پرستی غالب کا شعار تھا۔ محبوب کی زلفیں  شانوں  پر پریشان دیکھنے کی آرزو کے ساتھ اسے چھونے کی لطافت سے بھی محروم نہیں  رہنا چاہتے تھے۔ غالب ڈومنی سے عشق کو گراوٹ نہیں  سمجھتے تھے۔ یہ اس زمانے کا فیشن تھا۔ غالب عاشق تھے، کافر تھے۔ اس زمانے میں  ہوتے تو سنگسار کر دئیے جاتے۔ ان پر حد جار ی کر دی جاتی۔ الٹا لٹا کر سر عام کوڑے لگائے جاتے۔ زمانہ بقائے باہمی کا تھا اور غالب اس میں  سر تا پا ڈوبتے ہوئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حالات کے باوجود مرزا غالب کی سماجی توقیر میں  کوئی کمی نہ آئی۔ بلاشبہ وہ ایک مقبول و معروف شاعر و شخصیت تھے۔ ان کے یہاں  تضاد تھا تو یہ ان کی انفرادیت اور صلح کل فطرت کو اجاگر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ Sophistication ان کے کلام کو ایک حزن، رجائیت سے مخلوط تاسف کا حسن دے رہی ہے۔

کہتا ہے کون نالہ ء بلبل کو بے اثر

پردے میں  گل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے

مناسب ہو گا تھوڑا سا ذکر اس رخ کا بھی کر دیا جائے کہ بعض مقامات پر غالب نے مرد م بے زاری کا اظہار بھی کیا ہے۔

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں  کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں  کوئی نہ ہو

یہ ساری غزل یاسیت میں  لت پت اور بیزاری کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ ایک اور بڑی عمدہ غزل اسی رنگ کو دور تک لے جاتی ہے۔ ایک شعر بھی جذب و کیف سے خالی نہیں !آپ ہی آپ آنکھوں  سے پلکوں  پر گریاں  کی کیفیت طاری کر رہا ہے۔

وارستہ اس سے ہیں  کہ محبت ہی کیوں  نہ ہو

کیجئے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں  نہ ہو

چھوڑا نہ مجھ میں  ضعف نے رنگ اختلاط کا

ہے دل پہ بار نقش محبت ہی کیوں  نہ ہو

دم نہیں  رہا مگر پلٹا کے ہاتھ مارتے ہیں :

ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ

ہر چند بر سبیل شکایت ہی کیوں  نہ ہو

ڈالا نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ

اپنے سے کھنچتا ہوں  خجالت ہی کیوں  نہ ہو

پوری غزل خلوت کو انجمن کا درجہ دے رہی ہے۔ غالب کی خیال آرائیاں  محض شاعرانہ بڑھکیں  نہیں  ہیں  ان میں  گہرائیاں  ہیں۔

نظر میں  ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالب

کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں  کا

غالب ایک سمندر ہے۔ ہر مٹھی میں  موتی بے کاوش چلے آتے ہیں  اور  اس کی پہلو دار تخلیقیت کا سحر محیط ہو جاتا ہے۔

یہ مسائل تصوف، یہ ترا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

توجہ فرمائیے "ڈبویا مجھ کو ہونے نے۔ نہ ہوتا تو کیا ہوتا” کیا یہ سوچ نہیں  آتی کہ غالب نہ ہوتا کیا ہوتا؟ کاش رضواں  ہی در یار کا دربان ہوتا۔ فرش کی بات ہو یا عرش کی شاعر کہیں  پرایا پن محسوس کرتا ہے نہ کرنے دیتا ہے۔ از بسکہ سارا جہاں  ہمارا ہے کیونکہ وہ نہ ہوتا تب کون وہی نا!! غالب یہی کہہ رہا ہے۔ اور اس دعوے کے ساتھ:

قطر ے میں  دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں  کل

کھیل لڑکوں  کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا

اپنی تمام تر کمزوریوں  کے ساتھ، ایک گلو کارہ سے عشق، شراب نوشی، قمار بازی، اسٹیبلشمنٹ سے لڑائیاں، کفر کاریاں  اور اکیلی جان غالب!! دوسرے چاہے کچھ ہی سمجھیں، سمجھتے رہیں  غالب موحد تھے۔ ھوالا ول اور ھو ولآخر پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ تاکید کی اس منزل پر بھی قدم رکھا ہوا تھا:

ہاں  کھائیو مت فریب ہستی

پر چند کہیں  کہ ہے نہیں  ہے

کوئی اشکال نہیں  کوئی روگردانی نہیں۔ بس گفتگو ہے:

جب کہ تجھ بن نہیں  کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟

ہر چند ہر ایک شے میں  تو ہے

پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں  ہے

اور یہ بھی :

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں  دو چار ہوتا

غالب کی فکر میں  گہرائی کے ٹوے ٹبے ہوں  گے مگر تسلسل ہے۔ استفسار ہے اور استغفار ہے۔ غالب فرشتہ نہیں  تھے مگر زہد کا خول بھی نہیں  چڑھا رکھا تھا۔ فتنہ و فساد کے بدلے عملًا باہم دیگری، اختلاط بین الاقوامی پر اعتقاد و اعتماد تھا۔ آپسی غیر متلاطم سلوک کا ثبوت اپنے کثیر ہمسائیوں، رشتہ داروں  اور ملاقاتیوں  سے مراسم استوار کر کے دیتے ہوئے تلقین بھی ہے کہ بے شک اختلاف کرو مگر:

نہ سنو گر برا کہے کوئی

نہ کہو گر برا کرے کوئی

اور:

روک دو گر غلط چلے کوئی

بخش دو گر خطا کرے کوئی

مرزا غالب کی سرشت میں  شرافت و نجابت و اصول پرستی (شاید) گھٹی میں  پڑی تھی۔ عالی ظرف ایسے کہ دوسروں  کو شراب نوشی کی ترغیب نہ دیتے تھے۔ غرض یہ کہنا تو بعید از صداقت ہو گا کہ وہ مجموعہ ضدین تھے البتہ یہ کہنا درست سمجھنا چاہیے کہ وہ منفی و مثبت صفات کے حامل تھے۔ زاہد، پرہیز گار یا متقی نہ تھے لیکن شیطان سے سجدہ کر ا آئے تھے اس لئے پختہ یقین تھے۔ کافر تو نہ تھے اس لیے تعلی کا پیدائشی حق حاصل تھا اور اس میں  زور تھا:۔

آتے ہیں  غیب سے یہ مضامیں  خیال میں

غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

اقبال بعد میں  آئے اور مولویوں  سے ڈر کر معذرت بھی کر لی۔ ان سے پہلے خانقاہ رشیدیہ (جونپور و غازی پور) کے سجادہ نشین عبدالعلیم آسی کہہ گئے تھے۔

شعر گوئی نہ سمجھنا کہ مرا کام ہے یہ

قالب شعر میں  آسی فقط الہام ہے یہ

یہ غالب کی تعلی اور للکار میں  زور تھا کہنے سے کہاں  باز آتے:

پاتا ہوں  ا س سے داد کچھ اپنے کلام کی

روح القدس اگرچہ مرا ہم زباں  نہیں

یا:

بازیچہ ء اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

انسان اپنے خیالات کا اسیر ہوتا ہے۔ غالب نے فطرتی بغاوت کو دبا کر رخ بدل دیا، حد میں  رہتے ہوئے منہ چڑھ کر بولنا اپنا لیا۔ ایک طرف مل جل کر رہنا بہر وقت اور بہر صورت مشتاق و خوش گو لیکن منافقت سے دوری کے باعث سچے اور اچھے آدمی جس میں  حمیت کی کمی نہیں :

بندگی میں  بھی وہ آزادہ وہ خود بیں  ہیں، کم ہم

الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

معاملات دنیا میں  بھی ان کا رویہ پس رفتگی و حال کا ستھرا امتزاج تھا۔ توازن و تناسب کا خیال رکھنا عادت تھی۔ ہر شعر میں  تسلسل کے ساتھ ایک غیر انقلابی مگر تخلیقی لہر ادبی دائروں  میں  سر اٹھاتی دکھائی دیتی ہے۔ بعض سماجی قباحتوں  سے رو گرداں  نہ تھے عوامی تھے۔ عامی نہ تھے لیکن خواص کی نقل میں  حسب دستور و حیثیت و اسٹیٹس ڈومنی سے عشق کرتے تھے۔ شاید اسی بنا پر ان کی حیثیت عامی نہ سمجھی جاتی ہو۔ درپیش صورت حال کو لپک لیتے یعنی بعجلت جائزہ لے کر ایڈجسٹ ہو جاتے۔ حساب چکا دیتے تھے:

در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

جتنے عرصے میں  مرا لپٹا ہوا بستر کھلا

غالب کی زندگی کا اتار چڑھاؤ ان کے رات دن چھانئیے، برتاؤ میں  یک گونہ یکسانیت کہیں  غارت نہیں  جاتی وہی سکون ہے جو امن کے ساتھ جی لینے کی خواہش کا پروردہ ہے:

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن

بیٹھے رہیں  تصور جاناں  کئے ہوئے

بغل میں  غیر کی آج آپ سوتے ہیں  کہیں  ورنہ

سبب کیا خواب میں  آ کر تبسم ہائے پنہاں  کا

جدائی میں  ہم آغوشی کا خیال و خواب، عمل اور رد عمل سے بالا ہے۔ باہم دیگری کا کانسپیٹ بے کنار ہے۔ روح القدس سے زبان کا اختلاف، مذہب پر تنقید طنز کے عواقب اور  سماجی جکڑ بندی، فتووں  کے خوف سے آزادی، تہذیبوں  کے ٹکراؤ سے بے خوفی، ہر طرز جداگانہ سے وابستگی پر آمادگی، خاص ہے ترکیب غالبی!

گونہ سمجھوں  اس کی باتیں  گو نہ پاؤں  اس کا بھید

پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا

اور

بقدر ظرف ہے ساقی! خمار تشنہ کامی بھی

جو تو دریائے مے ہے تو میں  خمیازہ ہوں  ساحل کا !!

دم قدم پر یہ احساس جاگتا ہے کہ غدر کے بعد غلامی کے بادل منڈلا رہے ہوں  یا اس سے قبل کی انار کی اور مغل چراغ کی ٹمٹماہٹ ! غالب راضی برضا ہیں۔ اک ذرا اظہار کا اختیار ہاتھ سے جانے نہیں  دیتے، دستبردار نہیں  ہوتے اور اپنی سی کہہ جاتے ہیں  اور اگر کوئی ان سے زیادہ یا کم کشتۂ مرور زمانہ ہے بھی تو:

ہے ایک تیر جس میں  دونوں  چھدے پڑے ہیں

وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا

غالب مخلوق تھے مگر ان کی ذات کے اجزائے ترکیبی میں  بہت سے عناصر اور بھی شامل تھے۔ ان کو اپنے ترک ہونے پر فخر تھا۔ خاندان کی بلند مرتبتی کا بار بار ذکر، ان کے باطنی الجھاؤ کی غمازی کرتا ہے۔ خاندانی ناچاقیوں  کی وجہ سے دیس نکالا یا نا مساعد حالات کی بنیاد پر دنیا کے ایک گوشے سے دوسرے کونے تک سفر۔ روز گار و بے روزگار ی کا افعی، امیگیریشن کے اثرات کا آئندہ نسل پر سایہ رہنا ماضی بعید سے تا حال عالمگیر سچائی ہے۔ غالب پانچ سال کے تھے جب چچا کی کفالت میں  آئے اور نو برس کی عمر میں  ان کے سائے سے بھی محروم ہو گئے۔ ان حالات میں  یہ کہنا کہ وہ بڑے ناز و نعم میں  پلے بڑھے تھے، سچی بات نہیں  ! دربدری، یتیمی، شب و روز کی مغائرت میں  ڈھل ڈھلا کر بڑے ہونا تلخیِ ایام کی کہی، ان کہی داستان ہے۔ ہم جب نئے ملک و ماحول میں، اپنی بساط مطابق چار دیواری تعمیر کر لیتے ہیں، اسے زبانی زبانی اپنا مکان کہتے ہیں، وہ عام معنوں  میں  ہمارا گھر نہیں  ہوتا۔ اس میں  ماضی کی یادوں  کی مصوری کر لی جائے یا ثقافتی رنگ پوچ دیا جائے، لاشعوری طور پر ایک عجب سا پرایا پن مسلط رہتا ہے۔ غالب سخت جان تھے انہوں  نے گرد و پیش کو، گزارہ کرنے کے لیے بہر طور قبول کر لیا ہو گا اور ان پر غیبی سمتوں  میں  کھلنے والے دروازے اور کھڑکیاں  بازو پھیلائے ہوئے ہوں  گی تب وہ کیسے زیست کی حصہ داری کے قابل نہ بنتے ؟ ہر بار آتے سانس کے ساتھ نہ سہی اندر جاتے سانس کے ساتھ ڈھیر سارے جذبات اور احساسات کی یورش ہوتی ہو گی۔ ان میں  بغاوت اور اس کو دبا کر سمجھوتا کر لینے کی ساعتیں  زبر دست سکت پیدا کرنے کا باعث بنی ہو ں  گی۔ اس تخریب میں  غالب کے کردار کی تعمیر ہو رہی تھی۔ اس لئے وہ اپنی شاعری میں  باہم دگری کے قائل دکھائی دیتے ہیں  مگر وہ ان وجہوں  سے دیو بن کر جوان نہیں  ہوئے بلکہ سب سہہ کر وار کرنے، کبھی ہنس کر کبھی ذکاوت و فہم و فراست سے دوسروں  کا دل جیت لینے کی مہارت کے ساتھ ساتھ غصہ نہ کرنے کی صفت سے مالا مال تھے۔ خوش مزاجی اعلیٰ حسِ مزاح، عالی ظرفی سے مسلح، بہم مخالف کیفیات و خصائل کی ہمراہی میں  بہت سے اشکال و گمان مرکب ہو جانے پر ہی کوئی غالب بنتا ہے !! وہ تپ تپا کر بقائے باہمی پریوں  عمل پیرا ہوئے نظر آتے ہیں  جیسے یہ سب کچھ قدرتی تھا، معمول کے مطابق تھا۔ کچھ انوکھا نہیں  تھا۔ اس میں  قطعی کچھ اوپر ا نہیں  تھا:۔

دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں  ٹالیں  گے

بارے آشنا نکلا ان کا پاسباں، اپنا

اس ترک بچے کے تیور ملاحظہ ہوں :

موج خوں  سر سے گذر ہی کیوں  نہ جائے

آستاں  پر سے اٹھ جائیں  کیا؟

سفر عشق میں  کی ضعف نے راحت طلبی

ہر قدم پر سائے کو میں  اپنے شبستان سمجھا

اس دل کا حال جاننے کے کوشش کیجئے جو تلخیوں  اور مخالفت زمانہ کا پروردہ ہو مگر لبوں  پرمسکراہٹ سے آئے گئے بلکہ غیروں  کا استقبال کرتا ہو اور اتنا صادق ہو کہ آج تک کسی دشمن نے بھی اسے منافقت میں  آلودگی کا الزام نہیں  دیا :

گلیوں  میں  میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں

جاں  دادہ ء ہوائے سر رہگزار تھا!

غالب اپنے وقت کا نقیب تھا۔ وہ کسی عام سے شاعر کی طرح زندگی کی یک رخی کا قصیدہ گو نہیں  بلکہ مہدیِ فن ادب تھا:

دل ہر قطرہ ہے ساز انا لبحر

ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا؟

اس شعر کا بہت ہی خوبصورت انگریزی ترجمہ ڈاکٹر سرفراز خاں  نیازی نے کیا ہے۔

The heart of every drop sings "I am the ocean” What to ask of me? I belong to Him

جس نے اپنے داتا کے ساتھ پیوستگی محسوس کر لی اور سنگ جڑ گیا اس سے بڑا Co-existenceکا حامی اور مبلغ کون ہو سکتا ہے ؟

وفاداری بہ شرط استواری، اصل ایماں  ہے

مرے بت خانہ میں  تو کعبے میں  گاڑو برھمن کو

غالب ثانوی اولاد کی حیثیت میں  پل بڑھ کر جوان ہوئے تھے اس لئے جب دو سروں  کا دل دکھتا تو ان کا اپنا من پگھل جاتا۔ عارف، ان کی بیگم کا بھتیجا، منہ بولا بیٹا تھا مگر اسے سگوں  سے زیادہ پیار دیا۔ مرزا غالب نے مدت تک عارف کی جوانمرگی کا سوگ منایا، اپنا دل کچلا کچلا محسوس کیا۔ اس کی ناگہانی موت پر نوحہ لکھ کر اظہار رنج و غم کیا۔ ایسا ملال ترسیل کر پائے کہ پڑھنے سننے والا نم دیدہ ہو جاتا ہے۔ غالب "ماتم میں  کس کے مر رہا ہوں  یہ کون مر گیا؟ ” کی ہو بہو تصویر دکھائی دیتے تھے یہ کیفیت اکہرے وجود و فکر والا، آثار و ظواہر کے ادھار پر جینے والا نہیں، غم چشیدہ قلب و ذہن والا ہی بیان کر سکتا ہے۔ قدرت کو للکار نے والا صاف گو مسائل تصوف کے بیان میں  شوخی برتنے، چٹکی لینے، لگانے والا عارف کے غم میں  کس طرح للک للک کر جانے والے سے کہتا ہے:

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور

تنہا گئے کیوں ؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

ہاں  اے فلک پیر، جواں  تھا ابھی عارف

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

غالب ذاتی شخصی، غم و مایوسی میں  انتہا چھو لیتے ہیں۔

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

نامیدی اس کے دیکھا چاہیے

تاہم وہ ایک رجائیت پسند خوش کلام، ہاتف غیب، نرالے انوکھے، اپنے وقت میں  بے قدری پر نالاں، آگے آئندہ، مستقبل میں  سمجھے جانے اور قدرو عزت پانے اور دو سو سال بعد بھی قبول و مقبولیت پر فائز شاعر ہیں۔ غالب کا رہن سہن مسلمانو ں  کا تھا، ایسا نہیں  کہ ان کو غیر مسلم یا کافر قرار دیا جاتا، خوش قسمت تھے فتوٰیٰ نہیں  لگا، کافر قرار نہیں  دئیے گئے۔

طالبا ن سے بچے رہے۔ جہاں  تک عقیدے کا تعلق ہے غالب اپنے احدیت اور وحدانیت کے عقیدے سے مطمئن تھے مگر عبودیت کا پورا حق ریزرو ر کھتے تھے۔ اپنے غیر روایتی اظہار پر پشیمان ہوتے نہ باز آتے۔ کس آسانی سے پو چھتے ہیں :

نقش فریادی ہے کس کی شوخی ء تحریر کا

کاغذی ہے پیراہن ہر پیکر تصویر کا

وہ خالق و مخلوق کے رشتے کو تخلیقی حسن کا محدب شیشہ لگا کر میٹھی نیم نظروں  سے دیکھتے ہیں۔ یہ نہیں  کہ تعریف اس خدا کی جس نے ہمیں  بنایا!! بلکہ الٹا سیدھا ہوئے بغیر سوال اٹھاتے ہیں  یہ کیا معاملہ ہے؟سب کو ایک جیسا بنا کر خوش ہو لیے اور وہ بھی کسی کاغذ کی مانند نازک! آدمی نہ ہوا خاک کا ایک دیپ ہوا کہ جب چاہا آنکھ کھولی مسکرائے اور جلا دیا اور جب چاہا پھونک ماری اور بجھا دیا؟کسی شاعر نے اسی پر کہا ہے”اس سے بہتر تو یہی تھا نہ بنایا ہوتا !”جب عبد کا معبود سے مکالمہ ہو تو ان میں  جرا ت کا بھی کو ئی ٹھکانہ نہیں۔

قطرہ اپنا بھی حقیقت میں  ہے دریا لیکن

ہم کو تقلید تنگ ظرفی ء منصور نہیں

مروت، منافقت، دہراپن، دروغ مصلحت آمیز ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ بھلے یہ عمومی کلیے سے نکلتا ہو ا بیان سمجھا جائے مگر اس دھنک میں  بقائے باہمی کی چھوٹی سی بدلی بھی ڈھونڈے سے نہیں  ملتی۔ نگاہ سے اوجھل رہتی ہے۔ جیسے غالب کو دریا میں  پھنک کر مطالبہ کر دیا۔ خبردار دامن بھیگنے نہ پائے۔ ” ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں  کیا ہوتا؟”ان پیچیدگیوں  کے انبار میں  غالب نے بقائے باہمی کا راز اور سمجھوتے کا راستہ بخوبی اور بآسانی نکالا ہے:

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری جو شامت آئی

اٹھا اور اٹھ کے قدم پاسبا ں  کے لیے

اس شعر کو روایتی شارحین کو تول ترازو کو پرے رکھ کر غور کیجئے آ پ کو کچھ ملے گا تو وہ سمجھوتے کا نشان اور اشارہ ہی ملے گا۔ اب تک شار حین، اس شعر کا، ذرے، رتی برابر فرق کے ساتھ ایک سا مطلب پیش کرتے رہے ہیں  جبکہ غالب کا تصور قریبی لمحاتی صورت حال سے بعید، آئندہ کی تصویر دکھا رہا ہے کہ قرب کے لیے باہمی صلح داری ہی اصل ایما ن ہے۔ کسی کا دھیان اس سمت گیا یا نہیں  میرے احساسات کی روسے صحیح مفہوم الٹے سلٹے غالب کی طرح اوندھا سیدھا ہو کر ہی القاء ہوتا ہے۔ اس شعر میں  کوئی انفعالت و مفعولیت نہیں  ہے، ۔ تاڑنے والی نگاہ ہے کہ در محبوب کا پہرے دار مارشل لائی اختیارات رکھتا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ایسی مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے جس سے کوئی ٹنٹا کھڑا نہ ہو۔ لہٰذا پاسبا ں  کے پاؤں  پکڑ لیے۔ ذرا غالب کی انٹیگریٹی اور سٹر ٹیجی پر نظر ڈالیے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ غدر کے بعد دہلی میں  جگہ جگہ پھانسیا ں  گڑی اور لاشیں  لٹک رہی ہیں، افراتفری اور خوف و ہراس کا عالم ہے۔ اس فضا کا قیاس کرنا محال نہیں۔ متوازی مثال خودکش اور ڈرون حملے کے بعد کے مناظر ہو سکتے ہیں۔ جب قلب میں  سوئیاں  چبھ رہی ہو ں  تو آنسوؤں  کے بدلے متضاد کیفیت میں  استہزائی مسکراہٹ لبوں  ہر آ کر جا بجا خون میں  نہائے ہوئے دست و بازو پر بے بسی پرسوکھے اشک بہار ہی ہوتی ہے۔ کسی ایسے ہی لمحے کی موجودگی میں  بے چارے غالب نے کمپنی بہادر کی خوشنودی کے حصول کے لیے اپنے آپ کو آدھا مسلمان کہا ہو گا کہ شراب پیتے تھے مگرسؤر نہیں  کھاتے تھے۔ وظیفے کی بحالی کے لیے دہلی سے کلکتے تک کا سفر بھی کچھ ایسے ہی سمجھوتوں  کی غمازی کرتا ہے۔

جس زمانے میں  شاعر دہلی سے نکل کر نواحی علاقے غازی آباد تک پہنچتے پہنچتے پکار اٹھتے تھے۔ ” کون جائے دلی کی گلیاں  چھوڑ کر” غالب صاحب نے محمد تغلق کے الٹے پیر پکڑے اور کلکتہ جا بسرائے وہ جانتے تھے کہ نئے رابطے اور نئے رشتے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اور حقیقت پسند ی بتا رہی تھی۔

ہے اب اس معمورے میں  قحط غم الفت اسد

ہم نے یہ مانا کہ دلی میں  رہیں، کھا ئیں  گے کیا؟

وہ عقلمند بے وقوف بادشاہ محمد تغلق دہلی کو کلکتہ لے جانے میں  ناکام رہا تھا مگر غالب کا معاملہ کسی قدر مختلف رہا۔ راستے میں  نہ ان کی زبان بگڑی اور نہ کسی سے جھگڑا ہوا لہٰذا باور کرنا پڑتا ہے ان کا باہمی بر تاؤ اور آپسی میل جول کا نظریہ جھوٹا نہ پڑا۔ کام آیا۔ وہ دہلی آئے بھی تو ہم نشین کی جانب سے کلکتے کا ذکر کرنا انہیں  سینے پر تیرکی طر ح لگتا تھا اور ہائے ہائے کرنے لگتے تھے۔ اس سفر نے انہیں  وژن دیا تھا کہ دلی ہی نہیں  کلکتہ بھی رہنے کی جگہ ہے۔ !! جہاں  کے لوگو ں  کا رنگ روپ اور زبان غیر ہو گی پر یہ اختلاف ان سے اختلاط میں  مانع نہیں  ہو گا:

غالب  نہ کر حضور میں  تو بار بار عرض

ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر

مل جل کر رہنا ہے تو اپنی لے کو غیر مناسب حد تک بلند کرنے سے گریز کرنا ہو گا:

روائی کی نہ دی تقدیر نے مقصد کو منظوری

ہم رہنے لگے دونوں  تمنا اور مجبوری

بہتر ماحول اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے کچھ لو، کچھ دو کی ڈگر اپنانا پڑتی ہے۔ ٹھوکر کھانے سے بچنے اور با وقار طریقے سے، بہم جینے کا یہ دستور ہے۔ کس کس طرح یہ ثابت کیا جائے کہ غالب بقائے باہمی کے نظریہ پر کار پیرا تھے۔ انسان تھے۔ فرشتے نہ تھے دوسرو ں  کو برداشت کرنے کا ان میں  حوصلہ تھا۔ ا یسے بے خبرے نہ تھے کہ ساتھ رہنا خواہ چار دیواری میں  ہو یا ماورا اب تب انچ نیچ ہو سکتی ہے۔ پھوٹ پھٹول ہو سکتی ہے لیکن وہ دوسرو ں  کو جھٹ اور فٹ الزام نہیں  دیتے تھے۔

دھول دھپہ اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں

ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن

غالب کی پرورش کا پس منظر اور پختگی کے دور کے منظر میں  جھانکتے تو بآسانی ان کادوسروں  سے تال میل اور سب کے بیچ رہ بس کر مقبولیت میں  کامیابی کا راز مل جاتا ہے۔ قرب و دور ان کا رویہ یکساں  ہے۔ اس کی پہچان اور تعین ان کے خطوط سے ہو جاتی ہے۔ اردو ادب کو غالب نے مکتوب نگاری کی نئی صنف عطا کی۔ ان کے خطوط آج بھی پڑھ کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو جی چاہتا ہے ای میلنگ سے جان چھڑا لی جائے کہ بقول غالب خط آدھی ملاقات ہے۔ کوئی شک نہیں  وہ ایک نابغہ تھے اپنے وقت کے جینئس تھے۔ زندگی کا سرد و گرم چشیدہ تھے اور باد مخالف میں  سرو کا بلند و بالا درخت تھے۔ ان کے مزاج میں  توازن، تناسب، تدبیر، بردباری اور لین دین میں  ایک قرضداری کے سو ا اصولوں  کی پاسداری کا بڑا عنصر تھا۔ وہ باہم دگر برابر کی سطح پر جینے کا بھید پا چکے تھے۔

غالب تاریخ کی پیداوار تھے مگر ذہانت، لیاقت اور تخلیقی صلاحیت و سفری تجربات سے اکتساب کرنے میں  تیز رفتار نکلے۔ سیکھ لینے اور تجربے کی بنیاد پر تاریخ ساز شخصیتوں  کی صف میں  نمایاں  جگہ پا سکے۔ وہ عوام میں  سے تھے اور اپنے شجرے پر ناز و افتخار کے باوجود عوام کے بن کر زندہ رہے۔ مفاد پرستی کا دھبہ ان کے دامن پر نہ لگا۔ ان کے طور و اطوار جداگانہ تھے۔ حضور حق میں  سراپا مطالبہ تو ہمسائیوں  سے مساویانہ ! جادۂ حق گفتاری و نگارش کو تھامے رکھا۔ استعاروں  کی گفتگو میں  بھی بے باکی ہے:

بوسہ نہیں، نہ دیجئے دشنام ہی سہی

آخر زباں  تو رکھتے ہو تم گر دہاں  نہیں

ان کی شاعرانہ انا کہیے، ادا کہیے بڑی کشادگی لیے ہوئے تھا۔ مومن نے کہا :

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں  ہوتا

غالب نے اس شعر کی داد و تحسین بھی اپنے مخصوص، بے ریا اور مخلصانہ انداز میں  کی کہ وہ اس ایک شعر پر اپنا سارا دیوان بے دریغ وارنے پر تیار نہیں  !! اس شعر کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے صوفیانہ رنگ میں  دیکھئے، رومانیت طاری کیجئے بات اسی ایک روحانی نقطہ پر آ کر ٹھہرتی ہے، محبوب حقیقی ہو یا مجازی جب اس کا تصور پورے وجود پر محیط ہو جائے تو من و تو کے درمیان کی لکیر مٹ جاتی ہے۔ بقا کی یہ صورت کہ دوجے میں  فنا ہو گئے تو بقائے باہمی اپنے معراج کو جا پہنچی۔ معاصرین سے ہم آہنگی کا مظاہرہ غالب چشمکانہ، مربیانہ، دوستانہ نہیں  مخلصانہ انداز میں  کرتے ہیں :

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے کہ بقول ناسخ

آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

مومن، میر یا ناسخ کوئی ان کے لئے تھریٹ نہیں۔ باہمی خیر سگالی لا محدود ہے اور کچھ بھی لا عبوری نہیں۔ سب کے لئے دل کی مسند بچھی ہے۔ غالب کو کسی غنچے کی ضرورت نہیں، کسی کی ہجو لکھوانے کی کبھی نوبت نہ آئی۔ ذوق کو بھی سینئر جان کر برداشت کیا۔ ان کی ریشہ دوانی سے چشم پوشی کی۔ آپ اس انٹر پرٹیشن کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیجئے مگر اس حقیقت کو کس نظریئے سے اور کیوں  کر رد کریں  گے کہ دو چار کے مل بیٹھنے کو وہی خوش آمدید کہتا ہے جو بقائے باہمی کا قائل ہے۔ جو غزل کی طرح بکھر کر باطن سے، اندر سے، بھیتر سے دوسروں  کے ساتھ، وحدانی راہ پر چل کر کائناتی سچائیاں  اور موجودات شیئر کرنے کا دل گردہ رکھتا ہے۔ کوتاہ اندیش اور تنگ نظر نہیں۔

اسد ہم وہ جنوں  جولاں  گدائے بے سروپا ہیں

کہ ہے سر پنجۂ مژگان آہو پشت خار اپنا

واہ! خیال کی نزاکت کن بلندیوں  تک جا رکتی ہے کہ مژگان آہو، نوکیلی پلکوں  کو پیٹھ کھجانے کے دستہ کی صورت دل میں  اتار کر بیک وقت جراحت و مرہم و راحت کے حصول کی تمنا کا سودا پورا ہو جاتا ہے ! کائنات کی ہر شے دست انساں  کی رسائی میں  ہے۔ ان رموز کو جاننے کے لئے تنہائی کی، ” جدائی کی کالی تے لمی رات” کا مسرت ناک کشٹ اٹھانا پڑتا ہے۔ غالب اس سمت میں  بھی مثبت تصورات دل میں  بسائے رکھتے تھے۔ سختی کا اقرار ہے تو۔ مگر لذت آزار کو سر آنکھوں  پر خوش آمدید کہنے کی بے قراری کے ساتھ:

کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا!

پیاروں  کے خار مژگاں  کی چبھن راحت جاں  بن کر گوار ا مگر اکیلا پن ناگوار۔ غالب تن تنہا زندگی کرنے کے رودار نہیں۔ زنداں  میں  ہوں  یا بیاباں  میں، کسی کی درد مندی سے بہرہ یابی ممکن ہو، نہ ہو وہ خیالوں  میں  ہی دشت و صحرا کو یکجا کر کے زندگی کرنے کی خواہش سے کسی قیمت پر دستبردار ہونے پر تیار نہیں۔ انہیں  تو ساتھ سنگت چاہیے۔ وہ باہم ہونے، امتیاز من و تو مٹانے میں  ہی انسانیت کی بقا و بھلائی سمجھتے ہیں۔ ان کے لئے ستمگر جاں  و دل کا دل و جاں  سے چپکا رہنا ہی مقصود حیات تھا:

میں  نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں

وہ ستمگر مرے مرنے پر بھی راضی نہ ہوا

دراصل رفاقت و یکجائی کے لئے بھی تو اتفاق رائے ضروری ہے ورنہ :

بے چارگی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک

ہم کہیں  گے حال دل اور آپ فرمائیں  گے کیا؟

جبکہ سانسوں  سے یہ توقع بندھی ہوتی ہے :

جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغ جگر ہدیہ

مبارکباد اسد غمخوار جان درد مند آیا

غالب نے ایک بار سر سید کو لکھا تھا مردہ پروری کوئی مبارک قدم نہیں۔ وہ نہیں  جانتا تھا کہ اس کے مرنے کے دوسوسال بعد بھی اس کا کلام قلم پروری کرتا رہے گا اور لوگ اس کے خیالات و نظریات اور تہتر سالہ سوانح زندگی کے ہر پہلو، ہر پل سے موتی چنتے رہیں  گے۔

ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یا د آتا ہے

وہ ہر بات پر کہنا کہ یوں  ہوتا تو کیا ہوتا !!۔

روٹس کے مصنف الیکس ہیلے کی طرف اشارہ ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

اخبارِ اردو

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید