FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

میں نے اسلام کیوں قبول کیا

 

مختلف نو مسلموں کی داستانیں

تدوین: اعجاز عبید

 

 

 

 

  ایک مسلمان کا کردار

 

مومنہ تبسم عبدالکریم

 

ارچنا امیت کے قبول اسلام کی ایمان افروز داستان

 

 

 

٢٩  نومبر ٢٠٠٣ کی خوش گوار صبح تھی موسم کہر آلود تھا۔ ذرا سی خنکی بھی تھی۔ تقریباً ٩ بجے صبح میں اپنی بچی سمتا کو گود میں لیے کان پور سے لکھنو جانے والی بس میں بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد بس چل پڑی اور مسافروں نے اپنا اپنا ٹکٹ بنوانا شروع کیا۔ میں نے بھی ٹکٹ بنوانے کے لیے اپنا پرس کھولا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ جو روپے میں نے رکھے تھے، وہ اس میں نہ تھے۔ ہا تھ پاؤں پھولنے لگے، سانسیں تیز تیز چلنے لگیں، بار بار پرس الٹتی پلٹتی رہی، بمشکل تمام کل بتیس روپے نکلے، جبکہ کرایہ اڑتیس روپے تھا۔ اب کنڈیکٹر شور مچانے لگا کہ کس نے ٹکٹ نہیں بنوایا ہے۔ میں ڈری سہمی اٹھی اور کنڈیکٹر کو ٣٢ روپے تھما کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی کنڈیکٹر تیز تیز چیخنے لگا کہ پورے پیسے لاؤ۔ میں بالکل خاموش تھی، کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔ طرح طرح کے خیالات دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے۔ بس گنگا ندی پر سے گزر رہی تھی کہ کنڈیکٹر نے پھر کہا کہ پورے پیسے لاؤ، ورنہ بس سے اتر جاؤ اور اس نے بس رکوا دی۔ مجھے اترنے کے لیے بار بار کہہ رہا تھا۔ پوری بس میں سناٹا چھایا ہو ا تھا۔ سارے پسینجر مڑ مڑ کر میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں مارے شرم کے سردی میں بھی پسینے پسینے ہو رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب جو کالی شیروانی زیب تن کیے ہوئے ڈرائیور کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، نے کنڈیکٹر سے پو چھا :کیا بات ہے ؟ اس نے جواب دیا : ارے یہ میڈیم پورے پیسے نہیں دے رہی ہیں، اور اتر بھی نہیں رہی ہیں۔ انہوں نے اچٹتی نظر سے میری طرف دیکھا اور پھر کنڈیکٹر سے پوچھا : کتنے روپے کم ہیں ؟اس نے بتایا، چھ روپے کم ہیں۔ ان صاحب نے دس روپے کا نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں سے لے لو اور پھر بس چل پڑی۔ بس تیز رفتاری سے درختوں، مکانوں اور دکانوں کو پیچھے چھوڑتی بھاگی جا رہی تھی اور میں قدرے اطمینان سے مختلف احساسات و خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔ لکھنو آگیا اور میں جھٹ سے بس سے اتر کر کنارے کھڑی ہو گئی، سوچا کہ ان بھلے آدمی کا شکریہ ادا کر لوں۔ جب وہ صاحب اترے تو میں نے آگے بڑھ کر ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ وہ صاحب بولے:” ارے ! کوئی بات نہیں ہے۔ اور جانے لگے، پھر اچانک مڑ کر پوچھا کیا بات ہوئی تھی؟ ان کا یہ سوال غالباً اس لیے تھا کہ میں دیکھنے میں خوشحال لگ رہی تھی۔ بہترین لباس اور زیورات پہن رکھے تھے۔ میں نے بتایا کہ بھائی صاحب! گھر سے نکلی تو خیال تھا کہ پرس میں روپے ہیں، مگر معلوم نہیں کیا ہوا۔ انہوں کہا کہ ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ کو جانا کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ حسین گنج میں رہتی ہوں، پیدل چلی جاؤں گی۔ انہوں نے کہا کہ بچی گود میں ہے، بیگ بھی وزنی معلوم ہوتا ہے (جو واقعی وزنی تھا) آپ یہ روپے لے لیجیے اور رکشا سے چلی جایے اور بیس روپے کا نوٹ میری طرف بڑھایا۔ میں نے پہلے معذرت کی، مگر انہوں نے زبردستی وہ نوٹ مجھے دیا اور چلے گئے۔

 

ان کے جانے کے بعد میں نے رکشا لیا اور اپنے گھر پہنچ گئی، لیکن دل میں ایک ایسا نقش بیٹھ چکا تھا کہ اب کبھی مٹ نہیں سکتا تھا۔ شام کو اپنے شوہر امیت کمار کو پوری داستان سنائی۔ وہ بھی بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ ان کا نام، پتا اور فون نمبر وغیرہ لے لیا ہوتا۔ مجھے بھی بڑا افسوس ہوا کہ یقیناً نام، پتا معلوم کر لینا چاہیے تھا، مگر صحیح بات یہ ہے کہ اس وقت میری عقل گم تھی۔ اب دن رات بار بار یہی بات سوچتی اور دل چاہتا کہ کاش ایسے بھلے انسان سے پھر ملاقات ہو۔ کئی دن گزر گئے، میں اور میرے شوہر اکثر تذکرہ کرتے، ان کو یاد کرتے، راہ چلتے نظریں انہیں تلاش کرتیں۔ بہت سے ایسے افراد جب شیروانی، ٹوپی اور داڑھی میں دکھائی دیتے تو امیت کہتے: ان میں سے پہچانو، مگر اب وہ کہاں ملتے؟

 

تقریباً تین ماہ بعد ایک روز ہم دونوں مارکیٹنگ کرتے ہوئے کچہری روڈ امین آباد سے گزر رہے تھے کہ اچانک میری نظر ایک صاحب پر پڑی، جو کرتا پاجامے میں تھے، دیکھتے ہی دل نے کہا کہ یہ تو وہی صاحب ہیں۔ جب تک میں فیصلہ کرتی اور امیت کو بتاتی، وہ ہم لوگوں کے قریب سے گزر کر آگے نکل گئے۔ میں نے امیت سے کہا کہ شاید وہی صاحب ہیں، ذرا پوچھو۔ امیت لپکے اور ان کو روکا۔ میں بھی قریب پہنچی تو یقین ہو گیا کہ یہ وہی صاحب ہیں، جن کو ہم تلاش کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ان کو نمستے کہا۔ وہ حیرت سے ہم لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا: آپ نے مجھے پہچانا؟ انہوں نے کہا: معاف کیجیے گا، میں تو نہیں پہچان سکا۔ مجھے اندر سے تکلیف سی محسوس ہوئی کہ جس شخص کی شکل و صورت گزشتہ تین چار ماہ سے دل و دماغ میں بسی ہوئی تھی، وہ مجھے پہچان نہیں رہا۔ امیت نے کہا: سوچیے اور پہچانیے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، بالکل یاد نہیں ہے۔ براہ کرم کچھ بتائیے۔ میں نے کہا کہ تین چار ماہ پہلے کان پور سے آتے ہوئے بس میں ملاقات ہوئی تھی اور آپ نے میری مدد کی تھی۔ اب وہ ہنسنے لگے اور بولے: آئیے، چائے پیتے ہیں۔ اور یہ کہہ کر قریب کے ایک ہوٹل میں بیٹھ گئے۔ ہم لوگ ان سے ملنے کے لیے بے قرار تھے، اس لیے فوراً ان کی پیشکش قبول کر لی۔ اب سب سے پہلے تو ہم لوگوں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اپنی مجبوری بیان کی اور اپنی کیفیت بیان کرتے رہے۔ وہ بار بار یہی کہتے کہ بھئی ! چھوڑیے، ان سب باتوں کو۔ کوئی ایسی بات تو تھی نہیں کہ آپ لوگ اس قدر یاد کرتے رہے۔ امیت نے ڈائری نکالی اور کہا: جناب اپنا اسم گرامی اور فون نمبر وغیرہ لکھا دیجیے۔ انہوں نے نام، فون اور پتا لکھایا اور امیت کا پتا و نمبر وغیرہ ایک کاغذ پر لکھ لیا۔ معلوم ہوا کہ یہ جناب سرائے میر اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں۔ امیت نے میرے کہنے پر گزارش کی کہ چائے کے پیسے ہمیں دینے دیجیے۔ وہ کسی طرح آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! مجھے بڑی خوشی ہو گی کہ چائے کہ پیسے میں دوں، وہ خاموش ہو گئے۔ اور امیت نے پیسے دے دیے۔ اب میں نے آہستہ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! ایک بات کہوں، آپ کچھ محسوس نہ کیجیے گا، یہ چھبیس روپے براہ کرم رکھ لیجیے۔ وہ قدرے بلند آواز میں بولے: بھئی! یہ کیا بات کر رہے ہیں! اگر یہ پہلی اور آخری ملاقات ہے تو کوئی بات نہیں ہے، ورنہ ایسی باتیں نہ کیجیے، مگر امیت نے زبردستی چھبیس روپے ان کی جیب میں ان کے منع کرنے کے باوجود رکھ دیے۔

 

اب میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! کبھی میرے گھر تشریف لائیے۔ انہوں نے کہا: ہر گز نہیں، میں کبھی نہیں آؤں گا۔ دو باتیں آپ لوگوں نے زبردستی منوا لیں۔ میری شرط ہے کہ پہلے آپ لوگ میرے گھر آئیے۔ تھوڑی تکرار کے بعد ہم لوگوں نے وعدہ کر لیا کہ جلد ہی ہم ضرور آئیں گے اور پھر ہم رخصت ہو گئے۔

 

اگلے ہی اتوار کو امیت نے کہا: چلو ڈاکٹر صاحب کے گھر چلیں، فون کیا، انہوں نے کہا: تشریف لائیے، میں انتظار کروں گا۔ حسب وعدہ شام کو ہم چلے۔ یقین کیجیے، زندگی میں پہلی بار ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرا کوئی بھائی ہے اور میں اپنے بھائی کے گھر جا رہی ہوں۔ میرا کوئی حقیقی بھائی یا بہن نہیں ہے، ماں باپ کا بھی کافی پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ اب جو عزیز بھی ہیں، وہ سسرالی رشتے دار ہیں۔ ہم پہنچے تو ڈاکٹر صاحب اپنے آفس کے باہر انتظار کر رہے تھے۔ بڑی محبت سے ملے اور فوراً گھر میں لے گئے۔ بٹھایا اور کچن میں اپنی اہلیہ ام سلمیٰ اعظمی سے ملاقات کرائی، جو میری ہی عمر کی ہیں یا سال دو سال چھوٹی ہوں گی۔ ان سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ بڑی ہنس مکھ، ملن سار اور سلیقہ مند ہیں۔ ضیافت کا اچھا خاصا اہتمام کیا تھا۔ چائے کے دوران میں ہی میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! اگر آپ اجازت دیں اور کوئی حرج نہ ہو تو روٹی میں پکا دوں، اس لیے کہ بچہ رو رہا ہے اور بھابھی پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا: بھابھی سے پوچھ لو۔ آپ اپنے ہی گھر میں ہیں، ان کی اس بات مجھے حد درجہ خوشی ہوئی۔ میں نے بہت کہا کہ کھانا پکانے میں مدد کروں، مگر بھابھی نے کہا: اب نہیں، جب دوبارہ آئیے گا تو کھانا پکائیے گا۔ اس دوران میں، میں تو بھابھی سے باتیں کرتی رہی اور ڈاکٹر صاحب امیت کو بہت سی کتابیں دکھاتے رہے۔ امیت کتابوں کے دیوانے ہیں۔ تقریباً دو ڈھائی گھنٹے بعد جب ہم چلنے کو تیار ہوئے تو امیت نے دسیوں کتابیں لے لی تھیں۔ چلتے ہوئے بھابھی نے ایک پیکٹ دیا اور کہا: اسے گھر جا کر کھولیے گا۔ ہم لوگ گھر پہنچے، دس بج چکے تھے، پیکٹ کھولا تو حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی، ایک ساڑھی، بلاؤز اور میری بیٹی سمتا کے لیے ایک فراک اور ایک کلو مٹھائی کا ڈبہ تھا۔

 

اب کیا تھا۔ امیت آئے دن ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہے۔ کتابیں لاتے رہے، رات رات بھر پڑھتے اور واپس پہنچاتے رہے۔ میں بھی کتابیں پڑھتی تھی، ”شانتی مارگ” ”مکتی مارگ” ”جیون مرتیو کے پشچات””اسلام دھرم” ”اسلام جس سے مجھے پیار ہے””چالیس حدیثیں””قرآن کے پریچے” اور قرآن کا ترجمہ، سب کچھ پڑھ ڈالا۔ چار پانچ بار میں ڈاکٹر صاحب کے گھر گئی۔ جب بھی جاتی اور واپس آتی تو بھابھی کچھ نہ کچھ کپڑے، کھلونے، کھانے پینے کی چیزیں یا کوئی اور چیز ضرور دیتیں۔ دو، تین بار وہ بھی ہمارے پاس ہمارے گھر آئیں۔ ہم لوگ ایک دوسرے کے کافی قریب ہو چکے تھے۔ امیت اکثر ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہتے اور وہ بھی فون کر کے ان کو بلا لیتے، مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا، بار بار کہنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب ہمارے گھر نہیں آئے۔ ہر بار کوئی مجبوری یا عذر بیان کرتے اور پھر آنے کا وعدہ کرتے۔ ایک بار ہم لوگ ان کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ طبیعت کچھ خراب ہے۔ بدن سنسنا رہا ہے اور بھابھی اپنی ناراضی ظاہر کر رہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ آج ہی کسی اجنبی مریض کو خون دے کر آئے ہیں، جب کہ دو ماہ پہلے کسی مریضہ کو خون دیا تھا۔ بھابھی ناراض ہو رہی تھیں اور وہ کہہ رہے تھے کہ اگر خون دے کر کسی کی جان بچ سکتی ہے تو کیا حرج ہے؟ میں نے بھابھی کی حمایت کی۔

 

امیت جب بھی ان سے مل کر آتے، اکثر کوئی نہ کوئی واقعہ بتاتے اور حیرت و خوشی سے بارہا تذکرہ کرتے، مثلاً آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ ایک لسٹ لیے بیٹھے تھے کہ دیکھو: آٹا، دال، چاول اور یہ سامان لانا ہے۔ میں پہنچ گیا تو بیٹھے رہے، باتیں ہوتی رہیں، اس دوران ندوہ کا ایک طالب علم آیا۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی ضرورت بیان کی، ڈاکٹر صاحب نے چار سو روپے اس کو دے دیے اور سامان لانا رہ گیا۔

 

ایک بار کہنے لگے: آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی، ساتھ میں امین آباد گئے تھے۔ ایک کمبل 350 روپے میں خریدا اور واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک نقاب پوش خاتون ملی اور کہا کہ مولوی صاحب! بچے سردی کھار ہے ہیں، ایک کمبل یا لحاف دلا دیجیے۔ اتنا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے وہ کمبل اس کو تھما دیا اور خالی ہاتھ گھر چلے گئے۔

 

اس عرصہ میں امیت میں غیر معمولی تبدیلی آ چکی تھی۔ پوجا کرنا اور مندر جانا بالکل چھوڑ دیا تھا، جب کہ پہلے اس کی پابندی کرتے تھے۔ گھر سے تمام تصویریں اور مورتیوں کو ہٹا دیا اور ہم لوگ عجیب سی تبدیلیاں محسوس کرنے لگے۔ اس دوران میں ڈاکٹر صاحب سے بار بار گھر آنے کو کہتے، مگر وہ ٹال جاتے۔ ایک رات تقریباً گیارہ بجے امیت نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب ایک ہاتھ میں آٹے کا تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں چاول، دال اور کچھ دوسرا سامان لٹکائے ہماری گلی کے قریب والی دوسری گلی کی طرف مڑے ہیں۔ امت پیچھے لپکے اور قریب جا کر پوچھا: آپ اس وقت یہاں؟ یہ کیا ہے؟ پہلے تو انہوں نے ٹالنا چاہا، مگر پھر بتایا کہ یہاں ایک بوڑھی خاتون رہتی ہیں، ان کا کوئی سہارا نہیں ہے، میں کبھی کبھار یہ سامان پہنچا دیتا ہوں۔ پھر امیت کو ساتھ لے کر گئے۔ سامان دیا، کچھ روپے دیے اور واپس لوٹے۔ اب امیت نے اصرار کیا کہ گھر چلیے، انہوں نے کہا کافی رات ہو گئی ہے، پھر آئیں گے، مگر امیت زبردستی گھر لے آئے۔ اپنے گھر میں انہیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں جلدی سے کھانے پینے کا انتظام کرنے لگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو کھانا کھا چکے ہیں، چائے بنا لو بس، کھانا پھر کبھی کھائیں گے، بہر حال جو کچھ تھا پیش کیا۔ باتیں ہونے لگیں اور بالآخر امیت بولے: اب بہت دن ہو گئے، ہم لوگ کب تک اسی طرح رہیں گے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا: جلدی کیا ہے؟ ہم نے کہا: اگر اسی درمیان موت آ گئی تو؟ اب ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش تھے۔ تقریباً ایک بجے امیت ان کو ان کے گھر پہنچانے گئے۔ جب واپس آئے تو ہم لوگ رات بھر سو نہ سکے اور ایمان، اسلام، جنت، دوزخ اور ڈاکٹر صاحب اور اس بوڑھی خاتون کی باتیں کرتے رہے۔

 

اسی طرح تین چار ماہ گزر گئے، نماز کی کتاب سے اور بھابھی سے نماز پڑھنا سیکھ لی اور ہم لوگ پابندی سے نماز پڑھنے لگے۔ اسی دوران میں امیت کا ٹرانسفر ہو گیا اور ہم لوگ لکھنؤ سے غازی آباد آ گئے۔

 

یہاں سے ہم لوگوں نے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ میں ارچنا سے مومنہ تبسم، امیت عبدالکریم اور سمتا عظمیٰ ہو چکی ہیں۔ زندگی کا سفر جاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب دو سال سے عید کے موقع پر سب لوگوں کے لیے کپڑے اور عیدی بھیج رہے ہیں۔ ان کے ہم زلف محمد یونس بھائی تحفے تحائف لے کر آتے ہیں۔ دو بار میں بھی لکھنؤ جا چکی ہوں۔ ان کا گھر مجھے اپنا میکہ لگتا ہے، اور اسی انداز سے ہم جاتے اور آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ یہ رشتہ برقرار رہے اور ہم سب لوگ آخرت میں کامیاب ہوں۔

 

 

 

  فلپائن کے ایچان کا قبول اسلام

 

امتیاز احمد

 

ان کا پیدائشی نام ‘جو پال ایچان’ ہے ، قبول اسلام کے وہ صالح ایچان ہو گئے۔ ان کی کہانی خود ان کی زبانی:

 

میری فیملی رومن کیتھولک تھی اور بہت مذہبی۔ میں بھی بچپن ہی سے مذہبی سرگرمیوں میں بہت جوش و خروش سے حصہ لیتا تھا۔ حتی کہ میں نوجوانوں کے اس خاص گروہ کا ممبر بن گیا جو چرچ کی خدمت کے لیے مقرر تھے۔ ہمارے گروپ کے لیے میری کا ایک مخصوص بت تھا جس کی ہم بہت شوق سے پوجا کرتے تھے۔ لیکن ہمیں بائبل پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ بائبل صرف ہمارے پیشوا پڑھتے اور ہم صرف اسے سنتے۔

 

کالج کی زندگی میں میرے ایک دوست نے مجھے دعوت دی کہ میں ان کے چرچ کا طریقہ عبادت دیکھوں۔ یہ چرچ پروٹیسٹنٹ تھا۔ ان کے ہاں میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ وہاں ہر فرد بائبل پڑھ سکتا ہے اور یہ کہ بائبل کی روسے کسی قسم کے بت کی پوجا جائز نہیں ہے۔ اس تجربے نے میری آنکھیں کھول دیں اور میں غور و خوض کے بعد کیتھولک چرچ چھوڑ کر پروٹیسٹنٹ میں شامل ہو گیا۔ میں اپنی فیملی میں پہلا پروٹیسٹنٹ تھا۔ آہستہ آہستہ میری پوری فیملی اس چرچ سے وابستہ ہو گئی۔ یہاں میں نے بائبل پر پوری دسترس حاصل کی یہاں تک کہ میں ایک پادری کے طور بھی کام کر سکتا تھا۔

 

میں اسلام کے بارے میں بالکل کورا تھا۔ بس اتنا معلوم تھا کہ مسلمان ایک مذہب کا نام ہے۔ مجھے کبھی کسی مسلمان سے ملنے کا بھی اتفاق نہ ہوا تھا۔ کالج میں چند اساتذہ مسلمان تھے لیکن وہ بھی محض نام کے مسلمان تھے ان کی معاشرت اور ہماری معاشرت میں کوئی فرق نہ تھا۔ مجھے ذہنی طور پر مسلمانوں سے نفرت تھی کیونکہ ہمارے ملکی اخبارات اور ٹی وی ببانگ دہل مسلمانوں کی مذمت کیا کرتے تھے۔ اس بات کا بار بار اعلان کیا جاتا کہ مسلمان دہشت گرد طبقہ ہے ہمیں یہ نصیحت کی جاتی کہ ایک مسلمان کے سامنے سے نہ گزرو کیونکہ وہ بلا دریغ تمہیں قتل کر دے گا۔  اور یہ کہ مسلمان سے لین دین مت کرو کیونکہ بنیادی طور پر وہ بہت بر ے لوگ ہیں۔

 

کمپیوٹر سائنس میں بی ایس سی کرنے کے بعد مجھے اور میرے ایک دوست کو سعودی عرب کے ایک بنک میں کمپیوٹر انجینر کی جاب مل گئی چنانچہ ہم دونوں سعودی عرب آ گئے۔ میں نہ صرف عربی زبان سے کورا تھا بلکہ مجھے اس سے نفرت بھی تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ اس زبان کی بین الاقوامی طور پر کوئی اہمیت نہیں۔ ا س لیے اس کا سیکھنا غیر ضروری ہے ویسے بھی بنک میں سب لوگ انگریزی جانتے تھے اس لیے عربی کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ میں اور کچھ دوسرے فلپائنی ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ سعودی عرب کی طرز معاشرت میں کئی قسم کی پابندیاں تھیں اس کی وجہ سے بھی ہم متنفر تھے۔ اور اپنے اعتبار سے ایک قسم کی گھٹن میں زندگی بسر کر رہے تھے۔

 

روشنی کی پہلی کرن

 

ایک دن میں نے دمام شہر سے ایک ٹیکسی کرائے پر لی اور اس سے پندرہ ریال کرایہ طے کیا۔ لیکن سفر کے اختتام پر ٹیکسی ڈرائیور نے زیادہ کرائے پر اصرار کیا۔ اس بات پر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے اسے کہا کہ تم پانچ وقت کی نماز پڑھنے کے باوجود اس طرح کی حرکت کرتے ہو؟ یہ سنتے ہی ٹیکسی ڈرائیور بالکل خاموش ہو گیا اور اس نے کہا مجھے صرف پندرہ ریال ہی دیں۔ میں نے اسے پندرہ ریال دیے اور وہ شرمندہ شرمندہ خاموشی سے روانہ ہو گیا۔ جب میں نے اس بات پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ اس ڈرائیور کا دل بہت نیک تھا اور یہ کہ اس کے دل میں اپنے مذہب کی بہت وقعت تھی۔ اس کے بعد میری رائے تبدیل ہو گئی اور میں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ یہاں کے باشندے بنیادی طور پر اچھے لوگ ہیں۔ لیکن ابھی تک مسلمانوں کے بارے میں میری سوچ نرالی تھی اور میرا خیال تھا کہ یہ لوگ بتاتے نہیں لیکن اصل یہی ہے کہ یہ لوگ سورج کی پوجا کرتے ہیں اسی لیے سورج نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات میں عبادت کرتے ہیں۔ ایک دن باتوں باتوں میں ہمارے انچارج عبد اللہ العمری صاحب کی زبان سے عیسیٰ علیہ السلام کا نام نکلا میں اس پر حیران ہوا اور میں نے انہیں فوراً ٹوکا کہ عیسیٰ تو ہمارے ہیں آپ کون ہوتے ہیں ان کا نام لینے والے۔ عبداللہ صاحب میری اس بات سے بالکل ناراض نہ ہوئے بلکہ انہوں نے بڑے دھیمے انداز میں مجھے بتایا کہ سب پیغمبر مسلمانوں کے پیغمبر ہیں اور انہوں نے نوح، ابراہیم ، موسی علیہم السلام کے نام لیے۔ اس سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں میں کوئی تعلق ضرور ہے۔

 

اب میں نے اسلام کے بارے میں چھان بین شروع کر دی کہ دیکھوں کہ یہ تعلق ہے کیا؟ میں مختلف بک سٹوروں پر گیا تاکہ اسلام پر کتب خرید سکوں۔ ایک بک سٹور پر مجھے ایک کتاب نظر آئی Jesus not God son of Marry میں نے یہ کتاب اور ایسی ہی چار اور کتابیں خرید لیں۔ ان کتابوں میں بائبل کے بہت سے اقتباسات تھے میں نے جلدی جلدی بائبل نکالی تاکہ ان کا موازنہ بائبل سے کر سکوں۔ تمام اقتباس بالکل درست تھے اس سے میرا تجسس اور بڑھ گیا۔ دو سال گزر گئے اس دوران میں نے مطالعہ جاری رکھا اور عرب تہذیب کا مطالعہ بھی۔ اتنے عرصہ میں کسی نے بھی مجھے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا اور نہ ہی کسی نے دعوت دی البتہ میرے ہر سوال کا بہت تشفی بخش جواب دیا جاتا۔ میں ایک تبلیغی مرکز بھی جاتا وہاں بھی لوگ مجھ سے خندہ پیشانی سے ملتے لیکن کوئی بھی مجھے اسلام قبول کرنے کے لیے نہ کہتا۔ میں نے احمد دیدات کی ویڈیو بھی دیکھیں چونکہ میں خود بھی بائبل کا عالم تھا اس لیے مجھے صاف محسوس ہو گیا کہ عیسائی پادری احمد دیدات کے مقابلے میں عیسائیت کا دفاع نہ کرسکا۔ میری تحقیق سے تین باتیں مجھ پر واضح ہوئیں کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا نہیں ہیں۔ بائبل اپنی اصل شکل میں نہیں۔ اسلام کا یہ دعوی کہ کوئی معبود لائق عبادت نہیں سوائے ایک اللہ کے۔ نہایت سادہ، عقلی اور قابل فہم بات ہے۔ اب میرا ذہن مجھے آواز دے رہا تھا کہ آگے بڑھو اور فیصلہ کرو۔ مجھے اس بات کی فکر نہ رہی کہ میرے دوست رشتہ دار کیا کہیں گے چنانچہ میں ایک دن الخبر کے تبلیغی مرکز میں گیا وہاں میں نے دیکھا کہ مختلف زبانوں میں لیکچر ہو رہے ہیں۔ میں فلپائنی گروپ کے ساتھ بیٹھ گیا اور جوں ہی لیکچر ختم ہوا، ان سے اسلام قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ سب نے مجھے مزید مطالعہ کرنے اور غور کرنے کا مشورہ دیا لیکن میں نے جواب دیا کہ میں نے اچھی طرح غور کر لیا ہے۔ مجھے اس لمحے اور بھی تعجب ہوا کہ کوئی بھی شخص مجھے اسلام قبول کرنے کا نہیں کہہ رہا بلکہ مطالعہ اور غور و خوض کی تلقین کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہاں میں نے اسلام قبول کیا۔ سب لوگ باری باری مجھے گلے ملے اور بہت ہی خوش ہوئے میں وہاں سے واپس آ رہا تھا تو راستے میں ایک سعودی باشندہ کہنے لگا کہ ارے تمہارا چہرہ تو مسلمانوں جیسا ہے۔

 

اس رات میں خوب سکون کی نیند سویا۔ علی الصبح فجر کی نماز کے لیے مسجد میں گیا لیکن میں نماز کے طریقے سے واقف نہ تھا۔ تھوڑی دیر مسجد کے باہر کھڑا رہا۔ اتنی دیر میں ایک سوڈانی بھائی آیا۔ اس نے میرا مسئلہ بھانپ لیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا اندر کیوں نہیں آتے۔ تو میں نے بتایا کہ کل رات ہی اسلام قبول کیا ہے اس لیے نماز کے طریقے سے بے بہرہ ہوں۔ اس نے مجھے ساتھ لیا۔ استنجا ، وضو کا طریقہ سمجھایا اور مجھے کہا کہ جماعت میں شامل ہو جاؤ جیسے دوسرے لوگ کرتے ہیں ان کے ساتھ کرتے جاؤ۔ اور آخر میں دعا کرو اللہ تمہارے لیے راستہ کھول دے گا۔ جب میں نے پہلا سجدہ کیا تو بے حد سکون ملا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے پہلے دن سے لے کر آج تک کوئی نماز قضا نہیں کی۔ اس کے بعد میں باقاعدگی سے ہر شام تبلیغی مرکز جاتا رہا اور کئی گھنٹے تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس دوران میں میری سالانہ چھٹی کا وقت آگیا لیکن میں نے اسے بھی ملتوی کرالیا تا کہ میری تعلیم کا حرج نہ ہو۔ اس تعلیم کے دوران میں مجھے علم ہوا کہ اللہ نے سود حرام کیا ہے۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے جلد از جلد بنک کی نوکری چھوڑ دینی چاہیے۔ میری زندگی ایک نئے دور میں داخل ہو چکی تھی لیکن میرے کولیگز اور ساتھیوں کو اس کی خبر نہ تھی۔ میں لوگوں سے چھپ کر ادھر ادھر نماز ادا کر لیتا۔ ایک دن میں وضو کر کے سیٹرھیوں سے اتر رہا تھا کہ میرا اپنے انچارج عبداللہ صاحب سے آمنا سامنا ہو گیا۔ میرا چہرہ اور ہاتھ ابھی گیلے تھے انہوں نے حیرت سے پوچھا کیا ماجرا ہے ؟ میں نے کہا وضو کیا ہے انہوں نے کہا کہ کیا تم مسلمان ہو چکے ہو۔ میں نے کہا جی ہاں بہت خوش ہوئے۔ اس دن وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور میرے اعزاز میں بہت شاندار ضیافت کا اہتمام کیا۔ اس دن میں محسوس کر رہا تھا کہ گویا میں ان کی فیملی کا ہی ممبر ہوں۔ اسی طرح ایک دن میرے فلپائنی دوستوں نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو میرا راز کھل گیا۔ وہ سب ایک کمرے میں جمع ہو گئے اور مجھے گھیر لیا۔ مجھے سے انہوں نے طرح طرح کے سوال کیے اور مجھے غدار کے لقب سے نوازا۔ پھر انہوں نے اسلام کے بارے میں مختلف سوال کیے میں نے ان کے ہر سوال کا مدلل جواب دیا اور بائبل کھول کر با حوالہ گفتگو کی۔ ان سے کوئی بات بن نہ سکی تو انہوں نے مجھے تنہا کر دیا۔ ہم ہر وقت اکٹھے رہتے لیکن تنہا تنہا۔ چنانچہ میں نے ان کا مکان چھوڑ دیا اور ایک دوسرے نو مسلم فلپائنی دوست کے پاس شفٹ ہو گیا۔ اب ہم دو ہو گئے اور ہم دونوں نے مل کر علم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہم نے ایک مصری استاد سے باقاعدہ قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ بلکہ اصرار کر کے انہیں بھی اپنے گھر میں شفٹ کروا لیا۔ اس طرح ہماری تعلیم کا سلسلہ تیزی سے جاری ہو گیا۔ مجھے بچپن سے گٹار اور پیانو بجانے کا شوق تھا۔ یہ آلات بھی میں معمولی داموں فروخت کر کے نجات حاصل کر لی اسی طرح سگریٹ نوشی بھی یکدم ترک کر دی۔

 

قبول اسلام کے بعد میں اب پہلی بار سالانہ چھٹیوں پر گھر جا رہا تھا۔ دل میں عجیب طرح کی کشمکش جاری تھی۔ میرے روم میٹ رضوان صاحب نے کہا کہ ان کی اہلیہ اور بچے بھی مسلمان ہو چکے ہیں۔ اب میں منیلا جاؤں تو ان سے ضرور ملوں اور انہیں اسلام کی تعلیمات سکھاؤں۔ چند دنوں کے بعد میں منیلا پہنچا تو میرے والدین میرے استقبال کے لیے ایر پورٹ پر موجود تھے۔ ہمارے ہاں مذہبی تعلیم یہ تھی کہ والدین کے احترام میں ان کا ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھنا چاہیے اور ہم ایسا ہی کرتے تھے لیکن اس موقع پر میں نے ایسا نہ کیا بلکہ باری باری ان کے ماتھے پر بوسہ دیا اس سے وہ بہت حیران ہوئے۔ بہر حال ہم خوشی خوشی گھر پہنچے۔ گھر پہنچ کر میں نے بتایا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں میرے لیے سور کا گوشت حرام ہے۔ اس پر میرے والدین چونک پڑے۔ انہوں نے کہا ہم نے تمہارے لیے خاص طور پر سور کی پسلیوں کے گوشت کا اہتمام کیا تھا۔ ہمارے ملک میں سور کی بھنی ہوئی پسلیوں کی ضیافت ایک بڑی ضیافت سمجھی جاتی ہے۔ میں نے نہ صرف ان کی ضیافت کو ٹھکرا دیا بلکہ واضح کیا کہ میں سور کے اجزا سے بنی ہوئی کسی بھی چیز کو ہاتھ نہ لگاؤں گا۔ میرے والدین نے میری درخواست مانتے ہوئے میرے لیے حلال کھانے کا اہتمام کیا۔ منیلا میں قیام کے دوران میں والدین اور رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دی لیکن چونکہ میں دعوت کے اسلوب سے نابلد تھا اس لیے میں اصرار کرنے لگا۔ میری خواہش تھی کہ یہ لوگ جلد از جلد ہدایت کے سائے میں آ جائیں۔ میرے رویے سے گھر کا ماحول کشیدہ رہنے لگا۔ بہت بعد میں یہ بات سمجھ آئی کہ میرا اسلوب صحیح نہ تھا۔ چھٹیوں کے بعد میں واپس سعودیہ آگیا۔ اگلے برس میں اور رضوان صاحب اکھٹے چھٹی پر گھر گئے۔ اس بار میری والدہ نے کوشش کی کہ میں دوبارہ عیسائی مذہب اختیار کر لوں انہوں نے ایک پادری کو گھر بلایا۔ اس نے میرے ساتھ کافی دیر مکالمہ کیا۔ لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام رہا۔ والدہ صاحبہ نے ایک اور پادری کو گھر بلایا اور خود بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئیں تا کہ ہماری بات چیت سن کر تجزیہ کر سکیں۔ والدہ ایک ٹیچر تھیں اور والد آرمی سے ریٹائرڈ تھے۔ والد صاحب اگرچہ بظاہر ہم سے الگ تھلگ تھے لیکن وہ بھی ہماری گفتگو کو توجہ سے سن رہے تھے۔ میں نے پادری صاحب کے ہر سوال کو خود بائبل سے ہی رد کر دیا۔ جب ان کے پاس کوئی دلیل باقی نہ رہی تو وہ یہ کہہ کر رخصت ہو گئے کہ اگلی بار وہ بڑے پادری صاحب کو لے کر آئیں گے جس کی کبھی نوبت نہ آئی۔ پادری کے جانے کے بعد میرے والد نے والدہ سے کہا کہ تمہارے بیٹا کا علم پادری سے زیادہ ہے۔

 

رضوان صاحب کی طرف سے ان کی بیٹی کے ساتھ رشتہ کی پیشکش ہو چکی تھی۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ بنک کی نوکری چھوڑ کر شادی کروں گا۔ میں نے سعودی علما سے رائے لی سب نے بہت اچھی تلقین کی کہ نوکری چھوڑنے کی مخلصانہ نیت کرو اور جب تک دوسری نوکری نہ ملے یہ کرتے رہو۔ میں نے بہت جگہ انٹرویو دیے لیکن ان کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہوتی تھی کہ میں زیادہ تنخواہ چھوڑ کر کم پر کیوں ملازمت کرنا چاہ رہا ہوں۔ اس طرح مجھے نوکری کی تلاش کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ کام موجود تھے لیکن لوگ مجھے نوکری دیتے نہ تھے کہ تمہاری کوالیفیکیشن زیادہ ہے ہم یہ تنخواہ نہیں دے سکتے۔ بہت مشکل سے ایک کمپنی میں میں نے اس شرط پر ملازمت حاصل کی کہ میں ان سے زیادہ تنخواہ کا مطالبہ نہ کروں گا۔ لیکن اس میں اللہ کا فضل یہ ہوا کہ مجھے دمام کے بجائے مدینہ منورہ میں جاب مل گئی اور میں بنک چھوڑ کر وہاں آگیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اپنی زندگی میں جو انقلاب لا رہا تھا جاب اس کا آخری مرحلہ تھا۔ اب شادی کی باری تھی۔ اگلے برس میں اور رضوان صاحب پھر اکٹھے وطن گئے اور شادی ہو گئی۔ شادی میں بھی میں نے والدین سے درخواست کی کہ اسلامی طریقے پر ہو گی اس میں بھی انہوں نے مجھ سے تعاون کیا۔ اب میرے والدین مجھ سے کافی تعاون کرنے لگے تھے۔ رمضان کا پورا مہینا میں منیلا میں مقیم رہا اور میری والدہ میرے لیے سحری اور افطاری کا اہتمام کرتی رہیں۔ چھٹیوں کے بعد میں مدینہ منورہ واپس آگیا اور کچھ عرصے بعد اہلیہ کو بھی بلا لیا۔ اب ہماری دو بیٹیاں ہیں جن کے نام میں نے صفا اور مروہ رکھے ہیں۔ میری حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ تبلیغی مرکز جا کر اعزازی طور پر خدمات انجام دوں۔ اور نئے مسلمانوں سے ملوں اور ان کا ایمان پختہ کروں۔ اسلامی یونیورسٹی کے طلبا کو بھی اعزازی طور پر کمپیوٹر کی تعلیم دیتا ہوں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ میری کوشش قبول فرمائے اور مجھے اور میری فیملی کو آخرت میں کامیاب فرمائے اور میرے والدین کو اسلام کی روشنی عطا فرمائے۔ آمین۔

 

 

  میں نے اسلام کیسے قبول کیا

 

خیرالنسا (شالنی دیوی)

 

 

 

میں تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (یو پی) کے قریب ایک گاؤں کی رہنے والی ہوں۔ میر ا پرانا نام شالنی دیوی تھا۔ میرے والد کا نام چودھری بلی سنگھ تھا۔ میری شادی ہریانہ میں پانی پت ضلع کے ایک قصبے میں کرپال سنگھ سے ہوئی۔ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ چودہ سال رہی۔ اب سے آٹھ سال پہلے میرے اللہ نے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا۔ اللہ کے شکر سے میرے پانچ بچے ہیں جو میرے ساتھ مسلمان ہیں۔

 

مجھے بچپن ہی سے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا دل کو نہ بھاتی تھی۔ میں پیڑ، پودوں، پھولوں، چاند، ستاروں کو دیکھتی تو سوچتی کہ ایسی خوب صورت اور سندر چیزوں کو بنانے والا خود کتنا سندر ہو گا۔ میرے سسرال کے گاؤں میں یو پی کے بہت سے مسلمان کپڑے وغیرہ کی تجارت کے لیے آتے تھے۔ وہ مجھے ایک مالک کی پوجا اور اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں بتاتے۔ میرے ساتھ میرے بچے بھی بڑی دل چسپی سے ان کی باتوں کو سنتے۔ ان کے جانے کے بعد میرے بچے مجھ سے کہتے کہ ماں ہم سب مسلمان ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ کچھ دنوں بعد میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا اور گنگوہ کے علاقے کے دو مسلمانوں کے ساتھ جا کر اپنے بچوں سمیت مسلمان ہو گئی۔

 

اسلام قبول کرتے ہی میرے گھر والوں اور سسرال والوں نے قیامت برپا کر دی۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے حد ستایا۔ ہم سب کو جان سے مارنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر موت زندگی کا مالک ہماری حفاظت کرتا رہا۔ میرے اللہ پر مجھ کو بھروسا رہا اور ہر موڑ پر میں مصلے پر جا کر فریاد کرتی رہی۔ اور اللہ نے میری ہر موڑ پر مدد کی۔

 

میں کس منہ سے اپنے مالک کا شکر ادا کروں۔ میرے گھر والوں اور سسرال والوں نے جو بڑے زمیندار بھی ہیں مجھے منانے کی ہر ممکن کوشش کی جب میں نے فیصلہ سنا دیا کہ میں مر تو سکتی ہوں مگر اسلام سے نہیں پھر سکتی تو پھر انہوں نے میرے ساتھ بڑ ی سختی کی۔ مجھے پیڑ سے لٹکا دیا۔ دسیوں لوگ مجھے لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹنے لگے مگر وہ لاٹھیاں نہ جانے کہاں لگ رہی تھیں۔ میں اللہ سے فریا د کرتی رہی۔ مجھے ایسا لگا کہ مجھے نیند آ گئی ہے یا میں بے ہوش ہو گئی ہوں۔ بعد میں مجھے ہوش آیا تو پولیس وہاں موجود تھی اور وہ لوگ بھاگ گئے تھے۔ مجھے لوگوں نے بتایا کہ اس پٹائی میں خود میرے چچا اور جیٹھ کے ہاتھ ٹوٹ گئے۔ وہ میرے بچوں کو مجھ سے چھین کر لے گئے۔ میرے بڑے بیٹے جس کا نام میں نے عثمان رکھا ہے ، اس کو گھر لے جا کر بہت مارا۔ وہ دو روز بعد کسی طرح جان بچا کر وہاں سے بھاگ گیا۔ تھانہ بھون میں اس نے اپنے ایک مسلما ن دوست کے ہاں پنا ہ لی مگر میرے سسرال نے اسے وہاں بھی ڈھونڈ لیا۔ اس کو مارنے کے لیے وہ بہت سے بدمعاشوں کو چھروں اور چاقوؤں کے ساتھ لے آئے۔ تیرہ سال کا بچہ اور آٹھ دس لوگ چھریوں سے اسے مارنے لگے۔ میرے بچے نے چھری چھیننے کی کوشش کی۔ اسی کوشش میں نہ جانے کسطرح چھری خود مارنے والوں میں سے ایک کے پیٹ میں گھس گئی۔ اور وہ فوراً مر گیا۔ اتنے میں ایک بس آ گئی۔ بس والے نے بس روک دی۔ سواریاں اتریں تو وہ سب لوگ بھاگ گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہاں ایک لڑکا تھا جس کے سارے جسم پر زخم تھے اور ایک شخص مرا ہوا پڑا تھا۔ پولیس آئی اور میرے بیٹے کو جیل بھیج دیا۔ جیل میں اس کی پٹائی ہوتی رہی۔ اس نے صاف بیان دیا کہ چھری چھینتے ہوئے میرے ہاتھ سے اس کے پیٹ میں گھس گئی۔ لڑکے کو آگرہ جیل بھیج دیا گیا۔ میں رات رات بھر مصلے پر پڑی رہتی۔ میں نے سہارے کے لیے ایک مسلمان سے نکاح بھی کر لیا۔ عورتیں مجھے ڈراتیں کہ تیرے بچے اب تجھے ملنے والے نہیں۔ اور تیرے بچے کی ضمانت کوئی نہیں کرائے گا۔

 

میرا بیٹا عثمان آگر ہ جیل میں نماز پڑھتا اور دعا کرتا۔ ایک دن اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک پردہ آسمان سے آیا اور لوگ کہہ رہ رہے ہیں کہ بی بی فاطمہ آسمان سے عثمان کی ضمانت کرانے آئی ہیں۔ ایک ہفتے بعد آگرہ کی ایک دولت مند عورت نے عثمان کی ضمانت کرائی۔ وہ مظفر نگر آیا کرتی تھیں۔ ضمانت ہو گئی تو میں نے اسے دین سیکھنے کے لیے تبلیغی جماعت میں بھیج دیا۔ میں اپنے چار بچوں کی وجہ سے رویا کرتی اور میرے بچے بھی بہت تڑپتے۔ میری بچی چھپ کر نماز پڑھتی۔ اس کو نماز پڑھتا دیکھ کر میرے سسرال والوں نے اس پر مٹی کا تیل چھڑ ک دیا اور آگ جلانا چاہی مگر میرے اللہ نے اسے بچا لیا۔ انہوں نے چار بار دیا سلائی جلائی مگر ایک بال بھی نہیں جلا۔ پھر انہوں نے مشورہ کر کے کھیر پکائی اورکھیر میں زہر ملا دیا۔ وہ کھیر میری دونوں بچیوں کو کھلا دی مگر انہیں کچھ بھی نہ ہوا۔ میری جٹھانی کہنے لگی کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ تو زہر ہی نہ تھا۔ اس نے کھیر چکھی اور فورا ً مر گئی۔

 

میرا بیٹا عثمان جماعت سے آیا۔ میں اور وہ پانی پت کے پاس ایک جگہ جا رہے تھے۔ کہ ہمارے سسرال والوں نے ہمیں گھیر لیا۔ انہوں نے گولیاں چلائیں۔ مگر ایک فائر بھی ہمیں نہ لگا ، گولیاں ہمارے دائیں بائیں سے گزر جاتی تھیں۔ آخر تیئسواں فائر انہیں کے ایک آدمی کے لگ گیا اور وہ مر گیا۔ اس پر وہ بھاگ گئے۔ میں اپنے اللہ سے بچوں کو مانگا کرتی، میرے اللہ مجھے میرے بچے مل جائیں۔ ایک روز ایک عالم مولوی غوث علی شاہ مسجد میں آئے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا قصہ سنایا کہ اللہ نے فرعون کے گھر میں ان کو ان کی ماں سے کیسے ملایا۔ میں گھر گئی اور سجدے میں گر گئی میرے اللہ جب توموسیٰ علیہ السلام کو ان کی ماں کی گود میں پہنچا سکتا ہے تو میرے بچوں کو کیوں نہیں ملا سکتا۔ میں تجھ پر ایمان لائی ہوں میں فریاد کرنے کس سے جاؤں۔ میں تیرے علاوہ کسی سے فریاد نہ کروں گی۔ ساری رات سجدے میں پڑی رہی۔ اسی عالم میں سو گئی۔ خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے اللہ کی بندی خوش ہو جا تیرے بچے تیرے ساتھ ہی رہیں گے۔ صبح میرا بیٹا عثمان پانی پت سے کرنال کے لیے بس اڈے گیا۔ اس نے دیکھا کہ تینوں بہنیں چھوٹے بھائی کے ساتھ بس سے اتریں۔ وہ موقع پا کر بھاگ آئے تھے اور اندازے سے پانی پت آ رہے تھے۔ عثمان چاروں کو لے کر خوشی خوشی گھر آیا۔ میں پھر ساری رات سجدے میں پڑی رہی۔ شکرانے میں۔ اس کے بعد پانچ چھ بار ایسا ہوا کہ میرے سسرال والے مجھے اور میرے بچوں کو تلاش کرتے کرتے آئے۔ ہم انکو دیکھ لیتے مگر ایسا لگتا تھا کہ وہ اندھے ہو گئے ہیں کہ وہ ہمیں نہیں دیکھ پاتے تھے۔ مجھے ہر موڑ پر میرے مالک نے سہارا دیا میں اسکا کسطرح شکر ادا کروں۔

 

عثمان نے قرآن مجید پڑھ لیا۔ ہر سال تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی جاتا ہے۔ میں دعا کر کے اسے بھیج دیتی ہوں کہ حفاظت کرنے والا میرا مالک ہے۔

 

بڑی دو بیٹیوں کی شادی کر دی ہے دونوں داماد بہت دین دار اور نیک ہیں۔ میری بیٹیاں بھی بہت پکی اور سچی مسلمان ہیں۔ ان کی شادی کے وقت میرا بیٹا جیل میں تھا میرے اللہ نے اس کی ضمانت کا انتظام کر دیا۔ اور اس نے خود اپنی بہنوں کو خوشی خوشی رخصت کیا۔ اب وہ اللہ کے فضل سے بری ہو گیا ہے۔ چھوٹی بچی اور بچہ مدرسے میں پڑھ رہے ہیں۔

 

میں نے ایمان لانے کے بعد قدم قدم پر اللہ کی مدد دیکھی مجھے نماز میں بہت مزہ آتا ہے۔ میں نے چھ سال سے تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین نہیں چھوڑی۔ میں نے کیا نہیں چھوڑی میرے مالک نے چھوڑنے نہیں دی۔ جب بھی کوئی ضرورت ہوتی ہے مصلے پر جاتی ہوں اور اپنے مالک سے فریاد کرتی ہوں مشکل حل ہو جاتی ہے۔

 

ہمارے مسلمان بھائی بہن جن کو باپ دادوں سے اسلام مل گیا ہے انہیں اس کی قدر نہیں۔ انہیں بھی چاہیے کہ وہ بھی اللہ پر کامل یقین کریں اور پھر اس کی مدد دیکھیں۔

 

اب میرا ارادہ قرآن مجید حفظ کرنے کا ہے۔ اور اپنی دونوں بچیوں کو بھی دین کا سپاہی اور داعی بنانا ہے۔ چھوٹے بچے کو چاہتی ہوں کہ وہ بھی اجمیر والوں کی طرح لاکھوں لوگوں کو مسلمان بنائے۔ مجھے امید ہے میرے اللہ میری تمنا َضرور پوری کر ے گا اس نے آج تک میری کوئی درخواست رد نہیں کی۔

 

(بشکریہ ماہنامہ ‘اللہ کی پکار’ نئی دہلی ، مئی ٢٠٠٨ ص ٤٢ تا ٤٥)

 

 

 

  میں نے اسلام کیسے قبول کیا

 

ڈان فلڈ (راوی، امتیاز احمد)

 

 

ہر سوسائٹی میں کچھ خوبیاں ہوتی ہیں اور کچھ خامیاں بھی، امریکی سوسائٹی کا طرۂ امتیاز یہ رہا ہے کہ ہر فرد اپنی مرضی سے اپنے لیے راہِ عمل اختیار کرسکتا ہے یہاں تک کہ گھریلو زندگی میں بھی اکثر والدین بچوں کی مرضی اور طرزِ حیات میں زیادہ مخل نہیں ہوتے، بلکہ اکثر بچے مذہبی اور ذاتی امور عین اپنی مرضی سے طے کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں گھریلو زندگی میں متضاد نظریات کے باوجود والدین اور بچے ایک دوسرے سے رواداری سے پیش آتے ہیں:

 

١١  ستمبر ٢٠٠١ء کے واقعہ سے قبل تک امریکی سوسائٹی اسی رنگ میں رنگی ہوئی تھی اور ہمارے دوست ڈان صاحب اسی سوسائٹی کی پیداوار ہیں، انہوں نے مجھے اپنی سرگزشت یوں بیان کی:

 

نئی تہذیب کی جھلکیاں

 

میں امریکہ کے شہر ٹرینٹن، نیو جرسی (Trenton, New Jersy) میں پیدا ہوا، میرے والد صاحب ایک انجینئر تھے، چونکہ امریکی سوسائٹی میں نقل و حرکت بہت زیادہ ہے، ان کا تقرر مختلف شہروں اور ملکوں میں ہوتا رہا۔ مثلاً میں نے ابتدائی تعلیم ریاست انڈیانا (Indiana) میں شروع کی لیکن ہائی اسکول کے دوران مجھے والد صاحب کے ساتھ ایک دوسرے ملک برازیل (Brazil) جانا پڑا۔ میں والدین کے ہمراہ برازیل میں چھ ماہ رہا۔ مجھے وہاں ایک بالکل نئی اور انوکھی تہذیب نظر آئی، وہاں کی زبان بھی مختلف تھی، مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ امریکی طرزِ حیات کے علاوہ زندگی بسر کرنے کے اور بھی طریقے ہیں، اس سے میرے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوئی۔ میں اس نئی زبان اور تہذیب کی مٹھاس سے سرشار ہونا چاہتا تھا، اس لیے میں نے پرتگالی (Portuguese) اور ہسپانوی (Spanish) زبانیں سیکھ لیں، اِس وقت میں پرتگالی زبان تو بھول چکا ہوں البتہ ہسپانوی زبان سے ابھی بھی کام چلا لیتا ہوں۔

 

جب میں والدین کے ہمراہ واپس امریکہ آیا تو میں نے ہائی اسکول کی باقی ماندہ تعلیم انڈیانا ریاست میں ہی مکمل کی، اس کے بعد میں نے ٹیکساس کی یونیورسٹی (University of Texas) میں بزنس ایڈمنسٹریشن میں داخلہ لیا، تاکہ مستقبل میں ایک اچھی نوکری حاصل کرسکوں۔

 

میرے رجحان میں تبدیلی

 

ایک دن میں اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا لاطینی امریکہ (Latin America) کی تہذیب کے بارے میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا، اس کے مطالعہ سے مجھے محسوس ہوا کہ بزنس ایڈمنسٹریشن بہت خشک مضمون ہے، اور لاطینی امریکہ کی تہذیب بہت دلچسپ ہے، اس لیے میں کالج گیا اور بزنس ایڈمنسٹریشن کو خیرباد کہہ کر لاطینی امریکہ سے متعلقہ مضامین چن لیے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ میرے والدین میرے ذاتی معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی نہ کرتے تھے۔ اب میں نے پبلک لائبریری سے کئی اور تہذیبوں مثلاً بدھ مت اور ہندو مت سے متعلقہ کتابیں بھی حاصل کیں تاکہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کی سوچ اور طرزِ معاشرت سے مستفید ہوسکوں۔

 

ایک عجیب واقعہ

 

کالج میں میرا ایک ہندو دوست تھا، اس نے مجھے بتایا کہ آج شام ایک چرچ میں گھریلو پکا ہوا کھانا ہے، اگر میں اس کے ہمراہ اس دعوت پر جاؤں تو وہ میرا تعارف اپنے سعودی دوست سے کروائے گا۔ بطور طالب علم ہم کسی گھریلو کھانے کی دعوت کو نظرانداز نہیں کرتے تھے، پس ہم اس چرچ گئے، اور وہاں ایک سعودی طالب علم سے میرا تعارف کرایا گیا۔ کھانا بہت لذیذ تھا اور ہم نے خوب دل بھر کر کھایا۔ کھانے کے اختتام پر ایک پادری صاحب کھڑے ہوئے، اور بورڈ پر لکھی ہوئی عبارت کو گا گا کر پڑھنے لگے۔ ہمیں بھی اپنے ساتھ دہرانے کو کہا۔ اس پر ہمارا سعودی دوست ابوحسین پھرتی سے کھڑا ہو گیا اور ہمیں اس مجلس کو خیرباد کہنے کا اشارہ کیا۔ ہماری میزبان لڑکی نے کافی کوشش کی کہ ہم رُک جائیں لیکن ابوحسین نے دوٹوک کہا: ہمارا اس مجلس سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا، پس ہم چرچ سے باہر آ گئے اس واقعہ نے ہمیں قریب تر کر دیا یہاں تک کہ ہم نے باہمی طے کیا کہ ہم سب مل کر ایک مکان کرایہ پر لیں گے اور اس میں مل جل کر زندگی بسر کریں گے، چند دنوں بعد ایک ایرانی طالب علم بھی ہمارے ساتھ اس مکان میں رہنے لگا۔

 

اس طرح مجھے کئی تہذیبوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، مجھے دوسرے ملکوں کے کھانے بہت پسند تھے۔ میں نے ان دوستوں سے کھانے پکانے سیکھے، اور انگلیاں چاٹ چاٹ کر کھاتا۔ یہاں دورانِ رہائش میری نظر سے کئی انوکھی چیزیں گزریں، مثلاً میرے ساتھی کھانا ہاتھ سے کھاتے نہ کہ چمچ سے، وہ کھانا کھانے کے لیے زمین پر بیٹھنا پسند کرتے، کھانے کی میز اور کرسیوں پر انہوں نے کبھی بھی کھانا تناول نہ کیا، علاوہ ازیں مجھے یہ سمجھ نہ آتی تھی کہ وہ غسل خانہ جاتے ہوئے پانی سے بھرا برتن کیوں ساتھ لے کر جاتے ہیں؟ بہت بعد میں سمجھ آئی کہ یہ سب اسلامی طریقے ہیں۔

 

میرا مذہب

 

میں اور میرے والدین عیسائی مذہب کے پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ میں محض والدین کے احترام کے طور پر ان کے ساتھ چرچ جاتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ چرچ سماجی سرگرمیوں کے لیے ہے۔ مذہب میں سب سے اہم چیز اخلاق اور کیریکٹر ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں میرے خیالات بہت الجھے ہوئے تھے، اور میں کسی سے بحث مباحثہ کی جرأت بھی نہ کرتا تھا۔ میرے والدین نے مجھے مذہب کی تعلیمات پر زیادہ کاربند ہونے کے لیے کبھی مجبور نہ کیا، بلکہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔

 

میں یہاں یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عیسائی مذہب کے بارے میں میری کم علمی اور کم عملی کا یہ نتیجہ ہوا کہ میرا ذہن دیگر مذاہب کے لیے متعصب نہ بن سکا، اور میں وسعتِ قلبی سے نئے نئے تجربات کا تجزیہ کرتا رہا۔

 

دلکش قدرتی مناظر

 

میں اب تک اپنی زندگی کے اہم ترین مقصد اور مستقبل میں کام کاج کے بارے میں کچھ طے نہ کر پایا تھا، اس لیے میں ایک دوست کے ہمراہ امریکہ اور کینیڈا کی سیر و سیاحت کو نکلا، تاکہ زندگی کی دوڑ دھوپ سے کنارہ کش ہو کر اپنے مستقبل کے بارے میں غور و فکر کر سکوں، امریکہ میں وسیع پارک ہر جگہ موجود ہیں، ہم نے ہوٹلوں کے بجائے انہی پارکوں میں قیام کیا، میں جہاں بھی جاتا دلکش قدرتی مناظر دل موہ لیتے، میں نے سوچا کہ یہ رنگ دار پھول، بلند و بالا درخت اور وسیع و عریض نباتات خود بخود معرضِ وجود میں نہیں آسکتے، یقیناً ان کا کوئی خالق ہے، میرے دل میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ خدا ایک ہے، لیکن مجھے یہ سمجھ میں نہ آتا کہ اس خالق کی کیسے عبادت کروں، اور اس کی کیسے حمد بیان کروں۔

 

بیرونِ ملک کے سفر

 

کالج سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد میرے سب ساتھی اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہو گئے۔ میں نے ابوحسین سے رابطہ قائم رکھا، اس نے مجھے دو ہفتوں کے لیے سعودی عرب آنے کی دعوت دی۔ میں نے اس سفر کی تیاری شروع کر دی۔ مجھے پیرس اور قاہرہ سے ہوتے ہوئے سعودی عرب پہنچنا تھا۔ اس سفر کے دوران میں کئی عجیب و غریب واقعات پیش آئے۔ مثلاً میں نیویارک میں ایک ٹیکسی کے ذریعے ٹریول ایجنٹ کے دفتر جا رہا تھا، ڈرائیور صاحب مصری تھے، انہوں نے جلدی میں اپنی سرگزشت یوں بیان کی: میرا نام طارق ہے، میں یہاں حصولِ تعلیم کے لیے آیا تھا لیکن ناکام رہا، میں اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوں، اور اسی وجہ سے میں نے کئی سال سے والدین سے بھی رابطہ نہیں کیا، آپ چونکہ قاہرہ جا رہے ہیں، میرا یہ خط میرے گھر پہنچا دینا، ممنون ہوں گا۔

 

پس قاہرہ پہنچتے ہی میں ایک ٹیکسی کے ذریعے طارق کے گھر پہنچا، اور میں نے دروازے پر دستک دی۔ ایک بہت بوڑھی عورت نے دروازہ کھولا۔ میں عربی زبان میں بات چیت سے قاصر تھا۔ میں نے خط اس کے حوالے کیا اور طارق طارق کہا۔ اس نے مجھے اندر آنے کی دعوت دی، اور کافی اور بسکٹ پیش کیے۔ اس کے دوسرے لڑکے بھی وہاں موجود تھے، اس عورت نے اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: طارق، یعنی کیا تم نے طارق کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟ کیا وہ زندہ ہے؟ میں نے اپنے ہاتھ آنکھوں سے مس کرتے ہوئے اور سر ہلاتے ہوئے کہا: طارق۔ اس بات چیت، مہمان نوازی اور گھر کے اندرونی ماحول نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا، میں نے اتنے قریب سے ایسی تہذیب کو کبھی پہلے نہیں دیکھا تھا۔

 

سعودی عرب پہنچنے پر بہت گرم جوشی سے میرا استقبال کیا گیا۔ میں نے زیادہ تر وقت ریاض شہر کے قریب ایک گاؤں میں گزارا۔ یہاں مجھے آسمان تلے کھلے میدان میں سونے کا موقع ملا۔ یہاں کا طرزِ معاشرت بالکل مختلف تھا۔ ابوحسین نے چند بکرے ذبح کیے اور پورے گاؤں کے لوگوں کو دعوت دی۔ مجھے ایسی عزت افزائی زندگی بھر دیکھنی نصیب نہ ہوئی تھی، ہماری ایک دوسرے سے محبت بڑھ گئی۔ ایک دن ابوحسین نے اُونٹنی کا دودھ میرے سامنے دوہا اور یہ تازہ دودھ مجھے پینے کو پیش کیا۔ جب میں اس دودھ سے لطف اندوز ہو رہا تھا، ابوحسین کے والد صاحب نے مجھ سے کہا: اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو میں تجھے دس اُونٹ بطورِ تحفہ دوں گا۔ میں نے انہیں برجستہ جواب دیا کہ اگر آپ عیسائی بن جائیں تو میں آپ کو دس اُونٹ بطور ِتحفہ پیش کروں گا۔ ایسے ہی نوک جھوک چلتی رہی، بہرحال میں واپس امریکہ آگیا تاکہ اپنی ملازمت کے فرائض کو سرانجام دے سکوں۔

 

 

میری پہلی نوکری

 

میں نے کالج سے گریجویشن کے بعد بطورِ ٹیچر کام کرنا شروع کر دیا تھا، میں ان لوگوں کو انگریزی پڑھاتا جن کی مادری زبان انگریزی نہ تھی۔ دراصل یہ پروجیکٹ ابوظبی (Abu Dhabi) اور ٹیکساس یونیورسٹی امریکہ کے باہمی تعاون سے چل رہا تھا۔ میں پہلے چھ ماہ ابوظبی میں قیام کرتا، اور وہاں کے شہریوں کو انگریزی کی تعلیم دیتا، پھر ان شہریوں کو چھ ماہ کے لیے امریکہ لاتا، اور ٹیکساس یونیورسٹی میں مزید تعلیم و تربیت دی جاتی۔ میں ابوظبی میں چند اور امریکی اساتذہ کے ساتھ ایک ہوٹل میں مقیم تھا، اس سے مجھے عرب تہذیب سے اور زیادہ متعارف ہونے کا موقع ملا۔ میں اور دوسرے اساتذہ عرب تہذیب میں گھٹن محسوس کر رہے تھے، کیونکہ یہاں کی بعض اقدار ہماری قدروں سے مختلف تھیں۔

 

میرا روز مرہ کا معمول یہ تھا کہ ہوٹل سے اسکول اور اسکول سے واپس ہوٹل پہنچ جاتا مجھے زندگی بے کیف اور بے مزہ نظر آنے لگی۔ مجھے لہو و لعب کی زندگی کی تلاش تھی تاکہ زندگی لطف اندوز بن جائے۔ میں نے سوچا کہ یہ سب چیزیں امریکہ کے شہر لاس ویگاس (Las Vegas) میں میسر ہیں، پس میں نے بوریا بستر باندھا اور وہاں پہنچ گیا۔

 

دنیاوی لذت کی تلاش

 

لاس ویگاس میں مجھے نوکری نہ مل سکی، میں نے اخبار میں اجنبی باشندوں کو انگریزی پڑھانے کا اشتہار دیا۔ شروع میں دو تین طالب علم ملے، میں ان کو اپنے گھر کے باورچی خانے میں بورڈ آویزاں کر کے تعلیم دیتا، بتدریج طلبا کی تعداد بہت بڑھ گئی کیونکہ اس شہر میں اکثریت اجنبیوں کی ہی ہے، اس سے مجھے یہ بھی واضح ہو گیا کہ میرے لیے انگلش ٹیچر کا کام نہایت مناسب ہے۔

 

میں نے ایک اور دوست کے تعاون سے ایک درس گاہ قائم کر لی اور ہمارا کاروبار دن بدن ترقی کرتا گیا۔ اس آسودگی کی وجہ سے میں دوبارہ جوا، شراب، لڑکیوں سے دوستی اور دیگر ایسی ہی برائیوں میں ملوث ہو گیا۔ لیکن زیادہ وقت نہ گزرنے پایا تھا کہ میں ان خبیث حرکات سے متنفر ہو گیا، کیونکہ ان سے زندگی کو کیف ملنے کی بجائے کوفت ملتی تھی۔ ایک بار پھر مجھے اپنی زندگی کی روش بدلنے کی اشد ضرورت پیش آئی۔ میں نے ابوحسین کو اپنی درخواست بھیجی تاکہ وہ مجھے سعودی عرب میں کام دلوا سکے، خوش قسمتی سے مجھے سعودی عرب کے ایک شہر جبیل (Jubail) میں انگریزی زبان کے مدرس کے طور پر ملازمت مل گئی، اور میں جلد ہی سعودی عرب پہنچ گیا۔

 

توبہ کی طرف سفر

 

ایک دن میں فلسفے کی ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا، اس میں لکھا تھا کہ انسان کو مخلصانہ توبہ کرنی چاہیے، میں نے زندگی میں کبھی توبہ نہیں کی تھی۔ اس موقع پر میں ان سب افراد کے بارے میں سوچنے لگا جن پر میں نے کسی نہ کسی طرح ظلم کیا تھا، اور اسی طرح بارہا اپنی ذات پر بھی ظلم کیا تھا، یعنی میں نے اپنی حرص و ہوا اور ذاتی مفاد کو ترجیح دی تھی اور دوسروں کی عصمت اور حقوق کو پامال کیا تھا۔ میرے دل نے آواز دی کہ میرے لیے توبہ کرنا واجب ہے، پس میں نے اس دن صدقِ دل سے توبہ کی۔

 

کافی عرصہ بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ اللہ تعالیٰ مخلصانہ توبہ ضرور قبول فرماتے ہیں۔ میری توبہ قبول ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ایسے حالات پیدا کیے اور ایسے ایسے لوگوں سے رابطہ قائم ہوا جو مجھے ہدایت حاصل کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوئے، ایسے چند واقعات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔

 

 

 

غیرمسلم کا مسجد میں داخلہ

 

ایک بار ابوحسین نے مجھے چند دوستوں کے ہمراہ کھانے کی دعوت دی۔ یہ نماز کا وقت تھا، ہم سب مل کر مسجد چل دیئے، مجھے یہ ہدایت کی گئی کہ تم ہماری طرح وضو کرو اور پھر ہماری ہی طرح نماز ادا کرسکتے ہو۔ میں نماز کے دوران ان کو آنکھ کے ایک کونے سے دیکھتا رہا اور ان کی اتباع کرتا رہا۔ نماز کے بعد میں اپنی جگہ منجمد ہو کر بیٹھ گیا اور انتظار میں تھا کہ اب کیا کرنا ہے؟ میرے دوستوں نے مجھے کہا کہ با جماعت نماز کے بعد میں مسجد کے باہر ان کا انتظار کرسکتا ہوں تاکہ مجھے پہلی بار زیادہ مشکل سے دوچار نہ ہونا پڑے، اس روز مجھے یہ احساس ہوا کہ ایک غیرمسلم بھی مسجد میں دخل ہوسکتا ہے۔

 

اسی طرح ایک بار پھر ایسا ہی معاملہ ہوا، میں ابوحسین کے گھر تھا، سب دوست مل کر گھر میں ہی نماز ادا کرنے والے تھے۔ انہوں نے مجھے رائے دی کہ میں بھی ان کے ساتھ نماز ادا کروں، نماز کے دوران اللہ سے استغفار کروں، اور پھر ہدایت کی دعا مانگوں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کروں۔ اس نماز کے بعد مجھے بے حد ذہنی سکون ملا۔ مجھے ایسا سکون زندگی بھر نصیب نہ ہوا تھا، اس لیے میں ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا کہ بحیثیت غیر مسلم ان مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز ادا کرسکوں اور بار بار ویسی کیفیت پیدا کرسکوں۔

 

مجھے اسلام کی مٹھاس تو مل چکی تھی، لیکن میں ابھی دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے تیار نہ تھا، اس کی کئی وجوہات تھیں۔ مجھے یہ فکر لاحق تھی کہ میں پرانے دوستوں اور اپنے کنبہ سے کٹ جاؤں گا۔ اس کے علاوہ شراب نوشی، منشیات، جوا بازی اور لڑکیوں سے دوستی کو یک دم خیرباد کہنا ناممکن سا لگ رہا تھا۔ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے پر مجھے پورا طرزِ معاشرت بدلنا پڑنا تھا، میں ذہنی طور پر اس کے لیے ابھی تیار نہ تھا۔

 

اسی شہر میں میرا ایک امریکی مسلم دوست بطور انجینئر کام کر رہا تھا۔ اس کا نام علی بشیر تھا۔ ایک دن میں ابوحسین کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کرنے کی غرض سے مسجد گیا، وہاں علی بشیر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے علی بشیر سے کہا کہ میں دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بالکل قریب ہوں، یوں سمجھ لیں کہ میں ایک کنارے پر بیٹھا ہوں، اگر کوئی مجھے معمولی سا دھکا دے تو میں اسلام میں داخل ہو جاؤں گا۔ علی بشیر نے اس مقصد کے لیے مجھے ایک وڈیو دی، تاکہ میں اس سے مستفید ہو سکوں۔

 

ایک اہم پکنک

 

جبیل کے مسلمان شہریوں نے ایک پکنک کا انتظام کیا اس میں ہم چھ غیرمسلم بھی مدعو تھے۔ ہم نے دن بھر مختلف کھیلوں میں حصہ لیا، پھر مل جل کر کھانا کھایا، آخر میں ایک مختصر تقریر سنی۔ میں یہ سن کر دنگ رہ گیا کہ مسلمان سب پیغمبروں اور سب الہامی کتابوں کو مانتے ہیں اور یہ ان کے ایمان کا اہم جزو ہے، مجھے کچھ لٹریچر بھی دیا گیا جس میں مختلف مذاہب کا موازنہ درج تھا۔ ان میں سے ایک کتابچہ بہت ہی دلچسپ تھا۔ اس میں ایک مسلمان اور عیسائی کے درمیان بحث و مباحثہ درج تھا۔ اس لٹریچر کے پڑھنے کے بعد میرا ایک خدا پر یقین اور بڑھ گیا، لیکن میری سمجھ سے بالا تھا کہ اس کی عبادت کیسے کروں اور یہ کہ خدا مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ علاوہ ازیں مجھے یہ بھی واضح نہیں تھا کہ مجھے کس رنگ ڈھنگ سے زندگی گزارنی چاہیے۔

 

دلچسپ ویڈیو

 

ابوحسین صاحب اکثر گھر میں دعوت کا اہتمام کرتے، اس بار بہت بڑا گروپ تھا۔ حسب معمول ہم نے کھانا کھایا، کھانے کے بعد سب نوجوان آپس میں عربی زبان میں باتوں میں مشغول ہو گئے۔ وہاں میں اکیلا ایک بدھو کی طرح بیٹھا تھا۔ اس دوران مجھے اس کمرے میں ایک ٹیلی وژن اور وی سی آر نظر آیا۔ میں اپنی کار سے علی بشیر کی عطا کردہ ویڈیو لے آیا اور اسے دیکھنا شروع کیا، وہ انگریزی زبان میں تھی۔ مہمانوں نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی، میں ویڈیو دیکھنے میں ہمہ تن مشغول رہا۔ اس ویڈیو کا عنوان تھا:”تمہاری زندگی کا کیا مقصد ہے، تم اسلام کے بارے میں کیا جانتے ہو؟”جب میں نے یہ عنوان دیکھا تو فی الفور سوچنے لگا کہ آخر میری زندگی کا کیا مقصد ہے؟ مجھے افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اکثر لوگوں کی طرح میں بھی اپنی زندگی کے اصل مقصد سے بے بہرہ تھا۔

 

یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ ویڈیو ایک امریکی مسلمان جناب خالد یاسین صاحب کا لیکچر تھا جو انہوں نے ١٩٩٠ء میں جدہ کے تبلیغی مرکز میں دیا تھا۔

 

اس ویڈیو سے مجھے تین اہم نکات سمجھ میں آئے:

 

١- زندگی کا مقصد اسلام ہونا چاہیے، یعنی خالقِ حقیقی کی دل و جان سے اطاعت، یہ جواب نہ صرف فصیح و بلیغ تھا، بلکہ پورا مفہوم ایک لفظ اسلام سے ادا ہو جاتا تھا، گویا دریا ایک کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔ اور اتنے مشکل سوال کے جواب کے لیے بہت سی کتابیں پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

 

٢- لفظ اسلام کا ذکر قرآن پاک میں ہے، باقی ماندہ مذاہب کے نام کا ذکر ان کی کتابوں میں مذکور نہیں

 

٣- اس ویڈیو میں نہایت سادہ مثالوں سے رہبری کی گئی ہے، مثلاً خالد یاسین صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ اگر تم عیسائی ہو اور اب اسلام قبول کرنا چاہتے ہو تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اگر تمہارے پاس ایک قیمتی سوٹ ہو اور وہ تمہارے جسم پر ٹھیک نہ بیٹھتا ہو تو اسے خواہ مخواہ پھینک نہیں دیتے، بلکہ اس میں کچھ تبدیلیاں کر کے قابلِ استعمال بنا لیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھنا چاہیے کہ تمہیں بچپن کے سب عقائد کو یک دم خیرباد نہیں کہنا چاہیے بلکہ ان میں ضروری تبدیلیاں کرنے کے بعد اسلامی زندگی میں بھی استعمال کرسکتے ہو۔

 

 

ویڈیو کا مشاہدہ کرنے کے بعد

 

ویڈیو کا مشاہدہ کرنے کے بعد میرے دل کے اُوپر کا پردہ ہٹ گیا۔ مجھ پر حقیقت آشکارا ہو گئی اور میں نے سچائی کو دل و دماغ سے جان اور پہچان لیا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے گناہوں کا انبار میرے جسم سے خارج ہو رہا ہے، اور کسی ہوائی چیز کی طرح دُور اُڑتا چلا جا رہا ہے۔ خصوصاً میرے کندھوں کے گرد سے بوجھ بالکل ہٹ گیا اور مجھے اپنا جسم اتنا ہلکا لگنے لگا گویا میں چھت کی طرف اُڑ رہا ہوں۔

 

قبولِ اسلام کے لیے بے قراری

 

اب میرا دل اسلام کی نعمت سے محروم رہنے کے لیے ایک لمحہ کے لیے بھی تیار نہ تھا۔ میں نے ابوحسین صاحب کو اپنی طرف بلایا اور انہیں اپنے ساتھ کمرے سے باہر لے آیا۔ میں نے ان سے بے قراری سے کہا کہ میں ابھی اور اسی وقت اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ مجھے فی الحال اسلام کے بارے میں مزید مطالعہ کرنا چاہیے۔ لیکن میں نے اصرار کیا کہ میں اب بغیر کسی تاخیر کے ابھی اپنے دل کو نورِ اسلام سے منور کرنا چاہتا ہوں۔ میری اس بے قراری اور اصرار پر ابوحسین صاحب مجھے ایک دوسرے کمرے میں لے گئے، اور میں نے سکون سے وہاں کلمۂ شہادت پڑھا: والحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔

 

اب ابوحسین صاحب نے پورے گروپ میں میرے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ لوگ حیران رہ گئے اور خوشی سے باری باری بغل گیر ہو گئے۔ مجھے یہ ہدایت کی گئی کہ گھر جا کر غسل کروں اور پھر نمازیں ادا کرنا شروع کر دوں، بفضلِ خدا میں نے اگلے روز صبح سے نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں، اور سجدوں میں سرور آنے لگا۔

 

مسلم نام

 

میں دو دن بعد جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے گیا۔ ابوحسین صاحب نے مجھے یہ رائے دی کہ یہاں سب نمازیوں کے سامنے دوبارہ کلمہ پڑھوں۔ میں نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ ابوحسین صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون سا مسلم نام پسند کرتے ہو تاکہ امام صاحب اس مسلم نام سے تمہارا تعارف کروا سکیں۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ فی الحال مجھے کوئی نام یاد نہیں آیا۔ امام صاحب میرے امریکی نام سے ہی تعارف کروا دیں تو بہتر ہے۔ اس کے بعد ابوحسین صاحب میرے قریب بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہو گئے۔ اچانک انہوں نے اپنی کہنی سے میرے جسم کو چھوا اور کہنے لگے کیا تجھے یحییٰ نام پسند ہے؟ میں نے پوچھا: یحییٰ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا: John the Baptist یعنی یحییٰ علیہ السلام۔ میں نے کہا کہ John the Baptist کو اپنے پرانے مذہب سے بھی پہچانتا ہوں۔ ابوحسین صاحب نے کہا کہ اس کے دوسرے معنی نئی زندگی کے بھی ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ میری ایک نئی زندگی ہے، اس لحاظ سے بھی یہ نام مناسب ہے۔ اس طرح میں نے تعارف سے پہلے ہی یحییٰ نام پسند کر لیا، اور امام صاحب نے جمعہ کی نماز کے بعد میرا اسی نام سے تعارف کروایا۔

 

تقریباً چار سو لوگوں کے سامنے کلمہ پڑھنے کے بعد سب افراد بے حد خوشی اور پیار سے مجھ سے بغل گیر ہوئے۔ بعض لوگ باری باری گلے ملتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ تم نے اپنی زندگی میں یہ سب سے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ ہر شخص انفرادی طور پر گلے ملے بغیر مسجد سے نہیں جانا چاہتا تھا، اس محبت اور اخلاص سے میرا اسلامی جذبہ اور حوصلہ بہت بلند ہو گیا۔

 

اسلامی تعلیم و تربیت

 

یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں ایک اسلامی ملک میں مقیم تھا، اس لیے اسلامی تعلیم و تربیت حاصل کرنا بہت آسان تھا۔ میں نے چند اجنبی ممالک کے مسلمانوں کے ہمراہ ہفتہ میں کم از کم ایک دن تعلیم کے لیے مقرر کیا، یہ سلسلہ چار سال تک جاری رہا۔ میں نے عربی، حفظ قرآن اور فقہ وغیرہ سیکھ لیے۔ یہاں یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ میں نے ١٩٨٤ء کے سعودی سفر سے پہلے ہی ایک کتاب سے خود بخود عربی حروف پڑھنا اور لکھنا سیکھ لیا تھا۔ اسی وجہ سے میں نے قران پاک کی تلاوت کرنا بہت جلد سیکھ لی، قرآن پاک کی زبان عربی ہے۔ میرے خیال میں ہر مسلمان کے لیے عربی سیکھنا اور سمجھنا نہایت اہم ہے۔ چند سال کے بعد جب میں مدینہ منورہ منتقل ہوا تو یہاں کے روحانی ماحول نے میرے دل کو اور بھی پاک کر دیا، الحمد للہ!

 

شادی خانہ آبادی

 

اسلام کی تعلیمات کے مطابق شادی کرنا ضروری ہے، میں نے سوچا کہ میں اپنے بچوں کو سب سے قیمتی تحفہ یہ دوں گا کہ عربی زبان ان کی مادری زبان ہو، اس لیے بہتر یہ ہو گا کہ میں کسی عربی نسل کی لڑکی سے شادی کروں۔ اس سوچ کے تحت میں نے ایک شامی لڑکی سے شادی کی اور اللہ کے فضل سے ہمارے بچوں کو عربی زبان پر خوب عبور ہے۔

 

چھٹیوں کے دوران میں امریکہ گیا، میرے دوست میرا مذاق اُڑانے لگے اور بار بار کہتے کہ تم اس عورت سے کیسے شادی کرسکتے ہو جسے تم ذاتی طور پر پوری طرح سے نہیں جانتے ہو؟ میں نے انہیں وضاحت کے طور پر جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں میاں بیوی کے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین کر دیا ہے اور دونوں کا کردار بھی مخصوص ہے۔ یہ سب خالق مطلق کے قوانین ہیں جو کہ انسان کے بنائے ہوئے تمام قوانین سے بدرجہا بہتر و افضل ہیں۔ اگر ہم ان قوانین کی خلوصِ نیت سے پیروی کریں تو میاں بیوی کے تعلقات میں ذرا بھی آنچ نہیں آتی، بلکہ ایک مثالی اور پُرسکون زندگی نصیب ہوتی ہے۔ انہوں نے میری بات سن کر قہقہہ لگایا۔ میں نے امریکی دوستوں پر ان سے بھی بڑھ کر قہقہہ لگایا اور یہ کہا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ تم شادی سے پہلے کئی لڑکیوں سے دوستی لگاتے ہو، تمہارا یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے تم کار خریدنے سے پہلے اسے ٹیسٹ ڈرائیو (test drive) کرتے ہو، یہ سن کر وہ لاجواب ہو گئے۔

 

 

والدین کا ردّ عمل

 

میرے اسلام قبول کرنے کی خبر سن کر میرے والدین کو کافی کوفت ہوئی، لیکن وہ بتدریج قدرے رواداری سے کام لینے لگے، اور کہنے لگے کہ اگر تم اس سے خوش ہو تو ہم بھی تمہاری خوشی میں شریک ہیں۔

 

ایک بار میری بہن نے مجھے امریکہ سے سعودی عرب فون کیا اور یہ اطلاع دی کہ میری والدہ صاحبہ بہت بیمار ہیں، میں اور میری اہلیہ فی الفور امریکہ پہنچے، میں اور میری اہلیہ حسبِ استطاعت ان کی عیادت و خدمت کرتے رہے، وہ میری اہلیہ کی مخلصانہ خدمات سے بہت متاثر ہوئیں۔ ایک دن میں نے والدہ صاحبہ سے پوچھا: کیا آپ کا ایک خدا پر یقین ہے۔ وہ کہنے لگیں: ہاں، تو میں نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ مندرجہ ذیل الفاظ عربی میں دہرائیں، یعنی انہیں کلمہ پڑھنے کو کہا، میری والدہ صاحبہ نے اسے میرے ساتھ تین بار دہرایا، پھر میں نے یہ کلمہ انگریزی میں دہرایا یعنی اللہ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی بھی قابلِ عبادت نہیں۔ پھر ایک دن میں نے والدہ صاحبہ سے پوچھا: کیا آپ کا خدا کے پیغمبروں یعنی آدم علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام، اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان ہے؟ کہنے لگیں: ہاں، تو میں نے ان سے درخواست کی کہ ایسی صورت میں آپ میرے ساتھ یہ الفاظ عربی میں دہرائیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، پھر ہم نے یہی کلمہ انگریزی زبان میں دہرایا، مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ انہوں نے یہ کلمہ بھی کم از کم دو بار دہرایا، والحمد للہ!

 

ایک غیر معمولی مشاہدہ

 

ایک دن میری والدہ صاحبہ مجھ سے کہنے لگیں کہ تمہارے ماتھے سے روشنی کی بہت شعاعیں نکل رہی ہیں، میں نے انہیں وضاحت کی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کرنے کے باعث ہے، اور یہی روشنی قیامت کے دن پُل صراط پر ہماری راہنمائی کرے گی۔ میری والدہ صاحبہ کے اس مشاہدہ کا ذکر قرآن پاک کی سورۃ الحدید میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن مومن مردوں اور مومن عورتوں کے سامنے اور دائیں طرف روشنی ٹھاٹھیں مار رہی ہو گی، جو کہ انہیں جنت کی خوشخبری دے رہی ہو گی، وہ جنت جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، یہ واقعی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

 

میری والدہ صاحبہ اسلام قبول کرنے کے تقریباً پانچ دن بعد اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا بے حد ممنون ہوں جنہوں نے میری والدہ صاحبہ کو ان کے دنیا میں آخری ایام کے دوران ہدایت سے سرفراز فرمایا، اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیئے۔

 

یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا کہ میری والدہ صاحبہ اپنی زندگی میں دل کھول کر خیرات کرتیں، اور دوسروں کی ضروریات کو ذاتی ضروریات پر ترجیح دیتی تھیں۔ غالباً غربا و بے کسوں کی مدد اور صلہ رحمی ان کے کام آ گئی۔

 

میرے باقی رشتہ دار اپنی طرزِ حیات کو نہیں بدلنا چاہتے اور وہ پرانے انداز میں ہی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم پھر بھی ایک دوسرے کو مروّت اور احترام سے ملتے ہیں۔

 

اس وقت پروفیسر یحییٰ صاحب سعودی عرب کی ایک معروف یونیورسٹی میں انگریزی کی تعلیم کے لیے مامور ہیں۔ انہوں نے مختلف مذاہب کے موازنے پر ایک بہت اعلیٰ کتابچہ شائع کیا ہے، جس کا نام ہے : The Best Way to Live and Die (یعنی) جینے اور مرنے کا بہترین طریقہ۔

 

یہ کتابچہ وامی WAMY ( World Assembly of Muslim Youth) سعودی عرب سے مفت ملتا ہے، ان کی خواہش ہے کہ ایسی ہی اور کتابیں شائع کریں تاکہ لوگ ان کی سوچ اور تجربہ سے مستفید ہوسکیں۔

 

وہ مدینہ منورہ کے تبلیغی مرکز میں اعزازی طور پر کام کر رہے ہیں تاکہ نئے مسلمانوں کے ایمان کو فروغ دیں، اور ان کے دلوں کو تقویت ایمانی سے سیراب کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائیں اور انہیں اجرِ  عظیم عطا فرمائیں، آمین!

 

پروفیسر یحییٰ صاحب کو غیرمسلم لوگوں سے انگریزی زبان میں بات چیت کرنا بہت مرغوب ہے، ان کا ای میل ایڈریس حسب ذیل ہے:

 

dflood58_2000@yahoo.com

 

 

  وقنا عذاب النار کے ورد سے اسلام کی سعادت عظمیٰ کا حاصل ہونا

 

مولوی محمد عثمان قاسمی

 

 

 

میرا نام محمد عثمان ہے، پلول ضلع فرید آباد (ہریانہ) کے قریب ایک گاؤں میں ایک غیرمسلم راج پوت گھرانے میں پیدا ہوا۔ میرا پہلا نام سنیل کمار تھا۔ میرے والد اپنے گاؤں کے ایک معمولی کسان ہیں۔ فروری ١٩٩٢ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا۔ میری عمر اب تقریباً ٢٥ سال ہے۔ میں نے دینی تعلیم کا آغاز ١٩٩٢ء میں مدرسہ ہرسولی میں کیا۔ ناظرہ قرآن پاک کے بعد حفظ شروع کیا۔ بعد میں دارالعلوم دیوبند میں حفظ اور عالمیت کی تکمیل کی۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذٰلک

 

میری زندگی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کرم کی ایک نشانی ہے۔ میرے اللہ نے مجھ ناچیز کو ہدایت سے نوازنے کے لیے عجیب و غریب حالات اور نشانیاں دکھائیں۔ گھریلو حالات کی وجہ سے آٹھویں کلاس کے بعد میں نے تعلیم بند کر دی اور روزگار وغیرہ تلاش کرنا شروع کیا۔ میری کلاس کا ایک میواتی لڑکا عبدالحمید میرا دوست تھا، جو قصبہ ہتھین کے پاس کا رہنے والا تھا۔ ہم دونوں میں بے انتہا محبت اور دوستی تھی۔ عبدالحمید بھی گھریلو حالات کی وجہ سے پلول میں کار مکینک کا کام سیکھنے لگا۔ کچھ دن کے بعد میں بھی اس کے ساتھ ورکشاپ جانے لگا۔ عبدالحمید کے والد میاں جی تھے اور ہتھین کے قریب ایک گاؤں میں جمعیت شاہ ولی اللہ کی طرف سے امام تھے۔

 

اس گاؤں کے پسماندہ مسلمان ١٩٤٧ء میں اور اس سے پہلے مرتد ہو گئے تھے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خدام کو دعوت کے کام کے لیے لگایا تھا اور یہاں کام کرنے والوں کے لیے بڑی دعائیں مانگیں اور بشارتیں سنائی تھیں۔ اس گاؤں میں کوئی مسجد نہیں تھی۔ ایک مزار کے ایک حصے میں وہ میاں جی صاحب رہتے تھے۔ بستی کے لوگ ان کو کھانا بھی نہیں دیتے تھے۔ وہ اکیلے اذان دیتے اور نماز پڑھتے۔ کچھ بچے کبھی کبھی ان کے پاس آ جاتے تھے۔ وہ ان کو کلمہ یاد کراتے۔ وہاں کے مسلمان مرتد ہو چکے تھے۔وہ سب بھاڑے کا کام کرتے تھے۔ یہاں ایک مٹی کا بڑا اُونچا ٹیلہ تھا۔ یہ سب لوگ وہاں سے مٹی اٹھاتے اور لوگوں کے یہاں ڈالتے۔ ایک روز وہ لوگ یہاں سے مٹی کاٹ رہے تھے کہ اچانک وہاں انھیں ایک خالی کنویں میں سفید کپڑا دکھائی دیا۔ انہوں نے آگے سے مٹی ہٹائی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک لاش ہے۔ یہ لوگ ڈرے اور میاں جی کو بلایا اور کہنے لگے کہ کوئی جِنّ یا پریت ہے۔ میاں جی آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ سفید ریش کی میت ہے۔ وہ اس طرح رکھی ہوئی تھی جیسے کہ آج ہی انتقال ہوا ہو۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ یہ کسی اللہ والے مومن کی میت ہے۔ اللہ کے نیک بندوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد ان کو دلہن کی طرح سلا دیا جاتا ہے اور مٹی بھی ان کی حفاظت کرتی ہے۔ اس واقعہ سے گاؤں والوں پر بڑا اثر ہوا اور ان میں سے خاصے لوگ ارتداد سے توبہ کر کے مسلمان ہو گئے۔ اپنے بچوں کو بھی میاں جی کے پاس پڑھنے بھیج دیا اور مسجد کے لیے جگہ دے دی، جو اللہ نے بنوا بھی دی۔

 

ایک روز عبدالحمید صاحب اپنے والد میاں جی کے پاس گاؤں گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ چلا گیا۔ میاں جی نے کھانے کا انتظام کیا۔ اتفاق سے پلیٹ ایک ہی تھی۔ کھانے سے پہلے میاں جی نے کہا: ذرا ٹھہرو، میں گاؤں سے دوسری پلیٹ لے آؤں۔ ہم دونوں نے کہا کہ الگ پلیٹ لانے کی ضرورت نہیں، ہم دونوں ایک ہی پلیٹ میں کھا لیتے ہیں۔ یہ کہہ کر ہم دونوں کھانا کھانے لگے۔ میاں جی نے عبدالحمید سے کہا کہ بیٹا! جب تم دونوں میں اتنی محبت اور دوستی ہے تو اپنے دوست کو مسلمان کیوں نہیں بنا لیتا ۔ ان کے والد نے مجھ سے کلمہ پڑھنے اور مسلمان ہونے کے لیے بہت خوشامد کی اور اصرار کیا۔ کئی بار وہ رونے بھی لگے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اسلام کا کوئی منتر (کلمہ) مجھے بتایئے۔ میں اس منتر کو پڑھوں گا۔ اگر میں نے کوئی چمتکار (کرشمہ) دیکھا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔ میاں جی کو جماعت والوں نے ایک دعا یاد کرائی تھی، وہ انہوں نے مجھے یاد کرائی:

 

اللھم اجرنی من النار

 

اور کہا کہ چلتے پھرتے پڑھا کرو۔

 

میں نے ان سے کہا کہ اس کا مطبل (مطلب) مجھے بتاؤ۔ انہوں نے کہا: مطلب تو مجھے بھی معلوم نہیں۔ کل مفتی رشید صاحب کے پاس ہتھین جاؤں گا ان سے معلوم کر کے بتاؤں گا۔ اگلے روز ہتھین گئے۔ میں بھی دوسرے دن شام کو اس گاؤں میں ان سے مطلب معلوم کرنے پہنچا۔ انہوں نے بتایا کہ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! مجھے دوزخ (نرک) کی آگ سے بچا۔ میں نے سوال کیا کہ نرک (جہنم) کی آگ سے بچانے کا کیا مطلب ہے؟

 

انہوں نے بتایا کہ جو آدمی ایمان لائے بغیر مر جائے، وہ ہمیشہ نرک (جہنم) کی آگ میں جلے گا اور جو ایمان پر مرے گا، وہ جنت میں جائے گا۔

 

میں نے کہا کہ کیا واقعی یہ بات سچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بالکل سچی ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا اور میں نے عبدالحمید سے کہا کہ تو میرا کیسا دوست ہے، اگر میں اسی طرح مر جاتا تو میں تو ہلاک ہو جاتا! تو نے کبھی مجھ سے نہیں کہا۔

 

میاں جی نے کہا: واقعی بیٹے! تم صحیح کہتے ہو۔ عبدالحمید کو تمہارے ایمان کے لیے زیادہ فکر کرنی چاہیے تھی۔ بیٹے! اب جلدی سے کلمہ پڑھ لو۔ میں تیار ہو گیا۔ وہ مجھے لے کر اگلے روز ہتھین مدرسہ گئے۔ مفتی صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا اور میرا نام محمد عثمان رکھ دیا۔ الحمدللّٰہ علٰی ذلک۔

 

تیسرے روز مجھے مفتی صاحب نے قانونی کارروائی کے لیے ایک صاحب کے ساتھ فرید آباد بھیج دیا۔ میں نے فریدآباد ضلع کے جج کے سامنے اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں بیان حلفی دیا۔ ضلع کا جج متعصب قسم کا آدمی تھا، اس نے نابالغ کہہ کر مجھے مقامی تھانہ انچارج کے حوالے کرنے اور تحقیقات کا حکم جاری کر دیا۔ ہتھین تھانے کے انچارج جناب اومیش شرما تھا۔ وہ کسی ضروری تفتیش کے لیے جا رہے تھے، انہوں نے انسپکٹر بلبیرسنگھ کو میرا کیس سونپا اور چلے گئے۔ بلبیرسنگھ بہت ظالم اور متعصب تھا۔ اس نے مجھے بہت دھمکایا اور بے دردی سے پہلے ہاتھوں سے مار لگائی اور جب میں نے ایمان سے پھرنے سے انکار کیا تو ڈنڈے سے بے تحاشا مارا۔ میرے بدن میں جگہ جگہ سے خون بہنے لگا۔ میں ہر وقت اللھم اجرنی من النار پڑھتا تھا۔ مار کھاتے وقت کبھی کبھی زور سے یہ دعا منہ سے نکل جاتی۔ اس نے کہا: یہ کیا پڑھتا ہے؟ اور ساتھ ہی مجھے گالیاں دیں۔ میں نے دعوت کی نیت سے اسے اس دعا کا مطلب بتایا۔ اس کو اور بھی غصہ آیا۔ اس نے دو سپاہیوں کو کہا کہ لوہار کی بھٹی پر جا کر لوہے کے سریے گرم اور لال کر کے لاؤ اور ننگا کر کے اس کو داغ دو۔ ہم دیکھیں کہ یہ آگ سے کیسے بچے گا اور جب تک یہ اپنے دھرم (مذہب) میں واپس آنے کو نہ کہے، اس وقت تک اس کو نہ چھوڑنا۔ وہ سپاہی قریب ہی موجود لوہار کی بھٹی پر گئے اور لوہے کے چار سریے بالکل آگ کی طرح لال کر کے تھانے میں لائے۔ میرے اللہ کا کرم کہ میں دعا پڑھتا رہا۔ انہوں نے میری شرٹ اُتاری اور میری کمر پر سریوں سے داغ دینا چاہا، مگر اللہ کا فضل کہ مجھے ذرا بھی اثر نہیں ہوا۔ وہ سپاہی حیرت زدہ ہو گئے۔ انہوں نے یہ بات انسپکٹر بلبیر کو بتائی۔ اس وقت تک سریوں کی لالی ختم ہو گئی تھی۔ جب انسپکٹر بلبیر نے دیکھا کہ میری کمر پر کوئی اثر نہیں ہوا تو اس نے غصے میں سپاہیوں کو گالی دیتے ہوئے کہا کہ تم سریے گرم کر کے نہیں لائے ہو۔ یہ کہہ کر ایک سریہ اٹھایا تو اس کا ہاتھ بری طرح جل گیا، وہ تکلیف کے مارے بے تاب ہو گیا اور دو سپاہیوں سے کہا: اس کو سامنے بھگا کر گولی مارو، ورنہ یہ بہت سارے لوگوں کے دھرم بھرشٹ (مذہب برباد) کر دے گا۔ میں ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں۔ انسپکٹر چلا گیا۔ وہ دونوں سپاہی مجھے زور دیتے رہے کہ دوڑو۔ میں نے کہا: میں چور نہیں ہوں، مجھے گولی مارنی ہے تو سامنے سے مار دو۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تھانہ انچارج جناب اومیش شرما آ گئے۔ انہوں نے سارا ماجرا سنا، پولیس والوں کو دھمکایا کہ اس کا وشواس (یقین) ایسا پکا ہے کہ تم گولی بھی مار دو گے تو اس کو نہیں لگے گی۔ اس نے مجھے کھانا کھلایا اور پھر ایک چارج شیٹ لگا کر رہتک جیل بھیج دیا اور مجھ سے کہا کہ بیٹا! تیرے لیے اس میں بھلائی ہے کہ میں تجھے جیل بھیج دوں، ورنہ تجھے کوئی مار دے گا۔ اللہ کا کرم میری اس مصیبت سے جان چھوٹی اور اللہ کی رحمت پر میرا یقین اور مضبوط ہو گیا۔

 

یہ تھانہ انچارج کوتوال اومیش شرما جی بہت ہی اچھے آدمی تھے۔ تیسرے روز رہتک جیل آئے اور مجھ سے میرے اسلام قبول کرنے اور آگ کا اثر نہ کرنے کا پورا ماجرا سنا اور پوچھا: کیا واقعی تجھ پر ان گرم سریوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں نے کہا: آپ میرے ساؤ (خیرخواہ) ہیں، آپ کو سچ نہ بتاؤں گا تو کس کو بتاؤں گا۔

 

جب ان کو یقین ہو گیا کہ اللہ نے مجھے آگ سے بچایا تو وہ بہت متاثر ہوئے۔ میری ضمانت کرائی ، فائنل رپورٹ لگائی ، مجھے جیل سے چھڑایا اور مجھ سے کہا کہ مجھے بھی ان مولوی صاحب سے ملاؤ جنہوں نے تمہیں مسلمان کیا ہے۔ ہتھین آ کر مفتی رشید احمد صاحب سے ملے اور کچھ دیر اسلام کی باتیں معلوم کیں اور وہیں مسلمان ہو گئے۔ مفتی صاحب نے ان کو اسلام ظاہر نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ کچھ عرصے کے بعد بابری مسجد منہدم کر دی گئی۔ پورے میوات میں فسادات ہوئے۔ ہتھین کا علاقہ ہمیشہ فسادات کا گڑھ رہتا تھا مگر کوتوال شرما جی جو اب عبداللہ ہو چکے ہیں، کی وجہ سے اس علاقے میں مسلمانوں پر کوئی ظلم نہیں ہوا اور انہوں نے مسلمانوں کی بڑی مدد کی۔

 

میں آج کل ضلع الور (راجستھان) میں جمعیت شاہ ولی اللہ کے تحت دعوتی کام کر رہا ہوں۔ وہاں پر ایک ادارے کی ذمے داری میرے سپرد ہے۔ مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کے واسطے ہی سے ہرسولی مدرسے میں میرا داخلہ ہو گیا تھا۔ میں نے ان کی ہی نگرانی میں زندگی گزارنے کا عزم کیا ہے۔(بشکریہ ماہنامہ بیداری، جون ٢٠٠٨)

 

 

 

  سونیاجین کے قبولِ اسلام کی کہانی اس کی اپنی زبانی

 

 

سونیا جین

 

 

 

میرا نام سونیا جین تھا۔ چاندنی چوک دہلی-٦ میں جین مت کے ایک مذہبی گھرانے میں ٢ جون ١٩٧٥ء کو میں پیدا ہوئی۔ میری بہن انورادھا جین جو فی الحال گجرات میں اپنے بال بچوں کے ساتھ مقیم ہیں، ان پر بھی اسلام کی سچائی واضح ہو چکی ہے۔ اس کا وہ بار بار اظہار بھی کر چکی ہیں، لیکن اپنے شوہر کی وجہ سے پس وپیش میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں جلد ہی ہدایت کی توفیق دے۔ آمین! ہم سب ان کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ میرا ایک بھائی بھی ہے، جس کا نام پہلے پارول کمار گپتا تھا، اب مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد محمد عمران ہے۔ میں نے چاندنی چوک کے جین اسکول میں بارہویں پاس کی۔ اس کے بعد تعلیم ترک کر دی، البتہ گھر پر رہ کر کچھ کچھ پڑھ لیا کرتی تھی۔ میں اپنی ماں اور دوسرے رشتے داروں کے ساتھ جین مندر بھی جایا کرتی تھی، جہاں ہم سب پوجا پاٹھ وغیرہ میں شرکت کرتے، پوجا کرتے، پری کرما کرتے (پھیری لگاتے)۔

 

ہمارا ماحول اس وقت پورا جینی تھا۔ کسی دوسرے ماحول کی ذرا بھی جان کاری نہیں تھی، لیکن پھر بھی جین مندروں میں جب ہمارے رشتے دار بالکل ننگے سادھوؤں کے چرنوں کو چھوتے تو میں ہمیشہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتی۔ میری نگاہیں شرم کے مارے زمین میں گڑ جایا کرتی تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے، لیکن چونکہ ہمارے رشتے دار ایسا کرتے تھے اور ہم دیکھتے آرہے تھے، اس لیے میں چپ سادھ لیتی۔ اسی طرح ہمارے دن گزرتے رہے، حتیٰ کہ میں ١٩سال کی ہو گئی۔ میری ماں ان دنوں کمپیوٹر ڈیزائننگ اینڈ پروسیسنگ کمپنی میں کام کرتی تھیں۔ اس کمپنی کے پروپرائٹر محترم عشرت صاحب تھے، جو اب، میرے رفیق حیات ہیں۔ عشرت صاحب کا رویہ اپنے اسٹاف کے تئیں بہت نرم تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ سارے اسٹاف کے ساتھ مساویانہ تھا۔ وہ سارے اسٹاف کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر لنچ کیا کرتے تھے، جہاں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی شامل رہتے تھے۔ ان میں شاکاہاری (سبزی خور) بھی تھے اور مانساہاری (گوشت خور) بھی۔ ہم لوگ شدھ شاکاہاری (خالص سبزی خور) تھے، لیکن میری ماں نے سب کے ساتھ کھانے پر کمپرومائز کر لیا تھا۔ تین مہینے بعد وہاں اسامی نکلی تو میری ماں نے مناسب سمجھا کہ میں بھی ان کے ساتھ کام کروں۔ یہ جنوری ١٩٩٥ء کی بات ہے۔ جب میں پہلے روز وہاں کام کرنے آئی تو میری ماں اس بات پر کافی پریشان تھیں کہ میں کس طرح سب کے ساتھ مل کر لنچ کروں گی، جب کہ وہاں دوسرے اسٹاف کے لوگ مانساہاری (گوشت خور) بھی ہیں، اس لیے انھوں نے سب سے پہلے جا کر عشرت صاحب سے بات کی کہ میں تو آپ لوگوں کے ساتھ مل کر کھا لیتی ہوں، لیکن میری بیٹی سونیا جین بڑی مذہبی ہے اور شدہ شاکاہاری (خالص سبزی خور) ہے، وہ ہمارے ساتھ کھانا کھانے کے لیے رضامند نہیں ہے، اس لیے وہ الگ تھلگ کھا لیا کرے گی۔ عشرت صاحب نے ان کی بات سن کر مجھے آفس میں طلب کیا اور پوچھا کہ آپ کو گوشت یوں ہی ناپسند ہے یا یہ پاپ ہے؟ ”یہ تو بہت بڑا پاپ ہے”۔ میں نے اپنے علم کے مطابق جواب دیا، جو اپنے پرکھوں سے سنتی آئی تھی۔ ”اگر یہ پاپ دنیا سے ختم ہو جائے اور سارے ہی لوگ سبزی کھانے لگیں تو کیسا رہے گا؟” ”یہ تو بہت اچھا رہے گا”۔ ”اچھا یہ بتایئے کہ اس وقت آلو کیا بھاؤ ہے؟” میں نے کہا: ”یہی کوئی چار پانچ روپے کلو”۔ انہوں نے کہا: ”اگر سب لوگ گوشت خوری ترک کر دیں اور ساگ سبزی کھانے لگیں تو آلو سو روپے کلو ہو جائے گا، کیونکہ ٩٥ فی صد لوگ مانساہاری (گوشت خور) ہیں۔ پھر بتایئے کہ سب کے جیون (زندگی) کی گاڑی کیسے چلے گی اور لوگ کس طرح سے اپنا پالن پوسن (گزربسر) کریں گے ؟” ان کی بات سن کر میری عقل کی پرتیں کھل گئیں اور میری سمجھ میں آگیا کہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں، صحیح کہہ رہے ہیں۔ یہیں سے میں نے عقل سے کام لینا شروع کیا۔ میں نے اسی دم سب کے ساتھ مل کر کھانے کی حامی بھر لی اور اتنا ہی نہیں، بلکہ جب کھانے پر بیٹھی تو عشرت صاحب کے ٹفن میں سے مرغ کی ٹانگ بھی حلق سے اُتار گئی۔ عشرت صاحب اس کے بعد وقتاً فوقتاً مجھے اسلام کے بارے میں بتاتے رہے۔ میں ان کی باتوں کو بڑے غور سے سنتی اور اپنی عقل کا استعمال کرتی تو عقل بھی انھی کی باتوں کی تصدیق کر دیتی۔ دھیرے دھیرے میری اسلام میں دلچسپی ظاہر ہونے لگی۔ ایک دن عشرت صاحب نے دنیا کے نقشے کو سامنے رکھ کر بتایا کہ مکہ دنیا کا مرکز ہے، جہاں سے اسلام کی روشنی برابر دنیا کے کونے کونے میں پہنچتی ہے، جس طرح کسی کمرے کے سینٹر میں بلب روشن ہو تو اس کی روشنی کمرے کے ہر جانب برابر جاتی ہے۔ اس کے برعکس جین دھرم صرف ہندستان میں محصور ہے اور اس کا پھیلاؤ ممکن نہیں۔ یہ بات میرے دل کو چھو گئی۔ پھر میرا ضمیر دن بدن کچوکے لگانے لگا کہ غلطی پر ہوں اور اسلام ہی اصل سچائی ہے۔ جب بھی عشرت صاحب مجھے کوئی بات بتاتے تو وہ اس کے سلسلے میں عقل اور منطقی استدلال کرتے اور یہی وہ بات تھی، جس کے آگے مجھے ڈھیر ہونا پڑا۔ دوسری بات یہ تھی کہ خود عشرت صاحب کا رویہ اپنے اسٹاف کے تئیں بڑا نرم تھا۔ وہ سب کے ساتھ مساویانہ سلوک روا رکھتے اور ہر ایک کے ساتھ بڑی شفقت و محبت کا معاملہ کرتے۔ ان کا اخلاق بڑا کریمانہ تھا۔ انھوں نے جین دھرم میں مہاویر سوامی کی پرتیما (مورتی) کی تشریح کی، میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ یہ کیا کہ ان کا پہناوا ننگ (عریانیت) تھا اور دوسرے لوگوں کو تو کپڑے پہننے کو کہہ رہے ہیں۔ یہ قول و عمل کا تضاد میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ ان سب وجوہات کی بنا پر میرا دل اسلام کی طرف مائل ہونے لگا۔

 

١٤ مارچ ١٩٩٥ء میری زندگی کا وہ مبارک دن تھا، جب میں مشرف بہ اسلام ہوئی۔ عشرت صاحب کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر جمعہ کو آفس بند کر کے، سورۂ کہف کی تلاوت کرتے تھے۔ میرے اندر تجسس اُبھرا کہ آخر وہ اتنے اہتمام سے کیا پڑھتے ہیں۔ جب میں نے ان کو سورۂ کہف کی تلاوت کرتے سنا تو میرے دل کی اندرونی کیفیت کچھ عجیب سی ہو گئی۔ ایک طرح کی جاگر کتا (بے داری) پیدا ہو گئی۔ پھر عشرت صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم آگ کا ایندھن بننے سے کب بچو گی۔ میں نے از خود رفتگی میں کہا کہ بس بہت جلد۔ انہوں نے کہا کہ کیا خبر، یہ سانس جو تم لے رہی ہو، آخری ہو۔ پھر اچانک میں بڑے جوش میں بولی کہ ابھی اور اسی وقت! پھر عشرت صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا اور میں مسلمان ہو گئی۔ میں نے اسی دم یہ دعا کی: ”اے اللہ! جس طرح تو نے مجھے آگ سے بچایا ہے، اسی طرح میری ماں اور میرے بھائی کو بھی بچا لے”۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں میری یہ دعا بھی قبول ہو گئی۔ شروع میں تو میری ماں اور بھائی دونوں نے میری مخالفت کی۔ میرا بھائی تو عشرت صاحب کا جانی دشمن ہو گیا، لیکن جب میں نے ان کو خود اسلام کے بارے میں کچھ معلومات دیں اور بتایا کہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا ہے، اور ان کے سامنے نماز وغیرہ پڑھنے لگی تو وہ بہت متاثر ہوئے اور دونوں نے ہی اللہ کے فضل سے اسلام قبول کر لیا۔

 

مجھے اسلام کی بہت ساری باتیں اچھی لگیں۔ وعدے کی پابندی، مساوات، خوش اخلاقی اور خوش عملی وغیرہ۔ جب میں نماز پڑھتی ہوں تو مجھے دلی طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ پھر میری ماں نے میری شادی عشرت صاحب سے کر دی، جن کی بیوی کا کینسر کے مرض میں شادی کے تین چار سال بعد انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے تین بچے تھے۔ ان بچوں سے مجھے جو پیار ملا، اور کہیں نہیں ملا۔ میرا ان سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ میں اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی ہوں، کم ہے۔ میری ابھی ایک بچی ہے، جس کا نام ناز ہے اور میں اسے اسلام کی اشاعت کے لیے تیار کر رہی ہوں، کیونکہ جب میں نے اسلام قبول کر لیا تو اب ایک بہت بڑی ذمہ داری کو قبول کیا ہے اور اپنے اُوپر اسلام کی تبلیغ کو فرض کر لیا ہے۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ لوگ حلقۂ اسلام میں زیادہ سے زیادہ آئیں۔ ہم اپنے اخلاق سے، اپنے کردار سے مکمل قرآن کا نمونہ بنیں تاکہ لوگوں میں اسلام کی سچائی جاگزیں ہو۔ میں اسلام سے متعلق مختلف کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی رہتی ہوں۔ قرآن مجید کو میں نے سمجھ کر پڑھا ہے اور مجھے لگا کہ حقوق العباد پر اسلام میں کافی زور ہے اور یہی حقوق العباد اسلام کا دائرہ وسیع کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ہمیں اپنی دعوت میں اس چیز کو نظروں سے اوجھل نہیں رکھنا چاہیے۔ اب تک اللہ کے فضل سے میری ماں اور بھائی کے علاوہ تین لوگوں نے میری کوششوں سے اسلام قبول کیا ہے۔ یہ میمونہ خاتون (سنیتا کپور) محمد یوسف (راجن کپور) اور محمد زید (ستیش کمار) ہیں۔ میری اپنی کوشش ہے اور تمام لوگوں سے استدعا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص میدان میں دعوتی مشن کو جاری رکھے، اپنے بچوں کی اسلامی نہج پر تربیت کرے تاکہ وہ اسلام کے داعی بن کر اُبھریں۔

 

(بشکریہ ماہنامہ افکار، نئی دہلی، اگست ٢٠٠٧)

 

 

 

  مسلمانوں کو مرتد کرنے والے ڈاکٹر کا قبولِ اسلام

 

رپورٹ: بصیر احمد

 

 

٣٦ سالہ جرمن آئی سرجن جی میشل کو افریقی مسلمانوں کو گمراہ کر کے عیسائیت کے دائرے میں داخل کرنے کا مشن سونپ کر صومالیہ جانے کا حکم دیا گیا۔ سرجن جی میشل کو ڈاکٹروں کی ٹیم کا سربراہ بنایا گیا، جنھیں بظاہر صومالیہ میں پھوٹ پڑنے والی آنکھوں کی بیماری کا علاج کرنا اور صومالی مسلمانوں کو اس بیماری سے بچاؤ کی تدابیر سے آگاہ کرنا تھا۔ جی میشل ١٩٨٧ء کے درمیانی مہینوں میں اپنی ٹیم کے ہمراہ صومالیہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ آئیے ڈاکٹر جی میشل کی صومالیہ میں پر اسرار سرگرمیوں اور خفیہ مشن سے متعلق واقعات خود انھی کی زبانی سنتے ہیں جو انھوں نے حال ہی میں ایک نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے آشکار کیے ہیں۔

 

ڈاکٹر جی میشل کہتے ہیں کہ میرے لیے صومالیہ کا سفر اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات انتہائی دلچسپ رہی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے وجود میں پھیلی اس خوشی کی اصل وجوہات کیا تھیں، معلوم نہیں کہ اس خوشی کا راز کس بات میں پنہاں تھا۔ میری صومالیہ آمد پر وہاں کے معصوم لوگوں کی جانب سے دلفریب استقبال کی وجہ یہ تھی کہ شدید بھوک اور افلاس کے باوجود ان غیرت مند لوگوں میں عزت نفس بدستور موجود تھی۔ میری خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ ان لوگوں کے چہروں سے معصومیت کے علاوہ امانت اور صداقت بھی صاف عیاں تھی۔

 

اپنی ٹیم کو لے کر صومالیہ پہنچنے کے فوری بعد ہم نے اپنے طبی مراکز کا آغاز کر دیا اور انتہائی محنت و لگن کے ساتھ وہاں پھیلی آنکھوں کی بیماری کے خلاف کام شروع کر دیا۔ درج بالا عوامل کی بنا پر یہ طبی مرکز میرے لیے زیادہ دلچسپ تھا، اسی لیے میں زیادہ تر طبی مرکز ہی میں رہتا تھا۔ ہم اپنے کام میں اتنے مشغول رہے کہ میں عیسائیت کے پرچار اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے مشن ہی کو بھول گیا۔ بہت کم عرصے میں ہی یہاں کے متعدد مسلمان میرے اچھے دوست بن گئے، وہ مجھ سے طرح طرح کے سوالات کرتے اور میں بھی ان سے اپنی مشکلات کے حل کے حوالے سے کچھ نہ کچھ پوچھتا رہتا تھا۔لوگوں کے علاج معالجے میں کسی قسم کی کسر نہ چھوڑنے کی بنا پر میں نے عام لوگوں میں انتہائی مقبولیت حاصل کر لی، اپنے پیشے میں مہارت کے سبب میں نے سینکڑوں لوگوں کو نابینا ہونے سے بچانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ جہاں بھی جاتا اور جن لوگوں سے بھی ملتا، مجھے بہت پیار اور عزت دی جاتی، اگرچہ میں ان کی زبان سے ناآشنا تھا، تاہم ان لوگوں کے چہرے کے تاثرات میرے دامن کو عقیدت کے پھولوں سے بھر دیتے تھے۔

 

پانچ مہینے اسی طرح گزر گئے لیکن ایک دن خلاف توقع ہمارے مرکزی دفتر واقع جرمنی سے مجھے ایک ٹیلی گراف موصول ہوا، جس میں مجھے فوری طور پر جرمنی پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا۔ دل میں سوچا کہ شاید میرے کام اور محنت کے سبب میرا ادارہ میری تعریف اور ترقی کے لیے مجھے بلا رہا ہو گا اور اس سلسلے میں میری ٹیم کو انعام و اکرام سے نوازنے کے لیے مجھے بلایا جا رہا ہے، تاہم ٹیلی گراف کے متن کو بغور دیکھ کر میرے تمام خیالات غلط ثابت ہوئے۔ مجھے کہا گیا تھا کہ آپ کو ایک مہینے کے لیے برطانیہ بھیجا جا رہا ہے، جہاں پر مشن کی تکمیل کے حوالے سے مجھے خصوصی ٹریننگ دی جانی تھی، جسے صومالیہ کے مشن کے لیے نہایت ضروری بتایا گیا تھا۔

 

میں اس حکم سے انکار نہ کر سکا۔ اگرچہ میرا دل پوری طرح صومالیہ میں لگ چکا تھا۔ اس لیے پہلے جرمنی اور پھر برطانیہ چلا گیا۔ برطانیہ کے ایک مہینے کے خصوصی دورے کے بعد میں واپس جرمنی چلا آیا۔ مجھے صومالیہ واپسی کی بے چینی کھائے جا رہی تھی لیکن ایک لمبے عرصے کے انتظار کے بعد مجھے صومالیہ کے بجائے تنزانیہ جانے کا حکم دے دیا گیا۔ میں اس حکم پر انکار نہ کر سکا لیکن یہ خیال مجھے ستائے جا رہا تھا کہ کیا میں صومالیہ میں کامیابی سے محروم ہو گیا تھا اور کیا وہاں موجود میری ٹیم کو میری رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ بار بار خود سے سوال کرتا کہ آخر مجھے صومالیہ کے بجائے تنزانیہ کیوں بھیجا جا رہا ہے لیکن اس بار پھر اپنے اعلیٰ حکام سے بحث کرنے کے بجائے میں چپ چاپ تنزانیہ روانہ ہو گیا۔ قریباً چار ہفتے بعد جب میرے ادارے کے اعلیٰ حکام نے مجھ پر اندھا اعتماد شروع کر دیا تو مجھے حکم ملا کہ فوری طور پر واپس صومالیہ منتقل ہو جاؤں۔ یہ حکم ملتے ہی میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے ۔ پانچ سے زائد ماہ کی جدائی کے بعد میں واپس صومالیہ پہنچ گیا۔ مجھے اپنے درمیان دیکھ کر صومالیوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اگر مبالغہ آرائی نہ کروں تو یہ کہنا درست ہو گا کہ گویا میری آمد ان کے لیے کسی مسیحا کی آمد سے کم نہ تھی۔میں واپسی پر اپنے طبی مرکز لوٹ کر اپنی ٹیم کے ساتھ کام میں مشغول ہو گیا۔ محمد باہور نامی صومالی مسلمان مجھ سے زیادہ قریب تھا۔ ایک بار اس نے مجھے اپنے گھر میں دعوت دی، جہاں پر اس کے گھر والوں نے مجھے بہت عزت و تکریم دی۔ اس کے گھر میں ایک بوڑھے شخص سے ملا جو کہ انگریزی انتہائی روانی سے بول سکتا تھا۔ بزرگ محمد باہور کے والد تھے، انھیں پورے علاقے کے لوگ انتہائی عزت و تکریم دیتے تھے بلکہ اس علاقے میں محمد باہور کے والد کو ایک رہنما کی حیثیت حاصل تھی۔ باہور کے والد سے ملاقات پر میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ میرے مشن کے آغاز اور تکمیل کے لیے ان سے کار آمد شخص کوئی اور نہ ہو گا، اگر میں نے انھیں قابو کر لیا تو پھر اس علاقے کے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو قابو کرنا زیادہ مشکل نہ ہو گا۔ چنانچہ میں نے کسی انتظار کے بغیر فوراً ہی بات کرنے کی ٹھان لی۔ دل میں سوچا کہ اپنے مقصد کی بات کی شروعات مذہب سے کروں اور پھر آہستہ آہستہ انجیل اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جانب بڑھوں۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ مسلمان حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بھی ایسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے کہ آخری نبی حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر رکھتے ہیں۔

 

اس سے قبل کہ میں اپنی بات کا آغاز کرتا، باہور کے والد نے قرآن پاک کا ایک نسخہ اپنے ہاتھ میں اٹھا کر مجھ سے سوال کیا کہ کیا مجھے اس کتاب کے بارے میں معلوم ہے؟ میں نے جعلی تبسم ہونٹوں پر پھیلا دیا اور اس خوف سے کہ کسی غلط بات پر ان کے مذہبی احساسات نہ بھڑک اٹھیں میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ باہور کے والد نے خاموشی توڑتے ہوئے بتایا کہ انجیل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو بھی سوالات ذہن میں ہوں، ان سے پوچھوں، وہ مجھے اطمینان بخش جواب دے سکتے ہیں۔ میں نے تعجب کرتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ آپ کو یہ سب کیسے معلوم ہے تو اس پر انھوں نے بتایا کہ یہ تمام قرآن پاک میں موجود ہے۔ کچھ دیر بعد محفل برخواست ہوئی اور میں طبی مرکز واپس آگیا۔ اس ملاقات کے بعد میں کئی دنوں تک اس سوچ بچار میں تھا کہ آخر اس شخص کے دماغ پر کیسے قابو پاؤں۔ مجھے معلوم تھا کہ اس بوڑھے رہنما کو ذہنی طور پر قابو کر لیا تو میرا کام (مسلمانوں کو مرتد بنانے کا) انتہائی آسان ہو جائے گا۔ اس ملاقات کے بعد باہور کے والد سے فیصلہ کن بحث مباحثے اور بات چیت کے لیے کئی دنوں تک خوب تیاری کی۔ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی غرض سے مطالعے کے لیے کئی انگریزی کتب خریدیں اور خود کو مباحثے کے لیے تیار کرتا رہا۔ بالآخر محمد باہور کے والد سے بات چیت کا دن آ ہی گیا، اس دن میں بہت پریشان تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ گویا پرائمری کا ایک بچہ سخت امتحان سے گزر رہا ہو۔ پھر دل کو خود ہی تسلی دی کہ آخر میں کیوں کر اتنا پریشان ہوں، یہ تو انتہائی آسان کام ہے، خود کو تسلی دیتے ہوئے میں اپنے طبی مرکز چلا گیا اور وہاں سے فراغت کے بعد محمد باہور کو لے کر اس کے گھر چلا آیا۔

 

باہور کے والد سے ان کے گھر پر ہی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ سوال جواب کی ابتدا انھوں نے ہی کی۔ مجھ سے پوچھا کہ میرا نام کیا ہے، جس پر میں ”ڈاکٹر” کہہ کر خاموش ہو گیا۔

 

اس پر باہور کے والد نے بتایا کہ قرآن کریم نے انسان کی پیدائش اوراس کی بناوٹ کے تمام مراحل کو تفصیل سے بیان کیا ہے، اس پر میں نے یک دم پوچھا ، وہ کیسے؟

 

انھیں گویا اس جملے کا انتظار تھا۔ انھوں نے اپنے دھیمے اور میٹھے لہجے میں انتہائی شستہ انگریزی کے ذریعے مجھے اس حوالے سے پوری معلومات فراہم کر دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے لہجے اور زبان کی مٹھاس میرے دل میں اتر رہی تھی۔ قرآن کو دیکھنے پر میری حیرت میں اضافہ ہوا۔ اس کتاب میں انسانی جین اور بچے کی نشوونما و پیدائش کے وہ تمام مرحلے تفصیلاً مذکور تھے، جنھیں ہم نے یونیورسٹی اور کالجوں میں پڑھا تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں اس کتاب میں ١٤ سو سال قبل بیان کی گئی تھیں۔ اسی لیے میں یہ پڑھ کر انتہائی مرعوب ہوا بلکہ بوڑھے کا ہر لفظ مجھے روحانی طور پر تسکین دے رہا تھا۔

 

محمد باہور کے والد سے ملاقات کے بعد میں ذہنی طور پر کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ میرے دل اور دماغ میں طوفان برپا ہو گیا تھا، میں خوف اور دباؤ کے باعث رات بھر نہ سو سکا۔ بہت سوچ بچار کے بعد پہلے کی طرح خود کو تسلی دے کر سونے کی کوشش کی۔ بالآخر مجبور ہو کر میں نے بعض طبی مسائل کے حل کے لیے اپنی ٹیم ورکرز کے کام بڑھا دئیے جب کہ خود میں نے تحقیقات اور مطالعے کے لیے وقت نکالا تاکہ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے کوئی راستہ نکال سکوں۔ بار بار سوچتا کہ یقیناً مجھے صومالیہ اور یہاں کے لوگوں سے محبت ہے لیکن اپنے دین (عیسائیت) سے مجھے جنون کی حد تک محبت ہے تو کیوں نہ ان معصوم اور سچے لوگوں کو اپنے دین کی جانب بلاؤں۔

 

چند دنوں کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ محمد باہور کے والد سے ایک بار پھر ملوں تاہم میرے مطالبے سے قبل ہی محمد باہور نے مجھ سے تقاضا کیا کہ اگر میرے لیے ممکن ہو تو میں روزانہ اس کے گھر جا کر اس کے والد سے مل لوں۔ محمد باہور نے بتایا کہ اس کے والد نے مجھ سے متاثر ہو کر روزانہ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

 

پہلے تو میں ان کی اس درخواست پر بہت خوش ہوا کیوں کہ یہی سب کچھ تو میں چاہتا تھا تاہم بعد ازاں دل میں سوچا کہ جب میں نے ان پر اب تک کوئی اثر ہی نہیں ڈالا ہے تو پھر ان سے مزید ملاقاتوں کے ذکر سے کیوں خوش رہا ہوں۔ محمد باہور سے حامی بھرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اس بار گفتگو کا آغاز میں خود کروں گا اور گفتگو کے دوران پہلا وار بھی میرا ہی ہو گا۔ اپنی تمام ملاقاتوں کا تذکرہ کر کے پڑھنے والوں کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پانچویں اور چھٹی ملاقات کے دوران میں بھی بوڑھے مسلمان کا پلڑا بھاری تھا۔ میں برملا اعتراف کرتا ہوں کہ ان سے تمام نشستوں کے دوران میں خود کو محاصرے میں سمجھتا تھا۔ باہور کے والد سے ملاقات سے قبل پوری تیاری کرتا لیکن سامنا ہونے پر ان کی صداقت، ایمانداری و سچائی پر مبنی تحلیل، تجزیئے اور توضیحات مجھے روحانی طور پر شدید جھٹکا دیتے تھے، میری حالت یہ ہوتی کہ جیسے ایک بچہ استاد کے سامنے بیٹھ کر اس سے کچھ سیکھ رہا ہو۔

 

دوسری جانب جرمن ادارہ برائے عیسائی تبلیغ کے کارکنان پوری طرح سے مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے پہلے ہی دن میرے محمد باہور کے گھر جانے کو بھی نوٹ کیا تھا۔ آخر کار بات یہاں تک پہنچی کہ میرے ٹیم ورکرز میرے سامنے مزاحمت کرنے لگے۔ انھوں نے مجھے وارننگ دی کہ آئندہ میں باہور کے گھر نہ جاؤں، دن بدن مجھ پر سختی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ جرمنی سے مجھے حکم ملا کہ میں محمد باہور کے گھر نہ جاؤں اور پھر مجھے صومالیہ کے اس چھوٹے سے مقام سے دار الحکومت موغا دیشو ٹرانسفر کر دیا گیا۔ جرمن ادارے کے کارکنوں نے محمد باہور کے گھر والوں پر اس مقام سے کہیں اور منتقل ہونے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ جرمن ادارے نے محمد باہور سے میرے تعلقات ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی لیکن وہ میرے دل سے صومالیہ اور یہاں کے لوگوں کی محبت ختم نہ کر سکے۔

 

بہر کیف کچھ دن بعد میں اکثر رات کے پچھلے پہر چپکے سے ٹیکسی میں سوار ہو کر محمد باہور کے گھر چلا جاتا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ میری جگہ تعینات نئی ٹیم کے سربراہ کو اس بات کی خبر ہو گئی اور پھر اس نے علاقے کے ایک سیکورٹی افسر کو میرے پیچھے لگا دیا جو کہ کئی دنوں تک مجھے منع کرتا رہا۔ آخر کار میں اس سیکورٹی اہلکار کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گیا۔ بعد ازاں مجھے روکنے میں ناکامی پر سیکورٹی افسر نے محمد باہور کو گرفتار کر کے قید کر لیا۔ جس کا مجھے بہت افسوس ہوا اور پولیس کے اس رویے پر میں بہت رویا۔

 

اس کے بعد میں باہور کے والد سے مزید ملاقات نہیں کر سکتا تھا اور اسی بنا پر زیادہ مایوس ہو گیا تھا۔ میرا واحد ہدف یہی تھا کہ ان سے شروع کی جانے والی بحث کو منطقی انجام تک پہنچا دوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بوڑھے کی باتوں سے میرے ذہن میں برپا ہونے والے طوفان کے خاتمے کے لیے ان سے مزید ملاقاتیں ضروری تھیں۔ اسی عرصے کے دوران مجھے میرے مرکزی دفتر واقع جرمنی سے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے سے حکم دیا گیا کہ ضروری ڈیوٹی کے پیش نظر میں فوری طور پر کینیا پہنچ جاؤں۔ کینیا جانے سے قبل سیکورٹی افسر سے یہ کہہ کر محمد باہور کے علاقے میں چلا آیا کہ میری بعض دستاویزات وہاں رہ گئی ہیں۔ یہاں آتے ہی سیدھا محمد باہور کے گھر چلا گیا، اس بار ان کے گھر میں زیادہ خوشیاں دیکھنے کو ملیں۔ باہور کے والد نے بتایا کہ رمضان کا مہینہ شروع ہے، جس میں دین اسلام کا تیسرا اہم رکن روزہ رکھا جاتا ہے۔ صبح ہونے سے قبل میں نے ان کے ساتھ سحری کر لی اور پھر اذانوں کے بعد سبھی لوگوں کو مسجد کی جانب جاتے ہوئے دیکھا ، پورا دن محمد باہور کے والد کے ساتھ گزارا اور ان کے دینی شعائر کے احترام کی بنا پر میں بھی پورا دن روزے سے رہا۔

 

قصہ مختصر اعلیٰ حکام کے حکم کے مطابق میں موغا دیشو سے کینیا کے دار الحکومت نیروبی چلا گیا۔ نیروبی کے ائیر پورٹ پر وہاں کے مسلمان میرے استقبال کے لیے موجود تھے۔ میں ان سے پہلی بار مل رہا تھا۔ انھوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ ہوٹل جانے سے قبل انھی مسلمانوں میں سے ایک کے گھر کی دعوت قبول کر لوں جو کہ انھوں نے میری آمد سے قبل ہی ترتیب دی تھی۔

 

نیروبی میں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مرکزی آفس سے ایک دوسرے ٹیلی گراف کے ذریعے مجھے خبر دی گئی کہ سیکورٹی نقطۂ نگاہ سے میں آئندہ صومالیہ کا نام بھی زبان پر نہ لاؤں، اس خبر پر مجھے شدید حیرانی ہوئی کہ آخر صومالیہ میں میری زندگی کو کیوں کر خطرات لاحق ہیں۔ مجھے ٹیلی گراف میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر تمام احکامات کے باوجود میں نے صومالیہ جانے کی کوشش کی تو مجھے مرکزی آفس کے حکام کے شدید نوعیت کے رد عمل کا انتظار کرنا چاہیے۔ وہاں میرے والدین کو بھی غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ ان کے ذہنوں کو میرے بارے میں مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا تھا۔ بالآخر مجھے میرے والد کی جانب سے بھی ایک ٹیلی گراف موصول ہوا، جس میں مجھے فوری طور پر جرمنی آنے کا حکم دیا گیا تھا۔ میرا ذہن منتشر تھا، میرے ذہن اور دل کو اطمینان بخش جواب دینے کے لیے کوئی بھی میرے پاس موجود نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے ہر پہلو پر خوب سوچ بچار شروع کر دیا، جرمنی پلٹ کر وہاں کی آرام دہ زندگی اور صومالیہ کے پیچیدہ حالات کے درمیان فرق تلاش کرنے لگا۔ اپنے دماغ میں ابھرنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنے اور ہیجانی کیفیت سے باہر نکلنے سمیت صومالی مسلمانوں کے شفاف اور صادق چہروں نے مجھے انتہائی فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔ مجھے محمد باہور کے والد سے ان تمام سوالات کے جوابات سننے تھے جو کہ طوفان بن کر میرے ذہن میں اٹھے تھے۔

 

چنانچہ انتہائی فیصلے سے قبل اللہ سے دعا کی کہ مجھے سیدھا راستہ دکھا دے، یہ کہہ کر میں نے قلم کاغذ لے کر اپنے جرمنی کے مرکزی آفس کو ٹیلی گراف میں لکھا۔ آپ لوگ مطمئن رہیں، میں نے پوری فکر اور تحقیق کے بعد اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں اسلام قبول کرنے جا رہا ہوں جو آپ سے ہو سکتا ہے وہ آپ کر لیں، ڈاکٹر جی میشل کینیا۔

 

ہر طرح کے وسوسوں سے نکلنے کی غرض سے اس متن کو فوری طور پر اپنے مرکزی آفس ٹیلی گراف کر دیا۔ ٹیلی گراف کرنے کے بعد مجھے انتہائی سکون حاصل ہوا۔ میں نے خوشی اور مسرت سے اپنے نیروبی کے دوستوں کو اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی قیمت پر صومالیہ ضرور جاؤں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ صومالیہ جانے کے لیے میرے پاس رقم موجود نہ تھی۔ چنانچہ تن کے جوڑے کے علاوہ دیگر تمام چیزیں فروخت کر دیں اور موغا دیشو پہنچنے کے بعد سیدھا محمد باہور کے گھر چلا گیا۔ محمد باہور کے والد کو دیکھ کر السلام علیکم کہا، جس پر انھوں نے مجھے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا اور میرے آنے پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ اس دوران میں نے دھیمی آواز میں کلمہ شہادت پڑھا۔

 

اس کے بعد میرے پاس تفریح کے لیے کوئی وقت نہیں تھا۔ پورا پورا دن تلاوت قرآن اور احادیث پاک یاد کرنے میں صرف ہوتا، صومالیہ کے حکومتی اداروں نے میرے لیے صومالیہ میں قیام کی اجازت حاصل کر لی اور اس کے بعد میں بھی صومالیہ کا ایک شہری بن گیا۔ میرا نام عبد الجبار رکھا گیا اور اب مجھے کسی سے بھی ملنے سے کوئی منع نہیں کر سکتا تھا۔

 

آج اپنی سابقہ زندگی کو یاد کرتا ہوں کہ مجھے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے صومالیہ بھیجا گیا تھا لیکن اللہ کے فضل و کرم سے میں خود اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گیا۔ صومالیہ کی شہریت حاصل کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ بحیثیت ڈاکٹر صومالیہ میں آنکھوں کے موذی مرض میں مبتلا لوگوں کا علاج کروں۔ چنانچہ آج میں پوری توجہ کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہا ہوں، لیکن شکر کا مقام ہے کہ اس بار میں یہ خدمت اللہ کی رضا کے لیے انجام دے رہا ہوں۔

 

(بشکریہ ماہنامہ نقیب ختم نبوت، ملتان، ستمبر 2008)

 

 

 

  میں نے کیوں اسلام قبول کیا

 

 

وکاس نند بر ہما چاری(معظم حسین)

 

 

 

میرا آبائی وطن ہندستان میں مغربی بنگال کا ایک علاقہ مدنا پور ہے۔ ٢٥ ، اکتوبر ١٩٥٥ میری تاریخ پیدائش ہے۔ بردوان یونیورسٹی مغربی بنگال سے میں بنگالی ادب میں بی اے آنرز کیا اور بعد ازاں سنسکرت ادب کی اعلی ترین ڈگری ”کاپیا تیرتھ” حاصل کی۔

 

قبول اسلام سے قبل میں وکاس نند برہما چاری ضلع پرولیا مغربی بنگال میں شیام سندر آشرم کے تحت ایک مٹھ میں تقریباً سات برس تک مہاراج کی حیثیت سے رہا۔ میرے والد بردوان اسٹیٹ کے راج پروہت تھے۔ اس وقت ان کی مٹھ میں دو تا ڈھائی ہزار شاگرد رہتے تھے۔ جو ان سے ویدک گرنتھوں اور ہندو دھرم کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مٹھ دراصل ہندو راجا مہاراجاؤں کی طرف سے تحفے میں دی گئی زمینیں اور جاگیریں ہوتی ہیں جن کو آباد کر کے وہ اپنے دھرم کی اشاعت کا کام کرتے ہیں۔ سنسکرت ادب میں ”کاپیا تیرتھ” جیسی اعلی ڈگری حاصل کر کے میں ویدک گرنتھوں کا پرچار کرتے ہوئے دھارمک خدمت انجام دے رہا تھا لیکن کسے معلوم تھا کہ اللہ تعالی مجھے سنسکرت زبان ہی کے ذریعے اسلام و دین کی خدمت کی سعادت عطا کرنے والا ہے۔ جس کا اظہار ١٩٩٢ میں قبول اسلام اور ہدایت کی شکل میں ہوا اور میں وکاس نند برہما چاری سے معظم حسین بن گیا۔

 

ایک دھارمک میلے میں میں اپنے دھرم کی کتابیں مفت تقسیم کر رہا تھا کہ کسی مسلمان نے مجھ سے یہ سوال کیا، بھائی صاحب، آپ کی گرنتھوں میں کیا مذہب اسلام اور اللہ کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بھی آیا ہے۔ کیا اس معاملے میں آپ ہماری کچھ مدد کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا اس قسم کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ اس پر اس مسلمان نے مجھے کئی حوالے دیے۔ اسوقت میری انا کو ٹھیس پہنچی کہ میں سنسکرت کا ماہر، ویدوں کا عالم ہوں لیکن ایک مسلمان مجھ سے زیادہ پراچین گرنتھ کے بارے میں جانتا ہے۔ چوں کہ حق تعالی کی جانب سے ہدایت کا فیصلہ ہو چکا تھا اور حق کا بیج میرے دل میں گھر کر چکا تھا اس لیے میں نے حق کی تلاش کا سفر شروع کیا۔ ہندو دھرم کی پرانی کتابوں کو بار بار دیکھا اور مختلف جگہوں پر جا کر ویدوں کے متعلق مزید معلومات حاصل کیں۔ آخر میں اپنے والد کے استاد گرودیو پنچاتن کاپیا تیرتھ سے ملاقات کے لیے گیا اور ان سے پوچھا کہ کیا ویدوں اور گرنتھوں میں مذہب اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ لکھا ہے۔ انہوں نے چند اشارے اور نکات فوراً بتا دیے۔ لیکن ساتھ ہی بری طرح ڈانٹ بھی دیا کہ تمہارا اس سے کیا کام؟ پوجا پاٹ میں ان چیزوں کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ تم یہ سب کیوں جاننا چاہتے ہو۔

 

مجھے حق کی تلاش تھی لہذا میں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ میں مسیحی مشنری بھی گیا بدھ مت کے مذہبی مقامات پر بھی حاضری دی لیکن کہیں سے اطمینان بحش جوابات نہ مل سکے اس جدوجہد میں ایک دن میری ملاقات جامعۃ العلوم کھڑک پور مغربی بنگال کے مفتی محمد عثمان سے ہو گئی۔ میں نے ان سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں سوالات کیے تو انہوں نے مدرسے میں آنے کی دعوت دی۔ وہاں انہوں نے اسلام کی بنیادی تعلیمات اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی تفصیلات بتائیں۔ قرآن کریم کی مختلف آیات سن کر میرا سینہ اسلام کے لیے کھل گیا حتی کہ مزید جستجو کے بعد میں نے ١٥  اگست ١٩٩٢ کو مفتی عثمان صاحب ہی کے ذریعے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔

 

یہ ایک حقیقت ہے کہ جو بھی حق کا ساتھ دیتا ہے تو باطل اس کے مدمقابل آ کھڑا ہوتا ہے۔ قبول اسلام کے بعد میرے لیے بھی مصائب کا پہاڑ کھڑا ہو گیا۔ اپنا منصب، جاگیر اور سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ گھر سے بے گھر ہونا پڑا۔ جسم کے کپڑوں کے ساتھ خالی ہاتھ، خالی جیب چار ماہ تک در در کی ٹھوکریں کھائیں اور مختلف آزمایشوں سے گزرنا پڑا۔ آخر میں نے مفتی صاحب کے مدرسے میں ملازمت اختیار کر لی۔ اس کے بعد لکھنؤ کا سفر ہوا جہاں چند اہل علم اور بزرگوں کی سر پرستی میں تقریباً چار سال تک دعوت و تبلیغ کے مشن میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد ایک ہندی رسالے ”وشو ایکتا سندیش” میں ویدک گرنتھ پر مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور ویدک گرنتھ کے حوالے سے توحید، رسالت اور آخرت پر روشنی ڈالنی شروع کی۔ اور ساتھ ہی یہ بتانا شروع کیا کہ شرک اور مورتی پوجا کی ابتدا کیسے ہوئی۔

 

والد صاحب کی عمر ٩٦ برس اور والدہ کی عمر ٩٠ برس تھی۔ انتقال سے چند برس قبل ایک دن میں نے انہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ والد صاحب چونکہ خود پروہت تھے اس لیے میں نے ان کو ان ہی کی زبان میں سمجھانا شروع کیا۔ ویدوں اور گرنتھوں کے مختلف حوالے دیے۔ مرنے کے بعد کے حالات بیان کیے اور جنت دوزخ کی تفصیلات بیان کیں۔ میری والدہ نے کہا کہ آپ دونوں باپ بیٹا آپس میں اسلام کے بارے میں گفتگو کرو میں تم دونوں کی باتیں سن کر اپنا فیصلہ دوں گی۔ تفصیلی گفتگو کے بعد ماتا جی نے کہا کہ انہیں تو اسلام کے بارے میں اطمینان ہو رہا ہے۔ بعد ازاں دونوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد وہ تقریباً دو برس زندہ رہے۔ لیکن میرے دوسرے بھائیوں نے انہیں گھر ہی میں نظر بند رکھا۔ میں نے ان کی لاکھ منت سماجت کی کہ مجھے کوئی وراثت نہیں چاہیے بس مجھے ماں باپ دے دیجیے لیکن کسی نے میری ایک نہ مانی۔ میرے والدین میرے بھائیوں کے پاس ہی فوت ہوئے اس پر بھی میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ ان کی لاشوں کو میرے سپرد کر دو تا کہ میں ان کی اسلامی طریقے سے تدفین کر سکوں مگر وہ بضد رہے اور انہیں نذر آتش کر دیا۔ اور میں صبر کے گھونٹ پی کر ان کے حق میں مغفرت کی دعا کرتا رہا۔

 

وید تقریباً دس تا گیارہ ہزار برس قبل کی کتاب ہے لیکن فی الوقت موجودہ شکل میں تقریباً ساڑھے تین ہزار قبل کی ہے اس سے پہلے اسے کتابی شکل نہیں دی گئی تھی۔

 

ہندو شریعت میں رشی منو کی لکھی ہوئی ایک کتاب ‘منوسمرتی’ یا جیون ودھان گرنتھ ایک معروف کتاب مانی جاتی ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ ویدک اصولوں کے مطابق کس طرح زندگی گزاری جائے۔ میں نے منوسمرتی کے بہت سے اصولوں اسلامی مسائل اور طور طریقوں کے بہت قریب پایا۔ اس طرح پران میں جل پلاون منو کے عنوان سے نوح علیہ السلام کی کشتی کا پورا واقعہ موجود ہے۔ ویدوں میں نبیوں کو منو کہا گیا ہے۔ آدم علیہ السلام کو پہلا منو کہا گیا ہے اور آدم علیہ السلام کی ساتویں نسل میں کشتی کا پورا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ کلکی پران میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تمام تفصیلات درج ہیں کہ کلکی اوتار کس طرح پیدا ہوں گے۔ آپ کی والدہ کا نام سمتی یعنی آمنہ اور والد کا نام وشنویس یعنی مالک کی عبادت کرنے والا (عبداللہ) ہو گا اور انہیں جنگ میں مالک کی مدد ملے گی اور ان کے چار خلفا دنیا سے شروفساد کو مٹا دیں گے۔

 

اتھر وید کا ایک اپنشد ہے جسے اللہ اپنشد کہتے ہیں۔ اس میں دس منتر ہیں۔ جس میں توحید ، رسالت اور اسلامی عقائد کا کھلا اظہار ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کبریائی بیان کرنے کے لیے ایک منتر ہے۔ ”ہند ہوتارو، مندرو، اندر ہوتاروم، ہاسوندرا، اللہ جیشننگھ، اللہ شر شننگھ پرم پررن، برہمان اللہ ہوالام” یہ اندر کی تعریف میں کہے گئے الفاظ ہیں کہ وہ ساری کائنات کا بادشاہ ہے اس کا نام اللہ ہے وہ بہت بڑا ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہے او روہی برہما (اللہ) ہے۔

 

مسلم بھائیوں سے میری درخواست ہے کہ وہ اسلام جیسی نعمت کی قدر کریں اور اسلام پر مکمل عمل کریں اور دوسروں کو حق و صداقت کی دعوت دیں۔

 

ہندوؤں کو میں یہ سندیس دینا چاہتا ہوں کہ اس سارے سنسار کا مالک و ایشور ایک ہی ہے بس اسی کو مانو، اور اسی کی مانو، اور جس کلکی اوتار کا آپ انتظار کر رہے ہیں وہ چودہ سو برس پہلے عرب کی دھرتی پر آ چکے ہیں ان کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ وہی سمتی یعنی آمنہ کے لعل اور وشنویس یعنی عبداللہ کے بیٹے ہیں انہوں نے ہی کم وقت میں جزیرہ عرب و قرب و جوار میں کے علاقے میں ساری برائیاں مٹا دیں۔ ان ہی کو مالک کی طرف سے جنگ بدر میں کھلے طور پر مدد حاصل ہوئی اور ان ہی کے خلفا نے ایک بڑے حصے کو فتح کیا اور حق کا بول بالا کیا۔ اس لیے اس کلکی اوتار کو مان لو اسی میں تمہاری دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔

 

٭٭٭

 

 

 

 

  میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

 

سارہ جوزف

 

 

 

میں ہمیشہ سے بہت مذہبی واقع ہوئی ہوں۔ میری امی کا کہنا ہے کہ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا، جب میں نے خدا کا ذکر نہ کیا ہو۔ دوپہر کے کھانے کے وقفے میں مذہبی رسوم ادا کرنے کی غرض سے میں عام طور پر گرجا گھر چلی جاتی تھی۔ اتوار کو علی الصبح بیدار ہو کر عبادت کے لیے جانا بھی میرے معمولات میں شامل تھا۔ میرے والدین کو مذہب سے میری اس دلچسپی کی کوئی پروا نہ تھی۔ کیونکہ انہیں مذہب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ دس برس کی عمر میں ہی مجھے یہ احساس ہو چلا تھا کہ ایٹمی اسلحہ انسانیت کے لیے کتنی بڑی تباہی لا سکتا ہے چنانچہ چھوٹی عمر ہی سے میں نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف کیے جانے والے مظاہروں میں شریک ہونا شروع کر دیا تھا۔ میں اس زمانے میں رونالڈ ریگن، یوری اندروپوف اور مارگریٹ تھیچر کے نام خطوط میں ان سے درخواست کرتی تھی کہ وہ اپنے اپنے ایٹمی اسلحے کے ذخیروں کو تباہ کر دیں۔ سماجی انسان کا مجھے نہایت گہرا شعور حاصل تھا اور مجھے پختہ یقین اور اعتماد حاصل تھا کہ میں بالکل صحیح نظریات اور درست انداز فکر کی حامل ہوں۔ اس کا سبب غالباً یہ تھا کہ بہت چھوٹی عمر سے مجھے بڑوں کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع مل گیا تھا۔ میری والدہ ایک ماڈلنگ ایجنسی چلا رہی تھیں اس لیے ہر طرز فکر کے لوگوں کا ہمارے گھر آنا جانا تھا جن میں عیسائی، یہودی اور مسلمان سبھی شامل تھے۔ میری پرورش اسی ماحول میں ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ میں اور میرے بھائی بہن مذہبی تعصبات سے دور ہی رہے۔ میرے بھائی نے ہندستان کی ایک مسلمان لڑکی سے شادی کرنے کی غرض سے اسلام بھی قبول کر لیا تھا۔ میرے والدین نے اپنے بیٹے کے قبول اسلام پر کوئی بڑا ہنگامہ کھڑ ا نہ کیا تاہم میں بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئی۔ جب میری بھاوج کے ہاں پہلے بچے کی ولادت ہوئی اور اس کا نام رکھا گیا تو وہ میرے لیے بالکل اجنبی تھا اور میں سوچنے لگی کہ ایسا نام کیسے ہو سکتا ہے۔ اپنے مذہبی رجحانات کے سبب میں خود ہی اپنے مذہبی تعصبات کا شکار ہو چلی تھی۔ میں نے بھائی کے قبول اسلام کو ذہنی طور پر قبول نہ کیا تھا۔ بہر کیف جس انداز میں میری تربیت ہوئی تھی اس نے مجھے یہ سمجھنے میں بڑی مدد دی کہ ”دنیا میں ہر خوف کی بنیاد اصل میں لاعلمی ہوتی ہے” چنانچہ میں نے اس لاعلمی کو دور کرنے کے لیے اسلام کے مطالعہ کا فیصلہ کیا۔ اس مطالعے اور تحقیق کے دوران یہ بات مجھ پر منکشف ہوئی کہ کیتھولک چرچ کی تاریخ میرے لیے بالکل قابل قبول نہیں۔ یہ سب انکشافات میرے لیے بہت تکلیف دہ تھے۔ عیسائیت سے میرا ایمان اٹھ چکا تھا۔ اور کچھ عرصہ کے لیے میں خود کو برزخ میں محسوس کر رہی تھی۔ میرے ذہن میں عجیب طرح کے خیالات آنا شروع ہو گئے۔ اور میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ آخر مذہب کی ضرورت ہی کیوں ہے؟

 

جوں جوں میں اسلام کا مطالعہ کرتی رہی، اسلام سے میری دلچسپی بڑھتی ہی چلی گئی۔ کیتھولک چرچ کی تعلیمات میں ازلی گناہ کا تصور میرے لیے بالکل بھی قابل قبول نہ تھا مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اسلام میں اس طرح کا کوئی تصور موجو د نہیں۔ میں خود کو اسلام کے بہت قریب محسوس کرنے لگی۔ تاہم جب میں نے اپنے والدین کو اپنے خیالات سے آگاہ کیا تو انہوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ سر پر حجاب پہننے کا تصور ان کے لیے سوہان روح تھا۔ اور یہ تھا بھی عجیب کا ایک ماڈل ایجنٹ کی بیٹی سر پر حجاب رکھنے جا رہی تھی۔ جب میں اکیس برس کی ہوئی تو میری ملاقات محمود سے ہوئی جو اب میرے شوہر ہیں۔ میرے باس اور ان کے دوست محمود کا خیال تھا کہ ہم خیال اور ہم مسلک لوگوں کے مابین شادی زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نے محمود سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔

 

نائن الیون کے بعد ہم دونوں لیکچر دینے کی غرض سے دورے پر روانہ ہو گئے۔ اس دوران میں اسلام کے بارے میں جاننے اور اس کی تعلیمات کو جاننے کا جنون مغرب میں پیدا ہو چکا تھا چنانچہ ہم نے ان کے اس جنون سے فائدہ اٹھایا اور ہر ہر جگہ لوگوں کو اسلام کی اصل تعلیمات سے آگاہ کیا۔ ہم دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت کیا کرتے تھے کہ مسلمان ہونے کا اصل مطلب کیا ہے؟ اور ایک مسلمان کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں۔ اس سفر میں میرے بیٹے کی عمر فقط تین ہفتے کی تھی اور بعض اوقات لیکچر کے دوران بھی مجھے اسے ساتھ رکھنا ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ جن باتوں اور جن چیزوں کے آپ خلاف ہیں صرف ان کا تذکرہ کر کے ہم اپنے آپ کو ٹھیک طور سے متعارف کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے بلکہ ہمیں لوگوں کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ مسلمان کا بنیادی مقصد اور نصب العین کیا ہے؟ مسلم کمیونٹی کس قدر متنوع ہے اور کس طرح اس کمیونٹی میں اپنی شناخت کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہم نے امید کے نام سے ایک میگزین جاری کیا جس میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ مسلمان دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی مانند بالکل نارمل ہوتے ہیں۔ اس میگزین کو توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل ہوئی اور اب غیر مسلم بھی اسے خرید کر پڑھتے ہیں۔

 

میں سمجھتی ہوں کہ اسلام اور عیسائیت کے پیروکاروں کے مابین سنجیدگی سے مکالمہ، تبادلہ خیال اور گفت و شنید کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں ایک ایسا ماحول تخلیق کرنا چاہیے کہ جہاں بچے آزادی کے ساتھ پروان چڑھ سکیں۔ وہ چاہیں تو اسلام قبول کریں چاہیں تو نہ۔ ایسی ہی دنیا ہم سب کے لیے محفوظ ترین اور پرامن مقام ہو سکتا ہے۔ میں اب اسی کوشش میں مصروف ہوں۔

 

 

(بشکریہ ، ماہنامہ اللہ کی پکار ، نئی دہلی ، دسمبر ٢٠٠

 

 

 

 

  میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

 

سیٹھ محمد عمر/ رام جی لال گپتا

 

 

 

میں لکھنؤ کے قریب ایک قصبے کے تاجر خاندان میں 6 دسمبر 1939ء میں پیدا ہوا۔ گپتا ہماری گوت ہے۔ میرے پتا جی کریانے کی تھوک کی دکان کرتے تھے۔ ہماری چھٹی پیڑھی سے ہر ایک کے یہاں ایک ہی اولاد ہوتی آئی ہے۔ میں اپنے پتا جی (والد صاحب) کا اکیلا بیٹا تھا۔ نویں کلاس تک پڑھ کر دکان پر لگ گیا۔ میرا نام رام جی لال گپتا میرے پتا جی نے رکھا۔

 

گھر کا ماحول بہت دھارمک (مذہبی) تھا، ہمارے پتا جی (والد صاحب) ضلع کے بی جے پی، جو پہلے جن سنگھ تھی، کے ذمہ دار تھے۔ اس کی وجہ سے اسلام اور مسلم دشمنی ہمارے گھر کی پہچان تھی اور یہ مسلم دشمنی جیسے ہماری گھٹی میں پڑی تھی۔ 1986 ء میں بابری مسجد کا تالا کھلوانے سے لے کر بابری مسجد کی مسماری کے گھناؤنے جرم تک اس پوری تحریک میں آخری درجے کے جنون کے ساتھ شریک رہا۔ میری شادی ایک بہت بھلے اور سیکولر خاندان میں ہوئی۔ میری بیوی کا مزاج بھی اسی طرح کا تھا اور مسلمانوں سے ان کے گھر والوں کے بالکل گھریلو تعلقات تھے۔ میری بارات گئی تو سارے کھانے اور شادی کا انتظام ہمارے سسر کے ایک دوست خان صاحب نے کیا تھا اور دسیوں داڑھی والے وہاں انتظام میں تھے، جو ہم لوگوں کو بہت برا لگا تھا اور میں نے ایک بار تو کھانا کھانے ہی سے انکار کر دیا تھا کہ کھانے میں مسلمانوں کا ہاتھ لگا ہے، ہم نہیں کھائیں گے، مگر بعد میں میرے پتا جی (والد صاحب) کے ایک دوست تھے پنڈت جی۔ انھوں نے سمجھایا کہ ہندو دھرم میں کہاں آیا ہے کہ مسلمانوں کا ہاتھ لگا کھانا نہیں کھانا چاہیے۔ بڑی کراہت کے ساتھ بات نہ بڑھانے کے لیے میں نے کھانا کھا لیا۔ 1952ء میں میری شادی ہوئی تھی۔ نو سال تک ہمارے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ نو سال کے بعد مالک نے 1961 ء میں ایک بیٹا دیا۔ اس کا نام میں نے یوگیش رکھا۔ اس کو میں نے پڑھایا اور اچھے اسکول میں داخل کرایا اور اس خیال سے کہ پارٹی اور قوم کے نام سے اس کو ارپت (وقف) کروں گا، اس کو سماج شاستر، علم سماجیات (Sociology) میں پی ایچ ڈی کرائی۔ شروع سے آخر تک وہ ٹاپر رہا، مگر اس کا مزاج اپنی ماں کے اثر میں رہا اور ہمیشہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کی طرف مائل رہتا۔ فرقہ وارانہ مزاج سے اس کو الرجی تھی۔ مجھ سے، بہت ادب کرنے کے باوجود، اس سلسلے میں بحث کر لیتا تھا۔ دو بار وہ ایک ایک ہفتے کے لیے میرے رام مندر تحریک میں جڑنے اور اس پر خرچ کرنے سے ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کی ماں نے فون پر رو رو کر اس کو بلایا۔

 

مسلمانوں کو میں اس ملک پر قبضہ کرنے والا مانتا تھا اور میں سمجھتا تھا کہ مسلمانوں نے رام جنم بھومی مندر کو گرا کر مسجد بنائی ہے۔ میں ہر قیمت پر یہاں رام مندر بنانا چاہتا تھا، اس کے لیے میں نے تن من دھن سب کچھ لگایا۔ 1987ء سے لے کر 2005 ء تک رام مندر آندولن اور بابری مسجد گرانے والے کارسیوکوں پر اور وشوا ہندو پریشد کو چندے میں کل ملا کر 25 لاکھ روپے اپنی ذاتی کمائی سے خرچ کیے۔ میری بیوی اور یوگیش اس پر ناراض بھی ہوئے تھے۔ یوگیش کہتا تھا کہ اس دیش پر تین طرح کے لوگ آ کر باہر سے راج کرتے آئے ہیں۔ ایک تو آرین آئے، انھوں نے اس دیش میں آ کر ظلم کیا۔ یہاں کے شودروں کو داس بنایا، اور اپنی ساکھ بنائی۔ دیش کے لیے کوئی کام نہ کیا۔ آخری درجے کے اتیا چار (ظلم) کیے، کتنے لوگوں کو مارا، قتل کیا، کتنے لوگوں کو پھانسی لگائی۔

 

دوسرے نمبر پر مسلمان آئے۔ انھوں نے اس دیش (ملک) کو اپنا دیش (ملک) سمجھ کر دیش کو ترقی دی۔ یہاں لال قلعہ بنایا۔ تاج محل جیسا دیش کے گورو کا پاتر (قابل فخر عمارت) بنائی۔ یہاں کے لوگوں کو کپڑا پہننا سکھایا۔ بولنا سکھایا۔ یہاں پر سڑکیں بنوائیں۔ سرائیں بنوائیں۔ خسرہ کھتونی، ڈاک کا نظام اور آب پاشی کا نظام بنایا۔ نہریں نکالیں اور دیش میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ایک کر کے ایک بڑا بھارت بنایا۔ ایک ہزار سال تک الپ سنکھیا (اقلیت) میں رہ کر اکثریت پر حکومت کی اور ان کو مذہب کی آزادی دی۔ وہ مجھے تاریخ کے حوالوں سے مسلمان بادشاہوں کے انصاف کے قصے دکھاتا، مگر میری گھٹی میں اسلام دشمنی تھی، وہ نہ بدلی۔ تیسرے نمبر پر انگریز آئے وہ یہاں سے سب کچھ لوٹ کر چلتے بنے۔

 

30 دسمبر 1990 کی کارسیوا میں بھی میں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 5دسمبر 1992 کو تو میں خود ایودھیا گیا۔ میرے ذمے ایک پوری ٹیم کی کمان تھی۔ بابری مسجد گرا دی گئی تو میں نے گھر آ کر ایک بڑی دعوت کی۔ میرا بیٹا یوگیش گھر سے ناراض ہو کر چلا گیا۔ میں نے خوب دھوم دھام سے جیت کی تقریب منائی۔ رام مندر کے بنانے کے لیے دل کھول کر خرچ کیا، مگر اندر سے ایک عجیب سا ڈر تھا، جو میرے دل میں بیٹھ گیا اور بار بار ایسا خیال ہوتا تھا کہ کوئی آسمانی آفت مجھ پر آنے والی ہے۔ 6 دسمبر 1993 آیا تو صبح صبح میری دکان اور گودام میں جو فاصلے پر تھے، شارٹ سرکٹ ہونے سے دونوں میں آگ لگ گئی۔ اور تقریباً دس لاکھ روپے سے زیادہ کا مال جل گیا، اس کے بعد تو میں اور بھی زیادہ سہم گیا۔ ہر 6 دسمبر کو ہمارا پورا پریوار (خاندان) سہما سا رہتا تھا اور کچھ نہ کچھ ہو بھی جاتا تھا۔ 6 دسمبر 2005 کو یوگیش ایک کام کے لیے لکھنؤ جا رہا تھا، اس کی گاڑی ایک ٹرک سے ٹکرائی اور میرا بیٹا اور ڈرائیور موقع پر انتقال کر گئے۔ اس کا نو سال کا ننھا سا بچہ اور چھ سال کی ایک بیٹی ہے۔ یہ حادثہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا اور میرا دماغی توازن خراب ہو گیا۔ کاروبار چھوڑ کر در بدر مارا پھرتا۔ میری بیوی مجھے بہت سے مولوی لوگوں کو دکھانے لے گئی۔ ہر دوئی میں بڑے مولوی صاحب کے مدرسے میں لے گئی۔ وہاں پر بہار کے ایک قاری صاحب ہیں، وہاں کچھ ہوش تو ٹھیک ہوئے، مگر دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میں غلط راستے پر ہوں، مجھے اسلام کے بارے میں پڑھنا چاہیے۔ میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔

 

میں نے سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ایک چھوٹی کتاب پڑھی، اس کے بعد ”اسلام کیا ہے؟” پڑھی۔ ”اسلام ایک پریچے” شیخ علی میاں جی کی پڑھی۔ 5 دسمبر 2006 کو مجھے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کی چھوٹی سی کتاب ”آپ کی امانت آپ کی سیوا میں” ایک لڑکے نے لا کر دی۔ 6 دسمبر کی تاریخ اگلے روز تھی۔ میں ڈر رہا تھا کہ اب کل کو کیا حادثہ ہو گا۔ اس کتاب نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ مسلمان ہو کر اس خطرے سے جان بچ سکتی ہے اور میں 5 دسمبر کی شام کو پانچ چھ لوگوں کے پاس گیا، مجھے مسلمان کر لو، مگر لوگ ڈرتے رہے، کوئی آدمی مجھے مسلمان کرنے کو تیار نہ ہوا۔

 

میں نے 5 دسمبر 2006 کو مسلمان ہونے کا پکا ارادہ کر لیا تھا، مگر اس سال 22 جنوری تک مجھے کوئی مسلمان کرنے کو تیار نہیں تھا۔ مولوی کلیم صاحب کو ایک لڑکے نے جو ہمارے یہاں سے جا کر پھلت مسلمان ہوا تھا، بتایا کہ ایک لالہ جی جو رام جنم بھومی تحریک میں بہت خرچ کرتے تھے، مسلمان ہونا چاہتے ہیں تو مولوی صاحب نے محمد عامر ماسٹر صاحب کو (جو خود بابری مسجد کی مسماری میں سب سے پہلے کدال چلانے والے تھے) بھیجا، وہ پتا ٹھیک نہ معلوم ہونے کی وجہ سے تین دن تک دھکے کھاتے رہے۔ تین دن کے بعد 22 جنوری کو مجھے ملے اور انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور مولوی صاحب کا سلام بھی پہنچایا۔ صبح سے شام تک وہ مولوی صاحب سے فون پر بات کرانے کی کوشش کرتے رہے، مگر مولوی صاحب مہاراشٹر کے سفر پر تھے۔ شام کو کسی ساتھی کے فون پر بڑی مشکل سے بات ہوئی۔ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ سیٹھ جی سے ملاقات ہو گئی ہے اور الحمد للہ! انھوں نے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور آپ انھیں دوبارہ کلمہ پڑھوا دیں۔ مولوی صاحب نے مجھے دوبارہ کلمہ پڑھوایا اور ہندی میں بھی عہد کروایا۔

 

میں نے جب مولوی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت! مجھ ظالم نے اپنے پیارے مالک کے گھر کو ڈھانے اور اس کی جگہ شرک کا گھر بنانے میں اپنی کمائی سے 25 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں، اب میں نے اس گناہ کی معافی کے لیے ارادہ کیا ہے کہ 25 لاکھ روپے سے ایک مسجد اور مدرسہ بنواؤں گا۔ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ جب اس کریم مالک نے اپنے گھر کو گرانے کو میرے لیے ہدایت کا ذریعہ بنا دیا ہے تو مالک میرا نام بھی اپنا گھر ڈھانے والوں کی فہرست سے نکال کر اپنا گھر بنانے والوں میں لکھ لیں۔

 

میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ میرا کوئی اسلامی نام بھی رکھ دیجیے۔ مولوی صاحب نے فون پر بہت مبارک باد دی اور دعا بھی کی، اور میرا نام محمد عمر رکھا۔ میرے مالک کا مجھ پر کیسا احسان ہوا۔ اگر میرا رواں رواں، میری جان، میرا مال سب کچھ مالک کے نام پر قربان ہو جائے تو بھی اس مالک کا شکر کیسے ادا ہو سکتا ہے کہ میرے مالک نے میرے اتنے بڑے ظلم اور پاپ کو ہدایت کا ذریعہ بنا دیا۔

 

میرے مالک کا کرم ہے کہ میری بیوی، یوگیش کی بیوی اور دونوں بچے بھی مسلمان ہو گئے ہیں۔ میں نے الحمد للہ، گھر پر ٹیوشن لگائی ہے۔ ایک بڑے نیک مولوی صاحب مجھے مل گئے ہیں۔ وہ مجھے قرآن بھی پڑھا رہے ہیں، سمجھا بھی رہے ہیں۔

 

مولوی کلیم صاحب نے مجھے توجہ دلائی کہ آپ کی طرح کتنے ہمارے خونی رشتے کے بھائی بابری مسجد کی مسماری میں غلط فہمی میں شریک رہے۔ آپ کو چاہیے کہ ان پر کام کریں۔ ان تک سچائی کو پہنچانے کا ارادہ کریں۔ میں نے اپنی یادداشت سے ایک فہرست بنائی ہے۔ اب میری صحت اس لائق نہیں کہ میں کوئی بھاگ دوڑ کروں، مگر جتنا دم ہے، وہ تو اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ اس کے بندوں تک پہنچانے میں لگنا چاہیے۔

 

میرے یوگیش کا غم مجھے ہر لمحہ ستاتا ہے۔ مرنا تو ہر ایک کو ہے۔ موت تو وقت پر آتی ہے اور بہانہ بھی پہلے سے طے ہے، مگر ایمان کے بغیر میرا ایسا پیارا بچہ جو مجھ جیسے ظالم اور اسلام دشمن، بلکہ خدا دشمن کے گھر پیدا ہو کر صرف مسلمانوں کا دم بھرتا ہو، اسلام کے بغیر مر گیا۔ اس بچے کا حق ادا نہ کرنے کا احساس میرے دل کا ایسا زخم ہے، جو مجھے کھائے جا رہا ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے جوان، بوڑھے موت کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی خبر لیں۔

٭

(بشکریہ ،ماہنامہ’اللہ کی پکار، دہلی’ جولائی 2009)

 

٭٭٭

 

 

 

  میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

 

جمیلہ/ پشپا

 

 

 

میرے والد کا نام شیو رام بھگت تھا، والدہ کا نام سومی بائی تھا۔ میرا تعلق پنجاب کے راج پورہ ضلع پٹیالہ کے بھگت خاندان سے تھا۔ ہم لوگ تین بہنیں تھیں۔ میرے اللہ کو مجھ سے پیار تھا اور میرے رب نے کرم کیا کہ ایمان کی دولت سے نوازا اور کفر کو مجھ سے دور کیا اور بظاہر ”مسلم عورت کی ستر پوشی” میرے اسلام لانے کا سبب بنی۔ ہمارا گھرانہ غریب تھا۔ میری والدہ کی بہن کی شادی ایک بڑے گھرانے میں ہوئی۔ جب میری شادی ہوئی، اس وقت میری عمر ٢٠ سال تھی۔ میری خالہ نے سوچا کہ میری بھانجی بھی بڑے گھر میں آ جائے، اس لیے انھوں نے اپنے دیور کے بیٹے سے جو کہ سی بی آئی آفیسر تھے، میری شادی کرا دی۔ میری والدہ امیر غریب کے خوف کی وجہ سے شادی پر آمادہ نہ تھیں۔ ایک طرح زبردستی یہ شادی کرائی گئی۔ شادی کے بعد معلوم ہوا کہ جن سے میرا بندھن بندھا ہے، وہ بے حد لاپروا اور شرابی ہیں۔ سسرال میں میرا حال تو نوکر سے بھی بد تر تھا اور میں کٹھ پتلی کی طرح سسرال میکے میں گھمائی جاتی۔ ١٩٧٠ء میں میری شادی ہوئی اور ١٩٧٣ء میں میرا بیٹا پیدا ہوا۔ اس وقت میں بے حد ستم رسیدہ حالت میں اسپتال میں تھی۔ میری ماں نے بھی میری پروا چھوڑ دی۔ بے چاری کیا کرتی، حالات ہی ایسے تھے۔ میں نے لوگوں کے جھاڑ و برتن کیے اور ایسے حالات میں اللہ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی کی مجھے ماں بنا دیا، اللہ نے مجھے دماغ بہت تیز دیا ہے۔

 

میں نے ١٩٨٠ ء میں سلائی کڑھائی کے کارخانے میں ٢٥٠ روپے ماہانہ تنخواہ پر کام شروع کیا۔ وہیں سے میرا اسلام سے تعلق جڑا۔ وہ کارخانہ کسی ہندو کا تھا، لیکن اس میں نوکر مسلمان تھے اورمسلمان بریلوی خیال کے تھے۔ میں ساڑی پہن کر کارخانے جاتی اور میرا بلاؤز بغیر آستین کے ہوتا تھا۔ مسلم ورکر بولے: بہن جی، آپ ہمارا ایمان خراب کرتی ہیں! میں بولی : ایمان کیا ؟ وہ بولے: ہم لوگ مسلمان ہیں اور ہمارے یہاں مسلم عورت ستر پوش یعنی پوری ڈھکی چھپی رہتی ہے اور اس لیے مردوں کا ایمان بھی سلامت رہتا ہے اور عورتوں کا بھی۔

 

میں نے کہا کہ ایمان کیا ہے؟ بولے کہ ایک کلمہ ہے۔ وہ پڑھا جاتا ہے۔ میں بولی کہ وہ تو مسلمان عورتیں ہیں، اپنے دھرم کی وجہ سے کرتی ہیں، مسلم ورکر بہت دردمندی سے بولے کہ بہن جی، آپ چاہے جو بھی ہوں، ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ بھی ہماری ماں بہنوں کی طرح کپڑے پہنو۔ میرے دل میں ان کے ایمان کی، ستر پوشی کی بات گھر کر گئی اور میں سوچنے لگی کہ کیسا اچھا ایمان ہے ان کا، اور ان کے یہاں کس قدر عورت کی عزت کی جاتی ہے اور ان ورکرز کے ایمان کے اندر آنے کے لیے میرا دل بے قرار ہو گیا۔ اگلے دن میں نے کہا کہ بھائی میں تمھارے ایمان میں آنا چاہتی ہوں، مجھے کیا کرنا ہو گا؟ بولے: ایک کلمہ ہے، وہ پڑھنا ہو گا۔ میں نے کہا: جلدی مجھے پڑھاؤ۔ بولے کہ ہم نہیں پڑھا سکتے، ہمارے بابا پڑھائیں گے۔ اور وہ فلاں دن آتے ہیں۔ اب مجھے اس فلاں دن کا بے قراری سے انتظار رہنے لگا۔ خدا خدا کر کے وہ دن آ گیا۔ ایک لمبا سا چوغا اور طرح طرح کی گلے میں مالائیں پہنے اور ہری ٹوپی پہنے بابا کارخانے میں تشریف لائے اور انھوں نے رومال پکڑوا کر کہلوایا: صلی علیک یا محمد۔ یا اللہ۔ یا محمد۔ یا علی المدد۔ کر مدد۔ یہ اس زمانے کا میرا ایمان تھا۔ جیسے کہا، جو بتایا، میں نے کہا اور پڑھا اور بہت زمانے تک ہر وقت یہ ورد کرتی رہی اور پھر مجھے بتایا گیا کہ قبروں پر جانا ہے، میں ان بابا کی مرید بن گئی۔ اور میں نے ہندوستان کے بڑے بڑے مزاروں پر حاضری دی اور جیسا وہاں ہوتے دیکھا، ویسے کرتی رہی۔

 

ادھر میں نے ساڑی کی جگہ سوٹ پہننا شروع کیا اور خود کپڑے ڈیزائن کرنا شروع کیے اور میرے ڈیزائن ڈریس کی بہت قیمت لگی۔ میں نے الگ سے مشین خریدی اور خود ڈیزائن کر کے ڈریس تیار کی اور بازار میں فروخت کی، میرا کاروبار چل نکلا۔ ١٩٨٢ء میں اوکھلا فیز۔ ٢ میں، میں نے اپنے کارخانے کی بنیاد ڈالی اور الگ سے مسلم ورکرز رکھے۔ مجھے کمانے کی دھن لگ گئی اور اللہ نے قابل بنا دیا کہ نہرو نگر، نئی دہلی میں ٣ منزلہ ایک پورا کیمپس خرید لیا۔ ہاں ایک اور بات یاد آئی۔ جب میں کارخانے میں کام کرتی تھی، بابا کو خانقاہ کی ضرورت تھی، میری ماں نے میرے نام ایک دکان کر دی تھی، وہی ان کی کل جائداد تھی۔ بابا کو خانقاہ کے لیے زمین کی ضرورت تھی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا: وہ دکان کے کاغذات دے دو مجھے ایک مکان خریدنا ہے۔ میں نے ماں سے جھوٹ بولا، ورنہ ماں بھی کاغذ نہ دیتی۔ میں نے کاغذات لے کر وہ دکان اس زمانے میں ١٢ ہزار کی فروخت کر دی۔ ١١ ہزار ان بابا کو خانقاہ کے لیے دے دیے۔ ایک ہزار خود رکھے، اس وقت سروس کرتی تھی۔ ٢٥٠ روپے تنخواہ،  تین بچے اور خود اور مکان کا کرایہ، ایک ہزار کرایہ جمع کیا اور دلی کورٹ پٹیالہ ہاؤس میں جا کر باقی پیسے سے اسلام قبول کرنے کی کارروائی پوری کی۔ بس اس وقت اللہ کے نام پر دینے کی دھن سوار تھی۔ میں چاہتی تھی کہ کماؤں اور اللہ کے لیے لٹاؤں، مجھے کمانے کی دھن لگ گئی۔ نہرو نگر میں اللہ نے جائداد دلوا دی۔ وہاں جو وکرز کام کرتے تھے، وہ نماز نہ پڑھتے تھے، البتہ نماز کے بہانے جاتے اور باہر جا کر پکچر دیکھنے چلے جاتے اور میں نمازیوں کو ہی کام دیتی تھی۔ مگر ورکر چالاکی کرتے۔ میں نے سوچا، مجھے ایسی جگہ کارخانے کی تلاش کرنی چاہیے، جہاں مسجد کارخانے سے ملی ہوئی ہو، تب میں نے حاجی کالونی، غفور نگر (جامعہ نگر، دہلی۔ ٢٥) میں زمین خریدی اور کارخانہ ادھر شفٹ کیا، لیکن ادھر چونکہ میں اکیلی کام کرتی تھی اور مسلم ایریا میں مسجد کی وجہ سے شفٹ ہوئی تھی، تاکہ ورکر نماز ضرور پڑھیں اور دیر تک غائب بھی نہ ہوں کہ کارخانے میں کام کا نقصان نہ ہو، لیکن ادھر کے مسلمانوں نے مجھے بہت تنگ کیا کہ یہ کیسے مسلمان بنی ہے، لڑکوں سے کام کراتی ہے، طرح طرح کی باتیں … میرا ذہن پریشان ہو گیا، حتیٰ کہ میرا کارخانہ ٹھپ ہو نے لگا اور میں بچوں کے پاس نہرو نگر چلی گئی۔ کام بالکل بند ہو گیا۔ میں غریبی میں چلی گئی، فاقے ہونے لگے، میں نے کترن بیچنا شروع کی اور پھر کچھ سہارا شروع ہوا۔ پھر کچھ اور اچھی مسلمان بہنیں ملیں۔ انھوں نے سہارا دیا،  اسی طرح مولوی ذوالفقار صاحب نے میری بڑی رہنمائی کی۔ انھوں نے مجھے اپنی ماں بنا لیا اور حقیقی ماں کی طرح میرا خیال رکھنے لگا۔ میں نے حاجی کالونی (جامعہ نگر، نئی دہلی۔ ٢٥) میں پھر کارخانہ شروع کیا۔ اور نائٹی، ٹاپ اور پٹیالیہ شلوار کی ڈیزائننگ کر کے مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کر دی اور یہاں بھی میں نے عمارت بنا لی اور خود بھی ادھر ہی شفٹ ہو گئی اور تب میں نے جانا کہ جس اسلام پر میں چلتی ہوں، قبر پرستی، وہ صحیح نہیں۔ کلمہ صحیح کیا ہے، اب معلوم ہوا۔ نماز یہاں آ کر سیکھی، قرآن کریم پڑھا، تبلیغی جماعت کی بہنوں سے میل جول پیدا کیا۔ میں نے جب نماز سیکھی اور اس کو ادا کیا تو سمجھ میں آیا کہ حدیث نبویؐ ”نماز مومن کی معراج ہے” کا کیا مطلب ہے، نماز واقعی معراج ہے۔

 

رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ میں روزے برابر رکھتی رہی، نمازیں بھی ادا کرتی، لیکن نماز کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکتی تھی۔ مجھے شوگر ہو گئی او ر گھٹنوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ جہاں میں رہتی ہوں، وہاں میرے ایسے پورشن ہیں کہ بآسانی کرائے دار بھی رکھتی ہوں۔ لیلۃ القدر آ گئی، سب لوگ کھڑے ہو کر نوافل میں مصروف تھے۔ میں بھی اس رات جاگ رہی تھی۔ پیروں کے درد کی وجہ سے اٹھ نہ سکتی تھی۔ کسی مسلم بہن نے بھی مجھے اس رات کے بارے میں کچھ خاص نہ بتایا۔ اور میرا دل پھٹا جا رہا تھا کہ کوئی آئے، مجھے تسلی دے، اس رات کی عظمت کے بارے میں بتائے۔ میں ایسے میں کیسے عبادت کروں، کوئی میری مدد کرے۔ پھر بے بسی کی کیفیت طاری ہوئی۔ میں بیٹھے بیٹھے سجدے میں جا گری اور اسی طرح مالک کے سامنے آہ و فغاں کی، تڑپ تڑپ کر روئی، روتے روتے زور زور سے میری چیخیں لگ گئیں۔ مجھے کچھ ہوش نہ رہا، بس اللہ اور میں فریادی! میری یہ بے بسی کہ عبادت اور نماز بھی کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکوں، اس کا احساس ہوا کہ یکایک مجھے لگا، میں کھڑی ہو سکتی ہوں اور میں سیدھی کھڑی ہو گئی اور اس رات میں نے کھڑے ہو کر خوب نماز ادا کی اور میں جو چلنے پھرنے سے معذور تھی، چلنے پھرنے لگی اور کئی سال تک میں ایسی رہی کہ مجھے کوئی بیماری نہیں تھی، میری شوگر بھی ختم ہو گئی۔ ہم بہت نکمے ہیں، پھر دنیا داری میں پھنس گئی اور پھر وہی بیماری۔

 

میں نے ”فضائل اعمال” پڑھنا شروع کی۔ جب میں نے یہ پڑھا کہ جس کا بیٹا حافظ قرآن ہو گا، آخرت میں اس بیٹے کی ماں کو تاج پہنایا جائے گا۔ میں تڑپ گئی کہ یا اللہ! اب میں کیا کروں! میرے دو بیٹے ہیں، ان کی شادی ہو چکی، بچے بھی ہو گئے، کیونکہ میں بس صلی علیک یا محمد، المدد، کر مدد اور قبروں پر جانے کو مسلمان ہونا سمجھتی تھی، بس خود ہی مسلمان بنی رہی، لڑکے خاندانی حالت پر ہیں، ان کی شادی میں نے ہندو لڑکی سے کی اور مجھے پھر اس نعمت سے محرومی نے دکھی کر دیا۔ میں زار و قطار روئی کہ سب حافظوں کی ماؤں کو تاج پہنایا جائے گا، میرے لیے کوئی تاج نہ ہو گا۔ میرا کوئی بیٹا حافظ نہیں۔ ایک پڑوسن دین دار تھیں، میرے ہر وقت کے رونے کو دیکھ کر کہنے لگیں کہ تم میرے بیٹے کو پڑھا لو، حافظ بنا لو۔ دوسروں نے کہا کہ کوئی غریب بچہ پڑھا لو۔ میں نے غریب بچے کی تلاش شروع کر دی۔ ایک بچہ جس کا نام احتشام تھا، اس کو پڑھانے کے لیے سہارن پور مدرسہ سو کڑی میں چھوڑا اور وہ الحمد للہ حفظ کر رہا ہے، پھر مجھے لوگوں نے کہا: ایسے تاج نہیں پہنایا جائے گا۔ آپ بن ماں باپ کا بچہ تلاش کرو۔ اس کو حفظ کراؤ۔ اب میں اور رونے لگی اور لگتا تھا کہ روتے روتے جان چلی جائے گی کہ ہائے محرومی! مجھے تاج نہ پہنایا جائے گا۔ اب میں نے کسی ہندو غریب کی جھگی جھونپڑی میں تلاش شروع کر دی۔ ایک بچہ اللہ نے مجھے ملایا، جو بن ماں باپ کا ہے، عبد اللہ اس کا نام رکھا۔ اسے رائے پور سہارن پور کی طرف لے کر گئی اور اسے پڑھا رہی ہوں۔ ماشاء اللہ اس کا ١٢ واں پارہ ہے، رائے پور میں پڑھ رہا ہے۔ دونوں بچوں کے لیے کپڑا خرچ وغیرہ لے کر جاتی ہوں۔ میرا پوتا میرے پاس رہتا ہے۔ ١٢ سال کا ہے۔ اسے حوض والی مسجد میں بھیجا ہوا ہے، امن نام ہے، دعا کیجیے کہ وہ بھی حافظ ہو جائے، آمین!”فضائل اعمال” میں پڑھا کہ سود خور کے ساتھ یہ معاملہ ہو گا کہ اس کے پیٹ میں سانپ بچھو ہوں گے۔ ہمارے یہاں ہفتے میں اجتماع ہوتا ہے اور میں پنجاب وغیرہ بھی جاتی ہوں۔ وہاں ہندو بہنیں میرا وعظ سنتی ہیں۔ جالندھر میں میں نے جب یہ سود والی حدیث سنائی تو ہندو ہوتے ہوئے بھی سب نے یقین کر کے وہاں سود لینا دینا چھوڑ دیا، اور وہ بے چین رہتی ہیں کہ اپنے دھرم کی اور بات بتاؤ۔ لوگ پیاسے ہیں، مجھے تو کچھ زیادہ معلومات نہیں، بس قرآن (ہندی ترجمہ) اور ”فضائل اعمال” پڑھی ہے۔ مسلمان اگر آگے آئیں تو لوگ پیاسے کھڑے ہیں۔ ذرا سے اشارے کی دیر ہے، دامن اسلام میں آ جائیں گے۔

 

میرے شوہر نے ٢٥ سال سے میرا اور میرے بچوں کا کوئی خرچ نہیں اٹھایا۔ اب وہ پچھلے دنوں ریٹائر ہوئے اور انھوں نے فنڈ کے پیسے سے ایک فلیٹ خریدا اور حالات کچھ ایسے بنے کہ وہ فلیٹ انھیں گروی رکھنا پڑا۔ ناچار میرے نہرو نگر والے فلیٹ میں جہاں میرے دونوں لڑکے اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں، ان کو آنا پڑا۔ میں برابر سب رشتے داروں سے ملتی ہوں، جب کچھ دن باپ کو بیٹے اور بہو کے پاس رہتے ہو گئے تو بڑی بہو نے انہیں باہر کر دیا۔ اب یہ دوسرے بیٹے کے گھر میں گئے۔ دیکھتی کیا ہوں کہ ایک دن میری بڑی بہو ان کو کھانا ایسے دیتی ہے،  جیسے کسی کتے کو ڈالتے ہیں۔ میں نے کہا: تم اس طرح سلوک کرتی ہو، اس طرح تو لوگ کسی کتے کو بھی نہیں دیتے ہیں۔

 

خیر میں حسب معمول خرچہ دینے کے لیے رائے پور حفظ کرنے والے بچے کے پاس گئی تو وہاں جامعہ اسلامیہ دہلی کا ایک بچہ گیا، وہ وہاں حفظ کر رہا ہے، رائے پور میں رہتا ہے۔ اللہ نے اسے دین پر لگا دیا ہے۔ وہ بولا: ماں جی! مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ میری سب کہانی کا حال اس نو مسلم بچے نے اسے بتا دیا ہو گا۔ بولا: آپ کے شوہر ہندو ہیں، آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنے شوہر کو دین کی دعوت دیں۔ مجھے ان کے سلوک کی وجہ سے ان کے ساتھ کوئی تعلق محسوس نہ ہوتا تھا۔ میں نے کہا کہ بیٹے، وہ تو بہت بڑے شرابی ہیں، شراب کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ وہ بچہ بولا کہ اماں، اگر آپ کو شراب کا گلاس بھر کر بھی دین کی دعوت دینی پڑے،  تب بھی آپ دین کی دعوت دیں۔ یہ دعوت دینا بہت ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ ضرور ایمان لے آئیں گے۔ آپ ایسے بھی جذبے والی ہیں۔ آپ یہ کام ہر حال میں کریں، اب میں گھر آ گئی۔ میں نے فون اٹھایا، ادھر سے فون انھوں نے اٹھایا، مگر میں کچھ ہمت نہ کر سکی۔ عجیب شرم محسوس ہوئی، مگر دل ہی دل میں اللہ سے گڑگڑاتی : اے اللہ، تو انھیں ایمان کی دعوت دینے کی مجھے ہمت عطا کر۔ میری بہن ہندو ہے، مگر سب کلمہ ورد جانتی ہے۔ وہ بھی بہنوئی کی ایسی درگت سے دکھی تھی۔ وہ روز کہتی کہ تو مسلمان بن جا، تیری زندگی بن جائے گی۔ دیکھ میری بہن کی مسلمان بننے سے کیسی زندگی بنی ہوئی ہے۔ روز روز کہتی رہی۔ ایک دن دیکھتی کیا ہوں کہ زبردستی میرے شوہر کو میرے گھر لے آئی۔ میں ناراض ہوئی کہ تو اس ہندو شرابی کو کیوں لے کر آئی ہے؟ وہ بولی: یہ مسلمان بننے کو تیار ہے۔ غفار منزل کی مسجد میں صبح ١٠ بجے کسی مولوی صاحب کا بیان تھا۔ ان کو وہاں لے گئی اور وہاں پر مولوی صاحب نے ان کو کلمہ پڑھایا، پھر نکاح پڑھایا۔ وہ نکاح پڑھا کر جانے لگے، میں روٹھی روٹھی تھی، میرے بیٹے ذوالفقار نے ان سے کہا: میری جمیلہ ماں کو سمجھائیے کہ پردہ کیے بیٹھی ہیں۔ پردہ چھوڑیں اور ناراضگی بھی ختم کریں۔ مولوی صاحب نے مجھے سمجھایا، میری سمجھ میں بات آ گئی۔ مگر ٢٥ سال سے الگ رہ رہی تھی، عجیب سا حجاب آتا ہے، ویسے جتنا کچھ ہو رہا ہے،  خدمت کر رہی ہوں۔ آج ٢٢ دن ہو گئے انھوں نے شراب کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔

 

میرے دونوں لڑکے اگرچہ ہندو ہیں، لیکن بسم اللہ، الحمد للہ سب پڑھتے ہیں۔ بڑی بہو تو کٹر ہے، لیکن چھوٹی بہو بہت نرم دل ہے۔ چھوٹا بیٹا میرے ساتھ کام کرتا ہے، بلکہ اب فیکٹری، دکان سب کچھ وہی سنبھالتا ہے۔ بس بہو سے ڈرتا ہے۔ مجھے ان کو اسلام کی دعوت دینا ہے۔ ویسے میرا یہ منہ بولا بیٹا ذوالفقار اور بہو مثالی بہو بیٹے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حج بھی کر چکی ہوں۔

 

ایک مرتبہ میں نے خواب دیکھا کہ میرا ایک کمرہ ہے، جو بے حد حسین اور طوطیا رنگ کا ہے، اس کے رنگ کا حسن بیان سے باہر ہے۔ وہاں میں اور ایک آدمی مسجد میں پڑے ہوئے ہیں۔ بے حد حسین، ناقابل بیان عورتیں، ہیرے جواہرات، زمرد، موتیوں کے تھال لیے بیٹھی ہوئی ہیں۔ دوسرا خواب کہ میں لا انتہا اونچائی پر کھڑی ہوں، بے حد سفید لباس میں اور میرے چاروں طرف بے حد سفید لباس ہیں اور بے حد شفاف پانی ہے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ تعبیر تو اللہ جانتا ہے،  کیا ہے، مگر بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔ ایک بار دیکھا کہ چٹیل میدان ہے، میں اور میرا پوتا امن میرے ساتھ ہے کہ زبردست زلزلہ آیا، بڑا خوف ناک، میں الحمد شریف پڑھنے لگی ہوں کہ ایک دم زلزلہ الحمد پڑھنے سے رک جاتا ہے۔

 

مسلمانوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں، ہندوؤں سے میل جول رکھیں۔ یہ دوریوں کی سرحدیں گرائیں۔ ہندو قوم اسلام دھرم (مذہب) کے بارے میں جاننے کو بے چین اور متجسس رہتی ہے۔ قریب آئیں، ان شاء اللہ لوگ جوق در جوق اسلام میں کھنچے چلے آئیں گے۔

 

(بشکریہ ماہنامہ ”اللہ کی پکار” نومبر 2008)

 

 

  میں  نے اسلام کیوں قبول کیا

 

چودھری آر کے عادل/ چودھری رام کرشن لاکڑا

 

 

میرا پرانا نام رام کرشن لاکڑا ہے۔ میں دہلی نجف گڑھ کے علاقے کی ہندو جاٹ فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے بابا جی ہمارے گاؤں کے پردھان اور زمیں داروں میں سے ہیں۔ ہمارا گاؤں کچھ زمانہ پہلے روہتک ضلع ہریانہ میں تھا۔ میں آج کل دہلی میں پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتا ہوں۔ یوں تو میں اس سنسار (دنیا) میں 27 ستمبر 1959ء کو آ گیا تھا، مگر دوسرا جنم ٹھیک  4 سال بعد 27 ستمبر 2004ء کو ہوا ہے۔

 

میں اپنے پڑوس کی مسجد کے مولوی صاحب سے بھی کہہ رہا تھا کہ عجیب بات یہ ہے کہ پہلے جنم کے ٹھیک ٤٥ سال بعد میں نے نیا جنم لیا اور دوبارہ جنم کے عقیدے سے توبہ کی۔ میں نے 27 ستمبر 2004ء پیر کے دن ساڑھے سات بجے دن چھپنے کے بعد مولوی کلیم صدیقی صاحب کے ہاتھ پر پھلت ضلع مظفر نگر، یوپی میں ان کے گھر کے اوپر والے کمرے میں کلمہ پڑھ کر اپنی نئی اسلامی زندگی شروع کی۔

 

میں نے1976ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور آگے پڑھنے سے منع کر دیا۔ دو سال تک چھٹی کرتا رہا۔ میرے تاؤ اور ایک موسا (پھوپھا) فوج میں بڑے کرنل ہیں۔ وہ گھر آئے۔ انھوں نے مجھے دھمکایا: اگر تو پڑھنے نہیں جاتا تو تجھے فوج میں بھرتی کر دیں گے اور تجھے لام پر جانا پڑے گا۔ میں نے داخلہ لے لیا اور انٹر کر لیا، مگر پھر پڑھنے کو دل نہ چاہا۔ میری ماں نے بابا سے کہہ کر میری شادی کرا دی اور ماں کی خوشی کے لیے میں نے پرائیویٹ بی اے بھی کر لیا۔ شادی کے دو سال بعد میرے پھوپھا نے ایک ضروری کام کے بہانے دھوکے سے بریلی بلایا اور مجھے بیرک میں لے جا کر میرے بال کٹوائے۔ وہ فوج میں کرنل تھے۔ سارے کاغذات اور میڈیکل کرا کے مجھے بھرتی کر لیا اور مجھ سے کہا کہ تیری بھرتی ہو گئی ہے۔ اب اگر تو بھاگے گا تو فوجی تجھے پکڑ کر لائیں گے اور بھگوڑا قرار دے کر گولی مار دیں گے یا جیل میں ڈال دیں گے۔ مجھے ڈر سے ٹریننگ میں جانا پڑا۔ میرا دل نہیں لگتا تھا اور گھر یاد آتا تھا، اور گھر سے زیادہ گھر والی ۔ بے چاری بڑی محبت کرنے والی شریف عورت ہے۔ میں نے ٹریننگ میں ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اس فوج سے جان چھوٹنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ میرے ایک ساتھی نے بتایا کہ اگر افسر اَن فٹ (unfit) کر دے تو کام آسان ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ بہت آسان ہے۔ میں نے پاگل پن کا بہانہ کیا۔ بہکی بہکی باتیں کرتا۔ کبھی ہنستا تو ہنستا رہتا۔ کبھی چیختا تو چیختا رہتا۔ مجھے اسپتال میں بھرتی کیا گیا اور میڈیکل چیک اپ ہوا۔ ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ یہ بہانہ ہے۔ مجھے افسر نے بہت گالیاں دیں اور سخت سزا کی دھمکی دی۔ ناچار پھر ٹریننگ شروع ہو گئی۔ ایک روز پریڈ میں صبح کے وقت جیسے ہی افسر آئے، میں نے رائفل کھڑی کی اور تمباکو کی پڑیا ہتھیلی پر ڈال کر اس میں چونا ملانا شروع کیا۔ جیسے ہی افسر سامنے آیا، میں نے دوسرے ہاتھ سے سلوٹ ماری اور جے ہند بولا۔ میرے ہاتھ میں تمباکو کو دیکھ کر اس نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ میں نے ہاتھ آگے کر کے کہا: سر! یہ تمباکو ہے، لو آپ بھی کھا لو۔ وہ دھمکا کر بولے: نالائق! تیرا بیلٹ نمبر کیا ہے؟ میں نے نمبر بتا دیا۔ دوپہر کے بعد انھوں نے مجھے دفتر میں بلا لیا اور مجھ سے کہا: جب جنگ میں دشمن کے سامنے ہو تو تمباکو کھائے گا یا گولی چلائے گا؟ میں نے عرض کیا: سر! تمباکو کو کھا کر گولی چلانے میں تو مزہ ہی آ جائے گا۔ بہت غصہ ہوئے، میری فائل نکالی اور اس پر لال قلم سے ان (unfit) لکھ دیا۔ میں نے جے ہند کہہ کر خوشی سے سلام کیا اور رات کو ہی گاڑی میں بیٹھ کر دلی آ گیا۔ میرے پھوپھا کو معلوم ہوا تو انھوں نے گھر فون کر دیا کہ بھگوڑا ، غدار فوج سے جان بچا کر بھاگ آیا ہے۔ میری بیوی مجھ سے بات نہیں کرتی تھی کہ تو غدار، بھگوڑا ہے۔ میں نے سمجھایا کہ بھاگیہ وان! (خوش قسمت) اگر وہ جنگ میں بھیج دیتے تو تو ودھوا (بیوہ) ہو جاتی۔ اب موج سے ساتھ رہیں گے ۔ بڑی مشکل سے اس کی سمجھ میں آیا اور وہ راضی ہو گئی۔ میں نے ماں کو بھی بہت سمجھایا، کچھ روز یار دوستوں میں آوارہ پھر کر اپنے بابا کے ڈر سے پراپرٹی ڈیلنگ کا کاروبار شروع کر دیا۔ میری دوستی کچھ غلط لوگوں سے ہو گئی۔ جھگڑے کی زمین خریدی۔ مار پیٹ کر، دھمکا کر قبضہ کیا اور بیچ دی۔ نہ جانے کتنے لوگوں کوستایا۔ کتنوں کا مال مارا۔ مار دھاڑ اور پراپرٹی کے ١٩ مقدمے میرے ذمے لگ گئے۔ میں جیل چلا گیا، کسی طرح ضمانت ہوئی۔ میں پہلے جیل سے بہت ڈرتا تھا۔ ڈھائی مہینے کی جیل سے اور بھی دہشت بڑھ گئی۔

 

دو باتیں مجھ میں پہلے سے ہی مسلمانوں جیسی تھیں۔ جب ہوش سنبھالا، کسی مورتی، کسی دیوی کی پوجا نہیں کی۔ اور دوسری یہ کہ نجف گڑھ سے آگے ایک جگہ سؤر کے گوشت کی دکانیں تھیں، مگر جوانی کے دنوں میں مرغا وغیرہ کھانے کے باوجود اول تواس راستے سے گزرنا مشکل تھا، اگر جلدی میں گزر جاتا تو سانس روک کر نیچی نگاہ کر کے گزرتا۔ سؤر کے گوشت کو دیکھتے ہی مجھے الٹی سی آتی تھی۔ جیل سے ضمانت پر واپس آیا تو میری ماں نے جو بہت دھارمک (مذہبی) ہیں، ہر شکر وار (جمعہ) برت (روزہ) رکھتی ہیں، مجھ سے کہا کہ تو ناستک (ملحد) ہے۔ دیوتاؤں کو مانتا نہیں، بلکہ ان کا انادر (بے ادبی) کرتا ہے، اس لیے تیرے اوپر اتنی آفت ہے۔ مجھے ایک ہنومان کی مورتی اور ہنومان چالیسا دیا کہ اس کا جاپ (ورد) کر۔ میں اندر کمرے میں ماں کی ضد اور کچھ ڈر کی وجہ سے روز ہنومان چالیسا کا جاپ (ورد) کرتا رہا۔ مقدمے کی آخری تاریخ آئی۔ ایک عورت کی گواہی تھی۔ میں نے صبح تڑکے اٹھ کر ہنومان چالیسا کا جاپ (ورد) کیا اور پرارتھنا (دعا) کی، حالانکہ دل میں وشواس (یقین) یہی تھا کہ یہ بے جان مورتی ہے اس میں کیا رکھا ہے۔ ڈھل مل یقین کے ساتھ یا شاید لالچ میں دیر تک میں نے جاپ (ورد) کیا اور پرارتھنا (دعا) کی کہ گواہی ٹوٹ جائے۔ عدالت گیا تو اس عورت نے ایسی ڈٹ کر گواہی دی کہ جج سمجھ گیا کہ بات سچ ہے۔ مجھے غصہ آ گیا۔ یہ خیال بھی نہ رہا کہ عدالت ہے۔ میں نے غصے میں اس عورت سے کہا کہ تجھے باہر نہیں نکلنا ہے کیا؟ جج نے سن لیا اور برہم ہوا اور ضمانت کینسل کر کے جیل بھیجنے کا حکم کر دیا۔ دو مہینے پھر جیل میں رہا۔ بابا جی نے ہائی کورٹ سے ضمانت کرائی۔ جیل سے گھر آیا تو پہلے کمرہ بند کر کے ہنومان کی مورتی پر جوتا گیلا کر کے بجایا۔ ہنومان چالیسا کو جلایا اور خوب گالیاں دیں۔ ماں نے جوتے کی آواز سنی تو باہر سے بہت چیخیں ۔ وہ سمجھ رہی تھیں کہ میں اپنی بیوی کو مار رہا ہوں، مگر جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ باہر ہے تو ان کی جان میں جان آئی۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ روز روز مقدموں کی تاریخوں سے میں کتنا پریشان تھا۔ ہمارے علاقے میں ایک ملا جی پھلوں کی ٹھیلی لگاتے تھے۔ میں نے ان سے بات کی کہ کوئی تعویذ والا بتاؤ۔ میں بہت پریشان ہوں۔ انھوں نے کہا کہ کسی تعویذ والے کو نہ تو میں جانتا ہوں نہ مجھے اس پر اعتقاد ہے۔ ہاں، تمھیں ایک چیز بتاتا ہوں، روزانہ سو بار صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ لیا کرو۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ میں پریشان تھا ہی، اس لیے میں نے صبح شام پانچ پانچ سو بار پڑھا۔ اصل میں مالک کو مجھ پر دیا (رحم) آ رہی تھی۔ پہلی ہی تاریخ میں میں بری ہو گیا۔ ایک سال میں گیارہ مقدمے حق میں فیصل ہوئے۔ میں ملا جی کے پاس آنے جانے لگا، اور ان سے کہا کہ اور کچھ بتاؤ، تاکہ سارے مقدموں سے میری جان بچے۔ انھوں نے خود کچھ بتانے کے بجائے مجھے ہندی زبان میں ایک کتاب ”مرنے کے بعد کیا ہو گا؟” دی۔ میں نے اس کو غور سے پڑھا۔ دوزخ کی سزاؤں کو پڑھ کر میرے دل میں ڈر بیٹھ گیا۔ رات کو ڈراؤنے خواب بھی دکھائی دیتے۔ مجھے بار بار خیال آتا کہ میں نے کتنے لوگوں کی زمینیں دبائیں، کتنے لوگوں کو مارا، میرا اب کیا ہو گا؟ مجھے اس کتاب نے بے چین کر دیا۔ مقدموں سے زیادہ رات دن موت اور دوزخ کا خوف سوار رہتا۔ میں سوچتا اس سنسار (دنیا) کی عدالت کے انیس مقدموں سے زندگی خراب ہے تو اس مالک کے سامنے ان گنت مقدموں سے کیسے چھٹکارا ملے گا؟ میں نے ملا جی سے مشورہ کیا۔ انھوں نے مسلمان ہو جانے کو کہا۔ میں نے اسلام کے بارے میں کسی کتاب کے لیے کہا تو انھوں نے ”اسلام کیا ہے؟” لا کر دی۔ میری سمجھ میں اسلام آ گیا۔ اب میری سمجھ میں آیا کہ میرا فوج میں دل کیوں نہیں لگا۔ اگر میں فوج میں رہتا تو یہ ظلم، مار پیٹ نہ کرتا، اور مرنے کا خیال بھی نہ آتا۔ میرے مالک نے میری ہدایت کے لیے مجھے فوج سے بھگا دیا اور الٹ پلٹ کام کرائے۔

 

اسلام قبول کرنے کے لیے میں امام بخاری کے پاس جامع مسجد دہلی گیا۔ پہلے تو ان تک پہنچنا ہی مشکل ہے۔ میں کسی طرح ترکیب سے پہنچ گیا۔ امام صاحب نے کہا: اپنے یہاں کے ذمے دار لوگوں کو لے کر آنا، جو تمھیں جانتے ہوں۔ میں دو چار روز کی کوشش سے دو مسلمانوں کو لے کر گیا تو وہ کہنے لگے: شناختی کارڈ لاؤ۔ میں نے کہا: آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ بار بار کیوں پریشان کرتے ہیں! وہ ناراض ہو گئے اور بولے: بات کرنے کی تمیز نہیں۔ میں نے کہا: تمھیں تمیز نہیں، مجھے تو ہے اور میں چلا آیا۔

 

اس کے بعد ایک صاحب نے دہلی کی فتح پوری مسجد جانے کو کہا۔ میں وہاں پہنچا تو مفتی صاحب نے کہا کہ مسلمان ہونے کے بعد تمہارا نکاح ختم ہو جائے گا۔ تمھیں اپنی بیوی چھوڑنا پڑے گی۔ میں نے کہا: وہ 25سال سے میرے ساتھ رہ رہی ہے، ایسی بھلی عورت ہے کہ آج تک مجھے اس سے شکایت نہیں ہوئی، میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ انھوں نے کہا: پھر تمھیں کلمہ نہیں پڑھوایا جا سکتا اور نہ تم مسلمان ہو سکتے ہو۔ وہاں سے مایوس ہو کر میں نے تلاش جاری رکھی۔ ایک صاحب نے مجھے ایک مزار پر بھیج دیا۔ وہاں ایک میاں جی لمبے لمبے بال، ڈھیر ساری مالائیں گلے میں ڈالے، ہرے رنگ کا لمبا کرتا اور بہت اونچی ٹوپی پہنے ملے۔ میں ایک جاننے والے کو وہاں لے کر گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ میں تمھیں کلمہ پڑھواتا ہوں۔ میرے قریب بیٹھو۔ گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر ادب سے بٹھایا۔ اپنے داہنے ہاتھ میں میرا بایاں انگوٹھا اور بائیں ہاتھ میں دایاں انگوٹھا لے لیا اور بولے: مرید ہونے کی نیت کرو۔ اور میرے پیروں پر ادب سے نگاہ رکھو۔ مجھے بچپن کے کھیل کا دھیان آ گیا۔ ہم بچے ایک دوسرے کو اسی طرح گھمایا کرتے تھے۔ مجھے ہنسی آ گئی۔ وہ غرائے کہ ہنس رہا ہے۔ میں نے کہا: مجھے بچپن کا ایک کھیل یاد آ گیا ہے۔ اگر بچوں کی طرح آپ کو بھی سر کے اوپر گھما کر پھینک دوں تو؟ انھوں نے پھر دھمکایا۔ نہ جانے کیا کیا کہلوایا: قادریہ، غوثیہ وغیرہ وغیرہ۔ پھر بولے: میرے پاؤں کے بیچ سر رکھو۔ میں نے منع کیا تو دھمکا کر بولے: مرید ہو کر بات نہیں مانتا۔ میں نے سرٹیکا اور جلدی سے اٹھا لیا۔ وہ دوبارہ بولے: ادب سے قدموں میں سر رکھو اور یہ سوچو کہ مجھ میں خدا کا نور ہے۔ جس طرح خدا کو سجدہ کرتے ہیں، اسی طرح کرو۔ مجھے غصہ آ گیا۔ میں اسلام کے بارے میں بہت کچھ پڑھ لیا تھا۔ میں نے اس نالائق سے کہا کہ اگر میں تجھے اٹھا کر دے ماروں تو خدا تو میں ہوں گا، اس لیے کہ جو طاقت ور ہوتا ہے ، وہ خدا ہوتا ہے۔ میں نے دو چار گالیاں دیں اور چلا آیا۔

 

مجھے مسلمان ہونے کی بے چینی تھی اور موت کا کھٹکا تھا۔ میں نے ایک ملا جی سے ذکر کیا، وہ مجھے ایک قاضی جی کے یہاں لے گئے۔ قاضی جی نے کہا: مسلمان تو ہم تمھیں کر لیں لے، مگر دو ہزار روپے فیس ہو گی۔ میں نے کہا مجھے مسلمانوں کا اسلام نہیں چاہیے، میں تو محمد صاحب والا اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ اگر محمد صاحب نے کسی کو مسلمان کرنے کے لیے پیسے لیے ہوں تو آپ بھی لے لیں۔ جب انھوں نے کبھی ایک پیسہ نہیں لیا تو آپ کیسے پیسے لیتے ہیں؟ دو ہزار کی بات بڑی نہیں تھی، مگر مجھے وشواس (یقین) نہیں ہوا۔ میں وہاں سے بھی واپس آ گیا۔

 

اگلے روز ایک مسجد کے سامنے سے جا رہا تھا تو ذرا صاف ستھرے کپڑوں میں ایک مولوی صاحب مسجد کی طرف جاتے دکھائی دیے۔ بعد میں ان سے تعارف ہوا۔ ان کا نام مولوی عبد السمیع قاسمی تھا۔ میں نے ان سے کہا: مجھے اسلام کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنی ہیں۔ پہلے تو وہ ٹھٹکے، بعد میں وہ تیار ہو گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ اسلام کے بارے میں میں نے 50 سے زیادہ کتابیں پڑھی ہیں۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری حج کو گئے تو ان کے ساتھ سوا لاکھ ساتھی تھے۔ آپ نے سب کو اکٹھا کر کے ان سے سوال کیا کہ میں نے اسلام تم تک پہنچا دیا؟ سب نے کہا کہ بالکل پہنچا دیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اب جو یہاں سے غائب ہیں، یہاں موجود نہیں ہیں، یہ اسلام تمہیں ان تک پہنچانا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جن مسلمانوں تک اسلام پہنچ چکا ہے وہ دوسرے انسانوں تک اسلام پہنچائیں؟ مولوی قاسمی نے کہا کہ ہاں ضرور پہنچانا چاہیے۔ میں نے کہا کہ مولوی صاحب! آپ مجھے ایسے دوچار لوگوں سے ملوائیں ، جو دین کو دوسروں تک پہنچانے کا کام کر رہے ہوں۔ مولوی صاحب بولے: ایسے لوگ بھی ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ کام تو سارے مسلمانوں کو کرنا چاہیے، مگر مجھے ایک مسلمان بھی نہیں ملا۔ میں خود اسلام لانا چاہتا ہوں، چار بڑے مولویوں نے مجھے دھکے دیے۔ مولوی قاسمی نے کہا کہ میں آپ کو ایک صاحب کا پتا بتاتا ہوں۔ آپ پھلت (ضلع مظفر نگر، یوپی) چلے جاؤ۔ میں نے ان کا پورا پتا اور فون نمبر مانگا۔ انھوں نے کہا: فون نمبر معلوم کر کے دیتا ہوں۔ ناگلوئی (دہلی) کے کسی مولوی صاحب کو انھوں نے فون کیا، اور مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کا فون نمبر مل گیا۔ انھوں نے فون ملایا۔ مولوی صاحب دلی سے پھلت جا رہے تھے۔ مولوی قاسمی نے کہا کہ ہمارے ایک چودھری صاحب اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا: ان کو آج شام تک پھلت بھیج دیں۔ میں نے کہا: فون پر مجھ سے بات کروا دو۔ انھوں نے مجھے فون دے دیا۔ میں نے بات کی۔ مولوی صاحب نے کہا: آپ جب بھی آئیں، ہمارے اتتھی (مہمان) بلکہ آدرنیہ اتتھی (معزز مہمان) ہوں گے۔ میں سیوا (خدمت) کے لیے ہر سمے (وقت) حاضر ہوں۔ میں نے کہا: بہت بہت شکریہ، مجھے بڑا عجیب لگا۔ ایک آدمی سو ڈیڑھ سو کلو میٹر دور میرا ایسا سواگت (استقبال) کر رہا ہے۔

 

مجھے تو ایک ایک منٹ مشکل ہو رہا تھا۔ میں اسی روز 27ستمبر 2004ء کو دن چھپنے تک پھلت پہنچ گیا۔ مولوی کلیم صاحب نماز پڑھنے گئے تھے۔ میں بیٹھک میں کرسی پر بیٹھ لیا۔ مولوی صاحب آئے تو میں نے ملاقات کی۔ مولوی صاحب بہت خوشی سے ملے۔ ان کے یہاں باہر کے کچھ مہمان آئے ہوئے تھے، جو مکان کے اوپر والے کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر میں مولوی صاحب نے مجھے بھی وہیں بلا لیا۔ مجھ سے پیار سے سوال کیا: میرے لیے سیوا (خدمت) بتائیے۔ میں نے کہا: میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ مولوی صاحب نے کہا: بہت مبارک ہو، جو سانس اندر چلا گیا، اس کے باہر آنے کا اطمینان نہیں اور جو باہر گیا اس کے اندر جانے کا بھروسا نہیں۔ اصل میں تو ایمان دل کے وشواس (یقین) کا نام ہے۔ آپ نے ارادہ کر لیا، دل سے طے کر لیا کہ مجھے مسلمان ہونا ہے تو یہ کافی ہے، مگر اس سنسار (دنیا) میں ہم لوگ دل کے حال کو جان نہیں سکتے، اس لیے زبان سے بھی کلمہ پڑھنا پڑتا ہے۔ آپ جلدی سے دو لائن جس کو کلمہ کہتے ہیں، پڑھ لیجیے۔ میں نے کہا: مجھے ایک بات پہلے بتائیے کہ مسلمان ہو کر مجھے بیوی کو چھوڑنا پڑے گا۔ مولوی صاحب نے کہا: واہ صاحب! آپ کیسے مسلمان ہوں گے، جو آپ اپنے جیون ساتھی (شریک حیات) کو چھوڑیں گے۔ آپ چھوڑنے کی بات کرتے ہیں۔ اگر آپ سچے دل سے مسلمان ہیں تو آپ کو اپنی بیوی کو بھی سورگ (جنت) لے جانے کی کوشش کرنی ہو گی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ چلو، یہ اچھے آدمی ملے ہیں۔ مولوی صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا۔ ہندی میں ارتھ (مطلب) کہلوایا اور بتایا کہ تین باتوں کا آپ کو خیال کرنا ہے۔ ایک یہ کہ ایمان اس مالک کے لیے قبول کیا ہے، جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ لوگ مجھے نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں، مگر میرا مالک جانتا ہے کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں اور اسلام وہ ہے ، جو دلوں کے بھید جاننے والے کو قبول ہو جائے۔

 

دوسری بات یہ ہے کہ اس دنیا میں ایمان کی ضرورت ہے، اور وہ آدمی جو ایک مالک کو چھوڑ کر دوسرے کے آگے جھکے، کتے سے بھی زیادہ گزرا ہے، کیونکہ کتا بھی بھوکا پیاسا اپنے مالک کے در پر پڑا رہتا ہے۔ وہ آدمی کتے سے بھی بد تر ہے، جو در در جھکے، مگر اصل ایمان کی ضرورت موت کے بعد پڑے گی۔ جہاں ہمیشہ رہنا ہے تو موت تک اس ایمان کو بچا کر لے جانا ہے۔

 

تیسری سب سے ضروری بات یہ ہے کہ یہ ایمان ہماری آپ کی ملکیت نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے پاس ہر اس انسان کی امانت ہے، جس تک ہم اسے پہنچا سکتے ہیں۔ اب اگر مالک نے ہمیں راستہ دکھا دیا ہے تو ہمیں سارے خاندان ، دوستوں اور جاننے والوں تک اس سچائی کو پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ میں نے کہا: مولوی صاحب! آپ سچ کہتے ہیں۔ میں اصل میں خوف اور لالچ سے مسلمان ہو رہا ہوں۔ ”مرنے کے بعد کیا ہو گا”، ”دوزخ کا کھٹکا” اور ”جنت کی کنجی” کتابوں میں میں نے جو کچھ پڑھا، فلم کی طرح میرے دل و دماغ میں گھومتا رہتا ہے۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ تو نے اتنے ظلم کیے ہیں، موت کے بعد کیا ہو گا۔ اب میں آپ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ اسلام میں مالک نے جن کاموں سے روکا ہے، پوری جان لگا کر ان کاموں سے بچنے کی کوشش کروں گا۔ شاید میرے مالک کے سامنے جانے کا میرا منہ ہو جائے۔ میں نے مولوی صاحب کو بتایا کہ یہ بھی اچھا ہوا کہ میں نے اسلام کو پڑھ کر مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا ، مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں۔ آج کے مسلمانوں کو دیکھ کر کون مسلمان ہو سکتا ہے؟ میرے چاروں طرف بہت سے مسلمان رہتے ہیں۔ ہمارا ایک کرائے دار ہے، جس کا نام سید غلام حیدر ہے۔ نماز بھی نہیں پڑھتا۔ میں نے اس سے ایک بار کہا: تم ہر مہینے میرے ماں باپ کو کرایہ دیتے ہو۔ اگر تم ان سے مسلمان ہونے کو کہو تو کیا خبر وہ مسلمان ہو جائیں۔ اور اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو پورا خاندان مسلمان ہو جائے گا۔ وہ بولے: تمہارے بابا علاقے کے پردھان ہیں۔ اگر میں نے ان سے کہہ دیا تو وہ ہمارا جینا مشکل کر دیں گے۔ میں نے کہا: تم اللہ سے نہیں ڈرتے، میرے بابا سے ڈرتے ہو۔ اس لیے یہ کعبہ کا فوٹو ہٹا کر میرے بابا کا فوٹو لگاؤ اور روزانہ اس کے نام کا جاپ (ورد) کر کے میرے بابا کو ڈنڈوت کرو (سر جھکاؤ)۔ میرے بابا نے کسی دن دیکھ لیا ، تو وہ تمہارا کرایہ معاف کر دیں گے۔ تمہارے مزے آ جائیں گے۔ میں نے اس سے کہا کہ تم اپنے آپ کو سید بتاتے ہو، اللہ کے یہاں تمھیں بھی جانا ہے۔ میں مالک کے سامنے ہی لٹھ ماروں گا کہ انھوں نے سید ہو کر ایک دن بھی ہمیں ایمان لانے کو نہیں کہا۔

 

میں نے مولوی صاحب کو اپنی روداد سنائی اور چار بڑے مولویوں کے پاس سے واپس آنے کی بات بھی سنائی۔ مولوی صاحب نے مجھے بہت پیار سے سمجھایا اور مجھے تسلی دی۔

 

میرے دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ بڑی لڑکی کی شادی میں نے کر دی ہے۔ ہمارا سماج اصل میں پٹھانوں سے بہت ملتا جلتا ہے۔ بہت شرم و حیا ہے۔ مردوں کا باہر رہنا اور عورتوں کا اندر رہنا، یہ ہمارے یہاں کا دستور ہے۔ میں اپنی ماں کے سامنے اپنی بیوی سے آج تک بات نہیں کر سکتا۔ ماں بیٹھی ہو گی تو میں اس کو ہی بتاؤں گا۔ وہ کبھی کہتی بھی ہے کہ یہ تیری پانچ ہاتھ کی بہو ہے تو اس سے کیوں نہیں کہتا۔ میں کہتا ہوں: ماں، جب تو مر جائے گی ، تب اس سے کہوں گا۔ ہمارے یہاں ابھی تک لڑکی کو پڑھانے کا رواج نہیں ہے۔ پورے خاندان میں، میں نے بغاوت کر کے بڑی لڑکی کو پڑھایا۔ ہائی اسکول پاس کیا تو اس نے مجھ سے کہا: پتا جی! (ابو جی) مجھے دو ہزار روپے چاہییں۔ میں نے کہا: بیٹی! دو ہزار کیا کرو گی؟ اس نے کہا: ایک ہزار کا موبائل مل رہا ہے۔ میں نے اس سے کہا: موبائل کا کیا کرو گی؟ اس نے کہا کہ بات کیا کروں گی۔ میں نے پوچھا اور ایک ہزار کا کیا کرو گی؟ اس نے کہا: جینز لاؤں گی۔ میں نے اس سے کہا کہ دو ہزار کی جگہ پانچ ہزار دوں گا، مگر  15دن کے بعد۔ میں نے لڑکے والوں کو بلوایا، جہاں اس کا رشتہ طے کر رکھا تھا اور کہا: آٹھ دن میں پھیرے پھروا لو تو لڑکی تمہاری، ورنہ میں کسی دوسری جگہ شادی کر دوں گا۔ وہ تیار ہو گئے۔ بابا سے کہہ کر پنڈت بلوایا اور پھیرے پھروائے۔ میں نے لڑکی کو ڈھائی ہزار روپے دیے اور کہا کہ آدھے تو یہ لو اور آدھے اس دن دوں گا جس روز گود میں بٹھا کر رخصت کرنے کے لیے تجھے گاڑی میں ٹیکوں (بٹھاؤں) گا۔ آج ہائی اسکول کر کے موبائل اور جینز مانگ رہی ہے۔ اگر انٹر کر لیا تو کسی ایرے غیرے کا ہاتھ پکڑ کر گھر لے آئے گی کہ پتا جی (ابو جی) یہ تمہارا داماد ہے۔ میں نے عہد کر لیا کہ لڑکی کو پانچویں سے آگے ہر گز نہیں پڑھانا ہے۔ یہ بات میں نے مولوی صاحب سے بھی کہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے۔ اب تم مسلمان ہو گئے ہو۔ تم کو اسلام کی ہر بات ماننا ہو گی۔ اسلام نے تعلیم حاصل کرنے کو فرض کہا ہے۔ اور لڑکا لڑکی دونوں کو پڑھانا ضروری ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اسلامی ماحول اور تربیت میں تعلیم ہونی چاہیے۔ میں نے وعدہ کر لیا: اب میرا پکا ارادہ ہے کہ اپنے تینوں بچوں کو اسلامی تعلیم کی جو سب سے بڑی ڈگری ہو گی، اس تک پڑھاؤں گا۔ آگے مالک کے ہاتھ میں ہے۔ اب میں نے بالکل اسلامی اصولوں پر زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں شراب کا بہت عادی تھا۔ جب میں ہندو تھا اور لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے پلائی، مگر خود نہیں پی، مگر جب سے میں نے کلمہ پڑھا ہے، اب زندگی بھر نہ پینی ہے اور نہ پلانی ہے۔ اور نہ پینے والوں کے پاس بیٹھنا ہے۔ اب تو مجھے شراب کا خیال بھی نہیں آتا۔ اور مالک کا کرم ہے کہ کسی دوست نے بھی میرے سامنے نہیں پی، حالانکہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہے کہ میں نے چھوڑ دی ہے، یا اسلام قبول کر لیا ہے۔

 

میری بیوی میری ماں کی طرح بہت کٹر دھارمک (مذہبی) ہے۔ جب مولوی صاحب مجھ سے کہہ رہے تھے کہ اس کو اپنے ساتھ جنت میں لے جانا ہے تو میں نے بتایا کہ وہ تو بہت کٹر ہندو ہے۔ جس روز گوشت کھا کر آتا ہوں ، گھر میں گھسنا مشکل کر دیتی ہے۔ نہ جانے اس کو کیسے خوشبو آ جاتی ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ کٹر ہندو ہی سچی مسلمان ہوتی ہے۔ انسان اپنے مالک کو خوش کرنے کے لیے ہی دھرم (مذہب) کی پابندی کرتا ہے۔ اگر آپ اس کو سمجھا دیں کہ یہ راستہ غلط ہے اور سچا راستہ اسلام ہے تو اسلام پر بھی وہ بہت سختی سے عمل کرے گی۔ میں نے پھلت میں مولوی صاحب کے بھانجے کے موبائل سے اس کو بتا دیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں تو وہ بہت ناراض ہوئی۔ میں نے یہ کہہ کر بات بند کر دی کہ میں دوسرے کے موبائل سے فون کر رہا ہوں۔

 

اگلے روز صبح کو میرے مقدمے کی تاریخ تھی۔ مجھے صبح وکیل سے بھی ملنا تھا، اس لیے رات کو مولوی صاحب نے اپنی گاڑی سے کھتولی پہنچا دیا۔ رات کو بارہ بج کر 45 منٹ پر گھر پہنچا ۔ مہارانی جی غصے میں بھری بیٹھی تھیں۔ دھکے دینے لگی، بار بار گالیاں دیں۔ 25سال کا ادب بھول گئی۔ کہنے لگی کہ تو دھرم بھرشٹ (مذہب برباد) کر کے آیا ہے۔ تو میرا کیا لگتا ہے، بھاگ جا، نہ جانے کیا کیا کہا۔ صبح تک لڑائی ہوتی رہی۔ مولوی صاحب نے بیوی کو دعوت دینے کے لیے آخری ہتھیار کے طور پر ایک پوائنٹ بتا دیا تھا۔ صبح ہونے کو ہوئی تو اس ڈر سے کہ دن نکل آیا تو یہ سب کو بتا دے گی، اس لیے میں نے آخری تیر کے طور پر استعمال کیا۔ میں نے کہا کہ تو اصلی ہندو ہے یا نقلی؟ اس نے کہا کہ اصل ہوں، بالکل اصلی۔ میں نے کہا کہ اگر اصلی ہندو ہے اور میں اسلام کی چتا میں جل رہا ہوں تو تجھے بھی میرے ساتھ ستی ہو جانا چاہیے۔ تیر نشانے پر لگ گیا، وہ چپ ہو گئی۔ دیر تک ہچکیوں سے روتی رہی۔ میں اس کے قریب گیا۔ پیار کیا۔ اور دکھ سکھ اور جیون مرن (زندگی و موت) میں ساتھ دینے کے وعدوں کی دہائی دے کر مسلمان ہونے کے لیے کہا۔ وہ تیار ہو گئی۔ ٹوٹا پھوٹا کلمہ پڑھوایا اور صبح فجر کی نماز ہم دونوں نے ساتھ پڑھی۔ بیوی کے مسلمان ہونے کی اپنے مسلمان ہونے سے زیادہ خوشی ہوئی۔ مجھے مولوی صاحب کی ہر بات سچی لگنے لگی۔ انھوں نے کہا تھا کہ بیوی کو چھوڑنے کی بات کا کیا مطلب؟ اس کو تو جنت میں ساتھ لے جانا ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک مولوی صاحب مسجد میں امام ہیں۔ میں روزانہ رات کو ان کے پاس جاتا ہوں۔ مجھے جماعت میں جانا ہے، مگر مقدموں کی تاریخوں کی وجہ سے ابھی مجبور ہوں۔ میں نے اپنی بڑی لڑکی اور داماد کو بھی ”مرنے کا بعد کیا ہو گا؟” اور ”آپ کی امانت آپ کی سیوا میں” پڑھنے کے لیے دی ہے۔

 

مجھے مسلمانوں سے صرف یہ کہنا ہے کہ یہ دین جب امانت ہے، جیسا کہ مولوی صاحب نے ”آپ کی امانت آپ کی سیوامیں” کتاب میں لکھا ہے تو پھر اسے سارے سنسار (دنیا) تک پہنچانا چاہیے۔ آج کے دور میں اسلام پہنچانا بہت مشکل ہے۔ میں لاکڑ جاٹ ہوں۔ جاٹ قوم کی سائیکالوجی اچھی طرح جانتا ہوں۔ جاٹ بہت لالچی ہوتا ہے اور لالچی سے زیادہ ڈرپوک ہوتا ہے، خصوصاً جیل اور سزا سے جتنا ڈرتا ہے، شاید دوسرا نہیں ڈرتا۔ اگر ”مرنے کے بعد کیا ہو گا؟” اور ”دوزخ کا کھٹکا” ہندی انوواد (ترجمہ) کر کے جاٹوں میں پہنچایا جائے اور قرآن مجید میں جنت و دوزخ کا جو ذکر ہے، ان کو سنایا جائے تو جاٹ سارے کے سارے مسلمان ہو جائیں گے۔ اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ جب دین امانت ہے اور مالک کے سامنے حساب دینا ہے تو اس کا بھی حساب ہو گا کہ اس کو پہنچایا یا نہیں، اس لیے دین کو دوسروں تک پہنچانا نہ صرف یہ کہ دوسروں کے لیے ضروری ہے، مرنے کے بعد کے جواب سے بچنے کے لیے خود مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے۔

٭٭٭

 

ماخذ:

سوئے حرم

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید