FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اقبال کی یاد میں

 

 

 

               میاں بشیر احمد

مع حواشی و تعلیقات از ڈاکٹر ابواللیث صدیقی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

جب ہم کسی بڑے آدمی کی ملاقات کا ذکر کرتے ہیں اور ان باتوں کو یاد کرتے ہیں جو اس نے ہم سے اور ہم نے اس سے کہیں تو ہم اپنے دل میں ایک قسم کی خوشی لیکن ساتھ ہی اگر ہم دیانتدار ہیں تو ایک قسم کی تشویش بھی محسوس کرتے ہیں۔ خوشی کی وجہ ظاہر ہے، اچھائی اور بڑائی کا ذکر دل خوش کن ہے، انسان فطرتاً انہیں پسند کرتا ہے، ان کی طرف کھچا چلا جاتا ہے۔ پھر ہماری خود پسندی فخر کرتی ہے کہ بڑائی سے تعلق کی وجہ سے ہم بھی گویا بڑے ہو گئے۔ خوشی تو اس لیے ہوتی ہے، اور تشویش سی کچھ اس لیے کہ بڑائی کے سامنے ہم اپنی کمزوری اور کمی محسوس کرنے لگتے ہیں لیکن زیادہ تر اس لیے کہ ہم جھجکتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ہم روایت کرنے میں چوک جائیں۔ جو کچھ بڑے آدمی نے کہا ہم نے جانے بوجھے اس میں کچھ اپنی طرف سے بڑھا گھٹا دیں۔ اس نے کہا کچھ ہو اور ہم نے سمجھا ہو کچھ اور۔ اور اگر ہمارا حافظہ زیادہ مضبوط نہ ہو تو جھجک اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

ڈاکٹر اقبال علیہ الرحمۃ کے متعلق میری بعینہ یہی حالت ہے۔ اس واسطے جب میرے عزیز دوست نے کہا کہ آپ ایک مضمون کی شکل میں ڈاکٹر صاحب کی بابت اپنی ذاتی معلومات بیان کیجئے تو میں نے طرح طرح کے سچے جھوٹے بہانے بنائے۔ میں نے کہا میری معلومات کچھ ایسی ویسی ہیں۔ اس سے نہیں معلوم میرا کیا مطلب تھا؟ ایک تو مضمون لکھنے پر سستی کا اظہار دوسرے شاید یہ خیال کہ اور اصحاب بہت پتے کی باتیں لکھیں گے، بڑے علمی طریقے سے اقبال اور اس کے کلام کا ذکر کریں گے اور میرے لیے یہ کوشش کم از کم تکلیف دہ ہو گی۔ تیسرے یہ کہ مرحوم سے میں زیادہ تر ان کی عمر کے آخری حصے میں ملتا رہا۔ اس سے پہلے جتنا ان سے ملنا اور جتنا ان کو جاننا چاہیے تھا میں نہ جانتا تھا، پھر مجھے کیا حق حاصل ہے کہ میں اقبال پر ایک مقالہ قلمبند کرنے اک تہیہ کروں اور پھر یہ کہ بہت سی باتیں جو انہوں نے مجھ سے پچھلے چند ماہ میں کیں مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں رہیں۔ لیکن پروفیسر حمید احمد خاں صاحب1؎ جو ایک مصمم ارادہ لیے ہوئے تھے، ان پر ان دلائل اور براہین کا ذرا بھی اثر نہ ہوا اور اس کے بعد جب میں نے بے تکلفی سے ڈاکٹر صاحب سے اپنی بعض ملاقاتوں کا ذکر کیا تو ان حضرات نے مجھے دھر پکڑا کہ بس یہی بیان کر دیجئے، بس یونہی لکھ بھی دیجئے۔ اس کے بعد اگر میرا مضمون مضمون نہ ہوا، اگر وہ ایک مقالہ کی حد تک نہ پہنچ سکے، اگر وہ محض بات چیت سی ہو اور بہت سی اپنی ذات کے متعلق کہانیاں ہوں تو الزام بر گردن مرتب۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہہ سن کر اب مجھے اطمینان سا ہو گیا ہے، تشویش تقریباً غائب ہے اور خالص خوشی موجود۔ خوشی ہے کہ میں بھی ان ہزاروں اصحاب کے زمرے میں شریک ہوں جو شاعر ملت کے متعلق کوئی ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوں۔

ابھی تھوڑا عرصہ ہوا جب ہمارا محبوب شاعر زندہ تھا۔ ہندوستان بھر میں 9جنوری 1938ء کو یوم اقبال کی دھوم مچی تو لاہور میں میں نے بھی ایک عام اجلاس میں انگریزی میں ایک مقالہ پڑھا اور اردو میں ریڈیو پر ایک تقریر نشر کی۔ اس کے دوسرے ہی دن میں مرحوم سے ملا اور میں نے کہا کہ شفیع صاحب نے جلسے کا خوب انتظام کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے آنکھیں جھپکیں اور میں نے دوبارہ کچھ ایسی ہی بات کہی تو ایک معنی خیز’’ ہوں ‘‘ سے جواب دیا۔ اس پر میں کچھ نہ کہہ سکا۔ میں نے محسوس کیا کہ ملک و قوم کو ان کے لیے اس سے بھی بہت کچھ اور کرنا چاہیے اور کرنا چاہیے تھا اور آئندہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔ مجھے اور لاکھوں کی طرح یہ خوشی تھی کہ شکر ہے ہم نے کچھ کیا لیکن ساتھ ہی ان کی احسان مند’’ ہوں ‘‘ نے شرمندہ کر دیا کہ کہاں یہ عظیم الشان انسان اور کہاں ہم اسے کبھی کبھی یاد کرنے والے۔ اس تقریب سے پہلے میں نے کبھی اقبال کے متعلق نہ کوئی مضمون لکھا تھا نہ تقریر کی تھی۔ میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ مجھے ایک زبردست نقاد اور ایک باقاعدہ فلسفی ہونا چاہیے جب کہیں جا کر میں اقبال کے متعلق کچھ کہہ سکتا ہوں، مگر میں خوش ہوں کہ اس وقت ان کی وفات سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے میں نے کچھ لکھا اور اب پھر مجھے موقع ملتا ہے کہ کچھ لکھوں اور بے تکلفی سے لکھوں۔

اقبال کو پہلے پہل میں نے شیرانوالہ دروازہ کے اسلامیہ سکول میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں شاید چونتیس پینتیس سال ہوئے دیکھا۔ میں سکول میں پڑھتا تھا۔ مجھے خوب یاد ہے پہلی نظم جو میں نے سنی تصویر درد2؎ تھی۔ ایک حسین نوجوان ’’ ناک پکڑ‘‘ عینک لگائے شلوار اور چاندنی جوتی پہنے گریبان کا بٹن کھلا ہوا سٹیج پر کھڑا خوش الحانی سے ایک مخصوص لے میں پڑھ رہا تھا:

نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری

خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری

میری عمر نو دس سال کی ہو گی ’’ منت کش تاب شنیدن‘‘ نے تو مجھے قطعاً مرعوب اور خاموش کر دیا گو ’’ خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری‘‘ سے لطف آیا۔ یہ یاد نہیں کہ اس کے صحیح معنے بھی سمجھ میں آئے کہ نہ آئے لیکن ہم نو عمروں کی ٹولی نے بھی خوب سر ہلایا۔ اتنے میں اقبال اپنے شعر گاتے گئے۔ ہم لحن و حن سے تو واقف نہ تھے، ہم تو اسے محض گانا سمجھتے تھے اور ہم بغیر سمجھے شریک محفل رہے یہاں تک کہ ایک ایک شعر بکنے لگا۔ اقبال اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر تھے، ایک نوجوان نے بڑھ کر شاید پندرہ روپے میں ایک شعر خرید لیا۔ معلوم ہوا کہ یہ اقبال کا گورنمنٹ کالج کا ایک ہندو شاگرد ہے۔ یہ رقمیں سب انجمن حمایت اسلام کے چندے میں ادا ہوتی تھیں۔ اقبال کا دیدار پہلی بار میرے لیے۔ اسے ’’ ملاقات‘‘ سمجھ لیجئے، ہمارے لیے اس زمانے میں یہ ملاقات سے کم نہ تھا۔

اس کے بعد ’’ آتا ہے یاد مجھ کو گذرا ہوا زمانہ‘‘ 3؎ یاد آتا ہے۔ یہ اقبال کی پہلی نظم تھی جو میں نے یاد کی اور جب ’’ بانگ درا‘‘ کے چھپنے پر میں نے اسے بدلا ہوا پایا تو اسے محض تھوڑا سا پڑھ کر فوراً حکم لگا دیا کہ نظم خراب ہو گئی ہے۔ کہاں وہ

آتا ہے یاد مجھ کو گذرا ہوا زمانہ

وہ جھاڑیاں چمن کی وہ میرا آشیانہ

اور کہاں یہ ’’ وہ باغ کی بہاریں وہ سب کامل کے گانا‘‘ کیا ہم سب کو’’ بہاڑوں ‘‘ سے ’’جھاڑیاں ‘‘ اور ’’ سب کے گانے‘‘ سے’’ اپنا آشیانہ‘‘ عزیز تھا؟ کچھ بھی ہو پرانی جانی پہچانی ہوئی چیز نئی اصلاح شدہ چیز سے کہیں زیادہ مرغوب و محبوب تھی۔ کچھ عرصہ تک بانگ درا پڑھتے رہنے کے بعد نئی چیزوں سے انس پیدا ہوا اور اکثر اصلاحیں سمجھ میں آنے لگیں۔

میرے والد جسٹس شاہدین 4؎ مرحوم سے اقبال کے خاص تعلقات تھے۔ میاں صاحب جب 1890ء میں ولایت سے بیرسٹر بن کر واپس آئے اس کے بعد ایک طرف تو ان کا علیگڑھ تحریک 5؎ سے خاص تعلق پیدا ہوا اور دوسری طرف وہ لاہور میں قابل نوجوانوں کے ایک دائرے کے مرکز بن گئے۔ اس دائرے میں اقبال بھی شامل تھے۔ چنانچہ اپنی پہلی نظم ’’ چمن کی سیر‘‘ میں جو مخزن 6؎ میں اکتوبر1901ء میں شائع ہوئی۔ حضرت ہمایوں فرماتے ہیں :

اعجاز دیکھ تو سہی یہاں کیا سماں ہے آج

نیرنگ آسمان و زمیں کا نیا ہے رنگ

اقبال تیری سحر بیانی کہاں ہے آج

ناظر! کمان فکر سے مار ایک دو خدنگ

از نغمہ ہائے دلکش ایں چار یار ما

پنجاب خوش نو است ہمایوں دیار ما

اور شالا مار باغ کشمیر پر جو نظم لکھی اور جو مخزن میں جون1903ء میں شائع ہوئی اس میں فرماتے ہیں :

ناظر7؎ بڑا مزہ ہو جو اقبال ساتھ دے

ہر سال ہم ہوں شیخ ہو اور شالا مار ہو

معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اقبال اپنی عمر کے آخری حصے میں سیر و سیاحت کے مشتاق نہ تھے جوانی کے دنوں میں بھی یہی حال تھا۔

اقبال نے بھی بعض اشعار میں ہمایوں کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ اس غزل کا جس کا مطلع ہے:

لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

بجلیاں بیتاب ہوں جس کے جلانے کے لیے

ایک غیر مطبوعہ شعر ہے :

ترک کر دی تھی غزل خوانی مگر اقبال نے

یہ غزل لکھی ہمایوں کے سنانے کے لیے

والد بزرگوار کے کاغذات میں ایک پرزہ نکلا جس کے ایک طرف ایک دعوت کی تقریب میں اقبال نے میز کی ایک طرف سے انہیں دو شعر لکھ کر بھیجے اور جواب میں والد نے اسی زمین میں شعر لکھا۔ دو دوستوں میں خوب نوک جھونک ہوئی۔ ان اشعار کے نقل کرنے کا یہ موقع نہیں۔

ہمایوں مرحوم پر اقبال کی نظم مشہور ہے اور یقیناً ان کی بہترین نظموں میں شمار کیے جانے کے قابل ہے:

اے ہمایوں 8؎ زندگی تیری سراپا سوز تھی

تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی

اس سے نہ صرف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ان سے کس قدر آشنا تھے بلکہ یہ اس زمانے کی طرف اشارہ ہے جب علمی صحبتوں میں یہ سب لوگ اکٹھے ہوتے تھے اور جب والد مرحوم نے لاہور میں پہلے پہل ایک محمڈن ینگ مین ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی تھی۔

1910ء میں اپنے انگلستان جانے سے پہلے کا کوئی واقعہ تفصیل اور صحت کے ساتھ یاد نہیں جس کا میں ذکر کر سکوں۔ صاف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے گھر میں اکثر سرسید اور شبلی اور محسن الملک اور حالی اور اقبال کا ذکر ہوتا تھا اور 1908ء کے بعد والد نے کئی بار مجھ سے کہا کہ میں اقبال کو ترغیب دینا چاہتا ہوں کہ وہ بیرسٹری ترک کر کے علی گڑھ کالج 9؎ میں چلے جائیں جہاں وہ قوم کے لیے اور بھی مفید ثابت ہوں اور جیسے حالی نے مسدس10؎ لکھی اس طرح نئے حالات کے مطابق وہ اس مرکزی مقام سے قوم کو خطاب کریں۔

1914ء میں ولایت سے واپس آ کر جب میں نے سال دو سال بیرسٹری اختیار کرنے کی کوشش کی تو لاہور چیف کورٹ کے بار روم میں مجھے اکثر اقبال کو دیکھنے اور بعض دفعہ ان سے باتیں کرنے کا موقع ملا۔ میرے دل میں ان کی بے حد عزت تھی۔ میں ان کو اتنا بڑا اور اپنے آپ کو ہر طرح اتنا چھوٹا سمجھتا تھا کہ ان سے باتیں کرنے کی بھی مجھے جرأت نہ ہوتی تھی۔ دور ہی دور سے دیکھ کر گویا ان کی پرستش کیا کرتا۔ میرے تایا زاد بھائی میاں شاہنواز صاحب بیرسٹر اقبال کے خاص دوستوں میں سے تھے اور مجھے بھی معلوم تھا کہ ان لوگوں کی ایک خاص بے تکلف صحبت ہوا کرتی تھی جس میں مجھ سے متین نو عمر کے لیے گنجائش نہیں ہو سکتی۔ ایک روز میں بار روزم میں گیا تو دونوں دوست بیٹھے تھے۔ اقبال نے مجھے دیکھ کر کہا، آئیے مولانا بشیر! یہ سن کر مجھے بے حد شرم آئی۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی جائے پناہ نہ تھی بھائی شاہنواز نے کہا دیکھو تم نے مخزن میں جو گمنام ایک نعت بھیجی ہے وہ میں نے ڈاکٹر صاحب کو دیکھا دی ہے۔ مخزن ان کے ہاتھ میں تھا۔ نعت کا پہلا شعر تھا:

بیاباں کو بنایا غیرت خلد بریں تو نے

چمن میں کر دیا ہر گل کو نگہت آفریں تو نے

میرا دل بڑھانے کو ڈاکٹر صاحب نے بعض شعروں کی تعریف کی۔ کچھ یہ خیال ہو گا کہ آج کل کا کوئی یورپ زدہ نوجوان مذہب کا ذکر کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

اس کے بائیس سال بعد پچھلی سردیوں میں جب میں ان سے اکثر ملتا رہا چند بار انہوں نے اسی مولانا سے مجھے مسکرا کر خطاب کیا۔ دوسری تیسری دفعہ میں نے بھی مسکرا کر ذرا احتجاج کیا کہ ڈاکٹر صاحب میں کہاں کا مولانا ہوں۔ مسکرا کر فرمانے لگے، واہ مولانا کوئی بری بات ہے اور کیا مولاناؤں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں، آخر کچھ عربی جانتے ہی ہو نا؟ وغیرہ وغیرہ۔

والد مرحوم کی وفات کے چند سال بعد جب دسمبر1921ء میں میں رسالہ ہمایوں جاری کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک نظم کے لئے درخواست کی۔ سن کر کہا کہ تم رسالہ کیا نکالتے ہو اردو کے رسالے تو نکلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں، تم اردو لٹریچر کے لیے کوئی اور زیادہ مفید کام کرو۔ میں نے پوچھا تو فرمایا کہ تم فرانسیسی زبان سے واقف ہو گارساں دتاسی11؎ کی تصانیف کو اردو میں منتقل کر دو۔ مگر میرے دماغ میں رسالے کا شوق سمایا ہوا تھا۔ نظم کے لیے میں نے اصرار کیا تو (پنجابی میں ) کہا’’ ویکھو‘‘۔ ایسے تمام اصراروں اور مطالبات کے جواب میں اسی مختصر’’ ویکھو‘‘ سے کام لیتے تھے۔ 12؎ بعد میں جب مجھے دو تین مرتبہ اسی ’’ویکھو‘‘ سے واسطہ پڑا تو میری خود داری نے ذرا سمجھ داری سے کام لے کر آئندہ تقاضا کرنا ہی چھوڑ دیا اور ایسا کرنا ہی مناسب تھا۔ اس کے بعد مجھ ڈاکٹر صاحب سے کبھی مایوسی نہ ہوئی۔ میں نے سمجھ لیا کہ ان کی چیزیں زبان و ادب اور قوم و ملک کے لیے ہیں محض رسالوں اخباروں والوں کے لیے نہیں۔ ہاں یہ ذکر کر دینا چاہیے کہ پہلے ’’ دیکھو‘‘ کے چند ہی روز بعد انہوں نے والد مرحوم پر اپنی نظم ’’ ہمایوں ‘‘ بھائی شاہنواز کے ذریعے سے مجھے ہمایوں کے پہلے نمبر میں اشاعت کے لیے بھیجی۔ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اب تک میرے پا س موجود ہے۔ دو ایک بار اور بھی انہوں نے ہمایوں کے لیے کچھ مرحمت فرمایا۔ ہاں اس سے مجھے یاد آتا ہے کہ 1918ء میں والد مرحوم کی وفات پر انہوں نے مجھے ایک تاریخی رباعی بھیجی جو ان کی قبر پر کتبہ کی صورت میں کندہ ہے:

در گلستان دہر ہمایون نکتہ سنج

آمد مثال شبنم و چون بوئے گل رمید

می جست عندلیب خوش آہنگ سال فوت

334+4=1336

علامہ فصیح ز ہر چار سو شنید

ایک اور شعر بھی لکھا جس سے اس لگاؤ کا اظہار ہوتا ہے جو اقبال کو ہمایوں سے تھا:

دوش بر خاک ہمایوں بلبلے نالید و گفت

اندریں ویرانہ ما ہم آشناے داشتیم

بعد میں کئی بار جو باتیں ان سے ہوئیں ان سے مجھ پر ثابت ہوا کہ جن چند در چند ہستیوں کی ان کے دل میں بہت قدر و منزلت تھی ان میں ایک والد بزرگوار تھے۔

1922ء میں جب میں نے والد کے اردو کلام کو شائع کرنے کی غرض سے یکجا کیا تو کئی بار ڈاکٹر صاحب سے ان کے انار کلی والے مکان میں جا کر مشورہ کیا۔ اس سلسلے میں جب ایک روز وہاں گرامی مرحوم 13؎ بھی تشریف رکھتے تھے، حضرت گرامی نے مجھ سے فرمائش کی کہ آپ بھی کبھی کبھی شعر کہتے تھے کچھ سنائیے۔ میں نے عرض کی کہ مجھے شعر کہنا نہیں آتا، ایسی ہی تک بندی ہے۔ اصرار کیا تو میں نے دو تین شعر سنائے۔ ایک شعر میں سچائی بر وزن بھلائی باندھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ لفظ سچائی ہے سچائی نہیں۔ ان کی پہلی اور آخری اصلاح تھی جو میرے نصیب میں آئی۔ میں نے کبھی اپنی تفریح طبع کو اس قابل نہ سمجھاکہ ان سے اصلاح لیتا ورنہ غالباً اس سلسلے میں بآسانی میں ان کی تضیع اوقات کا موجب بن سکتا۔

جیسے اقبال 1938ء میں اپنے سال وفات میں تھے ویسے ہی وہ سترہ سال پہلے 1921ء میں تھے۔ وہی حقہ وہی ان کا نوکر علی بخش14؎ اسی طرح شلوار اور قمیض پہنے چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ قمیض کے گلے کا اوپر کا بٹن کھلا ہے، عموماً پنجابی میں باتیں کرتے تھے اور دنیا بھر کی باتیں، بڑے بڑے مضمون پر چھوٹی سی چھوٹی بات پر ہو رہی ہیں، جو آئے آ جائے، جو چاہے کہے۔ جو ان کا خیال ہے وہ بیان کر رہے ہیں۔ بے تکلفی سے بات چیت ہو رہی ہے۔ معلومات کا خزانہ ہے کہ سب کے لیے کھلا ہے لیکن کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ عقلمندی کے موتی بکھر رہے ہیں۔ ادھر ان کا بھی کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ یہ نوع انسان کے اور بالخصوص اپنی قوم کے شیدائی ہیں۔ لوگ برے ہوں یا بھلے انہیں کیا، وہ بھی انسان ہیں یہ بھی۔ ان کا وقت ان کا وقف ہے پھر شکایت کیسی اور رعونت کیوں ؟ ایسے ہوتے ہیں بڑے آدمی! کسی قسم کا شہنشاہی یا سادھوانہ دکھلاوا بھی نہیں۔ جو ہیں سو ہیں۔ تشہیر کی ضرورت نہیں۔ خلوص کی ایک تصویر ہیں۔ حکومت پر، انگریزوں پر، سیاسی لیڈروں پر نیک نیتی سے تنقید کر رہے ہیں۔ کسی کا ڈر خوف نہیں کیونکہ کسی کی خوشامد منظور نہیں۔ کسی کا کھائیں تو اس کا گائیں۔ کسی سے غرض نہ مطلب لیکن یوں واسطہ اور تعلق ہر کسی سے، جو ملے یا مل جائے!

پہلے اپنے ایک مضمون میں لکھ چکا ہوں کہ مجھے ڈاکٹر صاحب سے دل ہی دل میں اس بات کی شکایت تھی کہ انہوں نے فارسی میں کیوں لکھنا شروع کیا چنانچہ میں نے ایک بار سے زیادہ ان سے اپنی شکایت کا اظہار کیا اور پنجابی کا مشہور فرقہ دہرایا کہ ’’ فارسیاں گھر گالے‘‘ (یعنی فارسی نے گھر تباہ کر دیے، پنجاب میں مشہور ہے کہ ایک جلاہے نے اتنی فارسی پڑھ لی کہ اپنے گھر لوٹ کر پھر وہ پنجابی میں بات ہی نہ کر سکتا تھا چنانچہ وہ آب آب کرتے ہی مر گیا اور کسی نے نہ سمجھا کہ بے چارہ پیاسا ہے) اس پر ہمیشہ مسکرا دیتے۔ میں نے اصرار کیا تو کہا کہ میری اردو بھی تو نری فارسی ہے۔ میں نے کہا نہیں پھر بھی اردو میں لکھیے۔ لے دے کر ایک آپ ہمارے پاس ہیں، وہ بھی فارسی میں لکھنے لگے تو نتیجہ کیا ہو گا۔ فرمایا کہ شاعر کا خیال جس زبان میں بھی موزوں ہو جائے وہ اسی میں کہے گا۔ مجھے ان کی فارسی سے اتنی چڑ تھی کہ میں نے کئی سال تک یہ کہہ کر کہ۔۔۔ فارسی زیادہ سمجھ ہی میں نہیں آتی، ان کی فارسی مثنویاں نہ پڑھیں۔ آخر ایک روز اٹھا کر دیکھیں اور پڑھیں، دل میں ایک حرکت سی پیدا ہوئی تو اپنے آپ کو برا بھلا کہا کہ حیف ہے میں اتنی مدت اس دولت سے محروم رہا۔

ایک روز کا واقعہ یاد آتا ہے کہ چیف کورٹ کے سامنے سڑک پر میں ڈاکٹر صاحب سے باتیں کرنے لگا۔ دوران گفتگو میں نے دور حاضر کی اشتہاریت کی شکایت اور مذمت کی۔ فرمانے لگے خدا کی طرف دیکھو، وہ سب سے بڑا پراپیگنڈا کرنے والا ہے۔ یہ کائنات ساری کی ساری اس کا پراپیگنڈ انہیں تو اور کیا ہے، ہزاروں لاکھوں بے شمار مظاہرے ہیں، پھر مسکرا کر کہا تم پراپیگنڈا کو اتنا برا نہ سمجھا کرو۔

ایک اور روز میں نے ٹیگور کا ذکر کیا تو فرمایا کہ دیکھو ٹیگور10؎ عملی آدمی ہے اور اس کی شاعری امن و خاموشی کا پیغام دیتی ہے، ادھر میری شاعری میں جدوجہد کا ذکر ہے لیکن میں عملی آدمی نہیں ہوں۔

بال جبریل 16؎ چھپی تو میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ میں کلکتے میں تھا وہیں منگوائی، وہاں سے بہرائچ کے جنگلوں میں گیا تو ساتھ لے گیا اور مزے لے لے کر پڑھی۔ اپنے آپ کو کوسا اور کہا کہ اتنا بڑا آدمی اور ایسا شاعر تمہارے ہی شہر میں دن رات رہنے والا اور تمہاری یہ حالت ہے کہ اس کے پاس گئے بھی تو محض کبھی کبھی۔ حیف ہے تم پر۔ غرض لوٹ کر دوسرے تیسرے دن ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بال جبریل کی بہت تعریف کی اور شکر کا اظہار کیا کہ وہ فارسی سے پھر اردو کی طرف آئے۔

ان دنوں میں میں اپنی غذا کا ایک عجیب و غریب تجربہ کر رہا تھا۔ گوشت، مچھلی، انڈا، چینی، گھی، مکھن، دودھ، سوپ، شوربہ، بادام، اخروٹ بلکہ گوبھی تک سب کچھ چھوڑ کر چند بھاپ زدہ ترکاریوں اور چکی کے آٹے پر گزران کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ میں نے سادہ اور صحت بخش زندگی کا راز پا لیا۔ یہ خبط اپنی انتہائی شکل میں دو سال تک میرے سر پر سوار رہا۔ یہی دن تھے کہ میں نے بال جبریل پڑھی۔ ڈاکٹر صاحب سے جو اور عقیدت پپیدا ہوئی تو اس کا اظہار اس طرح کرنا چاہا کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر جب معلوم ہوا کہ ان کی صحت خراب ہو رہی ہے، گلا بیٹھ گیا ہے، آواز ذرا سی باقی ہے تو میں نے ترکاری نوشی پر ایک طول طویل لیکچر دینا شروع کیا اور عرض کی کہ ایک تو باغ کی سیر کیا کیجئے اور دوسرے ترکاریاں کھا کر آزمائیے۔ پہلے تو کہا کہ بعض مسلمان اطباء نے بھی ان کی خوبیاں اور خواص بیان کیے ہیں، میں نے اصرار کیا تو مسکرا کر فرمایا کہ ’’ ویکھو‘‘۔

جب وہ اپنی میو روڈ والی کوٹھی جاوید منزل میں آ چکے تھے میں کبھی کبھی حاضر ہوتا اور بال جبریل کے بعض اشعار کا مفہوم دریافت کرتا۔ ایک روز میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب اس شعر میں کیا اشارہ ہے:

تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند

اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی

میں حیران ہوا کہ تین سو سال ہوئے کہ جہانگیر کے ہاں میخواری کا دور دورہ تھا، ڈاکٹر صاحب کیا پھر وہی رسم قدیم جاری کرنا چاہتے ہیں کیا؟ جواب دیا کہ نہیں یہ شیخ احمد مجدد الف ثانی سرہندی 17کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمان ہند کے سب سے زبردست رہنما گزرے ہیں۔

ایک روز میں نے عرض کی کہ ایک ’’ نقاد دوست‘‘ نے آپ کے ایک شعر پر اعتراض کیا ہے کہ لفظ’’ مینا‘‘ مونث نہیں مذکر ہے۔ مجھے بھی اس اعتراض پر تعجب ہوا کیونکہ مینا شکل صورت سے اور آواز سے مونث معلوم ہوتا ہے۔ علی بخش ملازم سے کہا کہ رسالہ 18؎ تذکیر و تانیث لاؤ۔ دیکھا اور کہاں ہاں ایسی غلطیاں مجھ سے ہو جاتی ہیں۔

برسوں تک ان سے محض کبھی کبھی ملاقات ہوئی لیکن گذشتہ سال اکتوبر1937ء میں لکھنو میں لیگ کے سالانہ اجلاس19میں شرکت کرنے کے بعد میں اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ وہ پنجاب لیگ کے صدر تھے۔ 20؎ اکثر ان سے سیاسی معاملات پر گفتگو رہتی۔ کئی بار میں نے مسلم قوم اور اردو زبان کے مستقبل کی بحث چھیڑی، اردو زبان کے متعلق میں نے گاندھی جی کے مخالفانہ رویہ کی شکایت کی اور کہا کہ تعجب ہے کہ قومیت اور ہندوستانیت کا نام لے کر ہماری کلچر اور مشترکہ زبان کو یوں ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔ ایک روز میں ذرا جوش میں آ گیا اور پھر مایوسی کا اظہار کرنے کو تھا کہ مسکرا کر فرمانے لگے کہ ڈرو مت تمہاری قوم اور زبان اس طرح مٹائے سے مٹیں گی نہیں۔ 21؎

ہر ہفتے بعض دفعہ ہر دوسرے روز کئی کئی گھنٹے تک ان سے آخری سردیوں میں میری باتیں ہوئیں۔ سیاست، فلسفہ، ادب، شاعری، یورپ کی موجودہ حالت، ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل، صحت اور پرہیز اور علاج اور قوت ارادی اور کئی اور بڑی بڑی اور معمولی معمولی چیزوں کا ذکر خدا جانے کتنے موضوع تھے جن پر اس شمع ہدایت نے روشنی ڈالی۔ اس شک و شبہ اور بے اطمینانی کے زمانے میں میری طرح بیسیوں اوروں کو بھی احساس تھا کہ چلیے ڈاکٹر صاحب کے پاس کہ کچھ معلومات میں اضافہ ہو اور کچھ ڈھارس بندھ جائے۔ کئی اوروں کے مقابل میں میرا ان سے کوئی خاص قریبی تعلق نہ تھا پھر بھی کم از کم گذشتہ سردیوں میں میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ میرے دل کی تنہائیوں کا سہارا ہیں اور ان کے جانے سے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جسے پر کرنے والا کوئی نہیں۔

مارچ1938ء میں ایک روز میں عشا کے وقت کوٹھی پر گیا تو علی بخش نے مجھے روکا۔ یہ پہلی بار تھی کہ اس بھلے مانس نے مجھے روکا ہو۔ کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے۔ دمہ کا دورہ سخت پڑتا ہے اور ڈاکٹروں نے منع کر دیا ہے کہ وہ کسی سے بات کرنے نہ پائیں۔ یہ سن کر مجھے بے چینی ہوئی اور میں نے وعدہ کیا کہ میں بات چیت نہیں کروں گا۔ میں اندر گیا تو چارپائی پر اوندھے منہ لیٹے ہوئے تھے، وہی یوم اقبال والے شفیع صاحب پیٹھ مل رہے تھے۔ پوچھا کون ہیں ؟ میں نے جواب دیا۔ فرمایا بیٹھ جائیے۔ میں نے عرض کیا براہ کرم آپ نہ بولیے، آپ کو تکلیف ہو گی۔ میں نے چند باتیں کیں اور چپ ہو کر بیٹھ رہا۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میں کہہ دیتے ’’ اچھا‘‘ ’’ ہوں ‘‘ کہیے آخر آدھ گھنٹے کے بعد میں نے معذرت چاہی۔ فرمایا آپ کو خواہ مخواہ تکلیف ہوئی۔ دل بھر آیا کہ اس سخت تکلیف کے عالم میں بھی کس طرح دلجوئی کرتے ہیں۔

اس زمانے میں ان کی صحت بہت بگڑ چکی تھی، لیکن ہمت و حوصلہ ایسا تھا کہ چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی اور طبیعت میں وہی خلوص اور دوستوں کے لیے وہی الفت کا اظہار اور ہر آنے والے کا اسی طرح خیر مقدم۔ سبحان اللہ۔ کیا عظیم الشان انسان تھا جس کی لوگوں نے بہت قدر کی، لیکن سچ یہ ہے کہ پھر بھی پوری قدر نہ کی۔ شاید پوری قدر ہو ہی نہ سکتی تھی۔

ایک روز میں نے کہا کہ افسوس ہے قوم نے آپ کی پوری قدر نہ کی، بانگ درا یا دوسری کتابیں لاکھوں کی تعداد میں بک جاتیں 22؎!میرے دوسرے فقرے کو انہوں نے پسند نہ کیا، کہا کہ قوم غریب ہے اور ناقدری کا جواب یہ دیا کہ جب کوئی غریب آدمی شہر سے آ کر میری مٹھی چاپی کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا میری قدر کر رہی ہے۔

ایک روز میں نے بعض سیاسی لیڈروں کا ذکر کیا۔ جوش میں آ کر فرمانے لگے۔ کہ یہ لوگ سب خود غرض ہیں اور ایثار نہیں کر سکتے۔ لیڈر امیروں کی جماعت میں موجود ہیں ہی نہیں۔ مسلمانوں کے لیڈر عوام میں سے پیدا ہوں گے۔ تم دیکھ لینا ایسا ہو کر رہے گا، پھر وہ لوگ رہنمائی کر سکیں گے۔

ایک دفعہ ان کی شاعری کے پیغام اور اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق وغیرہ23؎ کا ذکر آ گیا تو انگریزی میں کہا:

There is a Crust at the heart of Central Asia, i want to break through it.

(وسط ایشیا کے قلب پر ایک پپٹری جمی ہوئی ہے، میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتا ہوں ) ایسے ہی اور بیسیوں لاجواب فقرے روز ان کے منہ سے نکلتے۔ کاش کوئی قلمبند کرنے والا ہوتا۔

غرض سینکڑوں باتیں ہوئیں لیکن افسوس کہ حافظہ قوی نہ ہونے کی وجہ سے میں انہیں دماغ میں محفوظ نہیں رکھ سکا اور نہیں چاہتا کہ کوئی ایسی بات لکھوں جو پوری پوری درست نہ ہو۔ اگر کبھی اور باتیں یاد آئیں اور موقع ملا تو چند اور واقعات بھی قلمبند کر کے اپنا فرض ادا کروں گا اور اس سے مزید لطف اٹھا سکوں گا۔ آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گو بد قسمتی سے یہ مصرع بار بار دہرایا جا چکا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ غالب، اقبال اور ایسے ہی چند اور افراد پر یہ بات صادق آتی ہے کہ

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا!

خدا نے اقبال کو بادشاہی مسجد24؎ لاہور میں ابدی راحت کے لیے وہ جگہ بخشی جس کا وہ مستحق تھا۔ قوم کا سچا رہنما قوم کی پاکیزہ ترین زمین میں محو خواب ہے۔ ہر ماہ ہزاروں ہر سال لاکھوں شخص اس کی قبر کی زیارت کریں گے۔ فاتحہ پڑھیں گے اور اسے یاد کریں گے اور لاکھوں کروڑوں انسان اس کا پیغام پڑھیں گے یا سنیں گے۔ وہ کچھ سمجھیں گے کچھ نہ سمجھیں گے لیکن ان کی تاریک زندگیوں میں نور کی یہ شعاع اپنا زبردست پر تو ڈالے گی اور ان کی مس خاک کندن بن کر چمکے گی۔

میاں بشیر احمد25؎ بی اے

بیرسٹر ایٹ لاء، ایڈیٹر ہمایوں

٭٭٭

 

 

 

               تعلیقات و حواشی: ابو اللیث صدیقی

 

1۔ پرفیسر حمید اللہ خاں : مولانا ظفر علی خاں اور مولانا حامد علی خاں کے بھائی پنجاب کے اکابر ماہر تعلیم شامل ، ادیب، مضمون نگار، محقق ، نقاد، انگریزی ادب کے استاد مگر اردو زبان و ادب کے شیدا، جامعہ عثمانیہ سے فارغ التحصیل ہوئے بعد میں کیمبرج یونیورسٹی میں انگریزی ادب و شاعری پر تحقیق کے لیے بھی تشریف لے گئے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں ملازمت کا زیادہ عرصہ گزارا جہاں بعد میں پرنسپل بھی رہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے پاکستان کی اس قدیم ترین یونیورسٹی میں سربراہی کے فرائض انجام دیے۔ اسی دور کی یادگار تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند ہے جس کی بہت سی جلدیں ہیں اور جو اردو فارسی عربی اور دوسری زبانوں میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ذہنی تاریخ کی ایک معتبر اور مستند دستاویز ہے۔ جو خان صاحب کی نگرانی میں تیار ہوئی۔ نقاد کی حیثیت سے وہ غالب شناسوں کی اول صف میں شمار ہوتے ہیں۔ صد سالہ تقریبات غالب کے سلسلہ میں ان کا مرتبہ نسخہ حمیدیہ دیوان غالب اس کی ایک مثال ہے۔ اور غالب سے متعلق کتابوں کا سلسلہ انہی کے ایما پر اور انہیں کی نگرانی میں یونیورسٹی نے شائع کیا۔ تعلیمی اور علمی مباحث پر مضامین و مقالات بکثرت تھے۔ ان کے متعلق علامہ کا یہ سرٹیفکیٹ اس بات کی شہادت ہے کہ علامہ اقبال ان کی صلاحیتوں اور ملت اسلامیہ کے لیے ان کے درد و خلوص کے قدردان تھے۔ یہ خط علامہ نے ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین (اسلامیہ کالج کمیٹی کے آنریری جنرل سیکرٹری) کو لکھا تھا اصل خط انگریزی میں ہے :

My dear Shujauddin.

I write this on behalf of M. Hamid Ahmad Khan, who I understand , is applying for a post in Islamia College. I have met him several times and have opportunities judging his scholarly attainments. I would advise the college committee to appoint him. HJe is occpying at present in the Accounts Department. I have found him keenly interested in literature and philosophy and I have no doubt he will be quite a successful lecturer on English literature and philosophy. Besides, unlike many muslim young men of our day he is very enthusiastic about the cultural history of Islam. I am sure his contact with Muslim young men will do them a lot (of) good. I would like to see more Muslim teachers like him.

Yours Sincerely.

Muhammad Iqbal

اس مختصر سے خط میں علامہ نے حمید احمد خاں کے جوہروں کی نشان دہی کی ہے۔ خان صاحب اسلام اور مسلمانوں کے سچے عاشق اور خیر خواہ تھے اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی فلاح اور بقا اور ان کی سیاسی، تعلیمی اور تہذیبی ترقی کے لیے انہوں نے اپنی عمر وقف کر دی تھی۔ علامہ اقبال کے نیاز مندوں میں تھے چنانچہ ملفوظات اقبال جس حلقہ کی پیشکش ہوئی اس کے سرگرم اراکین میں تھے۔

2۔ تصویر درد: یہ وہ نظم ہے جو بانگ درا میں اس شعر سے شروع ہوتی ہے:

نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری

خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری

یہ اقبال کی ان ابتدائی نظموں میں سے ہے جن میں ان کا سیاسی، سماجی اور ملی شعور ایک واضح منزل کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس وقت تک وہ ایک متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کے امکانات کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس لیے خطاب ہندوستان سے تھا:

رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو

کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں

لیکن اس وقت بھی اس چمن کے باغبانوں کی رزم آزمائیاں ان کو کسی اور منزل کی طرف متوجہ کرتی ہیں :

نشان برگ و گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گلچیں

تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں

اس دور میں بھی ان کا فلسفہ حرکت اورعمل کا ہے:

یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے

جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے

مکمل نظم بانگ درا میں موجود ہے:

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ

یہ نظم بانگ درا میں پرندے کی فریاد کے عنوان سے شامل ہے۔ اور اس وضاحت سے کہ یہ بچوں کے لیے لکھی گئی ہے۔ اس دور میں بچوں کے لیے اور بھی نظمیں لکھی گئی ہیں۔ مضمون اور زبان کے اعتبار سے یہ نظم اور دوسری نظمیں جو اس قبیل کی ہیں بچوں کے ذہن اور ان کی زبان کے معیار کے مطابق ہیں۔ مگر یہ صرف بچوں کے لیے نہیں بڑوں کے لیے بھی غور و فکر کا سامان ہیں۔ Skylark بھی صرف ایک پودنے کا مشاہدہ ہے۔ لیکن اسے انگریزی شاعری کی تاریخ میں ادبیات عالیہ میں شمار کیا جاتا ہے۔

جیسا کہ میاں بشیر احمد نے لکھا ہے کہ اس نظم میں جیسی کہ بانگ درا میں شائع ہوئی، اس کی ابتدائی شکل و صورت کچھ بدل گئی ہے۔ یہ صورت بعض اور نظموں کیساتھ بھی پیش آئی ہے۔ چنانچہ بعض غزلوں اور نظموں کے جو متون پہلے مخزن یا بعض دوسرے رسالوں میں شائع ہوئے ان میں بعض کو تبدیلی یا اصلاح کر دی گئی۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ بعض حلقوں میں علامہ اقبال کی زبان اور محاوروں پر بعض اعتراضات کیے گئے تھے۔ بلکہ بعض لوگوں تو علامہ کے کلام پر اصلاح ر کے ان کو بھیجتے تھے۔ چنانچہ اقبال نامہ کے مرتب نے بابو عبد المجید کو 1904ء میں علامہ کا لکھا ایک خط نقل کیا ہے جس کی عبارت یہ ہے:

’’یہ کوئی صاحب چھوٹے شملہ سے میری غزل کی اصلاح کر کے ارسال کرتے ہیں۔ میری طرف سے ا ن کا شکریہ ادا کیجیے اور عرض کیجیے کہ بہتر ہو اگر آپ میر اور داغ کی اصلا ح کیا کریں۔ مجھ گمنام کی اصلاح کرنے سے آپ کی شہرت نہ ہو گی۔ میرے بے گناہ اشعار کو جو حضرت نے تیغ قلم سے مجروح کیا ہے اس کا صلہ انہیں خدا سے ملے…امید ہے جکہ وہ برا نہ سمجھیں گے۔ اکثر انسانوں کو کنج تنہائی میں بیٹھے بیٹھے ہمہ دانی کا دھوکا ہوجاتا ہے‘‘۔

یہ اعتراضات بالعموم بعض تراکیب، بعض محاوروں اور بعض الفاظ و تذکیر و تانیث کی بنا پر تھے۔ اس قسم کے اعتراضات کا سلسلہ نیا نہیں تھا۔ ہمارے اکثر قدما اور تذکرہ نگاروں نے بعض معاصرین پر اس طح کے اعتراضات پہلے بھی کیے تھے میر تقی میر اپنے تذکرہ نکات الشعرا میں اکثر شعرا کا کلام نقل کر کے لکھا ہے کہ اس شعر یں یہ لفظ ہوتا تو بہتر تھا۔ اصلاح شعر میں بھی ہمارے اساتذہ کا رویہ یہ رہا ہے۔ سودا اور ان کے معاصرین انشا اور مصحفی کے معرکوں میں بھی اسی طرح کی تنقید کی بہت سی مثالیں موجود ہیں َ علامہ پر بعض لوگوں کو اعتراض تھا کہ وہ اہل زبان نہیں ا س لیے زبان و محاورہ کی غلطیاں ان کے کلام میں موجود ہیں۔ یہ بحث بھی پرانی ہے۔ بیچارے میر کہ ناخدائے سخن اور شعرائے اردو کے سرتاج ہیں لوگ ان کی زبان کو بھی نہیں مانتے کہ اکبر آبادی ہیں۔ انشاء اللہ خاں تو دہلی والوں میں بھی سب کی اردو کو معیاری اور مستند نہیں تسلیم کرتے بلکہ اس کی جغرافیائی حدود دہلی میں ایک مکان سے دوسرے مکان تک متعین کرتے ہیں اور اس سے باہر جو بھی اردو بولتا لکھتا ہے وہ ساقط المعیار بتاتے ہیں۔ علامہ اقبال کا شاعری کے بارے میں نقطہ نظر مختلف تھا اور وہ اپنے شعر کو اپنے خیالات اور نظریات کے ابلاغ کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے اور محض زبان کے چٹخارے کی شاعری ان کے شعری مسلک میں شامل نہ تھی۔ تاہم وہ سنجیدہ تنقید قبول کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ سید سلیمان ندوی نے رموز بے خودی پر ریویو کیا ہے تو اس میں اس کی طرف اشارہ تھا۔ اس سلسلے میں علامہ نے سید صاحب کو ایک خط لکھا تھا، اس کا ایک حصہ یہ ہے:

’’آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ میرے لیے سرمایہ افتخار ہے۔ صحت الفاظ و محاورات کے متعلق آ پ نے جو کچھ لکھا ہے وہ ضرور صحیح ہو گا، لیکن اگر آپ ان لغزشوں کی طرف بھی توجہ کرتے تو آپ کا ریویو میرے لیے مفید ہوتا۔ اگر ٓاپ نے غلط الفاظ اور محاورات نوٹ کر رکھے ہیں تو مہربانی کر کے ان سے آگاہ کیجیے کہ دوسرے ایڈیشن میں ان کی اصلاح کی جائے‘‘۔

اس تنقید کے وصول ہونے میں تاخیر ہوئی تو علامہ اقبال نے خود یاددہانی کرائی اور جب ایک تنقیدی تفصیل آ گئی تو اپنی تائید میں اساتذہ کے کلام کی مثالیں پیش کیں۔ لیکن سارا لہجہ نہایت متین بلکہ مودبانہ تھا۔ اس باب میں علامہ اقبال کا نقطہ نظر ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:

’’شعر محاورہ اور بندش کی درستی اور چستی ہی کا نام نہیں میرا ادبی نصب العین نقاد کے نصب العین سے مختلف ہے‘‘۔

4۔ جسٹس شاہ دین: میاں بشیر احمد کے والد اور علامہ اقبال کے مخصوص حلقہ احبا ب میں شامل تھے 1867 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ 1887ء میں قانون ک اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور بیرسٹری کی تکمیل کی۔ شرح محمدی کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے اور ہائی کورٹ کے ایک ممتاز جج تھے۔ سرسید کی تعلیمی اور اصلاحی تحریک کے حامیوں بلکہ سرگرم ساتھیوں میں سے تھے۔ چنانچہ سرسید کی قائم کردہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا جو اجلاس 1894ء میں علی گڑھ میں ہوااس کی صدارت جسٹس محمد شاہ دین نے ہی کی تھی۔ علامہ کے ساتھ شعر و شاعری کی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ اس بند میں ایسی ہی مجلسوں کے سلسلے میں شاہ دین محمد کا یہ بند ہے:

اعجاز دیکھ تو سہی یہاں کیا سماں آج

نیرنگ آسمان و زمین کا نیا ہے رنگ

اقبال تیری سحربیانی کہاں ہے آج

ناظر کمان فکر سے مار ایک دو خدنگ

از نغمہائے دلکش ایں چار یار ما

پنجاب خوشنوا ست ہمایوں دیار ما

ہمایوں جسٹس شاہ دین کا اپنا تخلص تھا۔ مخز ن کے دور اول میں ان کا کچھ کلام مخزن میں شائع ہوا۔ مذکورہ بالا بند بھی مخزن اکتوبر 1901ء میں شائع ہوا۔ اسی سال علامہ کی پہلی مشہور نظم کوہ ہمالہ سے خطاب بھی مخزن ہی نے شائع کی تھی۔ غلام بھیک نیرنگ اور خوشی محمد ناظر کا کلا م بھی مخزن میں شائع ہوا ہے۔ 1918ء میں ان کا انتقال ہوا اور علامہ اقبال نے تاریخ وفات کے لیے یہ قطعہ لکھا اور وہ نظم جو بانگ درا میں ’’ہمایوں ‘‘ کے نام سے ہے:

در گلستان دہر ہمایون نکتہ سنج

آمد مثال شبنم و چوں بوئے گل دمید

می جست عندلیب خوش آئند سال فوت

علامہ فصیح ز ہر چار سو شنید

میاں بشیر احمد نے ہمایوں کے نا م سے ایک ادبی رسالہ ان کی یاد میں نکالا تھا۔ اسے ایک طور سے مخزن کا جانشین اور تکملہ سمجھنا چاہیے۔ اعلیٰ درجے کے سنجیدہ ادبی مذاق اور صحت مند تنقیدی توازن اس رسالے کی خصوصیات تھیں اور اردو کے بعض مشاہیر شعرا، نثر نگار اور نقاد ہمایوں کے اوراق کے ذریعے ہی سے متعارف و مشہور ہوئے۔

5۔ علی گڑھ تحریک : دراصل سر سید کی تحریک جو ایک اصلاحی تحریک تھی علی گڑھ تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ سرسید خود دہلی کے شرفا ء کے ایک مشہور خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے اسلاف میں اکثر مغل سلاطین کے مقرب اور معز ز عہدہ دار رہے تھے۔ سر سید احمد خاں کے عہد تک مغلیہ سلطنت کا زوال و انحطاط کا شکار ہو چکی تھی۔ چنانچہ سر سید نے انگریزوں کی ملازمت اختیار کی اور اپنی محنت سے بڑی ترقی کی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کا ان کی آئندہ زندگی پر بڑا اثر پڑا۔ اور وہ مسلمانوں کے مستقبل اور برصغیر پاک و ہند میں ملت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں بڑی فکر اور تشویش میں مبتلا ہو گئے۔ انہیں انگریزوں سے تعاون کر کے ان کا اعتماد بحال کرانا تھا۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کو جو مایوسی، ناکامی اور احساس کمتری کا شکار ہو چکے تھے ان میں خود اعتمادی پیدا کر کے ان کے مستقبل کے لیے ایک راہ عمل تجویز کرنا تھا۔ اور اس پر گامزن ہونے کے لیے راستہ ہموار کرنا تھا۔ اس کے لیے مسلمانوں میں ایک ذہنی اور فکری انقلاب پیدا کرنے کی ضرور ت تھی۔ یہ اصلاح تہذیب و معاشرت ، زبان، ادب ، انشاء ہر میدان میں ضروری تھی۔ سرسید کی یہی ہمہ جہتی تحریک علی گڑھ تحریک کہلاتی ہے۔ پہلے انہوں نے غازی پور میں ایک مدرسہ قائم کیا کیونکہ وہ تعلیم کو اس تحریک کا محور سمجھتے تھے۔ بعد میں یہ مدرسہ کالج بنا۔ دراصل سرسید کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں ایک ایسی درس گا ہ قائم کی جائے جو بقول ان کے تذکرہ نگاروں کے بر عظیم کے مسلمانوں کے لیے ایک روشن مینار ثابت ہو۔ سرسید جب علی گڑھ آئے تو یہاں ایک مدرسہ اسی نیت سے کھولا۔ دراصل یہ کام اس مجسل نے کیا جو سرسید نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے یے ایک مجلس کے نام سیقائم کی تھی۔ مدرسہ 1875ء میں قائم ہوا اور 1876ء میں سرسید ملازمت سے سبکدوش ہو کر علی گڑھ میں مستقل مقیم ہو گئے اور 1877ء میں یہ مدرسہ محمڈن اینگلو اورئنٹل کالج بنا اور اسی زمانے میں یہ مسلمانوں کی تعلیم اور ان ی سیاست کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔ سرسید کی مجوزہ یونیورسٹی ان کی زندگی میں وجود میں نہ آ سکی۔ لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین محسن الملک نے اس مقصد کے لیے ایک میموریل فنڈ قائم یا اور 1910ء کے قریب آغا خاں سوم نے اس تجویز اور خواب کو ایک حقیقت میں بدلنے کے نام سے وجود مین آ گئی۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ اشاعت اول 1967ء ص 315) فرماتے ہیں :

’’کوئی خواب کا ملاً پوار نہیں ہوا کرتا۔ مسلم یونیورسٹی نشوونما پر کاتنا عظیم تخلیقی مرکز نہیں بن سکی کہ اسلام کی علمی اور تحقیقاتی روایات کو بحال کرتی۔ جن حالات میں اس ادارے نے کا م کیا اس کے ہوتے ہوئے اس ادارے سے اس قسم کے کارنامے کا مطالبہ کرنا حق بجانب نہ ہوتا۔ علی گڑھ نہ بہ ہر حال اپنے بانی کی خواہشات کا ایک بڑا حصہ پورا کر دیا۔ اس نے مسلم قوم کی تشکیل میں ایک ایسے وقت میں اہم کردار ادا کیا جب کہ وہ تحت الثریٰ کے کنارے تک پہنچ چکی تھی۔ اس نے قوم کو ایک نئی امید دی ، ایک نئے مقصد کا فہم دیا۔ اس نے مسلمانوں کو مایوسی کے عمیق ترین غار سے باہر کال کر بار آور سرگرمی کے میدان میں لا کھڑ ا کیا۔ اس نے ایسے مسلمانوں کی ایک نسل پیدا کی جو اسلام کے ساتھ اپنی بنیادی وفاداری کو خراب کیے بغیر دنیا کے جدید آلات اور اس کی فکر سے واقفیت رکھتے تھے۔ فی الحقیقت علی گڑھ مسلمانوں میں قومیت کے احساس کا گہوارہ تھا۔ کیونکہ اس نے بر عظیم میں ایک سالم و متحد مسلم ملت کے خیال کو زندہ رکھا۔ علی گڑھ ان نقائص سے مبرا نہ تھا جو اس کے دوستوں کی نظر میں بہت واضح تھے اور جنہیں دیکھ کر انہیں تکلیف ہوتی تھی مگر اس میں کوئی شبہہ نہیں ہو سکتا کہ علی گڑھ کے بغیر مسلمان بر عظیم کے سیاسی و ذہنی زندگی میں دوسری قوموں سے اور بھی زیادہ پیچھے رہ جاتے۔ علی گڑھ میں جو خوبیاں تھیں اور جو اس کی کمزوریاں تھیں وہ روشن خیال مسلمانوں کے بہت بڑے طبقہ میں سب کی سب موجود تھیں ‘‘۔

علامہ اقبال کو علی گڑھ اور علی گڑھ تحریک سے دلچسپی تھی ایک زمانہ میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ملازمت کے لیے آمادہ ہوئے تھے لیکن بعد میں ایسا نہ ہوا۔ علی گڑھ کے حالات سے ان کی دلچسپی ان مکاتیب اور مضامین کے علاوہ بانگ درا میں ان کی نظموں میں طلبہ علی گڑھ کے نام سید کی لوح تربت سے ظاہر ہے۔ ایک دور ایسا آیا کہ علی گڑھ میں Anti God سوسائٹی قائم ہوئی تو علامہ کو بڑا صدمہ ہوا کہ علی گڑھ سے ان کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ مسلم نوجوان کے اس مرکز سے ایسے فرزند پیدا ہوں جو اسلام اور ملت اسلامیہ کی خدمت کریں۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادی کو ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’آپ علی گڑھ جا کر مذہبی مضامین پر طلبا سے گفتگوئیں کیا کریں تو نتائج بہت اچھے ہوں گے۔ باوجود بہت سی مخالف قوتوں کے جو ہندوستان میں مذہب کے خلاف (اور بالخصوص اسلام کے خلاف) اس وقت عمل کر رہی ہیں ، مسلمان جوانوں کے دل میں اسلام کے لیے تڑپ ہے۔ لیکن افسوس کوئی آدمی ہم میں نہیں جس کی زندگی قلوب پر موثر ہو‘‘۔

غالباً مولوی عبد الماجد دریا آبادی نے اس مشورہ پر کچھ عرصہ کے لیے عمل بھی کیا۔ یہ خط 1929ء کا ہے اور 1934ء کے درمیان (اور شاید اس کے بعد بھی ) مولوی عبد الماجد صاحب علی گڑھ تشریف لائے تو طلبا سے مذہبی امور پر گفتگو کرتے۔ یہ میں ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنا پر کہتا ہوں کہ مجھے خود بعض ایسی مجلسوں میں شرکت کرنے کا موقع ملا ہے اس زمانہ میں علی گڑھ میں آفتاب ہوسٹل نیا تعمیر ہوا تھا اور نام نہا ترقی پسند، کمیونسٹ اور مذہب دشمن عناصر کا مرکز بھی اسی میں تھا۔ نام گنانے سے کوئی فائدہ نہیں ، ان میں سے بعض عناصر اب پاکستان میں ہیں اور خود کو پاکستان پاکستانی قومیت، نظریہ پاکستان اور پاکستانی تہذیب کا ترجمان بتاتے ہیں۔ سر سید راس مسعود مرحوم سے اقبال کے تعلق نے قدرتی طور پر علی گڑھ سے علامہ کی دلچسپی اور تعلق خاطر کو اور تقویت بخشی اور یہ سلسلہ راس مسعود مرحوم کی وفات پر ختم ہوا۔ اس موقع پر علامہ کا دردناک مرثیہ مسعود رسالہ اردو کے مسعود نمبر میں شائع ہو چکا ہے اور ارمغان حجاز میں بھی شامل ہے۔

6 : مخزن: لاہور کا مشہور ادبی رسالہ جو پہلے سر عبد القادر کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ملک کے چوٹی کے ادبی رسالوں میں شمار ہوتا تھا اوربیسویں صدی مین اردو کی تحریک کو اس سے بڑی تقویت پہنچی۔ رسالے کے معیار کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس عہد کے لکھنے والے تمام اکابر کے افکار و خیالات اس میں شائع ہوئے ہیں مخزن صرف ایک رسالہ نہ تھا ایک تحریک تھا۔ اس تحریک پر ایک مفصل مقالہ مخزن ایک تحریک کے نام سے کراچی یونیورسٹی میں خالدہ افضال صاحبہ نے پیش کر کے ایم۔ اے فل کی ڈگری لی ہے۔ ایک اور مقالہ برائے پی ایچ ڈی ڈاکٹر صفدر حسین کا ہے۔ جنہوں نے سر عبد القادر پر تحقیقی مقالہ لکھ کر کراچی سے ڈگری لی ہے۔ اس میں بھی مخزن پر تفصیلی بحث ہے۔

7۔ ناظر: چودھری خوشی محمد، ناظر تخلص والد کا نام چوھدری مولاداد خاں ، موضع ہریا والا ضلع گجرات پنجاب میں 1389ھ مطابق 1872ء میں پیدا ہوئے۔ کالج کی تعلیم کے لیے علی گڑھ گئے اور جہاں سے 1893ء میں بی اے کی ڈگری لی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر ریاست کشمیر میں ایک اعلیٰ عہدے پر مقرر ہوئے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد چک جھمرہ ضلع لائلپور میں مقیم ہوئے اور اکتوبر 1944 ء میں انتقال ہوا۔ شاعر کی حیثیت سے وہ شہرت حاصل نہ کر سکے جس کا ان کا کلام ہر طرح سے مستحق تھا۔ علامہ اقبال کے حلقہ احباب میں تھے۔

علی گڑھ سے تعلق کی بنا پر سر سید کی تحریک اور علی گڑھ کے حامیوں میں سے تھے۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسوں میں شرکت کرتے اور پنجاب میں علی گڑھ تحریک کے فروغ اور تقویت کے لیے کوشش کرتے رہے۔ اقبال سے ہم نوائی اور ہم آہنگی دونوں کے مشترک نظریات اور بر عظیم کی ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کے لیے اور اصلاح و استحکام کی بنیاد پر قائم ہے ان کی ایک مشہور نظم جوگن ہے جو اردو نظم کی تاریخ میں کلاسیکی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔

8۔ اقبال کی یہ نظم جسٹس شاہ دین ہمایوں پر ہے اور بانگ درا میں شامل ہے۔ نظم مختصر ہے لیکن اس سے اقبال کے جذبات اور احساسات کی پوری ترجمانی ہو جاتی ہے۔ اس میں صرف پانچ شعر ہیں۔ اقبال کو اپنے مرحوم دوست کی مشت خاکستر، میں ’’شعلہ گردوں نورد‘‘ نظر آتا تھا۔ اور ان کا یہ نظریہ کہ موت ، حیات کے انقطاع کا نام نہیں تفصیل سے ان کی دوسری نظموں مثلاً والدہ مرحومہ کی یاد میں گورستان شاہی، شمع و شاعر میں اس نظریہ کی تشریح موجود ہے۔ اس مختصر نظم میں یہ خیال بڑی خوبی سے صرف دو اشعار میں نظم ہوا ہے:

موت کی لیکن دل دانا کو کچھ پروا نہیں

شب کی خاموشی میں جز ہنگامہ فردا نہیں

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی

ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی

9۔ علی گڑھ کالج جو اس وقت محمڈن اینگلو اورئنٹل کالج کہلاتا تھا چونکہ کالج اور اس کے متعلقہ لوگ سرسید اور ان کے بعد ان کے جانشین اور اس کے متعلق لوگ سرسید اور ان کے بعد ان کے جانشین اور رفقا نواب محسن الملک ، نواب وقار الملک وغیرہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں کا محور اور مرکز بن گئے تھے اس لیے قدرتی طور پر علامہ اقبال کے احباب چاہتے تھے کہ علامہ بھی علی گڑھ سے وابستہ ہو جائیں اور ملت اسلامیہ کی نشاۃ الثانیہ کے لیی ان کو جو نظریات افکار یا خیالات تھے وہ علی گڑھ کے طلبا تک پہنچا سکیں۔ علی گڑھ کی اس قوت (Potential) کا اندازہ پوری مسلم قوم کو تھا۔ چنانچہ اسی علی گڑھ سے رئیس الاحرار مولانا فضل الحسن حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان جیسے آزادی ی جدوجہد کے سپاہی پیدا ہوئے اور پھر فرزندان علی گڑھ نے برعظیم کے گوشے گوشے میں اس پیغام کو پہنچایا۔ قائد اعظم اسی بنا پر علی گڑھ کو مسلم وم کا اسلحہ خانہ کہتے تھے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد کے آخری مرحلہ میں بھی علی گڑھ کا کردار نمایاں رہا ہے اور علی گڑھ کے طلباء نے خاص طور پر صوبہ سرحد، سند ھ اور پنجاب میں دورے کر کے ا س تحریک کو تقویت پہنچائی۔ میاں جسٹس شاہ دین کی ترغیب اس اہمیت کا اندازہ خود ان کے بعض بیانات سے ہوتا ہے۔ 1894ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا نواں اجلاس علی گڑھ میں منعقد ہوا تو اس کی صدارت کے لیے جسٹس محمد شاہ دین کو منتخب کیا گیا۔ پھر 1913ء میں آگرہ میں کانفرنس کے اجلاس میں انہوں نے دوبارہ صدارت کی۔ اس سے علی گڑھ ، علی گڑھ تحریک سرسید کے افکار و خیالات اور مسلمانوں کی جدوجہد سے ان کی دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ 1913ء میں انہوں نے کانفرنس کے خطبہ صدارت میں جن امور کی طرف اشارہ کیا تھا ان میں صاف علامہ کے خطبات الہ آباد کی صدائے بازگشت ملتی ہے۔ علامہ نے مسلمانوں اور ہندوؤں کی اقتصادی حالت کا مقابلہ کر کے بتایا تھا کہ ایسی صورت میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا قدم بہ قدم چلنا اور متحد ہو کر ایک جماعت کی حیثیت سے کام کرنا ممکن نہیں۔ جسٹس شاہ دین نے اس خطبہ میں یہ کہا تھا:

’’آج تک بہ حیثیت قوم ہم نے اپنے اصول دولت کی طاقتوں کو تقویت دینے میں بہت کچھ کوتاہی روا رکھی ہے، اور نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہماری اقتصادی حالت نہایت زبوں ہو گئی ہے۔ آج کل صنعت و حرفت کا دور دورہ ہے اور میں ان نوجوانوں کو جو آرٹس کالجوں میں تحصیل علم کرتے ہیں ، بڑے زور سے یہ صلاح دوں گا کہ وہ بمقابلہ زبان ہائے جدیدہ اور فلسفہ کی طبیعیات اور اقتصادیات کے مطالعہ پر زیادہ توجہ دیں۔ زباندان یا فلسفی کے مقابلے میں ایک ماہر طبیعیات تحقیقات علمی کے مفید کام میں زیادہ نمو پاتا ہے۔ اور ہماری قوم کے واسطے ایک ماہر علم مادیات کا وجود زیادہ مفید ہے جس کی علمی تعلیم اس کو زندگی کے مجسم حقائق سے کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ قابل بنا دیتی ہے‘‘۔

سرسید کا بھی یہی نقطہ نظر تھا۔ چنانچہ انہوں نے اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے علی گڑھ میں ایک سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی تھی جس کا مقصد ملک و قوم کو سائنس کی جدید تحقیقات اور انکشافات سے آشنا کرانا تھا۔ سوسائٹی کے لیے ایک عمارت تعمیر ہوئی تھی جس میں مختلف سائنسی موضوعات پر لیکچر اور مذاکرے ہوتے تھے اور عملی تجربات بھی دکھائے جاتے تھے۔ سرسید کی یہ تجویز بھی تھ کہ اس سوسائٹی کے ذریعہ سے اردو میں علوم جدیدہ کو ترجموں اور تالیفات سے منتقل کیا جائے اور اس سلسلے میں سوسائٹی نے بہت کچھ مفید کام بھی کیا۔ سرسید احمد خاں کو سوسائٹی اور اس کے کام کی اہمیت کا اس قدر خیال تھا کہ انہوں نے اپنے انگلستان کے قیام کے دوران نواب محسن الملک کو جو خط لکھا تھا اس میں سوسائٹی کے کام میں سست رفتاری پر اپنی تشویش اور گہرے رنج و الم کا اظہار کیا تھا کہ سوسائٹی ایک نہایت اہم اور مفید کام انجام دے سکتی ہے۔ لیکن قوم کو اس کی طرف پوری توجہ نہ تھی۔

اسی خطبہ میں جسٹس شاہ دین محمد نے کانفرنس اور تحریک سرسید کے حوالے سے اردو زبان کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کیا تھا:

’’اس زبان(اردو) کے ادبی اور علیم نشوونما میں مدد پہنچنا ہماری کانفرنس کے پروگرام کا خاص اہم جزو ہے۔ اس ذمہ داری کو انجام دینے میں ہماری قوم نے نہایت غفلت سے دکھائی ہے۔ دیگر زبانوں کے مقابلہ میں ارد کو ایسی سہولتیں حاصل ہیں کہ اگر اس کانفرنس کی طرف سے معمولی امداد بھی صحیح اصول اور باقاعدہ طریقہ پر کی جائے گی تو وہ تمام رکاوٹیں جو اس زبان کی ترقی میں سد راہ ہیں دور ہو جائیں گی‘‘۔

آگے چل کر اسی تقریر میں جسٹس شاہ دین نے علامہ اقبال کے اس مصرعہ کی تائید کی:

’’جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے۔ کچھ عرصہ کے لیے اردو شاعری کی طرف سے ہم کو اپنی توجہ کم کر دینی چاہیے اور ایسی تدبیر کرنی چاہیے کہ شعبہ شاعری میں تصنیفات کا سلسلہ کم کر دیا جائے اور اپنے نوجوانوں کو آمادہ کیا جائے کہ انگریزی زبان کی تصنیفات جو عملی مضامین پر جدید تحقیقات کے متعلق ہیں ، ان کے تراجم اردو زبان میں تیار کر کے اردو لٹریچر کو مالا مال کر دیں۔ اس مدعا کے حصول کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام علوم جدیدہ کی اصطلاحات کی ایک مکمل لغت تیار کی جائے۔ یہ اصطلاحات ان اسطلاحات کا جو زبان انگریزی اور یورپ کی دیگر زبانوں میں عموماً مروج ہیں یا تو ترجمہ ہوں یا ان کا اتخاذ ہوں ‘‘۔

علی گڑھ نے اردو کی جو خدمات انجام دیں وہ الگ تفصیلی بیان کی محتاج ہیں۔ اور سرسید اور ان کے رفقائے کار نے اردو کو ایک جدید دور کے علمی اور تحقیقی مطالب ادا کرنے کے قابل بنایا کہ بقول مولانا شبلی نعمانی یہ کل کی چھوکری یورپ کی اپنی ثقہ بہنوں سے آنکھ ملانے کے قابل ہو گئی۔

10۔ مولانا حالی کا مشہور مسدس مد و جذر اسلام جو صرف مسدس حالی کے نام سے مشہور ہے۔ اردو نظم کی تاریخ کا ایک شاہکار ہے۔ حالی کے متعلق علامہ اقبال کا ارشاد ہے:

آں لالہ صحرا کہ خزاں دید و بیفسرد

سید دگر اور ا نمی از اشک سحر داد

حالی ز نواہائے جگر سوز نیاسود

تا لالہ شبنم زادہ را داغ جگر داد

سرسید کے نزدیک اس کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اس کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ مسدس کی رسید میں جو خط سرسید شملہ سے مولانا حالی کو لکھا ہے اس میں فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب خدا مجھ سے پوچھے گا کہ دنیا میں کیا کیا؟ تو جواب دوں گا کہ حالی سے مسدس لکھو ا لایا ہوں شاید ہی کسی شاعر یا مصنف کو اپنے کلام کی ایسی داد ملی ہو گی۔ مسدس کیا ہے مسلمانوں کے عروج و زوال کی ایک موثر داستا ہے جس سے مسلمانوں کی پوری تاریخ آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ خاص طور پر اسلام کے فیوض و برکات کا اس طرح ذکر کیا ہے ، کہ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام ایک ابر رحمت تھا کہ عرب کے ریگستانوں سے اٹھا اور ساری دنیا پر سیراب کر گیا، جس نے ایک قوم کی کایا پلٹ گی اور دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز کیا پھر مسلمانوں کی فتوحات سے بڑھ کر ان کی علمی فتوحات، ان کی رصد گاہیں ، ان کے مدرسے اور شفا خانے، ان کے کتب خانے، تعمیر کردہ مساجد اور ا کے علوم و فنون کا ذکر کر کے مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی سے آشنا کرایا ہے۔ پھر دور زوال کی تصویر ہے اور اس میں بھی کہیں جھوٹ یا مبالغہ نہیں۔ حقیقت اور امر واقعہ کا اظہار ہے اور یہ تصویر ایسی دردناک ہے کہ پڑھنے والے کو عبرت ہوتی ہے۔ اردو میں قومی شاعری کی یہ پہلی کوش ہے جو ادب العالیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ علامہ اقبال کے پیش نظر بھی مسلمانوں کا عروج و زوال تھا چنانچہ ان کی نظموں بالخصوص شکوہ میں اور جواب شکوہ میں وہی موضوع ہے جو مسدس حالی کا ہے بلکہ علامہ اقبال نے ان دونوں نظموں کے لیے وہی پیمانہ (یعنی مسدس) اختیار کیا جو حالی نے اختیار کیا تھا اور جو مسلسل اور تاریخی حالات اور واقعات کے بیان کے لیے نہایت مناسب پیمانہ ہے جسے انیس اور دبیر جیسے قادر الکلام شعرا نے اپنے مراثی کے لیے بھی اختیار کیا ہے۔ حالی کی مسدس کا ایک مقصد نوجوان مسلمانوں سے خطاب تھا۔ جن کو ملت اسلامیہ کی کشتی کی ناخدائی کرنا تھی اور یہی علامہ اقبال کا مقصد تھا جس کے لیے ان کے احباب ان پر زور دیتے تھے۔ کہ وہ بیرسٹری ترک کر کے علی گڑھ چلے جائیں تاکہ بقول میاں بشیر احمد نئے حالات کے مطابق وہ اس مرکزی مقام سے قوم کو خطاب کریں۔

11۔ موسیو گارساں دتاسی مشہور فرانسیسی مستشرق تھے۔ 20جنوری 1794ء کو مارسیلز میں پیدا ہوئے۔ اور وہیں ابتدائی تعلیم کی تکمیل کی۔ اس زمانے میں مارسیلز ایک مشہور تجارتی بندرگاہ تھا اور مشرق و مشرق بعید اور یورپ کے درمیان ایک تجارتی بحری شاہراہ پر ایک اہم مرکز تھا۔ یہاں مختلف ملکوں کے تاجروں اور سیاحوں ، ملاحوں اور ناخداؤں سے گارساں نے عربی بول چال سیکھی۔ یہ اس کا مشرق اور مشرقی زبانو ں سے پہلا تعارف تھا۔ اس کے بعد 1817ء میں وہ مشرقی زبانوں سکے سیکھنے کے شوق میں پیرس جا کر مشہور مستشرق موسیو ایس ڈی ساسی کے حلقہ درس میں شریک ہوئے اور عربی فارسی اور ترکی زبانوں میں خاصی استعداد بہم پہنچائی۔ 1824ء میں وہ علوم مشرقیہ کے اس ادارہ کے ناظم مقرر ہوئے جو ان کے استاد موسیو ایس ڈی ساسی نے قائم کیا ھتا۔ اس کے بعد اس ادارہ میں ہندوستانی یعنی اردو کا شعبہ کھولنے کا منصوبہ بنا تو گارساں دتاسی کو ا س میں مقرر کیا گیا۔ 1848ء میں حکومت کی منظوری کے بعد یہ شعبہ قائم ہو گیا۔ گارساں دتاسی نئی نسل کے ان مستشرقین میں سے تھا جس نے فرانس میں مشرقی زبانوں اور علوم کے مطالعہ کی روایت کو دوبارہ قائم کیا۔ ہندوستانی زبان سیکھنے کے لیے گارسا ں نے انگلستان کا سفر کیا کیونکہ ایک تو انگریزی میں اردو سیکھنے کے لیے ضروری مواد اور ماخذ خاصے فراہم ہو چکے تھے۔ دوسرے وہاں اردو پڑھانے اور سکھانے کا بھی کچھ انتظام تھا کیونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے مفادات اور تجارتی نیز سیاسی امور کی نگہداشت کے لیے اعلیٰ افسرانگلستان سے ہی بھرتی کر کے بھیجے جاتے تھے اور ان کے لیے اس ملک میں جانے سے پہلے وہاں کی زبان، تہذیب اور معاشرت اور رسم و رواج سے آگا ہ ہونا ضروری تھا۔ موسیو گارساں دتاسی نے اردو سیکھنے کے بعد اپنے ادارہ میں اس کی تدریس تعلیم اور تحقیق میں بڑی سرگرمی کا اظہار کیا۔ اگرچہ اس کو کبھی ہندوستان آنے کا موقع نہیں ملا لیکن اس کی تصانیف، مقالات اور خطبات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی نظر نہ صرف اردو شعر و ادب کی تاریخ اور اس کے سرمایے اور روایات پر بڑی گہری تھی بلکہ وہ سال بہ سال اردو زبان و ادب اور برصغیر کی تہذیبی، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے بارے میں پوری اطلاعات رکھتا تھا اور ایک عرصہ تک اپنے سالانہ خطبات میں وہ سال بھر کی اردو زبان کی تاریخ اور ترقی کا جائزہ لیا کرتا تھا۔ اس کے خطبات سے اس کی دلچسپی کے علاوہ ا س کی وسیع معلومات کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور اس دور میں اردو زبان و ادب کی ترقی کے باب میں اس کے مقالات اور خطبات ایک اہم ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ درس و تدریس اور تعلیم و تحقیق کا یہ سلسلہ کم و بیش پچاس سال کے عرصہ پر محیط ہے اور 2ستمبر 1878ء کو گارساں کی وفات پر ختم ہے۔ گارساں دتاسی کی تصانیف تراجم، مقالات، خطبات ، انتخابات شعرا کے دواوین اور جو انہوں نے مرتب کیے، صرف و نحو پر مضامین وغیرہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں سر فہرست تاریخ ادبیات ہندی و ہندوستانی ہے۔ انہوں نے ولی کا دیوان مرتب کیا اور اس کے اشعار کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا۔ اسی طرح میر امن کی باغ و بہار کو مرتب و مدون کیا۔ سرسید احمد خان کی آثار الصنادید کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا جس پر سرسید کو رائل ایشیاٹک سوسائٹی کا ممبر بنایا گیا۔ انہوں نے عربی، ہندوستانی اور فارسی گیتوں کا ایک انتخاب بھی مرتب کیا اور ہندوستانی کے عوامی گیت بھی منتخب کی۔ ہندوستانی زبان کے عناصر کے عنوان سے اس زبان کی قواعد کا ڈھانچہ 1829ء میں اور اس کا دوسرا ایڈیشن 1863ء میں شائع کیا۔ اس کے سالانہ خطبات1850ء سے 1870ء تک کے عرصہ ک ہیں۔

اگرچہ گارسا ں دتاسی کا میلان اور پیشہ زبانوں اور بالخصوص ہندوستانی زبان کی تعلیم و تدریس اور تحقیق تھی لیکن مذہب اسلام سے بھی ان کو دلچسپی تھی اور اسلام ے بارے میں ان کا نقطہ نظر ہمدردانہ تھا۔ چنانچہ اسلام کے بارے میں اس کی تصانیف میں سے بعض یہ ہیں :

(1) قرآن کے مطابق اسلام میں فرائض و آئین، 1826ء، 1829ئ،1840ئ۔

(2) ایمان اسلام کی تشریح 1822ء، 1828ء

(3) قرآن کے مطابق اسلامی آئین و عمل، تیسرا ایڈیشن پیرس 1871ء

(4) ہندوستان میں اسلام کی خصوصیات کا مطالعہ 1839 ء، 1869ء

(5) مسلمانوں کے ناموں اور القابوں کا مطالعہ، دوسری ایڈیشن 1878ء

(6) قرآن حکیم کے ایک حصے کا ترجمہ۔

عربی ، اردو ، فارسی ، ترکی اور اسلام سے گارساں دتاسی کی دلچسپی ہی غالباً علامہ اقبال کے پیش نظر تھی جو انہوں نے گارساں دتاسی کے مطالعہ اور اس کی تصانیف کو اردو میں منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔ گارساں دتاسی کے مقالات کا کچھ حصہ نواب سر راس مسعود نے بقیہ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے مرتب کیا اور مقالات و خطبات انجمن ترقی اردو نے شائع کیے۔ممکن ہے کہ نواب سر راس مسعود مرحوم کو بھی علامہ اقبال نے ہی اس اہم کام کی طرف توجہ کیا ہو۔ لیکن گارساں کی اہم ترین تصنیف تاریخ ادبیات ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد کا پہلا ایڈیشن رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف گریٹ برٹن اینڈ آئر لینڈ کی طرف سے 1839ء میں شائع ہوا تھا اور دوسری جلد 1846ء میں شائع ہوئی۔ گارساں دتاسی نے اس کی تکمیل کا ذکر اپنے 4دسمبر 1854ء کے خطبے میں کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کی تصنیف کے بعض اجزا کا ہندوستانی میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔ اس کا اشارا غالباً تذکرہ شعراء کی طرف ہے جو کریم الدین نے مرتب کیا تھا۔ وہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ اس تصنیف کی اشاعت سے انگریزوں میں اردو زبان کا شوق ہوا۔ پہلے ایڈیشن کے بعد بھی گارساں دتاسی اردو زبان و ادب کی تاریخ کے ماخذات کی تلاش میں لگا رہا اور اردو شعرا کے تذکرے دواوین اور ان کے متعلق مختلف ذرائع اور وسائل سے اطلاعات جمع کرتا رہا اور پھر اس نے اس تاریخ کا دوسرا ایڈیشن مرتب کیا جو تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ ا س کی پہلی دو جلدیں 1870ء میں اور دوسری اورتیسری جلدی 1871ء میں شائع ہوئی گویا یہ تاریخ موسیو گارساں دتاسی کے تیس سال کے مطالعے اور تحقیق کا نتیجہ ہے۔

علامہ اقبال کو قدرتی طور پر گارساں دتاسی اور اس کی تصانیف سے دلچسپی تھی۔ کیونکہ اس کی اطلاعات نہ صرف معتر اور معلومات افزا تھیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اس کا نقطہ نظر ہمدردانہ تھا ورن علامہ کو عام یورپین مصنفین سے شکایت ہی تھی کہ ان میں علمی دیانت داری کے بجائے تعصب بلکہ بعض صورتوں میں مذہبی جنون تک نظر آتا ہے اور اس یے ان کی تحقیقات سے اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کچھ مسخ ہی نظر آتی ہے۔ اگرچہ خطبات اور مقالات گارساں دتاسی کے ترجمے اردو میں آ چکے تھے لیکن اس اہم تاریخی دستاویز تک جو فرانسیسی زبا ن میں تھی، ہمارے بہت کم مصنفین مورخین اور محققین کی رسائی تھی۔ 1957ء میں حکومت پاکستان کے ایک تعلیمی وظیفہ پر ایک فرانسیسی خاتون للیان نذرو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں علمی تحقیقات کے لیے داخل ہوئیں۔ صدر شعبہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی تجویز پر یونیورسٹی نے ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے گارساں دتاسی کی اس تاریخی دستاویز کا فرانسیسی سے اردو ترجمہ کیا اور اس کے حواشی و تعلیقات کا موضوع منظور کیا اور ڈاکٹر صدیقی کی نگرانی میں یہ ترجمہ اور حواشی و تعلیقات دو ضخیم جلدوں میں مرتب کیے گئے اور بالآخر اس پر کراچی یونیورسٹی نے للیان نذرو کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اس کو اب سے بہت پہلے شائع ہو جانا چاہے تھا لیکن یہ مسودہ ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔ اقبال کے بعض پرستاروں نے بھی اس کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اس کی طباعت اور اشاعت میں دلچسپی لی لیکن کوئی صورت اب تک اس کی پیدا کی ہوئی نہیں۔ اس سلسلے میں جناب ممتاز حسن صاحب مرحوم نے مرکزی اردو بورڈ لاہور کے ڈائریکٹر جناب اے ڈی اظہر کو ایک خط لکھا تھا جس میں اس اہم کتاب کو شائع کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ لیکن یہ ادارہ اسے شائع نہ کر سکا۔ ایک عرصہ تک یہ انجمن ترقی اردو کے کارکنوں کی الماریوں میں طباعت کے انتظار میں پڑی رہی اور اب کراچی یونیورسٹی کے کتب خانے میں پی ایچ ڈی کے مقالات کے ساتھ بے قدری کی شکوہ سنج ہے۔

12۔ علامہ اقبال زبان کے بارے میں کسی تعصب کا شکار نہ تھے۔ اپنی نجی گفتگو اور احباب کی بے تکلف مجلسوں میں ظاہر ہے وہ اپنی مادری پنجابی ہی استعمال کرتے ہوں گے، لیکن بر عظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبہ حوالے سے ان کے نزدیک اردو زبان کی حیثیت اور اہمیت مسلم تھی اور اس سے وسیع تر سطح پر وہ فارسی کی تہذیبی اور علمی حیثیت کو تسلیم کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی نظم و نثر کی اہم ترین تصانیف اردو اورفارسی میں ہی ہیں۔ بعض تصانیف انگریزی میں ہیں جن کا اردو ترجمہ علامہ کی تجویز ایما یا اجازت سے ان کی زندگی میں ہوا۔مثلاً خطبات کا ترجمہ کو سید نذیر نیازی نے کیا۔ نذیر نیازی صاحب کے حوالے سے (اقبال کے حضور، کراچی 1971ء ص 49 ، 135-136) سے علامہ کے یہ ملفوظات پیش نظر رکھیے:

’’ہندی اور اردو کے نزاع سے لے کر جب سالہا سال ہوئے مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے محسوس کیا کہ سر سید کا یہ قول کہ ہمارا اور ہندوؤں کا راستہ الگ الگ ہے حرف بہ حرف صحیح ہے… یہ احساس اس وقت بھی قائم تھا جب ترک موالات کی تحریک زوروں پر تھی اور اس وقت بھی جب کانگریس نے علی الاعلان مسلمانوں کی جداگانہ قومیت سے انکار کیا۔ جب نہرو رپورٹ پیش کی گئی اور جب اس سیاسی محاذ کے ساتھ قومی تعلیم اور قومی زبان کے نام سے ایک نیا محاذ ہماری تہذیب و تمدن اور ہمارے اخلاق و معاشرت کے خلاف قائم کیا‘‘۔

نذیر نیازی صاحب کا یہ بیان کہ:

’’2فروری 1938 ء کی نشست میں انہوں نے علامہ اقبال کے کہنے پر قائد اعظم محمد علی جناح کی ایک تقریر پڑ ھ کر سنائی جو اسی روز اخبار میں چھپی تھی۔ اقبال اس تقریر کی دو باتوں سے خوش ہوئے ایک تو جناح کے اس کہنے پر کہ بندے ماترم سے شرک کی بو آتی ہے۔ دوسرے اس پر کہ ہندی ہندوستانی کی تحریک دراصل اردو پر حملہ ہے اور اردو کے ردیے میں بالواسطہ اسلامی تہذیب پر‘‘۔

علامہ اقبال کے ان خیالات اور انداز فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اردو اسلامی تہذیب اور بالخصوص بر عظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی ثقافت کی روح تھی اور اردو ہندی کا تنازعہ دراصل اسی شہ رگ کو کاٹنے کی ایک کوشش تھی۔ دوسرے یہ کہ علامہ اردو پر حملے کو تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کے خلاف ایک حملہ تصور کرتے تھے۔

علی گڑھ میں انجمن ترقی اردو ہند کے زیر اہتمام مولوی عبد الحق نے ایک اردو کانفرنس کا انعقاد کیا۔ میزبانی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور اس کے مختلف اداروں بالخصوص انجمن اردوئے معلی شعبہ اردو کے ذمہ تھی جس کے صدر پروفیسر رشید احمد صدیقی اور سیکرٹری ابو اللیث صدیقی تھے۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے مولوی صاحب نے علامہ اقبال کو بھی دعوت دی، جواب میں علامہ فرماتے ہیں :

’’اگرچہ میں اردو زبان کی بہ حیثیت زبان خدمت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تاہم میری لسانی دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے‘‘۔

اس ارشاد میں عصبیت کا لفظ خاص طور پر غور کرنے کے قابل ہے۔ ہم لوگوں نے عصبیت کا مفہوم کچھ ایسا متعین کر لیا ہے کہ جس میں تنگ نظری اور کم حوصلگی زیادہ نمایاں ہے، حالانکہ عصبیت وہ جوہر ہے جو کسی معاشرہ کو اس کی انفرادیت بخشتا ہے اور اس کے اجتماعی وجود کی ضمانت ہوتی ہے۔ مولوی عبد الحق صاحب کے نام پر ایک اور خط میں فرماتے ہیں :

’’کاش میں اپنی زندگی کے باقی دن آپ کے ساتھ رہ کر اردو کی خدمت کر سکتا‘‘۔

13۔ گرامی: شیخ غلام قادر گرامی 1856ء میں جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جوانی میں تحصیل علم کے لیے لاہور آئے اور اورینٹل کالج لاہور میں داخل ہو کر منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور کچھ عرصہ تک وکالت بھی کی۔ پھر امرتسر میں فارسی کے معلم ہو گئے۔ اس کے بعد کپورتھلہ چلے گئے اور کچھ عرصہ لدھیانہ بھی رہے۔ پولیس میں بھی نوکری کی بالآخر دکن چلے گئے جہاں نظام دکن نے انہیں اپنا استاد مقرر کیا اور بڑی قدردانی کی۔ 1916ء میں واپس پنجاب آئے اور 26مئی 1927ء کو انتقال ہوا۔ فارسی شاعری کا اعلیٰ درجے کا مذاق رکھتے تھے اور علامہ اقبال کو ان کی شاگردی پر فخر تھا۔

14۔ علی بخش: علامہ اقبال کا معتمد خدمت گار جس کا حوالہ علامہ اقبال کے احباب اور نیاز مندوں کی تحریروں میں بار بار آتا ہے۔ ایک خط سے پتا چلتا ہے کہ ایک عرصہ تک علی بخش نے شادی نہیں کی تھی اور اس باب میں اس نے علامہ سے استفسار کیا تو علامہ نے لکھا کہ اگر انسان صاحب استطاعت ہو اور اپنے اہل و عیال کی خبر گیری کی صلاحیت اور ذرائع اور وسائل رکھتا ہو تو ضروری شادی کر لینا چاہیے ورنہ شادی کر کے اپنے ساتھ ایک دوسری زندگی کو وابستہ کر کے مصیبت میں کیوں ڈالا جائے۔ ملازمین کے انتخاب کے سلسلے میں علامہ خاصے محتاط تھے۔ چنانچہ بیگم صاحبہ کے انتقال کے بعد جاوید اقبال اور منیرہ اقبال کی تربیت اور دیکھ بھال کے لیے جب ایک خاتون کی ضرورت ہوئی تو علی گڑھ سے ایک بیوہ جرمن خاتون کو بلایا گیا۔ یہ ڈاکٹر اصغر حیدر کی سالی تھیں اور پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ان کے اوصاف کی بنا پر ان کی سفارش کی تھی۔ یہ خاتون ابھی حیات ہیں اور منیرہ صلاح الدین کے ساتھ گلبرگ لاہور میں مقیم ہیں۔

15 رابندر ناتھ ٹیگور:

بنگال کے ہندوؤں کے روحانی گرو، شاعر، ادیب، معلم اور انشا پرداز۔ ٹیگور کا فلسفہ جو بظاہر امن و خاموشی کا فلسفہ ہے دراصل اسی ہندو و یدانت کی صدائے باز گشت ہے، لیکن ٹیگور کا فلسفہ محض فکری امن و سکون کا فلسفہ نہ تھا۔ وہ نئی ہندو نسل کو ان کی قدیم تہذیب و روایات سے قریب تر لانا چاہتا تھا۔ اس تعلیمی فلسفہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے شانتی نکیتن میں ایک مثالی درسگاہ بھی قائم کی تھی۔ علامہ جب یہ فرماتے ہیں کہ ٹیگور عملی آدمی ہے تو ان کی مراد یہی ہے کہ وہ عملاً ہندوؤں کی تہذیبی نشاۃ الثانیہ کی تحریک میں آگے آگے ہیں۔ علامہ اقبال نے بار بار اپنی بے عملی کا ذکر کیا ہے اور اکثر حضرات ان کا یہ شعر دہراتے ہیں :

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا

جب وہ فرماتے ہیں کہ میں عملی آدمی نہیں تو ان کی مراد یہ نہیں کہ وہ عملاً جدوجہد آزادی کی تحریک سے الگ رہے۔ ان کے مکاتیب سے واضح طور پر ظاہر ہے کہ وہ ملک کی سیاسی، مذہبی، تہذیبی اور سماجی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے تھے۔ چنانچہ اس سے بڑھ کر ان کے عملی ہونے کا ثبوت کیا ہو گا کہ انہوں نے اپنے الہ آباد کے مسلم لیگ کے اجلاس میں پاکستان کے تصور کا پہلا واضح نقشہ پیش کیا اور پھر ساری عمر اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ منجملہ اور ماخذ کے علامہ اقبال اور قائد اعظم، علامہ اقبال اور مولوی عبد الحق کے مکاتیب سے اس کردار کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔ پنجاب کی سیاست میں مسلمانوں کے کردار کو موثر، مثبت اور متحد کرنے میں بھی علامہ کی کوششوں کو پیش نظر رکھیے:

’’ عملی سیاست کا ایک معمولی سا اندازہ انتخاب یا الیکشن سے ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے 1926ء میں صوبائی اسمبلی یعنی پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا انتخاب لڑا اور جس حلقہ سے علامہ اقبال کھڑے ہوئے ان کے حریف ملک محمد دین تھے جن کا ذاتی اور برادری کا اثر و رسوخ اس حلقہ میں خاصا تھا۔ بقول فقیر سید وحید الدین (روزگار فقیرص103) کئی ہفتہ شہر میں خوب ہنگامہ آرائی رہی۔ لاہور کے در و دیوار سے ووٹ ووٹ کی صدائیں آتی تھیں۔ سید صاحب30نومبر اور8دسمبر1926کے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ حلقہ انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے لیے 64پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے اور بارہ ہزار ووٹوں میں 68 فی صدی ووٹ ڈالے گئے جن میں پانچ ہزار چھ سو پچھتر (5675) ڈاکٹر صاحب کو اور دو ہزار چار سو اٹھانوے (2498) ووٹ محمد دین کو ملے۔ اس کے بعد تین سال تک علامہ کونسل کے رکن رہے اور انہوں نے نہایت اہم قومی اور ملکی مسائل پر تقریریں کیں اور بحث میں ایک مثبت کردار ادا کیا۔‘‘

یہ صرف ایک مثال تھی۔

ٹیگور اور علامہ اقبال کے اس فرق کی تائید ایک اور بیان سے ہوتی ہے۔ حیات اقبال سے اس قسم کی مثالیں اور مل سکتی ہیں جسے فقیر سید وحید الدین نے سید امجد علی کے حوالے سے نقل کیا ہے:

"Tagore preaches rest practises adtion, iqbal practices rest and preaches action”.

اس مسئلہ کا ذکر ممتاز حسن صاحب کے مقالہ اقبال ایک پیغمبر کی حیثیت سے، میں بھی ہے جو ہمایوں اکتوبر1931ء میں شائع ہوا۔

16 بال جبریل:

بال جبریل علامہ اقبال کے اردو کلام کا دوسرا مجموعہ جو بانگ درا کی اشاعت اول سے ایک طویل عرصہ کے بعد شائع ہوا۔ بانگ درا کی پہلی اشاعت1924ء میں آئی، اس سے پہلے اسرار خودی، (1915ء) پیام مشرق (1923ء) اور اس کے بعد زبور عجم (1927ء) جاوید نامہ (1932ء) شائع ہوئیں۔ بانگ درا کی اشاعت کے بعد علامہ کی توجہ فارسی کی طرف زیادہ رہی بلکہ بعض شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بقول علامہ فارسی میں شعر ان پر نازل ہوتے تھے۔ اردو کے شیدائی بانگ درا کی اشاعت سے پہلے ہی اقبال کے کلام کے مداح بن چکے تھے اور ان کی مشہور نظمیں جو بانگ درا میں شامل ہیں خاص و عام میں مقبول ہو چکی تھیں۔ لیکن علامہ اقبال اپنے پیغام کووسیع تر ذریعہ ابلاغ فراہم کرنے کے لیے، حکیمانہ خیالات کے اظہار کے لیے فارسی کی طرف مائل تھے۔ دوسری بات یہ تھی کہ فارسی زبان میں حکیمانہ اور بالخصوص صوفیانہ افکار صدیوں سے نظم ہوتے چلے آئے تھے، اس لیے فارسی میں ان کے اظہار کے لیے مناسب اصطلاحات اور موزوں اسلوب بیان پیدا ہو گیا تھا۔ اردو شاعری اگرچہ اس کی عمر بھی کئی سو سال کی ہو چکی تھی مگر اس میں اکثر و بیشتر رسمی عاشقانہ شاعری کے بیان کی طرف رجحان تھا، تصوف اور اخلاق کے جو مضامین تھے وہ اکثر فارسی سے ہی ماخوذ تھے اور خود اردو کے شاعر جب اس قسم کے فکری موضوعات کی طرف توجہ کرتے تھے تو فارسی کی دستگیری کے بغیر آگے قدم اٹھانا ان کے لیے دشوار ہوتا۔ اس قسم کی ایک واضح مثال اردو میں مرزا غالب کی ہے کہ ان کے اردو کلام کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس شاعری کا سلسلہ افکار و خیالات، علامات و اشارات، استعارات و تشبیہات اور تراکیب کے اعتبار سے بجائے اردو کے فارسی کی روایات سے ملتا ہے۔ ان حالات میں علامہ اقبال کا فارسی کی طرف زیادہ متوجہ ہونا سمجھ میں آ جاتا ہے۔ بال جبریل کی اشاعت سے اردو والوں کو واقعی بڑی خوشی ہوئی، چنانچہ میاں بشیر احمد کا یہ فقرہ ’’ بال جبریل چھپی تو میری خوشی کی انتہا نہ تھی‘‘ اس دور کے لوگوں کے عام رد عمل کا اظہار ہے۔

17مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ:

علامہ اقبال کے کلام نظم و نثر، ان کے مکتوبات اور مضامین میں حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کا ذکر کئی جگہ آتا ہے۔ ایک تو صوفیانہ افکار کے سلسلے میں علامہ کا نقطہ نظر وحدت الوجود کی بجائے وحدت شہود کی طرف جھکا ہوا ہے جو حضرت مجدد کا بھی مسلک ہے۔ دوسرے حضرت مجدد الف ثانی نے اپنے دور میں بر عظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ میں راسخ الاعتقادی کی تحریک کا آغاز کیا اور اسے تقویت بخشی۔ دراصل بر عظیم میں مسلمانوں کے آنے کے بعد قدرتی طور پر نہ صرف یہاں کی تہذیب اور رسم و رواج، یہاں کی زبانوں اور ان کے شعر و ادب نے مسلمانوں کو متاثر کیا بلکہ یہاں کے مذہبی یا نیم مذہبی افکار و خیالات، توہمات، دیو مالا اور خرافیات نے بھی مسلمانوں کے خیالات میں راہ پائی، یہاں تک کہ عہد اکبری میں اس فتنہ عظیم نے یہ یہ صورت اختیار کی جو اکبر کے دین الٰہی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ بعض مورخین (مثلاً ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (بر عظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ ص174) کا خیال ہے کہ نوجوانی کے زمانے میں اکبر راسخ العقیدہ مسلمان تھا لیکن ایک تو اس وجہ سے کہ اس کی شادی ایک راجپوت راجکماری کے ساتھ ہوئی تھی اور قدرتی طور پر اکبر اور جہانگیر کے علاوہ محل اور دربار سے متعلق دوسرے لوگوں میں ہندوؤں کی طرف میلان اور جھکاؤ بڑھ گیا۔ دوسرے سیاسی مصلحتوں کی بناء پر بھی اکبر اور جہانگیر ایسا رویہ اختیار کرنا سیاسی اور ملکی مصلحت کے خلاف سمجھتے تھے جس سے ان کی مسلم نوازی یا اسلام پرستی کا تاثر پیدا ہو بد قسمتی سے بعض علماء کے آپس کے اختلافات اور مناظروں نے اکبر میں اس طبقہ کے خلاف بے اعتمادی بلکہ نفرت کے جذبات پیدا کر دیے اور ان لوگوں کو اس کے مزاج میں دخیل ہونے کا موقع ملا جو صرف موقع پرست تھے۔ شیخ مبارک نے وہ مشہور فتویٰ تیار کیا جس کو بعض حضرات اکبر کو ’’ مبرا عن الخطا‘‘ قرار دینے کی دستاویز کہتے ہیں اور بعض صرف یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر بادشاہ عوام کی بھلائی کے لیے کوئی حکم دیتا ہے تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس کی تعمیل کریں۔ بعض اس پر یہ اضافہ کرتے ہیں کہ شرط یہ ہے کہ وہ حکم آیات قرآنی کے مطابق ہو۔ اگر یہ واقعہ ہوتا تو شیخ عبد النبی اور مخدوم الملک کو اس مجلس، جہاں یہ فتویٰ تیار ہوا، جبراً نہ لایا جاتا اور زبردستی ان سے دستخط کرانے کی ضرورت کیوں پیش آتی۔ یہ صورت حال ملا عبد القادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں لکھی ہے۔ یہ اس انجام کا آغاز تھا کہ اسلام کو دین اسلام مجازی و تقلیدی کہہ کر ترک کیا گیا اور دین بادشاہ کو قبول کیا گیا۔ ملا عبد القادر نے اس ترک دین کے عہد کے یہ الفاظ لکھے ہیں :

’’ من کہ فلاں ابن فلاں باشم بطوع و رغبت و شوق قلبی از دین اسلام مجازی و تقلیدی کہ از پدران دیدہ و شنیدہ بودم ابرا و تبرا نمودم و مراتب اخلاص چارگانہ کہ ترک مال و جان و ناموس و دین باشد قبول کردم۔‘‘

اکبر کے زمانہ میں ہی اس رجحان کے خلاف رد عمل شروع ہو گیا تھا۔ چنانچہ شاہزادہ دارا شکوہ کی ناکامی کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا۔ جہانگیر کو اگرچہ بعض مورخین نے شرابی، عیش پرست اور عاشق مزاج شاہزادے کی حیثیت سے پیش کیا ہے لیکن تزک جہانگیری سے جو اس کی تصویر ابھرتی ہے، وہ اس سے مختلف ہے۔ اور اسی جہانگیر کے دور میں راسخ الاعتقادی کا احیاء ہوا اور اس تحریک کے ایک نمایاں علمبردار حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ہیں۔

شیخ احمد (رحمۃ اللہ علیہ) کی پیدائش 971ھ 1562-63ء میں سرہند میں ہوئی۔ ان کے والد شیخ عبد الاحد تھے، جو ایک مشہور عالم و فاضل بزرگ تھے اور اس عہد کے ایک مشہور صوفی بزرگ شیخ عبد القدس گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) کے مرید تھے، گنگوہی خود سلسلہ چشتیہ صابریہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ہدایت پر شیخ عبد الاحد پہلے ’’ تکمیل علوم دین و شریعت‘‘ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس کے بعد سلسلہ سلوک کی منازل شیخ عبد القدوس گنگوہی کے صاحبزادے رکن الدین نے طے کرائیں۔ شیخ احمد نے اپنی ابتدائی تعلیم اور بیشتر علوم کی تکمیل اپنے والد سے کی، اس کے علاوہ اس عہد کے بعض دوسرے فاضل اساتذہ سے کسب فیض کیا، جن میں صوفی شاہ کمال کشمیری، شیخ یعقوب کشمیری، قاضی بہلول بدخشانی وغیرہ شامل ہیں۔ شاہ کمال (رحمۃ اللہ علیہ) نے ہی انہیں سلسلہ قادریہ کی تربیت دی اور ان کے والد نے بھی انہیں اپنا مرید اور خلیفہ بنا کر مرید کرنے کی اجازت دی۔ ان کے سوانح نگاروں کا بیان ہے کہ سترہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی تھی اور تصوف کے مراحل تیزی سے طے کر رہے تھے۔ اس کے بعد وہ خواجہ باقی باللہ دہلوی کے زیر ہدایت سلسلہ نقشبندیہ میں شریک ہوئے، اور باقی زندگی بر عظیم میں مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ اور ان کے دینی افکار و اعمال کی اصلاح کے لیے وقف کر دی، اور تبلیغ کی طرف متوجہ ہوئے۔ بعض مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں جہانگیر نے انہیں 1618ء میں قید کر دیا اور اگلے سال وہ رہا ہوئے۔ گوالیار کے قید خانے سے رہا ہونے کے بعد وہ کچھ عرصہ جہانگیر کے ساتھ رہے اور جہانگیر نے ان کے بارے میں اپنی رائے بدل دی۔ حضرت شیخ احمد سرہندی کا انتقال 1022ھ مطابق 29نومبر1664ء کو ہوا۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ان کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں (ملت اسلامیہ محولہ بالا ص192):

’’ شیخ احمد سرہندی پر اس ضرورت کا انکشاف صوفیانہ کیفیت ہی کے ذریعے ہوا۔ اس زمانے میں اونچے سے اونچے درجے کی جو تعلیم حاصل کی جا سکتی تھی شیخ احمد اس سے مستفید ہوتے تھے۔ ان کی تصانیف سے نہ صرف دینیات بلکہ فلسفہ کا بھی نہایت عمیق فہم ظاہر ہوتا ہے۔ وہ صوفیہ کی تصانیف سے پوری طرح واقف تھے اور ہر دعوے کی جانچ پڑتال بڑی صفائی کے ساتھ کر سکتے تھے، مگر ان کا تبلیغی مقصد ان کے نظری علم پر مبنی نہیں تھا۔ا ن کے تیقنات کا سب سے زیادہ عجیب عنصر یہ ہے کہ ان میں سے اہم ترین تیقن یعنی وحدت الوجود کا رد انہیں اپنی انتہائی خواہش کے برخلاف حاصل ہوا تھا۔ یہ تیقن اور اپنے تبلیغی مقصد کا احساس دونوں ان کی واردات قلب پر یکساں مبنی تھے۔‘‘

اس مختصر سے جائزہ سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال کو حضرت مجدد الف ثانی سے جو عقیدت تھی وہ اسی بناء پر تھی کہ ان کے تجربات صرف نظری علم پر مبنی نہ تھے، ان کی اساس خبر تھی اور اسی سے یقین یا تیقن کی وہ منزل نصیب ہوئی تھی جو عقیدہ اور نظریہ کی اساس ہوتی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی وحدت شہود کے قائل تھے جس کی اعلیٰ ترین منزل کو انہوں نے عبدیت بتایا ہے۔ ایک طرح یہ اس وحدت الوجود کا رد تھا جسے علامہ اقبال تصوف کا غیر اسلامی عنصر سمجھتے تھے اور جو مسلمانوں میں غیر اسلامی ماخذ سے داخل ہوا تھا اور جس کے لازمی نتیجہ کے طور پر نفی خودی کے فلسفہ کو مسلمانوں میں فروغ ہوا اور ان کی قوت عمل مفلوج ہو کر رہ گئی، اس طرح حضرت مجدد الف ثانی کی تحریک اسلام اور مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کی تحریک تھی جسے حضرت مجدد اور ان کے معتقدین نے پروان چڑھایا۔ حضرت مجدد کے نظریہ توحید کی ایک عالمانہ تفصیل اور تجزیہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے مقالہ مجدد کا نظریہ توحید، میں مل سکتی ہے۔ خود ان کے مکتوبات سے ان کے مسلک پر روشنی پڑتی ہے۔ اس کے کئی اڈیشن نکل چکے ہیں۔ مجدد الف ثانی کے سلسلے میں ڈاکٹر قریشی لکھتے ہیں :’’ وہ ہستی جس نے تاریخ اسلام کے دوسرے ہزار سالہ عہد کے آغاز میں اسلامی تعلیمات کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک کر کے اصلی رنگ میں دوبارہ جاری کیا۔ بر عظیم میں راسخ العقیدہ مسلمانوں کے راہ نما مفکرین نے ان کی اس حیثیت کو بہ اتفاق رائے تسلیم کیا ہے۔‘‘

18رسالہ تذکیر و تانیث:

غالباً ضامن علی جلال لکھنوی کا ’’ رسالہ تذکیر و تانیث‘‘ ہے جس کا نام مفید الشعرا بھی ہے۔ اس رسالہ کے دوسرے ایڈیشن میں جو1340ھ میں مطبع مجیدی کانپور سے شائع ہوا تھا، جلال دیباچہ میں فرماتے ہیں کہ ’’ رسالہ کارآمد شعر بحث تذکیر و تانیث میں 1293ھ میں طبع ہوا تھا، وہ ناقص و نا تمام اور نہایت غلط چھپا تھا۔‘‘ چنانچہ انہوں نے اس کی شعر تکمیل و تصحیح کر کے دوسرا ایڈیشن مفید الشعرا کے نام سے شائع کیا اور نواب کلب علی خاں والی رام پور سے اس کا انتساب کیا۔ بقول جلال ’’ یہ رسالہ ایک مقدمہ اور چند فائدوں اور چند فصلوں پر بنا پاتا ہے۔‘‘

دوسرے ایڈیشن کا جو نسخہ پیش نظر ہے وہ 1363ھ کا مطبع مجیدی کانپور کا چھپا ہوا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک کہ رسالے کی پہلی تصنیف کو تقریباً ستر سال ہو چکے تھے اس کے نسخے برابر شائع ہو رہے تھے اور ان کی مانگ تھی۔ سبب اس کا یہ ہے کہ اردو میں جنس غیر حقیقی کا مسئلہ نہایت اہم ہے۔ جاندار اشیاء میں جنس حقیقی ہوتی ہے کہ مذکر ہوتی ہیں یا مونث، لیکن بے جان اشیاء اور صفات اصلاً نہ مذکر ہوتی ہیں اور نہ مونث لیکن اہل زبان ان میں سے بعض کو مذکر اور بعض کو مونث استعمال کرتے ہیں۔ یہ صورت حال اردو سے مخصوص نہیں، دنیا کی بعض اور زبانوں مثلاً فرانسیسی میں بھی یہی صورت ہے۔ جنس حقیقی رکھنے والی اشیاء کو جلال نے ’’ ذوی العقول‘‘ بتایا ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے بعض کی تذکیر و تانیث پر اساتذہ میں اتفاق ہے اور بعض میں اختلاف ہے۔ انہوں نے ان سب کی ایک فہرست دی ہے اور چند کلیے بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہر کلیہ میں مستثنیات ہیں بلکہ حد یہ ہے کہ ایک ہی استاد کے یہاں ایک ہی اسم مذکر اور مونث دونوں طرح موجود ہے۔ مرزا غالب سے منسوب ایک لطیفہ سے بھی اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ کسی نے پوچھا رتھ مذکر ہے یا مونث؟ فرمایا: مرد سوار ہوں تو مذکر اور عورتیں سوار ہوں تو مونث۔ اس گفتگو سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ رسالہ تذکیر و تانیث کو حوالہ کے لیے قریب ہی رکھتے تھے اور علی بخش بھی اس سے اتنے واقف تھے کہ علامہ کے ارشاد پر فوراً حاضر کر دیتے تھے۔ ضرورت اس کی شاید اس لیے ہوتی ہو گی کہ اس زمانے میں بعض افراد اور بعض حلقوں سے علامہ کے کلام پر جو اعتراضات ہوتے تھے ان میں ایک پہلو کا تعلق صرف شعر کی زبان و بیان سے تھا، بعض تراکیب پر، بعض الفاظ کی تذکیر و تانیث پر، بعض محاوروں پر۔ علامہ کو کبھی یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ ان کا شعر لفظی صناعی کا نمونہ ہے اور اس میں ویسی مرصع کاری ہے جس کا دعویٰ آتش کے کلام میں ملتا ہے۔ رہا حضرات لکھنو کا کسی لفظ کو مذکر یا مونث بولنا یا کسی خاص محاورے کا کوئی خاص انداز تو بعض اکابر جو لکھنو میں رہنے کے باوجود خود کو لکھنوی نہیں کہتے اور اپنے محاورہ اور انداز گفتگو پر چاہے وہ آئیاں جائیاں ہی کیوں نہ ہو فخر کرتے تھے، آخر میں انیس کہ ان کے آباء کی تین پیڑھیاں فیض آباد اور لکھنو میں گزر چکی تھیں فرماتے تھے:

جلدی میں گو جوانوں نے چوٹیں بچائیاں

اور جگہ کو جاگہہ بولتے تھے اور کہتے تھے۔ ’’ حضرات یہ میرے گھر کی زبان ہے، حضرات لکھنو اس طرح نہیں بولتے۔‘‘

علامہ اقبال بہ ہر حال اس روایت کا احترام کرتے ہیں اور ضامن علی جلال لکھنوی کی سند کو تسلیم کرتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شعرائے لکھنو میں ضامن علی جلال صرف شاعر نہیں تھے بلکہ زبان، محاورہ اور قواعد کی تحقیق سے بھی دلچسپی رکھتے تھے اور مجموعہ ہائے کلام کے علاوہ ان کی لسانی تصانیف میں حسب ذیل شامل ہیں :

1سرمایہ زبان اردو، جس میں اردو کے محاورات ہیں۔

2افادۂ تاریخ، فن تاریخ گوئی پر۔

3منتخب القواعد، مفرد اور مرکب الفاظ کی تحقیق میں

4 تنقیح اللغات، اردو لغت

5گلشن فیض، اردو لغات

*بحوالہ لکھنو کا دبستان شاعری، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، طبع سوم1967ء

6دستور الفصحاء، فن عروض میں۔

7مفید الشعرا، رسالہ تذکیر و تانیث جس کا اوپر ذکر ہوا۔

ضامن علی کے حالات زندگی مختصراً یہ ہیں : والد کا نام حکیم اصغر علی تھا اور خاندانی پیشہ طبابت تھا۔ لیکن اصغر علی نے داستان گوئی میں بڑا نام پیدا کیا جو اس زمانے میں لکھنو میں بجائے خود ایک بڑا فن تھا جسے لکھنو کے با کمالوں نے معراج کمال کو پہنچایا۔ اسی داستان گوئی کے سلسلے میں اصغر علی نواب یوسف علی خان والی رامپور (ممدوح مرزا غالب) کی خدمت میں پہنچے۔ لیکن جلال کی پیدائش لکھنو میں 1250ھ مطابق1834ء میں ہوئی۔ فارسی کی درسی کتابیں پڑھیں اور عربی میں بھی بہ قدر ضرورت استعداد پیدا کی۔ اپنا آبائی پیشہ طبابت بھی ترک نہیں کیا اور بعد کی زندگی میں اسے کسب معاش کے لیے اختیار بھی کیا۔ 1857ء سے قبل لکھنو میں شاعری کی جو محفل آراستہ تھی اس میں جلال بھی شریک ہوئے، رشک (میر علی اوسط) شیخ امام بخش ناسخ کے شاگرد تھے اور اپنے استاد کی تحریک اصلاح زبان کو آگے بڑھانے میں بڑے سرگرم تھے۔ جلال رشک کے شاگرد امیر علی خاں ہلال سے اصلاح لینے گئے اور ان کے واسطے سے رشک تک رسائی ہوئی۔ ایک عرصہ تک رشک ان کا کلام دیکھتے رہے۔ پھر برق سے بھی اصلاح لی۔برق1856ء میں واجد علی شاہ کے ساتھ مٹیا برج چلے گئے۔ جلال کا عرصہ تک دربار رامپور سے تعلق رہا۔ نازک مزاج ایسے تھے کہ کئی مرتبہ ملازمت ترک کر دی لیکن نواب صاحب رامپور کی قدر دانی سے نواب کلب علی خاں کے دور تک بہ سلسلہ قائم رہا۔ آخر زمانہ میں کاٹھیا واڑ کی ریاست منگرول کے رئیس نواب حسین میاں نے ان کو بلا لیا لیکن صحت خراب ہونے کی بناء پر جلال لکھنو واپس چلے آئے اور 1909ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح جلال کی شاعری کا دور آخر علامہ کے کلام کا دور اول 1901ء تا 1905ء اور، دور دوم (1905تا 1908ء) ہے۔

19اکتوبر1937ء کا مسلم لیگ کا لکھنو کا اجلال بڑی تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ چودھری خلیق الزمان جو ان حالات اور واقعات کے ایک عینی شاہد ہیں، اس کی تفصیلات اپنی خود نوشہ سوانح عمری شاہراہ پاکستان میں بیان کرتے ہیں۔ اس بیان کے بعض اقتباسات یہاں پیش کئے جاتے ہیں :

’’ مسلم لیگ کی قوت میں دن دو نا رات چوگنا اضافہ ہو رہا تھا اور صوبہ کے عوام اب بے طرح جاگ پڑے تھے۔ تقریباً تمام شہروں، قصبوں اور ضلعوں میں مسلم لیگ کی شاخیں ابھر چکی تھیں جن کے بنانے میں کسی نام کا دخل کم اور لوکل جذبات کا عمل دخل زیادہ تھا۔۔۔ بہر صورت یہ حال دیکھ کر میں نے طے کیا کہ اب ایک مسلم کانفرنس مسلم لیگ کی قیادت میں لکھنو میں منعقد کی جائے جس کے لیے راجہ محمود آباد نے تمام ذمہ داری اخراجات کی اپنے سر لے لی اور ہم نے اس جلسہ کی صدارت کے لیے مسٹر جناح کو دعوت دے دی۔۔۔۔۔ مسٹر جناح13 اکتوبر کو بمبئی سے شام کی گاڑی سے پہنچے جہاں ان کے استقبال کے لیے ہزار ہا مسلمان کھڑے ہوئے تھے۔ جس شان سے ان کا استقبال کیا گیا اسی شان سے ان کا جلوس بھی نکالا گیا۔۔۔ سر سکندر حیات خان اور مسٹر فضل الحق بھی دوسرے دن پہنچ گئے اور ان کے علاوہ تمام صوبوں کے زعما اس تعداد میں لکھنو آ گئے کہ ہمارے لیے ان سب کا انتظام کرنا بھی بہت دشوار ہو گیا۔ اتنا بڑا اجتماع اس سے پہلے مسلمانوں کا کبھی نہیں ہوا تھا۔‘‘

14اکتوبر1937ء کو مسلم لیگ کونسل کا پہلا اجلاس محمود آباد ہاؤس میں ہوا اور اس میں وہ مشہور معاہدہ ہوا جو سکندر جناح پیکٹ کے نام سے مشہور ہے۔ سر سکندر حیات خان کی تجویز تھی کہ یونینسٹ پارٹی کے سب ممبران مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں مگر پنجاب کے خصوصی معاملات کے لیے یونینسٹ پارٹی کو قائم رکھا جائے اور مسلم لیگ اس میں مداخلت نہ کرے۔

اس سلسلے میں علامہ اقبال کی دلچسپی کا اندازہ ان خطوط سے ہوتا ہے جو انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھے ہیں۔ (اردو ترجمہ کے لیے دیکھیے اقبال نامہ حصہ دوم مرتبہ شیخ عطاء اللہ ناشر شیخ محمد اشرف لاہور1951ء) اس معاہدہ کے متعلق علامہ کے رد عمل کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے (بحوالہ اقبال نامہ محولہ بالا ص31 و بعد)

بصیغہ راز

لاہور

10نومبر1937ء

مائی ڈیر مسٹر جناح

سر سکندر اور ان کے دوستوں سے متعدد گفتگوؤں کے بعد اب میری قطعی رائے ہے کہ سر سکندر لیگ اور پارلیمنٹری بورڈ پر اپنا پورا پورا قبضہ چاہتے ہیں۔ آپ کے ساتھ ان کے معاہدہ میں یہ مذکور ہے کہ پارلیمنٹری بورڈ کی تشکیل از سر نو عمل میں آئے گی اور یونینسٹوں کو بورڈ میں اکثریت حاصل ہو گی۔ سر سکندر کہتے ہیں کہ آپ نے بورڈ میں ان کی اکثریت تسلیم کر لی تھی، میں نے چند دن ہوئے آپ سے دریافت کیا تھا کہ آیا آپ نے فی الواقعہ پارلیمنٹری بورڈ میں یونینسٹ اکثریت منظور کر لی تھی، ابھی تک جواب کا انتظار ہے۔ ذاتی طور پر میں سر سکندر کو وہ اکثریت دینے کا مخالف نہیں جس کے وہ طالب ہیں۔ لیکن عہدہ داران لیگ میں رد و بدل کا مطالبہ یقیناً منشائے معاہدہ سے تجاوز کرنا ہے۔ بالخصوص موجودہ معتمد (جنہوں نے لیگ کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ) کی علیحدگی کا مطالبہ معقولیت سے دور ہے۔ سر سکندر یہ بھی چاہتے ہیں کہ لیگ کی مالیات پر بھی ان ہی کا آدمی مسلط ہو۔ مجھے تو اس تمام کھیل کا مقصد لیگ پر پہلے قبضہ جمانا اور پھر اس کا جنازہ نکال دینے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ صوبے کی رائے سے آگاہی رکھتے ہوئے میں لیگ کو سر سکندر اور ان کے دوستوں کے حوالے کر دینے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ اس معاہدہ نے پہلے ہی صوبہ میں لیگ کے وقار کو صدمہ پہنچایا ہے اور یونینسٹوں کی چالیں اسے اور بھی چرکے لگائیں گی۔ انہوں نے اب تک لیگ کے مسلک پر دستخط نہیں کیے اور میں سمجھتا ہوں نہ ہی وہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لیگ کا اجلاس لاہور میں فروری کی بجائے اپریل میں منعقد ہو۔ میرے خیال میں وہ اپنی زمیندارہ لیگ کے قیام و استحکام کے لیے اس طرح مہلت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً آپ کو علم ہو گا کہ لکھنو سے واپسی پر سر سکندر نے ایک زمیندارہ لیگ کی بنا ڈالی تھی جس کی شاخیں اب صوبہ بھر میں قائم کی جا رہی ہیں۔ از راہ کرم مجھے مطلع فرمائیے کہ اندریں حالات ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اول تو بذریعہ تار اپنی رائے سے مطلع فرمائے وگرنہ اولین فرصت میں پوری تفصیل سے تحریر فرمائیے۔ مخلص اقبال

20مذکورہ بالا حاشیہ سے اور نیز اقبال جناح مکتوبات، علامہ کے دیگر بیانات، تقاریر، مضامین و مقالات سے اور بعض اشعار میں بھی ان کی سیاسی سرگرمیوں کا سراغ ملتا ہے۔ اگرچہ ان پر بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ عملی انسان نہ تھے اور از راہ کسر نفسی انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ میں عملی آدمی نہیں تاہم اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ وہ محض باتیں کرنے والے شخص تھے۔ مسلم لیگ کے ہی سلسلے میں ان کی جدوجہد کا اندازہ اس سے لگائیے کہ الہ آباد میں 1930ء میں اپنے تاریخی خطبہ سے اپنی وفات سے چند ماہ پہلے تک وہ اس تحریک سے پوری طرح وابستہ رہے۔ ظاہر ہے پنجاب میں لیگ کی صدارت کی ذمہ داری پھولوں کی سیج نہ تھی خصوصاً اس پس منظر میں جس کا کچھ اندازہ سابقہ حاشیہ سے ہوتا ہے۔ تقسیم ہند کی ضرورت کا جس شدت سے علامہ کو احساس تھا اس کے بے شمار حوالے ہیں۔ قائد اعظم کو ایک خط میں (21جون 1937ء ) لکھتے ہیں :

’’ آپ کی بے پناہ مصروفیت سے آگاہی رکھنے کے باوجود آپ کو اکثر لکھتے رہنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ اس وقت مسلمانوں کو اس طوفان بلا میں جو شمال مغربی ہندوستان اور شاید ملک کے گوشے گوشے سے اٹھنے والا ہے صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے رہنمائی کی توقع ہے۔‘‘

انہوں نے دوسری اور تیسری گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔

21 یہ بیان پھر ایک مرتبہ اہم ہے کہ اس میں علامہ قوم اور زبان کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ پاکستانی قومیت اور مشترکہ کلچر کی نمائندہ اور ترجمان ایک ’’ مشترکہ زبان ہے‘‘ علامہ کے افکار و نظریات میں رجائیت اور یقین کا جو عنصر تھا اس کی بناء پر آپ کو جس قدر یقین اس بات کا تھا کہ یہ قوم کسی کے مٹانے سے مٹ نہیں سکتی اسی طرح یہ بھی یقین تھا کہ یہ زبان یعنی اردو کسی کے مٹانے سے نہیں مٹے گی۔ اردو کو اپنی تاریخ میں بہت سے محاذوں پر بہت سے حریفوں کا مقابلہ کرنا پڑا ہے۔

22۔ یہ بیشک درست ہے کہ علامہ کے کلام کے اردو اور فارسی مجموعوں کی اشاعت کی تعداد اتنی نہیں جتنی مغربی ممالک میں ان سے بہت کم تر درجہ کی کتابوں کی ہوتی ہے۔ اس کے اسباب بہت سے ہیں۔ غالباً سب سے اہم جہالت ہے۔ جس ملک میں خواندگی کا معیار یہ ہو جو ہمارے یہاں ہے وہاں لاکھوں نسخوں کو پڑھنے والے کہاں سے آئیں۔ دوسرا سبب جو اسی جہالت کا نتیجہ ہے شعور کی کمی ہے۔ ایسی شاعری جس میں زبان کا چٹخارہ بھی ہو اور پھر جس کو سمجھنے اور لطف اندوز ہونے کے لیے ایک خاص سطح کی ذہنی بلندی بھی درکار ہو اس کا دائرہ اشاعت قدرتی طور پر محدود ہی ہو گا۔ تیسرا سبب جو ان دو کا نتیجہ ہے کتابوں کی اشاعت کم ہونے کی وجہ سے ان کی قیمت کا گراں ہوتا ہے۔ اگر کتاب کے صرف ہزار دو ہزار نسخے شائع ہوں تو قیمت یقیناً زیادہ ہو گی، لاکھوں کی تعداد میں چھپے تو قیمت کم ہو گی۔ افلاس نے اس مسئلہ کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔ جس شخص کو پیٹ بھرنے کے لیے روٹی، تن ڈھکنے کے لیے کپڑا، اور سر چھپانے کے لیے چھت میسر نہ ہو وہ دیوان غالب یا بانگ درا کہاں سے خریدے گا۔ علامہ کو خود اس کا احساس تھا چنانچہ اس گفتگو میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے۔

علامہ کی مختلف کتابوں کے کل کتنے ایڈیشن شائع ہوئے اور ان کی جملہ مطبوعات کی کل تعداد اشاعت کتنی ہے، اس کا اندازہ کچھ اس فہرست سے ہوتا ہے جو روزگار فقیر (ص216-215) میں دی گئی ہے:

1 اسرار خودی 1915تا1959 6اڈیشن 13,000

2 پیام مشرق 1923تا1958 9 18,000

3 بانگ درا 1924تا1926 21 1,14,000

4 زبور عجم 1927تا1959 7 16,400

5 جاوید نامہ 1932تا1959 4 6000

6 بال جبریل 1935تا1962 12 62,000

7 پس چہ باید کرد 1936تا1959 4 11,000

8 ضرب کلیم 1936تا1959 10 43,000

9 ارمغان حجاز 1938تا1959 7 22,000/ 3,05,400

اس میں 1962ء کے بعد شائع ہونے والے ایڈیشن بھی شامل کر لیجئے تو بھی کل تعداد چار لاکھ تک نہ پہنچے گی۔ 1915ء سے 1977ء تک کے طویل عرصے میں جو باسٹھ سال پر محیط ہے اور جس میں قیام پاکستان عمل میں آیا اور علامہ کے مطالعہ سے دلچسپی کے سامان بہم پہنچے اور اس کی تاریخی، تہذیبی، فکری اور فنی اہمیت پر بہت کچھ لکھا گیا، اس کے بعد یہ تعداد ہے۔ اس میں بھی سب سے زیادہ اردو کے مجموعے اور بالخصوص بانگ درا ہے۔ اس تجزیہ سے اس افسوسناک حقیقت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ علامہ نے فارسی کو اس لیے اختیار کیا تھا کہ ایک وسیع تر ذریعہ ابلاغ تھا لیکن فارسی میں شائع ہونے والی تصانیف کی تعداد بہت کم ہے اور اس طرح وہ مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا اسی لیے اب فارسی کے تمام مجموعوں کو یکے بعد دیگرے ترجموں کے ذریعے سے پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور بعض ان میں سے شائع بھی ہو چکے ہیں۔

23علامہ کے پیغام اور ان کی تصانیف بالخصوص فارسی تصانیف اسرار خودی، رموز بے خودی اور پیام مشرق کے خطاب کے سلسلے میں علامہ’’ وسط ایشیا کے قلب‘‘ (Heart of Central Asia) کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس وسط ایشیاء کے قلب پر ایک پپڑی (Crust) جم گئی ہے، میں اسے توڑنا چاہتا ہوں۔ وسط ایشیاء دراصل ملت اسلامیہ کی تہذیب کا وہ علاقہ ہے جو روس اور روسی ترکستان سے شروع ہو کر ترکی، ایران، عراق، افغانستان ہوتا ہوا بر عظیم پاک و ہند تک پھیلا ہوا ہے اور جو تہذیبی اور فکری اعتبار سے ایک اکائی ہے۔ اس تہذیبی اور فکری احساس کے مشترک عناصر ایک سے زیادہ ہیں۔ مثلاً فارسی زبان اور اس کا شعر و ادب جو اس پورے علاقے کا ایک تہذیبی سرمایہ ہے اور جس کے ایک علمبردار اور نمایاں ترجمان مولانا جلال الدین رومی ہیں۔ یہ مشترک عناصر اس وسیع علاقے میں فن تعمیر کے علاوہ دیگر فنون لطیفہ اور بہت سے مشترک رسوم و رواج میں بھی جھلکتے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ یہی تہذیب تھی جو برعظیم کے مسلمان فرمانروا بالخصوص مغل وسط ایشیا سے لے کر آئے تھے اور اس کا سلسلہ اس ملک تک پہنچایا تھا اور مسلمانوں کی سلطنت کے قیام کے بعد بھی ان کے تہذیبی، ذہنی اور سیاسی رشتے ایران و افغانستان سے لے کر ترکی تک پھیلے ہوئے تھے اور برابر ان کی تجدید ہوتی رہتی تھی۔ اس لیے اس علاقے کی بیداری پر علامہ اقبال کی خاص توجہ تھی۔

24لاہور کی شاہی مسجد جس کے سایہ میں علامہ اقبال کی آخری آرام گاہ ہے، برصغیر میں مسلمانوں کے عروج و زوال کی زندہ جاوید شہادت ہے۔ سادہ لیکن پر شکوہ، مسجد قرطبہ کی طرح جس کو علامہ نے اپنی مشہور نظم کا موضوع بنایا ہے۔ یہ مسجد حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کی یاد دلاتی ہے جن کو علامہ نے

ترکش ما را خدنگ آخریں

کہا تھا اور سلطانی میں درویشی کا جو تصور اقبال کے مرد مومن میں نظر آتا ہے اورنگ زیب رحمۃ اللہ علیہ اس کی زندہ تفسیر تھے۔ اس مسجد کے سامنے لاہور کا مشہور شاہی قلعہ ہے جو مغلوں کے دور عروج کی داستان یاد دلاتا ہے اور جو دور زوال میں سکھوں کے قبضے میں رہا اور جس کے آثار اب بھی جا بجا اس قلعے میں مخمل میں ٹاٹ کا پیوند بن کر نظر آتے ہیں۔ اس طرح مسجد اور قلعہ کے درمیان علامہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ مزار کی تعمیرات کی تفصیلات علامہ کے تذکرہ نگاروں نے لکھی ہیں (مثلاً روزگار فقیر ص252) ان سے پتہ چلتا ہے کہ 1946ء میں مزار کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا اور1954ء میں تکمیل کو پہنچا اور اس وقت کے حساب سے تقریباً ایک لاکھ روپے صرف ہوئے۔ نقشہ حیدر آباد دکن کے ممتاز ماہر تعمیرات نواب زین یار جنگ نے تیار کیا تھا۔ مزار کے تعویذ اور کتبے کے لیے حکومت افغانستان نے نہایت قیمتی پتھر Lapis/Lazuli فراہم کیا جو شفاف پتھر کی نہایت اعلیٰ اور قیمتی قسم ہے۔ مزار کے محل وقوع اور تعمیر سے علامہ کی اس آرزو کی تکمیل ہوتی ہے:

کوکبم را دیدۂ بیدار بخش

مرقدے در سایہ دیوار بخش

لاہور کی یہ بادشاہی مسجد بھی بر عظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان کی ایک عمارت ہے۔ قلعہ لاہور کے اکبری دروازے کے سامنے مغرب کی سمت یہ مسجد پندرہ فٹ بلند ایک چبوترے پر تعمیر کی گئی ہے۔ قلعہ اور مسجد کے درمیان حضوری باغ اور رنجیت سنگھ کی بارہ دری ہے۔ یہ مسجد ابو الظفر محی الدین محمد عالمگیر اورنگ زیب نے 1084ہجری مطابق 1673ء میں تیار کرائی تھی اور اس وقت اس پر چھ لاکھ روپے صرف ہوئے تھے۔ مسجد کے اخراجات کے لیے اورنگ زیب نے ملتان کا خراج وقف کر دیا تھا۔ اس کا عالیشان دروازہ سنگ رخام اور سنگ مر مر سے بنا ہے۔ سکھوں نے اپنی حکومت کے دور آخر میں مسجد کے صحن کو بطور اصطبل استعمال کیا اور یہ اس صوبہ میں ہوا جہاں مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت تھی۔ فاعتبروا یا اولی الابصار! اس زمانے میں مسلمانوں پر اس مسجد کا داخلہ بند تھا۔ 1856ء میں حکومت ہند نے مسجد مسلمانوں کو واگزار کی مگر اس حالت میں کہ جگہ جگہ سے فرش اکھڑ چکے تھے، دیواریں منہدم ہو رہی تھیں۔ مختلف اوقات میں مسجد کی مرمت اور بحالی کی کوششیں ہوئیں اور قیام پاکستان کے بعد 1961ء میں اس مرمت کی تکمیل ہوئی۔ پہلے مسجد کی دیکھ بھال انجمن اسلامیہ پنجاب کرتی تھی اور اب صوبائی محکمہ اوقاف کی نگرانی میں ہے۔ لاہور کی یہ مسجد وسعت کے لحاظ سے دنیا میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس میں ستر ہزار سے زیادہ بندگان خدا بہ یک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد میں چند نادر تبرکات بھی محفوظ ہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سبز عمامہ بھی ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قرآن پاک کا ایک سیپارہ بھی۔

کہا جاتا ہے کہ 1911ء میں طرابلس کے مسلمانوں پر اٹلی کی یورش سے متاثر ہو کر ایک نظم ’’حضور رسالتمآب میں ‘‘ لکھی تھی*جس کا پہلا بند یہ ہے:

گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامہ زمانہ ہوا

جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا

قیود شام و سحر میں بسر تو کی لیکن

نظام کہنہ عالم سے آشنا نہ ہوا

فرشتے بزم رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو

حضور آیہ رحمت میں لے گئے مجھ کو

اور اسی کا آخری بند ہے:

حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی

مگر، میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں

جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی

جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں

یہ نظم علامہ اقبال نے 1911ء میں اسی مسجد کے صحن میں اشکبار آنکھوں سے سنائی تھی اور سننے والوں کو بھی رلایا تھا۔د ور جدید میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں عالم اسلامی کے نامور فرزندوں نے اس مسجد میں ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی جو علامہ اقبال کے ملت اسلامیہ کے اتفاق و اتحاد کے خواب کی طرف ایک قدم تھا۔

25۔ اس مقالہ کے مضمون نگار میاں بشیر احمد، جسٹس شاہ دین کے صاحبزادے، لاہور کے اکابر میں ایک ممتاز شخصیت تھے۔ رسالہ ہمایوں انہوں نے جسٹس شاہ دین ہمایوں کی یاد میں نکالا تھا۔ اسے لاہور میں مخزن کا جانشین اور اس تحریک کا ثمر سمجھا جاتا ہے۔ ہمایوں اعلیٰ درجے کے ادبی مذاق کی تسکین کا ایک ذریعہ تھا اور اس میں شائع ہونے والے مضامین نظم و نثر کا ایک اعلیٰ اخلاقی اور تہذیبی معیار اور مزاج تھا۔ ہمایوں نے اپنی طویل مدت اشاعت میں اردو کے ادبی رسالوں کے لیے ایک نمونہ اور ایک روایت قائم کی۔ میاں بشیر احمد ایک درد مند دل رکھنے والے سچے مسلمان تھے جنہیں اسلام اور ملت اسلامیہ اور بالخصوص بر عظیم کے مسلمانوں کے معاملات اور مسائل سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ خود اور ان کے خاندان کے دوسرے بزرگ سیاسی اور سماجی تحریکات میں پیش پیش رہتے تھے۔ اردو کے عاشق تھے اور پنجاب میں اردو کے معاملات کے بارے میں مولوی عبد الحق صاحب انہیں سے مشورہ کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ تک ترکیہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے اور دونوں ملکوں کو قریب تر لانے میں سعی و کوشش کرتے رہے۔ علامہ اقبال کے عقیدت مند ہیں اور ان کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے۔ اردو کے عاشق تھے اور اس حد تک کہ ایک عرصہ تک علامہ اقبال کا فارسی کلام پڑھا ہی نہیں اور شکوہ کیا کہ آپ فارسی میں کیوں لکھتے ہیں۔ سچے پاکستانی تھے۔ علاقائی یا لسانی تعصب سے بالاتر، شرافت اور تہذیب کا مجسمہ۔ میر کے اس شعر کی تفسیر وہی تھے:

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے

٭٭٭

ماخذ:

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/2153.txt

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید