FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اقبال ایک پیغمبر کی حیثیت سے

 

 

 

               ممتاز حسن

 

 

ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال

مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، وحید اختر عشرت

 

 

 

 

 

اقبال کا کلام مجموعی طور پر یکساں نہیں ہے۔ اپنے ابتدائی اور آخری دور میں عموماً اور درمیان کے زمانے میں کہیں کہیں ، اقبال ایک شاعرِ محض یا ایک فلسفی محض کی حیثیت سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔ مثلاً یہ شعر:

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

جس کا مضمون ایک فلسفیانہ احساس ہے۔ یا یہ شعر:

اگر کاوی درونم را خیالِ خویش را یابی

پریشاں جلوۂ چوں ماہتاب اندر بیابانے

جو ایک شاعرانہ کیفیت کا اظہار ہے۔

کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اقبال کا سارا کلام ان معنوں میں ’’ پیغمبری‘‘ ہے جو ہم نے لیے ہیں۔ میں نے صرف یہی کہا ہے کہ اقبال کی اولین اور اہم ترین حیثیت ایک پیغمبر کی ہے، اور لوگ اس حیثیت کو سمجھنے سے عموماً قاصر رہتے ہیں۔ اقبال نے خود کہا ہے:

بہ خامۂ کہ خط زندگی رقم زدہ است

نوشتہ اند پیامے بہ برگِ رنگینم

جو لوگ نکتہ رس نہیں ہیں وہ اس ’’برگِ رنگیں ‘‘کی رنگینیوں میں محو ہو جاتے ہیں اور اس پیغام کو، جو خامہ قدرت نے اس پر لکھ رکھا ہے، نظر انداز کر دیتے ہیں ؛ یعنی ’’الفاظ کی خوبصورتی‘‘ اور ’’ترکیبوں کی چستی‘‘ سے بحث کرتے ہیں اور اصل مقصد کو نہیں سمجھتے، ہندوستان ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے اور اقبال ان کے ہاتھوں نالاں ہے۔ پیامِ مشرق کی افتتاحی مثنوی کے وہ شعر جو :

آشنائے من زمن بیگانہ رفت

از خمستانم تہی پیمانہ رفت

سے شروع ہوتے ہیں ، اسی درد ناک حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ، اقبال کو اپنی تنہائی کا احساس زیادہ تر انھی نافہمیوں ، کج فہمیوں اور غلط فہمیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ چنانچہ اس نے ’اسرارِ خودی‘ کے خاتمے پر ایک ہمدم کے لیے دعا بھی کی ہے:

 

خواہم از لطفِ تو یارے ہمدمے

از رموزِ فطرتِ من محرمے

تا بجانِ او سپارم ہوے خویش

بازبینم درِ دل او روے خویش

 

اقبال کی پیغمبرانہ حیثیت واضح کرنے کے بعد اس کے پیغام کی توضیح ضروری ہے۔ مگر اس سے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا بہتر ہو گا کہ اقبال کن چیزوں کی حمایت اور کن چیزوں کی مخالفت کے لیے آیا ہے ؟ اقبال نے چند باتوں کے خلاف اپنی پوری قوت سے جہاد کیا ہے، اور میرے ذہن میں کوئی صورت حالات ایسی پیدا نہیں ہو سکتی جو اسے ان کے موافق بنا سکے۔ اقبال سب سے پہلے سکون و جمود کا مخالف ہے۔ سکون و جمود ہی ایک ایسی چیز ہے جو افراد اور قوم کے لیے خود کشی کے معنی رکھتی ہے۔ زندگی ایک میدانِ کارزار ہے، پھولوں کی کیاری نہیں۔ یہاں جو شخص جدوجہد سے گھبرایا، اس کی ہستی اور موت برابر ہے:

درین رباط کہن چشم عافیت داری؟

ترا بہ کشمکشِ زندگی نگاہے نیست

(پیام مشرق)

ایشیائی تہذیب کے دور حاضر کو مجموعی حیثیت سے دیکھا جائے تواس کی تاریخ ذہنی اور روحانی سکون و جمود کی ایک لمبی نیند نظر آئے گی جو جمال الدین افغانی کے وقت تک باقی تھی اور جس کے اثرات  اب بھی مشرق پر غالب ہیں۔ اس کی وجہ آب و ہوا نہیں ہے، کیونکہ آخر اسی ایشیا سے تاتاری اور عرب اٹھے تھے۔ اس کی وجہ  ایشیائی فلسفہ اور ایشیائی شاعری ہے جس نے ہر ایک ایشیائی فرد کے لیے سکون و جمود کو ایک نصب العین کی حیثیت سے قائم کر دیا ہے۔ صوفیوں نے غالباً ویدانت کے فلسفے سے متاثر ہو کر ’’فنا فی اللہ‘‘ کا تصور باندھ رکھا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی انفرادی اور شخصی حیثیت کسی اور شخصیت میں جذب ہو جائے تاکہ وہ زندگی کی کاوشوں اور گوناگوں ذمّہ داریوں سے سبکدوش ہو سکے۔

سکون اور جمود کا نصب العین بہت عام ہے۔ حافظ، عمر خیام اور ٹیگور (اس شاعر نے اس تخیل کو پوری جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے) اسی کے دل دادہ ہیں۔ یہ سب تسکین کی تلاش میں ہیں اور دنیا چونکہ عرصۂ جدوجہد ہے اس لیے اس سے بیزار ہیں اور ایک نئی دنیا کے خواب دیکھتے ہیں ، جہاں سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق ہو اور جہاں کی زندگی محض تن آسانی کی ایک داستان ہو۔ ایسی دنیا سب سے پہلے افلاطون نے (جو مشرقی تخیلات کا مورث اول ہے) تیار کی تھی۔ اس کے ’’نظریہ‘‘ ’’مثُل‘‘ کا ماحصل یہ ہے کہ یہ دنیا، جس میں ہم رہتے ہیں ، ایک اور دنیا کا جواس سے بدرجہا زیادہ مکمل اور دلآویز ہے، دھندلا سا خاکہ ہے۔ حسن، حقیقت اور انصاف جو اس دنیا میں ایک ادھوری صورت میں پائے جاتے ہیں ، وہاں اپنی اصلی حقیقت میں جلوہ گر ہیں۔ اور جو تکالیف روح کو جستجوئے حقیقت میں یہاں پیش آتی ہیں وہاں وہ ان سب سے آزاد ہے۔ افلاطون نے اپنی تصانیف میں اس موہوم سی دنیا کا اپنی پوری شاعرانہ قوت سے نقشہ کھینچا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس زندگی کے ہنگامے سے مخلصی پا کر وہ ایک سکون کی دنیا میں جا پہنچے اور اس کی فضا میں جذب ہو جائے۔ اقبال کی تعلیم افلاطون کی تعلیم کے برعکس ہے۔ و ہ اس دُنیا کی زندگی کو حقیقت سمجھتا ہے اور اس کے مصائب اور شدائد کو انسان کی قوت اور سیرت کے اظہار کے لیے ضروری سمجھتا ہے:

ز قید صیدِ نہنگاں حکایتے آور

مگو کہ زورقِ ما روشناسِ دریا نیست

(پیامِ مشرق)

اقبال نے ٹیگور کی طرح اپنی تعلیم کو مبہم نہیں رکھا بلکہ واضح ترین انداز میں پیش کیا ہے۔ چنانچہ اسی سلسلے میں کہا ہے :ع

اگر خواہی حیات اندر خطر زی

یا

بہ کیشِ زندہ دلاں زندگی جفا طلبی است

سفر بہ کعبہ نکردم کہ راہِ بے خطر است

اقبال سے پہلے غالب نے بھی سکون و جمود کے تباہ کن تصور کے خلاف احتجاج کیا ہے:

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق

نوحہء غم ہی سہی، نغمہء شادی نہ سہی

دوسری چیز جس سے اقبال کو قطعی دشمنی ہے، وہ گمان و شک ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ سرزمین مشرق مختلف مذاہب کا گہوارہ اور یقین و ایمان کا سرچشمہ ہونے کے باوجود ہر قسم کے شکوک کا منبع رہی ہے۔ اور آج کل تو مغرب کی طرف سے شکوک کا جو سیلاب مشرق پر اُمنڈ آیا ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ نئی نئی ایجادات، سائنس کی حیرت انگیز معلومات، جنگِ عظیم کی ہولناک واردات، سرمایہ و محنت کا جھگڑا اور روس کا سیاسی اور تمدّنی انقلاب ان شکوک کے اسباب میں سے ہیں۔ حالات کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ ہمیں ان پر پوری طرح غور کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ البتہ ہمارے پچھلے خیالات ضرور تہ و بالا ہو جاتے ہیں۔ آج کل مغرب میں خدا، روح، مادہ، حکومت، دولت، ازدواج وغیرہ کسی چیز کے متعلق بھی کوئی عام عقیدہ قائم نہیں ہے۔ پچھلے عقائد فنا ہو چکے ہیں ، یا ہو رہے ہیں ، اور ان کی جگہ نئے عقائد قائم ہوتے نظر نہیں آتے ڈیکارٹ دور حاضر کا اولین فلسفی شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے فلسفے کی ابتدا یوں ہوئی کہ اسے اپنے وجود پر شک پیدا ہوا۔ مجھے ایسے لوگوں سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے جو اپنی ہستی کے منکر ہیں۔ میں اپنے ایک ہندو دوست کو جو اپنی بود و نبود میں شک رکھتے ہیں ، آج تک ان کی ہستی کا یقین نہیں دلا سکا۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ تحصیل علم کے لیے شکوک کا ہونا لازم ہے۔ مگر یہ شکوک اگر مادی دنیا تک محدود رہیں تو مفید ہو سکتے ہیں ، یعنی انسان ان کی وجہ سے مادی حقائق کی تحقیق کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اگر یہ شکوک اس غیر مادی دنیا تک پہنچ جائیں جس کا تعلق مذہب کے اصولوں سے ہے تو سوائے اس کے کہ ان سے اور شکوک پیدا ہوں ، اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ شکوک صرف انھی چیزوں کے متعلق ہونے چاہئیں جن کے متعلق رفع بھی ہو سکیں ، جیسے مادی حقائق۔ مثلاً اگر کسی شخص کو ستاروں کے متعلق کسی شک کو رفع کرنا ہو تو وہ دوربین کی مدد سے ایسا کر سکتا ہے۔ مگر خدا کی ہستی کے متعلق جو شکوک بھی ہوں گے وہ دوربین یا کسی اور ذریعہ تحقیق کے احاطہ امداد سے باہر ہوں گے۔

مزید براں علمِ زندگی کی انتہا نہیں ، عمل کا درجہ اس سے بالاتر ہے، یعنی انسانوں کی اجتماعی زندگی میں کسی واقعے کا پیدا کرنا بہتر ہے کسی واقعے کے متعلق تحقیق کرنے سے۔ اقبال نے علم و عمل اور شک و یقین کے باہمی تعلق کو کیا خوب بیان کیا ہے:

ہمائے علم تا اُفتد بدامست

یقیں کم کن گرفتارِ شکے باش

عمل خواہی؟ یقیں را پختہ ترکن

یکے بین و یکے جوے و یکے باش

اقبال ہر قسم کے شکوک سے (خصوصاً ان شکوک سے جو حصولِ علم کے لیے مفید ہیں ) شناسا ہے۔ اس کی ابتدائی نظمیں بھی اس بات کی گواہ ہیں۔ مثلاً

 

جلوۂ حُسن کہ ہے جس سے تمنا بے تاب

پالتا ہے جسے آغوشِ تخیل میں شباب

 

آہ وہ حسن زمانے میں کہیں ہے کہ نہیں ؟

خاتمِ دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں

 

مگر دیکھو یہی اقبال عقل اور یقین کا مقابلہ کس طرح کرتا ہے:

 

بہ پیچ و تاب خرد گرچہ لذتِ دگر است

یقین سادہ دلاں بہ ز نکتہ ہائے دقیق

 

پھر کہا ہے اور کس جوش و خروش سے کہا ہے:

من آں علم و فراست با پرِ کاہے نمی گیرم

کہ از تیغ و سپر بیگانہ سازد مردِ غازی را

 

اقبال کا بار بار یہی تقاضا ہے کہ ہم عقلی شکوک سے نجات حاصل کر کے یقیں پیدا کریں۔ انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ عناصر زندگی کی تسخیر کرے۔ اور عقلی شکو ک ہمیں کچھ بھی کرنے نہیں دیتے۔

اگر ہم اقبال کو محض فلسفی کی حیثیت سے دیکھیں تو ہمیں برگساں کے فلسفے کی طرح اس کے فلسفے کی بنا بھی غیر عقلی نظر آئے گی۔ خدا، روح، مادہ وغیرہ کی نسبت اقبال کا جواب بھی وہی ہے جو جرمنی کے سب سے بڑے فلسفی امانول کانٹ کا تھا۔ یعنی یہ کہ عقل ان کے متعلق کسی قسم کا قطعی فیصلہ دینے سے قاصر ہے۔ نہ ہم خدا کی ہستی کو عقلی وجوہ سے ثابت کر سکتے ہیں ، نہ عقلی دلائل سے اس کا انکار کر سکتے ہیں مگر اس کی ہستی کے متعلق یقین رکھنا ہماری دنیاوی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے، اور یہی حال زندگی کے تمام اہم ترین مسائل کا ہے۔ قرآن شریف میں ایک آیت ہے کہ یسئلونک عن الروح کل الروح من امر ربی، یعنی لوگ تجھ سے روح کے متعلق دریافت کرتے ہیں ، تو کہہ دے کہ روح میرے خدا کے حکم سے ہے اور فقط۔ رسولِ کریمؐ نے بھی ایسے ایسے دور از کار مسائل کے متعلق سوچتے رہنے سے منع کیا ہے۔ حقیقت میں کامیاب زندگی وہی ہے جس کی بُنیاد یقین اور ایمان پر ہو۔ جہادِ زندگانی میں مردوں کی شمشیریں یہی ہیں۔ صوفیا اکثر ’’عینِ حقیقت‘‘ کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہیں کہ حقیقت وہی ہے جس پر ہمارا ایمان ہو۔ حوّا کے کسی فرزند نے آج تک حقیقت کو بے نقاب نہیں دیکھا:

کہ چوں بجلوہ در آئی حجاب من نظر است

دنیا کا سب سے بڑا عارف خود کہہ گیا ہے کہ ’’ماعرفناک حق معرفتک‘‘ ہم نے تجھے ویسے نہیں پہچانا جیسے پہچاننا چاہیے تھا۔

اقبال غلامی کا دشمن ہے،خواہ  وہ ذہنی غلامی ہو یا تمدنی غلامی یا سیاسی غلامی۔ اقبال لفظ ’’مسلم‘‘ کو ’’مردِ آزاد‘‘ کا ہم معنی سمجھتا ہے اور یہی اس لفظ کا صحیح مفہوم ہے۔ اسلام ہی دنیا کا ایک ایسا مذہب اور ایک ایسی تحریک ہے جس نے دنیا کو غلامی سے آزاد کرایا ہے۔ اس نے بت پرستی کی مخالفت کی اور بنی نوعِ انسان کی نگاہ کو محسوسات کے محدود حلقے سے بلند کر دیا۔ اس نے قیصر و کسریٰ کے جور و استبداد کا خاتمہ کر کے انسان کی سیاسی غلامی کو مٹایا۔ زکوٰۃ دینے کا سبق سکھا کر سرمایہ داری (جو استعمار اور جوع الارض کی ماں ہے) کا مقابلہ کیا۔ خدا کے سامنے سب کو ایک کر دیا۔ عورتوں کے حقوق (جن کی اسلام سے پہلے کوئی ہستی نہ تھی) مقرر کیے، حتیٰ کہ ان کو جائداد کی ملکیت کا حق بھی دے دیا۔ جو لوگ جسمانی طور  پر غلام تھے ان کے مالکوں کو ان کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کا حکم دیا اور اُن کو آزاد کرنے کی ترغیب دی۔ اسلام غلامی کاہر حیثیت سے دشمن ہے۔ مسلمان وہی ہے جس کا دل، دماغ، روح اور جسم آزاد ہو۔ ایک خدا کی پرستش کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی ماسوا سے بے نیاز ہو جائے:

ہرکہ پیماں باہو الموجود بست

گردنش از بندِ ہر معبود رست

(رموز بے خودی)

اقبال یاس، حزن اور خوف کا دشمن ہے۔ یہ تینوں چیزیں آج کل ہوا اور پانی سے بھی زیادہ عام ہیں اور مشرق و مغرب کی تہذیب کا حصہ بن چکی ہیں۔ اگر آپ کسی مسلمان سے ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق گفتگو کریں اور پوچھیں کہ ’’کیا ان کی حالت کبھی بہتر ہو گی؟‘‘ تو نوے فیصدی جواب نفی میں ملیں گے۔ اور یہ اس لیے نہیں کہ ان لوگوں نے حالات کا مطالعہ کیا ہے یا خدانخواستہ انھیں زندگی کا کچھ تجربہ ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ طبعاً مایوس واقع ہوئے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو چھوڑیے، اگر آپ آج دنیا کے کسی گوشے میں یہ سوال کریں کہ زندگی اچھی ہے یا موت’ تو عام رائے موت کے حق میں ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل تمام دنیا میں خود کشی ایک عام چیز ہے۔ اقبال یاس کا دشمن ہے کیونکہ یاس زندگی کی مخالف ہے اور امید زندگی کا سہارا:  ع

چراغِ راہِ حیات است جلوہ امید

یاس انسانی روح کا ایک مرض ہے۔ یہ مرض ہر ایک روح کو کبھی کبھی لا حق ہوا کرتا ہے، مگر وہ روحیں جو طبعاً تندرست ہوں ، اس کے اثر میں دیر تک نہیں رہتیں۔ اگر یہی سوال کہ زندگی بہترہے یا موت گوئٹے یا سعدی یا سولھویں صدی کے مشہور بت تراش بن ونوٹوسلینی سے کیا جاتا تو گوئٹے خاموش رہتا، شیخ سعدی کھلکھلا کر ہنس دیتے اور سلینی تو یقیناً سوال کرنے والے کا کچومر نکال دیتا۔

یاس کی طرح حزن اور خوف بھی افراد اور اقوام کے لیے بہت بڑی بیماریاں ہیں۔ یہ قوتِ عمل کو تباہ کرتی ہیں اور روح کو کمزور کر دیتی ہیں۔ اقبال نے اِن میں سے ہر ایک کو اُم الخبائث کہا ہے اور ان کا علاج بھی بتایا ہے جو ان سب کا واحد علاج ہے  ــــــ توحید پر ایمان۔

اقبال مادیت کا دشمن ہے۔ زندگی کی معلومات کو سطحی نظر سے دیکھنا، سائنس کے واقعات کے علاوہ اور سب حقائق کو نظرانداز کر دینا اور جسمانی آرام و آسائش پر قانع ہو جانا مادہ پرستی ہے۔ میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ ابلیس کیا چیز ہے؟ تو اقبال نے جواب دیا کہ ابلیس مادیت ہے اور انسان کے ساتھ اس کی ازلی جنگ ہے۔ مادیت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی روح کے اعلیٰ مقاصد کو نظرانداز کر دے اور انسانی روح یہ چاہتی ہے کہ مادیت کو تسخیر کر کے اس سے بلند ہو جائے۔ اقبال مادہ پرستی کا دشمن ہے اور اسی لیے تہذیبِ مغرب کا بھی، کیونکہ تہذیب مغرب محض مادہ  پرستی کا دوسرا نام ہے۔ اقبال نے مغرب میں جا کر اس تہذیب کا اپنی آنکھوں سے بغور معائنہ کیا اور اس خود غرضی،تنگ نظری سنگدلی اور لہو و لعب کو دیکھ کر، جو سرمایہ داری کے اصول اور اس تمدن کے بنیادی پتھر ہیں ، یہ رائے قائم کی ہے کہ:

 

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا

جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے

 

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

 

اقبال جرمنی کے مشہور محقق آسوالڈ سپنگلر کی طرح اس تہذیب کے خاتمے کا منتظر ہے۔ مگر دونوں کے نقطہ نظر میں فرق ہے۔ سپنگلر کا نظریہ ہے کہ ہر تہذیب اور تمدّن کی مثال ایک درخت کی سی ہے۔ جس طرح درخت کے لیے اُگنا، بڑھنا، پھولنا پھلنا اور آخر میں خشک ہو کر گر پڑنا لازم ہے، اسی طرح ہر ایک تہذیب اور تمدن کے لیے ابتدا، عروج، تنزل اور خاتمہ لابّدی ہے۔ سپنگلر کا خیال ہے کہ مغرب کی موجودہ تہذیب کے عروج کا زمانہ گزر چکا ہے اور اب اس کا دورِ تنزل اسے خاتمے کی طرف لیے جا رہا ہے،اور یہ سب تقدیر کے اٹل اصولوں کے ماتحت ہو رہا ہے۔ برعکس اس کے اقبال کے کلام کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ سپنگلر کے خیال سے متفق نہیں۔ اقبال کا اعتقاد ہے کہ ایسی تہذیب جس کی بنیاد اسلام کے اُصول ہوں ، کبھی فنا نہیں ہو سکتی۔ تہذیبِ مغرب کی بنیاد چونکہ صرف عقل اور عقل کی خام کاریوں پر ہے اور اس کی عظمت کی عمارت نوعِ انسان کے گوشت اور خون سے بنی ہوئی ہے، اس لیے اقبال کے نزدیک اسے بقا نہیں ہو سکتی اور وہ اُس کے خاتمے کا منتظر ہے۔

ایک اور چیز جو دورِ حاضر سے مخصوص ہے، ملت سے فرد کی بے پروائی اور علیٰحدگی ہے۔ آج کل ہر انسان علیٰحدگی چاہتا ہے۔ عورتیں اپنی اقتصادی آزادی سے متاثر ہو کر اور روحانی آزادی کا نام لے کر سب پابندیاں توڑنا چاہتی ہیں۔ مرد بظاہر کشت و خون سے بیزار ہو کر اور ایک بین الاقوامی صلح کانام لے کر اور باطن میں جد و جہد اور سعیِ پیہم سے تھک کر سوسائٹی سے علیٰحدہ ہونا چاہتے ہیں مشرق میں تو صوفیوں ، درویشوں ، رشیوں اور مہاتماؤں کی مہربانی سے، جو فرداً فرداً اپنی روح کی خیر مناتے دنیا سے چلے گئے، سوسائٹی کا صحیح تخیل، جو اسلام نے پیش کیا تھا، قائم نہیں رہ سکا۔ مغرب میں بھی اب یہ وبا زندگی کی اندرونی گہرائیوں تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت تک حالات  اس وبا پر قابو پاتے رہے ہیں۔ جنگِ عظیم میں مختلف قوموں کو اپنا اندرونی نظم ونسق مضبوط کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ جنگ کے بعد یہ نظم نسق بگڑ گیا، مگرروس کے سیاسی اور تمدنی خطرے کی وجہ سے اب پھر سنبھل گیا ہے۔ مگر مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ زمانہ موجودہ میں انسانی طبائع کا اصلی میلان علیٰحدگی کی طرف ہے۔ اگر بولشوزم کے پروگرام پر ایک نظر ڈالی جائے تو ان کا بھی منتہائے نظر قریب قریب یہی نظر آئے گا۔ بولشویکوں کے اپنے قول کے مطابق ان کے مختارانِ مطلق، یعنی ڈکٹیٹروں کی حکومت صرف اس وقت تک ہے جب تک دنیا مجموعی حیثیت سے ان کے خیالات سے متاثر نہیں ہوتی۔ اس کے بعد ہر قسم کی حکومت اور ہر قسم کے آئین کا دور ختم ہو جائے گا، اور امید کی جاتی ہے کہ انسان اپنی فطرت پر اور دوسرے انسانوں کی فطرت پر اعتماد کر لیا کرے گا۔ ایسا زمانہ آئے یا نہ آئے، کم از کم اقبال اس کے آنے کے خلاف ضرور ہے۔ اس کے خیال کے مطابق فرد کا ملت سے وابستہ رہنا لازم ہے۔ اقبال کسی فرد من حیث الفرد کی روحانی یا سیاسی نجات کا قائل نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ رُسولِ عربیؐ  کو ہر زمانے کے اور ہر قسم کے پیغمبروں پر اسی لیے فضلیت ہے کہ اور سب قیامت کے دن ’’نفسی نفسی‘‘ کہیں گے مگر آپؐ کی زبان پر ’’امتّی امتّی‘‘ ہو گا۔

اب میں اقبال کے پیغام کی طرف توجہ کرنا چاہتا ہوں ، مگر قبل اس کے کہ ’اسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بے خودی‘ کے مضمون پر غور کیا جائے، بہتر ہو گا کہ دو تین باتوں کو اچھی طرح مدّ نظر رکھ لیا جائے، کیونکہ ان کے بغیر اقبال کا سمجھنا نا ممکن ہے:

اول :اقبال کے لیے زندگی ایک اچھی چیز ہے۔

دوم : یہ دنیا اور اس کے رنج و الم انسانی روح کی ترقی کے لیے بہت سودمند ہیں۔

سوم :زندگی عمل کا نام ہے۔

چہارم:زندگی کے لیے تین چیزیں لازم ہیں ؛ آرزو ، کوشش اور امید، اور تینوں کی تینوں نہایت ضروری ہیں۔

اقبال کا پیغام، تما م و کمال،اسرارو رموز،میں محفوظ ہے۔ ان دونوں مثنویوں کی اشاعت کے بعد اقبال نے جو کچھ لکھا ہے، اسی پیغام کو دہرانے کے لیے لکھا ہے،اور اسے ہزاروں ہی طرح دہرایا ہے۔ اس پیغام کے دو حصے ہیں ؛ ایک تو اس سوال کا جواب ہے کہ فرد کو خود کیا ہونا چاہیے؟ اور دوسرا اس سوال کا جواب کہ فرد کی ملت کی طرف کیا ذمہ داریاں ہیں ؟

اقبال فرد کے لیے استحکامِ خودی چاہتا ہے،یعنی یہ کہ انسان خود نگر،خودشناس اور خود گر ہو۔ تمام کائنات اور کائنات کے تمام اجزا کا وجود خودی ہی کی وجہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک چیز کو دوسری چیزسے تمیز کر لیتے ہیں۔ ایک درخت ہمیں ایک پتھر سے مختلف نظر آتا ہے، بلکہ ہم ایک پتّھر کوکِسی دوسرے پتھر سے بھی متمیز کر لیتے ہیں۔ یہ خودی کی ادنیٰ صورت ہے۔ جب خودی زندگی کے مختلف طبقوں سے گذر کر انسان کی صورت میں نمودار ہوتی ہے تواس کا وجود مکمل ہو جاتا ہے۔ انسان میں پہنچ کر خودی سمندر کی لہروں سے زیادہ بے قرار اور آگ کے شعلوں سے زیادہ بے تاب ہو جاتی ہے:

خیزد، انگیزد،پرد، تابد، رمد

سوزد، افروزد، کشد، میرد، دمد

خودی ہی کے دم سے زندگی اور زندگی کی قوتِ تسخیر ہے۔ خودی کے معنی ہیں اپنی فطرت پر برقرار رہنا اور اپنی ہستی کو محکم کرنا۔ جس کسی نے خودی کے اس سبق پر عمل کیا اس نے گویااپنے آپ میں تسخیر کی قوت پیدا کر لی۔ اقبال نے اس حقیقت کو چاند، زمین اور سورج کی مثال سے واضح کیا ہے۔ زمین کی ہستی چاند سے زیادہ محکم ہے، سو چاند زمین کے تابع ہے اور اس کے گرد گھومتا ہے۔ سورج کی ہستی زمین سے زیادہ محکم ہے، سو زمین اس کے تابع ہے اور اس کے گرد گھومتی ہے:

 

چوں زمیں برہستیِ خود محکم است

ماہ پابندِ طوافِ پیہم است

 

ہستیِ مہر از زمیں محکم تر است

پس زمیں مسحورِ چشمِ خاور است

 

خودی کے معنی سمجھنے کے بعد یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ ہم اس قیمتی چیز کو ضائع بھی کر سکتے  ہیں اور برقرار بھی رکھ سکتے ہیں۔ اس کا برقرار رکھنا حقیقی زندگی ہے اور اس کا ضائع کر دینا موت کے مترادف۔

خودی کی برقراری کے لیے مقاصد کا ہونا ضروری ہے اور مقاصد پست نہیں ہونے چاہیں۔ اقبال نے ہر جگہ بلند نظری پر زور دیا ہے۔ مثلاً ’طلوعِ اسلام‘ میں کہا ہے:

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کے گردِ راہ ہوں وہ کارواں توہے

یا ’زبورِ عجم‘  میں مقاصد کے لا انتہا ہونے کا پیغام دیا:

ز جوئے کہکشاں بگذر،زنیلِ آسماں بگذر

ز منزل دل بمیرد گرچہ باشد منزلِ ماھے

خودی عشق و محبت سے مضبوط ہوتی ہے اور سوال یا دوسروں کی دست نگری سے ضعیف ہو جاتی ہے۔ عشق و محبت کسی ایسی ہستی کے ساتھ ہونا چاہیے جو دنیا بھر کے انسانوں سے پاک تر اور محبوب تر ہو۔ ایسی ہستی رسول کریمؐ کی ہستی ہے جو ہزاروں جہانوں کے لیے مایہ رحمت اور دوست و دشمن کے لیے مرجع و ماویٰ ہے:

 

آنکہ بر اعدا درِ رحمت کشاد

مکہ را پیغامِ لا تثریب داد

 

طور موجے از غبار خانہ اش

کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش

 

روز محشر اعتبارِ ماست او

در جہاں ہم پردہ دارِ ماست او

 

خودی جب عشق و محبت سے محکم ہو جائے تو دنیا کی ظاہری اور باطنی قوتیں اس کی تابع ہو جاتی ہیں۔ ایک فقیرِ بے مایہ کے سامنے بڑے بڑے دبدبے والے سلاطین کانپ جاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی زندگی اس حقیقت کو بڑی اچھی طرح واضح کرتی ہے۔ اگر ان کے زمانے میں فارس اور روم اور شام اور مصر تسخیر ہوئے تو اس کی وجہ کیا تھی؟ محض ان کا عشقِ نبیؐ:

ہر کہ عشقِ مصطفی سامانِ اوست

بحر و بر در گوشہ دامانِ اوست

خودی کو اپنے استقرار واستحکام میں حیات ملی کے ساتھ وابستہ رہنے سے بہت مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ حیاتِ ملی کے قیام اور تسلسل کا بھی یہی ذریعہ ہے کہ ملت اپنی مخصوص روایات کو محفوظ رکھے۔ اقبال نے ان روایات کی حفاطت پر اتنا زور دیا ہے کہ ایک شیخ کی زبان سے ایک برہمن کو کہلوا دیا ہے کہ بتوں سے بیزار نہ ہو اور اپنے بڑوں کے طریقوں کو ہاتھ سے نہ دے:

 

من نگویم از بتاں بیزار شو

کافری، شائستہ زنار شو

 

اے امانت دارِ تہذیبِ کہن

پشت پا بر مسلک آبا مزن

 

گرز جمیعت حیاتِ مِلّت است

کفر ہم سرمایہ جمعیت است

 

خودی جب مضبوط اور محکم ہو جائے تو اس کی تربیت ضروری ہے۔ اس کے تین درجے ہیں ؟ پہلا درجہ اطاعت ہے، یعنی آئینِ الٰہی کی پابندی۔ آئینِ الٰہی کا مطلب اسلام کے قوانین سے ہے اور یہ قوانین سخت نہیں ہیں۔ اقبال نے اس حالت کو اُونٹ سے تشبیہ دی ہے، کیونکہ اُونٹ ایک محنت شعار اور بوجھ اٹھانے والا جانور ہے۔ دوسرا درجہ ضبطِ نفس ہے، یعنی یہ کہ اسلامی قوانین کی پابندی کے ذریعے سے انسان اپنے آپ پر قابو پا لے اور ہر ایک قسم کے جسمانی اور روحانی مصائب کے امتحان میں پورا اترنے کے قابل ہو جائے۔ جب یہ ہو جائے تو اس سے آگے تربیتِ خودی کا تیسرا درجہ ہے، یعنی نیابتِ الٰہی۔ نیابت الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ انسان زمین پر صحیح معنوں میں خداوند تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ بن کر رہے، اس حالت میں انسان ’’انسان کامل‘‘ کی حد پر پہنچ جاتا ہے، یا نطشا کی زبان میں ’’مافوق الانسان‘‘بن جاتا ہے۔ مگر جیسا کہ میں آگے چل کر ظاہر کروں گا، اقبال کے ’’انسانِ کامل ‘‘اور نطشا کے ’’مافوق الانسان‘‘میں بہت فرق ہے۔ اقبال کا ’’انسانِ کامل‘‘ یا دوسرے الفاظ میں مردِ مسلم گویا بنی نوعِانسان کے وجود کی غرض و غایت ہے:

نوعِ انساں مزرع و تو حاصلی

کاروانِ زندگی را منزلی

وقت ایک تلوار ہے اور یہ تلوار’’انسانِ کامل‘‘ یا مردِ مسلم کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ مسلم کا فرض ہے کہ وہ آئینِ الٰہی یعنی اسلام کی اشاعت کرے۔ اشاعت ہر ایک ممکن طریق سے ہونی چاہیے۔ جہاد بھی اشاعت کا ایک طریقہ ہے مگر جہاد کی تہہ میں ملک گیری کی ہوس ہو تو وہ جہاد جہاد نہیں ہے، خود غرضی کی جنگ ہے اور یہ حرام ہے۔ اقبال نے اس خود غرضی کی جنگ کو، جو ماکیافیلی فلسفہ کے بنیادی اصولوں میں سے ہے، بہت برا کہا ہے اور ضمناً ماکیافیلی کی بھی خبر لی ہے،کیونکہ آج کل دنیا میں جتنی مصیبتیں ہیں ، ان میں سے اسّی فیصدی کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار افراد یا غالب اقوام اِسی فلسفہ پر عامل ہیں۔

ایک اور شخص جو اقبال کی ملامت کا نشانہ بنا ہے، افلاطون ہے، جس کے خواب اور فلسفے کی طرف میں اشارہ کر چکا ہوں۔ میرے نزدیک افلاطون دنیا کے بہت بڑے مجرموں میں سے ہے کیونکہ اس کی تعلیم کا لُبِ لباب نفیِ خودی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خودی کی تباہی کا سبق اقوامِ غالب،اقوامِ مغلوب کو دیا کرتی ہیں ،جیسے مشنری لوگ، جو خود حکمران قوموں سے تعلق رکھتے ہیں ، ہندوستان یا اور غلام ملکوں میں جا کر عیسائیت کے تباہ کن اصولوں کی اشاعت کرتے ہیں اور اپنے ملکوں میں نہیں کرتے۔ مگر اقبال کو اس خیال سے اختلاف ہے۔ وہ نطشا کے اس خیال سے متفق ہے کہ نفیِ خودی کا سبق مغلوب قومیں غالب قوموں کو کمزور کرنے کے لیے دیا کرتی ہیں۔ چونکہ مردانہ اوصاف مثلاً جوش عمل، غیرت، حمیت، قربانی ان میں خود موجود نہیں ہوتے اس لیے وہ ان اوصاف کو دوسری قوموں کے ہاں بھی دیکھنا نہیں چاہتیں۔

یہاں تک تو خودی کا سبق تھا، اب اقبال کے پیغام کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے؛ فرد کو لازم ہے کہ اپنی خودی کی تکمیل اور تربیت کرے لیکن فرد اگر خودی کی حدود کے اندر رہے تو اس کی زندگی کامیاب نہیں ہوتی۔ فرد کا رابطہ ملت کے ساتھ نہایت ضروری ہے۔ اس کا وقار، اس کی عظمت، اس کا احترام ملت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملت کا تعلق فرد کو ہرقسم کی آلائشوں سے پاک رکھتا ہے، کیونکہ ملی روایات کا اثر بہت صحت بخش ہوتا ہے۔ چنانچہ رسولِ کریمؐ کا ارشاد ہے کہ شیطان جماعت سے دور رہتا ہے۔ یہاں ہم خودی کی منزل سے گزر کر بے خودی کی منزل میں آ پہنچتے ہیں :

 

در جماعت خود شکن گردد خودی

تا ز گلبرگے چمن گردد خودی

 

فرد می گیرد  زملت احترام

ملت از افراد می یابد نظام

 

فرد تا اندر جماعت گم شود

قطرۂ وسعت طلب قلزم شود

 

افراد کے ایک سلسلے میں منسلک ہو جانے کا نام ملت ہے۔ انسان طبعاً مدنی یا مجلسی واقع ہوا ہے مگر اس مجلسیت سے ملت پیدا نہیں ہوتی۔ ملت کا پیدا ہونا کسی عظیم الشان شخصیت کے اثر کا نتیجہ ہوا کرتا ہے، جو ذروں کو اٹھا کر آفتاب کر دے اور خاک کو اکسیر بنا دے۔ یہ شخصیت نبیؐ کی شخصیت ہے۔ ایک صاحبِ دل چند لوگوں کو افراد سے قوم بنا دیتا ہے اور ان کی نظر کو ایک نصب العین پر قائم کر دیتا ہے تاکہ وہ آوارگی سے آزاد ہو کر اپنے مدعائے حقیقی کی طرف متوجہ ہو:

 

بند ھا از پاکشاید بندہ را

از خداوندانی رباید بندہ را

 

گویدش تو بندۂ دیگر نہ ای

زیں بتانِ بے زباں کمتر نہ ای

 

تا سوے یک مدعایش می کشد

حلقہ آئین بہایش می کشد

 

ہر ایک ملت کے لیے اساسی اصولوں کا ہونا ضروری ہے۔ ملتِ اسلامیہ دو اصولوں پر قائم ہے۔ توحید اور رسالت۔ توحید انسان کو ماسوا سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ یاس، حزن اور خوف کا،جو سب روحانی امراض کی جڑ ہیں ، قلع و قمع کر دیتی ہے۔ اور رسالت کا مقصد انسان کو حریت، مساوات اور اخوت کے راستے پر چلانا ہے۔ جب رسول عربیؐ  کا ظہور ہوا تو دنیا بھر پر ذہنی، روحانی اور سیاسی غلامی چھائی ہوئی تھی۔ رسالت نے دنیا کو توہمات اور کفر و شرک سے آزاد کرایا، بندہ و آقا کا فرق مٹا دیا، انسان کو انسان کا بھائی بنا دیا، بتوں کو توڑ ڈالا، گویا انسانی روح کو انسانی استبداد سے آزاد کرا کے آئینِ الٰہیہ کا تابع بنا دیا۔ مساوات اسلامیہ کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت عمرؓ اپنے زمانۂ خلافت میں شام کو تشریف لے گئے ہیں تو ان کے اُونٹ کی سواری میں دو اور آدمیوں کا بھی حصہ تھا جن میں سے ایک ان کا اپنا غلام تھا۔ باری باری سے ایک آدمی سوار ہوتا اور باقی دونوں پیادہ چلتے۔ حریتِ اسلامیہ کی سب سے بڑی مثال حادثہ کربلا ہے۔ امام حسینؐ کی شہادت نے نہ صرف یہ واضح کیا کہ مسلمانوں کا خلیفہ مسلمانوں کا انتخاب کردہ ہونا چاہیے، اور نام و نسب کو اس انتخاب میں کچھ دخل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ دنیا کو اچھی طرح جتا دیا کہ ایک مسلمان فسق و فجور اور استبدادکی حکومت کو برداشت نہیں کر سکتا، اور یہ عینِ اسلام ہے۔ خواجہ معین الدین اجمیری نے کہا ہے:

سر داد و نداد دست در دستِ یزید

حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین

اقبال کہتا ہے:

 

رمزقرآں از حسین آموختیم

ز آتشِ او شعلہ ھا اندوختیم

 

شوکتِ شام وفرِ بغداد رفت

سطوتِ غرناطہ ہم از یادرفت

 

تارِما از زخمہ اش لرزاں ھنوز

تازہ از تکبیرِ او ایماں ھنوز

 

حریت، اخوت، مساوات اور توحید انسان کو ماسوا سے بیگانہ اور بلند کر دیتی ہیں اور چونکہ توحید ورسالت کا مقصد بنی نوع انسان کو ایک برادری میں منسلک کر دینا ہے اس لیے ملتِ اسلامیہ کے لیے ’’وطنیت‘‘ کا ماکیافیلی تصور کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ ملتِ اسلامیہ نہ وطن کی مکانی قید میں ہے، نہ عروج و زوال کی زمانی قید میں۔ حقیقت چونکہ ہمیشہ کے لیے حقیقت ہے اس لیے ملتِ اسلامیہ کو فنا نا ممکن ہے:

 

از اجل ایں قوم بے پرواستے

اُستوار ازنحن نزلناستے

 

ذکر قائم از قیامِ ذاکِر است

از دوامِ او دوامِ ذاکر است

 

حیاتِ ملیہ کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد آئین پر ہو۔ ملتِ اسلامیہ کے نظام کے لیے قرآن شریف آئین کا سرچشمہ ہے۔ اس آئین پر مضبوطی سے قائم رہنے کے لے ہر ایک فرد کی سیرتِ ملی یا اس کا قوم سے رابطہ مضبوط ہوتا ہے اور اطوار و آدابِ محمدیہؐ  کی پیروی کرنے سے ملت کے افراد کے درمیان حسن سلوک بڑھتا ہے۔ فرد کو قوم سے رابط مضبوط رکھنا چاہیے خصوصاً جب قوم پر انحطاط کا دور ہو تو اپنی مخصوص روایات کی پوری حفاظت کرنی چاہیے۔ کیونکہ اگر کوئی قوم اپنے انحطاط کے زمانے میں اپنی جمعیت  قائم رکھ سکے تو اس کے دن بہت جلد پھر جاتے ہیں اور اگر اس کی جمعیت پریشان ہو جائے تو پھر قوم کا خدا حافظ۔ گویا اقبال نے مسلمانوں کو صاف طور پر یہ بتلا دیا ہے کہ آج کل جب تم پر تنزل کا زمانہ ہے اگر یہودیوں کی طرح اپنے آبا کی روایات کو برقرار رکھو گے تو تمہاری ہستی برقرار رہے گی اور اگر اپنی اپنی جگہ اجتہاد کی ٹھانو گے تو تباہ ہو جاؤ گے۔

حیاتِ ملیہ کے لیے ایک مرکز محسوس ضروری ہے،اور ملتِاسلامیہ کے لیے یہ مرکز کعبہ ہے۔ کعبہ مسلمانوں کی پرستش کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ سب کے سب اس کے ذریعے سے جمع ہو سکیں اور ان میں یگانگت پیدا ہو۔ اقبال نے کعبے کو جسمِ انسانی سے تشبیہ دی ہے۔ جس طرح جسمِ انسانی زندگی کا ایک مرکزِ محسوس ہے، اسی طرح کعبہ ملّت اسلامی کی زندگی کا ایک محسوس نشان ہے۔ کعبے کا تعلق ملت کی ظاہری جمعیت سے ہے۔ حقیقی جمعیت اسی طرح حاصل ہوتی ہے کہ ملی نصب العین کو، جو رسالت کا پیش کردہ ہے، ملت کے پیش نظر رکھا جائے اور اس نصب العین کے لیے ملت کی تمام قوتیں وقف کر دی جائیں۔ ملت اسلامیہ کا نصب العین توحید کی اشاعت ہے۔ توحید کی اشاعت ہر مسلمان کا فرض ہے کیونکہ اس سے حیات ملی محکم ہوتی ہے اور ملت ماسوا سے جنگ کرنے کے قابل بنتی ہے۔ مسلمان صرف  توحید کے سامنے جھکتا ہے۔ ماسوا اس کی تسخیر کے لیے ہیں۔ مادے سے جنگ سب کچھ قربان کر دے۔ ماسوا سے بے نیاز ہو جا اور ایک ان دیکھے خدا کے ساتھ اپنا رشتہ الفت جوڑ لے:

عاشقی؟ توحید را بر دل زدن

وانگہے خود را بہ ہر مشکل زدن

(زبورِ عجم)

 

ہمایوں ، اکتوبر۱۹۳۱ء بہ حوالہ :اقبال معاصرین کی نظر میں۔

مرتبہ: پروفیسر وقار عظیم،مجلس ترقی ادب ،لاہور،۱۹۷۳ء۔

٭٭٭

تشکر: وسیع اللہ کھوکھر جن کےتوسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید