FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

عرضِ غلام

 

 

 

                   سید ارسلان علی زیدیؔ

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

انتساب

 

ہوا برائے نفس ہائے آسمان و زمیں

اے جائے امن و سکوں بہرِ دل فگار و حزیں

اے کاروانِ ولایت کے بارہویں سالار

اے قافلۂ ہدایت کے آخری سردار

ترا کرم ہے خدائے کریم کا مظہر

سوال کرتا ہوں دادی کا واسطہ دے کر

اٹھا کے لایا ہوں جھولی میں اپنی کچھ پتھر

تری نظر ہو تو بن جائیں سب یہ لعل و گہر

میں جانتا ہوں کہ یہ تیرے حسبِ شان نہیں

مگر مجھے ہے ترے لطفِ بے بہا پہ یقیں

مری سعی مری محنت وصول ہو جائے

تری جناب میں گر یہ قبول ہو جائے

کتابِ ہٰذا فقط تیرے نام ہے مولا

ترے حضور یہ "عرضِ غلام” ہے مولا

٭٭٭

 

 

 

 

بیاد استاد سبطِ جعفر(شہید) و قائدِ ماتمیان خان تصدق حسین خان(مرحوم)

 

 

مقتل تھا حائل ایک سرِ رہگزارِ عشق

مانگا خراج اس نے تو سر دے کے ہم چلے

دیکھا ہمیں تو بولے نکیرین "یا حسینؑ”

تربت میں ہم جو لے کے شہِؑ دیں کا غم چلے

 

 

 

 

 "عرضِ غلام”-ایک تعارف

 

"بے شک انسان کے لیے فخر و مباہات کا مقام ہے کہ وہ ان انوارِ اطہار کی مدح خوانی کر رہا ہو صاحبِ حمد جن کی مدح کرنے پر فخر کرے اور ان کے ذکر کو کبھی تورات، کبھی زبور، کبھی انجیل اور کبھی قرآن قرار دے ۔

ارسلان زیدیؔ نوجوان نسل کے عمدہ شاعر ہیں ۔ ان کے کلام میں ایک سرشاری اور تازگی محسوس ہوتی ہے ۔ دعا گو ہوں مولا امیرِ کائنات علی ابنِ ابی طالبؑ انھیں علم و معرفت کی مزید بلندیاں عطا فرمائیں۔”

حسنین اکبرؔ

 

 

 

حرفِ اوّل

 

نیاز مندِ انیسؔ و دبیرؔ و غالبؔ ہوں

میں مدح خوانِ علیؑ ابنِ ابی طالب ہوں

غالبؔ کی دل آویز شخصیت، یگانہ روزگار خیالات، انوکھی طرزِ گفتگو اور عشقِ علیؑ کے والہانہ جذبات سے متاثر ہو کر جب شاعری کو پڑھنا اور سمجھنا شروع کیا تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن یہ عاجز خود اپنی کتاب کا ابتدائیہ تحریر کر رہا ہو گا۔

 

"کتاب”۔۔۔ایک مختصر سا چار حرفی لفظ۔۔۔جس میں اسرار و رموز کی ایک نہیں کئی کہکشائیں پنہاں ہیں ۔ایک عجب پر اسرار دلکشی ہے اس لفظ میں ۔کتاب علم سے ایسے ہی جڑی ہے جیسے علیؑ توحید سے ۔۔کتاب سے علم ملتا ہے ۔۔علیؑ سے توحید۔علم علیؑ کا غلام، کتاب علم کی باندی۔ علیؑ سے محبت کا دعویدار طالبعلمی سے جدا نہیں ہو سکتا اور طالبعلمی کا رشتہ کبھی کتاب سے ٹوٹ نہیں سکتا۔ کتاب جو ” قرآن” بھی ہے اور ” نہج البلاغہ” بھی۔۔۔کتاب جو ” ابتدائی حساب” بھی ہے اور ” اردو کا قاعدہ” بھی۔یہ کُل عالمِ رنگ و بو بھی تو اک کتاب ہی ہے جس کو پڑھنے، پڑھ کے سمجھنے اور سمجھ کے تسخیر کرنے کا حکم دیا گیا۔

باب العلم علیؑ ابنِ ابی طالب کا ادنیٰ پیروکار ہونے کے ناطے آج یہ وقت میرے لیے باعث فخر و تسکین بھی ہے اور مقامِ سجدہِ شکر بھی کہ یہ حقیر اور نالائق طالبعلم خود ایک کتاب کا مصنف قرار پا رہا ہے ۔حقیقتاً یہ باب العلمؑ ہی کا احسان اور ذرہ نوازی ہے ۔

ایسا ممکن نہیں کہ اس موقع پر میں استاد سید سبطِؔ جعفر زیدی شہید کو یاد نہ کروں کہ جنہوں نے سب سے پہلے میری حوصلہ افزائی کی اور گویا میرے مصرعوں کو شاعری کی سند بخشی۔آج اگر وہ ہمارے درمیان ہوتے تو بلا شبہ اپنے شاگرد کی اس کاوش کو سراہتے اور بے حد خوش ہوتے ۔

قائدِ ماتمیان جناب خان تصدق حسین خان مرحوم کو کیسے فراموش کر سکتا ہوں کہ جنہوں نے ماتمِ حسینؑ سے دل میں عشقِ علیؑ کا وہ سورج روشن کیا کہ جس کی ایک کرن یہ کتاب بھی ہے ۔

بے حد ممنون ہوں جناب خالدؔ شریف صاحب کا کہ جنہوں نے نہ صرف بھرپور حوصلہ افزائی کی بلکہ وقتاً فوقتاً اپنی بیش قیمت اصلاح سے بھی نوازتے رہے ۔ یہ انھی کی داد اور امداد کا ثمر ہے کہ خود میں یہ جرات پائی کہ بکھرے ہوئے عریضوں کو سمیٹ کہ ایک مزین گلدستہ ترتیب دیا جائے جو بارگاہِ شاہِ نجف میں بعجز و نیاز پیش کیے جانے کے قابل ہو۔

حد درجہ شکر گزار ہوں جناب حسنینؔ اکبر صاحب کا کہ جنہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکال کے اس کتاب کو پڑھا اور خوبصورت تعارفی کلمات سے نوازا۔

آخر میں ملتمس ہوں تمام پڑھنے والوں سے کہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے ۔۔۔اور بہت زیادہ یاد رکھیے ۔

والسلام

سید ارسلان علی زیدیؔ

arslanzaidi04@yahoo.com

facebook.com/zaidi.saaz

facebook.com/arslan.zaidi14

 

 

 

 

 

ربِ علیؑ

 

 

 

اے خدائے وحدہٗ، اے لائقِ حمد و ثنا

تیرے دم سے کارِ ہستی، تجھ سے ہے ارض و سما

 

یہ نجومِ آسماں تیری جلالت پر گواہ

زیرِ خاکِ ارض کیڑے تیری رحمت کا پتا

سکتہِ کوہ و دمن میں بھی ہے تیری ہی خبر

تیرا ہی اعلان ہے شورِ سمندر میں بپا

دشت کے ذرے ہمیں دیتے ہیں تیری اطلاع

تیرا شہرہ کرتی پھرتی ہے گلستاں کی ہوا

روزِ روشن میں عیاں ہے تیری ذاتِ کردگار

اور شبِ تاریک میں بھی تیرا ہی سَرّ ہے چھپا

طورِ سینا کی تجلی میں کبھی ہے تو نہاں

اور کبھی معراج کے پردے میں ہے جلوہ نما

کوئی آنکھیں کھولتے ہی ہے ترا مدحت سرا

اور کوئی نوکِ سناں پر حمد میں ہے لب کشا

لازوال و بیکراں تیری حکومت تیرا ملک

تیرا تاج و تخت و مسند ہے مبرائے فنا

پختہ عقلوں میں سمائی نہ کبھی بھی تیری ذات

ہاں مگر ٹوٹے دلوں کی کرچیوں میں تو ملا

اس سے بڑھ کر تیری عظمت پہ دلالت نہ ملی

جس کو بندے رب کہیں تو اس علیؑ کا ہے خدا

تیرا چہرہ تیرا نفس اور تیری صوت اور تیرا ہاتھ

اپنی تو عقلوں میں تیرا بندہ بھی نہ آ سکا

کاسہِ اشعار لے کر یہ بھکاری آیا ہے

اے صدائے کن کے مالک دے مجھے نطق و نوا

حمد و نعت و منقبت، سوز و سلام و مرثیہ

کیا ہو گر مجھ پر نہ ہو تیری نظر تیری عطا

تا دمِ آخر رہے گی زیدیؔ کو شرمندگی

ہم سے حقِ بندگی تیرا ادا نہ ہو سکا

٭٭٭

 

 

 

 

میرے خدا

 

 

 

حقِ آدابِ طلب میرے خدا اور کیا ہے ؟

تیری قربت مجھے مل جائے دعا اور کیا ہے ؟

تو ہے اُن چودہؑ کا خالق اور ترے بندے ہیں وہ

اِس سے بڑھ کر اے خدا تیری ثنا اور کیا ہے ؟

تیرے سجدوں سے ہے قائم مرا ایماں یا علیؑ

تیری ہستی کو جو دیکھوں تو خدا اور کیا ہے ؟

اپنی ہر چیز تجھے سونپ کے رب سوچتا ہے

یا علیؑ میرے خزانے میں بچا اور کیا ہے ؟

تیرا ماتم، ترا ماتم، ترا ماتم اے حسینؑ!

میرے ہر درد کی یہ ہی ہے دوا اور کیا ہے ؟

تیرے غم کا تو تقاضا تھا کہ موت آ جاتی

میری ہر سانس ندامت کے سوا اور کیا ہے ؟

عقل حیران ہے سمجھی نہ کبھی سمجھے گی

رازِ قدرت ہے بس اک کرب و بلا اور کیا ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

پدرِؐ امِ ابیہاؑ

 

 

 

قصد جب مدحتِ سرکارِؐ دو عالم کا کیا

مجھ پہ رحمت کی گھٹاؤں نے گھنا سایہ کیا

وقت ہے آپؐ کی قدرت پہ ابھی تک حیراں

ایک شب میں وہ سفر کیسے معلی کا کیا؟

ٹوٹ کر آپؐ کی چاہت میں گرفتار ہوا

چاند جب آپؐ نے انگشت سے دو پارہ کیا

آپؐ کے خُلق سے خونخوار درندے بدلے

آپؐ کے حلم نے وحشی کو بھی گرویدہ کیا

آپؐ کا نور بنا اوجِ جبینِ آدمؑ

کل ملائک نے اسی نور کو ہی سجدہ کیا

کیا یہ زہراؑ کی فضیلت ہے یا پھر آپؐ کی ہے ؟

حق نے جو آپؐ کو باپ امِ ابیہاؑ کا کیا

نور ہوتا ہے سیاہی سے ہویدا آقاؐ

جب سے زیدیؔ نے قلم آپؐ سے وابستہ کیا

٭٭٭

 

 

 

 

سرِ حجابِ معراج

 

 

 

ہے دل کہ بابِ عقیدت میں کچھ نیا لکھوں

علیؑ کی مدح سرائی میں کچھ کڑا لکھوں

 

ہے دل کہ آج لکھوں کچھ نصیریوں کی زباں

مگر سجودِ علیؑ ہیں مری نظر میں عیاں

جو رب نہیں تو تجھے رب کا آئینہ لکھوں

علیؑ کی مدح سرائی میں کچھ کڑا لکھوں

 

اِدھر نبیؐ ہیں، میں لکھوں، ہے بیچ اِک پردہ

اُدھر خدا ہے میں لکھوں ہے جب تلک پردہ

مگر یہ پردہ جو ہٹ جائے پھر میں کیا لکھوں

علیؑ کی مدح سرائی میں کچھ کڑا لکھوں

 

میں لکھ تو دوں کہ نصیری ہیں راہِ باطل پر

علیؑ نے قتل کیا جن کو خود سزا دے کر

انہی کو زندہ جو کر دے خدا تو کیا لکھوں ؟

علیؑ کی مدح سرائی میں کچھ کڑا لکھوں

 

پڑھوں جو نہجِ بلاغہ کے آہنی نکتے

وہ کائنات کی خلقت پہ حیدری خطبے

تو رازِ "کُن” میں علیؑ کو چھپا ہوا لکھوں

علیؑ کی مدح سرائی میں کچھ کڑا لکھوں

 

نگاہ جائے سلونی کے جو بیاں کی طرف

پھر اُس کے بعد جو دیکھوں میں آسماں کی طرف

تو کہکشاؤں کو حیدرؑ کے نقشِ پا لکھوں

علیؑ کی مدح سرائی میں کچھ کڑا لکھوں

 

علیؑ کے قبضۂ قدرت پہ جو نظر جائے

تو کیا بتاؤں کہ کیا کیا مجھے نظر آئے

علیؑ کو دونوں جہانوں کا بادشاہ لکھوں

علیؑ کی مدح سرائی میں کچھ کڑا لکھوں

 

زمیں پہ کوئی بناتا ہے گھر جو تنکوں کا

جناں میں بنتا ہے وہ اِک محل نگینوں کا

اِسے علیؑ کی محبت کا معجزہ لکھوں

علیؑ کی مدح سرائی میں کچھ کڑا لکھوں

 

یتیم ہوں یا گداگر یا برگزیدہ نبیؐ

علیؑ کے دستِ سخاوت سے فیض پائے سبھی

علیؑ کی ذات کو کس کس کا آسرا لکھوں ؟

علیؑ کی مدح سرائی میں کچھ کڑا لکھوں

 

یہ اُس کے لطف و کرم کی ہے انتہا زیدیؔ

وگرنہ میں کہاں میری مجال کیا زیدیؔ

کہ خود کو شاعرِ سرکارِ مرتضیٰؑ لکھوں

علیؑ کی مدح سرائی میں کچھ کڑا لکھوں

٭٭٭

 

 

 

 

سلامِ عقیدت

 

قلم نے میرے لہو میں ڈھل کے یہ نام لکھا

حسینؑ لکھا حسینؑ پہ پھر سلام لکھا

نبیؐ کی محنت تھی جاں بہ لب جب، حسینؑ نے تب

جبیں پہ اس کی لہو سے اپنے دوام لکھا

سند جناں کی جو مانگنے آیا ایک غاصب

امیر زادے کو شہؑ نے اپنا غلام لکھا

کتاب اتاری وہ مصطفیٰؐ پہ یا کبریا نے

مچل کے اپنی محبتوں کا پیام لکھا

ولادتوں کا معیار لکھا گیا تھا جس دم

علیؑ کے دشمن کو رب نے پسرِ حرام لکھا

امامؑ آئیں تو سنگ ان کے وہ قرآں آئے

جو نسخہ حیدرؑ نے اپنے ہاتھوں تمام لکھا

پکارنا اُن کو خود میں نعمت ہے سب سے اعلیٰ

عریضہ لکھا تو میں نے بس "یا امام!” لکھا

علیؑ کی بیٹی تھی، ذوالفقار علیؑ ہی نکلی

ستم کے خامے نے اُس کو جب بے نیام لکھا

ہزار سجدے خدا کو کر لُوں، پھر بھی کم ہیں

نصیب لکھا تو مجھ کو شہؑ کا غلام لکھا

لحد میں پوچھا نہ کچھ ملک نے بس اتنا بولے

سناؤ زیدیؔ جو تم نے تازہ کلام لکھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

حسینؑ اِبنِ علیؑ

 

 

مچل رہی ہے طبیعت برائے اذنِ کلام

اے بادشاہِ دو عالم، امامِ عالی مقامؑ

جبینِ عشق کو قدموں پہ تیرے رکھ کے غلام

کرے جواہرِ مدحت بعجز نذرِ امام

خلوص و صدق کے گوہر وصول کر مولا

مرا سلامِ عقیدت قبول کر مولا

 

مرے قلم کی حسیں تر ادائیں تیرے لیے

سیاہیوں سے نکلتی ضیائیں تیرے لیے

ذہن پہ چھائی ادب کی گھٹائیں تیرے لیے

سخن کی مستی میں چلتی ہوائیں تیرے لیے

تجھے جو موضوعِ نطق و سخن بناتا ہوں

حسینؑ تجھ سے ہی لفظوں کی بھیک پاتا ہوں

 

سکوتِ جان پہ کرتا ہوں وارِ تیغِ سخن

سخن یہ عام نہیں ہے یہ مدحِ شاہِ زَمنؑ

کھِلا ہے آج جو میری عقیدتوں کا چمن

تو برگ برگ ہے شاداں، ہے شاد شاد پون

فضیلتوں کا جو لے کے شعار اتری ہے

بنامِ ابنِ علیؑ یہ بہار اتری ہے

 

مری مجال ہے کیا میری آبرو کیا ہے

مرے حروف ہیں کیا میری گفتگو کیا ہے

مرا خیال ہے کیا میری جستجو کیا ہے

میں کیا ہوں اے مرے سردار اور تو کیا ہے

میں کیا کروں گا بھلا مدحِ شاہِؑ ارض و سماں

یہ کارِ خالقِ اکبر ہے میرے بس میں کہاں

 

خدا کے دین میں برکت کا نام ابنِ علیؑ

جنونِ عشق میں شدت کا نام ابنِ علیؑ

جہانِ صبر میں خلوت کا نام ابنِ علیؑ

ہجومِ رنج میں وحدت کا نام ابنِ علیؑ

حسینؑ عشق کا، عرفان کا سمندر ہے

جو اس میں ڈوب گیا سمجھو وہ قلندر ہے

 

حسینؑ صبر و اطاعت کی انتہا کا ہے نام

حسینؑ لطف و عنایت کی انتہا کا ہے نام

حسینؑ حق و صداقت کی انتہا کا ہے نام

حسینؑ علم و کرامت کی انتہا کا ہے نام

ان انتہائے کمالات کی وجہ یہ ہے

کمالِ عشق و محبت کی انتہا یہ ہے

 

مکانِ چشم میں سورج نہیں سما سکتا

حدودِ عقل میں بے حد کہاں ہے آ سکتا

میں پھر بھی دل سے یہ خواہش نہیں مٹا سکتا

گو جانتا ہوں کہ میں تاب کب ہوں لا سکتا

یہ آرزو ہے کہ میں تجھ کو دیکھوں جلوہ نما

میں گویا طور کا موسیٰ ہوں اور تو ہے خدا

 

حسین ابنِ علیؑ کربلا کا بانی ہے

زمیں پہ خالقِ برحق کی نشانی ہے

محیطِ ہر دو سرا ہے یہ آنجہانی ہے

یہ قیدِ وقت سے آزاد لا زمانی ہے

جسے زوال نہیں ہے وہ داستاں ہے حسینؑ

زمانے بیت گئے ہیں مگر جواں ہے حسینؑ

 

حسینؑ عاشق و معشوق کی کہانی ہے

حسینؑ جذبۂ ایثار کی روانی ہے

حسینؑ بحرِ مودت کا سرخ پانی ہے

حسینؑ اوجِ شرف ہائے بندگانی ہے

کچھ اس طریقے سے گردن کٹا گیا ہے حسینؑ

جبینِ عشق کو سجدہ سکھا گیا ہے حسینؑ

 

لعین راہ سے اپنی تجھے ہٹا نہ سکا

بصد ہزار ستم بھی تجھے جھکا نہ سکا

صدائے نعرۂ "ھل من” کو وہ دبا نہ سکا

وہ قتل کر کے بھی تجھ کو مراد پا نہ سکا

ذلیل تخت پہ ہو کر بھی نسلِ ہندہ ہے

حسینؑ نوکِ سناں پر بھی ہو کے زندہ ہے

 

حسینؑ بادِ بہاراں حسینؑ رشکِ چمن

حسینؑ کعبۂ عالم حسینؑ قبلۂ من

حسینؑ عرش کا زیور حسینؑ فرش کا دھن

حسینؑ جینے کا اسوہ حسینؑ موت کا فن

حسینؑ چرخِ ہدایت کا ماہتاب بھی ہے

حسینؑ مہر بھی انجم بھی آفتاب بھی ہے

 

ترے کرم سے سکوں پائیں بیقرار صفت

ترے خیال سے ہو جائیں بَن بہار صفت

تری عطا سے ہوں ذرات آبدار صفت

تری سخا سے بھکاری ہوں تاجدار صفت

تو بے اولاد کو بیٹوں کا زر نوازتا ہے

تو نا امید فرشتوں کو پر نوازتا ہے

 

یہ قافلوں کی قطاریں یہ زائروں کا ہجوم

یہ رحمتوں کے خزینے، یہ برکتوں کا ہجوم

یہ معجزات کی کثرت، کرامتوں کا ہجوم

یہ بہر دشت بلا ہے جو عظمتوں کا ہجوم

حسینؑ کا نہ رکا گر واں قافلہ ہوتا

وہ دشت دشت ہی ہوتا نہ کربلا ہوتا

 

خدائی شان کے مظہر بنے یہ سارے ہی تن

علیؑ کی ذاتِ مبارک ہو یاحسینؑ و حسنؑ

خیال شرک سا اٹھتا ہے زیرِ گوشۂ من

یہ خود خدا ہیں جو رکھتے ہیں آشکار بدن

انہی کے سجدے اگر نہ ہمیں گواہ ہوتے

حسینؑ ابنِ علیؑ تیسرے خدا ہوتے

 

حسینؑ مالک و مختار کُلِ ارض و سماں

حسینؑ میں ہیں رضائے خدا کے راز نہاں

حسینؑ مرضی پروردگارِ کون و مکاں

سمجھ لے اس کو جو، ایسی بشر میں عقل کہاں ؟

کہ ہم تو کرب و بلا کو سمجھ نہ پائے ہیں

ابھی تو کتنی ہی تاریخ کھو کے آئے ہیں

 

جہاں نماز بچائی وہاں نمازی بھی

بقدرِ عینِ ضرورت ہی شہؑ نے جنگ لڑی

اسی خیال پہ حیرت زدہ ہے سوچ مری

حسینؑ وقت پہ گر کربلا میں تیغِ علیؑ

جو بے نیام نہ کرتے صلوٰۃ مٹ جاتی

جو با نیام نہ کرتے حیات مٹ جاتی

 

حسینؑ کی جو ادائیں رکھوں میں پیشِ نظر

ہر اک ادا ہے جداگانہ معجزوں کا ہنر

شدیدحسن و عجب دلکشی ہے ان کا ثمر

حَسین یوں تو ہیں اس کی سبھی ادائیں مگر

ادا یہ سب سے نرالی ہے سب اداؤں میں

مسرتیں جو یہ دیتا ہے غم کی چھاؤں میں

 

مرے خیال کو حاصل جو یہ رسائی ہوئی

ورق ورق پہ خِرد کی گھٹا ہے چھائی ہوئی

میرے قلم کی جو اتنی حسیں لکھائی ہوئی

سطر سطر میں جو مدح ہے سمائی ہوئی

یہ حسنِ شعر و سخن جو ملا ہے زیدیؔ کو

حسینؑ ہی کی تو یہ سب عطا ہے زیدیؔ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

شیرِ علیؑ

 

عباسؑ مردِ کربلا، عباسؑ شیرِ نینوا

شبیرؑ شاہِ دین ہے، یہ شاہِ مذہبِ وفا

اِک معجزہ خدا کا ہے، اک تربیت علیؑ کی ہے

شیرِ خدا سے کم نہیں شیرِ علیؑ کا دبدبہ

جس کے سبب سے خلق میں سب کی دعا قبول ہو

یہ بس ترا کمال ہے تُو اس علیؑ کی ہے دعا

کرتے ہیں ذاتِ فاطمہؑ پہ احمدِ مرسلؐ سلام

عباسؑ تیری منزلت، تجھ پر سلامِ فاطمہؑ

عباسؑ تجھ کو فخر کہ شبیرؑ تیرا آقا ہے

شبیرؑ کو یہ ناز کہ عباسؑ سا بھائی ملا

موسیٰؑ کی مثل ہم کو بھی مرنے کا شوق ہے بہت

اک پل کو اپنے چہرے سے غازیؑ نقاب تو ہٹا

یہ چرخ گر جائے ابھی، تیرا علم نہ ہو اگر

بن کے ستون ہے علم نے آسماں تھاما ہوا

تیرے لبوں پہ مسکراہٹ آئے تو گل کھل اُٹھیں

ماتھے پہ بل جو آئے تو آئے زمیں پہ زلزلہ

اِک جُنبشِ ابرو پہ ہیں سانسیں عدو کی منحصر

عباسؑ تجھ کو حاجتِ تیغ و تبر ہے کیا بھلا؟

بہرِ وفا نیام میں رکھ لی جری نے تیغ بس

ورنہ تو فوجِ شام تھی اور موت کی آہ و بکا

آبِ لہو سے پیاس جو بجھ جاتی تیری تیغ کی

آتی نہیں خیام سے پھر پیاس پیاس کی صدا

اُس دن سے تیری یاد میں آنکھوں سے گر کے بہہ رہا

جس روز تو نے پانی کو ہاتھوں سے تھا گرا دیا

پانی لیا تھا ہاتھ میں یا پھر نہیں، بحث ہے کیا؟

نکتہ یہ ہے کہ پانی کو نظروں سے تھا گرا دیا

آقا کی پیاس کے سبب، جب خود رہا تو تشنہ لب

تیرے لبوں کی خشکی پہ قربان ہو گئی وفا

خود پہ یقین آ گیا زیدیؔ کو ہر لحاظ سے

عباسؑ تیرے روضے کی جالی کا جب بوسہ لیا

٭٭٭

 

 

 

 

بحرِ مودت

 

 

عطا ہو مولاؑ اجازت تو کچھ کلام کروں

ثنا و مدح کے موتی میں تیرے نام کروں

جہانِ شعر و ادب میں کچھ ایسا کام کروں

دیارِ عشق میں حاصل میں کچھ مقام کروں

قلم کو میرے رضا دے اے شہرِ علم کے در

نہیں ہے تیری عطا کے بنا کچھ اپنا ہنر

 

خیالِ بحرِ مودت میں غوطہ زن ہو گا

کھِلا حروف سے قرطاس کا چمن ہو گا

ثنائے شیرِ خداؑ موضوعِ سخن ہو گا

عبادتوں کا ہنر شاعری کا فن ہو گا

جدارِ کعبہ کے پھٹنے کو واسطہ کر کے

یہ شعر آئیں گے بامِ فلک کو وا کر کے

 

علیؑ ہے عبد تو معبود بھی علیؑ ہی ہے

علیؑ کے سجدوں کا مسجود بھی علیؑ ہی ہے

علیؑ کی مدح کا محمود بھی علیؑ ہی ہے

علیؑ کے قصد کا مقصود بھی علیؑ ہی ہے

علیؑ سا بندہ ہے یہ ہے خدا کی شان جلی

علیؑ کی شان کہ اُس کا توہے خدا بھی علیؑ

 

توُ مشکلوں کی کشائی کو خوب جانتا ہے

مصیبتوں میں نبیؐ بھی تجھے پکارتا ہے

مدد کا باب تجھے جبرائیلؑ مانتا ہے

مگر سخن مرا کچھ بڑھ کے اذن مانگتا ہے

توُ نے توحید کو جس طرح سے بچایا ہے

تجھے تو رب نے بھی مشکل کشا بنایا ہے

 

سمجھ میں آ نہ سکا فلسفہ یہ مشکل سا

خدا کی شانِ حضوری کا آپ آئینہ

اِسی سوال سے تو ہے نصیری بھی بھٹکا

کہاں یہ قدرتِ اللہ اور کہاں بندہ؟

آپ ایک وقت میں چالیس جا پہ ہوتے ہیں

کہیں پہ ایسے بھی بندے خدا کے ہوتے ہیں ؟

 

علیؑ کی تیغ مجسم خدا کا قہر و جلال

نمایاں آ ہنی پیکر میں نور و حسن و جمال

وہ شعلگی وہ چمک جیسے بجلیوں کا کمال

یہ برق خوئی دلاتی ہے میرے دل کو خیال

جو کوہِ طور پہ دیکھی گئی تجلی تھی

فلک پہ پل کے لیے ذوالفقار چمکی تھی

 

علیؑ کا عشق تو اک بیکراں سمندر ہے

اور اس میں ڈوبنا خوش بختیِ مقدر ہے

اسی میں ڈوب کے سلمانؑ بھی سکندر ہے

اسی میں ڈوب کے بے زر بنا ابو ذرؑ ہے

ہوا وہ غرق جو اس سے فرار ہوتا ہے

بس اس میں ڈوبنے والا ہی پار ہوتا ہے

 

ہوائے خلدِ بریں ہے ہوائے شہرِ نجف

زمیں پہ عرشِ معلی ہے جائے شہرِ نجف

نہیں نہیں نہیں ممکن ثنائے شہرِ نجف

دعا ہے ہم کو خدا پھر دکھائے شہرِ نجف

جسے شعور کی تشنہ لبی ترستی ہے

یہاں وہ علم کی نوری گھٹا برستی ہے

 

علیؑ کی شان بشر کے بیاں سے بالا ہے

مقام شیرِ خدا دو جہاں سے بالا ہے

ثنائے مرتضویؑ ہر زباں سے بالا ہے

خدا کا بندہ خدا سا؟ گماں سے بالا ہے

ہے اختتامِ سخن پر یہ خواہشِ زیدیؔ

قبول کیجئے آقا نگارشِ زیدیؔ

٭٭٭

 

 

 

 

 

ماتمِ حسینؑ

 

شبیرؑ ہم کو تیرا ماتم اگر نہ ہوتا

مرتے بھی نہ اگر تو جینا ہنر نہ ہوتا

بیکار خوں کی گردش، بے سود دھڑکنیں تھیں

ماتم کے ہاتھ کا جو دل پہ اثر نہ ہوتا

خوشیوں میں گھر کے پتھر بن جاتا دل ہمارا

اس میں جو شاہِ دیںؑ کا غم جلوہ گر نہ ہوتا

ماتم جو کرتا توُ بھی، تو دل میں تیرے واعظ

حرصِ جناں نہ ہوتی، دوزخ کا ڈر نہ ہوتا

آبِ حیات دردِ شبیرؑ گر نہ بنتا

تو زہرِ دردِ دنیا یوں بے ضرر نہ ہوتا

ہوتی دمشق تک پھر روضے کی تیرے وسعت

گر دفن کربلا میں ہی تیرا سر نہ ہوتا

تو سرجو نہ کٹاتا تو آج اس جہاں میں

مسلم ضرور ہوتے اسلام پر نہ ہوتا

سننی نہ ہوتی رب نے گر خود اذانِ اکبرؑ

جو شب تھی شب ہی رہتی، وقتِ سحر نہ ہوتا

یہ شعر گر نہ کہتا، ملتی بقا نہ مجھ کو

مرتا ضرور زیدیؔ لیکن امر نہ ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

عصرِ شہادت

 

کمالِ عشق کی معراج یوں نبھاتے ہیں

حسینؑ زین سے سوئے زمین آتے ہیں

 

تڑپ رہی ہے زمیں، بحر و بر پہ لرزہ ہے

کل انبیاء کے لبوں پر سدائے گریہ ہے

ملائکہ سرِ افلاک خاک اڑاتے ہیں

حسینؑ زین سے سوئے زمین آتے ہیں

 

بس اب قریب ہے وہ وقت، شام ہوتی ہے

ہے کچھ ہی دیر، تری زحمت تمام ہوتی ہے

یہ راہوار کے کانوں میں کہتے جاتے ہیں

حسینؑ زین سے سوئے زمین آتے ہیں

 

نظر اُٹھا کے جو مقتل کو دیکھتے ہیں امامؑ

کہاں وہ حلقۂ احباب اور کہاں یہ مقام

تھے کیسے کیسے دلاور جو یاد آتے ہیں

حسینؑ زین سے سوئے زمین آتے ہیں

 

قریبِ خیمہ بہن دیکھتی ہے تھامے جگر

حسینؑ پہ جو برستے ہیں تیر اور تبر

لعین اُس کے کلیجے پہ حشر ڈھاتے ہیں

حسینؑ زین سے سوئے زمین آتے ہیں

 

ہزار تیر ہیں سینے میں جا بجا پیوست

ادائے سجدہِ آخر میں ہے بنی دقت

بدن میں اپنے ہی تیروں کو شہؑ دھنساتے ہیں

حسینؑ زین سے سوئے زمین آتے ہیں

 

ہے کس شقی میں یہ ہمت، رضائے شہؑ کے بنا

علیؑ کے لعل کے سرکوکرے بدن سے جدا

مگر وہ جرأتِ قاتل کو آزماتے ہیں

حسینؑ زین سے سوئے زمین آتے ہیں

 

ہے بندگی کو بھی حیرت یہ دیکھ کے منظر

اُدھر جو شمر چلاتا ہے تیغ گردن پر

اِدھر یہ شکرِ خداوند لب پہ لاتے ہیں

حسینؑ زین سے سوئے زمین آتے ہیں

 

گواہ ہیں ناحیہ کے زیدیؔ ہائے وہ جملے

امامِ عصرؑ تڑپتے ہیں شاہؑ کے غم میں

یہ وقت سوچ کے وہ اشکِ خوں بہاتے ہیں

حسینؑ زین سے سوئے زمین آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

روانگیِ قافلۂ سیّد الشہداؑ

 

کرب و بلا کی سمت شہِؑ کربلا چلے

تربت سے نانا جان کی ہو کر جدا چلے

 

ناناؐ تمہاری قبر پہ اب ہم نہ آئیں گے

روشن مزید شمعیں کبھی کر نہ پائیں گے

یہ آخری تھی بس جو ابھی ہم جلا چلے

کرب و بلا کی سمت شہِؑ کربلا چلے

 

تاثیر خون مرتضویؑ رنگ لائے گی

دینِ خدا کی شمع کبھی بجھ نہ پائے گی

باطل کی تیز جتنی بھی ناناؐ ہوا چلے

کرب و بلا کی سمت شہِؑ کربلا چلے

 

ماں سے بچھڑنا جنگ سے پہلے ہے ایک جنگ

عباسؑ کو لے جاتا ہوں کچھ اس لیے بھی سنگ

ہمراہ میرے مادرِؑ جاں کی دعا چلے

کرب و بلا کی سمت شہِؑ کربلا چلے

 

میں کربلا کو جاؤں یا پھر شام تک چلوں

جتنا بھی ہے سفر میں یہی آرزو کروں

ہر لمحہ میرے ساتھ خدا کی رضا چلے

کرب و بلا کی سمت شہِؑ کربلا چلے

 

شہرِ مدینہ گریہ کناں ہے، اداس ہے

اب پنجتنؑ کا آخری تن بھی نہ پاس ہے

یثرب سے دور خامس آلِؑ عبا چلے

کرب و بلا کی سمت شہِؑ کربلا چلے

 

صغریٰؑ پکاری بابا! ہیں دو خواہشیں مری

پہلی کہ دیکھوں اکبرِؑ مہرو کی میں خوشی

اور دوسری کہ دیکھوں جب اصغرؑ مرا چلے

کرب و بلا کی سمت شہِؑ کربلا چلے

 

کب میں بھی چاہتا ہوں کہ تجھ کو جدا کروں

بیٹی تو میری ماں کی شبیہ ہے میں کیا کروں

رخصت کر اب اے جانِ پدر، قافلہ چلے

کرب و بلا کی سمت شہِؑ کربلا چلے

 

ظاہر میں جو چلے وہ بہتر(72) ہی مرد تھے

لیکن در اصل زیدیؔ سوا لاکھ فرد تھے

ہمراہ شاہِؑ دیں کے سبھی انبیاء چلے

کرب و بلا کی سمت شہِؑ کربلا چلے

تربت سے نانا جان کی ہو کر جدا چلے

٭٭٭

 

 

 

سوارِ دوشِ مسافرِؐ منتہیٰ

 

 

جہانِ فانی میں ایک عالم بقا کا اترا

زمیں پہ دُوجا ستارہ عرشِ ولا کا اترا

دلِ نبیؐ پہ کلام پہلے خدا کا اترا

دلِ نبیؐ پہ کلام یہ مرتضیٰؑ کا اترا

تجلیِ حُسنِ مجتبیٰؑ پہ نظر یہ بولی

لباسِ خاکی میں روپ یہ تو خدا کا اترا

مریض ہائے جنونِ جنگ و جدال ہیں جو

تو اُن کی خاطر یہ ایک نسخہ شفا کا اترا

حسنؑ کے قبضے میں زندگی بھی ہے موت بھی ہے

حیات دینے بشر کو مالک قضا کا اترا

حسنؑ کے لطف و کرم کے بارے میں کیا کہیں لب

جفا کے صحرا میں بحر جو دو سخا کا اترا

بلندیوں کو ہے ناز اپنے نصیب پر آج

سوار دوشِ مسافرِؐ منتہیٰ کا اترا

ہے تیری قسمت کے اوج کا یہ ثبوت زیدیؔ

کلام تجھ پہ فضائلِ مجتبیٰؑ کا اترا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مرے عشق کو ہے تری جستجو

 

اے مولا علیؑ مولا مشکل کشا

تری حیثیت عقل سے ہے سوا

تو سردارِ عالم، شہِ لا فتا

تو تسکینِ احمدؐ تو شیرِ خدا

تو قرآں کا حافظ یا قرآں ترا

اے مشکل کشاؑ کر یہ عقدہ کشا

میں ہوں تیری ہستی پہ حیران ہوں

منافق نہیں کہ پریشان ہوں

مرے عشق کو ہے تری جستجو

خرد کو تو مل نہ سکے تری بو

تو آدمؑ سے پہلے تھا ہے یہ یقیں

تو نورِ خدا، خلقتِ اولیں

وہ رب جس کو کوئی نہ تھا جانتا

نہ ہوتا جو تُو، کون اسے مانتا

خزانہ تھا اک پر تھا گمنام سا

خزانچی بنایا علیؑ نام سا

خزانہ ہے تیرا، تری چابیاں

ترے ہاتھ رب کی سبھی مرضیاں

محمدؐ کی ہستی ہے اور اک علیؑ

جنہوں نے خدا کی ہے پہچان دی

چنانچہ تذبذب میں ہے عقل اب

سوال اک اٹھا ہے نیا زیرِ لب

خدا نے اگر ان کو پیدا کیا

فضیلت بھی دی سب سے اعلیٰ کیا

تو احسان رب نے علیؑ پر کیا

یا احساں علیؑ نے جلی پر کیا

تو حاجت روا بہرِ خلقِ خدا

تو مشکل کشائے صفِ انبیاء

کہ آدمؑ نہ لیتے جو نامِ علیؑ

تو تھی رائے گاں ان کی سب عاجزی

نہ گر نوحؑ کشتی تجھے سونپتے

تو طوفاں کی لہروں میں خود ڈولتے

حکومت سلیمانؑ کی جتنی تھی

انہیں مرتضیٰؑ کی مدد اتنی تھی

تھی تابِ تجلی کہاں موسیٰؑ میں ؟

علیؑ نے ہی پھونکی تھی جاں موسیٰؑ میں

وہ یونسؑ کہ مچھلی جنہیں کھا گئی

علیؑ کی مدد وقت پر آ گئی

وگرنہ یہ خلق آج کرتی سوال

کہ مچھلی بھلا کیوں نہیں ہے حلال؟

یہ مانا کہ یوسفؑ بہت تھے حسیں

زلیخا کے ہاتھوں ہوئے جب حزیں

نہ یاور تھا کوئی نہ کوئی امیں

علیؑ نے ہی آ کے دلایا یقیں

نہ غم کر کہ مشکل کشا آ گیا

زمانے کا حاجت روا آ گیا

مسیحا بنے، مردے زندہ کیے

بہت معجزے عیسیٰؑ کرتے پھرے

ہر اک معجزہ صدقہ حیدرؑ کا تھا

بنامِ علیؑ ہدیہ اکبر کا تھا

محمدؐ کا تو ناصرِ اوّلیں

نبوت نے پایا ہے تجھ سے یقیں

زبانِ خدا تیری آواز ہے

تو پردۂ معراج کا راز ہے

علیؑ گر تھے بولے نبی پاکؐ سے

تو پھر میں کہوں گا یہ ادراک سے

ندا طور پر موسیٰؑ نے جو سنی

وہ بھی تیری آواز تھی یا علیؑ

تو قدرت، تو طاقت، تو مظہر خدا کا

تو ہادی، تو عالم، تو رہبر ہمارا

تو ممدوحِ ارض و سماوات ہے

تو مقصودِ انسان و جنات ہے

تو آقا مرا، میرا سردار ہے

تو مونس مرا، میرا غم خوار ہے

تو بندۂ رب جلی، رب ترا

میں بندہ ہوں تیرا، شرف یہ مرا

تری زیست پر زیست حیران ہے

اجل کا فرشتہ پریشان ہے

تری ذات کو جو سمجھنے چلا

تو ناکامی اس کا مقدر بنا

تو کیسا ہے، کب ہے، کدھر ہے، تو کیا ہے ؟

معمہ یہ اب تک کہاں کھل سکا ہے ؟

تو کعبے میں ہے یا نجف میں نہاں ہے ؟

یا پھر دو جہاں میں ہر اک جا عیاں ہے ؟

تو کب سے ہے معلوم کس کو بھلا ہے ؟

کہ ہے بعد خالق بس اتنا پتا ہے

تو انساں نہیں اور خدا بھی نہیں

کہ تجھ سا کوئی دوسرا بھی نہیں

ترا عشق اول، ترا عشق آخر

یہ معیارِ مومن، یہ پہچانِ کافر

تو قامت، بلندی، تو افراز ہے

تو اللہ کا فرشی انداز ہے

تری ذات پہ رب کو بھی ناز ہے

تری ذات کیا ہے ؟ بس اک راز ہے

تو حکمت، شجاعت، سراپا ہنر

ترے جیسا کوئی کہاں کب کدھر؟

دہر میں علیؑ کی نہیں ہے مثال

جو ڈھونڈے کوئی پائے گا بس ملال

ترے در پہ آ کے ملائک جھکیں

تو ہم کیوں نہ سجدے نجف کو کریں ؟

ترے عشق کا کچھ کنارا نہیں

تری مدح میں کچھ ہمارا نہیں

قصیدے کو کرتا ہوں بس اب تمام

نہیں ہے فضائل کا کچھ اختتام

کہاں شان تیری؟ یہ الفاظ کیا؟

کہاں کہکشاں اور کہاں اک دیا؟

ان اشعار کا کچھ صلہ مانگتا ہوں

سخی ہے جو تُو تو جزا مانگتا ہے

مرے مولا بس یہ دعا ہے مری

پئے عشق ہے اک تمنا مری

گواہ ہیں یہ آنسو مرے صدق کے

مرے عجز کے اور مرے عشق کے

کبھی آپؐ سے اک ملاقات ہو

نہ کوئی اشارہ نہ کچھ بات ہو

ہو زیدیؔ پہ مولا بس اتنا کرم

مرا سر ہو اور۔۔۔ آپؐ کے ہوں قدم

٭٭٭

 

 

گوہرِ تاباں

 

 

تاج ابھی بھی ہوس کے سر پر ہے

عشق ابھی تک بھی زیرِ خنجر ہے

شاخِ نیزہ پہ ہیں سروں کے گلاب

خوں کی بو سے چمن معطر ہے

حق پرستوں کے کٹ رہے ہیں گلے

دیکھا دیکھا کہیں یہ منظر ہے

قصرِ ظلم و جفا ہیں پھر سے بلند

ایک خاتون پھر سے "مضطر” ہے

آلِ احمدؐ سے بغض و کینہ میں

کل جو ابتر تھا آج بد تر ہے

ناؤ کھاتی ہے جس میں ہچکولے

سرخ پانی کا اک سمندر ہے

قافلہ دیکھتا ہے سوئے فلک

کس قدر دور گوشۂ بر ہے

تنگ ہے سانس پر ہوائے وطن

زندگی عکسِ حالِ بوذرؑ ہے

دستِ مظلوم میں ہے صرف دعا

دستِ قاتل میں تیز نشتر ہے

اس کی تابانیوں کو ڈھونڈے نظر

وہ جو غیبت میں ایک گوہر ہے

وہ ہی امید گاہ ہے اب زیدیؔ

وہ ہی ہر آرزو کا محور ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سینۂ اکبرؑ

 

 

مقتل میں نوکِ خنجر اکبرؑ کے سینے میں ہے

خیمے میں امِ لیلیٰؑ خالق کے سجدے میں ہے

 

اکبرؑ کا رشتہ شہؑ سے بیٹے سے بھی بڑا ہے

اِس کی جدائی کا غم کچھ یوں بھی دو گنا ہے

ناناؐ کی شکل و صورت اکبرؑ کے چہرے میں ہے

 

مقتل میں نوکِ خنجر اکبرؑ کے سینے میں ہے

خیمے میں امِ لیلیٰؑ خالق کے سجدے میں ہے

 

مانگا تھا شاہِ دیںؑ نے رو رو کے جو خدا سے

پالا تھا جس کو زینبؑ نے ناز اور ادا سے

اس خوبرو کو مشکل اب سانس لینے میں ہے

 

مقتل میں نوکِ خنجر اکبرؑ کے سینے میں ہے

خیمے میں امِ لیلیٰؑ خالق کے سجدے میں ہے

 

گو عونؑ اور محمدؑ کی ہو گئی شہادت

لگتا ہے دیکھ کر پر زینبؑ کی اب یہ حالت

بی بیؑ کی جان جیسے بھائی کے بیٹے میں ہے

 

مقتل میں نوکِ خنجر اکبرؑ کے سینے میں ہے

خیمے میں امِ لیلیٰؑ خالق کے سجدے میں ہے

 

قاصد کھڑا جواں کے لاشے پہ سوچتا ہے

ہمشیر کس طرح سے جیے گی یہ سوچتا ہے

صغریٰ کی زندگی تو بھائی کے سہرے میں ہے

 

مقتل میں نوکِ خنجر اکبرؑ کے سینے میں ہے

خیمے میں امِ لیلیٰؑ خالق کے سجدے میں ہے

 

نہ ہاتھ میں ہے رعشہ نہ آنکھ پر ہے پٹی

شبیرؑ کھینچتے ہیں کیسے جگر سے برچھی

مخلوق رب کی ساری حیرت سے سکتے میں ہے

 

مقتل میں نوکِ خنجر اکبرؑ کے سینے میں ہے

خیمے میں امِ لیلیٰؑ خالق کے سجدے میں ہے

 

بابا نہ ہچکچاؤ، کھینچو جگر سے برچھی

پاؤ گے میرے لب پر شکرِ خدا ہی جاری

میری تو زندگی اب اس دیں کے جینے میں ہے

 

مقتل میں نوکِ خنجر اکبرؑ کے سینے میں ہے

خیمے میں امِ لیلیٰؑ خالق کے سجدے میں ہے

 

پہلو کی چوٹ ہے یہ، زخمِ جگر ہے بابا

پہلو سے ہاتھ میرا بھی اٹھ نہیں ہے پاتا

دادیؑ کی یاد مجھ کو یہ زخم ملنے میں ہے

 

مقتل میں نوکِ خنجر اکبرؑ کے سینے میں ہے

خیمے میں امِ لیلیٰؑ خالق کے سجدے میں ہے

 

ہمشکلِ مصطفیؐ کو گھیرا ہے اشقیا نے

منظر عجیب ہے یہ لگتا ہے زیدیؔ ایسے

گویا نبیؐ خود اپنی امت کے گھیرے میں ہے

 

مقتل میں نوکِ خنجر اکبرؑ کے سینے میں ہے

خیمے میں امِ لیلیٰؑ خالق کے سجدے میں ہے

٭٭٭

 

 

 

عرضِ غلام

 

 

اے وقت کے امامؑ، ولیِ خدا سلام!

اے وارثِ پیمبرِؑ ہر دوسرا سلام

لختِ دلِ بتولؑ و جگر گوشۂ علیؑ

خونِ حسینؑ و نورِ دلِ مجتبیٰؑ سلام

مومن کے واسطے یہ دعا بھی انعام ہے

مولا ظہور کیجئے عرضِ غلام ہے

 

آقاؑ سلام آپ پہ ہو دو جہان کا

ہر اِک بشر کا اور ہر اک بے زبان کا

اے مالکِ زمین! زمیں کا سلام لیں

ہو فخرِ آسماں پہ سلام آسمان کا

بہرِ قبول میرا بھی آقا سلام ہے

مولا ظہور کیجئے عرضِ غلام ہے

 

کرتی ہو جس کی حمد و ثنا ذاتِ کردگار

ہوں نعت خوان جس کے محمدؐ سے ذی وقار

تعریف ایسی ذات کی میں کیا کروں بیان

جس کے لیے ہوں شیرِؑ خدا منقبت نگار

میرے امامِ وقتؑ کا کیسا مقام ہے

مولا ظہور کیجئے عرضِ غلام ہے

 

کون و مکاں کے مالک و مختار آپؑ ہیں

خلقِ خدا کے آقا و سردار آپؑ ہیں

بوئے گلِ یقین و مسرت ملے جہاں

دنیائے غم میں بس وہی گلزار آپؑ ہیں

بالائے دید ہے جو چمن بو تو عام ہے

مولا ظہور کیجئے عرضِ غلام ہے

 

جس طرح بادلوں میں نہاں آفتاب ہو

چھن چھن کے آتا حسنِ ضیاء از نقاب ہو

آئے نظر نہ مرکز و محور وہ نور کا

پھر بھی کرم سے اس کے زمیں فیض یاب ہو

غیبت میں ایسے ہستیِ عالی امامؑ ہے

مولا ظہور کیجئے عرضِ غلام ہے

 

یہ ٹھیک بادلوں میں نہاں آفتاب ہے

جاری وِلائے آلِ نبیؐ کی کتاب ہے

لیکن مرے امامؑ ذرا یہ بھی دیکھیے

کہ بابِ شوقِ دید پہ آخر حجاب ہے

دیدِ امامؑ وقت کی چاہ تشنہ کام ہے

مولا ظہور کیجئے عرضِ غلام ہے

 

مانا کہ آپؑ دور نہیں ہم ہی دور ہیں

غیبت کا کچھ بھی نہ ہو سبب ہم ضرور ہیں

مانا کہ ہم ہی ظرف نہیں رکھتے اس قدر

لیکن ہم آپ کے غمِ فرقت میں چور ہیں

ٹوٹے دلوں کی آس ظہورِ امامؑ ہے

مولا ظہور کیجئے عرضِ غلام ہے

 

ہم کو قبول اب نہیں یہ ظلمِ ناروا

خونِ حسینؑ آج بھی جاری ہے با خدا

روتا ہے مولا خون کے آنسو دلِ حزیں

اب بھی حسینیت کا ہے دشمن بچا ہوا

کرب و بلا کا باقی ابھی انتقام ہے

مولا ظہور کیجئے عرضِ غلام ہے

 

دیکھیں تو آپؑ کتنی پریشاں ہے زندگی

خود سے بچھڑ کے خود ہی پشیماں ہے زندگی

ہر سانس اس کی موت سے ہوتی ہے کشمکش

ہر آن ایک درد کا طوفاں ہے زندگی

بن آپؑ کے حیات محض غم کا نام ہے

مولا ظہور کیجئے عرضِ غلام ہے

 

لاشیں اٹھا اٹھا کے بہت تھک گئے ہیں ہم

ہر صبح اک جفا ہے تو ہر شام اک ستم

امن و امان کے ذرا حالات دیکھیے

دشمن کی طاقتوں کا بس اب توڑیے بھرم

اب کھینچیے اُسے کہ جو زیرِ نیام ہے

مولا ظہور کیجئے عرضِ غلام ہے

 

اشعار یہ سلام ہیں، فریاد کہ دعا

جو بھی ہیں مولاؑ آپ نے مجھ کو کیے عطا

کرتا ہے شکر آپ کا یہ عاجز و حقیر

یہ شعر بن گئے ہیں مرے درد کی دوا

زیدیؔ کی شاعری کا یہ حاصل کلام ہے

مولا ظہور کیجئے عرضِ غلام ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

علیؑ کی بات

 

بھلا کے سب غمِ دنیا خوشی کی بات کرو

ہے جس کی شب یہ مبارک اُسی کی بات کرو

تمام چودہ کے چودہ ہمارے ہیں لیکن

ہے دل کہ آج ابھی بس علیؑ کی بات کرو

مئے وِلا مجھے پینی ہے میکدہ کھولو

سُرور، عشق، نشہ، میکشی کی بات کرو

اے شیخ جی ذرا سمجھو کہ بات یکساں ہے

علیؑ کی بات کرو یا نبیؐ کی بات کرو

علیؑ کے عشق میں دیوانے دانا بنتے ہیں

جو عقل چاہو تو دیوانگی کی بات کرو

بُلا کے عرش پہ رب نے نبیؐ سے اتنا کہا

کہ فاطمہؑ سے ذرا تم علیؑ کی بات کرو

علیؑ کے نام پہ جھگڑو نہ میکدے والو

مٹا کے رنجشیں سب آشتی کی بات کرو

جسے شعور نہیں کربلا کی عظمت کا

نہ میرے سامنے اس مولوی کی بات کرو

سدا بہار ہے زیدیؔ جو پیارے خاں نے پڑھا

"نہ بھول کر بھی کبھی تم کسی کی بات کرو”

٭٭٭

 

 

 

 

جشنِ شعبان

 

قلبِ مومن کے لیے جشن کا سامان آیا

کتنی عیدیں لیے دامن میں یہ شعبان آیا

زینبؑ و قاؑسم و اکبرؑ، سخی عباسؑ و حسینؑ

گل کوئی ایک نہیں پورا گلستان آیا

اور سے اور بڑھی شان مہِ شعباں کی

جب اسی ماہ میں اس وقت کا سلطان آیا

لے کے آغوش میں اکبرؑ کو یہ کہتے تھے حسینؑ

میری حسرت، مری خواہش، مرا ارمان آیا

نہ رہا کچھ بھی نظر میں مری جنت کا حشم

دیکھنے صحنِ رضاؐ جب میں خراسان آیا

قبر میں ہو گی ملاقات مری مولاؑ سے

جب یہ سوچا تو بہت موت کا ارمان آیا

دیدِ شبیرؑسے پاؤں گا تلاوت کا شرف

خوش ہے قرآن کہ قرآن کا قرآن آیا

دیکھ ! آغوشِ علیؑ میں بھی علیؑ ہی تو ہے

آج خطرے میں نصیری ترا ایمان آیا

تیرے در سے ملی خیرات سبھی کو مولاؑ

کوئی انساں یا ملک کوئی پشیمان آیا

ایسے دریائے سخاوت پہ میں قرباں جاؤں

جھولیاں بھر کے گیا جو بھی پریشان آیا

معنیِ عشق جو سوچے تو ذہن میں میرے

کبھی میثمؑ، کبھی بوذرؑ کبھی سلمانؑ آیا

جس کے دل میں نہیں پایا غمِ سرورؑ ہم نے

تھا وہ حیوان ہی گو کہ نظر انسان آیا

سبطِ جعفرؔ جو سدھارے سوئے جنت زیدیؔ

مرحبا! بولے علیؑ میرا ثنا خوان آیا

٭٭٭

 

 

 

 

فردوسِ مشہد

 

یہ شان یہ شوکت یہ تجمل یہ ادائیں

جنت سے زیادہ لگِیں مشہد کی فضائیں

کیا ہو گا من و سلویٰ یہ معلوم ہے ہم کو

ہم کھا چکے مولا ترے لنگر کی غذائیں

چل چل کے جو تھک جاتی ہیں فردوسِ بریں میں

آتی ہیں ترے شہر میں دم لینے ہوائیں

پھر بانٹتے پھرتے ہیں بھری خلق میں عیسیٰؑ

لیتے ہیں ترے صحن سے پہلے وہ شفائیں

دونوں ہیں ترے روضے کے گنبد کے مجاور

مہتاب کی ٹھنڈک ہو یا سورج کی شعاعیں

فرزندِ حسینؑ ابنِ علیؑ ہے مرا مولا

کس زعم میں ہیں حاکمِ دوراں کی جفائیں ؟

جو تخت سجا رکھا ہے اللہ نے اوپر

لیتا ہے وہ آ کر تری مسند کی بلائیں

مردے نہیں، تصویر کو زندہ کریں کیسے ؟

مولا ذرا عیسیٰؑ کو ہنر یہ بھی سکھائیں

لیتے ہیں جو بیمار درِ کرب و بلا سے

ملتی ہیں ترے صحن سے بھی وہ ہی دوائیں

ڈھل جاتی ہیں جو اذنِ زیارت میں رضاؑ کی

بٹتی ہیں درِ بی بیِ قمؑ سے وہ رضائیں

اے ملکۂ قمؑ! آپ کا سائل ہے یہ زیدیؔ

پھر اپنے برادر کا حرم مجھ کو دکھائیں

٭٭٭

 

 

 

 

درِ ” اِنَّما”

 

لو آ گئی ہوں باباؐ اُمت سے زخم کھا کے

بیٹی کے اشک پونچھو آغوش میں چھپا کے

اب سر پہ ہاتھ رکھو، کچھ دل کو آسرا دو

امت کی بے رخی پہ آئی ہوں دل جلا کے

پہلو کا زخم اب بھی تکلیف دے رہا ہے

اس درد کو مٹاؤ محسنؑ کا غم مٹا کے

لیکن یہ دردِمحسنؑ دل سے نہ جائے گا اب

محشر بپا کروں گی محشر میں غم منا کے

ہر بادشاہ جس کا دربان ہو، میں وہ ہوں

توقیر میری کی ہے دربار میں بلا کے

کاغذ قلم نہ جس نے تم کو دیا تھا بابا

ہنستا تھا وہ سند کے ٹکڑے مجھے دکھا کے

یہ در ہے "اِنَّما” کا، میں چیختی رہی پر

تھا قصد اُن کا کہ وہ جائیں گے در جلا کے

دروازہ جل گیا وہ پربس نہ کی انہوں نے

اُن کو قرار آیا مجھ پہ وہ در گِرا کے

حیدرؑ جو لوٹے بابا اور دیکھا ماجرا یہ

کہتے تھے ضبط کرتا ہوں واسطے خدا کے

باباؑ تمہاری فرقت کے غم پہ بھی تھا پہرہ

روتی تھی تم کو بیٹی جنگل میں دور جا کے

قبرِ رسولؐ ہلتی تھی عرش پر تھا لرزہ

روتے تھے سُن کے احمدؐ یہ بین فاطمہؑ کے

بولے رسولؐ زیدیؔ دختر کے اشک چن کر

بیٹی نشان ہیں یہ آغازِ کربلا کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

استقبالِ محرم

 

غمِ حسینؑ کا یوں انتظار رہتا ہے

تمام سال یہ دل بیقرار رہتا ہے

یہ معجزہ بھی ہے شبیرؑ تیری الفت کا

کہ ہم کو اشک بہانے سے پیار رہتا ہے

ہم اہل درد ہیں، ہم عاشقوں کی خوشیوں کا

غمِ حسینؑ پہ دار و مدار رہتا ہے

لہو بہا لیں جو جی بھر کے عصرِ عاشورہ

تمام سال پھر اُس کا خمار رہتا ہے

یہ تیرے غم سے جُڑا سیدہؑ کا وعدہ ہے

وگرنہ کس کو کسی غم سے پیار رہتا ہے

شریک ہوتے ہیں اہل عزا بے خوف و خطر

اگرچہ موت کا ہر سو حصار رہتا ہے

ہم آثموں کو کبھی یوں بھی رکھ لے محفل میں

کہ جیسے پھولوں کی سنگت میں خار رہتا ہے

غمِ حیات سے وہ بے نیاز ہے زیدیؔ

غمِ حسینؑ میں جو اشکبار رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

صاحبِ غدیر

 

 

علیؑ عظیم علیؑ، صاحبِ غدیر علیؑ

رسولِ پاکؐ کے عشاق کا امیر علیؑ

 

نماز، روزہ و حج و زکوٰۃ سب ہیں بجا

مگر غدیر میں حارث پہ قہرِ رب ہے گواہ

رضا و قہرِ الٰہی میں ہے لکیر علیؑ

علیؑ عظیم علیؑ، صاحبِ غدیر علیؑ

 

بس ایک جملے میں سمٹی نبیؐ کی کل اجرت

جو یہ نہ کہتے تو بیکار تھی سبھی محنت

تمہارا پیر علیؑ ہے مرا وزیر علیؑ

علیؑ عظیم علیؑ، صاحبِ غدیر علیؑ

 

علیؑ کی ہمسری کرتے ہو چار یارو سے ؟

علیؑ کا رتبہ ذرا پوچھو بارہ والو سے

کہاں کے چار؟ ہے بارہ میں بینظیر علیؑ

علیؑ عظیم علیؑ، صاحبِ غدیر علیؑ

 

اِدھر یہ فقر کہ ٹکڑے ہوں جوکے سوکھے ہوئے

اُدھر یہ حالِ سخاوت کہ ” ھل اتیٰ” اترے

خدا بھی جس کا کرے شکر وہ فقیر علیؑ

علیؑ عظیم علیؑ، صاحبِ غدیر علیؑ

 

نہ مال و زر کی ہوس ہو گی اور نہ موت کا ڈر

بتا رہا ہے یہ کرب و بلا میں خوں کا اثر

وہ حرؑ بنے گا ہے جس شخص کا ضمیر علیؑ

علیؑ عظیم علیؑ، صاحبِ غدیر علیؑ

 

لگانا شوق سے پھر ہم پہ کفر کے فتوے

مگر یہ بات ذرا پوچھو شیخ سے پہلے

ہے کون کون سی ہستی کا دستگیر علیؑ!

علیؑ عظیم علیؑ، صاحبِ غدیر علیؑ

 

ہلاکتوں سے بچا کر علیؑ نے اُس سے کہا

ترے نصیب میں لکھتا نہیں میں تیرا برا

اگرچہ لوح و قلم پہ بھی ہے قدیر علیؑ

علیؑ عظیم علیؑ، صاحبِ غدیر علیؑ

 

فرشتے آئیں گے جس دم لحد میں کھولے حساب

کرے گا ایک ہی جملے میں زیدیؔ بند کتاب

علیؑ امام ہے میرا، ہے میرا پیر علیؑ

علیؑ عظیم علیؑ، صاحبِ غدیر علیؑ

رسولِؐ پاک کے عشاق کا امیر علیؑ

٭٭٭

 

 

 

 

شُکرِ نعمت

 

اے خدا تجھ سے وعدہ ہے شبیرؑ کا

شکرِ نعمت کروں گا میں سب سے جدا

تیرے دیں پہ کروں گا میں قربان سب

تُو نے جو کچھ بھی مجھ کو کیا ہے عطا

 

شکر کا حق تو پھر بھی نہ ہو گا ادا

شکر کا حق تو پھر بھی نہ ہو گا ادا

 

تو نے تحفہ دیا تھا شبیہِ نبیؐ

اُس کے سینے سے میں نے نکالی چھری

تیرے دیں پہ لٹا دی عنایت تری

سوئے جنت گیا اکبرِؑ مہ لقا

شکر کا حق تو پھر بھی نہ ہو گا ادا

 

ایسا بھائی، تھے جس سے مرے حوصلے

جس کو مانگا تھا بابا نے میرے لیے

بر لبِ علقمہ اس کے بازو کٹے

میں نے قرباں کیا غازیِؑ با وفا

شکر کا حق تو پھر بھی نہ ہو گا ادا

 

تُو نے اصغرؑ دیا وہ مرا نو نہال

نہ ملے گی کبھی کوئی ایسی مثال

رن میں جیسے ہوا اس کلی کا قتال

چھِد گیا تیرِ باطل سے اُس کا گلا

شکر کا حق تو پھر بھی نہ ہو گا ادا

 

یادگارِ حسنؑ سے نوازا مجھے

دشتِ کر بل میں آج اس کے ٹکڑے ہوئے

میں نے کیسے وہ اک جا اکٹھے کیے

بس مجھے ہے خبر یا تجھے ہے پتا

شکر کا حق تو پھر بھی نہ ہو گا ادا

 

میری آنکھوں کی ٹھنڈک سکینہؑ مری

شام تک جائے گی وہ رسن میں بندھی

لوٹ کر جائے گی نہ وطن وہ کبھی

اس کو زندان کھا جائے گا شام کا

شکر کا حق تو پھر بھی نہ ہو گا ادا

 

ہم کو چشمۂ کوثر کا مالک کیا

تین دن میں نے پانی نہ قطرہ پیا

میرا کنبہ بھی سارا پیاسا رہا

مر گیا تشنہ لب ہی مرا شش مہا

شکر کا حق تو پھر بھی نہ ہو گا ادا

 

مجھ کو اعزازِ تطہیر بھولا نہیں

جب اکٹھے تھے زیرِ کسا ہم سبھی

شکر اُس کا بھی کر دے گی بنتِ علیؑ

اُس کے سر سے چھنے گی جب اُس کی ردا

شکر کا حق تو پھر بھی نہ ہو گا ادا

 

میری جاں بھی تو یہ تیری ہی دان ہے

تیرے دیں پہ سو جاں بھی یہ قربان ہے

تو ہو راضی کہ بس یہ ہی ارمان ہے

سو کٹاتا ہوں مالک میں اپنا گلا

شکر کا حق تو پھر بھی نہ ہو گا ادا

 

زیدیؔ سرکٹ گیا سبطِ احمدؐ کا جب

بند سانسیں ہوئیں اور خاموش لب

آسمانوں پہ گونجی یہ آوازِ رب

 

میں ہوں راضی مجھے دے دے اپنی رضا

اے حسینؑ ابن حیدرؑ ترا شکریہ!

اے حسینؑ ابنِ حیدرؑ ترا شکریہ!

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہیدِ محراب

 

مسجد میں وار شیرِ یزداں پہ جو کیا ہے

ایک اور زخم امت نے دین کو دیا ہے

 

کیسا سلوک ہے یہ عترت سے مصطفیؐ کی

زہراؑ کے بعد لی ہے اب جان مرتضیٰؑ کی

امت سے مصطفیؐ کو اچھا صلہ ملا ہے

مسجدمیں وار شیرِ یزداں پہ جو کیا ہے

 

زینبؑ کے سر نے ہائے کیسا نصیب پایا

اٹھتا ہے آج سر سے بابا علیؑ کا سایہ

کل جو اٹھے گا سر سے وہ سایہِ ردا ہے

مسجدمیں وار شیرِ یزداں پہ جو کیا ہے

 

میراث ہے شہادت تو آلِ مصطفیؐ کی

ماتم یہ ہے کہ امت نے ان پہ کیوں جفا کی؟

یہ زخم مرتضیٰؑ کو غیروں نے کب دیا ہے ؟

مسجد میں وار شیرِ یزداں پہ جو کیا ہے

 

حقِ لحد تو جبکہ پہلوئے مصطفیؐ ہے

قبرِ علیؑ کی لیکن کوفے میں بھی نہ جا ہے

افسوس یہ جنازہ سوئے نجف چلا ہے

مسجدمیں وار شیرِ یزداں پہ جو کیا ہے

 

حیدرؑ کے قتل سے بھی کب چین پائی امت

پامال کر نہ ڈالے اب مرتضیٰؑ کی تربت

سو شب کی تیرگی میں تابوت اٹھ رہا ہے

مسجدمیں وار شیرِ یزداں پہ جو کیا ہے

 

حیدرؑ سے بغض بعد حیدرؑ بھی کم نہ ہو گا

اب ظلم کا نشانہ بیٹا علیؑ کا ہو گا

زیدیؔ یہ قتلِ حیدرؑ عنوان کربلا ہے

مسجدمیں وار شیرِ یزداں پہ جو کیا ہے

ایک اور زخم امت نے دیں کو دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہادتِ شاہزادۂ امنؑ

 

چنتے ہوے تیروں کو جنازے سے حسنؑ کے

یاد آ گیا زینبؑ کو محرم کا مہینہ

کس طرح چھڑاؤں گی بندھے ہاتھوں کو اپنے

تیروں سے بھرا ہو گا جو شبیرؑ کا سینہ

 

قاسمؑ کوسنبھالے ہوئے ہیں آج تو سارے

اکبرؑ بھی ہیں عباسؑ بھی ہیں اور ہیں شبیرؑ

کل کو جو حسینؑ ابنِ علیؑ پاس نہ ہوں گے

کس طرح سنبھالوں گی اکیلی میں سکینہؑ

 

تیروں سے ہوئی ہے جو لہو میتِ شبرؑ

بدلا کے کفن سوچتی ہے زینبِؑ مضطر

دو بار کفن دے دیا ہے بھائی حسنؑ کو

شبیرؑ کو دے پائے گی اک مرتبہ بھی نا

 

عباسؑ کو دیکھے کبھی لاشے کو حسنؑ کے

سوچے کبھی کربل میں بھی ہو گا یہ ہی عالم

چہرے کی جلالت میں ملے ضبط کے پہرے

آئے کسی ضرغام پہ یہ وقت کبھی نا

 

ہے آج جنازے پہ جو یہ تیروں کی بارش

کل ہو گا مرے بھائی کا تیروں پہ جنازہ

کس طرح ادا کرتے ہیں یہ اجرِ رسالت

بھولوں گی میں اُمت کے یہ احسان کبھی نہ

 

بیٹی کو ستایا تو کبھی بھائی علیؑ کو

اب زہر پلا ڈالا ہے فرزندِ نبیؐ کو

جب سے گئے دنیا سے شہِ حضرتِ خاتمؐ

ہے ظلم کی موجوں میں گھرا اُن کا سفینہ

 

زہراؑ کی دعا ہے یہ عزاداری سرورؑ،

خوش بخت ہیں ہم ہم کو ملا فرش عزا کا

ہر ایک بشر کو تو میسر نہیں زیدیؔ

یہ رونے کی تہذیب یہ ماتم کا قرینہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے بادشاہِ وقتؑ

 

تیرے فراق میں ہے پریشان ہر نگاہ

اب آ بھی جاؤ میرے زمانے کے بادشاہ

خاکِ شفا پہ سجدہ بھی افضل تو ہے مگر

کیا خوب ہو جو ہو ترے قدموں کی سجدہ گاہ

آؤ تو ہو وہاں پہ بھی مجلس حسینؑ کی

تربت بتولِؑ پاک کی بھرتی ہے غم سے آہ

منکر کو آیتوں کی گواہی نہیں قبول

اب بس علیؑ کے حق پہ ہو تیغِ علیؑ گواہ

خواہش ہے دیکھوں جلد وہ منظر قتال کا

مانگے گی ذوالفقار سے جب موت بھی پناہ

ہم بار گاہ بنائیں تو ہم پر ہے روک ٹوک

آؤ تو ساری دنیا ہی بن جائے بارگاہ

دل کو کسی خوشی کا ہے نہ غم کا انتظار

بس بیت جائیں جلد یہ غیبت کے سال و ماہ

ہے حسنِ ظن کہ آپ کریں گے معاف اگر

قدموں پہ رکھ کے سرکو کہوں بخش دیں گناہ

آ جاؤ اب کہ تم کو پکارے رہے ہیں بار بار

خونِ حسینؑ، حقِ علیؑ، شرحِ لا الہ

ہر ماتمی کی آنکھ ٹکی ہے وہیں کہیں

مکہ سے آ رہی ہے جو کرب و بلا کو راہ

حسرت ہے آئیں وہ تو سجے بزمِ منقبت

زیدیؔ سنائے شعر تو مہدیؑ کہیں کہ واہ !

٭٭٭

 

 

 

 

حجابِ نور

 

خیال آب عقیدت سے جب وضو کر لے

حصارِ آیۂ تطہیر چار سو کر لے

ادب کا آئینہ جب اپنے روبرو کر لے

کمالِ اوج کو پانے کی آرزو کر لے

زبانِ عشق و مودت سے کچھ کلام ہو پھر

ثنائے زینبؑ کبریٰ کا اہتمام ہو پھر

 

کمالِ خلقتِ اکبر کا آئینہ زینبؑ

اُسی کے نور سے روشن ہوا دیا زینبؑ

فرشتے درس لیں جس سے وہ عالمہ زینبؑ

خدا کو ناز ہو جس پہ وہ صالحہ زینبؑ

حجابِ نور ہیں جتنے میانِ بندہ و رب

ہے اُن میں ایک کا اسمِ مبارکہ زینبؑ

 

علیؑ سے باپ کی زینتؑ، سلام ہو تم پر

محافظۂ امامت، سلام ہو تم پر

ہے تم سے دین سلامت، سلام ہو تم پر

بہ انتہائے عقیدت، سلام ہو تم پر

سلام پردہ نشیں گلشنِ عصمت کی کلی

سلام ثانیِ زہراؑ، سلام بنتِ علیؑ

 

تمہارے دم سے منور یہ آسمان و زمیں

تمہارے نور کے ذرے یہ کہکشائیں حسیں

تمہارے قدموں پہ سر رکھیں آسمان نشیں

تمہارے در پہ جھکی ہے امامتوں کی جبیں

علیؑ سے مردِ قلندر کا زیب و زین ہو تم

کہیں حسنؑ ہو تو بی بی کہیں حسینؑ ہو تم

 

مقامِ سرحدِ امکاں ہے آگے کیا کہیے

خیال میرا تو حیراں ہے آگے کیا کہیے

زبانِ رشک پریشاں ہے آگے کیا کہیے

عجیب نکتۂ عرفاں ہے آگے کیا کہیے

وہ جو خدا کے لیے خود وقار و زینت ہے

تُو اس علیؑ کی ہے زینت یہ تیری رفعت ہے

 

وفا و ہمت و عظمت کا آسمان ہو تم

عروجِ عشقِ الٰہی کی داستان ہو تم

جفا کے دشت میں جرات کا گلستان ہو تم

خدا کے دین و شریعت کی پاسبان ہو تم

پیامِ سبطِ نبیؐ آج تم سے زندہ ہے

حسینؑ ابنِ علیؑ آج تم سے زندہ ہے

 

تمہارے قدموں سے لپٹی ہے مرضیِ داور

سلام کرتے ہیں حور و ملک تمہیں آ کر

اے شاہزادیِ عالم! بتولؑ کی دختر!

اے بنتِ حیدرؑ صفدر! اے زینبِؑ مضطر!

قلم تمہارے مراتب میں یہ بھی پاتا ہے

تمہارے آگے حسینؑ اپنا سر جھکاتا ہے

 

تمھاری ہستی اندھیروں میں آفتاب ہوئی

ستم کی دھوکہ دہی تم سے بے نقاب ہوئی

مصیبتوں کی جو کثرت بلا حساب ہوئی

تمہارے عزم کے آگے وہ لاجواب ہوئی

امیرِ شام کی شاہی کا دم نکالا ہے

نقاب چہرۂ باطل سے نوچ ڈالا ہے

 

تمہارے خطبوں نے ایوانِ ظلم ڈھا ڈالا

تمہارے صبر نے تختِ ستم گرا ڈالا

تمہارے خوف نے ظالم کا دل ہلا ڈالا

تمہارے عزم نے یہ فیصلہ سنا ڈالا

ہے جب تلک بھی وجودِ دیارِ ارض و سماں

مٹا سکے گا نہ کوئی حسینیتؑ کا نشاں

 

فسونِ فتنۂ باطل مٹا دیا تم نے

بُتانِ جبر و ستم کو گرا دیا تم نے

رہِ خلوص پہ چلنا سکھا دیا تم نے

امیرِ شام کو عبرت بنا دیا تم نے

یزیدیت کا ہر اِک پیچ و خم نکال دیا

سرِ غرور کو قدموں میں اپنے ڈال دیا

 

تمہاری ذات ہے عزم و ثبات کا پیکر

تمہارا رعب علیؑ کے جلال کا مظہر

کھلے زباں سے تمہاری جو تیغ کے جوہر

زمانہ کہنے لگا کیا پھر آ گئے حیدرؑ؟

بخوبی سنتِ اجداد کو نبھایا ہے

بکھرتے ڈوبتے اسلام کو بچایا ہے

 

ملی ہے تم سے زمانے کو زندگی کی امنگ

بھلا سکے گی نہ دنیا، لڑی ہے تم نے وہ جنگ

نہ کوئی ڈھال نہ نیزہ نہ تیر و تیغ کا سنگ

وجودِ دشمنِ حق کا مٹا دیا ہر رنگ

عدوِ حقّ کو للکار کر گئیں زینبؑ

سپاہِ شام کو فی النار کر گئیں زینبؑ

 

تِرا مقام ہے بالائے حدِ کون و مکاں

کہاں یہ لفظ مِرے تیرا مرتبہ ہے کہاں

کرے گا کیسے کوئی تیری عالی شان بیاں

مگر تو جس پہ لٹا دے سخاوتوں کا جہاں

تیری ثنا میں جو جاری ہوا ہے میرا قلم

تیری عطا ہے یہ زیدیؔ پہ بی بیؑ تیرا کرم

٭٭٭

 

 

 

 

 

نعمتِ غم

 

حاصل اگر نہ تیرے غم کا سہارا ہوتا

دریائے دردِ دوراں تو بے کنارا ہوتا

کیا خال و خد تھے اپنے الفت کے آئنے میں

تیری عزا نے ہم کو گر نا سنوارا ہوتا

مُرجھا گیا تھا دیں کا گلشن، حسینؑ تو نے

اپنے لہو سے اِس کو گر نا نکھارا ہوتا

ملتا نہ گر جہاں میں تیرا سہارا اس کو

بے بال و پر ابھی تک فطرس بے چارہ ہوتا

ہوتا قبول نہ پھر سجدہ رسولؐ کا بھی

گر پشت سے نبیؐ نے شہؑ کو اتارا ہوتا

ہم دیکھتے کہ کیسے نہ کرتے تم بھی ماتم

شامل جو کربلا میں کوئی تمہارا ہوتا

کالی جبینوں والے بولیں گے روزِ محشر

ماتم سے کاش روشن سینہ ہمارا ہوتا

تھی کیا مجال شہؑ کے عاشق کو موت آتی

اِس ہجر میں جو جینا اُس کو گوارا ہوتا

واللہ تیرے چکر بے سود یوں نہ ہوتے

اِک بار یا علیؑ جو حج میں پکارا ہوتا

ہم مان لیتے افضل ہیں چاند سے ستارے

اُترا نہ گر علیؑ کے در پہ ستارہ ہوتا

کیا اُن کا مرتبہ اور کیا تیرے شعر زیدیؔ

کچھ اور شاعری کو اپنی نکھارا ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

کربلا ! تُو خیال رکھنا

 

کچھ حسیں لوگ ہیں آئے ترے مہماں بن کر

تیرے صحراؤں کی مٹی میں گلستاں بن کر

یہ گلستاں نہ اجڑ جائے

کربلا! تو خیال رکھنا

 

ان کے سینوں میں ہزاروں غموں کا ڈیرہ ہے

بے وطن کر کے انہیں دشمنوں نے گھیرا ہے

کارواں اب یہ کدھر جائے ؟

کربلا! تو خیال رکھنا

 

ہے جواں ان میں اک اٹھارہ برس کا شامل

قلبِ مادر کی حرارت ہے وہ ماہ کامل

اس کی ضو ماند نہ پڑ ج   ائے

کربلا! تو خیال رکھنا

 

ان میں اک تیرہ برس کا حسیں جو دولہا ہے

اُس کی خوشیوں کا گلستاں تو ابھی سجنا ہے

اس کا سہرا نہ بکھر جائے

کربلا! تو خیال رکھنا

 

ایک چھ ماہ کا بے شیر بھی تو پیشِ نظر ہے

دل کا ٹکڑا ہے وہ مادر کے لئے لختِ جگر ہے

چیر ماں کا نہ جگر جائے

کربلا! تو خیال رکھنا

 

ایک بچی ہے بڑی باپ سے الفت ہے جسے

نیند آتی ہے فقط باپ کے سینے پہ اُسے

باپ سے وہ نہ بچھڑ جائے

کربلا! تو خیال رکھنا

 

ایک بی بیؑ ہے کئی نور کے دھاروں میں چھپی

جس کے پردے کی قسم کھاتا ہے خود رب جلی

اُس کی چادر نہ اتر جائے

کربلا! تو خیال رکھنا

 

ان ستاروں میں حسیں ایک قمر رہتا ہے

اُس کا بھائی تو اسے اپنی کمر کہتا ہے

ٹوٹ اُس کی نہ کمر جائے

کربلا! تو خیال رکھنا

 

ان کے سردار سے تو بوئے نبیؐ آتی ہے

اُس کو بچپن سے ہی تشنہ دہانی کھاتی ہے

وہ کہیں پیاسا نہ مر جائے

کربلا! تو خیال رکھنا

 

اس گلستان پہ چھاتے ہیں خزاں کے سائے

ایک دن میں کہیں ویران نہ یہ ہو جائے

یہ قیامت نہ گزر جائے

کربلا! تو خیال رکھنا

 

تیری مٹی ہے گواہ زیدیؔ ہے زوار ترا

روزِ محشر جو کھلے نامۂ اعمال مرا

ٹل ہر اک خوف و خطر جائے

کربلا! تو خیال رکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

عصرِ قیامت

 

دنیا تو بہر طور سلامت گزر گئی

زینبؑ پہ ایک دن میں قیامت گزر گئی

جس کی قسم اٹھائی تھی ربِ جلیل نے

روتی ہوئی وہ عصر کی ساعت گزر گئی

جس پر نثار تھیں سبھی قرآں کی آیتیں

دنیا سے پنجتن کی وہ آیت گزر گئی

دیکھا نہ چشمِ عشق نے منظر وہ پھر کبھی

خنجر تلے اک ایسی عبادت گزر گئی

عابدؑ نے سر اٹھایا نہ سجدہِ شکر سے

حتیٰ کہ پوری شام مصیبت گزر گئی

بیتِ حرم سے لے کے سکینہؑ کی لاش تک

کن کن مصیبتوں سے امامت گزر گئی

کم تر ہیں جس کے آگے ملائک کی قرائتیں

نوکِ سناں پہ ایسی تلاوت گزر گئی

گزری نہ کربلا سے سلامت نبیؐ کی آلؑ

لیکن سلامتی سے شریعت گزر گئی

ماں نے پکارا ہائے با الفضلؑ، جب سنا

بازار سے رسولؐ کی عترت گزر گئی

زیدیؔ بتولؑ کا بھرا گلشن اجڑ گیا

اک دوپہر میں کیسی مصیبت گزر گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

مرثیہ

(طلبِ آب اور شہادتِ ابو الفضل العباسؑ)

 

سورج مصیبتوں کا جو ظہرین سے ڈھلا

سادات کے خیموں میں ہوا شور اک بپا

آتی تھی ہائے پیاس ہائے پیاس کی صدا

بچوں کا قحطِ آب سے کٹنے لگا گلا

بولی سکینہؑ کوئی چچا کو بلا کے لائے

ڈر ہے مجھے کہ اصغرِؑ بے شیر مر نہ جائے

 

نکلی خیام سے وہ شہِ دیںؑ کی لاڈلی

ہاتھوں میں مشک اٹھائے وہ نازک صفت کلی

مقتل کی سمت ٹوٹے ہوئے قدموں سے چلی

کیسا یہ وقت اور کہاں نازوں کی وہ پلی

ہو کچھ تو اب سبیل عطش کی بجھائی کو

نظریں تلاش کرتی تھیں بابا کے بھائی کو

 

دیکھا جو دور سے رخِ عباسِؑ با وفا

قدموں میں جان آئی، پکاری چچا! چچا!

پہنچی علم کے پاس جو تیزی سے مہ لقا

بانہیں گلے میں ڈال کے معصوم نے کہا

بہرِ حیات کچھ تو اب اسباب لائیے

مرتے ہیں پیاس سے چچا کچھ آب لائیے

 

سن کر تڑپ اٹھا وہ جریِ وفا شعار

بولا چچا کی جان بھتیجی پہ ہو نثار

اے دل کے چین، نورِ نظر، اے مرے قرار

غازیؑ کے زندہ ہوتے تمھارے گلے میں خاز؟

اعدا کو کچھ خبر نہیں میرے عتاب کی

کرتا ہوں کچھ سبیل میں ترسیلِ آب کی

 

بچی سے مشک لے کے چلے وہ وفا شناسؑ

پہنچے جنابِ سبطِؑ رسولِؑ خدا کے پاس

آنکھیں تھیں سرخ رنج سے، دل میں تھی ایک آس

مل جائے جو رضا تو بجھا دوں سبھوں کی پیاس

نظریں جھکا کے کہنے لگے اے مرے امامؑ

کچھ مانگنے کو آیا ہے آقا ترا غلام

 

کھلتی نہ تھی زبان جنابِ امامؑ میں

لرزاں تھے قلب و جان جنابِ امامؑ میں

مشکل پڑی تھی آن جنابِ امامؑ میں

اِتنا کیا بیان جنابِ امامؑ میں

آنکھوں میں میری درد کے یہ اشک دیکھئے

بچوں کی پیاس دیکھئے یہ مشک دیکھئے

 

سن کر یہ بات حضرتِؑ والا بھی رو دیے

بے ساختہ لگا لیا عباسؑ کو گلے

اے میرے بھائی اے مری اماں کے لاڈلے

لا کر کھڑا کیا ہے یہ کس موڑ پر مجھے

بابا علیؑ کے فنِ وغا کا ہنر ہے تُو

تجھ سے ہے میرا حوصلہ، میری کمر ہے تُو

 

بتیس سال سے تو مرا جاں نثار ہے

میری مصیبتوں میں مرا غم گسار ہے

تیری وفاؤں کا کہاں کوئی شمار ہے ؟

میرے لیے تو نادِ علیؑ کا حصار ہے

حق کے سپاہیوں کا توُ سالار بھی تو ہے

توُ لشکرِ خدا کا علمدار بھی تو ہے

 

سن کر یہ بات یوں ہوئے عباسؑ نوحہ گر

آقا فدا ہوں میرے دل و جان آپؑ پر

مقتل پہ ایک بار ذرا کیجئے نظر

بے شک بجا ہیں آپ کی باتیں سبھی، مگر

اتنا بتا دو آقا کہ سالار جس کا ہوں

لشکر ہے وہ کہاں میں علمدار جس کا ہوں ؟

 

اک آہ بھر کے رہ گئے سلطانِؑ کربلا

آنکھوں سے آبِ کوثر و زم زم رواں ہوا

سوئے فلک اٹھا کے نظر بولے اے خدا!

مجھ کو قبول تیری مشیت تری رضا

کیا ہو گا سب خبر ہے، نہیں بولتا حسینؑ

اچھا اے بھائی! تجھ کو نہیں روکتا حسینؑ

 

سانسوں میں سانس آ گئی غازیؑ کی اس گھڑی

وجہِ خوشی دمکنے لگا چہرۂ جلی

تھا جس کا انتظار کہ ساعت وہ آ گئی

ہو گا غلام سے اب ادا حقِ بندگی

حسرت سے اپنے بھائی کو شہؑ دیکھے جاتے تھے

آنکھوں میں کوئی بات تھی لیکن چھپاتے تھے

 

دریا کی سمت چل پڑے عباسِؑ عالی شان

بن کے بلکتے بچوں کی امید کا جہان

اک ہاتھ میں تھی تیغ تو اک میں علم نشان

سینے پہ مشک، مشک میں غازیؑ کی ساری جان

اعدا میں شور اٹھا کہ عباسؑ آتے ہیں

پانی کو ہم سے چھیننے عباسؑ آتے ہیں

 

چہرے پہ موجزن تھا جلالت کا اک جہان

بے چین تھی زمین تو لرزاں تھا آسمان

وہ ہیبتِ غضب تھی کہ مانگے اجل امان

لگتا تھا وقتِ صور میں دوری ہے ایک آن

اس دم جلالِ حقّ کی تاثیر تھا جریؑ

قہرِ خدا کی بولتی تصویر تھا جریؑ

 

حملہ کیا دلیر نے بر نہرِ علقمہ

رفتارِ تیغ دیکھ کے شرماتی تھی ہوا

مقتل میں چار سمت برسنے لگی قضا

لگتا تھا رن میں بپھرا ہوا شیر آ گیا

دو پل میں گھاٹ سینکڑوں لاشوں سے اٹ گیا

دریا کا رستہ قبضۂ باطل سے چھٹ گیا

 

داخل ہوئے فرات میں سرکارِ با وفا

اترے فرس سے، رکھے قدم بینِ علقمہ

پانی خود آگے بڑھ کے قدم چومنے لگا

موجوں میں موج آ گئی لہروں میں ولولہ

دیکھا جو آب یاد بس اصغرؑ کی آ گئی

پانی کو ذوقِ تشنہ لبی سے گرا گئی

 

لوٹے جو مشک بھر کے وہ پیاسے ہی نہر سے

بیٹھا ہوا تھا دشمنِ دیں چھپ کے گھات میں

مارا شقی نے تیرِ ستم ایک مشک پہ

پانی بہا کے گھیر لیا مل کے فوج نے

پانی بہا نہ مشک سے، ارمان بہہ گئے

غازیؑ کے زندہ رہنے کے امکان بہہ گئے

 

اتنے میں اک شقی نے کیا چھپ کے اور وار

غازیؑ کا ایک بازو ہوا دین پر نثار

ظالم نے پھر چلائی جو تیغِ ستم شعار

بازو جو دوسرا تھا کٹا وہ بھی اب کی بار

بے تیغ پایا شیر کو فوجِ ستم نے جب

بولے کہ توڑ ڈالو کمر شاہِؑ دیں کی اب

 

آیا عجب خیالِ سیاہ اک لعین پر

اک گرز مارا اس نے سرِ ناز نین پر

عباسؑ ڈگمگانے لگے عرشِ زین پر

بے بازو آیا شہؑ کا برادر زمین پر

بولے اے سبطِؑ ختمِ رسلؐ تجھ پہ ہو سلام

جاتا ہے اس جہان سے آقا ترا غلام

٭٭٭

 

 

 

 

طبیبِ اسلام

 

میرے مولا ترے پیروں کی جو زنجیر ہلی

یوں لگا جیسے کہیں فتح کی نوبت سی بجی

نیم جاں دیں کے لئے بن گئی وہ آبِ حیات

تیری آنکھوں سے جو اشکوں بھری برسات ہوئی

قتلِ شبیرؑ پہ جو قصر حکومت کا بنا

تیرے خطبوں سے اسی قصر کی بنیاد ہلی

نہ کوئی تیر نہ تلوار نہ نیزہ نہ ہی ڈھال

کربلا تُو نے تو بس شکر کے سجدوں سے لڑی

جس سے اسلام کی تصویر تھی دھندلائی ہوئی

گرد باطل کی وہ مولا ترے اشکوں سے دھلی

آیتیں سورہِ کوثر کی ہیں ممنون تری

تیرے ہی صبر سے اولاد پیمبر کی بچی

اپنے دشمن کو کوئی اپنے ہی گھر میں دے اماں

یہ سخاوت بھی ہمیں بس ترے ہی گھر میں ملی

مومنو کے لئے وہ روز ہوا عید کا روز

ایک پل کو ترے چہرے پہ جو مسکان سجی

مدحِ مولا تجھے کہنے کی ملی ہے توفیق

واسطے تیرے یہ زیدیؔ ہے تشکر کی گھڑی

٭٭٭

 

 

 

 

رشکِ حیرت

 

 

ہے ناز دل کو تو دل بجا ہے

حسینؑ دل میں بسا ہوا ہے

حسینؑ ہے بندگی کا کعبہ

حسینؑ الفت کی سجدہ گاہ ہے

حسینؑ ماضی کا تاجور ہے

حسینؑ فردا کا بادشاہ ہے

حسینؑ ہے قسمتوں کا تارا

حسینؑ سے ہی نصیب وا ہے

حسینؑ سے ہے دیارِ ارضی

حسینؑ آفاق کی بنا ہے

حسینؑ وجہِ نشاطِ عالم

حسینؑ سے حسن کو بقا ہے

شعور سے تا بہ لاشعوری

حسینؑ ذہنوں پہ چھا گیا ہے

جہاں ہیں حق کے گلاب کھلتے

حسینؑ اس باغ کی صبا ہے

ہے گونج جس کی محیطِ عالم

حسینؑ ھل من کی وہ صدا ہے

سمجھنی ہو گر خدا کی مرضی

حسینؑ کل معنیِ رضا ہے

نبوتوں کا بے لوث محسن

حسینؑ توحید کی بقا ہے

خلوص و عشق و نیاز و الفت

حسینؑ مہر و دل و وفا ہے

دوا بنا دے جو خاکِ پا کو

حسینؑ وہ موجدِ شفا ہے

جو وجہ تخلیقِ دو جہاں ہے

حسینؑ اس نور کی ضیا ہے

ہے مرگِ مومن کو چاہ جس کی

حسینؑ جنت کی وہ فضا ہے

ستم کی پُر زور آندھیوں میں

حسینؑ جلتا ہوا دیا ہے

حجابِ جلوۂ حق اٹھیں جس سے

حسینؑ وہ مستیِ نگاہ ہے

ملائکہ کی نظر کا سرمہ

حسینؑ کی خاکِ نقشِ پا ہے

نہ جانے خلوت میں کیسا ہو گا

حسینؑ جلوت میں رب نما ہے

وہ جس سے آبِ حیات برسے

حسینؑ وہ بادلِ سخا ہے

خرید رکھے جو اپنا مقتل

حسینؑ وہ پیکرِ انا ہے

ہے بادشاہِ نجف جو حیدرؑ

حسینؑ سلطانِ کربلا ہے

شرابِ عرفان برسے جس سے

حسینؑ حکمت کی وہ گھٹا ہے

سروں پہ چڑھ کے جو بولتا ہے

حسینؑ وہ سحرِ دل ربا ہے

جبینِ عجزِ بشر کی خاطر

حسینؑ عظمت کا دیوتا ہے

بڑے بڑے صابر ابنیا کا

حسینؑ کے در پہ سر جھکا ہے

زمیں کی مٹی میں خوں ملا کر

حسینؑ اُفق پہ چھا گیا ہے

قدِ عزیمت کی بات ہو تو

حسینؑ کوہِ فلک رسا ہے

شجاعتوں کا نہ حال پوچھو

حسینؑ حیدرؑ کا سورما ہے

پکارا زعفر الٹ دوں دنیا

حسینؑ تجھ کو اگر روا ہے ؟

نہیں ہے مقصود مرگِ انساں

حسینؑ کب اس لیے لڑا ہے ؟

وہ ثارِ اللہ ہے، سوچ انسان

حسینؑ کا کتنا "خوں بہا” ہے ؟

ازل سے ملکِ خدائے یکتا

حسینؑ کا تھا حسینؑ کا ہے

خدا ہے جس کی رضا کا طالب

حسینؑ وہ بندۂ خدا ہے

دلِ شکستہ سے مان اس کو

حسینؑ عقلوں سے ماورا ہے

کمر مصائب کی ہو چکی خم

حسینؑ سینہ سپر کھڑا ہے

ہو غیر کی کیوں تلاش ہم کو

حسینؑ سے کیا کوئی بھلا ہے ؟

ہے حمد جس میں، ہے نعت جس میں

حسینؑ ہی کی تو وہ ثنا ہے

وہ حر ہے دونوں جہاں کے غم میں

حسینؑ کو جس نے پا لیا ہے

وہ نوکِ نیزہ پہ بولتا ہے

حسینؑ مر کر بھی لا فنا ہے

قیامِ امنِ جہاں ہو جس سے

حسینؑ واحد وہ آسرا ہے

حسینؑ سے مانگ غم کا چارہ

حسینؑ ہر درد کی دوا ہے

ازل سے ڈھونڈے تھا عشق جس کو

حسینؑ ہی تو وہ انتہا ہے

ابھی تو باقی ہے قیدِ زینبؑ

حسینؑ کی تو یہ ابتدا ہے

حیات حیراں، اجل ہے ششدر

حسینؑ وہ زندہ معجزہ ہے

خرد کی آنکھیں ہیں خیرہ ہوتیں

حسینؑ یوں جگمگا رہا ہے

عبودیت کا شعار دیکھو

حسینؑ کو رب منا رہا ہے

جو سن سکو تو لپک کے آؤ

حسینؑ اب بھی بلا رہا ہے

وہ کیوں نہ کالا لباس پہنے

حسینؑ کعبے سے جا رہا ہے

جوان بیٹے کی لاش اٹھانا

حسینؑ تیرا ہی حوصلہ ہے

جو قبلۂ خانۂ خدا تھا

حسینؑ گھر وہ لٹا رہا ہے

سنبھال فرشِ زمین خود کو

حسینؑ اب ڈگمگا رہا ہے

اے گردشِ سال و ماہ رک جا

حسینؑ گردن کٹا رہا ہے

خیال بے بس، زباں ہے عاجز

حسینؑ الفاظ سے سوا ہے

ہے رشکِ حیرت سوالِ تشنہ

حسینؑ کیا تھا؟حسینؑ کیا ہے ؟

وہ دیکھ زیدیؔ درِ جناں پر

حسینؑ تجھ کو بلا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کربلائے شام

 

عاشور کی تکان میں ڈوبو تو سوچنا

باقی ہے ایک کربلا اس کربلا کے بعد

قتلِ حسینؑ پر بھی نہ امت کو چین ہے

باقی ہے قیدِ شام ابھی اس جفا کے بعد

تیرِ ستم کی پیاس بجھی ہے ابھی کہاں

سجادؑ ہیں نشانہ شہِؑ دوسَرا کے بعد

تھا لشکرِ خدا کی جو پہچان وہ علم

زینبؑ نے سر بلند کیا با وفاؑ کے بعد

مصروف ہیں امامؑ ابھی یہ کہہ دو فوج سے

پہنیں گے طوق سجدہِ شکرِ خدا کے بعد

عینِ شباب میں یہ مناظر بڑھاپے کے

چشمِ فلک نے دیکھے نہ زین العباؑ کے بعد

لیتا ہے نام صغریٰؑ و زینبؑ کا عرضِ عشق

ہر ابتدا سے قبل ہر اک انتہا کے بعد

آنکھیں ہیں بے نیاز دو عالم کے حسن سے

اب دیکھنے کو کیا ہے بچا کربلا کے بعد ؟

چھ ماہ کے بچے پہ چلایا ہو جس نے تیر

دیکھا نہ کوئی ایسا شفی حرملا کے بعد

زیدیؔ کو ہر مصیبتِ دنیا سے آ چھڑا

کر دے کرم کی بارشیں اب اس دعا کے بعد

٭٭٭

 

 

 

 

 

نفسِ مطمئنہ

 

دامانِ علقمہ میں جو پیا سے ہی مر گئے

آبِ بقا سے دین کو سیراب کر گئے

اترے تھے آب وہاب سے تیری زمیں پہ جو

اے نینوا وہ چاند ستارے کدھر گئے ؟

چنتی رہی بتولؑ رو رو کے خاک سے

گل فاطمہؑ کے دشتِ بلا میں بکھر گئے

عینِ شباب سے جو دمکتے تھے مثلِ ماہ

زیرِ زمین ایسے بھی لعل و گہر گئے

تھی جنگ اُس کی رشکِ علیؑ، جس غریب کے

بھائی بھی قتل ہو گئے، مارے پسر گئے

سینچا لہو سے ایسے گلستانِ دین کو

توحید کے گلاب ابد تک نکھر گئے

تفہیمِ ” فجر” میں نہ ہو مشکل ابد تلک

شہؑ "نفسِ مطمئنہ” کی تاویل کر گئے

پہنچے نہ دشتِ کرب و بلا کی زمین پر

گو زین سے تو شاہِؑ شہیداں اتر گئے

راہیں بھی خون روتی رہیں اُن کے ساتھ ساتھ

پائے فگار ہائے مسافر جدھر گئے

اک آہ بھر کے دیکھا سکینہؑ نے آسماں

اڑتے پرندے شام کو جب اپنے گھر گئے

اہلِ حرم میں شور ہوا وا محمدؐا

سجادؑ کوٹھری میں جو لینے خبر گئے

لکھے ہیں جو مصائبِ آل رسولؑ حق

پلکوں پہ زیدیؔ اشکوں کے موتی ٹھہر گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سانحہ پشاور میں اُجڑ جانے والے پھولوں کی ماؤں کے نام

(16دسمبر2014ایک ناقابلِ فراموش دن)

 

لہو لہو ہے جگر، آب آب آنکھیں ہیں

خیال غرقِ گماں ہے، زبان ہے عاجز

قلم کی نبض ہے ساکت، بیاض مردہ ہے

کمالِ موجِ سخن پہ عجیب سکتہ ہے

میں ڈھونڈتا ہوں وہ جگنو جو اس اندھیرے

ضیائے راحتِ دل کا کچھ اہتمام کریں

میں ڈھونڈتا ہوں وہ کلیاں جو ایسے پت جھڑ

حصارِ باغِ غربیاں میں رنگ عام کریں

بصد تلاش مجھے کچھ نہیں کہیں ملتا

بہارِ رنگِ چمن کس طرح سے لوٹے گی

شجر جو کاٹ دے کوئی تو پھل نہیں لگتا

کلی جو کوئی مسل دے تو گل نہیں کھلتا

جو کچھ نہیں تو چلو لفظ ڈھونڈ لاتا ہوں

وہ لفظ جو دلِ مضطر کے واسطے شاید

دوا کی شکل میں مرہم کے جیسا کام کریں

تمہاری گودیاں اجڑی ہیں، بانہیں خالی ہیں

جگر فگار ہے، نالے لبوں پہ جاری ہیں

شکستہ قلب ہے، آنکھیں لہو بہاتی ہیں

تمھاری سسکیاں عرشِ خدا ہلاتی ہیں

نہ بھول پاؤ گی اب تم کبھی وہ یومِ ستم

یزیدِ عصر نے ویراں کیا تمھارا چمن

کتابِ وقت کے پنے پلٹ کے دیکھو ذرا

نظر میں آئے گا اک دشت، دشتِ کرب و بلا

وہ چھ مہینے کا بچہ جو بولتا بھی نہ تھا

وہ ابنِ شاہِ شہیداں، ربابؑ کا پیارا

وہ نحر ہو گیا تیرِ ستم سے ظالم کے

کہ جسیے اونٹ ہو قربان کوئی نیزے سے

اٹھا کے لاش جو آئے حسینؑ خیمے میں

لہو میں دیکھ کے بچے کو ماں پہ کیا گزری

لیا جو ہاتھوں میں لاشہ تو رو کے اتنا کہا

تری اجل پہ تو جن و ملک بھی روتے ہیں

کیا تیرے جیسے بھی دنیا میں نحر ہوتے ہیں ؟

اسی ورق پہ ہے درج ایک یہ بھی بابِ لہو

وہ تیرہ سال کا قاسمؑ، یتیمِ سبطِ نبیؐ

وہ امِ فرواؑ کی آنکھوں کا نور، ابنِ حسنؑ

وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوا رن میں ظلمِ اعدا سے

وہ جس کی لاش جو انب میں اس طرح بکھری

کہ برگ برگ ہو جیسے کوئی گلِ لالہ

سمٹ کے آیا جو لاشہ تو ایک گٹھری تھی

ہزار ٹکڑے تھے قاسمؑ کے ایک گٹھری تھی

یہ لاشہ مادرِ قاسمؑ کو جب ملا ہو گا

نہ جانے ماں نے یہ غم کس طرح سہا ہو گا

لہو میں لکھی ہوئی کچھ سطور یہ بھی ہیں

نبیؐ کی پیاری نواسی، وہ زینبِؑ عالی

وہ اس کے عونؑ و محمدؑ، مثالِ قلب و جگر

وہ جن کی کم سنی و نازکی کو دیکھیں تو

غریقِ آب ملامت ہوں شرم سے کلیاں

وہ شاہزادے ہوئے جب شہید تو گویا

جگر فگار ہوا، قلب پھٹ گیا ماں کا

لباسِ سوگ میں لپٹا ہے یہ فسانہِ حق

یہ وہ فسانہ ہے جو آج تک بھی جاری ہے

یہ اپنے راج دلارے جو کھوئے ہیں تم نے

وجودِ خیر کو نذرانہ لہو دے کر

وہ عزم بارگہِ حقّ میں نبھایا ہے

ربابؑ و فرواؑ و زینبؑ نے جو سکھایا ہے

تمہارے صبر کو، جرات کو، حوصلے کو سلام

تمہاری شان کو، رفعت کو، مرتبے کو سلام

٭٭٭

 

 

 

حقِ مودت

 

لہو جگر کا نہ اشکِ عزا ہوا ہم سے

غمِ حسینؑ کا حق نہ ادا ہوا ہم سے

مقامِ حق مودت تو تھا کہ مر جاتے

نہ قلب عشق میں اتنا رسا ہوا ہم سے

نہ ہونے پائے جدا دل سے غم شہیدوں کا

اگرچہ ماہِ محرم جدا ہوا ہم سے

خدا نے لینا ہے بدلہ غریبِ کربل کا

ہے انتظار میں وہ بھی ملا ہوا ہم سے

تڑپ رہی ہے جبیں کہ کبھی تو آئے نظر

نقابِ پردۂ غیبت کھُلا ہوا ہم سے

حسینیوں پہ مظالم بتا رہے ہیں یہ بات

ہے شاہِؑ دین کا قاتل ڈرا ہوا ہم سے

جلن ہے ایک زمانے کو شہؑ کے ماتم سے

جلے گا نار میں جو ہے جلا ہوا ہم سے

سخی جنازوں پہ ہم کو حیا نے گھیر لیا

غمِ حیات نہ دستِ دعا ہوا ہم سے

طلب شدید تھی، پروائے اپنی فطرت، کہ

نہ ہاتھ اٹھے نہ گریہ بکا ہوا ہم سے

انھی کی حمد و ثنا ہم اگرچہ لکھتے رہے

ادائے شکرِ قلمکار نہ ہوا ہم سے

دعائے سیدہؑ زہرا کا لطف ہے زیدیؔ

ہے گلستانِ شہیداں کھلا ہوا ہم سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نگینِ نعت

 

کوہِ ادراک سے کچھ نطق کے نگیں دے دے

خانۂ عرض کو الفاظ کے مکیں دے دے

اس قلم سے نہ لکھی جائے گی مدحِ سرورؑ

مجھ کو جبریلؑ کا پر کوئی نورگیں دے دے

آسمانوں سے تقابل ہے درِ نعت گوئی

اس نہج کی کوئی قرطاس کو زمیں دے دے

چوکھٹِ حضرتِ خاتمؑ سے کبھی نہ اٹھے

سجدہِ عرضِ مودت کو وہ جبیں دے دے

میں یہ سمجھوں گا قدم چومے ہیں ان کے میں نے

مجھ کو طبیہ کی ذرا خاکِ خشمگیں دے دے

زینتِ آلِ محمدؐ ہو جو زمانے میں

یا خدا ہم کو وہ کردارِ دلنشیں دے دے

نزدِ پروردگار پل میں حسیں ہو جائے

فیض اپنا جسے وہ حسن آفریں دے دے

واسطہ تجھ کو ہے اکبرؑ کے حسیں چہرے کا

پھر محمدؑ کا وہ ہمشکلِ نازنیں دے دے

پردۂ غیب میں رکھا ہے چھپا کر جس کو

قوم کو اب وہ محمدؐ کا جانشیں دے دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دعائے زہراؑ

(محب فاضلی صاحب کا مطلع مستعار لیتے ہوئے )

 

 

"سانس لینے کے لئے قبر میں کیا رکھتے ہیں

ہم تو عباسؑ کے پرچم کی ہوا رکھتے ہیں ”

ماتمی ہیں شہِؑ سلطانِ دو عالمؑ کے ہم

دو جہانوں کے ہر اک غم کی دوا رکھتے ہیں

سہل ہو جائے یہ پہچان، ترابی ہیں ہم

قبر میں اس لئے بھی خاکِ شفا رکھتے ہیں

ہم عزا دار ڈریں تیرگیِ قبر سے کیوں ؟

دل نہیں سینے میں ہم اپنے دیا رکھتے ہیں

منتظر اب بھی کسی کے ہیں، بتانے کے لئے

برسرِ قبر ہم اک دیپ جلا رکھتے ہیں

موت کا غم ہو کسے ؟ ہے یہ ملاقاتِ علیؑ

اس لئے موت سے اک انس سدا رکھتے ہیں

دیدِ حیدرؑ جو دمِ دفن ہی ہو جاتی ہے

ہم تو تربت میں بھی جنت کا مزا رکھتے ہیں

نزدِ پیرانِ علیؑ تھوڑی جگہ مل جائے

ہم پسند اپنے لئے یہ ہی جزا رکھتے ہیں

یا علیؑ یا علیؑ رہتا ہے زباں پر جاری

ہر نفس ہونٹوں پہ یوں ذکرِ خدا رکھتے ہیں

بابِ جنت پہ ہمیں دیکھ کے بولے رضواں

آ گئے لوگ جو زہراؑ کی دعا رکھتے ہیں

ہیں ثنا خوانِ علیؑ دونوں ہی زیدیؔ و ندیمؔ

ایک رکھتے ہیں قلم، ایک نوا رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

اشکِ مودت

 

آنکھوں میں لے کے اشکِ مودت جو ہم چلے

تشنہ دہن ملائکہ پیچھے بہم چلے

یاں پر چلے جو مدحِ علیؑ میں زبانِ عشق

واں منکروں کے قلب پہ تیغِ ستم چلے

فرشِ عزا کی سمت چلے جونہی دو قدم

دور اپنے قلب و جان سے رنج و الم چلے

ہو جائے جو ظہورِ امامِؑ زماں اگر

دشتِ جفا میں پھر سے ہوائے کرم چلے

تھا راستہ بھی ایک ہی، منزل بھی ایک ہی

سوئے نجف چلے کبھی سوئے حرم چلے

زیرِ لوائے حمد جگہ مل گئی ہمیں

ہم جو اُٹھا کے ہاتھوں میں اپنے عَلم چلے

مقتل تھا حائل ایک سرِ رہگزارِ عشق

مانگا خراج اس نے تو سر دے کے ہم چلے

دیکھا ہمیں تو بولے نکیرین "یاحسینؑ”

تربت میں ہم جو لے کے شہِؑ دیں کا غم چلے

آئی جو کربلا سے ندا اذنِ دید کی

نم آنکھ، سر جھکائے، برہنہ قدم چلے

زیدیؔ دعا کرو کہ چلے جب تلک یہ سانس

مدحِ ابو ترابؑ میں تب تک قلم چلے

٭٭٭

 

 

 

 

باغِ رحمت

 

ہر سمت روشنی کا حوالہ ہیں فاطمہؑ

اس کارِ دو جہاں کا اجالا ہیں فاطمہؑ

بیٹی ہے اپنے باپ سے کچھ اس طرح جڑی

گر مصطفیؐ ہیں چاند تو ہالہ ہیں فاطمہؑ

رتبوں کا امتزاج بھی کیسا حسین ہے

ہیں مرتضیٰؑ جو عالی تو اعلیٰ ہیں فاطمہؑ

ہیرے امامتوں کے پروئے ہیں سنگ سنگ

کیسے جواہرات کی مالا ہیں فاطمہؑ

جس کو خدا پڑھے گا تعارف کے طور پر

تقریبِ حشر کا وہ مقالہ ہیں فاطمہؑ

چوٹی ہے جس کی حلقۂ قوسین میں کہیں

ایسا فضیلتوں کا ہمالہ ہیں فاطمہؑ

مولائیوں کے واسطے رحمت کا باغ ہیں

پر منکروں کے حق میں جوالا ہیں فاطمہؑ

لینا ہے جو فدک تو تمھیں بھیک میں دیا

اس دو ٹکے کی بات سے بالا ہیں فاطمہؑ

زیدیؔ کو خوف کیا ہو قیامت کے روز کا

ہر امتحاں میں اس کا حوالہ ہیں فاطمہؑ

٭٭٭

 

 

 

 

 

کعبے میں آ رہے ہیں علیؑ

 

جھومیں نہ کیوں خوشی سے نبیؐ

کعبے میں آ رہے ہیں علیؑ

 

برسوں سے قلبِ پاکِ نبیؐ بیقرار تھا

صحرا کو جیسے بادلوں کا انتظار تھا

آخر ہوائے نم ہے چلی

کعبے میں آ رہے ہیں علیؑ

 

چہرہ گلاب جیسا نبیؐ کا کھلا ہے آج

ہونٹوں پہ مصطفیؐ کے تبسم سجا ہے آج

کرتے ہیں شکرِ ربِ جلی

کعبے میں آ رہے ہیں علیؑ

 

جنت سجی ہوئی ہے زمیں پر بہار ہے

معبود شاد، شاد عبادت گزار ہے

چھائی ہے دو جہاں میں خوشی

کعبے میں آ رہے ہیں علیؑ

 

اسلام کر رہا تھا مددگار کی دعا

حزبِ نبیؐ کے واسطے سالار کی دعا

قوت ہے دیں کو ملنے لگی

کعبے میں آ رہے ہیں علیؑ

 

بولیں غلافِ کعبہ پکڑ کر یہ فاطمہؑ

آسان کر دے مجھ پہ خدایا یہ مرحلہ

آتا ہے جو ہے تیرا ولی

کعبے میں آ رہے ہیں علیؑ

 

بولا خدا کہ بنتِ اسدؑ نہ ہو غمزدہ

یوں ہو گی تیری گود میں تنزیلِ مرتضیٰؑ

آتی ہو جیسے کوئی وحی

کعبے میں آ رہے ہیں علیؑ

 

مریمؑ کے واسطے نہ کھُلا خانۂ خدا

یہ فاطمہؑ ہیں ان کا ہے رتبہ مگر جدا

دیوار در میں ڈھل کے کھلی

کعبے میں آ رہے ہیں علیؑ

 

زیدیؔ یہ آرزو ہے کہ پھر ہو وہی سماں

آئیں جو اپنے بارہویں آقاےؑ دو جہاں

آوازِ غیب آئے یہی

کعبے میں آ رہے ہیں علیؑ

٭٭٭

 

 

 

الوداع ناناؐ!

 

در پیش ہے فراق کا زینہ حسینؑ کو

اب چھوڑنا ہے ناناؐ مدینہ حسینؑ کو

کس سے لپٹ کے روئے گا اب یہ ترا غریب

تیرا مزار تھا ترا سینہ حسینؑ کو

اک بے گیاہ دشت میں آساں ہوئی ہے موت

دشوار ہے مدینہ میں جینا حسینؑ کو

اکبرؑ کی لاش ہو یا کہ اصغرؑ کی قبر ہو

آئے گا نہ جبیں پہ پسینہ حسینؑ کو

رکھ لوں گا ذوالفقار کو میں خود نیام میں

آیا ہے باپ سے یہ قرینہ حسینؑ کو

یثرب میں میری صغریٰؑ کرے گی مجھے تلاش

ڈھونڈے گی کربلا میں سکینہؑ حسینؑ کو

اشکوں کے گھونٹ پی کے بجھاؤں گا اپنی پیاس

ہو گا نصیب پانی نہ پینا حسینؑ کو

مر جاؤں گا میں زینبِؑ مضطر کے سامنے

زندہ کرے گی پھر وہ حزینہ حسینؑ کو

ہوں گا سناں کی نوک پہ بھی سر بلند میں

دنیا جھکا سکے گی کبھی نہ حسینؑ کو

ملتا ہے اس کو زیدیؔ درِ سیدہؑ سے مول

دے دے جو آنسوؤں کا خزینہ حسینؑ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

مہدیؑ ہے میرا نام

 

 

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

اے فوجِ دشمنانِ خدا کے سپاہیو!

شیطانِ بد صفات کی خاکی نشانیو!

اے فتنہ سازو! دھوکا گرو! اے فسادیو!

ہو جاؤ اپنی موت سے آ گاہ و ہوشیار

میں آ رہا ہوں لے کے علم اور ذوالفقار

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

میں ہوں خدا کی آخری حجت زمین پر

سونپی ہے اس نے مجھ کو حکومت زمین پر

ہے میرے دم سے رحمت و برکت زمین پر

گر میں نہ ہوں تو آئے قیامت زمین پر

یہ بات بھی ہے باعثِ عظمت مرے لیے

روکی ہوئی ہے اس نے قیامت مرے لیے

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

فرزندِ مصطفیؐ ہوں تعارف مرا سنو

رگ رگ میں میری خونِ علیؑ ہے بسا سنو

میں ہوں سکون فاطمہؑ کے قلب کا سنو

اور اس کے بعد کھول کے کان اب ذرا سنو

میں نائبِ جنابِ شہِ مشرقین ہوں

یہ جان لو میں وارثِ خونِ حسینؑ ہوں

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

غلبہ خدا کے دیں کو دلانا ہے آن کر

انسانیت کو عدل سکھانا ہے آن کر

ہر فتنۂ یہود مٹانا ہے آن کر

عیسیٰؑ کو مقتدی بھی بنانا ہے آن کر

فہرست تو طویل ہے اول ہے پر یہ کام

خونِ حسینؑ کا مجھے لینا ہے انتقام

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

کرنا ہے مجھ کو آ کے جہاں میں قیامِ امن

دینی ہے تیغِ ظلم و ستم کو نیامِ امن

حاکم فساد و شر کے بنیں گے غلامِ امن

پھیلے گا شرق و غرب میں مجھ سے پیامِ امن

لیکن نہ امن ہو گا گھڑی بھر تمھارے سنگ

ہو گی تمھارے واسطے ہر سانس میری جنگ

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

کر دوں گا تنگ تم پہ میں یہ وسعتِ جہان

الٹاؤں گا تمھارے سروں پر میں آسمان

عبرت بناؤں گا میں تمھارا ہر اک نشان

مجھ سے بچا نہ پاؤ گے مر کر بھی اپنی جان

بھاگو گے پر کہیں بھی اماں تم نہ پاؤ گے

کٹ کٹ کے میری تیغ سے دوزخ میں جاؤ گے

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

ٹوٹوں گا قہر بن کے میں تم سب پہ با خدا

زیر و زبر کروں گا تمھیں سر سے تا بہ پا

گزرے گے میری تیغ کی تم پر سے بس ہوا

اپنے سروں کو پاؤ گے جسموں سے تم جدا

دونوں کے غیظ کا مجھے عکاس پاؤ گے

مجھ میں کبھی علیؑ کبھی عباسؑ پاؤ گے

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

بھُولا نہیں میں بندشِ دریائے علقمہ

پیاسے تھے تم نے قتل کیا جن کو بے خطا

لیتا تو انتقام میں اصغرؑ کی پیاس کا

میں ہاشمی ہوں پر مرا کردار ہے جدا

چن چن کے تم سبھی کی میں گردن اڑاؤں گا

پر اس سے قبل میں تمھیں پانی پلاؤں گا

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

کاٹے تھے تم نے بازوئے عباسِؑ با وفا

پابند تھے مشیتِ رب سے مرے چچا

ورنہ چکھاتے تم کو وہ صفین کا مزا

اس بار ہے مشیتِ ربی مگر جدا

میں کوئی مصلحت نہ سرِ راہ پاؤں گا

غازیؑ کا غیظ کیا ہے تمھیں میں دکھاؤں گا

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

میرے جلال کا ابھی تم کو نہیں پتا

ہے تیغ میری جس کی قسم کھاتا ہے خدا

خونِ علیؑ ہے میری رگ و پے میں دوڑتا

میں بھی خدا کا شیر ہوں مانندِ مرتضیٰؑ

پاؤ گے میرے ہاتھ میں جب ذوالفقار تم

دیکھو گے مجھ میں قوتِ پروردگار تم

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

ہے راہوار میرا سواریِ مصطفیؐ

شمشیر میرے پاس ہے شمشیرِ مرتضیٰؑ

سایہ فگن ہے سر پہ ردا ہائے سیدہؑ

ہیبت ہے میری پیکرِ انفاسِ مجتبیٰؑ

دیکھو گے ایک وار میں بدلے کے پانچ رنگ

میں سارے پنجتنؑ کی طرف سے لڑوں گا جنگ

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

رحمان ہے رحیم ہے وہ ذاتِ جلوہ گر

اس کا جمال دیکھا ہے تم نے گروہِ شر

اس ذات کے جلال کو بھولے ہوئے ہو پر

اس کی صفاتِ غیظ سے بیٹھے ہو بے خبر

"قہار” کے معانی بھی تم کو سکھاؤں گا

"جبار” کس کو کہتے ہیں یہ میں دکھاؤں گا

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

کتنے برس سے تیغِ علیؑ ہے نیام میں

گویا عتابِ ربِ جلی ہے نیام میں

جب تک یہ میری تیغ رکھی ہے نیام میں

سمجھو تمھاری موت بندھی ہے نیام میں

تشنہ لبی مٹانے کو اب ہے یہ بیقرار

چودہ صدی سے خون کی پیاسی ہے ذوالفقار

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

ہر دور ہر علاقۂ دنیا نظر میں ہے

شام و یمن کراچی و کوفہ نظر میں ہے

ہر نسل کے یزید کا چہرہ نظر میں ہے

ہر شکل ہر قماش کا فتنہ نظر میں ہے

باطل کے ہر گروہ کو ایسے مٹاؤں گا

طوفانِ موت بن کے میں تم سب پہ چھاؤں گا

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

اب بات میری تم بھی سنو اے حسینیو!

اصلاحِ فکر و فعل کرو اے حسینیو!

آپس میں اتحاد رکھو اے حسینیو!

نصرت کو بیقرار رہو اے حسینیو!

وقتِ ظہور بے شبہ میرا قریب ہے

اب تم پہ منحصر ہے کہ کتنا قریب ہے

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

 

زیدیؔ یہ آرزو ہے دلِ داغدار میں

ہم عاصیوں کو رکھ لیں وہ اپنے حصار میں

آ جائیں ہم حقیر بھی ان کے شمار میں

جب بھی کریں ظہور وہ اس کارزار میں

اس وقت ہم نصیرِ امامِ زماںؑ بنیں

جب دشمنوں کو مولا یہ للکار کر کہیں

مہدیؑ ہے میرا نام سنو اے یزیدیو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ولائے آلِ نبیؐ

 

جسے بھی آلِ نبیؐ کی ولا نہیں ملتی

اسے خدا کے کرم کی ہوا نہیں ملتی

جو فاطمہؑ کو نہ سمجھے معانیِ کوثر

کبھی بھی نسل کو اس کی بقا نہیں ملتی

مرض ہے بغضِ علیؑ کا جسے خدا کی قسم

درِ نبیؐ سے بھی اس کو شفا نہیں ملتی

ذرا تو سوچو کہ جنت میں جاؤ گے کیسے

اگر بتولؑ کی تم کو رضا نہیں ملتی

ہو وائے اس کے مقدر کی تنگ دستی پر

جسے بھی دولتِ اشکِ عزا نہیں ملتی

عَلَم کے ہونے سے باقی ہے خو یہ دنیا میں

کہیں کسی کو وگرنہ وفا نہیں ملتی

کچھ اس حیا سے بھی ہم باز ہیں خطاؤں سے

گناہ کرتے ہیں لیکن سزا نہیں ملتی

غمِ حیات سے کیسے لڑے وہ بے چارہ

جسے حسینؑ کے غم کی دوا نہیں ملتی

نجومِ آسماں تاریک ہوتے، گر اُن کو

علیؑ کی خاکِ قدم کی غذا نہیں ملتی

عدوئے والیِ یثرب ہے، جس کی با توں میں

مدینہ ملتا ہے کرب و بلا نہیں ملتی

دکھاتا منہ تُو بھلا کیا امامؑ کو زیدیؔ

تجھے جو نعمتِ حمد و ثنا نہیں ملتی

٭٭٭

 

 

 

 

استغاثہ

 

افسردہ و نادم ہوں کہ آنکھوں میں نمی ہے

کیوں آج مرے ضبط کی حد ٹوٹ چلی ہے

گرچہ ہے گماں، حقِ دعا میں نہیں رکھتا

لیکن یہ یقیں ہے تو سخی ابنِ سخی ہے

اوقات ہی کیا میری کہ کچھ تجھ سے میں مانگوں

پر تیری کریمی سے اک امید بندھی ہے

تو بگڑی بناتا ہے، تو حاجات روا ہے

کب تیرے خزانوں میں کہیں کوئی کمی ہے ؟

تم ہی کہو کہ درد کے مارے کہاں جائیں ؟

کیا اہلِ زمانہ میں کوئی تم سا سخی ہے ؟

دے دے تو شرف اس کو سماعت کا خدارا

رو کر دلِ خستہ سے جو فریاد اٹھی ہے

چوکھٹ پہ تری آیا ہوں میں ڈھونڈنے اک شہ

مولا مری تقدیر کہیں کھو سی گئی ہے

اے نوحؑ کے بیڑے کے محافظ! مرے آقا

کشتی ترے مداح کی طوفاں میں پھنسی ہے

مولا ترے سائے کی اماں چاہئے مجھ کو

صحرائے زمانہ میں بہت دھوپ کڑی ہے

کس درجہ تھکن پاتا ہوں اعصاب میں اپنے

کس درجہ بناوٹ کی یہ ہونٹوں پہ ہنسی ہے

آلام و مصائب کے تسلسل سے ہوں ٹوٹا

اب جڑنے کی امید ترے در سے جڑی ہے

لڑتا رہا ہوں مولا میں اب تک تو ہوا سے

اس بار مگر آندھی بہت تیز چلی ہے

پیتا رہا ہے اپنی تمناؤں کا خوں دل

افسوس کہ پھر بھی نہ مٹی تشنہ لبی ہے

ممنوع ہے میدوں کا جہاں پالنا گرچہ

پر میری تو امید ترے در سے لگی ہے

ہر آرزو یہ کہتے ہوئے توڑتی ہے دم

سنتی ہوں کہ مایوسی کی پاداش بڑی ہے

اک دستِ عنایت نہیں ملتا ہے جہاں میں

ہر فرد کے ہاتھوں میں یہاں صرف چھری ہے

سیکھا ہے ترے در سے ہی آلام سے لڑنا

لڑ لڑ کے مگر اب مری قوت میں کمی ہے

ایام کی گردش نے یوں پلٹائی ہے بازی

افتاد کی کثرت ہے تو خوشیوں کی کمی ہے

مارا ہے غمِ زیست نے کچھ اس درجہ ستم سے

اک روحِ شکستہ کئی ٹکڑوں میں بٹی ہے

حملہ ہے مصائب کا، بلاؤں کی ہے بارش

اک جان ہے جو چاروں طرف سے ہی گھری ہے

کب تیرے کرم میں کوئی اندازِ تغافل؟

میں جانتا ہوں میری دعا میں ہی کجی ہے

خاموش رہوں تب بھی مرا حال عیاں ہے

کب میری مصیبت تیری نظروں سے چھپی ہے ؟

میں تیرا خطاکار ہوں گرچہ مرے مولا

پر دل میں تری حب کی اک شمع جلی ہے

اٹھتے نہیں اب میرے قدم، دے دو سہارا

کتنی ہی مسافت ابھی رستے میں پڑی ہے

اب کہنے کا یارا بھی ہوا ختم اے آقا

سن لو دلِ زیدیؔ میں جو فریاد دبی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

رباعیات

 

مثالِ قطرہ میں اک بحر بیکراں سے ملوں

بخار بن کے ہوں بادل تو نازِ عرش ہوں

بقا بھی، اوج بھی پاؤں جو بعد موت اگر

سپردِ خاک نجف میں ہوں، کربلا سے اٹھوں

٭٭

 

علیؑ کے بغض میں کیسا مقام رکھتے ہیں

عدوِ شہؑ کا جو احترام رکھتے ہیں

حرام زادے ہیں نسلِ بنی امیہ کے

یزید جیسے شقی کو امام رکھتے ہیں

٭٭

 

کس طرح بن امامؑ کے کٹتی ہے زندگی

ہر دن ستم کی آگ میں جلتی ہے زندگی

بس نفرتیں عداوتیں، آنسو ہیں، زخم ہیں

مولاؑ اب آ بھی جائے مرتی ہے زندگی

٭٭

 

اکبرؑ ولایتوں کا مہکتا پیام تھے

عالم بھی تھے، صالح بھی تھے عصمت مقام تھے

اس بات کی دلیل زیارت ہے وارثہ کی

رہتی جو زندگی اگر یہ بھی امامؑ تھے

٭٭

 

شبیرؑ کے گلشن کی کلی ہے علی اصغرؑ

عباسِؑ دلاور سا جری ہے علی اصغرؑ

مسکان سے اپنی کہا "فزتُ” سرِ نزع

چھ ماہ کے سن میں بھی علیؑ ہے علی اصغرؑ

٭٭

 

تیرے اشعار کا موضوع سنے تیرے اشعار

کس قدر اعلیٰ نصیبی کی تمنا ہے تجھے

تجھ کو معلوم ہے تُو تاب نہیں لا سکتا

پھر بھی بے چینیِ ہنگامۂ جلوہ ہے تجھے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

 

٭٭٭

تشکر: کتاب ایپ

ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید