FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ادبی تنقید کے چند مسائل

 

 

 

                اسلوب احمد انصاری

 

 

 

 

 

اس امر کے ماننے میں تامل کی گنجائش نہیں کہ ادب کا تعلق زندگی سے گہرا اور غیر منفصل ہے۔ ادیب بھی عام انسانوں کی طرح جذبات، خیالات اور شعور رکھتا ہے۔ اور اسے اس زندگی سے عہدہ بر آہونا پڑتا ہے جو اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہے۔ حقیقت سے کامیابی کے ساتھ مفاہمت کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں، اول عملی طور پر اس کے بطن میں تبدیلی پیدا کرکے یا فنی طور پر اس کی نئی تعبیر و تفسیر پیش کرکے۔ ادب کے مسائل وسیع طور پر کلچر کے مسائل سے علیحدہ نہیں ہیں۔ اب تک انسان نے جس طور سے زندگی بسر کی ہے اس کا واضح نقش حال کے فکر اور برتاؤ کے ڈھانچے پر موجود ہے۔ اورآج کی زندگی سے جونتائج پیدا ہو رہے ہیں یا ہو سکتے ہیں وہ لازماً مستقبل کی تشکیل میں استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ ادب کا مقصد اپنے مخصوص طریق کار کے لحاظ سے ان معیاروں کو پرکھنا اور ان پرحکم لگانا ہے۔ کوئی بھی فن کار خواہ وہ انتہائی معروضی نقطۂ نظر کیوں نہ اختیار کرے، ان بنیادی تقاضوں سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ ادب کی تخلیق کے پس پشت جو محرک ہے وہ ایک حد تک صاف اور سادہ ہے۔ یعنی انسانی تجربے کے کسی خاص پہلو کی چھان بین اور اس کی بنیاد پر حقیقت کی کوئی نئی ترجمانی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ شاعر یا ادیب کے لیے کوئی گہرا اور تند تجربہ جسے اس نے اپنے قلب و روح کی گہرائیوں میں محسوس کیا ہو ضروری ہے۔ اس تجربے سے اس کی شخصیت کی خلیوں (cells)میں بنیادی اندرونی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی سے نئی بصیرت، نیا وجدان، نئی قوت تخلیق حاصل ہوتی ہے۔ اس تجربے ہی کی مدد سے انسان اپنے گرد و پیش کی اشیاء کو ایک نئی روشنی میں دیکھنے لگتا ہے۔ اور انھیں ذہنی اور جمالیاتی طور پر بدلناچاہتا ہے۔ عام زندگی میں ذہنی کاہلی یا یکسانیت یا رسم و رواج کی وجہ سے جو انجماد پیدا ہو جاتا ہے، جو بے رنگی غالب آ جاتی ہے، اس کی اوپری پرت (layer) اس تجربے اور بصیرت سے شکست کھاجاتی ہے۔ زندگی کے مواد اور ہیولیٰ میں تغیر کا یہی امکان اور یہی صلاحیت شاعر یا ادیب کو اپنی بات کہنے پر اکساتی ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ محبت اور نفرت، بنیادی اور اتنے پرانے جذبات ہیں جتنا خود انسان کا شعور اور اس کی مادی زندگی۔ ادیب اور شاعر ایک خاص صورتِ حال میں ان کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس تجربے کی نوعیت اور کیفیت اس کے لیے منفرد اور اچھوتی ہوتی ہے۔ اور اس کے رد عمل کے طور پر وہ انسانی برتاؤ کے عام معیار اورڈھانچے کو ایک نئی روشنی میں دیکھنے لگتا ہے۔ کسی قدر بدلے ہوئے اسی نقطۂ نظر کی وجہ سے وہ اسے ایک واقعی تجربہ سمجھتا ہے۔ جس صورتِ حال سے یہ جذبات متعلق ہیں، ان سے وہ اپنے طور پر عہدہ برآ ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال کو حسی طور پر پیش کرکے اور ہمارے اندازِ فکر کو بالواسطہ طور پر ایک نئے نہج پر لگا کر وہ حقیقت کا ایک نیا رخ پیش کر دیتا ہے۔ یہ عمل مختلف اور متنوع حالتوںمیں ظاہر ہوتا ہے، بعض سادہ اور بعض کسی قدر پیچیدہ۔ لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ کسی نظم، ناول یا ڈرامہ لکھنے کا جواز اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

 

اس کے پہلو بہ پہلو ایک اور بھی محرک ہوتا ہے۔ اول تو تجربہ بذات خود کوئی نام اور معنی نہیں رکھتا، تاآنکہ وہ الفاظ کے پیکروں میں ظاہر نہ کیا جائے۔ تجربہ ایک غیر مرئی کیفیت ہے، ایک سیمابی اور گزر جانے والی حالت۔ یہ ادیب یا شاعر کے اندرون سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ چاہے کتنا ہی شدید، موثر اور تند کیوں نہ ہو، امتدادِ وقت سے مدھم بلکہ ضائع ہوسکتا ہے۔ اسے حرف و صوت میں بند کر کے، اسے باطن سے خارج میں لا کر، اسے سیال حالت سے منجمد حالت میں منتقل کر کے اور اسے گریز پائی سے اٹھا کر استقلال و ہمیشگی عطا کرنے ہی سے ہم اسے اہم اور معنی خیز بنا سکتے ہیں۔ اس عمل کو ہم خارجیت کا عمل (objectivization) کہہ سکتے ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو وہ خواہش ہے جو شاعر یا ادیب بہ حیثیت انسانی جماعت کے ایک فرد کے محسوس کرتا ہے، یعنی اس تجربے اور اس کے ذریعہ حاصل شدہ تعبیر و تفسیر نو کو دوسروں تک پہنچانا۔ تخلیقی فن کار، تخلیقی عمل کے دوران میں اپنے گرد و پیش سے علاقہ توڑ لیتا ہے۔ وہ ایک تنہا فرد ہوتا ہے، وہ اپنے روحانی کرب کو انگیز کرنے میں کسی کا سہارا نہیں چاہتا، لیکن تجربے سے تجسیم کی طرف بڑھنا، خود انفرادیت سے اجتماعیت تک کے سفر کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کہنا صحیح نہیں کہ لازوال بن جانے کی آرزو ہی فن کار کی انتہائی تمنا ہوتی ہے۔ لازوال بننے کی خواہش بھی عمل خارجیت کے بغیر ممکن نہیں۔ مشہور انگریزی شاعر شیلے نے اپنی معروف تصنیف (A Defence of Poetry)میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’انشا کا کام شروع ہونے سے پہلے ہی فیضان میں اضمحلال کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں اور ارفع ترین شاعری جو دنیا تک پہنچتی ہے، شاعر کے بدیع فکر اول کا محض ایک دھندلا سا سایہ ہوتی ہے۔‘‘ یہ خیال صحت پر مبنی نہیں اس سے زیادہ گمراہ کن کروشے (Croce)کا یہ بیان ہے کہ تجربات کا وجدان حاصل کر چکنے پر فنکار کا عمل منتہی ہو جاتا ہے اور خارجیت یا ابلاغ کا عمل غیر ضروری ہے۔ دراصل وجدان کا ترسیل و ابلاغ ادبی فن کے دو نہایت ضروری اور لازم و ملزوم پہلو ہیں۔ وجدان کا تعلق محض اپنی ذات سے ہوتا ہے، ابلاغ کا تعلق پوری انسانی جماعت سے۔ ابلاغ ہی کے ذریعے وجدان اور فیضان کو عقلی بنایا جا سکتا، پرکھا اور متعین کیا جا سکتا ہے، الفاظ خود ایک سماجی آلہ کار ہیں، اور لکھنے کا عمل سماجی عمل ہے۔ تحریر کے وجود میں آنے سے پہلے زبانی ترسیل سے کام لیا جاتا تھا۔ وہ بھی باطن سے خارج کی طرف سفر کی ایک شکل تھی۔ اصل کارناموں کے ساتھ فن کار کا کسی پیش لفظ یا مینی فیسٹو (Manifesto)کو شامل کر دینا خود بہتر اور مکمل طور پر سمجھے جانے کی خواہش کی غمازی کرتا ہے۔ یہ اس صورت میں ضروری ہوتا ہے جب کہ شاعر یا ادیب یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے فکر و بیان کے اچھوتے پن کی وجہ سے بنیادی خارجی وسائل ناکافی ہیں۔ اسے قارئین کو اپنا ہمنوا اور ہمراز بنانے کے لیے ان کے ذہن و قلب کے دریچوں کو کھولنے اور انھیں پوری طرح اپنے ادراک حقیقت میں شریک کرنے کے لیے مزید وضاحت کی ضرورت پڑتی ہے۔

اس طرح ہمنوا اور ہمراز بنانے کے لیے ایک لازمی شرط کا پورا کیا جانا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ادبی اور فنی کارنامے کا مواد ایسے اجزاء سے مرکب ہو، جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کی دلچسپی اور فہم کے مطابق ہوں۔ بڑے ادب کے لیے یہ شرط اور بھی ناگزیر ہے۔ اب تک فن کار کی نادر بصیرت کے متعلق جو بات کہی گئی ہے، اس میں اور اس مزید نکتہ میں کوئی تنافر اور تضاد نہیں ہے۔ فن کار کا نقطۂ نظر یقینا انفرادی ہوتا ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ بھی شخصی اور ذاتی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف طبقوں کے درمیان کلچر کے سطحیں، مختلف قوموں کے نظام اخلاق اور مروجہ اقدارِ زندگی اور تاریخ کے مختلف ادورا میں فکر و نظر کے پیمانے مختلف ہوتے اور بدلتے رہتے ہیں، لیکن بہت سے موضوعات ایسے ہوتے ہیں جو اس اختلاف کے باوجود عام طور پر لوگوں کے لیے بامعنی اور اہم ہیں۔ پہیلیوں اور علم الاصنامی (mythological)قصوں کی دلکشی اور لازوال حسن کا راز اسی میں ہے۔ اسی لیے بڑے اور عظیم ادبی فن پاروں کو ہر عمر اور مختلف ذہنی سطح رکھنے والے لوگ پڑھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایلیڈ (Iliad)کا وہ حصہ لیجیے جہاں ہیکٹر (Hector)اپنی بیوی (Andromache)سے رخصت ہو رہا ہے۔ اس موثر منظر میں، جذبات پدری و مادری کے اس موازنے میں، اس سادگی اور معصومیت میں، جو ان کے بچے کے رد عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ اتنا عرصہ گزر چکنے کے بعد بھی آج بھی وہی شادابی اور حسن ہے جو ہزاروں سال پہلے تھا۔ سفر نامہ گلیور کو لیجئے، بے شک وہ اٹھارہویں صدی کے انگلستان کے سماج اور تاریخ میں پیوست ہے۔ مگر اس میں معاشرتی اور سیاسی اداروں پر جو تند و تلخ تنقید ہے، اسے آج کے حالات پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ (Catullus) کے غنائی نغموں کو لیجیے، ان میں جو شادابی، سرشاری اور شعریت ہے، وہ امتداد وقت کے باوجود ماند نہیں پڑی ہے۔ دراصل انسانی جذبات میں تو کوئی تغیر واقع ہوتا نہیں۔ ہاں برتاؤ کے وہ سانچے، جو جذبات سے متعلق ہوتے ہیں، بدلتے رہتے ہیں، فن کار کی نظر جس وسیع مواد پر ہو گی، وہ اپنی دل چسپیوں اور موضوعات کو جس قدر متنوع اور عام زندگی سے جس قدر ہم آہنگ کرسکے گا، اسی قدر اس کا دائرۂ اثر بڑھ جائے گا۔ یہ صحیح ہے کہ ادب سے ہر شخص اپنے سوجھ بوجھ اور مذاقِ سلیم کے مطابق ہی لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ اور بہت سی ایسی فنی باریکیاں ہیں، جو اختصاصی علم اور ہنر مندی کے بغیر گرفت میں نہیں آسکتیں۔ لیکن اس کے باوجود تجربے کے مغز کا ایک حصہ ایسا ہوسکتا ہے، جسے کم و بیش بہت سے لوگ ذہنی سعی کے بعد اپنی دسترس میں لا سکیں۔ قوموں، طبقوں اور ادوار کے فرق کے باوجود زیادہ سے زیادہ قابلِ وثوق اور قابلِ قبول مواد کو اپنے خیال اور جذبے کی دنیا میں سمیٹ لینا، بیک وقت فنی بصیرت بھی ہے اور فنی مہارت بھی۔ دراصل جذبات، صورتِ حال اور رد عمل کے سانچے، امتیازات کے با وصف ایک بنیادی مماثلت رکھتے ہیں اور عظیم ادب کے مختلف نمونوں میں ہم اس مماثلت کو پہچان سکتے ہیں۔ اچھے اور باقی رہنے والے ادب کے لیے دو عناصر کی آمیزش ضروری ہے۔ یعنی فن کار کا نقطۂ نظر اور عام طور پر قبول شدہ مواد کا زیادہ سے زیادہ ہونا۔ اس سے نہ صرف وقتی مقبولیت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے بلکہ اس بات کی بھی بڑی حد تک ضمانت ممکن ہے کہ فنی کارنامے کے نقوش مذاق اور وقت کی تبدیلیوں کی وجہ سے پھیکے نہ پڑیں گے۔

ادب کا ایک جواز یہ بھی ہے کہ وہ ہماری جمالیاتی حس کو تسکین دیتا ہے اور اس سے ایک خاص طرح کی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ فنی طور پر اس مسرت کا سرچشمہ فنی کارنامے کا جمالیاتی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ جمالیاتی ڈھانچے سے کیا مراد ہے؟ اور یہ مسرت کیسے حاصل ہوتی ہے؟ ہر فنی کارنامہ خواہ وہ ناول ہو، نظم ہو، یا افسانہ و ڈرامہ، ایک خاص وسعت رکھتا ہے۔ اس وسعت کا براہِ راست انحصار دو چیزوں پر ہے،اول فیضان (inspiration) کی لہر کا قیام، جو اس کارنامے کی تخلیق کے پیچھے کام کر رہی ہے۔ دوسرے اس صنف کی پابندیاں جن سے وہ متعلق ہے۔ جس طرح الفاظ ایک مکانی وجود رکھتے ہیں۔ اسی طرح فنی کارنامہ بھی جو الفاظ کی ایک مخصوص ترتیب کا نام ہے ایک مکانی وسعت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر سانیٹ (sonnet)کو لے لیجئے۔ یہ چودہ مصرعوں کی ایک مختصر سی نظم ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ شاعر کا فیضان، یا اس کی بصیرت یا اس کا تجربہ، ان چودہ مصرعوں کی مکانی ہیئت میں سمیٹا جانا چاہیے۔ اسی طرح غنائی نظم کا ڈھانچہ ڈرامے سے اور ڈرامے کا ناول سے مختلف ہو گا۔ فارم دراصل مکانی رقبہ یا وسعت ہی کا دوسرا نام ہے۔ لیکن یہ مکانی ہیئت دراصل چند اجزاء کے مجموعے کا نام ہے اور انہی اجزاء کے پہلو بہ پہلو رکھنے سے ایک کل کی تخلیق وجود میں آتی ہے۔ اسی لیے بڑے فنی کارناموں کے سلسلے میں ہم تعمیری حسن کا ذکر کیا کرتے ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ فارم بھی دو طرح کے ہوسکتے ہیں یعنی میکانکی (mechanical) فارم، اور عضوی (organic)فارم۔ اکثر بڑے فنی کارناموں میں عضوی فارم پایا جاتا ہے، یعنی وہ تمام اجزاء جن پر ان کی مکانی ہیئت مشتمل ہے، ایک دوسرے سے اس طرح ملحق و مربوط ہوتے ہیں، جس طرح ایک درخت کی پتیاں، یعنی ان میں ایک حیاتیاتی (biological) علاقہ ہوتا ہے۔ مشہور انگریزی نقاد کالرج (Coleridge)نے شیکسپیئر پر تنقید کے سلسلہ میں خاص طور پر اس عضوی فارم اور توانائی کا ذکر کیا ہے۔ دوسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی ہر فنی کارنامہ کا ایک محیط (presiding)خیال ہوتا ہے اور مختلف اجزاء اس کے تابع ہوتے ہیں۔ اس محیط خیال ہی کو ہم ادبی کارنامے کی کلیت (totality) کے نام سے بھی پکار سکتے ہیں۔ فنی کارنامہ ایک پیچیدہ تنظیم ہے۔ یعنی فن کار کو اس کا التزام کرنا پڑتا ہے کہ اولاً تو حشو و زوائد اس میں راہ نہ پا سکیں، اور دوسرے وہ چیزیں جو شامل کر لی گئی ہیں۔ ایک دوسرے سے گہرے طور پر مربوط ہوں، اور ان کے مابین کسی طرح کے کھانچے نہ ہوں۔ یہ کہا گیا ہے کہ حسن دراصل احساس تناسب کا نام ہے، انسانی اور فطری حسن کے تمام مظاہر میں جہاں کہیں تناسب اعضاء یا اجزاء موجود ہو گا۔ اس سے ایک طرح کی حسی تسکین حاصل ہو گی۔ یہی حال ادبی کارناموں کا ہے۔ مثال کے طور پر ترگنیف (Turgeneve) کے ناولوں کو لیجئے۔ ان کا پیمانہ محدود ہے، لیکن ان میں جو ضبط و ایجاز اور موزونیت و ہمواری ہے وہ بے اختیار خراج تحسین طلب کرتی ہے، لیکن ہمواری، موزونیت اور سلیقے یا قرینے کا یہ سخت گیر مطالبہ بعض اوقات صرف ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے عدم حصول کی ایک اچھی مثال پوپ (Pope) کی نظم (Essay on Man) میں ملتی ہے۔ اس کے مختلف حصوں میں ناہمواری کا احساس ہوتا ہے جس کے مخصوص اسباب ہیں، جدید ترین روسی ناول ڈاکٹر زواگو (Dr. Zhivago) کے ابتدائی حصہ میں کرداروں کی کثرت اور بہت سے واقعات کا بیک وقت بیان کسی قدر انتشار کا سبب بنتا ہے اور کسی واضح سمت کی طرف بڑھتا نظر نہیں آتا۔ عظیم فنی کارناموں کی تہ میں اس نفیس منطق کا پایا جانا کم و بیش ضروری ہے، جس کے نتیجے کے طور پر فنی تعمیر عمل میں آتی ہے۔ بڑے پیمانے پر اس کی نہایت اچھی مثال ملٹن کی لافانی نظم ’فردوس گم گشتہ‘ ہے۔ اس میں ایک دہرا پلاٹ ہے۔ یعنی شیطان اور اس کے گروہ کی خدا کے خلاف بغاوت اور سرکشی اور پھر شیطان کے ورغلانے سے آدم اور حوا کی الٰہی قانون سے سرتابی۔ یہ دونوں اجزاء متوازی نہیں ہیں، بلکہ دوسرا واقعہ پہلے واقعے کا نتیجہ ہے۔ نظم کے آخر میں جب آدم اور حوا کی سرکشی کے جرم میں بہشت سے اخراج کا حکم دیا جاتا ہے۔ تو یہ واقعہ ذہن کو، واقعۂ ماقبل یعنی شیطان اور اس کے متبعین کے اخراج کی طرف لے جاتا ہے۔ یہاں اس کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اس دہرے پلاٹ کو نباہنے، متعلقہ فضا کے نمایاں کرنے اور اس سے میل کھانے والے اشاروں (symbols)کے استعمال میں ملٹن نے بڑی احتیاط اور چابکدستی کا ثبوت دیا ہے۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بعض دفعہ جب کسی فنی کارنامے کا مواد ہمارے ذہن سے محو ہو جاتا ہے تب بھی اس کے ڈھانچے کے حسن و خوبی کا نقش باقی رہتا ہے اور اگر یہ ڈھانچہ واقعی مکمل اور ہم آہنگ ہے تو اس سے ہمیں وہی جمالیاتی خوشی حاصل ہوتی ہے جو کسی متناسب الاعضاء انسان یا دلکش تصویر یا مکمل عمارت کے دیکھنے سے فوراً اس کی تحسین کے لیے اکساتی ہے۔

یہاں دو اور امور کی بھی وضاحت ضروری ہے۔ اول یہ کہ عضوی (organic)فارم کا تصور، روحانی ادب اور تنقید کی دین ہے، لیکن جس ادب میں ترتیب واری کے بجائے عدم تسلسل (discontinuity)کا اصول کار فرما ہو گا جیسے سترھویں صدی کی انگریزی شاعری، جدید ترین یورپین ناول یا فرانس کی اشارتی شاعری، وہاں ڈھانچے کا تصور سلسلہ واری کی وجہ سے نہیں بلکہ اور دوسرے ذرائع سے حاصل ہو گا۔ کلاسیکل ناول میں چوں کہ عمل کی راہیں مختلف سمتوں میں بٹ جاتی ہیں، اس لیے بعض خاص خاص موڑوں پر پہنچنے کے بعد بازگشت کی ضرورت پیش آتی ہے تاکہ منتشر دھاگوں کو ایک لڑی میں پر دیا جا سکے۔ جن ناولوں میں زمانی تسلسل اہمیت نہیں رکھتا اور مسلسل پلاٹ غیر ضروری سمجھا جاتا ہے، وہاں شعور کے بہاؤ کی مدد سے بکھرے ہوئے شیرازے میں کوئی نہ کوئی اندرونی اور جذباتی ربط متعین کیا جا سکتا ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ مروجہ ناولوں میں کہانی اور جدید ترین ناولوں میں ذہن پر مسلط کوئی خیال، یا قلب کے اندرون میں موجود کوئی کیفیت وہ واسطہ فراہم کرتی ہے، جس سے تنظیم کا کام لیا جا سکے۔ میکانکی فارم وہ ہے جو فنی کارنامے کے اندر سے اُبھرنے کی بجائے اس پر خارج سے عائد کیا گیا ہو، جس میں اپنی توانائی نہ ہو اور جو مختلف اجزاء کی قلب ماہیت کے بعد انھیں ایک کلیت میں نہ سموسکے۔ دوسرے یہ کہ وسیع طور پر ڈھانچے تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک ظاہری اور بیرونی (literal)ڈھانچہ جو فنی کارنامے کی بنیادی ہیئت کے ساتھ ذہن میں آتا اور مکانی (spatial)پہلو رکھتا ہے، دوسرے اشارتی ڈھانچہ جو مرکزی محرک(motif)کی تکرار، محاکات (images)کے در و بست اور کنایات کی معنی خیزی کی مدد سے وجود میں آتا ہے اور تیسرے ڈرامائی ڈھانچہ جو مرکب ہوتا ہے۔ فنی کارنامے کے عام تموج، اُس کے معیار حرکت (momentum)اور اس میں جذبات اور کیفیات کی سلسلہ واری اور تناؤ کے اتار چڑھاؤ سے۔ ان اجزاء میں اور موسیقی کے حرکی ضابطہ میں ایک طرح کی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ہر بڑے اور اہم فنی کارنامے میں یہ تین طرح کے ڈھانچے بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔

فنی کارنامے کی ایک اور خصوصیت اس کے لہجہ کی ہم رنگی ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ لہجہ میں تبدیلیاں بے معنی نہ ہوں، بلکہ ان کا تعلق موضوع اور صورت حال میں تبدیلی سے ہو۔ یک رنگی سے مراد یکسانیت نہیں ہے کیوں کہ یکسانیت بالآخر اُکتاہٹ پیدا کرتی ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ مجموعی طور پر ادبی کارنامہ ایک خاص معیار سے گرنے نہ پائے۔ اور اس میں لہجہ کی تبدیلیاں اندرونی مطالبات کا نتیجہ ہوں۔ اس کی مثال غزل سے بخوبی دی جا سکتی ہے۔ غزل متفرق اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس میں ہر شعر اپنی جگہ مکمل مفہوم کا حامل ہوتا ہے۔ بعض اوقات غزل کے اشعار، متنوع اور متضاد کیفیات کی نقش گری کرتے ہیں لیکن مجموعی طور پر پوری غزل کا ایک خاص معیار ہوتا ہے۔ اگر کم مایہ اشعار کی کسی غزل میں بھرمار ہو گی تو ظاہر ہے کہ اس کا تخیلی اور جذباتی معیار بر قرار نہ رہ سکے گا۔ یا یہ کہیے کہ اس میں لہجہ کی مطابقت یا ہم رنگی کی کمی ہو گی۔ یہی حال ناول کا بھی ہے۔ ناول کے مختلف اجزاء کیفیتی (qualitative) اعتبار سے ایک دوسرے سے ممتاز ہوسکتے ہیں اور پلاٹ کی تفصیلات میں تبدیلی کے ساتھ ان کی فکری اور جذباتی سطح بھی بدل سکتی ہے، لیکن ان کا مجموعی تاثر ایک معیاری لب و لہجہ کی غمازی کرے گا۔ لہجہ کی ہم رنگی ان عناصر میں سے ایک ہے، جو تناسب اور ہم آہنگی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ دوسرے عناصر جو یہ احساس پیدا کرتے ہیں، وہ واضح منطقی یا بیانیہ ڈھانچے، نقطۂ عروج کی موجودگی اور مکانی اور زمانی نقطۂ نظر کی وحدت ہیں۔

اکثر بڑے فنی کارناموں کی ایک خصوصیت ان کی پیچیدگی (complexity)بھی ہے۔ یہ دو سطحوں پر پائی جا سکتی ہے۔ اول توسیعی (extensional)اعتبار سے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تعین کیا جائے گا کرداروں اور واقعات کی تعداد، تجربے کے دائرے (range)اور عمل کی مکانی اور زمانی گنجائش کی نسبت سے۔ جس فنی کارنامے میں یہ عناصر موجود ہوں گے اس میں وسعت اور فراخی کا احساس بھی ہو گا اور جس ہنر مندی کے ساتھ یہ عناصر ایک دوسرے کو سہارا دیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ آمیز کیے جائیں گے اس کی بنیاد پر ہم اس کی پیچیدگی کا اعتراف بھی کریں گے۔ پیچیدگی کی دوسری سطح اندرونی ہو سکتی ہے۔ یہ عبارت ہے، تفصیلات کی صاف اور روشن حدود، معانی اور مفہوم کی قطعیت اور قوت امتیاز کی اس لطافت اور ندرت سے جو فنی کارنامہ ہمارے اندر بیدار کرتا ہے۔ بڑے فنی کارناموں کے مطالعہ سے جو تاثر ہم حاصل کرتے ہیں۔ وہ بیک وقت یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم ایک منظم، بھرپور اور پیچیدہ کائنات میں رسائی حاصل کر رہے ہیں اور خود ہمارے اپنے احساسات اور معیار پرکھ میں ایک تہذیب اور چاؤ پیدا ہو رہا ہے۔ تخلیقی فن کار کا ادراک نا معمول سرچشموں سے اپنا مواد حاصل کرتا ہے اور اسے ایک کیمیاوی عمل کے ذریعے اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ مکڑی کے جالے کی طرح اس کی بناوٹ میں کوئی کور کسر نہیں نکالی جا سکتی۔

اسی طرح میانہ روی (economy)بھی فنی کارناموں کے لیے ضروری ہے، اس سے مراد حشو و زوائد سے اجتناب ہے۔ ایسا نہ کرنے سے تصویر کے اصلی خط و خال کے اوجھل ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ فن کار تجربے کے تمام پہلوؤں کو اپنی فنی کائنات میں نہیں سمیٹ سکتا اور اس لیے اسے اس مواد میں جو اس کی دسترس میں ہے، قطع و برید اور انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ میانہ روی کے اصول کو ناول کی مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے اگر ناول اصل موضوع یعنی پلاٹ اور کرداروں پر زور دینے کی بجائے فضا کی تعمیر اور منظر نگاری پر زور دے، یا ضمنی پلاٹ کے حدود، اصل پلاٹ کی نسبت بڑھ جائیں، یا کوئی فروعی اور غیر دلچسپ کردار ضرورت سے زیادہ جگہ گھیر لے، یا ایسے ضمنی قصّوں کی بہتات ہو جائے جو اصل واقعہ کے کسی اہم پہلو کی وضاحت نہیں کرتے، یا مخصوص کردار مجرد بحثوں میں الجھے نظر آئیں، یا ناول کے فکری اورحسی ڈھانچے میں پوری مطابقت نہ ہو، تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ فلاں ناول میں میانہ روی کی کمی ہے، آخری نقطہ کی وضاحت کے سلسلے میں ہم جرمن ناول نگار ٹامس مان کے ناول (The Magic Mountain) کا ذکر کرسکتے ہیں۔ اس کا پہلا حصہ جس میں سینی ٹوریم کے مریضوں کی کیفیات کی حیرت انگیز مصوری کی گئی ہے، دوسرے حصے سے، جس میں فلسفہ اور موسیقی کے ادق تصورات جگہ پا گئے ہیں، پورے طور پر مربوط نہیں ہیں اور اس طرح پورے ناول میں ایک طرح کے عدم توازن کا احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی مختصر کہانی اگر اس لیے طویل ہو گئی ہے کہ اس میں غیر اہم اجزاء یعنی غیر ضروری مکالمے یا پس منظر ضرورت سے زیادہ نمایاں ہے، یا رنگینیَ بیان، خطابت یا جذباتیت، تناسب کے عدم احساس کی وجہ سے حاوی ہو گئی ہے، تب بھی یہ سقم میں شمار ہو گا۔ اس قسم کی مثالیں ہمیں اردو افسانہ نگار کرشن چندر کی کہانیوں میں اکثر ملتی ہیں۔ ان کی اچھی سے اچھی کہانیاں بھی سستی جذباتیت کا شکار، رنگینیَ عبارت سے مملو اور مناسبت (relevance)کے احساس سے خالی ہیں۔ بڑے اور عظیم کارناموں میں، ان کی وسعت اور فراخی کے باوجود، اعتدال اور میانہ روی کے اس عنصر کی وجہ سے فن کار کے ذوق انتخاب اور سلیقے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اور یہ پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے مواد کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا دیا ہے بلکہ وہ اس کے امکانات اور فنی کارنامے کے حدود سے پوری طرح واقف ہے، اور ان کے درمیان ایک مناسب ربط قائم کرسکتا ہے۔

زبان کا مسئلہ بھی فنی وسائل میں ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے۔ پورا ادبی فن دراصل اظہار بیان اور وسائل بیان کا معاملہ ہے۔ اگر ہم کسی فنی کارنامے کی ہیئت پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ وہ مشتمل ہے دو قسم کی اکائیوں (units)پر، یعنی الفاظ کی اکائیاں اور مفہوم کی اکائیاں، اور ان کے درمیان پوری مطابقت شرط ہے۔ مشہور فلسفی ڈیکارٹ (Descartes)نے کہا ہے کہ حقیقت کا تجزیہ اگر کریں تو وہ دو چیزوں پر مشتمل معلوم ہو گی، یعنی خیال (thought)اور وسعت (extension)۔ اب الفاظ ہی دراصل وہ وسیلہ ہیں جوان دونوں کی درمیانی خلیج کو پُر کرتے ہیں۔ الفاظ کی تبدیلیاں معاشرت کی تبدیلیوں سے مربوط ہوتی ہیں۔ مشہور ناول نگار فلابیر (Flaubert) کا خیال ہے کہ ہر لفظ ایک ہی معنی رکھتا ہے۔ یہ خیال صرف ایک حد تک ہی صحیح ہے، یعنی اگر اس سے یہ مراد لی جائے کہ لفظ اپنے متعین، سائنٹفک اور لغوی مفہوم ہی میں استعمال ہوسکتا ہے، مگر عام طور پر شاعری میں ایسا نہیں ہوتا، کیوں کہ ہر لفظ اپنے (tentacles) رکھتا ہے، جو دوسرے الفاظ اور ان کی پرچھائیوں کی طرف بڑھتے ہیں، لفظوں کے مابین باریک فرق ہوتے ہیں اور ایک ایک لفظ کے کئی کئی قریب الفہم معنی ہوتے ہیں اور بعض الفاظ کی معنی خیزی ان کے سیاق و سباق (context)سے اُبھرتی ہے۔ شاعری میں خاص طور پر سیاق و سباق کی وجہ سے پامال الفاظ میں ایک نیا جادو جاگ اُٹھتا ہے۔ اگر ہم ایک نظم پر غور کریں مثلاً انگریزی شاعر ورڈز ورتھ کی کسی غنائی نظم پر، تو پتہ چلے گا کہ وہ چند بندوں پر مشتمل ایک ڈھانچہ ہے۔ ہر بند چند سطور سے مل کر بنا ہے، ہر سطر میں الفاظ کی ایک مالا پرو دی گئی ہے اور الفاظ حروف کی ترتیب سے مل کر معنی خیز بنتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ الفاظ، فنی کارنامے کی بنیادی اکائی ہیں اور جس طرح حروف کی بامعنی ترتیب سے الفاظ وجود میں آتے ہیں، اسی طرح الفاظ کی بامعنی ترتیب سے خیال کی اکائیاں جمتی ہیں۔ مفرد لفظ، فی نفسہ بامعنی تو ہوتا ہے، لیکن اہم نہیں ہوتا۔ الفاظ کی بامعنی ترتیب سے خیال کی شمعیں روشن ہوتی ہیں، لیکن الفاظ محض معنی ہی نہیں رکھتے۔ جنھیں منطقی طور پر بیان کیا جا سکے، بلکہ گونج اور مہک بھی رکھتے ہیں، جن سے کام لے کر فن کار ادبی کارنامے کی کشش اور حسن میں اضافہ کرسکتا ہے۔ الفاظ کے تمام امکانات پر نظر رکھنا اچھے فن کار کی کامیابی کی کلید ہے۔ الفاظ کی لازوال دولت کا سراغ ہمیں شیکسپیئر کے ڈراموں میں ملتا ہے، جہاں الفاظ کی وسعت اور پوشیدہ قوتوں کا کوئی پہلو نظر سے نہیں چھوٹا ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ شیکسپیئر نے کسی بھی تنہا فن کار کے مقابلہ میں سب سے زیادہ الفاظ سب سے زیادہ نازک امتیازات کا لحاظ رکھتے ہوئے اور سب سے زیادہ موثر انداز سے استعمال کئے ہیں۔ الفاظ کے استعمال کی ایک عجیب و غریب کوشش جس میں نحوی ترتیب کا دور دور بھی گمان نہ گزرے، جدید آئرستانی مصنف جیمس جوائس (James Joyce) کے ناولوں میں ملتی ہے، جس کی وجہ سے وہ قریب قریب ناممکن الفہم بن گئے ہیں۔ الفاظ اور زبان کے استعمال میں ایک خاص پہلو جو ہمیشہ ہر لکھنے والے کے پیش نظر رہنا چاہیے، یہ ہے کہ الفاظ موقع محل کی مناسبت سے استعمال کئے جائیں۔ اس سے لہجہ کا مناسب اتار چڑھاؤ متعین کیا جا سکتا ہے۔

فنی کارناموں کے سلسلے میں عام طور پر خلوص یا عدم خلوص کی جو اصطلاح مستعمل رہی ہے، وہ کسی قدر ترمیم چاہتی ہے۔ اس لیے کہ یہ ناکافی اور مغالطہ انگیز ہے۔ عام طور پر اس سے دو باتیں مراد لی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ ہر وہ تجربہ جسے فن کار نے الفاظ کے قالب میں ڈھالا ہے۔ براہ راست حسیات کا نتیجہ ہے اور دوسرے یہ کہ اسے فن کار نے بڑی معصومیت اور ایمان داری کے ساتھ پڑھنے والوں تک منتقل کر دیا ہے۔ یہ دونوں باتیں صحیح نہیں۔ اس لیے کہ اول تو فن کار کا تجربہ، حسیات اور مشاہدے کے پہلو بہ پہلو تخیل سے بھی مرکب ہوتا ہے اور دوسرے وہ اسے جوں کا توں منتقل نہیں کر دیتا، بلکہ اس کے مختلف پہلوؤں اور گوشوں میں خاصی قطع و برید کرتا ہے۔ خلوص صرف ایک حد تک ہی اس کا ساتھ دیتا ہے، اس کے بعد ہنر مندی آتی ہے۔ اور اس لیے مکمل موزونیِ اظہار (adequacy of expression)تجربے کو اس کی اصلی اہمیت اور قدر و قیمت کے ساتھ پیش کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس موزونیِ اظہار میں بہت سے فنی عناصر و عوامل شامل ہوتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر یہ مناسب ترین الفاظ کا انتہائی ہنر مندانہ استعمال ہے۔ اس سے فن کارانہ ضبط اور قابو کا پتہ چلتا ہے۔ الفاظ ہی کے ذریعہ فن کار اپنے مواد پر قابض ہوتا ہے۔ الفاظ ہی کے ذریعہ وہ اسے دوسروں تک پہنچاتا ہے اور الفاظ ہی کے ذریعہ تجربے کے جھلملاتے ہوئے سائے ایک ٹھہرا ہوا روپ اختیار کرسکتے ہیں۔

ان وسیع تر فنی وسائل کے علاوہ اور بھی کئی ضمنی یا ذیلی وسائل ہیں جو ہر فنی کارنامے میں تو نہیں پائے جاتے لیکن اکثر پائے جاتے ہیں اور ان کے استعمال سے مخصوص آثار کا حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ان میں سب سے پہلا عکس ترتیب(inversion)کا مسئلہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو کئی انمل، بے جوڑ واقعات یا مشاہدات کو اس طرح پہلو بہ پہلو رکھا جائے کہ بظاہر ان سے کسی نتیجے کی طرف رہنمائی نہ ہو، لیکن حقیقت میں نظریں ان میں ایک مناسبت اور مفہوم متعین کرسکیں اور یا یہ کہ بظاہر عبارت جس مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہوئی معلوم ہو، اس سے بالکل مختلف معنی مراد ہوں۔ انگریزی نثر نگار سوئفٹ (Swift)کی تحریروں میں یہ فنی تدبیر اکثر نظر آتی ہے۔ دراصل یہ ان سب شاعروں یا نثر نگاروں کے یہاں ملتی ہے، جو طنز و ظرافت کے میدان میں طبع آزمائی کرتے ہیں، کیونکہ طنز بلکہ ہجو اور ظرافت، دونوں ذہنی انداز فکر ہیں۔ ہجو نگار اور مزاح نگار دونوں اپنے ذہن میں ایک آدرش (ideal)رکھتے ہیں۔ جس کی نسبت سے وہ موجودہ حقیقت کی خامیوں اور حد بندیوں کو ناپتے ہیں۔ مزاح نگار کے یہاں ناپنے کا پیمانہ معاشرتی آدرش ہوتا ہے، ہجو نگار کے یہاں تندی، تلخی اور شدت ہوتی ہے، مزاح نگار کے یہاں مرحمت و آسودگی، ہجو نگار نشتر زنی کرتا ہے اور در و بام کو ہلا دینا چاہتا ہے۔ مزاح نگار صرف لب آسا مسکرانے پر قناعت کرتا ہے۔ اول الذکر کے یہاں اخلاقی واقعیت کی روح سرایت کیے ہوتی ہے۔ موخر الذکر کوتاہیوں اور خامیوں کا احساس ضرور رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے رویہ میں رواداری اور کشادہ قلبی کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ اول الذکر انقلاب کا علمبردار اور موخر الذکر محض اصلاح پسند ہوتا ہے، انگریزی ادب میں مزاح کی سب سے پاکیزہ مثال چاسر (Chaucer)کے یہاں اور ہجو کے زہر میں بجھے ہوئے تیر و نشتر سوئفٹ کے یہاں ملتے ہیں، شیکسپیئر کے یہاں دونوں رنگوں کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ عربی اور فارسی ادب میں ہجو اور مزاح کے نمونے ایسے اعلیٰ معیار کے نہیں ہیں، جیسے مغربی زبانوں میں۔ اردو میں مزاح کے سب سے زیادہ مہذب نمونے رشید احمد صدیقی، پطرس اور فرحت اللہ بیگ کے یہاں ملتے ہیں۔ اور ہجو کے اچھے نمونے سودا اور اکبر الہ آبادی کے یہاں۔ غالب کے یہاں تبسم کی شان دلنوازی جس آمد، شفاف بصیرت اور فکر و نظر کی ہمہ گیری کے ساتھ پائی جاتی ہے، اس کی مثال اور کہیں تلاش کرنا مشکل ہے۔ ہجو اور مزاح دونوں کے لیے وسیلۂ اظہار عکس ترتیب یا طنز (irony)ہیں۔ دونوں کا مقصد بالواسطہ یا کنایۃً بیان کا پیش کرنا ہے۔ ہجو اور مزاح سے یہ فنی تدبیر مخصوص ضرور ہے لیکن جہاں یہ اثرات پیدا کرنے مقصود نہ بھی ہوں، وہاں بھی یہ طریق کار مستعمل ہوسکتا ہے۔ دراصل اس کا ایک مقصد پڑھنے والے کی ذکاوت کو اُبھارنا بھی ہے۔ اس کے استعمال سے لکھنے والے کی ذہانت کو اظہار کا راستہ ملتا ہے۔ سوئفٹ کی ابتدائی تحریروں میں مقصدیت کی نسبت ذہانت کا یہ کھیل زیادہ نمایاں ہے۔ اسی سے ملتا جلتا طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی نظم میں جو شعری مقدمات شروع میں بیان کئے جائیں، اس کے برعکس نتائج نظم کے اختتام پر ظاہر ہوں۔ اور یہ مفہوم اچانک طور پر پایان کار بھبک (explode)اٹھے۔ اس وسیلے کا استعمال ہمیں ان شاعروں کے یہاں ملتا ہے جو ذکاوت سے بدرجۂ اولیٰ کام لیتے ہیں۔ اردو شاعری میں خاص طور پر غالب اور مومن کے یہاں مفرد اشعار میں یہ کیفیت نظر آتی ہے۔ عکسِ ترتیب سے لطف اُٹھانے کے لیے ذہن کو چوکنا اور بیدار رکھنا پڑتا ہے اور یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ دراصل ظاہری بیان کی تہ میں کون سا واقعی بیان چھپا ہوا ہے جس کی طرف فن کار ہمیں لیے جا رہا ہے۔ اس کے لیے نظم کے پورے ڈھانچے اور اکائیوں کی ترتیب اور ان کی غایت پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے۔

دوسری فنی تدبیر جو عام طور پر مستعمل ہے وہ نثر میں تحت البیان (understatement) اور نظم یا شاعری میں منطقی کھانچا(logical gap)کہی جا سکتی ہے۔ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔ یعنی بات کو کھول کر نہ بیان کرنا، اور بیان کے بعض پہلوؤں کو پڑھنے والے کے تخیل پر چھوڑ دینا۔دراصل کسی بھی فنی کارنامے کا وجود اسی وقت ہوتا ہے جب کہ نثری یا شعری مفہوم اور فنی کارنامے کے ڈھانچے کے مابین کامل آہنگی موجود ہو۔ لیکن اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ فن کار الفاظ کی اکائیاں کم استعمال کرتا ہے اور مفہوم کی اکائیاں زیادہ۔ اس طرح گویا تقلیل الفاظ کی مدد سے زیادہ سے زیادہ مفہوم کے استعمال کی طرف میلان پایا جاتا ہے۔ اسی سے اشارتی زرخیزی پیدا ہوتی ہے۔ انگریزی میں سوئفٹ کی نثر اور اردو میں حالی اور عبدالحق کی تحریریں تحت البیان کی بہت اچھی مثالیں ہیں۔ ایسا نثر نگار الفاظ کو آلہ کار ہی سمجھتا ہے۔ مرعوب کرنے کے لیے آراستگیٔ بیان سے کام نہیں لیتا۔ فرانسیسی ناول نگار فلابیر (Flaubert) کی تحریریں منتخب الفاظ اور گٹھی ہوئی عبارت کا مرقع ہیں، جن میں حشو و زوائد نام کو نہیں۔ شاعری میں اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں اور پائی بھی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ مفرد اشعار ہیں، جن میں چٹکلے پن (epigram) کی روح پائی جاتی ہے اور جو زبان زد عام ہو جاتے ہیں۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ مواد کے اعتبار سے ان میں کوئی بصیرت اور تجربہ سمویا ہوا ہوتا ہے جس کی نثری تشریح کے لیے بڑی وسعت درکار ہوتی ہے۔ فنی اعتبار سے ان کی خوبی اس میں ہوتی ہے کہ انھیں سیاق و سباق سے علیٰحدہ کر لینے پر بھی ان کی ندرت اور معنویت باقی رہتی ہے۔ چٹکلے بازی کی بہت اچھی مثال انگریزی شاعر پوپ کے یہاں ملتی ہے۔ غزل کے مفرد اشعار میں بھی ترشے ہوئے ہیروں کا یہ انداز پایا جاتا ہے۔ اسی سبب سے وہ جلد حافظے میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ آزاد نظم کے اشعار میں ذہن پر مرتسم ہو جانے کی یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔ دوسری صورت تشبیہہ و استعارہ کی ہے، جن میں تفصیلات سے گریز کر کے دو چیزوں کے درمیان اندرونی وابستگی اور مماثلت کی بنا پر تعلق قائم کیا جاتا ہے۔ ارسطو نے بڑے شاعر کی سب سے نمایاں پہچان اس کے یہاں استعاروں کا استعمال بتایا ہے۔ تشبیہ سے بھی زیادہ استعارہ صرف فنی تدبیر نہیں، بلکہ ذہنی طریق کار کو ظاہر کرتا ہے۔ فنی اعتبار سے استعارے کا استعمال قطعی علامات کی تلاش ہے۔ اسی سے بیان میں وضاحت اور جامعیت پیدا ہوتی ہے۔ معنوی لحاظ سے اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ شاعر کی نظریں کس طرح انفس و آفاق میں نفوذ کرسکنے کی وجہ سے مفہوم کی زندہ تجسیم کے لیے مختلف النوع اشعار میں ربط پنہاں کو معلوم اور نمایاں کرسکتی ہیں۔ یہ ربط لازمی طور پر تمثیلی (analogical) نہیں ہوتا، اس میں منطق کو بھی دخل ہوتا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ منطقی اور تمثیلی اعمال کے امتزاج سے جو روحانی ہیجان پیدا ہوتا ہے، اس سے استعارہ وجود میں آتا ہے۔ اس میں معرفت (cognitions) کا بھی ایک عنصر شامل ہوتا ہے، جس سے پورا عمل منور ہو جاتا ہے۔ شیکسپیئر کی ڈرامائی شاعری میں استعاروں کا استعمال جس حسن اور ندرت کے ساتھ ہوا ہے، اس کی وجہ سے اس کے شعری کارناموں میں بے انداز وسعت پیدا ہو گئی ہے۔

تیسری صورت منطقی خلا کی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ شاعر شعری بیان کے سانچے میں منطقی خلاء چھوڑتا ہوا چلا جاتا ہے، جنھیں پڑھنے والا خود اپنے تخیل کی مدد سے پُر کرسکتا ہے۔ اس کی مثالیں اردو، انگریزی اور فرانسیسی شاعری میں بکثرت ملتی ہیں۔ گو یہ طریق کار بالکل نیا نہیں ہے۔ اشارتی شاعری میں ہمیشہ اس سے کام لیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اٹھارویں صدی کے انگریزی شاعر بلیک (Blake)یا رومانی شاعر ورڈز ورتھ (Wordsworth) کی نظموں میں مرکزی اشارے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اول الذکر کے یہاں زمین، چاند، شبنم، سونا، گرجا، والدین، پادری، گلاب، چراگاہیں اور بھیڑیں وغیرہ اور موخر الذکر کے یہاں چاند، بنفشے کا پھول، آبشار، چراگاہیں، کائی (Moss)، ستارے، پہاڑیاں، اور لوسی (Lucy)وغیرہ سے بہت سے اہم کام لئے گئے ہیں۔ بلیک کے یہاں خاص طور پر نظم کے مفہوم کو متعین کرنے کے لیے یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ اشارے ایک دوسرے پرکیا عمل کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف نئے معنوں تک رسائی ممکن ہوتی ہے بلکہ نظم کے مختلف حصوں میں ربط قائم کرنے کے لیے جن کڑیوں کی ضرورت پیش آتی ہے، وہ بھی ہاتھ آ جاتی ہیں۔ ایک بات اور ہے اور وہ یہ کہ شاعری میں بعض اوقات منطقی ربط سے زیادہ جذباتی ربط کی اہمیت ہوتی ہے۔ اور جو خلاء سطح پر نظر آتے ہیں، انھیں جذباتی وحدت کی مدد سے پُر کیا جا سکتا ہے۔

تحت البیان کی ان دو صنعتوں کے برعکس فوق البیان (overstatement) کی صنعت بھی استعمال کی جاتی ہے، نثر میں یہ مبالغہ آرائی کے سلسلے میں ظاہر ہوتی ہے۔ شاعری میں اس کا اظہار بلند آہنگی اور خطابت کی صورت میں ہوتا ہے۔ مشرقی ادب میں اس کی مثال عربی، فارسی، اور اردو قصائد ہیں۔ جن میں لہجہ کا اُبھار نقص نہیں بلکہ حسن ہے۔ مغربی ادب میں اس کی مثال شاعری اور ڈراما دونوں میں ملتی ہیں۔ ڈرائیڈن (Dryden)کی شاعری اور ڈراما دونوں میں یہ عنصر پایا جاتا ہے۔ رزمیہ شاعروں کے یہاں بھی یہ شان و شکوہ بالعموم ملتا ہے۔ ملٹن کی ’’فردوس گم شدہ‘‘ میں یہ خطابت اور بلند آہنگی جگہ جگہ، خصوصاً شیطان کی مجلس شوریٰ کے نقشے کی ترتیب میں ملتی ہے۔ شاہنامۂ فردوسی میں بھی یہ قدم قدم پر نظر آتی ہے۔ اقبال کی شاعری میں بھی یہ خطابت ملتی ہے۔ بعض جگہ یہ ان کی شاعری کی تاثیر کو گھٹا بھی دیتی ہے، لیکن بعض مقامات پر اس کے لیے جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ ڈراما اور شاعری میں خطابت اور بلند آہنگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب فن کار کسی خاص جذبے سے سرشار ہو، اور ترغیب کا عمل خاموشی اور لطافت کے بجائے کھلے اور پر شکوہ انداز سے کرنا چاہیے۔ کھوکھلی خطابت کا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اسے جنم دینے والا محیط جذبہ اور خیال ناپید ہو۔ خطابت فی نفسہ نہ اچھی چیز ہے اور نہ بری، البتہ اس موقع کا لحاظ ضروری ہے، جس کے لیے خطابت برتی گئی ہے اور اس کے حدود سے تجاوز نہ کرنا بھی شرط ہے۔ خطابت اور بلند آہنگی ایک وسیلہ ہے ترغیب کا، یہ طنز کے ذریعہ بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ مبالغہ کے ذریعہ بھی، مزاح کے ذریعہ بھی، معنی خیز اشاروں کے ذریعہ بھی۔ یہ سب فنی وسائل ہیں جو ادبی اصناف کے اختلاف کی نسبت سے مختلف ادبی کارناموں میں پائے جاتے ہیں، اور جن کے ذریعے سے ابلاغ کے عمل کو موثر بنایا جا سکتا ہے۔

موجودہ ادبی تنقید میں جن اصطلاحات کا بہت زیادہ چرچا ہے، ان میں قول محال (paradox)کی صنعت بھی شامل ہے یہ بھی طنز اور عکس ترتیب ہی کی ایک خاص صورت ہے۔ یعنی ایسی بات کا بیان کرنا جو بظاہر بے معنی ہو، لیکن جس سے دراصل گہرے معنی مقصود ہوں، اس کا استعمال مزاح نگار کے یہاں زیادہ، ہجو نگار کے یہاں کم ہوتا ہے۔ گو ہر حال میں ایسا ہونا ضروری نہیں۔ علانیہ طور پر قول محال کا استعمال ہمیں مشہور مزاح نگار چیسٹرٹن (Chesterton) کے یہاں ملتا ہے۔ اور اسی طرح آئرستانی مصنف برنارڈشا اور فرانسیسی مصنف اناتول فرانس (Anatole France)کے یہاں۔ لیکن شاعری کے سلسلے میں عام طور پر جب ہم اس کا ذکر کرتے ہیں، تو اس سے مراد محض لفظی تضاد یا وہ تفنن نہیں ہوتا، جو اس کے برعکس مطلب نکلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ وہ روشنی (illumination)اور وہ حیرت و استعجاب بھی، جو متضاد شعری بیانات کے بالمقابل رکھنے اور ان کے بالآخر کسی مثبت حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ موجودہ امریکی نقادوں نے اس صنعت پر ضرورت سے زیادہ زور دیا ہے۔ اور بظاہر معمولی نظموں میں بھی قول محال کی مثالیں تلاش کر لی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قول محال کا استعمال زیادہ تر ذکاوتی (Witty)شاعری میں ملتا ہے اور اس سے خاصی ہنر مندی اور ذہنی ریاضت کو دخل ہوتا ہے۔ قول محال کی مثال غالب کے اس شعر سے دی جا سکتی ہے۔

طاعت میں تا رہے نہ مئے و انگبیں کی لاگ

دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو

لیکن دنیا کے عظیم ادب میں قول محال سے زیادہ دو اور صنعتیں مستعمل ہیں، اول ابہام (ambiguity)اور دوسرے(ambivalence)اول الذکر قول محال سے زیادہ ہمہ گیر صنعت ہے۔ یعنی قول محال کی طرح یہ نہیں کہ بظاہر مفہوم عام رائے کے خلاف معلوم ہو۔ اور قابلِ قبول نظر نہ آئے، لیکن مزید فکر و تامل سے اس کے مکمل اور معنی خیز ہونے کا یقین ہو جائے بلکہ الفاظ اور مفہوم کی اکائیوں کا ایسا استعمال اور ایسی ترتیب، جس میں ایک سے زیادہ معنوں کی سمائی ہو سکے۔ صوفیانہ شاعری اور عام طور پر غزل کی شاعری اس کی بہت اچھی مثال ہیں۔ حافظ، عراقی، جامی اور رومی کی شاعری میں ایک ایک شعر کے کئی کئی مفہوم نکل سکتے ہیں۔ اور یقین کے ساتھ یہ کہنا دشوار ہوتا ہے کہ شاعر کے ذہن میں کون سا ایک مخصوص مفہوم تھا اس لیے ایسی شاعری کی تفسیر ہم مختلف سطحوں پر بیک وقت کرسکتے ہیں۔ یہ بات کچھ صوفیانہ یا عشقیہ شاعری ہی سے مخصوص نہیں بلکہ جہاں شاعری کے عمل میں پیچیدگی کا عنصر نمایاں ہو گا، وہاں ابہام کی خصوصیت نظر آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شعری تخلیق کے عمل میں کثیر التعداد عناصر، جو خارجی اور باطنی دنیا سے اخذ کئے گئے ہیں، یکجا مجتمع ہو جاتے ہیں اور شاعر غیر شعوری طور پر ان کا اظہار ایسے پیرائے میں کرتا ہے کہ اسے کسی ایک مفہوم میں قید نہ کیا جا سکے۔ کالرج نے تخیل کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ تجربے کے متضاد پہلوؤں کو اسیر کرنے کی صلاحیت کا دوسرا نام ہے۔ اس صلاحیت کی وجہ سے ایسے کلاسیکل شاعروں، جیسے ہومر، شیکسپیئر، رومی، گوئٹے اور غالب کی نئی نئی تفسیریں ممکن ہیں، جو ان کے مفہوم کے سرمائے کو مدت تک نہ سمیٹ سکیں۔

(ambivalence)کی صنعت کا مفہوم یہ ہے کہ دو یکساں قابلِ قبول اور جائز نقطہ ہائے نظر کو شعری اور فنی حسن بیان کے ساتھ اس طرح پہلو بہ پہلو رکھا جائے کہ فن کار پر کسی جانب داری کا گمان نہ گزرے۔ یہ دراصل متوازن کرنے کی صنعت ہے۔ اس سے یہ جتانا مقصود ہوتا ہے کہ فن کار اپنے پڑھنے والے کو ذہنی آزادی اور قوت فیصلہ کا پورا حق دینا چاہتا ہے۔ وہ زندگی پر پورے ضبط و اعتدال کے ساتھ نظر ڈالتا ہے اور اسے کامل معروضیت (objectivity)کے ساتھ پیش کرسکتا ہے۔ ڈراما بنیادی طور پر اسی متوازن کر دینے والی جبلت کا ایک فنی اظہار ہے۔ آئی اے رچرڈس نے المیہ کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اس میں خوف اور رحم کے جذبات کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بیان بنیادی طور پر پوری ڈرامائی شاعری پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔ اس فنی تدبیر کا منشا یہی ہے کہ شعری یا فنی مواد کو پڑھنے والے کے نقطۂ نظر سے بھی پیش کرنا چاہیے۔ انگریزی شاعری اور ڈرامے میں اس کی دو معروف مثالیں گرے کی نظم ’گور غریباں‘ (Elegy Written in a Country Churchyard)اور شیکسپیئر کے ڈرامے (Throilus and Cressida)سے پیش کی جا سکتی ہے۔ اول الذکر میں مادی اور ذہنی زندگی کے دو مختلف امکانات اور مو خر الذکر میں دو متوازی فلسفہ ہائے حیات پیش کیے گئے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں، اور جنھیں وسیع طور پر کلاسیکی اور رومانی رجحانات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ فن کار کے متعلق جو معلومات ہمیں دوسرے ذرائع سے اور خود اس کے دوسرے فنی اور ادبی کارناموں کی بنیاد پر حاصل ہیں، اُن کی مدد سے ہم کسی حد تک یہ متعین کرسکتے ہیں کہ خود اس کا انتخاب کس کے لیے ہو گا، لیکن فنی کارنامے کی کائنات میں اس کی جانب داری بہت نمایاں نہیں ہوتی کیوں کہ اس کا مقصد حقیقت کے دو یا دو سے زیادہ پہلوؤں کو بے لاگ انداز کے ساتھ پیش کر دینا ہوتا ہے۔ ابہام اور (ambivalence) دونوں کی اچھی مثال غزل میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ غزل کے مفہوم کو کسی ایک محور سے متعلق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس میں ذاتی اور غیر ذاتی عناصر ایک کل میں جذب ہو کر اپنے الگ الگ رنگوں کو بدل دیتے ہیں۔ اس کے مختلف المعنی اشعار کی اکائیاں تجربے کے ایک سے زیادہ گوشوں کی ترجمانی کرتی ہیں۔ مختلف ذہنی اور جذباتی کیفیات کو دویا دو سے زیادہ گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں وحدت تاثیر تلاش کرنا ضروری نہیں۔ توازن باہمی کا عنصر البتہ متعین کیا جا سکتا ہے۔ ان سے زندگی کی کثیر العناصر پیچیدگی (Multiplexity)کا اظہار بھی ہوتا ہے، اور اس حقیقت کا بھی کہ بظاہر مقید و محدود چیزوں کے بھی کئی کئی پہلو ہو سکتے ہیں۔ اس سے غزل گو شاعر کی ڈرامائی ماورائیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اور اس بات کا بھی کہ وہ اپنا بنیادی نقطۂ نظر رکھنے کے با وصف متضاد عناصر اور حقیقتوں کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

تنقید اور تخلیق

 

 

 

سائنس اور عقلیت کے حیرت انگیز کارناموں نے انسانی علوم و فنون اور نظریوں کے لیے نئے دروازے کھولے۔ خلاف معمول اندازِ فکر قائم کرنے میں مدد پہنچائی۔ ان اوہام کا طلسم توڑا، جن میں ذہنِ انسانی مدتوں گرفتار رہا تھا۔ ما بعد الطبعیاتی مطلق قدروں کے خلاف جو عام رد عمل ہوا، وہ عام صحت مندی کی ایک بین علامت تھی۔ لیکن ہر رد عمل میں غلو کی جانب ایک صریح میلان پایا جاتا ہے۔ دو انتہاؤں کے درمیان نقطۂ اعتدال کو پانے کے لیے وقت، صبر اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فلسفے کی بھول بھلیوں سے ایک مرتبہ آزاد ہو جانے کے بعد ہم غیر ارادی طور پر اس کے عادی ہو گئے ہیں کہ ان تمام کیفیات یا ان کیفیات کے نتائج کو، جن پر ادراک اور شعور بیش از بیش اثر انداز ہوتے اور ان کی تخلیق کرتے ہیں، میکا نکی تجزئیے کی مدد سے خود سمجھ لیں اور دوسروں کو سمجھا دیں۔ اسی لیے یہ غلط فہمی عام ہو گئی ہے کہ ادبی تنقید منحصر ہے چند بندھے ٹکے قوانین کو کسی فن کارنامے پر ٭٭ دو ممنطبق کر دینے پر۔ اس مفروضے سے جہاں یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ کسی اعلیٰ شاہکار کی مکمل تشریح و تفسیر ریاضیاتی اصول ضابطہ کے عائد کرنے سے ممکن ہے، وہاں اس خیال کو بھی بڑی تقویت پہنچی ہے کہ تنقیدی عمل کے لیے صرف معلومات اور ایک طرح کی ہنر مندی کافی ہے اور اس میں تخلیقی عناصر کی کارفرمائی کی نہ ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔

اس مسئلے کو اس کے صحیح پسِ منظر میں دیکھنے اور اس پر کوئی معقول اور متوازن رائے قائم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے تنقیدی عمل کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے اور پھر یہ اندازہ لگایا جائے کہ اس سفرمیں ہمیں کس کس منزل پر معروضی بے تعلقی کے ساتھ متعلقہ مواد کو فراہم کرنے اور اسے حسبِ موقع استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور کون سے مقامات ایسے ہیں جہاں مذاق سلیم، ادراک اور وجدان کا سہارا لینا پڑتا ہے، اور اپنے آپ کو اس جذباتی ہیجان سے گزارنا پڑتا ہے، جس سے فن کار کے تخیل نے شدت اور توانائی حاصل کی تھی، اگر ہمیں تخلیقی عمل کی ماہیت اور اس کے لوازمات کا نیابتی، بالواسطہ اور مبہم سا انداز بھی ہے، تو یہ فیصلہ کرنے میں شاید وقت نہ ہو کہ تنقید اور تخلیقی عمل، کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے، ایک دوسرے سے کس حد تک مماثلت رکھتے ہیں اور کس حد تک مختلف ہیں۔

ہر ادبی کارنامہ ایک خاص ذہن اور شعور کا عکس ہوتا ہے، ایک ایسے ذہن کا، جس کا محل وقوع تاریخ کا ایک خاص نقطہ ہے، ایک ایسے شعور کا، جس کے ارتقاء اور حد بندی میں عمرانی قوتوں نے خاصا حصہ لیا ہے، اگر ہم کسی شاعر یا ادیب کی بصیرت کو اپنانا چاہتے ہیں، اور ان فنی وسائل اور محاسن سے پوری طرح لطف اندوز ہونا بھی، جن میں وہ بصیرت خارجی طور پر متشکل ہوئی ہے، تو ہمیں اپنے آپ کو اس مقام تک لے جانا چاہیے جہاں وہ کھڑا ہے۔ اور اس کے لیے ہمیں علمی تلاش و تحقیق اور وسعتِ نظر کی ضرورت ہے۔ کوئی شعور خواہ وہ کتنا ہی اچھوتا، تیز اور آفاق گیر کیوں نہ ہو، ماحول کے اثرات سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اس لیے تنقید نگار کے سفر کا سنگ اولیں یہ ہے کہ وہ ادبی کارنامے کی افہام و تفہیم کے لیے سب سے پہلے ان علمی، ادبی اور سماجی تحریکوں اور قوتوں کا مطالعہ کرے اور جائزہ لے، جنھیں فنی کارنامے کا خارجی ماحول کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بعداس داخلی ماحول کا اندازہ لگانا بھی از بس ضروری ہے، جو مشتمل ہے فن کار کی نجی دنیا کے بظاہر معمولی اور بے اثر کوائف، اس کے نسلی ورثے، اس کی ذہنی اور نفسیاتی ساخت، اس کی شعوری اور غیر شعوری پیچیدگیوں، اس کے باطن میں داخلی اور خارجی عناصر کی آویزش اور ان شخصیتوں کے پیچ و خم پر جو براہ راست اس کی خالص انفرادی زندگی میں داخل ہوئیں۔ خارجی اور داخلی ماحول کی یہ تخصیص اس لیے روا رکھی گئی تاکہ اس اصطلاح کی وسعت اور اہمیت نمایاں کی جا سکے۔ دراصل انھیں دونوں کے عمل اور رد عمل سے وہ سانچہ تیار ہوتا ہے، جس میں فن کار کا مخصوص ادراک اپنے آپ کو ڈھالتا ہے، جس سے اس کا مخصوص مزاج نیا آب و رنگ پاتا ہے، جس سے اس کے مخصوص شعور کی سمت متعین ہوتی ہے۔

لیکن خارجی عوامل کا مطالعہ صحیح اور بے لاگ ہونے کے باوجود ہمیں کمال یافتہ فنی کار نامے کا عرفان نہیں بخش سکتا۔ اس کا ماحصل صرف یہ ہے کہ وہ ہماری سوجھ بوجھ کی قوتوں کی تربیت کرکے انھیں حساس اور زرخیز بنا دے اور ان میں وہ لچک اور اثر پذیری پیدا کر دے، جو ادبی قدر شناسی کے لیے لازمی ہیں۔ فنی کارنامے چاہے وہ برجستہ اور خیال انگیز مصرعوں کی ایک لڑی ہو، ایک دلکش تصویر ہو، ایک ترشا ہوا مجسمہ ہو یا روح کی گہرائیوں میں سما جانے والا ایک غیر مرئی نغمۂ آتشیں ہو، دراصل چند اشاروں کا مجموعہ ہے، اور نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ ان اشاروں سے مطابقت رکھنے والی قدروں کا احساس ہمارے اندر پیدا کر دے۔ اس کے لیے وہ مجبور ہے کہ اپنے اندر سے ایک مناسب طرز فکر کو ابھارے اور اس نظم، تصویر، مجسمے اور نغمے کے لیے، اپنے اندازِ فکر کو گہرا اور معنی خیز بنائے جس میں شاعر، مصور، سنگ تراش اور مغنی نے ان قدروں کو ظاہری شکل دی ہے۔ اگر وہ قدروں کے ایسے اظہار میں کامیاب ہو جائے، تو اس کا تفاعل اپنی اصل کے اعتبار سے تخلیقی سمجھنا چاہیے۔

جب ہم کسی فنی کارنامے کو پرکھتے اور اس پر رائے قائم کرتے ہیں، بلکہ جب ہم اس سے جمالیاتی طور پر پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہیں، تو ایک طرح سے ہم اسے دوبارہ عالمِ وجود میں لاتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے وجدان کو فن کار کے وجدان کے ساتھ ہم آہنگ کر دیں۔ یہ ایک بالکل اضطراری فعل ہوتا ہے، جس میں ہمارے شعوری ارادے کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس وجدانی ہم آہنگی، اور فنی کارنامے کو نئی زندگی بخشنے کے عمل کے دوران ہم دراصل اپنی خودی کے مکمل اظہار کی گنجائش پیدا کرتے ہیں۔ اور جس حد تک ہماری شخصیت کا اظہار، فن کار کی شخصیت کے اظہار کے موافق ہو، اسی حد تک ہم تخلیقی قوت میں شریک کہے جا سکتے ہیں۔

اگر ہم تخلیقی عمل پر زیادہ شرح و بسط کے ساتھ غور کریں، تو پتہ چلے گا کہ یہ کوئی پُراسرار اور ناقابل فہم عمل نہیں ہے اور اس کی نفسیات ہمارے روزمرہ کے افعال کی نفسیات سے بنیادی طور پر مختلف نہیں ہے۔ البتہ زیادہ شائستہ اور لطیف ضرور ہے۔ دونوں قسم کے اعمال میں نقطۂ آغاز کی ایک نوع کی جذباتی توانائی اور تشنج ہوتا ہے۔ روز مرہ کی نثری زندگی میں یہ جذباتی توانائی محسوس اور مادی اور ایک حد تک غیر متمدن حالت میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً ہم جب غصے کا اظہار زد و کوب کی صورت میں یا محبت کا اظہار بوس و کنار کی صورت میں کرتے ہیں۔ لیکن آرٹ کی دنیا میں، جذباتی توانائی میں برانگیختگی آرٹ کے مواد سے پیدا ہوتی ہے۔ کوئی فطری یا انسانی واقعہ یا حادثہ، مختلف قسم کے رنگ، مختلف قسم کے پتھر، مختلف قسم کی آوازیں، فن کار کی جذباتی اور تخیلی کائنات میں ایک زبردست تموج اور تلاطم پیدا کر دیتی ہیں۔ اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی خواہش تو فن کار کی فطرت میں ازل سے ودیعت کی گئی ہے۔ یہ جذباتی تشنج اس خواہش کے خط و خال کو ایک واضح شکل عطا کرتا ہے، لیکن یہ قیاس کرنا بڑی غلطی ہو گی کہ کمال یافتہ فنی کارنامہ محض اس ملے جلے جذبے اور خواہش کا عکس ہے۔ فن کار کے تحت الشعور میں ہزاروں قسم کے خیالات، احساسات، یادیں اور تجربے موجود ہوتے ہیں۔ اس کا تخیل اور وجدان ایسے تاثرات کی بھی تخلیق کرتا رہتا ہے جو بادی النظر میں کسی محسوس اور مادی شے کا نتیجہ نہیں ہیں۔ تخلیق کی خواہش فن کار کو اظہار پر اُکساتی رہتی ہے اور یہ اظہار جب مکمل اور استادانہ ہوتا ہے تو اس بے ربط ذخیرے میں، جو فن کار کی روح کی گہرائیوں میں خارجی شکل اختیار کرنے کے لیے مچل رہا تھا۔ خود بخود ایک نظم، معنی اور ترتیب پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا نتیجہ شعر، تصویر، مجسمہ یا نغمہ ہوتا ہے۔

ادب کے سلسلے میں خاص طور سے ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ الفاظ اپنے اندر لازوال قوت کا خزانہ رکھتے ہیں۔ الفاظ ہی کے ذریعہ ادیب یا شاعر کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ جمالیاتی احساس کو فکری احساس میں تبدیل کر دے، الفاظ ہی کی وساطت سے یہ موقع میسر آتا ہے کہ وہ اس رد عمل کو جسے آرٹ کے مواد نے اس کے اندر پیدا کیا ہے، ایک لطیف اور نازک سانچے میں ڈھال دے۔ الفاظ ہی کی مدد سے دراصل غیر پختہ اور جمالیاتی احساسات کے درمیان حد فاصل قائم کی جا سکتی ہے۔ ادبی تنقید میں ایک عام غلطی جو ہم سے سرزد ہوتی ہے، وہ یہ کہ ہم الفاظ کو ایک بے جان اور منفعل سی چیز سمجھتے ہیں۔ اور انھیں اس پورے عمل میں ایک ثانوی درجہ دیتے ہیں، ہم بہت آسانی سے یہ نظر انداز کر جاتے ہیں کہ الفاظ نہ صرف جذبات کی زبان ہیں، بلکہ وہ جذبات میں ہمواری، زرخیزی اور گہرائی بھی پیدا کرتے ہیں اور وہ محض مطالب کو خارجی لبادہ نہیں پہناتے بلکہ ان کی وسعتوں میں اضافہ کرتے اور ان میں وزن اور وقار بھی پیدا کرتے ہیں۔

اگر ہم نے مقدماتِ ماقبل کو احتیاط کے ساتھ ذہن نشین کر لیا ہے تو ہمیں یہ ماننے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ ادبی تنقید خود ایک طرح کا تخلیقی عمل ہے۔ فرق اگر ہے تو صرف تقدیم و تاخیر کا، اس کا براہِ راست نتیجہ یہ ہے کہ فنی کارنامے لازوال اور موجود بالذات ہوتے ہیں، اور تنقیدی کارناموں کی حیات اور ہمیشگی کا انحصار ان کارناموں پر ہے جن کی وہ تشریح و توضیح کرتے ہیں۔ اول الذکر ایک طور سے گویا نظام شمسی ہیں اور موخر الذکر ان بے شمار سیاروں کی مانند، جو ان کے گرد رقص کرتے، ان سے کسب نور کرتے اور غالباً ان کی حیات کے لیے ناگزیر ہیں۔ ادبی نقاد کو بھی زبردست جذباتی اضطراب سے دوچار ہونا پڑتا ہے، مگر یہ اضطراب آرٹ کے مواد کا آفریدہ نہیں ہوتا۔ اس کا محرک نظم، افسانہ یا ڈرامہ ہوتا ہے۔ جس طرح فنی شاہکار محض خواہشِ تخلیق یا جذبات کے سیلاب کا عکس نہیں ہوتا، بلکہ شعور اور لاشعور کے معمور خزانوں کی ایک منضبط شکل کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ اور معیاری تنقید صرف جذباتی رد عمل کا پتہ نہیں دیتی، کیوں کہ نقاد کے جذباتی مشاہدات اور کیفیات بہت دیر تک ایک بے معنی طومار کی حالت میں نہیں رہتیں، بلکہ اگر اس کے حواس میں لطافت اور اس کے شعو رمیں اعلیٰ قسم کی تنظیمی اور ترکیبی صلاحیت موجود ہے تو وہ بہت جلد ایک عضوی کل میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اور معیاری تنقید اسی عضوی کل کا نثری بیان ہے۔

جس طرح ایک ناول نگار زندگی اور کائنات کے متعلق اپنے مرتب کیے ہوئے تجربوں کی اشاعت کے لیے ایک موضوعی مرادف کا متلاشی ہوتا ہے، جو اکثر پلاٹ کی صورت میں دستیاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک نقاد ان تاثرات کو گویا بنانے کے لیے جو فنی شاہکار نے اس کے دل و دماغ پر مرتسم کیے ہوئے ہیں، اقتباسات کا محتاج ہوتا ہے، مزید برآں بالکل اسی طرح جیسے کہ فن کار عنصری تجربے کے سلسلے میں تحلیل اور شیرازہ بندی کے اصول پر عمل کرتا ہے، نقاد بھی ادبی کارنامے کے معاملے میں انھیں دو مرحلوں سے گزرتا ہے اور اس طرح وہ پایانِ کار اپنے تاثرات کی کلی ہیئت اور اس کی پیچیدگی کو قائم رکھتے ہوئے اپنے اور فنی کارنامے، دونوں کے ساتھ انصاف برتتا ہے۔ آج کل اس رائے پربھی اتفاق بڑھتا جا رہا ہے کہ مذاقِ سلیم اپنی ماہیئت میں فطانت سے مختلف نہیں ہے۔ شعر پڑھ کر ہم پر وجد اور سرمستی کی حالت اس لیے طاری ہوتی ہے کیوں کہ ہم خود اس صلاحیت میں بڑی حد تک حصہ دار ہیں، جس نے شاعر کو نغمہ سرائی پر مجبور کیا تھا۔ اگرچہ ہماری استعداد ایک طرح کی انفعالی کیفیت رکھتی ہے اور شاید ایسا بھی ہے کہ فطانت میں آنچ اور چمک زیادہ ہے، گو مذاقِ سلیم بھی اس سے مکمل طور پر مبرا نہیں۔

اس سے یہ نتیجہ نکالنے میں ہمیں جھجک نہیں ہونی چاہیے کہ تنقید بھی ایک تخلیقی عمل ہے، اگرچہ نسبتاً کم تر درجے کا۔ لیکن قطع نظر اس سے کہ تنقید نگار کے لیے بھی کم و بیش انھیں صلاحیتوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جن کی فنی کارنامے رہینِ منت ہیں اور وہ بھی انسانی ادراک کی اسی طرح توسیع کرتی ہے جس طرح شاعر، ادیب، مصور، مغنی اور سنگ تراش کرتے ہیں۔ ادبی تنقید کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فن کار اور اس کے مخاطبین کے درمیان رابطہ پیدا کرنے کی سب سے موثر، قابلِ اعتبار اور قابلِ وقعت تدبیر ہے۔ اعلیٰ فن کار جن نازک اشاروں، جن لطیف استعاروں جس معنی خیز ایجاز و اختصار، جس نوعی زرخیزی، جس اندرونی تخیلی ارتباط اورجس سخت گیر تنظیم و تطابق سے کام لیتا ہے، وہ بسااوقات عام قاری کے لیے ناقابلِ فہم ہوتا ہے اور تاوقتیکہ نقاد ان تمام محاسن اور خوبیوں کو پڑھنے والوں کے لیے نمایاں نہ کرے۔ فنی کارنامہ اپنے اصل مقصد یعنی ابلاغ کے حصول میں ناکام رہتا ہے۔ دراصل معیاری تنقید ہی ادبی کارناموں کو حیاتِ دوام بخشی اور ان کے خلاقین کو ان کے صحیح منصب پر سرفراز کرتی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ آج ہم شیکسپیئر کو اتنی ہی قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے اگر اس کے اسرار و رموز کی گرہ کشائی صفِ اول کے نقادوں نے نہ کی ہوتی۔ اور یہ بھی قطعی ممکن ہے کہ آج ہم اقبال اور غالب کو شیکسپیئر، گوئٹے اور دانتے کا ہم پلہ قرار دے سکتے اگر ہمارے نقادوں کو وہی علمی دسترس، تخیلی ژرف بینی اور سچی بصیرت حاصل ہوتی جو ان نقادوں کو حاصل تھی، جنھوں نے موخر الذکر شاعروں کے باطن کو بے نقاب کرنے اور ان کی وسعتوں اور گہرائیوں کو متعین کرنے کی کوشش کی۔

ہر اچھی تنقید دراصل ایک روئیداد ہے۔ اس تصادم کی جو نقاد کے ادراک اور فنی کارنامے کے مابین پیش آتا ہے۔ اور کامیاب تنقید اسی وقت ممکن ہے جب نقاد نے مکمل طور پر اپنے آپ کو اپنے مدرک کے اندر ضم کر دیا ہو۔ اور اس کے تخئیلی تجربے میں وہی بھرپور کیفیت پائی جائے جو غالباً فن کار کے ابتدائی تجربے اور مشاہدے میں موجود تھی۔ ہم غالب اور دانتے کی ذہنی اور جذباتی بلندی تک پوری طرح رسائی نہیں حاصل کرسکتے، لیکن عالمِ استغراق کے اس لمحۂ تنویری میں جب ہم ان کی روحوں پر سے حجابات اٹھانے کی ایک حقیر سی سعی کرتے ہیں تو ایک قلیل وقفے کے لیے اپنی انفرادیت کو ان کی وسیع ترین انفرادیت میں مدغم کر دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تمام بڑے فنی کارنامے مظاہر فطرت کی مانند ہیں۔ ہم اپنے علم، اپنی بصیرت اور اپنے وجدان کے مطابق ان کی کتنی ہی تعبیریں پیش کرنے کی کوشش کریں، ان کی نوعی زرخیزی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، بلکہ ان کے اندرونی گوشے سمٹنے کے بجائے اور وسیع اور عمیق ہو جاتے ہیں۔

علمی تلاش و تحقیق کا عمل ہماری قوتِ ممیزہ کو تیز ضرور کر دیتا ہے، مگر ہمیں وہ سرخوشی نہیں دے سکتا، جو وجدانی شاعرانہ تجربے کا نچوڑ ہے۔ خارجی حالات کا مطالعہ ناگزیر ہے، مگر یہ کوئی ایسا نسخہ نہیں، جس کے استعمال سے فوراً کوئی نتیجہ برآمد ہو جائے۔ علمی تفتیش کے طریقے کو بار آور بنانے کے لیے یہ لازمی ہے کہ اس کا اطلاق فن کار کے ادراک پر اور نقاد کے ادراک کے وسیلے سے کیا جائے۔ ہر دور کا ادب اس دور کے ادراک کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ ادراک نمائندگی کرتا ہے اس لمحاتی اور عارضی استقلال کی جو ذہنِ انسانی کے نہایت پیچیدہ نظم میں واقع ہوتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس استقلال میں حیرت انگیز تبدیلیاں نمایاں ہوتی رہتی ہیں اور احساس کی بنیاد میں بھی غیر معمولی عمل انتقال ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔ ان تبدیلیوں ہی کی مدد سے ہم ادب کے مختلف ادوار کو مشخص کرتے ہیں، اور اگر ہم ان قوانین اور معیاروں پر غور کریں، جنھیں ہر دور اپنے ادب کی پرکھ کے لیے وضع کرتا ہے، تو ہمیں پتہ چلے گا کہ وہ معروضی اور مستقل نہیں ہیں، بلکہ صرف اس کے ادراک کی وضاحت کرتے اور اسے ممیز بناتے ہیں۔

جب ہم ادبی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی قسم کی خارجی موثرات کی پیداوار ہونے کے باوجود کیٹس، شیلے اور بائرن کی شخصیتیں اتنی مختلف، متنوع اور متضاد کیوں تھیں؟ غالب، مومن اور ذوق کی شاعری کا لہجہ، معاصرین ہونے کے باوجود، ایک دوسرے سے اتنا الگ اور ممتاز کیوں تھا؟ حسرت، فانی، اصغر اور جگر کی غزل گوئی کا رنگ ایک ہی عہد کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی اپنی اپنی جگہ اتنا منفرد کیوں ہے؟ یہ سب مظاہر اس امر کی دلیل ہیں کہ ہم ادبی تنقید کے لیے کوئی سیدھا اور براہِ راست قاعدہ مقرر نہیں کرسکتے، جس کی روشنی میں ہم ہر شاعر اور ادیب پر اس کے مزاج کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کو سمجھے بغیر کوئی آخری حکم لگا سکیں۔ ادب اور تنقید کی تعمیر و تخلیق میں شخصی عناصر کی کارفرمائی کو سماجی قوتوں سے زیادہ دخل ہوتا ہے۔ اسی لیے شاید کالرج نے کہا تھا کہ ہر ادیب کی جمالیات ایک مخصوص وضع کی ہوتی ہے۔

ہم کسی فنی کارنامے کی نوعی کیفیتوں سے اس وقت تک پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتے جب تک ہم اس کی تخلیق کے مادی اور خارجی اسباب کو سمجھنے کے ساتھ ہی فن کار کے شعور میں داخل ہو کر اس کے ایک ایک راز کو آشکار کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اس لیے غالباً یہ کہنا قرین قیاس ہو گا کہ تخلیقی اور طبع زاد تنقید اپنے آخری تجزئیے میں موضوعی ہوتی ہے۔ افلاطون نے غالباً طنز اور تحقیر کے طور پر کہا تھا کہ شاعر دیوانگی کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ اگر تخلیقی قوت کو ہم ایک طرح کے جنون کا مرادف قرار دیں تو یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ کامیاب اور معیاری نقاد کو اپنی تمام فرزانگی کے باوجود اس ازلی اور عنصری دیوانگی میں تھوڑا بہت حصہ ضرور بٹانا چاہیے تاکہ وہ ادب کا صحیح نبض شناس بن سکے اور تمدنی علوم کا ماہر ہونے اور ادبی تنقید میں ان کے نتائج سے فائدہ اٹھانے کے باوجود خالص شخصی اور ایک حد تک مبہم اور پراسرار اور ناقابلِ فہم عناصر کی موجودگی اور ان کے اثرات کو ضرور تسلیم کرنا چاہیے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.baazgasht.com/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید