FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اے جنوں دشت ہے کہ منزل

 

 

 

 

                   میمونہ خورشید علی

 

 

مکمل کتابڈاؤن لوڈ کریں

 

کچھ اپنے بارے میں

 

"اے جنوں دشت ہے کہ منزل” آپ کے ہاتھوں میں ہے یہاں تک آنے میں اسے کن مراحل سے گزرنا پڑا، یہ میں جانتی ہوں یا میرا رب۔ میں کبھی نہیں بھول پاؤں گی اُس سانحہ کو جو اس کی تخلیق کے دوران پیش آیا۔ تب میں نے دو ایسی ہستیوں کی جدائی کا کرب سہا جو شاید ہی میں لفظوں میں بیان نہ کر سکوں۔

 

پھر بھی یہ کہانی اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی۔

 

میں نے جب اس کہانی کو لکھنا شروع کیا تھا تو میں بہت پُر جوش تھی۔ ابھی تین قسطیں ہی لکھیں تھیں سب سے بڑی بہن بے شک وہ عرصہ دراز سے علیل تھیں۔ مگر نوجوانی ہی میں ہم سے بچھڑ گئیں۔

 

ابھی چھٹی قسط پہ ہی پہنچی تھی کہ امی کی جدائی کا کرب برداشت کرنا پڑا۔

 

اور وہ چپکے سے ہم سے دور چلی گئیں اور ابدی نیند جا سوئیں … یہ سانحہ معمولی نہیں تھا۔ اس نے میرے اندر سب کچھ ملیامیٹ کر دیا۔ تخیل سے لے کر عمل تک سناٹا چھا گیا۔ یہ سناٹا ساری زندگی پہ غالب آ سکتا تھا اگر میں خود کو نہ سنبھالتی۔

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اتنا حوصلہ دیا کہ اپنے بچوں کی خاطر جینے کی امنگ کو پھر سے زندہ کیا۔ خود کو سنبھالنا مشکل تو تھا لیکن… یہ جان کر کوئی بھی تو اب ایسا نہیں جو اس خلا کو پُر کر سکے … دل پھر سے بکھر گیا۔

 

انسان خود کچھ بھی نہیں ہوتا جو کچھ بھی ہے پیدا کرنے والا ہے۔ پھر وہ والدین جو ہماری شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں وہ نہیں رہتے لیکن ان کا نام زندہ رہ جاتا ہے۔ ماں … ٹھنڈی چھتنار، مشفق چہرہ، صبر اور برداشت کی دیوی، میٹھی مسکان لبوں پہ سجائے مشکل سے مشکل وقت پہ حوصلہ دینے والی ماں۔ آج کہیں بھی تو نظر نہیں آتی۔

 

زندگی میں سبھی کچھ ہے۔ مگر ماں باپ کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔ آج سے پانچ سال قبل میری پہلی کتاب "تیری راہ میں رُل گئی وے ” کو اشاعت کا اعزاز حاصل ہوا۔ تب میں نے سب سے پہلے یہ خوشخبری امی کو سنائی۔ وہ سادہ لوح، سادہ مزاج خاتون تھیں۔ انھیں یہ نہیں پتا تھا کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہے اور ان کی بیٹی نے کیوں لکھا ہے۔ ہاں مگر وہ خوش ضرور ہوئی تھیں۔ ان کے نزدیک بہت بڑی بات تھی بحیثیت مصنفہ میں ایک کتاب کی مالک و مختار بن گئی تھی۔

 

تب انھوں نے مجھے بہت سا پیار کیا تھا۔ ڈھیروں دعائیں دیں تھیں آج سب کی محبتوں کے باوجود یہ خلا پُر نہیں ہو سکتا۔

 

اللہ تعالیٰ میرے والدین کی مغفرت فرمائے۔ وہ بہت نیک صفت اور درد مند دل رکھنے والے انسان تھے۔ میں جانتی ہوں میرے اس علم سے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن میرے شخصی اوصاف میں جن خوبیوں کی پیوند کاری وہ کر گئے ہیں۔ وہی ان کے لیے توشۂ آخرت ہوں گے۔ میں اپنے علم سے دنیاوی مشعل جلا رہی ہوں اور اس کی روشنی دور تک پھیلتی دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں جانتی ہوں۔ دنیاوی علم دنیا میں ہی رہ جاتا ہے۔ لیکن نیک نیتی کے ساتھ اچھی اور خیر کی بات کہہ دینا بھی صدقہ جاریہ ہے۔

 

کہانی من گھڑت لوازمات کا منبع ہوتی ہے۔ وہ صدقہ جاریہ نہیں ہو سکتی۔ مختلف مکتب ہائے فکر سے یہ شور اُٹھے گا اور مجھے کٹہرے میں لا کھڑا کرے گا۔ تب میرے پاس صرف ایک ہی جواب ہو گا۔

 

میں لوگوں کو تبلیغ نہیں کر رہی ہوں۔ لیکن اس برائی میں بھی حصہ دار نہیں ہوں جو فارغ  ذہن کا نتیجہ ہوتی ہیں اور جن سے کسی بھی منفی نتیجے کی امید کی جا سکتی ہے۔ میں تو جو دیکھتی ہوں اس کے مثبت پہلوؤں کو کاغذ پہ انڈیل دیتی ہوں۔ اس نیک نیتی کے ساتھ کہ اس بوجھل دور میں کوئی تو سکون کے دو لمحے چرا سکے۔

 

اس کے ساتھ ہی اس پیغام کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں جو میں نے اس کہانی میں دینے کی کوشش کی ہے، کیونکہ نیک نیتی ہی میں نیکی کا حصول پوشیدہ ہے۔ یہ کہانی ایسے کرداروں کے گرد گھومتی ہے جہاں ایک دوسرے کو برداشت کرنا محال ہے۔ ایسے ماحول میں معصوم اور ننھے ذہنوں کی کس طرح نشو و نما ہوتی ہے اور ان کے نتائج کیا کیا نکلتے ہیں۔ پھر ان سب چیزوں کا ذمہ دار کون ٹھہرتا ہے۔ اکثر ایسے حالات میں ہم میں سے بیشتر لوگ اپنی قسمت کو ہی برا بھلا کہتے ہیں۔ اگر ہم تھوڑی سی اپنی سوچ کو بدل لیں تو ہرگز اپنی قسمت کو برا نہ کہیں کیونکہ کاتب تقدیر نے جہاں برے لوگوں سے ہمارا واسطہ ڈالا ہے۔ وہاں اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے اور یہ ہماری ناشکری اور بے صبرا پن ہے کہ ہم برائی کو تو دیکھتے ہیں۔ اچھے لوگوں کی قدر نہیں کرتے۔ جن کے نتائج اس کہانی کے کرداروں نے بھگتے ہیں۔

 

خود اعتمادی شخصیت کا سب سے خوبصورت پہلو ہے جو نہ صرف شخصی وقار میں اضافہ کرتا ہے بلکہ زندگی کو بھی سہل بنا دیتا ہے۔ خصوصاً ً لڑکیوں میں خود اعتمادی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ بصورت دیگر ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے اور سہاروں کی تلاش انھیں زندہ درگور کر دیتی ہے۔ جیسا کہ اس کہانی کے میں کردار نے خفت و ذلت کا سامنا کیا۔ خود اعتمادی کا مطلب خود اعتمادی میں ہے ہٹ دھرمی نہیں کہ انسان خود کو عقل کل سمجھتے تھے۔ یہ تو اور بھی خطرناک صورتحال ہو سکتی ہے۔

 

بس اتنا ہی کہوں گی آج کے ٹینشن زدہ دور میں انسان کو تفریح کی ضرورت ہے۔ ایسی تفریح جو ریلیکس بھی کرے اور برائی سے بھی بچائے۔

 

محبت کرنے والے دلوں کے درمیاں اچھی کتاب بہترین تحفے کا سبب بنتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں۔

 

الیکٹرانک میڈیا کے وسیع تر نیٹ ورک کے باوجود کتاب کی اہمیت کو انھیں لوگوں کی پذیرائی اور محبت نے ختم نہیں ہونے دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے بہن بھائیوں کی بھی ممنون و مشکور ہوں۔ جن کی محبتیں اور پذیرائی مجھے ہمیشہ تازہ دم رکھتی ہیں۔

 

اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھیے گا۔

 

کسی بھی کتاب کو کامیاب بنانے کے لیے جتنی کوشش رائٹر کو کرنی پڑتی ہے۔ اتنی ہی کوشش پبلشر کو کرنی پڑتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں میری کتابوں کے حقوقِ اشاعت حاصل کرنے کے بعد ادارہ علم و عرفان نے اس ذمہ داری کو میری توقعات سے زیادہ بہتر طور پر ادا کیا ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد قارئین میری اس رائے سے اتفاق کریں گے۔

 

میمونہ خورشید علی

٭٭٭

 

 

 

 

باب ۱

 

 

31 دسمبر کی سرد رات تھی۔ گہری سیاہ خاموش اور بھیگی ہوئی کسی نازنین کی زلفوں کی طرح سر سراتی یہ رات علی تیمور گیلانی کی زندگی میں کتنی اہمیت رکھتی تھی اس بات کا ادراک ہر ایک کو تھا۔ لیکن پھر بھی آخری مہمانوں کے رخصت ہونے تک رات کے ڈھائی بج چکے تھے۔ بیرونی آہنی گیٹ بند کر کے اس نے لان کی ساری لائٹس بند کیں تو چاند کی روشنی اور بھی نکھر گئی۔ سرشاری کے عالم میں اس نے آسمان کی طرف دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ستاروں کے جھرمٹ میں چاند کتنا دلفریب لگ رہا تھا۔ اس سے قبل اسے چاندنی رات کا حسن کبھی اتنا فسوں خیز نہیں لگا تھا۔ یا آج زاویۂ نگاہ ہی بدل گیا تھا۔

 

آج ہر چیز سے کتنی خوبصورتی جھلکتی تھی، اس نے ارد گرد کے منظر پر نگاہ ڈالی۔ اور پھر خود ہی مسکرادیا۔

 

ٹھنڈ محسوس ہونے لگی تھی۔ اس نے اپنا کوٹ کرسی پر سے اٹھایا اور شانوں پہ ڈال لیا۔

 

"خوشی بھی کتنی انمول شے ہے اور جو خوشی اسے ملی تھی اس نے اسے سرتاپا سرشار کر دیا تھا ایسا کہ وہ بنا پیے ہی بہکنے کو تھا۔ وہ اپنی کیفیت پر خود ہی مسکراتا ہوا اپنی خواب گاہ کی طرف بڑھ گیا۔

 

جہاں اس کی جیون ساتھی، لاج مظاہر اس کی منتظر تھی۔

 

ممی نے شادی کے لیے کتنی لڑکیاں دکھائی تھیں لیکن وہ سب کو ٹالتا گیا۔ عام سی لڑکی سے شادی کرنا ہوتی تو چھتیس سال کی عمر ہی کیوں ہوتی۔

 

یہ زندگی بھر کا فیصلہ تھا۔ جس میں اس نے اپنے آئیڈیل کو نظر انداز نہیں کیا تھا۔

 

لیکن یہ بات وہ کسی پہ بھی واضح نہیں کر سکا تھا کہ وہ کیسی جیون ساتھی کا متمنی ہے۔

 

جب بھی سدرہ، بیٹے سے اس کی پسند کے متعلق پوچھتیں تو وہ یہی کہہ کر ٹال دیتا۔

 

"نہ میں سمجھا سکتا ہوں، نہ آپ سمجھ سکتی ہیں۔ ”

 

"میرا تو خیال ہے تم شادی ہی کرنا نہیں چاہتے۔ ” وہ جل کر کہتیں۔

 

"ارے ! یہ آپ نے کیسے کہہ دیا” وہ ہنس پڑتا۔

 

"کیوں نہ کہوں، تیری عمر کے لڑکے، چار چار بچوں کے باپ بن گئے ہیں۔ ”

 

اس بات پر اس کی مسکراہٹ اور بھی گہری ہو جاتی۔

 

"ہر حال میں فکر اپنے بیٹے ہی کی ہے۔ چھوٹے کی ذرا پروا نہیں۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے۔ ان کے چار بچوں کا باپ نہ بننے پہ پچھتا رہی ہیں۔ یہاں سہرا سجنے کی عمر نکلی جا رہی ہے۔ خواہ مخواہ پڑھا کر چہرے کو وقت سے پہلے کرخت بنا دیا۔ اب یہ کورس کرنے کے لیے باہر جاؤ۔ اب وہ کورس کرنے کے لیے باہر جاؤ۔ چاروں طرف سے زندگی بنجر اور خشک، انسان دل لگائے بھی تو کہاں۔ ” اورنگ زیب جل کر کہتا۔

 

"بڑے بھائی کی شادی ہوئی تو تمہاری باری آئے گی نا!۔ ”

 

"جی ہاں … نہ وہ سہرا باندھیں گے۔ نہ ہمارے راستے کھلیں گے۔ ”

 

اور پھر قدرت نے وہ راستہ کھول دیا۔

 

ایک روز جب علی تیمور ایمرجنسی روم سے ایک پیچیدہ کیس نمٹا کر نکلا تو کوریڈور میں بہت سے لوگ آس و نراس کی کیفیت میں اس کے منتظر تھے۔ ان بہت سے لوگوں میں صرف ایک چہرہ ایسا تھا جس نے اسے چونکا دیا تھا۔

 

نم آنکھیں، کپکپاتے ہونٹ، ڈاکٹر علی تیمور کی نگاہیں پلٹنا بھول گئیں۔

 

"ڈاکٹر صاحب! ماہ رخ اب کیسی ہیں ؟”

 

وہ بے تابی سے آگے بڑھتے ہوئے بولی۔

 

"اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔ ” انہوں نے نرمی سے کہا تو اس کا چہرہ پھول کی طرح کھل گیا۔

 

"فی الحال وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں ہیں۔ کچھ دیر کے بعد آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں۔ ” یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے گزر گیا۔ لیکن اس کا دل اس بات کی گواہی دے رہا تھا، یہی ہے وہ لڑکی جس کی اسے تلاش تھی۔

 

وہ ایک دم اپنی اپنی سی کیوں لگی۔

 

ایسا لگتا ہے اُسے کہیں دیکھا بھی ہے۔ لیکن وہ اتنی معمولی تو نہیں تھی کہ یادداشت سے نکل جاتی۔

 

شام کو جب اس نے ہاسپٹل کا وزٹ کیا تو روم نمبر گیارہ میں جانے کی سب سے زیادہ عجلت تھی۔ اور ایسا اس کے ساتھ پہلی بار ہو رہا تھا، وہ اپنے احساسات کو کنٹرول کرتے ہوئے جب کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں بہت سے لوگ تھے۔ وہ اتنے ڈسپلن سے عاری رویے کا قائل نہیں تھا، لیکن پھر بھی اس نے سب کو نظر انداز کر دیا۔ اور چاہتے ہوئے بھی اسے نظر انداز نہیں کر سکا۔ جو مریضہ کے سرہانے ہی کھڑی تھی۔

 

کالے کپڑوں میں اس کا افسردہ حسن مبہوت کیے دے رہا تھا۔

 

"اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟” اس نے مریضہ سے پوچھا۔ ماہ رخ تھوڑا سامسکرائی۔

 

ڈاکٹر تیمور نے محسوس کیا۔ اس کے صرف لب ہی مسکرا سکے۔ ماہ رخ بہت کمزور اور تھکی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔

 

"ٹیک اٹ ایزی، کمزوری رفتہ رفتہ بحال ہو گی۔ ان کی صحت کے لیے بہتر ہے کہ آپ انہیں اکیلا چھوڑ دیں۔ البتہ کوئی ایک فرد ان کے پاس رہ سکتا ہے۔ جو انہیں زیادہ گفتگو سے پریشان نہ کرے، فی الحال یہ سوتی جاگتی رہیں گی۔

 

یہ ڈرپ مکمل ہو جائے تو ہٹا دیجئے گا۔ اب انہیں مزید ڈرپ کی ضرورت نہیں ہے۔ مکمل ہوش میں آنے کے بعد یہ منہ سے غذا لے سکتی ہیں۔ کوئی سوپ یا نرم غذا ان کے لیے تیار کرا لیجیے۔ ” اس کے ساتھ ہی اس نے کاغذ پہ کچھ لکھا اور نرس کو دیتے ہوئے بولا۔

 

"یہ میڈیسن انہیں ریگولر ملنی چاہئیں۔ ”

 

رات گھر واپس لوٹنے کے بعد بھی اسے پھر وہی چہرہ پریشان کرنے لگا۔ وہ حسن پرست نہیں تھا۔ دل پھینک بھی نہیں۔ پھر ایسی کیا بات تھی اس لڑکی میں جس نے اسے نظر سے دل تک باندھ لیا تھا۔

 

بار بار ایسا کیوں لگتا تھا کہ وہ اسے جانتا ہے اچھی طرح، ایسا دھوکا کیوں ہو رہا تھا؟

 

صبح جب وہ ہاسپٹل گیا تو کمرے میں دو ہی وجود تھے۔ ایک ماہ رخ اور ایک دوسرا پری چہرہ۔ اس کے دل کو کچھ ہوا…

 

"کیا وہ سب سے پہلے اسی لڑکی کی وجہ سے اس کمرے میں آیا ہے ؟” اس نے اپنی نازیبا حرکت کو دل ہی دل میں ڈپٹا۔

 

"کیسی طبیعت ہے اب آپ کی؟”

 

"بہت بہتر۔ ” ماہ رخ تکیے سے پشت لگائے بیٹھی تھی۔

 

"کچھ کھایا پیا؟”

 

"ابھی ناشتا کیا ہے۔ ”

 

"گڈ!”

 

پھر وہ اس لڑکی کی طرف متوجہ ہو گیا۔ جس کا چہرہ بولتا تھا اور آنکھیں اداس رہتی تھیں۔

 

"آپ ان کی کیا لگتی ہیں ؟”

 

"میں ان کی سسٹر ہوں۔ ”

 

"یہ آپ سے بڑی ہیں یا چھوٹی؟”

 

اس سوال پر ماہ رخ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

 

جب کہ لاج صرف دیکھ کر رہ گئی تھی۔

 

"یہ مجھ سے تین ماہ چھوٹی ہیں۔ ” لاج کے بجائے ماہ رخ نے جواب دیا تھا۔

 

"اوہ! اس کا مطلب ہے۔ آپ کزنز ہیں۔ ”

 

"کیا دو بہنوں میں تین ماہ کا فرق نہیں ہو سکتا؟۔ ”

 

ماہ رخ کا انداز ایک دم تیکھا ہو گیا۔

 

تیمور سٹپٹا گیا۔ پھر خود کو سنبھالتے ہوئے بولا۔

 

"گویا آپ دونوں سوتیلی بہنیں ہیں۔ ”

 

"شاید…” ماہ رخ ایک دم سنجیدہ ہو گئی۔

 

تھوڑی دیر تک خاموش رہی۔

 

"دیکھئے میں آپ کے پرسنل افیئر میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن خود کشی کرنے کی کوشش اگر سگے اور سوتیلے رشتوں کا سبب ہے …”

 

"ایسا کچھ نہیں ہے۔ ” لاج نے تیزی سے کہا۔ جب کہ ماہ رخ کا انداز ہنوز وہی تھا۔

 

"آپ کو پتا ہے، موت آپ کے کتنے قریب تھی۔ ”

 

"آپ نے میری جان کیوں بچائی؟” لگتا تھا وہ اپنی زندگی سے بہت خفا ہے۔

 

"جان بچانے والا تو اللہ ہے۔ اور کوشش کرنے والے آپ کے لواحقین، آپ کو میرے ہاسپٹل میں لایا گیا تھا۔ میں نے تو صرف اپنا فرض ادا کیا ہے۔ ”

 

ماہ رخ کے ہونٹوں پر تلخ سی مسکراہٹ آ گئی۔

 

"لواحقین صحیح کہا آپ نے در حقیقت ان ہی کی کوششوں نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے۔ خاص طور پہ میری ماں۔ جو صرف اپنی انا کی تسکین چاہتی ہے۔ باقی سب کیڑے مکوڑے ہیں ان کے سامنے۔ ”

 

"ماہ رخ! تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ تمہیں زیادہ نہیں بولنا چاہیے۔ ”

 

لاج کچھ پریشان سی ہو گئی تھی۔ اسے اپنا گھریلو معاملہ ڈاکٹر علی تیمور کے سامنے بیان کرنا معیوب لگ رہا تھا۔

 

"بولنے دیجیے انہیں۔ ان کا بولنا ہی بہتر ہے۔ "ماہ رخ، ڈاکٹر تیمور کی بات پہ ہنس پڑی۔

 

"یہ بتائیے آپ مجھے کب ڈسچارج کر رہے ہیں ؟”

 

"آپ چاہیں تو ابھی گھر جا سکتی ہیں۔ ”

 

"لاج! گھر فون کر دو۔ ڈرائیور گاڑی لے آئے گا۔ ” وہ فوراً تیار ہو گئی۔

 

"ڈاکٹر صاحب! کوئی ایڈوائز ان کے لیے۔ "لاج دوائیاں سمیٹتے ہوئے بولی۔

 

"صرف یہ کہ دوبارہ خود کشی کرنے کی کوشش نہ کریں جو میڈیسن انہوں نے خود کشی کے لیے استعمال کی تھیں وہ اتنی خطرناک تھیں کہ بر وقت ہاسپٹل نہ لائی جاتیں تو۔ ” تجہیز و تکفین کا انتظام ہو رہا ہوتا”

 

ماہ رخ نے اس کی بات مکمل کی تو تیمور تاسف سے اس کی طرف دیکھ کر خاموش ہو گیا۔

 

"انہیں سمجھایا کریں حالات کیسے ہی ہوں، جینے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ یہی سب سے اچھا انسان ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ اور ہر انسان کو ہر اس چیز کی جستجو میں رہنا چاہیے جس کا حصول کٹھن ہو۔ موت کا کیا ہے وہ تو ہر حال میں ملے گی۔ جو چیز بن مانگے ملتی ہو اس کی تمنا کیسی۔ ”

 

یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر تیمور نے پرچے پر کچھ لکھا۔ "یہ چند میڈیسن ہیں ایک ہفتہ لازمی استعمال کرنا ہیں، تا کہ آپ کی کم زوری دور ہو جائے۔ ”

 

پھر اس نے پرچہ لاج کی طرف بڑھا دیا۔ جو ماہ رخ سے زیادہ کمزور اور مضمحل دکھائی دے رہی تھی۔

 

"لگتا ہے، آپ نے ان کے کیس کا بہت اثر لیا ہے ؟۔ ”

 

"اس کی عادت ہے کہ ہر چیز کو اتنی ہی گہرائی سے لیتی ہے۔ اور جلد خوفزدہ ہو جاتی ہے۔ ”

 

ماہ رخ کے لہجے میں طنز پوشیدہ تھا۔ جو ڈاکٹر تیمور کو اچھا نہیں لگا۔

 

"بزدل تو وہ ہوتے ہیں جو خود کشی کرتے ہیں۔ معاملات پہ گہرائی سے غور و فکر کرنے والے بزدل نہیں دانش مند ہوتے ہیں۔ ” اس نے سنجیدگی سے کہا۔ اور کمرے سے نکل گیا۔

 

چند روز تک لاج کا تصور اس پر بری طرح غالب رہا، اس نے سوچا تھا شاید وقتی کیفیت ہو گی لیکن ہر اگلا دن اس کے تصور کو گہرا کر رہا تھا۔ وہ کوئی پرچھائیں نہیں تھی۔ نہ ہی کوئی خواب تھا۔ بہت سے پیچیدہ کیسز بھی اس کے حواس پہ اس طرح سوار نہیں ہوئے تھے۔ جس طرح وہ چہرہ اسے بے چین کیے دے رہا تھا۔

 

نیند تھی کہ آنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اور خیال تھا کہ جانے کا نام نہیں لیتا تھا۔ تب ہی وہ بے چین اور مضطرب سا بالکنی میں ٹہلنے لگا۔ پھر کمرے میں آ گیا۔ اور ان تصاویر کو نکال کر بیٹھ گیا جو ممی آئے دن اسے دکھاتی رہتی تھیں، اور وہ سر سری سا دیکھ کر دراز میں ڈال دیتا۔

 

"کیا ممی سمجھتی ہیں، میرا انتخاب ایسا کچھ ہو گا؟۔ ”

 

وہ بیزاری سے ایک ایک تصویر پلٹ رہا تھا۔ کوئی بھی تصویر ایسی نہیں تھی جو اس کی تمنا کی عکاسی کرتی۔ کاش وہ چہرہ ان تصویروں میں ہوتا۔

 

اور پھر جیسے اچانک اس کے ہاتھ پلٹنا بھول گئے۔ اور نظریں ساکت ہو گئیں۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔

 

یہ تو وہی چہرہ تھا۔ ہاں، وہی۔

 

لاج…! شاید لاج ہی نام تھا اس کا۔

 

ہاں، لاج ہی کہہ کر پکارا تھا اس نے۔ اس نے ایک بار پھر تصویر پلٹ کر دیکھا۔

 

لاج مظاہر، تصویر کی پشت پہ لکھا ہوا تھا۔

 

اس کی حیرت و خوشی کی انتہا نہیں تھی۔

 

"کیا واقعی، یہ لاج کی تصویر تھی؟۔ ”

 

قسمت اس پہ ایک دم یوں مہربان ہو جائے گی۔ اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ اس نے سب تصویروں کو ایک طرف رکھ دیا۔ اور لاج کی تصویر اٹھائی، دل چاہتا تھا جا کر اسی وقت ممی کو جگائے اور کہے۔ "دیکھیے آپ کے بیٹے نے آپ کے لیے بہو پسند کر لی ہے۔ ابھی جائیے اور اپنے بیٹے کے لیے اس لڑکی کو مانگ لیجیے۔

 

وہ رات کس بے تابی سے گزری یہ وہی جانتا تھا۔

 

صبح ناشتے کی میز پر اُس نے ممی سے کہہ دیا کہ وہ شادی کے لیے رضا مند ہے۔

 

قندیل اچھل پڑی۔

 

"اورنگزیب ہوتا تو وہ خوشی سے دیوانہ ہو جاتا۔ ” سدرہ بھی اچانک خوش خبری پہ بے حد خوش تھی۔

 

"تھینکس گاڈ کہ بھائی شادی پہ رضا مند تو ہوئے۔ میرے تو پیر زمین پہ نہیں ٹک رہے۔ ”

 

"اورنگ زیب ہوتا تو بینڈ بجانے لگ جاتا۔ ”

 

"بینڈ بھی جلد بج جائے گا۔ پہلے لڑکی کے ہاں تو جاؤ۔ ”

 

وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔

 

"مگر لڑکی ہے کون؟” سدرہ اور قندیل بیک وقت بولیں۔ اس نے تصویر نکال کر ماں کے ہاتھ پہ رکھ دی۔

 

"ارے یہ… دو ماہ بعد تمہیں اس تصویر کا خیال آیا ہے۔ ”

 

"مجھے بھی تو دکھائیں۔ ”

 

قندیل نے ماں کے کندھے پہ جھک کر تصویر اچک لی۔

 

"ممی! آج ہی ہم ان کی طرف جائیں گے۔ ”

 

"تو پھر تم ایسا کرو۔ خالہ بیگم کے ہاں فون ملاؤ، اسے ہی معلوم ہو گا اتے پتے کا۔ ”

 

"خالہ بیگم لے کر آئی تھیں یہ تصویر؟” تیمور نے ماں کی طرف دیکھا۔

 

"ظاہر ہے بیٹا! میں تو کہیں آ جا نہیں سکتی، بہن تمہاری چھوٹی ہے۔ وہی رشتے لے آئیں۔ ”

 

"پھر تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ ”

 

"بھئی میں نے تو پوچھا نہیں۔ اگر تم کسی میں دلچسپی لیتے تو میں خالہ بیگم سے کچھ معلوم بھی کرتی۔”

 

"آپ بے فکر رہیے۔ رات جب آپ گھر آئیں گے۔ رشتہ پکا ہو چکا ہو گا۔ ” قندیل وفور شوق سے بولی اور تصویر لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ سدرہ کے چہرے پہ آسودہ سی مسکراہٹ تھی۔

 

رات جب وہ گھر آیا تو معلوم ہوا واقعی ممی نے ساری کار روائی مکمل کر لی۔ فیملی بہت اچھی تھی۔ خاندانی لوگ تھے۔ لڑکی کے ماں اور باپ دونوں ہی فوت ہو چکے تھے۔ سوتیلی ماں سے تین بچے ہیں۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔

 

تینوں ہی بچے جوان اور شادی کے لائق ہیں۔ لیکن اس لڑکی کی شادی کے بارے میں اس کی دادی بے حد فکر مند ہیں اور جلد از جلد اپنی زندگی میں اس کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی ہیں۔

 

"لڑکی کا نام لاج ہے، ابھی پڑھ رہی ہے۔ شاید میڈیکل ہی پڑھ رہی ہے۔ اگر رشتہ پسند آ گیا تو تعلیم درمیان میں ہی چھڑوا دی جائے گی۔ میں نے بیگم کے ہاتھ پیغام بھجوا دیا ہے۔ دو روز کے بعد میں خود جاؤں گی۔ ”

 

تیمور کے لیے اتنی معلومات بھی بہت تھیں۔

 

دو روز کے بعد سدرہ خود گئیں۔ ان کا کہیں بھی جانا اتنا سہل نہیں تھا، کیونکہ وہ ٹانگوں سے معذور تھیں۔ سددہ نے اپنی اسی تکلیف اور مجبوری کا اظہار لڑکی والوں کے سامنے بھی کر دیا تھا کہ انہیں اس رشتے کی بہت چاہت ہے۔ اور وہ جلد اقرار کی منتظر ہیں۔ اس کے باوجود، ہاں، ہونے میں پندرہ دن لگ گئے۔ رشتہ طے ہو جانے کے بعد جلد ہی تاریخ طے ہو گئی۔ تاریخ کیا طے ہوئی دونوں طرف شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔

 

اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب لاج مظاہر، لاج تیمور بن کر ان کے گھر کے آنگن میں آ گئی۔ علی تیمور کے لیے یہ معمولی سا سفر بھی صدیوں پر محیط تھا۔

 

اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اسے برسوں سے جانتا ہے۔ لیکن پھر بھی ایسی پہچان میں ایک اسرار پوشیدہ تھا۔ آج یہ اسرار بھی ختم ہو جانا تھا۔ اس نے اپنی خواب گاہ کا دروازہ کھولا تو ڈھیروں پھول سر پر اترے۔

 

اس کا چونکنا فطری تھا۔ آخر کون تھا جو اس وقت اس کا سواگت کر رہا تھا۔ لیکن وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔

 

یہ یقیناً قندیل اور اورنگ زیب کا کارنامہ تھا۔ باسکٹ کو کچھ اس طرح سے انہوں نے دروازے پہ لٹکا رکھا تھا جیسے ہی دروازہ کھلا باسکٹ الٹ گئی۔ اس نے مسکرا کر سر جھاڑا اور دروازہ بند کر دیا۔

 

کمرہ پھولوں سے آراستہ و پیراستہ خوشبوؤں کا جزیرہ لگ رہا تھا۔

 

لیکن وہ پری چہرہ نازنین کہاں تھی جس کے لیے یہ اہتمام کیے گئے تھے۔

 

وہ بستر پہ نہیں تھی۔ صوفے پہ ایک کونے میں بیٹھی تھی۔ ڈری سہمی چڑیا کی طرح۔ ہمیشہ کی طرح چہرے پہ فکر اور خوف کے سائے اسے ایک جھٹکا لگا، وہ اپنا عروسی لباس تبدیل کر چکی تھی۔ ہلکے آسمانی رنگ کے قمیض شلوار میں اس کا صاف ستھرا چہرہ زیورات سے مبرا وجود۔

 

تیمور کو پہلے تو عجیب سا محسوس ہوا۔

 

پھر اس نے کلاک پہ نگاہ ڈالی۔ تین بج رہے تھے۔ وہ کچھ خفیف سا ہو گیا۔

 

"اچھا کیا آپ نے ہلکی پھلکی ہو گئیں۔ آدھی رات تک اتنا بوجھ سنبھالنا واقعی دشوار تھا۔ میں تو خود سادگی کا قائل ہوں۔ مہمانوں کی وجہ سے دیر ہو گئی تھی۔ وگرنہ… میں … تو… خود…”

 

اس نے شیروانی اتار کے سائیڈ پر رکھتے والہانہ اپنی دلہن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

 

جو ہنوز اسی طرح بیٹھی تھی۔

 

اداس آنکھیں اور بولتا ہوا چہرہ۔ اس کی نگاہیں لاج کے چہرے پر ٹک گئیں۔

 

آج کے دن تو ان آنکھوں میں کچھ ہونا چاہیے۔

 

اس کی چاہت نہ سہی۔ لیکن حیا کے، خوف و خوشی سے اٹھتی گرتی پلکیں۔ کچھ بھی ایسا، جیسا معلوم ہوتا ہے کہ ہاں یہ دلہن ہے۔

 

یرغمال بنائی ہوئی لڑکی نہیں۔

 

وہ اس کے قریب آ گیا۔ وہ بار بار پیشانی پہ سے پسینہ صاف کر رہی تھی۔ اتنی سردی میں اور ایسا پسینہ۔

 

وہ اس کے قریب دوسرے صوفے پہ بیٹھ گیا۔

 

"میں … میں … آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔ آئی مین… آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ ”

 

"شیور… کیوں نہیں۔ ضرور… بات کیجئے۔ کیوں گھبرا رہی ہیں آپ… اتنا…آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟” اس کے انداز میں اپنائیت و تشویش تھی۔

 

"جی میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔ ” وہ آہستہ سے بولی۔

 

پھر لب کاٹتے ہوئے پوچھنے لگی۔

 

"اگر شادی کے وقت… آئی مین… نکاح کے وقت … دونوں فریقین میں سے کسی ایک کے دل میں اقرار کی خواہش نہ ہو۔ اور… اس سے زبردستی اقرار کروا لیا جائے تو کیا نکاح ہو جاتا ہے۔ ؟”

 

لاج نے نگاہ اُٹھا کر علی تیمور کی طرف دیکھا۔

 

اس کی آنکھیں پانی سے بھری ہوئی تھیں۔ اور لہجہ کانپ رہا تھا۔ تیمور چونک گیا۔ اس کا سوال غیر متوقع تھا۔ اور انداز بھی۔

 

"آپ نے ایسا کیوں سوچا۔ اور کیوں پوچھا؟”

 

لاج نے لب بھنچ لیے۔ کتنا کٹھن مرحلہ تھا۔ اس نے سر جھکا لیا۔

 

"ڈاکٹر علی تیمور! میں در اصل کسی اور کو پسند کرتی ہوں۔ ” تیمور کو ایسا لگا جیسے اس کے ارد گرد ایک زور دار دھماکہ ہوا ہو۔

 

دل کی دھڑکنوں میں یکدم اشتعال آیا تھا۔

 

اس کی پیشانی پہ بے شمار لکیریں ابھریں اور پھر معدوم ہو گئیں۔ لاج ہنوز سر جھکائے بیٹھی تھی۔

 

"کون ہے وہ؟” اس کا لہجہ دھیما مگر سپاٹ تھا۔

 

لاج نے سر اٹھایا۔ اس کی آنکھیں اب بھی پرنم تھیں۔

 

"وقاص احمد، جو میرا ماموں زاد کزن ہے۔ ”

 

ایک لمحے کے لیے پورے ماحول پہ سکوت چھا گیا۔ اتنا کہ دل کی دھڑکن بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔ تیمور کو ایسا لگا تھا جیسے اس کے ساتھ صرف دھوکا ہی نہیں، اس کی چاہت کا مذاق بھی اُڑایا گیا ہو۔ اس سے انتقام لینے کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔ اس نے اپنی محبت کا اقرار ہی نہیں کیا تھا گویا تیمور گیلانی کے منہ پہ طمانچہ مارا تھا۔

 

اس کی دماغ کی رگیں پھٹنے لگیں۔ اس نے سر… صوفے کی پشت پہ ڈال دیا۔

 

"تو… یہ تھا… محبت کا گناہ، چاہت کا جرم…” وہ سوچ کر رہ گیا۔

 

"اگر ایسا کچھ تھا تو میرے پر پوزل پہ اقرار کیوں کیا؟” اسے اپنی آواز پاتال سے آتی محسوس ہوئی۔

 

"اس لیے کہ یہ سب کچھ منصوبے کے تحت ہوا ہے۔ ”

 

لاج کا انداز اس سے بھی کہیں دھیما تھا۔ اتنا دھیما کہ وہ اپنے ہی لفظوں کو شاید خود بھی سننا نہیں چاہتی تھی۔

 

تیمور جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔

 

"کیا مطلب ہے تمہارا؟” اس کا لہجہ اونچا نہ سہی مگر تیز ضرور تھا۔ لاج مسلسل رو رہی تھی۔ ہچکیوں سے اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔

 

"کیا چاہتی ہو تم مجھ سے۔ تمہیں میرے ساتھ اس قسم کا دھوکہ کرنے کا کیا حق تھا؟۔ کیا پلان لے کر آئی ہو تم میری زندگی میں۔ بتاؤ مجھے ؟ بولو… بولتی کیوں نہیں ہو…؟”

 

تیمور نے اسے جھنجھوڑ ڈالا۔

 

"میں کچھ نہیں جانتی… میں کچھ نہیں چاہتی۔

 

میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کو گواہ بنا کر کہہ رہی ہوں میں آپ سے کچھ نہیں چاہتی۔ میرے کوئی عزائم نہیں۔ مگر… میں اپنوں سے دور نہیں رہ سکتی۔ میں حقیقی خوشی چاہتی ہوں۔ وہ پیاس جو میری بچپن سے آج تک نہیں مٹی۔ اسے بجھانا چاہتی ہوں۔ مجھے نہیں پتا ڈاکٹر علی تیمور! کہ ماں کیا ہوتی ہے۔ اور باپ کیا ہوتا ہے۔

 

میں اس محبت کو محسوس کرنا چاہتی ہوں۔ اپنے زندہ ہونے کا احساس و ادراک چاہتی ہوں۔

 

اور یہ ادراک مجھے صرف وقاص احمد نے دیا ہے۔ شاید وقاص نہ ہوتا تو میں کب کی بکھر چکی ہوتی۔ خالہ اماں نہ ہوتیں تو میری ہستی ہی مٹ چکی ہوتی۔ مجھ میں ماہتاب اور ماہ رخ کی طرح ہٹ دھرمی اور بغاوت کرنے کی جرأت نہیں تھی، وگرنہ یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ ”

 

وہ تھوڑی دیر کو رکی پھر بولی۔

 

"میری خواہش پہ کوئی بھی رضا مند نہ ہوتا۔ میں مر بھی جاتی تب بھی۔ کیونکہ میری ماں کو ہی اس خاندان نے قبول نہیں کیا۔ تو ان کے بھانجے کو کون قبول کرتا، بی جی چاہتی تھیں کہ میری شادی جلد از جلد ہو جائے۔ میرے لیے اور بھی رشتے آ رہے تھے۔ لیکن… لیکن… میں نے آپ کا انتخاب اس لیے کیا کہ آپ ڈاکٹر ہیں۔ آپ مسیحا ہیں۔ لوگوں کے دکھ سمجھ سکتے ہیں۔ کچھ مریضوں کو دوا سے اور کچھ کو دلاسے سے صحت یاب کرتے ہیں، مجھے بھی آپ کے سہارے کی ضرورت ہے۔

 

لیکن… لیکن… میرے پاس کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا۔ اور میں نے یہی سوچا۔ آپ سے شادی کر لوں۔ محض دکھاوے کی شادی۔ اس فیصلے میں وقاص بھی میرے ساتھ شامل تھا۔

 

میں نے … میں نے چاہا تھا کہ آپ کو شادی سے قبل سب کچھ بتا دوں، لیکن صرف اس خوف نے سب کچھ کہنے سے باز رکھا کہ کہیں آپ انکار نہ کر دیں۔ پرپوزل تو دوسرے بھی تھے لیکن نجانے کیوں، آپ سے انجانی سی توقع ہو گئی تھی۔ ”

 

وہ خاموش ہو گئی۔ تیمور کارواں رواں سماعت بنا ہوا تھا۔

 

"اس لیے ہم نے سوچا، شادی سے پہلے خاموشی بہتر ہے۔ پھر میں آپ کو سب کچھ بتا دوں گی۔ ”

 

"کیا چاہتی ہو تم مجھ سے ؟” تیمور کا انداز کٹیلا تھا۔

 

"صرف طلاق…” جواب دو ٹوک ملا۔

 

"واٹ نان سینس… کوئی گڈے گڑیا کا کھیل تھا جو ایک دم سے ختم ہو جائے گا۔ معاشرے میں تمہاری نہیں میری تو عزت ہے۔ ایک اسٹیٹس ہے، ہمارا وقار ہے مرتبہ ہے۔ لوگوں کو ہنساؤں خود پہ، تماشا بن جاؤں۔ صرف تمہاری محبت، اور تمہارے عاشق کی خاطر، اتنی ہی محبت تھی تمہیں اس سے تو گھر سے بھاگ کر شادی کر لی ہوتی۔ کیوں بے وقوف بنایا مجھے۔ اور یہ کیسے سوچ لیا کہ میں آسانی سے تمہارے ڈرامے کا کردار بن جاؤں گا، نہیں محترمہ! ایسا تو ہر گز نہیں ہو گا۔

 

میں تمہارے خاندان کو اکٹھا کر کے تمہاری وہ بے عزتی کروں گا اور ساتھ ہی تمہارے اس عاشق کی بھی… کہ تمہارا عقل ٹھکانے پہ آ جائے گی۔ ”

 

"پلیز… ڈاکٹر علی تیمور! پلیز… میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ پاؤں پڑتی ہوں کہ میری مدد کیجئے۔ میری مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آپ کے اس اقدام سے دو خاندانوں کا بھلا ہو جائے گا۔ ٹوٹے ہوئے رشتے مل جائیں گے۔ ”

 

"میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ اور نہ ہی میں سمجھنا چاہتا ہوں۔ ” وہ کنپٹیاں سہلاتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

 

لاج اس کے پیروں میں گر گئی۔ اور بری طرح گڑ گڑانے لگی۔

 

"میں آپ سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہوں۔ خدا کے واسطے مجھ پہ رحم کیجئے۔ آپ نہیں سمجھ سکے۔ بچپن سے اب تک میں نے کیسی تکلیف دہ زندگی گزاری ہے۔ میں اپنے ہی گھر میں اپنی ماں کا بھگتان ادا کر رہی ہوں۔ بھگت رہی ہوں اپنی ماں کے فیصلے کو۔

 

میری ماں ایک غریب عورت تھی۔ غریب ضرور تھی لیکن خاندانی تھی۔ میرے ماں باپ نے جب خاندان سے چھپ کر شادی کی تو اس شادی کو کسی نے قبول نہیں کیا۔

 

میری بڑی ماں آج تک اس زخم کو نہیں بھول پائیں کہ ان کے شوہر نے ان کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کیسے کر لی۔ اور دوسری عورت کو ان کے مقابل لا کھڑا کیا۔

 

میرے ماں باپ اب زندہ نہیں ہیں، لیکن آج تک وہ مجھ سے میرے باپ کی خطا کا بدلہ لے رہی ہیں۔ وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی ہیں صحیح اور غلط سب ان ہی کے حکم سے ہوتا ہے۔ ان کے آگے ان کی سگی اولاد نہیں بول سکتی تو میں کیسے بول سکتی تھی۔ ”

 

وہ ہچکیوں کے درمیان اپنی کہانی سنا رہی تھی۔

 

"آپ ہی بتائیے ڈاکٹر صاحب! کیا ہماری شریعت اس چیز کی اجازت نہیں دیتی کہ بالغ لڑکا، لڑکی اپنی پسند سے شادی کر سکتے ہیں۔ میں ایسا راستہ کبھی اختیار نہ کرتی… اگر میرے لیے بندشیں نہ ہوتیں۔ یا میرا ساتھ دینے والا کوئی ہوتا۔ بتائیے میں کس سے امیدیں باندھتی۔ صرف ایک وجود ہے، دادی، جنہیں سب ہی بی جان کہتے ہیں۔ ان کی بس اتنی چلتی ہے کہ انہوں نے بہت زور دے کر میرے لیے آپ کا پر پوزل قبول کیا۔ ورنہ بڑی امی تو یہ بھی نہیں چاہتی تھیں ان کا خیال تھا۔ اتنا اچھا رشتہ ان کی کسی بیٹی کے لیے کیوں نہیں آیا۔ میرے لیے کیوں آ گیا۔ ”

 

"پھر بھی، تمہیں میری قدر نہیں آئی؟”

 

تیمور کے انداز میں بے حد چبھن تھی۔ لاج نے آنسو صاف کیے۔

 

"آپ میں کوئی کمی نہیں۔ آپ بہت شاندار آدمی ہیں لیکن آپ وقاص احمد تو نہیں ہیں۔ آپ کے لیے کوئی شاندار عورت ہونی چاہیے۔ جو صرف آپ کے لیے ہو۔ مجھ جیسی نہیں۔

 

جس کے دل میں پہلے سے کوئی اور بستا ہو۔ ڈاکٹر علی تیمور! ساری عمر میں آپ کی ہو کر بھی آپ کی نہیں ہو سکتی۔ کیا آپ کو ایسا کھوکھلا ساتھ قبول ہو گا۔

 

آج نہیں تو کل آپ مجھ سے چھٹکارا پانے کی کوشش کریں گے پھر… پھر آج ہی کیوں نہیں … مجھے طلاق… دے دیجئے … میں نے یہ رشتہ نبھانے کے لیے نہیں توڑنے کے لیے جوڑا تھا۔ ”

 

اس نے چہرہ اوپر اٹھایا۔ تیمور حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔ لاج کی آنکھیں اب بھی بھیگ رہی تھیں وہ کھڑی ہو گئی۔

 

"آپ کے طلاق دینے سے مجھ پہ مظلومیت کا لیبل لگ جائے گا۔ ایسے میں وقاص کا سہارا، نئے تعلق کی بنیاد رکھے گا۔ ٹوٹے ہوئے رشتے جڑ جائیں گے۔ میرا ننھیال اور دودھیال سب ایک ہو جائیں گے۔ اور مجھے میری محبت۔ ”

 

"بس کرو… لاج مظاہر…! بس کرو۔ میرا دماغ پھٹ جائے گا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، میرے اندر اتنی قوت بر داشت بھی ہو گی۔ نجانے میں اتنی دیر سے تمہاری بکواس کیسے بر داشت کر رہا ہوں۔ اور کیوں … کر رہا ہوں، میں ڈاکٹر علی تیمور… اتنا بڑا دھوکہ کیسے کھا گیا۔ معصوم چہروں کے پیچھے ایسے مکار عزائم بھی ہوتے ہیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا؟”

 

"مجھے معاف کر دیجئے۔ ” لاج اس کے تیور سے خوف زدہ ہو کر گڑ گڑائی۔

 

"دل تو چاہتا تھا تمہیں شوٹ کر دوں۔ اور ان سب کو بھی جو اس کھیل کے کردار ہیں۔ جنہوں نے میری زندگی تباہ کی فی الحال تم میری نظروں کے سامنے سے دفع ہو جاؤ۔ چلی جاؤ، چلی جاؤ یہاں سے، جہاں سے آئی تھیں وہاں۔ ”

 

وہ بری طرح چلانا چاہتا تھا مگر چلا نہیں سکا۔

 

مرنا یا مار دینا چاہتا تھا۔ لیکن وہ کچھ نہیں کر سکا۔ صرف اتنا، کہ اسے کمرے میں چھوڑ کر باہر نکل گیا۔

 

"میں نے کہا تھا نا۔ وقاص احمد، یہ سب کچھ صحیح نہیں ہے۔ میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کچھ نہیں کرنا چاہتی تھی میں ایسا مگر نجانے ایسا کیوں ہوتا گیا۔ ”

 

وہ اپنے بازوؤں کے حلقے میں خود ہی سمٹتی چلی گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر موجزن تھا۔

 

"مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ وقاص! پلیز کچھ کرو۔ ”

 

"کب تک ڈرو گی لاج؟ کب اپنے حق کے لیے لڑنا سیکھو گی۔ ”

 

"مجھے بڑی امی سے بہت ڈر لگتا ہے۔ وقاص! تمہیں نہیں پتا انہیں دورے پڑنے لگے ہیں۔ ان کی کیفیت بہت ہیجانی ہو جاتی ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے ان سے سامنا نہ ہو۔ لیکن ایک گھر میں رہتے ہوئے یہ نا ممکن ہے۔ بی جی کہتی ہیں مجھے ڈرنا نہیں چاہیے۔

 

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بی جی ایسا کیسے کہہ دیتی ہیں۔ حالانکہ وہ خود ان سے بھی تو ڈرتی ہیں۔ ” وقاص کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔

 

"یہ کولڈ ڈرنک پیو۔ ” اس نے گلاس کی طرف اشارہ کیا۔ پھر اسے حوصلہ دینے لگا۔

 

"دیکھو لاج…! کوئی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جب تک تم خود نہ چاہو۔ ”

 

"کیا ایسا نہیں ہو سکتا وقاص! کہ ہم چھپ کر شادی کر لیں۔ میں اس ماحول سے نکل جانا چاہتی ہوں۔ مجھے کہیں چھپا لو، چھپا لو وقاص۔ !”

 

"پھر وہی بات، تاریخ کو پھر دہرانا چاہتی ہو تم، چاہتی ہو ہماری آنے والی نسل بھی محرومیوں کا شکار ہو۔ غیروں میں اپنا پن ڈھونڈتی پھرے۔ ”

 

"تم غیر نہیں ہو وقاص! تم میرے سب سے اپنے ہو۔ ” وہ تڑپ کر بولی۔

 

"اپنے گھر والوں سے پوچھو۔ بلکہ ہم تو غیروں سے بھی بدتر ہیں۔ ” وہ طنزیہ انداز میں بولا تو لاج اسے دیکھ کر خاموش ہو گئی۔

 

(اپنوں کے لیے تو میں خود بھی غیر ہوں۔ ان کے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے )

 

"کہاں کھو گئیں ؟” وقاص نے اس کے آگے ہاتھ ہلایا۔ وہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔

 

"کہیں نہیں۔ ” اس نے آخری گھونٹ بھرا۔ "میرا خیال ہے ڈرائیور آ گیا ہو گا۔ ” وہ ایک دم بے چین سی نظر آنے لگی۔

 

وقاص اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔

 

پھر اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کروہ بھی سیدھا کھڑا ہو گیا۔

 

"کیوں اتنا مضطرب رہتی ہو، کیوں میری سنگت میں خود کو پر سکون نہیں کر لیتیں۔ ” وہ گمبھیر لہجے میں بولا۔

 

وہ سر جھکا کر فائل پہ انگلیاں پھیرنے لگی۔ وہ زیرِ لب مسکرا دیا۔

 

"چلو آؤ… آج میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں۔ ” وقاص نے اسے پیش کش کی۔

 

"ہرگز نہیں۔ بی جی۔ دیکھ لیں گی تو قیامت ہی آ جائے گی۔ ”

 

"اور ہماری ساسو ماں … یعنی تمہاری بڑی امی؟”

 

"اونہہ!” لاج کے چہرے پر تلخ سی مسکراہٹ بکھر گئی۔

 

"میرے لیے اس معاملے میں ان کا فلسفہ کچھ اور ہے۔ وہ تو چاہیں گی ہی کہ میں اپنی پسند کی شادی کر لوں تا کہ… ابو کی وصیت کے مطابق، میں اپنی پسند کی شادی کرنے کی وجہ سے جائیداد سے بے دخل ہو جاؤں اور خاندانی رشتوں سے بھی اور تمام جائیداد کی وہ مالک بن جائیں۔ بقول بی جی کے، ابو کی شادی کا انہیں اتنا غم نہیں ہوا تھا جتنا غم اس بات کا ہے کہ آدھی جائیداد کی مالک تو لاج مظاہر ہے۔ اور آدھی کے مالک وہ چار افراد…”

 

"اور تم کیا کہتی ہو اس بارے میں ؟”

 

"وقاص! تم جانتے ہو۔ مجھے روپے پیسے کی کوئی تمنا نہیں ہے، بس عزت سے تمہارا ساتھ مل جائے تو میں ہر چیز کو ٹھوکر مار سکتی ہوں۔ ”

 

"مجھے بھی کسی روپے پیسے کی ضرورت نہیں۔ میں اب بھی کورٹ میں تمہیں لے جا سکتا ہوں۔ اور ہم کورٹ میرج کر سکتے ہیں۔ لیکن…”

 

وہ قدم سے قدم ملا کر چلتے ہوئے اچانک رک گیا۔

 

"لیکن میں نہیں چاہتا… جو گالی زمانے نے تمہاری ماں کو دی تھی۔ وہ تمہیں بھی لوٹائے۔ میں پھوپھو کے نام کو مزید بدنام نہیں کر سکتا۔ ”

 

لاج نے سر اٹھا کر وقاص کی طرف دیکھا۔ اس وقت وہ کتنا اپنا اپنا سالگا تھا۔

 

"تمہیں پتا ہے وقاص! جب میں بہت چھوٹی تھی تب میں نے اپنے نام کے ساتھ بہت کچھ الٹا سیدھا سنا تھا، تب مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ میرے والدین نے کیا قصور کیا ہے۔ ایک روز میں نے بی جان سے ان با توں کا مطلب پوچھ لیا تو وہ حیران رہ گئیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتیں تھیں۔ اتنی چھوٹی سی بچی، اتنی بڑی با توں کا مطلب پوچھے گی۔ انہوں نے مجھے خود سے چمٹا لیا۔ ”

 

"کس سے سنا تم نے یہ سب؟”

 

"اکثر بڑی امی کہتی ہیں۔ ”

 

"وہ تمہاری ماں نہیں ہے، تمہاری ماں مر چکی ہے۔ اور تمہارا باپ بھی۔ تم اکیلی نہیں ہو۔ جب تک تمہاری بی جان زندہ ہے۔ تمہیں اپنے پاس رکھے گی۔ ”

 

لیکن چچا میاں کو بی جان کا یہ فیصلہ ناگوار لگا۔

 

"بی جان! آپ لاج کو یہاں کیوں لے آئی ہیں۔ آپ کو پتا ہے، شاکرہ ہنگامہ کھڑا کر دے گی۔ شکر ہے کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ ”

 

"شاکرہ تو ہنگامہ کھڑا کر دے گی۔ تم بتاؤ تمہارا اپنا کیا فیصلہ ہے ؟” بی جان نے کڑے تیوروں سے پوچھا تو چچا میاں سٹپٹا گئے۔ اور پھر دبے لہجے میں بولے۔

 

"بچے اپنے گھر میں اپنے والدین کے پاس ہی سکھ سے رہتے ہیں، لاج کے وہاں تین بہن بھائی ہیں۔ ”

 

"مگر … وہ گھر اس کے لیے جہنم ہے۔ ” بی جان نے کہا۔

 

"لیکن میں اپنے گھر کو جہنم نہیں بنا سکتا۔ ” چچا میاں دو ٹوک انداز میں بولے۔ میری بھی چھوٹی چھوٹی بچیاں ہیں۔ معاف کیجئے گا۔ بی جان! والدین کا اثر بچوں میں ضرور آتا ہے۔ کل کلاں کو کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو کون ذمے دار ہو گا۔ پہلے ہی ہمارے خاندان پہ بہت بڑا داغ لگ چکا ہے۔ اور معلوم نہیں یہ بھائی صاحب کی اولاد بھی ہے یا…”

 

"اظہر…! تمہیں پتا ہے تم کیا کہہ رہے ہو؟”

 

"کہنے کو کچھ چھوڑ کر گئے ہیں بھائی صاحب، ہم نہ کہیں زمانہ تو یہی کہہ رہا ہے۔ شاکرہ کے میکے والے میرے کردار پہ بھی شک کرنے لگے ہیں۔ شاکرہ کو بھی بھروسا نہیں رہا مجھ پر۔ اور میں اس بچی کو اپنے گھر میں رکھ کر قیامت کھڑی کر لوں۔ ”

 

"تو پھر ٹھیک ہے۔ میں ہی اس کے ساتھ اس جہنم میں رہوں گی۔ اوراس بچی کے بالغ ہونے تک جب اس کا نصیب کھل جائے، یہ اپنے گھر بار کی ہو گی تب مجھے اطمینان نصیب ہو گا۔ ”

 

"اور تم چاہتی ہو کہ اپنے فیصلے سے بی جان کو بے سکون کر دوں۔ ”

 

وقاص نے کہا تو لاج کے قدم رک گئے اس نے گردن اٹھا کر وقاص کی طرف دیکھا۔

 

"نہیں۔ میں بی جان کو ہرگز دکھ نہیں دوں گی میں اپنی منزل پانے کے لیے وہ راستہ اختیار کروں گی جو تم نے تجویز کیا ہے۔ جس سے کسی کو دکھ نہیں پہنچے گا۔ جس کے ہونے سے دو خاندان مل جائیں گے۔ لیکن …”

 

"لیکن کیا؟” وقاص نے لاج کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور آنکھیں پانیوں سے بھر رہی تھیں۔

 

"کیا طلاق کے بعد بی جان اور چچا میاں تمہارے پرپوزل کو قبول کر لیں گے۔ کیا جیسا ہم سوچ رہے ہیں ایسا ہو سکتا ہے۔ ”

 

"کیوں نہیں۔ شاید تمہیں نہیں معلوم طلاق یافتہ لڑکی کا رشتہ ملنا کتنا دشوار ہوتا ہے۔ کوئی نہیں چاہے گا تمہیں بٹھانا اور پھر… دوسری شادی پر تو تمہیں اپنی من مانی کا پورا اختیار ہو گا۔ اوراس سے تمہارے والد کی وصیت پہ بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ”

 

"اور جو مجھ پہ داغ لگے گا۔ ” لاج کی آواز پست ہو رہی تھی۔

 

"میں ہوں نا لاج! کیوں گھبرا رہی ہو تم۔ ہر قدم پہ تمہارا ساتھ دوں گا۔ تم بے فکر رہو۔ تم تنہا نہیں ہو تمہیں مجھ پہ اعتبار ہونا چاہئے۔ ”

 

"میں تمہارے بغیر نہ جی سکتا ہوں، اور نہ جینے کا تصور کر سکتا ہوں۔ ”

 

لاج نے آسودگی سے وقاص کی طرف دیکھا۔ اور پھر وہ باہم قدم سے قدم ملا کر چلنے لگے۔

 

"لاج بی بی! آپ کو بی جان بلا رہی ہیں۔ ” وہ کتاب میں گم تھی۔ انگلیاں کتاب میں پھنسائے یونہی اٹھ گئی۔ بی جان نماز پڑھ رہی تھیں۔

 

وہیں بیٹھ کرسوچنے لگی۔ بی جان سلام پھیر کر ضرور پوچھیں گی۔ ” تم نے نماز پڑھ لی۔ ” اور اس کا جواب یہی ہو گا "ابھی پڑھوں گی۔ ” پتا نہیں کیوں وہ نماز میں کوتاہی کرتی تھی۔

 

"کیا سوچ رہی ہو؟” بی جان تسبیحات سے فارغ ہو کر دعا مانگ کر اٹھ گئیں۔

 

"کچھ نہیں بی جان!آپ نے بلایا تھا۔ ”

 

"ہوں، بیٹھو… نماز سے فارغ ہو گئیں ؟” اس کا سرجھک گیا آج اس سے جھوٹ نہیں بولا گیا۔

 

"مجھے معلوم ہے تمہارے دل میں بار بار یہی خیال آتا ہے کہ گھر میں کوئی نماز نہیں پڑھتا۔ سوائے بی جان کے، بی جان بوڑھی ہیں۔ شاید اس لیے نمازیں پڑھتی ہیں۔

 

شاید تمہیں معلوم نہیں، تمہاری ماں بڑی ماں بہت عبادت کرتی تھیں۔

 

جب وہ مظاہر میاں کی منگیتر تھی، تب سے اس کے دل میں ہی ڈر تھا، کہیں یہ نسبت ہی ختم نہ ہو جائے، تب وہ بہت دعائیں کرتی تھی۔

 

دونوں چچا زاد تھے۔ اورسب کو معلوم تھا۔ مظاہر کسی اور لڑکی کو پسند کرتا ہے۔ لیکن تمہارے داجی کے سامنے کس کی چلتی تھی۔ اس کی شادی ممتاز بیگم سے ہی ہوئی، ممتاز، مظاہر سے عمر میں بڑی بھی تھی۔ اور ان پڑھ جاہل بھی۔ صرف اس کے پاس خاندانی نسب تھا۔ اور بے شمار دولت، مظاہر بزرگوں کے سامنے خاموش ہو گیا۔ لیکن وہ سبیلہ کو نہیں بھولا تھا۔

 

سبیلہ، ممتاز سے زیادہ خوبصورت تو نہیں تھی۔ لیکن وہ پڑھی لکھی، سلجھی ہوئی، دھیمے مزاج کی لڑکی تھی۔

 

اسی دوران تمہارے داجی دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہو گئے۔ ان کے مرنے کے چند روز بعد ہی خاندان میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ مظاہر نے دوسرا بیاہ رچا لیا ہے۔

 

ابھی میری عدت بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ مظاہر، سبیلہ کو گھر لے آیا۔ ہم سب کے لیے مظاہر کا یہ قدم نہایت تکلیف دہ تھا۔ میں نے مظاہر کو واپس نکل جانے کا حکم دے دیا تھا۔ لیکن وہ مصر تھا کہ یہ گھر اس کا بھی ہے۔ اور وہ اپنی بیوی کو یہیں رکھے گا۔ اس کی بیوی ماں بننے والی تھی۔ ممتاز کی گود میں آذر ڈھائی برس کا تھا۔ اس کے یہاں بھی دوسرا بچہ ہونے والا تھا۔

 

گھر میں خون خرابے کی کیفیت تھی۔ ممتاز نے اپنے میکے والوں کو اکٹھا کر لیا تھا۔

 

وہ ایک پل بھی سبیلہ کی موجودگی میں یہاں رکنا نہیں چاہتی تھی۔ جب کہ اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ میں اسے گھر سے جانے دیتی۔ مظاہر سے دونوں چھوٹے بھائی اظہر اور مظہر، مظاہر سے سخت بد ظن اور مشتعل ہو رہے تھے۔ ان کا خیال تھا اگر سبیلہ یہاں رہے گی تو لوگ انہیں بزدل اور بے غیرت کہیں گے۔ تمہاری بوا زاہدہ کی جہاں منگنی ہو رہی تھی، وہ وہاں سے سبیلہ کی وجہ سے جواب مل گیا۔

 

پے در پے وہ قیامتیں نازل ہوئیں کہ سب ہی سبیلہ سے شدید نفرت کرنے لگے۔ اس کے باوجود مظاہر نے اسے اوپر کے کمرے میں رکھ لیا۔

 

روزانہ گفت و شنید ہوتی اور کوئی فیصلہ نہ ہو پاتا۔ ممتاز کے گھر والوں کا دباؤ علیحدہ بڑھتا جا رہا تھا اور بالآخر خاندان کے بڑوں نے فیصلہ سنا دیا کہ ممتاز کا جو مقام اور مرتبہ ہو گا سبیلہ کو وہ کبھی نہیں ملے گا۔ تب ہی سبیلہ اس گھر میں رہ سکے گی۔ وگرنہ مظاہر اور سبیلہ بے شک یہاں سے چلے جائیں۔ مظاہر نے مصلحت سے کام لیا۔ شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ زندگی ان پہ مزید تنگ ہو۔ نہ ہی اس نے ابھی تک کچھ اپنے لیے علیحدہ بنایا تھا۔ اگر وہ گھر سے نکلتا تو اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔

 

بے شک تمہارے داجی نے سب کچھ تینوں بیٹوں کے نام کر رکھا تھا، لیکن زاہدہ کی شادی تک سب کچھ التوا میں تھا۔ جو کچھ بھی ہونا تھا زاہدہ کی شادی کے بعد ہونا تھا۔

 

سبیلہ اس گھر میں رہنے لگی۔ وہ بہت صابر اور اچھی طبیعت کی لڑکی تھی۔ وہ ممتاز کی زیادتیوں پہ کبھی اف تک نہ کرتی۔ وہ سارے گھر کا کام کرتی۔ سب کی خدمت کرتی، شاید وہ سب کچھ سب کا دل جیتنے کے لیے کر رہی تھی۔ وہ حیثیت میں ممتاز سے کم تھی، لیکن اس کی قسمت بھی ممتاز سے کم نکلی۔

 

مظاہر کا اچانک ایکسیڈنٹ ہو گیا، وہ جان لیوا ایکسیڈنٹ تھا۔ نہ پوچھو کیسی قیامت برپا ہوئی تھی۔ ہر ایک کے دل میں سبیلہ کے لیے نفرت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ممتاز، اظہر، مظہر اس کو منحوس قرار دے رہے تھے۔ ممتاز کے ہاں اسی دوران ماہ رخ پیدا ہوئی۔ مجھے پہلی بار سبیلہ سے ہمدردی کا احساس ہوا۔ لیکن میں کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ سبیلہ کو گھر سے نکال دیا گیا۔

 

وہ اپنے میکے چلی گئی۔ سبیلہ کے ماں باپ زندہ نہیں تھے۔ اس کے دو بھائی اور ایک بہن تھی۔ سبیلہ ایک بھائی سے چھوٹی تھی۔ پتا نہیں اس کی زندگی وہاں کیسے گزری، ہمیں کچھ خبر نہیں۔ تین ماہ کے بعد ہمیں اطلاع ملی، سبیلہ نے ایک بیٹی کو جنم دیا ہے اور وہ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ہی خالق حقیقی سے جا ملی۔

 

تمہیں تمہاری چھوٹی خالہ اور ماموں نے پالا، میں اپنے بیٹے کی نشانی کو غیروں کے پاس چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن کچھ عرصہ مجھے خاموش رہنا پڑا۔ زاہدہ کی نسبت طے ہوئی۔ دو ماہ کے اندر اندر ہم اس کے فرض سے سبکدوش ہو گئے۔ اس کی شادی کے بعد میں بھی کچھ ہلکی ہو گئی۔

 

تمہارے داجی کی وصیت کے مطابق تینوں بیٹے باپ کے جائیداد اور وراثت کے برابر کے مالک بن گئے۔ جہاں داجی کی وصیت واضح ہوئی۔ وہاں ایک ہوش اڑا دینے والی خبر بھی سامنے آ گئی۔ جو مظاہر نے پہلے سے ہی تیار کروا… رکھی تھی۔

 

"کسی نے بتایا کہ مظاہر نے اپنی زندگی میں یہ وصیت لکھوائی تھی کہ اس کی آدھی جائیداد سبیلہ اور اس کی ہونے والی اولاد اور آدھی کے مالک اس کے پہلے بیوی اور بچے ہوں گے۔ ”

 

اس کے ساتھ ہی یہ شرط بھی تھی کہ میری بیٹی اگر اپنی پسند کی شادی کرے گی تو میری جائیداد سے اسے بے دخل کر دیا جائے گا۔ جب کہ بڑوں کی رضا مندی سے کرے گی تو وہ اپنے پورے حصے کی مالک ہو گی۔ شاید مظاہر جان گیا تھا کہ بڑوں کو دکھ دے کر انسان خود بھی سکھ سے نہیں رہتا۔

 

یہ وصیت نہیں تھی گویا ممتاز کی دیوانگی کا پروانہ تھا۔ وہ یہ سب سن کر حواس کھو بیٹھی۔

 

پھر اس کے دل میں لالچ آیا۔ اور وہ تمہیں تمہارے ننھیال سے لینے چلی گئی۔ تم اس وقت آٹھ ماہ کی تھیں، شاید وہ تمہیں مار دینا چاہتی تھی۔

 

مجھے یہ سب معلوم ہوا تو میں تمہارے پاس یہاں آ گئی۔ میں تب سے اپنے رب سے یہی دعا کرتی ہوں کہ … تمہاری پرورش میرے ہاتھوں اچھی ہو جائے۔ اور تم اپنے گھر کو سدھارو۔

 

لگتا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ میرے پروردگار نے میری التجائیں سن لیں۔ سب سے پہلے زاہدہ تمہیں اپنے بیٹے کے لیے مانگنے کی خواہش مند ہے۔ مگر فیصل تم سے تین برس چھوٹا ہے۔

 

(کمال ہے زاہدہ پھوپھو نے کبھی مما کو اچھا نہیں سمجھا۔ مجھے کبھی محبت سے نہیں دیکھا۔ اور رشتہ کرنا چاہتی ہیں )

 

دوسرا رشتہ ایک ڈاکٹر کا ہے۔ بہت اچھی فیملی ہے۔

 

ایک رشتہ اور بھی ہے۔ شاکرہ بھی تمہیں اپنے بھائی کے لیے لینا چاہتی ہے۔ کہہ رہی تھی اس کے یہاں اگر تمہارے جوڑ کا بیٹا ہوتا تو وہ تمہیں کبھی باہر نہ جانے دیتی۔ ”

 

لاج کو یہ سب روداد سن کر ایک جھٹکا اور لگا اس کے چہرے پہ تلخ مسکراہٹ بکھر گئی۔

 

(حیرت کی بات ہے جو لوگ میری ماں کو گالیاں دیتے ہیں۔ باپ کو اچھا نہیں سمجھتے۔ وہ مجھے کیسے اپنانا چاہتے ہیں )

 

"تم چپ کیوں ہو بیٹی! کچھ بولو۔ میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ تمہاری ماں، تمہارے رشتوں سے خوش نہیں ہے۔ میں اس سے سب کچھ چوری چھپے کرتی ہوں۔ چچا تمہارے اپنی اپنی اولادوں کی فکروں میں گرفتار ہیں۔ بہتر ہے کہ تم جلد کوئی فیصلہ کر لو۔ ”

 

اس نے سراٹھا کربی جان کو دیکھا۔

 

"ہاں بولو۔ کیا کہنا چاہتی ہو۔ ؟”

 

"کیا میری رائے ضروری ہے ؟” اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔

 

"کیوں نہیں … بالکل، آخر تمہاری زندگی کا فیصلہ ہے۔ ” بی جان نے محبت آمیز لہجے میں کہا۔

 

"لیکن ابو کی وصیت میں تو واضح شامل ہے کہ اگر میں اپنی پسند بیان کروں گی تو اس خاندان اور جائیداد سے بے دخل ہو جاؤں گی۔ ”

 

"پگلی ! وہ بات اور ہے۔ یہ ہماری رضا مندی ہے۔ تم ہماری رضا میں راضی ہو جاؤ۔ ”

 

"بی جان!” وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔ پھر رک گئی۔

 

"میں جانتی ہوں۔ تمہاری عمر ابھی شادی کی نہیں ہے۔ لیکن بیٹی مجھے اپنی زندگی کا بھروسہ نہیں۔ کل میری آنکھ بند ہو جائے تو یہ لوگ نجانے تیرے ساتھ کیسا سلوک کریں گے۔

 

تو نے ماں باپ نہیں دیکھے۔ خداوند کریم تجھے ماں باپ جیسے ساس سسر دے۔ بہن بھائیوں جیسے نند دیور، تجھے سب کچھ میسر آ جائے۔ ”

 

لاج کے دل میں ایک پھانس سی چبھی تھی۔

 

"ماموں، ممانیاں، خالہ جانی سب کتنے بے لوث اور پر خلوص محبت کرنے والے تھے۔ وقاص کے تعلق سے سب رشتے اس پہ نچھاور تھے۔ لیکن وہ اس سائبان کو کہاں حاصل کر سکتی تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا بی جان کو سب کچھ بتا دے۔

 

” ایسا ہرگز نہیں کرنا۔ تمہاری بی جان کو صرف تم سے ہمدردی ہے۔ ہم سے نہیں۔ ہم ان کے لیے اول روز سے جو تھے آج بھی وہی ہیں۔ ”

 

وقاص کی آواز اس کے اردگرد گونجی تھی۔

 

"میں آپ کو کل جواب دوں گی۔ ” اس نے بہت دیر بعد آہستگی سے کہا، تو بی جان مطمئن ہو گئیں۔

 

"جیتی رہو بیٹی! میں تمہارے جواب کا انتظار کروں گی۔ ”

 

پھر اس نے رات کو وقاص سے سارا معاملہ ڈسکس کر لیا۔

 

"مجھے لگتا ہے ڈاکٹر کا رشتہ سب سے موزوں ہے کیونکہ وہ پڑھا لکھا شخص ہے۔ ہماری مجبوری کو سمجھ بھی سکتا ہے۔ اور ہماری مدد بھی کر سکتا ہے۔ ” وقاص نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

 

"کیوں نہ ہم اسے پہلے ہی سب کچھ بتا دیں۔ ہو سکتا ہے وہ ہماری اس سے بہتر مدد کر سکے۔ ” لاج نے ایک اور تجویز سامنے رکھی۔

 

"وہ شادی سے ہی انکار کر دے گا۔ تب تب ہم کیا کر سکیں گے ؟” وقاص نے برہم لہجے میں جواب دیا۔

 

"اگر اس نے طلاق نہ دی تو۔ اور ہمارے لیے مشکلات کھڑی کر دیں تب؟” لاج کے ذہن میں خدشات ہی خدشات تھے۔

 

"یہ تم مجھ پہ چھوڑ دو، کوئی بھی مرد گوارا نہیں کرے گا کہ اس کی بیوی کسی اور کو چاہتی ہو اور اس سے بدستور تعلق رکھے۔ پھر تم نے صاف طور سے سب کچھ بتا دینا ہے۔ بعد میں اگر کچھ مسائل ہوئے تو میں خود دیکھ لوں گا۔ ”

 

وقاص نے کتنی آسانی سے سب کچھ کہہ دیا تھا۔ اس پر ایک بوجھ آ گرا تھا۔

 

صبح دروازہ بج رہا تھا جب اس کی آنکھ کھلی۔ اس نے ہڑبڑا کر وقت دیکھا۔ صبح کے دس بج رہے تھے، اسے خود پہ حیرت ہوئی۔ وہ تیزی سے اٹھی۔ دوپٹہ سلیقے سے اوڑھا اور پھر دروازہ کھول دیا۔ سامنے ہی ایک خوش شکل لڑکی ناشتے کی ٹرالی لیے کھڑی تھی۔

 

"صبح بخیر بھابھی جان! میں قندیل ہوں یقیناً آپ نے پہچان لیا ہو گا۔ میں آپ کی اکلوتی نند ہوں۔ ”

 

لاج خاموشی سے دروازے کے سامنے سے ہٹ گئی۔ قندیل مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہو گئی۔

 

"ڈاکٹر صاحب کہاں ہیں ؟” قندیل ادھر ادھر دیکھتے ہوئے شرارت سے بولی پھر خود ہی کہنے لگی۔

 

"ضرور کوئی ایمرجنسی کال آ گئی ہو گی۔ میں نے تو مما سے کہہ دیا ہے۔ میں تو کسی ڈاکٹر سے شادی نہیں کروں گی۔ حضرت کی کوئی پرسنل لائف ہی نہیں ہوتی۔ ” لاج نے محسوس کیا، وہ لڑکی خوش شکل ہی نہیں، خوش مزاج بھی ہے۔ وہ اس کی با توں کا بھلا کیا جواب دیتی۔ چپ چاپ واش روم میں چلی گئی۔

 

فریش ہو کر جب وہ باہر نکلی تو کمرے میں دو افراد کا اور اضافہ ہو گیا تھا، اس نے بیک وقت دونوں کو سلام کیا پھر تیمور کی امی کے سامنے سر جھکا دیا۔

 

"جیتی رہو، سدا سہاگن رہو۔ دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔ ”

 

ان کی دعا پہ لاج سرجھکا کر رہ گئی۔ پھر اس نے اس لڑکے کی طرف دیکھا جو اپنی ماں کے قریب بیٹھا تھا۔ دونوں بھائیوں میں کتنی مماثلت تھی بلکہ تینوں بہن بھائی ایک ہی تصویر کے تین پوز لگ رہے تھے۔

 

"میں آپ کا دیور ہوں۔ مجھے اورنگ زیب گیلانی کہتے ہیں۔ بھائی کی دلہن کے لیے میرے دل میں بہت ارمان تھے۔ میں شادی سے ایک دن پہلے ہی آیا ہوں۔ کوئی رسم بھی ڈھنگ سے نہ ہو سکی۔ بھلا اسے بھی شادی کہتے ہیں۔ کم از کم میں اپنی شادی پر تو ایسا کچھ نہیں کروں گا۔ خوب دھوم دھام سے شادی ہو گی میری۔ ” اورنگ زیب نے اپنی عادت کے مطابق مفصل جواب دیا۔

 

"میرا خیال ہے بک بک بہت ہو گئی ہے، ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ پہلے ناشتا کر لیتے ہیں۔ ”

 

لاج کو بدستور خاموش دیکھ کر سدرہ نے شائستگی سے بات کا رخ پلٹا۔

 

"ناشتا بھی ہوتا رہے گا۔ پہلے یہ چھوٹا سے نذرانہ تو بھابھی کے حضور پیش کر دوں۔ ” اس نے چھوٹی سی ڈبیہ لاج کی طرف بڑھائی۔ "آپ دونوں کو شادی بہت بہت مبارک ہو۔ یہ لیجئے، میری طرف سے یہ حقیر سا تحفہ۔ امید ہے کہ اسے آپ ساری عمر یاد رکھیں گی۔ ”

 

"ارے یہ تم کیا کر رہے ہو، تمہارے بھائی تو ہیں نہیں۔ اکٹھا ہی دیتے۔ ” سدرہ نے اورنگ زیب کو ٹوکا۔

 

"بھائی صاحب کے لیے میں نے علیحدہ تحفے کا اہتمام کیا ہے، وہ اس سے زبردست ہو گا۔ یہ صرف بھابھی جان کے لیے ہے۔ لیجئے بھابھی جی۔ !”

 

لاج نے جھجکتے ہوئے ہاتھ بڑھایا اور گفٹ لے لیا۔

 

"میری عزت افزائی ہو گی، اگر آپ اسے ابھی ملاحظہ فرمائیں گی تو۔ ” لاج گفٹ کی پیکنگ کھولنے لگی۔ اورنگ زیب اور قندیل بے ساختہ چھوٹنے والی ہنسی کو طوعاً و کرہاً دبائے کھڑے تھے۔

 

جیسے ہی گفٹ کھلا زندہ کاکروچ اچھل کر لاج کے چہرے کی طرف آیا۔ اس نے چیخ ماری۔ ڈبہ اور ریپر ہاتھ سے چھوٹے۔ کاکروچ جھولی میں گر کر زمین پر گر گیا۔ لاج اچھل کر بیڈ پر چڑھ گئی۔

 

اورنگ زیب اور قندیل بے تحاشا ہنس رہے تھے۔ لاج نے تاسف سے ان کی طرف دیکھا۔ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ اپنی بے عزتی کے احساس سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل گئے۔ یہ صورت حال اس قدر بے ساختہ تھی کہ قندیل اور اورنگ زیب کے چھکے چھوٹ گئے۔ سدرہ یکدم گھبرا گئی۔ وہ دو زانو بستر پہ بیٹھی تھی اور جھر جھر آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

 

سدرہ اپنی وہیل چیئر گھسیٹتے ہوئے اس کے قریب پہنچیں۔ قندیل بھی لپک کر اس کے پاس آ بیٹھی اور اسے چپ کرانے لگی۔

 

"پلیز بھابھی ! پلیز سوری۔ ” وہ بے حد شرمندہ دکھائی دے رہی تھی۔

 

"ہمیں ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ آپ رونے لگ جائیں گی۔ ”

 

"ہر وقت مذاق میں لگے رہتے ہو۔ بنا سوچے سمجھے تنگ کرنے کھڑے ہو جاتے ہو۔ شرم نہیں آتی تمہیں ایسی حرکت کرتے ہوئے۔ ” سدرہ اورنگ زیب کو لعن طعن کرنے لگیں۔

 

"ممی ! مجھے معلوم نہیں تھا کہ بھابھی اتنے کمزور دل کی ہیں۔ یہ تو بہت چھوٹا سا مذاق تھا۔ ” اورنگ زیب نے فوراً اپنی صفائی میں کہا۔

 

"یورپ میں رہ کر تمہارا مزاج بھی یورپین ہو گیا ہے۔ نئی نویلی دلہن کے ساتھ کون ایسا برتاؤ کرتا ہے۔ ” سدرہ نے پھرلتے لیے۔

 

"کیا مشرق والے مذاق نہیں کرتے ؟” وہ سر کھجاتے ہوئے معصومیت سے بولا۔

 

"کم از کم ایسے اوچھے مذاق نہیں کرتے۔ ” انداز ہنوز وہی تھا۔

 

"اٹس او کے۔ ” لاج بمشکل خود کو سنبھال سکی تھی۔

 

"میں در اصل اس طرح کی سچویشن کے لیے تیار نہیں تھی۔ شاید پھر یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ ” اس نے آہستگی سے کہا۔

 

"اچھا اب تم دونوں باہر جاؤ، مجھے دلہن سے کچھ باتیں کرنا ہیں۔ ” سدرہ نے کچھ سخت لہجے میں کہا۔ دونوں یکدم کھسک لیے۔

 

"چلو بیٹا ناشتا کر لو، ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ مجھے معلوم ہے تمہیں عجیب لگ رہا ہو گا کہ آج کی صبح تم اکیلے ناشتا کر رہی ہو۔ اس کا پروفیشن ہی ایسا ہے لیکن ایک بات واضح کر دوں۔ وہ اپنے کام کو صرف پیشہ ہی نہیں سمجھتا، اسے اپنے مریضوں سے محبت بھی بہت ہے۔ جب بھی ہاسپٹل سے فون آ جاتا ہے، اسے اسی وقت جانا پڑتا ہے۔ ” سدرہ کے لہجے میں ممتا کی مہک تھی۔

 

اتنی دیر میں لاج دو پیالیوں میں چائے بنا چکی تھی۔ ایک اس نے سدرہ کو دی دوسری خود اٹھا لی۔

 

"ویسے وہ رات کو کس وقت گیا تھا؟” ان کے اس سوال پر لاج گڑ بڑا گئی۔

 

سدرہ کے چہرے پر تبسم بکھر گیا۔ "تم بہت شرمیلے مزاج کی لڑکی ہو۔ حالانکہ آج کل کی لڑکیاں شادی سے پہلے ہی بے باک ہوتی ہیں۔ مجھے معلوم ہے تم ماں باپ کے پیار سے محروم رہی ہو۔ ”

 

سدرہ آہستہ آہستہ بول رہی تھیں اور لاج چائے پیتے ہوئے انہیں سن رہی تھی۔

 

"تیمور بظاہر سنجیدہ اور سوبر دکھائی دیتا ہے لیکن ان دونوں کی موجودگی میں وہ بھی سنجیدہ نہیں رہ سکتا۔ میرے تینوں بچوں میں سب سے زیادہ اورنگ زیب شرارتی اور چلبلا ہے۔ سچ پوچھو تو میرے گھر کی رونق بھی اسی سے ہے اور سب سے زیادہ پیاری مجھے اپنی بیٹی قندیل ہے۔ میری بیٹی دھیمے مزاج کی ہے۔ اور حساس بھی بہت ہے۔ اس کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ ”

 

لاج نے چونک کر سدرہ کی طرف دیکھا۔ سدرہ کے چہرے پر اداسی کی پرچھائیاں تھیں۔

 

"قدرتی طور پہ اسے شام کے بعد کم نظر آتا ہے اور رات کے وقت اسے بالکل نظر نہیں آتا۔ یہ آنکھوں کا مرض ہے جو اس کا پیدائشی نقص ہے۔ ”

 

لاج کو ان کی بات سن کر دکھ محسوس ہوا۔

 

"تو کیا آپ نے اس کا علاج نہیں کروایا؟”

 

"بہت علاج کرایا لیکن شاید اس چیز کا کوئی علاج ہے ہی نہیں جسے ہم نے قدرت کی رضا سمجھ کر قبول کر لیا۔ ” لاج حقیقتاً دکھی ہوئی تھی۔

 

تھوڑی دیر تک دونوں طرف خاموشی رہی پھر سدرہ بولیں۔

 

"میری دیکھ بھال کے لیے تیمور نے ایک گورنس کا انتظام کر رکھا ہے جس کا نام ثوبیہ ہے۔ کچن کی ذمہ داری بھیا جی پر ہے۔ وہ ہمارے بہت پرانے خانساماں ہیں۔ چوکیدار اور مالی کا کام بشارت میاں کرتے ہیں۔ صفائی کے لیے اماں بتول آتی ہیں۔ ہفتے میں کپڑے دھونے کی ذمہ داری بھی ان پر ہی ہے۔ ان کے ساتھ ان کی ایک بیٹی اور بیٹا بھی آتے ہیں۔ گلو باہر کا سودا سلف لانے کے لیے اور گلناز اپنی ماں کی مدد کرتی ہے۔ تم سوچ رہی ہو گی گھر میں اتنے ملازمین ہیں جبکہ گھر کے افراد تو چند ہی ہیں تو میں یہ وضاحت کر دوں کہ تیمور کا حلقہ احباب بہت وسیع ہے۔ آئے دن یہاں لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے۔ شاید اتنے ملازموں کی ضرورت نہ پڑتی، اگر قندیل یا مجھ میں کوئی ایک بھی پرفیکٹ ہوتا لیکن اب تم آ گئی ہو، یہ خلا بھی اب پر ہو جائے گا۔ "ان کے لہجے میں بہت امیدیں پنہاں تھیں۔

 

لاج کا سر مزید جھک گیا۔

 

اس پرائے دیس میں آئے اسے تین ہفتے ہو چکے تھے لیکن یہاں اسے کوئی معمولی ملازمت بھی نہیں ملی تھی جس گروپ کے ساتھ وہ یہاں آیا تھا، اس کا سربراہ یامین بھائی تھا۔ اس کے علاوہ آٹھ افراد اور بھی تھے جو پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے تھے۔ سب ہی یامین کے ساتھ کافی عرصہ سے رہ رہے تھے لیکن وہ یہاں پہلی بار آیا تھا وہ بھی اپنے حالات اور مصائب سے تنگ آ کر رزق کی تلاش میں، لیکن یہاں رزق تو درکنار، عزت بھی نہیں مل رہی تھی۔

 

دس افراد کا ایک کمرے میں ٹھکانا تھا۔ صبح ہوتے ہی اسے ان سب کے لیے ناشتا بنانا پڑتا پھر کسی کے جوتے پالش، کسی کے کپڑے استری کرنا پھر ان سب کے چلے جانے کے بعد کمرے کی صفائی پھر دوپہر کے کھانے کا بندوبست۔

 

گھر میں اس نے اٹھ کر کبھی پانی تک نہیں پیا تھا۔ یہاں اسے ہر قسم کی نوکری کرنی پڑ رہی تھی۔ پھر رات گئے جب وہ لوٹتے تو گھٹیا قسم کی شراب میں دھت، بے ہودہ لغویات بکتے جھکتے کمرے میں گھستے۔ ساری رات اس کی نیند حرام ہو جاتی۔

 

ہر روز وہ یامین بھائی سے پوچھتا۔ "کیا ہوا، کچھ بنا میری نوکری کا؟” اور وہ یونہی ٹال دیتا۔ یہ کہہ کر میں کوشش کر رہا ہوں۔

 

"تم مطمئن رہو، تمہارا کام ہو جائے گا۔ ” آج اس کی قوت برداشت جواب دے چکی تھی جب یامین نے اس سے کہا کہ میرے جوتے پالش کر دیے۔ یہ یامین ہی تھا جو اسے اتنے کم خرچ میں یہاں تک لے آیا تھا۔ اس نے جوتے پالش کر کے رکھے تو دلاور بولا۔

 

"جنید یار! ذرا شیو تو بنا دے۔ دل نہیں چاہ رہا اٹھنے کو۔ ”

 

اس نے یامین کی طرف دیکھا جو دانت صاف کر رہا تھا۔ "کر دے … کر دے … فارغ ہی تو پڑا ہے۔ ” یامین نے لاپروائی سے کہا۔

 

"یامین بھائی ! تم نے ہی فارغ بٹھایا ہوا ہے۔ ” جنید نے تڑپ کر کہا۔

 

"تیرا باپ نوکریاں بانٹ رہا ہے جو تجھے ہتھیلی پہ رکھ کر لا دیں۔ اتنا کافی نہیں تجھے رہنے، سہنے، سونے، کھانے پینے کا انتظام ملا ہوا ہے۔ ”

 

دلاور کی بات پہ جنید غصہ آ گیا۔

 

"میں یہاں رہنے، سونے، کھانے پینے نہیں آیا تھا اور نہ ہی یہاں تمہارے جوتے پالش کرنے یا تمہاری داڑھی مونچھ مونڈنے آیا۔ میں یہاں مناسب نوکری کی تلاش میں ہوں۔ ”

 

"تو پھر کر لے تلاش، اگر ملتی ہے تو۔ ” دلاور استہزائیہ بولا۔

 

"یامین بھائی تو وعدہ کر کے لایا تھا کہ مجھے نوکری ضرور دلوائے گا۔ ” اس نے دلاور کو نظر انداز کر کے یامین کی طرف دیکھا۔

 

"یار جنید! اسے بھی نوکری ہی سمجھ۔ اگلے مہینے سے تیرے گھر والوں کو بھی کچھ رقم بھیج دیا کریں گے۔ ٹھیک تو رہ رہا ہے تو یہاں۔ اپنے جنید کو ہم نے اس معاشرے کی بے ہودگی سے بچا کر ایک کمرے میں رکھ رکھا ہے۔ ”

 

کمال کی بات پر یامین قہقہہ لگا کر ہنسا تو جنید کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

 

"یامین بھائی! اس کا مطلب ہے تم نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ ”

 

"دھوکے والی اس میں کون سی بات ہے۔ پاکستان سے دبئی لے آیا تجھے، کیا اتنا کافی نہیں تھا۔ ” اس نے کمیں گی سے جواب دیا۔

 

"تو تم … تم اپنی نوکری کرانے کے لیے مجھے لائے تھے یہاں ؟”

 

یامین خاموش ہو گیا۔ لیکن دلاور نے ہنس کر کہا۔

 

"ایسا ہی سمجھ لے پیارے۔ ”

 

"میرا ویزا اور پاسپورٹ دو، میں ابھی یہاں سے جا رہا ہوں۔ ”

 

"احمق، ہمیں پھنسوائے گا۔ نقلی ویزا ہے تیرا نقلی۔ ” اسے ایک جھٹکا لگا۔

 

اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ جب اس کا ویزا ہی نقلی ہے تو پھر وہ کیا نوکری کر سکے گا۔ پڑھا لکھا ہونے کے باوجود وہ کتنا بڑا دھوکا کھا گیا تھا۔

 

"اچھی بات ہے، میں تو ڈوبوں گا ہی، تمہیں بھی ساتھ لے کر ڈوبوں گا۔ ” سوچتے ہوئے اپنا سامان بیگ میں بھرنے لگا۔

 

دلاور اور یامین ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔

 

"سوچ لے، کسی مصیبت میں گرفتار ہو گئے تو ہم تمہارا ساتھ نہیں دینے والے۔ ” انہوں نے اسے ڈرانا چاہا۔

 

"اگر تمہیں میری مصیبتوں کا احساس ہوتا تو تم مجھے یہاں اپاہج بنا کر نہ ڈالتے۔ تم میرا کیا ساتھ دو گے۔ ”

 

وہ ان کی دھمکی سے نہیں ڈرا اور اپنا بیگ کاندھے پہ ڈال کر کمرے سے نکل گیا۔ آج اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ یہاں ہر گز نہیں رہے گا۔ اگر وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو وہ خود کو با آسانی پولیس کے حوالے کر دے گا۔ اس کے بعد اسے چاہے سزا کاٹنی پڑے یا سفارتخانے کے ذریعے اسے پاکستان پہنچا دیا جائے۔

 

دلاور کا خیال تھا کہ وہ یونہی دھمکی دے کر گیا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں لوٹ آئے گا۔

 

"یہ تم نے کیا کیا؟” کالو بھائی کمرے میں داخل ہوا تو حق دق رہ گیا۔ "سب پکڑے جائیں گے۔ اگر اس نے پولیس کو ہمارا پتا بتا دیا تو مصیبت ہی آ جائے گی۔ ” اس نے حالات کی سنگینی کا احساس دلایا۔

 

"اس دلاور کی وجہ سے ہوا ہے سب کچھ۔ ” یامین، دلاور پر غصہ ہوا۔

 

"میری وجہ سے نہیں، یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ جب تم نے اس سے یہی نوکری کرانی تھی تو پھر اسے جھوٹے خواب کیوں دکھائے تھے۔ نواب صاحب کی اکڑ تو دیکھو، ہمارے کام نہیں کرے گا۔ ” دلاور نے دانت صاف کر کے تنکا ایک طرف پھینکا۔

 

"یار! یہ بحث کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ابھی وہ زیادہ دور نہیں نکلا ہو گا، کسی طرح جا کر اسے بلا کر لاؤ، ورنہ بہت گڑبڑ ہو جائے گی۔ ہمارے گروپ کا ایک بھی فرد پکڑا گیا، سمجھو سب پکڑے جائیں گے۔ ”

 

یامین، دلاور اور کالو، جنید کو ڈھونڈنے نکل پڑے۔ بہت دور تک اس کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آیا۔

 

"وہ دیکھو، وہ کھڑا ہے۔ ” دلاور کی نگاہ اچانک دور سڑک پہ پڑی تو اس نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی پھر تینوں ہانپتے ہانپتے اس تک پہنچ گئے۔

 

"چلو جنید! ہمارے ساتھ چلو۔ ” یامین نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا۔

 

"مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ، مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ تمہارے عزائم کیا ہیں۔ ” جنید نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

 

"دیکھو، تم بالکل بے وقوف ہو۔ تمہیں نہیں پتا اگر تم پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تو سیدھاجیل میں چکی پیسو گے۔ ”

 

"در اصل تمہیں میری نہیں، اپنی پروا یہاں لے کر آئی ہے۔ مجھے چکی پیسنا پڑے یا پتھر کاٹنا پڑے، اب میں جیل ہی جاؤں گا۔ ” جنید پر ان کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہ تھا۔

 

"خود تو مرے گا ہمیں بھی مروائے گا۔ ” دلاور نے مشتعل ہو کر اس کا گریبان پکڑا تو جنید نے جواباً اس کا گریبان پکڑ لیا۔

 

"کیا کر رہے ہو، سربازار جھگڑا کر رہے ہو۔ ” کالو غصے سے چیخا۔

 

دلاور نے جنید کا گریبان چھوڑ دیا لیکن جنید نے اس کا گریبان نہیں چھوڑا۔ تین ہفتے کا غصہ وہ آج سارا ہی نکال دینا چاہتا تھا۔ اس نے گریبان سے دلاور کو پیچھے دھکیلا۔

 

کالو نے چھڑانا چاہا تو اس نے منہ پر زور سے مکا مارا۔ یامین نے جنید کو پیچھے سے پکڑ لیا۔ جنید لمحہ بھرکے لیے بے بس ضرور ہوا لیکن پھر اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جس بل پڑی اسی بل حملہ کیا۔ دلاور نے جنید کو اتنا مشتعل دیکھ کر چاقو نکال لیا۔ چاقو دیکھ کر یامین اور کالو حق دق رہ گئے لیکن جنید خوفزدہ نہیں ہوا۔

 

اس وقت اس پہ مرنے یا مار دینے کا جنون سوار تھا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ تھوڑی سی اٹھا پٹخ کے بعد بے حد مشاقی سے چاقو دلاور سے چھین لیا۔ دلاور اس پہ بجلی کی سی تیزی سے لپکا لیکن جنید نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اس کے پیٹ میں پے در پے وار کر دیے۔ یامین اور کالو کے رنگ اڑ گئے۔ وہ دلاور کو وہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔

 

جنید نے چاقو وہیں پھینکا پھر پسینہ صاف کیا۔ اچانک سفید رنگ کی ٹویوٹا کرولا اس کے قریب آ کر رکی۔ وہ اچھل کر پیچھے ہٹا۔ اتنے میں دروازہ کھل چکا تھا۔

 

"آؤ… جلدی سے اندر آ کر بیٹھ جاؤ۔ ” ایک مردانہ آواز آئی۔ اس وقت سوچنے سمجھنے کا وقت نہ تھا۔

 

"اس سے قبل یہاں لوگوں کا ہجوم ہو، دیر مت کرو۔ ” اندر سے پھر حکم آیا۔ جنید دوسرے ہی پل گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی ہوا کے دوش پر اڑنے لگی۔

 

ڈیک پر مدھم آواز میں نور جہاں کے گیت چل رہے تھے۔ قندیل خود بھی گنگناتے ہوئے اس کے کپڑے پریس کرنے میں خاصی دیر سے لگی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ لاج سے کسی معاملے میں مخاطب بھی ہو جاتی۔ ابھی ابھی ثوبیہ جوسدرہ کی خاص ملازمہ تھی، ان کے پاس اٹھ کر گئی تھیں۔ گلنار اس کے کمرے کی بڑی لگن سے صفائی کر رہی تھی۔ اماں بتول کا بھی لگتا تھا آج اس کمرے سے جانے کو دل ہی نہیں کر رہا، تب ہی وہ بار بار کسی نہ کسی بہانے آ جاتی تھیں۔

 

بھیا جی بھی اسی چکر میں تھے کہ آج دلہن کی پسند کا کھانا پکے گا اور اس بات پہ قندیل اس کے سر ہو گئی تھی کہ وہ ضرور اپنی پسند بتائے تاکہ وہ بھائی اور بھابھی کی پسند کا موازنہ کر سکے۔

 

"میں سب کچھ کھا لیتی ہوں۔ ”

 

"مثلاً پھر بھی۔ ” قندیل استری کا پلگ نکال کر اس کے سامنے دھرنا مار کر بیٹھ گئی۔

 

لاج کا دم الجھنے لگا۔ آخر کیوں سب اس کا اتنا خیال کر رہے تھے۔

 

"اچھا یہ بتائیے، آپ کو چائنیز پسند ہے، اٹالین، رشین یا دیسی کھانے ؟ میرا مطلب، برصغیر کے کھانے ؟” قندیل کے لہجے میں اشتیاق پنہاں تھا۔

 

"مجھے صرف بھوک مٹانے سے غرض ہوتی ہے۔ چاہے کچھ بھی مل جائے۔ ” اس نے خشک سے انداز میں کہا تو قندیل خاموش ہو گئی۔

 

"شاید دلہن بیٹا شرما رہی ہیں۔ ” بھیا جی نے کھسیا کر نتیجہ اخذ کیا جبکہ قندیل کچھ بھی نتیجہ نکالنے میں ناکام رہی۔

 

"آپ ایسا کریں، کچھ بھی پکا لیں لیکن سات رنگ کا زردہ ضرور پکائیے گا۔ بھائی کو بہت پسند ہے اور پھر بھابھی پہلی بار ہمارے یہاں کھانا کھائیں گی۔ کوئی میٹھی ڈش تو ضرور ہونی چاہئے نا!”

 

قندیل پھر سے کپڑے پریس کرنے میں مصروف ہو گئی۔ معاً کمرے میں سدرہ داخل ہوئیں۔

 

"لاج کہاں ہے ؟” انہوں نے لاج کے بارے میں پوچھا جو تھوڑی دیر قبل واش روم میں گئی تھی۔

 

قندیل ان کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کھڑی ہو گئی تھیں پھر چیئر گھسیٹتی آ گئیں۔ وہ گلو کا بچہ کہاں ہے ؟”

 

"پتا نہیں۔ آج میں اتنی خوش ہوں، مجھے احساس ہی نہیں ہو رہا اپنے کمرے سے تیمور کے کمرے تک میں نے کتنے چکر لگا لیے ہیں۔ ”

 

لاج واش روم سے نکل رہی تھی۔ سدرہ کے چہرے پہ خوشی کی ایسی الو ہی چمک تھی کہ اس کا دل مٹھی میں بند ہونے لگا۔

 

"ارے ہاں بیٹا! میں تم سے یہ کہنے آئی تھی کہ تمہارے گھرسے تمہیں تمہارا ڈرائیور لینے آیا ہے۔ ”

 

لاج کا دل یکدم مٹھی سے آزاد ہو گیا۔ سدرہ تھوڑی دیر کو خاموش ہو گئیں اور پھر رسان سے دھیمے لہجے میں بولیں۔

 

"ہمارے یہاں آج کے روز کچھ اور رسم ہوتی ہے۔ دلہن کے میکے سے دلہن کو لینے خواتین آتی ہیں، بہنیں، کزنز، سہیلیاں وغیرہ۔ دلہن کی نندیں، دیورانی، جٹھانی جو بھی گھر میں ہوں، ان کا استقبال گجرے پہنا کر کرتی ہیں پھر ان سب کو چوڑیاں اور رنگین دوپٹے دے کر دلہن کے ساتھ رخصت کر دیا جاتا ہے۔ دلہن دو روز میکے میں رہتی ہے۔ اسے "مکلاوے ” کی رسم کہتے ہیں۔ پھر دولہا اسے لینے جاتا ہے۔ ایک روز اس کے ہاں ٹھہرتا ہے پھر دلہن کو ساتھ لے کر آ جاتا ہے۔ لیکن اب جبکہ تمہارے گھر سے ڈرائیور آیا ہے تو اس رسم کا بھی کوئی مطلب باقی نہیں رہا، اس لیے تم گھر چلی جاؤ۔ تمہارے ساتھ اماں بتول جائیں گی۔ تھوڑی دیر میں اپنی بی جان سے مل کر واپس آ جانا یا پھر میں قندیل اور اورنگ زیب کو لینے تمہیں بھیج دوں گی۔ ”

 

لاج کا دماغ پھٹنے لگا۔ اتنا تھوڑا سا وقت۔ اسے تو وقاص سے ملنا تھا۔ ساری صورت حال سے آگاہ کرنا تھا۔ یہ کیسے ہو گا یہ سب کچھ۔ ؟

 

"وہ بات در اصل یہ ہے کہ سہیلی میری کوئی بھی نہیں ہے۔ کزنز سب مجھ سے چھوٹی ہیں۔ بہنیں دو ہیں لیکن سوتیلی۔ انہوں نے تو اپنی ماں کی وجہ سے شادی میں بھی شرکت نہیں کی۔ حالانکہ ہم تینوں میں محبت نہ سہی، لگاؤ ضرور ہے۔ بھائی بھی سوتیلا ہے۔ اس کی ابھی شادی نہیں ہوئی۔ بالفرض اگر وہ شادی شدہ ہوتا بھی تو بھابھی وہی کرتیں جو ان کی ساس کہتیں۔ اس گھر میں سب کچھ ان ہی کے حکم سے ہوتا ہے۔ بی جان کو ہی میرا خیال آیا ہو گا۔ سو انہوں نے ڈرائیور کو بھیج دیا۔ ”

 

لاج نے وضاحت کی۔

 

"میرا مطلب یہ نہیں تھا بیٹی! شاید تمہیں میری بات بری لگی ہے۔ میں ان سب حالات سے واقف ہوں لیکن میں یہ چاہتی ہوں کہ تمہیں اپنے سسرال کے حالات سے بھی تو واقف ہونا چاہئے۔ تم اس گھر کی بڑی بہو بن کر آئی ہو اور بڑوں پہ ذمے داریاں بھی زیادہ بڑی ہوتی ہیں۔ ”

 

"بڑی بہو تو امی بھی تھیں اور اسی بڑے پن کے زعم نے آج انہیں ان حالات کا شکار کر دیا ہے۔ میں کسی بھی بڑے عہدے کی متمنی نہیں ہوں۔ آپ مجھ سے غلط توقعات وابستہ کر رہی ہیں کیونکہ میں آپ کے بیٹے کا گھر بسانے نہیں، اجاڑنے آئی ہوں۔ میرا ہم سفر تیمور نہیں، وقاص ہو گا۔ ”

 

"تم اچانک کہاں کھو جاتی ہو؟” اس کا ذہن کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔

 

"کہیں نہیں۔ ” وہ سدرہ کے مخاطب کرنے پہ چونکی تھی۔

 

"چلو پھر اپنے کپڑے لے لو۔ رات کو تمہیں کوئی لینے آ جائے گا۔ ”

 

"جب مجھے رات کو ہی آنا ہے تو پھر کپڑے لینے کی کیا ضرورت ہے۔ ” اس نے انکار کرنا چاہا۔

 

"ضرورت کیوں نہیں ہے۔ آپ جس حلیے میں جا رہی ہیں، کیا اسی حلیے میں واپس آئیں گی۔ یہ لیجئے سوٹ، رات جب بھائی آپ کو لینے آئیں تو آپ اسی سوٹ میں تیار ملیے گا اور اب جلدی کیجئے، ڈرائیور آپ کا انتظار کر رہا ہے۔ ”

 

اس نے چپ چاپ سامان بیگ میں رکھا۔ چادر اوڑھی اور رخصت ہو گئی۔

 

"صدیق چاچا! گھر کے حالات کیسے ہیں ؟” اس نے گاڑی اسٹارٹ ہونے پہ پوچھا۔

 

"پوچھو مت بیٹا! بی جان کہہ رہی تھیں، ماہ رخ اور ماہتاب بیٹا آپ کو لینے جائیں گی جبکہ بڑی دلہن انہیں بھیجنا نہیں چاہتی تھیں۔ ماہتاب تو خاموش ہو گئی تھی لیکن ماہ رخ بضد تھی کہ وہ تمہیں ضرور لینے جائے گی۔ اسی بات پہ صبح سے گھر میں ہنگامہ ہو رہا تھا۔ ”

 

"کچھ زیادہ گڑبڑ تو نہیں ہوئی صدیق چاچو!” اس کا ذہن ابھی بھی الجھا ہوا تھا۔

 

"بیٹا! آج قیامت ہی آ گئی تھی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ آذر میاں گھر پہ موجود تھے جو بات جلدی ٹھنڈی پڑ گئی پھر بھی ماہ رخ بی بی کے غصے سے نہیں بچ سکی۔ ”

 

"کیوں، کیا ہوا؟” لاج ڈر سی گئی۔

 

"بڑی دلہن نے ماہ رخ کو جوتی سے مارا اتنا مارا کہ اس کا سارا منہ ہی سوج گیا۔

 

"اس واقعے پہ بی جان تو بالکل ادھ موئی ہو گئی ہوں گی۔ ” لاج بے حد تاسف سے بولی۔

 

"بی جان تو ادھ موئی جو ہوئیں سو ہوئیں، خود بڑی دلہن کا بلڈ پریشر اتنا ہائی ہو گیا تھا کہ انہیں ہاسپٹل لے جانا پڑا۔ ”

 

"اچھا… کس ہاسپٹل میں لے کر گئے تھے انہیں ؟” وہ تشویش سے بولی۔

 

"یہی اپنے تیمور میاں کے ہاسپٹل میں۔ ”

 

"مائی گاڈ!” لاج کا سر چکرا گیا۔

 

"اس گھر کا تو کچھ بھی بھرم نہیں رہنے والا اور یہ تیمور میاں کب سے اتنے اپنے ہو گئے۔ جب دل کرتا ہے منہ اٹھاتے ہیں اور چل پڑتے ہیں جیسے شہر میں تو اور کوئی اسپتال رہا ہی نہیں۔ ” لاج کو اب سوچ سوچ کر غصہ آ رہا تھا۔

 

"بہرحال آپ فکر مند نہ ہوں، اب دلہن بیگم گھر آ گئی ہیں۔ ”

 

(میں کسی کے لیے فکر کر کے بھی کیا کر سکتی ہوں۔ )

 

گاڑی گیٹ کے آگے رکی تو وہ اپنی سوچوں کے دائرے سے باہر نکلی۔

 

گھر میں داخل ہوئی تو پرہول سناٹا تھا جس سے واقعی معلوم ہوتا تھا کہ بہت بڑا طوفان آ کر گزرا ہے۔

 

وہ سیدھی بی جان کے کمرے میں چلی گئی۔ ہمیشہ کی طرح بی جان اپنے سفید لباس میں ملبوس اپنے صاف ستھرے بستر پہ بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ لاج نے دیکھا، ان کی آنکھیں تسبیح کے دانے کے ساتھ ساتھ اشک گرا رہی تھیں۔

 

لاج تڑپ کر ان کے سینے سے لگ گئی۔ بی جان کے ضبط کا پیمانہ ٹوٹ گیا۔

 

"بی جان! آپ رویا نہ کریں۔ جب آپ جیسے لوگ روتے ہیں تو ہم جیسوں کا حوصلہ ڈولنے لگتا ہے۔ ”

 

اس نے سسکتے ہوئے کہا۔

 

"اب ٹوٹ گئی ہوں بیٹی ! اب برداشت نہیں ہوتا۔ مظاہر نے جو کچھ کیا تھا، اس نے سزا پالی۔ نہ بیوی رہی، نہ خود رہا۔ تم بھی اپنے گھر بار کی ہو گئیں۔ سوچتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ باقی سب اس کے حصے کی سزا کیوں کاٹ رہے ہیں۔ لاج! مجھے ماہ رخ سے خوف آنے لگا ہے۔ وہ بچپن سے ضدی اور ہٹ دھرم ہے۔ وہ ماہتاب کی طرح جلد مفاہمت نہیں کرتی۔ ممتاز کے وہم اور غصے نے ماہ رخ کو آتش بنا دیا ہے۔ مجھے ڈر ہے اس آگ میں ممتاز خود نہ جل جائے۔ ” بی جان نے رقت آمیز انداز میں کہا۔

 

"کیا اب بھی کچھ باقی ہے جلنے کے لیے ؟” اس نے حیرت سے بی جان سے پوچھا۔

 

"ہاں، ایسا نقصان جس کا ممتاز سوچ بھی نہیں سکتی۔ ماہ رخ جوان ہے، باغی ہے اور پھر سب سے بڑھ کر وہ ایک لڑکی ہے۔ اس گھر کی بیٹی ہے، غیرت ہے۔ ” بی جان کی آواز کپکپا رہی تھی۔

 

"مجھے ترس آتا ہے بی جان، ماہ رخ پہ مگر میں اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتی۔ ” لاج نے بی جان کے پاس سے اٹھتے ہوئے کہا۔

 

"تو … تو … خود قابل رحم ہے بیٹی! تو کسی کے لیے کیا کر سکتی ہے ؟۔ ” بی جان نے پہلے اپنے پھر لاج کے آنسو پونچھے۔

 

"تو بتا تو خوش تو ہے نا، تیمور کیسا ہے، اس کے گھر والے کیسے ہیں ؟”

 

لاج خاموش رہی۔ وہ بی جان کو کیا جواب دیتی۔ مطمئن کرتی تو کیونکر۔ وہاں نہیں رہنا تھا لیکن اس کا دل اتنا پتھر بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ بی جان کو اس طرح دکھی کرتی۔

 

"بتاؤ نا بیٹی!” انہوں نے اس سے دوبارہ پوچھا تووہ بول پڑی۔

 

"ابھی تو کچھ نہیں بتا سکتی بی جان ! اور پھر آپ ہی تو کہا کرتی ہیں۔ بہت جلد اندازہ لگانا بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ ”

 

"وہ تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی، کچھ تو اندازہ ہوا ہو گا تمہیں ؟” لاج چپ رہی پھر اپنے ہاتھوں پہ لگی مہندی کو دیکھتے ہوئے آہستگی سے بولی۔

 

"فی الحال تو صرف اتنا ہی اندازہ ہوا ہے کہ مجھے اپنے گھر میں گھر جیسا ماحول نہیں ملا۔ ” اس کی بات پہ بی جان کا کلیجہ کٹ گیا۔ لاج کا ہنوز سر جھکا ہوا تھا۔

 

"میں نے تو بہت چاہا تھا تجھے سب سکھ دوں لیکن…”

 

"بعض لوگ پیدائشی ہی بد قسمت ہوتے ہیں۔ ”

 

اس نے بی جان کا جملہ مکمل کیا تو بی جان اسے دیکھ کر رہ گئیں۔

 

"کیوں سوچتی ہے تو ایسی باتیں۔ چھوڑ دے ایسی باتیں کرنا، اب تیری شادی ہو گئی ہے۔ ”

 

"شادی ہونے سے کیا قسمت بدل جاتی ہے ؟” بی جان اس بات پر بولیں۔

 

"کیوں نہیں، قسمت بھی بدل جاتی ہے اور حالات بھی اور پھر دیکھنا سب ہی کچھ بدل جائے گا۔ بس تم اپنا وہاں جی لگانے کی کوشش کرنا۔ مجھ بوڑھے وجود کا کیا ہے بیٹی! کب آنکھ بند ہو جائے۔ اب تو تجھے وہیں رہنا ہو گا۔ کوشش کرنا سب تجھ سے خوش رہیں۔ وہ تجھ سے خوش رہیں گے تو تو بھی ان سے خوش رہے گی۔ ”

 

"پتا نہیں بی جان!” (خوشی کیا ہوتی ہے، بچپن سے آج تک میں اسے تلاش کر رہی ہوں۔ )

 

وہ گم صم سی ہو گئی۔

 

"کیا سوچنے لگی ہو بیٹی!”

 

"کچھ نہیں بی جان! میں ذرا ماہ رخ اور ماہتاب سے مل لوں۔ ”

 

تاسف سے کہتے ہوئے وہ بی جان کے کمرے سے باہر نکل گئی۔

 

برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ کر جب وہ ممتاز کے کمرے کے سامنے آئی تو کمرے کا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اس نے کمرے کا دروازہ آہستہ سے بجایا پھر کمرے میں داخل ہو گئی۔

 

ماہتاب اور آذر کمرے میں موجود تھے۔ ممتاز بستر پہ نیم دراز تھیں۔

 

"السلام علیکم۔ ” اس نے سب کو سلام کیا پھر بڑی ماں کے بستر کی طرف بڑھ گئی۔

 

"اب کیسی طبیعت ہے آپ کی؟”

 

ممتاز کے چہرے پہ تلخ سی مسکراہٹ بکھر گئی۔

 

"بہت بڑا ہاتھ مارا ہے تم دادی پوتی نے۔ اچھا خاصا مالدار ڈاکٹر ہتھیا لیا۔ میں نے تو آج ہی دیکھا ہے۔ اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ میں اس کی ساس ہوں لیکن اس نے پوچھا نہیں کہ میں تمہاری شادی میں شریک کیوں نہیں ہوئی۔ خاصا سمجھ دار لگتا ہے اور عمر بھی تو اچھی خاصی ہے۔ تمہاری ماں نے بھی تو ایسا ہی ہاتھ مارا تھا۔ مظاہر مالدار بھی تھا اور با اختیار بھی، لیکن کچھ نہیں رہا اس کے پاس۔ ایسے ہی تیرے پاس بھی کچھ نہیں رہے گا۔ ”

 

ممتاز یکدم جلال میں آ گئی تھیں آذر اور ماہتاب پریشان ہو گئے۔

 

"امی پلیز! آپ غصہ نہ کریں، اب تو لاج کی شادی ہو گئی ہے۔ اب تو یہ مہمان بن کر آئی ہے۔ ” ماہتاب ہمیشہ کی طرح صلح جو لہجے میں بولی۔

 

"ہاں دیکھو، اس کی شادی ہو گئی، اس گھنی میسنی کی۔ میرا تو خیال تھا کہ یہ بھی اپنی ماں کی طرح کوئی چاند ضرور چڑھائے گی لیکن یہ تو سیدھی طرح ڈولی میں بیٹھ گئی… ہے نا حیرت کی بات۔ بد کے گھر نیک اور نیکوں کے گھر بد ہی پیدا ہوتے ہیں۔ میں تو اس کے پرچھائیں تھے تم دونوں کو دور رکھتی تھی لیکن ماہ رخ پہ باپ کے خون کا اثر ہے۔ ”

 

لاج کا دل ٹوٹ کر رہ گیا۔ آذر نے لاج کو اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی وہ باہر نکل گئی۔

 

ماہتاب بھی اس کے پیچھے پیچھے آ گئی۔ دونوں نے ایک دوسرے سے نظریں چرا رکھی تھیں۔ ممتاز کی گفتگو نے دونوں کو دکھی کر دیا تھا۔

 

"ماہ رخ کہاں ہے ؟” لاج نے لہجہ نارمل کرتے ہوئے پوچھا۔

 

"وہ اوپر اپنے کمرے میں ہیں۔ آؤ، اوپر ہی چلتے ہیں۔ ” ماہتاب اس کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔

 

دونوں آگے پیچھے کمرے میں داخل ہوئیں۔ ماہ رخ شیشے کے سامنے بیٹھی اپنے چہرے کی سوجنکو دیکھ رہی تھی، لاج کو دیکھ کر کھڑی ہو گئی۔

 

"ہائے لاج! تم آ گئیں۔ ” ماہ رخ اٹھ کر اس کے گلے لگ گئی۔

 

"کیسی ہو تم اور تمہارے ہینڈ سم… اف کتنے اسمارٹ ہیں۔ سچ پوچھو تو مجھے تو تمہاری زندگی پہ بہت رشک آ رہا ہے۔ ” لاج تاسف سے اسے دیکھ رہی تھی۔

 

"کیا دیکھ رہی ہو۔ ”

 

"تم نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا ہے۔ ” ماہ رخ ہنس دی۔

 

"تمہارے آنے سے قبل یہی کر رہی تھی۔ ”

 

"کیوں، کرتی ہو تم ایسا جو تمہیں اتنی اذیت اٹھانا پڑتی ہے۔ ؟” لاج تڑپ کر بولی تو ماہ رخ ایکدم سنجیدہ ہو گئی۔

 

"یہ سوال تم قدرت سے پوچھو، مجھ سے نہیں۔ ”

 

"کیوں نہیں، کیا میں اور ماہتاب نہیں رہ رہے اس ماحول میں۔ ” لاج نے تنبیہی انداز میں کہا۔

 

"تم میں اور مجھ میں بہت فرق ہے۔ بالکل ایسا ہی فرق جیسا زمین، چاند اورسورج میں ہے۔ زمین اور چاند پر زندگی نشو و نما پا سکتی ہے لیکن سورج پہ نہیں۔ کبھی سوچا ہے تم نے اللہ نے ہر ایک کو اس کے مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ تمہیں یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ ” ماہتاب کا احتجاج سن کر ماہ رخ ہنس دی۔

 

"یہ بات تمہاری سمجھ میں آ گئی تو پھر ٹھیک ہے، سارا جھگڑا ہی ختم۔ ”

 

"اسے سمجھاؤ لاج! یہ اپنا بہت نقصان کر رہی ہے۔ ” ماہتاب کی بات پہ ماہ رخ یکدم بگڑ گئی۔

 

"جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو گیا۔ اب ماہ رخ خود کشی نہیں کرے گی۔ کیوں ہے ممتاز بیگم کو یہ خوف کہ میں بھاگ جاؤں گی۔ محض تمہارے گھر جانے پہ اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ تم ہماری بہن ہو، خواہ سوتیلی ہی سہی۔ ہمارا باپ تو ایک تھا۔ کیوں انہوں نے ہمیں شادی میں شریک نہیں ہونے دیا، ہم کب تک ان کی کھوکھلی انا کی تسکین کے لیے ناجائز احکامات کی فرمانبرداری کرتے رہیں گے اور کیوں کرتے رہیں گے۔ آخر کب ان کی انتقام کے آگ بجھے گی۔ جو وہ ہمیں اپنی اولاد سمجھ سکیں گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ہمیں اپنی نہیں، صرف مظاہر کی اولاد سمجھتی ہیں۔ ” اس کے لہجے میں زہریلا پن تھا۔

 

"یہ سب کچھ ہم جانتے ہیں ماہ رخ!” لاج نے دبے دبے سے انداز میں احتجاج کیا۔

 

"نہیں، تم نہیں جانتیں۔ اگر جان پاتیں تو اس گھر میں کیوں آتیں۔ تمہیں بھی یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔ ہم سے تعلق نہیں رکھنا چاہئے۔ کیا تمہیں کراہیت نہیں آتی ایسے ماحول سے جس گھر کی چھت ہی تم پر کیچڑ پھینکنے لگے۔ اس چھت کے نیچے رہنا بزدلی ہے۔ اب مت آنا یہاں، یہاں انسان نہیں، غلام بستے ہیں جو اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتے۔ اب میں بھی یہاں نہیں رہوں گی، چلی جاؤں گی یہاں سے۔ ” اس نے اپنے مستقبل کے ارادوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

 

"کہاں ؟” ماہتاب اور لاج کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

 

"بے فکر رہو، میں کسی کے ساتھ بھاگوں گی نہیں۔ میری ماں کو بچپن سے آج تک یہی خوف رہا ہے کہ میں ضرور ایسا کچھ کر گزروں گی لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ ”

 

"تو تم کیا کرو گی؟” ماہ رخ نے سائڈ ٹیبل کا دراز کھولا اور ایک لفافہ ان دونوں کی طرف بڑھا دیا۔ ماہتاب اور لاج نے لفافہ کی طرف دیکھا۔

 

"مجھے ائیر ہوسٹس کی جاب مل گئی ہے۔ میں جلد ہی اسے جوائن کر لوں گی۔ ” اس نے آخر راز فاش کر ہی دیا۔

 

"مگر … امی نہیں مانیں گی۔ ” ماہتاب کے لہجے میں خدشات تھے۔

 

"فی الحال ان سے پوچھ ہی کون رہا ہے۔ یہاں رہ کر میں ذہنی مریضہ نہیں بن سکتی۔ ”

 

لاج اور ماہتاب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہی تھیں۔

 

اپنے کمرے میں آ کر اس نے دروازہ بند کیا پھر اپنے ذاتی موبائل فون سے وقاص کا نمبر ملایا۔ وقاص اس کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ پہلی ہی گھنٹی پہ فون ریسیو کر لیا۔

 

"ہیلو، میں لاج بول رہی ہوں۔ ”

 

"جانتا ہوں، نہ بھی بتاؤ تو تمہاری خوشبو بتا دیتی ہے مگر کل رات یہ خوشبو کسی اور کے پہلو میں جابسی۔ ”

 

"کیسی بات کر رہے ہو وقاص؟” وقاص کی بات پر لاج نے تڑپ کا احتجاج کیا۔

 

"تمہاری لاج ابھی بھی تمہاری…”

 

"کیسے مان جاؤں، کیسے مان جاؤں۔ شاید کل تم نے آئینہ نہیں دیکھا تھا یا تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ تم ہمیشہ سے زیادہ حسین لگ رہی ہو۔ ان آنکھوں نے تمہارے سراپے کو قید کر لیا تھا۔ جی ہی نہیں چاہتا تھا کہ ایک پل بھی نظر ہٹاؤں تم سے اور… وہ … وہ… تمہیں … ہماری نظروں کے سامنے سے اٹھا کر لے گیا۔ ”

 

اس کا بے تابانہ انداز نے لاج کا جگر چھلنی کر دیا وہ فوراً بولی۔

 

"آج یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ ؟”

 

"میری جگہ پہ خود کو رکھ کر دیکھ لاج مظاہر، تو جان پاؤ۔ کانٹوں پہ رات کیسے گزرتی ہے۔ قیامت جیسے لمحے کیا ہوتے ہیں۔ پل صراط پہ لا کر کھڑا کیا ہے تم نے مجھے۔ ”

 

لاج کی آنکھیں اس کی کہی با توں پہ جلنے لگی تھیں۔

 

"صلیب پہ چڑھا دیا ہے تم نے مجھے۔ ایسے راستے کا انتخاب تم نے ہی کیا تھا میرے لیے۔ ” اس کا شکوہ زبان پہ ہی آہنی گیا تھا۔

 

"یہ بتاؤ کیا کیا کہا اس نے ؟” وقاص کے لہجے میں عجیب طرح کی چبھن تھی۔

 

"جیسا تم سمجھ رہے ہو، ویسا کچھ نہیں ہوا۔ ” وہ چیخ کر بولی۔

 

"تو پھر کیا ہوا تھا، کیا اس کی آنکھیں نہیں تھیں یا سینے میں پتھر تھا یا… یا پھر…”

 

"مجھے نہیں معلوم کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ ” لاج کو اس کے اصرار پہ وحشت ہونے لگی تھی۔

 

وقاص ہنسنے لگا۔ اس کی ہنسی میں تپش تھی۔

 

"پلیز وقاص! ایسا نہ کرو، میں مر جاؤں گی۔ ایک تمہارے سہارے پہ آج تک زندہ ہوں۔ ” اس کے اشک بہنے لگے۔

 

وقاص خاموش ہو گیا۔

 

"جیسا تم سمجھ رہے ہو، ایسا کچھ نہیں ہوا، کیا تمہیں اپنی لاج کی زبان پہ بھروسہ نہیں ہے۔ تمہاری لاج تمہارے علاوہ کسی کی نہیں ہے، کیا تمہارا دل اس بات کی گواہی نہیں دے رہا۔ ”

 

فون کان سے لگائے لاج بری طرح رو دی تھی۔

 

خلاف توقع اسے ڈرائیور لینے آیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ رات تک اسے واپس سسرال جانا ہے۔ سو بی جان کے کہنے کے مطابق اس نے نماز عشا سے قبل ہی کھانا کھا لیا تھا مگر تیار ہونے کو اس کا دل نہ چاہ رہا تھا۔ قندیل نے جو اسے جوڑا دیا تھا، وہ یونہی پڑا تھا۔

 

اس نے کپڑوں پہ نگاہ ڈالی۔ وہ کیوں سج دھج کر جائے، اس کے لیے جسے اس نے اپنا شوہر ہی تسلیم نہیں کیا۔ اس کے لیے اپنے وجود کو سجانا کیا معنی رکھتا تھا۔ وقاص نے کہا تھا کہ آج اسے بہت ہوشیار رہنا ہو گا۔ آج کل والے حالات نہیں ہوں گے۔

 

"کل جو کچھ تم نے کیا تھا، اس کے بعد اب تک وہ بہت سنبھل چکا ہو گا اور شاید اس نے سوچ لیا ہو کہ اس نے اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔

 

تمہیں آج زیادہ اس کے سامنے رونے یا گڑ گڑانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سن رہی ہو نا لاج! بس اپنی بات پہ قائم رہنا اور اسے اس پریشانی میں ڈالے رکھنا کہ تمہارا نکاح ہی مشتبہ ہے۔ تم نے تو دل سے اقرار ہی نہیں کیا۔ اس کے ساتھ جو دھوکہ ہوا ہے، اس پہ اس کا غیض و غضب بجا سہی لیکن وہ مہذب شخص ہے۔ مجھے یقین ہے تمہارے ساتھ ناجائز نہیں ہو گا۔ ”

 

"لاج! تم ابھی تک تیار نہیں ہوئیں۔ ڈرائیور کب سے آیا بیٹھا ہے تمہارے گھر سے۔ ”

 

"میرے گھر سے۔ ” اس نے چونک کر مہتاب کی طرف دیکھا۔

 

"نہیں، میرے گھر سے۔ ” مہتاب جھنجھلا گئی۔

 

"فٹا فٹ کپڑے تبدیل کرو۔ میں ماہ رخ کو بلاتی ہوں، وہ دس منٹ میں تمہیں تیار کر دے گی۔ ”

 

"ابھی تو کپڑے بھی پریس نہیں ہوئے۔ میں ایسے ہی گھر چلی جاتی ہوں۔ ”

 

"یہ کام میرا ہے، تم منہ ہاتھ دھو کر آؤ۔ ”

 

وہ منہ ہاتھ دھو کر باتھ روم سے نکلی تو ماہ رخ اسے تیار کرنے کے لیے منتظر بیٹھی تھی اور پھر نہایت مہارت اور پھرتی سے چند ہی منٹوں میں ماہ رخ نے اسے سرتاپا سجا دیا۔

 

"آئینہ دیکھو، کل سے بھی زیادہ پیاری لگ رہی ہو۔ ” ماہ رخ نے اسے آئینے کے سامنے لا کھڑا کیا۔ آتشی پوتھ سلک کے کامدانی سوٹ میں ہم رنگ جیولری کے ساتھ اس کا سراپادو آتشہ لگ رہا تھا۔

 

وہ جلدی سے آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی۔ مہتاب اس کی چادر لیے کھڑی تھی۔

 

"ایک بات بتاؤ لاج! تمہارے سسرال سے تمہیں ڈرائیور لینے کیوں آیا ہے۔ کیا تمہارے گھر میں کوئی اور نہیں تھا۔ ” لاج نے چادر اوڑھتے ہوئے ماہ رخ کی طرف دیکھا۔

 

لاج کی خاموشی پہ ماہ رخ سنبھل کر بولی۔

 

"تمہیں معلوم ہے لاج! یہاں کی پرابلمز کا، کیا وہاں بھی کچھ پرابلمز ہیں۔ ؟”

 

"پرابلمز کہاں نہیں ہوتیں۔ ” وہ سینڈل کا اسٹریپ بند کرتے ہوئے بولی۔ "ساس میری معذور ہیں اور نند کو آنکھوں کا کوئی ایسا مرض ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد کم نظر آتا ہے یا شاید نظر ہی نہیں آتا۔ ”

 

"ویری سیڈ۔ ” دونوں کو دلی دکھ ہوا۔

 

"ویسے تو ایک دیور بھی ہے لیکن وہ بھی ڈاکٹر ہے اور ڈاکٹرز کی مصروفیات کو کون نہیں جانتا۔ اب میں چلوں۔ ” لاج نے اجازت چاہی۔

 

"کاش ہم تمہیں چھوڑنے جا سکتے۔ ” مہتاب کو قلق ہوا۔ لاج اس کی بات پہ خاموش رہی۔

 

بی جان کی آواز پہ تینوں آگے پیچھے باہر نکلیں۔

 

بی جان اسے اکیلے بھیجنا نہیں چاہتی تھیں۔ انہوں نے پہلے ہی آذر کو ساتھ بھیجنے کے لیے بٹھا رکھا تھا۔

 

راستے بھر لاج یہی سوچتی رہی کہ مجھے کون سا اس گھر میں رہنا ہے جو اپنے گھرانے کا رعب ڈالوں۔ خواہ مخواہ بی جان نے آذر بھائی کو زحمت دی۔ بی جان کے کہنے کے مطابق راستے میں آذر نے موسم کے ڈھیروں پھل اور مٹھائی خریدی تھی۔

 

"آپ نے خواہ مخواہ تکلیف کی آذر بھائی!” اس نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا تو آذر کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

 

"شاید ہم سب آپس میں اس لیے گھل مل نہیں سکے کہ ہم ایک دوسرے کا دکھ کا مداوا نہیں کر سکتے تھے۔ شاید اس لیے کہ ہم سب کے دکھ کا محرک ایک ہی تھا۔ ”

 

 

مکمل کتاب

ڈاؤن لوڈ کریں