FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ژاک دریدا:حیات و ادبی خدمات

                   پروفیسر غلام شبیر رانا

 

 

Abstract

                      Jacques Derrida (15-7-1930 to 18-10-2004) was a famous French philosopher. His services for promotion of modern linguistics are glorious chapter of world literature. His influence on literary studies can never be forgotten. As for as deconstructive school of thought in literature is concerned it mainly depends on the thoughts of Jacques Derrida. He was a trend setter critic and creative writer. His article "Structure, sign and play in the discourse of the human sciences” is very thought provoking. It is said that the work done by Derrida on deconstruction integrally has close relations with the more familiar thoughts of postmodernism. Derrida is of the opinion that the structurality of the structure needs to be considered in true context. His work on deconstructionism is undoubtedly provocative. It is a mile stone to understand modern linguistics and its

 

(1)

  پندرہ جولائی 1930کو الجیریا میں جنم لینے والے علم و ادب، تنقید اور لسانیات کے اس یگانہ روزگار دانش ور نے اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکناف عالم کا گوشہ گوشہ منور کر دیا۔ پوری دنیا میں اس کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور اس کے نظریات کی ہمہ گیری نے علم و ادب کے تمام شعبوں پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ الجیریا میں جنم لینے والے اس یہودی النسل فرانسیسی نقاد اور فلسفی  نے اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنایا بلکہ اپنے انقلابی تصورات سے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی۔ عالمی ادب، فلسفہ، فنون لطیفہ اور علوم پر اس کے متنوع افکار کے جو ہمہ گیر اثرات مرتب ہوئے ان کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں ژاک دریدا کی حیات و خدمات اور فلسفیانہ تصورات پر پانچ سو سے زائد مفصل اور جامع تحقیقی مقالات لکھے گئے۔ ریسرچ سکالرز نے چودہ ہزار سے زائد مقالات لکھ کر اس نابغہ روزگار مفکر کے اسلوب کی تفہیم کی سعی کی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ 8۔ اکتوبر 2004کو اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اس میں ژاک دریدا کا نام بھی رقم تھا۔ دنیا دائم آباد رہے گی لیکن ایسے فاضل کا افق علم و ادب سے غروب ہونا ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ لسانیات، فلسفہ اور تنقید کے شعبوں پر ژاک دریدا کے افکار کے ہمہ گیر مرتب ہوئے۔ ایسے دانش ور کے حقیقی مقام اور منصب سے آگہی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔

        ژاک دریدا نے ابتدائی تعلیم ایل بائر (El-Biar)الجیریا سے حاصل کی۔ بعض ناگزیر حالات کے باعث ان کے خاندان 1949میں فرانس منتقل ہونا پڑا۔ یہاں اس نے  1952 میں اپنی سیکنڈری تعلیم کی تکمیل کی۔ یہاں اسے متعدد  دوسرے ماہرین تعلیم کے علاوہ  مشل فوکاں (Michel  Foucault)اور لوئیس التھسر (Louis  Althusser)کی فکر پرور اور بصیر ت افروز رہنمائی نصیب ہوئی۔ ان اساتذہ کے فیضان نظر نے اس نو عمر طالب علم کی قسمت بدل دی۔ ژاک دریدا نے کچھ عرصہ مقامی تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کی زندگی کا اہم موڑ اس وقت آیا جب اس نے سو ربون(Sorbonne) میں فلسفے کی تدریس شروع کی۔ یہ عرصہ جو کہ بیس سال (1964-1984)پر محیط ہے اس میں اس نے ایکول نارمیل سپیریر(Ecole Normale Superieure)میں یادگار دن گزارے۔ ژاک درید ا کی فقید المثال علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں اسے دنیا کی مختلف جامعات میں اسے توسیعی لیکچرز کے لیے طلب کیا گیا۔ اپنی وفات کے وقت وہ پیرس کے شہرہ آفاق مرکز تحقیق ایکول دس ہاٹس(Ecole des Hautes Etudes)میں تدریسی خدمات پر مامور تھا۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ژاک دریدا کے افکار کے جس قدر ہمہ گیر اثرات لسانیات اور ادبیات پر مرتب ہوئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ دنیا کا کوئی نقاد اس تنوع اور ہمہ گیری میں اس کا شریک اور سہیم نہیں۔ اگرچہ ژاک دریدا کا تعلق شعبہ فلسفہ سے تھا لیکن اس کے تصورات سے لسانیات اور ادب نے فلسفہ کی نسبت زیادہ گہرے اثرات قبول کیے۔ اس کے ممتاز معاصرین میں لاسین گولڈ مین(Lucein  Goldman)، زیٹن ٹوڈرو(Tzvetann Todorov)، رولاں بارتھ(Roland Barthes)اور جیکوئس لاکاں  (Jacques Lacan)کے نام قابل ذکر ہیں۔

         لسانیات، ادب اور فنون لطیفہ کے تمام شعبوں پر ژاک د دریدا کے انقلابی افکار کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس کی درج ذیل تصانیف کی وجہ سے ا س کی شہرت پوری دنیا میں پھیل گئی۔ ان تصانیف کے تراجم پوری دنیا میں کیے گئے اور ان پر تحقیق و تنقید کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو گیا۔

1 . Husserl’s geometry                                         1962

2  . Speech and phenomena                                 1973

3   .Of Grammatology                                                     1976

4 .Writing and Difference                                               1978

               یہ تاثر عام ہے کہ ژاک دریدا کے افکار کی تفہیم بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ اکثر محققین اس عظیم المرتبت مفکر اور فلسفی اور رجحان ساز نقاد کے عالمانہ خیالات کی گہرائی تک پہنچنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک عالمی مفکر کے افکار کو محدود سوچ کے ذریعے سمجھنا بعید از قیاس ہے۔ اس کے افکار کی گرہ کشائی کے لیے محض عالم رنگ و بو پر قناعت کرنا مناسب نہ ہو گا۔ اس سے قبل اس قدر وسیع، جامع اور ہمہ گیر اثرات کی حامل تنقید اور تحقیق کی کوئی مستحکم روایت دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے معجزہ فن کی نمود خون جگر سے ہوئی ہے۔ اس نے صدیوں سے چلے آنے والے افلاطون، ہیگل اور ہیڈیگر کے مروج اور مقبول تصورات کو پر کاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دی۔ اس نے تقلید کی مہلک روش کو ترک کر کے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے پر اصرار کیا۔ اس نے اس جانب توجہ دلائی کہ زیرک تخلیق کار جب قلم تھام کر پرورش لوح و قلم کا فریضہ انجام دیتا ہے تو اسے خضر کا سودا دل سے نکال کر اپنے لیے ایک انفرادی نوعیت کا لائحہ عمل منتخب کرنا چاہیے۔ ژاک دریدا نے لفظ مرکزیت کے تصور پر کاری ضرب لگائی اور اس پر مبنی تمام تصورات کو دھندلا دیا۔ اس کے بت شکن رویے سے متعدد بڑے بڑے سر بہ فلک مجسمے زمیں بوس ہو گئے۔ ادبی تنقید سے جمود کا خاتمہ ہوا اور افکار و تصورات کے جامد و ساکت پانی میں مد و جزر کی کیفیت نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ جب ایک زیرک، فعال اور مستعد نقاد تیشہ حرف سے تقلیدی تصورات کی اساس پر استوار ہوائی قلعے منہدم کرنے کی سعی کرتا ہے تو اسے قدم قدم پر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ژاک دریدا کو بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے ریت سے بت بنانے والوں اور خام خیالی کے تاج محل تعمیر کرنے والوں کی بے بصری، کور مغزی اور ذہنی افلاس کا پردہ فاش کرنے میں کوئی تامل نہ کیا۔ اس کے خیالات نہایت واضح، مدلل، مضبوط، صاف، دو ٹوک اور طبع زاد ہیں۔ فلسفہ اور لسانیات میں اس کے اجتہادات نے پوری دنیا میں اس کی دھاک بٹھا دی۔

  متن کی خود کفالت پر ژاک دریدا نے بہت زور دیا۔ اس نے واضح کر دیا کہ متن سے ہٹ کر کوئی بھی مفہوم لائق اعتنا نہیں ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ متن سے بالعموم کیا معانی اخذ کیے جاتے ہیں اور متن کی خود کفالت کا اصل مفہوم کیا ہے۔ آخر ایک قاری کس طرح یہ سمجھ لے کہ متن کے علاوہ کوئی اور چیز قابل غور ہی نہیں ہے۔ اس لیے یہ امر نا گزیر ہے کہ متن کی حقیقی تناظر میں تفہیم پر توجہ دی جائے۔ نکولس رائل (Nicholas  Royle)نے دریدا کے رد تشکیل اور متن کے حوالے سے اس کے نظریات پر عمیق نگاہ ڈالی ہے۔ اس نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ دریدا نے متن سے کیا مراد لیا ہے :

Context here can be speech, life, the world, the real, history and what not, in  which case, to quote Derrida, deconstruction would be the effort to take this limitless context into account, to pay the sharpest and broadest attention possible to context and thus to an incessant movement of recontextualization. Again here we have the double gesture of the sharpest and broadest attention, an affirmation of significance of minuscule detail and interminable overrun. No meaning can be determined out of context, but no context permits saturation, this is what Derrida’s texts keep affirming, while always affirming it differently .(1)

       ژاک دریدا نے تحریر اور تقریر کو لسانیات کے حوالے سے ایک منفرد انداز میں سامنے لانے کی کوشش کی۔ اس نے اس جانب توجہ دلائی کہ الفاظ تو گنجینہ معانی کا ایک طلسم ہیں۔ اس نے سو سئیر ا(Saussure)کے خیالات پر گرفت کی اور پہلی مرتبہ یہ امر واضح کیا کہ متن اور اس میں پوشیدہ معانی کے متعلق پیش رو کس طرح سرابوں میں بھٹکتے رہے۔ اپنی تحریروں میں ژاک دریدا نے سوسئیر کے خیالات سے اختلاف کیا اور انھیں دلائل کے ساتھ نا قابل عمل قرار دیا۔ اس کا خیال تھا کہ ہر زبان اپنے داخلی نظام کے تحت اپنے لسانی تقاضون اور مطالب سے عہدہ بر آ ہونے کی صلاحیت سے متمتع ہوتی ہے۔ اب یہ قاری کا فرض ہے کہ وہ اس نظام کے پس پردہ عوامل کے بارے میں جستجو کرے اور اس قلزم معانی کی غواصی کر کے گوہر مراد حاصل کرے۔ لسانیات میں آزادہ روی کا خواب سب سے پہلے دیدا نے دیکھا تھا۔ لسانی نظام اور معنی آفرینی کے حوالے سے ژاک دریدا نے لکھا ہے :

” By orienting and organizing the coherence of the system, the centre of a structure permits the play of its elements inside the total form. And even today the notion of a structure lacking any centre  represents the unthinkable itself.”

 

 (2)

           متن اور اس کے معانی کے بارے میں ژاک دریدا کے خیالات نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ اس نے سوسئیر اور اس کے پیرو کاروں کے خیالات پر گرفت کی اور ان خیالات کو نا قابل عمل قرار دیا۔ اس کے معرکہ آرا کارناموں نے علمی و ادبی حلقوں کو چونکا دیا۔ سوسئیر کے خیالات اور بالخصوص ساختیاتی مباحث کے بارے میں ژاک دریدا کا موقف قوی، پر جوش اور جارحانہ تھا۔ اس کی فلسفیانہ مو شگافیوں ، ندرت خیال اور جدت پر مبنی خیالات کی وجہ سے اسے ایک بت شکن نقاد خیال کیا جاتا ہے۔ کورانہ تقلید کو وہ  ہلاکت خیزی ہر مبنی ایک منفی رویہ قرار دیتا ہے۔ اس کے متن اساس تصور کو حقیقی تناظر میں جانچنا ضروری ہے۔ جہاں تک متن کا تعلق ہے اسے آثار سے بنے گئے ایک ریشے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جسے منطق کے ذریعے رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں سے مزین کیا جاتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ قاری پلک جھپکتے ہی متن کے بارے میں اپنی حتمی رائے قائم کر لیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مشاہدے کے ذریعے ایک زیرک تخلیق کار تمام مناظر اپنی آنکھوں میں اتار لیتا ہے۔ یہ قوت نہ صرف گفتگو بلکہ قلم و قرطاس کے تمام معتبر حوالوں میں اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ فرد کے تجربات اور مشاہدات جس انداز میں اس کے فکر و خیال کی وادی کو سیراب کرتے ہیں ژاک دریدا نے اس پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ فرد کی زندگی کے یہ مختلف مظاہر، علامات، نشانات، تاثرات اور نتائج ہی تو ہیں جو اس کے اسلوب کی اساس بن کر اسے انفرادیت عطا کرنے کا وسیلہ ہیں۔

        ژاک دریدا اور رد تشکیل کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے رد تشکیل کے ذریعے متن کے پہلے سے طے شدہ معانی کو بے دخل کرنے کے بارے میں جو تصور پیش کیا اس کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دی۔ ادب کے طلبا اور اساتذہ کے لیے یہ ایک چونکا دینے والی بات تھی۔ اس نے عام تخلیقی تحریر کو بھی منطق کے اصولوں پر جانچنے کی ابتدا کی۔ سوسئیر نے اس امر کو اپنے تصور کی اساس بنایا کہ زبان ایک ایسے نظام کا نام ہے جو کہ مختلف اشارات، علامات اور نشانات کی مدد سے وجود میں آیا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ نشانات اظہار اور ابلاغ کی وجہ سے قابل توجہ ہیں۔ اس تمام عمل میں افتراقات کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ فلسفیوں کا خیال ہے کہ منطق اور فلسفے کے سوتے بھی وجدانی طور پر منصہ شہود پر آنے والی تخلیقی تحریروں سے پھوٹتے ہیں۔ فلسفی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ بحث کے ذریعے کبھی حقیقت ابدی کا سراغ نہیں پا سکتا۔ اس کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جو ڈور کو سلجھانے کی سعیِ ناکام میں اسے مزید الجھاتا چلا جاتا ہے۔ ژاک دریدا نے ان نازک معاملات میں اپنی رائے بے لاگ انداز میں پیش کی ہے :

” In a traditional philosophical opposition we have not a peaceful coexistence of facing terms but a violent hierarchy. One of the terms dominates the other (axiologically, logically, etc.), occupies the commanding position. To deconstruct the opposition is above a, at a particular moment ,to reverse the hierarchy…..Deconstruction must through a double gesture, a double science, a double writing, put into practice a reversal of the classical opposition and a general displacement of the system. It is on that  condition alone that deconstruction will provide the means of intervening in the field of oppositions it criticizes and which is also a field of non-discursive forces.”

 

 (3)

      ژاک دریدا نے فلسفے کی مطلق العنان کارفرمائی پر اپنے تحفظات کا ظہار کیا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ تمام تصورات ما بعد الطبیعاتی فکر کے مر ہون منت ہیں۔ ایسی کوششیں ہوا میں گرہ لگانے کے مترادف ہیں۔

اس نے رد تشکیل کی راہ دکھا کر قاری کو متن اور اس کے معانی کے بحر بے کراں کی غواصی پر آمادہ کیا۔ اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ علوم ان کے پس منظر، متن اور اس کے مفاہیم و مطالب کا براہ راست تعلق ایک نظام افتراق سے ہے۔ یہ نظام کسی مرکز کا اسیر یا تابع ہر گز نہیں۔ اس تمام نظام کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ یا قطعی رائے دینا بعید از قیاس ہے۔ افلاطون کے زمانے سے لفظ مرکزیت کا مروج و مقبول تصور ژاک دریدا نے یکسر مسترد کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ تحریر خواہ کتنی ہی دلکش ہو اس کا تقریر سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ بولنے والا دل کی گہرائی سے جو با ت کہتا ہے اس کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں اور اس کے لہجے کی خوشبو سے مشام جاں معطر ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے تقریر کو تحریر پر فوقیت حاصل ہے۔ اس نے لفظ کے مدار میں سر گرم سفر رہنے والی تحریروں کی افادیت پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور اس بات پر اپنی توجہ مرکوز کی کہ تخلیق فن کے لمحوں میں ایک تخلیق کار کو خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی صلاحیت سے متمتع ہو نا چاہیے۔ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی اسلوب میں ہمیشہ جلوہ گر دکھائی دے۔ یہی وہ تڑپ ہے جو نار کو گلزار میں بدل دیتی ہے۔ ژاک دریدا نے متن میں موجود معانی کی وحدت کے تصور کو کرچی کرچی کر دیا۔ اس کے تصور کے مطابق تو ایک زیرک تخلیق کار گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے اس طرح سجائے کہ اک پھول کا مضمون سو رنگ سے سامنے آئے اور اس کی عطر بیزی سے نہاں خانہ دل مہک اٹھے۔ اور اس کے اعجاز سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہو۔ ژاک دریدا نے لسانیات کو ایک نئی وضع سے سمجھنے کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ اس نے رد تشکیل کے ذریعے مروج طریق کار اور مطالب کو لا ئق استردا د قرار دیتے ہوئے نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق نئے صبح و شام پیدا کرنے کی راہ  دکھائی۔ تحریر کو وہ ثانوی درجے کی حامل اس لیے قرار دیتا ہے کہ ایک مقرر اپنی جادو بیانی سے انبوہ کثیر کو وجد میں لا سکتا ہے۔ ژاک دریدا کے خیال میں ہر تحریر اپنی رد تشکیل کی صورت خود پید کر دیتی ہے جب اس میں سے قاری نئے مفاہیم کی موجودگی کو محسوس کر لیتا ہے۔ ا سے اچھی طرح معلوم ہے کہ کواکب جس طر ح دکھائی دیتے ہیں حقیقت میں اس سے مختلف ہیں۔ لفظ کے حقیقی معانی تک رسائی بادی النظر میں ممکن ہی نہیں۔ یہ تو روشنی کا سفر ہے جو مسلسل جاری ہے۔ کسے معلوم الفاظ و معانی کا یہ تفاوت آنے والے زمانے میں کیا گل کھلائے ؟۔ ژاک دریدا نے آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں نہیں سمجھا بلکہ اس نے واضح کر دیا کہ یہ کائنات ابھی شاید نا تمام ہے۔ دما دم صدائے کن فیکون آرہی ہے۔ الفاظ و معانی میں تفاوت نہ ہو لیکن ملا اور مجاہد کی اذاں  اور کرگس و شاہیں کے جہاں میں جو واضح فرق ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مر حلہ شوق کبھی طے نہیں ہو سکتا۔ ممتاز نقاد ٹییری ایگلٹن نے ژاک دریدا کے اسلوب کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:

"Jacques Derrida………labels as metaphysical any such thought system which depends  on an  unassailable foundation, a first principle or unimpeachable ground upon which a whole hierarchy of meanings may be constructed.

 

( 4)

               رد تشکیل اور ژاک دریدا کا ذکر بالعموم ایک ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے رد تشکیل کے ذریعے صدیوں کے تار عنکبوت ہٹا کر فکر و نظر کو مہمیز کیا۔ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوا کرتا ہے۔ ژاک دریدا کا خیال تھا کہ حیات جاوداں کا راز ستیز میں پوشیدہ ہے۔ اس کے تصورات کے مطابق پیہم محنت، لگن اور جدت ہی سے کسی فن کی معراج تک رسائی ممکن ہے۔ سعیِ پیہم ہی ترازوئے کم و کیف حیات ہے۔ عالم رنگ و بو پر قناعت کر کے لمبی تان کے سو جانا بے عملی کی دلیل ہے۔ ایک با صلاحیت تخلیق کار کسی مرحلے پر بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ خوب سے خوب تر کی جستجو اسے پارے کی طرح مضطرب رکھتی ہے۔ اس وسیع و عریض عالم آب و گل میں جو حالات و واقعات رونما ہو رہے ہیں ، وہ اس حقیقت کے مظہر ہیں کہ خانہ فرہاد کی تمام تر آب و تاب شرر تیشہ کا ثمر ہے۔ ژاک دریدا نے رد تشکیل کے ذریعے ان تمام عوامل کی نشاندہی کی جو ہمارے گرد و نواح میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ اس نے محض لسانیات یا متن کے مطالعہ کی جانب توجہ نہیں دلائی بلکہ اس کے افکار کی جولانیوں کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ یہاں تک کہ فنون لطیفہ، آرٹ، مصوری، سنگ تراشی اور انسانی خدو خال بھی رد تشکیل کی زد میں آسکتے ہیں۔ مظاہر فطرت بھی مجموعی اعتبار سے متن کی ایک حیران کن صورت میں اپنی رعنائیوں سے مسحور کر دیتے ہیں۔ ژاک دریدا کا خیال تھا کہ انھیں بھی دیکھنے والا رد تشکیل کے ذریعے نئے معانی اور مفاہیم عطا کرسکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کائنات کی کوئی بھی چیز رد تشکیل کے دائرہ کار سے باہر نہیں۔

        یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہونے والا زیرک تخلیق کار اپنے تجربات اور مشاہدات کو پورے خلوص کے ساتھ صفحہ قرطاس پر منتقل کرتا ہے۔ وہ ایسے نشانات، اظہار اور علامات کو منظر عام پر لاتا ہے جنھیں ایک خاص نوعیت کی پیداواری میکانیات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان کے اعجاز سے فکر و نظر کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی ہے ان تمام مراحل میں یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ نرگسیت سے دامن بچایا جائے اور نارسیسی انہماک پر قابو پایا جائے۔ تحریر اپنی ہمہ گیری، قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی اور انتہا ئی دلکش اسلوب کے اعجاز قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں لینے کی استعداد رکھتی ہو تو یہ ایک تخلیق کار کی کامیابی کی دلیل ہے۔ ژاک دریدا نے اس تمام مرحلے کے متعلق صراحت کے ساتھ لکھا ہے:

"For writing to be writing it  must continue to act and be readable even if what we call the author  of the writing be provisionally absent or no longer uphold what he has written ,what he appears to have signed…..The situation of the  writer or under writer is ,with respect to the writing ,fundamentally the same as that of the reader. This essential drift ,which is proper to writing as a structure of repetition, a structure  cut off from any absolute responsibility or from consciousness as ultimate authority, orphaned and separated since birth from the support of the father, is indeed what Plato  condemned in the phaedrus”(5)

        ژاک دریدا نے متن اور رد تشکیل کے حوالے سے تخلیق کار کی شناخت اور انفرادیت کے سلسلے میں جن خیال افروز مباحث کا آغاز کیا ان سے فکری جمود کا خاتمہ ہوا۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بہ روز گمبھیر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ زندگی کی اقدار عالیہ کو ہوس اور خود غرضی نے نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی وجہ سے انسان ستاروں پر کمند ڈال چکا ہے۔ کرنوں ، شعاعوں اور اجالوں کو مسخر کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر زندگی کی شب تاریک کو سحر کرنے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ سید عابد علی عابد نے کہا تھا :

خزاں کے سیکڑوں منظر ہیں اے فریب خیال

طلوع صبح بہاراں کا اعتبار نہ کر

     ایک زیرک، مستعد اور صاحب بصیرت تخلیق کار، ادیب، نقاد اور فلسفی کی حیثیت سے ژاک دریدا نے اقوام عالم کو اس  امر کی جانب متوجہ کیا کہ اخلاقی اور روحانی اقدار کی بقا کس قدر ضروری ہے۔ اخلاقی وحدت کو معاشرتی زندگی سے بارہ پتھر کرنا کور مغزی اور بے بصری کی دلیل ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو اس عاقبت نا اندیشی سے جو ضعف پہنچتا ہے اس کا مداوا ممکن ہی نہیں۔ وہ تخلیق کار جو اپنی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں وہ زندگی کے اسرار و رموز کی گرہ کشائی میں تامل نہیں کرتے تخلیقی فعالیت اور اس کے لا شعوری محرکات کے متعلق ژاک دریدا نے اپنے فکر پرور دلائل سے ایک نئی دنیا کی نوید سنائی۔ ژاک دریدا نے حسن و مسرت کو تخلیقی عمل کے لیے نا گزیر قرار دیا۔ زندہ اور جان دار تخلیقات ابد آشنا ہوتی ہیں۔ ان کا ارضی و ثقافتی حوالہ اس قدر معتبر ہوتا ہے کہ وہ زمان و مکاں کی حدود سے آگے نکل جاتی ہیں۔ بلند پایہ تخلیقات کا یہ امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے کہ ہر عہد کے ادب میں ان کا نشاں ملتا ہے۔ ان کی خود کفالت انھیں اپنے تخلیق کار سے بھی بے نیاز کر دیتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے تخلیق کار کی شناخت کا وسیلہ اس کی تخلیقات ہی قرار پائیں۔ رولاں  بارتھ(Roland Barthes)نے متن سے حصول مسرت کے حوالے سے لکھا ہے :

"The pleasure of the text  does not  prefer one ideology to another .However this impertinence does not proceed from liberalism but from perversion: the text, its  reading, are split .What is overcome, split, is the moral unity that society demands of every human product.” (6)

          آج کا دور اپنی ہلاکت خیزیوں کی وجہ سے بہت لرزہ خیز صورت اختیار کر چکا ہے۔ ژاک دریدا نے تاریخی شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر قسم کی عصبیت اور تنگ نظری پر کاری ضرب لگائی یہ بات قرین قیاس ہے کہ ژاک دریدا نے رد تشکیل کے موضوع پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کے پس پردہ عصری آگہی اور تاریخی شعور کار فرما ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ نئے زمانے اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کی سعی کی جائے۔ اس نے مسائل کا سنجیدگی سے جائزہ لیا اور پامال راہوں سے گریز کرتے ہوئے اپنے لیے ایسا طریق کار منتخب کیا جس کے معجز نما اثر سے فکر و نظر کو نئی جہات سے روشناس کرنے میں مدد ملی۔ ژاک دریدا نے زیرک تخلیق کار کو بر ملا کہا کہ اسے اپنا رزق خاک راہ میں تلاش کرنے کی مذموم روش کو ترک کرنا ہو گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ژاک دریدا اپنی بلند پروازی میں نہ سپہر کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اس نے تخلیق کار کو غیر معمولی انداز میں عصری آگہی کی جانب جست لگانے کی راہ دکھائی۔ ژاک دریدا نے فیصلہ کن انداز میں متن کے مروج اور فرسودہ روایتی تصور کو غیر مستحکم کر کے معنی خیزی کی نئی راہیں تلاش کرنے پر زور دیا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ژاک دریدا نے بات چیت اور روزمرہ گفتگو کے لیے استعمال ہونے والی زبان کو تحریر کی غرض سے برتی جانے والی زبان پر مقدم سمجھا۔ اس نے گفتگو کی بالا تری اور اہمیت کو اجاگر کیا۔ یہ ایک قابل فہم بات ہے کہ گفتگو ہی سے انسان کی شناخت ہوتی ہے۔ جب تک کوئی انسان گفتگو نہیں کرتا اس کے عیب و ہنر پوشیدہ رہتے ہیں۔ اگر الفاظ میں ترنگ ہو اور لہجہ دبنگ ہو تو سامعین کے دلوں کو مسخر کیا جا سکتا ہے۔ ایک جری تخلیق کار جو کچھ دیکھتا ہے جب اس کو گفتگو کے ذریعے پیرایہ اظہار عطا کرتا ہے تو وہ یقینی طور پر ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔

         ژاک دریدا نے گفتگو اور الفاظ میں پائے جانے والے افتراقات پر بھر پور توجہ دی۔ اس کا خیال تھا کہ بادی النظر میں جس فرق کا ذکر کیا جاتا ہے وہ کسی الف، ب یا جیم کے مابین پایا جانے والا فرق نہیں ہوتا۔ در اصل فرق تو ایک داخلی کیفیت کا نام ہے۔ معنی خیزی میں فرق کا مطلب اور ہے۔ تکثیریت سے مراد یہ ہے کہ ایک لفظ کو گنجینہ معانی کا طلسم بنا دیا جائے۔ ژاک دریدا نے جو بات کہی ہے وہ قابل فہم بھی ہے اور دل کو لگتی بھی ہے۔ روشنی تو روشنی ء چشم کا ایک عکس ہے بند آنکھوں پر نمو دسحر کے امکانات معدوم ہوتے ہیں۔ ایم۔ ایچ ابراہم نے ژاک دریدا کے اسلوب کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

"For Derrida’s  chamber of texts  is a sealed echo-chamber in which meanings are reduced to a  ceaseless echolalia,  شانا )m but from perversion:the text a vertical and lateral reverberation from sign to sign of ghostly non -presences emanating from no voice, intended by no  one, referring to nothing, bombinating in a void.(7)”

         کلیت پسندی کو ژاک دریدا نے بے کار، فرسودہ اور نا قابل عمل قرار دیا۔ اس کو زیر غور لانا قطعی نا ممکن ہے۔ ہر لفظ کی الگ الگ تہیں ہوتی ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا وجود افتراقات کا مرہون منت ہے۔ انھیں اپنی بقا کے لیے یا تو اس نظام افتراقات کو بر قرار رکھنا ہو گا یا سیل زماں کے تھپیڑے اسے بہا لے جائیں گے۔ ایک لفظ سے دوسرے لفظ کا فرق ہی اس کے وجود کا اثبات کرتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ژاک دریدا نے رد تشکیل کے ذریعے متن سے مطالب کی بے دخلی کے متعد واقعات دہرائے لیکن اس نے کسی بھی متن کے حتمی معانی کا تعین نہیں کیا۔ یہ امر بلاشبہ قابل غور ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ژاک دریدا نے کسی بھی متن کے حقیقی معانی کے حتمی تعین کو یقینی نہیں بنایا؟اس کے ہاں کسی روایتی انداز میں بھی ایسانہیں کیا گیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ژاک دریدا کا خیال ہے کہ متن خود اپنے آپ کو منہدم کر سکتا ہے اور معنی خیزی کا عمل بھی بدلتے ہوئے حالات کے مطابق وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رد تشکیل میں تعمیر اور تخریب کے دونوں امکانات قریب قریب ہیں۔ لفظ کی تعمیر میں بھی تخریب کی ایک صورت پنہاں ہوتی ہے۔ رد تشکیل کا وجود ساختیات کے رد عمل کی صورت میں سامنے آیا۔ ژاک دریدا کو اس امر سے شدید اختلا ف تھا کہ ساختیاتی مفکر اس صلاحیت سے متمتع ہیں کہ وہ اس امر کی وضاحت کر سکیں کہ فطرت کس طرح لالے کی حنا بندی میں مصروف ہے۔ اس نے لفظ مرکزیت اور اس سے وابستہ معانی کے مرکز کے خیال کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے متن کے عمیق مطالعہ پر اصرار کیا تا کہ اس حقیقت کی گرہ کشائی کی جا سکے کہ ہر متن میں کس طرح مختلف معانی پو شیدہ ہوتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے متن کے یہ معانی نہ صرف نا موافق ہو سکتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ معانی متضاد بھی ہوتے ہیں۔ انھیں یکساں منطقی اکائی سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی کے مترادف ہے۔ رد تشکیل کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ متن سے معانی کے نظام  ہی کو منہدم کر دیا جائے بلکہ رد تشکیل کے ذریعے تو یہ واضح کیا جانا مقصود ہے کہ متن تو پہلے ہی سے غیر مستحکم انداز میں موجود ہے۔ اس کی حقیقی کیفیات پر پڑے تار عنکبوت کو ہٹانا ہی رد تشکیل کا مطمح نظر ہے۔

      اپنے انقلابی تصورات کی وجہ سے ژاک دریدا کا نام علمی و ادبی حلقوں میں ہمیشہ متنازعہ رہا، سبک نکتہ چینیوں سے اس کا کمال فن ہمیشہ بے نیاز رہے گا۔ اس کے خیالات کی طرح اس کی شخصیت کو بھی نزاعی بنا دیا گیا۔ کیمبرج یونیورسٹی کی طرف سے 1992میں جب اسے اعزازی ڈگری دینے کی تجویز پیش کی گئی تو اس پر اختلاف آرا میں شدت پیدا ہو گئی۔ آخر کار اس پر رائے شماری ہوئی اور کثرت رائے سے ژاک

دریدا کو اعزازی ڈگری دی گئی جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ تھا۔ ژاک دریدا نے سالہا سال تک حریت ضمیر سے جینے اور حریت فکر کا علم بلند رکھنے کے لیے جد و جہد کی۔ اس نے کبھی باب رعایت سے داخل ہونے کی کوشش نہ کی۔ اپنی خدادا صلاحیتوں سے اس نے ہر شعبے میں بڑے زوروں سے اپنے وجود کا اثبات کیا۔ اس نے لفظ مرکزیت کے تصور کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھیکنے کی مقدور بھر سعی کی۔ اس کے خیالات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے پر بھر پور توجہ دی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زندگی جوئے شیر، تیشہ و سنگ گراں کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں۔ حریت فکر کے مجاہدوں کو اپنے لہو سے ہولی کھیلنا پڑتی ہے اور دکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پر جھیلنا پڑتے ہیں۔ جو ظلم اور جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دے  فسطائی قوتیں اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیتی ہیں اس کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ جاتا ہے مگر اس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔ ان اعصاب شکن حالات میں حساس تخلیق کار کی روح زخم زخم ہو جاتی ہے۔ ژاک دریدا کے ساتھ بھی تقدیر نے عجب کھیل کھیلا۔ اس نے سیاسی، سماجی، معاشرتی زندگی کی بے چینی سے گہرے اثرات قبول کیے۔ اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو مصائب و آلام کے ایک غیر مختتم سلسلے کا سامنا ہے۔ اسے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اس دنیا کے تمام سہارے تجارتی ہیں اور صرف اپنی ٹانگیں ہی اپنا بوجھ سہارتی ہیں۔ اس لیے فرد کو مسائل عصر کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے ہوا کا رخ پہچاننے میں کو تاہی نہیں کرنی چاہیے۔ ژاک دریدا کو یہ احساس بڑی شدت سے تھا کہ دنیا نے تجربات و حوادث کی صورت میں اسے جو اثاثہ دیا ہے وہی اس کی متاع زیست ہے۔ زندگی کے اس سفر کی دھول ہی انسان کا پیرہن بنتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ژاک دریدا نے حالات کی سنگینی کے ساتھ سمجھوتہ کر لینے کے بعد ان تجربات کو اپنی ذات کا حصہ بنا لیا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا :

               I am applied Derrida.

         ژاک دریدا کے اسلوب کا نمایاں ترین پہلو اس کا پیش کردہ کائناتی نقطہ نظر ہے۔ اس کی نظر سارے جہاں کے مسائل پر تھی۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے اس نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ پوری دنیا میں اس کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور اس کے تصورات کی پذیرائی ہوئی۔ اسے جن اداروں کی طرف سے اعزازی ڈگریاں ملیں ان کے نام درج ذیل ہیں :

کیمبرج یونیورسٹی، امریکن اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنس، کولمبیا یونیورسٹی، نیو سکول فار سوشل ریسرچ، یونیورسٹی آف ایسکس، یونیورسٹی آف لیون، ولیمز کالج        سال 2003کے اختتام پر ژاک دریدا  نے اپنی ناسازیِ طبع کی شکایت کی۔ ماہرین طب نے اس کا طبی معائنہ کیا اور اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ژاک دریدا معدے کے سرطان میں مبتلا ہے۔ اس کے بعد سب تدبیریں الٹی ہو گئیں اور دوا نے بھی کچھ کام نہ کیا۔ آخر اس جان لیوا بیماری نے اس فعال تخلیق کار کا کام تمام کر دیا۔ جمعہ 8۔ اکتوبر 2004کی شام پیریسین)     Parisain) کے ہسپتال میں یہ         شعلہ جوالا ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔ اس کے ہزاروں سوگوار مداحوں نے مٹی میں یہ چراغ اس لیے رکھ دیا تا کہ زمین کے اندر بھی روشنی رہے۔

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

         ژاک دریدا نے زندگی بھر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے جد جہد کی۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا اس کے نزدیک منافقت کی دلیل ہے۔ اس کی زندگی میں کبھی تو سوز و ساز رومی کی کیفیت دکھائی دیتی ہے اور کبھی پیچ و تاب رازی کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ اس کے نظریات محض کاغذی نہیں بلکہ اس نے عملی زندگی میں بھی بے حد مؤثر اور فعال کردار ادا کیا۔ اس نے انسانی حقوق کے لیے سر گرم کردار ادا کیا۔ خاس طور پر الجیریا سے فرانس ہجرت کرنے والے تارکین وطن کے مصائب و آلام پر اس کی آواز نے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا۔ ہوائے جور وستم میں بھی اس نے رخ وفا کو بجھنے نہ دیا۔ سیاسی مسائل پر بھی اس کی گہری نظر تھی۔ اس نے اپنی دنیا آپ پیدا کی اور اس دنیا میں سے خار و خس کو تلف کرنے میں اس نے کبھی تامل نہ کیا۔ جبر کا ہر انداز مسترد کر کے حریت فکر و عمل کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہنا ژاک دریدا کا شیوہ رہا۔ 1980میں جب ژاک دریدا نے ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ مکمل کیا تو اس کی زندگی کی مصروفیات میں ایک نمایاں تبدیلی آ گئی۔ اس کا زیادہ وقت توسیعی لیکچرز دینے میں صرف ہوا۔ پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے ان کے متعدد لیکچرز براہ راست سنے۔ ژاک دریدا نے پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی لسانیات میں دلچسپی کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کے علمی سطح پر رابطے تیس سال  (ژاک دریدا کی وفات تک )تک بر قرار رہے۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے ژاک دریدا کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا :

      ’’ اتنا بڑا ماہر لسانیات، ادیب، نقاد اور فلسفی اب شاید فرانس سے کبھی نہ اٹھے۔ ژاک دریدا اپنی ذات میں ایک دبستان تھا۔ اس کی وفات سے جدید لسانیات اور فلسفہ کے ارتقا کی کوششوں کو شدید ضعف پہنچا ہے۔ رد تشکیل پر ژاک دریدا کے خیالات کی باز گشت صدیوں تک سنائی دے گی۔ وہ صحیح معنوں میں ایک انقلابی مفکر تھا جس نے تقلید کی راہ سے بچ کر اپنے لیے ایک الگ راہ نکالی۔ ‘‘

     عالمی  ادبیات سے دلچسپی رکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ مستقبل کی تنقید ژاک دریدا سے خوشہ چینی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس کے افکار کی باز گشت ہر طرف سنائی دیتی ہے۔ اس نے اپنے انفرادی اسلوب، انقلابی تصورات اور جدید ترین انداز فکر سے پوری دنیا کو چونکا دیا۔ اس کی وفات پر علمی و ادبی حلقوں کو یہ احساس شدت سے ہوا کہ اب تو ناوک فگن ہی اٹھ گیا دل پر اپنی باغیانہ روش کے تیر کون چلائے گا؟اس کا دبنگ لہجہ اور الفاظ کی ترنگ کے تمام واقعات اب تاریخ کے طوماروں میں دب جائیں گے۔ وقت کی سب سے بڑی بے رحمی اور سفاکی یہی ہے کہ یہ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ رخش عمر مسلسل رو میں ہے انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی رکاب میں پاؤں ہے۔ ژاک دریدا اب اس دنیا میں نہیں لیکن اس کی علمی اور ادبی خدمات کی وجہ سے اس کا نام لوح جہان پر ثبت رہے گا۔

٭٭٭

 

مآخذ

(1)Nicholas Royle:Jacques Derrida,Routledg London, 2003, page 65.

(2.)David Lodge :Modern Criticism and Theory, Pearson Education Singapore, 2004,Page 90

(3)Jonathan Culler: On Deconstruction Routledge, London, 1994. Page, 86

(4)Terry Eagleton :Literary theory, Minnesota Press, London, 1998, Page114

(5)Jonathon Culler : Structuralist Poetics, Routdge, London , 2002   Page 155

.( 6)Christo Butler:Post -Modernism, Oxford University Press London, 2002, Page 55

 (7)David Lodge:Modern Criticism and Theory, Pearson Education, Singapore, Page 246

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید