FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

افریقی ادب

 

 

 

                   خورشید اقبال

 (کتاب ’ایک شبِ آوارگی‘ سے علیحدہ کئے گئے مضامین)

 

 

 

 

 

افریقی ادب پر ایک اجمالی نظر

 

 

افریقی ادب کی تاریخ بہت پرانی ہے، لیکن چونکہ افریقہ جدید تہذیب و تمدن کی روشنی سے دور ایک تاریک براعظم تھا اور وہاں کے لوگ لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتے تھے۔ اس لیے وہاں کی زیادہ تر قدیم زبانیں رسم الخط سے محروم تھیں۔ یہ زبانیں صرف بولی جاتی تھیں، لکھی نہیں جاتی تھیں۔ اسی لیے افریقہ کا قدیم ادب زیادہ تر زبانی تھا۔ نوشتہ ادب یہاں سولہویں صدی کے بعد (نوآبادیاتی نظام کے بعد) وجود میں آیا۔

]یہاں یہ بات خاص طور پر ذہن میں رکھنے کی ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے دور میں ساؤتھ افریقہ اور دوسرے کئی ملکوں میں بسے سفید فاموں نے بھی ادب کی تخلیق کی، لیکن ہم اسے افریقی ادب میں شمار نہیں کریں گے۔ یہاں اس مضمون میں ہم خصوصی طور پر اس افریقی ادب کا تذکرہ کریں گے جس کی تخلیق سیاہ فام افریقیوں نے کی۔ [

افریقہ کسی ایک ملک کا نام نہیں، بلکہ براعظم کا نام ہے جس میں کل ۵۴آزاد مملکتیں ہیں اور یہاں تقریباً ایک ارب انسان بستے ہیں جو لگ بھگ ایک ہزار مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ ایسے ایک بر اعظم کے ادب پر نگاہ ڈالنے سے پہلے ایک نظر وہاں کی زبانوں پر ڈالنا لازمی ہے، تاکہ مضمون میں آگے چل کر جب ان زبانوں کے نام ہمارے سامنے آئیں تو ہم باآسانی سمجھ سکیں۔

 

                   افریقہ کی زبانیں

 

افریقہ کے مختلف حصوں میں تقریباً ۱۰۰۰ زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان میں سے بہ مشکل ۵۰ زبانیں ہی ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔ بقیہ زبانیں چھوٹے چھوٹے خطوں یا قبیلوں میں بولی جاتی ہیں۔

شمالی افریقہ کے لوگ مصری اور بربری زبانیں بولتے ہیں جو دراصل عربی اور عبرانی زبانوں کی ہی بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔ ۳۰ ق۔ م۔ میں روم کے شہنشاہ آگسٹس نے مصر و شمالی افریقہ فتح کیا تھا اور یہ خطہ ایک طویل عرصے تک رومنوں کے قبضے میں رہا۔ روم کے زوال کے بعد مصر کی سلطنت بازنطینیوں کے ہاتھ لگی۔ رومنوں اور بازنطینیوں کے دور اقتدار میں یہاں کے لوگ لاطینی اور یونانی زبانیں بولنے لگے تھے۔ دسمبر ۶۳۹ء میں حضرت عمر و بن العاصؓ کی سربراہی میں ۴۰۰۰ عربوں کی فوج مصر میں داخل ہوئی اور رومیوں اور بازنطینیوں کے ۹۷۵سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد سے شمالی افریقہ کے ایک بڑے حصے پر عربی زبان کا غلبہ ہو گیا جب کہ باقی لوگ بربر زبانیں بولتے ہیں۔ اس خطے کی ادبی زبان عربی ہے۔

مغربی افریقہ کے لوگ Bantu(بَان تُو)زبانیں بولتے ہیں۔ Bantu دراصل زبانوں کی ایک جماعت کا نام ہے جس میں تقریباً ۲۵۰ زبانیں شامل ہیں مثلاً   Kongo, Sawzi, Tumbuka, Tetela Tutubu,  Yoruba,    Meru,  Kamba,  Rawanda,اورHausaوغیرہ۔

مشرقی افریقہ کی سب سے اہم زبان Sawahili(سَواحِلی)ہے۔ یہ بھی در اصل ایک بانتُو زبان ہی ہے لیکن اس میں عربی زبان کے بے شمار الفاظ شامل ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ مخلوط زبان بن گئی ہے۔ یہ افریقہ کی سب سے بڑی بول چال کی زبان (Lingua franca)ہے۔ آٹھ ملکوں میں اس کے بولنے والوں کی تعداد تقریباً  و اسے’ آٹھ کروڑ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی دوسری زبانیں Somali اورAmharic ہیں۔

جنوبی افریقہ کی زبانوں میں بار بار چٹکاری اصوات(clicking sounds)سنائی دیتی ہیں۔ یہ خصوصیت افریقہ کے کسی دوسرے خطے کی زبانوں میں نہیں ہے۔ یہاں کی مختلف زبانوں میں !kungکو خاص اہمیت حاصل ہے۔ تقریباً ۵۰۰ء میں بان تُو زبانیں بولنے والے لوگ ساؤتھ افریقہ میں داخل ہوئے اور بان تو اور !Kung زبانوں کے ملنے سے Xhosa, Shonaاور Zuluزبانیں وجود میں آئیں جو آج بہت مقبول ہیں۔

نو آبادیاتی نظام کے بعد افریقہ کے مختلف ممالک انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے قبضے میں آ  گئے۔ ایک لمبے عرصے تک غلامی کی چکی میں پستے پستے غلاموں نے آقاؤں کی زبانیں سیکھ لیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہم ہندوستانیوں نے انگریزی سیکھی اور اپنائی۔ حالانکہ آج نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ہو چکا ہے اور افریقی ممالک آزاد ہو چکے ہیں لیکن زیادہ تر ملکوں میں مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی، فرانسیسی اور پرتگالی بھی بولی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے، اور اس میں ادب بھی تخلیق کیا جاتا ہے۔

آسانی کے لیے ہم پورے افریقی ادب کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

۱۔ زبانی ادب(Oral literature)

۲۔ نوشتہ یا تحریری ادب (Written Literature)

 

                   ۱۔ زبانی ادب(Oral Literature or Orature)

 

یہ افریقہ کا قدیم ترین ادب ہے۔ صدیوں قبل جب افریقہ کے لوگ لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتے تھے، تب بھی وہ ادب کی تخلیق کیا کرتے تھے لیکن ان کا ادب ان دنوں زبانی ہوا کرتا تھا۔ یہ بالکل اسی قسم کا ادب تھا جیسا ہم اپنی دادی یا نانی کی زبانی بچپن میں کہانیوں، پہیلیوں، لوک گیتوں اور لوریوں کی صورت میں سنا کرتے تھے۔ یہ تخلیقات ایک نسل سے دوسری نسل تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوا کرتی ہیں۔

افریقی زبانی ادب نظموں، گیتوں، پہیلیوں، ضرب الامثال، بھجنوں، دیومالائی کہانیوں، تاریخی کہانیوں اور حیوانی کہانیوں کی صورت میں تھا۔

افریقی سماج میں پیشہ ور قصہ گو بہت مقبول تھے۔ ان کا کام مختلف گاؤوں اور قبائل میں جا کر قصے سنا نا تھا۔ بدلے میں لوگ انھیں اناج اور دوسری اشیا پیش کیا کرتے تھے۔ یہ قصہ گو کہانیاں سنانے کے لیے عموماً جو طریقہ استعمال کرتے تھے اسے ہم آج کے زمانے کی اصطلاح میں Call & Response Techniqueکہتے ہیں۔ اس تکنیک کے مطابق وہ کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے سامعین سے سوال کرتے اورسامعین کے جواب کے ساتھ ساتھ کہانی آگے بڑھتی رہتی۔ آج کل یہ طریقہ اکثراساتذہ کلاس روم میں چھوٹے بچوں کو پڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

قصہ گوؤں کی ایک دوسری قِسم گا کر کہانیاں سنانے والوں کی تھی جنہیں Griotsکہا جاتا تھا۔ یہ لوگ کہانیاں سنانے کے لیے موسیقی کا استعمال کرتے تھے۔

 

افریقی زبانی ادب کی مختلف شکلیں

 

 (۱) دیو مالا ئی قصے

 

دنیا کے ہر ملک کی طرح افریقہ کا قدیم ترین ادب بھی دیو مالا پر مشتمل تھا۔ اس میں کائنات کی تخلیق، دیوی دیوتاؤں کے قصے، جانوروں اور انسانوں کی تخلیق کی کہانیاں شامل تھیں۔ دیوتاؤں کی حمد و ثنا(بھجن) اور مختلف تہواروں کے موقع پر گائے جانے والے مذہبی اور قربانی کے گیت شامل تھے۔

(ایک مثال : کائنات کی تخلیق سے متعلق، مالی کے فولانی قبیلوں کی ایک دلچسپ دیومالائی نظم کا ترجمہ انگریزی میں Ulli Beierنے The origin of life and death کے نام سے ۱۹۶۱ء میں کیا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔ (ان قبائل کا پیشہ مویشی پالنا ہے اس لیے ان کی نظروں میں دودھ کی جو حیثیت ہے وہ نظم سے ظاہر ہے۔ ڈونڈاری اس دیوتا کا نام ہے جس نے کائنات کی تخلیق کی)۔

ابتدائے آفرینش میں

دودھ کا ایک بہت بڑا قطرہ تھا

ڈونڈاری آیا اور اس نے اس سے پتھر کو پیدا کیا

پھر پتھر نے لوہے کو پیدا کیا

پھر لوہے نے آگ پیدا کی

پھر آگ نے پانی پیدا کیا

پھر پانی نے ہوا پیدا کی

تب ڈونڈاری دوسری بار آیا

اور اس نے پانچوں عناصر سے انسان کو پیدا کیا

لیکن انسان مغرور ہو گیا

تب ڈونڈاری نے بے بصری پیدا کی

لیکن جب بے بصری مغرور ہو گئی

تب ڈونڈاری نے نیند پیدا کی

لیکن جب نیند مغرور ہو گئی

تب ڈونڈاری نے پریشانی پیدا کی

لیکن جب پریشانی مغرور ہو گئی

تب ڈونڈاری نے موت کو پیدا کیا

لیکن جب موت بھی مغرور ہو گئی

تب ڈونڈاری تیسری بار دنیا میں آیا

اس بار وہ گوینو کے اوتار میں آیا، جو لافانی تھا

اور گوینو نے موت کو شکست دی

 

 (۲) نظمیں

 

افریقی لوگوں کی زندگی کا ہر موقع گیتوں بھرا تھا۔ کوئی چرواہا اپنے بیل کے لیے گاتا تھا : ’’میرے بیل کا رنگ طوفان میں چھائے بادل کی طرح سیاہ ہے ‘‘ (دِنکا قبیلے کا گیت)، کوئی نوجوان سپاہی اپنی نئی نویلی دلہن کے لیے گاتا تھا ’’نہ اس کی ایڑی کھردری ہے اور نہ ہی ہتھیلی، یہ تو چھونے میں اتنی چکنی ہے جیسے کلیجی ‘‘ (فولانی قبیلے کا گیت)۔ ان کی تعریفی نظمیں نہ صرف دیوتاؤں کے لیے ہوا کرتی تھیں بلکہ انسانوں، جانوروں، درختوں اور مقامات کے لیے بھی ہوا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر درج ذیل نظم زولو قبیلے کے عظیم سردار شاکا کی شان میں تخلیق کی گئی۔

وہ شاکا ہے، جسے ہلا یا نہیں جا سکتا

بادلوں کی طرح گرجنے والا، مینزی کا بیٹا

وہ ایسا پرندہ ہے جو دوسرے پرندوں کا شکار کرتا ہے

اس کی جنگی کلہاڑی دوسری جنگی کلہاڑیوں سے بہتر ہے

( زولو سے انگریزی ترجمہ :Es’kia Mphahlele )

افریقی زبانی ادب میں نظموں کی بہت ساری قسمیں رائج تھیں۔ مختلف قبائل میں ان کی مختلف ہیئتیں تھیں اور مختلف نام تھے۔ مثلاً یوروبا قبائل میں نظموں کی مندرجہ ذیل قسمیں رائج تھیں۔

orin (گیت)، oriki (شخصیات سے متعلق تعریفی نظمیں )، orile (سلسلۂ نسب بیان کرنے والی نظمیں )، ijala (شکاریوں کے گیت)، ese (پیش گوئیوں والی نظمیں )، iwi (سوانگ بھرنے والوں کے گیت )، ofo ( منتروں والا گیت)، rara (فی البدیہہ نظمیں اور گیت)

 

(۳) داستانیں

 

یہ اکثر کسی سوپر ہیرو، عظیم فاتح یا نجات دہندہ سے متعلق طویل قصوں پر مشتمل ہوا کرتی تھیں۔ اس کی چند مشہور مثالیں مندرجہ ذیل ہیں :

(الف) ]مغربی افریقہ[   سون جاہ توکی داستان : سون جاہ تو عظیم مالی سلطنت کا بانی تھا۔ مالی کے لوگ اسے مالی کا ہیرو اور نجات دہندہ خیال کرتے تھے۔

(ب)    ]قدیم گھانا سلطنت [ دِ نگا کی داستان

(ج)   ] ایتھوپیا [   کیبرا نیگاسٹ ( بادشاہوں کی داستان)

(د)  ]کانگو [   مووِنڈو کی داستان

 

 (۴)   لوک کتھائیں

 

ان قصوں کے موضوعات زیادہ تر اصلاحی ہوا کرتے تھے جس کے ذریعہ سماجی اور شخصی سطح پر اصلاحی اقدار کے فروغ کا کام لیا جاتا تھا اور غیر سماجی عناصر کی مذمت کی جاتی تھی۔ لوک کہانیوں کی کئی قسمیں ہیں۔

(الف)   عیّاروں کی کہانیاں  (Trickster stories)  :  حیوانی کرداروں والی ان کہانیوں میں ایک ننھا سا کمزور جانور اپنی چالاکی سے بڑے اور موذی جانور کو شکست دے کر اپنی جان بچا نے میں کامیاب رہتا تھا۔ (اردو میں بھی ایسے قصے مشہور ہیں :مثال کے طور پر ایسا ہی ایک قصہ ہم سب نے اپنے بچپن میں پڑھا یا سنا ہے کہ کس طرح ایک چالاک خرگوش شیر کو کنویں میں گرا کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے)۔

ایسے کرداروں والی جو کہانیاں افریقہ میں مقبول ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

(i) گھانا کے اشانتی قبائل میں اَنانسی نامی ایک عقلمند مکڑی کی کہانیاں مشہور ہیں۔

(ii)  نائجریا کے یوروبا قبائل میں اِجاپا نامی ایک کچھوا کی کہانیاں مقبول ہیں۔

(iii)  مشرقی اور وسطی افریقہ کے علاقوں میں سِنگُورُو نامی ایک خرگوش کے کارنامے لوگ بڑے شوق سے سنتے ہیں۔

ایسے ہی بے شمار حیوانی کرداروں پر مشتمل کہانیاں افریقہ کے مختلف خطوں میں لوگ یاد رکھتے اور بڑے شوق سے سنتے اور سنایا کرتے ہیں۔

(ب) بچ نکلنے کی کہانیاں  (Escape stories)  :  یہ ان عقلمندوں کی کہانیاں ہیں جو بہت مشکل حالات میں اپنی جان بچانے میں کامیاب رہتے ہیں۔

مثلاً ایک کہانی میں ایک ظالم بادشاہ چند لوگوں کو ایک عمارت کی تعمیر کا حکم دیتا ہے لیکن شرط لگا دیتا ہے کہ عمارت کی تعمیر اوپر سے شروع کی جائے یعنی چھت پہلے بنائی جائے اور بنیاد سب سے آخر میں۔ ناکامی کی صورت میں انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ بادشاہ درحقیقت ان لوگوں کو اسی بہانے قتل کرنا چاہتا تھا، لیکن ان میں ایک عقلمند آدمی موجود تھا جس نے بادشاہ کو خبر دی کہ عمارت کی تعمیر کی ساری تیاریاں ہو چکی ہیں، لیکن ہمارے قبائلی رواج کے مطابق آپ جب تک اپنے ہاتھوں سے سنگ بنیاد نہیں رکھیں گے، ہم کام شروع نہیں کر پائیں گے۔ بادشاہ شرمندہ ہو جاتا ہے اور ان لوگوں کو بخش دیتا ہے۔

(ج)  ذوالجہتی کہانیاں  (Dilemma stories)  :  لوک کہانیوں کی یہ تیسری قسم ہے۔ اس میں ایسے قصے شامل ہیں جن میں گو مگو کی کیفیت ہوتی ہے اور کہانی کا فیصلہ سامعین پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

ایک مثال : ]  سینیگال کے Wolofقبائل کی کہانی[

تین بھائی ایک اجنبی ملک میں گئے۔ وہاں تینوں نے ایک ہی لڑکی سے شادی کر لی۔ وہ باری باری اس کے ساتھ راتیں گزارتے تھے۔ ایک رات لڑکی کو ایک ڈاکو نے قتل کر دیا۔ قتل کا شبہ بڑے بھائی پر کیا گیا جو اس رات لڑکی کے ساتھ تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اسے بھی قتل کر دیا جائے۔ بڑے بھائی نے درخواست کی مرنے سے قبل اسے اپنے بوڑھے باپ سے آخری بار ملنے کی اجازت دی جائے۔ اسے اجازت دے دی گئی۔ جب اس کے لوٹنے میں بہت زیادہ تاخیر ہوئی تو لوگوں نے سوچا کہ وہ بھاگ گیا ہے اور وہ اب نہیں آئے گا۔ تبھی دوسرے بھائی نے اس کی جگہ خود کو پیش کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ جب اسے قتل کرنے کی تیاری ہو رہی تھی، تبھی تیسرے بھائی نے کہا کہ اصل قاتل وہ ہے، اسے سزا دی جائے، اور اس کے بھائی کو چھوڑ دیا جائے۔ جب لوگ تیسرے بھائی کو قتل کرنے ہی جارہے تھے کہ بڑا بھائی واپس آگیا اور اس نے خود کو قتل ہونے کے لیے پیش کر دیا۔

یہاں تک کہانی سنانے کے بعد قصہ گو سامعین سے سوال کرتا ہے کہ ان میں سے کون سا بھائی سب سے اچھا تھا؟

(۵)  کہاوتیں اور پَہیلیاں : افریقی زبانی ادب میں ان کی بہت اہمیت ہے۔ افریقی سماج میں کسی بھی تقریر یا عوامی خطاب یا بحث کی کامیابی کا دارومدار زیادہ تر کہاوتوں کے استعمال پر ہوتا ہے۔ کہاوتوں میں اکثر عقل و دانش کی باتیں ہوا کرتی ہیں۔ اس لیے مقرر، ان کی مدد سے اپنی بات میں زور پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کو اسے ماننے پر مجبور کرتے ہیں۔

ایک مثال : افریقی کہاوت(اُم بُنڈُو زبان میں ) :

Etako lia muine omangu, utima ka wa muine omangu.

ترجمہ : جسم کی تشفی بڑی آسان ہے لیکن دل کی نہیں۔

امریکی ماہر لسانیات البرٹ شیون نے ۱۹۸۱ء میں Swahili Proverbsکے نام سے مشرقی افریقہ کی کہاوتوں کا انتخاب شائع کیا تھا۔

پہیلیاں بھی افریقی زبانی ادب میں کافی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ عوام میں بے حد مقبول ہیں۔ سننے والے بڑی دلجمعی سے انھیں حل کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔

مثالیں :

وہ کون سی چیز ہے جو کھڑی ہو کر گرتی ہے اور لیٹ کر دوڑتی ہے؟

جواب : بارش ]کانگو کی پہیلی[

وہ کون ہے جس کا گھر مہمانوں کے لیے چھوٹا ہوتا ہے؟

جواب : کچھوا ] نائجریا کے یوروبا قبائل کی پہیلی]

Brian Swann نے The House With No Doorنامی کتاب میں ڈھیر ساری افریقی پہیلیوں کو یکجا کیا ہے۔

(۶)   جادو کے منتر: یہ عموماً ایسی نظمیں ہوتی تھیں جن میں شامل الفاظ کے معنی مشکوک اور مفہوم بے ربط سا ہوا کرتا تھا۔ انھیں بالکل صحیح انداز اور تلفظ کے ساتھ پڑھنا لازمی تھا۔ افریقیوں کا عام خیال یہ تھا کہ ان منتروں میں فائدہ یا نقصان پہنچانے کی قوت ہے لیکن اس کے لیے اس کا صحیح طریقے سے پڑھنا ضروری ہے۔ منتروں کا استعمال دیوتاؤں کی پوجا اور قربانیوں کے موقع پر کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ شادی بیاہ کے موقعوں پر، بیماروں کو اچھا کرنے کے لیے اور دشمنوں کو تباہ کرنے کے لیے بھی منتروں کو پڑھا جاتا تھا۔

 

زمانۂ حال میں افریقی زبانی ادب کی حیثیت

 

افریقی زبانی ادب بھلے ہی افریقہ کے زمانۂ جاہلیت کی نشانی ہو لیکن اس کی اہمیت آج بھی بر قرار ہے۔ گزشتہ کئی صدیوں میں افریقہ کے حالات میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں لیکن افریقی لوگ آج بھی اپنے زبانی ادب کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ قبائلی اور دیہاتی لوگوں میں یہ ادب آج بھی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پڑھے لکھے لوگ بھی کسی نہ کسی حد تک زبانی روایات سے جڑے ہوئے ہیں۔ دور حاضر کے مصنفین ان روایات کا استعمال کر کے اپنی تحریروں کو خالص افریقی رنگ عطا کر تے ہیں جس سے وہ یوروپی ادب سے الگ ایک ممتاز حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔

وہ زبانی ادب جو دیوتاؤں کی پوجا اور عبادات سے متعلق تھا اسے اب لوگ بھلاتے جا رہے ہیں لیکن توصیفی نظمیں اب نئے طریقوں سے استعمال کی جا رہی ہیں۔ انتخابات کے موقعوں پر یہ نظمیں لیڈروں کے لیے گائی جاتی ہیں اور عام ووٹر ان سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ مخالفین کی تضحیک کے لیے بھی ان کا استعمال ہوتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم نے افریقیوں کے جذبۂ قومیت کو ابھارا ہے اور وہ اب اپنی وراثت کی حفاظت میں جٹ گئے ہیں۔ بے شمار مصنفین، مولفین، اسکالرز اور یونیورسیٹیاں افریقی زبانی ادب  کواکٹھا کرنے کام میں لگی ہوئی ہیں۔ بہت جلد اس کا ایک بڑا حصہ جمع کر کے مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ کر دیا جائے گا جس سے یہ ادب ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے گا۔

 

                   ۲۔ نوِشتہ ادب (Written Literature)

 

افریقہ کے لوگ حروف سے ناواقف تھے۔ وہ اپنی زبانیں بول تو سکتے تھے لیکن انھیں لکھ نہیں سکتے تھے۔ صرفHorn of Africaکے ممالک مثلاً صومالیہ، ایتھوپیا، ایریٹیریا، اور جی باؤٹی اس سے مستثنیٰ تھے جہاں ۲۰۰۰سال سے Ge’ezنامی زبان میں لکھنے کا رواج تھا۔ ان کا رسم الخط Fidaal یا Fidelکہلاتا ہے اور آج یہ Amharic اورTigrinyزبانوں کو لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جب افریقہ میں مسلمان داخل ہوئے تو ان کے ساتھ ہی عربی زبان داخل ہوئی۔ ساتویں صدی عیسوی کے بعد سے افریقی شمالی ساحلی ملکوں پر اسلامی ادب، زبان و کلچر کی چھاپ صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ عربی زبان کو سواحلی زبان کا رسم الخط قرار دیا گیا جو آج شمالی اور وسطی افریقہ کے لیے رابطے کی زبان (Lingua franca)کی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری طرف صحارا کے جنوبی خطوں میں عیسائی مشنریوں کے ذریعہ تعلیم کی روشنی پھیلنی شروع ہوئی۔ ان لوگوں نے بہت سارے اسکول کھولے۔ ان کا اصل مقصد مقامی لوگوں کو اپنے کاموں میں مدد کے لیے تربیت دینی تھی، لیکن بعد میں یہی لوگ یوروپ کی نوآبادیوں کے قیام کے لیے مفید ثابت ہوئے۔

جن علاقوں میں مسلمانوں نے علم کی روشنی پھیلائی وہاں زیادہ تر عربی یا مقامی افریقی زبان میں ادب کی تخلیق ہوئی اور وہ علاقے جہاں عیسائی مشنریوں نے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا تھا وہاں زیادہ تر انگریزی، فرانسیسی یا پرتگالی زبانوں میں ادب لکھا جانے لگا۔

 

افریقہ کے نوشتہ ادب کو ہم تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

۱۔ نوآبادیاتی نظام سے قبل کا ادب

۲۔ نوآبادیاتی نظام کے دوران کا ادب

۳۔ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد کا ادب

 

۱۔ نو آبادیاتی نظام سے قبل کا ادب(Precolonial Literature)

 

نو آبادیاتی نظام کے قائم ہونے سے قبل ہی شمالی افریقہ، مغربی افریقہ کے ساحلی علاقے اور سواحلی خطے میں کافی ادب لکھا جانے لگا تھا۔ اس زمانے کے بے شمار مسودے اور قلمی نسخے دستیاب ہوئے ہیں۔ صرف ٹمبکٹو کی لائبریریوں میں ہی تقریباً تین لاکھ سے زیادہ قلمی نسخے موجود ہیں۔ یہ نسخے زیادہ تر عربی زبان میں لکھے ہوئے ہیں لیکن کچھ کچھ مقامی زبانوں جیسے Peulیا Songhaiوغیرہ میں بھی ہیں۔ یہ قلمی نسخے مختلف موضوعات پر محیط ہیں جیسے شاعری، تاریخ، عقائد، سیاست اور فلسفہ وغیرہ۔ سواحلی ادب پر گہری اسلامی چھاپ موجود ہے۔ Utendi wa Tambuka (تمبوکا کی کہانی) اس زمانے کا سب سے قدیم اور سب سے مشہور قلمی نسخہ ہے۔

 

۲۔ نو آبادیاتی نظام کے دوران کا ادب (Colonial Literature)

 

سولہویں صدی کے بعد نوآبادیاتی دور میں افریقی ادب مغربی دنیا کے سامنے آیا۔ اس دور کی سب سے پہلی اور مشہور ادبی تخلیق The Interesting Narrative of the Life of Olaudah Equianoتھی جو ۱۷۸۹ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ دراصل ایک افریقی غلامOlaudah Equiano کی آپ بیتی ہے۔ اس میں ایکوینو نے لکھا ہے کہ بچپن میں کیسے اسے نائجریا میں واقع اس کے گاؤں Essaka سے اس کی بہن کے ساتھ اغوا کیا گیا اور پھر دونوں کو جدا کر کے فروخت کر دیا گیا۔ برسوں تک وہ مختلف آقاؤں کے پاس رہا اور اس دوران اس نے بے انتہا مظالم جھیلے۔ اس دوران ایک بار وہ اپنی بہن سے بھی ملا لیکن افسوس کہ انھیں دوبارہ جدا کر دیا گیا اور اس کے بعد اس نے اپنی بہن کو پھر کبھی نہیں دیکھا۔ یہ ایکوینو کی دل دہلا دینے والی داستان ہی تھی جس نے برٹش حکومت کو ۱۸۰۷ء میں Slave Trade Actکے ذریعہ غلاموں کی تجارت پر پابندی عائد کر نے پر مجبور کیا۔

نو آبادیاتی دور میں افریقہ کے لوگ مغربی زبانوں سے واقف ہوئے اور ان زبانوں میں لکھنے لگے۔ ۱۹۱۱ ء میں افریقہ کا پہلا انگلش ناول Ethopia Unbound : Studies in Race Emancipationشائع ہوا۔ یہ ایک کہانی کے ساتھ ساتھ ایک زبردست احتجاج بھی تھی۔ اس کی اشاعت اور اس کے تجزئے افریقی ادب میں کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی دور میں افریقی ڈراموں کی بھی شروعات ہوئی۔ ساؤتھ افریقہ کے Herbert Issacاور Ernest Dholmoنے انگریزی زبان میں پہلے افریقی ڈرامے The Girl Who Killed To Save (1935) کی تخلیق کی۔

۱۹۶۲ء میں کینیا کے Ngugi wa Thiongoنے پہلا مشرقی افریقی ڈرامہ The Black Hermitلکھا جو افریقی قبائلی عصبیت پر مبنی تھا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد کے نو آبادیاتی ادب کے موضوعات عام طور پر آزادی، خود مختاری اور خاص طور سے فرانسیسی نو آبادیوں میں چلنے والی Negritudeتحریک وغیرہ تھے۔ Negritude تحریک کے ایک رہنما، شاعر اور سینیگال کے سابق صدر Leopold Sedar Senghorنے ۱۹۴۸ء میں افریقیوں کے ذریعہ فرانسیسی زبان میں لکھی نظموں کا مجموعہ شائع کیا جس کا عنوان تھا :Anthologie de la nouvelle poésie nègre et malgache de langue française۔ اس دور کے افریقی ادیبوں اور شاعروں کو ان کی تحریروں کی بنا پر بے حساب مشکلات سے گذرنا پڑتا تھا۔ نسلی منافرت کی بنیاد پر ان کی تحریروں پر پابندی لگا دی جاتی تھی۔ انھیں زبردستی جنگ کی آگ میں جھونک دیا جاتا تھا۔ کئی مثالیں موجود ہیں :

Christopher Okigbo کو ۱۹۶۰ء میں بیافرا کی جنگ میں نائجریا ئی تحریک کے خلاف لڑنے پر مجبور کیا گیا جس میں اس کی موت ہوئی۔ Mongane Wally Serote  کو ساؤتھ افریقہ کے Terrorist Act No. 83 کے تحت بلا مقدمہ چلائے جیل میں بند کر دیا گیا۔ ساؤتھ افریقہ کے ہی Arthur Norje  کو خود کشی کر نی پڑی۔ مالاوی کے Jack Mapanje کو ایک شراب خانے میں حکومت کے خلاف محض ایک جملہ کہہ دے دینے کی پاداش میں جیل میں بند کر دیا گیا اور Ken Saro-Wiwa کو gallowsنامی پھانسی کے پھندے میں پھانسی دے دی گئی۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ نوآبادیاتی دور میں مظالم کا ایک سلسلہ تھا جو شعرا ادبا کو جھیلنا پڑا۔

 

۳۔ نو آبادیاتی نظام کے بعد کا ادب (Postcolonial Literature)

 

۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء کے دوران زیادہ تر افریقی ممالک نے آزادی حاصل کر لی۔ جس کے بعد وہاں تعلیمی انقلاب آیا۔ جس کاسیدھا اثر وہاں کے ادب پر بھی پڑا۔ ادب کی تخلیق کرنے والوں کی تعداد بڑھی اور دنیا میں اسے ایک پہچان ملنے لگی۔ افریقی ادیب و شاعر انگریزی، فرنچ، پرتگالی اور مختلف مقامی زبانوں میں لکھنے لگے۔

اس دور میں نیا نظام زندگی رائج ہو رہا تھا، پرانے اقدار مٹ رہے تھے۔ تعلیمی اور سماجی پس منظر بدل رہا تھا نتیجے میں دور جہالت کی فرسودہ رسمیں ختم ہو رہی تھیں۔ ایسے میں پرانی اور نئی قدروں کے درمیان تصادم ناگزیر تھا۔ وہاں بھی ہوا۔ Ali A. Mazrui  نے ان دنوں کے افریقی ادب میں سات ایسے موضوعات کی شناخت کی ہے۔

(۱) افریقہ کا ماضی اور حال (۲) روایت اور جدیدیت (۳) افریقیت اور غیر افریقیت (۴) شخصیت اورسماج (۵) اشتراکیت اورسرمایہ دارانہ نظام (۶) افریقیت اورانسانیت اور       (۷) ارتقاء اور خوداعتمادی

آج کے افریقی ادب کے اور بھی موضوعات ہیں جیسے corruption، نئے نئے آزاد ہونے والے ممالک میں مالی بد انتظامی، عورتوں کے حقوق وغیرہ۔

تحریری زبان کی بنیاد پر افریقہ کے نوشتہ ادب کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

(۱) افریقی زبانوں میں نوشتہ ادب

(۲) یوروپی زبانوں میں زبانوں میں نوشتہ ادب

 

افریقی زبانوں میں نوشتہ ادب

   (Literature written in African languages)  

 

یوروپی زبانوں کے مقابلے میں افریقہ کی مقامی زبانوں میں لکھے گئے ادب کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔ اس کی وجہ سفید فاموں کی نسلی منافرت تھی۔ یوروپی زبانوں کو ہمیشہ مقامی زبانوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بہت کم نقاد اور محقق افریقی زبانیں سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود افریقی اسکالرز بھی زیادہ تر اپنی مقامی زبان کے علاوہ دوسری افریقی زبانیں نہیں جانتے۔

یوں تو افریقی زبانیں بے شمار ہیں اور ان میں سے بہت ساری زبانوں میں ادب لکھا جا رہا ہے لیکن جو زبانیں ادبی حیثیت رکھتی ہیں وہ درج ذیل ہیں :

مغربی افریقی ممالک میں Yoruba اورHausa،  مشرقی افریقی ممالک میں Amheric،   SomaliاورSwahili  زبانیں اور جنوبی افریقی ممالک میں Sotho،  Xhosa، Shona   اورZulu   وغیرہ زبانیں۔

مغربی افریقہ  :

Hausa  زبان میں نوشتہ افریقی ا دب  :

Hausa  دراصل شمالی نائجریا اور نائجر کی زبان ہے۔ اس بنیاد پر افریقہ کا یہ خطہ Hausalandکہلاتا ہے۔ تقریباً پندرہویں صدی سے ہی اس زبان میں لکھنے کی روایت جاری ہے۔ انیسویں صدی تک اس زبان کو لکھنے کے لیے عربی کا رسم الخط استعمال کیا جاتا رہا لیکن بیسویں صدی کے اوائل سے ہی رومن رسم الخط کا استعمال ہونے لگا۔

ہاؤسازبان میں ادبی تخلیقات کی اشاعت کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ اس زبان میں پہلی تخلیق Wakar Mohammadu [1854](محمدؐ کا گیت) ہے۔ یہ دراصل Asim Degalنامی شاعر کی پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی شان میں کہی گئی نعت ہے۔

اٹھارہویں صدی کے اواخر سے انیسویں صدی کے آغاز کے برسوں کے درمیان مشہور اسلامی مجاہد اور مصلح Usman dan Fodioنے ہاؤسا شاعری میں بہت اہم کردار نبھایا۔ اس نے عربی اور ہاؤسا زبانوں میں شاعری کی اور اس کا استعمال اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لیے کیا۔ دیگر صوفیائے کرام نے بھی اسی مقصد کے تحت اس زبان میں شاعری کی۔ اس زمانے کی شاعری زیادہ تر نعتِ پاک، اخلاقی نظموں، سیکولر لیڈروں کے لیے لکھی گئی توصیفی نظموں اور دیگر اہم واقعات پر مبنی ہوا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں شاعری کو عوامی، محفلوں میں پڑھنے کا رواج تھا۔ خاص طور سے اندھے فقیر اکثر انھیں گا کر بھیک مانگا کرتے تھے۔

بیسویں صدی کے آغاز کا سب سے بڑا شاعر الحاجی عمرو تھا۔ اس کی مشہور نظم  Zuwan  nasara  میں انگریزوں کی آمد سے مقامی لوگوں کو درپیش مشکلات کا ذکر ہے۔ مشہور سیاسی رہنما Sa’adu Zungur  نے بہت ساری نظمیں لکھیں جن میں Wakar maraba da soja [1957] بہت مقبول ہوئی۔ اس نظم میں برما اور ہندوستان کے محاذوں سے واپس لوٹنے والے سپاہیوں کو خوش آمدید کہا گیا تھا۔ دوسرے شعرا جنھوں نے عصری موضوعات پر مبنی نظمیں لکھیں وہ تھے Mudi Sipikin   اور Hamisa Yadudu Funtuwa تھے۔ ان میں سے Funtuwaنے خاص طور سے سماجی برائیوں جیسے شراب نوشی، جسم فروشی وغیرہ کے خلاف نظمیں لکھیں مثلاً Wakar uwar mugu [1957]جسم فروشی کے خلاف تھی۔ Garba Gwanduنے Julius Nyerere [1971] جیسی نظموں میں بین الاقوامی سیاست کو اپنا موضوع بنایا۔ Akilu Aliyuنے نائجریا میں پھوٹ پڑنے والی خانہ جنگی اور دیگر سیاسی حالات پر نظمیں لکھیں۔

ہاؤسا میں ناول نگاری بہت بعد میں شروع ہوئی۔ ۱۹۳۳ء میں ناول نگاری کا ایک مقابلہ منعقد ہوا جس کے نتیجے میں کئی اچھے ناول منظر عام پر آئے۔ ناولوں کے موضوعات زیادہ تر روایتی افریقی زندگی یا ماضی کی اہم شخصیات کے حالات زندگی پر مبنی تھے۔ سیاسی کرپشن بھی آج کے ناولوں کا اہم موضوع ہے مثلاً Sulaiman Ibrahim Katsinoکا ناول Tarmin danya [1983] نوجوانوں میں سائنس فکشن خاص طور سے بے حد مقبول ہے۔ Umrau Denboکا ناول Tauraruwa maiwutsiya [1969]  اس کی بہترین مثال ہے۔

ہاؤسا زبان میں سوانح حیات اورسفرنامے بھی تصنیف کیے گئے مثال کے طور پر Aminu Kanoکا سفرنامۂ یوروپ Motsi ya fizama [1955]۔

Yoruba  زبان میں نوشتہ افریقی ا دب  :

Yorubaزبان افریقہ کے نائجریا اور بینین میں بولی جاتی ہے اور یہ علاقے اسی مناسبت سے Yorubalandکہلاتے ہیں۔ اس زبان کا رسم الخط ۱۹۰۰ء میں  لاگوس میں واقع چرچ مشنری سوسائٹی کے Bishop Ajayi Crowtherنے ایجاد کیا تھا۔ اسی سال بائبل کا ترجمہ یوروبا میں کیا گیا۔

۱۹۱۱ء  میں انگریز مصنفJohn Bunyan  کی مشہور کتابThe Pilgrim’s Progress کا ترجمہ یوروبا میں کیا گیا جس نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی۔

مشہور شاعر J. Sobowale Sowandeکی نظموں کا انتخاب Iwe ekini sobo   یوروبا زبان میں نظموں کا پہلا مجموعہ تھا جو ۱۹۰۵ء میں شائع ہوا تھا۔ Sowandeکے اس کے بعد ۱۹۳۴ء تک یکے بعد دیگرے کئی مجموعے شائع ہوئے۔

اس زبان میں پہلا ناول   Sgilola eleyinju egu،  ۱۹۲۹ء میں شائع ہوا۔  یہ ناول پہلے پہل لاگوس، نائجریا کے اخبارAkedo Ekoمیں قسط وار شائع ہوا کرتا تھا۔

یوروبازبان کا سب سے مشہور ادیب Daniel Olorunfemi Fagunwa ہے۔ اس نے اپنی تحریروں کو عیسائیت کی حمایت کے لیے استعمال کیا۔ اس کا پہلا ناول Ogboju odeninu igbo irunmale   ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا جس کا انگریزی ترجمہ نوبل انعام یافتہ ادیب Wole Soyinka  نے ۱۹۶۸ ء میں  The Forest Of A Thousand Deamons   کے نام سے کیا تھا۔

Fagunwaکا دوسرا ناول   Igbo Olodumare [1949] تھا۔ اس کے بعد اس نے تین اور ناول لکھے۔ اس کے ناولوں میں تخیلاتی، مہماتی کہانیاں ہوا کرتی تھیں جن میں آسیب، روحیں، عفریت، دیوتا اور کالا جادو وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ اسی لیے عوام میں بے حد مقبول تھے۔

۱۹۶۰ء میں نائجریا کی آزادی کے موقع پر ناول نگاری کا ایک مقابلہ منعقد ہوا جس میں  Femi Jeboda  کے ناول Olowolaiyemoکو اوّل انعام ملا۔ اس ناول میں یوروبا لینڈ کی شہری زندگی کے مسائل کو موضوع بنایا گیا تھا۔ Afolabi Olabimtan نے بھی یوروبالینڈ کے لوگوں کی عام زندگی کے مسائل پر مبنی کئی ناول لکھے۔ اس کا پہلا ناول Kekere Ekun [1967]  تھا جس میں ایک زیادہ شادیوں والے ایک خاندان کی کہانی تھے۔ دوسرے ناول  Ayanmo [1973]میں گاؤں کے ایک اسکول ماسٹر کی کہانی پیش کی گئی تھی جو اپنی لگن اور محنت کی وجہ سے ڈاکٹر بن جاتا ہے جب کہ کئی خوبصورت عورتیں اسے اس مقصد کے حصول ے بھٹکانے کے لیے موجود ہوتی ہیں، پھر بھی وہ اپنی دھن میں لگا رہتا ہے۔ ایک اور کامیاب مصنف Akinwunmi Isolaہے جس کے ناول O Le Ku [1974]نے بہت مقبولیت حاصل کی۔

مشرقی افریقہ  :

Ge’ez  زبان میں نوشتہ افریقی ا دب  :

ایتھوپیا کی سب سے قدیم ادبی زبان Ge’ezہے جس کا تعلق قدیم عربی زبان سے ہے۔ چوتھی صدی عیسوی سے یہی زبان عیسائی مذہبی دستاویزات کی قلمبندی کے لیے استعمال کی جاتی رہی تھی۔ انیسویں صدی تک یہ زبان استعمال میں رہی۔ بہت ساری عیسائی مذہبی نظمیں بھی اس زبان میں لکھی گئیں۔

Amharic زبان میں نوشتہ افریقی ا دب  :

Amharicزبان آج پورے ایتھوپیا میں بولی جاتی ہے۔ اور یہ وہاں کی سرکاری زبان ہے۔ یہ ایک جدید زبان ہے جوGe’ezکے بعد بیسویں صدی میں پورے طور پر رائج ہوئی۔ اس زبان میں ادب کی تخلیق کا سلسلہ بھی بیسویں صدی میں شروع ہوا۔ ویسے اس زبان میں سترہویں صدی کے گمنام ادیبوں کی تحریر شدہ  چند دستاویزات ملی ہیں جیسے  Mazmura Dawit  اور Waddasee Maryam  وغیرہ۔

Amharicزبان کا پہلا ادیب Blattengeta Hiruy Walda Sillaseتھا جس نے دو ناول لکھے جن میں نئی نسل کو موضوع بنایا گیا تھا جو یوروپی طرز کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد پرانی روایات کا مذاق اڑاتی ہے۔ ایک اور کامیاب ادیب   Afawarq Gabra Iyasusتھاجس کا پہلا ناول Libb Wallad Tarlk  ۱۹۰۸ء میں شائع ہوا۔

۱۹۳۶ء  میں ایتھوپیا پر اٹلی کے قبضے کے بعد Amharicادب کو بہت نقصان پہنچا، لیکن اس دوران بھی ادبی تخلیقات کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح جاری رہا۔ ۴۹۔ ۱۹۴۸ء میں Girmacchaw Takla Hawaryat کا ناول  Arayaشائع ہوا۔ اس ناول کا ہیرو جب جدید مغربی تعلیم حاصل کر کے اپنے گاؤں لوٹتا ہے اور وہاں جدید تہذیب کی روشنی پھیلانا چاہتا ہے تو کچھ لوگ حکومتی سطح پر اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ Abbe Gubaññaکے ناول And Lannatu [1967]  اور Birhanu Zarihun کے ناول [1966]  Ya-Tewodros Inba میں عظیم قومی ہیرو، انیسویں صدی کے عظیم شہنشاہ  Tewodros II  کی کہانی بیان کی گئی تھی۔

سماجی مسائل کے موضوع پر بھی بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر Taddasa Libanکا افسانہAbbonas جو اس کے افسانوی مجموعے Lelaw Mangad [1959]میں شامل تھا، جسم فروشی کے پیشے کے خلاف تھا۔ Innanou Aggonafir نے ایک ناول Satinna Ahanلکھا جس میں سماجی نامساعد حالات کا شکار ایک عورت کی درد بھری کہانی تھی۔ Haddis Alamayyahuنے Wanjalannak Danna [1974] نامی ناول میں شہنشاہ  Haile Selassie I   کے اہلکاروں کے کرپشن کا ذکر کیا ہے۔ جب کہ Fiqir Iska Maqabir [1958]  مختلف سماجی حالات سے وابستہ دو  پریمیوں کی داستان ہے۔

نئے اور پرانے اقدار کے درمیان تصادم آج کے ایتھوپیائی افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کا خاص موضوع ہے۔ Taddasa Libanکا افسانہ Yataba¡¡asa Fireاس کی بہترین مثال ہے جو اس کے افسانوی مجموعے Maskaramمیں شامل ہے۔

سوشلسٹ تحریک کی حمایت میں Zarihun  Bihanu  نےMaibalکے نام سے تین ناولوں پر مشتمل ایک Trilogyلکھی جس میں انقلاب کے فوائد کا تذکرہ کیا گیا تھا۔

صومالی زبان میں نوشتہ افریقی ا دب  :

صومالیہ میں زبانی ادب کی روایت بہت پرانی ہے جو آج بھی تحریری ادب پر اثر انداز ہے۔ تحریر کے لیے صومالیہ کے لوگ صدیوں عربی زبان کا استعمال کرتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد صومالی رسم الخط کی طرف توجہ دی گئی اور آخر کار ۱۹۷۳ء میں صومالی حکومت نے رومن حروف تہجی پر مبنی صومالی رسم الخط کو سرکاری طور پر رائج کیا۔

۱۹۶۰ء سے ہی دو رسالے  Sahan  ا ور  Horseed  صومالی زبان میں شائع ہو رہے ہیں جنھوں نے اس زبان کی اشاعت میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ پہلا شاعر جس نے صومالی زبان میں شاعری کی اس کا نام  Cali Xuseen Xirsi  تھا۔ اس کی دو نظمیں  Sahan  ا ور  Horseed  میں شائع ہوئیں۔ اس کی نظموں کے موضوع عموماً سماجی اور سیاسی مسائل ہوا کرتے تھے۔ مثلاً اس نے اپنی ایک نظم میں ملک میں غیر ملکی کاروں کی برآمد کے خلاف احتجاج کیا تھا کیونکہ ملک کی زیادہ تر آبادی شدید ترین مفلسی کا شکار تھی۔

صومالیہ میں آج بھی تحریری ادب کے مقابلے زبانی ادب زیادہ مقبول ہے۔ نظمیں لکھی جاتی ہیں لیکن زیادہ تر انھیں ریڈیو پر پڑھا جاتا ہے یا آڈیو کیسٹ اور سی ڈی کی مدد سے عوام تک پہنچایا جاتا ہے کیونکہ عوام آج بھی ادب پڑھنے سے زیادہ سننا پسند کرتے ہیں۔

صومالی ادب میں شاعری کا عنصر غالب ہے۔ صومالیہ کا سب سے بڑا شاعر Sayyid Maxamed Cabdulle Xasan  انیسویں صدی کے وسط میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے اپنی نظموں میں یوروپی ممالک کی ہوس ملک گیری کے خلاف آواز اٹھائی۔ آج کی سوشلسٹ صومالیہ کا سب سے مشہور شاعرCabdulqaadir Xirsi “Yamyam” ہے۔ اس کی شاعری عموماًسوشلسٹ نظام کی حمایت میں ہوا کرتی ہے۔

نثر میں   Faarax M. I. Cawl کا نام لیا جا سکتا ہے جس نے روایتی زبانی ادب کی بنیادوں پر اپنی ناول نگار ی کی بنیاد رکھی۔ اس کا ناول Aqoondarro waa u nacab jacayl [1974] ایک بہت ہی اچھا ناول ہے اور کافی مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ اس ناول میں ایک ان پڑھ درویش مجاہد کی کہانی پیش کی گئی ہے جو اپنی محبوبہ کا خط نہیں پڑھ پاتا ہے اوراس کی محبت کا انجام برا ہوتا ہے۔ Axmed Cartan Xaarge نے ایک ناول Qawdhan iyo Qoran لکھا۔ یہ بھی ایک ناکام محبت کی داستان تھی۔

سواحلی زبان میں نوشتہ افریقی ا دب  :

Swahiliزبان میں مسلم شعرا و ادبا نے سترہویں صدی ہی میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی تخلیقات زیادہ تر مذہب اسلام سے متعلق تھیں اور ان پر عربی، فارسی اور اردو زبانوں کا کافی اثر تھا، جو افریقہ کے مشرقی ساحل پر آنے والے تاجروں کے ذریعہ وہاں تک پہنچا تھا۔ انیسویں صدی  کے وسط تک سواحلی کو لکھنے کے لیے عربی رسم الخط استعمال کیا جاتا رہا لیکن اس کے بعد سے لاطینی رسم الخط کا استعمال ہونے لگا۔

سواحلی میں سب سے پرانی تحریر جو دستیاب ہے وہ  Sayyid Aidarusi کی نظم  Hamziya [1749]ہے۔ یہ ایک درباری نظم ہے جو اس نے موجودہ کینیا کے بادشاہ  Bwana Mkuw II کے حکم پر عربی رسم الخط میں، سواحلی کی ایک شاخ Kingozi بولی میں لکھا تھا۔

شروع ہی سے سواحلی ادب پر اسلامی ادب کی گہری چھاپ رہی ہے۔ اکثر اسلامی تعلیمات کو نظموں میں ڈھالا جا تا رہا ہے۔ اس قبیل کا پہلا شاعر کینیا کے لامو جزیرے کا  Mwana Kupona binti Msham  تھا۔ اس نے ایک نظم Utendi wa Mwana Kupona  ۱۸۵۸ء میں لکھی تھی۔

انیسویں صدی کا ایک شاعرMuyaka bin Haji al-Ghassany  تھا۔ اس کا تعلق کینیا کے مومباسا سے تھا۔ اس نے اپنی نظموں میں شہری زندگی میں پیش آنے والے مختلف مسائل کو پیش کیا تھا۔

جدید سواحلی ادب کی شروعات ۱۹۲۵ء کے بعد ہوئی جب کینیا، تنزانیہ اور یوگانڈا نے اس زبان کو اسکولی طلبہ کے لیے درسی زبان قرار دے دیا۔ جدید سواحلی زبان کا سب سے بڑا شاعرو ادیب ٹانگا نیکا، تنزانیہ کا Shaaban Robert ہے۔ جو بنیادی طور پر شاعر ہے لیکن بعد میں ناول نگار اور مضمون نگار کے طور پر بھی مشہور ہوا۔ اس کی تحریریں تنزانیہ کی قدیم تہذیب کی حمایت میں ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مشہور نظم  Almasi za Afrika [1960; “African Diamonds”] ہے۔ اس کے ناولوں کے موضوعات عموماً عصری سماجی مسائل ہوا کرتے ہیں۔ Siku ya Watenzi Wote [1968] اور [1968] Utubora Mkulima  اس کے دو مشہور ناول ہیں۔

نئے لکھنے والوں میں کینیا کے دو مشہور شاعر Abdillatif Abdalla اور Ahmad Nassir  اہم ہیں۔ Faraji Katalambulla  تنزانیہ کا ایک بڑا ایکشن ناول نگار ہے۔

افریقہ کی روایتی زندگی اور جدید تہذیب کے درمیان ایک تصادم کا عمل جاری ہے۔ شعرا، افسانہ نگاروں اور ناولہ نگاروں نے اکثر اسے اپنا موضوع بنایا ہے۔ تنزانیہ کے Euphrase Kezilahabiکا تیسرا ناول [1975] Dunia Uwanja wa Fujo  اس کی بہترین مثال ہے۔

جنوبی افریقہ  :

Shona  زبان میں نوشتہ افریقی ا دب  :

زمبابوے کی زبان Shonaمیں تحریر کا چلن ابھی حال ہی میں ۱۹۵۰ء کے بعد شروع ہوا ہے۔ Solomon Mutswairo  نے اس زبان میں Fesoنامی ایک ناول ۱۹۵۶ء میں لکھا جو ممکنہ طور پر اس زبان کا پہلا ناول ہے۔ Patrick Chakaipa نے اپنے ناول [1961] Pfumo reropa  میں سفید فاموں کی آمد سے قبل کی شونا تہذیب کو اجاگر کیا ہے۔ جب کہ اپنے دوسرے ناولوں  Rudo ibofu [1962]اور Garan dichanya [1963]  میں اس نے دونوں تہذیبوں کے درمیان تصادم کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

John Marangwanda  کے ناول Kumazi vandadzoke [1959]  اور Mutswairoکے ناول Murambiwa Goredema [1959] میں جدید تعلیم حاصل کر کے لوٹنے والوں کے ذریعہ لائی گئی نئی تہذیب کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔

Sotho  زبان میں نوشتہ افریقی ا دب  :

جنوبی افریقہ کی Sothoزبان میں شائع ہونے والی پہلی کتاب John BunyanکیThe Pilgrim’s Progress کا سوتھو میں ترجمہ تھا  جس میں عیسائی مذہب قبول کر نے والوں کے لیے ہدایتیں تھیں۔ Sothoزبان کا پہلا ناول Meoti Oa Bochabellaتھا جسے Thomas Mofoloنے ۱۹۰۶ء میں لکھا تھا جس کا انگریزی ترجمہ The Traveller of The Eastکے نام سے ۱۹۳۴ء میں ہوا۔

Zulu  زبان میں نوشتہ افریقی ا دب  :

Zuluزبان جنوبی افریقہ کی سب سے بڑی زبان ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ ہے۔ یہ زبان ساؤتھ افریقہ، موزمبیق، مالاوی، لیسوتھو اور سوازی لینڈ میں بولی جاتی ہے اور اس بنیاد پر یہ پورا علاقہ Zululandکہلاتا ہے۔ اس کا رسم الخط لاطینی ہے۔

اس زبان میں میں Magema ka Magwaza Fuze نے ۱۹۲۲ء میں Abantu abamnyama lapha bavela ngakhona   کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے زولو قوم کی تاریخ لکھی اور سیاہ فاموں کے درمیان اتحاد کی اہمیت پر زور دیا تھا۔

زُولوزبان کی ترویج و اشاعت میں  Ilanga lase Natal نامی اخبار نے بہت بڑا کردار نبھایا۔ آگے چل کر اسی اخبار کے ایک ایڈیٹر R.R.R. Dhlomo  نے انیسویں صدی سے بیسویں صدی کے اوائل تک کے کئی زُلو بادشاہوں کی سوانح حیات پر مبنی کئی ناول لکھے جیسے : UShaka [1936]، ,UDingane[1936]   UMpande[1938]،  UCetshwayo [1952] اور UDinuzulu [1968] ۔ اسی اخبار کے مالک John L. Dubeنے ایک تاریخی ناول Insila kaShaka [1933]  لکھا۔ اس ناول میں عظیم زولو شہنشاہ شاکا کے دور کی کہانی پیش کی گئی تھی۔ ۱۹۳۶ء میں اس نے UShembeنامی ناول لکھا جس میں زولو قوم کے کرشماتی ’پیغمبر‘  Isaiah Shembe  کی سوانح حیات پیش کی گئی تھی۔ بعد کے مصنفین نے بھی زُولو قوم کی تاریخ سے جڑے موضوعات پر بہت کچھ لکھا  جیسے Leonard Mncwangoکا ناول Ngenzeni?۔

Muntu Xulu  کا ناول Simpofu [1969]زولو بادشاہ  Cetshwayo  اور نٹال کے سفید فام سیاست داں Theophilus Shepstoneکے درمیان کشمکش کی کہانی ہے۔

روایتی افریقی زندگی اور جدید شہری زندگی کے درمیان تصادم زولو ادب کا خاص موضوع رہا ہے۔ Dholmoکا ناول  Indlela yababi [1946]گاؤں کے بھولے بھالے لوگوں پر شہری زندگی کے برے اثرات کے موضوع پر مبنی ہے۔ J.K. Ngubaneکا ناول Uvalo lwezinhlonzi [1957] ،  C.L.S. Nyembeziکا ناول Inkinsela yaseMgungundlovu [1961]  بھی اسی موضوع پر مبنی ہیں۔ Nyembezi کے ناول Mntanami! Mntanami! [1950]  میں ایک لڑکا شہر جاکر جرائم کے دلدل میں بری طرح پھنس جاتا ہے اور آخر ایک دن کسی طرح لوٹ کر واپس اپنے گھر چلا آتا ہے۔

D.B.Z. Ntuliنے افسانوں کا انتخاب  Uthingo lwenkosazana  ۱۹۶۱ء  میں اور D.B.Z. and C.S.Z. Ntuliنے دوسرا انتخابAmawisa کے نام سے ۱۹۸۲ء میں شائع کیا۔ ان میں شامل زیادہ تر افسانوں کے موضوعات زولو کا ماضی، روایت اور جدیدیت کے درمیان تصادم، جدید تعلیم کے فوائد اور نقصانات پر مشتمل تھے۔

زولو زبان کا عظیم ترین شاعر  B.W. Vilakaziہے۔ اس کی شاعری کے موضوعات عموماً قدرت، زولو کا ماضی اور ساؤتھ افریقہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ کی جا رہی نا انصافیاں وغیرہ ہوا کرتی ہیں۔ اس کے دو شعری مجموعے Inkondlo kaZulu  اور Amal’ezuluبالترتیب ۱۹۳۵ء اور ۱۹۴۵ء میں شائع ہوئے۔ J.C. Dlamini  اور Phumasilwe Myeni   شاعری کے لیے روایتی انداز اپنایا۔ Dalminiکا مجموعہ Inzululwane کے نام سے ۱۹۵۹ ء میں اور Myeniکا مجموعہ Hayani maZulu  کے عنوان سے ۱۹۶۹ء  میں شائع ہو چکا ہے۔ N.J. Makhaye ایک ایسا شاعر ہے جو روایت اور جدیدیت کی درمیانی سطح پر شاعری کرتا ہے۔ اس کا مجموعہ Isoka lakwaZulu  ۱۹۷۲ء میں شائع ہو چکا ہے۔

Xhosa  زبان میں نوشتہ افریقی ا دب  :

Xhosaجنوبی افریقہ کی ایک مقبول زبان ہے جو ساؤتھ افریقہ اور لیسوتھو میں بولی جاتی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد تقریباً ۸۰ لاکھ ہے۔ اس زبان کا رسم الخط لاطینی ہے۔ Xhosaزبان میں ادبی تحریروں کی شروعات انیسویں صدی کے وسط میں ہوئی۔ Xhosa قوم کے ماضی، عیسائیت اور سفید فاموں کے مظالم سے متعلق مضامین اور دیگر تخلیقات کئی Xhosaاخباروں اور رسالوں جیسے Ikhwezi،  Isigidimi samaXhosa،  Imvo zabantsundu   اور Izwi   labantu  وغیرہ میں شائع ہوا کرتی تھیں۔

Xhosaکے اولین شاعروں میں  Samuel E.K. Mqhayi  اور  J.J.R. Jolobeکے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ Mqhayi  نے روایتی Xhosaشاعری کا انداز اپنایا تھا جب کہ Jolobe نے اپنی شاعری کے لیے جدید یوروپی لب و لہجہ اور انداز چنا تھا اور اس طرح اس نے جدید Xhosaشاعری کی بنیاد رکھی۔ Maqhayi بہت ہی اچھا شاعر تھا اور اس کے چاہنے والوں نے اسے Imbongi yesizwe jikelele ( شاعرِ قوم) کا خطاب دیا تھا۔ اس نے ناول بھی لکھے۔ اس کے ناول Ityala lamaweleمیں دکھایا ہے کہ سفید فاموں کی آمد سے قبل افریقہ کا روایتی عدلیہ کتنا کامیاب تھا۔ A.C. Jordan نے اپنے ناول Ingqumbo Yeminyanya [1940]  میں جدید تہذیب کے طوفان میں روایت کو قائم رکھنے کا راستہ دکھایا۔ کچھ ناول نگاروں جیسے Ingqumbo Yeminyanya  نے اپنے ناولIzagweba  میں اور  K.S. Bongela نے اپنے ناول Alishoni lingenandabaمیں گاؤں اور شہر کی تہذیبوں کے ٹکراؤ کو اپنا موضوع بنایا۔

Godfrey Mzamaneکے ناول Izinto zodidi [1959]  میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ روایت اور جدیدیت کے درمیان کا راستہ سب سے بہتر ہے۔ اس کے ناول میں گاؤں کا ایک لڑکا اپنی صلاحیت کی بنا پر شہر میں بڑی کامیابیاں حاصل کرتا ہے جبکہ اس کے باپ کو ناکام ہو کر گاؤں واپس لوٹنا پڑتا ہے۔

 

عربی زبان میں نوشتہ افریقی ادب

 (African Literature written in Arabic language)

 

مصر:  آٹھویں صدی عیسوی میں مصر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔ اس کا سیدھا اثر ان کی زبان و ادب پر پڑا۔ عربی یہاں کی ادبی زبان بن گئی اور مصری ادب پر اسلامی چھاپ نظر آنے لگی۔ انیسویں صدی میں معروف مصری ادیب نقیب محفوظ کو نوبل انعام ملا تو مصریوں میں ادبی انقلاب آگیا۔ ۱۹۱۴ء میں محمد حسین ہیکل نے ’’زینب‘‘ نامی ناول لکھا جو مصر کا پہلا جدید ناول تھا۔ یہاں کے مشہور ادبا و شعرا میں طٰہ حسین،  یوسف ادریس،  ثنا اللہ ابراہیم،  توفیق الحکیم،  محمد البساطی (جن کا ایک افسانہ تیسری منزل سے ہونے والی گفتگو ‘ اس مجموعے میں شامل ہے)،  جمال عبدالناصر،  نقیب محفوظ،  بہا ظاہر،  علیٰ الاسوی،  عبدالحکیم قاسم وغیرہ کے نام اہم ہیں۔

سوڈان:  سوڈان کا زیادہ تر ادب آج عربی میں لکھا جاتا ہے۔ یہاں کے زبانی ادب میں مدیح نامی ایک صنف پائی جاتی ہے جو دراصل نعتِ رسول پاک ﷺ کی ہی ایک شکل ہے۔

سوڈان میں ادب کی ترویج و اشاعت میں خرطوم سے سے شائع ہونے والے اخبارالریاض نے بہت بڑا کردار نبھایا۔ ۱۹۱۴ء سے مسلسل اس اخبار نے نظم و نثر کی اشاعت کی اور عربی میں لکھنے والے شعرا و ادبا کی حوصلہ افزائی کی۔ ۱۹۶۰ء کے بعد سوڈان میں سماجی ناول لکھے جانے لگے۔ الفراغ العرید کو پہلا ناول کہلانے کا شرف حاصل ہے جو معروف خاتون ناول نگار Malkat Ed-Dar Mohammadنے لکھا تھا۔

سوڈان کا ایک اور معروف ناول نگار و افسانہ نگار الطیّب صالح ہے۔ اس کا سب سے مشہور کارنامہ ’’موسم الہجرۃ الیٰ شمال‘‘ (Season Of Migration To The North)ہے۔ (طیب صالح کا ایک افسانہ’ مٹھی بھر کھجوریں ‘اس مجموعے میں شامل ہے)۔

سوڈان کے چند دوسرے ادبا و شعرا کے نام مندرجہ ذیل ہیں :

Ali EL-Maak،  Bushra Elfadil،  Amir Tagelsir،  Leila Aboulela،  Ra’ouf Mus’ad،  Faisal  Mustafa،  Muhsin Khalid  وغیرہ۔

المغرب : شمالی افریقہ کے ممالک الجریا، مراقش اور تیونس کو مغرب (Maghreb)کہا جاتا ہے۔ یہ تینوں ممالک رفتہ رفتہ فرانس کے غلام بنے اور برسوں غلامی کی چکی میں پستے رہے۔ غلامی کا اثر وہاں کی زبان و ادب پر بھی پڑا۔ فرانسیسی وہاں کی قومی و سرکاری زبان بنا دی گئی۔ لوگ فرانسیسی پڑھنے اور اسی میں لکھنے پر مجبور ہوئے۔ لیکن عربی چونکہ ان کی مذہبی زبان تھی اس لیے اس سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹا اور اور عربی زبان لاکھ کوشش کے باوجود اس علاقے سے نہیں مٹ سکی۔

لمبے عرصے تک ان ممالک میں فرنچ زبان میں ادب لکھا جاتا رہا لیکن آخر کار بیسویں صدی میں، آزادی ملنے کے بعد، یہاں کے لوگ پھر سے عربی کی طرف راغب ہوئے۔ تیونس کے Abdelwahhab Meddeb ، الجریا کے Habib Tengour  اور مراکش کے Taher Ben Jelloun  نے نئے موضوعات کی تلاش میں اپنی تاریخ و ثقافت کی جانب مراجعت کی اور عربی زبان کو اپنایا۔

عورتوں نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے زیادہ تر شاعری کووسیلہ بنایا۔ تیونس کی مشہور ادیبہAhlam Mustaghanmi  نے Dhakirat  al-jasad[1998]  اور Fawda al-Hawas [1998]نامی دو ناول لکھے۔ تیونس کی ہی Hela Beji نے اپنے پہلے ناول L’oeil du jour [1985] میں قدامت پسندی اور جدیدیت کی کشمکش کو اجاگر کیا۔ عربی میں لکھنے والی دوسری خواتین ناول نگار Hind Azzouz, Nadjia Thamer,  اور Arusiyya Naluti  ہیں۔ Zoubeida Béchir  ایک اچھی شاعرہ ہیں۔ Zahra al-Jlasi نے al-Nas al-Mumannath کے ذریعہ عورتوں کے حق میں آواز بلند کی۔ مراکش میں Khanatha Bannounah  کے چار افسانوی مجموعے اور دو ناول al-Nar wa al-Ikhtiyar اور al-Ghad wa al-Ghadabشائع ہوئے۔ دھیرے دھیرے خواتین ناول نگاروں کی ایک نئی کھیپ سامنے آ رہی ہے جو عربی زبان میں ادب کی تخلیق کر رہی ہیں۔

۱۹۳۱ میں الجریا میں فرانسیسی اثرات کو دور کر نے کیے AUMAنامی تحریک چلائی گئی۔ AUMAکے دو اخباروں al-shahab اورal-Basamir میں بہت ساری نظمیں اور کہانیاں شائع کی گئیں۔ معروف ادبا احمد رضا ہوہو  اور ظہور وینیسی اسی تحریک سے تعلق رکھتے تھے۔

مراقش میں بیسویں صدی کے وسط میں جو ناول لکھے گئے ان میں زیادہ تر کا موضوع مراقش کا سنہرا ماضی تھا۔ Bensalem Himmish نے Majnun al-Hukm اور Lotfi Akaley نے ’’ابن بطوطہ‘‘ نامی ناول لکھے۔ انھوں نے اپنے ناول کا مواد مراقش کے عرب کلچر سے لیا تھا۔

مراقش کے سب سے مشہور شاعر Muhammad Bannis ہیں۔ شاعرات میں Malika al-Asimi کا نام سر فہرست ہے۔

مغرب کا ایک ملک لیبیا بھی ہے لیکن لیبیا کا ادب دنیا میں زیادہ مشہور نہیں ہوسکا۔ یہاں کے پہلے شاعر کا نام سلیمان البرونی ہے جب کہ دوسرا مشہور ادیب ابراہیم الکونی ہے۔

 

انگریزی زبان میں نوشتہ افریقی ادب

   (African Literature written in English language)

 

انیسویں صدی کی شروعات سے ہی انگریزوں نے افریقہ کے مختلف ممالک میں اپنی نو آبادیاں قائم کرنی شروع کر دی تھیں۔ آہستہ آہستہ مصر، سوڈان، یوگانڈا، کینیا، گھانا، سیرا لیون، نائجریا، زامبیا، زمبابوے، بوٹسوانا، ساؤتھ افریقہ انگریزوں کے غلام بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ افریقی ادب دوسرے یوروپی زبانوں کے مقابلے انگریزی میں زیادہ تخلیق ہوا۔

شاعری:   انگریزی زبان میں شاعری کا پہلا مجموعہ An Anthology of West African Verse [1957]ہے جس میں فرانسیسی زبان میں نوشتہ افریقی نظموں کے ترجمے تھے۔ انھیں نائجریا کے Olumbe Bassirنے ترجمہ کیا تھا۔ پہلا شاعر جس نے انگریزی میں اپنی نظمیں شائع کروائیں، وہ گامبیا کا Lenrie Petersتھا۔ اس کے شعری مجموعے Poems  ۱۹۶۴ء میں اورSelected Poetry  ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئے۔ نائجریا کے نوبل انعام یافتہ شاعر Wole Soyinkaکے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں Idanre and Other Poems [1967] بہت مشہور ہے۔ Christopher Okigboبھی انگریزی زبان کا ایک مشہور افریقی شاعر تھا۔ اس کی نظموں کا مجموعہ Labyrinths, with Path of Thunder کے نام سے ۱۹۷۱ء میں شائع ہوا۔ گھانا کے Kofi Anyidoho  کا شعری مجموعہ A Harvest of Our Dreams   ۱۹۸۴ء میں شائع ہو کر مقبول ہوا۔ یوگانڈا کے Okot p’Bitek  کامجموعہ Song of Lawino [1966] کے نام سے شائع ہوا۔ کینیا کے Okello Oculi  کی شاعری Words of My Groaning (1976)نامی انتخاب میں شامل ہے۔

ساؤتھ افریقہ میں سفید فام حکومت کی نسلی منافرت کے خلاف بہت سے شاعروں نے لکھا۔ ان میں سے زیادہ تر نظمیں جلاوطنی کے حالات میں لکھی گئیں۔ ساؤتھ افریقہ کے سیاہ فام شاعروں میں سب سے اہم نام Dennis Brutusکا ہے جس نے ۱۹۶۸ء میں Letters to Martha شائع کیا۔ اس کے علاوہ Mazisi Kunene کا مجموعہZulu Poems ، Oswald Mtshali کا مجموعہ Sounds of a Cowhide Drum ،  Sipho Sepamla  کا مجموعہ The Soweto I Love   اور Frank Chipasula کامجموعہ Whispers in the Wings  شائع ہوئے۔

ناول اور افسانے  :  افریقہ میں انگریزی زبان میں ناول و افسانے دوسری یوروپی زبانوں کے مقابلے میں زیادہ شائع ہوئے ہیں۔ Joseph Ephraim Casely-Hayford کا ناول Ethiopia Unbound: Studies in Race Emancipation   ۱۹۱۱ء میں شائع ہوا۔ ۱۹۴۳ء میں R. E. Obeng نے Eighteenpenceنامی ناول لکھا۔ نائجریائی ادیب Amos Tutuola نے ۱۹۵۸ء میں ایک ناول The Palm-Wine Drinkard and His Dead Palm-Wine Tapster in the Dead’s Townلکھا جو یوروپ اور امریکہ میں بہت مقبول ہوا۔ یہ پہلا افریقی ناول تھا جسے افریقہ کے باہر اتنی مقبولیت ملی۔ Tutuolaکی کامیابی سے متاثر ہو کر Chinua Achebeنے۱۹۵۸ء میں اپنا پہلا ناول Things Fall Apart شائع کیا۔ نائجریا کے دو اور ناول نگار Cyprian Ekwensi اور Flora Nwapa ہیں۔ Ekwensiکا ناول Jagua nana [1961]  نائجریا کے شہر لاگوس کی ایک جسم فروش لڑکی کی زندگی کی کہانی پر مبنی تھا جب کہ Nwapaکا ناول Efuru [1966] خواتین کے سماجی مسائل سے متعلق ہے۔

گامبیا کے   William Conton نے اپنے ناول The African [1960]میں ساؤتھ افریقہ میں جاری نسلی منافرت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے کا خیال پیش کیا تھا۔ گامبیا کے ہی Ayi Kwei Armah نے ۱۹۶۸ء میں The Beautyful Ones Are Not Yet Born کے ذریعہ رہنماؤں کی سیاسی بد معاشیوں پر تنقید کی تھی۔ گھانا کےKofi Awoonor نے اپنے ناول This Earth, My Brother [1971]  کے ذریعہ گھانا کے سیاسی مسائل اور عوام پر اس کے اثرات کا اظہار کیا۔

نائجریا میں ۱۹۶۶ء سے ۱۹۶۹ء کے درمیان بیافرا نامی ایک نئی خود مختار مملکت کے قیام کی تحریک کے نتیجے میں زبردست خانہ جنگی ہوئی جس نے نائجریا کی حالت خستہ کر دی۔ اس لڑائی کے تلخ نتائج بہت ساری ادبی تخلیقات کا سبب بنے مثلاً Wole Soyinkaکا Season of Anomy [1973] ،   Eddie Iroh کا Forty-Eight Guns for the General [1976]  اور Buchi Emechetaکا Destination Biafra [1982] وغیرہ۔ (اس مجموعے میں شاملChinua Achebeکا افسانہ’’امن کے بعد‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے)۔ کینیا کے Ngugi wa Thiong’o کے ناول Weep Not, Child [1964]  میں سفید فام حکومت کے ذریعہ عوام کی زمینیں چھینے جانے کا موضوع پر احتجاج بلند کیا گیا۔ اس کے بعد اس موضوع پر کئی کہانیاں اور ناول منظر عام پر آئے۔ تنزانیہ کے Ismael Mbise نے بھی اس موضوع پر ۱۹۷۴ء میں ایک ناول Blood on Our Land  لکھا تھا۔ J. N. Mwaura کے ناول Sky is the Limit [1974]  میں باپ اور بیٹے کے درمیان اختلاف کو موضوع بنایا گیا تھا۔

پہلی مشرقی افریقی خاتون ناول نگار جس نے انگریزی میں ناول لکھا وہ ہے کینیا کی Grace Ogot جس کا ناول Promised Land۱۹۶۶ء میں منظر عام پر آیا۔ کینیا کی دو اور مشہور خاتون ناول نگار Rebeka Njau اور Lydia Nguya ہیں۔ ریبیکا ناجو کا ناول Ripples in the Pool    ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا۔ اس ناول میں عورتوں کے ازدواجی مسائل کو موضوع بنا یا گیا۔ Lydiaکا ناول The First Seed  بھی اسی سال شائع ہوا۔ اس ناول میں شہری اور دیہاتی زندگی کے درمیان موازنہ پیش کیا گیا تھا۔

نسلی منافرت کے موضوع پر بھی بہت ساری کتابیں شائع ہوئیں جیسے Peter Abrahams کاناولTell Freedom [1974] ،  Es’kia Mphahleleکا ناول A Walk in the Night [1962] ،  riam Tlali Miکا ناولMuriel at Metropolitan [1975]،  Mongane Serote کا ناول To Every Birth Its Blood [1981] ،  Mphalele کا ناول The Unbroken Song [1981] اور Sipho Sepamla کا ناول A Ride on    the Whirlwind  [1981] وغیرہ۔

ڈرامے:  انگریزی زبان میں لکھا جانے والا پہلا افریقی ڈرامہ The Girl Who Killed to Save:Nongquase the Liberator تھا جسے ساؤتھ افریقہ کے Herbert Isaac Ernest Dhlomo  نے ۱۹۳۵ء میں لکھا تھا۔ نسلی امتیاز کے خلاف جد و جہد میں سیاہ فاموں کے ڈراموں نے بہت اہم کردار نبھایا۔ بہت سے ڈرامے اس موضوع پر لکھے گئے جن میں Lewis Nkosiکا ڈرامہ The Rhythm of Violence [1964]   بہت مقبول ہوا۔ گھانا کے ڈرامہ نگار  Joe de Graft کا ڈرامہDear Parent and Ogre [1965]  ماں باپ اور اولاد کے درمیان کشمکش کی کہانی پر مبنی ہے جب کہNgugi wa Thiong’o کا ڈرامہ Black Hermit قبائلی عصبیت کے موضوع پر مبنی ہے۔

انگریزی زبان میں چند دیگر مشہور ڈرامے درج ذیل ہیں :

Wole Soyinka کے ڈرامے The Swamp-Dwellers  اور A Play of Giants،   Ama Ata Aidooکا ڈرامہ The Dilemma of a Ghost،  Ebrahim Hussein کا ڈرامہ Kinjeketile،  Femi Osofisan کا ڈرامہ Once Upon Four Robbers،  Percy Mtwa کے ڈرامے  Bhopa!  اور Woza Albert!  وغیرہ۔

 

فرانسیسی زبان میں نوشتہ افریقی ادب

   (African Literature written in French language

 

انیسویں صدی کے درمیانی برسوں میں فرانسیسیوں نے افریقہ میں اپنی نو آبادیاں قائم کرنی شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے جن ممالک کو اپنا غلام بنایا وہ تھیں :  مراقش، الجیریا، تیونس، موریطانیہ، مالی، نائجر، چاڈ، سینیگال، مڈغاسکر اور کوٹے ڈی آئیوائر۔ یہ ممالک ۱۹۶۰ء تک ایک ایک کر کے فرانس کے پنجۂ استبداد سے آزاد ہوئے۔

شاعری  :  افریقیوں کی فرانسیسی شاعری کا اولین مجموعہ Anthologie de la nouvelle poésie nègre et malgache de langue françaiseتھا جو ۱۹۴۸ء میں پیرس میں شائع ہوا تھا۔ اس کی تالیف سینیگال کے مشہور شاعر Léopold Sédar Senghor            نے کی تھی۔

فرانسیسی افریقی شاعری میں دوسرا اہم نام  کا ہے۔ اس کا مجموعہ Coups de pilon  کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس میں شامل نظموں میں فرانسیسیوں کے خلاف انقلاب کی چنگاریاں دبی ہوئی تھیں۔ یہ دراصل فرانس کی نوآبادیوں میں چلنے والی négritude تحریک کی بازگشت تھی۔ اسی موضوع پرمڈگاسکر کے شاعر Jacques Rabémananjara کے بھی دو مجموعے AntsaاورAntidoteشائع ہو کر مقبول ہوئے۔

ناول اور افسانے  :  افریقی فرنچ ناول کی ابتدا سینیگال کے Ahmadou Mapaté Diagne کے ناول Les trois volontés de Malik  سے ہوئی جو ۱۹۲۰ء میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول میں ایک محنتی نو جوان کی کہانی ہے جو نوآبادیاتی سامراجیت کی چکی میں پس جاتا ہے اور اس کی آرزوئیں خاک میں مل جاتی ہیں۔

دوسرے فرانسیسی افریقی ناولوں میں Ousmane Socé کا ناول Mirages de Paris [1937]،  کیمیرون کے Ferdinand Oyono کا ناول   Une vie de Boy [1956] ، کیمیرون کے ہی Mongo Beti کا ناول Le pauvre Christ de Bomba [1971] اور سینیگال کے Ousmane Sembène کا ناول Xala [1973]  اہم ہیں۔

خواتین ناول نگاروں میں سینیگال کی Mariama Bâ  اور Aminata Sow Fall کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔ Mariama Bâ نے ۱۹۸۰ء میں Une si longue lettre  لکھا اور Aminata Sow Fall نے ۱۹۷۹ء میں  La grève des bàttu کی تخلیق کی۔

ڈرامے  :  فرانسیسی زبان میں جن افریقی ڈراموں نے مقبولیت حاصل کی ان میں کیمیرون کے Guillaume Oyono-Mbia کا ڈرامہ Trois prétendants, un mari [1964]،  مالی کے Saydou Badian کا ڈرامہ La mort de Chakaاور کانگو کے Tchicaya U Tam’si  کا ڈرامہ Le zoulou  وغیرہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

 

پرتگالی زبان میں نوشتہ افریقی ادب

   (African Literature written in Portuguese language)

 

پرتگالیوں کا افریقہ سے رشتہ دوسرے یوروپی ممالک کے مقابلے میں زیادہ پرانا ہے(تقریباً پندرہویں صدی سے) لیکن اس کے باوجود افریقہ میں پرتگالی سلطنت  دوسرے یوروپی ممالک سے بہت چھوٹی تھی۔ پرتگالیوں نے جن ممالک پر قبضہ کیا تھا وہ تھیں : انگولا، کیپ ورڈے، گینیا بیساؤ، ساؤ ٹوم، پرنسپ اور موزمبیق۔ یہی وجہ ہے کہ پرتگالی زبان میں افریقی ادب کی تخلیق کم ہوئی۔

شاعری :  پرتگالی زبان میں شاعری کرنے والے شاعروں میں سب سے اہم نام کیپ ورڈے کا Jorge Barbosa کا ہے جس کا مجموعہ Arquipélago  ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا تھا۔ پہلی خاتون افریقی  پرتگالی شاعرہ Noémia de Sousa ہے جو اپنی نظم Sangue Negro(سیاہ خون) کے لیے مشہور ہے۔ آزادی کی تحریک کے دوران ہرزبان کی طرح پرتگالی افریقی شاعری پر بھی انقلابی رنگ غالب تھا۔ لیکن ۱۹۷۵ء میں پرتگالی نوآبادیوں کی آزادی کے بعد یہاں کی شاعری کا رنگ تبدیل ہو گیا اور آج کی شاعری میں ایک اہم نام موزمبیق کے شاعر Luís Patraquimکا ہے جس کا مجموعہ A inadiável viagem  کے نام سے ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا ہے۔

ناول اور افسانے  :  کیپ ورڈے کے Baltasar Lopes da Silva کا ناول Chiquinho   ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا یہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو اپنے باپ کی تلاش میں امریکہ جاتا ہے۔ چند دوسرے اہم ناول درج ذیل ہیں :

موزمبیق کے Luís Bernardo Honwana کا ناول Nós matamos o cão tinhoso  (۱۹۶۴ئ) اور انگولا کے José Luandino Vieira کا ناول Luuanda(۱۹۶۴ئ) وغیرہ۔

ڈرامے  :  پرتگالی افریقہ میں ڈرامے کی تخلیق سب سے کم ہوئی۔ اس کی سب سے پہلی مثال۱۹۷۱ء کے بعد انگولا کی راجدھانی لوانڈا میں اسٹیج کیے گئے چند میوزیکل ڈرامے ہیں۔ آزادی کی جدوجہد کے دوران افریقی انقلابیوں نے سیاسی اور انقلابی ڈراموں کی ہمت افزائی کی اور شہروں میں تھیئٹر گروپ تشکیل پانے لگے۔

انگولا کا سب سے مشہور ڈرامہ O círculo de giz de bombóہے جو دراصل بچوں کا ڈرامہ ہے جسے Henrique Guerra نے لکھا تھا۔ موزمبیق میں Belo Marques  نے ریڈیائی ڈراموں کی شروعات کی۔

 

                   عصری افریقی ادب

                   (Contemporary African Literatures)

 

آج کا افریقی ادب کافی ترقی کر چکا ہے اور دنیا کے ادب کے شانہ بہ شانہ چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ افریقی تاریخ میں ۱۹۸۶ء کا وہ دن یقیناً ایک نہایت اہم دن ہے جب افریقی شاعر و ادیب Wole Soyinka  کو ادب کے لیے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اسی سے عصری افریقی ادب کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ افریقہ کے سیاسی و سماجی حالات چونکہ آج بھی زیادہ اچھے نہیں اس لیے آج کے افریقی ادب پر وہاں کے تازہ سیاسی اور سماجی مسائل کی چھاپ ہے۔ افریقی شاعروں ادیبوں کے خاص موضوعات نسلی تعصب، غریبی، بے روزگاری، استحصال اور بے کار رسم و رواج ہیں۔ و

آج کے افریقہ میں انگریزی میں لکھنے والے چند اہم شعرا و ادبا کے نام درج ذیل ہیں۔

نائجریا کے باغی ادیب Ken Saro-Wiwa کی نظموں کا مجموعہ Songs in A Time of War   ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا۔ نائجریا کے ہی ایک اور نامور شاعر Tanure Ojaide کا مجموعہ The Fate of Vultures and Other Poems  ۱۹۹۰ء میں منظر عام پر آیا۔

سیئرا لیون کے شاعر Syl Cheney-Coker کا مجموعہGraveyard Also Has Teeth   ۱۹۸۰ء میں شائع ہوا۔

صومالیائی مصنف نورالدین فرح کی Blood in the sunکے نام سے ایک Trilogyشائع ہوئی جو دراصل تین ناولوں پر مشتمل تھی: Maps [1986]  ،  Gifts [1992]  اور Secrets [1998] ۔ ان ناولوں میں ۱۹۹۰ء کے عشرے میں صومالیہ میں پھوٹ پڑنے والی خانہ جنگی کے درمیان لوگوں کو پیش آنے والی مشکلات کی عکاسی کی گئی تھی۔

نائجریاکے نامور مصنف Ben Okriکا ناول  The Famished Road ۱۹۹۱ء میں شائع ہوا اور Booker Prizeسے سر فراز ہوا۔ Syl Cheney-Coker نے شاعری کے علاوہ ناول بھی لکھا۔ اس کے ناول  The Last Harmattan of Alusine Dunbar [1990]نے کافی مقبولیت حاصل کی۔ ساؤتھ افریقی ناول نگار Zakes Mdaکا ناول Ways of Dying  بھی کافی اہمیت رکھتا ہے۔

فرانسیسی زبان میں لکھنے والے شاعروں میں سب سے اہم نام کانگو کے J. B. Tati-Loutard کا ہے جس کا مجموعہ Le dialogue des plateaux  کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ کیمیرون کے ادیب Victor Beti Benanga نے سماجی مسائل کے موضوع پر ایک ناول Le miroir bleu  لکھا۔ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے گاؤں میں کاشتکار ی کی زندگی پر شہر میں بیکاری کی زندگی کو ترجیح دی اور مسائل میں گرفتار ہوا۔

افریقی پرتگالی ادب میں شاعری کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ پرتگالی شاعری میں اہم نام انگولا کے شاعر Paula Travares  کا ہے جس کا مجموعہ Ritos de Passagem  کے نام سے ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ انگولا کے ہی Ana de Santana  (مجموعہ : Sabores, odores & sonho [1985]   )،  موزمبیق کے Hélder Muteia (مجموعہ : Verdades dos mitos [1988]  ) اور Eduardo White  (مجموعہ : O país de mim [1989] ) کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔

عصری افریقی ادب میں خواتین کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ افریقی خواتین تیزی سے ادب کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں۔ ان کے موضوعات زیادہ تر عورتوں کے حقوق، سماج میں عورتوں کی اہمیت اور عورتوں پر مردوں کے مظالم ہیں۔ سب سے اہم ادیبہTsitsi Dangarembga ہے جس کا مجموعہ Nervous Conditions [1988]  بہت مقبول ہوا۔ دوسرے اہم نام نائجریا کی Buchi Emecheta (ناول :  The Family [1989]  ) اور کینیا کی Micere Githae Mugo  (نظموں کا مجموعہ :  My Mother’s Poem and Other Songs [1994])  کے ہیں۔

 

                   پس نوشت

 

افریقہ کا ادب اتنی زبانوں اور اتنی جہتوں میں بٹا ہوا ہے کہ اس نے نہایت پیچیدہ صورت اختیار کر لی ہے۔ میں نے اس مضمون میں دراصل دریا کو کوزے میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن میں  خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ موضوع ایک مضمون میں سمٹنے والا نہیں ہے اس کے لیے تو ضخیم کتاب بھی نا کافی ہو گی۔ بہر حال، اسے افریقی ادب کا سرسری جائزہ ہی سمجھا جائے۔ امید ہے افریقی ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ مضمون کارآمد ثابت ہو گا۔

 

 

 

 

 

عصری افریقی افسانے :  ایک تفصیلی جائزہ

 

افسانہ افریقی ادب کی ایک مقبول صنف ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ نثری افریقی ادب کی مقبول ترین صنف ہے۔ براعظم افریقہ کے طول و عرض کے تقریباً ہر خطے میں افسانے لکھے جا رہے ہیں۔ ا س بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ افریقی افسانے معیار کے لحاظ سے کافی بلند ہیں اور انہیں دنیا کے کسی بھی ملک کے افسانوی ادب کے مقابل پیش کیا جا سکتا ہے۔ (انگریزی افریقہ کی مقبول ترین ادبی زبان ہے اور یہاں افریقی افسانوں سے میری مراد خاص طور سے انگریزی زبان میں دستیاب افسانوں سے ہے)۔

 

                   افریقی افسانوں کے موضوعات

 

افسانہ لکھتے وقت موضوع کا انتخاب سب سے پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ افسانہ نگار جب افسانہ لکھنے کا ارادہ کرتا ہے توسب سے پہلے اس کی نگاہیں کسی موضوع کے انتخاب کی تلاش میں بھٹکتی ہیں۔ افسانے کا موضوع در اصل افسانہ نگار کے لیے بنیاد کا کام کرتا ہے جس پر وہ  پلاٹ، کرداروں اور مکالموں کی مدد سے افسانے کی عمارت بلند کرتا ہے۔ موضوع جتنا بہتر ہوتا ہے افسانہ اتنا ہی دلچسپ ہوتا ہے۔

افسانے کے موضوع کی تلاش کوئی بہت مشکل کام بھی نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے کوہ قاف سے اتار کر لانا پڑے۔ موضوعات تو ہمارے ارد گرد بکھرے پڑے ہیں۔ ضرورت تو ہے بس ایک  اچھے موضوع کے انتخاب کی۔ افسانہ نگار کو کنکریوں کے ڈھیر سے بھی ہیرا ڈھونڈھ نکالتا ہے۔

بعض موضوعات تو ایسے ہیں جو دنیا کے ہر ملک، ہر زبان کے افسانوں میں عام ہیں جیسے محبت، نفرت، بے وفائی، بدلہ وغیرہ۔ لیکن زیادہ تر موضوعات ایسے ہیں جو کسی ملک کے اپنے سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی حالات پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہاں زندگی کے جتنے بھی مسائل پائے جاتے ہیں وہ سارے کے سارے ان افسانوں میں جھلکتے ہیں۔

افریقی افسانوں میں بھی زندگی کا ہر رنگ جھلکتا ہے۔ ان میں موضوعات کی رنگا رنگی ہے۔ افریقی افسانہ نگاروں نے تقریباً ہر اہم موضوع پر افسانے لکھے ہیں۔ پھر بھی چند موضوعات ایسے ہیں جو بہت زیادہ مقبول ہیں اور ان پر ڈھیر سارے افسانے دستیاب ہیں۔ ذیل میں ہم ایسے ہی چند موضوعات پر ایک نظر ڈالیں گے۔

 

۱۔ نسلی امتیاز

 

افریقی افسانوں کا سب سے اہم موضوع  نسلی امتیاز اور نسلی منافرت ہے۔ خاص طور سے ساؤتھ افریقہ کے افسانہ نگاروں نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ افریقہ کے لوگوں کے جِلد کی رنگت سیاہ ہے جب کہ ان پر حکومت کر نے والے آقاؤں کی چمڑی گوری ہے۔ محض جِلد کی رنگت کی بنا پر سفید فام آقا اپنے سیاہ فام غلاموں کو جانوروں سے بھی کمتر درجے کا کوئی جاندار سمجھتے ہیں، انسان سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اسی بنیاد پر انہیں ستایا جاتا ہے اور ان کے سارے حقوق غصب کر لیے جاتے ہیں۔ سفید فاموں کو تو ساری مراعات حاصل ہیں جب کہ سیاہ فام عوام زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ انہیں ہر جگہ دھتکارا جاتا ہے۔ ہم ہندوستانیوں کو بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب  ٹرینوں کے فرسٹ کلاس ڈبوں میں ہندوستانیوں کو سوار ہونے کی اجازت نہیں تھی اور ہوٹلوں کے دروازوں پرDogs and Indians not allowed  لکھا ہوتا تھا۔ افریقہ کے لوگوں کے ساتھ تو اس سے برا سلوک ہوتا آیا ہے۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں احتجاجی ادب کی تخلیق ناگزیر ہے۔ افریقی افسانہ نگاروں نے نسلی امتیاز مخالف تحریکوں کا بھر پور ساتھ دیا اور اس موضوع پر بے شمار افسانے لکھے۔

Alex Ia Gumaکے افسانےA walk in the night   میں ایک سیاہ فام مائکل ایڈونس کو ایک سفید فام شخص کو محض پلٹ کر جواب دینے کی پاداش میں نوکری سے برطرف کر دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد مائکل کی ذہنی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ سفید فاموں کے سائے سے بھی ڈرنے لگتا ہے۔ ایک موقع پر وہ سفید فام پولیس کانسٹیبل کے چہرے کی طرف نظر نہیں اٹھا پاتا ہے اور اس کے ہر سوال کے جواب میں مکمل محکومی ظاہر کرنے والا ایک لفظ ’باس [Baas] ‘ بولتا ہے جو انگریزی کے لفظ Bossکی بگڑی ہوئی شکل ہے اور ساؤتھ افریقہ کے سیاہ فاموں میں رائج ہے۔ یہ کہانی اس بات کی بڑی اچھی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح سفید فام پولیس والے سیاہ فاموں پر ظلم ڈھا کر انہیں اپنا محکوم بنا کر رکھتے ہیں تاکہ وہ کبھی ان کے خلاف سر نہ اٹھا سکیں۔

Nadine Gordimerکے افسانے The Bridegroom میں ایک سفید فام اور ایک سیاہ فام آپس میں شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود حاکم اور محکوم کا رشتہ میاں بیوی کے رشتے پر غالب رہتا ہے۔

Ezikiel Mphahleleنے اپنے مشہور افسانے The Coffee-cart Girlمیں سیاہ فاموں کے حقوق کی پامالی کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ اس کہانی میں ایک کارخانے کے سیاہ فام مزدوروں سے ہڑتال کر نے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ یہی نہیں سیاہ فاموں کو شہر میں ٹھیلوں پر کافی کے اسٹال لگانے سے بھی روک دیا جاتا ہے۔

Mafika Gwalaکے افسانے Reflections in a cell    کا مرکزی کردار ایک کم عمر نوجوان ہے جسے پولیس اپنے ظلم کا شکار بناتی ہے اور جب وہ ان کی محکومیت قبول کر نے سے انکار کرتا ہے تو اسے ’غیر سماجی عنصر‘  قرار دے کر بچوں کی جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ Dambundzo Marecheraکی کہانی Prostia میں جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ سیاہ فام کردار کو نفسیاتی اذیت بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو جائے۔

Ahmed Essopکی کہانی Betrayal   میں سفید فاموں کی ایک زبردست حکمت عملی ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘ ‘کی عکاسی کی گئی ہے۔ وہ اپنے خلاف لڑنے والی سیاہ فام تنظیموں کو آپس میں ہی لڑا دیتے ہیں تاکہ وہ کمزور پڑ جائیں اورآپس میں الجھ کر ان کا ذہن سفید فاموں کی طرف سے ہٹ جائے۔ اس کہانی میں بھی نسلی منافرت کے خلاف احتجاج کرنے والی تنظیمیں سفید فاموں کی سازش کے تحت آپس میں ہی لڑ پڑتی ہیں۔ پولیس اس دوران بالکل مداخلت نہیں کرتی اور دور کھڑی تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔ جب سیاہ فام آپس میں لڑ کر کمزور پڑ جاتے ہیں تب پولیس آگے بڑھتی ہے اور منقسم، کمزور سیاہ فاموں پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالتی ہے۔

نسلی امتیاز کو باقی رکھنے کا ایک اورحربہ اپنے محکوموں کو معاشی طور پر اتنا کمزور کر دینا ہے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات میں ہی الجھ کر رہ جائیں اور آقاؤں کے خلاف سوچنے کا انہیں موقع ہی نہ ملے۔ مثال کے طور پر Matshobaکے افسانے To kill a man’s pride   میں سیاہ فاموں کو بندھوا مزدور کے طور پر دکھایا گیا ہے جب کہ Richard Rive  کے افسانے Rain  کے کرداروں کو بھوکا اور بدحال بنا کر پیش کیا گیا ہے۔

ان حالات کا شکار کمزور انسان اپنا غصہ اپنے سفید فام آقاؤں پر نکالنے کے بجائے جھلاہٹ میں آپس میں ہی لڑ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور نتیجے میں مزید کمزور ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کہانی Ia Gumaکے افسانے Gladiator   میں پیش کی گئی ہے جس میں دو سیاہ فام باکسنگ ایرینا میں ایک دوسرے پر مکے برسا رہے ہیں اور سفید فام ناظرین خوشی سے چیخ چیخ کر ان کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں اور انہیں ایک دوسرے پر حملے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور مثال Ia Gumaکی ہی ایک اور کہانی Blanketsمیں ایک سیاہ فام دوسرے سیاہ فام کی پشت میں خنجر اتار کر اسے مارڈالتا ہے۔ Alan Patonکے افسانے The wasted land  میں ایک بیٹا اپنی ٹولی کے ساتھ اپنے باپ کو ہی لوٹ لیتا ہے۔ Casey Motsisi  کا افسانہ On the beat   اور  Bereng Setuka  کا افسانہ  Dumani  وغیرہ جیسی لاتعداد کہانیاں اس موضوع پر موجود ہیں۔

نسلی منافرت کا ایک دوسرا نتیجہ بھی اکثر سامنے آتا ہے۔ سفید فاموں کے تشدد کے جواب میں سیاہ فام بھی اکثر تشدد پر اتر آتے ہیں اور سفید فاموں سے بدلہ لینے کوشش کرتے ہیں یعنی تشدد کا جواب تشدد سے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

Daniel Kuneneکے افسانے  The spring of life  میں یہ دکھایا گیا ہے کہ جب ساؤتھ افریقہ ایک سیاہ فام شخص کے تمام حقوق غصب کر لیے جاتے ہیں، اسے زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے اور اس کے وقار کو ہر روز مجروح کیا جاتا ہے تو وہ شخص کس طرح آہستہ آہستہ ایک مجاہدِ آزادی بن جاتا ہے۔ حالات اسے خود بخود اس راہ پر لے جاتے ہیں۔ Marium Tlali کے افسانے Point of no return    کا ہیرو بھی حالات کے بھنور میں پھنس کر مجاہدین آزادی کے کیمپ کا رخ اختیار کر لیتا ہے کیونکہ اس کے سامنے دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا، یہاں تک کہ اس کے چاہنے والوں کے آنسو بھی اسے نہیں روک پاتے۔

کئی کہانیوں میں نسلی امتیاز کو مٹانے کی ترکیب بھی سجھائی گئی ہے۔ Ia Gumaنے اپنے افسانے A matter of taste میں سفید فاموں اور سیاہ فاموں کو قومی دولت اور اقتدار کو آپس میں انسانیت، آپسی بھائی چارے اور پیار کی بنیادوں پر آپس میں تقسیم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ Black Stan Motjuwadi   کے افسانے What is not White is Darkie  میں سیاہ فاموں اور سفید فاموں کو آپسی اتحاد کا مشورہ دیا گیا ہے۔ Ahmed Essopنے اپنے افسانے Betrayal   میں نسلی امتیاز کے خلاف لڑنے والے سیاہ فاموں کی تمام تنظیموں کواپنی ذاتوں اور قبیلوں کا خیال دل سے نکال کر آپسی اتحاد پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ James Matthews نے تو اپنے افسانے Azikwelwaمیں سفید فاموں کو بھی نسلی امتیاز کے خلاف سیاہ فاموں کے شانہ بہ شانہ لڑنے کا مشورہ دیا ہے۔ Matshobaنے اپنے اپنے افسانے To kill a man’s pride  میں یہ خیال پیش کیا ہے کہ سفید فام نسلی امتیاز کو ختم کر نے کے بعد ہی اپنی کھوئی ہوئی انسانیت کو دوبارہ حاصل کر پائیں گے۔

 

۲۔ مذہب

 

مختلف مذہبی رجحانات اور عقائد افریقی افسانہ نگاروں کے پسندیدہ موضوع ہیں۔ افسانہ نگار ان موضوعات کا استعمال یا تو ان مذہبی عقائد کو مزید تقویت دینے کے لیے کرتا ہے یا پھر ان کے خلاف سوال اٹھا کر ان کی تضحیک کی کوشش کرتا ہے۔ دونوں ہی طرح کے افسانوں کی افریقی ادب میں بہتات ہے۔

I.N.C.Aniebo  اور  Bessie Headدو ایسے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں میں مذہبی موضوعات کو اپنایا ہے۔ Anieboکا افسانہDilemma افریقہ کے قدیم روایتی مذہب کی حمایت میں لکھا گیا ہے۔ افسانے میں Ajalaدیوی کی ایک پجارن  Mgbekaکا بیٹا Nwankwo   گناہ کرتا ہے۔ پجارن اسے اس گناہ کی پاداش میں Ajalaکی خدمت میں قربانی پیش کرنے کا حکم دیتی ہے۔ لیکن Nwankwo  اپنی طاقت کے زعم میں ایسا نہیں کرتا اور دیوی کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے۔ آخر کار Nwankwo   سزا کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ Mgbeka  پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو زندہ رکھنا چاہتی ہے یا اسے مرنے دیتی تاکہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر نیا جنم لے سکے۔ Mgbekaاس کی موت کا فیصلہ کرتی ہے۔ ایک دن اچانک Nwankwo  مر جاتا ہے اور ایک ماہ بعد ایک بچے کی صورت میں دوبارہ جنم لیتا ہے۔

Bessie Headکا افسانہ Heaven is not closed  بھی افریقہ کے روایتی مذہب کی حمایت میں لکھا گیا ہے۔ اس کہانی میں ایک متعصب عیسائی پادری کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ ایک نو مذہب عیسائی لڑکی کی شادی روایتی رسم و رواج کے مطابق ایک غیر عیسائی افریقی سے ہو جاتی ہے لیکن عیسائی پادری اس وقت تک اس شادی کو ماننے کے لیے تیار نہیں جب تک اس کا دولہا بھی عیسائی مذہب نہ اختیار کر لے۔ دولہا روایتی مذہب کا کٹر پرستار ہے اور کسی بھی حال میں اپنا مذہب چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسے میں کیا ہو گا؟ کیا وہ لڑکی شوہر کے لیے اپنا مذہب چھوڑ دے گی یا مذہب کے لیے شوہر کو؟

کہانی میں دولہے کی زبان سے ادا ہونے والے چند جملے بہت معنی رکھتے ہیں :  ’’خدا خیر اپنی جگہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ لیکن وہ لوگ جو اس کا پیغام اس سرزمین پر لائے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں۔ ان کا پیار در اصل سیاہ فاموں کو اپنا غلام بنانے کا ایک ہتھیار ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لوگ اس سرزمین پر نئے عقائد، نئے ضابطے لے کر آئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے ضابطے جو انسان کو پیار کے لیے ترساتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرانے مذہب میں تو کسی کو پیار کے لیے ترسنا نہیں پڑتا تھا۔ اس میں توہر وقت سب کے لیے پیار کا سمندر موجزن تھا۔ ‘‘  یہ افسانہ در اصل مذہب کے ساتھ ساتھ افریقہ میں جاری روایت اور جدیدیت کے تصادم کی بھی زندہ مثال ہے۔

سفید فام عیسائی اکثر محض اپنی طاقت کے زعم میں غیر عیسائیوں کے ساتھ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن کی اجازت عیسائی مذہب نہیں دیتا ہے۔ Alex Ia Gumaکا افسانہ The Lemon Orchardایک ایسا ہی افسانہ ہے جس میں عیسائی وزیر اپنے حق کے لیے لڑنے والے ایک غیر عیسائی اسکول ماسٹر کو سزائے موت دے دیتا ہے۔

James Mathewsکے افسانے The Second Coming   میں ایک سیاہ فام چرواہا یہ دعویٰ کر بیٹھتا ہے کہ خدا اس سے مخاطب ہوا اور اسے سیاہ فاموں کا نجات دہندہ مقرر کیا تاکہ وہ انہیں نسلی منافرت سے بچا سکے۔ لیکن اسے ایک سفید فام عیسائی بڑی بے رحمی سے قتل کر دیتا ہے۔

Lionel Abrahamsکے افسانےThe Messiah میں ایک نو مذہب عیسائی کو جو یہودی مذہب اپنانے کی خواہش رکھتا ہے، بے عزت کر کے مجلس سے نکال دیا جاتا ہے۔

افریقی افسانہ نگاروں نے صرف عیسائی مذہب کو ہی اپنا موضوع نہیں بنایا بلکہ مسلم ملاؤں کی ریاکاری، بد نیتی اور ڈھونگ کے خلاف بھی قلم اٹھا یا ہے۔ Ama Ata Aidooکا افسانہA gift from somewhere    اور  Sembene Ousmaneکا افسانہ  The False Prophet  اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔

The False Prophet  میں Ousmaneنے محمود فعل نامی ایک ایسے کردار کو پیش کیا ہے جوایک نہایت ہی کاہل شخص ہے اور محض آسانی سے پیسے بٹورنے کے لیے بڑے عالم کا بھیس بنا کر جاہلوں کی بستی میں امام بن جاتا ہے۔ الٹی سیدھی حرکتوں سے جب کافی دولت کما لیتا ہے تو ایک رات اپنے وطن واپس جانے کے لیے وہاں سے فرار ہو جاتا ہے۔ لیکن راستے میں ایک اچکّا اس کا سارا مال لے کر چمپت ہو جاتا ہے۔ کہانی کا آخری جملہ :  ’’یہ بات اب اس کی سمجھ میں آئی تھی کہ ایک چور کے لیے اللہ پر ایمان رکھنا لازمی نہیں ‘‘  بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جس شخص کا پیشہ دھوکے بازی اور چوری ہے اس کا خدا پر ایمان رکھنا اور نمازیں پڑھنا بے معنی ہے۔ اس سے اسے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔

افریقی افسانہ نگاروں نے خود اپنے روایتی مذہب اور اس کے رسوم کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ مثال کے طور پر Looking for a rain godمیں  Bessie  Head  نے ایک ایسے خاندان کی کہانی پیش کی ہے جو خشک سالی کو دور کر نے کے لیے بارش کے دیوتا کی خدمت میں اپنے دو بچوں کی قربانی پیش کرتا ہے۔ بارش تو خیر ہوتی نہیں ہے الٹے بچوں کے ماں باپ کو انسانی قربانی کے جرم میں سزائے موت ملتی ہے۔ اس طرح اس کہانی میں روایتی دیوی دیوتاؤں کے وجود کو تشکیک کے دائرے میں لا کھڑا کیا گیا ہے۔

دوسری طرف Aniebo اپنے افسانے Godevil میں روایتی مذہب اور عیسائیت دونوں کو شک کے دائرے میں لا کھڑا کرتا ہے اور لا مذہبیت کی وکالت کرتا ہے۔

اس کہانی کا کردار جب دیوتاؤں کی پوجا کیا کرتا تھا تب اس نے اپنے بچوں کو کھو دیا۔ جب اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تو بری طرح بیمار پڑ گیا اور جب اس نے دونوں مذاہب کو خیرباد کہہ دیا تو اس کے حالات سدھرنے لگے۔ اور اسے ذہنی سکون کا احساس ہوا۔

ویسے زیادہ تر افریقی افسانہ نگار لا مذہبیت کی وکالت سے گریز کرتے ہیں لیکن وہ مذہبی ریا کاری، خود غرضی، تعصب اور بد نیتی کے خلاف ضرور قلم اٹھاتے ہیں، خواہ وہ قدیم افریقی مذہب ہو یا افریقہ میں داخل ہونے والے جدید مذاہب جیسے اسلام یا عیسائیت وغیرہ۔

 

۳۔ روایت اور ثقافت

 

ہزاروں سالوں سے افریقی اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ جی رہے تھے۔ دنیا کی نظروں سے دور اس تاریک براعظم میں ان کی روایات اوررسم و رواج میں مداخلت  کر نے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔ لیکن گزشتہ چند صدیوں میں جب بیرونی دنیا کے لوگ اپنی تہذیبی ثقافت ساتھ لے کر افریقہ میں نہ صرف داخل ہوئے بلکہ انہیں افریقیوں پر تھوپنے کی پر زور کوششیں بھی کیں تو تہذیبوں کا ایک تصادم عمل میں آیا۔ کچھ لوگوں نے نئی تہذیب کی چمک دمک سے متاثر ہو کر اسے اپنا لیا تو کچھ لوگوں نے اس کی پر زور مخالفت کی۔

اکثر افریقی کہانیوں میں افریقی روایتی تمدن و ثقافت کو موضوع بنایا گیا ہے، کبھی اس کی حمایت میں تو کبھی مخالفت میں اور کبھی کبھی تو محض افریقی ثقافت کا ایک معلوماتی تعارف پیش کرنے کی غرض سے۔ ایسے افسانے عموماً بھوت پریت، دیوی دیوتا، کالا جادو، آوا گون، قربانی اور مختلف رسوم پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔ ان میں افریقی روایتی شادی کے رسوم، بچوں کی پیدائش  یا کسی کے مر نے پر ادا کیے جانے والے رسوم اور روزمرہ کی زندگی اور سماج کی مختلف رسموں اور روایات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ چند اہم مثالیں درج ذیل ہیں۔

I.N.C.Anieboکی کہانیFour Dimensionsمیں  Ajalaدیوی کا ایک پجاری، دیوی کی قسم کھانے کے بعد، ایک غلط فیصلہ کرتا ہے تو فوراً ایک درخت اس پر گرتا ہے جس کے نیچے دب کر وہ مر جاتا ہے۔ کہانی میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اَجالہ دیوی کے قہر نے اسے مار ڈالا تھا۔ Kafungulwa Mobitanaکے افسانےSong of the Rainmakerمیں ایک شخص اپنے جادو ٹونے اور عملیات کی مدد سے بارش برسانے میں کامیاب ہو جا تا ہے۔ اس کے ایک اور افسانے The day of the Ghostsمیں ایک نوجوان بھوتوں کے وجود سے متعلق ریسرچ کرتا ہے اور آخر کار اسے بھوتوں کا قائل ہونا پڑتا ہے۔

Anieboکی ایک کہانی Of Wives, Talismans and the Dead   میں اس بات کی وکالت کی گئی ہے کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ ایک بچے کی صورت میں جنم لے لیتا ہے۔ William Saidiکے افسانوں Nightmare  اور  Educated people  میں کالے جادو کو ایک اٹل حقیقت کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

بعض افریقی افسانوں میں انسانی قربانی کی بھی حمایت کی گئی ہے بشرطیکہ وہ لوگوں کی بھلائی کے لیے ادا کی جائے۔ Grace Ogotکے افسانےThe rain cameمیں ایک بادشاہ اپنی قوم کو قحط سالی اور بھکمری سے بچانے کے لیے اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی دے دیتا ہے جس کے نتیجے میں زبر دست بارش ہوتی ہے۔ یہاں بادشاہ کی وطن پرستی کی وجہ سے انسانی قربانی کو جائز ٹھہرایا گیا ہے۔ اسی طرح F. Odun Balogun کے افسانے The Apprenticeمیں ایک بادشاہ اپنی رعایا کو پلیگ کی بیماری سے بچانے کے لیے خود اپنی جان کی قربانی پیش کرتا ہے۔ یہاں بھی عوام دوستی اور وطن پرستی کے جذبے کے تحت کی گئی انسانی قربانی کو ایک جائز عمل قرار دیا گیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ حقیقت بالکل الٹی ہے۔ آج افریقہ کے زیادہ تر حکمراں اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے عوام کے حقوق کو ہی قربان کر دیا کرتے ہیں۔

بعض افسانہ نگاروں نے ان روایات کی شدید مخالفت بھی کی ہے۔ مثال کے طور پر Mufalo Liswanisoکے افسانے The Mystry of the Metalمیں ایک جعل ساز جادوگر کا پردہ فاش کیا گیا ہے کہ وہ کس طرح لوگوں کو بیوقوف بنایا کرتا تھا۔ Saida Hagi-Dirie Herziکے افسانے Government by magic spellمیں ایک لڑکی حلیمہ کے بارے میں یہ مشہور ہو جاتا ہے کہ اس پر ایک جن سوار ہو گیا ہے۔ کچھ لوگ اس لڑکی کی شہرت کا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کی مدد سے اپنی حکومت کو مزید مضبوط کر لیتے ہیں۔

زیادہ تر افریقی روایتی شادیوں میں لڑکیوں کو، اور کبھی کبھی لڑکوں کو بھی، ان کی مرضی کے خلاف شادی کے بندھن میں بندھنا پڑتا ہے۔ Paul Zelezaکے افسانےNight of darknessمیں ایک روشن خیال بادشاہ اپنی محبوبہ سے شادی کرنا چاہتا ہے جب کہ امرائے سلطنت اس شادی کو پسند نہیں کرتے بلکہ وہ بعض سیاسی وجوہ سے اس کی شادی خاص روایتی انداز میں کسی اور سے کروانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ رسم و رواج کی آڑ میں اپنی طاقت اور حکومت پر اپنی گرفت بر قرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کہانی میں کسی بادشاہ کے مرنے پر زندہ انسانوں کو اس کی لاش کے ساتھ ’’تکیوں ‘‘ کے طور پر دفن کیے جانے کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔

Ahmed Essop کے افسانے Noorjehan  میں ایک طالب علم اپنے غیر شادی شدہ ٹیچر سے پیار کر نے لگتی ہے۔ لیکن اسے کم عمری میں ہی ایک بوڑھے امیر آدمی کی بیوی بنا دیا جاتا ہے۔ Bessie Head کے افسانے  Snapshots of a wedding  میں مردوں کی جارحیت اور عورتوں کی بے زبانی کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔

مندرجہ بالا مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افریقی اپنی روایات، اپنی تہذیب اور اپنے رسم و رواج سے بہت پیار کرتے ہیں اور جدید تہذیب کی آندھی میں بھی اسے اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس سے جڑی جاہلانہ اور غیر انسانی روایات کی شدید مخالفت بھی کرتے ہیں۔

 

۴۔ شہری زندگی کے مسائل

 

ہزاروں برسوں سے افریقی ثقافت قبیلوں اور گاؤں میں سانسیں لیتی رہی ہے لیکن بیرونی دنیا سے در آمد شدہ جدید تہذیب اپنے ساتھ شہری کلچر لے کر آئی۔ شہر میں بجلی، پانی، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، چمکتے ہوئے سائن بورڈ، چمچماتی کاریں، ہوٹل، پارک، میوزیم، تھیٹر اور اسٹیڈیم ہیں جن کی کشش گاؤں والوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ان بے چارے بھولے بھالے لوگوں کو توبعد میں پتا چلتا ہے کہ شہروں کی چمک دمک کے پیچھے مسائل کے بھیانک عفریت بھی چھپے ہوئے ہیں۔ بہت کم خوش قسمت لوگ شہر میں ترقی کے منازل طے کر کے اونچائیوں کو چھو پاتے ہیں جب کہ زیادہ تر لوگوں کے ہاتھ دکھوں اور پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں آتا۔ شہری زندگی کے موضوعات پر مبنی یہ افسانے انسانیت اور اخلاق کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ ان افسانوں کے ذریعہ ایک طرف تو شہر میں نئے آنے والوں کو شہری زندگی کے مسائل سے آگاہ کر نے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری طرف شہر میں رہنے والوں کو یہاں کی چمک دمک کے پیچھے چھپی پریشانیوں کا احساس دلایا جاتا ہے۔

کئی افسانہ نگاروں نے ان شہری مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ چند مثالیں پیش ہیں۔

Ngugiکے افسانےMinutes of gloryمیں ایک غریب لڑکی نوکری حاصل کرنے کی کوشش میں شہر کے ایک بدمعاش کے ہتھے چڑھ جاتی ہے  جب کہ اسی کہانی کی اور لڑکی جو ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہے، محض شہر کی آزاد فضا میں سانس لینے کی لالچ میں گھر سے بھاگتی ہے اور آخر کار دونوں لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ کئی افریقی افسانوں میں یہ موضوع اپنایا گیا ہے۔ نوجوان لڑکیاں شہر کی چمک دمک سے متاثر ہو کر اس کی طرف کھنچتی ہیں اور آخر کار غریبی، جرم اور جسم فروشی کے دلدل میں پھنس جاتی ہیں۔

Cyprian Ekwensi  کے افسانے  Make-believe night  کی ہیروئن  Bisi  اپنی سہیلی Yemiکے ساتھ شہر کی چمک دمک میں قدم رکھتی ہے۔ اس کی ملاقات ایک لڑکے Koni Johnsonسے ہوتی ہے جو آخر کار ایک بڑا مجرم نکلتا ہے۔ Bisiاس کے چکر میں مجرم بن جاتی ہے اور اس کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔

شہری زندگی کی چمک دمک میں گرفتار ہو کر لوگ اپنے آپ کو ماڈرن، فیشن ایبل اور دوسروں سے بہتر دکھانے کی خاطر اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اور نتیجے میں قرض کے بوجھ تلے بری طرح دب جاتے ہیں۔ Billy Nkunikaکے افسانے Shamo’s Downfall  میں شامو اپنی شہری زندگی کی مصنوعی چمک دمک سے اپنی محبوبہ کو متاثر کر نے کے لیے کمپنی کی رقم چوری کرتا ہے جس کا انجام جیل کی سلاخوں کی شکل میں اس کے سامنے آتا ہے۔

جو لوگ گاؤں سے کچھ بننے کی للک میں شہر آتے ہیں وہ اکثر شہر والوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کر نے کی غرض سے اپنے آپ کو بالکل بدل لیتے ہیں یہاں تک کہ اپنا نام بھی۔ شہری زندگی کو پوری طرح اپنانے کی ہوس میں یہ لوگ گاؤں میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے بھی ہمیشہ کے لیے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی المیہPhilip. J. Dakaکے افسانے  Matyo My Son  میں پیش کیا گیا ہے۔ جس میں ایک ماں اپنے بیٹے Matyo Dinkwiکو ڈھونڈتے ہوئے شہر آتی ہے لیکن لاکھ بھٹکنے کے باوجود وہ اپنے بیٹے کو نہیں ڈھونڈ پاتی۔ وہ بھلا ملتا بھی کیسے اس نے تو شہری زندگی سے خود کو ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنا نام ہی بدل ڈالا تھا۔ اب وہ ایک با عزت شہری  Matthew Deanqui, Esq.  بن چکا تھا۔ اب اس کی ماں بھلا اسے کیسے ڈھونڈ پاتی؟  وہ تو آج بھی اپنے دیہاتی بیٹے Matyo Dinkwi کو ڈھونڈ رہی تھی۔

بہت سارے افریقی افسانوں میں شہر کے مزدوروں کے حالات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ Certain Winds from the South   میں دکھایا گیا ہے کہ شمالی گھانا کے دیہاتوں کے لاتعداد کسان پیسے کمانے کے لیے شہر آتے ہیں لیکن حالات ان کے قدموں کو ایسے جکڑ لیتے ہیں کہ انہیں دوبارہ اپنے گاؤں واپس جانا نصیب نہیں ہوتا۔ Ekwensiکے افسانے Lokotownمیں دکھایا گیا ہے کہ مزدور شہر کی زندگی میں قدم رکھتے ہی شراب اور سستی عورتوں کے جال میں اس طرح پھنستے ہیں کہ تباہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ I.N.C.Aniebo کے افسانےThe Mortar and the Pestle    میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح شہری مزدوروں سے کم اجرت پر زیادہ کام لیا جاتا ہے اور ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ Aniebo کے ایک اور افسانے  Rats and Rabits  کاموضوع بھی یہی ہے لیکن ساتھ ہی اس افسانے میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ مزدور اپنے استحصال سے بے خبر ہیں۔ اس لیے مزدوروں کے حق میں اٹھائی گئی آوازیں اور ہڑتالیں ناکام ہو جاتی ہیں۔

 

۵۔ سیاست

 

افریقہ کے بیشتر ممالک کی تواریخ کے صفحات پر غلامی کے سیاہ دھبے پڑے ہوئے ہیں۔ غلامی کے دور میں آقاؤں نے اپنے غلاموں کا بھر پور استحصال کیا۔ غلامی کے دور کے خاتمے کے بعد جب ان ملکوں کو آزادی نصیب ہوئی تو اقتدار زیادہ تر غلط ہاتھوں میں ہی گیا اور عوام کا استحصال ویسے ہی جاری رہا۔ ظاہر ہے ان حالات میں کہانیاں تو جنم لیں گی ہی۔ بے شمار افریقی افسانوں میں ان سیاسی حالات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان افسانوں کے مطالعہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ دور غلامی میں وہاں کے حالات کیسے تھے؟ ان دنوں عام آدمی کی زندگی کیسی تھی؟ آزادی کی جد و جہد کس طرح چلی؟ آزادی کیسے ملی؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آزادی کے بعد جب اقتدار خود سیاہ فام ہاتھوں میں آ گیا تو ملک کے حالات میں کیا تبدیلیاں آئیں ؟ یہ تبدیلیاں اچھی تھیں یا بری؟ وغیرہ وغیرہ۔ کئی افسانہ نگاروں نے انہیں اپنے افسانوں میں استعمال کیا ہے۔ چند مثالیں پیش ہیں :

Ngugi Wa Thiong’ O نے اپنے افسانوں میں یہ دکھایا ہے کہ باہر سے آنے والے لوگ کس طرح حکومت اور قومی دولت پر قابض ہو جاتے ہیں۔ جن کی زمینیں تھیں انہی کو بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ مجبور افریقیوں کے دل میں غصے کی ایک جوالا مکھی پنپتی رہتی ہے اور اس کے افسانوں میں سیاہ فام افریقی عوام کا غصہ صاف جھلکتا ہے۔ دوسری طرف اس کے افسانوں میں، طنزیہ انداز میں، سفید فام غاصبوں کی ناراضگی بھی دکھائی دیتی ہے جو دراصل سیاہ فاموں کو ’’مہذب‘‘ بنانے کی غرض سے ان کے ملک میں آئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آخر سیاہ فام آزادی کی لڑائی کیوں لڑ رہے ہیں۔ وہ تو ان کا بھلا کر رہے ہیں۔ ایک افسانےGoodbye Africaمیں سفید فام کردار یہ کہتے ہوئے نظر آتا ہے ــ’’ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟ ہم نے انہیں مہذب بنایا۔ ہم نے غلامی کا کاروبار اور قبائلی جنگوں کا خاتمہ کیا۔ کیا ہماری آمد سے قبل وہ لوگ بدترین زندگی نہیں گزار رہے تھے؟ ‘‘۔

Ellis Komeyنے اپنے افسانےI can face you   میں ایسی آزادی کا تصور پیش کیا ہے جس میں افریقی بالکل ہی خود مختار ہوں اور یوروپ، امریکہ یا روس ان کے معاملات میں کوئی دخل نہ دیں۔

آزادی ملنے کے بعد لکھے جانے والے زیادہ تر افسانوں میں آزادی کو نہایت ہی مایوس کن دکھایا گیا ہے کیونکہ آزادی کے بعد جب اقتدار سفید فام ہاتھوں سے سیاہ فام ہاتھوں میں منتقل ہوا تو بھی حالات وہی رہے۔ سیاہ فام حکمراں طبقہ بھی اتنا ہی برا نکلا۔ اس نے بھی استحصال کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ مثال کے طور پر Leonard Kiberiaکے افسانےThe Spider’s Web  میں یہ تصویر پیش کی گئی ہے کہ افریقیوں کے آقاؤں کی جلد کا رنگ تو بدل گیا۔ سفید فاموں کی جگہ سیاہ فام آقا آ  گئے لیکن حالات نہیں بدلے۔ Taban Io Liangکے افسانوں Fixions,  Asu the Great,   اور The Uniformed Man  میں بھی ان نئے آقاؤں کو گزشتہ آقاؤں سے بھی  بد تر دکھایا گیا ہے۔ Ngugiکے افسانے A mercedes Funeral میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یہ نئے آقا شہنشاہوں جیسی زندگی گزارتے ہیں جب کہ عوام زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ Ama Ata Aidooکے افسانےFor whom things did not change    میں بھی یہ بتا یا گیا ہے کہ یہ نئے آقا تو پرانے آقاؤں سے بھی زیادہ ’’غیر ملکی‘‘ ہیں۔ ان میں حکمرانی کا نشہ سفید فاموں سے زیادہ ہے۔ عوام آزادی سے قبل جیسے تھے آج بھی ویسے ہی ہیں۔ اس کہانی میں ایک گورنمنٹ ریسٹ ہاؤس کا اسٹیوارڈ ایک ایسے سرکاری مہمان کی خدمت پر مامور ہے جو افریقی تو ہے لیکن اس کے عادات و اطوار کسی طرح سے افریقی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ سفید فاموں جیسے ہیں۔ اسٹیوارڈ اس سیاہ فام ’’غیر ملکی‘‘ کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ Ngugiکے ایک اور افسانے A Meeting in the Darkمیں حکمراں طبقے کا ایک عیسائی لڑکا ایک عام سی لڑکی سے محبت کر نے لگتا ہے لیکن جب  اسے اپنانے کا موقع آتا ہے تو اسے ایک ان پڑھ، غیر عیسائی، غریب کینیائی لڑکی سے وابستہ ہونے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور آخر کار اس پریشانی کا حل اسے یہی سوجھتا ہے کہ وہ اس لڑکی کو قتل کر دے۔

Chinua Achebeکے افسانوں میں بھی نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے ذریعہ عوام کے استحصال کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔ ایسا ہی ایک افسانہ Vengeful Creditorہے۔  ایک افسانے The Voterمیں ملکی انتخاب کے دوران ہونے والی دھاندلیوں اور بے اعتدالیوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ Girls at warمیں یہ دکھایا گیا ہے کہ حکمراں اپنے مفاد کے لیے نہ صرف قوم کو جنگ کی آگ میں جھونک دیتے ہیں بلکہ اس جنگ سے مالی منفعت بھی حاصل کر نے سے نہیں چوکتے۔ Civil Peaceمیں یہ دکھایا گیا کہ جنگ سے نائجریا کا کچھ بھلا نہیں ہوا بلکہ جنگ کے خاتمے کے بعد جب امن کا دور آیا تو وہ اس جنگ سے بھی بدتر ثابت ہوا۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ افریقی افسانوں میں غلامی، آزادی کی تحریک اور آزادی کے بعد کے سیاسی حالات کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے اور ان کے مطالعہ سے قاری کو افریقہ کے سیاسی حالات سے بھرپور واقفیت حاصل ہو سکتی ہے۔

 

۶۔ فن اور فنکار

 

افریقی افسانوں میں سیاہ فام فنکاروں کو حساس اور محروم انسانوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ ایسے انسان جن کی قدر نہیں کی جاتی اور جو اپنے وجود کے ساتھ ساتھ اپنے فن کی بقا کی جد و جہد میں مصروف ہیں۔ یہ بے حد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں  اور اکثر اپنی غیر مطمئن زندگی سے تنگ آ کر خودکشی تک کر لیتے ہیں۔

Mtutuzeli Matshobaکے افسانے To Kill a Man’s Pride   میں دکھایا گیا ہے کہ سیاہ فام محنت کش بڑی مشکل کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے ساتھ نسلی امتیاز برتا جاتا ہے، بے حد کم اجرت پر ان سے خطرناک اور مشکل ترین کام لیے جاتے ہیں۔ رات کو جب وہ اپنے ہوسٹل میں لوٹتے ہیں تو وہاں کے حالات بھی کچھ کم تکلیف دہ نہیں ہوتے۔ وہاں وہ اس بری حالت میں رہتے ہیں کہ انھوں نے خود ہی اپنی قیام گاہوں کو Auschwitzکا نام دے رکھا ہے۔ (دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں نے کچھ خاص قسم کے عقوبت خانے بنوائے تھے، جنہیں Auschwitz کا نام دیا تھا۔ ان میں لاکھوں لوگ، جہنم جیسے حالات میں، بندھوا مزدوروں کے طور پر کام کرتے  تھے)۔ سیاہ فام محنت کش پورے ہفتے کی جی توڑ محنت کے بعد چھٹی کے دن اکٹھے ہوتے ہیں، ایک ساتھ ناچتے ہیں، گاتے ہیں اور موسیقی کا لطف اٹھاتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کی کڑواہٹوں کو کم کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔

Kaizer Ngwenyaکے افسانے Dreams Wither Slowly  فن کی ناقدری کی بڑی اچھی عکاسی کی گئی ہے۔ اس افسانے کا ہیرو Bennyجو ایک موسیقار ہے، اپنے فن کو دنیا تک پہونچانے کے لیے بڑی سخت محنت کرتا ہے اور کڑی آزمائشوں سے گزرتا ہے۔ لیکن آخر کار اسے پتا چلتا ہے کہ اس کے اعلیٰ فن کی یہاں کوئی قدر نہیں ہے اور سوائے بھوکوں مرنے کے اس کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں۔ ہاں اگر وہ بدقماش امراء کے لیے سوقیانہ اور سستا فن پیش کرے تو اس کے دن بدل جائیں گے، اس کو عزت، دولت، شہرت سب مل جائے گی۔ لیکن وہ ایسا کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتا۔ اس کی بیوی، بچے، دوست سب اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ زندگی کی راہ میں تنہا رہ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے نوکری کو بھی خیرباد کہنا پڑتا ہے اور آخر کار ایک دن وہ خودکشی کر لیتا ہے۔

ایسے ہی بہت سارے افریقی افسانے مل جائیں گے جن میں فن اور فنکار کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جن میں یہ دکھایا گیا کہ فن کی یہاں کوئی قدر نہیں۔ اس دنیا میں وہی فنکار کامیاب ہو سکتا ہے جو کسی طوائف کی طرح اپنا فن بیچے۔ سیاہ فام فنکاروں کے ساتھ کیا جانے والا نسلی امتیاز بھی ان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ان کی جلد کا رنگ اکثر ان کے فن پر حاوی ہو جایا کرتا ہے اور لوگ اکثر فن کی قدر محض اس لیے نہیں کرتے کہ وہ کسی سیاہ فام ہاتھوں کی تخلیق ہوتا ہے۔

 

۷۔  قسمت کی ستم ظریفی

 

اکثر افریقی افسانہ نگاروں نے روزمرہ کی قسمت کی ستم ظریفی کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ انسان نے زندگی سے کچھ اور امیدیں باندھی ہوتی ہیں لیکن زندگی اسے کچھ اور ہی دیتی ہے جو اس کی امیدوں کے بالکل خلاف ہوتا ہے۔ انسان زندگی کی اس ستم ظریفی پر بھونچکا رہ جاتا ہے۔

Achebeکے افسانے Civil Peaceمیں ایک خاندان امن کے زمانے میں خود کو زیادہ غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ اس خاندان کا سربراہ جوناتھن جنگ شعلوں کے درمیان سے اپنا بہت کچھ صحیح سلامت بچالا نے میں کامیاب ہوتا ہے۔ لیکن امن کے زمانے میں وہ لٹ جاتا ہے۔ اسی طرح Anieboکے ایک افسانےA Hero’s Welcome میں ایک سپاہی محاذ جنگ سے زندہ بچ کر اپنے گھر واپس آتا ہے جہاں وہ اپنے ہی باپ کے ساتھ ہونے والے ایک جھگڑے میں مارا جاتا ہے۔

David Owoyeleکے افسانےThe Will of Allah   میں دو ایسے چوروں کی کہانی ہے جو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے لیکن پھر بھی ایک ساتھ مل کر چوریاں کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک چور، چوری کا مال اکیلے ہڑپنا چاہتا ہے لیکن وہ ایک سانپ کا شکار ہو جاتا ہے۔ مرتے مرتے بھی وہ اپنی خباثت سے باز نہیں آتا اور اپنے ساتھی کو بھی اس سانپ سے ڈسوا دیتا ہے۔ اس کا یہ ساتھی جو ایک کامیاب واردات کی خوشی میں چُور تھا اس اچانک حادثے پر حیران رہ جاتا ہے۔ Grace Ogotکے افسانےGreen Leavesمیں بھی ایک چور ایک مردہ چور کا مال چراتے ہوئے اسی طر ح اچانک مارا جا تا ہے۔

Cyprian Ekwinski کے افسانے The Indispensable   کا ایک کردار،  ایک نہایت ہی باصلاحیت ڈاکٹر، اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ اپنی میڈیکل ٹیم کے لیے بہت ہی اہم ہے اور اس کے بغیر ان کا کام نہیں چل سکے گا۔ نتیجے میں وہ ضرورت سے زیادہ کام کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتا ہے اور آخر کار بری طرح نڈھال ہو کر گر پڑتا ہے اور مر جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس کی ٹیم کے لیے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے اور جلد ہی اس کا نعم البدل تلاش کر لیا جاتا ہے۔

Zlezaکے افسانےAt the crossroadکا کردار، ایک پولیس والا اچانک اس انکشاف پر حیران رہ جاتا ہے کہ رات کی تاریکی میں وہ جس قاتل کا پیچھا کر رہا تھا وہ دراصل اس کا اپنا ہی بیٹا ہے۔

Eldred Durosimiکے افسانےA Man Can Tryمیں ایک شخص اپنی بہت پیار کر نے والی سیاہ فام بیوی کو ٹھکرا کر ایک سفید فام عورت سے شادی کر لیتا ہے لیکن شادی کے بعداسے پتا چلتا ہے کہ اس کی سفید فام بیوی اس سے ذرا بھی پیار نہیں کرتی۔ اب اسے احساس ہو تا ہے کہ اس نے ہیرے کو ٹھکرا کر کانچ کا ٹکرا قبول کر لیا ہے۔

Mafika Paskalکے افسانے  Side Stepمیں ایک کم عمر اسکولی طالبہ، کہانی کے ہیرو سے محبت کر نے لگتی ہے لیکن وہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ برسوں بعد جب وہی لڑکی ایک خوبصورت عورت کی شکل میں اس کے سامنے آتی ہے تو وہ اسے چاہنے لگتا ہے لیکن اب وہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتی۔

Abioseh Nicolکے افسانے The Truly Married Womanکی ہیروئن جو ہیرو کے ساتھ برسوں سے رہ رہی ہے اور اس کے بچوں کی ماں بھی ہے، ہیرو کی ہر خدمت کرتی ہے۔ پھر ایک دن وہ دونوں چرچ میں جا کر شادی کر لیتے ہیں اور باقاعدہ شوہر بیوی بن جاتے ہیں۔ دوسری صبح وہ ہیرو کو بیڈ ٹی نہیں دیتی ہے بلکہ وہ ہیرو سے کہتی ہے کہ اب چونکہ وہ اس کی باقاعدہ بیوی ہے اس لیے اب روزانہ وہ اس کے لیے بیڈ ٹی لایا کرے اور اس کی دوسری ضروریات کا خیال رکھے۔

 

                   افریقی افسانوں کا اسلوب

 

افسانہ نگار ی ایک مشکل فن ہے۔ افسانہ سیدھی سادی ’کہانی‘ سے کافی الگ ایک صنف ہے۔ جس طرح ایک تراشیدہ ہیرے میں بہت سارے پہلو ہوا کرتے ہیں اور ہر پہلو اپنے طور پر روشنی کا انعکاس کرتا ہے۔ ہیرے کی چمک دراصل ان ساری منعکس کرنوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ٹھیک ویسے ہی افسانے کے بھی مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر پہلو اپنے طور پر روشن ہوتا ہے اورافسانے کی کامیابی یا ناکامی کا دارو مدار ان کے مجموعی تاثر پرہی قائم ہوتا ہے۔

ذیل میں ہم افریقی افسانوں کے ان مختلف پہلوؤں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

 

۱۔ افریقی افسانوں کی زبان

 

لفظوں کے استعمال کے معاملے میں شاعری کے بعد افسانہ نگاری کا ہی نمبر آتا ہے۔ افسانے کا ہر لفظ افسانے میں ویسے ہی جڑا ہوتا ہے جیسے کسی جڑاؤ ہار میں نگینے۔ افسانہ نگار عام الفاظ کو خاص انداز میں استعمال کرتا ہے اور کبھی کبھی ایک لفظ کا غلط استعمال پورے افسانے کی خوبصورتی کو گرہن لگا دیتا ہے۔

جب ہم افریقی افسانوں کی زبان پر نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر افریقی افسانے زبان کے اس سخت معیار پر پورے اتر تے ہیں۔ کبھی کبھی Themeکمزور ہوتے ہوئے بھی افسانہ محض زبان کی بنا پرمعیاری بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر Cyprian Ekwensi   کے افسانوں کو نقادوں (Anna Rutherford وغیرہ)نے موضوع کے لحاظ سے ہلکا قرار دیا ہے  لیکن الفاظ کے خوبصورت استعمال نے ان افسانوں کو زندگی بخش دی ہے۔ اسی طرح Bereng Setuke   کے افسانے  Dumani  کو بھی محض اس کی زبان کی وجہ سے نقادوں نے سرا ہا ہے۔

عام طور سے افریقی افسانوں کی زبان نہایت سلیس ہوتی ہے اور ان میں الفاظ کا نپا تلا استعمال ملتا ہے۔ ایسے افسانوں کی تعداد بہت کم ہے جن کی زبان کمزور ہو۔

 

۲۔ افریقی افسانوں میں افریقیت

 

افریقی افسانہ نگار اپنے افسانوں میں حقیقی افریقہ پیش کرنا چاہتے ہیں جب کہ جس زبان میں وہ لکھ رہے ہوتے ہیں (یہاں میری مراد خاص طور سے انگریزی میں لکھے افریقی افسانوں سے ہے) وہ ایک غیر ملکی زبان ہے، جس کا تعلق یوروپی یا امریکی کلچر سے ہے۔ اپنے افسانوں میں  True Africa  پیش کرنے کے لیے وہ انگریزی زبان کو اپنے خاص انداز میں استعمال کرتے ہیں جو برٹش یا امریکی انگریزی افسانوں کی زبان سے قطعی مختلف ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں انگریزی افریقی افسانوں کی زبان وہ ہوتی ہے جو انگریزی بولنے والے افریقی ممالک میں عام طور سے بولی جاتی ہے۔ اس طرح ان افسانوں کی زبان انگریزی ہوتے ہوئے بھی ان میں افریقیت برقرار رہتی ہے۔

یہاں مثال کے طور پر Ama Ata Aidoo کے افسانوی مجموعے  No Sweetness Here کو رکھا جا سکتا ہے۔ ان افسانوں میں گھانا کے افریقیوں کی زبان، ان کا لہجہ، ان کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے الفاظ، ان کا انداز گفتگو، ان کے طور طریقے، ان کی گفتگو کے موضوعات وغیرہ کا بخوبی استعمال کیا گیا ہے۔ ایک افسانے Something To Talk About On The Way To The Funeral  میں Aidoo   نے عام گپ شپ کو داستان سرائی کی تکنیک کے طور پر استعمال کیا ہے۔

افریقی افسانوں میں ترجمہ شدہ یا غیر ترجمہ شدہ مقامی الفاظ، شہروں کی عام بول چال اور محاورات و ضرب الامثال بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر Mafika Gwalaنے اپنے افسانے Reflection In A Cell   میں انگریزی میں ترجمہ شدہ افریقی الفاظ استعمال کیے ہیں۔ Mbulelo V. Mzamaneکے افسانوں A Present For My Wife  اور The Sweeto Bride  میں، Mongane W Serote  کے افسانےLet’s Wonder Togather  میں اور Monteane Melamuکے افسانے Bad Times, Sad Times  میں بھی افریقی الفاظ اور محاورات کا بخوبی ستعمال کیا گیا ہے۔ Musi،  Heyns  اور Black Stan بھی اپنے افسانوں میں اکثر افریقی محاورات کا استعمال کرتے ہیں۔ مشرقی افریقہ کے افسانہ نگاروں میں یہ روایت کم ہے۔ Ngugi  اور  Grace Ogot  اپنے افسانوں میں ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن بہت کم۔

I.N.C. Aniebo،  Ekwensi  اور  Chinua Achibe  اور کئی دیگر افسانہ نگار اپنے افسانوں میں بگڑی ہوئی انگریزی کے الفاظ اور ضرب الامثال کا استعمال کرتے ہیں یعنی وہ انگریزی جو افریقی عوام میں رائج ہے۔ مثال کے طور پرAchibeکے افسانےCivil Peace   میں Ex-gratia کو افریقی عوامی لہجے میں Egg-rasher  لکھا گیا ہے۔ Alex Ia Guma کے افسانے A walk in the night   میں Boss کی بگڑی ہوئی افریقی شکل Baas   کا استعمال ہوا ہے۔ Steve Chemombo کے افسانے The Rubbish Dump  میں  Morning کے لیے بول چال میں استعمال ہونے والا عام لفظ  Moni کا استعمال ہوا ہے۔ Civil Peace  میں چوروں کی آمد پر گھر والوں کے چیخنے کا انداز خالص افریقی ہے۔ "Police-o! Teifmen-o! Neighbours-o! We done loss-o! Police-o!”  دوسری طرف چور اُن سے جس لہجے میں مخاطب ہوتے ہیں وہ بھی بگڑی ہوئی افریقی انگلش ہے۔

ــ” My frien …. we don try our best for call dem but I tink say dem all done sleep-o …. so wetin we go do now?”

بعض افریقی افسانوں میں افریقی الفاظ کا استعمال جوں کا توں کر دیا جاتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ ان افسانوں کو غیر افریقی بھی پڑھیں گے جیسے Abdulrazzak Gurnah کے افسانے Cagesمیں  Zuwarde, Msichana, Mzungu  جیسے افریقی الفاظ کا استعمال ہوا ہے۔ Okey Chigboکے افسانےThe Housegirlمیں ’خدا ‘کے لیے  Chineke!  لفظ کاکئی بار استعمال ہوا ہے۔ اسی افسانے میں جسم فروش لڑکی کے لیے agaracha کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ویسے ہی Njabulo S. Ndebeleکے افسانے The Prophetes   میں kena ,  voetsek , doek,  Lumela ‘me,  Eea ngoanaka, Heit   جیسے افریقی الفاظ،  Sembene Ousmane کے افسانے The False Prophet میں Bilahi-vahali  کے الفاظ،  Lindiwe Mabuzaکے افسانےWake  میں Thina Silangazela Ikhaya Laphezulu  Seis,    Kutheni na,   Msila,  Mos,  Abantwana,  Baba,  Qha, Mama We! Awu Baba,  Mntungwa mbu,   اور Lomtwana wethu intombi   جیسے افریقی الفاظ اور فقرے موجود ہیں۔ Honwana کے افسانے Papa, Snake & I  میں افریقی زبان Ronga کا ایک جملہ  Tatan, ha ku dumba hesi ya lilo misaba …    موجود ہے۔ ایسی ہی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

افریقی افسانوں میں افریقی لباسوں کے نام جیسے Capulana, Djellaba, Jalabiya, Galabia, Danshiki, Doek, Boubou   وغیرہ،  افریقی کھانوں کے نام جیسے Ugba, Akara, Akamu, Mealie-meal   وغیرہ،  افریقی کرنسی کے نام جیسے Kwanza, Pula, Nakfa, Dalasi, Loti, Naira, Dobra, Lilangeni وغیرہ،  غیر افریقیوں خصوصاً یورپی سفید فاموں کے لیے استعمال ہونے والے نام جیسے  Mzungu, Boer  وغیرہ،  رنگوں کے افریقی نام جیسے Zik،  Balewa،  Awolowo،  Lugard وغیرہ، پیمائش کی اکائیاں Morgen   اور   Feddan  وغیرہ کا استعمال بکثرت ملتا ہے۔

افریقی افسانوں میں اکثر افریقی نظموں اور گیتوں کو بھی ترجمہ کیے بغیر جوں کا توں استعمال کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر Steve Chimomboکے افسانےThe Rubbish Dumpمیں ایک لڑکا کھیلتے ہوئے ایک افریقی گیت گنگنا رہا ہے:Azungu nzeru   /   kupanga ndege   /   si kanthu kena   /  koma ndi khama    اس گیت کو افریقی زبان میں ہی جوں کا توں لکھ دیا گیا ہے۔

 

۲۔ افریقی افسانوں میں ڈرامائی عناصر

 

افسانہ ڈرامے سے تھوڑی بہت مشابہت رکھتا ہے کیونکہ اس میں بھی مکالموں اور واقعاتی تسلسل پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ افریقی افسانوں میں بھی یہ التزام بدرجہ اتم موجود ہے۔ زیادہ تر افریقی افسانوں میں ڈرامائی عنصر موجود ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر Patonکے افسانےDebbie Go Home   اور  The Wasted Landکا انداز بالکل ریڈیائی ڈراموں جیسا ہے۔ Chinua Achebe کے افسانے Civil Peace میں بھی ڈرامائیت اپنے عروج پر ہے۔ William Saidi،  Ezekoel Maphahlele،  Ahmed Essop اور  Abdulrazzak Gurnahوغیرہ کے ڈرامائی تسلسل اور مکالموں کا بہت اچھا توازن دکھائی دیتا ہے۔ Ama Ata  Aidooاپنے افسانوں میں مکالموں کے ذریعہ مختلف قسم کے تجربے کرتی ہے۔ اپنے افسانوی مجموعےNo Sweetness Hereکے کئی افسانوں میں اس نے صرف متکلم کے مکالمے اس طرح لکھے ہیں کہ مخاطب کا جواب قاری کے ذہن میں اپنے آپ گونج اٹھتا ہے۔ بیشکAidooاپنے ان تجربات میں لاجواب طریقے سے کامیاب رہی ہے۔

 

۳۔ افریقی افسانوں میں شعری عناصر

 

افریقی افسانوں کی زبان میں عام طور سے بڑی روانی اور موزونیت پائی جاتی ہے یہاں تک کہ ان میں کبھی کبھی لے کا التزام بھی موجود ہوتا ہے جس سے افسانہ شاعری کی سطح تک پہونچ کر نثری نظم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ Achebeکا افسانہThe Madman  ،  Mongo Tshabanguکا افسانہThoughts in a train ،  Kibera  کا افسانہ The Spider’s Web ،  Ngugi کا افسانہ Minutes of Glory  ،  Naduine Gordimer  کا افسانہ The Bridegroom ،  Mazamaneکا افسانہ    A Present For My Wife ،  Baleni Khumalo  کا افسانہ I did not know ،  Bessie Head کا افسانہ  Snapshots Of A Wedding  ،  Owoyele کا افسانہ   The Will of Allah وغیرہ ایسے افسانوں کی بہترین مثالیں ہیں جن کا انداز بیاں شاعرانہ ہے۔ ۔ ان کی زبان کی جامعیت، صوتی آہنگ، تکرار، تشبیہات و استعارات، مبالغہ اور مجاز مرسل کی موجودگی انہیں شاعر ی سے قریب تر کر دیتی ہیں۔

Grace Ogot  کو الفاظ سے منظر کشی کرنے میں مہارت حاصل ہے وہ بالکل ایک تصویر سی آنکھوں کے سامنے پینٹ کر دیتی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔

’’ راستے کے کنارے اُگی لمبی لمبی گھاس شبنم کے قطروں کے بوجھ تلے جھکی جا رہی تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے طلوع ہوتی صبح نوکے لیے دعامیں مشغول ہو۔ ‘‘

’’ ڈوبتے سورج کی سرخ کرنوں نے اوگانڈا کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا اور وہ اس بیابان میں کسی جلتی ہوئی شمع کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ ‘‘

ویسے ہی Alex  Ia Guma  کے یہ چند جملے ملاحظہ فرمائیں :

’’سورج تقریباً ڈوب چکا تھا اور بادل آسمان کے کناروں پر خون میں بھیگے کمبلوں کی طرح لٹکے ہوئے تھے‘‘

’’سورج مغرب کی طرف اچھا خاصا جھک چکا تھا اتنا کہ افق پر جھکے ہوئے بادلوں کا رنگ زرد ہو گیا تھا بالکل انڈے کی زردی جیسا‘‘

افریقی افسانوں میں صرف شاعرانہ زبان اور شعری آہنگ ہی استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ باقاعدہ شاعری کا ابھی استعمال ملتا ہے۔ نظموں اور گیتوں کا استعمال افریقی افسانوں میں عام ہے۔ مثال کے طور پر Ngugi wa Thiong’ O  کے افسانے Minutes of Gloryکی یہ چھوٹی سی نظم دیکھئے :

When I left Nairobi for Ilmorog  /  Never did I know  /  I would bear this wonder-child mine  /  Nyang’ endo

Tijan M. Sallahکے افسانے  Weaverdom  میں کئی گیتوں کا استعمال کیا گیا ہے جیسے  Song of the Grass, Song of the Forced Grass, Song of the Rain,  Song of the Forced ‘Lesser’ Souls,  Sermon of the Weaver

Najabulo S. Ndebeleکے افسانے The Prophetess  میں Prophetessایک گیت گاتی ہے:

If the fish in the river  / boiled by the midday sun / can wait for the coming evening,  /  we too can wait   / in this wind-frosted land,  /  the spring will come,  /  the spring will come.  / If the reeds in winter / can dry up and seem dead  /  and then rise / in the spring, / we too will survive the fire that is /  coming / the fire is coming, / we too will survive the fire that is  /  coming

Lindiwe Mabuzaکے افسانے Wakeمیں استعمال کی گئی اس طویل نظم کی چند لائنیں ملاحظہ فرمائیں :

It is ours / this land / the air / the water and the sun / it is ours / when someone says nay nay nay / say, I beg your pardon, nay / also ours the mountains / the fruits in valleys / from end to endless end / ours all……

ویسے ہی Kyalo Mativoکے افسانےOn the market day کے اس طویل گیت کی یہ لائنیں دیکھیں :

When the moon shines / it is because Mbula is out there / Visiting the people;

When the wind blows / It is because Mbula / Is caring for the sick؛

When the sun rises / It is because Mbula / Rose up early to attend to the young;

So what do you say?

اسی افسانے میں ایک اور مقام پر یہ لائنیں درج ہیں۔ ذرا ان کی شاعرانہ بلاغت ملاحظہ فرمائیں :

We have heard his foot steps / Shuffling among the weeds / And on the countryside on rainy days / We have seen his deeds; / And we have felt his tears / Trickling on our cheeks: / And he will feed the hungry / For he is the son of the country

 

۴۔ افریقی افسانوں میں قصہ گوئی کے عناصر

 

زمانۂ قدیم سے افریقہ میں فنِ قصہ گوئی کافی مقبول رہا ہے۔ وہ زمانہ جب لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تب پیشہ ور قصہ گو ہوا کرتے تھے جو گاؤں گاؤں گھوم کر لوگوں کو قصے اور داستانیں سنایا کرتے تھے اور بدلے میں لوگ انہیں اناج اور پھل دے دیا کرتے تھے۔ قبائلی علاقوں میں یہ فن آج بھی زندہ ہے اور لو گ آج بھی اسی ذوق و شوق سے قصے سنا کرتے ہیں۔ آج کے افریقی ادب پر کہیں نہ کہیں افریقی زبانی ادب کے اثرات موجود ہیں اور افریقی افسانے اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ افریقی افسانوں میں شاعرانہ آہنگ پائے جانے کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ ان کا رشتہ براہ راست روایتی قصہ گوئی سے جڑا ہوا ہے۔ قصہ گو اپنے قصوں کو عموماً گا کر سنا یا کرتے تھے اسی لیے ان میں صوتی آہنگ، صوتی الفاظ اور تجنیس حرفی موجود ہوا کرتے تھے، نظموں اور گیتوں کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ آج بھی زیادہ تر افریقی افسانہ نگار شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے افسانوں میں ان روایات کا استعمال کرتے ہیں۔

بعض افسانوں میں تو کہانی کہنے کا انداز ہی روایتی قصہ گوئی جیسا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر افسانہBossy ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:

’’بہت دنوں پہلے کی بات ہے، ندی کے پشتے پر بیٹھے، ہوا میں پیر ہلاتے ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

اسی طرح  The moon shall be my witness   میں  Leshoai  نے یہی طریقہ اپنایا ہے:

’’کسی زمانے میں ماہلو مولا میں دو دوست رہتے تھے جن کے نام Ou Breench  اور  Skeelie  تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

اکثر افریقی افسانوں میں یہ انداز بیان پایا جاتا ہے جو داستانوں کا مخصوص انداز ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں آج کے افریقی افسانے پر کہیں نہ کہیں افریقی زبانی ادب کی چھاپ موجود ہے۔

 

۵۔ افریقی افسانوں میں طنزیہ عناصر

 

طنز افریقی افسانوں کا ایک اہم عنصر ہے جو زیادہ تر افسانوں میں پایا جاتا ہے۔ افسانہ نگار کسی بات کو ایسے پیرائے میں بیان کرتا ہے جس میں بظاہر وہ کسی چیز کی تعریف کرتا ہے لیکن اس کا اصل مقصد دراصل اس کی تضحیک  ہوتی ہے۔ وہ قارئین کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ چیز جو اتنی اچھی لگ رہی ہے حقیقت میں اچھی نہیں ہے بلکہ بہت بری اور نقصان دہ ہے۔ در اصل وہ ایک کڑوا سچ ہلکے پھلکے مزاح کے کیپسول میں بھر کر قاری کے سامنے رکھ دیتا ہے۔

مثال کے طور پر Jacky Heynsکے افسانے Our Last Flingمیں نسلی منافرت کو سفید فاموں کے لیے ایک بوجھ دکھایا گیا ہے جسے وہ خواہ مخواہ ڈھوئے جا رہے ہیں جب کہ کالے ان حالات سے بے حد خوش ہیں اور نسلی منافرت کی فضا کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔ اسی طرح Ia Gumaکے افسانےA matter of tasteمیں دو سیاہ فاموں کو ایک سفید فام کے ساتھ انتہائی محبت کے ساتھ پیش آتے اور اپنی چیزیں shareکرتے دکھایا گیا ہے۔ بات حقیقت کے بالکل خلاف ہے لیکن افسانہ نگار کے طنزیہ اندازسے قاری با آسانی بات کی تہہ تک پہونچ جاتا ہے۔

Willian Saidiکے افسانےEducated Peopleمیں ایک شادی شدہ جوڑے کو دکھایا گیا ہے جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ اور نہایت با اصول ظاہر کر نے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن اصلیت یہ ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کی نظر میں نہایت ہی بے وقوف، توہم پرست، بد تمیز، مغرور، خودپسند اور کمینے قسم کے لوگ ہیں۔

مذہب اپنی جگہ پر اچھی چیز تو ہے لیکن اس کا سہارا لے کر لوگوں کو بڑی آسانی سے بیوقوف بنا یا جا سکتا ہے۔ نقلی سادھوؤں، پیروں اور فقیروں کی ایک بڑی تعداد ہر ملک میں اور زمانے میں موجود رہی ہے۔ کئی افریقی افسانہ نگاروں نے اس پہلو کو موضوع بنا کر طنزیہ افسانے لکھے ہیں۔ Bessie Headنے اپنے افسانےThe Village Saint  میں ایک تارک الدنیا صوفی کو دکھایا ہے جو دراصل ایک دنیا دار شخص ہے اور سادھو کے روپ میں شیطان ہے۔ کچھ ایسا ہی Sembene Ousmaneکے افسانےThe False Prophetمیں ہے جس میں محمود فعل نامی ایک دنیا دار شخص ایک دور دراز علاقے میں جا کر امامت کرتا ہے اور دینداری کا ڈھونگ رچا کر کافی دولت کماتا ہے۔

David Owoyeleکے افسانےThe Will of Allah   میں Sule ایک چور ہوتے ہوئے بھی نہایت ہی مذہبی انسان ہے اور خدا پر یقین کامل رکھتا ہے۔ اس کے دل میں خوف خدا حقیقی معنوں میں جاگزیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ چوری کے معاملے میں وہ اپنا خاص نظریہ رکھتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ اللہ نے رزق کے حصول کا طریقہ لوگوں پر ہی چھوڑ دیا ہے۔ اس نے کچھ لوگوں کو ضرورت سے زیادہ دے رکھا ہے جب کہ کچھ لوگ دانے دانے کے محتاج ہیں۔ اللہ اتنا ظالم نہیں ہو سکتا کہ وہ کچھ لوگوں کو بھوک سے مر نے دے اور کچھ لوگوں کے پیٹ زیادہ کھانے کی وجہ سے پھولتے چلے جائیں۔ اپنی اسی سوچ کی بنیا د پر Suleچوری کو جائز ٹھہراتا ہے اور اسے اپنا پیشہ بنا لیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ عدالت میں جج کے سامنے بھی یہی دلیل پیش کرتا ہے۔

Mbulelo V. Mzamaneکے افسانے A present for my wife   میں بھی چوری سے متعلق ایک دلچسپ طنزیہ کہانی پیش کی گئی ہے۔ اس افسانے میں دو شادی شدہ جوڑے ہیں جو ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ ان کی بیویاں چوری کو بہت بڑی لعنت سمجھتی ہیں۔ وہ اپنے شوہروں سے ان کی آمدنی سے زیادہ بڑی فرمائشیں کیا کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک کا شوہر بیوی کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے چوریاں شروع کر دیتا ہے۔ جب کہ دوسرا شخص چوری سے گریز کرتا ہے۔

کہانی کے آخر میں پتا چلتا ہے کہ دوسرا شخص چوری سے اجتناب اس لیے نہیں کرتا کہ وہ اسے برا سمجھتا ہے بلکہ دراصل اس میں اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی ہے کہ وہ باہر جا کر چوریاں کرے۔ وہ تو اپنے پڑوسی دوست کی بیوی کے بٹوے سے رقم نکال لیا کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنے دوست کو مزید چوریاں کرنے پر اکساتا ہے تاکہ دونوں کا کام چلتا رہے۔

Saida Hagi-dire Herziکا افسانہ Government by magic spell   میں حلیمہ نامی ایک گاؤں کی عام سی لڑکی کے بارے میں یہ مشہور ہو جاتا ہے کہ اس پر جن کا سایہ ہے جس کی وجہ سے اس میں بہت طاقت آ  گئی ہے۔ بر سر اقتدار پارٹی کے اہلکاروں تک بات پہونچتی ہے تو وہ حلیمہ کو راجدھانی لے جاتے ہیں اوراس کا استعمال کرتے ہوئے توہم پرست اور جاہل عوام کے دلوں میں جنوں کا خوف بٹھا کر حکومت پر اپنی پکڑمزید مضبوط کر لیتے ہیں۔

افریقہ میں جھاڑ پھونک کا رواج حد سے زیادہ ہے اور قبائلی علاقوں میں بیماروں کے علاج کے لیے آج بھی ڈاکٹروں کے بجائے جھاڑ پھونک کرنے والے عامل(Witch doctor) پائے جاتے ہیں۔ Njabulo S. Ndebeleکے افسانے The Prophetess  میں جھاڑ پھونک کرنے والی ایسی ہی ایک عورت کا ذکر ہے جسے سب Prophetessکہتے ہیں۔ لوگوں میں مشہور ہے کہ اس کے دم کیے ہوئے پانی کو پی کر مریض شفا یاب ہو جاتے ہیں۔ ایک لڑکا بڑی زحمت اٹھا کر اس تک پہونچتا ہے اور اپنی بیمار ماں کے لیے اس سے پانی پر دم کرواتا ہے لیکن راستے میں بوتل ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ ماں کی تسلی کے لیے ایک دوسری بوتل میں نل کا پانی بھر کر اسے دے دیتا ہے جسے پی کر وہ خود کو بہتر محسوس کرتی ہے۔ اس طرح افسانہ نگار نے نہایت سلیقے سے توہم پرستی کا مذاق اڑایا ہے۔

بعض افریقی افسانوں میں کرداروں کے نام ہی طنزیہ انداز میں رکھے جاتے ہیں جو ان کی اصلیت کے بالکل خلاف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر Kuneneنے اپنے ایک کردار، ایک بد قماش افسر، کوMr. Blessingکا نام دیا ہے جب کہ یہ شخص سیاہ فاموں کا سخت دشمن ہے۔ ویسے ہی Heynsایک تعصب پرست سفید فام شخص کو طنزیہ طور پر Poor whitemanکہہ کر پکارتا ہے۔ Obed Musi  اپنے افسانے میں Bloemfonteinنامی مقام کو، جہاں سیاہ فام ہمیشہ کرفیو کی زد میں رہتے ہیں، Centre of Culture and Agricultureکا نام دیتا ہے۔

 

۶۔ افریقی افسانوں میں روایت اور جدیدیت

 

عام طور پر افریقی افسانوں کا انداز روایتی ہوتا ہے۔ ان کی زبان میں لوک کہانیوں والی سلاست ہوتی ہے۔ ان کے کردار عام زندگی کے جیتے جاگتے کردار ہوتے ہیں جو زندگی کی حقیقتوں سے بے حد قریب ہوتے ہیں۔ افسانوں میں ’کہانی پن‘ واضح طور پر نمایاں ہوتا ہے۔ پلاٹ قابل یقین ہوتا ہے اور کرداروں کے مکالموں میں حقیقت کا رنگ جھلکتا ہے۔ وہ اسی زبان میں باتیں کرتے جس زبان میں عام انسان باتیں کرتے ہیں۔ کرداروں کے لباسوں، غذاؤں اور دیگر اشیا کا ذکر اس تفصیل سے ملتا ہے کہ پورا منظر آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح ابھر آتا ہے۔ کہانیوں کی زبان عموماً سلیس اور با محاورہ ہوتی ہے جس میں نثری نظموں جیسی بلاغت پائی جاتی ہے۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان افسانوں کو پڑھتے وقت قاری کو کسی اجنبی پن کا احساس نہیں ہوتا ہے اسے لگتا ہے کہ یہ کردار اسی کی دنیا کے کردار ہیں اورایسے واقعات اپنی روز مرہ کی زندگی میں وہ کہیں نہ کہیں دیکھ چکا ہے۔

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ افریقی افسانوں میں جدید یت کی بود و باش نہیں ہے۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی لہریں یہاں بھی پہونچیں ہیں۔ کم تعداد میں سہی لیکن یہاں بھی جدید اور مابعد جدید افسانے لکھے گئے ہیں اور لکھے جا رہے ہیں۔

جدید تجرباتی افسانوں میں حقیقت کو نئے نئے زاویوں سے دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس طرح یہ کہانیاں حقیقت بیانی سے دور بھٹک کر فنطاسیہ کی حدوں میں داخل ہو جاتی ہیں۔ ان کے کردار اور واقعات ناقابل یقین لگنے لگتے ہیں۔ غیر منطقی اور ناقابل اعتبار واقعات اور پلاٹ سے مبالغہ آمیز مفہوم با آسانی نکالے جا سکتے ہیں۔ ان افسانوں کا انداز بیشتر اوقات شاعرانہ بھی ہو جا تا ہے۔ افسانہ جتنا زیادہ تجرباتی ہو گا وہ حقیقت نگاری سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جائے گا۔

Kuneneکے افسانےThe spring of life   میں ایک طرف ہیرو سے دفتری پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے اور دوسری طرف اس کے دماغ میں خیالات کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ دو رویہ مکالمے ایک ساتھ مل کر ایک عجیب سا تاثر پیدا کرتے ہیں۔  Marecheraکے افسانے  Protista  کا انداز بیاں اسے مغرب کے Surrealistic  اور Existentialistic   افسانوں سے قریب کر تا ہے۔ Kibera   کا افسانہThe spider’s web   ایک بہترین علامتی افسانہ ہے۔ اس افسانے میں تشبیہات و استعارات اور پیچیدہ علامتوں کا زبردست استعمال ملتا ہے جیسے نوخیز پودا، مکڑی کا جال، رانی شہد کی مکھی، ٹوپی، چاقو، تابوت، کتابیں اور تیر کمان وغیرہ۔ لیکن ان پیچیدہ استعاروں کی وجہ سے عام قاری کو کہانی کی تہہ تک پہونچنے میں کافی دشواری بھی ہوتی ہے۔ کہانی کا اچانک خاتمہ خودکشی کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ہر قاری کا ذہن اس طرف نہیں جا سکتا۔ اس کے ذہن میں مختلف خیالات ابھرتے ہیں اور وہ سمجھ نہیں پاتا کہ آخر ہوا کیا ہے؟

Bossy, The journey home, Let’s wonder togather  اور Opaque shadows   وغیرہ بھی جدید افریقی افسانوں کی بہترین مثالیں ہیں۔ افریقی جدید افسانہ نگاروں میں سب سے اہم نام Taban Lo Liyong  کا ہے۔ اس کے افسانے  Lexicographicide, Sages and Wages, The uniformed man, Project X, He and him, Fixions  اور A Traveller’s Tale وغیرہ  جدید افریقی افسانوں کی بہترین مثالیں ہیں۔

بعض افریقی افسانوں میں جدیدیت موجود تو ہے لیکن اس کا انداز یوروپی جدیدیت سے تھوڑا جدا ہے۔ یوروپی جدید ادب میں انسان کو اس لا متناہی کائنات میں ایک گم کردہ راہ کی حیثیت سے دیکھا جا تا ہے جس کی زندگی کا کوئی مصرف نہیں رہ گیا ہے۔ وہ اپنی جڑوں سے کٹ چکا ہے اور بے انتہا مایوسی کا شکار ہے۔

لیکن آخر اس مایوسی کی وجہ کیا ہے؟

یوروپ میں جدیدیت کے نام پرمایوسی کی لہر دراصل کئی تباہ کن یوروپی جنگوں کی دین ہے جن میں دونوں عالمی جنگوں کی تباہ کاریاں بھی شامل ہیں۔ انسان کو یہ احساس ہونے لگا کہ اس کے قدم تمدن کی جانب نہیں بلکہ بربریت کی جانب بڑھ رہے ہیں اور وہ انسانیت سے دور ہو کر ہر لمحہ مزید سنگدل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تاریخ کے صفحات سے سبق حاصل کر نے کی بجائے وہ اس کی مخالف سمت میں جا رہا ہے۔ جنگوں کے بعد مسلط ہونے والے معاشی بحرانوں نے اس کی رہی سہی امیدیں بھی توڑ دیں۔ اسی مایوسی نے یوروپ اور امریکہ کے جدید ادب کو جنم دیا۔

دوسری طرف افریقی عوام نے سینکڑوں برسوں تک غلامی کے کاروبار کا عذاب سہا پھر آیا نوآبادیاتی نظام جس نے کسی اژدہے کی طرح افریقہ کو جکڑ لیا۔ افریقی غلام بن کر رہ گئے۔ نوآبادیاتی نظام اپنے پہلو میں نسلی منافرت بھی لے کر آیا۔ سیاہ فام افریقی قدم قدم پر اس عفریت کا شکار بننے لگے نتیجے میں احتجاجوں اور بغاوتوں کا دور شروع ہوا اور آزادی کی تحریکیں پورے افریقہ میں چل پڑیں۔ رفتہ رفتہ افریقی ممالک آزاد ہوئے۔ افریقیوں نے سوچا تھا کہ گوروں کے جانے بعد جب کالے کالوں پر حکومت کریں گے تو عوام کی زندگی بدل جائے گی۔ لیکن ہوا اس کے خلاف۔ کالے حکمراں تو گوروں سے بھی بڑھ کر ’’گورے‘‘ ثابت ہوئے۔ ہر ملک میں حکومتوں کے تختے الٹے گئے۔ بار بار کی بغاوتوں اور کمزور حکومتوں نے ملکوں میں بدامنی کو رواج دیا۔ آج ہر طرف لوٹ مار کا ماحول ہے۔ حکومتوں کے اہلکار اپنی اپنی پہونچ کے مطابق corruptionمیں مشغول ہیں۔ ہتھیار بند ڈاکوں، چوریوں، بنک ڈکیتیوں، مذہبی فسادات، طالب علموں کے ہنگاموں وغیرہ نے آزادی کے بعد کی خوشحالی کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔ ایسے میں لوگوں پر قنوطیت طاری ہونا ناگزیر ہے اسی قنوطیت نے آج کے جدید افریقی ادب کو جنم دیا ہے۔

٭٭٭

تشکر: مترجم/،صنف جنہوں نے اس کی فائل بھی فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

سے علیحدہ کئے گئے مضامین)