FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

علم الخط

 

 

 

 

               عبد الحئی عابد

لیکچر ر اسلامیات
گورنمنٹ ڈگری کالج عیسیٰ خیل، ضلع میانوالی

 

 

 

 

 

 

 

 

 

               پیش لفظ

 

اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام سے اس مقالے کا آغاز کرتا ہوں ، جس نے اپنی عظیم الشان کتاب قرآن مجید میں ،  بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہ نمائی کے سلسلے میں ، سب سے پہلی وحی میں علم اور قلم کی اہمیت کو اس طرح  سے اجاگر کیا ہے :

 اقراء باسم ربک الذی خلق٭ خلق الانسان من علق٭اقراء و ربک  الا کرم الذی علم بالقلم٭علم الانسان مالم یعلم٭  (سورۃ العلق ۵۔۱)

’’ پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا۔

پڑھ اور تیر ا رب بہت کریم ہے ، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ اور انسان کو وہ سکھایا جسےوہ نہیں جانتا تھا۔‘‘

علم الخط العربی پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا احسان عظیم تھا کہ انسان جو اب تک محض چند لکیروں اور ٹیڑھی میڑھی شکلوں کے ذریعے سے اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کرتا اور اسے محفوظ کرتا تھا، وہ اس قابل ہو گیا کہ دنیا کے سب سے خوبصورت آرائشی فنون، فن خطاطی، مصوری اور جیومیڑی کو تخلیق کر ڈالا۔ آغاز اسلام میں مکہ اور اس کے گردو نواح میں حیری خط کا رواج تھا جسے بعد میں خط کوفی کا نام دیا گیا۔ ابتدا میں یہ اعراب و نقاط سے محروم غیر دل کش قسم کا رسم الخط تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی سرپرستی میں اس کے ایک نئے اور تابناک دور کا آغاز ہوا۔ آپ ﷺ پر جب قرآن نازل ہوتا تو آپ اسی خط میں اس کی کتابت کروا لیتے تھے۔ بعد میں صحابہ ؓ نے اسی انداز پر قرآن مجید کو جمع کیا اور اسلامی سلطنت کے طول و عرض میں پھیلا دیا۔ اموی دور کے آخر تک اسلامی سلطنت کے ہر حصے میں قرآن و حدیث کی شکل میں یہ خط پہنچ چکا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی سلطنت کے زیر اثر تمام علاقوں کی مقامی زبانوں کے لیے بھی  اسی خط کو اختیار کر لیا گیا۔چونکہ اسلام میں تصویر کشی کی ممانعت کی گئی تھی اس لیے مسلمان فن کاروں نے اپنے جمالیاتی ذوق اور مہارت کو قرآنی آیات اور مصاحف کی تزئین و  آرایش میں صرف کر دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عربی خط میں دنیا کے تمام رسوم الخط کی نسبت، زیادہ ارتقاء ، تبدیلی اور تزئین وجود میں آئی۔

استاد محترم محمد فیروز الدین شاہ نے ایم فل کی کلاس میں عربی زبان و ادب کے سلسلے میں نہایت جامع اور پر مغز محاضرات ارشاد فرمائے۔انھوں نے علم الادب کی مختلف اقسام بیان کیں اور طلباء کو ان پر آزمائشی مقالہ جات لکھنے کا حکم دیا تو ہماری  ذاتی دل چسپی اور شوق کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے علم الخط کا موضوع تفویض کیا۔اگرچہ یہ موضوع کافی طویل اور دقت طلب ہے اور اردو زبان میں اس پر کافی مواد دستیاب نہیں ہے ، لیکن ہم نے ،  چونکہ ایم کے مقالے کے لیے اس موضوع سے متعلق کچھ مواد جمع کیا تھا اس لیے زیادہ مشکلات کا شکار نہیں ہونا پڑا۔میں استاد محترم کے بھی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس موضوع پر ہونے والی جدید تحقیق سے اگاہ کیا اور بنیادی ماخذ کی نشان دہی فرمائی۔

 

عبد الحئی عابد

۲۰۰۹/۵/۳۱

 

 

خط کا لغوی مطلب

 

’’خط‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اسے ہر قسم کی لکیریں کھینچنے ، نشان بنانے اور لکھنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ عربی زبان کی مشہور لغت ’لسان العرب‘  میں اس لفظ کا مفہوم اس طرح سے بیان کیا گیا ہے :

’’ الخط : الطریقۃ مستطیلۃ فی الشیء ، والجمع خطوط ، و قد جمعہ العجاجعلیٰ اخطاط فقال : وشمن فی الغبار کالاخطاط۔والخط : الطریق ، یقال الزم ذالک الخط ولا تظلم عنہ شیئا۔وخط القلم ای کتب ، و خط الشیء یخطہ خطا: کتبہ بقلم او غیرہ، و قولہ:فاصبحت بعد خط بہجتھا             کان ، قفرا ، رسومھا ، قلمااراد فاصبحت بعد بہجتھا قفرا کان قلما خط رسومھا۔[1]

’’ خط کے معنی کسی چیز میں سیدھی لکیر کے ہیں اور جمع خطوط ہے۔مشہور رجز گو شاعر عجاج(عبداللہبن روء بہ متوفی۹۷ھ) نے اس کی جمع ’’اخطاط‘‘ بھی قرار دی ہے اور کہا ہے : ان خواتین نےلکیروں کی طرح غبار میں گوندا۔اور خط راستے کے معنی میں بھی آتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ یہ سیدھاراستہ جاؤ اور کسی طرف نہ مڑو۔اور خط القلم کے معنی ہیں : اس نے لکھا، اور خط الشیء کے معنی ہیں : اس نے قلم یا کسی چیز کے ساتھ لکھا۔جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے : وہ اپنی خوب صورتی کے بعد ویران ہو گئی،  گویا کہ ایک قلم نے اس کی لکیریں کھینچی تھیں۔‘‘

طاہر الکر دی لکھتے ہیں :

’’الخط والکتابۃ والتحریر والرقم والسطر والزبر بمعنی واحد۔۔و یطلق ایضا فی علم الہندسۃ علیٰ ما لہ طول فقط و تطلق الکتابۃ فی الاصطلاح لخاص با الادباء علی صناعۃ الانشاء۔‘‘[2]

’’خط، کتابت، تحریر،  رقم ،  سطر،  زبر،  ہم معنی الفاظ ہیں۔ خط کا اطلاق علم ہندسہ میں اس لکیر کےلیے بھی کیا جاتا ہے جس کا صرف طول ہو اور ادیبوں کی اصطلاح میں خط کا اطلاق انشاء پردازی پر بھی ہوتا ہے۔‘‘

قدیم دور میں کاہن لوگوں کو قسمت کی باتیں بتانے کے لیے زمین پر لکیریں کھینچتے اور پھر ان کو مٹاتے تھے۔ آخر میں طاق یا جفت لکیریں بچ جانے کی صورت میں بد فال اور نیک فال مراد لیتے تھے۔لفظ خط بہت سارے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔یہ صرف کتابت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اس سے ہر طرح کی لکیریں ،  نقشے ، خاکے ،  راستے مراد لیے جاتے ہیں۔

 

 

خط یا رسم الخط کا  مفہوم

 

لفظ  ’خط ‘ عربی زبان میں ہر طرح کی تحریر کے لیے استعمال ہوا ہے۔زمانے کے بدلنے کے ساتھ اس کا اطلاق دیگر چیزوں مثلاً حد بندی، فضائی راستوں ، سلسلہ مواصلات،  ٹیلی فون، تحریر ،  نشان،  دستخط اور علامت پر بھی ہونے لگا۔علم کتابت کے اس میں معمولی سی تبدیلی کر کے لفظ ’’رسم الخط‘‘ اختیار کیا گیا جسے صرف آوازوں کو قلم بند کرنے کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔رسم الخط سے مراد وہ علامات ہیں جو انسان نے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار اور ان کو محفوظ کر نے کے لیے وضع کی تھیں۔ان علامات نے ہزاروں سال کا سفر طے کرنے کے بعد حروف کی شکل اختیار کی۔آج انھی علامات کو ’’رسم الخط‘‘ کہا جاتا ہے۔ قدیم اقوام نے زبان سے نکلنے والی آوازوں کے لیے کچھ نشانات وضع کیے تھے۔یعنی فلاں نشان فلاں آواز کو ظاہر کرے گا۔ان نشانات کو حروف تہجی کہا جاتا ہے۔انھی حروف سے الفاظ وجود میں آئے۔

 

 

رسم الخط کی ابتدا

 

رسم الخط کی ابتدا ے بارے میں کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا۔ چند قیاسات اور روایات پر اس کا انحصار ہے۔ابن ندیم اپنی کتاب الفہرست میں عرب کے ایک شخص کعب کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’رسم الخط کے موجد حضرت آدم علیہ السلام تھے۔انھوں نے اپنی وفات سے ۳۰۰ سالپہلے رسوم خط کچی اینٹوں پر رقم کر کے انھیں آگ میں پکا کر دفن کر دیا تھا۔حضرت نوحعلیہ السلام کے طوفان کے بعد جب یہ اینٹیں برامد ہوئیں تو ان کے نقوش کو رسم الخط قراردے دیا گیا[3]۔محمد طاہر الکر دی اخنوخ کے حوالے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں:

’’رسم الخط کے موجد حضرت ادریس علیہ السلام تھے۔‘‘ [4]

رسم الخط کے سلسلے میں جو سب سے قدیم شہادت دستیا ب ہوئی ہے حجر الرشید ہے۔ یہ ایک سیا ہ رنگ کا پتھر ہے جو مصر سے ملا تھا اور وہاں کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ اس کے اوپر پہلی سطر میں قدیم مصری ہیرو غلفی خط میں ایک عبارت ہے اور اس کے نیچے ایک لکیر کھینچ کر دوسری سطر قدیم یونانی رسم الخط میں لکھی گئی ہے۔اسی طرح ایک ہی تحریر کے لیے چار مختلف رسوم الخط استعمال کیے گئے ہیں۔محققین کی رائے میں یہ پتھر۱۹۶ ق م میں تحریر کیا گیا تھا۔ اور ۱۷۹۹ ء میں نپولین کے مصر پر حملے کے وقت کسی فوجی افسر کو دستیاب ہوا تھا[5]۔اس کے علاوہ کوہ بے ستون سے آریاؤں کے ہخامنشی دور (۵۵۵ق م تا۳۲۴ ق م )کے بادشاہ داریوش اعظم کے وقت کے کتبے دریافت ہوئے ہیں ، جن کا زمانہ تحریر ۵۲۱ ق م تا ۴۸۵ ق م ، متعین کیا گیا ہے[6]۔

اسی طرح ۱۸۹۸ء  میں فرانسیسیوں نے شوش نامی شہر سے کچھ کتبے برامد کیے تھے جو کو ہ بے ستون کے کتبوں کے بعد کے زمانے کے ہیں۔ یہ قدیم فارسی ، عیلامی اور آسوری زبانوں میں میخی رسم الخط میں لکھے گئے ہیں۔[7]

مغربی محققین کاقیاس یہ ہے کہ شروع کے زمانے میں انسان ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے لیے جو زبان استعمال کرتے تھے وہ اشاروں کی زبان تھی۔ بعد میں ان اشاروں نے الفاظ کی شکل اختیار کر لی۔ لوگ مختلف طریقوں سے اظہار مدعا کرنے لگے۔لکڑی یا پتھر پر نشان بنا کر ایک دوسرے کو بھیجتے ، ڈھول اور سنکھ بجا کر،  آنکھوں اور ہاتھوں کی حرکات، آگ اور دھوئیں سے پیغام رسانی کرتے تھے۔جوں جوں ان کا شعور پختہ ہوا  انھوں نے مختلف اشیاء کی تصاویر کی صورت میں کچھ علامات وضع کر لیں۔ یہ تصویر ی اشارات جو شروع میں مبہم اور غیر واضح تھے ،  آگے چل کر مصوری اور خطاطی کا سر چشمہ بن گئے۔آغاز میں تصویر ی رسم الخط میں ہر تصویر کا مطلب اس کی اصل شے ہی ہوتی تھی، مثلاً آدمی کی تصویر آدمی اور بلی کی تصویر بلی کو ظاہر کرتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں وسعت پیدا ہوئی اور اس شے کے اوصاف کو بھی ان تصاویر سے ظاہر کیا جانے لگا۔ مثلاً سورج کی تصویر شروع میں سورج کو ظاہر کرتی تھی، مگر بعد میں اس کو دن یا گرمی کی شدت ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔اسی طرح پہلے آدمی کی تصویر آدمی کو ظاہر کرتی تھی ، مگر بعد کے زمانے میں  اس کے سر پر تاج رکھ کر بادشاہ کے معنوں میں لیا گیا ، آنکھ سے آنسو ٹپکا کر رنج و غم کو اور پچکے پیٹ  سے  بھوک اور افلاس کو ظاہر کیا گیا جن اقوام نے اپنے تحریری کارناموں کی یادگاریں چھوڑی ہیں ان میں مصر سر فہرست ہے۔ مصری آثار کی شہادت یہ ہے کہ ابتدا میں حروف نہیں تھے بلکہ تصاویر کے ذریعے جذبات و احساسات اور خیالات قلم بند کیے جاتے تھے۔ تصویر ی رسم الخط دنیا کے کسی ایک حصے تک محدود نہیں تھا، بلکہ بیشتر قدیم تہذیبوں میں اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں۔مثلاً مصر کا ہیروغلفی اور ہیراطیقی، دجلہ و فرات کے اولین دور میں سومیری ، بابل کا اکادی اور ایشیائے کوچک کا خط حطی سر فہرست ہیں۔ اہل بابل کی تہذیب چونکہ مصر سے قدیم ہے اس لیے ان کی تحریریں زیادہ تر میخ نما نقوش کی صورت میں ہیں۔ ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ابتدا میں تصاویر ہی تھیں۔

تصویر ی رسم الخط

 

اب ہم مذکورہ اقوام کے ابتدائی رسم الخط یعنی تصویری رسم الخط پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس رسم الخط میں سب سے پہلے تصویر،  خالصتاً اس چیز کے لیے استعمال کی جاتی تھی، لیکن بعد میں اسے  ایک استعارے کے طور پر بنا یا جانے لگا۔ یعنی جس چیز کی تصویر بنائی جاتی اس کی مخصوص صفت یا عمل کی طرف خیال لے جا کر اس سے کام لیا جا تا۔جیسے ذیل میں ’’لیک سو پر‘‘ کی تصویر میں کچھوے سے مراد خشکی اور تین سو رج سے مراد تین دن ہیں۔اس طرز کو خیال نویسی کا نام دیا جاتا ہے۔

جنوبی امریکہ میں ’’لیک سوپر‘‘ کے قریب ایک چٹان  پر بنی  ہوئی  تصویر  میں چھ کشتیوں کو ظاہر کیا گیا ہے۔  ہر کشتی پر بنی ہوئی لکیروں سے آدمیوں کی تعداد  ظاہر کی گئی ہے۔ ایک محراب کے اندر تین سورج بنا کر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ لوگ تین دن دریا میں سفر کرتے رہے۔پھر ایک کچھوے کی تصویر سے خشکی پر بخیر و عافیت اتر جانے کو ظاہر کیا گیا ہے۔  اسی طرح ایک کشتی پر پرندہ بنا کر سردار قافلہ  کو  ظاہر کیا گیا ہے۔[8]

 

وقت کے ساتھ ساتھ خیال نویسی میں ارتقا ء کے نتیجے میں یہی چیز صور ت نویسی میں تبدیل ہو گئی۔یہ وہ دور تھا جب انسان کو آواز کے لیے نشان مقرر کرنے کے راز سے آگاہی حاصل ہوئی۔ہر آواز کے لیے اس کی مناسبت اور مشابہت سے جس صورت کے نام میں اس آواز کے ابتدائی مخرج سے کان آشنا ہوئے اس کی تصویر بنا دی گئی۔ چنانچہ اس طرح آواز اور تصویر کے باہم ملاپ سے کچھ نئی چیزیں وجود میں آئیں۔ بعد میں یہی تصاویر مختصر ہوتے ہوئے الفاظ کی شکل میں تبدیل ہو گئیں۔مثلاً قدیم مصری زبان میں ’’ الفا ‘‘  بیل کو کہتے تھے۔ اس دور میں جب ’’الف ‘‘ کی قسم کی آواز کو ظاہر کرنا ہوتا تو بیل کی تصویر بنا ئی جاتی تھی۔بعد میں صرف بیل کا سر بنا یا جانے لگا۔آہستہ آہستہ یہ سر مختصر ہو کر محض دو سینگوں تک محدود ہو گیا۔ رومن رسوم الخط میں یہ سر کا نشان ابھی تک الٹی صور ت میں (A) موجود ہے جب کہ سامی زبانوں میں یہ اور زیادہ مختصر ہو کر الف (  ا  )کی صورت میں موجود ہے۔ فنیقی خط میں مصری الفا کے سینگ الٹ کر اوپر کر دیے گئے ہیں ، مثلاً (V    )۔ یونانیوں کے ہاں یہ شکل اس طرح سے ہے :                 بابلی خط میخی میں یہی صورت اس طرح سے موجو د ہے۔  قدیم ہندی خط میںمسند سبائی میں        لحیائی خط میں اور قدیم عربی خط میں        ہے ، جو دور حاضر میں  (  ا  )  کی صورت میں سیدھا خط رہ گیا ہے۔ اس طرح اگر ہم تمام زبانوں کے الفاظ کا کھوج لگائیں تو سب کی اصل قدیم مصر ی تصویری خط سے جا ملتی ہے۔

 

 

چند قدیم رسوم الخط

 

یہاں ہم چند قدیم رسوم الخط کو ان کی قدامت کے لحاظ سے بالترتیب در ج کرتے ہیں :ہیروغلفی خط،  ( اس کی پانچ اقسام ہیں ؛ مصری ہیروغلفی جس کی مزید پانچ اقسام ہیں ،  بابلی یا میخی،  جس کی نو اقسام ہیں ،  چینی ہیروغلفی، جس کی پانچ، میکسیکن شمالی امریکہ کا  ہیروغلفی جس کی دو اقسام ہیں ،  شامی و فلسطینی اور ہٹی ٹس ہیرو غلفی۔

قدیم مصری خط یہاں سے سفر کرتا ہوا دنیا کے تمام ممالک میں پہنچا اور وہاں کے مقامی ماحول کے ساتھ تبدیل ہوتا رہا۔فنیقیوں نے اس رسم الخط میں مزید تبدیلیاں کر کے اور مصریوں کے ۲۲ حروف تہجی میں چا ر حروف کا اضافہ کر کے اسے ترقی یافتہ شکل دی۔اس کی ایک صورت آشوریہ میں میخی یا پیکانی خط کی صورت میں مستعمل تھی۔افریقہ میں پہنچ کر قدیم مصری خط قرطاجنی یا پیونی خط کی صورت اختیار کر گیا۔ دجلہ اور فرات کی وادی میں سام بن نوح علیہ السلام کے بیٹے آرام کی نسل آباد تھی۔ان لوگوں نے فنیقی خط سے مشابہ خط آرامی وضع کیا جس سے نبطی اور تدمیری خطوط وجود میں آئے۔آرامی خط سے پالمیری وجود میں آیا اور اس سے سیریاک یا استرانکلو خطوط نکلے۔قبیلہ حمیر کے لوگوں نے فنیقی خط سے حمیری یا مسند خط تیا ر کیا۔ اسی طرح اہل چین نے قدیم مصری خط سے تصاویر پر مبنی خط ایجاد کیا جو آ ج بھی تقریباً اسی طرح مستعمل ہے۔[9]

 

 

عربی رسم الخط

 

عربی خط کے قدیم ماخذ میں سب سے پہلا ماخذ قدیم مصری خط ہے۔ اس سے خط فنیقی ایجاد ہوا۔ فنیقی خط سے چار خطوط نکلے : خط یونانی ،  جس سے تمام مغربی خطوط مشتق ہوئے ،  خط عبری قدیم ،  جس سے خط سامری نکلا، مسند حمیری ،  جس سے خط حبشی نکلا،  اور آرامی خط جس سے چھ خطوط : ہندی ،  پہلوی،  عبر ی مربع ،  تدمیری اور سریانی و نبطی نکلے۔خط مسند اور خط آرامی کے استخراج تک مغربی اور مشرقی محققین کا اتفاق ہے۔لیکن یہ بات کہ عربی خط کی بنیا د خط مسند ہے یا آرامی، اس میں اختلاف ہے۔ مغربی مفکرین کے نزدیک آرامی خط سے خط سریانی اور نبطی خطوط وجود میں آئے۔ سریانی کی ایک قسم خط سطرنجیلی سے خط حیری  یا کوفی نکلا۔ یہی خط حجاز کے علاقے میں جا کر حجازی یا نسخی کہلایا۔[10]

دوسری طرف عرب محققین کی رائے میں عربی خط اہل حیرہ و انبار سے ماخوذ ہے ، جو انھوں نے اہل کندہ و نبط سے اخذ کیا۔اور اہل کندہ نے اپنے خط کو خط مسند سے اخذ کیا ہے۔ اگر چہ عربی خط کے ماخذ میں دونوں گروہوں کا اختلاف ہے لیکن  ہم چند دلائل کی بنیاد پر عرب محققین کی رائے کو ترجیح دیں گے کہ عربی خط کی بنیاد خط مسند ہی ہے۔

۱۔  رواہ عرب کی تائید ابن عباس ،  مسعودی اور ابن کلبی جیسے راویوں کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔

۲۔ نبط اور اس کے شمالی علاقہ سے خط مسند کی بعض اقسام کا سراغ ملا ہے۔

۳۔ خط مسند میں حروف ردف یعنی ثخذ اور ضظغ پائے جاتے ہیں ، لیکن آرامی میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔[11]

 

 

عربی خط کا اشتقاق مغربی مفکرین کی رائے میں

 

               قدیم مصری خط

خط فنیقی

المسند                                                    الارامی

السریانی                                                   النبطی

السطرنجیلی                                                    الحیری والانباری

الکوفی                                                       الحجازی النسخی

 

 

عربی خط کا اشتقاق عرب راویوں کی رائے میں

 

               قدیم مصری خط

 

خط فنیقی

 

المسند                                                                  الآرامی

 

جمیع الاقسام

الکندی والنبطی

الحیری والانباری

الحجازی النسخی

الکوفی

 

 

عربی خط قبل از اسلام

 

زمانہ قبل از اسلام میں عرب کے وسطی علاقوں میں خط عربی کا رواج بہت کم تھا۔ چونکہ کتابت کی ضرورت ایک مہذب اور متمدن قوم کو ہوتی ہے ،  لیکن عرب زیادہ تر خانہ بدوش تھے اور شہری زندگی سے دور تھے۔ اس لیے ان کے ہاں کتابت یا خط رواج نہ پا سکا۔ اس دور میں عرب کے بعض علاقوں میں کچھ متمدن حکومتیں بھی قائم تھیں ، مثلاً تبایعہ یمن، مناذرہ و غساسنہ وغیرہ۔ ان کے ہاں مسند حمیری اور حیری انباری خطوط رائج تھے۔

جاہلیت کے آخری دور میں کچھ کچھ خط کا رواج نظر آتا ہے۔ چنانچہ پتا چلتا ہے کہ عرب ’’ اما بعد ‘‘ اور ’’ من فلاں الیٰ فلاں ‘‘ اور خطوط کے آغاز میں ’’باسمک اللٰھم‘‘ وغیرہ استعمال کرتے تھے۔اس سلسلے میں ایک واضح ثبوت طی کے نام اکثم کی وصیت ہے جو عہد جدید میں پائی گئی[12]،  مگر مجموعی طور پر اس عہد میں کا تبین کی تعداد بہت کم تھی۔ مکہ میں کتابت سب سے پہلے حرب بن امیہ بن عبد شمس کے ذریعے پہنچی اور یہاں کتابت کو رواج دینے والوں میں ورقہ بن نوفل کا نام زیادہ معروف ہے۔ آپ  تورات اور انجیل کی کتابت کیا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ،  حضرت ابوعبیدہؓ ،  حضرت معاویہ ؓ اور خواتین میں الشفاء بنت عبداللہ کے نام ملتے ہیں۔[13]

قبل از اسلام کتابت کے واضح نشانات موجود ہیں۔ جب کوئی عمدہ قصیدہ یا غزل کہی جاتی تو اسے لکھ کر خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا جاتا۔ اس دور میں سات نظمیں جو کعبہ کی زینت بنی تھیں ، انھیں ’’ سبع معلقات‘‘ کہا جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت کے مشہور شاعر لبید بن ربیعہ کا شعر ہے :

                                 وجلا السیول عن الطلول کانھا

زبر   تجدوا    متونھا      اقلاما[14]

مدینہ میں علم کتا بت مکہ سے پہلے داخل ہوا۔ اس دور میں مدینہ میں زیادہ لوگ کتابت جانتے تھے۔ چنانچہ جب نبی ﷺ مدینہ پہنچے تو اہل ما سکہ میں سے ایک یہودی وہاں کے بچوں کو کتابت سکھایا کرتا تھا[15]۔  مدینہ کے کاتب حضرات میں زیدؓ بن  ثابت ، سعید ؓبن زرارہ، منذر بن عمرو، ابی ؓبن کعب، رافع ؓ بن مالک،  اسیدؓ بن حضیر ،  معنؓ بن عدی،  اوس بن خولی اور بشیرؓ بن سعد  مشہور ہیں۔

 

عربی خط بعد از اسلام

 

ظہور اسلام کے وقت تک خط ،  خطہ عرب یا دوسرے علاقوں میں ،  کچھ زیادہ بہتر حالت میں نہیں تھا۔ علم الخط بالعموم اور عربی خط بالخصوص اسلام کے ظہور کے بعد زیادہ تیزی سے پھیلے اور ارتقا ء و ترقی کی نئی منازل  طے کیں۔عربی خط کی خوش قسمتی ہے کہ اس کو اسلام  کے دامن میں پنا ہ ملی۔ نبی کریم ﷺ پر اللہ کی طرف سے جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں بھی لکھنے اور پڑھنے کی ترغیب دلائی گئی تھی۔ ارشاد ہے :

  ’’اقراء باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق۔ اقراءو ربک الا کرم۔الذی علم بالقلم۔ علم الانسان مالم یعلم۔

سورۃ العلق:۱۔۶

’’ پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔انسان کو خون کی پھٹکی سے پیدا کیا۔ پڑھ اور تیرارب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘

نبی کریم ﷺ نے تعلیم و تعلم کی طرف خصوصی توجہ دی۔ قرآن کی حفاظت کے نقطہ نظر سے کتابت کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ آپ ﷺ پر جو بھی وحی نازل ہوتی ،  آپ وہاں موجود صحابہ کو کتابت کروا دیتے تھے۔ اسی طرح جنگ بدر میں جو لوگ قیدی بنائے گئے ان کی رہائی کے لیے آپ نے یہ شرط رکھی کہ اگر وہ مسلمانوں کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں گے تو ان کو رہا کر دیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں میں علم کتابت  بہت زیادہ رواج پکڑ گیا۔کا تب حضرات کی نبی کریمﷺ سے قربت اور قرآن کی کتابت کی سعادت حاصل ہونے کی وجہ سے اسے معاشرے میں سب سے اہم پیشے کی حیثیت بھی حاصل ہو گئی۔آپ ﷺ  کے دور میں قدیم کوفی یا حیری خط میں کتابت ہوتی تھی۔ اسی خط میں آپ نے مختلف بادشاہوں کو تبلیغی خطوط بھی لکھوائے۔

ظہور اسلام کے وقت خط ایک غیر اہم حیثیت کا حامل تھا ، مگر آغاز اسلام کے بعد یہ اتنی جلدی اس مقام و مرتبے تک پہنچ گیا جہاں عام حالات میں پہنچنے کے لیے ایک طویل مدت درکا ر ہوتی ہے۔ اسلام کے دامن میں خط میں نہ صرف حسن پیدا ہوا، بلکہ رسم الخط میں انقلابی تبدیلیاں بھی پیدا ہوئیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ قرآنی آیات کو حکم ربی سمجھتے ہوئے فن کاروں نے اپنا سارا زور قلم انھیں لکھنے اور سنوارنے میں صرف کر دیا۔ دوسرا سبب یہ تھا اس دور میں شرک کی روک تھا م کے لیے مسلمانوں کو تصویر کشی سے روک دیا گیا۔ چنانچہ مسلم فن کاروں نے سار ا تخلیقی جوہر کتابت میں بکھیر دیا۔

 

 

عہد خلفائے راشدین

 

خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی کتابت کو خصوصی اہمیت دی گئی۔  خاص طور پر قرآن مجید کا کردار اس سلسلے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی ہی میں ، تمام آیات و سور کو ان کی اصل جگہ پر متعین کر کے ،  قرآن مجید کو مکمل کر کے مسجد نبوی میں رکھوا دیا تھا۔  آپﷺ نے حفاظ کرا م کو اپنی نگرانی میں قرآن مجید کے دور کرائے۔صحابہ کرامؓ نے نہایت ذمہ داری اور احتیاط سے آگے دوسرے  لوگوں تک قرآن کو منتقل کیا۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد میں مختلف جنگوں میں جب کثرت سے حفاظ قرآن کی شہادت ہوئی تو حضرت عمرؓ کو خیال ہوا کہ اگر اس طرح کثرت سے حفاظ قرآن کی شہادت ہوتی رہی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ قرآن مجید کے معاملے میں لوگوں میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ پیدا ہو جائے۔چنانچہ آپ نے اس خدشے کا اظہار حضرت ابو بکرؓ سے کیا اور قرآن مجید کو کتابی شکل میں لکھنے اور اسلامی ریاست میں پھیلانے کا مشورہ دیا۔چنانچہ حضرت زید بن ثابت کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ،  جس نے قرآن مجید کو نبی کریم ﷺ کی تیار کردہ ترتیب کے مطابق کتابی شکل میں لکھ کر  ریاست اسلامیہ میں پھیلا دیا۔[16]

حضرت عثمانؓ کے دور تک صحابہ میں ایک متعین رسم الخط رائج رہا، جس میں قرآن مجید اور دیگر وثائق لکھے جاتے تھے۔ یہ رسم الخط عرب کے علاوہ روم ،  مصر،  ایران ،  عراق ، برقہ ،  طرابلس ،  غزنی ،  کابل اورتیونس تک پہنچ گیا۔ جب اسلام اور مسلمان دور دراز علاقوں تک پہنچ گئے تو ہر علاقے کے لوگوں نے قرآن کو اپنے علاقے کے لہجے کے مطابق پڑھنا شروع کر دیا۔ اس طرح قرآن کی قراء ت میں اختلافات سامنے آنے لگے۔ چنانچہ ان اختلافات کا تدارک کرنے کے لیے یہ طے کیا گیا کہ قرآن جس لہجے یعنی قریش کے لہجے یا قراء ت میں نازل ہوا ہے تو اسی لہجے کو معیاری لہجہ بنا کر تمام لوگوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور لہجے میں قران کی تلاوت نہ کریں۔ چنانچہ اس سلسلے میں قرآن کا ایک معیاری نسخہ قراء ت قریش پر تیا ر کیا گیا اور ریاست اسلامی سے باقی تمام لہجات پر مبنی نسخے واپس لے لیے گئے [17]۔

اس کے بعد حضرت علیؓ کے دور میں قرآن کے الفاظ کی پہچان کے لیے نقاط کا تعین کیا گیا۔ ب ،  ت،  ث اور جِ،  ح،  خ،  د،  ذ،  ر،  ز  وغیرہ  پر نقاط لگا کر لوگوں کے لیے قرآن کی تلاوت کو آسان بنا دیا گیا۔ تاکہ اغلاط کا امکان کم سے کم ہو جائے۔ اسی طرح حجاج بن یوسف کے دور میں جب سلطنت میں مزید وسعت کی وجہ سے بہت سے غیر عرب لوگوں تک قرآن پہنچا ،  جن کی مادری زبان عربی نہ تھی، اور ان لوگوں نے اعراب میں غلطیاں کرنا شروع کر دیں تو حجاج کے حکم پر قرآن کے الفاظ پر اعراب کا اضافہ کیا گیا۔

اس طرح سے قرآن و حدیث اور علوم و فنون کی کتابت اس کثرت سے ہوئی کہ تھوڑے ہی عرصے میں دنیا کے بیشتر حصے میں کتابت ہو کر یہ چیزیں ہر شخص کی دسترس میں پہنچ گئیں۔خلافت راشدہ کے بعد اموی اور عباسی ادوار میں خط میں بہت ساری تبدیلیاں اور اضافے ہوئے۔ اس میں بہت زیادہ حسن اور خوب صورتی پیدا کی گئی۔ رسم الخط کے نئے نئے انداز وجود میں آئے۔

 

تزئینی خطاطی

 

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں اسلامی علوم و فنون کو خاص اہمیت دی گئی۔ آپ نے حفاظت حدیث کی خاطر حدیث کے جمع کرنے اور کتابت کرنے کا حکم دیا۔اس دور میں خالد بن الہیاج نے خط کوفی میں انتہائی مہارت پیدا کر لی اور قرآنی آیات کو خوب صورت انداز میں مسجد نبوی کی دیواروں پر لکھا۔اموی دور کے مشہور خطاطوں میں ابو یحیٰ ،  مالک بن دینار،  سامہ بن لوی اور قطبہ المحر ر کے نام مشہور ہیں۔ قطبہ نے خط کوفی میں چار نئے اقلام ایجاد کیے تھے[18]۔ان کے علاوہ مروان بن محمد کے کاتب عبداللہ بن مقفع اور ہشام بن عبدالملک کے کاتب ابوالعلاء سالم کے نام بھی ملتے ہیں۔ابن ندیم کے مطابق قطبہ المحر ر اس دور میں روئے زمین پر سب سے بہتر عربی لکھنے والا شخص تھا۔[19]

عباسی دور میں ضحاک بن عجلان فن خطاطی میں قطبہ سے بھی بازی لے گیا۔اس نے کوفی خط میں کئی اور اقلام ایجاد کیں۔اس کے بعد خلیفہ منصور اور مہدی کے دور میں اسحاق بن حماد اور اس کے شاگرد یوسف اور ابراہیم بھی عمدہ خطاط تھے۔ اسحاق نے ضحاک بن عجلان کی قلموں میں مزید تحقیق کر کے بارہ نئی اقلام ایجاد کیں ، جو بے حد مقبول ہوئیں۔ ان کے نام طومار، عہود،  سجلات،  امانات،  مدیح،  ریاش،  موامرات،  دیباج، مرصع ،  غبار،  بیاض اور حسن ہیں۔[20]

عباسی خلفاء خطاطی سے خاص شغف رکھتے تھے۔ انھی خلفاء کی سرپرستی کے باعث اس فن میں کمال پیدا ہوا۔ یہ لوگ فن کاروں کی خاص قدر کیا کرتے تھے۔خلیفہ مامون  نے ایک بار کہا:

لو فاخرتنا الملوک الاعاجم بامثالھا، لفخرنا ھا بمالنا من انواع الخط یقراء بکل مکان و یترجم بکل لسان ویوجد مع کل زمان۔[21]

’’اگر عجمی بادشاہ اپنے کارناموں پر ہم سے باہم فخر کریں تو ہم اپنے پاس موجود خط کیانواع و اقسام پر فخر کریں گے ،  جو ہر جگہ پڑھا جاتا ہے اور ہر زبان میں ترجمہ کی جاتا ہے اور ہر زمانے میں پایا جاتا ہے۔‘‘

اسحاق سے یوسف الشجری اور ابراہیم الشجری نے یہ فن سیکھا اور اس میں مزید تجربات کیے۔ ابراہیم نے قلم ثلث اور نصف ایجاد کیے۔ الثلث عام کوفی کی نسبت زیادہ تیز رو تھا اور حروف آپس میں ملے ہوئے تھے۔ ابراہیم کے شاگردوں میں الاحول المحر ر بہت مشہور ہوا تھا۔ اسے خطاطی کے اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ جس کے ذریعے اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، اس کا شاگرد ابن مقلہ تھا۔ ابن مقلہ نے خطاطی کو نئے انقلابات سے روشناس کرایا اور خط کوفی کی بالادستی ختم کر کے نئے خطوط کی بنیاد رکھی۔

ابو علی محمد بن علی بن حسین بن مقلہ بیضاوی،  نے خطاطی کے علاوہ دیگر علوم میں بھی کمال حاصل کیا  اور بغداد کے علمی حلقوں میں اپنا مقام بنا لیا۔ اس نے خط کوفی میں کمال حاصل کیا اور چھ بالکل نئے خط ایجاد کیے۔ان کے نام ’’ثلث‘‘ ،  ’’نسخ‘‘ ، ’’توقیع‘‘  ،  ’’رقاع‘‘  ، ’’ محقق‘‘  اور’’ ریحان‘‘  ہیں۔ ان کے علاوہ اس نے کئی اقلام ایجاد کیں اور خطاطی کے قواعد بھی مرتب کیے۔ اس کے شاگردوں میں محمد بن السمسانی  اور محمد بن اسد مشہور ہوئے۔ ان سے یہ فن ابوالحسن علی بن ہلال المعروف ابن البواب نے حاصل کیا۔ابن البواب  ابن مقلہ سے متاثر تھا۔ اس نے خط نسخ میں مزید تحقیق کی اور اس کی خامیوں کو دور کیا۔ اس کے قواعد و ضوابط تیا رکیے۔اس دور میں خط نسخ پورے عرب میں مقبول ہو گیا تھا۔ اس کے شاگردوں میں محمد بن عبدالملک اور محدث خاتون کے نام قابل ذکر ہیں۔محدث خاتون سے یہ فن امین الدین یاقوت الملکی نے سیکھا۔ امین الدین کے شاگردوں میں سب سے زیادہ مقبول اور مشہور خطاط یاقوت بن عبداللہ رومی المستعصمی تھا جو اپنی مہارت کی وجہ سے ’’قبلۃالکتاب ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔خطاطی میں ابن مقلہ اور ابن البواب کے بعد اسی کا درجہ ہے۔[22]

یہ وہ دور تھا جب فن خطاطی عرب سے نکل کر یورپ اور ہندوستان تک پھیل گیا تھا۔ ساری دنیا اس کی عظمت اور حسن سے متاثر ہوئی۔ دنیا کے کئی ممالک نے عربی خط کے حسن اور رعنائی سے متاثر ہو کر اپنی اپنی زبانوں کے لیے اس رسم الخط کو اختیار کر لیا۔چنانچہ فن خطاطی پر بھی عربوں کی اجارہ داری ختم ہو گئی اور یہ فن ایران،  مصر، افغانستان، ترکی، افریقہ، ہندوستان اور وسط ایشیا تک پہنچ گیا۔

 

 

خلاصہ بحث

 

اس ساری بحث سے ہم یہ نتیجہ نکالنے پر قادر ہوئے ہیں کہ علم الخط کا آغاز قدیم مصری تصویری خط سے ہوا۔ دنیا کے تمام ممالک میں ابتدا میں تقریباً ایک جیسا تصویری خط وجود میں آیا۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ قرآن مجید کے بقول تمام انسان شروع میں ملت واحدہ تھے او ر بعد میں ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

وماکان الناس الا امۃ واحدۃ فاختلفوا۔(سورۃ یونس۱۰:۱۹)

’’ اور تمام لوگ ایک ہی امت کے تھے پھر انہوں نے اختلاف پیدا کر لیا۔‘‘

اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ تمام زبانوں کے رسوم الخط کی اصل ایک ہی ہے۔جس نے مختلف ملکوں میں جا کر مختلف صورتیں اختیار کر لیں۔رسم الخط میں اس کے آغاز سے لے کر طلوع اسلام تک زیادہ تبدیلی پیدا نہیں ہوئی ، لیکن اسلام کی اشاعت کے ساتھ ہی اس میں انقلابی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور اس نے انتہائی تیزی سے ترقی اور ارتقاء کی منازل طے کرنی شروع کر دیں۔دیگر زبانوں کے رسوم الخط میں اتنی زیادہ  تبدیلیاں نہیں ہوئیں ،  لیکن عربی رسم الخط نے اسلام کی سرپرستی کے باعث بہت زیادہ ترقی کی۔ اس کیے بے شمار خطوط اور اقلام پوری دنیا میں رائج ہوئے۔اپنی خوب صورتی اور دل فریبی کے باعث یہ پوری دنیا میں مقبول ہے۔

 

 

ماخذ و مصادر

 

۱۔ ابن منظور الافریقی، لسان العرب،  نشر الادب الحوزہ،  قم ایران، ۱۴۰۵ھ ، ج ۷ ،  ص۲۸۷۔

۲۔ انجم رحمانی، خط کوفی کا ارتقائ( مقالہ) روزنامہ امروز لا ہور ، جولائی ۱۹۶۷۔

۳۔الکر دی ، محمد طاہر،  تاریخ الخط العربی و آدا بہ، المطبعۃ التجاریہ بالسکاکینی،  ۱۹۳۹ء ، ص۷۔

۴۔ ابن ندیم، محمد بن اسحاق،  کتاب الفہرست  (ترجمہ محمد اسحاق بھٹی) ادارہ ثقافت اسلامیہ لا ہور، ۱۹۶۹ء  ص۱۰۔

۵۔ دیوان الحماسہ، ( لبید بن ربیعہ)

۶۔ جرجی زیدان، تاریخ ادب اللغۃ العربیۃ، منشورات دار مکتبہ الحیاۃ بیروت،  ۱۹۷۸ء۔ص

۷۔  خورشید الحسن رضوی، ڈاکٹر، مقالہ: الخط العربی القدیم و ارتقاء ہ، غیر مطبوعہ، ص۳۔

۸۔سھیلہ یاسین الجبوری،  الخط العربی و تطورہ فی العصور العباسیہ فی العراق، مطبعۃ الزھرا بغداد، ۱۹۶۲ء ، ص۴۔

۹۔صحیح البخاری،  کتاب التفسیر:۴۶۳۲۔

۱۰۔ گوہر قلم ، خورشید عالم، نقش گوہر، الشفا ء پبلی کیشنز لا ہور،  ۱۹۸۲ء ص۵۔

۱۱۔مشاغل عثمانی، احترام الدین احمد،  صحیفہ خوش نویساں ، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، دسمبر ۱۹۸۷ء ، ص۳۶۔

۱۲۔مقبول بیگ بدخشانی، تاریخ ایران، مجلس ترقی ادب لا ہور ۱۹۶۷ء ، ج ۱، ص۲۱۱۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

[1] ابن منظور الافریقی، لسان العرب،  نشر الادب الحوزہ،  قم ایران، ۱۴۰۵ھ ، ج ۷ ،  ص۲۸۷۔

[2] الکر دی ، محمد طاہر،  تاریخ الخط العربی و آدا بہ، المطبعۃ التجاریہ بالسکاکینی،  ۱۹۳۹ء ، ص۷۔

[3] ابن ندیم، محمد بن اسحاق،  کتاب الفہرست  (ترجمہ محمد اسحاق بھٹی) ادارہ ثقافت اسلامیہ لا ہور، ۱۹۶۹ء  ص۱۰۔

[4] الکر دی ، محمد طاہر،  تاریخ الخط العربی و آدا بہ، المطبعۃ التجاریہ بالسکاکینی،  ۱۹۳۹ء ، ص۱۶۔

[5] مشاغل عثمانی، احترام الدین احمد،  صحیفہ خوش نویساں ، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، دسمبر ۱۹۸۷ء ، ص۳۶۔

[6] مقبو ل بیگ بدخشانی، تاریخ ایران، مجلس ترقی ادب لا ہور ۱۹۶۷ء ، ج ۱، ص۲۱۱۔

[7] مقبو ل بیگ بدخشانی، تاریخ ایران، مجلس ترقی ادب لا ہور ۱۹۶۷ء ، ج ۱، ص۲۱۱۔

[8] گوہر قلم ، خورشید عالم، نقش گوہر، الشفا ء پبلی کیشنز لا ہور،  ۱۹۸۲ء ص۵۔

[9] الکر دی ، محمد طاہر،  تاریخ الخط العربی و آدا بہ، المطبعۃ التجاریہ بالسکاکینی،  ۱۹۳۹ء ، ص۲۹۔۳۰۔

[10] الکر دی ، محمد طاہر،  تاریخ الخط العربی و آدا بہ، المطبعۃ التجاریہ بالسکاکینی،  ۱۹۳۹ء ، ص۴۰۔

[11] خورشید الحسن رضوی، ڈاکٹر، مقالہ: الخط العربی القدیم و ارتقاء ہ، غیر مطبوعہ، ص۲۔

[12] خورشید الحسن رضوی، ڈاکٹر، مقالہ: الخط العربی القدیم و ارتقاء ہ، غیر مطبوعہ، ص۳۔

[13] جرجی زیدان، تاریخ اداب اللغۃ العربیۃ، منشورات دار مکتبہ الحیاۃ بیروت،  ۱۹۷۸ء۔ص

[14] دیوان الحماسہ، ( لبید بن ربیعہ)

[15] الکر دی ، محمد طاہر،  تاریخ الخط العربی و آدا بہ، المطبعۃ التجاریہ بالسکاکینی،  ۱۹۳۹ء ، ص۶۰

[16] صحیح البخاری،  کتاب التفسیر:۴۶۳۲۔

[17] صحیح البخاری،  کتاب التفسیر۔

[18] انجم رحمانی، خط کوفی کا ارتقاء( مقالہ) روزنامہ امروز لا ہور ، جولائی ۱۹۶۷۔

[19] ابن ندیم، محمد بن اسحاق،  کتاب الفہرست  (ترجمہ محمد اسحاق بھٹی) ادارہ ثقافت اسلامیہ لا ہور، ۱۹۶۹ء  ص۱۵۔

[20] مشاغل عثمانی، احترام الدین احمد، صحیفہ خوش نویساں ، ترقی اردو بیورو نئی دہلی، دسمبر ۱۹۸۷ء ص۴۹۔

[21] سھیلہ یاسین الجبوری،  الخط العربی و تطورہ فی العصور العباسیہ فی العراق، مطبعۃ الزھرا بغداد، ۱۹۶۲ء ، ص۴

[22] الکر دی ، محمد طاہر،  تاریخ الخط العربی و آدا بہ، المطبعۃ التجاریہ بالسکاکینی،  ۱۹۳۹ء ، ص۷۱۔