FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

اردو عروض:ارتقائی مطالعہ

 

 

 

 

               محمد زبیر خالدؔ

 

ڈاکٹر روبینہ ترین

صدر شعبہ اُردو، بہاؤ الدین زکریا، یونیورسٹی، ملتان

 

 

 

 

 

 

 

شاعری کا وسیلہ الفاظ ہوتے ہیں اور الفاظ اصوات سے ترکیب پاتے ہیں۔ صوت زبان کا لازمہ ہے اور حسنِ صوت شاعری کا۔ دنیا کی ہر زبان کا قدیم ترین ادب کلامِِ  موزوں ہی کی صورت میں ملتا ہے۔ اصوات کی کوئی ایک یا متعدّد خاصیّتیں مثلاً سُر کی بلندی  Pitch، بَل Stress، اور طوالت Length ، وغیرہ جب کسی خاص ترتیب اور ترکیب میں آتی ہیں تو بحریں کہلاتی ہیں اور بحور کے مطالعے کا علم عروض کہلاتا ہے۔ گویا شاعری کی جمالیاتی ریاضیات کا دوسرا نام علمِ عروض ہے۔

صرف، نحو اور لسانیات کے دوسرے شعبوں کی طرح ہر زبان کا عروض بھی اپنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی استعمار قواعدِ زبان تک پر اپنے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ چنانچہ انگریزی عروض بھی اپنی  ابتداء میں لاطینی کی غلامانہ تقلید میں مقداری Quantitative   قرار دیا گیا لیکن بعد ازاں اپنی اصل صورت میں بازیافت پذیر ہوا۔ اسی طرح عربی، فارسی اور اردو عروض میں بھی مقداریت کے ساتھ ساتھ بَل Stress کی کارفرمائی کا سراغ ۱ بھی لگایا جا رہا ہے۔ اردو عروض بھی اسی نوع کے المیے کا شکار رہا اور ابھی تک اپنی مستقل حیثیت اور جداگانہ شناخت منوا نہیں پایا۔

اردو شاعری اپنی ابتدا میں شعوری اور ارادی طور پر فارسی کی مقلّد رہی۔ فارسی الفاظ و تراکیب اور محاورات کا لغوی ترجمہ حسنِ شعر گردانا جاتا رہا۔ اس بادشاہی زبان کی ہیئتیں اور اسالیب کے ساتھ ساتھ بحور بھی اردو میں التزام کے ساتھ اپنائی جانے لگیں۔ یہ سب کچھ شمالی اور جنوبی ہند کے درباروں کی سرپرستی میں ہوتا رہا۔ تاہم کہیں کہیں دھرتی کی آواز ہندی ذخیرۂ الفاظ اور چھندوں کی صورت میں سنائی دیتی رہی۔ اگرچہ ہندی چھند فارسی عروض کی جکڑ بندیوں کے تحت چست ہو کر اردو عروض کا حصّہ بنے۔ ۲جہاں تک اردو شعراء کے پیش نظر علمِ عروض کا تعلّق ہے، ہمیشہ فارسی عروض ہی مرجع سمجھا جاتا رہا۔ تا حال عربی، فارسی اور اردو عروض کو ایک وحدت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ چنانچہ متداول عروض سے مراد وہ علمِ عروض لیا جاتا ہے جو اصل میں عربی ہے، اس میں ترامیم اور اضافوں کے ذریعے اسے فارسی شاعری کے لیے کارآمد بنایا گیا ہے اور پھر اسے اردو پر مسلّط کر دیا گیا ہے۔ اس جبر کا نتیجہ داخلی تناقضات، حشو و زوائد، نقائص اور پیچیدگیوں کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ ۳

متداول عروض تکنیکی نقائص اور تناقضات سے بھرا پڑا ہے۔ تاریخی اعتبار سے عروض کا جائزہ لیا جائے تو تحقیقی نقطۂ نظر سے تامّل انگیز حقائق سامنے آتے ہیں۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ عربی عروض کے مدوّن خلیل بن احمد الفراہیدی کی ‘کتاب العروض ‘ ناپید ہے۔ نہایت با عظمت شخصیت ہونے کے باوجود اس کے حالات بہت کم ضبطِ تحریر میں لائے گئے۔ مختلف ثانوی ذرائع سے خلیل کے نظریات اخذ کیے گئے۔ اس ضمن میں قدیم ترین مرتّب ابن عبد ربّہ بھی بعض مقامات پر اس سے اختلاف کرتا ہے۔ ۴ابنِ رشیق کی کتاب ‘العمدہ’ میں ابو نصر الجوہری کی رائے کا حوالہ دیا گیا ہے کہ مفْعُوْلاتُ قابلِ ترک رکن ہے کیونکہ محض اس سے کوئی بحر نہیں بنتی اور نہ کسی وزن میں اس کی تکرار ملتی ہے۔ ۵ابنِ ندیم ‘الفہرست’میں برزخ العروضی اور ابوالحسن علی بن ہرون کی کتابوں کا ذکر کرتا ہے جو خلیل بن احمد کے ردّ میں لکھی گئیں۔ ۶ اخفش(م ۲۲۱ھ) نے خلیل بن احمد کے عروض میں ایک غلطی کی نشان دہی کی کہ فاصلۂ صغریٰ سببِ ثقیل اور سببِ خفیف کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے بنیادی جزو قرار پانے کا سزاوار نہیں۔ یہ ایجاد کی غلطی تھی۔ ۷اخفش ہی نے بحرِ متدارک کا خلیلی عروض میں اضافہ کر کے متعلّقہ دائرے کا تکنیکی جواز مکمّل کیا۔ اس نے بعض دیگر تصرّفات بھی کیے جن کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ ۸اخفش کے بعد ابوالعبّاس محمدالنّاشی الانباری نے از سرِ نو خلیلی قواعد پر تنقید کی۔ ابنِ خلکان ۹کے مطابق خلیل کی عظمت قائم ہو چکی تھی، اس لیے الانباری کے اعتراضات درخورِ اعتناء نہ گردانے گئے، اگرچہ وزن رکھتے تھے۔ مسعودی ۱۰’مروج الذّہب ‘میں یہی بات کہتا ہے۔ ابوبکر محمد بن حسن الزّبیدی(م ۳۷۹ھ)۱۱ خلیل کی عروض پر دو کتابوں کا ذکر کرتا ہے اور تنقیص کرتے ہوئے اس کو ذہن کی عاجزی، فہم کی مغلوبی اور عقلوں کے مفضول ہونے کا باعث قرار دیتا ہے۔ یہ امر افسوس ناک حیرت کا باعث ہے کہ عرب ماہرینِ  لسانیات نے نحو اور لغت پر تو ابدی قدر و قیمت کی حامل کتب یادگار چھوڑیں لیکن علمِ عروض پر بہت کم قدر و قیمت کی حامل اور بہت کم تعداد میں کتب لکھیں۔ متقدّمین کی کتب ہائے عروض آج کل ناپید ہیں اور اس موضوع پر قدیم ترین دستیاب رسالے تیسری صدی ہجری کے اوائل میں مرتّب ہوئے۔ ۱۲عربی عروض فی الحقیقت اردو اور فارسی عروض سے یکسر مختلف ہے اور اسے مذکورہ نظاموں کا منبع سمجھنا محض پیرویِ اسلاف و جمہور ہے۔ لہٰذا اس کا تذکرہ یہیں پر موقوف کر کے ہم فارسی عروض کی طرف آتے ہیں جس میں رائج تمام مقبول بحور اردو عروض کے ذخیرۂ بحور میں شامل ہیں۔

اردو شعراء اور عروضی ابتدا میں فارسی عروض پر لکھی گئی کتب پر انحصار کرتے رہے۔ اس ضمن میں زیادہ تر اپنے موضوع پر دو اہم مآخذ یعنی ‘ المعجم فی معاییرا شعار العجم’ (تالیف ۱۲۳۲ء )۱۳اور’ معیار الاشعار’ (تالیف ۱۲۵۱ء )۱۴سے استفادہ کیا گیا۔ اوّل الذّکر کتاب شمس الدّین محمد بن قیس الرّازی (وفات اواسط تیرھویں صدی عیسوی )اور دوسری خواجہ نصیرالدّین محقّق طوسی (۱۲۰۱ء تا۱۲۷۳ء) کی لکھی ہوئی ہے۔ اردو میں عروض پر لکھی گئی مبسوط کتابوں میں ، جن میں مرزا محمد جعفر اوج ؔ لکھنوی کی’ مقیاس الاشعار’۱۵ قدرؔ بلگرامی کی’ قواعد العروض’۱۶، نجم الغنی خان رام پوری کی’ بحر الفصاحت’۱۷ اور سیّد حسن کاظم عروضؔ کی ‘ سراج العروض’ ۱۸شامل ہیں ، مذکورہ دونوں کتابوں کے حوالے جا بجا ملتے ہیں۔ محقّق طوسی کی کتاب سے مقابلتاً زیادہ رجوع کیاگیا۔ ‘ معیار الاشعار’ کی شرح مفتی محمد سعداللہ مرادآبادی نے ‘ میزان الافکار’ ۱۹ کے نام سے لکھی۔ مظفّر علی اسیرؔ لکھنوی نے اس شرح کے علاوہ ملک الشّعراء شیخ مہدی علی زکیؔ کی لکھی ہوئی شرح سے استفادہ کرتے ہوئے ‘ معیار الاشعار’ کا ترجمہ اور شرح ‘ زرِ کامل عیار ترجمہ معیار الاشعار’ ۲۰کے نام سے کیا۔ ‘ معیار الاشعار’ کے بارے میں جابر علی سیّد۲۱نے مجمل اور کارآمد رائے دی ہے کہ اس کتاب میں بعض نہایت قیمتی تنبیہات درج ہیں۔ مثلاً تسکینِ اوسط کے ضمن میں یا عربی عروض کے اندھا دھند استعمال کے سلسلے میں۔ طوسی کا تسبیغ اور اذالہ نامی زحاف پر یہ اعتراض کہ اس کے استعمال سے بحور اپنے متعلّقہ دوائر سے خارج ہو جاتی ہیں ، جابرعلی سیّد نے کر دیا ہے۔

فارسی عروض پر جو فارسی کتب انیسویں صدی عیسوی میں برِّ صغیر میں شائع اور مقبول ہوئیں ان میں شمس الدّین فقیرؔ دہلوی کی ‘حدائق البلاغت’ ۲۲، افتخارالدّین شہرتؔ کی ‘مجلسِ امجدی ‘۲۳، مرزا محمدحسن قتیلؔ کی ‘نہر الفصاحت ‘۲۴ اور ‘چار شربت ‘۲۵، محمد فائق کی ‘مخزن الفوائد ‘۲۶، سیفیؔ کی ‘عروضِ سیفیؔ ‘۲۷، امجد نثاری کی ‘چہار گلزار ‘۲۸، مفتی محمد سعداللہ مرادآبادی کی ‘ عروض با قافیہ’۲۹اور ‘ جواہر العروض ‘۳۰، غیاث الدّین رام پوری کی ‘غیاث اللّغات ‘۳۱، محمد نجف علی خان کی ‘احسن القواعد ‘۳۲، سیّدمظفّر علی اسیرؔلکھنوی کی ‘شجرۃ العروض ‘، ۳۳اور ایڈرڈ سیلEdward Sell  کی  ‘مناظر القواعد ‘ ۳۴نمایاں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر میں فارسی عروض ایک جزو کے طور پر شامل تھا۔ اردو میں بعض کتابیں فارسی عروض پر لکھی گئیں۔ ان میں اردو شاعری سے مثالیں مفقود ہونے کے باوجود انھیں اردو عروض پر کتابوں کے طور پر لیا جاتا رہا۔ ان میں مرزا محمد جعفر اوج ؔ لکھنوی کی’ مقیاس الاشعار’ کے علاوہ سیّد محمود کی کتاب’ منتہی العروض’ ۳۵ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

مستشرقین نے فارسی عروض پر قابلِ قدر کام کیا ہے۔ ولیم جونزWilliam Jones   نے Persian Language’  ‘A Grammar of the  مطبوعہ لندن ۱۷۷۱ء میں فارسی عروض کا سرسری جائزہ لیاجس میں اس نے انگریزی عروض کی علامات استعمال کیں۔ خیال رہے کہ اس جدّت کو جسے دنیا کے بیشتر نظام ہائے عروض کی ابجد کا درجہ حاصل ہے، ہمارے بعض عروضیوں نے اکیسویں صدی میں بھی قبول کرنا پسند نہیں کیا۔ ایف۔ گلیڈون F.Gladwin   نے ‘Dissertations on the Rhetoric,Prosody    Rhyme of the Persians’ and  مطبوعہ کلکتہ ۱۷۹۸ء میں قدرے تفصیل کے ساتھ فارسی عروض کا خلاصہ پیش کیا۔ ایک اور قابلِ ملاحظہ کتاب ڈنکن فاربسDuncan Forbes   کی ‘A Grammar of the Persian Language’  ہے۔ یہ لندن سے چوتھی بار ۱۸۶۹ء میں شائع ہوئی۔ اس کا Preface  ۱۸۶۱ء کا لکھا ہوا ہے۔ اس کتاب میں فارسی عروض کا ملخص ۲۵۔ صفحات میں پیش کیا گیا ہے۔ اوزان کی وضاحت کے لیے انگریزی عروض کی علامتیں استعمال کی گئی ہیں۔ ارکانِ عروضی میں ‘ع’کے تلفّظ کی مشکل کو’ض’ سے بدل کر حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور ارکان کی فہرست میں ان کے لاطینی نام بھی دیے گئے ہیں۔  سیفیؔ کی ‘عروضِ سیفیؔ ‘کا اردو ترجمہ منیر ؔ لکھنوی نے’سرورِکیفی’کے نام سے کیا۔ ‘عروضِ سیفیؔ ‘ کی تدوین اور ترجمے پر مبنی کتاب نامور مستشرق   H.Blochmann نے ‘The Prosody of the Persians According to Saifi, Jami and Other Writers’   کے نام سے لکھی جو کلکتہ سے ۱۸۷۲ء میں شائع ہوئی۔ اسی مستشرق نے آغا احمد علی کی دو کتابوں کا تعارف بھی لکھا جو رباعی اور مثنوی کی اصناف کے بارے میں تھیں ۳۶، ۳۷۔

مذکورۂ بالا کتب میں سے شمس الدّین فقیرؔ دہلوی کی ‘حدائق البلاغت’ کا چرچا ابتداء سے اب تک سب سے زیادہ رہا ہے۔ گارساں دتاسی نے فرانسیسی میں اسی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی کتاب۳۸ مرتّب کی۔ اس میں عربی، فارسی اور اردو شعری مثالیں وافر تعداد میں دی گئی ہیں۔ ‘حدائق البلاغت’ کا اردو ترجمہ امام بخش صہبائی نے ۱۸۴۲ء میں پرنسپل دہلی کالج مسٹر بوترس کے ایماء اور تحریک پر کیاجو۱۸۴۳ء میں سیّد محمد  ، طہِ خان بہادر کے لیتھوگرافک پریس، دہلی سے ۱۷۴صفحات پر شائع ہوا۔ بعض دیگر علماء نے بھی بعد ازاں ترجمے کیے۔ اصل کتاب کی طرح امام بخش صہبائی کی کتاب ‘ترجمہ اردو حدائق البلاغت’ کو اردو عروض کی اوّلین اور مقدّم ترین کتاب کا درجہ تا حال حاصل رہا ہے۔ جامعات نے اسے نصابی کتاب کا درجہ دورِ حاضر تک دیا ہوا ہے۔ نتیجے کے طور پر اس کی تسہیلات، تلخیصات اور شرحیں شائع ہوتی رہی ہیں۔ کتاب کے کُل ۱۶۰صفحات میں سے ۴۳ حدیقہ سوم کے لیے وقف ہیں جس کا موضوع اردو عروض ہے۔ ہم اس کا خصوصی مطالعہ ایک ماڈل کے طور پر کرتے ہیں ، جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ اردو عروض کی روایتی کتب میں علمی صحّت کی صورتِ حال کس قدر خراب رہی ہے۔ ایک مستند اور معتبر سمجھی جانے والی کتاب اس حد تک اسقام اور تسامحات سے پُر ثابت ہوتی ہے تو اس کے خلاصوں ، شرحوں ، سرقوں کا کیا حال ہو گا؟علمِ عروض سے بے گانگی، وحشت اور اس کے بارے میں غلط فہمیوں کے اسباب اور پس منظر میں انگریزی حکومت اور برِّصغیر کی جامعات کے اربابِ اختیار کا تسلُّط ذہنی غلامی کی حد تک نظر آتا ہے۔ حدیقہ سوم  کے اوّلین تین خیابانوں کا تجزیہ ہم قصداً ترک کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر امور وہ خیابانِ چہارم میں زیرِ بحث لے آتے ہیں۔ یہ’ خیابان چوتھا بیچ بیان بحور کے’ ہے۔ زیرِ تبصرہ آنے والی اور  فقود ہونے کے باو نظر انداز شدہ  بحور کو حسبِ ذیل زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

۱۔ کارآمد بحور         ۲۔ غیر مذکور بحور             ۳۔ غیر مستعمل بحور          ۴۔ غلط بحور

۱۔ کارآمد بحور سے ہماری مراد وہ بحور ہیں جو اردو شاعری میں مستعمل ہیں جن کی فہرست اس مقالے کے آخر میں منسلک ہے۔ فارسی کی ۹۵ فی صد شاعری کا احاطہ کرنے والی بحور۳۹ اردو میں بھی مستعمل ہیں۔ البتہ اردو میں مزید بحور کا اضافہ بھی ہوا ہے۔ ‘حدائق البلاغت’ اصل یا اس کے ترجمے میں اگر صرف مذکورہ فارسی بحور ہی کا شمول ہوتا تو وہ تمام بحور اردو شعراء کے لیے مفیدِ مطلب ہوتیں۔ لیکن بدقسمتی سے صرف انتیس بحور شاملِ کتاب کی گئی ہیں۔

۲۔ مذکورہ انتیس بحور کے علاوہ اردو میں سترہ ایسی بحور مستعمل ہیں جن کا ذکر ‘حدائق البلاغت’میں نہیں ملتا۔ ان  بحور کے اسماء اور ارکان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔ نمبر شمار اردو بحور کی جدول منسلکہ مقالۂ ہٰذا کے مطابق ہیں۔ حدائق البلاغت میں غیر مذکور اردو بحور :

۸۔        ہزج مربّع اشتر سالم مضاعف                                            فاعلُن مفاعیلُن   فاعلُن مفاعیلُن ۲؍ بار

۱۰۔       ہزج مثمّن مقبوض                                                           مفاعِلُن مفاعِلُن مفاعِلُن مفاعِلُن ۲؍ بار

۱۴۔       رجزمعشّر مطوّی مرفوع مخبون احذ مخبون// مطوّی مرفوع مخبون   مُفْتَعِلُنْ فَعِلُن فَعَل //  مُفْتَعِلُنْ فَعِلُن ۲؍ بار   (دوہا)

۱۶۔   رمل مسدّس محذوف                                        فاعلاتُن  فاعلاتُن  فاعلُن  ۲؍ بار

۳۰۔   متقارب مربّع اثلم سالم مضاعف                        فَعْلُن فعُولُن  فَعْلُن فعُولُن    ۲؍ بار

۳۲۔  متقارب مسدّس مقبوض مرّتین مخنّق مضاعف         فعُولُ فَعْلُن فعُولُ فَعْلُن فعُولُ فَعْلُن   ۲؍ بار

۳۳۔   متقارب مثمّن اثرم مقبوض سالم                              فاعِ فعُولُ فعُولُ فعُولُن ۲؍ بار

۳۴۔   متقارب مثمّن اثرم مقبوض محذوف                      فاعِ فعُولُ فعُولُُ فَعَل ۲؍ بار

۳۶۔   متقارب مثمّن اثرم مقبوض محذوف مضاعف    فاعِ فعُولُ فعُولُ فَعَل   فاعِ فعُولُ فعُولُ فَعَل ۲؍ بار

۳۷۔   متقارب مثمّن اثرم مقبوض محذوف شانزدہ رکنی  فاعِ فعُولُ فعُولُُ فعُولُ فعُولُ فعُولُ فعُولُ فَعَل ۲؍ بار   (بحرِ میرؔ)

۳۸۔   متقارب دوازدہ رکنی اثرم مقبوض سالم محذوف            فاعِ فعُولُ فعُولُ فعُولُ فعُولُ فَعَل  ۲؍ بار

۳۹۔        متقارب دوازدہ رکنی اثرم مقبوض سالم                     فاعِ فعُولُ فعُولُ فعُولُ فعُولُ فعُولُن ۲؍ بار

۴۰۔    متقارب چہاردہ رکنی اثرم مقبوض محذوف             فاعِ فعُولُ فعُولُ فعُولُ فعُولُ فعُولُ  فَعَل             ۲؍ بار

۴۱۔    متقارب چہاردہ رکنی اثرم مقبوض سالم         فاعِ فعُولُ فعُولُ فعُولُ فعُولُ فعُولُ فعُولُن      ۲؍ بار

۴۴۔       متدارک مثمّن سا لم احذ                        فاعلُن فاعلُن فاعلُن فَع ۲؍ بار

۴۶۔   متدارک مثمّن مخبون احذ                                    فعِلُن فعِلُن فعِلُن فع  ۲؍ بار

۴۸۔    متدارک مثمّن مخبون احذ مضاعف                            فعِلُن فعِلُن فعِلُن فَع   فعِلُن فعِلُن فعِلُن فَع ۲؍ بار

بحر نمبر۳۰ فارسی’ حدائق البلاغت’میں موجود ہے لیکن صہبائی کے ترجمے میں مفقود ہے۔ حالاں کہ مؤخّر الذّکر کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس میں اردو کی ضروریات کے مطابق اضافے کیے گئے ہیں۔ بہرحال ان سترہ بحور کے بغیر اردو شاعری کا قاری میرؔ، اقبالؔ، شادؔ عظیم آبادی، آرزوؔ لکھنوی، مجید امجدؔ، ناصرؔ کاظمی، جمیل الدّین عالیؔ، اور منیرؔ نیازی کی تمام تر شاعری کے علاوہ اردو دوہوں کی درست طور پر تقطیع نہیں کرسکتا۔

بحورِ  زیرِ بحث کا تیسرا زمرہ ان بحور کا ہے جو اردو شاعری میں النّادر  کالمعدوم کی حد تک قلیل الاستعمال ہیں۔ ایسی بحور نظری طور پر تو اصلی عروضی بحور سے قابلِ استخراج ہوتی ہیں ، لیکن کتبِ عروض میں ان کا ذکر عروض کے قاری کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے اور صاحبِ کتاب کے علم و فضل کا جھوٹا رعب قائم ہوسکتا ہے۔ ایسی بحور کے شمول سے اجتناب کتبِ عروض کے قارئین کا ایک ایسا حق ہے جو ہماری روایتی کتبِ عروض کی طرح صہبائی کی ‘ ترجمہ حدائق البلاغت’ میں بھی ادا نہیں کیا گیا۔ ان میں بحر مقتضب، قریب، جدید اور مشاکل کی ایک ایک شکل کے علاوہ ہزج کی دو، رجز کی تین، رمل کی ایک، سریع کی دو، منسرح اور مضارع کی تین تین اور خفیف اور متقارب کی ایک ایک صورت شامل ہے۔ گویا کتاب میں کارآمد انتیس بحور کے ہمراہ بیس فاضل بلکہ فضول بحور بھی پیش کی گئی ہیں۔

فقیرؔ اور صہبائی کے عروضی تسامحات نظرانداز نہیں کیے جا سکتے۔ ہزج کا ایک وزن مُفاعِیلْ  مُفاعِیلْ  مُفاعِیلْ  فعوُلُن بتایا گیا ہے جو غیر مستعمل ہونے کے علاوہ غلط در غلط ہے۔ اس میں قصر کا زحاف حشو و ابتداء میںا گیا ہے جو عروض و ضرب کے لیے مخصوص ہے۔ وزن کا لقب فقیرؔ اور صہبائی کے ہاں مختلف لیکن دونوں کے ہاں غلط ہے۔ اور ناجائز طور پر اس وزن کو مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعولُن کے ساتھ قابلِ اختلاط قرار دیا گیا ہے۔ بحر متقارب کی ہندی نژاد صورت کا بیان سراسر ناقص اور غلط ہے۔ دی گئی مثال کی تقطیع نہیں کی گئی۔ وزن کا لقب بھی غلط دیا گیا ہے۔ صوت النّاقوص کے القابِ  عروضی نادرست ہیں۔ بحر قریب کی جو مثال صہبائی نے دی ہے اس کا دوسرا مصرع وزن کے مطابق نہیں۔

‘حدائق البلاغت ‘ کے مذکورہ تسامحات کو اس کے مختلف ایڈیشنوں ، ترجموں اور خلاصوں میں تصحیح یا اختلاف کیے بغیر درج کیا جاتا رہا ہے۔ اردو عروض کی روایتی کتب میں موجود ہمہ قسم نقائص اور تناقضات صہبائی کی ‘ترجمہ حدائق البلاغت ‘ میں بھی در آئے ہیں۔ گویا علمی سطح پریہ کتاب کسی بھی صورت میں مستند، کافی و جامع یا ناگزیر کتاب کا درجہ نہیں رکھتی۔ اس کی مقبولیت کے اسباب سیاسی و اقتصادی حالات، تقلیدپرستی اور سہل انگاری کے علاوہ علمِ عروض سے بین الاقوامی کم آگاہی میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

اردو عروض پر غیر اردو زبانوں میں کام صہبائی کی ‘ترجمہ حدائق البلاغت ‘ سے پہلے شروع ہو چکا تھا۔ فارسی میں دلؔ عظیم آبادی کی ‘عروض الہندی’۱۷۶۲۴۰ء میں لکھی گئی اور ۱۹۶۱ء میں طباعت پذیر ہوئی۔ مرزا محمد حسن قتیلؔ اور انشاء اللہ خان انشاءؔ کی کتاب ‘ دریائے لطافت ‘ ۱۸۰۸۴۱ء میں تالیف ہوئی اور ۱۸۵۰ء میں شائع ہوئی۔ ہمارے علم کے مطابق یہ اردو عروض پر فارسی میں لکھی گئی پہلی مطبوعہ کتاب ہے۔

اردو عروض پر انگریزی میں پہلی کاوش ہمیں جان گلکرسٹ   John Gilchrist  ، ۱۷۹۶ء، کی ملتی ہے۔ اس کی کتاب ۴۲ کے صفحات نمبر۲۶۱ تا ۲۷۱ پر اردو عروض کا بیان ہے۔ ولیم پرائیس William Price،  ۱۸۲۳ء، کی گرامر۴۳ میں مجمل مگر تاریخی اہمیت کا حامل بیان ہے۔ گارساں دتاسیGarcin de Tassi  نے فرانسیسی زبان میں اردو اور عربی بحور کا تقابلی مطالعہ۴۴پیش کیا۔

صہبائی کی ‘ترجمہ حدائق البلاغت ‘ کے بعد چھپنے والی کتب کو دو زمروں میں بانٹ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک روایتی اور متداول عربی و فارسی عروض کے تحت اردو بحور کے مطالعے پر مبنی کتب اوردوسرا تنقیدی مطالعے اور اردو عروض کی تشکیلِ  جدید کی سعی پر مبنی کتب۔ پہلے زمرے کے تحت آنے والی کتابوں میں سے بعض اہم کا تفصیلی تذکرہ پہلے اور اس کے بعد بقیہ کا اجمالی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

مولوی کریم الدّین دہلوی(۱۸۲۱ء تا ۱۸۷۹ء)کی کتاب ‘عجا لۃ العلالہ’۴۵صہبائی کی ‘ترجمہ حدائق البلاغت ‘ کی طرح دہلی کالج کے پرنسپل کے ایماء پر لکھی گئی اور اسی مطبع سے شائع ہوئی۔ یہ ان کے لکھے ہوئے تذکرے ‘ گل دستۂ ناز نیناں ‘ ۴۶کے جزو کے طور پر شائع ہوئی تھی۔ قسمت کو دیکھئے کہ بہتر کتاب ہونے کے باوجود گمنام اور ناپید ہو گئی۔ کُل ۱۵۴-صفحات کی یہ اس وقت تک کی اپنے موضوع پر مفصّل ترین کتاب بھی تھی۔

اردو کے متداول عروض کی معتبر ترین کتاب قدرؔ بلگرامی کی ‘قواعد العروض’۴۷ہے۔ اس کی تالیف ۱۸۷۱ء اور اشاعت ۱۸۸۲ء میں لکھنؤسے عمل میں آئی۔ اس کتاب میں عربی، فارسی، اردو اور سنسکرت عروض تفصیل اور تحقیق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ان علوم کی اصطلاحات کی فرہنگ بھی آخر میں دی گئی ہے۔ علمِ قافیہ کتاب کا حصّہ نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ علمِ  قافیہ ایک الگ اور مستقل علم ہے۔ ‘قواعد العروض’ کی بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے درجۂ استناد کے اعتبار سے اوّلین مرتبہ رکھتی ہے۔ قدرؔ بلگرامی بحر متقارب کے دو نازک مقامات سے گزرنے کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فعولُ فعْلُن اور فاعِ فعولُ فعولُ فعولُنْ والی بحور پر عروضی محاکمے پہلی بار اس کتاب میں ملتے ہیں۔ دوہے کے وزن کو عروضی ارکان میں پہلی بار اسی کتاب میں ظاہر کیا گیا ہے۔ متعدّد زحافات کی تعریفوں کے ضمن میں پائے جانے والے تنازعات کو حل کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس معاملے میں زیادہ تر مؤلّفین حوالے جمع کر کے کسی بڑے نام کی بنیاد پر ترجیحات کا تعیّن کرتے ہیں۔ قدرؔ یہ کام استدلال کے زور پر انجام دینے کی کاوش کرتے ہیں۔ اس کتاب کی ایک اور بڑی خوبی تقطیع کے قواعد و ضوابط کی تفصیل ہے۔ فاضل مؤلّف نے حروف کو گھٹانے، بڑھانے یا قائم رکھنے کی ترانوے صورتیں بیان کی ہیں۔ یہ تفصیل اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔ دو نقائص البتّہ اردو عروض کی ہر کتاب کی طرح ‘قواعد العروض’میں بھی ہیں۔ ایک تمام اردو بحور کا احاطہ نہ کرنا اوردوسراغیر مستعمل بحور کا شمول۔

ایسی ہی ایک اہم، معروف اور مقبول کتاب مولوی نجم الغنی خان رام پوری کی ‘بحرالفصاحت’ ۴۸ہے۔ اس کے موضوعات میں عروض کے علاوہ، قافیہ، اصنافِ سخن، معانی، بیان، بدیع اور نقدِ شعر شامل ہیں۔ ‘بحر الفصاحت’کا پہلا جزیرہ علمِ عروض کے بارے میں ہے۔ اس کی اہمیت تفصیل کے علاوہ حوالوں کے اعتبار سے بھی ہے۔ دورِ حاضر تک شائع شدہ اردو عروض کی کسی کتاب میں سب سے زیادہ تعداد میں مآخذ مولوی نجم الغنی خان رام پوری کے پیشِ  نظر تھے۔ امثلہ کی فراوانی بھی قابلِ تحسین ہے۔ بہرحال علمی تحقیق و تدقیق میں وہ قدرؔ بلگرامی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اور وہ دو نقائص جو ‘قواعد العروض’میں پائے گئے، ان سے ‘بحر الفصاحت’بھی پاک نہیں۔

مولوی نجم الغنی خان رام پوری نے خود ‘بحر الفصاحت’کی تلخیص’مفتاح البلاغت ‘۴۹کے نام سے کی۔ ایک تلخیص مولانا مولوی عبدالحمید خان ارشدؔسرحدی نے ‘ریاض البلاغہ ملخص بحر الفصاحۃ’۵۰کے نام سے کی۔ چودھری محمد شریف خان شوخ ؔلاہوری کی کتاب ‘فنِّ شاعری عرف میزان العروض’۵۱کا اسلوب تحقیقی اور تنقیدی ہے۔ یہ ‘بحر الفصاحت’ کے علاوہ کیپٹن جی ڈی پائیبس کے استادخواجہ عشرتؔ لکھنوی کی ‘شاعری کی کتاب’۵۲کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ ‘بحر الفصاحت’ کے جواب میں ایک اور کتاب حمیدؔ عظیم آبادی کی ‘جامع العروض’ ۵۳ہے جس کا تاریخی نام ‘امیر العروض ‘تھا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن  ‘میزانِ سخن’۵۴کے نام سے چھپا۔ حمیدؔ عظیم آبادی کی کتاب میں ‘بحر الفصاحت’کے علاوہ ‘قواعد العروض’سے بھی اختلافات ظاہر کیے گئے ہیں۔ گویا  ‘بحر الفصاحت’کا ردِّ عمل عروض ہی کے سلسلے میں سامنے آیا۔

اردو عروض پر روایتی طرز کی ایک اور کتاب خاصی عالمانہ اور مفصّل ہے لیکن بوجوہ اس کا چرچا نہیں ہو سکا۔ اس  کا ایک سبب شاید اس کا مقامِ اشاعت جون پور ہے۔ یہ کتاب غلام حسن عظیمؔ کی’عروضِ اردو’۵۵ہے۔ یہ ۱۸۷۰ء میں تالیف ہوئی اور ۱۳۴صفحات پر ۱۸۸۹ء میں شائع ہوئی۔

اردو میں لکھی گئی عروض کی ضخیم کتب میں ‘مقیاس الاشعار’، ‘قواعد العروض’، ‘بحر الفصاحت’، ‘فنِّ شاعری عرف میزان العروض’، ‘تدریس العروض’۵۶، ‘سراج العروض’۵۷کے علاوہ  ‘ارمغانِ عروض’۵۸شامل ہیں۔ ان کتب میں اردو عروض کس قدر تفصیل سے پیش کیا گیا ہے، ایک جدول کی صورت میں ملاحظہ کیجیئے۔

جدول نمبر۱:اردو عروض پر مفصّل ترین کتب کا تقابل:

نمبر شمار نام کتاب مؤلّف اردو عروض کے علاوہ موضوعات سنِ اشاعت کل صفحات عروض پر صفحات
۱ ‘مقیاس الاشعار’ مرزا محمد جعفر اوجؔ لکھنوی قافیہ، تاریخ گوئی، عروضِ فارسی ۱۸۷۵ء ۳۳۶ ۲۷۶
۲   ‘قواعد العروض’ غلام حسنین قدرؔ بلگرامی ندارد، عروضِ عربی و فارسی وسنسکرت ۱۸۸۲ء ۴۷۷ ۴۷۷
۳  ‘بحر الفصاحت’ نجم الغنی خان رام پوری قافیہ، اصنافِ سخن، معانی، بیان، بدیع، نقدِ شعر ۱۹۲۶ء بار سوم ۱۲۳۲ ۲۸۲
۴  ‘فنِّ شاعری’  محمد شریف شوخؔ لاہوری قافیہ، بدیع ندارد ۳۵۲ ۲۴۲
۵ ‘تدریس العروض’ سیّد ظفرؔ ترمذی قافیہ، عروضِ فارسی ۱۹۸۵ء ۳۴۰ ۳۲۵
۶  ‘سراج العروض’ سیّد حسن کاظم عروضؔ عروضِ فارسی ۲۰۰۱ء ۴۳۶ ۴۳۶
۷ ‘ارمغانِ عروض’ کندن لال کندنؔ قافیہ ۲۰۰۵ء ۳۵۶ ۲۴۷

 

‘ مقیاس الاشعار’ کو اس مقابلے سے اس بِنا پر خارج کر دینا چاہیئے کہ اس میں صرف فارسی شعری امثلہ ہیں ، گویا یہ فارسی عروض، قافیہ اور تاریخ گوئی پر اردو میں لکھی گئی کتاب ہے۔ کثیراللّسانی عروض پر کتب میں ‘قواعد العروض’ ۴۷۷-صفحات کے ساتھ اوّل نمبر پر ہے اور’سراج العروض’ ۴۳۶-صفحات کے ساتھ دوسرے نمبر پر۔ صرف اردو عروض پر لکھے گئے صفحات جس کتاب میں سب سے زیادہ ہیں وہ ‘بحر الفصاحت’۲۸۲-صفحات کے ساتھ ہے۔ ‘ارمغانِ عروض’۲۴۷-صفحات کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ ‘فنِّ شاعری’۲۴۲-صفحات کے ساتھ تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ مجموعی تعدادِ صفحات کے لحاظ سے’ بحر الفصاحت’کے ۱۲۳۲- صفحات ایک ریکارڈ ہیں جو ابھی تک ناقابلِ شکست ہے۔

انیسویں صدی میں اردو عروض پر چھپنے والی دیگر کتب میں محمداحسن، ۱۸۶۴ء، کی’رسالۂ عروض’، دیبی پرشاد سحرؔبدایونی، ۱۸۶۶ء، کی’معیار البلاغت’، محمد نصیر الدّین نقشؔ کی۱۸۶۸ء، ‘مطالبِ غرہ’، مؤمن حسین صفیؔ، ۱۸۶۹، کی’طوبی العروض’، گوئندرپرساد فضاءؔ، ۱۸۷۲ء، کی’عروضِ فضاء ؔمع قواعدِ قافیہ’، صفدر علی، ۱۸۷۶ء، کی’غذائے روح’شامل ہیں۔

بیسویں اور اکّیسویں صدی میں اردو عروض پر چھپنے والی کتب کو ہم تین زمروں میں تقسیم کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اوّل :انگریزی میں شائع شدہ کام، دوّم:اردو میں روایتی طرز کا کام  اور  سوّم:اردو عروض کی تدوینِ  نو کی کاوشیں۔

انگریزی میں اردو عروض پر پہلی کتاب مولوی عبدالرؤف عشرتؔ لکھنوی کے ایک انگریز شاگرد کیپٹن جی ڈی پائبسCaptain GD Pybus   نے لکھی۔ کتاب کا نام تھا’Urdu Prosody and Rhetorics’   یعنی ’اردو عروض اور بلاغت‘۔ یہ کلکتہ سے چھپ کر لاہور سے ۱۹۲۴ء میں شائع ہوئی۔ کُل ۶+۱۵۱صفحات میں سے ۵۶ عروض پر ہیں۔ کتابیات اور اشاریہ بھی کتاب کی زینت اور افادیت کا موجب ہیں۔ مؤلّف نے تقطیع کے باب میں بڑی عرق ریزی دکھائی ہے۔ جابر علی سیّد ۵۹ نے اس وقیع کتاب کا جائزہ لیا ہے۔ کوئی تیرہ سال بعد۱۹۳۷ء میں لاہور ہی سے ایک اور انگریزی کتاب اردو عروض پر شائع ہوئی۔ گراہم بیلی  Grahame Bailey کی  ‘A Guide to the Metres of Urdu Verse’ یعنی ’رہنمائے  بحورِ اردو‘۔ اس کتاب کی مغربی دنیا میں خاصی گونج سنائی دیتی رہی لیکن یہ اغلاط وتسامحات سے پُر تھی۔

پروفیسر رالف رسل Ralph Russell نے گیارہ صفحات کا ایک قابلِ قدر مضمون لکھا جو ’اردو بحور کے بعض عملی مسائل‘   of the Treatment of Urdu Metre’ ‘Some Problems  کے عنوان سے۱۹۶۰ء میں ’جرنل آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی‘ ‘Journal of Royal Asiatic Society’کے صفحات ۴۸ تا ۵۸ پر شائع ہوا۔ پروفیسر موصوف نے خورشیدالاسلام سے مل کر ’تین مغل شعراء‘  ‘Three Mughal Poets’ کے نام سے ایک کتاب مرتّب کی جو کیمبرج سے ۱۹۶۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ ۲۹۰؍ صفحات پر مشتمل تھی جس میں عروض پر راہنما حصہ بھی شامل تھا۔ پروفیسر رالف رسل کی عروض پر باقاعدہ کتاب ’اسکول آف اوریئنٹل اینڈ  افریقن اسٹڈیز‘  لندن سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کا نام ’ اردو کی عروضی بحر پر ایک ابتدائی کتاب‘’A Primer of Urdu Verse Metre’  تھا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے ۱۹۷۲ء میں انگریزی میں کلاسیکی اردو رومانی شاعری کا ایک انتخاب شائع ہوا جس کے ضمیمے میں اردو عروض کی تلخیص ایک کارآمد جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈیوڈ میتھیو اور کرسٹوفر شاکل  David Mathew and Christopher Shackle   کی اس کتاب کا نام’An Anthology of Classical Urdu Love Lyrics’   تھا جو کُل ۲۸۳؍ صفحات پر مشتمل تھی۔

ایم عبدالرحمٰن بارکر اور ایس اے سالم کی کتاب ۱۹۷۷ء میں ‘Classical Urdu Poetry: An Anthology’  کے نام سے تین حصص میں نیویارک سے شائع ہوئی۔ اس میں عروض پر ایک مفید مضمون موجود ہے۔

ایک مغربی مؤلف فن تھیسن  Finn Thiessen’ کی کتاب ’کلاسیکی فارسی عروض پر ایک دستی کتاب مع ابواب بر اردو و ترکی وغیرہ‘  Manual of Classical Persian Prosody with Chapters on Urdu, Turkish etc.’ ‘A۱۹۸۲ء میں ۲۷۴؍ صفحات پر ویسپادن  Weispaden سے شائع ہوئی۔

انیسویں صدی عیسوی کے اختتامی یا بیسویں صدی کے پہلے سال لکھنؤ سے نظمؔ طباطبائی کی ’شرح دیوانِ غالبؔ اردو‘ شائع ہوئی۔ اس کتاب میں فاضل شارح کے عروض پر قیمتی خیالات ملتے ہیں جو غالبؔ کی ایک متنازعہ فیہ رباعی کے حوالے سے در آئے ہیں۔ نظمؔ طباطبائی نے عروض پر متعدد مضامین بھی لکھے۔ جن میں ’ایک وزنِ عروضی کی تحقیق‘، حیدرآباد  دکن، ۱۹۰۴ء، اور ’خزم کیا چیز ہے؟‘، اردوئے معلی، دسمبر۱۹۱۱ء شامل ہیں۔ عروض پر ان کا ایک کتابچہ ’تلخیصِ عروض و قافیہ ‘  ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا جس کا خصوصی مطالعہ اسی مقالے کا حصّہ ہے۔

مرزا واجد حسین یاسؔ یگانہؔ چنگیزی عظیم آبادی ثم لکھنوی کی کتاب ’چراغِ سخن‘ کا بہت چرچا رہا ہے جو لکھنؤ سے ۱۹۱۴ء میں ۹۶؍ صفحات پر شائع ہوئی۔ دوسرا ایڈیشن اسی شہر سے ۱۹۲۱ء میں ۱۷۶؍ صفحات پر شائع ہوا۔ اس کا ایک مدوّن ایڈیشن احمد رضا کی تدوین اور ڈاکٹر نجیب جمال کے مقدّمے کے ساتھ مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور نے ۱۹۹۶ء میں شائع کیا ہے۔ اس کے کُل ۲۰۰؍ صفحات میں سے ۱۲۸ عروض پر ہیں۔ بقیہ صفحات میں نقدِ شعر، اہلِ زبان کی شناخت، قافیہ، محاکات اور تخیّل کے موضوعات پر خیالات ملتے ہیں۔ یگانہؔ کا یہ کتابچہ بعض شعراء اور عروضیوں کے ساتھ ان کی معرکہ آرائیوں کی وجہ سے بھی مشہور ہوا۔ شاعر اور عروضی مؤلف عروض کی عربی و فارسی منہاج کا درک رکھتے تھے اور بعض قلیل الوقوع زحافات کے استعمال سے دیگر شعراء اور داعیانِ عروض کو مغالطے میں ڈالنے  کی کامیاب کاوش کرتے رہتے تھے اور پھر ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ گویا ان کی یہ کاوش سنجیدہ علمیت سے زیادہ ان کی محرّبانہ اور مخرّبانہ دماغ سوزی کا نتیجہ ہے۔ اردو عروض پر ایک رہنما کتاب کے طور پر اس کا مطالعہ آگاہی کی بجائے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

آگرہ سے غلام محی  الدین کی کتاب ’ تقویم العروض والقافیہ ‘  ۱۹۱۹ء میں شائع ہوئی۔ اسی سال سیّدمحمد عبداللہ علمؔ کی ’شاعر بنانے والی کتاب‘ کان پور سے شائع ہوئی۔ یہ غالباً اردو عروض کی مختصر ترین کتاب ہے۔ اس کا سائز  ۱۱x ۵.۱۵ سنٹی میٹر ہے۔ صفحات کی تعداد صرف ۲۴ ہے۔ گویا عام سائز کے صرف دس صفحات  میں اردو عروض کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بحور کی تسمیہ کے لیے مخففات قائم کیے گئے ہیں۔ جن کی دو صفحات کی کلید کے بعد بیس صفحات میں اردو بحور کے نام، ارکان، اور ایک ایک مصرع بطورِ مثال درج ہے۔ اگرچہ غیر مستعمل اوزان بھی در آئے ہیں۔ تسمیہ کے اغلاط بھی ہیں اور اوزان کی تفصیل بھی مفقود ہے۔ بعض مستعمل بحور کا ذکر شامل نہیں۔ بایں ہمہ کتابچے کا اختصار اور مخففات کا اہتمام اسے عروض کی عام کتب سے ممیز و منفرد کرتا ہے۔

مولوی عبدالرؤف عشرتؔ لکھنوی نے شاعری کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی کتاب کے نام سے چار کتابیں لکھیں۔ اشاعت لکھنؤ سے ۱۹۲۱ء سے چند سال قبل ہوئی۔ عروض، قافیہ، معائب ومحاسنِ سخن  اور بدیع  کے موضوعات پر یہ کتاب مجموعی طور پر ۱۹۲؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلی دو کتب عروض پر ہیں۔ مؤلف کا اندازِ تحریر مدرّسانہ ہے۔ بحرِ  متقارب کی ہندی نژاد صورت اور  فَعُوْلُ فَعْلُنْ والی بحر کے بیان میں وہ جمہور عروضیوں کی طرح قدرؔ  بلگرامی کی’قواعدالعروض‘ میں موجود صراحت سے بے نیاز اور بے فیض نظر آتے ہیں۔

شیخ برکت علی کی ’جنّت العروض و الصنائع‘ کلکتہ سے ۱۹۲۱ء میں شائع ہوتی ہے۔ حکیم سیّد محمد کی کتاب ’نقشہ ضروریاتِ شاعری‘ لکھنؤ سے ۱۹۲۳ء میں شائع ہوئی۔ چودھری فیض محمد خان کا ۷۲؍ صفحات پر مشتمل کتابچہ ’الشعر و الشعراء‘ لاہورسے ۱۹۲۹ء میں چھپا جس میں عروض پر صرف گیارہ صفحات ہیں جو بدیہی طور پر تشنہ ہیں۔ مرزا احمد شاہ بیگ جوہرؔ کی کتاب ’جوہر العروض‘ الہ آباد سے ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی۔ اس میں بحرِ  متقارب کی ہندی نژاد صورتوں پر قدرے تفصیل و  تدقیق پیش کی گئی ہے۔

مرزا محمد عسکری جو رام بابو سکسینہ کی ’تاریخِ  ادبِ اردو کے مترجم کی حیثیت سے دنیائے اردو میں پہچانے جاتے ہیں ، ’آئینۂ بلاغت ‘ کے بھی مؤلف ہیں۔ یہ لکھنؤ سے ۱۹۳۷ء میں ۲۱۴؍ صفحات پر شائع ہوئی۔ لکھنؤ ہی سے اس کا ری پرنٹ ۱۹۸۴ء میں شائع ہوا۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، کتاب متعدد علومِ بلاغت پر محیط ہے۔ اس میں عروض پر ۲۴؍ صفحات ہیں۔ فارسی اور اردو عروض کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مثالیں بھی ہر دو زبانوں کی شاعری میں سے ہیں۔ بحرِ  متقارب کی ہندی نژاد صورتوں کا بیان حسبِ روایت ناقص ہے۔ ہزج مثمن اشتر کو مقتضب مثمن مطوی کی صورت میں دوہرا دیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں ۲۸؍ صفحات پر مشتمل مصطلحاتِ علومِ بلاغت کی اردو انگریزی فرہنگ ہے جو خاصی معلومات افزاء ہے۔

جلیلؔ مانک پوری کے ۵۶؍ صفحات پر مشتمل کتابچے مطبوعہ ۱۹۴۰ء  موسومہ ’اردو کا عروض‘ کا چرچا رہا لیکن اس میں بھی روایتی مندرجات روایتی تسامحات کے ساتھ موجود ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد چھپنے والی اردو عروض کی کتابوں میں معروف اردو شا عر  مظفرؔ وارثی کے والد صوفی وارثیؔ میرٹھی (۱۸۸۰ ئ۔ ۱۹ء۲ء) کی کتاب ’شعرو قافیہ‘ شامل ہے۔ یہ لاہور سے ۱۹۵۲ء میں شائع ہوئی۔ اسے مظفرؔ وارثی نے  اضافوں کے ساتھ لاہور ہی سے ۱۹۹۱ء میں شائع کرایا۔ اس کتاب میں روایتی عروض و قافیہ کے علاوہ قوافی کی فہارس بھی ہیں۔

پشاور سے صغیر احمد جانؔ کی کتاب ’صحیفۂ  فنونِ ادب‘  ۱۹۵۸ء میں  ۳۲۰؍ صفحات پر  شائع ہوئی۔ اس میں عروض پر۹۹؍ صفحات ہیں۔ ایک اہتمام جو کہیں کہیں دیکھنے کو ملتا ہے، یہ کیا گیا ہے کہ تقطیع کی وضاحت کے لیے نقطے اور لکیر کی علامتیں بھی استعمال کی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر یہ باب بھی روایتی کتابچوں کے روایتی تسامحات اور اغلاط سے پُر ہے۔ ڈھاکا سے ۱۹۶۰ء میں نظیرؔ صدیقی کی کتاب ’علمِ بلاغت و علمِ عروض‘ ۱۲۸؍ صفحات پر شائع ہوئی۔ ڈھاکا ہی سے غالباً اسی سال پروفیسر محمد معز الدین کی کتاب ’رہنمائے سخن‘ شائع ہوئی جو ۱۸۸؍ صفحات پر مشتمل تھی اور اس کا موضوع عروض کے علاوہ علمِ بیان تھا۔

سیّد ظہور احمد شاہ جہان پوری کی کتاب ’فنِّ شاعری‘ دہلی سے ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب  ’اردو رباعی: فنّی و تاریخی ارتقاء ‘ ۱۹۶۲ء میں کراچی سے پہلی بار ۲۵۸؍ صفحات پر شائع ہوئی اور دوسری بار لاہور سے ۱۹۸۲ء میں ۱۸۴؍ صفحات پر۔ فاضل محقق کا یہ مقالہ کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کی امتحانی ضرورت پوری کرنے کے لیے ۱۹۵۸ء میں لکھا گیا تھا۔ آغا صادق کی کتاب ’جوہرِ عروض‘ ملتان سے ۱۹۶۸ء میں شائع ہوئی۔ دوسری بار لندن سے ۱۹۸۹ء میں مؤلف کی دو دیگر کتب کے ہمراہ ’نکاتِ  فن‘ کے نام سے چھپی۔ اس میں ’جوہرِ عروض ‘ ۱۴۹؍ صفحات پر ہے۔ ’نکاتِ  فن کے صفحات کی مجموعی تعداد ۳۶۸ ہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی کی کتاب ’عروض، آہنگ اور بیان‘ لکھنؤ سے پہلی بار ۱۹۷۷ء میں ۲۵۸؍ صفحات پر شائع ہوئی۔ ترامیم اور اضافوں کے ساتھ دہلی سے دوسری بار ۲۰۰۴ء میں ۳۴۰؍ صفحات پر چھپی۔ دوسرے ایڈیشن میں اشاریہ بھی شامل ہے۔ اس مفید اور خیال افروز کتاب میں عروض پر متعدد تحقیقی اور تنقیدی مضامین شامل ہیں۔

۱۔        شعری آہنگ میں نئی فکر اور تنوّع کی ضرورت

۲۔       شعرِ اردو میں آوازوں کی تخفیف اور سقوط کا مسئلہ

۳۔       شکستہ بحر اور شکستِ ناروا

۴۔       تسکینِ اوسط  کے اسرار

۵۔       اقبالؔ کا عروضی نظام

۶۔       کچھ عروضی اصطلاحات

تسکینِ اوسط اور شکستِ ناروا پر جابر علی سیّد کے خیالات غیر مدوّن صورت میں قبل ازیں شائع ہو چکے تھے۔ فاروقی کے ہاں بہر حال نئے نکات سامنے آتے ہیں اگرچہ ان سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ ان کی ایک اور کتاب ’درسِ بلاغت ۱۹۸۱ء میں پہلی اور ۱۹۸۹ء میں دوسری بار شائع ہوئی۔ شمس الرحمٰن فاروقی اس کتاب کے مدوّن ہیں۔ کتاب کا بابِ عروض، اشاریہ، کتابیات، انگریزی، اردو مصطلحاتِ عروض کی فرہنگ، فاروقی ہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ کُل ۱۹۲؍ صفحات کی اس کتاب میں عروض پر ۴۶؍ صفحات ہیں۔ عروض پر باب خاصا بہتر اور مفید ہے۔ پیرا بندی بلکہ پیراشماری سے اس علم کے نکات خاصے منظم انداز میں پیش ہوئے ہیں۔ متقارب کی ہندی شکل پر تفصیل اچھی ہے۔ لیکن اس کے مستعمل صورتوں کی فہرست مکمل نہیں۔ دوہا کا ذکر بھی نہیں۔ متدارک کی ایک شکل کو بیک وقت مخبون اور مقطوع غلط طور پر قرار دیا گیا ہے۔ ہزج کی گلزارِنسیم والی شکل میں حشو کے رکن کو اشتر لکھا گیا ہے حالانکہ شتر صدرو ابتداء کے لیے مخصوص ہے۔ ہزج کے آخر میں زائد حرف لانے کو غلط ماننے کی بات درست نہیں۔ اس پر جابر علی سیّد کی رائے بیان کی جا چکی ہے۔

اوم پرکاش اگروال زارؔ علّامی کی کتاب ’کلیدِ عروض‘ پٹیالہ سے ۱۹۸۱ء میں ۲۰۸؍ صفحات پر شائع ہوئی۔ زارؔ علّامی کی ایک اور کتاب مسلّماتِ  فن ‘۱۹۸۸ء میں ہریانہ اردو اکادمی نے شائع کی۔

اسی سال یعنی ۱۹۸۲ء میں جابر علی سیّد کا تنقیدی مجموعہ ’تنقید اور لبرلزم‘ کے نام سے ملتان سے شائع ہوا جس میں عروض پر متعدد مضامین شامل تھے۔ یہ ’عمر خیّام۔ ایک تعارف‘ اور ’بڑے عروضی، بڑی غلطیاں ‘ اہم ہیں۔ مؤخرالذکر معرکۃالآرا مضمون میں فاضل ناقد نے واضح  علمِ عروض خلیل بن احمد الفراہیدی سے حبیب اللہ خان غضنفرؔ تک مختلف کبارعروضیان کے تسامحات پر گرفت کی ہے۔ قبل ازیں ۱۹۷۸ء میں ’اقبالؔ کا فنّی ارتقاء‘ کے نام سے ان کا ایک مجموعۂ مضامین لاہور سے شائع ہوا جس میں اقبالؔ کے کلام کاعروضی مطالعہ اجمالی انداز میں ’اقبالؔ کا شعری آہنگ‘ کے زیرِ عنوان شامل ہے۔ اقبالؔ پر ان کا دوسرا مجموعۂ مضامین ’اقبالؔ۔ ایک مطالعہ‘ لاہور ہی سے ۱۹۸۵ء میں چھپا۔ اس میں ایک مضمون’اقبالؔ اور قطعہ رباعی بحث‘ عروض پر ہے۔ ملتان سے ۱۹۸۷ء میں ’تنقید وتحقیق ‘ کے نام سے ان کا ایک اور مجموعۂ مضامین شائع ہوا۔ اس میں شامل مضامین میں سے عروض پر’جلال میرزا خانی کے دوہے‘، ’ہمارے عروضی دبستان‘، ’مولوی عبدالحق کا عروض‘، ’رام پور کا مُلّائے فرومایہ اور وزن کے تصوّرات‘ اور ’اردو شعراء کی بحر آزمائیاں ‘ ہیں۔ اسلام آباد سے ۱۹۸۹ء میں ان کا مجموعۂ مضامین’لسانی و عروضی مقالات‘ شائع ہوا۔ جس میں ’علمِ عروض۔ وزن اور آہنگ کا امتیاز‘، بسرام یا عروضی وقفہ‘، ’استدراک بر مقالۂ عروض در دائرۂ معارفِ اسلامیہ‘، ’عروض اور پنگل کے ارکان کا تقابلی نقشہ‘، ’تنقیدی فہرست اہلِ عروض(اردو)، اور ’کیپٹن پائبس۔ ایک ماہرِ عروض فوجی افسر‘ ان کے عروضی مقالات کے عنوانات ہیں۔ ’استعارے کے چار شہر‘ کے نام سے ان کا ایک مجموعۂ مضامین ملتان سے ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ اس میں ’جلدباز نقّاد‘ کے زیرِ عنوان مضمون میں شمس الرحّمٰن فاروقی  کے بعض عروضی خیالات پر گرفت کی گئی ہے۔ جابر علی سیّد کے غیر مدوّن عروضی مضامین اور تالیفات درجِ ذیل ہیں :

۱۔         اردو عروض میں ایکسنٹ کی تلاش۔ (نقوش)

۲۔       یورپ کے عروض نگار۔ (نوائے وقت)

۳۔        تسکینِ اوسط کا مسئلہ۔ (نگارِ پاکستان)

۴۔        اوزانِ رباعی کا مطالعہ

۵۔       ویل اور میریڈتھ اوون

۶۔        آ سان عروض

۷۔        عروضِ اعلیٰ

۸۔        عروضی چارٹ

اس کے علاوہ سہ ماہی ’فنون‘، لاہور اور ’تحریک‘، دہلی میں ان کے عروضی مکاتیب شائع ہوتے رہے۔ جابر علی سیّد کا عروضی کام منفرد، محقّقانہ اور انتہائی مجمل اسلوب میں ہے اور پی ایچ ڈی کے ایک مستقل مقالہ کی صورت میں تحقیق کا سزاوار ہے۔

رتنؔ پنڈوری کی کتاب ’سرمایۂ بلاغت‘ دہلی سے ۱۹۸۳ء میں ۴۰۰؍ صفحات کی ضخامت کے ساتھ شائع ہوئی جس میں عروض پر ۱۵۰؍ صفحات تھے۔ فرحت ؔقادری کی کتاب ’ضروریاتِ  شعرو ادب‘ بھی اسی سال اسی شہر سے شائع ہوئی۔ یہی سال پشاور سے سرورؔ سلیمانی کی کتاب’بساطِ سخن ‘ کی اشاعت کا ہے جس کے ۱۲۰؍ صفحات میں سے ایک چوتھائی عروض پر ہیں۔ ابوالاعجاز حفیظ ؔ صدیقی کی کتاب ’اوزانِ اقبالؔ‘ لاہور سے شائع ہوئی یہ ۲۸۰؍ صفحات کی ضخامت رکھتی ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ اوّلین باقاعدہ کتاب ہے۔ بھارت کے دار الحکومت دہلی سے ۱۹۸۴ء میں صغیرالنساء بیگم کی کتاب ’غزلیاتِ غالبؔ کا عروضی تجزیہ‘ شائع ہوئی۔ اس کتاب میں غالبؔ کی ۲۳۵؍غزلیات کا تفصیلی عروضی تجزیہ کیا گیا ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ دوسری باقاعدہ کتاب ہے۔ اسی سال علی گڑھ ڈاکٹر سمیع اللہ اشرفیؔ کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا ایک جزو ’اردو اور ہندی کے جدید مشترک اوزان‘ کے نام سے ۴۴۴؍ صفحات پر شائع ہوا۔ اپنی نوعیت کا یہ مفصل ترین موازنہ ہے۔ اس سال پاکستان کے شہر گوجراں والا سے عزیز ؔلودھیانوی کی کتاب ’فنِ شعر‘ ۱۰۴؍ صفحات پر شائع ہوئی جس کے۱۳؍ صفحات عروض پر ہیں۔ بھارت سے ۱۹۸۵ء میں عروض پر دو قابلِ توجہ کتب شائع ہوئیں۔ ایک ڈاکٹر عنوانؔ چشتی کا مجموعۂ مضامین ’عروضی اور فنّی مسائل‘ جو دہلی سے شائع ہوا۔ ڈاکٹر موصوف عروض پر کلاسیکی اور مدقّقانہ مزاج رکھتے ہیں۔ دوسری کتاب شارقؔ جمال ناگ پوری کی ’تفہیم العروض‘ہے جو ان کے شہر ناگ پور سے شائع ہوئی۔ ان کی ایک اور کتاب ’عر وض میں نئے اوزان کا وجود‘۱۹۹۱ء میں یہیں سے شائع ہوئی۔ محمد زبیر فاروقی شوکتؔ الہ آبادی کی کتاب ’عمدہ اردو عروض‘۱۹۸۶ء میں کراچی سے ۱۴۶؍ صفحات پر شائع ہوئی۔ اس میں تقطیع کے لیے نقطے اور لکیر کی علامتیں استعمال کی گئی ہیں۔ نو یں دہائی کے آخری سال یعنی ۱۹۹۰ء میں ان کی ایک اور کتاب ’محاسنِ کلام‘ چھپی جس کے ۱۹۵؍ صفحات میں سے سے ۱۴؍عروض پر تھے۔ رشید الزمان خلشؔ کلکتوی کی کتاب ’کلیدِ سخن‘۱۹۸۸ءء میں کراچی سے چھپی۔ کُل ۱۶۰؍ صفحات کی اس کتاب کا دو تہائی عروض پر ہے۔ ۱۹۸۹ء میں ڈاکٹر محمد امین کا لکھا ہوا ۳۲؍ صفحات پر مشتمل کتابچہ ’آسان عروض ‘ ملتان سے شائع ہوا۔ کما ل احمد صدیقی کی کتاب ’آہنگ اور عروض ‘دہلی سے اسی سال شائع ہوئی۔ یہ ۲۷۷؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ اور لاہور سے علی حسن چوہان کی ’معیاری فن و ادب و عروض‘ چھپی جو صرف ۴۸؍ صفحات کی تھی۔ اسی سال پروفیسر ڈاکٹر گیان چند جین کی کتاب ’اردو کا اپنا عروض‘ شائع ہوئی جس کا تفصیلی جائزہ اسی مقالے کا حصہ ہے۔ ان کے مزید کام کا ذکر بھی وہیں ہو گا۔ ڈاکٹر کندن سنگھ اراولی کی کتاب ’احتساب العروض‘ چندی گڑھ سے ۱۹۹۱ء میں شائع ہوئی۔ راقمِ  مقالہ نے پنجاب یونیورسٹی اوریئنٹل کالج میں ایم اے اردو کا مقالہ بعنوان  ’کلامِِ  مجید امجد میں بحور اور آہنگ کا مطالعہ ‘  پیش کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقالہ تھا۔ اسی سال لاہور سے پروفیسر عبد الصمدصارم ؔ کی کتاب ’اردو علمِ عروض‘ شائع ہوئی۔ دو سال بعد۳ ۱۹۹ء میں محمد یعقوب آسی ؔ کی کتاب ’فاعلات‘ شائع ہوئی۔ لاہور سے چھپنے والی۱۲۰؍ صفحات کی اس کتاب کا تفصیلی مطالعہ ہم نے اسی مقالے میں پیش کیا ہے۔ ذوقیؔ مظفرنگری کی کتاب’تسنیم فصاحت والعروض‘ لاہور ہی سے ۱۹۹۴ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب ایک سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس کے ۱۶۸؍ صفحات میں سے؍عروض پر ہیں۔ اگلے سال ۱۹۹۵ء میں ہندوستان سے عروض پر دو مزید کتابیں شائع ہوئیں۔ ایک نورؔ مینائی کی ’عروض و بلاغت‘ بنگلور سے اور دوسری صاحب علی کی ’مبادیاتِ عروض ‘بمبئی سے۔ دوسال بعد دو کتابیں پاکستان سے منصہ  شہود  پر آئیں۔ ایک پشاور سے سیّد ابرارحسینی کی ’اردو بحریں ‘اور دوسری اسلام آباد سے ڈاکٹر اسلم ضیاء بھٹی کی ’علمِ عروض اور اردو شاعری‘۔ مؤخر الذکر مؤلف کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹر عبادت بریلوی کی نگرانی میں لکھا گیا۔ اس کی ضخامت۴۴۷؍ صفحات ہے۔ اب تک پاکستان میں ہونے والی اس سطح کی یہ واحد اور اوّلین تحقیق ہے۔ اس میں ۶۴؍ صفحات میں عربی، فارسی، اردو اور ہندی عروض کا تعارف کرانے کے بعد اردو شاعری کے دکنی، لکھنوی، دہلوی اور جدید دور کی ۱۹۷۵ء تک شاعری میں استعمال ہونے والی بحور کا شماریاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ کام فارسی عروض دان دکتر پرویز ناتل خانلری کے تحقیقی کام سے متاثر ہو کر کیا جو فارسی غزل کے اسی نوعیت کے مطالعے پر مبنی ہے۔ ۶۰

اکیسویں صدی کا آغاز اردو کے متداول عروض کی ضخیم ترین کتاب کی اشاعت سے ہوا جس کا تعارف ہم قبل ازیں کرا چکے ہیں۔ دوسرے سال ۲۰۰۲ء میں ڈاکٹر جمال  الدین جمال ؔ کی کتاب ’تفہیم العروض ‘ کی لاہور سے اشاعت عمل میں آئی۔ نثار اکبرآبادی کی ’شعر اور فنِ شعر‘ اسی شہر سے ۲۰۰۳ء میں ۱۹۲؍ صفحات پر شائع ہوئی جس میں ۴۸؍ صفحات پر اردو عروض ہے۔ اس میں ہجائے کوتاہ کو  1اور ہجائے بلند کو  2  سے ظاہر کرتے ہوئے تقطیع کی گئی ہے۔ حمیداللہ ہاشمی کی کتاب ’فنِ شعر و شاعری اور روحِ بلاغت ‘ لاہور ہی سے ۲۰۰۴ء میں  چھپ کر سامنے آئی۔ یہ ۳۰۰؍ صفحات کی کتاب ہے، جس میں ۱۶۵؍ صفحات عروض پر ہیں۔ اسی سال شکیل سروشؔ کی کتاب ’استفادہ(علم العروض)‘امریکا اور لاہور سے بیک وقت شائع ہوئی۔ یہ ۱۹۶؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر فرید پربتی کی کتاب ’انتقاد و اصلاح‘ دہلی سے اسی سال شائع ہوئی۔ اس کتاب کے کُل ۱۶۰؍ صفحات ہیں۔ یہ مجموعۂ  مضامین ہے۔ اس میں دو مقالے ’غالب ؔ کی ایک غزل کا عروضی تجزیہ ‘ اور ’ڈاکٹرسلام سندیلوی بحیثیت ناقدِ رباعی ‘ عروض سے متعلق ہیں۔ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ کا مقالہ ’اردو غزل کا تکنیکی ہیئتی اور عروضی سفر‘لاہور سے ۳۷۲؍ صفحات پر ۲۰۰۸ء میں شائع ہوا۔ یہ مقالہ ۲۰۰۴ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے پیش کیا گیا اور ۲۰۰۶ء میں پنجاب یونیورسٹی نے اس پر ڈگری عطا کی۔ مقالے کے نگرانِ کار ڈاکٹر رفیع  الدین ہاشمی تھے جو راقمِ مقالہ کے بھی استاد ہیں۔

اب ذکر ہو جا ئے دو ایسی کتابوں کا جن کے سنِ اشاعت کا علم نہیں ہو سکا البتہ قرائن سے ان کی اشاعت بیسویں صدی کی معلوم ہوتی ہے۔ سیّد اظہر علی کی کتاب ’المختصر‘ دہلی سے ۱۶۰؍ صفحات پر شائع ہوئی جس کی نصٖف ضخامت عروض پر ہے۔ کوثرؔ لکھنوی کی’سفیرِسخن‘کی دوسری اشاعت لاہور سے ہوئی۔ کُل ۱۹۲؍ صفحات میں سے ۸۰ عروض پر ہیں۔

عروض پر مذکورہ کتب کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں کتب، رسائل اور مضامین لکھے گئے جن سب کا احاطہ اس مقالے میں ممکن نہیں۔ چند باتیں البتہ ان کے بارے میں آسانی اور ذمّہ داری کے ساتھ کہی جا سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر ایک عروضی نے کسی غلط روایت کی تصحیح کی تو اس کی کماحقّہٗ  پذیرائی نہ ہو سکی اور وہ غلطی بدستور کتبِ عروض کا حصّہ بنتی رہی۔ اس طرح اردو عروض کا ارتقاء خطِ مستقیم کی بجائے منحنی لکیر کی شکل میں ظاہر ہوا۔ استناد کے لیے دلائل کی بجائے مذہبی انداز میں تقلید پرستی کا رجحان ملتا ہے۔ کہیں کتاب کا معیار علمی نہج پر قائم کرنے کی بجائے مؤلف کے عہدے یا شہرت پر منحصر کر دیا گیا۔ بعض کتب کا مطالعہ کیے بغیر انھیں معیار کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا گیا اور ’درسِ بلاغت ‘ کے سوا جتنی بھی عروضی کتب کو نصابی کتاب کا درجہ دیا گیا وہ سب غیر معیاری تھیں۔ السنۂ شرقیہ کے بعض اربابِ  بست و کشاد کا اپنا دامن جرمِ  سرقہ سے آلودہ تھا۔ یوں جامعاتی سطح پر عروض کے ارتقاء کے سدِّ باب کا دانستہ یا غیر دانستہ بندوبست کیا گیا۔

اردوعروض کے ارتقاء کو ہم اس علم کی خالصتاً اردو کے لیے تدوینِ نو کی گیارہ خصوصی کاوشوں کے مطالعے کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔

۱۔        دریائے لطافت(۱۸۵۰ء)۔ ان کاوشوں کی ابتداء  اردو زبان، بلاغت اور عروض وقافیہ پرفارسی میں لکھی گئی مشہو رکتاب     ‘ دریائے لطافت’۶۱سے ہوتی ہے جو انشاء اللہ خان انشاءؔ اور مرزا محمد حسن قتیلؔ کی مشترکہ کاوش ہے۔ کتاب کا عروض پر حصّہ قتیلؔ کا لکھا ہوا ہے، ناقدین اس کتاب میں پیش کی گئی تجاویز کی تحسین یا تنقیص نا حق طور پر انشائؔ کی نسبت کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ اس حصّے میں عروض کا خاصا جامع بیان ہے جو ‘ حدائق البلاغت ‘ سے بہتر ہے لیکن بدقسمتی سے اس کا اردو ترجمہ نہیں شائع ہوا۔ عبدالرّؤف کے کیے ہوئے ترجمے میں مولوی عبدالحق کے ایماء(۶۲) پر عروض کا حصّہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ قتیل ؔ نے تقطیع کے لیے روایتی ارکان کی جگہ کسبیوں کے نام تجویز کیے ہیں۔ مثلاً پری خانم(مفاعیلن)، قلندرو (مفاعلن)، چت لگن(فاعلن)، پیازو(فعولُن)، گجراتن(مفعولُن)، البیلی(فَعِلاتُن)، سجنی(فَعِلُن)، جادی(فَعْلُن)، وغیرہ۔ یہ تجویز دلچسپ ہے لیکن عملاً بے فائدہ ثابت ہوتی ہے کیوں کہ اس سے متداول عروض کے تناقضات، نقائص اور پیچیدگیوں میں کوئی کمی واقع ہونے کی بجائے اضافہ ہوتا ہے۔

۲۔        تلخیصِ عروض وقافیہ(۱۹۲۳ء)۔ نظمؔ طبابائی۶۳ کی بعض تجاویز مستحسن قرار پاتی ہیں لیکن ان کا نظامِ عروض کافی و مکتفی اور منضبط نہیں ، بلکہ وہ متداول عروض کی جستہ جستہ اور جزوی اصلاح کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بحور کا بیان بے ترتیب اور اردو کے لیے نا کافی ہے۔ بعض غیر ضروری مباحث بھی موجود ہیں۔ تسہیل کی خاطر زحافات کی تفاصیل سے گریز کیا گیا ہے۔ بحور کی تسمیہ میں زحافات کا حوالہ موجود ہے لیکن جا بجا ان سے بے جا طور پر اغماض بھی برتا گیا ہے۔

۳۔        گلزارِ عروض(۱۹۲۳ء یا ۱۹۲۴ء)۔ سیّد الطاف حسین کاظمؔ کی یہ کتاب۶۴ نایاب ہے تاہم مختلف کتب میں اس پر تبصروں سے فاضل عروض دان کی تجاویز بڑی حد تک سمجھی جا سکتی ہیں۔ انھوں نے تمام اردو بحور کو کثیر روایتی ارکان کی بجائے محض تین ارکان (گل، صبا، چمَنی)کی مدد سے پیش کر دیا ہے اور بحور کے روایتی پیچیدہ ناموں کی جگہ ہلکے پھلکے اور شاعرانہ نام مثلاً ریحانی، نرگس، سنبلی وغیرہ تجویز کیے ہیں۔ ان تجاویز سے متداول عروض کاسارا قلعہ مسمار ہو جاتا ہے، یعنی، افاعیل، دوائر، زحاف، علل، احکام کے پیچیدہ نظام کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ کاوش اردو عروض کی تشکیلِ  جدید کے سلسلے کی نہایت اہم، جامع، سائینٹیفک، انقلابی اور قابلِ عمل ہے۔

۴۔        ‘ شاعری’ (مقالہ۱۹۲۳ء تا ۱۹۲۴ء)۔ عظمت اللہ خان کا یہ مقالہ۶۵جب ان کے مجموعۂ کلام’ سریلے بول’ کا دیباچہ بنا تو اردو کا طویل ترین عروضی  دیباچہ قرار پایا۔ عظمت نے اس میں اردو عروض کو ہندی پنگل کے تابع کرنے، اسم میں ضروری اصلاح کے ساتھ انگریزی پروسوڈی سے استفادہ کرنے کی تجویزیں دی گئیں۔ بحر کی بنیاد ماتراؤں کی معیّن تعداد پر رکھی جائے۔ بسرام کا اصول پیشِ  نظر رکھا جائے۔ ماترک اصول کے ساتھ معمولی پابندیاں روا رکھی جائیں اور باقی کام شاعر کے ذوقِ موزونیت پر چھوڑ دیا جائے۔ عظمت کی ان تجاویز کو عروضی ناقدین نے بے جا طور پر اہمیت دی۔ شعراء پر ان تجاویز کا اثر ہندی بحور کے اردو میں استعمال کے رجحان میں اضافے کی صورت میں سامنے آیا  جو بہرحال خوش آئند رہا۔ عظمت کی تجاویز اردو عروض کے لیے عملاً غیر مفید اور ناقابلِ  عمل تھیں۔ ڈاکٹر گیان چند نے ان کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۶۶۔

۵۔        عروضِ  جدید(مقالہ۱۹۲۵ء)۔ حاجی عبدالرّحمٰن خان کا یہ مقالہ۶۷ اردو عروض کی تشکیلِ جدید پر موقر حیثیت کا حامل ہے۔ اس میں اردو کی تمام بلکہ تمام ممکنہ بحور کے لیے محض چھ ارکان تجویز کیے گیے ہیں جو فَعْلُنْ، فَعِلُنْ، فاعِلُ، فعولُ، فعولُنْ اور فاعِلُنْ ہیں۔ دو مزاحف ارکان فعو اور فا ہیں۔ بحور کی تسمیہ کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ارکان ہی کو بحر کے نام کے طور پر قبول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ایک اہم اور کارآمد تفصیل میںا ردو کی مقبول بحور کی شماریات پیش کی گئی ہیں جس کے مطابق ۹۶ فی صد اردو شاعری محض ۱۵ بحور میں کی گئی ہے۔ ان بحور کی موزونیت کی اقلیدسی توجیہ اور اس میں موجود تشابہ کی خاکہ کشی مولّف کا نہایت قابلِ تحسین کارنامہ ہے۔

۶۔       اردو کا عروض(۱۹۵۱ء)۔ پروفیسر حبیب اللہ خان غضنفرؔ  امروہوی کا یہ مقالہ (۶۸) اردو عروض کی تشکیلِ  جدید کی دوسری اہم کاوش ہے۔ انھوں نے عروض کے قواعد نئی طرح سے ترتیب دیے اور اس کے بعض نقائص رفع کرنے کی کوشش کی۔ ان نقائص میں مستقل بحور کو مزاحف گرداننا، بحور کی طویل تسمیہ، زحاف کو اختیار شاعری کی بجائے اختیارِ عروض سمجھنا، اور بعض بحور کا کئی کئی اصلی بحورسے استخراج روا ہونا شامل ہیں۔ فاضل عروض دان نے متداول عروض کے ارکانِ  عشرہ میں سے مفاعلتن، فاع لاتن اورمس تفع لن کو خارج کر کے اور نو مزاحف ارکان کو شامل کر کے سولہ ارکان قائم کیے ہیں اور زحافات یکسرختم کر دیے ہیں۔ بحور کو اصلی اور مستقل مانتے ہوئے ان کے مختصر نام دیے ہیں جنھیں روایتی بحور سے مشتق رکھا گیا ہے تاکہ کُلّی اجنبیت پیدا نہ ہو۔ متناوب بحور کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ایک بحر میں قابلِ  اجتماع تمام اوزان کو ایک اساسی وزن سے مستخرج دکھاتے ہیں۔ اور اردو کی ہندی نژاد بحر متقارب کے اوزان کی عروضی تفصیل وتسہیل کے ضمن میں قدرؔ بلگرامی سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں۔ بعض جزوی نقائص کے ساتھ غضنفر ؔ کی کاوش قابلِ قبول وتحسین ہے۔

۷۔        علمِ عروض صوتی اعتبار سے(مقالہ۱۹۵۶ء)۔ نورالحسن ہاشمی کا یہ مضمون(۶۹) ایک بہت پرانی تجویز کی تفصیلی شکل ہے جو عروضی بحور کو ارکان کی بجائے انگریزی عروض کی علامات ۸ اور سے ظاہر کرنے پر مبنی ہے۔ پہلی علامت ہجائے کوتاہ اور دوسری ہجائے بلند کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ جان گلکرسٹ ۷۰نے ۱۷۹۶ء نے اردو عروض کے لیے ان علامتوں کا استعمال کیا۔ عربی اور فارسی کے لیے مستشرقین یہ کام بہت پہلے کر چکے تھے۔ متداول عروض کے ارکان، بحور، اور زحافات کو از سرِ نو وضع کرنے یا کم از کم ان کے ناموں میں تبدیلی کی کوشش نہیں کی گئی۔

۸۔        عروضِ  جدید(مقالہ۱۹۶۱ء)۔ حافظ محمود شیرانی نے یہ مقالہ۱۹۴۵۷۱ء میں تالیف کر لیا تھا۔ شیرانی کا عروض متداول عروض میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ پر مبنی ہے۔ وہ بعض عروضی اصطلاحات کی نئی تسمیہ قائم کرتے ہیں۔ انگریزی علامتوں کو کام میں لاتے ہیں۔ مرکّب بحور کو مفرد بحور کی ذرّیّات گردانتے ہیں۔ اردو لغت کی بنیاد پر بڑی تعداد میں نئے ارکان وضع کرتے ہیں اور ان کے نام بھی رکھتے ہیں۔ نئی بحور ایجاد کرتے ہیں جو واجد علی شاہ کی بادشاہت اور ان کی ایجاد کردہ بحور ۷۲ کی طرح ناکام اور نا قابلِ تقلید ہیں۔ مجموعی اعتبار سے شیرانی کا نظام اردو عروض کی تسہیل کی کوشش میں تعسیر و تعقید ہے۔

۹۔         آہنگِ شعر(۱۹۷۸ء)۔ ابو ظفر عبدالواحد کی اس کتاب(۷۳)میں بھی شیرانی کے نظامِ عروض کی طرح تسہیل کی کوشش میں تعسیر و تعقید پیدا کی گئی ہے۔ اردو کی مقبول اور غیر مقبول بحور جمع کر دی گئی ہیں البتّہ ان کی شعری مثالیں فراہم کرنے میں خاصی کاوش سے کام لیا گیا ہے۔ وہ متقارب کی ہندی نژاد اردو بحر کو اردو کی بیشتر بحور کی اصل قرار دینے کی سعیِ  نا مشکور کرتے ہیں۔ اسی کمزور بنیاد پر وہ سارے اردو عروض کو بھجنگی بنانے پر تُلے نظر آتے ہیں۔ عروض کی تسہیل کے دعوے کے ساتھ وہ جملہ فروعی ارکان کی تعدادچوراسی بتاتے ہیں۔ کتاب کا آخر ی حصّہ فرہنگِ عروض پر مشتمل ہے جو قدرؔبلگرامی کے بعد دوسری اہم اور مفید کاوش ہے۔

۱۰۔       اردو کا اپنا عروض(۱۹۹۰ء)۔ پروفیسرڈاکٹر گیان چند جین کی عروض پر تحریری کاوشوں کا سلسلہ ربع صدی سے بھی دراز تر رہاجس کی آخری منزل یہ کتاب۷۴ ہے۔ آنجہانی فاضل عروض دان کے ہاں اخلاقیاتِ  تحقیق کی یہ جرات بھی ملتی ہے کہ وہ خود اپنے شائع شدہ خیالات سے رجوع کر سکیں اور اپنے سے کم عمر ادیبوں کی تحریروں کے حوالے دے سکیں۔ اس کتاب میں اردو میں مستعمل زیادہ سے زیادہ بحور کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں آزاد نظم کے عروض پر تفصیلی قواعد بندی، ہندی نژاد اردو بحور بشمول دوہا، سرسری، سارشامل ہیں۔ شاذ بحور سے احتراز کے علاوہ بحور کی تسمیہ سے عمداً گریز کیا گیا ہے۔ متقارب کی ہندی نژاد صورت کے ممکنات ۹۹تک بڑھا دیے گئے ہیں جو بوجوہ نا قابلِ قبول ہیں۔ کمال احمد صدّیقی ۷۵نے اس پر تفصیلی اور سخت گرفت کی ہے۔ رباعی کے اوزان کی تعداد بڑھانے کے لیے گیان چند جین نے ابو ظفر عبدالواحد۷۶ کی تجاویز کا حوالہ دیا ہے لیکن اسی نوعیت کی تجویز جب عظمت اللہ خان نے دی تھی ۷۷ تو خود آنجہانی پروفیسرنے اسے رباعی کے اوزان کی مٹّی پلید کرنے۷۸پر محمول کیا تھا۔ اس کے برعکس وہ آزاد نظم کے لیے نسبتاً کڑے اصول وضع کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی بعض خامیوں کے باوجود من حیث المجموع پروفیسرڈاکٹر گیان چند جین کی یہ کاوش شاعری اور عروض کے طالبَ علم کے لیے ایک خاصے معیاری رہنما کتابچے(Manual )کا درجہ رکھتی ہے۔

۱۱۔        فاعلات(۱۹۹۳ء)محمدیعقوب آسی کی زیرِ نظر کاوش(۷۹)بھی شیرانی کے نظامِ  عروض کی طرح آسان بنانے کی کوشش میں مشکل بڑھانے کا دوسرانام ہے۔ وہ متداول عروض کو اپنی جگہ قابلِ قبول گردانتے ہیں اور اس کی تفہیم اور تعبیر کے نئے اسالیب وضع کرتے ہیں۔ انھوں نے بحور کی تسمیہ کا مخصوص کوڈ ایجاد کرنے کی سعی کی ہے۔ وہ اپنی وضع کردہ اصطلاح توازن کی وضاحت کرتے ہوئے متعدّد غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن سے متداول عروض سے ان کی محدود واقفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی اصلاحی تجاویز سے بہتر تجاویز ان کے پیش رو دے چکے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 حوالہ جات و حواشی

 

۱۔          اردو عروض میں مقداریت کے ساتھ ساتھ بَلStress کی کارفرمائی پر ملاحظہ کیجیے:

الف:    رسل، ڈاکٹر رالف، ‘Some Problems of the Treatment of Urdu Metre’ مشمولہ

:’Journal of the Royal Asiatic Society’اپریل ۱۹۶۰ء، ص۴۸-۵۸۔

ب۔      گیان چند، ڈاکٹر، ‘اردو عروض اور لفظ کا اجزائی بل’مشمولہ:’اردونامہ’شمارہ۳۰۔ اکتوبر تادسمبر۱۹۶۸ء، ص۷-۱۴۔

ج۔       ایضاً، ‘اردو صوت رکن’مشمولہ:’لسانی مطالعے’، نئی دہلی، ۱۹۷۳ء، ص۹۶-۱۰۶۔

د۔         فاروقی، شمس الرّحمٰن، ‘شعری آہنگ میں نئی فکر اور تنوّع کی ضرورت’مشمولہ:’عروض، آہنگ اور بیان’، نئی دہلی، ۲۰۰۴ء، ص۱-۲۸۔

۲۔        اردو شاعری میں مختلف بحور کے استعمال اور ان کے تناسب کا زمانی ترتیب کے ساتھ مطالعہ کرنے کے لیے ملاحظہ کیجیے : ضیاءؔ، ڈاکٹراسلم، ‘علمِ عروض اور اردو شاعری’، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۹۷ء

۳۔        اردو اور فارسی عروض کے نقائص اور تدوینِ  نو کی ضرورت کے موضوع پر ملاحظہ کیجیے:

الف۔    خانلری، دکترپرویزناتل، ‘فارسی عروض کی تنقیدی تحقیق اور اوزانِ غزل کے ارتقاء کا جائزہ’مترجم:بذلِ حق محمود، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ء، (فارسی میں اس موضوع پر علی نقی وزیرآبادی، ڈاکٹر مقدّم، ذبیح بہروز اورحسین فوادی نے بھی کام کیا ہے)

ب۔      انجمؔ رومانی، ‘ عروض، ترمیم کی ضرورت’مشمولہ:’ ہمایوں ‘ لاہور، جولائی۱۹۴۶ء۔

ج۔       اظہر، اے، ڈی، ‘ ہمارے علمِ عروض پر ایک تنقیدی نظر’مشمولہ:’نصرت’لاہور، اپریل۱۹۶۶ء، ص۴۳-۵۳۔

د۔         گیان چند، ڈاکٹر، ‘اردو عروض کی تشکیلِ جدید ‘مشمولہ:’صحیفہ’لاہور، ص۸۱-۹۷۔

ھ۔        جابرؔ، جابر علی، ‘بڑے عروضی، بڑی غلطیاں ‘مشمولہ:’نقوش’لاہور، سال نامہ جنوری ۱۹۷۷ء، ۱۹۷۷ء، ص۱۷۶-۱۹۶۔

۴۔        محمد شفیع، مولوی، ‘الخلیل بن احمد العروضی’مشمولہ:’مقالاتِ مولوی محمد شفیع’جلد سوم، مرتّبہ احمد ربّانی ایم۔ اے، لاہور، مجلسِ ترقّیِ ادب، ۱۹۷۴ء، ص۳۰۳۔

۵۔        حوالہ ایضاً، ص۳۰۴-۳۰۵۔

۶۔        حوالہ ایضاً، ص۳۰۱۔

۷۔        حوالہ نمبر۳۔ ھ، ص۱۷۶۔

۸۔        حوالہ نمبر۳۔ الف۔ ص۲۵۔

۹۔         حوالہ ایضاً، ص۲۶۔

۱۰۔       حوالہ ایضاً، ص۳۰۔

۱۱۔        حوالہ نمبر۴، ص۳۳۷۔

۱۲۔       ویلWeil))’عروض’مشمولہ :’اردو دائرہ معارفِ  اسلامیہ’، جلد۱۳، مترجم:جابر علی سیّد، لاہور، پنجاب یونیورسٹی، ۱۹۷۶ء، ص۲۷۹۔

۱۳۔       الف۔ قزوینی، مرزا محمد بن عبدالوہّاب، مصحّح، کتاب المعجم فی معاییرا شعار العجم، لائیدن اور لندن، ۱۹۰۹ء

ب۔      مدرّس رضوی، مصحّح، کتاب ایضاً، تہران، کتاب فروشی زوار، چاپ سوم، ۱۳۶۰ش

ج۔       سیروس شمیسا، مصحّح، کتاب ایضاً، تہران، انتشاراتِ فردوس، چاپِ اوّل، ۱۳۷۳ش

۱۴۔       الف۔    جلیل تجلیل، مصحّح، معیارالاشعار، تہران، انتشاراتِ  جامی و ناہید، چاپِ اوّل، ۱۳۶۹ش

ب۔      محمد فشارکی، جمشید مظاہری، مہتمم، کتاب ایضاً، انتشارات دانش گاہ تہران، ۱۳۶۳ش

۱۵۔       اوجؔ لکھنوی، مرزا محمد جعفر، مقیاس الاشعار، نخاسِ جدید، مطبع جعفری۔ (۳۳۶-صفحات)۱۸۷۵ء

۱۶۔       قدرؔ بلگرامی، سیّدغلام حسنین، قواعد العروض، لکھنؤ، شامِ اودھ۔ (۴۷۷-صفحات)۱۸۸۲ء

۱۷۔      الف۔    نجم الغنی خان رام پوری، بحر الفصاحت، رام پور، مطبع سرور قیصری، بار اوّل۔ (۲۳۸-صفحات)، ۱۸۸۵ء

ب۔      مصنّف ایضاً، کتاب ایضاً، لکھنؤ، منشی نول کشور، بار دوم۔ (۱۱۱۹-صفحات)۱۹۱۷ء،

ج۔       مصنّف ایضاً، کتاب ایضاً، لکھنؤ، منشی نول کشور، بارسوم۔ (۱۲۳۲-صفحات)۱۹۲۶ء،

د۔    قدرتؔ نقوی، سیّد، مدوّن، کتاب ایضاً، لاہور، مجلسِ ترقّیِ ادب۔ (سات حصص، -۱۹۵۰-صفحات)۱۹۹۹ء تا ۲۰۰۷ء

ھ۔    کمال احمد صدّیقی، مدوّن، کتاب ایضاً، دہلی، قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان۔ (دو حصص، ۱۶۲۱-صفحات)۲۰۰۶ء

۱۸۔       عروضؔ، سیّد حسن کاظم، سراج العروض، الہ آباد، ناشرسیّد ارشاد کاظم۔ (۴۳۶-صفحات)۲۰۰۱ء،

۱۹۔       سعداللہ مرادآبادی، مفتی محمد، ۱۸۸۳ ئ، میزان الافکار، عثمان پور، مطبع علوی، بار اوّل، ۱۸۴۷ء، لکھنؤ، منشی نول کشور، بار دوم، ۱۸۶۵ء، لکھنؤ، منشی نول کشور، بار سوم۔

۲۰۔      اسیرؔ لکھنوی، سیّدمظفّر علی، زرِ کامل عیار ترجمہ معیار الاشعار، لکھنؤ، منشی نول کشور، ۱۸۷۲ء

۲۱۔       جابر علی سیّد، تنقید اور لبرلزم، ملتان، کاروانِ  ادب، ۱۹۸۲ء، ص۱۵۲۔

۲۲۔       الف۔ فقیرؔ دہلوی، شمس الدّین (مؤ لّف)، ۱۸۱۴ء، عبدالرّحیم بن عبدالکریم صفی پوری (مدوّن)، حدائق البلاغت، تالیف۔ ۱۷۵۵ء، کلکتہ۔

ب۔ مؤلّف ایضاً، مولوی محمد ظہیرالحسن شوقؔ(مصحّح)، مولوی محمد عبدالاحد  شمشادؔ لکھنوی(حاشیہ نگار)، ۱۸۸۶ء، حدائق البلاغت مع حاشیہ نہرالافاضہ، لکھنؤ، مفیدِ عام پریس۔

ج۔ مؤلّف ایضاً، مولوی محمد منیرؔ لکھنوی(حاشیہ نگار)، ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۵ء کے درمیان، حدائق البلاغت، کان پور، مطبع مجیدی۔

۲۳۔      شہرتؔ، افتخارالدّین، مجلسِ امجدی، حیدرآباد دکن، ۱۸۱۹ء۔

۲۴۔      قتیلؔ، مرزا محمدحسن، نہر الفصاحت، کان پور، منشی نول کشور، بار چہارم، ۱۸۳۵ء

۲۵۔      مؤلّف ایضاً، چار شربت، کان پور، ۱۸۶۰ء

۲۶۔      محمد فائق، ۱۸۴۵ء، مخزن الفوائد، تالیف۔ ۱۸۱۰ء، لکھنؤ، مطبع  انوارِ احمدی                     ۲۷۔     سیفی، عروضِ سیفیؔ، مطبع علوی، ۱۸۵۴ء

۲۸۔      امجد نثاری، چہار گلزار، چہار گلزار، کان پور، مطبع نظامی، ۱۸۶۰ء

۲۹۔      سعداللہ مرادآبادی، مفتی محمد، عروض با قافیہ، ۱۸۵۸ء،

۳۰۔      مؤلّف ایضاً، جواہر العروض، کان پور، مطبع نظامی، ۱۸۷۷ء

۳۱۔       غیاث الدّین رام پوری، مُلّا، غیاث اللّغات، لکھنؤ، منشی نول کشور، ۱۸۶۷ء

۳۲۔      نجف علی خان، محمد، احسن القواعد، حیدرآباد دکن، ۱۸۶۸ء

۳۳۔     اسیرؔلکھنوی، سیّدمظفّر علی، شجرۃالعروض مع روضۃ القوافی و رسالۂ اضافت، لکھنؤ، منشی نول کشور، ۱۸۷۳ء،

۳۴۔     سیل، ایڈورڈ، مناظر القواعد، مدراس، مطبع عزیزی، بار پنجم، ۱۸۹۷ء

۳۵۔     محمود، سیّد، منتہی العروض و مثنوی تحفۃ الشّعراء، لکھنؤ، ۱۸۸۲ء

۳۶۔      احمد علی، آغا، رسالۂ ترانہ، کلکتہ، بیپتست مشن پریس، ۱۸۶۷ء

۳۷۔     مؤلّف ایضاً، ، ہفت آسمان، کلکتہ، بیپتست مشن پریس، ۱۸۷۳ء

38-   i-Tassy,Par M.Garcin De,1848,Prosodie Des Langues De L’Orient Musulman, Paris, Imprimerie Nationale,1st ed..

ii.Tassy,Par M.Garcin De,1873,Rhetorique et Prosodie Des Langues De L’Orient Musulman, Paris, Maisonneuve et C., Libraires-Editeurs, Quai Voltaire,2st ed..

۳۹۔      حوالہ نمبر۳۔ الف، ص۲۰۱ تا۲۰۵۔

۴۰۔ دلؔ عظیم آبادی، شیخ محمد عابد(مؤلف)، سیّد علی حیدر(مقدّمہ نگار ومصحّح )، عروض الہندی، پٹنہ، خدا بخش لائبریری، ۱۹۶۱ء،

۴۱۔       انشاء اللہ خان انشاؔء و مرزا محمد حسن قتیل، دریائے لطافت، مرشدآباد، مطبع آفتابِ عالم تاب، ۱۸۵۰ء

42-   Gilchrist,John,1796,A Grammar of the Hindoostanee Language or Part  Third of Volume First of ‘A System of Hindoostanee Philology’, Calcutta.

  1. Price,William,1823,A Grammar of the Three Principal Languages :Hindustani, Persian and Arabic, London.

44-   Tassy,Par M.Garcin De,1832,Memor sur le Systeme Metrique des Arabes, adapte a le Langue Hindustani, Paris, Journal Asiatique.

۴۵۔     کریم الدّین دہلوی ثم پانی پتی، مولوی، عجالۃ العلالہ، دہلی، مطبعِ رفاہِ عام، ۱۸۴۵ء

۴۶۔      مؤلّف ایضاً، تذکرہ گل دستۂ نازنیناں ، دہلی، مطبعِ رفاہِ عام، ۱۸۴۵ء

۴۷۔     حوالہ نمبر۱۶۔

۴۸۔     حوالہ نمبر۱۷۔

۴۹۔      نجم الغنی خان رام پوری، مولوی، مفتاح البلاغت، لاہور، ۱۹۲۱ء

۵۰۔      ارشدؔسرحدی، مولانا مولوی عبدالحمید خان، ریاض البلاغہ ملخص بحرالفصاحۃ، لاہور، شیخ جان محمد اللہ بخش تاجرانِ کتب، ۱۹۳۰ء

۵۱۔       شوخؔ لاہوری، چودھری محمد شریف، فنِّ شاعری عرف میزان العروض، لاہور، کتب خانہ منشی عزیزالدّین، سن ندارد۔

۵۲۔       عشرتؔ لکھنوی، خواجہ محمد عبدالرّؤف، شاعری کی کتاب، لکھنؤ، نظامی پریس، بارسوم، ۱۹۳۸ء

۵۳۔      حمیدؔ عظیم آبادی، جامع العروض، تاریخی نام امیر العروض، لاہور، ۱۹۴۵ء

۵۴۔     مؤلّف ایضاً، کتاب ایضاً، میزانِ سخن، کراچی، شیخ شوکت علی، ۱۹۸۶ء

۵۵۔     عظیمؔ، غلام حسن، عروضِ اردو، جون پور، مطبع اعظم المطابع، ۱۸۸۹ء

۵۶۔      سیّد ظفرؔ ترمذی، تدریس العروض، جھنگ صدر، ناشر خود، ۱۹۸۵ء

۵۷۔     حوالہ نمبر۱۸۔

۵۸۔      کندنؔ، کندن لال، ارمغانِ عروض، لاہور، دارالنّوادر، ۲۰۰۵ء

۵۹۔      جابر علی سیّد، لسانی و عروضی مقالات، اسلام آباد، مقتدرہ، ص۱۶۱، ۱۹۸۹ء

۶۰۔      حوالہ نمبر۳۔ الف۔

۶۱۔       حوالہ نمبر۴۱۔

۶۲۔      عبدالحق، مولوی، دریائے لطافت، مقدّمہ، کراچی، آفتاب اکیڈمی، ۱۹۶۲ء، ص ۱۷، ۱۹۔

۶۳۔      نظمؔ طباطبائی، مولوی حیدر یار جنگ علی حیدر، تلخیصِ عروض و قافیہ، حیدرآباد دکن، ۱۹۲۳ء

۶۴۔      الطاف حسین کاظمؔ، حکیم سیّد، گلزارِ عروض، دہلی، انجمن ترقّیِ اردو، ۱۹۲۴ء

۶۵۔      عظمت اللہ خان، ۱۹۲۳ء تا ۱۹۲۴ء، شاعری، مقالہ مطبوعہ مجلّہ اردو، اورنگ آباد، انجمن ترقّیِ  اردو۔

۶۶۔      گیان چند، ڈاکٹر، عظمت اللہ خان کے عروضی اجتہادات کا جائزہ، مشمولہ :’اردو ‘، کراچی، انجمن ترقّیِ  اردو، جولائی، ۱۹۶۷ء، ص۲۹تا۶۶۔

۶۷۔     الف۔    عبدالرّحمٰن خان، عروضِ جدید، مشمولہ :’اردو ‘، اورنگ آباد، انجمن ترقّیِ  اردو، جنوری، ۱۹۲۵ء، ص۹۷تا۱۲۰۔

ب۔      مؤلّف ایضاً، اردو علمِ  ہجا و عروضِ جدید، کراچی، سن ندارد(مابعد۱۹۴۵ء)۔

۶۸۔       غضنفرؔ  امروہوی، پروفیسر حبیب اللہ خان، اردو کا عروض، مشمولہ: ‘ اردو’، کراچی، انجمن ترقّیِ  اردو، جولائی، ۱۹۵۱ء

۶۹۔      نورالحسن ہاشمی، علمِ عروض صوتی اعتبار سے، مشمولہ: مجموعۂ مضامین ‘ادب کا مقصد’، لکھنؤ، ۱۹۵۶ء

۷۰۔     حوالہ نمبر۴۲۔

۷۱۔      شیرانی، حافظ محمود، عروضِ جدید، مشمولہ: ‘ اوریئنٹل کالج میگزین ‘، لاہور، پنجاب یونیورسٹی، نومبر، ۱۹۶۱ء

۷۲۔     واجد علی شاہ، ۱۲۹۲ھ، جوہرِ عروض، کلکتہ، مطبع سلطانی۔

۷۳۔     ابو ظفر عبدالواحد، آہنگِ شعر، حیدرآباد  دکن، ۱۹۷۸ء

۷۴۔     گیان چند جین، پروفیسرڈاکٹر، اردو کا اپنا عروض، دہلی، انجمن ترقّیِ اردو، ۱۹۹۰ء،

۷۵۔     کمال احمد صدّیقی، ڈاکٹر، عروض معروض، مشمولہ: ‘ فکر و تحقیق ‘، دہلی، ترقّیِ  اردو بیورو، جولائی تا دسمبر، ۱۹۹۰ء، ص۳۳۔

۷۶۔     حوالہ نمبر۷۳، ص۱۸۶۔

۷۷۔     عظمت اللہ خان، وزنِ  رباعی پر ایک نوٹ، مشمولہ :’اردو ‘، اورنگ آباد، انجمن ترقّیِ  اردو، جنوری، ۱۹۲۵ء، ص۸۹۔

۷۸۔     حوالہ نمبر۶۶ص۴۷۔

۷۹۔      محمد یعقوب آسی، فاعلات، لاہور، دوست ایسوسی ایٹس، ۱۹۹۳ء

٭٭٭

ماخوذ از ’معیار‘ اسلام آباد، شمارہ ۹

 

تشکر: سید زبیر اشرف ، جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید