FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

حمایت علی شاعر کی غزل

 

 

                سرور عالم راز سرورؔ

ماخذ: آن لائن جریدہ ’سمت‘ شمارہ ۲۶، اپریل تا جون ۲۰۱۵ء

 

 

 

 

 

 

 

اپنا  اندازِ  جنوں  سب سے  جدا  رکھتا  ہوں

چاکِ دل، چاکِ گریباں سے سوا  رکھتا  ہوں

(شاعر)

 

حمایت علی شاعر کا شمار بر صغیر ہند و پاک کے معروف شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ پچھلے پچاس ساٹھ سال سے دنیائے شعرو اَد ب میں مختلف صورتوں میں سرگرم رہے ہیں۔ کچھ لوگ ان کی منظومات کے دلدادہ ہیں تو کچھ مشاعروں میں ان کے ترنم اور غزل گوئی کے معترف ہیں، کچھ انہیں ریڈیو اور ٹیلی وژن کے توسط سے جانتے ہیں تو کچھ فلمی دُنیا کے واسطے سے ان کو پہچانتے ہیں۔ کلیات شاعر پر ایک سرسری نظر ہی اس حقیقت کی تصدیق کے لئے کافی ہے کہ موصوف کی شعری شخصیت متعدد رنگوں اور خاکوں کی مرہون منت ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ شاعر صاحب ایک قادر الکلام اور بسیار گو شاعر ہیں۔ اردو شاعری کی مقبول و معروف اصناف میں سے شاید ہی کوئی صنف ایسی ہو گی جس میں آپ نے طبع آزمائی نہیں کی ہے۔ غزل تو خیر ایسی صنف سخن ہے جس پر ہر دَور کے ہر شاعر نے کسی نہ کسی حد تک فکر کی ہے اور اس میں اپنی جودت طبع کے جوہر دکھائے ہیں چنانچہ شاعر صاحب نے بھی خاصی بڑی تعداد میں غزلیں کہی ہیں۔ ان کے علاوہ آپ نے نظم پر بہت محنت، وقت اور صلاحیت صرف کی ہے۔ آپ کی نظموں میں کچھ تو بہت طویل ہیں اور کچھ کم طویل۔ مختصر نظمیں آپ کے یہاں کم ہی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے پابند نظمیں بھی کہی ہیں، آزاد نظموں پر بھی قلم اٹھایا ہے اور نظم معرّیٰ پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے بھی ان کی نظموں میں بہت تنوع ہے۔ سیاسی، سماجی، قومی اور تاریخی نظموں کے علاوہ  انہوں نے افسانوی نظم، منظوم تمثیل، تمثیلی غنائیہ وغیرہ کے پیرائے میں متعدد منظومات لکھی ہیں۔ علاوہ ازیں قطعات اور رباعیات بھی کلیاتِ شاعر کی رونق ہیں اور جاپانی روایت (یعنی ۵۔ ۷۔ ۵  بولوں کی ترتیب )پر مبنی ہائیکو بھی کتاب میں موجود ہیں۔ اس ضمن میں آپ نے ایسے عام اُردو ہائیکو نگاروں کی طرز نگارش سے صحت مند گریز کیا ہے جو ہر سہ مصرعی تخلیق کو ہائیکو کہنے میں عارمحسوس نہیں کرتے ہیں۔ ان سب اصناف سخن میں فکر سے مستزاد شاعر صاحب نے نظم گوئی میں گاہے گاہے اجتہاد سے بھی کام لیا ہے۔ لہٰذا آپ کے یہاں ’’ایک مصرعہ۔ ایک نظم‘‘ کے عنوان سے یک مصرعی نظم (اگر ایسی کوئی چیز ہو سکتی ہے تو!) ملتی ہے نیز رباعی کی تقلید میں ایک نئی سہ مصرعی صنف سخن ’’ثلاثی‘‘ کی ایجاد و ترویج کا سہر ا بھی آپ کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ آپ نے اتنی مختلف النوع شاعری پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ فلمی دنیا میں بھی گیت نگاری کی طرح ڈالی ہے چنانچہ کلیات میں آپ کے فلمی نغمات، بھجن، قوالیاں، لوریاں، شادی بیاہ کے گیت، مزاحیہ منظومات بھی اپنے قارئین کو دعوت فکر و نظر دیتے ہیں۔ کتاب میں ’’یاد رفتگاں ‘‘، کے عنوان سے مرحوم دوستوں اور عزیزوں کو خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا ہے اور اس کا ایک باب شاعر  صاحب نے اپنی اہلیہ مرحومہ کی یاد میں کہی گئی منظومات کے لئے مختص کر دیا ہے۔

جس شاعر کے کلام میں اس قدر تنوع اور ندرت ہو اُس کی قادرالکلامی میں شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔ البتہ اتنی اصناف سخن کی موجودگی میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کس صنف کو شاعر کی پہچان کہا جا سکتا ہے ؟  یا ان کے یہاں ایسی کوئی صنف ہے بھی جس کی انفرادیت، طرز فکر و اَدا  یا ندرتِ فن دُنیائے شاعری میں صاحب موصوف کی شناخت کی ضامن ہوسکتی ہے ؟ ایک اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ چونکہ ایسے متنوع اصناف اوربسیار گوئی کے نتیجہ میں کسی ایک صنف میں اپنا ایک منفرد مقام بنانا نا شاعر کے لئے نا ممکن نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہو سکتا ہے لہٰذا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اصناف کے اس جم غفیر میں خود شاعر صاحب کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں ؟ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ اگر شاعر موصوف اپنی شعری کوششوں کا مرکز و محور ترجیحی طور پرکسی ایک صنف سخن کو ہی بناتے تو اس حوالے سے اُردو شاعری میں ان کا ایک انفرادی مقام معین ہو سکتا تھا یا نہیں جیسے جگر مراد آبادی کا غزل گوئی میں یا میر انیس کا مرثیہ نویسی میں ہے ؟

یہ بات تو ظاہر ہے کہ اگر کسی شاعر نے بہت سی اصناف سخن میں فکر کی ہو تو اس کی کسی ایک صنف پر تبصر ہ مشکل ہوسکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس مخصوص صنف کے نمونے شاعر کے یہاں اچھی تعداد میں موجود ہوں تاکہ نمائندہ تخلیقات کے انتخاب میں آسانی ہو۔ ساڑھے نو سو (۹۵۰) صفحات کے کلیات شاعر میں ہمیں لگ بھگ ایک سو گیارہ (۱۱۱) غزلیں ملتی ہیں۔ شاعر موصوف کی غزل عام طور پر چار پانچ اشعار پر مشتمل ہوتی ہے۔ آٹھ دس یا اس سے زیادہ اشعار کی غزلیں ان کے یہاں خال خال ہی نظر آتی ہیں، چنانچہ اتنی ضخیم کتاب میں غزلیہ اشعار کی تعداد صرف ساڑھے چھ سو (۶۵۰) کے لگ بھگ ہے۔ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۴۵ء کے آس پاس ہوا تھا۔ اول اول مضامین اور افسانوں کی طرف رجحان رہا اور بعد میں آپ نے شاعری شروع کی۔ کلیات شاعر ہی کی رُو سے موصوف کی پیدائش ۱۹۲۹ء۔ ۱۹۳۰ء کے آس پاس کی ہے گویا ان کی شاعری کم از کم پچپن ساٹھ( ۵۵۔ ۶۰) سال پر محیط ہے۔ اس طویل مدت میں ایک غزل گو شاعر عموماً کئی ہزار اشعار کہنے پر قادر ہوتا ہے لہٰذا شاعر صاحب کے یہاں مبلغ ساڑھے چھ سو غزلیہ اشعار کی مختصر تعداد ہمارے لئے ایک لمحۂ  فکریہ کا باعث ہے۔

یہاں ایک بات یاد رکھنی ضروری ہے۔ عام طور پر ہر شاعر عمر اور تجربہ کے ساتھ اپنی شاعری کے مختلف مدارج سے گزرتا ہے۔ ابتدائی دَور کی شاعری فطری طور پر نسبتاً نا پخت اور غیر معیاری ہوتی ہے اور منزل پختگی پر پہنچنے کے بعد اپنی شاعری کا انتخاب کرتے ہوئے شاعر اس کلام کو عام طور پر نظرانداز کر دیتا ہے جب کہ اس کے درمیانی دَورِ شاعری کی کچھ نمائندہ تخلیقات قابلِ اشاعت انتخاب میں لی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کلیات شاعر کی غزلوں میں ان کی ابتدائی دَور کی غزلیں شامل نہیں کی گئی ہیں بلکہ یہ اس وقت کی نمائندہ غزلیات ہیں جب شاعر صاحب اپنے نظریات اور معتقدات میں پختہ ہو چکے تھے اور دنیائے شعر میں اپنی راہ کے متعلق فیصلے کر چکے تھے۔ اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کی تمام غزلوں کا رنگ و آہنگ تقریباًیکساں ہے۔ وہ جذبات و خیالات ہوں یا تشبیہات واستعارات، انداز بیان ہو یا بندش اور اَلفاظ کی نشست وبرخاست، اُن کی سب غزلیں (الا ماشاء اللہ)  ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔

شاعر صاحب نے اپنے کلیات کے ایک دیباچہ میں خود اعتراف کیا ہے ان کا کلام اُردو شاعری کے روایتی اور معروف مضامین سے یکسر خالی ہے۔ ہمارے لئے یہ ماننا نہایت مشکل ہے کہ اپنی غزلیہ شاعری کے اولیں دَور میں ہی(بلکہ اس دَور کے شروع ہونے سے بھی پہلے !) شاعر صاحب نے ایسے مضامین سے مکمل و مستقل احتراز کرنے کا اتنا اہم اور دُوررَس شعوری فیصلہ کر لیا تھا کہ پھر پچاس ساٹھ سال تک اُن کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ گمان اغلب یہ ہے کہ جب ذہن و دماغ میں پختگی آئی اور زندگی کی ٹھوکروں نے کچھ تلخ و ترش سبق سکھائے تو انھوں نے اپنی شاعری کو انسانی زندگی کی حقیقتوں سے قریب تر کرنے کا فیصلہ کیا، اپنا پچھلا کلام تمام  و کمال رَد کر دیا اور اُس راہ پر گامزن ہو گئے (اور پھر شعوری طور پر عمر بھراسی پر گامزن رہے ) جو ان کے موجودہ کلام سے ظاہر و ثابت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ قیاس آرائی ہے اور اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت موصوف کی شاعری سے نہیں دیا جا سکتا ہے لیکن یہ قیاس انسانی زندگی اور ہزاروں شاعروں کی شاعرانہ کوششوں پر بیتے ہوئے وقت اور حادثات و سانحات پر مبنی ہے لٰہذاسے آسانی سے مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ہر چیز کو  ناپنے، پرکھنے اور اس کا معیار معین کرنے کے لئے ایک پیمانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ  ناقد یا تبصرہ نگار اس کام کے لئے جو پیمانہ  استعمال کرے وہ سب کے لئے قابل قبول ہو۔ شاعری ایک فن ہے اور اس میں ریاضی کی طرح دو اور دو چار نہیں ہوا کرتے ہیں۔ اس فن کا تعلق انسان کے جذبات و خیالات سے ہے، اس کے مشاہدات و تجربات سے ہے، اس کی ذہنی تربیت، وجدان اور ذوق شعری سے ہے۔ شاعری کو بعض اوقات محسوس زیادہ کرنا پڑتا ہے اور اس پر سوچنا کم ہوتا ہے۔ کبھی یہ انسان کی گرفت سے نکل بھی جاتی ہے اور کبھی خوداُس کو گرفتار کر کے رنگ و آہنگ و معانی کی ایک طلسماتی دنیا میں تن تنہا چھوڑ جاتی ہے۔ چنانچہ اس کو ایک فن کی حیثیت سے ہی پرکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ اُردو غزل کو پرکھنے کے لئے ناقدین نے کچھ پیمانے بنائے ہیں جن کا دارو مدار قدیم اساتذۂ  فن کے کلام کے محاسن اور انداز بیان پر رکھا گیا ہے۔ اُردو کے معروف نقاد خلیل الرحمن اعظمی نے اس پیمانے کو ایک جگہ یوں بیان کیا ہے :

’’ہم کسی نئے غزل گو شاعر کی تعریف کرنا چاہیں گے تواُس کے لئے کچھ اس طرح کا رَویّہ اختیار کریں گے کہ اگر وہ جذبات کا شاعر  ہے اوراُس کے جذبات میں شدت ہے تو اُسے ہم میر کے قبیلے کا شاعر کہیں گے۔ اگر اُس کے یہاں فکر کا عنصر ہے یا اُس کے تخیلات میں پیچیدگی اور اشکال ہے تو اُسے غالب کی برادری میں شامل کریں گے۔ اگر معاملہ بندی اور چٹخارہ ہے تو جرأ ت و داغ ے مماثل بتائیں گے۔ اگر اُستادی اور کرتب ہے تو ناسخ اور ذوق یا اسی قبیل کے کسی استاد فن سے اس کا سلسلۂ نسب ملائیں گے۔ بیسویں صدی میں ہم نے چند اور غزل گویوں کے سر پر عظمت کا تاج رکھا ہے مثلاً حسرت، اصغر، فانی اور جگر۔ اب عام ناقدین نے اُردو کے کسی جدید غزل گو کو نوازنے کا یہ ڈھنگ نکالا ہے کہ اُسے اچھا غزل گو اور جدید شاعر کہنے کے لئے انھیں عناصر اربعہ کے ساتھ دیکھنا اور کسی نہ کسی سے اُس کی قسمت کے ستارے کو وابستہ رکھنا ضروری سمجھا ہے۔ اس طرز تنقید اور طرز تعارف سے ہمارے بعض قابل قدر شعرا اپنے نقادوں کے ہاتھ اپنی شاعری کی خامیوں کے ساتھ اپنی خوبیوں  پر بھی پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اس طرح اپنے آپ یا اپنی شاعری کو زندہ رکھنے میں ناکام۔ ‘‘،

اس پیمانہ پر شاعر صاحب کی غزلیہ شاعری کو پرکھنا تحصیل لا حاصل کے مترادف ہو گا کیونکہ مذکورہ  بالا سب اساتذہ معروف روایتی اقدار کے پابند ہیں اور انہیں کو ملحوظ خاطر رکھ کر شاعری کرتے ہیں جبکہ شاعر صاحب کی غزل میں بقول خود روایتی غزل کی کوئی بات نہیں پائی جاتی ہے۔ غزل منسوب ہے حسن و عشق کی واردات سے، انسان کی کامرانی و نا مرادی کی داستان سے اور تصوف اور معرفت کی رُوداد سے۔ ہجر و وصال اور پیار محبت کی داستان اس کا جزو لا ینفک ہے، بہار و خزاں، قفس  و آشیانہ، تاریخی اور روایتی عاشق و معشوق (لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد)کی دلفریب کہانیاں، انسانی زندگی کی بے ثباتی اور بے قیمتی، اپنوں اور غیروں کی بے وفائی اور انسانی زندگی کی ساری حقیقتیں غزل کا مضمون فراہم کرتی ہیں۔ ان موضوعات سے اُردو غزل ہمیشہ وابستہ رہی ہے اور ہمیشہ وابستہ رہے گی کیونکہ یہ باتیں غزل میں اس طرح جذب ہو کر رہ گئی ہیں کہ ان کے بغیر غزل کا تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر اپنی شاعری کے ابتدائی دَور میں عشقیہ مضامین ضرور باندھتا ہے نہ صرف اس لئے کہ عشق و محبت انسانی تجربے میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ اس موضوع پر ہمارے یہاں اس قدر اور اتنے تنوع سے لکھا گیا ہے کہ ہرنو آموز شاعر کو خیال و بیان کا ہر پہلو دیکھنے، سمجھنے اور پھر اپنے طور پر کہنے کو آسانی سے مل جاتا ہے۔ اس سے اس کو شعر کہنے میں اور مشق سخن میں بہت آسانی ہوتی ہے اور وہ شعر گوئی میں پیش رفت کرنے میں زیادہ دشواری محسوس نہیں کرتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شاعر یہ دعویٰ کرے کہ اس کی شاعری ان روایتی مضامین سے یکسر پاک و صاف ہے تو یہ دعویٰ صرف اسی حد تک صحیح ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنی اولیں مشق سخن سے صرف نظر کر کے اپنی منتخب شاعری میں روایتی عاشقانہ مضامین سے شعوری طورپر احتراز کیا ہے۔ اگر کسی طرح اس کی ابتدائی شاعری کا جائزہ لینے کا موقع میسر آ جائے تو یہ یقینی ہے کہ اس میں مذکورہ بالا روایتی مضامین بدجۂ  اتم ملیں گے۔ غزلیہ شاعری اپنی فطرت میں اس کی متقاضی ہے اور کوئی شاعر اس روایت سے اجتناب نہیں برت سکتا ہے۔

کلیات شاعر کے ایک دیباچے میں عاشقانہ مضامین کے حوالے سے شاعر صاحب  اپنی شاعری کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں :

’’میری شاعری میں کہیں بھی آپ کو اس روایت (حسن و عشق کے معاملات: راز) کی جھلک نظر نہیں آئے گی جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ میں نے زندگی کو ہمیشہ جس روپ میں دیکھا ہے اسی روپ میں اس کی تصویر کشی کی ہے۔ میرا محبوب وہی ہے جو میری زندگی میں میرا محبوب ہے۔ ۔ میری طرح گوشت پوست کا انسان۔ ۔ ظاہر ہے کہ اس کے محسوسات انسانی محسوسات سے مختلف نہیں ہو سکتے۔ اگر مجھ کو اس سے عشق ہے تو اس نے بھی مجھے چاہا ہے، اگر میں اسے اپنا نہیں سکا تو میں نے گریباں چاک کر کے دشت نوردی کرنے کے بجائے سماجی حالات میں اپنے عشق کی ناکامی کا جواز تلاش کیا ہے اوراسے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور اگر میں نے اسے پا لیا ہے تو سماجی زندگی میں اس کی اہمیت سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ زندگی میں یہی کچھ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ سب مفروضات ہیں۔ ‘‘،

ہر شاعر کی طرح شاعر صاحب کو بھی اپنی شاعری کا رنگ و آہنگ، بنیادی موضوعِ سخن اور طرز اَدا وغیرہ  اِختیار کرنے کا مکمل حق ہے البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ موصوف نے غزل کے مذکورہ معروف موضوعات سے دیدہ ودانستہ مکمل گریز کر کے  اپنے اوپر شعر گوئی اور معنی آفرینی کا میدان بہت تنگ کر لیا ہے۔ ان کے غزلیہ کلام کو جہاں سے بھی اٹھا کر دیکھئے جذبہ و خیال اور انداز و لہجہ کی یکسانیت ہر جگہ نمایاں ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ چند مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔

 

تنہائی میں قر یبِ  رگِ   جاں  ترا   خیال

وحشت میں ہے  سکون کا عنواں ترا  خیال

 

غربت میں ہم سفر  ترا سایہ  قد   م قدم

مایوسیوں میں آس  کا  امکاں  ترا   خیال

 

ہے یہ ویرانہ یہاں  پاؤں سنبھل  کر رکھنا

کبھی آباد  تھا  اک  شہر  یہاں کہتے  ہیں

 

جس کو دیکھ   کے  شاعر  تم  للچائے  بہت

اس  میں  بھی تھی روشنی کم اور سائے بہت

 

آئینے  کا   سحر  ہے  یا    انداز   نظر

اپنا عکس ہی  اپنے  روپ  دکھائے  بہت

 

کل   جو  چہرہ   نظر   نظر  کا   محور تھا

آج  وہ  چہرہ  دیکھ  کے جی بھر آئے بہت

 

مرزا غالب  نے اپنے ایک خط میں شاعری کو قافیہ پیمائی کے بجائے معنی آفرینی بے وجہ قرار نہیں دیا ہے۔ یہ نام نہاد روایتی موضوعات انسانی زندگی کی ایسی بنیادی اینٹ ہیں جن پر اس شاعرانہ معنی آفرینی کا دارومدار ہے اورجن کے بغیر خود زندگی غیر معتبر ہو کر رہ جاتی ہے۔ جن باتوں کو شاعر صاحب نے ’’  مفروضات‘‘ کہہ کر بیک جنبشِ قلم مسترد کر دیا ہے ان کو اُردو شاعری کے ہر دَور میں ہر شاعر نے انسا ن کی بنیادی ضرورت تسلیم کیا ہے اور انہیں کی بنیاد پر شاعری کی ہے۔ انسان کے عشق کی ہر مجبوری سماجی حالات کی دی ہوئی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ہر شاعر کا محبوب فرضی اور افسانوی یا عجیب الخلقت ہوا کرتا ہے کہ اس کا احاطہ شعر کے توسط سے کما حقہ نہ کیا جا سکے۔ اُردو دُنیائے شعر و ادب میں ولی  دکنی سے لے کر آج تک ایک بھی شاعر ایسا نہیں گزرا ہے جس نے اپنی اپنی سطح پر اپنی شاعری کے کسی نہ کسی لمحہ میں حسن و عشق کی طلسماتی دُنیا کی سیر نہ کی ہو۔ ان کے جذبات و محسوسات اور تجربات و مشاہدات کو فرضی قرار دینا یقینا مناسب نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ہم کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ ان کے عشق اور شاعری کو محض ’’مفروضات‘‘ کہہ کر رَد کر دیں۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ شاعر صاحب کا یہ بیان ہی ایک ایسا ’’  مفروضہ‘‘  ہے جس کا جواز کم از کم اُردو شاعری کی تاریخ میں تو نہیں ملتا ہے ؟

کسی شاعر کی غزل پرکھنے کا ایک اور پیمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شاعر کسی لفظ، فقرہ  یا خیال کو اپنے شعری مسلک یا نظریہ کی قاری تک ترسیل کے لئے بار بار استعمال کرتا ہے اور اس کی شاعری کے تجزیہ کے لئے اس کلیدی لفظ یا فقرے یا خیال کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر شاعر کی تخلیقات کے مطالعہ کے دَوران یہ کلید بہت واضح اور نمایاں ہوتی ہے اور ذرا سی فکر سے کلام میں اس کے کردار کا ادراک اور اس کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال  کے کلام میں ’’قلندر، شاہیں، خودی‘‘ وغیرہ  ایسے کلیدی الفاظ ہیں جو ان کی اور ان کے  پیغام کی شناخت اور تفہیم میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔ شاعر صاحب کی غزلوں کا غور سے مطالعہ کیجئے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے لفظ ’’دل‘‘  ایسی ہی کلید کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کلیات شاعر کی ایک سو گیارہ غزلوں کے تقریباً ساڑھے چھ سو اشعار میں موصوف نے لفظ ’’دل‘‘

کم و بیش پچانوے (۹۵) مرتبہ باندھا ہے اور پانچ اشعار پر مشتمل ایک غز ل تو ایسی ہے جس کی ردیف ہی ’’دِل‘‘ ہے۔ اس کلیدی لفظ کی روشنی میں موصوف کی غزل کو دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔

ہر صاحب دل انسان کی طرح شاعر صاحب بھی اپنے دل سے باتیں کرتے ہیں اور اس کے توسط سے دنیا سے بھی سرگرم گفتگو ہوتے ہیں۔ دل انسانی جذبات و محسوسات کی آماجگاہ  مانا جاتا ہے، یہی ہماری تمناؤں اور آرزوؤں کا گھر ہے اور اسی میں عشق و محبت کی کارفرمائی اور کارگزاری فرض کی جاتی ہے۔ اسی لئے منشی برج نارائن چکبست اپنے مشہور زمانہ شعر میں کہہ گئے ہیں کہ :

 

شاعری کیا ہے ؟ دلی جذبات  کا  اظہار  ہے

دل اگر  بیکار  ہے   تو   شاعری   بیکار ہے

 

پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ شاعر صاحب اپنے دل کی باتیں دُنیا تک نہ پہنچاتے ؟ اگر آپ کی غزلوں کا بغور مطالعہ کیا جائے اور پھر لفظ ’’دل‘‘ پر کہے گئے اشعار کو یک جا کر کے اُن پر فکر کی جائے تو ان کی غزل گوئی کے بارے میں چند اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ موصوف کی غزل ان کی زندگی، اِردگرد کے ملکی، سماجی اور سیاسی حالات اور انسانی زندگی کا نوحہ نظر آتی ہے۔ کبھی وہ دل سے باتیں کر کے اپنی طبیعت ہلکی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی وہ دل کے واسطے سے دُنیا سے مخاطب ہو تے ہیں۔ ہر صورت میں ان کے اشعار سے حرماں نصیبی اور کرب ٹپکتا محسوس ہوتا ہے اور خوشی اور سرشاری کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ زمانے کی بے حسی، اپنی بیکسی اور اہل دل کی خاموشی ان اشعار میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ دوسری بات جو اس مطالعہ سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ’’دل‘‘ والے سارے اشعار کو ایک خاص ترتیب سے پڑھا جائے تو وہ ایک ایسے کوزے کی طرح نظر آتے ہیں جن میں شاعر صاحب کی تمام غزلوں کے دَریا کا نچوڑ بند کر دیا گیا ہے یعنی جو رنج و غم قدرے تفصیل سے تمام  غزلوں میں بیان کیا گیا ہے وہ ان اشعار میں مختصرا لفاظ میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہے کہ شاعر موصوف کی غزل کا مقصد و مسلک ’’دل‘‘ والے اشعار سے پور ی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ دل اُن کے لئے ایک آئینے کی طرح ہے جس میں انہوں نے مختلف رنگوں کے نقوش ہمارے سامنے رکھ دئے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے ؛

 

خاموشیوں میں دل کی ہے  دھڑکن  تری صدا

تاریکیوں  میں  سرو  چراغاں   ترا    خیال

 

کھو گئی جانے کہاں دل کے  دھڑکنے  کی صدا

میری آواز   میں  شامل   تری  آواز  نہیں

 

سناٹے میں رہ رہ کے دھڑک اٹھتا ہے یوں دل

جیسے  کوئی  آواز  دیے  جاتا  ہے  مجھ  کو

 

جو کچھ بھی گزرنا ہے  مرے  دل پہ گزر جائے

اُترا ہو ا  چہر ا   مری   دھرتی   کا  نکھر جائے

 

میں کچھ نہ کہوں اور یہ  چاہوں  کہ مری  بات

خوشبو کی طرح اُڑ کے ترے دل میں اُتر  جائے

 

لیکن جب  اس آرزو پر وقت اور حالات پانی پھیر تے نظر آتے ہیں تو پھر یہ دھڑکن طرح طرح کے اندیشوں اور وسوسوں کا شکار ہو جاتی ہے اور شاعر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں :

 

دل بھی ہے رہنِ غیر، بد ن بھی  ہے  رہنِ غیر

اپنی  کلاہِ  کج  ہے  بہ   حال ِ  زبوں   ہنوز

 

جو شاخ بے ثمر ہے یہاں، سر بلند ہے

اور شاخ  بار دار  کا   ہے  سر  نگوں   ہنوز

 

شاعر میں شعر بھی  نہ  کہوں اب تو کیا کروں

دل تھا جو بے سکون،  سو  ہے بے سکوں  ہنوز

 

اب تو ہر شور طرب سن کر  دہل  جاتا  ہے  دل

جانے کس ا ندیشۂ   فرد   ا سے گھبراتا ہے دل

 

پھر نہ لُٹ جائیں کہیں منزل  پہ  اہل کارواں

اُٹھتے جاتے ہیں قدم اور بیٹھتا  جاتا  ہے  دل

 

شاعر ایسی چوٹ  کھائی  ہے  بہ فیضِ دوستاں

دوستی کے  نام ہی  سے  اب لرز جاتا ہے دل

 

اہلِ دل،  اہلِ  خرد،  اہل ِ  نظر سب  سو گئے

سب کو بیداری کا دعویٰ  تھا  مگر  سب سو گئے

 

اس عام بے حسی کے ہاتھوں وہ شہر نا پرساں میں بے حال اور نالاں و پریشاں ہو جاتے ہیں تو لوگوں کو للکارتے بھی ہیں اور ان کے لب و لہجہ میں درشتی اور تلخی بھی آ جاتی ہے لیکن اس کا نتیجہ بھی ’’وہی ڈھاک کے تین پات‘‘ نکلتا ہے۔

 

آتش کدۂ دل کو ہوا کیوں نہیں   دیتے ؟

پتھر تو نہیں لوگ، صدا کیوں نہیں دیتے ؟

سایہ ہے کہ خورشید کے دل کی ہے سیاہی

محرم ہو تو یہ راز بتا کیوں  نہیں  دیتے ؟

 

یہی ان کی زندگی کا المیہ ہے جس نے ان کی شاعری کو ایک نوحہ میں بدل دیا ہے۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے وہ پاکستان بہت سی امیدوں کے ساتھ گئے تھے۔ وہاں نہ صرف ان کو ایک عام بے توجہی اور ایک ہندوستانی ہونے کے  ناطے شک و شبہ کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اُ ن کی وطن دوستی کو وطن دشمنی سمجھا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان پر ہندوستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام تک لگایا گیا۔ یہ’’ موئے پر سَو دُرّے ‘‘  ان کی دل شکنی اور آزردگی کے تابوت میں آخری کیل کا حکم رکھتے تھے چنانچہ وہ اپنے اور وطن کے حالات سے بالکل ہی نا اُمید ہو کر اگر یہ کہتے ہیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے :

 

دل سے جو ترے غم کے پرستار نہ  ہوتے

اس شان  سے  رُسوا سرِ بازار نہ ہوتے

 

سینے میں جو دل بن کے دھڑکتا نہ غم عشق

ہم  اہل  جنوں  آج  سرِدار  نہ ہوتے

 

یہ شہر رفیقاں   ہے  دلِ  زار   سنبھل  کے

ملتے ہیں یہاں  لوگ   بہت رُوپ بدل کے

 

آئے ہیں غم عشق  میں  ایسے  بھی  مقامات

دل خون   ہوا  آنکھ  سے  آنسو بھی نہ ڈھلکے

 

کانوں میں آ رہی  ہے  کسی  صور  کی  صدا

دھڑکے ہوئے  ہیں  دل کسی روزِ حساب سے

 

بیدار دل میں ہے  کوئی  بے  نام  خوف  سا

سہمی ہوئی ہے  روح  سوال  و  جواب  سے

 

اور اس کے بعد اگر وہ تھک کر خاموش ہو جاتے ہیں تو ہمارے لئے بھی اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رہ جاتا ہے کہ ان کی ٹھنڈی سانس میں اپنی ٹھنڈی سانس ملا کر ہم بھی ایک جانب بیٹھ رہیں :

 

دل پر گراں گزرتا  ہے  اب  تیر  ا ساتھ   بھی

اک   ہتھکڑی  سا  لگتا ہے ہاتھوں میں ہاتھ بھی

 

کب  تک وفا کے  نام  پہ  جھیلے کوئی عذاب

دل   اُس  کی  دوستی  کا  گنہگار  ہی  تو  ہے

 

کسے معلوم تھا یارب! کہ ہو گی  دشمنِ  جاں  بھی

وہ  حسرت خونِ دل پی پی کے جو پلتی ہے سینے میں

 

دل  میں   تھا  جو   خیال  وہ  لکھا  نہ   جا سکا

جامہ   تھا   اتنا   تنگ   کہ  پہنا  نہ   جا سکا

 

خامشی بول  رہی  ہو    جیسے

دل کی دھڑکن  ہے کہ آوازجرس

 

ہر طرف اک  مہیب    سناٹا

دل دھڑکتا تو ہے مگر  خاموش

 

شاعر صاحب کی غزل کے تجزیہ میں ایک بات ہماری کافی ممد و معاون ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود شاعر صاحب کو بھی احساس ہے کہ چونکہ ان کی شاعری معروف اور عام رنگِ  شاعری سے مختلف ہے لہٰذا قاری کو اس کے افہام و تفہیم میں مشکل پیش آ سکتی ہے چنانچہ انہوں نے کلیاتِ شاعر کے ایک دیباچے میں اپنے کلام کے بارے میں درج ذیل وضاحت لکھ کر ہمارا کام نسبتاً آسان کر دیا ہے :

’’جہاں تک میرے کلام کا تعلق ہے اُسے آسانی سے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : غم جاناں، غم وطن اور غم کائنات۔ غم جاناں کے ز مرے میں جو تخلیقات شامل ہیں ان میں یقینا میرا ذاتی غم موضوع شعر ہے لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ میرا ذاتی غم میرا ’’نجی غم‘‘ بن کر نہ رہ جائے بلکہ سماجی زندگی کے رشتے سے یہ موضوع غم مشترک کی حیثیت اختیار کر جائے۔ چنانچہ اسے غم دوراں سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ غم وطن یقینا میرے یہاں غم جاناں سے مختلف ہے، ا اس کا لب و لہجہ مختلف ہے، اس میں تلخی کا وہ احساس مختلف ہے جو غم جاناں میں بھی اکثر منھ کا مزا خراب کر دیتا ہے۔ غم وطن میں یہ تلخی نسبتاً شدید ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے (اس میں ہجرت کا غم بھی شامل ہے )۔ اس کے بعد غم کائنات کا سلسلہ ہے جس میں غم جاناں اور غم وطن دونوں شامل ہیں۔ میری جو تخلیقات اس دائرے میں آتی ہیں اس میں کہیں آپ کو بے پناہ ضبط کا احساس ہو گا اور کہیں ایسا محسوس ہو گا کہ چیخ، للکار بن گئی ہے۔ اسے بادی النظر میں جو بھی کہا جائے مگر شاعری میں اس کا بھی ایک مقام ہے۔ اس کا تاثر وقتی سہی مگر تاریخ کے بین السطور میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو یہی شاعری آئینہ دکھاتی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ‘‘،

شاعر صاحب نے اپنی شاعری کے موضوعات کو اپنے تین غموں (غم جاناں، غم وطن، غم کائنات)تک ہی محدود بتایا ہے گویا اچھی شاعری سے پیدا ہونے والی ذہنی یا روحانی سرشاری سے ان کی غزل بے نیاز ہے۔ ایک غزل گو شاعر کے یہاں یہ صورت حال عجیب سی لگتی ہے۔ وہ کیسی شاعری کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں اِس بات کا اُن کو مکمل حق ہے البتہ اپنے موضوعاتِ شعر کو مصنوعی طور سے اس قدر محدود کر لینا سمجھ میں نہیں آتا۔ اس صورت حال کو مصنوعی اس لئے کہا گیا ہے کہ شادمانی اور سر خوشی بھی غم و رنج ہی کی طرح انسان کی ضرورت ہے۔ یقینا ان کی غزل کا بنیادی رنگ غم و الم سے ہی مملو ہے۔ تلاش پر بھی کوئی شعر ایسا دکھائی نہیں دیتا جس سے دلی خوشی یا ذہنی سرشاری ظاہر ہوتی ہو۔ یہ نکتۂ  فکر و نظر عجیب بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔ میر تقی میر کے یہاں رنج و غم اور حزن و ملال کی کمی نہیں ہے لیکن وہ بھی بعض اوقات بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں کہ ؛

 

نازکی   اس   کے  لب  کی   کیا کہئے

پنکھڑی   ا ک   گلاب   کی  سی  ہے

 

میر    ان     نیم  باز   آنکھوں   میں

ساری   مستی  شراب   کی   سی   ہے

 

اس سے میر  کے کلام کے بنیادی رنگ یا مقام میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے بلکہ اس کا لطف کچھ بڑھ ہی جاتا ہے۔ شاعر صاحب کے یہاں ایسے کسی جذبے یا احساس کا شائبہ بھی نہیں ملتا ہے۔

ہم غزل پڑھتے وقت چند چیزوں کی غیر شعوری طور پر تلاش کرتے ہیں۔ غزل نام ہے حسن و عشق کی طلسماتی دُنیا کا جہاں زندگی کے بیشتر حجابات اُٹھ جاتے ہیں اور جس کی سرشاری سے ہم مالا مال ہوتے ہیں۔ غزل منسوب ہے تصوف اور معرفت کے رموز و نکات سے خواہ وہ کتنے ہی فرضی ہوں یا فرضی لگتے ہوں۔ دُنیا اور دُنیا والوں کے قصے، اُن کی سازشیں، فریب اور دُنیا داری کی کہانیاں، ہجر و وصال کی کبھی ختم نہ ہونے والی روداد، گل و بلبل کے فسانے جن کے واسطے سے ہماری زندگی کے کتنے ہی دَر وا ہوتے ہیں، انسانی کامرانیوں، نا مرادیوں اور امید واریوں کی جانفزا کہانی وغیرہ سے ہی غزل کی وہ شکل ظہور میں آتی ہے جس کو پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ’’اُردو شاعری کی آبرو‘‘ کا نام دیا ہے۔ اگر شاعر صاحب کی غزل میں یہ سب کچھ نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟ جب ہم اس مسٗلہ پر غور کرتے ہیں اور خود موصوف کی وضاحت کی روشنی میں اُن کی غزل کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ واقعی یہ اُردو کی عام معروف غزل سے کافی حد تک مختلف ہے۔ انہوں نے خود بھی اپنے مزاج کے اس پہلو کی جانب کہیں کہیں اشارہ کیا ہے۔

 

معلوم  نہیں  کون  سی  راہوں  پہ  رواں ہوں

دل  جانے  کدھر  آج  لئے  جاتا  ہے   مجھ کو

 

اپنا اندازِ جنوں سب  سے جدا  رکھتا   ہوں   میں

چاکِ دل، چاکِ گریباں سے سوا  رکھتا  ہوں میں

 

غزنوی   ہوں   اور    گرفتارِ  خم ِ زلفِ  ایاز

بت شکن  ہوں  اور  دل میں بتکدہ رکھتا ہوں میں

 

اہل    نظر   کو    دولتِ  حسن ِ  نظر      ملی

مجھ   کم  نظر   کو   اور    ہی   کوئی  خبر ملی

 

اک  عمر   کی  مسافت   بے نام  کے    عوض

گر کوئی   شے   ملی   بھی   تو    گردِ  سفر  ملی

 

اور پھراس سے قطع نظر کر کے کہ کوئی اس کا قدر داں ہے بھی کہ نہیں موصوف یہی متاعِ عمر عزیز، گردِ سفر زندگی بھر اپنے کربناک اشعار کی شکل میں زمانے کو بانٹتے رہے ہیں لیکن اس کوشش میں بھی وہ زیادہ کامیاب نظر نہیں آتے ہیں :

 

وہ  قحطِ جنوں  ہے  کہ  کوئی چاک گریباں

آتا ہے  نظر  بھی  تو  گزرتا  ہے گماں اور

 

یہ   سنگ زنی  میرے  لئے  بارشِ گل ہے

تھک جاؤ تو کچھ  سنگ  بدست  دگراں اور

 

یہاں تک کہ ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے جب وہ یہ کہہ کر خاموش ہو جانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں :

 

کل   رات  اتنی   تیز   تھی  آواز ِ  خامشی

سو  مسٗلے  تھے،  ایک  بھی   سوچا  نہ  جا سکا

 

کوئی آوازِ   پا    نہ     بانگ    ِ  جرس

کارواں     اور     اس     قدر   خاموش

 

ہم     سے  شاعر   بھی  ہو   گئے    آخر

رنگ   حالات     دیکھ    کر     خاموش

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعر صاحب کی غزل پڑھتے وقت قاری خود کو درد و کرب کی فضا میں ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ زندگی کی ہر حقیقت اور ہر پہلو کو صرف غم کے زاویہ سے دیکھنے کے لئے خود کو مجبور پاتے ہیں۔ ان کی غزل کی معنویت، اثر پذیری، دلکشی، شدت جذبات، زبان و بیان غرضیکہ غزل کا سراپا تمام و کمال ایک دَرد و کرب کی کیفیت کا مرہونِ  منت نظر آتا ہے جیسے زندگی میں جو کچھ بھی ہے وہ  اُن کے اپنے دَردِ دل سے کشید کیا گیا ہو۔ وہ زندگی کا شکوہ ہو یا زمانہ کی شکایت، اپنوں کی بے وفائی ہو یا غیروں کی بے مروتی، دُنیا کا غم ہو یا ذاتی ملال، وطن کے نا گفتہ بہ حالات ہوں یا کائنات کی زبوں حالی، ہر چیز شاعر صاحب کی غزل میں کرب کے پیرائے میں ہی بیان ہوئی ہے۔ جیسا کہ خود انہوں نے بھی اشارہ کیا ہے، کبھی یہ کرب ایک ذاتی کرب کی صورت میں بیان ہوا ہے اور کبھی یہ اجتماعی کرب کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ تلاش کے باوجود کہیں بھی اس کرب سے نجات کا کوئی سلسلہ یا ذریعہ نظر نہیں آتا اور بعض اوقات تو اس کرب کے بیان میں تلخی و  ترشی کا زہر بھی شامل ہو جاتا ہے جس کا خود شاعر  صاحب کو بھی احساس ہے۔

انسانی زندگی اور رنج و آلام لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک کا تصور دوسرے کے تصور کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ذاتی کرب ذاتی تجربات و حادثات و مشاہدات کا مرہون منت ہوتا ہے۔ شاعر صاحب کے حصہ میں یہ کرب شاید کچھ زیادہ ہی آیا ہے ورنہ یہ اُمید کی جا سکتی تھی کہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی غزل میں اُمیدوں کی جھلک اور شادمانی و سرشاری دکھائی دے گی۔ موصوف بر صغیر ہند وپاک کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ۱۹۴۷ء میں ملک کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے اور پھر اس کے نتیجہ میں بپا ہونے والی قیامت صغرا کو قریب سے دیکھا ہے۔ اس المیہ کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ ایسے سانحہ سے گزرنے کے بعد ہرحساس انسان کی نظروں میں انسانیت غیر معتبر ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو ادھورا محسوس کرتا ہے۔ شاعر چونکہ فطرتاً زیادہ حساس ہوتا ہے اور اپنے احساسات کو بیان کرنے پر قادر بھی ہوتا ہے اس لئے اس کے کلام اور اس کی شخصیت پر ایسے سانحہ کا زیادہ اثر ہونا لازمی ہے۔ شاعر صاحب سانحۂ آزادی کے بعد دو ہجرتوں کا شکار ہوئے ہیں۔ پہلی مرتبہ ان کو اپنا وطن مالوف ہندوستا ن چھوڑ کر پاکستان جانا پڑا۔ وہاں کے حالات شروع سے ہی ہمت شکن اور صبر آزما رہے ہیں۔ وہاں جا کر ایک ایسا وقت بھی آیا جب  ان پر مصلحت پرست حلقوں نے ہندوستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا۔ ہندوستان اور پاکستان کے جذباتی اور ہیجانی ماحول میں ایسے الزام سے زندگی پر جو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ان کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس ہجرت کے بعد آپ کو پاکستان سے کینیڈا کی ہجرت بھی پیش آئی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کینیڈا میں ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا اور اس صدمے نے انہیں بالکل ہی نڈھال کر کے رکھ دیا۔ یہ ذاتی کرب ان کے یہاں اشعار بن کر نمایاں ہوا ہے اور ممکن نہیں ہے کہ کوئی ان کے اشعار پڑھے اور متاثر نہ ہو :

 

یوں تو کٹتی ہی  رہے  گی غم دوراں میں حیات

آج  کی  رات  غم  یار  کی   باتیں ہی سہی

 

زندہ رہنے  کی  کبھی  تو  کوئی صورت نکلے

عالم    عشرت  دیدار  کی  باتیں  ہی سہی

 

اب تو تنہائی کا یہ  کرب   نہ ہو گا برداشت

کچھ  نہیں  تو  درو دیوار   کی باتیں ہی سہی

 

کوئی تو بات چھڑے آج بہت جی ہے اداس

حسرت  کوچۂ دیدار  کی  باتیں  ہی   سہی

 

ذہن چنتا  جائے  مجھ  کو  جسم کی دیوار میں

اور دل لے جائے   اپنے آپ سے باہر مجھے

 

آتے آتے آنکھ تک دل  کا  لہو  پانی ہوا

کس قدر ارزاں ہے اپنے خون کا سودا یہاں

 

نہ جانے  اہل  نشیمن  پہ  کیا  گھڑی  آئی

قفس  میں  چیخ  اٹھا  ہے  سکوت  تنہائی

 

قدم قدم    پہ  کھلے ہیں   ہزار   لالہ و گل

جو کام   آئی  تو  اپنی   ہی   آبلہ   پائی

 

کوئی  تو   بات   تھی  ہم  کو  ملا جو رتبۂ دار

وگرنہ  شہر  میں  کچھ  کم نہیں تھے سودائی

 

یوں  موت  کو  حیات  کا   انعام  کر لیا

جو  بھی  کفن  کیا   اُسے   احرام  کر لیا

 

آزاد   ہو کے   اور    بھی    پابند ہو گئے

ایسے   اُڑے  کہ  خود   کو   تہ دام کر لیا

 

اب تیرے ذکر ہی سے   عبارت ہے زندگی

ہر اک نفس  کو  میں  نے  ترے  نام کر لیا

 

ان اشعار میں دھیمے دھیمے سلگتے ہوئے دل کی جو کیفیت ہے وہ قاری کو مجبور کرتی ہے کہ شاعر کے ساتھ اس کے ذہنی اور جذباتی سفر میں قدم بہ قدم چلے اور ہر قدم پر اپنی آواز ان کی آواز میں ملاتا جائے۔ ان اشعار میں جو احساس نا مرادی ہے وہ در اصل ہر دُکھے دل کی دھڑکنوں کی باز گشت ہے جس کو خود شاعر صاحب نے ایک جگہ اس طرح بیان کیا  ہے۔

’’آپ ٹھنڈے دل سے میر ی شاعری کا مطالعہ کریں گے تو میرے خیال میں آپ اس آتشیں درد کو محسوس کر لیں گے جو میری رگ رگ میں رواں دواں ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس آگ کی حدت کو محسوس طور پر پیش کرنے میں کہاں تک کامیاب رہا ہوں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود میری شاعری صرف دماغ کا ناپ تول نہیں ہے، اس میں دل کی دھڑکنیں بھی شامل ہیں۔ ‘‘،

شاعر صاحب اپنا وطن مالوف ہندوستان چھوڑ کر ایک نئے، غیرمانوس اور ہنگامی حالات سے دو چار ملک پاکستان خدا جانے کیسی کیسی اُمیدوں کے ساتھ گئے ہوں گے۔ پاکستان روزِ اوّل سے ہی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور لسانی مسائل کا شکار رہا ہے۔ موقع پرست اور وطن دشمن قوتوں نے وہاں کے حالات خراب سے خراب تر کرنے میں کوئی کسر کبھی نہیں چھوڑی۔ جس بنیاد پر یہ ملک بنا تھا وہ انتہائی کھوکھلی ثابت ہوئی اور غریب عوام کا جس طرح مذہب، صوبائیت، زبان، فرقہ وغیرہ کے  نام پر خویش پرور اَرباب اختیار، وڈیروں اور مذہب کے ٹھیکے داروں نے استحصال کیا اور ایک کبھی نہ ختم ہونے والے قتل و غارتگری اور دہشت گردی کے دَور کو ملک اور قوم پر تھوپ دیا اُس کی مثال انسانی تاریخ میں مشکل سے ہی ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ’’شود ہم پیشہ با ہم پیشہ دشمن‘‘ کے مصداق مقامی ادبی حلقے بھی انہیں دیکھ کر خوش نہیں ہوئے ہوں گے۔ ایسی صورت حال کا اثر ایک شاعر پر زیادہ ہی ہوتا ہے کیونکہ نہ صرف وہ بھی اس پریشانی اور بربادی کا شکار ہوتا ہے بلکہ اپنے تجربات و مشاہدات، خیالات و جذبات کو موثر طرح سے دُنیا کے سامنے پیش کرنے پر قدرت بھی رکھتا ہے۔ شاعر صاحب بھی اگر وطن کی زبوں حالی پر آنسو بہاتے ہیں تو کوئی حیرت کا مقام نہیں ہے۔ ان کا دلی غم اشعار میں جا بجا تلخی بن کر جھلکتا ہے۔ اس سے زیادہ شاید وہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔

 

راہ زن کے بارے  میں  اور کیا کہوں کھل کر

میر  کارواں  یارو،  میر   کارواں    یارو

 

صرف  زندہ  رہنے  کو  زندگی  نہیں کہتے

کچھ غم  محبت  ہو،  کچھ   غم   جہاں   یارو

 

بدن پہ  پیرہن  خاک  کے  سوا   کیا ہے

مرے الاؤ   میں  اب  راکھ  کے سوا کیا ہے

 

یہ شہر  سجدہ   گزاراں،  دیار   کم نظراں

یتیم خانہ  ٔ  ادراک   کے    سوا   کیا  ہے

 

تمام  گنبد  و  مینار   و  منبر  و     محراب

فقیہِ    شہر  کی  املاک   کے  سوا   کیا ہے

 

تمام  عمر کا  حاصل  بہ     فضل ربِّ کریم

متاع  دیدۂ  نمناک    کے  سوا   کیا  ہے

 

اس نا سازگار اور دَرد انگیز ماحول اور کم سوادیٔ حالات کا جو انجام ہونا چاہئے تھا وہی ہو ا۔ شاعر صاحب کی مایوسی اپنی انتہائی منزل پر پہنچ کر بیچارگی میں تبدیل ہو گئی۔ وہ وقت اور ابناء الوقت کے ساتھ چلنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے ماحول اور اس سے آلودہ لوگوں سے کٹ کر رہ گئے۔ آخرکار وہ اپنی بے بسی اور کس مپرسی کی کیفیت سے بے حال ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے :

 

گل چین و  گل  فروش  کی  سازش   سے بے خبر

ہم   اہتمام   فصل    بہاراں    کیا      کیے

 

اب    زحمت  مزید    اٹھانے   سے    فائدہ

معلوم    ہے  جو  آپ  نے  وعدے  وفا  کیے

 

وارفتگی ٔ     شوق   بچا     لے     گئی   ہمیں

ہر    چند    راستوں    میں   تماشے  ہوا  کیے

 

ہر بت  کو  خدا  کہتے  اگر  ہم  بھی  تو    یارو

کچھ    ہوتے   مگر   شاعر    نادار  نہ  ہوتے

 

شاعر صاحب، اس بستی میں کس کو گیت سناتے ہو؟

سایوں کے  سنسان نگر میں کس کا دل گرماتے ہو؟

 

سونے چاندی کی دُنیا میں  پیار  کی قیمت کیا ہو گی

دل کا کھوٹا سکّہ لے  کر  کس بازار میں جاتے ہو؟

 

اب تو یہ عالم ہے    ہم ہیں  اور  ہماری  گمرہی

راستے کے پیچ  و خم   میں کھو گئی   منزل   کی بات

 

جب بھی چھڑ جاتے ہیں شاعر الفتوں کے تذکرے

یاد آ جاتی ہے اپنے  عشق  لا حاصل  کی     بات

 

عشق تو بہرکیف عشق ہی ہوتا ہے چنانچہ باوجود حالات کی ناسازگاری کے وہ اپنے ’’عشق لا حاصل‘‘ کے انگیز کرنے پر گاہے گاہے  احتجاج بھی کرتے رہے اور قوم، ملک اور معاشرہ کو للکارتے بھی رہے لیکن ضمیر فروشی کے دَور میں کس کو فکر تھی کہ قوم، عوام یا ملک کی حالتِ  زار پر اُن کے ساتھ خون کے آنسو بہاتا، اپنے گریبان میں جھانک کر عبرت حاصل کرتا اور سب کی فلاح و بہبودی کی راہ نکالنے کی جانب مائل ہوتا۔ دیکھئے کہ شاعر صاحب کس انداز سے اپنے ارد گرد کے منظر کا رونا روتے ہیں اور کس طرح وہ ہار کر خاموش ہو جانے پر مجبور ہیں۔

 

خدا تو ایک ہے لیکن خدا  کے  گھر ہیں  بہت

کہ  ملکیت  کے  بہانے  زمین پر ہیں بہت

 

اسی بہانے  مقدر  کا  فیض  جاری     ہے

فقیہہِ شہر  کے  فتوے  بھی  معتبر ہیں بہت

 

غریب کے لیے دنیا میں ایک چھت بھی  نہیں

امیر کے  لیے   دیوار و بام  و   در ہیں بہت

 

سودا ہے اگر سر  میں  تو  ٹکراتے نہیں کیوں ؟

دیوار میں دَر   کوئی  بنا  کیوں نہیں  دیتے ؟

 

بیٹھے ہو  جو یوں  جسم کی قبروں  میں سمٹ کر

کتبہ  بھی  سر  قبر  لگا  کیوں نہیں دیتے ؟

 

ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ

دیکھتے  ہی  دیکھتے  کتنے  بدل  جاتے   ہیں لوگ

 

شمع    کے  مانند  اہل  انجمن  سے   بے نیاز

اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ

 

شاعر ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ

ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل   جاتے ہیں لوگ

 

شاعر صاحب کی غزل کا مطالعہ یہاں پہنچ کر ختم ہو جانا چاہئے کیونکہ غم جاناں، غم وطن اور غم کائنات سب پر ہی ان کی فکر سامنے آ چکی ہے اور ان کے کلام کا کوئی گوشہ دیکھنے کے لئے نہیں بچا ہے۔ لیکن کلیات شاعر کا مطالعہ ان کی غزل کے ایک اور گوشہ کی نشاندہی کرتا ہے جسکا ذکر موصوف نے شاید اس لئے نہیں کیا ہے کہ اس گوشے پر ان کے یہاں بہت کم اشعار ملتے ہیں۔ انہوں نے خود شناسی اور خود آگاہی کے حوالے سے  قلم اٹھایا تو ہے لیکن کسی نا معلوم وجہ کی بنا پر نہایت مختصر خیال آرائی کے بعد خاموشی اختیار کر لی ہے۔ اس موضوع پر مختلف غزلوں میں بکھرے ہوئے اشعار ملتے ہیں۔ یہ اشعار بہت خوبصورت ہیں اور شاعر موصوف کی فکر و نظر کی گہرائی اور رقت قلب پر دلالت کرتے ہیں۔ انہیں پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ شاعر صاحب اس موضوع کو زیادہ تفصیل سے اپنی غزل گوئی کا حصہ بناتے تو یقینا ان سے آپ کی شاعری کا مقام مزید بلند ہو جاتا۔ اس ضمن میں ان کی خاموشی سے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جب موصوف اپنے اِرد گرد کے حالات، حوادث اور لوگوں سے مایوس ہو جاتے تھے تو اپنے اندر جھانک کر دیکھنے سے ان کو کسی قسم کی آسودگی ملتی تھی؟  ان اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ شاعر صاحب کی نگاہ صرف انسانی غموں میں ہی الجھ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ ’’ستاروں سے آگے ‘‘ جو ایک جہان ہے اُس سے بھی وہ بخوبی آشنا ہیں :

 

چلمن گری جو دَر  پہ  تو  ہر  پردہ   اُٹھ  گیا

کیا کیا کھلے  ہیں  راز  ترے اس حجاب میں

 

اک چہرے میں کتنے ادھورے   چہرے تھے

بات  کھلی  جب  آئینہ  اپنا   ٹوٹا   ہے

 

روشنیوں    میں   آئے   تو  معلوم   ہوا

اپنے  تعاقب  میں   اپنا   ہی   سایہ  ہے

 

ہمیں حرم میں نہاں تھے، ہمیں صنم  سے عیاں

ہماری   ذات  سے  باہر  ہمیں  خدا  نہ ملا

 

آدمی ہوں کہ دیوتا ہوں  میں

جو بھی ہوں تیرا آئینہ ہوں میں

 

تو مری حد میں کیا سمٹ   آیا

اپنی حد سے گزر گیا ہوں  میں

 

یہاں ایک دلچسپ حکایت شاید نا مناسب نہیں ہو گی۔ میرے بڑے بھائی محمود عالم را ز محمود نے شاعروں کا مقام معین کرنے کے لئے اپنا ایک ذاتی پیمانہ بنا رکھا تھا۔ اس پیمانہ میں انہوں نے پانچ درجات بنا رکھے تھے اور ہر درجہ کو پانچ خانوں میں منقسم کر دیا تھا۔ اس طرح وہ اپنے مطالعہ اور فہم کی بنا پر شاعروں کو مختلف درجوں اور پھر مختلف خانوں میں رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر وہ میر تقی میر اور مرزا غالب کو’’ پہلے درجہ کے پہلے  خانہ والے شاعر‘‘ گردانتے تھے، شیخ ابراہیم ذوق، مومن خاں مومن اور اصغر  گونڈوی کو ’’پہلے درجہ کے دوسرے خانہ کے شاعر‘‘ کہتے تھے

علیٰ ہذ القیاس۔ مجھ سے گفتگو کے دَوران وہ اپنے اس پیمانہ کا ذکر کرتے تھے اور اسی کے حوالے سے اپنی رائے بھی دیتے تھے۔ ایک مرتبہ باتوں باتوں میں راقم الحروف نے ان سے منظر بھوپالی کے بارے میں پوچھا تو ان کے چہرہ سے قدرے کبیدگی ظاہر ہوئی۔ کچھ سوچ کر بولے ’’بھائی! ان کے لئے مجھے :تک بندوں : کا ایک اور درجہ بنانا ہو گا‘‘  اوریوں ہنسی مذاق میں یہ دلچسپ گفتگو ختم ہو گئی۔ اکثر خیال آیا کہ ان سے پوچھ کر شاعروں کی ایسی فہرست بنا لوں جو انہوں نے اس پیمانہ کے مطابق اپنے ذہن میں بنا رکھی تھی۔ لیکن یہ نوبت نہ آئی اور اب وہ اِس دُنیا میں ہی نہیں ہیں۔ زیر نظر مضمون کا یہ مقصد نہیں ہے کہ حمایت علی شاعر صاحب کا اُردو اَدب و شعر میں مقام متعین کیا جائے اور نہ ہی یہ راقم الحروف کا منصب  و مقام ہے۔ البتہ یہاں یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ زیر نظر مطالعہ سے یہ ضرور مترشح ہوتا ہے کہ آپ کی غزلوں میں بھی نظمیہ رنگ غالب ہے یعنی اکثر غزلیں غزل مسلسل سے مماثل ہیں۔ ان کی شاعری کے موضوعات کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ اُن کی غزل روایتی غزل سے اغماض برتتے ہوئے اپنی راہ اور اپنا رنگ و آہنگ الگ نکالے۔ اس مہم میں وہ بہت کامیاب رہے ہیں چنانچہ روایتی اُردو غزل سے جو شعریت، تغزل، معنی آفرینی اور سرشاری وابستہ ہے اس کا شاعر صاحب کے یہاں فقدان ایک اتفاقی امر نہیں ہے بلکہ ایک اِرادی حقیقت ہے۔ یوں بھی کلیات شاعر میں نظموں کی افراط اور غزلوں کی مختصر تعداد اِس جانب اشارہ کرتی ہے کہ موصوف بنیادی طور پر غزل کے نہیں بلکہ نظم کے شاعر ہیں۔ بایں ہمہ  ان کا اپنا ایک مخصوص رنگ تغزل ضرور ہے جو منفرد بھی ہے اور پختہ و شائستہ بھی۔ اگر وہ اپنے حالات سے اس قدر مجبور نہ ہوئے ہوتے تو خدا جانے ان کی غز ل کا آج کیا رنگ ہوتا۔ اِس وقت جو کیفیت ہے اس کو شاعر صاحب ہی کے ایک شعر سے اس طرح بخوبی ادا کیا جا سکتا ہے ؛

 

اک زنگ خوردہ آئینہ  ہاتھوں  میں   آ گیا

اور  دیکھنے  کو  صورتِ  حالات  رہ  گئی

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل برائے ’سمت‘ فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید