FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

فراقؔ  فہمی

 

تحقیق و تنقید، حصہ اول

 

 

دو حصوں میں تقسیم یہ ای بک   اصل کتاب ’ فراق گورکھپوری: شخصیت، شاعری اور شناخت‘ کا چوتھا حصہ ہے

 

                مرتبہ: عزیز نبیلؔ

 

 

 

 

 

فراقؔ کی روایت اور نئی غزل

 

                ………ابو الکلام قاسمی

 

اس صدی کے اوائل میں جن شعراء کو عموماً اردو غزل کا احیا کرنے والوں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، در اصل ان شاعروں نے اس صنف کے احیا کی بجائے اُس جمود کو توڑ نے کی کوشش کی جو الطاف حسین حالیؔ کے اعتراضات کے بعد اردو غزل میں پیدا ہو گیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ آپ حسرتؔ موہانی، اصغرؔ گونڈوی اور فانیؔ بدایونی کی غزلوں کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ ان شعرا کی غزل انیسویں صدی کی غزل کی ایڈیم، رموز و علائم اور اسالیب کی توسیع سے زیادہ تسلسل ہے، جب کہ کسی صنف کو حیاتِ نو دینے کے لئے اسے بعض ایسی تبدیلیوں سے گزارنا پڑتا ہے جو اس کی نئی زندگی کی ضمانت اور شناخت بن سکیں، ورنہ از کار رفتہ جسم کو آخر کب تک نئی زندگی بخشی جاتی رہی گی؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ کم و بیش اسی زمانے میں اقبال کے علاوہ ہمیں دو شاعر ایسے نظر آتے ہیں جن کی غزل میں خارجی اور داخلی سطحوں پر بعض تبدیلیوں کے ساتھ ایک نوع کی توسیع کا اندازہ ہوتا۔ یہ دو شاعر فراقؔ اور یگانہ ہیں، اقبال نے روایتی غزل کے موضوعات اور ڈکشن سے جو انحراف کیا تھا فراقؔ اور یگانہؔ کا انداز انحراف اس سے الگ اور دوسری جہات میں تھا، مگر موضوعات اور لفظیات کے اعتبار سے یہ تینوں شاعر روایتی غزل گو یوں سے مختلف اور منحرف ضرور تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اقبالؔ کی غزل اپنی تمام تر انفرادیت کے با وصف قابل تقلید نہ بن سکی۔ اور اقبالؔ سے ہی مخصوص اور ان تک ہی محدود ہو کر رہ گئی۔ یگانہؔ کی غزل میں پرانی غزل سے الگ ہونے کی جو شعوری کوشش ملتی ہے وہ ان کی غزل کو جذبہ واحساس سے زیادہ ذہن و شعور کے عمل دخل اور رجائی آہنگ سے آشنا کرتی ہے۔ یگانہؔ کے لہجے میں قوت اور توانائی بھی تھی اور قابلِ تقلید ہونے کی صلاحیت بھی، چنانچہ یگانہؔ کے نئی غزل کے لہجوں میں سے ایک مخصوص یگانہؔ کے تتبع یا ان کی توسیع سے عبارت رہا، ہر چند کہ یگانہؔ کے بعض امتیازات ان کی مجبوری اور تحدید بھی بنے رہے۔ اگر یگانہؔ نے اپنی غزل کو یبوست اور خشونت سے بچالیا ہوتا تو شاید وہ اپنی اگلی نسل کے لئے اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ قابل تتبع ہوتے، جہاں تک فراقؔ گورکھپوری کی غزل کا سوال ہے، ان کی غزل کا معاملہ اپنے دوسرے ہم عصروں سے تو الگ ہے ہی، اقبالؔ اور یگانہؔ کی غزل گوئی سے بھی قدرے مختلف ہے۔

فراقؔ کی غزل کی تحسین اور اس کے مزاج کوسمجھنے کے لئے فراقؔ کی شخصیت، افتاد طبع، مطالعہ، ذہانت اور عالمی ادبیات کے رجحانات سے واقفیت کو سامنے رکھنا ضروری ہے، خلیل الرحمن اعظمی نے اپنے ایک مضمون میں فراقؔ کی غزل کے بارے میں میرؔ کے لئے کہے ہوئے مجلہ ’’ پستش بغایت پست و بلندش بغایت بلند‘‘ کو درست بتلایا ہے اور اس کا سبب، غزل کی پوری روایت سے اسلوب بیان اور ما فیہ کے اعتبار سے فراقؔ کی غزل میں رونما ہونے والے لب و لہجہ اور طرز احساس میں ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے، خلیل الرحمن نے اس مضمون میں فراق کی انفرادیت اور اس کی تفہیم کے مسئلے پر کئی اور خیال انگیز باتیں کی ہیں، جن کا ذکر یہاں غیر ضروری ہے، مگر اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ فراقؔ کو پڑھنے والا ایک عام قاری ان کے ربط و یابس کے انبار میں کھو کے رہ جاتا ہے اور پہلی نظر میں نہ فراق کی اہمیت کا اندازہ لگا پاتا ہے نہ انفرادیت کا، ظاہر ہے کہ اس کا سبب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ فراقؔ کے یہاں بہت اچھی شاعری کا تناسب بہت کم ہے اور یہ کوئی حیرت کی بات بھی نہیں، کہ ہمارے دو بڑے شاعر میرؔ اور اقبالؔ کی شاعری میں بھی تناسب کے اعتبار سے اس درجے کی شاعری بہت کم ملتی ہے جس سے صحیح معنوں میں ان شعراء کی قدر و منزلت کا تعین ہوتا ہے، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی شاعر کی عظمت کا مطلب یہ بالکل نہیں ہوتا کہ اس کی پوری شاعری عظیم ہو، کہ کسی شاعر کا ساری زندگی ایک درجہ اور ایک معیار کی شاعری کرنا بھی شاعر کے شعوری عمل اور شاعری کے معاملے میں اس کے غیر معمولی طور پر محتاط ہونے کا پتہ دیتا ہے۔

اگر فراقؔ کے بارے میں یہ سوال قائم کیا جائے کہ اقبالؔ اور یگانہؔ کے مقابلے میں بعد کی نسل کے لئے فراقؔ کی غزل زیادہ موثر اور قابل اتباع کیوں ٹھہری تو اس سوال کے جواب تک آسانی سے پہنچنے کے لئے فراقؔ کے شعری کردار کی تفہیم کے ساتھ نئی غزل اور فراق کی غزل کے مشترک عناصر کی تلاش ضروری ہے وہیں ان کی شعری شخصیت کے تشکیلی عناصر کو سامنے رکھنا ناگزیر ہے۔ فراقؔ ہرچند کہ ایک روشن خیال خاندان کے چشم و چراغ تھے مگر مذہبی اور روایتی پس منظر کے طور پر ہندوستانی تہذیب و ثقافت، ہندو مائتھا لوجی سے وابستہ تصورات اور سنسکرت اور ہندی کی روایت ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ اس کے متوازی فراقؔ کو انگریزی ادب کے توسط سے ادب کے عالمی رجحانات کو سمجھنے اور دنیا کے بڑے ادب پاروں تک رسائی کا موقع ملا تھا۔ ظاہر ہے کہ علمی اور ادبی اعتبار سے ایسا تنوع ان کے بزرگ ہم عصر اقبالؔ کے علاوہ ان کے معاصرین میں سے کسی اور شاعر کی شخصیت میں نہ تھا۔ یہ تو تھی اس تنوع کی بات جس کا تعلق ان کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر سے ہے، جہاں تک ان کی افتاد طبع اور شاعرانہ روئیے کا سوال ہے تو اس معاملے میں بھی وہ اپنے دوسرے معاصر غزل گویوں سے زیادہ جینوین رہے۔ یہاں جینوین ہونے سے میری مراد یہ کہ اچھی شاعری کے لئے جس انداز کی از خود رفتگی، تجربے کی صداقت، اپنی داخلی اور خارجی زندگی کو ہم آمیز کرنے کی صلاحیت اور زندگی اور اس کے لوازم کو ان کی متضاد خصوصیات کے ساتھ قبول کرنے اور اس کا اظہار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ فراقؔ کے شعری مزاج اور شاعرانہ رویے کا حصہ رہا۔ فراقؔ مشرق و مغرب کے ادبیات کی خوبیوں اور خامیوں سے واقفیت اور اپنی قوت ممیزہ کے سبب اچھی اور بری شاعری کی فرق سے بھی واقف تھے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جس سے عموماً شاعر تو شاعر آج کے نقاد بھی محروم دکھائی دیتے ہیں، یہاں یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ فراق کی تنقید، ان کی اس صلاحیت کی وجہ سے خاصی اہمیت کی حاصل رہی بلکہ تاثراتی تنقید کے اعتبار سے فراق کی تنقید کو اعلا درجے کی تنقید کہا جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر فراقؔ کی تنقیدی صلاحیت نے جہاں ان سے اچھی شاعری کرائی اور عمدہ تنقید لکھوائی، وہیں اس کا ایک کمزور پہلو یہ تھا کہ وہ ساری عمر اپنی شاعری کا جواز اپنی تنقید سے فراہم کرتے رہے۔ اس سے فراق کی تنقید تو یقیناً مجروح ہوئی مگر ان کی شاعری اس کے منفی اثرات سے محفوظ ضرور رہی، البتہ فراقؔ کی اس قسم کی تنقید نے فراق کے نقادوں کو زیادہ خراب کیا۔ کہ فراق پر لکھے جانے والے بیش تر مضامین خود فراق کے مفروضات اور تحفظات سے دامن نہ چھڑا سکے۔

ان چند جملہ ہائے معترضہ کے بعد اپنی اصل بات کی طرف آنے کے لئے ضروری ہے کہ نئی غزل پر فراق کے اثرات کا جائزہ لینے سے پہلے فراق کی شاعری پر پرانی غزل کے اثرات کا ذکر کروں۔ فراقؔ نئی غزل کے واضح نقطۂ آغاز ہونے کے ساتھ ان معدودے چند معاصر غزل گویوں میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ اردو غزل کے سرمایے کا بھر پور مطالعہ کیا بلکہ اساتذہ کی زمینوں میں غزلیں کہنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہیں نہیں بلکہ ان کی غزل پر میرؔ، مومنؔ، مصحفیؔ اور امیرؔ مینائی تک کے اثرات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے غالب رجحان کے اعتبار سے میرؔ کی غزل سے مناسبت رکھنے کے ساتھ فراقؔ کی غزل ذہن کی کار فرمائی، احساس، کی پیچیدگی اور زندگی کے تضادات کو ایک ساتھ برتنے کی صلاحیت کے اظہار کے سبب اپنا رشتہ غالب سے بھی جوڑ لیتی ہے۔ احسا کی پیچیدگی اور زندگی کے متضاد پہلوؤں کی بات چل نکلی ہے تو آئیے ان حوالوں میں کار فرما دکھا دیتا ہے، اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ فراقؔ ایک آزاد اور غیر مشروط ذہن کے مالک ہیں، یہ ذہن اپنے متقدمین کے ادعائی اور قطعی انداز سے برگشتہ ہے، اس کے سامنے انسان کا تصور، ایک مکمل اور ایسے انسان کا ہے جسے اچھے یا بڑے کے خانے میں منجمد اور محدود نہیں کیا جا سکتا، اس کے نزدیک خیر اور شر، یا اجالے اور تاریکی کے درمیان کوئی ایسا خطِ فاصل نہیں کھینچا جا سکتا جو ایک کو دوسرے سے دست و گریباں ہونے سے روک سکے۔ انسان اپنی سرشت اور جبلت کے اعتبار سے جتنا پیچیدہ اور تہہ دار ہیں، اس کا مکمل ادراک پرانے فنکاروں یافلسفیوں کو نہیں تھا، انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے فلسفیانہ اور نفسیاتی مطالعوں کے نتیجے میں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی کہ کوئی بھی انسان نہ صرف نیک ہوتا ہے اور نہ صرف بُرا، پھر یہ کہ انسانی شعور، تحت الشعور اور لاشعور سے متعلق نفسیاتی مباحث نے آدمی تہہ داری او اس کے پر اسرار ہونے کی توثیق کر دی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فراق کے متقدمین کی شاعری میں اُبھر نے والے انسان کا عام تصور بیسویں صدی میں عام ہونے والے ان تصورات سے خاصا مختلف تھا، جن کے نتیجے میں انسانی نفسیات اور فطرت کی شناخت، علوم و فنون کا محبوب ترین موضوع بن کر سامنے آئی، فراقؔ سے پہلے صرف غالبؔ کی مثال کو استثنا کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ غالب نے کسی یا فلسفہ یا نفسیات کے سہارے کے بغیر انسان کی ماہیت کا سراغ لگانے کی کوشش کی تھی۔ فراقؔ اس حقیقت سے واقف تھے ڈارون، مارکس اور فرائڈ کے نظریات نے انسانی طرز فکر اور فی نفسہہ انسان کی طبیعاتی شخصیت کے بارے میں غور و فکر کے انداز کو کس حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ انسان کے لئے خیر و شر یا نیکی اور بدی کا معاملہ جتنا غیر واضح ہو گیا ہے، کچھ اتنا ہی ابہام اور کنفیوژن ظلمت و نور، حق و باطل اور عذاب  و ثواب کے مفہوم میں بھی پیدا ہوا۔ ؛ فراق اپنی شاعرانہ باریک بینی کے ساتھ ساتھ جدید ترین تصورات کے وسیلے سے بھی انسان کو سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں۔ اس ضمن میں وہ محبت، وفا، رشتے ناطے، یاد اور فراموشی تک کے مسائل زیر بحث لاتے ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی نفسیات کی پیچیدگی کس کس اندازے میں انسانی معاملات اور انسانی صورتِ حال کو متاثر کرتی ہے، فراقؔ کے چند شعر ملاحظہ فرمائیے اور دیکھے کہ ایک غزل کا شاعر اپنے حدود میں رہتے ہوئے کس قدر گہرائی سے انسان کی فطرت کا مطالعہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مزید بر آں یہ کہ انسان کا جو تصور ان اشعار سے ابھرتا ہے وہ بعد کی نئی غزل میں کس حد تک واضح ہو کر سامنے آیا ہے۔

ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو مِلا

آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا

اسی عالم کے کچھ نقش و نگار اشعار ہیں میرے

جو پیدا ہو رہا ہے حق و باطل کے تصادم سے

ملے جُلے ہیں عذاب و ثواب کے مفہوم

رموز عشق ہیں اے شیخ دینیات نہیں

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

جن کو اتنا یاد کرو ہو چلتے پھر تے سائے ہیں

ان کو مٹے تو مدت گزری نام و نشاں کیا پوچھا ہو

مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

شام بھی تھی دھواں دھواں، حسن بھی تھا اُداس اُداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

ان اشعار کا واحد متکلم خواہ خود کلامی کے انداز میں کچھ کہہ رہا ہو یا کسی کو مخاطب سمجھ کر، مگر دونوں صورتوں میں اسے ہر لمحہ ایک ایسے دھندلکے میں ہونے کا احساس ہے جہاں یا تو اس کے سامنے اشیا واضح ہو کر نہیں آتیں یا اگر آتیں یا اگر اس کی نگاہیں مشاہدہ کر پاتی ہیں تو ایک کش مکش اور تصادم کا سامنا ہے، دھندلکے کا سماں، حق و باطل کیا تصادم، دھوکا ہے سب مگر پھر بھی، چلتے پھرتے سائے، اور ایسا بھی نہیں، جیسے الفاظ اور با توں سے جو بے یقینی، اشتباہ اور غیر قطعیت کی تصویر ابھرتی ہے وہ آج کے انسان کا اور اس پر غور کرنے والے ذہن کا خاصہ ہے۔

یہ بات آگے زیر بحث آئے گی کہ فراقؔ کی غزل میں ایک نئے انسان کا ورود اور اس پر غور کرنے والے نئے ذہن کا وجود نئی غزل کے میلانات سے کیا تعلق رکھتا ہے اور کن سطحوں پر فراق کی غزل گوئی نئی غزل کا سرچشمہ بنتی ہے۔ سر دست ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ فراق نے پرانی غزل سے کیا استفادہ کیا اور خود فراقؔ کی شعری شخصیت نے اس میں کیا تبدیلیاں کیں اور اس پر کیا اضافہ کیا؟ فراقؔ کی شاعری کا بڑا حصہ  روایتی مضامین کو باندھنے اور بار بار کہی ہوئی با توں کو دہرانے سے عبارت ہے، اسی لئے میں نے گذشتہ سطور میں یہ بات کہی تھی کہ فراقؔ  کی صحیح شناخت ان کے نسبتاً منتخب کلام سے ہوتی ہے، ورنہ فنی اعتبار سے فراقؔ کی غزلوں میں بہت سے نقائص کے ساتھ بھرتی کے اشعار کہنے کی کوشش بھی ملتی ہے۔ حد یہ ہے کہ فراقؔ کے بہت سے اشعار وزن سے گرے ہوئے ہیں، فراقؔ کے بعض نقادوں نے ان فنی نقائص کو ان کے تخلیقی عمل کا ناگزیر حصہ بتلایا ہے۔ فراقؔ کے سلسلے میں یہ بات اس لئے بھی قابل قبول ہو سکتی ہے کہ غزل کے پرانے اسالیب میں تبدیلی کی خواہش رکھنے اور نئے رموز و علائم میں اپنی بات کہنے کی کوشش کرنے والے کسی بھی شاعر کے لئے یہ دور ایک عبوری دور کہا جا سکتا ہے، جہاں روایت اس کا ساتھ نہیں دے پائی او اپنی اگلی نسلوں کی دنیا اسے اپنے ہاتھوں سے بنانی ہے۔ فراقؔ کے روایتی انداز کے اشعار پر سرسری نگاہ بھی ڈالیے تو یہ اندازہ لگانے میں دشواری نہیں ہو گی کہ فراقؔ ہر چند کہ اساتذہ کی زمینوں میں شعر کہنے کی کوشش کر تے ہیں، کلاسیکی لب و لہجے کا پاس اور احترام بھی کر تے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ان کا طرز احساس اور طرز اظہار پورے کا پورا روایتی نہیں رہتا، ذیل کے شعروں میں بعض نہایت گھسے پٹے اور غزل کے رسمی موضوعات پر کہے ہوئے اشعار میں بھی فراقؔ کی اپنی انفرادیت کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔

نگِہ مست نے تلوار اٹھا لی سرِ بزم

یوں بدل جاتی ہے نیت مجھے معلوم نہ تھا

ایک کو ایک کی خبر منزلِ عشق میں نہ تھی

کوئی بھی اہلِ کارواں شاملِ کارواں نہ تھا

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں

لیکن اس جلوہ گہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی

پاس رہنا کسی کا رات کی رات

میہمانی بھی میزبانی بھی

تجھ میں کوئی کمی نہی پاتے

تجھ میں کوئی کمی نہیں ملتی

مری نظریں بھی ایسے کافروں کی جان و ایماں ہیں

نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان را توں میں

ہم ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

یہ نہ پوچھ کتنا جیا ہوں میں، یہ نہ پوچھ کیسے جیا ہوں میں

کہ ابد کی آنکھ بھی لگ گئی مرے غم کی شامِ دراز میں

ایک وہ ملنا ایک یہ ملنا

کیا تو مجھ کو چھوڑ رہا ہے

اس پُرسش کرم پہ تو آنسو نکل پڑے

کیا تو وہی خلوصِ سراپا ہے آج بھی

یہ اشعار اپنے مزاج کے اعتبار سے کلاسیکی نوعیت کے اشعار کہے جا سکتے ہیں لیکن کیا ان کو محض کلاسیکی یا روایتی اشعار کہہ کر ٹالا جا سکتا ہے ؟ غزل کی شاعری میں پرانے شاعروں کا زبان کی طرف جو رویہ ملتا ہے یا دوسرے الفاظ میں زبان و بیان کی طرف ان کے غیر معمولی توجہ صرف کرنے اور طرز اظہار کر طرز احساس پر فوقیت دینے کے پس منظر میں کیا مندرجہ اشعار فراقؔ کے طرز احساس کی انفرادیت کے سبب روایتی شعروں سے مختلف نظر نہیں آتے ؟ اگر ان شعروں پر مکتبی انداز سے تنقید لکھی جائے تو بہت آسانی سے انہیں غزل کے کلاسیکی لب و لہجہ کا ترجمان اور تغزل کی رسمی صفت سے متصف قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر نگہ مست کا تلوار اٹھا لینا، اہل کارواں کا شامل کارواں نہ ہونا، محبوب کی رفاقت میں مہمانی اور میزبانی کی جہات کا ڈھنڈ لینا، کمی پانے اور کمی ملنے کے نازل فرق کا احساس کرنا، یا دوں کی چادر تان لینا، ملنے کے انداز کے فرق سے تحت البیان میں جدائی کا خدشہ ظاہر کر دینا اور پرسشِ کرم کے نتیجے میں خلوص و محبت سے مشتبہ ہو جانا، یہ سارے رویے بدلے ہوئے طرز احساس کے ایسے رویے نہیں جو خود بخود اظہار کے اسالیب میں تبدیلی پیدا کر دیتے ہیں۔ یہاں یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ روایتی غزل اور فراقؔ کے ان اشعار میں موضوعات کی یکسانیت اور تکرار کے باوجود محبت، رشتے اور برتاؤ کے معاملات میں فراق اساتذہ کی غیر ضروری تقلید کی بجائے اپنے ذاتی اور انفرادی جذبات اور احساسات کا اظہار کر رہے ہیں۔ مزید بر آں یہ کہ پرانی غزل میں بہت سے الفاظ استعمال کر کے بھی بہت کم کہہ پانے کے مقابلے میں ان اشعار میں لفظوں میں بہت کم کہہ کر تحت البیان یا بین السطور کے طور پر ایک جہانِ معنیٰ کا امکان پیدا کر دینا، فراقؔ کا وہ امتیاز ہے جو انہیں پرانی غزل کے شاعروں کے آگے کا شاعر ثابت کرتا  ہے۔ اس جملے میں آگے کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا گیا ہے کہ فراقؔ کو نہ تو پورے طور پر روایتی شاعر کہا جا سکتا ہے ورنہ تمام و کمال جدید لب و لہجہ کا شاعر۔ البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ فراقؔ اپنے ماقبل اور مابعد کے شاعروں میں درمیانی کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں رطب و یابس کے انبار میں آپ کو ایک دو نہیں سیکڑوں اشعارایسے بھی مل جائیں گے جو بہت سے اعتبارات سے پرانی غزل کی نمائندگی کر تے ہیں،، مگر اس قسم کے اشعار فراق کے نام سے وابستہ ہونے کے باوجود فراقؔ کی شناخت نہیں قرار دیے جا سکتے۔ روایت کی چھانو میں پروردہ شخصیت اپنی انفرادی صلاحیت کے اظہار سے پہلے روایت سے ہی کسب فیض کرتی ہے وہی فراقؔ نے بھی کیا۔ ہاں فراقؔ کے اپنے رنگ کے اشعار سے اس کا فیصلہ ہو سکتا ہے کہ ان میں روایت وہی کا عمل دخل کتنا ہے اور خود فراقؔ کا اپنا حصہ ان شعروں میں کیا ہے ؟ اس ضمن میں چند اشارے پچھلے صفحات میں بھی کئے جا چکے ہیں۔ اس بات کو یہاں میں تین شعبوں میں تقسیم کر کے دیکھنا چاہوں گا۔ ایسے اشعار جن پر فراقؔ کی اپنی مہر لگی ہوئی ہے ان کو تین نمایاں خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ مجھے زمانی اعتبار سے فراقؔ کی غزل کے ارتقا کو دیکھنے کی سہولت حاصل نہیں ورنہ ممکن تھا یہ مسئلہ آسانی سے تخلیقی ارتقا کی درجہ بدرجہ تبدیلی کو سامنے رکھ کر حل ہو جاتا، ویسے فراقؔ کے کلام کو ایک ساتھ دیکھنے سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فراقؔ کے لب و لہجہ اور رنگ کے اشعار کو تین حصوں میں رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ ایسے اشعار پر مشتمل ہو سکتا ہے جن کو بادی النظر میں روایتی اور کلاسیکی کہنا چاہئے، ایسے اشعار میں سے بطور مثال چند اشعار درج کیے جا چکے ہیں، دوسری قسم ان اشعار کی ہو گی جن میں فراقؔ واضح انحراف کر تے نظر آتے ہیں اور انحراف اور تبدیلی کے نشانات ہی ان کی اگلی منزل کا پتہ دیتے ہیں، میری مراد یہ ہے کہ ان کی اگلی منزل وہ منزل ہے جہاں ان کے اشعار بالکل جدید لب و لہجہ اور غزل کے نئے میلانات سے ہم آہنگ ہیں، پہلی قسم کے شعروں کی نمایاں خصوصیات میں روایت کو نئے تناظر اور بعد سے آشنا کرنے کی کوشش نمایاں ہے، بطور خاص اس معاملے میں کہ عشق و محبت کا موضوع غزل کے شاعروں کا محبوب ترین موضوع رہا۔ا س موضوع کو کثرت سے برتنے اوراس تناسب سے انفرادی طور پر اکثر و بیش شاعروں کے اپنی شناخت قائم نہ کر پانے کے سبب عشق کا موضوع عرصے تک اپنے مخصوص جزئیات اور احساس اور جذبے کی تکرار کی وجہ سے پامال ہوتا رہا۔ موضوعاتی سطح پر ایک محدود دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایسے شاعر بہر حال غزل کی تاریخ پر اپنے نام ثبت کر چکے تھے جنہوں نے تمام حد بندیوں کے باوجود اپنی پہچان متعین کی اور ناموں کے ہجوم میں قابل شناخت قرار پائے۔ اس نوع کے اشعار میں فراقؔ کے اپنے امتیازات تجھے جو کبھ نفسیاتی تہہ داری کے ساتھ، کبھی واقعات کی بجائے تاثرات کی پیش کش کے ساتھ، کبھی رسمی جذبات سے اجتناب اور خالصتاً نجی احساسات اور جذبات کو بے تکلفی سے بیان کر دینے کے ساتھ سامنے آئے۔ فراقؔ نے اپنا ایک امتیاز یہ برقرار رکھا کہ انہوں نے عشق کو تجرید کی سطح سے تجسیم کی سطح پر اتارنے کی بھی کوشش کی۔ تجسیم کی سطح پر رسمی اور بیش تر صورتوں میں مجرد عشق و محبت کے برتنے کے انداز کو ترک کرنے کے عمل میں انہوں نے جنس کو اپنا موضوع بنایا مگر حسن بھی ان کے لئے ایک جمالیاتی تجربہ بن کر سامنے آیا۔ چنانچہ فراقؔ کا جنسی تجربہ ایک طرف جمالیاتی احساس اور تجربے سے ہم آہنگ رہا اور دوسری طرف زندگی کے بہت سے معاملات اور مسائل میں سے ایک عام عاملہ یا مسئلہ۔

فراقؔ کی دوسری منزل روایتی غزل اور رسمی موضوعات سے انحراف کی منزل ہے جہاں فراقؔ کو بالکل نئے لب و لہجے کا شاعر تو نہیں کہا جا سکتا مگر ان کے کلام میں نئی غزل کے سارے امکانات موجود ملتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ امکانات ہوا میں معلق نہیں بلکہ ان کا تعلق اس نئے ذہن سے ہے جس کے وسیلے سے عہد حاضر کے انسان اور اس کی پیچیدہ نفسیات سے ہمارا سابقہ ہوتا ہے۔ میں نے ابتدائی صفحات میں فراقؔ کی غزل میں انسانی وجود اور انسانی سوچ کے جدید مظاہر کی بات چھیڑی تھی یہاں اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے چند مثالوں سے اپنی بات واضح کروں گا۔

ترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست

وصال کو مری دنیائے آرزو نہ بنا

عجب کیا کھوئے کھوئے سے جو رہتے ترے آگے

ہمارے درمیاں اے دوست لاکھوں خواب حائل ہیں

دل دکھ کے رہ گیا یہ الگ بات ہے مگر

ہم بھی ترے خیال سے مسرور ہو گئے

کچھ آدمی کو ہیں مجبوریاں بھی دنیا میں

ارے وہ درِ محبت سہی تو کیا مر جائیں

یونہی سا تھا کوئی جس نے مجھے مٹا ڈالا کبھی

نہ کوئی نور کا پُتلا نہ کوئی ماہ جبیں

ترا فراق تو اس دن ترا فراق ہوا

جب ان سے پیار کیا جن سے کوئی پیار نہیں

باتیں اس کی یاد آتی ہیں لیکن ہم پر یہ نہیں کھُلتا

کن با توں پر اشک بہائیں، کن با توں سے جی بہلائیں

کچھ ایسی بات نہ تھی تیرا دور ہو جانا

یہ اور بات کہ رہ رہ کے درد اٹھتا تھا

ہزار شکر کہ مایوس کر دیا تو نے

یہ اور بات کہ تجھ سے بڑی امیدیں تھیں

ان اشعار کو پڑ ھ کر ہم پر پہلا تاثر یہ ہوتا ہے کہ یہ اشعار سپاٹ، اکہری اور سیدھی سادی نفسیات کی ترجمانی نہیں کر تے، نہ ہی ان میں محبوب اور محبت کی طرف وہ رویّہ ظاہر ہوتا ہے جو پرانی غزل سے مخصوص تھا، ان اشعار میں محبوب کا کردار عاشق کے رویے سے متعین ہوتا ہے، جب کہ غزل کا پرانا محبوب اپنے مخصوص کردار اور اپنے وجود کی طے شدہ شرائط کا مالک تھا اور ان شرائط سے عاشق کا کردار متعین ہوتا تھا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ محبت کے معاملے میں یہاں وہ طے شدگی ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے جس کے نتیجے میں عاشق اور محبوب کے کردار، ٹائپ کردار بن کر رہ گئے تھے، میری ان با توں کے درمیان یہ نہ بھولنا چاہئے کہ میں پرانی غزل کے عام مزاج کی بات کر رہا ہوں، ورنہ فراقؔ سے پہلے بھی بعض شاعروں کے یہاں اتفاقیہ طور پر اور غالبؔ کی شاعری میں کثرت سے ایسی مثالیں مل جاتی ہیں جن کے ڈانڈے نئی غزل سے ملائے جا سکتے ہیں۔ بات پھر وہیں پہنچتی ہے کہ محبت کے روایتی تصور، مخصوص احساسات و جذبات سے پہچانے جانے والے عاشق کے کردار اور خط مستقیم کی نفسیات وغیرہ سے فراقؔ کا انحراف در اصل اس ذہن کا زائیدہ ہے جو جدید عہد کا جدید ذہن ہے، جو مشرق و مغرب کی شاعری میں رائج عشقیہ تصورات سے واقف ہے، جو انسان کو کسی مخصوص خانے میں رکھ کر نہیں دیکھتا، بلکہ اس کا موضوع ایسا انسان ہے جو کہ اس کی متضاد صفات اور متصادم احساسات و جذبات سے الگ کر کے دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔ پرانی غزل میں محبوب کا وصال ہی تمام آرزوؤں اور تمناؤں کا حاصل تھا، جب کہ فراقؔ کے شعر میں وصال کو دنیائے آرزو و بنانے سے انکار ہے، پہلے، محبت ایک خواب تھی اور محبوب اس کی تعبیر جب کہ یہاں عاشق و محبوب کے درمیان لاکھوں خوابوں کے حائل ہونے کا ذکر ملتا ہے، پرانا عاشق محبوب کے خیال سے یا تو مسرور ہوتا تھا یا مغموم مگر فراقؔ کی غزل کا عاشق محبوب کے خیال سے مسرور بھی ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس کا دل بھی دکھ کے رہ جاتا ہے۔ آج عاشق محبت کی مجبوریوں سے تنگ آ کر خود کشی نہیں کرتا، آج محبوب نور کا پتلا اور ماہ جبیں نہ ہوتے ہوئے بھی محبوب ہو سکتا ہے۔ آج وصال و فراق کا تعلق قربت اور دوری سے نہیں رہ گیا بلکہ اسمیں اپنا ارادہ بھی شامل ہو گیا۔ پرانی غزل میں محبوب کی بے وفائی کا رد عمل سوائے حسرت و یاس کے کسی اور شکل میں ظاہر نہ ہوتا تھا جب کہ یہاں فراقؔ کے اشعار میں محبت کی مایوسی بھی قابل صد شکر بن جاتی ہے۔

ان اشاروں سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ زندگی بحیثیت مجموعی فراقؔ کی غزل میں ایک نئی زندگی کے روپ میں تو ظاہر ہوتی ہی ہے، محبت جیسا روایتی موضوع بھی تبدیل شدہ زندگی کی نئی اقدار اور نئے احساس لے کر سامنے آتا ہے۔ اس محبت میں تنوع ہے، رنگا رنگی ہے، اس کے متضاد انداز ہیں اور خود اپنی کمزوریوں کا اعتراف ہے۔ یہاں زندگی کوئی منجمد اور غیر متحرک چیز نہیں بلکہ ہر لمحہ تبدیل ہوتی ہے اور انسان کو داخلی اور خارجی سطحوں پر تبدیل کرتی رہتی ہے۔ یہاں شاعر کو اپنے متضاد جذبات اور پس و پیش میں مبتلا رکھنے والی کیفیات کے اظہار میں کوئی جھجھک اور ہچکچاہٹ نہیں۔

میں نے فراقؔ کی غزل کی تیسری شق یاد وسرے الفاظ میں فراقؔ کی تیسری منزل کی جو بات کی تھی اس تک آنے اوراس کو سمجھنے کے لئے ضروری تھا کہ مختصراً فراقؔ کے کلاسیکی اور انحرافی انداز کے شعروں کی طرف چند اشارے کر دوں، اب آپ فراقؔ کی تیسری منزل کی طرف آئیے اور دیکھئیے کہ فراقؔ کے بالکل جدید لب و لہجہ اور غزل کے نئے میلانات سے ہم آہنگ اشعار، کن محرکات و عوامل کی نشاندہی کر تے ہیں، جہاں فراقؔ کی غزل میں انحراف کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس سلسلے کی کئی باتیں زیر بحث آ چکی ہیں۔ اس مقام پر اس کی یاد دہانی ضروری ہے کہ فراقؔ کو کلیتاً جدید لب و لہجے کا غزل گو نہیں کہنا چاہئے۔ اسلئے کہ فراقؔ نے روایت سے انحراف اور نئے رنگ کے تعین کے مراحل خود اپنے اندر طے کئے ہیں۔ اس طرح وہ زنجیر کی اس کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے ایک طرف روایت کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا ہے اور دوسری طرف ان امکانات کی کڑیاں ہوئی ہیں جو نئی غزل کے کئی میلانات کا ایک ساتھ احاطہ کر تے ہیں، فراق کے کلام کے بڑے حصے میں بالعموم اور نئے رنگ کے اشعار میں خصوصیت کے ساتھ ان کے اس تعہد اور کمٹ منٹ کا انداز بھی ہوتا ہے جو ان کا اپنی ذات کے ساتھ ہے ؛۔ ایسے موقعوں پر خارج ذات، عام انسانی رشتے اور اجتماعی زندگی کی جھلکیاں بھی خود اپنی ذات کے حوالے سے پیش کرنے کا رجحان نمایاں نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنی ذات سے فراقؔ کا یہ تعہد جدید غزل میں جگہ جگہ منعکس ہونے والے وجودی رویے کا پس منظر بن سکا ہے یا نہیں ؟ یہاں اس وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں کہ نہ صرف جدید اردو غزل اور اردو شاعری کو بلکہ دنیا کی بڑی زبانوں کے جدید ادب کو وجودیت کے فلسفے نے کس حد تک متاثر کیا ہے۔ اگر آپ وجودی فکر کے بنیادی عناصر کی تلاش کریں تو اندازہ ہو گا کہ وجودی فلسفیوں کے افکار میں جزوی اور ضمنی اختلافات کے باوجود ان کے درمیان جو افکار قدر مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں انہیں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ وجودیت کا سرچشمہ عقلِ محض کی بجائے انسان کے مکمل وجود کا تجربہ ہے، اس کی تفصیل میں جائیے تو پتا چلتا ہے کہ اس فلسفے کا اصل موضوع زندہ انسان کا انفرادی وجود ہے۔ انسان اظہار اور عمل کے معاملے میں آزاد ہے اور یہی آزادی اور انتخاب کا حق اس کے وجود کی معنویت کا تعین کرتا  ہے۔ وجودیت فرد کی ذات اور اس کے تجربے کے وسیلے سے زندگی اور موت حتی کہ سماج اور کائنات کی حقیقت اور ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان نکات کو شعری اظہار کی سطح پر لا کر دیکھا جائے تو اقدار کا مسئلہ، آزادی کا مسئلہ، وجود کے اعتبار سے اور عدم اعتبار کا مسئلہ اور مجموعی طور پر انسانی صورت حال کے سلسلے میں اپنی ذات کے ساتھ کمٹ منٹ اور اپنے وجود کے وسیلے سے ہی کائنات کا ادراک، ایک شاعر کے لئے وجودی رویے کا پس منظر فراہم کرتا ہے۔ فراقؔ اپنے تجربے اور ادراک سے زندگی کی تفہیم کی کوشش میں مصروف ہیں، زندگی ان کے لئے اکے لیے جھیلنے کا عمل ہے جس میں اپنے وجود کے علاوہ انسان کا کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں زندگی کے متضاد روپ بھی ملتے ہیں اور وجود کی متصادم قوتوں کا غیر ترجیحی اظہار بھی پایا جاتا ہے، ان معروضات کی روشنی میں اگر یہ رائے قائم کی جائے تو غلط نہ ہو گا کہ فراق کی غزل کے ایک بڑے حصے میں جو کردار واحد متکلم کی حیثیت سے ابھر تا ہے وہ اپنے عہد کے وجودی رویوں کا بھی حامل ہے اور اظہار کی سطح پر نئی غزل کے اسالیبِ اظہار سے آشنا بھی۔

نئی غزل کے معیار اور امتیازات میں سے ذات اور انفرادی وجود کی مرکزی اہمیت دے کر اس کے وسیلے سے خارجِ ذات کے ادراک کی کوشش کو اساسی حیثیت حاصل رہی ہے، مگر اس رویے کے ساتھ اور دوسرے میلانات سے بھی نئی غزل کی شناخت کی جا سکتی ہے، خود وجودی فکر کے نشانات کو بھی جدید غزل کے مختلف عناصر میں سے ایک کہنا چاہئے، کہ موضوعات کے انتخاب، ترجیحات اور نظریہ زدگی کے سلسلے میں جدید شاعر بڑی حد تک آزاد اور غیر مشروط ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ نہ اس کے سامنے سماجی مفروضات کی قدغن ہے اور نہ وہ زندگی کو اچھے اور برے پہلوؤں کے خانوں میں تقسیم کر کے دیکھتا ہے۔ یقین، عقیدہ اور رشتے اس کا ساتھ چھوڑ چلے ہیں، اداسی اس کا مقدر ہے اور تنہائی اس کا بنیادی احساس، زندگی اپنے مزاج کے اعتبار سے جتنی متنوع اور رنگا رنگ ہو سکتی ہے نئی غزل کا شاعر اتنے متنوع اور مختلف رنگ اور انداز میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ اس پس منظر میں آپ فراقؔ کے چند ایسے شعر ملاحظہ کریں جو اپنے رجحان کے اعتبار سے غزل کے نئے میلانات کے لئے بنیادیں فراہم کر تے ہیں اور انھیں بنیادوں سے فراقؔ کی غزل کا ایک خاص مفہوم متعین ہوتا ہے :

اس دور میں زندگی بشر کی

بیمار کی رات ہو گئی ہے

اے موت بشر کی زندگی آج

تیرا احسان ہو گئی ہے

منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں

وہی اندازِ جہانِ گذراں ہے کہ جو تھا

آئے جاتی ہیں دوست کی یادیں

بڑھتی جاتی ہے میری تنہائی

چھڑا رکھا ہے تجھ سے وسوسوں نے وصل و فرقت کے

انھی وہموں سے اپنے آپ کو تنہا سمجھتے ہیں

اک فسوں ساماں نگاہِ آشنا کی دیر تھی

اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے

ہم سے کیا ہو سکامحبت میں

تم نے تو خیر بے وفائی کی

غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہو یا تجھے بھلانے میں

لے اڑی تجھ کو نگاہ شوق کیا جانے کہاں

تیری صورت پر بھی اب تیرا گماں ہوتا نہیں

اے دلِ بے قرار دیکھ وقت کی کار سازیاں

عشق کو صبر آ گیا صبر کیے بغیر بھی

 

محمد حسن عسکری نے میرؔ کی انفرادیت کا نکتہ یہ دریافت کیا تھا کہ میرؔ زندگی کے چھوٹے بڑے اور مختلف نوعیت کے تجربات کو ایک اکائی کی شکل دے سکتے تھے اور ان پر ایک ساتھ غور کرنے کی اہلیت رکھتے تھے چنانچہ وہ اپنے متفرق اور منتشر تجربات کو ایک عظیم تجربے کی شکل دے سکے، عسکری کی اس رائے سے اتفاق بھی کیا جا سکتا ہے، اور اختلاف بھی مگر اختلاف کی گنجائش بہت کم ہے۔ بالخصوص اگر ہم میرؔ کی شعری شخصیت اور نئی غزل میں میرؔ کی معنویت ور نکتہ ہائے اشتراک پر غور کریں تو اس حوالے سے یہ بات سب سے زیادہ فراقؔ کی غزل پر صادق آتی ہے اور ان کے بعد ناصرؔ  کاظمی، خلیلؔ  الرحمن اعظمی، اور بعض دوسرے نئے غزل گو شعرا کی شاعری پر، خود ناصرؔ کاظمی نے میرؔ دردؔ کے زمانے کو ایک ایسی رات سے تعبیر کیا ہے ہمارے عہد کی رات سے آملی ہے اور قافلے کے قافلے اس رات میں گم ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عسکری اور ناصرؔ کاظمی کے ان خیالات سے نئے عہد اور نئی شاعری میں میرؔ کی معنویت کا اہم نکتہ ہاتھ آتا ہے مگر فراقؔ اور ان کے بعد کی شاعری میں میرؔ سے اشتراک کے کئی اور بھی پہلو دریافت کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میرؔ، فراقؔ، اور بعد کے بہت سے شاعروں کے یہاں عام تجریدی فضا کی تخلیق کی جو شعوری یا غیر شعوری کی کوشش ملتی ہے وہ ایک مخصوص نئے شعری میلان کو فراقؔ کے توسط سے میرؔ سے ہم رشتہ کر دیتی ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ ناصرؔ کاظمی بھی میرؔ کے احیا اور بازیافت کا ذکر فراقؔ کے توسل کے بغیر نہیں کر تے۔ میرؔ کا بہت مشہور شعر ہے ؎

 

نہ دیکھا میرؔ آوارہ کو لیکن

غبار اک نا تواں سا کو بکو تھا

 

اس شعر میں ایک نا تواں غبار کے استعارے کی شکل میں میر آوارہ کا مشاہدہ خود اپنی جگہ پر تجسیم کو تجرید بنانے کے عمل کا نتیجہ ہے۔ میں نے پچھلے صفحات میں بھی کسی جگہ فراقؔ کے یہاں اس صفت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں وضاحت کے طور پر فراقؔ کے یہ شعر دیکھیے :۔

 

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان را توں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

تو ایک تھا میرے اشعار میں ہزار ہوا

اس اک چراغ سے کتنے چراغ جل اٹھے

 

پہلے شعر میں محبوب کی دوشیزگی کے نکھار کی بات نہیں کہی گئی بلکہ اس کے جمال کی دوشیزگی کے نکھار کی بات ہے۔ دوسرے شعر میں یادوں کی چادر تان لینا، ایک تجریدی فضا کی تخلیق کی کوشش ہے، اسی طرح تیسرے شعر میں ایک انسانی پیکر کو ہزاروں روپ بخش دینے کو بھی اسی نوع کی کوشش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ فراقؔ کا رویہ ایک رومانی رویہ ہے جس کو نئی شاعری میں بھی اپنایا گیا۔ اب آپ ناصر کاظمی کے چند اشعار دیکھئیے :

 

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ

اداسی بال کھولے سورہی ہے

رین اندھیری ہے اور کنارا دور

چاند نکلے تو پار اُتر جائیں

دل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا  ہے

تو کون ہے کیا نام ہے تیرا

کیا سچ ہے کہ تیرے ہو گئے ہم

 

اس نوع کی مثالیں دوسرے اور جدید غزل گو شعرا مثلاً خلیلؔ الرحمن اعظمی، احمد مشتاقؔ، حسن نعیمؔ، شہر یارؔ، سلیم احمدؔ، ساقی فاروقیؔ سے بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر یہ تفصیل ایک الگ مضمون کی متقاضی ہو گی کہ فراقؔ کے شعری رویوں نے کن کن جدید شاعروں کو کس کس انداز میں متاثر کیا ہے۔ سر دست میرا مدعا صرف یہ ہے کہ نئی غزل کے نمایاں میلانات سے فراقؔ کی غزل کی مناسبت اور مطابقت کے پہلوؤں کی جستجو کروں، اس جستجو کے دوران میری نگاہ فراقؔ کے اُس طرز اظہار کی طرف بھی جاتی ہے جس میں وہ اَن دیکھے جذباتی اورحسی تجربات کو مجسم کرنے سے زیادہ مشہور اور محسوس پیکر کا روپ دینے کی کوشش کر تے ہیں اور اس حقیقت کی طرف بھی فراقؔ حسیات اور افکار کے سلسلے میں اس آزادی کا مظاہر کر تے ہیں جس کا مظاہرہ کرنے کے سبب نئی غزل میں تازگی اور آزاد فضا کے عناصر شامل ہوئے۔

اپنی بات کو مختصر کر تے ہوئے فراقؔ کی غزل سے مناسبت رکھنے والے چند ایسے اشعار کی باز خوانی پر اکتفا کروں گا جوسردست مجھے یاد آ رہے ہیں اور اپنی بعض خصوصیات کے سبب فراقؔ کی یاد دلاتے ہیں :

ایسی راتیں بھی ہم پہ گزری ہیں

تیرے پہلو میں تیری یاد آئی

یوں جی بہل گیا ہے تری یاد سے مگر

تیرا خیال تیرے برابر نہ ہو سکا

خلیلؔ  الرحمن اعظمی

 

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا

کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر

جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

ناصر کاظمی

 

سائے کو سائے میں گم ہوتے تو دیکھا ہو گا

یہ بھی دیکھو کہ تمھیں ہم نے بھلایا کیسے

سلیمؔ احمد

 

نہ جس کا نام ہے کوئی نہ جس کی شکل ہے کوئی

اک ایسی شے کا کیوں ہمیں ازل سے انتظار ہے

شہرؔ یا ر

وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے

جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا

ساقیؔ فاروقی

 

پھر صبا سوئے چمن آنے لگی

بوئے گل زنجیر پہنانے لگی

محمدؔ علوی

 

فراقؔ نے بعض ادبی جرائد کے مستقل کالموں میں، اپنے خطوط میں اور اپنے تنقیدی مضامین میں اکثر شاعری کی خصوصیات کو تنقید حیات، تہذیب جذبات اور شفا بخشی جیسی صفات میں تقسیم کیا ہے اور ان خصوصیات کے مفروضے کے تحت اپنے بہت سے اشعار کی تشریحیں بھی کی ہیں۔ میں نے اس مضمون میں جان بوجھ کر ان مسائل کو نہیں چھیڑا ہے اس کی پہلی وجہ تو یہ کہ ہمیں کسی شاعر کی شاعری پر غور کر تے ہوئے اس کے نظریۂ شاعری اور اپنی شاعری کے بارے میں اس کی اپنی رائے سے زیادہ سروکار نہ ہونا چاہئے۔ دوسری بات یہ کہ فراقؔ اور نئی غزل کے رشتے کے درمیان فراقؔ کے مندرجہ بالا خیالات حائل بھی نہیں ہوئے۔ البتہ انگریزی کے رومانی شاعروں سے فراقؔ کی عقیدت اور ہندی اورسنسکرت کے ادبسے ان کے کسب فیض کی بات ہمارے دائرۂ بحث میں آ سکتی ہے۔ اسلئے کہ جذبے اور احساس کی پرچھائیاں پکڑنے کی کوشش اور تجریدی فضا آفرینی کا انداز فراقؔ کے کلام میں انگریزی کی رومانی شاعری کے زیر اثر آیا ہے۔ اور ان کے کلام میں نغمگی، گھلاوٹ، رچاؤ اور سرشاری کی جو کیفیتیں ملتی ہیں انہیں ہندی اورسنسکرت کی روایت کا اثر کہا جا سکتا ہے، یہاں مشرق و مغرب کے ادبی عناصر کی آمیزش کے ذکرسے مجھے یہ بتلانا مقصود ہے کہ اسی کے نتیجے میں فراقؔ کی شاعری میں غیر قطعیت کا انداز پیدا ہوا ہے اور کسی ایک روایت پر اکتفا نہ کرنے کی وجہ سے ان کے یہاں ایک نوع کی وسعت اور ہمہ گیری کا احساس ہوتا ہے۔ یہ وسعت اور ہمہ گیری انہیں کسی نظریہ کی پابندی سے بچاتی بھی ہے۔ اور اپنے علاوہ کسی مخصوص ادبی تحریک یا طرز فکر سے مشروط بھی نہیں کر تی۔ ظاہر ہے کہ یہ خصوصیات کم و بیش نئی غزل کے امتیازی عناصر سے جا ملتی ہیں، مزید بر آں یہ کہ فراقؔ کی شاعری میں تحیر، استعجاب، سرگوشی اور خود کلامی کے انداز کو نئی غزلوں میں نمایاں ہو کر سامنے آنے والے لہجوں سے ہم آہنگ کر کے دیکھا جائے تب ہی فراقؔ سے نئی غزل کے رشتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

دانشور، نقّاد:فراق گورکھپوری

 

                ………ڈاکٹر جمیل جالبی

 

 

معزز خواتین و حضرات! یہ ہم سب کے لئے انتہائی خوشی کا موقع ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جشن فراق گورکھپوری منایا جا رہا ہے۔ جس کا اہتمام ’’ارتقا ادبی فورم‘‘ اور ’’وعدہ‘‘ نے باہمی اشتراک سے کیا ہے۔ لمحہ موجود میں اس جشن کی معنویت اس لیے اور بڑھ جاتی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان اپنے تاریخی مخاصمانہ رویوں اور مختلف انداز نظر کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں غربت اور بھوک ختم ہو گی اور عوام خوش حالی کی طرف بڑھ سکیں گے۔ میں اس بروقت جشن منانے پر ارتقا ادبی فورم ’اور‘ وعدہ‘ کو دلی مبارکت باد دیتا ہوں۔

انتظار حسین صاحب جو لاہور سے چل کر اس جشن میں شرکت کے لیے کراچی آئے ہیں ہم سب کے شکریے کے مستحق ہیں۔ انتظار حسین اس تہذیب کے نمائندہ ہیں جو دلوں کو باہم جوڑ نے کا کام کرتی ہے۔ یہی کام دانشور نقاد و شاعر فراق گورکھپوری نے کیا تھا اور اردو زبان کو اتحاد باہمی اور محبت و انسانیت کاو سیلہ بنایا تھا۔ اردو زبان نے ہمیشہ دلوں کو جوڑنے اور اشتراک عمل کا کام کیا ہے۔ خواتین و حضرات آج میں اس دانشور نقاد کے بارے میں چند باتیں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔

شاعر فراق کی بات تو اکثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی لیکن دانشور نقاد فراق کی بات کم بلکہ بہت کم ہوتی ہے۔ جو کچھ فراق نے پڑھا جو کچھ فراق نے زندگی میں دیکھا جو کچھ فراق نے مطالعہ و مشاہدہ کے عمل سے گزرتے ہوئے سوچا اس اظہار انہوں نے نثر میں کیا ہے۔ یہی وہ خیالات و احساسات ہیں جنہوں نے ان کی شاعری کو بنیادیں فراہم کی ہیں۔ ان کے تخلیق عمل کو جہت دی ہے، ان کے شعور کو ترا شا خراشا اور ان کی شخصیت کو وہ بنایا ہے جو آج وہ ہمیں نظر آتی ہے۔

فراق گورکھپوری سے میں اس وقت متعارف ہوا جب 1945ء میں وہ میرٹھ آئے تھے اور محمد حسن عسکری، جو اس زمانے میں میرٹھ کالج میں انگریزی پڑھاتے تھے، انہیں لیکچر کے لیے کالج لائے تھے۔ میں اس زمانے میں تیسرے سال کا طالب علم تھا۔ انتظارحسین صاحب اس لیکچر میں موجود تھے۔ یہ خواب دیکھنے کا زمانہ تھا اور ادب کا چسکا ایسا لگا تھا کہ دنیا میں ادب کے علاوہ کوئی چیز کوئی بات اچھی نہیں لگتی تھی۔ اس دن فراق صاحب نے اردو شاعری کے بارے میں باتیں کیں اور ایسے دلچسپ و دلنشیں انداز میں کیں کہ ہم سب ان کے گرویدہ ہو گئے۔ فرمائش پر شعر بھی سنائے۔ شعر اس طرح پڑھے جیسے وہ ان پر ہی نہیں بلکہ ہم سب پر وارد ہو رہے ہیں۔ ٹیڑھی مانگ بھرا بھرا جسم واضح خو و خال شیروانی پہنے ہوئے۔ صحبت مندو توانا۔ دیکھنے میں بھی اچھے اور سننے میں بھی اچھے۔ پھر اس کے بعد انہیں غالباً 1950 ء میں کراچی کے ایک مشاعرے میں دیکھا۔ سلیم احمد اور میں ان سے ملنے گئے۔ عالم کیف و سرور میں تھے۔ کچھ اور لوگ بھی بیٹھے تھے۔ اس کے بعد پھر ان سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن ان کی غزلیں شاعری اور مضامین جب بھی اور جہاں بھی چھپتے، تلاش کر کے توجہ سے پڑھتا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ محمد حسن عسکری ان کے شاگرد بھی تھے اور شیدائی بھی۔ جب بھی کوئی نئی غزل یا تحریر چھپتی تو وہ خاص طور پر ذکر کرتے۔ 1945ء میں میں نے ان کی دو کتابیں خریدیں۔ ایک ’اندازے ‘ اور دوسری’اردو کی عشقیہ شاعری‘ ’روپ‘ ۱۹۴۷ء میں ہاتھ لگی اور کے بارے میں میں نے ایک مضمون فراق کی رباعیاں کے نام سے ۱۹۴۹ء لکھا جو آج بھی میرے پہلے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’تنقید اور تجربہ‘ میں شامل ہے۔ اس زمانے میں حسن عسکری میرے لیے ادب اور ادیب کا مثالی نمونہ تھے اور فراق گورکھپوری، عسکری صاحب کے لیے ایک بڑے شاعر بڑے دانشور اور بڑے نقاد کا درجہ رکھتے تھے۔انہوں نے ساقی دہلی کے دسمبر 1944ء کے مشاعرے میں ’اندازے ‘ کے بارے میں اور دسمبر 1945ء میں ’اردو کی عشقیہ شاعری‘ کے بارے میں اپنے کالم ’جھلکیاں ‘ میں کچھ اس طور پر ان دونوں کتابوں کا تعارف کرایا تھا کہ میں مسحور ہو گیا تھا اور آج تک وہ اثر اسی طرح تازہ ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان سے جو الہ آباد جاتا اور فراق سے مل کر آتا تو میں اس سے ملنے ضرور جاتا۔ عسکری صاحب سے بھی کچھ خبریں مل جاتی تھی۔ مجتبیٰ حسین مرحوم نے بھی فراق کے ہوش ربا قصے سنائے۔ آخری بار ان کے بارے میں مختار زمن صاحب سے معلوم ہوا جو 1977ء میں الہ آباد میں ان سے مل کر آئے تھے۔ اس وقت فراق صاحب گٹھیا کے مرض میں مبتلا تھے، ریڑھ کی ہڈی میں سخت تکلیف تھی اور پروسٹیٹ کی بیماری بھی شدید تھی۔ وہ تولیہ ڈالے برہنہ بیٹھے رہتے۔ پیڑ ۓیڑھے ہو جانے کی وجہ سے پاجامہ پہننا دشوار ہو گیا تھا ۱؎جنوری 1978ء میں عسکری صاحب مر گئے اور اب فراق صاحب کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا صدر دروازہ بھی بند ہو گیا۔ رسائل و جرائد اور کتابوں کی آر جار پہلے سے بند تھی۔

فراق صاحب کے بارے میں یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اردو انگریزی اور ہندی میں لکھتے تھے۔ ان کے اظہار کی بنیادی زبان اردو تھی اور انگریزی و ہندی میں وہ عام طور پر اردو ادب و شاعری کے بارے ہی میں مضامین لکھتے تھے۔ انہوں نے افسانے بھی لکھے ۲؎ اردو تنقیدی مضامین بھی۔ تقریباً ایک ہزار صفحوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ جو بہت سے رسالوں میں محفوظ تھا دیمک کی نذر ہو گیا۔ ۳؎ ان کے علاوہ وہ انٹر ویو ہیں جو مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے وہ مضامین ہیں جو اردو زبان کے حال و مستقبل کے بارے میں انہوں نے لکھے اور وہ تقریریں ہیں جو فراق نے مختلف جلسوں میں یا ریڈیو سے نشر کیں۔ اب جب کہ فراق ہمارے درمیان نہیں ہیں ان کی ساری تحریروں، تقریروں، گفتگوؤں کو یکجا مرتب و شائع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فراق کا بحیثیت مجموعی جائزہ لے کر اردو ادب کی تاریخ میں ان کا مقام متعین کیا جا سکے۔ یہ کام ہندوستان میں ہی ہو سکتا ہے اور جتنی جلد ہو جائے اتنا اچھا ہے ورنہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کو جمع کرنا مشکل ہوتا جائے گا۔

فراق مغضوب الغضب انسان تھے اور اسی لیے انہوں نے بے شمار لوگوں کو ناراض کیا تھا۔ ان کے زخم خوردہ لوگ ابھی زندہ ہیں۔ وہ بھی جنہوں نے ان کی گندگیوں اور ان کے کردار کو ناپسند کیا تھا۔ وہ لوگ بھی جو انہیں بڑا شاعر اور بڑا دانشور سمجھ کر آئے تھے اور رنجیدہ و کبیدہ خاطر ہو کر لوٹے تھے۔ فراق جیسا کہ انہوں نے خود لکھا ہے ’’جھک مار نیاز مندی‘‘ ۴؎ اور ’’روحانی ضعف، باہ ۵؎ کے قائل نہیں تھے۔ ان کا ظاہر و باطن ایک تھا اسی لیے شاعر و دانشوروں کی ناز برادری نہ کرنے والا معاشرہ ان سے ناراض ہو جاتا تھا۔ فراق چونکہ ہندوستان میں تھے اور پاکستان میں ان کی آرجار بہت کم تھی اس لیے ہندوستان میں وہ تنازع شخصیت کے حامل تھے جب کہ پاکستان میں ان کے مداحوں پرستاروں اور شاگردوں کی کثیر تعداد موجود تھی اور ان کی ہر بات دل چسپی سے سنی جاتی تھی۔ محمد حسن عسکری نے پاکستان میں فراق کو نئی نسل کے فکر و شعور کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب ہمیں فراق کو صرف ان کی تحریروں کے حوالے سے دیکھنا چاہیے۔ اب وہ آپ کو مجھے ناراض نہیں کریں گے۔ صرف لفظ باقی رہ گئے ہیں اور یہی وہ اصل اثاثہ ہے جو فراق نے ہماری اور آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑا ہے۔

غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری (28؍اگست1896ء ۶؎ 22؍فروری1982ء) اردو ادب کی روایت کے بڑے دھارے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد عبرت گورکھپوری بھی شاعری تھے اور ان کے چچا بھی۔ اردو زبان ادب و شاعری ان کے خاندانی ماحول کا حصہ اور ان کا ورثہ تھے۔ فراق نے ایک جگہ لکھا ہے :

’’شعر میری زندگی ہے اور اردو اس کا ذریعہ۔ اس طرح اردو میری زندگی ٹھہری‘‘ ۷؎

مزاجاً جذباتی اور جبلی طور پر حسن پرست ۸؎ محبت و نفرت کی غیر معمولی شدت ان کے اندر موجو د تھی ۹؎ سترہ برس کی عمر میں شادی ہوئی جس نے جیسا کہ انہوں نے خود لکھا ہے، ان کی زندگی کو ایک زندہ موت بنا کر رکھ دیا۔ ‘‘ ۱۰ ؎ اور ان کا ’’وجود غصہ اور نفرت کا ایک پکا پھوڑا بن کر رہ گیا۔ ‘‘ ۱۱؎ ان کی بیوی نے بتایا کہ : ’’جب شادی کے بعد میں سسرال آئی تو پتہ چلا کہ جو لڑکی شادی سے پہلے دکھائی گئی تھی وہ میں نہیں ہوں ‘‘ ۱۲؎

بی اے کا نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی ان کے والد منشی گورکھ پر شاد عبرت جو شہر کے سب سے بڑے وکیل تھے، وفات پا گئے اور ایک کچی گرہستی کے تمام مسائل ان کے سر پر آ گئے۔ ۱۳؎ پی سی ایس میں جو انتخاب ہوا تھا اس سے بھی استعفادے دیا۔ ۱۴؎ آزادی کی تحریک میں ڈیڑھ برس تک قید فرنگ جھیلی۔ ۱۵؎ فراق نے لکھا ہے کہ:

’’ان کی تکلیف دہ اور کرب آگیں حالات میں شاعری شروع کی اور کوشش کی کہ اپنی ناکامیوں اور زخمی خلوص کے لیے اشعار کے ذریعے مرہم فراہم کروں ‘‘ ۱۶؎

’’ان کو یا تو زندگی کے محرکات، حسن و عشق و شاعری سے دلچسپی تھی یا تمام علوم و فنون سے، تمام انسانی کلچر سے، اور اپنے وطن کی بد نصیبی اور غلامی کی زنجیریں توڑ نے کی کوشش سے۔ ‘‘۱۷؎ یہی وسیع دلچسپیاں ان کی نثری تحریروں، ان کے خطوط، ان کے انٹرویو اور ان کی تنقید میں نظر آتی ہیں اور انہیں دلچسپیوں نے ان کی شاعری کو وہ بنایا جو وہ ہیں۔ ان کے حالات سے ان کے مزاج میں ایک ایسی شدت پیدا ہو گئی جس نے ساری عمر انھیں تنہا رکھا۔ جو وہ کہتے اس پر دوسروں کو عمل کرنے پر مجبور کرتے۔ اپنی بات پر اڑنا اور اڑے رہنا ان کا مزاج بن گیا۔ ۱۹۵۸ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئے تو کرانے کی دکان کھول لی۔ جو پونجی تھی اس کا ایک حصہ اس میں ڈوب گیا۔ اشاعت گھر کھولا تووہ بھی نہیں چلا۔ مرغیاں پالیں تو حکم دیا کہ دوا میں تھوڑی سی شراب ملا دی جائے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ مرغیاں اور جلد مرنے لگیں۔ جب کوئی مرغی مرتی تو فراق کچھ دیر کے لیے اداس ہو جاتے اور موت کا فلسفہ بیان کرنے لگتے۔ ۱۸؎ مزاج کی اسی شدت کی وجہ سے وہ ایک دنیا کو اپنا دشمن بنائے ہوئے تھے۔ اگر کسی لفظ کا تلفظ غلط ہو جاتا تو پارہ چڑھ جاتا۔ وہ بنگالی ڈاکٹر جو حالت بیماری میں ان کے گٹھیا زدہ پیروں کو ورزش کرانے آتا تھا اسے ایک دن کسی انگریزی لفظ کے غلط تلفظ پر یہ کہہ کر نکال دیا کہ کل سے آپ یہاں نہیں آئیں گے۔ میرا پیر چاہے ٹھیک ہو یا نہ ہو مجھے ساری تکلیفیں برداشت ہیں مگر غلط تلفظ میں برداشت نہیں کر سکتا۔ بڑی تکلیف ہوتی ہے صاحب۔ ۱۹؎ رمیش چندر دویدی کی بیٹی بیمار ہوئی تو جو بھی ملنے آتا اس کے لیے دوا ضرور پوچھتے۔ ایک دن کہنے لگے کہ ’’ رمیش ایک گدھا خریدنا ہے۔ ذرا پتہ کرنا کہاں ملے گا۔ ‘‘وہ شاعر بھی اور حکیم بھی۔ انہوں نے بتایا کہ گدھے کا دودھ بہت فائدہ کرے گا۔ رمیش کو ہنسی آ گئی تو فراق بگڑ کر بولے ’’صاحب! آپ مذاق سمجھتے ہیں اور یہاں بچی کی موت اور زندگی کا معاملہ ہے۔ ۲۰ ؎ یہ تھا وہ مزاج جس سے فراق نے زندگی بسر کی۔ دوستوں کو ناراض کیا۔ مداحوں کو دور کیا اور خود بھی ساری عمر تکلیفیں اٹھاتے رہے۔ تخلیقی انسان شاید یہی کرتا ہے اور یہی فراق نے کیا۔

تنقید دانشوری کی روایت کا وہ بڑا دھارا ہے جس میں ایک طرف سارے سماجی علوم ادبیات اور فنون آ کر مل جاتے ہیں اور دوسری طرف کلچر کی رنگارنگی اس میں تنوع پیدا کر دیتی ہے۔ اگر فراق کی نثری تحریروں کو اس زاویۂ نظر سے دیکھا جائے تو فراق کی شخصیت اس دور کے ادب پرچھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان کا بنیادی حوالہ یقیناً ادب ہے اور اسی حوالے سے انہوں نے بنیادی مسائل پر اظہار خیال کیا ہے۔ وہ بنیادی مسائل جن سے بڑا اور زندہ ادب تخلیق ہوتا ہے۔ وہ مسائل جن سے زندگی کو آگے بڑھانے والا کلچر وجود میں آتا ہے۔ فراق کے بارے میں حسن عسکری نے لکھا ہے کہ:

’’ہماری شاعری کے تنقیدی شعور کو فراق نے پہلی مرتبہ زبان دی ہے۔ ‘‘ ۱۲؎

زبان دینے سے مراد یہ ہے کہ اردو شاعری کے بارے میں وہ خیالات اور زاویے جو نئی تعلیم یافتہ نسل کے ذہن میں مبہم طور پر موجود تھے۔ فراق نے انہیں شاعروں کا مطالعہ کرتے ہوئے اس طور پر بیان کیا کہ نئی نسل کا شعور روشن ہو گیا۔ ان کی تنقیدی تحریریں پڑھ کر ذہن کو وہ تخلیقی آسود گی ملتی ہے کہ وہ شاعر اور وہ خیالات ادبی روایات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جو تنقید کو تخلیق بنا دیتا ہے اور یہی وہ تنقید ہے جسے خود فراق ’’خلاقانہ تنقید‘ زندہ تنقید یا تاثراتی تنقید‘‘ ۲۲؎ کہتے ہیں۔ تاثرانہ یا تاثراتی تنقید کلام شاعر کے بارے میں صرف تاثرات بیان کرنے کا نام نہیں ہے۔ تاثرات تو کسی نہ کسی صورت میں ہر قسم کی تنقید میں ضرور ہوتے ہیں۔ مطالعۂ ادب میں تاثرات کو پوری طرح نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ آپ شاعری اور تہذیبی اقدار کے تعلق سے کسی شاعر اور اس کی شاعری کو عہد حاضر کے حوالے سے کیسے دریافت کرتے ہیں۔ تنقیدی یا جمالیاتی شعور تو اسلاف شعراء کے اندر موجود تھا ورنہ جیسا کہ خود فراق نے لکھا ہے کہ ’’ان کی شاعری اس قابل ہوتی ہی نہیں کہ جدید تنقید نگاروں کو ان میں اتنے محاسن نظر آ سکیں ور ان کے کلام سے اتنے نکات نکل سکیں۔ ‘‘ ۳۳؎ فراق نے یہی کیا اور اس تنقیدی شعور کو زبان دے کر اردو تنقید اور ادب کی نئی روایت کا حصہ بنا دیا۔ فراق کی تحریروں نے گزشتہ ساٹھ پینسٹھ سال کی ادبی فضا تنقیدی شعور اور مذاق دانش وری کو بنایا سنوارا ہے اور ادب کے تعلق سے نئے نئے سوالات اٹھائے ہیں۔ وہ پہلے دانشور ہیں جس نے ادب کے تعلق سے کلچر کے مسئلے کو اسی طرح میتھیو آرنلڈ اور ٹی ایس ایلیٹ نے اٹھایا تھا اور اس طرح فراق میری روایت کا حصہ ہیں۔

آرنلڈ اور ایلیٹ سے فراق کا مزاجی رشتہ اس لیے بھی واضح ہے کہ فراق بھی آرنلڈ اور ایلیٹ کی طرح بنیادی طور پر شاعر تھے اور تنقیدی تحریروں کے ذریعے اپنے مزاج و رنگ شاعری کو آگے بڑھانا چاہتے تھے تاکہ جو کچھ وہ شاعری میں کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے فضا ساز گار ہو سکے۔ اسی لیے اکثر وہ اپنی شاعرانہ آرزوؤں اور شاعرانہ تخلیقات کے درمیان فاصلے کو ناپتے اور متعین کرتے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے فراق نے جو پرانی اور نئی شاعری کا مطالعہ کیا اور اس مطالعہ سے خود اپنی شاعری کا جو رنگ بنایا اسے اپنی تنقیدوں سے مزید اجاگر اور عام کرنے کا کام لیا۔ اس سے ایک ساتھ دو پہلو سامنے آئے۔ ایک یہ کہ ان کی تنقیدوں سے وہ رنگ وہ شعور اور جمالیاتی قدریں سامنے آئیں جنہیں فراق اپنی شاعری میں پیش کر رہے تھے اور دوسرے قدیم شعراء کا وہ رنگ سخن بھی ان کے خلاقانہ تنقیدی شعور سے جھلکنے لگا جواب تک ان اصطلاحات میں بند تھا جنہیں پرانے شعراء شاعری کی تحسین یا تنقیص کے لیے استعمال کرتے تھے۔ فراق نے اپنی تنقیدی میں شاعری اور روایت کے تعلق سے بنیادی سوالات اٹھائے اور نئی تنقیدی زبان میں ان شعراء کے کلام کے مطالعے سے ان کی وضاحت کی۔ میتھیو آرنلڈ نے زیر مطالعہ شاعر کی اپنی تنقیدوں میں اس طرح تشکیل نو کی کہ وہ شاعر اور اس کی شاعری دور حاضر کے حوالے سے با معنی نظر آنے لگے۔ فراق نے بھی اردو تنقید میں یہی کام کیا۔ اس کی سب سے کامیاب مثال مصحفیؔ کی منفرد آواز ہمارے باطن میں اتر جاتی ہے۔ حالیؔ اور ذوقؔ کے مطالعے میں بھی یہی صورت نظر آتی ہے۔ اس عمل سے انہوں نے ہمارے گونگے شعور کو زبان دے کر اردو تنقید کو بولنا سکھادیا۔ اردو تنقید میں دانشوری کی یہی وہ روایت ہے جس کے ترجمان فراق گورکھپوری ہیں۔

آرنلڈ نے کہا تھا کہ شاعری اور مذہب اس وسیع تر اکائی کی شاخیں ہیں جسے کلچر کہا جاتا ہے، جو ان مروجہ خیالات و اقدار کے مجموعے کا نام ہے جس کے اندر کوئی معاشرہ رہتا اور زندگی بسر کرتا ہے۔ ۲۴؎ فراق نے لکھا کہ:

’’دنیا میں جو دور آ رہا ہے وہ محض سیاسی یا معاشی جمہوریت کا دور نہیں ہے بلکہ تمدن اور تہذیب یعنی کلچر کی جمہوریت کا دور ہے ‘‘ ۲۵؎

ایلیٹ کی تنقیدی تحریروں میں اس کے مخصوص تخلیقی رویوں اور اقدار کا اظہار ملتا ہے۔ وہ شاعری کی قدر و اہمیت کا تعاون تو کرتا ہے لیکن اس کی تنقید میں سوانحی حصہ نہیں ہوتا۔ تنقید میں ایلیٹ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ:

’’دیانت دارانہ تنقید اور حساس توصیف شاعر پر نہیں بلکہ شاعری پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ ‘‘

ایلیٹ کسی دور یا شاعر کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک طرف اپنے قارئین کے مذاق سخن کو سنوارتا ہے اور اس رنگ سخن کو ابھارتا ہے جس میں وہ خود شاعری کر رہا ہے تاکہ قارئین اسی سطح پر اس کی شاعری کو بھی قبول کر سکیں۔ مابعد الطبعیاتی شاعری کا مطالعہ اسی ذیل میں آتا ہے۔ صف دوم کے شعراء کی اہمیت بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ آرنلڈ اور ایلیٹ دونوں بڑے شاعروں کے جادو کو توڑتے ہیں مثلاً ایلیٹ تینی سن اور سوئن برن کو تو اہمیت دیتا ہے لیکن شبلی اور کیٹس کو اہمیت نہیں دیتا۔ فراق بھی محدود طور پر اسی تنقیدی روش کو اختیار کرتے ہیں۔ وہ ایک طرف مثال میں اپنے اشعار پیش کرتے ہیں تاکہ زیر مطالعہ شاعر کے ساتھ ان کے رنگ سخن کی انفرادیت واضح ہوتی جائے دوسرے ان رنگوں کو مسترد کرتے جاتے ہیں جو خود ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اقبال کی شاعری بھی ان کے لیے اسی ذیل میں آتی ہے۔ فراق کہتے ہیں کہ حالی کے بر خلاف اقبال کے ہاں بلند تفکر یا فلسفیانہ دماغ تو ملتا ہے لیکن بد نصیبی سے جنگجوئی کا جذبہ بھی ان کے یہاں ملتا ہے اور طاقت یا قوت خواہ کسی طرح کی بھی ہو اس کے لیے ایک اندھی پرستش بھی اقبال کے ہاں ملتی ہے۔ جنگیں جیتنے ملکوں کو فتح کرنے اور ان پر اسلامی حکومتیں قائم کر دینے کو اقبال بڑی اہمیت دیتے ہیں ایک سنگین کرختگی مزاج کا اثر ان کا کلام پڑھ کرنا گزیر ہو جاتا ہے۔ ۲۶؎ یہ وہ عمل ہے جو بڑی آوازوں کو سفا کی کے ساتھ دبانے کے لیے اپنے پہلے مضمون میں ایلیٹ نے ملٹن کے ساتھ کیا تھا اور یہی وہ عمل ہے جو فراق نے اپنے دور کی غالب آواز یعنی اقبال کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایلیٹ کی طرح وہ بھی صف دوم کے شعراء کی اہمیت واضح کرتے ہیں۔ آرنلڈ اور ایلیٹ کی طرح ان کی تنقیدی و دانشورانہ تحریر یا گفتگو شاعر کی حیثیت میں ان کی مدد کرتی ہیں اور ان کے اس مقصد کو آگے بڑھاتی ہیں۔

آئی رے رچرڈس کا اثر بھی فراق کی تنقید میں ’متن اور نفسیاتی پہلو کے مطالعے میں نظر آتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ فراق کے ہاں دوران مطالعہ شاعر پوری طرح زندہ باقی رہتا ہے، تنقید پڑھتے ہوئے ہم اس کے اچھوتے پہلوؤں سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں جبکہ رچرڈس ایف آرلیوس کے اثرات بھی فراق کے ہاں ملتے ہیں بالخصوص ان حصوں میں جہاں وہ اشعار کے متن کا مطالعہ ہیئت اور تکنیک کے لحاظ سے کرتے ہیں۔ رچرڈس اور لیوس کے ملے جلے اثرات ان کے ان دو مضامین کے دوسرے حصوں میں خاص طور پر نمایاں ہیں جو انہوں نے فراق اور حالی کے بارے میں لکھے ہیں اور جہاں ذوق و حالی کی غزلوں کا فنی و تاثراتی تجزیہ کیا گیا ہے۔ ۲۷؎ فراق نے یہ اثرات تو قبول کیے ہیں لیکن اپنی تنقید میں کسی ایک دبستان کے ہو کر نہیں رہ گئے بلکہ حسب ضرورت ہر ایک سے استفادہ کیا ہے اسی لیے یہ سب اثرات ان کے ہاں گھل مل گئے ہیں۔ یہی امتزاج ان کی تنقیدی فکر کی خصوصیت ہے اور یہی امتزاج آج کی اردو تنقید کی ضرورت ہے۔

شاعروں کے بارے میں فراق کی تنقیدوں کو پڑھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ شاعر اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ آپ کے سامنے آ گیا ہے اور اب آپ اس کی شاعری سے پہلے سے کہیں زیادہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ فراق کا انداز نظر ان کی باتیں آپ کے اندر آسودگی پیدا کرتی ہیں بہت سے مسائل اور سوالات جو آپ کے ذہن میں موجود نہیں تھے اور اگر تھے بھی تو پوری طرح واضح نہیں تھے فراق کی تنقید پڑھ کر واضح اور صاف ہو جاتے ہیں۔ اس طرح اس شاعر کی نہ صرف انفرادیت آپ کے سامنے آ جاتی ہے بلکہ دوسرے شعراء سے اس کا تقابل بھی واضح ہو جاتا ہے۔ زندگی اور عہد حاضر کے حوالے سے اقدار اور شعور کی گر ہیں کھل جاتی ہیں اور ذہن سوچنے لگتا ہے۔ عہد حاضر شاعر اور فراق سب یکجا ہو کر آپ کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ مثالوں کی کثرت سے کلام کا بہترین انتخاب آپ کے مطالعہ میں آ جاتا ہے۔ پھر وہ ان کیفیات اور محسوسات کو جو دوران مطالعہ ان پر مرتسم ہوئے شعر کی طرح انہیں بیان کرنے کی کوشش میں نئے الفاظ فقرے اور مرکبات تلاش اور وضع کرتے ہیں تاکہ اپنے تاثرات، مشاہدات اور تجربات کو قاری تک پہنچا سکیں۔ وہ اپنی تنقید کے ذریعے ان تجربوں سے جن سے وہ دوران مطالعہ دو چار ہوئے وہ شاعر اور اس کی تخلیقات جس جس طرح سے اور جس جس موقع پر ان کی زندگی کے باطنی تجربات کا حصہ بنے جس جس طرح سے ان کے اندر جمالیاتی قدروں کو اجاگر کیا ان سب کو وہ پر اثر طریقے سے بیان کر دیتے ہیں اوراسی کوشش اور عمل کو وہ زندہ یا خلاقانہ تنقید کہتے ہیں۔ اس خلاقانہ تنقید میں وہ ان تجربوں کو جن سے وہ دوران مطالعہ گزرے اور اس فرق کو جو ایک شاعر اور دوسرے شاعر کے درمیان انہوں نے محسوس کیا اور وہ باطنی واردات جو ان پر ظاہر ہوئیں۔ جب وہ بیان کرتے ہیں تو ان کا تنقیدی انداز فطری طور پر از خود شاعرانہ ہو جاتا ہے اور قاری کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے جیسے :

’’میر کا سوز و ساز ایک نرم اور معتدل شکل میں مصحفی کے ہاں موجود ہے اور یہ نرمی و اعتدال ایک منفی صفت نہیں ہے بلکہ ایک اثباتی صفت ہے۔ پھر دلی میں مصحفی تنہا وہ شخص ہے جس کی طبیعت کو سودا کے رنگ طبیعت سے خاص مناسبت تھی وہ شگفتگی و رنگینی وہ البیلا پن اور رسیلا پن وہ سج دھج وہ نشاط و سرمستی جو سودا کی خصوصیتیں تھیں یہی صفات بیک وقت کچھ نرم ہو کر نکھر کر اور زیادہ سبک رفتار ہو کر مصحفی کی رچی ہوئی اور سنواری ہوئی شاعری میں جلوہ گر ہیں، اگر ہم اس مرکزی و مستقل خصوصیات کو بیان کر دینا چاہیں جو میر و سودا کے مختلف اندازوں کو اڑاتے ہوئے بھی مصحفی کے وجدان و کلام میں جاری و ساری ہے تو اس کو ہم ایک رچا ہوا اعتدال کہہ سکتے ہیں یا ایک تحت الغنائی کیفیت اگر میر کے یہاں آفتاب نصف النہاری کی پگھلا دینے والی آنچ ہے تو سودا کے یہاں اس کی عالم گیر روشنی ہے۔ لیکن آفتاب ڈھل جانے پر سہ پہر کو گرمی اور روشنی میں جو اعتدال پیدا ہو جاتا ہے اور اس گرمی اور روشنی کے ایک نئے امتزاج سے جو معتدل کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ مصحفی کے کلام کی خصوصیات ہے ‘‘۔ ۲۸؎

اس شاعرانہ انداز سے بھی شاعر و شاعری کی انفرادیت اس طرح واضح ہوتی ہے جس طرح دھنک میں سات رنگ الگ الگ نظر آتے ہیں۔ یہی خلاقانہ تنقید ہے جسے فراق تاثرانہ تنقید بھی کہتے ہیں۔ اس اسلوب کی لفظیات بھی نئی ہے۔ انگریزی زبان کے تنقیدی الفاظ و اصطلاحات کے ترجمے بھی نئے ہیں، تراکیب و مرکب الفاظ بھی نئے ہیں مثلاً اوپر کے اقتباس میں استعمال ہونے والے الفاظ و اصطلاحات کے علاوہ فراق کی تحریروں میں وجدان شعری مزاج، شخصیت، وجدانی شعور، ہمہ گیر تخیل، شگفتگی نشاط، شاعرانہ خلوص، کم سخن سنجیدگی، ماورائی سادگی و معصومیت، انفرادی خلاقی، غم آمیز یا نشاط آمیز وجدان، نئی جاذبیت، شاعرانہ انداز احساس، نظم کائنات، خوشگوار آسودگی وغیرہ وغیرہ وہ الفاظ ہیں جو ہمیں ملتے ہیں اور آج کی اردو تنقید میں یہ اور ایسے بہت سے الفاظ عام طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ فراق کی تنقید نے اردو ادب کو تنقیدی زبان، تنقیدی اسلوب اور تنقیدی شعور دیا۔ ہمارے انداز تنقید کو پرانی دنیا سے نکال کر جدید دور میں داخل کر دیا اور آج یہ ایک اہم اور باقاعدہ صنف ادب بن گئی ہے۔

’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ (۱۹۴۵ء) میں فراق نے ایک مخصوص موضوع کو پیش کیا ہے۔ ساخت اور ہیئت کے اعتبار سے فراق کے دوسرے تنقیدی مضامین کی طرح اس میں بھی ڈھیلا پن موجود ہے لیکن وہ بنیادی سوال جو اس میں اٹھائے گئے ہیں پہلی بار سامنے آئے ہیں۔ فراق نے غزل کے بارے میں اس رائے کو کہ ’’اس میں شریفانہ جذبات محبت کے بدلے رکیک، پست اور بے غیرت جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ دانشورانہ سطح پر رد کر کے اس سارے مسئلے کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ سپردگی غزل کی جان ہے محویت غزل کا ایمان ہے۔ ۲۹؎ یہاں عشقیہ شاعری کا تصور بدل کر ایک نیا ارفع تصور سامنے آتا ہے ہم اسے سچی عشقیہ شاعری نہیں کہتے جو ہمیں مٹا کر رکھ دے یا جو محبت و زندگی کے لیے حوصلہ شکن ہو ہم اسے حقیقی شاعری کہتے ہیں جو ہماری رگوں میں خون دوڑا دے اور ہماری زندگی کو بھر پور بنا دے۔ ۳. ؎ اس کتاب میں فکر و شعور کلچر اور زبان و ادب سے متعلق وہ سوالات اٹھائے گئے ہیں اس وقت بھی اہل ادب کی توجہ کے منتظر تھے اور آج بھی ہیں مثلاً:

’’ہندوستان میں اسلامی کلچر اور خود مغرب کے غیر اسلامی کلچر کو بھی اتنا اور ایسا زمانہ نہیں ملا جتنا اور جیسا زمانہ ہندوستان کے کلچر کو مل چکا ہے اور بغیر اس کلچر کے وجود اور احساس وجود حسن و عشق اور احساس حسن و عشق میں اس ہم آہنگی اس شانتی کا احساس پیدا نہیں ہو سکتا۔ سادگی و پرکاری خیرو برکت اور سلامتی کا وہ مانوس انداز اور وہ رس جسے ہم آب حیات یا امرت کہیں پیدا نہیں ہو سکتا جو سنسکرت ادب اور سنسکرت کلچر کو نصیب ہے۔ ‘‘ ۱۳؎

یہ بات کہہ کر وہ اپنی ان رباعیات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں جو بعد میں ’’روپ‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں اور جن میں سنسکرتی کلچر کو بقول فراق اردو میں پہلی بار پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تعلق سے وہ ایک اور مسئلے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں۔ فراق کہتے ہیں :

’’اردو زبان ہندومسلمانوں کی مشترکہ زبان ضروری ہے لیکن اردو ادب اس وقت صحیح معنوں میں ہندو مسلمانوں کا مشترکہ ادب ہو گا جب اردو لغت اور اردو میں کافی تعداد سنسکرت فقروں اور ٹکڑوں بلکہ کبھی سنسکرت ترکیبوں کی بھی سلیقے سے جوڑ لی جائے …سنسکرت الفاظ میں ایک مخصوص زندگی ہے اور ہندوستان کی روح ان الفاظ میں جاری وساری ہے۔ سنسکرت کے ہزاروں ایسے الفاظ ہیں جو اصلی روپ میں اگر اردو میں فارسی عربی اور ہندی کے ٹھیٹھ الفاظ کے ساتھ شامل کر لیے جائیں تو اردو زبان کی صوتیات میں نئی نئی تھر تھراہٹیں پیدا ہو جائیں گی۔ اردو کے ساز نغمہ میں نئے پردے لگ جائیں گے … اور تمام ہندی دنیا اور ہندو دنیا اردو کی طرف ٹوٹ پڑے گی‘‘ ۳۲؎

یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کا تجربہ اردو شاعروں اور ادبیوں کو ضرور کرنا چاہیے۔ میر نے احساس و جذبہ اور بحور کی سطح پر ہندوستانیت کا یہ تجربہ اپنی شاعری میں کیا تھا اور اسی ہندوستان کی روح کو تخلیقی سطح پر دریافت کر کے اسے ایک ایسی آفاقی صورت دی جس میں ہندوی تہذیب اور مسلم تہذیب کی روح ایک دوسرے میں جذب ہو کر ایک ایسی نئی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے جو ہندوستانی روح کی مہذب عالم گیر اور مثالی صورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تہذیبی و سماجی سطح پر میر نے ایک ایسی عالمگیر مشترک زبان اور ایک خالص ہندوستانی لہجہ بھی دیا ہے جس میں گنوارپن کے بجائے شائستگی، گھلاوٹ، نرمی اور مٹھاس ہے اور جس کا براہ راست رشتہ بیک وقت عوام و خواص دونوں سے گہرا اور قائم ہے۔ میر کی شاعری کی روح میر کی شاعری کی زبان میر کی شاعری کا لہجہ جدید ہندوستانی تہذیب کی خالص اور واحد صورت ہے۔ یہ پہاڑ جیسا کام جدید ہندوستان کی کسی زبان کے کسی شاعر نے اس طور پر انجام نہیں دیا۔ یہی وہ سطح اور صورت ہے جس میں ہندوستانی تہذیب کے ایک وحدت ایک اکائی بننے کے سارے امکانات موجود ہیں۔ ‘‘۳۳؎

فراق کی تنقیدی کی ایک اور بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دو رنگوں دو چیزوں دو قدروں اور دو احساسات کے فرق کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہا س فرق کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ دلی اور لکھنؤ کی زبان کے فرق کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’آرزو لکھنوی کی خالص اردو تو غیر خالص اردو سے بھی زیادہ پر تکلف ہے۔ فارسی الفاظ نکال دینے سے کیا ہوتا ہے۔ زبان کی سادگی میں بھی دلی اسکول اور لکھنو اسکول میں بنیادی فرق ہے۔ دونوں کے یہاں سادگی کی روحیں بدلی ہوئی ہیں۔ دلی کی سادگی پر کار ہے، لکھنؤ کی طرار۔ دلی کی سادہ بولی میں بناؤ ہے لکھنؤ کی سادہ بولی میں بناوٹ ہے ‘ ۳۴؎

حالی کی شاعری پر بحث کرتے ہوئے لکھنؤ کے مذاق سخن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

’’لکھنؤ کے مذاق نے شاعری کی جو بھی خدمتیں کی ہوں لیکن یہ واقعہ ہے کہ اس نے شعر فہمی کو عجیب چیز بنا دیا۔ جرأت اور مصحفی کے زمانے تک لکھنؤ میں جو کچھ بھی ہوا ہو لیکن نا سخ کے بعد سے آتش، انیس، امانت اور امیر مینائی اور ان کے بعد چکبست بھی اپنے تمام اختلافات کے با وجود لکھنؤ اسکول کی وہ عام اور خاص صفت رکھتے ہیں جہاں ایک بات بھی بے تکلف نہیں ہوتی جہاں الفاظ معنی پر حاوی ہوتے ہیں یا جہاں معنی زیادہ سے زیادہ الفاظ کے لغوی مفہوم تک محدود رہتا ہے الفاظ سے آگے کبھی نہیں بڑھتا…اس شاعری میں الفاظ و معافی تو صاف نظر آتے ہیں لیکن ان کی تہوں کا احساس نہیں ہوتا نہ ان کی پرچھائیاں دکھائی دیتی ہیں۔ لکھنؤ اسکول کی مضمون آفرینی میں اگر غور کرو تو ایک نہایت مجہول معذور بے بس قابل رحم سادگی ہے … اس میں ’پرکار و جریب‘ کی سی پیمائش ہے۔ اس میں صنعت تمثیل و تشبیہ ہے۔ لیکن وہ چیز نہیں ہے جسے واقعی تغزل کہہ سکیں اور اسی لیے لکھنؤ حالی کی شاعری کو نہ پہچان سکا‘‘۔ ۳۵؎

فراق کی تنقیدی فکر میں ایک طرف بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ملتی ہے اور دوسری طرف اس کا رشتہ کلچر اور سماج سے ملا کر وہ روایت دانشوری کو ٹھوس بنیادیں فراہم کر دیتے ہیں۔ دانشوری کی اس روایت نے فراق کی وسیع ذہنی دلچسپیوں کے ساتھ مل کر ان کی تنقید کو حیات آفریں تازگی اور حیات و کائنات کے بنیادی مسائل تک رسائی بخشی ہے۔ یہ روایت ان کے انٹرویو میں، ان کے خطوط میں، ان کی گفتگو میں، ان کی تقریروں میں ہر جگہ ملتی ہے اور یہی وجہ قوت ہے جس نے ان کی تنقید کو توانائی دی ہے۔ ’’من آنم‘‘ میں یہ روایت اور کھل کر سامنے آئی ہے۔ پانچویں دہائی میں جب پاکستان میں اسلامی ادب کی بحث چھڑی تو فراق نے کھل کر اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا۔ فراق نے لکھا کہ:

’’اسلامی ادب کے فقرے میں لفظ اسلامی کو ایک ایسا معجزہ سمجھا گیا ہے جو نسلی و مقامی یا جنم بھومی کی خصوصیتوں کو مٹا کر رنگا رنگ زندگی ایک رنگ میں رنگ دے گا‘‘۔ ۳۶؎ ’’بڑا ادب کسی قوم کے اپنی کھال میں مست رہنے کا ادب نہیں ہوتا۔ اس میں آفاقیت و مقامیت کا سنگم ہوتا ہے ‘‘۔ ۳۷

’’اردو غزل گوئی‘‘ ۳۸؎ میں فراق نے ماہنامہ ’’کلیم‘‘ میں غزل کے خلاف لکھے جانے والے مضمون کا جس مدلل اور دانشورانہ انداز میں جواب دیا ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ادب کا ایک مزاج دان عالم و مفکر غزل کے اسرار ور موز کی تہیں کھول کر اس طور پر دکھا رہا ہے کہ غزل کی وسعتیں اور وہ پہلو جو نظروں سے پوشیدہ تھے کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ اس بحث نے غزل کے احیاء میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی دانشورانہ انداز نظر سے فراق نے تنقید کو سلیقہ عطا کیا ہے اور تنقید کے رشتے زندگی اور کائنات کے بنیادی مسائل سے قائم کر دیئے ہیں۔ فراق کا نقطۂ نظریہ ہے کہ حقیقی شاعری اس شاعری کا نام ہے جو عظمت حیات و کائنات کا احساس کرائے جو دنیا کو اتنی بڑی محسوس کرائے جتنی بڑی معمولی شعور کے انسان کو وہ محسوس نہیں ہو سکتی، محض جذبات خواہ وہ کتنے ہی حسین ہو بلند شاعری کے لئے کافی نہیں ہیں بلکہ جذبات فکر محض کا جزو بن جائیں یا خالص فکر بن جائیں تو بڑی شاعری جنم لیتی ہے۔ کسی قوم کی تاریخ کے وہ ابواب جن میں قومی زندگی بلند فکریات کی منزل سے گزر رہی ہے انہیں ابواب کا قیمتی ترین حصہ پر عظمت شاعری ہے قومی زندگی کے ارتقاء کا نغمہ حقیقی شاعری ہے۔ انفرادی زندگی کے جذبات بھی قومی زندگی کی عظمت سے ہی عظمت حاصل کرتے ہیں۔ ۳۹؎ یہ سب وہ باتیں ہیں جو اردو تنقید میں دانشورانہ سطح پر اس سلیقے سے بیان ہوئی ہیں کہ ہمارے ادبی کلچر کا حصہ بن گئی ہیں۔ فکر و خیال اور اقدار و شعور کو فراق اس طور پر بیان کرتے ہیں کہ اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں رہتا۔ رمیش نے لکھا ہے کہ ایک دن فراق نے انہیں بول کر انگریزی میں خط اور پھر پتا لکھوایا۔ دیکھا تو پتے میں ’آر‘ ’وی‘ پڑھا جاتا تھا۔ فراق کا ناریل چٹخ گیا۔ انہوں نے لفافہ پھار ڈالا اور کہنے لگے ’’ہر گز یہ بد تمیزی میں برداشت نہیں کر سکتا۔ ایک حرف دوسرے حرف کی طرح نہیں پڑھا جانا چاہیے۔ ۴۔ ؎ یہی ان کا مزاج تھا اور یہی چیز ان کی تنقیدی فکر کی بنیادی خصوصیت ہے۔

٭٭٭

 

 

فراقؔ اور فروغِ اُردو زبان

 

                ………چودھری ابن النصیر

 

 

عہد جدید میں بعض حالات ایسے پیدا ہوئے ہیں جن کی بنا پر اردو زبان کی تاریخ اور اردو ادب کی تاریخ کو الگ الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں رہا ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ گذشتہ پچاس سال میں اس زبان پر ایسے کئی وقت آئے جب اس زبان کی بقا اور وجود کے سلسلے ٹوٹتے نظر آئے، خاص کر ہندوستان میں، اور اس میں بھی خاص کر شمالی ہند کے ان علاقوں میں جنھیں غلط یا صحیح طور پر اردو کے خاص علاقے سمجھا جاتا رہا ہے۔ میری مراد موجودہ یوپی، بہار، دہلی، پنجاب، ہریانہ، شمالی مدھیہ پردیش اور مشرقی راجستھان سے ہے۔ تو جب کسی زبان کی بقا کے بارے میں تشویش ناک سوالات اٹھنے لگیں اور خود اس کے چاہنے والے خواہ وہ اصلی چاہنے والے ہوں یا نام نہاد، یہ اعلان شروع کر دیں کہ یہ زبان ختم ہونے والی ہے یا ختم ہو گئی ہے تو ایسی صورت حال میں زبان اور ادب دونوں ایک دوسرے کے پہلو بن جاتے ہیں۔ یعنی تاریخ کے پرانے ادوار میں تو ممکن تھا کہ ادب ہو لیکن زبان نہ ہو، جیسے سنسکرت کے لیے برتی گئی۔ اسی طرح پرانے ادوار میں یہ بھی ممکن تھا کہ زبان ہو لیکن ادب نہ ہو کیونکہ بہت سی زبانیں تھیں جو صرف روز مرہ کے خیالات اور حالات کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں اور ان میں ادب لکھنا معیوب قرار دیا جاتا تھا۔ چنانچہ ہندوستان کی اپ بھرنچ زبانوں میں بھی زبانوں کا یہی معاملہ تھا کہ وہ موجود تو تھیں لیکن ان میں ادب کی تخلیق معیوب قرار دی جاتی تھی۔ آج مطبع اخبار، مسائل تعلیم کی دور رس وسعت اور پھر الکڑنی مسائل کی غیر مقبولیت کی بنا پر کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس میں ادب کا وجود نہ ہو یا جو ادبی زبان ہونے اور بننے کی تمنا اور دعویٰ نہ رکھتی ہو۔

لہٰذا جب اردو کی مسلسل بقا کے بارے میں ہمارے ملک میں شکوک و شبہات ظاہر کیے جانے لگے تو یہ بھی کہا جانے لگا کہ جس زبان کو رہنا ہی نہیں ہے تو اس میں ادب بھلا کیا لکھا جائے یا کیا لکھا جا سکے گا۔

آزادی کے فوراً بعد اہل اردوپرشکست خوردگی کے بادل کچھ اس طرح چھا گئے کہ اردو کے بارے میں بعض بنیادی سوالات بھی زیر بحث نہ رہ گئے۔ مثلاً کھڑی بولی کیا ہے اور اردو کا اس سے کیا رشتہ ہے۔ مثلاً کیا کھڑی بولی نام کی کوئی زبان کبھی تھی یا یہ نام لسانیات کے ماہروں نے اپنی آسانی کے لیے وضع کیا۔ مثلاً مغربی ہندی یا (Western Hindi) جس کا نام انگریز ماہر لسانیات نے بار بار اردو کے آغاز اور ارتقا کے سلسلے میں لیا تھا وہ کیا کوئی واقعی کوئی زبان تھی یا یہ بھی اصطلاحی وجود رکھتی ہے۔

ان حالات کے تناظر میں فراقؔ گورکھپوری کی ادبی اور لسانی خدمات قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے اپنی زبان کو اردو کہا اور اس طرح زبان کے بولنے والے ایک بڑے طبقے کو دوبارہ زبان دے دی۔ انھوں نے کثیر الاشاعت انگریزی مضامین کے ذریعہ، جو ۱۹۵۵ء اور ۱۹۶۰ ء کے درمیان ہندوستان ٹائمز، ٹائمز آف انڈیا، السٹریٹیڈ ویکلی وغیرہ میں چھپے، کھڑی بولی کی حقیقت واضح کی اور اس کا ادبی اور لسانی تجزیہ کیا۔ اس کی گفتگو تفصیل سے آگے کریں گے۔

اردو زبان میں فراقؔ گورکھپوری واحد شخصیت ہیں جنھوں نے اردو زبان کو ہر حیثیت سے مالا مال کیا۔ اردو ادب میں بہت کم لوگ ایسے ہوئے ہیں جنھوں نے تن تنہا ادب کی کئی اصناف کو اپنایا۔ ان کی نثر، ان کی تنقید، ان کے ترجمے اور ان کی شاعری (شاعری میں غزل، نظم، رباعی، ہجو وغیرہ) اس صدی کی اس نابغۂ روزگار شخصیت نے اردو زبان و ادب کے فروغ اہم ترین کارنامے انجام دیے بیسویں صدی کے اردو زبان و ادب کی تاریخ میں فراقؔ کا مقام نمایاں ہے اس کی وجہ ان کی روشن ادبی شخصیت کے مختلف رخ ہیں۔ ان کی تحریروں میں روشن فکری، سنجیدہ ذہنی اور آزاد خیالی کا عمدہ نمونہ تو ہے ہی لیکن اردو زبان کی ترقی کے لیے ان کے لسانی مباحث اور اپنی تحریروں میں لسانی تشکیلات کے عمل واقعتاً  سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

فراقؔ گورکھپوری نے اپنے عہد میں مروجہ شاعرانہ زبان میں خاطر خواہ اضافہ کیا بلکہ ترقی کی۔ انھوں نے لفظی ہنر مندی سے اردو شاعری کو ایک تازہ نفسیات کا استفہامی لہجہ اور جدید فکر کی موضوعیت دی۔ ان کا ذہن ایسی اضطراری کیفیتوں سے دوچار تھا جنھیں ہم تلاش کا نام دے سکتے ہیں اور وہ تلاش تھی نئے لفظ میں نئی معنویت کی۔ لفظ کے استعمال میں ایک نئے انداز نظر کی تلاش۔ یعنی وہ الفاظ کی ایک نئی تلاش اور ترتیب کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ انھوں نے زبان کے پرانے خزانے سے جیتے جاگتے الفاظ لیے۔ اپنی شاعری میں لفظ کے ہنر مندانہ استعمال سے استعاروں اور علامتوں کی نئی تفہیم وضع کی اور ہندوسانی تہذیب سے اپنی وابستگی کو قائم رکھا۔

فراق کی کتاب ’’روپ‘‘ کی رباعیاں اردو ادب میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ان رباعیوں میں ہندی تہذیب اور قدیم روایت موجود ہے۔ بعض ناقدین ان رباعیوں کو فحش قرار دیتے ہیں لیکن یہ رباعیاں جن کیفیات کی حامل ہیں وہ ہمارے احساس و ادراکِ حسن و جمال کو چھیڑتی ہیں نہ کہ کسی قسم کی شہوت کو ابھارتی ہیں۔ یہاں موضوعات سے ہٹ کر ہم زبان کے تعلق سے اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ جن تشبیہات کے ذریعہ فراقؔ نے ان رباعیوں میں مختلف روپوں کی تصویر کشی کی ہے وہ بالکل نئی اور اچھوتی ہیں۔ اردو شاعری میں تشبیہات کا چلن عام ہے لیکن فراق کی تشبیہیں اردو شاعری میں اس زبان کی ترقی میں اضافہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ رباعیوں میں اس قسم کی زبان کے استعمال کے وہ موجد ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ان کے یہاں ایسے لفظوں کے استعمال کا ایک طویل سلسلہ ہے جنھیں ان کے عہد کے شعرا نے ہاتھ نہیں لگایا۔ غزلوں میں بھی سب سے زیادہ اسالیب بیان کے نمونے فراق نے پیش کیے اور کامیاب رہے۔ اور ان کا یہ اسلوب ان لفظیات کی مرہونِ منت ہے جو معانی کے نئے ابعاد روشن کرتی ہے۔

انھوں نے اپنی شاعری میں ٹھیٹ ہندی الفاظ، روز مرہ، ٹکسالی بول اور محاوروں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا۔ کیا ہم فراقؔ کا فروغ زبان میں یہ کارنامہ نہیں کہہ سکتے جو انھوں نے سنسکرت اور ہندی کے تقریباً دو ہزار الفاظ کا اضافہ اردو میں کیا۔ اردو زبان سے ان کی محبت کا عالم ان کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے :

’’میں نے اردو کو نئے الفاظ اور نئی تشبیہات اور نئے استعارات دیے لیکن میرا دل اتنا کچھ کرنے اور کہنے پر بھی مطمئن نہیں ہوا۔ چاہتا ہوں کہ اردو کے لیے وہ کچھ کر جاؤں جو اب تک کسی نے نہ کیا ہو۔ شعر میری زندگی ہے اور اردو اس کا ذریعہ۔ اس طرح اردو میری زندگی ٹھہری اور اپنی زندگی سے کسے محبت نہیں ہوتی۔ ‘‘ محمد طفیل کے نام ایک خط

یہاں سنسکرت اور ہندی کے الفاظ کی فہرست دے کر مضمون طویل کرنا نہیں چاہتا۔ صرف ایک لفظ کے بارے میں کہہ کر یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ ان کا تخلیقی ذہن کس قدر تیز (Sharp) تھا کہ لفظ کی ماہئیت یا ’’لفظ کی نفسیات‘‘ ہم پر فوراً واضح ہو جاتی ہے۔ شعر ہے :

رنگ و نکہت کا یہ طوفاں یہ تلاطم یہ اٹھان

اچپلاہٹ کی ہے تصویر بدن کیا کہنا

یہاں لفظ ’’اچپلاہٹ‘‘ پر غور فرمائیے۔ یہ لفظ کسی اردو لغت یا کسی ہندی شبد کوش میں نہیں ملتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ لفظ مشرقی اضلاع میں عوام کے استعمال میں عام ہے۔ فراق عوام کی زبان اور ان کے محاورے کو شاعری میں استعمال کو برحق اور زبان کی ترقی کے لیے فال نیک سمجھتے تھے ’’ہٹ‘‘ پر ختم ہونے والے الفاظ جیسے ’’کسمساہٹ‘‘، ’’ڈسمساہٹ‘‘ جیسے الفاظ سے ہی فراقؔ کو خاص دلچسپی نہیں رہی بلکہ نئے لفظوں کو وضع کرنے اور ان کے برمحل استعمال اور ان کی معنویت کو آشکار کرنے میں بھی خاص دلچسپی رہی۔ ان کی شاعری میں بیشتر الفاظ ایسے ملیں گے جو فراقؔ سے پہلے کسی شاعر کے یہاں نہیں ملتے۔ الفاظ کی کھوج اور اختراع جن کو قبولیت بھی ملی، فراقؔ کا حصہ رہا ہے۔ لفظوں کے استعمال کی بات چل رہی ہے تو یہاں ان کی ایک غزل ’’یاد آتی ہیں تری رعنائیاں ‘‘ کے دو مصرعے ملاحظہ فرمائیں :

ان نگاہوں نے بہت سمجھائیاں

ترے ہونٹوں نے بہت ترسائیاں

مشت مشت خاک کی پیدائیاں

دل میں پڑتی ہیں کئی پرچھائیاں

رشید حسن خاں پیدائیاں، ترسائیاں اور سمجھائیاں جیسے الفاظ کو لکھنا فراق کا زبان کے ساتھ تمخسر کرنا کہتے ہیں۔ رشید حسن خاں کی شخصیت بحیثیت محقق اور ماہر لسانیات مسلم ہے لیکن یہاں ان کے اعتراض ان لوگوں کے لیے قطعی قابل قبول نہ ہو گا جو اردو زبان کے سرمایے میں الفاظ کے اضافے کو ان حالتوں میں روا گردانتے ہیں جہاں الفاظ اپنے معنوی ابعاد روشن کرتے ہوں۔ یہاں سمجھائیاں، پیدائیاں اور سمجھائیاں نے ہم پر جو معنی کی کئی پرتیں روشن اور واضح کیے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کے کئی خطوں میں اس انداز سے عوامی گفتگو میں زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ حیرت ہے زبان کا ادراک رکھتے ہوئے بھی رشید حسن خاں فراقؔ کے ان الفاظ کے استعمال کو بچکانہ ہوس قافیہ نگاری پر محمول کرتے ہیں۔ اہل زبان کا کام لفظوں کی توضیح و اشاعت بھی ہوتا ہے۔ اگر فراق نے ان لفظوں کا استعمال کیا ہے تو ہم پر فرض ہے کہ ان اشعار کی توضیح کر کے ان کی معنویت ان قارئین پر روشن کریں جو ایسے الفاظ سے نابلد ہیں۔ الفاظ سے نابلد ہونے کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ یہ اپنے اندر معنویت نہیں رکھتے۔ کیا عربی اور فارسی کے ایسے الفاظ جو ہمارے اردو شعرا نے استعمال کیے ہیں، سب کے معنی ہم پر واضح ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید لغت کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اس سلسلے میں یہاں رشید حسن خاں صاحب اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اردو میں ان لفظوں کے استعمال کے بارے میں دیکھیں کہ ہمارے قدیم شعرا نے الفاظ تو استعمال کر لیے لیکن معنی کی تلاش کا کام آج کے عہد کے ناقد پر چھوڑ دیا۔ آبرو اور دیگر مصنفوں کے اشعار میں یا نثر پاروں میں ایسے لفظوں کے معانی آج ہم پر واضح کیے جا رہے ہیں جن کا اندراج لغت میں نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو ان معنوں میں نہیں جو شاعر کی مراد ہے۔ بات طویل ہو جائے گی لہٰذا اسے یہاں چھوڑتے ہوئے دوسری طرف رخ کرتے ہیں۔

محمد حسن آزاد غالباً  ۱۸۶۶ء میں ’’نظم اردو‘‘ کے دیباچے میں اردو والوں سے مخاطب تھے کہ اردو زبان و ادب کی ترقی کا دار و مدار انگریزی زبان و ادب سے استفادہ کرنے پر ہو گا۔ ہم اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے کہ ان کی یہ بات بعد کے زمانے پر کس قدر غلط یا صحیح ثابت ہوئی لیکن اس سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ جو لوگ اس نظریے کے مخالف رہے ہیں انھوں نے بھی اپنی بعض باتیں انگریزی حوالوں کے بغیر پوری نہ کی اور تا حال ایسا ہو رہا ہے۔ فراقؔ کی شخصیت ان معنوں میں قابل قدر ہے کہ چالیس سال تک مسلسل انگریزی ادب پڑھانے کی وجہ سے انگریزی ادب نے ان کو فکری آگہی اور روحانی بالیدگی عطا کی۔ زبان و ادب میں خیالات و نظریات کے تئیں ان کی ذہنی نشود  و نما کی۔ وہ انگریزی محاوروں اور ترکیبوں کا اردو ترجمہ اپنی نظم ونثر میں استعمال کرتے نہیں چوکتے تھے۔ اردو زبان کے خزانے میں ان کا یہ اضافہ شاعری کے راستے سے زیادہ ہوا۔ ان کی غزلوں کے بعض اشعار پر کبھی ورڈ زورتھ، کبھی کٹیس، کبھی شیلی اور کبھی ٹوِن برن کی چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ ممکن ہے بعض لوگ اسے سرقہ کا نام دیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ تخلیقی بصیرت ہے۔ فراقؔ الفاظ کو قابو میں لانے کا ہنر جانتے تھے انھیں لفظوں کے استعمال پر قدرت حاصل تھی۔ انگریزی زبان و ادب کے اثر سے نئے الفاظ اختراع کرنے اور ان کے برمحل استعمال کرنے کا فن فراقؔ کے عہد کے شعرا میں عنقا ہے۔ پھر یہ الفاظ فراق کے عہد میں اور فراق کے بعد بھی استعمال میں رہے اور فراقؔ کا دیا ہوا نیا لفظیاتی نظام، فراقؔ کے محاورے فراق کی آواز کی ٹھوس سالمیت سے انکار نا ممکن ٹھہرا۔

اب میں اپنی بات کو شروع میں کہی گئی با توں سے جوڑتا ہوں۔ بات کھڑی بولی کی ہو رہی تھی۔ کھڑی بولی کے غیر معیاری استعمال پر فراقؔ نے ہندی والوں پر جو تنقیدیں لکھی ہیں وہ اردو کے حق میں جاتی ہیں اور فروغ اردو زبان میں نمایاں کار کردگی ادا کرتی ہیں۔ Urdu without prejudice کے عنوان سے ہندوستان ٹائمز میں ان کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں اردو سے متعلق اور یہاں کی ہندو مسلم مشترکہ زندگی میں بلکہ کئی لحاظ سے صرف ہندوؤں کی زندگی میں اردو کی ثقافتی، لسانی اور ادبی اہمیت بتائی گئی تھی اور کھڑی بولی، ہندی ادب اور زبان کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام سے بے تعلقی اور نفرت، عوامی زبان سے بے تعلقی اور نفرت، روایتی دیہاتی پن اور روایتی دیہاتی پن اور پھوہڑ پن پر ادب کی بنیاد رکھنا گر ہندی کا مقصد ہے تو ایسی ہندی کو دور سے سلام کیونکہ اس ہندی تحریک نے اس جرم اور بدتمیزی کا ثبوت دیا ہے جس نے اس ملک کے کروڑوں بچوں کو اس کھڑی بولی یا پچھاہنی ہندی سے محروم کر دیا ہے جو میرؔ، نظیرؔ اکبر آبادی، سوداؔ، غالبؔ، انیسؔ، حالیؔ، اکبرؔ الہ آبادی اور صدہا اردو کے نثر و نظم نگاروں نے ہندوستان کی خدمت میں پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو کو بگاڑ کر کھڑی بولی کے محاسن کو جوتے مار کر ادب پیدا نہیں کیا جا سکتا۔

فراقؔ نے فروغ اردو زبان کے لیے لوگوں سے جھگڑے مول لیے اور کتنوں کو اپنا دشمن بنایا۔ ہندی والوں سے ان کے جھگڑے کی بنیادی وجہ ان کی اردو زبان سے گہری دلچسپی تھی حالانکہ وہ اردو کو بھی ہندی کا ایک دوسرا نام سمجھتے تھے۔ انھوں نے کھل کر ناگری رسم الخط میں ادب تخلیق کرنے والوں پر شدید حملے کیے جو زبان کو بگاڑ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کروڑوں ہندوستانی جن کی زبان اور جن کی ذہنی نشو و نما کا تنہا ذریعہ وہ زبان ہے جسے کبھی ہندی، کبھی ہندوی، کبھی ہندوستانی کہا جاتا ہے اور جسے پچھاہنی ہندی یا دلی کی زبان یا کھڑی بولی بھی کہا جاتا ہے اگر اس کی پھوہڑ شکلیں، جاہلانہ استعمال، غیر فطری استعمال، ٹیڑھا میڑھا استعمال، مہمل اور بے معنی استعمال اپنے کروڑوں بچوں کو سکھانے لگے تو یہ قریب قریب آدھے ہندوستان کی ذہنی ترقی یا نشو و نما کو مٹی میں مٹا ڈالے گا اور اگر ہندوستان کے ان تمام حصوں میں بھی جہاں دوسرے زبانیں بولی جاتی ہیں بگڑی ہوئی کھڑی بولی کے نمونے راشٹریہ بھاشا کے نام پر رائج کیے گئے تو اس سے بڑا نقصان ہو گا جو اس نقصان سے ہرگز کم نہ ہو گا جو غلامی سے پیدا ہوتا ہے۔ اردو زبان کے تئیں ان کے موقف کی وضاحت اور محولہ بالا با توں کا حل ان کے نزدیک ان کے لفظوں میں حسب ذیل ہیں :

’’اردو ہو یا ہندی، غالبؔ ہوں یا بھارتیندو ہریش چندر، محمد حسین آزادؔ ہوں یا مہابیر پرشاد دویدی بنیادی طور پر ہندی اور اردو کی زبان ایک ہی ہے۔ جس مائی کے لال کو اردو سے نفرت ہوئی اور جس نے وہ کھڑی بولی جانے بغیر جسے کروڑوں بھارت واسی بولتے ہیں، صرف قلم دوات کے بوتے پھر پھوہڑ گوئی شروع کر دی اور لسانی بدتمیزی کا ثبوت دیا وہ ہندی ادیب بن بیٹھا۔ کھڑی بولی پر قدرت رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ قدرت صرف اردو ادب پر قدرت رکھنے والوں کو حاصل ہے۔ اردو، صرف اردو، صرف اردو، صرف اردو کھڑی بولی کی مثالیں پیش کرتی ہے۔ جو لوگ اردو نہیں جانتے اور صرف ناگری جانتے ہیں ان کو میں گنوار سمجھتا ہوں۔ پہلے اردو جان لو، اردو پر پوری قدرت حاصل کر لو، اسی صورت میں تمہیں کھڑی بولی آئے گی۔ ‘‘

اردو فراقؔ کی سانس میں سموئی ہوئی تھی۔ وہ اس زبان کو ہر طرح سے مالا مال کرنے کے درپے تھے۔ وہ تو یہاں تک کہتے تھے کہ جس ہندی یا ہندوی زبان نے شہری زندگی کی ترجمانی کر کے ترقی کی ہے وہ اردو ہے۔

فراقؔ نے فروغ اردو زبان کے لیے اپنی تحریروں کے ذریعہ جو جنگ لڑی ہے اور ادب سے وابستہ علمی و فکری حلقوں میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے جو محنت کی ہے، جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔

٭٭٭

 

 

فراقؔ کی شعری دنیا

 

                ………پروفیسر حامدی کاشمیری

 

 

شاعری میں شاعر اپنے کسی عقیدے، نظریے یا خیال کا شعوری اظہار کرنے کے بجائے اپنی شخصیت کی جملہ توانائیوں جن میں اس کے عقائد بھی ہو سکتے ہیں کے جوہر کی لسانی تجسیم کرتا ہے، اور اس کے لیے ایک منفرد شعری طریقہ کار وضع کرتا ہے۔ یہ شاعر کے کسی مخصوص ذہنی یا جذباتی رویے تک محدود ہونے کے بجائے اس کے جملہ شعوری اور لا شعوری محرکات سے تشکیل پاتا ہے، اور ایک آزاد اور قائم بالذات حیثیت اختیار کرتا ہے، اس کی رو سے شاعر کی شخصیت، جو اس کے عقائد اور نظریات کے ساتھ ساتھ اس کے محسوسات پر بھی محیط ہوتی ہے، پس منظر میں چلی جاتی ہے اور یہی شعری طریقہ کار مرکزی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ غالب نے یہ کہہ کر کہ :

شعر خود خواہش آن کرد کہ گردد فن ما

اپنی شخصیت کی نفی کر کے شعر کی آزادگی اور عملداری کو تسلیم کیا ہے، اور اسی شعری عمل کی طرف اشارہ کیا ہے۔

تخلیق شعر کے عمل میں غالب کا متذکرہ نظریہ دوسرے شعرا کی طرح فراقؔ گورکھپوری کی شاعری پر بھی صادق آتا ہے۔ فراقؔ نے بعض مقامات پر شعری عمل کو پس پشت ڈال کر اپنی ذات یا شاعری کے بارے میں جو بلند آہنگ دعوے کیے ہیں ان کو آسانی سے ان کی خود نگری یا ذات پرستی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ان کا یہ کہنا کہ ’’عشقیہ شاعری کو سطحیت، سختی، خشکی، خشونت، مغائرت اور اوچھے پن سے بچانا اور اس میں زندگی کی اعلیٰ ترین قدروں کو سمانا یہی میری کوشش رہی ہے ‘‘ یا ان کا یہ بیان کہ ’’عشقیہ شاعری میں میری یہ کوشش رہی ہے کہ شرافت و صداقت جذبات کے ساتھ ساتھ اشاریت، کیفیت، ہمہ گیری، داخلیت و معنویت، تخلیق، آفاقیت پیدا کر سکوں، یا یہ دعویٰ:

ختم ہے مجھ پر غزل گوئیِ دورِ حاضر

دینے والے نے وہ اندازِ سخن مجھ کو دیا

ان کی خود ستائی کی مثالیں ہیں۔ بعینہٖ ان کے کلام میں ان کے شخصی جذبات، جو ان کے ذاتی عمل کے زائیدہ ہوں، ان کی ذات پرستی پر ہی محمول ہوں گے، اور شخصیت سے گریز کے رویے کی نفی پر متصور ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کو شخصی عناصر سے الگ کر کے کس حد تک اپنے شعری عمل کی آزاد حیثیت کو قائم رکھا ہے، اور اسے تخلیقیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے، اور یہی ان کی قدر سنجی کے لیے بنیاد کا کام دے سکتا ہے۔

فراقؔ نے غزلوں کے علاوہ نظمیں اور رباعیاں بھی لکھی ہیں، لیکن ان کے شعری ذہن کی کارگزاری کے تابناک نقوش ان کی غزلوں میں نمایاں طور پر جھلکتے ہیں، اس لیے زیر نظر مقالے میں ان کی غزلیہ شاعری ہی مرکز توجہ رہے گی۔

انھوں نے متعدد غزلیں لکھی ہیں، ان میں بیشتر غزلیں خاصی طویل ہیں اور بادی النظر میں تخلیقی و فور کا تاثر پیدا کرتی ہیں تاہم یہ تاثر دیر پا ثابت نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ان غزلوں کے کئی اشعار عمومیت، تکراریت اور حشو و زواید کو نمایاں کرتے ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ اس نوع کے اشعار تقریباً ہر شاعر کے یہاں ملتے ہیں۔ میر کے دواوین میں سینکڑوں اشعار بھرتی کے ہیں، فراقؔ کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے ایسے اشعار بھی کہے ہیں، جو کلام منظوم کے ذیل میں آتے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے کلام کا انتخاب نہیں کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’میرا سارا کلام ہرگز انتخاب نہیں ہے ‘‘ا س لیے قاری کو ان کے کلام کے ’’ خودرو جنگل‘‘ سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک محنت طلب اور صبر آزما کام ضرور ہے، مگر خاصا تمتع بخش (Rewarding) بھی ہے۔ کیوں کہ تلاش کے عمل میں ایسے چیدہ چیدہ اشعار ملتے ہیں، جو شعری حسن، نزاکت اور لطافت کا احساس دلاتے ہیں۔

ان کا کلام کئی لحاظ سے اپنی شعری حیثیت کو منوانے کے لیے گہرے مطالعے کی ترغیب دیتا ہے، اولاً ان کے یہاں تجربے کی فکری تکمیلیت سے زیادہ احساساتی ردِ عمل کے پھیلاؤ (جو انتشار نہیں ہے ) کی صورت ملتی ہے، جو قاری کے لئے جذب و کشش رکھتی ہے۔ دوم وہ شعری اور لسانی روایت کی عمل داری کو قبول کرتے ہوئے بھی اسلوب و اظہار کی انفرادیت اور تازگی کا احساس دلاتے ہیں۔ سوم شعری تجربات کی حد بندی کے باوجود ان کے یہاں شعری حسیت کی آزادانہ کارگزاری کا عمل ملتا ہے۔ ظاہر ہے یہ مجموعی طور پر ایک طرح سے ایک متناقض صورتِ حال کو جنم دیتی ہے جو ذرا گہری توجہ کی متقاضی ہے۔

فراقؔ کے یہاں بالتخصیص دو خارجی عناصر یعنی فطرت اور محبوب کے جمالیاتی پہلو سے ان کی جذباتی وابستگی مترشح ہوتی ہے۔ یہ وابستگی اتنی گہری ہے کہ شیفتگی میں بدل جاتی ہے اور ان کے جمالیاتی وجود کو نکھارتی ہے۔ یہ دو عناصر ان کے لیے غیر معمولی جذب و کشش رکھتے ہیں اور وہ تمام عمر ان کے گرویدہ رہے۔ یوں تو وہ غم زمانہ، سماجی انقلاب، مرگ و زیست، خیر و شر، اقدار اور دورِ جدید وغیرہ کا بھی ذکر کرتے رہے، مگر یہ ان کے تخلیقی شعور کی توسیع میں نمایاں حصہ ادا نہیں کرتے۔ رفتار عمر کے ساتھ ساتھ وہ شگفتگی ء ذات کے امکانات سے آشنا تو ہوئے مگر آگہی کے ہلاکت آفریں دشت و سراب کا سفر کرنے سے محترز رہے۔

جیسا کہ ذکر ہوا، فراقؔ کی شاعری میں فطرت اور عورت کے حسن و جمال سے ایک نازک جذباتی وابستگی کا رویہ خاصا نمایاں ہے، یہ رویہ ان کی طبعی مثالیت پسندی سے مطابقت رکھتا ہے اور کسی ذہنی یا شعوری محرک کا زائیدہ نہیں۔ یہ در اصل ان کے جمالیاتی احساس سے مربوط ہے، جس سے ان کی داخلی دنیا ست رنگے منظر میں بدل جاتی ہے۔

ہوش میں کیسے رہ سکتا ہوں آخر شاعر فطرت ہوں

صبح کو ست رنگے جھرمٹ سے جب وہ انگلیاں مجھے بلائیں

فراقؔ نے فطرت کے مظاہر کی نرمیوں، لطافتوں، رنگینیوں، نزاکتوں اور حسن کاریوں کی مصوری کر کے اس کی تخلیقی باز آفرینی کی ہے۔ نرگسِ سامری، فسونِ نیم شب، طلسمِ رنگ و بو، نبض کائنات، معجزۂ نمو، رگِ خار، وارداتِ سحر، برقِ جمال اور غنچۂ سر بستہ جیسے استعاروں سے اس کی توثیق ہوتی ہے۔ وہ شعری سیاق میں فطرت کے ان نقوش کو مثالی حسن سے آشنا کرتے ہیں :

چشم حیراں نے طلسمات جہاں دیکھ لیا

حسن فطعت کی یہ مثالی تصویر کاری ان کے رومانی رویے سے مطابقت رکھتی ہے۔ ان کا رومانی رویہ جمالیاتی کیفیت، مثالیت پسندی اور جذباتی تنوع کاری سے متشکل ہوتا ہے اور قوس قزحی رنگ بکھیرتا ہے :

وہ تبسمِ لبِ نازنیں، وہ بہارِ پیکرِ دلنشیں

وہی ادھ کھلی سی کلی کلی، وہی تازگیِ چمن چمن

بس اک سکوتِ ابدی عرش سے تا فرش

بس اک پیام ازلی کاہ سے تا ماہ

شبنم کی دمک ہے کہ شبِ ماہ کی دیوی

موتی سرِ گلزار جہاں رول رہی ہے

لہکتے سبزے میں ابرِ بہار کی مستی

دہکتے پھول میں چھلکی ہوئی شراب کی آنچ

حسنِ گلستاں حیراں حیراں

غنچہ غنچہ سر بہ گریباں

ستارے چھپے جھلملا جھلملا کے

ترے جاگنے والے رو رو کے سوئے

یہی رویّہ وہ عورت کے بارے میں بھی روا رکھتے ہیں۔ عورت ان کے یہاں محبوبہ کا روپ دھارتی ہے اور حسن و شباب کا ایک مکمل نمونہ بن جاتی ہے۔ حسن کے ان گو نا گوں مظاہر کی مصوری میں وہ حسیاتی لذت کے جذبے کو نمایاں اہمیت دیتے ہیں، جس سے ان کے رومانی رویے کو مزید تقویت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ تخیل پسندی، خلوت گزینی، غم پرستی، جمالیاتی سرمستی، طبعی افسردگی بھی ان کے رومانی مزاج کی غمازی کرتی ہے۔ یہ رومانی مزاج ورڈس ورتھ، شیلے اور کیٹس کی رومانیت سے مماثلت رکھتے ہوئے بھی اپنا ایک رنگ رکھتا ہے۔ جو خوابناکی، طلسم بندی، شب پرستی، آرزو مندی اور حسیاتی رنگا رنگی پر محیط ہو جاتا ہے :

دم بدم شبنم و شعلہ کی یہ لویں

سر سے پا تک بدن گلستاں گلستاں

انگڑائیاں صبحوں کی سرِ عارضِ تاباں

وہ کروٹیں شاموں کی سرِ کاکلِ پیچاں

اشعار مرے ترسی ہوئی آنکھوں کے کچھ خواب

ہوں صبح ازل سے ترے دیدار کا خواہاں

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

ہر شبِ غم گزر گئی

اوڑھے ستاروں کا کفن

جس کی راتیں طلسمِ خوابِ حیات

اسی وادی کا ماہتاب ہے تو

اب ہو مجھے دیکھئے کہاں صبح

اِن زلفوں میں رات ہو گئی ہے

ان کے یہاں محبوبہ کی جسمانی خوبصورتی کی تجسیم ایک مخصوص رنگ، لطافت اور دلکشی رکھتی ہے۔ محبوبہ ایک ارضی وجود کی مالک ہے، اس کا بدنی حسن جنسی کشش رکھتا ہے۔ اس کی جنسی کشش جمالیاتی ترفع میں بدل جاتی ہے۔ ان کے اپنے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی ناکامی کے نتیجے میں انھیں جذباتی محرومی (جو جنسی محرومی بھی ہو سکتی ہے ) کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن انھوں نے اس محرومی کو اپنی شخصیت کے انتشار کا موجب بننے نہ دیا۔ وہ ’’اس تلخی کو شیرینی میں بدلنے ‘‘ کے روئیے پر کاربند رہے، اور جمالیاتی صفات سے ‘‘ متصف کرتے رہے۔

بہرحال یہ بدیہی ہے کہ اور با توں کے علاوہ یہ ان کی جنسی جبلت کی بہار سامانی ہی ہے، جو تہذیبِ نفس سے گزر کر ارتفاعی صورت میں ’’جمالیاتی صفات‘‘ پر محیط ہو جاتی ہے اور عورت حسن و لطافت کا مجسمہ بن کر جاتی ہے۔

شعر سے بھی لطیف تر

اس کی نزاکتِ بدن

ان کا یہ رویہ صرف عورت سے ہی مخصوص نہیں، بلکہ وہ فطرت، انسانی روابط اور متعلقاتِ حیات کو بھی جمالیاتی صفات سے آراستہ کرتے ہیں :

ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں

شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں

رنگینیِ فضا ہے ترا عشوۂ حجاب

ہوتا ہے اور جلوۂ صبح بہار کیا

چمن اندر چمن ہے پہلوئے ناز

کس کھلے باغ کا گلاب ہے تو

آنکھ طلسمِ شام ہے

یا کوئی آہوئے ختن

جیسے شفق ہو شبنم آگیں

اک عالم ہے حسن پشیماں

یہ جمالیاتی رجحان در اصل فراقؔ کے مزاج کا آئینہ ہے، اور اسی سے ان کے دل میں ’’خیالات غزل‘‘ بیدار ہوتے ہیں :

دل میں یوں بیدار ہوتے ہیں خیالاتِ غزل

آنکھیں ملتے جس طرح اٹھے کوئی مستِ شباب

یہ شعر فراقؔ کے شعری عمل (۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیدار ہوتے ہیں خیالات غزل) اور موضوعیت (مست شباب) کا اشاریہ ہے۔ انھوں نے خارجی دنیا کی بے رنگ، کھردری اور بدصورت زندگی کو مسترد کر کے ایک ایسی داخلی فضا میں اقامت گزینی اختیار کی ہے، جو ان کے سوزِ نفس سے پر نور ہے۔ یہ فضا حسن، نغمگی، لطافت اور تہذیب سے معمور ہے، اس کی اہم خصوصیات یہ ہیں کہ اس طلسم کار اور حیات افروز فضا میں وارد ہو کر قاری جذباتی کیفیات سے گزر کر اس کی انسانی معنویت سے آشنا ہو جاتا ہے۔ وہ حسن و لطافت کے ساتھ ساتھ خیر و برکت اور انسانی درد مندی سے مستفیض ہوتا ہے۔ اردو غزل کی روایت کے پس منظر میں فراقؔ کا یہ اہم کارنامہ بن جاتا ہے۔ ان کے اس کارنامے کی فنی اہمیت اس وقت دو چند ہوتی ہے جب ان کے اشعار ایسی کیفیات کو خلق کرتے ہیں جو حد بندیوں کی نفی کر کے طلسمی لہروں کی طرح دائرہ در دائرہ پھیلتی ہیں اور انسانی وجود کی طرح وسعت آشنا ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار نثری روپ میں ڈھلنے سے محترز رہتے ہیں۔ یہ اشعار نشاطِ وصل اور غمِ ہجراں کے حوالے سے اور لفظوں کی آزادانہ تخلیقی ترتیب سے نادیدہ متناقض اور متغیر رنگوں کی دنیا آباد کرتے ہیں۔ اور زندگی ایک نئے رنگ روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

ہجر اک دردِ انبساط آگیں

وصل بھی اک نشاطِ غم آمیز

داخلی کیفیات کی باز آفرینی کا عمل ان کے یہاں تجربے کی امکان خیزی اور تنوع کاری پر حاوی ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً نشاط، راحت، کیف، غم، درد، تنہائی اور حزن کی تہہ در تہہ کیفیات خلق ہوتی ہیں اور شعری عمل کی بار آوری کا اثبات ہوتا ہے۔ ایسے لمحات میں ان کے اشعار علامتی زرخیزی سے مملو ہو جاتے ہیں اور ان کی شعری دنیا ’’نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ کا منظر نامہ پیش کرتی ہے۔

٭٭٭

 

 

فراقؔ گورکھپوری: نئی شعری روایت کے بانی

 

                ………حسن عابدی

 

 

 

 

ایک ناقد کا قول ہے کہ فراقؔ  گورکھپوری اپنی رفعت میں ہمالیہ کی طرح بلند تھے، جس کی چوٹیاں یقین و گمان کے بادلوں میں گم ہوتی نظر آتی ہیں۔ میرا کوئی ارادہ اس پہاڑ کو سر کرنے کا نہیں۔ میرے پاس جس قدر آکسیجن ہے وہ تو پہلے ہی مرحلے میں ختم ہو جائے گی لہٰذا میں اختصار کے ساتھ محض چند گزار شات پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔

فراق صاحب نسلاً کا ئستھ تھے، اب کا علم نہیں لیکن کائستھ اپنے لباس بات چیت اور وضع میں آدھی صدی پہلے تک آدھے مسلمان کہلاتے تھے۔ اور اب کے مسلمانوں نے پورے مسلمان بننے کا تہیہ کر لیا ہے، آدھے مسلمان کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہی۔ تہذیبی سطح پر کائستھ کے وجود کا ایک سرا کھڑی بولی اور سنسکرت کے علاقے سے ملتا تھا، اور دوسرا فارسی اور اردو سے ان دونوں کے اشتراک کو ہند اسلامی تہذیب کا نام دیا گیا۔ فراق صاحب نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ گورکھپور میں میرا خاندان چار سو برس سے آباد ہے۔ میرے بزرگوں کو شیر شاہ سوری نے پانچ گاؤں اس ضلع میں دیئے تھے۔ا ور ہم لوگ پنج گاؤں کے کائستھ کہلاتے ہیں۔ میرے والد مرحوم منشی گورکھ پرشاد عبرت گورکھپور میں چوٹی کے وکیل اور ۳۱ برس تک یہاں کی بار کے لیڈر رہے۔ میری تعلیم گھر پر دو چار ابتدائی کتابیں ختم کر لینے کے بعد انگریزی اسکول میں ہوئی۔ کالج کی تعلیم الہ آباد میں ہوئی۔ شاعری کا چرچا گھر میں تھا اور میری طبیعت میں موزونیت تھی، اس لئے شعر کہنے کا شوق تو بچپن سے تھا لیکن انیس برس کی عمر تک مجھ سے شعر نہیں ہوتے تھے، کیوں نہیں ہوتے تھے ؟ اس امر کی وضاحت ان کے بعد کے بیانات سے اور شعری اسلوب سے ہو جاتی ہے۔ غزل کے مروجہ روایتی موضوعات استعارے لفظیات اور شعری پیکر ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتے تھے۔ لکھنؤ کو بیسویں صدی کے تیسرے چوتھے عشرے تک ٹکسال کا درجہ حاصل تھا۔ صفیؔ لکھنوی، عزیز لکھنوی، ثاقب لکھنوی نئی غزل کے امام کہلاتے تھے۔ لیکن فراق نے ان میں سے کسی کی بھی امامت قبول نہیں کی۔ اور ثابت کر دیا کہ وہ روایت کے اندر رہتے ہوئے بھی روایت شکن ہیں۔

اس اقرار کے بعد کہ ۱۹؍برس کی عمر تک مجھ سے شعر نہیں کہے گئے، وہ کہتے ہیں ’’بات یہ ہے کہ اگر چہ اردو غزل کے کئی سو اشعار مجھے بچپن سے ہی یاد تھے، لیکن عام طور پر اردو شاعری میں مجھے ایسے لوگوں کا مزاج ملتا تھا جن کا دل کڑا ہے اور جن کے لہجے میں تفکر کم ہے اور جہاں ہے وہاں حلاوت سے خالی ہے۔ اس شاعری میں مجھے دنیا کی پاکیزگی کا احساس بھی کم ملتا تھا۔ یہاں شکوہ شکایت کا دفتر باز تھا، زیادہ تر نا کام نعمتیت اور لذتیت کے عناصر اس شاعری پر غالب تھے۔ مادے کی روحانیت اور طہارت کا احساس مفقود تھا۔ اس شاعری میں غم کے احساسات ذاتی ناکامی کا اظہار تھے اور نشاطیہ اشعار ذاتی یا نفسیاتی خواہشوں کے پورا ہونے سے تعلق رکھتے تھے۔ ‘‘

روایتی شاعری سے فراقؔ کی شکایت ہی یہ ہے کہ اس میں وہ گونج دار آواز نہیں ملتی؟ جو بیک وقت زمیں اور آسمان کی آوا زہے جو یہ بتائے کہ دنیا اور دنیا کی زندگی سے پاکیزہ نہ کوئی خدا ہے نہ عقبی۔ میں ایسی شاعری چاہتا تھا جو روحانیت سے لبریز ہو جو کفر (Paganism) کے نغمے سنا سکے ‘‘ یہ تھا فراق کے یہاں نئی یا ترقی پسند غزل کا معیار۔

فراق کے ہندو عقیدے کی رو سے جنسی محبت ایک عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کے یہاں عورت کے ساتھ جنسی تعلق میں اور اس کے جسمانی خطوط اور خد و خال کے بیان میں کوئی احساس جرم شامل نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں عورت کسی پردہ دار گھرانے کی عفیفہ نہیں جس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے میں رسوائی کا اندیشہ ہو۔ اسی لئے وہ ایسے اشعار لکھنے پر قادر تھے

روح آدم گواہ ہے کہ بشر

ابھی شائستہ گناہ نہیں

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

ان اشعار کے بر عکس اردو کی عشقیہ شاعری پر فراق کا تبصرہ یہ ہے کہا ’’مانت کی واسوخت یا انشاء کی چٹک یا داغ کے منہ بسورتے ہوئے ایسے اشعار؎

داغ کے دل پہ جو گزرتی ہے

آپ بندہ نوازا کیا جانیں

کامیاب شاعری کی مثالیں ہوں تو ہوں، لیکن ایسی کامیاب شاعری قوم اور شاعری دونوں کو جہنم تک کامیابی سے پہنچا دیتی ہے ‘‘

فراق نے ۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۵ء تک صرف غزلیں کہیں۔ اس سے پہلے وہ ۱۹۱۶ء میں ایک ذاتی سانحہ سے دو چار ہوئے تھے۔ ان کی شادی ہوئی، جو قطعاً بے جوڑ اور ناکام تھی، چنانچہ وہ یہ چوٹ برداشت نہ کر سکے، خود کشی کرنی چاہی لیکن ناکام رہے، اسی دور کا یہ شعر ہے ؎

کچھ آدمی کو ہیں مجبوریاں بھی دنیا میں

ارے وہ درد محبت سہی تو کیا مر جائیں

۱۹۳۵ء کے بعد فراق کی شاعری میں ایک نیا موڑ آیا جب انہوں نے سیاسی بیداری اور جوش و خروش کے اس دور میں غزل سے زیادہ نظمیں لکھیں۔ یہاں چند اشعار پیش کروں گا جن سے ترقی پسند فکر کے ساتھ ان کی وابستگی کا اندازہ ہو گا۔ فراق کا بیان ہے کہ ۱۹۴۳ء میں جب علی سردار جعفری ’نیا ادب‘ کا خاص شمارہ مرتب کر رہے تھے تو انہوں نے فراق سے ان کے نئے کلام کی فرمائش کی۔ چنانچہ انہوں نے کچھ غم جاناں کچھ غم دوراں کے تحت زیر نظر اشعار ارسال کئے، نمونے کے چند اشعار حاضر ہیں۔ ان میں صورت حال کی ترجمانی طنز کے پیرائے میں کی گئی ہے ؎

غلامی کو کلیجے سے لگا کر کیوں نہ ہم رکھیں

یہ ہے میراث اپنی باپ دادا کی کمائی ہے

یہی المختصر تاریخ تہذیب و تمدن ہے

مہاجن راج ہے اور روپیہ ہے آنہ پائی ہے

مشقت پیشہ والے جاگ آنکھیں کھول دینا دیکھ

نہ راجہ کی نہ بابو کی تری ساری خدائی ہے

شہیدان وفا کا خون آئینہ ہے فردا کا

وہ فردا روس نے جس کی جھلک سی کچھ اڑائی ہے

جبین فرق پر اک لال تارہ جگمگاتا تھا

کرن جب اس کی پھوٹی صبح صادق تھر تھرائی ہے

غزل کو سیاست سے پیوست کرنے کی ہی ابتدائی کوشش تھی اس کے بعد انہوں نے طویل غزل نما نظمیں لکھیں اور غزل کے پیرائے میں بعض ایسے اشعار تحریر کئے جو شہرت دوام رکھتے ہیں یہ اشعار تو زباں زد عام ہیں۔

اہل دل کچھ اس نگاہ ناز کی باتیں کرو

بیخودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو

کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا

کچھ فضا کچھ حسرت پرواز کی باتیں کرو

ترقی پسند تحریک کے آغاز سے ۱۹۴۳ء تک کی شاعری سیاسی، سماجی اور انقلابی رجحانات کی حامل ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے حوالے سے لکھا کہ میرا معیار و مقصد یہ رہا ہے کہ میری نظمیں وقتی ہنگامی اور صحافتی ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ معنویت اور ابدیت کی حامل ہو سکیں۔ ان نظموں کی داخلی اشاریت میرے نزدیک سب سے اہم خصوصیت ہے۔ شاعری میں واقعیت ضرور ہونی چاہیئے لیکن شاعری جتنی زیادہ واقعیت زدہ ہو گی اتنی ہی بے حقیقت ہو گی اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے جن میں فراق نے اپنی غزل میں ترقی پسندانہ فکر شامل کی ہے۔

ہے یہ دنیا عمل کی جولاں گاہ

میکدہ اور خانقاہ نہیں

کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

اور پھر یہ اشعار؎

انقلاب آیا تو یوں آیا نگاہ یار میں

کچھ مروت میں اضافہ کچھ محبت میں کمی

میں پوچھتا تو ہوں مگر جواب کے لئے نہیں

یہ کیوں تری نظر پھری یہ کیوں بدل گئی ہوا

منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں

وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا

فراق نے اپنی شاعری میں دو بڑے کام کئے اول : روایتی بول چال کی زبان سے محاوروں اور استعاروں کے استعمال سے اردو کا دامن وسیع کیا ’ہندی‘ انگریزی اور یورپی ان سب زبانوں کا تخلیقی طور پر استعمال کیا۔ مغربی شعر و ادب اور فلسفیانہ افکار کو اردو میں منتقل کیا۔ اردو کے خلاف تیزی سے پھیلتے ہوئے تعصبات کا مدلل اندازسے مقابلہ کیا اور حریفوں کو لا جواب کر دیا۔ اور دوسرا بڑا کام یہ کہ وہ ہندوستانی معاشرہ جو فارسی کی روایت کے زیر اثر دلدادگان شعر و ادب کی نظروں سے مخفی ہوتا جا رہا تھا اسے روز روشن میں نمایاں کیا۔ اردو کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ میں اردو کو بھی ہندی کا دوسرا نام سمجھتا ہوں۔ اور یہ کہ بھارت میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ہندی بولتا ہو، جو زبان عوام بولتے ہیں وہ یا تو اردو ہے یا ہندوستانی۔

اردو شاعر میں حسن کے قامت و رخ کے بیان میں مبالغہ آرائی تو بہت ہوئی لیکن بیشتر شعرا حسن کی صورت گری میں غالباً اس لیے عاجز رہے کہ انہوں نے حسن سے رو برو مکالمہ نہیں کیا اس باب میں ان کا روایتی حجاب اور سماجی تعصب آڑے آیا۔ وہ قامت سے قیامت تک تو پہنچ گئے لیکن درمیان کے مراحل سے آنکھیں بند رکھیں۔ فراق حسن کو اس طرح بے نقاب دیکھتے ہیں ؎

آگ بھبوکا گورا مکھڑا

زلفیں کالے کالے ناگ

حسن ہے دریا عشق ہے شعلہ

پانی میں لگ جائے نہ آگ

جادو جادو مدھ بھری آنکھیں

شعلہ شعلہ مدھ بھرے راگ

بولتا ساز ہے جسم کسی کا

چھڑا ہوا ہے پریم سہاگ

یا یہ اشعار

دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی

کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ

وہ ماتھے کی کہکشاں وہ موتی بھری مانگ

وہ گود میں چاند سا ہمکتا بالک

(یہ ایک ماں کے ملکوتی حسن کا بیان ہے ) اور یہ رباعی

ہونٹوں میں وہ رس جس پہ بھنورا منڈلائے

سانسوں کی وہ سیج جس پہ خوشبو سوجائے

چہرے کی دمک پہ جیسے شبنم کی ردا

سر دو آنکھوں کا کام دیو کو بھی جھکائے

فراق ان معنوں میں جدید غزل کے بانی تھے کہ انہوں نے غزل کے پرانے سانچوں کو توڑا اور بعد کے شاعروں کو اپنے تجربوں کی روشنی میں راہیں نکالنے کا حوصلہ دیا۔

٭٭٭

 

 

 

کلام فراقؔ کے کچھ پہلو

 

                ………ڈاکٹر خلیق انجم

 

 

اردو غزل میں خارجیت کی جو روایت سوداؔ سے شروع ہوئی تھی اور جو جرأتؔ، رنگینؔ اور انشاؔ کے ہاں معاملہ بندی اور ذوق کے ہاں زباں و بیان کا حسن بن کر نکھری۔ داغ اور امیر مینائی نے اسے معراج پر پہنچا دیا۔ خاص طور پر داغ نے معاملہ بندی اور لطف بیان کے امکانات کو کافی حد تک ختم کر دیا۔ اس شاعری میں سطحیت معمولی قسم کی لذتیت اور عیش کوشی کا جذبہ ہے اور فکر و خیال، احساس اور جذبہ کا فقدان ہے یہ شاعری زندگی سے الجھنے حیات و کائنات سے سمجھنے سمجھانے کی کوشش نہیں کرتی۔ شاعر کے مشاہدات و تجربات کی دنیا محدود ہوتی ہے۔ مجنوں گورکھپوری نے اس انحطاطی دبستان کی خصوصیات ایک سطحی قسم کی خود آسودگی، ایک سستے قسم کی لذت پرستی اور نفس پر وری بتائی ہیں۔ چونکہ ایسی شاعری میں زبان کا چٹخارہ، روز مرہ اور محاورے کا لطف ہوتا ہے اس لئے اچھے سے اچھے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جب تک مومن، ذوق اور داغ کا سکہ جما رہا۔ غالب جیسے عظیم شاعر کے کلام کی لطافت اور پاکیزگی، باریکی و نکتہ آفرینی کا پورے طور پر اعتراف نہیں کیا گیا۔ ہمارے ادب میں اب جو غالب کا مرتبہ ہے وہ کافی حد تک مغربی علوم سے ہمارے نقادوں کی شناسائی کا مرہون منت ہے۔ کیونکہ بیسویں صدی کے آغاز میں دیوان غالب کی ادبی قدر و قیمت کا دوبارہ تعین کیا گیا ہے جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ داغ اپنے طرز کی شاعری کے امکانات کو کافی حد تک ختم کر گئے تھے۔ اس لئے ان کا کوئی شاگرد اردو ادب میں قابل ذکر اضافہ نہ کر سکا۔ یوں تو داغ اور امیر مینائی کا اثر پورے ہندوستان پر تھا لیکن دہلی اور لکھنؤ کے تقریباً تمام شاعران بزرگوں کے تتبع پر فخر کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ داغ سے لے کر اب تک سر زمیں دہلی اور لکھنؤ سے کوئی بڑا شاعر پیدا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس پنجاب، لکھنؤ کو چھوڑ کر یوپی کے دوسرے شہروں اور قصبوں اور ہندوستان کی دوسری ریاستوں نے اس عہد کی ادبی تاریخ بنائی۔ یہاں ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے کہ ترقی پسند تحریک جس نے ابتدا میں تمام ادبی روایتوں سے بغاوت کی تھی اہل دہلی اور لکھنؤ کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکی۔

عہد داغ و امیر اور ان کے بعد اردو ادب میں دوسرا رجحان وہ رہا ہے جو مغرب کی دین ہے جس کی وجہ سے ہمارے ادب میں نئی زندگی نئے خیالات، نئی قدریں اور نیا شعور بلکہ نیا ذہن پیدا ہوا مغربی علم و فن کی روشنی نے ہمارے ذہن کے ان بے شمار گوشوں کو منور کیا جو صدیوں سے تاریک تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد، حالی اور اسمٰعیل میرٹھی وغیرہ شاعر ہیں جنہوں نے مغرب کے سر چشموں سے اپنی پیاس بجھائی اور جنہوں نے غزل کے حصار سے باہر نکلنے کی شعوری کوشش کی۔ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ قدر اول کا تنقیدی سرمایہ نہ سہی، لیکن اردو کی فرسودۂ پامال اور روایتی شاعری پر بھر پور حملہ ضرور ہے۔

انیسویں صدی کے اختتام بلکہ بیسویں صدی کی ابتدا تک داغ اور ان کے دبستان کے دوسرے شاعر عرصہ تک ان کی کوششیں بار آور نہ ہو سکیں اور نظم گو شعرا کی تعداد بہت محدود ہو رہی ہے۔ اقبال اور جوش سے پہلے قابل ذکر شعراء میں سرور جہاں آبادی، تلوک چند محروم اور چکبست کے نام ملتے ہیں۔ داغ کی مقبولیت اور شہرت کا اندازہ لگانے کے لئے صرف یہ واقعہ کافی ہے کہ اقبال جیسے با شعور مفکر اور فلسفی شاعر کو بھی ادبی زندگی کا آغاز اسی طرح انداز سے کرنا پڑا۔ اقبال کا داغ کا شاگرد ہونا ایک اہم ادبی واقعہ ہے۔

بیسویں صدی کا آغاز اردو شاعری کے لئے بہت مبارک تھا۔ ایک طرف نظم کی طرف پہلے سے کہیں زیادہ توجہ دی گئی اور دوسری طرف خود غزل گو شعرا نے داغ کے اثر کے خلاف بغاوت کی۔ بغاوت کرنے والوں میں حسرت، فانی، اصغر اور جگر کے نام سر فہرست ہیں۔ یہ شعرا اگر کلی طور پر داغ اور امیر کے اثر سے باہر نہ آ سکے لیکن پھر بھی یہ آزاد فضا میں سانس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں روایتی مضامین ان کا اپنا ذاتی تجربہ بن کر ابھرتے ہیں۔ اسی لئے ان میں تازگی، شگفتگی اور دل کی دھڑکنیں ہیں۔ یہ لوگ محبوب کے روایتی حسن اور عاشق و معشوق کے روایتی تعلقات سے کافی حد تک دامن بچائے رہتے ہیں۔ ان کا احساس اور جذبۂ عام طور پر اپنا احساس اور اپنا جذبہ ہوتا ہے انہیں شاعروں نے غزل کو رکاکت، پستی اور ابتذال سے نکالا ہے اور انہیں کی وجہ سے اردو غزل کو نئی سمتوں اور نئی منزلوں کے نشانات ملے ہیں۔ یہی وہ دور ہے جب رگھوپتی سہائے فراق کلاسیکت اور جدید کے امتزاج سے حاصل کیا ہوا نیا ذہن لے کر میدان شاعری میں آئے لیکن ان کے سامنے کوئی واضح راہ نہیں تھی۔ ادبی سفر کے ابتدا میں فراق پر بڑی کھٹن گھڑیاں گزری ہیں۔ ان کی بے چین مضطرب رقصندہ و جولان طبیعت کسی چیز پر قانع نہیں تھی۔ وہ ہر تیز روکے ساتھ چلتے لیکن بہت جلد اکتا جاتے۔ اندازے کے تنقیدی مضامین فراق کے ادبی سفر کے متعلق اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مصحفی، مومن، ذوق اور داغ سے ان کا والہانہ لگاؤ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک نو جوان اپنی منزل تلاش رہا ہے اور راستے میں ملنے والے ہر خدا کے سامنے جھک جاتا ہے لیکن بہت جلد اس کا تخلیق ذوق سیمابی مزاج اور متحرک شعور اسے ایک خدا سے مایوس کر دیتا ہے اور وہ پھر نئے خدا اور نئے رہنما کی تلاش میں آگے بڑھ جاتا ہے۔ فراق کی ابتدائی شاعری میں ان کی فکر، ان کی اپنی آواز اور اپنا لب و لہجہ بہت کم نمایاں ہے اس لئے بعض نقادوں نے عزیز لکھنوی، فانی، حسرت اور دوسرے شاعروں سے ان کا موازنہ کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ ان سب سے متاثر تھے لیکن میرا خیال ہے کہ فراق اپنے ہم عصر شاعروں سے قطعی متاثر نہیں۔ ان پر داغ، امیر مینائی اور مومن کا گہرا اثر ہے مثلاً یہ شعر ملاحظہ ہوں :

لے کے جب ناز سے انگڑائی وہ بستر سے اٹھا

فتنۂ صبح قیامت بھی برابر سے اٹھا

کچھ ہم بھی تو حوصلے نکالیں

آؤ تمہیں سینے سے لگا لیں

ایک تصویر تھی وصال کی رات

آپ کے لطف انتہائی کی

بجا یہ ترک محبت بجا یہ عزم محال

کسی کو خیر نہ اب چاہنا قسم تو نہ کھاؤ

رات آئی فراق دوست نہیں

کسی سے کہیئے کہ آؤ سو جائیں

تمہیں نے باعث غم بار ہا کیا دریافت

کہا تو روٹھ گئے یہ بھی کوئی بات ہوئی

اک بات کہتے کہتے کبھی رک گیا تھا حسن

وہ ماجرا فراق مجھے بھولتا نہیں

اس نے کی پرسش حالات تو منھ پھیر لیا

دل غمگیں کا یہ انداز خدا خیر کرے

تجھ سے اے دل کہہ چکا میں کتنا نازک وقت ہے

یار کچھ کر کے دکھا ایسے میں میرا منہ نہ تک

آنسو مژہ کے پاس تک آ کر پلٹ گئے

کل بال بال آبروئے عشق بچ گئی

محشر میں ساتھ میرا اب چھوڑتے نہیں ہیں

اللہ یہ وہی ہیں جن کو ترس گیا ہوں

فراق نے ابتدا میں ان شعرا کی پیروی کی ہے جو انداز بیان اور زبان کے استعال میں منفرد ہیں۔ نیاز فتح پوری ان تا قدروں میں ہیں جن کے پاس ادب کی جانچ کے وہ معیار ہیں جو کلاسیکی فارسی اور عربی سے ہم کو ملے ہیں اسی لئے وہ فن میں انداز بیان کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے یوپی کے ایک نوجوان ہندو شاعر، فراق گورکھپوری کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا ہے جس میں الفاظ اسلوب بیان اور رنگ سخن پر اچھی خاصی بحث کر کے فراق کے بارے میں لکھا ہے :

’’دور حاضر اس میں شک نہیں کہ ترقی سخن کا دور ہے اور مغربی تعلیم نے ذہنیت انسانی کو اتنا وسیع اور بلند کر دیا ہے کہ ہم کو ہر جگہ اچھے اچھے سخن گو نظر آ رہے ہیں لیکن اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ ان میں کتنے ایسے ہیں جن کے شاندار مستقبل کا پتہ ان کے حال سے چلتا ہے تو فہرست بہت مختصر ہو جائے گی اتنی مختصر کہ اگر مجھ سے کہا جائے کہ میں ان میں بلا تامل کسی ایک کا انتخاب کروں تو میری زبان سے فوراً فراق گورکھ پوری کا نام نکل جائے گا۔ ‘‘

اس مضمون میں نیاز نے کلام مومن کی تین خصوصیات بیان کی ہیں۔ انداز بیان میں لذت، فارسی ترکیبوں میں حلاوت اور شگفتگی اور تیسری ارضی محبت۔ نیاز کا خیال ہے کہ فراق کے یہاں یہ تینوں خصوصیات ہیں۔

مجھے اس حقیقت سے انکا ر نہیں کہ ابتدا میں فراق نے کچھ اشعار بالکل مومن کے انداز میں کہے تھے لیکن ان پر گہرا اثر داغ اور امیر مینائی ہی کا تھا اور بہت جلد فراق اس اثر سے باہر آ گئے۔ اگر وہ ان ہی شاعروں کے تتبع ہی میں لگے رہتے اور اپنا راستہ خود نہ بنا تے تو اردو کی ہزاروں آوازوں میں اس ’’خانۂ خراب‘‘ کی منفرد آواز الگ نہ پہچانی جاتی اور فراق کا یہ دعویٰ محض تعلی ہوتا۔

میں نے اس آواز کو مر مر کے پالا ہے فراق

آج جس کی نرم لو ہے شمع محراب حیات

جب فراق غزل کہہ رہے تھے تو جوش، ڈاکٹر عندلیب شادانی اور کلیم الدین احمد صنف غزل پر بڑے خطرناک اور بھر پور وار کر رہے تھے۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر نوجوان اردو کے بیشتر سرمائیہ شاعری سے بد ظن تھے اور خاص طور پر غزل کو جاگیر داری عہد کی یاد گار کہتے تھے۔ ان تمام مخالفتوں کے با وجود فراق پورے خلوص اور لگن سے اس صنف سخن میں طبع آزمائی کر تے رہے۔ انہوں نے نظمیں بھی کہیں اور رباعیاں بھی لیکن کلام فراق میں ان کی حیثیت محض ثانوی ہے۔ فراق کی شخصیت میں اپنے عہد کے دوسرے غزل گو شعراء سے زیادہ گہرائی اور گیرائی ہے۔ ان کے تجربات اور مشاہدات کی دنیا وسیع تر ہے۔ ان کے احساس اور جذبہ میں وہ گرمی ہے کہ جب و اپنے عہد کی فکر اور خیالات کو جذبات اور احسات کی آگ میں تپاتے ہیں تو ان پر ایسا نکھار اور ایسی آب و تاب آ جاتی ہے کہ وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر عمومی اور آفاقی ہو جاتے ہیں۔ حسرت، فانی، اصغر اور جگر نے غزل کو داغ اور امیر مینائی کے اثر سے نکالنے کی کوششیں شروع کی تھیں جن میں انہیں کافی حد تک کامیابی ہوئی۔ا گرچہ ابتدا میں فراق، داغ، امیر اور مومن سے متاثر رہے لیکن بہت جلد انہوں نے غزل کو نیا موڑ دے دیا۔ انہوں نے حال سے ہر قابل قدر چیز کو قبول کیا ہے لیکن ماضی سے کبھی اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ انہوں نے اپنے عہد کے خیالات کو اپنا یا لیکن قدیم فکریات کے احترام میں بھی کمی نہ کی۔ اور بقول ان کے

ہزار ہا اشارے پائیں گے تلاش شرط ہے

قدیم فکریات میں جدید فکریات کے

چونکہ اردو غزل جاگیر داری عہد میں پیدا ہوئی تھی اور اسی عہد میں عروج کو پہنچی اس لئے غزل میں حسن و عش کا تصور بھی جاگیر دارانہ رہا ہے۔ محبوب امرد ہے یا طوائف اسی لئے عاشق مظلوم ستم زدہ اور زندگی بھر ایک نگاہ کرم کا امید وار رہتا ہے جب کہ محبوب عاشق کے تمام رقیبوں کو نوازتا رہتا ہے۔ شاعر ہمیشہ اپنے محبوب کا شاکی ہوتا ہے۔ اردو اور فارسی شاعر نے ہمیشہ محبوب پر ایسی چادر ڈالے رکھی جس نے مرد عورت اور خدا تینوں کو گڈ مڈ رکھا۔ جس کی وجہ سے محبوب کا کوئی آدرشی معیاری اور عینی تصور نہیں ابھر سکا۔ محبوب کے جسم کی تعریف ایسے روایتی انداز اور فرسودہ و پامال تشبیہوں اور استعاروں میں کی گئی کہ محبوب کی کمر اور دہاں دونوں معدوم رہے۔ لکھنؤ کی شاعری میں جس عورت کی کبھی کبھی جھلک دکھائی دیتی ہے وہ شریف زادی نہیں بازاری ہے جس کی کافر اداؤں اور عشوہ طراز یوں میں معصومیت، بے ساختگی اور بھولپن کے بجائے تصنع بناوٹ اور تجارتی انداز ہے۔ مومن نے پردہ نشینوں کا ذکر کیا ہے مگر یہ پردہ نشیں اگر بازاری عورتیں نہیں تو ڈیرہ دار طوائفیں ہیں جن میں تھوڑی بہت نسائیت اور شرم و حیا باقی ہے۔ اختر شیرانی کی سلمیٰ اور عذرا صرف کیا ہے۔ اس سلسلے میں جوش اور فراق پہلے شاعر ہیں جن کے یہاں عاشق اور عورت اس زمیں کے رہنے والے ہیں۔ فراق نے محبوب کے حسن کا بیان ہندوستانی زبان استعاروں اور تشبیہوں میں اس طرح کیا ہے کہ ان کا محبوب اردو کے عام محبوب کی طرح واجبی اور غیر ملکی نہیں۔ صرف ان استعاروں اور تشبیہوں نے اس محبوب کوہندوستانی کر دیا ہے۔ یہاں ایک بات اور عرض کر دوں فراق کا محبوب اپنی پوری خوبیوں دلکشیوں اور رعنائیوں کے ساتھ غزل کی نسبت نظم اور رباعی میں زیادہ واضح طور پر ابھرا ہے۔

یہ دھج یہ سجل روپ کی جگمگاہٹ

یہ مہکی ہوئی رسمسی مسکراہٹ

جھلک جسم کی شبنمی پیر ہن میں

کسی دیپ مالا کی ہے جھلا ہٹ

دھند لکے میں وہ جوت سمیں بدن کی

ستاروں کی کرنوں کی وہ لپلپاہٹ

تناؤ مدھ بھرے سینے کا یہ کمر کا کٹاؤ

خطوط جسم سرنگی کے ہیں کھینچے ہوئے تار

دوشیزۂ فضا میں لہلہایا ہوا روپ

آئینۂ صبح میں جھلکتا ہوا روپ

یہ نرم نکھار یہ سجل دھج یہ سگندھ

اس میں ہے کنوارے پن کا ڈوبا ہوا روپ

بلور میں ہے لوچ کہ پیکر کا رچاؤ

میخانے کو نیند آئے وہ آنکھوں کا جھکاؤ

جس طرح کمانیوں میں پڑ جائے جان

دیکھے کوئی پنڈلی کا گداز اور تناؤ

لہروں میں کھلا کنول نہائے جیسے

دوشیزۂ صبح گنگنائے جیسے

یہ روپ یہ لوچ یہ ترنم یہ نکھار

بچہ سوتے میں مسکرائے جیسے

پلکیں بند السائی زلفیں نرم سیج پر بکھری ہوئی

ہونٹوں پر اک موج تبسم سوو ہو یا جاگو ہو

لٹکے لٹکے کا لے گیسو گورے گورے لمبے بازو

مل کے رواں میں گنگو جمن ساتھ خراماں رام لکھن

ان اشعار میں جس محبوب کی تصویر ہے اس میں بھرپور زندگی سانس لے رہی ہے۔ ان میں عاشق معشوق دونوں کے دل کی دھڑکنوں کو سنا جا سکتا ہے۔ ان اشعار میں حسن کی تعریف میں اپنے بزرگوں اور ہمعصروں سے سبقت لے جانے کی کوشش نہیں کی بلکہ حقیقی احساس اور جذبہ کی ترجمانی کی ہے۔

فراق پر عام طور سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کے یہاں سستی قسم کی لذتیت ہے۔ اکثر ناقدوں نے یہ حکم فراق کے ان تمام اشعار پر لگایا ہے جس میں جنسی جذبہ کا کسی طرح بھی اظہار کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ اعتراض ان شعروں پر تو ٹھیک ہے جن میں جنسی تجربوں کے بیان میں جمالیاتی اور فکری کی آمیزش نہ ہو کسی خلوت نیم شب ہے ’’کپڑے اتار‘‘ جیسے اشعار واقعی کبھی کبھی بے کفن ننگی تصویریں بن جانتے ہیں۔ جنسی احساسات اور افعال کا ذکر اردو غزل میں عام طور سے ملتا ہے فرق یہ ہے کہ دوسروں کے یہاں ذکر احساس گناہ اور گھٹن کے ساتھ ملتا ہے جب کہ فراق کو ورثہ میں فکر کی وہ روایتیں ملی ہیں جن میں جنسی تعلقات لائق احترام ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہندو مذہب کے ایک طبقے میں مذہب اور جنس میں قطعی بعد نہیں رہا ہے مادھورے شاکھا کے ماننے والے بھگوان کو اپنا پتی مانتے ہیں۔ اسی کی مختلف شکلیں شیومت او شاکت ہیں شیو کے ماننے والے مرد کے اور شاکت گروہ کے لوگ عورت کے عضو مخصوص کی پوجا کرتے رہے ہیں۔ کون کافر ہے جو کرشن اور ر ادھا کا مذہبی حیثیت سے احترام نہ کرتا ہو۔ کرشن بھگتی شاکھا کے شاعروں نے ان دونوں کے جنسی تعلقات کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے میتھلی زبان میں ودیا پتی برج بھا شا میں سور داس اور سنسکرت میں جے دیو نے ان دونوں کے جنسی تعلقات کی بڑی دلآویز دلکش تصویریں بنائی ہیں۔ کالیداس کے کمار سمبھو میں شیوا ور پاروتی کی پہلی رات کا منظر انتہائی دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ اس منظر کا مصنف کا لیداس نہیں کسی شاعر نے اضافہ کیا ہے۔ مجھے اصل مصنف سے بحث نہیں کیونکہ جس کسی نے اشعار تصنیف کئے ہیں وہ شیو مت کا ماننے والا اور شیو و پاروتی کا عقیدت مند تھا اس لئے اس میں سب کچھ کے باوجود ایک احترام اور ایک دلکش پاکیزگی ہے خود فراق نے ان الفاظ میں اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے جنسی کشش اور جنسی رجحانات میں جب تک جذباتی پائندگی، جذباتی سوز و ساز، نرمی مانوسیت، معصومیت، حیرت و استعجاب سپردگی وجدانی محویت اور ایک احساس طہارت کے عناصر گھل مل جائیں گے اس وقت تک تخیل میں وہ حلاوت اور وہ عنصری طہارت پیدا نہ ہو گی جو بلند پا یہ عشقیہ شاعری کو جن دیتی ہے اور غم و محبت کی کسک میں خیرو برکت کی وہ صنف بھی پیدا نہ ہو گی جس کے بغیر وہ رس جس با ’’پرساد گن‘‘ پایا جائے گا جہاں غم و نشاط کا اتحاد رہتا ہے اور جو دنیا کی بلند پایہ عشقیہ شاعری کی روح رواں ہے۔ محبوب اور جنسی جذبات کا یہ احترام فراق کو مذہبی فلسفے سے ورثہ میں ملا ہے اسی لئے وہ جلوت میں ہوں یٰا محبوب کے ساتھ خلوت میں وہ محبوب کے ساتھ دبے خودی میں  ایسے لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسے سنگیت کی دیوی نے ان پر جادو کر دیا ہو۔ یا جیسے برسوں کی ریاضت کے بعد کسی سادھک کی آنکھوں کے سامنے سے حیات و کائنات کے سب پردے اٹھ گئے ہوں اور صرف نور ہی نور رہ گیا ہو۔ کبھی فراق کی حالت اس شخص کی ہوئی ہے جو تلاش حق ہی میں اس مقام پر پہنچ گیا ہو جہاں حیرت اور استعجاب کے سوا کچھ نہ ہو ااور جہاں کا ہر ذرہ ایک ایک عالم اسرار ہو۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

دیکھ جب عالم یہ ہے حسن خمار آلود پر

پچھلے کو لیتی ہو جیسے کائنات انگڑائیاں

لب نگار ہے یا نغمۂ بہار کی لو

سکوت ناز ہے یا کوئی مطرب رنگیں

قبا میں جسم ہے یا شعلہ زیر پر دۂ ساز

بدن سے لپٹے ہوئے پیرہنی آنچ نہ پوچھ

تمام باد بہاری تمام خندۂ گل

شمیم زلف کی ٹھنڈک بدن کی آنچ نہ پوچھ

حسن کی اف رے کیف سامانی

نغمہ ہیں، رنگ و بو، ہیں کیا ہیں آپ

پڑ گئی ساز کائنات میں جان

ہاں مگر جان ماسوا ہیں آپ

دیکھ سکنے کی الگ بات مگر حسن ترا

دولت دیدۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا

وہ تمام روئے لگا رہے وہ تمام بوس و کنار ہے

وہ ہے چہرہ چہرہ جو دیکھئے وہ ہے چومے تو دہن دہن

سرگوشیاں سی جیسے ہوں غیب و شہود میں

اے حسن شرمسار تری شرم ساریاں

خلوت تمام عالم اسرار ہو گئی

جب اس نے چست و تنگ قبائیں اتار یاں

کر دے جو فرشتوں کو بھی انساں

کتنا اچھا تیرا بدن ہے

صحرا صحرا میری محبت

دریا دریا ترا بدن ہے

شاعروں کو اعتراف عجز ہے

عالم اسرار ہیں آنکھیں تری

جو کریں آئینہ اسرار جمال

شیشۂ کردار ہیں آنکھیں تری

سرمدی فن کا کوئی شہکار ہے

یا مرا دیوان ہے تیرا بدن

کسب فن کرتا رہا جس سے فراقؔ

وہ نگار ستان ہے تیرا بدن

محبوب کے بدن کا ذکر تو بہت شاعروں نے کیا ہے۔ خصوصاً لکھنوی شعرا نے تو اس موضوع پر خاص توجہ دی ہے۔ مگر جسمانی لذت اور لمس کا احساس جو فراق کے اشعار پڑھ کر ہوتا ہے۔ دوسرے شاعروں کے یہاں مفقود ہے۔ فراق کا عشق قطعاً مادی و ارضی۔ اور فراق اردو کے پہلے شاعر جنہوں نے ’’ جنسی رومانیت‘‘ کا تصور پیش کیا ہے۔

فراق نے محبوب کے بدن کو شعلہ زیر پردۂ ساز تمام باد بہادری تمام خندۂ گل شمیم زلف کی ٹھنڈک گونجے ہوئے نا شنیدہ نغمے ساز حیا اور سرمدی فن کا شہکار، وغیرہ کہا ہے حسن شر مسار کو غیب و شہود کی سرگوشیاں سمجھنا، محبوب کے جسم کو سر مدی فن اور اپنے دیوان سے زیادہ مقدس سمجھنا اور اس سے کسب فن کرنا فراق ہی کام ہے۔ محبوب کے جسم میں تقدس پاکیزگی طہارت اور عالم اسرار کی کیفیت محض فکر و تخیل کی اڑانیں نہیں اس عقیدت مندانسان کے جنسی جذبات کا اظہار ہیں جس کی شخصیت اور ذہن پر ہندوستان کی ہزاروں برس کی روایات کی گہری چھاپ ہے۔ فراق نے عشق اور وصل کے متعلق چند براہ راست شعر بھی کہے ہیں۔

کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

میں نے اوپر جو کچھ عرض کیا ہے اس کے ثبوت میں فراق کا صرف یہ شعر کافی ہے۔

نفس پرستی پاک محبت بن جاتی ہے جب کوئی

وصل کی جسمانی لذت سے روحانی کیفیت لے

جیسا کہ شروع میں عرض کر چکا ہوں اردو شاعری میں عاشق اور محبوب کے تعلقات ہمیشہ دلچسپ رہے ہیں۔ محبوب کو عاشق سے نفرت رہی دونوں میں ہمیشہ مغائرت رہی عاشق ہیں محبت اور معشوق میں جذبہ انتقام بدرجہ اتم رہا ہے۔ اس لئے وصل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور اگر کسی طرح محبوب مان گیا تو اس لئے نہیں کہ انسان ہونے کے ناطے اس کی بھی یہ فطری خواہش ہے بلکہ صرف عاشق کے حال زار پر رحم کھا کر حسن کی خیرات کے طور پر خود کو عاشق کے حوالے کرتا ہے۔ چونکہ اس میں ایک طرفہ خواہش اور جذبہ کو دخل ہے اس لئے ظاہر ہے کہ محبوب ذرا سرک کر سوتا ہے یا بیچ میں تکیہ رکھ لیتا ہے اور عاشق بے چارہ وصل میں بھی ہجر کے مزے لیتا ہے۔ البتہ مثنوی میں عورت کے جنسی جذبات کا ذکر کیا گیا۔ البتہ بہت احتیاط کے ساتھ ہاں میر، اثر اور شوق لکھنوی کی مثنویاں مستشنی ہیں۔ فراق کی محبت یک طرفہ نہیں ہے اس لئے شب وصل دونوں میں معصومیت اور سپردگی ہے اور دونوں ہی جنسی آسودگی حاصل کرتے ہیں اور لذت وصل سے کامراں ہوتے ہیں۔ اب وصل اور وصل کے بعد کی کیفیت فراق کے ہاں دیکھئے :

کھینچتا ہے عبث بغل میں بانہوں کو تولے

کھو جانے کا ہے وقت تکلف نہ رہے

ہنگام وصال کر سنبھلنے کی نہ فکر

سو سو ہاتھوں سے میں سنبھالے ہوں تجھے

ہر عشوہ کا بھید بھرم لینے دے

ہر لائے ہوئے رنگ کو جم لینے دے

اے پریم کے سیج کی رسیلی پتلی

اتنا بھی نہ چھیڑ کچھ تو دم لینے دے

چڑھتی ہوئی ندی ہے کہ لہراتی ہے

پگھلی ہوئی بجلی ہے کہ بل کھاتی ہے

پہلو میں لہک کے بھینچ لیتی ہے جب

کیا جانے کہاں بہا کے لے جاتی ہے

وصال کے بعد دونوں کے چہرے پر جو ملکوتی سکون اور خود آسودگی کی پیرا کی ہوئی آب و تاب نظر آتی ہے وہ ملاحظہ کیجئے :

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے شباب کی دوشیزگی نکھر آئی

وصل کی رات کے کشف و کرامات آئینے میں صبح کو دیکھ

جیسے سہاگ دمک اٹھے کنوار پن اور نکھر آئے

ایک عام آدمی اور فنکار دونوں ہی زندگی کے گونا گوں تجربات سے گزرتے ہیں۔ فطرت دونوں ہی کے لئے اپنے بند قبا وا کرتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ عام آدمی کی نگاہ سطحی ہوئی ہے اور وہ صرف اوپر کی چیزیں دیکھ سکتا ہے۔ تجربے کے نادر پہلو اس کی نگاہ سے رو پوش رہتے ہیں۔ فن کار کائنات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ وہ خود کو فطرت کا حریف نہیں راز دار دوست بلکہ خود اپنا ایک حصہ سمجھتا ہے۔ ہر نیا تجربہ اس کے ذہن کی بہت سی کھڑکیاں کھول دیتا ہے۔ فنکار اس تجربے اور اس فکر کو جذبہ اور احساس کی آگ میں اس طرح تپاتا ہے کہ وہ اس شخص شخصیت کا ایک حصہ بن کر تخلیقی عمل سے گزرتا ہے اور پھر الفاظ کے سانچوں میں ڈھلنے لگتا ہے۔ یہ تجربہ اور تخلیقی عمل قطعی انفرادی چیز ہے۔ لیکن جب یہ الفاظ کے سانچوں میں ڈھلتا ہے تو اس میں وسعت اور عمو میت پیدا ہو جاتی ہے اور دوسروں کے ذہنی آسودگی کا سامان بنتا ہے۔ یہاں ویدانت کے فلسفۂ ہمہ اوست کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اس فلسفے کے مطابق برہم کا اکے لیے دل نہیں لگتا تھا اس نے خواہش کی میں ایک ہوں بہت ہو جاؤں۔ یعنی برہم جب اپنی تنہائی سے پریشان ہو گیا تو اس نے مختلف چیزوں کے روپ دھار لئے۔ ‘‘ اس لئے کائنات کی ہر شے میں اسی خدائے لایزل کی روح جاری و ساری ہے۔ قرآن شریف میں اس برعکس خدا کہتا ہے میں نے دنیا کو بنایا۔ یعنی خدا کی ذات اور یہ دنیا الگ شئے ہیں۔ مسلمان صوفیوں نے ویدانت کے فلسفۂ ہمہ اوست کو تسلیم تو کیا لیکن صرف جذباتی سطح پر وہ خدا رسول قرآن فر شتہ اور انسان کے وجود سے انکار نہیں کر سکے۔ اور اگر کسی نے انکار کیا اور انا الحق کا نعرہ بلند کیا تو علمائے دین نے اسے دار پر چڑھا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی حضرات اور ان کے زیر اثر اردو شاعر خود کو فطرت سے کلی طور پر ہم آہنگ نہیں سمجھ سکے۔ اس کے بر عکس فراق خود کو پوری کائنات کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ کائنات کی ہر شئے ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ اسی لئے اگر ایک پھول کو جنبش دو گے تو ایک تارا کانپ اٹھے گا۔ پچھلی پہر کے سناٹے عام آدمی کو خائف کرتے ہیں۔ جب کہ فراق ایک بیدار مغز انسان ہونے کی وجہ سے سکوت فضا میں کھو جانے اور آسمانوں کا راز بن جانے کی تمنا کرتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:

مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی

مری سر شت میں ہے پاکی و  درخشانی

فراق اقبال کے اس اختلاف فکر کی بنیاد مذہبی ہے۔ فراق جس طرح اپنے محبوب کے عضو عضو سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور مستی سے جھومنے لگتے ہیں ٹھیک یہی کیفیت ان پر اس وقت بھی طاری ہوتی ہے۔ جب وہ فطرت کے رعنا ئیوں اور دلکشیوں کی آغوش میں ہوتے ہیں اب کچھ اشعار ملاحظہ ہوں :

یارو باہم گندھے ہوئے ہیں کائنات کے بکھرے ٹکڑے

ایک پھول کو جنبش دو گے تو اک تارا کانپ اٹھے گا

جاگ اٹھے گی روح تم تو سو جاؤ گے

سر چشمۂ زندگی میں دھو جاؤ گے

کھو جاؤ جب مناظر فطرت میں

اپنے سے بہت قریب ہو جاؤ گے

زمیں جاگ رہی ہے کہ انقلاب ہے کل

وہ رات ہے کہ ذرہ بھی محو خواب نہیں

اس سکوت فضا میں کھو جائیں

آسمانوں کے راز ہو جائیں

یہ نرم نرم ہوائیں یہ چھاؤں تاروں کی

ہے آج دیکھنے کی چیز رات کا جو بن

فطرت تمام حُسن خود آرا ئی ہے مثال

کن انگلیوں نے رات کی زلفیں سنواریاں

پتہ پتہ بوٹا بوٹا وجد کرے ہے گلشن میں

جب مشرق میں شفق پھوٹے ہے نرم ہوائیں ڈولے ہیں

ہوش میں کیسے رہ سکتا ہوں آخر شاعر فطرت ہوں

صبح کے مست رنگے جھرمٹ سے جب وہ انگلیاں مجھے بلائیں

خامشی تھی کہ کوئی نغمۂ ساز

زندگی جھوم جھوم جاتی تھی

سنو مجھ سے اسرار عالم کہ میں نے

سکوت لب ناز سے بات کی ہے

فراق نے اردو شاعری کو نئی نئی تشبیہات اور استعارات دیئے ہیں اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں بیشتر ہندوستانی ہیں۔ فراق کی شخصیت اور کلام کے مطالعے کے لئے ان تشبیہوں اور استعاروں کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ فراق کے متعلق ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کا بہت برجستہ استعمال کیا ہے لیکن ہندی کے بعض نا قدوں اور خاص طور پر رام ولاس شرما کا خیال ہے کہ فراق کو ہندی پر بہت کم قدرت حاصل ہے اور سنسکرت کے متعلق ان کی بیشتر معلومات انگریزی کے ذریعہ ہیں۔ میرا ذاتی خیالی ہے کہ فراق کی زبان کو سمجھنے کے لئے بھوج پوری مطالعہ ضروری ہے۔ فراق نے اس بولی کو ادبی حیثیت دی ہے۔ میں نے اس دعوے کے ثبوت چند شعر پیش کرتا ہوں :

کیا ہے جواب اور کیا تھا سوال

اسی ڈال ہے پھر بیتال

بھولے بھٹکوں میں کیوں اکثر منزل سے آتی ہیں صدائیں

گڑ جائیں پاتال میں لیکن گلی گلی کی خاک نہ چھان

مٹ مٹ کر یہ ابھر نا گویا تیرے بائیں ہاتھ کا کھیل

تیری بڑی بات اے دنیا مہیما کون بکھانے

ترک محبت کرنے والو کون بڑا جگ جیت لیا

عشق سے پہلے کے دن سوچو کون بڑا سکھ ہوتا تھا

نرسکھون کے نر بہیترے، لیکن بات کے آ جانے پر

ضد تو وہی ہے جس کو زمانہ سو سمجھائے ایک نہ مانے

٭٭٭

 

 

فراقؔ کو سمجھنے کے لئے

 

                ………خلیل الرحمن اعظمی

 

 

 

اردو کے بعض بزرگ ترین شعراء مثلاً میرؔ، سوداؔ، نظیر اکبر آبادی کے متعلق میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ یہ در اصل کلیات کے شاعر ہیں۔ ان کا نمونۂ کلام پیش کرنے یا اپنے ذوق کے مطابق ان کا انتخاب تیار کرنے میں یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ ان کی شاعری کی حقیقی نوعیت اجاگر ہو جانے کے بجائے ان کی اصل حیثیت نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ اس نکتے کو ملحوظ نہ رکھنے کی بناء پر ہی ہم نے بعض ایسے مفروضات قائم کر لئے تھے جن پر تکیہ کر کے ہماری تنقید ان شعراء کی قدر و قیمت متعین کرنے کے بجائے ان کی شخصیت اور ان کے شعری مزاج تک رسائی حاصل کرنے کے معاملے میں ہماری سدِّ راہ بنتی رہتی ہے میرؔ کی شاعری ’’آہ‘‘ ہے تو سوداؔ کی شاعری ’’واہ‘‘ ہے نظیرؔ یا تو چٹکلے باز ٹھہرایا عامیانہ پن کارسیا، میرؔ کے سلسلے میں ’’پستش بغایت پست و بلندش بغایت بلند‘‘ اور نشتروں والا نسخہ بھی صدہا سال تک ہمیں میرؔ کے قریب پہنچنے سے روکتا رہا ہے۔

معلوم نہیں کہ کہاں تک یہ بات قابلِ قبول ہو کہ میں فراق کو بھی اسی سلسلے کا ایک شاعر سمجھتا ہوں، بیسویں صدی کے بعض دوسرے شعراء کے برخلاف فراق نہ تو منتخبات کے شاعر ہیں اور نہ ان کی شاعری ہر اعتبار سے صاف ستھری بے عیب، دھلی دھلائی اور منجھی ہوئی ہے۔ ان کا نام ذہن میں آتا ہے تو دو چار اچھے شعر ہی ذہن میں نہیں گونجنے لگتے بلکہ اپنی اچھائیوں اور برائیوں سمیت ہمارے سامنے ایک بھرپور تخلیقی قوت اور ایک شعری کردار ابھرنے لگتا ہے۔ اس کردار کی رنگا رنگی اور توانائی کا اندازہ تو صحیح معنوں میں اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم اس کی کلّی شخصیت سے دوچار ہوں۔ میرؔ کی طرح ان کے یہاں بھی بلند و پست میں ایک گہری نسبت ہے۔ اتنی گہری کہ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور بھی محال ہے جس طرح میرؔ کے مزاجِ شعری سے واقف ہونے کے لئے ان کے کلیات کو بڑے صبر و ضبط اور احتیاط کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ صرف کلیات کو بلکہ ’’نکات الشعرائ، خطبوں، اور تقریروں اور خطوں سے الجھنے اور سلامتی کے ساتھ اس سے عہدہ بر آ ہونے کے بعد ہی ان کے بارے میں کوئی مناسب اور معقول رائے قائم کی جا سکتی ہے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ فراق کے کلام کا کوئی ایسا مجموعہ موجود نہیں جو کلیات کا بدل ثابت ہو سکے۔ مختلف اوقات میں جو مجموعے چھپتے رہے ہیں ان میں تکرار اور خلط ملط کے علاوہ کوئی ایک رنگ بہت نمایاں ہے۔ دوسرے ابھی ان کی غزلیات کا خاصہ بڑا حصہ رسالوں میں بکھرا پڑا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر کوئی ان کی عشقیہ شاعری کو سب کچھ سمجھتا ہے، کوئی ان کی ’’دھرتی کی کروٹ‘‘ اور ڈالردیس جیسی نظموں کو دیکھ کر ایک رائے قائم کر لیتا ہے، کوئی انہیں شہر نگار اوراس کی رباعیوں پر جانچتا ہے تو کوئی ان کی طول طویل غزلوں سے زور آزمائی کرتا ہے جن میں اچھے اشعار یا تو بالکل نہیں ہیں یا زبان و بیان کے تمام اصولوں کی پابندی نہیں کی گئی ہے یا کہیں کہیں اشعار بحر اور وزن سے خارج ہو گئے ہیں۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ فراق کے بارے میں دو طرح کی تنقید وجود میں آئی ہے۔ ایک تنقید تو وہ ہے جو ان کے طرزِ احساس، ذہنی رویے اور تخلیقی عمل کو سمجھے بغیر ان کو اپنے مخصوص اخلاقی اور فنی اقدار پر کس کر انھیں سرے سے رد کر دیتی ہے۔ دوسری تنقید وہ ہے جس کے وجود میں لانے کا سبب خود فراق صاحب ہیں۔ فراق صاحب نے اپنے مضامین اور دوسری تحریروں میں خود اپنے بارے میں جو دعوے کئے ہیں یا جن خیالات کا اظہار کیا ہے انہیں کو الٹ پھیر کر بیان کرنے اور ان میں تھوڑا سا نمک مرچ لگانے سے اس طرح کے مضامین بر آور ہوئے ہیں جو اب موجودہ تنقید کا جز و لاینفک بن گئے ہیں لطف یہ ہے کہ ایسے مضامین میں انھیں اشعار کے اقتباسات اور مثالیں بھی عام طور پر دی جاتی ہیں جنہیں فراق صاحب دہراتے رہتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک فراق صاحب کا سارا کلام یکجا طور پر شائع نہیں ہو جاتا ایک عام قاری ان کے کلام سے لطف اندوز ہونے اور ان کے مخصوص شعری مزاج کو سمجھنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کرے پھر ان کی کلیات شائع ہو جائے تو اتنے بڑے انبار سے فراق کی تخلیقی شخصیت کو ڈھونڈ نکالنا، اس کے خدوخال متین کرنے کے لئے بڑی ریاضت اور جگر کاوی کی ضرورت ہے اور یہ بات عام پڑھنے والوں میں تو در کنار تنقید لکھنے والوں میں بھی خال خال ہی پائی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کا کوئی انتخاب مرتب کرنے کا ارادہ کرنا یا اس کی ذمہ داری اپنے سر لینا ایک کٹھن تنقیدی عمل سے گزرنا ہے جب کہ آزمائش میں پورے اترنے کے امکانات بہت مشتبہ ہیں۔

جہاں تک میں نے غور کیا ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میر کی طرح فراق کے شعری مزاج کا اصل جوہر بھی ان کی غزلوں میں کھینچ کر آ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی نظمیں یا رباعیاں سرے سے ناقابل اعتنا ہیں یا ان کی ادبی اور فنی قدر و قیمت اس کی بناء پر کچھ ماند پڑ جاتی ہے۔ محمد حسن عسکری نے فراق کی دو نظموں یعنی ’’پرچھائیاں ‘‘ اور ’’آدھی رات‘‘ کو جس انداز میں سراہا ہے مجھے اس سے بڑی حد تک اتفاق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ فطرت اور انسان کے باہمی تعلقات کے بارے میں یہ نظمیں ایک ایسے انداز کی مظہر ہیں جو اردو شاعری میں پہلے ناپید تھا۔ اسی طرح عزیز احمد نے مندرجہ بالا نظموں کے ساتھ ’’شام عیادت‘‘ اور بعض دوسری نظموں کو شامل کر کے ایک زمانہ میں کہا تھا کہ راشد اور فیض کی نظموں سے قطع نظر کر کے اور کسی شاعر کے یہاں نظم میں نیا لہجہ نہیں۔ در اصل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح میر نے اپنے تجربے اور اپنی شخصیت کا انکشاف اپنی غزلوں میں پورے طور پر کر دیا ہے اور ان کی مثنویاں، واسوخت یا بعض ہجویات اسی شخصیت کے پھیلاؤ اور اتار چڑھاؤ کی طرف اشارہ کرتی ہیں اسی طرح فراق کی بعض نظمیں یا ان کی رباعیاں بھی مخصوص فضا میں سانس لیتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جن سے ان کی غزلوں کا خمیر اٹھتا ہے۔ فراق کی غزل میں بھی ایک فضائی کیفیت، فطرت سے ایک نیا رابطہ موسم، صبح، شام، دھند کا اور رات کی رمزیت اس طور پر ابھری ہے جس نے ان کی غزل کی سر زمیں ہی بدل دی ہے دوسری بات مجھے یہ کہنی ہے کہ جس طرح میر نے اپنی شخصیت کے دائرے سے نکل کر قصیدے یا مرثیے کے میدان میں قدم رکھا لیکن اس رخ کی بیانیہ شاعری اس کے مزاج سے میل نہیں کھاتی اسی طرح فراق نے جب بھی سیاسی و سماجی موضوعات کو اپنی داخلی شخصیت سے الگ کر کے آزمانے کی کوشش کی ہے ان کا وار خالی گیا ہے۔ میر اور فراق کا یہ بیانیہ خارجی شاعری میں کامیاب نہ ہونا یا غالب کا مرثیہ نہ لکھ سکنا ان کے ادبی مرثیہ کو گھٹاتا نہیں بلکہ ان کی مخصوص افتاد طبع اور ان کے تخلیقی عمل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ شعراء در اصل داخلی اور غنائی شاعر ہیں۔ ان کے یہاں خارجی زندگی کا ادراک یا افکار و تصورات اسی وقت جمالیاتی پیکر اختیار کرتے ہیں جب وہ ان کی داخلی شخصیت میں ضم ہو کر ان کے مزاج سے مماثل ہو جائیں۔

فراق کی ذہانت و فطانت، ان کے علم و فضل، ان کی سوجھ بوجھ اور نکتہ رسی کے تو خیر ان کے مخالفین بھی قائل ہیں لیکن ان کے شعری طریق کار کو سمجھنے کے لئے ان کے مزاج اور انداز طبیعت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ وہ ابتداء ہی سے بہت ذکی الحس رہے ہیں۔ ان کی زندگی تیز و تند جذبات کرب و اضطراب اور نشیب و فراز کی مختلف منزلوں سے گذری ہے۔ ان کی زندگی بہت پیچ در پیچ، تہہ دار اور قریب قریب مجموعۂ اضداد ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندرون میں نور و ظلمت، خیر و شر اور سکون و انتشار کی مسلسل آویزش رہی ہے۔ ایسی شخصیت یا تو زمانے سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہے یا اس کی اپنی ذہنی پیچیدگی اس کے اندر ایسی تلخی پیدا کر دیتی ہے جو آگے چل کر زہر بن جاتی ہے۔ فراق کی انفرادیت کا راز یہ ہے کہ اس نے اس زہر کو امرت بنا دیا ہے اس نے اس کشمکش اور تضاد پر قابو حاصل کر کے اسے ایک مثبت عمل کی صورت دے دی ہے۔ فراق کی یہ شخصیت جسے میں اس کی تخلیقی شخصیت کہوں گا۔ خودبخود نہیں بن گئی ہے۔ بلکہ فراق نے خود اسے دریافت کیا ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس دوسرے فراق کو خود اس نے اپنے اندر سے پیدا کیا ہے اس عمل میں اس کی داخلی قوتوں نے بہت سی خارجی قوتوں سے امتزاج حاصل کیا ہے۔ا س لئے یہ شخصیت فراق سے بڑی ہو گئی ہے جیسے ہم رگھوپتی سہائے کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اس شخصیت کو بننے میں ایک عرصہ لگا ہے۔ فراق نے واقعی اپنی آواز کو مرمر کے پالا ہے اس آواز کو گرفت میں لینے کے لئے اسے ہر طرح کے جذبات و تجربات، افکار و واردات اور مسائل و مناظر سے گذرنا پڑا ہے اور اس طرح کہ اس عمل میں اردو شاعری اور اردو شاعری کے بہت سے مروجہ اسالیب اور مسلمہ سانچے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں۔ فراق کی شاعری میں ہم جس چیز کو عیوب سے تعبیر کرتے ہیں وہ در اصل ان کے تخلیقی عمل کا ایک ناگزیر جزو ہے۔ وہ اگر ایک نارمل انسان ہوتے، ان کی شخصیت اتنی تہہ در تہہ اور پیچیدہ ہونے کے بجائے اوسط درجے کی ہوتی تو بخوبی یہ ممکن تھا کہ وہ سیدھی سادی غزل گوئی پر گزارہ کر لیتے۔ بقول عام اور رائج قسم کی غزلیہ یا نظمیہ شاعری جو چند جذبات و محسوسات یا سامنے کے خیالات کو بنے بنائے سانچوں میں سہولت کے ساتھ ڈھال دینے سے وجود میں آتی ہے، وہ عام طور پر ان اسقام سے محفوظ رہتی ہے جس سے فراق کا کلام بھرا پڑا ہے لیکن اگر فراق اس بے ضر ر اور بے خطر راستے کو اختیار کرتے تو فراق صاحب ہی کیوں ہوتے اور ان کے ادبی مرثیے کے تعین کے دردسر میں مبتلا ہونے کی ضرورت کیوں پیش آتی بس یہ ہوتا کہ ڈیڑھ دو غزلیں ایسی کہہ جاتے جو شرفائے ادب کی بیاضوں اور انتخابوں میں جگہ پاتی رہتیں۔

ممکن ہے یہ ڈیڑھ دو غزلوں والی بات ذرا مبالغہ معلوم ہو لیکن جس فضا میں فراق صاحب کی شاعری پروان چڑھتی ہے اسے نظر میں رکھا جائے تو اس کی کچھ حقیقت سمجھ میں آ سکتی ہے۔ بیسویں صدی میں ہمارے یہاں ایک تو وہ شاعری مقبول ہو رہی تھی جس کی بنیاد حالی کے ہاتھوں پڑی تھی یعنی مقصدی شاعری، پیامیہ اور خطابیہ نظمیں، سیاسی، قومی، وطنی اور ملی خیالات سے لبریز نظمیں دوسری طرف وہ غزل گوئی بھی امراء و روساء کے دم سے زندہ تھی جو ناسخ و امانت اور داغؔ و میرؔ سے ہمیں ترکے میں ملی تھی۔ اس وقت کالجوں اور یونیورسیٹیوں سے تربیت حاصل کر کے جو نوجوان نکلتا تھا وہ حالی کے راستے کو اپناتا تھا کیوں کہ وہ نئے مطالبات کی پیداوار تھا۔ لیکن جو لوگ کسی وجہ سے اس نئے شعور سے بے بہرہ ہوتے تھے وہ پرانی ڈگر پر ہی لگ جاتے تھے۔ یہ خیال دل چسپی سے خالی نہیں کہ داغ کے شاگرد ہونے کے باوجود اقبال نے اس رنگ کو خیر باد کہہ کر ایسے میدان میں قدم رکھا جہاں پہنچنے کے بعد ان کی شاعری نے وہ صورت اختیار کی جو لکھنؤ اور دلی کے مستند زبان دانوں اور استادوں کے نزدیک مشتبہ خصوصیات کی حامل سمجھی جاتی رہی اور پرانا ذہن اس کو شاعری کے دائرے میں لانے کے لئے ہی نہیں تیار ہوتا تھا لیکن اس کے برخلاف داغ کے شاگردوں میں ہی بیخود، سائل، نوح ناروی، احسن مارہروی وغیرہ نے اس شریعت سے انحراف کو پسند نہیں کیا۔ تلامذۂ داغ و امیر کا سا لطف بھی اپنی غزل میں نہیں پیدا کیا بلکہ طرحی غزلوں میں طبع آزمائی، ردیف و قافیہ، عروض و بیان، صنائع بدائع اور محاورہ بندی کے کرتب کو ہی انہوں نے اصل شاعری قرار دیا جس کی وجہ سے ہمارے یہاں ایسی غزلوں کا ڈھیر لگ گیا جس کے اندر سے شاعری کی روح نکل گئی ہو۔

اس غزل کو دیکھ کر نئی تعلیم کا پروردہ غزل سے اور بھی متنفر ہو گیا اور عظمت اللہ خاں جیسے سر پھروں نے تو اس کی گردن بے تکلف مار دینے کا مشورہ دیا لیکن اسی نئے تعلیم یافتہ طبقے سے بعض ایسے نوجوان بھی اٹھے جنہوں نے حالی کی مقصدی شاعری کے نظریے سے بے اطمینانی کا اظہار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ فن اور ادب کا یہ تصور خاصا یک رخا ہے۔ وہ تہذیب کبھی جاندار اور بھر پور نہیں ہو سکتی جہاں انفرادی احساسات جمالیاتی جذبات یہاں تک کہ حقیقی تجربات کو شعر و ادب کے پردے پر بے نقاب ہونے کا موقع نہ ملے۔ اس نوجوان کا نام حسرت موہانی تھا جس نے اردو غزل اور داخلی شاعری کے امکانات کا از سر نو جائزہ لیا اور اس کی تمام روایات کو اپنے اندر سمیٹنے کی کوشش کی۔ حسرت کی جس آواز پر بعد میں جن لوگوں نے لبیک کہا ان میں اصغر، فانی اور جگر کا خاص طور پر نام لیا جاتا ہے۔ ان شعراء نے غزل کو زبان اور خالص محاورہ بندی کی شاعری سے نکال کر حساس اور ہم آہنگ کیا۔ یہ غزل تلامذۂ امیر و داغ کی غزل کے مقابلے میں نئی مختلف چیز تھی اور اپنے اندر تازگی رکھتی تھی اس لئے اسے ایک زمانے میں جدید غزل کہا گیا اور بجا طور پر کہا گیا۔ لیکن ان شعراء کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کی قدر و قیمت کو تسلیم کر لینے کے باوجود یہ احساس اپنی جگہ رہتا ہے کہ یہ غزل بھی طرز احساس اور طرزِ بیان کے اعتبار سے اپنے اندر وہی پرانی چاشنی رکھتی ہے جس سے ہم مانوس رہے ہیں۔ ان شعراء کا دائرۂ فکر ہمارے قدیم غزل گویوں مثلاً میر، در داور آتش وغیرہ کے مقابلے میں محدود ہے۔ دوسرے ان کے یہاں وہ تہداری، پیچیدگی اور ذہن کا عنصر نہیں ملتا جو بیسویں صدی میں آہستہ آہستہ پرورش پا رہا تھا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ ان غزل گویوں کے مقابلے میں آج بھی غالب زیادہ جدید شاعر معلوم ہوتا ہے اور وہ بیسویں مہدی کی نفسیات سے زیادہ قریب ہے۔ یہ بیسویں صدی کی نفسیات کیا بلا ہے ؟ مغربی تہذیب، مغربی علوم اور فنکار کے اثر سے نیا تعلیم یافتہ نوجوان اب ان اقدار و تصورات سے نا آسودگی محسوس کر رہا تھا جو ایک زمانے میں ہماری پشت پناہی کر رہے تھے۔ ڈارون، مارکس، فرائڈ اور آئن سٹائن وغیرہ کے نظریات نے ہمارے طرز فکر کو بدل کر رکھ دیا اور اس کی وجہ سے ہمارے ذہن سیدھے سادے عمل کے بجائے پیچیدگیوں کی آماجگاہ بن گئے تھے۔ ۱۹۳۵ء تک پہنچتے پہنچتے یہ طرز احساس ذہین طبقے میں عام ہو گیا تھا۔ اس لئے بیسویں صدی کی ابتداء سے نظم اور غزل دونوں میں جو شاعری سامنے آئی تھی اس کا وہ حصہ جو اپنے اندر فکری عمق نہیں رکھتا تھا اب پرانا اور بے اثر سا معلوم ہونے لگا رومانی غزل اور رومانی نظم گوئی، خواہ وہ عشق و عاشقی کے بارے میں ہو مناظرِ فطرت اور حب وطن کے سلسلے میں، اس کا طلسم ٹوٹنے لگا تھا۔ حسرت کے معاصرین میں فانیؔ کے یہاں تھوڑی سی دبازت معلوم ہوتی ہے لیکن ان کا تصورِ مرگ اور ان کا مخصوصانہ تفلسف جدید ذہن کے لئے دلکشی نہیں رکھتا تھا، البتہ اس زمانے میں مرزا یگانہ کے یہاں زندگی کے متضاد اور پیچیدہ مسائل سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ ملتا ہے اور ان کی شاعری میں ذہن کا عنصر بھی خاصی حد تک ہے لیکن یگانہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شخصیت کی اس قوت سے مثبت طور پر کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اس لئے آگے چل کر ان کے ذہنی سوتے خشک ہو گئے اور ان کے اندر ایک ایسی کرختگی اور خشونت پیدا ہو گئی جس نے ان کی غزل کے امکانات کو محدود کر دیا۔

فراق نے اپنے مطالعہ سے فکری اور ذہنی ترتیب کی بناء پر انسانی زندگی کو دیکھنے، برتنے اور سمجھنے کے لئے جس طرز احساس کی پروش کی تھی وہ اسی نئی نفسیات کا پیدا کر دیا تھا اس نفسیات اور مزاج کے اظہار کے لئے ہماری قدیم غزل کے اسالیب اور رموز و علائم پر اعتبار سے ناکافی تھے۔ ہماری قدیم غزل اس انسان کی نمائندگی کرتی ہے جس کے یہاں زندگی کا ایک مثالی اور عینی تصور اور اقدار کا ایک نیا بنایا نظام ہے۔ خیر و شر، نیکی و بدی، محبت و نفرت، سچ اور جھوٹ، وفا اور جفا، وصل و ہجر، قربت و دوری، سکون و اضطراب اور جنون و آگہی کے درمیان ہم نے ایک ایسی لکیر کھینچ رکھی تھی جہاں یہ قدریں الگ الگ خانوں میں رکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ اس غزل میں زندگی کے بارے میں وہ قبولیت کا جذبہ اور اس کی وحدت کا وہ تصور نہیں ملتا جو جدید فکر کی دین ہے۔ جدید فکر نے تو ان خانوں کو بڑی بے دردی سے توڑ کر رکھ دیا ہے اور ان قدروں کو اس طرح ایک دوسرے میں ضم کر دیا ہے کہ ان کو الگ الگ پہچاننا بھی دشوار ہے۔

جنسی اور جمالیاتی عمل بھی اب محض جبلّت کا تقاضا یا احساس گناہ کا نام نہیں رہ گیا تھا بلکہ اس کے ارتفاع اور اس کے مثبت اور تخلیقی پہلوؤں اور ان کی مدد سے تہذیبی قوتوں کے نشو و نما کا راز بھی اب دریافت کیا جانے لگا تھا۔ فراق نے ایک طرف تو مغرب کے فکری سر چشموں سے سیرابی حاصل کی دوسری طرف ہندو فلسفۂ حیات، سنسکرت اور ہندی ادب کے مطالعے نے بھی ان کے طرز تخیل اور طرز احساس کو بدل دیا تھا۔ اس ذہنی رویے کے لئے وہ غزل فراق کا ساتھ نہیں دے سکتی تھی جو ایک طرف تو قدیم تصور حیات کی نمائندہ تھی، دوسرے اس کی فضا اور لہجے پر فارسی شاعری اور ایرانی تمدن کی گہری چھاپ تھی۔ فراق صاحب کے یہاں بعض ایسی کیفیات بھی تھیں جو ان دیکھی اور انجانی سی تھیں اور ان پر ایک نوع کا دھندلکا چھایا ہوا تھا۔ ان کیفیات کو فراق کے وجدان نے محسوس کر لیا تھا لیکن وہ شعور کی گرفت میں نہیں آ رہی تھیں۔ غالباً اسی لئے فراق نے قدیم غزل سے استفادے کے سلسلے میں طرز احساس کے بجائے زبان اور لہجے کو بنیاد بنایا ہے۔ وہ ایک ایسے آہنگ کی تلاش میں تھے جو ان پرچھائیوں کو پکڑ سکے اور انھیں کسی موسیقی میں ڈھال دے۔ اسی وجہ سے یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ مصحفی، ذوق اور داغ پر لطف لطف لے لے کر انہوں نے کیوں مضامین لکھے ہیں اور ان کا سارا زور ان شعراء کے لہجے پر کیوں ہے بلکہ ایک مضمون انہوں نے ناسخ پر بھی لکھا تھا جس میں ناسخ کو اسی زاویے سے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ میر کی شاعری کو اوڑھنا بچھونا بنانے میں بھی غالباً یہی راز رہا ہو گا کہ میر کے یہاں لہجے اور آہنگ کے عجیب و غریب امکانات چھپے ہوئے ہیں۔ فراق صاحب نے یہیں پر بس نہیں کیا وہ تو کالیداس ٹیگور، بہاری، سورداس اور کبیر کی طرف بھی نکل گئے اور انگریزی شعراء سے بھی اظہار کے پیرائے حاصل کرنے کی کوشش کی۔

چونکہ یہ سارے عناصر جگہ جگہ سے اکٹھا کئے گئے تھے اور ان کے ساتھ محسوسات اور تجربات کی وہ جہتیں اور سمتیں تھیں جو بالکل نئی اور اجنبی تھیں اس لئے ان کی غزل ہماری تربیت یافتہ غزل کے مقابلے میں اکھڑی اکھڑی معلوم ہونے لگی۔ اس غزل میں ہم ایک نئی موسیقی سے دو چار ہو جاتے ہیں۔ اس غزل میں آوازوں کا تصادم اور ٹکراؤ اور ان کی شکست و ریخت ہے اس عمل میں بعض اوقات انھیں کامیابی ہوئی ہے اور بعض اوقات وہ بری طرح ناکام رہے ہیں اور اتنے کہ شعر بالکل کھردری نثر بن کر رہ گیا ہے۔ اس سلسلے میں نئی نئی ردیفیں نکالنے، لمبی لمبی غزلیں لکھنے اور ان میں ایسے الفاظ، تشبیہات و استعارات اور ذہنی تلازمات برتنے کی کوشش کی ہے جو غزل تو غزل نظم میں بھی پہلے استعمال نہیں ہوئے تھے۔ یہ کام بڑے جوکھوں کا تھا اور فراق صاحب نے جان بوجھ کر یہ بکھیڑا کھڑا کیا تھا اس لئے کہ ایسا کرنے میں جہاں وہ ہر طرح کی بے اعتدالیوں کا شکار رہے ہیں اور ان غزل نے بیان و بدیع، فصاحت و بلاغت اور عروض و موزونیت کے تمام پرانے سانچوں پر ہلہ بول دیا ہے وہاں یہ بات بھی ہے کہ جب انہوں نے ان کیفیات کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ ان کی غزل اور ان کے اشعار کندن بن گئے ہیں فراق کی ایسی غزلوں میں ایک نیا ذائقہ ایک نیا لہجہ اور ایک نئی موسیقی ملتی ہے جو آہستہ آہستہ اعصاب پر چھا جاتی ہے بشرطیکہ پڑھنے اور سننے والے کا ذہن جامد نہ ہو چکا ہو۔

یہ طریق کار اور یہ لہجہ نئے مزاج اور جدید نفسیات کے پس منظر میں بھی ابھرا تھا اس لئے ثقہ قسم کے چیخنے چلانے کے باوجود فراق کی غزل جدید غزل کی علامت بن گئی۔ ۱۹۴۰  ء کے بعد اردو میں روایتی اور رسمی غزل گوئی کو چھوڑ کر جہاں بھی ایسی غزل ملتی ہے جس میں جدید ذہن کی کارفرمائی ہو، اس پر فراق کی آواز کے ارتعاشات محسوس کئے جا سکتے ہیں وہ اب ایک شاعر یا غزل گو نہیں بلکہ اپنی جگہ پر ایک مدرسۂ فکر اور دبستان کی حیثیت رکھتے ہیں اور اپنی تمام کوتاہیوں کے با وصف اردو شاعری میں ایک موثر قوت ہیں۔

فراق صاحب بھی بہت ستم ظریف ہیں۔ عام طور پر غزل کا شاعر ایک مرتبہ اپنی آواز کو دریافت کر لینے اور اپنا مخصوص اسلوب متعین کر لینے کے بعد پھر عمر بھر کے لئے اسی کا ہو رہتا ہے اور اس کی بقیہ شاعری اس اسلوب کے ساتھ نباہ کرنے کی مثال ہوتی ہے لیکن فراق صاحب نے ایسا نہیں کیا۔ وہ اب بھی نئی سے نئی کیفیات کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی آواز پھر ایک بار بکھر جاتی ہے۔ وہ پھر لمبی لمبی غزلیں لکھنے اور مزید نئے نئے الفاظ اور نئے نئے لہجوں کو برتنے کا تجربہ کرنے لگتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ انھیں پھر انہیں ناکامیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ غالباً اسی لئے ایک زمانے میں نیاز صاحب نے کہا تھا کہ انھیں فراق کی پختگی کی طرف سے اندیشہ ہے، یہ اندیشہ صحیح نکلا لیکن میرا خیال ہے کہ اگر فراق نے پختگی حاصل کر لی ہوتی تو وہ اب تک ایک تبرک بن چکے ہوتے۔ ان کے دیکھتے دیکھتے زندگی میں کئی تبدیلیاں ہو چکی ہیں ان کے سامنے شاعروں کو کئی نسلیں جوان ہوئیں لیکن فراق صاحب کی شاعری کبھی پیچھے نہیں ہٹی۔ نہ انھوں نے کبھی یہ محسوس کیا کہ اب ان کا زمانہ نہیں رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ رویہ ان کی شاعری کے اسقام میں خواہ کتنا ہی اضافہ کرے لیکن اردو غزل کے حق میں مفید ہو گا۔ فراق زندہ، متحرک اور حقیقی شاعر ہیں محض استادِ فن نہیں۔ اساتذہ قسم کے شعراء کے بارے میں پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بڑی دلچسپ بات کہی ہے کہ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے یہاں کوئی عیب نہیں ہوتا لیکن ان کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ ان کے یہاں کوئی خوبی بھی نہیں ہوتی۔

فراق کا کلام محاسن و معائب کا ایک رنگا رنگ اور جیتا جاگتا مجموعہ ہے۔ انہیں معائب کی نسبت سے وہ خصوصیات بھی اجاگر ہوتی ہیں جنہیں ہم بالاتفاق محاسن میں شمار کرتے ہیں۔ فراق کا کلیات اردو ادب میں اپنی شاعرانہ قدر و قیمت کے علاوہ ایک زبردست معمل اور تجربہ گاہ کی حیثیت سے بھی اہم ہو گا جس سے آنے والی نسلیں تخلیقی طور پر استفادہ کر کے اردو شاعری کو نئی جہتوں سے آشنا کر سکتی ہیں۔ ان کے کلام کی خصوصیات کے تجزیے اور ان کی تعبیر و تفسیر نیز ان کے شاعرانہ مرتبے کے تعین میں اب بھی اختلافات ہیں اور یہ اختلافات رہیں گے لیکن وہ ان شاعروں میں نہیں ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز کیا جا سکے۔ فراق صاحب غالباً اردو کے ان خوش نصیب شاعروں میں سے ہیں جن کے دوا وین کبڑوں کی خوراک بننے یا محققوں کے ذخیرۂ نوادرات کی زینت بننے سے انکار کریں گے۔

’’کائنات اور حیات کی قدریں زمانی لحاظ سے دائمی نہیں ہیں۔ دوام فانی ہے اور فانی ہوتے ہوئے بھی ہم کچھ قدروں کو اس لئے دائمی کہہ دیا کرتے ہیں کہ ان سے بلند قدروں کا احساس یا تجربات ہمیں نہیں ہوا اور نہ ہم ان بلند قدروں کا تصور کر سکتے ہیں۔ دوام کے معنی ہیں اچھائی خواہ زمانی لحاظ سے یہ اچھائی فانی ہو۔ ‘‘

افسردہ سے کیوں اے دل سب داغ ہیں سینے کے

تجھ کو تو سلیقے ہیں مرنے کے نہ جینے کے

ماضی کے بھنور سے اب انسانیت ابھرے گی

وہ پال نظر آئے، قسمت سے سفینے کے

سیاروں میں کب پہلے وہ گردش و تابش تھی

ہیں موڑ پہ صدیوں کے دل ایک مہینے کے

نادیدہ فضاؤں میں تارے چھٹک آئے ہیں

یا چہرۂ فردا پر قطرے ہیں پسینے کے

مذہب کوئی لوٹا لے اور اس کی جگہ دیدے

تہذیب سلیقے کی انسان قرینے کے

٭٭٭

 

 

 

فراقؔ گورکھپوری

 

                ………پروفیسر خواجہ احمد فاروقی

 

 

فراق نے غزل کی حیات کا اعلان اس وقت کیا جب وہ چاروں طرف سے اعتراضات کا ہدف بنی ہوئی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس سیلابِ بلا میں اس کے پاؤں اکھڑ جائیں گے اور وہ اعتبار اور قدر کی چیز نہ رہے گی۔ ہمارے یہاں صنعتی انقلاب تو دبے پاؤں آنے لگا تھا لیکن سماج کا ڈھانچہ وہی تھا۔ وہی اندازِ جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا۔ ہم نے مغرب سے ٹکنالوجی تو مستعار لے لی تھی لیکن اس کوشش میں وہ انسان دوستی بھی ختم کر بیٹھے جو قدیم تمدن کی آبرو ہے اور جو آج بھی زندگی کی سب سے اہم قدر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ حیات و کائنات میں جو ربط اور فطرت سے اتحاد یا ہم آہنگی کا جور شتہ ہونا چاہیے تھا، وہ بہت کمزور ہو گیا تھا اور ہماری غزل بلند معنویت سے خالی ہو چلی تھی۔

فراق نئی غزل کے شاعر ہیں اور ان کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے احساس جمال کو حیات اور کائنات کو سمجھنے کے لیے بطورِ قدر استعمال کیا ہے اور اپنے جذبے اور فکر میں ڈوبے ہوئے نغموں کو ایسے آتشیں احساس کے ساتھ گایا ہے کہ شعلہ سا لپک جائے ہے اور ہم تھوڑی دیر کے لیے نئی آگاہیوں کی ایک حسین دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری نئی غزل کی سر زمیں کتنی بے رونق ہوتی۔ اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ بے جان ایرانی روایتوں کی نقالی کرتی۔

فراق کی شاعری میں ہندوستانی اور آفاقی کلچر اس طرح شیر و شکر ہو گئے ہیں اور ہندوستان کا مزاج اور اس کی ارضیت کچھ اس طرح سما گئی ہیں کہ غزل کی دوشیزگی نکھر آئی ہے۔ وہ انتہاؤں کا ایک سلسلہ بن گئی اور اس کی سادگی اور پر کاری اور بے خودی و ہشیاری میں کوئی حد فاصل باتی نہیں رہی۔

تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا

فراق کے یہاں پست و بلند دونوں ہیں اور بعض جگہ حقیقت پر جامۂ حرف تنگ بھی ہو گیا ہے۔ لیکن یہ نا ہمواری اچھے اچھے شاعروں کے یہاں ملتی ہے۔ فراق کی عظمت ان غزلوں پر قائم ہے جہاں صاحبِ ساز کا لہو رگِ ساز میں شامل ہو گیا ہے یا جہاں انہوں نے بن کہی با توں کو کہنے کی کوشش کی ہے یا جہاں اپنے طلسمی اثر سے زندگی کو فراوانی اور فروغ بخشا ہے اور ان کے یہاں ایسی غزلوں کی کمی نہیں ہے جو بے پایاں یا بے کراں بن جانا چاہتی ہیں۔

فراق کی غزل کے پیچھے پوری ہندوستانی تہذیب ہے جس کا سر چشمہ ہڑ پّا اور موہنجداڑو سے بھی پھوٹا تھا اور جو عہد قدیم اور عہد وسطی کے میدانوں سے گزر تا ہوا، برابر ر واں دواں ہے اور جس کے بڑے خوبصورت نقوش ہمیں سنگ تراشی اور مصوری کے علاوہ فراق کی شاعری میں بھی ملتے ہیں۔

سنسکرت اور ہندی شاعری میں جسمانی اعضا کی قلمی تصویریں کثرت سے ملتی ہیں۔ ضیاء الدین بخشی نے جز ئیات و کلیات میں، حسین بن محمد شرف الدین نے انیس العشاق میں اور شعرائے لکھنؤ نے خاص طور پر سراپا نگاری میں اس کی تقلید کی ہے لیکن فراق نے شعوری طور پر زمیں کے حسن اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا سکھایا ہے، جنس کو طہارت و تقدیس بخشی ہے اور اسے جمالیاتی رنگ دیا ہے۔ ان کی پیکر نگاری ان کی رمزیت ان کی جمالی حس ان کے فکر کی تابانی، تخیل کی شادابی اور ہند آریائی تہذیب کی جمال آرائی اردو میں بالکل نئی چیز ہے اور اسلوب کے اعتبار سے پہلی دفعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ مومن و مصحفی یک جا ہو گئے ہیں۔ تقلید تخلیق بن گئی ہے۔ دہلی اور لکھنؤ کا فرق ختم ہو گیا ہے اور اس شاعری کی آغوش میں زندگی اور فطرت دونوں نے اپنے بندِ قبا کھول دیے ہیں اور حیات اپنی تمام حشرسا مانیوں کے ساتھ دھڑک رہی ہے :

ناز، برفلک و حکم برستارہ کنم

فراق نے اردو اور فارسی کی کلا سیکی شاعری اور انگریزی کی رومانی شاعری سے فیض اٹھایا ہے۔ سورداس، جے دیو اور کالی داس کے خرمن سے بھی خوشہ چینی کے ہے۔ جس شاعری کا احاطہ Canvasاتنا وسیع ہو، اس کا ناہموار ہونا لازمی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر عابد حسین مرحوم کا خیال تھا کہ ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ ابدیت کے جوہر سے خالی ہے لیکن جو شاعر، عشق کو توفیق کہتا ہو اور جو تیز و تند احساسات قید کرنے کے درپے ہو، وہاں الفاظ و محاورات کا آبگینہ پگھل بھی سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ فراق نے اردو غزل کے دامن کو وسیع کیا ہے۔ اس کی تشبیہات و استعارات و لفظیات میں اضافہ کیا ہے، زبان کو ایک نیا چٹخارہ دیا ہے اس کو ایک نیا ذہن، فکر و احساس کی ایک نئی دنیا عطا کی ہے۔ انہوں نے عشق کا وہ لذت آمیز اور لمسیاتی تصور پیش کیا ہے جو بالکل ارضی اور زمینی اور شاید جنس کم ارزاں بھی ہے اور جہان ان کے عقیدے کے مطابق مذہب اورجنس کی سرحدیں مل گئی ہیں۔ مجھ سے ایک ملاقات میں انہوں نے روح کی لا مذہبیت اور مادہ کی روحانیت پر مفصل گفتگو کی تھی۔ انہوں نے جسم کو حقیقت کا زینہ قرار دیا تھا اور اپنے آپ کو مادی صوفی کہا تھا۔ ان کے معتقدات دلوں میں گھر کریں یا نہ کریں اور ان کی اصطلاحیں پسند کی جائیں یا نہ کی جائیں لیکن ان کے یہ چیدہ چیدہ اشعار ہمیشہ دلوں میں سرور پیدا کرتے رہیں گے ؎

مدتیں گزریں تری یاد بھی نہ آئی ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

ذرا وصال کے بعد آئینے تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

تاریکیاں چمک گئیں آواز درد سے

میری غزل سے رات کی زلفیں سنور گئیں

فراق ایک ہوئے جاتے ہیں زمان و مکاں

تلاشِ دوست میں میں بھی کہاں نکل آیا

جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی

چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا

ستارے جا گتے ہیں رات لٹ جھٹکائے سوتی ہے

دبے پاؤں یہ کس نے آ کے خواب زندگی بدلا

سنا ہے ایسے میں پہلے بھی بجھ گئے ہیں چراغ

دلوں کی خیر مناؤ بڑی اداس ہے رات

۱۹۴۰ ء میں میں نے نئی شاعری مرتب کی تھی اور فراق نے مندرجہ ذیل غزل مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دی تھی جو اس کے چاروں ایڈیشنوں میں موجود ہے اور جو آج گنگنانے کو جی چاہتا ہے ؎

حسن کے جلوے کر عیاں، عشق کی ظلمتیں نہ دیکھ

تو ہے خود ایک داستاں، غم کی عبارتیں نہ دیکھ

پھر بھی تو حسن حسن ہے پھر بھی تو عشق عشق ہے

اپنی عنایتوں کو سوچ، میری شکایتیں نہ دیکھ

غم کدۂ مجاز میں عالم سوز و سازمیں

غفلت صد نشاط بن درد کی کثرتیں نہ دیکھ

ذوق نظر بھی ترک کر جذب نہاں سے بھی گذر

غم کے اشاروں پر نہ جا، حسن کی شدتیں نہ دیکھ

غم کدۂ فراق میں کیا ہوئیں تیری غفلتیں

پھیر نگاہ آشا، میری مصیبتیں نہ دیکھ

٭٭٭

 

 

 

فراق کی نثر نگاری

 

                ………ڈاکٹر زیب النساء سعید

 

فراق کی بنیادی حیثیت غزل کے شاعر کی ہے لیکن ایک فن کار اور مفکّر ہونے کے ناتے ان کی فن کاری و خلاقی صرف شعری دنیا تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ان کی فکر اور تخیّل کے خوبصورت نمونے اردو نثر کی مختلف اصناف اور شکلوں میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ فراق کے ناقدین اور مبصّر ین نے انھیں یا تو ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے دیکھا اور پر کھا یا تا ثراتی نقّاد کی حیثیت سے روشناس کرایا۔ فراق کے فکرو فن کا ایک اہم پہلو جو غالباً آج بھی تشنہ ہے وہ ان کی خوبصورت نثر نگاری ہے جس نے اردو نثر کے سرماے میں بہترین اضافے کئے ہیں۔ فراق کے نثری کارناموں میں اندازے، حاشیے، اردو کی عشقیہ شاعری، من آنم وغیرہ شامل ہیں۔

جدید اردو ادب کی عمارت آج جن بنیادوں پر کھڑی ہے اس کا سنگ بنیاد سرسیّد، حالی، شبلی، محمد حسین آزاد وغیرہ نے رکھا تھا۔ یوں تو عہد جدید میں نثری ادب میں تنقیدی اسلوب کے نئے تجربے ہوئے لیکن کوئی ایسا انقلابی تجربہ نہیں ہو سکا جس نے نئے سرے سے اپنی پہچان خود قائم کی ہو بلکہ ہر عہد میں نئی نسل نے انہی بنیادوں پر اپنی عمارت کو اونچا اُٹھایا۔ ان میں سے بعض نے حالی کی سنجیدہ تحریروں کو اپنا یا اور بعض نے آزاد کی شوخی و شگفتگی سے اثر قبول کیا لیکن گروہ ایسا بھی ہے جس نے ان دونوں کے امتزاج سے اپنے لئے ایک تیسری راہ نکالی اور انہی راہوں پر وہ نئی منزلوں کی تلاش میں آگے بڑھتے رہے۔ عام طور پر فراق کا شمار بھی اسی گروہ میں ہوتا ہے۔ فراق کے تنقیدی اسلوب کے بارے میں عبادت بریلوی کا خیال ہے :

’’اسی لئے جدید اسالیب تنقید کو حالی، شبلی، آزاد، عبد الحق، عبد الماجد اور مہدی افادی وغیرہ کی قائم کی ہوئی روایات کا تسلسل کہنا بیجا نہیں۔ ‘‘ (اندازے،ص ۱۵، ۱۴)

فراقؔ ان روایات سے وابستہ ہونے کے باوجود اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں ایک مخصوص انداز و آہنگ کی مالک ہیں۔ یہ خوبی ان کی اپنی شخصیت اور مزاج کی نمائندہ ہے۔ اس میں ان کی ذہانت، شاعرانہ کیفیت، رچے ہوئے ادبی مذاق اور گہرے تنقیدی شعور نے مل جُل کر ایک تخلیقی شان پیدا کی ہے۔ ادبی تخلیق کے مطالعے کے بعد جو تاثرات فراق کے ذہن و دل پر مرتب ہوتے ہیں انہی تاثرات و جذبات کو فراق الفاظ کا پیراہن عطا کر دیتے ہیں۔ چونکہ یہ تحریریں ردِّ عمل کی صورت میں نمایاں ہوتی ہیں لہٰذا اس میں تخیل کا عمل دخل قائم رہتا ہے۔ اس طرح فراق کی تحریریں خود بخود ایک تخلیقی انداز میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔

اندازے میں فراق کے دس مضامین شال ہیں۔ مصحفی، ذوق اور حالی پر طویل مضامین تحریر کئے ہیں۔ اندازے کے زیادہ ترمضامین شعراء سے متعلق ہیں مثلاً مصحفی، غالب، ذوق، حالی، رابندر ناتھ ٹیگور وغیرہ۔ فراق دانستہ طور پر ان شعراء کے کلام پر قلم اُٹھایا جن کا شمار قدیم شعراء میں ہوتا ہے۔ فراق کا مقصد نئی نسل کو اردو ادب کے قدیم ورثے سے آگاہ کرنا اور ان کے کلام کو منظر عام پر لانا ہے۔ اندازے کے پیش لفظ میں فراق نے یہ تحریر کیا:

’’آج اُردو دنیا تیزی سے بدل رہی ہے جس کا کم سے کم مجھے افسوس نہیں ہے۔ میں نئے ادب کا خیر مقدم کرتا ہوں، اسے لبیک کہتا ہوں اس کی طرف تپاک سے اپنے ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ ایک چیز البتہ میں نہیں چاہتا وہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان نئے ادب اور نئی شاعری کے سیلاب کی رو میں اس طرح نہ بہہ نکلیں کہ پُرانے ادب اور پُرانی شاعری سے بالکل بے خبر رہ جائیں۔ ‘‘ (ص ۶)

نئے ادب اور نئی شاعری کا جو سرسبز درخت نئی نسل کو دعوتِ فکرو نظر دے رہا ہے اس کی جڑیں ماضی کے سینے میں گہرائی سے پیوست ہیں۔ ان جڑوں کو خشک ہونے سے بچانے کی ذمّے داری اس نئی پود کے شانوں پر ہے۔ یہ کام اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ادب کا قاری نئے ادب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ قدیم ادب کے مطالعے کا ذوق رکھتا ہواور اس کی اہمیت و افادیت کو بھی تسلیم کرتا ہو۔ فراق کا یہ اہم کار نامہ ہے کہ انھوں نے قدیم ادبی ورثے سے ان نایاب موتیوں کو چُنا جن کی آب و تاب بدلتا ہوا وقت بھی نہ ڈھُندلاس کا ان کا خیال:

’’پُرانی شاعری میں بہت نئی چیزیں ہیں۔ تسلسل تاریخ انسانی، و تاریخ ادب کا اٹل قانون ہے ماضی سے بے خبری ترقی پسندی نہیں ہے، نہ ماضی کی قدر شناسی رجعت پسندی اور قدامت پرستی ہے۔ ‘‘(ص۹)

فراق چونکہ ایک فن کار اور تخلیق کار ہیں لہٰذا جب کسی دوسرے فن کار یا تخلیق کار کی تخلیق پر اپنے قلم کو جنبش دیتے ہیں تو ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ تخلیق میں پوشیدہ ان سچّائیوں کو اور اس میں تخلیل اس روح کو منظرِ عام پر لا سکیں جنھوں نے فن کار کے فن کو زندگی عطا کی اور اسے آفاقیت و ابدیت سے ہمکنار کیا۔ ساتھ ہی ان کی نظر شاعری کی شخصیت، مزاج اور اس کے ماحول کا جائزہ بھی لیتی ہے جس کے ذریعے اس کی شاعری کا تارو پود تیار ہوا ہے۔

مصحفی، ذوق اور حالی ان تین اہم شخصیتوں کے شعری ورثے پر فراق نے جو تفصیلی مضامین تحریر کئے ان مضامین میں۔ فراق نے انہی جذبات و احساسات کو پیش کیا ہے جنھیں ان کے ذہن و دل نے محسوس کیا۔ فراق نے تخیلات کی ان خوب صورت وادیوں کی سیر کی جسے شاعر نے اپنے شعری وجدان کے سہارے آباد کیا ہے۔ انھوں نے فن کار کے جذبات و احساسات کی اس آنچ کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا جس نے فنکار کے کلام کو زندگی بخشی ہے۔ ان وادیوں کی سیر کرتے ہوئے فراق نے ان حسین مناظر کی تصویر کشی خوبصورت و دل کش اندازِ بیان میں کی ہے۔ اندازے کے بارے میں ان کا خیال ہے :

’’میری غرض و غایت اس کتاب کی تصنیف میں یہ رہی ہے کہ جو جمالیاتی، وجدانی، اضطراری اور مجمل اثرات قد ماء کے کلام کے میرے کان، دماغ، دل اور شعور کی تہوں میں پڑے ہیں انھیں دوسروں تک اس صورت میں پہنچا دوں کہ ان اثرات میں حیات کی حرارت و تازگی قائم رہے۔ میں اسی کو خلاقانہ تنقید یا زندہ تنقید کہتا ہوں۔ اسی کو تاثرانہ تنقید بھی کہتے ہیں۔ ‘‘ (ص۹)

فراق کے ان مضامین کو خواہ تاثراتی تنقید کا نام دیا جائے یا خلاقانہ تنقید کے خانے میں رکھا جائے ان مضامین کی خوبی یہ ہے کہ تخلیق کار نے میکانیکی اسلوبِ تنقید کو نہیں اپنا یا بلکہ خود ایک نئے مزاج و نئے آہنگ کو جنم دیا ہے جس کے سبب ان تحریروں میں ایک تخلیقی شان پیدا ہو گئی ہے۔ تنقید کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ تنقید خود تخلیق در تخلیق ہوتی ہے۔ اس نظر یے سے بھی فراق کی تحریریں بہتر ین تخلیقی کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثلاً مصحفی کے کلام کے بارے میں فراق یوں اظہار خیال کرتے ہیں :

’’میر و مصحفی میں وہی فرق ہے جو دوپہر اور غروبِ آفتاب کے وقت پایا جاتا ہے اور جس طرح شام کو آفتاب میں سا توں رنگ جھلکنے لگتے ہیں اسی طرح رنگین فضا میں وہ خارجیت نکھرتی اور سنورتی ہے جس کی جھلک مصحفی کی شاعری میں ملتی ہے۔ اگر ہم سنگیت کے استعارے کو کام میں لائیں تو کہہ سکتے ہیں کہ مصحفی کے نغموں میں وہی و لفریب کیفیت پیدا ہو گئی ہے جو آواز میں پتی لگ جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘ (ص۲۵)

میر جیسے عظیم شاعر کی عظمتوں کے سامنے مصحفی کے کلام کی اہمیت کو فراق نے بڑی ہنر مندی و فن کا ری سے اجاگر کیا ہے۔ اس طرح دونوں شاعروں کے کلام کا فرق بڑی خوبصورتی کے ساتھ نمایاں ہو گیا ہے۔ مصحفی میر سے اثر انداز تو ہوئے لیکن اس اثر کو انھوں نے کس طرح قبول کیا اور اپنے منفرد انداز و آہنگ کے ساتھ اسے ایک نیا ساز دیا۔ اسی مخصوصیت کو فراق نے درون بینی کے ساتھ پیش کیا ہے :

’’ اگر میر کے یہاں آفتاب نصف النہار کی پگھلا دینے والی آنچ ہے تو سودا کے یہاں اس کی عالمگیر روشنی ہے لیکن آفتاب ڈھل جانے پر سہ پہر کو گرمی اور روشنی میں جو اعتدال پیدا ہو جاتا ہے اور اس گرمی اور روشنی کے امتزاج سے جو معتدل کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ مصحفی کے کلام کی خصوصیت ہے۔ مصحفی کے کلام میں بے پناہ اشعار نہ سہی، نرم نشتر نہ سہی، لیکن شبنم کی نرمی اور شعلۂ گل کی گرمی کا ایسا امتزاج ہے جو اس کی خاص اپنی چیز ہے۔ اس کے یہاں تنقیدِ حیات نہ سہی لیکن ایک مزاجِ حیات ہے اور یہ مزاج جاذبِ توجہ ہے۔ مصحفی محض ایک کمتر میر یا ایک کمتر سودا نہیں، وہ ہے مصحفی۔ اس کی شاعری ایک نجی شخصیت ہے۔ اس کے عروسِ سخن کے خد و خال جُدا ہیں جس کے کومل اور رسمئے گات میں نئی جاذبیت، نئی دل کشی، نیا سہاگ اور نیا جو بن ہے۔ اس کے نغموں کی شبنم سے دھُلی پنکھڑیاں ان گلہائے رنگارنگ کا نظارہ کراتی ہیں جن کی رگیں کچھ دکھی ہوئی ہی اور جن کی چٹیلی مسکراہٹ سے بھینی بھینی بوئے درد آتی ہے۔ ‘‘ (ص۵۰، ۴۹)

شاعرانہ اندازِ بیان نے فراق کی تحریروں کو حسین و پُر کار بنا دیا ہے۔ نرم و نازک الفاظ کے آبگینوں میں فراق نے جذبات و احساسات کی ایسی شراب بھر دی ہے جو دیکھنے میں حسین نظر آتی ہے اور اس کا اثر بھی دیر پا ہے، ان میں فکر و احساس کی مدّھم مدّھم آنچ ہے، تخیل کی رنگین فضا ہے، جملوں کی خوب صورت تراش و خراش ہے، جذبوں کی گرمی اور تخیل کی رنگ آمیزی نے عبارت کے حُسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ کہنے کو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تنقید کا یہ اسلوب لا شعوری طور پر فکرو فلسفہ اور افہام و تفہیم سے دور ہوتا جاتا۔ لیکن فراق کے تنقیدی اسلوب کا کمال یہی ہے کہ وہ اپنی تمام تراش و خراش کے باوجود معنی کا دامن ہر گز نہیں چھوڑتے بلکہ معنی شفاف پانی کی طرح جھلکنے لگتا ہے۔

عموماً تنقید نگار جب کسی تخلیق پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے سامنے پہلے سے وضع کردہ کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں جن کی کسوٹی پر وہ ادبی تخلیق کو جانچتے پرکھتے ہیں۔ فن کی باریکیوں پر بھلے ہی ان کی گرفت مضبوط ہو لیکن تخلیق میں پوشیدہ خیالات و جذبات کی گہرائیوں تک اکثر ان کی رسائی نہیں ہوتی۔ ان کا منطقی ذہن اصولوں کی زنجیروں میں الجھ کر رہ جاتا۔ ان سب کے برعکس فراق کی تنقید نگاری کسی سکّہ بند اور بندھے ٹکے معیار سے قدرے الگ تخلیق کو ایک آزاد فضا میں دیکھنے اور سمجھنے پر یقین رکھتی ہے اور اپنے مخصوص اسلوب کی وجہ سے اپنا ایک الگ و بستان بناتی چلتی ہے۔

فراق کی دوسری اہم تصنیف اُردو کی عشقیہ شاعری ہے جو موضوع کے اعتبار سے اپنے دامن میں رومانی، نفسیاتی اور جمالیاتی پہلو کو سمیٹے ہوئے ہے۔ فراق نے ہر پہلو پر گہرائی و گیرائی سے روشنی ڈالی ہے۔ غزل جس کا بنیادی موضوع حُسن و عشق ہے، اسی حُسن و عشق کی داستان فراق نے اردو کی عشقیہ شاعری میں چھیڑی ہے اور حُسن و عشق کے مختلف پہلوؤں کو فراق نے وسیع تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ عشق کی اس دلفریب وادی میں دنیا کی مشہورہستیاں صحرا نوردی کرتی نظر آتی ہیں مثلاً رام، کرشن، ارجن، پرتھوی راج، نل اور دمن، سکندر اعظم، سیزر، اینٹنی، کلیو پڑا، نپولین، پارنل اور پھر شیریں، فرہاد، لیلیٰ، مجنوں، غزنوی، ایاز وغیرہ وغیرہ۔ ان مشہورہستیوں کے علاوہ ان عظیم ہستیوں کا ذکر ہے جنھوں نے حُسن و عشق کے مختلف جلوؤں کو اپنی شاعری کا پیر ہن عطا کیا۔ مثلاً میر، غالب، فانی، اصغر، جگر، جوش، اقبال، مجاز، مخدوم وغیرہ۔ ان شعراء کے تذکروں سے عشقیہ شاعری کے مختلف دَر وا ہوتے ہیں اور اُردو کی عشقیہ شاعری میں جو نشیب و فراز آتے رہے ان کا ذکر بھی سلسلے وار نظر آتا ہے۔ اس موضوع پر فراق نے اس انداز سے اپنے قلم کو جنبش دی کہ ایک طرف عشق کے مختلف اسرار و رموز کے بات کھُلتے ہیں تو دوسری طرف وہ شخصیتیں بھی منظر عام پر آتی ہیں جنھوں نے اس وادی میں اپنی ذات اور اپنے وجود کی تلاش کی۔

فراق نے شعراء کے تذکروں کے علاوہ خود اپنی رائے کا اظہار بھی جا بجا کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے انسانی نفسیات اور اس کے محرکات کو مدِّ نظر رکھا ہے اور عشق کو ایک ایسی قوت سے تعبیر کیا ہے جس کے ذریعے جہدِ حیات کی اہم اور پر اسرار منزلوں کو بھی سر کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا خیال ہے :

’’عشقیہ شاعری کی داستان محض عارض و کا کُل، قرب و دوری، جورو کرم، وصل و ہجر، ذکرِ یا ذکرِ محبوب تک محدود رہے، یہ ضروری نہیں۔ بلکہ پُر عظمت عشقیہ شاعری حُسن و عشق کی وار دات کو زندگی کے اور مسائل و مناظر کے Perspectiveیا نسبتوں کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ داخلیت و خارجیت، نفسیت و واقفیت، ارتکاز و تنوع کا لیداس، شیکسپئر، گوئٹے، دانتے کی آفاقی و پُر عظمت و مکمّل عشقیہ شاعری میں یکساں موجود ہیں۔ جب قومی زندگی میں ترقی و تعمیر کے عناصر کا فرما ہوتے ہیں تو ان کی جگمگاہٹ عشقیہ شاعری میں مرکوز و محدود سوزو گداز سے گزر کر بزمِ کائنات میں چراغاں کر دیتی ہے اس وقت عشقیہ شاعری کے ہاتھوں میں گریبانِ ہستی آ جاتا ہے۔ ‘‘ (اردو کی عشقیہ شاعری، (ص، ۱۴، ۱۳)

موضوع کی نوعیت کے اعتبار سے اردو کی عشقیہ شاعری پر کئی زادیوں سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ابتدا میں حُسن و عشق کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے پھر اردو غزل موضوعِ بحث اور اسی کے توسط سے اردو نظم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخر میں اردو کی عشقیہ شاعری زیرِ بحث آتی ہے۔ شعراء کے کلام کا جائزہ لیتے ہوئے فراق کے بیدار ذہن و حسّاس دل نے تخلیق کے تجزیے کے ساتھ ساتھ تخلیق کار کے فکر و فن پر گہری نظر رکھی ہے۔ ساتھ ہی زبان و بیان کی باریکیوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔

فراق نے محمد طفیل مدیر نقوش کے نام کچھ بہت اچھے خطوط بھی لکھے جو ان کے فکر و خیال اور روانی و دل کشی کے خوبصورت مظہر ہیں۔ ان کی ہر تحریر و تقریر میں ایک اچھوتا پن اور خلاقی ہوا کرتی تھی جسے کچھ لوگوں نے صرف رنگ جمانے سے تعبیر کیا لیکن سچ یہ ہے کہ وہ ایک مفکر اور دانش ور تو تھے ہی لیکن اس سے زیادہ بڑے شاعر اور فن کار جو ان کی تنقید نگاری کے وقت بھی اس پر حاوی رہتا۔

موضوع کی نوعیت کے لحاظ سے فراق کے اسلوبِ نگارش میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھیں اردو، ہندی زبان و ادب کے علاوہ انگریزی زبان و ادب پر گہرا عبور حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اردو ادب سے متعلق کسی بھی موضوع پر قلم اُٹھاتے تو انگریزی ادب سے مثالیں پیش کرتے ہیں۔ کسی بھی زبان کا ادب دوسری زبان کے ادب سے کب اور کیسے متاثر ہوتا اس نکتے پر بھی ان کی نگاہیں مرکوز رہتی تھی۔ فراق کی نثر نگاری میں شاعرانہ اندازِ بیان کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وہ اپنی نثر میں خوبصورت تشبیہوں، استعاروں اور علامتوں کی رنگ آمیزی کر کے اسے دلکشی و  دلفریبی عطا کر دیتے ہیں۔ موضوعات کی نوعیت کے لحاظ سے ان کی تحریریں رنگارنگ جلوے بکھیرتی نظر آتی ہیں اور ساتھ ہی مضامین کی معنویت و تہہ داری میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہیں۔

فراق کی نثر نگاری جہاں اپنے دامن میں خوبصورت اسلوبِ نگارش کے حسین جلوے سمیٹے ہوئے ہے وہیں اس کے دامن میں چند خامیاں بھی نظر آتی ہیں جو اس کی روانی و دلکشی میں کھردرا پن پیدا کر دیتی ہیں۔ یہ خامیاں خاص طور سے طویل مضامین میں نظر آتی ہیں عبارت میں تکرار پیدا ہونے کی وجہ سے ان کا قلم لڑکھڑانے لگتا ہے جس کے سبب عبارت کا حُسن مجروح نظر آتا ہے۔ مختصر مضامین اس خامی سے پرے ہیں لیکن طویل مضامین اس طرح کی تکرار کا شکار ہو گئے ہیں۔ مقامِ حیرت ہے کہ فراق جیسا عظیم فن کار جس کے پاس شعری تخلیقات کے لئے الفاظ کا بیکراں خزانہ موجود ہے وہ نثری دنیا میں تہی دامن کیوں نظر آتا ہے ؟

اپنی تمام تر خوبیوں اور کچھ خامیوں کے باوجود فراق کی نثر کا جادو قاری و سامع کو اپنا اسیر بنا لیتا ہے۔ ان کی نثر میں سادگی و روانی کے ساتھ ساتھ شوخی و شگفتگی کے شرارے رنگینی و پُر کاری کی فضا پیدا کر دیتے ہیں۔ سنجیدہ و پُر وقار اندازِ بیان میں دل کشی و دلآویزی کی قوس قزح رنگارنگ جلوے بکھیرتی نظر آتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر ان تحریروں میں ہندوستان کی سرزمیں کی سوندھی سوندھی خوشبو بھی شامل ہے جو قاری کے ذہن و دل کو موہ لیتی ہے۔ غرض فراق کی نثر کے آئینہ خانے میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی زندہ تصویریں سانس لیتی نظر آتی ہیں یہ تصویریں صرف اپنے حُسن کا اظہار ہی نہیں کرتیں بلکہ اہلِ نظر کو دعوتِ فکر و نظر کا سامان بھی فراہم کرتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

کافر غزل

 

                ………سیّد احتشام حسین

 

ورڈزورتھ اور لی ہنٹ دونوں بلیک کو ذہنی طور پر بیمار یا مجنون خیال کرتے تھے۔ لیکن یہ بلیک ہی تھا جس نے کہا تھا کہ ہر بڑے اور خلّاق شاعر اور ادیب کو اپنی عظمت اور خلّاقی کے تناسب سے خود اس ذوقِ سلیم کے لئے فضا تیار کرنی پڑتی ہے جس سے اس کے فن کی پرکھ کی جائے گی۔ اس قول میں سب سے اہم اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ بڑا فن کار اپنی تخلیقات میں ایسی فن یا فکری قدروں کا اضافہ کرتا ہے جس کو پوری طرح پرکھنے کے لئے نئے ذہنی رویہ اور نئے فنّی سانچوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جس کے فراہم کرنے میں فنکار خود مدد کرتا ہے۔ یہ بات کسی اور کے لئے درست ہو یا نہ ہو، فراق گورکھپوری پر اچھی صادق آتی ہے کیوں کہ ان کی غزل گوئی نے اپنے عروج کی منزل پر جو سوالات پیدا کئے اسے خود ان کی تحریروں نے اکثر واضح کیا ہے اور اس طرح غزل کے متعلق جن بندھے ٹکے تصورات کا اظہار کیا جاتا تھا اس کی حدیں بہت وسیع ہو گئی ہیں اور آج نہ صرف ان کی غزل گوئی کے متعلق بہت کچھ کہا جا سکتا ہے بلکہ نفسِ غزل پر بھی خیال انگیز گفتگو ہو سکتی ہے۔ اس کے ایمائی اور علامتی پیکر میں وہ عناصر دیکھے جا سکتے ہیں جو امکانات بالقوۃ کی شکل میں اس میں پوشیدہ ہیں۔

غزل کے امکانات کا یہ انکشاف غالباً انھوں نے خود اپنی ذات اور شخصیت (اور پردے میں انسان کی ذات اور شخصیت) کے امکانات کی جستجو کے سلسلہ میں کیا ہے اور ایسے تفکر پسند ذہن کی یہ بڑی خصوصیت ہے کہ وہ اپنی ذات اور کائنات کے رشتہ کو سمجھنے کی کوشش میں اپنی ذات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا اور اس احساس کے باوجود کہ وہ تنہا اور کمزور ہے اپنے اندر کائناتی تصادمات اور متلاطمٍ تصورات کا عکس دیکھتا ہے اور بہ یک وقت اپنی تنہائی اور زندگی میں بھر پور شرکت کا احساس کرنے لگتا ہے۔ فراق کا ذہن اسی معنی میں بالکل جدید ہے۔ ان کے یہاں تصورات اپنی جدلیاتی پیچیدگیوں کے ساتھ آتے ہیں اور افتاد ذہن کا نتیجہ یہ ہے کہ جذبات بھی پوری شدت سے بلندی اور پستی، نیکی اور بدی، خوبصورتی اور بدنیتی کا احساس کر کے ان میں معنوی رشتہ تلاش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اور اس کا اظہار ان کے فن میں کبھی تضادات کی یکجائی کی صورت میں، کبھی ایک دوسرے سے گریز کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس کی ایک شکل اور ہے جس کے تذکرے کے بعد فراق کے فنی اور فکری نقطۂ نظر کا صحیح ادراک نہیں ہو سکے گا۔

ہم عام طور پر اپنے مطالعے میں کلاسکیت اور رومانیت کو دو متضاد یا متخالف قسمیں قرار دے کر اس طرح گفتگو کرتے ہیں گویا انھیں یکجا نہیں دیکھا جا سکتا۔ اکثر یہ بحث اسی طرح کی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ہمہ گیر احساس میں ان کی پرچھائیاں ایک دوسرے کو کاٹ جاتی ہیں۔ کلاسکیت میں روایت کے احترام کے ساتھ طریق فن اور ظاہری تراش خراش پر زور دیا جاتا ہے۔ رومانیت میں جذبہ اور تخیل کے وفور پر۔ لیکن حقیقت کیا ہے۔ تخلیقی عمل کی بھٹی میں یہ دونوں صورتیں مل کر ایک نیا پیکر اختیار کر لیتی ہیں۔ روایتِ فن کا تسلسل بھی باقی رہتا ہے اور ایک ایسا نیا پن بھی پیدا ہو جاتا ہے جو حقیقت کے معنوی احساس سے وجود میں آتا ہے۔ خیالات اور جذبات کے جوش و خروش میں وہ ٹھہراؤ بھی دکھائی دیتا ہے۔ جو زندگی میں ضبط و نظم کے احساس ہی سے پیدا ہو سکتا ہے۔ فراق کی غزل میں یہ صورت بار بار نمایاں ہوتی ہے جس کی توجیہ محض کلاسیکی اور رومانی انداز نظر کی تشریح اور تاویل سے نہیں کی جا سکتی۔ فراق نے زندگی کے اس شعور کی نفی نہیں کی ہے جو قدیم تھا اور اس شعور سے بد ظن اور بیگانہ نہیں ہیں جو آج کا عہد ہر حساس طبیعت رکھنے والے کے لئے فراہم کرتا ہے۔ اسی وجہ سے نہ ہم تو فراق کی شاعری کو انقلابی کہہ سکتے ہیں اور نہ بندھی ٹکی روایتوں کی پیروی کرنے والی۔ بصیرت کی یہ منزل مطالعہ سے نہیں حاصل ہوتی، جاندار تخلیقی قوت جو شخصیت کے تمام تضادات پر حاوی ہو جاتی ہے، حقیقت کے مختلف سروں کو ملا کر ایک کرتی ہے اسی سبب سے فراق کے نظریہ شاعری کو چند لفظوں میں بیان کر دینا آسان نہیں۔ والٹر آرٹسٹ کے اندر شیطان کے وجود کو لازمی قرار دیتا ہے کیوں کہ وہ جذبہ کی شدت کے تصور کو بدی یا اسفلیت سے علاحدہ نہ کر سکا لیکن فراق یزداں اور اہرمن دونوں کے وجود سے فن کی تکمیل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہاں اندیشۂ افلاکی کے ساتھ فکرِ زمیں بھی ہے۔ روایت کے ساتھ بغاوت بھی ہے، قدیم میں جدید اور جدید میں قدیم کی دھڑکنیں محسوس کرنے والا ذہن ہے۔ ان با توں کا تعلق بصارت سے نہیں بصیرت سے ہے۔ بعض اشعار سے ذہن اور جذبہ دونوں کا یہ جدلیاتی عمل اچھی طرح واضح ہو جائے گا۔

 

صد مہر و قمر اس میں جھلک جاتے ہیں ساقی

اک بوند مئے ناب میں صد عالم امکاں

نیرنگِ روزگار میں کیف دوام دیکھ

ساقی کی مست آنکھ سے گردش میں جام دیکھ

لٹا دے اپنی ظلمت عام کر دے روشنی اپنی

حیات اپنی ممات اپنی، ملال اپنا خوشی اپنی

مرے دوستوں کو معمہ سے میری نور و نار کی زندگی

جو ادھر چراغ حرم کی لو تو ادھر بھی کفر ہے شعلہ زن

کبھی ہو سکا تو بتاؤں گا تجھے رازِ عالم خیر و شر

کہ میں رہ چکا ہوں شروع ہی سے گہے ایزد و گہے اہرمن

ہزارہا اشارے پائیں گے تلاش شر ہے

قدیم فکریات میں جدید فکریات کے

وہی آنکھ جام مئے حیا، وہی آنکھ جام جہاں نما

جو نگاہ اٹھتی نہیں کبھی وہ نگاہ جاتی ہے چار سو

ظلمت و نور ہے عشق کی ہستی

تیرہ تیرہ تاباں تاباں

کون ترتیب ہوش دے کہ جنوں

بے خبر بھی ہے ہوشیار بھی ہے

ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے

نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگذر پھر بھی

شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ اس طرح کے اشعار دیکھنے کے بعد شاعر کے عملِ تخلیق کے کچھ بھید کھلنے لگتے ہیں۔ اور قدیم و جدید فکریات کے درمیان ایک نازک جمالیاتی رشتہ کی تلاش کی کوشش دکھائی دیتی ہے، جس کی بنیاد محض وجدان پر نہیں رکھی جا سکتی بلکہ جس کی تہہ میں ایک طرح کا استدلالی انداز بھی کارفرما ہے جسے دردِ حیات نے تفکر کر کے مقابلہ میں وجدان سے زیادہ قریب کر دیا ہے۔ اگر اسے ’’جدلیاتی جمالی پرستی ’’ یا ’’جمالیاتی جدلیت‘‘ کے نام سے موسوم کیا جائے تو کچھ بیجا نہ ہو گا۔ یہی ان کا لہجہ، ان کی آواز، ان کے اسلوب اور ان کے فکری سرمایہ کی انفرادیت ہے جو انھیں بڑے ریاض سے حاصل ہوئی ہے اور جس نے اردو غزل کو ایک نئے حسن اور ایک نئے توانا اسلوب سے آشنا کیا ہے۔

جس نے بھی فراق کی تحریریں پڑھی ہیں اور ان کی غزل گوئی کی ارتقائی منزلوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اسے یہ دیکھنے میں بالکل دشواری نہیں ہو گی کہ وہ ابتدا میں تقریباً ایک روایتی اسلوب کی تقلید کرتے تھے لیکن چونکہ ان کے پاس خوب سے خوب ترکی جستجو کرنے والا ایک سیماب صفت اور جولان ور قصندہ ذہن تھا۔ اس لئے وہ بڑی خوبی سے اس کی گرفت سے آزاد ہو گئے۔ اس کے محاسن کو سمیٹتے ہوئے وہ ایک دوسری منزل کی جانب چل پڑے۔ روایت کے گہرے شعور کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود اپنے اسلوب کے خط و خال دکھائی دینے لگتے ہیں اور ہزارہا آوازوں میں اپنی آواز کا مخصوص آہنگ سنائی دینے لگتا ہے ذوق تخلیق شعور کا سہارا لے کر انفرادیت کو نکھارتا ہے اور حقیقتوں کو نئے رشتوں میں مربوط کر کے اپنے انداز سے پیش کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس طرح اپنی ذات کا عرفان خود شاعر کو بھی ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی۔ تکمیل کی خواہش ریاضت پر اکساتی ہے اور وہ جد و جہد جاری ہوتی ہے جس میں اس کا شعور اپنی شخصیت کی پوری طاقت سے سرگرم عمل ہوتا ہے۔

فراق کی غزل گوئی اس معنی میں ان کے عاشقانہ تجربوں یا فکری میلانات کی ترجمانی نہیں ہے جسے عرفِ عام میں واردات قلبیہ میں امور دینیہ کا اظہار کہا جائے گا، اس میں وہ ریاض نفس بھی شامل ہے جو علم اور وقوف کی دین ہیں، اس طرح ان کی شاعری ایک ماورائے شخصیت عنصر کی حامل بن جاتی ہے جو نفسیاتی اعتبار سے شخصیت کے بعض پہلوؤں کا مظہر ہونے کے باوجود کائناتی ہے۔ کیونکہ یہاں اپنے میں کائنات کو کر لینے کی خواہش شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے اسی وجہ سے فراق کی شاعری کے سلسلہ میں آفاقیت کا ذکر برابر آتا ہے یہ آفاقیت عصریت کی نفی نہیں کرتی اور سچ تو یہ ہے کہ آفاقیت کا عنصریت ہی کے پردے میں ہوتا ہے، ہر اچھے فنکار کے اندر اس کا عہد سانس لیتا ہے اور بقول فراق اس کی ’’صدی بولتی ہے اس کا وہ شعور بولتا ہے جسے زندگی کے تجربات نے غذا دی ہے اس لئے یہ سوچنا کہ یہ آفاقیت عصریت سے خالی ہو گی، تاریخ اور نفسیات کے غلط تصور کا نتیجہ ہو گا۔ جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہے کہ جدلیت کا پیچیدہ عمل دونوں کے مخصوص امتزاج پر مبنی ہوتا ہے اور حقیقتیں ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود ایک دوسرے میں پیوست رہتی ہیں، ایسا نہ ہو تو کئی حقیقت وجود ہی میں نہ آئے۔ فراق کی بعض تحریروں سے یہ شک ہوتا ہے کہ وہ افادیت اور عصریت سے الجھتے ہیں، اس کا سبب غالباً افادیت اور عصریت کا وہ ان گڑھ اور سطحی تصور ہو گا جیسے جسمانی علوم نے عام کیا ہے۔ کیوں کہ بنیادی طور پر عصریت اور افادیت کے گہرے احساس اور وقت کے الجھے ہوئے رشتوں کے درمیان مرکزی نقطہ کو گرفت میں لینے ہی کا نام آفاقیت اور ابدیت ہے۔ فراق کی غزل گوئی میں تغیر کا جو گہرا شعور ملتا ہے، وہ بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آفاقیت اور ابدیت کے تصور ان کے یہاں مجرد اور مطلق نہیں جستجوئے حسن، جستجوئے خیر اور جستجوئے حقیقت کی ارتقائی اور ازلی کشمکش کی ایک ایک شکل ہے۔ اگر ہم اس بات کو نہ سمجھیں تو فراق کے یہ خوبصورت شعر بے معنی معلوم ہوں گے۔

 

اس دور میں زندگی بشر کی

بیمار کی رات ہو گئی ہے

 

ہوئی ختم صحبتِ میکشی، یہی داغ سینوں میں لے چلے

کہ طلوع ہونے سے رہ گئے کئی آفتاب خم و سبو

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

یاد سی آ کے رہ گئیں دل کو کئی کہانیاں

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان را توں میں

ہم ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

زمیں جاگ رہی ہے کہ انقلاب ہے کل

وہ رات ہے کہ کوئی ذرہ محو خواب نہیں

ابھی کچھ اور ہو انسان کا لہو پانی

ابھی حیات کے چہرے پر آب و تاب نہیں

بس اِک تسلسل تغیر حال قائم ہے

نصیب عشق فنا و دوام بھی تو نہیں

 

وقت کے زندہ تصور کے بغیر ایسے اشعار نہیں کہے جا سکتے، ان میں سے ہر شعر عصریت سے ابدیت کی طرف ایک پرواز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی صورت تصور مکان کی بھی ہے۔ جس میں قومیت اور آفاقیت، قومی تہذیب اور انسان کلچر کی حدیں مل جاتی ہیں اور آفاقی تصورات کے اندر سے ہندوستانیت کا رنگ اور خون پھوٹ نکلتا ہے۔ لیکن اس وقت مجھے اس کا تذکرہ نہیں کرنا ہے صرف اس حقیقت پر زور دینا ہے کہ استدلال اور جدلیاتی ذہن اسی طرح کام کرتا ہے اور اسی طرح کر سکتا ہے۔ اسی ذہن کی گرفت میں حقائق کی زندہ رگ آ سکتی ہے۔ سادگی سے یہ کہہ دینا کہ افادیت اور عصریت فن کے منافی ہیں، بصیرت کا حامل نہیں ہے

میں نے فراق کے طرز فکر کو جمالیاتی جدلیت کہا ہے تاکہ ان کی غزل گوئی کے سبھی پہلوؤں کی وضاحت اس طرح ہو سکے کہ کلاسکیت اور رومانیت، ارضیت اور آفاقیت، عصریت اور ابدیت، گناہ و ثواب، خیر اور شر، جنسی آسودگی اور جنسی پاکیزگی کی معنویت کو ایک وسیع تر نظامِ فکر میں سمویا جا سکے۔ لیکن شاید بات زیادہ واضح نہ ہوئی ہو اس لئے چند جملے اور لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

صرف نفسیات ہی میں نہیں سماجی اور فطری سائنسوں کی تحریر میں بھی عناصر کے باہمی کھنچاؤ اور تناؤ کا ذکر بہت آتا ہے کیوں کہ ان سے عمل کے بہت سے بھید کھلتے ہیں، انسانی ذہن بھی بہت سے حقائق کا ادراک اسی طرح کرتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے جذبے اور خیال کی تہہ میں کوئی تناؤ ہی رد عمل پیدا کر کے اسے اظہار پر مجبور کرتا ہے۔ یہ تناؤ فرد میں اپنی ذات کے اندر باطنی جذباتی کشمکش سے بھی وجود میں آ سکتا ہے اور فرد کے دوسرے افراد یا سماج کے کسی حصہ سے کھنچاؤ کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ جدلیاتی اصطلاح میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اضداد کے تناؤ سے نئی حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے اور اس کی لاتعداد نقلیں ہو سکتی ہیں۔ فن کی سطح پر یہ عمل معنی اور لفظ، مفہوم اور صورت، احساس اور اظہار کی کشمکش کے روپ میں نمایاں ہوتا ہے جہاں ان دونوں صورتوں کے درمیان آنکھ مچولی ہوتی رہتی ہے اور فنکار کا تخلیقی ذہن اسے فنی پیکر دے دیتا ہے۔ فراق کی نظم و نثر میں اس کا عمل بڑی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ الفاظ نہ تو آفاقی ہوتے ہیں اور نہ کائناتی لیکن فراق کے فن اور جذبے سے چھو جانے کے بعد ان کی معنوی حدیں بدل جاتی ہیں، ان کا ذہن بھی حقائق زندگی کی تلاش میں لفظوں سے نقطوں تک جا کر روابط تلاش کرتا ہے لیکن یہ نقطے خط مستقیم نہیں بناتے جس نے ایٹمی ذروں کی حرکت کی تصویر دیکھی ہو گی اسے خیال ہو گا کہ وہاں بھی حرکت نقطے سے نقطے تک ہوتی ہے لیکن سیدھی نہیں تاہم ان کا ربط باہمی بالکل نمایاں ہو جاتا ہے اور یہی نہیں ان لفظوں کے ملانے سے ایک خوبصورت منقش سانچہ بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جذباتی اور ذہنی کشمکش اور تناؤ کو اپنی شدت نوعیت کے لحاظ سے نئے جمالیاتی سانچوں میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ عمل میکانکی نہیں ہے، صلاحیت چاہتا ہے۔ جو فن کار کائنات کے دل کی دھڑکن سن اور سمجھ سکتا ہے وہی اسے الفاظ میں بھی قید کر سکتا ہے۔ فراق کے ذہن میں جو بجلی کی طرح کوندے پیدا کرنے والی تابندگی ہے وہ ان کے جذبات کو بھی اپنے ہی رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ اس لئے ان کے قلم سے وہ اشعار نکلتے ہیں جو فکر اور جذبہ کے امتزاج کا اچھا نمونہ پیش کرتے ہیں، جو کچھ اوپر کہا گیا ہے اگر ان کی غزلوں کی تہہ دار اشعار کو ان معروضات کی روشنی میں دیکھا جائے گا تو نہ صرف ان کی عشقیہ شاعری کی نرمی اور گرمی کا راز معلوم ہو گا بلکہ ان کی فکری شاعری کی جدلیاتی پیچیدگی بھی واضح ہو گی ذرا ان اشعار کو دیکھئے۔

شامِ غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو

بیخودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو

نکہتِ زلفِ پریشان داستان شامِ غم

صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو

کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا

کچھ فضا، کچھ حَسرتِ پرواز کی باتیں کرو

کب اپنے ہوش میں شب غم کائنات ہے

اے دردِ ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے

وہ اِک ذرا سی جھلک برقِ کم نگاہی کی

جگر کے زخمِ نہاں مسکرائے ہیں کیا کیا

پیامِ حسن، پیامِ جنوں، پیامِ فنا

تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں

بات یہ ہے کہ سکونِ دل وحشی کا مقام

کنج زنداں بھی نہیں، وسعتِ صحرا بھی نہیں

قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن

آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا

منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں

وہی اندازِ جہاں، گزراں ہے کہ جو تھا

لہرا رہی ہیں گردشِ خوں میں حقیقتیں

وہ کون زندگی ہے کہ باطل کہیں جسے

عہدوپیمائی وہ حسن بھی کیا کرے

عشق بھی توہے کچھ بدگماں بدگماں

جسے کونین کہ دل پہ ہو بوجھ سا

عشق سے حسن ہے سرگراں سرگراں

کیوں فضاؤں کی آنکھوں میں تھے اشک سے

وہ سدھارے ہیں جب شادماں شادماں

خیال گیسوئے جاناں کی وسعتیں مت پوچھ

کہ جیسے پھیلتا جاتا ہو شام کا سایہ

بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی

اِک فسوں ساماں نگاہِ آشنا کی دیر تھی

اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے

کون بتا سکے گا ان اشعار میں جو عشقیہ بھی ہیں تفکرانہ بھی، خیال اور جذبے کی حدیں ایک دوسرے سے کہاں الگ ہوتی ہیں، یہی فراق کی غزلوں کی وہ کافر ادائی ہے جس پر ایمان لانا پڑتا ہے۔

٭٭٭

 

 

اردو ادب پر فراق کے اثرات

 

                ………سحرؔ انصاری

 

دنیا کی ہر زبان کے ادب میں چند شخصیات ایسی ضرور ہوتی ہیں جو اپنے ہمہ گیر تخلیقی اثرات کی بنا پر بجائے خود ایک تحریک یا دبستان کی حیثیت حاصل کر لیتی ہیں۔ بیسویں صدی کے اردو ادب میں ایسی چند شخصیات کے ذیل اقبال، جوش، فراق، راشد اور فیض کا نام لیا جا سکتا ہے۔

فراق گورکھپوری نے اپنے تخلیقی جہات کو جس معیار اور مرتبے تک پہنچایا اس کی روشنی میں کئی ناقدین نے انہیں جینیئس Geniusقرار دیا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایک نابغہ یا Geniusکے سلسلے میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس کا بیشتر اطلاق فراق کی شخصیت اور ان کے تخلیقی اور تنقیدی سرمایے پر ہو سکتا ہے۔

فراق کی شخصیت اور ان کی شاعری پر ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ فراق پر مقالات، جرائد کے خاص نمبروں اور کتابوں کے حجم پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ ان کے بعض معاصرین مثلاً حسرت، فانی، اصغر، یگانہ اور جگر پر بھی اتنا تحقیقی اور تنقیدی کام نہیں ہوا۔ اس کا ایک سبب تو شاید یہ ہے کہ فراق نے نظم و نثر کے حوالے سے بہت لکھا اور مشاعروں کے علاوہ رسائل، جرائد اور کتاب کی مسلسل اشاعت سے وابستہ رہے۔ صرف مطالعہ اور کسب فن ہی نہیں بلکہ فراق کا ہمہ گیر غور و فکر اور پھر فکر کو محسوسات اور جمالیات کے دلکش سانچے میں ڈھال دینے کا ہنر بھی شامل ہے۔

فراق پر کچھ لکھتے ہوئے خود ان کی تحریروں سے استفادہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ فراق نے اپنی ذاتی زندگی کے مثبت و منفی کوائف کو بے کم و کاست وقتہً  فوقتہً تسلسل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کا مجموعی جائزہ لینے پر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں نسیان یا تضاد بیانی کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کے احساس جمال کی شدت، دانش وری کے سر چشموں سے سیرابی، دنیا کے اعلا ادبی معیارات تک پہنچنے کی خواہش اور کاوش، مفکرانہ طرزِ احساس… یہ سب کچھ فراق کی شخصیت اور فن میں مسلسل جلوہ آرائی کرتے ہیں۔

فراق پر ہر نقاد نے اپنے اپنے انداز میں قلم اٹھایا ہے۔ فراق کے خطوط کے مجموعے ’’من آنم‘ کے آخری حصے سے ایک نسبتہً طویل اقتباس پیش کرنا چاہوں گا کیوں کہ اس سے فراق کے دانش ورانہ خو خال خاصی حد تک نمایاں ہو جاتے ہیں :

’’ …ان چیزوں کا کچھ ذکر ضروری ہے جنہوں نے داخلی اور خارجی طور پر فراق کی زندگی، کردار، ذہنیت اور وجدانی رد عمل اور ان کی خلاقانہ صلاحیتوں کو متاثر کیا:

پہلا اثر: ہندو تہذیب اور نظریے کا وہ حصہ جو مادی دنیا کی طہارت کا احساس کراتا ہے، قدیم ہندو ادب اور ہندو زندگی کی فضا کے ساتھ ساتھ انگریزی شاعرو رڈزورتھ کے کلام کا مطالعہ اور دنیا کے بلند ادب کے کچھ حصے، شعور فراق کی داخلی تعمیر و تہذیب میں مدد دیتے رہے۔ مثلاً ورڈزورتھ کے یہ مندرجہ ذیل مصرعے :

This earth which is the world of all of us and where we find our find our happiness, nor not all where.

دل جن کے فلک سے اٹکے ہیں دھرتی کی وہ عظمت کی جانیں

میں اس کے قدم پر کنگرۂ افلاک کو بھی خم کرتا ہوں

اردو شاعری میں فراق کو ایسا محسوس ہوا اس زمیں پر اپنا گھر بسایا ہی نہیں تھا بلکہ ایک سطحی بسیرالے رہی تھی۔ قبولیت حیات و کائنات کی اثباتی قدریں فراق سے پہلے جم کر اردو شاعری میں نہیں آئی تھیں۔

دوسرا اثر:       میر اور درد کے دوسرے قدیم دہلوی شعراء کا مطالعہ، جہاں جذبات و زبان میں وہ نرمی اور معصومی ہے جو لکھنوی شعراء کے یہاں تصنع اور تکلف میں بدل جاتی ہے۔ فراق کے ہمعصروں میں میر اور دور میر کے شعراء میں فراق کی طرح کوئی متاثر نہیں۔

تیسرا اثر:       مغربی فلسفہ و ادب اور مغربی تہذیب کی بلند فکریات بلند سنجیدگی اور بلند قدریں فراق کو مستقل طور پر متاثر کرتی رہی ہیں اور ان کی خلاقانہ صلاحیتوں کی آبیاری کرتی رہی ہیں۔

چوتھا اثرا:فارسی شاعری میں  کئی ہزار برس پرانی تہذیب کی پختگی سے جذبات اور وجدان کی جو چاشنی پید ہو گئی ہے وہ بھی فراق کے شعور میں جذب ہوتی رہی ہے۔ اردو شاعری کی صوتیات فراق سے پہلے فارسی شاعری کے لہجے کی کئی تہیں چھونہ سکی تھیں۔

پانچواں اثر: انگریزی حکومت کے بعد ہندوستان کی نشاۃ ثانیہ اور سیاسی بیداری نے فراق کی شاعری میں ایک ابھار، اقدار پرستی اور ایک وجدانی ایمان کی نشو و نما کی۔

چھٹا اثر: ۱۹۳۵ء میں سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں کا ایک نیا اثر فراق کے شعور پر پڑا اور مارکسیت کا فلسفہ بہت مہذب اور متمدن یا ترقی یافتہ شکل میں فراق کے شعور پر چھانے لگا۔ فراق کے وجدان میں جو شرافت شروع ہی سے تھی، حیات و کائنات پر جس طرح ان کا ایمان قائم ہو چکا تھا اس نے مارکسیت کو قبول کرنے کے لیے زمیں تیار کر رکھی تھی۔

سا تواں اثر:     حسن فطرت اورحسن انسانی کا نرم ترین شدید ترین احساس۔ اس کیساتھ ساتھ بلند ترین اخلاقی نظریہ۔ ان چیزوں نے مل کر فراق کے لب و لہجہ کو ایسا سنوارا کہ اردو شاعری میں ان کا ایک خاص مستقل مقام بن گیا۔ بقول ایک نقاد کے، میر کے بعد اتنا بڑا عاشق شاید زمیں ہند سے اٹھا ہی نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ احساسِ جمال تو اردو شاعری میں اس رچاؤ کے ساتھ فراق سے پہلے آیا ہی نہیں تھا۔        (من آنم ص ۱۷۰ ۔ ۱۷۲)

فراق کی ذہنی ساخت Mind-Setاور ان کے تخلیقی شعور کی تشکیل کے بارے میں مختلف الفاظ میں شاید یہ باتیں میں بھی لکھ سکتا تھا۔ لیکن یہ تجزیہ اور اس کا Sequenceمجھے اس بات پر مجبور کرتا رہا کہ اسے من و عن اس تحریر میں شامل کر کے فراق کے ذہنی ارتقا کو اجاگر کیا جائے۔

فراق جب ہو مر، تلسی داس، کالیداس، فردوسی، دانتے، ورجل، حافظ، مولانا روم، شیکسپیئر، ورڈس ورتھ، کیٹس اور شیلے کا تذکرہ کرتے ہیں اور ماضی کے ادب کی انقلابی اور سرمدی کیفیات سے اکتساب نور کرنا چاہتے ہیں تو ایک طرف انہیں اردو کے شعری ادب میں پائی جانے والی کمی کا احساس ہوتا ہے اور دوسری سمت وہ شاعری کے وہ ہمالہ کی بلند ترین چوٹی تک پہنچنے کا ارادہ اور حوصلہ اپنے اندر پیدا کرتے ہیں۔ اسی منتہائے تخلیق کے پیش نظر فراق نے اردو شاعری اور اردو تنقید کو اپنے بیشتر معاصرین کے مقابلے میں زیادہ ثروت مند بنایا ہے۔

فراق نے ایک پوری نسل کے شعور کی جس طرح تربیت کی ہے اور اسے زندگی کی نظر انداز شدہ اقدار کی سمت متوجہ کیا ہے اس کا اعتراف ضروری ہے۔ اس ضمن میں محمد حسن عسکری کی یہ رائے بہت وقیع ہے :

’فراق نے ہماری نئی نسل کے شعور میں ایک زبردست تبدیلی پیدا کی ہے۔ ہمیں عشقیہ زندگی کی نئی اقدار دی ہیں۔ اور ہمیں واقعی عشق کرنا سکھایا ہے … فراق کی شاعری تو اردو شاعری کی دولت میں ایک زبردست اضافہ ہے ہی مگر نئی نسل کی ذہنی اور جذباتی زندگی پر بھی یہ شاعری گہرا اثر چھوڑ جائے گی۔                                 (انسان اور آدمی ص۲۴۶)

فراق کی شاعری، ان کے افکار و خیالات، نظریات و محسوسات کا جمالیاتی اظہار ہے۔ انہوں نے نثر کے ’حرفِ برہنہ‘ کو شاعری کی تہ در تہ رمزیت میں ڈھال دینے کا فن سیکھا اور سکھایا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جنس کے بارے میں متعدد اقسام کی تحدیدات موجود ہیں۔ یہ ایک نوع کا شجر ممنوعہ ہے جس تک جانا تو سب چاہتے ہیں لیکن نہ اس کا اقرار کرتے ہیں اور نہ اس سلیقے کا ثبوت دیتے ہیں جو جنس کو ایک لطیف اور پاکیزہ قدر حیات میں بدل دیتی ہے۔ جنس کو ایک Tabooسے نکال کر صحت مندانہ عشقیہ جذبات تک پہچانے میں فراق کی شاعری اور ان کی نثری تحریروں کا بڑا حصہ ہے۔ ابتذال کے بغیر جنسی جمالیات کو فن پارے میں کیسے پیش کیا جا سکتا ہے اس کا بھر پور عکس فراق کی شاعری میں دکھائی دیتا ہے۔

فراق نے زبان، تہذیب، مذہب، سیاست، جنس، حسن، عشق وجدان اور تعقلات کے بارے میں مفکرانہ انداز سے مضامین تحریر کئے یا مصاحبات کا حصہ بنایا۔ انہوں نے ہر مسئلے پر جرأت، بے باکی اور فہم و فراست کے معیارات کو قائم رکھتے ہوئے قلم اٹھایا ہے۔ شاعری اور تاثراتی تنقید سے ہٹ کر جو مباحث مختلف اوقات اور ادوار میں ان کے دائرہ اظہار میں  آتے رہے ہیں وہ اس قدر فکر انگیز اور متاثر کن ہیں کہ اردو ادب کا پورا منظر نامہ ان سے متاثر ہوتا نظر آتا ہے۔

مثال کے طور پر فراق نے اپنے مجموعۂ رباعیات ’روپ‘ میں ہندوستانی کلچر، شرنگار رس اور جنسی جمالیات کو نہایت اعلا تخلیقی سطح پر پیش کیا اور پھر اپنے اس نقطۂ نظر کی بھی ترویج و اشاعت کرتے رہے :

’اردو شاعری میں گھر کا تصور اور عورت کا تصور بلکہ کائنات و حیات کا تصور کمزور اور ناقص ہونے کے سبب سے اردو کی عشقیہ شاعری بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنے اندر بہت کچھ کمی رکھتی ہے۔

(عشقیہ شاعری۔ نگار، جنوری ۱۹۴۶ء)

اس خیال کو فراق نے متعدد بار الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ دہرایا ہے۔ اس خیال اور نقطہ نظر کے اثرات ان کے سینئر اور جونیر معاصرین میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اس کیا یک نمایاں مثال جاں نثار اختر کے یہاں گھر کی فضا کو دیکھئے اور فراق کی ’روپ‘ سے تخلیقی استفادے کو دھیان میں رکھئے :

وہ آئیں گے چادر تو بچھا دوں کوری

پردوں کی ذرا اور بھی کس دوں ڈوری

اپنے کو سنوارنے کی سدھ بدھ بھولے

گھر بار سجانے میں لگی ہے گوری

آہٹ مرے قدموں کی جو سن پائی ہے

اک بجلی سی تن بدن میں لہرائی ہے

دوڑی ہے ہر اک بات کی سدھ بسر کے

روٹی جلتی توے پہ چھوڑ آئی ہے

آنچل ہی نہیں جسم بھی لہرایا ہے

آنکھوں میں قیامت کا نشہ چھایا ہے

وہ دور ہیں، پھر سکھی یہ قصہ کیا ہے

کل شام وہ آ رہے ہیں، خط آیا ہے !

بھاشا کا استعمال، عورت کے بے ساختہ جذبات، ان میں فراق کے مضامین اور اسلوب کی تقلید نہیں پھر بھی تخلیق ذہن اسی طرح چراغ سے چراغ جلاتا ہے۔

ندا فاضلی کو جاں نثار اختر سے بہت قربت حاصل رہی ہے۔ ممکن ہے کہ ان کے گھر آنگن کے تجربات اور فراق کی رباعیات سے بھی وہ متاثر ہوئے ہوں اور ان کے مزاج کی اختراع پسندی نے بھی راہ دکھائی ہو۔ ندا فاضلی کے بعض غزلیہ اشعار اور نظموں میں گھر اور گھریلو رشتوں کا شاعرانہ اظہار ایک اور آہنگ کے ساتھ ہوا ہے جس میں فراق اور جاں نثار اختر کے لب و لہجے کی نرمی اور گداز سے زیادہ ایک نوع کا کھر درا پن پایا جاتا ہے۔

نظم اور تنقید سے زیادہ فراق کی غزل نے عہد بہ عہد شعرا کو متاثر کیا ہے۔ انہیں غزل کے نئے موضوعات کی طرف متوجہ کرنے کیساتھ ساتھ ایک ایسے آہنگ سے بھی روشناس کرایا ہے جس کا احساس ان شاعروں کی غزل کے مطالعے سے ہو جاتا ہے۔ فراق کی غزل سے اثر قبول کرنے والوں میں حفیظ ہوشیار پوری، احمد ندیم قاسمی، عزیز حامد مدنی، سلیم احمد، ناصر کاظمی، احمد ہمدانی، ساقی فاروقی، ابن انشا، جون ایلیا، محبوب خزاں، خلیل الرحمٰن اعظمی، شہر یار، عبید اللہ علیم، احمد مشتاق، اسلم انصاری ہیں، ان شعرا کے کلام سے مثالیں پیش کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔ تاہم اسلوب فراق کو جاننے والے جب ان کی غزلوں کا مطالعہ کریں گے تو فراق کے لہجے کی آہٹ ضرور محسوس کر لیں گے۔

فراق نے ماضی کے سرمایۂ شعر و سخن کو قدر کی نظر سے دیکھنا سکھایا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ احساس بھی اجاگر کیا ہے کہ ’’سیکڑوں برس پہلے کے مشاہیر نے اپنے زمانے کی کائنات کو جس طرح سمجھا تھا وہ کائنات تو اب بدل چکی ہے … ان شاعروں کی د نیا لینے سے ہمیں انکار ہے اور ان کے کار نامے کھو دینے سے بھی ہمیں انکار ہے۔ ‘‘ گویا فراق کے ذہن میں SynchronicاورDiachronicکا تصور اور اس استعمال بہت واضح ہے۔

اردو شاعری کے ایک رخ پر روشنی ڈالتے ہوئے فراق لکھتے ہیں :

’دوسری چیز جس کی کمی اردو شاعری میں رہی ہے وہ ہے احساس رنگ یاColour-Senseمیں نے اردو شاعری میں اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘  (من آنم ص ۹۵)

اس خیال کی رو میں ذرا فیض احمد فیض کے یہاں احساس رنگ کا جائزہ لیجئے یہ ٹھیک ہے کہ فیض کا اپنا ذاتی اور انفرادی اسلوب احساس رنگ سے متصف ہو گا۔ تاہم اس ضمن میں مصحفی، حسرت اور فراق کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فیض کے چند مختلف مصرعے دیکھئے :

ان کا آنچل ہے کہ رخسار کہ پیراہن ہے

کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

خاک رہ آج لئے ہے لب دلدار کا رنگ

یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ

یوں فضا بدلی کہ بدلا مرے ہم راز کا رنگ

درد کی کا سنی پا زیب بجاتی نکلے

فیض و فراق ایک دوسرے سے کبھی بے خبر یا غافل نہیں رہے۔ فراق نے فیض کے تازہ تر کلام پر ہمیشہ اپنی رائے دی ہے۔ خصوصاً ان کی نظم ’ملاقات‘ کو تو وہ بے حد پسند کرتے تھے :

یہ رات اس درد کا شجر ہے

جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے

فراق کی شاعری کے بعد ان کی تنقیدی نثری تحریروں اور مخاطباتDiscoursesنے اردو ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ فراق کی نظر دنیا کی تنقیدات عالیہ پر تھی۔ وہ تنقید کے تمام دبستانوں سے واقف تھے لیکن انہوں نے اپنے لئے تاثراتی تنقید کو پسند کیا اور اس میں شک نہیں کہ اگر تخلیقی تنقید کو شبلی کے بعد کسی نے درجۂ کمال تک پہنچایا ہے تو وہ فراق ہی ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کا زمانہ ان کا مزاج اور جمالیاتی رجحان یقیناً اسی پیرایۂ اظہار کی گواہی دیتا ہے جو انہوں نے شعرا لعجم اور بعض دیگر مقالات میں اختیار کیا ہے۔ فراق کا مطالعہ، ذوق ادب اور غور و فکر کے سانچے بہت مختلف تھے۔ وہ کسی ادارے یا انجمن کے زیر اثر نہیں بلکہ خود اپنی تخلیقی ذمہ داری اور اعلا سنجیدگی High Seriousnessکے تحت ایک خود اختیار کردہ مشن پر مامور تھے کہ اردو شعر و ادب کو عمودیVerticalاور افقیHorizontalسطح پر ثروت مند بنایا جائے تاکہ وہ عالمی مشاہیر ادب کی تخلیقات کے برابر رکھے جا سکیں۔ اسی خواہش نے ان سے عالمی ادب کے تراجم کرائے۔ تنقیدیں لکھوائیں اور غور و فکر کے نئے زاویے اجاگر کر وائے۔

فراق کی بوطیقا میں حسن، جنس اور جمالیات کو قدر اول کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی قدر حیات کو انہوں نے اپنی شاعری اور تنقید دونوں میں برتا ہے۔ حسن کے بارے میں ان کا یہ بے مثال شعر نہ صرف ان کے تصور حسن کو واضح کرتا ہے بلکہ پوری اردو شاعری پر ایک محا کمے کی حیثیت بھی رکھتا ہے ؛

حسن کو اک حسن ہی ہم نے نہیں سمجھا فراق

مہرباں نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم

فراق نے تنقید کے ذریعے اردو شاعری کی روایت کو اپنے دور کی آگہی کی نسبت سے از سر نو دریافت کیا۔ اس ضمن میں مصحفی، ذوق اور حالی پر ان کے مضامین بہت فکر انگیز اور ایک نئی تنقیدی فضا کی نوید بن گئے ہیں۔ اسی ضمن میں انہوں نے عام تنقیدی اصطلاحوں Critical Jargonسے گریز کر کے اپنے تجزیوں اور ما فی الضمیر کو ان کی مکمل سچائی کے ساتھ بیان کرنے کے لیے خود متعدد اصطلاحیں وضع کی ہیں۔

فراق کی تنقید سے متاثر ہونے والے نقادوں میں محمد حسن عسکری، پروفیسر مجتبیٰ حسین، سلیم احمد اور ابوالکلام قاسمی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

محمد حسن عسکری تو خود ایک دبستان تنقید کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں گویا با لواسطہ یہ فراق ہی کا فیضان ہے جو اردو تنقید کے بعض نئے رجحانات کی آب یاری کر رہا ہے۔

فراق کا خاصا سرمایۂ نظم و نثر بکھرا ہوا ہے۔ اس سرمایے کو مدون کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی تدوین اور اشاعت کے بعد فراق سے استفادے کی مزید را ہیں استوار ہوں گی اور اردو ادب پر فراق کے اثرات کے نئے باب وا ہوں گے۔

٭٭٭

 

 

 

فراق کا اسلوبِ شعر

 

                ………پروفیسر سلیمان اطہر جاوید

 

اسلوب، اگر شخصیت ہے تو فراق اردو کے معدودے ان چند شاعروں میں شمار ہوتے ہیں، جن کا اسلوب ان کی شخصیت بھی ہے، مزاج اور زندگی بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فراق کی زندگی ڈھکی چھپی نہیں، کئی زاویوں سے ! پہلی بات تو یہ کہ فراق ہمارے اِسی دور کے شاعر ہیں۔ ان کو دیکھنے، ان سے ملنے ملانے اور رسم و راہ رکھنے والوں کی آج بھی تعداد ہے۔ دوسری بات یہ کہ انھوں نے اپنے انٹرویوز، احباب سے گفتگو، خطوط، اپنے شعری مجموعوں کے دیباچوں وغیرہ ہی میں نہیں بلکہ اپنی شاعری میں بھی کہیں کھل کر اور بسا اوقات اشاروں کنایوں میں اپنی زندگی کے بیش تر واقعات پیش کر دیے ہیں۔

فراق کی زندگی کچھ عجیب و غریب واقعات سے عبارت رہی۔ درد و غم کس کی زندگی میں نہیں ہوتے۔ اس خصوص میں کسی عام فرد یا بڑے فنکار کی تخصیص نہیں۔ فنکار کا کمال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ان درد و غم کو جمع کر کے دیوان بنا دیتا ہے۔ فراق کی زمانے نے بلاشبہ قدر کی۔ ان کو اس سلسلے میں شکوہ رہا ہو تو اور بات ہے لیکن ان کی ذات اور شاعری کو چاہنے والے اور پرستار ملے۔ چھوٹے موٹے اکرام و اعزاز کی گنتی کہاں تک؟ گیان پیٹھ جیسا ملک کا عظیم ایوارڈ انھیں ملا۔ زندگی اور زمانے سے انھیں اور کیا مل سکتا تھا لیکن ان کی ذاتی زندگی پر غور کیجئے، بقول فراق ’’یہ اداس اداس بجھی بجھی کوئی زندگی ہے فراق!۔ ۔ ۔ گرفتاری اور قید، چلئے نظر انداز کر دیں کہ سیاسی بنیادوں پر ہوئی تھی لیکن ازدواجی زندگی کی ناکامی جو قیدِ حیات اور بندِ غم کی طرح رہی، دو جوان بھائیوں کا انتقال، جو ان بیٹی کا داغِ مفارقت اور بیٹے کی عین جوانی میں خود کشی ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان حالات میں کوئی تو پاگل بھی ہو جائے لیکن فراق میں تھوڑی بہت تنک مزاجی اور چڑچڑا پن ہی در آیا۔ فراق نے ان حالات میں زیست کیسے کی ہو گی اور کیوں کر کی ہو گی، اس کا اندازہ، ہر ایک اپنے بہ قدر ظرف لگا سکتا ہے۔ جب کہ خود فراق نے بھی نہایت اچھوتے انداز میں اپنے ان بے اتھاہ اور بے شمار غموں کا بیان کیا ہے :

یہ نہ پوچھ کتنا جیا ہوں میں، یہ نہ پوچھ کیسے جیا ہوں ہوں میں

کہ ابد کی آنکھ بھی لگ گئی مرے غم کی شام دراز میں

غم، انسان کو پاگل بنا سکتا ہے، پاگل بنا دیتا ہے لیکن اگر ظرف عالی ہو تو مزاج میں نرمی، آہستہ روی، متانت، انکساری، قوتِ برداشت، قرار اور ٹھہراؤ کی کیفیات بھی نکھر سکتی ہیں۔ فراق کے یہاں یہی ہوا، انھوں نے اس غم سے بڑے کام لئے، اس غم کو اپنی زندگی بنا لیا بلکہ اپنی شاعری۔ زہرِ غم پی کر زیست کرنے کا سلیقہ انھوں نے اپنے غموں سے سیکھا۔ بقول فیض:

عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی

یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے

چنانچہ مایوسی اور کرب کے باوجود فراق کے کلام اور خاص طور پر ان کے لہجے میں جو ایک داخلی ٹھہراؤ اور اسلوب میں جو ایک مہذب دھیما پن ہے وہ اسی غم کو گوارا بنا لینے اور ایک عمر گوارا بنا لینے کا نتیجہ ہے اور کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ فراق نے شعوری طور پر یہ ریاضت کی، غم کو انگیز کیا۔ یہ شعر سنیے :

میں نے اس آواز کو پالا ہے مرمر کر فراق

آج جس کی نرم لوہے شمعِ محرابِ حیات

اس نرمی، آہستہ کلامی، ٹھہراؤ اور تھمی تھمی کیفیت نے فراق کے کلام کو پرتاثیر اور پسندیدہ بنا دیا:

آہستہ کلامیاں ہماری ہر دل میں گونجتی رہیں گی

فراق، غموں کی آگ میں دہکتے ہیں لیکن غموں کی یہ دہک، مصائب و آلام کا یہ لاوا، ان کے کلام میں ایک نرم اور ٹھنڈی آنچ کی صورت میں ظاہر ہوا کہ ان کے پڑھنے والے ایک کیف کی دولت اور دل آسائی کی کیفیت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ اس کا باعث سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس درد و کرم اور رنج و محن کے باوجود فراق کے پاس جمالیاتی احساس اور حسیاتی دل  کشی ہے۔ کہ ناخوش گواریاں بھی خوش گوار اور غم و اندوہ بھی مسرت بخش لگتے ہیں۔ فکر کی گہرائی اور احساس کی تہہ داری نے ان کو مزید نکھار دیا ہے۔ یہ انسان پر فنکار کی فتح ہے۔ ایسے اشعار غم کی داستاں ہی نہیں سناتے بلکہ غم کو اپنائیت کا حامل بھی بنا دیتے ہیں۔ خود فراق نے بھی ان غموں سے لذت حاصل کی ہے، ان کو محفوظ کیا ہے :

تھی یوں تو شامِ ہجر مگر پچھلی رات کو

وہ درد اٹھا فراق کہ میں مسکرا دیا

وہ اک ذرا سی جھلک برقِ کم نگاہی کی

جگر کے زخم نہاں مسکرائے ہیں کیا کیا

اور اب یہ اشعار، ان میں ہجر کی، درد کی، کرب کی، الجھنوں کی اور ریزہ ریزہ زندگی کی بات ضرور ہے لیکن اشعار کی تہہ داری کا اندازہ لگائیں تو سکون و سرور کی دولت بھی ہاتھ آتی ہے۔ یہ فراق کے اسلوب کا کمال ہے۔ بقول ان کے :

’’ٹھنڈک اور تراوٹ کا احساس، مادی اور روحانی دونوں معنوں میں میرے بہت سے اشعار میں ملے گا‘‘ (۱) جی ہاں اشعار سنیے :

دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے دوست

خاک کا اتنا چمک جانا بہت دشوار تھا

وہ تھا مرا دلِ خوں گشتہ جس کے مٹنے سے

بہارِ باغِ جناں تھی، وجودِ دنیا تھا

طبیعت جب بھی گھبراتی ہے ان سنسان را توں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

ترکِ محبت کرنے والو، کون ایسا جگ جیت لیا

عشق سے پہلے کے دن سوچو کون بڑا سکھ جیت لیا

فراق نے ہر چند کہ نظمیں بھی لکھی ہیں اور بعض بہت اچھی اور عمدہ نظمیں لیکن وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ مجنوں گورکھپوری نے جو فراق کے قریبی احباب میں بھی رہے، لکھا ہے ’’فراق کا مزاج غزل ہے ‘‘ آل احمد سرور، فراق کو ہمارے بڑے غزل گو شاعروں میں شمار کرنے کے باوجود واضح الفاظ میں کہہ دیتے ہیں کہ ’’انھوں نے اگرچہ نظمیں بھی کہی ہیں مگر نظم میں ان کا کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ ‘‘ اور رشید احمد صدیقی نے فراق کو اس صدی کے پانچ بڑے غزل گو شاعروں میں شمار کیا ہے۔ المختصر، فراق کا غزل سے گہرا رشتہ ہے۔ تا حالِ غزل ہی سے ان کی شناخت ہوئی اور آئندہ بھی ان کی شاعری کا تشخص صرف غزل سے ہو گا۔ مزید بر آں فراق نے جہاں جہاں اور جب جب ذکر کیا ہے، زیادہ تر غزل گو شاعروں کا ذکر کیا ہے یا کم از کم ان شاعروں کا جن کی نظم نہیں بلکہ غزل اردو شاعری کی آبرو رہی ہے۔ وہ متاثر بھی غزل گو شاعروں سے معلوم ہوتے ہیں۔ ایک طرف اگر وہ کہتے ہیں کہ عالم رویا میں انھوں نے میرؔ کو اپنی غزلوں پر وجد کرتے دیکھا ہے تو انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے :

صدقے فراق اعجازِ سخن کے، کیسے اڑائی یہ آواز

ان غزلوں کے پردوں میں تو میرؔ کی غزلیں بولیں ہیں

غالب، مومن، مصحفی، امیر مینائی اور صفی لکھنوی سے استفادے کو وہ تسلیم کرتے ہیں۔ ان اساتذہ کی غزلوں کی زمینوں میں انھوں نے غزلیں کہی ہیں، ریاض خیر آبادی اور وسیم خیر آبادی سے انھوں نے مشورۂ سخن کیا او ان کے ہم عصر شاعروں میں شاد عظیم آبادی، عزیز لکھنوی، حسرت، فانی یگانہ، اصغر اور جگر سے ان کے مراسم اور ان میں سے بعض سے تو مراسم خصوصی رہے۔ ایک تو غزل کا مزاج بڑی حد تک غم ہے اور پھر ان شاعروں میں زیادہ تر وہ ہیں جن کی شاعری کا عنوان غم رہا یا کم از کم جذبۂ غم جن کی شاعری پر محیط ہے فانی سے قطعِ نظر کہ وہ غم کو کسی اور انداز میں قبول کرتے ہیں۔ اگرچہ فراق پر فانی کا اثر بھی ہے۔ مثلاً ایسے اشعار:

کیا جانیے موت پہلے کیا تھی

اب میری حیات ہو گئی ہے

اس دور میں زندگی بشر کی

بیمار کی رات ہو گئی ہے

لیکن فراق، غم میں کھو نہیں جاتے اور نہ خود کو افسردہ بنا لیتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ غم سے فرار حاصل کرتے ہوں۔ یہ غم ان کی شاعری میں موجود ہے۔ ان کا مزاج بھی اور ان کے اسلوب میں جاری و ساری بھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ فراق کے شخصی مصائب اور رنج و محن اردو غزل کی روایات، کلاسیکی اور ہم عصر شعراء کے کلام کا مطالعہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان ساری چیزوں نے ان کے اسلوب کی تشکیل میں حصہ لیا ہے اور اس طرح آگے چل کر ان کے ہاں ایک انفرادی اور امتیازی شان پیدا ہوئی۔ فانی کی طرح وہ زندگی بیزار نہیں، سیلابِ غم کے باوجود زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان کی غزل اس کی غماز ہے۔ اشعار ہیں :

میں آسمانِ محبت پہ رخصتِ شب ہوں

ترا خیال کوئی ڈوبتا ستارہ ہے

میں یہ بھی کہہ نہیں سکتا بدل گئی وہ نگاہ

وہی ہیں لطف و کرم، اب مگر وہ بات نہیں

ابھی سنبھلے رہو کہ دن ہے فراق

رات پھر بے قرار ہو لینا

فراق کے اسلوب شعر کی تشکیل میں ’’رات‘‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ کلیدی اہمیت! ایک لفظ کی صورت میں بھی، ایک استعارے کی حیثیت سے بھی اور کہیں کہیں ایک اشارے کے بہ طور بھی۔ دن، ہنگاموں۔ چلت پھرت، دھوم دھام، تیزی، شدت اور بھاگ دوڑ کا مظہر ہے تو رات خاموشی، آہستگی، نرم روی، سکون، ٹھنڈک اور خنکی کی زندگی، دن کو مصروف بہ کار ہوتی ہے تو رات کو آہستہ خرام اور مائل بہ آرام دن میں بہلاوے کے سو سو بہانے ہیں لیکن رات اپنی ذات میں گم۔ دن میں فرد خود کو زندگی کے ہنگاموں میں کھو دیتا ہے لیکن رات میں غم زدہ انسان، فراق جیسا انسان، اپنی تنہائیوں کے سوا کسی اور کو ہم دمِ مجلس نہیں بنا سکتا۔ شاعری ہی اس کی انیس و رفیق ہوتی ہے۔ فراق نے نثر اور شاعری دونوں میں اپنی ذات کے اس پہلو کو برافگندہ نقاب کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ان کی زیادہ تر نظمیں، غزلیں شب کے پچھلے پہر میں لکھی گئی ہیں۔ شب کا پچھلا پہر جب کہ کائنات پر ایک بے کراں، گمبھیر اور پر اسرار خاموشی محیط ہوتی ہے۔ سارا عالم اپنی ذات میں محو اور ہر شئے سے بے نیاز ہوتا ہے۔ ان کے شعری مجموعوں کے نام ’’پچھلی رات‘‘ اور چراغاں ’’بھی اس سمت اشارہ کرتے ہیں۔ اور پھر ایسے اشعار بھی تو ملاحظہ ہوں :

تاریکیاں چمک گئیں آوازِ درد سے

میری غزل سے رات کی زلفیں سنور گئیں

شب ہے آہستہ، چل رہی ہیں ہوائیں

کچھ سناؤ فراق کے اشعار

فراق کے شعری مجموعوں کا قدرے گہری نظر سے بھی مطالعہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ ’’رات‘‘ کا کردار ان کی شاعری اور اسلوب پر بہت زیادہ حاوی ہے اور ’’رات‘‘ کی صفات خاموشی، آہستہ روی، نرماہٹ، لطافت اور محویت وغیرہ ان کے اسلوب میں رچ بس گئی ہیں۔ ورنہ اس رنگ روپ اور مدھم مدھم لہجے سے فراق کا اسلوب شاید ہی مزین ہوتا۔ چند اشعار

ہماری رات چلی جائے گی تمہارے ساتھ

ہماری رات کو لے کر ابھی یہاں سے نہ جاؤ

کب اپنے ہوش میں شبِ غم کائنات ہے

اے دردِ ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے

شام ہے میں ہوں تنہائی ہے

تم بھی جو ہوتے اچھا ہوتا

ہم اہلِ انتظار کی آہٹ پہ کان تھے

ٹھنڈی ہوا تھی، غم تھا ترا، ڈھل چکی تھی رات

جب دل کی وفات ہو گئی ہے

ہر چیز کی رات ہو گئی ہے

آ گئی رات تیرے جانے کی

اب نہیں صبح مسکرانے کی

اسلوب کی تشکیل میں جہاں داخلی عناصر کی شمولیت ہوتی ہے خارجی عوامل کی کارفرمائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ داخلی عناصر میں فنکار کی اپنی زندگی، اس کے خاندانی حالات، اس کے خیالات اور افکار اور خارجی عوامل میں اس کا ماحول، دوست احباب اور عزیزوں رشتے داروں سے اس کا برتاؤ، اس کی زبان اور اس کی زبان ہی کا نہیں دوسر زبان کا ادب اور مروجہ اسالیب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان میں سے ہر چیز اور ساری چیزیں کسی فنکار کے اسلوب کی صورت گری میں حصہ لیتی اور وقتاً فوقتاً اس کے اسلوب کو متاثر بھی کرتی رہتی ہیں لیکن اسلوب میں گہرائی، ندرت اور بانکپن اسی وقت ممکن ہے اور اسی وقت فنکار صاحب اسلوب ہوتے ہیں جب ان کے ہاں یہ داخلی اور خارجی عوامل توازن اور اعتدال کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں اور یہ ہم آہنگی جتنی زیادہ مربوط اور محکم ہو گی اسلوب اتنا ہی دیرپا، دل کش اور اثر انداز ہو گا۔ واقعی جو فنکار صاحبِ اسلوب ہوتے ہیں ان کے اسلوب کے وقیع اور کامیاب ہونے کا سبب یہی ہوتا ہے کہ ان کے فن میں داخلی اور خارجی عوامل ایک جان دو قالب ہو جاتے ہیں۔ فراق نے بھی یہی کیا کہ اپنی داخلی کیفیات کو خارجی عوامل سے ہم آہنگ کر دیا۔ دونوں کو ایک تصویر کے دو رخ بلکہ ایک منظر کے دو حصے بنا دیا۔ ایک موقع پر وہ کہتے ہیں :

’’زبان اور اسلوب سے متعلق میرا نظریہ یہ رہا ہے کہ زبان کے خارجی حصے کو یعنی لغت کو داخلی حصے کا ترجمان بنا دیا جائے۔ لغت میں جنم لے چکنے کے بعد شاعر کی تخلیقوں میں الفاظ کو پھر سے جنم لینا چاہئے اور عام الفاظ میں مخصوص خد و خال اور مخصوص آواز اور تحت الا لفاظ صفات پیدا ہونی چاہئے۔ لفظوں، فقروں اور شعر کی صوتیات کی ایک شخصیت رونما ہونی چاہئے اور یہ شخصیت بھی بہ یک وقت نمایاں اور تہہ دار ہونی چاہئے ’’۔

اس سے یہ بھی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ فراق الفاظ کے معاملے میں کس قدر محتاط ہیں۔ وہ خود کو مروجہ لغت کا پابند نہیں رکھتے بلکہ الفاظ کی باز تخلیق کرتے ہیں کہ الفاظ ان کے جذبات و محسوسات سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ ان کے داخل اور درون کی ترجمانی کرنے لگیں ان کی لے مدھم ہو جاتی ہے۔ اشعار میں کہیں سرگوشیوں کا گمان ہوتا ہے، کہیں خود کلامی کا احساس ہوتا ہے، کہیں جمالیاتی فضا پیدا ہو جاتی ہے اور کہیں دھیمی دھیمی کیفیت، خنکی اور گھلاوٹ کہ یہ اشعار بس فراق کے اشعار معلوم ہوتے ہیں۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :

زندگی کیا ہے آج اسے اے دوست

سوچ لیں اور اداس ہو جائیں

اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی

یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر، تم نے تو بے وفائی کی

اس مدھم مدھم لہجے، نرمی اور گھلاوٹ کے باعث فراق کا اسلوبِ شعر نہایت رکھ دکھاؤ اور ایک طرفگی کا حامل ہو جاتا ہے۔ میں اس کو اسلوب کا ارفع درجہ کہوں گا کہ فنکار کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ جائے۔ فراق کے ہاں یہ آرٹ بھی ہے کہ لگتا ہے وہ کچھ نہیں کہہ رہے ہیں لیکن ہمارے ذہن پر فوراً دستک ہوتی ہے گویا کوئی آیا ہے معانی و مفاہیم کا ایک جلوس لیے ہوئے۔ کتنے دل موہ لینے والے اشعار ہیں اور معنوی طور پر کیسے تہہ دار:

کچھ نہیں کہتیں وہ نگاہیں مگر

بات پہنچتی ہے کہاں سے کہاں

شام بھی تھی دھواں دھواں، من بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

بتائیں کیا دلِ مضطر اداس تھا کتنا

کہ آج تو نگہِ ناز نے بھی سمجھایا

تم بھی تو تم نہیں ہو آج

ہم بھی تو آج ہم نہیں

فراق اردو کے ان معدودے چند شاعروں میں ہیں جن کا دیگر زبانوں کے شعر و ادب کا مطالعہ خاصا وسیع رہا۔ مغربی زبانوں، بالخصوص انگریزی شعر و ادب کا مطالعہ تو ادھر کئی ایک نے اپنے اپنے طور پر کیا ہی ہے لیکن ہندی اور سنسکرت ادب پر بھی فراق کی گہری نظر تھی۔ جے دیو، ودیاپتی اور سورداس کی شاعرانہ فکر اور اسلوب اور ہندی شاعروں کی روایات سے انھوں نے فیض اٹھایا تھا۔ ہندی اور سنسکرت تہذیب اور دیومالا کی جھلکیاں بھی ان کے کلام میں مل جاتی ہیں۔ کولرج، ورڈزورتھ اور آ سکر وائیلڈ وغیرہ سے فراق غیر معمولی طور پر متاثر رہ اور کمال یہ ہے کہ شعوری طور پر اور مشن کی حیثیت سے فراق نے ان سب کو اپنے کام میں لایا۔ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے :

’’میرے وجدان پر عمر بھر ہندستان کے قدیم ترین اور پاکیزہ ترین ادب اور دیگر فنونِ لطیفہ اور نظریہ زندگی کا گہرے سے گہرا اثر رہا ہے۔ اس کے ساتھ تاریخ ہند کے دور بہ دور بہترین ادب اور دیگر فنی کارناموں، عہدِ مغلیہ کی بہترین ہندی شاعری، ہندستان کے سنگیت اورہندستان کے مزاج کا بھی گہرے سے گہرا اثر رہا ہے جسے ہندستان نے اپنی رنگا رنگ تاریخ میں جنم دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بہترین فارسی اور اردو فارسی اور اردو شاعری، انگریزی کے بہترین نظم و نثر کا ادب، اشتراکیت کی فکریات قدیم و جدید، یورپ کے ثقافتی غزالوں اور کارناموں کے اثرات بھی میری غزل پر اثر انداز ہوتے ہیں ’’۔

فراق کی غزل پر یہ چیزیں اثر انداز ہی نہیں ہوئیں ان کی شاعرانہ فکر اور اسلوب کا جز و بھی بن گئیں اور کچھ ایسا جزو کہ اس کے بغیر فراق کے اسلوب کی شناخت ہی ممکن نہیں۔ مجنوں گورکھپوری نے اس بارے میں روشنی ڈالی ہے :

’’ان کے فکر و بصیرت اور ذوق کی تربیت میں ہندو معاشرت اور ہندو فلسفے کے صالح عناصر سے لے کر مسلم تہذیب اور مدنیت اور پھر مغرب کے تمام مفکروں اور فنکاروں کی بہترین تخلیقات کے قابلِ قبول اثرات تک داخل ہیں جو باہم شیر و شکر ہو گئے ہیں۔ ان کی شاعری بھی طرز فکر اور اسلوب اظہار دونوں اعتبار سے اسی امتزاج کا ایک خوش آہنگ اظہار ہے۔ ‘‘

فراق کے کلام کا جائزہ لیتے ہوئے اس امر کو بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے اور احتشام حسین کے الفاظ میں :

’’ابتدا میں تقریباً ایک روایتی اسلوب کی تقلید کرتے تھے لیکن چوں کہ ان کے پاس خوب سے خوب تر کی جستجو کرنے والا ایک سیماب صفت اور جولاں و رقصندہ ذہن تھا اس لئے وہ بڑی خوبی سے اس کی گرفت سے آزاد ہو گئے۔ ‘‘

اور ان کے اس جولاں و رقصندہ ذہن کو جلا دینے میں مشرق اور مغرب کی تہذیب، ہندی، سنسکرت، فارسی اور مغربی زبانوں کے شعر و ادب کے صالح عناصر کی کارفرمائی رہی ہے جس کی ترجمانی فر اق کے اشعار میں عموماً لیکن خاص طور پر ان اشعار میں ہوتی ہے جہاں انھوں نے تشبیہات اور استعارات سے کام لیا ہے۔ تشبیہات اور استعارات کے باب میں فراق کا رویہ کچھ اور ہی ہے۔ جو ان کے تخیل کی تازگی و طرفگی اور ان کے شعری ادراک اور طرز احساس کی آئینہ داری کرتا ہے اور یہ دیگر شعرا سے بڑی حد تک مختلف بھی ہے۔ فراق کے ہاں تشبیہات و استعارات وغیرہ کا روایتی انداز نہیں اور نہ وہ تشبیہات اور استعارات وغیرہ کو محض نمائش کے لئے استعمال کرتے ہیں بلکہ اس طرح اشعار میں جہاں معنوی طور پر تہہ داری پیدا ہوتی ہے ایک جمالیاتی کیفیت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ سچ پوچھئے تو فراق کا جمالیاتی احساس صرف جمالیاتی نہیں اس میں استدلال اور تفکر کی کارفرمائی بھی ہے اور بقول شخصے اسے ’’جدلیاتی جمالی پرستی یا جمالیاتی جدلیت قرار دیا جائے تو مناسب ہے۔ ‘‘ اس میں روایات کا گہرا شعور بھی ہے اور تازہ ہواؤں کی بھینی بھینی مہک بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مختصر یہ کہ فراق تشبیہات و استعارات کے باب میں نظر کی وسعت، تخیل کی رفعت اور فکر کی قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ان کے مہذب اور رچے ہوئے مذاق اور شستہ و شائستہ مزاج کید ین ہے۔ بایں وجہ ان کے ہاں حسیاتی دل کشی کا احساس ہوتا ہے۔ صوتی خوش آہنگی اور اظہار کی بے ساختگی نے ان کے تشبیہات و استعارات کو نیا رنگ دے دیا ہے یوں ان کا اسلوب طرفگی کا حامل اور نادر و لالہ کار ہو جاتا ہے۔ نہ جانے ایسے کتنے اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں۔ میں چند ایک پر اکتفا کر دوں گا:

دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی

کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ

وہ پچھلی شب نگہِ نرگسِ خمار آلود

کہ جیسے نیند میں ڈوبی ہوئی ہو چندر کرن

زلفِ شب گوں کی چمک پیکرِ سیمیں کی دمک

دیپ مالا ہے سرِ گنگ و جمن کیا کہنا

کاش ملتی مجھے یہ بے خبری

جیسے دن رات دھیان میں کہسار

سر بہ سر اس کے جسم کا انداز

سانس وشنو کی چھیڑ ساگر میں

رنگِ رخ کھلا اس طرح آنچ عشق کی کھا کر

پھول جس طرح نکھرے سوکھنے سے شبنم کے

شرم و حیا کم ہوتے ہوتے حسن پہ وہ جوبن آیا

جیسے گھٹا کے چھٹتے چھٹتے چاندنی رات نکھر آئے

ہر لیا ہے کسی نے سیتا کو

زندگی ہے کہ رام کا بن باس

فراق کا اسلوب غزل کا اسلوب ہے، ایجاز و اختصار کا اسلوب ہے۔ فراق نے غزل کے اس دائرے میں رہتے ہوئے توضیح و تصریح سے بھی کام لیا ہے۔ اشاریت کا استعمال وہ کم کرتے ہیں لیکن اشارتی لہجہ اور اشارتی اسلوب ان کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اس طرح بھی ان کے ہاں ایک طرفگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کا اسلوب مزید پرکشش ہو جاتا ہے۔ دیگر اور خاص طور پر ’’پھر بھی‘‘ ردیف والی غزل کے اشعار پڑھیے، مثلاً:

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے ہاں مگر پھر بھی

یہ فراق کے اسلوب کا کمال ہے، ان کا آرٹ ہے۔ اس طرح ان کے اسلوب کی تہہ داری اور تہہ داری ہی نہیں طرح دار بھی ہو جاتی ہے۔ فراق نے اردو غزل کو بہت کچھ دیا ہے۔ لیکن فراق کا اسلوب، اردو غزل کو ان کی سب سے بڑی دین ہے۔ یہ بجا کہ ان کے اس اسلوب میں اردو شاعری کی کئی آوازیں، مدھم مدھم شامل محسوس ہوتی ہیں لیکن یہ بھی بجا کہ نہ انھوں نے کسی کی نقل کی اور نہ مانگے کے اجالے سے کام لیا ہے۔ فراق کا اسلوب تو فراق کا اپنا اسلوب ہے، ایک خاموش گہرائی، سبک روی، رچی ہوئی غنائیت، استدلالی رومانیت اور شستہ و شائستہ تہذیبی ورثے کا حامل، بجائے خود انفرادی حیثیت بھی رکھتا ہے اور امتیازی شان بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فراق نے غلط نہیں کہا ہے :

یہ میری طرزِ غزل بھی ہے ایک طرزِ غزل

یہ میری طرز، غزل کا مگر شکار نہیں

٭٭٭

 

 

 

فراقؔ گورکھپوری ایک مطالعہ

 

                ………سوہن راہی

 

 

انسان جب کم ظرفی، انتہا پسندی، تنگ نظری، فرقہ وارانہ علاقائی اور مذہبی سطحوں سے بلند ہو جاتا ہے تو اس میں وہ آفاقی برکت جنم لیتی ہے جس سے کہ وہ دنیا کے تہہ در تہہ حقائق کو بہت قریب سے دیکھنے کا شعور حاصل کر لیتا ہے، اس کے قریب دن اور رات کے آنگن میں بکھری ہوئی زندگی کی نغمگی، کون و مکاں کے ہزارہا رنگ اور سانس اور دھڑکنوں کے ساز پر گاتی ہوئی حیاتِ جاوداں ایک ایسی صورت اختیار کر لیتے ہیں کہ وہ ان سب کو اپنا جانتا ہے اور اس کے دل کی دھڑکن ان سب میں سما جاتی ہے۔ ایک قطرہ، ساگر کے روپ میں سینکڑوں موجوں سے ہمکنار ہو کر سینۂ آب پر چمکتے ہوئے چاند کو جوار بھاٹا بن کر چھونے کے لئے ابھرتا ہے۔ اب حیات کا ہیولا طرح طرح کی صورتوں میں ساحل کی نئی روپ ریکھا کا تخلیق کار بن جاتا ہے۔ غم کو آگ میں جھلس کر سماجی جانور کا جامہ پہن لیتا ہے۔ جھوٹ کی کھوٹ میں لپٹا ہوا آتما کا سونا کندن بن کر زندگی کے سہاگ کا ٹیکہ بن جاتا ہے۔ حقائق اپنے پیچ و خم کے سلسلے سے نکل کر اس کی تیز نکیلی اور چمک دار آنکھوں میں ناچ اٹھتے ہیں۔ اور اس کی خارجیت کے پنہاں گوشوں سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ یہ ہمکلامی ہی شاعری کا انوپ اور باطنی روپ ہے۔ حیات و ممات کے موم میں سچائی، صداقت، اور روحانیت کو جس کا شعور چن لیتا ہے اور جو انہیں اپنے اسلوب سے سینۂ قرطاس پر اپنے قلم سے بیان کرتا ہے تو وہ شاعر ہونے کا پورا پورا حق ادا کرتا ہے۔ وہی شاعر کا قد آور کردار بن جاتا ہے لیکن ایساہر ایک کی بس کی بات نہیں۔ یہ سلسلہ صدیوں کے بعد ہی ہمارے سامنے آتا ہے۔ کہ ہم اتنی با وقار اور معتبر شخصیتوں کی آوازوں کی نشاندہی کریں۔ ہم انہیں اپنی عقیدت کے پھولوں کے گجروں سے سجائیں، ہم انہیں اپنی شردھانجلی کی کلیوں سے سرفراز کریں۔ فراقؔ گورکھپوری اس ضمن میں آتے ہیں ؎

اردو کے پروردہ لوگو!

اے مغرب میں بسنے والو!

شعر و سخن کے اے دیوانو!

صدیوں بعد ہی پیدا ہو گا!

اب تو اور فراق!!

میں پورے اعتماد سے فراقؔ گورکھپوری کی شخصیت کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ میں پورے یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ فراقؔ کی شخصیت میں فطرت کی وہ سبھی خوبیاں کیا کیا بتاؤں کہ جن سے فراقؔ ایک شاعر کی حیثیت سے ابھرے، میں فی الحال یہ بھی نہیں لکھ سکتا کہ رگھوپتی سہائے کو فراق ہونے میں کن کن مراحل سے گزرنا پڑا۔ اور انہیں کن کن حالات سے دوچار ہونا پڑا لیکن میں ایک بات پورے یقین اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ فراق کو جاننے سمجھنے اور ان سے متعلق تاثرات بیان کرنے کے لئے کچھ ماہ سال درکار ہے۔ اتنا ہی کہنا کافی نہیں کہ فراق ہمارے عہد کے ایک عظیم شاعر ادیب اور نقاد تھے۔ یا فراقؔ ایک عہد تھے اس کے لئے تو برصغیر ہند و پاک اور دنیائے اردو کے دیگر گوشوں سے بہت کچھ منظر عام پر آئے گا ہی لیکن جو میرا اور آپ کا رشتہ فراق کے قلم اور اردو تہذیب کے گنگا جمنی دھارے سے ہے وہ رشتہ بہت گہرا ہے۔

جب سے کاروانِ اردو کے جرس کی آواز نے ہمارا پیچھا کرنا شروع کیا ہے۔ تب سے ہی میرِ کارواں کی شکل میں کوئی نہ کوئی جادو ہمارے ادب پر اپنا رنگ بکھرتا رہا ہے۔ کوئی نہ کوئی اپنے رنگ و آہنگ سے دنیائے اردو پہ الفاظ کی رنگا رنگ پھوار کرتا رہا ہے۔ کوئی نہ کوئی اپنے درد کو جگا کر ہمیں جینے کا پیغام دیتا رہا ہے۔ کوئی نہ کوئی ہمیں غم کی عظمت سے آگاہ کرتا رہا ہے۔ امیر خسرو سے لے کر فراقؔ گورکھپوری تک سب ہی نے اپنے شب و روز کی تفسیر اپنے انداز اور اسلوب میں رقم کرنے کی سعی کی۔ غم کی عظمت جس ناتے سے شاعر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے اس کی صورت اور ہی ہوتی ہے۔ اس کا خاکہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ عام قاری کے مفہوم و تفہیم سے الگ۔ غم کے ناگوں میں پلنے والا شاعر چندن کے وشال شجر کی طرح ہوتا ہے۔ جس کی خوشبو سے دیگر تناور درخت بھی اسی مہک میں مہکنے لگتے ہیں۔ اور ان درختوں کا اپنا وجود اس چندن کے شجر سے اس طرح بندھ جاتا ہے جس طرح کہ بہار آتے ہی تمام گلستاں میں پھول کلیوں کے علاوہ خس و خاشاک بھی جی اٹھتے ہیں۔ فراق گورکھپوری کی شخصیت کچھ ایسی ہی ہے۔ ان کی شخصیت سے اردو ادب کا نیا دھارا متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکا۔

فراقؔ نے اپنے غم کے ناگوں میں پل کر، اپنے دکھ کا زہر پی کر دنیائے شعر و ادب میں چاروں طرف وہ مہک بانٹی ہے کہ ایک مدت تک آنے والی اردو تہذیب کی نسلیں بھی متاثر ہوتی رہیں گی۔ فراق دکھ سے کچھ اس قدر قریب ہیں کہ ؎

قریب ترین ہو چلا ہوں دکھ کی کائنات سے

میں اجنبی نہیں رہا، حیات سے ممات سے

جیسے با وقار زندگی جینا ہوتا ہے وہ حیات ہی نہیں بلکہ ممات کے آئینہ خانوں میں بھی جھانک کر اپنی شخصیت کے خد و خال سے عالمِ پنہاں کو اپنے آپ سے روشناس کراتا ہے۔ اور اس کے لئے تو ؎

منزلیں گرد مانند اڑ جاتی ہیں

ابلقِ دہر کچھ انداز تگ و تاز تو دے

تنہائی، کرب، شوق حیات کی راہوں میں بچھے ہوئے بے نام سے خوف، بے نام سی چاہتوں کے ساتھ زندگی کی غیر مانوس بھول بھلیاں جب شاعر کے لاشعور سے اس طرح وابستہ ہو جائیں کہ وہ سب میں اپنے آپ کو جلوہ افروز دیکھے۔ ان سے اس کی غیر مانوسیت اس طرح چھن جائے کہ وہ سب کچھ تخلیق کے لئے لا انتہا اور غیر محدود سلطنت بن جائے۔ تو مرئی اور غیر مرئی شکلیں اور صورتیں ان کے قریب ہوتے ہوئے بھی اس کے قریب نہیں ہوتیں ان کے انفاس کا سفر اور سے کچھ اور ہی ہو جاتا ہے۔ نظریۂ حیات یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ موت جس کے نام سے خوف آیا کرتا ہے اب بالکل نہیں آتا۔ بلکہ موت اور حیات کے درمیان صرف پانی، آگ، ہوا خلا اور مٹی کے پیکر کی ہلکی سی پرچھائیں ہی رہ جاتی ہے، جسم کی پرچھائیں۔ اس عمل کی صورت فراقؔ کے یہاں کچھ یوں ابھرتی ہے ؎

موت اگرچہ موت ہے

موت سے زیست کم نہیں

موت کے نام سے ڈرتے تھے ہم اے شوق حیات

تو نے تو مار ہی ڈالا تھا قضا سے پہلے

زندگی اے دوست غم کا نام ہے

یہ تو شاید شکوہ بے جا نہیں

زندگی کے غم سے چھٹ کر شاعر کی بے قراری کچھ اور بڑھ گئی غم سے زندگی کی مانوسیت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ؎

غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو

کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے

یہ باتیں محض ایک شاعر ہی کر سکتا ہے۔ عام نوعیت کے آدمی تو زندگی کے ہر دکھ درد اور غم سے گھبرا اٹھتا ہے لیکن فراق کے ہاں یہ دکھ درد اور غم کچھ اور ہی پیراہن میں نظر آتا ہے۔ سادگی سے ہندی الفاظ سے فراقؔ گورکھپوری نے شعروں کے گہنوں میں جڑاؤ موتیوں کا کام لیا ہے ؎

چپکے چپکے اٹھ رہا ہے مدھ بھرے سینوں میں درد

دھیمے دھیمے چل رہی ہیں، عشق کی پروائیاں

خود کو پہچان سکی دکھ بھری دنیا نہ ابھی

غمِ انساں کو نہ آیا، غم انسان ہونا

یہ رنگ تاروں بھری رات کے تنفس کا

کہ بوئے درد میں ہر سانس ہے بسائی ہوئی

وہ دھج، وہ دلبری وہ کام روپ آنکھوں کا

سجل اداؤں میں وہ راگنی رچائی ہوئی

یہ حادثہ ہے عجب تجھ کو پا کے کھو دینا

یہ سانحہ ہے غضب تیری یاد آئی ہوئی

کہاں ہے آج تو اے رنگ و نور کی دیوی

اندھیری ہے میری دنیا لٹی لٹائی ہوئی

پہنچ سکے گی بھی تجھ تک مری نوائے فراقؔ

جو کائنات کے اشکوں میں ہے نہائی ہوئی

غمِ زندگی کو فراقؔ نے بچپن سے ہی اپنے سائے میں لے لیا تھا۔ ان پر سماجی مصیبتوں اور صعوبتوں کی وہ پان چڑھی کہ وہ اس میں گم صم ہونے کی بجائے حیات افروز شمع بن کر جگمگا اٹھے، ادب کی بیکراں سمتوں میں ایک نہ ختم ہونے والے سفر کا آغاز ہوا۔ اب فراق صرف نام ہی کے فرق رہ گئے تھے۔ بحرِ حیات کے زہر آب سے امرت منتھن کا کھیل فراق کے کلام میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ اپنی زندگی کے درد اور دکھ سے انہوں نے بہت ہی حسین شعری تانا بانا بنا ہے ؎

یہ سوچتا ہوں کہ اب کیا کروں کہاں جاؤں

بہت سے اور مصائب بھی مجھ پر ٹوٹ پڑے

میں ڈھونڈنے لگا ہر سمت سچّی جھوٹی پناہ

تلاشِ حسن میں، شعر و ادب میں، دوستی میں

بڑے جتن سے سنبھالا ہے خود کو میں نے ندیم

مجھے سنبھلنے میں چالیس سال گزرے ہیں

میری حیات تو وش پان کی کتھا ہے ندیم

میں زہر چن کے زمانے کے دے سکا امرت

لوگوں کو سمجھ میں آ نہ سکا کچھ تجھ کو بھی ہے تعجب سا

سن میری اداسی کا کارن اے ہمدم بہت اکیلا ہوں

اپنا ہوں فراق کہ اوروں کا کچھ بات ہی ایسی آن پڑی

میں آج غزل کے پردے میں دکھ درد سنانے بیٹھا ہوں

نہ تھی یوں تو شامِ ہجر مگر پچھلی رات کو

وہ درد اٹھا فراق کہ میں مسکرا دیا

فراق کو اپنی شاعرانہ اہمیت کا پورا پورا علم تھا۔ اس احساس کو انہوں نے بار بار اپنے شعری نقوش میں پرویا ہے اس میں شک نہیں کہ آئندہ آنے والے زمانوں میں فراق کی شخصیت اردو ادب کے لیے اہم ہی نہیں بلکہ معتبر بھی ہے۔ تقریباً ساٹھ سال کا عرصہ انہوں نے اردو شاعری کی نوک پلک سنوارنے میں صرف کیا۔ ان کی یہ محنت رائے گاں نہیں گئی۔ ان کی محنت سے اردو شاعری عربی، فارسی کے غیر مانوس اور اجنبی ماحول سے نکل کر اسی زمیں کے شیش محل میں سانس لینے لگی۔ جس سے کہ وہ ابھری تھی۔ جس خاک سے اس نے اپنا رخت سفر باندھا تھا۔ جس نیلگوں آسمان کے تلے اس نے جنم لیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فراق نے اپنا خون جگر دے کر اسے توانا اور مسکراتی ہوئی زندگی بخشی۔

اس سے پہلے کہ تخلیق کار کسی اور شئے کی ترجمانی کرے اسے اپنے آپ کو پانا، اور اپنے کو سمجھنا بہت ہی اہم ہے۔ اس اپنے آپ سے جان پہچان کو بہت سوں نے انا کا نام دے رکھا ہے۔ اور صرف و ہی ادبی دوست تخلیق کار کی صلاحیت کو اناکا نام دے کر شور مچاتے ہیں جن کو اپنے آپ سے جان پہچان نہیں۔ لیکن اپنی اہمیت سے جان پہچان اتنا آسان نہیں اس کے لئے سالہا سال درکار ہیں۔ صرف چند موٹی موٹی کتابیں، اور ضخیم رسائل پڑھنے سے یا نام نہاد ڈگریاں جمع کر لینے سے یہ ممکن نہیں۔ اپنے وجود کی اہمیت سے فراق ہی نہیں۔ بلکہ ان کے ہم عصر بھی اچھی طرح واقف تھے۔ فراق اپنے موافق یوں رقمطراز ہیں ؎

ختم ہے مجھ پر غزل گوئی کا دور

دینے والے نے وہ اندازِ سخن مجھ کو دیا

دھوکا نہ دے تجھے میری در ماندگی کہیں

میں وہ شکستہ پا ہوں کہ منزل کہیں جسے

 

میری گھٹّی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زبان

جو بھی میں کہتا گیا حسنِ بیاں بنتا گیا

ایک شخص کے مر جانے سے کیا ہو جائے ہے لیکن

ہم جیسے کم ہوئیں تو پچھتاؤ گے دیکھو ہو

ابھی تو روح بن کے ذرّے ذرّے میں سماؤں گا

ابھی تو صبح بن کے میں افق پر تھرتھراؤں گا

ابھی تو میری شاعری حقیقتیں لٹائے گی

ابھی میری صدائے درد ایک جہاں پہ چھائے گی

اے اہلِ عرب آؤ اِن اشعار کو پرکھو

کچھ سوچ کے میراثِ عجم بانٹ رہا ہوں

ہر چیز کا چولا ہی بدل دوں گا سرے سے

سنسار کو ایک اور جنم بانٹ رہا ہوں

اے اہلِ ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو

میں مملکتِ لوح و قلم بانٹ رہا ہوں

آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو

جب یہ کہو گے تم ان سے کہ ہم نے فراق کو دیکھا ہے

فراق کی شخصیت دنیائے ادب کے لئے مایہ ناز شخصیت تھی۔ ہندوستان کی تہذیب و تمدن، زبان و ثقافت، رسم و رواج اور رنگ برنگے موسموں کی لیلا صدیوں پر محیط، اور تہہ در تہہ دائروں میں بکھری ہوئی زندگی کی جھلکیاں، دیومالائی سلسلے، آریائی تہذیب کے گھٹتے بڑھتے نقوش، مختلف عقائد اور یقین رکھنے والے عوام اور دور حاضر کے مشینی دور میں آج کے انسان کی چیخ و پکار، ان سب پروہ گہری نظری رکھتے تھے۔ انہیں علم تھا کہ جس خمیر سے ان کا وجود ابھرا تھا وہ ایک خاص اہمیت کا حامل تھا۔ ان کی داخلی اور خارجی شخصیت اس مٹی کے ان گنت رنگوں میں رچی بسی ہوئی تھی جس سے کہ سیتا اور رام، رادھا اور کرشن، نلنی اور دمینانتی، مہاتما بدھ، بابا نانک، ملک محمدجائسی، رسکھان، تلسی داس، کبیر، سورداس، میرا بائی، ودیاپتی، میر، غالب، انیس، حالی، اقبال، وارث شاہ، پریم چند، رابندرناتھ ٹیگور اور دیگر تہذیب ہند کے معمار ابھرے تھے ان سب پر اپنی دھرتی کا حسن اور عشق ایک ساتھ اپنا ہمہ رنگ جادو جگا چکا تھا۔ فراق نے اپنا اور اپنی شاعری کا رشتہ بھی اسی دھرتی سے قائم کیا کہ ان کے کلام میں گذشتہ سینکڑوں صدیوں کے تہذیبی، سماجی، ثقافتی جھرنے نئی کروٹیں لے کر گنگناتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ؎

سر زمیں ہند پر اقوامِ عالم کے فراقؔ

قافلے بستے گئے ہندوستان بنتا گیا

یہ جسم ہے یا کرشن کی بنسی کی کوئی لے

بل کھایا ہوا روپ ہے یا شعلہ پیچاں

وحدتِ عاشق و معشوق کی تصویر ہوں میں

نل کا ایثار تو اخلاص دمن مجھ کو دیا

دنیا میں ہوئے اے دل کتنے ہی مہابھارت

ارجن کا کماں تھا تو، تو بھیشم کا تھا پیکاں

ہے کرشن کی گھنگھرو کی جھنکار ترے سے

گیتی کی ہے رادھا کا ہاتھوں میں ترے داماں

اٹھی ہیں ترے غم میں تپ کر کئی تہذیبیں

تا بندہ ترے خوں سے تاریخ کا ہر عنوان

(نظم :ہاں اے دل افسردہ)

اس زمیں پہ گھٹنوں کے بل چلے ہوں گے

ملک محمد و رس کھان اور تلسی داس

ان ہی فضاؤں میں گونجی تھی توتلی بولی

کبیر داس، تکا رام، سور و میرا کی

اسی ہنڈولے میں ودیاپتی کا کنٹھ کھلا

اسی زمیں کے تھے لال، میر و غالب بھی

ٹھمک ٹھمک کے چلے تھے گھروں کے آنگن میں

انیس و حالی و اقبال و وارث و نانک

یہیں کی خاک سے ابھرے تھے پریم چند، ٹیگور

یہیں سے اٹھے تھے تہذیبِ ہند کے معمار

(نظم :ہنڈولا)

ادا میں کھینچتی تھی تصویر کرشن و رادھا کی

نگاہ میں کئی فسانے نل و دمن کے ملے

تخلیق کے لمحات میں جب خوابوں کی شمعیں لو دے اٹھتی ہیں۔ تو شاعر بے خود ہو کر اپنی انگلیوں سے لفظوں کا وہ جال بنتا ہے کہ اسے کچھ ہوش نہیں رہتا کہ داخلیت کیا ہے اور خارجیت کے خلوت خانہ میں اپنی دنیا کا خالق بن جاتا ہے۔ جس طرح خاموش بے سدھ سہانی پربھات چپکے سے سراپا شباب الہڑ سرست روپ کی دیوی کو آہستہ سے بیدار کرتی ہے۔ اسی طرح شعوریت کے بند دریچوں میں لا  شعوریت اپنے حسن کا جادو آہستہ آہستہ بکھیرتی ہے۔ بے سدھ، خاموش، سہانی پربھات کی طرح تخلیق ایک ایسی صبح اجلی دیوی کا روپ دھارن کر کے شاعر کی خارجی مملکت میں اترتی ہے کہ عالمِ ہوش کی کوئی بھی پرچھائیں فکر واحساس کی سرحد پر نظر نہیں آتی۔

دل میں یوں بیدار ہوتے ہیں خیالاتِ غزل

آنکھیں ملتے جس طرح آئے کوئی مستِ شباب

بارہا ہاں بارہا میں نے دمِ فکرِ سخن

چھو لیا ہے اس سکوں کو جو ہے جانِ اضطراب

انسان فطرت کا ایک ایسا جزء ہے جس کو اشرف المخلوقات کہلانے کا شرف حاصل ہے، فطرت نے اسے سوچ اور فکرِ زبان اور بیان کی وہ قوتیں عطا کی ہیں کہ اسے دنیا کی دیگر مخلوقات پر برتری حاصل ہے۔ یہی برتری جب ایک شاعر کے احساس کی گرمی اور جنون کی تپش سے پگھل کر شعری پیمانوں میں نظر آتی ہے تو فطرت کا ایک خاموش بیاں ہو جاتی ہیں۔ شاعر فطرت کے اتنا قریب ہو جاتا ہے جتنا کہ ایک بچہ اپنی ماں کے قریب ہو سکتا ہے۔ شاعر اور فطرت کا ازلی رشتہ اس۔ ۔ ۔

ہوش میں کیسے رہ سکتا ہوں آخر شاعرِ فطرت ہوں

صبح کے ست رنگے جھرمٹ سے جب وہ انگلیاں مجھے بلائیں

رات چلی ہے جو گن ہو کر بال سنوارے لٹ چھٹکائے

چھپے فراق گگن پر تارے، دیپ بجھے ہم بھی سو جائیں

ایک عالمِ شب تاب ہے بل کھائی ہوئی لٹوں پر

را توں کا کوئی بن ہے کہ ہے کاکلِ پیچاں

قامت ہے کہ کہسار پہ چڑھتا ہوا دن ہے

جوبن ہے کہ ہے چشمۂ خورشید میں طوفاں

صد مہر و قمر میں جھلک جاتے ہیں ساقی

اک بوند سے ناب میں صد عالمِ امکاں

جامِ مئے رنگین ہیں کہ گلہائے شگفتہ

میخانے کی یہ رات ہے یا صبح گلستاں

یہ رات چھنتی ہواؤں کی سوندھی سوندھی مہک

یہ کھیت کرتی ہوئی چاندنی کی نرم دمک

سگندھ رات کی رانی کی جب مچلتی ہے

فضا میں روحِ طرب کروٹیں بدلتی ہے

یہ روپ سر سے قدم تک حسین جیسے گناہ

یہ عارضوں کی دمک یہ فسونِ چشمِ سیاہ

یہ دھج نہ دے جو اجنتا کی صنعتوں کو پناہ

یہ سینہ پر ہی گئی دیو لوک کی نگاہ

یہ سرزمیں ہے آکاش کی پرستش گاہ

اتارتے ہیں تیری آرتی ستارہ و ماہ

سجل بدن کی بیاں کس طرح ہو کیفیت

سرسوتی کی بجاتے ہوئے ستار کی گت

جمالِ یار تیرے گلستاں کے رہ رہ کے

جبینِ ناز تیری کہکشاں کی رہ رہ کے

دلوں میں آئینہ در آئینہ سہانی جھلک

رباعی

امرت وہ ہلاہل کو بنا دیتی ہے

غصے کی نظر پھول کھلا دیتی ہے

ماں لاڈلی اولاد کو جیسے تاڑے

کس پیار سے پریمی کو سزا دیتی ہے

رباعی

نہروں میں کھلا کنول نہائے جیسے

دوشیزۂ صبح گنگنائے جیسے

یہ سبح یہ دھج، یہ نرم اجالا، یہ نکھار

بچہ سوتے میں مسکرائے جیسے

رباعی

جب تاروں نے جگمگاتے نیزے تولے

جب شبنم نے فلک سے موتی رولے

کچھ سوچ کے خلوت میں بصد ناز اس نے

نرم انگلیوں سے بند قبا کے کھولے

اس میں شک نہیں کہ فراق نے اردو شاعری کو قدرت اور فطرت کے رنگا رنگ مناظر سے ہمکنار کیا۔ ان کی شاعری میں فطرت ایک نامیاتی چیز ہے۔ بلکہ ایک سانس لیتی ہوئی کائنات ہے جو کہ ان کے اشعار میں بڑی دلکشی پیدا کر دیتی ہے۔ قاری شعری آہنگ سے ہی لطف اندوز نہیں ہوتا۔ بلکہ سرزمیں ہند پر رقصاں فطرت کے روپ سے باتیں کرتا ہے۔ فراق سے پہلے بھی اردو شاعری میں فطرت کی منظر کشی تھی۔ لیکن جس اسلوب اور سادگی سے انہوں نے اس گلستاں میں انسانی جذبات کو شعری پیکر عطا کئے ہیں۔ وہ ان ہی کا کمال ہے ان کے کلام میں وہ ڈرامائی انداز بھی ملتا ہے جس سے کہ قاری ایک دم چونک اٹھتا ہے ؎

شعاعِ مہر نے یوں ان کو چوم چوم لیا

ندی کے بیچ کمدنی کے پھول کھل اٹّھے

نہ مفلسی ہو تو کتنی حسین ہے دنیا

یہ جھائیں جھائیں سی رہ رہ کے ایک جھینگر کی

حنا کی ٹیلوں میں نرم سرسراہٹ سی

فضا کے سینے میں خاموش سنسناہٹ سی

لٹوں میں رات کی دیوی کی تھرتھراہٹ سی

یہ کائنات اب اک نیند لے چکی ہو گی

یہ چاندنی ہے کہ امڈا ہوا ہے رس ساگر

اک آدمی ہے کہ اتنا دکھی ہے دنیا میں

قریب چاند کے منڈلا رہی ہے اک چڑیا

بھنور میں نور کے کروٹ سے جیسے ناؤ چلے

کہ جیسے سینۂ شاعر میں کوئی خواب پلے

وہ خواب سانچے میں جس کے نئی حیات ڈھلے

وہ خواب جس سے پرانا نظامِ غم بدلے

کہاں سے آتی ہے مد مالتی لتا کی لپٹ

کہ جیسے سیکڑوں پریاں گلابیاں چھڑکائیں

کہ جیسے سیکڑوں بن دیویوں نے جھولے پر

ادائے خاص سے ایک ساتھ بال کھول دیئے

لگے ہیں کان ستاروں کے جس کی آہٹ پر

اس انقلاب کی کوئی خبر نہیں آتی

دلِ نجوم دھڑکتے ہیں کان بجتے ہیں

گلوں نے چادرِ شبنم سے منہ لپیٹ لیا

لبوں پہ سو گئی کلیوں کی مسکراہٹ بھی

ذرا بھی سنبلِ تر کی لٹیں نہیں ہلتیں

سکوتِ نیم شبی کی حدیں نہیں ملتیں

اب انقلاب میں شاید زیادہ دیر نہیں

گزر رہے ہیں کئی کارواں دھندلکے میں

سکوت نیم شبی ہے انہیں کے پاؤں کی چاپ

کچھ اور جاگ اٹھا آدھی رات کا جادو

(نظم: آدھی رات)

حسن و عشق جمالیات، فطرت کی منظر کشی، تمدنی اور ثقافتی پس منظروں کی عکاسی، شعری نغمگی دکھ اور درد کی آگ میں تپنے ہوئے زندگی کے کندن کی چمک، شاعرانہ خود داری، دھرتی کی لازوال مادیت میں اجزائے زندگی کے روح پرور آئینہ خانے، روح میں اترنے والی گہرائی، بلند نظری، ہندی، عربی اور فارسی الفاظ کی ہم آہنگی ان کے کلام کا طرۂ امتیاز تو ہے ہی۔ لیکن مشینی یگ اور برق رفتاری کے ہاتھوں آج کے انسان اور انسانی قدروں کی پامالی دور حاضر پر جدید ترقی کے غیر صحتمندانہ اور سماجی اثرات کے نشاندہی کرنے سے بھی فراق نہیں چوکے ؎

اس دور میں زندگی بشر کی

بیمار کی رات ہو گئی ہے

آدمیوں سے بھری ہے یہ بھری دنیا مگر

آدمی کو آدمی ہونا نہیں ہے دستیاب

با صفا دوستی کو کیا روئیں

با صفا دشمنی نہیں ملتی

اے موت بشر کی زندگی آج

تیرا احسان ہو گئی ہے

انسان کو خریدتا ہے انسان

دنیا بھی دوکان ہو گئی ہے

زمیں بدلی، فلک بدلا مذاق زندگی بدلا

تمدن کے قدیم اقدار بدلے آدمی بدلا

نئی منزل کے میر کارواں بھی اور ہوتے ہیں

پرانے خضر رہ بدلے وہ طرز رہبری بدلا

ساغر کی کھنک درد میں ڈوبی ہوئی آواز

اس دورِ ترقی میں دکھی ہے بہت انسان

تغیر کے بغیر دنیا کا تصور ہی بے معنی ہے۔ کائنات کی تبدیلیاں فطرت کے تمام شاہکاروں میں موجزن، اس تبدیلی کے ظہور سے محدود لا محدود ہو جاتا ہے۔ تنگنائے گرد و پیش بیکراں کی سرحدوں کو چھو لیتا ہے۔ کون و مکاں کی وسعتیں آسمان کی گردشوں سے ہم رقص ہو کر حسن و جمال کا وہ امر جادو جگاتی ہے کہ بوسیدہ خزاں کی تباہ کاریوں کو یاد تک نہیں کرتے، انقلاباتِ زمانہ سے ہی نئی زندگی کی نغمہ زنی جنم لیتی ہے۔ حد نظر کے بحرِ بیکراں میں امنگوں کی نئی لہریں کروٹیں لے کر احساس کے تشنہ ساحل کو سیراب کرتی ہیں تو دل کی گہرائیوں میں نئے گیت گونج اٹھتے ہیں۔ انقلاب سے زندگی کا کوئی شعبہ بھی غیر مانوس اور اجنبی نہیں جب کسی سماج پر جمود طاری نظر آئے، اور عام آدمی محسوس بھی کرتا ہو لیکن عوام میں اس سماج یا معاشرہ کو بدلنے، اس نظامِ زندگی کو سدھارنے کا حوصلہ نہ ہو تو اس سماج اور معاشرہ میں ٹھہراؤ سے جو نتائج اخذ ہوں گے وہ کسی حالت میں بھی تسلی بخش نہیں ہو سکتے۔ اور نہ ہی اس طرح کی گھٹن میں ادبی اور ثقافتی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔ گھٹن ٹھہراؤ اور جمود کسی بھی ترقی پذیر نظامِ زندگی کے لئے بہت مہلک ثابت ہوتا ہے۔ عام آدمی محسوس بھی کرتا ہے اور اس سے متعلق باتیں بھی کرتا ہے لیکن جس سطح پر ایک شاعر یا ادیب اس بے حسی کے خلاف احتجاج کرتا ہے وہ الگ ہی بات ہے۔ فراق کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی فضا سے دوچار رہی۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں انہوں نے برصغیر کی غلامی کے خلاف جد و جہد میں عملی طور پر حصہ لیا۔ دنیا کے خاکے پر ابھرے ہوئے اشتراکی انقلاب کی بازگشت، نئی کروٹ لیتے ہوئے عوام کی صدائے حق، دنیا کے دیگر ممالک میں سماجی اور سیاسی تبدیلیاں اور بیسویں صدی کے نئے تقاضے ہمارے معاشرہ کی وقتی ضرورت نہیں بلکہ دائمی ضرورت ہیں۔ انسان اندھیری صدیوں کے جنگل سے نکل چکا ہے۔ اور آج کے سماج کے خدو خال گزشتہ سے یکسر مختلف ہیں۔ فراق کے اپنے الفاظ میں ؎

ہر عقدۂ تقدیر جہاں کھول رہی ہے

ہاں دھیان سے سننا یہ صدی بول رہی ہے

رکھتی ہے مشیت حدِ پروازِ جہاں بھی

انسان کی ہمت ابھی پر تول رہی ہے

فراق وقت کے رخ سے الٹ رہی ہے نقاب

زمیں سے تابہ فلک ہے اس انقلاب کی آنچ

دیکھ رفتار انقلاب فراق

کتنی آہستہ کتنی تیز

ابھی رگِ جاں میں زندگی مچلنے والی ہے

ابھی حیات میں نئی شراب ڈھلنے والی ہے

نئی زمیں نیا آسماں نئی دنیا

نئے ستارے نئی گردشیں، نئے دن رات

زمیں سے تابہ فلک انتظار کا عالم

فضائے زرد میں دھندلے غبار کا عالم

حیات موت نما، انتشار کا عالم

ہے موجِ درد کی دھندلی فضا کی نبضیں ہیں

تمام خستگی و ماندگی یہ دور حیات

تھکے تھکے سے یہ تارے تھکی تھکی سی یہ رات

یہ سرد سرد یہ بے جان پھیکی پھیکی چمک

نظامِ ثانیہ کی موت کا پسینا ہے

خود اپنے آپ میں یہ کائنات ڈوب گئی

خود اپنی کوکھ سے پھر جگمگا کے ابھرے گی

بدل کے کیچلی جس طرح ناگ لہرائے

لینے سے تخت و تاج ملتا ہے

مانگے سے بھیک بھی نہیں ملتی

اہلِ رجا میں شان بغاوت بھی ہو ذرا

اتنی بھی زندگی نہ ہو پابندِ رسمیات

ابھی تو گھن گرج سنائی دے گی انقلاب کی

ابھی تو گوش برصدا ہے بزمِ آفتاب کی

ابھی تو پونجی واد کو جہان سے مٹانا ہے

ابھی تو سامراجوں کو سزائے موت پانا ہے

ابھی کسان و کامگار راج ہونے والا ہے

ابھی بہت جہاں میں کام کاج ہونے والے ہے

مگر ابھی تو زندگی مصیبتوں کا نام ہے

ابھی تو نیند موت کی مرے لئے حرام ہے

کون رکھتا ہے اس کو ساکن و جامد کہ زیست

انقلاب و انقلاب و انقلاب و انقلاب

فراق کی شاعرانہ کاوشیں، فکر و فن کی گلکاریاں، اردو تہذیب کی آنے والی نسلوں کے لئے مشعلِ راہ بن کر دنیائے اردو کو نئی روشنی سے روشناس کراتی رہیں گی۔ فراق کی تہہ در تہہ شخصیت اور ان کی عملی ادبی خوبیاں اردو ادب کے لئے وہ نادر گوہر پارے ہیں کہ جن کو اردو ادب کا ہر طالب علم اپنے ذہن میں دیر تک سجائے رکھے گا۔ دنیا کے ان تمام گوشوں میں جہاں بھی اردو زبان و ادب ہے اور جب تک دنیا میں اردو زبان و ادب ہے۔ تب تک فراق کی شاعری کی گونج اپنے پورے شباب پر رہے گی۔ فراق کے اپنے الفاظ ؎

غالبؔ، و میرؔ، مصحفیؔ

ہم بھی فراق کم نہیں

٭٭٭

 

 

فراقؔ کی رُباعی گوئی  … روایت کا احیاء اور اجتہاد

 

                ………سیّدہ جعفر

 

 

 

ادبی روایات کی جڑیں تہذیبی تناظر میں بہت دور تک پیوست ہوتی ہیں ہر دور کا ادب تخلیقی حسیت کے وسیلے سے یا تو روایت کو تقویت اور توانائی عطا کرتا ہے یا ردّ، نفی اور نئی وسعتوں کی تلاش کے زیر اثر ادب کے موجودہ معیار و میلان اور تفہیم و ترسیل کو نئے امکانات سے روشناس کرواتا ہے۔ فراقؔ نے رُباعی کی روایت کا احیاء بھی کیا اور اسے نئی جہات اور نئے ابلاغی پیکروں میں سموکر اپنی جدت طرازی اور تازہ خیالی کا ثبوت بھی دیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عہدِ آبروؔ، حاتمؔ، فائزؔ اور میرؔ سے لے کر فراقؔ کے دور تک کم شعراء ایسے ملیں گے جنھوں نے رباعی سے سروکار نہ رکھا ہو تو پھر احیاء سے ہماری مراد کیا ہے ؟ جب ہم اردو رباعی کے تدریجی ارتقاء اور اس کی عہد بہ عہد نشو و نما کا جائزہ لیتے ہیں تو سب سے پہلے دکن میں رباعی گوئی کے رجحان سے آشنا ہوتے ہیں۔ دکنی ادب کا خمیر مقامی روایات، ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب، ہندوی عناصر کی آب و تاب اور ہندوستان کی سرزمیں سے والہانہ وابستگی کے احساس سے اٹھا ہے۔ دکنی شاعری کے ہر لفظ میں ہندوستان کی سوندھی مٹی کی خوشبو بسی ہوئی ہے اور اس کی ادبی روایات کا سلسلہ قدیم ہندوستان کی لوک کتھاؤں، لوک گیتوں اور دیومالائی واساطیری تصورات سے جا ملتا ہے۔ ادبی روایت فکر واحساس کے سفر کی نشاندہی کرتی اور کسی مخصوص گروہ کی تہذیبی حسیت کی نمائندہ ہوتی ہے۔ دکن کی شاعری بنیادی طور پر جسم وجمال کی شاعری ہے۔ یہ ’’فساد خوردن گندم‘‘ کا اعتذار نہیں۔ فیروزیؔ اور نظامیؔ کے عہد سے لے کر دورِ ولیؔ تک دکنی شاعری میں جنس، زندگی کے ایک قوی اور فعال محرک اور ایک زندہ حقیقت کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ شعرائے دکن اور فراقؔ کی رباعیوں میں جنسی رجحان ایک قدر مشترک کی حیثیت سے نمودار ہوا ہے۔ احمد گجراتیؔ، محمد قلی قطب شاہؔ، شاہیؔ، غواصیؔ، نصرتیؔ اور ولیؔ کی رباعیوں سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

 

سب دیس گیا ہے دھن تھے لڑتے لڑتے

کٹ رات گئی ہے پاؤں پڑھتے پڑتے

کیا ٹیک مدن کا اونچ لگتا ہے مجھے

رہے پاؤں سٹری پرت کی چڑتے چڑتے

(شاہیؔ )

ہے پھل کا ہنگام مدسوں باراں حاضر

پھولاں کے نمن سارے ہیں یاراں حاضر

اس وقت میں کیوں تو بہ کیا جائے منجے

توبہ شکناں ہور نگاراں حاضر

(محمد قلی قطب شاہ)

اے ناز بھری میں نہ اٹھوں گی جو روٹھی

اٹھنی تیری امرت تھے مٹھی منجکوں دٹھی

کیا خوب انکھیاں میچ سوتی تھی فتنی

تج لٹ جوہلی باوسوں اوجاگ اٹھی

(غواصیؔ )

فرصت کی گھڑی کوئی بھی تیرے ہات نہیں

پھنستا نہیں گردن کو تو کیا رات نہیں

یک بوسہ نہ دے تلخ ہو جب لڑکے پری

گڑ نہیں تو گڑ سار کی کیا بات نہیں

(نصرتیؔ )

کسوت کوں اپس انگ سوں گلفام کیا

جب برمنیں دامنی گل اندام کیا

دودام، یہ بادام نہیں دوجے زلف

شش دام میں شش جہت سے ارام کیا

(ولیؔ )

’’روپ‘‘ کی رباعیاں حسن و عشق کے باہمی ربط اور اس کے گونا گوں مشاہدات اور تجربات کی آئینہ دار ہیں۔ فراقؔ کی دانست میں بشری تقاضوں سے ماوراء ہونے کی کوشش، انسانی سیرت کے صرف ایک رخ کا احاطہ کر سکتی ہے لیکن مادی زندگی اور ارضی محبت کے تجربات سے گزرنے والی شخصیت زیادہ پہلو دار اور جامع بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ ارضی اور مادی زندگی کے معرکے سر کرنا فراقؔ کی دانست میں بڑے حوصلے کی بات ہے۔ فراقؔ کی بعض رباعیوں میں جنسی میلان کا غلبہ نظر آتا ہے کہیں محبوب کے خدوخال اور اعضاء کی مرقع کشی کی صورت میں اور کہیں مریِ محبت کی تلذذ پسندی کی شکل میں۔ فراق نے اپنی اس نوعیت کی رباعیوں کو ’’سنگار رس‘‘ کی رباعیوں سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں یہ بتانا مقصود نہیں کہ فراقؔ نے دکنی رباعیوں کا باقاعدہ مطالعہ کیا تھا اور ان سے اثر پذیر ہو کر ’’سنگار رس‘‘ کی رباعیاں کہی تھیں بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صنف رباعی کے تاریخی تسلسل پر نظر رکھنے والوں کو فراقؔ کی رباعیوں میں ایک قدیم روایت کے نقوش کی جھلک نظر آتی ہے۔ فراقؔ کی یہ رباعیاں ان کے الفاظ میں ’’پر تولتے ہوئے راج ہنس کی سی انگڑائی‘‘ ’’مڑتی ندی کی چال‘‘ اور ’’منڈلاتے بادلوں کے سے گیسو‘‘ کی نقش گری کے نمونے ہیں۔ ان رباعیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فراقؔ نے حسن کی سحر آفرینی کو محسوس کیا اور اس کی جلوہ سامانیوں اور محشر طرازیوں کو اپنی رباعیوں میں ایک ایسے یا شعور تخلیق کار کی طرح سمو دیا ہے جس کا جمالیاتی ذوق اور حسیت بہت بیدار اور فعال ہے۔ فراقؔ کی یہ رباعیاں خاصی رنگین، دلنواز اور نظر فریب ہیں۔ فراقؔ کی شعر میں حسن کی مرقع کشی کے رجحان کو ان کی حسین تشبیہات، دل نشیں تلازموں اور بلیغ علامتوں نے انفرادیت عطا کی ہے۔ ان رباعیوں میں سمعی اور بصری پیکروں کے وسیلے سے حسن کا جادو جگایا گیا ہے ؎

 

ہے لوچ بلور میں کہ پیکر کا رچاؤ

مئے خانے کو نیند آئے وہ آنکھوں جھکاؤ

جس طرح کمانیوں میں پڑ جائے جاں

دیکھے کوئی پنڈی کا گداز اور تناؤ

تاروں کو بھی لوریاں سناتی ہوئی آنکھ

جادو شب تار کا جگاتی ہوئی آنکھ

جب تازگی سانس لے رہی ہو دم صبح

دوشیزہ کنول سی مسکراتی ہوئی آنکھ

’’روپ‘‘ میں سنگار رس کی رباعیاں روایت کی ایک ٹوٹی ہوئی کڑی کو جوڑتی اور ایک فراموش کر وہ رجحان کے تسلسل میں ربط پیدا کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں فراقؔ کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اس روایت میں ئی حسیت کا التہاب سمو دیا اور اسے عصری زندگی کی آب و تاب سے آشنا کیا۔ سنگار رس کی دکنی رباعیوں میں جمالیاتی تجربے اور عشقیہ واردات کی پیش کشی کا انداز اس لیے بھی منفرد اور مختلف ہے کہ ہر زبان کے دور اولین کی شاعری میں جذبہ اپنی پوری توانائی، سادگی اور فطری انداز کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اور وہ تصنع، تکلف، ملمع کاری اور پرکاری کے بجائے بیساختگی کے ساتھ شعر میں جگہ پاتا ہے چنانچہ دکنی رباعیاں فطری رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ فراقؔ کی رباعیوں میں بیسویں صدی کی روح جاری و ساری ہے، ان کے جمالیاتی تجربات میں وہ تہہ داری، رچاؤ، صناعی اور سڈول پن موجود ہے جو دکنی رباعیوں کے کھردرے اور ان گڑھ انداز کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ اور سلجھے ہوئے اسلوب اور زیادہ نشو و نما پائے ہوئے طرز پیش کشی کے ترجمان ہیں۔ یہ در اصل چار پانچ سو سال کے طویل سفر میں زبان و اظہار کی ارتقائی منزلوں اور نئی بلندیوں کی آئینہ داری ہے۔

اردو شاعری میں رباعی کی صنف، بالعموم، اخلاقی نکات، دیدہ وری، عارفانہ انداز نظر اور بصیرت آفرینی کے مضامین کے لیے مختص رہی ہے۔ دور میرؔ سے لے کر حالیؔ کے عہد تک ہمارے شعراء اسی اصول پر عمل پیرا رہے۔ زندگی کی بے ثباتی، اچھے اخلاقی کی توصیف، انسان دوستی، خداترسی ممکن الوجود اور واجب الوجود کی حقیقت کی طرف اشارے اور اعلیٰ اقدار حیات کی عظمت کو نہایت ایجاز و اختصار کے ساتھ چار مصرعوں میں بڑی فنی ذکاوت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ فراقؔ نے اس روایت کی مکمل پیروی نہیں کی ہے اور اجتہاد سے کام لیا ہے۔ ان کی نظر نئے موضوعات، نئے ابعاد اور نئی وسعتوں کی متلاشی ہے۔ فراقؔ، حسن فطرت کے شیدائی تھے، خوبصورت فطری نظارے ان کے لیے ہمیشہ جنت نگاہ بنے رہے۔ فراق مناظر ورڈسورتھ سے ادبی لگاؤ نے قدرت سے ان کی دلچسپی اور وابستگی کو تقویت عطا کی تھی۔ کلام فراقؔ میں ایسی رباعیاں قابلِ لحاظ تعداد میں موجود ہیں جن میں شاعر نے موسموں کے حسن اور قدرتی مناظر کی دلفریبی کے تناظر میں عشقیہ جذبات کی مصوری کی ہے۔ ساون اور دوسرے مہینوں کی فطری دلکشی کے پس منظر میں پریمیکا کا اپنے پریمی کا انتظار بارہ ماسہ کی ہندوستان روایت سے اثر پذیری اور اخذ و قبول کا غماز ہے فراقؔ کی یہ رباعیاں ملاحظہ ہوں جن میں فطرت کے تناظر میں شاعر نے جذبۂ عشق کو اپنا ماسکہ بنایا ہے ؎

آنسو سے بھرے بھرے وہ نیناں اس کے

ساجن کب اے سکھی تھے اپنے بس کے

یہ چاندنی رات یہ برہ کی پیڑا

جس طرح الٹ گئی ہو ناگن ڈس کے

جب چاند نے امرت کی گگر چھلکائی

جب ہم گر نے سرد ہوا سنکائی

لرزش تن نازک میں ہوئی رات گئے

یا چاندنی پڑتے ہی لتا لہرائی

تاروں بھری رات بزم فطرت ہے سجی

ہے شوخ نگاہ میں بھی ایسی نرمی

یہ چندر کرن میں سات رنگوں کی جھلک

گاتی ہوئی اپسرا گگن سے اُتری

ہندوستان کی سہانی صبح، موسم کی دلفریبی، کلیوں کا چٹکنا، ندی کی روانی، چاندنی رات کا حسن اور پچھلے پہر کی پراسرار خاموشی کا فراقؔ نے بار بار ذکر کیا ہے۔ یہ قدرتی مناظر اور موسمی آثار شاعری کی داخلی کیفیات سے ہم آہنگ ہو کر بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ رباعیوں میں نکھرتے ہیں۔ رباعی میں مقامیت، ارضیت اور مادی محبت کی دھوپ چھاؤں فراقؔ کی شعری دین ہے۔ رباعی کو منظریہ عناصر سے سنوارنے اور سجانے کا رجحان اور مظاہر فطرت سے انسان کی جذباتی ربط و تعلق کی ایسی موثر تصویریں فراق سے پہلے اردو شاعری میں ناپید تھیں۔ یہ رباعی کی صنف میں فراقؔ کا اجتہاد ہے کہ انھوں نے اس شعری پیکر کو نئے موضوعات، نئی معنویت اور نئے افق عطا کیے اور رباعی کے موضوعات کو وسعت بخشی، فراقؔ نے رباعی کو نئے مزاج، نئے تیور اور نئی لفظیات سے آراستہ کر کے اس کے فنی امکانات کو ہمہ گیر بنا دیا۔ رباعی اپنے فنی خد و خال کے ساتھ اردو شاعری میں اپنی شناخت قائم کر چکی تھی۔ فراقؔ نے رباعی کی صنف سے نئے انداز میں کام لیا۔ موضوعات کی روایتی اور رسمی تقسیم کچھ اس طرح تھی کہ عام طور پر غزل عشقیہ تجربات و احساسات اور رباعی اخلاقی اور حکیمانہ مضامین کے لیے مختص تصور کی جاتی تھی۔ فراقؔ نے موضوعات کی اس خود ساختہ اور مصنوعی حدبندی کو درخورِ اعتناء تصور نہیں کیا۔ فراقؔ بنیادی طور پر جمالیاتی تجربات، رومانی تاثر، جسمانی نشاط اور بشری حسن کی ہو شربا کیفیات کے مصور تھے۔ انھوں نے رباعی میں اپنے تخلیقی جوہروں کو بروئے کار لایا تو اپنی افتاد طبع، حسن پرستی اور زندگی کی رنگینیوں میں ڈوب جانے کے رجحان سے دستبردار نہیں ہوئے اور یہی ان کی شخصیت کی شاعرانہ پہچان بھی ہے۔ رباعی جیسی مختصر اور مرتکز صنف سخن میں بھی فراقؔ نے محبوب کے حسن دل افروز، اس کے خدوخال، اس کے پیکر کی دلکشی اور اس کے حسن و جمال کے جو نقوش ابھارے ہیں وہ ان کی فنی چابک دستی کے ساتھ ساتھ لفظوں کی تقلیل پر ان کی دسترس کے بھی مظہر ہیں۔ رباعی میں کفایتِ الفاظ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ فراقؔ نے اپنی جن رباعیوں میں حسن کی مرقع کشی کی ہے ان میں ایسے با معنیٰ اور بلیغ اشاروں سے کام لیا ہے جن سے قاری کے تخیل کو خاکے کی رنگ آمیزی میں مدد ملتی ہے۔ فراقؔ نے محبوب کے دلکش خدوخال اور اس کی رعنائی ہی کی عکاسی نہیں کی بلکہ اس کی حرکات و سکنات اور اس کی اداؤں کو بھی لفظوں میں ڈھال دیا ہے۔ محبوب کی یہ تصویر ملاحظہ ہو ؎

بالوں میں خنک سیاہ راتیں ڈھلتیں

گالوں کے شفق کے اوٹ شمعیں جلتیں

تاروں کی سرکتی چھاؤں میں بستر سے

اک جان بہار اٹھی ہے آنکھیں ملتیں

فراقؔ نے تشبیہات کی دلنوازی اور برجستہ استعارات کی اثر آفرینی سے بڑے سلیقے اور فنی بصیرت کے ساتھ کام لیا اور اپنی رباعیوں کو سمعی اور بصری پیکروں سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ سنوارا ہے۔ یہ فراقؔ کے طرز ترسیل کی ایک ایسی دلکشی ہے جو رباعی تو کیا غزل میں بھی کم ملتی ہے۔ سمعی پیکروں کو خلاقانہ ذہانت کے ساتھ بصری تاثر سے ہم آہنگ کر کے ایک نیا جادو جگایا ہے۔ سمعی پیکر کو بصری پیکر کے حوالے سے پیش کرنے کی یہ شاعرانہ صلاحیت فراقؔ کی انفرادیت کی دلیل ہے ؎

گنگا میں یہ چوڑیوں کے بجنے کا رنگ

یہ راگ یہ جلترنگ یہ رو یہ امنگ

بھیگی ہوئی ساڑیوں سے کوندے لہکے

ہر پیکر ناز میں کھٹکتی ہوئی چنگ

مہتاب میں سرخ انار جیسے پھوٹے

یاقوس قزح لچک کے جیسے ٹوٹے

وہ قد ہے کہ بھیرویں سنائے صبح

گلزار شفق سے نرم کو نپل پھوٹے

 

کومل پَد کامنی کی آہٹ تو سنو

گاتے قدموں کی گنگناہٹ تو سنو

ساون لہرائے مد میں ڈوبا ہوا روپ

اس کی بوندوں کی جھنجھناہٹ تو سنو

فراقؔ نے ہندوستانی روایات، ہندی لفظیات کی لطافت اور ہندوستانی فضا کی سرشاری سے رباعی کی صنف کو ایک نئے قالب میں ڈھال دیا۔ فراقؔ نے رباعی کو نئی جہات سے روشناس کیا اُسے ارضیت کا حسن بخشا، ہندوستانی تہذیب سے اس کا رشتہ استوار کیا اور اس صنف میں نئے مضامین اور تازہ موضوعات متعارف کروا کے اسے نئی وسعت و تہہ داری اور ہمہ گیری سے آشنا کیا۔ رباعی کے موضوعات ایک خاص دائرے میں اسیر ہو کر رہ گئے تھے۔ فراقؔ نے اس محدود حصار سے انھیں آزاد کرا کے انسانی تجربات کی رنگا رنگی اور تنوع سے ہمکنار کیا۔ ’’روپ‘‘ میں ایسی رباعیاں بھی موجود ہیں جن میں ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرز معاشرت کا پرتو نمایاں ہے۔ معصوم بچوں کا کھیتوں میں دوڑنا، پنگھٹ لڑکیوں کی چہلیں، اشنان کے بعد لباس کو الگنی پر پھیلانا، لڑکی کے سسرال جانے کا پُر درد منظر، بابل کے گیتوں کا سوز و ساز اور چوکے کے سہانی آگ میں مکھڑے کی دمک کی بڑی متحرک اور پُر اثر تصویریں ان رباعیوں میں دیکھی جا سکتی ہیں ؎

آنکھوں میں سر اشک جگمگاتا مکھڑا

وہ جشن رخصتی سہانا تڑکا

جھرمٹ میں سہیلیوں کے اٹھتے ہیں قدم

وہ گھر کی عورتوں کا بابل گانا

 

پنگھٹ یہ گگریاں جھلکنے کا یہ رنگ

پانی ہچکولے لے کے بھرتا ہے ترنگ

کاندھوں پہ سروں پہ دونوں ہاتھو میں کلس

مد انکھڑیاں ہیں مستیوں میں بھرپور امنگ

رباعی گوئی میں فراقؔ کا ایک اور اجتہاد یہ ہے کہ انھوں نے گھریلو ماحول، نجی زندگی کی فضاء اور گھریلو محبت کے بڑے دلنواز مرقعوں سے اپنی ان شعری کاوشوں کو آب و تاب عطا کی ہے۔ عورت اپنی تمام جسمانی رعنائی اور لطافتوں کے ساتھ گھر پریوار کے مناظر میں بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ابھرتی ہے۔ فراقؔ کی ان رباعیوں میں ہندوستانی معاشرت، آداب، گھر کے طور طریلو ماحول کی مرقع کشی اتسانے تجربے کی صداقت، کسک اور سوز نے انھیں ایک ایسی تابندگی عطا کی ہے جو ہر دور میں فراقؔ کی ان رباعیوں کی مقبولیت کو ماند نہیں پڑنے دے گی۔ فراقؔ نے اپنی رباعیوں کے بارے میں کہا تھا ’’ان رباعیوں میں محض ہندو کلچر کا خمیر نہیں پڑا ہے بلکہ آفاقی کلچر کے عناصر بھی ان کا سامان آرائش ہیں۔ ‘‘

فراقؔ نے ایک کائستھ گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ہندوستانی اساطیر اور دیو مالا سے موانست انھیں ورثے میں ملی تھی۔ فراقؔ نے دیو مالائی اشاروں کنایوں اور اساطیری عناصر سے اپنی رباعیوں میں معنویت کا اضافہ کیا ہے۔ دیو مالائی عناصر کی پذیرائی نے فراقؔ کی رباعیوں کو بلیغ اور پہلو دار بنا دیا ہے اور یہ رباعیاں ہندوستانی ذہن و فکر کی غماز ہیں۔ ہندو مذہب کے شہرۂ آفاق کرداروں اور مشہور شخصیتوں کو فراقؔ نے ان کے تلمیحاتی پس منظر میں بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ رام چندر جی، شری کرشن، سیتا جی، سلوچنا، رادھا، سدھارتھ اور ارجن فراقؔ کی رباعیوں میں اپنے معنوی تناظر کے ساتھ اجاگر ہوئے ہیں۔ بانسری کی تانیں، رام چندر جی کا بن باس ’’کیکئی کے فتنے ‘‘ رتی، کام دیو، شیو کی جٹا سے گنگا کا ’’اترنا‘‘ اپنے دیومالائی تلازموں کے ساتھ فراقؔ کی رباعیوں میں پیش کیے گئے ہیں ؎

رشک دل کیکئی کا فتنہ ہے بدن

سیتا کے برہ کا کوئی شعلہ ہے بدن

رادھا کی نگاہ کا چھلاوا ہے کوئی

یا کرشن کی بنسری کا لہرا ہے بدن

 

ہنگام خرام وہ غزال بدمست

نقش کف پاکی خوشیاں شعلہ بدست

دو پاؤں سے چوکڑی بھرے ڈگ میں

ارجن کی کمان سے چھوٹے نازک کی جست

 

تسکینہ فاضل کا خیال ہے کہ فراقؔ نے تمام صنمیاتی تلمیحات کو اس طرح پیش نہیں کیا ہے جیسا کہ وہ مقدس کتابوں میں بیان کیے گئے ہیں۔

فراقؔ کی اکثر رباعیوں کا مرکز صنف نازک ہے جو کہیں محبوبہ، کہیں گرہستن، کہیں کام کاج میں مصروف عورت اور کہیں مخلص رفیقۂ حیات کے روپ میں اُبھرتی ہے۔ عورت گھریلو فرائض کی تکمیل میں مصروف نظر آتی ہے تو کہیں صحن میں رامائن کا پاٹ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یہ تمام تصویریں جمالیاتی حِس کی بیداری کی آئینہ داری ہیں ؎

آنگن میں بہاگنی نہا کے بیٹھی

رامائن زانو پہ رکھی ہے کھلی

جاڑے کی سہانی دھوپ کھلے گیسو

پرچھائیں چمکتے صفحے پر پڑتی ہوئی

’’گھر آنگن‘‘ میں جاں نثار اختر نے ازدواجی زندگی کے رومان کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ ’’گھر آنگن‘‘ کے دیباچے میں کرشن چندر فراقؔ کی رباعیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی رباعیوں گھر آنگن کے موضوع سے ہٹ گئی ہیں۔ گوپی چندر نارنگ فراقؔ کی رباعیوں کے بارے میں رقم طراز ہیں ’’گھریلو محبت کے ایسے نقشے کھنچے ہیں جو اس سے پہلے اردو شاعری میں نہ تھے ان میں ہندوستانی عورت جسم و جمال کی تمام دل آویزیوں کے ساتھ اور گھر پریوار تمام لطافتوں کے ساتھ آتا ہے۔ عورت کا کنوار روپ، بیاہتا روپ، بیوی کا سگڑپن، ماں کا پیار دُلار ان رباعیوں میں طرح طرح سے بیان ہوا ہے ان میں ممتا کی کسک بھی ہے اور جسم و جمال کی رنگینیوں سے آنند بھری کیفیتیں بھی۔ ‘‘

فراقؔ کی رباعیوں کا ایک اچھوتا موضوع و اتسلیہ پریم ہے جسے فراقؔ نے پہلی بار رباعی کی صنف سے روشناس کروایا ہے۔ ہندی شاعری میں واتسلیہ پریم یعنی ماں کی اولاد سے محبت اور ’’بال لیلا‘‘ ہندی شاعری کے بڑے منفرد، پاکیزہ اور پسندیدہ موضوعات ہیں۔ فراقؔ کو اس حقیقت کا احساس تھا کہ شعرائے اردو نے بچوں کی بھولی حرکات، ان کے طفلانہ تصورات، ان کی معصوم ضِد اور ان کی بے داغ فطرت کی عکاسی کی طرف توجہ نہیں کی ہے۔ یہاں اس کی وضاحت ضروری ہے کہ اردو مرثیے میں ماں کی محبت ایک دوسرے سیاق وسباق اور تاریخی تناظر میں ابھری ہے اس لیے فراقؔ کے واتسلیہ پریم ورنن سے اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ فراقؔ نے پہلی بار اردو رباعی کو اس موضوع سے آشنا کیا۔ فراقؔ نے اردو رباعی کو ایک نئے مزاج کا حامل بنا دیا۔ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ بچے کے طفلانہ حسن کا تذکرہ کرتے ہوئے فراقؔ کی نظر ماں کے حسین شخصیت کی دلنوازی سے ہٹنے نہیں پاتی ؎

آنگن میں لیے چاند کے ٹکڑے کو کھڑی

ہاتھوں میں جھلاتی ہے اسے گود بھری

رہ رہ کے ہوا میں جو ٹہوکا دیتی

گونج اٹھتی ہے کھلکھلاتے بچے کی ہنسی

ڈھلکا آنچل دمکتے سینے پہ الک

پلکوں کی اوٹ مسکراہٹ کی جھلک

وہ ماتھے کی کہکشاں وہ موتی بھری مانگ

وہ گود میں چاند سا ہمکتا بالک

واتسلیہ پریم ورنن میں فراقؔ کی جمالیاتی حِس اور ان کی رومانیت پسندی کے نقوش واضح طور پر نمودار ہوتے ہیں۔ فراقؔ کی شاعری میں رومانیت اور مادیت کے دائرے ایک نقطے پر پہنچ کر بہت قریب ہو جاتے ہیں۔ فراقؔ کہتے ہیں ؎

نفس پرستی پاک محبت بن جاتی ہے

وصل کی جسمانی لذت سے روحانی کیفیت لے

فراقؔ اپنی رباعیوں میں خاصے بیباک اور تلذذ پسند نظر آتے ہیں۔ محمد طفیل کو اپنے ایک خط میں جو ’’من آنم‘‘ میں شائع ہوا ہے فراقؔ نے لکھا تھا کہ جنسیت عشق کا مرتبہ حاصل کر لیتی ہے (صفحہ ۲۲)۔ فراقؔ کے طرز فکر کے مطابق مادہ، کثافتوں، جسم اور آلودگیوں سے ہو کر گزرتا اور اپنی ارتقائی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

’’گل نغمہ‘‘ میں فراقؔ نے ’’الہام نما‘‘ کی سرخی کے تحت چند ایسی رباعیاں بھی پیش کی ہیں جن میں حسن کی پیکر تراشی اور واردات عشق کے علاوہ دوسرے موضوعات سے سروکار ر کھا گیا ہے ’’الہام نما‘‘ کی سرخی کے تحت پیش کی ہوئی رباعیاں فراقؔ کی تہذیبی حسیت کی غماز ہیں اور ان میں فلسفیانہ انداز نظر کا تعمق بھی موجود ہے۔ زندگی کے مسلسل عمل اور وقت کے سیل رواں کا ادراک رکھنے والا شاعر ہی یہ کہہ سکتا ہے ؎

صحرا میں زماں مکاں کے کھو جاتی ہیں

صدیوں بیدار رہ کے سو جاتی ہیں

اکثر سوچا کیا ہوں خلوت میں فراقؔ

تہذیبیں کیوں غروب ہو جاتی ہیں

ہر چیز یہاں اپنی حدیں توڑتی ہے

ہر لمحے پہ صد عکس بقاء چھوڑتی ہے

اک سبزہ پامال کی پتی بھی فراقؔ

ہمدم قلب ابد میں جڑ پھوٹتی ہے

’’اے مادر ہند‘‘ عنوان کے ذیل میں پیش کی ہوئی بعض رباعیوں سے فراقؔ کی وطن دوستی اور سر زمیں ہند کی قدیم تاریخ و ثقافت سے ان کی جذباتی وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ فراقؔ کہتے ہیں کہ ہندوستان اُن مفکروں، فلسفہ زندگی کے رمز شناسوں اور انسانیت کا درس دینے والوں کی جنم بھومی ہے جنھوں نے دنیا پر اپنے افکار کی عظمت و معنویت منکشف کر دی ہے ؎

وہ تیرے معلموں کا قلب ہشیار

پلکوں میں ہیں بند جن کے خواب بیدار

وہ جین اور بدھ کی غائر نظری

افکار کو کر دیتا ہے رشک اقرار

’’چھان بین‘‘ کے ایک مضمون ’’روپ میری نظر میں ‘‘ اثر لکھنوی نے فراقؔ کی رباعیوں کے پانچ نقائص کی تشریح کی ہے جن میں الفاظ کے صحیح تلفظ سے بے اعتنائی، ناموزوں مصرعے اور غیر شائستہ لفظوں کا استعمال شامل ہیں۔ عروضی اعتبار سے بھی رباعیوں کے بعض مصرعوں میں سقم کی نشان دہی کی گئی ہے۔

فراقؔ نے اردو رباعی کے طرز ادا، ترسیلی امکانات اور لفظیات کو وسعت عطا کی، ہندی لغات کی نرمی، شگفتگی اور گھلاوٹ کو فراقؔ نے رباعی میں اردو الفاظ سے ہم آمیز کر کے اپنے فرہنگ شعر کی غنائیت، خوبصورتی اور شیرینی میں اضافہ کیا ہے۔ ہندی الفاظ کا برجستہ استعمال بھی فراقؔ کے طرزِ ادا کا ایک خاص وصف بن گیا ہے۔

٭٭٭

تشکر عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب ’’ فراق گورکھپوری: شخصیت، شاعری اور شناخت‘‘ کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید