FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

عابد

فہرست مضامین

اصول تفسیر اور تفہیم القرآن

 

الاتقان فی علوم القرآن کے اصول تفسیر کی روشنی میں تفہیم القرآن  کا تجزیاتی مطالعہ

 

حصہ اول

تحقیقی مقالہ برائے ایم۔ فل ۱۱۔ ۲۰۰۹

 

               عبد الحی عابد

نگراں کار: ڈاکٹر محمد شہباز منج

 

 

 

انتساب

 

میں اپنی اس کاوش کواپنے استاد محترم ڈاکٹر محمد گجر خان غزل کاشمیری مرحوم و مغفور کے نام کرتا ہوں جواس عنوان کے بنیادی محرک تھے اور جن کی محبت و شفقت اور علمی راہ نمائی نے مجھ ناچیز کو اس قابل بنا دیا کہ میں ایک عظیم مفسرقرآن اور معروف اسلامی سکالرسید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی معرکۃ الآرا تفسیرکو تفسیری اصول پر جانچ سکوں۔

عبد الحی عابد

 

 

 

 

اظہار تشکر

 

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :لا یشکراللہ من لا یشکر الناس، جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ اس لیے جہاں شکریہ ادا کرنا ایک دینی ذمہ داری ہے، وہیں رسم دنیا بھی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے میں اپنے اللہ کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے ان گنت نعمتوں سے نوازا۔ اس کے بعد اپنے والدین اور اساتذہ کا شکرگزار ہوں جن کی کوششوں اور کاوشوں سے میں اس قابل ہوا کہ دنیا میں با وقار اور با عزت زندگی گزارسکوں اور آخرت میں اپنے رب کی رحمتوں کا طلب گار بن سکوں۔ استاد محترم ڈاکٹر محمد گجر خان کا از حد ممنون ہوں جنھوں نے اس موضوع کے انتخاب میں معاونت فرمائی اور تحقیق کی راہوں کا تعین کیا۔ محترم سراج الدین چدھڑ صاحب، جو سید مودودی رحمہ اللہ کے سچے عاشق تھے، ان کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے میری ہر ممکن مدد فرمائی۔ یہ دونوں بزرگ اب اپنی نذر پوری کر چکے۔ اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مدارج سے نوازے۔ ایم فل کے تمام تعلیمی مراحل میں جناب ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر چیئرمین شعبہ، پروفیسر مختار احمد اعوان، جناب عاصم نعیم، ڈاکٹر محمد فیروز الدین شاہ، ڈاکٹر فرحت نسیم علوی، ڈاکٹر زریں ایس ریاض، ڈاکٹر عبد الرشید رحمت، جناب قاضی بشیر احمد اور رانا اصغر علی صاحب کی شفقت و راہ نمائی میرے لیے مشعل راہ بنی۔ نگران مقالہ ڈاکٹر محمد گجر خان کی وفات کے بعد پیش آنے والی تکنیکی مشکلات جناب منیرحسین بھٹی سابق چیئرمین شعبہ اسلامیات کی خصوصی معاونت سے آسان ہوئیں۔ اور تحقیق کے تمام مراحل ڈاکٹر محمد شہباز منج کی ہدایات و راہ نمائی سے سرانجام پائے۔ ان دونوں شخصیات کا از حد شکرگزار ہوں۔

ڈاکٹر گجر خان کے شاگرد عزیز، میدان تحقیق کے روح رواں جناب خالد محمود مدنی کی مشاورت و معاونت ایم فل میں داخلے سے لے کر مقالے کی تکمیل تک میرے ساتھ رہی۔ میں اپنے اہل خانہ اور بچوں کا خصوصی شکر گزار ہوں جنھوں نے اپنے جائز حقوق سے دستبرداری اور میرے تعلیمی مراحل میں معاونت بخوشی قبول کی، اور اپنے بھائی نعیم الحق کا، جس کا شدید اصرار بھی ایم فل میں داخلے کا سبب بنا۔

آخر میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ میری اس ادنیٰ سی کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور اسے میرے لیے اور میرے اساتذہ کے لیے توشۂ آخرت بنا دے۔ آمین۔

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم۔ ۲:۱۲۷

طالب علم و دانش

عبد الحی عابد، ایم فل علوم اسلامیہ

یونیورسٹی آف سرگودھا

 

 

 

 

بسم اللہ الرحٰمن الرحیم

 

مقدمہ

 

 

سید ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء۔ ۱۹۷۹ء)گزشتہ صدی کے ایک معروف مفکر، عالم دین اور مفسر قرآن تھے۔ آپ کا شمار صدی کی ان موثر اور ممتاز شخصیات میں کیا جا سکتا ہے جن کی فکر، تصانیف اور تعبیر دین نے برصغیر پاک و ہند کے ساتھ ساتھ عالم عرب کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ آپ کی تحریروں نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کو ایک نئی جہت سے روشناس کیا۔ آپ کی تصانیف کی تعداد سینکڑوں میں ہے، لیکن ان سب میں سے تفہیم القرآن  کو بہت زیادہ قبولیت عامہ حاصل ہوئی۔ یہ کتاب عام فہم اور سلیس اردو زبان میں لکھی گئی جس سے علمائے کرام کے ساتھ ساتھ کم پڑھے لکھے افراد کے لیے بھی قرآن مجید کوسمجھنا آسان ہو گیا۔ خود مودودی صاحب کے بقول: ’’ اس کام میں میرے پیش نظر علما و محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے۔ میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عربی زبان سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ ‘‘ [۱]

جہاں ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کی اس تفسیر کے لاکھوں مداح ہیں، وہیں چند علمی حلقوں کی جانب سے اس کے مشمولات پر اعتراض بھی ہوئے۔ علمائے کرام نے آپ کی فقہی آراء، تعبیر دین اور متعین کردہ بعض قرآنی مفاہیم سے اختلاف بھی کیا۔

اسلام میں صحت مند تنقید اور قرآن وسنت کے محکم دلائل کی بنیاد پر اختلاف رائے قرون اولیٰ سے موجود رہا ہے۔ ایسے اختلاف کی کبھی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی، بلکہ نبی کریمﷺ نے ایسے صحت مند اختلاف کو امت مسلمہ کے حق میں رحمت قرار دیا ہے، کیونکہ اس طرز فکر سے علوم  و معارف میں ترقی اور نکھار کا عمل ہوتا ہے، سوچ اور فکر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ مزید براں اس میں فکری ارتقا اور نئے زمانے کے مسائل کا حل مضمر ہے۔ اس سے جمود اور تقلید کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔

ایم فل کے مقالے کے لیے اس موضوع کے انتخاب کی وجہ سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کے افکار، خصوصاً  تفہیم القرآن پر اہل علم کے یہی اعتراضات بنے۔ خاص طور پر معروف عالم دین اور مفسر قرآن مولانا عبدالماجد دریابادی کی تفسیر ماجدی کے دیباچے میں موجود درج ذیل جملہ اس کا سب سے بڑا محرک بنا۔ مولانا نے تفہیم القرآن کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے :

’’تفہیم القرآن۔ ازسید ابوالاعلیٰ مودودی۔ یہ تفسیر جسے تفسیر کہنا مشکل ہی ہے بہ اقساط نکل رہی ہے۔ ا بھی تک آٹھ پاروں کی نکلی ہے۔ بعض نکتے اس میں خوب آ گئے ہیں۔ ‘‘

استاد محترم ڈاکٹر محمد گجر خان (۱۹۴۶ء۔ ۲۰۱۰ء )  مرحوم کے ساتھ جب اس تبصرے کے بارے میں تذکرہ ہوا تو انھوں  نے فرمایا کہ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اگرچہ اس تبصرے کی تائید میں قرآن وسنت کے محکمات اور مسلمات دین پر مبنی دلائل پیش نہیں کیے، لیکن علمی حلقوں میں ان کا نام اور کام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ ہمارا حسن ظن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کہ اتنی بڑی علمی شخصیت کے اس تبصرے کو بغیر کسی محکم وجہ کے عامیانہ اور غیر علمی قرار دیں۔ اگرچہ مولانا عبدالماجد دریابادی نے تفہیم القرآن  میں موجود بعض نکتوں کی، نشان دہی کیے بغیر تحسین بھی کی ہے، لیکن ان کا مجموعی تاثر اسے بطور تفسیر قبول کرنے سے انکار کا ہے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ تفہیم القرآن  کا جائزہ لیے اور اسے معروف اصول و ضوابط پر پرکھے بغیر کوئی رائے قائم نہ کی جائے۔

____________________________________________

۱۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، تفہیم القرآن، دہلی:مرکزی مکتبہ اسلامی، ج۱، ۱۹۹۳ء، ص۵۔ ۶۔

____________________________________________

چنانچہ اس تبصرے، سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نام، تفہیم القرآن  کی مقبولیت اور استاد مکرم ڈاکٹر محمد گجر خان کی خواہش کے تناظر میں راقم کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جمہور علما و مفسرین نے قرآن مجید کی تفسیر کے ضمن میں جن اصول و ضوابط کو لازم قرار دیا ہے اور ان پر قائم رہتے ہوئے تفاسیر کا عظیم الشان ذخیرہ امت مسلمہ کے لیے میراث چھوڑا ہے، ان کا مطالعہ کیا جائے۔ ان اصول و ضوابط کی روشنی میں تفہیم القرآن کا جائزہ لیا جائے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی تفسیرکے سلسلے میں کس حد تک ان کا التزام کیا ہے۔

استاد مکرم سے اس موضوع کے بارے میں جب تفصیل سے بات ہوئی تو انھوں نے کمال شفقت  اور محبت کے ساتھ اس خیال کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کی۔ بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے مکمل تعاون کا یقین دلانے کے ساتھ ساتھ، مقالے کی سرکاری طور پر نگرانی اور راہ نمائی کا ذمہ بھی لیا۔ چنانچہ استادمکرم کے مشورے سے یہ طے کیا گیا کہ کتب تفسیراور علوم القرآن میں علما و مفسرین نے اپنی اپنی ترجیحات کے لحاظ سے بہت ساری چیزوں کو اصول تفسیر میں شامل کیا ہے۔ لیکن ایم فل کے تحقیقی مقالے کے متعین اور مختصر وقت کا لحاظ کرتے ہوئے، جملہ اصول تفسیر کے بجائے، چند متعین اصول تفسیر کو مد نظر رکھتے ہوئے تفہیم القرآن کا جائزہ لیا جائے۔ اس سلسلے میں تین اہل علم:احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہ(۶۶۱ھ۔ ۷۲۸ھ)، جلال الدین سیوطی (۸۴۹ھ۔ ۹۱۱ھ) اور شاہ ولی اللہ دہلوی (۱۷۰۳ء۔ ۱۷۶۲ء) کے اصول تفسیر زیر بحث آئے اور بالآخر طے  یہ پایا کہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں جن پندرہ علوم کا  ذکر کیا  ہے اور جن کا جامع ہونا ایک مفسر قرآن کے لیے بہت ضروری قرار دیا ہے، انھی علوم کے تناظر میں تفہیم القرآن اور صاحب تفہیم کو پرکھا جائے۔ سیوطی (۸۴۹ھ۔ ۹۱۱ھ) اپنی کتاب میں قرآن مجید کی تفسیر کے جواز اور عدم جواز کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 یجوز تفسیرہ لمن کان جامعا للعلوم التی یحتاج المفسر الیھا وھی خمسۃ عشر علما: علم اللغۃ، علم النحو، علم الصرف، علم الاشتقاق، علم المعانی، علم البیان، علم البدیع، علم القراآت، علم اصول الدین، علم اصول الفقہ، علم اسباب النزول والقصص، علم الناسخ والمنسوخ، علم الفقہ، علم الاحادیث المبینۃ لتفسیر المجمل والمبھم، علم الموھبۃ۔ [۱]

____________________________________________

۱۔ السیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، مصر:مطبعۃمصطفی البابی الحلبی، ج۱، ط۳، ۱۹۵۱ء، ص۱۸۰۔ ۱۸۱۔

____________________________________________

’’اس(قرآن)کی تفسیراس شخص کے لیے جائز ہے جو ان علوم کا جامع ہو جن کی ضرورت کسی مفسر کو پڑ سکتی ہے۔ اور یہ پندرہ علوم ہیں :علم اللغۃ، علم النحو، علم الصرف، علم الاشتقاق، علم المعانی، علم البیان، علم البدیع، علم القراآت، علم اصول الدین، علم اصول الفقہ، علم اسباب النزول و القصص، علم الناسخ والمنسوخ، علم الفقہ، علم الاحادیث المبینۃ لتفسیر المجمل والمبھم اور علم الموھبۃ۔ ‘‘

چنانچہ استادمکرم نے بکمال شفقت خطۃ البحث تیار کروایا اور اس بات کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہ بورڈ آف سٹڈیز کو اس موضوع پر کوئی اعتراض نہ ہو گا، فی الفور راقم کو موضوع سے متعلق ابتدائی معلومات  کے حصول اور دستیاب کتب کی فراہمی کا حکم دیا۔ راقم نے اپنی سابق معلومات کی بنیاد پر مولانا سراج الدین چدھڑ (۱۹۳۹ء۔ ۲۰۱۱ء  )[۱] سے رابطہ کیا۔ انھوں نے اپنی شدید بیماری اور بزرگی کے باوجود نہ صرف اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا، بلکہ شدید گرمی میں پورا دن اپنی وسیع و عریض لائبریری میں کتب کے انتخاب، موضوع سے متعلق مشاورت اور کتب کی تلاش میں راقم کے ساتھ بسر کیا۔ انھوں نے ضرورت کی تمام کتب ساتھ لے جانے اور غیر معینہ مدت تک استفادے کی پیش کش بھی کر دی جسے راقم نے نعمت خداوندی جانتے ہوئے فی الفور قبول کر لیا۔

لیکن اللہ رب العزت کے ہاں کچھ اور ہی طے تھا۔ استادمکرم ڈاکٹر محمد گجر خان سید ابوالاعلیٰ مودودی کے سوانح پر مبنی پہلے باب کا ابتدائی جائزہ لینے، کام کی رفتار اور معیار کے بارے میں حوصلہ افزا کلمات کہنے کے بعد چند دنوں کے لیے اپنے گھر بہاولپور تشریف لے گئے اور اچانک عارضہ قلب کے باعث۱۷ جولائی ۲۰۱۰  ء کو میرے سمیت اپنے تمام تشنگان علم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اسی طرح چند ماہ بعد  ۲۲ فروری ۲۰۱۱ ء کو مولانا سراج الدین چدھڑ بھی انتقال فرما گئے۔

استاد مکرم کی وفات کے بعد بورڈ آف سٹڈیز کی طرف سے ڈاکٹر محمد شہباز منج کو راقم کا نگران مقرر کیا گیا، جنھوں نے خصوصی توجہ کے ساتھ راقم الحروف کے تمام تحقیقی مراحل میں راہ نمائی فرماتے ہوئے اس کی تکمیل میں اہم کردار  ادا کیا۔

_____________________________________________

۱۔ مولانا سراج الدین چدھڑ (۱۹۳۹ء۔  ۲۰۱۱ء  )قصبہ جھاوریاں، ضلع سرگودھا کے معروف استاد اور عالم دین تھے۔ ذاتی لائبریری میں ہزاروں کتابیں جمع کی ہوئی تھیں۔ خاص طور پر علوم اسلامیہ اور جماعت اسلامی سے متعلق تمام مصادر کو اہتمام سے جمع کر رکھا تھا۔

 

 

 

 

باب اول: تفسیر اور اصول تفسیر

 

 

 

               فصل اول: تفسیر کا مفہوم اور ضرورت و اہمیت

 

اسلامی علوم و فنون میں تفسیر قرآن یا قرآن کے معنی و مفہوم سے واقفیت اور اللہ تعالیٰ کی مراد اور منشا کی تفہیم سب سے پہلا علم ہے۔ علم تفسیرہمیشہ مسلمان اہل علم کا اہم موضوع رہا ہے۔ اس فن میں مسلمانوں نے ہر دور میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔  یہ مسلمانوں کا ایسا عظیم الشان علمی کارنامہ ہے جس کی مثال کسی دوسری قوم و ملت میں نہیں ملتی۔ تفسیر ی ادب، اپنے دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ، ہر دور کے مسلمان علما کے فکری رجحانات، نظریات، اشکالات اور ان کے ذہنی وعلمی ارتقا کو جاننے کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔

 

تفسیر، معنی و مفہوم:

 

تفسیرعربیز بان کا لفظ ہے۔ اس کی لغوی تحقیق کے بارے میں تین قسم کے اقوال ملتے ہیں :

۱۔ تفسیر کا مادہ ’’فسر‘‘ ہے، جس کا مفہوم ’’بیان‘‘ اور ’’کشف‘‘ یعنی کھولنا، بیان کرنا ہے۔ [۱]

۲۔ یہ سَفَرَ سے مقلوب ہے۔ (اسفر الصبح:انکشف و اضاء)یعنی جب کسی چیز کو روشن کیا جائے۔ قرآن مجید میں ہے : والصبح اذا اسفر۔ (سورۃ المدثر۷۴:۳۴)

۳۔ اس کا مادہ ’’تَفْسِرَہٌ‘‘ ہے، جس کا مطلب ’’قارورہ ‘‘ ہے۔ اطباء کے نزدیک ’’قارورہ‘‘ سے مراد کسی مریض کا پیشاب ہے، جس کے ذریعے سے طبیب مریض کے مرض اور اس کی بدنی کیفیات سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ [۲]

لسان العرب میں ہے :

’’الفسر: البیان فسرالشیء یفسرہ۔ بالکسر ویفسُرُہ۔ بالضم فسراً، وفسَّرَہ ابانہ۔ والتفسیر مثلہ۔ وقیل التفسرۃ البول الذی یستدل بہ علی المرض۔ ۔ ۔ الفسر: کشف المغطی، والتفسیر المراد عن اللفظ المشکل۔ ۔ ۔ ‘‘[۳]

_____________________________________________

۱۔ التھانوی، محمد علی، کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم، ج۱، بیروت:مکتبۃ لبنان ناشرون، ۱۹۹۶ء، ص ۴۹۱۔

۲۔ ایضاً، ص ۴۹۱۔

۳۔ ابن منظور الافریقی، محمد بن مکرم، لسان العرب،، مصر:مطبعۃ المیریۃ، بولاق، ۱۳۰۰ھ، ج۶، ص۳۶۱۔

__________________________________________

 

اصطلاحی مفہوم:

 

اصطلاحی معنی میں تفسیر سے، تفسیر قرآن مجید، یا قرآن کے مشکل مقامات کی شرح و وضاحت مراد لی جاتی ہے۔ گویا تفسیر سے  مرادایسا علم ہے، جو بشری استطاعت کی حد تک قرآنی آیات کے اس مفہوم کو بیان کرتا ہے جو اس کلام عظیم سے اللہ تعالیٰ کی مراد اور منشا ہے۔

ابو حیان اندلسی کے مطابق:

’’         علم یبحث فیہ عن کیفیۃ النطق بالفاظ القرآن و مدلولا تھا و احکامھا الافرادیۃ والترکیبیۃ و معانیھا التی تحمل علیھا حالۃ الترکیب وتتمات ذالک۔ ‘‘[۱]

’’علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظ قرآن کو ادا کرنے کی کیفیت بیان کی جاتی ہے اور اس کے مدلولات پر بحث ہوتی ہے، اور اس کے افرادی اور ترکیبی احکام بیان کیے جاتے ہیں۔ اور وہ معانی جن پر اس ترکیب کی حالت ہوتی ہے، ان کو بیان کیا جاتا ہے۔ ‘‘

بدر الدین الزرکشی کے نزدیک:

’’التفسیرعلم یعرف بہ فھم کتاب اللہ المنزل علیٰ نبیہ محمد ﷺ وبیان معانیہ و استخراج احکامہ و حکمہ و استمداد ذالک من علم اللغۃ والنحو والتصریف وعلم البیان و اصول الفقہ والقراآت۔ و یحتاج المفسر لمعرفۃ اسباب النزول والناسخ والمنسوخ۔ ‘‘[۲]

’’تفسیر ایک ایسا علم ہے جس سے اس کتاب کا صحیح مفہوم سمجھا جاتا ہے جو اللہ نے اپنے بنی محمدﷺ پر نازل کی۔ اس کے معانی کا بیان کرنا، اس کے احکام اور حکمتوں کا نکالنا اور ان کے لیے مدد لینا علم لغت سے، علم نحو سے، علم صرف سے، علم بیان سے، اصول فقہ سے، قراآت سے اور مفسر محتاج ہے کہ وہ معرفت حاصل کرے اسباب نزول کی اور ناسخ و منسوخ کی۔ ‘‘

علامہ آلوسی نے اس تعریف میں مزید اضافہ کرتے ہوئے درج ذیل تعریف کی ہے :

                   علم یُبْحَثُ فیہ عن کیفیۃ النُطْقِ بالفاظ القرآنِ ومدلولا تھا واحکامھا الافرادیۃِ والتر کیبیۃ ومعانیھا التی تُحْمِلُ علیھا حالۃ الترکیب وتتمات لذالک۔ [۳]

’’علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظ قرآن کی ادائیگی کے طریقے، ان کے مفہوم، ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور ان معانی سے بحث کی جاتی ہے جو ان الفاظ سے ترکیبی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں، نیز ان معانی کا تکملہ، ناسخ ومنسوخ، شان نزول اور مبہم قصوں کی توضیح کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے۔ ‘‘

جلال الدین سیوطی کے نزدیک:

وقال بعضھم: التفسیرفی الاصطلاح:علم نزول الآیات، وشوونھا، واقاصیصھا، والاسباب  النازلۃ فیھا، ثم ترتیب مکیھا ومدنیھا، ومحکمھا ومتشابھھا، وناسخھا ومنسوخھا، وخاصھا وعامھا، ومطلقھا ومقیدھا، ومجملھاومفسرھا، وحلالھا وحرامھا، ووعدھا ووعیدھا، وامرھا ونھیھا، وعبرھا وامثالھا۔ [۴]

_______________________________________________

۱۔ علی بن سلیمان العبید، تفسیر القرآن العظیم، ریاض:مکتبۃ التوبۃ، ۲۰۱۰ء، ص۱۶۔

۲۔ الزرکشی، بدرالدین، البرھان فی علوم القرآن، تحقیق ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ:مکتبہ دارلتراث، ۱۹۵۷ء، ص۱۳۔

۳۔ آلوسی، روح المعانی، علامہ آلوسی، ج ۱، ص۴۔

۴۔ السیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، ج ۴، ص۱۹۴۔

 

تفسیر کی ضرورت:

 

قرآن مجید کی تلاوت کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اور اس کے فہم اور تدبر کے ذریعے سے اس عبادت کو درجہ احسان تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تدبر فی القرآن کے واضح احکام دیے ہیں۔ ارشاد ہے :

أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غیرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرا۔ (سورۃ النساء ۴:۸۲)

’’بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔ ‘‘

أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا۔ (سورۃ محمد۴۷:۲۴)

’’بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے ؟ یا ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں۔ ‘‘

کِتَابٌ أَنزَلْنٰہُ إِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا آیٰتِہ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ۔ (سورۃ ص۳۸:۲۹)

’’(یہ) کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ عقل نصیحت پکڑیں۔ ‘‘

ان آیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں تفکر و تدبر کا حکم دیا ہے۔ اور تفکر و تدبر اس وقت ممکن ہوتا ہے جب کسی بات کا مفہوم و مطلب سمجھ لیا جائے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(۶۶۱ھ۔ ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں :

     ومن المعلوم ان کل کلام فالمقصود منہ فھم معانیہ دون مجرد الفاظہ، فالقرآن اولیٰ بذٰلک، وایضاً فالعادۃ تمنع ان یقرا قوم کتابا فی فن من العلم، کالطب والحساب، ولایستشرحوہ، فکیف بکلام اللہ تعالیٰ الذی ھوعصمتھم، وبہ نجاتھم وسعادتھیم، وقیام دینھم ودنیاھم۔ [۱]

’’پھر معلوم ہے کہ ہرگفتگواس لیے ہوتی ہے کہ اس کے معنی سمجھے جائیں نہ کہ محض لفظ سن لیے جائیں۔ اور قرآن کا معاملہ تو بدرجہ اولیٰ فہم و تدبر کا متقاضی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ لوگ کسی فن کی کتاب پڑھیں، مثلاً طب کی یا حساب کی اور اسے سمجھنے کی کوشش نہ کریں۔ جب عام کتابوں کا یہ حال ہے تو کتاب اللہ کا فہم کس قدر ضروری ٹھہرتا ہے۔ ‘‘

_____________________________________________

۱۔ ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مقدمہ فی اصول التفسیر، قطر:وزارۃ الاوقاف والشؤن الاسلامیہ، ۲۰۰۹ء، ص۳۲۔

__________________________________________________

اس لیے تدبر کا لازمی نتیجہ قرآن کے احکام و آیات کی تفسیر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن کے احکام بہت واضح اور روشن ہیں۔ اس کے بعض مشکل مقامات کی توضیح خود قرآن مجید کے بعض دیگر مقامات پر کر دی گئی ہے۔ ، لیکن اس میں کچھ چیزیں مشتبہات کے ذیل میں بھی بیان کی گئی ہیں، جن کا معنی و مفہوم واضح نہیں ہے۔ قرآن کے اولین مخاطب چونکہ زمانہ نزول   میں موجودتھے اور ان کی زبان بھی عربی تھی، لہذا ان کے لیے اس کے منشا و مراد کو سمجھ لینا زیادہ مشکل نہ تھا۔ لیکن پھر بھی صحابہ کرامؓ کو بعض قرآنی احکام کی تفسیر اور تشریح کے لیے نبی کریم ﷺ سے مدد لینی پڑتی تھی۔ تمام صحابہ فہم قرآن میں مساوی نہ تھے۔ اس لیے وہ نبی کریم ﷺ سے اور آپس میں ایک دوسرے سے قرآن مجید کے الفاظ کا مفہوم معلوم کیا کرتے تھے۔ مثلاً حضرت عدیؓ بن حاتم اس آیت:وَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ۔ (البقرۃ۲:۱۸۷)(کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے۔ ) کا مفہوم نہ سمجھ سکے اور انھوں نے اپنے تکیے کے نیچے سیاہ اور سفید دو دھاگے رکھ لیے اور رات کو اٹھ اٹھ کر دیکھتے رہے کہ دونوں  میں فرق ہوسکتا ہے یا نہیں۔ صبح ہوئی تو نبی کریم ﷺ سے ماجرا بیان کیا۔ تب آپ ﷺ نے انھیں آیت کا مطلب سمجھایا اور فرمایا کہ تم کم عقل آدمی ہو۔ [۱]

اسی طرح جب یہ آیت:الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہم بِظُلْمٍ۔ (الانعام۶:۸۲)  (جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا)نازل ہوئی تو صحابہ نے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو؟ تو نبی کریم ﷺ نے یہاں ظلم سے مراد شرک کو قرار دیا اور اس آیت :إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ۔ (لقمان۳۱:۱۳) کو بطور دلیل پیش کیا۔ [۲]

حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ دوران خطاب منبر پر یہ آیت:وَفَاکِہۃ وَأَبًّا۔ (عبس۸۰:۳۱) (اور طرح طرح کے پھل، اور چارے۔ ) تلاوت کرتے ہوئے فرمایا کہ فَاکِہۃ سے توہم واقف ہیں کہ پھل کو کہتے ہیں، لیکن یہ أَبًّا  کیا چیز ہے ؟اور پھر خود ہی فرمایا کہ اے عمرؓ ! یہ تو تکلف ہی ہے کہ (ہر مفرد لفظ کا معنی معلوم کیا جائے )۔ اسی طرح ایک بار آپؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:أَوْ یَأْخُذَہمْ عَلَىٰ تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّکُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِیمٌ۔ (النحل۱۶:۴۷) (وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے یہ لوگ اس کو عاجز کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی نرم خو اور رحیم ہے۔ ) اور پھر سوال کیا کہ تَخَوُّفٍ کے معنیٰ کیا ہیں۔ وہاں قبیلہ بنوہذیل کا ایک شخص موجود تھا، اس نے کہا کہ ہماری زبان میں اس کا مطلب نقص اور کمی ہے، اور ثبوت کے لیے یہ شعر پڑھا:

تخَوَفَ الرجُلُ منھا تامکاً قَرِداً              کماتَخَوَٓفَ عُودَ النبعۃ السَفِنُ[۳]

چنانچہ تفسیر قرآن کا سب سے بنیادی ماخذ قرآن اور اس کے بعد حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپ، گویاسب سے پہلے مفسر قرآن بھی تھے۔ آپ کا عمل و کردار اور سنن و عادات سبھی کچھ قرآن پاک کی تفسیر ہی ہے۔ آپﷺ نے قرآن مجید کے ان تمام اشکالات کی جو اس زمانے کے لوگوں کو پیش آئے، اپنے قول و عمل سے وضاحت کر دی۔ قرآن مجید کی شرح وضاحت نبی کریم ﷺ کے فرائض نبوت کا حصہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس ذمہ داری  کا ذکر قرآن مجید میں بھی کیا ہے۔ ارشاد ہے :

وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہمْ وَلَعَلَّہمْ یَتَفَکَّرُونَ۔ (النحل۱۶:۴۴)

’’اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے  لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں۔ ‘‘

چنانچہ نبی کریم ﷺسے منسوب تفسیری روایات کا ایک بڑا ذخیرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔

___________________________________________

۱۔ الذہبی، محمدحسین، التفسیر والمفسرون، قاہرہ:مکتبہ وہبہ، ط۷، ج۱، ۲۰۰۰ ء، ص۳۰۔

۲۔ السیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، ص۲۲۶۷۔

۳۔ الذھبی، محمدحسین، التفسیروالمفسرون، ص۲۹۔

­______________________________________________

 

تفسیر کا آغاز و ارتقا:

 

آپ ﷺ کی وفات کے بعد جب نئے زمانے کے تقاضے اور نئے مسائل سامنے آئے اور اسلام کا دائرہ عرب سے عجم کی طرف وسیع ہوا،  تو آپؐ کے جانثار صحابہؓ نے نہایت خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ تفسیر کے معاملے میں صحابہ کرام حد درجہ احتیاط برتتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ سے جب کسی آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا :’’جب میں قرآن کے کسی لفظ کی وہ تفسیر کروں گا جو اللہ کے منشا کے مطابق نہیں ہو گی تو کون سا آسماں مجھ پرسایہ فگن ہو گا اور کون سی زمین میرا بوجھ اٹھائے گی۔ ‘‘[۱]لیکن اس قدر احتیاط کے ساتھ ساتھ اس دور میں بھی تفسیر قرآن کا سلسلہ جاری رہا، لیکن اس کا تعلق زیادہ تر امر و نہی کے متعلق احکام سے رہا اور قرآن کی پوری تفسیر نہیں لکھی گئی۔ اس دور کے مفسرین صحابہ میں خلفائے اربعہ، عبداللہ بن عباس، ابی بن کعب، زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر اور ابو موسیٰ اشعری زیادہ معروف ہیں۔ اس دور کی صرف دو تفسیروں تفسیر ابی ابن کعبؓ اور تفسیر ابن عباسؓ کو کتابی صورت میں مدون کیا گیا۔ ان تفاسیر میں بھی زیادہ تر حصہ قرآن کے مفرد اور غریب الفاظ کی تشریح سے متعلق ہے۔

جزیرہ عرب سے باہر اسلام کی اشاعت، رومیوں اور یونانیوں کے اختلاط، عجمی افکار کے داخل ہونے اور معاشرتی و سیاسی مسائل کے پیدا ہونے سے تفسیری ادب ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ مسلمانوں کے سواد اعظم سے ہٹے ہوئے مختلف گروہ  بھی قرآن مجید کی آیات کو اپنے عقائد و نظریات کی تصدیق کے لیے استعمال کرنے لگے۔ اس زمانے میں اسرائیلیات یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کی مذہبی روایات کو بھی قرآن کے بعض مشکل اور مبہم مقامات کی تفہیم کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ نئے زمانے میں نئے مسائل کے سامنے آنے سے اجتہاد کا دروازہ تو ضرور کھلا لیکن فکری اختلاف کا آغاز بھی ہو گیا۔ تابعین اور تبع تابعین نے اپنی بھرپور کوشش کی کہ وہ صحابہ کرامؓ کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے اختلافی بحث اور مناظرانہ رنگ پیدا نہ ہونے دیں۔ بہر حال بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں اور تفسیری مباحث کے ساتھ تفسیر قرآن کا یہ سلسلہ بڑھتا رہا۔ عصر صحابہ کے بعد تفسیر جب تیسرے دور عصر تدوین میں داخل ہوئی  تو اس وقت تک علم حدیث نے ایک الگ علم کا درجہ حاصل کر لیا تھا اور تفسیر کا علم ایک جداگانہ علم بن گیا تھا۔ بقول ڈاکٹر محمد حسین ذہبی: ’’تفسیر تیسرے مرحلے پر پہنچ کر حدیث نبوی سے الگ ہو گئی اور اس نے ایک مستقل علم کا روپ اختیار کر لیا۔ قرآنی ترتیب کے مطابق ہر آیت کی تفسیر ہونے لگی اور یہیں سے تفسیری اسالیب و  مناہج اور مفسرین کے ذاتی رجحانات علم تفسیرکی وسعت کا باعث بنے ‘‘۔  [۲]

_____________________________________________

۱۔ الذہبی، محمدحسین، التفسیر والمفسرون،، ص۱۸۶۔

۲۔ ایضاً، ص۱۰۴۔

_____________________________________________

 

مناہج تفسیر

 

تفسیر قرآن کے سلسلے میں دو بڑے مناہج سامنے آئے۔ ایک تفسیر بالروایت یا تفسیربالماثور اور دوسرا تفسیر بالرائے۔ تفسیر بالروایت سے مراد قرآن کی ایسی تفسیر ہے جس میں صرف احادیث نبوی آثار صحابہ اور اقوال تابعین ہی پر انحصار کرتے ہوئے قرآنی احکام کی تشریح کی جاتی ہے اور اس میں ذاتی فیصلے یا خیال کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ لیکن تفسیر کا یہ طریقہ بھی بعض اہل علم کے نزدیک اس لیے اطمینان بخش نہیں کہ صحابہؓ کے دور میں ہی اکثر اہل کتاب حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تھے۔ اور انھوں نے جو روایات بیان کی تھیں وہ بھی ذخیرہ احادیث میں شامل ہو گئی تھیں۔ یہاں تک کہ طبریؓ جیسے مشہور مفسر نے بھی اہل کتاب سے اخذ کی گئی معلومات کو اپنی تفسیر میں شامل کیا ہے۔ اس طریق تفسیر کے ناقدین کے خیال میں تفسیر کے معاملے میں عہد حاضر کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جب کہ خود قرآن اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی  غور و فکر اور تدبر قرآن کی تلقین فرماتے تھے۔ چنانچہ، اگر محض احادیث نبوی اور اقوال صحابہ اور تابعین پر انحصار کرتے ہوئے قرآن کی تفسیر بیان کرنا مطلوب تھاتو پھر قرآنی تدبر کا کیا مفہوم ہے ؟ جبکہ قرآن اوّل سے آخر تک تعقل و تفکر کی دعوت ہے۔ خود صحابہ کرام قرآن مجید کے مطالب و معانی میں اختلاف کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے اگر یہ مطالب بنی کریم ﷺ سے اخذ کیے ہوتے تو پھر اختلاف کیسے ہوتا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے وہ مطالب اپنی محنت و کاوش سے اخذ کیے ہوں گے۔ اگر قرآن میں تدبر و تفکر جائز نہ ہوتا تو صحابہ اس فعل حرام کے کیونکر مرتکب ہوتے۔ [۱]

تفسیرقرآن کا دوسرا منہج تفسیر بالرائے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی آیات کی تفسیرمیں حدیث نبوی اقوال صحابہ اور تابعین کی آرا کے ساتھ ساتھ، عہد حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مفسر کو اپنی رائے سے آیات کا مفہوم اخذ کرنے کی اجازت بھی ہونی چاہیے۔ ان دونوں مکاتب فکر نے اپنے اپنے دائرے میں تفاسیر لکھیں۔ قرون اولیٰ سے لے کر دور حاضر تک، تفسیر بالماثو راور تفسیر بالرائے، دونوں مناہج پر ہر علاقے اور ہر زبان میں ہزاروں تفاسیر لکھی گئیں۔ بقول شاہ ولی اللہ ایک جماعت صرف ان آثار کی روایت پر کمربستہ ہے جو آیات سے مناسبت رکھتے ہوں خواہ حدیث مرفوعہ ہوں یا موقوفہ یا کسی تابعی کا قول یا اسرائیلی روایت، ایک قوم مسائل فقہیہ کا استنباط کرتی ہے۔ ایک جماعت قرآن کی لغات کی تشریح کرتی ہے ایک گروہ علم معانی، علم بیان کے نکات کو تمام تر بیان کرتا ہے۔ کچھ آدمی علم سلوک کے راستے پر ہیں۔ غرض تفسیر کا میدان نہایت وسیع ہے۔ [۲]

_______________________________________________

۱۔ الذہبی، محمد حسین، التفسیر والمفسرون، ص۱۸۷۔

۲۔ شاہ ولی اللہ،  الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، مترجم مولوی رشید احمد انصاری، دہلی: مکتبہ برہان، جولائی ۱۹۵۵ء، ص ۷۵۔

__________________________________________________

 

               فصل دوم:اصول تفسیر

 

اصول، اصل کی جمع ہے۔ عربی لغت میں ’’اصل‘‘ کسی چیز کے سب سے نچلے حصے اور بنیاد کو کہتے ہیں جس پر وہ چیز یا عمارت استوار ہو۔ یعنی:

الاصل:اسفل الشیئ، ویطلق علی مبداء الشیئ،  القاعدہ:وھی الاساس الذی یبنی علیہ البیت۔ [۱]

اصول تفسیر سے مراد وہ قواعد اور بنیادیں ہیں جن پر قرآن مجید کا صحیح فہم موقوف ہے یا قرآن کی تفسیرکرتے وقت جن پر قائم رہنا اور عمل کرنا ضروری ہے۔ ابن الاکفانی کے بقول:

علم یشتمل علیٰ معرفۃ فھم کتاب اللہ المنزل علیٰ نبیہ المرسل صلی اللہ علیہ وسلم وبیان معانیہ، واستخراج احکامہ وحکمہ۔ [۲]

مساعد بن سلیمان کے نزدیک:

اصول التفسیر: ھی الاسس والمقدمات العلمیۃ التی تعین فی فھم التفسیر، وما یقع فیہ من الاختلاف، و کیفیۃ التعامل معہ۔ ویدور محور الدراسۃ فی ھذالعلم بین امرین:کیف فسر القرآن، وکیف نفسر القرآن۔ [۳]

علم اصول تفسیر ان قواعد اور بنیادوں کا علم ہے جن پر علم تفسیر قائم ہے۔ علی بن سلیمان کے بقول:

اصول التفسیر:القواعد والاسس التی یقوم علیھا علم التفسیر۔ [۴]

اصول تفسیر سے مراد وہ اصول و ضوابط ہیں جو قرآن مجید کی شرح و وضاحت کرتے یا اس کا عربی زبان سے کسی دوسری زبان میں ترجمہ یا تشریح کرتے وقت پیش نظر رکھنا لازم ہیں۔ چونکہ علم تفسیرمیں قرآن مجید کے الفاظ کو اد ا کرنے کی کیفیت، مدلولات، احکام افرادی و ترکیبی اور معانی پر بحث کی جاتی ہے، لہٰذا جو شخص قرآن مجید کی تفسیرکرنے کا ارادہ کرے اس کے لیے ان تمام علوم و فنون سے واقفیت بہت ضروری ہے، جن سے قرآن کے مفہوم و مدعا کے تعین کے سلسلے میں واسطہ پڑ سکتا ہے۔

ان اصول تفسیرکا تعین اور ان کی پابندی اس لیے ضروری ہے کہ قرون اولیٰ میں خود بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے قرآن کی شرح و وضاحت کی۔ آپ ﷺ کے بعد آپ کے صحابہ نے اس ذمہ داری کو پورے حزم و احتیاط سے انجام دیا۔ ان کے تقویٰ، زبان دانی، صحبت نبوی ﷺ اور شان نزول کے علم کے باعث، آیات کی تاویل میں زیادہ اختلاف نظر نہیں آتا۔ لیکن بعد کے لوگ صحابہ کی تفسیری روایات کو پورے طور پر آگے منتقل نہیں کرسکے۔ اس دور میں ضعیف روایات کے پھیل جانے کی وجہ سے، اور اسرائیلیات کے تفسیرمیں داخل ہونے سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ اہل بدعت، موقع پرست اور اسلام کے مخالفین قرآنی آیات کی من مانی تاویلیں کرنے لگے اور نصوص قرآنی کے وہ معنی مراد لینے لگے جو ان سے اصل میں مراد نہیں تھے۔ فلسفے کے زیر اثر اور سیاسی ضروریات کے تحت بھی قرآن کی دور از کار تاویلات کی گئیں۔ ان ساری وجوہات کی بنا پر علما نے من مانی تاویلات کا راستہ روکنے کے لیے یہ ضروری قرار دیا کہ ہرکسی کو قرآن مجید کے مفہوم کے تعین میں آزاد نہیں ہوتا چاہیے، بلکہ اس کے لیے کچھ حدود و قیود کا ہونا ضروری ہے۔

_____________________________________________

۱۔ مساعد بن سلیمان الطیار، فصول فی اصول التفسیر، دمام:دارابن الجوزی للنشر والتوزیع، ط۳، ۱۹۹۹ء، ص۱۱۔

۲۔ ابن الاکفانی، محمد بن ابراہیم، ارشاد القاصد فی اسنی ا لمقاصد، ص۱۵۷۔

۳۔ مساعد بن سلیمان الطیار، فصول فی اصول التفسیر، ص۱۱۔

۴۔ علی بن سلیمان العبید، تفسیر القرآن الکریم:اصولہ وضوابطہ، ریاض:مکتبہ التوبۃ، ط۲، ۲۰۱۰ء ص۲۷۔

______________________________________________

علامہ بدرالدین الزرکشی (م۷۹۴ھ)نے علم لغت، علم نحو، علم صرف، علم بیان، اصول فقہ، علم قراآت، علم اسباب نزول اور علم ناسخ و منسوخ کا جاننا مفسر کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ [۱]

مختلف علمائے کرام نے ان علوم و فنون کی تعداد سینکڑوں میں بیان کی ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی(م۹۱۱ھ) نے مفسر کے لیے پندرہ علوم کا جامع ہونا لازم قرار دیا ہے۔ [۲]

شاہ ولی اللہ دہلوی(م۱۷۶۳ء۔ ۱۱۷۶ھ) نے اصول تفسیر پر ’’الفوزالکبیر فی اصول التفسیر‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ آپ نے اس بات کی نشان دہی کی کہ حضور ﷺ کے دور میں صحابہ کرام عربی زبان پر پوری دسترس رکھتے تھے اس لیے اس دور کی تفسیر میں اختلاف شاذونادر ہے۔ بعد کے زمانے میں جب عجمی لوگوں نے اسلام قبول کیا تو عربی زبان پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے شارع کی مراد اور منشا سمجھنے میں دقت پیش آئی۔ چنانچہ اس وقت لغت اور صرف و نحو وغیرہ جیسے علوم و فنون کا آغاز ہوا۔ شاہ صاحب نے تفسیر کے ضمن میں جو اصول بیان کیے ہیں وہ لغت عرب سے واقفیت، ذوق لسانی، علم الصرف، علم النحو، علم الاشتقاق، علم الحدیث، علم ناسخ ومنسوخ، علم الفقہ، علم المعانی، علم البیان، علم البدیع، علم اسباب نزول والقصص، اقوال صحابہ سے واقفیت، تقویٰ، اصوات و لہجات عرب کا علم ہیں۔ [۳]

مولانا حمید الدین فراہی(م۱۹۳۰ء )نے اصول تفسیر کو تین درجات میں تقسیم کیا ہے :

۱۔ بنیادی اصول (نظم کلام اور سیاق وسباق کا لحاظ، نظائر قرآن کی روشنی میں مفہوم کا تعین، کلام میں مخاطب کا صحیح تعین، الفاظ کے شاذ معانی کا ترک کرنا)

۲۔ ترجیح کے اصول(معنی کے تعین میں موقع و محل کا لحاظ، قرآنی نظائر کا لحاظ، احسن تاویل، کلام عرب میں معروف معانی کا لحاظ )

۳۔ غلط اصول(قرآن کی تاویل میں غیر قرآن کو ترجیح دینا یا کمزور روایات پر اعتمادکرنا) [۴]

________________________________________________

۱۔ بدرالدین الزرکشی، البرھان فی علوم القرآن، تحقیق ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ:مکتبہ دارالتراث، ۱۹۵۷ء، ص۱۳۔

۲۔ السیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، مصر:مطبعۃمصطفی البابی الحلبی، ج۱، ط۳، ۱۹۵۱ء، ص۱۸۰۔ ۱۸۱۔

۳۔ شاہ ولی اللہ، الفوزالکبیر فی اصول التفسیر، (ترجمہ رشید احمد انصاری، مکتبہ برہان اردو بازار دہلی، جولائی ۱۹۵۵ء ص۳۰۔ ۷۴۔

۴۔ فراہی، حمید الدین، تفسیر قرآن کے اصول، (ترجمہ خالدمسعود)دہلی:قرآن وسنت اکیڈمی، اکتوبر۲۰۰۳ء، ص۱۰۳۔

_________________________________________________

مولانا عبدالحق حقانی نے علم تفسیر کے دو اجزا قرار دیے ہیں۔ پہلا جزو  ناسخ و منسوخ، اسباب نزول، مقاصد آیات، غریب  الفاظ، اور ابہام و اجمال کی تشریح و توضیح پر مشتمل ہے، جس کا تعلق اقوال سلف کے ساتھ ہے۔ اور دوسرا جزو  لغت، صرف و نحو، بیان اور معانی جیسے علوم پر مشتمل ہے۔ اس کا براہ راست تعلق اقوال و آثار سلف سے تو نہیں ہے لیکن یہ سارے علوم جزو اول کے مبادی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ان دونوں اجزا کے لحاظ سے تیئیس علوم:صرف، نحو، بیان، معانی، بدیع، اصول فقہ، اصول حدیث، علم قراء ت، فقہ، کلام، تاریخ، جغرافیہ، کتب سابقہ، حدیث، رجال، لغت، زہد والرقاق، علم الاسرار، علم الجدل والخلاف، علم السیرۃ، علم الحقائق، علم الحساب اور علم منطق کا ذکر کیا ہے۔ [۱]

مولانا عبدالحق حقانی کے بقول:’’ جب تک ان علوم میں مہارت نہ تفسیر لکھنے کا قصد بھی نہ کرنا چاہیے اور ان میں سب سے مقدم مفسر کی دیانت شرط ہے۔ کس لیے کہ جب دنیاوی امور میں غیر متدین کی بات تو کیا شہادت کا بھی اعتبار نہیں ہوتا تو دینی امور، بالخصوص مطالب قرآنیہ کی بابت کیوں کر اعتبار ہو سکتا ہے۔ مخالف اور بد مذہب ضرور کچھ نہ کچھ اصلی مطلب بیان کرنے میں پردہ ڈال دیتا ہے۔ ‘‘[۲]

علماء کرام اور مفسرین نے اصول تفسیر کو علوم قرآن کی شاخ قرار دیا ہے۔ بقول شیخ مناع القطان:  ’’وقد یسمی ھٰذا العلم، ای علوم القرآن،  باصول التفسیر، لانہ یتناول المباحث التی لابد للمفسر من معرفتھا للاستناد  الیھا  فی تفسیر القرآن۔ [۳]ان دونوں اصطلاحات میں عام اور خاص کا فرق ہے۔ علوم قرآن کی اصطلاح عام ہے اور اصول تفسیر اس میں شامل کیے جا سکتے ہیں، لیکن اصول تفسیر میں عمومیت کے بجائے تخصیص پائی جاتی ہے، لہٰذا علوم قرآن کو اصول تفسیر میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ [۴]

________________________________________

۱۔ عبدالحق حقانی دہلوی، البیان فی علوم القرآن، مقدمہ تفسیرحقانی، دہلی:مطبع تحفہ ہند، ۱۳۲۴ھ، ص۴۸۶۔

۲۔ ایضاً، ص۴۸۷۔

۳۔ مناع خلیل القطان، مباحث فی علوم القرآن،، قاہرہ:مکتبہ وہبہ عابدین، ص۱۱۔

۴۔ علی بن سلیمان العبید، تفسیر القرآن الکریم:اصولہ وضوابطہ، ص۲۹۔

_____________________________________________

 

 

 

 

               فصل سوم:جلال الدین سیوطی اور ان کے اصول تفسیر

 

 

الف:جلال الدین سیوطی(۸۴۹ھ۔ ۹۱۱ھ):

 

نام ونسب:

آپ کا نام ابوالفضل عبدالرحمٰن بن (کمال الدین ) ابو بکر بن (ناصر الدین)محمد (الخضیری السیوطی )ہے۔ جلال الدین سیوطی کے نام سے معروف ہیں۔ آپ کا خاندان اصلاً ایرانی ہے، لیکن آپ کے آباء و اجداد آپ کی پیدائش سے تقریباً نو پشت قبل مصر کے شہراُسیوط میں آباد ہو گئے تھے۔ اسی نسبت سے آپ السیوطی کہلائے۔ آپ کے والد نے اپنے لیے لفظ’’ السیوطی‘‘ اختیار کیا جبکہ خاندان کے باقی لوگوں نے ’’اُسیوطی‘‘ اختیار کیا۔ بقول سیوطی:’’کان الوالد یکتب فی نسبہ السیوطی، وغیرہ یکتب الاسیوطی وینکرکتابۃ الوالد، ولا انکار بل کلا الامرین صحیح۔ ‘‘[۱]

دوسری نسبت ’’خضیری‘‘ کے بارے میں سیوطی خود بھی پر یقین نہیں ہیں کہ اس کا آغاز کب، کیوں اور کیسے ہوا۔ ان کے خیال میں شاید یہ نسبت بغداد کے محلہ خضیریہ کے باعث ہو جس کا ذکر بلدان و انساب کی اکثر کتب میں موجود ہے۔ [۲]

آپ کے والد قاہرہ کے مدرسہ شیخونیہ میں مدرس تھے اور فقہ کی تعلیم دیتے تھے۔ سیوطی اپنے والد اور ان کے شجرہ نسب کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’والدی ھوالامام العلامۃ ذوفنون الفقیہ الفرضی الحاسب الاصولی الجدلی النحوی التصریفی البیانی البدیعی المنشی المترسل البارع کمال الدین ابوالمناقب ابوبکر بن ناصرالدین محمد ابن سابق الدین ابی بکر بن فخر الدین عثمان بن ناصرالدین محمد ابن سیف الدین خضر بن نجم الدین ابی الصلاح ایوب بن ناصرالدین محمد بن الشیخ ہمام الدین الھمام الخضیری الاسیوطی۔ ‘‘[۳]

پیدایش:

جلال الدین سیوطی یکم رجب۸۴۹ھ کو قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی ان کی پیدائش کے تقریباً  چھ برس کے بعد۵ صفر۸۵۵ھ میں وفات پا گئے۔ والد کی وفات کے بعد والد کے ایک صوفی دوست کمال الدین ابن ہمام نے ان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ کمال الدین ابن ہمام قاضی کے منصب پر فائز تھے اور انھوں نے فقہ حنفی کی معروف کتاب الھدایۃ کی شرح  اور اصول فقہ سے متعلق کچھ رسائل تصنیف کیے تھے۔ [۴]

___________________________________________

۱۔ السیوطی، جلال الدین، کتاب التحدث بنعمۃ اللہ، (تحقیق ایزابث ماری سارتین)قاہرہ:المطبعۃالعربیۃ الحدیثۃ، ۱۹۷۵ء، ص۱۲۔

۲۔ ایضاً، ص۶۔

۳۔ ایضاً، ص۵۔

۴۔ السیوطی، جلال الدین، حسن المحاضرۃ فی اخبار مصروالقاہرۃ، ص۲۸۲۔

______________________________________________

علامہ سیوطی نے اپنی کتاب میں ان کا تعارف اس طرح سے کرایا ہے :

ابن الہمام العلامۃ کمال الدین محمد بن عبد الواحد بن عبد الحمید بن مسعود السیواسی ثم الکندری. ولد تقریباً سنۃ تسعین وسبعمائۃ، وتفقہ بالسراج قارئ الہدایۃ وغیرہ، وتقدم على أقرانہ فی أنواع العلوم، من الفقہ والأصول والنحو والمعانی وغیرہا. وکان علامۃ محققاً جدلیاً نظاراً، قررہ الأشرف شیخاً فی مدرستہ، فباشرہا مدۃ ثم ترکہا. وولی مشیخۃ الشیخونیۃ ثم ترکہا أیضاً. ولہ تصانیف، منہا شرح الہدایۃ والتحریر فی أصول الفقہ. مات فی رمضان سنۃ إحدى وستین  ثمانمائۃ۔ [۱]

 

تعلیم و تربیت:

جلال الدین سیوطی حیرت انگیز قوت حافظہ کے مالک تھے۔ آپ نے آٹھ برس کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔ اس کے بعد عمدۃ الاحکام:النووی، منھاج: ابن مالک، اور الفیۃ: بیضاوی حفظ کر لیں۔ آپ نے مصر کے نامور اساتذہ سے تفسیر، حدیث، فقہ، نحو، معانی، بیان، طب وغیرہ علوم کی تدریس کی۔ آپ کے اساتذہ میں احمد بن ابراہیم بن نصراللہ، قاضی عز الدین ابوالبرکات، احمد بن ابراہیم بن سلیمان القلیوبی، احمد بن عبداللہ بن علی، احمد بن عبدالقادر بن محمدبن طریف الشاوی، احمد بن علی بن ابوبکر الشارمساحی، احمد بن علی بن محمد، احمد بن محمد بن احمد بن محمد النویری، احمد بن محمد بن عبدالرحمٰن بن عمر بلقینی، ابراہیم بن احمد بن یونس، ابراہیم بن محمد بن عبداللہ بن سعد الدیری، اسماعیل بن ابی بکر، آمنہ بنت شرف الدین موسیٰ بن احمد،  آسیہ بنت جار اللہ بن صالح الشیبانی، صالح بن عمر بن رسلان، عبدالخالق بن عمر بن رسلان، عبدالرحمٰن بن احمد بن عبدالرحمٰن القمی وغیرہ کثیر علما و محدثین کے نام  قابل ذکر ہیں۔ [۲]

۸۶۹ ھ میں سیوطی فریضہ حج ادا کرنے کے لیے گئے اور وہاں کے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ سفر حج کے دوران میں انھوں نے  النحلۃ الزکیۃ فی الرحلۃ المکیۃ، اور النفحۃ المسکیۃوالتحفۃ المکیۃ، تصنیف کیں۔ [۳]   ا س کے بعد ۸۷۰ھ کے اوائل میں قاہرہ واپس آئے اور اپنے والد کے مدرسہ شیخونیہ میں مدرس ہو گئے۔ ۸۹۱ھ میں آپ کو معروف مدرسہ البیبرسیہ میں بھیج دیا گیا۔ لیکن بعض وجوہات کی بنا پر آپ کو۹۰۶ھ میں اس منصب سے الگ کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ کے جانشین مدرس کی وفات کے بعد آپ کو دوبارہ اسی عہدے کی پیش کش کی گئی جسے آپ نے قبول نہ کیا  اور گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی۔ آپ نے ۱۸ جمادی الاولیٰ ۹۱۱ ھ میں وفات پائی۔ [۴]

__________________________________________________

۱۔ السیوطی، جلال الدین، حسن المحاضرۃ فی اخبار مصر و القاہرۃ، ص۲۸۲۔

۲۔ السیوطی، جلال الدین، کتاب التحدث بنعمۃ اللہ، ص۴۳تا۷۰۔

۳۔ ایضاً، ص۷۹۔

۴۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۱۱، ط۲، ۲۰۰۶ ء، ص۵۳۷۔

______________________________________________

 

تصنیف و تالیف:

سیوطی بچپن ہی سے تعلیم وتدریس کی طرف مائل تھے۔ سترہ برس کی عمر میں آپ نے تصنیف و تالیف کا کام شروع کر دیا تھا۔ آپ کے ہاں موضوعات کی وسعت حیران کن حد تک ہے۔ آپ نے علوم کے تمام شعبہ جات میں طبع آزمائی کی ہے۔ آپ کی مصنفات کی فہرست بہت طویل ہے۔ فلوجل نے ان کی تعداد۵۶۱، بروکلمان نے ۴۱۵، جمیل بک نے ۵۷۶ اور خود سیوطی نے یہ تعداد ۳۰۰ بیان کی ہے۔ [۱]

 

تصانیف:

علامہ سیوطی کی تصانیف کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ سیوطی نے ان کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے ۱۸ کتب ایسی ہیں جو اپنے موضوعات کے لحاظ سے منفرد اور ماخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔ خود سیوطی نے ان کے سلسلے میں تفرد  کا دعویٰ کیا ہے۔ [۲]

________________________________________________

۱۔  اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ص۵۳۷۔

۲۔ السیوطی، جلال الدین، کتاب التحدث بنعمۃ اللہ، ص۱۰۵۔

­_________________________________________________

ان کتب کا تعارف درج ذیل ہے :

الاتقان فی علوم القرآن

ترجمان القرآن فی التفسیر المسند

الدرر المنثور فی التفسیر الماثور

اسرار التنزیل

الاکلیل فی استنباط التنزیل

تناسق الدرر فی تناسب الآیات والسور

النکت البدیعات علی الموضوعات

جمع الجوامع فی العربیۃ

شرحہ یسمی ھمع الھوامع

الاشباہ والنظائر فی العربیۃ

السلسلۃ فی النحو

النکت علیٰ الالفیۃ

الفتح القریب علیٰ معنی اللبیب

شرح شواھد المغنی

الاقتراح فی اصول النحو وجدلہ

طبقات النحاۃ الکبریٰ تسمی بغیۃ الوعاۃ

صون المنطق والکلام عن فن المنطق والکلام

الجامع فی الفرائض لم یتم

دوسری قسم کی تصانیف  ایسے موضوعات پر ہیں جن میں سیوطی تفرد کا دعویٰ نہیں کرتے۔ ان میں سے چند اہم کتب درج ذیل  ہیں :

مفحمات الاقران فی مبھمات القرآن

لباب النقول فی اسباب النزول

تفسیر الجلالین

معترک الاقران فی اعجازالقرآن

جامع المسانید(الجامع الکبیر)

الجامع الصغیر من حدیث البشیر النذیر

کفایۃ الطالب اللبیب فی خصائص الحبیب (الخصائص الکبریٰ)

الاٰلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ

تنویر الحوالک شرح موطا مالک

اسعاف المبطا برجال الموطا

تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی

شرح الصدورفی شرح حال الموتیٰ فی القبور(کتاب البرزخ)

البدور السافرۃ فی امور الاخرۃ

المزھر فی علوم اللغۃ

الاقتراح فی علم اصول النحووجدلہ

الاشباہ والنظائر النحویۃ

الاخبار المرویہ فی سبب وضع علوم العربیۃ

البہجۃالمرضیۃ فی شرح الالفیۃ

فتح القریب بشواہد مغنی اللبیب

الفریدۃ فی النحو والتصریف والخط

بدائع الزھور فی وقائع الدھور

تاریخ الخلفا

حسن المحاضرۃ فی اخبار مصر والقاہرۃ

نظم العقیان فی اعیان الاعیان

الاصول المہمۃ لعلوم جمۃ( النقایۃ)

تیسری قسم کی کتابیں وہ ہیں جو سیوطی نے اپنی ضخیم تصانیف میں سے مختصر رسائل کے طور پر افادہ عام کے لیے الگ سے تالیف کیں۔ ان کی تعداد ستر بیان کی ہے۔ [۱]چوتھی قسم مختصر مسائل و فتاویٰ پر مشتمل ہے جن کی تعداد تقریباسو ہے۔ [۲]

اسی طرح اسی کے قریب کتب واقعات و فتاویٰ سے متعلق ہیں۔ چھٹی قسم ان کتب کی ہے جو حصول علم کے زمانے میں سیوطی نے شیوخ واساتذہ کے دروس کو قلم بند کیا۔ ان کی تعداد چالیس ہے۔ ساتویں قسم میں تراسی کتب ہیں جو مختلف شروح، حواشی و تعلیقات پر مشتمل ہیں۔ [۳]

________________________________________________

۱۔ السیوطی، جلال الدین، کتاب التحدث بنعمۃ اللہ، ص۱۱۱۔

۲۔  ایضاً، ص۱۱۵۔

۳۔ ایضاً، ص۱۲۹۔

_________________________________________________

 

ب: جلال الدین سیوطی کے اصول تفسیر:

 

زیر نظر مقالے میں ہمارے پیش نظر چونکہ علامہ جلال الدین سیوطی (م۹۱۱ھ) کے بیان کردہ اصول تفسیر ہیں، اس لیے ہم تفصیل کے ساتھ ان کا ذکر کریں گے۔ سیوطی اپنی کتاب  الاتقان فی علوم القران میں لکھتے ہیں کہ لوگوں میں اس امر میں اختلاف ہے کہ قرآن کی تفسیرنبی کریم ﷺ کی طرف منسوب روایات کے علاوہ کرنی جائز ہے یا نہیں، کچھ لوگ اسے جائز نہیں مانتے، اگرچہ تفسیر کرنے والا فقہ، نحو، صرف اور اخبار و آثار کا کتنا بڑا عالم ہی کیوں نہ ہو۔ [۱]لیکن کچھ لوگ اس کے قائل ہیں کہ قرآن کی تفسیرکرنا جائز ہے۔ لکھتے ہیں :’’ومنھم من قال یجوز تفسیرہ لمن کان جامعا للعلوم التی یحتاج المفسر الیھا وھی خمسۃ عشر علما۔ [۲](اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس (قرآن) کی تفسیر جائز ہے تو وہ اس شخص کے لیے ہے جو ان علوم کا جامع ہو جن کی مفسر کو ضرورت پڑتی ہے۔ اور وہ پندرہ علوم ہیں )۔

اس کے بعدسیوطی ان علوم کی تفصیل اس طرح سے بیان کرتے ہیں : علم اللغۃ، علم النحو، علم الصرف، علم الاشتقاق، علم المعانی، علم البیان، علم البدیع، علم القراآت، علم اصول الدین، علم اصول الفقہ، علم اسباب النزول والقصص، علم الناسخ والمنسوخ، علم الفقہ، علم الاحادیث المبینۃ لتفسیر المجمل والمبھم، علم الموھبۃ۔ [۳]

________________________________________________

۱۔ السیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، مصر:مطبعۃمصطفی البابی الحلبی، ج۱، ط۳، ۱۹۵۱ء، ص۱۸۰۔

۲۔ ایضاً، ص۱۸۰۔ ۱۸۱۔

۳۔ ایضاً، ص۱۸۰۔ ۱۸۱۔

_____________________________________________

چنانچہ سیوطی کے بیان کردہ پندرہ علوم اور اصول درج ذیل ہیں :

۱۔ علم اللغہ۲۔ علم النحو ۳۔ علم الصرف ۴۔ علم الاشتقاق ۵۔ علم المعانی ۶۔ علم البیان ۷۔ علم البدیع  ۸۔ علم القراآت ۹۔ علم اصول الدین ۱۰۔ علم اصول الفقہ ۱۱۔ علم اسباب النزول والقصس ۱۲۔ علم الناسخ والمنسوخ ۱۳۔ علم الفقہ ۱۴۔ علم الاحادیث المبینۃ لتفسیر المجمل والمبھم ۱۵۔ علم الموھبۃ۔

سیوطی کے نزدیک قرآن مجید کی تفسیر و تشریح صرف اسی شخص کے لیے جائز ہے جو ان تمام علوم کا ماہر ہو۔ گویا سیوطی کے نزدیک یہ اصول کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان علوم پر دسترس حاصل کیے بغیرکسی شخص کے لیے قرآن کی تفسیر و تشریح کرنا جائز نہیں ہے۔

ان علوم کا مختصر تعارف اس طرح سے ہے :

 

۱۔ علم اللغہ:

الفاظ کی حقیقت، مادے اور ہیئت سے متعلق جاننے کا علم ’’علم اللغۃ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس میں مفرد الفاظ پر بحث کی جاتی ہے اور اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کس لفظ کو کس معنی کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ کسی بھی مفسر قرآن کے لیے ضروری ہے کہ وہ عربی زبان کے الفاظ، ان کے مادوں اور استعمالات سے پوری طرح آگاہ ہو۔

 

۲۔ علم النحو:

علم النحو کو علم الاعراب بھی کہا جاتا ہے۔ مفسر کے لیے علم نحو کا سیکھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ عربی زبان کے الفاظ کا دارومدار اعراب پر ہوتا ہے۔ اعراب کی معمولی تبدیلی سے الفاظ کے معانی میں نہایت بنیادی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس علم کی مدد سے عربی زبان کے الفاظ کی حرکات، مرکب کلمات، ان کی ہیئت ترکیبی اور ان کے معانی پر بحث کی جاتی ہے۔

 

۳۔ علم الصرف:

یہ علم کلمات اور صیغوں کے متعلق ہے۔ جب تک انسان کلمات، صیغوں اور تصریف و تعلیل سے واقف نہ ہو تو اس کے لیے کلام کی مراد کوسمجھنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔

 

۴۔ علم الاشتقاق:

علم الاشتقاق مادہ اصلی سے مشتق ہونے والے الفاظ سے بحث کرتا ہے۔ جب تک الفاظ کے اصلی مادوں اور ان کے استعمال سے واقفیت نہ ہو تب تک کلام کے معنی و مفہوم کوسجمھنا ممکن نہیں ہوتا۔

 

۵۔ علم المعانی:

علم المعانی علوم بلاغت میں سے ہے اور اس کا تعلق الفاظ کے ان استعمالات سے ہے جن کے لیے وہ بنیادی طور پر تخلیق کیے گئے ہوں۔ اس علم کی مدد سے گویا الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

 

۶۔ علم البیان:

یہ علم بھی بلاغت کی ایک شاخ ہے۔ کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور مجازی معنوں میں بھی۔ اس علم کے ذریعے سے تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور مجازمرسل کی مدد سے ایک معنی کو کئی انداز سے بیان کیا جاتا ہے، جن کے لیے لغت سے استناد نہیں کیا جا سکتا۔

 

۷۔ علم البدیع:

فصیح و بلیغ کلا م کو مختلف لفظی یا معنوی خوبیوں سے آراستہ کرنے کو بدائع اور صنائع کہتے ہیں۔ اس علم سے کلام کو مزین کرنے اور خوش نما بنانے کا سلیقہ آتا ہے۔ یعنی اس علم کی بدولت ’سجع‘، ’تجنیس‘، ’ترصیع‘  اور ’توریہ‘ اور اسی قبیل کے دوسرے محاسن کلام کے ذریعے سے انسان اپنے کلام کو آراستہ کرتا ہے۔

 

۸۔ علم القراآت:

علم القراآت قرآن مجید کی مختلف قراآت سے بحث کرتا ہے جن کا ذکر روایات میں موجود ہے۔ مثلاً قراآت سبعہ جو کہ تواتر سے منقول ہیں۔ اس علم سے واقفیت کے بغیر کوئی شخص قرآن کی مختلف قراآت سے متبادر مختلف مفاہیم اور ان کے درمیان تطبیق نہیں کرسکتا۔

 

۹۔ علم اصول الدین:

دین کے بنیادی اصول اور ان کے متعلقات پر بحث کا علم، علم اصول الدین کہلاتا ہے۔

 

۱۰۔ علم اصول الفقہ:

اصول فقہ سے مراد وہ اصول ہیں جن کی مدد سے فقہی احکام اخذ کیے جاتے ہیں۔ فقہ کے چار اصول ہیں :کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، اجماع امت اور قیاس۔ ا ن کی مددسے جب مسائل اخذ کیے جاتے ہیں تو اس سلسلے میں جو قواعد و ضوابط، اصطلاحات اور طریق کار فقہا استعمال کرتے ہیں ان سب کو بھی اصول فقہ میں شامل کیا جاتا ہے۔ مثلاً عام و خاص کا تعین، مطلق و مقید، مشترک و مُاَوَل، حقیقت و مجاز، استعارہ، صریح و کنایہ، متقابلات، نصوص، عطف بیان اوراسی طرح حدیث کے علوم، اجماع وقیاس کے اصول وغیرہ۔

 

۱۱۔ علم اسباب النزول و القصص:

قرآن مجید کی سورتیں اور آیات نبی کریم ﷺ کی دعوت کے مختلف ادوار میں نازل ہوتی رہی ہیں۔ ان تمام کا تعلق اسلامی تحریک کے مختلف مراحل سے ہے۔ مختلف  حالات و واقعات تناظر میں اللہ کی طرف سے کچھ احکام نازل ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے ان حالات و واقعات اور پس منظرسے واقفیت کے بغیر آیات کے صحیح مفہوم کے تعین میں خطا کا امکان ہوسکتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی شرح وضاحت کا کام کرنے والے فرد کے لیے ان اسباب و واقعات کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔

 

۱۲۔ علم الناسخ والمنسوخ:

اللہ تعالیٰ نے اسلام کے بعض احکام تدریج کے طریقے سے نازل کیے اور بعض احکام وقتی تھے جن کو بعد میں منسوخ یا تبدیل کر دیا گیا۔ چنانچہ قرآن کے مفسر کے لیے ان احکام کی نوعیت اور حالات سے واقف ہونا ضروری ہے۔

 

۱۳۔ علم الفقہ:

 

شرعی احکام کی جزئیات اور فروع کا علم علم فقہ کہلاتا ہے۔

 

۱۴۔ علم الاحادیث المبینۃ لتفسیر المجمل والمبہم:

قرآن مجید کی شرح و وضاحت نبی کریمﷺ کی منصبی ذمہ داری تھی۔ چنانچہ قرآن کی شرح وتفسیر کا سب سے پہلا حق آپﷺ کاہے۔ اس لیے مفسر قرآن کے لیے ضروری ہے کہ قرآنی آیات کی تشریح و توضیح میں منقول حضورﷺ کے ارشادات کا مکمل علم حاصل کرے اور ان کو اپنی یا دوسروں کی رائے پرترجیح دے۔

 

۱۵۔ علم الموھبہ:

یہ ایک ایسا علم ہے جو خالصتاً عطائے ربانی ہے اور کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اسے اپنی کوشش اور جستجو سے حاصل کرسکے۔ قرآن مجید سے ہدایت و راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے تقویٰ بنیادی شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ متقین کے لیے اپنی کتاب کے اسرار و رموز کھول دیتا ہے اور ان کے اندر خصوصی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے جس کے باعث وہ راہ راست پر قائم رہتے ہیں اور شکوک و شبہات سے محفوظ رہتے ہیں۔

 

 

 

باب دوم: تفہیم القرآن اور صاحب تفہیم القرآن

 

 

               فصل اول: صاحب تفہیم القرآن : احوال و آثار

 

پس منظر:

 

سید ابوالاعلیٰ مودودی کی پیدائش ایک ایسے زمانے میں ہوئی جسے بجا طور پر مسلمانوں کا دور انحطاط کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب اسلام دنیا کے کسی کونے میں ایک مکمل نظام کے طور پر، اپنی عملی صورت میں رائج نہیں تھا۔ مسلمان دنیا کے طول و عرض میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ہندوستان کے حالات باقی دنیا کی نسبت زیادہ غیریقینی تھے۔  یہ علاقہ صوفیہ کرام، مسلمان تجار اور جنگی مہمات کے باعث اسلامی تعلیمات سے متاثر اور منور ضرور ہوا لیکن یہ ساری کوششیں غیر منظم تھیں۔ سرکاری سطح پرمسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی معقول بندوبست نہ تھا۔ سلطنت مغلیہ کے دور عروج میں بھی  ہندوستان میں عملی طور پر اسلام لوگوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ نہ بن سکا۔ یہاں مقامی طور پر معاشرہ کثیر المذاہب تھا۔ ہندومت گنجلک افکار کا مجموعہ، غیر عملی اور دیومالائی مذہب تھا۔ مقامی رسوم و رواج میں اسلامی تعلیمات، ایرانی تصوف، یونانی فلسفہ، بدھ مت، مسیحیت اور بہت سے دیگر علاقائی مذاہب کے اثرات شامل ہو چکے تھے۔ حکمرانوں کی عدم دل چسپی، مقامی رسوم و رواج کے نفوذ اور اکبر کے دین الٰہی کے اثرات کی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں بھی بہت سے غیر اسلامی افکار شامل ہو گئے تھے۔ عوام میں دین کا حقیقی شعور کم ہو چکا تھا۔ اسلامی ریاست کی عدم موجودگی اور قوت نافذہ کے نہ ہونے کے باعث اسلام برہمنیت اور پاپائیت کی طرح کچھ لوگوں کی میراث اور چند مذہبی رسوم کے مجموعے کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ مختلف اوقات میں مسلمانوں میں اصلاح و درستی کی کئی تحریکیں برپا ہوئیں جنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی دینی و اخلاقی حالت کو سدھارنے کی کوشش کی۔ مثلاً شیخ احمد سرہندی  المعروف مجدد الف ثانی (۹۷۱ء۔ ۱۰۳۴ء) نے مسلمانوں میں رائج فاسد عقائد و بدعات کے خاتمے کے لیے احیائے دین کی ایک تحریک شروع کی۔ آپ نے  بیک وقت عوام، حکمرانوں اور اہل تصوف کی اصلاح کا کام کرتے ہوئے فاسد عقائد اور الحاد و تشکیک کا خاتمہ کر کے خالص قرآن و سنت کا پیغام پہنچایا۔ [۱]

اسی طرح شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ء۔ ۱۷۶۲ء)  نے بھی مسلمانان ہند کی دینی و اخلاقی حالت کو سدھارنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اسلام کو ایک ہمہ گیر نظام کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے، مسلمانوں کے انحطاط اور زوال کی وجوہات کا تعین بھی کیا۔ انھوں نے  دو چیزوں کو خرابی کی وجہ قرار دیا: ایک سیاسی اقتدار اور اجتماعی نظام کا خلافت سے بادشاہت کی طرف منتقل ہونا، اور دوسرے تقلید جامد کے زیر اثر روحِ اجتہاد کا مردہ ہونا۔ [۲]  ان خرابیوں کے تدارک کے لیے آپ نے بہت سی کتب اور رسائل تصنیف کیے۔ قرآن کی تفہیم کو آسان بنانے اور عوام کو اس سے مستفید کرنے کے لیے قرآن پاک کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ آپ نے پہلی بار اسلام کو ایک مربوط نظام فکر کے طور پر پیش کیا۔ بقول سید مودودی: ’’شاہ صاحب تاریخ انسانی کے ان لیڈروں میں سے ہیں جو خیالات کے الجھے ہوئے جنگل کو صاف کر کے فکر و نظر کی ایک صاف، سیدھی شاہراہ بنا تے ہیں ‘‘۔ [۳]

_____________________________________________

۱۔ الف ثانی کا تجدیدی کارنامہ مشمولہ  تذکرہ مجدد الف ثانی , مناظر احسن گیلانی ’’مرتب مولانا محمد منظور نعمانی،، ص ۹۱۔

۲۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، تجدید و احیائے دین،   ص ۹۳۔

۳۔ ایضاً،   ص ۹۰۔

________________________________________________

۱۸۱۸ء میں حاجی شریعت اللہ نے فرائضی تحریک کے ذریعے مسلمانوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے، غیر اسلامی رسوم و عقائد کے خاتمے اور شرعی فرائض  کو ادا کرنے کے لیے مسلمانوں کو ابھارنے کی کوشش کی۔ انھی مقاصد کے لیے سید احمد شہید (۱۷۸۲ء۔ ۱۸۳۱ء ) اور شاہ اسماعیل شہید (۱۷۷۹ء۔ ۱۸۳۱ء)  نے بھی جدوجہد کا آغاز کیا۔ انھوں نے بیک وقت کئی محاذوں پر کا م شروع کر دیا۔ ایک طرف تو مسلمانوں کے عقائد و افکار کی  اصلاح کی کوشش کی اور دوسری طرف سیاسی و اجتماعی نظام کو تبدیل کرنے کی تحریک کا آغاز بھی کر دیا۔ انھوں نے ایک ایسے زمانے میں  انگریز ی اقتدار کے خلاف علم جہاد بلند کیا جب مسلمانوں کے پاس نہ اقتدار تھا، نہ فوج، نہ سیاسی نظام اور نہ مرکزیت۔ ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی کہتے ہیں : ’’اسلامی ہند کی تاریخ میں پہلی بار احیائے دین اور اقامت حکومت الٰہیہ کے لیے یہ ایک منظم جدوجہد تھی‘‘۔ [۱]  لیکن یہ تحریک بعض مادی وجوہات اور تدبیر ی مسائل کے باعث ناکام ہو گئی۔

انیسویں صدی کا آخری حصہ اور بیسویں صدی کے آغاز کا زمانہ دنیا کی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حا مل ہے۔ اس زمانے میں انسانی علوم و افکار نے  نہایت سرعت  سے ارتقاء کی منازل طے کیں۔ یورپ کی جدید علمی و فکری تحقیق سے عیسائی متکلمین کے مذہبی عقائد اور بائبل کے تصور کائنات کو ٹھیس پہنچی۔ علمی بیداری کے نتیجے میں حریت فکر کے علمبرداروں اور کلیسا کے درمیان چھڑنے والی لڑائی  مذہب اور آزاد خیالی کے درمیان جنگ کی صورت میں بدل گئی۔ اس تحریک کی کامیابی کے  نتیجے میں جو طرز فکر وجود میں آیا اس کے بنیادی اصولوں  میں یہ بات شامل تھی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم و فن، غرض اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبے میں دخل دینے کا حق نہیں، وہ محض افراد کا شخصی معاملہ ہے۔ [۲]

اس دور میں ہندوستان پر انگریزی حکومت اور مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں یہ طرز فکر جدید تعلیم کی آڑ میں ہندوستان میں داخل ہوا۔ اس  کے نتیجے میں کئی ردِ عمل سامنے آئے۔ ایک گروہ  نے انگریزی تعلیم کے ذریعے آنے والے مغربی افکار، اقدار، ڈارون، فرائڈ اور کارل مارکس کے نظریات، مغربی نظام تعلیم، تہذیب، سیاسی نظریات اور تصورِ معیشت کو اپنا لیا۔ جبکہ دوسرے گروہ نے یہ فرض کر لیا کہ جدید تہذیب کی اس یلغار کے سامنے مزاحمت نہ تو مسلمانوں کے لیے مفید ہے اور نہ ہی اس کا مقابلہ ممکن ہے۔ اس دوسرے گروہ کے سربراہ سرسید احمد خاں تھے۔ انھوں نے تہذیب الاخلاق میں سماجی، علمی، ادبی موضوعات پر مضامین لکھ کر تہذیب اور ’’سویلائزیشن‘‘ کا درس دیا فکری اور تہذیبی میدان میں مسلمانوں کو تہذیب مغرب سے سمجھوتا کرنے کے لیے اپنا زور قلم صرف کر دیا۔ سرسید نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام عقل، سائنس اور تہذیب و شائستگی کا مخالف نہیں لیکن انھوں نے اپنے اس دعوے کے لیے مغربی افکار کو ہی رہنما بنایا اور اسلامی اقدار و نظریات کو معیار بنا کر اصلاح کام انجام نہیں دیا بلکہ قدم قدم پر اسلام ہی کی قطع و برید کی۔ [۳]  سرسید کی کوششوں سے قوم کے سیاسی، سماجی اور ادبی خیالات میں خاصی تبدیلی آئی۔

________________________________________________

۱۔ عبید اللہ فہد فلاحی، تاریخ دعوت و جہاد، لاہور: ادارہ معارف اسلامی، ۲۰۰۰ء، ص ۱۵۶۔

۲۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، تنقیحات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ص ۹۔

۳۔ خورشید احمد، پروفیسر، ’’تحریک اسلامی شاہ ولی اللہ اور ان کے بعد‘‘،  چراغ راہ، تحریک اسلامی نمبر ‘‘، ص ۴۹۔ ، ص ۵۷۔

_______________________________________________

مغربی تہذیب اور نظریات کے خلاف تیسرا رد عمل علمائے دیوبند کا تھا۔ اس گروہ نے مغرب کے برے اثرات سے دامن ضرور  بچایا مگر مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھا۔ انھوں نے نہ تو نئی تہذیب سے کوئی اثر لیا اور نہ اس کے مقابلے کی کوئی منظم کوشش کی۔ تاہم انھوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلاف کے نظریاتی اثاثے کو محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ اس ادارے کے علما نے عیسائی مبلغین، اور آریہ سماج تحریک کا مقابلہ کیا۔ یہاں ذریعۂ تعلیم اردو ہونے کی وجہ سے اردو زبان کو بہت تقویت ملی۔

اس دور میں بعض علما نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور بعض اگرچہ اس کا حصول جائز سمجھتے تھے لیکن ان کے مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب جدید ترین نظریات کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ جب کہ دوسری طرف مغرب کا سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام اور علوم و افکار مسلم ذہن میں تشکیک و الحاد پیدا کر رہے تھے۔ علما ئے کرام نہ تو جدید ذہن کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوئے اور نہ ان کے پاس سیاسی قیادت تھی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد، مرزا غلام احمد قادیانی نے جہاد بالسیف کی بجائے جہاد باللسان اور جہاد بالقلم کا نظریہ پیش کیا۔ بقول مرزا صاحب:’’اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہا د کے معتقد کم ہوتے جائیں گے، کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔ ‘‘[۱]  انگریزی سامراج کی حمایت حاصل ہوتے ہی مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔

اس دور میں ہر صاحب دل اپنی اپنی جگہ پر قوم کی حالت سدھارنے اور اسے مذہبی، تہذیبی اور معاشی غلامی سے نکالنے کے لیے کوشاں تھا۔ علی گڑھ میں جدید تعلیم کو اہمیت دی جاتی تھی اور دیوبند قدامت پسندی کی علامت تھا۔ اس لیے ضرورت ایسے علما کی تھی جو اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بھی آگاہ ہوں۔ اس  غرض سے ۱۸۹۴ء میں ندوۃ العلماء کی تحریک شروع کی گئی اور اس کے نتیجے میں ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا۔ یہ تحریک عوام کی بجائے علما سے تعلق رکھتی تھی۔ کچھ وسیع النظر اور انصاف پسند علما اپنی جماعت کی کمزوریوں اور قدیم طرزِ تعلیم کی اصلاح چاہتے تھے۔ خصوصاً مولانا شبلی دینی مدارس کے تعلیمی نصاب کی تبدیلی کے لیے بہت بے چین تھے، وہ چاہتے تھے کہ نصاب، جدید ضرورتوں کے مطابق صحیح اسلامی علوم پر مشتمل ہو۔ انگریزی زبان کی تعلیم بھی دی جائے، لیکن یہ خصوصیات صرف شبلی کی ندوہ میں موجودگی تک قابل عمل رہیں۔ یہ تحریک اس لیے کوئی کردار ادا نہ کر سکی کہ ابوالحسن علی ندوی کے الفاظ میں : ’’اس تحریک کو قدیم اور جدید، دونوں طبقوں کا مؤثر اور پر جوش تعاون حاصل نہ ہوسکا‘‘۔ [۲]

تحریک خلافت (۱۹۱۹ء -۱۹۲۴ء ) نے مسلمانوں میں مِلّی شعور بیدار کیا۔ اس تحریک کی بنیاد سیاست کی بجائے مذہب پر رکھی گئی تھی۔ اس تحریک کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ قوم جو ساٹھ سال سے انگریز کی غلامی میں مگن تھی، اب اس تحریک کے ذریعے انگریز کی سیاست، طاقت، تہذیب، تعلیم اور تجارت کو چیلنج کر رہی تھی۔ ابوالکلام آزاد اور محمد علی جوہر الہلال اور کامریڈ کے ذریعے، مسلمانوں کو دینی سیاست، اپنانے کی دعوت دے رہے تھے۔ یہ دونوں رہنما ایک طرف علی گڑھ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے تو دوسری طرف علما کی جامد ذہنیت پربھی تنقید کرتے تھے۔ چونکہ اس تحریک کا تعلق مقامی حالات سے نہیں تھا اس لیے یہ اچانک ختم ہو گئی۔ لیکن اس تحریک کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ میں ناکامی کے اثرات کم ہو گئے اور مذہب و سیاست کے الگ الگ ہونے کا تصور ختم ہو گیا۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، قادیانی مسئلہ، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، مارچ۱۹۹۸ء، ص۳۰۔

۲۔ ندوی، ابوالحسن علی، اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش، ص۹۳۔

_____________________________________________

برصغیر کے مسلمانوں کے لیے یہ بہت کڑا وقت تھا۔  مغربی استعمار، پوری ملت اسلامیہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ غالب قوم کے افکار اور تہذیب و تمدن، مسلم ذہنوں میں جگہ پا چکے تھے۔ معاش کے تمام ذرائع پر اہل مغرب قابض ہو چکے تھے۔ مسلمانوں میں ملوکیت، رہبانیت، روایت پرستی اور دین و دنیا کی تقسیم نے رواج پا لیا تھا۔ اجتہاد نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی تخلیقی صلاحیتیں سلب ہو گئی تھیں۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے علامہ محمد اقبال  (۱۸۷۷ء – ۱۹۳۸ء ) کی صورت میں مسلمانوں کو ایک عظیم راہ نما سے نوازا۔ عالمی سیاست اور امت مسلمہ کے معاملات پر علامہ کی بہت گہری نظر تھی۔ انھوں نے ا مت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لے کر نیشنل ازم، مغربی تہذیب و افکار، تصوف اور دیگر نظریات کا کھوکھلا پن واضح کرتے ہوئے، اسلام کا متحرک اور عملی تصور پیش کیا۔ مذہب کی بنیاد، سائنس یا عقل کی بجائے نبی کے تجربے اور مشاہدے پر رکھی۔ اسلام کے روحانی اور مادی پہلوؤں کو یکساں اہمیت دی اور اجتہاد کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے فقہ کی تدوین نو پر زور دیا۔ چودھری نیاز علی نے جب اپنی زمین ایسے ہی کسی ادارے کے لیے وقف کرنے کی خواہش ظاہر کی اور علامہ اقبال سے اس ضمن میں مشورہ لیا تو انھوں نے سید مودودی کا نام تجویز کیا۔ یوں فقہ کی تدوین نو کے لیے یہ ادارہ  وجود میں آ گیا۔ بقول ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: ’’پٹھان کوٹ کا دارالاسلام اسی سلسلے کی کڑی ہے ‘‘۔ [۱]

بیسویں صدی کے تقریباً ابتدائی تیس سالوں میں بر عظیم کے مسلمانوں کو بہت سے علمی و فکری محاذوں پر سخت کش مکش کا سامنا تھا۔ مغرب کی علمی مرعوبیت، اور عقل پسندی کے گہرے رجحانات فتنۂ انکار سنت کی صورت میں سامنے آئے۔ عقل کو فوقیت دے کر حدیث اور سنت کو مشکوک قرار دے کر مسلمانوں کو ان کے نہایت اہم دینی و تہذیبی ورثے سے دور کر دینے کی کوشش کی گئی۔ بقول سید مودودی: ’’ فتنہ انکار حدیث کے اثرات پہلے سرسید احمد خان اور مولوی چراغ علی کے ہاں نظر آئے۔ پھر عبداللہ چکڑالوی اس کے علمبردار بنے۔ اس کے بعد مولوی احمد الدین نے اس کا بیڑا اٹھایا۔ پھر اسلم جیراج پوری اسے لے کر آگے بڑھے اور آخرکار اس کی ریاست چودھری غلام احمد پرویز کے حصے میں آئی جنھوں نے اس کو ضلالت کی حد تک پہنچا دیا‘‘۔ [۲]

اس وقت بر عظیم کے مسلمانوں کی اکثریت کے ذہن میں اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کا واضح تصور موجود نہ تھا۔ اسی لیے کسی کے ذہن پر اشتراکیت ہتھوڑے برسا رہی تھی تو کوئی الحاد پرستی میں مبتلا تھا، کوئی آمریت میں اسلام اور اسلام میں آمریت دیکھ رہا تھا تو کہیں اسلام پر معذرتیں پیش کی جا رہی تھیں۔ تہذیبی پسماندگی کی کیفیت یہ تھی کہ بے پردگی، ضبط ولادت، اور مغربی تہذیب کو نئے اخلاقی تناظر، اور جدت خیال کے پس منظر میں پرکھا جا رہا تھا۔ عقلیت، لادینیت، اشتراکیت، آمریت، قومیت، فسطائیت، دہریت، سیکولرازم، سوشلزم جیسے افکار، عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے، عالم گیر لٹریچر کی صورت میں پھیلائے جا رہے تھے۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۰۳ء، ص۴۹تا۵۲۔

۲۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، سنت کی آئینی حیثیت، ص۱۶۔

۳۔ اسعدگیلانی، سید’’مولانا مودودی کا لٹریچر ایک دعوت انقلاب‘‘، ترجمان القرآن، اگست، ۲۰۰۳ء، ص۳۶۔

__________________________________________

ان حالات میں ایک ایسے مدبر، مفکر اور لیڈر کی ضرورت تھی جو اسلام کی آفاقی اور ابدی تعلیمات کو عہد حاضر کی ضروریات کے مطابق موثر اسلوب میں پیش کرے اور امت مسلمہ کو خالص کتاب و سنت کی بنیاد پر جمع کرتے ہوئے، ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں  میں انقلاب برپا کرنے کے لیے عملی کوشش بھی کرے۔ اللہ تعالیٰ نے سید مودودی (۱۹۰۳ء -۱۹۷۹ء) کو اس کام کے لیے غیر معمولی صلاحیتیں دے کر بھیجا۔ انھوں نے اپنے گھر کے علمی ومذہبی اور ادبی ماحول میں شعور کی آنکھ کھولی اور تعلیم کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھا، تو پورے غوروفکر، حکمت و تدبر کے ساتھ حالات کا تجزیہ کر کے اپنے راستے اور منزل کا تعین کر لیا۔ اپنی ساری زندگی احیائے اسلام اور غلبۂ دین کے لیے وقف کر دی۔ اپنی عقلی و فکری، علمی و ادبی اور تنظیمی صلاحیتیں امت مسلمہ کو قرآن کا پیغام سمجھانے کے لیے صرف کیں اور مسلم معاشرے کے بگاڑ کو دور کرنے کے لے پورے اعتماد کے ساتھ میدان عمل میں قدم رکھا، اگرچہ اس کی پاداش میں آپ کو دارورسن کی آزمائش سے بھی گزرنا پڑا لیکن آپ کے پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔

 

سوانح حیات

 

حسب و نسب:

سید ابو الاعلیٰ مودودی  (۱۹۰۳ء۔ ۱۹۷۹ء )کا تعلق سادات کے خاندان سے ہے جس کا سلسلۂ نسب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حضرت علیؓ بن ابوطالب تک پہنچتا ہے۔ [۱] آپ کے خاندان میں تیرہ سوبرس سے ہدایت و ارشاد اور فقر و درویشی کا سلسلہ جاری تھا۔ اس خاندان کی ایک شاخ تیسری صدی ہجری میں ہرات کے قریب ’’چشت‘‘ کے مقام پر آباد ہوئی۔ شیخ ابو اسحاق شامی (م ۹۴۰ء۔ ۳۲۹ھ) اپنے پیر و مرشد حضرت علو ممشاد دنیوری (م۲۹۹ھ)، کے حکم سے شامی کے بجائے چشتی کہلائے۔ ابو اسحاق شامی چشتی نے خواجہ ابو احمد ابدال (م  ۹۶۵ء ) کی تربیت کی اور انھیں خرقۂ خلافت عطا کیا۔ [۲] خواجہ ابو احمد ابدال حضرت حسن بن علیؓ کی اولاد میں سے تھے۔ چشتیہ سلسلے کی بنیاد، تو شیخ ابو اسحق شامی نے رکھی لیکن اسے خواجہ ابو احمد ابدال کی بدولت فروغ حاصل ہو ا اور اس سلسلے نے اپنی عالمگیر شناخت اور پہچان بنا لی۔ خواجہ ابو احمد ابدال کے براہِ راست جا نشین، ان کے فرزند خواجہ ابو محمد چشتی(۳۳۱ھ۔ ۴۱۱ھ) تھے۔ خواجہ ابو محمد کے جانشین، ناصر الدین ابو یوسف چشتی (۳۷۵ھ۔ ۴۵۹ھ)تھے، جوابو احمد ابدال چشتی کے نواسے اور سادات کی ایک دوسری شاخ، جو حضرت حسینؓ بن علیؓ سے منسوب ہے، سے تعلق رکھتے تھے۔ [۳]

ناصر الدین ابو یوسف کے فرزند اکبر حضرت خواجہ قطب الدین سلطان، مودود چشتی (۴۳۰ھ۔ ۵۲۷ھ) تھے۔ آپ تمام سلسلہ چشتیہ ہند کے شیخ الشیوخ اور خاندان مودودیہ کے وارث ہیں۔ آپ کی اولاد ذیشان، جدِ اعلیٰ خواجہ قطب الدین، سلطان مودود، کے نام پر ہی سادات مودودی کہلاتی ہے۔ خواجہ قطب الدین مودود چشتی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے پردادا پیر تھے۔ [۴]خواجہ مودود  چشتی نے اپنی تعلیمات، کردار، اور افکار سے ہزاروں لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔

__________________________________________

۱۔ اسعد گیلانی، سید، مولانا مودودی، لاہور:مکتبہ تعمیر انسانیت، ط۳، ۱۹۷۴ء، ص۶۲۔

۲۔ محمدزکریا کاندھلوی، تاریخ مشائخ چشت، کراچی:مکتبہ الشیخ بہادرآباد، ۱۳۹۲ھ، ص۱۵۲۔

۳۔ سلیم منصورخالد، تذکرہ سید مودودی، لاہور: ادارہ معارف اسلامی، ج۱، اپریل ۲۰۰۰ء، ص۵۔

۴۔ ایضاً، ص۵۔

__________________________________________

سید صاحب کے اسلاف چشت سے ہجرت کر کے بلوچستان میں کئی پشتوں تک مقیم رہے۔ [۱]خاندان مودودیہ کی جس شاخ سے سید مودودی کا تعلق ہے وہ نویں صدی ہجری میں بلوچستان سے ہجرت کر کے ہندوستان آ کر آباد ہوئی۔ اس شاخ کے پہلے بزرگ کا نام شاہ ابو الاعلیٰ جعفر مودودی (۷۸۲ھ۔ ۹۱۶ھ) تھا۔ انھی بزرگ کے نام پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کا نام رکھا گیا۔ [۲] یہ خاندان سکندر لودھی (۸۹۵ھ۔ ۹۲۳ھ)کے زمانے میں سر ہند میں مقیم ہوا۔ سکندر اس زمانے میں را جا نرور سے معرکہ آرا تھا۔ شاہ ابو الاعلیٰ مودودی بھی شریک جنگ ہو گئے۔ ان کی جنگی مہارت اور تیر اندازی کے نتیجے میں راجہ مارا گیا اور سکندر لودھی کو فتح حاصل ہوئی۔ سکندر نے صلے میں آپ کو ضلع کرنال سے میرٹھ تک کی جاگیر تحفہ میں دے دی۔ [۳]  کچھ عرصہ یہ خاندان کرنال کے قصبہ براس میں مقیم رہا، پھر شاہ عالم کے زمانے میں دہلی آ گیا۔ [۴]

سید مودودی کے والد احمد حسن (۱۸۵۵ء۔ ۱۹۲۰ء ) دہلی میں ۱۸۵۵ء میں پیدا ہوئے۔ سید احمد حسن نے ابتدائی تعلیم تو خاندانی روایت کے مطابق گھر پر حاصل کی۔ بعد ازاں سر سید احمد خاں (۱۸۱۷ء۔ ۱۸۹۸ء ) نے ۱۸۷۵ء میں علی گڑھ کالج قائم کیا تو ان کی خواہش تھی کہ مسلم گھرانوں کے زیادہ سے زیادہ بچے علی گڑھ آ کر جدید تعلیم حاصل کریں۔ مگر اس وقت عام مسلمانوں میں انگریزی تعلیم اور تہذیب و تمدن سے شدید بے زاری تھی۔ سید حسن کا خاندان اس معاملے میں اس لیے کچھ زیادہ بڑھا ہوا تھا کہ ’’یہاں مذہب کے ساتھ ساتھ پیشوائی بھی تھی‘‘۔ [۵]  چنانچہ سید مودودی کی دادی سے قرابت داری کے سبب سرسید نے احمد حسن کا بھی انتخاب کیا۔ احمد حسن کے والد ان کو علی گڑھ بھیجنے کے حق میں نہیں تھے، لیکن سر سید احمد خان اس رشتہ داری کے بل پر انھیں علی گڑھ لے گئے۔ [۶]

سید حسن، اپنی ناپسندیدگی اور انگریز سے نفرت کے باوجود مروتاً  احمدحسن کا علی گڑھ جانا برداشت کر چکے تھے۔ ایک دن ان کے کوئی عزیز علی گڑھ گئے اور احمد حسن کو انگریزی لباس میں کرکٹ کھیلتا دیکھ لیا۔ انھیں اس بات سے بہت رنج ہوا کہ پیر طریقت کا لڑکا انگریزی لباس پہنے کرکٹ کھیل رہا ہے۔ چنانچہ دہلی واپس آ کر انھوں نے سید حسن سے کہا :

’’بھائی صاحب احمد حسن سے تو ہاتھ دھو لیجیے۔ میں نے اس کو علی گڑھ میں دیکھا کہ کافر کی کرتی پہنے گیند بلا کھیل رہا تھا۔ ‘‘ [۷]

اس خبر سے سید حسن کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور ا انھوں نے سید احمد حسن کو فوراً واپس بلا لیا۔ بعد ازاں انھوں نے الٰہ آباد میں وکالت کی تعلیم حاصل کی اور ریاست دیو گڑھ کے ولی عہد کے اتالیق مقرر ہوئے۔ [۸]

__________________________________________

۱۔ سلیم منصور خالد، تذکرہ سید مودودی، ص۱۲۔

۲۔ ایضاً، ص۱۴۔

۳۔ ایضاً، ص۱۴۔

۴۔ اسعدگیلانی، مولانا مودودی، لاہور:مکتبہ تعمیر انسانیت،  ۱۹۷۴ء، ص۶۰۔

۵۔ ایضاً، ص۶۲۔

۶۔ ایضاً، ص ۶۲۔

۷۔ محمد یوسف، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں، لاہور:مکتبہ الحبیب اچھرہ، ۱۹۵۵ ء، ص ۳۱۔

۸۔ ایضاً، ص۳۵۔

__________________________________________

 

پیدائش:

سید ابو الاعلیٰ مودودی، ۳ رجب ۱۳۲۱ھ، بمطابق ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ء، بروز جمعہ ساڑھے گیارہ بجے محلہ چیلی پورہ، اورنگ آباد، دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام ’’ابو الاعلیٰ ‘‘آپ کی پیدایش سے تین سال قبل ایک بزرگ نے تجویز کیا۔ اس نام کے ایک بزرگ شاہ ابو الاعلیٰ جعفر سکندر لودھی کے ساتھ جہاد میں شریک ہو کر ہندوستان  میں مودودی خاندان کا نام متعارف کرا چکے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام رقیہ بیگم تھا، جو کہ قربان علی بیگ سالک کی صاحبزادی تھیں۔ مرزا قربان علی بیگ سالک کا تعلق ترک خاندان سے تھا۔ [۱]

 

تعلیم و تربیت:

سید ابوالاعلیٰ مودودی کے والد سید احمد حسن چونکہ ایک مذہبی آدمی تھے اس لیے وہ اپنے بیٹے کو عالم دین بنانا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ کی تمام تعلیم و تربیت میں اس چیز کو پیش نظر رکھا گیا۔ آپ کے والد گرامی تربیت کے معاملے میں بڑے حساس تھے اس لیے کافی عرصے تک آپ کوکسی مدرسے میں داخل نہ کرایا، بلکہ گھر پر تعلیم دلوائی۔ آپ کو اردو، فارسی عربی زبان، اور فقہ و حدیث کی تدریس کا موقع فراہم کیا گیا، لیکن انگریزی زبان و علوم اور خیالات کی ہوا تک نہ لگنے دی گئی۔ آپ  کے والد نے پورے گیارہ برس، ان کو ہمہ وقت اپنی نگرانی میں رکھا، یہاں تک کہ گھر سے باہر جاتے تو انھیں ساتھ لے جاتے۔ سید مودودی کے والد کا آنا جانا چونکہ سنجیدہ لوگوں میں تھا اور ایسے لوگوں کی مجالس کا ماحول سنجیدہ، ٹھنڈا اور پر سکون ہوتا ہے اس لیے یہی اثرات سید مودودی کی شخصیت کا حصہ بن گئے۔ سنجیدہ اور شائستہ لوگوں میں بیٹھنے کے سبب سید مودودی کی بچپن کی شوخی، دنگے فساد کی بجائے ظرافت میں ڈھل گئی لیکن شگفتگی انھیں اپنی والدہ یعنی اماں بی کے توسط سے ملی جو مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھیں اور ہر صبح کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کرتیں تھیں لیکن مزاح اور چست فقروں کی چاشنی سے اپنی گفتگو کو شیریں بنا دیا کرتی تھیں۔ [۲]

بچپن میں سید مودودی کے والد انھیں پیغمبروں کے قصے، تاریخی واقعات اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ آپ کے والد کو ظاہری انداز و اطوار کی اصلاح کا بھی بہت خیال رہتا۔ اس لیے زبان کی درستی پر بھی خصوصی  توجہ دیتے تھے۔ سید مودودی کے والد دہلی کے شرفا کی زبان بولتے تھے۔ انھوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ سید مودودی کی زبان پر کوئی غلط لفظ چڑھنے نہ پائے۔ سید مودودی خالص اردوئے معلیٰ بولتے تھے۔ الہلال ا ور البلاغ سید مودودی کے گھر آتے تھے اور ان کے والد یہ رسائل انھیں سناتے اور سنتے اور تلفظ درست کرتے تھے۔ [۳]   یہ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ زندگی بھر سید مودودی کی زبان اور قلم سے کوئی ایسا لفظ نہ نکلا، جو اخلاق اور معیار سے گرا ہوا ہو۔ اس کی وجہ سید مودودی نے یہ بتائی ہے کہ: ’’بچپنے میں مجھے بازاری لونڈوں اور لا ابالی نوجوانوں میں گھلنے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا، اس لیے گالی سے میری زبان آج تک آشنا نہ ہوئی‘‘۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ اسعد گیلانی، سید، مولانا مودودی، ص۶۴۔

۲۔ ایضاً، ص۶۸۔

۳۔ قومی ڈائجسٹ،  جنوری ۱۹۷۰ء، ص ۳۰۔

۴۔ محمد یوسف، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں،  ص ۳۶۰۔

__________________________________________

سید مودودی جب بچپن میں کوئی بری عادت سیکھتے تو ان کے والد اسے چھڑانے کی فوری کوشش کرتے۔ ایک مرتبہ ایک ملازمہ کے بچے کو تھپڑ مارا تو ان کے والد نے خود بچے کو بلا کر، بچے کے ہاتھوں سید مودودی کو تھپڑ لگوایا پھر تمام عمر سید مودودی کا ہاتھ، کبھی کسی زیردست پر نہ اٹھا‘‘۔ [۱]  والد کی تربیت کے باعث سید مودودی میں، برے بھلے کی تمیز پیدا ہوئی اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف نے ان کی سیرت کو ایسی مضبوط بنیادیں فراہم کیں کہ آنے والے وقتوں میں کوئی ڈر، دھونس دھاندلی، لالچ اور کسی طرح کا فریب نظر انھیں اپنے منتخب شدہ راستے سے ہٹا نہیں سکا۔ سیدہ حمیرا مودودی کہتی ہیں : ’’ان کی شخصیت پر ان کے والد گرامی کی تربیت کا بڑا گہرا اثر تھا‘‘۔ [۲]  اور سید مودودی کہتے ہیں : ’’گو مادی لحاظ سے میرے والد نے میرے لیے کوئی ورثہ نہ چھوڑا لیکن ان کا میرے لیے بہترین ورثہ ان کی اخلاقی تربیت ہے ‘‘۔ [۳]

تحریر و انشا کے فطری ملکہ کا اظہار صرف نو برس کی عمر میں اس وقت ہوا جب ان کے عزیز اشفاق احمد زاہدی صاحب ان کے ہاں تشریف لائے۔ انھیں مضمون نویسی اور کتب بینی کا شوق تھا، انھوں نے دونوں بھائیوں ابو الخیر مودودی اور سید مودودی میں ذوقِ انشا پردازی کی نمو کے لیے خیالی معشوق کے نام خط لکھنے کو کہا۔ اگرچہ اس مضمون سے دونوں بھائی نا بلد تھے لیکن سید مودودی کے ہاتھوں لکھا ہوا خط دیکھ کر وہ عش عش کر اُٹھے۔ [۴]

۱۹۱۴ء میں سید مودودی کے استاد مولوی ندیم اللہ حسینی کے مشورے سے انھیں مدرسہ فوقانیہ اورنگ آباد کی جماعت رشیدیہ (جماعت ہشتم) میں داخل کرا دیا گیا۔ داخلے کے چند ماہ بعد ہونے والے امتحان میں آپ ریاضی سے عدم دلچسپی کے باعث ناکام ہوئے۔ لیکن بعد میں صدر مدرس مولانا داود صاحب کی شفقت و توجہ کے باعث تمام علوم میں دلچسپی لینے لگے۔ ۱۹۱۴ء میں آپ نے مولوی (میٹرک) کا امتحان پاس کر لیا۔ اسی سال آپ نے  اورنگ آباد چھوڑ کر دارالعلوم حیدر آباد کی جماعت مولوی عالم (انٹرمیڈیٹ)  میں داخلہ لے لیا۔ اس وقت معروف مفسر مولانا حمید الدین فراہی دارالعلوم کے صدر تھے۔ سید مودودی کو ان سے استفادے کا موقع بھی ملا۔ لیکن تعلیم کا یہ سلسلہ والد گرامی کی بیماری کے باعث چھ ماہ سے زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ [۵]

 

فکر معاش :

۱۹۱۶ء سے ۱۹۲۱ء کا زمانہ سید مودودی کے لیے سخت مصائب، پریشانیوں اور خانہ بدوشی کا زمانہ تھا۔ والد صاحب فالج کے حملے کے بعد ۱۹۲۰ء میں انتقال کر گئے جس سے ایک تو سلسلہ تعلیم منقطع ہو گیا دوسرا معاشی، پریشانی نے آن گھیرا۔ آپ نے بیماری کے زمانے میں اپنے والد کی بہت خدمت کی۔ پھر ان کے انتقال کے بعد اپنے بڑے بھائی ابو محمد پر جو ایگزیکٹو آفیسر تھے، بوجھ بننے کی بجائے معاشی استحکام کے لیے تگ و دو شروع کر دی۔

__________________________________________

۱۔ محمد یوسف، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں،، ص ۳۶۰۔

۲۔ سیدہ حمیرا مودودی، ’’ہمارے والدین، شجر ہائے سایہ دار‘‘، ترجمان القران، مئی۲۰۰۴،  ص ۷

۳۔ اسعد گیلانی، سید:  سید مودودی بچپن، جوانی، بڑھاپا، ص ۲۸

۴۔ محمد یوسف، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں، ص۵۰۔

۵۔ ایضاً، ص۴۱۔ ۴۲۔

__________________________________________

سید مودودی نے حصول معاش کے لیے اپنی تحریری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے، بڑے   بھائی ابو الخیر مودودی کے ساتھ اخبار نویسی شروع کی۔ یہ زمانہ اخبارات کے لیے ساز گار نہیں تھا۔ صحافت کے لیے انھیں پہلے بجنور، جبل پور پھر بھوپال اور دہلی میں وقت بسر کرنا پڑا۔ [۱]

ان مشکل حالات میں بھی، سیدصاحب نے ’’انجمن اعانت نظر بند ان اسلام‘‘ اور پھر ’’تحریک خلافت‘‘ میں عملی، تحریری اور تقریری طور پر حصہ لیا۔ جب دہلی میں قیام کے دوران آپ کو کچھ وقت ملا تو آپ دوبارہ تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور مختلف اساتذہ سے عربی، ادب، تفسیر، حدیث، فقہ، منطق اور فلسفے کی کتابیں پڑھیں۔ مولوی محمد فاضل سے انگریزی زبان کا درس لیا اور اس کے بعد دوسال تک خود انگریزی کتب، اخبارات ورسائل کا مطالعہ کر کے اس زبان میں مہارت حاصل کی۔ [۲]اسی دوران جرمن زبان سیکھنے کی کوشش بھی کی لیکن یہ سلسلہ ڈیڑھ دو ماہ سے زیادہ نہ چل سکا۔ [۳]

۱۳ جنوری ۱۹۲۶ء کو مولانا محمد شریف اللہ نے سید مودودی کو دار العلوم فتح پور دہلی سے جو سند عطا کی، اس میں انھوں نے لکھا: ’’انتہائی ذہین، سریع الفہم اور بلا کا حافظہ رکھنے والے فاضل مولوی سید ابو الاعلیٰ مودودی، نے کتابیں پڑھیں اور انھوں نے مجھ سے علوم عقلیہ، علم و ادب، علم بلاغت اور دوسرے اصولی اور فروعی علوم کے لیے عمومی اجازت کا پروانہ طلب کیا‘‘۔ [۴]

اسی طرح سید مودودی نے مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی سے حدیث، فقہ، اور ادب میں سند فراغت حاصل کی۔ [۵]مولانا عبد السلام نیازی (جو کہ ایک بزرگ نیاز احمد بریلوی سے عقیدت کے باعث نیازی کہلواتے تھے ) نے بچپن میں آپ کو عربی زبان کی تعلیم دی تھی۔ چنانچہ ’’الجمعیۃ‘‘ کی ادارت کے زمانے میں آپ نے ان سے مزید کچھ کتابیں پڑھنا چاہیں تو مولانا عبد السلام نیازی فوراً مان گئے، لیکن درس کے لیے اذان فجر کا وقت مقرر کیا۔ سید مودودی سخت سردی کے موسم میں بھی دو کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے وقت مقررہ، دروازے پر موجود ہوتے۔ اگر کسی روز نیازی صاحب کی طبیعت پڑھانے پر آمادہ نہ ہوتی تو اندر سے ہی کہہ دیتے : ’’سید بادشاہ، کل آنا، آج طبیعت حاضر نہیں ‘‘۔ [۶]

 

عملی صحافت کا آغاز:

اللہ تعالیٰ نے سید مودودی کو نثر نگاری کی خصوصی نعمت سے نوازا تھا۔ آپ خود اپنی اس صلاحیت سے آگاہ تھے اور وقتاً فوقتاً، عمدگی اور وقار کے ساتھ اس کا استعمال بھی کرتے رہے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنی اس صلاحیت کو مسلمانان ہند کی اصلاح و درستی، اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے اور حصول معاش کے لیے استعما ل کرنے کا ارادہ کر لیا۔

__________________________________________

۱۔ حامد عبدالرحمٰن الکاف:’’سید مودودی، شخصی عناصرترکیبی‘‘، ترجمان القرآن، مئی۲۰۰۴، ص۸۶۔

۲۔ اسعد گیلانی، سید، مولانا مودودی، ص۷۳۔

۳۔ محمد یوسف، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں، ص ۴۸۔

۴۔ سلیم منصورخالد، تذکرہ سید مودودی، ص۹۴۵۔

۵۔ ایضاً، ص۹۴۴۔

۶۔ ہارون الرشید:’’مرد آزاد‘‘، ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء، ص ۱۲۷۔

__________________________________________

آپ نے صحافت کے شعبے سے عملی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے متعدد   اخبارات میں کا م کیا۔ ان میں اخبار’’ مدینہ‘‘ بجنور(۱۹۱۸ء )، ’’تاج ‘‘جبل پور(۱۹۱۹ء )جمعیت علمائے ہند کے ترجمان ’’مسلم‘‘دہلی (۱۹۲۱ء ) اور ’’الجمعیۃ‘‘ (۱۹۲۴ء )شامل ہیں۔ [۱]

 

تصنیف و تالیف کا آغاز:

اسی عرصے میں سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد مسلمانوں کو ہندو بنانا تھا۔ اس تحریک کی بنیاد دشمنی، نفرت اور اسلامی شعائر و اکابر کی توہین پر تھی۔ چنانچہ۱۹۲۶ء میں عبد الرشید نامی پر جوش مسلمان نے سوامی شردھانند کو قتل کر ڈالا۔ اس انفرادی فعل کو بنیاد بنا کر ہندوؤں نے مسلمان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا اور الزام لگایا کہ اسلام خونخواری کی تعلیم دیتا ہے۔ اس شور و غل میں گاندھی جیسے بظاہر غیر متعصب رہنما نے بھی اسلام کو تشدد کا مذہب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں فیصلہ کن چیز پہلے بھی تلوار تھی اور اب بھی تلوار ہے۔ اور جہاد کے اسلامی تصور کی غلط توجیہات کی جانے لگیں تو مولانا محمد علی جوہر (م  ۱۹۳۱ء) نے جامع مسجد دہلی میں نمازِ جمعہ کے بعد ایک تقریر میں اپیل کی کہ کاش کوئی بندہ خدا، اس وقت ان الزامات کے جواب میں اسلام کے نظریہ جہاد کو صحیح نقطہ نظر کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ چنانچہ سید صاحب نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے، اسلام اور دیگر مذاہب کی کتب سے تقابلی مطالعہ کے بعد الجہاد فی الاسلام جیسی معروف کتاب لکھی۔ [۲]علامہ اقبال نے اسے اسلام کے نظریہ جہاد پر، سب سے بہترین تصنیف قرار دیا۔ یہی کتاب سید مودودی اور اقبال کے تعارف کا وسیلہ ثابت ہوئی۔ اس کتاب نے سید مودودی کی زندگی کا رخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کتاب کی تصنیف کے دوران آپ کو اسلام کے علمی مصادر کو توجہ سے دیکھنے کا موقع ملا۔ چنانچہ آپ کو اسلام کے بنیادی نظریات اور احکام کے تفصیلی مطالعے کے ذریعے سے نظام شریعت کا صحیح فہم حاصل ہوا۔ انھوں نے محسوس کیا، کہ مسلمان محض ایک قوم نہیں بلکہ مشنری قوم ہیں لیکن ان میں تنظیم کا فقدان ہے۔ اس غرض سے سید مودودی ۱۹۲۸ء  میں صحافت کو خیر باد کہہ کراسلامی نظام کے احیاء اور دین حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہو گئے اور تصنیف و تالیف کے مشغلے کو اپنے لیے پسند کر لیا۔ [۳]

 

ترجمان القرآن کا اجرا:

۱۹۳۳ء میں سید ابو الاعلیٰ مودودی نے مولوی ابو محمد مصلح سے ترجمان القرآن خرید لیا۔ مئی ۱۹۳۳ء سے سید مودودی نے ماہنامہ ترجمان القرآن کی ادارت کا آغاز کیا جو ان کی وفات تک جاری رہا۔ اس پرچے کا مقصد مسلمانوں اور غیر مسلموں کو قرآن سمجھنے میں مدد دینا، اور مطالعہ قرآن کے دوران میں پیدا شدہ شک و شبہات کا ازالہ کرنا تھا۔ ترجمان القرآن کے آغازسے آپ نے قرآن اور اسلام کی دعوت کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا، جس پر اپنی وفات تک عمل پیرا رہے۔ [۴]ابتدا میں بہت کم لوگوں نے ترجمان القرآن کی طرف توجہ دی۔ اس کی اشاعت تعداد اس وقت چھ سو تھی اور نصف تعداد کا خریدار ریاست حیدر آباد دکن کا محکمہ امور مذہبی تھا۔

__________________________________________

۱۔ محمد یوسف، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں، ص۴۶۔

۲۔ عبید اللہ فہد فلاحی، تاریخ دعوت و جہاد، لاہور:مکتبہ تعمیر انسانیت، ط۱، ۱۹۸۷ء، ص۳۳۳۔

۳۔ اسعدگیلانی، سید، مولانا مودودی، ص۷۶۔

۴۔ سید حامد عبدالرحمٰن الکاف’’ مولانا مودودی :شخصی عناصر ترکیبی ‘‘ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء، ص۸۷۔

__________________________________________

سید صاحب نے اس کی اشاعت بڑھانے کے لیے، اپنے مقام و مرتبہ سے فروتر، کسی تدبیر کو اختیار نہ کیا۔ ریاست حیدر آباد محکمہ امور مذہبی نے ایک سال بعد، ترجمان القرآن کی خریداری روک دی۔ نواب ذوالقدر جنگ بہادر کی خواہش تھی کہ سید مودودی خود حاضر ہو کر خریداری کی درخواست کریں، لیکن آپ نے اس غرض سے نواب صاحب سے ملنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’یہ میرا کام نہیں، دین کا کام ہے ‘‘۔ [۱]

معاشی مشکلات کے حل کے لیے آپ کو ملازمت کی پیش کش ہوئی جسے آپ نے منظور نہ کیا۔ آپ اپنی ساری قوتوں اور صلاحیتوں کو دعوت دین کی وسعت کے لیے وقف کر دینا چاہتے تھے۔ مولانا منظور نعمانی اور مولانا جعفر شاہ پھلواری جیسے بزرگ بھی معاشی مسائل کی وجہ سے جماعت سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ [ ۲] سید مودودی یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ تنہا اس جنگ کو جو اعلائے کلمۃ الحق اور ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے شروع کر چکے ہیں، جاری رکھیں گے۔ وہ اپنی بصیرت کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ آئندہ دس بیس سال اس ملک میں اسلام کی قسمت کے لیے فیصلہ کن ہیں۔ اس لیے ان کے خیالات میں ایک ہلچل برپا تھی۔ [۳]

 

دارالاسلام:

گورداس پور، پٹھان کوٹ کے ایک مخلص مسلمان چودھری نیاز علی خاں نے دینی و تحقیقی مرکز قائم کرنے کے لیے کچھ زمین وقف کی اور علامہ محمد اقبال سے اس مرکز کے لیے قابل عالم دین کا تقرر کرنے کے لیے مشاورت کی۔ علامہ صاحب سید مودودی کی کتاب الجہاد فی الاسلام اور دیگر تحریریں پڑھ چکے تھے۔ انھوں نے سید صاحب کا نام تجویز کیا۔ اس کے بعدسید مودودی اور چودھری نیاز علی خاں کے درمیان مراسلت کا آغاز ہوا۔ ۱۹۳۶ء کے اواخر میں علامہ اقبال نے سید مودودی کو پنجاب منتقل ہونے کی دعوت دی تاکہ احیائے اسلام کے سلسلہ میں فقہ اسلامی کی تدوین نو اور دیگر علمی نوعیت کے کام کیے جائیں۔ چنانچہ سید صاحب نے اگست ۱۹۳۶ میں پنجاب کا سفر کیا اور اس دوران علامہ اقبال سے ملاقات بھی کی۔ اس مثالی بستی کا نام بالاتفاق دارالاسلام تجویز کیا گیا اور علامہ اقبال نے وعدہ کیا کہ وہ ہرسال کے چند مہینے اس بستی میں قیام کریں گے۔ چنانچہ سید مودودی مارچ ۱۹۳۸ء میں دارالاسلام منتقل ہوئے اور اپریل میں علامہ اقبال وفات پا گئے اور انھیں وہاں آنا نصیب نہ ہوا۔ [۴]دارالاسلام میں مولانا مودودی۱۹۳۹ء تک مقیم رہے۔ اس دوران میں انھوں نے ’’اسلام اور موجودہ سیاسی کش مکش ‘‘ کے عنوان سے مضامین لکھے اور مسلم لیگ، مجلس احرار، خاکسار تحریک، جمعیت علمائے ہند اور دیگر جماعتوں پر تنقید کی۔ چوہدری نیاز علی چونکہ پکے مسلم لیگی تھے لہٰذا انھوں نے مسلم لیگ کے خلاف لکھنے پر اعتراض کیا۔ اس پر مودودی صاحب وہاں سے لاہور منتقل ہو گئے۔ اس کے بعد جون ۱۹۴۲ء میں دوبارہ چوہدری نیاز علی کے اصرار پراپنے رفقاء سمیت دارالاسلام آ گئے اور قیام پاکستان تک وہیں تصنیف و تالیف کا کام کرتے رہے۔ [۵]۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے قیام کے بعد یہ علاقہ ہندوستان کا حصہ بن گیا تو آپ پٹھان کوٹ سے لاہور منتقل ہوئے۔

__________________________________________

۱۔ ماہر القادری: ’’ چند نقوش زندگی‘‘ مشمولہ: مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں،  ص ۳۴۸۔

۲۔ سید حامد عبدالرحمٰن الکاف’’ مولانا مودودی :شخصی عناصر ترکیبی‘‘ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء، ص۸۸۔

۳۔ وثائق مودودی،  ص ۵۹.۔

۴۔ امتیاز احمد، ڈاکٹر، مولانا مودودی کی نثرنگاری، ادارہ معارف اسلامی، لاہور، ستمبر۲۰۰۷ء، ص۳۴۔             ۵۔ ایضاً، ص ۳۵۔

__________________________________________

ہندوؤں کے مجموعی رویے، متحدہ قومیت کے جڑ پکڑتے تصور اور ہندوستان کے سیاسی حالات کو دیکھ کر  سید مودودی کے سامنے ہندوستان کے مسلمانوں کے مستقبل کا نقشہ بالکل واضح ہو گیا اور انھیں انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان کے حالات کا اندازہ ہو گیا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنا طویل سلسلہ مقالات، ’’مسئلہ قومیت‘‘ ترجمان القرآن میں لکھنا شروع کیا۔ قوم کو جذباتیت اور فوری ردِ عمل کی بجائے، اپنی قوت کے سر چشموں کی بنیاد پر موثر تیاری اور حکمت عملی کی دعوت دی۔ یہ مضامین جہاں برعظیم کی سیاسی صورت کے عکاس ہیں وہاں سید مودودی کی گہری علمی، دینی اور سیاسی بصیرت کے بھی غماز ہیں۔ [۱]

 

درس وتدریس :

اکتوبر ۱۹۳۹ء میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں سید مودودی نے بحیثیت پروفیسر اعزازی طور پر خدمات سر انجام دیں۔ آپ کا انداز تدریس بہت منفرد تھا۔ سادہ کاغذ پر چند عنوان لکھ کر لاتے تھے اور پھر ایک ایک کی تشریح کرتے۔ سبق کے آخر میں سوالات کاسیشن ہوتا۔ آپ عام اساتذہ کے برعکس آپ فقہی مسائل بیان کرنے کی بجائے، اسلام کی مبادیات، اس کے انقلابی رخ اور انسانی زندگی کے معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی پہلوؤں سے تعلق رکھنے والی تعلیمات کو خصوصی طور پر بیان کرتے تھے۔ آپ نے طلبا پر واضح کیا کہ دین اسلام، بے روح مذہبیت نہیں ہے بلکہ مکمل نظام حیات ہے۔ ان کی زبان، آواز، لہجہ، استدلال، اور فصاحت بیان کے سبب بات دل میں اترتی چلی جاتی تھی۔ لیکن حکومتی اہل کاروں کی مخالفت کے سبب تدریس کا یہ سلسلہ ختم کرنا پڑا۔ [۲]

 

جماعت اسلامی کا قیام:

۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۱ء تک آپ ترجمان القرآن کی تحریروں کے ذریعے سنجیدہ فکر طبقے کو متاثر کر چکے تھے۔ آپ نے چار نکات پر مبنی دعوت و اصلاح کا پروگرام پیش کیا۔ یہ چار نکات تطہیر و تعمیر افکار، اصلاح ذات، اصلاح معاشرہ اور اصلاح نظام حکومت تھے۔ چنانچہ نو سال تک ابتدائی تطہیر و تعمیر افکار کے بعد آپ نے اپریل ۱۹۴۱ء کے ترجمان القرآن کے اشارات میں ایک صالح جماعت کی ضرورت کے عنوان سے اظہارِ خیال کیا۔ اس وقت دوسری جنگ عظیم ختم ہو چکی تھی جس کے دامن سے انسان کو موت، بربادی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ انسان کے بنائے ہوئے نظام اور تراشیدہ فلسفے و نظریات، انسان کو نا انصافی، ظلم، جبر اور غیر فطری طرز ہائے زندگی کے سوا کچھ نہ دے سکے تھے۔ اس لیے ضرورت تھی ایسے لوگوں کی، جو تنظیم کی شکل میں ڈھل کر، اپنے عمل و کردار سے، دنیا کو دین اسلام کے آفاقی پیغام سے آشنا کریں۔ سید مودودی کی اس آواز پر جن لوگوں نے لبیک کہا ان کی تعداد ۷۵ تھی۔ ۲۶ ؍اگست ۱۹۴۱ء کو اسلامیہ پارک پونچھ روڈ لاہور، جہاں سید مودودی ان دنوں مقیم تھے ’’جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک جماعت قائم کر دی گئی۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ اسعد گیلانی، سید، مولانا مودودی، ص۷۹۔

۲۔ امتیاز احمد، مولانا مودودی کی نثرنگاری، ص۳۵۔

۳۔ عبید اللہ فہد فلاحی، تحریک دعوت و جہاد، مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ص۳۵۰۔

__________________________________________

سید مودودی نے ایک تحریک کے قیام کو اس لیے بھی ضروری سمجھا کہ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز میں، مغربی ممالک میں جو سیاسی، معاشی اور معاشرتی انقلاب برپا ہوئے وہ لوگوں کی اجتماعی جدوجہد کا نتیجہ تھے۔ اس لیے آپ نے محسوس کیا کہ ایسی تحریک کا قیام لازمی ہے جو احیائے دین کے لیے علمی فکری اور عملی جدوجہد میں ہمیشہ مصروف رہے۔ جماعت اسلامی کا قیام اسی خیال کے پیش نظر عمل میں لایا گیا اور سید مودودی ’’جماعت اسلامی‘‘ کے پہلے امیر مقرر ہوئے۔ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۷۲ء تک سید مودودی ہی کو جماعت کا امیر منتخب کیا جاتا رہا۔  [۱]

 

پاکستان منتقلی :

اگست ۱۹۴۷ء میں سید صاحب لاہور منتقل ہوئے اور مسلمان مہاجرین کی امداد شروع کر دی۔ دسمبر ۱۹۴۷ء میں جماعت اسلامی کے پہلے اجتماع میں آپ نے مطالبہ اسلامی نظام کے موضوع پر تقریر کی۔ پھر جماعت اسلامی نے ملک گیر پیمانے پر اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ کیا جسے جلد ہی قبول عام حاصل ہو گیا۔ سید صاحب نے لا کالج لاہور میں پہلے ۶؍ جنوری اور پھر ۱۹ فروری ۱۹۴۸ء کو قانون، اسلامی قانون، شریعت اور پاکستان میں اسلامی قوانین کے بتدریج نفاذ پر عالمانہ تقاریر کیں۔ [۲] ان تقاریر سے جہاں قانون دانوں اور اہلِ علم کو اسلامی قانون اور شریعت کے دائرۂ عمل کا ادراک ہوا وہاں جماعت اسلامی نے اسلامی ریاست کے تصور کو عام کرنے کی مہم، کا بھی آغاز کر دیا۔ سید مودودی نے جب منظم انداز میں نظام اسلام کا مطالبہ کیا تو مسلم لیگی حکومت میں موجود لا دینی عناصر، گھبرا گئے اور رد عمل کے طور پر حکومت نے سید صاحب کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا اور بالاخردستور اسلامی کے مطالبے کو ایک فتنہ قرار دیتے ہوئے ۴ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو مودودی صاحب اور ان کے رفقا کو گرفتار کر لیا۔ ابتدا میں انھیں چھ ماہ کے لیے نظربند کیا گیا لیکن بعد میں اس مدت میں اضافہ کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ۱۹۵۰ تک جاری رہا۔ [۳]بد قسمتی سے مولانا مودودی کے خدشات کے عین مطابق قیام پاکستان کے بعداسلامی نظام کی طرف کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ حکمران طبقے کے ذہن میں مذہب اور ریاست کے الگ ہونے کا تصور بھی موجود رہا۔  جماعت اسلامی، خاکسارتحریک اور مجلس احرار جیسی دینی و سیاسی جماعتوں پر پاکستان کی مخالفت کا الزام لگایا گیا۔ وزیر خزانہ ملک غلام محمد نے واضح طور پر کہہ دیا کہ پاکستان ایک لا دینی جمہوری ریاست ہے نہ کہ کوئی مذہبی ریاست۔ چنانچہ قائد اعظم کی وفات کے ۲۳ روز بعد ۴؍ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو سید مودودی، میاں طفیل محمد اور مولانا امین احسن اصلاحی کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا یہ سب حضرات ۲۸ مئی ۱۹۵۰ء تک جیل میں رہے۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ امتیاز احمد، مولانا مودودی کی نثرنگاری، ص۳۶۔

۲۔ ایضاً، ص۳۷۔

۳۔ ایضاً، ص۳۷۔

۴۔ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء، مقالہ میاں طفیل محمد’’ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ، ص۴۵۔

__________________________________________

 

منازل دار و رسن :

جماعت اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی سید مودودی کو دارورسن کی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ ان کا  جرم یہ تھا کہ وہ ملک کو دارالاسلام   کی طرز پر ایک مثالی بستی بنا دینا چاہتے تھے۔ انھوں نے جس راستے کا شعوری انتخاب کیا تھا اس کا نتیجہ ان کے اپنے الفاظ میں یہی تھا: ’’دارورسن کی منزل تو آنی تھی’’ لیکن انھیں حیرت اس بات پر تھی اتنی دیر سے کیوں آئی۔ نہ انھیں یہ امید تھی کہ یہ کش مکش جلد ختم ہو جائے گی‘‘۔ [۱]آپ نے جب دعوت دین کے راستے کا انتخاب کیا تھا تو یہ تمام مراحل آپ کے ذہن میں تھے۔ چنانچہ آپ کبھی مشکلات و مصائب سے پریشان نہیں ہوئے۔ انھوں نے چونکہ یہ راستہ خود منتخب کیا تھا اس لیے بے ہمتی، مصلحت پسندی، اور خوف جیسی چیزیں ان کو متاثر نہ کرسکیں۔ آپ کو پہلی مرتبہ ۴؍ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ دوسری مرتبہ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو مارشل لاء کے تحت گرفتار کر کے سزائے موت سنائی گئی۔ تیسری بار۴ جنوری ۱۹۶۴ء کو جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے کر آپ کو گرفتار کیا گیا۔ چوتھی مرتبہ ۱۹۶۷ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں روئیت ہلال کے مسئلے پر گرفتار اور نظر بند کیا گیا۔ [۲]

آپ نے کبھی جیل کے سخت ماحول کی شکایت نہیں کی، بلکہ اس ماحول میں بھی تفہیم القرآن پر کام کرتے رہے۔  ۱۲؍ مارچ ۱۹۴۹ء کو جب قرار داد مقاصد منظور ہوئی جس کے تحت ریاست پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کا درجہ حاصل ہوا، تو اس وقت بھی آپ جیل میں تھے۔ عوام کے مسلسلدباؤ اور مطالبات سے تنگ آ کر حکومت نے ستمبر۱۹۵۰ میں دستوری سفارشات پیش کیں جن میں اسلام کے بجائے افسرشاہی کے ضابطے نمایاں تھے۔ مودودی صاحب نے ان کومستردکر دیا۔ آخرکار حکومت نے ان سفارشات کو واپس لے لیا۔ اس کے بعد یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ مختلف فرقوں کے علما اسلامی دستور کے کسی خاکے پر مجتمع نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ۲۱؍ جنوری ۱۹۵۱ء کو کراچی میں تمام مکاتب فکر کے ۳۱ علما نے مل کر، چار روزہ کانفرنس کے بعد، اسلامی دستور کے لیے متفقہ نکات مرتب کر کے، لا دینی عناصر کی خواہشات پر پانی پھیر دیا۔ ان اصولوں کی تدوین میں سید مودودی کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔ [۳]

 

سزائے موت:

ان ہی دنوں پنجاب میں علما ’’تحریک ختم نبوت‘‘ کے ذریعے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی مہم شروع کر چکے تھے۔ سید مودودی نے ’’ قادیانی مسئلہ‘‘  کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھ کر قادیانیت کی اصل حقیقت پر روشنی ڈالی۔  ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو مارشل لاء  نافذ کر دیا گیا اور ۲۸؍ مارچ ۱۹۵۳ء کو سید صاحب کو یہ کتابچہ لکھنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ آپ پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق ۱۱ مئی ۱۹۵۳ء کو جیل میں آپ کو سزائے موت سنا دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو کمانڈر انچیف سے رحم کی اپیل کرنے کا حق بھی دیا گیا۔ آپ نے اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی‘‘۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ نعیم صدیقی، المودودی، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، 1994ء  ص ۲۰۶۔

۲۔ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴، مقالہ میاں طفیل محمد ’’مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ، ص۴۶۔

۳۔ اسعدگیلانی، سید، مولانا مودودی، ص۴۴۵۔

۴۔ آئین، دسمبر۱۹۷۲ء مقالہ میاں طفیل محمد، ص ۱۸۷۔

__________________________________________

سید مودودی نے اپنے احباب، تحریکی ساتھیوں اور اہل خانہ کو رحم کی اپیل کرنے سے منع کر دیا۔ آپ نے اپنے پندرہ سالہ بیٹے فاروق کو تسلی دیتے ہوئے کہا:بیٹے اگر خدا کو یہی منظور ہے تو پھر شہادت کی موت سے اچھی موت اور کون سی ہے، اور اگر اللہ ہی کو منظور نہیں تو پھر خواہ  یہ خود الٹے لٹک جائیں مگر مجھے نہیں لٹکا سکتے ‘‘۔ [۱]

آپ کی سزائے موت کے خلاف پاکستان اور عرب دنیا میں زبردست احتجاج ہوا۔ چنانچہ حکومت نے آپ کی سزاکو عمر قید میں بدل دیا۔ پچیس ماہ کے بعد آپ کو (۲۹اپریل ۱۹۵۵ء) ہائی کورٹ کے حکم سے رہا کر دیا گیا۔ قید کا یہ عرصہ لاہور، میانوالی اور ملتان کی جیلوں میں گزرا۔ اس دوران میں آپ تفہیم القرآن کی تکمیل میں مصروف رہے۔

 

تفہیم القرآن :

سید مودودی کا عظیم الشان کارنامہ’’ تفہیم القرآن ‘‘کی صورت میں قرآن مجید کی تشریح و توضیح ہے۔ آپ نے اس کا آغاز درس قرآن کی صورت میں ۱۹۳۸ء میں کر دیا تھا۔ جبکہ فروری ۱۹۴۲ء میں باقاعدہ تفسیر لکھنے کا آغاز کیا۔ [۲]تیس سال کی شبانہ روز مشقت کے بعد ۱۹۷۲ء  میں یہ تفسیر مکمل ہوئی۔

 

ارض القرآن کا سفر :

آپ نے پہلی بار۱۹۵۶ میں حج کے لیے ارض مقدس کا سفر کیا۔ اس وقت بھی آپ کے دل میں ان تمام مقامات کا مشاہدہ کرنے کی خواہش تھی جن کا تعلق قرآن کے نزول اور دعوت اسلام سے تھا۔ لیکن خرابی صحت کی بنا پر آپ اپنی اس خواہش کو پورا نہ کرسکے۔ چنانچہ اس خواہش کی تکمیل ۳؍ نومبر ۱۹۵۹ء کو ہوئی جب آپ تفہیم کی تیسری جلد تیار کر رہے تھے۔ آپ نے تفہیم القرآن کے سلسلے میں مقاماتِ ارض القرآن کا سفر شروع کیا اور ان تمام مقامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ان کے نقشے اور تصاویر بنائیں۔ یہ کام تین ماہ میں مکمل ہوا۔ [۳]

 

سیاسی جدوجہد:

سید مودودی نے بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے ۹ میل طویل محضر نامہ عوام کے دستخطوں سے تیار کیا جسے عوامی مطالبے پر ڈھاکا میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جانا تھا، لیکن حکمرانوں نے جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے کر ۶ جنوری ۱۹۶۴ء کو سید مودودی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔ یہ غیر قانونی گرفتاری ۲۸۳ دنوں کے بعد ہائی کورٹ کے فیصلے کی رو سے ختم ہوئی۔ ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ شروع ہوتے ہی سید مودودی نے حکمرانوں کے ’’طرزِ عمل‘‘ کو فراموش کر کے ایک طرف تو اسلامی دنیا کے زعمائے اسلام کو پاکستان کی حمایت پر اکسایا تو دوسری طرف عوام الناس میں جذبۂ جہاد اجاگر کرنے کے لیے، ۱۴، ۱۶ اور ۱۸ ستمبر کو جہاد کے موضوع پر ریڈیو پاکستان کے ذریعے عوام سے خطاب کیا، اور مہاجرین جنگ کی آباد کاری کے لیے زبردست کام کیا۔ سید مودودی سمجھتے تھے کہ

__________________________________________

۱۔ ۔ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴، مقالہ میاں طفیل محمد ’’مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ‘‘، ص۹۴۔

۲۔ امتیاز احمد، ڈاکٹر، مولانا مودودی کی نثرنگاری، ص۴۱۔

۳۔ ایضاً، ص۴۱۔

__________________________________________

پاکستان مسلمانوں کا وطن اور اسلام کا گھر ہے اور ایک مسجد کی طرح حفاظت کا حق دار ہے۔ [۱]۲۹ جنوری ۱۹۶۷ء کو رویت ہلال کے حکومتی فیصلے سے اختلاف کے جرم میں ڈیفنس رولز آف پاکستان کی دفعہ ۳۲ کے تحت سید مودودی کو دو ماہ کے لیے گرفتار کر لیا اور بنوں جیل میں رکھا گیا۔ [۲]

 

 بیماری:

آپ۱۹۴۲ء سے گردے اور مثانے کے امراض میں مبتلا تھے۔ آپ کے گردوں اور مثانے میں پتھری پیدا ہو جاتی تھی۔ ۱۹۴۶ء میں امرتسر کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر ریاض قدیر اور ڈاکٹر غلام محمد بلوچ نے آپ کے گردے کا آپریشن کر کے چھ پتھریاں نکالی تھیں۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہ دوبارہ بننی شروع ہو گئیں۔ مولانا اسی حال میں اپنی ساری مصروفیات جاری رکھے رہے۔ جب یہ تکلیف زیادہ ہوئی تو ڈاکٹروں کے مشورے سے آپ علاج کی غرض سے ۲۱؍ اگست ۱۹۶۸ء کو لندن تشریف لے گئے۔ وہاں ڈاکٹروں نے یکے بعد دیگرے دو آپریشن کر کے پتھریاں نکالیں۔ ۲۲ اکتوبر کے آپریشن میں ان کا بایاں گردہ نکال دیا گیا۔ [۳] دسمبر ۱۹۶۸ء کو سید مودودی علاج کے بعد جب وطن واپس آئے تو یہاں سوشلزم کے نعرے لگنا شروع ہو گئے تھے۔ سید مودودی نے لاہور آمد پر برملا اعلان کیا کہ یہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ملک ہے یہاں کسی میں ہمت نہیں کہ اسلام کے سوا اور کوئی نظام لا سکے۔ ۱۹۷۱ء میں آپ کو جوڑوں کے درد کی شکایت ہوئی۔ اگلے سال ۱۸، ۱۹ فروری ۱۹۷۲ء کی درمیانی رات کو دل کا دورہ پڑا تو آپ نے بیماری کے سبب جماعت کی امارت سے معذرت کر لی۔ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو میاں طفیل محمد کو کثرت رائے سے جماعت اسلامی کا امیر منتخب کر لیا گیا تاہم بحیثیت رکن سید مودودی اپنی وفات تک فرائض سر انجام دیتے رہے۔  ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو سید مودودی نے جامع مسجد منصورہ کا سنگ بنیاد رکھا اور ۳۰ جون ۱۹۷۵ء کو جماعت اسلامی کا مرکز اچھرہ سے منصورہ منتقل ہو گیا۔ ۶؍ اپریل ۱۹۷۶ء کو سید مودودی اپنے بیٹے احمد فاروق کے شدید اصرار پر علاج کے لیے امریکا روانہ ہوئے، ۲۲ اگست ۱۹۷۶ء کو واپسی ہوئی۔ سید مودودی نے خرابی صحت کے باوجود اپنی علمی، تنظیمی، تحریکی اور دعوتی سرگرمیاں جاری رکھیں مختلف تقاریب میں شریک ہوتے رہے۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ سید اسعد گیلانی: سید مودودی: بچپن، جوانی، بڑھاپا،  ص ۱۵۱۔

۲۔ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴، مقالہ :میاں طفیل محمد ’’مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ‘‘، ص۴۶۔

۳۔ ایضاً، ص۴۶۔

۴۔ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴مقالہ:حمیرا مودودی، ’’ہمارے والدین، شجر ہائے سایہ دار‘‘، ص۶۳۔

__________________________________________

 

وفات:

۱۹۷۸ء کے اوائل میں آپ کی طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی تو آپ کے صاحبزادے ڈاکٹر احمد فاروق جو بفیلو، امریکا میں قیام پذیر تھے، پاکستان آئے اور۲۶ مئی ۱۹۷۹ء کو، آپ کو علاج کی غرض سے  اپنے ساتھ امریکا لے گئے۔ ۴ ستمبر کو آپ کا معدے کے السرکا آپریشن ہوا۔ ۶ اور۱۳ ستمبر کو یکے بعد دیگرے دل کے دورے پڑے۔   ۲۰ ستمبر کو جگر اور گردے کا فعل متاثر ہوا۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو ایک بار پھر دل کا دورہ پڑا۔ اسی روزپاکستانی وقت کے مطابق  پونے چھے بجے شام آپ داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ۲۲ تا ۲۴ ستمبر ۱۹۷۹ء امریکا اور لندن کے مختلف مقامات پر آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی گئی۔ [۱] ۲۵ ستمبرکو جسد خاکی کراچی پہنچا اور وہاں ائیر پورٹ پر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ۳ بجے میت لاہور پہنچی اور ۲۶ ستمبرکو قذافی سٹیڈیم لاہور میں آخری نماز جنازہ ادا کی گئی جس کی امامت معروف عالم دین ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے کرائی۔ ۲ بج کر بیس منٹ پر آپ کو اپنی رہائش گاہ ۵۔ اے ذیلدار پارک کے سبزہ زار میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ [۲]

__________________________________________

۱۔ سلیم منصورخالد، تذکرہ سید مودودی، ص۸۸۶۔

۲۔ امتیاز احمد، ڈاکٹر، مولانا مودود ی کی نثرنگاری، ص۴۵۔

__________________________________________

 

 

 

                                          فصل دوم:تفہیم القرآن کا تعارف

 

اردوتفسیر نگاری کا پس منظر:

 

بر صغیر پاک و ہند میں اردو میں ترجمہ و تفاسیر کا آغاز سولھویں صدی عیسوی میں ہوا لیکن یہ متفرق سورتوں اور پاروں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اردو زبان میں سب سے پہلا تشریحی ترجمہ حکیم محمد شریف خان بن محمد اکمل خان(م۱۲۲۲ھ) نے لکھا۔ یہ ترجمہ شائع نہیں ہوا اور ان کے خاندان میں محفوظ ہے۔ [۱]بقول قاضی عبدالصمد صارم، ہندوستان میں پہلی اردو تفسیر، چراغ ابدی ہے جو مولوی عزیز اللہ ہمرنگ  اورنگ آبادی نے ۱۲۲۱ھ میں لکھی۔ یہ صرف تیسویں پارے کی تفسیر ہے۔ اسی طرح شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلی کی تصنیف خدائی نعمت بہ معروف تفسیر مرادی بہت مقبول ہوئی۔ یہ بھی تیسویں پارے کی تفسیر ہے اور تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ۱۱۸۵ھ میں مکمل ہوئی۔ [۲]

ہندوستان کے معروف محدث شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ رفیع الدین (م۱۲۳۲ھ۱۸۱۷ء )نے ۱۲۰۰ھ میں قرآن مجید کا ترجمہ لکھا جو کہ مختصر اور جامع لفظی ترجمہ ہے۔ شاہ رفیع الدین کے چھوٹے بھائی شاہ عبدالقادر (۱۲۳۰ھ، ۱۸۱۵ء ) نے ۱۲۰۵ھ میں موضح قرآن کے نام سے اردو زبان میں قرآن کا ترجمہ اور حواشی لکھے۔ شاہ صاحب کا یہ ترجمہ اپنے دور کے لحاظ سے بہترین ترجمہ ہے۔ اس میں عربی الفاظ کے مناسب ترین اردو اور ہندی مترادفات کو استعمال کیا گیا ہے۔ شاہ عبدالقادر کی اس تصنیف کو اردو زبان کی پہلی مکمل تفسیر قرار دیا جا سکتا ہے۔ سر سید احمد خان (۱۸۱۷ء۔ ۱۸۹۸ء)کی تفسیر’’تفسیر القرآن‘‘ بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۸۸۰ء میں شائع ہوئی۔ سرسید احمد خان کا دور مسلمانوں کے انحطاط اور انگریزی غلبے کی وجہ سے کش مکش کا دور تھا۔ جدید تہذیب کے زیر اثر عقلیت پسندی اور قدیم روایات  سے انحراف کی کئی مثالیں سامنے آ رہی تھیں۔ اس عہد کی تفاسیر میں اس فکری کش مکش کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔ [۳]یہ دور عقلیت اور سائنسی طرز فکرسے مرعوبیت کا دور تھا، جس کی جھلک اس تفسیر میں نظر آتی ہے۔ پہلی جلد کی اشاعت کے ساتھ ہی سرسید کے نظریات پر شدید تنقید ہونے لگی۔ انھوں نے اسلاف کی روش سے ہٹ کر قرآنی آیات کی تاویل اپنے نکتہ نظر سے کی۔ مولانا الطاف حسین حالی کے بقول:’’اگرچہ سرسید نے اس تفسیر میں جا بجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور بعض بعض مقامات پر ان سے نہایت رکیک لغزشیں ہوئی ہیں، بایں ہمہ اس تفسیر کو ہم ان کی مذہبی خدمات میں ایک جلیل القدر خدمت سمجھتے ہیں۔ ‘‘[۴]

سرسید کے بعداسی طرح کی جدیدیت اور سلف کی روش سے انحراف علامہ غلام احمد پرویز(۱۹۰۳ء۔ ۱۹۸۵ء)کی فکر میں بھی نظر آتا ہے۔ [۵]اسی زمانے میں مولانا عبدالحق دہلوی(م۱۹۰۰ء)نے تفسیر فتح المنان المعروف تفسیر حقانی  لکھی۔

__________________________________________

۱۔ عبدالصمد صارم، قاضی، تبیان الراسخ معروف بہ تاریخ تفسیر، کراچی:میر محمد کتب خانہ آرام باغ، ۱۳۵۵ھ، ص۶۸۔

۲۔ ایضاً، ص۶۳۔ ۳۔ جدید مغربی فکر اور سرسیدکی تفسیرالقرآن کے تفصیلی تجزیے کے لیے دیکحیے :محمد شہباز منج، ڈاکٹر، سرسیداحمدخان کی تفسیری تجدد پسندی-ایک مطالعہ، در ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ، جون تاستمبر۲۰۱۰ء۔ محمد شہباز منج، سرسید احمد خان:مغربی اثرات اور تفسیری تجدد پسندی، درجہات الاسلام، شعبہ اسلامیات، جامعہ پنجاب، لاہور، ۲۰۰۸ء، ج۲، شمارہ  ۱۔

۴۔ حالی، الطاف حسین، حیات جاوید، میرپور:ارسلان بکس، مئی ۲۰۰۰ء، ص۲۶۶۔

۵۔ پرویز صاحب کی تفسیر مطالب الفرقان کے نام سے ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی۔

__________________________________________

لیکن یہ تفسیر دور نو  کے فکری غلبے کا شکار نظر نہیں آتی، بلکہ اس تفسیر میں تقابل ادیان عربی گرامر اور احادیث کے حوالوں کے ساتھ ساتھ سرسید احمد خان کے فکری انحراف پر گرفت کی گئی ہے۔ یہ تفسیر اپنے اسلوب کے اعتبار سے منفرد اور عالمانہ ہے۔ [۱]  سید امیر علی کی تفسیر  مواہب الرحمن کا اسلوب انتہائی دقیق اور زبان پرانی ہے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر ثنائی  محدود مباحث کے باوجود عمدہ کوشش ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر بیان القرآن کا انداز بیان بھی عربی فارسی الفاظ اور بکثرت اصطلاحات کے استعمال سے بوجھل ہو گیا ہے۔ فقہی اور کلامی مباحث، تصوف کے اسرار ور موز کے سبب یہ تفسیر جدید تعلیم یافتہ طبقے کی علمی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہی ہے۔ عبد الماجد دریا بادی (۱۸۹۲ء۔ ۱۹۷۷ء)نے اپنی تفسیر تفسیر ماجدی کے ذریعے قرآنی اشکالات کو دور کرتے ہوئے قاری اور قرآن کے درمیان تعلق میں اضافہ کیا ہے۔ اس تفسیر کا اسلوب عمدہ اور حواشی مختصر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ تفسیر قبول عام حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

مولانا ابو الکلام آزاد (۱۸۸۸ء۔ ۱۹۵۸ء)کی تفسیر ترجمان القرآن نامکمل اور صرف اٹھارہ پاروں کی تفسیر ہے۔ اس میں دانش ور اور جدید طبقہ کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ مولانا ایک طرف ڈارون ازم سے متاثر ہیں تو دوسری طرف اشتراکیت کو بھی بطور نظام زندگی اہمیت دیتے ہوئے آزمانے کا موقع دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ [۲]اس تفسیر کا انداز تحریر عمدہ تاثر قائم نہیں کرسکا۔ مولانا عبید اللہ سندھی (۱۸۷۲ء۔ ۱۹۴۴ء)کی تفسیر المقام المحمود           کا انداز اتنا الجھا ہوا ہے کہ اس سے عام آدمی تو کیا کسی ادیب اور مفکر کے لیے بھی استفادہ مشکل ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیربیان القرآن، علماء کے مطالعے کے لیے تحریر کی گئی۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی (۱۸۵۶ء۔ ۱۹۲۱ء)کی تفسیرکنزالایمان، مولانا مفتی محمد شفیع (۱۸۹۶ء۔ ۱۹۷۶ء)کی تفسیر معارف القرآن اور پیر محمد کرم شاہ الازہری (۱۹۱۸ء۔ ۱۹۹۸ء)کی تفسیر ضیاء القرآن کا شمار اپنے دور کی نہایت عمدہ تفاسیر میں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان میں بھی ایک  مخصوص فکر کی جھلک نظر آتی ہے۔ مولانا حمید الدین فراہی(۱۸۶۳ء۔ ۱۹۳۰ء)نے نظام القرآن کے نام سے تیسویں پارے کی کچھ سورتوں کی تفسیر لکھی۔ بعد ازاں ان کی فکر سے متاثر ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی (۱۹۰۴ء۔ ۱۹۹۷ء)نے تدبر قرآن کے نام سے سنجیدہ اور علمی انداز میں تفسیر لکھی ہے جس میں فقہی، جماعتی اور گروہ بندی سے بالاتر ہو کر، عالمانہ انداز میں نظم قرآن، قراآت، الفاظ و اصطلاحات کی تحقیق پیش کی ہے۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ عبدالصمد صارم، قاضی، تبیان الراسخ معروف بہ تاریخ تفسیر،، ص۲۷۔

۲۔ امتیاز احمد، ڈاکٹر، مولانا مودودی کی نثرنگاری، ص۱۰۶۔

۳۔ ایضاً، ص۱۰۷۔

__________________________________________

اردو تفاسیر کے سرسری جائزے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہر عالم دین، مفسر قرآن نے اپنے اپنے حالات، علمی رجحانات، بدلتے تقاضوں، عصر حاضر کی فکری ضروریات کے تحت پورے اخلاص و جانفشانی کے ساتھ تفاسیر لکھی ہیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اسے کیا کہیے کہ کلامی تفاسیر میں اعتقادی بحثیں چھائی رہیں، فقہی تفاسیر میں اختلاف مذہب توجہ کا مرکز بن گئے۔ عارفانہ تفاسیر میں روحانی پہلو غالب آ گیا اور ادبی تفاسیر الفاظ کے حسن اور قرآن کے ادبی اعجاز کو موضوع بحث بنا سکیں۔ ان تفاسیر میں اگر کہیں قرآن کا پیغام ابھرا بھی تو وہ قرآن کے مرکزی موضوع کے مطابق اسلام کے ایک مکمل دین ہونے کا واضح نقشہ نہ مرتب کر سکا۔ اور  اگر کسی نے ایسی کوشش کی بھی تو ایسی بھاری بھر کم مذہبی اصطلاحات اور عربی تراکیب و الفاظ استعمال کیے کہ عام قاری یہ سمجھنے پر مجبور ہو گیا کہ قرآن پاک کے پیغام کو سمجھنا اس کے بس کی بات نہیں یہ صرف علما کرام کی ذمہ داری ہے۔

چنانچہ اس زمانے میں  ایک ایسی تفسیر کی ضرورت تھی جو ایک طرف علمائے کرام لیے بھی قابل قبول ہو اور دوسری طرف عام پڑھے لکھے طبقے کی ضرورت کو بھی پورا کرسکے۔ جو قرآن کے پیغام کی تفہیم اس رخ پر کرے کہ قرآن کے آفاقی پیغام کی معنویت ہر قاری پر اس انداز میں واضح ہو جائے کہ قرآن پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ بن جائے۔ اس تفسیر میں جہاں عقائد و ایمانیات کا ذکر ہو وہاں عصری افکار و تحریکات کا تجزیہ بھی ہو۔ اس کی زبان دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق، اتنی آسان سہل سادہ اور دل نشین ہو کہ قرآن مجید عام پڑھے لکھے مسلمانوں کے ذہنوں کو متاثر کرسکے اور غلافوں سے نکل کر سینوں سے ہوتا ہوا زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہو جائے۔

 

تفہیم القرآن

 

یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے خیالات، رسم ورواج، معاشرت، معاملات اور اقدار تک میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی معاملہ زبانوں اور لہجوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کے انداز  بدل جاتے ہیں۔ روزمرہ بول چال کے الفاظ، معانی، محاورات، لہجات اور مفاہیم میں بھی کئی نئے رنگ پیدا ہو جاتے ہیں۔ جدید دور کے بعض لازمی تقاضے صدیوں سے قائم نظریات و عقائد تک کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ اردو زبان کی جن تفاسیر کا ذکر ہم نے کیا ہے وہ سب اپنے دور کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرتی تھیں۔ ان میں سے کوئی تفسیر بھی دور حاضر کے تقاضوں کوپورا نہیں کرسکتی تھی۔ بعض کی زبا ن مشکل تھی تو بعض میں تسلسل اور روانی نہیں تھی۔ ان مذکورہ تفاسیر کے تناظر میں، سیدابوالاعلیٰ مودودی کے ذہن میں بھی یہ خیال موجود تھا کہ یہ تفاسیر اب بدلتے ہوئے زمانے کا ساتھ نہیں دے رہیں۔ وہ دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی، ایک ایسی مدلل، ہمہ جہت، اور آسان انداز میں لکھی گئی تفسیر کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جو مغربی افکار و تصورات اور فلسفیانہ توجیہات کو ردّ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے جامع نظام زندگی ہونے کا تصور بھی پیش کرے۔ ۱۹۲۶ء  میں جب سید مودودی اپنی اوّلین جامع تصنیف الجہاد فی الاسلام کی تخلیق کے لیے اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کر رہے تھے۔ تو مطالعہ قرآن کے دوران میں انھیں احساس ہوا کہ قرآن محض تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ تحریک کی کتاب ہے۔ اس لیے اسی کو بنیاد بنا کر دنیا میں اسی طرح عالم گیر تحریک قائم کی جا سکتی ہے جیسے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ [۱]

__________________________________________

۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲، ص۱۱۵۔

__________________________________________

اگست ۱۹۴۱ء میں سید مودودی نے اپنے اس احساس کو عملی شکل دیتے ہوئے، جماعت اسلامی کے نام سے اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس موقع پر اس نوزائیدہ تحریک کی فکری رہنمائی فراہم کے لیے قرآن مجید کی ایک جامع اور عام فہم تفسیر کی ضرورت اور زیادہ شدت سے محسوس ہوئی۔ چنانچہ سید مودودی نے فروری ۱۹۴۲ء میں   ترجمان القرآن  کے صفحات پر تفسیر قرآن کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اگرچہ آپ کو مختلف وجوہات کی بنا پر چار مرتبہ (چار سال، سات ماہ، انیس دن کے لیے ) جیل جانا پڑا اور بیرون ملک دوروں کے ساتھ ساتھ  اندرون ملک تنظیمی امور بھی انجام دیتے رہے لیکن تفسیر کا یہ سلسلہ بلا تعطل جاری رہا۔ سید مودودی کہتے ہیں :

’’ اس کتاب کے لکھنے کا سلسلہ میں نے اس وقت شروع کیا تھا جب میری زندگی کا سب سے طوفانی دور شروع ہوا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ جماعت اسلامی اگست ۱۹۴۱ء میں قائم ہوئی تھی اور میں نے یہ تفسیر فروری ۱۹۴۲ء میں لکھنی شروع کی۔ [۱]

جس دور میں سید مودودی نے تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا اس وقت مغربی فلسفے کے زیر اثر پروان چڑھنے والی تہذیب اور تعلیم نے مسلمانوں کو علمی و فکری اعتبار سے منتشر کر رکھا تھا۔  دین سے بیزاری  اور الحاد نے فیشن کا روپ دھار لیا تھا۔ جدت پسندی، روشن خیالی اور آزادی نسواں کی آڑ میں عریانی، فحاشی، بے حیائی اور بے پردگی کو رواج دیا جا رہا تھا۔ ۔ سرمایہ دارانہ اور استحصالی نظام معیشت کے زیر اثر سود معاشی ترقی کے ایک ذریعے کا روپ دھار چکا تھا۔ مغربی ممالک کی معاشی ترقی سے متاثرمسلمان مفکرین اس خوش حالی کو ان ممالک کی مذہب سے بیزاری اور ا لحاد کا ثمر سمجھ رہے تھے۔ کثیر الملتی کمپنیاں اپنے کاروبار کے فروغ اور مارکیٹ کی توسیع کے لیے تمام پس ماندہ ممالک میں ایک خاص قسم کی تہذیب اور اقدار کے فروغ کے لیے کوشاں تھیں۔ مسلمانوں کی نوجوانوں نسل ان فتنوں سے مرعوب ہو کر اشتراکیت، قومیت، مغربی تہذیب، انکار حدیث جیسے فکری سیلاب میں بہہ رہی تھی۔ سید مودودی نے ان تمام افکار کی تہہ تک پہنچنے اور نوجوان نسل کے شک و شبہات دور کرنے کے لیے تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر ان افکار کا خصوصی طور پر مطالعہ کیا۔ آپ نے ہندو مذہب، بدھ مت، مسیحیت، یہودیت، دہریت اور مادہ پرستی کے افکار و نظریات کا مطالعہ کیا۔ اس سلسلے میں آپ نے ان مذاہب و افکار کی بنیادی کتب اور ان کے زعماء کی سوانح کا بغور مطالعہ کیا۔ اس کے بعد پھر قرآن و سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ شعوری طور پریکسو ہو کر اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام سے زیادہ معقول اور مدلل مذہب اور پیارے نبی حضرت محمدﷺ سے زیادہ مکمل رہنما اور کوئی نہیں ہے۔ بقول سید مودودی:’’میں محض دین آباء ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوا، بلکہ اپنی تحقیق سے، خوب جانچ پڑتال کر کے میں اس دین پر ایمان لایا ہوں۔ ‘‘[۲] اس کے بعد آپ نے جو کچھ اپنی تحقیق و تلاش کے نتیجے میں سمجھا اسے اصلاح امت کی خاطر عوام الناس تک منتقل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آپ کو محسوس ہوا کہ جو طریقہ انھوں نے اختیار کیا ہے وہ زیادہ سود منداور نتائج کے اعتبار سے بہتر نہیں ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے قرآن مجید کو اپنی دعوت کا مرکزو محور بنانے کا ارادہ کیا۔ فرماتے ہیں :’’مگر بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ دین پوری طرح لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک کہ براہ راست قرآن کے ذریعہ سے اسے نہ سمجھایا جائے۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء، ص۱۱۵۔

۲۔ ایضاً، ص۱۱۳۔

۳۔ ایضاً، ص۱۱۳۔

__________________________________________

سید مودودی نے جب تفسیر نگاری کا کام شروع کیا تو ان کے پیش نظر قرآن پاک کی مختصر تفسیر لکھنا تھا لیکن جیسے جیسے قرآنی مضامین کی وضاحت شروع کی تو تفصیلات بڑھتی چلی گئیں اور یہ تفسیر چھ جلدوں میں مکمل ہوئی۔ پہلی جلد ۱۹۵۱ء میں مکمل ہوئی اور آخری ۱۹۷۲ء میں شائع ہوئی۔ پہلی جلد قدرے مختصر ہے۔ دوسری اور تیسری جلداس سے  زیادہ مفصل ہے۔ اسی طرح بالترتیب ہر اگلی جلد پہلی جلدسے زیادہ  تفصیل کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلی جلد ساڑھے سات پاروں کی تفسیر ہے جب کہ آخری صرف ایک سورت اور دو پاروں کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ سید مودودی کی تفسیر نگاری کی صلاحیتیں تیسری جلد سے اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔ اس جلد اور مابعدساری جلدوں میں قرآنی موضوعات پر وضاحت اور تفصیل سے  بحث کی گئی ہے۔ سید صاحب کے نزدیک اس تفسیر کا بنیادی مقصد عام پڑھے لکھے افراد کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ آپ نے تفہیم القرآن کے دیباچے میں اس مقصد کا اظہار کرنے ہوئے لکھا ہے :’’اس کام میں میرے پیش نظر علما اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے۔ میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجہ کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ ‘‘  [۱]

اس مقصد کے پیش نظر آپ نے تفسیر کا انداز عام فہم اور زبان سلیس رکھی، لیکن اس سب کے باوجود آپ کی نثر زوردار ہے اور ادبی رنگ میں بھی کہیں کمی نظر نہیں آتی۔ قرآن کے لفظی تراجم کے برعکس آپ نے آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا۔ فرماتے ہیں : ’’میں نے اس کتاب میں ترجمے کا طریقہ چھوڑ کر آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ‘‘[۲]

آزاد ترجمانی کے اس اسلوب کو اختیار کرنے کا مقصد آپ کے نزدیک یہ تھا کہ عام قاری قرآن مجید کے مطالعے کے دوران میں طویل لغوی، کلامی اور فقہی بحثوں سے دور رہ کر، اس کا مفہوم و مدعا صاف صاف سمجھتا جائے۔ قرآن مجید کا زور بیان، اعجاز کلام، روانی، بلاغت زبان اور تاثیر کلام بھی متاثر نہ ہو اور قرآن قاری  پر جو اثر ڈالنا چاہتا ہے، وہ  اسے پوری طرح سے قبول کرے۔

 

تفہیم القرآن کی امتیازی خصوصیات

 

  جامعیت:

سید مودودی کے نزدیک قرآن مجید کا معاملہ عام کتابوں کی طرح نہیں ہے جن میں مصنف موضوعات کو ایک خاص ترتیب سے رکھ کر ان کے مطابق اپنی گزارشات پیش کرتا ہے۔ یہ دراصل ایک اسلامی اور انقلابی تحریک کے لیے نازل کی گئی ہدایات پر مشتمل ایک ضابطہ ہے جسے بیک وقت نازل نہیں کیا گیا بلکہ اس تحریک دعوت و عزیمت کے تمام مراحل میں وقتاً فوقتاً نازل ہوتا رہا۔ یہ ایک جامع صحیفہ ہدایت ہے جو تحریک دعوت و جہاد کے ابتدائی مراحل سے لے کر اس کے نقطہ عروج تک ہر مرحلے میں راہ نمائی کرتا ہے۔ بقول سید صاحب: ’’قرآن مجید ایک دعوت کے ساتھ اترنا شروع ہوا اور وہ دعوت اپنے آغاز سے لے کر اپنی انتہائی تکمیل تک تیئیس سال کی مدت میں جن جن مرحلوں اور جن جن منزلوں سے گزرتی رہی، ان کی مختلف النوع ضرورتوں کے مطابق قرآن کے مختلف حصے نازل ہوتے رہے۔ ‘‘ [۳]

__________________________________________

۱۔ تفہیم القرآن، ج۱، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، اگست ۱۹۹۳، ص۶۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۶۔

۳۔ ایضاً، مقدمہ، ص۲۵۔

__________________________________________

چنانچہ اسی چیز کو پیش نظر رکھ کے سید مودودی نے قرآن مجید کا مطالعہ ایک جامع دستورالعمل کی حیثیت سے کیا اور اسی تصور کے زیر اثر اس کی تفسیر بیان کی۔ بقول نعیم صدیقی:’’ماضی قریب کے اردو لٹریچر میں دین کا بیان اس طرح ملتا ہے کہ ہر عقیدے کی وضاحت موجود ہے۔ نماز روزہ کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ حج اور زکوٰۃ کے مصالح کا تذکرہ ہے۔ جہاد کی اہمیت اور ثواب کا بیان ہے۔ حکومت، امارت، قضا اور جرم و سزا کے مسائل ہیں۔ مگر کچھ اس طرح کہ ہر چیز الگ الگ دکھائی دیتی ہے۔ یہ سارا مجموعہ کسی ایک جگہ مربوط ہو کر ایک ’’کل‘‘ نہیں بنتا۔ تفہیم القرآن نے انھیں اس طرح پیش کیا ہے کہ سارے شعبے اور اجزا جمع ہو کر نظم پا لیتے ہیں، بلکہ یہ منظم نظام فکر متحرک ہو جاتا ہے اور تصور دین کے ساتھ دنیائے حقائق میں داخل ہوتے ہیں۔ ‘‘ [۱]

 

ماخذ تفسیر

 

تفسیرالقرآن بالقرآن:

سید مودودی نے اپنی تفسیرمیں سب سے پہلا ماخذ قرآن مجید ہی کو قرار دیا۔ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے آپ بالترتیب، سب سے پہلے قرآن مجید سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کا دوسرا ماخذ نبی کریم ﷺ سے منسوب تفسیری روایات ہیں۔ پھر اقوال و آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کو سامنے رکھتے ہیں۔ آپ کا تصورِ تفسیرنہایت سادہ و دلکش ہے۔ کسی قسم کی غیر واضح اور متشابہ چیز آپ کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ آپ کا بنیادی ماخذ چونکہ قرآن مجید ہے اس لیے آپ قرآن کی حدود کے اندر رہتے ہوئے تفسیر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ اپنے طرز عمل کی وضاحت اس طرح سے کرتے ہیں :

’’ہمارے نزدیک قرآن کے الفاظ سے زائد کوئی مطلب لینا چار ہی صورتوں میں درست ہو سکتا ہے یا تو قرآن ہی کی عبارت میں اس کے لیے کوئی قرینہ موجود ہو، یا قرآن میں کسی دوسرے مقام پر اس کی طرف کوئی اشارہ ہو یا کسی صحیح حدیث میں اس اجمال کی شرح ملتی ہو۔ یا اس کا کوئی اور قابل اعتبار ماخذ ہو‘‘۔ [۲]

اسی طرح قرآن مجید کی تاویل و تعبیر کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

’’آپ قرآن مجید کی تاویل و تعبیر کا صحیح طریقہ اچھی طرح سمجھ لیں۔ آپ جس آیت کے معنی سمجھنا چاہتے ہوں پہلے عربی زبان کے لحاظ سے اس کے الفاظ و ترکیب پر غور کریں۔ پھر اسے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھیں، پھر اسی مضمون سے تعلق رکھنے والی جودوسری آیات  قرآن میں مختلف مقامات پر موجود ہیں ان کو جمع کر کے دیکھیں کہ زیر بحث آیت کی ممکن تعبیرات میں سے کون سی تعبیر ان سے مطابقت رکھتی ہے۔ ‘‘۔ [۳]سید مودودی قرآن کی تفسیر میں احادیث سے رہنمائی لینے کے باوجود، بنیادی اہمیت قرآن کے معنی کو دیتے ہیں۔ اس اصول کے بارے میں آپ لکھتے ہیں : قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی‘‘۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، مقالہ نعیم صدیقی، ص۲۲۶۔

۲۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۴، ص۳۳۴، حاشیہ:۳۵۔

۳۔ مودودی، رسائل ومسائل، ج۳، ص۱۷۔

۴۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۷۱۳، حاشیہ:۹۱۔

__________________________________________

 

تفسیرالقرآن بالحدیث:

سید مودودی تفسیر قرآن میں حدیث کو دوسرا بڑا ماخذ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تفسیر میں جا بجا احادیث نبوی سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ پہلی دو جلدوں میں احادیث کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ سید مودودی کہتے ہیں : ’’میں نے جگہ جگہ قرآن مجید کی آیات اور احکام کی تشریح میں معتبر احادیث نقل کی ہیں جن سے حدیث و قرآن کا تعلق بھی اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے اور اس غلط فہمی کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ حدیث کے بغیر بھی قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے۔ بلکہ پڑھنے والے کو یقین ہو جاتا ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے بکثرت ارشادات و احکام کو آدمی سمجھ ہی نہیں سکتا۔ ‘‘[۱]  بد قسمتی سے ہمارے تفسیری ادب میں بہت سی ضعیف روایات اور اسرائیلیات بھی شامل ہو گئیں ہیں۔ اسرائیلیات، موضوعات اور ضعیف روایات کے ضمن میں ہمیں تفہیم القرآن میں جو انفرادیت نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ سید مودودی روایات کو جوں کا توں قبول نہیں کرتے، بلکہ ان کا تجزیہ کرتے ہیں اور جو روایات قرآن کے مجموعی نظم اور تاثر سے ٹکراتی ہیں ان کو رد کر دیتے ہیں۔ ان کے ہاں روایات کو قبول کرنے یا ردّ کرنے کا معیار صرف قرآن کا نفس مضمون ہے۔ بہت سی ایسی روایات جو قبول عام کے بعد بڑے بڑے مفسرین کی تفاسیر میں موجود ہیں، سید مودودی نے ان کو قبول نہیں کیا۔ اگر کہیں ان روایات کا حوالہ بھی دیا ہے تو ان پر نقد و جرح کے لیے دیا ہے۔ روایات کے بارے میں سید مودودی کا تحقیقی اور تجزیاتی انداز ان کی تفسیر کو قرآنی موضوعات اور حقائق کے زیادہ قریب کر دیتا ہے۔  تفہیم القرآن میں ایسی کئی روایات موجود ہیں جنھیں سید مودودی نے روایت اور درایت کے اصول پر پرکھنے کے بعد قبول یا رد کیا ہے۔ بطور مثال ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام  کے تین جھوٹ بولنے والی روایات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان کے راوی حضرت ابو ہریرہؓ ہیں اور انھیں امام بخاری اور ان کے علاوہ کئی محدثین نے نقل کیا ہے۔ [۲]  اکثر مفسرین نے ان روایات کو اپنی تفاسیر میں جگہ دی ہے۔ روایات کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام تین مقامات پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ایک موقع پر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اپنی قوم کے استفسار پر فرمایا:قال بل فعلہ کبیرھم ھٰذا  فسئلوھم ان کانوا ینطقون۔ (الانبیاء ۲۱:۶۳) ’’یہ سب کچھ ان کے اس سردارنے کیا ہے، ان ہی سے پوچھ لواگر یہ بولتے ہوں ‘‘۔  دوسرے موقع پر جب ان کی قوم نے ان سے میلے پر جانے کے لیے کہا تو آپ نے جواب دیا: فقال انی سقیم۔ (الصافات ۳۷:۸۹)  ’’پس انھوں نے کہا میں بیمار ہوں ‘‘۔  پہلے دونوں مقامات کا ذکر قرآن میں موجود ہے جبکہ تیسرے جھوٹ کا ذکر بائیبل (پیدائش ۱۲:۱۱۔ ۲۰ اور۲۰:۲۔ ۱۶)میں موجود ہے، جب اہل مصر اور ابی ملک بادشاہ کے پوچھنے پر آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی حضرت سارہؓ کو اپنی بہن بتایا۔

__________________________________________

۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، ص۱۱۴۔

۲۔ بخاری، کتاب حدیث الانبیا، نمبر۳۱۱۸۔ ۳۱۲۲۔

__________________________________________

سورۃ الانبیا ء کی آیت نمبر ۶۴ :’’انھوں نے پوچھا کیوں ابراہیم تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔ اس نے جواب دیا بلکہ یہ سب کچھ ان کے سردار نے کیا ہے ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں ‘‘، کے مختلف تراجم اور تفاسیر کا جائزہ لیتے ہیں کہ مختلف مفسرین نے اس سے کیا مراد لیا اور جھوٹ بولنے کی روایت کوکس طرح سے تفسیرمیں شامل کیا ہے۔ مولانا مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں :’’اس حدیث میں حضرت ابراہیمؑ کی طرف تین جھوٹ کی نسبت کی گئی ہے جو شان نبوت اور عصمت کے خلاف ہے مگر اس کا جواب خود اسی حدیث کے اندر موجود ہے وہ یہ کہ ان میں سے ایک بھی حقیقی معنی میں جھوٹ نہ تھا یہ تو’’ توریہ‘‘  تھا جو ظلم سے بچنے کے لیے جائز و حلال ہوتا ہے وہ جھوٹ کے حکم میں نہیں ہوتا‘‘۔ [۱]

دوسرے جھوٹ کے بارے میں مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :  ’’تقریر بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا ’’انی سقیم‘‘ کہنا مطلب واقعی کے اعتبار سے جھوٹ نہ تھا: ہاں مخاطبین نے جو مطلب سمجھا اس کے اعتبار سے خلاف واقعہ تھا۔ اس لیے بعض احادیث صحیحہ میں اس پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا حالانکہ فی الحقیقت یہ کذب نہیں بلکہ توریہ ہے ‘‘۔ [۲]

مولانا عبد الماجد دریا بادی کہتے ہیں :’’حدیث صحیح میں ابراہیم خلیل اللہ کے اس قول کو کذب سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس سے منکرین حدیث کو بخاری، مسلم، ترمذی کے خلاف ایک طومار کذب باندھنے کا موقع مل گیا ہے۔ حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ یہ کذب صرف صورۃً تھا‘‘۔ [۳]

ان تفسیروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علمائے تفسیر کو محض اس لیے الجھن پیش آ رہی ہے کہ حدیث کی سند صحیح ہے اور بخاری میں منقول ہے۔ اس لیے وہ بجائے حدیث پر جرح کرنے کے، کذب کی تاویلیں کرنا زیادہ بہتر سمجھ رہے ہیں۔ سید مودودی کہتے ہیں : ’’یہ حدیث جس میں حضرت ابراہیمؑ کے تین ’’جھوٹ‘‘ بیان کیے گئے ہیں صرف اس وجہ سے قابل اعتراض نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے بلکہ اس بنا پر بھی غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محل نظر ہیں ‘‘۔ چنانچہ سید صاحب نے ان تینوں واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات پر لگائے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ [۴]

سید مودودی روایات کو سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود تجزیہ و تحقیق کے بعد قبول کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ

سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر متن میں کوئی قباحت ہو تو روایت کے صحیح ہونے پر اصرار مناسب نہیں ہے۔ آپ روایت کو عقل پر بھی پرکھتے ہیں اور استدلالی نقطہ نظر سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ سورۃ طہٰ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوئلہ اٹھا کر منہ میں رکھنے اور لکنت آ جانے کی روایت زبان زد عام ہے، لیکن اس روایت کے بارے میں سید مودودی کا موقف بالکل مختلف ہے۔ آپ لکھتے ہیں : ’’یہ قصہ اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر ہمارے ہاں تفسیروں میں بھی رواج پا گیا ہے لیکن عقل اسے ماننے سے انکار کرتی ہے اس لیے کہ اگر بچے نے آگ پر ہاتھ مارا تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ انگارے کو اٹھا کر منہ میں لے جا سکے۔ بچہ تو آگ کی جلن محسوس کرتے ہی ہاتھ کھینچ لیتا ہے منہ میں لے جانے کی نوبت کہاں آ سکتی ہے۔ ‘‘[۵]

__________________________________________

ا۔ محمد شفیع، مفتی، معارف القرآن، کراچی:ادارۃ المعارف، ج۶، س ن، ص۱۹۹۔

۲۔ عثمانی، شبیر احمد، فوائد عثمانی، لاہور:نفیس پبلشرز، س ن، ص۵۸۹۔

۳۔ دریابادی، عبدالماجد، تفسیر ماجدی، لاہور:تاج کمپنی، ۱۹۷۵ء، ص۶۶۷۔

۴۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۱۶۷، حاشیہ۶۰۔

۵۔ ایضاً، ص۹۲، حاشیہ ۱۵۔

__________________________________________

چنانچہ اس طرح سے روایات کے تجزیہ و تحقیق کے سبب سید مودودی کی تفسیر عقل عام کے لیے بھی متاثر کن ہے۔

 

محدود تفسیر بالرائے :

سید مودودی نے اپنی تفسیر میں بعض معاملات میں اپنی فقہی آرا اور تحقیقات بھی بیان کی ہیں۔ اس لیے آپ کی تفسیر کسی حد تک تفسیر بالرائے بھی  ہے، لیکن اسے ’’تفسیر بالرائے المحمود‘‘ کہا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے تفسیر بالرائے کے مسلک کو اختیار کرنے کے باوجود، قرآن مجید کی تفسیر و تفہیم میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا ہے۔ آپ نے قرآنی الفاظ سے صرف وہی مفہوم مراد لیا ہے جو اس کے سیاق و سباق سے اخذ کیا جا سکتا تھا یا جتنی اجازت قرآن کے الفاظ دیتے ہیں۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’قرآن کی تفسیر میں میرا مسلک یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں جس حد تک وسعت ہے میں اس کی حدود میں رہ کر اس کی تفسیر کرتا ہوں۔ ان حدود سے باہر جا کر اپنے تخیل سے کوئی ایسی بات حتی الامکان بیان نہیں کرتا جس کی گنجایش الفاظ قرآن میں نہ ہو‘‘۔ [۱]

 

معاصر علماء سے مشاورت و مکالمہ:

سیدصاحب نے یہ تفسیرتیس سال کی محنت شاقہ کے بعد مکمل کی۔ اس کی بہت ساری خصوصیات ایسی ہیں جو اسے دیگر تفاسیر سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی اہم خصوصیت معاصر علماء سے مشاورت اور تفسیر ی نکات کے بارے میں ترجمان القرآن میں عام مباحثہ ہے۔ سید مودودی نے جب رسالہ ترجمان القرآن جاری کیا تو آپ کے پیش نظر مسلمانوں اور غیر مسلموں کو قرآن سمجھانے میں معاونت کرنا اور ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا تھا جو قرآن کے مطالعے کے دوران میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس لیے آپ نے تفہیم القرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے، تسلسل کے ساتھ، اس رسالے میں شائع کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تفسیر مسلسل تیس سال تک عام قارئین، اہل علم، اہلِ دین اور دانش ور حلقوں کے زیر مطالعہ رہی۔ ایسا نہیں ہوا کہ سید صاحب نے کوئی انفرادی رائے قائم کی ہو اور چپکے سے اسے تفسیر کی صورت میں شائع کر دیا ہو۔ اس تفسیرپر کھلے عام تنقید کا سلسلہ تیس سال تک جاری رہا۔  سید مودودی نے فراخ دلی سے اس پر ہونے والی تنقید کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ اپنی آراء سے رجوع کر کے، تفسیر پر نظر ثانی بھی کی۔ اس سلسلے میں علما ے کرام اور اہل دانش سے خط کتابت بھی کرتے رہے اور ان کی طرف سے پیش کیے گئے اعتراضات اور نکات کی روشنی میں اس تفسیر کو مزید نکھارا۔ [۲]

 

 بصیرت افروز مقدمہ:

 

تفہیم القرآن کی ایک منفرد خصوصیت اس کا طویل اور بصیرت افروز مقدمہ ہے۔ مودودی صاحب کے بقول: ’’میں محض دین آبائی ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوا، بلکہ اپنی تحقیق سے خوب جانچ پڑتال کر کے میں اس دین پر ایمان لایا ہوں۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ مکاتیب سید ابوالاعلیٰ مودودی، ج۲، ص۲۷۶۔

۲۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، ص۲۳۱۔

۳۔ ایضاً، ص۱۱۳۔

__________________________________________

انھوں نے اسلام کوسمجھنے کی شعوری جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے دوران میں جتنے سوالات اور اشکالات کا سامنا خود انھیں ہوا، اس کو سامنے رکھتے ہوئے آپ نے ایک قاری کے ذہن میں مطالعہ قرآن کے دوران میں پیدا ہونے والے ممکنہ سوالات کا احاطہ کیا۔ ان تمام سوالات کے جوابات آپ نے مقدمہ تفہیم القرآن میں دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ قرآن مجید عام کتابوں کی طرح نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے موضوع، مضمون، اور ترتیب کے لحاظ سے ایک منفرد کتاب ہے۔ لہٰذا اس کے مضامین کی تفہیم کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ اسے عام کتاب نہ سمجھا جائے۔ اس لیے سید مودودی لکھتے ہیں : ’’اسے سمجھنا چاہتے ہو تو اپنے پہلے سے قائم کیے ہوئے قیاسات کو ذہن سے نکال کر اس کی عجیب خصوصیات سے روشنی حاصل کرو۔ ‘‘[۱]آپ نے قرآن کے طرز بیان، ترتیب، کیفیتِ نزول اور مضامین کی تکرار کے بارے میں اس مقدمے میں بہت حکمت آمیز اور بصیرت افروز باتیں لکھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے نزول کے سلسلے میں جس حکمت کو پیش نظر رکھا، سید صاحب نے اس کی نہایت عمدہ وضاحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بیک وقت نازل نہیں کیا، بلکہ تحریک دعوت و عزیمت اسلامی کے مختلف ادوار میں حسب موقع اور حسب ضرورت اس کے مضامین اتارے گئے۔ اس اعتبار سے یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں کہ جسے آرام کرسی پر بیٹھ کر پڑھا جا سکے اور اس کی معنویت آشکار ہو جائے۔ اور نہ یہ عام مذہبی تصورات پر مشتمل ہے، بلکہ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے صرف کتاب ہی نازل نہیں کی بلکہ ایک پیغمبر بھی مبعوث فرمایا ہے جس نے قرآن کی روشنی میں وہ نظام برپا کیا جو قرآن کا مطلوب تھا۔ [۲]اس مقدمے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید مودودی جدید فکر سے متاثر اذہان کے اشکالات سے پوری طرح باخبر تھے اور آپ نے ان تمام ممکنہ انسانی الجھنوں کو بھی اپنے پیش نظر رکھا تھا جو قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے، ایک قاری کو بالعموم پیش آتی ہیں۔ یہ مقدمہ ان الجھنوں کوسلجھاتا ہے اور ’’قرآن فہمی کے لیے ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے ‘‘۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۶۔

۲۔ ایضاً، ص۳۳۔

۳۔ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء، سید مودودی کاتفسیری اسلوب:الیف الدین ترابی۔

__________________________________________

 

سورتوں کا دیباچہ اور تعارف:

 

سید صاحب کا ایک اور اجتہادی کارنامہ ہر سورۃ کا دیباچہ ہے۔ وہ ہر سورت کے آغازمیں ایک مفصل اور جامع مقدمہ تحریر کرتے ہیں۔ یہ ابتدائی تعارف قرآن فہمی میں آسانی پیدا کرتا ہے اور قاری کے سامنے وہ سارا ماحول، منظر، پس منظر پیش کر دیتا ہے جس میں وہ سورت نازل ہوئی۔ قاری اس کے مطالعے سے یوں محسوس کرتا ہے گویا وہ خود اس ماحول کا حصہ ہے جس میں قرآن نازل ہو رہا ہے۔ آپ نے ہر سورۃ کے آغاز میں سورۃ کا نام، وجہ تسمیہ، زمانہ نزول، شان نزول، مرکزی موضوع، اجزائے مضامین اور اہم نکات لکھ کر قاری اور قرآن میں ایسا گہرا ربط پیدا کیا ہے کہ قاری دوران مطالعہ کسی آیت کی معنویت سمجھنے میں ذرا بھی تذبذب کا شکار نہیں ہوتا۔ آپ کا خیال ہے کہ ہر سورۃ کا پس منظر اور حالات نزول زمانی اعتبار سے بالکل مختلف تھے اس لیے ان کو سمجھے بغیر قرآن کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے آپ نے دیباچے میں زمانہ نزول موضوع اور مضمون کے ساتھ جہاں ضرورت محسوس کی ہے وہاں تاریخی پس منظر بھی دیا ہے۔ مثلاً، قرآن کی مختصر ترین سورۃ’’ سورۃالکوثر ‘‘کا دیباچہ کافی طویل ہے۔ اس میں سید صاحب نے سورۃ کے نزول کے تاریخی اسباب، نہایت سہل اور سادہ زبان میں پیش کیے ہیں۔ اس سے قاری کے انہماک اور دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ مکمل تاریخی شعور کے ساتھ سورۃ کے مفاہیم سے آگاہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پراسی سورۃ کے دیباچے میں نام اور احادیث و آثار کی مدد سے زمانہ نزول کے تعین کے بعد تاریخی پس منظر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر اس سورۃ کا نزول انتہائی کٹھن حالات میں ہوا تھا۔ پوری قوم آپ سے دشمنی پر تلی ہوئی تھی۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے لیے زندگی دوبھر کر دی گئی تھی۔ یکے بعد دیگرے آپ کے دو بیٹوں حضرت قاسمؓ اور حضرت عبد اللہؓ کی وفات پر قریش نے بجائے آپ سے تعزیت اور تسلی دینے کے یہ کہنا شروع کر دیا کہ (معاذاللہ)محمدﷺ تو ایک ابتر(جڑ کٹے )آدمی ہیں۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں۔ جب مر جائیں گے تو کوئی ان کا نام لینے والا نہیں ہو گا۔ عاص بن وائل، عقبہ بن ابی معیط اور ابولہب اس مہم میں پیش پیش تھے۔ یہ سارے حالات تفصیل سے بیان کرنے کے بعد سید صاحب لکھتے ہیں :’’یہ تھے وہ انتہائی دل شکن حالات جن میں سورۃ کوثر حضورﷺ پر نازل کی گئی۔ ۔ ۔ آپؐ پر ایک کے بعد ایک بیٹے کی وفات سے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس موقع پر عزیزوں، رشتہ داروں، قبیلے اور برادری کے لوگوں اور ہمسایوں کی طرف سے ہمدردی و تعزیت کی بجائے وہ خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور وہ باتیں بنائی جا رہی تھیں جو ایک ایسے شریف انسان کے لیے دل توڑ دینے والی تھیں، جس نے اپنے تو اپنے غیروں سے بھی ہمیشہ انتہائی اچھا سلوک کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مختصر ترین سورت کے ایک فقرے میں وہ خوش خبری سنائی جس سے بڑی خوش خبری دنیا کے کسی انسان کو کبھی نہیں دی گئی اور ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والوں ہی کی جڑ کٹ جائے گی‘‘۔ [۱]

 

شان نزول:

 

سید صاحب نے تمام سورتوں کے زمانہ نزول اوراسباب نزول کا تعین کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ قرآن مجید کی کسی سورہ کو سمجھنے کے لیے جس ذہنی، تاریخی، تمدنی اور تحریکی پس منظر کی ضرورت ہوسکتی تھی اسے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ شان نزول کا تعین کرنے کے لیے آپ نے روایات و آثار کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی داخلی شہادتوں کو بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً، سورۃ الصف کے بارے میں لکھتے ہیں :’’کسی معتبر روایت سے اس کا زمانہ نزول معلوم نہ ہو سکا لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً جنگ احد کے متصل زمانہ میں نازل ہوئی۔ کیونکہ اس کے بین السطور جن حالات کی طرف اشارہ محسوس ہوتا ہے وہ اسی دور میں پائے جاتے تھے ‘‘۔ [۲]

اسی طرح سورۃ التغابن کے بارے میں لکھتے ہیں :’’مضمون کلام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی اس وجہ سے اس میں کچھ رنگ مکی سورتوں کا اور کچھ مدنی سورتوں کا پایا جاتا ہے ‘‘۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج ۶ص۱۰۸۔

۲۔ ایضاً، ج۵، ص۴۵۲۔

۳۔ ایضاً، ج۵، ص۵۲۴۔

__________________________________________

پروفیسر خورشید احمد کے بقول:’’تفہیم القرآن میں شان نزول کے مواد کو بڑے اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ صاحب تفہیم نے یہ کوشش کی ہے کہ قاری کے سامنے اس صورت حال اور اس کیفیت کو ایک حد تک تازہ کر دیں جس میں ایک سورۃ یا اس کے کچھ

حصے نازل ہوئے۔ ۔ ۔ تفہیم القرآن  صرف قرآن کے تصورِ حیات ہی کی مفسر نہیں، بلکہ اس میں تاریخ انبیا اور خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی داعیانہ سیرت اور آپ کی قیادت و امامت میں کام کرنے والی اسلامی تحریک کی پوری تاریخ بھی آ گئی ہے ‘‘۔ [۱]

 

تاریخی پس منظر اور نقشہ جات:

 

سید مودودی نے دیباچے میں زمانہ نزول، موضوع اور مضمون کے تعارف کے ساتھ ساتھ، بعض مقامات پر تاریخی پس منظر بھی بیان کیا ہے۔ نزول قرآن کے حوالے سے ان تمام اہم مقامات کا ذکر بھی کیا ہے، جو اس وقت موجود تھے یا گردش زمانہ کے ہاتھوں ختم ہو چکے تھے۔ ان تمام مقامات کے نام اور نقشہ جات کے ساتھ واقعات کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ قاری خود کو اسی زمانے اور اسی مقام پر کھڑا محسوس کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سید صاحب نے ۳نومبر۱۹۵۹ء سے ۴ فروری ۱۹۶۰ء تک، اپنی استطاعت کی حد تک، ان تمام مقامات کی سیاحت کی تھی جو نزول قرآن اور نبی کریم ﷺ کی تحریک دعوت و عزیمت کے سلسلے میں ذرا بھی اہمیت رکھتے تھے۔ [۲]اس سفر کے ذریعے حاصل شدہ معلومات اور نقشہ جات کی شمولیت سے تفہیم القرآن تمام تفاسیر پر سبقت لے گئی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ قاری کو واقعات کا پس منظر اور مقامات کا محل وقوع سمجھنے میں خاصی آسانی ہو گئی۔

 

نظم قرآن:

 

تفہیم القرآن کی ایک اور خوبی نظم قرآن کا تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی تمام سورتیں اور آیات ایک خاص ترتیب اور تناسب سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ قرآن کے صحیح فہم کے لیے اس چیز کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ آیات و سور کو ایک دوسرے سے الگ کر کے صحیح مفہوم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ نظم قرآن کے اس تصور کو متقدمین میں علامہ جار اللہ زمخشری اور متاخرین میں مولانا حمید الدین فراہی نے اپنی تفاسیر میں خصوصی طور پر موضوع بحث بنایا ہے۔ سید مودودی نے نظم قرآنی کے اس تصور کی عملی تائید اپنی تفسیر میں کی ہے۔ آپ نے قرآن کے مرکزی مضمون سے ہر سورۃ اور آیت کا ربط قائم کر کے دکھایا ہے۔ سید مودودی سے پہلے مفسرین کے ہاں نظم قرآن کا تصور تو ضرور ملتا ہے لیکن اس میں ایسی ہمہ گہری جامعیت اور وسعت نہیں ہے۔ مفسرین نے یا تو سورتوں کے باہمی ربط پر توجہ دی ہے یا آیات کے ربط کو متعین کیا ہے۔ مگر سید مودودی نے ہر سورۃ اور اس کے مضامین اور آیات کا ربط قرآن سے قائم کرتے ہوئے، قرآن کے مرکزی موضوع کو نمایاں کیا ہے۔ سید صاحب کے بقول: ’’اوّل سے آخر تک اس [قرآن] کے مختلف النوع موضوعات، اس کے مرکزی مضمون کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے ایک ہار کے چھوٹے بڑے رنگ بر نگ جواہر ہار کے رشتے میں مربوط و منسلک ہوتے ہیں ‘‘۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، مقالہ:پروفیسر خورشید احمد، ص۲۶۔

۲۔ ایضاً، ص۱۹۱۔

۳۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۹۔

 

زبان و بیان:

 

زبان و بیان کے لحاظ سے تفہیم القرآن ایک منفرد تفسیر ہے۔ اس کی زبان نہایت سادہ، آسان اور دل میں اتر جانے والی ہے۔ قرآنی آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے سید صاحب نے آزاد ترجمانی کا انداز اختیار کیا ہے۔ آپ قرآن کے الفاظ کا ترجمہ اس کے سیاق و سباق میں کرتے ہوئے موزوں ترین الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ نے ایک پوری پوری عربی عبارت کا مفہوم اردو زبان میں بیان کیا ہے۔ اس طریقے سے عربی زبان سے ناواقف قاری کے ذہن میں پوری عبارت کا جامع خاکہ بن جاتا ہے۔

آپ قرآن کی عربی عبارت سے جو مفہوم اخذ کرتے ہیں، اسے اردو زبان میں منتقل کرتے ہوئے اپنے اختیار کیے گئے ترجمہ کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :’’متن میں لفظ ’’یَتَوَفَّکُمْ‘‘ ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ’’جو تمھیں موت دیتا ہے ‘‘ لیکن اس لفظی ترجمے سے اصلی روح ظاہر نہیں ہوتی اس ارشاد کی روح یہ ہے کہ وہ جس کے قبضے میں تمھاری جان ہے اور جو تم پر ایسا مکمل حاکمانہ اقتدار رکھتا ہے کہ جب تک اس کی مرضی ہو اس وقت تک تم جی سکتے ہو‘‘۔ [۱] اس لیے سید مودودی اس لفظ کا ترجمہ کرتے ہیں ’’جس کے قبضے میں تمھاری موت ہے ‘‘۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں : ترجمے میں محض اردو زبان کے حسن کلام کی خاطر وہ اسلوب اختیار کیا ہے ‘‘۔ [۲]  ایک اور جگہ لکھتے ہیں : ہم نے لفظی ترجمہ چھوڑ کر مرادی ترجمہ کیا ہے ‘‘۔ [۳] ترجمے کا یہ انداز اختیار کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید مودودی محض ترجمہ نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ قرآن کی حقیقی روح اور ادبیت بھی ان کے پیش نظر تھی۔ اس لیے ان کی مربوط عبارت قاری کو قرآن کی روح سے آگاہ کرتی ہے اور وہ اسی لذت و تاثیر سے آشنا ہوتا ہے جو قرآن قائم کرنا چاہتا ہے۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲، ص۳۱۵، حاشیہ۱۰۷۔

۲۔ ایضاً، ج۲، ۲۹۶، حاشیہ۷۹۔

۳۔ ایضاً، ج۴، ص۲۲۶، حاشیہ۳۲۔

__________________________________________

 

دین کا جامع تصور:

 

سید صاحب نے اپنی تحقیق کے نتیجے میں دین کا ایک جامع اور عملی تصور اخذکیا۔ اسی تصور کے زیر اثر آپ نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی۔ اس لیے اس تفسیر میں ہمیں دین کا تصور پوری جامعیت کے ساتھ ملتا ہے۔ آپ نے دین کے کلی تصور کو پیش کرتے ہوئے، اس کے اس مفہوم کے خلاف بغاوت کی ہے جس میں دین اسلام کو انفرادی زندگی اور مسجد و مسکن کی دنیا تک محدود کر دیا گیا تھا۔ آپ کے نزدیک دین کا انفرادی حصہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ایک پورا اجتماعی نظام تشکیل نہ دیا جائے۔ تفہیم القرآن میں اس سوچ کا عکس اول تا آخر موجود ہے۔ سید مودودی آیت:’’ادخلوافی السلم کافۃ‘‘(سورۃ البقرۃ ۲:۲۰۸)کی وضاحت کرتے ہوئے، لکھتے ہیں :’’یعنی کسی استثنا اور تحفظ کے بغیر، اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ۔ تمھارے خیالات، تمھارے نظریات، تمہارے علوم تمھارے طور طریقے، تمھارے معاملات اور تمھاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابع اسلام ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بعض حصوں میں اسلام کی پیروی کرو اور بعض حصوں کو اس کی پیروی سے مسثتنیٰ کر لو‘‘۔ [۱]

اسی طرح آیت:’’فاقم وجہک للدین حنیفا‘‘(سورۃ الروم ۳۰:۳۰) کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے تصور دین کے بارے میں فرماتے ہیں :’’اس دین سے مراد وہ خاص دین ہے جسے قرآن پیش کر رہا ہے۔ جس میں بندگی عبادت اور طاعت کا مستحق اللہ وحدہٗ لا شریک کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ جس میں الوہیت اور اس کی صفات و اختیارات اور اس کے حقوق میں قطعاً کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا جاتا۔ جس میں انسان اپنی رضا و رغبت سے اس بات کی پابندی اختیار کرتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کی ہدایت اور اس کے قانون کی پیروی میں بسر کرے گا۔ ‘‘ [۲]

ْْ          سید صاحب نے تمام گوشہ ہائے زندگی پر محیط ایک مکمل دین کا تصور پیش کیا جس کی بنیاد حکومت الٰہیہ کا قیام ہے۔ بقول ڈاکٹر خالد علوی:’’ حاکمیت کا تصور اس کا مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد پورا نظام گھومتا ہے۔ دین کا جامع تصور اس نظام فکر کی روح ہے اور اقامت دین اس کی عملی تعبیر ہے۔ ‘‘‘[۳]

پروفیسر الیف الدین ترابی کے الفاظ میں : ’’سید مودودی نے اپنی تفسیر میں ان پہلوؤں کو زیادہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے جن کا تعلق دعوتِ دین یا فریضۂ اقامت دین سے ہے۔ ‘‘[۴]

سید مودودی کے پیش نظر دین اسلام کو جامع انداز میں پیش کرنا تھا اس لیے انھوں نے اپنی تفسیر میں ان روایتی موضوعات پر زیادہ توجہ نہیں دی، جنھیں عام طور پر مفسرین کرام پیش کرتے رہے ہیں۔ مثلاً آپ کے ہاں اعجاز قرآن، صرف و نحو اور لغوی مسائل کے متعلق  مباحث نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سید مودودی ان موضوعات کو دانستہ طور پر اس لیے زیر بحث نہیں لائے کہ ان کا مقصد نئی نسل کو قرآن کا پیغام پہنچانا تھا۔ لسانی موشگافیوں میں الجھانا نہیں تھا۔ چند مقامات پر لغت سے متعلق مختصر مباحث موجود ہیں جن سے  لغت، صرف اور نحو میں سید صاحب کی مہارت اوردسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۶۰، حاشیہ:۲۲۶۔

۲۔ ایضاً، ج۳، ص۷۵۲، حاشیہ:۴۳۔

۳۔ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء، تجدید دین حق اور سید مودودی: ڈاکٹر خالد علوی، ص۴۶۱۔

۴۔ ایضاً، سید مودودی کاتفسیری اسلوب:پروفیسرالیف الدین ترابی، ص۲۹۵۔

__________________________________________

 

فقہی معاملات میں مسلکی تعصب سے پرہیز :

 

اردو کے تفسیری ادب میں، شعوری یا لاشعوری طور پر، مسلکی رنگ موجود ہے۔ اکثر مفسرین نے کسی مسئلے کو اپنے مسلک کے مطابق ثابت کرنے کے لیے دلائل و براہین کے انبار لگا دیے ہیں۔ بہت ساری تفاسیر کی شناخت ہی مسلکی تفسیر کے طور قائم ہے۔ سید مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن میں اس لحاظ سے اعتدال اور توازن کی روش نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نہ تو فقہی معاملات میں تقلید جامد کے قائل ہیں اور نہ فقہا کی آرا کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ آپ عام طور پر قرآن پاک کی تفسیر قرآن ہی سے کرتے ہیں پھر احادیث اور اقوال صحابہ کو معیار بناتے ہیں۔ آپ فقہی احکام سے متعلق آیات کی تفسیر کرتے ہوئے کبھی تو فقہاء کی مختلف آرا  اپنی ذاتی رائے بیان کیے بغیر، پیش کر دیتے ہیں اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنی عقل سلیم سے کس رائے کو ترجیح دیتا ہے۔ کبھی مختلف آراء کا موازنہ قرآن و سنت سے کر کے، دلیل کی بنیاد پر کسی ایک رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی تفسیر میں یہ جملہ اکثر مقامات پر ملتا ہے۔ ’’اس مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے قرآن پاک کے حسب ذیل مقامات کو نگاہ میں رکھیے ‘‘ گویا وہ قاری کے ذہن میں ہر وقت قرآن ہی کی اہمیت اجاگر رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ مسلکًا حنفی ہونے کے باوجود بعض اوقات حنفی مسلک سے بھی اختلاف کرتے ہیں۔ سید مودودی مقام اختلاف کی نشان دہی کرتے ہوئے اعتدال اور توازن سے کام لیتے ہیں۔ ان کی شعوری طور پر یہ کوشش رہی ہے کہ تفہیم القرآن کسی خاص مسلک کی نمائندہ تفسیر نہ بن جائے۔ تفہیم القرآن میں جا بجا فقہی مکاتب فکر کا تقابل نظر آتا ہے۔ مثلاً، سورۃ البقرۃ کی آیت:’’فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللہ فلاَجُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ‘‘ (۲: ۲۲۹) (اگر تمھیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے )کی تفسیر بیان کرتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں : ’’جمہور کے نزدیک خلع کی عدت وہی ہے جو طلاق کی ہے مگر ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں متعدد روایات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک ہی حیض قرار دی تھی اور اسی کے مطابق حضرت عثمانؓ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا ‘‘۔ [۱]

فقہی  معاملات میں اعتدال اور توازن کی ایک مثال یہ بھی ہے۔ لکھتے ہیں :’’امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ امام کی قرأت خواہ جہری ہو یا سری، مقتدیوں کو خاموش ہی رہنا چاہیے۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ صرف جہری قرأت کی صورت میں مقتدیوں کو خاموش رہنا چاہیے، لیکن امام شافعی اس طرف گئے ہیں کہ جہری اور سری دونوں صورتوں میں مقتدیوں کو قرأت کرنی چاہے کیونکہ بعض احادیث کی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی‘‘۔ [۲]

تفہیم القرآن میں سید مودودی نے اپنی آرا کا بھی اظہار کیا ہے جو ان کی علمیت، معتدل مزاجی، استدلال اور حقیقت پسندی کی عکاس ہیں۔ ایسے معاملات میں سید مودودی ایک مخلص محقق کی طرح جس رائے کو قرآن و سنت کے قریب پاتے ہیں اسے اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً سورۃ النساء کی آیت:حرمت علیکم امھٰتکم و بنٰتکم واخواتکم (سورۃ النساء ۴:۲۳)(تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں۔ ۔ ۔ )کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں جو لڑکی ہوئی ہو وہ بھی حرام ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک وہ بھی جائز بیٹی کی طرح محرمات میں سے ہے اور امام شافعی کے نزدیک وہ محرمات میں سے نہیں ہے۔ مگر درحقیقت یہ تصور بھی ذوق سلیم پر بار ہے کہ جس لڑکی کے متعلق آدمی یہ جانتا ہو کہ وہ اسی کے نطفہ سے پیدا ہوئی ہے، اس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لیے جائز ہو۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۷۶، حاشیہ:۲۵۲۔

۲۔ ایضاً، ج۲، ص۱۱۴، حاشیہ:۱۵۳۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۳۳۷، حاشیہ۳۵۔

__________________________________________

 

تقابل ادیان:

 

تفہیم القرآن کی ایک اور خصوصیت تقابل ادیان ہے۔ آپ مختلف مقامات پر یہودیت، عیسائیت، ہندوازم اور قرآنی تعلیمات کا تقابل کرتے ہیں۔ یہ تقابل صرف سابقہ ادیان و مذاہب تک محدود نہیں رہتا بلکہ آپ جدید علمی و فلسفیانہ نظریات کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کا ابطال کرتے ہیں۔ مثلاً ہیگل اورمارکس کا نظریہ تاریخ، ڈارون کا نظریہ ارتقاء، میکیاولی کا نظریہ لادینی سیاست اور فرائیڈ کا نظریہ جنسی نفسیات وغیرہ۔ [۱]س طرح کے تقابلی جائزے سید مودودی کی وسعت مطالعہ اور باریک بینی کا ثبوت ہیں۔ آپ کا انداز علمی و تحقیقی ہے۔ آپ نے مناظرانہ انداز سے اجتناب کیا ہے۔ سید صاحب ایک طرف تو مسیحی اہل قلم اور مغربی مستشرقین کے قرآن پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں اور دوسری طرف قرآن مجید کے بیانات کی روشنی میں بائبل میں موجود تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔ آپ زیر بحث مسئلے کے لیے دیگر مذاہب کی کتب سے مندرجات بیان کرتے ہوئے، قرآن کی روشنی میں اصل حقیقت واضح کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ  مغربی فلسفہ و افکار کے زیر اثر قرآن کی تفسیر اور تاویل کرنے والے مسلمان دانش وروں کا محاکمہ بھی کرتے ہیں۔ سید مودودی نے قرآنی تعلیمات سے موازنے کے لیے دیگر الہامی کتب کی تحریروں کے حوالے دینے کے ساتھ ساتھ، ان کی کمزوریوں اور ان کے مندرجات میں کی گئی تحریف کی نشاندہی بھی کی ہے۔ آپ نے نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ ان کتابوں اور ان کے مندرجات کی بنیاد پر قائم افکار و تصورات پر زبردست تنقید کی ہے۔ ان تصورات میں یہودیوں کی نسل پرستی، عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث، کفارہ اور حضرت عیسیٰ کو صلیب دیے جانے کا عقیدہ وغیرہ شامل ہیں۔ مثلاً سورۃ النساء کی آیت :’’انما المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ وکلمتہ القھا الیٰ مریم وروح منہ ‘‘ (۴: ۱۷۱) (مسیح عیسیٰ بن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے۔ )کی تفسیر میں ’’کلمہ‘‘ کو اللہ کا حکم اور فرمان قرار دیتے ہیں کہ اللہ نے حضرت مریم کے رحم پریہ فرمان نازل کیا کہ وہ کسی مرد کے ملاپ کے بغیر حضرت عیسیٰ کی پیدایش کے مراحل انجام دے۔ ابتدا میں عیسائیوں کا عقیدہ بھی اسی طرح تھا، لیکن بعد میں یونانی فلسفے کی وجہ سے گمراہ ہو گئے۔ سید صاحب لکھتے ہیں :’’انھوں نے یونانی فلسفہ سے گمراہ ہو کر پہلے لفظ کلمہ کو ’’کلام‘‘ یا نطق کا ہم معنی سمجھ لیا۔ پھر اس کلام و نطق سے اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت کلام مراد لے لی۔ پھر یہ قیاس قائم کر لیا کہ اللہ کی اس ذاتی صفت نے مریم علیہا السلام کے بطن میں داخل ہو کر وہ جسمانی صورت اختیار کی جو مسیح کی شکل میں ظاہر ہوئی اس طرح عیسائیوں میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا فاسد عقیدہ پیدا ہوا اوراس غلط تصور نے جڑ پکڑ لی کہ خدا نے خود اپنے آپ کو یا اپنی ازلی صفات میں سے نطق و کلام کی صفت کو مسیح کی شکل میں ظاہر کیا۔ [۲]

__________________________________________

۱۔ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء، سید مودودی کا تفسیر ی اسلوب:الیف الدین ترابی، ص۳۰۱۔

۲۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱ص۴۲۸، حاشیہ:۲۱۲۔

__________________________________________

اسی طرح سورۃق کی آیت:’’وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَافِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوْبٍ۔ ‘‘

(۵۰:۳۸)  (ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کر دیا اور ہمیں کوئی تکان لاحق نہ ہوئی۔ )کی تفسیر میں سید مودودی یہود و نصاریٰ کے عقائد اور ان کی کتب کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اس آیت میں ضمنا ً ایک لطیف طنز یہود و نصاریٰ پر بھی ہے جن کی بائیبل میں یہ افسانہ گھڑا گیا ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو بنایا اور ساتویں دن آرام کیا‘‘ (پیدایش ۲:۲)اگرچہ اب مسیحی پادری اس بات سے شرمانے لگے ہیں اور انھوں نے کتاب مقدس کے اردو ترجمے میں آرام کیا کو ’’فارغ ہوا‘‘سے بدل دیا ہے۔ مگر کنگ جیمز کی مستند انگریزی بائبل میں (And He rested on the seventh day) کے الفاظ صاف موجود ہیں۔ اور یہی لفظ اس ترجمے میں بھی پائے جاتے ہیں جو ۱۹۵۴ء میں یہودیوں نے فلیڈلفیا سے شائع کیا ہے۔ عربی ترجمہ میں بھی :فاستراح فی الیوم السابع کے الفاظ ہیں۔ ‘‘[۱]

عیسائیت کی کتب مقدسہ کے بارے میں سید مودودی بیان کرتے ہیں کہ یہ ساری کتب ان لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد عیسائیت میں داخل ہوئے۔ ان کی ساری تحریریں زبانی روایات کی شکل میں تھیں جن کو جمع کیا گیا۔ کوئی انجیل بھی ۷۰ء سے پہلے کی لکھی ہوئی نہیں ہے اور انجیل یوحنا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک صدی بعد غالباً ایشیا کوچک کے شہر افسس میں لکھی گئی ہے۔ اور مزید یہ کہ عیسائی اپنی انجیلوں میں اپنی پسند کے مطابق تغیر و تبدل کر نے کو بالکل جائز سمجھتے رہے ہیں۔ مطبع کی ایجاد سے پہلے کے جتنے مسودات کو جمع کیا گیا ان میں سے کوئی بھی چوتھی صدی عیسوی سے پہلے کا نہیں۔ [۲] اناجیل میں کی گئی تحریف کے ثبوت میں سید صاحب نے انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا(ایڈیشن ۱۹۴۶ء)کے ایک مقالے ’’بائیبل‘‘ کا یہ اقتباس درج کیا ہے :’’انا جیل میں ایسے نمایاں تغیرات دانستہ کیے گئے ہیں جیسے مثلاً بعض پوری پوری عبارتوں کو کسی دوسرے ماخذ سے لے کر کتا ب میں شامل کر دینا۔ ۔ ۔ یہ تغیرات صریحاً کچھ ایسے لوگوں نے بالقصد کیے ہیں جنھیں اصل کتاب کے اندر شامل کرنے کے لیے کہیں سے کوئی مواد مل گیا اور وہ اپنے آپ کواس کا مجاز سمجھتے رہے کہ کتاب کو بہتر یا زیادہ مفید بنانے کے لیے اس کے اندر اپنی طرف سے اس مواد کا اضافہ کر دیں۔ ۔ ۔ بہت سے اضافے دوسری صدی ہی میں ہو گئے تھے اور کچھ نہیں معلوم کہ ان کا ماخذ کیا تھا۔ ‘‘ [۳]

تقابل ادیان کی ان بحثوں میں سید صاحب کا انداز تحقیقی، تجزیاتی، منطقی اور استدلالی ہے۔ آپ نے انبیائے کرام کے تاریخی واقعات کو بیان کرتے ہوئے، تنقیدی بصیرت کے ساتھ اظہار رائے کیا ہے۔ انبیائے کرام کے بارے میں عیسائیوں اور

لکھتے

وہ ملک کو دارالاسلام

یہودیوں کے من گھڑت قصوں کو  اور احمد بن حنبل رحمھ_________________________رد کرتے ہوئے، اسلام کا نقطہ نظر بہت عمدگی سے واضح کیا ہے۔ آپ نے ایسے تمام واقعات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے جو انبیائے کرام کی شان کے خلاف ہیں۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۵، ص۱۲۵، حاشیہ:۵۰۔

۲۔ ایضاً، ج۵، ص ۴۶۳، حاشیہ:۸۔

۳۔ ایضاً، ج۵، ص۴۶۳، حاشیہ:۸۔

__________________________________________

 

جدید علم الکلام:

 

تفہیم القرآن کی ایک اور انفرادیت نیا علم الکلام ہے۔ سید مودودی سے پہلے بھی تفاسیر میں کلامی مسائل پر مباحث ملتے ہیں لیکن ان میں کہیں تو اسلام کے بنیادی عقائد میں اشتباہ پیدا کیا گیا ہے اور کہیں مغربی فکر کے زیر اثر معجزات سے انکار ہے۔ کہیں انداز اتنا فلسفیانہ ہے کہ بات مزید الجھتی دکھائی دیتی ہے۔ سید مودودی اپنی تفسیر میں پہلے تو مغربی فلسفے کے زیر اثر پروان چڑھنے والی فکر کی تردید کرتے ہیں اور پھر اس فکر سے توحید، آخرت، معجزات اور نبوت میں پیدا کردہ اشکالات کی قرآن و سنت کی روشنی میں سائنسی استدلال کے ساتھ تردید کرتے ہیں۔ نبوت کے حوالے سے ان کا کہنا ہے : ’’قرآن مجید کی رو سے یہ اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہے جس کے ماننے اور نہ ماننے پر کفر و ایمان کا انحصار ہے۔ ایک شخص نبی ہو اور آدمی اس کو نہ مانے تو کافر، اور وہ نبی نہ ہو اور آدمی اس کو مان لے تو کافر‘‘۔ [۱]

آپ نے توحید اور آخرت جیسے علمی موضوعات کو فلسفیانہ انداز اور منطق کے اصولوں کی بنیاد پر بیان کرنے کے بجائے نہایت  سادگی اور تمثیلی انداز سے پیش کیا ہے :’’جب دنیا میں ہر چیز کا ایک جوڑا ہے اور کوئی چیز اپنے جوڑے سے ملے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتی تو دنیا کی یہ زندگی کیسے بے جوڑ ہو سکتی ہے۔ اس کا جوڑا لازماً آخرت ہے وہ نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔ ان ہی دلائل سے توحید کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ بارش کا انتظام، زمین کی ساخت، آسمان کی تخلیق، انسان کا اپنا وجود کائنات میں قانون تزویج کی حیرت انگیز کارفرمائی یہ ساری چیزیں جس طرح آخرت کے امکان و وجوب پر گواہ ہیں اسی طرح یہی اس بات کی شہادت دے رہی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں بلکہ ایک خدائے حکیم و قادر مطلق ہی اس کا خالق اور مالک اور مدبر ہے ‘‘۔ [۲]سید مودودی نے علم الکلام میں جدت اور وسعت پیدا کرتے ہوئے عہد حاضر کے نظریات و افکار اور فتنوں کو بھی تنقید و تحقیق کے پیمانے پر پرکھا ہے۔ مغربی فلسفے کے زیر اثر پروان چڑھنے والی مرعوبیت کو ختم کرنے کے لیے ان نظریات کا ابطال کیا ہے جو مسلم نوجوان کو شکوک و شبہات میں ڈالے ہوئے تھے۔ اس طرح کی کوششیں سید مودودی سے پہلے بھی مسلم دانش وروں کے ہاں نظر آتی ہیں، لیکن ان کے ہاں وہ استدلال نہیں تھا جو جدید ذہن کو قائل کر سکے۔ سید مودودی نے بڑے اعتماد کے ساتھ مغربی افکار و نظریات پر تنقید کی ہے اور دورِ جدید کے ہر چیلنج کا بڑے مثبت اور مدلل انداز میں جواب دیا ہے جو نہ صرف عقل سلیم کو متاثر کرتا ہے بلکہ آپ کا انداز بیان قاری کے اندر اعتماد پیدا کرتا ہے۔ دور جدید کے فتنوں ڈارون ازم، قومیت، سود، امپیریلزم اور بے پردگی کے بارے میں آپ  کی الگ تصانیف بھی موجود ہیں، لیکن ان کا بیشتر حصہ تفہیم القرآن میں قرآنی تعلیمات کی تشریح و توضیح کے دوران میں زیادہ متاثر کن نظر آتا ہے۔ مثلاً ابتدائے حیات سے متعلق مباحث کے بارے میں لکھتے ہیں :’’بے جان مادے کی محض ترکیب سے خود بخود جان پیدا نہیں ہو سکتی۔ حیات کی پیدایش کے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کا ٹھیک تناسب کے ساتھ بالکل اتفاقاً جمع ہو کر زندگی کا آپ سے آپ وجود میں آ جانا دہریوں کا ایک غیر علمی مفروضہ ہے۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہے

جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ یہ ایک خالق کے امر و ارادہ اور منصوبے کا نتیجہ ہے ‘‘۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۴، ص۱۵۱، حاشیہ:۷۷، ضمیمہ ختم نبوت۔

۲۔ ایضاً، ج۵، ص۱۵۱، حاشیہ:۴۷۔

۳۔ ایضاً، ج۳، ص۵۹۳، حاشیہ:۸۰۔

__________________________________________

اسی طرح سود اور تجارت کے بارے میں لکھتے ہیں :’’تجارت انسانی تمدن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس  سود اس کی تخریب کا موجب بنتا ہے۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل، خود غرضی، شقاوت، بے رحمی اور زرپرستی کی صفات پیدا کرتا ہے۔ اس بنا پر سود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے ‘‘۔ [۱]

 

معجزات کا اثبات:

 

مغرب سے مرعوب اور عقلیت کے فریب میں مبتلا اذہان کو سب سے زیادہ دقت معجزات کے سلسلے میں پیش آئی ہے۔ قرآن کے معجزات کو تسلیم کرنا انھیں عقل کے خلاف لگا۔ اس لیے معجزات کی حقیقت سے یا تو انکار کیا گیا یا اہل عقل کو مطمئن کرنے کے لیے ان کی ایسی تاویلیں کی گئیں جو قرآن کے مفہوم سے یکسر مختلف تھیں۔ سید مودودی نے اپنی تفسیر میں سائنسی طریق پر معجزات کے بارے میں بحث کی ہے۔ آپ کا انداز اور رویہ کہیں بھی معذرت خواہانہ نہیں ہے۔ آپ نے کسی سے مرعوب ہوئے بغیر قرآن کے معجزات کو قرآن کے سیاق و سباق میں پیش کیا ہے۔ جب بھی اللہ کے انبیا ء نے اپنی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کی تو انھوں نے جواب میں ان سے کوئی ایسی نشانی مانگی جو ان کی صداقت کو ثابت کرسکے۔ سید صاحب لکھتے ہیں :

’’اس مطالبہ کے جواب میں انبیاء نے وہ نشانیاں دکھائی ہیں جن کو قرآن کی اصطلاح میں ’’آیات‘‘ اور متکلمین کی اصطلاح میں ’’معجزات‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے نشانات یا معجزات کو جو لوگ قوانین فطرت کے تحت صادر ہونے والے عام واقعات قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ درحقیقت کتاب اللہ کو ماننے اور نہ ماننے کے درمیان ایک ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو کسی طرح معقول نہیں سمجھا جا سکتا۔ ۔ ۔ معجزات کے باب میں اصل فیصلہ کن سوال صرف یہ ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نظام کائنات کو ایک قانون پر چلا دینے کے بعد معطل ہو چکا ہے اور اب اس چلتے ہوئے نظام میں کبھی کسی موقع پر مداخلت نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ جو لوگ اس سوال کے جواب میں پہلی بات کے قائل ہیں ان کے لیے معجزات کو تسلیم کرنا غیر ممکن ہے کیونکہ معجزہ نہ تو ان کے تصور خدا سے میل کھاتا ہے اور نہ تصورِ کائنات سے۔ لیکن ایسے لوگوں کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر و تشریح کی بجائے اس کا صاف صاف انکار کر دیں ‘‘۔ [۲]

 

عقلی اورسائنسی دلائل کا استعمال:

مودودی صاحب نے اپنی تفسیر میں جہاں اسلامی عقائد، عبادات اور نظام زندگی کو پیش کیا ہے وہاں عقلی دلائل کے ساتھ مغربی نظریات، تحریکات اور فلسفے کا رد کیا ہے۔  پروفیسر حفیظ الرحمن احسن نے لکھا ہے :’’تفہیم القرآن نے ہر فتنے اور گمراہی کا پوری استدلالی قوت کے ساتھ توڑ کیا ہے اور بے مثال ناقدانہ تجزیہ و تحلیل کے ذریعے اس کا تار و پود بکھیرا ہے اس طرح خود تفہیم القرآن عصر جدید کی نظریاتی اور فکری بنیادوں کے لیے ایک ایسا چیلنج بن گئی ہے جس کا کوئی مثبت جواب مغربی اور الحادی فلسفہ و فکر اور نام نہاد سائنسی تعقل کے پاس نہیں ہے۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۲۱۳، حاشیہ:۳۱۸۔

۲۔ ایضاً، ج۲، ص۶۵۔ ۶۶، حاشیہ:۸۷۔

۳۔ آئین تفہیم القرآن نمبر، عصری فتنے اور تفہیم القرآن:حفیظ الرحمٰن احسن، ص۵۷۔

__________________________________________

سید صاحب کی تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جدید سائنسی نظریات سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اور آپ کی یہ واقفیت     اور معلومات ہمیشہ تازہ رہتی تھیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :’’زمانہ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہاب ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں ان کی تعداد کا اوسط ۱۰کھرب روزانہ ہے۔ جن میں دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتے ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے۔ ان کی رفتار بالائی فضا میں ۲۶میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں سے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ‘‘۔ [۱]

ا سی طرح عالم بالا اور خلا کے بارے میں رقم طراز ہیں :’’عالم بالا محض خلا ہی نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے اس میں نفوذ کر جائے۔ بلکہ اس کی بندش ایسی مضبوط ہے کہ اس کے مختلف خطے ایسی مستحکم سرحدوں سے محصور کیے گئے ہیں کہ کسی شیطان سرکش کا ان سرحدوں سے گزر جانا ممکن نہیں ہے۔ کائنات کے ہر تارے اور سیارے کا اپنا ایک دائرہ اور کرہ ہے۔ جس کے اندر سے کسی کا نکلنا بھی سخت دشوار ہے اور جس میں باہر سے کسی کا داخل ہونا بھی آسان نہیں۔ ظاہری آنکھ سے کوئی دیکھے تو خلا محض کے سوا کچھ نظر نہیں آتا‘‘۔ [۲]

حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے کے معجزے کو بیان کرتے ہوئے، دور حاضر سے اس کی خوب صورت مثال پیش کی ہے :’’اس مقام پر بہت سے عقلیت کے مدعی حضرات یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں جا کر کسی انسان کا زندہ نکل آنا غیر ممکن ہے لیکن پچھلی ہی صدی کے آخر میں عقلیت کے گڑھ انگلستان کے سواحل سے کچھ مچھیرے وہیل مچھلی کے شکار کے لیے گہرے سمندر میں گئے وہاں انھوں نے ۲۰ فٹ لمبی ۵ فٹ چوڑی اور سو ٹن وزنی مچھلی کو زخمی کر دیا۔ مگر اس جنگ کے دوران میں جیمز بار ٹلے نامی ایک مچھیرے کو اس کے ساتھیوں کی آنکھوں کے سامنے اس مچھلی نے نگل لیا دوسرے روز وہی مچھلی اس جہاز کے لوگوں کو مری ہوئی مل گئی۔ انھوں نے بمشکل اسے جہاز پر چڑھایا اور پھر طویل جدوجہد کے بعد اس کا پیٹ چاک کیا تو بارٹلے اس کے اندر سے زندہ برآمد ہو گیا۔ یہ شخص مچھلی کے پیٹ میں پورے ۶۰ گھنٹے رہا‘‘۔ [۳]

ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ سید مودودی نے جدیدسائنسی علوم سے استفادہ بھی کیا ہے اوراس بات کو ثابت کیا ہے کہ سائنس دین میں مزاحم نہیں بلکہ دین کی تصدیق کرتی ہے۔ بقول جسٹس محمد افضل چیمہ:’’( تفہیم القرآن) میں نہ صرف طرزِ استدلال میں نہایت معقول اورسائنٹیفک انداز اختیار کیا گیا ہے، بلکہ مناسب مقام پر فلسفہ، طبیعات، علم الکیمیا، فلکیات و دیگر جدید سائنسی علوم کا براہ راست تجزیہ کرتے ہوئے بات کی گئی ہے۔ ‘‘[۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲، ص۵۰ا، حاشیہ:۱۲۔

۲۔ ایضاً، ج۴، ص۲۸۰، حاشیہ:۶۔

۳۔ ایضاً، ج۴، ص۳۰۸، حاشیہ:۸۲۔

۴۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، ص۲۶۳۔

__________________________________________

 

جامع اشاریہ:

 

تفہیم القرآن کی ایک اور منفرد خوبی اس کا اشاریہ ہے۔ سید صاحب نے قرآنی موضوعات اور مباحث کے متعلق، حروف ابجد کی ترتیب کے ساتھ، ہر جلد کے آخر میں موضوعات کا اشاریہ شامل کیا ہے۔ اس سے قاری کے لیے قرآن کے تمام موضوعات، مباحث، اور عنوانات تک رسائی نہایت آسان ہو گئی ہے اور اشاریے کی مدد سے کسی بھی موضوع پر نقطۂ نظر کو جاننا بھی سہل ہو گیا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد نے لکھا ہے : تفہیم القرآن میں جو اشاریہ تیار کیا گیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قرآن اور تفہیم القرآن کے تمام اہم مباحث کا آئینہ ہے ‘‘۔ [۱]

 

 منفرد طرز استدلال:

 

 

سید مودودی کے ہاں استدلال کا ایک خاص رنگ پایا جاتا ہے جو اس سے پہلے ہمارے دینی اور تفسیری ادب میں کم ہی نظر آتا ہے۔ اکثر مفسرین اور علما نے یا تو جدید مسائل سے بالکل تعرض نہیں کیا یا ان کو بیان کرنے کے لیے روایتی انداز اختیار کیا۔ آپ نے قرآن کی تفسیر میں استدلالی انداز اس لیے اختیار کیا کہ نئی نسل ہر چیز کو دلائل کی بنیاد پر پرکھنے کی عادی ہو چکی تھی۔ آپ کے طرز استدلال کی بنیاد زورِ بیان یا جوش جذبات پر نہیں تھی، بلکہ دلائل کو اس انداز میں ترتیب دیا ہے کہ قاری کی ذہنی عقلی اور فکری تشفی ہو۔ آپ اپنی تحریر میں نکات کو ایسے ترتیب دیتے ہیں کہ قاری ان کی رائے سے اتفاق کر لیتا  اور ان کے دلائل کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔  مثال کے طور پر آپ لکھتے ہیں : ’’کسی کو معبود بنانے کے لیے لا محالہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ ایک معقول وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں معبودیت کا کوئی استحقاق رکھتا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ آدمی کا خالق ہو اور آدمی اپنے وجود کے لیے اس کا رہین منت ہو۔ تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ آدمی کی پرورش کا سامان کرتا ہو اور اسے رزق یعنی متاع زیست بہم پہنچاتا ہو۔ چوتھی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آدمی کا مستقبل اس کی عنایات سے وابستہ ہو اور آدمی کو اندیشہ ہو اس کی ناراضی مول لے کر وہ اپنا انجام خراب کر لے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ان چاروں وجوہ میں سے کوئی وجہ بھی بت پرستی کے حق میں نہیں ہے بلکہ ہر ایک خالص خدا پرستی کا تقاضا کرتی ہے۔ ‘‘  [۲]

سید مودودی کے دلائل بالکل واضح ہوتے ہیں۔ آپ پہلے ایک مقدمہ قائم کرتے ہیں اور پھر بتدریج اس کے نتیجے کی طرف بڑھتے ہیں۔  پھر آخر میں نہایت محکم اور متاثر کن دلائل سے بات قاری کے ذہن میں اتار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں :’’سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی انسان کبھی اس بات پر قادر ہوا ہے یا ہو سکتا ہے کہ سال ہا سال تک دو قطعی مختلف اسٹائلوں میں کلام کرنے کا تکلف نباہتا چلا جائے اور کبھی یہ راز فاش نہ ہو سکے کہ یہ دو الگ اسٹائل دراصل ایک ہی شخص کے ہیں۔ عارضی اور وقتی طور پر تو اس قسم کے تصنع میں کامیاب ہو جانا ممکن ہے لیکن مسلسل ۲۳ سال تک ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں ہے ‘‘۔  [۳]

__________________________________________

۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، کتاب انقلاب، تفہیم القرآن:پروفیسر خورشید احمد، ص۳۱۔

۲۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۶۸۸، حاشیہ:۲۹۔

۳۔ ایضاً، ج۵، ص۱۷۸، حاشیہ:۲۷۔

__________________________________________

سید مودودی اپنے طرز استدلال کو موثر بنانے کے لیے بعض اوقات نہایت دل چسپ مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ مثلاً ایمان اور عمل صالح کی بحث میں لکھتے ہیں :’’ایمان وہی معتبر اور مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے۔ ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعویٰ ہے جس کی تردید آدمی خود ہی کر دیتا ہے جب وہ اس دعوے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر چلتا ہے۔ ایمان اور عمل صالح کا تعلق بیج اور درخت کا سا ہے جب تک بیج زمین میں نہ ہو کوئی درخت پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر بیچ زمین میں ہو اور کوئی درخت پیدا نہ ہو تو اس کے معنی ہیں بیج زمین میں دفن ہو کر رہ گیا‘‘۔ [۱]

آپ جو مثالیں بیان کرتے ہیں وہ نہ صرف عام فہم سہل سادہ اور دلچسپ ہوتی ہیں بلکہ ہمارے اردگرد کے ماحول سے تعلق رکھتی ہیں۔ آخرت کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’آخرت کے معاملات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ہمارے لیے اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا ایک دو برس کے بچے کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے۔ حالانکہ جوان ہو کر اسے خود اس سےسابقہ پیش آنا ہے۔ ‘‘[۲]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۶، ص۴۵۳، حاشیہ:۱۔

۲۔ ایضاً، ج۶، ص۱۷۴، حاشیہ:۱۷۔

__________________________________________

 

 

 

باب سوم: "الاتقان فی علوم القرآن” کے اصول تفسیر کی روشنی میں تفہیم القرآن کا تجزیاتی مطالعہ

 

               حصہ اول:   زبان و بیان

 

               فصل اول: علم اللغۃ

 

بنی نوع انسان پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات میں سے ایک عظیم الشان نعمت یہ ہے کہ اس نے انسان کو نطق اور بیان کی خصوصی صلاحیت سے بہرہ ور کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کا ذکر قرآن مجید میں بھی فرمایا ہے :علمہ البیان۔ ’’اور اسی(اللہ) نے اسے بیان سکھایا۔ ‘‘    (الرحمن۵۵:۴)اور   وعلم ادم الاسماء کلھا۔ (البقرۃ۲:۳۱)’’اور(اللہ نے )آدم کو تمام (اشیاء کے )  نام سکھا دیے۔ ‘‘

نطق کی تخلیق کے ساتھ ہی، نتیجۃً اصوات کی پیدائش ہوئی۔ یہی اصوات لغات انسانی کا مبدا  اور ماخذ ہیں۔  رب جلیل کی اس فقیدالمثال نعمت سے کام لے کر انسان نے اپنا ما فی الضمیر دوسرے انسانوں تک پہنچانے کے لیے اور کائنات کی تمام اشیاء کی پہچان کے لیے، کچھ الفاظ تخلیق کیے۔ ان الفاظ کی حقیقت، مادے اور ہیئت سے متعلق جاننے کا علم ’’علم اللغۃ‘‘ کہلاتا ہے۔

الوسیط میں لغت کی تعریف ان الفاظ سے کی گئی ہے :الفاظ یعبر کل قوم عن اغراضھم۔ ’’وہ الفاظ جن کے ذریعے سے لوگ اپنے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہیں۔ ‘‘[۱]

علم اللغہ میں مفرد الفاظ پر بحث کی جاتی ہے اور اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ اس لفظ کا آغاز کس طرح سے ہوا اور اس کوکس معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ [۲]

دستورالعلماٗ کے مصنف لکھتے ہیں :

فالبحث فیھا (اما عن المفردات)من حیث جواھرھا، فعلم اللغۃ۔ [۳]

’’اس علم میں مفرد الفاظ کے جواہر اور مادوں کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔ ‘‘

ابن الاکفانی (م۸۴۹ھ)نے علم الادب کو دس انواع میں تقسیم کر کے علم اللغہ کوسب سے پہلی قسم قرار دیا ہے۔  ان کے نزدیک علم اللغۃ کا تعلق مفرد الفاظ سے ہے اوراس میں مفرد الفاظ کے جوہر، ان کے مادوں اور ہیئتوں سے بحث کی جاتی ہے۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ احمد الاسکندری ومصطفی عنانی، الوسیط فی الادب العربی وتاریخہ، دارالمعارف مصر، ۱۹۱۶ء، ص۳۔

۲۔ ایضاً، ص۲۲۸۔

۳۔ قاضی عبدالنبی احمد نگری، جامع العلوم الملقب بہ دستور العلماء، حیدر آباد :مطبعہ دائرۃ المعارف النظامۃ، ج۲، ط۱، ۱۳۲۹ھ، ص۳۷۶۔

۴۔ ابن الاکفانی، محمد بن ابراہیم، ارشادالقاصدفی اسنی المقاصد، قاہرہ، دارالفکرالعربی، ۱۹۹۰ء، ص۱۰۹۔

__________________________________________

اگرچہ انسانی لغات کے آغاز کے بارے میں علمائے لغات کسی خاص زمانے کا تعین نہیں کرسکے، لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جاتی ہے کہ تمام انسانی لغات کی ابتدا مشترک ہے۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وما کان الناس الا امۃ واحدۃ فاختلفوا۔ (یونس۱۰:۱۹)’’اور سارے لوگ ابتدا میں ایک ہی جماعت تھے، پھر (باہم اختلاف کر کے )  جدا جدا ہو گئے۔ ‘‘  انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ مخصوص صلاحیت کی بنا پر، اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے  جو اصوات ابتدا میں تخلیق کی تھیں،  وہ مرور زمانہ کے ساتھ، علاقوں، نسلوں اور قبائل میں تقسیم ہونے کے بعد مختلف ہوتی  گئیں۔ اس کا ثبوت بعض زبانوں میں اصوات، الفاظ اوررسم الخط کا اشتراک ہے۔ انسانوں کی تقسیم اور علاقوں کے اختلاف کے باعث الفاظ کے معانی کے تعین اور استعمال میں بھی کلی یا جزئی اختلاف نمودار ہو گئے۔ ایسے اختلاف بعض اوقات ایک ہی زبان بولنے والوں کے درمیان معمولی یا زیادہ فاصلوں کے سبب سے پیدا ہو گئے۔

آغاز اسلام کے ساتھ ہی عربی زبان و ادب کی اہمیت کا شعور اجاگر ہوا۔ قرآن و حدیث کے مختلف مباحث کے دوران لغت عرب سے واقفیت نہایت ضروری امر قرار دیا گیا۔ قرآن مجید چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا اور اس کے سب سے پہلے مخاطب بھی عرب تھے، اس لیے اس کی صحیح تفہیم اور وضاحت کے لیے عربی زبان و ادب سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :اِناَّاَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰناّ عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔ (سورۃ یوسف۱۲:۲)(ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں اتارا  تاکہ تم غور و فکر کرو) اسی طرح کے ارشادات سورۃ الزمر۲۸:۳۹، سورۃ الزخرف ۴۳:۳، سورۃ فصلت۴۱:۳، سورۃطٰہ۲۰:۱۱۳، سورۃ الاحقاف۴۶:۱۲، سورۃ الرعد۱۳:۳۷ اور سورۃ الشوریٰ۴۲:۷ میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے ام القریٰ کی عربی زبان، ادب، محاورات اور دیگر رائج لہجات اور ان کے استعمال کا علم ہونا اشد ضروری ہے۔ حضرت مجاہد کا قول ہے :’’لایحل لاحد یومن باللہ والیوم الآخر ان یتکلم فی کتاب اللہ اذا لم یکن عالما بلغات العرب۔ ‘‘ (کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہو، حلال نہیں ہے کہ وہ کتاب اللہ کے بارے میں عربی لغات کا علم رکھے بغیر، کوئی رائے دے۔ )[۱]

جلال الدین سیوطی (م۹۱۱ھ)نے اپنے رسالہ میں ابو بکر محمد بن قاسم الانباری کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک اعرابی مدینہ میں آیا اور اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کے معلم نے اسے قرآن کی آیت:اِنَّ اللّٰہَ بَرِی ء مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہٗ پڑھاتے ہوئے َرَسُوْلُہٗ کو لام کے زیر کے ساتھ َرَسُوْلِہ پڑھا ڈالا۔ اس پر اعرابی نے کہا کہ کیا اللہ اپنے رسول سے بیزار ہو گیا؟اگر اللہ اپنے رسول سے بیزار ہے تو میں بھی اس سے بیزار ہوں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اعرابی کی اس بات کی خبر ملی تو آپ نے اس سے استفسار کیا۔ اعرابی نے سارا واقعہ سنایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی تصحیح کی۔ اس پر اعرابی نے کہا کہ خدا کی قسم میں بھی اس سے بہت زیادہ بیزار ہوں جس سے اللہ اوراس کا رسول بیزار ہے۔ چنانچہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دے دیا کہ عالم لغت کے علاوہ کوئی قرآن نہ پڑھایا کرے اور ابوالاسود ظالم بن عمرو بن سفیان بن جندل الدوئلی (م۶۹ھ)کو قواعد وضع کرنے کا حکم دیا۔ [۲]

__________________________________________

۱۔ مناع خلیل القطان، مباحث فی علوم القرآن، قاہرہ:مکتبہ وہبہ عابدین، ص۳۲۲۔

۲۔ السیوطی، جلال الدین، فی وضع علم العربیۃ، محقق مروان عطیۃ، بیروت:دارالہجرۃ للطباعۃ والنشر، ۱۹۸۸ء، ص۲۷۔ ۳۱۔

__________________________________________

محمد حسین الذہبی کے نزدیک لغت عرب سے محض واقفیت ہی کافی نہیں رہتی بلکہ اس پر پوری طر ح دسترس حاصل کرنا ضروری ہے۔ لکھتے ہیں : ثم انہ لابد من التوسع والتبحر فی ذلک، لان الیسیر لا یکفی، اذ ربما کان اللفظ مشترکا، والمفسر یعلم احد المعنیین ویخفی علیہ الاخر، وقد یکون ھوالمراد۔    ’’پھر اس میں خصوصی مہارت اور وسعت بہت   ضروری ہے کیونکہ اس میں معمولی دسترس کافی نہیں ہے۔ کیونکہ بعض اوقات ایک لفظ مشترک ہوتا ہے اور مفسر اس کا ایک معنی جانتا ہوتا ہے اور دوسرے سے واقف نہیں ہوتا، جبکہ وہاں پر وہی معنی مراد ہوتا ہے جس سے مفسرواقف ہی نہیں ہوتا۔ ‘‘[۱]

سب سے پہلے عربی زبان کے قواعد ابوالاسودظالم بن عمرو بن سفیان بن جندل الدوئلی (م۶۹ھ)نے وضع کیے۔ [۲]  پہلے پہل علماء نے مختلف موضوعات پر رسائل اور مختصر کتب تصنیف کیں۔ باقاعدہ طورپران علوم کی تدوین کا آغاز خلیل بن احمد (م۱۷۰ھ)نے اپنی کتاب کتاب العینکی تصنیف سے کیا۔ اس کے بعد ابوبکر محمد بن حسن بن درید (م۳۲۱ھ)نے الجمہرۃ فی علم اللغۃ، الامالی، ابو منصور محمد بن احمدبن الازھر (م۳۷۰ھ)نے کتاب التہذیب،  ابونصر اسماعیل بن حماد الجوہری (م۴۰۰ھ)نے الصحاح، ابوالحسن علی بن اسماعیل الاندلسی ابن سیدہ(م۴۵۸ھ)نے المحکم، المخصص، ابوالحسین احمد بن فارس الرازی (۳۹۵ھ)نے المجمل جیسی عظیم کتب تصنیف کیں۔ [۳]

علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں علم اللغہ کو ان پندرہ علوم میں شمار کیا ہے جو کسی بھی مفسر قرآن کے لیے ضروری ہیں۔ [۴]

سید ابوالاعلیٰ مودودی کے سوانح اور ان کی تفسیرتفہیم القران کے مختلف مقامات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ  علوم القرآن کی اس صنف پر پوری طرح سے دسترس رکھتے تھے۔ آپ کے حالات زندگی کے بیان میں ہم ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی و تصنیفی زندگی کا تفصیلی تذکرہ کر چکے ہیں۔ عربی، فارسی اور اردو زبان سے مکمل واقفیت، آپ کے مخصوص خاندانی ماحول کی وجہ سے تھی۔ دعوت و ارشاد سے منسلک خاندان کا فرد ہونے کے باعث، بچپن ہی سے اسلامی مباحث سے آپ کی آگاہی اور دل چسپی ایک فطری امر ہے۔ صرف و نحو، فقہ اور زبان و ادب کی ابتدائی تعلیم آپ نے نوسال کی عمر میں حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد مدرسہ فوقانیہ اورنگ آباد سے ۱۹۱۴ء میں مولوی کا امتحان پاس کیا۔ [۵]  اسی طرح انگریزی زبان کی تعلیم مولوی محمد فاضل صاحب سے حاصل کی۔ [۶]  ’’علوم عقلیہ وادبیہ و بلاغت ‘‘ اور ’’علوم اصلیہ وفروعیہ‘‘ میں سند فراغت ۱۹۲۶ء میں، مولانا محمد شریف اللہ خان  مدرس دارالعلوم فتح پوری دہلی سے، حدیث، فقہ اور ادب میں سند فراغت وتدریس ۱۹۲۷ء میں مولانا اشفاق الرحمٰن کاندھلوی (مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری دہلی) سے اور جامع ترمذی و موطا امام مالک کے سمع و  قرآت کی تکمیل کے بعد سند فراغت۱۹۲۸ء میں مولانا اشفاق الرحمٰن کاندھلوی (مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری دہلی) سے حاصل کی۔ [۷]

__________________________________________

۱۔ الذہبی، محمد حسین، التفسیر والمفسرون، ص۱۹۰۔

۲۔ السیوطی، جلال الدین، فی وضع علم العربیۃ، ص۵۰۔

۳۔ احمد الاسکندری ومصطفی عنانی، الوسیط فی الادب العربی وتاریخہ،، ص۲۲۹۔

۴۔ السیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، ص۱۸۰۔

۵۔ محمد یوسف، مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظرمیں، لاہور:مکتبہ الحبیب اچھرہ، ص۴۳۔

۶۔ ایضاً، ص۴۴۔

۷۔ سلیم منصور خالد، جمیل احمدرانا، تذکرہ سید مودودی، لاہور:ادارہ معارف اسلامی، اپریل۲۰۰۰ء، ص۹۴۴۔

__________________________________________

درج بالا تصریحات اورسید ابو الاعلی مودودی کے تحریری ذخیرے کا جائزہ لینے سے یہ بات موکد ہو جاتی ہے کہ آپ لغت عرب پر نہ صرف مکمل  دسترس رکھتے تھے بلکہ زبان و ادب کی ان باریکیوں سے بھی بخوبی واقف تھے جو ایک مفسر قرآن کے لیے ضروری قرار دی گئی ہیں۔ اسی طرح اپنے دور کی دیگر مستعمل زبانوں اردو، انگریزی اور فارسی سے بھی آگاہی رکھتے تھے۔

سورۃ البقرۃ کی آیت:وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَک(۲:۳۰) کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’تسبیح کا لفظ ذومعنیین ہے۔ اس کے معنی پاکی بیان کرنے کے بھی ہیں اور سرگرمی کے ساتھ کام اور انہماک کے ساتھ سعی کرنے کے بھی۔ اسی طرح تقدیس کے بھی دو معنی ہیں، ایک تقدس کا اظہار و بیان، دوسرے پاک کرنا۔ [۱]

تفہیم القرآن، اردو زبان میں قرآن مجید کی ترجمانی ہے۔ اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید صاحب عربی زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان او ر محاورے کے مناسب استعمال پر قدرت رکھتے تھے۔ اسی طرح عربی الفاظ کے اردو مترادفات کا انتخاب بھی زبان وبیان پر آپ کی مہارت کا ثبوت ہے۔ مثال کے طور پر: قَالَ إِنَّہُ یَقُولُ إِنَّہَا بَقَرَۃٌ لاَّ ذَلُولٌ تُثِیْرُ الأَرْضَ وَلاَ تَسْقِیْ الْحَرْثَ مُسَلَّمَۃٌ لاَّ شِیَۃَ فِیْہَا۔ (البقرۃ۲:۷۱) کا ترجمہ ’’اللہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی، نہ زمین جوتتی ہے، نہ پانی کھینچتی ہے، صحیح سالم اور بے داغ ہے ‘‘ کیا ہے۔ اس میں آپ نے الفاظ کا ہو بہو ترجمہ کرنے کے بجائے اردو زبان کے مترادفات کو برمحل استعمال کیا ہے۔ [۲]

اسی طرح آپ نے اَوَکْلَّمَا عَاھَدْوا عَھدًا نَبَذَہْ فَرِیق مِنھْم بَل ا کثَرْھْم لا یْؤمِنْونَ (البقرۃ:۲۔ ۱۰۰)کے ترجمے میں نبذہ کا ترجمہ’’ بالائے طاق رکھ دیا‘‘ کیا ہے۔ اردو محاورے کے بہترین استعمال کی ایک مثال سورۃ البقرۃ کی آیت:إِنَّ اللَّہَ لاَ یَسْتَحْیِیْ أَن یَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَۃً فَمَا فَوْقَہَا۔ (۲:۲۶) ہے۔ اس میں آپ نے بَعُوضَۃ  فَمَا فَوْقَہَا کا  ترجمہ ’’مچھر یا اس سے بھی حقیر تر‘‘ کیا ہے جو کہ لفظی ترجمے سے بالکل برعکس ہے، لیکن اردو زبان کے لحاظ سے نہایت مناسب ہے۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۶۳، حاشیہ:۴۰۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۸۵۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۵۹۔

__________________________________________

سید صاحب جہاں تک ممکن ہوسکے حاشیہ میں الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے، لغت کے اعتبار سے تمام ممکن معنی بیان کرنے کے بعد، سیاق وسباق کے لحاظ سے جس معنی کا خود انتخاب کرتے ہیں اس کے جواز میں دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ مثلاً سورۃ بقرہ کی آیت:وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَیَاطِینِہمْ۔ (۲: ۱۴) کی تفسیر میں لفظ شیطان کی جس طرح سے وضاحت کرتے ہیں وہ لغت عرب پر آپ کی وسیع دسترس کی دلیل ہے۔ لکھتے ہیں :’’شیطان عربی زبان میں سرکش، متمرّد اور شوریدہ سر کو کہتے ہیں۔ انسان اور جِنّ دونوں کے لیے یہ لفظ مستعمل ہوتا ہے۔ اگر چہ قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر شیاطین جِنّ کے لیے آیا ہے، لیکن بعض مقامات پر شیطان صفت انسانوں کے لیے بھی یہ استعمال کیا گیا ہے اور سیاق و سباق سے باآسانی معلوم ہو جا تا ہے کہ کہاں شیطان سے انسان مُراد ہیں اور کہاں جِنّ۔ اِس مقام پر شیاطین کا لفظ اُن بڑے بڑے سرداروں کے لیے استعمال ہوا ہے، جو اس وقت اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ ‘‘ [۱]

اسی طرح آیت:وَلَہمْ فِیہا أَزْوَاجٌ مُّطَہرَۃ۔ (۲:۲۵) کی تشریح کے دوران میں لفظ ازواج کی لغوی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’عربی متن میں ازدواج کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ہیں ’’جوڑے ‘‘۔ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شوہر کے لیے بیوی ’’زوج ‘‘ ہے اور بیوی کے شوہر ’’زوج‘‘۔ مگر وہاں یہ ازدواج پاکیزگی کی صفت کے ساتھ ہوں گے۔ ‘‘[۲]

سورۃ البقرۃ کی آیت:وَلاَ تَقْرَبَا ہَـذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُونَا مِنَ الْظَّالِمِیْن (۲:۳۵) کی تفصیل میں الْظَّالِمِیْن کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ ظالم کا لفظ نہایت معنی خیز ہے۔ ظلم، دراصل حق تلفی کو کہتے ہیں۔ ظالم وہ ہے جوکسی کا حق تلف کرے۔ جو شخص خدا کی نافرمانی کرتا ہے وہ درحقیقت تین بڑے بنیادی حقوق تلف کرتا ہے۔ اولاً خدا کاحق، کیونکہ وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے۔ ثانیاً ان تمام چیزوں کے حقوق جن کو اس نے اس نافرمانی کے ارتکاب میں استعمال کیا۔ اس کے اعضائے جسمانی، اس کے قوائے نفس، اس کے ہم معاشرت انسان، وہ فرشتے جو اس کے ارادے کی تکمیل کا انتظام کرتے ہیں، اور وہ اشیاء جو اس کام میں استعمال ہوتی ہیں، ان سب کا اس پر حق یہ تھا کہ وہ صرف ان کے مالک ہی کی مرضی کے مطابق ان پر اپنے اختیارات استعمال کرے۔ مگر جب اس کی مرضی کے خلاف اس نے ان پر اختیارات استعمال کیے، تو در حقیقت ان پر ظلم کیا۔ ثالثاً خود اپنا حق، کیونکہ اس پر اس کی ذات کا یہ حق ہے کہ وہ اسے تباہی سے بچائے۔ ۔ ۔ انھی وجوہ سے قرآن میں جگہ جگہ گناہ کے لیے ظلم اور گناہ گار کے لیے ظالم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ ‘‘ [۳]

سورۃ البقرہ کی آیت: وَقَدْ کَانَ فَرِیقٌ مِّنْہمْ یَسْمَعُونَ کَلَامَ اللَّہ ثُمَّ یُحَرِّفُونَہ۔ (۲:۷۵) کی تشریح کرتے ہوئے لفظ فریق اور تحریف کے معنی اس طرح سے بیان کرتے ہیں :’’ایک  گروہ‘‘ سے مُراد ان کے علما اور حاملینِ شریعت ہیں۔ ’’ کلام اللہ‘‘ سے مُراد تورات، زَبور اور وہ دُوسری کتابیں ہیں جو اِن لوگوں کو ان کے انبیا کے ذریعے سے پہنچیں۔ ’’تحریف ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اصل معنی و مفہُوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ دُوسرے معنی پہنا دینا، جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ نیز الفاظ میں تغیّر و تبدّل کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ علما ء بنی اسرائیل نے یہ دونوں طرح کی تحریفیں کلام الٰہی میں کی ہیں۔ ‘‘ [۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۵۴، حاشیہ:۱۵۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۵۹، حاشیہ:۲۷۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۶۷، حاشیہ:۴۹۔

۴۔ ایضاً، ج۱، ص۸۷، حاشیہ:۸۷۔

__________________________________________

اسی سورہ کی آیت:وَلَتَجِدَنَّہمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَیَوٰۃ (۲:۹۶) کے حاشیے میں لفظ حیوٰۃ کی وضاحت کرتے ہوئے  لکھتے ہیں :  ’’اصل میں عَلیٰ حَیٰو ۃٍ کا لفظ ارشاد ہوا ہے، جس کے معنی ہیں کسی نہ کسی طرح کی زندگی۔ یعنی انہیں محض زندگی کی حرص ہے، خواہ وہ کسی طرح کی زندگی ہو، عزّت اور شرافت کی ہو یا ذلّت اور کمینہ پن کی۔ ‘‘[۱]

سورۃ الاعراف کی درج ذیل آیت کے ترجمے اور تشریح کے دوران سید صاحب کی عربی لغت پر دسترس اوراس کے ساتھ ہی ترجمے کی زبان اردو کے مترادفات کے برمحل استعمال پر قدرت ظاہر ہوتی ہے۔

 کِتَابٌ أُنزِلَ إِلَیْکَ فَلَا یَکُن فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہ لِتُنذِرَ بِہ وَذِکْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِینَ [۷:۲]

"’’یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، پس اے محمدؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو۔ اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی ہو۔ ‘‘

سید صاحب اس آیت میں استعمال ہونے والے لفظ حرج کے لیے اردو زبان کا لفظ’’ جھجھک‘‘ استعمال کرتے ہوئے، اس کا جواز حاشیے میں اس طرح پیش کرتے ہیں :’’جس مفہوم کے لیے ہم نے لفظ ِ جھجک استعمال کیا ہے، اصل عبارت میں اس کے لیے لفظ  حرجاستعمال ہوا ہے۔ لغت میں  حرج اُس گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں جس میں سے گزرنا مشکل ہو۔ دل میں حرج ہونے کا مطلب یہ ہُوا کہ مخالفتوں اور مزاحمتوں کے درمیان اپنا راستہ صاف نہ پا کر آدمی کا دل آگے بڑھنے سے رُکے۔ اسی مضمون کو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ضیق صدر کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلاً :وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ (الحجر۸، آیت ۹۷)’’اے محمد ؐ، ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تم دل تنگ ہوتے ہو‘‘۔ [۲]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۹۶، حاشیہ:۹۹۔

۲۔ ایضاً، ج۲، ص۶، حاشیہ:۲۔

__________________________________________

قرآن مجید کے الفاظ اور عبارتوں کے اندر جو شاہانہ انداز اور رعب و دبدبہ ہے، اکثر مترجمین اور مفسرین ۱ س کو بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ جس طرح کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے اصل مصدر کی زبان پر دسترس کا ہونا ضروری ہے اسی طرح ثانوی لغت جس میں مفہوم کو منتقل کی جانا مقصود ہے اس پر مترجم کی دسترس ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اگر صورت حال اس کے برعکس ہو تو کلام کا صحیح طور پر دوسری زبان میں منتقل ہونا نا ممکن ہوتا ہے۔ بعض اوقات قائل کے الفاظ سے زیادہ اس کے تاثرات سے مفہوم کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ الفاظ و فقرات کی ادائیگی میں اتار چڑھاؤ اور قائل کے جذبات واحساسات کی ترجمانی سے مفہوم کی تاثیر میں بہت فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ سید مودودی کو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کے ساتھ ساتھ اردو  زبان کا ملکہ بھی بخشا ہے جس کے ذریعے سے وہ قرآنی مفاہیم کو اسی شدت اور زور کے ساتھ اردو زبان میں منتقل کرنے پر قادر ہوئے ہیں جس طرح سے وہ اصل زبان میں ہیں۔ سید صاحب کی اس صلاحیت کا اظہار آپ کی تفسیر میں جا بجا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ البقرہ کی آیت: أَفَتَطْمَعُونَ أَن یُؤْمِنُوا لَکُمْ وَقَدْ کَانَ فَرِیقٌ مِّنْہمْ یَسْمَعُونَ کَلَامَ اللَّہ ثُمَّ یُحَرِّفُونَہ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوہ وَہمْ یَعْلَمُونَ۔ (۲:۷۵)کی تفسیر کرتے ہوئے حاشیے ہیں لکھتے ہیں :’’جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمہاری دعوتِ حق ٹکرا کر واپس آئے گی، تو دل شکستہ ہو جا ؤ گے۔ یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کی جن آیات کو سُن کو تم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، انہی سے کھیلتے اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں۔ دینِ حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیں اور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی اُمیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ حق کی آواز بلند ہوتے ہی یہ ہر طرف سے دَوڑے چلے آئیں گے۔ ‘‘[۱]

سورۃ الاعراف کی آیت:قَالَ فَاہبِطْ مِنْہا فَمَا یَکُونُ لَکَ أَن تَتَکَبَّرَ فِیہا فَاخْرُجْ إِنَّکَ مِنَ الصَّاغِرِینَ [۷:۱۳]

’’  فرمایا، ’’اچھا تو یہاں سے نیچے اتر۔ تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے۔ نکل جا کہ درحقیقت تو ان لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں۔ ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لفظ صاغرین کی لغوی تحقیق اس طرح سے کرتے ہیں :’’اصل میں لفظ صاغرین استعمال ہوا ہے۔ صاغر کے معنی ہیں الراضی بالذُّل، یعنی وہ جو ذلت اور صغارا در چھوٹی حیثیت کو خود اختیار کرے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ بندہ اور مخلوق ہونے کے باوجود تیرا اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہونا اور اپنے رب کے حکم سے اس بنا پر سر تابی کرنا کہ اپنی عزّت و بر تری کا جو تصوّر تو نے خو د قائم کر لیا ہے اس کے لحاظ سے وہ حکم تجھے اپنے لیے موجب توہین نظر آتا ہے، یہ دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ تو خود اپنی ذلت چاہتا ہے۔ بڑائی کا جھوٹا پندار، عزت کا بے بنیا د اِدعا، اور کسی ذاتی استحقاق کے بغیر اپنے آپ کو خواہ مخواہ بزرگی کے منصب پر فائز سمجھ بیٹھنا، تجھے بڑا ور ذی عزت اور بزرگ نہیں بنا سکتا بلکہ یہ تجھے چھوٹا اور ذلیل اور پست ہی بنائے گا اور اپنی اس ذلّت و خواری کا سبب تو آپ ہی ہو گا۔ [۲]

اسی طرح سورۃ الاعراف۷:۳۳ میں لفظ والاثم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اصل میں لفظ  اِثْمٌ استعمال ہوا ہے جس کے اصل معنی کوتا ہی کے ہیں۔  اٰثِمَہ اُس اونٹنی کو کہتے ہیں جو تیز چل سکتی ہو مگر جان بوجھ کر سُست چلے۔ اسی سے اس لفظ میں گناہ کا مفہوم پیدا ہوا ہے، یعنی انسان کا اپنے رب کی اطاعت و فرماں برداری میں قدرت و استطاعت کے باوجود، کوتاہی کرنا اور اس کی رضا کو پہنچنے میں جان بوجھ کر قصور دکھانا۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۸۷، حاشیہ:۸۶۔

۲۔ ایضاً، ج۲، ص۱۲، حاشیہ: ۱۱۔

۳۔ ایضاً، ج۲، ص۲۴، حاشیہ:۲۵۔

__________________________________________

تفہیم القرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں سید صاحب کو عربی زبان پر دسترس حاصل ہے وہیں اردو اور انگریزی زبانوں پر بھی ملکہ حاصل ہے۔ آپ نے جہاں تک ممکن ہوسکا عربی الفاظ کے اردو مترادفات کا استعمال کیا ہے۔ لیکن جہاں آپ نے محسوس کیا کہ یہ دونوں زبانیں کسی مفہوم کی وضاحت کے لیے ناکافی ہیں اور انگریزی زبان کے الفاظ کواستعمال کرنے کی ضرور ت پڑی تو کسی قسم کے تعصب کے بغیر آپ نے انگریزی الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پرJohn the )’Baptistج۱، ص۲۴۹، حاشیہ۳۸)، To Recall’۔ (ج۱، ص۲۵۷، حاشیہ۵۱) Devine’ (ج۱، ص۲۶۸، حاشیہ۶۷)Mass’ (ج۳ص۱۵۶، حاشیہ۲۸)  Astronomy   (ج۳ص۱۵۷، حاشیہ۳۵) Salute, Salutation، (ج۳ص۲۳۳، حاشیہ۸۲) Sub-Soil ,Water ,(ج۳ص۲۷۱، حاشیہ۱۷)  اور Prosecutor، (ج۳ص۳۷۶، حاشیہ۲۴) وغیرہ۔

اسی طرح فارسی زبان کے الفاظ کی مثال:’بپائے مردی ہمسایہ‘(ج۱، ص۲۸۰، حاشیہ۹۰)اور سورۃ المومنون کی آیت: وَمِن وَرَائِہم بَرْزَخٌ۔ (۲۳:۱۰۰)کی یہ تشریح ہے :’’ ’’ برزخ‘‘ فارسی لفظ ’’ پردہ‘‘ کا معرب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی، اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اس حد فاصل میں ٹھیرے رہیں گے۔ ‘‘[۱]

اردو محاورے اور جامع و مختصر ترجمے کی ایک مثال یہ آیت ہے :قُلْ مُوتُوا بِغَیْظِکُمْ۔ (۳:۱۱۹) سید صاحب نے اس کا اردو محاورے کے استعمال سے نہایت عمدہ ترجمہ کیا ہے :’’ان سے کہ دو کہ اپنے غصہ میں آپ جل مرو۔ ‘‘[۲]

سورۃ الکہف کی آیت: بِمَاءٍ کَالْمُہلِ۔ میں استعمال ہونے والے لفظ المھل کا لغوی پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’لغت میں ’مہل‘ کے مختلف معنی بیان کیے گئے ہیں۔ بعض اس کے معنی ’تیل کی تلچھٹ‘ بتاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ لفظ ’لاوے ‘ کے معنی میں آتا ہے، یعنی زمین کے وہ مادے جو شدت حرارت سے پگھل گئے ہوں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد پگھلی ہوئی دھات ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنی پیپ اور لہو کے ہیں۔ ‘‘[۳]

اسی طرح سورۃ الانبیا کی آیت: أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہمَا۔ (۲۱:۳۰) کے حاشیہ میں لفظ’رتق‘ کی لغوی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ اصل میں لفظ ’’ رتق‘‘ اور ’’فتق‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ رتق کے معنی ہیں یکجا ہونا، اکٹھا ہونا، ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہونا، متصل اور متلاصق ہونا۔ اور فتق کے معنی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہیں۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے (Mass)کی سی تھی، بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اجرام فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے۔ ‘‘ [۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۳۰۰، حاشیہ:۹۳۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۲۸۳ قحہ سلفی۔

۳۔ ایضاً، ج ۳، ص۲۴، حاشیہ:۳۳۔

۴۔ ایضاً، ج ۳، ص۱۵۶، حاشیہ:۲۸۔

__________________________________________

سورۃ المومنون کی آیت:  إِذَا ہمْ فِیہ مُبْلِسُونَ۔ (۲۳:۷۷) کی تشریح کے دوران میں سید صاحب کی اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں پر دسترس سامنے آتی ہے۔ لکھتے ہیں :’’ اصل میں لفظ مُبْلِسُوْن استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم مایوسی سے ادا نہیں ہوتا۔ بَلَس اور اِبْلَاس کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حیرت کی وجہ سے دنگ ہو کر رہ جانا۔ خوف اور دہشت کے مارے دم بخود ہو جاتا رنج و غم کے مارے دل شکستہ ہو جاتا۔  ہر طرح سے نا امید ہو کر ہمت توڑ بیٹھنا۔ اور اسی کا ایک پہلو مایوسی و نامرادی کی وجہ سے برافروختہDesperate) )ہو جانا بھی ہے جس کی بنا پر شیطان کا نام ابلیس رکھا گیا ہے۔ اس نام میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہی اس اور نامرادی (Frustration)کی بنا پر اس کا زخمی تکبر اس قدر بر انگیختہ ہو گیا ہے کہ اب وہ جان سے ہاتھ دھو کر  ہر بازی کھیل جانے اور ہر جرم کا ارتکاب کر گزر نے پر تلا ہوا ہے۔ ‘‘ [۱]

سورہ نور کی آیت:’’لَّیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُیُوتًا غَیْرَ مَسْکُونَۃ فِیہا مَتَاعٌ لَّکُمْ۔ (۲۴:۲۹)کی وضاحت کرتے ہوئے بیوتا غیرمسکونۃ کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ اس سے مراد ہیں ہوٹل، سرائے، مہمان خانے، دوکانیں، مسافر خانے وغیرہ جہاں لوگوں کے لیے داخلہ کی اجازت ہو۔ ‘‘[۲]

سید صاحب کی لغت پردسترس کی ایک مثال سورۃ النور کی آیت: قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہمْ۔ (۲۴:۳۰) ہے۔ آپ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہمْ کی لغوی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ اس میں الفاظ ہیں : یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارھم۔ غَضّ کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے، گھٹانے اور پست کرنے کے۔ غَضِّ بصر کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے۔ لیکن در اصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا، اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا ہے۔ یہ مفہوم ’’ نظر بچانے ‘‘ سے ٹھیک ادا ہوتا ہے، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹا لی جائے، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جائے۔ مِنْ اَبْصارِھِمْ میں مِنْ تبعیض کے لیے ہے، یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے۔ با لفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جائے، بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ ہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا۔ ‘‘ [۳]

اسی طرح سورۃ المومنون کی آیت:الَّذِینَ یَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ ہمْ فِیہا خَالِدُونَ۔ (۲۳:۱۱) لغات پرسید صاحب کی دسترس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ آپ نے لفظ فردوس کی لغوی تحقیق کرتے ہوئے دیگر لغات میں اس کی مختلف انداز سے موجودگی کا ذکرکرتے ہوئے مفہوم کا تعین اس طرح سے کیا ہے :’’ فردوس، جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے جو قریب قریب تمام انسانی زبانوں میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔ سنسکرت میں پَردِیْشَا، قدیم کلدانی زبان میں پردیسا، قدیم ایرانی (ژند) میں پیری دائزا، عبرانی میں پردیس، ارمنی میں پردیز، سُریانی میں فردیسو، یونانی میں پارا دائسوس، لاطینی میں پاراڈائسس، اور عربی میں فردوس۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایک ایسے باغ کے لیے بولا جاتا ہے جس کے گرد حصار کھنچا ہوا ہو، وسیع ہو، آدمی کی قیام گاہ سے متصل ہو، اور اس میں ہر قسم کے پھل، خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج ۳، ص۲۹۴، حاشیہ:۷۳۔

۲۔ ایضاً، ج۳، ص۳۷۹، حاشیہ:۲۸۔

۳۔ ایضاً، ج ۳، ص۳۸۰، حاشیہ:۲۹۔

۴۔ ایضاً، ج۳، ص۲۶۸، حاشیہ::۱۰۔

__________________________________________

 

 

 

               فصل دوم: علم النحو

 

لفظ نحو عربی زبان میں کئی معنی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً اعراب و حرکات، قصد، راستے وغیرہ کے لیے۔ بقول ابن منظورالافریقی:والنحوُ اعراب الکلام العربی والنحو القصد والطریق۔ ’’اور نحو عربی کلام کے اعراب اور قصد اور راستے کو کہتے ہیں۔ ‘‘[۱]اسی طرح جہت کے لیے : ذھبتُ نحوَ فلان (میں فلاں کی طرف گیا۔ ) اور تشبہ اور تمثل کے لیے جیسے : محمد نحو علی(محمد علی کی طرح ہے۔ ) علما ئے لغت کے نزدیک نحو : العلم بالقواعد التی یعرف بھا احکام اواخر الکلمات العربیۃ فی حال ترکیبھا:من الاعراب، والبنا ءوما یتبع ذالک۔ [۲]

علم نحو ایک ایسا علم ہے جس سے عربی زبان کے الفاظ کی حرکات، مرکب کلمات، ان کی ہیئت ترکیبی اور ان کے معانی سے بحث کی جاتی ہے۔ بقول ابن الاکفانی: وھو علم یتعرف منہ احوال اللفظ المرکب من جھۃ ما یلحقہ من التغاییر المسماۃ بالاعراب والبنا، وانواعھا من الحرکات والحروف، ومواضعھا ولزومھا، وکیفیۃ دخولھا فی الجمل لتبیین دلالتھا۔ ومنفعتہ تبیین احوال الالفاظ المرکبۃ فی دلالتھا علی المقصود۔ [۳]

علم النحو کو علم الاعراب بھی کہا جاتا ہے۔ مفسر کے لیے علم نحوکا سیکھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ عربی زبان کے الفاظ کا دارومدار اعراب پر ہوتا ہے۔ اعراب کی معمولی تبدیل سے الفاظ کے معانی میں نہایت بنیادی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک اعرابی کا واقعہ ہم علم اللغہ میں بیان کر چکے ہیں۔ اسی واقعے کی بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عربی زبان کے قواعد وضع کرنے کا حکم دیا۔ [۴]

ایک دفعہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی شخص اس مقصد کے لیے عربیت میں مہارت حاصل کرنا چاہے کہ وہ اپنی بول چال اور قرأت کو درست کرسکے تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟تو آپ نے فرمایا:’’عربیت سیکھنا چاہیے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی ایک آیت تلاوت کرتا ہے اور اس کو غلط معنی پہنا کر اپنی ہلاکت کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔ ‘‘[۵]

__________________________________________

۱۔ ابن منظور الافریقی، لسان العرب، ج۲۰، مصر:مطبعۃ المیریہ بولاق، ط۱، ۱۳۰۷ھ، ص۱۸۱۔

۲۔ محمد محی الدین عبدالحمید، التحفۃ السنیۃ بشرح المقدمۃ الاجرومیۃ، قطر:ادارہ الشوؤن الاسلامیہ، ۲۰۰۸ء، ص۴۔

۳۔ ابن الاکفانی، محمد بن ابراہیم بن ساعد الانصاری، ارشاد القاصد فی اسنی ا لمقاصد، ص۱۲۲۔

۴۔ السیوطی، جلال الدین، فی وضع علم العربیۃ، ص۲۷۔ ۳۱۔

۵۔ الذہبی، محمد حسین، التفسیر والمفسرون، ص۱۹۰۔

__________________________________________

اہل زبان، چونکہ اپنی زبان کے ماہر ہوتے ہیں اس لیے انھیں کسی قسم کے قوانین کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن وہی زبان جب دوسرے لوگ سیکھتے اور بولتے ہیں تو وہ اس کے الفاظ و مرکبات اور محاورات پر پوری طرح قدرت اور دسترس نہیں رکھتے۔ اسی طرح اسلام کی اشاعت اور اسلامی سلطنت میں وسعت کے ساتھ جب غیر عرب لوگ اسلام کے قریب آئے اور عربی زبان اور اسلامی علوم مثلاً قرآن و حدیث وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنے لگے تو انھیں بہت سی دشواریاں پیش آئیں۔ عرب  و عجم کے اختلاط سے خالص عربی زبان میں بہت ساری غیر ضروری چیزیں در آئیں۔ چنانچہ علمائے کرام کو خطرہ محسوس ہوا کہ اس اختلاط سے کہیں زبان کا  حلیہ بگڑ نہ جائے اور اس پر ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد قرآن و حدیث کی زبان لوگوں کے لیے اجنبی نہ ہو جائے۔ چنانچہ انھوں نے زبان و بیان کے قواعد کی طرف توجہ دی۔ بقول ابن خلدون(۷۳۲ھ۔ ۸۰۸ھ):’’ پھر علما نے دیکھا کہ کلموں کی حرکات سے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے حرکات کا نام اعراب رکھا اور حرکات بدلنے والے کو عامل کہا۔ غرض یہ کہ اس علم کی مخصوص اصطلاحیں وضع کر لیں اور انھیں قید کتابت میں لے آئے اور مخصوص ومستقل فن گھڑ لیا جسے علم نحو کہتے ہیں۔ [۱]

علم نحو پرسب سے پہلے  ابوالاسودظالم بن عمروبن سفیان بن جندل الدوئلی (م۶۹ھ)نے کام کیا۔ اسے اس کام پر بقول سیوطی (م۹۱۱ھ)حضرت عمرؓ نے [۲]اور بقول ابن خلدون(م۸۰۸ھ) حضرت علیؓ نے مقرر کیا۔ [۳]اس کے بعدخلیل بن احمد(۱۰۰ھ۔ ۱۷۰ھ)، سیبویہ(أبو بشر عمرو بن عثمان بن قنبر البصری ۱۴۰ھ۔ ۱۸۰ھ)، ابو علی فارسی ( حسن بن احمد بن عبدالغفار  (۲۸۸ھ۔ ۳۳۷ھ)اور ابوالقاسم زجاج نے نحو پر مختصر کتابیں لکھیں۔

سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی عربی زبان و ادب اور علوم بلاغت پر خوب دسترس رکھتے تھے۔ دینی گھرانے سے تعلق ہونے کے باعث والد محترم نے گھر میں ہی اردو، عربی، فارسی اور حدیث و فقہ کی تعلیم دلائی۔ اس کے علاوہ آپ نے ’’ علوم عقلیہ و ادبیہ و بلاغت‘‘ اور ’’علوم اصلیہ و فروعیہ‘‘ میں سند۱۹۲۶ میں مولانا محمد شریف اللہ خان، مدرس دارالعلوم فتح پور دہلی سے حاصل کی۔ ۱۹۲۷ میں مولانا اشفاق الرحمٰن کاندھلوی سے حدیث، فقہ اور ادب میں، اور۱۹۲۸ میں جامع ترمذی اور موطا امام مالک کے سمع و قرأت کی تکمیل کے بعد، سند فراغت حاصل کی۔ [۴] آپ کی ساری زندگی لکھنے پڑھنے اوراسلامی علوم کی تصنیف و تالیف میں گزری۔ اس لیے آپ کی علوم بلاغت پر دسترس وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی گئی۔ آپ نے تفہیم القرآن کا آغاز فروری ۱۹۴۲ میں کیا اور اس کی تکمیل جون ۱۹۷۲ میں ہوئی۔ [۵] ان تیس سالوں میں آپ ہمہ وقت قران مجید اور علوم عربیہ سے متعلق رہے۔ قرآن مجید کی مشکل سے مشکل آیات کے مفاہیم کے تعین میں آپ نے اسی قابلیت کے بل پر کامیابی حاصل کی۔

سید صاحب سور ۃ زخرف کی آیت:وَ اِنَّہ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِہا وَ اتَّبِعُوْنِ۔ (۶۱:۴۳)( اور وہ در اصل قیامت کی ایک نشانی ہے ,پس تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مان لو)کی توضیح وتفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ وہ ‘’‘ سے کیا چیز مراد ہے ؟‘‘[۶]اور اس کے بعد ایک طویل بحث کرتے ہوئے، حضرت حسن بصری، سعید بن جبیر، ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، قتادہ، سدی، ضحاک، ابو العالیہ اور ابو مالک  وغیرہ کی آرا نقل کر کے مفہوم کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ [۷]

__________________________________________

۱۔ ابن خلدون، عبدالرحمٰن، مقدمہ ابن خلدون، (ترجمہ راغب رحمانی)کراچی :نفیس اکیڈمی اردوبازار، ج۲، ط۱۱، دسمبر۲۰۰۱، ص۳۸۶۔

۲۔ السیوطی، جلال الدین، فی وضع علم العربیۃ، ص۲۷۔ ۳۱۔

۳۔ ابن خلدون، ج۲، ص۳۸۶۔

۴۔ سلیم منصورخالد، تذکرہ سید مودودی، ص۹۴۴۔

۵۔ آئین تفہیم القرآن نمبر، ص۱۳۴۔

۶۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۴، ص۵۴۷، حاشیہ:۵۵۔

۷۔ ایضاً، ج۴، ص۵۴۷، حاشیہ:۵۵۔

__________________________________________

اسی سورۃکی آیت:وَقِیلِہ یَا رَبِّ إِنَّ ہٰؤُلَاءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُونَ۔ (۸۸:۴۳)(قسم ہے رسولؐ کے اِس قول کی کہ اے رب، یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے۔ )کی تشریح اس طرح سے کرتے ہیں :’’ یہ قرآن مجید کی نہایت مشکل آیات میں سے ہے جس میں نحو کا یہ نہایت پیچیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ : وَقِیْلِہٖ میں واؤ کیسا ہے اور اس لفظ کا تعلق اوپر سلسلہ کلام میں کس چیز کے ساتھ ہے۔ مفسرین نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے مگر کوئی تشفی بخش بات مجھے ان کے ہاں نہیں ملی۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح بات وہی ہے جو شاہ عبدالقادر صاحبؒ کے ترجمے سے مترشح ہوتی ہے، یعنی اس میں واؤ عطف کا نہیں بلکہ قسمیہ ہے، اور اس کا تعلق : فَاَ نّیٰ یُؤْ فَکُوْنَ سے ہے، اور قِیْلِہٖ کی ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف پھرتی ہے جس پر : یَا رَبِّ اِنَّ ھٰٓؤُ لَآ ءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْ مِنُوْنَ کا فقرہ صریح دلالت کر رہا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ : قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ ’’ اے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے ‘‘، کیسی عجیب ہے ان لوگوں کی فریب خوردگی کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور پھر بھی خالق کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت پر اصرار کیے جاتے ہیں۔ ‘‘[۱]

سورۃ النسا کی آیت:وَإِن مِّنْ أَہلِ الْکِتَابِ إِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہ قَبْلَ مَوْتِہ ۖ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃ یَکُونُ عَلَیْہمْ شَہیدًا۔ (۱۵۹:۴) (اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو اُس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا ) کی شرح میں سید صاحب نے آیت سے اخذ ہونے والے دونوں مفاہیم بیان کیے ہیں اور پھر خود ان میں سے ایک مفہوم اختیار کیا ہے۔ لکھتے ہیں :’’اِس فقرے کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں اور الفاظ میں دونوں کا یکساں احتمال ہے۔ ایک معنی وہ جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کیا ہے۔ دُوسرے یہ کہ ’’اہلِ کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہ لے آئے ‘‘۔ ۔ ۔ دونوں معنی متعدد صحابہ، تابعین اور اکابر مفسّرین سے منقول ہیں اور صحیح مراد صرف اللہ ہی کے علم میں ہے۔ ‘‘[۲]

سید صاحب نے سورۃ المومنون کی آیت:فَأَنشَأْنَا لَکُم بِہ جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَأَعْنَابٍ لَّکُمْ فِیہا فَوَاکِہ کَثِیرَۃ وَمِنْہا تَأْکُلُونَ۔ (۲۳:۱۹)(پھر اس پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کر دیے، تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیذ پھل ہیں اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو۔ ) کا ترجمہ کرتے ہوئے منھاتاکلون کا ترجمہ’’ ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو ‘‘ کیا ہے، جب کہ عموماً مفسرین اس کا ترجمہ ’’تم ان میں سے کھاتے ہو‘‘ کرتے ہیں۔ مثلاً مولانا  احمد رضا خان (اور ان میں سے کھاتے ہو )فتح محمد جالندھری(اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو )ڈاکٹر طاہر القادری(اور (اب) تم ان میں سے کھاتے ہو)۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۴، ص۵۵۳، حاشیہ:۷۰۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۴۲۱، حاشیہ:۱۹۶۔

۳۔ ایضاً، ج۳، ص۲۷۲۔

__________________________________________

سید صاحب کا یہ ترجمہ اردو محاورے کے استعمال کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اسی طرح حاشیے میں اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ یعنی ان باغوں کی پیداوار سے، جو پھل، غلے، لکڑی اور دوسری مختلف صورتوں میں حاصل ہوتی ہے، تم اپنی معاش پیدا کرتے ہو۔ مِنْھَا تَا کُلُوْنَ میں منھا کی ضمیر جنّات کی طرف پھرتی ہے نہ کہ پھلوں کی طرف۔ اور تاکلون کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ ان باغوں کے پھل تم کھاتے ہو، بلکہ یہ بحیثیت مجموعی روزی حاصل کرنے کے مفہوم پر حاوی ہے۔ جس طرح ہم اردو زبان میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص اپنے فلاں کام کی روٹی کھاتا ہے، اسی طرح عربی زبان میں بھی کہتے ہیں فلان یا کل من حرفتہٖ۔ ‘‘[۱]

سورۃ الفتح کی آیت:وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاہدَ عَلَیْہ اللَّہ فَسَیُؤْتِیہ أَجْرًا عَظِیمًا۔ (۴۸:۱۰)(اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ ) کی تفسیر کرتے ہوئے، عَلَیْہ اللَّہ  کے غیر معمولی اعراب کی وجہ بیان کرتے ہوئے سید صاحب لکھتے ہیں :’’اس مقام پر ایک لطیف نکتہ نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کی رو سے یہاں عٰھَدَعَلَیْہِ اللہَ پڑھا جانا چاہیے تھا، لیکن اس عام قاعدے سے ہٹ کر اس جگہ عَلَیْہُ اللہَ پڑھا جاتا ہے۔ علامہ آلوسی نے اس غیر معمولی اِعراب کے دو وجوہ بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ اس خاص موقع پر اس ذات کی بزرگی اور جلالت شان کا اظہار مقصود ہے جس کے ساتھ یہ عہد استوار کیا جا رہا تھا اس لیے یہاں عَلَیْہِ کے بجائے عَلَیْہُ ہی زیادہ مناسب ہے۔ دوسرے یہ کہ عَلَیْہِ میں ’’ہ‘‘ دراصل ھُوَ کی قائم مقام ہے اور اس کا اصلی اعراب پیش ہی تھا نہ کہ زیر۔ لہٰذا یہاں اس کے اصلی اعراب کو باقی رکھنا وفائے عہد کے مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ ‘‘[۲]

درج بالا مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سیدصاحب زبان و بیان کے قواعد سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور ان کے برمحل اور مناسب استعمال کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۲۷۲، حاشیہ:۲۰۔

۲۔ ایضاً، ج۵، ص۴۹، حاشیہ:۱۹۔

__________________________________________

 

 

 

 

               فصل سوم: علم الصرف

 

 

لفظ صرف کا لغوی مطلب ’’پھیرنا‘‘، ’’گردش دینا‘‘ اور ’’الٹ پلٹ ‘‘ کرنا ہے۔ عربی زبان کے بنیادی الفاظ اور ان کے صیغوں کی پہچان کے علم کو علم الصرف کہتے ہیں۔ اس سے لفظوں کی گردان کرنے کا طریقہ اور ایک صیغہ سے دوسرا صیغہ بنانے کا قاعدہ معلوم ہوتا ہے۔ عربی زبان کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے ایک سہ حرفی مادے سے سینکڑوں الفاظ بنائے جا سکتے ہیں اور ان تمام الفاظ میں مادہ اصلی کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک مختصر ترین لفظ سے حاضر، غائب اور متکلم کے چودہ صیغے، واحد مذکر غائب، تثنیہ مذکر غائب، جمع مذکر غائب، واحد مونث غائب، تثنیہ مونث غائب، جمع مونث غائب، واحد مذکر حاضر، تثنیہ مذکر حاضر، جمع مذکر حاضر، واحد مونث حاضر، تثنیہ مونث حاضر، جمع مونث حاضر، واحد مذکر و مونث متکلم، تثنیہ و جمع مذکر و مونث متکلم، وجود میں آ تے ہیں، اور وہ بھی اس طرح سے کہ اس مختصر ترین لفظ کے لیے ہر صیغے سے اثبات ماضی معروف، اثبات ماضی مجہول، نفی ماضی معروف، نفی ماضی مجہول، اثبات مضارع معروف، اثبات مضارع مجہول، نفی مضارع معروف، نفی مضارع مجہول، نفی تاکید بہ لن فعل مستقبل معروف، نفی تاکید بہ لن فعل مستقبل مجہول، نفی جحد بہ لم فعل مستقبل معروف، نفی جحد بہ لم فعل مستقبل مجہول، لام تاکید بہ نونِ ثقیلہ مستقبل معروف، لام تاکید بہ نونِ ثقیلہ مستقبل مجہول، لام تاکید بہ نونِ خفیفہ مستقبل معروف، لام تاکید بہ نونِ خفیفہ مستقبل مجہول، امر معروف، امر مجہول، امر معروف بہ نونِ ثقیلہ، امر مجہول بہ نونِ ثقیلہ، امر معروف بہ نونِ خفیفہ، امر مجہول بہ نونِ خفیفہ، نہی معروف، نہی مجہول، نہی معروف بہ نونِ ثقیلہ، نہی مجہول بہ نونِ ثقیلہ، نہی معروف بہ نونِ خفیفہ، نہی مجہول بہ نونِ خفیفہ کے علاوہ مختلف اقسام کے اسم جن میں اسم فاعل اسم مفعول، اسم تفضیل، اسمِ ظرف، اسمِ آلہ، اسم مبالغہ اور صفتِ مشبہ جیسے تمام الفاظ وجود میں آتے ہیں۔

ابن الاکفانی علم الصرف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وھو علم باصول ابنیۃ الکلم واحوالھا۔ فیبحث عن الحروف البسیطۃ کم ھی، وکیف ھی، و این مخارجھا، واحوال ترکیبھا، وماھومضاعف وتقدیرہ، وماھوثلاثی اور رباعی نھایۃ ذالک۔ وما الاصلیۃ منھا التی لاتتبدل وما المزادۃومعرفۃ الصحیح منھا والمعتل۔ ۔ ۔ وما یختص منھا بالافعال ومایختص بالاسما۔ وتمییز الجامد منھا والمشتق، واصناف الاشتقاق، وکیف ھو، وکیف یعدل بصیغۃ الفعل حتی یصیر امرا ونھیا۔ وتعریف التثنیۃ والجمع، والفصل والوصل، والوقف والابتدا، وما یدغم من الحروف وما یقلب وما یخفی۔ [۱]

__________________________________________

۱۔ ابن الاکفانی، محمد بن ابراہیم بن ساعد الانصاری، ارشاد القاصد فی اسنی ا لمقاصد، ص۱۱۳۔

__________________________________________

’’کلمات کی ساخت اور ان کے احوال جاننے کا نام علم الصرف ہے۔ اس علم میں مفرد الفاظ سے بحث کی جاتی ہے کہ ان کے حروف اصلی کون سے ہیں، ان کا مخرج کی ہے اور کس طرح بنے۔ مضاعف کیا ہے، ثلاثی اور رباعی کسے کہتے ہیں ؟حروف اصلیہ کون سے ہیں جو غیر متبدل ہیں اور زوائد کون سے ہیں ؟اور صحیح و معتل کی پہچان اس علم سے ہوتی ہے۔ اور یہ کہ کون سے اوزان افعال کے ساتھ اور کون سے اسما کے ساتھ مخصوص ہیں۔

جامد ومشتق کی تمییز، اشتقاق کی اصناف اور وجوہ اور اس بات کا علم کہ فعل کا صیغہ کس طرح امر یا نہی کی شکل اختیار کرتا ہے اسی علم کی بدولت ہے۔ اسی طرح تثنیہ و جمع، فصل و وصل، وقف وابتدا، ادغام، اخفا و اظہار کی معلومات بھی اسی علم کے ذریعے ممکن ہیں۔ ‘‘

علم الصرف عربی زبان کے علوم میں نہایت اہم مقام رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے سے کلمات اور ان کے صیغوں کا علم ہوتا ہے۔ اسی علم کی بدولت حروف کے مخارج، مادہ  اصلی، زائد حروف، صحیح و معتل، مبنی و متغیر، افعال واسما اور جامد و متغیر کے بارے میں جانا جاتا ہے۔ علم الصرف کی ضرورت بھی اس وقت پیش آئی جب اسلام جزیرہ عرب سے باہر پھیلا  اور غیر عرب لوگوں نے قرآن مجید کی تلاوت کرنا شروع کی تو انھوں نے قرآن مجید میں غلطیاں کرنا شروع کر دیں۔ سیوطی (م۹۱۱ھ) نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک اعرابی کے قرآن پڑھنے کا واقعہ بیان کیا ہے، جس کا تذکرہ ہم نے علم اللغۃ میں کیا ہے۔ [۱]

اس کے بعد حضرت عمرؓ نے یہ عام حکم دے دیا کہ عالم لغت کے علاوہ کوئی قرآن نہ پڑھائے اور ابوالاسود دوئیلی(م۶۹ھ) کو قواعد و ضوابط بنانے کا حکم دے دیا۔ اسی طرح کے واقعات حضرت علیؓ اور زیاد بن ابیہ (م۵۳ھ) کو بھی پیش آئے۔ [۲]

مشہور نحوی ابن فارس کے بقول: ’’جس شخص نے علم الصرف کو چھوڑ دیا اس نے گویا علم کے بہت بڑے حصے کو ضائع کر دیا۔ مثلاً وَجَدَ ایک مبہم کلمہ ہے۔ جب ہم اس کو علم صرف کے ذریعے مختلف حالتوں میں دیکھیں گے تو اس کے معنی و مفہوم کی صحیح وضاحت ہو گی۔ امام سیوطی نے زمخشری کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ آیت: یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِہمْ۔ (الاسرا۱۷:۷۱) (پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔ )کی تفسیر کرتے ہوئے بعض لوگوں نے کہا کہ لفظ امام، ام (ماں ) کی جمع ہے۔ اس وجہ سے انھوں نے اس آیت کہ معنی یہ اخذ کیے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے باپوں کے بجائے ان کی ماؤں کے ناموں کے ساتھ پکارا جائے گا۔ اس غلط ترجمانی کی وجہ علم صرف سے نا آشنائی ہے۔ اس مفہوم کو اخذ کرنے والے کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ام کی جمع امام نہیں ہوتی۔ [۳]

ابتدائی زمانے میں صرف و نحو میں زیادہ فرق نہیں کیا جاتا تھا اور دونوں علوم ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اس وقت نحو کے قواعد و ضوابط پر خاص توجہ دی گئی اور علم الصرف کی طرف نسبتاً کم توجہ دی گئی۔ پہلی دفعہ ابو عثمان بکر بن محمد المازنی(م۲۴۹ھ) نے علم الصرف کو نحو سے جدا کیا اور تصریف المازنی کے نام سے ایک کتاب تحریر کی۔ بعد میں ابوالفتح عثمان بن جنّی(م۳۹۳ھ) نے المصنف کے نام سے اس کتاب کی شرح تحریر کی۔ ان کے بعد ابو علی حسن بن احمد بن عبدالغفارالفارسی(م۳۷۷ھ)علم الصرف کے موضوع پر دو کتابیں :التکملۃ  اور المقصود والمحدود   تحریر کیں۔ ابن جنّی کی اپنی تصنیف التصریف الملوکی بھی اس علم کے بارے میں ہے۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ السیوطی، جلال الدین، فی وضع علم العربیۃ، ص۲۷۔ ۳۱۔

۲۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، لاہور:پنجاب یونیورسٹی، ج۱۴۔ ۱، ۱۹۸۰، ص۲۰۰۔

۳۔ الذہبی، محمد حسین، التفسیروالمفسرون، قاہرہ، ص۱۹۰۔

۴۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۱۴۔ ۱، ص۲۰۱۔

__________________________________________

سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ قواعد عربیت سے کامل آگاہی رکھتے تھے۔ آپ مفہوم کے تعین میں جہاں قرآن مجید سے راہ نمائی لیتے ہیں وہیں عربی الفاظ کے اصل مادوں اور ابواب کی خصوصیات کو بھی پیش نظر رکھتے  ہیں۔ مثلاً سورۃ النورکی آیت:یَا أَیُّہا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا۔ (۲۴:۲۷)(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو۔ ) کی تفسیر کرتے ہوئے لفظ تستانسوا کے معنیٰ کا تعین کرتے ہوئے، عام مفسرین کے طریقے کے برعکس ’’اجازت لینے ‘‘ کے بجائے ’’مانوس کرنے ‘‘ کا مفہوم اخذ کیا ہے۔ پھر اپنی اس رائے کی تائید میں لکھتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ نے حتی تستانسوا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ استیناس کا مادہ انس ہے جو اردو زبان میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں عربی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مادے سے استیناس کا لفظ جب بولیں گے تو اس کے معنی ہوں گے انس معلوم کرنا، یا اپنے سے مانوس کرنا۔ پس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ’’ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ ان کو مانوس نہ کر لو یا ان کا انس معلوم نہ کر لو‘‘، یعنی یہ معلوم نہ کر لو کہ تمہارا آنا صاحب خانہ کو ناگوار تو نہیں ہے، وہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کے گھر میں داخل ہو۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’اجازت لینے ‘‘ کے بجائے ’’ رضا لینے ‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے، کیونکہ یہ مفہوم اصل سے قریب تر ہے۔ ‘‘[۱]

اسی سورۃ کی آیت:وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِی لَا یَرْجُونَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْہنَّ جُنَاحٌ أَن یَضَعْنَ ثِیَابَہنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِینَۃ۔ (۲۴۔ ۶۰) کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ اصل الفاظ ہیں غَیرَمُتَبَرِّ جٰتٍ م بِزِیْنَۃٍ، ’’زینت کے ساتھ تَبرُّج کرنے والی نہ ہوں ‘‘۔ تَبَرُّج کے معنی ہیں اظہار و نمائش کے۔  بارج اس کھلی کشتی یا جہاز کو کہتے ہیں  جس پر چھت نہ ہو۔ اسی معنی میں عورت کے لیے یہ لفظ اس وقت بولتے ہیں جب کہ وہ مردوں کے سامنے اپنے حسن اور اپنی آرائش کا اظہار کرے۔ ‘‘[۲]

سید صاحب نے سورۃ الفرقان کی آیت:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِہ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا۔ (۲۵:۱)  (نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو۔ ) کی توضیح کرتے ہوئے الفاظ تبارک، نزل، الفرقان اور نذیرا  کی بہت عمدہ طریقے سے وضاحت کی ہے۔ ان الفاظ کے مادوں اور مشتقات پر بحث کر کے اصل مفہوم نہایت عمدگی سے اخذ کیا ہے۔ لفظ تبارک کے بارے میں آپ نے ایک طویل حاشیہ تحریر کیا ہے۔ اس کے مادے اور مشتقات کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ اصل میں لفظ تَبَارَکَ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ تو در کنار ایک فقرے میں بھی ادا ہونا مشکل ہے۔ اس کا مادہ بر ک ہے جس سے دو مصدر بَرَکَۃ اور بُرُ و ک نکلے ہیں۔ بَرَکۃ میں افزونی، فراوانی، کثرت اور زیادتی کا تصور ہے اور بُرُوک میں ثبات، بقاء اور لزوم کا تصور۔ پھر جب اس مصدر سے تَبَارَکَ کا صیغہ بنایا جاتا ہے تو باب تفاعُل کی خصوصیت، مبالغہ اور اظہار کمال، اس میں اور شامل ہو جاتی ہے اور اس کا مفہوم انتہائی فراوانی، بڑھتی اور چڑھتی افزوفی، اور کمال درجے کی پائیداری ہو جاتا ہے۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۳۷۶، حاشیہ:۲۴۔

۲۔ ایضاً، ج۳، ص۴۲۳، حاشیہ:۹۴۔

۳۔ ایضاً، ج۳، ص۴۳۱، حاشیہ:۱۔

__________________________________________

آگے چل کر الفرقان کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ یعنی قرآن مجید۔ فرقان مصدر ہے مادہ ’’فر ق ‘‘سے، جس کے معنی ہیں دو چیزوں کو الگ کرنا، یا ایک ہی چیز کے اجزاء کا الگ الگ ہونا۔ قرآن مجید کے لیے اس لفظ کا استعمال یا تو فارِق کے معنی میں ہوا ہے، یا مفروق کے معنی میں یا پھر اس سے مقصود مبالغہ ہے، یعنی فرق کرنے کے معاملے میں اس کا کمال اتنا بڑھا ہوا ہے کہ گویا وہ خود ہی فرق ہے۔ اگر اسے پہلے اور تیسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا صحیح ترجمہ کسوٹی، اور فیصلہ کن چیز، اور معیارِ فیصلہCriterion کے ہوں گے۔ اور اگر دوسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب الگ الگ اجزاء پر مشتمل، اور الگ الگ اوقات میں آنے والے اجزاء پر، مشتمل، چیز کے ہوں گے، قرآن مجید کو ان دونوں ہی اعتبارات سے ’’ الفرقان‘‘ کہا گیا ہے۔ ‘‘[۱]

سورۃ الذاریات کی آیت :إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ۔ (۵۱:۵) (حق یہ ہے کہ جس چیز کا تمہیں خوف دلایا جا رہا ہے وہ سچی ہے۔ ) کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ اصل میں لفظ تُوْعَدُوْنَ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اگر وَعْد سے ہو تو اس کا مطلب ہو گا ’’جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ‘‘۔ اور وَعید سے ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ ’’ جس چیز کا تم کو ڈراوا دیا جا رہا ہے ‘‘۔ زبان کے لحاظ سے دونوں مطلب یکساں درست ہیں۔ لیکن موقع و محل کے ساتھ دوسرا مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے، کیونکہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو کفر و شرک اور فسق و فجور میں غرق تھے اور یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کبھی ان کو محاسبے اور جزائے اعمال سے بھی سابقہ پیش آنے والا ہے۔ اسی لیے ہم نے تُوْعَدُوْنَ کو وعدے کے بجائے وعید کے معنی میں لیا ہے۔ ‘‘ [۲]

درج بالا مثالیں اس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ سیدصاحب نحو کے قواعد اور ان کے استعمال سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ ہر لفظ کے تمام ممکنہ استعمالات کو بیان کرنے کے بعد اپنی ترجیح دلائل کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۴۳۲، حاشیہ:۲۔

۲۔ ایضاً، ج۵، ص۱۳۳، حاشیہ:۳۔

__________________________________________

 

 

 

 

               فصل چہارم: علم الاشتقاق

 

 

لغت میں اشتقاق کے معنی کسی شے کو پھاڑ کر کچھ نکالنے کے ہیں مگر اصطلاح میں اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعے ایک کلمہ سے دوسرا کلمہ بنایا جائے۔

علم الاشتقاق علوم ادبیہ کی اہم شاخ ہے۔ اس میں ایک کلمے کے دوسرے کلمے سے نکلنے کی کیفیت سے بحث کی جاتی ہے اور مصدر و مشتق کے درمیان جوہر اور مادے کے اعتبار سے اصل اور فرع کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ یعنی اصل لفظ کا تعین کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس سے نکلنے والے دیگر الفاظ کے بارے میں معلوم کیا جاتا ہے۔

نواب صدیق بن حسن قنوجی (م۱۳۰۷ھ) کے بقول:ھو علم باحث عن کیفیۃ خروج الکلم بعضھا عن بعض بسبب مناسبۃبین المخرج والمخارج بالاصالۃ الفرعیۃ بین الکلم۔ [۱]’’یہ علم کسی کلمے سے دوسرے کلمے کے نکلنے کی کیفیت سے بحث کرتا ہے کہ مصدر اور مشتق کے درمیان اصل اور فرع کی نسبت پائی جاتی ہے۔ ‘‘

کسی مفسر کے لیے علم الاشتقاق کا جاننا بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک لفظ دو مختلف مادوں سے مشتق ہو تو اس کے مشتقات سے مادہ کا فرق معلوم ہونا چاہیے۔ مثلاً مسیح ایک اسم ہے۔ اس کے دو مادے ہوسکتے ہیں۔ ایک السیاحۃاور دوسرا مسح۔ پہلے مادے کے لحاظ سے اس کامعنی’’سیاحت کرنے والا‘‘ اور دوسرے مادے کے لحاظ سے ’’چھونے والا‘‘ یا ’’مسح کرنے والا‘‘ ہوں گے۔ چنانچہ معنیٰ میں اس فرق کا پتا علم الاشتقاق ہی سے چل سکتا ہے۔ محمد حسین الذہبی لکھتے ہیں : لان الاسم اذا کان اشتقاقہ من مادتین مختلفین، اختلف باختلافھما، کالمسیح مثلاً، ھل ھو من السیاحۃ او من المسح؟[۲]

علم الاشتقاق کے بارے میں محمد بن المستنیر ابوعلی النحوی(م۲۰۶ھ)نے مستقل کتاب لکھی تھی۔ ان کے بعد عبدالملک بن قریب الاصمعی(م۲۱۶ھ) نے کتاب الاشتقاق، ابوالحسن سعید بن مسعدۃ الاخفش(م۲۱۵ھ) نے کتاب الاشتقاق، محمد بن یزیدالمبرد(م۲۸۵ھ)نے بھی اسی نام سے کتاب لکھی۔ ابوطالب المفضل بن سلمہ(۳۰۰ھ)نے الاشتقاق، ابوالقاسم الزجاج(م۳۱۱ھ) نے کتاب الاشتقاق، اور ابو بکر محمد بن حسن بد درید(م۳۲۱ھ)ابوجعفر احمد بن محمدالنحاس (م۳۳۸ھ) نے علم الاشتقاق پر کتب تصنیف کیں۔ [۳]

سید مودودی کی تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ زبان وبیان سے متعلق تمام علوم، لغت، نحو، صرف، معانی، بیان و بدیع اور اشتقاق سے آگاہ تھے۔ آپ عربی الفاظ کے صحیح اور بر محل مفہوم کو اخذ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے دوسری زبان یعنی اردو میں اسی مہارت اور خوب صورتی کے ساتھ منتقل کرنے کا ہنر بھی بخوبی جانتے تھے۔ مثلاً سورۃ المومنون کی آیت:حَتَّىٰ إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِیہم بِالْعَذَابِ إِذَا ہمْ یَجْئَرُونَ۔ (۶۴:۲۳)کا ترجمہ کرتے ہوئے لفظ مترفین کا ترجمہ’’ عیاش ‘‘ کیا ہے اور حاشیے میں اس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے : ’’عیاش‘‘ یہاں ’’مُتْرَفِیْن‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔

__________________________________________

۱۔ صدیق بن حسن قنوجی، من ابجد العلوم، لاہور، المکتبۃ القدوسیۃ، ج۲، س ن، ص۶۲۔ ۶۳۔

۲۔ الذہبی، محمد حسین، التفسیروالمفسرون، ص۱۹۰۔

۳۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۱۴۔ ا، ص۲۰۷۔ ۲۰۸۔

__________________________________________

’’مترفین ‘‘ اصل میں ان لوگوں کو کہتے ہیں جو دنیوی مال و دولت کو پا کر مزے کر رہے ہوں اور خدا و خلق کے حقوق سے غافل ہوں۔ اس لفظ کا صحیح مفہوم لفظ عیاش سے ادا ہو جاتا ہے، بشرطیکہ اسے صرف شہوت رانی کے معنی میں نہ لیا جائے بلکہ عیش کوشی کے وسیع تر معنوں میں لیا جائے۔ ‘‘[۱]

آگے چل کراسی ایت میں استعمال ہونے والے ایک اور لفظ ْ یَجْئَرُونَ کا ترجمہ ’’ڈکرانا شروع کر دیں گے ‘‘ کیا ہے اور حاشیے میں اس ترجمہ کو اختیار کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :  ’’ اصل میں لفظ ’’ جُؤَار ‘‘ استعمال کیا گیا ہے جو بیل کی اس آواز کو کہتے ہیں جو سکٹ تکلیف کے وقت وہ نکالتا ہے۔ یہ لفظ یہاں محض فریاد و فغان کے معنی میں نہیں بلکہ اس شخص کی فریاد و فغان کے معنی میں بولا گیا ہے جو کسی رحم کا مستحق نہ ہو۔ اس میں تحقیر اور طنز کا انداز چھپا ہوا ہے۔ اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ ’’ اچھا، اب جو اپنے کرتوتوں کا مزا چکھنے کی نوبت آئی تو بلبلانے لگے ‘‘۔ [۲]

اسی سورہ کی آیت:بَلْ أَتَیْنَاہم بِذِکْرِہمْ فَہمْ عَن ذِکْرِہم مُّعْرِضُونَ۔ (سورۃ المومنون۲۳:۷۱)(بلکہ ہم ان کا اپنا ہی ذکر اُن کے پاس لائے ہیں اور وہ اپنے ذکر سے منہ موڑ رہے ہیں۔ ) میں لفظ ’’ذکر‘‘ کے تین معنیٰ :’’بیانِ فطرت، نصیحت اور شرف و اعزاز ‘‘بیان کیے ہیں اور اپنے دلائل سے ان تینوں معانی کی صحت کو ثابت کیا ہے۔ لکھتے ہیں :’’یہاں لفظ ذکر کے تین معنی ممکن ہیں اور تینوں ہی ٹھیک بیٹھتے ہیں۔ ‘‘ [۳]

آگے چل کراسی سورہ کی آیت:قُلْ مَن بِیَدِہ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْءٍ۔ (۲۳:۸۸)(اِن سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے ؟) کی توضیح میں لفظ  مَلَکُوتُ  کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ اصل میں لفظ مَلَکُوتُ استعمال ہوا ہے جس میں ملک (بادشاہی) اور ملک (مالکیت )، دونوں مفہوم شامل ہیں، اور اس کے ساتھ یہ انتہائی مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس تفصیل کے لحاظ سے آیت کے پیش کردہ سوال کا پورا مطلب یہ ہے کہ ’’ ہر چیز پر کامل اقتدار کس کا ہے اور ہر چیز پر پورے پورے مالکانہ اختیارات کس کو حاصل ہیں ؟‘‘[۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۲۸۸، حاشیہ:۵۹۔

۲۔ ایضاً، ج۳، ص۲۸۸، حاشیہ:۶۰۔

۳۔ ایضاً، ج۳، ص۲۹۰، حاشیہ:۶۹۔

۴۔ ایضاً، ج۳، ص۲۹۶، حاشیہ:۸۱۔

__________________________________________

سورۃ النجم کی آیت:وَأَنَّہ ہوَ أَغْنَىٰ وَأَقْنَىٰ۔ (۵۳:۴۸) (اور یہ کہ اُسی نے غنی کیا اور جائداد بخشی۔ ) کی تفسیر کرتے ہوئے، لفظ اقنیٰ کی وضاحت اس طرح سے کرتے ہیں :’’ اصل میں لفظ اَقْنیٰ استعمال ہوا ہے جس کے مختلف معنی اہل لغت اور مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے اس کے معنی اَرْضیٰ (راضی کر دیا) بتائے ہیں۔ عکرمہ نے ابن عباس سے اس کے معنی قَنَّعَ (مطمئن کر دیا ) نقل کیے ہیں۔ امام رازی کہتے ہیں کہ آدمی کی حاجت سے زیادہ جو کچھ بھی اس کو دیا جائے وہ اِقناء ہے۔ ابو عبیدہ اور دوسرے متعدد اہل لغت کو قول ہے کہ اَقْنیٰ، قُنْیَۃٌ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں باقی اور محفوظ رہنے والا مال، جیسے مکان، اراضی، باغات، مواشی وغیرہ۔ ان سب سے الگ مفہوم ابن زید بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اَقْنیٰ یہاں اَفْقَرَ  (فقیر کر دیا) کے معنی میں ہے۔ ‘‘ [۱]

سید صاحب سورۃ الرحمٰن کی آیت:سَنَفْرُغُ لَکُمْ أَیُّہ الثَّقَلَانِ۔ (۵۵:۳۱) (اے زمین کے بوجھو، عنقریب ہم تم سے باز پرس کرنے کے لیے فارغ ہوئے جاتے ہیں۔ ) کی وضاحت کرتے ہوئے لفظ الثَّقَلَانِ کے بارے میں لکھتے ہیں :’’اصل میں لفظ ثَقَلَان استعمال کیا ہوا ہے جس کا مادہ ثقل ہے۔ ثقل کے معنی بوجھ کے ہیں، اور ثَقَل اس بار کو کہتے ہیں جو سواری پر لدا ہوا ہو۔ ثَقَلین کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’ دو لدے ہوئے بوجھ‘‘۔ اس جگہ یہ لفظ جن و انس کے لیے استعمال کیا گیا ہے کیوں کہ یہ دونوں زمین پر لدے ہوئے ہیں۔ ‘‘ [۲]

سورۃ الواقعہ کی آیت:فَأَصْحَابُ الْمَیْمَنَۃ مَا أَصْحَابُ الْمَیْمَنَۃ۔ (۵۶:۸) (دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں  (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔ )  کی وضاحت کرتے ہوئے  الْمَیْمَنَۃ کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ اصل میں لفظ اَصْحَابُ الْمَیْمَنَہ   استعمال ہوا ہے۔ میمنہ عربی قاعدے کے مطابق یمین سے بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی سیدھے ہاتھ کے ہیں، اور یُمن سے بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی ہیں چال نیک۔ اگر اس کو یمین سے ماخوذ مانا جائے تو اصحاب المیمنہ کے معنہ ہوں گے ’’سیدھے ہاتھ والے ‘‘ لیکن اس سے لغوی معنی مراد نہیں ہیں بلکہ اس کا مطلب ہے عالی مرتبہ لوگ۔ ‘‘ [۳]

اسی طرح سورۃ الحدید کی آیت: وَرَہبَانِیَّۃ ابْتَدَعُوہا مَا کَتَبْنَاہا عَلَیْہمْ۔ (۵۷:۲۷)  (اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کر لی، ہم نے اُسے اُن پر فرض نہیں کیا تھا۔ )کی تفسیر کرتے ہوئے لفظ رَہبَانِیَّۃ کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ اس کا تلفظ رَہْبا نیت بھی کیا جاتا ہے اور رُہبانیت بھی۔ اس کا مادہ رَہب ہے جس کے معنی خوف کے ہیں۔ رَہبانیت کا مطلب ہے مسلک خوف زدگی، اور رُہبانیت کے معنی ہیں مسلک خوف زدگان۔ اصطلاحاً اس سے مراد ہے کسی شخص کا خوف کی بنا پر (قطع نظر اس سے کہ وہ کسی کے ظلم کا خوف، یا اپنے نفس کی کمزوریوں کا خوف) تارک الدنیا بن جانا اور دنیوی زندگی سے بھاگ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں پناہ لینا یا گوشہ ہائے عزلت میں جا بیٹھنا۔ ‘‘ [۴]

درج بالا مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سید صاحب عربی الفاظ کے اصل ماخذ اور ان کے استعمالات سے بخوبی واقف تھے۔ وہ الفاظ کے معانی کو صرف لغت کے مطابق ہی استعمال نہیں کرتے بلکہ اس معاملے میں قرآنی سیاق وسباق کا لحاظ بھی رکھتے ہیں۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۵، ص۲۲۱، حاشیہ:۴۳۔

۲۔ ایضاً، ج۵، ص۲۶۲، حاشیہ:۲۹۔

۳۔ ایضاً، ج۵، ص۲۷۷، حاشیہ:۵۔

۴۔ ایضاً، ج۵، ص۳۲۴، حاشیہ:۵۲۔

__________________________________________

 

 

 

 

 

               فصل پنجم: علم المعانی

 

علم المعانی، علم بلاغت کی ایک اہم شاخ ہے۔ اظہار مدعا اور  ابلاغ کے لیے موزوں ترین الفاظ کا انتخاب کرنا علم المعانی ہی کے ذریعے سے ممکن ہوتا ہے۔ اس علم کے ذریعے الفاظ کو ان کے اصل معانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جن کے لیے وہ بنیادی طور پر وضع کیے گئے ہوں۔ عزالدین بن جماعۃ علم المعانی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :علم المعانی وھو علم یعرف بہ احوال اللفظ العربی التی بھا یطابق مقتضی  الحال۔ اسی طرح آپ نے علم المعانی کو آٹھ ابواب پر منحصر قرار دیا ہے، مثلاًاحوال الاسناد، احوال المسند، احوال المسند اما حذفہ و ذکرہ، متعلقات الفعل، القصدحقیقی و غیرہ، الانشاء، الوصل والفصل، الایجاز والاطناب۔ [۱]

ابن الاکفانی کے نزدیک:

وھو علم یعرف منہ احوال الالفاظ المرکبۃ، ومن خواص ترکیبھا، وقیود دلالا تھا ونسبھا الاسنادیۃ، واحوال المسند والسند الیہ فی الجمل، واحوال الفصل والوصل بینھما، وصیغ الاجوبۃ بمقتضی الحال۔ [۲]

محمد بن علی التھانوی (م۱۱۵۸ھ) لکھتے ہیں :

علم المعانی علم تعرف بہ احوال اللفظ العربی التی یطابق بھا اللفظ لمقتضی الحال۔ [۳]

دستور العلماء کے مصفف نے لکھا ہے :

علم المعانی:با عتبار افادتھا المعان مغائرۃ لاصل المعنی(فعلم المعانی)[۴]

زمخشری نے اپنی کتاب ’’القسطاس فی علم العروض ‘‘ میں میں علم الادب کو بارہ اقسام میں منقسم کرتے ہوئے ہوئے علم المعانی کو اس کی اہم شاخ قرار دیا ہے۔ [۵]

اس علم میں سب سے پہلی کتاب ابوبکر عبدالقاہر  جرجانی(م ۴۷۱ھ) نے ’’دلائل الاعجاز‘‘ کے نا م سے تصنیف کی۔ اس کے بعدابویعقوب سراج الدین یوسف السکاکی  الخوارزمی (م ۶۲۶ ھ )نے ’’مفتاح العلوم‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی۔ [۶]

ڈاکٹر مزمل حسین کے نزدیک:’’معانی‘‘ علوم بلاغت کی ایک اور شاخ ہے۔ یہ ان قواعد و اصول کا مجموعہ ہے جن کے ذریعے مخاطب کے حالات اور ان کے تقاضے معلوم ہوتے ہیں۔ اور ان بلاغتی اغراض کو بھی پورا کیا جاتا ہے جو ضمناً سیاق کلام سے سمجھ میں آتے ہیں یا قرینے سے معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘[۷]

__________________________________________

۱۔ عزالدین بن جماعۃ، غایۃ الامانی فی علم المعانی، مخطوطہ، ص۶ تا ۱۰۔

۲۔ ابن الاکفانی، محمد بن ابراہیم بن ساعد الانصاری، ارشاد القاصد فی اسنی ا لمقاصد، ص۱۱۵۔

۳۔ التھانوی، محمدبن علی، کشاف اصطلاحات الفنون، مکتبۃ لبنان ناشرون، ج۱، ۱۹۹۹  ء، ص۲۴۔

۴۔ قاضی عبدالنبی احمد نگری، جامع العلوم الملقب بہ دستور العلماء، ص۳۷۶۔

۵۔ ایضاً، ص۳۷۶۔

۶۔ احمد الاسکندری، مصطفی عنانی، الوسیط فی الادب العربی و تاریخہ، ص۲۳۰۔

۷۔ مزمل حسین، ڈاکٹر، حدائق البلاغت، فیصل آباد:مثال پبلشرز، ط ۱، جنوری ۲۰۰۹ء، ص۱۷۔

__________________________________________

سجاد مرزا بیگ کے بقول:الفاظ کا اپنے حقیقی اور وضعی معنوں پر دلالت کرنے کا طریقہ علم معانی سے تعلق رکھتا ہے۔ اور عام طور پر قاعدہ یہی ہے کہ لفظ جس مقصد کے لیے وضع کیا گیا ہے اس کو اسی معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ [۱]

بقول سید عابد علی عابد:’’یہ علوم و مباحث یعنی فصاحت و بلاغت، معانی و بیان و بدیع آپس میں اس طرح گتھے ہوئے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے کلیتاً علیحدہ کرنا نا ممکن ہے۔ [۲]

سید مودودی کی تفسیر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علم بلاغت کی تمام باریکیوں سے واقف تھے۔ آپ الفاظ کے حقیقی اور مجازی معنی کے استعمال اور تعین کے سلسلے میں لغت عرب اور آیات قرآنی کے سیاق وسباق سے مدد لیتے تھے۔ مثلاً سورۃ البقرۃ کی آیت: وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَۃ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَىٰ وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِینَ [۲:۳۴] کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔ ‘‘[۳] یہاں سید صاحب نے لفظ سجدہ کا ترجمہ جھک جانا کیا ہے۔ یہ ترجمہ لفظی معنی ٰ یعنی زمین پرسرٹیک دینے سے زیادہ فصیح اور قرآن کے مفہوم کے عین مطابق ہے۔ پھر لفظ ابلیس کے مفہوم کا تعین کرتے ہوئے حاشیے میں لکھتے ہیں :’’اِبْلِیسْ: لفظی ترجمہ’’ انتہائی مایوس‘‘۔ اِصطلاحاً یہ اُس جِن کا نام ہے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے آدم اور بنی آدم کے لیے مطیع و مُسَخَّر ہونے سے انکار کر دیا اور اللہ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی کہ اسے نسلِ انسانی کو بہکانے اور گمراہیوں کی طرف ترغیب دینے کا موقع دیا جائے۔ اسی کو ’’الشَیْطَان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ درحقیقت شیطان اور ابلیس بھی محض کسی مجرّد قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ بھی انسان کی طرح ایک صاحبِ تشخّص ہستی ہے۔ [۴]

اسی طرح سورۃ البقرۃ کی یہ  آیت دیکھیے :وَالَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِآیَاتِنَا أُولَٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ ہمْ فِیہا خَالِدُونَ۔ (۲:۳۹)(اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ )

__________________________________________

۱۔ سجاد مرزا بیگ، تسہیل البلاغت، حیدرآباد دکن:نظام دکن پریس بازار عیسیٰ میان، ۱۳۳۹ھ، ص۵۔

۲۔ عابد علی عابد، سید، البیان،، لاہور:مجلس ترقی ادب، ط۱، فروری ۱۹۸۹ء، ص ۲۶۔

۳۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۶۴۔ ۶۵۔

۴۔ ایضاً، ج۱، ص۶۵حاشیہ:۴۶۔

__________________________________________

اس آیت کی تفسیرسید صاحب کی زبان دانی اور بیان و معانی پر دسترس کو ظاہر کرتی ہے۔ آیت میں مذکور لفظ بِآیَاتِنَا  کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’آیات جمع ہے آیت کی۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن میں یہ لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے۔ کہیں آثارِ کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے، کیونکہ مظاہرِ قدرت میں سے ہر چیز اُس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس ظاہری پردے کے پیچھے مستُور ہے۔ کہیں اُن معجزات کو آیات کہا گیا ہے جو انبیاء علیہم السّلام لے کر آتے تھے، کیونکہ یہ معجزے دراصل اس بات کی علامت ہوتے تھے کہ یہ لوگ فرمانروائے کائنات کے نمائندے ہیں۔ کہیں کتاب اللہ کے فقروں کو آیات کہا گیا ہے، کیونکہ وہ نہ صرف حق اور صداقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، بلکہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے جو کتاب بھی آتی ہے، اس کے محض مضامین ہی میں نہیں، اس کے الفاظ اور اندازِ بیان اور طرزِ عبادت تک میں اس کے جلیل القدر مُصنّف کی شخصیت کے آثار نمایاں طور پر محسُوس ہوتے ہیں۔ ہر جگہ عبارت کے سیاق و سباق سے باسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں ’’آیت‘‘ کا لفظ کس معنی میں آیا ہے۔ ‘‘[۱]

سورۃ البقرہ کی آیت:الَّذِینَ یَأْکُلُونَ الرِّبَوا۔ (۲:۲۷۵) کی توضیح کرتے ہوئے سید صاحب لفظ ربوا کے بارے میں لکھتے ہیں :’’اصل میں لفظ’’رِبٰوا‘‘استعمال ہوا ہے، کس کے معنی عربی میں زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اِصطلاحاً اہلِ عرب اِس لفظ کو اُس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وُصُول کرتا ہے۔ اِسی کو ہماری زبان میں سُود کہتے ہیں۔ ‘‘[۲]

اور سورۃ الاعراف کی آیت:وَلَقَدْ خَلَقْنَاکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَۃ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ لَمْ یَکُن مِّنَ السَّاجِدِینَ۔ (۷:۱۱) (ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کرو اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ ) کی تشریح کے دوران میں لفظ سجدہ کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ فرشتوں کو آدم کے لیے سربسجود ہو جانے کا جو حکم دیا گیا تھا، اس کی نوعیت کچھ اسی قسم کی تھی۔ ممکن ہے کہ صرف مسخر ہو جانے ہی کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہو۔ مگر یہ بھی ممکن ہے اس انقیاد کی علامت کے طور پر کسی ظاہری فعل کا حکم بھی دیا گیا ہو، اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘  [۳]

سورۃ آل عمران کی آیت: وَیَتَّخِذَ مِنکُمْ شُہدَاءَ۔ (۳:۱۴۰) کے حاشیہ میں لفظ شھداٗ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اصل الفاظ ہیں وَیَتَّخِذَ مِنْکُم ْشُھَدَآءَ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم میں سے کچھ شہید لینا چاہتا تھا، یعنی کچھ لوگوں کو شہادت کی عزّت بخشنا چاہتا تھا۔ اور دُوسرا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اور منافقین کے اُس مخلوط گروہ میں سے جس پر تم اِس وقت مشتمل ہو، اُن لوگوں کو الگ چھانٹ لینا چاہتا تھا جو حقیقت میں شُھَدَآ ء عَلَی النَّاس ہیں، یعنی اُس منصب ِ جلیل کے اہل ہیں جس پر ہم نے اُمّتِ مسلمہ کو سرفراز کیا ہے۔ ‘‘[۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۶۹، حاشیہ:۵۴۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۲۱۰، حاشیہ:۳۱۵۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۶۵، حاشیہ:۴۵۔

۴۔ ایضاً، ج۱، ص۲۹۰، حاشیہ:۱۰۱۔

__________________________________________

اسی طرح علم المعانی و بیان کی ایک مثال سورۃ آل عمران ہی کی آیت:وَمَن یُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِہ مِنْہا۔ (۳:۱۴۵)ہے۔ سید صاحب حاشیے میں ثواب کے معانی پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ثواب کے معنی ہیں نتیجہ عمل۔ ثواب دنیا سے مراد وہ فوائد  و منافع ہیں جو انسان کو اس کی سعی و عمل کے نتیجہ میں اسی دنیا کی زندگی میں حاصل ہوں۔ اور ثواب آخرت سے مراد وہ فوائد و منافع ہیں جواسی سعی و عمل کے نتیجہ میں آخرت کی پائدار زندگی میں حاصل ہوں گے۔ [۱]

سورۃ الاعراف کی درج بالا آیت کی توضیح میں، فرشتوں کے عملی طور پر سجدہ کرنے کی رائے کو مزید موکد کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں :’’سورہ بقرہ میں حکم سجدہ کا ذکر جن الفاظ میں آیا ہے ان سے شبہ ہو سکتا تھا کہ فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم صرف آدم علیہ السلام کی شخصیت کے لیے دیا گیا تھا۔ مگر یہاں وہ شبہ دور ہو جاتا ہے۔ یہاں جو اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ نوع انسانی کا نمائندہ فرد ہونے کی حیثیت سے تھا۔ اور یہ جو فرمایا کہ ’’ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہیں صورت بخشی، پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، ‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہلے تمہاری تخلیق کا منصوبہ بنایا اور تمہارا مادہ آفرینش تیار کیا، پھر اس مادے کوانسانی صورت عطا کی، پھر جب ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آ گیا تو اسے سجدہ کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا۔ ‘‘[۲]

سورۃ المومنون کی آیت:تَلْفَحُ وُجُوہہمُ النَّارُ وَہمْ فِیہا کَالِحُونَ۔ (۲۳:۱۰۴)(آگ ان کے چہروں کی کھال چاٹ جائے گی اور اُن کے جبڑے باہر نکل آئیں گے۔ ) کی تشریح کرتے ہوئے لفظ کَالِحُونَ کی وضاحت اس طرح سے کرتے ہیں :’’ اصل میں لفظ کَالِحُوْنَ استعمال کیا گیا ہے۔ کالح عربی زبان میں اس چہرے کو کہتے ہیں جس کی کھال الگ ہو گئی ہو اور دانت باہر آ گئے ہوں، جیسے بکرے کی بھنی ہوئی سری۔ عبد اللہ بن مسعودؓ سے کسی نے کالح کے معنی پوچھے تو انہوں نے کہا اَلَمْ تَرَ اِ لَی الرأس المشیط ؟ ’’ کیا تم نے بھنی ہوئی سری نہیں دیکھی؟‘‘[۳]

اسی طرح آگے چل کراسی سورۃ کیآیت:أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ۔ (۲۳:۱۱۵)(کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے ؟) کی وضاحت کرتے ہوئے لفظ عَبَثًا کی تشریح کرتے ہوئے اس کے تمام ممکنہ مطالب بیان کیے ہیں۔ لکھتے ہیں :’’اصل میں لفظ عَبَثاً کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس کا ایک مطلب تو ہے ’’ کھیل کے طور پر‘‘۔ اور دوسرا مطلب ہے ’’ کھیل کے لیے ‘‘ پہلی صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے۔ ’’ کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بطور تفریح بنا دیا ہے، تمہاری تخلیق کی کوئی غرض و غایت نہیں ہے، محض ایک بے مقصد مخلوق بنا کر پھیلا دی گئی ہے۔ ’’ دوسری صورت میں مطلب یہ ہو گا : ’’ کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ تم بس کھیل کود اور تفریح اور ایسی لا حاصل مصروفیتوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو جن کا کبھی کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے ‘‘۔ [۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۲۹۲، حاشیہ:۱۰۵۔

۲۔ ایضاً، ج۲، ص۱۰، حاشیہ:۱۰۔

۳۔ ایضاً، ج۳، ص۳۰۱، حاشیہ :۹۷۔

۴۔ ایضاً، ج۳، ص۳۰۳، حاشیہ :۱۰۲۔

__________________________________________

سورۃ الحجرات کی آیت:وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ۔ (۴۹:۱۱) (آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ )  کی تفسیر کرتے ہوئے لفظ  تَلْمِزُوا  کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اصل میں لفظ لَمزْ استعمال ہوا ہے جس کے اندر طعن و تشنیع کے علاوہ متعدد دوسرے مجہومات بھی شامل ہیں، مثلاً چوٹیں کرنا، پھبتیاں کسنا، الزام دھرنا، اعتراض جڑنا، عیب چینی کرنا، او ر کھلم کھلا یا زیر لب یا اشاروں سے کسی کو نشانہ ملامت بنانا۔ یہ سب افعال بھی چونکہ آپس کے تعلقات کو بگاڑتے اور معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں اس لیے ان کو حرام کر دیا گیا ہے۔ کلام الہیٰ کی بلاغت یہ ہے کہ : لَا عَلْمِزُ بَعْضُکُمْ بَعْضاً (ایک دوسرے پر طعن نہ کرو) کہنے کے بجائے : لَا تَلْمِزُوٓ ا اَنْفُسَکَمْ(اپنے اوپر طعن نہ کرو) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ دوسروں پر زبان طعن دراز کرنے والا دراصل خود اپنے آپ کو مطعون کرتا ہے۔ ‘‘[۱]

سورۃ ق کی آیت:مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیبٍ۔ (۵۰:۲۵) (خیر کو روکنے والا اور حد سے تجاوز کرنے والا تھا، شک میں پڑا ہوا تھا۔ ) کی تفسیرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’خیر کا لفظ عربی زبان میں مال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور بھلائی کے لیے بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مال میں سے کسی کا حق ادا نہ کرتا تھا۔ نہ خدا کا نہ بندوں کا۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ وہ بھلائی کے راستے سے خود ہی رک جانے پر اکتفا نہ کرتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روکتا تھا۔ دنیا میں خیر کے لیے سدِّ راہ بنا ہوا تھا۔ اپنی ساری قوتیں اس کام میں صرف کر رہا تھا کہ نیکی کسی طرح پھیلنے نہ پائے۔ ‘‘  [۲]

سورۃ الذاریات کی آیت:قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ أَیُّہا الْمُرْسَلُونَ۔ (۵۱:۳۱) (ابراہیمؑ نے کہا، اے فرستادگان الٰہی، کیا مہم آپ کو در پیش ہے ؟) کی تفسیر کرتے ہوئے لفظ خَطْبُکُمْ کی وضاحت اس طرح سے کرتے ہیں :’’چونکہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا کسی بڑے اہم کام کے لیے ہوتا ہے، اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آمد کا مقصد پوچھنے کے لیے خطب کا لفظ استعمال فرمایا۔ خَطْب عربی زبان میں کسی معمولی کام کے لیے نہیں بلکہ کسی امر عظیم کے لیے بولا جاتا ہے۔ ‘‘ [۳]

اسی سورۃ کی آیت:وَفِی عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَیْہمُ الرِّیحَ الْعَقِیمَ۔ (۵۱:۴۱) (اور (تمہارے لیے نشانی ہے )  عاد میں، جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خیر ہوا بھیج دی۔ ) کی تفسیر کرتے ہوئے الرِّیحَ الْعَقِیمَ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ اس ہوا کے لیے لفظ عقیم استعمال ہوا ہے جو بانجھ عورت کے لیے بولا جاتا ہے، اور لغت میں اس کے اصل معنی یا بِس (خشک) کے ہیں۔ اگر اسے لغوی معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا یہ وہ ایسی سخت گرم و خشک ہو تھی کہ جس چیز پر سے وہ گزر گئی اسے سکھا کر رکھ دیا۔ اور اگر اسے محاورے کے مفہوم میں لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ بانجھ عورت کی طرح وہ ایسی ہوا تھی جو اپنے اندر کوئی نفع نہ رکھتی تھی۔ ‘‘ [۴]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۵، ص۸۵، حاشیہ:۲۱۔

۲۔ ایضاً، ج۵، ص۱۱۹، حاشیہ:۳۰۔

۳۔ ایضاً، ج۵، ص۱۴۵، حاشیہ:۳۰۔

۴۔ ایضاً، ج۵، ص۱۴۹، حاشیہ:۳۹۔

__________________________________________

سید صاحب کی علم المعانی پردسترس کی ایک مثال سورۃ الطور کی یہ آیت ہے :وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ۔ (۵۲:۶) (اور موجزن سمندر کی۔ )  آپ  لفظ الْبَحْرِ الْمَسْجُور کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اصل میں لفظ اَلْبَحْرِالْمَسجُوْر استعمال ہوا ہے۔ اس کے متعدد معنی بیان کیے گئے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس کو ’’ آگ سے بھرے ہوئے ‘‘ کے معنی میں لیا ہے۔ بعض اس کو فارغ اور خالی کے معنی میں لیتے ہیں جس کا پانی زمین میں اتر کر غائب ہو گیا ہو، بعض اسے محبوس کے معنی میں لیتے ہیں اور اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ سمندر کو روک کر رکھا گیا ہے تاکہ اس کا پانی زمین میں اتر کر غائب بھی نہ ہو جائے اور خشکی پر چھا بھی نہ جائے کہ زمین کے سب باشندے اس میں غرق ہو جائیں۔ بعض اسے مخلوط کے معنی میں لیتے ہیں جس کے اندر میٹھا اور کھاری، گرم اور سرد ہر طرح کا پانی آ کر مل جاتا ہے۔ اور بعض ا س کو لبریز اور موجزن کے معنی میں لیتے ہیں۔ ان میں سے پہلے دو معنی تو موقع و محل سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے ان دو معنوں کو ساقط کر کے یہاں البحر المسجور کو محبوس، مخلوط، اور لبریز و موجزن کے معنی ہی میں لیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ [۱]

سورۃ الرحمٰن کی آیت:وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ۔ (۵۵:۶) (اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔ ) کی وضاحت کرتے ہوئے سید صاحب نے تمام ممکنہ معانی بیان کیے ہیں اور ساتھ ہی دیگر مفسرین کی آرا اور ان کے دلائل بیان کیے ہیں۔ اس کے بعد جو معنی خود اختیار کیے ہیں ان کو درج کرنے کے ساتھ ساتھ، ان کے انتخاب کی وجہ بھی بیان کی ہے۔ لکھتے ہیں : ’’اصل میں لفظ النجم استعمال ہوا ہے جس کے معروف اور متبادر معنی تارے کے ہیں۔ لیکن لغت عرب میں یہ لفظ ایسے پودوں اور بیل بوٹوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے جن کا تنا نہیں ہوتا، مثلاً ترکاریاں، خربوزے، تربوز وغیرہ۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ یہاں یہ لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ابن عباس سعید بن جبیر، سدی اور سفیان ثوری اس کو بے تنے والی نباتات کے معنی میں لیتے ہیں، کیونکہ اس کے بعد لفظ الشجر (درخت) استعمال فرمایا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہی معنی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ بخلاف اس کے مجاہد، قتادہ اور حسن بصری کہتے ہیں کہ نجم سے مراد یہاں بھی زمین کے بوٹے نہیں بلکہ آسمان کے تارے ہی ہیں، کیوں کہ یہی اس کے معروف معنی ہیں، اس لفظ کو سن کر سب سے پہلے آدمی کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے، اور شمس و قمر کے بعد تاروں کا ذکر بالکل فطری مناسبت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مفسرین و مترجمین کی اکثریت نے اگر چہ پہلے معنی کو ترجیح دی ہے، اور اس کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا، لیکن ہمارے نزدیک حافظ ابن کثیر کی رائے صحیح ہے کہ زبان اور مضمون دونوں کے لحاظ سے دوسرا مفہوم زیادہ قابل ترجیح نظر آتا ہے۔ ‘‘ [۲]

ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ سید صاحب سب سے پہلے لفظ کواس کے اصلی معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں۔ اگر سیاق وسباق سے اس کے کسی اور مفہوم کی گنجائش نکلتی ہو تو اس کے لیے قرآن مجید کے کسی اور مقام سے اور اس کے بعد حدیث و آثار سے استدلال کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ دیگر مفسرین کے اقوال و آرا بھی معنی کے تعین میں پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر باقی مفسرین میں معنی کے تعین میں اختلاف واقع ہوا تو سید صاحب جس رائے کو ترجیح دیتے ہیں اس کے دلائل بھی بیان کر دیتے ہیں۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہم القرآن، ج۵، ص۱۶۳، حاشیہ:۵۔

۲۔ ایضاً، ج۵، ص۲۵۰، حاشیہ:۵۔

__________________________________________

 

 

 

 

               فصل ششم: علم البیان

 

علم البیان، علوم بلاغت کی ایک اہم شاخ ہے۔ ’’بیان‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’ظاہر کرنا‘‘، کھول کر بات کرنا اور کسی معاملے کی شرح و وضاحت اس انداز سے کرنا کہ مخاطب کو جزئیات کے ساتھ معاملے کی پوری طرح آگاہی حاصل ہو جائے۔

نواب صدیق بن حسن خان کے بقول:

علم البیان، ھو علم یعرف بہ ایراد المعنی الواحد بتراکیب مختلفۃ فی وضوح الدلالۃ علیٰ المقصود بان تکون دلالۃ بعضھا اجل من بعض۔ ۔ ۔ وغرضہ تحصیل ملکۃ الافادۃ بالدلالۃ العقلیۃ وفھم مدلولا تھا لیختار الاوضح منھا مع فصاحۃ المفردات و غایتہ الاحتراز من الخطا فی تعیین المعنی المراد بالدلالۃ الراصحۃ۔ [۱]

’’علم بیان وہ علم ہے جس میں ایک معنی کو مختلف تراکیب کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ ایسی وضاحت کے ساتھ جس میں مقصود کی زیادہ سے زیادہ وضاحت ہو۔ اس علم کا مقصد عقلی دلیل اور مدلولات کے فہم سے فائدہ اٹھانے کا ملکہ حاصل کرنا ہے  تاکہ الفاظ زیادہ واضح لفظ کا انتخاب کیا جا سکے اور پختہ دلیل کے ذریعے معنی کے تعین میں غلطی سے بچا جا سکے۔ ‘‘

ابن الاکفانی لکھتے ہیں :

وھو علم یعرف فیہ احوال الاقاویل المرکبۃ الماخوذۃ عن الفصحا ٗوالبلغاٗ، من الخطب والرسائل والاشعار من جہۃ بلاغتھا وخلوھامن اللکن، وتادیتھا المطلوب بھا وافیۃ۔ [۲]

’’یہ وہ علم ہے جس میں خطباء و بلغاء کے خطبات ورسائل اور اشعار سے ماخوذ اقوال کے بلاغت اور غلطیوں سے پاک ہونے اور مطلوب و مقصود کی مکمل ادائیگی کے اعتبار سے ا\حوال کے بارے میں جانا جاتا ہے۔

شیخ احمد الاسکندری کے نزدیک معانی، بیان اور بدیع کے مباحث پرسب سے پہلی کتاب ’’مجاز القرآن ‘‘ ہے جو خلیل بن احمد (۱۰۰ھ۔ ۱۷۰ھ)  کے شاگرد ابو عبیدہ نے تصنیف کی اور بعد کے علماء نے اس کی پیروی کی۔ [۳]

اس علم سے متعلق متقدمین میں سے جعفر بن یحیٰ، ابن المعتز، جاحظ اور قدامہ بن جعفر(م۳۱۰ھ) نے کتابیں لکھیں۔ اس کے بعد عبدالقاہر  جرجانی(م۴۷۱ھ)علم معانی میں ’’دلائل الاعجاز‘‘ اور علم البیان میں ’’اسرارالبلاغۃ‘‘ جیسی عظیم الشان کتابیں تصنیف کیں۔ [۴]

اس کی زیادہ تفصیل اور توضیح ابویعقوب سراج الدین یوسف السکاکی  الخوارزمی (م ۶۲۶ ھ )نے اپنی کتاب ’’مفتاح العلوم‘‘ میں بیان کی ہے۔ [۵]

__________________________________________

۱۔ صدیق بن حسن القنوجی، من ابجد العلوم، ص۱۲۹۔

۲۔ ابن الاکفانی، محمد بن ابراہیم بن ساعد الانصاری، ص۱۱۶۔

۳۔ الشیخ احمد الاسکندری،  الوسیط فی الادب العربی و تاریخہ، ص۲۲۹۔

۴۔ ایضاً، ص۲۳۰۔

۵۔ ایضاً، ص۱۳۲۔

__________________________________________

قاضی عبدالنبی کے بقول:با عتبار افادتھا المعان مغائرۃ لاصل المعنی(فعلم المعانی)او باعتبار کیفیۃ تلک الافادۃ فی مراتب الوضوح(فعلم البیان)[۱]

اس علم میں تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور مجاز مرسل کی مدد سے ایک معنی کو کئی انداز سے بیان کیا جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر مزمل حسین: ’’ یہ علم ایسے اصول و قواعد کا مجموعہ ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک معنی کو کئی طریقوں سے بیان کرنے کا کیا انداز اور سلیقہ ہے۔ یعنی شاعر یا نثر نگار اپنے مقصد کو بیان کرنے کے لیے مختلف راہوں کو اختیار کر سکتا ہے۔ ‘‘[۲]

یعنی وہ کلا م کو حقیقی معنوں میں بھی استعمال کرسکتا ہے اور مجازی معنوں میں بھی۔ علم معانی میں الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات جب انشاء پرداز یا متکلم کا کام الفاظ کے حقیقی معنوں سے نہیں چلتا تو وہ انھی الفاظ کو غیر حقیقی یا مجازی معنوں میں استعمال کرتا ہے، جن کے لیے لغت سے استناد نہیں کیا جا سکتا۔ الفاظ کے ایسے استعمال کا تعلق علم البیان سے ہے۔ لیکن جب الفاظ اپنے معانی غیر وضعی میں استعمال ہوتے ہیں تو ایسے استعمال کا کوئی جواز اور قرینہ ضرور موجود ہوتا ہے۔

بقول نجم الغنی رام پوری:

’’علم بیان ایسے قاعدوں کا نام ہے کہ اگر کوئی ان کو جانے اور یاد رکھے تو ایک معنی کو کئی طریق سے عبارات مختلفہ میں ادا کر سکتا ہے جن میں سے بعض طریق کی دلالت معنی پر بعض طریق سے زیادہ  واضح ہوتی ہے۔ ‘‘[۳]

علم بیان کا دارومدار ان چار چیزوں پر ہے :تشبیہ، استعارہ، مجاز مرسل، کنایہ۔ [۴]

عام قاعدہ یہی ہے کہ الفاظ کو جن معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے انھی کے لیے استعمال کیا جائے۔ لیکن بقول سجاد مرزا بیگ: بعض لوگ ایسی قدرت بھی رکھتے ہیں کہ ایک مفہوم کو ایک ہی زبان میں مختلف عبارتوں میں ظاہر کریں۔ ‘‘[۵]

اظہار مدعا کی یہ خصوصیت اور قدرت ایک تو زبان کی وسعت پر منحصر ہے اور دوسرے متکلم کی ذہنی قوت، تخیل اور ذکاوت پر منحصر ہے کہ وہ الفاظ کے ہیر پھیر سے کسی طرح مدعا کا اظہار مختلف انداز سے کرتا ہے۔ ان اصول و قواعد کو جن کے ذریعہ سے ایک معنی مختلف عبارتوں میں اس طرح سے ادا کرسکیں کہ ایک معنی بہ نسبت دوسرے کے زیادہ یا کم واضح ہوں، علم بیان کہتے ہیں۔ [۶]

عابد علی عابدعلم البیان کے متعلق اساتذہ متقدمین کی تعریفات پر نقد کرتے ہوئے، اور ان سے پیدا ہونے والے اشکالات کا ذکر کرنے کے بعد، اپنی طرف سے ایک جامع تعریف پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں :’’علم بیان وہ علم ہے جو [مجاز(ا)تشبیہ (۲) استعارہ (۳) مجاز مرسل (۴) کنایہ]سے اس طرح بحث کرتا ہے کہ اس پر حاوی ہونے کے بعد فن کار، انشا پرداز یا خطیب اپنے مفہوم کے ابلاغ  ِتام میں کامیاب ہو سکے۔ ‘‘[۷]

__________________________________________

۱۔ قاضی عبدالنبی احمد نگری، جامع العلوم الملقب بہ دستور العلماء، ج ۲، ص۳۷۶۔

۲۔ مزمل حسین، ڈاکٹر، حدائق البلاغت، ص۱۶۔

۳۔ نجم الغنی رام پوری، بحر الفصاحت، ج۵، ط۱، لاہور:مجلس ترقی ادب، جون ۲۰۰۶ء، ص۱۳۔

۴۔ ایضاً، ص۲۵۔ ۵۔ سجاد مرزا بیگ، محمد، تسہیل البلاغت، ص۵۔

۶۔ ایضاً، ص۵۔

۷۔ عابد علی عابد، سید، البیان، ص۷۱۔

__________________________________________

جب ہم تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سید مودودی جس طرح عربی زبان کی باریکیوں سے واقف نظر آتے ہیں اسی طرح اردو زبان اور محاورے پر ان کی قدرت تفسیر میں جا بجا نظر آتی ہے۔ عام لفظی ترجمے سے ہٹ کر حسب حال با محاورہ ترجمہ قرآن مجید کے الفاظ کے مقصد و مدعا کو بہت عمدگی سے قاری تک پہنچاتا ہے۔ مثلاً سورۃ الاعراف کی آیت: وَنَادَىٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّۃ أَنْ أَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللَّہ ۚ قَالُوا إِنَّ اللَّہ حَرَّمَہمَا عَلَى الْکَافِرِینَ [۷:۵۰]  کا ترجمہ آپ کی اس خصوصیت کا عمدگی سے اظہار کرتا ہے۔ ’’اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اُسی میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں اُن منکرین حق پر حرام کر دی ہیں۔ ‘‘[۱]

مولانا فتح محمد جالندھری نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح سے کیا ہے :’’اور وہ دوزخی بہشتیوں سے (گڑگڑا کر) کہیں گے کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ یا جو رزق خدا نے تمہیں عنایت فرمایا ہے ان میں سے (کچھ ہمیں بھی دو) وہ جواب دیں گے کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کر دیا ہے۔ ‘‘

مولانا احمد رضا خان بریلوی کا انداز بیان دیکھیں :’’اور دوزخی بہشتیوں کو پکاریں گے کہ ہمیں اپنے پانی کا فیض دو یا اس کھانے کا جو اللہ نے تمہیں دیا (ف۸۹) کہیں گے بیشک اللہ نے ان دونوں کو کافروں پر حرام کیا ہے۔ ‘‘

سید ابوالاعلیٰ مودودی قرآن مجید کی شرح و وضاحت کے دوران جہاں ترجمے میں الفاظ کے لغوی معنی بیان کرتے ہیں، وہیں حاشیہ میں اس کے دیگر مترادفات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ جہاں لغوی معنی کے ساتھ بات کی وضاحت عمدگی کے ساتھ نہ ہو رہی ہو، وہاں تمثیلی معنی بھی بیان کر دیتے ہیں۔ مثلاً سورۃ البقرہ کی آیت:فَمَثَلُہ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہ تُرَابٌ فَأَصَابَہ وَابِلٌ فَتَرَکَہ صَلْدًا۔ (۲:۲۶۴) کی تشریح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :’’اس تمثیل میں بارش سے مراد خیرات ہے۔ چٹان سے مراد اُس نیت اور اُس جذبے کی خرابی ہے، جس کے ساتھ خیرات کی گئی ہے۔ مٹی کی ہلکی تہہ سے مراد نیکی کی وہ ظاہری شکل ہے، جس کے نیچے نیت کی خرابی چھپی ہوئی ہے۔ اس توضیح کے بعد مثال اچھی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے۔ ‘‘[۲]

سورۃ البقرہ کی آیت۲:۲۷۵ کی تشریح کرتے ہوئے سید صاحب نے سود خور کے بارے میں بیان کیا ہے :’’اہلِ عرب دیوانے آدمی کو ’’مجنُون‘‘ (یعنی آسیب زدہ) کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے، اور جب کسی شخص کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے، تو یُوں کہتے کے اسے جِن لگ گیا ہے۔ اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے قرآن سُود خوار کو اُس شخص سے تشبیہ دیتا ہے جو مخبُوط الحواس ہو گیا ہو۔ یعنی جس طرح وہ شخص عقل سے خارج ہو کر غیر معتدل حرکات کرنے لگتا ہے، اسی طرح سُود خوار بھی روپے کے پیچھے دیوانہ ہو جاتا ہے اور اپنی خود غرضی کے جنُون میں کچھ پروا نہیں کر تا کہ اس کی سُود خواری سے کس کس طرح انسانی محبت، اخُوّت اور ہمدردی کی جڑیں کٹ رہی ہیں۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲، ص۳۳۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۲۰۴، حاشیہ:۳۰۴۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۲۱۱، حاشیہ: ۳۱۶۔

__________________________________________

سورۃ آل عمران کی آیت:یَا أَیُّہا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا۔ (۳:۲۰۰)کی وضاحت اس طرح سے کرتے ہیں :’’اصل عربی متن میں صَابِرُوْا کا لفظ آیا ہے۔ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ کفار اپنے کفر پر جو مضبوطی دکھا رہے ہیں اور اس کو سربلند رکھنے کے لیے جو زحمتیں اُٹھا رہے ہیں تم ان کے مقابلے میں ان سے بڑھ کر پامردی دکھا ؤ۔ دوسرے یہ کہ ان کے مقابلہ میں ایک دُوسرے سے بڑھ کر پامردی دکھا ؤ۔ ‘‘[۱]

سید صاحب قرآن مجید کے الفاظ کا ترجمہ سیاق وسباق اور مضمون کے لحاظ سے نہایت عمدگی سے کرتے ہیں۔ بعض اوقات عربی زبان کے ایک ہی لفظ کا ترجمہ اردو زبان کے مختلف الفاظ سے کرتے ہیں۔ آپ کا یہ الفاظ کا انتخاب ہی کلام میں خوب صورتی اور صحیح مفہوم کو واضح کرنے کا باعث بنتا ہے۔ مثال کے طور پرسورۃ النسا کی آیت۴:۵ میں وَقُولُوا لَہمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا کاترجمہ’’اور انھیں نیک ہدایت کرو‘‘ اور  آیت۴:۸میں وَقُولُوا لَہمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًاکا ترجمہ ’’اور ان کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو‘‘ کیا ہے۔ [۲]

یہاں پر یہ بات بخوبی ملاحظہ کی جا سکتی ہے کہ محض کلام کے سیاق وسباق کے لحاظ سے اردو زبان کے بہترین مترادفات کے استعمال سے سید صاحب نے کلام میں کتنی خوب صورتی اور مفاہیم میں حسن پیدا کر دیا ہے۔ اگر اسی ترجمے کو الٹ استعمال کیا جائے تو آیات کا مفہوم بالکل ہی مبہم ہو جاتا ہے۔

اسی طرح سورۃ النساٗ کی آیت:وَاللَّہ عَلِیمٌ حَلِیمٌ۔ (۴:۱۲) کی تشریح کرتے ہوئے سید صاحب نے اللہ تعالیٰ کی صفات’ علم ‘اور’ حلم‘ کو اکٹھے بیان کرنے کی توجیہ اس طرح سے کی ہے :’’یہاں اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم کا اظہار دو وجوہ سے کیا گیا ہے : ایک یہ کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ کی گرفت سے آدمی نہ بچ سکے گا۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے جو حصّے جس طرح مقرر کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ بندوں کی مصلحت جس چیز میں ہے اللہ اس کو خود بندوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔ اور اللہ کی صفتِ حِلم یعنی اس کی نرم خوئی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اللہ نے یہ قوانین مقرر کرنے میں سختی نہیں کی ہے کہ بلکہ ایسے قاعدے مقرر کیے ہیں جن میں بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت ہے تاکہ وہ مشقت اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔ ‘‘[۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۳۱۴، حاشیہ:۱۴۱۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص ۳۲۲۔ ۳۲۵۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۳۳۰، حاشیہ:۲۵۔

__________________________________________

سید صاحب الفاظ قرآنی کے معانی کے بیان اور وضاحت میں جہاں عام طور پر حاشیہ میں تفاصیل کا ذکر کرتے ہیں، وہیں بعض اوقات ترجمے کی روانی اور سلاست کو برقرار رکھنے کے لیے قوسین میں اپنی طرف سے کچھ وضاحت کر دیتے ہیں۔  مثلاً سورۃ آل عمران کی آیت:   إ ِذْ قَالَ اللَّہ یَا عِیسَىٰ إِنِّی مُتَوَفِّیکَ وَرَافِعُکَ إِلَیَّ وَمُطَہرُکَ مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا۔ (۳:۵۵)کا ترجمہ کرتے ہوئے قوسین میں اس طرح سے وضاحت کی ہے کہ آیت کا مفہوم روز روشن کی طرح واضح ہو گیا ہے۔ لکھتے ہیں :’’(وہ اللہ کی خفیہ تدبیر ہی تھی) جب اُس نے کہا کہ، اے عیسیٰؑ! اب میں تجھے واپس لے لوں گا اور تجھ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور جنہوں نے تیرا انکار کیاہے اُن سے (یعنی ان کی معیت سے اور ان کے گندے ماحول میں ان کے ساتھ رہنے سے ) تجھے پاک کر دوں گا۔ ‘‘[۱]

سورۃ ق کی آیات:ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ۔ بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءَہم مُّنذِرٌ مِّنْہمْ فَقَالَ الْکَافِرُونَ ہٰذَا شَیْءٌ عَجِیبٌ۔ (۵۰:۱۔ ۲) (ق، قسم ہے قرآن مجید کی۔ بلکہ اِن لوگوں کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود اِنہی میں سے اِن کے پاس آ گیا پھر منکرین کہنے لگے یہ تو عجیب بات ہے۔ )کی تفسیر کرتے ہوئے سید صاحب لکھتے ہیں :’’یہ فقرہ بلاغت کا بہترین نمونہ ہے جس میں ایک بہت بڑے مضمون کو چند مختصر الفاظ میں سمو دیا گیا ہے۔ قرآن کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اسے بیان نہیں کیا گیا۔ اس کا ذکر کرنے کے بجائے بیچ میں ایک لطیف خلا چھوڑ کر آگے کی بات ’’ بلکہ‘‘ سے شروع کر دی گئی ہے۔ آدمی ذرا غور کرے اور اس پس منظر کو بھی نگاہ میں رکھے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ قَسم اور بلکہ کے درمیان جو خلا چھوڑ دیا گیا ہے اس کا مضمون کیا ہے۔ ‘‘[۱]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۲۵۸۔

۲۔ ایضاً، ج۵، ص۱۰۸، حاشیہ:۲۔

__________________________________________

 

 

 

 

 

               فصل ہفتم: علم البدیع

 

علم البدیع، علم بلاغت کے سلسلے کا تیسرا اہم علم ہے۔ ’’بدیع‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی سخن آرائی، نادرہ گوئی، موجد، نیا ا ور نادر وغیرہ ہیں۔ اصطلاحاً، فصیح و بلیغ کلا م کو مختلف لفظی یا معنوی خوبیوں سے آراستہ کرنے کو بدائع اور صنائع کہتے ہیں۔

نواب صدیق بن حسن قنوجی لکھتے ہیں :

ھو علم تعرف بہ وجوہ تفید الحسن فی الکلام بعد رعایۃ المطابقۃ لمقتضی الحال، وبعد رعایۃ وضوح الدلالۃ علی المرام۔ [۱]

قاضی عبدالنبی احمد نگری کے بقول:

’’ البدیع:النادر، وعلم البدیع علم یعرف بہ وجوہ تحسین الکلام بعد رعایۃالمطابقۃ بمقتضی الحال و وضوح الدلالۃ۔ [۲]

ابن الاکفانی کے بقول:

وھو علم یبحث فیہ عن مواد الاقاویل الشعریۃ، وکیف تستعمل للتزیین والتحسین فی سائر احوالھا، ومنفعتہ تکمیل الاقاویل الشعریۃ نظما کانت اورنثرا فی بلوغھا غایتھا وتادیۃ المطلوب بھا۔ [۳]

اس علم کے بارے میں پہلی کتاب ابن ابی عباس عبداللہ بن معتز عباسی(م۲۹۶ھ) نے ۲۷۴ھ میں تصنیف کی۔ [۴] اس کے علاوہ عبدالقاہر جرجانی (م ۴۷۱ھ)کی کتب ’’دلائل الاعجاز‘‘ اور ’’اسرارالبلاغۃ‘‘  اورابویعقوب یوسف السکاکی(م۶۹۹ھ) کی ’’مفتاح العلوم‘‘ میں اس فن پر سیر حاصل بحث موجود ہے۔ اسی طرح فارسی میں شیخ شمس الدین فقیر کی کتاب ’’حدائق البلاغۃ‘‘ معروف ہے۔ [۵]

__________________________________________

۱۔ صدیق بن حسن خان قنوجی، من ابجد العلوم، ص۱۲۵۔

۲۔ قاضی عبدالنبی احمدنگری، دستورالعلماء، ج۱، ص۲۳۳۔

۳۔ ، ابن الاکفانی، محمد بن ابراہیم بن ساعد الانصاری، ارشاد القاصد فی اسنی ا لمقاصد، ص۱۱۷۔

۴۔ صدیق \بن حسن خان قنوجی، من ابجد العلوم، ص۱۲۶۔

۵۔ ایضاً، ص۱۲۷۔

__________________________________________

علامہ ابن خلدون علم البلاغہ کے سلسلے کے تینوں علوم: علم المعانی، علم البدیع اور علم البیان کا ذکر کرنے کے بعد علم البدیع کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’تیسری قسم وہ ہے جس سے کلام میں زینت وحسن پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے اور کسی نہ کسی قسم کی خوب صورتی پیدا کی جاتی ہے، خواہ مقفیِ عبارت لائی جائے جو کلام کو الگ الگ کر دے یا ہم جنس کلام لایا جائے جس کے بعض الفاظ میں مشابہت ہو یا صفت ترضیع لائی جائے، یا تو معنی مقصود کو چھپایا جائے اور ایک ایسا معنی وہم میں ڈالا جائے جو ظاہری معنی سے ذرا پوشیدہ ہو کیونکہ لفظ دونوں معانی میں مشترک ہے، اسے علم بدیع کہتے ہیں۔ ‘‘  [۱]

امام بخش صہبائی کے نزدیک:

’’’بدیع‘ ایک علم ہے کہ اس سے چند امور ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ کلام کی خوبی کے باعث ہیں۔ اور ان امور سے خوبی کلام کی جب ہے کہ پہلے علم معنی اور علم بیان کے قواعد سے مزین ہوچکا ہو، کس واسطے کہ اگر کلام ایسا نہ ہو گا تو ان امور کا کلام میں استعمال کرنا ایسا ہے کہ جیسے ایک بدصورت کو زیور پہنا دیں۔ ‘‘[۲]

علم بدیع سے کلام کو مزین کرنے اور خوش نما بنانے کا سلیقہ آتا ہے۔ یعنی ’سجع‘، ’تجنیس‘، ’ترصیع‘  اور ’توریہ‘ اور اسی قبیل کے دوسرے محاسن کلام سے انسان اس علم کی بدولت اپنے کلام کو آراستہ کرتا ہے۔ ‘‘ [۳]

__________________________________________

۱۔ ابن خلدون، عبدالرحمن، مقدمہ تاریخ ابن خلدون، ترجمہ راغب رحمانی، ج۲، کراچی:نفیس اکیڈمی، دسمبر۲۰۰۱ء، ص۳۹۰۔

۲۔ شمس الدین فقیر، ترجمہ حدائق البلاغت، (مترجم امام بخش صہبائی)کانپور:مطبع نامی منشی نول کشور، ۱۸۸۷ء، ص۷۷۔

۳۔ راغب الطباخ، تاریخ افکار و علوم اسلامی(ترجمہ:مولانا افتخار احمد بلخی)لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ط۱، ستمبر ۱۹۷۴ء، ص۲۵۶۔

__________________________________________

علم بدیع سے متعلق محاسن کلام درج ذیل ہیں :

۱۔ سجع:پہلے فقرے کے آخری کلمہ کا جو حرف ہو، وہی دوسرے فقرے کے آخری کلمہ کا حرف ہو۔

۲۔ تجنیس: کلام میں دو ایسے الفاظ کا ذکر کرنا جو تلفظ یا املاء میں مشابہت رکھتے ہوں، اور معانی میں مختلف ہوں۔

۳۔ ترصیع: پہلے فقرے میں جو الفاظ واقع ہوئے ہوں، دوسرے فقرے کے سارے الفاظ یا بیشتر الفاظ کے ساتھ ہم وزن اور حرف آخر میں متفق ہوں۔ ترصیع، سجع ہی کی ایک شاخ ہے۔

۴۔ توریہ: اسے ابہام(وہم میں ڈالنا)بھی کہتے ہیں۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کے دو معنی کسی لحاظ سے ہوتے ہیں، جن میں ایک معنی قریب اور دوسرے معنی بعید ہوتے ہیں، مگر قائل کی مراد معنی بعید ہوتی ہے۔ اس طرح سامع وہم میں پڑ جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں کئی مقام پر استعارے کی زبان میں بات کی ہے۔ مثال کے طور پر:وَاخْفِضْ لَہمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃ۔ (بنی اسرائیل۱۷:۲۴)ہوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہ آیَاتٌ مُّحْکَمَاتٌ ہنَّ أُمُّ الْکِتَابِ۔ (آل عمران۳:۷)قَالَ رَبِّ إِنِّی وَہنَ الْعَظْمُ مِنِّی وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَیْبًا۔ (مریم ۱۹:۴)وَآیَۃ لَّہمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہ النَّہارَ فَإِذَا ہم مُّظْلِمُونَ۔ (یٰسن۳۶:۳۷)

سید مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کلام کے محاسن اور ان کے برمحل استعمال سے واقفیت رکھتے ہیں۔ آپ، بسا اوقات، آیات کے وہ معنی مراد نہیں لیتے جو ان کے الفاظ سے بظاہر معلوم ہو رہے ہوتے ہیں، بلکہ وہ آیات اور سورتوں کے سیاق وسباق اور موضوع کی مناسبت سے تمثیلی معنی بھی مراد لیتے ہیں۔ جیسے کہ سورۃ البقرہ کی آیت:یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ أَبْصَارَہمْ ۖ کُلَّمَا أَضَاءَ لَہم مَّشَوْا فِیہ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَیْہمْ قَامُوا۔ (۲:۲۰)’’چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اُچک لے جائے گی۔ جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اِس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑ ے ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ کی شرح و وضاحت کرتے ہوئے قرآن مجید کے الفاظ سے تمثیلی معنی مراد لیتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اس مثال میں بارش سے مراد اسلام ہے جو انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا۔ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک سے مُراد مشکلات و مصائب کا وہ، ہُجوم اور وہ سخت مجاہدہ ہے جو تحریکِ اسلامی کے مقابلہ میں اہل جاہلیّت کی شدید مزاحمت کے سبب سے پیش آ رہا تھا۔ مثال کے آخری حِصّہ میں ان منافقین کی اس کیفیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جب معاملہ ذرا سہل ہوتا ہے تو یہ چل پڑتے ہیں، اور جب مشکلات کے دَلْ بادَل چھانے لگتے ہیں، یا ایسے احکام دیے جاتے ہیں جن سے ان کے خواہشاتِ نفس اور ان کے تعصّبات ِ جاہلیت پر ضرب پڑتی ہے، تو ٹھِٹک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ‘‘[۱]

سورۃ آل عمران کی آیت:مَثَلُ مَا یُنفِقُونَ فِی ہٰذِہ الْحَیَاۃ الدُّنْیَا کَمَثَلِ رِیحٍ فِیہا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ۔ (۳:۱۱۷) کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اِس مثال میں کھیتی سے مراد یہ کشتِ حیات ہے جس کی فصل آدمی کو آخرت میں کاٹنی ہے۔ ہَوا سے مراد وہ اُوپری جذبۂ  خیر ہے جس کی بنا پر کفار رفاہِ عام کے کاموں اور خیرات وغیرہ میں دولت صرف کرتے ہیں۔ اور پالے سے مراد صحیح ایمان اور ضابطۂ خداوندی کی پیروی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ان کو پوری زندگی غلط ہو کر رہ گئی ہے۔ ‘‘[۲]

اسی سورہ کی آیت: إِنَّ اللَّہ سَرِیعُ الْحِسَابِ۔ (۳:۱۹۹) ’’اور اللہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا۔ ‘‘کا ترجمہ کرتے ہوئے اصل الفاظ کے برعکس ترجمہ کر کے وہی مفہوم پیدا کر لیا ہے۔ اردو محاورے کے لحاظ سے اسے خوب صورت ترجمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور یہ سید صاحب کی اردو دانی کی بھی دلیل ہے۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۵۶، حاشیہ:۱۹۔

۲۔ ایضاً، ج۱، ص۲۸۱، حاشیہ:۹۱۔

۳۔ ایضاً، ج۱، ص۳۱۴۔

__________________________________________

 

 

 

 

               فصل ہشتم: علم القراآت

 

علم القراآت سے مراد وہ علم ہے جس کے ذریعے سے قرآن مجید کے الفاظ کو مختلف طریقوں سے ادا کرنا تواتر کے ساتھ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے۔ قراءات عشرہ دس ائمہ سے منسوب ان مختلف قرأت کو کہتے ہیں جو قرآن مجید اور اس کی مختلف قراءات کے ضمن میں رسول کریمﷺ سے اس امت کو منتقل ہوئیں۔ ان تمام متواتر قراءات کے الفاظ بالکل قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں اور علمائے حدیث نے اپنی کتب میں اس علم کے بارے میں ابواب بھی قائم کیے ہیں۔ مثلاً امام ترمذی نے ’’کتاب القراءات‘‘ اور امام ابوداؤد نے ’’ کتاب الحروف والقراءات ‘‘ کے عنوان سے اپنے مجموعہ احادیث میں ابواب قائم کیے ہیں۔ ان قراءات کی حقیقت اور تواتر پر تمام علمائے امت کا اجماع ہے۔

علامہ بدرالدین الزرکشی قراءات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

فالقرآن ھو وحی المنزل علیٰ محمد ﷺ للبیان والاعجاز، والقراءات ھی اختلاف الفاظ الوحی المذکور فی کتبۃ الحروف او کیفیتھا، من تخفیف وتثقیل وغیرھما۔ [۱]

’’قرآن، بیان اور اعجاز کے لحاظ سے نبی ﷺپر نازل ہونے والی وحی کا نام ہے اور قراءات کتابت اور تخفیف اور تثقیل کی بنیاد پراس وحی کے الفاظ کو ادا کرنے کی کیفیت کا نام ہے۔ ‘‘

محمد بن علی التھانوی کے بقول علم القراآت:

وھو علم یبحث فیہ عن کیفیۃ النطق بالفاظ القرآن، وموضوعہ القرآن من حیث انہ کیف یقراء۔ [۲]

’’علم القراءات وہ علم ہے جس میں قرآن کے الفاظ کی ادائیگی پر بحث کی جاتی ہے اور اس کا موضوع قرآن مجید کو پڑھنے کا انداز ہے۔ ‘‘

شیخ سعید الافغانی لکھتے ہیں :

وقراء اتہ جمیعا الواصلۃ الینا بالسند الصحیح حجۃ لا تضاھیھا حجۃ۔ اما طرقہ المختلفۃ فی الاداء فھی کذٰلک، اذ انھا مرویۃ عن الصحابۃ وقراء  التابعین، وھم جمیعا ممن یحتج بکلامھم العادی بلہ قراء اتھم التی تحروا ضبطھا جہد طاقتھم کما سمعوھا من رسول اللہ، ولا ننسیٰ بعد ذٰلک۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ الزرکشی، بدرالدین محمد بن عبداللہ، البرھان فی علوم القرآن، ص۳۱۸۔

۲۔ التھانوی، محمدبن علی، کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم، ج۱، ص۳۵۔

۳۔ الافغانی، سعید، فی اصول النحو، مدیریۃ الکتب والمطبوعات الجامعیۃ، ۱۹۹۴ء، ص۲۸۔

__________________________________________

’’قرآن مجید کی تمام قراء ات ہم تک صحت سند کے ساتھ پہنچی ہیں یہ ایسی دلیل ہیں جس کا کوئی مد مقابل نہیں ہے اور ہاں ان قراء ات کے مختلف طریقہ ادائی بھی اسی قبیل سے ہیں، کیونکہ وہ صحابہ اور قراء تابعین سے منقول ہیں یہ تمام حضرات ایسی (معتمد) شخصیات تھیں کہ انہوں نے قراء ات کو اپنی بھرپور کوشش کے ساتھ آپﷺ سے سنا اور انہیں لکھ کر محفوظ کیا۔ اس باب میں ان کی بات حجت سمجھی جاتی تھی۔ ‘‘

دور حاضر میں غیر مسلم مفکرین کے ساتھ ساتھ بہت سے تجدد پسندمسلمانوں نے بھی قراءآتِ قرآن کے تعدد کا انکارکیا ہے۔ اعتدال پسند مسلم علماء نے ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی اور عقلی ونقلی دلائل کے ساتھ اختلاف قراءت کاوجود ثابت کیا ہے۔ امام زرکشی لکھتے ہیں :

وقد انعقد الاجماع علی صحۃ قراءۃ ھٰولاء الائمۃ وانھا سنۃ متبعۃ، ولا مجال للاجتھاد فیھا۔ ۔ ۔ وانما کان کذالک، لان القراءۃ سنۃ مرویۃ عن النبی ﷺ، ولا تکون القراءۃ بغیر ماروی عنہ۔ [۱]

’’ان قراء ات عشرہ کی صحت پر ائمہ کا اجماع ہو چکا ہے اور قراء ات سنت متبعہ ہیں ان میں اجتہاد کو کوئی عمل دخل نہیں۔ ۔ ۔ اس لیے یہ قراءات نبی کریم ﷺسے مروی سنت ہیں، اور جس قراءت  کا آپ ﷺسے مروی ہونا ثابت نہ ہو، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ‘‘

سید مودودی علم القراءآت سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ آپ نہ صرف متعدد قراءات کے قائل تھے بلکہ اس کومستحسن بھی سمجھتے تھے۔ لکھتے ہیں :’’یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ ‘‘[۲]

__________________________________________

۱۔ الزرکشی، بدر الدین محمد بن عبداللہ، البرھان فی علوم القرآن، ص۳۲۲۔

۲۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، رسائل ومسائل، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ج۳، ۱۹۷۵ء، ص۱۲۱۔

__________________________________________

اختلاف قرآت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں سید صاحب نے واضح کیا ہے کہ جو لوگ اختلاف قرآت کو نہیں مانتے اور اس کا انکار کرتے ہیں، وہ اس مسئلے کی صحیح حقیقت سے ناواقف ہیں۔ قرآن مجید کے نزول کے زمانے کی عربی زبان اعراب اور نقطوں سے خالی تھی۔ عرب خود اپنی عبارتوں کو اہل زبان ہونے کی وجہ سے پڑھ لیتے تھے لیکن غیر عرب لوگوں کے لیے اس کا پڑھنا مشکل تھا۔ اکثر اوقات مشابہ عبارتوں کے معاملے میں اہل زبان لوگوں کو بھی مفہوم کے تعین میں مشکلات پیش آتی تھیں۔ سید صاحب لکھتے ہیں :  ’’۔ مثلاً ایک فقرہ اگریوں لکھا ہو کہ ربنا بعد بین اسفارنا   تو اسے رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَابھی پڑھا جا سکتا تھا اور رَبُّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنَا بھی۔ اسی طرح اگر ایک عبارت یوں لکھی ہو کہ انظر الی العظام کیف ننشزھا         تو اسے اُنْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا بھی پڑھا جا سکتا تھا اور کَیْفَ نُنْشِرُھَا بھی۔ یہ اختلافات تو اس رسم الخط کے پڑھنے میں اہل زبان کے درمیان ہوسکتے تھے، لیکن ایک عربی تحریر اگر اسی رسم الخط میں غیر اہل زبان کو پڑھنی پڑ جاتی تو وہ اس میں ایسی سخت غلطیاں کر جاتے جو قائل کے منشا کے بالکل برعکس معنی دیتی تھیں۔ مثلاً ایک دفعہ ایک عجمی نے آیت :إنَّ اﷲَ بَرِیٌٔ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہُ میں لفظ وَرَسُوْلُہُ کا اعراب وَرَسُوْلِہِ پڑھا جس سے معنی یہ بن گئے کہ ’’اللہ بری الذمہ ہے مشرکین سے اور اپنے رسول سے ‘‘ معاذ اﷲ۔ [۱]

سید صاحب کے نزدیک قرآن مجید کی اشاعت کا انحصار صرف تحریر پر نہیں ہے۔ اگرایسا ہوتا تو اس زمانے کے رسم الخط کے باعث اس میں ہزاروں اختلاف پیدا ہوسکتے تھے۔ قرآن مجید پہلے پہل زبانی تلقین کی صورت میں آگے منتقل ہوا تھا۔ نبی کریمﷺ نے قرآن کی عبارت کو بھی کاتبین سے لکھوا کر محفوظ کر دیا تھا، لیکن عوام میں قرآن مجید کی اشاعت نبی کریمﷺ اور پھر آپ کے صحابہؓ اور تابعین کی زبانی تعلیم کے ذریعے سے ممکن ہوئی تھی۔ اور اشاعت قرآن کا یہ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ خلفائے راشدینؓ نے بھی اپنے ادوار میں قرآن مجید کی تعلیم و اشاعت کا خصوصی اہتمام کیا۔ نبی کریم ﷺ سے منقول ساری قراءات تواتر کے ساتھ امت  کومنتقل ہوئیں۔ اور قراءات کے بڑے ائمہ کا تعلق بھی پہلی صدی ہجری ہی سے تھا۔ ان قرائے سبعہ کا سلسلہ سند تواتر کے ساتھ نبی کریم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ مثلاً نافع بن عبدالرحمٰن(م۱۶۹ھ) کا سلسلہ سند عبداللہ بن عباسؓ، ابوہریرہؓ، ابیؓ بن کعب کی وساطت سے رسول اللہ ﷺ تک پہنچتا ہے۔ عبداللہ بن کثیر(م۱۲۰ھ)کا سلسلہ سند عبداللہؓ بن سائب مخزومی، حضرت عمرؓ اور ابیؓ بن کعب ہے۔ ابوعمرو بن العلاء البصری (م۱۵۵ھ) کا ایک سلسلہ سندمجاہد، سعید بن جبیر، عبداللہ بن عباسؓ اور ابیؓ بن کعب ہے اور دوسراحسن بصری، ابوالعالیہ اور عمرؓ بن الخطاب ہے۔ عبداللہ بن عامر(م۱۱۸ھ) کا سلسلہ سند مغیرہ بن شہاب، عثمانؓ ہے۔ حمزہ بن حبیب الکوفی(م۱۵۷ھ)کا سلسلہ سنداعمش، یحیٰ بن وثاب، زربن حبیش، علیؓ وعثمانؓ وعبداللہؓ بن مسعود ہے۔ عاصم بن ابی النجود (م۱۲۷ھ) کا سلسلہ سند زربن حبیش، علیؓ وعثمانؓ اور عبداللہؓ بن مسعود ہے۔ اسی طرح علی الکسائی(م۱۸۹ھ) حمزہ بن حبیب کے بعد کوفہ میں نحو اور قراءات کے امام تھے۔ ان قراء کے زمانے میں سینکڑوں لوگ ایسے موجودتھے جن تک یہ قراءات انھی ذرائع اور اسناد کے ساتھ پہنچیں اور انھیں امت مسلمہ میں تسلیم کیا گیا۔ [۲]

سید صاحب کے نزدیک متعدد قراءات کے رد یا قبول کے اصول وہی ہیں جو جمہور علمائے امت کے ہیں۔ وہ اصول درج ذیل ہیں :

۱۔ قراءت مصحف عثمانی کے رسم الخط سے مطابقت رکھتی ہواور رسم الخط میں اس کی گنجائش موجود ہو۔ مثلاً اگر مصحف عثمانی میں لفظ بعد لکھا ہے تو اس کی قراءت بٰعِد  اور  بَعَّدَ      تو قابل قبول ہے، لیکن بَعَّدتَ قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ وہ سرکاری متن کے خلاف ہے۔

۲۔ قراءت لغت، محاورے، قواعد زبان اور عبارت کے سیاق وسباق سے مناسبت رکھتی ہو۔

۳۔ قراءت کی سند معتبر اور مسلسل واسطوں سے نبی کریمﷺ تک پہنچتی ہو۔ [۳]

__________________________________________

۱۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، رسائل ومسائل، ج۳، ص۱۲۲۔ ۱۲۳۔

مودودی، ابوالاعلیٰ، رسائل ومسائل، ج۳، ص۱۲۳۔ ۱۳۰۔

۲۔ ایضاً، ج۳، ص۱۳۰۔ ۱۳۱۔

__________________________________________

سید صاحب کے نزدیک جو قراءات مستند واسطوں سے ہم تک پہنچی ہیں، وہ سب صحیح ہیں اور ان میں جو اختلاف ہے تو فی الواقع نبی کریم ﷺ نے ان الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھا ہے۔ درحقیقت ان قراءات میں تضاد نہیں ہے بلکہ معنوی مناسبت اور افادیت ہے۔ اس افادیت کی وضاحت کرتے ہوئے سید صاحب لکھتے ہیں :’’ایک اور مثال آیت وضوء کی ہے جس میں ارجلکم کی دو متواتر قرأتیں منقول ہوئی ہیں۔ نافع، عبداللہ بن عامر، حفص، کسائی اور یعقوب رحمہم اللہ کی قراء ت اَرْجُلَکُمْ ہے جس سے پاؤں دھونے کا حکم ثابت ہوتا ہے اور عبداللہ بن کثیر، حمزہ بن حبیب، ابوعمرو بن العلاء اور عاصم رحمہم اللہ کی قراء ت اَرْجُلِکُمْ ہے جس سے پاؤں پرمسح کرنے کا حکم نکلتا ہے۔ بظاہر ایک شخص محسوس کرے گا کہ یہ دونوں قراء تیں متضاد ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے معلوم ہو گیا کہ دراصل ان میں تضاد نہیں ہے بلکہ یہ دو مختلف حالتوں کے لیے دو الگ الگ اَحکام کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بے وضو آدمی کو وضو کرنا ہو تو اسے پاؤں دھونا چاہیے۔ با وضو   اگر تجدید وضو کرے تو وہ صرف مسح پر اکتفا کرسکتا ہے۔ وضو کر کے اگر آدمی پاؤں دھونے کے بعد موزے پہن چکا ہو تو پھر بحالت قیام ایک شب و روز تک اور بحالت سفر تین شب و روز تک وہ صرف موزوں پر مسح کرسکتا ہے۔ حکم کی یہ وسعت ان دو قراء توں کی بدولت ہی واضح ہوتی ہے۔ [۱]

اس بحث سے واضح ہوتا ہے کہ سید مودودی قراءات کے تعدد کے قائل ہیں، لیکن اپنی تفسیر میں انھوں نے عاصم بن ابی النجود (م۱۲۷ھ) اور ان کے شاگرد حفص(م۱۸۰ھ)کی قراءت کو اختیار کیا ہے جو بر صغیر پاک و ہند میں عام طور پر مقبول ہے۔ آپ نے بعض مقامات پر دیگر قراءات کے حوالے بھی دیے ہیں، لیکن خود قراءت حفص کی پیروی کی ہے۔

مثلاً،  سورۃ المومنون کی آیت:وَالَّذِینَ یُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُہمْ وَجِلَۃ أَنَّہمْ إِلَىٰ رَبِّہمْ رَاجِعُونَ۔ (۲۳:۶۰)(اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل اُن کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ )کا ترجمہ کرتے ہوئے، اس کی قرآت  یُؤْتُونَ اختیار کی ہے۔ اس کے بعد حاشیے میں اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :’’ یہی مطلب ہے جس پر وہ حدیث روشنی ڈالتی ہے جو احمد، ترمذی، ابن ماجہ، حاکم اور ابن جریر نے نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا ’’یا رسول اللہ ! کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص چوری اور زنا اور شراب نوشی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرے ‘‘؟ اس سوال سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ اسے : یَأ تُوْنَ مَا اَتَوْا کے معنی میں لے رہی تھیں، یعنی ’’ کرتے ہیں جو کچھ بھی کرتے ہیں ‘‘۔ جواب میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لا یابنت الصدیق و لٰکنہ الذی یصلی و یصوم و یتصدق وھو یخاف اللہ عزو جلّ، ’’ نہیں، اے صدیق کی بیٹی اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزوجل سے ڈرتا رہتا ہے ‘‘۔ اس جواب سے پتہ چلا کہ آیت کی صحیح قرأت : یَأتُوْ نَ نہیں بلکہ یُؤْ تُوْنَ ہے، اور یہ یُؤْتُوْنَ صرف مال دینے کے محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ طاعت بجالانے کے وسیع معنی میں ہے۔ ‘‘[۲]

ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ سید صاحب علم القراءات سے واقف اور اس کے صحیح مفہوم سے آگاہی رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک قراءات صرف وہی حجت ہیں جو تواتر کے ساتھ نبی کریمﷺ سے ثابت ہوں، مصحف عثمانی کے مطابق ہوں اور مصحف کی تحریر سے ان کی گنجائش نکلتی ہو۔ قراءت، لغت محاورے اور کلام کے سیاق وسباق کے مطابق ہو اور اس سے معنی میں کوئی ایسا تغیر واقع نہ ہوتا ہو جو قرآن کے منشا کے خلاف ہو۔

__________________________________________

۱۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، رسائل ومسائل، ج۳، ص ۱۳۲۔ ۱۳۳۔

۲۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۲۸۶، حاشیہ:۵۴۔

__________________________________________

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید