FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

ہسپتال کی ملازمت کفر سے نکلنے کا سبب بنی

ڈاکٹر محمد احمد سے ایک ملاقات

 

 

میری جائے پیدائش ضلع سانگھڑ (پاکستان)جہاں میں نے آنکھ کھولی۔شور کی منزلیں طے ہوئیں تو معلوم ہوا کہ ہم ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، مندر جانا،ہولی اور دیوالی منانا،یہ سارے کام بچپن ہی سے اپنا لئے،ہم پانچ بھائی تھے اور میں اپنے بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا، گھر پر سب سے زیادہ مذہبی میں ہی تھا، ہمارے یہاں گاؤں میں ہندوؤں کے علاوہ مسلمان بھی آباد تھے، میں ایک متشدد ہندو تھا اور مجھے مسلمانوں سے سخت نفرت تھی، میں گوشت نہیں کھاتا تھا اور ہر اس چیز سے نفرت میری گھٹی میں شامل ہو گئی جو مسلمانوں کو مرغوب تھی، میں باقاعدہ اپنے ہندو دوست اکٹھے کرتا اور ہفتہ میں ہم دو بار خوب اہتمام سے مندر جایا کرتے، اسی دوران میں نے گورنمنٹ ہائی اسکول سانگھڑ سے میٹرک کر لیا، میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کئے تو حیدر آباد کے ایک کالج میں داخلہ مل گیا،یوں کامیابی کا سفر جاری رہا،آخر میں نے میڈیکل کی تعلیم مکمل کر لی، پڑھائی کے مزید پانچ سال مکمل کر کے میں جام شور و میں ہاؤس جاب کرنے لگا، والد صاحب کی وفات کے بعد میں نے گاؤں میں کلینک کھولنے کا فیصلہ کر لیا،بھائیوں نے جگہ بھی خریدی لیکن اس دوران ایک عجیب اتفاق پیش آیا۔

میرے ایک دوست ایک دن میرے پاس آیا اور کہا کہ کراچی میں امراض قلب کے ہسپتال میں ملازمتیں موجود ہیں، تم بھی ساتھ چل کر قسمت آزماؤ،لیکن کراچی کے نام سے مجھے خوف آتا تھا،سن رکھا تھا کہ وہاں ہندوؤں کو مار دیتے ہیں، میرے خوف کا یہ عالم تھا کہ جب بھی دوستوں نے کراچی گھومنے کا منصوبہ بنایا میں نے صاف انکار کر دیا، مجھ پر اس قدر ہیبت غالب تھی کہ میں کراچی کبھی نہیں گیا، خیر اس بار دوستوں کا اصرار اتنا بڑھا کہ میں انکار نہ کر سکا اور کراچی پہونچ گیا،کراچی آنا دراصل میری آنکھوں سے کفر کی پٹی اتار نے کی پہلی کڑی تھی،یہاں دوستوں نے میرا فارم بھی بھر کر جمع کر ا دیا، میں نے احتجاج کیا کہ میں گاؤں میں کلینک کھولنا چاہتا ہوں، لیکن انہوں نے میری ایک نہ مانی، اللہ کی قدرت مجھے اندھیروں سے روشنی کی جانب لے جا رہی تھی، میں اس سے بچنے کی کوشش کرتا رہا مگر کہتے ہیں نہ کہ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے، درخواست جمع کرنے والوں کی تعداد اچھی خاصی تھی، ایک مہینے کے بعد ہم سب کا انٹرویو پروفیسر اسد اللہ کنڈی نے لیا،ڈاکٹر اسد اللہ دین دار آدمی تھے،پینتیس امیدوار چنے گئے،جن میں میں بھی شامل تھا،  پروفیسر صاحب نے میری تعلیمی کار کردگی کو سراہا اور کہا کہ اسپتال میں چلے آئیے، میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ گاؤں میں کلینک کھولنا چاہتا ہوں، لہٰذا آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں کہاں رہوں گا یہ تو دوستوں نے فارم زبردستی جمع کرا دیا ورنہ میرا کوئی ارادہ نہیں تھا،پروفیسر صاحب نے کہا آپ ہماری پیشکش ذہن میں رکھئے گا،آپ کے پاس وقت ہے، میں بالکل نہیں جانتا کہ مہلت دینے میں اللہ تعالیٰ کی کیا حکمت تھی؟بہر حال میں واپس جا کر ہاؤس جاب کرنے لگا،کچھ عرصے بعد پروفیسر اسد اللہ کنڈی کا فون آیا،انہوں نے پوچھا کہ آپ آ رہے ہیں یا نہیں ؟میں نے جواب دیا ’’سر فی الحال میرے لئے ممکن نہیں ہے‘‘ اس طرح بات ٹل گئی،انہوں نے پھر فون کیا لیکن میں راضی نہ ہوا،جب میری ہاؤس جاب کا گیارہواں مہینہ چل رہا تھا تو میں کراچی گیا اور پروفیسر صاحب سے تفصیلی نشست ہوئی انہوں نے فیصلہ کن انداز میں پوچھا آپ کو آنا ہے یا نہیں ؟اگر نہیں آ سکتے تو ہم یہ جگہ کسی اور کو دے دیں گے،میں انکار کر کے ہسپتال سے باہر نکل آیا۔ اللہ کی شان دیکھئے، وہیں میرے گاؤں کا ایک دوست مل گیا،اس نے مجھے دیکھ کر بڑی حیرت سے پوچھا ـ:یہاں کیا کر رہے ہو؟میں نے بتایا کہ یہاں ملازمت مل رہی ہے،لیکن رہائش کا مسئلہ ہے، دوست بولا رہائش میں دوں گا،تم میرے ساتھ ہی رہو،اب میں نے پیش کش ٹھکرانا مناسب نہیں سمجھا اور ہسپتال میں ملازمت کر لی، بھائیوں کو یہ کہہ کر قائل کیا کہ میرے ماہر امراض قلب بننے سے گاؤں والوں کو سہولت ہو جائے گی، لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ دوسروں کے دلوں پر تجربات کرنے والے کے دل پر بھی ایک اللہ کی توحید اثر کرنے والی ہے اب میری زندگی میں انقلاب آنا شروع ہوا،ہسپتال میں کام کرنا دراصل مجھے اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جانے کا بہانہ تھا،  ایمر جنسی وارڈ میں چوبیس گھنٹے کے دوران دو تین اموات ہونا معمول تھا، ایک دن جب پہلی مرتبہ میری ڈیوٹی ایمر جنسی وارڈ میں لگی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مریض کی طبیعت اچانک بگڑ گئی،ہم اس کا علاج کرنے لگے، مریض کے عزیز و اقارب بہ آواز بلند قرآن مجید کی تلاوت اور درود کا ورد کر رہے تھے، مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی، لیکن یہ بات میرے دل و دماغ میں نقش ہو گئی، دوسرے دن پھر ایمر جنسی وارڈ میں میری ڈیوٹی لگی،اب جیسے ہی کسی مریض کی طبیعت خراب ہوتی،میں علاج کرنے کے ساتھ ساتھ عزیز و اقارب سے کہتا بلند آواز میں قرآن پڑھو،یوں آہستہ آہستہ اسلامی باتیں میرے دماغ میں اس طرح آتی گئیں کہ مجھے خود معلوم نہیں ہوا کہ میں کس راستے پر چل رہا ہوں، میں اَن جانے میں فطرت کے قریب ہو رہا تھا۔

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ صرف اپنے علم اور لکھنے پڑھنے سے مسلمان ہو جائے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے، جب تک کافر پر اللہ کی خاص رحمت نازل نہ ہو،یہ نعمتِ عظمی اسے نہیں مل سکتی مسلمان ہو جانا ہر ایک کی قسمت میں کہاں ؟بہر حال مریض کے عزیز و اقارب مجھ سے مل کر بہت حیران ہوتے جب انہیں پتہ چلتا کہ میں ہندو ہوں، ہسپتال میں میرے کمرے کے باہر ڈاکٹر گوتم داس کی تختی لگی تھی،جب وہ اپنے مریض کی خیریت دریافت کرتے تو میں کہتا انشاء اللہ، اللہ بہت جلد شفا عطا فرمائیں گے،تم قرآن پڑھو اور مریض کے لئے دعا کرو،اللہ تعالیٰ سب ٹھیک کر دے گا مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اب میں دوران گفتگو اللہ کا نام بار بار لیتا ہوں، ایک دن میری ملاقات گلستان جو ہر کے ایک خاندان سے ہوئی جن کی ایک ادھیڑ عمر خاتون بیمار تھیں، میں نے فرائض نبھائے اور خوب اچھی طرح ان کی دیکھ بھال کی، مریض کے ساتھ شفقت دیکھ کر انہوں نے کچھ عرصہ بعد مجھے گھر آنے کی دعوت دی اور یوں یہ سلسلہ چل نکلا،جب اس گھر میں آنا جانا شروع ہوا تو دیکھا کہ جیسے ہی نماز کا وقت ہوا گھر کی مالک سارے کام چھوڑ چھاڑ نماز پڑھنے لگتی ہیں، یہ بات مجھے عجیب لگی،اس گھر میں چند بچیاں تھیں، جنہیں ایک عالمہ پڑھانے آتی تھی، ایک دن میں نے یوں ہی قرآن کی طرف اشارہ کر کے پوچھ لیا،یہ کیا ہے؟ وہ ادھیڑ عمر خاتون بولیں :یہ قرآن مجید ہے،میں نے پکڑ نے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو قرآن پیچھے کرتے ہوئے کہنے لگیں، جب تک وضو نہ ہو اسے ہاتھ نہیں لگا تے،میں حیران ہو کر بولا:کیا یہ اتنی اہم چیز ہے ؟اسے پڑھتے کس طرح ہیں ؟جواب ملا: اسے دیکھ کر پڑھا جاتا ہے اور لوگ اسے حفظ بھی کر لیتے ہیں، کیا یہ پوری کتاب حفظ ہو جاتی ہے ؟یہ کہہ کر میں حیرت کی اتھاہ گہرائی میں ڈوب گیا،پڑھنا تو نہیں جانتا تھا،مگر قرآنی الفاظ ایسے تھے کہ انہیں ٹکر ٹکر دیکھنے لگا،بہر حال اس روز قرآن دیکھ کر میرے اندر ہل چل پیدا ہو گئی،مسلمان دوستوں نے ایک دن میری دعوت کی، جس میں بڑا گوشت بھی شامل تھا انہوں نے کہا ’’بڑا گوشت تو آپ نہیں کھاتے؟‘‘مگر میں نے انہیں دو ٹوک کہہ دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔

میرے دوستوں کے پر خلوص رویہ نے در اصل میری ساری شدت پسندی زائل کر دی تھی، چند دنوں بعد میرے دوستوں نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس سے میں لا علم تھا،جب میں وہاں پہونچا تو انہوں نے بتایا تم مسلمان ہو گئے ہو، بڑا گوشت کھاتے ہو اور اسلام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہو،یہ کہہ کر انہوں نے مجھے ایک قرآن پاک تحفہ میں دے دیا،میں نے یہ شان دار تحفہ قبول کر لیا،دوستوں کی بات صحیح تھی میں اندر سے مسلمان ہو چکا تھا، لیکن ابھی مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس امر کا اعلان کر دیتا،یہ تھا بھی بڑا مشکل کام،مجھے اندازہ تھا کہ اپنا مذہب چھوڑ کر مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسلام کی کشش مجھے کھینچتی لے جا رہی تھی،پہلے میں باقاعدگی سے مندر جایا کرتا تھا، لیکن اب میں گاؤں جاتا تو مندر جانا ترک کر دیا، والدین یا رشتہ داروں نے یہ بات محسوس کر لی، ماں کبھی پوچھتی تو میں موضوع بدل دیتا یا بات ٹال جاتا،در اصل مجھے ان بتوں سے نفرت ہو گئی تھی، کچھ عرصہ بعد تو یہ کیفیت ہو گئی کہ گاؤں میں ایک دن ٹھہرنا بھی محال ہو گیا، جی چاہتا صبح ہو تے ہی بھاگ جاؤں، اب گھر والوں کے شک کو آہستہ آہستہ تقویت ملتی گئی،در اصل میں نے ہولی اور دیوالی بھی منانی چھوڑ دی،مزید دو برس کے اندر میں اسلام کی جانب چلا گیا، صبح کے وقت پیس چینل پر ڈاکٹر ذاکر نائک کا مدلل پروگرام دیکھتا،ڈاکٹر ذاکر اسلام کے حوالے سے ہندوؤں کے شکوک و شبہات دور کرتے تھے،انہوں نے میری زندگی کے بھی کئی مسائل حل کئے اور مجھے اسلام کے مزید قریب کر دیا، ہند مت اور اسلام پر ان کی دلائل سے بھر پور گفتگو مجھے اپنی جانب کھینچتی۔

اس طرح اسلام پسندی میرے رگ و پے میں سرائت کر گئی گاؤں والوں کو جب اس بات کا پتہ چلا تو ایک دن انہوں نے مجھے بہانے سے گاؤں بلوا لیا،وہاں مجھے بطور سزا کے ایک کوٹھڑی کے اندر بند کر دیا گیا،پھر ہر طرح سے کوشش کی گئی کہ میں دو بارہ ہندو ہو جاؤں اس دوران و تشدد کے حر بے بھی آزمائے گئے،وہ دن میرے لئے سخت آزمائش کے تھے،میں وہاں سے کیسے نکلا  یہ علاحدہ داستان ہے، مختصراً میں کسی نہ کسی طریقہ سے بھاگ کر کراچی پہونچ گیا، اب میرے لئے میدان کھلا تھا، میں اسلام میں پورا داخل ہونا چاہتا تھا، چند لوگوں نے کہا کہ بیوی بچوں کی طرف لوٹ جاؤ، مگر اسلام چھوڑ نا میرے لئے موت کے برابر بن گیا تھا، ایک دن کراچی کے معروف دینی ادارے میں ایک مفتی صاحب کے ہاتھوں میں نے اسلام قبول کیا۔

وہ میری زندگی کے ناقابل فراموش لمحات تھے،الفاظ انہیں بیان کرنے سے قاصر ہیں، مفتی صاحب نے پوچھا :آپ کیا محسوس کر رہے ہیں ؟ میں نے جواب دیا کہ آپ اپنا ہاتھ کھولئے، انہوں نے ہاتھ کھولا، میں نے کہا اگر اس میں روئی رکھ دی جائے تو کتنا وزن ہو گا؟جواب ملا نہ ہونے کے برابر۔مفتی صاحب ! ایسی ہی کیفیت میری ہے،  میں خود کو روئی سے بھی ہلکا محسوس کر رہا ہوں۔ یہ حقیقت تھی، مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میرے جسم سے تمام بوجھ ہٹ گئے،اب مجھے نئے سرے سے زندگی ملی ہے،دوسرے دن میں نے گاؤں فون کر کے گھر والوں کو خوشخبری سنائی،ان کا رد عمل بڑا سخت تھا،مگر اسلام جیسا سچا دین پا کر مجھے اب کسی کی پرواہ نہ تھی، میں نے بھائیوں اور بیوی بچوں اور ماں کو چھوڑ کر خود کو اسلام کے آغوش میں دے دیا تھا، اس کے بعد جب قرآن سمجھ کر پڑھنے لگا تو زندگی گذار نے کے راز منکشف ہونا شروع ہوئے،آج میں ماضی پر نظر ڈالوں تو حیرانی ہوتی ہے، ہم بھی کتنے بیوقوف تھے کہ ہم مٹی سے بنے بتوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے، دس منٹ ایک کے سامنے،اور بیس منٹ دوسرے کے سامنے اور ہر ایک کو خوش کرنے کی کوشش کرتے۔ تعصب کی عینک پہننے کے باعث ہماری عقل بھی سلب ہو گئی تھی، مگر اللہ نے مجھے دکھا دیا کہ جو ہدایت پانے کا فیصلہ کر لے وہ اسے مایوس نہیں کرتا۔

یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کرم سے مجھے محمد ﷺ کی پیاری امت میں شامل فرما دیا،اب میں اللہ کے رسول ﷺ کے حالات زندگی پڑھتا ہوں تو ایمان کی حلاوت میں مزید اضافہ ہوتا ہے ہمارے پیارے نبی ﷺ زندگی گذارنے کے تمام طریقے قرآن اور حدیث میں چھوڑ گئے ہیں، ان پر عمل کرنے میں ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔

آج میں مسلمان نسل کو کفار کے نقش قدم پر اور کیبل،انٹرنیٹ کے منفی استعمال کا دلدادہ دیکھتا ہوں، تو بڑا دکھ ہوتا ہے،مسلمانوں سے میری یہی درخواست ہے کہ خدا را اسلام کو وراثت میں ملی شئی سمجھ کر اس کی ناقدری نہ کرو، اپنے اعمال و اخلاق اسلام کے سانچے میں ڈھال لو، یہ اسلام اگر قرآن و حدیث کے ذریعے محفوظ نہ ہوتا تو آج تباہی و بربادی تمہارا مقدر ہوتی۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ٹھیک ٹھیک طریقہ سے اسلام کے اصولوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین      (ماخوذ از ماہنامہ ارمغان پھلت جنوری   ۲۰۱۱ء)

٭٭

 

 

 

داعی کی دردمندی سے میں نے کلمہ پڑھ لیا

جناب جاوید احمد سے ایک دلچسپ ملاقات

 

 

سوال  :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

جواب :  و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

سوال  : جاوید صاحب آپ بنگلور سے کب تشریف لائے تھے؟

جواب : میں پچھلے ہفتہ آیا تھا،اصل میں، میں وسیم بھائی سے بہت زمانے سے کہہ رہا تھا کہ حضرت سے ملاقات کرا دو،مگر ان کو چھٹی نہیں مل رہی تھی،اتفاق سے کمپنی کی طرف سے دہلی ایک کام کے لئے سفر کا پروگرام بنایا،میں نے خدیجہ سے کہا کہ چلو دونوں چلتے ہیں حضرت سے ملاقات ہو جائے گی،وہ بہت خوش ہوئی، اللہ کا شکر ہے حضرت سے ملاقات ہو گئی۔

سوال  :آپ کا وطن بنگلور ہی ہے ؟

جواب :  نہیں بلکہ ہم لوگ اصلاً مہاراشٹر میں پونا کے قریب کے رہنے والے ہیں، میری اہلیہ خدیجہ ناگپور کے قریب ایک شہر سے تعلق رکھتی ہیں، اب ان کے والد بنگلور میں رہنے لگے ہیں وہ بی جے پی کے اسسٹینٹ سکریٹری ہیں اور وہ بڑے ایکٹیو لیڈر ہیں، انہوں نے ناگپور کو صرف کرنا ٹک میں پارٹی کا کام کرنے کے لئے چھوڑا ہے، اور ان کے کرناٹک آنے سے پارٹی کو بڑا فائدہ ہوا،اور اگر میں کہوں کہ کرناٹک میں موجودہ فرقہ وارانہ ماحول بنانے میں خدیجہ کے والد کا اصل رول ہے، تو بیجا نہ ہو گا۔

سوال  : آپ کے والد کیا کرتے ہیں ؟

جواب : میرے والد صاحب ایک اسکول کے پرنسپل ہیں، پونا میں میں نے اپنی تعلیم مکمل کی،وہیں سے گریجویشن، پھر بی ٹیک اور ایم ٹیک کیا،بنگلور میں وِپرو ایک سافٹ ویر مشہور کمپنی ہے،اسی میں مجھے ملازمت مل گئی ہے،اسی میں کام کرتا ہوں، اللہ کا شکر ہے بہت فراوانی کا روزگار اللہ نے مجھے دے رکھا ہے۔

سوال  :  آپ کی اہلیہ بھی ملازمت کرتی ہیں ؟

جواب :  کرتی تھیں، الحمد للہ مسلمان ہونے کے بعد میں نے ان سے ملازمت چھڑوا دی ہے۔

سوال  :  ان کی تعلیم کہاں تک ہے ؟

جواب :  وہ بھی ایم ٹیک ہیں، بلکہ وہ بی ٹیک اور ایم ٹیک میں گولڈ میڈلسٹ ہیں، وہ ایک بہت مشہور امریکی کمپنی میں کام کر رہی تھیں، ان کو دو سال پہلے،جب ملازمت چھوڑی ہے ایک لاکھ اٹھارہ ہزار روپئے تنخواہ ملتی تھی۔

سوال  :  اتنی بڑی تنخواہ چھوڑنے پر راضی ہو گئیں ؟

جواب :  جس بڑی چیز کے لئے ملازمت چھوڑی ہے،یہ تنخواہ اس کے پاسنگ میں بھی نہیں آئے گی، انہوں نے یہ ملازمت اپنے رب احکم الحاکمین کا حکم ماننے کے لئے چھوڑی ہے، اب آپ بتایئے کہ اللہ کے حکم کے آگے یہ ایک سوا لاکھ روپئے مہینہ کی تنخواہ کیا حیثیت رکھتی ہے؟ اور سچی بات یہ ہے (روتے ہوئے) ہم گندے تو ایک پیسہ چھوڑنے والے نہیں تھے،میرے کریم رب کو ہم پر ترس آیا کہ انہوں نے ہمیں ایمان عطا فرمایا اور پھر اس ایمان کے لئے اس تنخواہ کو چھوڑ نے کی توفیق بھی دی۔

سوال  :  ما شاء اللہ بہت مبارک ہو جاوید صاحب، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس ایمان کا کچھ حصہ عطا فرمائے؟

جواب :  آپ کیسی بات کر رہے ہیں، ہم آپ کے سامنے کس لائق ہیں، مولانا احمد آپ کے پاس تو ایمان کا خزانہ ہے،آپ تو ایمان کے سلسلہ میں پُشتینی رئیس ہیں اور ہم تو ابھی سڑک چھاپ رٹیلر ہیں۔

سوال  :  اصل میں آپ کا ایمان خود کا کمایا ہوا ہے، اور ہم لوگوں کو ورثہ میں مل گیا ہے ؟

جواب :  ہمارا بھی خود کا کمایا ہوا کہاں ہے، صرف اور صرف ہمارے اللہ کی کرم فرمائی ہے کہ ہم نکموں کو بھیک میں دے دیا ہے،البتہ ہمیں ابھی ابھی ملا ہے۔نئی نئی نعمت ملتی ہے تو ذرا قدر تو ہوتی ہے، شوق سا تو رہتا ہے، نئی نئی گاڑی مل جائے، نیا گھر مل جائے تو ذرا شوق سا تو رہتا ہے،  بس ہمارا حال یہ ہی ہے۔

سوال  :  آپ کو اسلام سے کیسے دلچسپی ہوئی ؟

جواب :  یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔

سوال  :  ذرا تفصیل  اس کی معلوم کرنا چاہتا ہوں ؟

جواب : ۲۰۰۴ء میں بنگلور آیا تو شانتی نگر کے پاس ایک ہوسٹل میں رہنے لگا، ہمارے قریب میں میری اہلیہ خدیجہ کا گھر تھا، اتفاق سے دونوں کا آفس ایک ہی علاقہ میں تھا، ہم لوگ تقریباً روز ایک بس سے جاتے تھے،چند دنوں میں ہم لوگوں میں تعلقات ہوئے،میں نے اپنے گھر جا کر خدیجہ سے (جس کا نام اس وقت انجلی تھا) شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا،ہمارے گھر والے بنگلور آئے اور انہوں نے اس لڑکی کو بہت پسند کیا اور منگنی کا سوال ڈال دیا،میں بھی چونکہ صورت،شکل،خاندان اور روزگار کے لحاظ سے ٹھیک ٹھاک تھا تو انجلی کے گھر والے خوشی سے تیار ہو گئے،منگنی ہوئی اور پھر ۲۱ جنوری ۲۰۰۵ء کو ہماری شادی ہو گئی، شادی میں انجلی کے والد نے ایک اچھا سا فلیٹ اپنے گھر کے قریب جہیز میں دیا،شادی انہوں نے آر ایس ایس کا سنچالک ہونے کی وجہ سے بہت سادگی سے کی۔

سوال  :  اچھا،آر ایس ایس کے سنچالک سادگی سے شادی کرتے ہیں ؟

جواب :  جی آپ کو معلوم نہیں، ان کے یہاں جہیز وغیرہ دینے کی بھی پابندی ہے،یہ فلیٹ بھی انہوں نے بہت چھپ کر دیا ہے، لوگوں کو معلوم نہیں۔

سوال  :  ہاں تو آگے بتایئے؟

جواب :  میں ہوسٹل چھوڑ کر اپنی اہلیہ کے ساتھ ان کے فلیٹ میں رہنے لگا، میرے ساتھ میری کمپنی میں جموں کشمیر کے ایک صاحب وسیم نام کے ملازمت کرتے ہیں، صورت سے خوبصورت مسلمان پوری داڑھی کے ساتھ ملازمت کرتے ہیں، آفس میں پابندی سے ظہر عصر کی نماز ادا کرتے ہیں ہم لوگ ان کو دیکھ کر شروع شروع میں کشمیری آتنک وادی سمجھتے تھے،مگر جیسے جیسے دن گذرتے گئے پورے دفتر میں ان کی پہچان ایک بہت شریف اور محترم انسان کی طرح ہو گئی، شاید ہمارے پورے دفتر میں لوگ ان سے زیادہ کسی کا احترام کرتے ہوں، ان کے افسر بھی ان کو حضور و جناب سے بات کرتے ہیں اور یہ صرف ان کی دین داری کی وجہ سے ہے،ان کی ایک بہن جو ان کے ساتھ بنگلور میں رہتی ہیں،  فیزیوتھراپیسٹ ہیں، ایک نرسنگ ہوم میں کام کرتی ہیں، وہ بھی برقع اور نقاب کے ساتھ وہاں جاتی ہیں اور ایک مسلم نرسنگ ہوم میں صرف عورتوں کو ورزش کراتی ہیں، یہ دونوں بھائی بہن آپ کے والد صاحب سے دہلی میں بیعت ہوئے تھے اور ارمغان پابندی سے پڑھتے رہے ہیں، دونوں دعوت کی دھن میں لگے رہتے ہیں، وسیم صاحب موقع پاتے ہی شروع ہو جاتے ہیں، دفتر کے بہت سے لوگوں کو انہوں نے کتابیں اور قرآن مجید سلام سینٹر سے لا کر دیئے ہیں، میرے دفتر میں مجھ سے پہلے دو لوگ ان کی کوشش سے مسلمان ہو چکے تھے،ایک اتوار کو انہوں نے مجھے اپنے گھر لنچ پر آنے کی دعوت دی اور گھر بلا کر بہت درد کے ساتھ اسلام قبول کرنے کو کہا، میں نے کہا کہ میں اسلام کو پسند کرتا ہوں اور اسلام کی طرف سے میرا ذہن بالکل صاف ہو گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے،ہندو مذہب خود الجھی ہوئی بھول بھلیاں ہے جس میں عقل کے لئے کچھ بھی نہیں، مگر میرا خاندان خصوصاً میری سسرال جس کے ساتھ میں رہ رہا ہوں، وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا سر کردہ خاندان ہے،میرے لئے مسلمان ہونا کس طرح ممکن ہے؟ وہ رونے لگے اور بولے اشیش بھائی !موت کے بعد اگر خدا نہ کرے، خدا نہ کرے ایمان کے بغیر موت آ گئی  تو صرف آپ کے ساس سسر نہیں، ساری دنیا کے نیتا مل کر آپ کو دوزخ سے بچانا چاہیں گے تو بچا نہیں سکتے،اس لئے آپ اللہ کے لئے سچے دل سے کلمہ پڑھو اور مسلمان ہو جاؤ،آپ کسی کو مت بتانا،میں نے کہا: مجھے نماز پڑھنی پڑے گی،اسلام کو فالو کرنا پڑے گا، ورنہ مسلمان ہونے کا کیا فائدہ ہو گا؟وسیم صاحب نے کہا کہ چھپ کر جیسا موقع ملے،آپ نماز وغیرہ پڑھ لیا کرنا، اگر آپ زندگی بھر ایک نماز بھی نہ پڑھ سکے،لیکن سچے دل سے کلمہ پڑھ کر اندر سے ایمان لے آئے تو ہمیشہ کی دوزخ سے تو بچ جائیں گے،وہ بہت درد سے مجھے سمجھاتے رہے، ان کی درد مندی نے مجھے مجبور کیا اور میں نے کلمہ پڑھ لیا،وسیم نے کہا : دنیا کے لئے نہیں تو آخرت کے لئے آپ اپنا اسلامی نام رکھ لو، میں نے کہا آپ ہی رکھ دو وسیم نے جوگیندر اشیش پاٹل کے لحاظ سے جاوید احمد پاٹل رکھ دیا، فرصت اور لنچ میں وہ مجھے نماز وغیرہ سکھانے لگے،الحمد للہ رفتہ رفتہ اسلام میری پہلی پسند بن گیا اور اللہ کا شکر ہے میں بہت جلد پنچ وقتہ نمازی بن گیا۔

سوال  :  گھر میں آپ نے اطلاع کر دی؟

جواب :  نہیں نہیں بالکل نہیں ! چھپ چھپ کر نماز پڑھتا، کپڑے بدلنے کے لئے بیڈروم کا دروازہ بند کرتا اور چپکے سے نماز پڑھ لیتا،گھر سے باہر دو ستوں کے ساتھ جانے کا بہانہ بنا کر دور مسجد چلا جاتا اور رمضان آیا تو مجھے روزہ رکھنا تھا، پیشاب کے بہانے اٹھتا کچن جاتا اور کچھ دودھ وغیرہ سحری میں پی لیتا، آفس سے لیٹ لوٹتا راستے میں افطار کر لیتا،وسیم مجھے انجلی پر کام کرنے کو کہتے مگر میں ہمت نہیں کر پاتا کہ اس نے اپنے گھر بتا دیا تو وہ لوگ مجھے زندہ نہ چھوڑیں گے۔’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘حضرت کی کتاب گھر لے کر گیا اور بیڈ پر ڈال دی،میں نہا کر آیا تو دیکھا انجلی پڑھ رہی ہے،مجھے دیکھ کر بولی یہ تو کسی مسلمان مولوی کی لکھی ہوئی کتاب ہے، اسے آپ کیوں پڑھ رہے ہیں ؟میں نے ٹلایا کہ ایک دوست نے زبردستی دیدی تھی، تم نے دیکھی کیسی جادو بھری کتاب ہے؟ انجلی نے کہا نہیں نہیں، مجھے بھی یہ کتاب ہمارے آفس میں ایک لڑکی نے دی ہے، وہ پہلے کرسچین (عیسائی) تھی،اب مسلمان ہو گئی ہے، میں نے تو واپس کر دی، مولانا احمد صاحب کس قدر مجاہدے کے ساتھ میں نے روز ے رکھے بیان کرنا مشکل ہے، اب عید آئی کسی طرح عید کی نماز تو فریز رٹاؤن جا کر ادا کر آیا، مگر گھر آ کر کمرہ بند کر کے بہت رویا،میرے اللہ میری عید کب آئے گی، سب مسلمان تو عید منا رہے ہیں اور میں تو کہہ بھی نہیں سکتا کہ آج عید ہے، دوپہر کے بعد میں نے کمرہ کھولا اور انجلی کو تلاش کیا تو وہ دوسرے کمرہ میں دروازہ بند کئے ہوئے تھی میں نے نوک کیا،کچھ دیر کے بعد اس نے دروازہ کھولا، دیکھا تو آنکھیں سوج رہی ہیں، میں نے کہا تم کیوں رو رہی تھی؟ بولی کوئی بات نہیں، آج نہ جانے دل پر کچھ بوجھ سا ہے بس اندر سے رونا آ رہا ہے،دل کو ہلکا کرنے کے لئے دل میں آیا کہ کمرہ بند کر کے رو لوں، آپ پریشان نہ ہوں کوئی بات نہیں ہے، میں نے کہا چلو ڈاکٹر کو دکھا دوں،  وہ بولی میں اندر کمرے میں اپنے ڈاکٹر کو دکھانے گئی تھی،میں نے کہا تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟ اندر کمرے میں ڈاکٹر کہاں سے آیا؟اس نے کہا ہاں ہاں، میرا ڈاکٹر اس کمرہ میں تھا،میرا دل میرا ڈاکٹر ہے،میں اپنے ڈاکٹر کے سامنے اپنی بیماری رونے گئی تھی،میں پریشان ہو گیا،بہت سوچتا رہا اور پھر ہم دونوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لئے پارک میں جانے کا پروگرام بنایا۔

ایک سال اور اسی طرح گذر گیا،رمضان آیا،میں اتوار کو کسی بہانے گھر سے باہر چلا جاتا،انجلی مجھ سے معلوم کرتی کہ دوپہر کو کھانا گھر پر ہی کھائیں گے نا؟ میں کہتا کہ تم میرے لئے مت بنانا،میں تو دوست کے ساتھ کھاؤں گا،روزہ افطار کر کے گھر آتا معلوم کرتا دوپہر کیا کھانا بنایا تھا، تو وہ کہتی بس اکیلے کے لئے میں کیا بناتی،بس چائے وغیرہ پی لی تھی،میں سوچتا یہ بے چاری میری وجہ سے کھانے سے رہ گئی، عید آئی تو ہم دونوں کا ایک ہی حال کہ میں الگ کمرہ میں کمرہ بند کر کے اپنے رب سے اپنی عید نہ ہونے کی فریاد کرتا،  وہ بھی پہلے سال کی طرح دوسرے کمرے میں سے روتی ہوئی آنکھوں سے نکلی،اب مجھے اس کی طرف سے فکر ہونے لگی،اس کو کوئی دماغی بیماری تو نہیں ہو گئی ہے، وہ کبھی بھی کمرہ بند کر لیتی، عید کے دو مہینے بعد ایک روز وہ اتوار کو دوپہر کے تین بجے کمرے میں گئی اور اندر سے کمرہ بند کر لیا، اب مجھے بے چینی ہو گئی اتفاق سے کھڑکی، ہلکی سی کھلی رہ گئی تھی، میں نے دریچے پر سے دیکھا تو وہ کمرے میں نماز پڑھ رہی تھی،نماز کے بعد وہ بڑی منت کے ساتھ دیر تک دعا مانگتی رہی،اس کے بعد اس نے قرآن مجید اپنے پرس سے نکال کر اس کو چوما، آنکھوں سے لگایا اور تلاوت کی،میری خوشی بس دیکھنے لائق تھی، ہمت کر کے میں نے اپنے حال کو چھپایا تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہ کمرے سے نکلی تو میں نے اپنے حال پر قابو پا کر اس سے پوچھا کہ انجلی تم اپنا حال مجھ سے چھپا رہی ہو،سچ بتاؤ کیا پریشانی ہے ؟مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ تم نے کسی سے دل لگا لیا ہے،اس نے کہا کہ دل تو آپ کو دے دیا تھا، اب میرے پاس ہے کہاں کہ دل لگاؤں ؟ اور وہ بے حال ہو کر پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی،میں نے بہت زور دیا کہ تم مجھ سے چھپاؤ گی تو کس سے دل کا حال بتاؤ گی؟میں نے کہا کہ اگر آج تم نے مجھے اپنی پریشانی نہ بتائی تو جا کر کہیں خودکشی کر لوں گا، انجلی نے کہا مجھے جو پریشانی ہے اگر میں نے تمہیں بتا دی تو تم مجھے اپنے گھر سے نکال دو گے،میں کہا:یہ گھر تو تمہارا ہے میں کہاں تم کو اپنے گھر سے نکالوں گا؟وہ بولی مجھے ایک ایسی بیماری لگ گئی ہے جو لا علاج ہے اور اگر وہ بیماری میں آپ کو بتا دوں گی تو آپ ایک منٹ میں مجھے چھوڑ دو گے،مجھے ایسی بیماری لگی ہے جسے آج کے زمانے میں بہت گندہ سمجھا جاتا ہے، میں نے کہا مجھے بتاؤ تو، میں نے تمہارے ساتھ جینے مر نے کے لئے تم سے شادی کی ہے اس نے کہا کتنے لوگ ہیں جو جینے اور مرنے کو کہتے ہیں، مگر کہنا اور ہے،کرنا اور ہے، آپ بھی صرف کہہ رہے ہیں، اگر میں نے وہ بیماری جو مجھے لگ گئی ہے آپ کو بتا دی،تو آپ اس بیماری کو اس قدر گندہ سمجھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ دیں گے،میں نے کہا انجلی کیسی باتیں کرتی ہو؟میں تمہیں چھوڑ دوں گا؟ کیا اتنے دن میں کبھی تمہیں مجھ سے بے وفائی کا شک بھی ہوا ہے،تمہیں اندازہ نہیں کہ میں تمہیں کس قدر چاہتا ہوں، انجلی نے کہا ابھی تک واقعی تم مجھے چاہتے ہو،مگر اس بیماری کا پتہ لگتے ہی آپ کا سارا پیار ختم ہو جائے گا،میں نے کہا:نہیں انجلی ایسا نہ کہو تم مجھے اپنی پریشانی بتاؤ،میں جس طرح چاہو تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہر بیماری اور شرط پر جینے مرنے کا ساتھی ہوں، انجلی نے کہا یہ بالکل سچ ہے تو لکھ دو،میں نے کہا خون سے لکھ دو ں، اس نے کہا نہیں پین سے لکھ دو، وہ مجھ سے لپٹ گئی اور بولی،میرے لاڈلے،میرے پیارے،میں نے ساری دنیا کو حسن و جمال اور پیار دینے والے اکیلے مالک سے دوستی کر لی ہے، اور دل کو بھاڑ خانہ بنانے کے بجائے اسی ایک اکیلے مالک سے لگا لیا ہے، اور میں نے باپ دادا سے چلا آیا دھرم بلکہ ادھرم چھوڑ کر گندگی اور آتنک واد سے بدنام مذہب اسلام قبول کر لیا ہے،اور اب میں انجلی نہیں بلکہ خدیجہ بن گئی ہوں، آپ نے لکھ تو دیا ہے،مگر اب آپ کو اختیار ہے،اسلام کے ساتھ قبول کرتے ہیں تو اچھا ہے،ورنہ آپ جیسے ایک ہزار اور رشتہ دار مجھے چھوڑ دیں، تو مجھے اسلام ایمان کے لئے خوشی سے منظور ہے،اور اب یہ بھی سن لیجئے کہ فیصلہ آج ہی کر لیجئے، اب میں مسلمان ہوں، کسی کا فر اور غیر مسلم شوہر کے ساتھ میرا رہنا حرام ہے، اب اگر آپ کو میرے ساتھ جینا مرنا ہے، تو صرف ایک طریقہ ہے کہ آپ مسلمان ہو جائیں،  ورنہ آج کے بعد، آپ چھوڑیں یا نہ چھوڑیں میں آپ کو چھوڑ دوں گی۔

میں اس سے بے اختیار چمٹ گیا،میری خدیجہ!اگر تم خدیجہ ہو گئی ہو تو تمہارا آشیش تو کب سے جاوید احمد بن چکا ہے وہ خوشی سے چیخ پڑی،کب سے؟ تو میں نے کہا:۳  جنوری۲۰۰۴ء سے،وہ بولی:کیسے؟میں نے پوری تفصیل بتائی، تو اس نے بتایا کہ ۱ جنوری ۲۰۰۴ء کو خدیجہ مسلمان ہو ئی تھی،اس کے دفتر کی ایک عیسائی لڑکی جو مسلمان ہو کر عائشہ بن گئی تھی،اس نے اسے کلمہ پڑھوایا تھا،اصل میں وسیم کی بہن فرحین نے اپنی ایک دوست پرینکا کو، جو گلبرگہ کی رہنے والی تھی(ڈاکٹر ریحانہ ان کا نیا نام تھا) دعوت دے کر ان کو کلمہ پڑھوایا تھا،ریحانہ بڑی در مند داعیہ ہیں، ڈاکٹر ریحانہ کی دعوت پر بائیس لوگ گلبرگہ اور بنگلور میں مسلمان ہوئے ہیں، جن میں عائشہ بھی تھی۔

سوال  :  ماشاء اللہ واقعی بڑا افسانوی واقعہ ہے۔ آپ لوگوں کو کتنا مزہ آیا ہو گا؟

جواب :  خدیجہ بھی دو سال تک رمضان میں روزے رکھتی رہی اور چھپ چھپ کر نماز پڑھتی رہی، عید کے روز دونوں چھپ چھپ کر روتے رہے،وہ دن میں روزے میں مجھے کھانے کو نہیں پوچھتی تھی کہ مجھے ساتھ کھانا نہ پڑے،میں بھی اسی طرح ٹلاتا رہا، میں ڈرتا تھا کہ اس کو پتہ چل گیا تو اپنے گھر والوں سے کہہ دے گی تو میرا جینا مشکل ہو جائے گا، اور وہ اس لئے نہیں بتاتی تھی کہ میں اسے چھوڑ دوں گا،دو سال تک ہم دونوں مسلمان رہے،ایک گھر میں رہتے رہے،ایک دوسرے سے چھپاتے رہے،اس کے بعد جب عید آئی تو بس عید تھی،دو سال عید پر رونے کو یا د کر کے ہم نادانوں کی طرح ہنستے رہے، الحمد للہ ثم الحمدللہ میرے اللہ بھی ہم پر ہنستے ہوں گے،ہم پر کیسا پیار اور رحم آتا ہو گا ہمارے اللہ کو۔

سوال  :  اب آپ کے گھر والوں کو علم ہو گیا کہ نہیں ؟

جواب :  میرے گھر والوں کو معلوم ہو گیا ہے، میرا چھوٹا بھائی اور میری والدہ الحمد للہ مسلمان ہو گئی ہیں، والد صاحب پڑھ رہے ہیں انشاء اللہ وہ اسلام میں آ جائیں گے،ابھی خدیجہ نے اپنی چھوٹی بہن کو بتایا ہے،وہ ہمارے گھر آ کر اسلام پڑھ رہی ہے۔ان کے گھر والوں کے لئے دعا کیجئے۔

سوال  :  ماشاء اللہ خوب ہے آپ کی کہانی، بڑے مزے کی ہے،اب آپ کی گاڑی کا وقت ہو گیا ہے۔ارمغان پڑھنے والوں کے لئے کوئی پیغام دیجئے؟

جواب :  بس ہمارے خاندان والوں کے لئے دعا کی درخواست ہے اور آپ دعا کریں کہ ہم نے اپنے حضرت سے زندگی کو دعوت کے لئے وقف کرنے کا جو عہد کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سے کچھ کام لے لے۔

سوال  :  شکریہ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

ماخوذ از ماہنامہ ارمغان فروری   ۲۰۱۱ء

٭٭

 

 

 

دعاؤں سے دعوت میں اثر

مسعود احمد صاحب سے ایک ملاقات

 

 

سوال  :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

جواب :  و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

سوال  :  آپ کے ساتھ دو ساتھی بھی آئے ہے ان کا تعارف کرایئے؟

جواب :  یہ دونوں میرے دفتر کے ساتھی ہیں ہمارے ساتھ گڑ گاؤں میں امریکی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں ان میں سے یہ پہلے صاحب ان کا نام سنجے کوشک تھا۔ان کا نیا نام سعید احمد ہے اور یہ  دوسرے انوپم گلاٹھی تھے،اب محمد نعیم ان کا نام ہے، دونوں سافٹ ویر انجینئر ہیں دونوں نے IITروڑ کی سے بی ٹیک کیا ہے، ہم لوگ روڑ کی میں ساتھ پڑھتے تھے تینوں دوست ہیں، اب انشاء اللہ جنت میں ساتھ جانے کی تمنا ہے جو بظاہر اللہ نے چاہا تو پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

یہ دونوں جماعت میں وقت لگا کر آ رہے ہیں، ان کا چلہ عادل آباد میں لگا، وہاں پر انھوں نے حضرت کا اور بھی تعارف سنا تو بہت بے چین تھے کہ حضرت سے ملاقات ہو جائے، میری بھی خواہش تھی کہ ملاقات ہو جائے،وہ لوگ بیعت ہونے کے لئے آئے تھے،اب چونکہ حضرت بالکل دعوت پر بیعت لینے لگے ہیں، اس لئے نئے ارادہ سے جا رہے ہیں۔

سوال   : ان کو دعوت دینے میں آپ کو کوئی مشکل تو نہیں آئی؟

جواب   :            مشکل تو نہیں کہہ سکتے البتہ دو سال لگاتار دعائیں کرنی پڑیں، اصل میں ان کو جب بھی اسلام کے بارے میں بتاتا، یا کوئی کتاب پڑھنے کو کہتا تو یہ میرا مذاق اڑاتے یہ کہتے کہ ہمارے لئے کون سی کشمیری لڑکی تم نے تلاش کر رکھی ہے جس کے لئے ہم مسلمان ہو ں، میری بد قسمتی یا خوش قسمتی ہے جیسا کہ شاید آپ کو حضرت نے بتایا ہو گا کہ میرا اسلام قبول کرنے کا ذریعہ جموں کی ایک لڑکی سے تعلقات اور شادی ہوئی،یہ ذریعہ ظاہر ہے کسی دوسرے کے لئے اسلام میں دل چسپی کا ذریعہ نہیں ہو سکتا،تو میں جب بھی ان دوستوں کو لے کر بیٹھتا یہ میرا مذاق بناتے،ان کو نان ویج (گوشت) کھانے کا بہت شوق ہے، دعوت کے بہانے میں ان کو کریم ہوٹل جمعرات کو لے جاتا،اور مرکز لے جا کر تقریر سنواتا،یہ میرا مذاق بناتے،مرکز کا بھی مذاق اڑاتے،ایک بار انھوں نے حضرت مولانا سعد صاحب کی بہت مذاق بنائی اور تین چار روز ان کی نقل اتارتے رہے،ایک ایک جملہ کو دو دو تین تین بار کہتے، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگتے آؤ مولانا صاحب کی تقریر سنو،مجھے بہت تکلیف ہوتی، میں نے ان سے بولنا چھوڑ دیا،ان دنوں میں نے بہت دعائیں کیں، اپنے اللہ کے سامنے بہت فریاد کی میرے اللہ کو مجھ پر ترس آ گیا ایک ہفتہ سے زیادہ بول چال بند رہی، پھر یہ دونوں میری خوشامد کرنے لگے جب ایک روز بہت خوشامد کی اور مجھ سے بہت معافی مانگی تو میں نے کہا میں تم سے اس شرط پر بولوں گا جب تم دونوں تین بار ’’آپ کی امانت‘‘ اور ’’مرنے کے بعد کیا ہو گا‘‘ پڑھنے کا وعدہ کرو وہ تیار ہو گئے،اصل یہ ہے احمد صاحب اللہ کے یہاں سے فیصلہ ہو گیا تھا،میرے اللہ کو مجھ گندہ پر ترس آ گیا اور فیصلہ ہو گیا، بس انھوں نے تین تین بار ’’آپ کی امانت‘‘ اور مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ پڑھی اور خود ہی اسلام قبول کرنے کو کہنے لگے میں دار ارقم آیا،اتفاق سے دار ارقم میں کوئی نہیں ملا، مسجد میں ہم لوگوں نے دوپہر سے شام تک انتظار بھی کیا،پھر میں ان کو لے کر اگلے روز اتوار تھا جامع مسجد دہلی چلا گیا،وہاں مولانا جمال الدین صاحب تفسیر بیان کرتے ہیں، انھوں نے ان کو کلمہ پڑھوایا،کڑکر ڈوبا کورٹ میں میرے ایک دوست وکیل ہیں، انھوں نے ان کے کاغذات بنوائے،دوسرے ہفتے انھوں نے چھٹی لی اور جماعت میں وقت لگایا،مجھے ایسا لگتا ہے اور میں ان سے کہتا ہوں کہ مجھے اس کا اندازہ اب ہوا کہ مجھے اپنے ان دوستوں سے کتنی محبت ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے اپنے اسلام قبول کرنے کی اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی ان دونوں دوستوں کے اسلام لانے کی خوشی ہوئی،کئی بار دفتر سے رخصت ہوتے تو اتنی بے چینی ہو جاتی تھی کہ اگر میرا راستہ میں اکسیڈنٹ ہو گیا یا ان میں سے کوئی آج ہی مر گیا تو کیا ہو گا، اور میں رات بھر نہیں سو پاتا،دیر ہو جاتی تو اٹھتا،وضو کرتا، نماز پڑھ کر گھنٹوں گھنٹوں روتا رہتا، اخبار پڑھتا جگہ جگہ حادثے،اکسیڈینٹ موت کی خبریں اور بھی بے چین کر دیتیں، میرے اللہ کا کرم ہے کہ اس نے یہ خوشی دکھائی اور انھیں جماعت بہت اچھی ملی ماشاء اللہ دونوں پابندی سے تہجد پڑھ رہے ہیں اور اب دعوت کا بہت جذبہ ان میں پیدا ہو گیا ہے۔

سوال  :  آپ تینوں گڑھ گاؤں میں ملازمت پر ساتھ لگے تھے؟

جواب :  نہیں ! پہلے سنجے کوشک کی نوکری لگی،پھر ان کی کوشش سے ہم دونوں بھی اسی کمپنی میں ملازم ہو گئے، رہنا سہنا بھی ساتھ ہی ساتھ رہا ہے۔

سوال  :  آپ کی تو شادی ہو گئی ہے، آپ اب بھی ساتھ ہی رہ رہے ہیں ؟

جواب :  ہم تینوں جس فلیٹ میں رہ رہے تھے،میری شادی کے بعد ان دونوں نے میرے برابر میں ایک دوسرا فلیٹ لے لیا ہے پرانا فلیٹ ذرا اچھا تھا، وہ انھوں نے میرے لئے چھوڑ دیا ہے۔

سوال  :  ابی بتا رہے تھے کہ آپ کے سسرال والے سب بدعتی تھے،اللہ نے آپ کے ذریعہ ان کی اصلاح کی ہے،ذرا اس کی تفصیل بتائیے؟

جواب :  اصل میں، میں جس کمپنی میں کام کرتا ہوں، وہاں ایک کشمیری جموں کی رہنے والی لڑکی آصفہ بٹ بھی کام کرتی تھی،اس سے میرے تعلقات ہو گئے،بات جب بڑھی تو شادی کے لئے آصفہ نے منع کر دیا کہ تم ہندو ہو میں تم سے شادی نہیں کر سکتی،میرے لئے اس لڑکی کو چھوڑنا مشکل تھا،میں بہت غور کرتا رہا،میرے خاندان کا حال بھی ایسا نہیں تھا کہ میں لڑکی کے لئے مسلمان ہو تا،میں چھٹی لے کر بنارس اپنے گھر گیا کہ دیکھوں گھر والوں کی رائے کیا ہے؟مگر وہ بنارس کے برہمن ان کے لئے تو نام لینا بھی جرم تھا،دو مہینے میں بنارس میں رہا، میرے دل میں وہ لڑکی جگہ کر چکی تھی کہ اس کے بغیر دو مہینے میرے لئے دو سال لگے،میں گڑگاؤں آیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ گھر والوں کی مرضی کے بغیر مجھے اس سے شادی کرنی ہے،اور ایک روز میں نے آصفہ سے مسلمان ہو کر شادی کرنے کے لئے کہہ دیا،اس نے اپنے والد سے ملنے کے لئے کہا،اس کے والد لاجپت نگر میں شالوں کا کاروبار کرتے ہیں، میں ان سے ملا،انھوں نے کہا تم مسلمان ہو جاؤ،ایک دو مہینے ہم دیکھیں گے،اطمینان ہو جائے گا تو شادی کر دیں گے،ہمارے جاننے والوں میں ایک لڑکی کے ساتھ ایک لڑکے نے مسلمان ہو کر شادی کی تھی، مگر دو سال بعد وہ پھر ہندو ہو گیا،میں نے کہا میں آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار ہوں۔

وہ بولے اجمیر شریف چلیں گے تم وہاں چل کر مسلمان ہو جانا،میں ان سے تقاضا کرتا رہتا تھا مگر ان کو مصروفیت کی وجہ سے وقت نہیں ملتا تھا،دو مہینے کے بعد ایک اتوار کو ہم شتابدی سے اجمیر گئے،وہاں جا کر ایک سجادہ صاحب سے ملے موٹی موٹی مونچھیں، کالی مخمل کی ٹوپی،کلین شیو پاجامہ زمین میں جھاڑو دیتا ہوا،ایک صاحب اپنی دوکان کے کاؤنٹر پر براجمان تھے،نہ جانے کیا نام تھا چشتی قادری صاحب، ہمارے سسر جن کا نام منظور بٹ ہے،ان کے پاس گئے، ان کی خدمت میں مٹھائی پیش کی، کچھ نقد نذرانہ بھی دیا اور آنے کی غرض بھی بتائی،انھوں نے پانچ ہزار روپئے خرچ بتایا، پھول اور چادر الگ سے خرید نے کے لئے کہا مجھے میرے سر پر پھولوں کی ٹوکری اور چادر رکھ کر اندر لے کر گئے،مزار کی دیوار سے لگا کر کچھ منھ ہی منھ میں کہا، اور یہ بھی کہا یا خواجہ آپ کا یہ غلام ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر رہا ہے، اس کو قبول فرما لیجئے اور اس کے اندر کا کفر نکال دیجئے،چادر اور پھول چڑھائے اور مجھے پاؤں کی طرف سجدے میں پڑنے کے لئے کہا،میں سجدہ میں پڑ گیا اور میرے ساتھ میرے سسر منظور صاحب بھی قادری صاحب نے باہر نکل کر مبارک باد دی کہ خواجہ صاحب نے آپ کا اسلام قبول کر لیا، میں نے ان سے کہا کہ خواجہ صاحب نے اسلام قبول کر لیا،تو اب مجھے اسلام کے لئے کیا کرنا ہے؟ بولے بیٹا تمہارا اسلام خواجہ نے قبول کر لیا، تم واقعی سچے دل سے اسلام میں آئے تھے،وہاں تو دل دیکھ کر قبولیت ہوتی ہے،میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں نے سچے دل سے کہاں اسلام کا ارادہ کیا ہے ؟

سوال  :  کیا آپ نے اس وقت اسلام قبول کر نے کا دل سے ارادہ نہیں کیا تھا؟

جواب :  نہیں مولانا احمد صاحب !سچی بات یہ ہے کہ میں نے صرف ان لوگوں کے اطمینان اور شادی کے لئے اسلام قبول کرنے کا ڈرامہ کیا تھا اور میرے دل میں یہ بات تھی کہ باپ دادوں کا دھرم کوئی چھوڑ نے کی چیز ہوتی ہے کیا؟

سوال  :  آپ اجمیر کچھ روز رہے یا واپس چلے آئے؟

جواب :  اسی رات کو بس سے دہلی آ گئے،میں نے آصفہ سے شادی کا مطالبہ کیا تو اس نے بتایا کہ ہمارے والد صاحب ابھی مطمئن نہیں ہیں، ابھی دیکھ رہے ہیں۔

سوال  :  آپ نے کچھ نماز وغیرہ پڑھنی شروع کر دی تھی؟

جواب :    تین چار بار جمعہ کی نماز ان کو دکھانے اور اطمینان کرانے کے لئے پڑھی،  اصل میں نماز تو آصفہ کے گھر والے بھی نہیں پڑھتے تھے،اس کے تین بھائی اور ایک بہن،  ماں باپ میں سے کوئی بھی نماز نہیں پڑھتا تھا،بس اجمیر شریف سال میں دو بار جاتے اور نظام الدین اندر درگاہ میں ایک مہینے میں دو بار جاتے تھے، اور جموں میں کچھ درگاہیں تھیں وہاں بھی جاتے اسی کو اسلام سمجھتے تھے،ان کے ایک پیر تھے خاندانی، جو سال میں ایک دو بار ان سے نذرانہ لیتے تھے اور کہتے تھے کہ میں تم سب کی طرف سے نماز بھی پڑھ لیتا ہوں اور روزہ بھی رکھ لیتا ہوں۔

سوال  :  پھر شادی کس طرح ہوئی؟

جواب :  شادی ابھی کہاں ہوئی، اصل میں ان کے دوست کی لڑکی کے ساتھ حادثہ ہوا تھا کہ اس لڑکی سے جس لڑکے نے مسلمان ہو کر شادی کی تھی،وہ شادی کے بعد اس لڑکی کو ہولی دیوالی منانے کو کہتا تھا،اور نہ ماننے پر مارتا تھا، بات بن نہ سکی، وہ ہندو تو تھا ہی، پھر اسے چھوڑ کر اپنے خاندان میں چلا گیا، اس لئے آصفہ کے والد ڈرتے تھے، وہ لوگوں سے مشورہ کرتے لوگ ان کو شادی نہ کرنے کی رائے دیتے،مگر وہ میرے تعلقات کے حد سے زیادہ بڑھنے کے بارے میں جانتے تھے، ان کے کسی ساتھی نے انہیں کشمیر میں مفتی نذیر احمد سے مشورہ کرنے کے لئے کہا،مفتی نذیر احمد صاحب کشمیر کے بڑے مفتی ہیں، بانڈی پورہ کوئی بڑا مدرسہ ہے وہاں مفتی اعظم ہیں، انھوں نے کسی سے ان کا فون نمبر لیا اور ان سے مشورہ کیا،اور بتایا کہ اجمیر شریف جا کر ہم اس لڑکے کو مسلمان کروا لائے ہیں، اور خواجہ نے اسلام قبول کر لیا ہے، مفتی صاحب نے کہا خواجہ نے تو کب کا اسلام قبول کیا ہوا ہے وہ لڑکا اگر اسلام قبول نہ کرے تو لڑکی کا نکاح ہی نہیں ہو گا۔مفتی صاحب نے انھیں دار ارقم کا پتہ دیا اور حضرت مولانا کلیم صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا، منظور صاحب کئی بار دار ارقم اور خلیل اللہ مسجد آئے مگر ملاقات نہ ہو سکی،اتفاق سے دار ارقم میں کوئی نہ ملا، بٹلا ہاؤس مسجد میں کوئی عبدالرشید نومسلم ہیں ان سے منظور صاحب کی ملاقات ہو گئی، ان سے بات ہوئی، عبدالرشید صاحب نے بتایا کہ حضرت تو ایک ہفتہ کے بعد سفر سے آئیں گے،مولانا اویس اور مولانا اسامہ نانوتوی بھی نانوتہ گئے ہیں، آپ ایسا کریں ان سے مجھے ملا دیں اگلے روز اتوار تھا،لاجپت نگر عبدالرشید دوستم نے آنے کا وعدہ کیا میری ان سے ملاقات ہوئی، انھوں نے اسلام کے بارے میں سمجھایا اور کلمہ پڑھوایا اور مجھے اور میرے سسر منظور بٹ صاحب دونوں کو زور دے کر کہا کہ جماعت میں وقت لگوا دیں، میرے کاغذات سر فراز صاحب ایڈوکیٹ سے بنوائے،اور مجھے مرکز جا کر ڈاکٹر نادر علی خاں سے مل کر جماعت میں جانے کو کہا،میرے سسر کو بہت سمجھایا اگر آپ اپنی بچی کی زندگی کو تباہ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں کہ یہ شادی کے بعد دوبارہ ہندو نہ ہوں تو کم از کم چالیس روز ورنہ اچھا تو یہ ہے کہ چار مہینے جماعت میں لگوا دیں، وہ بولے کہ یہ وہابی ہو جائے گا تو نہ ہندو رہے گا نہ مسلمان،عبدالرشید صاحب نے سمجھایا کہ جماعت والے کسی کا مسلک نہیں بدلواتے،جو حنفی ہیں وہ حنفی رہتے ہیں،جو شافعی  ہیں وہ شافعی رہتے ہیں، اور اہل حدیث اہل حدیث رہتے ہیں وہاں صرف فضائل بیان کئے جاتے ہیں، مسائل اپنے مسلک کے مطابق لوگ اپنے عالموں سے پوچھتے ہیں۔ بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور انھوں نے مجھے جماعت میں جانے کے لئے کہا،چالیس روز میرے لئے بڑی مشکل بات تھی مگر وہ اَڑ گئے،بولے جب تک تم جماعت میں چلہ نہیں لگاؤ گے شادی نہیں ہو گی۔میں نے چھٹی لی اور مرکز اپنے سسر کے ساتھ گیا،ڈاکٹر نادر علی خاں صاحب کے کمرہ میں اوپر جا کر ان سے ملے انھوں نے مشورہ دیا پہلے آپ مولانا کلیم صاحب سے ملیں، ہم نے بتایا بہت کوشش کے باوجود وہ نہیں مل سکے،عبدالرشید دوستم صاحب سے ملاقات ہوئی انھوں نے جماعت میں جانے کا مشورہ دیا ہے،علی گڑھ کے ایک پرانے استاذ جماعت لے کر حیدر آباد جا رہے تھے،  ان کے ساتھ جماعت میں جڑوا دیا،اور مجھے مشورہ دیا کہ تین چلے پورے کر کے آنا،جماعت پڑھے لکھے لوگوں کی تھی، بہت اچھا وقت گذرا اور الحمد للہ اسلام میری سمجھ میں آ گیا، امیر صاحب نے مشورہ دیا اور مجھے خود بھی تقاضا ہوا کہ جماعت چار مہینے کی ہے تو میں بھی چار مہینے لگاؤں، جماعت میں ایک مولانا صاحب بھی تھے جو سال لگا رہے تھے،کئی بار نئے ساتھیوں کے ساتھ جماعت بٹ جاتی اور پھر ایک ساتھ آ جاتی،۱۵  اگست کو میرے چار ماہ پورے ہوئے۔ ۱۶ اگست کو ہم دہلی مرکز پہنچے ڈاکٹر نادر علی خاں سے ملاقات ہوئی انھوں نے مجھے حضرت مولانا کلیم صاحب سے جڑے رہنے کی تاکید کی، بات شادی کی ہوئی تو مجھے ہچکچاہٹ تھی،کہ اگر ایسے بدعتی خاندان میں میری شادی ہو گئی تو بچے اپنی ماں کے ساتھ بدعتی ہوں گے،اور نسلیں صحیح عقیدہ سے محروم رہیں گی،میں شادی کو ٹالتا رہا ایک روز آصفہ اور اس کے والد نے مجھ سے معلوم کیا کہ شادی کرنا ہے یا نہیں ؟میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ جماعت میں جانے سے پہلے تو آپ لوگوں کو اطمینان نہیں تھا کہ مسلمان ہوں کہ نہیں، مگر اب معاملہ الٹا ہے،اجمیر میں لے جا کر جس طرح آپ نے مجھ سے شرک کرایا،قرآن و حدیث کے لحاظ سے تو مندر میں بت کو پوجنا اور اجمیر جا کر خواجہ خواجگان کی درگاہ پر سر جھکانا برابر درجہ کا شرک ہے،اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا، اللہ کے نبی ﷺ نے اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ سے فرمایا تھا کہ قبر میں تیرے اعمال کام آئیں گے، یہاں آپ کے پیر صاحب آپ کی نماز اور روزے ادا کرتے ہیں، اور بے وقوف بناتے ہیں۔ اب اللہ کا شکر ہے میں ایک مسلمان ہوں اور اسلام عقل والوں کا مذہب ہے یہ رسم کا نام نہیں، اگر آپ کو مجھ سے شادی کرنا ہے تو آپ کو پورے خاندان والوں کے ساتھ مسلمان ہونا بڑے گا،جب تک آپ لوگ مسلمان نہیں ہوں گے میں شادی نہیں کروں گا، میں نے کہا آپ کو اور آپ کے تینوں بیٹوں کو چالیس روز لگانے پڑیں گے، میں نے کہا کہ جماعت والے مسلک نہیں بدلتے میں نے خوشامد بھی کی کئی ساتھیوں کو ان لوگوں سے ملوایا،الحمد للہ بڑی کوشش کے بعد وہ تیار ہوئے،پہلے میرے سسر نے وقت نکالا چھوٹے بیٹے شبیر بٹ کو ساتھ لے کر گئے۔اس کے بعد بڑے بھائیوں نے وقت لگایا اس دوران اللہ کا شکر ہے کہ میں نے آصفہ کو کافی کتابوں کا مطالعہ کرایا میں نے چار مہینہ میں قرآن مجید ناظرہ پڑھ لیا تھا، اردو اچھی پڑھنے لگا تھا، اللہ کا شکر ہے آصفہ کا ذہن صاف ہو گیا،گڑگاؤں جامع مسجد کے امام صاحب کے ساتھ میں آصفہ کو لے کر خلیل للہ مسجد آیا،اور ہم دونوں امام صاحب کے مشورہ سے حضرت سے بیعت ہو گئے،جب حضرت حج کو گئے ہوئے تھے تو ہماری شادی کی تاریخ طے ہو گئی،  حضرت نے فون پر زور دیا کہ یہ بھی سنت کے خلاف ہے کہ کسی خاص شخصیت سے نکاح پڑھوانے کا اہتمام کیا جائے اور نکاح میں تاخیر کی جائے،حضرت نے ملاقات پر بھی نکاح میں جلدی کرنے کا مشورہ دیا تھا، بلکہ یہ بھی فرمایا تھا کہ اچھا ہے آج ہی نکاح ہو جائے،  دونوں کے ایک ساتھ رہنے، بات کرنے کا قانونی حق ہو جائے گا،ورنہ اس طرح بات کرنا بھی گناہ ہے اگر چہ جماعت سے آ کر میں اللہ کا شکر ہے کافی احتیاط کرنے لگا تھا۔الحمد للہ ۱۷ نومبر کو ہمارا نکاح ہوا پھر جب حضرت واپس آ گئے تو آصفہ کے سارے خاندان والے حضرت سے بیعت ہو گئے۔

سوال  :  آپ کے گھر والوں کا کیا ہوا؟

جواب :  ابھی میں نے صرف اپنے گھر والوں کے لئے دعاؤں کا اہتمام کیا ہے ابھی جلدی ہی حضرت نے بنارس کے ایک صاحب کو ہمارے والد صاحب کا فون نمبر دیا ہے،  ہمارے والد صاحب ریلوے میں ایک اچھی پوسٹ پر ہیں،  مغل سرائے میں ان کی پوسٹنگ ہے۔

سوال  :  اور بھی کچھ لوگوں پر آپ نے کام کیا ہے اس کی کچھ تفصیل بتایئے؟

جواب :  ہماری کمپنی میں کام کرنے والے ایک ساتھی جو جے پور کے رہنے والے ہیں،  ان کے والد دس سال پہلے بی جے پی کے ایم ایل اے رہے ہیں، الحمد للہ مسلمان ہو گئے ہیں، وہ جماعت میں گئے ہوئے ہیں۔

سوال  :  آپ کی اہلیہ آصفہ کا کیا حال ہے؟

جواب :  الحمد للہ میں نے مشورہ سے طے کیا ہے کہ وہ صرف دعوت کا کام کریں گی انھوں نے ملازمت چھوڑ دی ہے، برقع پہننے لگی ہیں، اسلام کا مطالعہ کر رہی ہیں، اور قرآن و سیرت حضرت کے مشورہ سے پڑھنا شروع کیا ہے،ہم لوگ نیٹ پر دعوت کے لئے ایک آن لائین سائٹ کھول کر کام کا خاکہ بنا رہے ہیں۔ ان کی دوست دو لڑکیاں ان کی کوشش سے مسلمان ہو چکی ہیں۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ،مسعود بھائی، ارمغان کے قارئین کے لئے کوئی پیغام آپ دیں گے؟

جواب :  خاندانی مسلمانوں کو رسمی اسلام سے نکال کر قرآنی اسلام میں لانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں دعوتی شعور بیدار ہو،نیا خون پرانے بیمار خون کو تازہ اور صاف کرتا ہے میں نے اپنا اسلام قبول کیا تھا تو مجھے اپنی سسرال والوں کے اسلام کی کیسی فکر تھی بس میں ہی جانتا ہوں۔

سوال  :  بے شک !بہت پتے کی بات آپ نے کہی ہے۔ السلام علیکم

ماخوذ  از ماہنامہ ’’ارمغان‘‘ اپریل  ۲۰۱۱ء

٭٭

 

 

 

نماز کی ادائیگی کا روح پرور منظر روح میں اتر گیا

  محمد عمر صاحب {پون کمار کیوٹ} کا جیل سے لکھا گیا مکتوب

 

 

شروع کرتا ہوں ایشور (اللہ )کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور کرم کرنے والا ہے۔ اسی کے قبضے میں تمام پرانڑی (ذی روح کی جان ہے )وہ جسے چاہتا ہے سیدھا مارگ (صراط مستقیم)دکھاتا ہے۔ اسی پالنہار پر بھوکے لئے پرشنسا (تعریف اور بڑائی ہے ) اور وہی پوجا (بندگی)کے لائق ہے۔

اورنگ آباد جیل سے پون کمار کیوٹ کی طرف سے شرو شانتی پتریکا کے سنپادک (ہندی  ماہنامہ سروشانتی کے ایڈیٹر) مولانا اے،آر۔شاہین قاسمی صاحب کو اور نگراں حضرت مولانا کلیم صدیقی کو السلام علیکم و  رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔

سنپادک (ایڈیٹر )صاحب !آپ کی سروشانتی پتریکا اس جیل میں شاہد انصاری بھائی کے پاس آتی ہے۔ایشور کی کرپا (اللہ کا کرم )سے مجھے پڑھنے کے لئے شاہد بھائی بھیج دیتے ہیں۔ یہ پتریکا بہت اچھی لگتی ہے۔لوگوں کو دین دنیا کی سچائی کی پہچان کرانے کے لئے بہت اچھا ذریعہ ہے۔اس لئے میں اپنی سچی کہانی لکھ کر بھیج رہا ہوں تا کہ لوگوں کو جو سچ جاننے کے پریاس (کوشش)میں لگے ہیں انہیں سچائی کی پہچان ہو سکے۔

میرا نام پون کمار کیوٹ ہے۔ میں اترپردیش میں مہاراج گنج ضلع مقام سونولی کا نیواسی (رہنے والا )ہوں۔

میری پیدائش ۱۷ ۷ ۱۹۸۷ ء میں ایک کیوٹ خاندان کے ہندو دھرم میں ہوئی ہے۔ میں اپنی کہانی جیل سے شروع کر رہا ہوں لیکن اس سے پہلے ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ میں اپنے دھرم کا کٹر تھا۔

ہندو دھرم کے حساب سے ہر دیوی دیوتا کو بھگوان کے روپ میں مانتا تھا لیکن سب سے زیادہ بجرنگ بلی کی پوجا کرتا تھا۔ ہر منگل وار کو اپواس (روزہ)رکھتا تھا،  یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے رویے آچار ویوہار(طرز عمل )کی وجہ سے مجھے اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت تھی، اس کے پہلے میں ہندو یوا واہنی کا ممبر بھی تھا۔

۲۰۰۵ء میں جیل میں آیا میرے اوپر ڈکیتی کے کئی کیس تھے،میں اورنگ آباد جیل میں آیا تھا دو مہینہ یہاں رہنے کے بعد مجھے دھولیہ ضلع جیل میں بدلی کروا دیا گیا۔ کیونکہ وہاں پر بھی میرے اوپر کیس چل رہا تھا۔دھولیہ جیل میں ایک دن اپنے ایک دوست کے ساتھ گھوم رہا تھا دوست کا نام وجے تھا۔ جیل کے سبھی مسلمان قیدی اکٹھے ہو رہے تھے،اچانک میری نظر ان پر پڑی میں نے وجے سے کہا کہ یہ لوگ کیوں اکٹھا ہو رہے ہیں ؟  اس نے کہا کہ ان کا بکرا کاٹنے کا تیوہار ہے۔ یہ لوگ نماز پڑھنے جانے کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں، پتہ نہیں کیوں میرا دل فوراً بولا،تو بھی نماز پڑھنے جا، تھوڑی دیر میں سوچتا رہا پھر اپنے دل کی بات میں نے اپنے دوست وجے سے کہہ دی وہ بھی فوراً تیار ہو گیا، ہم دونوں وہاں گئے جہاں پر مسلمان اکٹھا ہو رہے تھے،ان میں سے ایک مسلمان جن کا نام نواب تھا، ہم نے ان سے پوچھا، ہم لوگ بھی نماز پڑھنا چاہتے ہیں، کیا آپ لوگوں کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں ؟نواب بھائی نے کہا کیوں نہیں ؟ضرور پڑھ سکتے ہو، میں نے کہا کہ ہمیں تو پڑھنا نہیں آتا، کیا تم بتاؤ گے کیا پڑھا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا پڑھا تو بہت کچھ جاتا ہے، لیکن آپ لوگ لا الہ الا اللہ محمد رّسول اللہ پڑھنا اور اس کا مطلب بھی بتایا جو اچھا لگا۔

ہم لوگ بھی ان کے ساتھ ہو گئے سب لوگوں نے وضو کیا ہم نے بھی ہاتھ پیر دھو لیا۔ جیل کے ایک بڑے ہال میں ہم کو بٹھایا گیا۔ وہاں پر باہر سے ایک مولانا آئے تھے، وہ اسلام کے بارے میں سمجھا رہے تھے، ان کی باتیں سن کر کچھ مسلمان رو بھی رہے تھے، ان کی باتیں مجھے بھی بہت اچھی لگ رہی تھی، اس سے پہلے میں نے ایسے باتیں نہیں سنی تھی،یہ باتیں میرے دل میں بیٹھ گئیں،  اس کے بعد نماز کے لئے کھڑے ہوئے ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے،میں پوری نماز میں وہی کلمہ پڑھتا رہا نماز ختم ہو جانے کے بعد سب لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے،مجھ سے بھی ملے،یہ سبھی باتیں مجھے بے حد پسند آئیں، اس کے بعد سب لوگ شیر خرمہ پینے لگے،ایک کٹوری میں تین تین لوگ جھوٹا کر کے کھاتے تھے،تھوڑی دیر کے لئے میرا دل بھٹکا، میں نے سوچا کہ کتنے گندے لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کا جھوٹا کھا رہے ہیں، پھر دل میں خیال آیا کہ ان میں کتنی محبت ہے کہ اونچ نیچ چھوت چھات نہیں دیکھتے، بھائی جیسا سمجھ کر جھوٹا کھا لیتے ہیں، پھر میں نے بھی شیر خرمہ پی لیا۔

نواب بھائی سے میں نے سوال کیا کہ مسلم کتنے پرکار کے ہوتے ہیں ؟نواب بھائی نے کہا کہ مسلم ایک ہی پرکار کا ہوتا ہے جو خدا اور رسول کا حکم مانتا ہے،اس کے بعد سب لوگ اپنے اپنے بیرک میں چلے گئے،میں اور وجے بھی اپنے بیرک میں آ گئے وہاں آتے ہی بیرک کے لوگ پوچھنے لگے کہ تم لوگ بھی نماز پڑھنے گئے تھے؟ہم نے کہا ہاں وہ لوگ بولے کہ کیا پڑھ رہے تھے؟میں نے کہا میں تو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ رہا تھا، مگر وجے نے کہا میں تو رام رام پڑھ رہا تھا،اس طرح کی اور کئی باتیں بول کر سب لوگ ہنسنے لگے،معلوم نہیں کیوں یہ پہلی بار تھا جب وہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے تھے اور مجھے غصہ آ رہا تھا۔دوسرے دن میں نواب بھائی کے ساتھ گھومنے لگا۔نواب بھائی ان لوگوں کو جو نماز نہیں پڑھتے تھے انہیں سمجھاتے رہتے تھے،ان کی باتیں مجھے بہت اچھی لگتی تھیں، اب میں زیادہ کر کے نوا ب بھائی کے ساتھ گھومتا تھا،بھائی نواب نماز پڑھتے تو میں ان کے پاس بیٹھا رہتا تھا اور قرآن پڑھتے تو میں بھی سنتا تھا، مجھے نماز و قرآن پڑھنے کا یہ سارا منظر بہت اچھا لگتا تھا۔

قریب ایک مہینہ تک میں اسلام سے متعلق جانکاری لیتا رہا ایک دن میں نے نواب بھائی سے نماز پڑھنے کی اِچھا(خواہش )ظاہر کی انہوں نے کہا بہت اچھی بات ہے پھر میں نے نماز پڑھنی شرو ع کر دی، لگ بھگ پچیس (۲۵) دن لگا تار پانچ وقت کی نماز پڑھی، ایک دن میں نے نواب بھائی سے کہا مجھے مسلمان بننا ہے یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے، میں نے کہا میرا ختنہ کر وا دو تو وہ بولے ختنہ کرانے سے کوئی مسلمان نہیں بنتا ہے بلکہ سچے دل سے گواہی دینے سے کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں مسلمان بنتا ہے۔ نواب بھائی نے مجھے نہلایا، پھر کلمہ پڑھا دیا اس دن جمعہ کا دن تھا۔ نواب بھائی نے کہا مسلمان کا مطلب آگیہ کاری ہوتا ہے (اللہ اور  اس کے رسول ﷺ کے حکم ماننے والے کو مسلمان کہا جاتا ہے )نواب بھائی نے میرا نام محمد عمر رکھا اور کہا تمہاری کہانی حضرت عمر ؓ سے ملتی ہے، اس لئے تمہارا نام عمر ٹھیک ہے، اسی دن سے میں مسلمان بن گیا، وہ دن میری زندگی میں ایک بہت ہی اہم دن ہے، میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اسلام کی مہان (عظیم )دولت سے نوازا۔

۲۰۰۶ء میں پھر میں اورنگ آباد جیل میں آگیا، اللہ کے کرم سے نماز پانچوں وقت کی ہوتی تھی،میں نے یہاں پر تین بار قرآن معنی(ترجمہ)کے ساتھ پڑھا، قرآن پڑھ کر مجھے بہت کچھ معلومات ہوئی، بہت سی سچائی کی جانکاری ہوئی، میری نماز بھی مکمل ہو گئی اور اللہ نے علم سے نوازا۔

اس وقت تک میں داعی نہیں تھا۔ اسلام پر عمل کرتا تھا، اس کے بعد آپ کا رسالہ شروشانتی آنا شروع ہوا تو مجھے دعوتی نقطہ نظر سے پڑھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا، اس کے بعد میری زندگی میں ایک اہم موڑ آیا، میں نے جب محمد ﷺ کی اسٹوری (سیرت پاک) پڑھی تو مجھے بہت رونا آیا، انہوں نے اسلام پھیلا نے کے لئے کتنی تکلیفیں سہیں، پھر جا کر پوری دنیا میں اسلام پھیلا،پھر اللہ تعالیٰ ان گنہگار بندے سے بھی اپنے دین کا کام لینے لگا،میں جیل میں اسلام کی دعوت کھلے عام دینے لگا، میرا مقصد اتنا تھا کہ میں اپنے رب کا دین لوگوں تک پہنچا دوں، ایک دن میں پانچ، پانچ  چھ،چھ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا، پھر شام تک ان سے جواب مانگتا تھا، جب ان میں سے کوئی ایمان نہیں لاتا تو میں اس کو صرف اتنا کہتا تھا، کہ گواہ رہنا کہ میں نے تمہارے تک ایشور (اللہ )کا سندیش (پیغام)پہنچا دیا، پھر میری باتوں کا لوگوں پر اثر ہونے لگا، دھیرے دھیرے لوگ ایمان بھی لانے لگے،لیکن ایمان کی دعوت دینے کے بعد لوگ موقع اور وقت مانگتے تھے،پھر میں نے بھی سوچا کہ اسلام قبول کرنا کوئی کھیل نہیں ہے، پھر میں بھی ٹائم دینے لگا،پھر اللہ نے مجھ سے ایسا کام لیا کہ اکیس (۲۱) لوگوں نے اسلام قبول کر لیا،ان ۲۱  لوگوں میں بہت لوگ ایسے تھے جو پہلے مجھ سے نفرت کرتے تھے،اس لئے کہ میں نے اسلام قبول کیا تھا، لیکن جب انہوں نے مجھ سے اسلام کے متعلق سوال کیا تو میں نے انہیں کہا کہ اگر تم لوگ سچے ہندو ہو تو کم سے کم اپنے دھر م کے وید،پُران کی باتوں کو مانو،جب میں نے انہیں ہندو دھرم کے حوالے سے بتایا کہ ایشور ایک ہی ہے صرف وہی پوجا کے لائق ہے، اسلام دھرم ہمارا بھی دھرم ہے، محمد ﷺ ہمارے بھی مارگ درشک(رہبر )ہیں، تب جا کر انہیں وشواس (یقین)

ہوا،اس طرح ۲۰۰۶ء سے لے کر آج تک اکیس ۲۱  لوگوں نے اسلام قبول کیا، آج بھی میں اسلام کی دعوت دیتا ہوں، لیکن یہاں ایسا ماحول ہو گیا ہے کہ اگر کوئی ہندو میرے ساتھ بیٹھے یا بات کرے تو وہ لوگ جو دھرم کا گیان مذہب کا علم نہیں رکھتے ہیں، وہ انہیں کہتے ہیں کہ پون کے پاس مت بیٹھا کر و نہیں تو تمہیں مسلمان بنا دے گا یہاں تک کہ اسلام کی کتابیں بھی پڑھنے سے منع کرتے ہیں۔ (میرے سامنے تو منع نہیں کرتے ہیں لیکن چوری چھپے منع کر دیتے ہیں )انہیں یہ معلوم ہے کہ اگر پون کے ساتھ دس دن رہا تو ضرور اسلام قبول کر لے گا،کیونکہ بہت بار ایسا ہوا کہ ان کے منع کرنے کے باوجود بھی کئی لوگ میرے پاس بیٹھتے رہے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، اسلام سچا دھرم ہے اس لئے اس کے بارے میں بتانے سے میں کسی سے نہیں ڈرتا ہوں اگر میرے دل میں آیا کہ فلاں آدمی کو اسلام کی دعوت دینا ہے تو میں اسے اچھے اخلاق کے ساتھ دعوت دیتا ہوں، میں نے اپنے گھر والوں کو بھی خط کے ذریعہ اسلام کی دعوت دی ہے، میرے گھر والوں کو سمجھ میں بھی آیا ہے، میری امی کہتی ہے کہ تیرے آنے کے بعد بچار (سوچیں گے)کریں گے،امید ہے کہ میرے گھر والے اسلام قبول کر لیں گے،اللہ انہیں ہدایت دے۔(آمین )

میں مسلمان بھائیوں سے اتنا کہتا ہوں کہ اسلام کوئی نیا دھرم نہیں ہے یا صر ف مسلمانوں کا دھرم نہیں ہے،بلکہ وہی (اسلام) ہی سناتن دھرم (دین قیم)ہے۔ محمد ﷺ صرف مسلمانوں کے مارگ درشک (رہبر)نہیں ہیں، بلکہ ہر ہندو کے بھی مارگ درشک ہیں اس بات کا پروف (تصدیق)وید اور کئی پُران کرتے ہیں، اگر میری بات جھوٹ لگ رہی ہو تو ڈاکٹر ایم، اے، شری واستو کی کتاب ’’محمد ﷺ اور بھارتیہ دھرم گرنتھ) پڑھ سکتے ہیں، اس کتاب کے مطالعہ سے سچائی خود بخود ہر ہندو کے سامنے آ جائے گی۔

ایک بات بتانا ضروری ہے کہ مجھے اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے زیادہ مسلمانوں سے تکلیف پہنچی ہے، میں سوچتا ہوں کہ محمد ﷺ کے زمانہ میں اسلام قبول کرنے والوں کو غیروں سے تکلیف پہنچی تھی، لیکن آج مسلمانوں سے تکلیف ہو رہی ہے۔خیر مجھے صبر اس بات سے ہے کہ جن مسلمانوں سے تکلیف ہوئی ہے انہیں اسلام کے بارے میں علم نہیں ہے، قرآن میں کیا لکھا گیا ہے، نبی ﷺ نے کیا کہا ہے ؟یہ بھی انہیں علم نہیں ہے،  اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ایسے مسلمان بہت کم ملے ہیں، زیادہ تر سچے ہی ملتے ہیں، انہیں مجھ سے مل کر بہت خوشی بھی ہوتی ہے۔میری ہر مسلمان سے گزارش ہے کہ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں قرآن کو ترجمہ و تشریح کے ساتھ سمجھ کر پڑھیں اور نبی ﷺ کی حدیثوں پر بھی غور کریں کہ انہوں نے کیا آدیش (حکم )دیا ہے، کس کو مسلمان کہا ہے اور کس کو منافق یا کافر کہا ہے، اس بات کو سمجھیں کہ غیر مسلم اور نومسلم کے ساتھ اچھا ویوہار کریں (اچھے اخلاق سے پیش آئیں )نومسلم کی مدد کریں، اسے اپنا دینی بھائی سمجھیں، اللہ کے دین کو لوگوں تک پہنچائیں۔

جو مسلمان دین سے غافل ہیں اسے جماعت میں جانا چاہئے تا کہ اسے معلوم ہو جائے کہ اسلام اور مسلمان کسے کہتے ہیں، اگر آج مسلمان اسلام سے منہ پھیریں گے یعنی اللہ کے دین کا کام نہیں کریں گے، تو اللہ قرآن میں فرماتا ہے :

’’وَاِنْ تَتَوَلَّوْایَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْآ اَمْثَالَکُمْ‘‘

ترجمہ :  اگر تم منہ پھرو گے اسلام سے تو اللہ تمہاری جگہ تمہارے سوا غیروں کو کھڑا کرے گا اور وہ تمہاری طرح نہیں ہو گے۔(سورۃ محمد:آیت :۳۸)

اور کئی جگہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تم دین کا کام نہیں کرو گے تو اللہ غیروں سے کام لے گا،اللہ مجھ جیسے گنہگار کو بھی اپنے دین کا کام کرنے کے لئے کھڑا کر سکتا ہے۔ ہندو ماہنامہ سرو شانتی کے ہر پاٹھک(قاری)سے میری گزارش ہے کہ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ مجھے دنیا میں جب تک رکھے اپنے دین کا کام لے اور ایمان پر موت دے۔(آمین )

مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ میں اسی مہینے میں رِہا ہو جاؤں گا۔پھر بھی میری رہائی کے لئے آپ بھی اللہ سے دعا کریں، اللہ فرماتا ہے کہ بلا شبہ جو لوگ ایمان لائے اور جو لوگ یہودی ہوئے، اور عیسائی اور صائبین یعنی کوئی بھی شخص ہو کسی بھی قوم یا مذہب کا ہو،جو خدا اور رسول اور قیامت کے دن پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا،  ایسے لوگوں کو ان کے عمل کا بدلہ خدا کے یہاں ملے گا اور قیامت کے دن ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے اللہ تعالیٰ (صراط مستقیم) پر چلنے کی توفیق دے آمین۔

اللہ حافظ

پون کمار کیوٹ عرف محمد عمر

اورنگ آباد سینٹرل پریزن ہرسول جیل

(بہ شکریہ سروشانتی ہندی نئی دہلی)

ماخوذ از ماہنامہ ’’ارمغان‘‘ مئی  ۲۰۱۱ء

٭٭

 

 

 

اللہ  کی شانِ ہادی کا ظہور بغیر کسی سبب کے ہدایت

جناب ہارون صاحب سے ایک ملاقات

 

احمد اوّاہ :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

ہارون صاحب :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

سوال :آپ کو اسلام قبول کئے ہوئے کتنے روز ہوئے ؟

جوا ب :مجھے آج ہوئے ہیں،  میں نے اپنے خاندان کے ساتھ اوکھلا جا کر کلمہ پڑھا۔

سوال  :  آپ کے صاحب زادے ڈاکٹر انس صاحب آپ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے ؟

جواب :  جی ہاں !ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہے یہ کہ میں نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ یعنی اہلیہ، بیٹے اور دونوں بیٹیوں کے ساتھ اسلام قبول کیا، ورنہ ایک آدمی کے مسلمان ہونے کے بعد خاندان میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑی مخالفت ہوتی ہے۔میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جنہیں گھر بار خاندان سب کو چھوڑنا پڑا اور جن لوگوں کے کچھ گھر والے اسلام میں آئے، ان کو بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔

سوال  :  حیرت ہے کہ تیرہ روز میں آپ دونوں کے اتنی بڑی داڑھی !آپ دونوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے تیرہ سال پرانے مسلمان ہیں ؟

جواب :  اصل میں چند روز پہلے ہم نے شیونگ بند کر دی تھی،اب بس خط بنوایا ہے ہم لوگوں نے ارادہ تو دس سال پہلے اسلام قبول کر نے کا کر لیا تھا۔

سوال  :  ابی بتا رہے تھے کہ آپ نے کسی مسلم محلہ میں مکان لیا ہے ؟

جواب :  جی ہاں ہم لوگ وجے نگر میں رہتے تھے۔ میں نے گھر والوں سے مشورہ کیا،سب لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے تو پھر یہ خیال ہوا کہ ہندو محلّہ میں اسلام قبول کر کے اسلامی زندگی گذارنا مشکل ہو گا،اس لئے ہم لوگوں نے موری گیٹ میں مکان خریدا۔

سوال  :  موری گیٹ میں مکان اچھا مل گیا ؟

جواب :  الحمد للہ بہت اچھا مکان مل گیا ہے۔ اصل میں اس مکان کی سب سے بڑی اچھائی یہ ہے کہ مسجد کی دیوار سے لگا ہوا ہے۔ایک مکان ہمیں اور مل رہا تھا، ہمارے سبھی جاننے والے جو اکثر مسلمان ہی تھے ان کی رائے تھی کہ یہ مکان دو سو گز میں ہے اور پانچ لاکھ روپئے سستا مل رہا ہے، وہ لے لیں، مگر بیٹے انس نے بھی رائے دی اور میرے دل میں بھی بات آئی کہ یہ مکان ڈیڑھ سو گز میں ضرور ہے پچاس گز زمین کم ہے اور پانچ لاکھ روپئے قیمت بھی زیادہ ہے مگر اللہ کے گھر کی دیوار سے دیوار ملی ہوئی ہے نہ چاہتے ہوئے بھی مسجد میں جماعت کی نماز مل جایا کرے گی، اس لئے مسجد کے قریب کا مکان خریدا  اور تیرہ روز کا تجربہ بالکل صحیح نکلا کہ اللہ نے اپنے فضل سے بہت ہی اچھی بات ذہن میں ڈالی۔تیرہ روز میں میری تو اللہ کا شکر ہے ایک بھی جماعت نہیں نکلی۔ ساری نمازیں جماعت سے ہو رہی ہیں اور جب موقع ہوتا ہے امام صاحب کے پاس چلا جاتا ہوں، ایسا لگتا ہے کسی مدرسہ میں داخلہ لے کر مستقل رہ رہا ہوں۔ الحمد للہ

سوال  :  آپ کو اسلام قبول کرنے کے لئے کس چیز نے آمادہ کیا، ذرا تفصیل سے بتایئے؟

جواب :  اصل میں ہمیں اسلام قبول کرنے کے لئے اللہ کے فضل اور ہمارے ارادہ نے آمادہ کیا اس کے علاوہ اور بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے، یا زیادہ سے زیادہ جیسا حضرت فرما رہے تھے کہ ہر کچے پکے گھر میں اسلام داخل ہونے کی ہمارے نبی ﷺ کی سچی خبر سچ ہو رہی ہے اس لئے اللہ کی طرف سے ہدایت اتار دی گئی ہے۔

سوال  :  پھر بھی ظاہری طور پر آپ کو کسی نے تو دعوت دی ہو گی؟

جواب :  دعوت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسلام قبول کرنے سے پہلے ہمیں کچھ مسلمانوں نے اس سے باز رہنے کا مشورہ بڑی ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ دیا تھا۔

سوال  :  ذرا تفصیل سے بتائیں ؟

جواب :  اصل میں کچھ تفصیل بھی نہیں ہے جو سنائی جائے۔ سات سال پہلے ایک روز میں صبح کو سو کر اٹھا تو جنم اشٹمی کا تہوار تھا، میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے مسلمان ہو جانا چاہیئے اصل میں دھرم تو سچا اسلام ہی ہے اور یہ تقاضا بڑھتا گیا اور اس روز میں نے پوجا نہیں کی، بلکہ تہوار بھی نہیں منایا،میری بیوی نے جو خود ایک پنڈت کی بیٹی ہے اور ان کے والد کنڈی وغیرہ بھی بناتے ہیں اور ہون وغیرہ بھی کرتے ہیں، نے مجھ سے معلوم کیا کہ آپ نے جنم اشٹمی نہیں منائی، میں نے کہا ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام اپنانے کا ارادہ کر لیا ہے اور یہ میرے دل میں اندر سے کوئی شکتی (طاقت) بات ڈال رہی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ میرے مالک کی طرف سے میرے لئے مارگ درشن (رہنمائی )ہے، میرے بیوی بجائے ناراض ہونے کے بولی آپ کا خیال سچا ہے۔ مجھے بھی دو تین مہینے سے اندر سے کوئی کہہ رہا ہے، مگر میں نے آپ کے ڈر کی وجہ سے نہیں کہا کہ آپ یہ نہ سمجھے کہ یہ پاگل تو نہیں ہو گئی ہے۔ میں نے ایک روز اپنے لڑکے سے جو سارے بچوں میں سب سے بڑا ہے اس وقت بی ایس سی کر رہا تھا، اس سے اس کا ذکر کیا، اس نے بھی خوشی سے ہمارے ساتھ رہنے کو کہا،وجے نگر کے جس علاقے میں ہم رہتے ہیں، وہاں تین مندر ہیں اور شیو سینا کا دفتر ہے، مجھے خیال ہوا کہ یہاں رہ کر ہمارے لئے اسلامی زندگی گذارنا مشکل ہے، اس لئے ہمیں یہاں کا مکان بیچ کر کسی مسلم علاقے میں مکان کا انتظام کرنا چاہئے بیوی سے مشورہ کیا اس نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا، چند پراپٹی ڈیلرس سے بات کی، لا اور لے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ لوگ بہت کم قیمت لگاتے رہے، بڑی مشکل سے پینتیس لاکھ روپئے میں ایک صاحب سے سودا ہو گیا،دو لاکھ روپئے بیعانہ میں لے لئے ہم نے ایک مکان مصطفی آباد میں تلاش کر کے دو لاکھ روپئے دے دیئے۔ چھ مہینہ میں بیع نامہ کا وعدہ تھا۔ مگر ایک سال تک خرید نے والے نے پیسے نہیں دیئے اور بعد میں اپنے دو لاکھ روپئے واپس دینے کا مطالبہ کیا۔ بڑی مشکل سے کسی جاننے والے سے قرض لے کر ان کے دو لاکھ روپئے واپس کئے، کئی سال تک کوشش کے باوجود مکان نہ بک سکا، میری بیوی نے کہا ایسا کریں۔ اس مکان کے پیسوں میں دان کی نیت کر لیں، جتنے کا مکان بکے گا اس کا چالیسواں حصہ مسجد میں دان کریں گے، میں نے نیت کر لی میرے اللہ کا کرم ہے کہ مکان اٹھاون لاکھ روپئے کا بک گیا اور دو مہینے میں بیع نامہ بھی ہو گیا میں اللہ سے کئے ہوئے وعدہ کے مطابق ڈیڑھ لاکھ روپئے لے کر پہلے ناگلوئی مسجد میں گیا اور میں نے وہ پیسے دینے چاہے مگر ان لوگوں نے یہ کہہ کر واپس کر دیئے کہ تم تو کافر ہو ناپاک ہو، تمہارا مال مسجد میں نہیں لگ سکتا، مجھے بہت دکھ ہوا، پھر اس کے بعد دو ارکا میں ایک کالونی میں مسجد بن رہی تھی، اس میں بھی گیا انہوں نے بھی وہ پیسے لینے سے انکار کر دیا کہ کسی کافر کا مال اللہ کے گھر میں نہیں لگ سکتا، مجھے کسی نے بتایا کہ جب تک دیوبند سے فتویٰ نہیں آئے گا اس وقت تک مسجد والے یہ پیسے نہیں لے سکتے۔میں ایک مسجد میں جا کر امام صاحب سے درخواست کی کہ مجھے دیوبند سے فتویٰ منگانا ہے، انھوں نے معلوم کیا کس بات کا ؟میں نے ساری بات بتائی، انھوں نے کہا دیوبند کے بجائے فتح پوری مسجد جائیں، میں ان سے فتویٰ لکھوا کر فتح پوری مسجد کے شاہی امام کے پاس گیا انھوں نے فتویٰ دے دیا کہ لگ سکتا ہے۔ میں فتویٰ لے کر ناگلوئی گیا، وہاں کے لوگوں نے کہا یہ فتویٰ ہمارے یہاں نہیں چلتا میں نے پھر دیوبند کا سفر کیا دیوبند سے بھی فتویٰ آ گیا کہ لگ سکتا ہے،اتفاق سے میرے ایک جاننے والے نے بتایا کہ ہریانہ میں ایک غریب علاقہ میں مسجد بن رہی ہے، وہاں پیسے کی بڑی ضرورت ہے،میں وہاں گیا اور اس رقم کا سامان چھت کے لئے سلیہ، سیمنٹ اور بجری وغیرہ دلوا آیا۔ ہمارے ایک جاننے والے حاجی صاحب موری گیٹ میں رہتے ہیں، میں نے ان سے بتایا کہ میں مصطفی آباد میں مکان لے رہا ہوں،  انھوں نے موری گیٹ میں دو مکان بتائے اور مشورہ دیا کہ تمہارا کاروبار صدر میں ہے،اس لئے تمھارے لئے موری گیٹ زیادہ بہتر رہے گا،گھر والوں کا مشورہ بھی یہی ہوا اور پھر وہ مسجد کے قریب والا مکان خرید لیا گیا۔

سوال  :  آپ یہ فرما رہے تھے کہ کئی مسلمانوں نے آپ کو اسلام قبول کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا وہ کس نے دیا ؟

جواب :  یہ پیسے لے کر جب میں ناگلوئی گیا تو مسجد کے صدر صاحب نے بڑی محبت سے مجھے سمجھایا کہ جس سماج میں آدمی پیدا ہوتا ہے وہ سماج اس کے لئے ٹھیک ہوتا ہے۔ سماج سے ٹکرانا اور اپنے سارے خاندان پر یوار کو چھوڑنا بڑا مشکل کا م ہے، آپ کو جلد بازی میں فیصلہ نہیں لینا چاہئے۔ اس کے بعد ایک اور ماسٹر صاحب تھے جو دوارکا میں ملے انھوں نے بھی کہا کہ مسلم سماج ویسے بھی بدنام ہے،آپ اپنے سماج میں چین سے رہ رہے ہیں اپنی زندگی کو نرک نہ بنایئے۔

سوال  :  یہ ماسٹر صاحب بھی مسلمان تھے؟

جواب :  جی یہ ماسٹر صاحب بھی مسلمان تھے اور انھوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد کا ایسا ڈراؤنا نقشہ کھینچا اور کچھ لوگوں کے نام بھی لئے جن لوگوں نے اسلام کو اپنایا تو سماج سے ان کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا اور مسلمانوں نے بھی ان کو کتنا دھوکہ دیا۔

سوال  :  آپ نے ان لوگوں کے کہنے سے اپنے فیصلے کے بارے میں کچھ نہیں سوچا؟

جواب :  میں نے گھر والوں سے ذکر کیا تو میرے بچوں نے بڑا حوصلہ بڑھایا اور کہا ہم لوگ پورے پریوار کے ساتھ مسلمان ہو رہے ہیں وہ تو اکیلے ہونے کی وجہ سے مشکل میں پڑے۔

اسلام سے روکنے کا ایک اور واقعہ یہ ہوا کہ میں جب یہ پیسے لے کر ناگلوئی مسجد میں دینے کے لئے گیا تو ایک صاحب نے یہ کہا کہ قرآن میں کافر کا مال مسجد میں لگانے کو منع کیا گیا ہے، میں نے سوچا دیکھوں قرآن میں کیا منع کیا گیا ہے۔ میں نے کئی لوگوں سے ہندی کا قرآن مانگا، مگر ہر ایک نے منع کر دیا ایک ملا جی نے تو بہت برے لہجے میں یہ کہا کہ کافر نجس کو قرآن کیسے دیا جا سکتا ہے، کافر تو کتے سے بھی ناپاک ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ بازار سے جا کر قرآن مجید لے آؤں، میں اردو بازار گیا اور میں نے قرآن مجید خریدا،پیسے دے کر قرآن پیک کرنے کہہ رہا تھا، ایک لڑکا کتب خانہ پر تھا۔ جیسے میں نے پیسے دیئے اس کے باپ جو بہت بوڑھے لمبی داڑھی والے تھے آ گئے۔انھوں نے میرے ہاتھوں میں قرآن دیکھ کر غصے سے چھین لیا،تم مسلمان نہیں ہو تم کافر ہو تم ناپاک ہو، مجھ سے قرآن جھین لیا اور پیسے واپس دے دئے اور اپنے بیٹے کو گالیاں دیں، میں نے کہا کہ میرا ارادہ مسلمان ہونے کا ہے۔مگر کسی کام کا انتظار ہے۔ وہ بولے بس بس تم ہندو ہی رہو،اسلام کو تمھاری ضرورت نہیں۔ میرا دل بہت ٹوٹا، مگر گھر آیا تو گھر والوں نے ہماری ہمت بندھائی اور میری بیوی نے کہا کہ ہمارا مالک جب ہمیں مسلمان بنانا چاہ رہا ہے تو یہ مسلمان ہر گز نہیں روک سکتے۔

سوال  :  جی تو پھر آگے بتائے کہ آپ مسلمان کس طرح ہوئے؟

جواب :  میں نے روہتک کے جس گاؤں میں مسجد کے لئے سامان دلوایا تھا وہاں کے امام صاحب سے میں نے بتایا تو انھوں نے بتایا کہ آپ اس کام کے لئے مولانا کلیم صاحب سے ملیں۔ میں نے پتہ پوچھا تو انھوں نے پھلت کا پتہ بتایا اور بتایا کہ وہ دہلی میں رہتے ہیں۔ ان کا دفتر بٹلہ ہاؤس اوکھلا مسجد کے پاس ہے۔ آپ وہاں بھی جا سکتے ہیں،  میں نے دہلی آ کر حاجی صغیر صاحب سے موری گیٹ آ کر بتایا، ان کے ساتھ ہم اوکھلا گئے۔اتفاق سے دفتر بند تھا۔ جو مولانا صاحب وہاں رہتے ہیں وہ اپنے گھرنا نوتہ سہارن پور گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک بیمار سا آدمی ملا۔ اس نے خلیل اللہ مسجد جانے کا مشورہ دیا۔ ہم لوگ وہاں پہنچے مولانا صاحب اڑیسہ کے سفر پر گئے ہوئے تھے۔ گھر سے فون نمبر لے کر حاجی صاحب نے بات کی حضرت سے بات ہو گئی۔ اللہ کا شکر ہے فون نمبر مل گیا،سنا ہے کہ ان کا نمبر بہت کم ملتا ہے۔ حضرت صاحب نے حاجی صاحب سے کہا آپ ان کو کلمہ پڑھوا دیں، موت زندگی کا کچھ پتہ نہیں اور کلمہ پڑھوانے میں بلا وجہ دیر کرنا کفر ہے۔ اس کے بعد مجھ سے بھی ملوا دینا، میں دوبارہ کلمہ پڑھوا دوں گا،مگر میرے دل میں یہ بات تھی کہ مجھے حضرت صاحب سے ہی مسلمان ہونا ہے۔اتنے لوگوں کو چھوڑ کر جن صاحب نے ہمارے پیسے مسجد میں قبول کئے، ان کا مشورہ غلط نہیں ہو سکتا۔اڑیسہ سے واپسی پر ۳۰  مئی کو شام میں، میں اپنے بچوں کو لے کر خلیل اللہ مسجد پہنچا، ہمارے ساتھ حاجی صغیر صاحب اور دو لوگ اور ہمارے وجے نگر کے پڑوسی ونود  گوئل صاحب ساتھ تھے۔ حضرت صاحب نے ہم سبھی کو کلمہ پڑھوایا ہم لوگوں نے اپنے نام پہلے سے طے کر رکھے تھے۔ میں نے اپنے لئے محمد ہارون، میرے بیٹے نے محمد انس، اہلیہ نے زینب، بیٹیوں نے فاطمہ اور آمنہ اپنی پسند سے رکھے۔ ونود  گوئل کا نام مسعود احمد رکھا گیا۔

سوال  :  گوئل صاحب آپ کے ساتھ کس طرح آئے؟

جواب :  اصل میں جب ہم مکان فروخت کر رہے تھے تو انھوں نے وجہ معلوم کی۔ میں نے صاف صاف بتا دیا کہ ہمارے پورے پریوار کا ارادہ مسلمان بننے کا ہے۔ اس لئے ہم کسی مسلم محلہ میں رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ جب آپ مسلمان ہونے جائیں گے تو مجھے بھی بتانا۔ میں نے چلنے سے پہلے ان کو فون کیا، بولے میں ابھی آتا ہوں، بس میں بھی آپ کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتا ہوں، بٹلہ ہاؤس اسٹاپ پر ملنا طے ہو گیا۔

سوال  :  بس یہ بات ہوئی، ایسے ہی خواہ مخواہ  وہ مسلمان ہو گئے؟

جواب :  واقعی احمد بھائی وہ بالکل خواہ مخواہ مسلمان ہوئے اور وہ ہم سے بھی پکے مسلمان ہوئے، تیرہ روز میں اسلام کے لئے انھوں نے اتنی قربانیاں دہے کہ خاندانی مسلمان پچاس سال میں نہیں دے سکتے۔ احمد بھائی آپ ان سے مل کر ان کے حالات کو ضرور چھپوائیں، وہ چھپوانے کے لائق تھے۔

سوال  :  اس کے بعد کیا ہوا؟

جواب :  اسلام کے بعد حضرت نے مجھ سے معلوم کیا آپ نے ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ پڑھی ہے ؟ میں نے کہا نہیں، حضرت صاحب نے معلوم کیا کوئی اور کتاب اسلام کے بارے میں پڑھی ہے ؟میں نے کہا : کوئی نہیں، حضرت آدھا گھنٹے جرح کرتے رہے کہ آپ نے مسجد میں جماعت ہوتے دیکھی، یا کسی کو دفن ہوتے دیکھا،یا اسلام کی کوئی چیز پسند کی، کسی مسلمان سے تعلقات ہو گئے۔داڑھی ٹوپی والے آپ کو اچھے لگتے ہیں ؟میں نے کہا کوئی بات نہیں، حضرت صاحب بہت ہی حیرت میں کہنے لگے، اللہ کی شان ہے کہ اب تک جو لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے آتے تھے کوئی وجہ اسلام قبول کرنے کی ہوتی تھی، چاہے وہ اسلام مخالف پروپیگنڈہ ہو یا دوسری وجوہات ہوں، یہ پہلا واقعہ ہے کہ بغیر وجہ کے ہدایت۔ وہ اللہ جو حضرت آدم کو بغیر ماں باپ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کرنے والے ہیں، وہ دکھا رہے ہیں کہ ہم بغیر سبب کے بھی ہدایت دے سکتے ہیں اور احمد بھائی واقعی ہمیں اللہ تعالیٰ نے بغیر سبب کے اپنی قدرت اور فضل سے ہدایت سے نوازا۔

سوال  :  آپ کے بیٹے کیا کر رہے ہیں ؟

جواب :  انس نے فزیکس میں پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔ ابھی وایوا ہونا باقی ہے۔ بڑی بیٹی فاطمہ بی ٹیک مکمل کر رہی ہے۔چھوٹی بیٹی نے پلس ٹو(بارہویں کلاس )کیا ہے۔

سوال  :  آپ دونوں تو امام صاحب کے پاس جاتے ہیں گھر کی عورتیں کیا کر رہی ہیں ؟

جواب :  اللہ کا شکر ہے حاجی صاحب کے گھر میں پڑھی لکھی بہو بیٹیاں ہیں، میری بیوی ان سے اسلام سیکھ رہی ہے۔ بیٹیوں نے برقعے اوڑھ لئے ہیں اور بہت خوشی سے پردے میں رہتی ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ نماز پابندی سے پڑھ رہی ہیں۔

سوال  :  کاغذات وغیرہ بنوا لئے ہیں ؟

جواب :  ہاں حافظ ابرار صاحب جو حضرت کے ساتھ دہلی میں رہتے ہیں وہ ہمیں سرفراز ایڈوکیٹ صاحب کے پاس لے گئے تھے، انھوں نے بیان حلفی بنوائے اور سند اور سب چیزوں  میں نام بدلوانے کا کام شروع کروا دیا ہے۔ ہمارے پاس چھ لاکھ روپئے بچے ہوئے ہیں۔ اس سال ہمارا حج کو جانے کا ارادہ ہو رہا ہے۔ حضرت صاحب سے میں نے فون پر بات کی حضرت صاحب نے بہت خوشی کا اظہار کیا، ہم پانچوں فیملی ممبر اللہ کا شکر ہے اپنے اسلام پر روزانہ دو نفل شکر انہ کی پڑھتے ہیں، میرا اور بیٹے کا ارادہ انشاء اللہ جماعت میں جانے کا بھی ہے۔

سوال  :  ماشاء اللہ واقعی آپ کا اسلام اللہ کے فضل کی خاص نشانی ہے، آپ مسلمانوں کے لئے کوئی پیغام دیں گے؟

جواب :  جب ہدایت اس طرح اتری ہوئی ہو تو ہمیں اللہ کے بندوں کی ہدایت کا ذریعہ بننے کے لئے اپنی بساط بھر کوشش کرنا چاہئے۔ کم از کم میرے جیسے اللہ کے فضل سے ہدایت کی طرف آنے والوں کی حوصلہ شکنی کر کے ان کے لئے رکاوٹ تو نہ بننا چاہئے۔

سوال  :  واقعی آپ نے بالکل ٹھیک کہا، بہت بہت شکریہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب :  آپ کا بھی شکریہ، و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

ماخوذ از ماہنامہ ’’ارمغان‘‘ جون  ۲۰۱۱ء

٭٭

 

 

 

 

سسرال والوں کے ظلم و ستم کے باوجود اسلام پر ثابت قدمی

محترمہ زینب انجم {ریکھا لہاسے} سے ایک ملاقات

 

 

عبدالباری قریشی :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

زینب انجم :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

سوال  :  پھلت ضلع مظفرنگر یوپی سے دینی رسالہ ارمغان ہر ماہ نکلتا ہے اور اس میں نو مسلموں کے انٹر ویو شائع ہوتے ہیں۔ ہماری دلی تمنا ہے کہ اس میں آپ کا انٹرویو بھی شائع ہو جائے ؟

جواب :  ہاں ہاں کیوں نہیں ؟

سوال  :  آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے؟

جواب :  میرا نام ریکھا تھا۔ میرے والد مدھوکر لہاسے اور والدہ کا نام سیتا لہاسے ہے اور    میرے والد بودھ مذہب کے ماننے والے ہیں۔ میرے والد کاغذ فیکٹری، نیپا نگر ضلع کھنڈوہ ایم پی میں ملازم تھے، میرے والد کے چار بھائی اور آٹھ بہنیں ہیں۔ چاروں چچا ملازم ہیں، اللہ کے فضل سے پڑھا لکھا خاندان ہے۔ میرا نام ریکھا میرے دادا نے رکھا ہے۔ مجھ سے بڑی تین بہنیں ہیں اور ایک بہن چھوٹی ہے۔ اللہ کے کرم سے ایک بھائی ہے جس کی پیدائش عید کے دن ظہر کے وقت ہوئی۔ میرا رجحان شروع سے اللہ کے ولیوں کی طرف رہا ہے۔ جو بھی مانگتی تھی پہلے بابا جنگلی پیر سے ہی مانگتی تھی۔ علم نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر چیز دی، جو چاہتی تھی وہ ملا، میری بہنیں اور میری والدہ سب مجھے آپا کہتے تھے۔

سوال  :  آپ اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتایئے؟

جواب :  قبول اسلام کے بارے میں تو یہی کہنا چاہوں گی کہ میرے اللہ کا مجھ پر بڑا احسان ہوا کہ میں اسلام میں داخل ہوئی، شروع ہی سے میرا رجحان اسلام کی طرف رہا۔ مجھے مانگنے کا علم نہ تھا۔ بس اللہ اللہ کہتی تھی اور جنگلی پیر بابا سے مانگتی تھی۔ مغرب کے نہانے کے بعد دعا کرتی سنا تھا کہ مغرب کے مانگی ہوئی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ بس روز شام میں پڑھائی کرنے کے بعد مغرب کے وقت دعا کرتی اور میری دعا قبول بھی ہوتی۔

میں تقریباً چودہ سال کی تھی۔ آٹھویں کلاس کے رزلٹ کا انتظار تھا۔ میں نے دعا کی اور اللہ کے کرم سے خواب میں مجھے بتایا دیا گیا کہ میں پاس ہو گئی ہوں اور 57.8% نمبرات ملے ہیں۔ صبح گیارہ بجے اسکول جانا رزلٹ ملنے والا ہے۔ صبح اٹھی امی سے کہا تو امی کہنے لگیں، آپا تم نے اللہ سے دعا کی اور اللہ نے قبول کی اور اشارہ کر دیا کہ تم پاس ہونے والی ہو تم نے دل سے دعا کی اللہ تمھاری سنتا ہے۔ اسکول سے رزلٹ لے کر آئی دیکھا کہ خواب میں جو رزلٹ بتایا گیا تھا وہی رزلٹ آیا ہے۔ میرا یقین بڑھ گیا۔ پھر اللہ کے کرم سے میرا رجحان اسلام کی طرف بڑھا، لیکن سب کچھ بابا جنگلی پیر کے نام سے ہی کرتی تھی، کیونکہ دین کا علم نہیں تھا۔ ہمارے آس پاس سب ہندو رہتے تھے، کس سے پوچھتے ؟ میرے والد کے ایک دوست تھے اللہ ان کو جنت نصیب کرے وہ لکھنؤ کے رہنے والے ہیں، ان کا نام یاسین تھا۔ ہمارے گھر ان کا آنا جانا تھا۔ میرے والد کے بہت قریب کے اور بچپن کے دوست تھے۔ پانچوں وقت کی نماز کے پابند تھے وہ جب بھی گھر آتے تو میں ان سے نماز کے بارے میں پوچھتی، وہ ہنستے اور کہتے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور وہ دین کی باتیں سناتے ہم سب ادب کے ساتھ بیٹھ کر وہ باتیں سنتے۔ بس ان سے ہی تھوڑا سا دین سیکھا۔ رمضان المبارک کا مہینہ آیا، میں نے ان سے روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا کہ کیا ہم سب روزہ رکھ سکتے ہیں ؟ تو انھوں نے کہا کیوں نہیں ؟ بلکہ سب رکھو اللہ آپ سب کو ہدایت دے۔ ہم سب نے روزے رکھنے شروع کر دیئے اور ہر سال پابندی سے روزے رکھتے رہے۔ اللہ کے کرم سے مجھے خواب بہت آتے ہیں۔ ایک بار خواب دیکھا کہ ایک بزرگ مجھ سے کہہ رہے ہیں ہم جو بول رہے ہیں سنو اور دہراؤ انھوں نے عربی میں کچھ کہا، مجھے سمجھ میں نہیں آیا، میں رونے لگی اور کہنے لگی بابا میں بول نہیں پا رہی ہوں،  آپ مجھے کاغذ پر لکھ کر دے دیجئے، میں اسے یاد کر کے سنا دوں گی، وہ کہنے لگے نہیں کاغذ پر لکھ کر دیں گے تو کاغذ جل جائے گا، ایک کام کرو تم قرآن شریف کے بیسویں پارے کی بیسویں آیت دیکھ لینا اور سمجھ لینا، اتنا کہا اور میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے امی کو سنایا تو امی نے کہا شاید اللہ تمہیں نواز رہا ہے۔ لیکن کس سے پوچھیں ؟آس پاس کوئی بھی اللہ کا بندہ نہیں تھا۔ جہاں میں ملازمت کرتی تھی وہیں پر اعجاز نام کا ایک لڑکا ملازمت کرتا تھا۔ اس سے میری اچھی دوستی تھی۔ میں نے اسے یہ خواب سنایا تو اس نے کہا مجھے تو اس کا علم نہیں لیکن میں تمہیں مفتی صاحب کے پاس لے چلتا ہوں مفتی صاحب کو پورا خواب بتایا تو انھوں نے بتایا کہ بیسویں پارے کی بیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس کو چاہے گا عذاب دے گا جس پر چاہے گا رحمت کرے گا۔بس میرے اللہ کا مجھ پر کرم ہوا اور اس نے مجھے اسلام کی دولت سے مالا مال کر دیا۔

سوال  :  آپ کو اس نئے ماحول میں عجیب سا نہیں لگتا ؟

جواب :  اس نئے ماحول میں میرے لئے کچھ بھی عجیب سا نہیں لگتا، کیونکہ اللہ کے کرم سے میری آخرت سنور گئی اور مجھے کیا چاہئے  مجھے نیا پن صرف یہ لگا کہ مجھے اپنے رہن سہن میں تھوڑا سا بدلاؤ کرنا پڑا۔ جیسے کہ پہلے ریکھا لہاسے کہلاتی تھی اب اللہ کے کرم سے زینب انجم ہوں، پہلے ماتھے پر بندی لگاتی تھی اب نہیں لگاتی۔ اللہ کے کرم سے وہی چہرہ بنا بندی لگائے اچھا لگتا ہے۔ چہرہ سے ہی کئی لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ مسلم ہیں یا ہندو،  ہندو مسلم دونوں طرح کی عورتوں نے مجھ سے یہ پوچھا، میں نے کہا آپ کو کیا لگتا ہے ؟تو کہنے لگیں کہ آپ چہرہ سے تو مسلم لگ رہی ہے، اپنی بات چیت سے بھی آپ مسلم لگتی ہیں،  مجھے بدلاؤ اتنا ہی کرنا پڑا کہ نام بدلا اور بندی نہیں لگاتی، میں اپنے اللہ کو پہلے بھی چاہتی تھی اور آج بھی چاہتی ہوں۔

سوال  :  آپ کے والدین کے بغیر یہ شادی کیسی لگی؟

جواب :  میں ملازمت کے سلسلہ میں نیپا نگر سے روزانہ برہان پور آتی تھی، جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ وہیں پر میری ملاقات اعجاز نام کے لڑکے سے ہوئی۔ اعجاز میرے قبول اسلام کا ذریعہ نہیں بنے۔ یہ تو میرے اللہ کا مجھ پر بہت بڑا کرم ہے، آپ نے شادی کے تعلق سے سوال کیا ہے، تو یہ پیش کش اعجاز نے ہی رکھی اور میں تیار ہو گئی جیسا کہ ہر لڑکی کے ارمان ہوتے ہیں ویسے ہی ہر لڑکی کے ماں باپ کے بھی ارمان ہوتے ہیں، میں بی کام پاس ہوں اور جن سے میری شادی ہوئی وہ صرف تیسری پاس ہیں اور کوئی پر ماننٹ ملازمت یا بزنس نہیں۔ میرے والد مجھ سے بہت زیادہ ناراض تھے۔ وہ نہ تو ہمارے برابر تعلیم یافتہ ہیں اور ساتھ ہی شادی شدہ اور دو بچے بھی ہیں۔ اسی وجہ سے میرے والدین بہت زیادہ ناراض تھے۔ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کو تعلیم یافتہ اور تمام قابلیت والا شوہر ملے لیکن یہ تمام خوبیاں ان کے اندر نہیں تھیں۔ میرے اللہ نے میرے مقدر میں انہیں ہی میرا شوہر ہونا لکھا تھا۔ ایک لڑکی کی شادی کرنے کے جو ارمان ہوتے ہیں وہ ارمان بھی میرے پورے نہیں ہوئے، ایک تو میرا پورا خاندان تعلیم یافتہ اور میرے شوہر کا گھرانہ جاہل بے پڑھا لکھا، اور نہ ہی ان کے گھر والوں نے مجھے اپنایا لیکن اللہ کا کرم ہے کہ میرے والدین زیادہ دن ناراض نہیں رہے۔ انھوں نے مجھ کو اور میرے شوہر کو اپنا لیا۔ میں بہت خوش ہوں۔

سوال  :  آپ کی سسرال والوں کا برتاؤ آپ کے ساتھ کیسا رہا ؟

جواب :  جب مجھ سے اعجاز نے شادی کے لئے کہا تو میں نے کہا تمہارے گھر والے راضی ہو جائیں گے ؟تو انھوں نے کہا ہو جائیں گے۔ میں نے سوچ کر ہاں کہا، اعجاز نے اپنے والدین اور خاندان کے دوسرے لوگوں سے بات کی وہ سب راضی ہو گئے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کی والدہ نے کہا تھا کہ تم بڑے گھر کی لڑکی ہو ہمارا چھوٹا سا گھر ہے۔ ہم غریب ہیں۔ کیا تم ہمارے ساتھ رہو گی ؟تو میں نے کہا کیوں نہیں ؟آپ لوگوں کے ساتھ نہیں رہوں گی تو پھر کہاں رہوں گی ؟انھوں نے کہا ٹھیک ہے، تو تم آ جاؤ ہمارا مذہب قبول کر لو، ہم تمہیں اپنا لیں گے دوسرے دن جب میں اپنے گھر نیپا نگر سے برہانپور ملازمت کے لئے آئی تو واپس گھر نہیں گئی۔ ان کے ساتھ ان کے گھر گئی ان کی امی نے کہا یہاں نہیں۔ ادھر کے مکان میں لے جاؤ،ان کے تین مکان ہیں جو گھر خالی تھا۔ ایسی دھول مٹی، گندگی ہمیں وہاں جانے کو کہا۔ رات وہاں رکے، کھانے کو بھی نہیں کہا۔ دو دن بیت گئے سارے ہی لوگ بدل گئے اور کہنے لگے جاؤ ہم کو تم سے کوئی مطلب نہیں۔ کہیں بھی مرو ہم کیوں تم کو اپنائیں۔ کیوں تمھارا نکاح کروائیں ان کے گھر والے ان سے لڑائی جھگڑا کرنے لگے۔ دوسرے دن ہم دونوں مفتی صاحب کے پاس گئے اور کہا ہم دونوں نکاح کرنا چاہتے ہیں ہمارا نکاح کر دو۔ انھوں نے کہا گواہ لاؤ میرے شوہر نے کہا ہمارے ساتھ ہمارے گھر والوں نے ایسا ایسا برتاؤ کیا ہے۔ ہم گناہ نہیں کر نا چاہتے ہیں۔ مہربانی کر کے ہمارا نکاح کروا دو، وہیں پر کچھ لوگ موجود تھے۔ ان کی موجودگی میں میرا نکاح ہوا اور ان کے گھر والے ہم سے الگ الگ ہی رہے اور آج بھی ہم سے الگ ہیں ان کے گھر میں چھوٹے بھائی بہن کی شادی ہوئی ہمیں نہیں بلایا، ان کے گھر والے کہتے ہیں کہ ہمارا ان لوگوں سے کوئی رشتہ نہیں ہمارا بیٹا ہمارے لئے مر چکا ہے۔ سسرال کے لوگوں نے ہمیں مارا، گندی گندی گندی گالیاں دیں، معاملہ پولیس تک پہنچا جیسے تیسے کر کے رفع دفع ہوا، محلہ میں ہی مکان کرایہ سے لے کر رہ رہے تھے جب بھی ان کے گھر والوں سے سامنا ہوتا تو گالیاں بکتے اور لڑائی پر آمادہ رہتے۔ ہم جس مکان میں رہتے تھے۔ اس میں بجلی بھی نہیں تھی۔ پورا ایک سال ایسا ہی گذار دیا۔ میرے والد کے یہاں بجلی تھی پرورش بہت اچھے ماحول میں ہوئی تھی۔ ہمیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ غریبی کیا ہوتی ہے۔ شادی کے بعد سسرال والوں کے اس طرح کے برتاؤ سے ہمیں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نیا نیا ماحول تھا۔ میرے شوہر اکیلا چھوڑ کر کام پر چلے جاتے صبح دس بجے سے شام مغرب تک آتے، میں دروازہ بند کر کے گھر میں ڈر ڈ ر کر رہتی کہ کوئی آ کر مارے گا، گالیاں دے گا میرے سسرال والوں نے ہمارے ساتھ بہت غلط برتاؤ کیا۔ عورتوں کے اجتماع میں جاتی تو وہاں میری ساس آ کر بہت بر ابرا بکتیں گالیاں بکتیں، جب اجتماع میں جانا بند کر دیا سامنے کے مکان میں خالہ جان کے پاس نماز سیکھنے کے لئے گئی تو انھوں نے بھی مجھے برا کہا اور گالیاں بکیں۔

سوال  :  اسلام قبول کرنے کے بعد حالات اور تکالیف تو آتی ہیں جو ان پر استقامت سے جم جاتا ہے، اس کا اسلام مضبوط ہو جاتا ہے، حضرت صحابہ کرام پر بھی حالات اور تکلیفیں آئیں ؟

جواب :  آپ نے صحیح فرمایا، حضراتِ صحابہ کرام کو تکلیف پہنچانے والے کون تھے،  کفار؟لیکن مجھ کو تکلیف پہنچانے والے خاندانی مسلمان ہیں، جنھیں وراثت میں اسلام ملا ہے۔

سوال  :  آپ کے شوہر کا برتاؤ آپ کے ساتھ کیسا ہے ؟

جواب :  اللہ کا کرم ہے کہ میرے میاں نے ہر پل سمجھا اور سمجھایا، وہ ہر حال میں خوش رکھتے ہیں۔ اللہ کا احسان مجھے اتنا چاہنے والا شوہر ملا، میرے شوہر کا ساتھ ہے، تو مجھے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔

سوال  :  اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟

جواب :  اللہ کے کرم سے میری آخرت سدھر گئی، اب میں دعوت کا کام کروں گی تا کہ دوسروں کی آخرت سدھر جائے اللہ تعالیٰ مجھ گناہ گار سے دعوت کا کام لے لے یہی میں دوسروں کے لئے بھی دعا کرتی ہوں۔

سوال  :  موجودہ دور کے مسلمانوں کے لئے کوئی پیغام ؟

جواب :  بس اتنا ہی کہوں گی کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے نو مسلموں کا یہ خاندانی مسلمان بڑھ کر استقبال کریں۔ انھیں گلے لگائیں۔ ان کے اس عمل سے بہت سارے لوگ اسلام قبول کر لیں گے، اس مضمون کو پڑھنے والے حضرات میرے خاندان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انھیں بھی ہدایت دے۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب :  وعلیکم السلام، اللہ حافظ

ماخوذ از ماہنامہ ’’ارمغان‘‘ جولائی  ۲۰۱۱ء

٭٭

 

 

       داعی دعوت میں تاجرانہ ذہن کے ساتھ چلے

جناب شفیق احمد {راج کمار گپتا} سے ایک ملاقات

 

احمد اوّاہ: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

شفیق احمد :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

سوال  :  آپ ابھی امروہہ سے آ رہے ہیں یا منڈاؤلی سے ؟

جواب :  منڈاؤلی (دہلی) سے آیا ہوں۔ اصل میں پچھلے ہفتہ پھلت گیا تھا مگر وہاں ملنے والوں کی بڑی بھیڑ تھی۔ چلتے چلتے حضرت سے ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ آپ تو دہلی میں رہتے ہیں کبھی بھی وہیں مل لیجئے، آج بار بار معذرت کرتے رہے، معاف کیجئے مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ تشریف لائے ہوئے ہیں، رات ۱۲  بجے سفر سے لوٹا تھا،صبح کو کچھ کام کرنا تھا۔میرے ساتھ منڈاؤلی کے ایک صاحب تھے وہ حضرت کی معذرت دیکھ کر کہنے لگے، مولانا تو ایسے معذرت کر رہے ہیں جیسے ہمارا ان پر قرض چاہئے۔پرسوں فون پر بدایوں سے بات ہوئی تھی، الحمد للہ آج ملاقات ہو گئی۔ اصل میں مجھے اپنی دعوتی تربیت کے لئے مشورہ کرنا تھا کہ جس جرأت کے ساتھ حق کی بات کہنی چاہئے اُس طرح سیدھے سیدھے کلمہ پڑھنے کو کہنے کی ہمت نہیں ہوتی میری فکر یہ بھی ہے کہ میری اہلیہ مجھ سے زیادہ اہلیت رکھتی ہیں وہ بلا کی ذہین ہیں، ان کی صلاحیتیں دعوت میں کس طرح لگیں اور ان کا مزاج کس طرح دعوتی بنے۔

سوال  :  تو آپ کی حضرت سے بات ہو گئی ؟

جواب :  الحمد للہ بات ہو گئی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اس سال مہاجر بہنوں کے لئے رمضان بھر کا ایک تربیتی نظام بنا رہے ہیں۔ آپ ان کو یہاں دہلی بھیج دیجئے۔ میں نے اہلیہ سے فون پر بات کی وہ بہت خوش ہیں۔ میرے لئے حضرت نے دعوتی کیمپوں میں شرکت کا مشورہ دیا۔ ابھی اسی ہفتہ کیرانہ میں ایک کیمپ شروع ہو رہا ہے۔ حضرت نے بتایا کہ یہاں کیمپوں میں صرف جھجک دور کرنے اور کلمہ پڑھنے کو کہنے کی جرأت پیدا کی جاتی ہے۔ اصل مقصد ان تربیتی کیمپوں کا صرف یہی ہے۔

سوال  :  آپ دہلی میں کب سے رہ رہے ہیں ؟

جواب :  اس بار مجھے دہلی میں رہتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں، اس سے پہلے دو سال کے قریب پہلے بھی ر ہ چکا ہوں۔

سوال  :  آج کل کیا کاروبار کر رہے ہیں ؟

جواب :  شیئر بازار میں کاروبار کر رہا ہوں۔ تھوڑی سی مشکل اس کاروبار میں حلال و حرام کی آ رہی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کاروبار بدل دوں۔ اس سلسلہ میں بھی حضرت سے مشورہ کروں گا۔ اصل میں احتیاط کے ساتھ تلاش کر کے شیئر خریدتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حلال و جائز کاروبار کرنے والی کمپنی کے شیئر خریدے، اور اچانک معلوم ہوتا ہے کہ وہ کمپنی کوئی ناجائز سود وغیرہ کا کام بھی کرتی ہے۔اصل میں یہ شرم آتی ہے کہ بغیر چاہت کے اللہ تعالیٰ نے ایمان دیا ہے اور عطا کے باوجود اگر اور کچھ نہیں ہو سکتا تو رزق تو حلال چاہئے۔

سوال  :  بے شک یہ تو سب سے اہم بات ہے۔ مولانا بتا رہے تھے کہ رفتہ رفتہ آپ دعوت کا کام بھی کرتے ہیں، اور کئی لوگوں کو اللہ نے آپ کی کوششوں سے ہدایت عطا فرمائی ہے،اب تک کتنی لوگ آپ کی کوششوں سے اللہ کی ہدایت میں داخل ہوئے ہیں ؟

جواب :  میں نے عرض کیا،اسی کمزوری کے دور کرنے کے لئے، اس مرض کے اسپشلسٹ کی تلاش میں یہاں آئے ہیں، دعوت کا حق ادا نہیں ہوتا، موت کا فرشتہ کب آ کر دبوچے، اپنے اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے، اور اپنے محسن نبی ﷺ سے کس طرح ملیں گے بس مجھ گندے کی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہدایت کا جن لوگوں کے لئے فیصلہ کر دیا تھا۔ انہیں اللہ نے میرے ذریعہ ہدایت عطا فرمائی ہے، ان میں ایک تو میری اہلیہ ہیں ایک ان کی بڑی بہن، دو بچے اور شوہر، چار یہ ہوئے میرے ایک چچا، ان کے دو بیٹے میرے دوست یوگیش اور ان کی فیملی کے چار لوگ، میرے ایک استاد جو بچپن سے مجھے ٹیوشن پڑھا تے تھے، پچھلے سال، چار ماہ کے لئے جماعت میں گئے تھے، تو آندھرا میں نو لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا،جن میں سے پانچ نے ہمارے ساتھ چلہ بھی لگایا تھا، بس یہ لوگ ہیں اور ان میں سے میری اہلیہ کو چھوڑ کر سب لوگ خود اسلام یا حق کو تلاش کر رہے تھے۔

سوال  :  آپ نے کتنے روز پہلے اسلام قبول کیا اور وہ کس طرح ؟

جواب :  اصل میں، میرا سلام تو مجھ گندے کو (God Gift ) اللہ کی طرف سے بلا طلب عطیہ کے طور پر ملا ہے، نہ تو مجھے حق کی تلاش تھی نہ مجھے اس کا شعور تھا کہ حق تلاش کرنی چاہئے، کہ مذہب سے زیادہ دل چسپی رکھنے والا انسان نہیں تھا، بلکہ ایک بالکل دنیا میں کھویا ہوا عام انسان تھا، وہ بھی بنیا فیملی سے،جس کے لئے دس پیسے کمانا زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ راج کمار گپتا میرا نام تھا کئی کاروبار میں نے امروہہ میں کئے، مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا ایک کے بعد ایک میں نقصان ہو تا گیا، مجھے خیال ہوا کہ مجھے سعودی عرب چلے جانا چاہئے وہاں پر پہلے نوکری کروں گا، پھر کوئی تجارت دیکھ لوں گا،مجھے کسی نے بتایا کہ وہاں تو صرف مسلمان کو جانے دیا جاتا ہے اس کے لئے میں نے ایک جعلی پاسپورٹ چار سو بیسی کر کے شفیق احمد کے نام سے بنوایا اس کے لئے مرادآباد جا کر ختنہ بھی کروائی۔

سوال  :  ختنہ کرنے والے نے نہیں پوچھا کہ کیوں کرا رہے ہو؟

جواب :  ہاں ! میں نے یہ کہہ کر ختنہ کروائی کہ مجھے ایک بیماری ہے، جس کا علاج ختنہ بتایا گیا ہے۔ چالیس ہزار روپئے لے کر دہلی گیا، ایک دو ـ’’ مین پاور‘‘ کا کام کرنے والے ایجنٹوں سے ملا، بات بنتی دکھائی نہ دی، جو لینا میں ایک دفتر میں بہار کے ایک صاحب بھی اسی کام کے لئے آئے تھے، وہ پہلے عرب جا چکے تھے انھوں نے مشورہ دیا کہ آپ ممبئی چلو، میں کل جا رہا ہوں، وہاں پر آسانی سے کام بن جاتا ہے۔ انھوں نے پانچ ہزار روپئے خود لے کر کام کروانے کا وعدہ کیا، میں ان کے ساتھ ممبئی گیا، ممبئی جہاں وہ رہ رہے تھے، سب مسلمان تھے، میں نماز نہیں پڑھتا تھا تو وہ ٹوکتے، میں اٹھ کر چلا جاتا، دو ایک بار مسجد میں بھی چلا جاتا۔ اور ان کو بچا کر نکل آتا۔ایک روز جب ایک صاحب نے ذرا زور دیا تو میں نے انھیں دھمکا دیا کہ نماز آدمی اپنے لئے پڑھتا ہے آپ کوئی داروغہ ہیں مجھ سے نماز کو اب کہا تو اچھا نہیں ہو گا، وہ بیچارے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے، بہت دیر تک میرا منہ تکتے رہے۔ شاید ایسا سخت جواب کسی مسلمان سے انھوں نے نہ سنا ہو۔ رات کو میں سو یا تو ایک خواب دیکھا کہ ایک مسلم محلہ ہے اور اس کے قریب ایک ہندو محلہ ہے۔ مسلم محلہ سے ایک سانڈ بڑا طاقت ور نکلا اور ہندو محلہ کی طرف آیا، وہاں بہت ساری گائیں ہرا چارا کھا رہی تھیں۔ وہ سب سانڈ کو دیکھ کر رسیاں تڑا کر بھاگ گئیں، ہندو چیخے، مسلمان آ گیا اس کو مارو، سب نے اینٹ پتھر اٹھائے ڈنڈے اٹھائے، مگر جو کوئی مارنا چاہتا وہ اس کی طرف سینگ ہلاتا، لوگ ڈر کر بھاگ جاتے، میں نے بھی پتھر اٹھایا مگر دل میں خیال آیا کہ یہ مسلمان ہے اور تو مسلمانوں میں رہتا ہے، تجھے اسے نہیں مارنا چاہئے،مگر یہ بھی خیال ہوا کہ ہندو یہ کہیں گے کہ ہندو ہو کر مسلمان کو نہیں مار رہا ہے۔ اس کشمکش میں آنکھ کھل گئی، آنکھ کھلی تو عجیب بے چینی تھی،عجیب و غریب خواب دل پر جم سا گیا۔ میں قریب کی ایک مسجد کے امام صاحب سے ملنے گیا اور اپنا خواب بتایا، اور یہ بھی بتایا کہ میں ہندو ہوں مگر سعودی عرب جانے کے لئے مسلم نام سے جعلی پاسپورٹ بنوایا ہے۔یہ مولانا پہلے لدھیانہ میں کام کر چکے تھے۔ حضرت کے تعلق کی وجہ سے دعوتی ذہن رکھتے تھے۔انھوں نے کہا کہ سانڈ اسلام اور حق ہے۔ اور گائے ہندو دیوی دیوتا ہیں، حق کے آتے ہی باطل بھاگ جاتا ہے، قرآن پاک کی ایک آیت تھی پڑھی کہ حق آتا ہے باطل جاتا ہے۔

سوال  :  جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (حق آیا اور باطل زائل ہوا،بلا شبہ باطل تو زائل ہونے کے لئے ہے )

جواب :  جی بالکل یہی تھا۔

سوال  :  اس کے بعد کیا ہوا؟

جواب :  میں نے مولانا سے کہا اگر میں مسلمان ہونا چاہوں تو ہو سکتا ہوں ؟ انھوں نے کہا :کیوں نہیں ہو سکتے؟ اور یہ خواب بتا رہا ہے کہ آپ کے لئے ہدایت کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا :اس کے لئے مجھے کیا کرنا پڑے گا ؟ انھوں نے کہا : آپ کو تو بس کلمہ پڑھنا پڑے گا۔ آپ نے نام تو رکھ لیا اور ختنہ بھی ہو گئی ہے۔ میں نے کہا : کلمہ کہاں پڑھوایا جائے گا اور اس میں کتنے پیسے خرچ ہوں گے ؟ وہ بولے : میں پڑھواؤں گا اور پیسے کیسے ! میں آپ کی دعوت بھی کروں گا۔میں نے کہا : کچھ ہوَن وغیرہ نہیں کرنا پڑے گا ؟وہ بولے : اسلام بالکل سستا مذہب ہے۔ یہاں تو کلمہ بھی فری، نماز بھی فری،نکاح بھی فری۔نہ پوجا میں پر ساد، نہ نکاح میں ہوَن، نہ مرنے میں خرچ۔ میں نے کہا یہ تو بڑا اچھا ہے آپ مجھے کلمہ پڑھوایئے، انھوں نے کلمہ پڑھوایا، میں نے کلمہ پڑھا ہے نہ، میں نے کہا :جی ہاں۔ بولے :بس ہو گئے مسلمان، اب نہانے کا طریقہ سیکھ لو۔پھر مجھے نہانے اور پاک رہنے کے کچھ مسائل بتائے اور بولے: نماز سیکھنے کے لئے کچھ وقت جماعت میں لگا دینا میں نماز کو جانے لگا، میرے ساتھ جو بہار کے ساتھی گئے تھے، ان کی ملازمت کا کام تو ہو گیا مگر میں رہ گیا،  میں نے ممبئی میں ایک حاجی صاحب کے یہاں نوکری کر لی، وہیں سے ۴۰  روز جماعت میں مولانا صاحب کے مشورہ سے چلا گیا۔

سوال  :  گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا ؟

جواب :  رابطہ تھا، میں نے فون پر ان کو بتا دیا، میں مسلمان ہو گیا ہوں، وہ پہلے تو بہت برہم ہوئے لیکن بعد میں انھوں نے ایک مسلمان سے فون کروایا۔ انھوں نے مجھے مسلمان ہونے پر مبارک باد دی، اور مجھے گھر بلایا، وعدہ کیا کہ میں نے گھر والوں سے بات کر لی ہے۔ وہ راضی ہیں، وہ اب کچھ نہیں کہیں گے، میری ذمہ داری ہے، میں گھر لوٹ گیا، وہ مسلمان کون تھے، مجھے ملے بھی نہیں۔ گھر والوں نے مجھے گھر لے جا کر بند کر لیا اور کسی مسلمان سے ملنے پر پابندی کر دی، میں نے نماز پڑھنے کی ضد کی تو میرے ساتھ بہت زیادتی ہوئی، خاندان والوں نے مجھے کئی بار بے تحاشا مار دی،بی جے پی کے کئی ذمہ دار مجھے سمجھاتے کبھی دھمکاتے، ڈیڑھ سال کے بعد میں موقع لگا کر گھر سے فرار ہو گیا، سہس پور بجنور میں مدرسہ میں داخلہ لے لیا،قرآن مجید اور اردو وغیرہ پڑھی گھر والوں کو نہ جانے کیسے وہاں بھی پتہ چل گیا، وہ مجھے وہاں سے بھی لے گئے اس کے بعد میں پھر بھاگ کر دہلی آ گیا، دہلی میں آ کر پہلے میں نے ملازمت کی، پھر چھوٹا موٹا کاروبار پلاسٹک وغیرہ کا کیا، تین سال میں دو بار میں نے چار مہینے جماعت میں لگائے۔ ہمارا گورکھپور میں وقت بہت اچھا لگا۔وہاں الحمد للہ نو لوگوں کو اللہ نے میرے ذریعہ ہدایت دی، اور ان میں سے سات لوگوں نے ہمارے ساتھ چالیس دن بھی باری باری لگائے۔ جماعت سے واپس آیا تو مجھے تنہائی کا احساس بہت بڑھ گیا، نہ جانے نفس بھی بہت سرکشی کرنے لگا، مجھے ڈر ہوا کہ میں کسی بڑے گناہ میں نہ پھنس جاؤں۔ میں نے جماعت کے ذمہ داروں اور تعلق والے مسلمانوں سے شادی کی درخواست کی، مگر دو سال تک کوئی شادی کا نظم نہ ہو سکا، میں بہت پریشان ہوا، شیطان نے مجھ پر داؤں چلایا اور میں واپس اپنے گھر چلا گیا۔ گھر والے بہت خوش ہوئے۔ میں نے شادی کا مطالبہ کیا، تو ساتویں روز میری شادی ایک بہت خوب صورت گریجویٹ لڑکی سے ہو گئی جو اگر چہ ذرا غریب گھر کی تھی مگر بہت ذہین تھی۔ شادی کے کچھ ماہ بعد کاروبار کے لئے دہلی آ گیا، مکان کرایہ پر لے کر اہلیہ کو لے آیا،میں نے بیوی کو دعوت دی،اس نے تین دن کا وقت سوچنے کے لئے مانگا۔تین دن کے بعد اس نے کہا، آپ جس طرح رکھیں میں رہنے تیار ہوں، میں نے اسے کلمہ پڑھوایا، اور اس کا نام مومنہ رکھا،اس کو امید ہو گئی تو وہ ولادت کے بہانہ گھر چلی گئی۔ بچی پیدا ہوئی، تو وہ دہلی آئی وہ پوجا وغیرہ کر تی تھی،میں نے اسے وعدہ یاد دلایا تو وہ مکر گئی اور بولی کہ باپ دادوں کا دھرم چھوڑ کر میں گوشت کھانے لگوں ؟ میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا، تین دن کے بعد میری حالت بگڑ گئی، وہ خوشامد کرتی رہی۔ میں نے کہا اگر تم اسلام میں نہیں آتی ہو تو میں اسی طرح جان دے دوں گا، اس کو میری بگڑتی حالت پر ترس آ گیا وہ تیار ہو گئی۔ میں نے کہا گھر کی ساری مورتیاں اور دیوتاؤں کے کیلنڈر ہٹا کر جمنا میں پھینک کر آؤ تو میں زبان پر کچھ رکھوں گا۔ وہ ساری مورتیاں اور کیلنڈر اتار کر جمنا میں بہا آئی، تو میں نے پانی پیا اور کھانا کھایا، الحمد للہ مستورات کی جماعت میں بھی مشورہ سے وقت لگایا ہے اور اب وہ ایک اچھی مسلمان ہیں اور چاہتی ہیں کہ دعوت کا کام کریں۔ ماشا ء اللہ پکی نمازی تہجد گذار ہیں۔ وہ بلا کی ذہین لڑکی اور بہت سلیقہ کی خاتون ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بہت صابر ہے۔ بہت حالات سے ہم گذرتے رہے کبھی اس اللہ کی بندی کے ماتھے کوئی شکن یا زبان پر کوئی شکایت نہ آئی، نہ کبھی کوئی عورتوں کی طرح فرمائش، میں کبھی پریشان ہو تا ہوں تو مجھے تسلی دیتی ہے کہ ایمان کے بعد اور کسی خزانہ کی کیا ضرورت ہے، دنیا تو مسافر خانہ ہے، کسی طرح بھی گذر جائے گی، بس اللہ تعالیٰ خیریت سے اپنے گھر جنت میں لے جائے، اسے جنت کی بہت سی حدیثیں یاد ہیں، جنت کی آیتیں، جنت کی حدیثیں، جنت کی باتیں، جب وہ جنت کی باتیں کرتی ہے ایسا لگتا ہے کہ جنت کو دیکھ کر آئی ہے، اسے خواب بھی جنت کے دکھائی دیتے ہیں، دوزخ کی باتیں اسے بالکل ناپسند ہیں، کبھی جب دوزخ کا ذکر ہوتا ہے تو کہتی ہمیں اس سے کیا مطلب، یہ تو محروم لوگوں کا ٹھکانہ ہے، ہمارے رب نے تو ہمیں بغیر چاہئے ایمان دیا ہے، وہ کریم بھیک دے کر چھین تو نہیں لے گا۔ یہ تو کریم کی شان سے امید نہیں۔

سوال  :  اب آئندہ کیا ارادہ ہے ؟

جواب :  انشاء اللہ دعوت کا کام سیکھ کر کرنے کا ارادہ ہے، حضرت نے فرمایا ہے کہ آپ خاندانی تاجر ہیں گپتا فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ لوگ تو اپنا ردی مال بھی سونا بتا کر کسٹمر کو بھیڑ دیتے ہیں اور گاہک کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ دعوت تو اصل تجارت ہے، اور مال بھی بالکل کھرا، جینون، اچھی کمپنی کی پرفارمنس ، اچھی گاڑیوں اور مصنوعات پر ویٹنگ چلتی ہے،بس ذرا تاجر سلیقہ کا ہو۔آپ جب دعوت کا کام کریں گے تو قبول کرنے والے ویٹنگ میں لائن لگائے کھڑے ہوں گے۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ یہ بالکل کھوٹا مال ہے۔ یہ ست سنگ، وہ ست سنگ، یہ بابا وہ بابا، ان کے پاس بالکل دھوکہ کا چائنیز مال ہے،  بلکہ چائنا کے مال میں تو کچھ ہوتا بھی ہے۔ شرک میں تو دھوکہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔  قرآن مجید نے کیسی سچی بات کہی ہے : یَا اَیّھَُا ا لنَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْ الَہ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْاذُ بَابًا وَّلَوِ اجْتَمِعُوْا لَہٗ وَاِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّ بَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُo ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ (سورہ حج ۷۳)

اے لوگو! ایک عجیب بات بیان کی جاتی ہے، اسے سنو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جن کی تم لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ ایک مکھی کو پیدا کر نہیں سکتے، گو سب کے سب بھی جمع ہو جائیں، اور اگر ان سے مکھی کچھ چھین لے جائے تو اس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے، ایسا عابد بھی کمزور اور معبود بھی کمزور۔

        مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَائَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِoاِتَّخَذَتْ بَیْتاً وَاِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ oلَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنo(سورۂ عنکبوت :۴۳)

جن لوگوں نے خدا کے سوا اور کارساز تجویز کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے، جس نے ایک گھر بنایا، اور کچھ شک نہیں کہ سب گھروں میں زیادہ بودا مکڑی کا گھر ہوتا ہے، کاش وہ جانتے۔

مکڑی کے جالے کو لوگ دھوکہ دے کر بھیڑ رہے ہیں، اور حق کے متلاشی بے چارے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ اگر اسلام کے داعی حق کی تجارت کریں تو کوئی اور کمپنی بازار میں دکھائی ہی نہیں دے گی۔ یہ دھوکہ کا مال تو اس لئے چل رہا ہے کہ کھرا مال بازار سے غائب کر دیا گیا ہے۔

سوال  :  بالکل صحیح فرمایا آپ نے، ارمغان کے قارئین کو آپ کوئی پیغام دیں گے ؟

جواب :  بس یہ درخواست ہے کہ آپ کھرے مال کا تعارف کرائیں، کھوٹا مال لے کر لوگ دھوکہ کھارے ہیں اور زندگی کا سر مایہ لٹا رہے ہیں۔ بس ذرا سا تعارف کا سلیقہ اور اخلاق ہو، گاہک سے خندہ پیشانی سے پیش آئیں، پھر آپ کے علاوہ بازار میں کسی کی دوکان نہیں چلے گی،شرط یہ ہے کہ مال بازار میں لایا بھی جائے، تالا لگا کر گودام میں جالا لگانے سے مال نکلنے والا نہیں۔ کہ جز دان میں لپیٹ کر جالے لگا رکھے ہیں۔ میرے لئے دعا کریں کہ میں بھی مجرم ہوں، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے زبر دستی گردن پکڑ کر مجھے کفر و شرک کے دلدل سے نکالا۔ میرے کریم رب اس سال کے ماہ مبارک کو میرے لئے دعوتی فتوحات کا مہینہ بنا دیں۔ اور ہمارا خاندان مدینہ کے مثالی خاندانوں کی طرح داعی خاندان بن جائے۔ آمین

سوال  :  ماشاء اللہ آپ داعی تو ہیں، ۱۹۔۲۰  لوگ تو آپ کے ذریعہ ہدایت پا چکے ہیں کہ،یہ خاصی تعداد ہے، ’’ تیری وجہ سے ایک آدمی کو ہدایت مل جائے نجات کے لئے کافی ہے ‘‘ بیس آدمی تو بہت ہیں، اگر پوری زندگی میں بھی کسی کے ذریعہ بیس آدمی ہدایت پا جائیں تو بہت ہیں۔

جواب :  یہ معاملہ بھی عجیب ہے، دین نے ہمیں رہنمائی دی ہے کہ دنیا کے سلسلہ میں جو مل گیا اس پر شکر و قناعت اور دین کے سلسلہ میں اور اور کی فکر، مگر ہمارا حال کیسا حماقت کا ہے کہ دنیا کی بے حقیقت چیز کے لئے اور اور کی ہوس۔ اور دین کے سلسلہ میں قناعت،  فرض کرو آپ کسی بازار میں دوکان کر رہے ہیں یا کسی بازار میں آپ نے سڑک پر اپنا سامان بیچنے کے لئے عارضی تخت یا ریہٹرا وغیرہ لگایا ہے، پوری زندگی میں ایک یا بیس گاہک آ جائیں، چاہے گاہک اتنا بڑا ہو کہ پوری زندگی کا خرچ نفع میں مل جائے تو کیا آپ تجارت چلتی سمجھیں گے ؟اور اگر روزانہ ایک گاہک آ جائے اور وہ خاطر خواہ مال بھی لے لے تو آپ ہر وقت تجارت کے نہ چلنے کا رونا روئیں گے، زندگی میں دس بیس آدمیوں کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے تو آدمی اپنے کو بڑا داعی سمجھتا ہے روزانہ ایک ہدایت یاب ہو جائے تو ساری دنیا میں چرچا ہو جائے گا۔ نبی ﷺ کا امتی ہر ایک داعی، اسلام کا تاجر ہے، ایک روزانہ کے حساب سے بھی ہدایت ملے تو کیا تجارت چلی؟ میرے ذہن میں تو بس دوکان کی بات آتی ہے، میں تو اپنے کو جب داعی سمجھوں گا کہ لائن لگی رہے، اسلام جاننے اور ماننے والوں کی بھیڑ لگی ہو اور لوگوں کو لائن لگانی پڑے۔

سوال  :  ماشاء اللہ بہت اچھی سوچ ہے، واقعی یہ تو بہت سوچنے کی بات ہے، ابی کو بتاؤں گا بہت خوش ہوں گے ؟

جواب :  ابی نے ہی مجھ سے تھوڑی دیر پہلے یہ بات کہی ہے کہ آپ تو لالہ آدمی ہیں،  دعوت کو تجارت سمجھ کر محاسبہ کرنا چاہئے۔

سوال  :  ماشاء اللہ بہت پیاری بات ہے، مجھے بہت فائدہ ہوا۔ جزا کم اللہ تعالیٰ، اللہ آپ کو بڑا تاجر بنائے۔ السلام علیکم

جواب :  و علیکم السلام، اللہ حافظ

ماخوذ از ماہنامہ ’’ارمغان‘‘ اگست  ۲۰۱۱ء

٭٭

 

 

   مذاہب کی معلومات اسلام لانے کا سبب بنی

محمد اسعد پٹیل سے ایک ملاقات

 

 

احمد اوّاہ: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

اسعد پٹیل :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

سوال  :  جناب اسعد صاحب آپ آج کل کہاں رہ رہے ہیں ؟

جواب :  مولانا احمد صاحب چار سال سے احمد نگر میں رہ رہا ہوں۔

سوال  :  اصلاً تو آپ گجرات کے رہنے والے ہیں ؟

جواب :  جی ہاں میں خاندانی طور پر گجرات سے تعلق رکھتا ہوں۔

سوال  :  احمد نگر میں آپ اکیلے رہ رہے ہیں ؟

جواب :  نہیں احمد صاحب ! میرے اللہ میرے ساتھ ہیں اور اپنے مالک محبوب پر ایمان کی راہ میں سب کچھ چھوڑ کر خصوصاً بیوی بچوں بلکہ سب سے زیادہ آخری درجہ میں محبت کرنے والے پھول سے بچوں کو چھوڑ کر ہجرت کر کے ان کی یاد کے زخموں کی لذت میرے لئے جینے کا سہارا اور میری زندگی کی محبوب رفیق ہے۔

سوال  :  آپ نے بیوی بچوں کو چھوڑ دیا ہے ؟

جواب :  چھوڑ نا پڑا،شاید آپ کے علم میں ہو گا کہ میں نے چار سال پہلے اسلام قبول کیا تھا اسلام قبول کر کے میں نے فوراً اعلان کر دیا یعنی اپنی بیوی سسرال اور گھر والوں کو بتا دیا، وہ لوگ بے حد برہم ہو گئے۔ میری بیوی گھر چلی گئی، اس نے میرے خلاف مقدمہ کر دیا۔

سوال  :  اسلام قبول کرنا کوئی جرم تو نہیں پھر یہ تو ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے پھر انھوں نے کیوں مقدمہ کر دیا ؟

جواب :  مقدمہ اسلام قبول کرنے کے لئے نہیں کیا، بلکہ اسلام قبول کرنے کے جرم میں،  جہیز کے لئے ستانے کا جھوٹا مقدمہ کر دیا بڑی رقم پولیس کو رشوت میں دی گئی اور مجھے جیل میں بند کر دیا گیا، گھر والوں نے بھی میری مدد نہیں کی، بلکہ سسرال والوں کا ساتھ دیا۔ چھ مہینہ تک میری ضمانت کرانے والا کوئی نہیں تھا۔ چھ ماہ بعد میرے ایک دوست کو معلوم ہوا  اس نے کوشش کر کے ضمانت کرائی۔

سوال  :  کیا جیل میں لوگوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ آپ مسلمان ہو گئے ہیں ؟

جواب :  جیل میں دو مولانا بھی ہمارے ساتھ تھے، اللہ کا شکر ہے، یہ وقت میرے لئے بڑا مبارک رہا میں نے جیل میں نماز یاد کی، قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔ اردو لکھنا پڑھنا سیکھی، اور الحمد للہ میں نے جیل ہی میں داڑھی بھی رکھ لی، ضمانت ہوئی تو میں باہر آ گیا،  جیل سے باہر آنے کے بعد اسلام مخالف ماحول میں میرے لئے جیل سے زیادہ مشکلیں آئیں اور میرے لئے اسلام کو سیکھنے اور آگے بڑھنے میں بھی رکاوٹ ہوئی، میں سو چتا تھا کہ اس دوست نے میری ضمانت کرا کے اچھا نہیں کیا۔

سوال  :  جیل کے باہر آ کر کس کی طرف سے پریشانیاں آئیں ؟

جواب :  پورے سماج کی، خصوصاً سسرال والوں کی طرف سے میرے برادر اِن لا (برادر نسبتی)کے کئی دوست کرمنل جرائم پیشہ ہیں، جو بہت سے قتل بھی کر چکے ہیں۔ ایک روز مجھے گاڑی میں ڈال کر ندی کے کنارے جنگل میں لے گئے مجھ سے کہا تجھے معلوم ہے کہ ہم یہاں تجھے قتل کر کے تین ٹکڑے کر کے زمین میں دبا نے کے لئے لائے ہیں، تینوں نے ریوالور نکال لی، میرے اللہ نے دل میں ڈالا، مر تو رہا ہوں، اللہ کے بندوں سے اللہ کی بات کرتے ہوئے۔ یعنی دعوت دیتے ہوئے مرنا اچھا ہے، میں نے کہا میں تمھارے قبضہ میں ہوں، جس طرح چاہو سلوک کر سکتے ہو، مگر میری ایک بات ذرا غور سے سن لو مرتے مرتے کہنے والے کی بات تو سبھی سن لیتے ہیں، میں اپنی جان بچانے کے لئے نہیں بلکہ تم لوگوں کی جان بچانے کے لئے بات کرنا چاہتا ہوں، تمہیں معلوم ہے کہ میرے سسرال والے اور میرے گھر والے میرے کیوں دشمن ہوئے ہیں ؟ آپ کا وشواس(یقین) بھی یہ ہی ہو گا کہ اس پوری سرشٹی، برہمانڈ (یعنی کائنات )کا بنانے والا اور چلانے والا صرف ایک اکیلا مالک ہے۔ اس مالک نے اپنی زمین میں رہنے والے بندوں کو زندگی گذارنے کے لئے ایک قانون طے کیا ہے، جس کو ماننا خود بندوں کے لئے ضروری ہے، اس قانون کا نام اسلام ہے۔ اس اکیلے مالک کے علاوہ کسی کا کوئی بس نہیں چلتا۔ شیطان نے انسان کو ذلیل کرنے کے لئے اس مالک کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے دیوی دیوتاؤں، جانوروں کی پوجا کے لئے انسان کو بھٹکایا، جو مورتی نہ بول سکے، نہ سن سکے، وہ ہماری کیا مدد کر سکتی ہے۔ اللہ کی زمین پر میں نے اس اکیلے کو خدا اور بھگوان ماننے کا اعلان اور اقرار کیا ہے۔ آپ میرے بھائی ہو آپ کی میری کوئی ذاتی دشمنی ہے نہ میں نے آپ کو بری نگاہ سے دیکھا، نہ ایک بول آپ سے کہا، بھارت میں رہ کر اگر بھارت سرکار کی اور بھارت کے پرائم منسٹر من موہن سنگھ کی بات کرنا کوئی جرم کی بات ہے ؟بس میرا جرم یہ ہے کہ میں اللہ کی زمین پر اللہ کی خدائی کی بات کرتا ہوں آپ کا بھی خدا صرف وہ اکیلا ہے اور یہ زمین صرف اس اکیلے کی ہے اور یہ ہاتھ جن سے آپ مجھے پر گولی چلائیں گے اس مالک کے بنائے ہوئے ہیں اور آپ کو صرف اس جرم میں میرا مرڈر (قتل) کرنے کے لئے لگایا گیا ہے۔ آپ کو بھی ایک دن مرنا ہے۔ مرنے کے بعد اس اکیلے مالک کے سامنے حساب کے لئے کھڑا ہونا ہے پھر وہاں آپ کو میرے قتل کیس کا سامنا کرنا ہے۔ اگر آپ نے اسلام اور ایمان قبول نہ کیا تو پھر بغاوت کا مقدمہ بھی آپ پر ہو گا۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر اسلام قبول نہیں کیا تھا، مگر میں اب موت کے وقت تم لوگوں سے یہ حقیقت بتا رہا ہوں، کہ جب میں نے در در کی پوجا سے توبہ کر کے اسلام کا کلمہ پڑھا تھا، تو میں نے یہ محسوس کیا کہ کانٹوں کے ایک جال اور بندھن میں میرا دل، میرا دماغ، میری آتما (روح) بندھی ہوئی تھی، اور مجھے کسی نے آزاد کرا دیا، میری نس نس سے سوئیاں اور کانٹوں کا بندھن نکال کر مجھے کسی نے آزاد کھلی ہوا میں چھوڑ دیا۔ آپ کو یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لینا، یہ بات میں اپنی جان بچانے کے لئے نہیں تمھاری جان بچانے کے لئے کہہ رہا ہوں۔ کہ کسی انسان کو اس لئے مار نا کیسا ہے کہ وہ اللہ کی زمین میں اللہ کو اللہ کہتا ہے، بس میری آخری آرزو اور وصیت تم لوگوں سے بہت ہی خیر خواہی کی یہ ہے کہ تم لوگ اگر مجھے گولی مارو تو اور نہ مارو پھر بھی کسی سے منگا کر مولانا کلیم صدیقی کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ ضرور پڑھ لینا، ان میں سے ایک بولا، وہ کتاب کہاں ملتی ہے، میں نے احمد آباد الفضل مدرسہ کا پتہ دیا، کہ وہاں پر مفتی یحیٰی رہتے ہیں، ان سے منگا لینا۔

سوال  :  ایسے خطرناک وقت میں آپ ایسے ہوش میں رہے ؟

جواب :  میرے اللہ کا کرم ہے، جیل میں میرا جانا بڑا کام آیا۔ وہاں فضائل اعمال کی تعلیم ہو رہی تھی، حکایت الصحابہ شروع میں چل رہی تھی، بس اس نے میری زندگی کو بہت مزے دار بنا دیا۔ خصوصاً ایمان کی راہ میں، میں ان مشکلوں کو مشکل سمجھنے کے بجائے اپنی خوش قسمتی سمجھتا تھا اور ظاہری ہر تکلیف اور مصیبت پر دل میں یہ بات آئی کہ چودہ سو سال بعد اس گئے گذرے زمانہ میں میرے اللہ میرے اوپر ان مبارک صحابہ جیسے حالات لائے، تو ان تکلیفوں میں مزا آنے لگتا، اور گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ واقعی اگر میں نے ’’حکایات صحابہ‘‘ نہ پڑھی ہوتی تو شاید میں ہمت ہار دیتا، اور ہو سکتا ہے کہ خدا کرے (جھر جھری لیتے ہوئے ) میں شاید واپس کفر میں جا کر دوزخ کی طرف لوٹ جاتا، میرے مالک کا کرم ہے کہ میرے لئے کیسا اچھا انتظام کیا، سسرال والوں نے جیل بھیج دیا، اور وہاں میرا دل و دماغ ہر حال کو برداشت کرنے کے لئے تیار کر دیا۔

سوال  :  پھر کیا ہوا،آپ کو انھوں نے گولی نہیں ماری؟

جواب :  وہ مجھے ایسے ہی ندی کے کنارے چھوڑ کر جپسی لے کر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئے، مجھے خیال آیا شاید اب قتل کریں گے، انھوں نے مجھے گاڑی میں بیٹھنے کے لئے کہا اور قریب کے قصبے میں مجھے لے گئے اور بولے ہم لوگ تو احمد آباد نہیں آ سکتے، ہم تمہیں چھوڑ رہے ہیں، مگر وعدہ کرو کہ وہ کتا ب جو تم بتا رہے ہو پہنچاؤ گے، میں نے کہا : کہاں پہنچاؤں گا؟ بولے گاندھی نگر اگلے سنڈے کو فلاں چورا ہے پر دس بجے ہمارا ایک ساتھی ملے گا اس کو دے دینا۔

سوال  :  حیرت ہے انھیں یہ خیال نہیں رہا کہ اگر تم نے پولس میں شکایت لگا دی تو ؟

جواب :  اس وقت اصل میں ماحول ہی دوسرا تھا، وہ لوگ اس دنیا کو چھوڑ کر دوسری دنیا میں چلے گئے تھے، وہاں رہنے والوں کی سوچ دوسری ہو جاتی ہے۔

سوال  :  پھر آپ نے کتاب پہنچائی یا نہیں ؟اور آپ واپس کہاں گئے ؟

جواب :  میں احمد آباد جا کر تین روز کی جماعت میں چلا گیا اور میں نے اتوار کے روز ’’آپ کی امانت ‘‘ لے کر گاندھی نگر اس چورا ہے کا رخ کیا، اس جگہ پر ایک چوتھا آدمی ملا مجھے داڑھی میں کتاب لئے دیکھ کر بولا میرے ساتھی گلی میں گاڑی میں ہیں، وہ تمھیں بلا رہے ہیں، میں گیا تو تین وہ لوگ تھے دو اور لوگ تھے، کل ملا کر چھ لوگ تھے، بہت محبت سے ایسے ملے جیسے کوئی بچھڑا رشتہ دار ملتا ہے۔

مجھے خیال ہوا کہ حضرت نے دار القرآن احمد آباد میں تقریر کی تھی کہ دشمنی کو دوستی میں بدلنے کا واحد نسخہ قرآن نے دعوت بتایا ہے۔ میں آج تک سوچتا ہوں یہ وہی لوگ ہیں جو چار روز پہلے مجھے قتل کر نے کے لئے ندی کے کنارے لے گئے تھے، آج یہ مجھ سے گلے مل رہے ہیں۔ اس وقت میں نے باقاعدہ دعوت یا ان لوگوں کی خیر خواہی میں دعوت نہیں دی تھی، بس اس خیال سے بات کی تھی کہ اب مر رہا ہوں تو اللہ کی زمین پر اللہ کی بات کرتے کرتے اور دعوت دیتے دیتے موت آئے، شاید نجات کا ذریعہ بن جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے وقت میں جب سب اپنے دشمن ہو گئے یہ اس طرح مل رہے ہیں جس طرح بچھڑے رشتہ دار ملتے ہیں، گاڑی میں جوس اور کچھ کیلے تھے۔ مجھے کیلے کھلائے اور جوس پلایا، میں نے کتاب ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ اور ’’اسلام کیا ہے ؟‘‘ اور ’’میری نماز ‘‘تین سیٹ لے رکھے تھے، ا ن کو دیئے وہ بولے یہ کتاب تو ہم پڑھ لیں گے وہ بات جو آپ اس روز کہہ رہے تھے، دوبارہ بتاؤ، اور اسلام کی کچھ اور بات بتاؤ ہمارے ساتھی بھی سننا چاہتے ہیں۔ میں نے ان کو پہلے اپنے اسلام قبول کر نے کی کار گذاری سنائی۔

سوال  :  وہ کیا تھی، وہی تو اصل میں آپ کو سنانی ہے، ذرا سنائیں، آپ نے کیا کارگذاری سنائی؟

جواب :  میں نے بتایا کہ میں گجرات کے پٹیل خاندان کا فرد ہوں احمد آباد سے لگتا ہوا ہمارا ضلع ہے۔ میری اسپیر پارٹس کی دوکان ہے۔ خاندانی طور پر بہت سخت ہندو ہمارا پریوار (خاندان )ہے، سیاسی طور پر بی جے پی سے جڑا ہوا ایکٹیو گھرانہ ہے، میرے ایک ماموں گجرات کے سی ایم کے بہت قریبی تعلق والے دو بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں، اور اب بھی ایم ایل اے ہیں۔ میرے اسٹور کے برابر میں ایک مسلمان جاوید صاحب کا میڈیکل اسٹور ہے، خالی وقت میں اسلام اور ہندو مذہب پر ہم دونوں کی بات ہوتی رہتی تھی۔ مجھے اس خیال سے کہ ہر جگہ کچھ باتیں اچھی ہوتی ہیں اور سماج میں رہتے ہیں تو سب کی باتیں اور سب کے دھرم یعنی مذاہب کے بارے میں معلومات ہونی چاہئے، ان سے باتیں بھی کرتا اور کچھ ان سے اسلام پر پڑھنے کے لئے بھی مانگتا، انھوں نے مجھے کچھ کتابیں بتا دیں اور وعدہ کرتے رہے کہ آپ کو قرآن مجید لا کر دوں گا۔

میری خوش قسمتی تھی کہ اچانک ہمارے یہاں دہلی سے ایک جماعت دعوتی ٹریننگ دینے کے لئے آئی، ٹریننگ کے لئے ایک ہفتہ کا کیمپ لگنا تھا۔ اس کیمپ کا اُدگھاٹن (افتتاح) کر نے کے لئے مولانا کلیم صدیقی صاحب جن کی کتاب’’ آپ کی امانت ‘‘ہے وہ آئے ہوئے تھے، صبح جیسے ہی مولانا صاحب اسٹیشن سے آئے جاوید صاحب نے مجھ سے کہا آپ کل اسٹور پر جلدی آ جانا، ایک مولانا صاحب جو اسلام کے بارے میں بہت جانتے ہیں وہ ہمارے یہاں مدرسہ میں آ رہے ہیں، ان سے ملنے چلیں گے، جیسے ہی مولانا صاحب کا رسے اترے، جاوید صاحب نے مجھے آواز دی، پر فل پٹیل صاحب چلئے بعد میں بھیڑ ہو جائے گی۔ شروع میں مل لیتے ہیں۔ وہ مجھے لے کر مدرسہ کے گیسٹ ہاؤس میں لے گئے اور مولانا صاحب سے کہا، یہ پرفل پٹیل صاحب میرے پڑوسی ہیں، اسلام جاننے میں بڑی دل چسپی رکھتے ہیں، آپ ان کو اسلام کے بارے میں بتائیں۔ مدرسہ کا سارا اسٹاف گیسٹ ہاؤس میں تھا، مولانا پہلے تو اپنے ساتھیوں کو جو جماعت پہلے آ گئی تھی، تلاش کرتے رہے،مگر معلوم ہوا وہ بہت دور ٹھہری ہوئی ہے۔ مولانا صاحب نے کہا پھر کسی دوسرے کمرے میں جا کر الگ بات کریں گے، لوگوں نے کہا آپ یہاں رکیں ہم سب یہاں سے چلے جاتے ہیں، تو لوگ چلے گئے۔

مولانا صاحب نے کہا قانون کا جاننا بھی ضروری ہے، مگر جاننے سے زیادہ ماننا ضروری ہے، جس دیش میں آدمی رہے وہاں کے حاکم اور وہاں کے قانون (سنودھان) کو نہ مانے وہ باغی اور غدار ہے۔ اس کو دیش میں رہنے کا، وہاں کی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا حق نہیں ہے۔ باغی اور غدار کی تو بھلائی بھی دیش کے لئے قبول نہیں کی جاتی، یہ پوری کائنات، اس کا مالک اور حاکم ایک اللہ ہے اور اس کا فائنل قانون ایڈیشن قرآن مجید ہے، جو اللہ کو اس کے قانون قرآن کو،اس کے بھیجے ہوئے آخری رسول ﷺ کے بتائے طریقہ کو نہ مانے وہ باغی اور غدار ہے، اسے اللہ کی کائنات میں رہنے کا حق نہیں، اور مرنے کے کے بعد اس کی نجات (مکتی)ناممکن ہے۔ اس لئے میری درخواست ہے کہ سمجھنے اور جاننے کی موت فرصت دے نہ دے، کون سی سانس آخری ہو یہ معلوم نہیں، اس لئے اگلا سانس لینے سے پہلے کلمہ پڑھ کر ایمان لانے اور قانون کو ماننے کا حلف لینا ضروری ہے۔ اسی کو کلمہ کہتے ہیں۔ مولانا نے کہا : دو لائن میں پڑھواتا ہوں آپ سچے دل سے مسلمان ہونے کے لئے پڑھ لیجئے، ،پھر زندگی پڑی ہے جاننے اور سمجھنے کے لئے۔ مولانا صاحب کہتے ہیں کہ مجھے دعوت کی الف با نہیں آتی، میں دیر تک تلاش کرتا رہا کہ کوئی دعوت کی بات کرنے جاننے والا داعی مل جائے، جب کوئی نہیں ملا تو مجبور اً بات کرنی پڑی اور پڑتی ہے،  مولانا صاحب نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور میرا نام مجھے تیار کر کے محمد اسعد پٹیل رکھا، مدرسہ والوں کو بلا لیا، ناشتہ لگایا گیا،ساتھ بٹھا کر ناشتہ کرا یا اور مولانا صاحب نے ’’مجھے آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ دی، اس کے آخری صفحہ میں کچھ صبح و شام یا ہادی یا رحیم وغیرہ پڑھنے کے لئے اور کچھ کتابوں کے نام لکھ کر دیئے، میں نے مولانا صاحب سے کہا وہ کلمہ جو آپ نے مجھے پڑھوایا ہے وہ بھی اس کتاب میں ہے ؟ مولانا صاحب نے کتاب کھول کر دکھائی کہ یہ وہ کلمہ ہے جو آپ نے پڑھا ہے۔

میں نے مولانا صاحب سے کہا، اس کلمہ کو پڑھ کر میرا عجیب حال ہوا،حضرت صاحب مجھے ایسا لگا کہ میری نس نس، دل، دماغ اور آتما(روح ) ایک کانٹوں کے جال اور بندھن میں بندھی ہوئی تھی، کلمہ پڑھ کر ایسا لگا کہ جیسے مجھے کانٹوں بھرے جال سے بالکل آزاد کر دیا ہو، میں بالکل کھلی اور آزاد ہوا میں پہنچ گیا ہوں۔

مولانا احمد صاحب واقعی مجھے احساس ہوتا ہے کہ ساری دنیا کے شرک اور کفر میں پھنسے لوگ کس طرح بندھے ہوئے ہیں۔ کاش ہم ان سب کو آزاد کر سکتے، میں نے ان لوگوں سے بھی کہا کہ میں چھ ماہ سے زیادہ جیل میں رہ کر آیا ہوں جیل سے آزاد ہو کر مجھ پر جو مشکلیں آئیں تو سوچتا ہوں کہ میں جیل میں ہی اچھا تھا، مگر کوئی عمر قید کاٹ کر آنے والا جیل سے جھوٹ کر اپنے آپ کو اتنا آزاد محسوس نہیں کرے گا۔جتنا کفر و شرک کی قید اور جال سے کلمہ پڑھ کر آزاد ہونے والا۔

اپنی کارگذاری بتا کر میں نے ان لوگوں سے اسلام اور اپنے رسول ﷺ کے بارے میں کچھ باتیں کیں۔ انھوں نے میرا نمبر لیا اور کتابیں لے کر چلے گئے، ایک ہفتہ کے بعد میرے پاس ان میں سے ایک صاحب کا فون آیا وہ ملنا چاہتے ہیں۔ وہ ملنے کے لئے آئے،مدینہ مسجد جہاں میں رہتا تھا ملاقات ہوئی،چار لوگ تھے، دو نہیں آئے تھے،الحمد للہ تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد ان لوگوں نے کلمہ پڑھ لیا اور مجھ سے وعدہ کیا کہ ہم تمھارا ساتھ دیں گے۔

سوال  :  مقدمہ قائم ہو گیا تھا تو وہ چلا ہو گا ؟

جواب :  جی !وہ تو چل تا رہا، ایک بعد ایک حملے، میری سسرال والے کر تے رہیں اور میں نے بعض خیر خواہوں کے مشورہ سے احمد نگر ایک مسلم دوست کے ساتھ جا نا مناسب سمجھا،  اسٹور بند کر دیا، ان نئے بھائیوں نے میر ی بہت مدد کی، آخر میں طلاق پر سمجھوتہ ہوا،ہندو لا ء کے مطابق تینوں بچے،  گھر اور دس لاکھ روپئے دینا طے ہو ا

سوال  :  بچے آپ سے زیادہ محبت کرتے ہیں، یا ماں سے ؟

جواب :  بچے اصل میں تینوں مجھ سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں، ماں ذرا سخت نیچر کی ہے، مگر ان کے گھر والوں نے ذرا دھمکا کر انھیں اس پر مجبور کیا کہ وہ عدالت میں ماں کے ساتھ رہنے کی بات کہیں، انھوں نے ایسا ہی کیا، پچھلے سال ۲۶  ستمبر کو فیصلہ کی تاریخ تھی۔حضرت سفر پر آئے تو میں ساتھ تھا۔حضرت نے ہی مجھے کلمہ پڑھوایا تھا،اس کے بعد ملاقات نہیں ہوئی تھی، میں نے سفر میں ساتھ رہنے کی درخواست کی، دو روز تک ساتھ رہا۔

حضرت نے حالات معلوم کئے تو بتایا کہ الحمد للہ سب کو چھوڑ دیا ہے، اگلے ہفتہ فائنل تاریخ  ہے دن تو اب کاروبار کی مشغولی میں گذر جاتا ہے، رات آتی ہے تو گھر کی تنہائی ابتدا میں بہت شاق گذرتی ہے، دوسرے تیسرے روز بچوں کے فون آتے رہتے ہیں، میں نے حضرت سے کہا جب بے برداشت ہو جاتا ہوں تو اپنے اللہ کے سامنے رونے لگتا ہوں،  حضرت میری باتیں سن کر رونے لگے،تو پھر میں نے ذرا رخ موڑا۔ ۲۳  ستمبر کو اتفاق سے ایک پروگرام سے رات کو واپس آ رہے تھے، رات کے بارہ بجے تھے، میری بڑی بچی ارونا کا فون آیا، میں حضرت کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھا تھا، میں لوگوں سے ذرا بچ کر اس کو فون سننے کے لئے بات کر رہا تھا، مجھے خیال نہیں رہا کہ اگلی سیٹ پر حضرت بیٹھے ہیں اور حضرت نے پوری بات سنی، میری بچی بلک بلک کر رو رہی تھی۔ پاپا پرسوں ۲۶ تاریخ ہے تو آپ ہم سے بالکل چھوٹ جائیں گے، میں نے دو روز سے کھانا نہیں کھایا،رات بھر نیند نہیں آتی،  آج بھی نیند نہیں آ رہی ہے، میں نے بہت برداشت کر کے اس کو تسلی دی، بیٹا اپنی ممی سے بات کر لیا کرو اور فون پر تو مجھ سے بھی بات کر سکتی ہو،وہ بولی، اب نہ جانے کب ملنا ہو، مجھ سے بھی نہیں رہا گیا، مجھے ایسا لگا کہ حضرت بھی سسکیاں لے رہے ہیں۔

سوال  :  ہاں ہاں ابی بہت ذکر کرتے ہیں، ابی کہتے ہیں انسان سماجی حیوان ہے اور بچوں کے ساتھ اللہ نے کلیجہ کو لگا رکھا ہے، ذرا سا بچہ بیمار ہو جائے، بخار ہو جائے تو کیسا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ پھول سے محبت کرنے والے بچوں، خاندان، بیوی،گھر بار سب کو چھوڑنا ایک اللہ کے لئے کیسی بڑی قربانی ہے۔ ابی کہتے ہیں کئی روز تک میری نیند اڑ ی رہی اور دعا کرتا رہا کہ مولائے کریم ان آپ کی محبت میں قربانی کرنے والوں کے صدقے ہمیں بھی ایمان کا کوئی شمہ عطا فرما دیں، ابی بتاتے تھے کہ جب ذرا دیر کے لئے آنکھ لگی تو آپ کی برکت سے بہت اچھا خواب بھی دیکھا۔اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟

جواب :  کبھی جب دل بہت ٹوٹتا ہے تو پھر اللہ کے حضور رونے میں جو مزا آتا ہے تو سب بھلا دیتا ہے کہ کیا گذر رہی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ بس زندگی بھر اکیلا رہوں، ورنہ یہ رونے اور اس سے فریاد کرنے کا مزا نہ ملے، لیکن اس بار حضرت نے بہت اصرار سے مجھے حکم دیا کہ میں فیملی سیٹ کروں۔ میں نے کہا کوشش کروں گا، اس بار حضرت نے مجھے ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ (ہندی)پڑھنے کو کہا خاص طور پر عبداللہ (گنگا رام چوپڑا) اور زینب چوہان کا واقعہ پڑھنے کے لئے کہا تھا، مجھے بھی پڑھ کر لگا کہ میری ہی غلطی ہے۔ اگر میں اپنے اللہ سے بچوں اور بیوی کو ایمان کے ساتھ مانگتا تو ضرور دے دیتے۔ اس بار رمضان کا میرا نشانہ بس یہی ہے کہ میں اپنے اللہ سے اپنے بیوی بچوں کو مانگوں گا۔اب جس طرح تنہائی میں میرے اللہ سے سر گوشی ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ بالکل قریب ہے کہ ضرور میرے اللہ میری سن لیں گے، تو انشاء اللہ ضرور میرے بیوی بچوں کو میرے ساتھ بھیج دیں گے۔ پھر مجھے نئے سرے سے گھر نہیں بنانا پڑے گا۔

سوال  :  خدا کرے ایسا ہو،اور انشاء اللہ ضرور ہو گا۔قارئین ارمغان کے لئے کچھ  فرمائیں ؟

جواب : میں کیا عرض کروں، بس اتنا عرض ہے کہ شرک اور کفر اور کروڑوں دیوی دیوتاؤں کی پوجا میں کانٹوں کے جال میں پھنسی انسانیت پر ترس کھا کر اس کو آزاد کرنے کی کوشش ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اسے ادا کرنا چاہئے، بس میری یہی فریاد ہے کہ میرے گھر والوں کے لئے دعا کریں۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ، جزا ک اللہ خیر الجزاء۔ خدا کرے اگلی ملاقات میں آپ گھر والوں کی خوش خبری کے ساتھ ملیں ؟

جواب :  آمین۔ اللہ تعالیٰ تمھاری زبان مبارک فرمائے۔

نوٹ     الحمد للہ فون پر اطلاع ملی ہے کہ ۱۷  رمضان کو غزوہ بدر کے دن محمد اسعد پٹیل کی اہلیہ اور تینوں بچے مشرف با سلام ہو کر ان کے یہاں آ گئے ہیں۔ اللہ نے شاید اسعد صاحب کی دعا قبول فرما لی۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَنْقَذَ ھُمْ مِّنَ النَّارِ

 

ماخوذ از ماہنامہ ’’ارمغان‘‘ ستمبر   ۲۰۱۱ء

٭٭

 

 

 

قرآن نے ہدایت کی پیاس بجھائی

  ڈاکٹر محمد یوسف {سنیل کمار} سے ایک ملاقات

 

 

احمد اوّاہ :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

ڈاکٹر محمد یوسف :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

سوال  :  ڈاکٹر صاحب آپ ہندوستان کب آئے؟

جواب :  میری پیدائش ہندوستان کی ہی ہے۔

سوال  :  جی ہاں یہ تو معلوم ہے، اب تو آپ برازیل سے آئے ہوئے ہیں ؟

جواب :  جی ہاں  میں اب برازیل کے پاسپورٹ پر ہندوستان آیا ہوں ابھی میری ہندوستان کی شہریت ختم نہیں ہوئی ہے۔ مجھے اب برازیل سے آئے تیسرا مہینہ چل رہا ہے،  ۳ جولائی کو شعبان میں شکاگو آیا تھا وہاں سے ۹ جولائی کو دہلی آیا اگلے ہفتہ ۲۸ ستمبر کو میری واپسی ہے۔

سوال  :  ہندوستان میں آپ کی پیدائش کہاں ہوئی اور خاندان میں کون کون لوگ ہیں ؟

جواب :  ہمارا خاندان اصل میں تو بریلی یوپی کا ہے، مگر ہمارے دادا ملازمت کے سلسلہ میں آندھرا چلے گئے تھے، بعد میں وہ بیڑی کا کاروبار کرنے لگے، کچھ زمانہ تک انہوں نے پتے کے کھیت وغیرہ کا کاروبار کیا۔ بعد میں کچھ کاروبار بڑھ گیا تو بیڑی بنوا کر وہ کارخانے والوں کو سپلائی کرنے لگے، ایک بار انہوں نے اپنی بیڑی بنانی شروع کی،مگر وہ حادثے کا شکار ہو گئی، میرا ایک بڑا بھائی اور ایک بہن ہے ہمارے ایک چاچا اور ایک بوا ان دونوں کے دو دو بچے ہیں جو وجے واڑہ کے علاقے میں رہتے ہیں۔

سوال  :  آپ کی تعلیم کہاں ہوئی؟

جواب :  میری ابتدائی تعلیم ایک انگریزی میڈیم چھوٹے سے اسکول میں ہوئی، بچپن سے ذہین تھا اللہ کے فضل سے پانچویں کلاس تک ہر کلاس میں پوزیشن آتی رہی، میرا داخلہ علاقے کے بہت مشہور اسکول سینٹ میری پبلک اسکول میں چھٹی کلاس میں ہو گیا وہیں سے میں نے بارہویں کلاس اچھے نمبروں سے پاس کی، اس کے بعد سینٹ جوزف کالج میں گریجویشن کیا اور پوسٹ گریجویشن اور وہیں سے مشن کے خرچ پر شکاگو امریکہ چلا گیا،  جہاں سے سماجیات (سوشیالوجی)میں ایم۔ اے اور پی۔ ایچ۔ ڈی کیا۔

سوال  :  آپ کا خاندان تو ہندو خاندان ہے ؟

جواب :  جی ہاں میرا پرانا نام سنیل کمار کشیپ تھا۔ میری ذہانت سے متاثر ہو کر مجھے مشن نے بہت سراہا، سینٹ میری اسکول کی چرچ میں ایک فادر بنجامن پرتاپ مسیح تھے، وہ بھی یوپی بنارس کے رہنے والے تھے۔جو خود بھی پہلے کسی ہندو پسماندہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے مجھے اپنا بیٹا بنا لیا تھا، مجھے پہلے مشن نے اسکالر شپ دی، پھر مجھے مشن کا رضا کار ممبر بنا لیا تھا، میرا ارادہ پہلے ڈاکٹر بننے کا تھا، مگر انھوں نے میرا رخ موڑ ا کہ جسم کے علاج کے بجائے روح کے ڈاکٹر بنو اور مذہبی قیادت کرو۔بارہویں کلاس میں میں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا اور ایم۔ اے میں مجھے فادر کا مذہبی اعزاز ملا جو مجھے معمول سے بہت کم عمر میں ملا۔مجھے ایک اچھی چرچ کا ذمہ دار بنا دیا گیا، بعد میں مشن کی طرف سے مجھے تعلیم کے لئے امریکہ بلایا گیا، دو ران تعلیم مجھے ایک گاڑی بھی ایک مشن کے اچھے پروگرام کے انعام میں گفٹ کی گئی اور بھی مجھے بہت سے اعزازی سر ٹیفکیٹ دئے گئے۔

سوال  :  آپ کے گھر والوں کو اس پر کچھ اعتراض نہیں ہوا؟

جواب :  میرے مستقبل کی ترقی اور اعلیٰ تعلیمی کفالت کی وجہ سے انہیں کوئی پریشانی نہیں تھی۔

سوال  :  امریکہ میں آپ کی مصروفیات کیا کیا رہیں ؟

جواب :  میں نے امریکہ میں جا کر دیکھا کچھ خاص لوگوں کے علاوہ جن کا پروفیشن مذہب اور مشن ہے۔ عام لوگوں کو مذہب سے دلچسپی نہیں ہے، روز چرچیں فروخت ہو کر کاروباری سنٹر اور مسجدیں بن رہی ہیں۔ مجھے پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے کے دوران اپنی تحقیق میں باقاعدہ ایک نشانہ دیا تھا کہ مجھے عرب ملکوں میں عیسائی مشن کا کام کرنا ہے، بلکہ میرے تین سفر بھی عرب ملکوں کے کرائے گئے تھے، مگر جیسے جیسے عیسائی مذہبی دنیا سے واقف ہوتا گیا تو میں نے دیکھا کہ پورا مشن صرف امریکہ کے سیاسی نشانوں کے حاصل کرنے کے مقصد کے تحت کام کرتا ہے۔ اللہ کو یا یسوع کو راضی کرنے کی اسپرٹ مجھے دکھائی نہیں دیتی تھی۔ با وجود اس کے اس نظام میں حد درجہ قربانی، ایثار اور خد مت تربیت دی جا تی تھی، اس سوچ کے احساس سے میرا دل عیسائیت کی طرف سے سرد پڑ گیا، مجھے زبانیں سیکھنے کا بڑا شوق تھا، یوں بھی مجھے عربی زبان سیکھنی تھی۔ اس کے لئے میں نے ایک پاکستانی ساتھی سے اردو سیکھی، بعد میں عربی کے ایک عرب انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا،اس دوران مجھے اسلامی تاریخ پڑھنے کا موقع ملا، میرے ایک پاکستانی دوست نے، جن پر میں مشن کے لئے کام کر رہا تھا، مجھے ایک کتاب ’’خلافت راشدہ‘‘ لا کر دی، اس کتاب نے میری زندگی اور میری سوچ میں بھونچال برپا کیا۔میں نے جس ٹریک پر اپنی زندگی کی گاڑی کو ڈالا تھا کہ میں جسم کا ڈاکٹر نہ بن کر روح کا ڈاکٹر بنوں، اس پوری قیادت کی سوچ ہی میری تحقیق میں روح کو بیمار کر نے کی تھی۔ یعنی سارے مشن کا سوچ ہی امریکہ کے سیاسی نشانوں کو پورا کرنے کے لئے، خدمت کی شعبدہ بازی تھی۔ اپنی زندگی کی پیاس بجھانے کے لئے جس پانی کی تلاش میں میں نے امریکہ تک کا سفر کیا تھا وہ سراب تھا، اور تحقیق میرے لئے ایسی اذیت ناک تھی کہ قرآن مجید کی ایک آیت مجھ پر ثابت ہو رہی تھی

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُْولِ سَبِیْلاً  o یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَا ناً خَلِیْلاًo

کبھی کبھی مجھے اپنی اس حماقت پر ساری رات نیند نہیں آئی، اس حال میں یہ کتاب مجھے ملی، میں نے اس کتاب کو پڑھ کر یہ محسوس کیا، کہ وہاں جنگ بھی سو فیصد اللہ کی رضا اور آخرت میں اجر کے جذبہ سے ہو رہی ہے۔ جان لینے کا عمل بھی مجھے خلافتِ راشدہ کی تاریخ میں سو فیصد اللہ کی رضا حاصل کر نے کے جذبہ کے علاوہ دکھائی نہیں دیا، اس دوران مجھے اسلام جاننے اور پڑھنے کا شوق پیدا ہوا، وہاں امریکہ میں ایک عجیب رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، وہاں پر چر چوں میں درس قرآن کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ بہت سے گرجاؤں میں ہفتے میں دور روز درس قرآن ہوتا ہے، اور کسی مسلمان اسکالر کو بلا کر درس ہوتا ہے۔

سوال  :  اس کی وجہ کیا ہے، ادھر کئی لوگوں نے یہ بات بتائی؟

جواب :  اصل میں اپنے کو کھلا ذہن اور روشن خیال ظاہر کرنے کا جذبہ بھی اس میں ہے،  اور عیسائیت کو حق اور سپیر پر ثابت کرنے کے لئے تقابل ادیان کار رجحان بڑھ رہا ہے، اور کہیں کہیں یہ بات بھی ہے کہ تو ریت، زبور،انجیل اور قرآن مجید چار بڑی آسمانی کتابیں ہیں، بائبل، تو ریت، زبور اور انجیل کے اجزاء ہیں، قرآن بھی کچھ نہ کچھ ہونا چاہئے، تا کہ درس مکمل ہو سکے۔

سوال  :  آپ اپنا حال سنا رہے تھے،اس کے بعد کیا ہوا ؟

جواب :  شکاگو کی ایک چرچ میں پیر اور جمعہ کو دس بجے درسِ قرآن کے لئے پاکستان کے ڈاکٹر فیض الباری آتے تھے، میں نے وہاں جانا شروع کیا، چرچ سے میں نے ایک قرآن مجید عبداللہ یوسف علی کے ترجمہ کے ساتھ حاصل کیا، قرآن مجید ہر حق کے پیاسے کی پیاس بجھانے کے لئے کافی ہے، الحمد للہ ۴ جون  ۲۰۱۰ء کو جمعہ کے روز میں نے اسلام قبول کیا اور شکاگو کے مرکز میں جمعہ کی نماز ادا کی۔ میرا نام محمد یوسف رکھا گیا۔

سوال  :  مشن نے آپ پر اتنا خرچ کیا ان لوگوں کو آپ کا اسلام قبول کرنا ناگوار نہیں ہوا ؟

جواب :  یہ عجیب اللہ کی شان ہے کہ اسلام کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ ہونے کے باوجود امریکہ میں کسی کے مذہب بدلنے کو برا نہیں سمجھا جاتا اور وہاں مذہب بدلنا بالکل ایسا سمجھا جاتا ہے جیسے کسی طالب علم نے یونیورسٹی میں اپنا مضمون بدل لیا،بس ایک دو قریبی لوگوں نے مجھ سے تھوڑا بہت تبادلہ خیال کیا، اللہ کا شکر ہے میری ملاقات شکاگو میں کچھ تبلیغی جماعت کے فعال لوگوں سے ہوئی، جن میں سے ایک ہمارے ضلع کے رہنے والے تھے، اس کے علاوہ ڈاکٹر اسلم عبداللہ جو وہاں بہت سرگرم داعی ہیں، ان سے ہوئی،انہوں نے بھی مجھے ’ارمغان‘ اور Winds of Islam ویب سائٹ دیکھنے کا مشورہ دیا۔

سوال  :  اس کے بعد یہ ہندوستان کا آپ کا پہلا سفر ہے ؟

جواب :  نہیں یہ دوسرا سفر ہے، اسلام قبول کرنے، کچھ پڑھنے اور سیکھنے کے بعد مجھے اپنے والدین کی فکر ہوئی، میں ہندوستان آ رہا تھا تو ڈاکٹر اسلم عبداللہ نے مجھے حضرت سے ملنے کا مشورہ دیا میں نے حیدرآباد کے بجائے دھلی کا سفر کیا۔ دھلی میں ملاقات کے لئے مجھے پانچ روز رکنا پڑا۔حضرت نے مجھے آندھر ا کے دو داعیوں کا پتہ دیا اور کچھ روز جناب فضل الرحمن کے ساتھ دعوتی تربیت کے لئے لگانے کا مشورہ دیا، میں فضل الرحمٰن کے ساتھ تو وقت نہیں لگا سکا۔ مگر الحمد للہ میرے والد اور والدہ میری ایک مہینے کی کوشش کے بعد مسلمان ہو گئے، میرے جانے کے دو مہینے بعد میری بہن اور بھائی بھی مسلمان ہو گئے تھے۔

سوال  :  آپ ابھی بتا رہے تھے کہ آپ برازیل کے پاسپورٹ پر آئے ہیں اور ابھی تک آپ نے برازیل کا تو ذکر ہی نہیں کیا۔

جواب : شکاگو سے مشن نے مجھے جن ملکوں کا سفر کرا یا ان میں سب سے زیادہ برازیل تھا،  میں نے تین سال میں چھ بار برازیل کا سفر کیا اصل میں وہاں جن عربوں نے عیسائی مذہب اختیار کیا ہے وہ سب سے زیادہ برازیل میں کیا، اس طرح عربوں میں کام کرنے کے لئے عیسائی مشن کی تجربہ گاہ برازیل ہے برازیل کی بڑی آبادی ایسے کالے لوگوں کی ہے جو افریقی ملکوں سے آئے ہیں اور ان کو یہ خوب معلوم ہے کہ ان کے آباء و اجداد مسلمان تھے، اس طرح وہ اپنا آبائی مذہب اسلام سمجھتے ہیں میرا ایک سفر مشن کی طرف سے، اکتوبر ۲۰۰۹ء میں ہوا تھا، اس وقت وہاں پر عیسائی لوگوں میں بڑی کھلبلی سی تھی، اصل میں افغانستان کے پرانے صدر شیخ صبغت اللہ مجددی جو بہت بڑے مجددی شیخ ہیں، برازیل میں آتے ہیں اور بہت سے لوگ ان کے مرید ہیں، اور وہ ذکر کا حلقہ اور توجہ وغیرہ دیتے ہیں ان کی کوششوں سے ہزاروں عیسائی اجتماعی طور پر مسلمان ہوئے، مشن کے لوگ اجتماعی تبدیلی مذہب پر غور کے لئے بیٹھے تو اس نتیجہ پر پہونچے کہ آبائی مذہب کی کشش ان کے لئے اسلام کا ذریعہ بنی، میں نے گذشتہ سفر میں حضرت سے بات کی، انہوں نے اس سے سو فیصد اتفاق کیا، ڈاکٹر اسلم عبداللہ صاحب نے بھی مجھے یہ ہی مشورہ دیا کہ آپ اپنا میدان دعوت برازیل کو بنایئے۔اس لئے میں نے برازیل کے قیام کا ارادہ کیا، الحمد للہ وہاں پر ایک دعوتی سینٹر قائم کیا ہے اور وہاں پر سکونت اختیار کر لی ہے۔

سوال  :  برازیل میں اتنی جلدی پاسپورٹ مل گیا ؟

جواب :  میرے پاس امریکہ کی شہریت تھی، اس لئے برازیل کی شہریت لینے کے لئے مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی، اصل میں امریکہ کے شہری کو برازیل کی شہریت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے تو اپنے دل کو پکارنے کے لئے امریکہ کی شہریت ختم کی ہے،  اصل میں حضرت نے مجھ سے فرمایا تھا کہ آدمی کو کسی جگہ پر کچھ کام کرنا ہو تو اپنی قبر کی جگہ طے کرنی چاہئے، گو کہ آدمی کس جگہ مرے گا یہ کسی کو معلوم نہیں، مگر اپنی طرف سے طے کرنے سے نیت پختہ اور عزم و فیصلے میں قوت آتی ہے اور دنیا میں لوگوں نے فیصلے اور عزم کی پختگی سے تاریخ بنائی اور بدلی ہے۔ اس لئے میں نے برازیل کی نیشنلٹی لی ہے اور مجھے چند دنوں میں اس کی خیر معلوم ہونے لگی ہے۔

سوال  :  آپ نے شادی کی ؟

جواب :  میں نے اسلام قبول کرنے کے تین مہینے بعد ایک نو مسلم گوری خاتون سے شادی کی ہے، جو خود مشن سے جڑی ہوئی تھی۔ الحمد للہ وہ برقعہ میں رہتی ہیں اور بہت دیندار مسلمان خاتون اور میری دعوتی رفیق ہیں۔

سوال  :  اب آپ کا واپسی کا کیا ارادہ ہے ؟

جواب :  میں نے ابھی بتایا کہ ۲۸ ستمبر کو میرا واپسی کا ٹکٹ ہے، حیدرآباد جا کر واپس جانا ہے۔

سوال  :  وہاں پر جا کر کچھ آپ نے کام کا خاکہ بنایا ہے ؟

جواب :  الحمد للہ کام چل رہا ہے۔ ہم لوگ دعوتی تربیتی پروگرام کا وہاں آپ کے یہاں کے انداز میں آغاز کر رہے ہیں، حضرت سے میں نے درخواست کی ہے، کہ تین تربیت یافتہ داعی برازیل کے لئے دے دیں۔ حضرت نے وعدہ کیا ہے، حضرت فرما رہے تھے کہ ہمارے علاقے میں ہمارے مدعو زیادہ تر ہندو ہیں۔ انشاء اللہ جلد تین ساتھیوں کو حیدرآباد میں عیسائیوں میں کام کا تجربہ حاصل کرنے کے لئے بھیجیں گے پھر آپ کو اطلاع دیں گے۔

برازیل میں میں نے محسوس کیا بلکہ خود امریکہ میں بھی کہ جو لوگ صاحبِ سلسلہ مشائخ ہیں، ان کے گرد دنیا بہت جلدی جمع ہو جاتی ہے۔اصل میں مادیت زدہ انسانیت اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لئے بے چین ہے۔ اس کے لئے اللہ کا نام باطن کی تسکین کا ذریعہ ہوتا ہے۔ برازیل میں اس کا اور بھی زیادہ میں نے رجحان دیکھا، کئی پاکستانی بریلوی شیخ پاکستان سے آتے ہیں اور غیر مسلم یہاں تک کہ بعض ہندوؤں کو میں نے دیکھا کہ ان سے مرید ہیں اور ان کے ذکر کے حلقوں اور میلا د وغیرہ میں شریک ہوتے ہیں۔

سوال  :  وہ اپنے مذہب پر رہ کر مرید ہو جاتے ہیں ؟

جواب :  ہاں ہاں کئی پنجابی پیر آتے ہیں وہ لوگ اسلام قبول کئے بغیر مرید کر لیتے ہیں۔

سوال  :  تو آپ نے اس کے لئے کیا کیا ؟

جواب :  میں نے  اس راہ سے کام کرنے کا ایک خاکہ بنایا ہے حضرت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس سال حج کے بعد جلد برازیل کے سفر کا امریکہ کے ساتھ پروگرام بنائیں گے،  خدا کرے یہ سفر ہو جائے۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب !ارمغان کے قارئین کے لئے آپ کوئی پیغام دیں گے ؟

جواب :  اسلام کی دعوت کے لئے شاید جب سے دنیا آباد ہوئی ہے، ایسا ساز گار ماحول نہیں ہو سکتا، جب مجھ جیسے عیسائیت کے لئے کام کرنے کا ارادہ کر کے سب کچھ چھوڑ دینے والے کے لئے شکاگو کی چر چ سے ہدایت کا فیصلہ ہو سکتا ہے، تو پھر داعیانِ اسلام کے لئے اس سے سنہرا موقع کون سا ہو سکتا ہے ؟ایمان رجاء و خوف کے درمیان ہے، اللہ کی شان بے نیازی سے ڈرنا بھی چاہئے کہ اگر ہم نے اپنی مسجدوں، دینی مراکز اور اداروں کو ماحول کی سازگاری سے فائدہ اٹھا کر دعوتی روح سے بے گانہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ گرجاؤں سے اسلام کی شمعیں روشن کرنے پر قادر ہیں۔

سوال  :  واقعی بڑی عبرت اور ڈر نے کی بات ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ہوشیار فرمائیں ؟

جواب :  میرے لئے بھی دعا فرمائیں، ایمان کا آنا تو نعمت ہے ایمان پر موت آنا اصل ہے، اللہ تعالیٰ خاتمہ بالخیر فرمائیں اور ہمارے دعوتی نشانوں کو پورا فرمائیں۔ آمین

ماخوذ از ماہنامہ ’’ارمغان‘‘ اکتوبر   ۲۰۱۱ء

٭٭

 

 

 

 ایک راہزن کا قبول اسلام

نورالامین {اشوک کمار سوم} بھائی سے ایک ملاقات

 

 

سوال  :  نورالامین بھائی آپ اپنا تعارف کرائیے ؟

جواب : حاجی عطاء صاحب میں پھلت شریف کے پاس راج پوت گاؤں کے راجپوت گھرانے میں پیدا ہوا میرا (پچھلے جنم کا نام اشوک کمار سوم تھا، اب اسی سال ۱۹  اپریل ۲۰۰۹ء کو بوقت ۳۰-۹ شب بمقام میرٹھ کی جامع مسجد میں دو بارہ پیدا ہو ا (پونر جنم )ویسے تو اسلام میں نہیں ہے لیکن یہ لفظ میں نے سمجھانے کے لئے کہا ہے، صحیح بات تو یہ ہے کہ ہر انسان کی پیدائش تو اسی وقت ہو تی ہے وہ اسلام کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے اور اگر میں کہوں تو بیجا نہ ہو گا کہ اگر کو ئی جنم سے ہی اسلامی معاشرہ میں پیدا ہو جائے اور اسلام پر گامزن نہ ہو تو ایسا ہے جیسا کہ ہرن جنگل میں گھاس چر رہا ہو مالک الملک ہم سب کو اسلام کا عامل بنائے (آمین)

سوال  :  اپنے قبول اسلام کے بارے میں تفصیل سے بتائیں ؟

جواب :  میں نے چھوٹو رام جاٹ کا لج مظفر نگر سے بی، اے کیا ہے اس کے بعد گھریلو پریشانی کی بناء پر سمر سیبل؛ ٹیوب ویل لگانے کا کام سیکھا اور پھر با قاعدہ اس کو اپنا ذریعہ معاش بنا یا تقریباً دو سال تک میں اپنے کاروبار میں قدم بڑھا تا رہا پھر بد قسمتی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ میری خوش قسمتی سے میرا کام رفتہ رفتہ ٹھپ ہو گیا (کیونکہ کام نہ ہو نا ہی میرے اسلام لانے کا سبب بنا )اور بالآخر میں خالی ہو کر آوارہ پھر نے لگا حتیٰ کہ میری صحبت بہت ہی برے دوستوں میں ہو گی،شروع میں ان دوستوں نے مجھے شراب و بھانگ جیسی گندی عادت میں مبتلا کر دیا پھر میرے پاس پیسے نہ ہو تے تو وہ کہتے کہ راہزنی سے آسان راستہ کو ئی نہیں ہے۔ شروع میں تو میں نے بہت مخالفت کی لیکن مکا ر نفس و ابلیس نے مل کر مجھے شکست دے دی اور میں بھی ان دوستوں کے ساتھ مل  کر راہزنی کر نے لگا۔

وقت ایسا ہی گذر تا جا رہا تھا کبھی ہم محمد پور والے راستہ پر راہزنی کرتے،  کبھی رامپور کاٹنے سے جو راستہ چند سینہ ناؤلہ پھلت شریف جا رہا ہے وہاں پر معصوم مسافروں کو پتھر دلی کے ساتھ اپنے مظالم کا شکار کر تے۔ ایسے ہی ایک روز ہم نے پلان بنایا کہ ایک راستہ ناؤلہ جا رہا ہے، وہاں سے چلتے ہیں لہٰذا ہم تینوں نا ؤلہ جانے والی سڑک پر انگور کے باغ میں چھپ گئے۔ ہمارے ساتھ موٹر سائیکل بھی ہوا کر تی تھی، جب ہم کئی مسافروں کو پریشان کر چکے اور کسی کے پاس بھی معقول رقم نہ مل سکی تو ہم نے طے کیا کہ چلو پھلت والے روڈ پر چلتے ہیں اور ہم پھلت کے راستہ میں گنے کے کھیت میں چھپ گئے کہ اچانک میں نے دیکھا کہ ایک رکشا آ رہا ہے ہم لوگوں نے رکشے والے کو رکنے کے لئے کہا اور پھر رکشا رک گیا۔ میں نے دیکھا کہ رکشے میں ایک مولوی جی بیٹھے ہیں (حاجی عطا صاحب ایک بات واضح کر دوں کہ میرا گھرانہ بے حد مذہبی ہے، ہمارے گھر والوں کو اپنے مذہب سے بے پنا ہ عقیدت تھی، مسلمانوں کے مذہب سے مجھے شروع سے ہی بیر تھا۔ میر ے والد صاحب نے میرے دل میں کوٹ کوٹ کر مسلمانوں کی طرف سے نفرت بھر دی تھی۔ با لآخر میں سخت ترین متعصب ہندو و مذہب کا پیرو کا ر ہو چکا تھا،  اسی تعصب کی تحت جب میں نے رکشا میں ایک مذہبی آ دمی کو داڑھی اور ٹوپی کے دیکھا تو میر ے تن بدن میں آگ لگ گئی )اور میں نے مو لو ی جی کی داڑھی پکڑ کر زمین پر دے مارا اور ان کے منہ پر تھو کتا بھی رہا اور گالی گلوج بھی کر تا رہا، پھر ان کے سر پر کٹے کی نال لگا دی۔میرا ان کے سر پر نال لگانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ یہ ڈر کر جو رقم وغیرہ ان کے پاس ہو وہ ہمیں دیدیں لیکن مولوی جی نے کٹے کی نال پکڑ کر ایک جھٹکے سے کٹے کو اوپر کر دیا اور اچانک گولی چل گئی اور مولو ی جی کا الٹے ہاتھ کا انگوٹھا اور ایک انگلی اڑ گئی۔ میں نے دیکھا کہ مولو ی جی کے ہاتھ سے خون کا فوارا بہہ نکلا لیکن وہ بڑے آرام سے کچھ پڑھتے ر ہے۔ اب ہمیں اپنے بھاگنے کی فکر ہو ئی لیکن ایک فکر یہ تھی کہ ابھی ہمیں ملا ہی کیا ہے، میں نے مو لو ی جی کے جیب کی تلاشی لی تو اس میں صرف ۴۵روپیئے ملے لیکن ایک موبا ئیل مہنگا والا بھی مو جو د تھا۔ تو میں نے پیسے تو سنگھاڑوں کے تالاب میں پھینک دئیے اور موبائیل چھین کر اپنے قبضہ میں کر لیا اور دوسرے ساتھی سے کہا کہ جا ؤ کھیت میں سے موٹر سائیکل لیکر آؤ۔ ہم نے موٹر سائیکل پر سوار ہو کر پھلت کے ایک باغ میں گاڑی چھوڑ کر تھا نے میں فون کیا کہ ایک گاڑی فلاں باغ میں کھڑی ہے اسے پہچان لیں، اتفاق سے جہاں ہم نے گاڑی کھڑی کی وہ باغ بھی مولوی جی کے ایک خاندان والوں کا ہی تھا کیونکہ ہم مولوی جی کا موبا ئیل چھین لائے تھے تو انہوں نے تھا نے میں۔ S.Oصاحب کو ((E.M.E.Iنمبر دے کر موبائیل کو لینس پر لگا دیا جس کے نتیجہ میں اس حادثہ کے بعد ہم تینوں گرفتار ہو گئے۔ دو روز بعد ہما را چالان ہوا اور ہم مظفر نگر کی بڑی جیل میں قید ہو گئے،۲۵،۲۶، دن بعد ایک پو لس والے نے ہمیں دوپہر کے وقت بتا یا کہ ایک میاں صاحب تم سے ملنے آئے ہیں ان کے ساتھ ایک سہارنپور ضلع کے ایک نیتا جی بھی ہیں اور وہ جیلر جناب محمد ناصر صاحب کے آفس میں بیٹھے ہیں، چلئے صاحب آپ کو بلا رہے ہے ۔ ہم ڈرتے ڈرتے صاحب کے آفس میں پہنچے کیا دیکھتے ہیں کہ وہی مو لو ی جی بیٹھے ہیں جن کو میں نے گولی ما ری تھی، انہیں دیکھ کر ہم تینوں گھبرا گئے لیکن مولوی جی نے آگے بڑھ کر ہما رے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر ہمیں گلے سے لگا یا اور پھر انہوں نے میرے معافی مانگنے پر بتا یا کہ میں مولوی نہیں ہوں میرا نام تو صرف محمد نور العظیم ہے،آئندہ مجھے مولوی نہ کہنا۔ نور العظیم بھائی نے ہمیں کڑی چاول اور خر بوزے وغیرہ پیش کئے تو میرے دل میں تعصب ہونے کی وجہ سے خیال آیا کہ اس کھانے میں ضرور کچھ ملا ہوا ہو گا لیکن یہ خیال میرا تھوڑی دیر میں ہی کا فور ہو گیا، کیونکہ وہ خود بھی ہمارے ساتھ کھا نا کھا نے کے لئے ایک طرح سے گذارش کر رہے تھے پھر مجھ سے منع نہ ہو ا۔کھا نا وغیرہ سے فارغ ہو کر انہوں نے ہم تینوں کو بہت درد کے ساتھ رو رو کر دعوت اسلام دینا شروع کیا، انہوں نے کہا کہ تین قیمتی جانیں دوزخ کے کنا رے کھڑی موت کا انتظار کر رہی ہیں، ان کو آتش نار سے بچا نے کی فکر لے کر میں ا اپ سے ملنے آیا ہوں۔ نور العظیم بھائی نے ہمیں ایک مثال خوب زور زور سے ہچکیوں سے رو رو کر سنا ئی اس کا مجھے بہت گہرا اثر پڑ ا۔مثال یہ تھی نور العظیم بھائی نے مجھ سے پو چھا کہ یہ شرٹ جو تم نے زیب تن کی ہو ئی ہے کتنے کی لی ہے، میں نے دو سو روپئیے قیمت بتا ئی،  پھر انہوں نے پوچھا کب لی تھی،تو میں نے ایک مہینہ بتا یا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ایک غریبی میں تم سے مانگ لوں تو تم دے دو گے لیکن اگر میں اس کو تم سے لیکر تھوڑی سی بھی ماچس سے اس کی آستین جلا دوں تم مارنے مر نے پر اتر جا ؤ گے۔ اب بتاؤ ہماری آتما اس شریر روپی پنجرے میں میں سے نکل جا تی ہے تو اس آتما کو کتنا دکھ ہو گا جب شریر کو مر نے کے بعد جلا یا جائے گا جب ایک بے جان کپڑے کے جلنے سے اتنا دکھ ہو تو جو شریر پورا جیون تمہارا ساتھ رہا اس کو جلانے پر اس کی آتما پریشان نہ ہو گی۔ اس مثال کے بعد نور العظیم بھائی نے ہمیں مو لانا کلیم صاحب کی کتاب ’’آپ کی اما نت آپ کی سیوا میں ‘‘ دی اور وعدہ کر کے گئے کہ ہم تم لو گوں پر مقدمہ نہیں کریں گے۔ جب ضمانت ہو جائے تو میرے نمبر پر فون کر کے بتا نا، پھر کچھ دنوں بعد ہماری ضمانت ہو گئی اور میں نے جیل سے باہر آ کر نور العظیم بھائی سے فون پر بتا یا کہ میں نے کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور مجھے آپ جلدی سے آگ سے بچا دیں۔ تو انہوں نے پو چھا کہ آپ کھتو لی آ سکتے ہیں کیا ؟تو میں نے منع کر دیا اور کہا کہ میں اب اس ایریے میں نہیں رہنا چاہتا۔لہٰذا میرٹھ کی جا مع مسجد میں مل لیں،  وہیں کلمہ طیبہ بھی پڑھ لوں گا۔ اس لئے میرٹھ جا نا طے ہو ا اور نور العظیم بھائی اور ان کے دو ساتھی جا مع مسجد میرٹھ پہونچ گئے۔ مجھے کر تا پائجامہ اور ٹو پی میں دیکھ کر نور العظیم بھائی خو شی کے ما رے پھو لے نہ سما رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے الٹی سیدھی وضو کرا ئی اور کلمہ پڑھا یا اور پھر کچہری لے جا کر میرا تبدیلی مذہب کا سرٹیفکیٹ بنوا یا (روتے ہوئے) لیکن اب نور العظیم بھائی کا  ہاتھ دیکھ کر بہت دکھ ہو تا ہے، اس کے لئے میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہیں کروں گا۔ حاجی عطا صاحب آ پنے ایک روز مجھے بتا یا تھا کہ یہ نور العظیم صاحب ہمارے ساتھ حج میں تھے، نہایت ہی درجہ شریف ہیں اور ہر آدمی کی کڑوی کسیلی با توں کو بر داشت کر تے تھے۔ عطا صاحب آپ بھی ان کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی انگلیوں کو اپنے بارگاہ میں قبول فرما کر ان کی بخشش کا ذریعہ بنائے (آمین ثم آمین)اور ان کے طفیل میں میری بھی مغفرت فرمائے،  آمین۔ حاجی صاحب اللہ پا ک سے دعا کیجیے کہ ہم سب مسلمانوں کو دعوت دین کی فکرو سعی کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

سوال  :  نورالامین  بھائی آپ جماعت کے چلے میں گئے تھے سنا ہے کہ وہاں آ پ کو پریشانی اٹھا نی پڑھی، جماعت کا حال سنائیے، آپ کا وقت کہاں لگا اور جماعت میں وقت کیسا گذرا ؟

جواب : جی حاجی صاحب!میرا پورا چلہ ہا پوڑ لگا،  میرٹھ کے پاس کے ایک گاؤں کی جماعت تھی،  حافظ عبداللہ صاحب امیر تھے (لرزتے ہوئے ) جو نہا ہت ہی سخت مزاج تھے۔ ابھی ہماری جماعت کو کام کر تے ہوئے صرف چار دن ہوئے تھے کہ مجھے کچھ سا مان کی ضرورت ہو ئی تو میں نے مسجد کے اندر سے اپنا بیگ اٹھانا چا ہا تو وہ وہاں نہ ملا، میں بہت گھبرا یا۔ امیر صاحب سے بتا یا کہ اس میں بھا ئی نور العظیم نے جو پیسے میرٹھ سے اکٹھا کر کے دئے تھے وہ بھی تھے۔ اس پر امیر صاحب نے الٹا مجھے ہی ڈانٹنا شروع کر دیا کہ ہمارے پاس کیوں جمع نہیں کرائے۔ خیر بات آئی گئی ہو گئی پھر میں نے نور العظیم بھائی کو پھلت فون کیا تو انہوں نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ میں کل آؤں گا اور وہ ہا پوڑ ہما رے پاس پہنچے،  اس کے بعد انہوں نے تمام ساتھیوں کو اکٹھا کر کے کہا میں ایک کلو چاول جلال آباد جہاں پر حضرت مو لانا صفی اللہ خان صاحب رہتے ہیں اسے پڑھو ا کر لایا ہو ں،  جو شخص بھی چور ہو گا اس کو خون کی الٹی ہو جائے گی ورنہ ابھی چپ چاپ مجھ سے علیحدگی میں بتا دیں۔ یہ سن کر ایک لڑکا گھبرا نے لگا، نور العظیم بھائی نے اس کو الگ لے کر بات کی پھر اس نے پیسے مصلے سے اٹھا کر دئے اور میرا بیگ بھی مسجد کی چھت سے لا کر دیا۔

اس کے بعد نور العظیم بھائی نے اس کو حضرت مو لا نا بلال صاحب با غپتی سے بیعت کرا یا،  جماعت میں میں نے ما شا ء اللہ نماز مع ترجمہ سے سیکھ لی اور نماز جنا زہ بھی یاد ہے۔ جماعت کے چا لیس دن پو رے کر نے بعد ہما ری جماعت کے سا تھی اپنے ساز و سامان کے ساتھ دہلی نظام الدین گئے۔ وہاں مجھے جماعت کے ایک ساتھی نے درگاہ نظام الدین گھما یا (ہنستے ہوئے) میں نے جب وہاں پر حضرت نظام الدین کی قبر (سمادھی ) کو لو گوں کو پو جا کر تے دیکھا تو میں بہت حیران ہو ا،  بعد میں معلوم ہوا کہ ایسا کر نے والے لوگ بدعتی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، ورنہ میں سمجھا تھا کہ مسلمانوں میں بھی پتھر  پو جا ہو تی ہے۔ جب ہم لوگ مرکز نظام الدین میں اپنی جماعت کی کار گذاری سنا چکے تو ہما رے سب ساتھی اپنے اپنے گھر جانے کی فکر میں لگے  لیکن میں بڑی کشمکش میں پڑ گیا میں نے نور العظیم بھائی کو فون کیا تو انہوں نے ایک گھنٹہ بعد فون کر نے کو کہا۔ جب ایک گھنٹہ بعد میں نے فون کیا تو انہوں نے کہا کہ تم بگراسی ضلع بلند شہر چلے جا ؤ،وہاں ایک حاجی صاحب ملیں گے، ان کا نمبر لکھو،  میں نے انکا نمبر لکھا اور ان سے با ت کر کے میں بگراسی پہنچ گیا اور آج تک ان حاجی صاحب کے پاس ایک بیٹے کی حیثیت سے رہ رہا ہوں۔ حاجی عطاء حسین صاحب بگراسی والے میرے لئے ایک بہت محبت کر نے والے باپ کا درجہ رکھنے والے ہیں اور نور العظیم بھائی کو بھی میں سچے دل سے اپنا بڑا بھائی مانتا ہوں جن کے ذریعہ مجھے اسلام کا بیش قیمت خزانہ ملا (دھڑدھڑی لیتے ہوئے ) ورنہ نہ معلوم دوزخ کے کس کو نے کے گڑھے میں میرا ٹھکا نہ ہو تا۔ اللھم ا حفظنا من النار

سوال  :  نور الامین بھائی کیا آپ نے مو لانا کلیم صدیقی صاحب مد ظلہٗ سے ملاقات کی ہے اور کبھی پھلت شریف بھی حاضری دی ہے ؟

جواب : حاجی صاحب میری ملاقات تو مو لانا کلیم صدیقی صاحب سے نہیں ہو ئی، ہاں ایک بار نور العظیم بھائی نے مجھے بتا یا تھا کہ حضرت جی ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو سونی پت  ہر یا نہ کے مدرسہ میں ضرور جا تے ہیں تو میں بھی ایک دن وہاں گیا تھا لیکن حضرت سے میں نے با قاعدہ ملاقات نہیں کی بلکہ صرف حضرت جی کی زیارت (درشن) کی تھی اور جب کا فی لوگ حضرت صاحب سے مصافحہ ملا رہے تھے تو انہیں میں گھس کر میں نے بھی مصافحہ ملا یا تھا۔ حضرت صاحب نے میرا نام پوچھا تو میں نے نور محمد بتا یا۔ اپنے لئے دعا کرا ئی تھی اور ایک بو تل میں پانی بھی پکڑے ہوئے تھا، اس میں دم بھی کرا یا تھا جس کو میں ختم نہیں ہو نے دیتا ہوں جب کم ہو جا تا ہے فوراً اور پانی بھر لیتا ہوں۔ حاجی عطا صاحب پھلت تشریف میں صرف ایک مر تبہ نور العظیم بھائی کے گھر عید کے موقع پر گیا تھا،  نور العظیم بھائی نے کھا نا وغیرہ بھی کھلا یا اور مجھے حضرت کا مدرسہ اور مسجد اور بزر گوں کی قبروں کی زیارت کرائی۔ مدرسہ دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے میں یہاں پہلے بھی آ چکا ہوں لیکن اتنے میں پھلت شریف میں رہا مجھے بہت ڈر لگتا رہا کیونکہ میرا گاؤں پھلت سے زیادہ دور نہیں ہے۔صرف ۲۰سے ۲۵منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ اور یہ بھی ڈر لگا رہا (بلکہ ابھی بھی ڈر تا ہوں کہ) کہ کہیں نور العظیم بھائی اور مسلمانوں کو میرے بارے میں بتا کر مجھے بد نام نہ کر دیں۔

سوال  :  آپ نے اپنے گھر والوں کو اپنے مسلمان ہو نے کی اطلاع دی اور آپ نے اپنے گھرانے کو آگ سے بچا نے کی کیا فکر کی؟

جواب :  جی نہیں !ابھی تو اس بارے میں صرف دعا کر تا ہوں اور نور العظیم بھائی سے بھی کئی مرتبہ درخواست کی لیکن انہوں نے حضرت صاحب کے اوپر رکھ کر ٹال دیا ہے میں نے  نور العظیم بھائی سے یہ بھی کہا کہ ہما رے دوسرے ساتھی بھی تھے ان کو بھی آپ جا کر دعوت دینے کا احسان کریں لیکن شاید وہ ڈرتے ہیں۔ جب کہ ہر داعی کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے لے رکھا ہے،میر ے گھر والے متعصب ہیں، اس لئے میرا وہاں جا نا یا اپنا اسلام لانے کی اطلاع پہنچانا ابھی میر ے لئے نا مناسب ہے۔ میں نے حضرت مو لا نا کلیم صدیقی صاحب کے دعوتی مضامین کا خوب گہرا ئی وسیع النظر ی سے مطالعہ کیا ہے انکو  پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ میں انسان نما پرندہ ہوں اور چشم زدن میں اڑ کر اپنے عزیزوں تک دعوت کا پیغام پہنچاؤں گا لیکن میرا دل (من) کے پر دوں میں ڈر کا گیلا پن محسوس ہو تا ہے اور آخر کار میرے بھیگے ہوئے پر پھڑ پھڑ ا کر منزل مقصود کی طرف پرواز  کر نے سے گریز کر جا تے ہیں۔

سوال  :  نور الامین بھائی آپ کی اردو زبان بہت اچھی معلوم ہو تی ہے کہ ہم کسی بڑے اردو زبان کی ادبی شخصیت سے مخاطب ہیں، آپ نے کہیں بی، اے اردو سے تو نہیں کیا ؟

جواب :  استغفراللہ ! حاجی صاحب کیوں شرمندہ کرتے ہو، میں چار دن کا مسلمان کیا اردو جیسی شیریں زبان بول سکتا ہوں ؟یہ تو آپ کا حسن ظن ہے بی،  اے تو میں نے انگلیش سے کیا ہے لیکن اردو زبان میں میں نے چار ماہ کی جماعت میں سیکھ لی تھی،  میرے الحمدللہ چار مہینے پورب سائڈ میں امبیڈ کر نگر ضلع میں لگے۔ وہاں پر ایک علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے رٹائر ڈ لیکچر ر جناب انور علی خان صاحب تھے ان سے اردو پڑھی ہے، مجھے اردو زبان سے بے حد لگاؤ ہے اور اس بار میں نے الحمدللہ ادیب کا فارم بھی بھر ا ہے میرا مستقبل میں انشاء اللہ اردو میں پی،ایچ، ڈی کر نے کا عزم ہے۔

سوال  :  نور الامین بھائی شاید آپ کو اب نیند آ رہی ہے اور رات بھی کا فی ہو چکی ہے، ۱۲ بجنے والے ہیں، اس لئے اب میرا آنجناب سے آخری سوال ہے۔ کیا آپ پیدائشی مسلمانوں کو کو ئی پیغام دینا چا ہیں گے؟

جواب : لا حول ولا قوۃ الا باللہ، حاجی صاحب آپ مجھ نا پاک کو کیوں بار بار شرمندہ کر تے ہیں، میں چند مہینوں کا مسلمان قدیم مسلمانوں کو کیا پیغام دے سکتا ہوں، جو آدمی خود ہی منزل کا راستہ نہیں جانتا ہو کسی بھولے بھٹکے مسافر کو کیا راہ دکھا سکتا ہے؟ لہٰذا پیغام تو میں کچھ نہیں دے سکتا البتہ میری کچھ مودبانہ گذارش ہے کہ تمام مسلمان اپنے کو بالکل درست فرما لیں، جیسا کہ میرے ساتھ جماعت میں چوری کا واقعہ پیش آیا اور میں نور العظیم بھائی کی حکمت عملی کی وجہ سے مسلمانوں سے بد ظن ہو تے ہوتے بچ گیا،  نور العظیم بھائی کو اللہ پاک بہترین بدلہ عطاء فرمائے سچ ہے (روتے ہوئے) اگر نور العظیم بھائی کے ہاتھ میں گو لی نہ لگتی تو ہو سکتا تھا کہ ہم سے ڈر کر موبائیل فون چھن جانے کی رپورٹ درج نہ کراتے اور نہ ہمیں ہدایت ملتی۔ جب مجھے اس بات کا خیال آتا ہے تو اندر سے دل کانپ جاتا ہے لیکن ما شا ء اللہ نور العظیم بھائی کے اوپر انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھانے والی مثال صادق آتی ہے اللہ تعالی شرف قبولیت بخشے۔ اللھم زدفزد

سوال  :  نور الامین بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے ہما رے لئے وقت نکالا،  السلام علیکم و رحمۃ  اللہ و برکاتہٗ

جواب :  میں شکریہ کے کہاں لائق ہوں ،  یہ تو آپ کا حسن ظن ہے کہ جو آنجناب نے مجھے عزت بخشی۔ حاجی عطا صاحب اب آپ میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی مجھے سچا داعی بنا دیں۔ آمین

آپ کا بہت بہت شکریہ

ما خوذ  از اور مجھے راستہ مل گیا صفحہ ۱۸  تا ۲۸

٭٭٭

 

 

مالک سے ملنے کی تڑپ نے راہ دکھا ئی

 عبدالعزیز صاحب {پیر کھلائی ناتھ} سے ایک ملاقات

 

 

احمد اوّاہ :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

عبدالعزیز :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

سوال  :  آپ کا پہلا نام ؟

جواب :  میرا پہلا نام ’’پیر کھلائی ناتھ عرف بھولہ گری ‘‘تھا۔

سوال  :  آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟

جواب :  ٹوڈہ کلیان پور کا میں رہنے والا ہوں، یہ میرا آبائی وطن ہے ویسے میں ہریانہ کے ایک آشرم میں رہتا تھا اور وہاں پر میں وہ آشرم کا ذمہ دار تھا۔

سوال  :  کیا یہ دونوں آشرم ایک ہی جگہ تھے ؟

جواب :  نہیں دوسرا آشرم باڑ میر راجستھان میں تھا

سوال  :  آشرم میں آپ کیا کرتے تھے ؟اور وہاں پر جو لوگ آتے تھے ان کو کیا عمل کرا یا جاتا تھا ؟

جواب :آشرم میں ہم صبح و شام لوگوں کو مورتی پوجا کراتے تھے میرے گرو جی پیر سر جائی ناتھ عرف دھنش گری نے مجھے آشرم کا ذمہ دار بنا دیا تھا اور ان دونوں آشرم کا مختار نامہ میرے نام کر دیا تھامیں وہاں پر پوجا پاٹھ کر اتا تھا،اور جو لوگ آئیں ان کے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام کیا جاتا تھا اور غریبوں کو کمبل وغیرہ تقسیم کئے جاتے تھے اور جو لوگ پریشان حال ہوتے، یا کسی کی جیب کٹ جاتی یا چوری ہو جاتی تو ان کی مدد بھی کی جاتی تھی۔ آشرم  کی ۱۲۰۰  بیگہ زمین اور ۴  ٹریکٹر تھے، اور جائیداد سے متعلق ۶ مقدمے، سبھی گرو نے میرے نام کر دئے تھے اور میں ان سب کا مالک تھا۔

سوال  :  گرو جی نے آپ کو اپنا جانشین کس بنا پر بنایا تھا ؟

جواب :  جانشین بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ گرو اپنے ششیوں میں سے کسی ایک کو چنتا ہے جو انہیں اچھا دکھائی دے اور گرو کو اس پر اعتبار ہو کہ وہ اس کے مال و دولت اور آشرم کی صحیح طور پر حفاظت کرے گا، تو گرو اس کو آشرم کی مال و دولت کا مختار نامہ اس کے نام کر دیتا ہے اور اس کو آشرم کا مالک بنا دیتا ہے۔

سوال  :  آپ کی تعلیم کہاں تک ہے ؟

جواب :  میری تعلیم انٹر میڈیٹ تک ہے۔

سوال  :  آپ کے اسلام قبول کرنے کی کیا وجہ رہی ؟کس نے آپ کو دعوت دی ؟

جواب :  مجھے کسی نے دعوت نہیں دی، مجھے پہلے سے ہی سچائی کی تلاش تھی، اور اپنے مالک سے ملنے کی تڑپ، جب ہم آشرم میں پوجا پاٹھ کرنے کے بعد آرام کرنے کے لئے لیٹتے تھے تو کہتے تھے کہ مالک تم ہو ضرور، اور ہمیں سچائی کی تلاش ہے اور سچائی ہمیں مل جائے تو بہت ہی اچھی بات ہو، اس کے بعد ایک دن خواب میں میرے مالک نے مجھے سچائی کو بتا ہی دیا۔

سوال  :  خواب میں آپ نے کیا دیکھا؟

جواب :  ایک رات مجھے خواب میں دکھائی دیا کہ ایک صاحب سفید کپڑے پہنے ہوئے سفید ٹوپی لگائے ہوئے آئے اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئے، کہنے لگے کہ لکھو، میں نے کہا کہ لکھنے کے لئے تو کاپی اور پین کی ضرورت ہے، میں کاپی پین لے کر آتا ہوں۔ میں کاپی اور پین لایا، انہوں نے کہا لکھو : لا الہ الا اللہ محمد رّسول اللہ میں نے ان سے کہا کہ یہ تو مجھے یاد ہے، اس کو لکھنے کی کیا ضرورت،میں نے ان سے معلوم کیا کہ تم کون ہو؟وہ کہنے لگے کہ میرا نام معین الدین ہے، اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

سوال  :  اس کے بعد کیا ہو؟

جواب :  صبح کو آشرم کے قریب میں کچھ مسلمان بھائی رہتے تھے میں نے ان سے اپنے خواب کے بارے میں بتایا ا ور معلوم کیا کہ یہ معین الدین کون ہیں ؟ وہ کہنے لگے کہ یہاں معین الدین  تو کوئی نہیں، ہاں اجمیر میں ان کی درگاہ ہے، وہ مجھے لے کر اجمیر گئے وہاں میں پہنچا تو کوئی کہتا کہ درگاہ پر پھول چڑھاؤ اور کوئی کہتا ہے کہ کتنے پیسے لکھوں ؟ میں نے کہا کہ تیری مرضی ہے چاہے جتنے لکھ دے، میرے دل نے کہا کہ یہ تو ہماری طرح ہی کرتے ہیں جس طرح ہم پوجا پاٹھ کرتے ہیں اسی طرح یہ بھی کرتے ہیں، یہاں تو کوئی خاص بات نہیں ہے، تو میں وہاں سے آشرم واپس آ گیا۔

سوال  :  پھر کیا ہوا ؟

جواب :  آشرم میں واپس آ کر میں نے دو سفید تہبند اور کرتے سلوائے اور میں ٹرین سے دہلی چلا گیا۔ جب دہلی اسٹیشن پر پہنچا تو میرے دل نے کہا کہ تو سہارنپور چل، میں سہارنپور آشرم میں جہاں پر ہر گری ذمہ دار تھے جن کو میں پہلے سے جانتا تھا ان کے یہاں چلا گیا وہاں پر میں ایک رات ٹھہر ا، صبح ناشتہ کرنے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ مجھے جانا ہے۔ میں ٹھہر نے کے ارادے سے نہیں آیا تھا۔ اس لئے نکل گیا، سہارنپور اسٹیشن پر پہنچا تو میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے دیوبند جانا چاہئے۔ میں نے دیوبند کا ٹکٹ لیا اور دیوبند پہنچ گیا، دیوبند اسٹیشن سے باہر نکل کر ایک رکشا والے سے جس نے کرتا پائجامہ اور ٹوپی لگائی ہوئی تھی، اس سے میں نے کہا کہ مجھے مسلمان ہونا ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ مسلمان کس طرح ہوتے ہیں ؟تو مجھے مسلمان بنانے کے لئے لے چل، اس نے مجھے رکشہ میں بٹھا کر مولانا اسلم صاحب کے یہاں لا کر چھوڑ دیا، وہاں مولانا اسلم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے کلمہ پڑھایا اور دار العلوم گھمایا اور میری دعوت کی پھر شام میں مجھے ایک صاحب کے ساتھ پھلت حضرت کے پاس بھیج دیا، حضرت نے میرے کاغذات بنوا کر جماعت میں جانے کے لئے بٹلہ ہاؤس بھیج دیا، وہاں جا کر میں جماعت میں چلا گیا۔

سوال  :  کتنے دن کی جماعت میں گئے تھے آپ ؟

جواب :  میں نے جماعت میں جا کر چار مہینے لگائے، جماعت میں میں نے نماز وغیرہ یاد کی اور پاکی ناپاکی وغیرہ کے بارے میں جانا۔

سوال  :  اس کے بعد کیا ہوا؟

جواب :  میں پھلت آ گیا اور پھلت میں آ کر مدرسہ میں نوکری کر لی وہاں پر جو مجھے تنخواہ ملتی تھی، اس میں میرا کام نہیں چلا تو میں بغیر بتائے پھلت سے چلا گیا۔

سوال  :  کہاں چلے گئے تھے آپ ؟

جواب :  میں واپس اپنے علاقے میں چلا گیا تھا۔

سوال  :  وہاں پر کیا کیا آ پ نے ؟

جواب :  میں پھلت سے یہ نیت کر کے نکلا تھا کہ وہاں جا کر دعوت کا کام کروں گا، وہاں لوگ مجھے بہت مانتے ہیں۔

سوال  :  وہاں پر آپ نے کس کو دعوت دی؟

جواب :  وہاں میں نے لوگوں کو سمجھایا اور مورتی پوجا کے بارے میں بتایا کہ جس کی تم پوجا کر تے ہو وہ تو اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تو تمہاری کیا حفاظت کریں گے، اور تم شیو لنگ کی پوجا کرتے ہو۔ کتنی بری چیز کی پوجا کرتے ہو۔اور اس کے درشن کے لئے جاتے ہو کتنی بری بات ہے اور اس کو بھگوان کہتے ہو یہ بھی کتنی گندی چیز کا نام ہے۔ وہ سب کہتے تھے کہ بات تو آپ صحیح کہتے ہیں لیکن ہم اس کو چھوڑ نہیں سکتے، لوگ کیا کہیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی اسی طرح کرتے تھے۔ اس کو کیسے چھوڑ دے؟ میں نے انہیں بہت سمجھایا، لیکن وہ کہنے لگے کہ ہم مر تو سکتے ہیں، لیکن اس کو چھوڑ نہیں سکتے۔

سوال  :  آپ کا آشرم نہیں جانا ہوا ؟

جواب :  میں آشرم گیا تھا جب میں آشرم سے آیا تھا تو وہاں میں نے ۱۰ آدمیوں کی کمیٹی کے نام مختار نامہ کرا دیا تھا اور بینک میں جو پیسے تھے اور جو زمین تھی، سب انہیں کے نام کر دیا تھا، میری جیب میں جو پیسے تھے اس کے علاوہ ساری جائیداد میں نے کمیٹی کے نام کر دی تھی۔

سوال  :  آشرم والوں کو دعوت دینے کے لئے نہیں گئے ؟

جواب :  میں آشرم گیا ایسے ہی کپڑے پہنے ہوئے اور ٹوپی لگائے ہوئے، میں نے وہاں جا کر ان کو دعوت دی، انہوں نے مجھے آشرم میں قید کر لیا، وہ کہتے تھے کہ تو تو مسلمان ہو گیا اور بگڑ گیا ہے اور مجھے آشرم سے باہر نکلنے نہیں دیا۔

سوال  :  آپ کیسے وہاں سے نکلے ؟

جواب :  میرا ایک ششے تھا اس نے مجھے رات کو خاموشی سے نکال دیا۔

سوال  :  آپ نے اس کو دعوت نہیں دی ؟

جواب :  اس کو دعوت تو دی لیکن اس نے قبول نہیں کی وہ کہتا تھا آپ اپنی جگہ پر صحیح ہو لیکن بات نہیں مانی۔

سوال  :  آپ کے گھر والوں کا کیا ہوا،وہ لوگ کہاں ہیں ؟

جواب :  میری ایک بیٹی ہے، اس کو میں نے دعوت دینے جانے کا ارادہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں حضرت سے بات کی ہے، حضرت نے مجھے کہا ہے کہ تنہا نہیں جانا،بلکہ کسی کو ساتھ لے کر جانا۔ انشاء اللہ حضرت سفر سے واپس آ جائیں تو میں اپنی بیٹی اور داماد کے پاس جاؤں گا۔

سوال  :  آپ کے ماں باپ اور بیوی کہاں ہیں ؟

جواب :  میری بیوی کا انتقال ہو گیا تھا جس سے میری ایک بیٹی تھی میں اپنی بیٹی کو اپنے بھائیوں اور ماں باپ کے پاس چھوڑ کر آشرم چلا گیا تھا اور سنیاس لے لیا تھا اس لئے جب سے اب تک ماں باپ وغیرہ سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اپنی بیٹی کی شادی میں نے خود کروائی ہے۔

سوال  :  والدین اور بھائیوں کے بارے میں معلوم نہیں کیا کہ وہ کہاں پر ہیں ؟

جواب :  میرے والد فوجی تھے وہ دہلی میں پالم ہوائی اڈہ کے پاس شفٹ ہو گئے تھے۔

سوال  :  ان سے ملاقات نہیں ہے آپ کی ؟

جواب :  جب میں ۲۵  سال کا تھا اس وقت میں نے اپنی بیوی کے انتقال کے بعد سنیاس لے لیا تھا۔ سنیاسی کا گھر والوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں،  اس لئے میری ان سے ملاقات نہیں ہے، بس یہ معلوم ہے کہ وہ دہلی میں ہیں۔

سوال  :  ارمغان پڑھنے والوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب :  ہاں ! میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے مسلمان بھائیوں میں یہ کمی ہے کہ وہ غیر مسلم بھائیوں کو اسلام کے بارے میں نہیں بتاتے، خود مجھے بھی کسی نے دعوت نہیں دی،  جب کہ میں ۲۵  سال تک انہیں کے ساتھ اپنے گاؤں میں رہا، کلیان پور میں مستقل میرا مسلمان بھائیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا، لیکن کسی نے مجھے دعوت نہیں دی، مسلمان بھائیوں سے میری درخواست ہے کہ وہ بلا ڈر و خوف اسلام کا پیغام غیر مسلم بھائیوں کو پہنچائیں اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جنت عطا فرمائے اور مجھے اللہ تعالیٰ جنت بھی نہ دیں بس اپنا دیدار نصیب فرما دے۔

سوال  :  اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟

جواب :  اب تو ہم نے اپنے آپ کو اللہ کو سونپ دیا اور حضرت کی شرن (پناہ ) میں آ گئے ہیں، بس اب دعوت کا کام کرنا ہے۔

سوال  :  جزا کم اللہ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ السلام علیکم

جواب :  و علیکم السلام، احمد بھائی۔

ماخوذ از ماہ نامہ ’’ارمغان‘‘ نومبر   ۲۰۱۱ء

٭٭

 

 

 

پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے

نور اللہ جی {اوم پرکاش} سے ایک ملاقات

 

سوال  :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

جواب :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و  برکاتہٗ

سوال  :  نور اللہ بھائی آپ اسی ہفتہ جماعت سے واپس آئے ہیں۔ آپ کا وقت کیسا اور کہاں لگا؟

مولانا محمد محمود صاحب بندہ کے وقت کو اللہ پاک نے مالیگاؤں مہاراشٹر میں لگوایا،  جماعت کی کارگذاری بڑی ایمان افروز ہے۔ کئی واقعات قابلِ ذکر ہیں ان میں سے بہت اہم بات یہ ہے کہ ہماری جماعت جب مالیگاؤں پہنچی مشورہ میں امیر صاحب اور تمام ساتھیوں نے متفق رائے ہو کر یہ فیصلہ لیا کہ ہماری جماعت مالیگاؤں کے اطراف میں پیدل سفر کرے گی، پہلا عشرہ تو معمول کے مطابق گذرا اور پھر دوسرا عشرہ شروع ہی ہوا تھا کہ ہماری جماعت پیدل سفر کر رہی تھی اور عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا اور سامان رکھ کرتالاب پر وضو کیا اور نماز عصر ادا کی اسی درمیان ایک ہندو شخص ہماری طرف بغور دیکھ رہا تھا یہ سب دیکھ کر وہ ہمارے قریب آیا اور اس نے ہم سے سوال کیا کہ تم کس کی اپاسنا کر رہے تھے  اور کس کے بھکت ہو؟ہم نے جواب دیا کہ ہم ایک ہی مالک کی پوجا کرتے ہیں پھر اس نے ہم سے دوسرا سوال کیا کہ آپ اپنے سامنے اپنے ایشور کی مورتی تصویر کیوں نہیں رکھتے؟میں نے کہا ہمارا مالک انا کار ہے، اس کا کوئی آکار نہیں ہے۔ (اس کا کوئی مجسمہ )نہیں ہے وہ اس بات کو سن کر بڑا پریشان ہوا اس نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ پر دھیان کس چیز پر جماتے ہو ؟بندہ نے کہا کہ ہمیں صرف ایک ایشور کا دھیان رہتا ہے اس کے علاوہ جتنی شکتیاں ہیں سب ایک مالک کی بنائی ہوئی ہیں اور کبھی بھی بنی ہوئی وستوا پنے بنانے والے سے شریشٹھ نہیں ہو سکتی یہ بات سن کر اس کے اندر جو فطرتِ اسلام موجود تھی وہ باہر نکل آئی اور وہ بے اختیار بول اٹھا کہ اب تم مجھے اپنے جیسا بنا لو بندہ نے اس کو فوراً کلمہ پڑھا یا اور کچھ دین کی باتیں امیر صاحب سے سننے کو کہیں، ماشاء اللہ وہ بھی آج کل جماعت میں چل رہے ہیں، ان کا پرانا نام وجے پرکاش تھا اب الحمد للہ فتح محمد رکھ دیا گیا ہے ابھی وہ جماعت میں جانے کی تیار ی میں لگا ہے۔

سوال  :     آپ کے قبول اسلام کا کیا واقعہ ہے ؟یعنی آپ کفر و شرک کے دلدل کو چھوڑ کر اسلام میں کیسے داخل ہوئے ؟

جواب : میں مدھیہ پردیش کے ضلع راکسین کا رہنے والا ہوں اور میرے والد صاحب ایک چھوڑے سے کسان ہیں، ہم سات بہن بھائی ہیں اس لئے گھر کا گذر بسر مشکل سے ہوتا ہے۔ میں سب سے بڑا بھائی ہوں اور میں نے پڑھائی بھی کوئی خاص نہیں کی تھی بس کچھ دھارمک پستکیں پڑھ کر میرا دھیان دھرم کی طرف کافی ہوا، پھر میں نے کچھ مندروں میں جا کر سنسکرت دھارمک گیان حاصل کیا اور مندر کا پنڈت یعنی یوگیّے بنا اور بھوپال کے ایک چھوٹے سے مندر سیوک چنا گیا ابھی تقریباً چار سال میرے کارئے کال کو ہوئے تھے میرا جیون مندر کے کارسیوک پوجا ارچنا ہون وغیرہ کے لئے وقف تھا کہ اچانک چھ مارچ  ۲۰۱۱ دوپہر سے قریب ایک بجے دو مسلم سمودائے کے یوک مندر کے پرانگن میں داخل ہوئے انہیں دیکھ کر میرا من وچلت ہو اٹھا لیکن کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں مسلم دھرم گرو مجھے سلام کر رہے ہیں اور آگے بڑھ کر ہاتھ ملانا چاہتے ہیں تو میں نے ہاتھ تو نہیں ملایا لیکن ان کے آدر سمان کے لئے ان کے سامنے ہاتھ جوڑے اور ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ کرشن جی کی قد آور مورتی سے آگے بیٹھتے ہوئے کترانے لگے تو سیوک نے ان کو مندر سے پرانگن میں بنی کٹی میں بٹھایا ان دونوں نے ہمیں اپنے نام مفتی عادل احمد کٹکی اور مانیے مولوی محمد نور العظیم پھلتی بتائے تعارف کے بعد فوراً بغیر کسی تمہید سے مجھ سے مفتی عادل احمد کٹکی نے کہا تم کو نرک کی آگ سے بچنا ہے تو ڈاکٹر وید پرکاش اپا دھیائے جی کی بات مان لو وہ کہتے ہیں کہ ’’ جو اسلام گرہن نہ کرے اور انتم سندیشٹا حضرت محمد صاحب کو نہ مانے وہ ہندو بھی نہیں ہے ‘‘ آخر کا ر میری سمجھ میں ان کی تمام باتیں آ گئیں اور میں نے مالک کو اپستھت جان مفتی عادل صاحب سے کلمۂ حق پڑھا یہ کلمہ پڑھ کر مجھے ایسا لگا مانو میں بہت ہلکا ہو گیا ہوں لیکن مجھے مندر میں بہت گھبراہٹ بھی ہو رہی ہے تھی لگتا تھا کہ یہاں مندر میں میرا دم ہی نکل جائیگا۔ مالک نے وہاں سے نکلنے کا پر بندھ بھی کر ہی دیا۔ جس کا ورنن یہ ہے کہ جب ان دونوں داعیوں نے مجھے کفر و شرک کے گہرے دلدل سے نکال دیا تو میں نے ان کے موبائل نمبر لئے اور پھر وہ دونوں چلے گئے اگلے دن میں نے ۱۱  بجے صبح کو فون لگایا تو مفتی عادل سے بات ہوئی میں نے ہندی انواد قرآن کا منگایا تو انھوں نے مولانا محمد نور العظیم سے بات کرائی تو وہ بولے کہ آج جمعہ کا دن ہے اس لئے میں تین بجے قرآن لے کر آؤں گا اور میں نے فون کاٹ دیا، پھر مفتی عادل کٹکی اور مولوی نور العظیم تین بجے مندر میں داخل ہوئے ان کے پاس قرآن پاک موجود تھا میں نے دیکھ کر فوراً قرآن کو پڑھنا شروع کر دیا مولوی نور العظیم نے منع بھی کیا کہ یہ قرآن ہم آپ کے ہی لئے لائے ہیں بعد میں پڑھ لیجئے گا لیکن مجھے تو اللہ تعالیٰ کو مندر سے نکالنا تھا سو ویسے ہی حالات بن گئے کہ میں ابھی قرآن پڑھ ہی رہا تھا کہ دو آدمی جو مندر کمیٹی کے ممبر تھے۔  ہمارے پاس آئے اور انھوں نے دان پیٹی کے حساب کا جو رجسٹر تھا وہ طلب کیا تو میں نے جیسے ہی اٹھنے سے پہلے قرآن کو بند کیا تو اس کے اوپر قرآن مجید لکھا ہوا تھا اس کے دیکھتے ہی ان میں سے ایک ممبر بھڑک اٹھا کہ یہ قرآن یہاں کیوں آیا اور اس نے ان دونوں مولویوں کی پٹائی کرنا شروع کر دی لیکن اللہ نے دوسرے ممبر کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ہم بجائے اس کے کہ ان مسلموں کی پٹائی کریں جو اصل ہے یعنی میں اس کی ہی خیر لیں تو ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ مسلم ہیں یہاں بلوہ ہو جائے گا یہ سب اللہ نے کہلوایا اور یہ کہہ کر انھوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا مجھے پٹتا دیکھ کر دونوں مولانا خائف ہو گئے لیکن پھر میں نے ہی انھیں مندر سے جانے کا اشارہ کیا تو وہ دونوں جلدی سے وہاں سے چلے گئے پھر میں نے ایک گھنٹے بعد مفتی عادل صاحب کو فون لگایا کہ میرے تین دانت ٹوٹ چکے ہیں لیکن قرآن میرے پاس موجود ہے اب کیا کرنا ہے مفتی عادل صاحب نے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ رقم وغیرہ ہے یا نہیں تو میں نے ہاں میں جواب دیا اس کے بعد مفتی صاحب نے کہا کہ سب سے پہلے کسی ڈاکٹر کو فون لگا یا پھر میں نے ایک گھنٹے بعد تقریباً پانچ بجے مفتی صاحب کو فون لگانا چاہا تو وہ بند تھا پھر میں نے مولانا نور العظیم کے فون پر کال کی تو انھوں نے چار بتی (رسول احمد صدیقی چوراہے) پر جو کلثوم بی صاحبہ کی مسجد ہے وہاں آنے کو کہا تو میں خون میں لت پت قرآن ہاتھ میں لئے وہاں پہنچا تو مجھ سے پہلے ہی مفتی عادل کٹکی اور مولوی نور العظیم مسجد کے گیٹ پر موجود تھے مجھے  خون میں تر بتر رہنے کے باوجود دونوں بے اختیار مجھ سے لپٹ گئے اور پھر مجھے لے کر چرا یو اسپتال گئے وہاں علاج کے لئے ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور جو فرسٹ ایڈ دلاتے تھے وہ دلا کر ابراہیم پورہ مارکیٹ سے چار پانچ لکھنؤ کرتے پائجامے کے جوڑے ٹوپی رومال وغیرہ دلا کر موتی مسجد لے آئے اور مجھے غسل کا طریقہ بتایا پھر میں نے غسل کیا اور ہم تینوں لوگ عشا کے بعد تاج المساجد (جہاں ۲۸  مارچ کو تبلیغی جوڑ تھا) میں پہنچ گئے رات بھر وہیں رہے، مجھے ڈر بھی لگتا رہا لیکن مسجد میں رہ کر من کو شانتی بھی مل رہی تھی۔ اگلے دن جماعتیں جانا شروع ہوئیں تو مولوی نور العظیم اور مفتی عادل صاحب کٹکی نے ہمیں ایک مہاراشٹر جانے والی جماعت میں جوڑ دیا اور الحمد اللہ میرا چلہ بہت اچھا لگا دین کی بنیادیں باتیں معلوم ہو گئیں۔ اور امید ہے کہ مجھے اب اسلام سمجھنے میں ادھک کٹھنائی نہیں ہو گی۔

سوال  :    آپ نے اپنے خاندان والوں کو اپنے قبول اسلام کی اطلاع دی ؟

جواب :   جی نہیں ابھی مجھے دعوت میں لگے ہوئے بھوپال کے کچھ ساتھیوں نے اعلان کر نے کو منع کیا ہے کیونکہ میں جس مندر میں تھا وہ بجرنگ دل سے متعلق ہے اور بھوپال کے ایک حساس ترین علاقہ میں واقع ہے اور ہمارا گھرانہ بھی بجرنگ دل سے ہی تعلق رکھتا ہے۔

سوال  :  آپ کی تعلیم کہاں تک ہے ؟

جواب :   میں نے پڑھائی کوئی خاص نہیں کی لیکن رام چرتر مانس پر پی، ایچ، ڈی کی ہے لیکن اسلام کو قبول کرنے اور اس کو پڑھنے کے بعد ایسا لگا کہ مانو میں نے رام چرترمانس پر پی ایچ ڈی کرنے میں اتنا سمے نشٹھ کر دیا۔

سوال  :   اب ہم آپ سے انتم سوال کرتے ہیں آپ کیا ہم مسلمانوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔

جواب :  ہاں میرا پیغام یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ جس طرح مفتی عادل کٹکی اور مولوی نور العظیم پھلتی ہمارے پاس مندر میں بے کھٹکے پہنچ کر اسلام کا پریچے کرانے آئے اور بڑے دو ٹوک انداز میں اسلام کا پیغام مجھ تک پہنچایا اسی طرح تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے سو جھاؤ سے اسلام کی سچائی کا پریچئے ہر مانو جاتی کو کرائے اس کے لئے چاہئے مندر جانا پڑھے چاہے گر جا اور چا ہے گردوار میں سب جگہ پہنچ کر اسلام کا تعارف بلا کسی دہشت کے کرا دیں کیونکہ قرآن میں ہے وَاللہ  یعصمک من الناس

سوال  :  نور اللہ بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے ہمیں اپنا قیمتی وقت دیا۔

جواب :  ارے صاحب شکر یہ کے لائق میں کہاں ہوں شکریہ تو آپ کا ہے کہ مجھ گندے کا سبق بھی لوگ عبرت کی نگاہ سے پڑھیں گے۔ و ما توفیقی الا باللہ۔

٭٭

 

 

٭٭٭

تشکر عمر کیرانوی جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید