FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ادبی جائزے

 

 

 

                   مختلف ادبا

ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

متعدد حسین رنگوں کا امتزاج ہے۔۔ لینڈرا

 

اختر آزاد، جمشید پور

 

’’لینڈرا‘‘  ڈاکٹر اسلم جمشید پو ری کے افسانوں  کا دوسرا مجموعہ ہے۔ افسا نے کا عنوان بحث طلب ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لفظ  ’’لینڈرا‘‘  نہیں ’لنڈورا‘ ہو نا چاہیے تھا۔ ’لنڈورا‘ بذاتِ خود ایک الگ لفظ ہے۔ لیکن یو پی کے کئی علاقوں میں ویسے بچے جو ماں کی دوسری شادی کے بعد سوتیلے باپ کے گھر پہنچتے ہیں اُ سے وہاں تضحیکانہ انداز میں ’لینڈرا‘ کہا جاتا ہے۔

 

’لینڈرا‘ کے افسانوں  کو اسلم نے پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر حصے کو ایک الگ رنگ میں رنگ کر ایک نیا تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے، رنگ (۱) میں سات طویل کہانیاں، شامل ہیں۔ رنگ  (۲) میں پانچ مختصر کہانیاں، ہیں۔ رنگ  (۳) میں بارہ’ مختصر مختصر کہانیاں، موجود ہیں۔ رنگ (۴) کے حصے میں چار پرانی کہانیاں آئی ہیں۔ جن میں سے ایک ایک پہلی کہانی ’نشانی‘‘  ہے، جو ستمبر ۱۹۸۱ء کے رو شن ادب، دہلی میں شا ئع ہو ئی تھی۔ اُ سے بغیر ترمیم و اضا فہ کے اس میں شا مل کیا گیا ہے۔ رنگ (۵) میں ایک ’ یک سطری‘ کہانی ہے۔  ’’افسا نے میں زندگی ضرور ہو تی ہے، لیکن زندگی افسا نہ نہیں۔ ‘‘  اسے ’زندگی‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔

 

’لینڈرا‘ کے پانچ رنگوں کے حسین امتزاج کو اگر بغور دیکھیں تو آ پ کو چھو ٹی بڑی کہانیوں کی صورت میں اسلم کے ذہنی اختراع کے ۹۲ رنگ، الگ الگ کینوس پر اپنا جلوہ دکھاتے نظر آئیں گے ہر کہانی کے آ خر میں وقت اور تاریخ بھی درج ہے اور شا ید یہ قصداً کیا گیا ہے تاکہ وقت کی عدالت میں تاریخ گواہ بنے اور فیصلے کی کرسی پر بیٹھا ناقد تخلیق کے سا تھ انصاف کرے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسلم نے صرف اپریل ۲۰۰۹ء میں ۱۰ سے ۱۵ تاریخ کے درمیان ’لینڈرا‘، ’کیمپس‘، ’اصول‘، ’اندر خانے با ہر خانے ‘، ’ایکشن‘، ’المیہ‘، ’تجربہ کار‘، ’سو شل انجینئرنگ‘۔  ’’نشیب کی طرف‘ اور ’ زندگی‘ جیسی دس کہانیاں لکھی ہیں۔

 

اس طرح کی کہانیوں کے موضوعات کے لیے اسلم کہیں دور نہیں جاتے۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے واقعات سے چھو ٹی چھوٹی کہانیاں اس خوبصورتی سے گڑھ لیتے ہیں کہ پڑھنے وا لا اسے بار بار پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اپنی دلکش تحریر کے ذریعہ سماج پر ایک ایسا وار کرتے ہیں کہ لوگ تلملا کر رہ جاتے ہیں۔

 

اسلم جمشید پو ری کا پہلا افسانوی  مجموعہ’ افق کی مسکرا ہٹ‘۱۹۹۷ء میں منظر عام پر آ یا تھا۔ اس کے پیش لفظ میں اسلم نے ایک نشست میں چار چار کہانیوں کے لکھے جانے کی بات تسلیم کی تھی۔ دوسرے مجموعے ’لینڈرا‘ میں بھی ایک نشست میں (۱۲اپریل ۲۰۰۹ء کو ۱۲ بجے رات سے لے کر ۱۵۱:۲ کے درمیان) پانچ کہانیوں کے لکھے جانے کی شہادت ملتی ہے ایک نشست میں ایک کہانی کی بات تو سمجھ میں آ تی ہے۔ لیکن ایک سے زیادہ کہانیاں اور وہ بھی ایک ہی نشست میں میں سمجھتا ہوں کہ اس کا نقصان اسلم جیسے ذہین کہانی کار کو کہیں نہ کہیں ضرور ہوا ہے۔ ایسے میں اسلم نے زیادہ تر منی کہانیاں لکھی ہیں میری حقیر رائے میں منی کہانیاں، کہانی کی ان تقاضوں کو پو را نہیں کرتیں جن کی وہ متقاضی ہو تی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کینوس پر بڑی بڑی کہانیاں لکھنا آسان نہیں ہو تا۔ لیکن میری اس بات سے ہر گز یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ جو جتنی بڑی کہانی لکھے گا وہ اتنا بڑا کہانی کار ہو گا۔ کہانی اپنے موضوعات، پیشکش، اسلوب اور ٹریٹمنٹ کی وجہ سے بڑی یا چھوٹی ہو تی ہے۔

 

ادھر قریب دو تین سا لوں سے میں نے محسوس کیا ہے کہ اسلم کے قلم نے کہانیوں کو پریگنینٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے آج کل ان کی کہانیاں اپنے کینوس پر بیچ سے پھولنے لگی ہیں۔ اب وہ کردار کو سنوارنے میں پہلے سے زیادہ وقت دینے لگے ہیں۔ جذیات نگاری کے خوبصورت بیان اور دلکش اسلوبنی ان کی کہانیوں کو ایک نیا حسن عطا کیا ہے اور یہ سب اس لیے ہوا ہے کہ اسلم ایک بھر پور تنقیدی بصیرت بھی رکھتے ہیں جس کی وجہ سے کہانیوں کی ایک نئی دنیا ان کے چاروں طرف آباد ہو نے لگی ہے۔ اسلم اب یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ صرف منی کہانیوں کی بدو لت ادب میں پہچان بننے وا لی نہیں ہے۔ جب بھی کہانیوں کی بات ہو تی ہے تو منی کہانیوں کا ذکر کون کرتا ہے ؟’کفن‘، ’ٹھنڈا گوشت‘، ’لکشمی کا پل‘، ’آ نندی‘، ’میلہ گھومنی‘، ’الاؤ‘، ’لاجونتی‘، ’لحاف‘ اور ’پرندہ پکڑنے وا لی گاڑی‘ جیسی کہانیاں خود بخود زبان پر چلی آتی ہیں۔ منٹو اور جو گیندر پال نے بھی منی کہانیاں لکھی ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ ادب میں ان کی پہچان کس سے ہے اسلم کی بہترین کہانیوں میں ’ موت کا کنواں ‘، یہ ہے دلی میری جان، ’تم چپ رہو بیر پال‘، ’ مجھے معاف کرنا رام سنگھ‘، ’شبراتی‘، ’پینٹھ‘ اور ’ لینڈرا‘ کا نام آ تا ہے۔ لیکن یہاں میں آخر کی تین کہانیوں کا بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا اور اپنی بات ان کہانیوں تک ہی محدود رکھوں گا۔ اس اُمید کے سا تھ کہ آ پ بھی ان کہانیوں کو پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ اسلم کی یہ کہانیاں ہم عصر افسا نہ نگاروں کے سامنے کہاں ٹھہرتی ہیں۔

 

اسلم نے’ شبراتی‘ کے قصے کی عمارت تو گاؤںکی اندھ وشواس لو گوں کی سوچ سی بنی اینٹوں پر رکھی ہے زندگی اور موت سب خدا کے ہا تھ میں ہیں۔ لیکن جب ایک طرح کی بیماری سے گاؤںکے جانوروں کے تھن سوکھنے لگتے ہیں اور جانور مرنے لگتے ہیں تو گاؤںوا لوں کو لگتا ہے کہ اُن کے گاؤںمیں دُکھ گھس آ یا ہے جسے نکلوا نے کے لیے گاؤںکے مکھیا دکھ کی ہانڈی دے کر شبراتی کو گاؤںکی سر حد سے باہر اُ سے گاڑنے کے لیے بھیج دیتا ہے۔ لیکن گاؤںکے دکھ کو نکالنے والا شبراتی گاؤںکے دکھ کو نکال تو دیتا ہے لیکن خود طوفانی اور برساتی رات میں دکھ کے دلدل میں دھنس کر اپنے دونوں بچوں اور بیوی کے سینے پر دُکھ کا پہاڑ چھوڑ جاتا ہے کہانی کے آ خر میں اسلم نے شبراتی کے دونوں بچوں کو جو غم میں پو ری طرح سے ڈوبے ہوئے ہیں، ماں کے دامن کو کھینچتے ہوئے جس طرح سے دکھایا ہے اس سے کہانی بھی رو پڑی ہے۔

 

کہانی کا وہ آخری حصہ دیکھئے :

 

’’ہائے اللہ!‘‘

 

ایک دلدوز و دلخراش چیخ کے ساتھ شبراتن شبراتی کے بے جان جسم سے لپٹ گئی۔ اس کے دونوں بچے بھی روتے روتے لاش پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔، گاؤں وا لوں کی زبانوں پر تالے پڑ گئے تھے۔ ان کے سروں پر مانو منوں بوجھ تھا کہ سب کی گردنیں جھکی ہو ئی تھیں۔ ابھی کچھ دیر قبل گاؤںمیں خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ گاؤں سے دُکھ نکل گے ا تھا۔ شبراتی کے دونوں بچے اپنی ماں کا دامن کھینچ رہے تھے گو یا کہہ رہے ہوں، ماں ہما رے گھر میں گھسے دُکھ کو کون نکالے گا؟‘‘

 

یہ ایک اہم سوا ل ہے جو اسلم نے سماج کے ٹھیکیداروں سے کیا ہے کہ جس طرح گاؤںکے دُکھ کے لیے شبراتی جیسا غریب سامنے آ تا ہے۔ کیا کوئی ٹھیکیدار اُن کے بچوں کی زندگی بنا پائے گا۔ اس کے اس دُ کھ کو نکال سکے گا جو کم عمری میں اس کے دل کے بہت اندر گھس گیا ہے۔

 

کہانی ’ پینٹھ‘ میں ایک ایسی لڑ کی کا قصہ بیان کیا گیا ہے جو نہایت شریف اور اعلیٰ تعلیمی زیور سے آ راستہ ہے۔ لیکن جب بھی اس کے رشتے آ تے تو اس کا اپنا گھر ہی اُ سے پینٹھ نظر آ تا۔ لڑکے وا لوں کا سلوک اُسے ایسا لگتا جیسے وہ لوگ کسی لڑ کی کو نہیں بلکہ قربانی کا جانور پسند کر رہے ہوں۔ ہر بار کسی نہ کسی طرح کی کمی نکال کر لوگ دودھ کی مکھی کی طرح اُسے باہر کر دیتے لیکن ایک دن اس کی جا گتی آنکھوں میں اُمید کے جگنو جگمگاتے ہیں۔ گھر خوشیوں سے شرابور ہو جاتا ہے۔ لیکن جب لڑکا بات ہی بات میں اس سے قبل کے رشتوں کے ٹوٹنے تاریخ پیدائش اور بایو ڈاٹا جاننے کی کوشش کرتا ہے اور سا تھ ہی سا تھ اس کی عزت کو للکارتا ہے تو پی ایچ ڈی کر رہی سیما اس سے اُلٹے سوا ل کر بیٹھتی ہے :

 

’’آپ کی تعلیم کیا ہے ؟آپ کیا کام کرتے ہیں اور آپ کا عہدہ کیا ہے ؟انٹر پاس لڑکا غصے سے لال ہو جاتا ہے اور کھسیا کر جواب دیتا ہے۔  ’’میں کمپنی میں سینئر کار پینٹر ہوں۔ ‘‘

 

سیما جیسی لڑ کی جسے یہ معلوم ہے کہ بہت مشکل سے یہ رشتہ ہو رہا ہے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ کو ئی دوسرا رشتہ بھی نہ آئے اور زندگی بھر اُسے ماں باپ اور رشتہ داروں کے طعنے بھی سننے پڑیں۔ لیکن اس کے بعد بھی وہ اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرتی ہے۔ وہ اس لڑ کے کے غرور و تکبر سے بنے مرد ذات کے آئینے کو اپنے جملے کے ایک وار سے چور چور کر دیتی ہے :

 

’’سینئر کا ر پینٹر صاحب!آپ غلط پینٹھ میں آ گئے ہیں ‘‘

 

یہاں اسلم نے صدیوں سے چلی آ رہی مَردوں کی برتری پر ایک زبر دست طمانچہ لگایا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ برتری کا پیمانہ مردو زن کے درمیان اگر کوئی چیز ہے تو وہ ہے ’ تعلیم‘ یہ کہانی سیما جیسی لڑکیوں کے لیے وٹامن کا کام کرسکتی ہے۔ اُن کے اندر بھی خود اعتمادی، ہمت، جرأت اور حوصلہ پیدا کرسکتی ہے۔ پینٹھ میں بیٹھ کر بھی وہ دوسروں کی بولی لگا سکتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح سیما نے بو لی لگانے وا لے کی اس پینٹھ میں بولی لگا دی تھی، یہ کہہ کر کہ آپ غلط پینٹھ میں آ گئے ہیں۔

 

ٹائٹل کہانی  ’’لینڈرا‘‘ مجموعہ کی سب سے اہم کہانی ہے۔ یہ ایک لڑ کا فقیر محمد کی کہانی ہے۔ باپ کی موت کے بعد جب اس کی ماں دوسری شادی کر لیتی ہے تو وہ اپنے سوتیلے باپ کے گھر پہنچ جاتا ہے، جہاں لوگ حقارت سے اُ سے ’لینڈرا‘ کہتے ہیں لیکن لینڈرا کی اصل کہانی وہاں سے شروع ہو تی ہے جہاں اس کے دو سوتیلے بھا ئی جو عمر میں اس سے بہت چھوٹے ہیں ان کی شا دی کر دی جاتی ہے۔ لیکن کو ئی نہ تو لینڈرا کے لیے لڑکی ڈھونڈتا ہے اور نہ ہی کوئی اسے شادی کے لائق سمجھتا ہے۔ اصل میں لینڈرا اندر سے اتنا شریف ہو تا ہے کہ کبھی گاؤں کی کسی لڑکی پر نظر بھی نہیں اُٹھا تا، جس کے باعث گاؤں کی عورتیں اس کی اس شرافت کا نا جائز فائدہ اُ ٹھا کر خفیہ چیزیں بھی منگوا لیا کرتی ہیں، اس شرافت نے اس کے وجود پر نا مردی کا لیبل چپکا دیا تھا اور حد تو تب ہو گئی جب اس کے چھوٹے بھائی نے اپنی بیوی کو طلاق دیا تو گاؤں وا لوں نے یہ سوچ کر کہ لینڈرا تو نا مرد ہے اس کے ساتھ نکاح کر دیا جائے، عزت کی عزت بچ جائے گی اور حلا لہ کا حلالہ ہو جائے گا۔ لیکن اس رات جب دلہن اس کی موجود گی سے بے فکر سہاگ کے بستر پر چت سوئی ہوئی ہو تی ہے تو لینڈرا کو ایسالگتا ہے جیسے وہ اس کی مردانگی کو کھلے عام للکار رہی ہو:

 

’’کتنا اطمینان ہے حرام زا دی کے چہرے پرکیوں ہے یہ اطمینان، صرف اس لیے نا کہ میں لینڈرا ہوں۔ لینڈرا جو شاید مرد نہیں ہو تا۔ گاؤںکی سا ری عورتیں مجھے یہی سمجھتی ہیں نا۔ اُ نہیں یہ نہیں پتا کہ لینڈرا مرد ہے۔ لیکن بد کردار نہیں۔ کبھی کسی لڑ کی کو نہیں چھیڑا۔ کسی عورت کی طرف نگاہ اُٹھا کر نہیں دیکھا تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں مرد نہیں نا مرد ہوں سارے گھر کو، پو رے گاؤںکو اطمینان ہے۔ سب مجھے نا مرد سمجھتے ہیں آؤ گاؤںوالو دیکھ لو میں نا مرد نہیں ہوں۔‘‘

 

یہاں اسلم نے لینڈرا کی شادی کی پہلی رات اور اس رات میں دلہن کی بے فکری کو بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ اپنی بغل میں بے فکر دلہن کو سو تے دیکھ کر وہ کس طرح اپنی تضحیک محسوس کرتا ہے۔ لوگ جب اسے لینڈرا کہتے ہیں تو اس کے دل میں کیسا طوفان اٹھتا ہے۔ اس کی خو بصورت عکاسی اسلم نے کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ لوگ جسے اس کی نامردی سمجھتے ہیں، در اصل وہ اس کی شرافت ہے۔ لیکن لینڈرا بھی زمانے کو بتا دینا چاہتا ہے کہ وہ مرد ہے، لیکن بدکردار نہیں اور پھر اس رات وہ بے فکر سو ئی ہو ئی دلہن کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے صبح سویرے جب کنڈی کھول کر وہ کمرے سے با ہر نکلتا ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ جو لوگ اُسے پو ری زندگی بزدل، ڈرپوک اور کمزور سمجھتے رہے تھے وہی لوگ آج اس کے باہر نکلنے اور اس کے فیصلے کو سننے کے لیے بے تاب ہیں۔ پو ری زندگی وہ سنتا رہا تھا۔ لیکن آ ج سنانے کی باری اس کی تھی۔ اس وقت وہ خود کو لینڈرا نہیں بلکہ بادشاہ وقت سمجھ رہا تھا۔ اس لیے گاؤںوا لوں کے سا منے وہ شاہانہ انداز میں اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے۔ اپنی ایک رات کی دلہن کے لیے اپنے گھر کے دروازے بند کر لیتا ہے اور یہ سب کچھ ٹھیک اس طرح ہو تا ہے جیسے لینڈرا نے اپنی رجسٹرڈ’لینڈ‘ کو اکوائر کر نے کے بعد گاؤںوا لوں کی خوشی کی خاطر اُسے ایک جھٹکے میں وا پس کر دیا ہو۔

 

یہ اسلم کے قلم کا جادو ہے کہ انہوں نے کہانی کے انجام کو بہت ہی خوش سلیقگی سے نبھا یا ہے۔ ویسا جیسا لوگوں نے چاہا تھا کہ کچھ بھی نہ ہو اور دوسرے دن طلاق بھی ہو جائے۔ یعنی صرف دکھا وے کے لیے حلالہ ہو۔ اگر ایسا ہو تا تو یہ اسلامی شریعت کے خلاف جاتا۔ ایسے میں اسلم نے لینڈرا کے اندر کی مردانگی کو للکار کے طلاق سے قبل دلہن کے سا تھ جس طرح کا سلوک کروا یا ہے، وہی در اصل کہانی کا سب سے اہم حصہ ہے اگر اس کے بر عکس اسلم نے کہانی کے کلائمکس میں کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ کی ہوتی تو نہ ہی ’حلالہ‘ ہو تا اور نہ ہی کہا نی’ کہا نی‘ بنتی۔ کہانی کے اس انجام سے اسلم نے اسلامی شریعت کو جو استحکام بخشا ہے وہ قا بل تعریف ہے۔

 

اسلم کی کئی ایک کہانیوں میں علا قا ئی زبان کا خوبصورت استعمال بھی جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ ’شبراتی‘، ’یہ ہے دلی میری جان‘ اور ’ لینڈرا‘ جیسی کہانیوں کی کامیابی کے پیچھے گاؤں دیہات کے وہ الفاظ بھی ہیں، جو کرداروں کے درمیان کی گفتگو میں ایک نئی جان ڈال دیتے ہیں :

 

’’ سنتے ہو! نائی آ یو تھا (آیا تھا) بلا وہ دے گو ہے (بلاوہ دے گیا ہے ) چار بجے سانجھ کو اسکول میں پنچایت ہے۔ تمہیں بھیجنے کو کہہ گیو  (گیا) ہے اور ہاں تم نے سنو (سنا) کلوا کی نئی بھینس مر گئی ہے۔ ‘‘

(شبراتی)

 

’’ابے چل! او چتلی قبر وا لے چل اُ تار اپنی پتنگیہ مٹیا محل اور اردو بازار کا علاقہ ہے۔ جا ریا کہ نہیں گھسیڑ دوں گا سالے۔ ‘‘

 

’’جا ریا ہوں جا ریا ہوں۔ مار کیوں ریا ہے ؟ دیکھ لوں گا تو آئیو لال کنویں کی طرف۔ ‘‘

(یہ ہے دلی میری جان)

 

’’اری او فقیرے جرا انگئے کو (ذرا ادھر)آنا‘‘

 

’’جی بابا۔ کا کئے ریو (کیا کہہ رہے ہو؟)‘‘

 

’’ ارے ذرا حقہ بھر لا اور تاجا بھر کر لائیو‘‘   (لینڈرا)

 

کروا، منڈا سہ، لنگوٹ، گانڈے، کڑھاؤ، کھوئی اور بونگے جیسے لفظوں کو بھی بڑی فن کا ری کے سا تھ اسلم نے اپنی کہانیوں میں موقع و محل کے ساتھ استعمال کیا ہے جس سے کہانی میں حقیقت نگاری کی نیو مضبوط ہو تی ہے۔

 

لینڈرا اسلم کی سب سے بہترین کہانی ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ اسلم کے ۲۸ سالہ ادبی سفر کا حا صل ہے تو غلط نہیں ہو گا ایک نظر میں یہ کہانی حلالہ پر لکھی ہو ئی معلوم ہو تی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اپنے اندر کئی چھوٹے چھوٹے واقعات اور موضوعات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کا کینوس بہت وسیع ہے۔ حلالہ تو صرف بہا نہ ہے۔ یہ ایک کردار اساس کہانی ہے۔ جس میں اسلم نے لینڈرا جیسے کردار کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ جس طرح ’کالو بھنگی‘ کا کردار ہے اُسی طرح’ لینڈرا‘ کو بھی قاری کی ہمدردی حاصل ہو گی۔ آپ یقین مانئے کہ اس کہانی میں کچھ ایسی بات ضرور ہے جو بار بار پڑھنے میں مجبور کر دیتی۔ لینڈرا کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کچھ نے اسے اسلم کا شاہکار کہا ہے۔ لیکن میں اسے صرف اچھی کہانی کے خانے میں رکھتا ہوں۔ تخلیق کی پذیرا ئی ایک اچھی بات ہے لیکن جب کسی تخلیق کی بہت زیادہ تعریف ہونے لگے تو تخلیق کار کو بھی ایسا لگتا ہے کہ اس نے ادب میں سب کچھ پا لیا ہے۔ اس کے بعد اس کے پاس کہنے کے لیے کیا رہ جاتا ہے ایورسٹ کی چو ٹی پر پہنچ کر بھلا کوئی کہاں جائے گا؟اس لیے میری ان دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ اسلم کی اس کہانی کو صرف اور صرف بہترین کہانی رہنے دیں، کیوں کہ ابھی مجھ جیسے دوستوں کو اسلم جمشید پو ری سے اور بھی بہترین کہانیوں کی اُمید ہے۔ ’لینڈرا‘ سے بھی اچھے افسانوی مجموعے کا انتظار ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر ماجد داغی کی نظم نگاری

 

            رفیق جعفر  (پونہ)

 

اُردو زبان کی شعری روایت بہت پُرانی ہے جس میں غزلیہ شاعری ہمیشہ حاوی رہی اور شعراء کے مقام و مرتبے کا تعین بھی غزل سے ہی کیا گیا لیکن شاعری کے دیگر اصناف بھی ہر دور میں پرورش پاتے رہے۔

 

رُباعیات، قطعات، حمد، نعت، منقبت، مرثیہ اور اِسطرح کے کئی اصناف سُخن ہیں جس سے ہمارا شعری ادب مالا مال ہے۔ کچھ اصنافِ سُخن غیر مُلکی زبانوں سے بھی اُردو میں آئے جیسے ہائیکو، ساینٹ وغیرہ کچھ شعراء اِن اصناف پر بھی طبع آزمائی کرتے رہے لیکن نظمیں کئی طرح کی ہیئت میں لکھی جاتی رہیں۔ پابند نظموں کے ساتھ آزاد اور نثری نظمیں بھی منظرِ عام پر آنے لگیں۔ ترقی پسند تحریک نے غزل کی مخالفت کی اور ہر طرح کی نظموں کا خیر مقدم کیا۔ جدیدیت کے دور میں بھی آزاد اور نثری نظموں کا فروغ ہوا۔ اب اکیسویں صدی میں پابند نظموں کا چلن نہیں رہا۔ اگر کوئی شاعر لکھتا بھی ہے تو وہ مشہور ہو نہیں پاتیں۔ رومانی یا احتجاجی پابند نظمیں مشاعروں میں چل جاتی ہیں۔ اب تو نظموں کے نام پر آزاد اور نثری نظمیں ہی اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ کچھ نقادوں کی مخالفت کے باوجود خاص و عام میں یہ نظمیں تسلیم کر لی گئیں ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دو ڈھائی دہوں میں ان نظم نگاروں نے اپنے فن کے جو جو ہر دکھائے ہیں وہ بھی اعلیٰ درجے کی شاعری کا حصہّ ہیں۔

 

ریاست کرناٹک کے ضلع گلبرگہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ماجد داغی نے بھی آزاد نظموں کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ ڈاکٹر ماجد داغی فعاّل صحافی، نثرنگار اور شاعر بھی ہیں۔ نظم اور نثر کے کئی اصناف میں وہ تخلیق کرتے رہتے ہیں۔ ہر صنفِ میں وہ اپنی چھاپ چھوڑنے کی سعی کی ہے۔ آزاد نظموں میں بھی مواد اور لہجے کے لحاظ سے وہ دیگر ہمعصر شُعراء سے الگ تھلگ اپنی پہچان اور اپنی آواز کی شناخت پیدا کر لی ہے۔

 

ڈاکٹر داغی تدریسی اور تشہیری دُنیا سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور کئی ادبی و سوشیل اداروں کے بھی سرگرم رُکن ہیں۔ صحافت سے بھی عملی طور پر جُڑے ہیں۔ اُردو تہذیب کے علاوہ ہندی اور کنٹرا تہذیب سے بھی واقف ہیں۔ لوک ساہتیہ منچ اور ہندی پرچارسبھا کے ہمہ لسانی ادبی پروگراموں کے ساتھ ساتھ حیدرآباد کرناٹک جناپرا سنگھرش سمیتی اور روٹری کلب کے سماجی پروگرامس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہّ لیتے ہیں جس کی وجہ ان کی سوچ صالح اور نظریات مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں۔ ان نظریات کو ڈاکٹر داغی اپنے فن کے ذریعے عام کرتے ہیں۔ یہ بات ان کی آزاد نظموں میں بھی نظر آتی ہے یہ نظریات انسان اور انسانیت کی فلا ح و بہبود کے ہیں۔ دُنیا کی ترقی اگر انسان کو اُس کے صالح کردارسے گرِاتی ہے تو وہ اُداس ہو جاتے ہیں اور اگر تھوڑا بھی اُوپر اُٹھاتی ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔ ان کی نظمیہ شاعری اِسی سے عبارت ہے۔ ان کی ایک نظم  ’’زوالِ آدم‘‘ ترقی یافتہ زمانے پر زبردست چوٹ ہے۔ اس نظم کی آخری چند سطریں ملاحظہ فرمائیں

 

دورِ حاضر ہے ترقی یافتہ

اس لئے اب جانتا ہے

کو کھ میں مادر کے پوشیدہ ہے کیا

لمحہ بھرمیں جنس کو پہچان لے

اور جب معلوم ہو لڑکی ہے یہ

بطنِ مادر میں کرے تو لید سے پہلے فنا

یہ جہا لت ہے ترقی یافتہ

آج جس رفتار سے سائنس کا ہے ارتقائ

بس اسی انداز سے گمراہ بھی ہے آدمی

آدمیت کا یہاں بدخواہ بھی ہے آدمی

 

ضلع لاتور  (مہاراشٹرا) کے ہولنا ک زلزلہ سے ڈاکٹر داغی کا دل تڑپ اُٹھا اور انہوں نے  ’’زلزلہ فالِ نیک ‘‘ کے نام سے ایک پُر ا ثر نظم کہی اس کی کُچھ سطریں ملاحظہ فرمائیں

 

کیا ہے اس لئے رب نے جہاں میں زلزلہ پیدا

ہوئی ہے عام چونکہ آج کل حد سے سوِا ہر جا

جہاں میں بادہ خواری، سود خواری اور زناکاری

خُدا کو بھول بیٹھے ہیں

ہُوا ہے اس لئے بھی زلزلہ ظاہر

 

ہمارے مُلک میں آئے دن لسانی، طبقاتی، علاقائی اور فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ایک بُری علت ہے جس سے امن میں خلل اور ہندوستانی سماج میں نفرتیں پھیلتی ہیں۔ اور بیرونِ مُلک میں ہماری بدنامی ہوتی ہے۔ تجارتی تعلقات میں منفی فرق آتا ہے یہ سب ذاتی یا سیاسی فائدے کے لئے ہوتا ہے، اپنی بھلائی کے لئے کچھ مُٹھیّ بھر لوگ عوام میں خون کی ہو لی کھیل کر خوش ہوتے ہیں۔ جبکہ کوئی ہندوستانی یہ نہیں چاہتا کہ مُلک میں فساد بپا ہو۔ ڈاکٹر داغی نے ایک نظم بنگلور دُور درشن سے اُردو نیوز بلیٹین کے آغاز کے خلاف بنگلور میں ہوئے فساد سے متاثر ہو کر لکھی۔ ملاحظہ ہو ابتدائی سطریں

 

زباں کے نام پر گنگ و جمن تہذیب سے ہٹ کر

ہمارے مُلک میں

کئی زخمی، کئی رخصت جہاں سے ہو گئے

تھا مذہب مختلف لیکن سبھی اولادِ آدم تھے

ذرا سوچیں

تباہی سے بچائیں مُلک کو اپنے

یہ ہندی، سنسکرت، تلگو، یہ پنجابی، مراٹھی کیوں

یہ اُردو اور کنڑی  ’’امن ‘‘  سے بڑھ کر نہیں ہر گز

ڈاکٹر داغی کی اس کتاب کی نظمیہ شاعری میں پیار، محبت، خلوص، یکجہتی، بھائی چارگی امن اور اُخوت کی باتیں ہیں۔ فرد کو فرد سے جوڑنے کی باتیں ہیں توڑنے کی باتیں نہیں۔ وقتی موضوعات پر بھی جب وہ لکھتے ہیں تو کچھ ایسی انسانی نفسیاتی صِفت اُن کی نظم میں ہوتی ہیں کہ وہ ایورگرین  (Evergreen)ہو جاتی ہے۔ یہ ڈاکٹر داغی کی مثبت سوچ کا نتیجہ ہے کہ وہ کِسی بھی موضوع پر لکھتے ہوئے جذباتی نہیں ہوتے۔ اُن کی نظموں میں ان کے خیالات اور جذبات کا ساتھ دینے والے الفاظ کا انتخاب معنی رکھتا ہے کہ وہ لفظ ہی ہوتے ہیں جورس گھولتے بھی ہیں اور جذبات کو اُبھارتے بھی ہیں۔ دِلوں میں پیار کی شمع بھی روشن کرتے ہیں اور آگ بھی لگاتے ہیں۔ ڈاکٹر داغی کو الفاظ کے برتنے کا ہنر آتا ہے۔ اس کا ثبوت اس کتاب کے ہر ورق پر ملے گا۔ طوالت کے خدشے سے یہاں نظموں کی سطروں کا حوالہ دئے بغیر کچھ اہم نظموں کے عنوانات اور موضوعات کے ذکر پر ہی اکتفا کرنا مُناسب ہے۔

 

ڈاکٹر داغی نے اپنے بڑے بھائی محمد ساجد علی کی موت پر ایک مُتاثر کُن نظم کہی ہے جو اتنی پُر اثر ہے کہ اُن کا ذاتی غم قاری کا اپنا غم معلوم ہوتا ہے۔ ان کی ایک نظم  ’’یومِ انضمام ‘‘  ہے جو دکن کے سب سے بڑے عوامی المیے  (پولیس ایکشن 1948ء ) کے واقعات پر مبنی ہے۔ اس نظم میں جُو دَرد ہے وہ تڑپا تا بھی ہے اور تاریخی واقعات کی یاد تازہ بھی کرتا ہے۔ اس موضوع پر اس قدر مختصر مگر پُر اثر نظم شاید ہی لکھی گئی ہو۔

 

اس کتاب میں مختلف موضوعات پر لکھی گئی کئی ایسی نظمیں ہیں جو قابلِ مطالعہ ہیں۔ قاری پڑھ لے تو معنی و مفہوم سے دل اور دماغ روشن ہو جائیں۔ چند عنوانات پیش ہیں۔ ان سے موضوعات کا انداز ہ ہو جاتا ہے۔ سچ کی جیت، ہولی، راکھی، لکشمن کا حُسنِ کردار، سوچ رہا ہوں  (کارگل جنگ پر)، سبھاش چندر، سردار بھگت سنگھ، مہاتما کے دیش میں، سرچشمۂ ایثار، عظیم تر جہاد ہے لڑائی اپنے نفس سے، شعری مجموعہ  ’’زوالِ آدم ‘‘  کی نظمیں قومی اور مُشترکہ تہذیب کے ہمہ رنگ لی ہوئی معنویت سے بھر پور نظمیں ہیں جو ایک وطن پسند مُسلمان شاعر کے جذبات، خیالات اور اِحساسات کی غمازی کرتی ہیں۔ یہ نظمیں اُردو میں لکھی گئی ہیں۔ اُردو رسم الخط میں ہی شائع ہونگی، لیکن اس کے مواد کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے جی چاہتا ہے کہ اس کتاب کی نظموں کے تراجم پہلے ہندی اور کنٹرا زبانوں میں ہوں اس کے بعد ہر ہندوستانی زبان میں ہو! کاش ایسا ہو جائے!

٭٭٭

 

خدا کی بستی۔۔۔۔ ایک فنی تجزیہ

 

محمد مکمل حسین

 

تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں تشکیل پانے والی شہری سوسائٹی جو نیم سرمایہ دارانہ اور نیم گیردارانہ معاشرت کی ترجمان ہے۔ اس کے باطنی حقائق کو نہایت جرات کے ساتھ شوکت صدیقی نے اپنے ناول ’’خدا کی بستی ‘‘  میں پیش کیا ہے۔ مذہب اور جمہوریت کو ڈھال بنا کر ہوس پرستی اور دھوکہ دہی کو شعار بنایا جا رہا تھا۔ ایسے پر فریب معاشرے کو حقائق کے آئینے میں دکھا نے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی کراچی کو مرکزیت حاصل ہو گئی تھی اور یہ شہر سب کے لئے سپنوں کا شہر بن گیا تھا۔ ہر طبقے کے لوگ اپنی تقدیر آزمائی کے لئے کراچی میں جمع ہو رہے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد معاشرتی بطور انسانی زندگی کے انتشار نے ایک نئے معاشرے اور نئے تمدن کو جنم دیا۔ رد عمل کی اس کشمکش نے نئے اقدار کا تعین کیا۔ تقسیم ہند کے بعد تشکیل پانے والے پاکستانی معاشرے کو موضوع بنا کر ہند و پاک میں بہت سارے ناول تخلیق کئے گئے لیکن شوکت صدیقی کے ناول  ’’خد ا کی بستی ‘‘  کو فنی و تکنیکی اعتبار سے بلند پایہ درجہ حاصل ہے۔

 

شوکت صدیقی نے اپنے ناول  ’’ خدا کی بستی ‘‘  میں انسانی اغراض پر وجود میں آنے والے معاشرہ کی تصویر کشی فکشن کے خطوط پر ضرور کی ہے۔ لیکن سماجی اور انسانی نفسیات کا تجزیہ اتنا فنی انداز میں کیا ہے کہ کہانی حقیقی زندگی کے بالکل قریب کر دیا ہے۔  ’’خدا کی بستی ‘‘  کا کوئی بھی کردار اجنبی محسوس نہیں ہوتا۔ سب ہی کردار زندگی کی سچائیوں کے ساتھ ماحول کی مناسبت سے اپنے کردار کو فطری ی بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ کہیں بھی کوئی منظر ایسا نہیں ہے جس کی تصویر کشی ہی غیر فطری عنصر کو شامل کیا گیا ہو۔ ناول نگار نے انسانی جبلتوں کو ان کے نفسیاتی عمل کے ذریعہ پیش کیا ہے۔ اس میں انسانی ہو سک کو مختلف شکلوں میں دکھایا گیا ہے۔ جیسے جنتی ہو س، دولت و اقتدار کی ہو س، بہر کیف انسانی ہو س پرستی نے سارے معاشرے کو بہیمانہ خصوصیات کا حامل بنا دیا ہے۔ جس کے باعث طبقاتی کشمکش انسانی اقدار کی پامالی کا موجب بنی ہے۔ ناول کا پلاٹ متنوع اور طویل ہے۔ موضوع واقعات کے سفرمیں کرداروں کا م سفر بن کر سورج کی طرح منزل کی طرف روشنی کا کام کرتا ہے۔ اور کہانی واقعات کے ارتباط اور کرداروں کی خارجی اور داخلی نفسیات اور اس کے رد عمل سے جاری رہتا ہے۔

 

اس ناول کے مرکزی کردار راجہ اور نوشہ ہیں جن کی عمر چودہ پندرہ برس ہو گی۔ غربت کی وجہ سے نوشہ تعلیم حاصل نہیں کر پایا جبکہ راجہ ماں باپ کے نہ ہو نے پر تنہا ایک کوڑھی گداگر کے ساتھ رہنے لگا ہے اور کچھ روز تک ایک تیسرا کردار شامی ان کے ساتھ رہتا ہے۔ راجہ اپنی بے مقصد زندگی سے اور نوشہ اپنی مان کی تلخ مزاجی سے تنگ آ کر کراچی چلے جاتے ہیں۔ جہاں وہ مجرم بن جاتے ہیں اور پکڑے جانے پر کراچی کے جیل جانے میں سزا کاٹتے ہیں۔ نوشہ کی بیوہ ماں معاشی تنگی کے باعث نیاز کباڑی سے نکاح کر لیتی ہے۔ نیاز کباڑی بنیاد ی طور پر جعل ساز اور دولت کا حریص انسان ہے جو نوشہ کی ماں سے شادی محض اس لئے کر تا ہے اس کی موت کا منصوبہ میں کامیاب ہو نے کے بعد نوشہ کی جوان الھڑ بہن سلطانہ سے شادی کر یگا۔ اس سلسلے میں وہ ڈاکٹر موٹو سے مدد لیتا ہے۔ اور نوشہ کی ماں کو مستقل زہر کا انجکشن دلوا کر موت کی گھاٹ اُتار دیتا ہے۔ اور سلطانہ کو اپنے قبضے میں کر لیتا ہے۔ ادھر نوشہ جیل سے رہا ہونے کے بعد کراچی سے مایوس ہو کر وطن واپس آتا ہے۔ اور اپنی مان کی قتل اور بہن کی بے حرمتی کی خبر سن کر نیاز کا قتل کر کے جیل چلا جاتا ہے۔ ادھر راجہ کراچی جیل میں آتشک کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور جیل سے چھوٹنے کے بعد سٹرک پر بھیک مانگنے لگتا ہے۔ اس کہانی میں ایک کردار میونسپل کا بورڈ چیئرمین فرزند علی کا ہے جو سلطانہ کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اپنی طاقت کے بل بوتے پر حاصل کرتا ہے۔ اور اسے طوائف بن کر نئے مردوں کی ہوس کا شکار بننے پر مجبور کرتا ہے۔ ایسے خراب معاشرے کی اصلاح کے کے لئے ایک رضاکارانہ تنظیم ’فلک پیما، تشکیل پاتی ہے۔ اس تنظیم کا سربراہ صفدر بشیر ہے جو دولت مند اور تعلیم یافتہ ہے۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں پروفیسر علی احمد، ڈاکٹر زیدی، اور نوجوان طالب علم سلمان کی کوشش شامل ہیں۔ ان لوگوں کی فلاحی کاموں میں بڑھتی ہو ئی شہرت کو خان بہادر فرزند علی اپنے مجرمانہ اور سازشی کاموں کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں، غنڈوں کے ذریعہ فلک پیما کی مرکزی عمارت کو جلا دیتا ہے۔ اور فلک پیما کی تحت تعمیر ہونے والے اسپتال کی جگہ پر خان بہادر فرزند علی کے اشارے پر مسجد تعمیر کروا کر عوام کا دل جیت لیتے ہیں، اس معاشرے کے پروردہ سب ہی لوگ جائز و ناجائز طریقے پر دولت کما کر راتوں رات، دولت مند اور معزز و معتبر کہلانا چاہتے ہیں۔

 

’خدا کی بستی‘ ایک ایسے معاشرے کی تصویر ہے جس کی خود غرضی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ جہاں انسانی اقدار دم توڑ چکے ہیں۔ ایک بے حس معاشرہ سلطانہ اور اس کی ماں کی جنسی استحصال کو چپ چاپ دیکھتا رہا۔ سلمان کی بیوی رخشندہ محض زیورات اور قیمتی ملبوس کے لئے جعفری کے اشارے پر غیرملکی گاہوں کو خوش کرتی ہے۔ اور اس کی بے وفائی اور بد چلنی کو ترقی پسند ی کا عنوان دیا گیا۔ ان تمام برائیوں کے باوجود ناول نگار شوکت صدیقی کے سماجی شعور نے فلک پیما کی صورت میں ایک نئے معاشرے کی تشکیل کی آہٹ کو محسوس کیا ہے۔ ناول نگار نے اس ناول میں تکنیک کے بہت سارے تجربے کئے ہیں مثلاً ایک شخص راستہ سے گذرتے ہوئے راجہ کو نصیحت کرتا ہے کہ تم اس بوڑھے کا ساتھ چھوڑ دو یہ بڑی خطرناک بیماری، یہ کہہ کر اس نے نزدیک کھڑی ہو ئی کا رکا اسٹیرنگ وہیل سنبھالا اور کاراسٹا رٹ کر دی۔ اس پر گداگر کا رد عمل دیکھے۔

 

’’جب موٹر آگے بڑھی تو گداگر نے گندی گالی دی اور راجہ سے کہنے لگا  ’’سالے ‘‘ نے پیسہ ایک نہیں دیا۔ نصیحت ڈھیر بھر کر دی۔ اب مرغی جنے سے پوچھو خالی نصیحت سے پیٹ تو نہیں بھرتا‘‘

 

اس مکالمے کے تناظر میں فنکار نے گہری منطق کو پیش کیا ہے۔ یہاں پاکستان کے لوگوں میں مقصدیت کے جڑیں صرف نظرئیے میں پیوست ہو کر رہ گئی ہیں اور عمل ایک ناپید حقیقت بن کر سامنے آ رہا ہے۔ اس بات کا اظہار گداگر کی زبان میں فنکار نے اس تلخ حقیقت کو پیش کیا ہے۔ یہاں فنکار نے اظہاریت کی تکنیک کاستعمال کیا ہے۔ کہیں کہیں پر خود کلامی کی تکنیک کو بھی برتا گیا ہے۔

 

ناول نار نے  ’’خدا کی بستی ‘‘  میں معاشرے کے ایک ایسے پہلو کو بھی اجاگر کیا ہے جو انسانی زندگی کی عین فطری عمل ہے۔ یہ انسانی نفسیات جذبوں واحساسات کا ایساسرچشمہ ہے جس کا تعلق رد عمل سے ہے۔ یہی رد عمل کسی واقع کو جنم دیتا ہے۔ ناول نگار نے انسانی خارجی عمل کی دکھ بھری کہانی میں چھپے اس کرب کو فنکارانہ صلاحیت کے ساتھ پیش کیا ہے جہاں انسانی تہذیب و اخلاق کے تمام دائر ے سمٹ کر محدود ہو جاتے ہیں اور یہ انسانی کرب کبھی تمام انسانی میروں کی پرواہ کئے بغیر جنسی کمس سے ہم آہنگ ہونے کے لئے دنیا سے بے خبر ہو جاتی ہے۔ ایسے ہی ایک پہلو کو ناول نگار نے نوشہ کی ماں اور نیاز کی جنسی بے راہ روی کی صورت میں پیش کیا ہے۔ نوشہ کی ماں اور نیاز کے درمیان ایک ایسے جذباتی کشمکش کو ناول نگار نے تخلیقی پیرائے میں پیش کیا ہے جس کا ہر موومنٹ فنکار کی تکنیک کا مظہر ہے ایک ایسی لذت جس سے نوشہ کی ماں آشنا ہے لیکن اب لذت کو تھپک کر سلاچکی ہے لیکن جب نیاز اسے ٹٹولٹی نظروں سے اسے گھورتا ہوا دیکھنے لگتا ہے تو وہ شرما کر دوپٹہ سرپر سر کا لیتی ہے۔ اور اس کو اس بات کا پہلی دفعہ احساس ہوا کہ وہ ابھی شرما سکتی ہے۔

 

’’ اس کے شرمانے میں ایک انجانا خوف ہے اور ایک انجانی لذت اس کے اندر مسلنے لگتی ہے۔ اور اس کے جسم کے اندر پسینے کی نمی وہ محسوس کرتی ہے اور گھبرا جاتی ہے۔ ‘‘

 

ناول نگار نے یہاں کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ دیا۔ اشارہ میں سب کچھ کہہ جانا تکنیک کا کمال ہے۔

 

شوکت صدیقی کا انداز بیان اپنی مثال آپ ہے۔ ہر لمحہ کو جنم دینے میں انسانی زندگی کے ہر لمحے سے قربت کا احساس ناول نگار کے شعور و آگہی کا منظر ہے۔ کہیں کہیں منظری تکنیک کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔

 

’’دونوں خاموش ہو گئے اور کئی منٹ تک چپ چاپ بیٹھے رہے۔ چاندنی اور نکھر گئی ہواس سرسراہٹ تھی اور نیاز کی کلائی میں پڑے ہوئے گجر ے کے پھول مہک رہے تھے اچانک کمرے کے اندر لیمپ زور سے بھڑکا اور بچھ گیا۔ وہ اٹھ کر کمرے میں چلی گئی جہاں گھپ اندھیر ا تھا۔ ‘‘

 

ناول نگار نے سلطانہ کی مان کے کردار کے تو سط سے اس طبقہ کی زندگی کو پیش کیا ہے جہاں حالات سے سمجھوتہ اور اکتفا کر لینا ہی ان کا مقدر ہے۔ غربت انسانی خواہشات کا مدفن اور غریب انسان زندہ لاش ہے۔

 

شوکت صدیقی کا یہ ناول نفسیاتی عمل کا ترجمان ہے۔ کر داروں کی نفسیات کو بھرپور انداز میں پیش کرنے میں وہ کامیاب ہیں۔ انہوں نے کوئی واقعہ خلاف فطرت نہیں لکھا۔ کہانی سے کہانی نکلتی رہتی ہے اور ناول کے اختتام تک یہ سلسلہ جاری رہتے۔ مجموعی طور پر زندگی کے حقائق اور سما ج کی سچائی کو شوکت صدیقی نے ابتداء سے آخر تک پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔، بقول قمر رئیس۔۔

 

’’ شوکت صدیقی نے سماجی حقیقت نگاری کی روایت کو وسعت دی ہے۔ جس کی تعمیر پریم چند نے کی تھی۔ ان کا طبقاتی شعور اور انسان دوستی کا تصور ناول میں پریم چند سے آگے کی راہ دکھا تا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

لحن داؤدی…. وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

 

عالم نقوی

 

پہلے تو میں، صرف رسمی طور پر نہیں بلکہ لفظاً اور معناَIn letter and spiritپورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ، یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس لائق نہیں کہ ڈاکٹر کشمیری جیسی غیر معمولی ذہانت و فطانت رکھنے والے، ہر فن مولا، ہمہ جہت فن کارو قلم کار Handyman Scholarکے بارے میں کچھ کہوں۔ میرے جیسی محدود یکرخی اور نیم پخت صلاحیتوں والے شخص کے لئے یہ بلا شبہ چھوٹا منہ اور بڑی بات ہے۔ اس لئے کہ من آنم کہ من دانم۔ بلکہ من ہیچ نمی دانم۔) ان کی کتابوں پر اظہار خیال کی یہ جسارت صرف اس لئے ہے کہ حکم داؤدی سے سرتابی کی جرأت نہیں رکھتا۔ وہ بیشتر ایسی باتیں کہتے اور کرتے ہیں، جن کی پیش قیاسی ممکن نہیں۔ وہ چونکا دینے کے ماہر ہیں۔ اس مختلف النوع مجمع میں مجھ جیسے کج مج بیان کی موجودگی کو ان کے اسی ہنر کا کرشمہ سمجھئے۔ جو چاہتے ہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

 

ڈاکٹر صاحب فن اختصار کے ماہر ہیں۔ ان کی اب تک سبھی آٹھ مطبوعہ کتابیں، جن میں وہ بھی شامل ہیں، جن کی اجراء کی تقریب میں آج یہاں ہم سب جمع ہیں …. اس کا ثبوت ہیں …. یہ سب مل کر بھی، با اعتبار صفحات، تین ہندسوں کی سرحد پار نہیں کر پاتیں …. یہ اور بات کہ با اعتبار معنی و مفاہیم وہ سیکڑوں بلکہ بعض ہزاروں صفحات پر بھاری نکلیں۔ ہمارے علم کی حد تک ان کی جو چار کتابیں مزید اور بیک وقت زیر تصنیف و تالیف و ترتیب ہیں، ممکن ہے کہ ان کی اشاعت کے بعد یہ سرحد پار ہو جائے لیکن یقین ہے کہ فنِ اختصار کے ساتھ ان کی وفاداری، اسی طرح استوار رہے گی۔

 

اختصار کا یہ فن عیب نہیں ہنر ہے، سعادت ہے جو بزور بازو حاصل نہیں کی جا سکتی۔ تا نہ بخشد خداے بخشندہ۔ پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کی لفظوں میں اختصار یہ ہے کہ  ’’ کم سے کم لفظوں میں مطلب ادا کیا جائے۔ بات کو ضرورت سے زیادہ طول نہ دیا جائے۔ اگر طول مناسب مقام ہو، طولِ فضول نہ ہو تو وہ اختصار کے منافی نہیں۔ اختصار کا مطلب یہ ہی کہ کوئی لفظ کوئی فقرہ بے ضرورت اور بیکار استعمال نہ کیا جائی۔ یہ لفظ ’ ایجاز’ کی قدیم اصطلاح کا مترادف نہیں۔ ایجاز ہو یا اطناب یا مساوات، اگر مقتضائے مقام کے موافق ہو تو اختصار ہی کہلائے گا۔ ‘‘   (۱) فن شعر و خطابت میں ایجاز یہ ہے کہ لفظ کم ہوں اور معنی زیادہ۔ مساوات یہ ہے کہ جتنے لفظ اتنے ہی معنی۔ اور اطناب یہ کہ لفظوں کی بھر مار ہو، مطلب خواہ کچھ بھی نہ نکلے۔ دورِ حاضر کے سیاسی و سفارتی مذاکرات کی زبان جسے ’ ڈپلومیسی‘ بھی کہتے ہیں اِسی اطناب کی مثال ہے۔ مذاکرات برسوں چلتی رہتے ہیں اور مسائل بھی زندہ رہتے ہیں بلکہ بڑھتے رہتے ہیں۔ اس جملہ معترضہ سے قطع نظر، ڈاکٹر داؤد کشمیری شعر کہیں یا مضمون لکھیں اختصار کا دامن وہ نہیں چھوڑتے، نتیجے میں فصاحت و بلاغت کے پرے کے پرے ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ اس لئے محض ایک سو بارہ صفحات پر مشتمل ان کی کتاب ’ اردو شاعری میں امیجری، خواجہ الطاف حسین حالی کے مقدمہ شعر و شاعری، پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کی ’ ہماری شاعری، اور شمس الرحمن فاروقی کی ’ شعرِ شور انگیز‘ کے کم و بیش، ہم پلہ ٹھہرتی ہے۔ ۱۸۹۳ میں حالی کے اردو دیوان کی دیباچے کے طور پر ’ مقدمہ شعرو شاعری‘ کی اشاعت سے لے کر ۲۰۰۹ میں اِس  ’’…. امیجری‘‘  کی اشاعت تک کی ایک سو سولہ برسوں میں سخن فہمی اور شعری ابلاغیات کے موضوع پر شائع ہونے والی تمام کتابوں میں، یہ…. اِن معنی میں، نمایاں اہمیت کی حامل ہے کہ آپ اسے شعر فہمی کی پرائمر کہہ سکتے ہیں۔ میر غالب اقبال اور فیض کی شرحوں کو پڑھنے اور ان کی شاعری کو سمجھنے کے لئے ڈاکٹر داؤد کشمیری کی کتاب ’ اردو شاعری میں امیجری‘ …. سب کے آخر میں شائع ہونے کے باوجود، ’ بنیاد کے پتھر‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔

 

ضرورت اس کی ہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں جہاں اردو پڑھی اور پڑھائی جا رہی ہے …. اس کتاب کو نصاب شاعری کا لازمی جزو بنا لیا جائے۔ بلا شبہ مسعود حسن رضوی ادیب کی معرکہ آراء کتاب ’ ہماری شاعری‘ کے اندر، زیر نظر کتاب ’ اردو شاعری میں امیجری‘ کے سبھی مباحث کم و بیش شامل ہیں اور ’ ہماری شاعری‘ متعدد جامعات کے ایم اے اردو نصاب کا حصہ بھی ہے لیکن، ڈاکٹر داؤد کشمیری نے چونکہ Pin Pointedlyمثالیں دے کر ، مختصر الفاظ میں تشریح کر کی اردو شاعری میں پیکر تراشی، امیج سازی اور تمثیل نگاری کو صرف آٹھ شاعروں ) میر، سودا، غالب، حالی، اقبال، اصغر گونڈوی، فانی بدایونی اور حسرت موہانی کے محض دوسو چھ  (۲۰۶) منتخب و مشہور اشعار کی مدد سے سمجھا دیا ہے۔ اس لئے، اگر اس کتاب کو گریجویشن ہی کی سطح پر نصاب میں شامل کر دیا جائے تو نہ صرف شعر شور انگیز جیسے دقیق کارناموں کی تفہیم آسان ہو جائے گی بلکہ اردو شاعری کے طلباء کے لئے بذات خود، شعر فہمی کا مسئلہ پانی ہو جائے گا۔ اسی جگہ یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ ڈاکٹر داؤد کشمیری کی ایک اور کتاب ’ شرح کلام فیض‘ بھی، جو اکتوبر ۲۰۰۱ میں شائع ہو چکی ہے، اس لائق ہے کہ اسے ایم اے اردو کے خصوصی مطالعے کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ میر غالب اقبال اور فیض کی اب تک جتنی شرحیں لکھی گئی ہیں یہ کتاب بھی تفہیمات کی صف اول میں رکھے جانے کے قابل ہے۔

 

اردو شاعری کو گالی کی طرح ’ گل و بلبل‘ کی شاعری کہنے والے اور نظم کے مقابلے میں غزل کی نام نہاد تنگ دامنی کا شکوہ کرنے والے اگر منافقت اور جدید جاہلیت کے شکار نہیں تو شعر فہمی کی دولت بی بہا سے محروم ضرور ہیں۔ کوئی شعر کو فلسفے کی طرح سمجھنا چاہتا ہے تو کوئی ریاضی اور سائنس کی طرح۔ لیکن شاعری کے ’ مخزن العلوم‘ ہونے کے باوجود شعر بذاتِ خود نہ فلسفہ و منطق ہے نہ ریاضی اور سائنس۔ غالب اور اقبال اس لئی بڑے شاعر نہیں کہ وہ فلسفی شاعر ہیں بلکہ وہ اس لئے بڑے شاعر ہیں کہ انہوں نے شاعری کو اس مقام بلند تک پہنچا دیا ہے کہ جہاں فلسفے کی رسائی ممکن ہی نہیں۔ فلسفہ ہمبگ HUMBUGہے تو شاعری حکمت کے قریب تر۔ البتہ مسعود حسن رضوی ادیب کے بقول  ’’ فلسفہ عقل کا بیان ہی تو شاعری جذبات کی زبان۔ فلسفے کا جو رشتہ دماغ سے ہے شاعری کا وہی دل سے ہے۔ شاعر جب کوئی واقعہ بیان کرتا ہے تو ’’ بیانِ واقعہ ‘‘  اس کا مقصود اصلی نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ جذبات جو اس واقعے کے ساتھ وابستہ ہیں یا وہ اثر جو اس واقعے سے دل پر پڑتا ہے  (یا وہ نتیجہ جو اس واقعے سے نکلتا ہے یا وہ عبرت جو اس واقعے سے حاصل ہوتی ہے ) وہی شاعر کا مقصودِ اصلی ہے۔ مثلاً چکبست کا ایک شعر ہے

 

زندگی کے ا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشان ہونا

 

اس شعر میں شاعر نے موت و حیات کا فلسفہ نہیں بگھارا ہی جیسا کہ ظاہر بیں لوگ عام طور پر سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ’’ اس شعر میں شاعر نے زندگی اور موت کی حقیقت نہیں بے حقیقتی دکھائی ہے۔ وہ کہتا ہے …. نہ زندگی کی کچھ حقیقت ہے نہ موت کی کوئی اہمیت۔ عناصر کے لامحدود ذخیرے میں سے کچھ ایک خاص ترتیب سے جمع ہو جاتے ہیں اور کبھی منتشر ہو جاتے ہیں۔ پہلی حالت کا نام زندگی رکھ لیا گیا ہے اور دوسری کا موت۔ یہ تو فطرت کے معمولی کرشمے ہیں جو ہر لمحہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ پس زندگی پر مرنا کیا اور موت سے ڈرنا کیسا ؟ ‘‘  (۲)

 

جو نقاد کہتے ہیں کہ اردو شاعری میں گل و بلبل کے افسانوں کے سوا اور ہے ہی کیا، وہ کاہل تو ہیں ہی، جھوٹے بھی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو کے شاعروں نے  (یہاں تک بندوں اور متشاعروں کا ذکر نہیں ) گل و بلبل کے افسانوں میں، گل و بلبل کا حال شاید ہی کبھی لکھا ہو۔ انہوں نے گل و بلبل کے پردے میں ہمیشہ انسانی زندگی کا کوئی واقعہ بیان کیا ہے یا انسانی فطرت کا کوئی راز کھولا ہے۔ صرف گل و بلبل کے ان دو لفظوں سے شاعروں نے جو چیزیں  (اور جو معنی) مراد لئے ہیں صرف ان کی تفصیل کے لئے ایک دفتر چاہئے۔ چہ جائے کہ اسی طرح کی دوسری بے شمار تمثیلیں اور پیکر تراشیاں۔ دراصل شاعر کا مفہوم شعر میں استعمال کئے گئے لفظوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ درحقیقت شعر کا سمجھنا، شعر کہنے سے کچھ کم مشکل نہیں  (۳)۔ ڈاکٹر داؤد کشمیری ان معدودے چند خوش نصیبوں میں سی ہیں جنہیں قدرت نے سخن فہمی کا غیر معمولی ملکہ عطا کیا ہے۔

 

لگے ہاتھوں اس سوال کا جواب بھی کہ پھر شاعر گل و بلبل اور بادہ وساغر کا پیچ ڈالتا ہی کیوں ہے ؟ براہ راست کیوں بات نہیں کرتا ؟ وہ تمثیل کے پیرایے میں گفتگو کیوں کرتا ہے ؟ وہ نئے نئے پیکر کیوں تراشتا ہے ؟ وہ امیج سازی کیوں کرتا ہے ؟ آخر شعر میں امیجری کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ تمثیل، امیجری اور پیکر تراشی کے ذریعے کلام میں تاثیر کی صفت، اختصار کا حسن اور معنی کی جامعیت اور آفاقیت پیدا ہوتی ہے  (۴)۔ جس کو اس نہایت مختصر بیان کی تفصیل دیکھنا ہو وہ ’اردو شاعری میں امیجری‘ اور پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کی ’ہماری شاعری‘ کا مطالعہ کرے۔ در اصل تمثیلی پیرایۂ بیان ہی شعر کو سائنس، ریاضی اور فلسفے کی خشک بیانی سے علیحدہ کرتا ہے اور شعر سیدھے دل میں اتر جاتا ہے۔ میر کے بہتر نشتروں میں سے ایک

 

کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے

چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا

 

اس کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر داؤد کشمیری لکھتے ہیں کہ ’اورنگ زیب نے شاہ جہاں کو قید کیا تھا لیکن وہ دریچہ سے تاج محل کو دیکھ کر تسکین خاطر حاصل کر لیتا تھا۔ یہاں چاک قفس  (دریچے کے مترادف)سے با غ کی دیوار  (تاج محل کا بیرونی منظر) دیکھنا بھی منع ہے۔ تب بلبل  (جس کا بظاہر اس شعر میں ذکر بھی نہیں ) چمن کو اپنے تصور میں کس طرح لائے ؟اب چمن کو زندگی کی مسرتوں کا امیج سمجھیے تو قفس ان مسرتوں کے گرد لگے ہوئے پہرے ہیں۔ مسرتوں تک رسائی تو کجا، ان کی دور سے دید (چاک دیوار قفس سے )بھی ممکن نہیں۔ دنیا میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ شہنشاہیت کے دور گذشتہ میں اور جمہوریت کے موجودہ نظام میں بھی  (ٹاڈا پوٹا اور مکوکا وغیرہ جیسے )کالے قوانین کے ذریعے انسانی حقوق پوری طرح سلب کر لیے جاتے ہیں۔ اسی حقیقت کو مذکورہ شعر کی امیجری پیش کرتی ہے (۵)کہ

 

کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے

چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا‘

 

 ’’عجیب و غریب ‘‘

 

ڈاکٹر داؤد کشمیری کا شعری مجموعہ ’عجیب و غریب‘ بھی اسی تاثیر، تمثیل اختصار، ایجاز اور جامعیت کا نمونہ ہے۔ خود ان کا بیان اس کے بارے میں یہ ہے کہ یہ مجموعہ 1969ء سے 2007ء تک  (یعنی اڑتیس سال کی) تخلیق شدہ شاعری کا ’’برگزیدہ ترجمان ‘‘ ہے۔ اس میں صرف اکتالیس (41)غزلیں ہیں جس میں تین تین غزلیں محض تین اور چھ اشعار پر مشتمل ہیں اور پینتیس  (35)غزلیں پانچ اشعار کی ہیں۔ مقطع صرف دو غزلوں میں ہے۔ نظمیں بارہ ہیں اور قطعات آٹھ۔ اس طرح مجموعے میں کل ملک کر صرف دو سو پچاسی  (285) شعر ہیں جن میں حیرا ن کن حد تک نصف سے زائد اشعار مسرت انگیز ندرت اور بصیرت کے حامل ہیں۔ نقادوں کے نزدیک ’تازہ کاری‘ اور ’مہم جوئی‘ جدید شاعری کے سنگ نشان ہیں  (۵)اب ذرا داؤد کشمیری کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے :

 

پھر اس کے بعد ہم بھی جلیں طور کی طرح

بس ایک بار دیکھ لیں ان کو قریب سے

برملا دیکھو گے اس کو جو چھپا ہے اب تک

چشم شائستہ دیدار تو پیدا کر لو

کوئی کھڑکی تلک بھی آنہ سکا

کتنے زینے اتر گیا کوئی

کھو گیا جنگلوں کا ہر رستہ

شہر کا اجنبی کہاں جائے

درد کی امانت بھی لوٹ لے گئے آخر

انقلاب کے نعرے یا خدا کی تکبیریں

 

ڈاکٹر داؤد کشمیری پیکر تراشی، امیج سازی، تمثیل نگاری، اور ڈرامے کا گہرا شعور رکھتے ہیں اسی لئے تو وہ کئی کامیاب فلمیں بھی لکھ سکے ہیں ذرا ان شعروں میں ان کی امیجری ملاحظہ ہو

 

میری وفا مقیم ہے گردو غبار میں

آہستہ چلنا باد صبا کوے یا رمیں

دن میں سڑکوں پہ دوڑتے سایے

رات آئے انہیں نگل جائے

ہر طرف چیختا ضمیر ملا

ایک درویش کی صدا کی طرح

اپنی قسمت کے بھنور سے وہ نکلتے کیسے

بے بسی اوڑھ لی اور اس کو دعا کہتے ہیں

ظلمتوں کی عریانی چھا گئی فضاؤں پر

تنگ ہو گیا جب سے روشنی کا پیراہن

کس کا لہو تھا ،ساغر خورشید، میں کہو

تم پی کے ڈگمگائے نہیں یہ بھی خوب ہے

غروب شمس کا لاشہ لیے کاندھوں پہ چلنا ہے

امید صبح کی تقدیر کا مدفن بدلنا ہے

 

لیکن اہل نظر جانتے ہیں کہ داؤد کشمیری کو شعوری طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ جگر نے کہا تھا

 

جہل خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سایے

 

یہ زمانہ محض قحط الرجال ہی کا نہیں، ادبی فاشزم، اور ’ادبی دہشت گردی‘ کا زمانہ بھی ہے۔ ہم مثال میں بہت سے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، نقادوں اور ان کے ماؤتھ پیس جریدوں کے نام لے سکتے ہیں لیکن کسی فتنے کو ہوا دینے کے بجائے ہم صرف اتنا کہنے پر اکتفا کریں گے کہ آ ج کوئی شہر اس عذاب سے محفوظ نہیں۔ داؤد کشمیری کے درج ذیل اشعار اس سبب کی نشاندہی کرتے ہیں جس کا اثر ان کو نظر انداز کیا جانا ہے۔ ا ن کی نظم’ تنہائی‘ کے یہ شعر ملاحظہ ہوں

 

ٹوٹے آئینے ہیں اور عکس بھی ہیں مسخ شدہ

یہ صداقت کِسے مطلوب ہے تنہا ہی رہو

اب تو ہر سمت تماشے ہیں وَمَا اَدرَاکَ

بے اثر صحبت مجذوب ہے تنہا ہی رہو

تم جسے شافع حاجات سمجھتے ہوں یہاں

وہ کسی اور کا مندوب ہے تنہا ہی رہو

 

یا پھر ان کے یہ اشعار:

 

یہ عبادت ہے تہجُّد کی، یہ ہو گی مقبول

جوشِ امید سے یہ پُر ہے اگر سمجھو تو،

داڑھی کا تنکا، آنکھ کا شہتیر عام ہے

دہشت گری اسی لئے تو بے لگام ہے

 

ان کی نظم مسلمان کے یہ دو شعر ملاحظہ ہوں

 

پابند ہوں نماز کے روزوں کو چھوڑ دیں

رمضاں میں جاگ کر بھی تہجد نہیں پڑھیں

بے ریش ہیں نمازی تو باریش بے صلوة

ان کا درود شیوہ ہے ان کا مغلظات

 

یا پھر ان کے یہ قطعات :

 

مسلک ایماں سے بڑھ گیا شاید

منتشر قوم کا ہے شیرازہ

حبل قرآں گئی جو ہاتھوں سے

ہے تنزل اسی کا خمیازہ

 

مَسجدوں کے یوں گرانے پر تمہیں جو فخر ہے

ہم یہ سمجھے ہم پہ شاید ہے یہ اللہ کی وعید

خطہ کشمیر سے تا خطہ گجرات اب

ہر قدم پر کربلا ہے ہر قدم پر ہے یزید

 

اسی تناظر میں ان کی غزلوں کے یہ شعر بھی دیکھیں :

 

انہیں تو وا رکے موقع ہزار بار ملے

ہمیں دفاع کا موقع نہ ایک با رملا

ختم ہو جائے گا ہر جبر ہر اک ظلم وستم

اک ذرا جرأت انکار تو پیدا کر لو

زعم شمشیر کھوکھلا نکلا

خالی ہاتھوں بِپھر گیا کوئی

معصوموں کے لہو کا سبب کون جانتا

ہاتھوں کی سرخی ایک کمیشن سے دھو گئے

ہمارے پاس ہمارا ضمیر ہے لوگو

تمہارے پاس انا کے سوا کچھ اور نہیں

جاہلوں کی چیخوں نے بات اپنی منوائی

سچ کے ساتھ تھی لیکن عاقلوں کی خاموشی

ظلم کی جب انتہا ان کی طرف سے ہو گئی

ہم نے بھی سوچاکہ جو کہنا ہے کہہ دو برملا

حیف! ہے قانون سے قانون گر کا قد بلند

داخل زنداں وگر نہ کیوں ہیں اتنے بے خطا

طبلوں کی تھاپ نے جنہیں بہرا بنا دیا

وہ کان سن سکیں گے بھلا کیا لہو کا راگ

ظلم سہ کر بھی جو خاموش رہے اس کے لئے

دین و دنیا میں نہیں کوئی جزا کہتے ہیں

دعوے بلند بانگ جو کرتے تھے ڈر گئے

مقتل کی سمت بار دگر بے زباں چلے

ازم سارے انساں کو بے لباس کرتے ہیں

تا رتار ہے رب کی بندگی کا پیراہن

 

ڈاکٹر داؤد کشمیری کی فنِ اختصار میں مہارت کے اعتراف کے باوجود کبھی ہمیں یہ لگتا ہے کہ ظ انصاری نے ۲۲ سال قبل ان کی کتا ب ’کہا سنا معاف‘ کے دیباچے میں جو لکھا تھا وہی سہی ہے کہ …. ’’انہیں پڑھتے وقت خودبخود گمان گزرتا ہے کہ وہ جلدی میں ہیں۔ بھاگم بھاگ لکھ رہے ہیں انہیں گھبراہٹ ہے کہ کہیں کمرے کا بلب اندھا نہ ہو جائے، جتنا لکھ لیا۔ لکھ لیا‘‘  (جب کہ)  ’’ان کی بہترین ذہنی صلاحیت کا بہترین استعمال یہ تھا کہ ادب پڑھتے، ادب پڑھاتے، وہی اوڑھتے، بچھاتے وہی لکھتے لکھاتے۔ مگر ہوا کیا؟گوشت کے چھوٹے دو لوتھڑے جن میں ایک کا نام زبان ہے ہر قدم ان کو گڑبڑاتے رہے۔ چین سے انہیں اپنا اصل کام کرنے ہی نہیں دیا۔ تعلیم، صحافت، تدریس، فلمی تگ و دو، مذہبی مناظرے، میونسپل سیاست کی کھٹ کھٹ ایک جان سو خلجان۔ روز کی اس کھینچا تانی، دھینگا مشتی میں انہوں نے وقت کی جیب کتر لی اور یہ چند سکے اڑا لیے۔ ایسا ہنر مند اس درجہ ذہین باخبر، بیدار ذہن اور اس کی مٹھی میں محض یہ چند سکے ….!ایسی  (غیر معمولی، عبقری) صلاحیت اور قدرت رکھتے ہوئے بھی انہوں نے قدرت کے تقاضوں سے انصاف نہیں کیا….‘‘  (۶)اس لئے چھوٹا منہ اور بڑی بات کے دست بستہ اعتراف کے ساتھ ہماری گذارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب’ وصف اختصار‘ سے اپنی یاری کو بے شک نہ چھوڑیں لیکن کار تصنیف میں اختصار سے قطعی کام نہ لیں۔ کیونکہ اس کا وِجدان تو انہیں بھی ہے کہ

 

اک لفظ کی تفسیر بنا خون جگر کی

ہے زیست کا مفہوم کہ مولا کا کرم اور

 

علم و حکمت کا جو سرمایہ انہیں مولائے کریم نے عطا فرمایا ہے اس پر سب کا حق ہے۔ زندگی نے جو کچھ انہیں دیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ اُسے جلد از جلد لوٹا نے اور صفحہ قرطاس پر بکھیر دینے کی کوشش کریں۔

قحط الرجال کے ا س عہد میں ان کا دم غنیمت ہے۔ ہم سب لَحنِ داؤدی کی زمزمہ آرائیوں کے لئے ہمہ تن گوش ہیں !

 

حواشی :

 

(۱)سید مسعود حسن رضوی ادیب۔ ہماری شاعری۔ کتاب نگر دین دیال روڈ لکھنؤ۱۹۶۲ ص ص ۶۱۔ ۶۷ (۲)ایضاً ص۱۱۸ (۳)ایضاً ص ص ۱۱۹۔ ۱۲۰  (۴)ایضاً ص ۱۲۲  (۵)ڈاکٹر داؤد کشمیری۔ اردو شاعری میں امیجری پرنٹ میڈیا ممبئی ۲۰۰۸ ص ص ۲۷۔ ۳۰ (۶)ڈاکٹر داؤد کشمیری۔ کہا سنا معاف دیباچہ ظ انصاری ص ۷۔ ۹۔

 

٭٭٭

 

 

 

نیر سلطانپوری کی شخصیت اور شاعری

 

 

نقی عباس خاں

 

اودھ کے ممتاز شہر سلطانپور نے اس صدی کے اوائل سے اب تک اردو شعر و ادب کی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ یہاں کے قصبات اور مضافات میں علم و ادب کے بڑے بڑے قدر داں پیدا ہوئے۔ شعرائے سلطانپور کا جب کبھی تذکرہ کیا جائے گا تو اس کا سلسلہ سید تو کل حسین نیر سلطانپوری تک ضرور پہنچے گا۔ اگر چہ یہ نام ہم سب کے لئے بڑا اجنبی سامعلوم ہوتا ہے مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ہے خود نیر صاحب نے حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ انہیں اس سچائی کا پتہ تھا وہ ایک شعر فرماتے ہیں کہ :

 

گہر بن جائے دامن پر نہ ایسے اشک غم نکلے

ہماری طرح بدقسمت زمانے بھر میں کم نکلے

 

نیر سلطانپوری ضلع سلطانپوری کے قصبہ اسولی کے ایک معزز گھرانے میں ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ء کو پیدا ہوئے ان کے والد احمد علی صاحب ایک چھوٹے موٹے زمیندار تھے۔ نیر صاحب کی ابتدائی تعلیم اسولی میں ہوئی جبکہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم انہوں نے فیض آباد سے حاصل کی۔ اس کے بعد بی اے و ایم اے کا امتحان لکھنؤیونیورسٹی سے پاس کیا۔ یہیں دوران تعلیم فراز پریس میں کچھ عرصہ تک ملازمت کی۔

 

نیر سلطانپوری کی خاندانی زندگی کامیاب رہی۔ ان کی اہلیہ کا نام طاہرہ خاتون تھا وہ اپنے وقت کے درجہ چہارم جو پانچویں کے مساوی تھا پاس ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ کی ذہین و تیز یادداشت ہے رکھنے والی خاتون تھیں۔ افسوس کہ وہ زندگی میں کبھی ماں نہیں بن سکیں۔

 

نیر صاحب کو قدرت نے شاعری کا ملکہ عطا کیا۔ شعرو شاعری کا آغاز ہائی اسکول کے دوران ہی ہو گیا تھا لیکن صحیح معنی میں ان کی شاعری لکھنؤ میں پروان چڑھی اس دور میں وہ صفی لکھنوی سے متاثر تھے لیکن شاگردی انہوں نے کسی کی بھی قبول نہیں کی تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ۱۵ اگست ۱۹۸۵ء کو ان کے انتقال کے موقع پر ایک اخبار میں اس مصرع کے عنوان سے کہ :

 

ہوئی محسوس ساقی کو ہماری ہی کمی تنہا

 

شائع ہوئے مضمون کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ استادتو کوئی نہ تھا لیکن شاگرد ہزاروں کی تعداد میں تھے۔

 

لکھنؤ میں اعلیٰ تعلیم کے دوران ۱۹۴۰ء میں نیر سلطانپوری نے  ’’ فردوس‘‘  نامی اردو ادبی میگزین کی تکمیل بھی اور اس کے ایڈیٹر بھی وہی تھے۔ تین ساڑھے تین سال تک یہ میگزین مسلسل نکلتا رہے۔ اس دوران انہوں نے آزادی کے احساس کو جگانے والی کئی نظمیں بھی لکھیں جن میں  ’’ آزادی کی ریل ‘‘  کے عنوان سے لکھی گئی نظم کافی مشہور ہوئی۔ ۱۹۴۵ء میں نیر صاحب نے لکھنؤ چھوڑ کر سلطانپور میں مستقبل سکونت اختیار کی۔ وہاں ایم ایس وی انٹر کالج میں انہوں نے معلمی کے فرائض انجام دئے اور ۱۹۴۹ء میں وہیں سے ایک اردو ادبی ماہنامہ  ’’شمع ادب ‘‘  نکالنا شروع کیا جو ۱۹۷۰ء تک شائع ہوتا رہا۔

 

نیر صاحب کی معلّمی سے ریٹائرمنٹ سے متعلق ایک واقعہ کا ذکر کرنا شاید یہاں غیر ضروری نہ ہو گا۔ ۱۹۶۸ء میں انہیں ریٹائر ہونا تھا لیکن وہ دوسال کے لئے اور اضافہ چاہتے تھے۔

 

اس کے لئے انہوں نے سلطانپور کے ایک لیڈر مقبول حسین صاحب کے ذریعہ اس وقت کے نائب وزیر تعلیم رام پر کاش گپتا سے ملاقات کی اور ان سے اپنی مجبوری بتائی۔ رام پرکاش گپتا نے ان کی باتیں تو غور سے سنیں مگر ساتھ ہی قانون کا واسطہ دیتے ہوئے ان کی خواہش پوری کرنے میں اپنی مجبوری ظاہر کی، نیر صاحب بھی کہاں چوکنے والے تھے جب وہ جانے لگے تو چلتے چلتے انہوں نے وزیر اعلیٰ کو فوراً وہیں پر ایک شعر سنایا۔

 

اودھ کے ہیں واسی یہ فخر بھی ہے مجھ کو

مشکل میں ہر میری ہیں رام جی سہائے

 

پھر کیا تھا رام پرکاش گپتا جی ان کی اس حاضر جوابی سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے لگے ہاتھوں دوسال کے لئے نیر صاحب کے ریٹائرمنٹ کی مدت اور بڑھا ہی دی۔

 

۰۷۹۱ء میں لکچرر کے عہدے سے ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد نیر صاحب اپنا وقت دوسروں پر تقسیم کرنے لگے۔ حالانکہ ان کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اس کے باوجود وہ اپنے گھر پر ہی بچوں کو مفت تعلیم دیتے تھے۔ شعر و شاعری سیکھنے آنے والوں کی تعداد بھی ان کے یہاں کم نہ تھی۔ ان کی مالی حالت تھوڑی بہت اس وقت ٹھیک ہوئی جب ان کے دو خیر اندیش ڈاکٹر شارب ردولوی و ڈاکٹر شمیم حنفی جو آج کل جواہر لال نہرویونیورسٹی و جامعہ ملیہ میں صدر شعبۂ اردو کے عہدے پر فائز ہیں نے اتر پردیش اردو اکادمی سے انہیں پہلے ۱۵۰بعد میں ۵۰۰روپیہ ماہانہ پنشن مقرر کرائی۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً انجمن ترقی اردو نے مترجم کی حیثیت سےان کی خدمات حاصل کیں جس کے سبب کافی حد تک ان کے مالی حالات مضبوط ہوئے۔ دراصل اپنے صوفیانہ مزاج کے مطابق کسی سے کام مانگنے جانا ان کی فطرت کے شایان شان نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شاید انہیں وہ سب کچھ نصیب نہیں ہو سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس موقع پر ان کا یہ شعر ہے :

 

خود داری کے آگے ان کی نظریں جھک گئیں

جب مجھے دیکھا تو صورت آشنا کہنا پڑا

 

نیر سلطانپوری میں وطن پرستی کا جذبہ کس حد تک تھا اس کا اندازہ اسی سے لگا یا جا سکتا ہے کہ ان کے قریبی دوست اور مشہور شاعر مجروح سلطانپوری نے انہیں کئی بار بمبئی بلایا مگر وہ وہاں جانے کو تیار نہیں ہوئے۔ مجروح سلطانپوری اپنے اس دوست کی بہت عزت کرتے تھے اور جب کبھی بھی سلطانپوری آتے تو نیر صاحب کے یہاں ہی قیام کرتے تھے۔ مجروح صاحب کے یہاں ہی قیام کرتے تھے۔ مجروح صاحب نے اس بات کو تسلیم کرنے میں کبھی گریز نہیں کیا کہ نیر صاحب کے خیالات کیا تھے اس کا ثبوت بس ایک بات سے مل جاتا ہے کہ اسولی میں اپنی آبائی جائداد کو اپنی زندگی میں ہی انہوں نے ابتدائی مرکز حفظان صحت کے لئے وقف کر دیا تھا۔

 

نیر سلطانپوری کے دو مجموعے ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئے تھے ان میں پہلا مجموعہ  ’’ انوار عرفاں ‘‘  ۱۹۷۵ء میں فخر الدین علی احمد رابطہ کمیٹی کی امداد سے شائع ہوا ابھی بھی ان کی کچھ غزلیں اور نظمیں ہیں جو شائع نہیں ہو سکیں۔ نیر صاحب کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ اچھی آواز کی کمی و ادبی زبان کے استعمال نے ان کے اسٹیج کے شاعر ہونے میں رکاوٹیں ڈالیں۔ ویسے اسٹیج کے دوران اپنی پہلی کمی کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنے ساتھ ترنم میں پڑھنے والا ایک بچہ لے جاتے تھے جو ان کے کلام کو سناتا تھا۔

 

نیر سلطانپوری کی وفات کو تقریباً ۰۲ سال ہو چکے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس دوران ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا جس سے کہ ان کے بارے میں کچھ پتہ چلتا۔ یہ جاننا ایک ایسی شخصیت کے بارے میں نہایت ضروری ہے جس نے شراب کو ہاتھ نہ لگاتے ہوئے اس پر پورے عبور کے ساتھ لکھا کہ :

 

کیا بتائیں بے خودی میں ہم کو کیا کہنا پڑا

جام کو تقدیر ساقی کو خدا کہنا پڑا

 

ساغرمئے میں ہے ان کے روئے رنگیں کی جھلک

میری توبہ کی طرح اس کا بھی پردہ ٹوٹا

 

پھر بھلا ایسی عظیم شخصیت کو کون بھول سکتا ہے جس نے ہندی اردو کی ملی جلی ترقی پر بھی ایسی نظم لکھی جس میں گنگا جمنا تہذیب جھلکتی ہے۔

 

انہوں نے کہا۔

 

ایک لئے ہے ساہتیہ درپن ایک ادب کا آئینہ

ہندی اردو دونوں جیسے گنگا جمنا بہتی ہے

 

آخر میں خود نیر صاحب کی اپنے بارے میں ترجمانی کرنے والا یہ شعر۔

 

کس بات پہ پلکیں ہوئیں نم یاد نہیں ہے

غم یہ ہے کہ اب کوئی بھی غم یاد نہیں ہے

٭٭٭

 

 

نیز قریشی : نئی رتوں کی بشارت دینے والا شاعر

 

جگنو چندر دیپوی

 

شاعری کے افق سے یوں تو بہت سے ستاروں نے اٹھ کر نئی رتوں کی بشارت دی جس سے برق کوندنے لگی، منظر روشن ہوئے، موسم کی شگفتگی اور تکدر میں فرق واضح ہوا۔ دل کے دروازے پر جب کسی تر و تازہ ہوا کے جھونکے نے دستک دی تو پوری فضا میں بھینی بھینی خوشبو پھیل گئی۔ موسم، بادل اور شاداب و شگفتہ ہوا نے نئے جلوے کے ساتھ اردو شاعری سے پیمان وفاتو باندھے لیکن کچھ عرصہ بعد پھر کوئی نیا اقرار وفا یا نیا عہد نامہ سامنے آ گیا۔ اس طرح اردو شاعری مسلسل حرکت، تغیر اور تازگی کے سفر پر رواں دواں رہی۔

 

ادبی سفر کے مسافروں میں بحیثیت سپہ سالار جناب سعید احمد نیر قریشی گنگوہی بھی ہیں۔ جنہوں نے کاروان شاعری کو ایک ایسے خوشگوار موسم کی بشارت دی جس میں عشق مجازی کی جگہ عشق حقیقی، انا کی جگہ خود داری اور نار نمرود کی جگہ گلزار ابراہیم نظر آنے لگے۔ انکی استعارہ پوش شاعری زندگی اور عصر کے بہت سارے مسائل کا محاصرہ اور محاسبہ کرتی، علامت اور تمثیلات کے زاویوں کے درمیان جھلک دیکھاتی، حسیاتی ولمسیاتی پیکر سازی کے دائرے میں اپنے وجود کا اعلان کرتی، امیجری کے نگار خانے میں اپنا چہرہ چمکاتی نظر آتی ہے۔ جس میں براہ راست موضوعاتی اظہار ہے۔

 

ان کی شعری تجسم ایک خوش آئند خواب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ خواب آج کا بھی ہو سکتا ہے اور آنے والے کل کا بھی جسے شاعری فکر ی پرواز کے شیش محل کے کسی گوشے میں نہیں بلکہ گلیوں اور راستوں سے گزرتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ جن کی جاذبیت اور دلکشی کوسوں دور سے جھلک رہی ہے کہ شاعر ادبی روایت کا زر خیز سفر کرتا ہوا اس طرف آیا ہے۔ جس سے اس کا لب و لہجہ خوابناک سامحسوس ہوتا ہے۔ ان کا تخلیقی عمل زندگی کے نگار خانے کو رونق افروز کرتا ہے۔ جمالیاتی اور عصری حسیت کے امتزاج سے ان کی غزل میں شگفتگی کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہ ہنر بہت مشکل ہے جسے نہایت عرق ریزی کے ساتھ انجام دینے میں شاعر کامیاب ہیں۔

 

نیر قریشی صاحب عرصہ دراز سے شعر و ادب کی آبیاری کر رہے ہیں وہ لمبی ریاضت و مزاولت کے بعد مسافت کے تاریک رستوں میں چراغ امکاں کو روشن کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ قاری ان کی شاعری کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر کی دریافت کر پاتا ہے۔ ان کے اظہار کا لہجہ کافی پر سکون اور سنبھلا ہو ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ان کی غزل کا باد صبا سانغماتی انداز قاری کے ذہن پر جو خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر چند اشعار پیش خدمت ہیں :

 

تمہارے وار کا اک دن جواب دوں گا ضرور

کہ انقلاب ہوں ذہنوں میں پل ریا ہوں میں

 

خدا کا فضل ہے عزت سے سرفراز ہوں میں

اگرچہ کتنی نگاہوں میں کھل رہا ہوں میں

 

انسانیت نواز ہے، یہ نرم دل بشر

اونچا نہ بولئے کبھی نیر کے سامنے

 

نیر قریشی کی فکر ایک پاکباز منصف مزاج ہے اس لئے وہ مبالغہ آرائی کے ہنر کے قا یل ہی نہیں ہے۔ زندگی کو ہر پیرائے سے انہوں نے دیکھا اور برتا ہے۔ وہ عصر ی زندگی کے مسائل سے دوچار ہو رہے ہیں، زندگی کے نشیب و فراز سے وہ باخبر ہیں، زندگی سے وہ شکوہ نہیں کرتے بلکہ عصری مسائل کو شعری پیکر میں ڈھال کر وہ اپنی شعری ذمہ داری سے سبک دوش ہو جاتے ہیں۔ قدرت کا یہ عطیہ کسی حساس شخص کو ہی ملتا ہے جو اسے نئی فکر اور سوچ دیکر غیر معمولی حسیت کا مالک بنا دیتا ہے۔

 

ان کے اشعار میں سادگی، بر جستگی، نیا پن، ذمہ داری کا احساس، رشتوں کو جوڑنے کی فکر، حب الوطنی کا خیال، بشر کا اشرف المخلوقات ہونے کی فکر، بشر کا لغزش کرنا پھر سنبھلنے کا عمل بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ ان کے ہر شعر میں دل چھو لینے والی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ کریں۔

 

کل اس کے نیک بننے کا امکان بھی تو ہے

مجرم ضرور ہے مگر انسان بھی تو ہے

 

غربت کے ٹھوکروں میں جو پل کر جواں ہوا

طوفاں کے روبرو وہی چٹان بھی تو ہے

 

ہمت ہماری دیکھ کے طوفاں پلٹ گیا

دیتا ہے خود بھی راہ سمندر کبھی کبھی

 

محلوں کے شیشے ٹوٹ کے بکھر ے ادھر ادھر

بپھرے ہیں جب غریب کے پتھر کبھی کبھی

 

کس منھ سے نئی نسل کی تشکیل کرے گا

خود اپنے بزرگوں کی جو تذلیل کرے گا

 

در حقیقت شاعری خون جگر جلانے کا نام ہے۔ فن شاعری کی کسوٹی پر وہی شاعر کھرا اترتا ہے جو پوری جاں فشانی سے شعر گوئی کا حق ادا کرتا ہے۔ وقت اور حالات کے بدلتے ہوئے تیور پر نظر رکھنا اور اپنے گردو پیش کے مسائل سے آنکھیں ملانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ لیکن نیر قریشی اسی ہنر کو اپنی فکر کے ذریعہ اس طرح دکھا تے ہیں کہ پورے معاشرے اور ملک و قوم کے حالات و کوائف سامنے نظر آ جاتے ہیں۔ جس سے قاری کو کم وقت میں بحسن خوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ عصر حاضر کی سمت و رفتار کیا ہے ؟

 

نیر قریشی کی فکر کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں شہر طلسماتی، شاہزادی، حصارطلسم، بادشاہ وقت کا ظلم، ساحر، آہو، دشت و بلا، صحرا۔ صیاد، وجود، عدم وجود، تنہائی، وصال اور فراق جیسے الفاظ کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔ یہ الفاظ اپنی معتبر شناخت قائم کر کے سحر انگیزی کا احساس دلاتے ہیں، عشق جو اپنی معراج پر پہنچ کر معتبر ہو جاتا ہے اس کا اندازہ بھی ان کے شعری پیکروں سے ہونے لگتا ہے۔

 

شاعر ذات و کائنات سے کبھی بے خبر نہیں رہتا، ان کی بے نیازی کی کیفیت میں کچھ کر ب ضرور نظر آتا ہے۔ ان کے اندر سمندر کی وہ گہرائی ہے جس میں عصر حاضر کی اخلاقی اور تہذیبی قدروں کا زوال اور اس کا استحصال، درد اور حزنیہ کی صورت میں غوطہ زن نظر آتا ہے جس سے قاری کا لطیف احساس صدف کے نمونے نکال لاتا ہے اس سچائی کے اعتراف میں چند اشعار درج ذیل ہیں۔

 

ہمیں راس آئی ہے صحرا نوردی

کہ اب بستیوں میں بھی عالم ہے ہو کا

 

حسن اخلاق پہ اتنا تو یقیں ہے ہم کو

بعد مرنے کے ہمیں یاد کرے گی دنیا

 

سر جھکاؤں کس طرح دستارہے اپنی جگہ

بات ہے کردار کی کردار ہے اپنی جگہ

 

نیر قریشی اپنی شاعری میں سچی اور کھری باتیں بڑے نادر انداز میں کہنے کا وصف رکھتے ہیں۔ ان کا یہ سلیقہ اور ہنر ہی ہے کہ وہ بالیدگی فکر کے ساتھ غزل کی آبرو کے محافظ نظر آتے ہیں۔ دور بے حسی اور عہد سفاک پر بھی انکی عمیق نظر ہے۔ انہیں عصری کرب کا احساس ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں بدعنوانی اور انسانی رشتوں کی پامالی ہے، عہد حاضر کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہوس عروج پر ہے۔ نئے عہد کا چہرہ بہت خوفناک ہے۔ کہیں علاقائی تعصب، کہیں فرقہ پرستی اور کہیں افلاس کے ماروں کی فریاد یں ہیں۔ تمام عالم کی زبوں حالی سے ہر تخلیق کار کی آنکھیں پر نم ہیں۔ انہیں اس ذلت و نکبت کا شدت سے احساسہے جس سے تمام کائنات متاثر نظر آتی ہے۔ اسی آشوب کی طرف نیر قریشی صاحب نے یوں اشارہ کیا ہے۔

 

معاف ان کو کرے تاریخ کیسے

جنہیں مرغوب بمباری بہت ہے

 

جن سے نہ کچھ ملا ہمیں رسوائی کے سوا

ان دوستوں کی ہم نے ملاقات کاٹ دی

 

لہو ناحق بہا امسال اتنا

کمی برسات کی بھاری بہت ہے

 

کشت زار غزل کے پھلنے پھولنے، اپنی دلفریبیوں اور رعنائیوں کے موتی بکھیرنے نیر عطر بیز خوشبوؤں سے ادب کدوں کو معطر کرنے کے لئے زمان و مکان کی کبھی کوئی قید نہیں رہی ہر زمانے میں بر صغیر کے ہر خطے میں غزل نے اپنی قوت نمو کا مظاہرہ کیا اور ادب شعار ذہن و دل کو ایسی سحر آفرینی کیفیت سے سرشار کیا کہ کوئی اس کے حصار سے باہر نکلنے کو تیار نہ ہوا۔

 

کسی ذات سے والہانہ وابستگی کی شعوری کا وش ہو یا اپنے وجود میں خو د کو سمونے کی مثبت فعالیت یہ دونوں کیفیات ہی آگہی اور عرفان ذات کی منزلوں سے ہمکنار کرتی ہیں۔ اسی وقت شاعر کی وہ شخصیت اس کی نظر میں سماجاتی ہے جسے حرف و قلم سے نوازا گیا ہے جو عدیم المثال اشرف ہے۔ عظیم تر ہے اور جسے اسرارو رموز کی گتھیاں سلجھانے اور پوری کائنات کو بہرطور سنوارنے سجانے اور ارتقاء کی آخری حدوں تک اڑان بھرنے کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ نموداس پر یقیں ہے جو نمود جنگل کی سنگلاخ زمینوں اور پت جھر کے موسموں میں بھی ممکن ہے۔ وہ کسی کی محبت کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ قناعت اسے کسی درکا بھکاری نہیں بننے دیتی۔ شاعر کا اپنا چہرہ ہے، اپنا قد ہے وہ پانی پر بھیگی غزل لکھنے کی استعاریت آمیز تخلیقی قوت اور اس کے انسلاکات سے واقف ہے۔ یہی ایک شاعر کی پہچان ہے جو نیر قریشی کے اندر بدرجہ اتم موجود ہے نیر قریشی صاحب کی غزل انتشار کے دور میں اعتدال کی صدا اور افراتفری کے زمانے میں توازن کی آواز ہے۔ تہذیبی بساط کو الٹا دیکھ، نئے اور پرانے رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ سے متاثر ان کی غزل ریزہ ریزہ کر کے روایت کی تشکیل نو کرتی ہے۔ عشقیہ بیان میں جنس کا طوفان اور تلاطم نہیں، اعتدال احساس اور اعتدال بیان ہے۔ دھیمی دھیمی آنچ اور میٹھا میٹھا درد ہے اسی سلیقہ نے ان کے لب و لہجہ میں سنجیدگی اور ماورائی سادگی پیدا کر دی ہے۔ جو ہجوم غم کے باوجود ان کی شاعری کو ایک اثباتی میلان اور تاب و توانائی بخشی ہے۔ ان کی فکر انگیز شاعری قاری کو من و تو کی محدود فضا سے نکال کر کبھی کبھی کائنات کی وسعتوں میں پہنچا دیتی ہے۔

 

نیر قریشی کے لب و لہجہ اور شاعرانہ اسلوب کی انفرادیت میں انکی سیرت، ان کی خاندانی میراث، تصوف کے گہرے لگاؤ اور معاشرتی ماحول کا بڑا دخل ہے۔ ان کا غم عشق، غم آفاق سے گزرتا ہوا بلند ترین المیہ کی سرحدوں کو چھو لیتا ہے، اس میں گہرائی، گیرائی، سنجیدگی اور خیرو برکت ہے جو آگ کو گلزار بنانے کے بعد ہی پیدا ہوئی ہے۔ نیر قریشی کی شاعری کا کینوس وسیع ہے۔ عہد حاضر کے جملہ مسائل اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ ان کی شاعری میں واضح نظر آتے ہیں۔ عصر حاضر کی قہر سانیا ں ان پر پراہ راست اثر انداز ہوتی ہیں وہ مسائل کے تپتے ریگستان سے بیزار نہیں ہوتے بلکہ اپنے عزم کو مزید مستحکم بناتے ہیں۔ ان کے اس طریقہ کار سے ان کی فکر اور فنی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔

 

عصر ی مسائل کی نمائندگی کرنے والے نیر قریشی گنگوہی نے عصر حاضر کے محضر نامہ پر اپنے فکر و فن کے جو دستخط ثبت کئے ہیں وہ قابل تقلید ہیں۔ آج کے دور میں بے شمار شعراء کے ہجوم میں ان کے نام کی شناخت بہت آسانی سے کی جا سکتی ہے۔

 

وہ اپنی شاعری کا احاطہ کرتے ہوئے بجا فرماتے ہیں۔

 

یہ کس کے تکلم کا جادو بہت ہے

فضائیں معطر ہیں خوشبو بہت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’فرید پربتی‘‘  احساس جمال کا شاعر

 

جاوید احمد ڈار

 

برصغیر اور خاص طور پر ریاست جموں و کشمیر کی ایک معتبر اور نظریہ ساز شخصیت ڈاکٹر فرید پربتی نہ صرف نقد و نظر کے معیار میں واقع ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ وہ ایک سلجھے ہوئے اور پختہ کار شاعر بھی ہیں۔ ڈاکٹر فرید پربتی صاحب شاعرانہ اور غیر شاعرانہ تجربے کی باہمی فرق سے خوب واقف ہیں اور ان کی نگاہ تخلیق ان رفعتوں پر مرکوز ہے جہاں عظمت کے دریچے کھلتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بعض اشعار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ عظمت کے دریچے ان پر کھلے ہیں جہاں سے ایک نئی صبح روشنی لے کر طلوع ہو جاتی ہے دل کی وسعت کے لئے چاند ستارے کم ہیں اکتفاکس پہ کروں میری طلب پوچھتی ہے دراصل وادی کے جس حصے میں ڈاکٹر صاحب نے اپنا بچپن اور لڑکپن گذارا ہے اور جوانی کے ایام جئے ہیں، وہ کشمیر کی حسین وادیاں اور یہاں کے خوبصورت پہاڑ و پربت ہی ہیں جنہوں نے اپنے جلوؤں سے متاثر کر کے فرید کو پربتی بنا دیا اور یہی وہ حصے ہیں جہاں پربتی صاحب کا احساس جمال پرورش پاتا ہوا نظر آتا ہے اور حسن جو اُن کے دل میں گھر  کر گیا، پربتی صاحب کی آنکھوں نے سمیٹ لیا، یہاں تک کہ یہ حسن ان کے فن، ان کی زندگی اور ان کے ماحول کا حوالہ بن کر سامنے آتا ہے۔ ڈاکٹر پربتی صاحب نے غزل گوئی اور خاص طور پر رباعی گوئی دونوں اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے اور آ ج بھی ان کی یہ زود گوئی بدستور آتش قدم کی طرح جاری وساری ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہو گا کہ غزل سے زیادہ رباعی جیسی مشکل صنف پر ہی ان کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ چار مصرعوں والی نظم میں وہ اپنے دل کی پوری بات اور کھل کر بتانا چاہتے ہوں یا پھر یہ مان لیا جائے کہ وہ اسی صنف کو پسند کرتے ہوں۔ اس کا جواب دینا ابھی قبل از وقت ہو گا لیکن یہ بات تو طے ہے کہ فرید پربتی صاحب کی شاعری کے کچھ واضح اسباب ہیں۔ اوّل یہ کہ ا ن کی شاعری اس بھر پور احساس سے لبریز ہے جو زندگی کی گہری بصیرت سے حاصل ہوتا ہے۔ دوم یہ کہ ان کے اشعار ہمیں اس دور کے ذہن کی گہرائیوں تک پہنچاتے ہیں جس دور کے ہم پروردہ ہیں۔ ان کی آواز شاعر کی نہیں بلکہ زندگی کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ ان کے خیالات میں گہرائی، جذبات کی سچائی اور خلوص اور اظہار میں کیف ہے۔ کوئی بھی تخلیقی تجربہ کیوں نہ ہو، جب تک وہ تنقید کی کسوٹی پر پورا نہ اترے، یا یوں کہئے کہ کھرا نہ اترے، تب تک اس تجربے کو کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔ اسی لئے کہا گیا کہ تخلیقیت ہی فنکار کی شخصیت کی کلیت کا جوہر لطف  (Aesthetic Essence) ہے، جو کبھی شاعری، کبھی ڈراما، کبھی کہانی کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ اسی طرح کبھی الفاظ، کبھی رنگ تو کبھی آواز اور ادائیں اظہار کا ذریعہ بنتی ہے اور فرید صاحب اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ فرید صاحب کا یہی جوہر لطف ان کی غزلوں اور رباعیوں میں بکھرا پڑا ہے جو عام اور سیدھے سادھے انداز میں ہو کر بھی ایک طلسم جیسا اثر رکھتا ہے لیکن تعجب کی بات تو یہ ہے کہ طلسم کا یہ شیشہ ٹوٹ تو جاتا ہے لیکن اپنے نقش تو بہر حال چھوڑ جاتا ہے۔ اس کی مثال ان کی یہ رباعی ہے

 

کیسے یہ سمجھتے ہو کہ پورا ہوں میں

شیشے کی طرح چورا چورا ہوں میں

ہر زاویے سے آدھا نظر آؤں گا

واللہ تیرے بغیر ادھورا ہوں میں

 

فرید صاحب کو غزل گوئی کے میدان میں بھی کسی دوسرے سے پیچھے نہیں رکھاجا سکتا اور جب ڈاکٹر صاحب غزل پر قلم اٹھاتے ہیں تو یہاں بھی وہ اپنا الگ راستہ نکالتے ہیں لیکن یہاں دوسرے شعراء سے ہٹ کر وہ اردو غزل کو خاص طور پر اداسی و ناکامی کالباس پہنا دیتے ہیں اور بار بار اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ

 

کسی پہ کرنا نہیں اعتبار میری طرح

لٹا کے بیٹھو گے صبر و قرار میری طرح

ابھی تو ہوتی ہیں سرگوشیاں پسِ دیوار

ابھی نہ کرنا ستارے شمار میری طرح

 

ڈاکٹر فرید پربتی صاحب نے اپنی شاعری میں جو ماحول قائم کیا ہے اس کا تار پود انہوں نے اپنے گرد و پیش سے لیا ہے۔ وہ گرد و پیش سے بہت متاثر تھے۔ ان کی شاعری میں منظر نگاری اور جذباتیت نگاری فطری سے ان کی گہری مناسبت کی آئینہ دار ہے۔ ایک آفاقی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک رومانی شاعر بھی ہیں۔ یہاں کی پہاڑیوں نے بھی ان کا رومانی حسن شناسی کا احساس تیز کر دیا۔ فرید صاحب کو پہاڑوں، پربتوں اور دریاؤں سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خالص رومان پسند شاعر ہیں بلکہ ان کی شاعری میں واقعیت اور حقیقت پسندی کا گہرا حساس ملتا ہے اور اسی حقیقت پسندی نے ان کو شدت احساس کا شاعر بنایا ہے۔ مثال کے طور پر ان کا یہ شعر فہم و ادراک سے بالا ہے چلن دنیا کا ہارنے والے سے یہ جیت کا ڈھب پوچھتی ہے فرید صاحب کی اس رباعی سے یہ حقیقت اور بھی عیاں ہو جاتی ہے

 

مٹنا ہے عدو کے سدّوحد کو ایک دن

اس گھات کو، دمدمہ کو، زد کو، ایک دن

گھبرا نہ مسلط ہے جو اَشرم کی فوج

آئیں گے ابابیل مدد کو ایک دن

 

اس طرح فرید صاحب نے اپنے لئے میدان ادب ہموار کر لیا

٭٭٭

 

 

 

شاعری کی سانسوں میں صندل

 

حقانی القاسمی

 

یہ شاعری رادھا کے بدن کی طرح گوری چٹی مگر رات کی طرح پراسرار ہے !

 

تخیل میں تحیر، اظہار میں استعجاب ہو تو ایسی شاعری سے قاری کا طلسمی رشتہ قائم ہوتے دیر نہیں لگتی۔ فہیم جوگاپوری کے یہاں، تحیر، کی وہ تمام تجلیات اور کیفیات ہیں جن کی وجہ سے ان کی شعری رہ گزر ’ اوروں‘ سے الگ ہو گئی ہے۔

 

یہی تو پیاس میری چاہتی ہے

لبِ ساحل سمندر ٹوٹ جائے

 

یہ تو اچھا ہوا بادل نے ہمیں روک لیا

ورنہ نکلے تھے سمندر کو جلانے ہم بھی

 

دیکھ کر سوکھ گیا کیسے بدن کا پانی

میں نہ کہتا تھا مری پیاس سے دریا کم ہے

 

ہم اہل غم کو حقارت سے دیکھنے والو

تمہاری ناؤ انہی آنسوؤںسے چلتی ہے

 

آپ کے سر پہ جو یہ تاجِ حشم رکھا ہے

ہم فقیروں نے اسے زیر قدم رکھا ہے

 

ایسے اشعار پڑھتے ہوئے قاری معانی کی لہروں میں ڈوبتا ابھرتا خود کو ایک ایسی تخلیقی کائنات میں محسوس کرتا کہے جہاں ’معروض‘ کی صورتیں بدلی ہوئی نظر آتی ہیں اور فنتاسی، ایک نئی حقیقت میں منقلب ہوتی ہوئی کہ شاعری تخیل کی زبان ہوتی ہے اور تخیل میں کوئی بھی معروض، حقیقی نہیں ہوتا بلکہ خیالات اور احساسات اس ’ معروض‘ کی صورت اور معنویت متعین کرتے ہیں۔

 

تخیل کی سطح پر تحیر کی اسی آمیزش نے فہیم جوگاپوری کے اظہار کو جدت اور ندرت عطا کی ہے اور ’ سوچ تحیر‘ کے یہی سلسلے نئی زمینیں تلاش کرتے رہتے ہیں اور یہی جستجو تخلیق کار کے باطن میں ایک نیا لینڈ اسکیپ خلق کرتی ہے۔

فہیم جو گاپوری کا اپنا تخلیقی لینڈ اسکیپ ہے جس میں ان کے تجربات اور تعاملات  (Interactions) کے رنگ واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں اور ’ سکوت‘ میں بھی ’ صدا‘ کو محسوس کیا جا سکتا ہے :

 

شام خاموش ہے پیڑوں پہ اجالا کم ہے

لوٹ آئے ہیں سبھی ایک پرندہ کم ہے

 

اپنے مہمان کو پلکوں پہ بٹھا لیتی ہے

مفلسی جانتی ہے گھر میں بچھونہ کم ہے

 

کشتیاں درد کے ساگر میں بھٹک جائیں گی

ہو گئی شام چراغوں کو جلالو پہلے

 

کردار دیکھنا ہو تو صورت نہ دیکھئے

ملتا نہیں زمیں کا پتہ آسماں سے

 

جس نے چھپا کے بھوک کو پتھر میں رکھ لیا

دنیا کو اس فقیر نے ٹھوکر میں رکھ لیا

 

یہ کائنات کے ادراکی مشاہدات پر مبنی تخیلی، تخلیقی عمل ہے، جس سے قاری کے ذہن کی زمین کو بھی نئی روئیدگی ملتی ہے اور خیال کے افق کو نئی تابانی بھی کہ اس شاعری میں صرف ذات کا انعکاس نہیں ہے بلکہ ارتعاش بھی ہے۔ یہ شاعری فہیم جوگاپوری کے وجود کی داخلی و خارجی کائنات کا عکس نامہ ہے اور ان کے مزاجی تاثر Dispositional Affectکا اشاریہ بھی۔ ان کے درون کے نفی و اثبات کی پیمائش بھی اسی سے ہو سکتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ ان کے ہاں کتنی مثبت تاثریت Positive Affectivityہے اور کتنی Negativeیا نفی و اثبات کی سطحوں کا تناسب کیا ہے ؟ کون سے برین کیمیکل زیادہ متحرک ہیں۔ ایک تخلیق کار کے Neurochemical Systemsسے آگہی بھی ضروری ہے کہ ہم Brain Biochemistryکے عہد میں جی رہے ہیں اور یوں بھی جذبے کی شدت، حدت اور قوت کا اندازہ نظام دماغ، کو جانے بغیر ممکن نہیں ہے کہ تخلیق بھی دماغ کے کیمیائی عناصر کے امتزاج سے ہی وجود میں آتی ہے اور کیمیاوی اثرات کے تحت ہی اپنا رنگ بدلتی ہے۔ اس لیے تخلیق، میں موجود کیمیائی عناصر کے اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ تخلیق کار کے برین میکانزم کا مکمل طور پر پتہ چل سکے۔

 

فہیم جوگا پوری کی شاعری تخلیق کے کیمیائی تجزئیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے تخلیقی نظام، پر کوئی ایک کیمیائی عنصر حاوی نہیں ہے۔ ان کا تخلیقی ذہن موسم، ماحول وقت اور حالات کے اعتبار سے نئی نئی تجرباتی زمینوں اور ادراکی سطحوں کا لمس حاصل کرتا رہتا ہے۔ ان کا ذہن ایک ہی نقطہ یا احساس پر مرکوز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ایک ہی لہجہ یا آہنگ نہیں ہے، بلکہ مختلف آہنگ کا امتزاج ہے اور وہ بھی انفرادی نزہت و نکہت لیے ہوئے :

 

واقف کہاں زمانہ ہماری اُڑان سے

وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے

 

کھنکتی چوڑیاں، خوشبوئیں، پیاری باتیں

تمام وصل کے ہیں استعارے شام کے بعد

 

ہم فقیروں نے کبھی بیچا نہیں اپنا ضمیر

درہم و دینار سے دستار کا سودانہ کر

 

کھلا تھا سامنے اک روز باب شہر بدن

کسے بتائیں جو دیکھے نظارے شام کے بعد

 

ان اشعار میں احساس کی سطح پر جو تضاد اور تخالف ہے، وہ فہیم جوگاپوری کے فکری تنوع کے ساتھ اس بات کا بھی پتہ دیتے ہیں کہ ان کے مشاہدات کی سمتیں کیا ہیں۔ کائنات کا اشیاء اور حقائق کی تفہیم یا تعبیر کے بات میں ان کا زاویہ نظر کیا ہے۔ ان کے تخلیقی ذہن کے فکری جغرافیہ کے ساتھ ساتھ یہ شاعری اس بات کا بھی پتہ دیتی ہے کہ فہیم جوگاپوری کے یہاں اپنے عہد کی حسیت کے انعکاس، ہم عصر حقیقتوں کے اکتشاف و اظہار، عصری واردات اور مسائل سے اموشنل انٹی میسی  (Intimacy) کے ماسواماضی کی قدروں کی گمشدگی اور معصومیت کی جستجو ملتی ہے :

 

ماتھے پہ شکن آنکھوں میں جنگل کی اداسی

دیکھو تو ذرا عہد یہ میرا تو نہیں ہے

 

پرانی قبر سے لپٹا ہے پاگلوں کی طرح

یہ کون شخص ہے مٹتی ہوئی لکیر کے ساتھ

 

ستارو آؤ بدل آفتاب کا ڈھونڈیں

دیار غم سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈیں

 

فہیم جوگاپوری کی شاعری میں صرف جذبے کی داخلیت نہیں ہے، بلکہ زبان کی داخلیت بھی ہے۔ جذباتی اظہاریت اور زبان کی داخلیت نے اس شاعری کو قوت و تاثیر عطا کی ہے۔ یہ ایسی شاعری ہے جس کے وجود کی دیواریں نہ خستہ ہیں اور نہ ہی کسی ستون یا نقد ستارہ کی دست نگر۔ اس شاعری میں خیال کی پر آہنگ لہریں نثریت کے انتشار کو مربوط کرتی ہوئی شعری پیکر میں ڈھل کر نئی کیفیات خلق کرتی ہیں اور یہی کیفیات قاری کی باطنی دنیا کو شاداب کرتی ہوئی اپنے مکمل معنوی تلازمات کے ساتھ قاری کے شعور و احساس کا حصہ بن جاتی ہیں اور تب ایک نئی زمین و زماں قاری کے روبرو ہوتے ہیں اور ان میں تحیرات کے فانوس جھلملا رہے ہوتے ہیں، یہی ’فانوس تحیر‘ فہیم جوگاپوری کا تخلیقی شناس نامہ ہے۔

 

یہ کنڈوم نما  (Condomonius) مکانات میں محصور شاعری نہیں ہے بلکہ کھلی فضا اور تازہ شگفتہ ہوا کی شاعری ہے جس کی وجہ سے گھٹن اور حبس کا احساس نہیں ہوتا۔ اس شاعری میں روایت کی مہک بھی ہے اور جدیدیت کا جمال بھی۔ اس شاعری کی ایک بری خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں خارجی معروضات کے ساتھ داخلی احساسات کا نہایت خوبصورت اشتراک ہے۔ لفظیاتی نظام کے تعلق سے بھی فہیم جو گا پوری اپنی الگ سخن کائنات آباد کیے ہوئے ہیں۔ ’فارمل‘ کے بجائے انہوں نے  ’’نیچرل‘‘  زبان استعمال کی ہے۔ ان کے لفظ آسان اور ترسیل و تاثیر کی معمور ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں علاقائی الفا ظ نے بھی ان کے لفظیاتی نظام کو لذت کے ساتھ جدت عطا کی ہے۔

 

’ ادھوری بات‘ تشنگی کا استعارہ ہے۔ میر تقی میر کی تشنہ لبی کی طرح۔ اور یہی احساس تشنگی تخلیق کو ’ تکمیل‘ سے ہمکنار کرتا ہے اور تخلیق کار کے اس اضطراب کو زندہ رکھتا ہے جو نئے تخلیقی کینوس کی جستجو کے لیے ضروری ہے۔

٭٭٭

 

ماخذ:

http://urdutahzeeb.net/urdu-language-and-literature

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید