FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

مظفر حنفی۔۔ حیات و جہات

 

حصہ دوم (نثر۔ ۲)

 

                ترتیب: فیروز مظفر

 

 

 

 

 

 

                انیس رفیع

کولکاتا

 

 

 

مظفر حنفی پر ایک گفتگو

 

یوں تو میری یاد داشت اچھی نہیں ہے لیکن حافظہ پر بار بار زور دے کر لا شعور میں دبے واقعات کو کریدنے کی کوشش کروں تو کبھی کبھی بات لا شعور سے نکل کر تحت الشعور پھر شعور کا سفر بھی کر لیتی ہے۔ عزیزی فیروز مظفر کے پہلےMassageکے ملتے ہی یہ کوشش شروع کی۔ لمبی مدت کی دھند میں ڈوبی یادوں کی باز یافت ذرا سخت مرحلہ ہوتا ہے، سو ہُوا۔

یاد کے ایک غیر مصدقہ صفحے کے مطابق مظفر صاحب سے پہلی ملاقات غالباً آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس کے پروگرام سیکشن میں ہوئی، شاید ۱۹۷۵ء میں۔ اس وقت وہاں مظفر حنفی کے علاوہ ایک اور حنفی صاحب بھی تھے جن سے ملاقات کی غرض سے میں گیا تھا۔ حوالہ ڈاکٹر محمدحسن تھے۔ شعبے میں زبیر رضوی بھی موجود تھے۔ مظفر صاحب وہیں بیٹھے تھے۔ میرا تعارف ہوا، تو دو حنفیوں سے ایک ساتھ مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ ملاقات بہت سرسری تھی۔ اور پھر میں خاصہ گمنام۔ چندافسانوں کی بساط بھی کیا ہوتی ہے۔ یہ بھی کہ نہ میں گُلیری نہ علیم مسرور کہ ایک افسانے ( اُس نے کہا تھا)  اور چھوٹے سے ناول ( بہت دیر کر دی) کی اشاعت سے ہی ریکارڈ توڑ شہرت پیدا کر سکوں۔ بہر حال اس دن کا تجربہ بڑا خوشگوار تھا۔ حوصلہ بھی ملا کہ میدان ادب میں سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا کہ سن رکھا تھا۔ یہ تھی وہ پہلی جھلک جو میں نے دیکھی۔ بہت اچھا لگا۔

دلی کی دوسری Tripشاید ۱۹۷۸ء میں ہوئی۔ لمبے عرصے کے لیے وہاں قیام کی صورت تھی۔ آل انڈیا ریڈیو کے تربیتی کورس کے لیے گیا تھا۔ تین مہینے کے لیے۔ اپنے دوست ڈاکٹر سید الابرار کاHostel Roomمیرا پہلا پڑاؤ تھا۔ خواہش تھی کہ اس بار ان سارے لوگوں سے بھی ملوں جن سے پچھلی بار ملاقاتیں تشنہ رہ گئی تھیں۔ اس کا اظہار میں نے ڈاکٹر ابرار سے کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس بار بطور خاص جامعہ ملیہ جاؤں وہاں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے علاوہ مظفر حنفی بھی ملیں گے۔ وہ جامعہ ملیہ میں آ گئے ہیں۔ ان دونوں سے ہی کیا اور بھی لوگ ملیں گے۔ محمد حسن صاحب سے تو آپ یہاں مل ہی رہے ہیں۔ کچھ وقت وہاں گزار لیں۔ چنانچہ میں جامعہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ نارنگ صاحب، حنفی صاحب اور شاید صغرا مہدی بھی ان دنوں شعبے میں آ گئی تھیں۔ دونوں صاحبان سے تفصیلی گفتگو رہی۔ دونوں میری تحریروں (افسانے) سے واقف تھے۔ بڑے تپاک سے ملے۔ حنفی صاحب نے بتایا کہ وہ آل انڈیا ریڈیو کے مختلف پروگراموں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ کبھی شعر سنا کر، کبھی انشائیہ اور ڈرامے لکھ کر تو کبھی فیچر۔ ان کی گفتگو سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ ریڈیو کے لیے کیسے لکھا جانا چاہیے، رسائل و جرائد کے مطالبات کیا ہیں۔ مظفر حنفی کو شعور تھا ان باریکیوں کا۔ افسانے کی زبان بسا اوقات سادہ اور عام فہم ہوتی ہے۔ جو ریڈیو کے لیے موزوں و مناسب ہے۔ مشکل تب آتی ہے جب مختصر افسانوں میں علامتوں کا دخول ہوتا ہے۔ حالانکہ زبان سادہ ہوتی ہے۔ مگر علامتوں سے ملوث ہو کر لفظوں کے معنی و مفہوم ہی بدل جاتے ہیں۔ لہٰذا ذریعہ ابلاغ ایسی تحریروں کو رد کر دیتا ہے۔ ایک اچھے براڈ کاسٹر کے لیے ان نکات کو بہر حال ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ ڈاکٹر مظفر حنفی اس گُر سے واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ Broad Casting Community میں ہردلعزیز ہیں۔ ہر دلعزیزی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ریڈیو کے سارے آزمائے ہوئے Prog. Formats سے بخوبی واقف ہیں۔ زبان کی قید نہیں۔ جس زبان میں ضرورت ہو وہ لکھ دیتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی پروڈیوسروں کو Guidance بھی دیتے ہیں۔ تو صاحب ان کی ایک جہت یہ بھی ہے۔ لکھنا، پڑھنا، پڑھانا شعر کہنا ان کی جبلت میں شامل ہے۔ لہٰذا درس و تدریس کی اعلیٰ سطحوں پر مامور کیے جاتے ہیں تو یہ اُن کا حق ہے اور یہاں جو ان کے فیصلے ہوتے ہیں اس پر ان کا مکمل اختیار ہے۔ سارے اختیارات کا استعمال وہ اپنے مقررہ اصولوں کے تحت کرتے ہیں۔ وہ زندگی میں اصول پرستی، مشرقی قدروں اور روایت پرستی کو برقرار و بحال رکھنے کی ایک مثال ہیں۔

گورکھ پور ریڈیو اسٹیشن میں اپنی تقرری کے دوران میں نے جدید شاعری کا مشاعرہ کیا۔ مدعو جدید شاعروں کی فہرست میں اس وقت کے اہم شاعروں کے نام شامل تھے۔ مثلاً کلکتہ سے علقمہ شبلی( فاروق شفق بوجوہ شامل نہ ہو سکے) پٹنہ سے سلطان اختر، ظہیر صدیقی، رانچی سے پرکاش فکری، دلی سے مخمور سعیدی، علی گڑھ سے شہر یار، وحید اختر، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے مظفر حنفی، لکھنؤ سے محترمہ داراب بانو وفاؔ اور اعظم گڑھ سے بزرگ شاعر فضا ابن فیضی۔

میں نے قصداً مقامی شاعروں کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا تھا کہ ریڈیو سے کم از کم اس نوعیت کے مشاعروں کی داغ بیل ڈالی جائے۔ نئی فکر کی روشنی اردو شائقین بطور خاص ان تک پہنچے جو سنجیدہ شعر و ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

بہر حال یہ ہوا کہ مشاعرہ اسٹوڈیو میں غیر ضروری اناؤنسمنٹ اور غیر ضروری تمہید سے گریز کرتے ہوئے صرف شاعروں کے مختصر تعارف کے ساتھ مشاعرے کا آغاز کر دیا گیا صدارت کی روایت سے بھی پرہیز کیا۔ یعنی مشاعرہ بلا صدر شروع کر دیا گیا۔ اب شومیِ قسمت کہ میں نے شہر یار سے پہلے پروفیسر وحید اختر کو پڑھوا دیا۔ بس کیا تھا ان کی پیشانی شکنوں سے بھر گئی۔ غصہ پھٹا پڑ رہا تھا۔ پڑھ کر فوراً اسٹوڈیو سے نکل گئے۔ مظفر حنفی اور شہریار متبسم تھے۔ میں وحید اختر کے اس تیور سے واقف نہ تھا۔ لہٰذا میں نے بزرگ شاعر فضا ابن فیضیؔ( جو آخری شاعر تھے) سے پہلے پڑھوایا۔ فضا ابن فیضی کے کلام کے بعد اظہار تشکر کی رسم ادائی اور مشاعرہ ختم ہوا۔ اسٹیشن ڈائریکٹر کے کمرہ میں خورد و نوش کا اہتمام تھا۔ باہر نکلے تو دیکھا کہ وحید اختر غصے میں بھرے Corridor میں ہاتھ پیٹھ پر باندھے آوا جاہی کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر اُبل پڑے’’ میں تمھیں دیکھ لوں گا، میری انسلٹ کی تم نے، دیکھ لوں گا‘‘۔ بات میری سمجھ میں نہ آئی۔ مظفر حنفی شاید بات سمجھ رہے تھے۔ انھوں نے میری حمایت میں پہلے تو وحید اختر کو نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب وہ اکڑتے ہی گئے تو مظفر حنفی نے انھیں لتاڑتے ہوئے کہا ’آپ خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں مجھ سمیت اس مشاعرے کے بیشتر شعرا آپ سے برتر ہیں۔ ‘ مظفر حنفی صاحب چشم دید گواہ تھے۔ آج ان پر لکھتے ہوئے یہ حادثہ بھی تازہ ہو گیا۔ اب تو اس مشاعرے کی فہرست میں بیشتر نام مرحوم ہو گئے۔ پرکاش فکری، وحید اختر، مخمور سعیدی، فضا ابن فیضی، بانو داراب وفا، شہر یار  اور اسٹیشن ڈائرکٹر کشور سلطان بھی۔

ایسی کئی یادیں مظفر حنفی صاحب سے ملاقات میں تازہ ہوتی رہتی ہیں۔ پرانی باتوں کو یاد کر کے ہم دونوں ہی جی کو  بہلاتے رہتے ہیں۔ وہ تو مدت دراز تک کلکتہ میں تھے۔ آج بھی دلی، علی گڑھ، یا کسی مشاعرے میں ان کے ساتھ مل بیٹھنا باعث افتخار ہوتا ہے۔

شعر و ادب کا جو معاملہ ہے وہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ان کا داخلی میدان۔ اس باؤنڈری میں وہ اکیلے کھیلتے ہیں۔ کہیں کہیں کبھی کبھی تکنیکی مسئلوں سے الجھتے ہیں تو خارج سے رابطہ بھی کرتے ہیں۔ جیسے ’ کون بنے گا کروڑ پتی‘ میں امیتابھ بچن Phone Friendکو آواز دیتے ہیں، ایسی صورت میں بھی حتمی رائے خود ان کی ہوتی ہے۔ کیوں کہ فن پارہ دوست کے نہیں خود مظفر حنفی کے نام سے منظر پہ آئے گا۔ اس کے معیار و اعتبار کی ساری ذمہ داری خود ان پر ہو گی۔

’ بادبان‘ کراچی کے ایک شمارہ میں محاسبہ کرتے ہوئے مظفر حنفی کی غزلوں سے متعلق میں نے ایک غیر سنجیدہ ریمارک لکھ دیا تھا۔ غیر سنجیدہ کیا مضحک تھا۔ ہر حساس شخص کو یہ بات ناگوار گزر سکتی تھی۔ مظفر حنفی انتہائی حساس اور غصے والے فنکار۔ میں خط لکھ کر تقریباً بھول گیا تھا۔ زبیر رضوی کو اردو اکادمی ان کو کلکتہ آنے پر استقبالیہ دے رہی تھی۔ جلسے میں مظفر صاحب اور میں اغل بغل کی کرسیوں پر تھے۔ زبیر رضوی سامنے ہی بیٹھے Audience کو Face کر رہے تھے۔ ہم دونوں کو بھی۔ مظفر صاحب کا موڈ گڑبڑ لگ رہا تھا۔ میں نے سلام کیا۔ جواب میں ہوں ہاں۔ پروگرام کے آغاز ہونے میں شاید کچھ دیر تھی۔ پھر میں نے مظفر صاحب سے گفتگو کی پہل کی۔ اس بار وہ جلال میں تھے۔ بولے: ’’  آپ نے ’ بادبان‘ کراچی میں میری غزلوں کے بارے میں کیا لکھ دیا ہے کہ میں غزلیں ’ تھوک‘ میں لکھتا ہوں۔ عرصہ ہو چکا تھا بادبان کو خط لکھے۔ کچھ یاد نہیں پڑ رہا تھا۔ پھر انھوں نے مختلف لفظوں، کامل حوالوں اور صفحے اور صفحے پر دوسرے خطوط نگاروں کے نام بتائے۔ تب مجھے یاد آنے لگا۔ انھوں نے دوبارہ کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ انیس رفیع ’ گھٹیا‘ افسانہ لکھتے ہیں تو؟ میں نے کہا کوئی بات نہیں یہ آپ کا حق ہے مگر انھیں شائع کرا کر آپ لوگوں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ سامنے زبیر رضوی موجود تھے۔ میں نے کہا ’’آپ زبیر رضوی سے پوچھیں کہ میرے گھٹیا افسانے’ ذہن جدید‘ میں کیوں چھاپتے ہیں۔ ‘‘ان کا برجستہ جواب تھا ’انیس کے افسانے اس لیے چھاپتے ہیں کہ وہ انیس رفیع کے دوست ہیں، محکمے کے ساتھی ہیں۔ ‘خاموشی طاری ہو گئی تو صاحب نام بھی کبھی کبھی کام کر جاتا ہے کہ وہ ہے۔ اس کا وجود ہے۔ بعد کو شناخت نامہ۔

مظفر حنفی کے یہاں غالب احساس حق تلفی کا ہے۔ جس کے نتیجے میں طنز، تشنیع، رشک، شکوہ وغیرہ کا بھرپور کھیل ملتا ہے۔ لہٰذا ان کے یہاں گدگداہٹ، شباب کی خوشیاں، نازک جذبات جیسے Tools کا استعمال کم کم ہے۔ کہیں کہیں کسی کلام میں شعری کیفیت کا احساس ضرور ہوتا ہے مگر پڑھ کر یا سن کر وجدانی کیفیت طاری نہیں ہوتی۔ آخر کسی بھی شاعر یا ادیب میں خاص کر آج کے ادیب میں کسی غیر کے لیے Feeling کا فقدان کیوں ہے؟ اگر محرومیاں ہیں تو دل گداختہ کیوں نہیں۔ اس کی وجہ ہے۔ آج کے بیشتر ادیب و شاعر اپنی اپنی ملازمتوں میں محفوظ ہیں۔ Security ان کا پہلا مقصد ہے۔ بے کاری کے دنوں میں بھلے ہی وہ دوسروں کے لیے دل گداخت کرتے ہوں۔ مگر مالی تحفظ ملنے کے بعد نئے نئے فلسفے تلاش کرنے لگتے ہیں۔ وہ بھی بغیر کسی نظریہ کے۔ حالانکہ ہمارے معاشرے میں نظریے کے لیے زندگی تج دینے کا حوصلہ اب بھی باقی ہے۔ اردو دنیا محفوظ لوگوں کی آماجگاہ ہے، کوئی مشاعروں میں محفوظ تو کوئی بڑے دفتر، بڑے عہدے میں محفوظ۔ کوئی ابرک، کوئی کان کنی کی تجارت میں محفوظ۔ درس و تدریس میں تو محفوظ ہی محفوظ۔ مظفر حنفی کا تعلق بھی درس و تدریس سے رہا ہے۔ لہٰذا وہ محفوظ تر ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ جینوین فنکار اس حفاظتی خطے سے کچھ نہ کچھ نکال لے آتا ہے۔ کیونکہ تمام Securities کے باوجود آدمی کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی ٹوٹنے کے عمل سے ضرور گزرتا ہے۔ مظفر صاحب نے کئی مرحلے جھیلے ہیں۔ اوائل عمری کے جھمیلے، پھر جنگل کی ملازمت، فطرت سے ٹکراؤ کے دن، بعد کو درس و تدریس۔ اشعار میں تنوع بھی انھیں کی دین ہے۔ حالانکہ مظفر حنفی اپنے مشاہدات، تجربات اور تفاعل میں کسی بڑے سے کم نہیں رہے۔ مگر نہ جانے کیوں اپنے اصولوں کی محبت میں خود کو اپنے ہی مقولے میں نظر بند کر لیا:’’ لیکن فنی پابندیوں میں رہ کر شعر میں نئی نئی باتیں کہنا اور نئے اسلوب میں شاعری کرنا میرے نزدیک فن کی معراج ہے‘‘ در اصل یہ پابندی عقل کی ہے دل پر اور اقبال اس پابندی سے خوش نہیں تھے:

لازم ہے دل کے پاس  رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

مظفر حنفی ہمارے درمیان زیب غوری، بانی، سلطان اختر، عمیق حنفی، شجاع خاور، عین رشید کی صف میں بلند تر ہوتے اگر خود پر خود کی عائد کردہ پابندیوں کو ذرا ہٹا دیتے۔ مظفر صاحب کے ادب میں بھی لہجہ مؤدب، پابند، شعر میں عروض و بحور، فکری ریزہ خیالی کی جگہ منظم و مربوط خیال، شعر گٹھا ہوا، طریقہ اظہار میں تنوع، ان سب کو ملا کر بات بن ہی جاتی ہے اور مظفر حنفی ہمارے درمیان قابل توجہ اور سرخرو بن کر ابھرتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وجدان اور جذب و کیف کی عدم موجودگی کے باوجود ان کی شاعری کو عام پسندیدگی بلکہ قبول عام کا شرف حاصل ہے۔ شاید اس کی وجہ ان کا مخصوص اسلوب ہے جس میں بلا کی کاٹ، ذہانت اور طنز ہے جو پہلی ہی قرات میں قاری پر کچھ منکشف کر دیتا ہے۔ ان کا کلکتے میں ہونا ہم کلکتے والوں کے لیے کئی اعتبار سے اچھا تھا۔ وہ ایک اچھے استاد تھے جو طلبا کو فیض پہنچاتا تھا۔ وہ علم و ادب کے شناسا تھے۔ لسانی اور شعری رموز سے واقف۔ اس طرح شعراء، ادباء بھی ان سے مشورے کر لیتے تھے۔ خود میں بھی دو ایک سلسلے میں ان سے مشورہ کر چکا ہوں۔ میرا بھانجہ اردو میں Ph.D کرنے کے لیے Topic تلاش کر رہا تھا۔ مظفر حنفی صاحب نے اپنی طرف سے کوئی Topic تجویز کر رکھا تھا۔ میں نے ان کو دور درشن کلکتہ میں ریکارڈنگ کے لیے بلا رکھا تھا۔ میرا بھانجہ شکیل ان کو ساتھ ہی لے کر آیا۔ چائے پیتے وقت Topicپر گفتگو شروع ہوئی۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ وہ اگر کسی شخص پر تحقیق کرانا چاہیں تو کلکتہ کے عباس علی خاں بیخودؔ مناسب ہیں۔ حیات نہیں ہیں۔ حنفی صاحب تھوڑی  دیر غور کرتے رہے، پھر کہا، ’ٹھیک ہے، بیخودؔ صاحب پر تو نہیں مگر کلکتہ کے ابراہیم ہوشؔ کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ اس طرح ابراہیم ہوشؔ پر پہلا کام ہو گیا۔ انھوں نے کہا ہوش ایک خاص زاویہ فکر رکھتے تھے۔ مارکسی ادب اور ترقی پسند ادب کے سر خیلوں میں تھے۔ ان کا تعلق انقلاب بمبئی سے بھی تھا۔ پرویز شاہدی اور سالک لکھنوی انھیں اپنی صف میں رکھتے تھے۔ ہوشؔ بنگال کے Oral Cultureکے نمائندہ تھے۔ ان کا ثانی کوئی بنگلہ ادیب بھی نہ تھا۔ کالا چاند، ڈوما اس تہذیب کے ( کلکتیا زبان و تہذیب) کے زندہ کردار ہیں جسے ابراہیم ہوشؔ نے رچا تھا اور اسے ’ جندگی کا میلہ‘ نامی مجموعے میں یکجا کر دیا تھا۔ ہوش صاحب سے متعلق ان کے خیالات جان کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہر اچھا ٹیچر، شاعر، محقق، مقالہ نگار نئی جگہ پر پہنچ کر اگر اپنی آنکھیں کھلی رکھے تو اجنبی مقامات کو بھی اپنا کر اس میں رچ بس جاتا ہے۔ اور مظفر حنفی ایسے ہی ایک شخص ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

                رہبر ؔجونپوری

بھوپال

 

شخصیت میں ہیرے کی چمک

 

ڈاکٹر مظفر حنفی ہمہ جہت اور چمکدار شخصیت کے مالک ہیں۔ انھوں نے اپنے انوکھے پن سے اردو ادب کی نئی نئی راہیں استوار کی ہیں۔ انھوں نے ادب کی ہر صنف کو ایک نیا انداز بخشا ہے۔ شاعری ہو، افسانہ ہو، تنقید ہو، مضامین ہوں، اسفار ہوں یا خودنوشت ہر میدان میں انھوں نے اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔ انھوں نے اپنے زورِ قلم سے بڑے بڑوں کو زیر کیا ہے اور اپنا لوہا منوایا ہے۔ اردو ادب کے بڑے بڑے جید اُن کی صلاحیتوں اور اُن کی دانشورانہ فہم و فراست کے قائل ہیں پھر بھلا میری کیا بساط کہ میں سورج کو چراغ دکھاؤں اور اُن پر کوئی مضمون قلمبند کروں۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ اُنھوں نے ہم جیسے ادب کے حقیر خادم پر اگر کبھی کچھ لکھ دیا ہے یا کہہ دیا ہے تووہ ہماری ادبی زندگی کاستون ثابت ہو گیا ہے۔ البتہ مجھے اُن کی ہیرے جیسی شخصیت کے بارے میں ضرور کچھ کہنا ہے جس کا مشاہدہ میں نے اکثر اُن کی رفاقت میں کیا ہے۔ اور ان کی محبت آمیز اور مخلص شخصیت سے میں متاثر ہوا ہوں۔

غالباً یہ سن ۱۹۶۰ء کے آس پاس کا زمانہ ہو گا جب ڈاکٹر صاحب کھنڈوا شہر سے بھوپال ملازمت کے سلسلے میں تشریف لائے۔ چونکہ استاذی محترم حضرت ڈاکٹر شفا گوالیاری سے اُن کے پہلے سے بہت اچھے مراسم تھے اور شفا صاحب حنفی صاحب کی صلاحیتوں کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اُن کی بہت قدر بھی کرتے تھے اس لیے ڈاکٹر صاحب اکثر ان کے مطب پر تشریف لاتے تھے جہاں ہم چند احباب ارمان اکبر آبادی اور آنند موہن اعجاز بھی شام کو حاضر ہوتے تھے۔ وہیں ڈاکٹر مظفر حنفی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے مل کر کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ ہنستے ہوئے اور بڑی خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ پھر ڈاکٹر صاحب کا تبادلہ قصبہ سیہور میں ہو گیا جو پہلے بھوپال کا ضلع بھی تھا۔ وہیں کالج میں میرے دیرینہ دوست اور گاؤں کے ساتھی ڈاکٹر عبد الودود بھی لیکچرر تھے۔ لہٰذا سیہور بھی اکثر جانا ہوتا رہتا تھا جہاں حنفی صاحب کے پہنچنے کے بعد ادبی ماحول میں کافی گرمی آ گئی تھی اور لوگ اُن کے گرویدہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے سیہور تبادلے کے بعد وہاں شعری و ادبی نشستوں کا سلسلہ دراز ہو گیا تھا اور B.H.E.L. بھوپال سے میں اور ارمانؔ اکبر آبادی اکثر وہاں کے شعری و ثقافتی پروگراموں میں شریک ہوتے تھے۔ ڈاکٹر حنفی سے ملنے کے بعد اکثر یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ اندر سے کس قدر موم صفت انسان ہیں۔ ان کا دل محبت اور خلوص سے کِس قدر سرشار ہے۔ اُن کے اندر اَنا اور کبر کا شائبہ تک نہیں ہے، جہاں وہ انا پرست بڑے بڑے جیّدوں کو ان کی اوقات بتا دیتے ہیں وہیں وہ اپنے چھوٹوں سے کس قدر محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں یہ احساس اُن سے مل کر ہوتا ہے۔ انھوں نے ابھرتے فنکاروں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے۔ سیہور میں ڈاکٹر عبد الودود سے اُنکے بڑے قریبی اور گھریلو تعلقات تھے۔ تقریباً روزانہ کا اٹھنا بیٹھنا رہتا تھا جس کی وجہ سے ادبی و شعری محفلوں میں بھی جان پڑ گئی تھی وہاں کے احباب یحییٰ نجمی، فاروق عندلیب، ابرار شاہجہاں پوری، مسعود اختر، عزیز فاروقی، محمد اشفاق، ڈاکٹر حیدر شاہین، یعقوب سلیم، نجیب رامش، غلام عباس علوی وغیرہ ڈاکٹر مظفر حنفی کے سیہور آ جانے سے کافی سرگرم ہو گئے تھے۔ سیہور کے نوجوان شعراء و ادبا بھی ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے اور ان کی حوصلہ افزائیوں سے بڑے پُر اعتماد تھے۔ یہ سلسلہ کافی دنوں تک قائم رہا اور اہلِ سیہور ڈاکٹر صاحب کے حلقہ بگوش رہے، مگر کہتے ہیں حالات کا پہیہ ہمیشہ یک رفتار نہیں رہتا۔ نا معلوم قاتلوں نے ڈاکٹر عبدالودود مرحوم کو قتل کر دیا، ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب کا تقرر جامعہ ملیہ دہلی میں ہو گیا اور وہ دہلی منتقل ہو گئے، ابرار شاہجہاں پوری کا انتقال ہو گیا اس طرح سیہور کا تمام شیرازہ بکھر کر رہ گیا اور وہاں کی ادبی فضا جو بہت خوشگوار تھی ویران ہو کر رہ گئی۔

ذکر تھا ڈاکٹر مظفر حنفی کی ہیرے جیسی چمکدار شخصیت کا۔ غالباً سن ۸۲ یا ۸۳ء کی بات ہے دہلی دور درشن کی اردو سروس ’بزم‘ کے تحت میرا انٹرویو کا پروگرام تھا۔ میرے ادبی انٹرویو کے لیے آنجہانی جناب کمار پاشی صاحب کو دور درشن کی طرف سے بلایا گیا تھا۔ پروگرام کے بعد جب میں اسٹوڈیو سے باہر آیا تو میری ملاقات ایک عرصہ کے بعد ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب سے ہو گئی۔ وہ بھی دور درشن کسی پروگرام کے سلسلے میں تشریف لائے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ بڑی خوش اخلاقی سے ملے اور حال چال پوچھا میں نے انھیں دور درشن پر آنے کا سبب بتایا تو انھوں نے پوچھا کہاں ٹھہرے ہو میں نے بتایا کہ میں ہوٹل میں ٹھہرا ہوں اور رات کی ٹرین سے بھوپال واپسی ہے۔ یہ سن کر انھوں نے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے چلو ہوٹل سے اپنا سامان اٹھاؤ اور میرے ساتھ گھر چلو پھر وہاں سے اسٹیشن چلے جانا۔ میں ان کے اس محبت اور خلوص مندانہ حکم کو نہ ٹال سکا اور سامان لے کر ان کے ساتھ بٹلہ ہاؤس اُن کے مکان پر آ گیا اور شام تک ان کے ساتھ رہا پھر رخصت لے کر اسٹیشن آ گیا۔ آج تک اُن کی یہ اپنائیت اور خلوص مجھے اپنا اسیر کیے ہوئے ہے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی کا دل کس قدر سوزوگداز سے معمور ہے یہ اندازہ اُن سے مل کر اُن کے ساتھ کچھ وقت گزار کر ہی ہوتا ہے۔ با صلاحیت نو جوانوں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کا اُن میں جو جذبہ ہے وہ اس دورِ ناہنجار میں یکسر نا پید ہے۔ وہ ہمیشہ اُن لوگوں کی رہنمائی اور مدد کرتے ہیں جن میں کچھ صلاحیت ہوتی ہے۔ ہاں اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ سامنے والے میں خود کی صلاحیتوں کا فقدان ہے تووہ اس پر کچھ لکھنے یا کہنے سے بڑی صاف گوئی سے انکار کر دیتے ہیں جو اُن کی شفافیت کا آئینہ دار ہے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب جن دنوں اقبال چیئر پر فائز تھے اور شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی کے صدر تھے، میری کتاب ’موجِ سراب‘ ترتیب و اشاعت کے مراحل میں تھی میں نے خط کے ذریعہ اُن سے کچھ لکھنے کی خواہش ظاہر کی اُنھوں نے بلا کسی پس و پیش کے اپنے تاثرات مرحمت فرمائے جو ’موجِ سراب‘ کی زینت ہیں۔ انھوں نے میری کتاب منظوم تاریخِ اسلام ’’ پیغامِ حق‘‘ کے لیے بھی مضمون لکھ کر میری حوصلہ افزائی فرمائی جس کی وجہ سے مجھے اپنے کام پر اعتماد و اعتبار حاصل ہوا۔

ڈاکٹر مظفر حنفی کی شخصیت اور اُن کے ادبی کارنامے اس قدر عظیم ہیں کہ اُن پر مضمون تو کیا اگر کتاب کی کتاب لکھی جائے تو بھی مکمل احاطہ ممکن نہیں ہے۔ اُن کی تمام عمر ادب کے دشت میں سرگرداں رہی ہے۔ انھوں نے اپنے قلم کا نہ صرف جوہر دکھایا ہے بلکہ اردو ادب کو ایک نئی سمت ایک نیا تجربہ عطا کیا ہے۔ اُن پر مرتب ہونے والی کتاب میں شمولیت یقیناً میرے لیے باعثِ خوشی و باعثِ افتخار ہے۔

٭٭٭

 

 

 

                ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

میرٹھ

 

 

استاد سا شفیق ایک شخص  :  پروفیسر مظفر حنفی

 

جمشید پور میں ایک کل ہند مشاعرہ تھا۔ ساکچی آم بگان میدان میں منعقدہ مشاعرے میں زبردست بھیڑ تھی۔ یہ تقریباً ۱۹۸۲ء کی بات ہے۔ میں دسویں کا طالب علم تھا۔ مشاعرے کی صدارت بہار کے اس وقت کے وزیر اعلی جگناتھ مشرا کر رہے تھے۔ ایک شاعر نے مشاعرے کو لوٹ لیا تھا۔ سب سے زیادہ تعریفیں اس شعر نے بٹوریں    ؎

مِرے بچے کھڑے ہیں بالٹی لے کر قطاروں میں

کنویں، تالاب، نہریں اور فوارے بناتا ہوں

شاعر کا نام تھا مظفر حنفی۔ یہ مظفر حنفی سے میری پہلی ملاقات تھی۔ میں ان سے ملا نہیں تھا۔ لیکن ان کے کلام سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے اشعار نے جمشید پور میں شور بپا کر دیا تھا۔ مہینوں مظفر حنفی کے اشعار جمشید پور کی ادبی فضا میں تعریف و تحسین کے دوش پہ سوار گشت کرتے رہے تھے۔ میں نے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ کہانی کے علاوہ شعرو شاعری سے خاصا شغف تھا۔ بیت بازی میں خاصی مہارت تھی۔ اکثر بیت بازی کے مقابلے جیتے۔ اقبال، غالب، میر اور دیگر بڑے شعرا کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے معروف شعرا کا کلام مجھے از بر تھا۔ مظفر حنفی کے اشعار بھی بیت بازی کے مقابلے میں اکثر معاون ہوتے۔ ان دنوں ان کا ایک شعر اکثر میری زبان پر ہو تا تھا    ؎

کم گوئی نے عزت رکھ لی، بند ہے مٹھی لاکھوں کی

ورنہ مظفر لطف آ جاتا، کھلتی سیپ نکلتی ریت

مظفر حنفی کی ایک شبیہ دل و دماغ میں بسی ہوئی تھی۔ 1992ء میں میں نے ایم اے اردو کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا رخ کیا۔ دہلی کی اجنبیت کی فضا کو میں نے ملاقاتوں اور رسمِ دوستی سے کچھ کم کیا۔ ادبی محفلوں کا انعقاد، اداروں کا قیام، اخبارات میں جز وقتی ملازمت، ٹیوشن، ادھر اُدھر کی بھاگ دوڑ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی کی اسی سر گرمی میں متعدد لوگوں سے ملاقات ہو ئی جو بہت جلد دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ عطا عابدی، کوثر مظہری، شہپر رسول، نگار عظیم، شمع افروز زیدی، انور نزہت وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ احباب کی اس فہرست میں ایک نام تھا فیروز بھائی کا۔ بعد میں علم ہوا کہ یہ دراصل فیروز مظفر ہیں اور مظفر حنفی کے صاحب زادے ہیں۔ بٹلہ ہاؤس میں ایک ادارہ تھا ’حلقۂ فکرو فن‘، میں بھی اس میں شامل ہو گیا۔ اکثر نشستیں مظفر حنفی صاحب کے گھر پر ہوا کرتیں۔ 1996ء میں شمع افروز زیدی، نگار عظیم، انور نزہت اور میں نے، ایک ادارہ ’’بزم ہم قلم‘‘ بنایا۔ ’حلقہ فکرو فن‘ کے فعال سکریٹری عطا عابدی تھے جو ’’افکار ملی‘‘ میں ملازمت کرتے تھے، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے افکار ملی کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حلقہ فکرو فن کے جلسے ہوں یا بزم ہم قلم کی محفلیں، اکثر مظفر حنفی صاحب کی شرکت بطور صدر محفل یا مہمان خاص کی حیثیت سے ہوتی۔ ہر موقع پر اپنی پُر مغز گفتگو سے ادب کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے۔ غزلیں سناتے تو تعریفات کا ایک شور داد کی شکل میں نمودار ہوتا۔

شعبۂ اردو سے جب، میں ایم اے اور بعد میں ریسرچ کر رہا تھا۔ انہیں دنوں مظفر حنفی صاحب کے بارے میں خاصی باتیں سننے کو ملیں کہ آپ پہلے شعبۂ اردو میں استاد ہوا کرتے تھے بعد میں کلکتہ میں پرو فیسر اقبال چئیر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ مجھے اس بات کا افسوس رہا کہ علم و فن کے موجزن دریا سے شرفِ شاگردی حاصل نہ ہوا۔ شعبۂ اردو کے پرو گراموں میں آپ کی شرکت، میرے لیے باعث مسرت تھی۔

مظفر حنفی کی شخصیت، بے کراں سمندر جیسی ہے۔ وہ ہمیشہ نئی نسل کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ ادب کے ہر پہلو پر بحث کرتے اور صحیح رہنمائی فرماتے ہیں۔ دہلی میں رہتے ہوئے میں متعدد اخبارات و رسائل میں بطور آزاد صحافی کام کرتا تھا۔ ’’افکار ملّی‘‘ کے مدیر قاسم رسول الیاس نے جب مجھ سے ’افکار‘ کے ادبی صفحات کی ترتیب کے لیے کہا تو میں نے بخوشی قبول کر لیا۔ میں نے ’افکار‘ کا ادبی گوشہ تقریباً3سال تک ترتیب دیا۔ لوگوں کو’ افکار‘ کے ادبی صفحات کا انتظار رہا کرتا تھا۔ اس دوران میں نے کئی ادبی مباحثے شروع کیے۔ مظفر حنفی ہمیشہ میرے مشیر رہے۔ بحث و مباحثے میں شرکت بھی کرتے اور مفید مشوروں سے بھی نوازتے۔

’’جدیدیت کے رجحان نے اردو ادب پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ‘‘ موضوع پر افکار ملی کے ادبی گوشے میں ایک صحت مند مباحثہ ہوا تھا۔ جسے بعد میں، میں نے اپنی کتاب ’’جدیدیت اور اردو افسا نہ‘‘ میں بھی شامل کیا تھا۔ یہ مباحثہ نئی نسل میں خاصا مقبول ہوا۔ اس مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے پروفیسر مظفر حنفی نے لکھا تھا:

منفی اور مثبت دونوں طرح کے اثرات

’’ادب پر کسی بھی تحریک یا رجحان کے اثرات یکسر منفی یا سر تاسر مثبت ہو نہیں سکتے۔ یہ اثرات مختلف اصناف ادب پر مختلف صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں مثلاً ترقی پسندی نے وضاحت و صراحت پر زور دیا تو غزل پر اس کا منفی اثر ہوا لیکن چونکہ نظم اور افسا نہ بیانیہ وضاحت سے مزاجی مطابقت رکھتے تھے۔ اس لیے ترقی پسند تحریک نے ان اصناف کو مثبت انداز میں متاثر کیا۔ یہی صورت حال جدیدیت کی ہے جو علامت، رمزیت اور اشاریت پر زور دیتی ہے۔ غزل اس رجحان سے بے حد ہم آہنگ ہے، اسی وجہ سے بہت سے ناقدین کا خیال ہے کہ اردو کے غزلیہ سر مائے میں بہترین حصہ جدید غزل کا ہے۔ اس کے بر عکس وہ اصناف ادب جن کے خمیر میں صراحت اور بیان واقعہ شامل ہے مثلاً افسا نہ، یک بابی ڈرا ما وغیرہ۔ انہیں جدیدیت نے بہت نقصان پہنچایا۔ دیکھیے کہ ترقی پسند افسا نہ کے مقابلے میں جدید افسا نہ کتنا پست ہے اور جدید افسا نے میں جو قابل قبول نگارشات ہیں ان کے خالق اکثر ترقی پسندی سے متاثر ہیں۔ ناول نے جدیدیت سے بحیثیت مجموعی اثر ہی قبول نہیں کیا۔ وہ نظمیں جو زیادہ جدید ہیں، نا پسندیدہ قرار پائیں اور جہاں نظم نے متوازن جدیدیت کو قبول کیا، بلند ہو گئی، اس طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے ادب پر جدیدیت کے رجحان نے منفی اور مثبت دونوں طرح کے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ ‘‘

پروفیسر مظفر حنفی

اقبال چئیر، کلکتہ یونیورسٹی،

(جدیدیت اور اردو افسا نہ، ص105، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی2001ء)

میں نے ایم اے کرنے کے بعد ریسرچ میں داخلہ لیا۔ پرو فیسر عظیم الشان صدیقی کے زیر نگرانی رجسٹریشن ہوا۔ روزی روٹی کی فراہمی کے سلسلے میں، میں دہلی کی خاک چھانتا رہا اور مقالے کا کام پس پشت چلا گیا۔ پریشانیوں میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں مقالے کی شروعات کیسے کروں ؟ میرا موضوع تھا ’’آزادی کے بعد اردو افسا نہ: فکری و فنی جائزہ(۱۹۴۷ تا۱۹۹۰)‘‘ میں پریشان تھا کہ تقریباً پوری صدی پر محیط موضوع کے تحت کئی صد افسانہ نگار اور ہزاروں افسانے میں کیوں کر پڑھ پاؤں گا، پڑھوں گا کب اور لکھوں گا کب؟۴؍ سال میں زندگی کی تگ و دو میں گذار چکا تھا۔ اسی پریشانی کے عالم میں ایک دن مظفر حنفی سے ان کے گھر ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ یہ1998ء کا واقعہ ہے۔ مظفر حنفی نے میرے مقالے کا عنوان بغور سنا اور چٹکیوں میں میری پریشانیوں کا حل پیش کر دیا۔ میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ افسا نے کی تنقیدی کتب کا مطالعہ کروں۔ ہر افسا نہ نگار کے ہر افسا نے کو پڑھنے کی بجائے افسانویTrendsکا مطالعہ کروں۔ مثلاً ترقی پسند تحریک، تقسیم کے اثرات، جدیدیت، مابعد جدیدیت وغیرہ کے تحت افسا نے میں آنے والے موضوعات اور اسلوب کی تبدیلی کا مطالعہ کروں اور ان کے تحت افسا نہ نگاروں کے افسا نے کا بھی۔ ایک ایک افسانے کے تجزیے کے بجائے اجتماعی اوصاف کے تحت افسانوں کا ذکر کروں۔ بات میری سمجھ میں آ چکی تھی۔ میں نے مظفر صاحب کے مشوروں پر عمل کرنا شروع کیا اور سب کچھ آسان ہوتا چلا گیا۔ مقالہ مکمل ہوا، ڈگری بھی تفویض ہو گئی۔ میں اس کے لیے مظفر صاحب کا ہمیشہ شکر گذار رہوں گا۔

2002ء میں، میرا تقرر چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے شعبۂ اردو میں ہو گیا۔ میں میرٹھ آ گیا۔ یہاں شعبۂ اردو نہیں تھا۔ مجھ پر شعبہ کی تعمیرو تشکیل کی ذمہ داری تھی۔ ابتدا میں بہت سے منصوبے بنائے۔ بیرونی اسکالرز کے خطبے بھی اس منصوبے کا حصہ تھے۔ پہلا تو سیعی خطبہ’’ میر اور اس کا اسلوب‘‘ پرو فیسر مظفر حنفی نے دیا۔ یہ شعبۂ اردو کا پہلا باضابطہ بڑا پرو گرام تھا۔ صدارت اس وقت کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر رام پال سنگھ کر رہے تھے۔ میرٹھ کے با ذوق اردو والے جلسے میں موجود تھے۔ پرو فیسر مظفر حنفی نے اپنے مخصوص انداز میں میر کی شاعرانہ خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے میر کے اسلوب کی انفرادیت پرسیر حاصل خطبہ دیا۔ اس سلسلے میں ایک اور یادگار بات ہوئی۔ TA / DAکے بطور ایک حقیر سی رقم میں نے ایک خاکی لفافے میں مظفر صاحب کو پیش کی۔ چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر ہم سب میرٹھ کے معروف شاعر طالب زیدی صاحب کی رہائش پر ظہرانے کے لیے گئے۔ زیدی صاحب نے اپنی روایتی مہمان نوازی سے سب کا دل خوش کر دیا۔ کھانے سے قبل، دوران اور بعد میں بھی سب مظفر صاحب سے محو گفتگو رہے، ان سے اشعار سنتے رہے۔ بعد ازاں رخصت ہو کر مظفر صاحب دہلی روانہ ہو گئے۔ کئی ماہ بعد ان سے ٹیلیفون پر گفتگو ہوئی تو برسبیل تذکرہ انہوں نے ذکر کیا کہ جو لفافہ ہم لوگوں نے دیا تھا وہ اندر سے خالی تھا۔ در اصل لفافہ کئی ہاتھوں سے گذر کر مظفر صاحب تک پہنچا تھا۔ دونوں باتوں کے امکان تھے، ایک تو کسی نے رقم نکال لی یا پھر مظفر صاحب نے نوٹ چیک کیے ہوں تو کہیں گر پڑے ہوں۔ پہلا امکان قوی تھا۔ لیکن مظفر صاحب کی اعلیٰ ظرفی دیکھیے انہوں نے کبھی اس کی شکایت مجھ سے نہیں کی۔

شعبۂ اردو کے قیام کے ساتھ ہی میں نے میرٹھ کی ادبی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اسی سلسلے میں سبھاش چندر بوس کے یوم پیدائش منانے کے لیے نیتا جی سبھاش چندر بوس کمیٹی کی میٹنگ بھگوان شرما(جو اب بھگوان کے پیارے ہو گئے ہیں ) کی قیادت میں ہوئی۔ مجھے اس موقع پر مشاعرہ کے انعقاد کی ذمہ داری دی گئی۔ بجٹ بالکل نہ کے برا بر تھا۔ کمیٹی نے مشاعرے کے لیے5000روپے مختص کیے تھے۔ اتنی رقم میں مقامی مشاعرہ بھی ممکن نہیں تھا۔ لیکن ہم لوگوں نے اہل ثروت حضرات سے چندہ وغیرہ جمع کر کے کسی طرح ایک کل ہند مشاعرے کا اہتمام کیا۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی معروف سیا سی رہنما سلمان خورشید تھے۔ ڈاکٹر بشیر بدر کوLife time achievement awardدیا جانا تھا۔ مجھ سے ذاتی طور پر ٹیلی فون پر بشیر بدر صاحب نے مشاعرے میں شرکت اور ایوارڈ قبول کر نے کی بات کہی۔ ایک بات خاص طور پر میں نے بشیر صاحب سے کہی کہ ہم بہت زیادہ آپ کی خدمت میں پیش نہیں کر پائیں گے۔ یہ جملہ میں نے زیادہ تر شعرا سے کہا تھا۔ اکثر شعرا کرام نے شرکت کی۔ بزرگوں میں پرو فیسر مظفر حنفی صاحب نے میری درخواست پر لبیک کہا۔ بشیر بدر کو نہ آ نا تھا نہ آئے۔ میری خوش فہمی چکنا چور ہو گئی تھی۔ مشاعرے کی صدارت پروفیسر مظفر حنفی نے کی۔ بشیر بدر کی غیر موجودگی سے شائقین مشاعرہ مایوس ہو گئے تھے۔ لیکن پروفیسر مظفر حنفی مائک پر آئے اور انہوں نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں جب غزل کا مطلع پڑھا     ؎

تنکوں کے ارمان لبیک لبیک

طوفان طوفان لبیک لبیک

تو ردیف لبیک لبیک نے سامعین پر ایسا جا دو کیا کہ پورا ہال لبیک لبیک سے گونجنے لگا۔ مظفر صاحب شعر پڑھتے اور ردیف سے قبل ہی پو را ہال لبیک لبیک کی صداؤں سے گونج اٹھتا     ؎

اونچا ہوا سر نیزہ بہ نیزہ

یاروں کا احسان لبیک لبیک

تتلی شگوفے جگنو ستارے

سب تیری پہچان لبیک لبیک

مشاعرہ میں ان کے ہر ایک شعر کو کئی کئی بار سنا گیا۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ رات2؍ بجے مشاعرہ گاہ لبیک لبیک کی صداؤں سے مظفر آ میز ہو گئی تھی۔ لوگ بشیر بدر کو بھول چکے تھے۔ مظفر حنفی نے میرٹھ کی تاریخی سر زمین کو لبیک لبیک کی صداؤں سے مسحور کر دیا تھا۔ برسوں تک مظفر حنفی کی اس غزل کی دھوم مچی رہی۔ اس کے بعد مظفر صاحب جب بھی میرٹھ آئے لبیک کی فرمائش ہمیشہ ان کے ساتھ رہی۔

مظفر حنفی نے متعدد بار شعبۂ اردو کے پرو گراموں میں شرکت کی۔ ہمیشہ ایک مدبر، شفیق مہربان استاد کی طرح، وسائل کی کمی سے آنے والی پریشانیوں میں بھی ہمیشہ ہمارا ساتھ نبھاتے رہے۔ میں ذاتی طور پر ان کا ممنون ہوں۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میری شخصیت کی تعمیر میں ان کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ ان سے میرا ایک رشتہ اور بھی ہے۔ وہ میرے شفیق و مہربان استاد پروفیسر خالد محمود کے بھی استاد ہیں۔ یہی نہیں میرے کئی احباب ڈاکٹر شمع افروز زیدی، ڈاکٹر نصرت جہاں وغیرہ کے بھی وہ استاد رہے ہیں۔ میں نے باضابطہ طور پر ان سے کلاسیں نہیں لیں لیکن میری زندگی میں ان کی حیثیت ایک شفیق استاد کی رہی ہے۔ وہ جہاں کثیر جہتی ادیب و شاعر ہیں وہیں ایک مخلص انسان اور شفیق و مہربان استاد بھی ہیں۔ مظفر حنفی کے فن پر گفتگو پھر کبھی۔ آخر میں میرے پسندیدہ اشعار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اشعار مظفر حنفی کو بطور تہنیت پیش ہیں    ؎

اب اتنا برد بار نہ بن میرے ساتھ آ

بد لیں گے مل کے چراغ کہن میرے ساتھ آ

سچ بولنے کا تجھ کو بڑا اشتیاق ہے

اچھا تو سر سے باندھ کفن میرے ساتھ آ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بسمل تھے مگر رقص کیا، رنگ اُڑائے

دنیا تری تفریح کا سامان رہے ہم

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ان کے سوا کسی پہ بھروسہ نہ کیبحیو

وہ پر تراش دیں گے ترے اعتماد کے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ خوشبو کا چنچل جھونکا میں سوکھی ڈالی کا پھول

اس کا میرا کیا ناتا ہے محرومی محرومی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ٹوٹی پھوٹی ناؤ ہماری، زخمی دونوں ہاتھ

لیکن بے پتوار کیے ہیں سات سمندر ایک

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عمر بھر لمسِ محبت کے لیے ترسا ہوں

اب جو شبنم نے چھوا ہے تو بکھر جانے دے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اک بار یوں خموش ہوئے وہ جواب میں

میرے سبھی سوال عرق ریز ہو گئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میرا تمہارا ساتھ ہے اس مصلحت کے موڑ تک

تم کو کنارہ چاہیے، مجھ کو سمندر چاہیے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

انا تھی مظفر کی خنجر بکف

وہاں اور کوئی نہ تھا، یا اخی

٭٭٭

 

 

 

 

                ڈاکٹر نصرت جہاں

    کولکاتا

 

 

 اندر سے اچھے ہو تے ہیں ٹیڑھے ترچھے لوگ

 

بعض شخصیتیں ایسی ہو تی ہیں جن پر وقت کی گرد کبھی نہیں جمتی۔ نظروں سے وہ بھلے ہی دور ہو جائیں لیکن ان کا خلوص، ان کی محبت، اُن کی شفقت اور ان کی وضع داری ہمیشہ آنکھوں کے سامنے گھومتی رہتی ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت کا ذکر میں کر رہی ہوں جن کا نام محمد ابوا لمظفر ہے اور جسے ادبی دنیا مظفر حنفی کے نام سے جانتی ہے۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ایک قابل قدر محقق، بے باک و بے لاگ ناقد، بلند پا یہ شاعر، عظیم افسانہ نویس، کامیاب مدیر، با کمال بچوں کے ادیب اور معتبر مترجم بھی ہیں۔ جس کی زندگی کے شب و روز ادب کی تخلیق اور ادب کا مطالعہ کرنے میں گذرتے ہوں۔ ہر جہت پر اور ہر سمت جس کی نگاہ جا تی ہو اور جو ادب میں نظریاتی حد بندیوں کا قائل نہیں، وہ بھلا اپنا تشخص اپنی ادبی تخلیقات کے حوالے سے کیوں نہ کرے۔

مظفر حنفی کے لہجے میں تیکھے پن کے ساتھ ساتھ احساس مزاح بھی ہے۔ اس بات پر لوگوں کا اصرار ہے کہ یہ ساری خصو صیتیں انہیں شاد عارفی سے حاصل ہوئیں۔ اس بات سے مجھے مکمل اتفاق نہیں۔ مظفر حنفی کے لہجے کا تیکھا پن در اصل اُن کی روز مرّہ کی ابتدائی زندگی میں در پیش مسائل، تلخ تجربات، اپنوں کا رویّہ اور تعلیمی سلسلے کو برقرار رکھنے میں  در آنے والے وہ روڑے ہیں جنہوں نے کسی حد تک ان کے مزاج میں تیکھے تیور پیدا کیے۔

نہ پو چھیے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصّہ ہے

کھری زبان مرے جسم و جان کا حصّہ ہے

اگرچہ شاعری میں انہوں نے شاد عارفی سے اصلاح لی لیکن یہ مدت بہت قلیل رہی انہوں نے ۱۴ ماہ تک شاد عارفی سے استفادہ کیا۔ لیکن اس مختصر مدت کی شاگردی کا حق ادا کرنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ نومبر ۱۹۶۲ء میں انہوں نے تلمذ اختیار کیا اور ۱۹۶۴ء کے فروری میں شادؔ عارفی داغ مفارقت دے گئے۔ اس دوران نہ ہی ان سے ملاقات ہو ئی تھی اور نہ ہی استاد کی خدمت کا موقع ملا تھا۔ اس ابدی جدائی کا انہوں نے گہرا اثر کیا۔ ایک تشنگی سی دل میں کہیں نہ کہیں باقی رہ گئی۔ لہٰذا استاد کو ان کا جائز مقام دلانے کی دل میں ٹھان لی اور اس کوشش میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ اور تین سال کی مختصر مدّت میں انہوں نے شاد عارفی کے مضامین اور شعری سرمایے کو جو مختلف رسالوں میں بکھرا ہوا تھا، یکجا کیا، مرتب کیا اور اس کی اشاعت کا بندوبست کیا۔ ساتھ ہی ساتھ ان تین سالوں میں مختلف ناقدین سے شاد عارفی پر جو مضامین لکھوائے تھے انہیں زیور طبع سے آراستہ کیا۔ پھر شاد عارفی کی نظموں کا مجموعہ، شوخیِ تحریر، شاد عارفی کی شخصیت اور فن پر تحقیقی مقالہ، شادعارفی کی غزلیں، کلیات شاد عارفی، شاد عارفی فن اور فنکار یکے بعد دیگرے منظر عام پر آئیں۔ غالبؔ اور مظفر حنفی میں ایک بات قدرِ مشترک ہے دونوں ہی کا کلکتے سے جذباتی لگاؤ ہے۔ غالب کے سلسلے میں کہا جا تا ہے کہ کلکتہ کا ذکر سنتے ہی اُن کے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی تھی۔ غالب کے سفر کلکتہ سے متعلق متعدد واقعات اور تذکرے ادب میں موجود ہیں خود غالب نے کلکتہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے :

کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں

اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے

کچھ ایسا ہی حال مظفر حنفی کا بھی ہے انہوں نے اپنی زندگی کے بیشتر سال مسافت میں گذارے اسی مسافت کا ایک  پڑاؤ کلکتہ بھی ہے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً بارہ تیرہ سال گذارے ہیں اور انہوں نے کسی حد تک یہ ارادہ بھی کر لیا تھا کہ کلکتہ ہی کو مسکن ثانی بنائیں گے لیکن شاید کسی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا اور انہوں نے ملا زمت سے سبکدوشی کے بعد دلّی واپس جا نے کا فیصلہ کیا لیکن کلکتے میں گذارے دن اُن کی زندگی کا اہم باب ہیں ورنہ کلکتے کا ذکر آتے ہی وہ یوں ہی نہیں کہہ اٹھتے :

پردیس نہ جا نا کبھی بنگال کو ہم نے

کلکتے میں دلّی کبھی بھوپال بچھایا

یہ  ۱۹۸۹؁ء کی بات ہے جب کلکتہ یو نیورسٹی کے شعبہ اردو میں بحیثیت اقبال پرو فیسر ان کی تقرری ہو ئی اور اُن کے مبارک قدم سر زمین بنگال پر پڑے۔ اہالیان کلکتہ نے محبت، یگانگت اور دل کی گہرائیوں سے اُن کا استقبال کیا، انہیں پلکوں پر جگہ دی۔ مغربی بنگال کے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نوجوان قلم کاروں، سیاسی اور سماجی شخصیات کو اُن کی باتوں اور ان کے مشوروں سے تقویت ملتی رہی۔ ان کی موجودگی میں کلکتہ اور مضافات کی ادبی سر گرمیوں کو حد درجہ فعالیت عطا ہو ئی۔ طالبعلم علم کے اس سمندر سے فیض حاصل کرنے کی جستجو میں لگ گئے لیکن یہ سب صرف اس وقت تک نہیں رہا جب تک وہ کلکتہ میں رہے بلکہ کلکتہ سے چلے جانے کے بعد بھی نہ کلکتے والوں نے اُن کو بھلا یا اور نہ ہی وہ کلکتے والوں کو بھول پائے۔ اپنے مضامین میں کہیں نہ کہیں وہ کلکتہ کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں اور یہ ان کے بڑے پن کی نشانی ہے کہ اتنی شہرت اور ادبی وقعت کے با وجود انہیں کلکتے کے احباب کا خلوص اور اپنا پن انہیں بار بار کلکتہ آنے کے لیے اکساتا رہتا ہے۔ اِ ن دنوں طبیعت کی نا سازی کے سبب وہ سفر سے پرہیز کرنے لگے ہیں۔ لیکن آج بھی اُن کی پذیرائی کے لیے اُن کے عزیز شاگردان اُ ن کی آمد کے منتظر اور پلکیں بچھائے بیٹھے ہیں۔ میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد جب جب مظفر حنفی نے کلکتہ کی سر زمین پر قدم رکھا، ائیر پورٹ ہو یا ریلو ے اسٹیشن کا پلیٹ فارم اُن کے قدم زمین پر پڑنے سے قبل شاگردوں اور اُن کے مداحوں کی اچھی خاصی تعداد اُن کی پذیرائی کے لیے موجود رہتی تھی اور خود مظفر حنفی کا سینہ بھی اپنے شاگردوں کی محبت اور احترام دیکھ کر چوڑا ہو جا تا۔ ہر ایک کے سر پر ہاتھ پھیر نا اور دعائیں دینے کا عمل دوسرے لمحے ہی شروع ہو جا تا یہ منظر دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تیکھے تیور رکھنے والا یہ شخص بے حد نرم دل اور اپنے شاگردوں کے لیے ایک مشفق استاد کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اُن کا دست شفقت اپنے شاگردوں پر ہمیشہ رہتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ طالبعلم جنہیں مظفر حنفی کی شاگردی نصیب ہو ئی جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ یہ کلکتہ سے انسیت کا سارا معاملہ یک طرفہ نہیں۔ اہل کلکتہ جب کبھی دہلی جا تے ہیں تو ان سے ملاقات کا موقع ضرور نکالتے ہیں خواہ وہ اُن کے شاگرد ہوں یا اُن کے مداح، مظفر حنفی ہر کسی سے کلکتہ کے دوست احباب اور شاگردوں کا احوال ضرور دریافت کرتے ہیں۔ میری یہ ڈھیرساری باتیں بہت سے لوگوں میں یہ تجسس پیدا کر رہی ہوں گی کہ آخر میں کس بنیاد پر مظفر حنفی کی شخصیت کے تعلق سے یہ سب گوش گذار کر رہی ہوں تو جناب مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ میں نے مظفر حنفی کو اس لیے اور بھی قریب سے جانا کہ وہ نہ صرف میرے استاد بلکہ میری ریسرچ کے نگراں بھی رہے ہیں۔ میں نے مظفر حنفی کی نگرانی میں اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کیا ہے۔ تحقیقی مقالے کی تکمیل کے بعد مقالہ جمع کرنے کا مرحلہ باقی تھا اور مظفر حنفی دلّی واپس جا رہے تھے اس دوران مجھے جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور بحیثیت نگراں مظفر حنفی جس طرح میری رہنمائی کرتے رہے اور حوصلہ دلاتے رہے اس نے کبھی مجھے پست ہمت ہو نے نہیں دیا۔ یہ وہ واقعہ ہے جسے میں کبھی بھلا نہیں سکتی۔ اس دوران مظفر حنفی دلّی لوٹ گئے لیکن انہوں نے مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ دلّی میں ہیں اور میں کلکتہ میں۔ مسلسل فون پر رابطہ قائم رکھا، جانکاری لیتے اور آگے کے مرحلے طے کرنے کے طریقے بتاتے۔ با لا آخر باوجود ہزاروں رکاوٹوں کے بفضل خدا سر کی نگرانی اور رہنمائی میں مجھے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی جو میرے لئے باعث صد افتخار ہے۔

اس دوران مظفر حنفی کے مزاج سے متعلق جو باتیں میں نے محسوس کیں وہ من و عن یہ ہیں کہ مظفر حنفی کھرے مزاج کے اور نہایت صاف گو انسان ہیں۔ ایسے تو وہ نرم گو ہیں لیکن اگر کسی نے اُن پر رعب جمانے کی یا اپنی باتوں سے الجھانے کی کوشش کی تو تیکھے تیور کے ساتھ اُس سے گفتگو کرتے ہیں۔

مظفر حنفی کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بناوٹ اور تصنع سے نہایت دور ہیں۔ نہایت مخلص، سادہ لوح اور تہذیبی روایات کے پاسدار۔ تن آسانی اور سہل پسندی کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ جانفشانی، جستجو،  چاہ اور لگن کی نصیحت  ہمیشہ کرتے ہیں۔

خُوشامد اُن کی سر شت میں نہیں اور اصولوں سے مصلحت اُن کا شیوہ نہیں۔ اصول کے خلاف نہ خود دوسروں کے آگے جھکتے ہیں اور نہ ہی اپنے شاگردوں کو اصولوں سے سمجھوتہ کرنے کی صلاح دیتے ہیں۔ شاگردوں کی غلط باتوں کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے بلکہ تلقین کے ساتھ ساتھ ڈانٹنا بھی اپنا فرض عین سمجھتے ہیں اس یقین اور حق کے ساتھ کہ یہی ان کی صحیح راہ نمائی ہے۔ شاگردوں سے ہمیشہ ان کا دلی اور جذباتی لگاؤ رہا۔ ان کی شخصیت میں خود نمائی کا دور دور تک شائبہ نہیں۔

مظفر حنفی کو اپنی خود داری اور عزت نفس کا ہمیشہ پاس رہا۔ انانیت اُن کی سرشت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے جس کا  واضح اظہار اس شعر میں نظر آتا ہے۔

بس کہہ دیا کہ ہم نہ چلیں گے کسی کے ساتھ

پیچھے پلٹ کے دیکھ رہا ہے زمانہ کیوں

کلکتہ میں بڑے سے بڑا ادبی اجتماع ہو یا چھوٹی سے چھوٹی ادبی نشست، انہوں نے بڑی خندہ پیشانی سے شرکت کی ہے۔ سمینار ہو یا مشاعرے کی صدارت کبھی اپنی شخصیت کا رعب نہیں دکھا یا بلکہ لہجے کی حلاوت اور انکساری سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ان صفات کی بنا پر ہی کلکتہ و مضافات کے اہل ادب و دانشوران کا ایک بڑا طبقہ ہمیشہ آپ کے خلوص کا مداح رہا ہے اور آج بھی ہے۔

اپنی منفرد راہ گذر پر اعتماد اور حصول معیار کے ساتھ سر گرم سفر رہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں لہٰذا مظفر حنفی نہ صرف ایک صاحب علم فنکار ہیں جن کو شعر و ادب کی تمام اصناف پر مکمل دسترس حاصل ہے اور جن کی شہرت اور ادبی وقعت قومی سطح پر ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی یکساں ہے، بلکہ ایک شفیق استاد بھی ہیں جن کی راہنمائی میرے لیے مشعل راہ اور باعث صد افتخار ہے۔ اللہ پاک ان کی تندرستی قائم رکھے اور اُن کا دست شفقت ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رہے۔

٭٭٭

 

 

’’ اچھا شعر کہنا آسان کام نہیں ہے لیکن شعر گوئی کی کوئی خاص طرز نکالنا اور بھی مشکل کام ہے۔ اچھا شعر کہنے والوں کی تعداد بھی ہمیشہ کم رہی ہے۔ صاحبِ طرز شاعر تو انگلیوں پر گِنے جاتے رہے ہیں اور آج بھی گِنے جا سکتے ہیں۔ ہمارے عہد کے انھیں چند ناموں میں ایک نام مظفرؔ حنفی کا ہے۔ ‘‘

مخمور سعیدی

 

 

 

 

                ڈاکٹر الف انصاری

  مٹیا برج کولکاتا

 

 

مظفر حنفی کی شخصیت کے چند پہلو

 

ممتاز شخصیتوں کے کئی پہلو ہوتے ہیں اسی طرح ایک ہمہ صفات فنکار پروفیسر مظفر حنفی کی شخصیت کے بھی کئی پہلو ہیں۔ شاعر، ادیب، محقق، نقاد، معلم، مصنف، خاکہ نگار، مؤلف، افسانہ نگار، مقالہ نگار اور مترجم نیز حق گوئی، بیباکی اور اصول پسندی تو ان کی زندگی کے روشن ترین پہلو ہیں۔ اس مختصر سے مضمون میں مظفر حنفی صاحب کے فن پر نہیں بلکہ ان کی شخصیت کے چند ایسے پہلوؤں کا ذکر ہے جو ان کی شخصی زندگی اور کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔

پروفیسر مشتاق احمد میرے تحقیقی مقالہ ’’ شاعرات بنگالہ‘‘ کے نگراں مقرر کیے گئے تھے۔ ان کے اچانک انتقال کے بعد اقبال پروفیسر مظفر حنفی صاحب میرے نگراں ( ریسرچ گائیڈ) مقرر کیے گئے۔ اس سلسلے میں پہلی بار آپ سے ملنے کانکر گاچھی گیا۔ آپ کے دولت کدے پر پہنچ کر کال بیل پر انگلی رکھی تھوڑی دیر بعد ایک نو جوان نے دروازہ کھولا آپ مظفر حنفی صاحب کے صاحبزادے تھے۔ انھوں نے میرا نام دریافت کیا۔ نام بتایا۔ آپ کے صاحبزادے اندر گئے تھوڑی دیر بعد دروازہ کھولا اور مجھے اندر بلا کر صوفہ پر بیٹھنے کو کہا۔ ابھی دم لے ہی رہا تھا کہ صاحبزادے ایک گلاس پانی لے کر حاضر ہوئے۔ پانی پیا، چند منٹوں بعد ہی ایک با رعب شخصیت یعنی مظفر حنفی صاحب ملحقہ کمرے سے اس ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے جہاں میں بیٹھا ان کا منتظر تھا۔ چہرہ دیکھتے ہی میں نے ادب سے کھڑا ہو کر مصافحہ کیا انھوں نے صوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے کہا سر پہلے آپ۔ میرے کہنے پر آپ بھی رو برو بیٹھ گئے کچھ کہنا چاہا۔ اسی دوران آپ کے صاحبزادے نے ایک ٹرے لا کر جس میں انواع و اقسام کی مٹھائیاں اور دیگر لوازمات بھی تھے میز پر رکھ دی۔ حنفی صاحب نے میری گھبراہٹ کومحسوس کرتے ہوئے مجھے کچھ کہنے سے روک دیا اور کہا میاں پہلے کچھ کھا پی لیں پھر باتیں ہوں گی۔ میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حنفی صاحب سے کہا سر پہلے آپ انہوں نے ٹرے سے بسکٹ اٹھایا، میں بھی آپ کے ساتھ شریک ہو گیا۔ آپ کی مہمان نوازی کے چرچے سن رکھے تھے آج آنکھوں سے دیکھ لیا۔

ناشتہ اور چائے سے فارغ ہونے کے بعد میں نے کہا سر، میرے ریسرچ گائیڈ پروفیسر مشتاق احمد کے انتقال کے باعث یونیورسٹی میں میری تھیسس کا معاملہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ اور مقالے کی نظر ثانی کے لیے نگراں آپ کو منتخب کیا گیا ہے۔ آپ نے برجستہ فرمایا جانتا ہوں، کرنا کیا ہے۔ میں نے کہا سر آپ رہنمائی کیجیے اور مجھے مفید مشوروں سے نوازیے۔ آپ نے بھرپور تعاون کا اطمینان دلایا اور قیمتی مشورے دیے۔ پہلی ہی ملاقات میں آپ خندہ پیشانی سے پیش آئے آپ کا اخلاق اور باتوں نے میرے دل و ذہن پر ایسے نقوش مرتب کیے کہ رفتہ رفتہ میں آپ کی شخصیت کا اسیر ہوتا گیا۔ ہر ہفتے دو ہفتے پر آپ کے دولت کدے پر حاضر ہوتا، وقفہ وقفہ کی ملاقاتوں کے توسط سے آپ سے اور اہل خانہ سے قریب ہوتا گیا اس طرح دُوریاں رفتہ رفتہ نزدیکیوں میں بدلتی گئیں۔ آپ کی قربت نصیب ہوئی جو میرے لیے باعثِ افتخار ہے۔ قربت کے سبب آپ کی تہہ دار شخصیت کو سمجھنے کا موقع ملا تب ان کی شخصیت اور عظمت کا احساس ہوا۔ کیونکہ جب تک کسی بھی شخص کی قربت حاصل نہ ہو یا کچھ دنوں تک اس کی صحبتیں نہ اٹھائی جائیں اس وقت تک اس کی شخصیت پوری طرح واضح نہیں ہوتی۔ مجھے شرف حاصل ہے کہ آپ کے ہمراہ کئی بار بیرونِ بنگال کا سفر کیا ( آکولہ، کھنڈوا، کٹیہار، سری نگر وغیرہ) اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے حنفی صاحب کی زندگی میں جھانکنے اور انھیں سمجھنے کا موقع ملا۔ نیز ان کے خیالات، نظریات سے نہ صرف واقفیت ہوئی بلکہ کئی تجربات بھی ہوئے۔ میں نے محسوس کیا مظفر حنفی ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ کئی شخصیتوں کا مجموعہ ہے۔ آپ جہاں بھی گئے وہاں کے لوگوں نے عقیدتمندانہ اور والہانہ استقبال کیا۔ آپ کو سننے کے لیے سامعین شام سے صبح تک منتظر رہتے۔ بار بار پڑھنے کا اصرار کرتے اور شعروں پر دل کھول کر داد دیتے تھے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی دعوت پر مظفر حنفی صاحب کشمیر یونیورسٹی ریویو کمیٹی میں شرکت کے لیے سرینگر گئے تومجھے بھی ہمراہ لے گئے۔ ضابطے کے مطابق میں یونیورسٹی کا مہمان نہیں ہو سکتا تھا لیکن حنفی صاحب نے اصرار کر کے مجھے بھی اپنے ساتھ پانچ ستارہ ہوٹل میں ٹھہرایا اور اس کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے۔

مظفر حنفی صاحب کی زندگی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے ایک فرض شناس شوہر اور ایک ذمہ دار باپ ہونے کی حیثیت سے اپنی شریکِ حیات بیگم عاصمہ مظفر اور اپنے بچوں فیروز، پرویز، سہیل، فضیل، عرفان اور بیٹی صبا تسنیم کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت ایسی کی کہ آج وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ آپ نے ان کے ساتھ نہ صرف ایک فرض شناس معلم کا فرض نبھایا ہے بلکہ ایک ذمہ دار باپ کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ آپ کی رفیق حیات گرچہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں مگر ایک گھریلو خاتون، سلیقہ شعار اور شوہر کی مزاج داں ہیں ان کے مزاج میں خود کو ڈھالنے کے سبب دونوں مسرت آمیز زندگی بسر کرتے ہیں۔ آپ شوہر کی فرمانبرداری کو افضل سمجھتی ہیں۔ نرمی اور شگفتہ لہجے میں گفتگو کرتی ہیں۔ خلوص سے پیش آتی ہیں۔ قیاس ہے کہ آپ کے ادبی کاموں میں رخنہ نہیں ڈالتی ہوں گی اگر ایسا ہوتا تو ان کا ادبی سرمایہ محدود ہوتا کیونکہ گھر کے خوشگوار ماحول میں رہ کر ہی شاعر و ادیب ادب تخلیق کر سکتا ہے۔ اگر گھر کا ماحول خوشگوار نہیں ہو  تو کسی شاعر و ادیب کے لیے ادب تخلیق کرنا ناممکن ہے۔ خوشگوار ماحول سے میری مراد معاشی خوشحالی بھی ہے اور پر مسرت خانگی زندگی بھی۔ مظفر حنفی صاحب دونوں نعمتوں سے مالا مال ہیں۔

مظفر حنفی صاحب بھی اپنی ادبی مصروفیات کے باوجود اپنی رفیق حیات اور بچوں کی راحت اور آسائش کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ان کا گھریلو ماحول اور ازدواجی زندگی قابلِ رشک ہے۔

مظفر حنفی صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ہر پہلو پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے مگر ان پہلوؤں میں بنیادی حیثیت انسان دوستی، بیباکی، اصول پسندی اور فرض شناسی ہے۔ انسان دوستی سے مراد انسانوں سے ہمدردی اور عقیدت ہے، محبت ہے، خلوص ہے، اصول پسندی سے مراد دستور  کا پابند ہونا اور فرض شناسی سے مراد ذمہ داریوں کو فرض سمجھ کر نبھانا ہے۔

مظفر حنفی صاحب کی اصول پسندی کی دو زندہ مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

کلکتہ کے ایک تعلیمی ادارے کی جانب سے ایک مشاعرے کا اہتمام مظفر حنفی صاحب کی صدارت میں کیا گیا۔ ایک شاعر محفل مشاعرہ میں دو گھنٹہ تاخیر سے اسٹیج پر تشریف لائے۔ حنفی صاحب نے نقیب جلسہ کو بلایا اور کہا جو صاحب ابھی اسٹیج پر تشریف لائے ہیں انھیں کلام سنانے کی دعوت نہ دیں۔ نقیب جلسہ نے صدر جلسہ کے حکم کی تعمیل کی اور اس شاعر کو مشاعرے کے اختتام تک پڑھنے کا موقع نہیں دیا۔

دوسری مثال کلکتہ کے ایک مشہور کلب کی جانب سے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جلسے کی صدارت مظفر حنفی صاحب فرما رہے تھے۔ مشاعرہ ٹھیک شام ۶؍ بجے شروع ہوا۔ مشاعرے کی کارروائی چل رہی تھی۔ ۸؍ بجے ادارہ کے سکریٹری صاحب جو اب تک کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے محفل میں تشریف لائے ان کی گلپوشی کے لیے مشاعرے کی کارروائی چند منٹوں کے لیے روکی جا رہی تھی لیکن نقیب جلسہ نے جیسے ہی گلپوشی کے لیے سکریٹری صاحب کو مخاطب کیا مظفر حنفی صاحب نے روک دیا اور فرمایا کہ ان سے کہیے میچ دیکھیں۔

حق گوئی کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں :

مظفر ؔحنفی صاحب کی طویل نظم ’’ عکس ریز‘‘ پر معروف نقاد ظ۔ انصاری نے حنفی صاحب کی شاعری کی مخالفت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ حنفی صاحب کی ہمت اور جرأت دیکھیے کہ انھوں نے اس مضمون کو بطور پیش لفظ ’’عکس ریز‘‘ میں شامل کیا۔ ایک سوال کے جواب میں مظفر حنفی صاحب نے کہا سچ کہنے کا حق اسی شخص کو حاصل ہے جو اپنے بارے میں سچ کو قبول کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔ بعد میں ظ۔ انصاری صاحب مظفر حنفی صاحب کے بڑے مداح ہو گئے تھے۔

غلطیاں ہر شخص سے سرزد ہوسکتی ہیں خواہ قلمکار چھوٹا ہو یا بڑا۔ حنفی صاحب کی طرح اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے والے کم ہیں۔ ان کی مذکورہ باتوں سے اس بات کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ حق گو اور اصول پسند انسان ہیں۔

مظفر حنفی صاحب کی حق گوئی اور بیباکی کی ایک اور مثال دیکھیے:

پروفیسر مظفر حنفی صاحب سے ایک انٹرویو میں مغربی بنگال کی نئی نسل کے شعراء سے متعلق پوچھا گیا کہ کیا شعر گوئی کے معاملے میں وہ محتاط اور دیانت دار ہیں۔ انھوں نے برملا اور بیباکی سے جواب دیا کہ چند شعراء کو چھوڑ کر یہاں کی نئی نسل شعر گوئی کے معاملے میں خاصی غیر محتاط ہے۔ زبان کی لطافتوں اور نزاکتوں سے اکثر عدم واقفیت کا ثبوت دیتی رہتی ہے اور لا پرواہ بھی ہے لیکن اس کے لیے میں نوجوان شعراء سے زیادہ سینئر شاعروں، ادیبوں، اساتذہ اور کہنہ مشق اہل قلم کو ذمہ دار ٹھہراتا ہوں جنھوں نے نئی نسل میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے سچ کہنے اور غلطی پر ٹوکنے کا فریضہ بر وقت انجام نہیں دیا اور بیجا حوصلہ افزائی کے نام پر نئی نسل کو خام کاری پر آمادہ کرتے رہے جس کی وجہ سے ان کی زبان بگڑ گئی۔ تلفظ خراب ہو گیا، گرامر سے لا علمی عام ہو گئی۔ میں اس امر کا شاہد ہوں کہ حنفی صاحب نے ایک دو مرتبہ نہیں کئی بار بھرے جلسوں میں سالک لکھنوی اور اعزاز افضل جیسے اساتذہ کو اس کوتاہی پر لتاڑا ہے۔

ایک محفل میں کسی نے بتایا کہ آج کل شہر میں دو استاد شاعروں میں مقابلہ آرائی چل رہی ہے کہ کون سب سے زیادہ شاگردوں کا استادہے۔ محفل میں شہود عالم آفاقی بھی موجود تھے حنفی صاحب نے اُن سے مخاطب ہو کر کہا ’’ شہود! تمھاری موجودگی میں یہ سب کیا چل رہا ہے لوگوں کو سمجھاتے کیوں نہیں ؟ جن لوگوں کو ابھی سو استادوں سے سیکھنا چاہیے وہ سو سو شاگرد بنا رہے ہیں۔ ‘‘

مٹیا برج کے ایک مشاعرے میں خطبۂ صدارت کے دوران مظفرؔ حنفی صاحب نے بہ بانگِ دہل کہا تھا کہ یہاں رمضانی قصیدے کے نام پر بڑے بڑے استاد شاعروں سے لے کر نوجوان شعراء تک نے جو کچھ قصیدے کے نام پر پڑھا ہے اُس میں قصیدہ دور دور تک نہیں ہے۔ مدحیہ قصیدے کی ہیئت، مضمون اور اجزائے ترکیبی متعین ہیں۔ آپ لوگوں کی شاعری اُن پیمانوں پر کھری نہیں اُترتی۔ ‘‘

عربی کے ایک استاد نے کلام پاک کا منظوم ترجمہ دو جلدوں میں شائع کیا تھا۔ مظفر حنفی صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو موصوف نے اس پر سرسری نظر ڈال کر کہا۔ ’’ اس میں تو اصل سے ہٹ کر آپ نے دوسری باتیں شامل کر دی ہیں۔ ‘‘

شاعر نے دست بستہ عرض کی’’ حضور! مصرعوں کو بحر میں لانے کے لیے کچھ اضافہ کرنا پڑتا ہے‘‘۔

’’ پھر تو حضرت اس کو کلام اللہ کے ساتھ ساتھ کلام سمیع اللہ ( شاعر کا نام) بھی کہنا چاہیے۔ ‘‘

اپنے زمانے میں مظفر حنفی نے شعبۂ اردو کے تدریسی اور تحقیقی کاموں میں بڑے سے بڑے لیڈر، وزیر، سرمایہ دار یا فنکار کی غلط سفارش اور غیر ضروری دخل اندازی کو قبول نہیں کیا۔

مظفر حنفی کا طریقِ کار یہاں کے شاعروں، ادیبوں اور اساتذہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ایسی جرأت ایک اصول پسند اور حق گو انسان ہی کر سکتا ہے۔ مظفر حنفی صاحب نے ایسے حالات سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جس کے سبب آپ ایک حلقے میں نا مقبول ٹھہرے۔

مظفر حنفی صاحب سے لیے گئے انٹرویوز معلوماتی اور دلچسپ ہوتے ہیں۔ ان میں آپ اپنے جذبات اور اپنے خیالات کا اظہار بیباکی سے کرتے ہیں جن میں ادب کے موضوعات پر بحثیں بھی شامل ہیں جس کے سبب شعر و ادب سے متعلق ان کے نقطۂ نظر کوسمجھنے میں آسانی اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

مظفر حنفی صاحب سے متعلق ممکن ہے نا واقفوں کو یہ غلط فہمی ہو کہ آپ کھرے اور خشک مزاج انسان ہیں جسے کبھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے جو لوگ  ان سے قریب رہے، صحبتیں اٹھائیں انھیں بے تکلف دوستوں کے درمیان دیکھا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ ان سے متعلق یہ باتیں حقائق سے کتنی دور ہیں۔ میں نے دیکھا ہے اپنے بے تکلف دوستوں کی صحبت میں کھل کر ہنستے ہوئے۔ طنز و مزاح کے فقرے چبھاتے ہوئے، اور لطائف سناتے ہوئے۔ طبیعت میں بلا کی بذلہ سنجی ہے۔ آپ ہنسنا اور ہنسانا بھی جانتے ہیں۔ دوستوں کی محفل میں ان کی شیریں کلامی، بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی اپنی نظیر آپ ہے۔

مظفر حنفی صاحب کی طبیعت سیلانی ہے، انھیں سیاحت کا بھی بڑا شوق ہے، آپ نے نہ صرف ہندوستان بلکہ بہت سے بیرونی ممالک کا بھی سفر کیا۔ راقم الحروف نے بھی آپ کے ساتھ کئی سفر کیے آپ کے ساتھ سفر کرنے میں بڑا لطف آیا بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

دس برسوں کی رفاقت میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا جب میں نے آپ کو پریشان حال دیکھا ہو یا کبھی پریشانیوں کا ذکر کیا ہو۔ ہمیشہ آپ کے چہرے پر اطمینان کی کیفیت دیکھی۔ آپ کی وسیع القلبی کا یہ عالم ہے کہ مصائب و آلام کے اظہار کے بجائے ایسے حالات کا خوش دلی سے خیر مقدم کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

                ڈاکٹر محمد زاہد

  کولکاتا

 

 

پروفیسر مظفر حنفی: ایک عہد آفریں شخصیت

 

پروفیسر مظفر حنفی صاحب ہمارے عہد کے ایسے صاحب علم و ادب ہیں کہ جن کو دیکھنے اور سننے کے بعد کوئی تا حیات فراموش نہیں کر سکتا۔ اردو دنیا بجا طور پر ان کی ذات پر فخر کرتی ہے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات سے شاعری، نثر اور تنقید کو مالا مال کیا ہے۔ ان کا سفر ابھی جاری ہے۔ وہ کسی مقام پر ٹھہرتے نہیں بلکہ گرجتے ہوئے آبشار کی طرح آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ وہ ایک عہد ساز شاعر، منفرد ادیب اور با وقار ناقد ہیں۔ ساتھ ہی ایک اچھے انسان اور شفیق استاد ہیں۔ اپنے شاگردوں میں وہ بے حد مقبول ہیں۔ ہم لوگ دل سے ان کا احترام کرتے ہیں۔ مدھیہ پردیش ہو یا اتر پردیش، دلی ہو یا بنگال آپ جہاں بھی رہے وہاں اپنی انفرادیت اور مقبولیت کا نقش چھوڑ کر آئے ہیں۔

بچپن سے شاعری اور شاعروں سے متاثر ہونے والے ہمہ جہت قلم کار کی پہلی تخلیق بھی ایک نظم تھی جو ۱۹۴۹ء میں بچوں کے رسالہ ’’ کھلونا‘‘ دہلی میں شائع ہوئی۔ اس طرح محض ۱۳ برس کی عمر میں آپ کے لکھنے کا آغاز ہوا۔ یہ سلسلہ چل نکلا اور ’’کھلونا ‘‘ کے ساتھ ’’ پھلواری‘‘، ’’کلیاں ‘‘ وغیرہ میں بھی آپ کی تخلیقات متواتر اشاعت پذیر ہوئیں۔ بچوں کے لیے لکھی ان کی کتابیں ’’بندروں کا مشاعرہ‘‘ اور ’’ نیلا ہیرا‘‘ کافی مقبول ہوئیں۔ ۱۹۵۳ء سے آپ افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ ہند و پاک کے معروف جرائد میں آپ کی کہانیاں چھپیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ سو سے زائدافسانے آپ کے قلم سے نکلے۔ ’’ اینٹ کا جواب‘‘، ’’دو غنڈے‘‘ اور ’’دیدۂ حیراں ‘‘ ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔ ۱۹۶۰ء کے بعد مظفر حنفی صاحب نے سنجیدہ شاعری کی طرف قدم بڑھایا اور چند برسوں میں اپنی انفرادیت کا لوہا منوا لیا۔ ۱۹۶۷ء میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’ پانی کی زبان‘‘ شائع ہوا جو ہندوستان میں جدید شاعری کا سنگِ میل قرار پایا۔ اس کے بعد ۱۹۶۸ء میں ’’ تیکھی غزلیں ‘‘، ۱۹۶۹ء میں ’’ عکس ریز‘‘، ۱۹۷۳ء میں ’’ صریر خامہ‘‘، ۱۹۷۴ء میں ’’ دیپک راگ‘‘، ۱۹۷۹ء میں ’’ یم بہ یم‘‘، ۱۹۸۰ء میں ’’طلسم حرف‘‘، ۱۹۸۱ء میں ’’ کھُل جا سم سم‘‘، ۱۹۸۴ء میں ’’پردہ سخن کا‘‘، ۱۹۹۷ء میں ’’ یا اخی‘‘،  ۱۹۹۹ء میں ’’ پرچمِ گرد باد‘‘، ۲۰۰۱ء میں ’’ ہات اوپر کیے‘‘ اور ۲۰۰۴ء  میں آگ مصروف ہے‘‘ وغیرہ کے ذریعے آپ کی شعری فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ آپ کے کلام پر اردو دنیا کے ممتاز ناقدین مثلاً پروفیسر آل احمدسرور، پروفیسر عبدالقوی دسنوی، پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر خلیق انجم، ڈاکٹر سید اعجاز حسین، ڈاکٹر احتشام حسین، ڈاکٹر علیم اللہ حالی، ڈاکٹر سید صفدر، ڈاکٹر خالد محمود، امجد اسلام امجد، ماجد الباقری وغیرہ نے اظہار خیال کیا ہے اور کلام کی گہرائی و گیرائی کو سراہا ہے۔ خدائے سخن میر تقی میرؔ کے بعد سب سے زیادہ اشعار کہنے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے۔ ۱۹۶۰ء کے بعد کے غزل گو شاعروں کی اگر فہرست بنائی جائے تو ان میں صف اول کے فنکاروں میں شہر یار، احمد فراز، مظفرؔ حنفی وغیرہ کے اسمائے گرامی کی شمولیت ضروری ہو گی۔

پروفیسر صاحب کی شخصیت اتنے خانوں میں نمایاں ہے کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ انھوں نے ۱۹۵۹ء میں کھنڈوہ سے ماہنامہ ’’نئے چراغ‘‘ کا اجراء کیا۔ اس کے صرف اٹھارہ شمارے نکلے لیکن قلیل مدت میں اسے معتبر قلم کاروں کا تعاون حاصل رہا۔ صحافت کے بعد انھوں نے تحقیق و تنقید کی راہ اپنائی اور اپنا نشان امتیاز قائم کیا۔ انھوں نے اپنے استاد اور مشہور شاعر شادؔعارفی پر ہونے والی ادبی نا انصافیوں پرزبردست احتجاج کیا اور کتابی صورت میں ’’ شاد عارفی: ایک مطالعہ‘‘ کی اشاعت کی جس سے لوگوں نے انھیں از سر نو پہچانا۔ میر حسنؔ دہلوی کی غزلیات کا ایک گمنام قلمی مسودہ ایشیاٹک سوسائٹی، کلکتہ میں پڑا تھا۔ مظفر صاحب نے اس کی تدوین کی اور اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا تو اردو حلقہ کو پتہ چلا کہ مثنوی ’’ سحر البیان ‘‘کے علاوہ وہ معروف غزل گو بھی تھے۔ یہ کتاب ۱۹۹۱ء میں شائع ہوئی۔ اس سے قبل ۱۹۹۰ء میں طنزیہ و  مزاحیہ ادب کا جائزہ لیتے ہوئے ’’ آزادی کے بعد دہلی میں طنز ومزاح‘‘ قلمبند کر چکے تھے۔ ۱۹۹۳ء میں انھوں نے ’’ روح غزل‘‘ کا نام سے ایک کتاب ترتیب دی جس میں گزشتہ پچاس برس کے ۶۹۳ شعراء کی غزلوں کا انتخاب کیا۔ ان میں پرانے اور نئے با صلاحیت فنکاروں کو جگہ دی گئی تھی۔ ان کی تنقیدی کتابوں کی تعداد دس ہے جن میں نقد ریزے، جہات وجستجو، تنقیدی ابعاد، باتیں ادب کی وغیرہ شامل ہیں۔ وہ صاف ستھری تنقید کے قائل ہیں۔ تنقیص اور گروپ ازم کو ادب کے لیے مضر سمجھتے ہیں۔ انھیں شکایت ہے کہ لوگ ایمانداری سے فن کے تقاضہ کو پورا نہیں کرتے۔ میر تقی میرؔ ’’ نکات الشعراء‘‘ لکھتے وقت ولی دکنی کو قابل ذکر نہیں سمجھتے۔ محمد حسین آزاد’’ آبِ حیات‘‘ میں ذوقؔ کو آگے بڑھانے کے لیے غالبؔ اور مومن کے ساتھ ڈنڈی مارتے ہیں۔ کلیم الدین احمد اقبالؔ کے بجائے اپنے والد عظیم الدین احمد کی شاعری کی وکالت کرتے ہیں۔ سردار جعفری جیسے کمیونسٹ شادؔ عارفی کے بجائے نیاز حیدر کو زیادہ سراہتے ہیں۔ مظفر حنفی اپنی تحریروں کے ذریعہ اس روش سے بغاوت کرتے ہیں اور عمائدین ادب کو صحیح راستہ دکھاتے ہیں۔ اپنے ہم عصر اور جدید لب و لہجہ کے ممتاز شاعر زیب غوری کے شعری مجموعہ ’’زرد زرخیز‘‘ اور ’’ چاک‘‘ کے درمیان آنے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مظفر صاحب لکھتے ہیں :

’’ اگر ’زرد زرخیز‘ کے ہر صفحہ سے شمس الرحمن فاروقیت، جدیدیت اور بانی جیسی شاعری کرنے کی شعوری کاوشیں جھلکتی تھیں تو ’ چاک‘ کے ہر صفحہ اور ہر سطر سے صرف اور صرف زیب غوری جھانکتے نظر آتے ہیں۔ اچھی اور سچی شاعری کرتے ہوئے تازہ اور نئے شعر کہتے ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ ’چاک‘ تک پہنچنے پہنچتے زیب غوری پر یہ بھید کھل چکا ہے کہ سچی شاعری کے لیے ہدایت نامے کو ئی بڑا سے بڑا نقاد بھی نہیں جاری کر سکتا۔ یہ فرمان اپنے لیے شاعر خود جاری کرتا ہے اور یہ بھی کہ شاعری کے ہزار رنگ ہیں۔ شعر ابہام کے ساتھ کہیں یا بالصراحت، بطور رمز کہیں یا براہ راست، اسے پہلے شعر ہونا چاہیے بعد میں جدید ہو یا کچھ اور ‘‘۔

(’’ساز و برگ‘‘ مرتب: عشرت  ظفر۔ ص ۹۴۔ ۹۵)

اپنی تحریروں میں پروفیسر صاحب جس طرح بے باک ہیں اپنی گفتگو میں بھی وہ اتنے ہی دو ٹوک ہیں۔ کلکتہ میں ان کا قیام ۱۳ برس رہا۔ ان کی آمد سے ایک ہلچل مچی تھی۔ وہ اقبال چیئر پروفیسر اور صدر شعبہ ہونے کے ساتھ مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی گورننگ باڈی کے رکن بھی رہے۔ بنگال کے کونے کونے میں کہیں بھی ادبی محفل ہو، لوگ انھیں صدر یا مہمان خصوصی بنانے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ اگر چہ اپنی مصروفیات کے سبب وہ ہر جگہ نہیں جا پاتے تھے لیکن لوگ دعوت نامے لیے چلے آتے تھے۔ کانکر گاچھی جہاں کلکتہ یونیورسٹی کے پروفیسرز کوارٹر ہیں، وہ نسبتاً کم آباد ہے، بنگالیوں کی تعداد آس پاس زیادہ ہے مگر مظفر صاحب کی آمد کے بعد یہاں اردو داں طبقہ کا آنا جانا بڑھ گیا۔ میں اسے اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں کہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۱ء تک مجھے ان سے برابر ملنے کا اتفاق ہوا۔ وہ پی ایچ ڈی کمیٹی کے کنوینر تھے اور طالب علموں کے رہنما۔ کوئی بھی دشواری ہوتی تومیں بلا جھجھک ان کے دروازہ پر پہنچ جاتا اور مجھے کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔

جو شخصیتیں بڑی بن جاتی ہیں، وہ اپنے گرد ایک اَن دیکھا حصار کھینچ لیتی ہیں۔ ان کا حلقہ محدود ہو جاتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات لوگ ’’ جزیرہ‘‘ بن جاتے ہیں۔ عام آدمی سے کٹے کٹے، شیدائیوں سے دور دور، ان سے بات کرنا یا ملنا ہو تو ایک اسسٹنٹ یا مڈل مین کی ضرورت پڑتی ہے۔ پروفیسروں کا بھی ایک طبقہ ہے جو خواص سے واسطہ رکھتا ہے۔ پھر لوگ بھی ان سے دور ہو جاتے ہیں۔ مظفر صاحب ان عیبوں سے پاک ہیں۔ وہ جتنے سرو قد ہیں اُن کی جڑیں بھی اتنی ہی گہری ہیں۔ وہ اوپر سے سخت اور اندر سے نرم ہیں۔ ان کی باتیں چاہے کھردری لگیں لیکن ان میں خلوص اور اپنائیت ہوتی ہے۔ وہ کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے میں کبھی غلطی نہیں کرتے۔ چند ملاقاتوں میں مجھے احساس ہو گیا کہ پروفیسر صاحب دوسروں سے بہت الگ ہیں۔ ایک سچا فنکار، ایک شفیق استاد اور اس سے بھی بڑھ کر جیسے خاندان کا ایک بزرگ۔ سارے احساسات گڈمڈ ہو جاتے ہیں، انھیں کیا نام دیا جائے۔

اپنا تعارف کراتے ہوئے جب میں نے انھیں یہ بتایا کہ میرا تعلق اتر پردیش کے ضلع رائے بریلی کے قصبہ نصیر آباد سے ہے، قصبہ جائس ننھال ہے اور میرے کچھ رشتہ دار فتح پور شہر میں رہتے ہیں تو ان کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ انھوں نے ہمارے قصبہ کے معروف شاعر قاسم شبیر نصیر آبادی کی خیریت پوچھی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ قاسم شبیر میرے والد صادقؔ رائے بریلوی مرحوم کے قریبی دوستوں میں تھے اور جب ہم گرمی کی چھٹیوں میں وطن آتے تو اکثر وہ والد صاحب کے ساتھ شعر و ادب کی گفتگو میں مصروف رہتے تھے۔ میرے والد بھی شاعر تھے، یہ جان کر انھیں مسرت ہوئی۔ اکثر وہ جائس کے دوسرے قلم کاروں مثلاً ڈاکٹر کبیر احمد جائسی ( علی گڑھ یونیورسٹی)، ملک محمد جائسی، علامہ کوثرؔ جائسی، مانی جائسی، نامی انصاری وغیرہ کے بارے میں بتا کر میری معلومات میں اضافہ کرتے۔ فتح پور کے محلہ مسوانی میں مظفر صاحب کے رشتہ دار رہتے ہیں۔ باقر گنج کے پاس میرے عزیزوں کا گھر ہے۔ جب میں وہاں جاتا تو وہاں کے شاعروں، ادیبوں سے پروفیسر صاحب کے بارے میں بات چیت ہوتی۔ غلام مرتضیٰ راہی، ظفر اقبال ظفر، قمر صدیقی، اندر سروپ سری واستو، جمال احمد ( چشمے والے)، محمد معین الدین (ایڈوکیٹ) وغیرہ سبھی ان کے مداح ہیں۔ مظفر صاحب کی بچپن کی یادیں اس شہر سے جڑی ہیں۔ یہاں کے قلم کاروں کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو مولانا حسرت موہانی، علامہ نیاز فتح پوری، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر ابو محمد سحر، ڈاکٹر یعقوب یاور، امراؤ طارق، وحید متین، حباب ہاشمی وغیرہ کا نام بے اختیار زبان پر آتا ہے۔ دور جدید میں اس سرزمین کی نمائندگی اردو میں ڈاکٹر مظفر حنفی اور ہندی میں ڈاکٹر اصغر وجاہت کر رہے ہیں۔

پروفیسرصاحب بڑے سادہ مزاج ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کہ وہ جب شروع میں پروفیسر ز کوارٹر آئے تو دیواروں پر کپڑے ٹانگنے میں بڑی دشواری ہوئی۔ یہ جگہ بھی الگ تھلگ ہے۔ عمارت کے گراؤنڈ فلور کا کوارٹر انھیں دیا گیا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ دیوار پر کیل لگا لیں تو پریشانی دور ہو۔ لوہے کی ہتھوڑی مل گئی لیکن لوہے کی کیل انھیں دکانوں پر نہ مل سکی۔ لوہے کی کیل کو کلکتہ میں ’’ پریگ‘‘ کہتے ہیں۔ مظفر صاحب بنگلہ زبان نہیں جانتے تھے اور یہاں زیادہ تر دکانیں بنگالیوں کی ہیں۔ تھک ہار کر وہ واپس کوارٹر آئے اور کسی طرح کام چلایا۔ بعد میں ان کے کسی طالب علم نے دکان سے لا کر کیل دی اور یہ مسئلہ حل ہوا۔

بارش کے دنوں میں کلکتہ کے کچھ نشیبی علاقوں میں پانی بھر جاتا ہے۔ کانکر گاچھی بھی نیچی جگہ ہے۔ زیادہ برسات ہو تو جل تھل ہو جاتا ہے۔ اس سال کلکتہ میں زیادہ بارش ہوئی تھی۔ کئی علاقوں میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں چلنے لگی تھیں۔ میں جہاں رہتا ہوں وہ جگہ مٹیا برج ہے۔ یہاں پانی کم بھرتا ہے۔ کانکر گاچھی یہاں سے دور ہے اور بس سے گھنٹہ بھر لگتا ہے۔ میں نے پروفیسر صاحب کے حالات جاننے کے لیے اُدھر کا رخ کیا۔ بس سے اترنے کے ساتھ سڑک پر پانی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ یونیورسٹی کوارٹر کے پاس گھٹنے گھٹنے پانی تھا۔ ان پانیوں میں چلتا ہوا ان کے کوارٹر پہنچا تو اطمینان ہوا کہ پانی گھر سے نکل چکا تھا۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ بارش کی شدت دیکھ کر انھوں نے مکان کی جتنی نالیاں تھیں سب میں کپڑے ٹھونس دیے تھے۔ آس پاس پانی کی سطح اونچی ہوئی تو غسل خانے کے راستے پانی مکان میں داخل ہوا۔ ان کے صاحبزادے نے جلدی جلدی فرش پر رکھی چیزوں کو اوپر اٹھا کر رکھا۔ دو دن اسی حالت میں گزرے۔ تیسرے دن سطح آب نیچی ہوئی تو پانی ان کے گھر سے رخصت ہوا۔

۹۹۔ ۱۹۹۸ء کے دوران میں پندرہ روزہ ’’آفاق‘‘  سے بحیثیت ایسوسی ایٹ ایڈیٹر جڑا ہوا تھا۔ ادارہ کی طرف سے پروگرام رکھا گیا ’’ایک شام۔ جگرؔ مراد آبادی کے نام‘‘  اور جگہ تھی ’’ مسلم انسٹی ٹیوٹ۔ ایڈیٹر صاحب کے کہنے پر میں نے پروفیسر صاحب سے بات کی کہ وہ اس پروگرام کا افتتاح کریں اور وہ راضی ہو گئے۔ ان دنوں مغربی بنگال کے گورنر ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی تھے۔ انھیں مہمان خصوصی بنایا گیا۔ دوسرے مہمانوں میں اعزاز افضل، سلیمان خورشید وغیرہ تھے۔ ایڈیٹر شفیع نشاط مرحوم نے حنفی صاحب کو دو بار فون کیا۔ میں دعوت نامہ لے کر ان کے پاس گیا تو انھوں نے بتایا کہ نشاط ؔ صاحب گورنر کی موجودگی پر زور دے رہے تھے۔ یہ بات انھیں پسند نہیں آئی۔ کہنے لگے راشٹر پتی بھون میں کوئی پروگرام ہوتا ہے تو پروفیسروں اور عالموں کی صف پہلے ہوتی ہے بعد میں دوسروں کی۔ ایک ایمرجنسی کام کی وجہ سے انھیں دہلی جانا پڑا، اس لیے وہ پروگرام میں شامل نہیں ہو سکے البتہ اپنا پیغام تحریری شکل میں مجھے لکھوا دیا۔ پروگرام کا افتتاح اسی تقریر سے ہوا۔

بنگال اور خصوصاً مٹیا برج کے شعراء ماہ ربیع الاول میں حضور اکرمؐ کی ولادت پر اشعار کہتے ہیں۔ یہاں قصیدے کی محفلیں بڑے شاندار پیمانے پر سجتی ہیں۔ دور دور سے قصیدہ خواں حضرات پڑھنے آتے ہیں۔ اچھے پڑھنے والوں کو انعام سے نوازا جاتا ہے۔ بجث یہ چلی کہ یہ کلام حقیقتاً قصیدہ ہیں، نعت ہیں یا کچھ اور۔ کچھ پڑھے لکھے اور صاحب ثروت  افراد نے اس سلسلہ میں ایک پروگرام رکھا۔ مظفر صاحب کو لانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ پروگرام والے دن ایک کار مع ڈرائیور میرے حوالے کی گئی۔ میں مٹیا برج سے کانکر گاچھی گیا اور انھیں ساتھ لے کر آیا۔ بزم میں وزیر حکومت مغربی بنگال جناب کلیم الدین شمس مہمان خاص تھے۔ پروفیسر صاحب اور وزیر صاحب کے لیے تخت نما کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ محفل کا آغاز ہوا۔ کئی کلام سنائے گیے۔ مٹیا برج کے بزرگ شعراء ثمر آروی، کیف الاثر وغیرہ موجود تھے۔ پروفیسر صاحب نے اپنی تقریر میں دو ٹوک کہا کہ ایسے کلام کو قصیدہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ چھوٹی چھوٹی بیس تیس اشعار کی مدحیہ نظمیں ہیں۔ اس تقریب میں لوگوں نے وزیر صاحب سے کم اور پروفیسر صاحب سے زیادہ مصافحہ کیا۔ ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لیے ایک بھیڑ امڈ پڑی تھی۔ جس کار میں وہ رخصت ہوئے اس میں پھولوں کے ہار اور گلدستے رکھنے کے لیے جگہ کم پڑ گئی۔

حنفی صاحب کا دل بہت بڑا ہے۔ وہ خود اعلیٰ درجہ کے قلم کار ہیں مگر نئی نسل کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔ کلکتہ کے ایک نوجوان شاعر کے شعری مجموعہ ’’بے خواب آنکھوں کی کہانی‘‘ کے اجراء کی تقریب تھی۔ مقرر ین کی صف میں ایک صاحب تھے جو لکھتے کم مگر بولتے زیادہ ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کتاب کے نام پر ہی اعتراض کر دیا اور مزید کئی خامیاں گنوائیں۔ بعد میں صدارتی تقریر میں پروفیسر صاحب نے ان کے اعتراض کو رد کر دیا اور صاحب مجموعہ کو لگن اور خلوص کے ساتھ ادب کی خدمت کرنے کا مشورہ دیا۔

ستمبر ۲۰۰۱ء میں وہ ریٹائر ہو کر دلّی چلے گئے تو ایسا لگا کہ بنگال اور خصوصاً کلکتہ سوناہو گیا۔ اہل ادب ان کی کمی کو بری طرح محسوس کرتے ہیں۔ شاگردوں سے ان کا رابطہ قائم ہے۔ خدا انھیں صحت اور سلامتی عطا فرمائے۔ آمین

٭٭٭

 

 

’’  ’جہات و جستجو‘کو پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کا مصنف نہ سکّہ بند قسم کا ناقد ہے نہ ہی لکیر کا فقیر۔ اس کی ناقدانہ نگاہ کو نئے موضوعات اور نئے حوالوں کی تلاش رہتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر مظفر حنفی ایک اور سطح سے بھی اُبھر ے ہیں مجھے وہ اپنے نقد و نظر میں ایک وسیع النظر، متوازن اور دو ٹوک رائے رکھنے والے نقاد نظر آتے ہیں۔ ‘‘

ادیب سہیل

 

 

 

 

 

                شکیل اعجاز

    اکولہ

 

 

طوفان طوفان : مظفر ؔحنفی

 

اکولہ میں تاجنا پیٹھ پولیس چوکی ہے اس کے سامنے ایک کھلی جگہ ہے جہاں برسہا برس سے بڑے بڑے جلسے، جلوس، قوالیاں، تقریریں اور مشاعرے ہوتے رہتے ہیں۔ پولس چوکی میں ڈیوٹی پر تعینات پولیس والوں کے لیے یہ اضافی مزے ہیں۔ میں نے ایسے مناظر دیکھے ہیں کہ قوالی اپنے عروج پر ہے اور پولیس والے ہاتھ کے اشارے سے رپورٹ درج کروانے والوں کو روک رہے ہیں کہ کل صبح آنا۔ پورا عملہ قوالی سے محظوظ ہو رہا ہے۔ اس تھانہ پہ مستقل بیٹھنے والے بعض لوگ مشاعرے سُن سُن کر شاعری کرنے لگے تھے۔ اسی جگہ ۱۹۸۰ء میں جب ڈاکٹر مظفرؔ حنفی صاحب کی صدارت میں مشاعرہ تھا اور وہ اپنی صدارتی غزل پڑھ رہے تھے، یہ منظر آج تک اکولہ والوں کو یاد ہے۔ غزل یہ تھی:

تنکوں کے ارمان لبّیک لبّیک       طوفان طوفان، لبّیک لبّیک

مظفر صاحب ایک مصرعہ پڑھتے تھے اور ثانی پر آ کر جب طوفان طوفان، لبیک لبیک کہتے تو سینکڑوں کا مجمع ان کے ساتھ طوفان طوفان لبیک لبیک کہتا۔ ایسا منظر اس سے پہلے کبھی دیکھنے سننے کو نہیں ملا تھا۔ سامعین اتنے بے قابو ہو گئے تھے کہ آخر آخر میں پورا شعر سننے کی بجائے ثانی مصرعہ کے آخری ٹکڑے کا انتظار کرتے کہ وہ کب آتا ہے اور کب گلا پھاڑ کر ایک ہی سُرمیں لبّیک لبّیک مظفرؔ حنفی صاحب کی لَے میں کہنے کا موقع ملتا ہے۔

آزار دیدہ  مردُم گزیدہ    آئینہ حیران لبیک لبّیک     طوفان طوفان لبیک لبیک

ایک بار غزل ختم ہوئی تو دوسری بار فرمائش ہوئی پھر وہی طوفان کھڑا ہوا: طوفان طوفان، لبیک لبیک۔

مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی دیہاتی ریلوے پلیٹ فارم پہ کھڑا ہوں اور سامنے سے Super Fast Train  پوری رفتار میں اس طرح گزر رہی ہے کہ اپنے پیچھے اپنے ساتھ کئی چیزیں لے کر اُڑی جا رہی ہے۔ ہر طرف طوفان ہے:

بے دست و پا میں، بے دست و پا تو

جنگل بیابان، لبیک لبیک

اگلے روز اکولہ میں بڑے چھوٹے بچے بھی یہی چلّاتے پھر رہے تھے ’ طوفان، طوفان، لبیک لبیک‘۔ یہ تھا مظفر صاحب کے کلام کا ان کے پڑھنے کے انداز کا، ان کی مقبولیت کا جادو۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹر محبوب راہیؔ صاحب کے توسط سے ہماری ان سے ملاقاتوں کی ابتدا ہوئی۔ ابّا جان سے ملاقات کے لیے وہ کئی بار گھر آتے اور اپنی فطری شرافت اور اعلیٰ اخلاق کے سبب ابّا جان سے اس طرح ملتے جیسے ابّا جان ( غنی اعجاز) ان کے خاندانی بزرگ ہیں۔ یہیں میں نے دیکھا کہ مظفر صاحب چھوٹوں سے بہت شفقت سے پیش آتے ہیں اور بزرگوں کے سامنے خود کو معمولی شخص کے بطور پیش کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں مظفر صاحب کی آمد کے موقع پر شہر اور آس پاس کے کئی شعرا اور ادیب ان سے ملاقات کے لیے موجود ہوتے۔ گھنٹوں بات چیت کا سلسلہ چلتا۔ مظفر صاحب کی باتیں اور موضوعات اتنے دلچسب ہوتے کہ لگتا یہ کہتے جائیں اور ہم سنتے جائیں۔

ان دنوں محبوب راہیؔ صاحب مظفر حنفی پر پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ لکھ رہے تھے۔ راہیؔ صاحب آتے یا ہم لوگ ان کے مکان بارسی ٹاکلی جاتے تو زیادہ تر اسی مقالہ کے مواد کے بارے میں باتیں ہوتیں۔ راہیؔ صاحب کے گھر میں ہر طرف مقالے کے کاغذات بکھرے ہوتے۔ مظفر صاحب کی زندگی پر دلچسپ باتیں ہوتیں اور مجھے مزے مزے کے واقعات سننے کو ملتے۔

۱۹۸۰ء کے آس پاس دلّی میں حنفی صاحب کا مہمان رہا دو ہفتوں تک۔ وہاں میں نے چچی جان ( مسز عاصمہ مظفر) کو بہت خاموش، صلح کل اور خصوصاً بحث نہ کرنے والی خاتون پایا۔ مجھے یقین ہے کہ چچی جان نے اپنی اسکول لائف میں نہ صرف یہ کہ کسی ڈیبیٹ کے مقابلہ میں حصّہ نہ لیا ہو گا بلکہ وہ اس قسم کے حجت بحث والے پروگراموں میں سننے کے لیے بھی نہ جاتی  ہوں گی۔ یہی سبب ہے حنفی صاحب کے گھر کے سکون کا۔ اپنے گھر کے لیے بہوئیں چنتے وقت یہ معلومات بھی حاصل کر لینی چاہیے کہ لڑکی خدا نخواستہ کسی ڈیبیٹ مقابلے میں ملوّث تو نہیں رہی ہے۔ ان دو ہفتوں میں چچی جان نے اتنا خیال رکھا کہ کبھی کبھی دسترخوان پر کھانا شروع کرنے سے پہلے میرا دل ڈوب جایا کرتا تھا کہ دِلّی جیسے مہنگے شہر میں صبح کے بہترین ناشتہ سے لے کر شام کے نت نئے پکوانوں تک چچی جان کو کتنی زحمت ہوتی ہو گی لیکن ان کے چہرے پر وہی مادرا انہ شفقت شروع سے آخر تک رہی۔ چچی جان کا ذکر چلا ہے تو عرض کر دوں کہ مظفر حنفی صاحب جیسی زندہ دل، شگفتہ مزاج اور شرارتی شخصیت کے ساتھ رہتے رہتے چچی جان بھی کبھی کبھار ان سے شرارت کرتی ہیں۔ ۱۹۹۷ء میں لندن جاتے ہوئے ہوائی جہاز میں مظفر حنفی صاحب کو کھڑکی کے پاس دو سیاح لڑکیوں کے ساتھ جگہ ملی اور چچی جان کو کچھ دوری پر۔ حنفی صاحب نے چاہا کہ لڑکیاں یہاں سے اٹھ کر جائیں تاکہ چچی جان ان کے پاس بیٹھ سکیں۔ لیکن چچی جان نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ’’آپ ان لڑکیوں کے ساتھ ہی بیٹھیں، اچھی تو ہیں۔ ‘‘ ساتھ بیٹھے بیٹھے حنفی صاحب کی ان دو لڑکیوں سے خوب باتیں اور ناشتے ساتھ ساتھ ہونے لگے۔ ایک لڑکی ڈنمارک کی تھی، بہت دیر بعد چچی جان نے آواز دی۔ ’’ہماری بھی تو سنیے، آپ تو اپنی دوستوں میں مست ہیں۔ ‘‘ حنفی صاحب نے دیکھا تو ہتھیلی پر کچھ الائچیاں، لونگ وغیرہ پیش کی جا رہی تھیں۔ مظفر صاحب کا مزاج ان کے بچوں میں بھی آیا ہے۔ لندن پہنچ کر حنفی صاحب نے اقبال کے یہاں خود فون لگایا تو اُدھر سے تسکین ( بیگم اقبال) بولیں۔ ہیلو۔ حنفی صاحب نے کہا میں بر منگھم سے مظفر حنفی بول رہا ہوں، پرویز کا پاپا۔ تسکین نے قہقہہ لگایا : پرویز، بد معاش! اب میں دھوکے میں نہیں آؤں گی۔ تم نے پہلے بھی گجراتی بن کر مجھے دھوکا دیا تھا۔ کبھی شرارتیں کرنے والوں کے ساتھ شرارت ہو جاتی ہے۔

اسکول لائف ہی میں حنفی صاحب کی تخلیقات ’ کھلونا‘، ’ پھلواری‘، ’ جگنو‘ وغیرہ میں شائع ہونے لگی تھیں۔

مندرجہ بالا رسائل کا نام سن کر میرا دل دھڑکنے لگا مجھے یاد ہے وہ احساس جب ہم دوکان پر پوچھا کرتے تھے کہ کھلونا کب آئے گا۔ آ جاتا تو میرے ایک دولت مند دوست کے پاس بیٹھ کر میں انتظار کر تا رہتا کہ کب وہ مجھے پڑھنے کے لیے دیتا ہے۔ کھانا پینا بھول کر میں اس کے پاس بیٹھا رہتا اور جب تک پڑھنے کے لیے نہ ملتا رسالہ کا سر ورق ہی دیکھتا رہتا تھا۔ جیسے بلّی اس بھیگی ہوئی چڑیا کو دیکھتی رہتی ہے اور پوچھتی رہتی ہے کہ اب کھاؤں ؟ چڑیا کہتی ہے ابھی تومیں پوری طرح سوکھی بھی نہیں۔ سوکھ جاؤں تو کھا لینا۔

کالج کے سالانہ امتحان سے ۱۵؍ روز قبل انھیں ایئر فورس میں انٹرویو کے لیے طلب کیا گیا۔ انٹرویو میں تو کامیاب ہو گئے۔ سینہ ایک انچ کم تھا اس لیے ملازمت میں نہیں لیے گئے۔ یہ رعایت دی گئی کہ عمر کے بیس سال پورے ہونے سے قبل جب بھی سینہ ۳۲ ؍انچ کا ہو جائے ملازمت میں لے لیا جائے گا۔ اس دوران ہر ماہ بعد ایئر فورس کے دفتر میں جا کر اپنا طبی معائنہ کراتے رہے لیکن تخلیقی سرگرمیوں  اور حالات کی نا ہمواریوں نے سینہ کی چوڑائی میں نصف انچ کی کمی کر دی لہٰذا ۱۹۵۵ء میں انھیں ایئر فورس میں انتخاب کے حتمی طور پر نا اہل قرار دے دیا گیا۔ (محض سینہ کی نا اہلی کے سبب پورے آدمی کو نا اہل قرار دے دینا کوئی اچھی بات نہیں لگی)

مارچ ۱۹۶۹ء میں اپنے پرانے دوست بخشش عباس کے اصرار پر بھوپال میں محکمۂ جنگلات میں بحیثیت کلرک ملازم ہو گئے۔ میرے ایک دوست اِدھر محکمۂ جنگلات میں ہیں۔ دیگر احباب ان سے زبان سنبھال کر بات کرتے ہیں۔ اور اگر مذاق مذاق میں بات بڑھ جائے تو خود کو بحث سے خارج کرنے کے لیے ایک دوسرے سے کہتے ہیں اس سے بحث مت کرو یہ محکمۂ جنگلات کا آدمی ہے۔ حنفی صاحب کے ساتھ مجھے کبھی کبھار ریلوے اور بس سے سفر کرنے کے مواقع ملے۔ مشکل سے مشکل سچویشن میں حنفی صاحب اچھے اچھوں پر جس طرح حاوی ہو جاتے اور ان کو پسپا کر دیتے ہیں اس سے مجھے پہلے ہی شک تھا کہ یہ کبھی نہ کبھی محکمۂ جنگلات میں ملازمت کر چکے ہوں گے۔ حنفی صاحب انگلستان میں بھی محکمہ جنگلات کے آدمی رہے۔ مطلب محکمۂ جنگلات کو یاد کرتے رہے۔ اپنے سفر نامہ ’ چل چنبیلی باغ میں ‘ ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’ اب ہمارا راستہ بہت تنگ ہو گیا تھا اور بتدریج ڈھلوان ہوتا جا رہا تھا۔ اتنا ڈھلوان کہ مجھے بھوپال یاد آ گیا جہاں چودہ برس میں نے محکمۂ جنگلات کی ملازمت میں رہ کر بسر کیے تھے وہاں اکثر پہاڑی پُر پیچ راستوں سے جیپ اُترتی چڑھتی تھی ڈر لگتا تھا کہ اس بار موڑ پر ہم نیچے کھڈ میں نہ جا پڑیں۔ یہاں یہ پتلی سڑک بھی ایک پہاڑ سے گزر کر اس وادی میں جھانک رہی تھی۔ جس میں ’ ونڈر میئر‘ بسا تھا:      ’’پگڈنڈی تو ہاتھ ہلا کر نیچے کود گئی‘‘

مظفر حنفی صاحب کا یہ سفر نامہ پڑھتے ہوئے کئی بار ایسا لگامیں ابن صفی کا کوئی دلچسپ ناول پڑھ رہا ہوں۔

مظفر حنفی کے دوست قاضی حسن رضا بچپن کے واقعات سناتے ہیں کہ مظفر حنفی ہر وقت کتابوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے۔ فٹ پاتھ پر بیٹھنے والے ایک پنجابی کتب فروش کے وہ مخصوص گاہک تھے۔ کتابوں پر پانچ پانچ روپئے قیمت چھپی ہوتی۔ کتب فروش بے حد کائیاں تھا۔ ادھر مظفر میاں اپنے آپ کو چالاک سمجھتے۔ کتب فروش سے کتاب کی قیمت پوچھتے وہ بڑی مسکینی سے کہتا بھیّا میں تو ان پڑھ ہوں تم خود قیمت پڑھ کر پیسے دے دو۔ مظفر نصف  قیمت بتا کر کتاب خرید لیتے اور خوش ہوتے کہ خوب بیوقوف بنایا ہے۔

قاضی حسن رضا کہتے ہیں : ’’ مظفر، قاضی انصار اور راقم الحروف کو بچپن میں جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق تھا۔ ہر ایک کے بستے میں ایک ناول ضرور ہوتا۔ ایک دن استاد نے بستوں کی تلاشی لینی شروع کر دی۔ مظفر نے اپنی ناولیں قاضی انصار کے بستے میں رکھ دیں۔ سزا پاتے وقت انصار کو صفائی پیش کرنے کا بھی موقع نہ ملا۔ مظفر اس دوران پیکر معصومیت بنا جغرافیہ کے مطالعہ میں غرق دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اپنے تمام ہم جماعتوں سے پڑھنے کے لیے کتابیں لیتا۔ مجھ سے کتاب لی پڑھی کسی اور کو دے دی۔ بدلہ میں اس سے کتاب حاصل کر لی۔ اس کی ٹوپی اس کے سر والا معاملہ تھا۔

اس قسم کے واقعات پڑھتے اور سنتے ہوئے اس زمانہ پر رشک آتا ہے کہ بچے کتابوں کے لیے کیسے بے چین رہتے تھے۔ آج کل تو نصاب میں شامل اردو کی اکلوتی ایک کتاب کا پڑھنا بھی بچوں کو پہاڑ معلوم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مظفر حنفی جیسے اہلِ قلم اس زمانہ نے دُنیا کودیے ہیں اور آج ۲۰۱۲ء کے آس پاس اردو کے بیشتر طلباء حنفی صاحب کی طرح شاعری کرنا تو درکنار اس شاعری کو سمجھنے کی قابلیت بھی نہیں رکھتے۔ قاضی حسن رضاؔ صاحب نے اعتراف کیا کہ ان تمام شرارتوں اور کھلنڈرے پن کے باوجود گفتگو اور نشست و برخاست میں نفاست اور خوش سلیقگی اپنی جگہ تھی۔ گندہ مذاق، فحش گالی اور اخلاق سے گری ہوئی بیہودہ بات ہم نے کبھی مظفر کی زبان سے نہیں سُنی۔

شرارتیں :

’ نئے چراغ‘ رسالہ کے سبب کھنڈوہ کا ایک گروپ جس کے سربراہ وہاں کے ایک ڈاکٹر تھے جو اقتدار کی اونچی مسند پر متمکن تھے اور خیر سے شاعر بھی تھے، مظفر حنفی کے سخت مخالف تھے۔ وہ صاحب بڑی بڑی رقمیں خرچ کر کے کھنڈوہ میں کل ہند مشاعرے کرواتے رہتے تھے۔ مظفرؔحنفی نے اُن کے عظیم الشان مشاعروں کے جواب میں ’ پاگلوں کے مشاعرے‘ کی داغ بیل ڈالی۔ وہ منظر بھی قابل دید ہوتا تھا۔ مظفر حنفی کے مخالفین کے عظیم الشان مشاعرے کا سجا سجایا پنڈال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ برقی قمقموں سے آراستہ اسٹیج پر ملک کے نامور مشاعرہ باز شاعر رونق افروز ہیں۔ مشاعرہ شباب پر ہے کہ اچانک سامعین کی ایک بڑی تعداد اُٹھ کر جانے لگتی۔ معلوم ہوا سامنے ہی ایک کھلی جگہ میں صرف ایک لاؤڈ اسپیکر لگا ہوا ہے اور پاگلوں کا مشاعرہ چل رہا ہے۔ کچھ ہی دیر میں مشاعرے کے پنڈال میں دھول اُڑتی نظر آتی اور سامعین پاگلوں کے مشاعرے سے لطف اندوز ہونے کے لیے کھلے میدان میں جمع ہونے لگتے۔

شاعری ہی شادؔ صاحب کا ذریعہ معاش تھی اسی کیے وہ شاگردی کے درخواست دہندہ کو ’’انجمن اربابِ ادب‘‘ کار کن بننے کی شرط پیش کرتے تھے جس کی رو سے تھوڑی سی رقم سالانہ اور کچھ فیس داخلہ پیش کرنا ہوتی تھی۔ شاد عارفی کی مالی حالت ان دنوں خراب ہی تھی لیکن حنفی صاحب نے اپنی مالی مشکلات کا ذکر کیا اور یہ بھی لکھا کہ اگر شادؔ صاحب ( بوجہ عدم ادائیگی فیس داخلہ وغیرہ) انھیں شاگردی میں قبول نہ کریں گے تووہ نوحؔ ناروی یا ابرا حسنی گنوری کے شاگرد ہو جائیں گے اور اس حقیقت کی تشہیر بھی کریں گے۔ شادؔ صاحب بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے لیکن انھوں نے اپنے جواب میں اس تہدید کا کوئی ذکر نہ کیا۔ حنفی صاحب کو اپنا شاگرد بنانا قبول کیا اور ساری شرطیں معاف کر دیں۔ اس سے حنفی صاحب کے مزاج میں چھیڑ چھاڑ کے رجحان کا پتہ چلتا ہے۔

ان کی بڑی بہن محترمہ عزیز فاطمہ سے روایت ہے کہ چار سالہ مظفرؔ نے ایک مرتبہ چولہے میں چمٹا ڈال دیا اور گرم ہونے پر میرے پیروں پر رکھ دیا۔ گھر کی اچھی خاصی چیزوں کو توڑ پھوڑ کرتے رہتے تھے۔

ایک واقعہ نجمہ امین (پروفیسر نفسیات جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے بیان کیا:ایک مرتبہ میں نے دوپہر کی چائے تیار کی ایک کپ عاصمہ بھابی کے ہاتھوں بھائی صاحب کو بھجوایا۔ دوسرا کپ بھابی کے لیے لگایا ہی تھا کہ بے ساختہ  ’’پھینک دو، بھائی صاحب چائے پھینک دو‘‘ چیختی ہوئی دیوانہ وار ان کے کمرے کی طرف دوڑی اور جھپٹ کر چائے سے لبالب طشتری جو حنفی صاحب ہونٹوں سے لگانے ہی والے تھے ان کے ہاتھوں سے گرا دی ان کا بے داغ لباس چائے سے لت پت ہو گیا۔ میں نے بمشکل اپنی سانسوں پہ قابو پاتے ہوئے چائے کی پتیلی ان کے سامنے رکھ دی جس کے پنیدے میں ایک بچھو اُبل کر جس کی جسامت دُگنی ہو گئی تھی، پڑا ہوا تھا۔ ایسا بھیانک منظر دیکھنے کے بعد بھی ان کے چہرے پر نا گواری کی لہر تک نہ آئی۔ ( نا گواری کی لہریں اس کے چہرے پہ ضرور آئی ہوں گی جس کو زندہ اُبال دیا گیا تھا)

محبوب راہیؔ صاحب نے اپنے مقالہ میں لکھا ہے :’’ ۱۹۸۰ء کے آس پاس میں نے مظفر صاحب کو ایک خط لکھا تھا جس کے جواب میں انھوں نے لکھا۔ ’’ تم نے اتنا پیارا اور ایسا طویل خط لکھا اور میں اپنے پیارے دوست پروفیسر عبد الودود کے قتل کے کرب اور مخلص دوست تاجدار احتشام کی موت کے غم میں اس طرح مبتلا ہوں کہ صحیح معنوں میں داد بھی نہیں دے سکتا ویسا جواب تو کجا۔ ‘‘

میں نے طویل خطوط لکھنے بند کر دیے بہت دنوں بعد ڈرتے ڈرتے ایک مختصر خط لکھا  اس کا  جواب آیا:’’سردار عرفان اور ابن صفی دونوں سے میرے ذاتی تعلقات رہے ہیں اور ان کی وفات میرے لیے کم اذیت ناک نہیں ہے۔ اول الذکر کا بہیمانہ قتل لرزہ خیز ہے۔ ‘‘ اس کے بعد میں نے حنفی صاحب کے نام مختصر خطوط لکھنے بھی بند کر دیے۔

ان کی زندگی والدین کے لیے فرماں بردار بیٹے، استادوں کے لیے سعادتمند شاگرد، شاگردوں کے لیے خلیق استاد، بہنوں کے لیے با مروّت بھائی، بیوی کے لیے محبت شعار اور وفادار خاوند، اولاد کے لیے شفیق باپ اور دوستوں کے لیے مخلص ترین دوست کا ایک مثالی نمونہ پیش کرتی ہے۔ حنفی صاحب سے ملاقاتوں میں میں نے ان کی شخصیت میں ایک طرف رعب و دبدبہ محسوس کیا، وہیں دوسری طرف اپنا پن، بے تکلفی اور شگفتگی کا وصف پایا۔ میرے اس احساس کو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب نے اس طرح کیا ہے:’’ ان کی طبیعت میں ایک خاص طرح کی متانت سنجیدگی اور رکھ رکھاؤ ہے وہ ہر شخص سے آسانی سے نہیں گھلتے اور کچھ لیے دیے سے رہتے ہیں۔ ان کی طبیعت میں ایک خاص نوع کی جرأت مندی اور استقامت ہے وہ جہاں احسان شناس اخلاص شعار اور خلیق و وضعدار ہیں وہاں ضرورت پڑنے پر صاف صاف اپنی رائے کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ ‘‘

دہلی میں جہاں وہ جامعہ ملیہ میں پروفیسر تھے ان کی گفتگو اور نشست و برخاست کا نپا تُلا انداز نظر آتا ہے۔ ان سے ملنے والے بھی مؤدب ہو کر سرگوشی کے انداز میں مخاطب ہوتے ہیں لیکن کھنڈوہ میں معاملہ ہی اور ہوتا ہے۔ ہر شخص تکلف بر طرف کی تفسیر بنا اپنے مظفر سے ملتا ہے حنفی صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ کھنڈوہ کی کسی سڑک سے گزر رہے ہیں کہ اچانک کسی دوکان یا ہوٹل سے مظفر یا مظفر بھائی کی آواز آتی ہے۔ مظفر حنفی فوراً پلٹتے ہیں اور کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کیے بغیر خندہ پیشانی اور تپاک سے اس شخص سے جو معاشرہ کی نظر میں معمولی اور غیر اہم ہے، ملتے ہیں۔ خیر و عافیت دریافت کرتے ہیں۔ اس کی چائے کی دعوت قبول کرتے ہیں، ان کے دلّی لوٹ جانے پر وہ شخص مدتوں اپنے دوستوں میں مظفر حنفی صاحب سے اپنے قریبی تعلقات کا ذکر فخر یہ انداز میں کرتا رہتا ہے۔

حنفی صاحب کا سفر نامہ ’’چل چنبیلی باغ میں ‘‘ نے اپنی دلچسپی کے سبب مجھے بہت پریشان کیا۔ پہلی بار پڑھتے ہوئے میں نے اپنے پسندیدہ حصوں پر پنسل سے نشان لگا لیے کہ ہر بار پوری کتاب نہ پڑھنی پڑے گی صرف پسندیدہ حصے پڑھ لیا کروں گا۔ دوسری بار پڑھتے ہوئے پسندیدہ حصوں میں پیرا گراف اور صفحات کے اضافے ہوتے گئے۔ تیسری بار میں نے مجبوراً  صرف ان حصوں پر نشانات لگائے جو مجھے بار بار پڑھنے نہیں ہیں کیونکہ یہ کم تھے۔ اسی سفر نامہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’ یہ مادام توساد کا عجائب گھر ہے۔ عاصمہ نے شریمتی اندرا گاندھی کے ساتھ تصویر کھنچوائی۔ صبا نے شہزادی ڈائنا کے ساتھ۔ پرویز نے شیکسپئر اور مجھے کیمرے میں ایک ساتھ کھڑا کر لیا۔ پھر کیمرہ میرے ہاتھ میں تھما کر خود چارلی چپلن اور مائیکل جیکسن کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ ایک جگہ ایک خاتون ہاتھ میں بیگ تھامے اوپر دیکھ رہی تھیں۔ پرویز نے اس کا بیگ چھوا تو عاصمہ نے کہا اب یہ لیڈی پرویز کو جھڑکے گی۔ پرویز نے کہا ممی یہ بھی موم کی مورت ہے۔ ’’نو‘‘ مورت مڑ کر مسکرائی۔ ۔ عاصمہ ڈرتے ڈرتے ایک صوفہ پر بیٹھ گئیں جس پر ایک سن رسیدہ لیڈی پہلے سے بیٹھی تھی۔ پرویز نے تصویر کھینچی مجسمہ بدستور بے حرکت بیٹھا رہا۔ صبا فوٹو کھنچوانے کے لیے دوسرے صوفے پر ایک اور مجسمے کے ساتھ بیٹھ گئی۔ نسرین نے کیمرہ سنبھالا تومجسمہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ایک جگہ گیٹ پر کھڑے ہوئے وردی پوش گائیڈ سے نسرین نے کچھ دریافت کیا لیکن وہ سگریٹ منہ میں دبائے گم صم چھت کو دیکھتا رہا۔ یہ مجسمہ تھا جس کی سگریٹ کا لال سر ا در اصل بجلی کا چھوٹا سا بلب تھا۔ ‘‘

اسی سفر نامے میں ایک اور جگہ یہ دلچسپ واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے:

’’دوسرے دن ناشتہ پر صبا نے کل رات کا عملی لطیفہ سنایا کہنے لگی۔ پاپا! بھابی اور بھائی میاں (پرویز مظفر)، مشاعرہ شروع ہونے سے کچھ پہلے آ گئے تھے۔ بھائی میاں نے بھرے جلسے میں لیٹ لیٹ کر فوٹو کھینچے۔ صدر صاحب نے آپ کو پہلے پڑھنے نہیں دیا اور خود مائیک پر چلے گئے تو ہماری بھابی کو بہت غصہ آیا۔ کہہ رہی تھیں ہمارے پاپا کو   ’لوٹن‘ میں بھی ایک پوئٹ نے پڑھنے سے روک دیا تھا اور خود پڑھنے لگا تھا یہاں بھی یہ بڑے میاں لڑ بھڑ کر مائیک پر چلے گئے۔ ہم نے ان کوسمجھایاکہ بڑے شاعر آخر میں کلام سناتے ہیں اس وجہ سے عزت دینے کے لیے لوگ پاپا سے پہلے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بھی ہنسنے لگی اور بولی۔ پاپا ہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ مشاعرہ سُنا وہاں کے طور طریقوں کی ہمیں کیا خبر۔ ‘‘

یہ سننے کے بعد مظفر حنفی صاحب نے بچوں سے کہا ایسے ہی ایک پٹھان پہلی بار مشاعرہ میں پہنچا تھا۔ اس کے پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی کو کسی کا شعر پسند آیا تو ’مکرّر ارشاد، مکرّر ارشاد‘ کہا۔ پٹھان اس پر بگڑ گیا کہ غور سے کیوں نہیں سنتا۔ شاعر کو مکرّر مکرّر سے پریشان کرتا ہے۔

برمنگھم میں حنفی صاحب نے کھانا بھی بنایا۔ تفصیل انھیں کی زبانی سُنیے:

’’ چار بجے کے قریب کچن سے ہو کر بیک یارڈ جار رہا تھا کہ ریک پر رکھے ہوئے ایک پیکٹ پر نظر پڑی۔ موٹی موٹی دالیں، کُٹی ہوئی جَو، گیہوں کے دانے اور ایسی ہی بے ضرر اشیاء پر مشتمل اس پیکٹ کو میں نے حلیم کے ساز و سامان کے ساتھ ایک بڑے بھگونے میں اُنڈیل کر فریج کا جائزہ لیا۔ جلدی جلدی مختلف ڈبوں پر لگے لیبل پڑھے، دھنیہ، نمک، مرچ، ہلدی اور نہ جانے کا ہے کاہے کے ڈبّے مدتوں سے میرا انتظار کر رہے تھے۔ کسی کومایوس نہیں کیا۔ بھگونے پر ڈھکن رکھ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھنے جا رہا تھا کہ ٹیبل پر ایک اور کام کی چیز نظر آئی یہ لیموں کا عرق تھا۔ تھوڑی دیر بعد کھد بد کی آواز پر کمرے سے باورچی خانہ میں آ کر بھگونے کا احوال پوچھا۔ خوشبو تو اچھی تھی البتہ پانی سوکھ گیا تھا۔ بڑا سا جگ بھر کر قصیدے ( اس گاڑھے) کو پانی پانی کر دیا اور صوفے سے کمر ٹیک لی۔ آنکھ کھلی تو عاصمہ اور صبا باورچی خانہ میں قہقہے لگا رہی تھیں۔ یہ کیا پکایا گیا ہے۔ میں نے کہا چکھ کر دیکھ لو حلیم ہے۔ پاپا حلیم ایسا ہوتا ہے؟ تو پھر کھچڑا ہو گا۔ چھ بجے پرویز دفتر سے لوٹا تو پوچھا آج کیا مزیدار چیز پکائی ہے کتنی اچھی خوشبو آ رہی ہے۔ ’’ تمھارے پاپا نے کیا گھوٹ گھاٹ کر رکھا ہے۔ خود ہی دیکھ لو۔ ‘‘

پرویز نے بھگونے کا ڈھکن کھولا تو گھر طبلۂ عطار کی طرح مہکنے لگا۔ ’’ واہ منہ جل گیا مگر کوئی بات نہیں۔ ممی اسے چکھ کر دیکھیے کتنا مزیدار ہے۔ ‘‘

میں نے دل ہی دل میں کہا۔ ’’ قدرِ جوہر شاہ داند یا بداند جوہری‘‘۔ عاصمہ نے تو اس رات دودھ دہی اور پِزا سے کام نکالا۔ بقیہ لوگوں نے حلیم نوشِ جان کی۔ پرویز نسرین کو لانے گیا تو اپنے ساتھ ہاٹ بکس میں حلیم رکھ کر لے گیا۔ بہو بیٹے بعد میں آئے عزیز کا فون پہلے۔ ہنستا ہوا کہہ رہا تھا’’ انکل ! حلیم تو میں نے زندگی بھر میں اتنا مزے دار نہیں کھایا۔ تھینک یو۔ ‘‘

میں نے عاصمہ کو ایک راز کی بات بتائی۔ ’’ یہ جونسرین کا بھائی عزیز ہے۔ بہت سمجھدار لڑکا ہے۔ ‘‘

میں بڑے شوق سے اس سفر نامہ کا مطالعہ کر رہا تھا جب یہ ختم ہو گیا تو میرے دل کی وہی کیفیت ہو گئی جو مظفر صاحب کی ہوئی تھی جب انگلستان میں قیام کی مدت ختم ہوئی۔ انھوں نے فارسی کا مصرعہ درج کیا۔ میں کئی دنوں تک اس مصرعہ کو پڑھتا اور لطف لیتا  رہا۔ ’’ روئے گل سیر ندیدم کہ بہار آخر شد‘‘

حنفی صاحب نے بچپن کے واقعات سُناتے ہوئے کہا تھا’’ میرے ایک ماموں سید زوار حسین اسی اسکول میں دوسری کلاس لیتے تھے جب کبھی گھر جاتے والد ہ سے کہتے آپ کا بیٹا اسکول میں بلّی بنا بیٹھا رہتا ہے‘‘ ( بعد میں یہی بلّی اردو ادب کا اصلی شیر بن گئی اور شیر ہی کی طرح پوری زندگی گزار دی)

مجھے اس بات پر ہمیشہ فخر رہے گا کہ حنفی صاحب جیسا جید عالم فاضل، صاحبِ طرز شاعر اور ادیب، اردو ادب کی نا قابلِ فراموش اور نا قابلِ نظر انداز شخصیت ہمارے قریب رہی ہے اور ہم اس کے قریب رہے ہیں۔ مسز عاصمہ مظفر صاحبہ نے کہا تھا’’ بچوں کے ساتھ وہ بالکل بچہ بن جاتے ہیں۔ بالخصوص عرفی اور صبا تسنیم کے ساتھ انھیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے حنفی صاحب کا بچپن لوٹ آیا ہے۔ ‘‘

حنفی صاحب پر یہ مضمون لکھتے ہوئے میرا بچپن لوٹ آیا ہے اور جس طرح بچے بزرگوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر بیٹھتے ہیں اسی طرح کی حرکتیں اس مضمون میں مجھ سے بھی سرزد ہوئی ہیں۔ محترم حنفی صاحب اور ان کے نہایت چاہنے والے مجھے معاف فرمائیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

                محمود ملک

  بھوپال

 

مظفرؔ حنفی:کچھ یادیں کچھ ملاقاتیں

 

یادش بخیر غالباً نومبر ۱۹۸۴ء کا ’’ حادثہ‘‘ ہے کہ میں اور میرے عزیز دوست آصف محمود ( خالدؔ محمود کے چھوٹے بھائی) بھوپال سے دہلی جا پہنچے۔ خالد بھائی ان دنوں جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول سے منسلک تھے اور ہوسٹل کے وارڈن ہوا کرتے تھے۔ آصف اپنے امتحان کی مناسب تیاری کی غرض سے دہلی آئے تھے اور چونکہ میں اپنی تعلیم مکمل کر چکا تھا لہٰذا میری حیثیت ایک ’’کوچ‘‘ کی سی تھی۔ دہلی پہنچتے ہی آصف اپنی پڑھائی میں مصروف ہو گئے اور میں ان کی رہنمائی کرتا رہا۔ سائنس کا طالبِ علم ہونے کے باوجود میں نے بچپن ہی سے اردو ادب میں گہری دلچسپی لی ہے۔ ادب سے تعلق کی ایک وجہ شاہد میرؔ صاحب سے نسبت اور ان کی تربیت تو دوسری سیفی ؔ سرونجی کی سیفی لائبریری رہی ہے۔ ان دونوں کے سبب مجھے ابتدا سے ہی معیاری ادبی کتب و رسائل کے مطالعے کا موقع ملتا رہا ہے اور مقامِ شکر ہے کہ مطالعے کا یہ جنون آج بھی جاری ہے۔

جب ہم دہلی پہنچے تو وہاں سردیاں شروع ہو چکی تھیں۔ پرگتی میدان پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ عالمی میلہ لگا ہوا تھا۔ صندوق اور الماریوں سے نکل کر رنگ برنگے سویٹر، سوٹ اور شال خوشبو میں نہائے ہوئے جسموں پر سج دھج کر دہلی کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے۔ ادبی جلسے اپنے عروج پر تھے کل ملا کر میرے لیے ’’ موسم‘‘ بہت ’’ سازگار‘‘تھا۔ خالد بھائی کے ہاں آنے جانے والوں کا سلسلہ دیر رات تک جاری رہتا جن میں مقامی لوگوں کے علاوہ وطن عزیز سرونج کے لوگ ہوتے اور بھوپال سے بھی کوئی نہ کوئی مانوس شکل نظر آ جاتی۔ مقامی حضرات میں ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب نے خاصہ متاثر کیا۔ مظفر صاحب اکثر خالد بھائی کے گھر آیا کرتے تھے۔ ہم ان سے جلد گھل مل گئے تھے۔ جب ہماری ملاقات کا وقت اور دائرہ بڑھا تو فرصت کے وقت ہم لوگ بھی مظفر صاحب کے گھر چلے جاتے۔ آصف کے نصاب میں اردو مضمون بھی شامل تھا لہٰذا آصف نے باقاعدہ ان سے اردو پڑھنا شروع کر دیا۔ مجھے تو جیسے منہ مانگی مراد ملی پھر یہ ہوا کہ چاہے آصف، مظفر صاحب کے پاس پڑھنے نہ جائیں مگر بندے نے کبھی اپنی غیر حاضری درج نہ ہونے دی۔ میں گھنٹوں ان کے پاس بیٹھا رہتا اور کسی نئے پرانے شاعر کے کلام پر بحث کا آغازکر کے خاموشی سے ان کے مطالعے کے سمندر کو کھنگال کر قطرہ قطرہ اپنے ذہن میں پیوست کر لیتا۔ مظفر صاحب ہمیشہ اپنے ریڈنگ روم میں آصف کو پڑھاتے تھے۔ اس ریڈنگ روم میں متعدد کتب و رسائل بہت سلیقے سے سجے ہوئے تھے۔ آپ کسی بھی شاعر یا ادیب کی کتاب کا نام لیجیے وہ وہاں موجود تھی۔ مگر یہ سب مجھے لبھانے والا سامان قیمتی چیزوں کی طرح کانچ کی الماریوں میں بند تھا جن میں لگے ہوئے تالے مجھے آنکھ دکھایا کرتے تھے۔ میں انھیں صرف دیکھ سکتا تھا۔ چھونے کی کسی کو بھی اجازت نہ تھی بلکہ کسی کتاب یا رسالے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پربھی پابندی تھی۔ ذرا سوچیے جس جگہ ہندوستان، پاکستان اور دوسرے ممالک کے اہم ادبی پرچوں کے نئے شمارے رکھے ہوں قدیم شعراء کے علاوہ ناصرؔکاظمی، احمد مشتاق، افتخار عارف، شہزاد احمد، ساقی فاروقی، شکیب جلالی، احمد ندیم قاسمی، حمیل جالبی، سلیم کوثر، پروین شاکر، کشور ناہید وغیرہ وغیرہ (ہندوستانی شعراء کی فہرست طویل بھی ہے اور فساد کو جنم دینے والی بھی لہٰذا معذرت) کے شعری مجموعے موجود ہوں تو بھلا اردو ادب سے شغف رکھنے والے کِس نوجوان کا دل کیوں نہ ڈولے گا۔ مگر خدا گواہ ہے کہ میں نے صرف انھیں پڑھنے بھر کی جسارت کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ میری خوش بختی تھی کہ ذوق و شوق دیکھ کر بعد میں مظفر صاحب نے مجھے میری پسند کی کتابیں وہیں بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت دے دی تھی جو میرے لیے کسی اعجاز سے کم نہ تھا۔

مشاعروں کی شرکت میں مظفر صاحب قطعی دلچسپی نہیں لیتے۔ وہ اکثر مشاعرے یاکسی ادبی جلسے میں جانے کے بجائے دعوت نامہ مجھے سونپ دیا کرتے تھے۔ اس لیے ڈاک آنے کے وقت میں ان کے گھر پہنچ جاتا اور اس طرح کسی نہ کسی ادبی محفل میں شریک ہونے کا با عزّت موقعہ پا لیتا اور ہم محفل میں بِن بُلائے ہی اتنی پابندی اور اہتمام سے نازل ہوتے کہ گویا ہماری شرکت کے بغیر دہلی میں کوئی ادبی پروگرام ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کچی عمر میں ہمیں معیاری اور غیری معیاری ادب کا فرق تو معلوم نہیں تھا مگر ہم سامعین کی پہلی صف میں اس اختیار اور اعتماد کے ساتھ موجود رہتے کہ جیسے جلسہ ختم ہونے پر صرف ہماری رائے ہی کو اہمیت دی جائے گی۔

ان ہی دنوں کی بات ہے جامعہ میں ایک عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ مشاعرہ شروع ہونے کے عین ایک گھنٹہ پہلے میں مظفر صاحب کے گھر جا دھمکا۔ میرا خیال تھا کہ مشاعرے میں جانے کے لیے مظفر صاحب تیاری میں مصروف ہوں گے۔ مجھے یہ دیکھ کر خاصی حیرانی ہوئی کہ مظفر صاحب اپنے ریڈنگ روم میں مطالعے میں غرق ہیں۔ میں کچھ کہہ پاتا اس سے پہلے ہی انھوں نے مجھ سے پوچھ ڈالا ’’ کیوں میاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشاعرے میں نہیں گئے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’ مجھے خیال ہوا کہ آپ کے ساتھ جاؤں گا تو پاکستان اور انگلینڈ سے تشریف لائے ہوئے شعراء سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہو جائے گا۔ ‘‘ وہ پہلے مسکرائے پھر بولے۔ ۔ ۔ ’’ نہیں بھائی میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ‘‘ میں نے اپنا نقصان ہوتا دیکھ پینترہ بدلا۔ ’’ ڈاکٹر صاحب آپ کی یونیورسٹی کا مشاعرہ ہے، آپ کو غزل بھی پڑھنا ہے، ڈپارٹمنٹ کے لوگ برا نہیں مانیں گے؟‘‘  مگر میرا یہ وار بھی بیکار گیا۔ ۔ میں نے جوش اور ’’ ہوش‘‘ کے ساتھ تمہید باندھی تھی۔ انھوں نے اتنے ہی اطمینان سے جواب دیا۔ ’’کوئی بُرا نہیں مانے گا۔ سب جانے پہچانے لوگ ہیں۔ ۔ ۔ ساری وہی چیزیں پڑھی جائیں گی جو ہم پہلے بھی سُن یا پڑھ چکے ہیں۔ وہاں نیا سننے کو کچھ نہ ملے گا۔ ۔ ۔ ۔ ، ، یہ کہہ کر وہ پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئے اور میں اپنی ہار کا اقرار کرتے ہوئے، مایوسی میں ڈوبا ہوا مشاعرہ گاہ کی طرف چل دیا اور سوچتا رہا کہ آج کا شاعر مشاعرے میں اپنی غزل سنانے کے واسطے نہ صرف بیتاب رہتا ہے بلکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے اپنی کوشش اور خوشامد میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا مگر یہ شاعر بھی عجیب شاعر ہے جو گھر آئی لچھمی کو گھاس نہیں ڈال رہا ہے جبکہ اس مشاعرے میں کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، ندا فاضلی، عنوان چشتی، امیر قزلباش، شاہدؔ میر کے علاوہ افتخار عارفؔ، محسن بھوپالی، سلیم کوثر اور کشور ناہید نے بھی شرکت فرمائی تھی۔

مظفر صاحب روز شام کے وقت قریب کے ایک پارک اوکھلا ہیڈ میں اپنے کسی ہم خیال کے ساتھ ٹہلنے جایا کرتے تھے ایک شام جب میں ان کے گھر پہنچا تو وہ اکیلے ہی پارک کی جانب جا رہے تھے۔ میں بھی پیچھے لگ گیا، اِدھر اُدھر کی بات چیت کے بعد حسب عادت وہ اردو ادب پر گفتگو فرمانے لگے۔ میں ایک فرماں بردار طالبِ علم کی طرح اردو شاعری سے متعلق سوالوں کی بوچھار کرتا رہا اور اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہا۔  میرے سوالات کے جواب میں انھوں نے میرؔ و غالبؔ سے لے کر دورِ حاضر تک کے اہم شعرا کی تخلیقات پر بھرپور روشنی ڈالی۔ اس خصوصی تفریح کا نتیجہ یہ ہوا کہ شام ہوئی اور یہ فرمانبردار مظفر صاحب کے یہاں حاضر۔ پتہ نہیں بے چارے مظفر صاحب پر کیا بیتتی ہو گی مگر میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ چند دنوں کی اس تربیت سے مجھے شاعری اور اچھی شاعری کا مہین فرق سمجھنے میں جو مدد ملی وہ آج بھی میرے کام آ رہی ہے۔ پارک کی ملاقاتوں کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ جب میں سرونج واپس آیا تو میں نے پرائیویٹ طور پر اردو ایم اے کا فارم داخل کر دیا اور مظفر صاحب سے سیکھی اور چرائی ہوئی معلومات نے ایسا رنگ جمایا کہ میں ایم اے کے امتحان میں فرسٹ ڈویزن پاس ہوا اور کالج میں سب سے زیادہ نمبر لے آیا۔ اس کامیابی کا ایسا نشہ چڑھا کہ میں باقاعدہ سائنس کا لیکچرار ہوتے ہوئے بھی بھوپال کے ایک سینئر سیکینڈری اسکول میں سائنس کی بجائے اردو سے زور آزمائی کر رہا ہوں اور جب اپنے طلبہ کو میرؔ اور غالبؔ کی شاعری پڑھانے کی ’’ کوشش ‘‘ کرتا ہوں تو مظفر صاحب کے یہ جملے کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ میں میرؔ کو اردو کا سب سے اہم شاعر مانتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ مجھے آپ غالبؔ کا کوئی بھی شعر سنائیے میں اس موضوع پر میرؔ کا شعر سنا دوں گا۔ ۔ ۔ مگر غالب نے انھیں ایسا انوکھا رنگ و آہنگ عطا کیا ہے کہ وہ صرف غالبؔ کا ہی حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘

مظفر صاحب متعدد بار سرونج تشریف لا چکے ہیں، ہم سرونج والوں اور مظفر صاحب میں ایسا تعلق پیدا ہو گیا ہے کہ محسوس ہوتا ہے وہ بھی اسی نگر کے واسی ہیں۔ وہ جب سرونج تشریف لاتے ہیں تو یہاں کی ادبی محفلیں جگمگا اٹھتی ہیں۔ ادبی جلسوں، نشستوں کے علاوہ سیر و تفریح کا بھرپور لطف اٹھایا جاتا ہے۔ یہاں کی ملٹی پرپز ٹیم بیدار ہو جاتی ہے۔ اس ٹیم میں جناب ڈاکٹر شاہدمیرؔ، ڈاکٹر شان فخری، ڈاکٹر سیفی سرونجی، محی الدین انجمؔ، عبدالحفیط عارفؔ، ڈاکٹر نفیس تقی، ڈاکٹر عزیز الدین، حافظ حدیث احمد وغیرہ اور یہ خاکسار لازمی اراکین میں سے ہیں۔ اس پوری عجیب و غریب ’’ فوج‘‘ کی کمان ڈاکٹر خالد محمود کے ہاتھ رہتی ہے۔ شہر کے قریب کسی گاؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ موسم کی فصل کو دن میں ’’ برباد ‘‘ کرنے کے بعد رات بھر غزلوں، بحثوں، چٹکلوں کا کھانے کے ساتھ ساتھ دور چلتا رہتا ہے۔ طنز و مزاح کے دھارے بہہ نکلتے ہیں۔ عجب عجب طرح کی آوازوں کے خالق ترنم سے غزلیں سنا کر تمام رکی ہوئی خواہشات پوری کرتے ہیں۔ اس قسم کی کئی ہلکی پھلکی محفلیں اپنے اندر کئی خوبصورت یادگاریں سمیٹے ہوئے ہیں۔ مگر یہاں یہ عرض نہ کرنا بھی سخت نا انصافی ہو گی کہ ہم لوگ ان ہنگاموں کے لیے جس گاؤں کا تعین کرتے ہیں اس سال اس گاؤں کی فصل بہت کمزور ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے کسان دوست خالد بھائی اور ان کے احباب کے سرونج تشریف لانے پر یہاں سے کہیں دور چلے جانے میں ہی اپنی اور اپنی فصلوں کی عافیت سمجھتے ہیں۔

ستمبر ۱۹۹۰ء کی بات ہے سرونج کے استاد شاعر مرحوم ناطقؔ مالوی کے شعری مجموعے ’’سخن معتبر‘‘ کے اجراء کی رسم مظفر صاحب کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ تقریب سے کچھ روز پہلے مجھے اطلاع ملی کہ مظفر صاحب کلکتہ سے دہلی آئے ہوئے ہیں۔ دوسرے ہی دن میرا ہاتھ دہلی میں مظفر صاحب کے گھر کی کال بیل پر تھا۔ سلام و دعا کے بعد میں نے اپنی حاضری کا مقصد بیان کیا تو خاصے ناراض ہو کر بولے’’ تمھیں پہلے بتانا چاہیے تھا۔ میں تو پرسوں واپس جا رہا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رزرویشن ہو چکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ تم تو جانتے ہو کلکتہ کے لیے رزرویشن کس مصیبت سے ملتا ہے۔ ۔ ۔ مگر میں بضد تھا۔ دو دن تک نوک جھونک چلتی رہی۔ آخر میں انھیں منانے میں کامیاب ہو گیا اور میں نے یہ یقین دلایا کہ میں بھوپال سے رزویشن ضرور کرا دوں گا۔ میں سرونج واپس آ کر تیاری میں مصروف ہو گیا۔ تقریب کے دن بھوپال سے عشرت قادری اور ظفرؔ صہبائی کھنڈوا سے قاضی حسن رضا صاحب بھی آ گئے، مظفر صاحب نہ صرف شریک ہوئے بلکہ انھوں نے ناطقؔ مالوی کے فن اور شخصیت پر ایک بھرپور مقالہ بھی پیش کیا۔ دو دن تک بزم آرائیاں چلتی رہیں۔ مرحوم وقار فاطمی تب حیات تھے دو دن بعد ٹیم بھوپال روانہ ہو گئی۔ پھر وقار بھائی کا گھر گرفت میں تھا۔ یہاں بھی زور دار محفلیں برپا ہوئیں۔

بھوپال سے مظفر صاحب کی کلکتہ کی واپسی کا واقعہ میں کبھی فراموش نہیں کر پاتا۔ ہوا یوں کہ میں نے جس ٹرین سے مظفر صاحب کا رزوریشن کرایا تھا وہ سولہ گھنٹے لیٹ ہو گئی۔ دوسری ٹرین میں انتظام کیا گیا مگر ٹکٹ کنفرم نہیں تھا۔ امید تھی کہ رزرویشن مل جائے گا۔ ہم لوگ اسٹیشن پہنچے۔ یہ گاڑی بھی پانچ گھنٹے لیٹ ہو گئی۔ اس پر ظلم یہ کہ ٹکٹ بھی کنفرم نہیں ہوا، مظفر صاحب بہت پریشان تھے کہ آگے چل کر اس گاڑی میں بہت بھیڑ ہو جاتی تھی۔ میں نے رزرویشن کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ ٹرین نے جیسے ہی چلنا شروع کیا مجھے کچھ نہ سوجھا اور میں بھی اس میں سوار ہو گیا اور میں نے ڈرتے ڈرتے مظفر صاحب سے کہا کہ ’’ آپ ٹی۔ سی کو کچھ لے دے کر برتھ لے لیجیے۔ ایک تووہ پہلے ہی ٹینشن میں تھے میرے اس مشورے سے اور بھڑک گئے۔ مجھ سے یہ سب نہیں ہو گا۔ مجھے اس قسم کے کسی مشورے کی ضرورت نہیں۔ میں فوراً وہاں سے بھاگ کر ٹی۔ سی کے پاس پہنچا مگر زندگی میں پہلی بار کوئی ایماندار ٹی سی برآمد ہوا جو کسی بھی طرح قابو میں نہ آتا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ جیسے وہ شعر کہتا ہے اور مظفر صاحب سے کوئی پرانی دشمنی نکال رہا ہے۔ اس تگ و دو میں ’ بینا‘ اسٹیشن آ گیا جو بھوپال سے تقریباً دو سوکلو میٹر دور ہے۔ رات کے دو بج چکے تھے میں مایوس ہو کر ٹرین سے اتر آیا۔ مظفر صاحب مجھے اور پریشان نہ ہونے کی ہدایت دے رہے تھے میں سر جھکائے بہت دیر تک بنا ٹکٹ پکڑے جانے والے مسافر کی طرح کھڑا رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹرین جا چکی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ا س طرح اردو کا یہ نامور شاعر دہلی سے اپنا رزرویشن میرے بھروسے چھوڑ کر سرونج، بھوپال کی خاک چھان کر بھیڑ بھری ٹرین میں ہنستا مسکراتا کلکتہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ واقعہ مجھے اس لیے بھی یاد رہتا ہے کہ اس پروگرام میں شرکت کے  لیے مظفر صاحب نے ایک روپیہ بھی بطور نذرانہ قبول نہیں کیا تھا۔ ورنہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مشاعروں کے ذریعہ شہرت و دولت بٹورنے والے نامی گرامی شاعر طے شدہ رقم میں صرف سو روپے کے اضافے کی خاطر گھنٹوں گڑگڑاتے پائے گئے ہیں۔

اور بہت سی باتیں اور ملاقاتیں ہیں جو مظفر صاحب کی شخصیت سے وابستہ ہیں۔ یہاں سب کا ذکر ممکن نہیں۔ ان کا خلوص سر آنکھوں پر کہ انھوں نے ہمیشہ مجھ سے ایک بڑے بھائی کا سا سلوک کیا اور ان کی وہ شفقت اور محبت آج بھی قائم ہے۔ میں اپنی بات کو ان کے شعر کے ساتھ ختم کرنے کی اجازت چاہتا ہوں :

سر اونچا، آنکھیں روشن، لہجہ بے باک ہمارا

تلوے زخمی، ہاتھ بریدہ، دامن چاک ہمارا

٭٭٭

 

 

 

                پرویز مظفر

  برمنگھم

 

ہمارے پیارے پاپا

 

بچپن سے لے کر آج تک جب بھی کسی مشکل لمحے میں کسی مدد، صلاح مشورے کی ضرورت پڑی اور اکثر پڑی تو سب سے پہلے مجھے اپنے والد محترم یاد آئے اور ان سے مشورہ کیا اور ہمیشہ دانشمندانہ اور صحیح مشورہ ملا اور خدا کا شکر ہے کہ اس پر عمل کرنے سے ہمیشہ میرے کام بنے اور ہر بار مشکل کی دلدل سے باہر آ گیا۔ یہ تجربہ ایک بار نہیں زندگی میں کئی مرتبہ ہوا۔ اس سے اس بات پر ایمان لانا پڑتا ہے کہ سچائی اور ایمانداری سے دیے گئے مشورے ہمیشہ انسان کے فائدے کی چیز ہیں۔

ہمارے والد محترم سچائی، ایمانداری، خلوص و محبت کا پیکر ہیں۔ ان کے ظاہر اور باطن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو محسوس کرتے ہیں، جیسامحسوس کرتے ہیں وہ کہہ دیتے ہیں۔ چاہے وہ نجی زندگی میں ہو یا شاعری میں۔

جو نہ محسوس کیا ہو اسے کیوں کر کہتے

ورنہ آسان تھا قطرے کوسمندر کہتے   ( مظفر حنفی)

ان کی ہزاروں خوبیوں میں سے ایک اچھائی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بارے میں کبھی کسی سے کچھ نہیں کہتے چاہے وہ ان کے اپنے فن سے متعلق ہو، ترقی یا انعام و اکرام کا معاملہ ہو یا ذاتی پریشانی۔ کبھی کسی سے کچھ نہیں کہتے۔ ہماری ممّی نے ان کو کچھ بدلنے کی کوشش کی ہے مگر یہ بدلاؤ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ہم پانچ بھائی اور ایک بہن ہیں۔ ہم میں سے کسی کو آج تک یاد نہیں ہے کہ ہمارے پاپا نے کبھی ہم لوگوں سے سر بھی دبوایا ہو۔ اگر کبھی معلوم ہوا کہ پاپا کی طبیعت خراب ہے اور ہم نے ان کا سر یا پاؤں دبانے کی کوشش کی تو انھوں نے فوراً روک دیا اور ہمیشہ کہا کہ ماں کی خدمت کرو اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ان سارے واقعات کے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں تو مجھے اپنے پاپا ایک درویش صفت انسان نظر آتے ہیں جس نے دنیا کو صرف دینا ہی سیکھاہے  لینے کی کسی سے کوئی اُمید نہیں رکھی۔ گھر ہو یا گھر کے باہر ہمیشہ لوگوں کے ساتھ کچھ کیا ہی ہے لیا کبھی کسی سے کچھ نہیں۔

ہم نے جب آنکھ کھولی تو ہمیں اپنے گھر میں پیار محبت اور عیش و آرام کی زندگی ملی۔ مگر ہمارے والد محترم کا بچپن اور عہدِ جوانی بہت مشکل حالات میں گزرے۔ اس کا ذکر وہ کبھی نہیں کرتے ہم لوگوں کو یہ باتیں اپنی ممّی یا پھر ڈاکٹر محبوب راہی کے تحقیقی مقالے سے معلوم ہوئیں۔ ان سب کے باوجود وہ ایک جذباتی انسان اور بہت مخلص اور بچوں سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے باپ، اچھے شوہر اور بے مثال دادا نانا ہیں جو قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے سے پہلے اپنے چاہنے والوں کی فکر کرتے ہیں۔ ممّی کو کھانسی آئی نہیں کہ پاپا پریشان ہو گئے۔ کسی بچے کو بخار آیا نہیں کہ پاپا کی راتوں کی نیند غائب!

کئی بار ایسے مواقع آئے کہ ان کا پروگرام ہے، مشاعرہ ہے، بڑے معاوضے پر باہر جانا ہے لیکن ممّی کی تھوڑی سی طبیعت خراب ہو گئی تو پاپا اپنے پروگرام ملتوی کر دیں گے۔ ہم لوگ کئی بار کہتے کہ آپ چلے جائیے ہم ہیں تو، مگر وہ نہیں مانتے۔ ہر انسان کے چاہنے کے الگ انداز ہوتے ہیں اور ہمارے پاپا کا یہ انداز نرالا ہے۔ ہماری ممّی تو کئی بار پاپا کو اپنی طبیعت کے بارے میں بتاتی ہی نہیں ہیں مگر پاپا کو جانے کیسے معلوم ہو جاتا ہے۔

ہماری ممّی بھی پاپا کا بہت خیال رکھتی ہیں، ہر مسئلے میں ان سے مشورہ کرتی ہیں مگر میرا خیال ہے پا پا کی محبت ان کے لیے بہت زیادہ ہے۔ گھر کے سارے اختیارات ممّی کو سونپ رکھے ہیں اور ہماری ممّی ہی فیصلے کرتی ہیں کہ گھر میں کیا ہو گا، کیا نہیں۔ پاپا کی یہ عادت ہم سب بھائی بہن میں ٖآئی کہ جو پک جائے اللہ کا شکرادا کر کے کھالو۔ خدا کا احسانِ عظیم ہے کہ مجھے ماں، بھابیاں، بہن اور بیوی ایسی ملی جنھوں نے ہمیشہ اچھے اور لذیذ کھانے پکا کر کھلائے۔

ہمارے پاپا اپنے بھرے پُرے خاندان کے ہر فرد کا خیال رکھتے ہیں۔ خاندان ان کے لیے فیملی کی حیثیت رکھتا ہے۔

کنبے کا کوئی فرد کسی وجہ سے پریشان ہے یا بیمار پڑا تو پا پا اس کے بارے میں فکر مندہو جاتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اس کی مدد کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ رات رات جاگ کر ترجمے کیے۔ دو دو ملازمتیں کیں اور خاندان کے افراد کے کام آئے۔ متعدد شادیاں کروائی ہیں اور لوگوں کی اس طرح مدد کی کہ دائیں ہاتھ سے دیا اور بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوئی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ان کی یہ صفت ہمارے بڑے بھائی فیروز مظفر میں اس خوبی سے سموئی ہے کہ جواب نہیں۔ کاش ان دونوں کے اس وصف کا کچھ حصہ مجھ میں آ جاتا۔

ہمارے پاپا کو بناوٹ اور جھوٹ سے سخت نفرت ہے مگر لوگ شاید آج کل ان چیزوں کو فیشن کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم میں سے کوئی بڑے سے بڑا نقصان یا غلطی کر دے جو اکثر کرتے ہیں اور آ کر پاپا کو بتا دیا تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پاپا ناراض ہوئے ہوں، ہمیشہ پیار سے سمجھایا ہے۔ پاپا کی انہی خوبیوں کی وجہ سے شاید ان کے دوست کم ہیں دشمن زیادہ ہیں۔

میں ان کے بہت سے ایسے دوستوں کو جانتا ہوں جن کی انھوں نے مختلف طریقوں سے مدد کی، بڑی بڑی کمیٹیوں سے اپنا نام نکلوا کر دوستوں کو بتائے بغیر ان کا نام ڈلوا دیا۔ کئی ایسے جلسوں میں اور ٹی وی وغیرہ کے پروگراموں میں شرکت نہیں کی جہاں ان کے دوستوں یا استاد محترم کو نہیں بلایا گیا۔ ایک آدھ دوست تو ایسے ہیں جن کی پی ایچ ڈی برسوں سے مکمل نہیں ہو رہی تھی وہ والد محترم نے کرا دی اور کام پورا ہوتے ہی موصوف کے رنگ بدل گئے۔

پاپا ایسے بڑے دل کے آدمی ہیں کہ ان کے دشمنوں کا احوال بھی ان کے دوستوں سے برسوں کے بعد معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان کی عادت ہے کہ کسی کی برائی کبھی اُس کی پیٹھ پیچھے نہیں کرتے اور دشمن کو بھی اچھی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ وہ صاف بات کہنے والے بے حد حق گو انسان ہیں۔ پاپا کو یہ بالکل پسند نہیں ہے کہ لوگ کسی کی غیبت کریں جو کہنا ہو وہ منہ پر صاف صاف کہہ دیتے ہیں۔ کوئی لاگ لپیٹ نہیں رکھتے۔ حالانکہ بات سچ ہوتی ہے مگر اکثر لوگوں کو حتیٰ کہ دوست احباب کو بھی پسند نہیں آتی۔

ہمارے پاپا دوست کی کمی اس کے منہ پر تو بیان کر دیتے ہیں مگر اس کی پیٹھ پیچھے مجال نہیں کہ کوئی ان کے دوست کی بُرائی کر دے۔ اس کے لیے دوسروں سے لڑ جائیں گے مگراس دوست کو کبھی نہ بتائیں گے کہ کیا کِیا ہے۔

آج کل کا دور وہ ہے کہ لوگ مُنہ پر خوشامد کرنا اور کروانا پسند کرتے ہیں جو ہمارے پاپا کے مزاج سے میل نہیں کھاتا۔ اس طرح لوگوں کا دوستی سے بھروسے اٹھتا جا رہا ہے۔ ہم نے اپنے ڈرائنگ روم میں ایسے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو کسی شخص کی اس قدر بُرائی کرتے ہیں جیسے کوئی کسی دشمن کی کرتا ہے۔ اور ہفتہ بھر بعد اُسی شخص سے فنکشن میں اس طرح بغل گیر ہوں گے جیسے ان کا سب سے بڑا دوست ہو۔

اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہمارے والد محترم اپنے ڈرائنگ روم سے ایسے لوگوں کو نکال باہر کرتے ہیں جو ہمارے والد کے دوست یا دشمن کی برائی کر رہا ہو۔ اب یہ بات ہمارے والد کے کسی منافق دوست کو جا کر کون بتائے گا۔ ہمارے پاپا تو جانے سے رہے اور جس کو دوڑا لیا ہے وہ بتانے سے رہا۔

ان کا اپنے دوستوں کے لیے ایثار کرنے کا انداز بھی بے حد نرالا ہے اکثر مجھے بھی کہتے ہیں کہ اگر دوستوں کے لیے کچھ کیا اور انھیں جتا دیا تو پھر وہ جو کچھ کرنے کا مزا ہے وہ جاتا رہتا ہے۔ دوستی کی بنیاد تو یقین پر ہوتی ہے۔ اسی لیے کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جب اتنی سچائی اور صاف گوئی کے باوجود ان کے چاہنے والوں کا ایک بڑا حلقہ موجود ہے جس میں ڈاکٹر محبوب راہی، پریم گوپال متّل،  پروفیسر صغرا مہدی، پروفیسر خالد محمود، نعیم کوثر صاحب، پروفیسر نعمان خاں، پروفیسر آفاق احمد، منور رانا، ڈاکٹر راحت اندوری اور حباب ہاشمی جیسے لوگ شامل ہیں۔

ہمارے والد میں حسِ مزاح بہت ہے، مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی ہم نے انھیں گھبراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کسی بھی پریشانی میں وہ کوئی ایسا نکتہ نکال لیں گے جس سے دکھ درد پریشانی کم ضرور ہو جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں اگر آپ گھبرا گئے تو آپ کے سوچنے اور کام کرنے کی قوت ختم ہو جاتی ہے۔

ہمارے پاپا اپنے سے کم درجہ اور غریب انسان کو یہ احساس کبھی نہیں ہونے دیتے کہ  وہ ان سے چھوٹا ہے یا غریب ہے۔ مگر کسی بڑے سے بڑے آدمی کو یہ حق ہرگز نہیں دیں گے کہ وہ یہ ظاہر کر سکے کہ وہ بڑا یا افضل ہے۔  انھوں سے صرف اللہ کے آگے سر جھکانا سیکھا ہے۔

کئی بار ہم لوگوں نے دیکھا کہ پاپا کسی پروگرام میں جانے کے لیے تیار ہوئے اور وطن سے کوئی آ گیا تو اس کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے اپنا ضروری پروگرام چھوڑ دیا۔ بس یونیورسٹی کی کلاس نہیں چھوڑیں گے اس کے علاوہ کوئی بھی بڑا پروگرام ہو اہمیت نہیں رکھتا اس وطن کے عام آدمی کے مقابلے میں۔

جن باتوں پر وہ خود عمل پیرا ہیں وہی باتیں شاعری میں بیان کرتے ہیں۔ میں نے کئی منظر دیکھے ہیں جہاں دولت یا عہدے کے نشے میں چور بڑے لوگوں نے اپنے غریب و معصوم والدین کو لوگوں سے ملوانے میں شرم محسوس کی۔ ہمارے پاپا کو جب بھی ایسے مواقع پر احساس ہوا تو انھوں نے بڑے لوگوں کی محفل چھوڑ کر ان بزرگوں کے پاس احترام سے بیٹھنا زیادہ پسند کیا اور ان کی دعائیں لی ہیں۔ وہ ان بزرگوں کو اہمیت دیتے ہیں جن کی اپنی اولادیں انھیں لوگوں کی آنکھوں سے چھپا رہی ہیں۔

بچے بہت معصوم ہوتے ہیں۔ انھیں چاک پر جس طرح چاہو ڈھال لو مگر ایک بات صاف ہے کہ وہ سچے پیار کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں اور ہمارے پاپا میں یہ قدرتی خوبی ہے کہ وہ اپنے بچوں سے بے انتہا اور سچا پیار کرتے ہیں۔ اسی لیے تو ان کے بچے، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں سب ان سے بے انتہا پیار کرتے ہیں۔ اتنے مصروف ہونے کے باوجود بھی وہ بچوں کے ساتھ کھیلنے کا وقت ضرور نکال لیتے ہیں۔

ہم لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں یا مشکل گھڑی میں فیصلے لینے میں پریشان ہو جاتے ہیں مگر ہمارے پاپا کبھی بھی مشکل گھڑی میں گھبراتے نہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے مواقع پر  پر سکو ن رہ کر اور سوجھ بوجھ کا استعمال کر کے پریشانی کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیشہ کہتے ہیں ہر چیز کے دو رُخ ہوتے ہیں اگر پریشانی آتی ہے تو اس کا حل بھی ہو گا۔ ہاں انھیں ہاسپٹل اور اونچائی پسند نہیں ہے۔ پھر بھی حوصلہ دیکھیے، ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک بار والد محترم اسپتال میں داخل تھے۔ ناک کا آپریشن ہوا تھا۔ نرس نے غلطی سے گلوکوس چڑھا دیا یہ دیکھے بغیر کہ پاپا ذیابیطس کے مریض ہیں۔ جب اگلے دنConsultantآیا تو اسے علم ہوا کہ  Glucose غلط چڑھایا گیا ہے۔ فوراً ہٹوایا۔ اب جو ناک سے روئی نکالی تو خون کے دھارے بہنے لگے۔ ڈاکٹر نرس بھائی وغیرہ سب بری طرح گھبرا گئے۔ پاپا بالکل نارمل رہے بجائے اس کے کہ ڈاکٹر ان کو تسلی دے پاپا ان کو خود تسلی دیتے رہے اور ان کی مدد کرتے رہے۔ کافی دیر بعد جب خون بند ہوا تو ان لوگوں کی سانس میں سانس آئی۔ اسConsultant نے ممی کے پاس جا کر کہا کہ اس نے اتنا بہادر اور حوصلہ مند مریض کبھی نہیں دیکھا۔

تعلیم کے سلسلے میں ہمارے پاپا گھر تو کیا گھر کے باہر جا کر بھی لوگوں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کئی رشتے داروں کو اور تین چار غیر لوگوں کو بھی اپنے گھر میں رکھ کر اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ کئی شاگردوں کو پی ایچ۔ ڈی کرانے میں اپنے دن رات ایک کر دیے۔ ہم سب بھائیوں اور بہن نے جب اپنی تعلیم مکمل کی تو ہمیشہ پوچھا اگر ہم اور آگے پڑھنا چاہتے ہیں تو بندوبست کریں۔ ہمیشہ حوصلہ افزائی کی کہ اور آگے تعلیم حاصل کریں۔ اس سلسلے کے بے شمار واقعات میں سے دو کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ اس زمانے میں میں ہائر سیکنڈری میں پڑھتا تھا۔ میرا ایک دوست ہاسٹل میں رہتا تھا۔ نہ جانے کیوں اس کے پیسے وقت پر نہ پہنچے اور وہ پریشان ہو گیا کہ اگر اس کی فیس وقت پر  نہ جمع کی گئی تو شاید نام کٹ جائے گا۔ اس کا ذکر میں نے پاپا سے کیا پاپا نے بنا کچھ سوال پوچھے مجھے وہ رقم دے دی اور کہا کہ اس کی فیس وقت پر جمع ہونی چاہیے۔ اس کے کچھ سالوں بعد ایک واقعہ پھر گزرا جب میں یونیورسٹی میں تھا۔ میرے دوست کو ہاسٹل کی فیس جمع کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ پاپا سے کہا اس وقت انھوں نے صرف یہ پوچھا واقعی فیس کے لیے چاہیے کہیں عیش کرنے کے لیے تو نہیں مانگ رہا ہے۔ میرے تصدیق کرنے پر انھوں نے فوراً پیسے نکال کر دے دیے۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے پاپا کتنا بڑا دل رکھتے ہیں اور تعلیم کے سلسلے میں لوگوں کی مدد کرنے میں کتنا آگے جاتے ہیں۔ امریکہ سے کئی بارسات آٹھ ہفتوں پر مشتمل پروگراموں کے لیے دعوت نامے آئے لیکن یونیورسٹی کے بچوں کی تعلیم میں حرج ہوتا تھا اس لیے وہ انکار کر دیتے تھے۔ شایداس لیے کہ خود بچپن میں اپنی تعلیم کے سلسلے میں بہت مشکلیں جھیلی تھیں۔ بہت دکھ سہے تھے۔ لوگوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر جینے والے انسان ہیں ہمارے پاپا۔

پاپا کو پڑھنے لکھنے کا اتنا شوق ہے کہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ کوئی مضمون لکھنا ہو کسی کے اوپر لکھنا ہو اس کی کتاب کا مطالعہ ضرور کریں گے پھر لکھیں گے۔ کتابیں پڑھنے کا اتنا شوق ہے کہ ہم جتنی محنت امتحان کے زمانے میں کرتے تھے اس سے کئی گنازیادہ پڑھنا لکھنا ان کا روز مرہ کا معمول ہے۔ اردو، ہندی، انگریزی کی کتابیں۔ ۴۵ سال سے تو میں دیکھ رہاہوں دن رات پڑھنا اور کام کو پابندی سے کرنا ان کے مزاج میں شامل ہے۔ کلکتہ کے قیام کے دوران وہاں کا کیئر ٹیکر ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ پروفیسر صاحب جب صبح ٹہلنے نکلتے ہیں تو مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ صبح کے ساڑھے پانچ بج گئے ہیں۔

اگر کوئی کام کرنا ہے تو پھر اچھی طرح کرنا ہے اور وقت پر کرنا ہے پھر کوئی آندھی طوفان انہیں روک نہیں سکتا۔ کھانا پینا بھول کر دن رات ایک کر دیں گے اس کام کو پورا کرنے کے لیے یہاں تک کہ اپنی صحت کا خیال بھی نہیں رکھیں گے۔ ممی کبھی کبھی اس بات پہ جھگڑتی ہیں کہ آپ اپنی صحت کا خیال تو رکھیں مگر پاپا نے اگر وعدہ کر لیا اور کوئی پروجیکٹ ہاتھ میں لے لیا تو پھر وہ مکمل کرنا ہی ہے اور وقت پر مکمل کرنا ہے۔ اس کی صرف تین مثالیں پیش کرتا ہوں۔ پروفیسر قمر رئیس صاحب نے پاپا سے میر تقی میرؔ کا مونو گراف تین ہفتوں میں تیار کرنے کی گزارش کی اور انھوں نے اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہوئے پاپا سے کہا کہ اگر ہندوستان میں کوئی یہ کام اتنے دنوں میں کر سکتا ہے تو وہ صرف آپ ہیں۔ پا پا نے اس کام کو مکمل کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیے اور اٹھارہ انیس گھنٹے روز کام کیا  اور اٹھارہ دن میں یہ کام مکمل کر کے دہلی اردو اکادمی کے حوالے کر دیا۔

انجمن روحِ ادب ( الٰہ آباد) نے اردو شاعری کا پچاس سالہ انتخاب تیار کرنے کے لیے پاپا کا انتخاب کیا اور صرف چھ مہینے میں غزل کاپچیس سالہ سب سے بڑا انتخاب تیار کرنے کی درخواست کی۔ پاپا نے دن رات ایک کر کے ۶۹۳ شعرا کا جو انتخاب کیا وہ اردو غزل کا اب تک کا سب سے بڑا انتخاب ہے۔ ’’ وضاحتی کتابیات‘‘ اُن کا ایک اور بڑا کارنامہ ہے جس کی پچیس جلدیں تیار کرنے کے لیے پورے ایک ادارے / انجمن کی ضرورت تھی وہ کام پاپا نے اکیلے دم سے تین چار برسوں میں سر انجام دیا۔

ہمارے پاپا کو شاعری سے جنون کی حد تک محبت ہے اور شاعری سے  وہ ایسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی ہم لوگوں سے۔ شاید ہم لوگوں سے بھی زیادہ۔ سیکڑوں بار ہم نے دیکھا کہ والد محترم کی رات کو نیند کھل گئی اور اپنے ریڈنگ روم میں بیٹھے غزل کہہ رہے ہیں۔

راتوں کو اٹھ کر شعر کہنا ان کی عادت ہو گئی ہے۔ ہمیشہ کہتے ہیں شعر بنائے نہیں جاتے وہ تو پکّے پھلوں کی طرح خود بہ خود ٹپکنے لگتے ہیں۔

ہمارے پاپا نے کتنی اچھی اور معیاری شاعری کی ہے اس کا اندازہ روز آنے والے بے شمار خطوط سے لگایا جا سکتا ہے۔ مگر نقاد اور صاحبانِ اقتدار شاید انھیں جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاپا میں اچھا اور سچا فنکار پوشیدہ ہے جودوسروں کے سامنے جھُکنا پسند نہیں کرتا۔ اقتدار کے دروازے پر جا کر سلام نہیں کر سکتا نہ ہی ان کی شان میں قصیدہ لکھ سکتا ہے۔

بلا مبالغہ ان کی شاعری کی خوشبو پورے جہان میں پھیل رہی ہے۔ پاپا روزے نماز کے زیادہ پابند نہیں ہیں مگر اسلام نے ایک اچھے مسلمان کے لیے جو خوبیاں بیان کی ہیں اس پر وہ پورے اترتے ہیں۔ ان کے اصولوں اور سچائی کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔

پا پا نے اردو ادب کی بہت خدمت کی ہے اور بنا صلے کی پروا کیے ہوئے۔ وہ اپنے آپ کو قلم کا مزدور کہتے ہیں مگر ہم سب جانتے ہیں کہ پھل دار درخت ہمیشہ زمین کی طرف جھکا ہوا رہتا ہے۔

انھوں نے نوّے(۹۰) سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں۔ ۲۵۰۰ سے زیادہ غزلیں کہیں۔ بہت سارے کاموں میں تو ہمارے پاپا پیش رو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے اور لوگوں کا ماننا ہے کہ ہمارے والد نے ۱۹۵۹ء میں جب رسالہ’’ نئے چراغ‘‘ جاری کیا تو وہ جدید ادب کا ہندوستان میں پہلا رسالہ تھا اس کے سات آٹھ سال  بعد ’ شب خون‘ جاری ہوا۔ ہندوستان میں جدید شاعری کا سب سے پہلا شائع ہونے والا مجموعہ کلام ’پانی کی زبان‘ ہمارے پاپا کا ہے۔ مختلف موضوعات پر دو ہزار پانچ سو اشعار ’’ ہیرے ایک ڈال کے‘ ‘ بھی وہ کار نامہ ہے جس کی پہل ہمارے والد محترم نے کی اور اب تک کسی ایک ہی شاعر کے مختلف موضوعاتی اشعار اور اتنی تعداد میں کبھی منظر عام پر نہیں آئے۔

میری اس سلسلے میں اکثر اپنے پاپا سے بات ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا انعام و اعزاز کسی چھوٹے تخلیق کار کو بڑا نہیں بنا سکتا اور بڑا تخلیق کار بڑا ہی رہے گا چاہے اسے کوئی اعزاز ملے یا نہ ملے۔

میرا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست، چاپلوسی اور Public Relations  کا چلن بہت زیادہ ہو گیا ہے اور آج کل بہت سارے ادیبوں نے اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے اور Lime light  میں رہنے کے لیے Public Relations پر زیادہ زور دیتے ہیں اور اچھے اور سچے فنکار کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہندوستان کی تہذیب میں سچائی سموئی ہوئی ہے مگر آج ہم اپنی نئی نسل کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ سچی محنت اور لگن کوئی چیز نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ Public Relationsمیں اچھے ہیں تو آپ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ہماری حکومت کو اس طرف غور کرنا چاہیے کہ ایماندارانہ فیصلے کرے اور جینوین ادیب اور سچے فنکار کے کام کو اہمیت دے۔

انسان کی ہزاروں خواہشیں ہوتی ہیں۔ ہماری بھی ڈھیر ساری خواہشیں تھیں اور ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اپنے پاپا کی شکل میں اتنا عظیم انسان ملا ہے کہ انھوں نے ہماری ہر خواہش پوری کی اور کبھی ہماری سوچ پر قدغن نہیں لگائی۔ ایک اچھے اور بہترین والد میں جو خوبیاں ہونی چاہییں وہ سب میرے پاپا میں موجود ہیں اور مجھے فخر ہے کہ میں ان کا بیٹا ہوں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایسے شخص کے قدم کیوں نہ چومے جائیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان کو لمبی عمر اور اچھی صحت عطا فرمائے۔ آمین

تم سلامت رہو قیامت تک

اور قیامت کبھی نہ آئے شادؔ

( شادؔ عارفی)

٭٭٭

 

’’مظفر حنفی ہسوی کے کئی افسانے دیکھے۔ حنفی ذہین افسانہ نگار ہیں وہ اگر اور زیادہ سوچ کر لکھیں گے تو مجھے ادب میں ان کا ایک نمایاں مقام نظر آ رہا ہے میں نے اُن کے دو ایک افسانوں میں وہ رنگ دیکھا ہے جو مغربی ادب میں ملتا ہے، حنفی صاحب شاید مجھ سے واقف بھی نہیں ہوں گے یہ بات اس لیے لکھ رہا ہوں کہ لوگ میری اس تعریف سے جانبداری کا پہلو نہ نکالیں۔ اُن کے افسانوں کا کمال یہ ہے کہ اُن میں کوئی ٹچTouch بھی بیکار نہیں جاتا۔ ‘‘

پروفیسر نثار احمد فاروقی

 

 

 

 

 

                تاثرات

 

’’مظفر حنفی کا خاندان کا تصور اتنا وسیع ہے جتنا ہمارے ملک اور ہماری پرانی تہذیب میں تھا۔ یہ تصور جو  اب خواب و خیال ہو گیا ہے۔ وہ انھیں نارمل اور نیچرل لگتا ہے۔ اس لیے نہ وہ اس کی افادیت پر گفتگو کرتے ہیں نہ اسے رومینٹی سائز کرتے ہیں۔ مظفر حنفی ایک اچھے استاد ہیں۔ ایسے استاد جو واقعی پڑھاتے ہیں۔ جنھیں پڑھانا اچھا لگتا ہے۔ جو علم کے بوجھ کے تلے دبے نظر نہیں آتے مگر طالب علموں سے بیحد لگاؤ رکھتے ہیں۔ ان کو سختی سے ڈانٹتے ڈپٹتے بھی ہیں مگر لگاوٹ، ادا کے ساتھ۔ جو لوگ کلاسس لینے میں سنجیدہ نہیں ہوتے اور طالب علموں کی نالائقی کا رونا روتے نظر آتے ہیں، یہ کبھی سنجیدگی اور کبھی زہر خند کے ساتھ ان کی سرزنش بھی کر دیتے ہیں۔ ہمیں بڑا عجیب لگتا تھا کہ ان جیسا کھڑتل انسان اور جس طالب علم کو دیکھو ان ہی کی تعریف کر رہا ہے۔ مظفر حنفی نے افسانے بھی لکھے ہیں و تنقیدی مضامین بھی۔ کتابیں بھی ایڈٹ کی ہیں۔ ہم ان کی علمیت، ان کی ادبی اور تنقیدی صلاحیتوں کے دل سے قائل ہیں مگر بھئی ہم ان کو سمجھتے شاعر۔ ۔ ۔ ۔ صرف شاعر ہیں۔ ترچھے اور نو کیلے شاعر۔ یہی ان کی انفرادیت ہے۔ ان کے سارے طور طریقے شاعروں والے ہیں۔ ان کی شخصیت پر میرؔ کا یہ مصرعہ خوب چسپاں ہوتا ہے ’’تری بات روکھی تری چال ٹیڑھی‘‘۔ دوسرا مصرع یوں نہیں کہ انھیں میرؔ کی طرح کسی سے نہ سمجھنے یا کم سمجھنے کا شکوہ نہیں۔ ان کی تو کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ۔ ‘‘

پروفیسر صغریٰ مہدی

 

 

 

 

                عزیز قریشی

    بھوپال

 

ایک منفرد صاحبِ قلم

 

ایک منفرد صاحبِ قلم، ایک نئے مزاج اور آہنگ کے شاعر، ایک انوکھے انداز کے نثرنگار، جس نے زبان اور اسلوب کو ایک نئی طرز دے کر نئی سمت عطا کی اور زبان و ادب کی سنگلاخ سرزمین پر نئی فکر کے چراغ جلائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان سب سے بڑھ کر ایک حساس اور جذباتی انسان اور اس سے بھی زیادہ ایک مخلص دوست جو ہمیشہ غم جاناں کا نہیں بلکہ غم دوراں کا شکار اپنی ہی مرضی سے بنا رہا اور جس نے اپنی خود داری اور وقار کا نہ کبھی سودا کیا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی سمجھوتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی طبیب کے نسخے میں اگر ان اجزا کا مرکب بنایا جائے تو اسے مظفر حنفی کہتے ہیں۔

مظفر صاحب میرے بہت پرانے دوست ہیں اور ہمیشہ سے ہی ان کی کرم فرمائی اور نوازشات کی بارش کی سحر انگیز بوچھار مجھے شرابور کرتی رہی ہے اور المیہ یہ کہ میں اسے کبھی ریٹرن نہیں کر پایا۔ یوں تو میری ملاقات ڈاکٹر مظفر حنفی سے اس زمانے سے ہے جب وہ سیفیہ کالج کے طالب علم اور اس کے بعد سیہور (مدھیہ پردیش )میں محکمۂ جنگلات کے ایک سرکاری افسر تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیہور میری سیاسی زمین ہے اور میدانِ عمل بھی اور پہلی بار میں اسی حلقہ انتخاب سے ۱۹۷۲ء میں ایم ایل اے منتخب ہوا تھا اور بعد میں مدھیہ پردیش سرکار کا وزیر بنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن مظفر صاحب سے زیادہ قرب کے لیے میں ڈاکٹر صغریٰ مہدی کا ممنونِ کرم ہوں اور یہ انھیں کا احسان ہے کہ ان کی وجہ سے مجھے اصلی مظفر حنفی کو سمجھنے اور پہچاننے کا موقع ملا۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ۱۹۸۴ء میں میں ستنا (مدھیہ پردیش) سے لوک سبھا کا چناؤ جیت کر ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوا اور ۳۱۔ کیننگ لین میں بنگلہ مجھے رہائش کے لیے الاٹ کر دیا گیا اور میرا زیادہ وقت دہلی میں گزرنے لگا۔ حالانکہ میرے سگے چھوٹے بھائی مصباح الحسن انڈین ایئر لائنز میں اپنی سروس کی وجہ سے کئی سال پہلے سے دہلی میں رہائش پذیر ہیں اور اس کے علاوہ بھی کئی قریبی عزیز و اقارب تھے لیکن میری سرپرست  بیگم صالحہ عابد حسین ( اللہ تعالیٰ جنت میں ان کے درجات بلند کرے) تھیں۔ جن کو نہ صرف میرے کھانے پینے اور رہن سہن کی فکر رہا کرتی تھی بلکہ میری صحت کے لیے بھی وہ ہمیشہ پریشان رہتی تھیں اور زبردستی ڈانٹ ڈپٹ کر مجھے اپنے مخصوص ڈاکٹر ماتھر کے پاس جو ہولی فیملی اسپتال کے بلکہ یوں کہیے کہ دہلی کے ایک ممتاز ڈاکٹر تھے، مجھے ان کو دکھانے اور علاج کے لیے لے جایا کرتی تھیں۔ کیونکہ میں اس زمانے میں دہلی میں اکیلا ہی رہا کرتا تھا اس لیے مرحومہ بیگم صالحہ عابد حسین نے اور ان کے ساتھ خاندان کے افراد نے جن میں سب سے نمایاں ڈاکٹر صغرا مہدی، ان کے بھائی اور بھابھی ڈاکٹر صفیہ مہدی اور رضا مہدی اور صالحہ آپا کی دو بھتیجیاں ڈاکٹر ذکیہ ظہیر اور ڈاکٹر سیدہ حمید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سب نے مل کر جس طرح میرا خیال رکھا اور اپنے ہی خاندان کے ایک قریبی عزیز کی طرح جتنی میری پذیرائی کی اس احسان مندی کے احساسات کے نقوش تا زندگی دل پر نقش رہیں گے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی بھی بیگم صالحہ عابد حسین کے معتقدین میں سے ایک تھے اور ہم دونوں میں ایک مشترکہ قیمتی اثاثہ جو تھا وہ ڈاکٹر صغرا مہدی کی دوستی تھی اور اکثر عابد وِلا میں اور وہاں کی ادبی محفلوں میں ان سے ملاقات رہا کرتی تھی۔

انھیں دنوں کی بات ہے جب ایک دن میں عابد ولا پہنچا تو مجھے بہت ہی پُر خلوص انداز میں ڈاکٹر صغرا مہدی نے ایک کتاب دکھائی جو ڈاکٹر مظفر حنفی کی تھی اور انھوں نے خصوصی طور پر ڈاکٹر صغرا مہدی کو اپنے قلم سے کچھ عبارت لکھ کر بھیجی تھی جس کی شروعات اقبالؔ کے اس مصرعہ سے تھی:       ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہانِ رنگ و بو۔ ۔ ۔ ۔ ؟

ڈاکٹر صغرا مہدی نے مجھے بڑے فاتحانہ انداز سے اسے دکھاتے ہوئے کہا کہ دیکھیے مظفر صاحب نے ہماری کتنی قدر و قیمت کی اور ہمارے لیے اقبالؔ کا مصرعہ لکھا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ’’ محترمہ یہ تو ٹھیک ہے مگر گستاخی معاف یہ مصرعہ تو جبرئیل نے ابلیس کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے۔ غالباً مظفر صاحب خود اپنا اور آپ کا یہ ہی تعلق سمجھتے ہیں۔ ‘‘ یہ سُن کر صغریٰ مہدی ایک دم خاموش ہو گئیں۔ اس کے بعد مظفر صاحب پر کیا گزری ہو گی یا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ یہ تو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو ’’ عتابِ صغروی‘‘ اور جمالِ صغروی‘‘ دونوں سے واقف ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن میرا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ کچھ دن بعد مجھے ایک بند پیکٹ ملا جس میں مظفر صاحب کی کتاب تھی اور ان کے اپنے ہی مخصوص قلم سے کچھ لکھ کر انھوں نے مجھے بھیجی تھی اور عبارت کچھ اس طرح کی تھی:’’محترم آپ نے جو شوشہ چھوڑا ہے اس کی سراہنا کرتے ہوئے اپنی کتاب آپ کی نذر کر رہا ہوں۔ ‘‘

لیکن ایک حساس شاعر اور ادیب ہونے کے بعد بھی غالباً جہاں تک صنفِ نازک کا تعلق ہے مظفر صاحب میں کچھ شئے لطیف کی کمی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی انھیں دنوں کی بات ہے جب وہ جامعہ ملیہ میں اردو کے پروفیسر اور صغرا مہدی بھی اسی شعبہ میں برسرِ کار تھیں۔ ڈاکٹر صغریٰ کی ایک بہت ہی قریب ترین دوست اور رفیق جو خود بھی ایک دوسرے شعبہ میں لیکچرر تھیں اور اپنے ناز و انداز کے تیر برسانے میں ملکہ رکھتی تھیں ان کا محبوب مشغلہ اپنے عشوہ و غمزہ اور ناز و انداز کا تیر دوسروں پر چلا کر اپنے آس پاس مداحوں کی ایک لمبی قطار لگانا تھی اور بعد میں ان کو بسمل چھوڑ کر اپنی توجہ کسی دوسرے پر مرکوز کرنا تھی۔ لیکن مظفر صاحب نہ جانے کس بلٹ پروف دھات میں ڈھلے ہوئے ہیں کہ ان محترمہ کے کسی بھی نازو انداز کے تیروں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا حالانکہ اُن محترمہ کا ترکش خالی ہو گیا اور ایک دن مظفر صاحب نے بہت ہی پریشان کن انداز میں ڈاکٹر صغریٰ مہدی کو اپنی مدد اور بچاؤ کے لیے آواز دی اور ان سے درخواست کی کہ ’’خدا را اپنی ان دوست کو سمجھائیں کہ وہ یونیورسٹی میں اور پبلک مقامات پر مجھ سے ذرا فاصلہ رکھا کریں۔ ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے جب یہ معلوم ہوا تو میں ڈاکٹر مظفر حنفی کی اس بد ذوقی پر کفِ افسوس ملتا رہ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

یہ سب باتیں تومیں نے خیر زیبِ داستاں کے لیے لکھ دی ہیں لیکن ڈاکٹر مظفر حنفی ان شخصیات میں سے ہیں جن سے ادب اور ادیب کی خود داری اور انسان دوستی کی روایات صرف قائم ہی نہیں بلکہ دوبالا ہو جاتی ہیں اور اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو گا کہ ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت کا ذکر جب مؤرخ کرتا ہے تو خوداس کی اپنی جبیں جگمگانے لگتی ہے اور اس کی خاص وجہ ان کی اپنی انا، خود داری اور قلندرانہ اندازِ فکر اور طرزِ زندگی ہے جو یقیناً دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

میں ان کا مشکور و ممنونِ کرم ہوں کہ انھوں نے میری بارہا درخواست پر اپنی کتاب کو شائع کرنے کی مدھیہ پردیش اردو اکادیمی کو اجازت دی اور آخر میں یہ سب لکھتے وقت مجھے ان ہی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:

انا تھی مظفرؔ کی خنجر بکف

وہاں اور کوئی نہ تھا یا اخی

اور اس کے ساتھ ہی علی جواد زیدی کے ان کے بارے میں لکھے ہوئے یہ الفاظ بھی یاد آرہے ہیں ’’ مظفر کے یہاں انا خنجر بکف ہے اور اسے زخمی بھی کرتی ہے یہاں تک کہ سسکتے اور تلملاتے رہنا قسمت بن جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ اناسناں سے تیز ہے لیکن دل و جگر میں کبھی اس طرح پیوست نہیں ہوتی کہ ذات کا خاتمہ ہو جائے، ذات کا طلسم بکھر جاتا ہے، انا کا جادو مر جاتا ہے لیکن ’’خود آگہی‘‘ آئینہ دکھاتی رہتی ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

                پروفیسر حامدی کاشمیری

        سری نگر

 

 

مظفرؔ حنفی کی شعری شخصیت

 

مظفر حنفی معاصر غزل گو شعراء میں شعری زبان کو Seriously برتتے ہیں یعنی وہ الفاظ پیکریت، علامتیت Intonation  اور بحر و وزن کی غیر مانوسیت اور نفاست شکنی کو راہ دیتے ہیں اور قارئین کو احساس دلاتے ہیں کہ وہ اس روایتی مانوسیت اور نفاست پسندی سے انحراف کر کے بیان و زبان کی جدت کاری کو راہ دیتے ہیں۔ اس طرح سے وہ روایت پسندی کے خول سے باہر نکل کر عالمی سطح پر ایک ایسے شاعر کی صورت اختیار کرتے ہیں جو گرد و پیش کی پھیلی ہوئی سماجی، سیاسی اور نظریاتی شکست و ریخت کا سامنا کرتے ہیں اور اپنے لسانی اور شعری شعور کی جدّت کاری کا احساس دلاتے ہیں۔

وہ بسار نویسی اور زود گوئی سے کام لیتے ہیں جس کا محرک وہ جذباتی وفور ہے جو اُن کی شخصیت کی غیر معمولی قوّت ہے جو ان کی الگ پہچان کی دلالت کرتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                راحت اندوری

 

مظفر حنفی :اختیار کی تراش

 

ڈبو کر خون میں لفظوں کو انگارے بناتا ہوں

پھر انگاروں کو دہکا کر غزل پارے بناتا ہوں

مظفر حنفی کا یہ شعر مجھے اکثر احمد ندیم قاسمی کا یہ قول یاد دلاتا ہے کہ ’’ تخلیقی عمل فن کار کے لیے اپنے اندر ایک مستقل الاؤ جلائے رکھنے جیسا ہے‘‘ مظفر حنفی نے خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر شاعری کی ہے، ان کے اشعار کی حدّت اور تاثیر اس امر کی گواہ ہیں۔

زندگی کے سرد و گرم سے گزر کر شخصی طور پر مظفر حنفی تپ کر کندن ہو گئے ہیں، ہماری مٹی کا وصف ہے کہ کھُردرا پن خون کی طرح رگ و پے میں دوڑتا پھرتا ہے ’’اک ذرا آپ کو زحمت ہو گی‘‘قسم کا تکلف منافقت معلوم ہوتا ہے، عمیق حنفی ہوں یا مظفر حنفی، مزاج کی ٹیڑھ اور لہجے کا ترچھا پن اُن کی مجبوری بھی ہے اور یہی ان کی شخصیت کی شناخت بھی! ہمارے اطراف پھیلی عیاری اور خود اشتہاریت کا مکروہ چہرہ انھیں مستقل کبیدہ خاطر رکھتا ہے، آج سے صدی پہلے کا قصہ ہے مجروح سلطانپوری پاکستان گئے اور مشاہیر کی طرح کچھ اس طرح کی باتیں کہیں جو بیمار ذہنیت کا واضح ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ گمراہ کُن بھی تھیں، مظفر حنفی نے مجروحؔ کے بہانے جگن ناتھ آزادؔ، زبیر رضوی، رشیدحسن خاں، مظہرؔ امام، رام لعل سب کو خوب آڑے ہاتھوں لیا، ان زعماء کے بڑ بولے پن کو بے نقاب کیا۔ حق گوئی کا سوال ہو تو مصلحت فضول سی چیز لگتی ہے۔

ہماری تنقید کا ’’ دیانت دارانہ‘‘ رویّہ طشت از بام ہے، دیکھتے بھوگتے سب ہیں اس کے خلاف آواز کم کم ہی اٹھتی ہے، مظفر حنفی نے محمدحسین آزادؔ اور حالیؔ سے لے کر کلیم الدین احمد، آل احمد سرور اور فاروقی تک کے یہاں ادبی دھاندلی کی نہ صرف نشان دہی کی بلکہ طرف داری کے مقامات کی نمائش لگا دی۔ شکوہ شکایت عموماً مظلوم و  ٭ محروم لوگ کرتے ہیں، مظفر حنفی اس باب میں استثنیٰ ہیں۔ کلکتہ یونیورسٹی کی اقبال چیئر فیض صاحب کو آفر ہوئی تھی اس ذمّے داری سے عہدہ برآ ہونے میں ان کی معذوری کے بعد مظفر صاحب کے حصّے میں آئی۔ یہ بڑا اعزاز ہے، جامعہ کی پروفیسری بعد کی بات ہے۔ مظفر حنفی ہمارے ادب میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں، کم ایسے لوگ ہیں جو ہر سطح پر نا انصافی کو مذموم سمجھتے ہیں اور اپنی نا پسندیدگی کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ کوئی مصلحت آڑے نہیں آتی:

یہی ہونا تھا سب کی آستینیں خون میں تر ہیں

یدِ بیضا کے دعوے دار جتنے ہاتھ باہر تھے

سارے آزاروں کی جڑ ہی یدِ بیضا کی دعوے داری ہے، افسوس کہ یہ دیوی آدمی کو خوب کنوئیں  جھنکواتی ہے، پندار کا جسے ذرا بھی پاس ہے وہ ہرگز در در دستکیں نہیں دیتا، ہمارے معاشرے میں یہ مرض عام ہے، ادب اور سماج میں قابل لحاظ حیثیتوں کے مالک جھوٹی ناموری کی خاطر جب کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ ہوں توسمجھیے معاشرہ سخت ابتلاء کا شکار ہے۔ مظفر حنفی کو جب بھی موقعہ ملا انھوں نے اس مکروہ منظر نامے کی نقاب کشائی کی ہے اور بہت سے پردہ نشینوں کو خفیف کیا ہے پھر چاہے ان میں سے اکثر سے خود ان کی رسم و راہ ہو، اس برہنہ گوئی کے طفیل اکثر یہ ہوا کہ ان کے حاشیہ بردار ہی ان کے در پے آزار ہو گئے۔ لیکن مظفر حنفی نے تخریب کار گروہ کو کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ یہی میرے نزدیک مظفر حنفی کی طاقت ہے۔ پروفیسر خورشید الاسلام مرحوم نے شبلی کے بارے میں لکھا تھا’’ ان کی زندگی میں ایک حد تک صبح کی سپیدی اور شام کا سلوناپن دونوں دکھائی دیتے ہیں۔ ‘‘ مجھے یہ جملہ مظفر حنفی کی زندگی پر بھی حرف بہ حرف مناسب معلوم ہوتا ہے، زندگی کا معتدبہ حصہ کلکتہ اور دلّی جیسے بڑے شہروں میں گزارنے کے باوجود موصوف کے مزاج کی قصباتی بے ریائی اور سادگی نہیں گئی۔ یہی سادگی ان سے وہ کچھ کہلوا لیتی ہے، عافیت کے تقاضے جس کی اجازت نہیں دیتے ان کے مزاج کی شگفتگی انھیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے حظ حاصل کرنے کی صلاحیت مہیا کرتی ہے کسی بد مذاقی کے بغیر خود ہنسنا اور دوسروں کو ہنسانا عالی ظرفی ہے ایسے انسان کو زندگی کے کٹھن مرحلوں سے گزرنے کے لیے خاص اہتمام کی حاجت نہیں ہوتی۔

مظفر حنفی کو میں احترام اور محبت سے Sirکہتا ہوں۔ ملک اور بیرونِ ملک اَن گنت اسفار میں نے ان کے ساتھ کیے ہیں ان سے ایک قربت کا احساس ہمہ وقت رہتا ہے، ایک اپنا پن، گھر کی بات، بزرگ کا ہاتھ، رہبر کا ساتھ، ایک اطمینانی کفالت کی بے فکری۔ کبھی سوچتا ہوں اس رشتے کا کوئی نام تو ہونا چاہیے، کوششوں کے باوجود کوئی نام نہیں سوجھتا۔ یہ مختصر سی تحریر ان کے ایک حقیر مداح کا اظہارِ عقیدت ہے۔ وہ سلامت رہیں ہزار برس۔

٭٭٭

 

’’مظفرحنفی کی شرافت سے میں اتنا ہی ڈرتا ہوں جتنا رامپوری حضرات ان کے استاد شادؔ عارفی کے طنز سے خوف کھاتے ہوں گے، لہٰذا تعمیل ارشاد کے طور پر یہ کہتا ہوں کہ مظفر حنفی نظم میں تھوڑے بہت محتاط یامہذّب دکھائی دیتے ہیں لیکن غزل میں وہ تمام حربے بے تکلف برتتے ہیں جن سے ان لوگوں کو گھبراہٹ ہونے لگتی ہے جو غزل کو گھر بیٹھنے والی کنواری کی طرح منھ پر موٹی اوڑھنی ڈالے ہوئے پند ومواعظت کا مصالحہ یا عشق ومحبت کی چٹنی پیستے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، مگر لطف یہ ہے کہ ان سب بے باکیوں کے باوجود مظفر حنفی اینٹی غزل کے شاعر نہیں بلکہ غزل ہی کے شاعر رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی بے باکیوں کا اظہار تضحیک و رنج کے بجائے اظہار برہمی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ مظفر حنفی غزل کے ان اسالیب کو بھی آزادی سے برت لیتے ہیں جو نسبتاً زیادہ معروف اور قابل قبول ہیں۔ عشق اور زندگی کے وہ تجربات جنھیں انسان فرد واحد کی طرح جھیلتا ہے، سماجی یا انسٹی ٹیوشنل انسان کی طرح نہیں، وہ بھی مظفر حنفی کی شاعری کا طرہ امتیاز ہیں۔

مثبت طور پر دیکھیے تو مظفر حنفی نے انتہائی شگفتہ زمینوں میں رواں دواں شعر کہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نئے نئے ردیف و قافیہ کا ایک فوارہ ہے جو اُبلتا جا رہا ہے ان کی شاعرانہ چالاکی کہیں مات نہیں کھاتی۔ طنزیہ شاعر کی بے خوفی اور حاضر جوابی بھی ان کے یہاں موجود ہے۔ مختلف باتوں کو ایک ہی طرح اور ایک ہی بات کو کئی طرح کہنے کا ڈھنگ انھیں بخوبی آتا ہے۔ شادعارفی کے بعد ان کا دم غنیمت ہے۔ ‘‘

شمس الرحمان فاروقی

 

 

 

 

                نصرت ظہیر

نئی دہلی

 

ایک معذرت نامہ مظفر صاحب کی نذر

 

جب بھی کسی بڑے ادیب کو خراج تحسین ادا کرنے کے لیے مجھ جیسا ادنیٰ ادیب قلم اٹھاتا ہے تو مضمون بالعموم اس بات سے شروع کرتا ہے کہ ممدوح و موصوف سے اس کا ذاتی تعلق کیا ہے، کیوں ہے، کب سے انھیں جانتا ہے اور اس حربے سے وہ اپنے بارے میں سب کچھ بیان کر ڈالتا ہے۔ اس حساب سے اگر میں مظفر حنفی صاحب پر کوئی مضمون لکھوں تو وہ کچھ اس قسم کا ہو گا:

ملک کے سب سے بڑے ادیبوں میں سر فہرست شمار کیے جانے والے ادیب، محقق، ناقد اور شاعر جناب مظفر حنفی صاحب کو میں تب سے جانتا ہوں جب وہ ہمارے محلے میں رہتے تھے اور ہمارے پڑوسی تھے۔ میں نے ان دنوں بے حد امتیازی نمبروں سے انٹر پاس کر لیا تھا اور سائنس میں گریجویشن کی تیاری کر رہا تھا۔ اس سے پہلے ہائی اسکول میں بھی میں نے اسکول میں ٹاپ کیا تھا۔ ان ہی دنوں ایک روز کلاس میں بیٹھے بیٹھے مجھے شاعری کا شوق ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ ایک لمبی سی غزل کہہ ڈالی۔ دوستوں کو غزل سنائی تو وہ دنگ رہ گئے۔ اس سے میرا حوصلہ بڑھا اور میں باقاعدگی سے غزلیں کہنے لگا۔ میں روزانہ پانچ وقت کی نماز پڑھتا اور چھ غزلیں کہہ دیتا۔ اسی دوران ایک مرتبہ میں نے مظفر حنفی صاحب کو مسجد میں دیکھا تووہ بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ چند مہینوں میں ہی میری موٹی سی رف ورک کی کاپی غزلوں سے بھر گئی اور میں بازار سے ایک اور رف کافی خرید لایا۔ راستے میں مظفر حنفی صاحب کہیں جاتے ہوئے دکھائی دیے تو میں نے انھیں سلام کیا جس کا انھوں نے خندہ پیشانی سے جواب دیا۔ آخر جب میں دو رف کاپیاں غزلوں سے بھر چکا تو مجھے خیال آیا اب شعری نشستوں میں شرکت کرنی چاہئے۔ مقامی شعرا میری غزلوں پر خوب داد دیتے، اور کہتے کہ واہ میاں خوب ترقی کر رہے ہو، ایک دن ضرور والد کا نام روشن کرو گے۔ مگر عجیب بات ہے۔ شعری مجلسوں میں مجھے کوئی مدعو نہیں کرتا تھا۔ آخر میں نے خود ہی ایک ادبی انجمن بنا ڈالی اور اس کی ادبی نشستوں کا سلسلہ شروع کر دیا جن میں چائے اور نمکین سے شعرا کی خوب تواضع کی جاتی اور دیر رات تک پورا گھر دادو تحسین کے شور سے گونجتا رہتا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ایک مرتبہ مظفر حنفی صاحب بھی شعری نشست میں تشریف لائے مگر کچھ ہی دیر بعد طبیعت ناساز ہونے کی بنا پر معذرت کر کے رخصت ہو گئے۔ چند سال بعد میرا شعری مجموعہ ایک اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوا تو ادب کی دنیا میں اسے خوب ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور چند ہی دنوں میں اس ضخیم مجموعے کی تمام کاپیاں تقسیم ہو گئیں۔ کئی  مقامی اخباروں نے اس پر شاندار تبصرے بھی شائع کیے۔ اس دوران مظفر صاحب کا تبادلہ کسی دوسرے شہر میں ہو چکا تھا۔ ادھر میرا تخلیقی سفر جاری رہا اور۔ ۔ ۔ ۔ غرض اسی طرح کئی صفحے اپنے کارناموں پر روشنی ڈال ڈال کر سیاہ کرنے کے بعد مضمون کو یوں ختم کرتا۔ ۔ ۔ اُس سال جب مجھے اردو اکادمی نے ایوارڈ دیا اور اس کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو مجھے دور دور سے مبارک باد کے سیکڑوں خطوط موصول ہوئے اور کسی نے مجھے بتایا کہ مظفر حنفی صاحب دہلی واپس آ گئے ہیں۔ اس دوران میری نصف درجن کتابیں مختلف موضوعات پر چھپ چکی تھیں جن پر کسی نہ کسی اردو اکادمی نے سال کی بہترین کتاب کا ایوارڈ ضرور دیا تھا۔ بلکہ ایک اکادمی نے تو بھول سے ایک ہی کتاب پر دو مرتبہ ایوارڈ دے ڈالا، مختصر یہ کہ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مظفر حنفی صاحب ملک کے سب سے بڑے، نقاد، محقق اور شاعر نہیں تو ایک بڑے ادیب ضرور ہیں اور اردو کے اچھے ادیبوں کی کسی نہ کسی فہرست میں ان کا نام ضرور شامل ہو کر رہے گا۔

یقین کیجیے اس مضمون میں پہلے جملے کے ابتدائی حصے کے علاوہ ایک بات بھی درست نہیں ہے۔ اس کے باوجود جو بھی پڑھے گا اس پر یقین کر لے گا کیونکہ اردو والے ایسے ہی ہیں۔

ایک طریقہ توصیفی مضمون لکھنے کا یہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے:

مظفر صاحب ہر لحاظ سے اردو کے ایک پڑھے لکھے ادیب ہیں، جسکا ثبوت یہ ہے کہ جب میری پہلی ملاقات ان سے ہوئی تو انھوں نے دیکھتے ہی مجھے گلے لگا لیا اور کہنے لگے کہ واہ میاں ! آج کل خوب لکھ رہے ہو۔ یقین کرو میں تمھارا کوئی مضمون پڑھے بغیر نہیں چھوڑتا۔ طنز و مزاح کی بات تو جانے دو، سنجیدہ ادب میں بھی کوئی آج کل اتنی عمدہ اور قہقہہ آفریں نثر نہیں لکھ رہا ہے۔

اس کے بعد اپنے مضامین اور نئی کتابوں کا تفصیلی ذکر کرتے کرتے مصنف کو ایک بار پھر ممدوح کی یاد آئے گی اور وہ لکھے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سچ تو یہ ہے کہ مظفر صاحب نے اردو تنقید کو جس مقام پر پہنچا دیا ہے، کوئی دوسرا انگریزی تنقید کو بھی اس مقام پر نہیں پہنچا سکتا۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے اپنے خیال کا اظہار کیا تو کہنے لگے کہ سچ بات تو یہ ہے میاں نصرت ظہیر کہ اس کا سارا کریڈٹ بھی تمہی کو جاتا ہے۔ میں نے حیرت سے پوچھا بھلا وہ کیسے؟ میں تو انگریزی کی الف بے تے بھی نہیں جانتا اور اردو تنقید میں پہلے ہی میرا ہاتھ تنگ ہے۔ اس پر وہ مسکرائے اور کہنے لگے، میاں اتنی کسر نفسی ٹھیک نہیں، مجھے خوب معلوم ہے کہ ساہتیہ اکادمی تمھیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے پر ترجمے کا ایوارڈ دے چکی ہے۔ رہی تنقید تو سچ یہ ہے کہ جو تنقیدی بصیرت تمھارے مضامین میں پائی جاتی ہے وہ اگر پہلے میرے مطالعے میں آ گئی ہوتی تو یقیناً احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا اور کبھی کوئی ڈھنگ کا تنقیدی کام نہ کر پاتا۔ سارا کام تو تم پہلے ہی کر چکے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں مصنف دو تین صفحے اپنی شان میں اور تحریر کرے گا جس کے بعد اسے پھر مظفر صاحب کی یاد آئے گی اور وہ لکھے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حنفی صاحب کا علمی اور ادبی شعور تو بلند ہے ہی ذاتی طور پر بھی وہ بڑے قرینے کے آدمی ہیں۔ ایک بار میرے لباس کو غور سے دیکھنے کے بعد کہنے لگے، واہ کیا جامہ زیبی ہے۔ نیلی پتلون پر سرخ کوٹ اور میچنگ ٹائی۔ کوئی اور پہنتا تو دیکھنے میں دہلی پولیس کا چلتا پھرتا سائن بورڈ لگتا، مگر یہ تمھاری جامہ زیبی ہے کہ اس لباس پر بھی تمھاری نقاست اور حسن انتخاب کی داد دینا پڑتی ہے۔ اسی طرح مظفر صاحب اخلاقی بلندی، شائستگی اور شرافت کے معاملے میں باقی ادیبوں سے برتر ہیں چنانچہ ایک مرتبہ انھوں نے کئی ادیبوں کی موجودگی میں بر سر عام کہا کہ میاں نصرت، تمھاری نثر واقعی لا جواب ہے اور میں ہر ہفتے بے چینی سے تمھارے کالم کا انتظار کیا کرتا ہوں۔ جس ہفتے تم کالم نہیں لکھتے یا اخبار والا کوتاہی کر جاتا ہے تو وہ سارا ہفتہ عجیب بے خودی اور ہشیاری میں گزرتا ہے کہ نہ دن کو سوپاتا ہوں نہ رات کو جاگ سکتا ہوں اور یوں ہفتے کا سارا معمول بدل جاتا ہے۔ یہ سن کر وہاں موجود ادبا کے چہرے حسد سے فق ہو گئے اور ایک ادیب تو جل کر دور جا بیٹھا، وغیرہ وغیرہ۔ یعنی بار بار مظفر حنفی صاحب کا ذکر کرو اور ہر بار ان سے اپنی تعریف میں دو تین جملے کہلواتے چلو، جس کے بعد مضمون اس طور پر ختم ہو گا کہ۔ ۔ ۔ ۔ قصہ مختصر یہ کہ مظفر صاحب علم و فن کا سمندر ہیں اور ان کی تخلیقی و تنقیدی بصیرت ایک ایسا آئینہ ہے جس میں مجھ حقیر فقیر کو بھی اپنی تصویر خود سے بہتر نظر آتی ہے۔ خدا کرے ان کا سایہ ہمارے سروں پر یوں ہی ہمیشہ قائم رہے اور حاسدوں کا منھ کالا ہو۔ آمین، ثم آمین۔

میری مشکل یہ ہے کہ مظفر صاحب پر میں مذکورہ بالا انداز کا کوئی مضمون نہیں لکھ سکتا جس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تووہ میرے پڑوسی رہ چکے ہیں، نہ میں نے ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ امتیازی نمبروں سے پاس کیا، یہاں تک کہ کسی اردو اکادمی سے بھی مجھے مالی مدد نہیں ملی اور میری کتابوں کی تعداد بھی نصف درجن تک نہیں پہنچی۔ علاوہ ازیں میری جامہ زیبی اور کالم نویسی پر بھی مظفر صاحب نے کبھی کچھ نہیں کہا، ہمیشہ خاموشی اختیار کی کہ جہل کا سب سے بلیغ و پُر معنی جواب عموماً یہی ہوتا ہے۔

مظفر حنفی صاحب کے نام سے میں تب سے واقف ہوں جب انھیں مظفر خ ف ی پڑھا کرتا تھا۔ آخر جب میری اردو کچھ ٹھیک ہوئی اور املا کسی قدر بہتر ہوا تب پتہ چلا خفی تو در اصل حنفی ہے۔ بڑا غصہ آیا رسم الخط پر۔ ذرا سا ایک شوشہ چھوٹ جائے تو آدمی جانے کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ اس کے بہت عرصے بعد مظفر صاحب سے میری پہلی ملاقات سہارنپور کی ڈسٹرکٹ جیل پر ہوئی اور شکر ہے کہ جیل کی حدود سے باہر آزاد اور کھلی فضا میں ہوئی۔ یہ کوئی پینتیس برس پہلے کی بات ہے۔ سہ پہر کا وقت تھا اور ہم لوگ جیل کے مین گیٹ کے باہر کھلے میدان میں ایک چارپائی پر بیٹھے تھے۔ بزرگ دوست اور مقبول شاعر مرحوم کوثر تسنیمی کے علاوہ مظفر صاحب کے کلام کو مجھ سے بہتر طور پر سمجھنے والے ہم عمر و ہم جماعت ریاض حیدر کاظمی بھی موجود تھے۔ مظفر حنفی صاحب اپنے کسی دور کے رشتے دار سے ملنے آئے تھے جو پولیس میں تھے اور ان دنوں ڈسٹرکٹ جیل سہارنپور میں تعینات تھے۔ ان کے آنے کی اطلاع کوثر صاحب نے کچھ اس طرح دی تھی، ’’ ارے بھئی، مظفر حنفی شہر میں آئے ہوئے ہیں، ملنا چاہو تو مل لو‘‘۔ مجھ سے پہلے ریاض حیدر نے حامی بھر لی’’ چلیے، کل ہی مل لیتے ہیں۔ ‘‘ کوثر صاحب مسکرائے اور بولے’’ مگر اس کے لیے جیل جانا ہو گا۔ ‘‘ یہ سنتے ہی ریاض نے چائے کا کپ میز پر رکھ دیا۔ ’’ یا علی! کیا وہ جیل میں ہیں ؟‘‘ کوثر صاحب کو لا علمی کی معصومیت سے محظوظ ہونے کا موقع خدا دے۔ دیر تک مکالمے کو کھینچ کر اِدھر اُدھر گھماتے رہے، تب جا کر اصلی بات بتائی۔ ان دنوں ہم لوگوں کے اپنے اپنے علاقوں میں مخصوص چائے خانے تھے اور وہاں دنیا جہان کی باتوں میں اکثر شادؔ عارفی کے اشعار اور مظفر حنفی صاحب کا ذکر رہتا تھا۔ ادبی رسائل میں شائع ہونے والی مظفر حنفی صاحب کی تازہ غزلوں پر بھی بات ہوتی تھی۔ جیل کے باہر مظفر صاحب ہم نو عمروں سے بڑی شفقت کے ساتھ ملے۔ لمبا قد۔ سانولی رنگت، سیاہ بال، دبلے پتلے اتنے کہ مزید دبلے ہوتے تو مشکل سے نظر آتے۔ دیر تک ان سے ادبی دنیا کے حالاتِ حاضرہ و غیر حاضرہ پر گفتگو رہی۔ اگلے روز ان کے اعزاز میں ٹاؤن ہال میں لٹریری کلب کی جانب سے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔ یہ لٹریری کلب مرحوم ظ۔ انصاری اور معروف فلم رائٹر اور شاعر نسیم سہارنپوری نے ان دنوں قائم کیا تھا جب دونوں نے سہارنپور نہیں چھوڑا تھا۔ ان کے جانے کے بعد کلب بھی بند ہو گیا۔ اب اس کا احیا ہوا تھا اور اس کے اعلیٰ عہدیدار، جملہ اراکین اور اصحابِ ثلاثہ ’کوثر تسنیمی، ریاض حیدر اور میں ‘ تھے۔

اس پہلی ملاقات کے طویل عرصے بعد دہلی میں آل انڈیا ریڈیو کی بلڈنگ میں ایک مرتبہ انھیں آتے جاتے دیکھا تو سلام تو کر لیا مگر کوئی اور بات اس لیے نہیں کی کہ وہ مجھے پہچان نہیں پائے تھے اور میرا انھیں کچھ یاد دلانا اس لیے عجیب محسوس ہوتا تھا کہ تب تک میری واقعی کوئی پہچان نہیں تھی۔ پھر تب تک ان کے بالوں میں چاندی اتر آئی تھی اور خفیف سے فربہ بھی ہو گئے تھے۔ تب سے اب تک دہلی میں قیام کے دوران تیس بتیس برسوں میں وہ اور میں ایک دوسرے سے خاصے واقف ضرور ہو گئے تھے لیکن ان سے دو تین ہی ملاقاتیں بالمشافہ و بالمصافحہ ہوئی ہوں گی۔ ٹیلی فونی ملاقاتوں کی تعداد بھی کچھ زیادہ نہیں کہ ان کا ذکر کیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے انھیں اتنا پڑھا، اتنا جانا اور اتنا مانا ہے کہ ملاقاتوں کی اس کمی کا زیادہ احساس بھی نہیں ہوتا۔ ان کی شخصیت در حقیقت میرے لیے اس درجہ عزیز اور محترم ہے کہ سائنسی، منطقی اور معروضی انداز فکر میں خود کو ان کا ہم مکتب و ہم مشرب پا کر کئی بار میں خود اپنا احترام کرنے لگتا ہوں اور اکثر میرے باطن میں یہ صدائیں گونجتی رہتی ہیں کہ جنبش مکن، ہشیار باش، سجدے میں نگاہ رہے، تمام ہوش و خرد پیش بادشاہ رہے، زینت تختِ ہندوستان، نازشِ لوح و قلم، ظلّ الٰہی، شہنشاہ، عالم پناہ۔ ۔ ۔ اور کوئی نہ کوئی مجھے ڈسٹرب کر دیتا ہے۔

اس کے علاوہ مظفر صاحب کسی بڑے ادارے کے سربراہ اور اس قسم کی کوئی سربرآوردہ شخصیت بھی نہیں ہیں کہ ان سے کسی قسم کا فیض اٹھانے کا جذبہ ہی مجھے کوئی ڈھنگ کا مضمون لکھنے کے لیے مہمیز کر دے اور تو اور وہ ادیبوں کے کسی طرح کے گروہی سرغنہ بھی نہیں ہیں کہ ان کی علمیت اور تخلیقی عظمت کے لیے جو احترام میرے دل میں ہے اس کا برملا اعلان کرتے رہنا مجھ پر لازم ٹھہرے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے تعلق سے یادوں کا کوئی ایسا خزانہ بھی میرے پاس نہیں ہے جس کا سہارا لے کر میں کوئی اچھا مضمون لکھ سکوں۔ لے دے کر کچھ تاثرات ہیں جن میں سے ایک کا بیان ضرور کروں گا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ انھوں نے اپنی طویل نظم’ عکس ریز‘ جب کتابی صورت میں شائع کی تھی تو اس میں ظ۔ انصاری کا ایک مضمون بھی شامل کیا گیا تھا جو پورے کا پورا مظفر صاحب کی شاعری اور ان کے اسلوب کے رد میں تھا۔ اس کے علاوہ کوئی بھی مضمون کتاب میں نہیں رکھا گیا تھا۔ کوئی دوسرا ہوتا تو صرف نظم چھاپتا مضمون پی جاتا۔ مگر یہ مظفر صاحب تھے۔ انھوں نے کتاب میں اس مضمون کو نہ صرف من و عن شامل کیا بلکہ اپنی شاعری اور شخصیت کے بارے میں کسی کی کوئی مثبت رائے فلیپ پر یا کہیں اور چھاپنے سے بھی گریز کیا۔ کتاب میں صرف دو چیزیں تھیں، مظفر صاحب کی نظم اور ظ۔ صاحب کا مضمون۔ چنانچہ تیسرا کردار۔ یعنی قاری، یک سوہو کر فیصلہ کر سکتا تھا کہ کس میں کتنا دم ہے۔ میرے دل میں تبھی سے ان کی بڑی قدر ہے۔ اپنی مخالفت کو نہ صرف برداشت کرنا بلکہ اسے سب کے سامنے رکھ دینا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ یہ معروضیت آج کی بہت سی ’ عظمتوں ‘ کے خمیر تو کیا ضمیر تک میں نہیں پائی جاتی۔

کچھ باتیں مظفر حنفی صاحب کے تعلق سے ایسی ہیں جن کا علم لگ بھگ سبھی کو ہو گا۔ مثلاً وہ ایک محتاط تخمینے کے مطابق ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اب تک ان کے پندرہ شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں، دو اور آنے والے ہیں، جن میں ایک کلّیات ( کمان) کی شکل میں ہو گا۔ تحقیق و تنقید کی ۱۶ کتابیں الگ ہیں۔ ۱۴ کتابیں اب تک ترتیب دی ہیں۔ ۶کتابیں بچوں کے لیے لکھی ہیں۔ تین مجموعے ان کے افسانوں کے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے تراجم ہیں۔ یہاں تک کہ اگا تھا کرسٹی اور ارل اسٹینلے گارڈنر کے بھی کئی ناولوں کے ترجمے کر چکے ہیں۔ ماہنامہ نکہت میں ابن صفی کے ساتھ ان کے افسانے شائع ہوتے رہے جو بعد میں ابن صفی کے صرف عمران والے ناول چھاپنے لگا تھا۔ ان سب سے بڑھ کر اپنے استاد اور اردو کے منفرد شاعر شادؔ عارفی کی عظمت کی دریافت اور ان کی باز یافت کا بھی ایک ایسا کام انھوں نے کیا ہے کہ جس کے لیے اردو ادب ہمیشہ ان کا احسان مند اور مقروض رہے گا۔ شاد عارفی پر اپنی پہلی  کتاب ’ ایک تھا شاعر‘ انھوں نے اپنی شریک حیات کے زیور بیچ کر شائع کرائی تھی۔ ہماری اردو اکادمیوں اور دوسرے ادبی اداروں نے اردو ادب کی بڑی خدمتیں کی ہیں مگر یہ قرض ابھی تک کسی نے ادا نہیں کیا ہے اور شاید یہ ادا ہو بھی نہیں سکتا۔

لہٰذا قارئین کرام! میں اپنی اس کوتاہی اور بے بضاعتی کا سر عام اعتراف اور اعلان کرتا ہوں کہ میں مظفر حنفی صاحب کے فن اور ان کی شخصیت پر کوئی ایسا مضمون لکھنے سے قاصر ہوں جو واقعی ان کے لیے بھی شایانِ شان ہو اور میرے لیے بھی کسی قدر توقیر کا باعث بن سکے۔ دعا کیجیے، خدا مجھے اس کی توفیق دے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                افتخار امام صدیقی

 ممبئی

 

 

مظفر حنفی کا ادبی گھرانا

 

پروفیسر مظفر حنفی ( یکم اپریل ۱۹۳۶ء۔ کھنڈوہ، ایم پی )اردو کے اہم ترین شاعر اور نقاد ہیں۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ تنقیدی مضامین، تبصرے، تجزیے اور وضاحتی کتابیات(کچھ جلدیں پروفیسر گوپی چند نارنگ کے ساتھ) مرتب کی تھیں۔ بہت فعال زود گو، مطالعہ ذہن، سنجیدہ، متین۔ شاد عارفی (پ۔ ۱۹۰۰ء۔ م:۸ فروری ۱۹۶۴ء) کے ارشد تلامذہ میں سے ایک استاد کی شاعری کا آہنگ مظفر صاحب کے یہاں بھی نمایاں ہے۔ بہت کھرے شاعر اور کسی ادبی بحث میں سمجھوتہ نہ کرنے والے، کئی شعری مجموعوں اور برطانیہ کا دلچسپ سفرنامہ کے مصنف، مؤلف، مترجم، ایک ہمہ جہت صفات فنکار کا ادبی گھرانا، ان کے دو صاحبزادوں پر مشتمل، صحیح معنوں میں ادبی گھرانا ہے۔ فیروز مظفر (پ۱۹۶۳ء ) نے شاعری سے ہٹ کر اپنے والد کے نثری سلسلے کو، اردو کے مشہور نظم و غزل کے شاعر، ساغر نظامی (پ: ۲۱ دسمبر ۱۹۰۵ء علی گڑھ، م: ۲۷؍فروری ۱۹۸۳ء) کے مکاتیب کے دو مجموعے مکتوبات ساغر نظامی (۲۰۰۱ء) اور ساغر بنام ذکیہ (۲۰۰۳ء) پروفیسر مظفر حنفی سوالوں کے حصار میں (۲۰۰۷ء)  مرتب کر کے اپنی نثری صلاحیتوں کو اردو دنیا میں متعارف کروایا تھا۔ گویا فیروز کو ترتیب و تدوین کا ہنر اپنے والد سے حاصل ہوا۔ اول الذکر دونوں کتابوں کے ’’ پیش لفظ‘‘ میں فیروز نے مکتوب نگاری کی تاریخ اور فن پر تحقیقی شذرات رقم کیے ہیں۔ غالب سے ساغر تک مکتوب نگار حضرات کا سرسری جائزہ بھی لیا ہے فیروز نے اپنے شذرات میں لکھا ہے کہ:

’’غالب نے اپنے خطوں کو نصف ملاقاتوں سے تعبیر کیا ہے۔ یہ بات صرف غالب کے مکاتیب پر ہی صادق نہیں آتی بلکہ اس کا اطلاق دوسرے ادبی خطوط پر بھی ہوتا ہے۔ ہر اچھے خط کا یہ وصف ہونا چاہیے کہ پڑھنے والا محسوس کرے جیسے وہ مکتوب نگار سے دو بہ دو باتیں کر رہا ہے۔ کار و باری مراسلوں کی بات الگ ہے کہ ان میں صرف متعلقہ لوگوں کی دلچسپی ہو سکتی ہے لیکن عام زندگی کے نشیب و فراز کی ترجمانی کرنے والے خطوط چاہے کسی نے لکھے ہوں اور ان کا مخاطب کوئی بھی ہو، پڑھنے والوں کی دلچسپی کا سامان رکھتے ہیں۔ اگر ایسے خطوط کسی ادیب یا شاعر نے قلمبند کیے ہوں تو ان کی قدر و منزلت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ بیانِ واقعہ کے ساتھ ساتھ ایسے خطوط میں ادبیت اور تخلیقی شان بھی موجود ہوتی ہے۔ مزید برآں یہ خطوط متعلقہ فن کار کی شخصیت اور فن کے آئینہ دار بھی ہوتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ خط لکھنے والا اپنے مکاتیب میں کسی ایچ پیچ کے بغیر اپنے مطالب کا اظہار کرتا ہے۔ عام طور پر ایسے خطوط کی اشاعت کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ اس لیے مکتوب نگار بے تکلف وہ باتیں بھی خطوط میں قلم بند کر جاتا ہے جنھیں اپنی خود نوشت وغیرہ میں بیان کرتے ہوئے اسے تکلف ہوتا ہے۔

اردو ادب میں سیاسی رہنماؤں اور قلمکاروں کے خطوط مجموعوں کی شکل میں اکثر منظر عام پر آتے ہیں ان میں غلام غوث بے  خبر، اسد اللہ خاں غالب، مہدی افادی، اقبال، شبلی، نیاز فتح پوری، چودھری محمد علی ردولوی، محمد علی جوہر، ابو الکلام آزاد، فراق گورکھپوری، حنیف اخگر، شاد عارفی، سعادت حسن منٹو وغیرہ بطور خاص لائق ذکر ہیں۔

( مکتوباتِ ساغر نظامی۔ ص ۷۔ ۸)

’’خطوط میں زندگی اپنے حقیقی خد و خال میں جاگتی نظر آتی ہے۔ مشاہیر کے خطوط ان کی سوانح حیات اور شخصیت کے ارتقاء کے متعلق بہت قیمتی مواد فراہم کرتے ہیں۔ یہ مواد خود نوشت سوانح عمریاں بھی فراہم کرتی ہیں۔ لیکن خود نوشت سوانح اور خطوط نگاری میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اول الذکر کے باب میں قطعی طور پر یہ باور نہیں کیا جا سکتا کہ سوانح نگار نے اپنے حالات زندگی بے کم و کاست پیش کیے ہوں گے کیوں کہ انسان اپنی فطری کمزوریوں کو خود منظر عام پر لانے کا عادی نہیں ہوتا اور حتی الامکان اپنے عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ اور خود نمائی اس کی فطرت ہوتی ہے۔ اس طرح خود نوشت سوانح حیات میں احتیاط، دروغ بیانی مصلحت اور خودستائش کی آمیزش ہوتی ہے لیکن خطوط اس قسم کی احتیاط اور خود نمائی سے پاک ہوتے ہیں۔ ‘‘(خطوط بنام ساغر۔ ص ۸)

فیروز کا مطالعہ بھی اپنے والد کی طرح سمندروں سمندر ہے، گھر کا ذاتی کتب خانہ بے مثال ہو گا کیوں کہ مظفر صاحب نے وضاحتی کتابیات کے تحت سال بہ سال کی مطبوعات ذخیرہ کر رکھی ہیں۔ رسائل و جرائد بھی ہوں گے۔ پوری اردو دنیا سے مشاہیر کے خطوط کا بھی زبردست ذخیرہ ہو گا۔ اس طرح مشاہیر بنام مظفر حنفی اور مظفر حنفی بنام مشاہیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کام حنفی صاحب کے لائق و فائق صاحبزادے فیروز مظفر ہی سے ممکن ہے۔

(۲)

مظفر حنفی صاحب کا شعری ورثہ ان کے چھوٹے صاحبزادے پرویز مظفر (۵؍ مئی ۱۹۶۵ء مظفر نگر)میں بھی منتقل ہوا ہے۔ پرویز فطری شاعر اور مطالعہ باز فنکار ہیں۔ شاعر کے شمارہ خصوصی ’’ کل آج اور کل‘‘ میں ان پر گوشہ شائع ہوا تھا۔ ان پر ۲۰۰۶ء کا یہ شمارہ کمیت کے اعتبار سے کسی بھی طرح مکمل گوشے سے کم نہیں تھا۔ پہلی بار پوری دنیا نے پرویز کی شاعری کو جی بھر کے سراہا اور داد دی۔ پرویز کا شعری مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے لیکن ادبی رسائل میں شاعری کی اشاعت سے چہار سمتوں میں ان کی شاعری کی گونج سنائی دیتی ہے۔

پرویز نے غزل اور نظم ہر دو اصناف میں اپنے تخلیقی جوہر کا اظہار کر کے مظفر حنفی کے صحیح جانشین ہونے کا خاموش اظہار کر دیا ہے۔ ان کی خاموشی ہی ان کی شہرتوں کا سبب ہوئی۔

خموشی میں بھی فائدہ ہے بہت

زیادہ شکایت بھی اچھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

                ڈاکٹر عبد الرحیم نشترؔ

      ناگپور

 

 

ہمارے مظفر حنفی کا بچپن

 

عہدِ حاضر کے ممتاز و منفرد شاعر، صاحبِ طرز نقاد، باریک بیں محقق، نمایاں افسانہ نگار، بہترین مترجم اور ماہرِ ادبِ اطفال پروفیسر ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب نے اپنی شاندار اور جاندار تخلیقات سے ادبِ اطفال کو بھی مالا ما ل کیا ہے۔ اُنکی شوخ، چلبلی اور دل کو چھو لینے والی نظمیں بچوں کو بہت اچھی لگتی ہیں جبکہ بچوں کے والدین بھی ان نظموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مظفر حنفی نے اپنی عمر کے ۷۷ برس مکمل کر لیے ہیں۔ ان کی تخلیقات پڑھ کر دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اور اتنی ہی عمر سے نوازے۔ آج بھی ان کے قلم اور ان کی فکر میں ایسی تازگی اور روانی پائی جاتی ہے جسے دیکھ کر بہت سے لوگ رشک کرتے ہیں اور بہت سے لوگ جلنے لگتے ہیں۔ یہ رشک و حسد کا سلسلہ ان کے بچپن سے جاری ہے۔

مظفر حنفی کے والد عبدالقدوس منشی صاحب کھنڈوہ میونسپل کمیٹی کے مین اردو پرائمری اسکول میں ٹیچر تھے۔ وہ نہایت جفا کش اور ایمان دار آدمی تھے۔ روزانہ اسباق کی تیاری کر کے اسکول جاتے۔ بڑی دیانت داری سے اپنا فرض ادا کرتے۔ انھیں شعر و شاعری کا ذوق تھا۔ بچوں کے لیے عام فہم، سبق آموز اور دلچسپ نظمیں بھی لکھا کرتے تھے۔ ان کی ہینڈ رائیٹنگ بہت عمدہ تھی۔ انھوں نے اپنے بعض اشعار کے طغرے تیار کر کے کلاس روم کی دیواروں کو سجا رکھا تھا۔ نہایت سلیقہ مند اور نفاست پسند آدمی تھے۔ ہمیشہ صاف ستھرے اور استری کیے ہوئے کپڑوں میں ملبوس رہتے۔ پیروں میں چم چماتے ہوئے جوتے پہنا کرتے اور صاف ستھری ٹوپی سے سر ڈھکا رہتا۔

بچے ان کا بے حد ادب و احترام کرتے اور ان پر جان بھی چھڑکتے تھے کیونکہ وہ بچوں کو بنانے اور سنوارنے کے لیے پوری دیانت اور ایمانداری کے ساتھ محنت کرتے تھے۔ پڑھانے کے علاوہ انھیں خود بھی مطالعے کا بڑا شوق تھا۔ کھنڈوہ کے لوگ ان کی تہذیب و شرافت، محنت و ریاضت اور فرائض کی ادائیگی کے دل سے قائل تھے۔ اسی لیے انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

مظفر حنفی کی والدہ کا نام خاتون فاطمہ تھا۔ وہ قصبہ ایرایاں سادات کے میر ولایت حسین کی بیٹی تھیں۔ ان کے زمانے میں لڑکیوں کی تعلیم کا رواج نہ تھا۔ لڑکیاں پردے میں رہتیں۔ گھر کے کام کاج کرتیں اور روزے نماز سے لگی رہتی تھیں۔ خاتون فاطمہ ایک مدرس کی بیوی تھیں۔ گھر میں پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا۔ تعلیمی محرومی کے احساس نے ان کے دل میں بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی خواہش پیدا کر دی تھی۔

یکم اپریل ۱۹۳۶ء کو ہمارے مظفر حنفی کھنڈوہ میں پیدا ہوئے تو ماں باپ کی خوشی کا پوچھنا ہی کیا تھا۔ بچے کا نام محمد ابو المظفر رکھا گیا۔ تین لڑکیوں کے بعد یہ پہلا لڑکا تھا۔ اسی لیے ماں باپ اور بہنوں کی آنکھوں کا تارا تھا۔ سب اسے بے حد چاہتے تھے۔ تین برس کی عمر ہوئی تو عبدالقدوس منشی صاحب بچے کو اپنے ساتھ اسکول لے جانے لگے۔ بچہ بھی اسکول کی تعلیمی فضا میں گھل مل گیا۔ عبد القدوس منشی صاحب بچوں کی نفسیات سے واقف تھے۔ انھیں طرح طرح کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں میں لگائے رکھتے۔ کبھی نظم خوانی ہو رہی ہے۔ کبھی گیت گائے جا رہے ہیں۔ کبھی کہانیاں سُنائی جا رہی ہیں۔ کبھی پہاڑوں کی گردان، کبھی خوش خطی کی مشق اور کبھی ان کے پسندیدہ کھیل! ہمارے تین سالہ مظفر حنفی بھی کھیل کھیل میں بہت کچھ سیکھتے جا رہے تھے۔ دن بھر اسکول میں دل لگا رہتا۔ شام کو چھٹی ہوتی تو مسجد کا رُخ کرتے۔ مغرب کی نماز پڑھتے اور پھر رات کا کھانا کھا کر سو جاتے۔

چار سال کی عمر میں بچے کو ایک ایسے مدرسے میں داخل کر دیا گیا جہاں اسے اپنے ابّا کا ساتھ میسر نہ تھا۔ دور کے مدرسے میں تعلیم تو اچھی تھی لیکن نظم خوانی اور کہانیوں کے مزے غائب تھے۔ بچے نے شکایت کی تو ابّا جی نے دو تین رسالے جاری کرا دیے۔ اس دور کے سب سے مشہور رسالے ’’ پھول‘‘ اور ’’ غنچہ‘‘ کے مطالعے سے ابو المظفر کا اکیلے پن کا احساس جاتا رہا۔ یہ دونوں رسالے اس کے بہترین ساتھی بن گئے۔ مطالعے کے سوا کوئی اور شوق نہ تھا۔ کتاب خوانی ہی ان کی سب سے بڑی تفریح تھی اور اسی مطالعے اور کتاب دوستی کی وجہ سے وہ بہت سی خرابیوں اور برائیوں سے بچے رہے۔ حفیظ جالندھری اور احمد ندیم قاسمی جیسے مقتدر شاعر و ادیب ’’ پھول‘‘ کے مدیران تھے، انھوں نے رسالے کو اتنا دلچسپ، سبق آموز اور مفید و کار آمد بنا دیا تھا کہ یہ رسالہ بچے تو کیا بڑوں کے ہاتھ سے بھی نہیں چھوٹتا تھا۔ ابو المظفر کے لیے رسالہ ’’ پھول‘‘ ایک بڑی نعمت تھا۔ اس کے مطالعے سے اس کے ذہن کے دریچے کھلنے لگے تھے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ چار پانچ برس کا بچہ کہانیوں کی ننھی منی کتابیں اور غنچہ و پھول جیسے رسالے پڑھ کر ان سے لطف بھی لینے لگا تھا۔ چھوٹی عمر میں کتابوں سے دوستی کرنے اور کتابوں کو اپنا رفیق بنانے والے اکثر لوگ بڑے ہو کر خود بھی ادیب و شاعر بن جاتے ہیں یا جس شعبے کی کتاب خوانی کا انھیں شوق ہوتا ہے اسی شعبے میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اردو ادب ہی نہیں دنیا کی بہت سی زبانوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی بچپن کے مطالعے سے فیضیاب ہونے والی ایک عظیم ہستی ہے۔ مولانا نے اردو نثر میں بڑی بے مثال اور لازوال کتابیں لکھی ہیں۔ وہ ہماری جنگ آزادی کے ایک ہیرو اور ناقابلِ فراموش شخصیت ہیں۔

ہمارے مظفر حنفی نے بھی پانچ برس کی عمر سے کتابوں کو اپنا دوست بنایا تو اس دوستی میں کبھی فرق نہیں آنے دیا۔ کتابوں کی رفاقت یعنی مطالعے کی عادت کی وجہ سے وہ خود کتابیں لکھنے کے قابل بن گئے۔ انھوں نے ۱۹۵۳ء میں بچوں کے لیے ایک بڑی دلچسپ کتاب ’’ بندروں کا مشاعرہ‘‘ لکھی تھی۔ اسی طرح بچوں کی کہانیوں پر مشتمل ۱۹۸۳ء میں ’’نیلا ہیرا‘‘ کے نام سے جو کتاب شائع ہوئی اسے بچوں اور بڑوں نے یکساں پسند کیا تھا۔ ان دو کتابوں کے علاوہ مظفر صاحب کی بے شمار کتابیں ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بچپن میں کتابوں سے دوستی کرنے اور صحیح فائدہ اٹھانے والے مستقبل میں بڑے آدمی ضرور بنتے ہیں۔

۱۹۴۳ء میں مظفر حنفی اپنی ننھیال آ گئے تھے۔ یہاں ان کی فطری صلاحیتوں پر خوب رنگ چڑھا۔ دن رات پڑھنا پڑتا، سخت محنت کرنی پڑتی۔ امی جان بھی رعایت نہ کرتیں۔ مولوی صاحب (للّی ماموں ) اور دوسرے استاد بھی مروّت نہ کرتے لیکن اس محنت و مشقت سے ان کا دماغ روشن ہو گیا۔ ان کی ذہانت اور ذکاوت کے نور نے انھیں کامیابی اور ترقی کا راستہ دکھا دیا۔

ان کے سارے ہم مکتب عمر میں ان سے بڑے اور تندرست و توانا تھے اور یہ خود سات برس کے دُبلے پتلے اور سیاہ فام! جسمانی لحاظ  اور شکل و صورت سے ان میں دوسروں کو متاثر کرنے والی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ ہر بڑا لڑکا انھیں ڈراتا دھمکاتا رہتا۔ اسی لیے جماعت میں اکثر بھیگی بلّی بنے رہتے تھے لیکن فطری ذہانت، لکھنے پڑھنے اور سیکھتے رہنے کی لگن اور مسلسل محنت و ریاضت کی وجہ سے وہ ہم جماعتوں پر بھاری پڑتے تھے۔

اس زمانے میں چوتھی کے پرائمری امتحان کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ امتحان انسپکٹر آف اسکولس یا ڈپٹی انسپکٹر لیا کرتے تھے۔ درجۂ چہارم کا ایک ایک بچہ ان کے سامنے پیش ہوتا اور وہ مختلف سوالات پوچھ پوچھ کر نتیجہ تیار کرتے۔ مظفر حنفی کی پیشی ہوئی تو یہ کچھ کچھ ڈرے ڈرے سے حاضرِ خدمت ہوئے۔ ان سے بھی مختلف مضامین کے سوالات پوچھے گئے جوابات سننے کے بعد انسپکٹر صاحب نے اسکول مدرس زوّار حسین صاحب کو بلایا اور ان سے کچھ بات چیت کی۔ مظفر حنفی چپ چاپ دیکھتے رہے۔ دل میں ڈرے کہ کہیں ان کی شکایت تو نہیں کی گئی۔ پھر تو امّی جان چھوڑیں گی نہیں۔ غرض سہمے سہمے سے گھر پہنچے تو امّی جان کو دروازے بر ہی موجود پایا۔ اِن کی تو گویا جان ہی نکل گئی لیکن خلافِ توقع امّی جان نے دوڑ کر انھیں گود میں اٹھا لیا اور لپٹا لپٹا کر پیار کرنے لگیں۔

مظفر حنفی کے ماموں زوّار حسین صاحب بھی وہاں بحیثیت ٹیچر موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ مظفر حنفی تو تمام سیکشنوں میں اوّل آئے ہیں اور انسپکٹر صاحب نے ان کے لیے وظیفے کی سفارش بھی کر دی ہے۔ تعلیم و تربیت کے لیے والدین اور اساتذہ نے جو سخت رویہ اپنایا تھا اس کا بہترین ثمر ملا۔

اب مظفر حنفی پر دوسرا ستم یہ ہوا کہ امّی جان نے ایک مولوی صاحب کو ان کے سر پر مسلط کر دیا۔ اب ننّھے میاں کو اسکول کے اوقات کے علاوہ صبح سات بجے سے دس بجے تک اور شام میں پانچ بجے سے ساڑھے سات بجے تک عربی بھی سیکھنی پڑتی۔ مولوی صاحب ان کے ابّا عبد القدوس منشی یا دوسرے ٹیچروں کی طرح مہربان اور دلچسپ آدمی نہیں تھے۔ یہ تو ہمہ وقت پڑھاتے رہتے اور سرپر سوار بھی رہتے۔ کیوں میاں سبق یاد ہوا کہ نہیں۔ مولوی صاحب بچارے بھی مجبور تھے۔ آخر بہن کا بچہ تھا اس کی پڑھائی پر خصوصی توجہ تو ضروری تھی۔ ننّھے میاں نے مولوی صاحب کو ’’ للّی ماموں ‘‘ کا نام دے رکھا تھا اور انھوں نے بھی مار مار کر بھانجے کو ایک پارہ کا حافظ بنا ہی ڈالا۔

مغرب کی اذان ہوتی اور ہمارے ننّھے میاں کی شامت آ جاتی۔ چار و ناچار انھیں امامت کرنی پڑتی۔ بڑی عمر کے ان کے سارے ہم مکتب مقتدی ہوا کرتے۔ ننھے میاں کو معلوم تھا کہ مولوی صاحب باریک بینی کے ساتھ نگرانی کر رہے ہیں۔ در اصل یہ نماز اور امامت ننّھے میاں کے حافظے اور قراء ت کی آزمائش ہوا کرتی تھی۔ وہ بڑی خوش الحانی کے ساتھ بڑی بڑی سورتیں پڑھتے اور صحیح ڈھنگ سے نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے مگر کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہو جاتی اور تب مولوی صاحب ان کی اچھی خبر لیتے۔ مولوی صاحب سے جان چھوٹتی تو ہم جماعت لڑکے گھیر لیتے کہ مغرب کی نماز میں اتنی لمبی سورتیں کیوں پڑھیں ؟ بچارے ننّھے میاں دونوں طرف سے پٹتے اور منہ بسور کر رہ جاتے۔ امّی سے شکایت بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اس صورت میں بھی انھیں ہی مار کھانی پڑتی۔

مولوی صاحب ننّھے میاں کو جلد سے جلد حافظِ قرآن بنا دینا چاہتے تھے۔ انھیں ننّھے میاں کے حافظے اور ان کی سخت محنت و مشقت کی وجہ سے پوری امید تھی کہ وہ ایک کمسن بچے کو پورا حافظ بنانے کا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔ چنانچہ رات بے رات بھی ننّھے  میاں کو بخشا نہیں جاتا تھا۔

سردیوں کا موسم ہوتا اور کڑکڑاتی ٹھنڈی رات ہوتی، ننّھے میاں مزے سے لحاف میں دُبکے پڑے ہوتے کہ مولوی صاحب کسی جن کی طرح نمودار ہو جاتے۔ امّی جان بڑی بے مروتی سے بچے کو جگاتیں اور مردانہ کمرے میں ہانک دیتیں۔ اب آدھی رات ہوتی۔ ننّھے میاں ہوتے اور مولوی صاحب کی فرمائش۔ وہ جب تک بلند آواز میں قراء ت کے ساتھ ایک دو رکوع نہ سُن لیتے۔ ننّھے میاں کی جان نہ چھوٹتی۔

غرض آٹھ نو برس کی عمر میں مظفر حنفی نے چوتھی جماعت کے امتحان میں نمایاں کامیابی بھی حاصل کر لی اور قرآن پاک کے ایک پارے کے حافظ بھی ہو گئے۔ ان دنوں مظفر حنفی کو اپنے ’’ للّی ماموں ‘‘ مولوی صاحب پر بڑا غصّہ آتا تھا مگر اب ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہوں گی۔

مولوی صاحب کی مشق و ریاضت کی تربیت کے فیض سے مظفر حنفی نے آئندہ زندگی میں بہت فائدہ اٹھایا۔ وہ ہمیشہ کے لیے محنتی بن گئے۔ کوئی مرحلہ ہو، کوئی آزمائش اور کوئی امتحان ہو انھوں نے محنت سے جی نہیں چرایا۔ جب تک مقصد پورا نہ ہو جائے اور گوہرِ مراد سے دامن نہ بھر جائے، وہ محنت کرنے سے نہیں تھکتے۔ اسی لیے ان کا کوئی کام ادھورا نہیں رہتا اور وہ کبھی ناکام و نامراد نہیں رہتے۔ بچپن کی سختیوں نے ان کی باقی زندگی کو آسان ہی نہیں نہایت شاندار اور قابلِ رشک بھی بنا دیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

                سپاس نامہ

 

جدید شاعری کا معتبر نام : پروفیسر مظفر حنفی

 

                بموقع سمینار و جلسہ اعزازی کرناٹک اردو اکیڈمی

مؤرخہ: ۲۰ ؍ نومبر ۲۰۱۲ء

 

اردو زبان و ادب میں اصناف سخن کی کوئی کمی نہیں ہے، مگر ان اصناف سخن میں غزل کو جوم قبولیت حاصل ہے وہ کسی اور صنف سخن کو حاصل نہیں ہے۔

غزل اردو شاعری کی آبرو ہے۔ اس نے اپنے طویل سفر میں کئی طرح کے حالات کا سامنا کیا۔ مگر اپنی تازگی و دلنوازی سے کبھی محروم نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس صنف کو نئی مقبولیت سے ہمکنار کرنے کے لیے ہر دور میں نابغۂ روزگار قسم کے شاعر پیدا ہوتے رہے۔ انہیں نابغۂ روزگار شاعروں میں سے ایک کا نام مظفرؔ حنفی ہے۔ مظفر حنفی غزل کے ایسے البیلے اور طرح دار شاعر ہیں جن کی آواز دور ہی سے پہچان لی جاتی ہے۔ انھوں نے غزل کو جو کاٹ دار لہجہ دیا ہے اور کھردرے لفظوں سے نازک جذبات کی عکاسی کا جو سلیقہ اردو غزل کو سکھایا ہے وہ بس انھیں سے مختص ہے۔ ان کی شاعری زندگی کی سچی تصویروں سے مملو ایسی شاعری ہے جس میں سماج و معاشرے کا ہر فرد اپنے اصلی چہرے کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جدید شاعری کو جن شعرا کی وجہ سے اعتبار و وقار حاصل ہوا ان میں مظفر حنفی کا نام سب سے نمایاں ہے  تو بے جا نہ ہو گا۔

پروفیسر مظفر حنفی کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو اتنا جامع ہے کہ کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود ان کی اصل شناخت اردو غزل کو نئے لہجے اور آہنگ سے ہمکنار کرنے والے شاعر کی حیثیت سے ہی ہوتی ہے۔ ان کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی پامال راستے پر چلنا گوارہ نہیں کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ جس میدان میں بھی نکل گئے اس کے شہسوار بن گئے اور اپنی واضح چھاپ چھوڑی۔ ان کی تحقیقی اور تنقیدی صلاحیت کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے جب شاد عارفی کے فکر و فن کو اپنا موضوع بنایا تو ان کی تمام تر تخلیقی جہات کو اس طرح واضح اور روشن کر دیا کہ ہر کوئی ان کی شاعرانہ انفرادیت کا قائل ہو گیا اور جب بچوں کے ادب کی طرف راغب ہوئے تو نہ صرف یہ کہ بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں، ناول ترجمہ کر کے شائع کرایا، بلکہ اس پایہ کی نظمیں کہیں کہ ادب اطفال کے سرمایہ میں اضافہ قرار دی گئیں۔ اسی پر بس نہیں ہے انھوں نے ادب اطفال کے محقق کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت بنائی۔ اور ایک مثالی اور آئیڈیل استاد والی شبیہ کو بھی برقرار رکھا۔ ان کی تصنیف و تالیف کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ اب تک ان کی تقریباًساٹھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور کئی اہم انعامات و اعزازات سے سرفراز کیے جا چکے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ مظفر حنفی نے بحیثیت پروفیسر اقبال چیئر کے نہ صرف یہ کہ اپنی اقبال شناسی کا ثبوت پیش کیا بلکہ نئی نسل کو فکر اقبال سے روشنی حاصل کرنے کے قابل بھی بنایا۔

ان تمام شعبوں میں اپنا انفراد و امتیاز قائم رکھتے ہوئے انھوں نے جس مثالی تخلیقی قوت مندی اور اختراع پسندی کا ثبوت دیا اور اردو غزل کو نئے اسالیب اور لہجے سے آشنا کیا اور اپنے تیکھے تیور سے اس کی کائناتِ فکر و نظر میں وسعت پیدا کی وہ اردو غزل کو ان کی سب سے بڑی دین ہے اور کہنا چاہیے کہ یہ اسلوب اردو غزل کو بہت دیر تک دلکش بنائے رکھے گا۔ ایسے نابغۂ روزگار فنکار اور ناقد و محقق کا ہمارے درمیان تشریف لانا کسی اہم واقعے سے کم نہیں ہے۔

یہ ان کے خلوص اور اردو سے محبت کی دلیل ہے کہ انھوں نے کبر سنی اور اپنے مقام و مرتبے کی بلندی کے باوجود ہماری دعوت قبول کی اور ہمارے لیے سفر کی صعوبتیں برداشت کیں اور یہاں تشریف لا کر ہماری اجرائی تقریب کو پُر وقار بنایا، ہم ان کے سپاس گزار ہیں کہ انھوں نے ہمیں اپنے اخلاقی تعاون سے نوازا۔ اللہ ان کی عمر دراز کرے تاکہ اردو کی نئی پود تا دیر ان سے کسب فیض کرتی رہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

تہنیت نامہ۔۔ جدید لب و لہجے کے معتبر شاعر و ادیب مظفرؔ حنفی کی نذر

 

                بموقعہ: اجرا  45کتب، کرناٹک اردو اکیڈمی

مؤرخہ: ۲۰ ؍ نومبر ۲۰۱۲ء
نتیجۂ فکر:حافظؔ کرناٹکی (چیئر مین کرناٹک اردو اکادمی بنگلور)

 

جس کے فن میں جدت کی سر مستی ہے

اس شاعر کا نام مظفر حنفی ہے

جس نے اک اک لفظ سلیقے سے برتا

صَرف و نحو کے ٹھوس حوالے سے برتا

ہر ناقد نے جس کی بڑائی کی تسلیم

جس نے قلم کو خاص قرینے سے برتا

جس کے لہجے میں اک حوصلہ مندی ہے

اس شاعر کا نام مظفر حنفی ہے

مشکل سا ہے جس کا تقابل اوروں سے

بڑھ چڑھ کر ہے جس کا تحمل اوروں سے

جس کا ہمسر کوئی نہیں خود اس کے سوا

جس نے زیادہ پایا تعقل اوروں سے

فکر و نظر سے جس کا تعلق فطری ہے

اس شاعر کا نام مظفر حنفی ہے

جس کی سوچیں گہرائی کا آئینہ

جس کی جبیں کی شکنیں کیا ہیں تخمینہ

جس کا لہجہ مہنگا ہے ہر لہجے سے

جو ہے سر تا پا فن کا اک گنجینہ

جس کا مسکن شعر و غزل کی بستی ہے

اس شاعر کا نام مظفر حنفی ہے

جس کی کھلی آنکھوں نے شبوں کو چمکایا

جس کی سانسوں نے صبحوں کو مہکایا

جس کا نام ضمانت ہے سچے فن کی

جس کی شہرت نے ہر اک کو للچایا

جس کا چرچا آج بھی نگری نگری ہے

اس شاعر کا نام مظفر حنفی ہے

جس کو پڑھنے والا سر کو دھُنتا ہے

اُس کی نوا کو دلچسپی سے سنتا ہے

حافظؔ جس نے موتی بانٹے تخیل کے

ہر اک جس کی فکر کے گوہر چُنتا ہے

جس کی اک اک بات ہنر پر مبنی ہے

اس شاعر کا نام مظفر حنفی ہے

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید