FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               بہادر یار جنگ

 

(یوم اقبال کے  سلسلے  میں  ۱۵ دسمبر ۱۹۴۰ء کو زمرد محل ٹاکیز (حیدر آباد)  میں  جناب سید عبدالعزیز صدر المہام حکومت آصفیہ کی زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا گیا تھا اس جلسے  میں  حضرت قائد ملت نے  ’’اقبال کا پیام آزادی ‘‘ پر جو بصیرت افروز تقریر فرمائی وہ ہدیۂ  ناظرین ہے۔ )

 

حمد و نعت کے  بعد فرمایا:

خرد کی تنگ دامانی سے  فریاد

تجلی کی فراوانی سے  فریاد

گوارا ہے  اسے  نظارۂ غیر

نگہ کی نا مسلمانی سے  فریاد

سچا شاعر وقت کے  دربار کا نقیب ہوتا ہے  اور وہی باتیں  اس کی زبان سے  شعر کا جامہ پہن کر نکلنے  لگتی ہیں  جو وقت کی ضرورت اور زمانہ کا تقاضہ ہوتی ہیں۔ اگر اقبال انیسویں  صدی میں  پیدا ہونے  کے  بجائے  پندرہویں  صدی یا سولہویں  صدی میں  پیدا ہوتے  تو شاید ان کی شاعری میں  ہم کچھ اور پاتے۔ ہماری خوش نصیبی سے  وہ اس زمانہ میں  پیدا ہوتے  ہیں  جب کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ سارا عالمِ اسلام نہ صرف عالم اسلام بلکہ سارا جہانِ مشرق معاشی، سیاسی اور ذہنی حیثیت سے  مغرب کی غلامی کی لعنت میں  گرفتار تھا۔ اقبال کا دل اور وہ حساس دل جس کو قدرت کا بہترین عطیہ کہنا چاہئے  اپنے  ماحول کی ان کیفیات سے  تڑپ اٹھتا ہے  اور وہ اپنی اس غلامی کا نوحہ پڑھنے  لگتے  ہیں  کہتے  ہیں    ؂

شرق و غرب آزاد و مانخچیرِغیر

خشتِ ما سرمایۂ  تعمیرِ غیر

زندگانی بر مرادِ دیگراں

جاوداں  مرگ است نے  خوابِ گراں

ترجمہ 🙁  مشرق اور مغرب آزاد ہیں  اور ہم غیر کا شکار (غلام) ہیں  اور ہماری اینٹ غیر کی تعمیر کا سرمایہ ہے  (دوسروں  کی مرضی کے  مطابق ) زندگی، محض گہری نیند نہیں  بلکہ مرگِ جاودانی ہے۔ )

جب وہ سیاسیات حاضرہ کی تماشہ گاہ پر نظر ڈالتے  ہیں  تو ان کو ہر طرف اصحا بِ تسلط و استبداد کی مکر سامانیوں  اور فریب کاریوں  سے  سابقہ پڑتا ہے، ان کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے  کہ غلاموں  میں  کس طرح نشہ ٔ غلامی کو تیز تر کرنے  کی کوشش کی جا رہی ہے  اور غلاموں  کے  قلب و دماغ کو کس طرح دیوار محبس میں  آسودہ رہنے  کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ وہ مرغِ زیرک کی دانہ مستی پر تڑپ جاتے  ہیں  اور اس سیاسیات حاضرہ کو توڑنے  پر آمادہ ہو جاتے  ہیں  اور اس کی نسبت یوں  نغمہ سرا ہوتے  ہیں    ؂

می کند بندِ غلاماں  سخت تر

حرّیت می خواند اُو رابے  بصر

در فضایش بال و پر نتواں  کشود

باکلیدش ہیچ در نتواں  کشود

گفت بامرغِ قفس ’’اے  درد مند

آشیاں  درخانۂ صیاد بند

ہر کہ ساز و آشیاں  در دشت و مرغ

اونبا شدایمن از شاہین و چرغ‘‘

از فسونش مرغِ زیر ک دانہ مست

نالہ ہا اندر گلوئے  خود شکست

الحذر از گرمیٔ گفتارِ اُو

الحذر از حرفِ پہلودار اُو

(ترجمہ  :

(دورِ حاضر کی سیاست) غلامی کے  بند (قید) کو اور سخت کر دیتی ہے۔ حریت (آزادی)  اسے  بے  بصر (اندھا ) کہتی ہے۔

(ملوکیت کی) اس فضاء میں  پرواز ممکن نہیں۔ اس کی کنجی سے  کوئی دروازہ نہیں  کھل سکتا (یعنی کوئی مسئلہ حل نہیں  ہو سکتا)

(ملوکیت) قفس میں  قید،پرندہ سے  کہتی ہے  کہ ’’(غلامی پر رضا مند ہو کر) شکاری کے  گھر میں  اپنا آشیانہ بنا لے۔

جو کوئی بیاباں  اور باغ میں  آشیانہ بناتا ہے  وہ شاہین اور چرغ (یعنی شکار کرنے  والے  پرندوں  سے  ) سے  محفوظ نہیں  رہ سکتا۔

اس کے  جادو کے  اثر سے  عقلمند پرندہ بھی دانہ مست بن جاتا ہے  اور اس کا نالہ اس کے  گلے  میں  پھنس جاتا ہے۔

اس کی گرمی گفتار اور پر فریب باتوں  سے  اللہ بچائے۔ )

اقبال کو اقوام مستبد و غالب کی ان فسوں کاریوں  سے  زیادہ اقوام مغلوب و محکوم کی کوتاہیوں  پر غصہ آتا ہے  وہ سمجھتے  ہیں  کو غالب اپنی حاکمیت میں  اتنا قصوروار نہیں  جتنا مغلوب اپنی محکومیت کے  لیے  ذمہ دار ہے  کہتے  ہیں    ؂

جاں  بھی گروِ غیر، بدن بھی گروِ غیر !

افسوس کہ باقی نہ مکاں  ہے، نہ مکیں  ہے !

یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو

مجھ کو تو گلہ تجھ سے  ہے، یورپ سے  نہیں  ہے !

انھوں  نے  بار ہا اس بات کو ظاہر کیا کہ خواجگی کی مشکلوں  کہ آسان کرنے  میں  تمام تر مجرم غلام کی خوئے  غلامی ہے     ؂

دورِ حاضر ہے  حقیقت میں  وہی عہدِ قدیم

اہلِ سجادہ ہیں  یا اہلِ سیاست ہیں  امام

اس میں  پیری کی کرامت ہے  نہ میری کا ہے  زور

سینکڑوں  صدیوں  سے  خوگر ہیں  غلامی کے  عوام!

خواجگی میں  کوئی مشکل نہیں  رہتی باقی

پختہ ہو جاتے  ہیں  جب خوئے  غلامی میں  غلام!

انھوں  نے  ان صفات کو ایک ایک کر کے  گنایا ہے  جو قوموں  میں  گھن کی طرف لگتی ہیں۔ آگ کی طرح بھڑکنے  لگتی ہیں  اور ان کو عضوِ معطل بنا دیتی ہیں۔ ان صفات کا ذکر جس درد بھرے  انداز میں  انھوں  نے  کیا ہے  وہ ان کے  قلب کی درد مندانہ کیفیات کا آئینہ دار ہے  کہتے  ہیں    ؂

وائے  قومے  کشتۂ تدبیرِ غیر

کارِاو تخریبِ خود تعمیرِ غیر

می شود درعلم وفن صاحب نظر

ازوجودِ خود نگردد باخبر!

نقشِ حق را از نگینِ خود سترُد

درضمیرش آرزوہا زاد و مرد

از حیا بیگانہ پیرانِ کہن

نوجواناں  چوں  زناں  مشغولِ تن

دردلِ شاں  آرزوہا بے  ثبات

مردہ زایند از بطونِ امہات

ہرزماں  اندر تلاشِ سازوبرگ

کارِاُو فکرِ معاش وترسِ مرگ

منعمانِ اُو بخیل وعیش دوست

غافل از مغزاندواندر بندِ پوست

دین اُو عہدِوفا بستن بغیر

یعنی از خشتِ حرم تعمیر دیر

(ترجمہ:

اس قو م پر افسوس! جو غیر کی تدبیر (مکاری) کی شکار ہے۔ اُس کا کام اپنی تخریب اور غیر کی تعمیر ہے۔

(ایسی قوم) علم و فن میں  صاحب نظر تو ہو جاتی ہے   لیکن خود اپنے  وجود سے  باخبر نہیں  ہوتی۔

(ایسی قوم نے ) اپنے  نگین سے  حق کے  نقش کو مٹا دیا۔ اس کے  ضمیر میں  پیدا ہونے  والی آرزو فنا ہو گئی۔

اس کے  بوڑھے  حیا سے  بیگانہ اور اس کے  نوجوان، عورتوں  کی طرح اپنے  بدن (کو آراستہ کرنے  میں ) مشغول رہتے  ہیں۔

ان کے  دلوں  میں  آرزو باقی نہیں  رہتی، گویا وہ اپنی ماؤں  کے  بطن سے  مردہ پیدا ہوئے  ہیں۔

ان کا کام محض ساز و سامان کی تلاش، فکرِ معاش اور موت کا خوف ہے۔

(ایسی قوم کے ) دولت مند بخیل اور عیش پسند ہوتے  ہیں۔ وہ مغز(روح ) سے  غافل اور پوست (جسم) کی قید میں  رہتے  ہیں۔

ان کا دین غیروں  سے  عہد وفا باندھنا ہے  یعنی وہ حرم کی اینٹ سے  بتخانہ کی تعمیر کرتے  ہیں۔ )

اقبال کو قوم سے  زیادہ امیرانِ قوم پر غصہ ہے  جو اس گلہ کے  چروا ہے  ہیں  اور اس قافلہ کے  سالار اور جن کی تن پرستی اور جاہ مستی نے  کم نگاہی اور کلیسا دوستی نے  نورِ جان سے  محرومی اور لا الہ سے  بدنصیبی نے  قوم کو غلامی کے  بُرے  دن دکھائے۔ ان کی نسبت کہتے  ہیں    ؂

داغم از رسوائی ایں  کارواں

در امیرِ او ندیدم نورِ جاں

تن پرست وجاہ مست وکم نگہ

اندرونش بے  نصیب از لا الہ

در حرم زاد و کلیسا را مرید!

پردۂ ناموسِ ما را بردرید

(میں  اس کاروانِ (حرم) کی رسوائی سے  غمگیں  ہوں۔ اس کے  قافلہ سالاروں  (کے  دلوں  میں ) نورِ جاں  نظر نہیں  آتا۔

وہ تن پرست، جاہ (و منصب) میں  مست اور کم نظر ہیں۔ ان کا اندرون لا الہ سے  بے  نصیب ہے۔

وہ حرم میں  پیدا تو ہوئے  لیکن کلیسا کے  مرید ہیں۔ انھوں  نے  ہماری ناموس کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ )

آپ کو جتنا غصہ امیروں  پر ہے  اتنا ہی قوم کے  شعراء حکما اور علماء پر جو ہمیشہ قوموں  کی زندگی میں  رہبر و رہنما رہے  ہیں  جن کی گرمیِ گفتار اور پختگیِ کردار سے  قوم کے  لیے  نشانِ راہ پیدا ہوتے  ہیں، جن کے  فہم صحیح اور فکرِ مرتب نے  مشکلات کے  دشت و جبل کاٹ کر منزل کے  قریب ترین راستے  پیدا کیے۔ اقبال کو غم ہوتا ہے  کہ غلام قوموں  میں  شعراء بھی پیدا ہوتے  ہیں  اور علماء، حکماء بھی لیکن ان کی فکر شیروں  کو رمِ آہو سکھاتی ہے۔ قوموں  کو غلامی پر رضا مند کرتی ہے  اور جب ان کا ضمیر انھیں  ملامت کرتا ہے  تو ان کا دماغ ان کو تاویل کا مسئلہ سکھا دیتا ہے    ؂

شاعر بھی ہیں  پیدا علما بھی، حُکما بھی،

خالی نہیں  قوموں  کی غلامی کا زمانہ!

مقصد ہے  ان اللہ کے  بندوں  کا مگر ایک

ہر ایک ہے  گو شرحِ معانی میں  یگانہ!

’’بہتر ہے  کہ شیروں  کو سکھا دیں  رمِ آہو

باقی نہ رہے  شیر کی شیری کا فسانہ!‘‘

کرتے  ہیں  غلاموں  کو غلامی پہ رضامند

تاویلِ مسائل کو بناتے  ہیں  بہانہ!

’’فلک زحل ‘‘غدّاران ملت

اقبال ان سب سے  زیادہ ان غدارانِ ملت کی یاد سے  آتش زیر پا ہو جاتے  ہیں  جنھوں  نے  حقیر و نا قابل لحاظ قیمت پر ملت کی آزادی فروخت کر دی۔ جن کی جاہ پرستی اور خطاب دوستی نے  قوموں  کی زنجیر غلامی کی کڑیاں  مضبوط کیں۔ سب سے  زیادہ عجیب ’’جاوید نامہ‘‘ کا وہ مقام ہے  جہاں  اقبال پیر رومیؒ کی معیت میں    ہفت افلاک کی سیر کرتے  ہوئے  ’’فلک زحل‘‘ پر پہنچتے  ہیں  اور اس دریائے  خون کو دیکھتے  ہیں  جس کی موجیں  طوفانِ خون اٹھا رہی ہیں  جس کی فضاؤں  میں  طیور خوش الحان کی بجائے  مار و کثردم اڑ رہے  ہیں  اور جن کے  التہاب میں  پارہ پارہ ہائے  کوہ پگھل رہے  ہیں۔ ان کو حیرت ہوتی ہے  کہ اس طوفانی سمندر خونیں  میں  ایک چھوٹی سی کشتی پر دو بدنصیب تھپیڑے  کھاتے  دکھائی دے  رہے  ہیں۔ اقبال ان کی مصیبت پر تڑپ اٹھتے  ہیں  اور پیر رومیؒ سے  ان کا حال دریافت کرتے  ہیں۔ پیر رومیؒ نے  بتایا کہ وہ قوم فروش غدار ہیں۔ جنھوں  نے  ہندوستان کی آزادی اقوام مغرب کو بیچی اور بہت ارزاں  بیچی۔ ان میں  سے  ایک ’’بنگال‘‘ کا میر جعفر اور دوسرا دکن کا ’’میر صادق‘‘ ہے  اقبال کی آنکھوں  سے  حیرت و استعجاب کی کیفیت ابھی مٹی بھی نہیں  کہ ابواب فلک وا ہوتے  ہیں  اور اقبال ایک حسینہ کو فضائے  بسیط کی پنہائیوں  سے  اترتا ہوا دیکھتے  ہیں۔ اس کا حسنِ عالم آشوب اقبال کی آنکھوں  کو خیرہ کر دیتا ہے  لیکن اس کے  پاؤں  کی مضبوط اور وزنی زنجیریں  چندھیائی ہوئی آنکھوں  کو اشک آلود بنا دیتی ہیں  اور اقبال کا دل تڑپ اٹھتا ہے  جب وہ پیر رومیؒ سے  سنتے  ہیں  کہ یہ حسینہ روحِ ہندوستان ہے  جس کے  پاؤں  میں  غلامی کی مضبوط زنجیریں  پڑی ہوئی ہیں۔ روح ہندوستان اپنے  ایک فرزند سعید کو دیکھ کر بے  اختیار وجد سرا ہوتی ہے  اور اس کا نوحہ اقبال کے  شاہکار ’’جاوید نامہ‘‘ کا شاہکار ہے۔ سنیئے  اور ان کانوں  سے  سنئیے  جن کانوں  سے  اقبال نے  سنا تھا۔ تڑپ جائیے  اور اس طرح تڑپیئے  جس طرح اقبالؒ تڑپا تھا اور کوشش کیجئے  کہ سرزمین ہند پھر کسی جعفر و صادق کو نہ پیدا کر سکے  اور اگر پیدا ہو تو آپ کے  دست و بازو اس کو قوم فروشی کا موقع نہ دے  سکیں    ؂

شمعِ جاں  افسر د در فانوسِ ہند

ہندیاں  بیگانہ از ناموسِ ہند

مردکِ نامحرم از اسرارِ خویش

زخمۂ خود کم زندبرتارِخویش!

بندہابردست و پائے  من ازوست

نالہ ہائے  نارسائے  من ازوست

خویشتن را از خودی پرداختہ

از رسوم کہنہ زنداں  ساختہ

کے  شبِ ہندوستاں  آید بروز!

مُرد جعفر زندہ روحِ اُو ہنوز!

تازقیدِ یک بدن وامی رہد

آشیاں  اندر تنِ دیگر نہد!

گاہ اوٗ را با کلیسا ساز باز

گاہ پیشِ دیریاں  اندر نیاز

دینِ اُو آئینِ اُو سود ا گری است

عنتری اندر لباسِ حیدری است

ظاہرِ اُو از غمِ دیں  درد مند

باطنش چوں  دیریاں  زنّاربند

جعفرؔ اندر ہر بدن ملت کُش

ایں  مسلمانے  کہن ملت کش است!

خند خندان است وباکس یارنیست

مار اگر خنداں شود جز مار نیست!

از نفاقش وحدتِ قومے  دونیم

ملتِ او از وجودِ اولئیم!

ملتے  راہر کجاغارت گرے  است

اصلِ اواز صادقے  یا جعفرے  است

الاماں  ازروحِ جعفرؔ الاماں

الاماں  از جعفرانِ ایں  زماں !‘‘

(ترجمہ:

ہندوستان کے  فانوس کے  اندر زندگی کی شمع بجھ گئی ہے  اور ہندوستان والے  ہندوستان کے  ناموس سے  بیگانہ ہیں۔

وہ شخص جو اپنے  اسرار سے  ناواقف ہے  اپنے  سازِ دل کے  تاروں  پر مضراب نہیں  لگا سکتا۔

اس کی وجہ سے  ہمارے  ہاتھ اور پاؤں  میں  (غلامی) کی زنجیریں  ہیں  اور ہمارے  نالے  نارسا ہیں۔

ہندوستان کی  رات، دن میں  کیسے  بدل سکتی ہے ؟کیونکہ (غدار) میر جعفر تو مرگیا، لیکن اس کی روح ابھی زندہ ہے۔

جب وہ ایک جسم کی قید سے  رہا ہو جاتی ہے  تو دوسرے  جسم میں  اپنا گھر بنا لیتی ہے۔

کبھی وہ (اہل) کلیسا سے  ساز باز کرتی ہے  تو کبھی بتکدہ والوں  سے  نیاز مندی کا اظہار کرتی ہے۔

ان کا دین و آئین سوداگری ہے  اور ان کا کام حیدری کے  لباس میں  عنتری ہے۔

ایسے  لوگ ظاہر میں  دین کا غم تو ظاہر کرتے  ہیں، لیکن باطن میں  بت پرستوں  کی طرح  زنّار پہنے  ہوئے  ہیں۔

جعفر ہر بدن میں  ملت کو مٹانے  کے  درپے  رہتا ہے  اور ایسے  (بظاہر) مسلمان ملت کُش ہیں۔

lایسے  لوگوں  کی ہنسی (ایک دھوکہ ہے ) وہ کسی کے  دوست نہیں  ہوتے۔ اگر سانپ ہنسنے  لگے  تو وہ سانپ ہی رہتا ہے  (یعنی بظاہر ملت کے  ہمدرد لیکن ملت کے  لئے  زہر ناک۔

lجہاں  کہیں  بھی کوئی ملت کا غارت گر ہے  تو اس کی اصل صادق یا جعفر ہے  (غداری کرنے  والے  )

lروحِ جعفر سے  اللہ کی پناہ، اس زمانے  کے  جعفروں  سے  اللہ کی پناہ۔ )

 اس غلامی کے  تصور سے  اقبال پر ندامت و شرمندگی کی جو کیفیات طاری ہوتی ہیں  وہی ان کے  کلام کے  اثر کی روح ہیں۔ غلامی میں  ساری قوم مبتلا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے  کہ ساری قوم کی شرمندگی سمٹ کر قلب اقبال میں  جمع ہو گئی ہے۔ وہ اس عالم غلامی میں  اپنے  ’’قیامِ صلوۃ کو بے  حضور‘‘ اور اپنے  سجدے  کو بے  سرور پاتے  ہیں۔ باوجود اس کے  کہ حق نے  اپنے  صدہا جلووں  کو ان پر بے  نقاب کر دیا۔

لیکن ان کی حق پرستی کا اعلیٰ ترین مقام یہ ہے  کہ وہ قلبِ غلام کو جلوۂ حق کے  ایک نفس کا بھی مستحق نہیں  پاتے  ان کے  نزدیک غلام، جلالِ خداوندی اور جمالِ لازوالی سے  بے  خبر ہے  اور اس سے  بڑھ کر وہ غلام میں  کسی لذتِ ایمان کی تلاش کو بے  سود سمجھتے  ہیں  چاہے  وہ حافظ قرآن ہی کیوں  نہ ہو۔ ان کے  نزدیک صرف عیدِ آزاداں  شکوہِ ملک و دیں  ہے  اور غلاموں  کی عید مومن کہلانے  والوں  کے  ہجوم سے  زیادہ کچھ نہیں    ؂

از قیامِ بے  حضورِ من مپرس

از سجودِ بے  سرورِ من مپرس

جلوۂ حق گرچہ باشدیک نفس

قسمتِ مردانِ آزاد است وبس

مردے  آزادے  چوآید درسجود

درطوافش گرم رو چرخِ کبود

ماغلاماں  از جلالش بے  خبر

از جمالِ لازوالش بے  خبر

ازغلامے  لذتِ ایماں  مجو

گرچہ باشد حافظِ قرآن،مجو

عیدِ آزاداں  شکوہِ ملک ودیں

عیدِ محکوماں  ہجومِ مومنیں !

(ترجمہ:

 ہماری (نمازوں ) کے  بے  حضور قیام اور ہمارے  بے  سرور سجدوں  کا حال نہ پوچھ!

حق کا جلوہ اگرچہ ایک دم (کچھ دیر) کئے  لئے  کیوں  نہ ہو، وہ صرف آزاد مردوں  کی قسمت میں  ہوتا ہے۔

مردِ آزاد جب سجدہ کی حالت میں  ہوتا ہے  تو آسمان اس کے  اطراف طواف کرتے  ہیں۔

اور ہم غلام (ایسے  سجدہ) کے  جلال اور جمال۔ لازوال سے  بے  خبر ہیں۔

غلام (کے  دل) میں  ایمان کی لذت مت تلاش کر، چاہے  وہ قرآن کا حافظ ہی کیوں  نہ ہو۔

آزادوں  کی عید ملک و دیں  کا شکوہ (جلال و دبدبہ) ہے۔ محکوموں  کی عید محض ایک ہجوم ہے۔

اس ندامت و شرمندگی کا انتہائی مقام وہ ہے  جہاں  اقبالؒ حالتِ غلامی میں  اپنی زبان سے  آقائے  کائنات ﷺ کے  حضور خجالت سے  عرق عرق ہو جاتے  ہیں۔ ان کے  نزدیک اس بندۂ خدا مست و خود آگاہ کا اسمِ گرامی تقدس و پاکی کا وہ نشان ہے  جس کو کسی غلام کی زبان سے  آلودۂ تکلم نہ ہونا چاہئے۔ جس کی صدائے  قم نے  غلاموں  کی قبروں  سے  لاکھوں  مردوں  کو اٹھا کر آزادی کے  تخت پر بٹھایا۔ اقبال اپنے  آپ کو عالم غلامی میں  اس کے  نام نامی پر درود پڑھنے  کے  قابل بھی نہیں  پاتا     ؂

گرچہ دانا حالِ دل باکس نگفت

از تو دردِ خویش نتوانم نہفت

تا غلامم در غلامی زادہ ام

زِ آستانِ کعبہ دورافتادہ ام

چوں  بنامِ مصطفے ٰؐ خوانم درود

از خجالت آب می گردد وجود

عشق می گویدکہ ’’اے  محکومِ غیر

سینۂ تو ازبتاں  مانندِدیر

تانداری از محمدؐ رنگ و بو

از درودِ خود میالا نامِ اُو ‘‘

(ترجمہ:

 گرچہ دانا آدمی نے  کبھی کسی سے  اپنے  دل کا حال بیان نہیں  کیا، لیکن میں  تجھ سے  اپنا درد نہیں  چھپا سکتا۔

 میں  غلام ہوں  اور غلامی (کے  دور ) میں  پیدا ہوا ہوں، اس لئے  میں  کعبہ کے  آستاں  سے  دور جا پڑا ہوں۔

جب میں  حضرت محمد ﷺ کے  نام پر درود بھیجتا ہوں  تو شرمندگی سے  میرا وجود پانی پانی ہو جاتا ہے۔

 عشق کہتا ہے  (طعنہ دیتا ہے ) کہ ’’ا ے  محکومِ غیر !تیرا سینہ تو بتوں  کی وجہ سے  بتخانہ کے  مانند ہے۔ ‘‘

جب تک تو حضرت محمد ﷺ کا رنگ و بو ہی نہیں  رکھتا (تو) اپنے  درود سے  اُس نام (مبارک ) کو آلودہ نہ کر۔ )

’’دل روشن اور نفسِ گرم‘‘

اقبال نے  ایک سے  زیادہ مقامات پر آزاد و محکوم کا فرق واضح کیا ہے  انھوں  نے  بتایا کہ آزاد و محکوم میں  کوئی نسبت نہیں  ہوتی آزاد کے  رگ کی سختی،مظلوم کے  رگ تاک کی طرح نرم رگ میں  پیدا نہیں  ہو سکتی، ایک کا دل زندہ، پُر سوز اور طربناک اور دوسرے  کا دل مردہ، افسردہ اور نومید ہوتا ہے، ایک کی دولت دلِ روشن اور نفس گرم اور دوسرے  کا سرمایہ فقط دیدہ نمناک یہاں  تک کہ ایک خواجۂ افلاک ہے  اور دوسرا بندۂ افلاک۔ اقبالؒ اپنی ملت کو پہلی صف میں  دیکھنا چاہتے  ہیں  اور دوسری صف کو الگ کرنا چاہتے  ہیں  کتنے  کان ہیں  جوان کو صحیح سن رہے  ہیں   ؂

آزاد کی رگ سخت ہے  مانندِ رگِ سنگ

محکوم کی رگ نرم ہے  مانندِ رگِ تاک

محکوم کا دل مردہ افسردہ پُر نومید

آزاد کا دل زندہ و پُر سوز و طرب ناک

آزاد کی دولت دلِ روشن، نفسِ گرم

محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نمناک

محکوم ہے  بیگانۂ اخلاص و مروّت

 ہر چند کہ منطق کی دلیلوں  میں  ہے  چالاک

ممکن نہیں  محکوم ہوا آزاد کا ہمدوش

وہ بندۂ افلاک ہے، یہ خواجۂ افلاک

پیشۂ رو بہی

اس فرق کا نمایاں  کرنے  کے  بعد انھوں  نے  کبھی دنیا کی ہر مشہور رو محکوم قوم کو اور کبھی ان میں  سے  ہر ایک کو جدا جدا مخاطب کیا ہے  اور درسِ آزادی دیا ہے،وہ کبھی اقوام مغرب کی طرف پلٹ کر کہتے  ہیں کہ جلوہ کے  رنگ رنگ سے  باہر نکلیں  اور ترکِ فرنگ کے  ذریعہ اپنی خود ی کو پہچانیں  اور حاصل کریں۔ ان کو سکھاتے  ہیں  کہ ’’مکر غربیاں ‘‘ سے  واقف ہو جانے  کے  بعد ’’پیشہ روباہی‘‘ سے  کام نہیں  چلتا اس میدان میں  شیر ہی جی سکتے  ہیں  اور صرف شیر اور پھر شیر و روباہ کی تمیز یوں  سکھائی کہ ایک کی تلاش صرف عیش و عشرت ہے  تو دوسرے  کی صرف آزادی   ؂

گرزِ مکرِ غربیاں  باشی خبیر

روبہی بگذار و شیری پیشہ گیر

چیست روباہی تلاشِ سازوبرگ

شیرِمولا جوید آزادی و مرگ

ترجمہ:

اگر تو مغربیوں  کے  مکر (فریب ) سے  باخبر ہے  تو روبہی (لومڑی کی چال) چھوڑ دے  اور شیری  کا پیشہ (طریقہ) اختیار کر لے۔

روباہی کیا ہے ؟ ساز و سامان کی تلاش اور شیرِ مولا آزادی اور (با عزت) موت چاہتا ہے۔ )

خودی اور لذتِ نمود

وہ کبھی فلسطین کے  عربوں  کی طرف مڑتے  ہیں  اور ان کو سمجھاتے  ہیں  کہ تیرے  وجود میں  اب بھی وہ آگ چھپی ہوئی ہے  جس کے  سوز سے  زمانہ فارغ نہیں  ہوا،ان کی رہبری کرتے  ہیں  کہ۔۔۔۔۔۔  تمہاری دوا جینوا یا لندن میں  نہیں، کیوں  کہ فرنگ کی جان تو یہود کے  پنجہ میں  پھنسی ہوئی ہے۔ وہ کہتے  ہیں  کہ میں  نے  غلام قوموں  کی نجات کا صرف ایک ہی نسخہ تلاش کیا وہ ان قوموں  میں  خود ی کی بیداری اور لذتِ نمود ہے۔ ان ہی کی زبان سے  سنیئے۔

زمانہ اب بھی نہیں  جس کے  سوز سے  فارغ

میں  جانتا ہوں  وہ آتش ترے  وجود میں  ہے !

تری دوا نہ جینوا میں  ہے، نہ لندن میں

فرنگ کی رگِ جاں  پنجۂ یہود میں  ہے !

سنا ہے  میں  نے  غلامی سے  اُمتوں  کی نجات

خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں  ہے !

ان کو ہم کبھی حجازی عربوں  سے  مخاطب پاتے  ہیں  وہ انہیں  روح پاک مصطفے ٰ کا واسطہ دیتے  ہیں  اور بتاتے  ہیں  کہ تمھاری بداعمالیوں  نے  اس روحِ مقدس کو تڑپا رکھا ہے، ایک جگہ کہتے  ہیں    ؂

لے  گئے  تثلیث کے  فرزند میراثِ خلیلؑ

خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز!

کبھی کبھی زندگی کا گُر یوں  سکھاتے  ہیں    ؂

بندگی میں  گھٹ کے  رہ جاتی ہے  اک جوئے  کم آب

اور آزادی میں  بحرِ بیکراں  ہے  زندگی

کبھی ان سے  کہتے  ہیں  کہ جس نے  اپنے  آپ کو خودی کے  بندھنوں  سے  چھڑایا اور بیگانوں  کے  ساتھ پیوست کیا وہ مرگیا اور اگر زندگی چاہتے، تو افسونِ فرنگی کو پہچانو اور اس کے  افسوں  کو آستینوں  میں  چھپا ہوا دیکھنے  کی کوشش کرو۔ اس کا علاج ایک اور صرف ایک ہے  کہ تمھارے  جسم روحِ عمرؓ سے  معمور ہو جائیں    ؂

ہر کہ از بندِ خودی وارست، مُرد

ہر کہ بابیگانگاں  پیوست، مُرد

آنچہ توباخویش کر دی کس نکر د

روحِ پاکِ مصطفے ٰ آمدبدرد!

اے  زِافسونِ فرنگی بے  خبر

فتنہ ہا در آستینِ اُو نگر

از فریبِ اُو اگر خواہی اماں

اشترانش را زِ حوضِ خود براں

عصرِ خود رابنگر اے  صاحب نظر

دربدن باز آفریں  روحِ عمرؓ

(ترجمہ:

وہ مردہ ہے  جس نے  خودی کی پابندی کو ترک کر دیا اور جس نے  غیروں  سے  اپنا رشتہ جوڑ لیا۔

جو کچھ تو نے  خود کے  ساتھ (ناروا سلوک ) کیا ہے  کسی نہ کیا۔ (تمھارے  کرتوتوں  نے ) روحِ پاکِ  مصطفے ٰ (ﷺ ) کو درد مند کر دیا ہے۔

اے  کہ تو فرنگی کے  جادو سے  بے  خبر ہے۔ اس کی آستین میں  چھپے  ہوئے  فتنوں  کو دیکھ !

اگر تو اُس کے  فریب سے  امان چاہتا ہے،تو اُس کے  اونٹوں  کو اپنے  حوض سے  ہانک دے (دور کر دے )

اے  صاحب نظر ! اپنے  زمانے  کو دیکھ اور اپنے  بدن میں  روحِ عمرؓ   کو پھر پیدا کر۔ )

اقبال نے  بعض مقامات پر اپنے  آپ کو پوری طرح عیاں  کر دیا ہے  خصوصاً ان کا آخری چھوٹا سا رسالہ۔ ’’پس چہ باید کر داے  اقوام شرق‘‘ ان کے  بے  پردہ و بے  پنہاں  تعلیمات کا حامل ہے، اس میں  انھوں  نے  آزادی حاصل کرنے  کے  جو گر سکھائے  اور قوموں  کو جس طرح پیغام آزادی دیا ہے  اس کا نچوڑ شاید آپ کو ان چند شعروں  میں  ملے۔ میں  ان کی تشریح نہ کروں  گا۔ عرب کا مشہور مقولہ ہے  !’’الکنایۃ ابلغ من الصراحۃ‘‘(اشارہ و کنایہ وضاحت سے  زیادہ بلاغت رکھتا ہے )  سمجھنے  کی کوشش کیجئے  کہ جو نہیں  سمجھتا وہ نہیں  اٹھتا وہ نہیں  چلتا اور جس کے  پاؤں  آشنائے  راہ نہ ہوں  وہ ہمیشہ بیگانۂ منزل رہتا ہے    ؂

اے   اسیرِ رنگ، پاک از رنگ شو

مومنِ خود، کافرِ افرنگ شو

رشتۂ سودوزیاں  دردستِ تست

آبروئے  خاوراں  دردستِ تست

ایں  کہن اقوام راشیرازہ بند

رایتِ صدق و صفا راکن بلند

اے  امینِ دولتِ تہذیب و دیں

آں  یدِ بیضا برآر از آستیں

خیز واز کارِ اُمم بکشا گرہ

نشۂ افرنگ را از سربنہ

دانی از فرنگ واز کارِ فرنگ

تاکجا در قیدِ زنارِفرنگ

زخم ازو نشتر ازو سوزن ازو

ماو جوئے  خون و امیدِ رفو

اہل حق را زندگی از قوت است

قوتِ ہر ملّت از جمعیت است

رائے  بے  قوت ہمہ مکر و فسوں

قوت بے  رائے  جہل است و جنوں

(ترجمہ:

 تو رنگ کا اسیر ہے  (یعنی رنگ، نسل وغیرہ) کے  امتیازات میں  گرفتار ہے۔ اس رنگ سے  پاک ہو جا۔ اپنا مومن اور افرنگ کا کافر بن۔

تیرے  نفع و نقصان کا رشتہ خود تیرے  ہاتھ میں  ہے۔ مشرق والوں  کی آبرو تیرے  ہاتھ میں  ہے۔ l(ان پرانی (بکھری ہوئی) قوموں  کی شیرازہ بندی کر، صدق و صفا کے  جھنڈے  کو بلند کر۔

اے  تہذیب و دین کی دولت کے  امین، ید بیضا کو اپنی آستین سے  باہر نکال۔

اٹھ! اور قوموں  کے  کاموں  میں  پڑی ہوئی گرہ کو کھول دے۔ اپنے  سر سے  افرنگ کا نشہ نکال دے۔

زخم بھی اُسی کی نشتر سے  (لگائے  ہوئے  ہیں ) اور سینے  والی سوئی بھی اُسی کی ہے۔ ہم ہیں  اور خون کی ندی ہے  اور (اسی) سے  امید رفو(رکھتے  ہیں ) (یعنی فرنگ زخم لگانے  والا ہے  اور اس زخم کو سینے  کی کوشش کرتا ہے  تاکہ ہم اسے  ہمدرد سمجھیں، یہ کیسے  ممکن ہے ؟)

اہل حق کی زندگی قوت سے  (قائم) ہے  اور ہر ملت کی قوت (کا انحصار) جمعیت (اتحاد سے ) ہے۔

دانائی بغیر قوت کے  محض مکر و فسوں (بے  حقیقت ہے ) اور دانائی بغیر قوت کے  جہل اور جنوں  ہے۔ )

آزادیِ انسانیت

اقبال نے  جو درسِ خودی دنیا کو دیا اور جو اس کے  پیام کی اصل اور اس کی شاعرانہ اور حکیمانہ زندگی کی روح تصور کی جاتی ہے۔ اقبال فہم مجھے  معاف کریں  اگر میں  کہوں  کہ وہ اصل نہیں  ذریعہ ہے۔ اقبال کا پیام ہو کہ مرکزیت یا اقبال کی تعلیم و تمدن ہو کہ حاکمیت ان سب کی روح انسانیت کی آزادی کا ذریعہ ہے  اور آزادیِ انسانیت کو اقبال کا اصلی پیام سمجھتا ہوں۔ اگر آپ اقبال سے  خود پوچھیں  کہ خودی کی بیداری کا فائدہ؟مرکزیت کا نتیجہ ؟ وحدت قوم و ملت کا مآل؟ (تو جواب یہی ہے )

بہ مصطفے ٰ ؐ برساں  خویش راکہ دیں  ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

ترجمہ

(حضرت مصطفے ٰ (ﷺ) تک اپنے  آپ کو پہنچا کہ دین کا تمام تر وجود انؐ کی ہی بدولت ہے۔ اگر (اُن کے  آستانہ تک) رسائی نہیں  ہے  تو (ہر کام) بولہبی ہے۔ )

اقبالؒ کہتے  اور آج بھی سننے  والوں  کو روح اقبالؒ جواب دے  رہی ہے  کہ یہ سب اس لئے  کہ انسان اپنا اصلی مقام پہچانے  اور غیر اللہ کے  تسلط و استبداد سے  نکل کر حریتِ کاملہ کا تاج پہنے  اور آزادی کے  تخت پر جلوہ فرما ہو جائے۔

٭٭٭

]ماخوذ از (۱) ’’سیاسی تقاریر‘‘ لسان الامت بہادر یا ر جنگ ‘‘ ناشر دار الاشاعت سیاسیہ حیدرآباد دکن  مطبوعہ نومبر ۱۹۴۱ء مرتبہ سید علی شبیر حاتمی  و محمد اقبال سلیم گاہندری۔

(۲) ’’فکر اقبال ‘‘مرتبہ غلام دستگیر رشید، ناشر نفیس اکیڈیمی حیدرآباد۔ مطبوعہ اکتوبر ۱۹۴۱ء

مشمولہ : اقبال ریویو، حیدر آباد، بہادر یار جنگ نمبر

تشکر: امتیاز الدین اور شارپ کمپیوٹرس، حیدر آباد، جن سے فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید