FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ادا جعفری کی نثر

 

 

شاہدہ حسن

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

               ماخذ: پاکستانی ادب کے معمار: ادا جعفری: شخصیت اور فن از شاہدہ حسن

 

 

 

 

 

 

 

 

ادا جعفری کا نثری اظہار۔۔ ” غزل نما” کے آئینے میں

 

ادا جعفری کے نثری اظہار کا ایک نمونہ انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام 1987ء میں شائع ہونے والی کتاب ” غزل نما” ہے۔ یہ اردو غزل کے قدیم اساتذہ کے مختصر حالات زندگی اور انتخاب کلام پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہے جو انجمن ترقی اردو کے ماہنامے قومی زبان کے لیے قلم بند کیے گئے تھے اور دسمبر1983ء سے ہر ماہ تواتر کے ساتھ 137اشاعتوں تک شائع ہوتے رہے۔ اس کتاب کو پیش کرتے ہوئے خود ادا جعفری نے کسی قسم کی دعوے داری سے کام نہیں لیا ہے اور اسے اپنا کوئی تحقیقی کارنامہ قرار دینے سے گریز کیا ہے۔

قدیم غزل گو شعراء کے حالات زندگی کے بنیادی نکات رقم کرتے ہوئے اور ان کے نمونہ ہائے کلام کو منتخب کرتے ہوئے ادا جعفری نے بحیثیت ایک تخلیق کار اور شاعرہ، جن معیارات کو پیش نظر رکھا ہے اس سے خود ان کے ذوق شعری کا اندازہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کتاب کے بیشتر مواد کی پیش کش کا انحصار اس امر پر بھی ہے کہ ادا جعفری کے لیے کن قدیم شعراء کے دواوین تک رسائی ممکن ہو سکی۔

کتاب کے پیش لفظ میں ادا جعفری نے مختلف صراحتوں سے کام لیا ہے۔ مثلاً یہ کہ اس انتخاب کے ذریعے نہ تو انہوں نے اردو شاعری کی کوئی تاریخ قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے نہ اردو زبان کی۔ بلکہ ان قدیم اشعار کے جھروکوں سے انہوں نے تسلسل کے ساتھ کئی صدیوں کا نظارہ کیا ہے اور زبان کے ارتقائی مدارج اور مختلف معاشروں کے خدوخال کو پہچاننے کی کاوش کی ہے۔ قدیم شعراء کے اس انتخاب کا اصل مقصد ان غیر معروف اہل سخن کو متعارف کرانا تھا جو اپنے معاشرے کی کوتاہیوں، ناقدریوں اور روایتی بے رخی کا شکار رہے اور ان کی پذیرائی سے ان کا عہد محروم رہا۔ اس کا اہم سبب کسی خاص زمانے میں بعض ایسی بھرپور اور توانا شعری آوازوں کا غلبہ ہے جن کے بھرپور اثرات کے سبب، اس عہد کے دیگر اہل قلم خاطر خواہ توجہ نہ حاصل کر سکے۔ ادا جعفری نے قدیم غزل کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایسے ہی بہت سے غیر معروف شعراء کے حالات زندگانی اور نمونہ کلام کو یکجا کر دیا ہے جنہیں ان کے عہد کی مجموعی ادبی اور سماجی صورت حال کے تناظر میں پڑھتے ہوئے، ہمیں قدیم معاشرے، قدیم اسلوب شاعری، قدیم موضوعات و مضامین سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

اس کتاب میں ادا جعفری نے پہلا نام ” محمد قلی قطب شاہ” کا منتخب کیا ہے اور آخری نام "میاں داد خاں سیاح کا ” ان دونوں ناموں کا جواز پیش کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں :

” قلی قطب شاہ یقیناً اردو شاعری کا پہلا نام نہیں اور آخری نام جو اس کتاب میں درج ہے وہ قدیم اردو شاعری کا آخری نام نہیں۔ بات صرف میری رسائی کی ہے۔”

اس بیان کی روشنی میں تجزیہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ ان قدیم شعراء کے مطالعے سے ہمیں قدیم اردو شاعری کے ضمن میں کسی عہد بہ عہد مربوط تاریخی ارتقاء سے آگاہی تو نہیں ملتی مگر زبان کی ساخت، تلفظ، شعری تلازموں، دیگر زبانوں کے مرتب کردہ اثرات، اور خواص و عوام کے لسانی رویوں کے بارے میں معلومات ضرور حاصل ہوتی ہیں۔ بطور خاص ہر شاعر کو متعارف کراتے ہوئے ادا جعفری نے جس طرح سوانحی حالات رقم کیے ہیں اور مختلف غزلوں کے چیدہ چیدہ اشعار میں موجود غیر مانوس اور قدیم الفاظ کے معانی کو، سادہ اردو میں مصرع بہ مصرع درج کر دیا ہے اس سے پڑھنے والوں کو ان اشعار کا مفہوم اخذ کرنے میں بہت آسانی ہو گئی ہے۔ یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اردو زبان کا کوئی خاص لفظ، کن مدارج سے گزر کر، آج اپنی موجودہ شکل میں مستعمل ہے۔ ادا جعفری نے سولھویں صدی سے آغاز کر کے بیسویں صدی کی ابتدا تک کی اردو غزلیات کے حوالے سے مختلف نکات کی وضاحت بھی کی ہے۔ بطور خاص اپنے تحریر کردہ پیش لفظ میں جو ان کی نثر نگاری کی ایک اچھی مثال ہے۔ وہ لکھتی ہیں :

” قدیم اردو شاعری کی وادیوں سے گزرتے ہوئے نظر آتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں اردو شاعری کے حلقہ اثر کو وسیع تر کرنے کے لیے اساتذہ نے فارسی شاعری کے مضامین کو بھی اردو میں ڈھالا اور اس طرح اردو شاعری کے لیے ایک مانوس فضا قائم کی۔”

مزید لکھتی ہیں :

” اردو غزل اتنی توانا ہے کہ خود رو و قبول کی سکت رکھتی ہے۔ تند اور شوریدہ سر ہواؤں کا ہاتھ تھام کر زندگی اور وقت کے قدم سے قدم ملا کر چلتی رہی ہے۔ شاعری یوں بھی ٹھہرا ہوا پانی نہیں۔ بہتا ہوا دریا ہوتی ہے۔ ہر منظر حیات کے لیے شفاف آئینہ۔ اگلے زمانوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ بھی نظر آئیگا کہ سچا شاعر اور سچا شعر، حدود وقت سے ماوراء ہوتا ہے۔ گردش ماہ و سال کا غبار اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔”

” غزل نما” میں پیش کردہ شعری نمونوں کے تعلق سے ادا جعفری لکھتی ہیں :

” ان اشعار کا تقابل، شاعری کے اعلیٰ فن پاروں سے جائز نہیں۔ اس کتاب میں ایسے شاعر بھی ہیں جو آج ذہن اور دل کو اپنی گرفت میں لینے سے قاصر ہیں۔ مگر یہ سب اپنے اپنے عہد میں اساتذہ کا درجہ رکھتے تھے۔ لہٰذا ان کے کلام کا انتخاب، ان کے عصر کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ سفر کے کس مرحلے پر کس کی سانس ٹوٹ گئی اورکس نے منزل کو پا لیا اس کا دار و مدار انفرادی صلاحیتوں پر بھی تھا اور حالات و واقعات پر بھی۔ انہیں صدیوں کے بیچ ہم میر، درد اور سودا کے کمال فن سے بھی متعارف ہوتے ہیں۔”

” غزل نما” میں شامل شعری انتخاب اور سوانحی حالات کے لیے ادا جعفری نے قدیم شعراء کی کلیات کے علاوہ، دکنی زبان کے سلسلے میں قدیم اردو لغت (مولف: ڈاکٹر جمیل جالبی) مطبوعات انجمن ترقی اردو ہند، علی گڑھ، مطبوعات، حیدر آباد دکن اور مطبوعات مرکزی اردو بورڈ لاہور سے بھی استفادہ کیا ہے۔

قلی قطب شاہ سے آغاز کرتے ہوئے ادا جعفری نے قدیم دکنی اردو کے مثالوں کے طور پر غزلوں سے اشعار پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

” قلی قطب شاہ اردو زبان کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا۔ اس کے اشعار میں فارسی الفاظ ملتے ہیں لیکن قدیم دکن اردو کا رنگ بہت گہرا ہے۔ اس لیے اس کے اشعار عام فہم نہیں۔ وہ اپنے کلام میں محبوب کے لیے تانیث کا صیغہ ہی استعمال کرتا ہے۔ ایک حسن پرست اور جمالیاتی شاعر کی حیثیت سے وہ دبستان دکن کی نمائندگی کرتا ہے۔”

سلطان محمد عادل شاہ جیسے علم پرور اور ادب پرست حکمراں کے زمانے کے ایک قابل ذکر شاعر حسن شوقی کے دیوان سے اشعار پیش کرتے ہوئے ادا جعفری ان غزلیہ اشعار کا انتخاب کرتی ہے جو حسن شوقی کے خاص رنگ کو نمایاں کرتے ہیں۔

اگرچہ اس کا سرمایہ شعری صرف دو مثنویوں اور 30غزلوں پر مشتمل تھا اور اس نے بھی اردو کی قدیم غزل کی عمومی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے رومانوی جذبات، موضوعات ہجر و وصال اور حسن محبوب کے تذکروں کو قلم بند کیا تھا مگر اس میں بھی اس کا انفرادی رنگ، اس کا جداگانہ تشخص قائم کر گیا ہے۔

دیگر اشعار کے علاوہ ادا جعفری نے یہ اشعار بھی منتخب کیے ہیں ـ:

از ہند تا خراساں، خوشبو ہوا ہے عالم

تس شاہ مشکبو کا، گل پیرہن کہاں ہے

 

اے باد نو بہاری گرتوں گزر کرے گا

گلزار تے خبر لیا، وہ یاسمن کہاں ہے

” غزل نما” میں ادا جعفری ہمیں محمد قلی قطب شاہ، شیخ حسن شوقی، غواصی، عادل شاہ شاہی، نصرتی، ہاشمی بیجاپوری، بجری، آبرو، فائز، تاباں، انعام اللہ خاں یقین، سراج اورنگ آبادی، قاسم اورنگ آبادی، حاتم، حسن، حسرت دہلوی، حضور عظیم آبادی، قائم چاند پوری، حسرت عظیم آبادی، تاسف، نسیم دہلوی، شیفتہ، نظام رامپوری، میر مہدی حسین مجروح، میاں داد خان سیاح اور دیگر قدیم شعراء کی غزلیہ شاعری سے متعارف کراتی ہیں۔ لکھتی ہیں :

” میری نگاہ میں وہ معاشرہ اور ماحول بہت سی کوتاہیوں کا ذمہ دار تھا جس میں یہ لوگ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں کسی نہ کسی دربار سے وابستگی شاعر کے کمال فن کی دلیل سمجھی جاتی تھی۔ اور اس کی مالی مشکلات کا حل بھی ہوتی تھی۔ شاعری، درباری اور مجلسی رنگ قبول کرنے پر مجبور تھی۔ امراء کی خوشنودی طبع شاعر پر لازم تھی۔ رنگین مزاج بادشاہ یا امراء کاروباری شاعر، رعایت لفظی، تصنع اور معاملہ بندی سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ جن خوش نصیبوں کی رسائی کسی صاحب ذوق فرماں روا تک ہو جاتی، زندگی کی سچائیوں کی تصویر کشی انہیں کے لیے ممکن تھی۔ بہرحال ان خاموش آوازوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔”

اس غزلیہ انتخاب میں مختلف شعراء کے اشعار کی تعداد ادا جعفری نے مختلف رکھی ہے۔ اور اس کی توضیح کرتے ہوئے لکھا ہے:

” استفادے کے لیے حاصل ہونے والی مطبوعات کے مواد پر اس کا دار و مدار رہا اور پھر یہ بھی کہ مضمون قلم بند کرتے ہوئے کس شاعر کو میں کتنا وقت اور کتنی توجہ دے سکی۔”

شعراء کے ناموں کی ترتیب بھی اس کتاب میں ادا جعفری نے، ان کی تاریخ وفات کے حساب سے رکھی ہے۔

شاہ مبارک آبرو تک آتے آتے، جن کا عہد سترھویں صدی کے آخر سے لے کر اٹھارھویں صدی کی چوتھی دہائی تک کا ہے۔ ادا جعفری نے آبرو کے کلام کے مطالعے کے ذریعے، شمالی ہند کی قدیم ترین شاعری کے مزاج کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ آبرو کے اشعار میں ایہام موجود ہے۔ لیکن ان کی شاعری تاریخی اور ادبی دونوں حیثیتوں سے اہم مانی جاتی ہے۔ا ن کا دیوان، اردو کا پہلا مستند دیوان قرار دیا جاتا ہے۔ ادا جعفری نے دیوان آبرو (مرتبہ ڈاکٹر محمد حسن، شعبہ اردو جواہر لال یونیورسٹی، دہلی) سے یہ اشعار بھی نقل کیے ہیں :

بے تابی دل آج میں دلبر سے کہوں گا

ذرے کی تپش مہر منور سے کہوں گا

 

شاید ہمارے جی کی کشش نے اثر کیا

جاتا تھا جلد دیکھ کے ہم کو ٹھٹک گیا

 

ہر گدا گوشہ قناعت میں

شاہ ہے ملک بے نیازی کا

ان اشعار کو پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو اٹھارھویں صدی کے وسط تک آتے آتے کتنی صاف اور رواں ہو چکی تھی۔

ادا جعفری جب اس سلسلے کے آخری شاعر ” میاں داد خاں سیاح” تک پہنچتی ہیں تو وضاحت کرتی ہیں :

” سیاح ایک پر گو شاعر کی حیثیت سے قدرت کلام اور مضمون آفرینی سے خوب خوب کام لیتے تھے۔ ان کا زمانہ 1829ء سے 1907ء تک کا ہے اور ان کا شمار غالب کے شاگردوں اور دوستوں میں ہوتا ہے۔ وہ غالب سے ملاقات اور مشورہ سخن کے لیے بارہا دہلی جایا کرتے تھے اور اسی شوق سفر کی مناسبت سے غالب نے خود ان کا تخلص سیاح تجویز کیا تھا۔”

پھر ڈاکٹر سید ظہیر الدین مدنی کے 1957ء میں طبع کردہ ” انتخاب کلام میاں داد خاں سیاح سے ادا جعفری ان کی مختلف غزلوں کے اشعار پیش کرتی ہیں۔” ایک غزل کے اشعار ہیں :

ہر ایک داغ سے روشن ہے دل قمر کی طرح

ملا ہے عیب کو میرے شرف، ہنر کی طرح

 

خدا نے عشق میں ثابت قدم رکھا ہم کو

اٹھے نہ منزل جاناں سے سنگ در کی طرح

 

دیا جواب نہ خط کا نہ کچھ خبر آئی

الٰہی گم ہوا کیا نامہ بر، خبر کی طرح

اس غزل کا اسلوب، اس کی لفظیات اور پیرایہ اظہار اس حقیقت کے غماز ہیں کہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ، اردو زبان اپنے ارتقائی مدارج طے کرتے ہوئے کس طرح آگے بڑھتی رہی اور کیسے مختلف زبانوں کے الفاظ اپنے دامن میں سمیٹ کر شعری اظہار کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے اور اپنی اثر انگیزی کو بڑھاتے ہوئے عہد جدید تک آ پہنچی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

خود نوشت، سوانح۔”جو رہی سو بے خبر ی رہی”

جولائی 1995ء میں شائع ہونے والی ادا جعفری کی خود نوشت ” جو رہی سو بے خبری رہی” اک ایسی تحریر ہے جو اردو زبان میں اچھی نثر کی تازہ تر لطافتوں اور دل کشی کے ساتھ سپرد قلم کی گئی ہے۔ اور ایک خاص زمانے کی تہذیب، طرز فکر اور طرز معاشرت کی عکاس ہے۔ تقسیم ہند سے قبل کے مسلمان معاشرے کی دیرینہ روایات میں پلی بڑھی ادا جعفری سفر در سفر، مختلف معاشروں کے تنوع اور رنگا رنگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کی بخشی ہوئی مسرتوں سے زندگی کی حرارتیں کشید کرتی رہی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تجربات نے کس کس طرح ان کی شاعرانہ حسیت کی تشکیل کی ہے!

یہ تحریر ان کے عرصہ حیات میں پھیلی ہوئی دھوپ اور چھاؤں کی ایک تصویر ہے، جس میں گئے دنوں کی یادوں کے دل آویز رنگ بھی ہیں، لمحات موجود کے اندھیرے اجالے بھی اور آنے والے دنوں کی آہٹیں بھی۔ ایک گزرے ہوئے زمانے کے رنگ تہذیب اور طریق معاشرت سے آگاہی بھی ہوتی ہے اور بدلتی ہوئی اس دنیا کے نئے انداز سے مرتب ہونے والے نقشے میں بھرے جانے والے رنگ بھی نظر آتے ہیں۔ یقیناً یہ خود نوشت سوانح ادا جعفری کے ان ذہنی رویوں کی غماز ہے جو بحیثیت ایک حساس شاعرہ، زندگی کے عملی تقاضوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ان کے یہاں نمایاں ہوئے ہیں۔ حساسیت، درد مندی اور گدازی قلب کے ساتھ، ادا جعفری نے اپنی زندگی کے بہت سے تجربات و مشاہدات کو شعری پیکروں میں تو ڈھالا ہی تھا مگر پھر تخلیقی اظہار کی انہی بنیادی خوبیوں سے کام لیتے ہوئے انہوں نے نثری تحریر میں بھی بہت سی ذاتی اور اجتماعی صداقتوں کو قلم بند کیا ہے۔ اس خود نوشت کی ابتدا جناب صہبا لکھنوی کی فرمائش پر ہوئی تھی اور پھر جیسے جیسے یہ تحریر آگے بڑھتی گئی، بیانیہ کے فطری بہاؤ، مشاہدہ کی صلاحیت اور ایک بے ساختہ لب و لہجے کی سچائی نے اس ایک خوشگوار تحریر میں ڈھال دیا۔

ادا جعفری نے بحیثیت ایک نسوانی وجود، جن دو متضاد زمانوں کو دیکھا، برتا اور جھیلا ہے ان کے کئی اہم تجربات کو بہت سی تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ اپنے قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے اس حوالے سے وہ اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالتی ہیں :

” ایک مرد کو تو ہمیشہ سے اس دنیا اور زندگی میں اپنی ترجیحات پر اختیار حاصل رہا ہے لیکن عورت نے خود اپنی جھلک دیکھنے کے لیے بڑا طویل سفر طے کیا ہے۔”

عورت کی ذات کے اسی سفر کو اپنی ذاتی زندگی کے مختلف مراحل، اپنے رد عمل، رد و قبول کے معیارات اور زندگی میں اپنی ترجیحات کے تناظر میں انہوں نے واقعہ در واقعہ بیان کرتے ہوئے، خود شناسی اور اپنے شعری تشخص کے استحکام کو، اپنی ذاتی زندگی کا ماحصل قرار دیا ہے۔

یہ خود نوشت ادا کی ذات کے حوالے سے کوئی حرف آخر نہیں کہ انسان خود کو بھی کہاں سمجھ پاتا ہے۔ خود انہوں نے بھی لکھا ہے:

” کون جانے کس کا سفر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں پہنچا دیتا ہے۔ زندگی کے بحر بے کراں میں اپنا پتا کس نے پایا ہے۔ حرف سخن اور وسیلہ اظہار نے بے شک دل کو آسودگی عطا کی ہے مگر کی اہم خود کو اتنا جانتے ہیں کہ اپنے بارے میں کچھ لکھ سکیں۔”

اس اعتبار سے اس خوب صورت تحریر کے مطالعے سے ہمیں ان کے طرز زندگانی، طرز فکر اور ان کے نسوانی شعور کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

جس ماحول اور تہذیب میں ادا جعفری نے 1926ء میں آنکھ کھولی تھی، وہ زوال آمادہ جاگیر داری نظام کے گہرے اثرات میں تھے۔ شرافت اور امارت کے بت بھی سجے ہوئے تھے اور خاندانی وضع داریوں اور سفید پوشیوں کا بھرم بھی قائم رکھا جاتا تھا۔ مستحکم خاندانی نظام کا تجزیہ وہ یوں کرتی ہیں :

” مرد تھے جن کی جنبش ابرو پر زندگی بھر کی خوشیوں اور محرومیوں کے فیصلے ہوتے تھے اور بیبیاں تھیں جو ان فیصلوں کو دین و ایمان کے احکام کا درجہ دیتی تھیں۔”

پھر لکھتی ہیں :

” ان دو انتہاؤں کے درمیان اس لڑکی نے جنم لیا تھا۔ پتا نہیں کیوں مجھے اپنے اندر کی شاعرہ، اپنے وجود سے علیحدہ ایک ہستی معلوم ہوتی ہے۔ کبھی میری مجبوری کبھی میری پناہ گاہ۔”

اپنے باطنی وجود کے اضطراب کو دور کرنے اور اپنے حصے میں آئی ہوئی تنہائی کو تخلیقی لمحوں میں بدلنے کے لیے انہوں نے علمی مشاغل کو اپنانا شروع کیا۔ جو لوگ تخلیقی کاموں کی فیض رسانیوں سے واقف ہیں، وہ اس حقیقت کو خوب جانتے ہیں کہ کسی انسانی وجود کی روحانی آسودگی کے لیے ادب و شعر کس درجہ معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اظہار سے ہم رشتگی اور ذہنی اور فکری رفاقتیں اک ایسے باطنی انبساط کا سبب بنتی ہیں کہ بے لگام سوچوں اور پریشاں خیالیوں کو دور کر کے اور انسانی جذبات کو ایک حسن ترتیب دے کر، زندگی کے مثبت رویوں میں بدل دیتی ہیں۔

ادا جعفری نے پدر سرانہ نظام کے جبر اور مذہبی رسم و رواج کے دباؤ میں رہتے ہوئے بھی، اس وسیع و عریض حویلی کی گھٹی گھٹی فضا اور اکتا دینے والے ماحول میں، جسمانی زندگی سے زیادہ اپنی ذہنی زندگی کے لیے خوشیاں فراہم کرنے کا تہیہ کر لیا۔ اپنی اس پوری جدوجہد کو انہوں نے نہ صرف تمام تر شگفتہ بیانی کے ساتھ سپرد قلم کیا ہے بلکہ اپنے قارئین تک اس احساس کو منتقل کر دینے میں بھی کامیاب ہوئی ہیں کہ کٹھن حالات اور آزمائشی لمحات کے باوجود ایک تخلیقی عورت کی ذات اپنی بردباری، استقامت اور فطری برداشت کی صلاحیتوں کے با وصف، اپنے لیے زندگی کی راہیں ہموار کر سکتی ہے۔

زندگی کی دو انتہاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے، زندگی کے جبر کو اختیار میں بدل دینے کی کوششوں کے ساتھ، ادا جعفری نے سفر حیات میں کچھ کھونے اور کچھ پانے کے سلسلوں کو بھی بیان کیا ہے۔ اور یہ بھی وضاحت کی ہے کہ خود ان کی اپنی ذات کس کس طرح اس نوع کے تجربات سے گزرتی رہی ہے کہ جہاں کوئی بھی احساس کبھی پچھتاوے میں نہیں بدلا بلکہ ہمیشہ ایک قلبی طمانیت اور دلی آسودگی پر منتج ہوا۔ مثلاً جب وہ یہ لکھتی ہیں کہ:

” میں نے بدایوں کی شمسی مسجد آج تک نہیں دیکھی اور نہ ان بزرگوں کے مزارات کی زیارت ان کے کمالات کی روشنی میں کی۔”

یا یہ کہ:

” غیر ممالک میں، میں بے نام سپاہی کی قبر پر تو گئی ہوں لیکن اپنے شہر میں ان نامور سپاہیوں کو سلام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔”

پھر مزید یہ کہ:

” میں نے جاپان میں وہ درخت دیکھے جن کی عمر نصف صدی سے پوری صدی تک ہے اور جاپانیوں کے کمال باغبانی نے جنہیں ننھے ننھے پودوں کے قد و قامت میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ روم میں آثار قدیمہ اور مائیکل اینجلو کے بنائے ہوئے مجسموں کا دیدار کیا، نیویارک اور پیرس کی آرٹ گیلریوں میں مصوری کے شاہ کاروں کی زیارت کی، روس میں زار پیٹر کا مجسمہ دیکھا لیکن بدایوں میں جو قلعے کی فصیلوں کے شکستہ آثار تھے، وہ کبھی نہیں دیکھ سکی۔ میری پوری دنیا اس پھاٹک کے اندر آباد تھی۔ جسے "ٹونک والوں کا پھاٹک” کہتے ہیں۔”

یا یہ آرزو:

” مجھے یاد ہے بچپن میں میری سب سے بڑی تمنا تھی کہ خاندان کے لڑکوں کی طرح میں بھی اس سڑک پر پیدل چلوں مگر تقدیر کا فیصلہ یہ تھا کہ میں پوری دنیا گھوم لوں لیکن میرے قدم اس سڑک کو نہ چھو سکیں۔”

تو اس سارے تقابل میں اگرچہ ہمیں ایک ننھے سے دل میں رہ جانے والی بچپن کی اس کسک کا شدید احساس تو ہوتا ہے جو محرومی بن کر تمام عمر کسی انسانی نفسیات کا حصہ بن جاتی ہے مگر پھر اسی محرومی کے سدباب کے حوالے سے زندگی کی حاصل کردہ مسرتوں اور شادمانیوں کی قدر و قیمت بھی فزوں تر ہو جاتی ہے۔ ادا جعفری کے یہاں جو ایک گہری طمانیت اور Sense of achievement نظر آتا ہے، وہ اپنی محرومیوں کے ازالے سے حاصل ہونے والے اسی یقین و اعتماد کا مظہر ہے۔

ادا جعفری نے اپنے عہد کے مختلف رویوں، پدر سری نظام اور خاندانی رسم و رواج کے قدیم اصولوں کے اثرات کے تحت ظہور پذیر ہونے والی طبقاتی تقسیم کا بھی احساس دلایا ہے۔ لکھتی ہیں :

” اس زمانے میں بھی اپنے گاؤں کے کسانوں سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیبیاں گھر کے نوکروں سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔ گویا ان کا شمار عام انسانوں میں نہ ہو۔ مجھے گاؤں کا وہ منظر یاد ہے جب ہم ماموں صاحب کے ساتھ شکار پر جاتے تھے۔ گھنے درختوں کی چھاؤں میں دری بچھا کر ہم تین چار لڑکے لڑکیاں بیٹھ جاتے۔ کھانے پینے کا سامان ساتھ ہوتا تھا۔ جب گاؤں والوں کو ہماری آمد کی خبر ہوتی تو عورتیں اور بچے ہم شہر والوں کو دیکھنے کے لیے آس پاس جمع ہو جاتے۔ دیہاتی عورتیں گڑ کے لڈو اور باجرے کی ٹکیاں ہمیں پیش کرتیں۔ ہمیں پہلے سے ہدایت ہوتی کہ سوغات میں ملی ہوئی یہ چیزیں قبول تو کر لیں مگر کھائیں ہرگز نہیں۔ گھر آ کر یہ چیزیں نوکروں میں تقسیم کر دی جاتیں۔”

اس اقتباس میں جس رویے کا حوالہ دیا گیا ہے اور طبقاتی تقسیم کے جس احساس کو بالالتزام انسانی نفسیات کا حصہ بنا دینے کی شعوری کوشش کا ذکر ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرتی رویوں کے معیارات کا تعین اس زمانے میں کیونکر کیا جاتا رہا تھا۔ بعد میں یہی طبقاتی تقسیم غیر شعوری طور پر اس طرح قبول کر لی گئی کہ اس ذہنیت کا تسلسل آج بھی جاری و ساری ہے۔

ادا جعفری نے برصغیر میں تحریک پاکستان کی بہت سی سرگرمیوں کو بہ نفس نفیس دیکھا تھا۔ اور اس نئے وطن سے ان کی جذباتی وابستگی، گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم سے مستحکم تر ہوتی چلی گئی تھی۔ کتاب کے نویں باب میں انہوں نے بطور خاص تحریک پاکستان کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کی ہیں اور اس ضمن میں چنیدہ واقعات بھی بیان کیے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا اور خود ان کے اپنے خاندان پر اس تحریک کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ لکھتی ہیں :

” میری یاد میں 1944-45ء کا زمانہ ہے جب ملک کی سیاست اور تحریک آزادی سے الگ تھلگ رہنے والا یہ تغیر نا آشنا خاندان، جس کے مزاج میں روایت پرستی رچی بسی تھی اور جسے صرف اپنے ہی نقش قدم پر چلنے کی عادت تھی، ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ سے جذباتی اور عملی دونوں لحاظ سے وابستہ ہو چکا تھا۔ اس گھرانے میں نئی اور پرانی نسل کے درمیان، سیاسی نظریوں میں کوئی اختلاف بھی نہیں تھا جیساکہ برصغیر کے اکثر گھروں میں ہوا۔ ہمارے گھر میں پاکستان کا قیام سب کے لیے مرکز نگاہ اور مقصد حیات بن گیا تھا۔ دنیاوی حق بھی اور دینی فریضہ بھی۔”

پھر اسی جدوجہد آزادی کے تناظر میں انہوں نے ان صدمات، خوف اور بے اعتباری کے لمحوں کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے جس نے دیکھتے ہی دیکھتے محبت کرنے والے بے شمار دلوں کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔

بدایوں میں خدا کا شکر ہے خوں ریزی اور غارت گری کے ہول ناک مظاہرے نہیں ہوئے مگر اندیشے دلوں کو کھرچ رہے تھے، وسوسے پرانی رفاقتوں کو نیم جاں کر رہے تھے، خبریں آ رہی تھیں، دل لرز رہے تھے۔ دوسرے شہروں میں کیا کچھ نہیں ہوا اور کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کیا کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ قاتل و مقتول اور ظالم و مظلوم کا فرق مٹ چکا تھا۔ انسانیت نڈھال ہو چکی تھی، موت زندگی سے بڑا ظلمانہ خراج لے رہی تھی۔ پورے ملک میں آگ بھڑک رہی تھی۔ ایک چنگاری کہیں بھی اور کسی بھی وقت پہنچ کر بے پناہ ہو سکتی تھی۔ ذہن میں خوف، دل میں بے اعتباری اور آنکھوں میں بد گمانی جنم لے رہی تھی۔

ادا جعفری میں انسانی نفسیات کے تجزیے کی ایک خدا داد صلاحیت بھی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی خود نوشت کو اک ایسی تحریر میں ڈھالنے میں کامیاب ہوئی ہیں جس کے مطالعے سے نہ صرف ہم تقسیم ہند سے قبل موجود نسل کی اس بھرپور نظریاتی اور عملی جدوجہد کے مختلف مراحل سے آشنا ہوتے ہیں جو ایک آزاد اور خود مختار وطن کے حصول پر منتج ہوئی بلکہ متحدہ ہندوستان کے مختلف طبقات کی اس تمام ذہنی اور باطنی کش مکش کو بھی سمجھ سکتے ہیں جس سے ہندوستانی معاشرہ ایک طویل عرصے تک گزرتا رہا تھا۔

ادا جعفری کا نثری اسلوب اپنی تمام تر سادگی کے باوجود معنی آفریں اور پر کشش ہے۔ رواں، خوب صورت اور پر اثر لہجے کے ساتھ وہ اپنے قارئین کو اپنی یادوں کے سفر میں شامل کر لیتی ہیں اور غیر محسوس طور پر انہیں بیتے ہوئے زمانوں کی طرف لوٹا دیتی ہیں۔ یوں دھیان کی رہ گزر پر پاؤں دھرتے ہی اس خود نوشت کا پڑھنے والا آپ ہی آپ اک ایسے سفر میں شامل ہو جاتا ہے کہ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی منظر، کوئی نہ کوئی احساس اور کوئی نہ کوئی یاد، اس کی انگلیاں تھام کر ساتھ ساتھ چلنے لگتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ظہور پذیر ہونے والے ذاتی احوال کے حوالے سے ادا لکھتی ہیں :

” دسمبر1947ء میں نور اپنی ملازمت کے ساتھ پاکستان آ گئے۔ میں لکھنو میں شمسہ باجی کے پاس تھی۔ وہ ایک انوکھا موسم تھا۔ جب صبا اور سموم قدم قدم ساتھ چلیں۔ جب چراغوں نے اجالوں کی سوگند کھائی تھی اور آندھیاں اپنا بل آزما رہی تھیں۔تند ہوائیں بھی موجود تھیں اور چاروں کھونٹ دیے بھی روشن تھے۔ محبتوں کے کشکول خاک دھول پر اوندھے کر دیے گئے تھے تو ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی خالی جھولیاں محبتوں ہی کے کھنکتے ہوئے سکوں سے بھر دی گئی تھیں۔ ایک مانوس گھر کے دروازے بند ہوئے تھے تو بے کراں جذبوں اور قربانیوں کے ساتھ حاصل کیا ہوا وطن خیر مقدم بھی کر رہا تھا۔ مارچ 1948ء میں جب میں پاکستان آئی تو اپنے وطن میں تھی۔ جہاں میں کسی بھی شہر میں رہوں سب اپنے تھے۔ اور میری بہن جو ہندوستان میں رہیں، وہ اپنے گھر، اپنے شہر رہ کر بھی ان پر آشوب دنوں میں بے وطن ہو چکی تھیں۔ تنہائی اور مہاجرت تو اس وقت ان کے نصیبوں میں آئی تھی اور ایسے منقسم خاندان بہت سے تھے۔ اور ابھی تک ہیں۔”

تصور پاکستان سے لے کر قیام پاکستان اور پھر استحکام پاکستان کے حوالے سے ادا جعفری کی خود نوشت میں جگہ جگہ وطن سے ان کی بے پناہ محبت کاسراغ ملتا ہے۔ وہ ان دقتوں اور دشواریوں کا تذکرہ بھی کرتی ہیں جو نئی مملکت کی اساس رکھے جانے کے وقت درپیش رہے۔ اور ان مسائل کا تجزیہ بھی پیش کرتی ہیں جو قومی زندگی میں وقتاً فوقتاً سر اٹھاتے رہے ہیں اور آج بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ شہر کراچی میں ہونے والے آئے دن کے فسادات کو وہ لمحہ فکریہ قرا ر دیتے ہوئے لکھتی ہیں :

” آج لہو لہان کراچی میں بیٹھ کر قیام پاکستان کے تاریخ ساز دنوں کو یاد کر رہی ہوں۔ کیسے یقین آئے کہ ایک عالم گیر برادری سے تعلق رکھنے والے ہی لوگ جو آج اک عظیم فلسفہ حیات کے داعی اور پیروکار ہیں جو دنیا کے نقشے پر ایک غیر معمولی نظریاتی ملک کے معمار ہیں، صرف چالیس برسوں میں ” طمع” ان کے دلوں کو تاراج کر سکتی ہے۔ قائد اعظم اور ان کے جلیل القدر ساتھیوں اور تمام جاں نثاروں اور سرفروشوں نے کب اور کیوں سوچا ہو گا کہ حصول آزادی کے بعد اسلام کے نام لیوا، اپنی خوشی سے قبائلی نظام کے اسیر ہو جائیں گے۔”

ادا جعفری کی خود نوشت کوئی روزنامچہ نہیں کہ اس میں زندگی کے گزارے ہوئے دنوں کا ذکر، تاریخی ترتیب کے ساتھ کیا گیا ہو۔ اس میں تو یادوں کے سائے اور دھیان میں کھلنے والے پھولوں کی بو باس ہے جو کسی بھی جھونکے کے ہمراہ چلی آتی ہے اور مشام جاں کو معطر کر جاتی ہے۔ ایسے ہی کسی لمحے کی بازیافت کے حوالے سے وہ ہمیں بطور خاص خواتین تخلیق کاروں کی ان مشکلات سے آگاہ کرتی ہیں جو دہرے معیارات کے حامل ایک کم علم معاشرے کے بیشتر افراد کے رویوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ فرسودہ سوچوں اور گھٹے ہوئے ماحول کے پروردہ لوگوں میں روشن خیالی مفقود ہوتی ہے۔ وہ صرف لکیر کے فقیر رہنے پر اکتفا کیے رکھتے ہیں۔ تخلیقی ہنر مندی رکھنے والوں کے نازک احساسات اور ارفع خیالات کو سمجھنا ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ بطور خاص اگر قلم عورت کے ہاتھوں میں نظر آ رہا ہو تو تعصبات اور تنگ دلی کا مظاہرہ اتنی شدت سے کیا جاتا ہے کہ بہت سی قلم کار خواتین ابتداء ہی میں ہمت ہار جاتی ہیں۔ اپنے ذاتی حوالے سے ایسے ہی ایک امتیازی سلوک کا ذکر ادا جعفری یوں کرتی ہیں :

” ایک دوپہر میں نے ایک صدائے آشنا سنی دور کہیں کوئل کوک رہی تھی۔ شاید وہ مجھ سے ہی محو کلام تھی، اس ہمدم دیرینہ سے مخاطب ہو کر میں نے اک نظم لکھی۔ اس کا عنوان تھا ” اجنبی دیس میں ” اس کے چند مصرعے ہیں :

شیام روپی! تجھے معلوم نہ ہو گا شاید

تو مجھے دور بہت دور لیے جاتی ہے

یہ صدائے شیریں

کسی بچھڑے ہوئے، بسرے ہوئے ساتھی کی طرح

جیسے ماضی کے نہاں خانے سے

آپ ہی آپ دبے پاؤں چلی آئی ہے

مجھ سے مت پوچھ کہ میرے لیے کیا لائی ہے

یہ طویل نظم ہے۔ مکمل ہونے کے بعد میں نے اشاعت کے لیے ایک رسالے کو بھیج دی۔ نظم شائع ہوئی اور ایک روزنامے کے صلاح کار نے اس کو اپنی توفیق بھر معنی آفرینی اور مفہوم تراشی سے نوازا۔ سعید بھائی (ادا کے بہنوئی) ان دنوں لاہور میں ڈپٹی کمشنر تھے۔سرخ روشنائی سے نشان زدہ مصرعے اور تبصرہ بحیثیت سرکاری افسر، ان تک بھی پہنچا۔ یہ سب تفصیل مجھے سعید بھائی نے بتائی اور میں پریشان ہو کر رہ گئی۔ نور بھی پاس نہ تھے اور پریشان کن خیال یہ بھی تھا کہ کیا اب لکھنے والوں کو دوسروں کے خیالوں کی اونچ نیچ دیکھ کر لکھنا ہو گا۔ کیا مجھے شعر کہنے سے پہلے متعصب ذہنیتوں کا دھیان بھی رکھنا ہو گا پہلی بار معلوم ہوا کہ زندگی کے سفر میں، صرف زوال آمادہ جاگیرداری نظام ہی حائل نہیں ہوتا، کچھ اور مشکل مقام بھی آتے ہیں۔”

اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود ادا جعفری کے لیے اپنے تخلیقی سفر کی راہیں تراشنا کچھ اتنا سہل نہ تھا۔ اس تلخ حقیقت کا یہ رخ بھی قابل توجہ ہے کہ جب کوئی عورت، معاشرے کے طے کیے ہوئے نظام اقدار کے تحت:

” کیا لکھے اور کیا نہ لکھے”

کی الجھن میں مبتلا ہو کر اپنے بعض تجربوں اور سچائیوں کے اظہار سے گریز کرتی ہے تو اسکی تحریروں کو غیر معیاری اور ادب عالیہ کے مطلوبہ معیارات سے کم تر قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور اس کے برعکس اگر کوئی جرأت مند قلم کار خاتون اپنی آرزوؤں، تمناؤں اور بحیثیت ایک ذی شعور انسانی وجود اپنے تجربات کو تمام تر سچائیوں کے ساتھ سپرد قلم کر دیتی ہے تو سماج کے اخلاقی آدرشوں کے مطابق، انہیں ناپسندیدہ اور ناقابل قبول قرار دے دیا جاتا ہے۔ ادا جعفری خواتین قلم کاروں کے اس المیے کا بھرپور ادراک رکھتی ہیں مگر وہ اس مصرعے یعنی:

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

کے مصداق ہمیشہ نرم زبان و نرم گفتار رہ کر نسوانیت کے روایتی روپ کو اپنے اوپر مسلط کر لینے سے گریزاں رہی ہیں اور مسلسل اپنے محسوسات اپنی سوچ اور شعور ذات و کائنات کا اظہار کرنے پر اصرار کرتی رہی ہیں۔

اس اصرار کے نتیجے میں جو تحریریں ہمارے سامنے آئی ہیں، ان کے مطالعے سے ان کے طرز احساس اور نقطہ نظر کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

ادا جعفری کی شعری اور نثری تحریروں میں اپنے رشتے ناتوں، گھر، خاندان، شوہر اور بچوں سے ایک گہری دل وابستگی اور بے لوث الفت کا احساس مستقل غالب رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ شعوری اور غیر شعوری طور پر ہر لمحہ کسی اٹوٹ بندھن سے بندھی رہتی ہیں۔ ان کے محسوسات، خیالات، آرزوؤں، ارادوں اور ان کے پورے وجود کو یہ رشتے جکڑے رہتے ہیں۔ مگر اس بندھن سے کسی گھٹن یا جبر کا احساس نہیں ابھرتا بلکہ زندگی کی تازہ تر قوت، دیرینہ اعتماد اور سکوں بخش سیرابیوں کا تاثر اجاگر ہوتا ہے۔ بطور خاص اپنے بچوں اور پھر ان کے تعلق سے اپنی بہوؤں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنے پھلتے پھولتے سرسبز و شاداب رشتوں سے ایسی مسرتیں حاصل کرتی محسوس ہوتی ہیں جن کے بے ساختہ بیان میں ان کا والہانہ پن چھپائے نہیں چھپتا۔

جس طرح ان کے شعری مجموعوں میں ان رشتوں کے تعلق سے کہی ہوئی نظمیں شامل ہیں، اسی طرح ان کی خود نوشت سوانح میں بھی ہمیں اس نوع کے تذکرے بار بار ملتے ہیں۔ اپنے بیٹے عامر کی شریک حیات کے لیے ان کے یہ جذبات ہیں :

” ماہا کو ہماری زندگی میں شامل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا مگر لگتا ہے، وہ کبھی ہم سے الگ نہیں تھی۔ صرف دعاؤں ہی میں نہیں، ہمارے شب و روز میں بھی خوشبو کی طرح پہلے ہی کہیں نہ کہیں موجود تھی۔ ماہا کی آمد سے پہلے میں اور نور کتنے اکیلے تھے، اس کا احساس تو گھر میں اس کی موجودگی کے بعد ہی ہوا۔ سنتے آئے تھے کہ ” بہو بے زبان ہی بھلی” مگر میری بیٹی ماہا ہفت زبان ہے اور گفتگو صرف محبت کی زبان میں کرتی ہے۔”

ایک اور جگہ لکھتی ہیں ـ:

” اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ جو وقت گزرتا ہے، اس کا تو ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ عزمی اور صبیحہ امریکا میں ہمارے قیام کو زیادہ سے زیادہ پرکشش بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی وقت کی حدود کو نظر انداز کرتے ہوئے ماضی کی غیر معمولی شخصیات سے ملاقات ہو جاتی ہے، کبھی آسائشوں اور شادمانیوں سے چھلکتے ہوئے اس بر اعظم کے ایسے گوشوں تک جا پہنچتی ہوں جہاں قدرتی مناظر کا حسن و جمال اپنے معجز نمائی کی انتہا کو چھوتا نظر آتا ہے۔”

اپنے شوہر نور الحسن جعفری کا ذکر یوں کرتی ہیں :

” نور کے وجود میں بیک وقت دو بڑی دل آویز شخصیتیں سانس لیتی ہیں۔ ایک حفاظت اور امان کی علامت وہ چھتنار گھنا سایا جسے باپ کہتے ہیں اور ایک وہ بچہ جو دو سال کی عمر میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا تھا۔ (دو سال کی عمر تھی جب نور الحسن جعفری کی والدہ کا انتقال ہوا تھا) نور نے سائبان بن کر مجھے موسموں کی شدت سے محفوظ رکھا ہے انہوں نے میری خوشی کو کتنا عزیز جانا ہے، یہ لکھنے کی ضرورت بھی کیا اور حاصل بھی کیا۔ احساس کی امانت کا بار الفاظ کہاں اٹھا سکیں گے۔”

ان محبتوں، قربتوں اور وابستگیوں کے علاوہ ادا جعفری کی شخصیت کی تعمیر میں ان کے روحانی ورثوں کا بخشا ہوا فیض بھی شامل رہا ہے۔ خود نوشت کے ایک باب ” نگاہوں نے زمیں کو آسماں دیکھا” کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ تمام دنیا میں گھوم پھر کر راحتیں اور مسرتیں حاصل کرنے والی ادا جعفری جب بیت اللہ پر پہنچتی ہیں تو عمرے کی ادائیگی اور روضہ رسولؐ پر حاضری کے دوران کی قلبی کیفیات نا قابل بیان ہو جاتی ہیں۔ اپنی باطنی سرشاریوں کو حرف و لفظ کا جامہ پہناتے ہوئے وہ سراپا سپردگی ہی سپردگی نظر آ رہی ہیں۔ ان لمحوں کو بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

” خانہ کعبہ کے گرد والہانہ طواف کرتے ہوئے کسے معلوم کون کہاں تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہر جانے والا اکیلا ہوتا ہے کتنا ہی مجمع، کیسی ہی بھیڑ ہو، کوئی کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی اپنے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔”

ادا کی شخصیت اور تحریروں میں کوئی تضاد نہیں۔ وہ جتنی منکسر المزاج، شائستہ، تہذیب، سادہ دل اور حساس، اپنے ظاہر میں نظر آتی ہیں، اتنی ہی اپنی تحریروں کے آئینے میں بھی منعکس ہوتی ہیں۔ خواتین کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ ان کے مزاج میں باہمی مقابلہ آرائی کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے اور اسی لیے وہا یک دوسرے کی اصل خوبیوں اور خامیوں کو پرکھے بغیر ایک دوسرے سے حسد میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ ادا جعفری کی شخصیت اور ان کے ذاتی رویوں نے اس تاثر کی بھرپور نفی کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے سے قبل کی شاعرات کا تذکرہ عزت و احترام سے کیا ہے بلکہ اپنی ہم عصر شاعرات اور پھر اپنے بعد ادبی منظر نامے میں شامل ہونے والی اہل قلم خواتین کا ذکر بھی بھرپور احساس پذیرائی کے ساتھ کیا ہے اور اس سلسلے میں معروف اور غیر معروف اہل قلم خواتین میں بھی کوئی امتیازی سلوک نہیں برتا۔

ممتاز نقاد ممتاز شیریں کو ان کی وفات پر 1973ء میں نظم ” بلاوا” میں خراج تحسین پیش کرتی ہیں، اس نظم کی چند سطریں :

وہ جو چپ چاپ بھری بزم سے اٹھ کر چل دیں

یوں دبے پاؤں کہ جیسے کہیں آئیں نہ گئیں

بے نیازی تھی کہ خود داری فن تھی لوگو

شب کی مہماں کوئی گم گشتہ کرن تھی لوگو

درد کا زہر تھا رگ رگ میں لہو کے بدلے

اور وہ سوچ میں ڈوبی ہوئی حیراں آنکھیں

خامشی ایسی کہ ہنگامہ محشر جیسے

یاد کے دھندلے دریچوں میں کہیں صف آرا

عہد ماضی کے حسیں خواب تمنا کے سراغ

دور افق پار، فروزاں کسی فردا کے چراغ

معروف ناول نگار نثار عزیز بٹ کے لیے لکھتی ہیں :

” نثار موجودہ عہد کی نہایت اہم ناول نگار ہیں۔ ان کی تصانیف سے سرسری نہیں گزرا جا سکتا۔ ان کے حسن اخلاق اور جمال کردار کے علاوہ، ان کی ادبی حیثیت بھی اپنا اعتبار اور اپنی وقعت رکھتی ہے۔”

اسی طرح ممتاز ادیب مختار مسعود کی بیگم عذرا مختار مسعود کا تذکرہ نکل آیا تو ادا جعفری محض ان کے مزاج، رویوں، نرم خوئی اور ایثار و خلوص کا ذکر کر کے آگے نہیں بڑھ گئیں بلکہ بڑی فراخ دلی سے ان کی شخصیت کے اس تخلیقی جوہر کو بھی سراہاجو گاہے بہ گاہے ان کے تحریری حسن میں اپنی جھلکیاں دکھاتا رہتا ہے۔ لکھتی ہیں :

” عذرا، خوب صورت نثر لکھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔ا ن کے لکھے ہوئے مضامین میں نے سنے بھی ہیں اور پڑھے بھی ہیں۔ نہ جانے کیوں انہوں نے لکھنا ترک کر دیا۔ یہ عذرا نے اپنے اوپر بھی ظلم کیا ہے اور ہمیں بھی مایوس کیا ہے۔ اب بھی جب کبھی کبھی ان کے خط آتے ہیں، ان میں وہی ادبی لہجہ اور طرز اظہار کا وہی حسن ہوتا ہے۔ کاش انہوں نے لکھنا جاری رکھا ہوتا۔”

مختلف قلم کار خواتین کی صلاحیتوں کے حوالے سے یہ اعتراف اور یہ فراخ دلی اس بات کی مظہر ہے کہ ادا جعفری خود اپنی شخصیت اور اپنی ذات پر بھرپور اعتماد رکھتی ہیں اور اپنی روشنی کو نمایاں کرنے کے لیے دوسروں کے چراغ بجھانے کی خواہش نہیں رکھتیں۔

” جو رہی سو بے خبری رہی” میں شامل ایک خوب صورت باب بہ عنوان ” ایک سب آگ، ایک سب پانی” ہے۔ ان اوراق کے مطالعے سے ادا جعفری کی ” علم پسندی” کا اظہار ہوتا ہے۔ اپنی ذات کے محدود حصار سے نکل کر، کھلی آنکھوں سے زندگی کے متنوع مظاہر کو دیکھنے کی تمنا، ان کی فطرت میں ابتدا سے شامل تھی۔ اسی تمنا نے انہیں وقت آنے پر، زندگی سے مستفیض ہونے پر اکسایا۔ لہٰذا وہ اپنے مشاہدات، علمی تجسس اور تخلیقی لگن کے ذریعے اس انبساط کو حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ جو زندگی کی صداقتوں کے منکشف ہونے پر ہر صاحب دل کو حاصل ہوتا ہے۔ لکھتی ہیں :

” گمانوں کو چھونے اور خیالوں کو بوجھنے کی عمر میں میرے سامنے دیواریں ہی دیواریں تھیں۔ دائرہ در دائرہ زیست کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ جتنا اب اتنی دوری کے بعد نظر آ رہا ہے۔ میں کہاں کہاں پہنچنا اور کس کس کو دیکھنا اور سننا چاہتی تھی۔ مگر مدتوں کھلی ہوا میں سانس لینے کو بھی ترستی رہی۔ سو اب میں نے وقت اور زمانوں کی حد بندیاں بھی توڑ دی ہیں۔”

ایک محدود زندگی سے نکل کر ادا جعفری نے مختلف سر زمینوں، مختلف معاشرتوں اور تہذیبوں کا نظارہ کیا تو ان کے اندر، ان کے بچپن کی سوئی ہوئی آرزوئیں اور تمنائیں ایک ایک کر کے جاگنے لگیں۔ اب ان کے جذبات، ان کے افکار اور سوچوں کا تقاضا تھا کہ دنیا میں مشترک جذبوں اور مشترک خیالات کے حوالے سے بلا امتیاز رنگ و نسل تمام انسانوں کو ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے موتیوں کی طرح محسوس کریں۔ ادا جعفری نے نیو انگلینڈ کے سفر میں اپنی اسی تمنا کو باریاب ہوتے دیکھا۔ا پنے مشاہدوں کے ذریعے وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ دنیا کے مختلف حصوں میں، انسان کی تہذیبی زندگی جن جن مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی آگے بڑھی ہے اور انسان اس ارتقائی مرحلے میں اقدار کے رد و قبول کے جن جن تجربات سے آشنا ہوا ہے، اس کے مطالعے سے ہم مختلف معاشروں کے بہت سے مشترک تجربوں کے ذریعے ایک دوسرے سے قربت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس تناظر میں انہوں نے نیو انگلینڈ کی دو نہایت غیر معمولی شاعرات کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ یعنی ایملی ڈکنسن اور سلویا پلاتھ۔ ان دونوں شاعرات کے عہد میں تقریباً ایک صدی کا فاصلہ ہے اور زندگی کے بارے میں ان کے رد عمل میں بھی یکسر فرق پایا جاتا ہے۔ ادا جعفری نے ان دونوں شاعرات کے تخلیقی رویوں، فکری جہات اور اسالیب اظہار کی امتیازی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے اپنے خوب صورت نثری اظہار میں بڑی مہارت سے ان شاعرات کے ” تضاد رنگ” کو نمایاں کیا ہے۔

ایملی ڈکنسن کی گم نام زندگی، شاعری، ناکام محبت، جذباتی نا آسودگی، بیماری و غم و اندوہ کے تفصیلی بیان میں ادا جعفری نے کسی رسمی اظہار سے ہرگز کام نہیں لیا ہے بلکہ اس کی شخصیت کے مطالعے میں ایک گہری درد مندی شامل ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ایملی ڈکنسن کی جن نظموں کا انتخاب کیا ہے، ان کے تراجم سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایملی سے اس کے تخلیقی دکھ کی نوعیت کے حوالے سے بھی ایک خاص قربت محسوس کرتی ہیں۔ لکھتی ہیں :

” ایملی ڈکنسن کی شاعری اور زندگی دونوں میں ہمیں ایک مانوس مشرقیت ملتی ہے۔ اس کی شاعری کو اس کی زندگی کا روزنامچہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کی موت کے بعد اس کی بہن کو الماریوں کے کونوں اور درازوں میں اس کی دو ہزار سے زیادہ نظمیں ملیں جو اس کے مرنے کے چار سال کے بعد شائع ہو کر لوگوں تک پہنچیں اور انہیں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے انداز بیان کی سادگی اور صداقت نے اس کے ذاتی جذبات کو آفاقی حقیقت بنا دیا۔”

اسی طرح سلویا پلاتھ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

” میں نے ان دونوں کے تضاد رنگ کا ذکر کیا ہے۔ سوچتی ہوں کہ زندگی کی ناکامیوں سے کام لینے میں تو دونوں یک رنگ رہیں۔ فرق تھا تو اتنا کہ ایک نے زندگی کو گھونٹ گھونٹ پیا۔ دوسری نے ایک ہی سانس میں پیالہ خالی کر دیا۔”

سلویا پلاتھ کی شاعری پر بھی ادا جعفری نے اپنا واضح نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے لکھا ہے:

” وہ پہلی مغربی شاعرہ تھی جس نے پہلی بار کھل کر ایک با شعور مکمل عورت کے جذبات کو خاص عورت کے نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔”

پھر ایملی ڈکنسن سے اس کا تقابل کرتے ہوئے ادا لکھتی ہیں ـ:

” ایملی ڈکنسن کبھی مکمل عورت نہیں بن سکی۔ ترک دنیا کر کے وہ گویا دوبارہ رحم مادر میں پناہ گزیں ہو گئی تھی جب کہ سلویا پلاتھ مردوں کے قائم کردہ نظام حیات کی نا انصافیوں کے خلاف سراپا احتجاج تھی۔”

اس تقابل سے ہمیں ادا جعفری کے ذہنی رویے اور طرز احساس کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اور بطور خاص جب ہم اس تجزیے کے آخری حصے تک پہنچ کر ان کے یہ الفاظ پڑھتے ہیں :

” ان دونوں خواتین اک تعلق میرے اپنے قبیلے سے ہے۔ وہ مغربی معاشرہ تھا اور اپنا اپنا رد عمل۔۔۔۔ میرے دیس میں تو مدتوں، پہلی سانس لینے سے قبل ہی عورت زندگی سے دست بردار ہونے پر مجبور ہوتی رہی ہے۔”

یہ سطور پڑھتے ہیں تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ خود ادا جعفری کی اپنی ذات میں بھی ایسے تجربات کا دکھ بہت گہرا ہے جو معاشرے کے استحصالی عناصر کے ہاتھوں مشرق کی اہل قلم خواتین کو پہنچے ہیں جبھی تو انہوں نے ایملی ڈکنسن اور سلویا پلاتھ کا تعارف کراتے ہوئے ان کی شعری تخلیقات میں سے اپنے نقطہ نظر کی صراحت کے لیے ایسی نظموں کا انتخاب کیا ہے جو معاشرتی جبر کے خلاف حساس اور ذی شعور نسائی وجود کے بھرپور رد عمل پر مبنی ہیں۔ مثلاً ایملی ڈکنسن کی نظم کی یہ سطریں :

محبت روٹی کی طرح ہے

جب پیٹ بھرا ہو تو ہمیں یاد بھی نہیں رہتی

اور جب فاقے کی نوبت آ جائے

تو ہم اس کے خواب دیکھتے ہیں

اس کے گیت گاتے ہیں

اس کی شبیہیں بناتے ہیں

یا یہ نظم:

میں ہمیشہ بھوکی رہی

دانہ دنکا جو میں نے چڑیوں کے ساتھ حصہ بانٹا

وہ صرف قدرت کے طعام خانے سے ملا

اسی طرح سلویا پلاتھ کی شاعری میں یہ نسائی زاویہ نگاہ جس میں ایک مسلسل احتجاج کے عالم میں اپنی نامرادی اور اپنے دکھوں کو یوں بیان کیاگیا ہے:

ایک مسکراہٹ گھاس پر گر گئی

اس کی واپسی اب ممکن نہیں

موت کی شدید آرزو کو لکھتے ہوئے سلویا اپنے احساس کو

ان لفظوں میں ڈھالتی ہے۔

مر جانا، دوسرے فنون کی طرح ایک فن ہے

میں اس فن میں غیر معمولی مہارت رکھتی ہوں

ادا جعفری نے سلویا پلاتھ کے جسمانی اور ذہنی استحصال، تلخ تجربات زندگی، ذہن و روح کی تکذیب سے ملنے والے گھاؤ اور ایک قلم کار شوہر کے ہاتھوں ایک قلم کار بیوی سے معاندانہ سلوک کے تناظر میں اس کی زندگی کے انجام اور خود کشی کے حوالے سے اس کی آخری عمر کے محسوسات سے یہ اقتباسات پیش کیے ہیں :

دل تھم گیا ہے

سمندر کی لہریں پیچھے ہٹ گئی ہیں

آئینوں پر چادریں ڈال دی گئی ہیں

ایک اور نظم:

عورت نے اپنی تکمیل کا مقام حاصل کر لیا ہے

اس کا بے جان جسم، کاملیت کی مسکراہٹ کا غماز ہے

اس کے ننگے پیر کہہ رہے ہیں

ہم نے طویل سفر طے کیا ہے

اور سفر تمام ہوا

ادا جعفری کی اس خود نوشت سوانح کی ایک واضح خوبی اس کا تسلسل بیان بھی ہے۔ ایک بہاؤ ہے جس میں پڑھنے والا بہتا چلا جاتا ہے اور زمانی اور مکانی فاصلے خود بخود طے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں وہ اپنے قاری کو کچھ دیر کے لیے سستانے کی مہلت دیتی ہیں اوریوں دلچسپ واقعات کی ٹھنڈی چھاؤں میں لا بٹھاتی ہیں۔ زندگی کے مختلف تجربات سے اخذ کردہ معلومات کو وہ کسی غیر دلچسپ اور بے رس پیرائے میں اپنے قاری تک نہیں پہنچاتیں بلکہ ابتداء ہی سے ایک ایسا انداز اختیار کرتی ہیں کہ ان کے بیانیے سے ان کے قاری کا ایک گہرا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ پھر جیسے جیسے وہ اپنی بات کو آگے بڑھاتی جاتی ہیں، یہ تعلق مستحکم سے مستحکم تر ہوتا جاتا ہے۔ ” آمش” کے عنوان سے مرتب کیے ہوئے ایک باب میں انہوں نے قدیم روایتی امریکی قبیلے کی بابت مختلف معلومات بہم پہنچانے کے لیے ایک قصے سے آغاز کیا ہے۔ یہ قصہ ان کی بیٹی صبیحہ اقبال نے انہیں سنایا تھا۔ اس قصے سے آغاز کا مقصد قاری کے تجسس کو فوری بیدار کرنا ہے:

” وہ قبیلہ جو ایک ترقی یافتہ دنیا کے ایک انتہائی جدید معاشرے کے جزو ہونے کے باوجود، اپنی قدامت پرستی اور مخصوص نظام حیات کے اعتبار سے بالکل متضاد طرز زندگی کا حامل ہے۔ وہاں ایسی روایتوں پر عمل کرنے والے افراد رہتے بستے ہیں جو کسی بیمار انسان کے لیے بیماری کی حالت میں بھی علاج کروانے کو ممنوعہ قرار دیتے ہیں اور اپنے دین اور مذہب کے تقاضوں سے متصادم سمجھتے ہیں۔”

اس ضمن میں انہوں نے آمش قبیلے کی ایک نوجوان لڑکی کی بیماری، لا علاجی اور بالآخر موت کا احوال لکھا ہے اور پھر اسی قصے کے پس منظر کے ساتھ آمش قبیلے کی فرسودہ روایات کو انتہائی دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے:

” وہ قبیلہ جو واشنگٹن کے قرب و جوار میں ایک شدت پسند مذہبی فرقے کے طور پر آزادانہ زندگی گزارتا ہے اور جدید سائنسی ایجادات کو اللہ کے قانون میں مداخلت سمجھتا ہے۔”

اس باب کو لکھتے ہوئے ادا جعفری نے ایک دلچسپ تقابلی مطالعے سے کام لیا ہے۔ امریکا کی معاشرتی زندگی کے تضادات کو نمایاں کرنے کی خاطر، انہوں نے اہم علمی درس گاہوں اور معروف جامعات کا بھی ذکر کیا ہے جو سائنسی ترقی کے جدید ترین مثالیوں کے ساتھ، علم و آگہی کی قدر و قیمت کو اجاگر کر رہی ہیں۔ یوں ان تفصیلات کو جاننے والوں کے لیے اس نکتے کو سمجھنا سہل ہو جاتا ہے کہ وہ روشنی کی اہمیت کو اندھیرے سے تقابل کے ساتھ اور صبح کے اجالے کو رات کی تاریکی سے تقابل کے ساتھ، بہتر طور پر سمجھنا چاہتی ہیں۔

ادا جعفری نے آمش قبیلے کے رہن سہن، مذہبی عقائد، ان کے اصولوں اور طریقوں، ان کے طرز زندگی، لباس، وضع قطع، عادات و اطوار کے بیان کے ذریعے جو رود اور رقم کی ہے، اس کے مطالعے سے امریکہ کی معاشرتی زندگی کو اس کے تمام تر تنوع اور تضادات کے ساتھ سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

ادا جعفری نے مغربی معاشروں میں مقیم اپنے بچوں سے ملاقات کے لیے کی جانے والی آمد و رفت سے بھرپور استفادہ کیا۔ یوں بھی زندگی نے انہیں اس انداز میں آسودہ حال رکھا کہ مختلف شہروں اور مختلف ملکوں کو دیکھنے اور وہاں کے شب و روز سے نئی تازگیوں کو اپنے وجود میں جذب کرنے سے، وہ زندگی کی یکسانیت سے محفوظ رہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں کی حیرت انگیز کرشمہ سازیوں، تصور ترقی اور تسخیر کائنات کے مفہوم کو عملی جامہ پہنانے والے طرز زندگی کے مشاہدوں سے انہوں نے بہت کچھ اخذ کیا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جب زندگی اپنی وسعتوں کے ساتھ، کسی انسان پر منکشف ہوتی ہے تو اس کے نگاہ و قلب میں بھی کشادگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنے بہت سے سفر کی تفصیلات رقم کرتے ہوئے اگرچہ انہوں نے اپنی نجی زندگی اور گھریلو مصروفیات پر بھی توجہ رکھی ہے مگر ان میں بھی جگہ جگہ ان کی دلی خواہشوں اور باطنی مطالبوں کی تسکین کے سامان نظر آتے ہیں۔ لکھتی ہیں :

” ناظم حکمت کو میں نے شعاع اور عزمی کے ساتھ ایمرسٹ میں تلاش کیا۔ میری بہو شعاع کتابوں کی تلاش میں ہمیشہ بڑی جاں فشانی سے میری مدد کرتی ہے اور جب وہ ساتھ ہو تو اس تلاش میں کامیابی کا یقین بھی میرے ساتھ رہتا ہے۔ کتابوں کی شیلف میں منتخب شعراء کے مجموعوں کے درمیان میں نے ناظم حکمت کی نظمیں دیکھیں اور مجھے فیض یاد آ گئے۔ یہ ناظم حکمت کا تازہ ترین اور وقیع انتخاب کلام تھا جو عزمی نے دریافت کر لیا۔”

ادا جعفری کا انداز نگارش کچھ ایسا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی اخذ شدہ مسرتوں میں اپنے قارئین کو بھی بھرپور شرکت کا احساس دلاتی ہیں، اسی لیے اپنی تحریر میں جب وہ کسی ایسے مقام پر پہنچتی ہیں جہاں کسی اہم بات کا تذکرہ ہو رہا ہو تو سرسری نہیں گزر جاتیں بلکہ کچھ دیر گفتگو کا رخ موڑ کر اپنے تجربات کے مختلف پہلوؤں کو کچھ ایسے معلومات انداز میں پیش کرتی ہیں کہ پڑھنے والا خود کو ثروت مند محسوس کرنے لگتا ہے۔ ترکی کے شہرۂ آفاق شاعر، ناظم حکمت کی نظموں کی کتاب ہاتھ آتے ہی ادا جعفری کو فیض احمد فیض یاد آ گئے۔ وہ لکھتی ہیں :

” دونوں کی شاعری اور زندگی میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور ہے، غم دوراں کو غم جاناں کی طرح دل سے لگائے ہوئے دونوں سر اٹھا کے چلے۔ زنداں کے اندھیرے ان دونوں چراغوں سے روشن رہے۔ قید تنہائی میں دونوں نے اپنے آپ سے باتیں کیں۔ اکتائے بھی، گھبرائے بھی لیکن پچھتائے کبھی نہیں۔”

فیض کہہ رہے تھے:

صبا نے پھر در زنداں پہ آ کے دی دستک

سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے

تو ناظم حکمت سوچ رہے تھے:

قید و بند تو کوئی بات نہیں

اصل بات یہ ہے کہ انسان شکست خوردہ نہ ہو

ادا جعفری نے ترکی کے جدید شاعر ناظم حکمت کو جن کا عرصہ حیات(1963ء۔1902ء) تک پھیلا ہوا ہے آزادی اور مساوات کے خواب دیکھنے والا شاعر کہا ہے اور ان کی کئی نظموں کے تراجم پیش کیے ہیں :

ایک منظوم خط میں وہ اپنی بیوی کو لکھتے ہیں :

جان من!

رسن و دار کے موسم میں

میں نے کئی بار اپنی آزادی کو کھویا

وہ دن جو ظلمتوں، چیخوں اور بھوک

کے کرب سے طلوع ہو کر

ہمارے دروازے پر دستک دیں گے

ان کے دونوں ہاتھوں میں آفتاب ہو گا

اس خود نوشت کی ایک خوبی یہ ہے کہ ادا جعفری کے گزرے مہ و سال کو سمیٹتے ہوئے کم و بیش اپنے سارے ہی مخلص ساتھیوں کا ذکر کسی نہ کسی طور پر ضرور کیا ہے۔ یہ ذکر اتنا بے ساختہ اور فطری ہے کہ بس بات سے بات نکلتی جاتی ہے اور یادوں کے شہر کے کھلے دروازے سے یہ سب آشنا کردار ایک اک کر کے داخل ہوتے چلے جاتے ہیں۔

سترھویں باب بہ عنوان ” سلسلے” میں وہ کئی ممتاز ادیبوں اور قلم کاروں سے اپنے ذاتی مراسم کے حوالے سے جب اپنی یادداشتیں بیان کرتی ہیں تو ان کے قارئین کو ان ہستیوں کی نجی زندگی، عادات و ا طوار، طرز احساس اور زندگی کرنے کے رویوں کے بارے میں خاطر خواہ معلومات حاصل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اجنبیت اور نا آشنائی کا احساس، گہری شناسائی اور دلی قربت میں ڈھلنے لگا ہے۔ اس احساس کے اجاگر کرنے میں بیانیہ کے اس لطف کا بھی ہاتھ ہے جو ادا جعفری کے نثری اظہار کا خاصہ ہے۔ وہ کہانیوں کے انداز میں اپنی بات کا آغاز کرتی ہیں اور ابتدا ہی سے ایک ایسا فطری پیرایہ اظہار اختیار کر لیتی ہیں کہ ان کا ہر قاری خود کو بہ نفس نفیس ان کی محفلوں کا شریک محسوس ہونے لگتا ہے۔ مثلاً ممتاز ادیب قدرت اللہ شہاب کے حوالے سے اپنی یادداشتوں کر رقم کرتے ہوئے وہ اپنی بات کا آغاز اس داستاں طرازی سے کرتی ہیں :

” کہتے ہیں ایک عابد شب زندہ دار، زاہد تہجد گزار، پاک طینت، نیک خو کسی در یا کے کنارے چلے جا رہے تھے۔ آگے بڑھے تو موج نسیم کی طرح ذکر کی جاں پرور صدا آئی۔ ٹھٹک کر سننے لگے۔ دریا پار کوئی درویش اپنے حالوں یاد الٰہی میں غلطاں تھا۔ بزرگ کو حرف کی ادائیگی اور لہجے میں کسی کمی بیشی کا احساس ہوا۔ تصحیح اپنا فرض جانا۔ پاس ہی کنارے سے لگی ایک کشتی دیکھی۔ مالک سے اجازت لے کر مرد بزرگ ناؤ کو کھیتے ہوئے دوسرے کنارے تک جا پہنچے۔ درویش کو آداب و طریق ذکر سے آگاہ فرمایا، لہجہ درست کیا، پھر کشتی واپس موڑی۔ مگر پھر ٹھہرنا پڑا۔ درویش کی صدائے بے تابانہ میں پھر سہو کا احساس ہوا۔ دوبارہ کشی لے کر ندی پار کی اور وہاں پہنچے، در و بست سمجھایا۔ اصلاح کر کے پھر واپس پلٹے، کچھ دیر سکوت رہا تو چونکے، مڑ کے دیکھا تو دوسرے کنارے سے درویش دریا کی سطح پر قدم جماتا ان کی سمت بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ نزدیک آ کر معذرت خواہ ہوا کہ اصلاح ذہن سے محو ہو چکی ہے۔ اس لیے میں ندی اور ناؤ کے اہتمام کے بغیر ہی آپ تک آ پہنچا ہوں۔”

اس داستاں طرازی کے بعد قدرت اللہ شہاب کے حوالے سے انہوں نے کئی حلقوں کی اس رائے کی صراحت کی ہے جس میں انہیں ” صاحب اسرار” کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ پھر اپنے اس مسلسل اصرار کا ذکر بھی کیا ہے جو شہاب صاحب سے انہوں نے اس تاثر کی اصلیت دریافت کرنے کے لیے کیا۔ آکر میں وہ اپنے قارئین تک اپنا تاثر ان الفاظ میں پہنچاتی ہیں :

” برسوں کے میل جول کے عرصے میں میں اور نور شہاب صاحب کی ایک ہی کرامت پر ایمان لائے اور وہ یہ تھی کہ وہ نہایت پاک طینت انسان تھے۔ ان کی شخصیت میں کوئی بات ایسی ضرور تھی جس کا احترام کرنے کو جی چاہتا تھا۔”

پھر لکھتی ہیں :

” ویسے شہاب نامے کے ایک دو باب اب بھی ایسے ہیں جن کے بارے میں ان سے کچھ پوچھنے کی خواہش ہوتی ہے مگر اب وہ ہمارے یقین و گماں کی پگڈنڈیوں سے بہت آگے جا چکے ہیں۔”

ادا جعفری نے اپنی خود نوشت میں جن جن دوستوں، مہربانوں اور قرابت داروں کا تذکرہ کیا ہے، ان کی شخصیات کی ان گنت رنگوں میں سے بطور خاص وہ رنگ چنے ہیں جو خوب صورت اور دل آویز ہیں۔ تلخ گوئی، عیب جوئی اور طنز و تشنیع کا انداز اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے ہمیں خود ادا جعفری کی متین و بردبار شخصیت اور صلح جو فطرت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ فی زمانہ، یہ رویہ اور انداز نظر بہت کم نظر آتا ہے۔ یہ نہیں کہ کسی شخص میں صرف خوبیاں ہی خوبیاں موجود ہوتی ہیں اور اس کی ذات میں کوئی خامی اور کمزوری نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بھی انسانی فطرت ہی کا خاصہ ہے کہ اگر اعلانیہ طور پر کسی کی شخصیت کے کمزور پہلوؤں کا تذکرہ کیا جائے تو اس کی ” عزت نفس” مجروح ہوتی ہے۔ ادا جعفری چونکہ ایک دستاویزی صورت میں ان شخصیات کے حوالے سے اپنے تاثرات قلم بند کر رہی تھیں، غالباً اس لیے انہوں نے کسی بھی منفی تبصرے سے گریز کیا ہے۔ ان کی دردمندی، شائستگی اور خوش خلقی کا بھی یہی تقاضا تھا کہ اپنے ان احباب کو جن سے وہ گہری عقیدتیں رکھتی تھیں، کسی طور ان کے دلوں کو مجروح نہ کریں، لہٰذا انہوں نے ان کی خوبیوں کو منتخب کر لیا اور کوتاہیوں سے صرف نظر کیا۔ مگر اس رویے سے ان کے قارئین کے لیے یہ دشواری پیدا ہو گئی ہے کہ وہ ادب و شعر کی ان ممتاز ہستیوں سے بھرپور تعارف حاصل نہیں کر سکے ہیں۔

راولپنڈی اسلام آباد میں اپنے قیام کے دنوں میں ادا جعفری نے ” سلسلہ” کے نام سے ادبی نشستوں کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔ اس انجمن کا منشور طے کیا گیا اور قواعد و ضوابط متعین ہوئے، پھ رہر ماہ کسی ایک رکن کے گھر پر ادبی محفل منعقد ہونے لگی جس میں ممتاز قلم کار اور خوش ذوق سامعین شرکت کرتے تھے۔ اس حوالے سے اپنی یادداشتوں کو سمیٹتے ہوئے ادا جعفری ہمیں ہماری تہذیبی اور ادبی روایتوں کی خوبصورتیوں کا بھرپور احساس دلاتی ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی نشست کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

” سلسلہ” بڑے اہتمام سے شرو ع کیا گیا تھا۔ اس کی پہلی محفل جنوری 1978ء میں میرے گھر میں منعقد ہوئی۔ نشست گاہ میں چاندنی کے فرش پر موم بتیوں کے سانولے اجالے بکھرے ہوئے تھے۔ آتش دان پر رکھے ہوئے فانوس سے چھنتی ہوئی روشنی نے دیوار پر آویزاں صادقین کے خطوط کو گویا تاب گویائی بخش دی تھی۔ آیات ربانی کے قدموں میں چھوٹی سی تپائی پر، روپہلی تھالی میں سبز ریشم کا خریطہ مقیش کی سنہری ڈوریوں میں لپٹا رکھا تھا۔ جس کے پاس سبز بلوریں شمع دان روشن تھا۔ "خاصان سلسلہ” نیم دائرے کی صورت، فرش پر بیٹھے تھے۔ سامنے ترکسانی قہوہ دان اور فنجان سنبھالے ہوئے دو طشت تھے۔ یہاں میزبان اور مہمان کی تمیز ناروا تھی۔ اس لیے ہر عزیز کو اپنا پیالہ خود بھرنا تھا۔ آگے ایک بادیے میں کھجوریں تھیں اور پس منظر میں عاشق رسول کی غیر فانی نظم کے مصرعے دہراتی ہوئی مغنی کی دھیمی آواز:

سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات

اس رات کچھ استعارے بھی شریک بزم تھے۔ اہتمام زیادہ ہی کیا گیا تھا۔ بجلی کے قمقمے ایک تسلسل کے ساتھ روشن ہوتے گئے، خریطہ کھولا گیا، سفید کپڑے کے ورق سادہ پر ” خاصان سلسلہ” نے دستخط کیے، اب دیکھتی ہوں کہ اس محضر میں بڑے انمول دستخط موجود ہیں۔

ان محفلوں کے حوالے سے ادا جعفری نے جن لوگوں کو ” خاصان سلسلہ” کے نام سے موسوم کیا ہے ان میں جمیل نشتر، رفعت جمیل، مختار مسعود، عذرا مسعود، نثار عزیز بٹ، اصغر بٹ، قدرت اللہ شہاب، آغا ناصر، صفیہ، ضیا جالندھری، شفقت ضیا، اختر جمال، احسن علی خاں، سید ضمیر جعفری، مسعود مفتی، بشری مسعود، کرنل محمد خاں، ممتاز مفتی، جنرل شفیق الرحمن، منظور الٰہی اور زہرہ نگاہ جیسے نام شامل ہیں۔

اس ضمن میں انہوں نے ان تمام اعتراضات اور بد گمانیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جو پاکستانی معاشرے میں اچھا کام کرنے والے شخص کو سننے پڑتے ہیں۔ مگر اپنی فطری سادگی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے درگزر کے رویے کو اپنایا ہے اور اپنے کسی معترض کو استہزاکا نشانہ نہیں بنایا، نہ کوئی کڑوی کسیلی بات کی ہے بلکہ خوش گوار لہجے میں صراحت کرتے ہوئے ان مراحل سے آسان گزر گئی ہیں۔ مثلاً لکھتی ہیں :

” انہیں دنوں بیرون ملک اقامت گزیں اک خوش نوا نے مجھ سے کہا، سنا ہے آپ نے امیر ادیبوں کی ایک انجمن قائم کر لی ہے۔ میں نے اقرار کیا کہ جن احباب کو اس انجمن میں شریک کیا ہے، بے شک ان میں بیشتر رئیسان ادب ہی ہیں۔ چونکہ ” سلسلہ” کی رکنیت محدود تھی اس لیے کچھ بزرگوں نے اسے افسر شاہی کی خفیہ تنظیم بھی کہا۔ دراصل نور اس وقت اسٹیبلشمنٹ سیکرٹری تھے اور ہمارے ممبران میں قدرت اللہ شہاب اور مختار مسعود جیسے سینئر سرکاری افسران شامل تھے، جنہیں میں نے صرف ادیب اور اہل قلم کے مرتبے سے پہچانا تھا اور پہچاننا چاہا تھا۔”

یوں اپنے معترضین کے لیے ملائمت اور نرمی کا لہجہ اختیار کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امن پسندی اور نرم خوئی ادا جعفری کے مزاج کے خاص عناصر ہیں۔

جناب مشفق خواجہ نے ادا کی اس خود نوشت سوانح کو ایک انتہائی دلچسپ اور اعلیٰ ادبی معیار کی کتاب قرار دیا ہے۔ اور اسے ایک قابل قدر دستاویز قرار دیا ہے کیونکہ اس کے مطالعے سے ہمیں بدایوں کی پرانی حویلی کی قدیم روایتی فضاؤں میں پیدا ہونے والی ایک حساس شاعرہ کے ذہنی اور تخلیقی ارتقا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ لڑکی جس نے اپنے اظہار ذات کے لیے جدید شعری پیرایوں سے آغاز کیا اور پھر گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ جب اس کے شخصی اعتماد نے ایک بھرپور شخصیت کا روپ دھارا تو نثری اظہار کے ذریعے بھی اپنی تخلیقی ہنر مندی کے بھرپور جوہر دکھائے۔

مشفق خواجہ نے تخلیقی اور غیر تخلیقی نثر کے فرق کو سمجھاتے ہوئے ادا جعفری کی نثر کو ” تخلیقی نثر” کے زمرے میں رکھا ہے اور اس سے ان کا مفہوم یہ ہے کہ ادا نے لفظوں کو بے جان اشیا کی طرح نہیں برتا ہے بلکہ اپنے بیانیے میں الفاظ کی معنویت کو اس طرح ابھارا ہے کہ ان کی تحریر جان دار، معنی آفریں اور تہہ دار ہو گئی ہے۔

مشرقی معاشرے کی کسی قلم کار خاتون کو اپنی شعری اور ادبی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع کتنی دشواریوں سے گزر کر میسر آتا ہے اور ایک قدیم سماج کے تنگ نظر اجارہ داروں کے روبرو اسے اپنے ذہنی وجود کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کیسی کیسی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اس کا احساس ہر زمانے میں اہل قلم خواتین کو رہا ہے۔ ادا جعفری جب طویل عرصے تک ادبی محفلوں سے دور ہو گئیں تو کچھ لوگوں نے یہ رائے زنی کی کہ ان کے شوہر نور الحسن جعفری نے حسب دستور، ان کی شعری مصروفیات پر پہرہ بٹھا دیا ہے۔ اور انہیں محافل میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے۔ ادا لوگوں کی اس سوچ کے جواب میں وضاحت کرتی ہیں :

” نور نے مجھ پر ادبی محفلوں میں شریک ہونے یا نہ ہونے کی کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ انہوں نے میری شاعری سے نا پشیمان محبت کی ہے۔ لیکن ان کی اپنی مصروفیات تھیں اور تنہا کسی محفل میں شریک ہونا ایک عمر تک میرے لیے دشوار رہا۔ یہ فیصلہ میرا اپنا ہی تھا۔”

ادبی احباب سے مکالمہ، تبادلہ خیالات، ان کے فکر و فہم سے فیض یابی اور ان کے ذہنی معیارات سے آگاہی وہ نعمتیں ہیں جن سے ادا جعفری روزمرہ زندگی کی نجی مصروفیات میں الجھے رہنے کے باوجود مسلسل روشنی حاصل کرتی رہی ہیں۔ اپنے محسوسات کو قلم بند کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

” عورت ایک ہی مہلت حیات میں کئی جیون جھیلتی ہے۔ قلم ہاتھ میں تھام لے تو جھمیلے کچھ اور بڑھ جاتے ہیں۔ زندگی بسر کرنے کے آداب کچھ کہتے ہیں اور اپنے آپ سے ملنے کے راستے کہیں اور نکلتے ہیں۔ لفظ کو سانس لیتے دیکھنا کتنی بڑی نعمت ہے۔”

ذاتی زندگی کے حقائق کو بیان کرتے ہوئے ادا جعفری نے اپنی خود نوشت کے اوراق میں جگہ جگہ ان ہستیوں کا ذکر کیا ہے جن کی کسی خوبی سے یا تو وہ متاثر ہوئیں یا ان کے حسن سلوک کی احسان مندی کو اپنے دل میں محسوس کیا۔ اپنے بچوں، اپنے گھر، خانہ داری، خاندانی مراسم، سماجی روابط کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ کسی نہ کسی حیلے سے اپنی گفتگو میں اپنے پسندیدہ لوگوں کا تذکرہ چھیڑ دیتی ہیں اور پھر خوبصورت الفاظ کے ساتھ انہیں یاد کرتی ہیں، یوں گویا وہ اپنے قارئین کو انسانی رشتوں ناتوں کی قدر و قیمت اور دل نشینی سے آگاہ کرتی ہیں۔ اگرچہ ہر خود نوشت سوانح کا مرکزی کردار انسان کی اپنی ذات ہی ہوتی ہے اور تمام واقعات اور تفصیلات اسی کی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں مگر ادا جعفری نے اپنے ذکر میں کہیں بھی اس انتہا کو نہیں چھوا ہے جسے ہم ” خود پسندی” یا ” نرگسیت” سے موسوم کریں۔ جہاں جہاں بھی وہ اپنا ذکر کرتی ہیں، ایک انکساری، بردباری، شرافت و تہذیب ان کے لہجے پر سایا کیے رکھتی ہے۔ نہ کوئی انانیت ہے، نہ سنسنی خیزی، نہ چٹخارہ نہ چھیڑ خوانی۔ دوسروں کی کردار کشی سے بھی انہوں نے مکمل گریز کیا ہے اور اپنے حوالے سے کسی دعوے داری اور احساس تفاخر سے بھی۔

جارج برنارڈشا کے مطابق خود نوشت سوانح ایک طرح کا مکارانہ جھوٹ ہوتا ہے کہ جس میں لکھنے والا اپنی تصوراتی شخصیت کے خدوخال طے کر لیتا ہے اور پھر اسی کے مطابق اپنا خاکہ دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ مگر ادا جعفری نے تقسیم ہند سے قبل اور بعد کی مجموعی معاشرتی اور تہذیبی صورت حال کے پس منظر میں اپنی حقیقی زندگی اور ذہنی اور شعوری تبدیلیوں اور ارتقا کو پیش کرتے ہوئے بڑی حد تک دیانت داری کے تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ وہ اگر کسی معروف شخصیت سے بھی اپنی ذاتی ملاقات کا تذکرہ کرتی ہیں تو اس کا بنیادی مقصد اپنی بڑائی اور اہمیت جتانا نہیں ہوتا بلکہ اس شخصیت کی دل آویزی کو ابھارنا ہوتا ہے۔ ان اقتباسات میں اس تاثر کو محسوس کیا جا سکا ہے:

” پہلی بار طفیل بھائی (مدیر ” نقوش” ) مجھ سے ملنے آئے۔ سنجیدہ، خاموش طبع، خلوص طینت طفیل بھائی بہت بڑی شخصیت تھے۔ انہوں نے جس استقامت اور عزم سے اردو ادب کی خدمت کی ہے، اسے ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔”

احسان دانش کے حوالے سے لکھتی ہیں :

” اس بوریہ نشیں عظیم انسان سے مل کر ہمیشہ ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتا تھا جیسے کچھ دیر کے لیے دنیا کے تمام بکھیڑوں سے منہ موڑ لیا ہے۔ جن دنوں ریڈیو والوں کی مہربانی سے جوش ملیح آبادی حکومت کی نگاہوں میں معتوب ٹھہرے تھے، احسان دانش ان کے لیے بہت فکر مند رہتے تھے۔ بے نیاز طبیعت کے مالک تھے مگر جوش کے معاملے میں ان کی پریشانی اور مخلصانہ کوششیں ہم نے دیکھی ہیں۔”

سعادت حسن منٹو کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

” منٹو جب پہلی بار 1949ء میں آپا کے گھر مجھ سے ملنے آئے تھے تو میں چونکی تھی اور تھوڑا سا گھبرائی بھی تھی۔ ابھی تک ان کی تحریریں ہی دیکھی تھیں مگر جب انہیں دیکھا تو ایک انسان کی حیثیت سے وہ بہت بڑے نظر آئے۔”

1952ء میں فیض احمد فیض سے ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

” لاہور کے شالیمار باغ میں شہنشاہ ایران کے خیر مقدم کا اہتمام تھا۔ نہایت شان دار تقریب تھی اتنے میں فیض احمد فیض آتے ہوئے دکھائی دیے۔ اس مجمع میں ان کے سبھی دوست ان کے منتظر تھے مگر وہ خلاف توقع ہماری میز کی جانب بڑھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس گوشے کی رونقیں قابل رشک ہو گئیں۔ ایران کا بادشاہ کب آیا، کب گیا، کسی کو پرواہ نہ تھی۔ وہاں تو اقلیم سخن کا فرماں روا تھا اور اس کے چاہنے والے۔”

انتظا رحسین کے حوالے سے اپنے محسوسات کو قلم بند کرتے ہوئے ادا جعفری یوں رقم طراز ہیں :

” انتظار حسین میرٹھ اور بدایوں کے ناتے، ایک لحاظ سے ہمارے پڑوسی ہی ٹھہرے مگر بہ حیثیت بہترین دوست اور انسان ہم پر بہت دیر میں منکشف ہوئے۔ داستان گو ایسے کہ جب چاہتے ہیں بیتی ہوئی صدیوں کے سفر پر نئی پگڈنڈیاں تراشتے ہوئے اپنے سامع اور قاری کو ساتھ لے کر چل پڑتے ہیں۔ نہ خود تھکتے ہیں، نہ دوسروں کو تھکنے دیتے ہیں۔ الف لیلیٰ کی شہر زاد نے کہانی سے کہانی کی کڑیاں جوڑنے کا ہنر شاید انتظار حسین ہی سے سیکھا تھا۔”

ادا جعفری کی علمی اور تحقیقی کاموں سے دلچسپی ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور ڈاکٹر اسلم فرخی کے حوالے سے کیے گئے ان کے اظہار خیال سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے بارے میں لکھتی ہیں :

” ڈاکٹر صاحب کے مزاج میں کوئی تکلف اور تصنع نہیں۔ علم و ادب اور تحقیق کے میدان میں وہ با وقار مقام رکھتے ہیں اور درویش صفت انسان ہیں۔”

ڈاکٹر اسلم فرخی کے لیے لکھتی ہیں :

” قومی زبان کے لیے میں ” غزل نما” ترتیب دے رہی تھی۔ کبھی ان سے کسی کتاب کی فرمائش کرتی تھی، کبھی سنہ ہجری اور سنہ عیسوی کا معمہ حل کرنے میں مدد لیتی تھی، پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلتا تھا اور مختلف گلی کوچوں سے ہوتا ہوا، دہلی میں خواجہ نظام الدین اولیا تک جا پہنچتا تھا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ الفاظ سے تصویریں بناتے ہیں۔ عالم، محقق اور ادیب ہیں مگر سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت نیک دل اور نیک خو انسان ہیں۔”

تذکرہ در تذکرہ اور شخصیت در شخصیت ادا جعفری نے کم و بیش سو ڈیڑھ سو افراد سے اپنے قارئین کو ملوایا ہے اور اس ذکر میں مختلف زاویوں سے خود اپنی شخصیت کے دل آویز گوشوں کو ہم پر منکشف کیا ہے۔ یوں ان کی سلامت روی اور بے لوث تعلق خاطر پر ہمارے یقین کا رنگ کچھ اور گہرا ہو جاتا ہے۔

” کچھ اور اجالے” کے عنوان سے مرتب کیے ہوئے اپنی سوانح کے ایک باب میں انہوں نے انسانی رشتوں ناتوں کے حسن کو اپنے خاص انداز میں رقم کیا ہے۔ عالم گیر انسانی جذبات اور احساس یگانگت کے زیر اثر وہ مختلف فرقوں، انسانی گروہوں اور مختلف تہذیبوں کے لوگوں میں بہت سے ایسے مشترک خواص دیکھتی ہیں جو انہیں باہمی قربتوں، رفاقتوں اور محبتوں کے بندھن میں باندھے رکھتے ہیں۔

لکھتی ہیں :

” بچپن ہی سے مجھے ہندوؤں کے تہوار، ہولی دیوالی وغیرہ بہت دلچسپ نظر آتے تھے مگر ان کا سب سے خوبصورت تہوار راکھی بندھن ہے جو ہر سال ساون کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کی ندرت کو میں ابھی تک نہیں بھول سکی ہوں۔ اس دن بہنیں اپنے بھائیوں کی کلائی پر راکھی باندھتی ہیں اور ان کی درازی عمر اور خوشیوں کی دعائین مانگتی ہیں۔ اس تقریب کا حسین ترین پہلو یہ ہے کہ سگی بہن کے علاوہ بھی اگر کوئی لڑکی چاہے تو راکھی باندھ سکتی ہے۔”

لاہور میں اپنے قیام کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ادا جعفری کو میرزا ادیب سے اپنی خواہرانہ الفت کے مظاہرے یاد آتے ہیں۔ لکھتی ہیں :

” لگتا ہے کبھی کسی خواب میں، میں نے بھی ایک بہن کے پورے مان کے ساتھ میرزا ادیب کو راکھی بھیجی تھی جس کو وہ آج تک ایک بھائی کی محبت اور خلوص کے ساتھ جس میں شفقت بھی شامل نظر آتی ہے، نباہ رہے ہیں۔”

احمد ندیم قاسمی کے بارے میں بھی کم و بیش ان کے یہی محسوسات ہیں :

” خاندان سے باہر جس ہستی نے پہلی بار مجھے بہن کہا تھا، وہ احمد ندیم قاسمی ہیں۔ میں بڑی حویلی کی چار دیواری کے اندر رہتی تھی اور اپنی شاعری کی دنیا میں سانس لے رہی تھی۔ انہوں نے بہن لکھ کر میرے احساس تنہائی کو کم کر دیا اور ایک حیرت آمیز مسرت سے آشنا کیا کہ قلم کے رشتے سے بھی میری ایک برادری اور ایک کنبہ موجود ہے۔ اک ایسا تعلق جو غیر مشروط بھی ہے لیکن زندہ اور تابندہ رہنے کی توانائی بھی بخشتا ہے۔”

ادا جعفری کی خود نوشت میں ان کے سیاسی اور سماجی شعور کی بے شمار جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف تقسیم ہند سے قبل کے ہندوستانی معاشرے کی سماجی اور سیاسی صداقتوں کی عکاسی کی ہے بلکہ تاریخ کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ وقت کی لہروں میں پڑنے والے بھنور اور مدو جزر کو بھی کسی نہ کسی طور اپنے قلم کی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔

ترقی پسند تحریک اک دیا ہوا منشور ہو یا زندگی کے مختلف شعبوں پر اس کے دور رس اثرات کا ذکر، یا برصغیر میں دوسری جنگ عظیم کے ثمرات کی نشان دہی یا تحریک آزادی اور اس کی کوکھ سے پھوٹنے والا مطالبہ پاکستان، 1944ء میں ہندو مہاسبھا کے صدر کی جانب سے اردو زبان کے خلاف مظاہرہ یا ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی ایما پر ناگ پور میں منعقد ہونے والی آل انڈیا اردو کانفرنس کا ذکر۔ ان تمام تجزیوں اور تفصیلات میں ہمیں اک ذی شعور قلم کار کا ذاتی نقطہ نظر ملتا ہے۔ ہر چند کئی مقامات پر ادا جعفری افراط و تفریط کا شکار بھی رہی ہیں اور ذاتی پسند اور ناپسند سے مرتب ہونے والے اثرات واضح نظر آتے ہیں مگر پھر یہ بات بھی قطعی فطری ہے کہ سوانح کی صورت میں لکھی جانے والی کسی تحریر کی حیثیت بہت تحقیقی اور منطقی نہیں ہوتی بلکہ قلم کار اپنے ذاتی حوالوں اور مشاہدوں کے تناظر میں گویا خود اپنی داستان حیات رقم کرتا ہے۔

غالباً یہی وجہ تھی کہ ترقی پسند تحریک کے ضمن میں ادا جعفری نے جو کچھ رقم کیا، اس میں یہ اثرپذیری بطور خاص موجود ہے۔ لکھتی ہیں :

” زندگی کے میلے میں شرکت کا احساس مجھے ترقی پسند تحریک نے عطا کیا اور یہ بڑا دل نواز اور جاں پرور احساس تھا۔ فرسودہ روایات میں جکڑی ہوئی ناقابل شناخت تمناؤں کو جیسے اپنے خدوخال نظر آنے لگے تھے جیسے صدیوں سے منجمد آنکھوں کو اچانک بینائی مل گئی ہو۔”

اس تحریک کے تناظر میں انہوں نے اردو ادب میں آنے والی نئی تبدیلیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں اردو افسانہ، شاعری اور تنقید کے لیے حیات نو کا بلاوا قرار دیا۔

مگر پھر اس ضمن میں اپنے تجزیے کو آگے بڑھاتے ہوئے، وہ ان پہلوؤں کا بھی ذکر کرتی ہیں جو اس تحریک کی مخالفت کے اسباب فراہم کرتے ہیں، لکھتی ہیں :

” ترقی پسند تحریک نے اردو ادب کو بہت قد آور شاعر اور ادیب دیئے۔ فیض، احمد ندیم قاسمی، مجروح سلطان پوری، اختر الایمان، مخدوم محی الدین، سردار جعفری، بیدی، عصمت چغتائی، شوکت صدیقی، غلام عباس، اوپندر ناتھ اشک، میرزا ادیب اور دوسرے بہت سے نام۔ اور ان کے فوراً بعد آنے والی نسل کے اہل قلم جو ابتدا میں اس جماعت میں شامل تھے لیکن اس تحریک کے انتہا پسند سیاسی عقائد کی وجہ سے بعد میں علیحدہ ہو گئے مثلاً ممتاز مفتی، ممتاز شیریں، اختر حسین رائے پوری، پروفیسر احمد علی، محمد حسن عسکری وغیرہ۔ ان اختلافات کی ایک بڑی وجہ تحریک کے سرپرستوں کا انتہا پسندانہ رویہ تھا۔ جس میں سیاسی نظریات کو انسان کے بنیادی جذبات و احساسات پر برتری حاصل تھی۔ آئندہ برسوں میں یہی سخت گیر رویہ اس عظیم الشان تحریک کے زوال کا باعث بنا۔”

اسی طرح تقسیم برصغیر سے لے کر تقسیم پاکستان کے المیے تک تمام سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے بھی ادا جعفری اپنی حب الوطنی، سیاسی اور سماجی شعور اور ذہنی اور قلبی وابستگیوں کے ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ رقم طراز ہیں :

” تقسیم برصغیر ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔ اس ایک خواب کے حقیقت بنتے بنتے ان اہل عشق پر جو اقلیتی علاقوں میں تھے، کیا کچھ نہ بیت گئی۔ ان قربانیوں کی گواہی تاریخ کے اوراق ہمیشہ دیتے رہیں گے۔ اولاد، آبرو، جان و مال کچھ بھی نہ بچا۔ ایسے خاندانوں میں اگر ایک دو افراد بچ بھی گئے تو ساری عمر ان زخموں کو اپنی اور دوسروں کی آنکھوں سے چھپاتے ہی گزار دی۔ اب جہاں آ بسے تھے، زمین کا وہی ٹکڑا ان کی پہچان تھا۔ مگر ابھی اس خون کے دھبے برساتوں نے دھوئے بھی نہیں تھے کہ اہل جاں کی صفوں میں رخنے جگہ پانے لگے۔”

مشرقی پاکستان کے المیے پر اپنی دلی رنجشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ادا جعفری ان عوامل پر روشنی ڈالتی ہیں جنہوں نے ہماری قومی زندگی میں بد گمانیوں اور انتشار کا زہر گھول کر ہمیں نہ صرف شرمساری اور ندامتوں سے دوچار کیا، بلکہ ہماری قومی تاریخ کو بھی داغ دار کر دیا۔ لکھتی ہیں :

” بنیادی بھوک تھی، بے یقینی تھی۔ ہر قسم کی نا انصافی کا احساس تھا۔ بدقسمتی سے وہ مفادپرست طبقہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ 1948ء میں جب قائد اعظم نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا تو ان کے سامنے دو قومی زبانوں کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔ اس وقت مشرقی پاکستان اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ عام سیاسی بیداری زیادہ تھی۔ ان کا احتجاج سیاسی اور اقتصادی تسلط کے خلاف تھا۔ مگر قضیہ زبان کے نام پر کھڑا ہوا۔ وہی زبان جس کا وجود، وجود پاکستان کے جواز میں شامل تھا۔ اگر زندگی قائد اعظم کو مہلت دے دیتی تو وہ چونکہ مشرقی پاکستان کے اس مطالبے کی بنیادی وجوہات کا ادراک رکھتے تھے، لہٰذا یقیناً تدارک بھی کر دیتے مگر اب یہ سب باتیں محض مفروضے ہیں۔”

ادا جعفری نے خود اپنی خود نوشت کو جن الفاظ میں متعارف کرایا ہے، وہ یہ ہیں :

” یہ خود نوشت اک عام سی لڑکی اور ایک روایتی گھریلو عورت کی چھوٹی سی کہانی ہے جس میں کوئی کہانی نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ لڑکی اکیلی تھی اور بہت اکیلی۔ اپنے دل کی تنہائی میں گرفتار اور وہ عورت چار دیواری کے حصار میں رہ کر بھی اپنے وجود کی پہنائیوں میں سرگرداں رہی۔”

ان الفاظ کی روشنی میں پرکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اس خود نوشت کا تعلق بھی ان کے شاعرانہ احساسات کی توسیع ہی سے ہے جیسے ایک حساس دل، جو اپنی کیفیات باطنی سے آسودہ و خوش حال ہو اور زندگانی کے عملی تقاضوں سے نبٹتے ہوئے بھی اپنے وجود کی حیرانیوں میں گم رہتا ہو۔ گویا آسائش حیات اور لوازمات حیات کی بخشی ہوئی آسودگیوں میں نا آسودہ و مضطرب رہتا ہو اور کسی اور ہی دھیان میں، کسی اور ہی تمنا اور تلاش میں مبتلا ہو۔ ادا جعفری نے انہی محسوسات کی بنیاد پر اپنی شاعری کے موضوعات چنے ہیں اور اپنی خود نوشت کے نثری اظہار میں بھی وہ انہی کیفیتوں سے دوچار نظر آتی ہیں۔ لکھتی ہیں :

” آنکھیں کیا کچھ نہیں دیکھتیں۔ دشت و صحرا بھی اور گل و گلزار بھی۔ لمحوں کی انگلی تھام کر چلی تو لو دیتے ہوئے چراغوں کا اجالا بھی دیکھا اور بجھتے ہوئے چراغوں کا دھواں بھی۔ اپنی زندگی بیک وقت ذاتی بھی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی۔ تصویریں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں۔ کبھی حد نگاہ تک کانٹے ہی کانٹے بچھے ہوئے، سراب ہی سراب، تشنگی ہی تشنگی، کبھی پیروں کے نیچے بھیگی ہوئی گھاس کا دل پذیر لمس، کسی پیڑ کی مہرباں چھاؤں، آواز دیتا ہوا کوئی رنگ، سانس لیتی ہوئی کوئی خوشبو۔ یہ سب کچھ تو ہوتا رہا ہے، ہوتا رہے گا۔ سارے نظاروں میں اپنا تو وہی ہے جو دو پلکوں کے بیچ بسیرا کر لے۔”

اس خود نوشت کا مطالعہ شروع کرتے ہی ادا جعفری کی شعری شخصیت کے رنگ بکھرنے لگتے ہیں۔ سب سے پہلے تو سراج اورنگ آبادی کی معروف غزل کا یہ شعر یاد آتا ہے جس کے مصرعہ ثانی سے کتاب کا عنوان اخذ کیا گیا ہے:

خبر تحیر عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی

نہ تو، تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

پھر فہرست پر نظر پڑتی ہے جو انتیس ابواب پر مشتمل ہے تو ” دریچے” کے خوب صورت نام کی معنویت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ مختلف ابواب کے منتخب کردہ عنوانات سے بھی ادا جعفری کی شاعرانہ صلاحیتوں اور تخلیقی مزاج کی تازہ کاری کا اندازہ ہوتا ہے۔ مثلاً:

روشنی کی لکیر، مسافتوں کے درمیاں، دشت میں سامنے تھا خیمہ گل، شہر عزیزاں، موج ہوا کے ساتھ، مہرباں لمحے، ایک سب آگ ایک سب پانی، شاخ نہال غم، نقش قدم یہاں وہاں، غلام گردشیں، قریہ بہ قریہ کو بہ کو۔۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ نام ان کی سوانح عمری کے مختلف ابواب کے نہیں بلکہ ادا کی مختلف نظموں کے عنوانات ہیں۔

اور اب آخر میں چند اختتامی سطریں جو ایک خاص مفہوم کے ساتھ، ان کی اس تحریر کے جواز پر دلالت کر رہی ہیں اور اس نکتے کی وضاحت بھی کہ کسی تخلیق کار کے لیے اپنے سفر حیات کے چند واقعات اور چند لمحات کی تفصیلات کو رقم کر دینے سے کیا، اس کی زندگی کی تمام جہات سے آگاہی کا سامان فراہم ہو جاتا ہے جس سے گزر کر اس نے اپنے وجود کی گواہی دی ہے اور اس حیات و کائنات کے بارے میں اپنے فہم و ادراک سے کام لے کر، اپنے نقطہ نظر کو پہنچوایا اور زندگی کی معنویت کو سمجھایا ہے۔ خود نوشت کے اختتامی حصے میں رقم طراز ہیں :

” اب لکھتے لکھتے اچانک دھیان آیا ہے کہ کیا ہم خود کو اتنا جانتے ہیں کہ اپنے بارے میں کچھ لکھ بھی سکیں۔ حقیقت یہی ہے کہ میں نے تو اب بھی جسے زندگی کہتے ہیں، اس کی صرف جھلکیاں ہی دیکھی ہیں۔ میرا سرمایہ تو صرف ایک چنگاری تھی۔ اسی کو راکھ میں دفن ہونے سے بچانے کی کوشش کرتی رہی ہوں۔ بس ایک لاگ ساتھ رہی جس نے کبھی تھکنے نہیں دیا اور میرے لیے یہی بہت ہے۔”

ادا جعفری اب اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے چھٹے سال کے اختتام پر، اپنی جسمانی کمزوری کے سبب ایک غیر متحرک اور غیر فعال زندگی گزار رہی ہیں۔ مگر ان کی تحریروں کے باطن سے جھلکتا، ان کا شخصی اعتماد، ان کی عمر بھر کی جدوجہد اور اپنے باطنی وجود پر ان کا یقین وہ خوبیاں ہیں جنہوں نے ان کے بعد آنے والی نسل کو اپنے احساسات کی لو کو اونچا رکھنے کا حوصلہ بخشا ہے۔ یہیں سے چراغ سے چراغ جلاتے رہنے کی خوب صورت روایت کو استقامت ملتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ادا جعفری کا نثری اسلوب اور ناقدین کا تجزیہ

 

ادارۂ جنگ کراچی نے 1996ء میں اپنے ادارے کے زیر اہتمام ادا جعفری کی خود نوشت "جو رہی سو بے خبری رہی” کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کے لیے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں معروف اہل قلم نے ادا جعفری کے نثری اسلوب اور پیرایہ اظہار کی اہم خصوصیات کے حوالے سے اپنی آراء کا اظہار کیا۔

ڈاکٹر جمیل الدین عالی

ڈاکٹر اسلم فرخی

ڈاکٹر فرمان فتح پوری

پروفیسر سحر انصاری

ڈاکٹر حنیف فوق

محترمہ زاہدہ حنا

ڈاکٹر جمیل الدین عالی نے کہا:

” ادا جعفری دنیائے ادب میں ایک مستند نام رکھتی ہیں۔ سید ضمیری جعفری نے تقریباً30برس پہلے (جب ان کا پہلا شعری مجموعہ آیا تھا) انہیں اردو ادب کی خاتون اول کا خطاب دیا تھا۔ ادا جعفری کی دوسری کتابیں ہمارے سامنے رہی ہیں اس لیے ان کتابوں کا تاثر اس خود نوشت سے جدا نہیں ہو سکے گا۔ یہ ان کی نثر کی پہلی کتاب آئی ہے اور سوانح عمری کی ذیل میں شامل ہوتی ہے۔ یہ کتاب ادا جعفری کی تقریباً پچاس سالہ زندگی پر محیط ہے۔ ان کی عمر تو زیادہ ہے مگر میں نے شعور کی عمر کی بات کی ہے اس کتاب کے ابتدائی ساٹھ ستر صفحات سے مجھے بڑی سرشاری کا احساس ہوا کہ ایسی نثر بہت دنوں کے بعد آئی ہے ہماری اردو نثر کچھ عرصے سے بہت زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ زبان نے ترقی بھی کی ہے اس کتاب کے مطالعے سے مجھے اک نیا تاثر اور آسودگی ملی۔ اگر کیٹس اور شیلے اردو نثر لکھتے تو شاید ایسی ہی لکھتے۔ ادا جعفری کی شاعری میں جس طرح دھیما پن اور آگہی ملتی ہے وہی کیفیت ان کی نثر میں بھی آتی ہے۔ اس میں تھوڑا سا نیم رومانوی اثر حجاب اسماعیل کا بھی آیا ہے۔ کیونکہ ادا جعفری اس زمانے میں ایک طالبہ تھیں لیکن اس کتاب کے اگلے صفحات میں ان کی اپنی شخصیت مکمل طور پر ابھرتی گئی میں نے اس کتاب کے مطالعے سے جو تاثر لیا اسے ایک فقرے میں یوں کہوں گا کہ اس کتاب میں وہ ایک بہترین رفیق حیات اور محبت کرنے والی ماں محسوس ہوئیں۔

بحیثیت شاعرہ وہ اپنے اطراف سے مطمئن نہیں۔ لیکن عملی زندگی میں نہایت وفا شعار بیوی اور مثالی ماں ہیں۔ ادا جعفری نہ تو زندگی میں تماشا ہوئیں اور نہ کسی کو غیر ضرور طور پر برا کہا۔ انہوں نے اپنے خارج کی زندگی کو جیسا دیکھا ویسا ہی بیان کر دیا۔”

زاہدہ حنا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:

” اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اس بات کا سب سے زیادہ صدمہ ہو رہا ہے کہ اردو نثر کا قاری اب تک اتنی خوبصورت نثر لکھنے والی سے کیوں محروم رہا تھا یہ خوبصورت نثر شعوری طور پر نہیں لکھی گئی ہے بلکہ اندر سے پھوٹی ہوئی اور بہاؤ میں لکھی ہوئی نثر ہے اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ کہیں بھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ گڑھی ہوئی نثر ہے۔ جہاں تک ابتدائی صفحات کی بات ہے تو اس سے ان کی ذہنی بغاوت تو نہیں مگر تمام صورت حال پر الجھن اور نیم برہمی کی کیفیت ملتی ہے۔ لیکن وہ ایک خاص حد سے کہیں باہر نہیں گئی ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کے انتقال کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے اس میں باپ سے بچھڑنے کا غم بھی ہے اور اپنے اطراف کی زندگی کو بھی زبان دی ہے۔ ابتدا میں جس قسم کے فقرے آئے ہیں اس سے ایک نرم دل رکھنے والی اور سوچنے والی لڑکی کی تصویر ابھرتی ہے۔ انہوں نے اپنی بعد کی زندگی کا بھی احوال لکھا ہے:

” میں روس امریکا اور بہت سے ممالک گئی اور وہاں کیا کچھ دیکھا مگر میں نے بدایوں شہر کو نہیں دیکھا یعنی اپنے شہر ہی کو نہیں دیکھا۔”

انہوں نے یہ بھی لکھا ہے:

” میں نے دنیا بھر کے مزاروں پر حاضری دی لیکن اپنے شہر بدایوں کے باکمال بزرگوں کے در پر حاضر نہ ہو سکی۔”

اس کتاب میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے قبل مسلم اشرافیہ کی ایک لڑکی کے وسیلے سے ہم تک ہمارا ماضی کھل کر سامنے آتا ہے۔ ادا جعفری نے اس ماضی کی نہایت خوبصورت تصویر کشی کی ہے۔”

اس مذاکرے میں پروفیسر سحر انصاری نے بات آگے بڑھاتے ہوئے ” جو رہی سو بے خبری رہی” کے حوالے سے اپنا یہ نقطہ نظر پیش کیا:

” زاہدہ حنا نے نسل کے جس سفر کی بات نکالی ہے اس کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو ادا جعفری صاحبہ نے اپنی اس سوانح عمری میں اس کا ذکر ایک جگہ خود اس طرح کیا ہے:

” میں دیکھتی ہوں کہ میری بیٹی نے اس خواہش کو مکمل کیا جو میں نہیں کر سکی تھی۔”

ایک آدھ جگہ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے:

” بظاہر یہ میری ذاتی داستان ہے لیکن اس عہد کی تمام خواتین کی نمائندگی کرتی ہے۔ انہوں نے ز۔ خ۔ ش کا حوالہ دیا ہے یعنی زاہدہ خاتون شیروانی جو کہ اپنا نام بھی پورا نہیں لکھ پاتی تھیں۔”

اس طرح انہوں نے یہ بھی لکھا:

” جب لکھنا شرو ع کیا تو رسائل میں حیا لکھنوی اور صفیہ شمیم کے نام دیکھتی تھیں۔”

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے جو راستہ تلاش کیا اور ان کی نظم ” میں ساز ڈھونڈتی رہی” خود ایک منفرد چیز ہے۔ ادا جعفری سے پہلے کی شاعرات کے یہاں صورت حال کچھ اور تھی۔ ان سے ایک نیا شعور اردو شاعری میں آیا۔ دوسری بات میں یہ عرض کر رہا تھا کہ کتب خانوں سے ہٹ کر جس قدر مشہور ادیب اور شاعر مختلف ممالک میں گزرے ہیں، ان کے مکانوں کو دیکھنا، ان کے کتب خانوں کو دیکھنا یہ منظر بھی اس میں خاص طور سے ابھرتا ہے۔ اس کے ساتھ علم کی لگن ان میں بدستور دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے جدید دور سے اپنے آپ کو ملا لیا۔ انہوں نے اشتراکی فکر کے علمبرداروں کے خیالات سے واقف ہونے کے بارے میں تو بتایا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی وضاحت کی ہے کہ وہ ان کے افکار سے متفق نہیں۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے:

” ماضی کا دور کتنی بھی دشواریوں میں گزرا ہو کتنی ہی محرومیاں اور مجبوریاں مقدر بن گئی ہوں یادوں کے آئینے میں سجی ہوئی تصویر حسین بھی ہو جاتی ہے اور عزیز بھی۔ اس کتاب میں بہت سے کردار ابھرتے ہیں مثلاً رحمت، مولوی میاں، بادل خان، رابعہ وغیرہ۔”

اس کتاب میں بڑی گہری نفسیاتی کیفیات بھی سامنے آئی ہیں اور اس کے ساتھ ہی اس پورے معاشرے کی نمائندگی بھی ہوئی ہے۔ گویا ادا جعفری صاحبہ نے ایک عہد کو اپنی کتاب میں زبان دے دی ہے۔

سحر انصاری کے اظہار خیال کے بعد ڈاکٹر اسلم فرخی نے فرمایا:

” میں عالی صاحب کے ایک جملے سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتا ہوں۔ عالی صاحب نے کہا کہ نثر کا ایک اسلوب اس کتاب میں ملتا ہے۔ یہ خیال بالکل درست ہے۔ نثر خاصی پیچیدہ اور دشوار صنف ہے۔ اس ماحول اور اس فضا میں ایک ایسی کتاب سامنے آئی ہے جس میں نثر کو خوب صورت اور اعلیٰ انداز میں استعمال کیا گیا ہے تو اسے پڑھ کر یقیناً فرحت حاصل ہوتی ہے۔ اس کا سبب بھی میرے ذہن میں موجود ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ آپ بھی اس سے اتفاق کریں۔ بات یہ ہے کہ خود نوشت لکھنے والا اپنے سماجی منصب اور اپنی شخصیت کے مطابق لکھتا ہے اور یہ ہمارا عہد انکشاف ذات کا عہد ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خود نوشتیں بڑی کثرت سے لکھی جا رہی ہیں۔ سفر نامے بھی کثرت سے لکھے جا رہے ہیں۔ سفر نامے بھی مجھے تو کبھی کبھی انکشاف ذات کا حصہ لگتے ہیں۔ اگر ہم اردو کے حوالے سے خود نوشت لکھنے کی روایت پر غور کریں تو سب سے پہلے خود نوشت لکھنے والا میر تقی میر ہے جس نے اپنی خود نوشت اردو ہی نہیں، فارسی میں لکھی لیکن میر کی خود نوشت میں انکشاف ذات نہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کیا بلکہ اپنی شخصیت پر کچھ خوش گمانی کے پردے ڈالنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ سرو الملک کی ” کارنامہ سروری” ہے جو بڑی زبردست خود نوشت ہے۔ اس میں وہ واقعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جس میں محسن الملک سے ان کی ٹکر ہوئی ہے اور محسن الملک کو حیدر آباد دکن چھوڑنا پڑا۔ سر رضا کا ” اعمال نامہ” بھی اہم خود نوشت ہے اس میں ان کی شخصیت کا عکس ملتا ہے۔ ادا جعفری نے اپنی خود نوشت ” جو رہی سو بے خبری رہی” میں جو نثر لکھی ہے وہ ان کی شاعری اور شخصیت سے پوری طرح ہم آہنگ ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک شاعرہ کی لکھی ہوئی خود نوشت ہے اور اس کی سب سے اچھی مثال جوش ملیح آبادی کی خود نوشت ” یادوں کی برات” ہے جس کو زبان کا حد سے زیادہ خیال بھی ہے اور وہ زبان پر غیر معمولی قدرت اور دسترس بھی رکھتا ہے۔ اور اس میں اس کی پوری شاعرانہ شخصیت بول رہی ہے۔ وہی کیفیت ہمیں ادا جعفری کی خود نوشت میں محسوس ہوتی ہے۔ ان کا نثر کا اسلوب بہت خوبصورت ہے اور یہ ان کی شاعری سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یعنی ہم ان کی شاعری کو ان کی نثر میں بھی کہیں کہیں تلاش کر لیتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خود نوشت ایک زمانے میں ادبی صنف کے طور پر شمار نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔ مغربی ممالک میں تو یہ حال ہے کہ میں نے ایک ادیب کی سوانح عمری دیکھی جو چھ ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔ میں حیران رہ گیا کہ یہ صنف اتنی بڑھ گئی کہ خود نوشت اتنے صفحات میں بھی لکھی جا سکتی ہے۔ ادا جعفری کی اس کتاب میں ماضی اور حال کو بڑے سلیقے سے جوڑا گیا ہے۔ مجھے اپنے بچپن میں ایک بات بڑی تعجب خیز معلوم ہوتی تھی کہ ہمارے رشتے کی جتنی شادی شدہ بہنیں تھیں وہ سب ہمارے یہاں رہتی تھیں۔ ان کے شوہر سال میں ایک بار آ گئے۔ یا وہ سال میں ایک بار چلی گئیں۔ مگر وہ رہتی ہمارے گھر میں تھیں۔ اب جو ادا جعفری کی خود نوشت پڑھی تو معلوم ہوا کہ جناب وہ تو جبر کا شکار تھیں انہیں اجازت ہی نہیں تھی کہ وہ اپنی سسرال جائیں، مجھے پہلے بار اس کتاب کو پڑھ کر وہ واقعات یاد آئے اور ہم جو یہ پڑھتے ہیں کہ سندھ میں عورت کے ساتھ یہ زیادتی ہوتی ہے اور پنجاب میں یہ ظلم ہوتا ہے تو یہ سلسلہ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ جس کو بڑی خوبصورتی سے ادا جعفری نے اپنی اس کتاب میں پیش کیا ہے۔”

ڈاکٹر حنیف فوق نے اس محفل میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:

” میں سب سے پہلے اس کتاب کے نام کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا کہ ادا جعفری صاحبہ نے اپنی خود نوشت کا یہ نام کیوں رکھا ہے۔میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ ادا جعفری کی یہ نثر کی پہلی کتاب نہیں ہے۔ اس سے پہلے ان کی کتاب غزل نما کے نام سے انجمن ترقی اردو نے شائع کی تھی۔ میں ان کی اس کتاب کو نظر انداز نہیں کرتا کیونکہ اس سے ادا جعفری صاحبہ کے ذہنی سفر اور تنقیدی نقطہ نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ انتخاب جو ہوتا ہے وہ بھی ایک ذہنی سفر کا پتہ دیتا ہے۔ اس کتاب کا جو نام رکھا گیا ہے وہ سراج اورنگ آبادی کے شعر سے لیا گیا ہے بات یہ ہے کہ ذہنی میراث اس خود نوشت میں جھلکتی ہے تو پھ رجب ہم کسی کتاب کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں خاص طور پر خود نوشت کے سلسلے میں تو مجموعی حیثیت سے شخصیت کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ ادا جعفری کی جو متاع قلم ہے جو شاعری ہے وہ تو اردو شاعری کا اہم سرمایہ ہے۔ اور ان کی خود نوشت تو اب آتی ہے۔ لیکن اگر ان کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں بھی ہمیں جگہ جگہ سوانحی رنگ ملتا ہے۔ ان کی شاعری بھی ایک طرح سے خود نوشت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادا جعفری نے یہ نام کیوں پسند کیا؟ میں اسے ایک کلیدی نکتہ سمجھتا ہوں۔ اس کتاب کا بغور مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ ان کی تلاش و جستجو ہے۔ اور تلاش و جستجو کیسی ہے۔ ایک تو یہ کہ انسان جو اپنی ذات کی تلاش میں گم ہوتا ہے تو کہاں پہنچ جاتا ہے ایک بے خبری وہ ہوتی ہے جو تصوف کی لائی ہوئی ہوتی ہے۔ ایک بے خبری وہ ہوتی ہے کہ انسان ہجوم میں گم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں ایک چھوٹی سی لڑکی ہے جو اپنی ذات کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں رہی ہے۔ ہجوم سے پریشان رہی ہے اور ہجوم سے ہم آہنگ ہونے کی جستجو میں بھی رہی ہے۔ ا س لڑکی کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ بے خبر اور بے چین لڑکی ہے اس کے بعد وہ شعور کی کتنی منزلوں سے گزری ہے لیکن آخر میں وہ وہ اسی منزل پر پہنچتی ہے جہاں بے خبری رہی یعنی پھر وہ دائرہ مکمل ہو جات اہے۔ بے خبری کا جو دائرہ جہاں شروع ہوا تھا اسی پر آ کر ختم ہو جاتا ہے یہ جو بے خبری آئی ہے وہ زندگی کے سارے تجربات اور مشاہدات کا نتیجہ ہے۔ اس لیے میں کتاب کے نام کو ” جو رہی سو بے خبری رہی” بہت اہم سمجھتا ہوں دوسری بات جس کی جانب ابھی اشارہ کیا گیا یعنی ابتدائی صفحات تو میں یہ کہوں گا کہ ابتدائی صفحات نہایت جاندار اور پر اثر ہیں۔ تہذیبی نقوش کے اعتبار سے سب سے زیادہ مزین حصہ وہ ہے جو کتاب کی ابتدا کا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو تضاد ہے وہ اس میں نمایاں ہوا ہے۔ اب مجھے کہنا ہے کہ اہم بات کون سی ہے۔ دونوں باتیں ادا جعفری نے کہی ہیں۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ بدایوں میں ٹونک والا پھاٹک بہت بلند و بالا تھا ایک عام قاری کو اس سے کیا دلچسپی ہو گی لیکن ادب کے قاری کو اس سے ضرور دلچسپی ہو گی کہ وہ لڑکی جو ساری دنیا کی سیاحت کر چکی وہ اپنے شہر کی سڑک پر تنہا نہیں چلی اور اپنے شہر کی سڑک پر پیدل چلنے کی آرزو پوری نہیں ہوئی یہ جو زندگی کا تضاد اس طرح سے بیان ہوا ہے وہ کتاب کو اہم بناتا ہے۔ اس لیے اسے اردو کی خود نوشتوں میں ایک اضافہ کہا جا سکتا ہے۔ خود نوشت محض واقعات اور روایات کو بیان کرنے کا نام نہیں۔ ” گرد راہ” کو اہم خود نوشت سمجھتا ہوں۔ ” یادوں کی برات” ” مٹی کا دیا” ” شہاب نامہ ” بلاشبہ قابل ذکر خود نوشتوں میں شامل ہیں لیکن یہ سب مختلف روایات کو پیش کرتی ہیں یہ تمام خود نوشتیں الگ الگ انداز میں لکھی گئیں۔ لیکن یہاں ہم جس کتاب پر گفتگو کے لیے جمع ہوئے ہیں اس میں ایک بڑی خوبی تو یہ ہے کہ اس میں خود نمائی نہیں آتی۔ خود نوشت میں اضافہ تراشی بھی آ جاتی ہے۔ا س طرح اپنے حوالے سے لکھنے کا انداز بھی ہوتا ہے۔ ادا جعفری کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے یہاں جو گہرائی آتی ہے اس کے لیے ہمیں ان کی ذات سے بالاتر ہو کر دیکھنا ہو گا اور اگر کوئی فکری تشکیل نہ ہو تو وہ سوانح عمری قابل ذکر قرار نہیں پاتی، ادا جعفری کی ذات میں جو گہرائی آئی ہے وہ دراصل ترقی پسند تحریک کی دین ہے۔ اس کا انہوں نے اعتراف بھی کیا ہے کہ زندگی کے میلے میں کثرت کا احساس ترقی پسند تحریک سے پیدا ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ترقی پسند تحریک ہی تھی جس نے خواتین کو اپنا لہجہ عطا کیا۔ یہ جو دو باتیں آتی ہیں وہ ترقی پسند تحریک کی وجہ سے آتی ہیں ترقی پسند تحریک نے ہمارے پورے معاشرے میں ہلچل پیدا کر دی تھی تو اس ہلچل کو ادا جعفری نے جس طرح سے جذب کیا ہے اس کی وجہ سے ان کی جو ذہنی نشوونما ہوئی ہے اس کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔”

مذاکرے کے اس مرحلے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا

” ادا جعفری کی خود نوشت کے بارے میں اب تک یہاں جو کچھ کہا جا چکا ہے اس میں کچھ باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بعض پہلو ایسے ہیں جن سے الگ ہو کر سوچنا ممکن نہیں۔ مثلاً کتاب کے ابتدائی ساٹھ، ستر صفحات نہایت جاندار اور خوبصورت نثر کا نمونہ ہیں اس کا مقصد یہ نہیں کہ کتاب کا بقیہ حصہ اضافی یا ناکام کوشش ہے۔د راصل یہ ابتدائی حصہ کچھ اس قدر اثر انگیز ہے کہ آدمی اس کے حصار سے الگ نہیں ہو پاتا۔”

ڈاکٹر حنیف فوق نے کتاب کے نام کے حوالے سے جو باتیں کہیں ا س سے کئی نئے پہلو سامنے آئے:

” ادا جعفری صاحبہ نے اپنی کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا ہے اور آخری باب کا عنوان بھی یہی ” جو رہی سو بے خبری رہی” رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ہر باب کے لیے کوئی مصرعہ رکھا گیا ہے۔ ادا جعفری صاحبہ کا یہ عمل ان کی شاعری سے والہانہ وابستگی ہی نہیں بلکہ ایک تخلیقی فنکار کی حیثیت سے انہوں نے ا پنے استعاروں اور علامتوں کے لیے شاعری کا انتخاب کیا۔ انہوں نے ان ابواب کے لیے دیباچے کے بجائے دریچے کا عنوان زیادہ موزوں سمجھا۔ ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے انہوں نے زندگی کو ہر جگہ اسی دریچے سے دیکھا اور سمجھا ہے اس دریچے میں تہذیبی رنگوں کی آمیزش ہی ان کے منفرد مزاج اور فکر کا پتا دیتی ہے ان کے شعری مجموعوں کے ناموں کو دیکھیے اور انہوں نے ” غزل نما” کی صورت میں جو انتخاب کیا ہے اس کو ایک نظر دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے خاتون ہونے کے احساس کو کہیں ختم ہونے نہیں دیا۔ جہاں تک ادا جعفری صاحبہ کی خود نوشت کا کسی دوسرے ادیب کی سوانح حیات سے مختلف ہونے کا تعلق ہے تو یہ یوں بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ہر آدمی کی ایک اپنی شخصیت ہوتی ہے اور وہ زندگی بھی اپنے مطابق بسر کرتا ہے۔ ایک تخلیقی فنکار کی پہچان ہے کہ وہ اپنا راستہ دوسروں سے الگ بناتا ہے۔ ادا جعفری نے اپنی خود نوشت میں چیزوں پر اتنے حوالے سے غور کیا۔ جب وہ مختلف ممالک کا احوال بیان کرتی ہیں تو جو کچھ دیکھتی ہیں۔ ان کے خدوخال اور تاریخ کا تذکرہ کرنے کے بجائے یہ بتاتی ہیں کہ انہیں مشہور و معروف چیزیں کیسی لگیں۔ یوں ہم ان چیزوں کے تذکرے میں ادا جعفری کی سوچ کے رنگوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتی ہیں وہاں لائبریری اور آرٹ گیلری ضرور دیکھتی ہیں۔ یہ دو چیزیں ان کی نفسیات کا حصہ ہیں۔ وہ دریچہ سے جھانکتی ہیں تو اس دوران ان کی فکر اور سوچ بے معنی نہیں لگتی یعنی جب انہوں نے دریچے سے ایک لڑکی کی حیثیت سے زندگی کو دیکھا تو ان کے بیان میں وہی لڑکی دکھائی دے گی جو اپنی تہذیبی روایات کی بھرپور ترجمان بھی ہے۔ انہوں نے نانی اور دادی بن کر بھی یہی بتایا کہ انہیں یہ رشتہ کیسا لگا اور یہاں آنے کے بعد انہیں اپنا ماضی کیسا لگا۔ انہوں نے اس محسوساتی سفر میں حالات و واقعات کو بہت کم بیان کیا۔ خود نوشتوں میں "میں ” کا استعمال کچھ اس صورت کیا گیا ہے کہ اس سے الجھن ہونے لگتی ہے مثال کے طور پر بعض لوگوں نے ترقی پسند تحریک کے بیان میں بھی اپنی ” میں ” کو اس طرح باقی رکھا ہے کہ شاید ان کی عدم موجودگی سے یہ تحریک کامیاب نہ ہوتی۔ خود نوشت میں اس رویے کی بدولت اصل حقائق کچھ سے کچھ ہو گئے۔ ادا جعفری کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کسی بھی چیز کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا۔”

جناب جمیل الدین عالی نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:

” ہم نے بہت ہی سوانح عمریوں کا ذکر کر کے دو چار چیزیں ملا دیں۔ یعنی ہم پوری سوانح عمری کے موضوع پر آ گئے تھے۔ اس موضوع پر ڈاکٹر شاہ علی صاحب کی نہایت عمدہ کتاب ہے جس میں انہوں نے پچاس، ساٹھ برس پہلے کی سوانح عمریوں سے متعلق نہایت عمدہ تجزیہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ کوئی سوانح عمری کن کن عوامل کے تحت لکھی گئی اور لکھنے والوں کی کیا کیا مجبوریاں تھیں۔ ہم کو ادا جعفری کی خود نوشت کے سلسلے میں تمام تر تجزیے اور تعریف کے ساتھ کہ کیا انہیں اپنے دور کی بھی پوری کہانی لکھنی تھی جیسے کہ خلیق انجم نے افکار میں لکھی ہے۔ وہ ان کی اپنی کہانی تو کم رہ گئی ہے سیاسی تحریکات کے لوگوں اور عظیم شخصیات کی کہانی ہو کر رہ گئی ہے یا حال ہی میں حمید نسیم صاحب کی کتاب آئی ہے اس میں ان کے واقعات، تاثرات اور تعصبات زیادہ نمایاں ہیں۔ میاں سر رضا علی کا ذکر ہوا۔ اتفاق سے جس زمانے میں وہ دہلی میں اعمال نامہ کے اجزاء پڑھا کرتے تھے تو میری عمر سترہ اٹھارہ برس تھی۔ انہوں نے چند ہی اجزاء پڑھے تھے کہ میں نہایت ادب اور گستاخی دونوں کے ساتھ ان سے پوچھا کہ کیا آپ کی یہ کتاب مکمل ہو گئی اور کیا اسے مکمل کرتے کرتے آپ کی زندگی کی تمام سچائیاں سامنے آ جائیں گی تو انہوں نے مجھ جیسے نوجوان سے کہا: ” برخوردار، اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میں سب کچھ کہہ دوں گا تو اپنی کچھ کمزوریوں کے اعتراف کے باوجود، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔”

یہ الفاظ سر رضا علی جیسے بے باک اور نڈر آدمی کے ہیں یہاں جوش صاحب کا بھی ذکر آیا ہے۔ ان کی نثر کے بارے میں تو ہم کہاں بات کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی خود نوشت میں افسانویت کو زیادہ شامل کیا ہے۔ یہ بات ان کی زندگی ہی میں ثابت ہو گئی تھی کہ ان کے اپنے زیادہ تر واقعات میں رنگ آمیزی کی گئی ہے۔ جوش صاحب نے مخصوص انداز میں لوگوں کی تعریف کی۔ ان کی اس تعریف کے پس منظر میں ذاتی معاملات تھے جبکہ زیادہ تر برائیاں ان لوگوں کی ہیں جن سے وہ خفا ہو گئے تھے۔ا س میں ادب بہت ہے لیکن سوانح عمری والی بات نہیں ہے۔

ادا جعفری نے سب کو اچھا اچھا کیوں کہا! اس خاندان کو تیس چالیس برس سے جانتا ہوں۔ یہ دونوں میاں بیوی اپنے مزاج کی وسعتیں بھی جانتے ہیں اور محدودات بھی جانتے ہیں ان کی سوچ محدود نہیں ہے۔ البتہ زندگی محدود ہے۔ محدود انداز میں زندگی بسر کرنے والے باہر جا کر زنگی کو برت نہیں سکتے، سوچ نہیں سکتے ہیں۔ میں نے ابتدا میں انہیں بہترین رفیق حیات اور والہانہ محبت کرنے والی ماں کہا تھا۔ یہاں شباب صاحب کا بھی ذکر آیا شاید میری یہ بات بہت سے حلقوں میں پسند نہ کی جائے لیکن میری بھی عمر آخر ہے لہٰذا میں کیا کروں کہ شہاب نامے پر میرا بہت لمبا لکھا ہوا تبصرہ نامکمل پڑا ہے کیونکہ مجھے ان سے محبت بہت زیادہ ہے اور یہ ایسی محبت ہے کہ میری صداقت پر حاوی ہے۔ میں تین برس ان کا ماتحت رہا اور پچیس برس بے ریا دوستی رہی میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ شہاب نامے میں انہوں نے کئی واقعات کو بڑے پیمانے سے افسانوی بنایا ہے۔ کہ اس میں شخصیات کو رد کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ آپ کسی کو ناپسند کرتے ہیں تو اس کا اظہار کیا جا سکتا ہے لیکن اپنی ناپسندیدگی کے لیے کوئی واقعہ گھڑ دیا جائے اور اس واقعے کی بنیاد پر مذمت کی جائے تو وہ جائز نہیں۔ ہمارے لیے ” روسو” بھی معیار نہیں بن سکتا کیونکہ وہ آدھا تو جھوٹا ہے۔ خود اس کے زمانے کے لوگوں نے اس کے اعترافات میں بہت سے واقعات کو غلط ثابت کر دیا تھا۔ ادا جعفری نے مشاہدے اور تجزیے کی کمی کے سبب لوگوں کی خامیوں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ رویہ اختیار کر لیا کہ کسی کو برا نہ کہا جائے۔ا ور دوسرے ان کا واسطہ بیوروکریٹ سے پڑا۔ سسرال والوں سے پڑا ادیبوں سے پڑا۔ لیکن میں نے ان کے گھر میں کبھی کسی ادیب اور شاعر کو شراب پیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ان کے گھر کی نشستیں ہوئیں لیکن ان میں کسی مرحلے پر بے قاعدگی اور بد تہذیبی نہیں آئی۔ ان کا گھر ہمیشہ سے مخصوص انداز میں رہا۔ا ور اس کے ماحول نے اجازت ہی نہ دی کہ لوگ حدود سے گزرتے۔ اب یہ دیکھئے کہ ان کی شادی سے قبل ہی ان کی کتاب پر قاضی عبدالغفار جیسے آدمی کا مقدمہ آتا ہے جو کوئی معمولی بات نہیں لڑکی بدایوں میں رہ رہی ہے اور وہ حیدر آباد دکن میں دونوں ایک دوسرے سے واقف نہیں اس وقت ادا جعفری کسی بڑے افسر کی بیوی نہیں تھیں۔ اس کے باوجود قاضی صاحب نے مقدمہ لکھا ابتدا سے ان کے اندر تلاش کا سلسلہ جاری ہے مروجہ اعتبار سے دیکھا جائے تو اس میں بہت زیادہ واقعات اور نشیب و فراز نہیں آتے۔ سوانح عمری کو اپنے حالات کے مطابق نہیں بلکہ جو لکھ رہا ہے اس کے حالات کے مطابق دیکھنا چاہیے اس میں دیکھنا یہ چاہیے کہ ادب کتنا دیا ہے۔ پہلی چیز ادب ہے جسے ہم شعر میں دیکھتے ہیں کہ موضوع یا خیال کو فنکارانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اگر تخلیقی عنصر نہیں ہے تو خیال کی بڑائی اور بلندی کے باوجود اسے ادب کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔”

ڈاکٹر حنیف فوق نے اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:ـ

” کوئی خود نوشت کسی دوسرے کے لیے ماڈل نہیں ہے۔ا دا جعفری کے یہاں ایک کلچر اور ایک معاشرہ ہے اور اسی وجہ سے یہ آپ بیتی ” جگ بیتی” بن گئی ہے۔ میں اس بات سے اختلاف کروں گا کہ اس میں واقعات نہیں بات یہ ہے کہ ہر شخص کے بیان کا اپنا طریقہ ہوتا ہے ان کی شاعری کو لے لیجئے وہ بڑے مدھم لہجے کی شاعرہ ہیں۔”

ڈاکٹر اسلم فرخی نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا:

” میں سمجھتا ہوں خود نوشت کا نہ تو کوئی آئیڈیل ہو سکتا ہے اور نہ کوئی مقررہ انداز ہو سکتا ہے۔ ہر لکھنے والا اپنے سماجی منصب اور اپنے طرز احساس کے مطابق اپنے حالات لکھتا ہے۔ عالی صاحب نے بالکل درست کہا:

ادا جعفری صاحبہ نے زندگی کو اپنے مطابق بسر کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی خود نوشت دوسروں سے الگ اور منفرد ہے دوسری بات یہ ہے کہ خود نوشت نہ سوانح عمری ہوتی ہے اور نہ تاریخ ہوتی ہے۔ لیکن وہ سوانح اور تاریخ کے لیے خام مواد فراہم کرتی ہیں ”

مذاکرے کے اس مرحلے میں جناب جمیل الدین عالی نے پروفیسر سحر انصاری سے سوال کیا:

” ادا جعفری مغربی ادیبوں میں کن سے آپ کو زیادہ قریب دکھائی دیتی ہیں۔”

سحر انصاری نے کہا:

” میرا خیال ہے کہ زیادہ قربت تلاش کریں تو بغیر کسی گہرائی میں جائے ہوئے، ظاہری مماثلت ورجینیا وولف سے ملتی ہے۔ اس کی خود نوشت تو اس طرح سے نہیں آئی ہے لیکن اس کی جو ڈائریاں بہت اہم ہیں اس میں جس طرح کی ایک باطنی آگاہی اور باطنی عنصر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں یہ چیز ادا جعفری کے یہاں قدر مشترک ہے۔”

سحر انصاری کی گفتگو کے بعد جناب جمیل الدین عالی نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا:

” اس کتاب نے ادا جعفری کو ایک صاحب اسلوب نثر نگار کے طور پر پیش کیا ہے۔”

 

               مزید معروف اہل قلم ناقدین کا تجزیہ

 

احمد ندیم قاسمی

اردو میں خود نوشت سوانح عمریوں کی کمی آہستہ آہستہ دور ہو رہی ہے اور اردو کی بڑی اور محترم شاعرہ ادا جعفری کی خود نوشت اس امر کا ایک تازہ اور ٹھوس ثبوت ہے۔ انہوں نے بچپن سے لے کر اب تک حالات اتنے اتنے سلیقے سے اور اتنی سچائی سے رقم کیے ہیں کہ ” جو رہی سو بے خبری رہی” کو آئندہ کی خود نوشتوں کے لیے مینارہ نور قرار دیا جا سکتا ہے۔ پھر اتنی خوبصورت شاعری کرنے والی خاتون نے نثر بھی نہایت خوبصورت اور رواں لکھی ہے۔ نجی زندگی کے حقائق کے بیان میں تخلیق جوہر کم ہی ساتھ دیتا ہے مگر ادا صاحبہ کا یہ جوہر ایک ایک سطر میں چمک رہا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے کسی واقعے کو چھپایا نہیں اور بعض مقامات پر ایسا ایسا سچ بولا ہے کہ ان کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو کترا کر نکل جاتا، البتہ یہ ان کی طبعی شرافت اور نیت کی نیکی ہے کہ انہوں نے ان افراد یا عناصر کا ذکر تک نہیں کیا جو ان کے معیاروں پر پورے نہ اترے یا جنہوں نے انہیں کوئی تکلیف پہنچائی۔ خود نوشت کے آخری باب میں انہوں نے اس سلسلے میں وضاحت کر دی ہے:

” ایسا نہیں تھا کہ مجھے کبھی کسی سے دکھ نہ پہنچا ہو۔ دوستوں کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے مگر جن باتوں نے دل دکھایا انہیں اپنی یادوں میں کیوں شریک رکھا جائے۔ یہ زندگی بہت مختصر ہے اور عفو و در گزر میرے مولا کی صفت ہے اور اسے پسند ہے”

بحیثیت مجموعی انہیں کم ہی کسی سے گلہ رہا ہے، سب سے اپنائیت محسوس کی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان بھر کے اہل شعر اور اہل ادب کے علاوہ اپنے عزیزوں اور پنے شوہر (نور الحسن جعفری مرحوم) کے ہم پیشہ بعض افسروں کے بارے میں جب بھی کچھ لکھا ہے کمال سیرچشمی سے لکھا ہے ایک قدامت پسند ماحول میں پرورش پانے کے بعد بحیثیت شاعرہ جب انہوں نے اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالنے کی ” بغاوت” کی ہے تو اس کی روداد بہت دلچسپ ہے مگر مجال ہے جو انہوں نے کوئی دعویٰ کیا ہو۔ انہیں اردو کی اولین شاعرہ بھی کہا گیا ہے مگر خود وہ لکھتی ہیں کہ:

” ہم سب کو معلوم ہے کہ تذکروں میں اٹھارویں صدی تک شاعرات کے نام موجود ہیں اور انتخاب کلام بھی۔ ان میں مہ لقا بائی چندا کا نام نمایاں ہے وہ پہلی شاعرہ تھی جس کا پہلا دیوان 1789ء میں مرتب ہوا۔”

چنانچہ اتنی سچی اور کھری خاتون سے کسی قسم کی سنسنی خیزی یا انانیت کے اظہار کی توقع غلط ہے۔ انہوں نے ” خود نوشت” کے حوالے سے خود ہی لکھ دیا ہے:

” یہ خود نوشت ایک عام سی لڑکی اور ایک روایتی گھریلو عورت کی چھوٹی سی کہانی ہے جس میں کوئی کہانی بھی نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ لڑکی اکیلی۔ اپنے دل کی تنہائی میں گرفتار، اور وہ عورت چار دیواروں کے حصار میں رہ کر بھی اپنے وجود کی پہنائیوں میں سرگرداں رہی۔ اس نے سوچا کہ میں سائے کا پیچھا نہیں کروں گی۔ اب میرے سائے کو میرے پیچھے پیچھے چلنا ہو گا۔ جل کی مچھلی ریت پر جینے کا ہنر سیکھنا چاہتی تھی۔”

اور یہ ہنر انہوں نے سیکھ لیا چنانچہ کرۂ ارض کا شاید ہی کوئی منطقہ ایسا ہو جہاں وہ نہیں پہنچیں۔ یورپ اور خاص کر امریکا کو تو انہوں نے چھان لیا۔ سر زمین عرب سے بھی ہو آئیں۔ دنیا کے ان تمام خطوں سے متعلق ادبی اور ثقافتی شخصیات کا بھی انہوں نے قریب سے مطالعہ کیا۔ بیسویں صدی میں جو سیاسی تحریکیں جنوبی ایشیا میں چلیں ان سے بھی انہوں نے اجنبیت نہیں برتی۔ ترقی پسند ادب کی تحریک کی ہمہ گیر اور ہمہ اثر کیفیات کا بھی انہوں نے کھل کر اعتراف کیا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں جو انسانیت سوز فسادات ہوئے ان کا حسیاتی تذکرہ بھی نہایت دلدوز اسلوب میں کیا ہے اس سلسلے میں ” جو رہی سو بے خبری رہی” کے باب ” میں آپے رانجھا ہوئی” کا مطالعہ لرزا کر رکھ دیتا ہے یوں سمجھئے کہ محترمہ ادا جعفری کی یہ خود نوشت اس تہذیب کی تاریخ ہے جس کا اب شاید نشان تک باقی نہیں رہا اور جو اس کتاب کے ابتدائی ابواب میں محفوظ ہو گیا ہے۔

پھر جیسا کہ شروع میں کہا جا چکا ہے ان کی نثر بھی ان کی شاعری کی طرح حد درجہ خوبصورت اور دلاویز ہے۔ چند اقتباسات درج ہیں :

” بارہ تیرہ سال کی عمر میں کتابوں کے علاوہ روشنی کی جو دوسری کرن میری زندگی میں داخل ہوئی وہ ننھے منے بچے تھے۔۔۔ کسی کے بھی ہوں میں نے گھر کی مہترانی کے بچے نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا کر گود میں کھلائے ہیں۔ آسمانوں سے دل میں اترتے ہوئے حرف اور مسکراتے ہوئے ننھے بچے میں مجھے آج بھی ایک مشابہت نظر آتی ہے۔ دونوں کس قدر معصوم اور کتنے سچے ہوتے ہیں۔”

” وقت کے ساتھ ساتھ آئینوں میں پرتو اور عکس بھی زاویے بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی سامنے، کبھی اوجھل، کبھی بولتے ہیں، کبھی چپ رہتے ہیں۔ وہاں خوشبو تو یہاں شبنم۔ اس خاکداں میں آنے والی ہر روح اپنے حصے کا جادو بھی ساتھ لے کر آتی ہے اور جہاں یہ طلسم ساتھ چھوڑ جائے، وہیں آدمی دم توڑ دیتا ہے۔”

امریکی یونیورسٹیوں کے پاکیزہ علمی ماحول کا نقشہ یوں کھینچا ہے:ـ

” ان ہواؤں میں سانس کتنی نکہت آمیز لگتی ہے۔ ارض و سما کا یہ مخصوص حصہ کتنا پاکیزہ کتنا مقدس نظر آتا ہے۔ ہر ملک، ہر قوم اور ہر مذہب کی نوجوان نسل کے دمکتے ہوئے اجلے اجلے چہرے جن کے آئینوں کے آگے کوئی انسان ساختہ دیوار نہیں ہے۔ کتاب اور قلم کی حرمتوں سے آشنا یہ نوجوان جنہیں ان کی اپنی مرادیں ہی پروان چڑھاتی ہیں، ان کی امنگوں کے راستوں میں کوئی سنگ گراں حائل نہیں ہوتا۔”

” ہوا یہ کہ اس لڑکی نے جب عورت کا روپ دھارا تو اپنے آپ سے بچھڑ گئی۔ گہنے، لتے، ہار سنگھار اور گود میں چاند سورج۔۔۔۔ بارہ تیرہ سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا لیکن وہ لڑکی مری نہیں تھی، بس ہجوم میں کھو گئی تھی بات یہ ہے کہ عورت موت کا استقبال تو ایک ہی بار کرتی ہے لیکن جنم بار بار لیتی ہے۔”

قیام پاکستان کے بعد جو ” آپا دھاپی اور لچیو پکڑیو” کی فضا قائم ہوئی اس کے بارے میں مصنفہ لکھتی ہیں :

” کپل وستو کا شہزادہ جب اپنے آپے کی کھوج میں نکلا تھا تو عبا اور قبا اور عصا ترک کر کے نکلا تھا۔ ایسی کوئی پرچھائیں اس اجالے کے تعاقب میں نہیں تھی۔ مگر یہ کیسے شہزادے تھے کہ وہ جن کے گھروں، چوباروں پر پہچان نے دستک دی، وہ محلوں دو محلوں کی تعمیری میں نڈھال ہوئے، اور وہ جو صوف پہن کر گھر سے نکلتے تھے، زرتار قبا کے بوجھ تلے روندے گئے۔”

اور آخر میں اس بھرپور خود نوشت کے آخری صفحے کا ایک بلیغ اقتباس:

” اب لکھتے لکھتے اچانک یہ دھیان آیا کہ کیا ہم خود اتنا جانتے ہیں کہ اپنے بارے میں کچھ لکھ بھی سکیں۔ پتہ نہیں میں نے کیا لکھا اور پڑھنے والے کیا پڑھیں۔ اپنے آپ سے متعارف ہونا مجھ جیسی ایک محدود علاقے میں عمر بسر کرنے والی کے اختیار میں کہاں۔ حقیقت یہی ہے کہ میں نے تو اب بھی جسے زندگی کہتے ہیں اس کی صرف جھلکیاں ہی دیکھی ہیں۔ مجھ جیسے روز و شب کے جزیروں میں جاگتے سوتے رہنے والے کیا جانیں کہ کس کا سفر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں پہنچا دیتا ہے۔ زندگی کے بحر بیکراں میں اپنا پتہ کس نے پایا ہے۔”

 

مشفق خواجہ

ادا جعفری کی کتاب ” جو رہی سو بے خبری رہی” دیکھ کر ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ یہ محترمہ کا تازہ مجموعہ کلام ہو گا۔ ان کا آخری مجموعہ ” ساز سخن بہانہ” ہے بارہ تیرہ برس پہلے چھپا تھا، اس عرصے میں انہوں نے بہت سی شاہکار نظمیں غزلیں لکھی ہیں اس لیے تازہ مجموعے کی اشاعت غیر متوقع نہیں تھی۔ کتاب کی ورق گردانی سے پہلے اس کے نام نے مسحور کر دیا کہ کسی شعری مجموعے کے لیے ایسا موزوں اور خوب صورت نام کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ بڑے شوق سے کتاب کھولی، لیکن افسوس کہ اس میں سے نظم کی بجائے نثر برآمد ہوئی۔ مزید مایوسی اس وقت ہوئی جب اندرونی سر ورق پر کتاب کے نام کے نیچے قوسین میں ” خود نوشت” لکھا دیکھا۔ا یک تو شاعروں کی نثر پڑھنا ہمارے لیے مشکل کام ہے، اور اس سے زیادہ مشکل کام یہ ہے کہ کسی ایسی شخصیت کی آپ بیتی پڑھی جائے جس کی زندگی میں کسی چٹخارے دار واقعے کے رونما ہونے کا امکان ہی نہ ہو جس نے امرتا پریتم، اجیت کور اور کشور ناہید کی آپ بیتیاں پڑھی ہوں۔ وہ ادا جعفری کی آپ بیتی اسی وقت پڑھے گا، جب اسے ثواب حاصل کرنا ہو گا۔ سو ہم نے اس کتاب کو ان کتابوں کے ساتھ رکھ دیا جن کو آئندہ زندگی میں حصول ثواب کے لیے پڑھنے کا ارادہ ہے۔

گزشتہ ہفتے سورج گرہن والے دن پورے شہر کی طرح ہم بھی خوف زدہ تھے گھر سے باہر قدم نکالنے کی ہمت نہ ہوئی تو سوچا کوئی نیکی کا کام کر ہی لیا جائے اس لمحے ادا جعفری کی کتاب یاد آئی کہ اس کے مطالعے سے زیادہ نیکی کا کوئی کام اور کیا ہو سکتا ہے۔ کانپتے ہاتھوں میں ہم نے کتاب سنبھالی اور آئندہ زندگی میں نیک راہ پر چلنے کی دعا مانگ کر اس کا مطالعہ شروع کر دیا پہلے صفحے کی پہلی سطر ہی ایسی دامن کش دل ہوئی کہ ہم دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر اسے پڑھتے اور جب تک کتاب ختم نہ ہو گئی، ہم نے اسے ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ کتاب پڑھنے کے بعد ہمیں اپنی اس رائے پر ندامت ہوئی جو ہم نے کتاب پڑھنے سے پہلے قائم کی تھی، حالانکہ ہماری روایت یہ رہی ہے کہ کتابیں پڑھے بغیر ان کے بارے میں کالم لکھے ہیں اور الحمد للہ کہ کبھی کوئی غلط بات نہیں لکھی ادا جعفری کی کتاب پڑھنے کے بعد اب ہماری یہ رائے ہے کہ اسے سورج گرہن کے دن ہی میں نہیں عام دنوں میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اور ایسی دلچسپ اور اعلیٰ ادبی معیار کی کتابیں کم لکھی گئی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ادا جعفری کی زندگی میں چٹخارے دار واقعہ کوئی سنسنی خیز قصہ اور کوئی دل گرما دینے والا رومان نہیں ہوا اس کے باوجود یہ کتاب قاری کے دل کو گرماتی ہے اور ذہن کو روشنی بھی عطا کرتی ہے۔

ادا جعفری نے ہر حساس انسان کی طرح دو سطحوں پر زندگی بسر کی ہے، وہ بیک وقت دو دنیاؤں کی شہری ہیں۔ ایک دنیا تو وہ ہے جو گرد و پیش کے ماحول نے تعمیر کی ہے اور دوسری دنیا وہ ہے جو ان کی ذات کے اندر واقع ہے وہ اپنی زندگی کی روداد بیان کرتے ہوئے کبھی ظاہری دنیا کی تصویریں دکھاتی ہیں اور کبھی باطنی دنیا کے مناظر پیش کرتی ہیں۔ کہیں وہ بھولے بسرے واقعات سناتی ہیں اور کہیں اپنی ان سوچوں اور خیالوں کی نقش گری کرتی ہیں جو زندگی کے مختلف ادوار میں ان کے دل و دماغ پر مسلط رہے۔ اس اعتبار سے یہ آپ بیتی منفرد ہے کہ اس میں عام واقعات کے ساتھ دل و دماغ پر گزرنے والی کیفیات کو بھی محفوظ کر دیا گیا ہے۔

بدایوں کی ایک بہت بڑی اور پرانی حویلی کی اونچی دیواروں کے درمیان پرورش پانے والی ایک ذہین اور حساس لڑکی نے آج کے عہد کی ایک بڑی شاعرہ بننے تک کے مراحل کس طرح طے کئے، ان کی تفصیل تو اس کتاب میں ملتی ہی ہے لیکن جو چیز اس کتاب کو عام کتابوں سے الگ کرتی ہے۔ وہ مصنفہ کا انداز بیان ہے۔ یہ بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی اچھا شاعر، اچھی نثر لکھنے پر بھی قادر ہو۔ اسی طرح اگر کوئی اچھا نثر نگار، شاعر بھی ہو تو اس سے اچھی شاعری کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ غالب کا شمار تو مستثنیات میں ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت بڑا شاعر بھی ہے اور بڑا نثر نگار بھی لیکن دوسرا کوئی شاعر یا نثر نگار ایسا نہیں ملتا جو نثر و نظم دونوں میں باکمال ہو۔شاعروں میں علامہ اقبال کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہ بڑے شاعر ہیں مگر ان کی نثر بے مزہ ہوتی ہے، یہی حال فیض کا ہے کہ ان کی شاعری کے سامنے ان کی نثر خانہ بے چراغ ہے۔ ہمارے صاحب طرز نثر نگاروں میں مولانا ابو الکلام آزاد اور نیاز فتح پوری، شاعری سے بھی شوق رکھتے تھے مولانا آزاد کا خاصا کلام منظر عام پر آ چکا ہے اور نیاز فتح پوری کا شمار تو زود گو شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کا وہ کلام جو ستر اسی سال پہلے کے رسالوں میں دفن ہے، جمع کیا جائے تو ہزار صفحوں سے کم کا مجموعہ مرتب نہیں ہو گا، لیکن آزاد اور نیاز کی نثر کے سامنے ان کی شاعری کا وہی حال ہے جو کمال کے بالمقابل عجز کا موجودہ دور میں ایک بھی نثر نگار ایسا نہیں ہے جس نے ڈھنگ کے دو مصرعے لکھے ہوں، لیکن شاعروں میں چند ایسے ضرور مل جاتے ہیں جنہیں نثر لکھنی آتی ہے اس مختصر گروہ میں ادا جعفری اس اعتبار سے منفرد نظر آتی ہیں کہ ان کی نثر صحیح معنوں میں تخلیقی نثر ہے وہ اب تک ہمارے عہد کی ایک بڑی شاعرہ تھیں زیر نظر کتاب کی اشاعت کے بعد اب وہ بڑی نثر نگار بھی ہیں۔

اگر یہاں تخلیقی نثر اور غیر تخلیقی نثر کا فرق واضح کر دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ہر لکھنے والے کی پہلی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا مدعا بیان کرے اور یہ کام ہر وہ شخص بآسانی انجام دے لیتا ہے جس کے ہاتھ میں قلم اور قلم کے سامنے کاغذ ہو۔ کوئی لفظوں کو بے جان اشیاء کی طرح استعمال کرتا ہے اور کوئی ان کا انداز سمجھ کر ان کی روح میں اترتا ہے اور معانی کا سراغ لگاتا ہے کوئی اپنا مدعا اس طرح بیان کرتا ہے کہ پڑھنے والا پڑھ کر بھول جاتا ہے کہ اس نے کیا پڑھا تھا اور کوئی اپنی بات اس طرح کہتا ہے کہ بات ذہن میں نقش ہو جاتی ہے اور بات کہنے کا انداز دل میں گھر کر لیتا ہے۔

ادا جعفری کی نثر اس لیے تخلیقی ہے کہ انہوں نے لفظوں کو انسانوں کی طرح جاندار سمجھا ہے اور ان کی ماورائے لغت معنویت سے بھی کام لیا ہے۔ ان کی باتیں اچھے شعر کی طرح نہ صرف متاثر کرتی ہیں بلکہ یاد بھی رہ جاتی ہیں کتاب کا آغاز ہی اس خوبصورت انداز سے ہوتا ہے ” وہ جو بے چین اور بے خبر اور ہجوم میں تنہا لڑکی تھی، یہ اس کی اور میری کہانی ہے، میرے اور اس کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا صبح و شام کے بیچ آ جاتا ہے۔ میرا اور اس کا وہی رشتہ ہے جو سوچ کا آواز سے ہوتا ہے۔ سوچ کی سرحدیں نہیں ہوتیں، آواز حدود میں گرفتار رہتی ہے، آواز سوچ کے ساتھ چلے، کبھی ایسا ہوتا ہے، کبھی نہیں ہوتا، کبھی وہ میرے پاس ہوتی ہے کبھی صدیوں کے فاصلے پر میں تو اسے بہت پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھی تھی مگر اس نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا، مڑ کر دیکھ لینے میں ہرج ہی کیا ہے۔ بدلتے موسموں کی دل داری دل آزاری دونوں پر یقین کرنے کے لیے کبھی کبھی بھولی بسری یادوں کو چھو لینا بھی اچھا ہے۔”

اگر اس اقتباس کے جملے مصرعوں کی طرح لکھ دیے جائیں تو یہ عبارت ایک خوبصورت نثری نظم میں تبدیل ہو جائے گی۔ ایسے ہی دل کو چھو لینے والے ” شعر” اس کتاب کے تقریباً ہر صفحے پر ملتے ہیں ان میں کچھ ” شعر” سنائے بغیر آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔

” وہ بی بیاں واقعی چراغ خانہ تھیں، طاق میں رکھے ہوئے دیے کو اپنے ہی اجالے کے لیے کسی اور ہاتھ کا منتظر رہنا پڑتا ہے کہ جب چاہا جلا لیا، جس کو چاہا بجھا دیا اور پھر بجھے ہوئے چراغ کی بساط ہی کیا ہوتی ہے، وہ آنسو جو آنکھ سے دل میں ٹپکا کس نے دیکھا ہے۔”

” کتاب ذات کو کھول کر پڑھا جائے، کہاں ممکن ہے، اس کے اوراق تو تند و تیز اور شوریدہ سر ہواؤں میں اتنی تیزی سے پلٹ رہے ہیں کہ کہیں کسی صفحے کا ایک لفظ، کسی ورق کی ایک سطر ہی پلے پڑ جائے تو بہت ہے۔”

” عورت ایک ہی مہلت حیات میں کئی جیون جھیلتی ہے۔ قلم ہاتھ میں تھام لے تو جھمیلے کچھ اور بڑھ جاتے ہیں۔ زندگی بسر کرنے کے آداب کچھ کہتے ہیں آپ سے ملنے کے راستے کہیں اور نکلتے ہیں۔”

اس آپ بیتی کا مطالعہ کئی زاویوں سے کیا جا سکتا ہے۔ اس میں مصنفہ نے اپنے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ اپنے مشاہدات بھی بیان کیے ہیں، خصوصاً غیر ملکی اسفارکا تذکرہ خاصی تفصیل سے ملتا ہے، لیکن اس میں روایتی سفر ناموں والی کوئی بات نہیں ہے۔ سفر کے انہیں پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے جو مصنفہ کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث تھے، اس حیرت استعجاب میں قاری بھی برابر کا شریک ہو جاتا ہے۔

 

سہیل احمد فاروقی

جو رہی سو بے خبری رہی عبارت ہے ان یادوں سے جو معصوم بچپن کے روپ میں زیست کے مرحلے پر ہمارے دل کے نہاں خانے میں جھانک کر سوال کرتی ہیں کہ کہیں ہم تمہارے لیے اجنبی تو نہیں ہو گئے کبھی ہم اس چہرے سے آنکھیں چرانا بھی چاہتے ہیں تو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو لازم ہوا کہ اس ہمزاد کو کبھی خود سے جدا نہ کیا جائے تاکہ وقت ضرورت اپنا مکمل تعارف کرانے میں غیر ضروری حوالوں کا سہارا نہ لینا پڑے۔

جدید اردو شاعری کی خاتون اول ادا جعفری اپنے رومانی لب و لہجے اور قدیم و جدید کے امتزاج کی بناء پر ایک الگ شناخت رکھتی ہیں جس کا اظہار ان کے چار شعری مجموعوں اور قدیم شعراء کے تعارف و انتخاب کلام پر مشتمل مجموعہ ” غزل نما” سے ہوتا ہے۔ زیر نظر خود نوشت کا انداز بیان بھی رومان کی چاشنی میں سمویا ہوا ہے۔ گنج شہیداں بدایوں میں ” ٹونک والوں کا پھاٹک” میں واقع بڑی حویلی کا پرداختہ ” ہم زاد” درد ل پر دستک دے کر خود کہیں چھپ جاتا ہے لیکن دل کا وہ حال کر جاتا ہے کہ قلم اٹھائے بغیر کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ ادا جعفری اس خود نوشت کے محرکات کا بیان بڑے اچھوتے انداز میں کرتی ہیں :

شہر کی واحد کشادہ سڑک کے ایک طرف محصول چنگی وصول کرنے کی چھوٹی سی کوٹھری اور اس کے مقابل دوسری اونچی مغرور قلعہ نما عمارت۔ پتہ نہیں شہر یہاں سے شروع ہوتا تھا یا ختم ہوتا تھا۔ آگے کھیت اور میدان نظر آتے تھے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں میری سب سے بڑی آرزو تھی کہ کبھی خاندان کے لڑکوں کی طرح میں بھی اس سڑک پر پیدل چلوں اور تقدیر کا فیصلہ یہ تھا کہ میں پوری دنیا گھوم لوں لیکن میرے قدم اس سڑک کو کبھی نہ چھو سکیں۔

بڑی حویلی کے ذکر میں جہاں اندھیرے پاسباں تھے اور ” اجالا تو صرف ماں کی پلکوں پر” ایک اور جگہ وہ لکھتی ہیں :

” میری یادوں کے اس مرقع میں جہاں محبتیں اور شفقتیں ہیں وہیں مجبوریاں اور محرومیاں ہیں۔ وضعداریاں بھی ہیں اور کم نگاہیاں بھی۔ حویلی میں اذانوں کے اجالے تھے، دعاؤں کے سویرے تھے مگر طاقوں میں شرافت، امارت اور روایت کے بت بھی سجے ہوئے تھے۔”

ادا جعفری کے نزدیک یہی وہ روایت کے بت ہیں جن کی پرستش کی بناء پر مرد کو ہمیشہ اس دنیا اور زندگی میں اپنی ترجیحات پر اختیار حاصل رہا ہے لیکن عورت نے خود اپنی جھلک دیکھنے کے لیے بڑا طویل سفر کیا ہے۔ گویا کہ یہ خود نوشت بولتی ہوئی تصویر غالب کے اس مصرعہ کی ہے کہ ” پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم” بڑی حویلی کی قدیم روایت میں خواتین کو زمانے کی دست برد سے حصار در حصار محفوظ و مامون رکھنے والی دیواریں اتنی اونچی کر دی گئی تھیں کہ تازہ ہواؤں اور دھوپ اور چاندنی کا گزر بھی ممکن نہیں تھا۔ اسیری میں آتش زیر پا ادا حلقہ ہائے زنجیر کو موئے آتش دیدہ تو نہ بناس کیں ہاں واردات قلب کو شعر کی زبان دے کر انہوں نے تعمیر نشیمن کا آغاز کر دیا تھا۔ اس شوق کو ذوق نمو کا حوصلہ خوش نصیبی سے ان کی ماں نے بخشا تھا اور نانا کی فراخدلی نے اسے پروان چڑھایا اور مانند صبا یہ بشارت دی:

سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے

ادا جعفری کی تخلیقی کاوشیں اس اعتبار سے بھی خاص اہمیت کی حامل ہیں کہ ان کی ذہنی تربیت تعلیم کے مروجہ وسائل و اصول کی مرہون منت نہیں رہی بلکہ حصول علم کے ذوق کی آبیاری گھر کی چہار دیواری میں ہوئی جس سے ہمہ گیر نتائج کی توقع عموماً نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ترقی پسند تحریک سے اثر پذیری کی بات ہو چالیس کی دہائی کی برصغیر کی سیاست کے تحت ودیا مندر کی اسکیم ہو، قرار داد پاکستان ہو تحریک آزادی ہویا تقسیم ہند، تقسیم پاکستان ہو یا فرقہ واریت کا معاملہ سب کے تئیں ان کا رویہ ایک ذمے دار اور حساس فرد کا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہنگامہ آرائی اور قتل و خون اور بے کسی و لاچاری کی وہ نہ صرف شاہد بلکہ اس تجربے کی شریک بھی ہیں۔ دسمبر1995ء کے خون میں نہائے ہوئے شہر کراچی کی کراہوں کو بھی ان کے قلم نے محسوس کیا ہے ایک عالمگیر برادری سے تعلق رکھنے کے دعوے داروں پر ان کی حیرت بجا ہے کہ جو دنیا کے نقشے پر ایک غیر معمولی نظریات ملک تعمیر کرنے کے دعویدار ہیں تو پھر کس طرح صرف چالیس بیالیس سالوں میں طمع ان کے دلوں کو تاراج کر سکتی ہے۔ پاکستان میں مختلف سطحوں پر جاری عصبیتی کش مکش اور اس سے پیدا شدہ تباہی و انتشار اور تہذیبی المیے کا نقشہ ادا جعفری نے مخصوص استعاراتی اسلوب میں اس طرح پیش کیا ہے:

” کپل وستو کا شہزادہ، جب اپنے آپے کی کھوج میں نکلا تھا تو عبا اور قبا اور عصا ترک کر کے نکلا تھا۔ ایسی کوئی پرچھائیں اس اجالے کے تعاقب میں نہیں تھی۔ مگر یہ کیسے شہزادے تھے کہ وہ جن کے گھروں، چوباروں پر پہچان نے دستک دی، وہ محلوں دو محلوں کی تعمیر میں نڈھال ہوئے اور وہ جو صوف پہن کر گھر سے نکلتے تھے زرتار قبا کے بوجھ تلے روندے گئے۔”

خانگی ذمے داریوں شوہر کی منصبی مصروفیات کے ضمن میں دیگر تفصیلات اور دیس دیس کے سفر نئی تہذیب اور نئے لوگوں سے تعارف و تعامل کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ تاہم کتاب کے آخری ایک تہائی حصے میں قاری کی وہ محویت کچھ ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ذہنی سرگزشت لکھنے والے سے قاری کی توقعات بیانیے کے ساتھ ساتھ بتدریج بڑھتی جاتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی اس توقع میں کس حد تک حق بجانب ہے پھر بھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ” جو رہی سو بے خبری رہی” اپنے انداز فکر، انداز نگارش اور انداز پیش کش ہر اعتبار سے دلکش ہے۔

 

میرزا ادیب

تخلیقی کاوشیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ آج بھی ہو رہی ہیں کوئی دور بھی ان سے خالی نہیں رہا ہاں یہ ضرور ہے کہ جب تخلیقی کاوشیں منظر عام پر آتی ہیں تو انہیں وقت کی آندھیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا بیشتر حصہ ان آندھیوں کی زد میں آ کر خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتا ہے، معدوم ہو جاتا ہے مگر جو حصہ ان کاوشوں کا زندگی کی توانائیوں سے معمور ہوتا ہے وہ اڑ کر معدوم نہیں ہوتا بلکہ آندھیوں کو شکست دے کر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اورنگ آباد، حیدر آباد دکن کی اٹھارویں صدی میں ایک شاعر نے ایک ایسی غزل لکھی جسے وقت شکست دینے میں ناکام رہا اور یہ غزل آج بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ اس کے شاعر سید شاہ سراج اورنگ آبادی تھے اور انہوں نے جو غیر فانی غزل لکھی ہے اس کے مطلع کے مصرع ثانی کے حصہ آخر کو موجودہ صدی کی ایک بڑی اہم شاعرہ محترمہ ادا جعفری اپنی خود نوشت کا سرنامہ بنا رہی ہیں۔

اس غزل کا مطلع یوں ہے:

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا، نہ پری رہی

نہ وہ ہم رہے، نہ وہ تو رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

تو خود نوشت کا نام ہے ” جو رہی سو بے خبری رہی” محترمہ ادا کی اس خود نوشت کی چند قسطیں ممتاز ادبی جریدہ افکار کراچی میں چھپی تھیں اور پڑھنے والے مکمل کتاب کا بڑی صبری سے انتظار کر رہے تھے اور اب یہ بہت خوبصورت کتاب اپنی مکمل صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

ادا جعفری ایک زمانے میں ادا بدایونی خود کو کہتی تھیں اور کہلواتی تھیں۔ پھر ادا جعفری کہلانے لگیں اور اب اسی نام سے یاد کی جاتی ہیں۔ جو رہی سو بے خبری رہی میں بہت کچھ ہے اتنا کچھ کہ اس کے بیان کے لیے ایک کالم کیا ایک بسیط مضمون بھی کافی نہیں ہے میں کوشش کروں گا کہ اپنے اس تنگ داماں کالم میں اس کی کچھ ایسی جھلکیاں اپنے قارئین کو دکھا سکوں جو اس خود نوشت سوانح عمری کے بنیادی عناصر کی نشان دہی کر سکتی ہیں۔

اس سلسلے میں جس چیز نے مجھے بطور خاص متاثر کیا ہے وہ اس کا تسلسل بیان ہے ادا نے اپنی طرف سے اس امر کا پورا پورا اہتمام کیا ہے کہ اپنی زندگی کی کہانی زبانی اور مکانی تسلسل کے ساتھ لکھیں اور میں سمجھتا ہوں اس معاملے میں انہوں نے مذکورہ بالا مقصد کی تکمیل کر دی ہے۔

انسانی زندگی میں کیا کچھ نہیں ہوتا جب کوئی شخص اپنی روداد حیات سنانے کا ارادہ کرتا ہے تو بعض اوقات وہ اپنی داخلی بے تابی کے کارن زمان و مکاں سے الجھ پڑتا ہے۔ چنانچہ اس کی کوشش الجھاووں میں پھنس کر ارتقائی رفتار واقعات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اس خود نوشت میں ایسا نہیں ہے ہر واقعہ اس زمانے میں اس مقام پر بیان کیا گیا ہے جہاں اسے ہونا چاہیے اور جہاں وہ ہوا ہے۔

ادا جعفری نے اپنی خود نوشت کا آغاز اس یتیم بچی کی حیثیت سے کیا ہے جو بدایوں میں ٹونک والا پھاٹک کے پیچھے اپنے باپ کا انتظار کر رہی تھی جو دنیا سے جا چکا تھا۔ کہتی ہیں۔

” میں نے ایک عالم تنہائی میں باپ کا انتظار کیا مجھ سے کہا گیا تھا کہ وہ علاج کے لیے سب سے بڑے حکیم کے پاس گئے ہیں۔ اس آئینے میں جو پہلی صورت دیکھی وہ تنہائی کی تھی۔”

یہ یتیم بچی ٹونک والا پھاٹک کی حویلی کی اونچی اونچی دیواروں کے درمیان ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جاتی تھی۔ اس کا معصوم دل تنہائی کے گہرے دکھ سہہ رہا تھا۔ ان اذیت ناک لمحوں میں کتابوں نے اسے سہارا دیا۔ کتابوں نے اس کی انگلی پکڑی اور اداسیوں کے ہجوم سے نکال کر زندگی کی کشادہ راہ پر لے آئیں۔ مطالعہ کتب اس کے دکھوں کا مداوا ثابت ہوا۔

اس بچی کو ایک اور چیز نے بھی سہارا دیا:

” بارہ تیرہ سال کی عمر میں کتابوں کے علاوہ روشنی کی جو دوسری کرن میری زندگی میں داخل ہوئی وہ ننھے منے بچے تھے کسی کے بھی ہوں میں نے گھر کی مہترانی کے بچے بھی نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا کر گود میں کھلائے ہیں۔”

اس مقام پر ذرا رک کر میں روشنی کی اس دوسری کرن کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا۔

خود نوشت میں ادا نے کہیں کہیں اپنی پوری نظمیں اور کہیں کہیں دو تین شعر یا ایک ہی مصرع دے دیا ہے۔ اس سے کتاب کے صفحات پر قوس قزح کے رنگ بکھر گئے ہیں۔ کتاب کے ایک باب کا عنوان ہے ” کچھ اور یادیں ” اس میں ادا نے اپنی ایک بہت خوبصورت نظم درج کی ہے جس کا آخری مصرع ہے ” میں کہ فطرتاً ماں ہوں ” اور واقعی ادا فطرتاً مامتا کی تجسیم بن کر نمایاں ہوتی ہیں۔ ماں کا دل بھی عجیب ہوتا ہے اس ماں ہونے کے ناطے ادا نے اپنے دکھوں کو راحتوں میں بدل دیا ہے۔ ادا نے ایک واقعہ لکھا ہے:

” ایک شام میں نے صبیحہ (جو تین برس کی تھی) سے کہا جاؤ نوکر سے کھانا میز پر رکھنے کے لیے کہہ دو وہ گئی اور فوراً ہی واپس آ کر کہنے لگی وہ ایک کیلا (کیڑا) ہے۔

ماں بچی کے ساتھ گئی اور جا کر دیکھا کہ وہ کیلا دراصل ایک سانپ تھا۔ جو نیڑی میں پھن اٹھائے بیٹھا تھا۔ یہ سانپ ایک گز لمبا تھا سانپ مار ڈالا گیا ادا کہتی ہیں میرے لیے تو اس مرے ہوئے سانپ کی طرف دیکھنا بھی مشکل تھا اور آج تک میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک بچے کی نگاہ نے سانپ کو کس طرح مسحور کر لیا یہ سب کچھ ایسا تھا جیسے کوئی معجزہ رونما ہو گیا ہو۔”

یقیناً یہ ایک معجزہ تھا۔ سانپ کی نگاہیں تو دیکھنے والے کو فوراً مسحور کر لیتی ہیں مگر ایک معصوم بچی کی معصومانہ نگاہیں سانپ کی ساحرانہ نگاہوں کو شکست دے رہی ہیں میرے خیال میں یہ ایک بچی کا معجزہ معصومیت تو ہے ہی مگر ادا غیر شعوری طور پر مامتا کی اس پر اسرار قوت پر بھی فخر کر رہی ہیں جس نے بچی کو یہ ساحری دی ہے یہ ساحری مامتا کی دین ہے۔

ایک اور مقام پر مامتا کی خود اعتمادی دیکھئے!

ادا کے رفیق زندگی سید نور الحسن جعفری نے مشرقی پاکستان میں تنہا گاڑی میں جاتے ہوئے انہیں یونیورسٹی روڈ یا کسی کالج کے قریب سے نہ گزرنے کے لیے کہا خیال رہے یہ مشرقی پاکستان کے اس زمانے کا واقعہ ہے جب وہاں کے باشندوں کی ایک معقول تعداد کے ذہنوں میں بنگلہ دیش کا تصور بڑی تیزی سے نشوونما پا رہا تھا مامتا کی آواز سنئے:

” میں نے کہا نور آپ بھول رہے ہیں یونیورسٹی اور کالج میں تو میرا عزمی اور میری صبیحہ پڑھتی ہے۔ یہ بچے جو یہاں پڑھ رہے ہیں کیا ہمارے بچے نہیں کیا یہ سب عزو اور صبو جیسے نہیں ہیں کیا مائیں اپنے بچوں سے خوف زدہ ہوتی ہیں۔ یہ درس گاہیں ہیں کیا تعلیم و تہذیب کا جنازہ بھی یہیں سے اٹھے گا؟ ان مقامات کا درجہ تو عبادت گاہوں سے کم نہیں ہوتا۔”

ادا نے بالکل سچ کہا ہے کہ میں فطرتاً ماں ہوں اور ادا صرف انسانی بچوں کے لیے ہی نہیں مامتا کے برگد کا طویل و عریض سایہ بن گئی ہیں بلکہ بے جان اشیاء کو بھی اپنے اسی پھیلے ہوئے سایے میں لے آتی ہیں وہ شگفتہ پھولوں کو دیکھتی ہیں تو ان کے سینے میں بے اختیار مامتا کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے اور جب ان کی نظر کسی کھوکھلے پیڑ پر پڑتی ہے تو یہی جذبہ ان کی آنکھوں کو پرنم کر دیتا ہے۔

ادا ایک اسلامی ذہن کی مالک ہیں مگر یہ ذہن بڑا کشادہ ہے تنگ نظری نے تو اس ذہن کو چھوا تک نہیں ہے۔ چنانچہ اس کشادگی ذہن اور فراخ دلی کا نتیجہ ہے کہ وہ ادب کی ترقی پسند تحریک کا کشادگی ذہن کے عالم میں تجزیہ کرتی ہیں۔ لوگوں نے انہیں دکھ بھی دیے ہیں مگر وہ دکھ دینے والوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں چنانچہ خود کہتی ہیں یہ زندگی بہت مختصر ہے اور عفو درگزر میرے مولا کی صفت ہے اور اسے پسند ہے ٹونک والا پھاٹک کے پیچھے تنگ نظری کے سایے پھیلتے اور گھٹتے رہتے ہیں اور ان سایوں کو گھٹانے میں ادا کی امی کا بڑا اہم کردار ہے ادا پر ان کی ماں نے اپنی ذہنی کشادگی سے بہت اثر ڈالا ہے۔ ادا کو جو تربیت ملی ہے اس تربیت میں ان کی ماں کا نہایت اہم رول ہے اور اس ذکر میں کہیں بھی کسی سے بھی کوئی شکایت کوئی گلہ نہیں کیا اپنے معاصرین کا ذکر انہوں نے محبت اور اپنائیت سے کیا ہے۔

ادا کا کئی معاملوں میں خوش قسمتی نے بھرپور ساتھ دیا ہے ان کی ماں کا ذکر کر چکا ہوں۔ پھر انہیں سعادت مند پیار کرنے والی محبت کرنے والی اولاد ملی ہے اپنی یہ کتاب انہوں نے اپنی اولاد ہی کے نام معنون کی ہے پھر ان کی یہ خوش قسمتی بھی ہے کہ انہیں سید نور الحسن جعفری جیسا شوہر ملا جو ان کے سچے قدر دان ہیں جنہوں نے ادا کے خوابوں پر کبھی کبھی ناکامی کی راکھ نہیں ڈالی۔ عطر بیز خوش رنگ پھول ہی ڈالے ہیں۔ سید صاحب صحیح معنوں میں ادا کے سچے رفیق حیات ہیں۔

ایک بڑی نمایاں خوبی جو مجھے ادا کی اس خود نوشت میں محسوس ہوئی ہے اور جس نے مجھے خصوصی طور پر متاثر کیا ہے وہ ان کی بڑی خوبصورت، بڑی دلاویز نثر ہے ادا یقیناً ایک بڑی شاعرہ ہیں مگر جیسی سحر آفریں نثر انہوں نے اس کتاب میں دی ہے اسے پڑھ کر لطف آ جاتا ہے۔

ادا جس جس ملک میں گئی ہیں وہاں کی ثقافتی زندگی کا ایک ایک پہلو انہوں نے لفظوں میں محفوظ کر دیا ہے۔ ان کا جمالیاتی ذوق ہمہ گیر قسم کا ہے انہوں نے جس مقام پر بھی حسن دیکھا ہے اسے اپنے باطن میں اتار کر الفاظ کے حوالے کر دیا ہے یہ خود نوشت ان کے اپنے کئی چھوٹے چھوٹے سفر نامے بھی اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں۔

اپنی اس تحریر کے آغاز میں میں نے لکھا ہے:

” ہر تخلیق کو وقت کی آندھیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر تخلیقی کاوشیں زمانے کی آندھیوں میں خس و خاشاک بن کر اڑ جاتی ہیں اور بعض ان آندھیوں کو شکست دے کر آگے ہی آگے بڑھتی رہتی ہیں۔ ادا جعفری کی اس خود نوشت ” جو رہی سو بے خبری رہی” کے بارے میں میں پورے وثوق اور پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ادبی شاہکار زندہ رہے گا اور آگے بڑھتا رہے گا۔”

 

ڈاکٹر نور الحسن نقوی (علی گڑھ)

چند روز پہلے ایک دلکش سی کتاب موصول ہوئی۔ سر ورق پر نظر پڑی تھی کہ یادوں کی کتاب کے ورق تیزی سے الٹنے لگے۔موسم خوشگوار ہے۔ سردیوں کی تعطیل کے بعد آج سکول کھلا ہے۔ لائبریری کے وسیع کمرے میں کسی کتب فروش نے کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا ہے۔ انٹرول کے بعد چھٹی کر دی گئی ہے تاکہ طلبہ نمائش سے فائدہ اٹھا سکیں۔ لائبریری کی طرف جانے والے ہجوم میں میں بھی شامل ہوں۔ استاد اور با حیثیت طالب علم اپنی پسند کی کتابیں خرید رہے ہیں۔ میری نظریں کتابوں کی قطار پر پھسلتے پھسلتے ایک دیدہ زیب کتاب پر ٹھہر جاتی ہیں۔ اٹھا کر دیکھتا ہوں کہیں کہیں سے پڑھتا ہوں۔ دل ادھر کھنچتا ہے مگر جیب ہلکی ہے اور قیمت بھاری یعنی تین روپے یہ واقعہ پینتالیس سال پہلے کا ہے جب تین روپے سچ مچ تین روپے ہوتے تھے پہلی کتاب تھی جو میں نے اپنے شوق سے خریدی اور پھر شوق سے پڑھی ابھی ہائی اسکول بھی پاس نہیں کیا تھا اور شعر کو پرکھنے کی صلاحیت صفر تھی مگر سادہ و دل نشین زبان میں اصل زندگی کی چھوٹی چھوٹی مگر معنی خیز باتیں دل کو چھوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ یہ کتاب تھی "میں ساز ڈھونڈتی رہی” ادا بدایونی کا پہلا مجموعہ کلام ان کے اگلے مجموعے کا برسوں انتظار رہا تقریباً سترہ سال بعد شاعری سے ادا کا ٹوٹا ہوا رشتہ پھر سے جڑا۔ ” شہر درد” اور اس کے بعد دو اور مجموعوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ اندازہ ہوا کہ زبان کچھ اور سنور گئی ہے تجربات میں گہرائی اور پختگی پیدا ہو گئی ہے۔ خود سوانحی عنصر کی فراوانی ہے۔ ادا کی زندگی اور ان کے عہد و ماحول کی جو تصویر ان کے شعروں کی کرچیاں جوڑ کی بنانی پڑتی تھی "جو رہی سو بے خبری رہی” میں پوری طرح روشن ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔

اس خود نوشت میں ادا کی مختلف تصویریں نظر آتی ہیں۔ پہلی تصویر بدایوں کی الجھے سلجھے بالوں والی اس کمسن، تنہا تنہا اور اداس لڑکی کی ہے جس کی پوری دنیا اس پھاٹک کے اندر آباد تھی جسے ٹونک والوں کا پھاٹک کہتے تھے اور ” جہاں زنجیر کو بھی دستک کی اجازت نہیں تھی” دوسری طرف تصویر اس ادا کی ہے جس کے آنچل میں زندگی نے ساری خوشیاں ڈال دی تھیں ” گہنے پاتے” ہار سنگھار اور گود میں چاند سورج!اسے ادا نے اپنا دوسرا جنم کہا ہے۔ دونوں تصویریں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود بہت مماثلت رکھتی ہیں اور ایک میں دوسری کا پرتو صاف نظر آتا ہے۔

سوانح نگار نے اپنی ابتدائی زندگی اور اس دور میں پیش آنے والے واقعات و حادثات پر تفصیل سے لکھا ہے اور ایک شاعر کی طرح محسوس کر کے لکھا ہے۔ بدایوں کے قصباتی ماحول میں متوسط طبقے کے مسلمان گھرانوں کی لڑکیوں کو گھر سے باہر قدم نکالنے کی اجازت نہیں تھی۔ چار دیواری کے قید خانے میں سانس لینے والی اس لڑکی نے ” جس کے روز و شب اس کے اندر ہی طلوع و غروب ہوتے تھے” ان کا حساب ایک ڈائری میں محفوظ کر لیا۔ کاپی کتاب اور قلم پنسل سے اس کا رشتہ کم سنی ہی میں استوار ہو گیا تھا۔ جو کچھ دل پر گزرتی اسے سپرد قلم کرنے کے بعد دل ہلکا ہو جاتا تھا۔ یہ ڈائری تو 1947ء کے ہنگامے میں ضائع ہو گئی لیکن ان دنوں کی یادیں اس کے ذہن سے محو نہ ہو سکیں اور ان صفحات کے ذریعے ہم تک پہنچیں۔ اس لڑکی کے ارد گرد جو دنیا تھی وہ مردوں کی جاگیر تھی اور عورت ان کی غلام۔ اس صورت حال سے اس لڑکی کے مزاج میں تلخی تو پیدا نہیں ہوئی لیکن رنج ضرور ہوا جو برسوں بعد بھی مٹ نہ سکا۔ اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں اس کا ذکر بار بار ہوا ہے۔ ایک جگہ لکھتی ہیں :

” مردوں کی جنبش ابرو پر زندگی بھر کی خوشیوں یا محرومیوں کے فیصلے ہوتے تھے اور بی بیاں تھیں جو ان فیصلوں کو دین ایمان کے احکام کا درجہ دیتی تھیں۔۔۔۔ کتنی عورتیں تھیں جو جنات کے قبضے میں تھیں۔ نا آسودہ خواہشات، محرومیوں، نامرادیوں اور تلخ حقیقتوں سے فرار کے جن”

اور ملاحظہ ہو یہ حسرت:

” مجھے یاد ہے بچپن میں میری سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ کبھی خاندان کے لڑکوں کی طرح میں بھی اس سڑک پر پیدل چلوں اور تقدیر کا فیصلہ یہ تھا کہ میں پوری دنیا گھوم لوں لیکن میرے قدم اس سڑک کو کبھی نہ چھو سکیں۔”

آگے چل کر ایک جگہ لکھتی ہیں :

” جو مصور ہوتی تو ہر رنگ سے ہمیشہ ایک ہی تصویر بنائی ہوتی۔ وادیوں، گھاٹیوں، میدانوں میں سرگرداں کوئی راہی۔۔۔ چھالوں سے بھرے ہوئے تلوے، گرد میں اٹا ہوا سراپا اور آنکھوں میں چمکتے ہوئے ستاروں کی تابانیاں”

ان سطروں میں بچپن کی محرومیاں بول اٹھی ہیں۔

باپ کی موت ادا کے بچپن کا سب سے بڑا سانحہ تھا جس کے بعد ان کی امی سفید چادر اوڑھ کر بڑی حویلی میں آ گئیں۔ یہاں ہجوم تھا مگر ادا کی تنہائی کچھ اور بڑھ گئی۔ ایک ننھی بچی کو یقین دلایا گیا تھا کہ اس کے باپ علاج کے لیے بڑے حکیم کے پاس گئے ہیں۔ آتے ہی ہوں گے اس یقین کے ساتھ ہی انتظار کے کانٹوں بھرے صحرا میں ایک معصوم ذہن کا طویل تھکا دینے والا سفر شروع ہو گیا تھا اب یہ یقین دلانا آسان نہیں تھا کہ ایسے جانے والے کبھی واپس نہیں آتے۔ آخر ایک صبح اس کی امی نے ایک فیصلہ کیا وہ اسے وہاں لے گئیں جہاں زندگی پر موت کی فتح کے آثار اپنی تمام دل آزاریوں کے ساتھ آنکھوں کے آگے موجود ہوتے ہیں۔ وہ جو کرب انتظار کی طویل ترین صدیاں جھیل کر اپنے باپ کی قبر کے پاس پہنچی تھی اس وقت ایک عجیب لاتعلقی کیفیت سے آشنا ہوئی پھر اس نے شعوری طور پر کبھی انہیں یاد نہیں کیا۔ مگر اب دل میں ایک مسلسل سناٹے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

اب اس نے صرف کتابوں کو رفیق تنہائی جانا اور قلم کا سہارا لیا۔ ابھی قلم پر گرفت پوری طرح مضبوط نہیں ہوئی تھی کہ ترقی پسند ادبی تحریک ہوا کے جھونکے کی طرح آنگن کی دیوار پھلانگ کر اس کے دالان تک آپہنچی۔ حویلی میں ایک دریچہ سا کھل گیا۔ وہ جس نے ابھی ادب کی وادی میں پہلا قدم ہی رکھا تھا اسے ایک محرک میسر آ گیا۔ اس کی شاعری کو ایک سمت مل گئی۔ اس تحریک کے افکار ہی اس زمانے کی شاعری کا مرکز ہیں۔

تقسیم وطن اور اس کے نتیجے میں ملک میں بپا ہونے والے ہولناک فسادات پر ادا نے تفصیل سے لکھا ہے۔ دراصل اس زمانے میں ہر طرف جو خوف و ہراس پھیلا اس سے وہ خود بھی دو چار ہوئیں۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ذرا سی دیر میں محبتیں کس طرح نفرتوں میں بدل جاتی ہیں۔ بھولی بھالی لڑکیوں کے بے آبرو ہونے کے قصے اپنے کانوں سے سنے۔ ان دنوں بہن کے گھر لکھنو میں قیام تھا۔ اسی مکان کے آدھے حصے میں ایک ہندو خاندان رہتا تھا جس سے بے حد دوستانہ تعلقات تھے۔ ڈرائنگ روم کا درمیان کا دروازہ کس طرح چپکے سے بے آواز بند کیا جائے کہ دوسرے کی دل آزاری نہ ہو اور کھلے دروازے کو بھول جانا بھی ممکن نہیں رہا تھا۔ بدگمانیوں کا دور دورہ تھا لیکن انہی گھنیرے سیاہ بادلوں میں کہیں کہیں نقرئی لکیر بھی چمک اٹھی تھی۔ رات کے گیارہ بجے آٹھ مہینے کے ایک بچے کو تیز بخار ہو گیا۔ ڈاکٹر کو دکھانا ضروری اور فسادات کے سبب باہر نکلنا مشکل۔ ٹیلی فون ڈائرکٹری میں تلاش کر کے ایک ڈاکٹر کو فون کیا اور پوچھا کہ اجازت دو تو اس وقت بچے کو لے آئیں۔ اس نے کہا ایسے میں آپ کا آنا مناسب نہیں حال بتائیے میں خود دوا اور انجکشن لے کر آتا ہوں۔ جس وقت وہ ہندو ڈاکٹر بچے کو انجکشن دے کر ان کے گھر سے واپس لوٹا رات کا ایک بج چکا تھا۔ ادا نے ایک لڑکی رابعہ کی کہانی دہرائی جس کی آبرو ایک سکھ نوجوان نے ساری رات پہرہ دے کر بچائی اور جب اسے گھر پہنچا آنے کو کہا تو ادا نے کیا خوب لکھا:

” وہ ایک انوکھا موسم تھا۔ جب صبا اور سموم قدم قدم ساتھ چلیں۔ جب چراغوں نے اجالوں کی سوگند کھائی تھی اور آندھیاں اپنا بل آزما رہی تھیں۔ تند ہوائیں بھی موجود تھیں اور چاروں کھونٹ دیے بھی روشن تھے۔ (سچ ہے انہی چراغوں سے زندگی کی راہ گزر روشن ہے اور زندگی کا سفر آسان!)”

آزادی سے چند مہینے قبل ادا بدایونی ادا جعفری ہو گئیں۔ نور الحسن سے ان کی شادی ہو گئی وہ سرکاری ملازم تھے اور تقسیم کے بعد انہوں نے پاکستان میں ملازمت کا انتخاب کیا تھا آخر وہ کراچی چلے گئے ادا علیل تھیں کچھ دنوں بعد کراچی پہنچیں۔ جعفری صاحب کو اپنے منصبی فرائض کے سلسلے میں مختلف ملکوں میں قیام کرنا پڑا۔ ان کے ساتھ ادا کو بھی دنیا گھومنے اور کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا۔ دنیا کے بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں، مدبروں، دانش وروں، شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات ہوئی جس کی تفصیل انہوں نے اس آپ بیتی میں بہت تفصیل کے ساتھ پیش کی ہے اس آپ بیتی کی ایک اور خصوصیت قابل ذکر ہے۔ زندگی میں اچھوں بروں، بہی خواہوں اور بد خواہوں سبھی سے واسطہ پڑتا ہے بلکہ برے کچھ زیادہ ہی آپ کا راستہ کاٹتے ہیں۔ آپ مصنف ہیں تو اپنی تحریروں میں ان سے بدلہ لینے اور آپ بیتی لکھ رہے ہیں تو موقع بے موقع ان کی بخیہ ادھیڑنے کا خاطر خواہ موقع ملتا ہے۔ آپ عالی ظرف ہیں تو طرح دے جاتے ہیں خود نوشت کے آخر میں ادا لکھتی ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھے کبھی کسی سے دکھ نہ پہنچا ہو۔ دوستوں کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے مگر جن باتوں نے دل دکھایا انہیں اپنی یادوں میں کیوں شریک رکھا جائے۔ یہ زندگی بہت مختصر ہے اور عفو و در گزر میرے مولا کی صفت ہے اور اسے پسند ہے۔ انہی کا ایک شعر ہے:

میں اندھیروں کو اوڑھ بھی لیتی

راہ میں آفتاب آوے ہے

ادا نے اپنی راہ میں آنے والے بس ایسے آفتابوں ہی سے سروکار رکھا ہے ” جو رہی سو بے خبری رہی” کو ایک نہایت کامیاب خود نوشت اس لیے بھی کہا جا سکتا ہے کہ ادا نے اپنی زندگی کے ہر گوشے کو بے نقاب کرنے کے باوجود صرف اپنی ذات کو ہی توجہ کا مرکز نہیں بنایا بلکہ اپنے عہد و ماحول اعزہ و احباب سبھی کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ کسی کو نظر انداز نہیں کیا یوں تو یہ ادا جعفری کے سفر زندگی کی روداد ہے مگر ایک مکمل عہد، ایک خاص زمانے کی تہذیب، طرز فکر، طریق معاشرت، اس دور کی نامور شخصیات کیا ہے جو ان پونے چار سو صفحات میں نہ سمٹ آیا ہو!

یہ ساری خوبیاں اپنی جگہ مگر وہ شے جو ہر با ذوق کے دامن کو اپنی طرف کھینچتی اور بار بار پڑھنے پر مجبور کرتی ہے وہ اس کی صاف ستھری زبان، دلکش انداز بیان اور دھیما دھیما نغمگی میں ڈوبا ہوا لہجہ ہے یہ ایک ایسے فن کار کی آپ بیتی ہے جو بنیادی طور پر شاعر ہے اور جس نے نثر میں تمام شعری وسائل سے کام لیا ہے قافیہ و وزن لوازم شعر میں داخل نہیں۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ کتاب مکمل شاعری ہے اور اس کا رشتہ میر و فراق سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں کتاب کی متعدد عبارتیں اور جملے کہیں واوین میں اور کہیں بغیر واوین کے پیش کیے گئے ہیں تاکہ قارئین کو سوانح نگار کے انداز نگارش کا اندازہ ہو سکے مگر اوس سے پیاس نہیں بجھتی تشنگی ہنوز باقی ہے تو مزید چند اقتباسات پیش خدمت ہیں :

دیکھیے بدایوں کی ایک شرمیلی سی لڑکی کا سیلف پورٹریٹ:

"۔۔۔۔ شام پڑے باورچی خانے میں پیڑھی پر چپ چاپ بیٹھی ہوئی، کسی دھیان کی پروائی کا دامن تھامے ہوئے۔ سامنے چولہے کی آگ سے اٹھا ہوا گلابی دھواں، توے سے اترتی ہوئی۔ سنہری روٹیاں پکانے والی ملازمہ کی بے رنگ چوڑیوں کی رنگا رنگ کھنک اور سامنے پیڑھی پر بیٹھی ہوئی ایک اکیلی لڑکی جو وقت کے جادوگر سے اپنا پتہ پوچھ رہی تھی۔”

ایک جگہ پست قامت یعنی بون سائی درختوں کو دیکھ کر لکھتی ہیں :

سچ تو یہ ہے کہ مجھے ان حسینوں پر ترس بھی آیا۔ یہ درخت جن کا سایہ سائبان بننے سے محروم رہا، جن کی چھاؤں تے کسی تھکے ہارے مسافر نے دو گھڑی راحت حاصل نہیں کی، جن کی شاخوں نے آشیانے کی امانت نہیں سنبھالی، جنہوں نے شام ڈھلے بسیرا لینے والے طائروں کی چہکار نہیں سنی۔ سوچتی رہی کیا ان فن پاروں نے اپنی تحسین و آفرین کی بہت بڑی قیمت ادا نہیں کی مگر یہ دست انسان کا شکار یقیناً ہیں۔

دو ایک جملے اور

” مقصود نگار ہو نہ ہو، مژگاں اٹھانے کی آرزو بھی کچھ کم محترم نہیں ہوتی۔”

” طلب اور آرزو کے تانے بانے سے ہی زندگی کی قبا بنی جاتی ہے۔”

” گیلی مٹی کو سانتے گوندھتے ہوئے ہاتھ بے شکل کو شکل دیتے دیتے اپنی عمر بھی انہیں لگا جاتے ہیں اور دھوپ میں سوکھتے کچے کوزے جب پزاوے کی پوری تمازت جھیل جائیں تب ہی ان کی ساکھ بنتی ہے۔ تب ہی ان کی قدر و قیمت کا تعین ہوتا ہے۔”

” ہمیشہ ظلمتوں کی کوکھ سے ہی دمکتا ہوا آفتاب جنم لیتا ہے اور اجالا باغ و راغ کو نہیں دیکھتااور آنکھیں اجالوں کا انتظار کرنا جانتی ہیں۔”

 

اسلوب احمد انصاری

ہندو پاک کی شاعرات میں ادا جعفری کا نام معروف اور شناساہی نہیں وزن و وقار کا بھی حامل رہا ہے ان کے متعدد شعری مجموعے وقتاً فوقتاً منظر عام پر آ کر پڑھنے والوں سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں انہوں نے اردو غزل کے بیش قیمت سرمائے کا انتخاب بڑی دیدہ وری اور تحسین شناسی کے ساتھ کیا ہے جو ان کے ذوق سلیم پر دلالت کرتا ہے۔ زیر نظر کتاب ان کی خود نوشت سوانح ہے جو اس سے قبل قسط وار شائع ہو چکی ہے اور اب دیدہ زیبی کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ موصوفہ کا تعلق بدایوں کے ایسے مردم خیز خطے سے ہے جس کی خاک سے ایسی ایسی نامور اور ممتاز ہستیاں اٹھی ہیں، جیسے حضرت نظام الدین اولیائ، ملا عبدالقادر فانی، میر محفوظ علی اور مولانا ضیاء احمد بدایونی کتاب کا عنوان سراج اورنگ آبادی کی نادر اور لافانی غزل کے ایک مصرعے سے لیا گیا ہے، اور یہ ادا جعفری کے پاکیزہ ادبی ذوق کی چغلی کھا رہا ہے۔ اکثر خود نوشت سوانح عمریوں کے بارے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ ان کا مقصد اظہار ذات نہیں، بلکہ اخفائے ذات ہوتا ہے کہ ان میں مصنف اپنے آپ کو اس طرح پیش نہیں کرتا جیسا کہ وہ فی الاصل ہے، بلکہ جیسا کہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو دیکھا جائے، یعنی وہ اپنی ایک IdealizedیاDistortedشبیہ پیش کرتا ہے، اور اسی لیے جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ خود نوشت سوانح ایک طرح کا جھوٹ یا مکاری یعنی Fraudہوتی ہے۔ اس کا اطلاق اس سوانح عمری پر نہیں ہوتا۔ ادا نے اپنے بچپن اور اوائل عمر کی یادوں کو شروع کے ابواب میں جس طرح کنگھالا اور تازہ کیا ہے یعنی ان کی تشکیل نو کی ہے، اس سے ان کے خاندانی حالات و کوائف اور اس پر مستز اداس معاشرے اور تہذیب کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں جو تقسیم ہند سے قبل مسلمانوں کے متوسط طبقے کا معاشرہ تھا اور اس میں پروردہ تہذیب بھی۔ اس میں کوئی بات بے جا تفاخر کے ساتھ گھٹا بڑھا کر بیان نہیں کی گئی، بلکہ بلا کم و کاست سامنے رکھ دی گئی ہے جس کی وجہ سے کتاب کی Authenticityقائم ہوتی ہے اور اس کا بھرم باقی رہا ہے۔ وہ آغاز کار ہی سے ادبی دلچسپیاں رکھتی تھیں اور ان کی طبیعت شعر گوئی کی طرف خلقی طور پر مائل تھی۔ ستر بندشوں اور پابندیوں میں گھرے رہنے کے باوجود وہ انہیں جاری رکھنے کی تگ و دو میں لگی رہیں۔ شادی کے بعد پاکستان منتقل ہونے پر انہیں جاری رکھنے کی تگ و دو میں لگی رہیں۔ شادی کے بعد پاکستان منتقل ہونے پر انہیں اظہار ذات اور اپنے علمی اور ادبی ذوق کی نشو و ارتقا اور پرورش و پرداخت کے لیے بدلا ہوا منظر نامہ خاصا سازگار نظر آیا۔ اور اس نئی فضا میں انہیں زیادہ متنوع مواقع ملے۔ نجی اور خانگی زندگی کے نشیب و فراز کے باوجود انہوں نے اپنے تخلیقی جوہر کو نکھارنے اور اس پر صیقل کرنے کا وظیفہ جاری رکھا اور وقفوں وقفوں کے بعد ان کے شعری مجموعے شائع ہوتے رہے اور وہ توجہ کا مرکز بنتی چلی گئیں۔ چونکہ ان کے شوہر نور الحسن جعفری مرحوم اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور پاکستان سے باہر بے شمار ممالک کی سیاحت کے اپنے شوہر کے ہمراہ انہیں مواقع ملتے رہے اس لیے ان ممالک کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار انہوں نے بڑے ہی دلکش اور دلنشین انداز سے کیا ہے۔ اس اظہار بیان میں ان کی تحریر کا اجلا پن ندرت اور تازگی پوری طرح منعکس نظر آتی ہے۔ پاکستان میں ان کا قیام لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور کراچی مختصر اور طویل مدتوں تک رہا۔ کسی خوبصورت منظر کا نقش ابھارنے میں انہوں نے متعدد جگہ اپنی شاعرانہ حسیت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ طوالت کے خوف سے صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے:

” فاصلے سے دیکھا تو جیسے سفید بدلیوں کے ساتھ آسمان کا کوئی ٹکڑا زمین پر بچھا ہو اور پاس پہنچے تو دو پہاڑوں پر دمکتی ہوئی برف اب ہمارے قدموں میں جگہ جگہ بکھری ہوئی تھی اور سامنے سیف الملوک جھیل کا مٹیالا پانی ہمیں تک رہا تھا۔ اجلی دھوپ اور ہوا میں پاکیزگی سی جھیل کے آس پاس بکھرے ہوئے پتھروں کے درمیان برف کی قربت سے بے نیاز چھوٹے چھوٹے پودے جن کے سبز پتوں کی ہتھیلیوں پر اودے اودے پھول سجے ہوئے تھے۔ سامنے ایک سرخ رنگ کا چائے خانہ بھی کسی نگینے کی طرح جڑا ہوا تھا۔”

ایسے ہی دلکش اقتباسات اس کتاب سے بڑی تعداد میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ یورپ، امریکہ اور روس کے ان تمام قابل ذکر مقامات کا جہاں ان کے قدم انہیں لے گئے، جغرافیائی منظر نامہ بھی انہوں نے بڑی ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا ہے اور وہاں کی ذہنی اور علمی فضا کا نقشہ بھی بڑی چابکدستی کے ساتھ کھینچا ہے۔ یعنی انہوں نے ان مقامات کے Floraاور Faunaسے بھی بغایت دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور وہاں کی علمی سرگرمیوں سے بھی واقفیت بہم پہنچائی ہے مثلاً کتاب کے آخر آخر میں (ص240) کیپ کبناورل میں کینڈی اسپس سینٹر کا تذکرہ جس طرح کیا ہے اس سے خلائی پرواز کے موضوع سے ان کی دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔ جس میدان میں روس، امریکا اور یورپ کے ممالک نے محیر العقول کارنامے انجام دیے ہیں ان ا س کے ساتھ ہی انہوں نے کتاب کے شروع میں ایک باب میں آش قبیلے کا جو ذکر (ص168) کیا ہے اسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے یہ کارنامے ہیں اور دوسری طرف امریکہ کی متمدن اور ترقی یافتہ دنیا کے بیچوں بیچ ایک ایسا عیسائی قبیلہ بھی بستا ہے جو ہر طرح یک سائنسی ترقیات کے اعتراف اور ان کے ثمرات سے متمتع ہونے کو ترک مذہب کے مترادف گردانتا ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے مذہب سے انحراف کیے بغیر بلکہ علم کی طرف قرآنی رویے کے عین مطابق سائنسی نقطہ نظر کو اپنایا اور از منہ وسطے کے دور میں علم کی اولین شمعیں روشن کی اور وہی اس نام نہاد دور تاریکی میں سائنسی علوم کو ترویج دینے والے اور یورپین قوموں کو ان سے متعارف کرانے والے ہر اول دستے کی حیثیت رکھتے تھے۔

امریکا میں اپنے قیام کے دوران ادا جعفری کے دل میں مشہور شاعر ایملی ڈکن کے گھر کو دیکھ کر اس کی یادتازہ ہو گئی۔ انہوں نے اس کی شاعری کے بارے میں مختصراً اپنی رائے کا اظہار بھی کیا:

” ایملی ڈکنز کی زندگی ایک مدت تک ایک معمہ بنی رہی اور اس کی شاعری کی قدر و منزلت اس کی موت کے بعد سے شروع ہوئی۔ اس کی شاعر ہمیں سترھویں صدی کے برطانوی مابعد الطبیعاتی شعراء کی یاد دلاتی ہے خاص طور پر جارجک ہر برٹ کی شاعری کی۔”

جوانمرگ شاعرہ سلویا پلاتھ کا ذکر بھی جو جدید دور کی ایک نوخیز اور جوانمرگ شاعرہ تھیں، ادا جعفری نے بہت پر اثر لہجے میں کیا ہے اور ان کی بعض نظموں سے مختصر اقتباسات بھی دیے ہیں۔ جنہیں پڑھ کر راقم الحروف کو اپنے قیام آکسفورڈ میں طالب علمی کے دوران سلویا پلاتھ کی زبان سے ان کی نظمیں سننے کے واقعے کی یاد تازہ ہو گئی۔ سلویا پلاتھ سے راقم الحروف کی دلچسپی اس کے شوہر ڈیڈ ہیوز کی نظموں کو پڑھ کر پیدا ہوئی تھی۔ ادا جعفری نے اپنے دورہ روس اور خاص طور سے دو شنبے اور تاشقند وغیرہ کے سفر کی جو روئیداد لکھی ہے وہ بہت دلچسپ ہے اور یہ حال ان کی ترکی کی سیاحت کے انداز بیان کا ہے۔ اس سلسلے میں خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔ ان کی حرمین شریف کی زیارت اور جبل نور کا ذکر یہاں ان کے جذبات سرتا سر عقیدت اور محبت سے مملو ہیں۔ وہ غار حرا میں بھی تشریف لے گئیں جہاں نبی کریم ؐ اپنا وقت مراقبے اور استفراق میں گذار کرتے تھے۔ اس کا بیان بھی انہوں نے انتہائی احترام و تشویق کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کیا جن سے ایک روحانی کیف اور اہتزاز کی حالت پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہے۔

ادا جعفری کی سلامت روی اور ان کی طبیعت کا اتا پتا اس حقیقت سے بھی ملتا ہے کہ انہوں نے کسی شخص کے تذکرے کے ضمن میں بھی تلخی، عیب جوئی اور طنز و استہزاء کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ انہیں کسی شخص میں بھی کوئی کمی اور خامی نظر نہیں آئی۔ اس خاص معاملے میں وہ درود مسعود کے مصنف حاجی مسعود حسین خاں کی ضد ہیں۔ جنہیں اپنے علاوہ کسی اور شخص میں کوئی خوبی ڈھونڈے سے نہیں ملی لیکن اس سادہ ڈہ لوحی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے بہت سے شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں عظیم اور اہم جیسے الفاظ کا استعمال بے دریغ کیا ہے۔ یہ ایک طرح سے ہم اردو لکھنے والوں کا عام وطیرہ رہا ہے۔ لیکن اس بے احتیاطی اور حس امتیاز کی کمی کی وجہ سے یہ الفاظ نامعتبر بن جاتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے سلسلے میں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے اور بڑی حد تک محل نظر ہے۔ اس تحریک کے پس پشت جو سیاسی محرکات تھے، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اس تحریک نے جو ادیب اور شاعر پیدا کیے۔ ان میں سوائے فیض اور بیدی کو اعلیٰ تخلیقی فن کار کا درجہ دینا ایک ایسیIndulgenceہے۔ جس کے لیے کوئی معقول وجہ جواز موجود نہیں ہے اس تحریک نے فی الواقعہ اردو ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس لیے کہ ادبی تخلیق کی طرف اس کا رویہ اور مفروضہ ہی بنیادی طور پر غلط تھا۔ اعلیٰ درجے کے ادب نعروں، فارمولوں، شور و غوغا اور پارٹی پروگرام کے مطابق اور ان کے بل بوتے پر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ اعلیٰ ادب کی تخلیق کے سرچشمے جبلی ما قبل منطق اور متفکرانہ ہوتے ہیں۔ اس پر کوئی لیبل چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔ ترقی پسندی کسی مخصوص سیاسی تحریک کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ہر اعلیٰ ادب ہر دور میں ترقی پسند رہا ہے روسی اہل نظر Trotsky اور روسی نہ جو دی فلسفی Nicholas Berdyacدونوں نے ادب کی خود مختاری یعنی Autonomy کو تسلیم کیا ہے اور اسے جائز اور ضروری قرار دیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے ترقی پسند ادیب اور نقاد مارکس اور اینگلز سے بھی زیادہ ترقی پسند نکلے۔ مجروح سلطانپوری اور احمد علی کا اس تحریک سے انحراف اور اس کا استر داد بہت معنی خیز تھا اور اختر الایمان تو اس سے ہمیشہ دامن کشاں ہی رہے اور انہوں نے اپنی تخلیقی حسیت پر ان پہروں کے بٹھائے جانے اجازت نہیں دی جو اس تحریک کے نفاذ کا ایک لازمی جزو تھے۔

ادا جعفری نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ اور مد و جزر اور اس میں ملوث شخصیتوں کا ذکر بھی بڑے لے لاگ پن، دلسوزی اور درد مندی کے ساتھ کیا ہے۔ اپنے ملک کے حالات ان سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ لیکن اس واقفیت کے اظہار میں انہوں نے طنز استہزا، نفرت اور کلبیت کو راہ نہیں دی ہے بلکہ اس کے برعکس میانہ روی، انصاف پسندی اور ہمدردی کا لہجہ اپنایا ہے اور یہ ایک قابل ستائش رویہ ہے۔ جس سے ان کی نیک نیتی کا پتہ چلتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے باسیوں میں حق تلفی کے احساس، برہمی اور انقلاب کے جو جراثیم موجود تھے اسے مغربی پاکستان کے ناعاقبت اندیش سیاست گروں اور اغیار نے خوب خوب ہوا دی۔ ان سب کی اصلیت ادا جعفری کے ضمیر پر آشکار ہے لیکن انہوں نے غیر ذمہ داری کا رویہ اختیار نہیں کیا اور نہ بہ زن کا فتویٰ صادر کیا۔ ادا جعفری کا کوئی تعلق تانیثیت یعنی Feminismکی تحریک سے نہیں رہا اور باوجودیکہ انہیں اس امر کا واضح احساس ہے کہ مرد کے تشکیل کردہ معاشرے میں عورتیں برابر استحصال اور انتفاع کا نشانہ بنائی جاتی رہی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں جارحانہ انداز کا مظاہرہ نہیں کیا، جو بعض دوسری خواتین کا مع سلسلے میں جارحانہ انداز کا مظاہرہ نہیں کیا جو بعض دوسری خواتین کا مع شاعرات وظیفہ رہا ہے کتاب کے آخر آخر میں انہوں نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت اس طرح کی ہے:

” اونچی آواز میں بات کرنا، میرے مزاج نہیں تھا اور سب دیواریں مسمار کرنا میں نے کبھی چاہا بھی نہیں۔ مگر میں نے عورت کی مجبوری اور محکومی کی زندگی بسر کرتے دیکھا تھا اور اس دکھ کو سہا بھی تھا۔”

(ص365)

مزید:

” میری شاعری میں بغاوت کے منصب پر فائز عورت بھی نہیں اور ان تمام مصائب کے باوجود جو وہ جھیلتی آئی ہے، تھکی ہاری لاچار عورت بھی نہیں میرے دل نے اسے کبھی شکست خوردہ تسلیم نہیں۔”

(ص367)

یہ متوازن سلجھا ہوا اور شائستہ لب و لہجہ ان خونخوار تیوروں سے یکسر مختلف ہے جو بیشتر دوسری خواتین کے سب و شتم کے سلسلے میں مردوں کے تئیں رہے ہیں۔

ادا جعفری کے مشاہدے اور تخیل کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ انہوں نے اس کتاب کے کینوس پر مختلف دلکش اور دیدہ زیب تصویریں بڑی خوبی کے ساتھ جڑ دی ہیں۔ ان کے انداز بیان میں جو شائستگی، شرافت اور تہذیب ہے۔ وہ داد لیے بغیر نہیں رہتی۔ ان کے ہاں نرمی، حلاوت اور شیرینی ہے لیکن یہ مٹھاس کچھ زیادہ ہی ہے یعنی ایک چمچہ ٹکر سے کسی قدر زیادہ۔ عام طور سے اچھی خود نوشت سوانح عمریاں ان لوگوں نے لکھی ہیں جو تخلیقی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں۔ جناب آل احمد سرور کی، خواب باقی ہیں، اور حاجی مسعود حسین خاں کی ودود مسعود، استثناء کی حیثیت رکھتی ہیں حالانکہ دونوں اردو کے مانے ہوئے شاعر ہیں۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ” جو رہی سو بے خبری رہی” خود نوشت سوانح عمریوں کے ذخیرے میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ یہ اس عیب سے بھی بری ہے جسے نرگسیت کے لفظ سے ممیز کیا جا سکتا ہے۔ موصوفہ نے اپنی ذات کو سر بلند کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی بلکہ دوسروں پر بھی نظر ڈالی ہے، اور متانت ہمدردی اور رواداری کے ساتھ امید ہے اس کتاب کا خیر مقدم اس کی خوبیوں کو مطابق کیا جائے گا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/100024.txt

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید