FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

ارتباط

 

 

مدحت الاختر

 

 

مرتب

عبید حارث

 

 

والد مرحوم

حافظ رحمت اللّٰہ

اور

والدہ مرحومہ

خاتون بی

کے نام

 

 

 

 

 

 

مدحت الاختر

 

ترتیب: محمد حفظ الرحمٰن

نام:محمد مختار ابن حافظ رحمت اللہ

والدہ: خاتون بی بنت حافظ عبداللہ

قلمی نام:ڈاکٹر مدحت الاختر

پیدائش: ۱۵ مئی ۱۹۴۵ (کامٹی ضلع ناگپور،  مہاراشٹر)

پرائمری تعلیم

   ٭ انجمن غنچۂ اسلام اردو پرائمری اسکول،  کامٹی،  ۱۹۵۵

            ٭ ہائر سیکنڈری (گیارہویں) : ایم ایم ربانی ہائر سیکنڈری اسکول،  کامٹی ۱۹۶۲

            ٭ بی اے:ناگپور مہاودیالیہ ناگپور، ۱۹۶۵

            ٭ ایم۔اے(فارسی) ۱۹۶۷         ناگپور یونیورسٹی، ناگپور

            ٭ ایم۔اے(اردو) ۱۹۶۹   ناگپور یونیورسٹی، ناگپور

            ٭ پی ایچ۔ڈی (فارسی) ۱۹۷۹ ناگپور یونی ورسٹی، ناگپور  (موضوع: نظیری نیشاپوری،  حیات اور فن)

ملازمت

         ٭ لکچرر شعبۂ اردو، جگدمب مہاودیالیہ،  اچلپورسٹی،  مہاراشٹر(جولائی ۱۹۷۰ تا ستمبر ۱۹۷۱)

        ٭ پروفیسر و صدر شعبۂ اردو وفارسی،  وسنت راؤ نائیک گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس

اینڈ سو شل سائنسز،  ناگپور (قدیمی مارس کالج)(۲؍ اکتوبر ۱۹۷۱  تا  ۳۱ مئی ۲۰۰۳)

            (مذکورہ عہدوں پر متمکن ہونے سے پہلے موصوف ان سے پیشتر کے مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں)

خاندان

شادی: زاہدہ بیگم بنت نیاز الحفیظ پٹیل،  کامٹی (۱۷ مئی ۱۹۷۰)

افراد خاندان: بیٹا بہو: سعود عالم،  نازیہ تبسم …جنید عالم،  سمیرہ رحمٰن… عبید حارث، حنا ترنم… بیٹی داماد:عالیہ روحی، مظہر لطیف…سعدیہ انجم، ندیم اختر…ماریہ تکلم، عمران الرحیم اعظمی

شاعری

شعر گوئی کی ابتدا:  ۱۹۶۱ کے آس پاس

تلمذ:   ٭ ابتداء اُردو کے معروف شاعر کرشن موہن سے بذریعۂ خط کتابت اصلاح لی، ایک سال کے اندر اندر  یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔

        ٭ ماہنامہ شب خون الہ آباد میں جتنا کلام شائع ہوا، وہ جناب شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کی نظر اصلاح سے گذرا۔

پہلی شعری تخلیق: ٭ روزنامہ انقلاب ’ بمبئی میں بزم شعرا کے کالم میں شائع ہوئی۔ (۱۶ فروری ۱۹۶۲)

مطبوعات

٭ ’ منافقوں میں روز و شب‘، شائع کردہ مطبوعات نشتر، کامٹی (۱۹۸۰)

        ٭ ’میری گفتگو تجھ سے ‘ شائع کردہ لائف ٹائمز پبلی کیشنز،  کامٹی (۲۰۰۴)

مرتّبہ کتب:

٭ ’ چاروں اُور‘ (جدید غزلوں کا اولین انتخاب) باشتراک شاہد کبیر،  ناگپور (۱۹۶۸)

           ٭ ’ بے صدا فریاد‘ از اقبال اشہر قریشی،  کامٹی ۲۰۱۲

چند نثری نگارشات:

 ٭ نظیری سے استفادے کی چند مثالیں،  مورچہ،  گیا(بہار)

        ٭ کلام غالب کی پیروڈیاں، مورچہ،  گیا(بہار)

        ٭ کلیات عادل ناگپوری،  قرطاس ناگپور

        ٭ ڈاکٹر مظفر حنفی اور میں، مشمولہ مظفر حنفی۔ حیات و جہات

        ٭ قرن ہا باید مشمولہ مجلہ وقار تعلیم،  مالیگاؤں

        ٭ محبوب راہی مرتبہ ڈاکٹر امین انعامدار

پیش لفظ، دیباچے وغیرہ:

        ٭ بھوپال ایک خواب: عبدالرحیم نشتر ۱۹۷۶

        ٭ کامٹی کی ادبی تاریخ : ڈاکٹر شرف الدین ساحل ۱۹۸۲

        ٭ خواب ایک عام آدمی کا : عبدالعزیز عرفان ۱۹۹۳

        ٭ اساس: امین بیودوی ۱۹۹۷

        ٭ جادہ و منزل: غیاث الدین سلیم ۲۰۰۲

        ٭ خاقانی شروانی: ڈاکٹر شرف الدین ساحل۲۰۰۲

        ٭ نوائے دل:نہال چند پرتاپ شاہ آبادی مرتبہ ڈاکٹر سروشہ نسرین قاضی۲۰۰۴

        ٭ برگزیدہ شخصیات: ڈاکٹر خالدہ نگار۲۰۰۹

        ٭ رانا آرٹ ایک مطالعہ: ڈاکٹر سروشہ نسرین قاضی ۲۰۱۰

درسی کتب میں تخلیقات کی شمولیت:

   ۱۔ آئیں گے جو بزرگ کہانی سنائیں گے     اتنے سنیں گے جھوٹ کہ سچ بھول جائیں گے

     اس شعر کے ساتھ پوری غزل مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن،

     پونے کی گیارہویں جماعت کی درسی کتاب میں شامل کی گئی (سال ۸۶۔۱۹۸۵ سے)

    ۲۔ نظم ’’ درختوں سے محبت ‘‘ کو مہاراشٹر اسٹیٹ بیورو آف ٹکسٹ بک پروڈکشن اینڈ کریکولم ریسرچ،  پونے،  نے چوتھی جماعت کی درسی کتاب میں شامل کیا ہے۔

   ۳۔ مہاراشٹر اسٹیٹ بیورو آف ٹیکسٹ بک پروڈکشن اینڈ کریکولم ریسرچ، پونے نے چھٹی جماعت کی درسی کتاب تعارف اردو میں متذکرہ بالا نظم شامل کی۔

   ۴۔یہی نظم این سی ای آر ٹی نئی دہلی کی چھٹی او رساتویں کی درسی کتابوں میں بھی شامل کی گئی۔

   ۵۔ اب اپنے آپ سے رہتا ہوں شرمسار بہت      کیا تھا میں نے کبھی اس پہ اعتبار بہت

      یہ غزل ایم۔ایس بورڈ آف سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن،  پونے،  نے دسویں جماعت  کی درسی کتاب میں ۰۸۔۲۰۰۷ سے شامل کی ہے۔

   ۶۔ شواجی یونیورسٹی،  کولھا پور نے ان کی اس غزل :

 ملے گی پیاس سمندر کی،  بھیک شبنم کی        کہ اس دیار میں ہوتی ہے پرورش غم کی

     کو بی اے پارٹ ون کے نصاب میں شامل کیا ہے۔

   ۷۔ ناگپور یونیورسٹی نے ۱۴۔۲۰۱۳ سے ایم اے فائنل اردو کے چوتھے پیپر کے لیے موصوف کی پانچ غزلیں(مشمولہ جدید اردو شاعری مرتبہ ڈاکٹر اظہر حیات) شامل نصاب کی ہیں۔

  ۸۔  کانٹوں کا تاج اپنی جبیں پر سجائیے        ہے زندگی سے پیار تو مر کے دکھائیے

     یہ غزل شمس الرحمٰن فاروقی اور حامد حسین حامد کے مرتبہ جدید شاعری کے اولین انتخاب ’ نئے نام‘ میں شامل ہے جس کو ۱۹۶۷ء میں جموں و کشمیر یونیورسٹی نے اپنے ایم۔اے اردو کے نصاب میں داخل کیا۔

 تحقیقی سرگرمیاں

       ان ریسرچ اسکالروں کو موصوف کی زیر نگرانی فارسی اور اردو میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی:

فارسی

٭ ڈاکٹر عائشہ وقار: ہندوستان میں فارسی مثنوی

٭ ڈاکٹر جنت بی باغبان: فیضی کی مثنوی نگاری

٭ ڈاکٹر سروشہ نسرین قاضی: مسیح کاشی۔ حالات زندگی اور شاعری

٭ ڈاکٹر شگفتہ نسرین قاضی:احوال و آثار ثنائی مشہدی

٭ ڈاکٹر مجیب الرحمٰن: فارسی غزل کے ارتقا میں عرفی شیرازی کا حصہ

٭  ڈاکٹر شہناز قاسم انعامدار: قطب شاہی دور کے فارسی شعرا

٭ محمد محبوب عبدالسلیم نے اپنا پی ایچ۔ ڈی مقالہ ’’ فارسی غزل بعہد محمد شاہ ‘‘ داخل کیا ہے۔

اردو

٭ ڈاکٹر افضل جہان آرا: غلام احمد فرقت کاکوروی۔ حیات و خدمات

٭ ڈاکٹر افسر جہاں شیخ: عصمت چغتائی۔ حیات اور فن

٭ ڈاکٹر زرینہ کریم: شوکت تھانوی۔ حیات اور ادبی خدمات

٭ ڈاکٹر نو شابتہ الفاطمہ خان: کنھیا لال کپور۔ حیات اور خدمات

٭ ڈاکٹر مہر النساء علی: اردو شاعری میں انگریزی کے اصناف

٭ ڈاکٹر برکت اللہ انصاری : حضرت مولانا حافظ سید سراج احمد چشتی۔ شخصیت اور فن

٭ ڈاکٹر نیاز احمد انصاری : ملک زادہ منظور احمد۔ حیات،  شخصیت اور فن

٭ ڈاکٹر سروشہ نسرین قاضی : علامہ محوی صدیقی لکھنوی۔ حیات اور کارنامے

٭ ڈاکٹر کنیز فاطمہ کاظمی : راجندر سنگھ بیدی۔ حیات،  شخصیت اور فن

٭ ڈاکٹر صبیحہ سیفی: علامہ جمیل مظہری۔ حیات اور ادبی خدمات

٭ ڈاکٹر فیض احمد انصاری: اعجاز صدیقی۔ حیات اور کارنامے

٭ ڈاکٹر فیروز حیدری : علی جواد زیدی۔ شخصیت اور فن

٭ ڈاکٹر رخسانہ خاتون : اردو مضمون کے ارتقا میں شوکت تھانوی کا حصہ

٭ ڈاکٹر سلمان برکتی : اردو ادب میں تبصرہ نگاری

٭ ڈاکٹر انجم آرا: آنند نرائن ملا۔ حیات اور فن

٭ ڈاکٹر ارشاد احمد: اردو شاعری میں قطعہ نگاری

٭ ڈاکٹر محمد رفیق اے۔ ایس: کشمیری لال ذاکر۔ حیات اور ادبی خدمات

٭ عثمان غنی سروے نے ’’ مدحت الاختر۔ شخص اور شاعر‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۵ میں ممبئی یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری کے لیے مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی۔

٭ ڈاکٹر وحید نظامی،  صدر شعبۂ اردو،  پوار کالج،  مرتضیٰ پور، یوجی سی مائنر ریسرچ پروجیکٹ کے تحت  ’’ مدحت الاختر۔ حیات اور فن‘‘ کے موضوع پر کام کر رہے ہیں۔

٭ مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن،  پونے کے ذریعے تفویض کردہ  کام:(آگے بورڈ کا پورا نام لکھنے کے بجائے صرف ’’ بورڈ‘‘ لکھا جائے گا)

     ۱۔  مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ،  پونے نے نویں جماعت کی نصابی کتاب پر نظر ثانی کے لیے ان کی خدمات حاصل کیں۔

     ۲۔بورڈ کے ذریعے مرتب کی گئی بارہویں جماعت کی درسی کتاب کی تدوین میں اردو ٹکسٹ بک کے ایڈیٹوریل بورڈ میں بحیثیت ممبر کے کام کیا۔ ۹۴۔۱۹۹۳ میں نویں جماعت کی اردو کی درسی کتاب کی ٹیچرس ہینڈ بک تیار کی۔

     ۴۔ہائر سیکنڈری اسکول ٹیچرس کے لیے ۱۹۹۴ میں بورڈ نے ٹیچرس ہینڈ بک تیار کرنے کے لیے  کمیٹی کی تشکیل کی۔ آپ نے کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

     ۵۔ بورڈ نے نویں تا بارہویں اردو کی نصابی کتابوں کی دوبارہ طباعت سے پیشتر نظر ثانی کے لیے ان کا تقرر کیا۔

    ۶۔  ۲۰۰۶ میں گیارہویں جماعت کی اردو درسی کتاب کی تیاری کے لیے ایڈیٹوریل بورڈ کے ایک ممبر کی حیثیت سے بورڈ کے لیے کام کیا۔

انعامات

       ٭ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادیمی نے شاعری کے لیے ریاستی سطح کا ’ سراج اورنگ آبادی ایوارڈ‘، برائے سال ۲۰۰۳ تفویض کیا۔

         ٭۲۰۰۷ میں مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادیمی نے ملکی سطح کے با وقار ’’ ولی دکنی ایوارڈ‘‘ برائے ادبی خدمات سے سرفراز کیا۔

نشریات

      ٭ ناگپور، ممبئی اور پٹنہ ریڈیو اسٹیشن سے ان کے متعدد پروگرام نشر ہوئے۔

      ٭  نئی دہلی دور درشن نے ۱۹۷۴ میں جدید اردو شعراء کا پہلا مشاعرہ ٹیلی کاسٹ کیا تھا۔ آپ اس      مشاعرے کے شرکاء میں تھے۔( اُس زمانے میں نیشنل ٹی وی پر مشاعرہ پڑھنا بڑی بات سمجھی جاتی تھی)

     ٭  نیشنل چینل پر ٹیلی کاسٹ کے لیے ۲۳ مارچ ۱۹۹۲ کو ممبئی میں ٹی وی مشاعرہ ریکارڈ کیا گیا۔  آپ نے اس میں شرکت کی۔

سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے انسلاک

۱۔سابق ممبر اردو وفارسی بورڈ آف اسٹڈیز، ناگپور یونیورسٹی،  ناگپور

۲۔رکن مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادیمی ممبئی (۹۵۔۱۹۹۴)

۳۔رکن اردو لینگویج کمیٹی،  بال بھارتی،  پونے ۱۹۹۵ تا حال

۴۔سکریٹری انجمن ضیاء الاسلام،  پبلک لائبریری،  کامٹی

۵۔سابق ممبر ریسرچ اینڈ ری کگنیشن کمیٹی ( اردو )، امراؤتی یونیورسٹی،  امراؤتی

۶۔رکن مجلس عاملہ، بزم غالب،  کامٹی

۷۔  درج ذیل یونیورسٹیوں کے اردو فارسی کے بی اے، ایم اے کے ممتحن کی حیثیت سے، نیز مذکورہ مضامین کی پی ایچ۔ ڈی کے ممتحن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں: ناگپور،  امراؤتی،  اورنگ آباد،  جل گاؤں،  ناندیڑ، ممبئی،  پونے،  گلبرگہ،  ساگر، بلاسپور، جامعہ ملیہ نئی دہلی،  جامعہ عثمانیہ حیدر آباد،  اُجیّن وغیرہ

۸۔  رکن ریسرچ اینڈ ریکگنیشن کمیٹی ( فارسی) راشٹر سنت تکڑوجی مہاراج ناگپور یونیورسٹی، ناگپور

٭٭٭٭

 

وہ عجب شخص ہے جب اس سے ملاقات ہوئی

روح میں دھوپ کھلی،  دھوپ میں برسات ہوئی

 

مناجات

رنگ کیا چیز ہے، خوشبو کیا ہے

پاس آئے تو کھلے، تو کیا ہے

اپنی آواز کا زندانی ہوں

میرے معبود! یہ جادو کیا ہے

بھول بیٹھا ہوں پرانے قصے

شاخ کیا چیز ہے، آہو کیا ہے

روح اور جسم وہی ہیں دونوں

کس کو بتلاؤں کہ آنسو کیا ہے

جھنجھناتے ہیں یہاں سناٹے

میرے احساس کا گھنگھرو کیا ہے

آسمانوں پہ گذر ہے میرا

میرا ٹوٹا ہوا بازو کیا ہے

چار سوٗ،  عکس ہیں تیرے لیکن

پاس آئے تو کھلے،  تو کیا ہے

شعر

اپنے کردار پہ پاسنگ نہ رکھ

دیکھ ایمائے ترازو کیا ہے

٭٭٭

 

مری ہستی عدم انباز لا موجود الا اللہ

سراسر پردۂ غماز لا موجود الا اللہ

ہزاروں شعبدے حرف و نوا کی دسترس میں ہیں

کروں کیسے سخن آغاز لا موجود الا اللہ

مجھے تعمیر کرنے اور بسانے والا کوئی ایک

ہزاروں خانہ بر انداز لا موجود الا اللہ

زمین و آسمان و عرش و کرسی،  جنت و دوزخ

کروں سب کو نظر انداز لا موجود الا اللہ

دھرا کیا ہے یہاں بازار عالم کی دکانوں میں

وہی کالائے پس انداز لا موجود الا اللہ

دلِ معصوم تو سب کچھ اسی کو مان بیٹھا تھا

خرد نکلی بہت لفاظ لا موجود الا اللہ

ابد کی آخری حد بے حقیقت ہے نگاہوں میں

سو کرتا ہوں سفر آغاز لا موجود الا اللہ

ہزاروں داستانیں کر چکا تصنیف میں مدحت

یہی ہیں آخری الفاظ لا موجود الا اللہ

٭٭٭

 

مانا کہ تری ہم نفسی اور ہی کچھ ہے

لیکن مری دنیا میں کمی اور ہی کچھ ہے

ہر آن بدلتے ہوئے منظر نے دکھایا

کچھ اور ابھی تھا جو ابھی اور ہی کچھ ہے

ہم خیر سے دنیا کو بناتے رہے جنت

اب غور سے دیکھا تو بنی اور ہی کچھ ہے

خوش رہ کے عزیزوں کو دکھانا بھی ہے ورنہ

ہم خوب سمجھتے ہیں خوشی اور ہی کچھ ہے

مل جل کے رہیں گے چین سے، انکار ہے کس کو

لیکن یہ اجارہ طلبی اور ہی کچھ ہے

٭٭٭

 

کوئی کرشمہ کوئی معجزہ نہیں ہو گا

ہمارا کام ہمارے سوا نہیں ہو گا

جڑوں میں ڈال کے تیزاب،  مطمئن ہی رہو

درخت کیا، کوئی پتہ ہرا نہیں ہو گا

ابھی کھلے ہی رکھو گفتگو کے دروازے

سکوت میں تو کسی کا بھلا نہیں ہو گا

مجھے یقین ہے اس کا، اگر ہم اچھے ہیں

تو آنے والا زمانہ برا نہیں ہو گا

طلسم عکس و صدا کے اسیر ہیں ہم لوگ

سجھائی دے گا وہی جو ہوا نہیں ہو گا

٭٭٭

 

ہمارے خواب میں ہے اک جہاں کہیں نہ کہیں ہے

اور اس جہاں کا کوئی راز داں کہیں نہ کہیں ہے

چلا ہوں نور کی رفتار سے کہ وہ شہ خوباں

پس ثوابت و سیارگاں کہیں نہ کہیں ہے

ہمیں خبر نہیں اپنی تو اس کی کھوج ہی کیسی

کوئی کہے کہ وہ آرام جاں کہیں نہ کہیں ہے

صدا میں رنگ میں خوشبو میں عکس و آب و ہوا میں

انھیں کی اوٹ میں وہ بے نشاں کہیں نہ کہیں ہے

ملیں گے دونوں تو لے گا جنم نیا کوئی منظر

یقیں کہیں نہ کہیں ہے گماں کہیں نہ کہیں ہے

کوئی کلام کریں ہم کہ کوئی کام کریں ہم

ہمارے واسطے سودوزیاں کہیں نہ کہیں ہے

نظر میں کیوں نہیں رہتا خبر میں کیوں نہیں آتا

اگر وہ پیکر آرام جاں کہیں نہ کہیں ہے

میں اس کی ذات میں شامل وہ میری ذات میں لیکن

فساد اس کے مرے درمیاں کہیں نہ کہیں ہے

٭٭٭

 

شاید مری لے اس کو سنائی نہیں دیتی

کیوں میری انا مجھ کو رہائی نہیں دیتی

تھا پہلے بہت شور نہاں خانۂ دل میں

اب تو کوئی سسکی بھی سنائی نہیں دیتی

خوابوں کی تجارت میں یہی ایک کمی ہے

چلتی ہے دکاں خوب،  کمائی نہیں دیتی

ہر تارِ نفس ہے متحرک متواتر

رخصت ہی مجھے نغمہ سرائی نہیں دیتی

کیا دھند ہے اشکوں کی مسلط دل و جاں پر

دیکھی ہوئی دنیا بھی دکھائی نہیں دیتی

چلنے کو تو سب یار کمر بستہ کھڑے ہیں

جس راہ پہ چلنا ہے سجھائی نہیں دیتی

کانٹوں پہ چلاتی ہے کوئی اور ہی لذت

وحشت کا صلہ آبلہ پائی نہیں دیتی

میں قید محالات سے دم بھر میں نکل جاؤں

حاصل کی ہوس مجھ کو رہائی نہیں دیتی

میں اپنی ہی مٹی سے بنا لیتا ہوں مدحت

وہ چیز جو اوروں کی خدائی نہیں دیتی

٭٭٭

 

میں نے جو کچھ کھو دیا اب اس کو پا سکتا نہیں

دل سے یہ احساس بھی لیکن مٹا سکتا نہیں

وہ کنار آب بیٹھے چاند اگتے دیکھنا

جھیل کی تہہ سے وہ منظر اب اگا سکتا نہیں

سب در و دیوار اس کے لمس کے مقروض ہیں

اپنے گھر سے اس کی تصویریں ہٹا سکتا نہیں

مت ملو اس سے تمھاری بات میں نے مان لی

اس کے غم میں چار آنسو بھی بہا سکتا نہیں

شہر بھر میں پھول کی چادر بچھانا ہے مجھے

اپنے شہزادوں کو کانٹوں پر چلا سکتا نہیں

کچھ بنانا چاہتا ہوں اور بن جاتا ہے کچھ

میں خود اپنے گھر کو نقشے سے ملا سکتا نہیں

٭٭٭

 

ہر ایک سے ہے اور کسی سے بھی نہیں ہے

پھر رشتۂ جاں اپنی خوشی سے بھی نہیں ہے

رہتی ہے زمانے کی خبر یہ بھی یقیں ہے

انکار مجھے بے خبری سے بھی نہیں ہے

دنیا ہی سے ہے ہر کس و ناکس کو محبت

دنیا کو سروکار کسی سے بھی نہیں ہے

مرنے کو کہاں جائیں کہ غیروں کے کرم سے

اپنا تو گذر اس کی گلی سے بھی نہیں ہے

ہوں گے مرے اطراف در و بام ہزاروں

میرا تو سروکار کسی سے بھی نہیں ہے

٭٭٭

 

دکان اور کی ہے اختیار اس کا ہے

بہت دنوں سے یہی کاروبار اس کا ہے

بس اس کے نام کا سکہ ڈھلا نہیں ورنہ

وزیر اس کے ہیں سب شہریار اس کاہے

کسی سے کچھ نہیں کہتا سوائے حرف دعا

اسی ادا سے ہنر آشکار اس کا ہے

دکھائے ایک جھلک اور لوٹ لے سب کچھ

نہ کوئی پھر بھی شکایت گذار اس کا ہے

پھر اس کی چھاؤں میں آرام کیوں نہیں آتا

درخت خواب اگر سایہ دار اس کاہے

٭٭٭

 

مل گئے ہم تو جدائی کی شکایت کیسی

جو شکایت نہ بھلا دے وہ محبت کیسی

عشق میں گرمی گفتار سے ہوتا کیا ہے

خون ہی میں نہیں شامل تو حرارت کیسی

تم ہو جیسے اسی عالم میں دکھائی دو گے

آئینہ عکس دکھاتا ہے،  شرارت کیسی

ملتے جلتے بھی رہو سب سے اکیلے بھی رہو

ہجر میں تم نے بنا لی ہے یہ حالت کیسی

آنکھ کھلتے ہی بکھر جائے تو وہ خواب ہی کیا

جو بدل کر نہ دکھائے وہ حقیقت کیسی

ساری چیزوں کے تناظر ہی بدل دیتے ہو

جب بھی ملتے ہو دکھاتے ہو شرارت کیسی

سب دکانیں سر بازار جہاں آپ کی ہیں

آپ کا گھر ہے چلے آئیے زحمت کیسی

٭٭٭

 

برسر راہ تغافل تو نہیں دیکھی ہے

میری کھوئی ہوئی شے تم نے کہیں دیکھی ہے

کب نکالے سے نکلتی ہے ہماری حسرت

خانۂ دل میں ابھی تک تو مکیں دیکھی ہے

سجدہ کر آئے ہیں اس شوخ کے در پر شاید

جگمگاتی ہوئی یاروں کی جبیں دیکھی ہے

جو ترے شہر میں آئے وہ یہیں کا ہو جائے

ہم نے یہ بات کہیں اور نہیں دیکھی ہے

سب مرے قتل سے خوش ہیں کہ چلو خوب ہوا

کس نے بھیگی ہوئی قاتل کی جبیں دیکھی ہے

آئینہ خانے سے فرصت نہیں ملتی ہم کو

آسمانوں کی خبر ہے نہ زمیں دیکھی ہے

عشق سے روکتے رہتے ہیں مجھے بے چارے

اس کی تصویر بھی یاروں نے نہیں دیکھی ہے

٭٭٭

 

اچھا اگر نہیں تو برا مان لے مجھے

بہتر یہی ہے تو ابھی پہچان لے مجھے

چہرہ بدل لیا ہے رقیبوں کے خوف سے

ایسا نہ ہو کہ پھر کوئی پہچان لے مجھے

انسان ہوں خطاؤں کا پتلا خیال رکھ

میں نے یہ کب کہا کہ خدا مان لے مجھے

تنہائی یا اندھیرے میں بکنے کا میں نہیں

لینا ہی ہے تو برسر دکّان لے مجھے

دنیا بھی میری خاک میں ہے آسمان بھی

اے دست آزمائش جاں، چھان لے مجھے

مدحت اسی گماں میں رہا، عمر کٹ گئی

ایک ایک سے کہا کوئی پہچان لے مجھے

کس سادگی سے مدحت الاختر نے کہہ دیا

اچھا اگر نہیں تو برا مان لے مجھے

٭٭٭

 

مرا باشکل رسوائی خوش افتاد(۱)

کہ روشن میری آنکھیں دل مرا شاد

عزیزانش فراموشم نہ کردند

سناتے پھر رہے ہیں میری روداد

نیا قصہ سحر ہونے سے پہلے

کبھی سوتی نہیں ظالم شہر زاد

وہی ہو جائے جو چاہیں تو پھر کیا

گذارا کر رہے ہیں شاد ناشاد

ق

برے دن آنے والے ہیں جنوں کے

سنو اے ساکنان عشق آباد

نہ پوچھے گا کوئی اہل وفا کو

پھریں گے دربدر مجبور فریاد

جنوں کیسا،  دل آساں طلب کو

خزانہ چاہیے آوردۂ باد

٭٭٭

(۱) یہ مصرع حضرت امیر خسرو کا ہے۔

 

اپنے اپنے کھیل میں ہشیار تم میں اور وہ

اک تماشے کے بنے کردار تم میں اور وہ

دھند تھی ایسی کسی کو کچھ نظر آتا نہ تھا

جب ملے تھے تینوں پہلی بار تم میں اور وہ

سب مخالف زاویے مل کر مثلث بن گئے

پست فطرت، بے خبر،  ہشیار،  تم میں اور وہ

سب خوش امکانی کے تیرِ بے خطا کی زد پہ تھے

کوئی کرسکتا نہیں انکار تم میں اور وہ

کوئی دولت کوئی عزت کوئی شہرت کے لیے

ہم سبھی تھے برسرپیکار تم میں اور وہ

کوئی منزل تک نہ پہنچا اپنے اپنے خواب کی

راہ کی بنتے رہے دیوار تم میں اور وہ

رنگ لایا خود پرستوں کا تصادم آخرش

ہو گئے رسوا سر بازار تم میں اور وہ

٭٭٭

 

جہاں جاؤں وہیں کا ہو کے رہ جاؤں

اگر خود کو نہ پاؤں کھو کے رہ جاؤں

کوئی جا کر بتاتا ہی نہیں اس کو

کسی کے ہجر میں رو رو کے رہ جاؤں

ہمیشہ برسرِ پیکار رہتی ہے

تو کیا اپنی انا کا ہو کے رہ جاؤں

چمکتے سورجوں جیسا بدن اس کا

اگر دیکھوں تو اندھا ہو کے رہ جاؤں

بدل سکتا نہیں اپنے لبادے کو

جو دھبے لگ گئے ہیں دھو کے رہ جاؤں

نہ جانے کیا توقع مجھ سے رکھتی ہے

میں دنیا کے لیے کیا ہو کے رہ جاؤں

مجھے آتا ہے سب کو دیکھنا مدحت

نہیں آتا کہ میں بن ٹوکے رہ جاؤں

٭٭٭

 

بہت دنوں سے یہی ہو رہا ہے آج ہی کیا

پلک جھپکتے بدل جائے تو سماج ہی کیا

نظر جھکا کے مگر سر اٹھا کے چلتے تھے

رہا نہ شہر کی گلیوں میں وہ رواج ہی کیا

لگائے بیٹھے رہو دوربین آنکھوں سے

ہمارے دیدہ ورو! تم کو کام کاج ہی کیا

کہاں گئے وہ کھلونے،  کتابیں، گل دستے

ملے گا ساری دکانوں میں اب اناج ہی کیا

ہمیں بھی چاہیے آنکھوں میں روشنی لیکن

بھرے ہوں خواب تو آنسو کی احتیاج ہی کیا

٭٭٭

 

عجب نگاہ عجب رنگ آشنائی تھی

کہ ہر کتاب فقط سرخ روشنائی تھی

بہت قریب تھا وہ جسم چھو نہ سکتا تھا

بہت حسین تھی دنیا مگر پرائی تھی

اگا نہ سبزۂ خود رو بھی میرے آنگن میں

ہرے درخت کی تصویر ہی جلائی تھی

بچھڑ کے مل گئے شہزادہ اور شہزادی

یہ داستان تمھیں نے مجھے سنائی تھی

الگ یہ بات بجھائی نہ آن کر اس نے

کسی کے نام کی اک شمع تو جلائی تھی

نہیں ہم ایسے کہ دنیا کے ہو کے رہ جائیں

وہ کیا سمجھ کے ہمارے قریب آئی تھی

ہم اپنے دل کی ہر اک بات مان لیتے ہیں

نہیں تو چین سے رہنے میں کیا برائی تھی

٭٭٭

 

شاخ گل سے گل فشانی ہو رہی ہے

کیا مزے کی قصہ خوانی ہو رہی ہے

کھیل جاری ہے بکھرتی ساعتوں کا

ہر نئی لذت پرانی ہو رہی ہے

درد کی شدت میں ہے جتنی فزونی

رات اتنی ہی سہانی ہو رہی ہے

آ گیا ہے راس گمنامی کا جینا

شہرتوں کی آگ پانی ہو رہی ہے

شرم سے مر جائیں تو بے جا نہ ہو گا

زندگی چلّو کا پانی ہو رہی ہے

نرم تر، شیریں،  خنک حرفِ تسلی

دل جلوں پر مہربانی ہو رہی ہے

٭٭٭

 

میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں عزیزو

بے گھر بھی مکیں بھی ہوں عزیزو

انکھوا مرا پھوٹتا ہے مجھ سے

میں اپنی زمیں بھی ہوں عزیزو

باہر بھی گذر بسر ہے میری

میں خود میں مکیں بھی ہوں عزیزو

ہنستا ہوں شرارتوں پہ اپنی

اور چیں بہ جبیں بھی ہوں عزیزو

ظاہر میں گماں گماں ہوں لیکن

باطن میں یقیں بھی ہوں عزیزو

تقسیم بھی ہو رہا ہوں سب میں

میں اپنے تئیں بھی ہوں عزیزو

جنت کا ہی دکھ نہیں ہے مجھ کو

گم کردہ زمیں بھی ہوں عزیزو

٭٭٭

 

وہی زمین وہی چرخ آسمانوں کے

دنوں کی بات نہیں کھیل ہیں زمانوں کے

دیا سلائی کی تیلی بھی اب ڈراتی ہے

نظارے یاد ہیں جلتے ہوئے مکانوں کے

ہمارے پاؤں کی زنجیر بنتے جاتے ہیں

سجے سجائے ہوئے سلسلے دکانوں کے

زمین ذرہ برابر نہیں ہمارے نام

بناتے رہتے ہیں نقشے نئے مکانوں کے

اداس کر گیا وہ اسعدِجوانا مرگ (۱)

کہ اس عزیز میں کچھ طور تھے دوانوں کے

٭٭٭

(۱)  اسعدؔ بدایونی

 

درد آنسو نہیں بنتا سو تبسم تو بنے

کوئی پیرایۂ آغاز تکلم تو بنے

ہے طبیعت میں سکوت ازلی حیرت سا

اس سمندر کی کوئی موج تلاطم تو بنے

کون منظور کرے نام کی دریا بخشی

میں سبو تک نہ بھروں گاکوئی قلزم توبنے

کب سے دنیا نے پریشان مجھے رکھا ہے

اب یہ جنت نہیں بنتی تو جہنم تو بنے

روح اور جسم بناتے ہیں جھگڑ کے ہی مجھے

یہ عمارت کبھی بے نقش تصادم تو بنے

آخری لفظ ادا ہو گا زباں سے میری

میرا اظہار دل آزاری مردم تو بنے

٭٭٭

 

نئے ثوابت و سیار،  کائنات نئی

نئے سفر میں ضروری ہے احتیاط نئی

کچھ اس کو وہم رہا کچھ گماں ادھر مجھ کو

کبھی بہم نہ ہوئی وجہ التفات نئی

ملا ہے جب سے مجھے تو نئے تناظر میں

دکھائی دینے لگی ہے خود اپنی ذات نئی

کوئی نجات کی آنکھیں تو کھول کر دیکھے

دکھائی دیں گے یزیدی نئے فرات نئی

اندھیرے اور آجالے میں فرق ہی نہ رہا

بنایا چاہیے اب دن نیا کہ رات نئی

٭٭٭

 

تم بھی ملو خدا بھی ملے کائنات بھی

ہو ایسا معجزہ تو بنے کوئی بات بھی

رہ کر اسی سے دور گزاری بھی زندگی

وہ شخص تا حیات رہا میرے سات بھی

پیاسے حقیقت ازلی کے رہیں گے ہم

فوجِ یزید بھی ہے نظر میں فرات بھی

یوں سادگی سے کوئی نہ آئے گا دام میں

شامل کرو گریز میں کچھ التفات بھی

جوشِ جنوں بھی چاہیے لیکن نہ اس قدر

لازم ہے اس کے رو بہ رو کچھ احتیاط بھی

موقوف کچھ غزل پہ نہیں کاروبارِ شوق

ہو گا خدا کا فضل تو لکھیں گے نعت بھی

مدحت سنے گا کون تمھاری وفا کا حال

قصہ بھی بے مزہ ہے پرانی ہے بات بھی

٭٭٭

 

فرق شہرت اور رسوائی میں کرنا چاہیے

احتسابِ ذات تنہائی میں کرنا چاہیے

جلد بازی میں نہیں ہوتے ہیں سچے فیصلے

کچھ تامل بھی پذیرائی میں کرنا چاہیے

جو نظر آتا ہے وہ آنکھوں کا دھوکا تو نہیں

فرق بینش اور بینائی میں کرنا چاہیے

سادگی میں حسن ہو اور حسن میں ہو سادگی

اہتمام اتنا خود آرائی میں کرنا چاہیے

وہ تکلف جو ہمارے واسطے بے جا نہ ہو

آئینے کو عکس پیدائی میں کرنا چاہیے

جس سے کچھ حاصل نہ ہو طوفان خیزی کے سوا

وہ سفر موجوں کو گہرائی میں کرنا چاہیے

٭٭٭

 

ہم کہاں غیر کا احسان لیا کرتے ہیں

ہاں، عزیزوں کا کہا مان لیا کرتے ہیں

دشت سے لا کے بٹھا دیتے ہیں گھر میں ہر دم

شہر والے مجھے پہچان لیا کرتے ہیں

ہم تخیل سے بناتے ہیں خود اپنے قصے

بس ترے عشق سے عنوان لیا کرتے ہیں

ہم تو وہ ہیں کہ ادھر دل نے کہا،  مان لیا

مشورہ عقل سے نادان لیا کرتے ہیں

کچھ ہنسی کھیل نہیں درد کا رشتہ مدحت

لوگ اس بات کو آسان لیا کرتے ہیں

٭٭٭

 

کشمکش الجھن تذبذب بدحواسی

کیا ہے یہ سب نفسیاتی یا سیاسی

پھول گلدستوں سے رخصت ہو چکے ہیں

توڑ کر لائے تھے ہم خوشبو ذرا سی

آپ نے جو کچھ کہا دل ہی میں رکھوں

کچھ کہوں گا میں تو ہو گی ناسپاسی

دیکھتا ہوں اور کر سکتا نہیں کچھ

چاروں جانب پھیلتی گہری اداسی

تازہ تر حیرانیاں بھی منتظر ہیں

ان کے آگے آپ کی حیرت ہے باسی

مجھ کو کس امید پر زندہ رکھا ہے

جسم ہے شاداب میرا روح پیاسی

اب اسی انداز کو سمجھو غنیمت

شعر میں ہو جائے خواہش کی نکاسی

٭٭٭

 

شعر جو ہے وہ کہا ہی نہیں میں نے اب تک

یہ بھلا کام کیا ہی نہیں میں نے اب تک

عشق ہی مجھ سے کرا لیتا ہے اپنے سب کام

عشق سے کام لیا ہی نہیں میں نے اب تک

کل جو ہو گا وہ بتاتا ہی نہیں کوئی مجھے

جو ہوا کل وہ سنا ہی نہیں میں نے اب تک

یا کوئی کام نہیں تھا مرے کرنے جیسا

یا کوئی کام کیا ہی نہیں میں نے اب تک

بس ابھی دیکھ رہا ہوں،  وہ کہیں ختم بھی ہو

اس کو ہاتھوں سے چھوا ہی نہیں میں نے اب تک

٭٭٭

 

وہ اب کبھی نہ ملے گا یقین سا کیوں ہے

یہ انتظار کا گھر بے مکین سا کیوں ہے

بسے بسائے ہوئے ہیں یہ گھر زمانوں کے

نظارہ ان کا نئی سر زمین سا کیوں ہے

نہ اس کے حسن کا ثانی نہ اس کی فطرت کا

وہ بے مثال سہی بے یقین سا کیوں ہے

یہ آسمان پہ کس کے لہو کے چھینٹے ہیں

فضا کا رنگ تری آستین سا کیوں ہے

تو آدمی ہے،  مہذب بھی نرم خو بھی ہے

مگر ترا لب و لہجہ مشین سا کیوں ہے

٭٭٭

 

انتظار اور ابھی،  اور ابھی کرتے ہیں

جو بزرگوں نے کیا ہم بھی وہی کرتے ہیں

خود نہیں جانتے،  جانا ہے کہاں اور کیسے

ہم، سفر کرتے نہیں ہم سفری کرتے ہیں

کوئی بکنے میں مگن کوئی خریداری میں

عالمی ہاٹ میں سب لوگ یہی کرتے ہیں

اپنی تعریف،  تو اوروں کی برائی دن رات

کچھ نہیں کرتے تو کچھ لوگ یہی کرتے ہیں

پاؤں آہن کے بنا لو کہ زمانے والے

ہر نئی راہ میں دیوار کھڑی کرتے ہیں

٭٭٭

 

روشنی بھی تھی بہت راہ بھی سنسان بہت

میرے سائے نے کیا مجھ کو پریشان بہت

میز پر لا کے رکھی چائے کی پیالی اس نے

میں نے اک گھونٹ لیا اٹھ گئے طوفان بہت

ہر قدم اہل ریا سے ہے تصادم درپیش

ورنہ اس شہر میں جینا تو ہے آسان بہت

(۱) قولِ عاشق تھا کسوٹی پہ کھرا ہی اترا

عشق کو ہم بھی سمجھتے رہے آسان بہت

جسم رہتا ہی نہیں روح سے مل کر مدحت

میں ہوں اس طرفہ تصادم سے پریشان بہت

٭٭٭

(۱)کہ عشق آساں نمود اول و لے افتاد مشکل ہا…حافظ

٭٭٭

 

بلائیں یوں تو بہت دائیں بائیں چلتی ہیں

ہمارے ساتھ کسی کی دعائیں چلتی ہیں

رہے خیال کہ موسم بدل بھی سکتا ہے

ابھی تو شہر میں ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں

جو ایک سانس میں سو سو گناہ کرتے تھے

سو ایک ساتھ ہزاروں سزائیں چلتی ہیں

لبوں سے دیکھ لیا چوم کر نگاہوں سے

کھرا ہو عشق تو ایسی خطائیں چلتی ہیں

جچا نہ دور سے لایا ہوا کوئی موسم

ہمارے ساتھ ہماری فضائیں چلتی ہیں

٭٭٭

 

عزیزو ہم نے جو دیکھا وہی تم کو سناتے ہیں

یہاں کے لوگ تلواروں سے گلدستے بناتے ہیں

تم اپنے شہر میں مل کر تو دیکھو گوشہ گیروں سے

گھنی آبادیوں میں بھی خزانے پائے جاتے ہیں

ابھی چھائی ہوئی ہے گو مگو کی کیفیت دل پر

نہ ہم انکار کرتے ہیں نہ ہم ایمان لاتے ہیں

سمندر ہم سے گہری دوستی کو سر پٹکتا ہے

مگر ہم گھوم پھر کر اپنے گھر کو لوٹ آتے ہیں

بھروسا کر نہیں سکتے محافظ کی صداؤں پر

ہزاروں سانپ کنج عافیت میں سرسراتے ہیں

رہے جو گوش بر آوازِ خاموشی، وہی سمجھے

ہم اپنی گفتگو میں کتنے سناٹے ملاتے ہیں

سنا ہے مدحت الاختر کسی سے خوش نہیں رہتا

چلو ہم آج اس مجنوں کو آئینہ دکھاتے ہیں

٭٭٭

 

نہ ٹوٹے گا سوالوں کا ہمارے سلسلہ کل بھی

ہمیں خاموش کرنے کے لیے آؤ گے کیا کل بھی

کسی سے پوچھ کر آتا نہیں اچھا برا موسم

ابھی تو دن چڑھے تک چین سے سوتے ہو کیا کل بھی

مجھے آتا نہیں وہ بات کہنا جو نہیں دل میں

برا پہلے بھی تھا سب سے رہوں گا میں برا کل بھی

ہزاروں فاصلے طے کر کے آتی ہیں نئی لہریں

رہے گی کیا یہی اس شہر کی آب و ہوا کل بھی

ہمارے دل میں جتنی روشنی ہے کام آئے گی

سفر جاری رہے گا وادی ظلمات کا کل بھی

ہمارے واسطے باطن شناسی لازمی ٹھہری

نیا چہرہ بنا کر آئے گا بہروپیا کل بھی

وہی جس نے ہماری زندگی برباد کی مدحت

اسی کے واسطے کرتے رہیں گے ہم دعا کل بھی

٭٭٭

 

چلو یاروں سے سمجھوتا کریں ہم کچھ نہ بولیں گے

وہ اب ایسا کریں ویسا کریں ہم کچھ نہ بولیں گے

دکھاوے  کے لیے ہم تو نکلتے ہی نہیں گھر سے

وہ ہم کو لاکھ ان دیکھا کریں ہم کچھ نہ بولیں گے

برے ہیں یا بھلے ہم کام کے ہیں یا نکمے ہیں

سمجھنے والے ہی سمجھا کریں ہم کچھ نہ بولیں گے

ہمارا منہ نہیں کھلتا تو آنکھیں بول سکتی ہیں

یہ بد عہدی گوارا کیا کریں ہم کچھ نہ بولیں گے

وہ اپنے شہر کو آباد رکھیں یا کھنڈر کر دیں

ہم ایسے پاگلوں کا کیا کریں ہم کچھ نہ بولیں گے

یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کوئی چپ رہ نہیں سکتا

مذاق ایسا نہ فرمایا کریں ہم کچھ نہ بولیں گے

٭٭٭

 

محبت کھوئی ہے اپنی تو دنیا پائی ہے میں نے

نہیں سمجھا کہ کیا شے کھو چکا کیا پائی ہے میں نے

کھلیں اندر کی آنکھیں تو کھلا کچھ بھی نہیں دیکھا

رہا یہ وہم برسوں چشم بینا پائی ہے میں نے

فسانہ ختم پر ہے نیند آنکھوں میں سمائی ہے

رسائی تیری محفل میں بھلا کیا پائی ہے میں نے

دما دم یورش فتنہ گری ہے دس دشاؤں سے

ذرا یہ چار دن کی زندگی کیا پائی ہے میں نے

اسی کو یاد کرتا ہوں جو مجھ کو بھول بیٹھا ہے

طبیعت بے طرح طرفہ تماشا پائی ہے میں نے

مجھے محسوس بھی ہوتا نہیں کیا کرنے والا ہوں

کوئی نادیدہ قوت کارفرما پائی ہے میں نے

میں اپنے دشمنوں کی شعبدہ کاری پہ مرتا ہوں

کہ اپنی شکل ہر منظر سے منہا پائی ہے میں نے

ادھر تعمیر کرتا ہوں ادھر گرتی ہیں دیواریں

الگ ہونے کی محنت بے نتیجہ پائی ہے میں نے

زمانہ ہو گیا جو میرے گھر آیا نہیں مدحت

اسی کی شکل اپنے گھر میں ہر جا پائی ہے میں نے

٭٭٭

 

سمندر ستارہ سفر کچھ نہیں

اشارہ ادھر کا اگر کچھ نہیں

حقیقت مرے گھر میں جلتا دیا

حکایاتِ شمس و قمر کچھ نہیں

نہ کرنا ہی سب سے بڑا جرم ہے

کسی نے کیا ہی اگر کچھ نہیں

وہی دیکھیے جو دکھاتے ہیں وہ

ہماری تمھاری نظر کچھ نہیں

کھڑے سب ہیں بازار عالم کے بیچ

پڑوسی نہیں کوئی گھر کچھ نہیں

٭٭٭

 

رفتگاں کی خبر نہیں معلوم

کیا برا ہے اگر نہیں معلوم

زندگی کا سفر تمام ہوا

کون تھا ہم سفر،  نہیں معلوم

شہر ہی میں بھٹکتے رہتے ہیں

راستوں کو بھی گھر،  نہیں معلوم

خشک ہونٹوں نے کیا کہا ہو گا

کیوں ہوئی چشم تر،  نہیں معلوم

آج کا دن گذر گیا اچھا

کل ملے کیا خبر،  نہیں معلوم

دھند گہری ہے خوش نمائی کی

کیا ہے پیش نظر،  نہیں معلوم

٭٭٭

 

نیم کے پتے مرے آنگن میں تھے

میرے گھر والے بڑی الجھن میں تھے

ہم یہاں اس شہر میں رہتے ہیں کیوں

کیوں کنھیا جی برندابن میں تھے

کچھ سوالوں میں بھی الجھاوے رہے

کچھ جوابوں کے ادھورے پن میں تھے

کائنات،  انسان،  نادیدہ خدا

بس یہی شعلے مرے خرمن میں تھے

آنکھ کھلتے ہی حقیقت کھل گئی

ہم ابھی تک خواب کے مدفن میں تھے

عمر باقی بھی مزے ہی میں کٹی

ہاں مگر اصلی مزے بچپن میں تھے

٭٭٭

 

ہمارے واسطے ہر چیز ہے بھی اور نہیں بھی ہے

پھر اس ہونے نہ ہونے کا گماں بھی ہے یقیں بھی ہے

بھلا کیا چاہیے ہم بے نواؤں کی تسلی کو

کہ سر پر آسماں ہے پاؤں کے نیچے زمیں بھی ہے

تلاطم ہی نہیں رکھتا سمندر اپنے سینے میں

جو برگ و بار لاتی ہے وہ موجِ تہہ نشیں بھی ہے

مبارک جلوہ آرائی امیر شہر کو لیکن

کوئی صاحب نظر اس شہر میں گوشہ نشیں بھی ہے

کوئی شہزور اس کی شرط پوری کر نہیں سکتا

سنا ہے ایک شہزادی جواں بھی ہے حسیں بھی ہے

تعجب ہے کہ مدحت  کو ستایا بھی بہت تم نے

وہ دیوانہ تمھارے شہر میں اب تک مکیں بھی ہے

٭٭٭

 

کیا بات ہواؤں نے کہی خفتہ سروں سے

 گھبرا کے نکل آئے ہیں سب لوگ گھروں سے

جل جائیں اگر آج تو ہم کل ہی بنا لیں

ہم کو تو بہرحال محبت ہے گھروں سے

کس راہ پہ لے جائیں کوئی کہہ نہیں سکتا

امید نہ رکھیو کوئی ان ہم سفروں سے

چٹکی میں لپٹ آئے تو یہ اس کی عنایت

ہم رنگ کھرچتے نہیں تتلی کے پروں سے

مٹی بھی کھری، چاک کی گردش بھی کھری ہو

کہتا نہیں یہ رمز کوئی کوزہ گروں سے

٭٭٭

 

کہاں سے لائے ہوئے شہر کے یہ موسم ہیں

فضا میں رنگ بہت خوشبوئیں بہت کم ہیں

تم اپنے گوشۂ تنہائی میں اسیر رہو

ہمارے ساتھ ہزاروں ہزار عالم ہیں

نکالو جسم کے اندر کی روشنی باہر

تمھاری راہ کے سارے چراغ مدھم ہیں

کہاں سے آئے گا لشکر میں جذبۂ نصرت

بندھے ہوئے تو ستونوں سے سارے پرچم ہیں

کبھی بہائے تھے آنسو کسی تباہی پر

تو صاحبو، کئی رومال آج تک نم ہیں

٭٭٭

 

دوسرے لوگ کہاں جاتے ہیں کیا کرتے ہیں

اپنے گھر بیٹھے ہوئے ہم تو دعا کرتے ہیں

کہنے والے تو حقیقت ہی کہا کرتے ہیں

ہر حقیقت میں کئی جھوٹ ہوا کرتے ہیں

جو نہ دیکھے وہ ترستا ہے کہ دیکھے تم کو

دیکھنے والے جگر تھام لیا کرتے ہیں

ڈر ہے ان کو کوئی آندھی نہ اڑا کر لے جائے

(۱)’’باغ میں چند فرشتے بھی پھرا کرتے ہیں‘‘

اب ضرورت ہی نہیں آئینہ دیکھیں مدحت

ہم تو ہر دم یوں ہی حیران رہا کرتے ہیں

٭٭٭

(۱)  سلام مچھلی شہری سے مستفاد

 

اگر ضمیر نہ روکے تو دوستی کر لو

نہیں تو سارے زمانے سے دشمنی کر لو

کہیں سے آئے اندھیرا تو چھپ سکے نہ کہیں

تم اپنے آپ میں اتنی تو روشنی کر لو

وہ بے بساط ہے کچھ اور دے نہیں سکتا

چلو تم اپنے تقاضوں میں کچھ کمی کر لو

ہر ایک شے کا جدا اعتبار ہوتا ہے

قلم کی نوک کو نیزے کی کیوں انی کر لو

تمہیں بھی ہونے کا اپنے ثبوت دینا ہے

کچھ اور کر نہیں سکتے تو شاعری کر لو

٭٭٭

 

خدائے واحد و یکتا،  یہ کیا تماشا ہے

مرے وجود میں اک اور شخص رہتا ہے

نہ مجھ کو چین سے رکھتا نہ خود ہی رہتا ہے

کسے بتاؤں کہ یہ دل بڑا نکما ہے

چراغ جلتے رہیں اور روشنی بھی نہ ہو

یہ شعبدہ بھی ہماری نظر نے دیکھا ہے

ملا ہے جھوٹ میں سچ اور سچ میں جھوٹ یہاں

اسی لیے کوئی سچا نہ کوئی جھوٹا ہے

دعا بھی کرتا ہوں اور یہ بھی سوچتا ہوں میں

یہ عشق ہے کہ مرے جسم کا تقاضا ہے

سنا ہے شعر بھی کہتا ہے مدحت الاختر

چلو اب اس کے سخن کا حساب لینا ہے

٭٭٭

 

اماں نہیں دل معصوم کی تباہی سے

یہی خیال تھا ہر شخص کا سدا ہی سے

کھلی جو آنکھ تو خوابوں کی بوند بھی نہ ملی

پیا تھا رات کو پانی اسی صراحی سے

یہاں تو درد کے بادل برس گئے ہر سو

تم اپنے شہر میں گھبرا گئے ذرا ہی سے

مرے لیے تو یہ دو رخ ہیں ایک سکے کے

بدن کی بات کرو روح کی گواہی سے

لکھا گیا ہے ترے عشق کے صحیفے میں

ہمارا نام شب ہجر کی سیاہی سے

٭٭٭

 

شہر میں کچھ نئے طوفان بھی آ سکتے ہیں

رخ بدلتے ہوئے ہم خود کو بچا سکتے ہیں

دل کی گہرائی میں بھڑکے تو نہ ہو گی ٹھنڈی

آگ دامن کو لگی ہو تو بجھا سکتے ہیں

اپنی آواز تو پھیلاؤ فضا میں ہر سو

ساری دنیا نہیں کچھ لوگ تو ا سکتے ہیں

خواب کی راہ میں دیوار کھڑی رہنے دو

آنکھ کھلتے ہی یہ دیوار گرا سکتے ہیں

نم بھی ہے رنگ بھی خوشبو بھی ہمارے اندر

ہم ابھی دشت کو گلزار بنا سکتے ہیں

وقت ہر نقش کو دھند لا کے مٹا بھی دے گا

تیری تصویر کہاں دل سے مٹا سکتے ہیں

ڈر کی کیا بات اگر ڈوب رہا ہے سورج

اک دیا اس کے مقابل تو جلا سکتے ہیں

بے حسے آئیں گے کل دست طلب پھیلائے

دوستو،  ہم انھیں آئینہ دکھا سکتے ہیں

وصل اور ہجر میں دوری نہیں ایسی مدحت

وہ نہ آئے گا مگر آپ تو جا سکتے ہیں

٭٭٭

 

دل سے سوا ہیں ذہن کی آشفتہ کاریاں

محسوس ہو رہی ہیں نئی بے قراریاں

میں کیا ہوں کائنات ہے کیا زندگی ہے کیا

کھلنے کی منتظر ہیں پرانی پٹاریاں

سَن سَن سی ہے شعور میں رفتار نور کی

آتی ہیں کیا خلا سے نویلی سواریاں

عکس و صدا کے دشت میں کیا گل کھلائیں گی

اعداد اور حروف کی پیوند کاریاں

سب کچھ بدل رہا ہے تعجب کریں تو کیا

ہر سانس کے ضمیر میں ہیں تازہ کاریاں

٭٭٭

 

برسات ہو تو ہم بھی ہیں اس انتظار میں

کاغذ کی کشتیوں کو بہائیں گے دھار میں

آج اس نے ایک ایک کے دامن کو بھر دیا

شامل نہیں تھا آج ہی میں اس قطار میں

سونے کا اس کا جسم تھا سونے کا پیرہن

گم ہو گئی نگاہ سنہرے غبار میں

پہلے اسی کے ساتھ ٹہلتے تھے روز ہم

گذرا ہے جو یہاں سے ابھی سرخ کار میں

مدحت یہ اس کے چاہنے والوں کا شہر ہے

آ بھی گئے ہو تم تو بھلا کس شمار میں

٭٭٭

 

دوستو، کوئی شرارت نہ کرو خواب کے ساتھ

دل بھی قابو میں رہے دیدۂ بیتاب کے ساتھ

ہم نے خود ان کو رفاقت کی اجازت دی تھی

رنج ہے اور بھی ناقدریِ احباب کے ساتھ

پھر تو ہے تودۂ خاشاک مقدر اپنا

کوئی ساعت ہی گذاریں گل شاداب کے ساتھ

رسم ہے شہر کی،  مہمان نوازی لیکن

کون ٹھہرائے گا ہم کو دل بیتاب کے ساتھ

اب اسے بھول کے زندہ بھی رہیں تو کیسے

عمر بھر ایک تعلق رہا جس خواب کے ساتھ

٭٭٭

 

زمینوں سے زمینوں کی لڑائی

پرائے آسمانوں نے سکھائی

ستم ہے روشنی کی بے وفائی

کہاں کیا ہے نہیں دیتا دکھائی

ابھی تک خامشی سے سن رہا ہوں

صدا جو گونگے لمحوں نے لگائی

سنا جاتا نہیں اب قصۂ غم

کہا جاتا نہیں اب میرے بھائی

برستا کیوں نہیں سیّال سونا

جھڑی اشکوں نے سپنوں کی لگائی

یہاں سب سو رہے ہیں جاگتے میں

یہ کس نے انجمن ایسی سجائی

٭٭٭

 

زندگی انساں مسائل برسبیل تذکرہ

تبصرہ کرنا بھی مشکل برسبیلِ تذکرہ

درد مندی آگہی تمکین کا رونا ہی کیا

لے گیا ظالم مرا دل برسبیل تذکرہ

کوئی کچھ کرتا نہیں اس کی جفا کے سامنے

لوگ کہہ دیتے ہیں قاتل بر سبیل تذکرہ

اپنی تنہائی کو غیروں سے بچانے کے لیے

ہم سجا لیتے ہیں محفل بر سبیل تذکرہ

ہر نفس ہے روح کی گہرائیوں سے رابطہ

میں نہیں دنیا میں شامل بر سبیل تذکرہ

٭٭٭

 

کہیں نہ جاؤ اگر حادثہ ہوا بھی ہے

ہجوم خلق سے اندیشۂ خطا بھی ہے

ترے فراق میں شب زندہ داریاں ہی نہیں

نواح وصل میں خوابوں کا قافلہ بھی ہے

اندھیری رات مسلط ہے سلسلوں کی طرح

چراغ جل بھی رہے ہیں تو فاصلہ بھی ہے

اسے دکھا نہیں سکتا چھپائے رہتا ہوں

مرے وجود میں اک شخص دوسرا بھی ہے

تو مل کے کیوں نہ کریں بہتری کی تدبیریں

جو حال میرا ہے وہ حال آپ کا بھی ہے

٭٭٭

 

رقیب صلح کرے یا بجنگ آ جاوے

جتن کرو کوئی ایسا کہ تنگ آ جاوے

کھلا رہا ہوں شفق زار اپنی آنکھوں میں

کہ ہر بجھے ہوئے چہرے پہ رنگ آ جاوے

نظر کی ڈور تماشائیوں نے تانی ہے

بس آسمان میں کوئی پتنگ آ جاوے

یہ خواب وہ ہے جو بس ہم ہی دیکھ سکتے ہیں

بہے نہ قطرۂ خوں آب و رنگ آ جاوے

اڑائے جائیں گے مدحت کے آج تو پرزے

مگر کہیں سے وہ بے نام و ننگ آ جاوے

٭٭٭

 

آنکھ پڑنے لگی ہے جس تس کی

میں شبیہِ ملال ہوں کس کی

میں کسی کو برا نہیں کہتا

یہ کرامات ہے چھٹی حس کی

ہنس رہا تھا کہ رو پڑا اک دم

یہ مجھے یاد آ گئی کس کی

دل نے کچھ کر لیا محبت میں

ورنہ فطرت بری نہیں اس کی

عشق نے کہہ دیا کہ مر جاؤ

اس کے آگے چلے گی اب کس کی

ایک جیسے ہیں بے اثر دونوں

شور اونچا،  دبی ہوئی سسکی

میں بھلا بستیاں جلاؤں گا

ایک تیلی ہوں میں تو ماچس کی

٭٭٭

 

بے نام اک نفی مرے اثبات میں رہی

شامل یہ کس کی ذات مری ذات میں رہی

بے شک رہی ہے خیر مکمل کی جستجو

لیکن یہ جستجو مرے جذبات میں رہی

چاروں طرف سے آئے جوابات مختلف

الجھن کوئی تو میرے سوالات میں رہی

ہے آج بھی جدائی کی ساعت سے متصل

وہ تازگی جو پہلی ملاقات میں رہی

گالی کوئی دریدہ دہن دے کے چل دیا

گرمی اسی کی شہر کے حالات میں رہی

چھائی ہوئی تھی حجرۂ دانش میں تیرگی

سو روشنی جبینِ خرابات میں رہی

ساعت نصیب ہی میں نہ تھی انتشار کی

قوت مری دبی ہوئی ذرات میں رہی

٭٭٭

 

دنیا کے ساتھ چل نہ سکے گھر میں رہ گئے

کیا لوگ تھے کہ ذات کے چکر میں رہ گئے

تنہا بھٹک رہا ہوں بلاؤں کے دشت میں

تھے جتنے جاں نثار وہ لشکر میں رہ گئے

کچھ خواب تھے جو تشنۂ تعبیر ہی رہے

کچھ پیچ تھے جو میرے مقدر میں رہ گئے

کنکر چمک دمک کے بنے ہیں گلے کا ہار

موتی کھرے گنوں کے دساور میں رہ گئے

تصویر ہم بنا نہ سکے کائنات کی

کچھ دائرے ادھورے سے منظر میں رہ گئے

کچھ خواب کچھ سوال تھے یا کچھ ملال تھے

دل میں اتر کے بس نہ سکے سر میں رہ گئے

ہم گندی بستیوں سے گذر آئے سرخرو

مدحت خیال زلف معطر میں رہ گئے

٭٭٭

 

دوری بھی اسی سے ہے محبت بھی اسی سے

وابستہ ہماری ہوئی قسمت بھی اسی سے

اس شہر کو وہ بھول گیا ہے کہیں جا کر

حاصل ہے مگر شہر کو شہرت بھی اسی سے

بھاتا ہے وہی شخص بھرے شہر میں ہم کو

ہر بات میں ہے ہم کو شکایت بھی اسی سے

ہر زندہ حقیقت کو بناتا ہے وہی خواب

ہر خواب میں ہے رنگ حقیقت بھی اسی سے

وہ ضد ہے کہ سنتا بھی نہیں شعر ہمارے

ہر شعر ہمارا ہے عبارت بھی اسی سے

کل تک تو بہت اس سے خفا، اس سے الگ تھے

کیا دیکھ لیا، مل گئے مدحت بھی اسی سے

٭٭٭

 

وہ عجب شخص ہے جب اس سے ملاقات ہوئی

روح میں دھوپ کھلی،  دھوپ میں برسات ہوئی

عمر بھر دل پہ جو بیتی وہ بتائیں کس کو

شکر کرتے رہیں، اچھی بسر اوقات ہوئی

آپ ملنا بھی نہیں چاہتے ملتے بھی ہیں

یہ نوازش نہ ہوئی آپ کی خیرات ہوئی

ہوش اتنا بھی نہیں ہے کہ سمجھ میں آئے

دن کہاں ڈوب گیا جا کے کہاں رات ہوئی

اک نظر پہلے پہل آپ کو دیکھا تھا کہیں

شعر کہنے کی وہیں سے تو شروعات ہوئی

٭٭٭

 

کس نے دیکھا مرا رونا مرا ہنسنا کس نے

اور اگر دیکھ لیا بھی ہے تو سمجھا کس نے

میں اکیلا ہوں، دکھائی نہیں دیتا مجھ کو

سر بازار بنایا ہے تماشا کس نے

جو نہ کہنا ہو وہی بات کہا کرتا ہوں

میرے ہونٹوں کو سکھایا یہ سلیقہ کس نے

نت نئے پھول سجانے کو صبا آتی تھی

میرے کمرے سے وہ گلدان ہٹایا کس نے

شہر کچھ اور ہے کاغذ پہ زمیں پر کچھ اور

کس سے پوچھوں کہ بنایا ہے یہ نقشہ کس نے

٭٭٭

 

روح میں دہشت اتاری جا رہی ہے

رائگاں محنت ہماری جا رہی ہے

ایک مدت ہو گئی پھولوں کو دیکھے

چل، جدھر بادِ بہاری جا رہی ہے

کب نظر آئے گی صورت زندگی کی

یہ دلھن کتنی سنواری جا رہی ہے

اپنے ہاتھوں اپنی تعمیریں گرا دو

شہر میں جنت اتاری جا رہی ہے

جسم کی آسودگی کی چال چل کے

روح کی بازی بھی ہاری جا رہی ہے

٭٭٭

 

وجود اپنا ذرا سا بچا کے رکھا ہے

برے دنوں کے لیے کچھ اٹھا کے رکھا ہے

چلا دیے ہیں سبھی تیر اپنے والوں پر

کہ دشمنوں کے لیے کچھ بچا کے رکھا ہے

وہ اک چراغ جو ظلمت میں کام آئے گا

کہیں بجھا کے رکھا یا چھپا کے رکھا ہے

لکھا تھا اپنے لہو سے کبھی تمھارے نام

وہ خط بطور ثبوتِ وفا کے رکھا ہے

اسے خبر ہی نہیں ہے کہ اس کے کون ہیں ہم

یہ بھید اس سے بھی اب تک چھپا کے رکھا ہے

کہیں ملے تو کریں شکریہ ادا اس کا

کسی نے ہم کو تماشا بنا کے رکھا ہے

تم آ تو جاؤ کہ بازارِ رنج و حرماں سے

تمھارے واسطے بھی کچھ منگا کے رکھا ہے

کٹیں گے جب سروبازو تو ہو رہے گا کچھ

ابھی تو ہاتھ میں پرچم اٹھا کے رکھا ہے

دکان کھول ہی لی ہے تو دل بھی بیچیں گے

مگر یہ مال بہت تلملا کے رکھا ہے

نگاہِ ناز کے ہے روبرو مرا پندار

چراغ جیسے برابر ہوا کے رکھا ہے

تو کام آئے گا مدحت وصال کی رت میں

متاعِ ہجر اگر کچھ بچا کے رکھا ہے

٭٭٭

 

ہنستے بولتے چہرے آس پاس رہتے ہیں

خواب دیکھنے والے کیوں اداس رہتے ہیں

شہریوں نے کیا دیکھا اپنے بند کمروں میں

گھر سے جب نکلتے ہیں بدحواس رہتے ہیں

زندگی کا باطن ہے جسم پانچالی کا

سو لباس اتر کے بھی سو لباس رہتے ہیں

داستان غم اپنی کوئی لکھ نہیں سکتا

دل کے حاشیوں پر کچھ اقتباس رہتے ہیں

قول و فعل میں ان کے کچھ نہ فرق ہوتا تھا

وہ چلے گئے لیکن اب بھی پاس رہتے ہیں

جسم کا کوئی رشتہ روح سے نہیں مدحت

مدتوں سے دونوں ہی پاس پاس رہتے ہیں

٭٭٭

 

ملنا تو ہے ضرور کشادہ دلی سے مل

اپنے لیے ہمکتی ہوئی زندگی سے مل

آنکھوں میں جھلملاتے ہوئے خواب دیکھ لے

ہونٹوں پہ کانپتی ہوئی بے چارگی سے مل

دنیائے بے حجاب میں کیا شرم کی نمود

احساس میں لجاتے ہوئے آدمی سے مل

چہرے پہ ہیں تبسم شاداب کی تہیں

باطن میں تلملاتی ہوئی تشنگی سے مل

دنیا بدل رہی ہے تماشے پہ رکھ نگاہ

بنتی ہوئی بگڑتی ہوئی زندگی سے مل

معصوم بھی،  شریر بھی ہے اور ذہین بھی

رہتا ہے ممبئی میں ندا فاضلی سے مل

صدیوں سے گوشہ گیر ہے اپنے مزاج میں

مدحت خدا کے واسطے اب تو کسی سے مل

٭٭٭

 

ملے نہ صحبت ناجنس کی سزا یارب

انا کو ٹھیس پہنچتی ہے،  التجا یارب

مجھے خیال دیا، تھوڑی بے خیالی دے

کہ آؤں برسر اظہار مدعا یارب

یہی کہ میں تری جنت کو چھوڑ آیا ہوں

مجھے بتا تو سہی اور کیا ہوا یارب

فلک سے توڑ کے تارے ابھی میں لے آؤں

کہاں سجانا ہے ان کو،  مجھے بتا یارب

اسی دیار میں رہنا ہے اور تھوڑے دن

روا روی کا سلیقہ مجھے سکھا یارب

چلے نہ شہر میں آندھی تو کیا ضرورت ہے

کہ ہر قدم پہ جلاتا چلوں دیا یارب

ہجوم شہر نے کیا ایسی بے رخی برتی

کہ شہر چھوڑ کے دیوانہ چل دیا یارب

مجھے کسی سے شکایت نہیں زمانے میں

ترے حضور ہے میرا معاملہ یارب

نگاہِ خلق میں اتنا حقیر بھی تو نہیں

میں اپنے آپ سے رہتا ہوں کیوں خفا یارب

وہی خطاؤں کا پتلا مگر ذرا نادم

بنا کے بھیج کوئی آدمی نیا یارب

میں اپنی آخری سانسوں میں تیرے پاس رہوں

مرے لبوں پہ رواں ہو خدا خدا یارب

٭٭٭

 

سفر سو کائناتوں کا پڑا ہے

سروسامان تھوڑا سا پڑا ہے

سنور جائے نصیبہ راستے کا

یہ کیوں بے کار بل کھاتا پڑا ہے

دبی ہیں کتنی لاشیں، کیا بتائیں

کہاں تک خواب کا ملبہ پڑا ہے

بلاوا مدتوں سے جا رہا تھا

سمندر بستیوں پر آ پڑا ہے

کریں گے اب نہ سیدھا کام کوئی

اثر ہر بات کا الٹا پڑا ہے

سمٹنا کام ہے آبادیوں کا

بکھرنے کے لیے صحرا پڑا ہے

نظر آتا نہیں پورا کسی کو

سماں آدھا ادھورا سا پڑا ہے

ٹھہرتی کیوں نہیں ہیں اس پہ آنکھیں

ادھر کچھ آئینے جیسا پڑا ہے

بلندی آبشاروں کو ملی تھی

ڈھلانوں میں مگر بہنا پڑا ہے

٭٭٭

 

بھولے ہم اپنی چال نہ چہرے بدل لیے

حالات کا دباؤ تھا، سپنے بدل لیے

یہ رختِ جاں کی خیر منانے کا وقت ہے

آپس میں،  دشمنوں نے دوشالے بدل لیے

چن چن کے غرق کرنے لگا تھا وہ با ہنر

یارانِ عافیت نے سفینے بدل لیے

یہ دیکھ کر کہ جیب میں جاتے نہیں ہیں ہاتھ

بازی گروں نے اپنے تماشے بدل لیے

بچپن میں جیسے پائے تھے ویسے نہیں ہیں اب

کیوں آسماں نے چاند ستارے بدل لیے

٭٭٭

میں جو چاہوں وہی ہو جائے یہ کب ہوتا ہے

کچھ نہ ہونے کا مگر کوئی سبب ہوتا ہے

جس تکلف سے کیا تو نے وفا کا اقرار

وہ تکلف ترے انکار میں کب ہوتا ہے

گھر میں بیٹھے ہوئے کچھ بھی نہیں ہونے والا

بے خطر گھر سے نکل جائیں تو سب ہوتا ہے

اس کی محفل میں نہ کر کوئی شکایت کہ وہاں

شیوۂ قتل بھی تحسین طلب ہوتا ہے

عشق میں نام و نسب کی کسے پروا مدحت

عشق بے سلسلۂ نام و نسب ہوتا ہے

٭٭٭

 

دونوں میں کتنا فرق ہے سمجھا گئی مجھے

دنیا بھی تیرے ساتھ ہی یاد آ گئی مجھے

مدت ہوئی کسی سے گلے مل کے روئے تھے

اس سادگی پہ آج ہنسی آ گئی مجھے

تو چاہتا تو پھر مرا ملنا محال تھا

دنیا ترے فراق میں گم پا گئی مجھے

تھی روشنی چھپی ہوئی پلکوں کی اوٹ میں

جب آنکھ کھل گئی تو نظر آ گئی مجھے

میں خیرہ سر ٹھٹک کے کھڑا تھا کہ زندگی

حیرانیوں کے موڑ پہ پہنچا گئی مجھے

٭٭٭

 

کھیل جو ذات و کائنات کے ہیں

یہ کرشمے سب ارتباط کے ہیں

جتنے جادو ہیں تیری باتوں میں

پھر نہیں سکتے کائنات کے ہیں

درد اپنا ہو یا پرایا ہو

آدمی ہم تو احتیاط کے ہیں

ایک جیسے سوال ہیں میرے

کچھ فنا کے ہیں کچھ ثبات کے ہیں

آنسوؤں سے ہرے بھرے ہوں گے

وہ شجر جو ہمارے ہات کے ہیں

٭٭٭

 

موقع ہی کوئی ساتھ نبھانے کا نہیں تھا

جو اپنا چلن تھا وہ زمانے کا نہیں تھا

ہر شخص میں ہوتا ہے ہنر کوئی نہ کوئی

جو مجھ میں ہنر تھا وہ دکھانے کا نہیں تھا

جینے کی ادا کس کو سکھاتے کہ خود اپنے

سینے میں کوئی سانس ٹھکانے کا نہیں تھا

جو دیکھ لیا میں نے وہی سب کو دکھایا

منظر کوئی دنیا سے چھپانے کا نہیں تھا

کانٹے ہی اگائے ہیں زمانے کی ہوا نے

کیا ہم کو جنوں پھول کھلانے کا نہیں تھا

٭٭٭

 

جسم ناآسودہ میرا روح بھی تسکیں طلب

تس پہ یہ عالم کہ یاد آتا نہیں کوئی سبب

چین سے رہنے نہیں دیتے ہیں مجھ کو روز و شب

میرے اندر چپکے چپکے سانس لیتے سات ارب

وقت کے حالات سے غافل تو رہ سکتے نہیں

نیوز دیکھیں شہر میں گھومیں پڑھیں تازہ ادب

چار سو سے دم بہ دم آتی صداؤں کا ہجوم

اس ہجومِ بے کراں میں گم ہمارے گوش و لب

پھڑ پھڑاتا ہے کسی قیدی پرندے کی طرح

جو سخن آتا نہیں دل سے ہمارے تا بہ لب

٭٭٭

 

رنگ رمیدہ بوئے پریشاں بھی چاہیے

میں پھول ہوں مجھے تو گلستاں بھی چاہیے

دونوں ملیں تو کام چلے کائنات کا

میں جسم ہی نہیں ہوں مجھے جاں بھی چاہیے

مانا کہ رنگ و نور کی کوئی کمی نہیں

اس انجمن میں وہ شہِ خوباں بھی چاہیے

آنے دو جتنے خواب بھی آتے ہیں بے خطا

خالی پڑا ہے گھر کوئی مہماں بھی چاہیے

دشمن سہی بہا نہ تو جینے کا کچھ ملے

آخر تو اس لہو کو رگ جاں بھی چاہیے

٭٭٭

 

سوچو کچھ ہوتا کچھ ہے

کچھ نہیں یہ سب یا کچھ ہے

سب کچھ اچھا ہے لیکن

اس سے بھی اچھا کچھ ہے

لوگ سمجھتے ہیں کچھ اور

دنیا میں ہوتا کچھ ہے

آؤ بدل لیں آپس میں

میرا کچھ تیرا کچھ ہے

کاش دکھا سکتے سب کو

آنکھوں نے دیکھا کچھ ہے

کون نظاروں کو بدلے

رہنے دو جیسا کچھ ہے

٭٭٭

 

گلاب کھل نہیں سکتے اگر صبا نہ چلے

دعا کرو کہ مخالف کوئی ہوا نہ چلے

خود اپنے گھر میں رہیں مطمئن تو کیا کہنا

پرائے گھر پہ چلے اختیار یا نہ چلے

وہی نگاہ جو دم بھر میں فیصلہ کر دے

وہ گفتگو ہی نہیں جس کا سلسلہ نہ چلے

ہم اپنی راہ قدم ناپ کر نہیں چلتے

ہمارے ساتھ کوئی فاصلہ نما نہ چلے

سجاتے رہتے ہیں ہم اپنے شعر کو مدحت

یہی ہے فکر کہ یہ کھیل بے مزہ نہ چلے

٭٭٭

 

یقیں کا حاصل مطلب گماں بھی ہوتا ہے

مگر یہ نکتۂ نازک نہاں بھی ہوتا ہے

اسے تلاش کروں وہ اگر اجازت دے

کہ دل میں گوشۂ امن و اماں بھی ہوتا ہے

ہم اپنی ذات میں رہتے تو ہیں اسیر مگر

ہمارے سر پہ کھلا آسماں بھی ہوتا ہے

بھٹک کے آ تو گئے ہیں ترے دیار میں ہم

یہ دیکھنا ہے کوئی مہرباں بھی ہوتا ہے

تم اپنے گھر میں رہو شوق سے مگر مدحت

رہے خیال کہ گھر میں مکاں بھی ہوتا ہے

٭٭٭

 

موت سب سے بڑا سوال ہے کیوں

زندگی کے لیے وبال ہے کیوں

وقت کو موت کیوں نہیں آتی

عمر پابند ماہ و سال ہے کیوں

جب جدائی ہی زندگی ٹھہری

دل میں پھر خواہش وصال ہے کیوں

بات کرنا سبھی کو آتا ہے

منحصر ہم پہ عرض حال ہے کیوں

برف جیسی یہ زندگی مدحت

ایک جلتا ہوا سوال ہے کیوں

٭٭٭

 

نکلا نہیں کیوں چاند شرارت ہے کسی کی

ہو کوئی سبب رات تو غارت ہے کسی کی

تم میرے لیے ہو تو تمھارے لیے میں ہوں

دیوارِ وفا پر یہ عبارت ہے کسی کی

دن رات نئے خواب دکھاتی ہے مجھے کیوں

بستی سے ذرا دور عمارت ہے کسی کی

جو بول رہا ہے اسے تو سن بھی رہا ہے

شامل تری باتوں میں حقارت ہے کسی کی

کیا بات ہے دل بیچ دیا جان خریدی(۱)

یعنی تمھیں منظور تجارت ہے کسی کی

جل جاؤ گے کوشش نہ کرو ہم نفسی میں

شامل مری سانسوں میں حرارت ہے کسی کی

٭٭٭

(۱) دلے بفروختم جانے خریدم …عرفی

 

خوشی سے ربط نہیں ہے کہ غم نہیں معلوم

اداس کس لیے رہتے ہیں ہم نہیں معلوم

ہرے بھرے ہیں شجر چھاؤں بھی گھنی ہے مگر

ہمارے کیوں نہیں رکتے قدم نہیں معلوم

کوئی سبب ہے کسی کو نہیں بتاتے کچھ

ہمیں بھی شہر کے لوگوں سے کم نہیں معلوم

رہا خیال نہ اوروں کی بات سننے کا

خوشی نے چھین لیے کتنے غم نہیں معلوم

تمام عمر چلا کاروبار گھاٹے میں

کہاں چلی گئی دل کی رقم نہیں معلوم

ہماری تاک میں بیٹھی تھی خود فراموشی

چلے کہاں سے کہاں آئے ہم نہیں معلوم

٭٭٭

 

بہانہ اس نے بہت معتبر بنایا ہے

ہماری راہ میں دشمن نے گھر بنایا ہے

میں اپنے دل سے کوئی بات کہہ نہیں سکتا

مجھے سماج نے پیغامبر بنایا ہے

ہر ایک شخص جو وہ ہے نظر نہیں آتا

یہ کس نے شہر کو جادو نگر بنایا ہے

سبب ہے کیا کہ مکمل نہ ہوسکی تعمیر

ہزاروں بار اسے توڑ کر بنایا ہے

ہر ایک سمت سے پتھر ضرور آئیں گے

اگر خدا نے تجھے با ثمر بنایا ہے

٭٭٭

 

دھند چھائی ہوئی ہے ہلکی سی

آج کی رت نہیں ہے کل کی سی

سو سلیقے ہیں بات کے لیکن

بات آتی نہیں غزل کی سی

سانس اٹکی تھی ایک ہی پل کو

مجھ کو آہٹ لگی اجل کی سی

اوڑھنی شام ہجر کے سر پر

کچھ ٹکی سی ہے کچھ ہے ڈھلکی سی

میز پر اور کچھ نہیں مدحت

ایک پیالی پڑی ہے چھلکی سی

٭٭٭

 

 

کہنا تو ہے کچھ لیکن ہم کچھ بھی نہیں کہتے

ہے کام یہی نس دن ہم کچھ بھی نہیں کہتے

ہر جسم سے لپٹے ہیں سو سانپ مگر چپ ہیں

پھنکارتی ہے ناگن ہم کچھ بھی نہیں کہتے

دنیا کے تماشے کو یہ خود ہی سمجھ لیں گے

بچے ہیں ابھی کمسن ہم کچھ بھی نہیں کہتے

کب دھوپ چمک جائے کب برف پگھل جائے

لوٹ آئیں گے اچھے دن ہم کچھ بھی نہیں کہتے

دنیا تو سمٹ آئی انگلی کے اشاروں میں

کس شہر کے ہیں ساکن ہم کچھ بھی نہیں کہتے

اصرار ہے یاروں کا کچھ تم بھی کہو مدحت

دیکھے ہیں کچھ ایسے دن ہم کچھ بھی نہیں کہتے

٭٭٭

 

شور سناٹے پہ بھاری چپ رہو

کون سنتا ہے تمھاری چپ رہو

آئی کلیوں کے چٹکنے کی صدا

رو میں ہے باد بہاری چپ رہو

نالہ و فریاد کی رخصت نہیں

شاہ کی آئی سواری چپ رہو

کچھ کہو گے تو زباں کٹ جائے گی

چاہتی ہے فتنہ کاری چپ رہو

اب تمھاری بانسری میں دم نہیں

شانت ہو جاؤ مراری چپ رہو

سی دیے ہیں ہونٹ دہشت نے مگر

ہے لہو آنکھوں سے جاری چپ رہو

جو کہے سنتے رہو کرتے رہو

وقت پر لرزہ ہے طاری چپ رہو

تم بہت کچھ کہہ چکے اے اہل شہر

اب فقیروں کی ہے باری چپ رہو

حال پوچھو گے تو کیا ہو گا بھلا

دیکھ لو صورت ہماری چپ رہو

بے سبب شوریدگی اچھی نہیں

ہے اگر خواہش کنواری چپ رہو

٭٭٭

 

میری پیشانی مرے رخسار تم نے چوم کر

کیوں کہا تھا میں تمھاری ہوں خوشی میں جھوم کر

یا دکھا تعبیر کی سچی سنہری روشنی

یا ہمارے دور کے ہر خواب کو موہوم کر

کاروبار عشق کو کچھ عقل بھی درکار ہے

سارے جذبوں کو نہ اپنے عشق سے موسوم کر

سارا عالم ایک بازارِ خرد کاری ہوا

مال ہے کس کا کھرا اے دل ذرا معلوم کر

میں خود اپنی خاک کے انبار میں مستور ہوں

مجھ سے ملنا ہے اگر میرا پتہ معلوم کر

یا بھلا دے ذات کو دنیا کے موجودات میں

یا بھری دنیا سے اپنے آپ کو محروم کر

تیری فطرت میں اگر ادراک کا جوہر بھی ہے

ہر پرانی بات سے پیدا نیا مفہوم کر

٭٭٭

 

کہو آنکھوں سے منھ سے کچھ نہ بولو

مگر تم گفتگو کے در تو کھولو

ہم اپنی اصل کی جانب رواں ہیں

اگر چاہو ہمارے ساتھ ہو لو

کبھی اچھے نہیں لگتے پڑوسی

پڑوسی کو برا ہرگز نہ بولو

دھڑکتا ہے کوئی حصہ کہیں اور

بدن اپنا اکیلے میں ٹٹولو

کہاں تک اشک پونچھو گے ہنسی سے

بہت دن ہو گئے رومال دھولو

٭٭٭

 

سپرد اس کے نہ کی میں نے کیوں انا اپنی

بہت دنوں میں آجاگر ہوئی خطا اپنی

جدا ہوا ہے وہ ایسا کہ اب ملے گا نہیں

اسی ملال میں ہے زندگی خفا اپنی

جو گیت ہم نے سنائے اسی کا جادو ہے

یہ چاروں اور بکھرتی ہوئی صدا اپنی

چلے ہیں ایک ہی جانب مگر یہ ممکن ہے

کہ موڑ آتے بدل جائے پھر دشا اپنی

اثر دکھائے گا کل شہرزاد کا جادو

ہزار راتیں سہانی گنوا چکا اپنی

یہ آسمان سے نازل نہیں ہوا کرتی

 سب اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں بلا اپنی

٭٭٭

 

مدحت الاختر،  کہاں رہتے ہو تم

کون بستی ہے جہاں رہتے ہو تم

گھل گیا ہے کس سمندر کا نمک

گیلی لکڑی کا دھواں رہتے ہو تم

کیسے ہنس لیتے ہو اپنے آپ پر

غم زدوں کے درمیاں رہتے ہو تم

کیسے رہتے ہو شکایت مت کرو

خیریت جانو یہاں رہتے ہو تم

کچھ پتہ اپنا اگر دیتے کبھی

ہم بھی جا رہتے جہاں رہتے ہو تم

(۱) چاند لے کر ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں

چرچ کے پیچھے کہاں رہتے ہو تم

٭٭٭

        (۱) گلزار کے شکریے کے ساتھ

 

عزت و ذلت ہماری اصطلاحیں

خود فریبی نے تراشی ہیں پناہیں

کلبلاتی ہے کوئی بے سود خواہش

یاد آتی ہیں بزرگوں کی نگاہیں

زندگی مجبور کردیتی ہے لیکن

دل نہیں کرتا کہ دنیا سے نباہیں

سرد خانوں سے نکل کر آگئے ہم

جلد بتلاؤ کدھر ہیں رزم گاہیں

برف کے تودے میں انگارے چھپے ہیں

تلملاتی ہیں تبسم میں کراہیں

حاکموں کے شہر دہلی میں سجی ہیں

تازہ رجحانات کی افواہ گاہیں

تم ابھی تک شاعری کرتے ہو مدحت

چھوڑ دو شہرت کی یہ بے شرم راہیں

٭٭٭

 

عکس اندر پڑا ہے باہر میں

دیکھتا ہوں یہ کیسا منظر میں

میرے باہر بہت اندھیرا تھا

اپنے اندر ہوا آجاگر میں

بات میری تو مان لی اس نے

رہ گیا اعتبار کھو کر میں

سب ہیں میرے مگر نہیں کوئی

ہوں ہزاروں گھروں میں بے گھر میں

لوگ جنت اسی کو کہتے ہیں

دیکھ لوں دو قدم ہی چل کر میں

٭٭٭

 

گھر سے نکل کے کوچہ و بازار دیکھ لوں

شاید کسی کو اپنا طلب گار دیکھ لوں

وہ سیلِ اشک ہے کہ کچھ آتا نہیں نظر

حائل نہ ہو یہ شے تو افق پار دیکھ لوں

دیکھا جو میں نے کل وہ مجھے یاد ہے مگر

ٹھہرو ذرا میں آج کا اخبار دیکھ لوں

چھالوں سے میرے پاؤں کو نسبت نہیں ابھی

میں دور ہی سے دشت کو پر خار دیکھ لوں

پھر قید ہو بھی جاؤں تو کوئی زیاں نہیں

ہر زاویے سے گردش پرکار دیکھ لوں

٭٭٭

 

خوف،  دہشت بدگمانی رات بھر

سر پھروں کی حکمرانی رات بھر

تھیں سبھی باتیں تسلی کی مگر

ایک بھی دل نے نہ مانی رات بھر

دل جلوں کی بددعا سنتے رہے

سرخ شعلوں کی زبانی رات بھر

دوسری بستی میں جانے کیا ہوا

خوش گمانی بدگمانی رات بھر

سرپھرا انبوہ جانے کیا کرے

گرم تھی حیرت بیانی رات بھر

یہ صدائیں کون سی دنیا کی ہیں

سن رہے ہیں آگ پانی رات بھر

نیند کس کو آئے گی کیوں آئے گی

کیا سناتے ہو کہانی رات بھر

٭٭٭

 

دل سے پوچھو یہ اس کا حال ہے کیا

رو بہ رو پھر کوئی سوال ہے کیا

گرگئی کیوں چھلک کے برتن سے

چائے کا آخری ابال ہے کیا

جن کے دم سے گلاب کھلتے تھے

ان ہواؤں کا حال چال ہے کیا

تو نہیں ہے تو بے حقیقت ہیں

خواب کیا چیز ہے خیال ہے کیا

کل کے جیسا ہے آج کا دن بھی

یہی آئینِ ماہ و سال ہے کیا

آپ کو بے مثال کہتا ہوں

اس سے بہتر کوئی مثال ہے کیا

کھو گیا ہوں تری جدائی میں

اس کے آگے مری مجال ہے کیا

پار کرتے نہیں ہو کیوں دہلیز

تاک میں راستوں کا جال ہے کیا

ہم نہ مشرق کے ہیں نہ مغرب کے

یہ جنوب اور یہ شمال ہے کیا

اپنے گھر میں اداس بیٹھے ہو

بند یاروں سے بول چال ہے کیا

شعر کہتے ہو مدحت الاختر

شعر کہنا کوئی کمال ہے کیا

٭٭٭

 

نافہموں کی جب چلتی ہے

گیلی سوکھی سب جلتی ہے

تنہائی کی آگ ہے روشن

محرومی پنکھا جھلتی ہے

خوش فہمی ننھے پیروں سے

نیند کی حالت میں چلتی ہے

کب کے سو گئے پاؤں ہمارے

یہ تو بیساکھی چلتی ہے

دھوپ جمی رہتی ہے صدیوں

چھاؤں بہت جلدی ڈھلتی ہے

کوزہ کیوں مٹی ہو جائے

مٹی کوزے میں ڈھلتی ہے

باہر کا بہروپ دکھاوا

باطن میں دنیا پلتی ہے

دخل نہ ہو جس میں کچھ میرا

ایسی دنیا کیوں کھلتی ہے

میں خود باندھ رہا ہوں مدحت

کون کہے کس کی غلطی ہے

٭٭٭

 

زندہ نہ رہو گے تم اگر خواب نہ دیکھو

ممکن نہیں دریا میں رہو آب نہ دیکھو

موتی ہیں صدف بند سمندر کی تہوں میں

پانی پہ ابھرتے ہوئے گرداب نہ دیکھو

کچھ خواب پرانے ہیں تو کچھ خواب نئے ہیں

دونوں کو جدا کر کے کوئی خواب نہ دیکھو

معصوم بزرگوں کی ادا کام نہ دے گی

آئینے میں عکسِ رخِ مہتاب نہ دیکھو

دل اوس میں بھیگی ہوئی باتوں سے رکھو خوش

آنکھوں میں مچلتا ہوا تیزاب نہ دیکھو

بیٹھے ہی رہو اپنے اندھیروں میں اگر تم

دل سوزیِ خورشید جہاں تاب نہ دیکھو

تم بھول گئے ہو تو تمھیں یاد دلا دوں

یہ کس نے کہا تھا کہ کوئی خواب نہ دیکھو

رہنا ہے تمھیں شہر میں یا گاؤں میں مدحت

انسان کی خواہش رکھو اسباب نہ دیکھو

٭٭٭

 

کہہ نہیں سکتا کہ میں کیا چاہتا تھا

بن گیا ہوں جو نہ بننا چاہتا تھا

دھوپ نے بھر دی چمک آنکھوں میں ایسی

سائباں بھی سر پہ سایہ چاہتا تھا

میں نے اپنی شخصیت اس میں سمو دی

آئینہ بے عکس رہنا چاہتا تھا

پاؤں جوتوں سے نکلنا چاہتے تھے

اور میں گھر سے نکلنا چاہتا تھا

دامِ ہمرنگِ زمیں دیکھا نہ ان نے

ہر پرندہ آب و دانہ چاہتا تھا

سو گیا ٹھنڈی ہوا کی تھپکیوں سے

میں اسے بیدار رکھنا چاہتا تھا

بند ہیں سب راستے باہر کے مدحت

شہر بھی اس کے سوا کیا چاہتا تھا

٭٭٭

 

ہر بات کا افسانہ ہوا ایک ہی دن میں

اس شہر میں کیا کیا نہ ہوا ایک ہی دن میں

دیکھا ہی اسے تھا کہ عزیزوں نے پکارا

یہ شخص تو بیگانہ ہوا ایک ہی دن میں

صدیوں میں بدلتا ہے زمانہ کوئی کروٹ

یہ کام نہ ہو گا نہ ہوا ایک ہی دن میں

اب آئے ہو روتے ہوئے بچے کو ہنسانے

یہ حال تو میرا نہ ہوا ایک ہی دن میں

اک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے رقیباں

کس بات پہ یارانہ ہوا ایک ہی دن میں

٭٭٭

 

نہ جیتے ہیں نہ مرنا چاہتے ہیں

یہ ہم کیا کر گذرنا چاہتے ہیں

کیا ہم نے نہ کوئی کام اب تک

نہ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں

برا کچھ کر نہیں سکتے ہمارا

مگر کچھ لوگ کرنا چاہتے ہیں

نہیں آسان یاروں سے نبھانا

یہ نیکی ہم بھی ورنہ چاہتے ہیں

اٹھا دیتا ہے ہم کو وقت آ کر

جہاں دو پل ٹھہرنا چاہتے ہیں

ہٹا لوں آئینے سے اپنی آنکھیں

کہ اب آنسو بکھرنا چاہتے ہیں

میں اپنی چھت پہ جانا چاہتا ہوں

مرے زینے اترنا چاہتے ہیں

٭٭٭

 

ہم بے حسے ہیں مانے ہوئے کچھ نیا کرو

باسی تمھارے طعنے ہوئے کچھ نیا کرو

اس زعم میں کہ زندہ رہے گا تمھارا نام

بے کار تم دیوانے ہوئے کچھ نیا کرو

معصوم لوگ کٹ گئے مذہب کے نام پر

یہ فیصلے پرانے ہوئے کچھ نیا کرو

کیوں انگلیاں ڈبوئیں ہم اپنے ہی خون میں

یہ رابطے پرانے ہوئے کچھ نیا کرو

کس کام کی تمھاری پرانی بھلائیاں

ہم ہیں کچھ اور ٹھانے ہوئے کچھ نیا کرو

٭٭٭

 

دو چار روز میں نظر آئے گا جو بھی ہو

الزام پھر ہمارے سر آئے گا جو بھی ہو

دل بیچ کر خرید ہی لائے ہیں جان ہم

آتے ہی آتے کچھ صبر آئے گا جو بھی ہو

دشمن کو قتل تم کرو یا وہ کرے تمھیں

اس سانحے پہ دل تو بھر آئے گا جو بھی ہو

آرام کی ہی لت ہے دلِ نابکار کو

رستے میں موت کا شجر آئے گا جو بھی ہو

تم نے جو کہہ دیا ہے کہ مر جاؤ عشق میں

یہ کام وہ ضرور کر آئے گا جو بھی ہو

پیدا ہوا ہے جو وہ فنا ہو گا ایک دن

اس وسوسے میں ہر بشر آئے گا جو بھی ہو

میں نے اسے جو دعوت شب دی ہے دیکھنا

ضد میں مری دمِ سحر آئے گا جو بھی ہو

ہے آج قیدِ سنگ میں بے حس پڑا ہوا

کل رقص میں یہی شرر آئے گا جو بھی ہو

جانا نہ تھا اسے مری ضد میں چلا گیا

آنا نہیں اسے مگر آئے گا جو بھی ہو

٭٭٭

 

اسے کچھ بھی نہیں معلوم ہے کیا

یہ دنیا اس قدر معصوم ہے کیا

ہمارے دشت کیوں سوکھے پڑے ہیں

گھٹاؤں سے فضا محروم ہے کیا

کہاں رہتے ہیں ہم، کیسے بتائیں

 پتہ اپنا ہمیں معلوم ہے کیا

ڈھلک جاتی ہے آنسو بن کے جو شے

ہماری خواہش موہوم ہے کیا

نئے پودے اگاتے کیوں نہیں ہم

ہوا اس شہر کی مسموم ہے کیا

یہ بستی تو نئی ہے،  کیا یہاں بھی

کوئی حاکم،  کوئی محکوم ہے کیا

ہنر کیسے یہاں بکنے کو آیا

یہ بازاروں میں اتنی دھوم ہے کیا

’’دلے بفرو ختم جانے خریدم‘‘

یہ نکتہ عرفیؔ معصوم،  ہے کیا

اسے انعام سے ہم کیوں نوازیں

وہ شاعر ہے مگر مرحوم ہے کیا

٭٭٭

 

رونق بازار عالم تیسری دنیا کے ہم

برسر پیکار باہم، تیسری دنیا کے ہم

دم بخود ہیں نامۂ اعمال ہاتھوں میں لیے

چار سو محشر کا عالم،  تیسری دنیا کے ہم

کون ہے دزدِ متاعِ خانہ،  کس کو جستجو

غافلانِ محوِ ماتم،  تیسری دنیا کے ہم

آسمانوں سے فرشتے آئیں گے،  کب آئیں گے

منتظر با دیدۂ نم،  تیسری دنیا کے ہم

تم کو اپنے سازوسامانِ تمنا سے غرض

تم ہمارا کیوں کرو غم، تیسری دنیا کے ہم

٭٭٭

 

متفرق اشعار

میری ہر بات مان لیتے ہیں

آپ انکار کیوں نہیں کرتے

یوں کھڑے ہو ہجوم سے کٹ کے

تم سڑک پار کیوں نہیں کرتے

روح کچھ کہتی ہے کرتا ہے بدن اور ہی کچھ

دونوں مل جائیں کوئی ایسی کرامات کرو

لے گئی آخر کہاں نان و نمک کی جستجو

شہر نا پرساں میں پھرتے ہیں بچارے اجنبی

تمھاری آنکھوں میں اپنائیت کمال کی ہے

نگاہ پھیرتے ہی تم پرائے لگتے ہو

ہزاروں سائے ہیں بے دست و پا دھوئیں جیسے

ہمارے خواب کی پہچان پیکروں سے نہیں

زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

مگر سوچو کہ ایسا کب نہیں ہوتا

ہر آدمی کو شک کی نظر سے نہ دیکھیے

دو چار اچھے لوگ بھی رہتے ہیں شہر میں

دن رات روشنی کا تسلط سروں پہ ہے

پرچھائیں بن کے آدمی رہتے ہیں شہر میں

ہر شخص دیکھتا ہے یہاں خواب بے سبب

اصلی مزہ تو خواب کی رسوائیوں میں ہے

ہر چند جسم و روح میں اک ربط ہے مگر

یہ ربط بھی ادھوری شناسائیوں میں ہے

نکل گئی ہے بہت دور زندگی لیکن

چلے چلو کہ رہے گا مزا تعاقب میں

خدا کا شکر کہ ہم گھر کو لوٹ آئے ہیں

قدم قدم تھا کوئی حادثہ تعاقب میں

گھر ہی رہتا ہے تصور میں جہاں جاتا ہے

آدمی گھر کے سوا اور کہاں جاتا ہے

کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں

دل ہنستا آنکھیں روتی ہیں

ایک ہی شخص نے رکھا مجھے الجھا کے بہت

ورنہ تھے میرے لیے کام تو دنیا کے بہت

ڈرتے ہوئے کہتا ہوں کہتے ہوئے ڈرتا تھا

میں تم پہ نہیں اپنے پندار پہ مرتا تھا

بس ایک بار ملی جس کو مل گئی دنیا

کہاں یہ خواب دوبارہ دکھائی دیتا ہے

وفا کے کھیل میں سب کچھ گنوا کے بیٹھے ہیں

حساب جوڑتے رہتے ہیں پائی پائی کا

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ چھپاؤں کیا کیا

میں بالفاظ دگر تم کو بتاؤں کیا کیا

لے کے جانا نہیں کچھ مجھ کو تری دنیا سے

فکر یہ ہے کہ یہاں چھوڑ کے جاؤں کیا کیا

کوئی سنے نہ سنے گفتگو کیے جاؤں

ہر ایک شے کو ترے روبرو کیے جاؤں

تاجران سربازار جہاں سے پوچھو

کیا وہ تم کو کوئی انسان بھی دے سکتے ہیں

جو کیا آپ نے وہ آپ کی فطرت میں تھا

میں سمجھ ہی نہ سکا جوش محبت میں تھا

وہی حوا ہے وہی دانۂ گندم کی طلب

آج بھی میں وہی آدم ہوں جو جنت میں تھا

ابھی تو اپنے سوا کچھ نظر نہ آئے گا

نہ میں رہوں گا تو کیا کچھ نظر نہ آئے گا

ہر شخص مطمئن ہے یہاں سب کو کیا ہوا

دن کی تپش کو،  تیرگی شب کو کیا ہوا

ہوا کے زور سے ممکن نہ تھا بچاؤ مگر

لچک تھی جن میں بہت وہ درخت کم ٹوٹے

ابھی پڑوس کے بچوں نے پھل اتارے تھے

ہرے درخت،  تعجب ہے کس حساب جلے

جو گھر جلے ہیں وہ دو دن میں ہم بنا لیں گے

مگر جو بیگ جو کمپاس جو گلاب جلے

رنج کیسا کہ اسی عالم آب و گل میں

میں بھی موجود ہوں مفروضہ صداقت کی طرح

دیکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں سب دیکھ لیا

ہاں مگر یہ نہیں معلوم کہ کب دیکھ لیا

رات بھر خوابوں کی بارش دیدۂ نم پر ہوئی

آج پہلی بار دنیا مہرباں ہم پر ہوئی

سبھی کو شہر کے حالات کا ملال تو ہے

کوئی بدل نہیں سکتا مگر خیال تو ہے

جواب آئے کہیں سے یقیں نہیں لیکن

ہماری سوچ میں ہر آن اک سوال تو ہے

قدم نہ آگے بڑھائیں تو کیا کہے گا دل

ہماری جان کے جانے کا احتمال تو ہے

سنگین خامشی میں چھپی تھی کوئی صدا

پتھر کا نقش بھی لب اظہار سا لگا

یہ کس کی یاد آئی قدم میرے رک گئے

جھونکا ہوا کا راہ کی دیوار سا لگا

میں بھی ہر چند اسی شہر کا باشندہ ہوں

میری تقصیر فقط یہ ہے کہ میں زندہ ہوں

چھوڑ دی جس کی محبت میں ہوس کی دنیا

آج اسی نے مجھے دنیا کی نظر سے دیکھا

دل عجب آئینہ عکس فراواں نکلا

شکل اپنی ہی نظر آئی جدھر سے دیکھا

تو میری طرف آنکھ اٹھا کر تو ذرا دیکھ

کیا رنگ چھپے ہیں مری سادہ نگہی میں

ہے مری روح کو صدیوں کی مسافت درپیش

تو مرے پاس سہی دور مگر ہے کتنا

میں اپنے آپ میں تنہا کبھی نہیں ہوتا

مجھے ہجوم کا قیدی بنا کے رکھنا تھا

لگا رہا ہوں عبث جاگتے رہو کی صدا

نہیں خیال کہ سوئے ہوئے سماج میں ہوں

میں ایک راز ہوں اور میری ٹوہ میں سب ہیں

یہ لوگ کرکے ہی چھوڑیں گے بے لباس مجھے

خوش منظری کا زور عجب کیا اتار دے

آنکھوں میں عکس ناب کا کانٹا اتار دے

رہتا تو ہوں اداس پر آتی بھی ہے مجھے

ایسی ہنسی کہ آپ کا چہرہ اتار دے

ملی ہے اس کو بڑی مشکلوں سے ایک پناہ

وہ اپنے آپ سے نکلے تو پھر کدھر جائے

چھپا رہا ہوں لکیروں میں اپنی آوازیں

مگر یہ لوح نہ محور سے ہی اتر جائے

فریاد کہاں شیوۂ تحسین طلب سے

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو معقول سبب سے

رہتی تو نہیں دل میں ملاقات کی خواہش

بازار چلے جائیں تو مل لیتے ہیں سب سے

ہر پیکر سرسبز ہیولا ہے انی کا

آنکھوں میں مری عکس ہے کس ناگ پھنی کا

کس نے اپنے آپ کو رکھا بچا کر

وقت سب کو خرچ کرنا جانتا ہے

٭٭٭

تشکر : شاعر جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید