FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

 

 

نا معلوم

 

 

ماخذ:

۱۔اردو انسائکلو پیڈیا، کاؤنسل برائے فروغ اردو زبان، حکومتِ ہند

۲۔ویب پر ’اردو پیڈیا‘

http://urdupedia.in

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تعارف

 

 

سنسکرت اگر چہ ۱۹۵۱ء میں ہندوستان کی مردم شماری میں ۵۵۵ اشخاص نے اپنی مادری زبان سنسکرت درج کروائی تھی۔  لیکن یہ تعداد ۱۹۶۱ء کی مردم شماری کے وقت ۲۴۵۵ ہو گئی۔  سنسکرت ہندوستان کی قدیم زبان ہے جس میں ہندوؤں کا بہت سا مذہبی اور فلسفیانہ ادب تصنیف کیا گیا ہے۔  آج بھی یہ مستند زبان ہے اور ہر سال اس زبان میں مختلف رسالے اور کتابیں شائع ہوتی ہیں۔  گزشتہ ۲۲ سال میں دس سے زیادہ فاضل عالموں کو ساہتیہ اکیڈمی نے ان کے قابل قدر ادبی تصنیف کی بنا پر خاص عزت عطا کی ہے۔  ان علما میں ایسے بزرگوں کے نام داخل ہیں ، جیسے پی وی کانے ، گردھر شرما چترویدی، گوپی ناتھ کوی راج، وی راگھون، ستیہ ورک شاستری ایم ایس آنے وغیرہ‘‘۔  حکومتِ ہند نے وزاتِ تعلیمات کے تحت سنسکرت کے ایک مرکزی بورڈ کی تشکیل کی ہے جس سے تصنیف و تالیف کی اشاعت اور روایتی علوم کے مدارس کو امداد دی جاتی ہے۔  سنسکرت کی جامعات و اراناسی اور دربھنگہ میں ہیں ، اور پونا و شانتی نکیتن میں اعلیٰ تعلیم کے مخصوص مرکز قائم ہیں۔  یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا ہے کہ جواہر لال نہرو نے بالکل صحیح کہا تھا ’’اگر مجھ سے دریافت کیا جائے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی دولت کیا ہے اور ہندوستان کی وراثت میں ہمیں کیا ملا ہے تو میں یقین کے ساتھ کہوں گا کہ یہ وراثت سنسکرت زبان اور سنسکرت کا ادب ہے اور تمام دولت اس کے اندر ہے۔  ‘‘ ذیل کے صفحات میں اس وسیع سمندر کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے جس کو نہ مکمل کہا جا سکتا ہے نہ جامع، نہ محتوی۔

 

 

تاریخ

 

 

 قدیم تصنیفوں اور ان کے مصنفوں کے معین زمانہ کے متعلق علما کی ایک رائے نہیں ہے۔  قدیم علم و فضل اور شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ زبانی روایات پر چلتا رہا۔  اگر چہ سنسکرت کی رزمیہ نظموں اور صرف و نحو کے ماہرین کی تصانیف بلکہ بودھوں کے کتابوں میں بھی حوالے پائے جاتے ہیں۔  لیکن سب قدیم کتبہ جو کرنل پیپ کو پیراوا میں ملا ہے وہ برہمن رسم الخط میں ہے اور پہلی صدی ق۔  م میں پایا گیا ہے۔  پہلا دیوناگری کتبہ توآتی ہوں کا ہے۔  چند علما سمجھتے ہیں کہ پہلا سنسکرت کتبہ شاہ نہپان (۱۱۹ء) کے غار نمبر ۱۰ میں ہے۔  اور دوسرے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ردر دمن کا جونا گڑھ والا کتبہ سب سے زیادہ قدیم ہے۔  تما م شہادتوں کو پیش نظر رکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دیوناگری رسم الخط میں لکھی ہوئی سنسکرت کا زمانہ ۱۸۰۰ء سال سے زیادہ قدیم نہیں ہے۔  عام طور پر سنسکرت زبان دو منزلوں میں بیان کی جاتی ہے۔  ویدک اور غیر ویدک (یہ بھی مستند ہے ) ابتدائی سنسکرت بعد کی سنسکرت سے اپنے طریقہ تلفّظ صرف و نحو کی خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہے ، حتیٰ کہ اسم کی گردان بھی مختلف ہے اور سابقہ اور لاحقہ کی نوعیت بھی مختلف ہے۔  ابتدائی سنسکرت کی صرف و نحو سادہ اور لچک دار ہے۔  بعد کی سنسکرت ثقیل ہو کر مرکب الفاظ سے بھر گئی ہے۔  یہاں تک کہ نظم کی شکلیں بھی مختلف ہو کر مرکب الفاظ سے بھر گئی ہے۔  یہاں تک کہ نظم کی شکلیں بھی مختلف ہیں۔  ویدوں میں شاعری کی شکلیں صرف سات ہیں (گایتری، اُش نِک، انش ٹبھ، بری ہتی، پنکتی، ترش ٹبھ، جگتی) بعد کی سنسکرت نے شعر کے اصلی نمونوں کے علم عروض کے لحاظ سے ارتقا پایا ہے ، جس کی اساس الفاظ اور ان کے حرف علّت ہیں۔  علما اس امر کے متعلق متفق نہیں ہیں کہ سنسکرت گفتگو کی زبان ہے یا نہیں اور کس زمانہ میں یہ ادبی زبان ہو گئی یا صرف مذہبی رسوم کی ادائیگی کی زبان بن پائی۔  والمیکی رامائن کے سندر کانڈ میں یہ ذکر آیا ہے کہ برہمن یا ’’دو جاتی‘‘ لوگ سنسکرت بولتے تھے۔  یاسک اور صرف و نحو کے ماہر پانِنی نے غیر مذہبی رسوم کی سنسکرت کو ’’بھاشا‘‘ کہا ہے ( جوبولی جاتی ہے ) کاتیاین نے مشرقی اور شمالی گفتگو کے طریقوں کی خصوصیات کو بیان کیا ہے۔  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مہابھارت کی تصنیف کے زمانہ میں بلکہ پانِنی کے زمانہ تک ہندو سماج ایک بالکل کھلا ہوا سماج تھا اور برہمن اور غیر برہمن ایک مشترک زبان استعمال کرتے تھے ورنہ ترسیل اور میل جول ناممکن ہو جاتا۔  لیکن منو کی ایسی قانون سازی کے بعد کہ شودروں اور عورتوں کو سنسکرت نہیں سیکھنا چاہئے۔  سماج نے آہستہ آہستہ ایک دوسری خصوصیت اختیار کر لیا ور ہرش وردھن (نویں صدی) کے زمانہ تک جب کہ سنسکرت بہت پیچیدہ اور مزین ہو گئی تھی اور دوسری ملکی زبانیں ترقی پارہی تھیں تو سنسکربتدریج ’’چند منتخب‘‘ افراد کی زبان ہو کر رہ گئی اور ابھی تک یہ اسی طرح ہے۔  یہ کہنا مشکل ہے کہ اس ملک میں (۷۰) فیصد ناخواندہ لوگوں کے ساتھ انگریزی جاننے والے زیادہ ہیں سنسکرت جاننے والے۔  دراصل سنسکرت جاننے والے لوگ بہت کم ہیں۔  

 

 

 

 

وید

 

 

سب سے زیادہ قدیم اور ابتدائی ادب وید ہے۔  وید ’’وِد‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’علم‘‘ ان میں منتر ہیں جن کو پڑھ کر مذہبی رسوم میں دیوتاؤں کوبلایا جاتا ہے جن کی کتابوں میں ایسی قربانیوں یا (یٰگیّوں کے قواعد و ضوابط بیان کیے گئے ہیں ) ان کو ’’برہمن‘‘ کہتے ہیں۔  ان کے مزید تین حصے ہیں۔  برہمن ارنیک اور اپنشد، آرنیکو میں ان گوشہ نشین اشخاص کے روزانہ فرائض کا ذکر ہے جو جنگلوں میں خاموشی اور خلوت پسندی کے طلبگار ہوتے ہیں۔  اپنشد تو بلندتر نظری اور فلسفیانہ منتروں اور مابعد الطبیعیاتی مکالموں سے بھرے ہوئے ہیں۔  ان سب میں خدا (برہمہ) کے لیے انسان کی تلاش کی تشریح اور رہبری کی گئی ہے۔  اس کے علاوہ ’’کلپ سوتر‘‘ میں جویگیہ اور مذہبی رسوم میں کرنے اور نہ کرنے کے احکام کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔  اس کی بھی چار قسمیں ہیں (شراوت، گیری ہیہ، دھرم، شلب)۔ 

وید چار ہیں۔  رِگ، یجر، سام، اَتھر، رچایا منظم منتر سے رِگ حاصل کیا گیا ہے۔  اور یجن یا آگ کے ساتھ قربانی سے یجر حاصل ہوا ہے۔  سام کا مطلب ہے موسیقی ان کے علاوہ چوتھے کو اتھر وید کہتے ہیں۔  اتھرون آگ کے پروہت کا خطاب ہے۔  اس وید میں کالے جادو کے منتر ہیں اور دنیاوی فوائد کے عقیدے بیان کیے گئے ہیں۔  ویدوں کی مزید متعدد شاخیں ہیں۔  سب سے قدیم موجودہ رِگ وید کے متن میں ۱۰منڈل یا باب ہیں اور ۱۰۱۷ ’’باب‘‘ ’’شوکت‘‘ یا نظمیں ہیں۔  دوسرے سے ساتویں منڈل تک کا حصہ سب سے قدیم ہے۔  ہر ایک باب ایک خاص رشی سے متعلق کیا گیا ہے۔  پہلا اور دسواں منڈل بعد کے معلوم ہوتے ہیں۔  آریہ سماج کے عقیدہ کے مطابق وید ہی آخری سند ہے اور یہی ہندوؤں کی الٰہی کتاب ہے۔  مذہبی قدروں قیمت کے علاوہ ویدوں میں بے حد نفیس شاعری ہے جو مختلف دیوتاؤں مثلاً روشنی کے دیوتا، آگ کے دیوتا اور بارش کے دیوتا وغیرہ کی شان میں کی گئی ہے ، اسی طرح منڈل ۱۰-۱۰ میں یم اور یمی کے درمیان ۱۰-۹۵ پر پرو روا اور اروشی کے درمیان اور ۱۰-۱۴۵ میں تقریر کی دیوی کی پکار بہت مشہور اور بے حد دلچسپ اور عجیب و غریب مکالمے ہیں۔  تخلیق کا سوکت (ناسدیہ سوکت) ۱۰-۱۲۱بہت مستند ہے۔  پُرش سوکت ۱۰-۱۰ میں یہ حوالہ دیا جاتا ہے کہ چار ذات بھی اس ذات الٰہی کے چار اجزا ہیں۔

 

 

 

 اُپنشد

 

 

کتب خانہ اڑیا رمدراس سے اپنشدوں کی اشاعت ہوتی ہے جن میں ۱۹۸ اپنشد ہیں۔  ان میں سے ایک تو’’اللہ اپنشد‘‘بھی ہے۔  ظاہر ہے کہ یہ کتاب بعد کے زمانہ کی ہے۔  ایک گجراتی مجموعہ میں ایسے ۲۲۳ اپنشد ہیں۔  لیکن دس اپنشد سب سے قدیم اور مستند مانے جاتے ہیں اور شنکر آچاریہ نے ان کی تفسیر لکھی ہے۔  ان کے نام ہیں۔  ایش، کین، کٹھ، پرشن، منڈر، مانڈوکیہ، تیتریہ، ایتریہ، چھاندوگیہ، برہدارنی، ان میں زیادہ تر فلسفیانہ مباحث ہیں۔  اخلاقی ضرب الامثال ہیں کچھ تمثیلات اور مجازیہ قصے وغیرہ ہیں۔  بعض جگہ اساسی سوالات دریافت کیے گئے ہیں اور اپنے نقطۂ نظر کی چھوٹی سے چھوٹی بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں۔  مثال کے طور پر ایک گرو اپنے چیلے کو ایک پھل چن کر لانے کو کہتا ہے ، اس کو پھوڑنے کے لیے کہتا ہے اور دوبارہ توڑ نے کے لیے کہتا ہے ، اس میں بیج کے سوائے اور کچھ نہیں رہتا۔  گرو اس بیج کو بھی توڑ پھوڑ ڈالنے کے لیے کہتا ہے۔  اس کے بعد اس میں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔  اس لیے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ برہمہ سب میں پھیلا ہوا ہر جگہ موجود ہے اور ہر ایک شے سے ماورا ہے ، جیسے کہ بیج ہی ہر ایک پہلو سے درخت کا سب کچھ ہے۔  یہاں صرف مذہبی رسوم ہی نہیں بلکہ زیادہ تر مجرّد فکر موجود ہے۔ ‘ سب س   ان کتابوں کو مختلف رشیوں سے متعلق کیا جاتا ہے۔  ان میں سے بعض خواتین بھی ہیں ، مثلاً گارگی، کاتیاینی اور میترینی وغیرہ ان میں خاص حیثیت رکھتی ہیں۔  ان میں چند گہری اور خالص صداقتوں کا اظہار بہت ہی راست اور سادہ زبان میں ہوا ہے۔  چنانچہ اس اُپنشد کے فقرے ہیں ’’صداقت کا چہرہ ایک سنہری نقاب سے چھپا ہوا ہے۔  براہِ کرم اس کوہٹا دیجیے اور مجھے صداقت کا درشن کرا دیجئے۔  ‘‘ ’’ جو لوگ صرف مادّی دولت کی جستجو کرتے ہیں وہ اندھی گلی میں جاتے ہیں اور جو اپنے کو بالکل سُپرد کر دیتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ اندھی گلی میں جاتے ہیں۔  ‘‘ حکومت ہند کا ا صول عمل ’’ستیہ میو جئے تے ‘‘ (صداقت کی فتح ہوتی ہے ) یہ بھی اپنشد سے لیا گیا ہے۔  مہاتما  گاندھی کی روزانہ پرارتھنا میں ایش اُپنشد داخل ہے۔  ٹیگور نے اپنے شانتی نکیتن کے اصول عمل کے لیے اپنشد سے ایک فقرہ لیا ہے ’’جہاں کہ کائنات ایک آشیانہ کے مانند ہے ‘‘ عام انسانوں کو پڑھنے کے لیے سب سے بہترین کتاب آلڈس ہکس لے کا ’’دائمی فلسفہ‘‘ اور کرسٹوفر ایشروڈ کا ترجمہ اپنشد ہے۔  ہندوستانی مصنفوں میں سی راج گوپال آچاری اور ونوبابھاوے کی شایع کی ہوئی ایش اپنشد کی تفسیر اور رادھا کرشن کی خاص دس اپنشد انگریزی زبان میں قابل قدر کتابیں ہیں۔  ڈاکٹر رانا ڈے کی تصنیف تمام ہندی نظاماتِ فلسفہ کو اپنشد کے اصل ماخذ سے ڈھونڈ نکالتی ہے۔ 

 

 

 

 

پُران۔۔ رامائن اور مہا بھارت

 

 

 

سنسکرت ادب میں اپنشد سے ہٹ کر دوسری اہم منزلیں والمیکی کی ’’رامائن‘‘ اور ویاس کی ’’مہا بھارت‘‘ ہیں۔  ان دونوں میں سے کونسی کتاب ایک دوسرے سے پہلے لکھی گئی ہے اس کے متعلق سے کونسی کتاب ایک دوسرے سے پہلے لکھی گئی ہے اس کے متعلق علما متفق نہیں ہیں۔  صدیوں تک ان دونوں کتابوں نے سینکڑوں شاعروں اور ڈرامہ نگاروں کو بے حد نفیس مواد فراہم کیا ہے۔  بھبھوتی کا صرف ایک المیہ ناٹک ’’اُتررام چرتر‘‘ اپنی بنیاد رام کے ضمنی قصہ پر رکھتا ہے۔  ’’مہا بھارت‘‘ سے ’’شکنتلا‘‘ کے قصہ در قصہ کو استعمال کر کے کالیداس نے اپنے زندۂ جاوید ناٹک کی تصنیف کی ہے۔  اور بھی ایسی کئی ایک مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔  وید ک زمانہ کی ازلی حور اُروشی کے قصے سے کالیداس کو (وِکرم اُروشی کے ناٹک) شاعرانہ وجدان حاصل ہوا۔  ٹیگور نے بھی اس نام پر اپنی ایک نظم کی بنیاد رکھی تھی۔  سری ارویندر نے انگریزی میں ، دنکر نے اپنی رزمیہ نظم ہندی میں اور وی ایس کھانڈے کر کا مرہٹی ناول، ’’یکیاتی‘‘ بھی پرانوں کے بزرگارِ دین کی سوانح پر اپنی بنیاد رکھتے ہیں۔  کل اٹھارہ پران اس وقت دستیاب ہیں۔  ۶۰۰ء کے بعد کے قبیلوں کا ذکر پرانوں میں نہیں پایا جاتا۔  آخر بادشاہ جس کا ذکر آیا ہے وہ ہرش ہے۔  اس طرح ان سب پرانوں کی تصنیف کے زمانہ کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔  لوک مانیہ تلک کا خیال ہے کہ وہ دوسری صدی عیسوی کے قبل لکھے گئے ہیں۔  پرگیتر سمجھتے ہیں کہ ان کا تعلق پہلی صدی عیسوی سے ہے۔  ڈاکٹر ہزرا نے ذیل کی تاریخیں مقرر کی ہیں۔  

وشنو پران (۴۰۰ء)

وایو پران (۵۰۰ء)

بھاگوت پران (۶۰۰ء۔۷۰۰ء)

کورم پران (۷۰۰ء)

اگنی پران (۸۰۰ء)

ڈاکٹر ایس کے ڈے اور بی وی کانے اگنی پران کے منظوم حصوں کے تصنیف کو (۹۰۰) صدی عیسوی کا بتاتے ہیں۔  ان کتابوں سے کائنات کی ابتدا اور دیوتاؤں ان کی ترتیب و تنظیم کا حال معلوم ہوتا ہے۔  یہ سب اوتاروں کی کتھاؤں سے بھرپور ہیں۔  

 

 

 

 

ہندوستانی رزمیہ

 

 

ہندوستانی رزمیہ نظم کا تصور ارسطاطالیسی تصور سے مختلف ہے۔  سنسکرت کے مطالعہ شاعری کے مطابق رزمیہ نظم میں چند خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔  مثلاً

(۱) آغاز میں شاعری کی دیوی سے طالب فیضان ہونا

(۲) اس کو کئی ایک باب میں تقسیم کرنا چاہئے۔  جنہیں ’’سرگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

(۳) ایسے باب ۴ سے ۳۰ تک ہوسکتے ہیں۔  

(۴) ہر ایک باب میں ۳۰ سے ۲۰۰ تک شلوک (اشعار) ہونے ضروری ہیں۔  

(۵) اس میں طلوع آفتاب، غروب آفتاب، ندی نالے ، محبت سے پیار کرنے کی باتیں ، مسرت سے سیر کرنے کے افکار اور چھ موسموں کا حال اور ایسی ہی باتیں ہونی چاہئیں۔  

(۶) قصہ میں پانچ سندھیوں کے فطری طور  پر کھلنے کا ذکر ہونا چاہیے

(۷) اس میں تمام خاص ’رسوں ‘‘ کو موجود ہونا چاہیے

(۸) اس میں شعر کے مختلف وزن یا بحر کی ضرورت ہوتی ہے۔

  اشوگھوش کی لکھی ہوئی سب سے قدیم رزمیہ نظمیں ’’بُدہ چرت‘‘ اور ’’سندر آنند‘‘ میں بدھ چرت کا ترجمہ ایڈون ارنولڈ نے کیا ہے اور اس کا نام ’’نورایشیا‘‘ رکھا ہے۔  دوسری اہم اور مستند رزمیہ نظمیں ان شاعروں کی ہیں جن کے نام ذیل میں درج کیے گئے ہیں۔  کالیداس، میگھ دوت، رگھونش، کمار سمبھو، رتو سمہار۔  بھاروی: کبرات اجنیۂ بھٹی: راون ودھ کمار داس: جانکی ہرن ماگھ: ششو پال ودہ سری ہرش: نئے شدہ یوں تو اور بھی دوسری چھوٹی رزمیہ نظمیں ہیں۔  لیکن کالی داس ان سب میں اپنی شاعرانہ بصیرت، فن، موزوں تمثیلات، تخیل انسانی فطرت کی عکاسی اور قوت بیان کے باعث سب سے اعلیٰ درجہ کا ہے۔  افسوس ہے کہ اس کی زندگی کے حالات بہت کم معلوم ہیں۔  علما نے اس کو پہلی صدی سے (سرولیم جونس، ڈاکٹر پیٹرسن، ایس۔  رائے بال سبرامنیم، ڈاکٹر بی ایس اپادھیائے ) لے کر چوتھی صدی بلکہ پانچویں صدی یعنی گپتا کے عہد تک رکھا ہے۔  (ڈاکٹر وی وی مراشی، ڈاکٹر سوریہ کانت وغیرہ۔  ) انگریزی میں کالی داس پردو تصنیفیں مصنفہ ڈاکٹر وی وی مراشی اور ڈاکٹر بھگوت شرن اپادھیائے علم و فضل کے بہت اچھے نمونے ہیں۔

 

 

 

 

  تنتر اور بودھو کی سنسکرت تصانیف

 

 

  ہم جب رزمیہ نظموں ، پرانوں اور تاریخ کی بحث کرتے ہیں تو سنسکرت کے علما ان تینوں کو کاویہ، اتہاس، پر ان ایک سانس میں بیان کرتے ہیں۔  ہمیں سنسکرت تصانیف کی ایک بہت اہم شاخ کو بھولنا نہ چاہیے۔  جس سے آستک خیال کے لوگ احتراز کرتے ہیں۔  لیکن مغربی علما نے ا س کی طرف توجہ دی ہے۔  اس لیے کہ اس میں فن لطیفہ کی جدید نفسیات کی بصیر اور مذہب اور جنسیت کے متعلق فرائڈ کے بعد کے تصورات موجود ہیں۔  اس کو تنتر کہتے ہیں۔  جس کے معنی ایسے لفظ سے نکالے گئے ہیں جس کے معنی طریقِ عمل اور اصول ہیں۔  گیان (علم) یوگ، کِریا یا مشق یا اصولِ فن اور ’’چریا‘‘ یا روز مرّہ کی مصروفیت یہ سب اس کی قسمیں ہیں ، جہاں تک کہ تانترک علم کے تصوف کے پہلو کا تعلق ہے۔  اس کے مطابق شنکر کے ادویت یا وحدت الوجود سے ہوتی ہے۔  اس تصوف کے علاوہ ایک تقدیس اس سے متعلق کی جاتی ہے اور مذکر و مونث کے اتحاد کے اصول کی اچھی بنیاد کا اشارہ ملتا ہے۔  یوگ تو زیادہ تر یکسوئی قلب کو کہتے ہیں۔  یہ لفظ ’’یج‘‘ مادہ سے مشتق ہے۔  یعنی جذب ہو جانا۔  اس زبردست قوت کو حاصل کرنا گویا جادو گری کی حد تک شجاعت غیر معمولی حس ادراک اور آٹھ سدّھیاں یا نشان امتیاز حاصل کرنا ہے۔  اس لیے تنتر کو ’’مایا یوگ ‘‘ بھی کہتے ہیں۔  ’’کریا‘‘ یا عمل میں مندروں کی تعمیر کے طریقے ، مجسموں کو تراشنے کا کام اور دوسری مذہبی رسوم کی ادائیگی اور عبادت داخل ہیں ، اور آخر میں تہواروں کے دستور اور بعض سماجی بلکہ غیر سماجی سلوک پر عقلیت کا رنگ چڑھا کر حق بجانب ثابت کیا جاتا ہے۔  بعض علما خیال کرتے ہیں کہ تانترک تحریک برہمنوں کے خلاف ایک کارروائی ہے۔  دوسرے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ ابتدائی قبیلوں کی عبادت اور بودھو کے وجریان کا اتحاد ہے تانترک عملیات نہ صرف بنگال، آسام اور متھلا میں مقبول ہوئیں بلکہ ہندوستان سے آگے نیپال اور تبت میں بھی پہنچ گئیں۔  ان مقامات میں بھی تنتر کا بہت عمل ہوتا ہے۔  سنسکرت میں لکھی ہوئی چند کتابیں بہت قدیم ہیں۔  سب سے قدیم قلمی مسودے ساتویں سے آٹھویں صدی کے معلوم ہوتے ہیں۔  تنتر کا ذکر کہیں بھی مہابھارت میں یا کسی ابتدائی چینی مسافروں کے بیان میں نہیں پایا جاتا۔  آٹھویں صدی میں بودھوں کے تنتر کا ترجمہ چینی زبان میں کیا گیا۔  اور نویں صدی میں تبتی زبان میں درگا ماتا کی پوجا کا ذکر ویدوں میں ہے۔  لیکن بعد میں اس میں غیر آریائی اور عوام کے مذہبی پوجا پاٹھ کی بہت آمیزش ہو گئی ہے۔  آگم ادب عام طور سے کشمیر سے نکلا ہے اور تانترک ادب بنگال سے۔  چند کتابیں جنوب میں بلکہ دور کے سیام میں بھی تصنیف کی گئی ہیں۔  آگم تنتر تو فلسفیانہ ہیں ان کو ’’پرتیا بھگیا درشن‘‘ کہا جاتا ہے۔  اس کی بنیاد ثنویاتی شیو فلسفہ پر ہے جس میں شیو اور شکتی کو مساوی اہمیت اور مقام حاصل ہے سومانند ناتھ (۸۵۰-۹۰۰ء) اور اس کے شاگرد اُت پل (۹۰۰-۹۵۰ء) اور ابھنو گپت (۹۹۳-۱۰۱۵ء) کی لکھی ہوئی تنترلوک بہت ہی مشہور تصنیف ہے۔  پانچویں صدی کی ’’اہیر بدھنیہ سمہتا‘‘ جو کشمیر میں تصنیف کی گئی تھی اور شنکر آچاریہ کا ’’مہانروان اور کلب آرنو‘‘۔  بھاسکر کی ’’کلی ولاس‘‘ اور کرشنن ڈنڈ کا ’’تنترسار‘‘ کافی بڑی کتابیں ہیں۔  بودھی سنسکرت مصنفوں میں ایک تومہابانی ہیں۔  اشوگھوش (۱۰۰ء) بہت مشہور اور عقلیت پسند مصنف ہے جس نے ’’وجر سیوہی‘‘ لکھی ہے۔  ’’للت وستر‘‘ بودھوں کے پران کی ایک قسم ہے۔  اس کا ترجمہ تبتی زبان میں پانچویں صدی اور ۳۰۰ء میں چینی زبان میں کیا گیا تھا۔  اس سے ایک اشارہ لے کر اشوگھوش نے ’’بدھ چرت‘‘ لکھی۔  بعض علماء خیال کرتے ہیں کالی داس پر اشوگھوش کا اثر تھا لیکن بہت سی چیزیں شک کرنے کے لیے بھی موجود ہیں۔  آریہ شور نے سنسکرت میں ’’جاتک مالا‘‘ لکھی۔  مہایانیوں کی دوسری بہت سی بودھی کتابیں سنسکرت میں دستیاب ہیں جیسے ’’سددھرم پنڈریک‘‘۔

 

 

 

 

  ڈرامہ

 

 

 

سنسکرت ڈراما بہت ہی قدرو قیمت کا ادبی توشہ ہے۔  بھر کا ناٹیہ شاستر (فن ڈرامہ) تیسری صدی کا ہے۔  یہ بڑی محنت سے تیار کیا ہوا رسالہ ہے جس میں اسٹیج اداکار، اداکاری کا ہنر، تقریر اور اس کا زور، شاعرانہ اسالیب، موسیقی کے طریق اور ناچ کے موزوں مصنوعی انداز (مُدرا) کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔  سنسکرت کتابوں کے مطابق ڈراما کی دس قسمیں ہوتی ہیں۔  اور ذیلی ڈراما ۱۸ قسم کے ہوتے ہیں۔  کالی داس کا ’’شکنتلا‘‘ ایک ناٹک ہے۔  بھبھوتی کا ’’مالتی مادھو‘‘ ایک پرکرن یعنی قصہ ہے۔  مند روکرم وامن کا ’’مالتی ولاس‘‘ ایک ہرہسن یعنی مزاحیہ ڈراما ہے۔ 

اس وقت تقریباً سنسکرت کے ۶۵۰ قدیم ڈرامے دستیاب ہیں۔  سب سے قدیم ڈراما نویس بھاس ہے جس کا پتہ ٹی گنپتی نے ۱۶۱۲ء میں ٹراون کور کے نزدیک لگایا تھا۔  بھاس کا عہد ۱۵۰ء سے ۲۵۰ء تک ہے۔  بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ پانچویں صدی کا ہو گا۔  گنپتی اس کو تیسری صدی ق۔  م میں شمار کرتا ہے۔  ا س کے ڈراموں کی بنیاد رامائن اور مہابھارت پر ہے۔  اس کے علاوہ دو ناٹک اُدین کے قصہ پر مبنی ہیں اور دو اُس کے تخیل پر۔  پُر مغز مکالموں ، اظہار کے درو بست۔  اور نفسیاتی بصیرت اور حقیقی سیرت نگاری کے لحاظ سے بھاس جدید ڈراما کے بہت قریب ہے۔  بھاس ناٹک سے متعلق تمثیلی ستم ٖظریفی کا استعمال بڑی ہوشیاری سے کرتا ہے۔  اس کے بعد کالی داس آتے ہیں جس کے تین ڈراموں نے ساری دنیا میں شہرت حاصل کی ہے۔  گیسٹے نے اپنے ’’فاوسٹ‘‘ کی تمہید کی بنیاد شکنتلا پر رکھی ہے۔  اور شِلر اس پر فریفتہ تھا۔  کالی داس بحیثیت شاعر بعض اوقات ڈرامہ نویس کی حیثیت سے کہیں بڑھ چڑھ کر نظر آتا ہے ، لیکن رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے مضمون میں شکنتلا اور میرانا کو ہیروئن کی حیثیت سے مقابلہ کرتے ہوئے شیکسپیر سے بھی اعلیٰ درجہ کا تسلیم کیا ہے۔  جناب حکمت نے شکنتلا کا ترجمہ فارسی میں کیا ہے اور ساغر نظامی نے اردو میں۔  دوسرے ڈرامے اور ڈرامہ نویس جن کا ہمیں بخوبی علم ہے حسب ذیل ہیں۔  (پانچویں صدی عیسوی) ’’شوورک مریچھ کٹک ’’(مٹی کی چھوٹی گاڑی) بہترین حقیقی ڈراما ہے جس کا ترجمہ اردو زبان میں حبیب تنویز نے کیا ہے۔  ) ۷۰۰ عیسوی، بھبھوتی، اتررام چرتر ۶۰۶ -۶۴۸ عیسوی۔  سری ہرش، ناگ نند چھٹی صدی عیسوی۔  وشاکھادت۔  مدرا راکشس ۱۰۰۰ عیسوی۔  دنگ ناگ۔  کندمالا۔  اج جی وِلس اور پی لال کے چھ سنسکرت ڈراموں کے انگریزی ترجمے اصل ڈرامہ سے بہت قریب ہیں۔  گیارہویں صدی کے آخرمیں کرشنا مسرا نے ایک تمثیلی اخلاقی ڈرامہ ’’پربودہ چند رادے ‘‘ لکھا ہے جو دوسرے ڈراموں سے بالکل مختلف ہے۔  جہاں ذہنی کیفیتوں کا اداکاروں سے طور پر اشاری طرز میں پیش کیا گیا ہے۔  اور ان کے نام ہیں کام، کرودھ، لوبھ، موہ بخلاف وویک، سنتوس، شانتی، کرونا وغیرہ۔

 

 

 

 

شاعری

 

 

 تغزل کے رنگ کی شاعری اور نظم میں لکھی ہوئی تاریخ کالی داس کا ’’میگھ دوت‘‘ (سفیر ابر) شاعرانہ تخیل کا اعلیٰ ترین شہکار ہے۔  جس کا ترجمہ چینی زبان میں پانچویں صدی میں ہوا تھا اور جس کے ایک سو سے زیادہ ترجمے دنیا کی تمام زبانوں میں موجود ہیں۔  بھرتری ہری کی تین شتک (۱۰۰) شلوک یا اشعار ہیں جن کے نام شرنگار شتک، نیتی شتک اور وَیراگیہ شتک ہیں۔  یہ دنیاوی لذات کی ناپائیداری کی بہت دلچسپ تشریحیں ہیں۔  اس کا انتقال ۶۵۱ء میں ہوا تھا۔  اسی طرز کی ایک ابتدائی تصنیف ’’تھی روکر ل‘‘ ہے جس کی تین جلدیں ، محبت، سیاست اور عبادت سے متعلق ہیں۔  اے شولیٹ زر، اس کو جنوبی ہند کی بہت اہم تصنیف خیال کرتا ہے بلکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پانچواں وید ہے

 ۸۰۰ء کے قبل امرو نے ’’امرو شتک‘‘ کے نام سے ایک سوشلوک لکھے۔  یہ عاشقانہ انداز کی نظم ہے جو زیادہ تر حواسِ خمسہ سے متعلق ہے۔  معلوم ہوتا ہے کہ اس پر واتسیائن منصف ’’کام سوتر‘‘ یعنی فن محبت (۴۰۰ صدی عیسوی) کا کافی اثر تھا۔  غزلیہ شاعروں میں بہترین ایک توجے دیو تھا (۱۱۶۸ء) جس کی لازوال تصنیف ’’گیت گووند‘‘ ہے رادھا اور کرشن کی پاک محبت کی یہ نظم نہ صرف موسیقار اور مصور کی منظور نظر ہے بلکہ شاعرانہ مضمون نگاری کا ایک جوہر ہے اور ہمیشہ کے لییے تازہ اور درخشاں ہے۔  اور شاہجہاں کے دربار کا ایک شاعر پنڈت راج جگناتھ ہے۔  جس کو مغل شہنشاہ نے پنڈت راج کا خطاب عطا کیا تھا۔  اس نے ’’بھامنی ولاس اور گنگا لہری‘‘ تصنیف کیں۔  اس کو ایک مسلمان خاتون سے پیار ہو گیا تھا اور کہاوت ہے کہ اس نے گنگاجی کی شان میں ایک ایک شلوک کہتے ہوئے اسی ندی میں خودکشی کر لی۔ 

آٹھویں صدی عیسوی میں کشمیر کے دامودر گپتا نے کٹنیوں کے مسائل پر ایک کتاب ’’کٹنی متم‘‘ لکھی کئی ایک غزلیہ نظیں مذہبی اغراض کے لیے لکھی گئی ہیں۔  ’’ستوتررتناکر‘‘ (منتروں کا سمندر) میں ایسی ہی نظمیں ہیں۔

 بان بھٹ کی تصنیف ’’ہرش چرت‘‘ میں شاہ رہرش (۶۰۶-۶۴۸ء) کی زندگی کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔  یہ ایک تاریخی رزمیہ نظم ہے۔  وا ک پتی راجا کی تصنیف ’’گوڈوہو‘‘ کا حوالہ پراکرت میں آیا ہے۔  کشمیر کے دو شاعر نظمیہ تاریخ لکھنے میں بہت کامیاب ہوئے ہیں ، بلہن نے ۱۰۸۵ء ’’وکرمانکا دیو چرت‘‘ اور کلہن نے (۱۱۵۸-۱۱۵۹ء) ’’راج ترنگینی‘‘ (بادشاہوں کی ندی) تصنیف کی۔  جس میں کشمیری بادشاہوں کے سلسلہ شاہی کا ذکر ہے۔  اس کا ترجمہ انگریزی میں بڑی قابلیت سے مرحوم آر ایس پنڈت نے کیا ہے۔  نثر میں لکھی ہوئی کتابیں اور افسانے نثر کا استعمال ’’اتھر وید‘‘ کے زمانہ سے ہے۔  ’’یاسک‘‘ کا زبانوں کے تقابلی مطالعہ پر لکھا ہوا رسالہ ’’نروکت‘‘ (۷۰۰۔  ق۔  م) بھی نثر میں ہے۔

 

 

 

فکشن

 

 

 سنسکرت نثر میں لکھنے والے بڑے بڑے منصف اور ان کی تصنیفیں حسب ذیل ہیں۔  مصنف کتابوں کا نام نوعیت انداز سوبندھو واسودت نثر، نظم (ساتویں صدی عیسوی) بان بھٹ کادمبری ناول (ساتویں صدی عیسوی) ہرش چرت سوانح عمری ڈنڈن کاویہ آدرش مطالعہ شاعری پر رسالہ (۸۰۰ عیسویں کے قبل) دس کمار چرت کہانیوں کا سلسلہ نثر کے مشہور مصنفوں میں دھن پال مصنف ’’تلک منجری‘‘ (۱۰۰۰عیسوی) اور ودیا سنگھ مصنف ’’گدیہ چنتا منی‘‘ شامل ہیں۔  امبکا دت ویاس (۱۸۵۸-۱۹۰۰ء) نے ’’شیو وجے ‘‘ تصنیف کی، جو شیواجی کی زندگی کا ناول ہے۔  ہری کیش بھٹا چاریہ (۱۸۵۰ء۔۱۹۱۳ء) نے سنسکرت مضامین لکھنا شروع کیا تھا۔  پنڈت کشما راؤ (۱۸۹۰ء۔۱۹۵۴ء) کی ’’کتھا مکتا ولی‘‘ بھی کافی مشہور ہے۔  یہ بھی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے مقابلہ میں نظم کی کتابیں زیادہ ہیں۔  قصہ کہانیوں کی نوعیت کی بہت سی کتابیں ہیں۔  ’’پنچ تنتر‘‘ سب سے قدیم ہے۔  اس کا پہلا ترجمہ پہلوی زبان میں چھٹی صدی عیسوی میں کیا گیا تھا۔  اس کی سُریانی اور عربی شکلیں ’’کالی لاگ‘‘ اور ’’دم ناگ‘‘ (۵۷۰ عیسوی) اور ’’کلیلہ ودمنہ‘‘ (۷۵۰) عیسوی ابھی تک دستیاب ہیں۔  ’’پنچ تنتر‘‘ کی تصنیف تقریباً (۳۰۰ عیسوی) میں ہوئی تھی۔  اس میں کئی ایک فرضی قصے اور جانوروں کی کہانیاں ہیں۔  ہر ایک کہانی کے آخر میں اس کا اخلاقی نتیجہ نظم میں دیا گیا ہے۔  ’’ہت اپدش‘‘ (لغوی معنی ’’بھلائی کے لیے نصیحت‘‘) میں ۴۳ کہانیاں ہیں۔  جن میں سے (۳۵) ’’پنچ تنتر‘‘ کی ہیں۔  ان ہی کہانیوں کے نمونوں پر بودھو کے ’’جاتک‘‘ اور جینیوں کے ’’اُپ متی بھاؤ پر پنچ کتھا‘‘۔  (۸۰۶عیسوی) تیار ہوئے ہیں۔  گنادھیہ کا ’’کتھاسرت ساگر‘‘ (کہانیوں کا سمندر) شیو داس کی ’’بیتال پچیسی‘‘ اور اسی طرح ’’سنگھاسن بتیسی‘‘ عوام کی کہانیاں ہیں۔  چودہویں صدی میں ودّیاپتی ایک میتھلی شاعر نے ’’پُرش پریکشا‘‘ تصنیف کی۔  یہ بھی ایک کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ 

 

 

 

چمپو

 

 

سنسکرت ادب میں ایک اور دلچسپ صنف ہے۔  جس میں ملی جلی نثر، نظم اور ڈرامائی کی آمیزش ہوتی ہے۔  ایسی تصنیفوں کو ’’چمپو‘‘ کہتے ہیں۔  یہ دسویں صدی سے دسیتاب ہوتی ہیں تی وی کرم بھٹ (۹۱۵ عیسوی) کی لکھی ہوئی ’’نل چمپو‘‘ سب سے قدیم ہے۔  جینی شاعروں میں سے دیو سوری نے یشس تلک پر لکھا اور ہریش چندر نے جیون دھارا پر لکھا۔  دھارا کے مشہور بادشاہ بھوج (۱۰۱۸-۱۰۶۳ء عیسوی) نے سولہویں صدی میں ایک چمپو لکھی تھی تری مالمبہ کی تصنیف ’’ورد امبکا پری نئے ‘‘ ہے ان چمپوؤں کے مضامین زیادہ تر بڑے سورماؤں اور بادشاہوں کے کارنامے اور رزمیہ نظموں کی فرضی کہانیاں ہوتی ہیں۔  ان میں سے بعض ایسے ہیں جن میں اپنے پسند کے دیوتا کے سامنے نام لے کر دعائیں پڑھی جاتی ہیں۔  اٹھارویں صدی میں کرشنا کوی نے مختلف بحر وغیرہ کو مثالوں کے ذریعہ واضح کرنے کے لیے ایک چمپو لکھا ہے جس کا نام ’’مندر مرنڈ چمپو‘‘ ہے۔ 

 

 

 

 

فنِ شاعری

 

 

سنسکرت میں تقریباً تمام اغراض کے لیے نظم کا استعمال ہوتا ہے۔  یہ بظاہر  ناقابلِ یقین بات ہے کہ خشک سائنس کی کتابیں بھی مثلاً صرف و نحو، منطق، علم ہیئت اور علم طِب بھی نظم میں لکھی گئی ہیں۔  سنسکرت نظم کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہزارہا پُر معنی مقولے مختصر اور سادہ گیت اور جامع کلمات کے بہت اچھے نمونے ہیں۔  ان کو ’’سبھاشِت‘‘ کہتے ہیں۔  جو نامعلوم شاعروں کی تصنیفیں ہیں تاہم ہر دل عزیزی کی بنا پر عام طور پر ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ 

فن شعر و سخن پر مقالے اور جمالیات کی کتابیں ڈراما نویسی کے اصول پر بھٹ کا مقابلہ ’’ناٹیہ شاستر‘‘ سنسکرت میں سب سے قدیم جمالیات کی تصنیف ہے۔  پروفیسر میک ڈونل اس کو چھٹی صدی عیسوی کا سمجھتا ہے اور ایس کے ڈے پانچویں صدی کا اس کی مختلف تفسیریں ہیں۔  اس کے بعد بھاما آتا ہے جس نے ’’کاویہ النکار‘‘ لکھا ہے۔  اُو بھٹ نے آٹھویں صدی میں اس کی تفسیر کی ہے۔  نویں صدی میں آنند وردھن نے ’’دھونیہ لوک‘‘ لکھی۔  اگر بھاما غیر مستقیم اظہار  وکروتی پر زیادہ زور دیتا ہے تو اُدبھٹ پوشیدہ معنی با عمل توجیہہ (دھونی) کی زیادہ اہمیت سمجھتا ہے۔  ابھنوا گپتا (۱۰۰۰ عیسوی) نے ’’دھونیہ لوک‘‘ کی تفسیر لکھی۔  اس کا تعلق شیو فرقے سے تھا۔  اس نے نظم کی تعبیر میں فلسفیانہ معنی کا رواج دیا ہے۔

  بھٹالولٹ (۷۰۰-۸۰۰ عیسوی) شنکوک (۸۴۰ عیسوی) بھٹانایک (۹۰۰ عیسوی) اور ابھنوا گپتا۔  ان سب نے شعریات کا رُخ ’’رس‘‘ کے نظریہ کی طرف پھیر دیا۔  اگر چہ کنتلا (۱۰۰۰عیسوی) نے اپنی تصنیف ’’وکروکتی جیوت‘‘ میں دھونی کی تردید کی ہے۔  لیکن مہم بھٹا نے اپنی کتاب ’’دیکتی وویک‘‘ (۱۰۵۰ء) میں اس نظریہ کو ثابت کیا ہے اور ردرت (۸۰۰-۸۵۰عیسوی) نے ایک نیا مذہب قائم کیا جس میں استعارہ وغیرہ کو اہمیت دی گئی ہے۔  اس طرح راج شیکھر (۹۰۰عیسوی) نے اپنی تصنیف ’’کاویہ میمانسا‘‘ میں فنِ شاعری کے لیے لازمی مادّی، خارجی، معروضی شرائط کے مقولے ترتیب دیئے ہیں۔  

دسویں صدی میں دھنن جیے نے ’’ناٹیہ شاستر‘‘ پر ایک تفسیر لکھی جس کا نام ’’دش رویک‘‘ ہے۔  دھار کے بادشاہ بھوج نے ایک تصنیف کی جس میں فن شاعری کے اچھّے اور بُرے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔  اس کتاب کا نام ’’سرسوتی کنٹھا بھرن‘‘ ہے۔  کشیم یندر (گیارہویں صدی عیسوی) نے کشمیری شاعری کی تنقید کی ایک اور بہت اہم صورت ’’حسن اسلوب‘‘ کو رواج دیا۔  اس کی کتاب کا نام ہے ’’آوچتیہ وچار چرچا‘‘ وہ اسلوبِ بیان اور انشا پردازی کے طرز سے بھی بحث کرتا ہے۔  ممٹ نے گیارہویں صدی میں ’’ کاویہ پرکاش‘‘ تصنیف کی جس کی اب تک (۷۰) تفسیریں کی گئی ہیں اور حاشیے لکھے گئے ہیں۔  کشمیری راجا نک رویک (بارہویں صدی عیسوی) نے ’’النکار سروسو‘‘ تصنیف کی جس میں اس نے دوبارہ کنایہ و استعارہ کی اہمیت کو رائج کیا۔  اسی صدی میں جینی علما مثلا ًواگ بھٹ اور ہیم چندر نے فن شاعری پر کتابیں لکھیں۔  چودہویں صدی میں جینی شارح واگ بھٹ ولدنیمی کمار نے ضابطۂ شاعری پر ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’کاویہ انوشاسن‘‘ ہے۔

چودہویں صدی میں وشوناتھ نے ’’ساہتیہ درپن‘‘ لکھی جس کو ایک معیاری کتاب ہونے کی حیثیت سے وہی مقبولیت حاصل ہوئی جو ممٹ کی تصنیف کو حاصل تھی۔  ۱۴۲۰ء میں آندھرا کے ایک ریڈی شہزادہ ویما بھوپال نے ’’ساہتیہ چنتا منی‘‘ لکھی۔  ۱۶۰۰ء میں تامل ناڈ کے اپّیاد کشت نے اپنی کتاب ’’ورتی وارتک‘‘ میں لفظ کی قوت پر خوب خیال آرائی کی ہے۔  سترہویں صدی میں تلنگانہ کے پنڈت جگناتھ نے ’’رس‘‘ کی اہمیت پر ’’رس گنگا دھر ‘‘لکھی۔  یہ ایک معیاری تصنیف ہے۔

  اٹھارہویں صدی میں وشویشور نے ’’النکار کو ستو بھا‘‘ لکھی۔  اس کے بعد سنسکرت میں جمالیات کے علما کا سلسلہ تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔  عہدِ جدید میں متعدد علما نے ان نظریوں کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے جو جدید فن شاعری میں ممدو معاون ہیں۔

 کرشن چیتنیہ نے اپنی انگریزی تصنیف ’’سنسکرت فن شاعری‘‘ میں ان پہلوؤں پر بحث کی ہے۔  ڈاکٹر جی ٹی دیش پانڈے نے ’’بھارتیہ ساہتیہ شاستر‘‘ تصنیف کر کے مراہٹی ساہتیہ اکاڈمی سے انعام حاصل کیا تھا۔  اس میں ان تمام جمالیاتی نظریوں پر چھ ہندی نظاماتِ فلسفہ کے اثر سے بحث کی گئی ہے۔  خلاصہ یہ ہے کہ سنسکرت فن شاعری کے پانچ مذاہب ہیں۔  

(۱) ’’ رس‘‘ پیش کرنے والا نند کشور بھرت

 (۲) ’’ النکار‘‘ ’’ بھاما، اُوبھٹ، ردرت

 (۳) ’’رتی‘‘ ’’ ڈنڈن، وامن

(۴) ’’وکروکتی‘‘ ’’ کنٹک

 (۵) ’’دھونی‘‘ ’’ آنند وردھن ‘‘

یہاں ان تمام نظریوں کے موافق اور مخالف دلیلوں کی تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں ہے۔  سنسکرت میں ایسے سینکڑوں موضوع مطالعہ دستیاب ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی تائید اور تردید میں دلیلیں پیش کرتے ہیں۔  ان میں سے زیادہ تر مصنفین نے مناسب مثالوں کو پیش کرنے کے لیے معیاری تصانیف کا استعمال کیا ہے اور چند صرف اپنی ہی تصنیفوں سے کام لیتے ہیں۔  ایک بات تو یقینی ہے کہ ساتویں یا نویں صدی کے بھی قبل سے سنسکرت میں علما نے شاعرانہ تخلیق، شاعرانہ بنیادی خصوصی یا خیال وغیرہ کے مختلف ادبی مسائل کی چھان بین شروع کر دی تھی۔  ان کے بعض نظریئے اب بھی ایسے ہی صحیح سمجھے جاتے ہیں جس طرح کہ اس زمانہ میں تھے۔  البتہ بعض مباحث جدید نفسیاتی تحقیقات کے باعث اب فضول نظر آتے ہیں۔  ان کو صرف مقولوں میں ڈھالنے کا طریقہ تبدیل ہوا ہو گا لیکن ان کی باطنی کیفیت بغیر کسی تبدیلی کے جیسی تھی ویسی باقی ہے۔

 

 

 

 

 تصنیفات فلسفہ و دیگر علوم و فنون

 

 

 یہاں سنسکرت میں تصانیف فلسفہ کے متعلق تو کوئی مکمل علم پیش نہیں کیا جا سکتا لیکن عام طور پر ان کو دو گروہوں میں رکھا جا سکتا ہے۔  آستک اور ناستک۔  پہلی قسم میں چھ نظاماتِ فلسفہ ہیں۔

 (۱) گوتم کے نیائے سوتر (تیسری صدی ق۔  م سے قبل) ایک جدید مذہب منطق یا نیائے بھی موجود ہے جس کو بارہویں صدی میں گنگیش اپادھیائے نے اپنی تصنیف ’’تتو چنتا منی‘‘ میں بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔

(۲) ’’ویشیشک‘‘ مصنفہ کناد (تیسری صدی ق۔  م کے دور کے بعد) کچھ تصانیف ایسی بھی ہیں جو دونوں کو ایک ساتھ پیش کرتی ہیں۔

 (۳) ’’سانکھیہ‘‘ جس کو کپل نے معلوم کیا۔  اس کے بعد ایشور کرشن نے تیسری صدی میں ’’سانکھیہ کاریکا‘‘ لکھی۔

(۴) ’’یوگ‘‘ جس کو پتنجلی نے دوسری صدی ق۔  م میں لکھا تھا۔  اس مضمون پر بعد میں واچسپتی اور ویگان بھکشوتک بہت سی تصنیفیں لکھی گئی ہیں۔  

(۵) ۶۰۰ عیسوی میں جیمنی نے ’’میمامسا‘‘ لکھی۔  جوکرم ’’میما مسا‘‘ اور ’’پورومیمامسا‘‘ کہلاتی ہے۔  بعد میں کماریلا اور پربھاکر اس نظام کے دو زبردست شارح ہوئے ہیں۔  

(۶)’’ ویدانت‘‘ کو لکھنے والے اور ائن ہیں اور گوڈپار بھی ہیں۔  نویں صدی میں شنکراچاریہ نے اس پر بہترین تفسیر کی ہے۔  ویدانت کے کئی ایک ذیلی مکتب ہیں۔  ان کے شارحوں میں بھاسکر، رامانُج، نِمبارک، مادھوا، دلبراچاریہ، سری کانت اور روپ گوسوامی شامل ہیں۔  ناستک مکتبوں میں چار واک ہے اس کی تصنیف ’’لوکایت‘‘ اب دستیاب نہیں ہو سکتی۔  بودھوں میں ہنیان اور مہایان ہیں۔  مہایانیوں کے بھی کئی ایک مکتب ہیں۔  مثلاً مادھیہ میک (ناگارجن) یوگا چار (اسنگ) وگیان واد (دنگ ناک) ہنیان کے دو مکتب ہیں وائے بھاشک (واسومترا) ساوترا نتک (کمارل بدھ) ناستکوں کے چارواک، بدھ اور جین یہ تین خاص مذہب ہیں۔  ان تمام مذاہب کی سنسکرت میں کئی ایک کتابیں ہیں۔  کم از کم ۵۰۰ اہم تصانیت ہیں۔  جن میں ان تمام نظامات اور ان کی شاخوں کے فلسفہ پر زبردست مباحث پیش کئے گئے ہیں۔  فلسفہ کے بعد سنسکرت میں محتلف علوم و فنون پر ماہرین کی بہت دلچسپ تصانیف ہیں۔  جیسے ریاضی (لیلا وتی) کیمیا اور دواسازی (ناگارجن، چرک، سبش رت) فلکیات(آریہ بھٹ، وراہ می ہیرا علم اصلاح نسلیات (واتسائن کا کام سوتر) صرف ونحو (پتنجلی، پاننی، بھرتری ہری) تالیف لغت (کاتیاین امر سنگھ) معاشیات اور سیاسیات (کوتلیہ) فن تیر اندازی (شارنگ دت) گھوڑوں اور ہاتھیوں کی شناخت کا علم (پال کپیہ، شالی ہوترا)علم تعمیر و فن عمارت اور سنگ تراشی (بھوج، منڈن اور شلپ شاستر اور من سار کے مانند تصانیف) فن جواہرات (برہت سمہتا، بدھ بھٹ کی رتن پریکشا ) یہاں تک کہ طباخی اور چوری کے فن پر بھی کتابیں ہیں۔  اس لئے کہ ان کا شمار (۶۴) کلاؤں میں ہوتا ہے۔  ڈاکٹر پر بھا کر مچوے کی ایک تصنیف ’’ہندومت‘‘ ہے۔  اس طرح انگریزی زبان میں تمام علوم و فنون میں تفصیلات بیان کرنے والی کتابیں موجود ہیں۔  سنسکرت میں فنون لطیفہ پر بہترین کتابیں ہیں۔  مثلاً شارنگ دھر کی تصنیف ’’سنگیت رتناگر‘‘ (موسیقی کے مضمون پر) نندی کشور کی ’’ابھی نئے درپن‘‘ (ناچ سیکھنے پر) وشنو دھر موتار کی کتابیں سنگ تراشی اور مصوری وغیرہ پر ہیں۔  ہندو قانون پر بھی کتابیں ہیں۔  مثلاً پی۔  وی کانے کی تصنیف ’’دھرم شاستر‘‘ جو انگریزی زبان میں بڑی محنت سے چار جلدوں میں لکھی گئی ہے اور تفصیلی معلومات بہم پہنچاتی ہے۔  منو کا قانون ’’منو سمرتی‘‘ غالباً پہلی صدی عیسوی میں لکھا گیا تھا۔  یا جنیا ولکیہ اور نارد کی سمرتیاں اور مذہبی رسوم کی ادائیگی کے متعلق مختلف تصنیفیں ہندو مذہب اور سماجی رسوم کی بنیاد ہیں۔  اس طرح سنسکرت زبان میں انسانی زندگی کے چاروں پہلوؤں پر کتابیں موجود ہیں۔  مثلاً ’’دھرم‘‘ (قانون)۔  ’’ارتھ‘‘ (معاشی مسائل اور دولت ) ’’کام‘‘ (محبت اور ازدواجی زندگی)۔  اور ’’موکش ‘‘(نجات)

سنسکرت ہرش وردھن کی سلطنت تک تو تخلیقی زبان کے طور پر رائج تھی۔  بعد میں یہ ایک ضابطہ کی زبان بن کر رہ گئی۔  یعنی چالو زبان نہیں رہی۔  اگرچہ گزشتہ ایک ہزار سال سے ہر ایک میدان علم میں مصنفین گزرے ہیں۔  لیکن گپتا کے عہد تک اس کے جو غیر معمولی اور مشہور کارنامے تھے وہ پھر کبھی حاصل نہ ہو سکے۔ 

 

 

 

 

جدید سنسکرت تصنیفیں

 

 

 

 ڈاکٹر ایس۔  بی ورائیکر نے بیسویں صدی میں چھ سو صفحات کا ایک مقالہ ’’ہندوستان میں سنسکرت تصانیف‘‘ کے عنوان سے ناگ پور سے شائع کرایا ہے۔  ڈاکٹروی۔  راگھون نے جدید سنسکرت تصنیف کے عنوان سے دو بہت علمی اور مفصل مضامین ساہتیہ اکاڈمی کی دو اشاعتوں میں شائع کرائے ہیں۔  جن کا نام ’’ہم عصر ہندوستانی ادب‘‘ اور ’’آزادی کے بعد کا ہندوستانی ادب‘‘ رکھا ہے۔  یہ سب کچھ لکھنے اور کہنے کے باوجود ہمارے جدید اور موجودہ ہندوستانی مصنفین ماضی کے ان زبردست اساتذہ کے قریب نہیں آ سکتے۔  کئی لوگوں نے نظمیں لکھی ہیں۔  کشماراؤ نے ’’ستیہ گرہ گیتا‘‘ لکھی اور سی۔  ڈی دیش مکھ نے ’’گاندھی سوکتی مکتاولی‘‘ لکھی اور بہت سے نقاد اور نکتہ رس لوگوں نے ان کی کافی تعریف کی ہے۔  لیکن تمام جدید سنسکرت تصنیفیں کم و بیش دماغی ورزشیں ہیں۔  وہ ان بے ساختہ غزلیہ شاعری کے مصنفین کالی داس یا جئے دیو کی طرح نزدیک بھی نہیں آ سکتے۔  جدید سنسکرت تصانیف بہت سی قسم کی ہیں۔  دیسی اور بدیسی زبانوں سے جو ترجمے کیے گئے ہیں ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔  چنانچہ اس وقت سنسکرت میں شیکسپئر ’’ٹمپیسٹ‘‘ اور ’’ہیملٹ‘‘ کے گولڈ سمتھ کی نظموں کے اور جیؤبی شاکی ’’سیب گاڑی‘‘ کے ترجمے دستیاب ہوتے ہیں۔  ٹاسٹائے کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور رومین رولاں اور چرچل کے عنوانات سے سنسکرت میں مضامین شائع کیے گئے ہیں۔  دوسری ہندوستانی زبانوں سے بھی سنسکرت میں مضامین شائع کیے لئے ہیں۔  چنانچہ تامل کو رل کا ترجمہ، کمب راماین کا ترجمہ، سبرامنیم بھارتی کی نظموں کا ترجمہ اور راجہ جی کی کہانیوں کا ترجمہ بھی سنسکرت میں موجود ہے۔  کنڑی وچن اور پٹ ٹپ پاکی نظمیں۔  ٹیلو گوشتک اور پوتن ناکی ’’بھاگوت‘‘ اور تینالی رام کی مزاحیہ کہانیاں ، مرہٹی سنت تکارام اور رام داس کی نظمیں اور گیت۔  مامارواے کرکاناٹک ’’بھومی کنیا سیتا‘‘ ہندی سنت اور پرساد کی ’’کاماینی‘‘ آسامی زبان میں رگھوناتھ چودھری کی نظم ’’کیتکی‘‘۔  بنگالی زبان میں نظم لکھا ہواناٹک ’’ناٹرپوجا‘‘ مصنفہ ٹیگور اور اس کی چند منتخب نظمیں۔  غالبؔ کی اردو غزلیں پی۔  سین پشپ نے سنسکرت میں ترجمہ کی ہیں۔  ۱۹۶۷ء میں ’’سنسکرت سوریہ ادے ‘‘ میں ایل۔  ایس۔  تیلنگ کے لکھے ہوئے ’’الف لیلا‘‘ کے کچھ حصے شائع ہوئے ہیں۔  اب بھی کئی ایک پنڈت سنسکرت میں علم و فضل اور اہم تحقیق کی تحریر میں مصروف ہیں۔  لیکن ان کی نوعیت تفسیروں یا حاشیوں جیسی ہے۔ 

٭٭٭ 

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید