FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

اُردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

 

 

حصہ چہارم

 

                   ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی

 

 


 

 

ردیف ’’گ‘‘

 

(۱) گاڑھی چھننا۔

یہ نشہ کرنے والوں کا محاورہ ہے اور اس کا تعلق بھنگ پینے سے ہے ہمارے یہاں بھنگ پینے کو کبھی اچھا نہیں سمجھا گیا وہ مہ نوشی کے مقابلہ میں ادنی درجہ کا نشہ تھا۔ اسی لئے جو لوگ بھنگ پیتے تھے وہ بھنگڑ کہلاتے تھے یہاں تک کہ اُن کو بھنگی کہا جانے لگا بھنگ کر دینا یا بھنگ ہو جانا ہندی زبان میں منتشر ہونے کو کہتے ہیں اسی لئے بھنگ کر دی گئی برخاست کر دی گئی۔ منتشر کرنے کے معنی میں آتا ہے۔

بھنگ کا نشہ بہت شدید ہوتا ہے سادھو سنت بھی جو جنگلوں میں رہتے تھے وہ یہ نشہ کرتے تھے مگر بیشتر یہ نشہ بہت ہی ادنی اور چھوٹے طبقہ میں رائج ہوتا تھا گاڑھی چھننی کہ یہ معنی ہیں کہ بھنگ کو باریک کپڑے میں چھانا گیا یہ اس سے وہ اور زیادہ نشے والی ہو جاتی تھی اور  جب کسی سے گہری دوستی بے تکلفی کے ساتھ تعلقات بڑھتے تھے تو اسے بھی گاڑھی چھننا کہتے تھے کہ آج کل تو ان کے غضب کے تعلقات ہیں خوب گاڑھی چھنتی ہے۔

 

(۲)گالیوں کا جھاڑ باندھنا۔

گالی ہماری معاشرتی زندگی میں بے طرح رائج رہی ہے اور آج بھی ہے ہم دوستی اور محبت میں گالیاں دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں نفرت و حقارت کے ساتھ بھی گالیوں کی بوچھار باندھی جاتی ہے اور  بے تحاشہ گالیاں دی جاتی ہیں اسی کو گالیوں کا جھاڑ باندھنا کہتے ہیں ذوقؔ کا شعر ہے۔

؂ نہ جھاڑا غیر کو  جو تجھ سے ہو کر جھاڑ لپٹا تھا

مجھی پرگالیوں کا  جھاڑ تو نے بدگماں باندھا

’’جھاڑ‘‘ درخت کو بھی کہتے ہیں اور  رُوکھے سوکھے کانٹے دار بڑے بڑے پودوں کو بھی۔

 

(۳) گانٹھ باندھنا، گانٹھ پڑنا، گانٹھ جوڑنا، باندھنا،گانٹھ کا پورا،گانٹھ کا بھرا، گانٹھ کا پیسا، گانٹھ کا کھوٹا، گانٹھ کھولنا۔

گانٹھ ہماری عام زبان کا ایک ایسا لفظ ہے جو سماج کے ذہن و زندگی سے گہرا رشتہ رکھتا ہے گانٹھ گرہ کو کہتے ہیں اور جو محاورے گانٹھ سے متعلق ہیں وہ گرہ سے بھی مثلاً  گِرہ دینا گرہ لگانا۔ گرہ دار ہونا، گرہ باندھنا،گرہ میں رکھنا، گرہ پڑنا سب ہی وہ محاورے ہیں جو ایک کے سوا گانٹھ کے ساتھ آتے ہیں۔ کیونکہ مہذب طبقہ گانٹھ کو اپنے ہاں گفتگو میں لانا پسند نہیں کرتا اسی لئے گانٹھ کے ساتھ آنے والے محاورے گرہ کے ساتھ آتے ہیں گرہ لگانا شاعری کی اصطلاح ہے۔ اور ایک مصرعہ پر دوسرا مصرعہ کہنے کو گرہ لگانا کہتے ہیں۔ گرہ کوئی دوسرا شخص لگاتا ہے گرہ کھولنا بات کا  رمز پا جانا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ اس نے اس گرہ کو کھولا یا دل میں جو گرہ پڑ گئی تھی اس کو اپنی تدابیر یا اپنی گفتگو سے دُور کیا ’’پیا ‘‘پاس ہوتا ہے تو اس کے لئے کہتے ہیں کہ وہ کسی کی اپنی گرہ یا گانٹھ میں ہے کسی استاد کا  شعر ہے۔

؂ دل کا کیا مول بھلا زلف چلیپا ٹھہرے

تیری کچھ گانٹھ گِرہ میں ہو تو سودا ٹھہرے

گانٹھ کا پورا ہونا پیسے کا کسی کی اپنی گانٹھ گرہ میں ہونا ہے شاعری میں اُستادوں ہی کے ہاں سہی گانٹھ کا لفظ آنا اس بات کی علامت ہے

کہ یہ لفظ کبھی اچھی سوسائٹی میں بھی رائج تھا مگر سنجیدہ موقعوں کے لئے نہیں۔

 

(۴) گُدگُدی کرنا، گُدگُدی اٹھنا، گُدگُدی دل میں ہونا۔

اصل میں گدگدی ایک خاص بدن کی حالت کو کہتے ہیں جو خواہش پیدا کرنا خو ش ہونا اور خوش کرنے کی تدبیر کرنا بھی شامل ہے اسی لئے بچوں یا بڑوں کے گدی گدی کی جاتی ہے اور دل میں گدگدی اٹھنے کے معنی خواہش ہونا ہے بچوں جیسی معصوم خواہش جو آدمی کو ایک سطح پر والہانہ انداز کی طرف لے آئے۔ ’’گد گد کرنا‘‘ ہندی میں محاورہ ہے اور اس کے معنی بھی جی میں خوش ہونا ہے۔

 

(۵) گراں گزرنا، گراں بار۔

یار بوجھ گراں بھاری قرضہ ہو یا اور کوئی سماجی مجبوری اس کے لئے جو آدمی تکلیف اٹھاتا ہے پریشان ہوتا ہے اور اپنے دل پر ایک طرح کا بوجھ محسوس کرتا ہے اس کو گراں باری کہتے ہیں بوجھ یعنی گراں بار ہونا طبیعت پر گرانی ہے یعنی ایک طرح کا بوجھ اور ناخوشگوار صورتِ حال پیدا ہوتی ہے گراں گزرنے کے معنی کوئی حرکت کوئی بات یا کوئی اشارہ کنایہ برا لگنا ہے۔ فیضؔ  کا شعر ہے۔

؂ وہ بات سارے فسانہ میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

یہی گراں گزرنا بھی ہے۔ اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے محاورے کس طرح ہماری انفرادی یا معاشرتی الجھنوں کو پیش کرتے ہیں۔

 

(۶) گردش میں ہونا۔

گردش کا تعلق بنیادی طور پر ستاروں سے ہے جب ستارے غیر مناسب ہوتے ہیں اور انسان کے حالات کو فیور(Favour)کرتے ہوئے نظر نہیں آتے تو کہتے ہیں کہ آج کل اس کے ستارے گردش میں ہیں یعنی پریشانی اور مصیبت کے دن ہیں اس سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں ایک علم نجوم کے بہ اعتبار اور دوسرے علمی اور فکری باتوں کو محاورہ کے دائرہ میں لانا یہاں یہ اشارہ کرنا غیر ضروری نہ ہو گا کہ ہمارے محاوروں کا رشتہ زندگی کے ہر سطح کے معاملات خیالات اور سوالات سے رہا ہے۔

(۷) گردن پر بوجھ ہونا،گردن پر خون ہونا، گردن پر سوار ہونا، گردن پھنسانا، گردن پھیرنا، گردن جھکانا، گردن کو ڈورا، گردن مارنا، گردن مروڑنا، گردن میں ہاتھ ڈالنا، گردن ناپنا وغیرہ۔

گردن حیوانی یا انسانی وجود میں غیر معمولی اہمیت رکھنے والا وجود کا حصّہ ہے انسان کی گردن تو اس معاملہ میں اور بھی زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے سر سے نسبت رکھنے والے بہت سے محاورے گردن ہی کی کسی نہ کسی سطح پر تعلق رکھتے ہیں مثلاً گردن اونچی کرنا سر اونچا کرنا ہے گردن جھُکانا سر نیچا کرنا ہے گردن کاٹنا یا کٹوانا قتل کئے جانے کے معنی سے بہت قریب ہے سر کٹنے کے معنی بھی یہی ہیں گردن پر سوار ہونا آدمی سے معمولی درجہ کی محنت لینا اور اس کے لئے مصیبت کھڑے کرنا۔ میرے لئے مصیبت بنا ہوا اسے اور مجھے بہت معمولی درجہ کی چیز سمجھ کر کام لے رہا ہے گردن مارنا بھی قتل کر دینے کے معنی میں آتا ہے اور گردن اڑانا بھی۔ مصرعہ

؂ شرع کہتی ہے کہ قاتل کی اڑا دو گردن

گردن ٹھہرنا بچوں کے لئے آتا ہے شروع شروع میں بچے اپنے سرکو گردن سنبھال کر نہیں رکھ سکتے اسی لئے ان کی گردن کو ہاتھ کا سہارا دیا جاتا ہے گنڈا تعویذ نیلا دھاگا گردن ہی میں پہنایا جاتا ہے ہار چمپا کلی،گلو بندا ور جگنو بھی گردن ہی کے زیور ہیں۔

گردن میں ہاتھ ڈالنا محبت اور بے تکلفی کی وجہ سے ہوتا ہے مگر گردن پکڑنے کا مفہوم دوسرا ہوتا ہے گردن چھڑانا لڑائی جھگڑے سے نمٹنا یا قرض کےبوجھ سے ادا ہونا گردن پھنسانا  یا  پھنسوا دینا غیر ضروری اور  غیر معقول ذمہ داریاں عائد ہو جانا یا کر دینا ہے گردن ناپنا سخت سزا دینا اور برا سلوک کرنا سخت انتقام لینا ہے۔

گردن پکڑنا کسی کو ذمہ داری نبھانے کے لئے جائز یا ناجائز طور پر سختی سے آمادہ کرنا کہ آخر میں نے اس کی گردن پکڑی جب قابو میں آیا اس طرح گردن سے متعلق محاورے ہمارے سماجی رویوں کے ایک سے زیادہ پہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ ہم دوسروں کو کس طرح دیکھتے ہیں اور غیروں سے ہمارا معاملہ کرنے کی سطح غلط یا صحیح طور پر کیا رہتی ہے۔

 

(۸) گڑیوں کا بیاہ، گڑیوں کا کھیل۔

اصل میں ہمارے یہاں گڑیاں سماجی زندگی کا وہ رخ پیش کرتی ہیں جو گھر آنگن سے متعلق ہوتا ہے کپڑے کی گڑیاں بنانا تو گھر کی عورتوں کا ایک ایسا کام تھا جس سے بچے خوش ہوتے ہیں بچوں کے کھیلوں میں اور خاص طور پر بچیوں کی گھریلو دلچسپیوں میں گڈا گڑیا ان کے چھوٹے چھوٹے زیور لباس زندگی سے شوق پیدا کرتے ہیں۔ اس میں گڈا گڑیا کا بیاہ بھی ہے جس میں گھریلو رسوم کی نقل کی جاتی ہے کوئی گڈے کی ماں بنتی ہے تو کوئی گڑیا کی اسی طرح لین دین اور  بری چیز کی رسمیں ادا ہوتی ہیں یہ ہمارا معاشرہ ہے جس کی ایک چلتی پھرتی تصویر ہم گڈوں اور گڑیوں کے کھیل میں دیکھتے ہیں نقل اتارنا یوں بھی بچوں کا دلچسپ مشغلہ ہوتا ہے اور گھرکی بچیوں کو تو اس کا خاص طور پر شوق ہوتا ہے۔

 

 

 

(۹) گل کھِلانا، گُل کھلنا۔

ہمارے کلچر میں پھول کی بڑی اہمیت ہے پھول خوشی کے موقع پربھی کام آتے ہیں اور غم کے موقع پربھی چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قبروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں برسی کے موقع پربھی پھول بھینٹ کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ دہلی میں تیجہ کی رسم پھول کہلاتی ہے اور قدیم بادشاہت کے زمانہ میں بھی رائج تھی بے تکلف اور غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کو گلچھڑے اُڑانا کہتے ہیں گل کھلانا انوکھی بات کرنا ہے جس سے لوگ پریشان ہوں اور اُس پر حیرت کریں کہ یہ کیا ہو گیا۔ گل کھلنا ایسے ہی کسی واقع کو کہتے ہیں ’’گلزارِنسیم‘‘ میں گل بکاولی کے اڑائے جانے پر نسیمؔ نے لکھا ہے۔

؂ دیکھا تو وہ گُل ہوا ہوا ہے

کچھ اور ہی گل کھِلا ہوا ہے

 

(۱۰) گلے پر چھُری پھیرنا یا چلانا،گلا کاٹنا، کھنڈی چھُری سے ذبح کرنا۔

جن قوموں میں جانوروں کو ذبح کرنے کا رواج ہے وہ جاندار کا گلا چھری سے کاٹتے ہیں اسی کو چھُری پھیرنا کہتے ہیں اِسے چھری چلانا بھی کہا جاتا ہے یہی محاورہ بن گیا اور کسی پر ظلم و زیادتی اور نہ انصافی کرنے کو گلے  پر چھُری چلانا کہتے ہیں جس کے معنی گلا کاٹنا ہے اور یہی کام جب بھونڈے انداز سے کیا جاتا ہے اور  بدتمیزی روا  رکھی جاتی ہے تو اسے کھنڈی چھری سے ذبح کرنا کہتے ہیں یہ محاورہ مسلمان قوموں میں رائج رہے ہیں ہندوؤں نے ایسے قبیلوں میں اس طرح کے محاورے رائج ہو سکتے ہیں جس کے یہاں جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ تلوار سے گردن اڑا دی جاتی ہے کاٹی نہیں جاتی یہ فرق ہے جو چھری یا تلوار سے گردن کاٹنے میں ہے۔

 

(۱۱) گلے پڑنا، گلے کا ہار ہونا۔

’’گلے پڑنا‘‘ کسی ایسے شخص کے عمل کو کہتے ہیں جو اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتا پھرتا ہے۔ اور انھیں مشکلات میں پھنسا تا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ خواہ مخواہ کی مصیبت گلے آ پڑی گلے کا ہار ہو جانا کسی مصیبت کا یا مشکل کام کا مستقل طور پر گلے کا ہار ہونا ہے۔ ہار ایک خوبصورت شے ہے گلے کا زیور ہے لیکن محاورہ میں اس کا استعمال زیب و زینت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ مشکلات و مصائب سے رشتہ رکھتا ہے۔ جن میں پڑنا آدمی کے لئے ناخوشگوار ی بلکہ نا گواری بڑھتی ہے۔

اس سے پتہ چلا کہ زبان کے استعمال اور سماجی سطح پر جو کسی معاشرہ کی نفسیاتی سطح ہوتی ہے الفاظ کیا کیا معنی اختیار کرتے ہیں اور بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے گلے منڈھنا بہت کچھ اسی معنی میں آتا ہے گلے میں زنجیر پڑنا ایک طرح سے پھنس جانے کے معنی میں آتا ہے اس لئے کہ جانور کو اس کے گلے میں رسی ڈال کر کھونٹے سے باندھا جاتا ہے زنجیر اس کے بعد کی بات ہے اور اس سے زیادہ سخت اور  بری بات ہے اور  زنجیر کرنا بھی محاورہ ہے اور گلے ہاتھوں یا پیروں میں زنجیر باندھنے کو کہتے ہیں میر ؔکا شعر ہے۔

 

؂ بہار آئی دوانہ کی خبر لو

اُسے زنجیر کرنا ہے تو کر لو

 

(۱۲) گنج شہیداں، گنج قارون،گنجے کو خدا ناخن نہ دے۔

گنج اُردو زبان میں کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے خزانہ کے معنی میں بستی یا محلے کے معنی میں اور سر کے بال اڑ جانے کے معنی میں عام طور سے جب کسی کو گنجا کہتے ہیں تو اس سے مراد اس کے سرکے بال اڑنے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔

گنجے کو خدا ناخن نہ دے اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی عیب دار آدمی کو اگر کوئی قوت حاصل ہو گئی کوئی موقع ہاتھ آ گیا تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا گنج شہیداں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کسی جنگ میں شہید ہونے والے بہت سے لوگ دفن کر دیئے جاتے ہیں۔

گنج قارون، قارون ایک کلاسیکی کردار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مصر کے کسی بادشاہ کا وزیر مالیات تھا اور اتنا مالدار تھا کہ اُس کا خزانہ اونٹوں پر لد کر جاتا تھا اور کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اس کی چابیاں اتنی تھیں کہ وہ اونٹوں پر لد کر جاتی تھیں یہ مبالغہ ہے اور داستانی انداز میں پیش کیا گیا ہے لیکن قدیم زمانہ کے بادشاہوں کے ساتھ ان کے خزانوں کا بھی ذکر آتا ہے جیسے خسرو پرویز کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس سات خزانہ تھے ایک کا نام گنج شائیگاں تھا دوسرے کا نام گنج رائیگاں وغیرہ اس سے یہ پتہ چلا کہ محاورے ہماری روایتوں کو محفوظ کرتے ہیں اور محاورات میں ڈھل کر یہ روایتیں ہمارے سماجی حافظہ کا حصّہ بن جاتے ہیں۔

 

(۱۳) گنگا جمنی، گنگا نہانا۔

گنگا ہندوستان کا مقدس دریا ہے ممکن ہے دراوڑوں کے زمانہ میں بھی اِسے مقدس خیال کیا جاتا ہو لیکن آریاؤں کے دور میں تو رفتہ رفتہ اُس کی پوجا ہونے لگی اور اس کو ہر ہر گنگے کہا جانے لگا اس سے نگاہ کے ساتھ پاکیزگی اور مذہبی تقدس وابستہ ہو گیا اور  اسی لئے گنگا کا پانی اس تقدس کی ایک علامت بن گیا۔ اسی لئے پھول گنگا میں پھینکے جاتے ہیں اور بھجن پیش کئے جاتے ہیں۔ گنگا میں نہانے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کا بدن اور اُس کی روح پاک ہو گئی تو جب بڑے کام سمٹ جاتے ہیں تو محاورے کے طور پر کہا جا تا ہے کہ تم تو گنگا نہا لئے یعنی ساری الجھنوں اور  ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئے اب ہر طرح پاک صاف ہیں اور آزاد ہیں۔

الہ آباد کے قریب وہ مقام ہے جس کو پریاگ کہتے ہیں جہاں گنگا اور جمنا دونوں ایک الگ ندیاں مل جاتی ہیں اور بہت دُور تک پانیوں کے دھارے ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔ اور دونوں کے الگ الگ رنگ پہچانے جاتے ہیں اسی کو ہم نے ایک محاورے میں بدل دیا اور گنگا جمنی تہذیب کہا جو ہندوستان کی ایک تہذیبی خصوصیت بن گئی اردو کو بھی اس کے ملے جلے کردار کی وجہ سے گنگا جمنی زبان کہتے ہیں۔

 

(۱۴) گوشت سے ناخن کا جُدا کرنا یا گوشت سے ناخن جُدا ہونا۔

گوشت سے ناخن کا جدا کرنا یا ہونا اُردو میں عام طور پر بہت مشکل اور  ناممکن بات کو کہتے ہیں غالب ؔ کے ایک شعر میں اسی کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

 

دل سے مٹنا تیری انگشتِ حنائی کا خیال

ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا

(غالبؔ)

اب ظاہر ہے کہ اب اس محاورے کا جو انداز ہے وہ مسلم کلچر سے وابستہ کرتا ہے ویسے جس اٹوٹ رشتہ کی طرف اشارہ موجود ہے وہ ایک تہذیب کا ایک مشترک عنصر ہے۔ ہندو عام طور پر اپنی زبان میں گوشت ہڈی اور خون کا بے تکلف ذکر نہیں کرتے۔

 

(۱۵) گوشمالی دینا، گوشمالی کرنا یا ہونا۔

سزا دینے کے معنی میں آتا ہے’’ گوش‘‘ فارسی میں کان کو کہتے ہیں اُردو میں فارسی کی نسبت بہت ترکیبی الفاظ گوش کے ساتھ آتے ہیں جیسے گوش ہوش حلقہ بگوش گوش سماعت سننے والا کان کان اینٹھنا کان پکڑنا کان مروڑنا یہ سب کان کے ذریعہ دی جانے والی سزائیں ہیں اور اُن کو عام طور سے گوش مالی کے تحت رکھا جاتا ہے عجیب بات ہے کہ سزاؤں کا اور اعضاء سے وابستہ ہے زیادہ کاٹ لینا کان کاٹنا دانت توڑنا پیٹ پھاڑنا ہاتھ پاؤں توڑ دینا وغیرہ۔

 

(۱۶) گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا۔

گھاٹ دریا کے ایسے حصے یا کنارے کو کہتے ہیں جہاں سے کشتیوں میں سفر شروع ہوتا ہے یا  پھر کپڑے دھوتے ہیں غرضیکہ گھاٹ کا رشتہ رہ گزر سے بھی ہے اور دریا کے ایسے کنارے سے بھی جس کا جانوروں اور انسانوں کا واسطہ پڑتا ہے ظاہری بات ہے کہ اس طرح جہاں دریا بہتے ہوں اور اُن سے گزر ممکن ہو گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا زیادہ سے زیادہ دریائی سفر کے تجربہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اس میں دوسرے تجربہ بھی شامل ہیں۔

 

(۱۷) گونگے کا خواب۔

خواب دلچسپ ہوتا ہے مگر وہ اسے بیان نہیں کر پاتا اُس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جن باتوں کو محسوس کرتا ہے جان لینا ہے وہ ان کو بیان نہیں کر پاتا تو وہ گونگے کا خواب ہوتا ہے ایک اور محاورہ بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ اور  وہ گونگے کا گڑ ہے یعنی وہ گڑکا مزہ تو جان گیا مگر اپنی زبان سے بیان نہیں کر سکتا آپ ان لفظوں کو بدل کر گونگے کی مٹھائی بھی کہہ سکتے ہیں مگر ہماری عوامی زندگی میں گڑ ایک آئیڈیل مٹھائی تھی۔ خوشی کے موقع پر گڑ کی ڈلیاں بانٹی جاتی تھیں اور اسے محاورے میں گڑ بٹنا  یا  گڑ بانٹنا کہتے ہیں ایک اور کہاوت ہے گڑ نہ دے گڑ جیسی بات کہہ دے یعنی ان عوام کے یہاں گڑ ایک تہذیبی علامت تھا یا رہا ہے۔ وہ گڑ کی بھیلی جب کہتے تھے تو اس سے بہت اچھی شخصیت مراد لیتے تھے اور یہ کہتے نظر آتے تھے کہ اس کا کیا ہے وہ تو گڑ کی بھیلی ہے ان کے یہاں گڑ ایک اچھی بات ایک اچھا لہجہ کی علامت تھا اور جو لوگ اپنی بات بدلتے تھے ان سے کہتے تھے کہ یہ کیا بات ہوئی تم کہتے ہو یہ گڑ کھٹا اور یہ میٹھا ہے۔

 

(۱۸) گھر پھونک تماشا ہونا یا دیکھنا۔

اپنا گھر لٹا کر کوئی بظاہر خوشی کا کام کرنا سماج کا اور اُس کے کردار کا ایک کمزور پہلو ہے اس محاورہ میں اسی پر طنز کیا گیا ہے کہ اگر گھر لٹا کر اپنا سب کچھ برباد کر کے کوئی خوشی حاصل کی جائے تو اسے گھر پھونک تماشا کہتے ہیں اور یہ محاورہ اپنی معنویت کے اعتبار سے اہم محاورہ ہے۔

 

(۱۹) گھر چڑھ کر لڑنا۔

اصل میں یہ گھر چڑھنا محاورہ ہے اور ہمارے یہاں چڑھنے کے معنی سماجی طور پر کافی وسیع ہیں جیسے برات چڑھنا لام پر چڑھنا سُولی پر چڑھنا اور گھر پر چڑھ کر آنا تیاری سے آنا اگر کوئی آدمی اسی نیت سے آیا ہے کہ وہ گھر پر آ کر لڑے گا تو ایسے موقع کے لئے کہا جاتا ہے وہ روز گھر پر چڑھ کر آتا ہے۔

اُردو کا مصرعہ ہے۔

؂ یہ خانہ جنگ بھی لڑتی ہے روز گھر چڑھ کر

ہم محاوروں کے الفاظ میں معنی کے اعتبار سے تو تبدیلی دیکھتے ہیں وہ سماجی فکر نقطہ نظر جذبہ و احساس اور قدر و بے قدر ہونے والے آہ و فغاں کی نشاندہی کرتی ہے اور اسی نسبت سے محاوروں کے ساتھ یہ کہے کہ ہمارے سماجی رو یہ گہرے طور پر جُڑے ہوئے ہیں۔

 

(۲۰) گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے

گھرکے ساتھ بہت سے محاورے وابستہ ہیں ہونا بھی چاہیے اس لئے کہ گھر بنیادی یونٹ ہے جس سے معاشرہ بنتا ہے آدمی کا پالن پوسن بھی گھر میں ہوتا ہے راحت و آرام کا رشتہ بھی گھر سے قائم ہوتا ہے اور  محبت کا رشتہ بھی گھرکو دیکھ کر جی خوش ہوتا ہے اور  آدمی اپنے گھر کو ہر اچھی چیز سے اچھی بات سے سجانا چاہتا ہے لیکن اگر گھر کے ساتھ کوئی ٹریجڈی یا تکلیف دہ بات کا رشتہ جڑ جاتا ہے تو وہی گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے تنہائی میں بھی اکثر یہ ہوتا ہے۔

گھر سے آدمی دور ہوتا ہے تو ایک ایک چیز اس کی آنکھوں پھرتی ہے گھر کسی وجہ سے ویران ہو جاتا ہے تو اسے گھر سے گھروندا ہو جانا کہتے ہیں اردو کا ایک مشہور مصرعہ ہے۔

؂ جو گھر کو آگ لگائے وہ اپنے ساتھ چلے

گھرکو آگ لگنا بھی محاورہ ہے اردو کا یہ مصرعہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے

؂ اس گھرکو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

یعنی گھر کا اپنا خاص آدمی ہی گھرکی تباہی کا باعث ہوا۔ گھر میں گھس کر بیٹھ جانا یہ بھی گھر سے متعلق محاورہ ہے اس کے معنی ہوتے ہیں کہ دشمنی کرنے والے گھر میں گھسے بیٹھے ہیں اور دشمنی کر رہے ہیں گھر گھسنا خانہ نشیں ہونا الگ بات ہے یہ آدمی کے الگ الگ رویوں اور way of lifeکو ظاہر کرتا ہے۔

 

(۲۱) گھرکا بھیدی لنکا ڈھا دے۔

مشہور کہاوت ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جو خاندانی حالات سے واقف ہوتا ہے وہ زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔

ہم مندرجہ ذیل محاوروں کو بھی گھر سے نسبت کے ساتھ لے سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں جیسے گھر کا راستہ لو گھرکا فرد گھر کا نام ڈبونا گھر کے گھر بند ہو گئے گھر تالے  پڑ گئے  یا گھر گھر کے بے چراغ ہو گئے وغیرہ۔

 

(۲۲) گھر میں ڈالنا۔

کسی عورت کو گھر میں رکھ لینا اور بیوی کے طور پر رکھنا گھر میں ڈال لینا کہلاتا ہے۔

 

(۲۳) گھمسان کا رن پڑنا، گھمسان کی لڑائی ہونا۔

بہت بڑے پیمانہ پر لڑائی کے ہونے کو کہتے ہیں۔ گھمسان کا رن پڑا یعنی بہت جنگ ہوئی خون خرابہ ہوا لڑائی اب بھی ہوتی ہے لیکن اب ذہنوں میں دلوں میں زیادہ ہوتی ہے۔

 

(۲۴) گھن چکر ہونا۔

یعنی بُری طرح چکر کھانا یا چکروں میں پھنسنا گھن کے معنی گھنے کے ہیں۔

 

(۲۵) گھنگرو بولنا۔

دہلی والوں کا خاص محاورہ ہے اور اس وقت کے لئے بولا جاتا ہے جب موت سے کچھ پہلے سانس خراب ہو جا تا ہے اور اس میں گھرگھراہٹ آ جاتی ہے لفظ محاورہ میں کس طرح اپنے معنی بدلتے ہیں اس کا اندازہ گھنگرو بولنے سے ہوتا ہے۔

تشبیہہ ہو استعارہ محاورہ کنایہ گفتگو اور  مفہوم کی ترسیل کے لئے ایک خاص کردار ادا کرتے ہیں اس کو ہم محاوروں کے لفظیاتی استعمال میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

 

(۲۶) گھن لگ جانا۔

جس طرح کا کیڑا دیمک ہوتی ہے جو کتابوں کاغذوں اور  لکڑیوں کو لگتی ہے اسی طرح کے کیڑے کی ایک اور نسل ہے جس کو گھن کہتے ہیں اور اناجوں کو لگتا ہے اور غذا کا ضروری حصّہ کھا جاتا ہے اسی بات کو آگے بڑھا کر ذہن دل اور دماغ کے لئے بھی گھن لگنا استعمال کرتے ہیں یعنی وہ پہلی سی تیزی و طراری اور چمک دمک باقی نہ رہی۔

 

 

 

(۲۷) گھوڑی چڑھنا۔

گھوڑے پر سوار ہونا بہت سی قوموں کی تہذیبی و معاشرتی زندگی میں غیر معمولی اہمیت رکھنے والی ایک صورت ہے ایک زمانہ میں گھوڑے کی سواری فوجی علامت کے لئے غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی اور ایک سپاہی گھوڑا مول لیکر کسی بھی رئیس جاگیر دار یا صاحب ریاست کے یہاں نوکر ہو جاتا تھا سودا ؔ کا ایک شعر ہے۔

؂ کہا میں حضرت سوداؔ سے کیوں ڈانواں ڈول

پھرے ہے جا کہیں نوکر ہولے کے گھوڑا مول

عام طور پر رئیسوں کے ہاں سواری کے گھوڑے رکھے جاتے تھے اور تحفہ کے طور پر بھی پیش کئے جاتے تھے تاریخ میں بعض گھوڑوں کے نام بھی دیئے گئے ہیں مثلاً  رستم کے گھوڑے کا نام رخش تھا امام حسینؑ کے گھوڑے کو دُلدل کہتے تھے اور مہارانا پرتاپ کے گھوڑے کو چیتک اس سے ہماری تاریخی اور تہذیبی زندگی میں گھوڑے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

جب بچہ کچھ بڑا ہوتا تھا تو گھوڑی چڑھنے کی رسم ادا کی جاتی تھی یعنی پہلے پہل گھوڑی پر سوار ہونا بطورِ تقریب منایا جاتا تھا دہلی میں آج بھی کہیں کہیں اس کا رواج ہے اس سے رسموں کی تہذیبی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے ان کا تاریخی اور سماجی پس منظر سامنے آتا ہے اور یہ بھی کہ محاورے میں کس طرح تہذیب کی تاریخ کو اپنے اندر سمیٹا ہے اور زبان کا سماج سے رشتہ جوڑا ہے گھوڑے جوڑے سے شادی ہونا بھی محاورہ ہے اور اس سے مراد لین دین رسوم و آداب کے ساتھ شادی کرنا ہے۔ اگر محاورے کو سرسری طور پرنہ لیا جائے تو محاورہ ہماری تہذیب و تاریخ کا سماجی زندگی اور معاشرتی ماحول کا جیتا جاگتا عکس پیش کرتا ہے۔ گھوڑے کھولنا انتہائی کوشش کو کہتے ہیں۔

 

(۲۸) گھونگھٹ کھولنا، گھونگھٹ اٹھانا، گھونگھٹ رہنا، گھونگھٹ کی دیوار۔

ہندوستانی تہذیب میں عورتیں جب اپنی سسرال جاتی تھیں تو دلہن کے چہرہ پر ایک لمبا سا خوبصورت دوپٹہ پڑا رہتا تھا اس کے ایک پلو نقاب کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا منہ دکھائی رسم کے موقع پر گھونگھٹ اٹھایا جاتا تھا دولہا جب اپنی دلہن کا چہرہ پہلی مرتبہ دیکھتا تھا تو اسے گھونگھٹ اٹھانا کہتے تھے جن مردوں کا احترام ملحوظ ہوتا تھا ان کے سامنے ہمیشہ عورت گھونگھٹ نکالے رہتی تھی۔ اور جب گھونگھٹ باقی نہیں رہتا تھا تو اس کے لئے کہتے تھے گھونگھٹ اٹھ گیا۔ دہلی میں لال قلعہ کے لاہوری دروازہ کے سامنے ایک اور سنگین دیوار بنائی گئی ہے اس کو بھی گھونگھٹ کی دیوار کہتے ہیں اسی کانام’’ گھونگس‘‘ بھی پڑگیا تھا۔

 

(۲۹) گھی کے چراغ جلانا یا گھی کے چراغ جلنا، گھی کے گھونٹ پینا۔

’’گھی ‘‘دیہات اور قصبات کی زندگی کا ایک غذائی حوالہ ہی نہیں بلکہ تہذیبی حوالہ بھی ہے گھی کو ایک زمانہ سے بڑی نعمت خیال کیا جاتا رہا ہے اور  ہون میں بھی گھی آگ پرڈالا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیوتاؤں کو گھی پسند ہے اور اس کی خوشبو آگ میں جل کر ان کو پہنچتی ہے اس کی ایک اور  صورت گھی کے چراغ جلانا بھی ہے جوانتہائی خوشی کی علامت ہے گھی کے چراغ جلنا بھی مسرتوں سے بھرے کسی خوشی کے موقع یا تقریب کا اظہارہے۔

گھی کبھی میسر آتا تھا توغریب آدمی کی زندگی میں یادگار موقع ہوتا تھا اسی لئے جب کوئی دل کو بہت خوش آنے والی بات ہوتی تھی تو کہتے تھے کہ اس کودیکھ کر اس کی بات سن کر میں نے گھی پی لیا۔

شکرانہ پرباریک شیریا  بورے کے اوپر گھی ڈالا جاتا تھا۔ بیاہ برات کے موقع پر مہمانوں کو تواضع کے طور سے زیادہ سے زیادہ گھی پیش کیا جاتا تھا اسی لئے جوبہت اچھا آدمی ہوتا تھا اس کو بھی گھی سے نسبت دی جاتی تھی اور پیار محبت کے طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ وہ توگھی ہے یا گھی کا ساگھونٹ ہے۔ گھی پر ہمارے یہاں بہت محاورے ہیں مثلاً سیدھی انگلیوں گھی نہیں نکلتا یا کھائیں گے توگھی سے نہیں توجائیں گے جی سے یا سارے مزے ایک گھی میں ہیں گھی دودھ سب سے اچھی غذا سمجھی جاتی تھی اور یہ کہتے تھے کہ وہ توگھی دودھ پر پلا ہے۔

 

(۳۰) گیا وقت پھرہاتھ نہیں آتا۔

یہ وقت کی قدر وقیمت کا احساس دلاتا ہے کہ جو وقت گزرگیا وہ گزرگیا جو وقت ضائع ہوا وہ کسی قیمت پر واپس نہیں آ سکتا وقت ہم بہت استعمال کرتے ہیں جیسے اچھا وقت بُرا وقت مصیبت کا وقت خوشی کا وقت کوئی بھی وقت ہو اس کے اپنے معنی اور اپنی اہمیت ہوتی ہے میرحسنؔ کا یہ مشہور شعر وقت کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔

 

؂ سدا دور دورا دِکھا تا نہیں

گیا وقت پھرہاتھ آتا نہیں

 

***

 

 

 

ردیف ’’ل‘‘

 

(۱)لات،لاتوں کا بھوت باتوں سے نہیں مانتا۔

لات مارنا ٹھوکر مارنا اور  ذلت آمیز سزادینا ہے لاتیں کھانا ایسی سزاؤں کو برداشت کرنا ہے جوذہنی طور پر بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں لاتیں رسید کرنا بھی لاتیں مارنے کے مفہوم میں آتا ہے۔ اٹھتے جوتا بیٹھتے لات بھی ذلیل سے ذلیل سزا برداشت کرنے کے معنی میں آتا ہے یا سزا دینے کے مفہوم میں آتا ہے۔

اُچھل اُچھل کرلات مارنا جان جان کر بُراسلوک کرنے کے مترادف ہے جس میں ذلت آمیز رو یہ شامل ہے لاتوں کا دیویا بھوت باتوں سے نہیں مانتا اس کے یہ معنی ہیں کہ جو بُری عادت کا انسان ہوتا ہے وہ سخت سلوک اور بری سزا کے بغیر راہِ راست پر نہیں آتا۔

 

(۲) لاٹھی پونگا کرنا۔

عام لوگوں کے لڑنے جھگڑنے کی عادت میں یہ بھی شامل ہوتا ہے ہووہ ہاتھا پائی کر بیٹھتے ہیں اُن کے جھگڑوں میں جوتا پیزار ہونا بھی شامل ہے اور لاٹھی پونگا بھی یہ آخری محاورہ دہلی میں خاص طور پر استعمال ہوتا ہے۔

ان محاورات سے پتہ چلتا ہے کہ محاوروں میں ہمارے طبقاتی رو یہ بھی زیر بحث آتے ہیں۔ طبقوں کا اثر زبان پرکیا ہوتا ہے اس کا تعلق ان ذہنوں اور  زندگیوں سے ہوتا ہے جن سے ان کے رو یہ بنتے ہیں اگر ہم طبقاتی کردار شامل نہ رکھیں تو الگ الگ طبقوں کا جورو یہ ہمیں اُن کی زندگی میں ملتا ہے اور جس کا تذکرہ ان کی زبانوں پر آتا ہے اس کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

 

(۳) لاٹھی مارے پانی جدا نہیں ہوتا۔

جب پانی پر لاٹھی ماری جاتی ہے تو پانی پھٹ ضرو ر جاتا ہے مگر الگ الگ دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوتا یہ بات ہمارے مشاہدہ کا حصہ بھی ہے لیکن محاورے کے طور پر یہ ہمارے طبقاتی اور  ساجی رو یہ کی ایک شناخت بھی بن جاتا ہے کہ چھوٹے طبقہ میں روز لڑائی ہوتی ہے گالی گلوچ ہوتی ہے مگر وہ ایک دوسرے سے لڑتے ضرور ہیں مگر الگ نہیں ہوتے یہ محاورہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ لاٹھی مارنے سے پانی دو ٹکڑے نہیں ہوتا ہے ہمیں تو ایک ساتھ مل کر رہنا ہے ایک ساتھ سفر کرنا ہے اور لڑائی جھگڑا تو بالکل اتفاقی بات ہے یہ عوامی رو یہ ہے کہ ان میں جھگڑا ہوتے دیر لگتی ہے اور نہ صلح ہوتے۔

 

(۴) لاحول بھیجنا یا پڑھنا۔

’’لاحول‘‘ عربی کا لفظ ہے اور ایک بڑا کلمہ ہے جس کی طرف یہ لفظ اشارہ کرتا ہے اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے ایک پڑھے لکھے طبقہ کا محاورہ ہے جو ہماری زبان میں شامل ہو گیا ہے اس کا پس منظر ہے کہ عربی کے اس فقرہ سے جو لاحول میں موجود ہے شیطانی خیالات ذہن سے غائب ہو جاتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لاحول پڑھو یا لاحول بھیجو تو ذہن کا خلفشار اور  طبیعت کا انتشار ختم ہو گا جو دراصل شیطانی وسوسوں کی وجہ سے ہے نقش لاحول تعویذ کے طور پر باندھا جاتا ہے۔

 

(۵) لال انگارا،سرخ انگارا۔

’’لال انگارا ہونا‘‘ انگارا ہمارے یہاں صبح و شام کا مشاہدہ توہے ہی ایک طرح کا استعارہ بھی ہے سرخی سرخ روئی کا نشان بھی ہے خون کی علامت بھی ہے اور اس کے معنی میں خطرہ کی علامت بھی ہے اور انتہائی غصہ کی بھی علامت ہے اس کی آنکھیں غصّہ کے باعث لال انگارہ ہو گئیں انگارا آگ کا حصّہ بھی ہے اور اس کی علامت بھی آگ کھائے گا انگارے اگلے گا یہ کہاوت اس کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جیسا آدمی کا رو یہ ہوتا ہے اس کی سوچ ہوتی ہے ایسا ہی اس کا عمل ہوتا ہے اور ایسا ہی اس کو جواب ملتا ہے۔ اور  ردِ عمل سامنے آتا ہے اُس سلسلہ عمل و رد عمل کو یہ محاورہ خوبصورتی سے پیش کرتا ہے اور اس میں ایک طرح کا شاعرانہ مبالغہ شامل ہے۔

 

(۶) لال پیلی آنکھیں کرنا یا نکالنا۔

آنکھیں آدمی کے جذبات و خیالات کا وہ اظہار ہیں جس میں ظاہری سطح پر لفظ و بیان شریک نہیں ہوتے غصہ ہو یا محبت اپنائیت ہو غیریت اِس کا اظہار الفاظ سے بھی اتنا نہیں ہوتا جتنا آنکھوں کے ذریعہ ہو جا تا ہے اسی لئے غصہ ظاہر کرتے وقت آنکھوں میں سرخی آ جاتی ہے جسے آنکھیں لال پیلی کرنا کہتے ہیں یہ ایک طرح کی لفظی تصویر کشی ہے جس کے رنگ متحرک ہیں۔ اور جب ہم اِن لفظوں سے گزرتے ہیں تو پوری تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ محاورے میں معاشرے کے جو مختلف رو یہ اور سوچ کے طریقہ ہیں ان کی بامعنی بلکہ معنی خیز تصویریں ہماری شاعر ی کی طرح ہمارے محاوروں میں بھی مل جاتی ہیں۔

 

(۷) لبوں پر جان آنا۔

لبِ دم ہونا، ایک ہی معنی میں آتا ہے موت سے قریب ہونا یا وہ حالت ہونا جو موت سے قریب تر ہونے کے عالم میں ہوتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس طرح کے محاوروں میں ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی ہوتی ہے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں اور کن الفاظ میں اپنی بات کو پیش کرتے ہیں۔

 

(۸) لٹک کر چلنا۔

چال میں ایک خاص طرح کا انداز اور  ادا پیدا کرنا جو بعض لوگوں کے یہاں قدرتاًً ہوتا ہے۔ اور بعض عورتوں اُسے انداز دکھانے کی غرض سے اپنے اندر پیدا کرتی ہیں یہ شاعرانہ انداز بھی ہوتا ہے لٹک غیر ضروری شے کو بھی کہتے ہیں جیسے اُن کا مقصد کوئی نہیں انہیں تو ایک طرح کی لٹک ہے۔ یہاں یہ شاعرانہ انداز نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا سماجی تبصرہ ہے ہر سماجی تبصرہ ہر موقع کے لئے صحیح اور دُرست ہو یہ ضروری نہیں۔

 

(۹) لٹوریوں والی۔

ایسی لڑکی یا عورت جس کے بال کھلے رہیں اور لٹوں کی شکل میں بکھرے رہیں اس کے لئے یہ کہا جاتا ہے۔ بعض مرد بھی لمبی لمبی لٹیں رکھتے ہیں اور کھلی چھوڑ دیتے ہیں ان کو بھی لٹوریا کہتے ہیں مگر یہ سماج کی طرف سے کوئی قابلِ تعریف بات نہیں ہوتی بلکہ اس میں ایک حد تک ناپسندیدگی کا اظہار شامل ہوتا ہے لڑکی کے لئے ناپسندیدگی اس میں نہیں ہوتی صرف اس کے لا اُبالی پن کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔

 

(۱۰) لٹو ہونا۔

لٹو کی طرح گھومنا فریفتہ ہونا شدت سے تعلقِ خاطر رکھنا، لٹو اپنی بہت چھوٹی سی کیل پر گھومتا ہے اور اس زمین کو نہیں چھوڑتا۔ اب جو آدمی دلی طور پر یا ذہنی اعتبار سے کسی شخص یا بات پر بے طرح مائل ہوتا ہے جسے فریفتہ ہونا کہہ سکتے ہیں اس حالت کو عوامی محاورے میں لٹو ہونا کہا جاتا ہے کہ وہ تو اس پر بے طرح لٹو ہو رہا ہے۔ اس محاورے سے ہم عوامی ذہن کے طریقہ رسائی کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ وہ شاعرانہ انداز کے جملے بھی تراشتے یا بولتے ہیں تو ان کا انداز کیا ہوتا ہے۔

 

(۱۱) لچھے دار باتیں کرنا۔

عام باتوں کو دلچسپ بنانے کے لئے اُن میں لطیفوں چٹکلوں شاعرانہ جملوں اور  روایتوں حکایتوں کا جب بے تکلف انداز سے گفتگو میں سہارا لیا جاتا ہے تو اسے لچھے دار باتیں کرنا کہتے ہیں۔ اور اس کے ذریعہ نکتہ میں سے نکتہ اور  بات میں سے بات پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے یہ ہمارے معاشرے ایک خاص طرح کے مہذب طبقہ کی زندگی میں داخل ہوتا ہے اور اس طرح ہماری سوسائٹی کے ایک خاص تہذیبی رُخ کو پیش کرتا ہے۔

 

(۱۲) لڈو بانٹنا، لڈو دینا، لڈو کھلانا،لڈو ملنا، لڈو پھوٹنا۔

یہ محاورے خوشی کے موقع پر استعمال ہوتے ہیں ہمارے ہاں دستور ہے کہ جب کوئی خوشی یا مبارک باد کا موقع آتا ہے تو لڈو تقسیم کئے جاتے ہیں گھروں میں جاڑوں کا موسم آنے پر لڈو بنا کر رکھے جاتے ہیں۔ تلوں کے لڈو بور کے لڈو گوندھنی کے لڈو وغیرہ ہمارے معاشرے میں رائج رہے ہیں یہاں تک کہ جب آدمی من ہی من میں خوش ہوتا ہے تو اسے یہ کہا جاتا ہے کہ اُس کے من ہی من میں دل ہی دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔

اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مٹھائیاں تو بہت ہیں لیکن لڈو کا ہماری تہذیب سے ایک گہرا رشتہ ہے اور محاورے میں اس کے جو مختلف Shadesآئے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ معاشرتی فکر اور سماجی سوچ کے محاوروں سے کیا رشتہ ہے۔

 

 

 

(۱۳)لڑائی مول لینا، لڑائی باندھنا۔

لڑائی جھگڑا یا لڑائی بھڑائی ہمارے عوامی سماج کے عام رو یہ ہیں وہ ذرا سی بات پر لڑ بیٹھتے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جلد ہی صلح بھی کر لیتے ہیں ہمارے یہاں لڑائی اور اُس سے متعلق اسی نسبت سے بہت سے محاورے بھی ہیں اس میں لڑائی کرنا تو خیر ہے ہی لڑ پڑنا  لڑ بیٹھنا بھی عام محاورہ ہے۔

لڑائی مول لینا ایک خاص طرح کا محاورہ ہے اس لئے کہ لڑائی مول نہیں لی جاتی لیکن آدمی ہر طرح لڑائی جاری رکھنے پر آمادہ ہو جائے تو اس سے جواب میں لڑائی کو بہرحال انگیز کیا جاتا ہے۔ اسی کو لڑائی مول لینا کہتے ہیں کہ ضرورت کوئی نہیں تھی بے ضرورت جھگڑے کھڑے کئے اور لڑائی مول لی گئی کبھی کبھی آدمی جھڑا لو طبیعت کا ہوتا ہے اس وقت بھی کہتے ہیں کہ یہ صاحب یا صاحبہ تو خواہ مخواہ لڑائی مول لیتے ہیں۔

 

(۱۴) لڑے فوج نام سردار کا۔

اصل میں کام کرنے والے تو کچھ اور  ہی لوگ ہوتے ہیں چاہے وہ محنت و مشقت کا کام ہویا ایثار و قربانی پیش کرنا ہو ملک فتح کرنا ہو یا میدان مارنا اس میں ساری زحمتیں تو لشکریوں کے حصّہ میں آتی ہیں مگر نام امیر سردار فوج لشکر کے سپہ سالا ر یا  پھر قوم کے لیڈر کا ہوتا ہے یہ معاشرے کی بڑی ستم ظریفی ہے مگر تاریخ اسی طرح بنی ہے اور یہ اسی پر طنز ہے ذوقؔ کا مصرعہ ہے۔

 

؂ سچ کہا ہے دھار کاٹے نام ہو تلوار  کا

یعنی کام کسی کا نام کسی کا

 

(۱۵)لال لگ جانا۔ لال لگے ہوئے ہیں۔

ہم اپنے لباس میں قیمتی چیزیں شامل کرنے یا  جزوِ لباس بنانے کا شوق رکھتے ہیں یہ کام صرف بڑے لوگ ہی کر سکتے ہیں لیکن سماج کا عام رو یہ یہ ہے کہ خواہ مخواہ کسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ پسند کرتے ہیں تعریفیں کرتے ہیں اس کی طرف سے بڑائیاں مارتے ہیں اسی کے جواب میں کوئی سماجی طنز کے طور پر کہتا ہے اس میں کیا لال لگ رہے ہیں یعنی ایسی کون سی بڑائی یا تحفگی کی بات ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو پسند کیا جا رہا ہے اور دوسرے کا انکار کیا جا رہا ہے۔

 

(۱۶) لفافہ کھُل جانا۔

خطوں کو لفافہ میں بند کر کے بھیجا جاتا ہے خاص خاص طرح کے دعوت نامہ یا پیغامات بھی لفافوں میں بند کئے جاتے ہیں اب وہ بات چھپی ہوئی بات ہو جاتی ہے اور لفافہ کھل جانا بھید کا ظاہر ہو جانا ہے کچھ تفصیلات کا معلوم ہو جانا وغیرہ۔

 

(۱۷) لقمان کو حکمت سِکھانا۔

لقمان ہمارے ہاں ایک علامتی کردار ہے اور عقل و حکمت کے لحاظ سے لقمان کی شخصیت ایک پیغمبرانہ کردار رکھتی ہے جس کا ذکر قدیم لٹریچر میں بھی آتا ہے اُردو میں لقمان کا ذکر بھی انتہائی درجے پر پہنچنے ہوئے صاحبِ علم و حکمت ہی کے شخص کی حیثیت سے آتا ہے لیکن جس طرح کہتے ہیں کہ اُلٹی گنگا پہاڑ کو  جو ناممکن بات ہے اسی طرح لقمان کو حکمت سکھانا بھی ایک ایسی ہی صورت ہے۔ سماج کی طرف سے بعض لوگوں کے عقل پر طنز ہے کہ وہ تو اپنے آپ کو اتنا عقل مند سمجھتے ہیں کہ لقمان کو بھی حکمت سکھلا دیں۔

یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بہت سے کردار غیر قوموں اور غیرملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اُن کا ذکر ہمارے محاوروں میں اس طرح آیا ہے جیسے وہ ہماری سماجی نفسیات کا حصّہ ہوں۔ اس سے اردو زبان اور اردو والوں کے دائرہ و فکر  و خیال کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔

 

(۱۸) لکیر پر فقیر ہونا، لکیر کا فقیر ہونا، لکیر پٹنا، لکیر کھینچنا۔

’’لکیر ‘‘خط یا لائن کو کہتے ہیں خط سیدھا بھی ہو سکتا ہے ٹیڑھا بھی مختصر بھی اور  طویل بھی اس سے ہم نے بہت سے تصورات لئے ہیں اُن میں خطوط کی آہنی (ریلوے لائن) بھی ہے اور خطوط ہوائی بھی ہے (ائرلائن) خطوط فکر بھی ہے یعنی سوچ کا انداز۔ بچے لکیریں کھینچتے ہیں انہی کو  گنتے بھی ہیں۔

اُن کے بعض کھیل بھی لکیروں سے متعلق ہیں اب انسان اگر ایک بات پر جم جاتا ہے تو اسے لکیر کا فقیر کہتے ہیں یعنی ایک مرتبہ جو کچھ سوچ لیا اس سے الگ ہو کر سوچنا گوارا ہی نہیں کیا جبکہ زندگی بدلتی ہے زمانہ بدلتا ہے حالات و خیالات بدلتے ہیں اور سوالات بدلتے ہیں اگر انسان سوچنا ہی بند کر دے اور لکیر کا فقیر ہو کر رہ جائے تو بدلتے ہوئے سماج اور ماحول میں اِس کا حشر کیا ہو گا وہ لکیر پیٹتا رہ جائے گا۔

 

(۱۹) للو پتو کرنا

یہ دیہاتی انداز کا محاورہ ہے اور بہت عامیانہ سطح پر اس میں وہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ جواب محاوروں میں تورہ گئی لیکن شہری زبان سے نکل گئی للو زبان کو کہتے ہیں اور للّو پٹو کے معنی ہیں خوشامدانہ زبان و لہجہ اس سے پتہ چلا کہ ہمارے محاورے زبان کی بہت نچلی سطح کو بھی چھوتے ہیں۔ اور اسے عام زبان کا حصّہ بنا دیتے ہیں۔ محاورے کی ہماری زبان کے لیے بڑی اہمیت ہے اور اُس میں ہماری زبان کے بہت سے Shades محفوظ ہو جاتے ہیں۔

 

 

 

(۲۰) لمبے سانس بھرنا۔

جب ’’آدمی دکھ‘‘ کے عالم میں گہرے گہرے سانس لیتا ہے تو اسے لمبے لمبے سانس لینا کہتے ہیں اس سلسلہ کا ایک اور محاورہ لمبے پڑنا بھی ہے یعنی چلے جانا تشبیہہ استعارہ مجاز اور کنایہ کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جو ہماری عوامی زبان میں محاورے کے وسیلے سے آ گئے ہیں اور اُن کا ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ زبان چاہے شاعری اور انشاء پردازی کی اعلیٰ سطح پر استعمال ہونا چاہئے عامیانہ محاوروں میں آئے اس کا اپنا جنس برابر کام کرتا رہتا ہے۔

(۲۱) لنگوٹی میں پھاگ کھیلنا۔

ہندوستان بہت غریب ملک رہا ہے یہاں تک کہ ان لوگوں کے پاس ستر پوشی کے لئے کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے یہاں تک کہ لنگوٹی وہ چھوٹے سا چھوٹا کپڑا ہوتا ہے جس سے وہ اپنی ستر پوشی کرتے ہیں اس پر بھی ہمارے ملک والوں میں ایک رجحان یہ پایا جاتا ہے

کہ وہ جب بھی موقع آتا ہے اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اسی موقع پر سماج کا یہ طنز سامنے آتا ہے کہ وہ جو لنگوٹی میں پھاگ کھیلتے ہیں ’’پھاگ کھلنا‘‘ ’’رنگ رلیاں ‘‘ مناتا ہے یعنی انتہائی غریبی میں بھی اُن کا جی چاہتا ہے وہ من چاہی رنگ رلیاں منائیں اور خرچ اخراجات کا خیال نہ کریں یہاں تک کہ قرض لے لیں۔ دوسروں سے مانگ لیں۔

 

(۲۲) لُولُو بنانا۔

ہمارے یہاں ناموں کو بگاڑا جاتا ہے یہ لاڈ و پیار میں بھی ہوتا ہے اور ہنسی مذاق میں بھی اور  طعنہ اور  تضحیک میں بھی ’’لولو‘‘ ایک ایسا ہی نام ہے لال سے لالو بنا اور لالو کو ’’للو ‘‘ لولو کر دیا اُس کے معنی ہیں۔ احمق بیوقوف اب کسی کو ہم مذاق اُڑانے کی غرض سے لولو بناتے ہیں یعنی ہنسی مذاق میں اس کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو یہ ظاہر کرے کہ یہ آدمی تو بہت احمق ہے اس اعتبار سے یہ محاورہ سماج کے ایک رو یہ کا اظہار ہے اور اس میں غیر سنجیدہ اور غیر مخلصانہ طریقہ عمل کی طرف اشارہ ہے۔

 

(۲۳) لوہا لاٹھ ہو جانا۔

بہت سخت ہو جانا دہلی میں لوہے کی ایک لاٹھ بھی ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ایک اس سے عوام سے اور خاص طور پر دہلی کے عوام نے ایک نئے معنی نکال لئے اور وہ سخت ہو جانے کے ہیں بہت ہی سخت جب کوئی چیز بہت ہی سخت ہو جاتی ہے تو اسے لوہا لاٹھ ہو جانا کہتے ہیں۔ لاٹھ مینار کی شکل جیسی کسی شے کو کہتے ہیں دہلی والے قطب مینار کو قطب کی لاٹھ کہتے ہیں۔

 

 

 

(۲۴) لوہے کے چنے چبانا۔

بہت سخت اور مشکل کام کرنا چنے چبانا بھی ایک مشکل کام ہی ہوتا ہے جس کو کرنے میں تکلیف زیادہ ہوتی یہ اور  راحت برائے نام یہ ہمارے معاشرے کا گویا ایک عام تجربہ ہے اس کو مبالغہ کے طرز پر آگے بڑھایا بلکہ غلو کا انداز پیدا کر دیا کہ یہ تو لوہے کے چنے چبانا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ یہ محاورہ اُن لوگوں میں زیادہ رائج ہونا چاہیے جو لوہے کے کام اور  اس کے ہتھیاروں  اوزاروں سے زیادہ واسطہ رکھتے تھے۔

 

(۲۵)لوہے کی چھاتی اور پتھر کا  جگر کر لینا۔

بہت بڑی آزمائش سے گزرنا، چھاتی یا سینہ یہاں تک بطورِ تشبیہہ آیا ہے اُسے ہم استعاراتی انداز کہہ سکتے ہیں پتھر بھی سخت ہوتا ہے اور بے حس ہوتا ہے یہی حال لوہے کا ہے کہ وہ سخت بھی ہے۔ اور بھاری بھی جب کسی بہت بری بات کو برداشت کرنا ہوتا ہے اس کے لئے ظاہر ہے کہ ہر نیچر کا آدمی نہیں کر سکتا کوئی خاص ہی آدمی ہو گا  جو بے حد ضبط اور حدسے زیادہ صبر رکھتا ہو وہی برداشت کر سکتا ہے۔

 

(۲۶) لہو پانی ایک کرنا، یا لہو سینہ ایک کرنا۔

یہ بھی ہر بھر محنت کرنا زحمت اُٹھانا اور تکلیفیں برداشت کر کے کسی کام کو انجام دینا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ اس نے تو لہو پسینہ ایک کر دیا۔ لہو بے حد قیمتی شے ہے اور اُس کے مقابلہ میں پانی یا پسینہ بہت کم قیمت چیز ہے مگر اس نے محنت و مشقت برداشت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ لہو پسینہ ایک کر دیا اسی کو لہو پانی کرنا کہتے ہیں۔

 

(۲۷)لہو خشک ہو جانا۔

جب خوف و دہشت یا شدید نقصان کے خیال سے آدمی سکتہ میں آ جاتا ہے اُس حالت کو لہو خشک ہونا کہتے ہیں اور اسی کے لئے کہا جاتا ہے کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس کے مقابلہ میں جو ایک نفسیاتی تجربہ یا تجزیہ ہے لہو سفید ہونا خون سفید ہونا ایک سماجی رو یہ پر تبصرہ ہے اور یہ عام طور سے اپنوں کی بے مروتی اور بے تعلقی کی شکایت ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ آج کل تو عزیزوں کا  لہو یا خون سفید ہو گیا ہے یعنی کسی کو کسی سے کوئی جذباتی تعلق یا خلوصِ خاطر نہیں رہا۔

یہ محاورہ شاعرانہ انداز رکھتا ہے لیکن اس میں آپسی تعلقات میں بے مروتی رو یہ کا تذکرہ ہوتا ہے اور اس پر ایک طرح کا طنزیہ تبصرہ ہے۔

 

 

 

(۲۸) لہُو کا پیاسا یا خون کا پیاسا ہونا۔

ہم تاریخ میں اس طرح کے واقعات پڑھتے ہیں کہ دشمنی میں کسی نے مقتول آدمی کا جگر چبا لیا یا مخالف کو قتل کر کے اس کا خون پی لیا۔ اسی پس منظر میں یہ محاورہ سامنے آیا کہ وہ تو اس کے خون کا پیاسا ہے جو بھی جانی دشمن ہوتا ہے اسے خون کا پیاسا کہتے ہیں ترکوں اور ’’تاتاریوں ‘‘ کی خون آشامیوں کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے گھوڑوں کی گردن کی رگ میں شِگاف کر کے ان کا اپنی پیاس بجھانے کے لئے خون پی لیتے تھے یہ بھی خون کا پیاسا ہونے کی ایک صورت ہے محاورات میں تاریخ کے جورو یہ محفوظ ہو گئے ہیں ان میں خون کا پیاسا ہونا بھی ہے۔

 

(۲۹) لہو کا جوش، لہو کے سے گھونٹ پینا، لہو کا جوش مارنا۔

کسی سے تعلق خاطر اور اپنائیت کے جذبہ کے تحت والہانہ طور پر ملنا یا اُس کو یاد کرنا خون کا جوش مارنا ہے تمام رشتوں میں خون کا رشتہ زیادہ اہم اور مضبوط خیال کیا جاتا ہے اسی لئے خون کا جوش مارنا محاورہ بن گیا۔

اِس کے مقابلہ میں لہو کے سے گھونٹ پینا یا دینے والے رو یہ کو برداشت کرنا ہے کہ میں یہ سنتا ہوں دیکھتا ہوں اور خون کے سے گھونٹ پیتا ہوں جو ایک نہایت مجبوری کا عالم ہوتا ہے محاورے میں ہمارے جو حسیاتی اور جذباتی تجربہ شامل ہوتے ہیں اور پھر ہم ان کا تجزیہ کرتے ہیں تو عجیب عجیب صورتیں سامنے آتی ہیں یہ محاورے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

 

(۳۰) لہو لگا کے شہیدوں میں داخل ہونا۔

یہ سماج کے اس رو یہ پر ایک تنقید ہے کہ عام طور سے لوگ کچھ کرنا نہیں چاہتے لیکن ایکٹنگ اِس طرح کی کرتے ہیں اور  دعویٰ دار اس امر کے بنتے ہیں کہ انہوں نے بہت کچھ کیا ہے یہی کہ انگلی کٹا کے یا  لہو لگا کے شہیدوں میں داخل ہونا محاورہ پیدا ہوا ہے کہ برائے نام کچھ کیا جائے اور اس کا پورا کریڈٹ لیا جائے۔

ہمارے سماج کی بہت سی روشیں ایسی ہیں جس کو کنڈم کیا جانا چاہے کہ اُن کے ذریعہ فریب دھوکہ اور دکھاوٹ کا رو یہ بنتا ہے اور اقلیت کمزور پڑ جاتی ہے اِس محاورے میں جو گہرا طنز ہے وہ اسی معاشرتی سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 

(۳۱) لیک پیٹنا

ملاحظہ ہو لکیر پیٹنا۔

 

 

(۳۲) لیکھا ڈیوڑھا برابر کرنا یا  لیکھا  جوکھا برابر کرنا۔

اصل میں یہ بھی سماجی رو یہ ہی کو تصویر کشی ہے کہ لوگ باتیں بنا کر تھوڑا بہت کچھ کر کے معاملہ کو برابر کر دینے کی کوشش کے لئے یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے’’ لیکھا جوکھا برابر کر دیا‘‘ محاورہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک محاورہ ایک زیادہ معنی میں استعمال ہوتا ہے اور علاقائی یا طبقاتی طور پر اس کے استعمال پر نئے پہلو ابھر آتے ہیں اِس محاورے کے ساتھ بھی یہی صورت ہے۔

 

(۳۳) لینے کے دینے پڑنا۔

جب معاملہ کچھ گڑبڑ ہو جاتا ہے تو صورتِ حال اُس کی کچھ اور  ہو جاتی ہے اور جہاں کچھ لینے اور کریڈٹ پانے کا موقع ہوتا ہے وہاں اپنے پاس سے دینے اور نقصان اٹھانے کی صورت پیش آتی ہے اسی کو لینے کے دینے پڑ جانا کہتے ہیں۔

***

 

 

ردیف ’’م‘‘

 

(۱) ماتھا رگڑنا، ماتھا مارنا

ماتھا رگڑنا اظہار عاجزی کرنا۔ اس لئے کہ ماتھا پیشانی کے معنی میں آتا ہے اور پیشانی جھُکانا زمین پر ٹیکنا ‘خاک پر ملنا یا چوکھٹ پر رگڑنا اظہار عاجزی کے لئے ایک علامتی عمل کے طور پر آتا ہے۔

 

(۲) ماتھا ٹھنکنا۔

پہلے کسی خطرے یا کسی بات کا اندازہ ہونا جو گویا سماجی شعور کا نتیجہ ہوتا ہے اور اُس کے لئے کہا جاتا ہے کہ میرا ماتھا پہلے ہی ٹھنکا تھا۔ اور ایسا احساس ہوا تھا کہ ایسا کچھ ہو نے والا ہے۔

 

(۳) مارا مارا یا مارے مارے پھرنا۔

کسی کی تلاش جستجو یا کسی کام کی غرض سے پریشان پھرنا کہ کسی طرح یہ کام ہو جائے اور بات بن جائے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کی تلاش میں بہت دنوں تک مارا مارا پھرا۔

 

(۴) مارتے مارتے گٹھر کر دینا۔

ہمارے ہاں جسمانی سزا کا بہت رواج ہے جس سے معاشرے کی شدت پسندی کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ کہ جس میں آدمی دوسرے کو اس بری طرح مارتا ہے کہ اس کا سارا وجود ایک گٹھری کی طرح سمٹ کر مجبور ہوتا ہے اپنے آپ کو سمیٹتا ہے کہ شاید اسی طرح کچھ بچاؤ ہو جائے۔

 

(۵) ماں کا دُودھ۔

ہمارے معاشرے میں دُودھ کو جو ماں پلاتی ہے اولاد پر ایک بڑا حق تصور کیا جاتا ہے اس لئے کہ اس کی کوئی اور قیمت تو ہوتی نہیں دُودھ پلائیاں رئیسوں کے یہاں رکھی جاتی تھیں تو ان کا بھی اس بچہ پر بہت بڑا حق ہوتا تھا جوان کے دودھ میں شریک ہوتا تھا اسی لئے اب تک کہا جاتا ہے کہ ماں سے دودھ بخشوا لو یا یہ کہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تومیں دودھ نہیں بخشوں گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سماجی رشتوں میں حق کا تصور بہت واضح رہتا ہے اور اس میں دُودھ کا حق بہت بڑی بات سمجھی جاتی ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماں کے قدموں میں جنت ہے اور ہندو کہتے ہیں ماتا کے چرنوں میں سورگ ہے جنت ہے بات یہی ہے ایک ہی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں روایتی طور پر ماں کو کتنا بڑا درجہ دیا جاتا ہے۔

 

(۶) ماں کے پیٹ سے لیکر کوئی پیدا نہیں ہوتا۔

انسان کو ہر چیز پیدائشی طور پر نہیں ملتی۔ اسے حاصل کرنی پڑتی ہے’’ عِلم‘‘ ایک ایسی ہی شے ہے ہنر مندی اور فنکاری بھی کسی کو Bybirthنہیں آتی اس سے ہم یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ آدمی کو سماجی زندگی میں بہت سی باتوں کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا پڑتا ہے ساری اچھائیاں قدرت کی طرف سے نہیں مل جاتیں۔

 

(۷) مال اُڑانا یا مارنا۔

مال پر بہت سارے محاورے ہیں اس امر کی طرف اُن سے اشارہ ملتا ہے کہ جو چیز زندگی میں جتنی اہمیت رکھتی ہے اتنا ہی اس کا ذکر آتا ہے مثلاً مال اُڑانا، مال حاصل کرنا، مالا مال ہونا مال بامعنی شے بھی آتا ہے ذوق کا مصرعہ ہے۔

؂سب  گھٹا دیتے ہیں مفلس کے غرض مال کا قول

فریب اور دغا بازی سے مال لے لینا مال ہاتھ آنا یا دولت حاصل ہونا مال کی گٹھری ہونا یعنی بہت سا مال ہونا۔ مال اس کے ’’پلّے‘‘ بہت ہے ’’پلّے‘‘ کے معنی یہاں ’’پاس‘‘ یا نزدیک کے ہیں۔ یہ محاورہ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔

 

(۸) مٹرگشت کرنا۔

بے تکلفی سے ملنے ملانے یا کسی جگہ کی سیر کرنے کے لئے گھومنے پھرنے کو مٹرگشت کرنا کہتے ہیں کہ وہ تو یونہی مٹرگشت کے لئے نکل جاتے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ محاورات میں بعض ایسے پہلوؤں پربھی نظر رکھی جاتی ہے اور انہیں محاورات میں سمویا جاتا ہے جو ہمارے معاشرے میں قابل توجہ ہوتے ہیں مٹر گشت کرنا اسی ذیل میں آتا ہے اور ایک اچھا خوبصورت محاورہ ہے۔

 

(۹) مٹی خراب کرنا، مٹی ڈالنا، مٹی ڈلوانا، مٹی عزیز کرنا، مٹی پلید کرنا،مٹی میں مِٹی یا ماٹی میں ماٹی ملنا۔

ہماری زندگی ذہنی اور زمانی وفاداریوں سے متعلق بہت سے حوالہ زمین اور مٹی سے وابستہ ہوتے ہیں کہ وہی ہماری زندگی کی ایک بہت بڑی مادّی حقیقت ہے اور زمین ہی کو ہم مٹی سے تعبیر کرتے ہیں اور خاک سے بھی ایسے بچوں کو جن کے ماں باپ نہیں رہتے موئی مٹی کی نشانی کہتے ہیں مِٹی ہو جانا گویا مٹی کے برابر ہو جانا ہے جب کوئی چیز قیمت سے بے قیمت ہو جائے یا انتہائی عاجزی اختیار کرے تو اسے مٹی ہو جانا کہتے ہیں کسی کوشش خواہش اور سعی تدبیر کا ناکام ہونا بھی مٹی ہو جانا یا مٹی میں مل جانا ہے مِٹی مل جانا موت آنے کو بھی کہتے ہیں کہ وہ سب مرگل گئے مٹی میں مِل گئے اب اُن کا کیا ذکر۔

مٹی پلید ہونا یا کرنا ذلیل کرنے کو کہتے ہیں اور ذلیل ہونے کو مٹی پلید ہونا کہتے ہیں وہاں ان کی بہت مٹی پلید ہوئی یعنی ذلیل ہونا پڑا۔

جب آدمی بہت مصیبت میں ہوتا ہے اور بیمار ہوتا ہے تو اس کی زندگی کی مشکلات اور تکلیفوں کو دیکھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ ان کی مٹی عزیز کر لے۔ یعنی ان کی مشکل آسان کر دے۔

مٹی دینا دفن کرنے کے بعد مسلمانوں میں یہ رواج ہے کہ سب مٹھیاں بھر بھر  کر تیا ر ہونے والی قبر میں مٹی ڈالتے ہیں اسی کو مٹی دینا کہتے ہیں نشان قبر کو باقی رکھنے کے لئے کچھ لوگ قبروں پر مٹی ڈلواتے رہتے ہیں مٹی کی کشش کا تصور بھی موجود ہے کہ جہاں کی مٹی ہوتی ہے وہیں انسان دفن ہوتا ہے اردو کا ایک مصرعہ ہے۔

؂ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

مٹی میں مٹی ماٹی میں ماٹی ملنا بھی اسی مفہوم میں آتا ہے۔

 

(۱۰) مٹی کا مادھو۔

بیوقوف آدمی کو کہتے ہیں کہ وہ تو بالکل مٹی کا مادھو ہے یعنی اسے بالکل عقل نہیں ہے جو بھی کا م کرتا ہے بیوقوفوں کی طرح کرتا ہے۔

 

(۱۱) مٹی کے مول بیچ ڈالنا۔

مٹی میں مٹی مل گئی آدمی خاک تھا اور خاک کا حصہ ہو گیا مٹی کے مول بکنا یا بیچنا بہت ہی کم قیمت پر بیچ ڈالنے کو کہتے ہیں مِٹی سنگوانا۔ مردے کے کفن دفن کا انتظام کرنا مٹی سنگوانا کہلاتا ہے جنازہ اٹھانے کو مٹی اُٹھانا کہتے ہیں عام طور پر اُردو پر اعتراض کرنے والے یہ تو کہتے ہیں کہ وہ گل و بلبل کی شاعری ہے اور اُس کو عاشقی کی باتیں ہیں اگر اردو کو اس کے محاوروں اور اس کے روزمرہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ یقیناً یہاں کی عوامی اور عمومی زبان ہے اور اُس کے لفظوں کا ذخیرہ عام زبان ہی سے آیا ہے۔

 

(۱۲) مجذوب کی بَڑ۔

اُلٹی سیدھی بکواس کرنا بے معنی اور لایعنی باتیں کرنا مجذوب کی بَڑ کہلاتا ہے’’ مجذوب‘‘ کسی ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کے ہوش و حواس میں خلل پڑ گیا ہو ایسا ہی آدمی بے تکی اور بے ہنگم پن کی باتیں کرتا ہے۔

 

(۱۳) مُجرا کرنا۔

’’مُجرا ‘‘ بامعنی سلام آتا ہے اسی لئے عام زبان میں کہتے ہیں کہ ان سے ہمارا بھی سلام مجرا ہے طوائفوں کے یہاں مجرا رقص کی محفل کو کہتے ہیں یعنی آج ان کے یہاں مجرا ہے اس کا مطلب ہے کہ رقص و سرود کی محفل ہے درباری سلام کو بھی مجرا کہتے ہیں اور لکھنؤ والے سلام پیش کرنے کو مجرا بجا لانا کہتے ہیں یہ محاورہ بھی اِس اعتبار سے ہمارے تہذیبی رویّوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

 

(۱۴) مرچیں لگنا، مرچیں سی لگ جانا

کسی بات پر خفا ہونا اور بات بھی وہ جس میں اس کی اپنی کوئی کمزوری چھُپی ہوئی ہو وہ سامنے آ جائے تو اس کو مرچیں لگنا کہتے ہیں کہ میری بات سے اس کے کیسے مرچیں لگیں یہ سماج کا ایک تبصرہ ہے کہ سچی بات کوئی سننا نہیں چاہتا۔

 

(۱۵) مَرد کی صورت نہ دیکھنا

جو عورت یا لڑکی انتہائی پاکیزہ کردار ہوتی ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے مرد کی صورت بھی نہیں دیکھی یہاں مرد سے مراد وہ شخص ہے جس سے جنس و جذبہ کا کوئی تعلق ہو ورنہ مرد تو ماں باپ بھی ہوتے ہیں۔

 

(۱۶) مُردوں کی ہڈیاں اکھیڑنا یا گڑے مردے اکھیڑنا

مرنے والوں سے متعلق ہمارا جو تہذیبی رو یہ رہا ہے اس میں انہیں دعا درود سے یا د کرنا بھی ہے اور بعض ایسے محاورے بھی مردوں سے متعلق ہیں جو ہمارے سماجی رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں مثلاً ایسی باتوں کو یاد کرنا جن میں بُرائی کے پہلو موجود ہوں گڑھے مُردے اکھاڑنا کہا جاتا ہے۔

اِس لئے کہ ہم اپنی معاشرتی کمزوریوں کا کوئی علاج تلاش نہیں کر پاتے اسی لئے یہ سوچتے ہیں کہ اُن باتوں کو بھُلا دیا جائے اور اُن پر خاک ڈال دی جائے اور اگر اُن کا کوئی ذکر کرتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ گڑے مُردے اکھیڑتا ہے یا مُردوں کی ہڈیاں اکھیڑتا ہے مقصد یہ ہوتا ہے کہ خوامخواہ کی باتیں نہ کی جائیں یا  پھر تکلیف دینے والی باتوں کو یاد نہ کیا جائے۔ ان محاورات سے ہماری سماجی زندگی کا عمل اور  ردِ عمل دونوں سامنے آتے ہیں۔

 

(۱۷) مُردے کا مال۔

ہمارے سماجی عمل کا ایک بہت ہی گھِناونا عمل یہ ہے کہ ہم مُردے کا مال کو اُس کی زمین و جائداد کو کسی نہ کسی بہانہ لوٹ لیتے ہیں اور جو قوم فریب و دغا دھوکہ یا زبردستی کر کے زندوں کو اُن کے مال سے محروم کر دیتے ہیں تو مُردوں کے ساتھ ہمارا سلوک کیا ہو گا اسی لئے لوگ یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں بیوہ کا حق چھین لیتے ہیں یہی مُردے کا مال کہلاتا ہے اور جب کوئی آدمی ’’دیکھتی آنکھوں ‘‘ بد دیا نتی کرتا ہے تو دوسرے کہتے ہیں کہ کیا مُردے کا مال سمجھ رکھا ہے۔

 

(۱۸) مرزا پھویا۔

جو بچہ اپنے ماں باپ یا بڑوں کے لاڈ پیار اور  ناز برداری کی وجہ سے بہت نازک مزاج اور  تحریر یا نازک مزاج ہو جاتے ہیں ان کو مرزا پھویا کہتے ہیں یعنی روئی کا بہت ہی چھوٹا سا اور نازک سا پھویا ایسا پھویا جسے عطر سے بسایا جاتا ہے۔

سماجی طور پر ہمارے معاشرے میں غیر ضروری نزاکت نازک مزاجی بُری بات سمجھی جاتی ہے اور اسی پر ایک طنز ہے اور اس دور کی یادگار ہے جب رئیسوں کے بچہ ناز نخرے کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں۔

 

(۱۹) مُرمُروں کا تھیلا۔

مُرمُرے کھیلوں کی طرح چاول سے تیا رکیا ہوا ایک آئیٹم ہوتا ہے بہت ہلکا قریب قریب بے وزن اب اگرمُرمُرے ایک تھیلے میں بھر لئے جائیں تو تھیلا بہت بڑا ہوتا ہے مگر اِس میں وزن کچھ بھی نہیں ہوتا وہ آدمی جو بظاہر موٹا تازہ اور بھاری بھرکم ہوتا ہے اُسے مُرمُروں کا تھیلا کہتے ہیں۔

 

(۲۰) مرنے کی فرصت نہیں ہوتی۔

موت کے لئے فرصت و فراغت کی کوئی شرط نہیں ہوتی مگر آدمی اپنے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیتا ہے اور بہانہ بھی ایسا جو اُسی کے لئے قابلِ قبول ہوتا ہے کسی دوسرے کے لئے نہیں ایسے ہی بہانوں میں سے یہ بہانہ بھی ہے کہ مرنے کی بھی فرصت نہیں ظاہر یہ کرنا ہوتا ہے کہ میں بہت ضروری کسی کام میں لگا ہوا ہوں اور اس کو پورا کر لینا چاہتا ہوں اس وقت تو اگر فرشتۂ موت آ جائے تو اس سے بھی معذرت کر لوں گا کہ فی الوقت مجھے فرصت نہیں ہے اِس وقت میں جینا چاہتا ہوں اپنا کام سمٹانا چاہتا ہوں مجھے مرنے کی بھی فرصت نہیں۔

 

(۲۱) مسجد میں اینٹ الٹ کر رکھنا۔

مسلمان عورتوں کا محاورہ ہے اور اِس کے معنی یہ ہیں کہ مسجد کے احترام میں یا اُس کے کام میں کوئی بھی بے توجہی یا بدیانتی نہیں برتنی چاہیے اِس لئے کہ اُس کی سزا بہت شدید ہوتی ہے مطلب ہے کہ سماج میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے رہے جو مذہب کے کاموں میں مقدس فرائض کی انجام دہی میں دیانتدارانہ رہے اسی پر یہ تنبیہ کی گئی یہ الگ بات ہے کہ عورتوں میں خاص طور پر جاہل عورتوں میں توہم پرستی زیادہ ہوتی ہے اور اُسی کے رشتہ سے اس طرح کے تصورات بھی اُن میں زیادہ ہوتے ہیں۔

 

(۲۲) مشعل کے نیچے سے نکلا ہوا ہے۔

ایک طرح سے نیا محاورہ ہے مگر بہت دلچسپ ہے جب تک گیس کے ہنڈے یا بجلی کے بلب نہیں آتے تھے اُس وقت تک زیادہ تر مشعلوں ہی سے کام لیا جاتا تھا۔ اور جُلوسوں کے موقع پر مشعل بردار ہوتے تھے جو دوسروں کو روشنی دِکھلاتے تھے لیکن خود اندھیروں میں رہتے تھے یہ بالکل وہی بات ہے کہ چراغ تلے اندھیرا اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ زمانے کے ساتھ گھوما پھرا ہے اور تجربہ کار ہے۔

 

(۲۳) مشعل لیکر ڈھونڈھنا۔

تلاش اور تجسس سے بھی روشنی و چراغ اور مشعل کا عملی اور اشاراتی رشتہ ہے اسی لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اس کو تلاش کرنے کے لئے مشعل لیکر نکلا اقبال کا مشہور شعر ہے اور اسی عمل کی طرف اشارہ ہے۔

 

؂ آئے عُشاق گئے وعدۂ فردا لیکر

اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لیکر۔

 

(۲۴) مِصری کھلانا۔

مصری خاص طرح کی مٹھائی ہے برف جیسی شفاف ڈلیوں والی مٹھائی یہ خوشی کے موقع پر رسماً بھیجی بھی جاتی ہے اور کھِلائی بھی جاتی ہے اچھی باتوں کو مصری کی ڈلیاں بھی کہا جاتا ہے میٹھائی کھلانا یا مٹھائی بانٹنا ہمارے معاشرے میں خوشی کا اظہار کرنا ہے۔

 

(۲۵) مطلع صاف ہو جانا۔

آسمان کے کنارے کو جہاں چاند نظر آتا ہے مطلع کہتے ہیں اگر مطلع غبار آلود یا ابرآلود ہوتا ہے تو چاند نظر نہیں آتا اور مطلع کے صاف ہونے کی صورت میں ہم نئے چاند کو صاف صاف دیکھ سکتے ہیں اسی لئے کہتے ہیں کہ مطلع صاف ہے غبار کا پردہ یا  ابر کا ٹکڑا نہیں ہے یہ محاورہ خاص طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور ایسے آدمی کے لئے کہا جاتا ہے جس کے ذہن میں کچھ نہیں ہوتا جو دل سے محسوس نہیں کرتا اور دماغ سے سوچتا نہیں اس کے لئے کہا جا تا کہ وہاں تو مطلع صاف ہے وہ بالکل خالی الذہن ہے۔

 

(۲۶) معرکے کا آدمی۔

معرکہ جنگ کو بھی کہتے ہیں کسی اور  مقابلہ کو بھی اب جو آدمی مقابلہ کی سکت رکھتا ہے وہ معرکہ آدمی کہلاتا ہے اب یہ ظاہر ہے کہ جو آدمی معرکہ کا آدمی ہو گا وہ معمولی آدمی نہیں ہو سکتا غیر معمولی آدمی کو بھی معرکہ کا آدمی کہا جاتا ہے۔

 

(۲۷) مغز کھانا، مغز چٹ کر جانا، مغز کو چڑھنا، مغز کے کیڑے جھڑنا یا  مغز کی کیل نکلنا وغیرہ۔

ہمارے یہاں بعض لوگ غیر ضروری باتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اپنی باتوں سے دوسروں کو پریشان کرتے ہیں جس سے اُن کی سوچ بچار کی قوت کم ہو جاتی ہے یا ختم ہو جاتی ہے یہ وقتی طور پر ہوتا ہے اُسے محاورے کے طور پر کہتے ہیں کہ وہ تو خواہ مخواہ مغز خالی کرنا یا مغز چٹ کرنا کہتے ہیں۔ جب کوئی دوا خوشبو یا بدبو بے طرح دماغ کو متاثر کرتی ہے تو اسے مغز کو چڑھنا کہتے ہیں۔

جو آدمی الٹی سیدھی اور غلط سلط باتیں کرتا ہے اُس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اُس کے دماغ میں تو کیڑا کاٹتا ہے اور جب کسی طریقہ سے اُس کی احمقانہ باتوں کو سامنے لایا جاتا ہے اور اُس کے غلط رو یہ کو کَنڈَم کیا جاتا ہے تو اسے دماغ کے کیڑے جھاڑنا یا جھڑنا کہتے ہیں۔

ہماری داستانوں میں اس طرح کی کہانیاں ملتی ہیں کہ اس کے مغز میں کیل ٹھونک دی یہ ایک طرح کا استعاراتی بیان ہوتا ہے مغز میں کبھی کیل نہیں ٹھوکتی مگر کیل دینا بھی ایک عمل ہے اور اُسی کا ردِ عمل کیل نکالنا ہے یہ دونوں کہانیوں اور داستانوں میں سامنے آنے والے عمل ہیں جو ہماری سماجی فکروں کا ایک رُخ ہیں۔

 

(۲۸) ملاحظہ کا آدمی ملاحظہ والا۔

لحاظ ایک طرح کی رو یہ کی خوبی ہے کہ آدمی ’’لحاظ پاس‘‘ رکھے یعنی معاملہ کرتے وقت آدمی کو یہ خیال رہنا چاہیے کہ یہ کون شخص ہے کس مزا ج کا ہے اور معاملات میں کس طرح کی خوبصورتیاں برتنا چاہتا ہے اسی لئے ہم ایسے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ لحاظ پاس کا آدمی ہے اس کی آنکھوں میں لحاظ ہے یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ قرض اُدھار تو لحاظ والے آدمی ہی سے مل سکتا ہے اور جو لوگ اُن باتوں کا لحاظ نہیں کرتے اُن کو بد لحاظ قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اُس کی آنکھ میں ذرا شرم لحاظ نہیں ہے اس معنی میں یہ محاورہ ہمارے سماجی رویوں کو ان کی نفسیات اور معاملات کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

 

(۲۹) منجھدار میں پڑا ہوا۔

منجھدار بہتے دریا یا ندی کا Mainدھارا ہوتا ہے جو زیادہ  پُر قوت انداز سے بہتا ہے اور دریا کے چڑھاؤ اور پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے جس میں ٹھہر نا مشکل ہوتا ہے۔ اور اس سے کشتی یا تیراک بھی اکثر گزر نہیں پاتے اسی لئے منجھدار میں پڑنا مصیبت میں پڑنے کو کہتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں اُسے منجھدار میں پھنسنا کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک گیت کے بول پیش کئے جاتے ہیں۔

؂ نیا پٹری منجھدار ست

سگھیری کون لگائے پار

 

(۳۰) منکا ڈھلنا یا ڈھلکنا۔

سر سے لیکر کمر تک گردن میں جو مہروں کا سلسلہ ہے اُسے ’’منکا‘‘ کہتے ہیں اور اسی کے سہارے سر گردن پر  سنبھلتا ہے موت کے قریب ’’منکا‘‘ ڈھل جاتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ موت کا ذکر کرنے کے بجائے یہ کہا جائے کہ اس کا منکا ڈھل گیا ہے اور یہ ایک طرح کا سماجی طرز اظہار ہے عام لوگ کس طرح کی باتیں پسند کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ سب سماج میں رہنے والے ہیں۔

 

(۳۱) مَن کا میلا یا کھوٹا۔

من طبیعت دل اور مزاج کو کہا جاتا ہے اور طبیعت کا میل ہویا مزاج کی خرابی اور دل کا کھوٹ آدمی کی طبعی یا مزاجی کیفیت کی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اسی کو من میں بیر و بُغض رکھنا کہا جاتا ہے۔

 

(۳۲) من کے چیتے ہو جانا۔

یہ محاورہ خاص دہلی میں بولا جاتا ہے اور پرانی دلی کے علاقہ میں اسے سنا جا سکتا ہے مغربی یوپی میں بالکل استعمال نہیں ہوتا دل کی خواہش کے مطابق کوئی کام ہو جانا یا کوئی کامیابی حاصل ہو جانا اس کے لئے من کے چیتے ہو جانا کہا جاتا ہے۔

 

(۳۳) منگنی دینا۔

کوئی شے کسی کے مانگنے پر عاریتاً دے دینا یہ دہلی کا خاص محاورہ ہے اور اس کے بجائے مانگے کی چیز مغربی یوپی میں استعمال ہوتا ہے۔

 

(۳۴) من مارنا، من مار کے بیٹھ جانا۔

اپنی دلی خواہش پوری نہ ہونے پر صبر کر کے بیٹھ جانا یا بیٹھ رہنا من مارنا کہلاتا ہے یہ مجبوری کا صبر کرنا ہوتا ہے کہ جی تو نہیں چاہتا مگر کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔ اس لئے آدمی اپنی مجبوریوں کو تسلیم کر لیتا ہے سماجی نفسیات کو ایک خاص ماحول میں کھول کر دیکھا جائے تو یہ محاورہ جو ایک تصور بھی ہے اور  تصویر بھی ایک زندہ حقیقت کی صورت میں سامنے آتا ہے اور  انسان یہ کہتا نظر آتا ہے۔

؂ تری مرضی ہے اگر یونہی تولے یونہی سہی۔

 

(۳۵) منہ اتر جانا یا ذرا سا منہ نکل آنا۔

جب آدمی دُکھ سے دوچار ہوتا ہے تو اس کا چہرہ اتر جاتا ہے اس پر کمزور ی نقاہت یا محرومی برسنے لگتی ہے اسی کو ذرا سا منہ نکل آنا یا منہ اتر جانا بھی کہتے ہیں یہ کسی دکھ تکلیف کے باعث بھی ہو سکتا ہے دوسرے محاوروں کی طرح یہ بھی سماجی طریقہ پر اظہار کا ایک حصہ یا انداز ہے اور  اس سے ہم یہ سجھ سکتے ہیں کہ بات کہنے کے کیا کیا طریقہ و سلیقہ ہیں جو عام زبان میں برتے جاتے رہے ہیں۔

 

(۳۶) منہ آنا، منہ باندھ کے بیٹھنا، منہ بگاڑنا، منہ بگڑنا، منہ بنانا، منہ بند کرنا، منہ بند ہو جانا، منہ بنوانا، منہ ڈھانپنا، منہ بھرانا، منہ بھر دینا، منہ بولا، منہ بولی، منہ بولتی مورت، مُنہ پر چڑھنا وغیرہ۔

مُنہ سے متعلق بہت سے محاورے ہیں جو سماجی رویوں اور  معاشرتی نفسیات کو پیش کرتے ہیں اس میں منہ چڑھنا منہ چڑھا ہونا یعنی کسی کے لئے بہت عزیز ہونا کہ وہ ناز نخرہ کر سکے منہ آنا منہ کی ایک بیماری بھی ہے اور خواہ مخواہ دوسرے کے مدمقابل آنے کی کوشش بھی اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ خوامخواہ میرے مُنہ آتا ہے منہ کی کھانا بدترین شکست کو کہتے ہیں کہ آخر مُنہ کی کھائی یعنی رُسوائی کے ساتھ اپنی ہار قبول کی۔ مُنہ ڈھانپنا، چھُپانے کو بھی کہتے ہیں اُردُو کا ایک مشہور شعر ہے۔

؂ لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھُپائے

بھری محفل سے اٹھو ایا گیا ہوں

میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہا میرا مُنہ زبردستی بند کر دیا گیا اب میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتا حکم ہے کہ منہ بند رکھو یعنی زبان مت کھولو اظہارِ خیال بھی نہ کرو منہ دیکھی بات یعنی سچ بات کسی کے منہ پر نہ کہہ کر کوئی بھی جھوٹی سچی بات کہہ دینا اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ تو منہ دیکھے کی بات کرتے ہیں جیسا موقع ہوتا ہے بات کو بدل دیتے ہیں۔ منہ بولی بہن منہ بولا بیٹا یہ گویا محبت کے رشتہ پیدا کرتا ہے یا محبت سے کسی کو اپنا بنانا منہ بولی مورت ایسی تصویر جو رکھی ہوئی منہ سے بول رہی ہو یعنی Life Like ہو مُنہ دکھائی شادی کی ایک رسم ہے جسے مُنہ رونمائی بھی کہتے ہیں اور جس میں پہلے پہل دلہن کا منہ دیکھنے والیاں کوئی نہ کوئی تحفہ یا روپیہ پیسہ پیش کرتی ہیں۔

 

(۳۷) منہ توڑ جواب،منہ توڑنا، منہ پھیلانا، منہ پسارنا۔

سخت جواب دینا، دلیلوں کے ساتھ جواب دینا آدمی دوسروں کی بات کو سن کر چپ ہو جاتا ہے تو خود ہی بات کا رخ بدل دیتا ہے لیکن اگر برداشت کرنا نہیں چاہتا تو پھر سخت جواب دینے پربھی اور  اگر بات کو ٹالنا یا avoidکرنا چاہتا ہے آمادہ ہو جاتا ہے اور جس لب و لہجہ میں اور جس انداز میں جواب دیتا ہے اس کو منہ توڑ جواب دینا کہتے ہیں دراصل منہ توڑنا منہ پر تھپَّڑ یا ایسی کوئی چیز مارنا ہے جس سے سخت ضرب پہنچے گی۔ اسی لئے ہمارے ہاں یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھ سے کہتا یا اس طرح پیش آتا تومیں اس کا منہ توڑ دیتا منہ توڑ جواب بھی اسی جذبہ کی ترجمانی کرتا ہے۔

ہمارے ہاں دامن پسارنا ہاتھ پسارنا اپنے لئے کچھ مانگنا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ساری عمر تو فلاں کے سامنے ہاتھ پسار رہا ہے یعنی ہاتھ پھیلا رہا ہے اردو کا مصرعہ ہے۔

؂ پھیلائیے نہ ہاتھ نہ دامن پسارئیے۔

منہ پسارنا بھی اسی معنی میں آتا ہے یعنی اپنے لئے کچھ طلب کرنا اور عاجزی کے ساتھ طلب کرنا اُس کے مقابلہ میں منہ پھیلانا نا خوشی کا اظہار کرنا ہے منہ چڑھنا بھی ناراضگی کے معنی میں آتا ہے جیسے ذرا سی بات پر اُن کا منہ چڑھ جاتا ہے۔

 

(۳۸) منہ در منہ کہنا۔

کسی کے سامنے بے جھجھک کوئی بات کہنا، صفائی سے کہنا اس سلسلہ میں منہ در منہ ہونا بھی محاورہ ہے۔ ہمارا معاشرہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ہم پیٹھ پیچھے تو بہت کچھ کہتے ہیں بُرائیاں کرتے ہیں عیب نکالتے ہیں اور  اگر ایک محاورہ کا سہار ا لیا جائے تو کیڑے نکالتے ہیں لیکن کسی کے مُنہ در منہ یعنی سامنے کچھ کہنے اور  اظہارِ خیال میں کتراتے اور  گھبراتے ہیں۔ اس محاورہ میں ہماری یہی تمدنی روش سامنے آتی ہے۔

 

(۳۹)منہ دیکھ کر رہ جانا۔

یہ حیرت کی صورت میں بھی ہوتا ہے اور تمنا کی صورت میں بھی اردو کا شعر ہے۔

 

؂ ذرا دیکھ اے محو آئینہ داری

تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

 

(۴۰) منہ زوری کرنا۔

یعنی غلط باتیں کہنا اور زور داری کے ساتھ کہنا مُنہ زوری کہلاتا ہے مگر منہ زور گھوڑا دوسری بات ہے یعنی ایسا گھوڑا جس کو لگام دینا مشکل ہوتا ہے بدتمیز آدمی کو بھی منہ زور گھوڑا کہتے ہیں۔

 

(۴۱) مُنہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔

ضعیفی اور  بُڑھاپے کی انتہائی صورتِ حال کی طرف اشارہ کرنے والا محاورہ ہے۔ یعنی جب کسی طرح طاقت باقی نہ رہی تواب ہوکیا سکتا ہے یہ محض کمزوری کو نہیں کہتے اِس میں بڑھاپا اور  پایان عُمر شریک ہے۔

 

(۴۲) منہ میں گھُنگھنیاں  بھر جانا۔

آدمی جہاں بات کرنے کا موقع ہو وہاں بھی چپ رہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو منہ میں گھنگھیاں بھرے بیٹھے ہیں اور  بول ہی نہیں رہے ہیں۔ منہ ہمارا بہت ضروری عضو ہے کھانا پینا وغیرہ غصہ اور  پیار اپنائیت اور غیریت کا  اظہار منہ اور  زبان ہی کے ذریعہ ہوتا ہے اسی لئے منہ کی ایک سماجی اور معاشرتی اہمیت بھی ہے۔ اگر آدمی بات نہ کر سکے تو اس کی سماجی حیثیت کس حد تک مجروح ہو جاتی ہے اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں منہ سے متعلق محاورے ہماری معاشرتی زندگی اور سماجی ذہن کے کتنے رخ کو پیش کرتے ہیں وہ آدمی بھی کیا جو نہ منہ سے بولے نہ سر سے کھیلے۔

 

(۴۳) موت کا پسینہ آ جانا۔

زندگی کا آخری وقت آ جانا اس سلسلہ میں یہ بھی ایک تجربہ ہے کہ’’ دم حق‘‘ ہونے سے یعنی آخری سانس لینے سے پہلے مرنے والے کو پسینہ آتا ہے خاص طور پر ماتھا یا پیشانی نم آلود ہو جاتی ہے اس کو موت کا پسینہ آنا کہا جاتا ہے اُردُو کا ایک شعر ہے۔

؂ پسینہ موت کا آیا ذرا آئینہ تو لاؤ

ہم اپنی زندگی کی آخری تصویر دیکھیں گے

اس سے ایک بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم نے زندگی کی سچائیوں اور واقعاتی صورتوں کو بھی محاوروں میں شامل کیا ہے محاوروں میں اپنے سے متعلق صورتِ حال کو نہ کہ محفوظ کیا ہے بلکہ معنیاتی طور پر اُسے ایک نئی معنویت سے آشنا بھی کیا ہے۔

 

 

 

(۴۴) موتی کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں، موتیوں سے منہ بھرنا، موتی چُور کے لڈو۔

موتی ہمارے معاشرے میں دولت و ثروت عزت اور  عظمت کی ایک علامت ہے اسی لئے اچھے آدمی کو اُس کی خوبیوں کے باعث ہم ہیرے یا موتی سے تشبیہہ دیتے ہیں پنجابی زبان میں تو موتیاں والوں یا  موتیاں والیاں کہا جاتا ہے موتیوں میں تول دینا موتیوں سے منہ بھر دینا یا موتی کوٹ کوٹ کر بھرے ہونا بڑے انعام بڑے عطیہ بڑی خوبیوں کو کہا جاتا ہے موتیوں کا نوالہ اچھے سے اچھا کھانا کھلانے کو کہا جاتا ہے سونے کا نوالہ بھی ایسے ہی موقع پر آتا ہے اور موتی چُور کے لڈو بھی ایسے ہی تصورات کا آئینہ دار ہے۔

 

(۴۵) موچھوں کے کونڈے کرنا۔

ہمارے یہاں نذر و نیاز کی غرض سے کھانا پکانا اور  تقسیم کرنا ہے جسے ایک مقدس رسم کے طور پر انجام دیا جاتا ہے ایسا خوشی کے موقع پر بھی کیا جاتا ہے اور اسی کو خوشیوں بھرے مبالغہ کے طور پر موچھوں کے کونڈے کرنا کہا جاتا ہے جو بچہ کے جوان ہونے پر خوشی کے اظہار کا ایک موقع ہوتا ہے اور بطور رسم اسے کیا جاتا ہے۔

 

(۴۶) مول لے کے چھوڑ دینا۔

بڑی نیت کی بات ہوتی ہے یا پھر اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہم نے احسان کر کے چھوڑ دیا مول لینا قیمت ادا کرنا ہوتا ہے اور قیمت ادا کرنے کے بعد آدمی اپنا حق زیادہ سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تو میرا مول لیا ہوا ہے یا پھر طنز کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ تم نے مجھے مول تھوڑے لے لیا ہے یعنی مجھ پر اتنا حق کیوں جتاتے ہو۔

جتنا زر خرید اشیاء یا غلاموں پر جتایا جاتا ہے اس سے سماجی نفسیات اور معاشرتی رویوں کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انسان سماج میں رہ کر کس کس طرح سوچتا ہے اور کس کس پیرایہ میں اپنی سوچ کا اظہار کرتا ہے۔

 

(۴۷) میدہ و شہاب۔

بہت اچھے رنگ روپ کی لڑکیوں کے لئے میدہ و شہاب جیسی رنگت کہا جاتا ہے اور کبھی کبھی رنگت کا لفظ نہیں بھی آتا اور  صرف میدہ و شہاب کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکی کیا ہے میدہ و شہاب کی طرح ہے۔

ہمارے ہاں خوبصورتی ہو یا  بدصُورتی اُس کے لئے تشبیہوں اور  استعاروں سے کام لیا جاتا ہے کہ وہی تأثر کو ایک خوبصورت شکل دینے میں ہمارے کام آتے ہیں۔ میدہ،شہاب دو صفتیں رکھتے ہیں ’’میدہ‘‘ نرم بہت ہوتا ہے اور  اُس کو جب چھُوا جاتا ہے تو نرمی کا ایک عجیب احساس ہوتا ہے جو ہمارے اعصابی نظام کو بھی ایک حد تک متاثر کرتا ہے۔ اسی لئے جب ہم کسی شے کو چھُوتے  ہیں تو اُس میں اسی انداز گداز‘ نرمی‘ اور  دل آویزی کا احساس ہوتا ہے اس کے مقابلہ میں پتھر‘ لوہا‘ لکڑی اپنا الگ احساس رکھتے ہیں۔ ’شہاب‘‘ ٹوٹنے والے ستارے کو کہتے ہیں جو نظر کے سامنے آتا ہے اور  تیزی سے گزر جاتا ہے یہ چاندی جیسی چمکتی ہوئی لکیر ہمیں بے حد اچھی لگتی ہے کہ اُس میں ایک خاص جھلملاہٹ ہوتی ہے۔ یہی جھلمِلاہٹ اُس وقت بھی ہماری نظر میں ہوتی ہے جب ہم کسی سفید رنگ کی لڑکی یا لڑکے کو دیکھتے ہیں۔ لڑکی خاص طور پر اپنی عمر، بھول پن، سادگی یا پھر شوخی یا معصومانہ شرارت کے اعتبار سے اُس کی سنہری سنہری اور  صبح جیسی سفید رنگت دل کو بہت بھاتی ہے۔ اسی نسبت سے جس کی صورت و شکل اور  چہرہ کی خوبصورت دھوپ کی تعریف کرنی ہوتی ہے اُس کے لئے کہتے ہیں میدہ و شہاب سا رنگ۔

 

***

 

 

 

ردیف ’’ن‘‘

(۶) ناک بھوں چڑھانا۔

ناراضگی اور نا خوشی کا اظہار کرنا خود ناک چڑھانا بھی ناز نخرے کے ہی معنی میں آتا ہے۔ ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینا اپنی طبیعت کے خلاف کوئی بات برداشت نہ کرنا یہ تُنک مزاج آدمی کو کہتے ہیں جو ذرا سی بات پر نا خوشی کا  اظہار کرتا ہے اور چیں بہ جبیں ہو جاتا ہے یعنی اس کی پیشانی پر بل پڑ جاتے ہیں۔ یہ سماجی رو یہ ہیں جن کا تعلق انسان کے اپنے مزاج اور  عادتوں سے بھی ہوتا ہے ہمارے اِن محاورات میں اِن روشوں  اور  رویوں ہی کو اپنے اندر محفوظ کیا ہے۔

ناک کٹنا یا ناک کاٹنا ناک رہ جانا نکو بنا یا  نکو بنانا بھی ناک سے تعلق رکھنے والے محاورے ہیں ناک کٹوانا یا ناک کاٹ لینا یہ سب بے عزت ہونے یا بے عزت کرنے کے معنی میں آتے ہیں اور ’’نکو بنانا‘‘ ان کے مقابلہ میں قابلِ اعتراض ٹھہرانے کا عمل ہے۔ جس پر یہ محاورے روشنی ڈالتے ہیں۔ بے عزت ہونے کو کہتے ہیں ناک کان دینا بے عزت ہونے کو کہتے ہیں جب آدمی کسی بات کا وعدہ کرے یا کسی کام کے کرنے کا دعوی کرے اور نہ کر سکے بے عزت ہو جائے تو اسے ناک کان دیکر جانا کہتے ہیں۔ ہمارے ان محاوروں سے قبائلی یا قدیم تہذیبی رویوں کی نشاندہی ہوتی ہے اور یہ ایک وقت میں جو سماج کی سوچ تھی اُس کی ترجمانی کرتے ہیں۔

 

(۷) ناک پر انگلی رکھ کر بات کرنا۔

ناز و نخرے سے بات کرنے کی ادا کو کہتے ہیں جس میں چھوٹے طبقہ کی عورتوں کا رو یہ خاص طور سے شامل رہتا ہے یا  پھر زنخوں کا رو یہ جو ناک پر انگلی رکھ کر بات کرتے ہیں۔

 

(۸) ناک کا بال ہونا۔

بہت عزیز ہونا اور عزت کی نشانی سمجھنا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو ان کی ناک کا بال ہے اُن کے لئے وجہ عزت ہے عام طور پر اب یہ محاورہ شہری سطح پر بولا نہیں جاتا کیونکہ اس کے مفہوم میں ایک طرح سے کراہت کا پہلو ہے۔

 

(۹) نام اُچھالنا یا نام اُچھلنا،نام بدنام ہونا، نام ہونا، یا نام رکھنا، نام روشن ہونا وغیرہ

یہ سب محاورے ہیں جو نام سے وابستہ ہیں۔ نام شہرت و عزت کو بھی کہتے ہیں۔ اسی لئے نام روشن ہونا اچھے معنی میں آتا ہے اور طنز کے طور پر اسے بُرے معنی میں استعمال کرتے ہیں تم نے باپ دادا کا نام خوب روشن کیا۔ دیہات میں نامی گرامی عزت والے آدمی کو کہتے ہیں اور ان لفظوں کا تلفظ تشدید سے کرتے ہیں نام اُچھلنا نام نکلنا دونوں بدنام ہونے کے معنی میں کہہ آتے ہیں نام اُچھالنا کسی کو جھوٹ سچ باتیں کر بدنام کرنے کے معنی میں آتی ہیں۔ نام ہونا شہرت پانے کے معنی میں آتا ہے۔ نام رکھنا کسی پر اعتراض کرنا۔ اور برائی میں اس کا نام لینا وہ دوسروں کو بہت نام رکھتے ہیں یا انہیں نام رکھنے کی بہت عادت ہے۔

’’برائے نام‘‘ ہونا کسی کام کو دل لگا کر اور پورے طور پر انجام نہ دینا ایسی کسی صورت کو برائے نام بات کرنا یا کام کرنا کہتے ہیں۔ کہ سب باتیں برائے نام ہیں اِن کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں۔

 

(۱۰) نام لیوا ہونا، نام کی رٹ ہونا، نام کا عاشق ہونا۔

جو شخص کسی اپنے بڑے رشتہ دار کو یا د کرے یا اُس کے کام آئے وہ نام لیوا کہلاتا ہے اور جس کا کوئی نہ ہو اُس کے لئے کہتے ہیں کہ اُس کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہے۔ ’’نام کی رٹ ہونا‘‘ بار بار کسی کو یاد کرنا اور اُس کا نام لینا نام کا عاشق ہونا کسی کو بہت عزیز رکھنا بقولِ غالبؔ۔

؂ ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

 

(۱۱) ناؤ خشکی میں نہیں چلتی۔

’’ناؤ‘‘ کشتی کو کہا جاتا ہے میر تقی میرؔ نے اپنے ایک شعر میں دونوں لفظوں کو ایک ساتھ استعمال کیا ہے۔

؂ عشق کی ناؤ پار کیا ہووے

جو یہ کشتی تِری تو بس ڈوبی

’’ناؤ‘‘ پانی ہی میں چلتی ہے خشکی میں نہیں چلتی اسی کے ساتھ ناؤ لکڑی ہی کی ہو سکتی ہے لوہے یا  کاغذ کی نہیں اردو کا مشہور مصرعہ ہے۔

؂ ’’ناؤ‘‘ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں

چل کیسے سکتی ہے کہ کاغذ تو پانی میں گل جاتا ہے۔

 

(۱۲) ناؤ کس نے ڈبوئی خضر نے۔

حضرت خِضر پانی کے دیوتا جیسا کردار رکھتے ہیں اسی لئے اُن کا لباس سبز ہے اور وہ اکثر دریا کے کنارے ملتے ہیں آبِ حیات کے سرچشمہ تک اُن کی رسائی ہے۔ اب اگر وہی ناؤ کے دریا میں ڈبونے پر آمادہ ہو جائیں تو اس کی فریاد کس سے کی جائے اسی لئے یہ محاورہ آتا ہے کہ یہ ناؤ کس نے ڈبوئی خِضر نے اب یہ شکایت ہو تو کس سے ہو یہ ایسا ہی مفہوم ہے جیسے کوئی کہے کہ جب کعبہ سے کفر اُٹھنے لگے تو مُسلمانی کہاں رہے گی فارسی کا مصرعہ ہے۔

؂ چَوکفر  از کعبہ برخیز زد کُجا ماند مُسلمانی

یہ گویا اُن اداروں اور  اُن لوگوں پر طنز ہے جو کسی بات کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور جس نے روشنی و رہنمائی کی توقع کی جاتی ہے مگر ان کا عمل توقع کے بالکل برخلاف ہوتا ہے تبھی تو خِضر ناؤ  ڈبوتے ہیں۔ اور کعبہ سے کُفر اٹھتا ہے۔

 

(۱۳) نخاس کی گھوڑی، نخاس والیاں۔

پہلے زمانہ میں جب گھوڑوں کی بڑی اہمیت تھی تو گھوڑوں کے بازار لگتے تھے عام طور پر پولیس فوج اور  رئیسوں کی سواری کے لئے گھوڑے ہی خریدے جاتے تھے لیکن گھروں میں باندھنے کے لئے گھوڑیاں خریدتے تھے اور انہیں نخاس کی گھوڑی کہتے تھے جس کے معنی ایک طرح سے بازاری عورت کے بھی ہوتے تھے۔ بازاری عورتوں کو اگر گھرمیں ڈال لیا جاتا تھا تو اسے اچھی نظر سے دیکھا نہیں جاتا تھا اکثر بازاری عورتوں سے گھروں کی پردہ نشین عورتیں پردہ کرتی تھیں ایسی عورتوں کا عمل دخل دیوان خانوں یا بیٹھکوں تک محدود ہوتا تھا۔ جو رئیس ان سے تعلق رکھتے تھے وہ انہیں اپنی حَرم سرا یا زنان خانہ میں نہیں بلاتے تھے نخاس کی گھوڑی جیسا طنز عورتوں ہی کی طرف سے ہوتا ہو گا جس کے ذریعہ ہم آج بھی اِس سماج کے ذہنی عمل اور  ردِ عمل کو سمجھ سکتے ہیں نخاس والیاں کے معنی بھی یہی ہے لکھنؤ کے ایک بازار کا نام ’’نخاسہ‘‘ ہے لیکن وہاں اب گھوڑے نہیں بکتے اور نہ بازاری عورتیں رہتی ہیں۔

 

(۱۴) نخرہ بگھارنا، نخرہ میں تُلنا۔

ہمارے سماجی رویوں میں ایک رو یہ نخرہ کرنا بھی ہے یعنی خوامخواہ ناز دکھانا اور اپنی قدر و قیمت کو بڑھانا ہے ہمارے معاشرہ میں اس طرح کا انداز آج بھی پا یا جاتا ہے کہ اولاد بیوی اور ساس خوامخواہ نخرہ کرتی ہے۔ نخرہ میں کوئی معقولیت نہیں ہوتی ناز و ادا دکھانے کا بھی کوئی سلیقہ طریقہ نخرہ دکھانے میں شامل نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے کہ یہ ہمارے سماج اور مزاج میں شامل رہتا ہے اور بیوقوف لوگ اس کا زیادہ سے زیادہ موقع بہ موقع اظہار کرتے ہیں اور خواہ مخواہ نخرے دکھاتے ہیں نخرہ میں تلنا کے معنی بھی یہی ہیں اس کا رواج زیادہ تر عورتوں کے باہمی معاملات میں ہوتا ہے۔

 

(۱۵) نرغے میں آ جانا۔

خطرہ میں گھِر جانا یہ لفظ ’’نرکا ‘‘بھی کہلاتا ہے اور ہانکا کے معنی میں آتا ہے یعنی جانوروں کو گھیر کر کسی ایسے مقام پر لانا جہاں ان کا  آسانی سے شکار ہو سکے۔ اسی لئے نرغے میں پھنسنا دشمنوں کے حلقہ میں گھر جانے کو کہا جاتا ہے اور  اظہارِ ہمدردی کے طور پر بولا جاتا ہے کہ وہ بچارا خوامخواہ نرغے میں پھنس گیا مشکلات یا مصیبتوں میں گھِر گیا۔ اس میں طرح طرح کے خطرات بھی شامل ہیں۔ محاورہ کسی صورتِ حال کو کس طرح اپنے اندر سمیٹتا ہے اِس کا اندازہ اس محاورے سے بھی ہوتا ہے۔

 

(۱۶) نسبت ہو جانا، نسبتی بھائی۔

نسبت ہو جانا رشتہ ہونے کو کہتے ہیں اُس کے لئے نسبت ٹھہرنا بھی کہا جاتا ہے اور جس کی نسبت کسی سے ٹھہر جاتی ہے وہ اُس سے گویا منسوب ہو جاتی ہے لیکن عام طور پر یہ لفظ لڑکی یا عورت ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے سسُرال کے رشتہ دار نسبتی بھائی بہن یا  خالا ماموں یا پھوپھی اسی نسبت کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں۔ جب اُن کا تعلق سسُرال سے ہو جائے تو برادرِ نسبتی یا خواہرِ نسبتی دلہن کے بھائی بہن کو کہتے ہیں۔ جسے ہماری عام زبان میں سالا یا سالی کہا جاتا ہے یہ گویا رشتوں کی وہ تقسیم ہے جو شادی کے ذریعہ قائم ہوتی ہے اور سماجی رشتوں کے تعین اور مطالعہ میں اِس سے مدد ملتی ہے۔

 

(۱۷) نس پھڑکنا (رگ پھڑکنا)

’’نس ‘‘رگ کو کہتے ہیں ’’نس کٹنا ‘‘محاورہ اسی سے آیا ہے جس کے معنی ہیں کہ کوئی ایسی رگ کٹ جانا جس سے بُری طرح خون بہنے لگے۔

’’نس نس میں سمانا‘‘ رگ رگ میں پیوست ہونا یا  اُتر جانا غالب کا یہ  شعر ہے۔

رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے

یہاں رگ رگ سے مُراد نس نس ہی ہے’’ ناسوں میں کو ‘‘نکالنا بہت تکلیف دے کر کسی کو اُس کے عمل کی سزا دینا یہ بھی نس نس ہی سے تعلق رکھتا ہے’’ نس پھڑکنا ‘‘بھی محاورہ ہے۔ اور کسی کی یاد آنے اور کسی بات کا احساس ہونے کو نس پھڑکنا کہتے ہیں ’’ نس پرنس چڑھ جانا‘‘ رگ پٹھوں میں کوئی ایسی تکلیف ہوتی ہے جس کو ہم اچانک محسوس کرتے ہیں اور اُسے نس پر نس چڑھ جانے سے تعبیر کرتے ہیں یہ تکلیف اکثر پنڈلیوں میں ہوتی ہے اور نروس سسٹم میں کوئی ایسی عارضی خرابی اِس کا سبب بنتی ہے جس کو فوری طور پر سمجھا نہیں جاتا اسی سلسلہ میں اردو کا ایک شعر ہے۔

رگ و پے میں جب اُترے زہرِ غم تب دیکھئے کیا ہو

ابھی تو  تلخیِ  کام و دہن کی آزمائش ہے

یہاں رگ و پے میں اترنے کے جو معنی ہیں وہی نس نس میں اُترنے کے بھی ہیں اِن محاوروں سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بعض فقرہ اور الفاظ ایک خاص معنی کی پابندی کے ساتھ نئے معنی اختیار کر جاتے ہیں اور اسی سے محاورہ بنتا ہے۔

 

(۱۸) نشہ ہونا، نشہ پانی کرانا، نشہ کرنا، نشہ کا عادی ہونا۔

نشہ دراصل کیفیتِ خُمار کو کہتے ہیں جو اکثر شراب پینے سے ہوتا ہے۔ محاورتاً کسی بھی حالت میں اگر سرشاری کی کیفیت میسَّر آ جائے تو اسے بھی نشہ ہونا کہتے ہیں۔ ’’نشہ پانی کرنا یا کروانا‘‘ نچلے شرابی کبابی طبقہ کا محاورہ ہے شراب اونچے طبقہ میں بھی پی جاتی ہے مگر وہ لوگ اسے نشہ پانی کرنا نہیں کہتے نشہ کا عادی ہونا تقریباً روز شراب پینا ہے نشہ پانی کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ محاورات میں بھی کہیں کہیں طبقاتی اندازِ نظر کا فرق موجود ہے۔ اِس سے ہم زبان کے استعمال میں بھی طبقاتی سطح اور  انداز نظر کے فرق کو سمجھ سکتے ہیں۔

 

 

 

(۱۹) نشا ہرن ہونا، نشے کے ڈورے ہونا، نشیلی آنکھیں

جب آنکھوں سے نشہ غائب ہو جاتا ہے اور ذہن پر مستی و سرشاری کا غلبہ نہیں رہتا اور کسی خطرے کا احساس کر کے آدمی ہوش میں آ جاتا ہے تو اسے نشہ ہرن ہونا کہتے ہیں کہ ذرا سی دیر میں سارا ’’نشہ ہرن‘‘ ہو گیا لیکن جن آنکھوں میں نشے کے ڈورے ہونا ایک شاعرانہ اندازِ نظر رکھنے والا محاورہ ہے۔ اور آنکھوں میں نشے کی سُرخی کو گلابی ڈور ے یا نشے کے سُرخ ڈورے کہا جاتا ہے۔ محاورے جب شاعرانہ انداز اختیار کرتے ہیں تو ان سے ایک نیا حسن پیدا ہوتا ہے۔

 

(۲۰) نصیب لڑنا، نصیب کھُلنا، نصیبہ پھرنا، نصیب پھُوٹ جانا وغیرہ

قِسمت کے بارے میں ایک خاص محاورہ ہے جس کام کا انجام پانا یا جس سے مُراد کا پورا ہونا بظاہر ممکن نہ ہو وہ کا م اگر ہو جائے تو اس کو قسمت کا لگنا یا نصیب کھُلنا کہتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اِس کے تو نصیب کھل گئے قسمت لڑ گئی نصیبہ پھرنا یا نصیب پھُوٹ جانا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔

 

(۲۱) نظر یا نظریں چُرانا، نظر ڈالنا، نظر رکھنا،نظر چڑھنا یا  نظر میں چڑھنا، نظروں سے گِرانا، نظر کھا جانا، یا لگنا، نظر میں پھرنا، نظر یا نظروں میں سمانا، نظر میں کانٹے کی طرح کھٹکنا یا چُبھنا وغیرہ۔

نظر کے بارے میں ہمارے یہاں بہت محاورات ہیں جو نظر کے تعلق سے ہمارے فکر و خیال کے مختلف گوشوں کی نمایندگی کرتے ہیں جیسے نظر رکھنا کسی بات کا خواہش مند ہونا  نظر میں رکھنا ذہن میں کسی خیال یا مسئلہ کو رکھنا کہ اس کو ہونا یا نہ ہونا چاہیے۔ نظر ہو جانا ہماری توہم پرستی کی ایک علامت ہے کہ اس کو تو نظر ہو گئی یا نظر لگ گئی یا  پھر اُن کی بُری نظر بے حد نقصان پہنچا گئی یا کھا گئی نظر کھا گئی کے وہی معنی ہیں جو زنگ کھا گئی کے ہیں کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔

؂ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

’’نظر بچانا ‘‘ارادے کے ساتھ دوسرے کی طرف دیکھنے میں تکلف کرنا ہے۔ نظریں چرانا یا نظر چُرانا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ نظر میں آنا یا  نظر میں چڑھنا، پسند آنے کے معنی میں آتا ہے اور اُس کے مقابلہ میں نظر سے گِرنا یا  گر جانا استعمال کرتے ہیں اِس کے علاوہ نظر میں رہنا اور نظر میں پھرنا بھی آتا ہے یعنی خیال رہنا یا د آنا یا د کرنا۔ نظر یا نظروں میں سمانا اچھا لگنا اور پیارا ہونا ہے کہ وہ آج کل اُن کی نظروں میں سما رہے ہیں۔ ’’نظر نظر کی بات ہے‘‘ یعنی کون کس کی بات کو کس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور کس کی نظر میں کس بات کے کیا معنی ہیں۔

نظر میں کھٹکنا یا  نظر میں چُبھنا ناگوار ہونے کے معنی میں آتا ہے اب اگر دیکھا جائے تو کسی بھی شخص یا شخصیت کے بارے میں کون کیا خیال رکھتا ہے پسند یا ناپسند کا معیار کیا ہے اور کس کے دل میں کس بات کی کیا قیمت ہے یا کس شخص کا کیا درجہ ہے یہ نازک سماجی رشتہ ہیں جن کا انسانی نفسیات سے گہرا تعلق ہے۔ اور سماجی ادبی شعور جو کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اُس کو محاورے کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔

 

(۲۲) نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سُنتا ہے۔

شور شرابہ اور ہُلَّڑبازی میں کوئی اچھی بات کون سنتا ہے اسی کو نقار خانے میں طوطی کی صدا کہا جاتا ہے۔ پہلے زمانہ میں شاہی محل میں بھی نقار خانہ ہوتا تھا اور پانچ وقت نوبت بجتی تھی چنانچہ لال قلعہ میں اب تک نوبت خانہ موجود ہے جہاں اب تک نوبت بجتی ہو گی خوشی کے موقع پر ڈھول تاشے بجانے کا عام دستور تھا۔ یہاں تک کہ نازیوں کے جلوس کے ساتھ بھی یہ صورت رہتی تھی اور  کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔

 

(۲۳) نقش بدیوار ہونا، نقش بر آب ہونا۔

دیوار پر بنی ہوئی کوئی بھی تصویر جو اپنی خاموش زبان میں بہت کچھ کہتی نظر آتی ہے جو آدمی بچارا گھر میں بالکل چپ رہتا ہے اسے بھی نقش بہ دیوار کہا جاتا ہے۔ پانی پر ہزاروں شکلیں بنتی ہیں لہریں اٹھتی ہیں گِرداب بنتے ہیں، بھنور پڑتے ہیں بلبلے اٹھتے ہیں اور لہریاں سجتی ہیں مگر یہ تماشہ پلک جھپکنے میں ختم ہو جاتا ہے ہوا کا ایک جھونکا آیا تو ایک مرقع پانی میں سج گیا اور  دوسرا جھونکا آیا توہر چیز مٹتی یا بدلتی چلی گئی اسی مشاہدہ نے آدمی کو یہ سبق دیا کہ پانی پر جو نقش بنتا ہے وہ نا پائیدار ہوتا ہے اُس کے مقابلہ میں نقش کلمہ حجر یعنی وہ نقش جو پتھر  پر ہو  جو کسی کے مٹائے نہیں مٹتا اسی لئے اُردُو محاورات میں اِس محاورے کا استعمال پائیداری کے لئے ہوتا ہے کہ اس کا نام تو نقش کلمہ حجر ہو گیا یہ عربی ترکیب لفظی اُردُو کی ساخت پربھی روشنی ڈالتی ہے کہ اُس میں عربی فارسی‘ ہندی سنسکرت وغیرہ بولیوں اور  زبانوں کے الفاظ خلط ملط ہو گئے ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے وہ ایک کھچڑی زبان ہے۔

 

(۲۴) نکلے ہوئے دانت پھر نہیں بیٹھتے۔

محاورات میں بہت سے محاورے انسان کے بدن اور بدن کے اعضاء سے متعلق ہیں اُن میں دانت بھی ہیں اُن کی تعداد کافی محاوروں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ دانتا کل کل ہونا، ’’منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت‘‘ نہ ہونا ’’دانت کاٹی روٹی ہونا، دانت رکھنا کس طرح کے یہ محاورے ہیں جو دانتوں سے تعلق کے ساتھ زندگی کے مختلف مراحل کو پیش کرتے ہیں خاص طور پر بڑھاپے کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے۔ جس میں کہیں تشبیہ کہیں استعارہ کہیں کہاوت کہیں مشاہدہ اور کہیں زندگی کا کوئی انوکھا تجربہ شامل رہتا ہے۔

 

(۲۵)نمک حلالی کرنا، نمک حرامی کرنا۔

نمک ہمارے یہاں بہت بڑی نعمت خیال کیا جاتا ہے اسی لئے نمک کے ساتھ وفاداریوں کا تصور وابستہ ہے اور جو کسی  کا نمک کھاتا ہے وہ اُس کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور اُس کے لئے اپنا خون پسینہ بہانے پر تیار رہتا ہے ایسے ہی کسی شخص کو نمک خوار ہونے کے علاوہ نمک حلال کہا جاتا ہے پہلے زمانہ میں لوگ اِن قدروں کو بہت مانتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے آپ کا نمک کھایا ہے جو لوگ اپنے آقا کے یا اپنے محسن کے وفادار نہیں ہوتے وہ نمک حرام کہلاتے ہیں ایسا ہی کوئی کردار دہلی میں تھا جس کی حویلی اب بھی ’’نمک حرام کی حویلی ‘‘کہلاتی ہے۔ الفاظ کن حالات کن خیالات،  اور کن سوالات کے ساتھ اپنے معنی کا تعین کرتے ہیں اُن کی مثالیں نمک سے وابستہ محاوروں میں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں۔

 

(۲۶) نمک چھِڑکنا اور نمک کی ڈلیاں ہونا۔

جب آنکھوں میں تکلیف ہوتی ہے اور تمام رات آنکھ نہیں لگتی نیند اُڑ جاتی ہے تو آنکھوں کی تکلیف کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ ساری رات میری آنکھیں نمک کی ڈلیاں بنی رہیں۔

نمک چھِڑکنا اور خاص طور سے زخموں پر نمک چھِڑکنا ذہنی تکلیف اور نفسیاتی اذیتیں پہنچانا ہے اور اِس اعتبار سے یہ زندگی میں سزا دینے کا بہت ہی سخت عمل ہے کہ زخموں پر نمک چھِڑکا جائے۔

 

(۲۷) ننگی تلوار یا شمشیر برہنہ۔

تلوار میان میں رہتی ہے اور میان سے باہر آتی ہے تو خطرہ کا سبب ہوتی ہے اسی لئے بہت غصہ والے آدمی کو شمشیرِ برہنہ کہا جاتا ہے۔ ویسے یہ ایک شاعرانہ انداز ہے اور ہر ایسی چیز کو جس میں بجلی جیسی تڑپ چمک دمک موجود ہو تو ننگی تلوار سے تشبیہ دیتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنی محبوبہ دلنواز کی تعریف کرتے ہوئے کہ یہ مصرعہ بھی لکھا ہے۔

شمشیر برہنہ، مانگ عجب اور اُس پہ چمک پھر ویسی ہے۔

 

(۲۸) نِواڑا کھینا۔

ناؤ نِواڑابھی کہا جاتا ہے اور ’’اُڑنے‘‘ کے ساتھ اِس کا یہ تلفظ ہماری بولی ٹھولی میں ’’ اڑنے‘‘ کے لئے استعمال کا ایک نمونہ ہے جیسے ہم پلنگ سے پلنگڑی کہتے ہیں بنگا سے ’’بنگڑی‘‘ اسی طرح ناؤ سے’’ نواڑا ‘‘چھوٹی سی’’ ناؤ ‘‘جس پر بیٹھ کر کوئی بڑی ندی دریا یا سمندر پار کیا جائے۔ ’’ جھیل ڈل‘‘ کشمیر میں اِس طرح کی کشتیاں چلتی ہیں جو نواڑ کہلاتی ہیں۔

 

(۲۹) نو تیرہ بائیس بتانا۔

حِساب کِتاب میں گڑبڑ کرنا اگرچہ’’ نو تیرہ بائیس‘‘ ہی ہوتے ہیں اور بھی اعداد ہیں جس سے انیس بیس محاورے یا کہاوتیں بنائی گئی ہیں جیسے انیس کا فرق ہونا یا ’’تین تیرہ بارہ باٹ‘‘ ہونا ’’باٹ‘‘ راستہ کو بھی کہتے ہیں اور حصّہ کو بھی ’’بارہ بانی‘‘ کا ہونا کھرا اور  صحت مند ہونا۔ کھیتوں کے لئے بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے اور صحت مندی کے لئے بھی کھیتوں میں اچھی پیداوار اور بدن کے لئے اچھی صحت مُراد لی جاتی ہے بارہ کا لفظ اکثر تہذیبی حوالوں میں آتا ہے بارہ بُرج بھی ہوتے ہیں اور سال کے بارہ مہینے بھی اور  بارہ وفات بھی۔

’’نو دو گیارہ ہونا ‘‘چلے جانے اور ٹل جانے کو کہتے ہیں وہ تو یہاں سے ’’نو دو گیارہ ہو گئے‘‘ تیرہ تیزی ایک مہینے کا نام ہے ’’دہا‘‘ محرم کو کہتے ہیں اور ’’دہے ‘‘ محرم کے گیتوں کو کہتے ہیں اِس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اعداد سے بھی ہم نے تہذیبی علامتوں کا کام لیا ہے اور اُن کو اپنی زبان کے محاوروں میں جگہ دی ہے۔

 

(۳۰) نوکِ پان ملاحظہ کیجئے۔

دوکانداروں کا محاورہ ہے اور خاص طور پر جُوتے فروش کا۔ اور  اِس اعتبار سے یہ ایک محاورہ ہے کہ اِس کا تعلق ’’ہاٹ بازار‘‘ سے ہے اور دوکاندارانہ اندازِ نظر اور  طرزِ  اظہار کا ایک بہت اچھا نمونہ ہے۔

 

(۳۱) نوک پلک دُرست کرنا یا نوک پلک سے دُرست ہونا۔

کسی کی شہ کی خوبصورتی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ نوک پلک سے دُرست ہے۔ ’’نک سِک‘‘ سے دُرست ہونا عورتوں کا اپنا محاورہ ہے اور کسی ایسی لڑکی کے لئے کہا جاتا ہے جو ’’آنکھ ناک‘‘ سے دُرست ہو اور قبول صورت ہو یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے بہت سے محاورے وہ ہیں جن کا تعلق گھر آنگن سے ہے اور جو ہمارے گھروں کے عام ماحول کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

 

(۳۲) نیزوں پانی چڑھ جانا۔

یہ سیلاب کے عالم میں ہوتا ہے۔ ناپ کا پیمانہ (پیمائش) بھی آدمی کے لئے کچھ عجیب رہا ہے مثلاً گفتگو کو لمبی بات چیت کہا جاتا ہے اور جب مختصر کہنا ہوتا ہے تو اسے دو بول کہتے ہیں یا بول بات کہتے ہیں زبان کو دس گز کی لمبی زبان کہتے ہیں۔ راستہ کو دو قدم کا راستہ کہتے ہیں اور جب دُور دراز راستہ ہوتا ہے تو وہ کڑے کوس کہلاتا ہے پانی کو اس کی گہرائی کے اعتبار سے ہاتھوں سے ناپا جاتا ہے اور دو  ہاتھ پانی کہا جاتا ہے اوپر چڑھتے ہوئے پانی کا ناپ نیزوں سے لیا جاتا ہے یعنی نیزوں آ کرپانی چڑھ گیا جب کہ پانی کی تھوڑی مقدار کو چُلو بھر پانی کہتے ہیں وغیرہ اس سے ہم ناپ تول کے سادہ سطح پر انسانی اور سماجی پیمانوں کا انداز ہ کر سکتے ہیں۔

 

(۳۳) نیل کی سلائیاں پھیرنا۔

انسانی زندگی میں سزائیں بھی عجیب و غریب رہی ہیں اُن میں اندھا کر دینا بھی ہے اُس کے لئے’’ آنکھیں نکالنا‘‘ بھی ایک عمل تھا ’’غلام قادر روہیلے‘‘ نے نوشاہِ عالم ثانی کی آنکھیں نکال لیں تھیں آنکھوں میں جلتی ہوئی سیخیں داخل کرنا بھی اس کا ذکر الف لیلیٰ کے ایک قصہ میں آیا ہے مُغلوں میں یہ سزا کیسے آئی یہ کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن وہ آنکھوں میں نیل کی سلائیاں پھیر کر اپنے مخالف یا دشمن کو اندھا کر دیتے تھے۔

محاورہ میں اُسی کی طرف اشارہ ہے میر تقی میرؔ نے اپنے ایک شعر میں بھی ایسے کسی المناک واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

 

؂ شاہاں کہ کُحلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کی

انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

 

(۳۴) نیند اُچٹ جانا، نیند لینا، نیند حرام کرنا۔

نیند خوابیدگی کے عالم کو کہتے ہیں تھوڑی دیر کے لئے سو جانے کو  نیند لینا بھی کہا جاتا ہے اور نیند اُچٹ جانا تو کوئی بھی آدمی بے آرامی محسوس کرتا ہے۔ اگر کسی کے شور و فریاد سے نیند نہ آ سکے تو اس کو نیند حرام کرنا کہا جاتا ہے۔ ’’نیند میں ہونا‘‘ ’’آنکھوں میں غنودگی آنا‘‘ ہے یعنی نیند جیسی کیفیت عورتوں کی ایک لوری ہے۔

 

؂ آ جاری نندیا،  تو آ کیوں نہ جا

میرے مُنے کی آنکھوں میں گھُل مِل جا

 

(۳۵) نیند کا ماتا،نیند کا دکھیا۔

بہت کم سُننے میں آیا ہے لیکن’’ نیند کا ماتا‘‘ ہندی لوک گیتوں میں آتا رہا ہے انہی گیتوں کا ایک بول ہے۔

؂ میری انکھیاں  نیند کی ماتی، تو سپنے میں آوے

میری آنکھیں نیند میں ڈوبی ہوئی ہیں اور آرزو یہ ہے کہ میں سو جاؤں اور تو مرے خواب میں آئے۔

 

(۳۶) نیوجمانا۔

’’نیو‘‘ مکانوں کی دیواریں زمین کے اندر چُنی جاتی ہیں اِس کو ’’نیو ‘‘رکھنا بھی کہتے ہیں ’’ نیو‘‘ جمانا بھی ’’نیو‘‘ قائم کرنا بھی اسی کے ساتھ ’’نیو‘‘ کا پکا ہونا یا ’’نیو‘‘ کا مضبوط ہونا بھی استعمال ہوتا ہے اگر نیو کمزور ہوتی ہے تو مکان کی بُنیاد کمزور ہوتی ہے اور اُس کے در و دیوار کمزور خیال کئے جاتے ہیں اِس معنی میں ’’ نیو‘‘ اور اُس کی مضبوطی یا کمزوری ہماری سماجی حسَّیات کا ایک اثاثی پہلو ہے سوچ کی ایک بنیاد ہے۔

 

(۳۷) نئے سِرے سے جنم لینا۔

ہمارے معاشرے کے بنیادی تصورات میں ’’آواگون ‘‘کی وہ فلاسفی شامل رہتی ہے کہ ایک جنم کے بعد دوسرا جنم ہوا ہے اسی لئے ہم جنم جنم کے ساتھی بھی کہتے ہیں اور نئے جنم سے مُراد اس کی خطرناک صُورتِ حال اور  جان لیوا بیماری کو بھی کہا جاتا ہے جس سے آدمی بچ جاتا ہے تو گویا وہ نیا جنم لیا جاتا ہے۔

اسی لئے ’’مجئے جنم‘‘ آنا بھی مصیبتوں سے چھُوٹ جانا ہے اِس سے ہم زندگی کے خطرات شدید تکالیف اور سخت حالات سے گزرنے کے عمل کو سماجی رویوں کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں۔

کہ گویا زندگی میں آدمی کو موت تو ایک بار آتی ہے لیکن اپنے حالات معاملات اور  حادثات کے اعتبار سے وہ بہت سے جنموں سے ایک ہی جنم میں گزر جاتا ہے۔ اسی لئے حالات کا بہتری کی طرف رُخ کرنا گویا نیا جنم پانا ہے۔ اس کو ہم ہندوستان کے دوبارہ جنم لینے یا ’’پُونر جنم‘‘ کے عقیدہ سے جوڑ سکتے  ہیں اس لئے کہ جو قومیں دنیا میں ’’ پونر جنم‘‘ کے عقیدہ کو نہیں مانتی اُن کے ہاں یہ محاورہ بھی نہیں ہو سکتا مسلمانوں میں یہ ہندوستانی ماحول کی دین ہے۔

 

***

 

 

 

 

ردیف ’’و‘‘

 

(۱) وارے نیارے ہونا۔

حالات اور  معاملات جب کوئی ایسا رُخ اختیار کرتے ہیں ہر طرح کامیابی ہوتی ہے تو اسے وارے نیارے ہونا کہتے ہیں یعنی بہت کچھ مل گیا۔ خلافِ توقع بہت بڑی کامیابی ہوئی ہے جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

 

(۲) واہی تباہی پھِرنا، (آوارہ گردی کرنا)

عام طور پر لوگوں کے معاملات یونہی بے تُکے پن کے ساتھ چلتے ہیں کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔ کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ یہاں وقت گزار دیا وہاں وقت گزار دیا اسی کو واہی تباہی پھرنا کہتے ہیں یعنی بے مقصد مٹرگشت اور فضول کی باتیں کرنا اسی لئے واہی تباہی بکنا بھی کہتے ہیں۔

 

(۳) ورق بِکھر جانا، ورق گردانی کرنا۔

ورق ورق ہونا، ورق بکھرنا، جب زندگی کا شیرازہ بِکھرتا ہے اور کوئی چیز اپنی اپنی جگہ پر نہیں رہتی تو اسے ورق ورق بِکھر جانا کہتے ہیں جیسے فردوسی نے ’’یثردُجرد‘‘ شہنشاہِ ایران کی شکست کو اپنے شاہ نامہ میں اِس طور پر لکھا ہے۔

 

؂ نہ سب نامۂ دولت کہ قباد

ورق در ورق ہر طرف بُود باد

کہ قباد کے خاندان کا نسب نامہ ہوا  ہر طرف  اڑا کے لے گئی اور تاریخ کا شیرازہ  بِکھر گیا۔ اسی کو ورق ورق بکھرنا بھی کہا جاتا ہے پُرزے سے پُرزے ہو جانا بھی یہی صورت ہے کہ اب کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے۔

 

(۴) وعدہ وفا کرنا۔

ہمارے معاشرے میں جب کسی بات کو زور دے کر کہا جاتا ہے کہ میں یا ہم ایسا کریں گے تو اسے ’’وعدہ‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور جب کوئی آدمی وعدہ پورا کرتا ہے تو اسے وعدہ وفا کرنا کہتے ہیں یہ عربی کا محاورہ ہے اور وہاں اس سے مُراد وہ اچھے کردار کا آدمی ہوتا ہے جو اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اُردُو میں وعدہ وفا کرنا براہ راست عربی سے آیا ہے۔ یہ اُن محاورات میں سے ہے جو عربی سے براہ راست لئے گئے ہیں اور ان معنی میں محاورے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

 

(۵) وقت پانا، وقت کاٹنا، وقت نکل جانا، وقت پڑنا،(پیغمبری وقت پڑنا)

وقت و قت کی بات ہے وقت پڑے کا ہتھیار ہے اپنا تو وہ ہے جو وقت پر کام آئے وقت تھا جو گزر گیا۔ آخری وقت آنا خدا بُرا وقت نہ ڈالے وقت کاٹنا وقت گزارنا کے معنی میں آتا ہے وقت نکل جانا وقت کا بُرے بھلے گزر جانا

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

سدا دور دورا دکھاتا نہیں

(میرحسن)

 

وقت بخت کا ساتھ دینا وقت وقت کے راگ ہونا، وقت پڑنا (پیغمبری وقت پڑنا) وقت ایک لمحہ بھی ہے اور پوری زندگی میں کوئی ایک وقت بھی ایسا آ سکتا ہے جو ساری زندگی کو متاثر کر جائے وقت کی قدر و قیمت زندگی میں بہت ہوتی ہے اور جب وقت نکل جاتا ہے تو پھر کبھی ہاتھ نہیں آتا کسی بات کا اچھا یا بُرا لگنا بھی وقت کے ساتھ ہوتا ہے۔ وقت پڑنا مصیبت پڑنے کو کہتے ہیں اور دہلی میں اس کے لئے پیغمبری وقت کا محاورہ بھی موجود ہے مختلف راگ الگ الگ وقتوں میں گائے جاتے ہیں اور اسی سے وقت وقت کے راگ ہیں اسی سے محاورہ بنا ہے اور جو بات وقت کے خلاف ہوتی ہے اور مناسب حال نہیں ہوتی اسے بے وقت کی راگنی کہا جاتا ہے۔

 

(۶) ولی خنگرہ، کھنگر۔

اصل میں جو آدمی بہت گیا گزرا ہوتا ہے اُسے خنگر یا  کھنگر کہتے ہیں ’’گونگر‘‘ ایسے لڑکے کو کہتے ہیں جو بڑا ہو جائے اور کوئی کام نہ کرے نِکمّا ہو اُسی کے لئے خنگرہ یا کھنگرا استعمال کیا جاتا ہے۔

اس سے کونگر ہم اچھے بُرے لوگوں کے لئے اُسی سماج کے ذہنی اور  فکری ردِ عمل کو سمجھ سکتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سماج کی بہت سی سچائیاں اچھائیاں اور  برائیاں ہمارے محاورات میں محفوظ ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ہم کس حد تک اور  کس مواقع پر ان کو ذہن میں رکھتے ہیں اور  کب نظر انداز کر دیتے ہیں۔

 

***

 

 

 

 

ردیف ’’ہ‘‘

 

 (۱) ہاتھ اُٹھانا، ہاتھ لگنا، ہاتھ آنا، ہاتھ اونچا ہونا ہاتھ نیچا ہونا، ہاتھ کا سچّا ہونا، ہاتھ دِکھانا، ہاتھ دیکھنا ہاتھ مارنا، ہاتھوں کے طوطے اُڑ جانا۔ ہاتھ کا میل ہونا، ہاتھ کا تنگ ہونا، ہاتھ کا سچا ہونا، ہاتھ سے خیرات زکوٰۃ کرنا، ہاتھ نہ مٹھی ہڑبڑا کے اٹھی۔

زندگی میں ہاتھ پیر جتنا کام آتے ہیں اتنا ہی ہاتھ پیروں کے استعمال سے متعلق ہمارے ہاں محاورات موجود ہیں جو ہمارے معاشرے کی ذہنی اور  تجرباتی سطح کی نمائندگی کرتے ہیں ہاتھ آنا ہاتھ لگنا حاصل ہونا ہے۔ ہاتھ ہونا قابو ہونے کے معنی میں آتا ہے کہ آخر تمہارے بھی تو ہاتھ ہیں جب آدمی کسی کو کچھ دیتا ہے تو اُس کا ہاتھ اونچا ہوتا ہے کہ وہ دینے والا ہے اور  جب وہ لیتا ہے تو گویا اُس کا ہاتھ نیچا ہوتا ہے اس سے لین دین میں ایک طرح کی اونچ نیچ قائم ہوتی ہے مگر کسی بُرائی کے ساتھ نہیں۔ اپنے ہاتھ سے دے دینا گویا اپنی خوشی سے کسی کے لئے کچھ کر دینا ہے مکاری سے کوئی بڑا فائدہ حاصل کرنا ہاتھ مارنا کہلاتا ہے۔ سخت گھبرانا اور ہاتھوں کے طوطے اڑ جانا بہت گھبراہٹ طاری ہونا ہے۔ ہاتھ کا میل ہونا پیسے کے لئے کہا جاتا ہے یعنی پیسا اسے فال مارنا بھی کہتے ہیں۔ کچھ نہیں ہے اصل شے دوستی ہے وفاداری ہے خلوص و محبت ہے اور جذبہ خدمت ہے ہاتھ کا سچا وہ ہے جو معاملات میں دیانت دار ہو اور لین دین کا پکا ہو ہاتھ تنگ ہونے کے معنی ہیں پیسے کی کمی جس کی وجہ سے آدمی خرچ اخراجات کے معاملہ میں پریشان رہتا ہے۔

ہاتھ نہ مٹھی ہڑ بڑا کے اٹھی اس کے معنی ہوتے ہیں کہ اُس میں طاقت و قوت بالکل نہیں لیکن بے اختیار لڑنے بھڑنے اور مرنے مارنے کو تیار ہو جاتی ہے۔

اِس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ محاورے میں طنز بھی ہوتا ہے اور لطفِ گفتگو بھی ہوتا ہے اخلاقی تقاضہ بھی ہوتے ہیں اور سماجی زندگی کے وہ تجربہ بھی ہوتے ہیں جس میں سب کا حصہ ہوتا ہے۔

ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے عورتوں کا محاورہ ہے اور آرسی کے معنی یہاں آئینہ کے ہیں کہ دلہنوں کے اسی نام کے زیور میں آئینہ لگا ہوتا ہے یہ محاورہ یا عورتوں سے متعلق دوسرے محاورے ہماری زبان کی اس فضاء کی طرف لے جاتے ہیں جو گھر آنگن کی فضا ہے اگر ان پہلوؤں کی طرف نظر رکھی جائے تو زبان کا رنگارنگ دائرہ محاورات میں ریشم کے دھاگوں کی طرح لپٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔

 

(۲) ہاتھ باندھے کھڑے رہنا۔

یہ دربار داری کے آداب میں شامل ہے اور  بادشاہ کے دربار میں حاضری دینے والے امیرو وزیر سب ہی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں یہ محاورہ بھی دراصل درباری آداب ہی سے تعلق رکھتا ہے اور اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری سماجی زندگی کے مختلف رُخ ہیں جو محاورات میں اپنا عکس پیش کرتے ہیں۔

 

(۳) ہاتھ پاؤں بچانا، ہاتھ پاؤں پھولنا، ہاتھ پاؤں سے درست ہونا

کسی کام میں ہاتھ ڈالنا اُس کام کو کرنا یا کرنے کا بیڑا اٹھانا ہے اب کام کرنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ احتیاط برتی جائے تاکہ کوئی اور  کسی طرح کا نقصان نہ پہنچ جائے اسی کو ہاتھ پیر بچانا کہتے ہیں ہاتھ پیر پھُولنا گھبراہٹ طاری ہونے کو کہتے ہیں۔ غالبؔ کا شعر ہے۔

؂ اسدؔ خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھُول گئے

کہا جب اُس نے ذرا مرے پاؤں داب تودے

ہاتھ پاؤں سے دُرست ہونا، اچھی صحت ہونا اور ہاتھ پاؤں میں کسی طرح کی خرابی نہ ہونا ہے مُردوں کو ہاتھ پاؤں کی درستی اور قوت کے اعتبار سے دیکھا جاتا ہے اور عورتوں کو ناک نقشہ کی خوبی کے لحاظ سے اسی لئے جب کسی عورت یا لڑکی کو قبول صورت کہنا ہوتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ وہ نک سک سے دُرست ہے اِس لحاظ سے یہ محاورہ گھر آنگن کی فضا اور  گھریلو سوچ سے تعلق رکھتا ہے۔

 

(۴) ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جانا، ہاتھ پاؤں چلنا۔

خوف و دہشت طاری ہونے کے لئے کہا جاتا ہے کہ مارے خوف کے مرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے کہ اب کیا ہو گا اور کیسے ہو گا؟ ہاتھ پاؤں چلتے رہنا اس حد تک طاقت قائم رہنا ہے کہ آدمی چلتا پھرتا رہے اسی لئے جب اپنے لئے دعا کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اللہ پاک چلتے ہاتھ پیر اٹھا لے۔

 

(۵) ہاتھ پاؤں چھُوٹنا۔

گھر آنگن کا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں خیر و عافیت سے بچہ کی پیدائش ہو جائے اس لئے کہ یہ مرحلہ بہرحال نازک ہوتا ہے تو یہ دعا ایک حاملہ عورت کودی جاتی ہے کہ اللہ پاک خیریت سے ہاتھ پاؤں چھڑا لے۔ یعنی یہ مرحلہ ہنسی خوشی گزر جائے۔

محاورے کی لفظیات اور نفسیات پر اگر غور کیا جائے تو اس سے ہماری معاشرتی زندگی کے مختلف پہلو اور اُن کے بارے میں ہماری سوچ کا سلسلہ سامنے آتا ہے۔

 

 

 

(۶) ہاتھ پیلے کرنا۔

ہندوؤں میں اُبٹن مل کر ہاتھ پیلے کئے جاتے ہیں اور اُس کے معنی ہوتے ہیں شادی کر دینا، یہ محاورہ مسلمان گھرانوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اُبٹن کی رسم بھی مسلمان خاندانوں میں موجود ہے۔

 

(۷) ہاتھ جھاڑ کے کھڑا ہو جانا، یا ہاتھ جھاڑ دینا۔

جب آدمی پیسہ ٹکے سے اپنے آپ کو خالی ظاہر کرے کہ اُس کے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں اس لئے وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ وہ تو بالکل ہی ہاتھ پیر جھاڑ کر کھڑا ہو گیا۔ ہاتھ جھٹکنا یا دامن جھٹکنا یا دوسرے کو بالکل اس کا موقع نہ دینا کہ وہ کچھ کہہ سکے سوال کر سکے مانگ سکے ہاتھ جھٹکنا یا جھٹک دینا ایسے ہی موقعوں کے لئے آتا ہے۔ اُردُو کا ایک مصرعہ ہے۔

؂ وہ چلے جھٹک کے دامن مرے دست ناتواں سے

یعنی انہوں نے مرا کمزور ہاتھ جھٹک دیا اور  اپنا دامن چھڑا لیا۔

 

(۸) ہاتھ دانتوں سے کاٹنا۔

دانتوں تلے انگلی دبانا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اظہارِ حیرت کرنا اور  دانتوں سے ہاتھ کاٹنا افسوس کرنے کے معنی میں آتا ہے یہ محاورے بھی گھریلو محاورے ہیں اور اِن پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ گھریلو محاورے اُن چیزوں سے متعلق ہیں جو بالکل سامنے کی چیزیں ہیں اُن میں ہاتھ پیر ہیں آنکھ ناک ہیں اور دانت ہیں ناخون کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے کپڑے لتَّے ہیں اور زر زیور ہے۔ اِس سے ہم یہ بھی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ محاورات کا رشتہ ہمارے ذہن زندگی اور  زمانہ کی خاص خاص رویوں اور حلقوں سے ہے۔

 

(۹) ہاتھ کی لکیریں ہونا۔

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ ہماری تقدیر میں لکھا ہے وہ ہماری پیشانیوں میں اور  ہاتھ کی لکیروں میں چھُپا دیا گیا ہے۔ پا مسٹری ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعہ ہاتھ کی لکیروں سے قسمت کا حال معلوم کیا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ کس حد تک صحیح ہے یا غلط۔

 

(۱۰) ہاتھی نکل گیا ہے دُم باقی رہ گئی ہے

اِس کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سا کام ہو گیا اور بہت تھوڑا کام باقی رہ گیا۔ اسی محاورے کو ایک دوسری طرح بھی ادا کیا جاتا ہے دھڑیاں تُل گئیں یا سنگ رہ گئے دھڑا پانچ سیر کا ایک باٹ ہوتا تھا اسی لئے دھڑی کے معنی ہوتے تھے پانچ سیر اور دھڑیاں اُسی سے جمع بنائی گئیں تھیں۔

یہ تخیلی محاورہ ہے اس لئے کہ ہاتھی نکل تو جاتا ہے مگر اُس کے نکلنے کے بعد دُم پھنسی رہ جائے یہ نہیں ہوتا اس معنی میں یہ محاورہ ہماری سوچ کے ایک خاص پہلو پر روشنی ڈالتا ہے اور وہ داستانی فِکر ہے کہ ویسے نہیں ہو پاتا وہ داستانوں میں ہو جاتا ہے۔

 

(۱۱)ہتھیلی پر سرسوں جمانا۔

بہت جلدی میں کام کرنا اور یہ چاہنا کہ وہ بہتر سے بہتر ہو ہتھیلی پر سرسوں جمانا اِس کے لئے محاورہ کے طور پر لیا جاتا ہے جیسے آپ تو ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں کہیں یوں بھی کام ہوتا ہے اس کام کے لئے تھوڑا وقت چاہئیے توجہ اور محنت چاہئیے۔

اِس محاورہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم جادو کرشمہ اور معجزہ کے طور پر کوئی کام ہو جائے چاہتے ہیں پلاننگ منصوبہ بندی وسائل کی فراہمی اور مسائل پر نظر داری ہماری سوچ اور Approach کا کوئی حصہ ہی نہیں اسی پر یہ ایک Commentہے اور یہ دکھانا مقصود ہے کہ ہتھیلی پر کہیں سرسوں جمتی ہے یہ تو کرشمہ کے طور پر ہو سکتا ہے باقی کام محنت سے اور منصوبہ بندی کے تحت ہوتے ہیں۔

 

(۱۲) ہڈیاں نکل آنا یا ہڈیوں کی مالا ہو جانا۔

یہ ایک شاعرانہ انداز ہے کہ کمزوری کا وہ ذکر بھی ہڈیوں کے ساتھ کیا جائے اس میں ہڈیاں نکل آنا بھی ہے اور ہڈیوں کی مالا ہو جانا بھی جسم کی یہ حالت کمزوری کے باعث ہوتی ہے جس کی طرف یہ محاورہ اِشارہ کرتا ہے۔ اور  زندگی میں اچھے بُرے اور  غلط یا صحیح اثرات اِس کے آئینہ میں سامنے آئے ہیں، یہ ایک صورتِ حال بھی ہوتی ہے اور  اُس کا تاثر بھی تو نتیجوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہڈیاں ‘سسکیاں نکل آنا بھی اسی کمزور جُثہ سے یا بے حد دبلے پتلے بدن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 

(۱۳) ہلدی کی گِرہ یا گانٹھ لے کے پنساری بن بیٹھا۔

جب آدمی کے پاس کچھ نہ ہو اور بہت معمولی حیثیت پر وہ اپنے آپ کو بڑی چیز ظاہر کرے تو اس کہاوت یا محاورہ کے معنی سمجھ میں آتے ہیں ہلدی کی گِرہ بہت معمولی شے ہے اور پنساری بن جانا ایک بڑی دوکاندار ی ہے کیونکہ ہم معاشرہ میں اس طرح کی گھٹیا پن کی باتیں کرتے ہیں اُسی پر یہ ایک طنز ہے کہ وہ کچھ نہیں اور  اپنے آپ کو سب کچھ ظاہر کرنا چاہتے ہیں یہ’’ طنزیہ‘‘ محاورہ ہے۔

 

(۱۴) ہلدی لگے، یا ہینگ لگے نہ پھٹکر ی رنگ چوکھا ہی چوکھا۔

یہ عجیب و غریب محاورہ ہے اور اس کے معنی میں سماج کی مکاری اور فریب دہی بھی شامل ہے کہ کسی بھی کام کی انجام دہی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اُن میں سے کوئی بھی نہ ہو اور  نتیجہ بہتر ہو جائے ہمارے معاشرے کے نکمے اور خود غرض آدمی چاہتے ہیں یہی ہیں کہ سب کچھ ہو جائے اور کچھ نہ کرنا پڑے اسی لئے دوسرے لوگ طنز کے طور پر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آپ تو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا ہی چوکھا دیہاتی زبان میں چوکھا اچھے خاصے کو کہتے ہیں۔

 

(۱۵) ہل کے پانی نہ پینا

یعنی وہ آدمی کچھ نہیں کرنا چاہتا بلکہ ہل کے پانی بھی نہیں پینا چاہتا نکمّا ہے ہمارے ہاں اِس طرح کے لوگ بہت ہوتے ہیں جو کاہل نہیں ہوتے مگر کام کرنے کو برا سمجھتے ہیں یہ ایک ایسا سماجی عیب ہے جس کی طرف یہ کہہ کر اِشارہ کیا گیا ہے کہ ہل کرپانی بھی پینا نہیں چاہتا۔

 

(۱۶) ہم بستر ہونا یا ہم خواب ہونا

عورت مرد کا ایک ساتھ سونا اسی لئے بیوی کو ’’ہم خوابہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اِس سے زوجیت کے تعلق کو ہم بستر ہونا یا ہم خواب ہونا کہتے ہیں۔

 

(۱۷) ہم پیالہ وہم نوالہ ہونا۔

ساتھ کھانے اور پینے کو اِس محاورے سے یاد کرتے ہیں اور  اِس کے معنی میں بے تکلفی ہونا ’’ہم پیالہ ہم مشرب ‘‘شخص ہوتا ہے جو ساتھ بیٹھ کر شراب پیتا ہے پیالہ سے مراد جامہ شراب ہوتا ہے۔

اِس محاورے سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف طبقوں کے لئے جو محاورے بنے ہیں اور  رائج رہے ہیں اُن میں اُن کی لفظیات اور خاص اِصطلاحوں کو بھی شامل رکھا گیا ہے۔ ہم پیالہ کا لفظ اسی کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔

 

(۱۸) ہندی کی چندی کرنا۔

اِس معنی میں عجیب و غریب محاورہ ہے کہ اِس میں نکتہ چینی کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا گیا ہے اور  وہ بھی ہندی کے رشتہ سے یہ اس سماجی حقیقت کی طرف ذہن کو مائل کرتا ہے کہ ایک طبقہ میں زبان کے مسئلہ پر محاورے روزمرہ تذکیر و تانیث پر اختلاف رہتا تھا کہ یوں نہیں یوں اس طرح نہیں اُس طرح اسی کو ہندی کی چندی کرنا کہتے تھے اور  ہمارے یہاں صدیوں تک یہ رجحان رہا ہے کہ ہم قافیہ لفظ ہمیں زیادہ پسند تھے اور  ہم نثر ہی کو ایک طرح کی شاعرانہ خوبی سمجھتے تھے۔ جس سے زبان پر قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔

 

(۱۹) ہنستی پیشانی

معاشرتی زندگی میں آدمی کا روتی صورت بنائے رہنا ایک مجبوری ہو سکتی ہے مگر کوئی اچھی بات نہیں اور وہ لوگ زیادہ پسندیدہ شخص قرار پاتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ اچھے موڈ میں بات چیت کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے یا اس طرح کے اچھے موڈ کے لئے خندہ پیشانی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اُسی کا ترجمہ ہنستی ہوئی پیشانی ہے جسے انگریزی میں smilingکہتے ہیں یہ محاورہ دراصل سماجی رو یہ کو پیش کرتا ہے اور  معاشرتی رویوں میں بہتر صورت کو سامنے لاتا ہے۔

 

(۲۰) ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ گئے۔

ایک اچھی ذہنی کیفیت کا اظہار ہے جس سے خوشی کا احساس بڑھتا ہے اور دوسروں کو خوش رکھنے کی اچھی خواہش کا اظہار اس عمل سے ہوتا ہے اسی لئے ہنسی خوشی رہنا ہنس ہنس کے باتیں کرنا اور  ہنستی ہوئی پیشانی اسی لئے پسندیدہ اُمور ہے کبھی کبھی آدمی بہت ہنستا ہے وہ ہنسی کی کوئی بات ہوتی ہے جس پر صرف مسکرایا نہیں جاتا بلکہ آدمی اتنا ہنستا ہے کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جائیں طنزیہ ہنسی کچھ اور ہوتی ہے بے تکلف قہقہہ کچھ اور  اور دیوار قہقہہ بن جانا ایک اور  داستانی صورت ہے اس سے ہنسی کے مختلف مدارج بھی سامنے آتے ہیں۔ اور ہنسی کا مقصد بھی اور  یہ آدمی ہی کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ ہنس سکتا ہے کوئی اور  جانور ہنس نہیں سکتا ہے۔

 

(۲۱) ہنستے ہی گھر بستے ہیں۔

ہنسی سے متعلق ایک اور محاورہ ہے جس میں سماجی حیثیت سے ہنسی کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے کہ ہنسی خوشی رہنے کے موڈ کے ساتھ گھر بستے ہیں خاندان آگے بڑھتا ہے گھر بسنا شاد و آباد رہتا ہے اسی لئے عورتیں مردوں کو گھر بسے اور عورتوں کو گھر بسی کہہ کر پُکارتی ہیں مگر اُردُو کے ایک قدیم شاعر کا شعر ہے۔

؂ کون چاہے گا گھر بسے تجھ کو

مجھ سے درپیش و ے نوا کی طرح

 

(۲۲) ہنسلی اتر جانا

بچوں کی ایک بیماری ہے جس کا تعلق ہنسلی کی ہڈیوں سے ہے جو گلے کے نیچے اور سینے کے اوپر ہوتی ہیں انہی کی نسبت سے ایک چاندی کے زیور کو بھی ہنسلی کہتے ہیں جو عام طور سے قصباتی عورتیں پہنے رہتی ہیں۔

 

(۲۳) ہنسی میں پھنسی یا  کھنی ہو جانا۔

یعنی زیادہ مت ہنسو اُس کے بعد رونا آتا ہے مغربی یوپی میں اس محاورہ کی ایک اور  صورت بھی ہے ’’ہنسی گل پھنسی ‘‘یعنی مذاق مذاق میں کوئی ایسی بات ہو جانا جو پریشانی نقصان یا دشمنی کا سبب بن جائے اگر دیکھا جائے تو اس سے یہ مراد ہے کہ ہنسی میں بھی احتیاط ضروری ہے کہیں بات الٹی نہ پڑ جائے جس  سے مُوڈ خراب ہو جائے۔

 

(۲۴) ہوا بندھنا، ہوا کھانا، ہوا بھر جانا، ہوا پر سوار ہونا، ہوا پر یا میں گِرہ لگانا،ہوا سے باتیں کرنا، ہوا سے لڑتی ہے (چلتی ہوا سے لڑتی ہے) ہوا کے گھوڑے پر سوار ہونا، ہوائیاں اڑنا، ہوائیاں چھوٹنا، ہوائی دیدہ ہونا۔

اِن محاوروں پر نظر ڈالئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہوا کے بارے میں ہم نے کس کس طرح سوچا ہے اور  سماج میں جو غلط سلط رو یہ اختیار کئے جاتے ہیں انہیں کس طرح کبھی مذاق کبھی تعریف کبھی طنز اور  کبھی خوبصورت انداز سے پیش کیا جاتا ہے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہونا غیر ضروری طور سے ہوا بازی کا انداز اختیار کرنا ہوتا ہے۔

ہوائی دیدہ اُس وقت کہا جاتا ہے جب آدمی کی نظر کسی ایک مقام پر نہ ٹھہرتی  ہو کبھی یہ کبھی وہ جب آدمی بے تُکی اور  غلط بات کرتا ہے تو گویا ہوا میں گِرہ لگاتا ہے چہرہ پر ہوائیاں اُڑنا پریشانی کی ایک غیر معمولی صورت ہے’’ ہوائی چھوڑنا‘‘ جھُوٹ بول دینا دل کو خوش کرنے والی بات کہہ دینا جس کا کوئی سر پیر نہ ہو۔

ہوا بھر جانا سر سے متعلق ہوتا ہے اور اُس سے مُراد یہ ہے کہ وہ اِدھر اُدھر کی بڑائی کی باتیں سوچتا ہے اور اپنی حقیقت پر نظر نہیں کرتا۔

 

(۲۵) ہو حق کرنا۔

ہُو حق درویشوں فقیروں اللہ والوں اور صوفیوں کا ایک نعرہ اور کلمہ ذکر ہے یعنی اِس لفظ کے ذریعہ وہ اپنا عقیدہ اور اپنا جذبہ دونوں کو پیش کرتے ہیں اسی لئے جب صوفیوں کا ذکر آتا ہے تو اُن کی ’’ہُو حق ‘‘کا  ذکر بھی آتا ہے۔ ’’ہُوحق‘‘ کے معنی ہوتے ہیں وہی حق ہے اور اُس کے ما سِوا کچھ نہیں یہ اُس سے مراد ہوتی ہے۔

جیسا کہ اِس سے پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اُردُو محاورات مختلف طبقوں کے اپنے خیالات معاملات اور معمولات کو بھی پیش کرتے ہیں یہ محاورہ اُس کی ایک نمایاں مثال ہے کیونکہ یہ صوفیوں کا محاورہ ہے اسی لئے لفظ بھی انہی کے ہیں اور  حال و خیال بھی انہی کا ہے۔

 

(۲۶)ہوش اڑنا، ہوش اڑانا، ہوش پکڑنا، ہوش میں آؤ

ہوش مندی زندگی کا ایک بہت ہی ضروری مرحلہ ہے ہوش و حواس اگر قائم نہ رہے تو آدمی اپنے لئے یا دوسروں کے لئے کچھ کر ہی نہیں سکتا اسی لئے ہمارے یہاں ہوش و حواس کے دُرست رکھنے پر بہت زور دیا گیا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ میاں ہوش میں رہو یا ہوش میں آؤ یا ’’ہوش کے ناخن لو ‘‘یعنی ہوش مندی اختیار کرو یہ بھی ایک محاورہ ہے اور بہت اہم محاورہ ہے ہوش کی دارو، دوا تو لقمان کے پاس بھی نہیں تھی یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ ذرا سی دشواری پیش آئی تھی اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ ہوش ٹھکانے آ لگے۔ ’’ ہوش اڑنا، ہوش کھو دینے کو کہتے ہیں یہ خبر سن کر تو میرے ہوش اڑ گئے‘‘ یا میرے ہوش اڑا دینے کے لئے تو یہ صورتِ حال کافی تھی۔ تھوڑا سا اطمینان کا سانس لینا نصیب ہوا تو ہوش حواس کو سنبھالنے کا موقع ملا۔ اور  اب جان میں جان آئی۔

 

(۲۷) ہول جول۔

دہلی کا خاص محاورہ ہے اور اِس سے باہر کہیں سُنا بھی نہیں گیا چرنجی لال نے اُسے اپنے ہاں بھی جگہ دی ہے ’’ہول‘‘ خوف کے معنی میں آتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ سن کر مجھے تو ہول آ گیا لیکن ’’ہول جول‘‘ کے معنی اضطراب و پریشانی کے ہیں جس کے ساتھ یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ نساء و عورت کا محاورہ ہے۔ محاورات ایک علاقہ سے نکل کر دوسرے علاقہ میں بھی پہنچتے اور پھیلتے ہیں اور مختلف طبقوں کے مابین اُن کا کبھی کبھی تھوڑے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ رواج ہوتا ہے لیکن ایسے محاورے بھی ہیں جو کچھ خاص تہذیبی اور طبقاتی دائروں سے وابستہ ہیں میل جول میں ’’ جول‘‘ کا لفظ آتا ہے ہم جولی میں بھی لیکن’’ ہول‘‘ کے ساتھ جب یہ آتا ہے تو ایک دوسرے معنی دیتا ہے اور طبقہ نِسواں تک محدود ہے۔

 

(۲۸) ہولی کا بھڑوا بننا۔

بہت نچلے طبقہ کا محاورہ ہے اور اِس کے معنی ہیں ایک گیا گزرا آدمی جس کو اپنی عزت کا بالکل لحاظ پاس نہ ہو فارسی میں یہ ایک دشنام یاگالی کے طور پر آتا ہے اور وہاں ایسے ’’قرم ساق‘‘ کہتے ہیں۔

 

(۹۲) ہولی کا ہو گیا را ہولی کا سر پٹا۔

ہولی میں عام طور سے چھوٹے طبقہ کے لوگ فِقرہ اُچھالتے ہیں رنگ اُڑاتے اور  واہی تباہی بکتے نظر آتے ہیں انہی کو ہولی ’’کا  ہلیارا‘‘  کہا جاتا ہے یعنی بہت عام سطح پر شور و غل مچانے والا۔

ایک شخص ایسا ہوتا ہے جسے ہولی کے سانگ میں شریک رکھا جاتا ہے اور ذرا سی بات پر جو وہ جان بوجھ کر غلط کرتا ہے اس کی پٹائی ہوتی ہے بلکہ دوسروں کی غلطیوں پربھی اُسی کو مارا پیٹا جاتا ہے یہ سب دکھاوے کے طور پر ہوتا ہے مگر اِس سے سماج کا رو یہ سامنے آتا ہے کہ پیشتر ہمارے گھروں اور  خاندانوں میں کسی بھی شخص کو جسے معذور اور مجبور خیال کیا جاتا ہے غلطی کوئی کرے بُرا بھَلا اُسے کہا جاتا ہے۔

 

(۳۰)ہونٹ کاٹنا، یا چبانا، ہونٹ چاٹنا۔

آدمی کبھی بھی شدید طور پر کسی چیز کی خواہش رکھتا ہے اور  وہ میسر نہیں آتی تو وہ اپنا دل مسوس کر رہ جاتا ہے اسی حالت کو ہونٹ کا ٹنا بھی کہتے ہیں اور بدلے ہوئے الفاظ کے ساتھ ہونٹ چبانا بھی۔ اِس کے مقابلہ میں جو خو ش ذائقہ اور اچھی چیز کھانے پینے کے لئے میسر آتی ہے اگر وہ حسبِ خواہش نہ ہو تو آدمی اُس کی تمنا کرتا رہ جاتا ہے کہ کاش وہ تھوڑی سی اور مِل جاتی۔ نہیں ملتی تو وہ ہونٹ چاٹتا رہ جاتا ہے۔ یہ محاورے ہماری معاشی اور معاشرتی صورتِ حال کی طرف اِشارہ کرتے ہیں اور ایک عام آدمی پر کسی خاص محرومی کا جو اثر ہوتا ہے اُسے ظاہر کرتے ہیں اور پُر اثر طریقہ سے ظاہر کرتے ہیں یہ ایک طرح کا نفسیاتی معاملہ بھی ہے تجرباتی بھی اور  مشاہداتی بھی اور اِس سے ایک بار پھر ذہن منتقل ہوتا ہے کہ محاورات ہمارے سماجی رویوں پر طعن بھی ہیں طنز بھی تنقید و تبصرہ بھی اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو محاورات میں ہمیں اپنے معاشرہ اُس کی تہذیب و تعریف اور مختلف دور کے رویوں کا ایک جیتا جاگتا عکس نظر آئے گا۔

ادب و لٹریچر ہماری ایک طرح سے سماجی تاریخ ہے اور الفاظ ان کے معنی خیز ربط ہوتا ہے جسے صرف لغت میں نہیں دیکھا جا سکتا وہ سماجی رشتوں سے اُن کے عمل وردِ عمل سے اُن کی رسائی اور نارسائی سے سمجھ میں آتے ہیں اور محاورہ بڑی حد تک اُن معنوں کو Preserveکرتا ہے اس اعتبار سے محاورہ صرف زبان کا حصہ نہیں ہے ہماری سماجیات کا حصہ ہے۔

 

(۳۱) ہُوس لگنا۔

ہماری ایک عام سماجی کمزوری یہ ہے کہ بات بات توہم پرستی کے انداز سے سوچتے ہیں اُن میں نظر لگنا بھی ہے کہ اُس کی ٹوک لگ گئی نظر اپنے ہی کو نہیں لگتی چیزوں کو بھی لگتی ہے مچھلی کو دودھ کو اور  گوشت کو عام طور سے نظر سے بچایا جاتا ہے یہ اس لئے تو خیر ضروری ہے کہ اُس کو ہوا کی یا پھر مکھی مچھر کی گندگی سے بچایا جائے۔ لیکن آدمی کی نظر سے بھی بچایا جائے اِس میں ایک طرح سے توہم پرستی کا  عُنصر شامل ہے۔ معاشرہ کے اِس رو یہ کا اندازہ اِس سے بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی بچہ دودھ پی کر یا گھی کھا کر گھر سے نکلتا تھا تو اسے ’’راکھ چٹا دی‘‘ جاتی تھی۔ اسی طرح جب کسی بچی یا بچہ کا مُنہ دھُلایا جاتا تھا تو اسے سیاہی کا ٹکا بھی لگا دیا جاتا تھا تاکہ وہ نظرِ بَد سے بچ جائے لڑکیوں کو کھلے بالوں اور ننگے سر کوٹھے پر اِدھر اُدھر نہ جانے دیا جاتا تھا کہ اِسے نظر ہو جائے گی عام طور پر جن یا بھُوت یا بھُوتیناں جو ویران گلیوں ، کوٹھیوں یا گھروں میں رہتے تھے وہ چِمٹ جاتے تھے جو اِن لڑکوں کو بھی اکثر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اُوپری اثر ہے۔ جِسے دلّی میں اوپری اثر کہا جاتا ہے۔ تعویذ گنڈے جھاڑ پونچھ جیسے توہم پرستانہ علاج کے طریقہ اسی وجہ سے زیادہ رائج رہے ہیں۔ اِس معنی میں یہ محاورہ ہمارے ایک خاص طرح کے سماجی طریقہ فکر اور عوام کے ذہنی رویوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔

 

(۳۲)ہیرا آدمی، ہیرا یا ہیرے کی کنی کھا جانا۔

آدمی کو اُس کی خوبیوں یا پھر اُس کی سیرت و صُورت کی کمزوریوں کے باعث مختلف اچھی بُری چیزوں سے تشبیہہ و استعارہ کے حوالوں سے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے یا نسبت دی جاتی ہے مثلاً چاند سورج کنول پھول اسی طرح بُرائیوں کے اعتبار سے اینٹ پتھر اور کوڑا کرکٹ کہتے ہیں اچھا آدمی لعل جواہر ہیرا موتی اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ تو ہیرا ہے۔

ہیرا انگوٹھیوں میں زیورات میں اور دوسری زینت کی چیزوں میں کام آتا ہے تخت طاؤس میں بھی ہیرے جڑے ہوئے تھے اور شاہ جہاں کی پگڑی میں بھی کوہِ نُور ہیرا رہتا تھا۔ آج برطانوی ملکہ یا بادشاہ کے تاج میں کوہِ نور چمکتا ہے اِس سے انسانی زندگی میں ہیرے کی قیمت کا اندازہ ہو سکتا ہے لیکن ہیرا بدترین قسم کا زہر بھی ہوتا ہے اسی لئے ہیرے کو اگر چاٹ لیا جائے تو اس سے موت ہو جاتی ہے اور اگر اس کی کنی کھا لی جائے تو آنتیں کٹ جاتی ہیں۔

 

(۳۳) ہیر پھیر کی باتیں کرنا یا ہیرا پھیری کرنا۔

مکّاری اور دغا بازی  کو کہا جاتا ہے کہ وہ تو بڑی ہیرا پھیری کرتا ہے یہ خاص طور پر دلّی میں بولا جاتا ہے اور ہیر پھیر کی باتیں کرنا عام ہے۔

 

 

 

(۳۴) ہینگ لگانا، ہینگ کہنا یا ہینگ ہگنا۔

اس سے مُراد تکلیفیں اُٹھانا ہے اور خاص طور پر پیٹ کی تکلیفوں میں مبتلا رہنا ہے ہینگ لگانے کے معنی وہی ہیں جو چُونا لگانے کے ہیں۔ یہ ایک طرح کا فریب دینے کا عمل ہے۔

 

(۳۵) ہائے ہائے کرنا۔

افسوس کا اظہار کرنا، غالبؔ کا مصرعہ ہے

؂ روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں

اس سے تہ چلتا ہے کہ ہائے ہائے کرنا دکھ درد سے پریشان ہو کر اس پر اظہارِ افسوس کرنا ایک طرح سے آہ و شیون قائم کرنا جو اظہارِ ملال ہوتا ہے۔ آدمی اپنے رنج و غم دُکھ تکلیف اور  مسرت و شادمانی کے جذبات کا اظہار صاف وسادہ صورت میں کم کرتا ہے اُس کے لئے کہیں آوازوں کا سہارا لیتا ہے اور  کہیں الفاظ اور  اُن کی ادائیگی کا جیسے واہ واہ کرنا جو اظہارِ خوشی کے لئے ہوتا ہے اور  ہائے ہائے افسوس و غم اور  شدید دُکھ  و تکلیف کے لئے ہوتا ہے۔

 

(۳۶) ہی ہی یا ٹھی ٹھی کرنا

لڑکیاں یا عورتیں بے طرح ہنستی ہیں اور اُن کی ہنسی کی آواز اچھی نہیں لگتی تو اسے ’’ہی ہی کرنا ‘‘یا ٹھی ٹھی کرنا کہتے ہیں ہنسی ٹھٹھا ہمارے یہاں محاورے کا حصّہ ہے اور اُس کے معنی ہنسی مذاق کے ہیں مگر ٹھٹھا کرنا زیادہ اور غیر ضروری مذاق کرنے کو کہتے ہیں۔ جب کہ ٹھی ٹھی کرنا ہنسی کے عمل کی طرف ایک اشارہ ہے جس میں خاص آوازوں کے ذریعہ طریقۂ اظہار کو ایک خاص سلیقہ اور  اُس کے پیدا کردہ سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ اس سے ہم کسی انسان کے عمل اور  اُس کے اچھے بُرے پہلو کو جو صورتِ حال کا نمایاں حصّہ ہوتا ہے۔ آوازوں یا لفظوں میں ڈھلتے ہوئے دیکھتے ہیں اور  پھر وہ حقیقت‘ مصوّر ہو کر سامنے آتی ہے۔

 

***

 

 

 

 

ردیف ’’ی‘‘(یے)

 

(۱) یاد اللہ۔

مسلمانوں کا محاورہ ہے اور اُن کے مذہبی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اس کے معنی اللہ کی یاد کے نہیں لیکن محاورے میں اچھے خاصے خوش گوار تعلقات کے لئے یا د اللہ کہا جاتا ہے کہ ہماری اُن سے یاد اللہ ہے اِس کے معنی ہیں کہ ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔

 

(۲) یادش بخیر۔

جب کبھی کسی اپنے کو یاد کیا جاتا ہے اور اُس کا ذکر آ جا تا ہے تو یادش بخیر کہتے ہیں کہ اُس کی یاد بخیر ہو ان کلمات سے پتہ چلتا ہے کہ سماج میں گفتگو کے کچھ آداب ہوتے ہیں یادش  بخیر کہنا گفتگو کے آداب کو برتنا ہے۔

 

(۳) یاد گُدا گانا۔

یعنی بار بار یاد آنا گدگدی کرنا ایک ایسا عمل ہے جس سے ہنسی آتی ہے اسی لئے ’’گدگدانا‘‘ ایک دلچسپ عمل ہے وہ بھی خو ش کرنے والا عمل ہے۔ یعنی ان کی یاد دل کو’’ گدگدا‘‘ رہی ہے۔ اچھی اچھی باتوں کا خیال آ رہا ہے اور دل خوش ہو رہا ہے۔

 

(۴) یاروں کا یار۔

جو آدمی اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اُن کا وفادار ہو وہ یاروں کا یار کہلاتا ہے اصل میں یار ہونے کے معنی مددگار ہونے کے ہیں اسی لئے اللہ کا ساتھ بھی یار لگتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ اس کا ا للہ یا رہے۔ جس کا کوئی نہیں ہوتا اُس کا مددگار اللہ ہوتا ہے۔

’’یاری‘‘ ہونا دوستی ہونے کے معنی میں آتا ہے عورتیں جب عام طریقہ کے خلاف کسی غیر شخص سے دوستی کر لیتی ہیں تو وہ ان کا یار کہلاتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے یا رکی یاری سے کام اُس کے فعلوں سے کیا تعلق یعنی دوستی بڑی چیز ہے باقی باتوں کے چکر میں کیوں پڑا جائے جو کچھ ہے ٹھیک ہے۔

 

(۵) یاری کُٹ کرنا۔

بچوں کا محاورہ ہے جس کے معنی ہوتے ہیں دوستی ختم کرنا اگریوں دوستی ختم نہیں ہوتی جس طرح بچّے ایک خاص عمل کے ذریعہ دانتوں کو انگوٹھے کے ناخن سے چھُوتے ہیں اور پھر کٹ کرتے ہیں اور  اِسے یاری کٹ کرنا کہتے ہیں۔

 

(۶) یافت کی آسامی۔

یافت فارسی کا لفظ ہے اور یافتن مصدر سے بنا ہے اِس کے معنی ہیں پانا، روپیہ پیسہ کا فائدہ ہونا، آسامی موقع جگہ اور ایسے آدمی کو کہتے ہیں جس سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ اِس اعتبار سے اِس محاورہ کے معنی ہوئے وہ جگہ یا وہ آدمی جس سے فائدہ اٹھانا ممکن ہویا اس کی توقع ہو۔

 

(۷) یقین کے بندہ ہو گے تو سچ مانو گے۔

یقین اعتماد کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جو آدمی کسی پراعتماد کرتا ہے وہی اُس کی بات پر یقین بھی کرتا ہے اور اس کے وعدہ کو سچ سمجھتا ہے

لیکن اگر کسی پر بھروسہ ہی نہیں تو اس کی بات کا یقین بھی نہیں اسی لئے کہا جاتا ہے یقین کے بندہ ہو گے تو سچ مانو گے۔

 

(۸) یک جان دو قالب۔

بہت ہی قریبی رشتہ کو کہتے ہیں جب انتہائی محبت ہوتی ہے کہ اُن کے بدن ہی الگ الگ ہیں اُن کی روح تو ایک ہے یہ ہمارے سماج کا ایک آئیڈیل ہے کہ الگ الگ وجود ہونے کے باوجود وہ ایک ہی انداز سے سوچتے ہیں ایک ہی زندگی جیتے ہیں اور ایک دوسرے سے کبھی الگ نہیں ہوتے۔

 

(۹) یوم الحساب۔

قیامت کا دن جس کے لئے تصوّر کیا گیا ہے کہ حشر کا میدان ہو گا تمام لوگ جمع ہوں گے اور سب کے اعمال نامہ ان کے ہاتھ میں ہوں گے اور خُدا اُن کا فیصلہ کرے گا یہی یوم القیامت ہے اسی کو یوم الحساب کہتے ہیں یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے تو اس سے متعلق تصورات بھی انہی کے عقائد اور خیالات کا حصہ ہوں گے اس طرح کے محاورہ خاص کلچر سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ محاورہ اگرچہ عام ہوتا ہے مگر بعض محاوروں کا تعلق علاقائی تہذیب طبقاتی ذہن اور  مذہبی تصورات سے ہوتا ہے۔

 

(۱۰) یوں توں کرنا، یوں ہی، یوں ہی سہی۔

بُرا سلوک کرنا، تلخ کلامی یا ترش روئی سے پیش آنا اسی لئے بے تکلف لہجہ میں کہتے ہیں کہ اس نے تو ہماری ’’یوں توں ‘‘ کر دی یوں ہی یا یوں ہی سہی یہ ایک عام فقرہ ہے اور جب دوسرے کی بات کو ہم کاٹنا نہیں چاہتے تو کہتے ہیں چلو یوں ہی سہی اردو کا مشہور مصرعہ ہے۔

؂ تیری مرضی ہے اگریوں ہی تولے یوں ہی سہی

بہادر شاہ ظفر کا بھی شعر ہے۔

 

؂ جو کہو گے تم کہیں گے ہم بھی ہاں یوں ہی سہی

یوں خوشی ہے آپ کی تو وہاں یوں ہی سہی

 

(۱۱) یہاں کا یہیں۔

یعنی دنیا کا دنیا ہی میں رہ جائے گا جو کچھ ہونا ہے وہ یہیں ہو گا اسی لئے ایسے فقرہ استعمال کئے جاتے ہیں کہ یہاں کا جوہو نا ہے وہ یہیں کسی شاعر کا شعر ہے۔

 

؂ چاہو جتنا گھوٹ لو لوگوں کا تم صاحب گُلا

ہاتھ خالی جاؤ گے یاں کا یہیں رہ جائے گا

؂ یوں تو رشتہ کبھی نہیں توڑا

جو یہاں کا ہے وہ یہیں چھوڑا

 

اس لیے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری زبان کا ہمارے محاورے سے کیا رشتہ ہے اور اِن دونوں کا ہماری زندگی و ذہن سے کیا تعلق ہے۔ ہم اپنی بات سیدھے سادھے انداز میں بھی کرتے ہیں لیکن اکثر جذبہ کے اظہار اور  خیال کی تصویر کشی کے لئے اُس میں لسانی اور لفظی سطح پر اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کی غرض سے نئی نئی پہلوداریاں بھی پیدا کرتے ہیں یہاں کا یہیں رہ جانا عقیدہ کا اظہار بھی ہے اور عبرت دلانے کے لئے ایک اندازِ گفتگو بھی جس کے پس منظر میں ہمارے سماجی ضابطے عقیدہ تصورات سب آ جاتے ہیں۔

 

٭٭٭

 

 

 

’’اُردوشعروادب میں محاورہ‘‘

 

گذشتہ سطور میں محاورہ کی ادبی تہذیبی اور معاشرتی اہمیت کی طرف اشارہ کر دیئے گئے ہیں اُن سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ محاورہ زبان کی ساخت اور اُس کی ادبی پرداخت میں کیا خاص کردار ادا کرتا ہے اور صدیوں تک ادا کرتا رہا ہے۔

جب زبان آگے بڑھتی اور پھیلتی ہے مختلف دائروں اور تہذیبی حلقوں میں اپنا اثرو نفوذ پیدا کرتی ہے تو اس کی تزئین اور ترسیل میں جو باتیں یا خو بیاں خصوصیت کے ساتھ حصہ لیتی ہیں ان میں تشبیہہ استعارہ تلمیح اور محاورہ خاص طور پر شریک رہتا ہے کہیں شاعر مقر ر افسانہ گو اور  داستان نگار تشبیہ سے کام لیتا ہے۔ ایک شے وجود کو دوسری شے یا وجود سے مشابہت دی جاتی ہے تو تشبیہہ کا رشتہ پیدا ہوتا ہے جو مثال کا رشتہ کہلاتا ہے یعنی وہ شے ایسی ہے جیسے فلاں شے ہے۔ اور جب تشبیہہ کے رشتہ کو مستقل طور پر اُس شے سے وابستہ کیا جاتا ہے تو وہ استعارہ یا علامت بن جاتی ہے جیسے سورج چاند پھول شاخ گل شمشیر ستارہ ماہ نو وغیرہ وغیرہ یہ تشبیہیں بھی ہیں استعارے بھی اور جب بہت سی باتیں خیالات تصورات اور  تاثرات کسی شے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں تو وہ علامت بن جاتی ہے وہ علامت تمثیل کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور کہیں تلمیح کی صورت میں سامنے آتی ہے جب ہم استعارہ کی بات کرتے ہیں تو اس کا رشتہ یا ذہنی سلسلہ اِدھر سے اُدھر تک جڑتا چلا جاتا ہے۔ یہ خیال حال تجربہ اور مشاہدہ سے تعلق رکھنے والے امور ہیں انفرادی سطح پر بھی ایک شاعر ایک فنکار ایک داستان گو اپنے فنکارانہ انداز نظر اور اپنے تہذیبی نقطہ نگاہ کے ساتھ تشبیہوں اور استعاروں تلمیحوں کو اپنے انتخاب اور استعمال میں شریک رکھ سکتا ہے۔

محاورہ ایک طرح سے زبان میں استعاراتی عمل ہے جس میں کہیں تشبیہ کا رشتہ قائم ہوتا ہے کہیں تمثیل کا کہیں تلمیح کا اِس سے ایک خاص معنی مراد لئے جاتے ہیں یہ معنی مرادی ہوتے ہیں عام لُغت کے تابع نہیں ہوتے جیسے ہم محاورہ کے طور پر’’ آگ بگولہ ہونا‘‘ کہتے ہیں اور اُس سے غیر معمولی غصہ اور  طیش کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔

محاورہ ذہنوں میں ایک تصویر یا مجسم شکل اختیار کر لیتا ہے اور اُس سے وہی معنی سمجھے اور  سمجھائے جاتے ہیں جو ایک طرح سے اُس محاورہ کے ساتھ روایت یا ٹریڈیشن کی شکل اختیار کر لیتے ہیں زمانہ بہ زمانہ لفظ استعارہ تشبیہ وغیرہ اپنے معنی میں تبدیلیاں پیدا کرتے رہتے ہیں الفاظ بھی شکل بدل دیتے ہیں لیکن محاورہ اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے وہ گویا جہانِ لفظ و معنی میں ایک پتھر کی لکیر کی طرح ہوتا ہے جو صدیوں تک بلکہ ایک ایسے زمانہ تک جس کا تعین مشکل ہے اپنے خدوخال اور نقش و نگار کو قائم رکھتا ہے وہ ٹوٹ سکتا ہے چھوڑا جا سکتا ہے اسی طرح سے محاورے ایک زمانہ کی لفظیات اور زبان کے تہذیبی یاتشبیہ و استعاراتی استعمال کی بعض صورتوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اس معنی میں محاورہ کسی بھی زبان کی صوتیات لفظیات اور لسانیاتی مطالعہ میں مدد دیتا ہے۔ بہت سی لسانیاتی گتُھیاں کھلتی ہیں سماج کے رویے سمجھ میں آتے ہیں زبان کے ارتقائی مراحل پر نظر داری میں یہ محاورے معاون ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں محاورے ہماری زبان ایک ناقابلِ شکست حصّہ رہے ہیں شہری سطح پر ہویا قصباتی سطح پر یا دیہات کی سطح پر ہم اِن کے مطالعہ سے اپنی تہذیبی روشوں شہری رویوں اور اپنے تمدنی مزاج کی تہہ داریوں سے واقف ہو سکتے ہیں۔

ہم اپنی تاریخ کے صفحات سے سے گزرتے ہیں تو عام طور سے سیاسی واقعات اور انتظامی اُمور ہمارے سامنے آتے ہیں یا جنگ و جدل کے حالات ہوتے ہیں مگر اس سے الگ اور آگے جو ہماری تہذیبی تاریخ کے نہایت اہم گوشے ہیں اُن سے صرفِ نظر کر جاتے ہیں ادبیات کا مطالعہ بعض ذہنی زمانی اور زمینی حوالوں سے ہماری تہذیب و تاریخ کے ان گوشوں اور زاویوں کو پیش کرتا ہے جو عام مطالعہ کے دوران اکثر ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اِن میں قصے کہانیاں حکایتیں نیز روایتیں بھی ہیں۔ شعر و سخن میں ہماری تہذیب کے مطالعہ کے بہت سے گوشہ محفوظ ہیں مثنویاں قصیدے غزلیات اردو مرثیہ نیز مرثیے اِس دائرہ میں آتے ہیں کہ تہذیبی مطالعہ کے لئے ان کو بطورِ خاص سامنے رکھا جائے ادبی مطالعہ لسانیاتی مطالعہ کی طرف بھی لاتا ہے اور اس طرح کی علمی و ادبی کوششیں برابر ہوتی رہی ہیں۔ اگرچہ تحقیق و تنقید کے مقابلہ میں اُن کا دائرہ نسبتاً مختصراً ہے۔

یہاں ایک محاورہ کی طرف اگر اشارہ کر دیا جائے تو بات سمجھ میں آ جائے گی اور اُس کے فکری زاویہ روش اور واضح ہو جائیں گے مثلاً ’’ساس لگنا ‘‘ایک محاورہ ہے جس کا ہماری معاشرت اور  تہذیبی رشتوں سے گہرا تعلق ہے ایک کنواری لڑکی اپنی کسی دوسری ہم پیشہ خاتون کے رو یہ سے خفا تھی اور اُس پر اظہار ناخوشی کرنا چاہتی تھی کہ اُس نے خواہ مخواہ ایک موقع پر بُرے الفاظ میں یاد کیا تھا اور شکوہ شکایت کی بات کو لڑائی جھگڑے کی صورت دیدی تھی اُس پر اس کنواری لڑکی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے میرے خلاف اِس طرح کی باتیں کیوں کیں وہ میری ’’ساس نہیں لگتی تھی‘‘۔

یہ اس لئے کہ معاشرتی طور پر ہمارے خاندانوں میں ’’ ساس‘‘ کو بڑا درجہ دیا جاتا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جو چاہے کہہ سکتی ہے جب چاہے ناراض ہو سکتی ہے اور اپنی بہو کا فضیحتہ کر سکتی ہے کسی اور  کو یہ حق نہیں ہے۔ اگر ہم اس بے تکلف اظہار اور محاورہ کی سماجیاتی اہمیت پر گفتگو کریں تو ہمارے معاشرہ کی ایک خاص روش سامنے آتی ہے اور گھریلو سطح پر جو حقوق کی سماجی تقسیم رہی ہے اور مختلف رشتوں کے جو معنی ہماری زندگی میں رہے ہیں اُس پر ایک عکس ریز روشنی پڑتی ہے۔

سماج متحرک نظر آتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ بدلنے کا عمل جاری رہتا ہے اور  رہا ہے محاوروں کی زبان انداز بیان زمین زمانہ اور ذہن سے اُن کا رشتہ محاورات کی لفظی ساخت سے بھی ظاہر ہوتا ہے ان کے ایسے سماجی حوالوں سے بھی جو محاورات کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں ان کو سمجھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت بہرحال باقی رہتی ہے۔

محاورات کو ہم کئی اعتبار سے دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں اُن میں سے ایک رشتہ وہ ہے جو لسانیات سے ہے مختلف زمانہ میں ہم اپنی زبان کی جس ساخت اور پرداخت سے زمینی یا زمانی رشتہ رہتا ہے وہ سلسلہ ادبیات لغت اور شعر و شعور کے دائرہ میں پہنچ کے بدل جاتا ہے اور وقت کے ساتھ بہت لفظ ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں متروکات میں داخل ہو جاتے ہیں اور ایک دور کے بعد ہم دوسرے دور میں انہیں استعمال نہیں کرتے زبان و ادب کے رشتہ سے جب ہم اپنی زبان کی لفظیات کو پرکھتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ گزر جانے والے وقت کے ساتھ اس کے سرمایہ الفا ظ میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں ترک و اختیار کا سلسلہ ہر زمانہ کے بعد دوسرے زمانے میں واضح یا نیم واضح طور پر سامنے آتا ہے یہ ضروری نہیں کہ جو الفاظ ایک طبقہ کی زبان سے خارج ہو جائیں وہ دوسرے طبقہ کی زبان سے بھی نکل جائیں یا جو ایک شہر کی زبان میں اپنا چلن ختم کر دیں وہ دوسرے شہر کی زبان میں بھی شامل نہ رہیں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مہذب شہریوں کی زبان اور لفظیات سے جو الفاظ ختم ہو جاتے ہیں وہ قصبوں اور اُن کی مختلف آبادیوں کے حلقوں میں شامل رہتے ہیں۔

میر انشاء اللہ خاں نے خود شہر دہلی کے متعلق یہ کہا ہے کہ فلاں فلاں محلے کی زبان زیادہ صحیح اور فصیح ہے بات ایک شہر سے آگے بڑھ کر دوسرے شہر تک اور شہری حدود سے تجاوز کر کے قصبات اور  قصبات سے گاؤں تک پہنچتی ہے تو اس کے دَھنک جیسے حلقے بھی اپنے رنگوں کے ساتھ اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔

اعضائے جسمانی سے ہمارا جو نفسیاتی اور عملی رشتہ ہے وہ سماجی حقیقتوں کا ترجمان بن جاتا ہے اور اس سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہمارے جذبات و احساسات یا اُس قدرتی ماحول سے جو ہمارا وجود ہے یا ہمارے وجود کا حصہ ہے ہم اپنے خیالات اور حالات کو ظاہر کئے جانے اور اُن پر گفتگو کرنے نیز اُن سے متعلق تبصرہ کرنے میں ہم کیا اور کس طرح مدد لیتے ہیں اور اِس معنی میں ہمارا اپنے وجود اور زمانہ موجود سے کیا رشتہ ہوتا ہے اور زندگی بھر بنا رہتا ہے مثلاً آنکھوں کے علاوہ ’’دل‘‘ سے متعلق ہمارے محاورے اور کہاوتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہماری انسانی اور سماجی نفسیات میں کس نوع کے رشتہ کیا ہیں اور کس طرح کے ہیں اور کس کس سطح کے ہیں۔

اِس کے علاوہ ہمارے آس پاس جو چیزیں ہیں وہ ہمارے کام میں آتی ہیں اور ہمارے اپنے ماحول سے ہمارا تعلق اُن رشتوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو ان چیزوں میں اور ہم میں ایک دوسرے سے رابطے اور  وابستگی کا سبب بنتی ہیں۔ مثلاً’’ کانٹا‘‘ جھاڑی دار پودوں کا حصہ ہوتا ہے نرم کانٹے بھی ہوتے ہیں اور سخت بھی نیز ایسے کانٹے دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی نوکیں مڑی ہوتی ہیں اور ایسی بھی جو لوہے کی باریک کیل کی طرح سخت ہوتے ہیں کانٹوں کے درمیان پھول ہوتے اور پھولوں کے درمیان کانٹے کانٹوں پر طرح طرح کے محاورے ہیں مثلاً’’ دل میں کھٹکنا ‘‘کانٹے کی طرح رگ جاں میں اُتر جانا زہر بھرے کانٹے وغیرہ وغیرہ یہاں یہ مصرعہ یاد آتا ہے ’’زیست کی راہ کا نٹوں سے بھر جائے گی۔ ‘‘اِس موقع پر غالبؔ کا یہ شعر یاد آ رہا ہے۔

 

؂ ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کوپر خار دیکھ کر

 

یا پھر یہ مصرعہ ہے۔

؂ گلوں سے خار بہتر ہیں جو دامن تھام لیتے ہیں

 

اسی طرح ٹھیکرا’’ اینٹ‘‘ پتھر اور  در و دیوار جادہ  و راہ کون سی شے ہے جو ہماری زندگی کو متاثر نہیں کرتی ہمارے ذہنوں پر اثر نہیں ڈالتی اور ذہن جب اثرات قبول کرتا ہے تو زبان الفاظ تشبیہیں استعارہ اور محاورے سب ہی تو اس سے تاثر لیتے ہیں۔ مثلاً آب و رنگ اگرچہ فارسی کے لفظ ہیں لیکن ہماری زندگی ہمارے ذہن اور ہمارے زمانہ کی فکری اور فنی پہلو داریوں سے اُن کا گہرا واسطہ ہے اسی کو جب ہم محاورات میں معنی در معنی پھیلتے اور سمٹتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لفظ ہمارے کب کب اور کن کن موقعوں پر کام آتے ہیں اور ہمارے مذہب ہماری تہذیب اور ہمارے معاشرہ سے ان کا ذہنی طور پر کیا کیا رشتہ بنتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہماری تہذیبی فکر اور معاشرتی انداز نظر بہت کچھ ہماری زبان کے طابع ہوتا ہے خیال کو جب تک الفاظ اِشارات و علامتیں نہ ملیں تو وہ حال میں نہیں بدل سکتا حال کا تعلق خیال سے ہے خیال تصور ہوتا ہے اور  حال اُس کی تصویر۔

ہم فنونِ لطیفہ کے ذریعہ بھی اپنی بات کہتے ہیں اس میں رقص بھی شامل ہے اور  موسیقی بھی اداکاری بھی مصوّری میں رنگ کام آتے ہیں خطوط اور زاویہ ہمارے خیال کو حال میں بدلتے ہیں خیال کے خاکوں میں رنگ بھرے جاتے ہیں اور اظہارِ ابلاغ کو نئی جہتیں میسر آتی ہیں نقاشی بت گری اور عمارت سازی کو بھی انہی فکری اور فنی دائروں میں رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔

شاعری بھی فنونِ لطیفہ ہی میں سے ہے اور ایک بڑا اور ہمہ گیر تخلیقی فن ہے یہ ایک Creativeآرٹ ہے۔ اس میں بھی اظہار یا اظہاریت کو لفظ و معنی کی اشاریت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اشاریت سے یہاں مراد وہ کیفیت ہے کہ لفظ یا لفظی ترکیب مختصر ہوتی ہے جانی پہچانی ہوتی ہے لیکن انسانی ذہن اور تخلیقی حسّیت کے وسیلے سے اس میں نئی نئی وسعتیں گہرائیاں اور  رنگارنگی پیدا ہو جاتی ہے جو ہمارے جذبات و احساسات اور اِدراک کو اپیل کرتی ہے معنی فہمی کی طرف لاتی ہے۔ ۔

اسی طرح عوامی سطح پر محاورہ ایک طرح کی شعوری کوشش ہوتی ہے جو پھر لاشعوری  یانیم شعوری حالتوں میں بدل جاتی ہے ہمارے ایک وقت کے تجربہ کو ہمہ وقتی صورت دیتی ہے اسی لئے محاورہ وقت کے بعد زمانہ بہ زمانہ اور  دور بہ دور اپنی رواجی حالت کو قائم رکھتا ہے اور یہ خصوصیت ہماری اظہاری اسلوبیات میں صرف محاورہ کو حاصل ہے کہ وہ اپنی لفظیات تلفظ اور ساخت کے ساتھ محفوظ رہتا ہے اور ایک بڑے حسّی تجربہ کو اپنے اندر سموئے رکھتا ہے جب کہ شعر و شاعری اپنا اثر کم کر دیتی ہے اِس کے برعکس خاص طور پر محاورے کی دو جہتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمارے ہمیشہ کام آتی ہیں ایک لسانیاتی جہت کہ محاورہ قدیم زبان کے Shadesاپنے ساتھ محفوظ رکھتا ہے اور ہم محاورہ پر ایک تجسس بھری نظر ڈال کر قدیم زبان کی پرچھائیوں کو اُس میں دیکھ سکتے ہیں اور علاقائی تغیرات کو بھی۔

ہم اپنی زبان کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو ہمیں اس حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ ہماری زبان نے جو ایک ملی جُلی عوامی اور عمومی بھاشا ہے۔ پنجاب،راجستھان، سندھ، گجرات، مالوہ، دہلی، لکھنؤ اور دوسرے علاقوں کی زبان سے اُس نے کیا اثرات قبول کئے ہیں اِس سے زبان کی تاریخ کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور اس کی روشنی میں لسانی ساخت کو سمجھا جا سکتا ہے اور اس کے پس منظر میں زبان کے ارتقاء کو بھی۔

محاورہ زبان و بیان اور فکر و خیال کے مختلف سلسلوں سے وابستہ ہوتا ہے ان میں زبان کے ادواری اور علاقائی رو یہ بھی شامل ہیں محاورہ زبان کے کچھ خاص حصوں کو محفوظ بھی کرتا ہے اور  صدیوں تک محاورہ کے ذریعہ زبان کے اس طریقہ استعمال کی حفاظت ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر موقع پر محاورہ زبان و بیان میں کوئی حسن پیدا کرے سنجیدہ ادبی زبان کو اب عام محاوروں کے استعمال سے الگ بھی رکھا جا سکتا ہے لیکن طبقاتی زبان میں وہ استعمال ہوتے ہیں۔ اور ہماری تہذیب کے ایک خاص رخ کو پیش کرتے ہیں محاورہ بھی ایک طرح کا استعارہ یا تشبیہہ ہے مگر وہ چونکہ منجمد صورت اختیار کر لیتا ہے اس لئے نئے ذہن اور نئی فکر کی ترجمانی محاورہ سے نہیں ہوتی۔ مگر وقت کا ذہن اور زندگی کا ایک طویل تجربہ بہر صورت محاورہ میں موجود رہتا ہے۔

شہر دیہات اور قصبات کی زبان میں بھی فرق ہوتا ہے اور ایک ہی بڑے شہر کے مختلف طبقوں کی زبان میں بھی محاورے کے استعمال کے لحاظ سے فرق اور فاصلہ ہوتا ہے ہم محض کسی ایک علاقہ کسی ایک طبقہ یا پھر کسی ایک شہر یا بستی کی زبان کو کسی بھی بڑی زبان کے رنگارنگ دائروں کا نمائندہ مشکل ہی سے کہہ سکتے ہیں شہروں میں یہ رجحان آتا ضرور ہے اور پڑھے لکھے طبقہ کے لوگ بھی اس سے ماورا نہیں قرار دیئے جا سکتے جب کہ بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ زبان کے الگ الگ رنگ اور  ڈھنگ ہوتے ہیں ان میں ہم آہنگی ہو سکتی ہے مگر وہ سب ہم رنگ ہوں یہ ممکن اب سے کچھ زمانہ پہلے تک دہلی کے لوگ اپنی زبان کو سب سے اچھا کہتے تھے اور ایسا ہی سمجھتے بھی تھے یہاں تک کہ اہلِ لکھنؤ کی زبان بھی اُن کے ہاں سند نہیں تھی یہی رجحان فارسی والوں میں موجود تھا کہ وہ یہ کہتے تھے فارسی ہماری مادری زبان ہے ہمیں وہ زیادہ بہتر آتی ہے خود ایران کے شہروں میں بھی شیراز اور اصفہان کی زبان کو زیادہ صحیح اور فصیح سمجھا جاتا تھا۔

دہلی والے بھی اپنے محلے کی زبان کے بارے میں اسی طرح کی دائرہ بندی کے قائل تھے میر انشاء اللہ خاں نے دریائے لطافت میں اس کا اظہار کیا ہے کہ قلعہ جامع مسجد کے آس پاس اور  رسید واڑے (محلہ) کی زبان زیادہ صحیح ہے اور اسی کو زیادہ فصیح کہا جا سکتا ہے۔ باڑہ ہندو راؤ اور شہر کی بیرونی بستیوں کی زبان کو وہ محاورہ روزمرہ اور لطفِ ادا کے اعتبار سے بہت اچھا خیال نہ کرتے تھے اور مردم بیرونِ جات کی زبان ان کے نزدیک ٹکسالی زبان نہ تھی۔ یہ ایک وقت کا سماجی رو یہ ہو سکتا ہے اب یہ الگ بات ہے۔ مگر اس طرح کی دائرہ بندی یا معیار پسندی کو ہمیشہ کے لئے زبان کی ترقی و ترویج کے پیشِ نظر صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا قوموں اور طبقوں میں یہ رجحان رسم و رواج سے متعلق بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی رسموں اور  رواجوں کو چاہتے ہیں پسند کرتے ہیں اور ترک کرنے پر راضی نہیں ہوتے انہیں ہر تبدیلی ایک طرح کی سماجی بدعت معلوم ہوتی ہے مگر تیز رفتار بدلتی پوری زندگی میں سوچ کا یہ انداز اور  دائرہ بندی کا یہ اسلوب دیر تک اور دور تک ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔ اگرچہ یہ رجحان موجود ہے۔

اور اس سے پیشتر کم و بیش کافی شدت کے ساتھ موجود رہا ہے۔ محاورہ محاورہ بندی با محاورہ زبان اور  روز مر ہ کی پابندی کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے اس لئے کہ یہ تاریخ و تہذیب یا دوسرے لفظوں میں سماجیات (Sociology)کا ایک عمل ہے اور اس عمل کا جب ہم لسانی ادبی اور  معاشرتی تجزیہ کرتے ہیں تو بہت سی اہم باتیں اور نکتہ ہماری نظر میں ابھرتے ہیں اور تاریخ کے عمل کو سمجھنے میں معاون ہوتے ہیں مثلاً اُس اُس کرنا (عش عش) کرنا بھی اس ذیل میں آ سکتا ہے کہ تلفظ اور املا کے فرق کو تسلیم کرتے ہوئے ہم محاورہ کا استعمال اور لغت و تحریر میں اس کی نگارش کو سامنے لاتے ہیں اُس اعتبار سے زبان کے سماجی رشتوں اور  لسانی رابطوں کی تفہیم میں محاورہ یہ کہیے کہ غیر معمولی طور پر معاون ہوتا ہے۔

ہم اس سلسلے میں آگ سے متعلق محاورہ کو بھی پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں۔ آگ پر بہت محاورے ہیں اس لئے بھی کہ آگ انسانی زندگی میں پانی کے بعد سب سے زیادہ داخل ہے۔ آگ سے بڑی ایجاد یا دریافت شاید ابھی تک نہیں ہوئی۔ انسان کو جنگل کی زندگی کی آفتوں سے آگ ہی نے پناہ دی اس کی غذائی ضرورتوں کو ایک خاص انداز سے پورا کرنے میں آگ ہی شریک رہی آگ کو انسان نے اپنا خداوند بھی قرار دیا اور اس کی طرف ہمارے مقدس صحیفوں میں اشارے بھی ملتے ہیں۔

آتش کدے قدیم زمانہ سے ہماری عبادت گاہیں رہے ہیں اور آج بھی ہیں مختلف مواقع پر آگ ہماری مذہبی رسومات میں شامل رہتی ہے اگر دیکھا جائے تو جو چیز ہماری زندگی میں فطری طور پر شریک ہے یا کسی وجہ سے ہماری معاشرت کا حصّہ بن گئی ہے ہم اس کے بارے میں سوچتے ہیں سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور جب وہ ہماری نفسیات کا جز بن جاتی ہے توہم اس سے متعلق محاورات کی بھی تشکیل کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ہماری زبان سے کوئی ایسا فقرہ یا کلمہ ادا ہوتا ہے جس کو ہم معاشرہ میں رواج پاتے ہوئے دیکھتے ہیں وہی محاورہ بن جاتا ہے۔ اور اس میں کچھ ایسی پہلو داری پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ سماج کے ذہنی رو یہ کی نمائندگی کرتا ہے کہ اس خاص معاملہ میں اس طرح سوچا اور سمجھا گیا۔ اور پھر وہ رواج عام یا سماجی فکر کا حصّہ بن گیا۔

عجیب بات ہے کہ زیادہ تر محاورہ سماجی رویوں پر تنقید ہیں اور ہم نے کبھی اس رشتہ یا زاویہ سے اُن کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی جیسے ’’الٹی گنگا‘‘ ’’پہاڑ کھویا‘‘ ’’الٹی گنگا بہا‘‘ ’’الٹی مالا پھیرنا‘‘ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔

اصل میں ہم ایسی تنقیدیں کم کرتے ہیں جو شخصی ہوتی ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں ایک یہ کہ ہم شخصی طور پر دوسرے سے برا بننا نہیں چاہتے اور  اُس کے مخالفانہ رو یہ کو دعوت دینا اس لئے پسند نہیں کرتے کہ اس سے ہماری سماجی الجھنوں میں اضافہ ہوتا ہے اپنے قریب تر افراد کو برا کہنا اسی لئے avoidکرتے ہیں کہ پھر قربت میں دُوریاں پیدا ہوتی ہیں اور اتفاق اختلاف میں بدلتا ہے اسی لئے ہم صرف اپنے دشمنوں کو برا کہتے ہیں اور بات بات میں برا کہتے ہیں کہ ہمارا مخالفانہ جذبات اِس طرح تسکین پاتے رہتے ہیں اور تاہم غیر ضروری طور پر اپنی مخالفت کے دائرہ کو بھی بڑھنے سے روک دیتے ہیں مگر برا حال ہم سب ہی کو کہتے ہیں اور اس کے لئے محاورے کا سہارا لیتے ہیں اس طرح محاورہ ہماری زبان کی تیزی ہمارے لب و لہجہ کی چُبھن اور ہمارے طنز یہ فقرات کی زہر ناکیوں سے بھی بچ جاتا ہے اُس معنی میں محاورہ طنز و تعریض کے موقع پر بہت کام آتا ہے ذکر اور اپنے اظہارِ خو شی ذکر و ملال اور  اپنے ذاتی غموں یا دکھوں کے اظہار و ابلاغ میں بھی غیر معمولی مدد دیتا ہے اور وہ کام کرتا ہے جو شاعری کرتی ہے مگر شعر و شاعری سے سب لوگ کام نہیں لے سکتے اور جو کام لیتے ہیں وہ بھی ہر وقت نہیں لے سکتے ایسی صورت میں محاورہ ہمارے جذبات و احساسات اور فکر و خیال کی نمائندگی اور جذبات کی ترجمانی اس طرح کر جاتا ہے کہ بات بھی کہہ دی جاتی ہے اور اس پر پردہ بھی پڑا رہتا ہے۔

شہری زندگی میں زبان کے طرح طرح سے تجربہ کئے جاتے ہیں اور سطح پر اُس کے اثرات اور اِمکانات کو آزمایا جاتا ہے شہری معاشرہ میں ذہن و زندگی میں جو تہہ داریاں پیدا ہوتی ہیں پیچ و خم جنم لیتے ہیں اور طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور معاملہ کرنا ہوتا ہے اس کی وجہ سے شہری زبان میں نئے نئے پرت پیدا ہوتے اور  نئے نئے پہلو اُبھرتے رہتے ہیں۔

شہر ایک بڑی آبادی کے طور پر برابر حرکت میں رہتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرنے والا ایک انگریزی محاورہ ہے اس تحرک سے جس میں تسلسل بھی ہوتا ہے  city in the motionA زبان پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اُسے شہری زبان اس کی لفظیات اس کے محاورے روز مرہ نیز اس کے لب و لہجہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شہر والے اپنی زندگی میں امتیاز کے جو زاویہ اور پہلو پیدا کرتے رہتے ہیں اُن میں وہ اپنی زبان کو بیشتر اپنی امتیازی روش و کشش کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ ہر دور اور ہر ملک کی شہریت کا اپنا تہذیبی رو یہ ہوتا ہے۔ جو اُس کی معاشرتی فکر کی  نمائندگی کرتا ہے۔

ہم دہلی، لکھنؤ،لاہور، حیدرآباد، اور بعض دوسرے شہروں کی نسبت سے اپنی ادبی اور لسانی تاریخ میں اِس کا مطالعہ اور تجربہ کرتے آئے ہیں دہلی اور  لاہور میں بیٹھ کر اہل ایران اپنے امتیازات کا اظہار کرتے تھے اور دہلی والے لکھنؤ اور حیدرآباد میں بیٹھ کر جب ہی توہم داغ کو یہ کہتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

 

؂ دلی نہیں دیکھی ہے زبان داں یہ کہاں ہیں

 

اور داغ ؔکایہ  شعر تو اس موقع پر بے اختیار یاد آتا ہے۔

 

؂ اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھُوم ہماری زباں کی ہے

 

محاورے ہماری ذاتی اور معاشرتی زندگی سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں محاوروں میں ہماری نفسیات بھی شریک رہتی ہیں ان کی طرف ہمارا ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی یا افرادی نفسی کیفیتوں کی آئینہ دار اسی طرح ہمارا ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی، انفرادی نفی کیفیتوں کی آئینہ دار ی ہے اسی طرح ہمارے اعضاء ہاتھ پیر ناک کان اور آنکھ بھوں سے ہمارے محاورات کا گہرا رشتہ ہے مثلاً آنکھ آنا آنکھیں دیکھنا آنکھوں میں سمانا اور آنکھوں میں کھٹکنا یہ محاورے مختلف المعنی ہیں اور کہیں کہیں ایک دوسرے سے تضاد کا رشتہ بھی رکھتے ہیں۔

آنکھ سے متعلق کچھ اور  محاورے یہاں پیش کئے جاتے ہیں آنکھ اٹھانا،آنکھ اٹھانا آنکھوں کی ٹھنڈک آنکھ پھوڑ ٹڈا۔ آنکھیں ٹیڑھی کرنا آنکھ بدل کر بات کرنا۔ رُخ بدلنا آنکھوں میں رات کاٹنا آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا استعارات انداز بیان ہے جس کا تعلق ہماری شاعری سے بھی ہے اور سماجی شعور سے بھی یہ بے حد اہم اور دلچسپ باتیں ہیں آنکھ بدل کر بات کرنا ناگواری نا خوشی اور غصہ کے موڈ میں بات کرنا ہے جو آدمی اپنا کام نکالنے کے لئے بھی کرتا ہے آنکھیں اگر تکلیف کی وجہ سے تمام رات کڑواتی رہیں اور ان میں برابر شدید تکلیف ہوتی رہی تو اسے آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا کہتے ہیں یعنی تکلیف کی انتہائی شدت کو ظاہر کرنا آنکھیں پتھر انا اس کے مقابلہ میں ایک دوسری صورت ہے یعنی اتنا انتظار کیا کہ آنکھیں پتھر ہو گئیں۔ آنکھوں میں رات کاٹنا بھی انتظار کی شدت اور شام سے صبح تک اسی حالت میں رہنے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو گویا رات کے وقت انتظار کرنے والے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے آنکھ لگنا سو جانا اور کسی سے محبت ہو جانا جیسے میری آنکھ نہ لگنے کی وجہ سے میرے یار دوستوں نے اس کا چرچہ کیا کہ اِس کا دل کسی پر آ گیا ہے اور کسی سے اُس کی آنکھ لگی ہے اس سے ہم انداز ہ کر سکتے ہیں کہ نہ جانے ہماری کتنی باتوں کو ذہنی حالتوں کو صبح  و شام کی وارداتوں کو اور  زندگی کے واقعات کو ہم نے مختصراً محاورہ میں سمیٹا ہے اور جب محاورہ شعر میں بندھ گیا تو وہ ہمارے شعور اور ذہنی تجربوں کا ایک حصہ بن گیا۔

محاورہ جن الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے وہ مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے کہ ہمارا ہر طبقہ اپنے اپنے ماحول زندگی اور ذہن کے مطابق الفاظ استعمال کرتا ہے سب کے پاس نہ ایک سے الفاظ ہوتے ہیں نہ ایک سا تجربہ ہوتا ہے نہ ایک سی ذہنی سطح ہوتی ہے۔ اسی لئے محاورہ بھی اُن کی لفظیات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے مثلاً ً  خوشی کے محاورے الگ ہوتے ہیں غم و الم کے مواقع سے نسبت رکھنے والے محاورے الگ شادی بیاہ سے تعلق والے الگ اور  شادی بیاہ کے رسومات سے متعلق محاورے جُدا مثلاً ’’بیل پڑنا‘‘ جب بدّھاوے یا  ڈومنیوں کے گانے بجانے سے تعلق سے بات کی جاتی ہے تو اُن کو پیسے دینے کا ذکر خاص طور پر آتا ہے اور یہ طبقہ اسے بیل پڑنا کہتا ہے اس موقع پر خاکروب عورتوں کا ناچ قصبوں میں بدھاوا کہلاتا ہے اب بدھاوے کی رسم بھی ختم ہو گئی ڈومینوں کا ادارہ بھی باقی نہ رہا تو بیل پڑنے کا محاورہ اب زبانوں پر نہیں آتا اس لئے کہ محاورات کا استعمال ہماری رسموں اور  رواجوں کے مطابق رہا ہے وہ رسمیں ختم ہوئیں وہ رواج باقی نہ رہے تو وہ محاورے بھی ہماری زبان سے خارج ہو گئے لیکن قدیم ادب میں اور پرانے لوگوں کی زبانوں پر جب یہ آتے ہیں تو ہمارے سماج کی رنگارنگ تاریخ پر اپنے انداز سے روشنی ڈالتے ہیں اور اِس سے اِن کی اِفادیت کا پتہ چلتا ہے مثلاً بعض محاورے ایسے کھیلوں سے متعلق ہیں جن میں چانس( اتفاق) زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے ’’چوپڑا‘‘ ایسے ہی کھیلوں میں سے ہے اور ہم بطور مثال ’’پانسہ‘‘ پھینکنے کو پیش کر سکتے ہیں ’’پاسا پلٹنا ‘‘بھی اسی سلسلے سے وابستہ ایک محاورہ ہے۔ ان محاورات سے جب ہم گزرتے ہیں تو معاشرہ کا وہ ذہنی رو یہ بھی سامنے آتا ہے جوتقدیری  امور یا ہماری قسمت پر ستی سے وابستہ ہے۔

ہمارا معاشرہ تقدیرپرست ہے اس لئے ہر بات کو قسمت سے وابستہ کرتا ہے یہاں تک کہ ’’پانسہ پلٹنا ‘‘بھی قسمت ہی سے وابستہ ہے چنانچہ کہتے ہیں کہ جنگ کا پانسہ پلٹ گیا یعنی ہار فتح میں اور  فتح شکست میں بدل گئی۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے محاوروں میں کیا کچھ کہا گیا ہے اور کس کس صورت حال کی طرف اِشارہ کیا گیا ہے محاورہ کا رشتہ تہذیب و سماج سے ہوتا ہے صرف لغت سے نہیں ہوتا۔

ہمارے زیادہ تر کام معاملات اور معمولات سماجی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں اور ہماری انسانی کمزوریاں بھی انسان کے سماجی وجود سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے کہ اگر وہ محض انسانی خو بیاں یا کمزوریاں ہوتیں تو وہ سب میں مشترک ہونی چاہیں تھیں اگر کچھ لوگ مختلف ہیں اور کچھ قومیں مختلف ہیں تو یہ سوچنا پڑتا ہے اُس کی وجہ تاریخ ہے تہذیب ہے پیشے یا پھر عام سماجی رو یہ ہیں ان کو پیدا کرنے اور قبول کرنے میں بھی سماج شریک رہتا ہے اگر ہم کسی کے شکر گزار نہیں ہوتے صرف شکوہ سنج ہوتے ہیں تو دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کا تعلق سماج سے ہے یا پھر ایک فرد سے اگر بہت سے لوگ ایک ہی عادت ایک ہی جیسا مزاج اور  رو یہ رکھتے ہیں تو پھر اُس کا تعلق فرد سے نہیں ہے معاشرہ سے ہے اسے کسی انسان کے لئے ذاتی یا انفرادی نہیں کہا جا سکتا۔

اعضائے جسمانی میں بہت سے عضو ایسے ہیں جو محاورات میں شامل ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اپنے وجود کو یا انسانی وجود کے مختلف حصوں کو اپنی سوچ میں شامل کر رکھا ہے اور ان کو اپنی سوچ کے مختلف مرحلوں اور تجربوں میں اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اس میں گر بھی ہے زبان بھی ہاتھ پیر بھی ہیں اور تن پیٹ بھی ہے۔

یہاں اس امرکی وضاحت کر دی جائے تو نامناسب نہ ہو گا کہ محاورہ سادہ الفاظ میں ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے معنی لغت یا قواعد کے تابع نہیں ہوتے وہ ایک طرح کے استعارہ یا کنایہ ہوتا ہے اور بولنے والا اُسے ایک خاص معنی اور مفہوم کے ساتھ استعمال کرتا ہے عام لفظی معنی اُس کے نہیں ہوتے۔

زبان میں محاورے کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے اس میں کوئی ندرت یا جدّت نظر نہیں آتی لیکن محاورہ بنتا ہی اُس وقت ہے جب اُس میں استعاراتی یا علامتی اظہار شامل ہو جاتا ہے استعارہ دراصل زبان کا وجہ استعمال ہی نہیں اُسے عام رویوں عمومی لفظیات اور انداز سے قریب تر کرتا ہے اور استعمال ہی کی وجہ سے طبقہ در طبقہ اور شہر بہ شہر اور بعض صورتوں میں محلہ در محلہ کچھ امتیازات کے پہلو اُبھرتے ہیں اور  استعمال ہی سے دائرہ بند زبان عوام کے درمیان پہنچتی ہے اور اپنے استعمال میں ایک انفرادیت اور  اجتماعیت پیدا کرتی ہے۔

محاورہ کسی ایک کا نہیں ہوتا سب کا ہوتا ہے اور سب کے لئے ہوتا ہے اور سب کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کی یہ عمومیت ہی زبان ادب اور لسانیت میں ایک اہم کردار ادار کرتی ہے۔ اور سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا پہلو یہ ہے کہ یہ زبان میں تسلسل کی روایت کو قائم رکھنے میں ایک مسلسل اور خاموش کردار یہ ہے کہ ایک دور کے بعد دوسرے دور میں اور ایک دائرہ فکر و نظر کے بعد دوسرے دائرہ میں محاورہ کام کرتا ہے لغت کا بھی حصہ بنتا ہے ادب و شعر کا بھی اور تہذیب و روایت کا بھی۔

محاورہ کی تہذیبی تاریخی اور معاشرتی اہمیت پر جو گفتگو کی گئی ہے وہ ہر اعتبار سے ضروری نہیں کہ کافی و شافی ہو اس میں اور بہت سے پہلو بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً لسانی پہلو جس کی طرف راقمہ نے بھی اشارہ کیا ہے یا تاریخی پہلو کہ وہ بھی راقمہ کی نظر میں رہے ہیں لیکن بہ خوفِ طوالت ان پر کوئی تفصیلی گفتگو ممکن نہیں ہوئی اس کے علاوہ محاورات کا طبقاتی مطالعہ بھی ہو سکتا ہے راقمہ نے بھی موقع بہ موقع اِس کی طرف اشارے کئے ہیں۔

زبان و محاورات کی علاقائی تقسیم بھی ایک دائرہ و فکر و خیال بن سکتی ہے کہ کون کون محاورات کس علاقہ سے بطورِ خاص تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ شہری، قصباتی اور دیہاتی سطح پر محاورات اپنے اپنے دائرہ میں کیا رنگ اور  آہنگ رکھتے ہیں اور ان کی لسانی اور تہذیبی اہمیت کیا ہے۔

محاورات کی ایک عمومی حیثیت ضرور ہے لیکن ہماری زبان ہماری شاعری اور  ادب نگاری کی طرح محاورے کے مطالعہ کی بھی ایک سے زیادہ جہتیں ہو سکتی ہیں بات کو ختم کرنے سے پہلے ایک اور  جہت کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ ہماری زبان اُس کی لفظیات اُس کے پس منظر میں موجود کلچر کی ایک اساسی حیثیت ہے۔ جس نے زبان کی فکر ی نہج کو بھی متاثر کیا اّس  کی لفظیات کو اور ادبیات کو کبھی اِس طرح کے حلقے ہماری زبان اس کی لسانی ساخت تہذیبی پس منظر اور محاوراتی سلیقہ اظہار پر بھی زمانہ بہ زمانہ اور حلقہ در حلقہ دور رس اور دیر پا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان میں پہلا عرب ایرانی حلقہ تہذیب و لسانیات ہے جس کا اثر ہم اپنی زبان پر دیر تک اور دُور تک دیکھتے ہیں۔

سندھ گجرات اور مالا بار کا علاقہ وہ علاقہ ہے جس سے عرب و عجم کا رشتہ بہت قدیم ہے عجم ہم عام طور پر ایران کو کہتے ہیں لیکن اس میں عراق بھی شامل ہے اس علاقہ سے مغربی ہندوستان اور  جنوب مغربی ایشیاء کا جو تعلق ہے وہ بہت قدیم ہے جن کا اثر یہاں کی زبان یہاں کے شعر و شعور اور تہذیبی اندازِ نظر پربھی مرتب ہوا ہے اِن علاقوں کی زبانوں میں جو عربی فارسی اور  اردو کے الفاظ ملتے ہیں ان میں محاورے بھی شامل ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ان محاوروں کا اس لسانیاتی تاریخی اور  پس منظر سے کیا رشتہ ہے علاوہ بریں ترکوں منگولین اور ترک و تاتاری علاقہ سے بھی ہمارا ہزاروں برس پرانا رشتہ ہے آر یہ سینٹرل ایشیا ہی سے آئے تھے اور ان کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا قدیم آریاؤں کے بعد اس علاقہ میں بسنے والی قومیں اور قبیلے وسطی عہد میں بھی اپنے اپنے علاقوں سے اِس پر ہندوستان آئے اور یہاں آباد ہو گئے۔

ہم یہ کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ وسطی عہد کے بہت سے حکمران خاندانوں کا نسلی رشتہ مرکزی ایشیاء سے وابستہ رہا ہے اس علاقہ میں ترکوں منگولین یا ترک و تاتاری زبانیں بولی جاتی ہیں یہی بولیاں یا زبانیں آنے والوں کے ساتھ شمال ہندوستان کے علاقوں میں آ کر آباد ہوئیں تو اپنی زبانوں سے ایک لمبے عرصہ تک اِن کا رشتہ باقی رہا اور اس کا اثر ہماری علاقائی بولیوں پر بھی مرتب ہوا۔ ہمارے کچھ محاورے ایسے بھی ہیں جواس علاقہ کی دین ہیں یا پھر اُس کے اثرات سے متاثر ضرور ہیں۔

ہم یہ بھی فراموش نہیں کر سکتے کہ ہماری ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جن کا مرکزی ایشیاء سے وابستگی رکھنا ہے اور اِن کہانیوں کے جغرافیائی ماحول میں بھی یہ علاقہ اور ان کے جغرافیائی اور تاریخی آثار شریک ہیں ایسی صورت میں محاورہ کا کم از کم علاقائی محاورہ پران کے اثرات کا مرتب ہونا ایک فطری عمل ہے اس پر مزید کام کرنے اور بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ہماری زبان اور اس سے وابستہ بولیوں کا سرچشمہ اور  اس سے پھوٹنے والی مختلف شاخیں یا فروغ پذیر ہونے والی بولیاں علاقائی زبانوں کو متاثر بھی کرتی رہتی ہیں اور ان سے تاثر بھی لیتی رہی ہیں پنجابی یا لاہوری زبان بھی اس میں شامل ہے۔

راجستھانی بھی اِس سے ایک گہرا رشتہ رکھتی ہے میواتی کھڑی بولی اور دہلی میں بولی جانے اور  رواج پانے والی بولیوں کو بھی اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور برج کے علاقہ کی برج بھاشا کی بولی کو بھی یہ تو وہ بولیاں ہیں جن سے شمال مغربی ہندوستان میں اردو بنی اور صدیوں تک متاثر ہوتی رہی۔

اس میں فارسی کو بھی ایک اہم سرکاری درباری انتظامی اور ثقافتی حیثیت سے شامل رکھئے۔

اُردو کی پرورش و پرداخت دکنی زبان کی حیثیت سے صدیوں تک دکن میں بشمولیت گجرات ہوتی رہی یہاں کی اپنی بولیاں دراوڑ نسل کی زبانیں تھیں جن میں ہم مہاراشٹری یا مراٹھی کو بھی صرف نظر نہیں کر سکتے۔ ان بولیوں کا اثر دکنی اُردو نے قبول کیا۔ اور  دکنی اُردو کے محاورے اور لفظیات پر جو اثرات دکنی بولیوں کے تھے اس کا اثر شمالی ہند کی بولیوں میں بھی آ گیا اس میں تجارت پیشہ لوگوں کے آنے جانے کو بھی دخل تھا۔ اور فوجوں کے بھی تاریخ اپنے طور پر جس طرح کام کر رہی تھی اس کا عمل جو ہماری تہذیبی زندگی کو متاثر کرتا رہا اسی اعتبار سے زبانیں بھی اس کا تاثر قبول کرتی رہیں۔ ادیبوں شاعروں اور صوفیوں کے ہاں ہم اس تاثر کو زیادہ آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔

خانقاہوں کا اثر غیر معمولی ہے جو شمال و جنوب میں یکساں طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن جس زمانہ میں دکنی زبان میں قدیم اردو لٹریچر کے نمونے سامنے آ رہے تھے اس دور میں شمالی ہندوستان میں اُردو شاعری کی مثالیں نہیں ملتیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دہلی کے آس پاس جو زبانیں بولی جا رہی ہیں اُن میں شاعری اچھے خاصے پیمانہ پر ہو رہی ہے۔ ان زبانوں میں پنجابی اور  راجستھانی زبان کے علاوہ برج اور  اودھی شامل ہے ان زبانوں یا بولیوں کا شعری ادب مسلمان قوموں کا اپنا تخلیقی ادب بھی۔ اور بڑے پیمانے پر ہے۔ اِن کے مطالعہ سے ہم بہت کچھ لے سکتے ہیں اور نتائج اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کے وسیلے سے ایک طرح اور ایک سطح پر زبان آگے بڑھتی رہی ہے اور نئی نمود حاصل کر رہی ہے۔

محاورہ اُس دور زندگی کی بہرحال لسانی یادگار ہے اور ان کے ادبی لسانی اور  تہذیبی اثرات محاورے میں بھی سمیٹے ہوئے ہیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ Preservedصورت میں ہیں ان بولیوں سے تقابلی مطالعہ کا وسیلہ اختیار کر کے ہم اُردو محاورات کا مزید تہذیبی اور لسانی نقطہ نظر سے کام کر سکتے ہیں۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے اہلِ نظر اور اصحابِ خیر افراد اس طرف توجہ فرما ہوں جس سے اِس نوع کے مطالعہ کی اہمیت سامنے آئے اور اس کے مختلف گوشے جواب تک نظر داری کی روشنی سے محروم ہیں اُن کی طرف توجہ مبذول ہو۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارے نئے لکھنے والے اور سینئر ادیب اس مسئلہ کی طرف خاطر خواہ توجہ دے کر بات کو آگے بڑھائیں گے اور مطالعہ کی نئی صورتیں سامنے آئیں گی اور آتی رہیں گی۔

 

٭٭٭


                   مراجع و مصادر

 

۱۔ مخزالمحاورات ۔منشی چرنجی لال ۱۸۸۶ء؁

۲۔ ہمارا تہذیبی ورثہ۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی

۳۔ بیخود دہلوی۔ مرتبہ۔ ڈاکٹر کامل قریشی ۱۹۸۰ء؁

۴۔ دلّی میری بستی میرے لوگ۔ مرتب :عظیم اختر۲۰۰۰ء؁

۵۔ حرف و صدا ۔ہیرا لال فلک دہلوی ۱۹۲۸ء؁

۶۔ ذوقؔ سوانح اور انشقاء ڈاکٹر تنویر احمد علوی، مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۶۳ء؁

۷۔ دلّی حرف حرف چہرے مرتب: عظیم اختر۱۹۹۷ء؁

۸۔ دہلی کی آخری شمع ۔مرزا فرحت اللہ بیگ، مرتب:ڈاکٹر صلاح الدین

۹۔ رسومِ دہلی: سید احمد دہلوی، مرتب: ڈاکٹر خلیق انجم

۱۰۔ دلّی کا آخری دیدار۔  وزیر حسن دہلوی، مرتب: سیدضمیر الحسن دہلوی

۱۱۔ دلّی کی تہذیب ۔مرتب: ڈاکٹر انتظار مرزا

۱۲۔ مرزا محمود بیگ کے مضامین کا انتخاب۔ مرتب: ڈاکٹر کامل قریشی

۱۳۔ دہلی میں اُردو شاعری کا تہذیبی و فکری پس منظر: پروفیسر محمد حسن

۱۴۔ دہلوی اُردو۔ سید ضمیر حسن دہلوی

۱۵۔ اُردو ادب کا تہذیبی اور فکری پس منظر۔ پروفیسر محمد حسن

۱۶۔ اُردو کا ابتدائی زمانہ و تاریخ کے پہلو۔ شمس الرحمن فاروقی

۱۷۔ سوانح دہلی : شہزادہ مرزا احمد، مرتب: مرغوب عابدی

۱۸۔ لغات انساء سید احمد دہلوی

                   رسائل

 

۱۔ اُردو میگزین (قدیم دلی کالج نمبر) مرتبہ: خواجہ احمد فاروقی ۱۹۵۷ء دہلی

۲۔ ’’ماہنامہ‘‘ آج کل ظفر  نمبر ۱۹۶۶ءمطبوعہ پبلی کیشنز  ڈویزن دہلی

۳۔ شاہ جہاں نمبر۱۹۳۴ءدہلی

٭٭٭٭٭٭

 

تشکر: کتاب گھر ڈاٹ کام،

پروف ریڈنگ اور  ای بک کی تشکیل: محمد شمشاد خان، اعجاز عبید