FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 اُردو اَفسانہ  اور افسانے کی تنقید

حصہ دوم

               محمد حمید شاہد

 

محسنہ جیلانی کا افسانہ: "ٹیمز میں پھول ” ۔۔ایک تاثر

محسنہ جیلانی کا افسانہ "ٹیمز میں پھول” ملا تو میرا دھیان فوراً اس کے افسانوں کے مجموعے ” بکھرے ہوئے لوگ” کی طرف چلا گیا تھا ۔یہ مجموعہ۲۰۰۳ء میں نئی نسل کے ایک اہم افسانہ نگار مبین مرزا نے اپنے ادارے اکادمی بازیافت کراچی سے چھاپا اور مجھے پڑھنے کے لیے بھجوایا تھا۔ لگ بھگ اس کی ساری کہانیاں میرے ذہن میں تازہ ہو گئی ہیں اور اس کے ابتدائیے کے طور پر شامل مشفق خواجہ کا مضمون بھی، جس میں دیار غیر میں جا کر بس جانے مگر پلٹ پلٹ دیکھنے والوں کے المیے کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔

مشفق خواجہ کا کہنا تھا کہ محسنہ جیلانی ، جو طویل عرصہ سے اُدھر برطانیہ میں مقیم ہے تو یوں کے کہ وہ پورے وجود سے اس معاشرت اور ماحول کا حصہ نہیں ہو پائی ہے اور پلٹ پلٹ کر اپنے دیس اور اپنے رشتہ داروں کو دیکھتی ہے۔ یوں جو دکھ اور اذیت کی ایک لہر سی محسنہ کے افسانوں میں چلتی رہتی ہے اسے مشفق خواجہ نے وطن سے دوری کے احساس کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی تھی۔ بظاہر یہ بات بہت معقول اور برمحل لگتی ہے اور سچ پوچھیں تو اسے ہر اس شخص کے حوالے سے بہ سہولت دہرایا جا سکتا ہے جو تلاش معاش میں یا کسی اور سبب اپنا دیس چھوڑنے پر مجبور ہوا اور اب واپس پلٹنا چاہے بھی تو ایسا نہیں کر پاتا مگر واقعہ یہ ہے کہ محسنہ جیلانی کی کہانیوں میں یہ احساس اس کے تخلیقی موٹیف کی صورت ظاہر نہیں ہوتا۔

میرا سوال یہ ہے کہ اپنی کہانیوں کو لکھتے ہوئے یہ جو محسنہ نے اپنے اردگرد پھیلی ہوئی دنیا اور ماحول سے کردار اٹھائے ہیں تو کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ اگر اسے دیار غیر میں رہنے کا تجربہ نہ ہوتا تو وہ اپنے دیس سے کردار اٹھاتے ہوئے لگ بھگ اسی موضوع کے افسانے لکھتی؟ …. اگر آپ نے محسنہ کے افسانے توجہ سے پڑھ رکھے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ اس سوال کا جواب آپ کے پاس بھی "ہاں ” کی صورت ہو گا۔ اگر ایسا ہے ، اور یقیناً ایسا ہی ہے تو صاحب یہ بھی مان لیجئے کہ محسنہ کی کہانیوں میں اس کا مرکزی یا بنیادی سروکار محض مہاجرت نہیں ہے۔

مہاجرت نہیں تو کیا ؟ اگر آپ کا یہ سوال ہے تو اس ضمن میں ، آپ کی توجہ میں اس کی کہانیوں کے حوالے سے اس لطیف سی فضا کی طرف چاہوں گا جو محسنہ کے افسانے پڑھتے ہوئے میرے پورے وجود کو اپنے ہالے میں لئے رہی۔ جی ہاں ، ایک ایسی لطیف فضا، جو ممتا کی آغوش کی طرح گداز اور مہربان تھی۔ مثلاً افسانہ "بکھرے ہوئے لوگ” کو ہی دیکھیے بظاہر اس ماں کی کہانی لگتی ہے جو مہاجرت کے عذاب سے دوچار ہے اور گمان باندھنا چاہتی ہے کہ شاید ہم اپنے معاشرے میں رہتے ہوتے تو وہ سانحہ نہ ہوتا جو اب ہو چکا ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تو دیکھیے کہ یہی ماں ایسا سوچتے ہوئے پورا یقین نہیں رکھتی اور "شاید” کا لفظ لگا دیتی ہے اور اسی جملے کے آس پاس ان بھر پور خاندانی زندگیوں کی شرط بھی لگاتے ہوئے دکھائی دیتی ہے جو ادھر سے معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ یوں دیکھیں تو اس افسانے کی بنیاد بھی ممتا کا وہ جذبہ ہو جاتا ہے جو محسنہ کے سینے میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔

ایک ایسی ماں جس سے اس کا بیٹا دور ہو گیا تھا۔

کہانی کے بہاؤ میں اس دوری کا سبب یہ رکھا گیا ہے کہ ماں نے دوسری شادی کر لی تھی۔ بیٹا نئے باپ کے پہلے سے موجود بچوں میں گم نہ ہو پایا تو ماں سے بھی دور ہو گیا تھا۔ جس بھرپور خاندانی نظام میں دوسری شادی کی مجبوری بھی بچوں کو ماں سے بد ظن نہیں ہونے دیتی تھی وہ خاندانی نظام چوں کہ یہاں سے بھی معدوم ہوتا جا رہا ہے لہذا گھر کے باہر کا ماحول اس کہانی میں بھی ثانوی ہو جاتا ہے اور بنیادی نقطہ یہ سامنے آتا ہے کہ ایک ماں اور بچے کے درمیان خالص محبت کے رشتے کو استوار کرنے کے لیے ایک مستحکم خاندانی روایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ روایت جو مغرب سے مدت ہوئی رخصت ہو چکی اور وہی روایت جو ہمارے ہاں اب آخری دموں پر ہے۔

یہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محسنہ کی ایک اور کہانی کو بھی دیکھ لیا جائے۔ جی مجھے آپ کی توجہ "عراق، عراق” کی طرف چاہیئے اور اس کہانی کی طرف آپ کی توجہ یوں چاہیے کہ اس کہانی میں سرے سے مہاجرت کا ٹول استعمال ہی نہیں ہوا ہے۔ اب ہمیں سہولت بہم ہو جاتی ہے کہ ہم محسنہ کی کہانی کے اصل سروکار تک پہنچ جائیں۔ "عراق، عراق” نامی یہ کہانی ایک زخمی ماں کی ہے جو لنگڑاتی ہوئی لاشوں کے درمیان چل رہی ہے۔ لاش جیسی اس ماں کو شہر کے بیچوں بیچ اس پناہ گاہ سے نکالا گیا تھا جس میں سوئے ہوئے بچوں اور ان کی ماؤں کے وجود امریکی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے چیتھڑے بن گئے تھے۔ جس ماں کی کہانی محسنہ نے لکھی ہے وہ زندہ بچ نکلی تھی۔ ایک ایسی گھریلو عورت جو نہیں جانتی کہ یہ جنگ عراق پر کیوں مسلط کی گئی تھی۔ اسے اس سوال کے جواب سے کوئی دلچسپی بھی نہیں کہ اس کی ساری دنیا تو اس کا چھوٹا سا خاندان تھا اور شاید پورا خاندان بھی نہیں محض ایک ننھا منا بچہ جو اس قیامت کے ہنگام کہیں کھو گیا تھا۔ وہ امریکی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے کچلے جانے والے بچوں کی لاشوں کو الٹ پلٹ کر اپنا بچہ ڈھونڈھ رہی تھی اس امید کے ساتھ کہ وہ زندہ ہو گا۔

اب تک ہم محسنہ کی کہانیوں سے یہ جان گئے ہیں کہ :

۱۔ وہ عورت کو مرکز میں رکھ کر کہانی لکھتی ہے۔

۲۔ ہر بار اس عورت کے دل سے ممتا کے جذبے کو نمایاں کرتی ہے۔

۳۔ اس فاصلے کی وجوہات دکھانے کے جتن کرتی ہے جو ماؤں اور ان کے جگر گوشوں کے درمیان آ گئے ہیں۔

۴۔ یہ کہانیاں لگ بھگ ایک ہی نکتے پر تمام ہوتی ہیں کہ عورت اپنی ممتا سے کسی صورت دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔

یہ جو میں ذرا تفصیل سے محسنہ جیلانی کے افسانوں کے تخلیقی محرکات کو تلاش کرنے میں جت گیا ہوں تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ میں زیر نظر افسانے” ٹیمز میں پھول” پر بات کرنے سے پہلے آپ کو وہ سارے خیالات جھٹک دینے کا مشورہ دینے والا ہوں جو بالعموم تارک الوطن ادیبوں کی تحریروں کو پڑھے بغیر یا سونگھ کر ایک فارمولے کے طور پر اپنا لیے جاتے ہیں۔ میرا یہ بھی اصرار ہے کہ "ٹیمز میں پھول” کو پڑھتے ہوئے آپ محسنہ کی دوسری کہانیوں سے ابھر کر سامنے آ جانے والے درج بالا چاروں نقاط ذہن میں تازہ رکھیں تاکہ زیر نظر کہانی میں اس تخلیقی محرک کو تلاش کیا جا سکے جو محسنہ کے بنیادی احساس کی صورت ظاہر ہو تا رہا ہے۔

"ٹیمز میں پھول” ایک نوجوان سنجے کی ماں سدیش کی کہانی ہے۔ شمالی لندن اس کہانی کا لوکیل ہے اور ایک ماں کا دل اس کہانی کے اندر سے پھوٹ بہنے والے احساس کا منبع۔ کوئی بیس برس پہلے کہانی کی عورت کو اس کا شوہر چھوڑ کر الگ ہو گیا تھا۔ جس معاشرے میں کہانی کی عورت رہ رہی ہے اس میں مرد کا عورت کو کسی اور عورت کے لیے یا کسی بھی وجہ کے بغیر چھوڑ دینا عام سی بات ہے مگر یہ بات کہانی کی عورت کے لیے بہت اہم اور شدید ہو گئی ہے۔ اگرچہ ازدواجی زندگی اس کے لیے کانٹوں بھرا رستہ تھا اور ان دونوں کے درمیان ذہنی طور پر کبھی بھی سمجھوتا نہ ہو پایا تھا کہ ہر جھگڑا طلاق کی دھمکیوں تک پہنچ جاتا تھا مگر اس سب کے باوجود :

” کم از کم اتنا تو تھا کہ دونوں کی تو تو میں میں سے گھر میں زندگی کے آثار تو تھے”

کہانی کے اس حصے سے ہم آگہی پاتے ہیں کہ ایک عورت کی زندگی میں ایک مرد کی کتنی اہمیت ہے اور یہ بھی ازواج میں تناؤ اور تلخی کے باوجود گھر میں زندگی کی موجودگی کے لیے یہ اہمیت بالکل ختم نہیں ہو جاتی۔ ایک ہموار زندگی کے لیے مرد اور عورت کے دائرہ کار کے تعین کو بھی اس کہانی میں نمایاں کیا گیا ہے۔ جب تک یہ ازدواجی زندگی، چاہے وہ جیسی بھی تھی ، برقرار تھی تو عورت اپنے گھر میں مگن تھی اگرچہ روز روز کے لڑائی جھگڑے گھر کا سکون تلپٹ کر رہے تھے مگر اتنی اتھل پتھل نہ ہوئی تھی جتنی اس کے شوہر چھوڑ جانے کے بعد ہوتی ہے۔ اب اسے ملازمت کے لیے گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ گھر سے یوں نکلنے کو افسانے میں ایک المیے کی صورت دکھایا گیا ہے۔

یہ وہ دو وجوہ ہیں جو اس کے بیٹے سنجے کو باغی بنا دیتی ہیں حتی کہ وہ ایک اطالوی لڑکی سے یہ جھوٹ بول کر منگنی کر لیتا ہے کہ اس کی ماں دو سال پہلے کینسر سے مر گئی تھی اور اب وہ اکیلا ہے مگر جب یہ راز کھلتا ہے کہ اس نے ماں مرنے کا جھوٹ بولا تھا تو نہ صرف اطالوی لڑکی سنجے کو چھوڑ دیتی ہے ، خود سنجے بھی اپنی ماں کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

اکیلی رہ جانے والی ماں سدیش کا المیہ یوں شدید ہو جاتا ہے کہ وہ اس اکلاپے اور دکھ سہے چلے جانے پر اس لیے قانع ہو گئی ہے کہ وہ اس زندگی کو چھوڑنا ہی نہیں چاہتی جس کی وہ عادی ہو چکی ہے۔ جب اسے یہ کہا جاتا ہے کہ :”کیا تمھارے لیے یہ بہتر نہیں ہے کہ تم ہندوستان واپس چلی جاؤ۔ کم از کم وہاں ایسی تنہائی تو نہ ہو گئی” تو وہ پہلے تو وہاں اپنے بھائیوں کے اپنی اپنی دنیاؤں میں مگن ہو جانے کا بہانہ بناتی ہے اور پھر اصل وجہ یوں بیان کرتی ہے:

” سچی بات تو یہ ہے کہ اب میں اس معاشرے میں کبھی بھی فٹ نہ ہو پاؤں گی۔ دیکھو نا مجھے یہاں رہتے ہوئے تیس سال ہو گئے ہیں۔ مجھے یہ چار دیواری ، یہ دو بیڈ روم کا چھوٹا سا گھر اچھا لگتا ہے۔ مجھے یہاں کا موسم، یہاں کے لوگ، مجھے یہاں کی صاف ستھری سڑکیں ، یہاں کے پارک، سبزہ زار ، ہرے بھرے درخت، لینڈ  اسکیپ سب ہی اچھا لگتا ہے۔ اور تو اور مجھے یہاں کی تنہائی بھی بری نہیں لگتی ہے۔ پھر میں اس کی عادی ہو گئی ہوں۔”

اس طرح دیکھیں تو پردیس میں رہنا اور محض تنہا رہ جانا بھی سدیش کا مسئلہ نہیں ہے اسے یہ معاملہ بھی پریشان نہیں کرتا کہ اگر وہ اکیلے میں مر گئی تو اس کے ساتھ کیا ہو گا کہ سدیش کے مطابق :” اگر کل کو مر مرا گئی تو میرے پھول گنگا میں نہ سہی کوئی ٹیمز میں ہی ڈال دے گا۔”

کہانی سدیش کے سارے معاملات یوں کھول کر بیان کرتے ہوئے اس ممتا کی طرف بار بار متوجہ کرتی رہتی ہے جو سدیش کے وجود میں ہمک رہی ہے اور یہی ممتا اس کہانی کی عورت کا بنیادی مسئلہ ہے۔ لیجئے صاحب اب میں ایک بار پھر یہ دہرانے کے لائق ہو گیا ہوں کہ محسنہ کی اس کہانی کا بنیادی سروکار بھی وہی ممتا کے جذبے کا رائیگاں چلا جانا ہے جس کی طرف وہ دوسری کہانیوں میں متوجہ کرتی آئی ہے۔ ہم اس کہانی میں موجود نقاط کو سمیٹتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ”ٹیمز میں پھول” کی مرکزی کردار سدیش کا سینہ اگرچہ ممتا کے جذبے سے چھلکتا ہوا دکھایا گیا ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ ان منفی عوامل کو بھی اجال دیا گیا ہے جو عورت کے اس جذبے کو معدوم کرنے کے درپے ہیں :

۱۔ محض معاشی جدوجہد میں اپنے تہذیبی سر چشموں سے دوری

۲۔ کسی اور عورت کے لیے مرد کی اپنی عورت سے بے وفائی

۳۔ زندگی کی آسائشوں کی طلب اور عادت کو معاشرتی زندگی پر ترجیح

۴۔ عورت اور مرد کی زندگی کے دائرہ کار کی یکسانیت ، اور عورت اور اس کے بچے کے درمیان بعد

ہم پہلے ہی جان چکے ہیں کہ محسنہ اس کہانی کی طرح لگ بھگ ہر کہانی میں ایک ماں کی ممتا کو نشان زد کرتی آئی ہے اور اسے بچا لینے کی طرف ہمیشہ ہمیں راغب کرتی رہی ہے۔ محسنہ کی یہ کہانیاں عین ایسے دورانیے میں سامنے آ رہی ہیں جب عورت ماں بننے کو آزار سمجھنے لگی ہے۔ جب رحم ہی میں بچوں کو قتل کر دینا معیوب نہیں رہا۔ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہے اور عورت مرد کے برابری کا نعرہ لگا کر عورت کو ممتا کے جذبے سے الگ کر کے اسے معاش کی بھٹی میں جھونکا جا رہا ہے۔ ایک گھر کا تصور جو کبھی ایک عورت کے سینے سے پھوٹتے ممتا کے جذبے کے طفیل جنت کے ہم مرتبہ ہوا کرتا تھا اس کا تصور اب دھندلا پڑ چکا ہے۔ یہ سب کچھ مارکیٹ اکانومی کے طرف داروں کے لیے تو خوب ہے کہ یوں عورت مارکیٹ کی چیز بن گئی ہے۔اشتہاروں میں آ کر ان کے کاروبار کو چمکانے والی یا پھر ایسی صارف کہ جو کچھ کماتی ہے انہی چمکتی چیزوں پر لٹا کر پھر خالی ہو کر کمانے میں جت جاتی ہے۔ اشتہار بنے ، شئے بنے یا صارف ، ہر حال میں رونق تو منڈی کی ہوتی ہے لہذا عالمی سرمایہ دار ممتا کے آزار سے پاک اس نئی عورت سے بہت خوش ہے کہ اسی کے طفیل اس کے ہاں زر کی افزودگی تیز تر ہو گئی ہے، تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ محسنہ کی کہانیاں اس عالمی سرمایہ دار کی راہ مسدود کرنے پر اصرار کرتی ہیں اور اس کی تدبیر یہ سجھاتی ہیں کہ خاندان کے تہذیبی نظام کو معدوم ہونے سے نہ صرف بچا لیا جائے اس میں ماں کی حیثیت سے عورت کے اس مرکزی کردار کو بھی بحال کیا جائے جس میں اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہوتی ہے اور اس کا دل ممتا کے جذبے سے کناروں تک بھرا ہوا ہوتا ہے۔ محسنہ سجھاتی ہے کہ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نہ صرف عورت کو تنہا ہونے، رسوا ہونے، منڈی کی شئے بننے سے بچا لیں گے اپنی آئندہ کی نسلوں کو سنوار کر انسانیت کو بچا لینے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔

٭٭٭

روایت اور تنقید

ترقی پسند تحریک کے لگ بھگ وہ سار ے طرف دار جو کل تک اپنی پسندیدہ تحریک کو کائنات میں جاری و ساری عمل ارتقا سے بتاتے تھے ، اُدھر سے وقوف (enlighten)پکڑ نے اور اعتدال پسند (moderate) ہو جانے کا ’نیا عالمی ایجنڈا، عطا ہوتے ہی جون بدل کر روشن خیال ہو گئے ہیں۔ اب تو یہ بھلے لوگ اپنے تئیں خود کو یورپ کی سترھویں اور اٹھارویں صدی کی زور پکڑنے والی enlightenment تحریک کا کارندہ جان کر مذہب کو پچھاڑنے کے لیے یہ مضامین سنانے میں جتے ہوئے ہیں کہ ما بعد الطبیعیات کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، یہ سب فسانہ ہے اور اگر کچھ ہے تو بس مادہ ہے۔ اور یہ کہ اگر کوئی حقیقتِ مطلق ہے تو وہ بھی مادہ ہی ہے۔ ایسوں ہی کی بابت تو اگلے کہہ گئے ہیں :کافیہ کا بھاگا بَن کو جا لاگا۔

جی چاہتا ہے کہ لنڈورے تعقل کے ان ڈھنڈورچیوں کو عقل کا ناخن لینے کا کہوں اور پوچھوں کہ صاحب جسے تم مادہ کہتے ہو اس کا سب سے چھوٹا ذرہ ایٹم ہی توہے!۔ میں ان کے سر اثبات میں حرکت کرتے دیکھ رہا ہوں کہ لیبارٹریوں میں تجربوں کے سہارے پھونک پھونک کر قدم رکھنے والی مجرد عقل کا یہی ابتدائی علم ہے۔ اب میں ان سے تصدیق چاہتا ہوں کہ، اس ایٹم کا ایک جسم بھی ہوتا ہے جسے nucleus کہتے ہیں – جواب پھر اثبات میں آتا ہے ،۔ مثبت چارج اس جسم کے اندر ہے اور منفی نیوکلیس کے باہر- منفی چارج کا جمگھٹا الیکٹران کی ساخت میں اُسے گھیرے ہوئے ہے۔، مسلسل آگے پیچھے حرکت کر تے سر میری نگاہ میں ہیں۔ یہیں میں اپنا اصل سوال ٹکا دیتا ہوں کہ’ ایٹم کے اس مجموعہ کے اندر اور باہر کیا اس کی روح نہیں ہوتی جو ان قوانین فطرت کو جانتی ہے جن کا مادہ پرست انکار کرتے ہیں ؟،۔

حیف کہ اس مقام پر عقل پرستوں کی عقل چرخے چڑھ، کَتنے کو نکل جاتی ہے اور بھاری بھرکم سر ساکت ہو جاتے ہیں۔ کسی ذرے سے دوسرے ذرے کو کس طرح ملنا ہے ، تجربات کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس باب میں ایک روح ان کی رہنمائی کرتی رہتی ہے۔ ایٹم ہلکے سے ہلکا ہو یعنی ہائیڈروجن کا ، یا پھر بھاری سی بھاری ہو جیسے پلوٹونیم کا، ان کے الیکٹران یا پروٹون پر چارج ایک سا رہتا ہے۔ اور یہ کہ مجموعی حیثیت میں ایٹم neutral ہے لیکن اپنے اجزا میں اس کی برقی خاصیت سے ہی ایٹم کی زندگی کا تعلق ہے جو اس کے جسم کو فعال رکھے ہوئے ہے۔

تعقل پرستوں کا شعور ششدر رہتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی یہ کہہ دے کہ عقل کو ہاتھ مارو ، تم تجربے سے ثابت کر چکے ہو کہ قوانین قدرت کا شعور نہ تو مادہ میں ہے اور نہ ہی برق میں ، یہ تو ایٹم کی روح میں ہے جو سب پر محتوی ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ وہی روح جس کا علاقہ ما بعد الطبیعیات میں پڑتا ہے تو وہ کیا بات ہے جو تمہیں تسلیم و رضا کے راستے سے روکتی ہے ، تو بھی ایسوں کے ساکت ہو جانے والے سروں میں کوئی حرکت نظر نہ آئے گی کہ یہی وہ تو ہیں جن کی بابت فرما دیا گیا ہے، صم بکم عم فہم لا یرجعون۔

مادہ اور مادہ پرستوں کا ذکر میں یوں لے بیٹھا ہوں کہ میں نے اپنی روایت سے صدق دل سے جڑے ہوئے ناقد جمال پانی پتی کی دو اہم کتب ” اختلاف کے پہلو” اور "نفی سے اثبات تک ” کو اوپر تلے پڑھ لیا ہے۔ اب رہ رہ کر دھیان مادیت پسندوں کی فکری بے چارگی کی سمت ہو رہا ہے اور شدت سے چاہنے لگا ہوں کہ ان جامد سروں والے مادہ پرستوں کو ان اہم کتب کے مطالعے کا مشورہ دے ڈالوں۔

میں جمال پانی پتی کی دو کتابیں ایسے عرصے میں پڑھنے کا مشورہ دے رہا ہوں جب تنقید پر بہت کڑا وقت آیا ہوا ہے۔ اتنا کڑا کہ یار لوگ ناقدوں اور گِدھوں کے ایک ساتھ غائب ہونے کی ناروا پھبتی کسنے کو بھی روا جاننے لگے ہیں۔ ( محل نہیں ہے، مگر پھر بھی پابلو نرودا کی نظم Black Vultureیاد آ گئی۔ اس میں اُس نے گدھوں کو” God’s spy” کہا تھا ، یہ وہی پرندہ ہے جو solemnly settles on the ground, and folds up like an umbrella. اور ان گدھوں کا معاملہ یہ ہے کہ وسط ستمبر سے وسط اکتوبر میں مسلسل کئی برس کی جانے والی تحقیق کے مطابق یہ اوسطاً 1586 کی تعداد میں Salt Creek County Park, Washington میں جمع ہوتے ہیں )۔ تھوک کے حساب سے لاشیں گرانے والے امریکہ کی ایک این جی او اگر مردے نوچنے والی گدھوں کی نسل بچانے کے لیے hatcheries قائم کر رہی ہے تو اس کی وجہ سمجھ میں آنے والی ہے مگر ایک ادیب کا ایسے ناقدوں کی نسل ختم ہونے پر تاسف کرنا، جس کا ذکر گدھوں کی نسل کے ساتھ کیا جا سکتا ہو ، میرے لیے اچھنبے کا باعث ہو گیا ہے۔ اگر ہمارے اس بھائی کے ذہن میں مردہ فن پاروں ، مردہ افکار اور مردہ مباحث کو مرغوب رکھنے والے ناقدین کی نسل ہے ، تو مجھے کہنا ہے کہ اے بھائی صاحب، اس کے ختم ہونے پر ناحق رنجور ہوتے ہو، اسے ختم ہو ہی جانا چاہیے تھا۔ افسوس کہ ختم نہیں ہو رہی ہے بلکہ ناقدین کی ایک اور نسل کے ساتھ ہنسی خوشی پھل پھول رہی ہے جو بقول مشفق خواجہ سماجی تعلقات کی اُستواری میں رسمی تعریف و توصیف سے کام نکالنے کو ہی تنقید گردانتی ہے۔ تو نے کی رام جنی میں نے کیا رام جنا، کا نعرہ لگا ان دو گروہوں کے ساتھ مل جانے والی نئی تنقید نے تخلیقات اور زندگی کی تفہیم کے بارے میں مباحث اٹھاتے سوالات حتی کہ خود تخلیق کار سے موڑ کر صورت حال کو اور بھی گھمبیر بنا دیا ہے۔

یوں تو آٹھ نو برس پہلے جمال پانی پتی کی کتاب "ادب اور روایت” سنجیدہ فکر ادبی حلقوں میں مقام پا چکی تھی اور ان تازہ کتابوں میں شامل مضامین جب جب ادبی جرائد شائع ہوئے توجہ پاتے رہے تاہم کچھ عرصہ پہلے لکھے گئے مضامین کا ایک ساتھ ایسی صورت حال میں آنا، جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے، ایک پر لطف تجربہ ہو گیا ہے۔

دونوں کتابوں میں کل ملا کر سولہ مضامین ہیں اور سولہ کے سولہ ایسے کہ پڑھنے والا ہر جملے پر چوکنا رہتا ہے۔ کہیں عین نشانے پر لگنے والی چوٹ کا لطف، اور کہیں دلیل ایسی کہ دل ٹھکانے ہوتا ہے۔ تاہم ایسے بھی مقامات آتے رہتے ہیں کہ آپ شدید اختلاف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے مقامات آئے تو میرا قلم بے قابو ہوا اور بہت کچھ لکھتا چلا گیا مگر مجھے اپنے آپ کو بہت کچھ کہنے سے اس لیے روک دینا پڑا ہے کہ یہ دونوں کتابیں جان دار کتابوں کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسی کتابیں جو آپ کو انگیخت کریں ، آپ سے سوال کریں ، آپ کو اپنے ساتھ ملا لیں یا پھر اپنا دشمن بنا لیں ، آپ کے بنے بنائے نظریات کو چیریں پھاڑیں اور جب آپ پڑھ کر انہیں ایک طرف رکھ دیں تو آپ کے دل میں جگہ بنا لیں۔واقعہ یہ ہے کہ جمال پانی پتی کی یہ دونوں کتابیں اب میرے دل میں جگہ بنا چکی ہیں۔

٭:٭

"اختلاف کے پہلو ” کے کم و بیش ساتوں مضامین کے تانے بانے میں فکری رد عمل ہمک رہا ہے۔ ’تغیر و حرکت سے ارتقا تک” کا عنوان پانے والے پہلے مضمون میں مصنف نے طبیعیات اور ما بعد الطبیعیات کے اس معاملے پر بڑی خوبی سے بحث کی ہے جو عصری صورت حال میں ایک بار پھر اہم ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں :

"اصولاً ہر شے کی وجہِ جواز اُس شے سے ماورا کسی بلند تر سطحِ  وجود ہی سے وابستہ ہوتی ہے ، نہ کہ خود اُس کی اپنی سطح وجود سے۔ سو ظاہر ہے کہ یہ جواب ہمیں مادیّات اور طبیعیات کی عالم سے اوپر اُٹھا کر ما بعد الطبیعیات کی عالم میں لے جاتا ہے‘‘۔

مادے کی یہ بحث روایت کے بارے میں پائی جانے والی اس عام غلط فہمی کو دور کرتے کرتے پھوٹی ہے کہ روایت حرکت کی نفی کرتی ہے۔ مجھے یہاں بتا دینا چاہیے کہ یہ مضمون مشہور ترقی پسند نقاد احمد ہمدانی کے خیالات پر جمال پانی پتی کا اختلافی رد عمل ہے جنہوں نے ترقی پسند تحریک کو کائنات میں جاری و ساری عملِ ارتقا سے متعلق بتایا تھا جب کہ روایتی فکر اور سائینسی عہد کی جدید فکر ان کے ہاں ایک دوسرے کی ضد ہو گئی تھیں۔ ترقی پسندی کے اس مبلغ نے تغیر و حرکت اور ترقی و ارتقا کے بارے میں روایت اور سائنسی فکر کے تضاد کو نمایاں کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” یہ کائنات مسلسل حرکت میں ہے اور حرکت کا لازمی نتیجہ تغیر یا تبدیلی ہے لہذا جدید سائنسی عہد میں حرکت کو حقیقت اور کائنات کا اصل الاصول سمجھا جاتا ہے۔ ” اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ” روایتی فکر حرکت کی بجائے سکون کو کائنات کا اصل الاصول قرار دیتی ہے اور حرکت کو التباس سمجھتی ہے ” جمال پانی پتی نے پہلے تو ’التباس، کے بے محل استعمال پر شدید گرفت کی اور پھر حرکت و سکون اور تغیر و ثبات کے بارے میں سلیم احمد کے موقف کا سہارا لے کر واضح کیا کہ ما بعد الطبیعیات کے نقطۂ نظر سے سکون و ثبات کا مقام تغیر و حرکت سے بلند ہے کیوں کہ حرکت اور تغیر مادے کی صفت ہے اور مادے کا تعلق طبیعیات سے ہے۔ جب کہ ما بعد الطبیعیات اس عالم سے متعلق ہے جو ورائے مادہ ہے۔ سکون و ثبات بھی چوں کہ اسی عالم ما بعد الطبیعیات سے ہے ، اس لیے ان کا درجہ حرکت و تغیر سے بلند ہے۔ یہیں یہ واضح کیا جاتا ہے کہ وہ تمام جدید فلسفے جو حرکت و تغیر ہی کو زندگی کی حقیقت اور کائنات کا اصلِ اصول مانتے ہیں اور کسی ایسی حقیقت تک نہیں پہنچتے جو حرکت و تغیر سے ماورا ہو۔ انہوں نے اقبال کا یہ شعر درج کیا :

فریب نظر ہے سکون و ثبات

تڑپتا ہے ہر ذرہ ¿ِ  کائنات

اور گرفت فرمائی کہ اقبال بھی اس شعر میں ما بعد الطبیعیاتی فکر سے دور اور طبیعیات کے نقطہ ¿ نظر کے قریب ہو کر مادہ پر ستوں سے آملے ہیں۔

جس نتیجے پر جمال پانی پتی ، جناب سلیم احمد کے وسیلے سے پہنچنا چاہتے ہیں ، پہلے تو گرہ میں باندھ رکھیے کہ وہاں میں پہلے سے ہوں مگر جس طرح وہ پہنچتے ہیں اس پر دل ٹھکتا نہیں ہے۔ میری استدعا ہے کہ اقبال کے شعر کو ایک مرتبہ پھر پڑھ لیا جائے اور میری ان گزارشات کو بھی ذہن میں تازہ رکھا جائے جو ایٹم اور اس کی روح کے باب میں عین آغاز میں کر آیا ہوں۔ یہی تو وہ روح ہے جو ہر ساکت و ثابت ذرے کو تڑپ عطا کر رہی ہے یوں حرکت و تغیر کا تعلق بھی سکون و ثبات کی طرح ما بعد الطبیعیات سے جڑ جاتا ہے۔ اگر اس زاویے سے دیکھا جائے تو اقبال کے مادہ پرستوں سے آ ملنے کا طعنہ بھی ہاتھ پر ہاتھ مارتی عورتوں کی سٹھنی کا سا ہو جاتا ہے۔ خیر یہاں روایت سے متعلقین کا اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ آغاز میں جس منہاج علمی کو وسیلہ بنایا گیا ہے وہ روایتی فکر سے جڑتا نہیں ہے۔ اس باب میں مجھے اعتراف کرنا ہے کہ یہ حوصلہ میں نے جناب جمال پانی پتی کی تحریر سے پایا ہے۔ روایت سے متعلق اس ناقد کے ہاں علم کلام کے اصول تطبیق کو آپ دونوں کتابوں کے کئی صفحات پر متحرک دیکھ سکتے ہیں۔

جمال پانی پتی نے یہ جو کہا ہے کہ اسلام کی روایتی تہذیب جس اصلِ اصول پر قائم ہے ، وہ ہے الآن کما کان، یعنی ایک ایسی غیر متغیر اور قائم و دائم حقیقت جس کا ظہور زمان و مکان میں ہر آن ایک نئی شان کے ساتھ ہوتا ہے، بہت بجا فرمایا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ روایتی تہذیبیں اپنے اصلِ  اصول سے وابستہ رہنے کے لیے ثبات و دوام پر اس لیے زور دیتی ہیں کہ ان کے نزدیک زندگی کے دونوں اصولوں یعنی تغیر اور ثبات میں توازن ہونا چاہیے۔ تاہم یہاں جمال پانی پتی نے وضاحت کر دی ہے کہ یہ توازن مطلق اور بے قید حرکت سے نہیں ، سکون کو حرکت اور تغیر کو ثبات کے تابع رکھنے ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ اس وضاحت کے بعد وہ جو توازن کے باب میں ترازو کے پلڑوں کے برابر ہونے کا تصور ابھرا تھا کافور ہو جاتا ہے اور وہ سائنس دان آ سامنے کھڑا ہوتا ہے جس نے کرہ ارض سے باہر قدم جما کر لیور کی مدد سے زمین کا گولا اُٹھا لینے کی بات کی تھی۔ اب ذرا مادے کو کرہ ارض کی جگہ رکھ کر اس روح کو لیو ر بنا لیں جو قوانین قدرت کا شعور نہ رکھنے والے مادے کو حرکت و تغیر عطا کر رہی ہے تو جمال پانی پتی کی بات فوراً سمجھ میں آ جائے گی۔

اقبال کی فکر میں دانش افرنگ کے کرشمے تلاش کرنے کا مشغلہ جمال پانی پتی کو مر غوب دِکھتا ہے اور اس کے لیے جہاں جہاں انہیں شاعر اقبال اور مفکر اقبال کو دو لخت کرنا پڑا ہے، انہوں نے بے درنگ کر دیا ہے۔ حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ اقبال The Reconstruction of Religious Thought in Islamمیں اسلام کے تصور حقیقت کے بارے میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ:

"اسلام کے نزدیک حیات کی روحانی اساس ایک قائم و دائم وجود ہے جسے ہم اختلاف اور تغیر میں جلوہ گر دیکھتے ہیں  ۔۔ بہت حساس اور با شعور ہے۔ تا م کیں”

اور یہ بھی کہ:

” اسلامی معاشرہ حقیقتِ  مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے۔ اس کے پاس کچھ تو دوامی اصول ہونے چاہییں جو حیاتِ اجتماعیہ میں نظم و ضبط قائم رکھیں۔ کیوں کہ مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہو ئی دنیا میں ہم اپنا قدم مضبوطی کے ساتھ جما سکتے ہیں تو دوامی اصولوں ہی کی بدولت۔”

مجھے تو اپنے خطبات اور اپنی شاعری میں دانش افرنگ کی جلوہ فرمائی کی بجائے ہر کہیں مدینہ و نجف کو آنکھوں کا سرمہ بنا لینے والا اقبال ہی نظر آیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرے پاس جو عینک ہے اس میں اقبال کا پورا قد دِکھتا ہے جو مجموعی سراپے میں قابل قبول اور بہت سے مقامات پر قابل رشک ہو گیا ہے مگر جمال پانی پتی کا معاملہ الگ ہے وہ فکرِ اقبال کو مختلف پہلوؤں سے دیکھتے ہیں اور ہر پہلو کو الگ کر کے دیکھتے ہیں۔ مثلاً دیکھئے کہ اقبال کے ہاں جو اصول حرکت کام کرتا ہے وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ میں نے سارے اختلافی معاملے کو بڑی ہمدردی اور اخلاص نیت سے جانچا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ فی الاصل دونوں نتائج کے اعتبار سے ایک ہی منزل پر پہنچتے ہیں۔ کیسے ؟ اس کا احوال لکھنے بیٹھ گیا تو بات طول پکڑ لے گی لہذا اسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں تاہم یہیں محمد سہیل عمر کی وہ تحریر یاد آتی ہے جس میں انہوں نے عسکری اور سلیم احمد کے ہاں پائے جانے والے اصول حرکت و تغیر کے فرق کو واضح کیا تھا۔ محمد سہیل عمر کے مطابق انسان اپنی ذات میں جسم ، نفس اور روح کا مجموعہ ہے۔ جسم جمود، نفس حرکت و تغیر اور اور روح سکون۔ نفس کے روح یا پھر جسم پر تصرف سے خرد یا عقل پیدا ہوتی ہے۔ یہیں روح کو امرِ محض اور جسم کو خلقِ  محض کہہ کر نفس کو دونوں کے بیچ پُل بتایا گیا اور ثابت کیا گیا کہ سلیم احمد کے تصور انسان میں تدریج کا رُخ روح سے نفس اور نفس سے جسم کی طرف تھا جب کہ عسکری صاحب کے ہاں یہ تدریج بر عکس تھی۔ محمد سہیل عمر کے ہاں بر عکس ہو جانے والے عسکری اور سلیم احمد ، جس اصول کے تحت جمال پانی پتی کے ہاں ہم عکس ہو جاتے ہیں ، کم و بیش اُسی اصول کے تحت یہ دونوں اور خود جمال پانی پتی بھی مجھے اقبال سے زیادہ دور نظر نہیں آتے اور مجموعی اعتبار سے اسی سلسلے سے جڑے نظر آتے ہیں۔

اقبال اور تصوف کے حوالے سے اگلے تینوں مضامین بھی بہت دلچسپ اور معلومات افزا ہیں۔ ان مضامین میں بہت سے مقامات پر میں نے خود کو جمال پانی پتی کے ساتھ کھڑے پایا ہے۔ سوامی تیرتھ کی صحبت میں ویدانت کے فلسفے کا مطالعہ کرنے والے اقبال نے مثنوی "اسرار خودی” کے دیباچے میں کہا تھا کہ ” مسئلۂ انا کی تحقیق و تدقیق میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی ذہنی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثلت پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ جس نقطہ ¿ خیال سے سری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی اُسی نقطہ ¿ خیال سے محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی” لیکن ہوتا یہ ہے کہ مثنوی "گلشنِ  راز جدید” میں شنکر اور منصور حلاج کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے دونوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں تاہم بعض شارحین کے مطابق اقبال "اپنی زندگی کے آخری دور میں پھر سے وحدت الوجود کے حامی بن گئے تھے۔” اقبال کے ہاں فکر و نظر کی یہ تبدیلی ؟ جمال پانی پتی کے تین مضامین کا جواز بنتی ہے۔ ان مضامین میں شنکر کے ویدانتی فلسفے پر اقبال کے تصور خودی کے حوالے سے پر مغز بحث کی گئی ہے۔ اور اس خیال کی تردید کی گئی ہے کہ ؛

۔ شنکر کے نزدیک جیو آتما(انسانی انا) فریب کا ایک پھندا ہے جسے گلے سے اُتار پھینکنا نجات کے لیے ضروری ہے

۔ شنکر نے اُپنشندوں کے فلسفہ ¿ ترک عمل کو ایک بار پھر زندہ کر کے اپنے منطقی طلسم سے اُس عروسِ  معنی کو پھر محجوب کر دیا ہے جسے سری شنکر بے نقاب کرنا چاہتے تھے

اسی بحث کے بعد وہ ان ناقدین ادب سے خبردار کرتے ہیں جو عہد جدید کے مادی فلسفوں کے زیر اثر روح کا استعمال بھی جذبے کے معنی میں کر دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اقبال کے ہاں شنکر کی طرح روح اور جسم یا تن و جاں دو مختلف الحقیقت یا متضاد چیزیں نہیں بلکہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں ، اندر سے دیکھو تو روح ، باہر سے دیکھو تو جسم۔ یوں وہ بجا طور پر اقبال اور شنکر کے باہم متضاد مؤقف کی شناخت کرتے ہیں۔ تاہم آگے چل کر وہ عملی ، حقیقی اور ماورائی پہلوؤں سے اقبال کی خودی کو جیو آتما یا آتما(پرش) جیسا قرار دینے کے بعد رویوں کے فرق کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اقبال نے حقیقی پہلو کی بجائے سارا زور اس کے عملی پہلو پر لگایا جب کہ شنکر خودی کے عملی پہلو کی بجائے آتما کو مکتی دلانے کی طرف راغب رہے۔

جمال پانی پتی نے بتانے کی سعی کی ہے کہ اقبال عشق کو اس باعث علم پر ترجیح دیتے ہیں کہ علم میں دولت، قدرت اور لذت تو ہوتی ہے ، اپنا سراغ ہاتھ نہیں آتا۔ جب کہ بقول اُن کے شنکر کو اپنی حقیقت کا سراغ اپنے علم ہی سے ملتا ہے۔ ایسے میں جمال پانی پتی کو سلیم احمد مرحوم اور اقبال کا یہ شعر ایک ساتھ یاد آتا ہے :

مرے لیے ہے فقط زورِ حیدری کافی

ترا نصیب فلاطون کی تیزیِ  ادراک

میں نہیں سمجھتا اس شعر میں اس معنی کے اشتباہ کی کوئی گنجائش نکل سکتی تھی کہ زورِ حیدری کو باب العلم کی مجموعی شخصیت پر فوقیت دی گئی ہے۔ پہلے اقبال پر یہ تہمت لگی کہ انہوں نے عشق کو علم پر ترجیح دی اور اب کہا جا رہا ہے کہ طاقت ، علم پر فوقیت پا گئی۔ اور وہ بھی عین وہاں سے یہ معنی برآمد کئے گئے ہیں جہاں حیدر کرار کا تذکرہ ہی اس امر کا ضامن بن جاتا ہے کہ اقبال کو علم اور طاقت کا امتزاج دکھانا مقصود تھا۔ اقبال کے زاویۂ نظر کو بجا طور پر سمجھنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک نظر "The Reconstruction of Religious Thought in Islam” کی اس عبارت پر ڈال لی جائے :

"What is the character general structure of universe in which we live? Is there a permanent element in the constitution of this universe? How are we related to it? What place do we occupy in it, and what is the kind of conduct that benefits the place we occupy? These questions are common to religion, philosophy, and higher poetry”

ایک شخص جو حیات اور کائنات کے بارے میں اس نوع کے سوالات اُٹھا کر انہیں مذہب ، فلسفے اور اعلی درجے کی شاعری کا مشترکہ مسئلہ قرار دے رہا ہو اس کے ہاں سے ان نتائج کا استخراج کم از کم مجھے تو ہضم نہیں ہو پا رہا۔ اقبال نے اگر زور دے کر یہ کہا ہے کہ :

"Quran,…..regards the hearing and sight as the most valuable Divine gifts and declares them to be accountable to God for their activity in this world.”

تو سوچا جانا چاہیے کہ اقبال کے ہاں "سمع” اور "بصر” کی اس پذیرائی کے لگ بھگ کیا وہی معنی نہیں بنتے جو جمال پانی پتی نے اقبال کے ہاں روح اور جسم کے ارتباط باہمی کا سوال شناخت ہونے پر برآمد فرمائے تھے۔

اگلے دو مضامین بھی انہی فکری مباحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔ پہلے تو وہ جناب احمد ہمدانی کے "وحدت الوجود "اور” تصوف "کو مترادف المعنی الفاظ کے طور پر استعمال کرنے سے پیدا ہونے والی الجھنوں کو سلجھاتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ پینتھی ازم (Pantheism) کا صحیح ترجمہ ” وحدت الوجود” کی بجائے ” ہمہ الہیت” ہے ، یعنی” خدا کائنات سے ماورا نہیں بلکہ خدا اور کائنات دونوں ہم وجود ہیں "۔ جمال پانی پتی ” فصوص الحکم ” کے بارے میں اقبال کا یہ کہنا” جہاں تک مجھے علم ہے فصوص میں سوائے الحاد اور زندقہ کے اور کچھ نہیں ” کو بھی زیر بحث لاتے ہیں۔ مسئلہ قدم ارواح کملا اور مسئلہ تنزلات ستہ پر بھی اسی حصے میں بھر پور بحث ملتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس سارے مباحثے میں وہ ہمدانی صاحب کی فکر پر پٹڑا ہی پھیر دیتے ہیں۔

"غالب اور تصوف” کے عنوان سے کتاب میں شامل مضمون ، نواب مصطفی خان شیفتہ کے پڑپوتے افتخار احمد عدنی کی کتاب "غالب شناسی کے کرشمے” کی فکر کو رد کرنے کا کرشمہ ہے۔ جمال پانی پتی اس مضمون میں اصرار کرتے ہیں کہ غالب کو تصوف اور مسائل تصوف سے شغف تو ضرور تھا مگر تصوف ان کے ہاں بغرض شعر گفتن آیا، یہ ان کا طبعی میلان نہ تھا۔ اس ضمن میں وہ غالب کے ان اشعار کو بطور دلیل لاتے ہیں جن میں منصور کی تنک ظرفی کے مقابلے میں غالب کی انانیت اور انفرادیت آ جاتی ہے۔ یہ وہی انانیت ہے جو غالب کو اپنی "انا” کسی بھی قیمت پر انائے حقیقی کے سپرد کرنے نہیں دیتی۔ جمال پانی پتی غالب کو حقیقی معنوں میں اُردو کے پہلے شاعر قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں روح عصر نے اپنی ترجمانی کے لیے منتخب کیا تھا اور یہ کہ اپنے بعد آنے والے سو سوا سو سال تک کے زمانے کے اہم ترین رجحانات بھی ان کی شاعری میں سے منعکس ہوتے چلے گئے ہیں۔ تاہم تصوف کے معاملے میں وہ غالب کی بجائے مولانا فضل حق کے طرف دار نکلے جنہوں نے غالب کو تصوف کی مبادیات سے بھی ناواقف قرار دیا تھا۔

ایک بار پھر اقبال ، اور اس بار سلیم احمد کی کتاب "اقبال : ایک شاعر” کے حوالے سے۔ جمال پانی پتی نے اسے زندہ کتاب قرار دیتے ہوئے ان اعتراضات کو رد کیا ہے جو اس کتاب کے مندرجات پر وارد ہوئے ہیں۔ اس دفاع میں وہ مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ دراصل ” اقبال: ایک شاعر” لکھتے وقت سلیم احمد کے ذہن میں سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ اقبال شاعر ہیں یا ناظم ؟ اور سلیم احمد چوں کہ اس نوع کے سوالات کو المیہ سمجھتے تھے لہذا وہ اپنے محبوب شاعر اقبال کے لئے آگے بڑھے۔ سلیم احمد میرے بھی محبوب ہیں مگر اس کا کیا کیجئے کہ سلیم احمد کے استاد مکرم پروفیسر کرار حسین کی اس بات نے دل میں جگہ بنا لی ہے کہ” موت کو اقبال کی شاعری کا مرکزی مسئلہ قرار دینے کے لیے اسے ان کے بطون ذات سے وابستہ کرنا ضروری نہ تھا۔” ہم دیکھتے ہیں کہ جمال پانی پتی کا سارا وزن سلیم احمد کے پلڑے میں ہے مگر پھر بھی حیات و موت کو التفات کے قابل نہ سمجھنے والے اقبال کی خودی اتنی با وزن نکلتی ہے کہ اس باب میں اُن کی ساری بحث کا پلڑا اوپر ہی کو اُٹھا رہتا ہے۔

"سر سید کا نظام تعلیم اور ہم ” اس کتاب کا آخری مضمون ہے جس میں بجا طور پر سر سید کی تعلیمی پالیسی کے مایوس کن اور مضر اثرات کو نمایاں کر کے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ تعلیم کا عام ہونا، جمہوریت کا آنا، علوم جدیدہ کی ترویج، سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف توجہ، یہ سب پیروی ¿ مغرب کی برکات سہی مگر مغربی مرعوبیت کے سبب بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بقول ” نقالوں کا طائفہ” پیدا ہو گیا تھا۔ آپ کی تشخیص بجا ہے جمال پانی پتی صاحب ! افسوس کہ نقالوں کا یہی طائفہ اب قومی شناخت کو بھی مسخ کر چکا ہے۔

"اختلاف کے پہلو” میں شامل مضامین کا مطالعہ ہمیں جناب مشفق خواجہ کا ہم نوا بنا دیتا ہے کہ "جمال پانی پتی کی اُفتاد طبع نہ تو عام قسم کے سکۂ رائج الوقت حوالوں اور سوالوں کو قبول کرتی ہے اور نہ ہی ان کے تنقیدی منظر نامے میں غیر سنجیدہ موضوعات و مسائل کی کوئی گنجائش نکلتی ہے۔ ” یہی سبب ہے کہ ان سے بہت سے مقامات پر اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر انہیں در گزر نہیں کیا جا سکتا۔

               ۲

مشفق خواجہ کی رائے، جس سے میں اوپر اتفاق کر آیا ہوں ، جمال پانی پتی کی دوسری زیر نظر کتاب”نفی سے اثبات تک” کے آغاز میں موجود "حرف اول ” کا حصہ ہے۔ مشفق خواجہ صاحب کی باتوں کو”اختلاف کے پہلو”کے تناظر میں زیادہ سہولت سے سمجھا اور مانا جا سکتا ہے جو فکری مباحث کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ نفی اور اثبات والی کتاب یوں مختلف ہو گئی ہے کہ اس میں زیادہ تر مضامین کا تعلق بقول مصنف "معاصر تخلیقی یا تنقیدی ادب کے مسائل و معاملات سے ہے۔” جمال پانی پتی کی اس بات سے اِس اشتباہ کو شہ ملی ہے کہ "اختلاف کے پہلو” کا کوئی تعلق معاصر تخلیقی یا تنقیدی ادب کے مسائل و معاملات سے نہیں بنتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ” اختلاف کے پہلو” میں اقبال کی شاعری اور خطبات کو زیر بحث لا کر نفی اور اثبات والی کتاب( کہ جس میں اولین اور نمایاں عنصر محمد حسن عسکری کی فکر ہو جاتی ہے)سے کہیں زیادہ عصری ادب اور جدید احساس سے جوڑ دیا گیا ہے۔ زیر نظر کتاب کے دوسرے حصے میں محب عارفی، ساقی فاروقی، نصیر ترابی، احسن سلیم اور فرید جاوید کی شاعری پر لکھے گئے مضامین کو شامل کر کے جمال پانی پتی نے ادبی تخلیقات کے حوالے سے لکھی جانے والی تنقید ہی سے مانوس قاری کے لیے بھی کچھ سہولتیں فراہم کر دی ہیں تاہم یہ مضامین بھی عمومی ڈگر سے ہٹ کر لکھے گئے ہیں۔ جب کہ تیسرے حصے میں ایک بنیادی مسئلے کو چھیڑ کر ہماری فکر ی رو کو ایک سمت عطا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عہد جدید میں مغربی اثرات کے تحت جو نیا تصور پروان چڑھا ہے اس میں عقائد اور عبادات ثانوی ہو گئے ہیں اور اخلاق کی درستی کا مرتبہ بلند ٹھہرا ہے۔ اخلاق کے ہوتے ہوئے عقائد اور عبادات یعنی مذہب کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ؟ یہ وہ منطقی سوال ہے جو اہمیت و اعتبار سے ایمان، عقائد، عبادات اور اخلاقیات و احکام کی فطری ترتیب بدلنے سے پھوٹ پڑا ہے۔ "نعت گوئی کے تصور انسان”میں جمال پانی پتی بنیادی اہمیت ایمان کو دیتے ہیں۔ سر سید احمد خان ، جو رسالہ ” تہذیب الاخلاق ” کے ذریعے اخلاق کے مرتبے عالی کرتے رہے اور مولانا الطاف حسین حالی، جو تمام ا دیان کا مقصد تہذیب الاخلاق کے سوا کچھ اور ماننے سے انکار کرتے تھے یا پھر مسدس مد و جزرِ اسلام والے مولانا حالی اسی باعث جمال پانی پتی کے ہاں لائق گرفت ٹھہرتے ہیں۔ یہیں محمد حسن عسکری کے اس جملے سی حظ اُٹھایا گیا ہے جو انہوں نے مسدس کے ان خوب صورت نعتیہ مصرعوں پر کسا تھا، "خطا کار سے در گزر کرنے والا” اور” اپنے پرائے کا غم کھانے والا”۔ عسکری نے اُشغلا چھوڑا تھا کہ "خیر اتنا کام تو حالی خود بھی کر لیتے ہوں گے "۔ تاہم جمال پانی پتی ، ایمان کی بات کرتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ حالی اخلاقی آدمی ضرور تھے مگر ان کا مذہب اخلاق کے سائے میں نہ تھا۔ جمال پانی پتی نے عسکری کی فکر کی ترجمانی کرتے کرتے ان کے جملے کے لیے گنجائش نکالی اور اس سے حظ بھی اُٹھا لیا تاہم میرا معاملہ یہ ہے کہ میرے دل پر ملال کی بدلی سایہ فگن ہو گئی ہے۔ میں سمجھتا ہو کہ یہ قضیہ اُس طرزِ احساس کے سبب زیادہ گھمبیر ہو جاتا ہے جس میں ہم خلق عظیم کے مرتبہ عالیہ پر متمکن آقا ﷺ کی ذات کو ایک کُل میں دیکھنے کی بجائے ایمان و عقائد، عبادات اور اخلاقیات کے حوالوں سے اجزاء میں دیکھنے لگیں۔ حالی جب یہ نعتیہ اشعار کہہ رہے تھے تو اسی خلق عظیم کی طرف رفتہ رفتہ اور نہایت ادب سے بڑھ رہے تھے جو ایمان ، عقائد، عبادات اور اعلی اخلاق کا امتزاجی شاہکار تھے۔ حالی کا غم کھانا اور درگزر کرنا خلق عظیم کے تصور سے وابستہ غم کھانے اور در گزر کرنے سے کیسے مماثل ہو سکتا ہے، صاحبو میں تو سمجھنے سے قاصر ہوں اور شاید یہی سبب ہے کہ میں اداس ہو گیا ہوں۔ تاہم جب جمال پانی پتی، عسکری کے ، انسانی خوبیوں کا بہی کھاتا لکھنے والے حالی کو دیئے گئے طعنے کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے تو وہاں حوصلہ بڑھتا ہے۔ وہ حالی کے دیوان میں شامل دو نعتیہ قصائد اور ایک نعت کے حوالے سے تسلیم کرتے ہیں کہ "حالی کی نظر دونوں جہات پر تھی”۔ یاد رہے اب بات نعت کے تصور انسان کی طرف نکل آئی ہے اور یہاں نوری اور بشری یا پھر طبیعیاتی اور ما بعد الطبیعیاتی دونوں جہتوں کا تذکرہ ہو رہا ہے۔

یہیں جمال پانی پتی نے سلیم احمد کی وساطت سے بتایا ہے کہ عسکری جب "آدمی اور انسان” کے مسئلے سے اُلجھ رہے تھے تو محسن کاکوری کی نعت کا تصور انسان ان کی مدد کو آیا تھا۔ بات بجا ہو گی مگر اس مقام پر کراچی والے قمر جمیل مرحوم اور اسپین والے اونامونو ایک ساتھ میرے ذہن میں گھُسے آتے ہیں۔ قمر جمیل نے اپنے مضمون "اونامونو اور ادب ” مشمولہ "جدید ادب کی سرحدیں ” جلد اول میں رائے دی تھی کہ عسکری صاحب نے اونامونو کی کتاب "زندگی کے المیہ مفہوم ” سے متاثر ہو کر "انسان اور آدمی” والا مضمون لکھا تھا اور بات سے بات نکالتے چلے گئے تھے۔ اوہ بات کسی اور طرف کو نکلے جاتی ہے ، واپس پلٹتے ہیں کہ ادھر جمال پانی پتی ولی، سودا، غالب، اقبال، مولانا ظفر علی خان، احسان دانش ، حفیظ ہوشیار پوری اور حفیظ جالندھری کے خوب صورت نعتیہ اشعار نقل کرنے بعد ہمیں بتا رہے ہیں کہ: "حالی سے شروع ہونے والے نعت گوئی کے دور جدید میں غالباً حفیظ جالندھری وہ آخری شاعر تھے جن کے ہاں حقیقت محمدیہ کے عقیدے کا بھرپور اظہار ملتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل کی نعت میں زیادہ زور آپ کے پہلوئے بشریت پر دیا جاتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے مستثنیات کو نمایاں کیا گیا ہے اور اس باب میں ستار وارثی، شاہ انصار الہ آبادی، سلیم احمد اور حنیف اسعدی کے نعتیہ اشعار کو حوالے کے طور پر نقل کیا گیا ہے۔ حقیقت محمدیہ اور ذات محمد کی بحث میں مصنف کا موقف ہے کہ ان دونوں میں سے صرف اول الذکر ہی حقیقت ہے اور مو خر الذکر اس حقیقت کی مظہر۔ جمال پانی پتی کی یہ بات ذہن نشین رکھنے کے لائق ہے کہ نعتِ رسول کا موضوع بہت نازک ہے ، ذرا سی بے احتیاطی سے بات بگڑ سکتی ہے۔

"محمد حسن عسکری: نفی سے اثبات تک” اس کتاب کا دوسرا مضمون ہے جو کتاب کا عنوان بھی ہو گیا ہے۔ فی الاصل دیکھا جائے تو جمال پانی پتی ہر دم اسی فکری علاقے ہی میں رہتے ہیں جو عسکری اور سلیم احمد کا مفتوحہ ہے۔ ان کی تحریروں میں ان دونوں سے اختلاف کے مواقع نہ ہونے کی برابر ہیں جبکہ اتفاق اور تصدیق کے مقامات برابر نکلتے ہی رہتے ہیں۔ اس کے با وصف تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کی وجہ مرعوبیت نہیں ، فکری ہم آہنگی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس فکری علاقے میں رہتے ہوئے بھی تنقیدی حوالوں سے انہوں نے جس سنجیدگی سے کام کیا ہے اس نے انہیں اس سلسلے کا ایک قابل قدر نام بنا دیا ہے۔

زیر نظر مضمون کے تیور آغاز ہی میں بتا دیتے ہیں کہ وہ عسکری صاحب کے دفاع کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عسکری صاحب کی زندگی میں ہی ایک بار مظفر علی سید نے کہہ دیا تھا کہ انہیں فرانسیسی آتی ہی نہیں تھی۔ اس جملے نے جمال پانی پتی کو یاد دلایا ہے کہ” فنون” کے کسی شمارے میں "ستارہ اور بادبان” پر تبصرہ کرتے ہوئے سجاد باقر رضوی نے انکشاف فرمایا تھا کہ” مظفر علی سید نے عسکری سے تھوڑی سی فرانسیسی پڑھ ڈالی۔ اس کے بعد یہ دعوی کرتے پھرے کہ میں عسکری کا شاگرد ہوں۔ عسکری صاحب کو خبر لگی تو وہ اس حقیقت سے انکاری ہوئے۔ اب جب سید صاحب سے کچھ نہ بن پڑا تو انہوں نے نعرہ لگایا کہ عسکری صاحب کو فرانسیسی آتی ہی نہیں "

پہلے تو ، اس باب میں شہزاد منظر نے جو کہا اسے انہوں نے ’بے پر کی اڑائی ‘ کے کھاتے میں ڈالا اور بتایا کہ اس پر تو شمیم احمد نے "برشِ قلم” پھیر دیا تھا اور بعد ازاں واضح کیا کہ عسکری صاحب پر ہونے والے اعتراضات ، خواہ ان کی زندگی میں ہوئے یا پھر موت کے بعد اسی قبیل کے تھے۔ اعتراضات کا جواب دیتے دیتے عسکری کی فکر کے شارح جمال پانی پتی کے قلم سے عسکری صاحب کی جو تصویر بنتی ہے اسکا دھندلا سا عکس اُن کے اِن بیانات میں دیکھا جا سکتا ہے :

۔ عسکری کا تصور روایت "جھلکیاں ” سے "جدیدیت” تک آتے آتے متضاد نہیں ہوا تبدیل ہوا تھا۔

۔”جھلکیاں "میں انہوں نے روایت کا وہی تصور پیش کیا جو مغرب میں سمجھا جاتا تھا اور "جدیدیت” میں وہ جسے مغرب بھول چکا تھا۔

۔ عسکری کا تصور روایت ایلیٹ کا تصور روایت نہیں رینے  گینوں کا تصور روایت ہے۔

۔ جس وقت فرانس کے زوال پسندوں اور جمال پرستوں سے عسکری کے متاثر ہونے کا الزام لگا، عین اس وقت راں بو جیسے فن کاروں کے حوالے سے ہمیں بتا رہے تھے کہ اخلاقیات اور مذہب یا ایک ہمہ گیر نظامِ حیات کی اجازت کے بغیر حسن کو گھٹنوں پر بٹھانے کا انجام کس قدر ہول ناک ہو سکتا ہے۔

۔عسکری کے ہاں ایک مرکزی روایت کا تصور ابتدا ہی سے موجود تھا۔

۔یہ اعتراض درست سہی کہ عسکری ایک رائے پر قائم نہیں رہتے تھے ، لیکن کیا زندگی بھر ایک ہی رائے پر قائم رہنا ادب یا زندگی میں کوئی بہت قابل قدر بات ہے؟

۔عسکری ترقی پسندوں سے اس لیے الگ ہوئے کہ وہ ادب کو سیاسی اور معاشی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا رہے تھے اور ہمارے ہاں کے جدیدیوں سے اس لیے اتفاق نہ کر سکے کہ یہ لوگ انحراف و انکار کی ذہنیت ہی کو جدیدیت کے مترادف سمجھتے ہوئے انحراف و انکار یا نفی کے رویے ہی میں بند ہو کر رہ جاتے تھے۔

۔ عسکری صاحب کے ہاں مغرب کو رد کرنے کا مطلب مغرب سے بے تعلق یا بے خبر ہو جانا نہیں ، بلکہ اس کا مطلب ہے مغرب کو اپنے اندر جذب کر کے اس سے اوپر اٹھنا یا آگے جانا ہے۔

۔ دراصل عسکری صاحب کا المیہ یہ ہے کہ انہیں نقاد بھی ملے تو ان گنوں کے جو ان کی سیدھی بات بھی ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتے۔ کہو آم کی تو سنتے ہیں املی کی۔

۔ وہ جو عسکری صاحب نے کہا تھا کہ مغربی ادب کو سمجھنے کے لیے بھی مولانا اشرف علی تھانوی کی کتابوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے تو یہ بات سیدھی سی تھی کہ مغرب میں ایسی کتابیں ناپید ہیں جن سے مغرب کے روایتی فکر و ادب کو سمجھا جا سکتا تھا اور مسئلہ مذکورہ کا حل مولانا اشرف علی تھانوی کی کتابوں ہی میں مل سکتا تھا۔

۔ سوال یہ تھا کہ کیا مشرق اور مغرب کی روحانیت ایک ہی چیز ہے ؟ عسکری صاحب نے ابن عربی کی "فصوص الحکم” اور کیرکے گورکی "خوف اور لرزہ” کے تقابلی مطالعے کے ذریعے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی۔

۔ مرکزی روایت کے تصور تک پہنچنے سے پہلے عسکری صاحب کے ذہنی اور روحانی سفر کا تعلق مغرب سے تھا، اس کے بعد مشرق سے ہو گیا۔ پہلے وہ مشرق کو مغرب کی آنکھ سے دیکھتے تھے ، اب مغرب کو مشرق کی آنکھ سے دیکھنے لگے۔

۔رینے گینوں سے متاثر ہونے کے بعد عسکری صاحب کے ذہن و فکر میں جو انقلابی تبدیلی واقع ہوئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ادب کے تنقیدی معیارات مغربی ادب اور فکرو فلسفہ سے اخذ کرنے کی بجائے مشرق کے روایتی معیاراتِ  تنقید سے ادب کا جائزہ لینے لگے تھے۔

” محمد حسن عسکری کا تصور روایت:ایک سوال” ڈاکٹر جمیل جالبی کے”مکالمہ۔۱” میں شائع ہونے والے مضمون "حسن عسکری کا تصور روایت” کا رد عمل ہے۔ جمال پانی پتی کا اس مضمون پر اعتراض یہ ہے کہ عسکری کے تصور روایت اور ایلیٹ کے تصور روایت کے درمیان جو بنیادی فرق ہے اسے اِس میں زیادہ در خور اعتنا نہیں سمجھا گیا جب کہ عسکری صاحب نے آخری دور کے مضامین میں اپنے تصور روایت کی وضاحت کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ اس کا ایلیٹ سے کوئی تعلق نہیں۔یہاں وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ایلیٹ نے تاریخی شعور کو روایتی ادب کی بنیاد قرار دیا تھا جب کہ عسکری صاحب کے نزدیک روایتی ادب کی بنیاد ما بعد الطبعیاتی تصورِ حقیقت پر ہے۔ جمال پانی پتی اس مضمون میں جدید ادب پر روایتی معیار تنقید کے اطلاق کی گنجائشیں اور جواز نکالتے ہیں۔ اس باب میں عسکری صاحب کے حوالے سے ادبی تنقید کا ایک معیار شاہ وہاج الدین کی تصنیف”الکہف و الرقیم” کو قرار دیتے ہیں۔ مصنف کے نزدیک عسکری صاحب اگر ہمیں فلوبئیر اور  بودلیئر سے شروع ہو کر جوائس، پاؤنڈ اور لارنس تک آنے والی مغربی روایت کو جذب کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تو اس لیے کہ وہ ہمارے ادب کو مہملیت اور بے معنویت کے گرداب سے نکال کر بامعنی ادب کی تخلیق کا راستہ بتا سکیں۔

اب جن چار مضامین کا میں ذکر کرنے جا رہا ہوں وہ سب کی نوعیت فکری سے زیادہ ادبی بنتی ہے تاہم ان میں سے فکر کے عنصر کو بھی متحرک رکھا گیا۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون "محب عارفی کا معنوی سفر ” کا عنوان لیے ہوئے ہے۔ محب عارفی بقول جمال پانی پتی، روایتی طریقہ کار کے حوالے سے کسی سلسلے یا طریقت کے کسی ڈسپلن سے وابستہ نہیں تاہم وہ اپنی تربیت کے لحاظ سے روایتی اور اپنی تعلیم کے لحاظ سے جدید اور غیر روایتی آدمی ہیں۔ محب عارفی نے اپنی کتاب کا نام ” مسلک معقولیت ” رکھا تو جمال پانی پتی کے نزدیک اس کی معقولیت یہ ٹھہری کہ عقلیت کی تعلیم پانے والے محب عارفی کو انہوں نے عقل کی محدودیت کا واقف جانا۔ جمال پانی پتی نے محب عارفی کی اس معقولیت کے تصور کو فوراً بعد دھندلا دیا ہے کہ ان کے نزدیک مفہوم کی توسیع کے لیے انہوں نے عقلیت کی بجائے معقولیت کو اختیار کیا تھا مگر اپنی تمام تر کوشش کے باوجود عقلیت ہی کے محدود دائرے میں رہتے ہوئے احساس نارسائی کا شکار ہو گئے اور یہی احساسِ نارسائی ان کی شاعری میں در آیا۔ طرفہ تماشا دیکھئے کہ محب عارفی کے جن خوب صورت اشعار میں انہیں نارسائی کے سوا کچھ نہیں ملتا وہی میرے اندر اتھل پتھل مچا کر میرے وجود پر عجب کنائیوں کی پھوار برسا دیتے ہیں۔ محب عارفی کی معقول باتیں جمال پانی پتی کے لیے اس لیے مقبول نہیں ہوئی ہیں کہ وہ موجودات کی تحت المظاہری اصلیت معلوم کرنے کی شدید فطری طلب میں قرآن کے وسیلے سے عقل کی طرف نکل جاتے ہیں۔ جمال پانی پتی آخر کار تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن عقل کو بھی وسیلۂ معرفت کے طور پر تسلیم کرتا ہے مگر اس راندہ درگاہ عقل کا راستہ روکنے کے لیے سائنسی علوم کو مغرب کی شے قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مغرب کے سائنسی علوم علم کے ذرائع کو صرف حسی ، عقلی اور عملی تجربے تک محدود کر کے رکھ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنی میراث کے اس محدود استعمال پر کیا ہمیں اپنی میراث ہی سی منھ موڑ لینا چاہئے؟ جمال پانی پتی یقیناً ایسا نہیں چاہیں گے تبھی تو آخری جملے میں وہ محب عارفی کو قبول کرتے ہوئے یہ لکھ رہے ہیں کہ ان کا عقل سے کشف و الہام اور کشف و الہام سے وحی تک آنا ذرائع علم کی جامعیت کے حوالے سے نیک فال کی حیثیت رکھتا ہے۔

"دہری تلاش کا شاعر” کا عنوان پانے والا مضمون جدید شاعر ساقی فاروقی کے حوالے سے ہے۔ جمال پانی پتی درست شناخت کرتے ہیں کہ ساقی فاروقی اپنی سوچ اور طرز احساس ہی کے اعتبار سے جدید نہیں بلکہ اپنے طرز اظہار اور جمالیاتی وجدان کے اعتبار سے بھی جدید حسیت کے ایک اہم اور نمائندہ شاعر ہیں۔ انہوں نے ساقی فاروقی کے ادبی مسلک کو ان کی شخصیت کی طرح خاصا پیچیدہ قرار دیا تاہم اس جدید شاعر کے ہاں انہوں نے اس ناپسندیدگی کو ڈھونڈ نکالا ہے جو جدیدیت کے تنگنائے سے ساقی کو ہے۔ اس کی دلیل میں وہ ساقی کے اس بیان کو لاتے ہیں جس میں انہوں نے خود کو کمیٹڈ سوشلسٹ قرار دیا تھا پھر اپنے میلان طبع کو بائیں بازو والا کہا اور ساتھ ہی وضاحت کی تھی: یہ اس لیے نہیں ہے کہ Left to Right بلکہ اس لیے ہے کہ اسے گفتگو عوام سے ہے۔ جمال پانی پتی کو داد دی جانی چاہیے کہ انہوں نے ساقی فاروقی کے اس بیان سے وہ کچھ برآمد کر لیا جو ساقی ، چاہے جتنے جتن کرتے ، خود بھی برآمد نہ کر سکتے تھے کہ اس بیان معطوف میں انہوں نے کچھ ڈالا ہی نہیں ہوتا۔ جب ایک شاعر سب سے زیادہ یہ قرینہ رکھے کہ اس کی شاعری میں کسی خاص نظریے یا فلسفے کی ترجمانی کی بجائے شخصی بصیرت کا اظہار ہو اس کے ہاں سے کسی مسلک کی تلاش کیسے سودمند ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم ساقی فاروقی کو اُن کے اِس وصف کی داد دینے کے لیے جمال پانی پتی کے ساتھ ہیں کہ وہ ایک مدت سے مغربی معاشرے میں بود و باش رکھنے کے باوجود اپنی ادبی اور ثقافتی روایات سے رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اور یہ بھی درست ہے کہ کہ ساقی فاروقی اپنے ادب، اپنی زبان اور اپنے کلچر کے حوالے سے کسی احساس کمتری کا شکار بھی نہیں ہیں۔ اس مضمون میں ساقی کی نظموں اور غزلوں سے جدید طرز احساس کے پہلو بہ پہلو ماضی کی یادیں ، مستقبل کے خواب اور موت کی اٹل حقیقت کا اعتراف دریافت کرتے کرتے جھوٹ اور خوف کا وہ دریا بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں جس میں ہمارا شاعر ڈوب رہا ہے۔ جمال پانی پتی کا سوال ہے کہ کہیں یہ مغرب کا وہی معاشرہ تو نہیں جو اس کی ذات میں منعکس ہو رہا ہے۔ اس ساقی کے ہاں کہ جس نے خدا سمیت ہر اتھارٹی کو تسلیم کیا تھا ، عرفان و آگہی کا حوالہ اس شعر سے بجا طور پر برآمد کرتے ہیں :

جس نے عرفان کی قندیل جلائی دِل میں

شک نہ کرنے کا حوالہ اسی رب سے آئے

جمال پانی پتی اسے شعور و احساس کی معنی خیز تبدیلی قرار دیتے ہیں کہ یہ انہیں خوئے انکار سے خوئے تسلیم کو لے آئی ہے۔ ساقی کے مزید اشعار سے اس خوئے تسلیم کی جھلکیاں دیکھ کر بھی ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ عین آغاز میں انہیں پیچیدہ آدمی تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اور سچ پوچھئے تو آخر میں جھلک دینے والی خوئے تسلیم نہیں بلکہ مستقل نوعیت کی پیچیدگی ہی ان کی اصل شناخت بنتی ہے۔

نصیر ترابی کے اولین شعری مجموعے "عکس فریادی” کے حوالے سے جمال پانی پتی کا مضمون "غزل کی تہذیب کا شاعر” بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ جمال پانی پتی نے رنجیدہ ہو کر کہا ہے کہ غزل کی روایت، غزل کی تہذیب اور غزل کے تہذیبی مزاج کی باتیں بہت سوں کی سمجھ میں اس لیے نہیں آ رہی ہیں کہ تہذیبی شکست و ریخت کے اس زمانے میں غزل کا رشتہ اس تہذیب اور تہذیبی اقدار کے اس نظام سے برائے نام رہ گیا ہے جس نے غزل کو پیدا کیا اور پروان چڑھایا۔ جب غزل کی تہذیب ہی نہیں ہے تو غزل کو اپنی بقا کے لیے نیا پن پیدا کرنے کے لیے روایت سے انحراف کی راہ اختیار کرنا پڑی جس کی حدیں بالعموم بھونڈے پن اور بوالعجبی سے جا ملیں یا پھر واقعیت نگاری پر اصرار سے غزل کے رمزی اور ایمائی تقاضوں کی نفی ہونے لگی۔ اپنی تہذیبی روایت پر اصرار کرنے والی غزل کے بارے میں جو سوال جمال پانی پتی کے ہاں در آیا ہے، یہ آج کا اہم ترین سوال ہے۔ اگر اردو کی سب سے مقبول صنف سخن ، غزل کو اپنے تخلیقی وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو اس سوال کا معقول جواب تخلیقی اور جمالیاتی سطح پر نئے حسیاتی حوالوں سے جڑ کر تلاش کرنا ہو گا۔ جمال پانی پتی نے ناصر کاظمی اور عزیز حامد مدنی جیسے شعرا کے کام کو تخلیقی اور تہذیبی جہاد قرار دیتے ہوئے نصیر ترابی کو اسی کڑی سے بجا طور پر جوڑا ہے مگر کیا ایسا تخلیقی جہاد غزل کو تہذیبی روایت سے جوڑے رکھے گا یا پھر محض جدید منظر نامے میں چند انفرادی مثالوں کی صورت الگ تھلگ دیکھا جاتا رہے گا یہ سوال بھی اس لائق ہے کہ اس پر غور کیا جائے۔

"احسن سلیم اور جدیدیت کا اثباتی رخ” میں مصنف نے نثم گو احسن سلیم کو ایسا لکھنے والا قرار دیا ہے جو روایتی گلی سٹری لاش گھسیٹے پھرنے کے قائل نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روایت کا شعور ، جدید حسیت کے نو بہ نو رنگوں میں لپٹا ہوا ایک عجب انداز اور عجب شان سے ظاہر ہوتا ہے۔ احسن سلیم کی جدیدیت مصنف کو اس لیے قابل قبول ہے کہ ان کی جدیدیت انکار کی منزل سے گزرنے کے بعد اثبات کی طرف بڑھتی ہے اور یہ کہ اس کے ہاں صرف اس کا اپنا چہرہ ہی نہیں ، اپنی تاریخ کا چہرہ بھی صاف نظر آتا ہے۔ فرید جاوید کی شاعری کا محاکمہ کرتے ہوئے انہوں نے اسے ایسا شاعر قرار دیا ہے جس کے الفاظ اور تجربات کی طرح اس کی دنیا بھی محدود تھی۔اس کی کل کائنات چند دوست، چند راتیں ، نغمہ اور مے کی چند صحبتیں تھیں۔ اجنبیت، تنہائی، محرومی، نا آسودگی ، طمانیت سے محروم گھریلو زندگی، غریب الوطنی، رنج و آلام اور مصائب فرید جاوید کی کل کائنات تھے۔ اسے اس نے اپنی تقدیر جان کر قبول کر لیا تھا۔ اور یہی سب کچھ اس کی شاعری کا حصہ ہوا۔ ایک بار پھر وہی سوال جو غزل کی بقا اور ارتقا کے سوال کے ساتھ جڑا ہوا ہے، پھر ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ غزل کے لیے یہ بہت اعلی مواد سہی مگر کیا اس مواد سے جدید حسیاتی حوالوں اور سوالوں سے وابستہ انسان کو تخلیقی اور فکری سطح پر مطمئن کیا جا سکتا ہے۔

اور آخر میں ’ایک بنیادی مسئلہ ،۔ اور یہ بنیادی مسئلہ سائنس اور مذہب کی وہ کشمکش ہے جو مغرب میں انتہا کو پہنچی تو عیسائیت کے خاتمے کا باعث بنی اور ہمارے ہاں آئی تو ہمیں مضطرب کر دیا۔ جمال پانی پتی اس مضمون میں اضطراب میں مبتلا لوگوں کو دو طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

۔ سائنس کے ایسے طرف داروں کا طبقہ جو طرف دار ہوتے ہوئے بھی اس سے خوف کھاتا ہے۔

۔ سائنس کے ایسے مخالفین کا طبقہ جو مخالف ہو کر بھی اس کی جانب للچائی ہو نظروں سے دیکھتا ہے۔

جمال پانی پتی کا کہنا ہے کہ ہم اس کے حق میں ہوں یا خلاف ، ہمارا رویہ اس کے رد و قبول کی کشمکش سے خالی نہیں ہوتا اور انجام کار پلڑا سائنس ہی کا بھاری نکلتا ہے۔ یہاں تک مسئلہ پوری طرح سمجھ میں آتا ہے۔ سر سید کی بابت جس نتیجے پر وہ اس مضمون میں پہنچے ہیں بالکل اسی نتیجے پر "اختلاف کے پہلو” کے آخری مضمون میں بھی پہنچے تھے جو ہمیں بجا معلوم ہوا تھا مگر جب وہ مغربی تہذیب اور سائنس کی بارے میں اقبال کے رویے میں تضاد نکالنا/ڈالنا چاہتے ہیں تو ان سے اختلاف کے شدید مواقع نکل آتے ہیں۔ اقبال جو علم اور سائنس کو مسلمانوں ہی کے اسلاف کی متاع گم گشتہ قرار دے کر اسے واپس حاصل کرنے پر اصرار کرتے تھے ، جمال پانی پتی کو کیوں قابل قبول نہیں ہے میں اسے انتہائی درد مندی اور بے پناہ ہمدردی سے جاننا چاہتا ہوں۔ اگر اقبال اپنی شاعری میں مغربی تہذیب کو "فساد قلب و نظر” قرار دے رہے ہیں اور یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ :

آہ از افرنگ و از آئینِ  او

آہ از اندیشۂ  لا دینِ  او

اے کہ جاں را بازمی دانی زتن

سحرِ ایں تہذیبِ لا دینی شکن

تو اقبال کا یہ رویہ جمال پانی پتی کو قبول ہوتا ہے مگر جب وہ اپنی متاع کو واپس لینے کی بات کرتے ہیں تو یہ بات تسلیم کر لینے میں کیا رخنے آ جاتے ہیں۔ کیا یہ بات واضح نہیں کہ اقبال ان کی جدید تہذیب کو الگ کر کے صرف علم اور سائنس کو ترقی یافتہ صورت میں واپس لینے کی بات کر رہے ہیں۔ جب یہ بات نہیں سمجھی جاتی تو وہ مولوی بہت یاد آتے ہیں جنہیں شروع شروع میں مغربی سائنسی آلے لاؤڈ سپیکر سے ابلیس کی صدا سنائی دیتی تھی اور اب صبح و شام کھانستے بھی اسی میں ہیں۔

مان لیا کہ اقبال کے خطبات کے مخاطب وہ مسلمان تھے جو مغربی سائنس اور فلسفے سے متاثر ہو کر "محسوس کے خوگر” ہو چلے تھے۔ مگر کیا یہ رویہ درست ہو گا کہ محسوسات کے ان بندوں کو بے حسی اور لاتعلقی کے جہنم کا ایندھن بننے دیا جائے۔ یا یہ طرز عمل درست ہے کہ انہی کی محسوسات کو ما بعد الطبیعیات سے جوڑ دیا جائے۔ آخر اقبال کے معاملے میں آپ اتنی گنجائش پیدا کرنے کو کیوں تیار نہیں جتنی گنجائش محب عارفی والے مضمون میں صفحہ ۱۲۱ پر یہ تسلیم کر کے پیدا فرما چکے ہیں کہ:

"خود قرآن بھی ہم سے کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں آنکھیں ، کان اور دل عطا کئے تاکہ تم ان کی ذریعے حق کو پہچانو ، یعنی کشف و الہام تو رہے الگ ، قرآن تو حواسِ ظاہری کو معرفت کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ اور یہ کہتا ہے کہ کائنات پر غور کرو۔ اس میں اللہ کی نشانیاں ہیں۔ یعنی قرآن کو بھی وسیلہ معرفت کے طور پر تسلیم کرتا ہے”

قرآن کی تعلیمات کے پیش نظر اگر یہی اقبال غور و فکر اور علم و نظر حتی کہ تحقیق اور تدبر کی زائیدہ سائنس سے اسی ما بعد الطبیعیات کی تصدیق تک جا پہنچتے ہیں جس کی تصدیق کے لیے آپ روایت پر اکتفا کرتے ہیں تو ان کا رویہ کیوں کر باطل ٹھہرتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ما بعد الطبیعیات کا علم اقبال کی ہاں اس لیے ممکن ہو جاتا ہے کہ بظاہر دوئی سے دوچار موجود و معقول، ناظر و منظور اور موضوع و معروض کسی بالاتر سطح وجود یا مرتبہ وجود پر وحدت میں ڈھل جاتے ہیں۔ صاحب ، اگر اقبال اپنے خطبات میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتے کہ عالم اسلام کے تیزی مغرب کی طرف بڑھنے میں کوئی خرابی نہیں تو اعتراض کی گنجائش نکل سکتی تھی مگر جب وہ ساتھ ہی خبردار کرتے ہوئے اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ کہیں اس تہذیب کی ظاہری چمک دمک راہ کی رکاوٹ نہ بن جائے اور ہم اس کے حقیقی جو ہر ، ضمیر اور باطن تک پہنچنے سے قاصر رہیں تو جان لینا چاہیے کہ یہ حقیقی جو ہر ، ضمیر اور باطن بھی ایک بالاتر سطح وجود پر وحدت میں ڈھل جاتا ہے۔

اور اب جب کہ میں یہ دونوں کتابیں بند کر کے ایک طرف رکھ رہا ہوں تو مجھے ایک اعتراف کرنا ہے۔ اور اعتراف یہ ہے صاحبو! کہ یہ مجھے پچھاڑ کر میرے سینے پر آ بیٹھی ہیں۔ ان کے مطالعہ مکمل ہوتے ہی میرے دل سے اِن کے لیے بے پناہ اُنس اُبل پڑا ہے۔ میں جتنا وقت جمال پانی پتی کی فکر و نظر کے ساتھ رہا ہوں ، لفظ لفظ اور سطر سطر سے کلام کرتا رہا ہوں ، اُلجھتا جھگڑتا یا پھر مرعوب ہوتا اور تسلیم کرتا رہا ہوں۔ زباں رواں ، دلیل مضبوط ، بات گہری۔ اپنے موضوعات سے کامل وابستگی ، یوں کہ سارے مسائل ان کی اپنی زندگی کا مسئلہ لگنے لگے ہیں ، ایک تہذیبی شخص کے زندہ وجود کا زندہ مسئلہ۔ مان لینا چاہیے کہ جہاں جہاں انہوں نے اختلاف کیا ہے ذاتیات کی بنیاد پر نہیں فکر و خیال کی بنیاد پر کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی تو وہ چلن ہے جو آج کی اردو تنقید کو درکار ہے۔ اب اگر میں ناقدین اور تخلیق کاروں کو مشورہ دوں کہ انہیں جمال پانی پتی کو پہلی فرصت میں یہ کتابیں پڑھ ڈالنا چاہییں ، بلکہ فرصت نکال کر فوراً ہی پڑھ لینا چاہییں تو یقین کیجئے گا کہ یہ میرے دل کی آواز ہے۔ شاید اس طرح ہم اپنی تنقید کو تخلیقیت سے جوڑ سکیں ، تخلیقات کے مغز سے کلام کر سکیں اور اپنے تخلیقی رویوں کو بھی با وقار بنا سکیں۔

٭:٭:٭

فیض احمد فیض :  فکر و فن اور نیا تناظر

               فیض کی شاعری اور نئے تصادم

یہ ان دنوں کا قصہ ہے کہ گذشتہ صدی اپنی آخری سانسوں پر تھی اور لوگ اسے’ دی موسٹ وائیلنٹ سنچری‘ کے نام سے موسوم کرنے لگے تھے۔ اور اب جب کہ اس صدی کے ابتدائی سال ہم پر بیت رہے ہیں کہنے والے صاف صاف کہنے لگے ہیں کہ صاحب یہ انسان اور انسانی اقدار کی سر بلندی کا نہیں ، یہ تو دہشت کا زمانہ ہے۔

دہشت کے اس زمانی عرصے میں ہمارے یقین اور ایقان کو بے یقینی اور وسوسوں کی پھپھوندی لگ چکی ہے۔

ایسے اوندھا کر رکھ دینے والے زمانے میں یقین کی دولت سے مالا مال اور اپنے خون دل میں انگلیاں ڈبو کر شعر لکھنے والے فیض کو ہم یاد کرتے ہیں اور نئے حوالوں سے یاد کرتے ہیں تو دل امنگوں اور جذبوں سے کناروں تک بھر جاتا ہے۔

پہلے تو یہ بات کیا کم اہم ہو گی کہ عین اس عہد میں کہ جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نام پر گاربیج انفارمیشن سے آج کے انسانی ذہن کو لاد کر ناکارہ کیا جا رہا ہے اور ڈس انفارمیشن کے حیلے سے ظالم حق پر اور مظلوم دہشت گرد ثابت ہو رہا ہے، ہم ایک شاعر کو یاد کر رہے ہیں۔

اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ الٹی گنگا بہانے کی کوشش لگتی ہے۔

ایک ایسی کوشش جس کی مادے کی منڈی میں کوئی قیمت نہیں ہے۔

آج کل تو دہشت دہشت کھیلنے کا زمانہ چل رہا ہے کہ اس کی آڑ میں نئی نئی منڈیاں تلاش ہو رہی ہیں یوں دہشت منڈی کی چیز ہو کر بہت اہم ہو گئی ہے۔ لہذا دوسروں کے قومی وسائل اور توانائی کے سر چشموں پر دھونس دھاندلی اور طاقت سے قبضہ کرنا جائز ہوا۔ جہاں حملہ کرنا اور افواج بھیجنا بوجوہ موقوف کرنا پڑا ہے وہاں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے دل خوش کن نعرے کی سنہری زنجیر آدمی کے گلے میں ڈالی جا رہی ہے۔ سو صاحبو ، عجب زمانہ آ لگا ہے کہ جس میں اپنی تہذیبی اقدار کا سوال قدامت پسندی اور کسی مربوط فکر اور نظریے کی بات کرنا ٹیکنالاجی کی برکات کا انکار اور بے وقت کی راگنی ہو گیا ہے۔ ایسے میں فیض کو یاد کرنا اور اس کی اس شاعری کو یاد کرنا جو سامراج پر کاری ضرب لگاتی ہے، کسی کی بھی پروا کیے بغیر ، واقعی بڑے حوصلے کی بات ہے۔ حوصلے کا یہ قرینہ تو لگ بھگ فیض کے اس کہے پر چلنے کی کوشش سا ہو گیا ہے کہ:

متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے

کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے

نئے وقت کے تناظر میں فیض کی شاعری کا مطالعہ میرے لیے بہت پر لطف رہا ہے۔ دیکھیے ایک طرف نام نہاد روشن خیالی اور مجہول اعتدال پسندی کے پر فریب نغمے گونج رہے ہیں اور ادھر فیض کی شاعری ہے جس میں در زنداں پر صبا کی دستک کی بات ہوتی ہے۔ ایک طرف استعمار کے لاڈلے اپنے محبوب کی ہر قاتلانہ کروٹ پر سبحان اللہ اور ہر ٹھوکر پر حسبی اللہ کہتے نہیں تھک رہے اور دوسری طرف فیض کا فرمانا ہے :

بول ، کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول ، زباں اب تک تیری ہے

دیکھ کہ آہنگر کی دکاں میں

تند ہیں شعلے سرخ ہیں آہن

کھُلنے لگے قفلوں کے دہانے

پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن

بول ، یہ تھوڑا وقت بہت ہے

جسم و زباں کی موت سے پہلے

بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک

بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

فیض کا معاملہ یہ تھا کہ اس کے ہاں جسم کی موت اور زبان کی موت دو الگ الگ کیفیتیں تھیں جب کہ اس نئے عہد کے جملہ وارثان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے لیے زبان کی موت سرے سے کوئی حادثہ ہی نہیں ہے۔ اور اس پر ایک اور سانحہ یہ گزرا ہے کہ ایسے میں ہمیں سمجھایا جا رہا ہے کہ زبانیں اہم ہوتی ہیں نہ ان کے بولنے والے۔ کہ اب صرف منڈی کی زبان اور منڈی کے آدمی کا چلن ہو گا۔ ہمیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ کسی نظامِ فکر کی بات کرنا یا کسی نظام حیات سے وابستہ ہونا سب لا یعنی اور فرسودہ باتیں ہیں۔ ایسے میں فیض کو پڑھنا اور اس انسان کی بابت سوچنا جو مادے اور منڈی کے اس زمانے میں کائنات کے مرکز سے دھکیل کر حاشیے پر بھیج دیا گیا ہے اور ان افکار کی بابت سوچنا جس میں آدمی کا آدمی سے جڑنا اہم ہو جاتا ہے۔ آدمی جو فرد بھی ہے اور اجتماع سے جڑ کر انسانیت بھی تشکیل دیتا ہے۔ فیض کی شاعری ہمیں اسی انسانیت پر حملہ آور ہونے والے سامراج کے خلاف بغاوت پر اکساتی ہے۔یہ شاعری بتاتی ہے کہ سامراجیت ہر اک سیاہ شاخ کی کماں سے جتنے بھی تیر چلائے گئے وہ سب انسانیت کے جگر میں پیوست ہو کر ٹوٹے ہیں۔ تاہم زندہ معاشروں کا یہ چلن رہا ہے کہ انہوں نے ان تیروں کو اپنے جگر سے نوچ کر تیشہ بنا لیا ہے۔

ماننا پڑے گا کہ فیض اپنے دھیمے مزاج اور خود ضبطی کو چلن بنا لینے کی وجہ سے ان ترقی پسندوں سے بہت مختلف ہو گئے تھے جو اپنے بلند آہنگ شاعری سے فلک میں شگاف ڈالنے اور اپنی تدبیروں سے اسی آسمان میں تھگلی لگانے کے جتن کرتے کرتے ہلکان ہوئے۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ فیض کو رومانی رویہ عزیز رہا مگر اس سے کون منکر ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں مسلسل زندگی کی تلخ حقیقتوں کی طرف لپکتے رہے ہیں اور اسی لپک کی للک کو اپنے تخلیقی وجود کا حصہ بناتے رہے ہیں۔ اسی علاقے سے انہوں نے اپنی شاعری کے لیے جمالیاتی قرینے اخذ کیے اور یہ ایسے قرینے ہیں کہ ہم جیسے فیض کے ہاں دو آوازیں الگ سے شناخت کرنے والے بھی ان کی شاعری کے کشتگاں میں شامل ہو گئے ہیں۔ فیض نے آہنگ کے دیباچے میں مجاز کو انقلاب کا مطرب کہا تھا اور کسی نے خوب کہا ہے کہ انقلاب کے مطرب تو خود فیض تھے۔ ایک نئی طرز فغاں ایجاد کرنے والے۔ اور ایک ایسے انقلابی شاعر کہ جس کی شاعری پڑھتے ہوئے دل جھوم جھوم اٹھتا ہے اور قدموں میں مقتل کی طرف اٹھنے کا حوصلہ آ جاتا ہے:

رختِ دِل باندھ لو ، دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں ، یارو چلو

یا پھر

شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر

جا بجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور

چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر

ڈوبتے، تیرتے، مرجھاتے رہے، کھلتے رہے

رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے

یہیں بتاتا چلوں کہ رات فیض کی شاعری کا ایک مرکزی استعارے کی صورت ظاہر ہوتی ہے جس کے مقابل وہ صبح اور طلوع سحر کو لے کر آتے رہے ہیں۔

رات باقی تھی ابھی سر بالیں آ کر

چاند نے مجھ سے کہا ، جاگ سحر آئی ہے

جاگ اس شب، جو مئے خواب ترا حصہ تھی

جام کے لب سے تہ جام اتر آئی ہے

ہاں تو میں فیض کی شاعری کی جمالیاتی سلطنت کی بات کر رہا تھا اور اسی باب میں مجھے یہ کہنا ہے کہ فیض نے اپنی تہذیبی روایت سے ملنے والی زبان اور تمثالوں کو نئی معنویت کی مہک اور تاثیر کی کرامت عطا کی تھی۔ میں مانتا ہوں کہ کسی بھی فرد کی شاعری میں مضامین کی تکرار بہت کھٹکتی ہے۔ فیض کے ناقدین اس جانب انگشت نمائی کرتے آئے ہیں مگر میرا کہنا یہ ہے کہ فیض نے اپنے جمالیاتی وسیلوں سے دہرائے ہوئے مضامین کو الفاظ کے تخلیقی استعمال اور لہجے کو گداز رکھ کر اتنا مختلف بنا لیا تھا کہ پڑھنے والے کے سیدھا دل پر ہاتھ پڑتا ہے۔ فیض کے اسی ہنر کا قرینہ ہے کہ روایت کے خزینے سے وہ اپنی محبوبہ کے لیے رسوا ہوتے عاشق کو نکالتے ہیں اور اسے انقلابی بنا دیتے ہیں۔ یہاں گوشت پوست محبوبہ بھی اپنا منصب بدل کر انقلاب کی ساعت سعید ہو جاتی ہے۔ ایک طرف فیض کے ہاں رقیب روسیاہ، سامراجیت کی علامت بنا ، محتسب اور شیخ جی جیسے سامراج کے ہرکارے ٹھہرے، جنوں سماجی انصاف کی للک ہوا ، عقل عیار عسکری نظام سے سمجھوتے کا نشان بن گئی اور وصل کے معنی انقلاب ہو گئے تو دوسری طرف فیض کے ہاں یہ قرینہ بھی ملتا ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے ان معنوں اور کیفیات کو سرے سے تلف نہیں ہونے دیتے جو ہماری تہذیبی اور شعری روایت کے اندر ان الفاظ اور تراکیب سے وابستہ چلے آتے ہیں۔

نہ سوالِ  وصل، نہ عرضِ  غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں

تیرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے

فیض کی شاعری کا فیضان یہ بھی ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے ایک عجب طرح کے درد کی لذت عطا ہوتی ہے۔ وہ وجود جو لمحہ لمحہ منہدم ہو رہے ہوتے ہیں ، توانائی اور قوت کی مئے سے مست ہو کر جھومنے لگتے ہیں۔ اس مئے کی مستی میں کوئی بھی محرومی یا نارسائی ، رسوائی یا دل شکستگی کا سامان نہیں ہوتی، عزم اور حوصلے کا نشان ہو جاتی ہے۔اسی شاعری کا اعجاز ہے کہ زنداں کا پھاٹک محبوب کے آستان کا دروازہ بن جاتا ہے اور احترامِ آدمیت کی منزل ، وصل جیسے لطف کا بدل ٹھہرتی ہے۔ میں نے کہا نا کہ فیض کی شاعری میں ظلم ، ظالم، اہل جنوں ، اہل ہوس، مدعی، منصفی، طواف ، جسم و جان ، فلک ، فراق جیسے بظاہر روایتی الفاظ آئے ہی چلے جاتے ہیں اور یہ بھی کہہ آیا ہوں کہ فیض کا سوزِ دروں اور مزاج کی نرمی پا کر یہ الفاظ ایک نفاست اور خاص تخلیقی قرینے سے متن کا حصہ ہوتے ہیں جو صرف فیض ہی سے مختص ہے۔ یہاں اپنی بات دہر ا کر یہ اضافہ کرنا مقصود ہے کہ اس تخلیقی قرینے نے فیض کی شاعری میں اپنی تہذیبی زندگی کے بھید کو بھی ایک معنیاتی پرت کے طور محفوظ کر دیا ہے۔

فیض کے ہاں موضوع سخن ہو جانے والی زنداں کی ایک شام ہو یا زنداں کی ایک صبح ، مجھے کسی نہ کسی حوالے سے آج کے عہد سے جڑی ہوئی لگتی ہے۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ زینہ زینہ شام اتر چکی ہے۔ ہمارے روشن تہذیبی وجود کو لمحہ لمحہ قدم جمانے والی رات نگل لینے کے جتن کر رہی ہے۔ ہمارا تہذیبی وجود کیا خود انسانیت کو منڈی کی معیشت چرکے پر چرکا لگا رہی ہے۔ تہذیبی مکالمے کا فلسفہ مات کھا رہا ہے اور تہذیبی تصادم کی تھیوری کا الاؤ خوب خوب دہکایا جا رہا ہے۔ ایسے میں فیض کی شاعری کے ساتھ جڑنا ایک لحاظ سے سیاہ رات کی لمبی سرنگ کے دوسرے کنارے پر موجود اس روشن صبح کی امید سے جڑنا ہے جسے بہرحال ایک نہ ایک روز انسانیت کے بخت کا مقدر ہونا ہے۔

فی الاصل فیض اپنی زندگی میں ہی ان شاعروں میں پہچانے جاتے تھے جو اپنے بخت کا مقدر پا لینے کے لیے جہد مسلسل پر یقین رکھتے تھے تاہم وہ ان شاعروں سے الگ پہچانے جانے لگے تھے جن کے ہاں تجربہ اور حقیقت سامنے کی چیز ہیں۔ فیض کا قرینہ یہ رہا ہے کہ وہ اسے اپنے دھیمے رومانی مزاج کے معطر پانیوں سے دھو کر اور اپنے جذبوں کی نرم نرم مگر مسلسل آنچ سے تپا کر یوں چمکا لیا کرتے تھے کہ مصرعے کی تاثیر بدل جاتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ سحر، رات ، ظلمت، سویرا، مہتاب، ستارے ، نور ، افلاک جیسے عام سے الفاظ کا ذخیرہ فیض کی شاعری میں عام نہیں رہتا، اپنی الگ جمالیاتی قدر بنا لینے کی وجہ سے بہت اَہم ہو جاتا ہے۔ یہی لطیف جمالیاتی قدر، اجتماعی فرد سے جڑت اور انسانیت کش سامراج سے شدید نفرت اردو شاعری کے باب میں فیض کی عطا ہے اور یہ ایسی عطا ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔

               فیض ، اُردو افسانہ اور حقیقت نگاری

آپ کو فیض احمد فیض کا منشی پریم چند کی حقیقت نگاری کو نہایت بے دردی سے مسترد کر دینا تو یاد ہی ہو گا۔ نہیں تو یوں ہے کہ کچھ اشارے کر کے آپ کی یادداشت چمکائے دیتا ہوں۔ یہ گفتگو آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ۱۸ جون ۱۹۴۱ ء کو نشر ہونے ہوئی تھی اور فیض نے آغا عبدالحمید کو اس کے پریم چند کے حوالے سے "مجلس” میں چھپنے والے مضمون پر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ تم نے تو اس تحریر میں پریم چند کو ٹالسٹائی بنا دیا اور دستوئیوسکی کا یوں ذکر کیا کہ وہ بھی چھوٹا معلوم ہونے لگتا ہے۔ آغا عبدالحمید نے لاکھ وضاحتیں کی اور دلیلیں دیں مگر فیض کا اصرار تھا کہ پریم چند کی حقیقت نگاری بہت حد تک محدود ہے۔ اس کے مطابق حقیقت ایک جامع چیز ہوتی ہے اور اس کی وضاحت وہی شخص کر سکتا ہے جس کے ذہن میں سماج کا مجموعی تصور موجود ہو جبکہ پریم چند کے ذہن میں یہ تصور موجود ہی نہیں تھا۔ پریم چند صرف ایک ہی طبقے کی زندگی کو نمایاں کر کے دکھانے کے قابل تھا۔فیض کا اعتراض یہ بھی تھا کہ پریم چند زندگی کے بہت سے پہلوؤں کے متعلق نہ صرف خاموش رہتا تھا بلکہ ان سے دانستہ چشم پوشی بھی کر لیا کرتا تھا۔یوں فیض نے صاف صاف فیصلہ سنا دیا تھا کہ منشی پریم چند اور جو کچھ بھی ہو حقیقت نگار ہر گز نہیں کہلایا جا سکتا۔

یا د رہے یہ پریم چند کی وہی حقیقت نگاری ہے جس کی نظیر سید سبط حسن کو کہیں اور نہیں ملتی تھی۔ افکار تازہ میں آپ نے اس کی وہ تحریر یقیناً دیکھی ہو گی جس میں سبط حسن نے پریم چند کی طرف سے پیش کیے گئے کسانوں کی آزادی کے تصور کو بہت سراہا اور اس کی تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے اس کی مراد سیاسی یا اقتصادی آزادی نہیں بلکہ تخلیقی عمل کی آزادی یعنی بشری آزادی تھی۔ سید سبط حسن کا موقف تھا کہ پریم چند کا یہ تصور روسو کی رومانیت نہیں بلکہ عین حقیقت شناسی تھی۔ اس نے اس کو ایک عظیم فن کار کی پرواز تخلیق کی معراج قرار دیا تھا۔ پریم چند کے ہیگل اور مارکس کے فلسفہ بیگانگی سے واقف ہونے کی بابت سید سبط حسن کو شک تھا تاہم وہ اس پر یقین رکھتا تھا کہ پریم چند کسانوں کے آزاد تخلیقی عمل کا موازنہ پرولتاریہ کے غیر آزاد تخلیقی عمل سے کیا کرتا تھا جس نے محنت کرنے والوں کو ہر قسم کی روحانی اور جسمانی آزادی سے محروم کر کے سرمائے کا غلام بنا دیا تھا۔ ایک ہی طبقے کی بھرپور نمائندگی پر پریم چند کو سید سبط حسن کا عین حقیقت شناس کہنا جب کہ فیض کا اس طرز عمل کو سراسر ناقص قرار دے کر اسے حقیقت نگار ہی نہ ماننا یقیناً اب آپ کو بھی میری طرح کھلنے لگا ہو گا۔

صاحب خدا لگتی کہوں تو افسانے میں حقیقت کا تصور شروع سے وہ نہیں رہا ہے جو نئے نئے سائنسی اور مادی نظریوں کے انسانی نفسیات اور حواس پر شب خون مارنے کے بعد ہو گیا ہے۔ افسانے کا فسوں تو مادی حقیقتوں سے ذرا فاصلے پر ہی اپنا رنگ جماتا تھا مگر عین بیسویں صدی کے آغاز میں یہ احساس شدید ہو گیا کہ انسان عقلی اور مادی سہاروں اور حوالوں کے بغیر بہتر طور پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ زندگی کی اس مجہول بہتری کے تصور کی زد میں انسان کی روحانی زندگی آ گئی اور سچ پوچھیں تو ایک اعتبار سے مادی زندگی کے نئے تصور نے انسانی کے تخلیقی وجود کو ہی تلپٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ انسانی تصور کی اڑان میں سو طرح کے رخنے پڑ چکے تھے۔ اردو افسانے کو آغاز ہی میں اسی نئے بنتے بگڑتے انسان سے معاملہ درپیش تھا اردو تنقید عقلی اور اصلاحی رویوں پر زور دے رہے تھی لہذا افسانہ بھی ادبدا کر ادھر کو چل پڑا۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ سائنسی رویے کلی طور پر انسانی جمالیات کا حصہ نہیں ہو سکتے اور اس کا سبب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ سائنسی رویے اور مادی حقیقتیں سریت کو سرے سے مانتی ہی نہیں ہیں جب کہ سریت تخلیقی عمل کے محل سرا کا صدر دروازہ ہے۔

اچھا، ایسا بھی نہیں ہے کہ میں حقیقت کے سائنسی اور مادی تصور کو ادبی جمالیات سے کلی طور پر ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے تخلیقی عمل سے بارہ پتھر باہر کر رہا ہوں بلکہ سچ یہ ہے کہ میں افسانے کو حقیقت کے اس تصور کی طرف کھینچ لانے والوں کا ایک لحاظ سے احسان مانتا ہوں کہ انہوں نے انسانی لاشعور اور شعور میں ایک نئے طرح کے مگر مثبت تعلق کا علاقہ دریافت کرنے کی راہ دکھا دی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مافوق الفطرت واقعات اردو افسانے سے بے دخل ہوتے چلے گئے۔ تاہم سید سبط حسن اور فیض دونوں حقیقت جس تصور کو اہم گردانتے رہے ہیں میری نظر میں وہ حقیقت کا بہت سطحی اور محدود تصور بنتا ہے۔ "ادب اور حقیقت ” میں حسن عسکری نے بھی حقیقت کے اس تصور کو رد کیا تھا اس کا کہنا تھا کہ آرٹسٹ کے لیے حقیقت نہ تو چھپر ہیں ، نہ محل نہ کمیونسٹ کا اعلان نامہ۔اس کے لیے تو حقیقت ایک احساس ہے، ایک سنسنی، ایک سرمستی، ایک ہسٹریا کا دورہ ، یا وہ جسے شکسپیئر نےFine Frenzyکہا تھا۔ ’ حسن عسکری نے اس معاملے میں صاف صاف کہہ دیا تھا کہ آرٹسٹ کے لیے شعور اور حقیقت ایک چیز ہے۔یوں دیکھیں تو حقیقت شناسی کے حوالے سے سید سبط حسن اور فیض کے ہاں حقیقت کے جو اختلافی علاقے دریافت ہوئے ہیں وہ اور بھی معمولی نوعیت کے لگنے لگتے ہیں۔ تخلیقی سطح پر حقیقت نگاری یہ نہیں ہے کہ ایک لکھنے والے نے زندگی کے کن کن گوشوں پر نظر کی اور کن کن طبقوں کو اہم جانا بلکہ میرے نزدیک تو حقیقت افروزی اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے لکھنے والا تخلیقی عمل کے دوران ایک بیکراں احساس کے زیر اثر ان عمیق جذبوں کو جگانے میں کامیاب ہو جائے جواس کی دھڑکنوں کو کائنات کے سینے میں گونجتی دھڑکنوں سے ہم آہنگ کر دے۔

انسانی فہم کے لیے اس کے ہونے کا احساس فی الاصل وہ علاقہ بنتا ہے جو بھیدوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہونے کے مادی تصور پر قناعت کرنے والے افسانہ نگار حقیقت کے اس خارج سے جڑ جاتے ہیں جو بقول حسن عسکری شعور کا علاقہ ہیں۔ حقیقت کے اس جزوی علاقے کو اپنی کل کائنات بنا لینے والوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ نشاط ابدی سے بے گانہ ہو جاتے ہیں۔ جہاں جہاں اور جس جس نے حقیقت کے اس محدود تصور کے زیر اثر افسانہ نگاری کی وہ واقعہ نگاری کی سطح پر اتر آیا اور اس سطح کے نیچے جس روح کو تخلیقی عمل سے جاری ہو کر کائناتی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہونا تھا ادھر متوجہ ہی نہ ہو سکا۔ یہ حقیقت سہی کہ انسان کو جسمانی سطح پر موت سے ہمکنار ہونا ہوتا ہے اور یہ بھی بجا کہ انسان کو اس موت کے مکروہ پنجے سے نہیں بچایا جا سکتا مگر کیا اس حقیقت کے زیر اثر یہ بھی لازم ہو گیا ہے کہ ہم انسان کے نصیب میں خود ہی تخلیقی، جمالیاتی اور روحانی موت بھی لکھ دیں۔فنا کے تصور کے ساتھ بقا کے تصور کو جوڑ لینے سے مادی حقیقتوں کی نفی نہیں ہوتی تاہم اس حقیقت کی محدودیت ختم ہو جاتی ہے۔ جو جو افسانہ نگار حقیقت کے محدود تصور کو غچہ دے کر کائناتی حقیقتوں سے جڑ گیا اس کے ہاں افسانے کا بیانیہ اکہرا نہیں رہا …. اور یہی افسانے کی حقیقت نگاری ہے۔

               فیض :فکر اور تنقید

اقبال کے بعد عوامی سطح پر سب سے زیادہ توقیر پانے والے فیض احمد فیض کے بارے میں اگر میں یہ کہہ دوں کہ وہ بہت بڑے تنقید نگار بھی تھے تو خدا لگتی کہوں کہ یہ بات قرین انصاف نہ ہو گی۔ میں بڑی حد تک خود فیض صاحب کی اُس بات سے متفق ہوں جو انہوں نے ” میزان” کا دیباچہ تحریر کرتے وقت لکھ دی تھی، یہی کہ: ” ادبی مسائل پر سیر حاصل بحث کے لیے نہ کبھی فرصت میسر تھی نہ دماغ۔ ریڈیو پر اور مختلف محفلوں میں ان مسائل پر باتیں کرنے کے مواقع ملتے رہے ، یہ مضامین ان ہی باتوں کا مجموعہ ہیں ، اس لیے ان میں سخن علماء سے نہیں ، عام پڑھنے لکھنے والوں سے ہے۔جو ادب کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ "

آگے چل کر مزید لکھتے ہیں :

” بہت سی باتیں جو اس وقت(یعنی جوانی کے دنوں میں )بالکل نئی تھیں اب پامال نظر آتی ہیں اور بہت سے مسائل جو ان دنوں سادہ معلوم ہوتے تھے اب کافی پیچیدہ دکھائی دیتے ہیں۔”

یاد رہے فیض نے یہ سب کچھ اپنے مضامین کے مجموعے "میزان” کی پہلی اشاعت کے موقع پر یعنی 1960ء میں لکھا تھا اور لکھتے ہوئے پچیس سال پہلے والی جوانی کو یاد کیا تھا۔اس بیان کو دیکھیں تو "” میں چھپنے والے بیشتر مضامین کا دورانیہ 1935ء کے آس پاس کا بننا چاہیے۔ 1911ء میں پیدا ہونے والے فیض 1935ء میں عمر کے چو بیسویں سال میں تھے اور انگریزی کے استاد کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے تھے۔ تب تک وہ جو کا م کر چکے تھے اسے یوں گنوایا جا سکتا ہے :

=حفظ قرآن کی کوشش، اور مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے عربی ، فارسی اور اردو کی تعلیم، جس نے بقول فتح محمد ملک فیض کی شاعری کا لہجہ مارکسی جدلیات پر ایمان لانے کے با وصف مسلمان رکھا۔

=شمس العلماء میر حسن ناز سے عربی فارسی میں دست گاہ، ایم اے انگریزی کرتے ہوئے ان کے اپنے بیان کے مطابق انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ باقی یورپی ادب اور روس کے کلاسیکی ادب کا مطالعہ۔ اور اس قدر ڈوب کر مطالعہ کہ نظروں کے سامنے روس کی پوری دنیا گھوم گئی۔

1935ءہی وہ سال بنتا ہے جب استاد فیض نے اپنے ایک ساتھی سے کیمونسٹ مینی فیسٹو لے کر پڑھا تھا اور اتنا پسند آیا تھا کہ وہ اسے پلٹ پلٹ کر پڑھتے رہے اور ہزار جان سے اس پر فدا ہوتے رہے۔”مہ و سال آشنائی” میں لکھتے ہیں :”انسان اور فطرت، فرد اور معاشرہ، معاشرہ اور طبقات، طبقے اور ذرائع پیداوار کی تقسیم، ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتے ، معاشرے کا ارتقائ، انسانوں کی دنیا کے پیچ در پیچ اور تہ بہ تہ رشتے ناطے، قدریں ، عقیدے فکر و عمل وغیرہ وغیرہ کے بارے میں یوں محسوس ہوا کہ کسی نے اس پورے خزینۂ اسرار کی کنجی ہاتھ میں تھما دی ہے "

فیض کے "مہ و سال آشنائی "والے اس بیان کو سامنے رکھا جائے تو” میزان” کے دیباچے والی جوانی میں کچھ اور سال جمع کرنے پڑتے ہیں۔ "میزان” کے بعض مضامین کے آخر میں درج تاریخیں ان اضافی سالوں کا تعین کر دیتی ہیں اس ضمن کا آخری سال 1961 بنتا ہے۔ گویا فیض نے یہ مضامین پچیس سے پچاس سال کے عرصے میں لکھے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ فیض کی شاعری کی جوانی کا یہی دورانیہ بنتا ہے۔ یاد رہے اس بیچ وہ 1936ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام میں بھر پور حصہ لے چکے تھے فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کپتان بننے اور میجر کے عہدے تک پہنچنے کے بعد 1947ء میں مستعفی ہو چکے تھے اور پھر اِن تحریروں سے واضح ہونے والے آخری سال کے قریبی عرصے میں پاکستان آرٹس کونسل لاہور کے سیکرٹری ہو گئے تھے۔تاہم اسے بھی دھیان میں رکھنا ہو گا کہ اسی دورانئے میں ان کا شعری مجموعہ "دست صبا ” شائع ہو چکا تھا”مشہور مقدمہ سازش ” اسیری اور اس کے تذکرے ” زنداں نامہ "کے سبب وہ بہت شہرت بھی پا چکے تھے۔

یہ سارا پس منظر نگاہ میں رکھیں گے تو ان مضامین کی تفہیم بہت سہل ہو جائے گی۔ سہل ہونے کی بات میں نے فیض کے اپنے شخصی ہیجانات اور ترجیحات کو سمجھنے کے حوالے سے کی ہے ورنہ فیض نے اپنے سارے تنقیدی مضامین اور دیباچوں کو حد درجہ سادہ رہنے دیا ہے ، اتنا سادہ کہ انہیں پڑھتے ہوئے تخلیقی عمل کی اِسراریت پر جما جمایا ایمان کہیں کہیں سے اُچٹنے لگتا ہے۔ اسے جملہ معترضہ ہر گز نہ جانیے گا کہ یہ کھٹکا وہاں وہاں ہوتا ہی رہتا ہے جہاں جہاں فیض اس طرح کے بیان دیتے ہیں :”…….. ترقی پسند ادب کا پہلا اور آخری مقصد بنیادی سماجی مسائل کی طرف توجہ دلانا ہے (ان مسائل میں غالباً طبقاتی کشمکش اور دنیوی آسائشوں کی تقسیم سب سے زیادہ اہم ہیں )اور سماج میں ایسے فکری یا عملی رجحانات پیدا کرنا جن سے ان مسائل کا حل نسبتاً آسان ہو جائے ” (ادب کا ترقی پسند نظریہ)

ایک ترقی پسندانہ فکر کے علم بردار کی حیثیت سے فیض کا بیان تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس تخلیقی عمل کے کیا معنی بنتے ہیں جس میں امیجز ٹھوس نہیں رہتے سیال ہو جاتے ہیں ، نورانی سی لکیریں یا  پھر محض تصویری ہیولا بناتے ہیں۔ اور ان علامتوں کا کیا کرنا ہو گا جن کے ابعاد پھیلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اندر ہی اندر ایک پیچیدہ معنیاتی نظام وضع ہونا شروع ہو جاتا ہے جو روح کے ساتھ جڑ کر باہر کے سارے مناظر کو ایسی تصویریں بنا دیتا ہے جن کی کوئی توجیح ان عمرانی مطالبات سے نہیں جڑتی جن کا فیض صاحب نے مطالبہ کیا ہے تو کیا ایسے میں باطن کے اس ارفع تجربے کی بنیاد پر اپنے قاری کو جمالیاتی فرحت اور باطنی ارتفاع سے ہمکنار کرنے کا سارا عمل تخلیقی سطح پر مردود ٹھہرے گا۔

ایسے میں فیض کی کئی خوب صورت نظمیں مجھے متوجہ کرنے لگی ہیں جو ترقی پسندانہ ادب کی فراہم کی گئی تشریح کو لائق اعتنا نہ جانتے ہوئے بھی اپنے قاری کو اُس کی داخلی اور حسی پس ماندگی سے نکال کر ایک ارفع درجے کی جمالیاتی فرحت سے ہمکنار کرتی ہیں۔ میں ایسی نظموں کو ادب کے اصل وظیفے کی رو سے اس ادب سے زیادہ ترقی پسندانہ سمجھتا ہوں جس میں قاری کو انگیخت کر کے ایک خاص علاقے کی طرف ہانکا جاتا ہے۔ فیض کی نظم "شام” "تنہائی ” اور "زنداں کی ایک صبح ” اس کی عمدہ ترین مثالیں ہیں۔ ایسی نظموں کے ساتھ ایسی غزلوں کی طرف بھی دھیان جاتا ہے جن کے ذریعے فیض غزل کے کلاسیکی اور رومانوی رنگ کو زندہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ہر کہیں ان کی شخصیت کے سوز و گداز اور محسوساتی شدت نے تخلیقی عمل کو ایک لطیف جمالیاتی حسیت کا حصہ بنا دیا ہے۔

ادب کی جس تنقیدی تھیوری کا چلن فیض صاحب عام کرنے جا رہے تھے اس نے فراز تک آتے آتے بہت سے شاعروں کو گمراہ کیا اور اس نے خود فیض کی شاعری کو بیک وقت دو متضاد رویوں کے مقابل بھی کر دیا۔ میں دور نہیں جاتا صرف ایک مثال سامنے رکھتا ہوں اور یہ مثال پروفیسر فتح محمد ملک کی ہے جن کے دو مضامین میرے سامنے ہیں۔ ایک میں فیض کی شاعری سے دو آوازیں برآمد کی گئی ہیں اور یہاں تک کہہ دیا گیا کہ فیض مشق سخن کے دور میں ہی اپنی ذات کے بنیادی تقاضوں کو سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو شاعری کے رائج الوقت اشتراکی عقائد کے سانچہ میں ڈھالنا شروع کر دیا تھا۔ اور یہ کہ جوش کی طرح فیض کی بھی ایک نہیں دو شخصیتیں ہیں۔ اور بعد ازاں جب یہی بات "شام شہر یاراں ” کی اشاعت پر انیس ناگی نے اپنے مضمون”بوڑھے شاعر کا المیہ” میں کہی تو دفع شر کے لیے پروفیسر ملک کا جو مضمون ” فیض اور برہم نوجوان کا المیہ” سامنے آیا اس میں ان دو آوازوں کو شاعر کی اپنی زندگی اور ذات سے گرہ لگا کر ایک کر دیا گیا۔

فیض "شاعر کی قدریں ” میں کہتے ہیں کہ آرٹ کی قطعی اور واحد قدر صرف جمالیاتی قدر نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شعر سے جو ہم جمالیاتی فرحت محسوس کرتے ہیں وہ شاعر ی کی دوسری قدروں سے متاثر ہوتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شاعر کا تجربہ یعنی مضمون اور اس کا پیرایۂ اظہار ایک ہی پہلو کے دو مظہر ہیں۔فیض کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں ہے تاہم جب وہ جمالیاتی قدر کو سماجی اقدار  کا سا بنا کر افادی فعل جیسا قرار دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اس افادیت سے جمالیاتی قیمت بڑھتی ہے تو لامحالہ اختلاف کی گنجائشیں نکل آتی ہیں۔

"ادب اور جمہور” کے عنوان سے لکھتے ہوئے وہ ادیب کے ذہن کو ایسا آئینہ قرار دیتے ہیں جس میں سماجی حقیقت نگاری اور اس کا معاشرتی ماحول مجموعی طور پر منعکس ہوتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادب کے بیشتر محرکات خارج میں ہوتے ہیں لیکن وہ اپنا کیمیائی عمل تو انسان کے باطن میں کرتا ہے ایسے میں ادب کا تخلیقی وجود صرف آئینہ نہیں رہتا۔ فیض کی بات مان لی جائے تو اس دوسری عمل کی نفی ہو جاتی ہے جو خارج کو پہلے تلپٹ کرتا ہے نوچتا کھسوٹتا ہے ، گالتا اور پیستا ہے اور پھر اس خام مواد سے ایک نئے منظر نامے کو تخلیق کرتا ہے۔

"ہماری تنقیدی اصطلاحات” میں اپنے تنقیدی وسائل کی نشاندہی کی گئی ہے تشبیہ، استعارہ، سلاست روانی، بے ساختگی، شوخی، ظرافت، سوز و گداز، تصوف، مضمون آفرینی ، معاملہ بندی، بندش، قافیہ، صنائع و بدائع یہ وہ تنقیدی اصطلاحات ہیں جو اس مضمون میں زیر بحث آئی ہیں۔”فنی تخلیق اور تخیل” میں فیض نے یہ ثابت کیا ہے کہ تخیل بجائے خود ایک تخلیقی عمل ہے۔ ” خیالات کی شاعری ” والے مضمون میں وہ اطلاع دیتے ہیں کہ اردو شاعری میں بحیثیت مجموعی خیالات کا عنصر دن بدن زیادہ ہوتا جا رہا ہے اور وہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس سے شاعر زیادہ سنجیدہ اور زیادہ ذمہ دار ہو چلے ہیں۔ انہیں جذبات کی صحت پر اعتماد نہیں رہا۔ بات جذبات اور خیالات کے متناسب امتزاج تک رہتی تو شاید نہ کھلتی۔ "موضوع اور طرز ادا” کے باب میں وہ لکھتے ہیں کہ اچھے ادب میں موضوع اور طرز ادا ، اصل میں ایک ہی شے کے دو پہلو ہوتے ہیں اور ان میں دوئی کا تصور غلط ہے۔ جس امتزاج کی توقع "جذبات اور خیالات” کے باب میں کی جا رہی تھی وہ موضوع اور طرز ادا کے حوالے سے پوری طرح موجود ہے۔فیض بجا طور پر کہتے ہیں کہ "موضوع بغیر خوبیِ اظہار کے ناقص اور اظہار خوبی موضوع کے بغیر بے معنی ہے۔ "

فیض قومی تہذیب کی تشکیل کو بہت اہم گردانتے ہیں "پاکستانی تہذیب کا مسئلہ” ان کے نزدیک یہی ہے کہ قومی مقام کو پہچاننے میں کوتاہی ہو رہی ہے۔ ایک اور مضمون میں ہر عہد کے نئے ادب کے بابت وہ کہتے ہیں کہ سماجی عروج و  زوال کے ساتھ ساتھ زبان اور ادب کو بھی نشیب و فراز کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کا نقطہ نظر ہے کہ اچھے ادب کی تخلیق کے لیے اور لوازمات کی علاوہ انفرادی اور اجتماعی ہیجان کا وجود لازمی ہے۔ایک اور جگہ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارے بیشتر نئے شعراء کا بہترین کلام وہی ہے جو ان کے اوائل سخن میں سے ہے۔ یاد رہے یہ وہی الزام ہے جو بعد ازاں وزیر آغا نے خو د فیض پر لگا یا تھا انہیں فیض کی ابتدائی شاعری میں تمثالوں کی تازگی ، الفاظ، نیز لفظی تراکیب اور ان کا لہجہ منفرد لگا مگر بعد کی شاعری میں ان کے مطابق فیض نے کلاسیکی غزل کی امیجری اور لفظیات کا کلیشے کی صورت استعمال کیا۔

فیض کے بارے میں یہ متضاد آراء در اصل ان کی تنقیدی معتقدات کے وسیلے سے مسلسل سامنے لائی جاتی رہی ہیں۔ معاف کیجئے کہ میں ڈاکٹر آفتاب احمد کے اس کہے کو گمراہ کن سمجھتا ہوں کہ فیض کو مکمل سمجھنے کے لیے فیض کی شعری تخلیقات کے ساتھ ساتھ ان کے تنقیدی معتقدات کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ فی الاصل معاملہ یہ ہے کہ فیض کے یہ تنقیدی مضامین ان کی شاعری کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ وہ اسرار جو خود فیض کی شاعری کو بقول کسے زبان پر تیر جانے والی بادۂ شیراز بنا دیا تھا وہ تو فیض کے ان مضامین میں کھلتا ہی نہیں ہے تاہم ان کی لفظیات اور تراکیب کو ہی کو سب کچھ سمجھ لینے والے فکری فقروں کی گمرہی کا سامان ان میں سے خوب خوب نکلتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فیض کی شاعری کو پڑھتے ہوئے تو ان کے دولخت ہونے کا تاثر دھیما دھیما اُبھرتا ہے جب کہ ان کے نظریات اور ان کی تنقید پیش نگاہ ہو تو اس تاثر کو ان کی ساری شاعری پر پھیلا دینا پڑتا ہے۔

فیض کا اصل امتیاز اور ان کی بے پناہ مقبولیت کا سبب کچھ لو گوں کے قریب ان کی شخصیت کا گلیمر ہو تو ہو میرے نزدیک یہ ہے کہ فیض نے موضوع اور طرز ادا کا امتزاج تلاش کیا اور اپنے ادب کے ان تخلیقی وسائل کو بروئے کار لائے جن کا تذکرہ وہ "ہماری تنقیدی اصطلاحات” والے مضمون میں کرتے ہیں۔ انہوں نے قومی تہذیب کی تشکیل کی سعی بھی کی اور کلاسیکی غزل کی علامات کو اسی تہذیبی تشکیل کے لیے نئی معنویت دی یوں کہ وہ اپنی جڑوں اور روایات کے ساتھ جڑے رہے۔ فیض غالب کے طرف دار رہے اور اقبال کی روایت کو ایک سطح پر اپنایا بھی یوں دونوں کا ایک عجب امتزاج ان کے تخلیقی وجود کا حصہ ہو گیا جسے مارکسیت کا تڑکا بھی میسر تھا۔ انہوں نے مصرعوں کو کھردرا نہیں ہونے دیا، وہ بہاؤ میں خوب رواں رہے اور اثر انگیزی میں انتہائی لطیف۔ان کے مزاج کے دھیمے پن اور ایک خاص قسم کی نرگسیت نے ان کی ترقی پسندی میں آمیز ہو کر قاری کو یوں متوجہ کیا کہ اسے اپنا دکھ اس میں جھلک دینے لگا اور ساتھ ہی ساتھ ایک لذت بھی اسے مسحور کرنے لگی۔ جہاں کہیں یہ امتزاج نہیں بنا بے شک وہاں دوئی کا احساس بھی ہوا مگر وہاں بھی اسلوبیاتی خصائص نے ان کے معنیاتی رخنوں کو پاٹ دیا اور فیض کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے خلق خدا کو اپنی شاعری میں یاد رکھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خلق خدا نے اپنی بے پناہ محبتیں ان پر نچھاور کیں۔

٭٭٭

جو ن ایلیا کے نام ایک خط جو ڈیڈ لیٹر ثابت ہوا

جون ایلیا کی وفات کے ٹھیک ایک برس بعد ہمارے نظم نگار دوست مقصود وفا فیصل آباد سے اپنے جریدے کا خاص نمبر لانا چاہتے تھے۔مقصود نے گزشتہ ایک شمارے میں جون کے کچھ متنازعہ خطوط چھاپے جن کی گونج ابھی باقی تھی۔ مقصود کے اصرار پر جب جون کی شاعری پر لکھنے بیٹھا تو یہ خط کمپوز ہو گیا تھا۔ مقصود کا جریدہ بوجوہ شائع نہ ہو سکا اور یہ تحریر بھی ادھر ادھر ہو گئی۔ کچھ روز پہلے کچھ اور تلاش کرتے ہوئے اس پر نظر پڑی تو یوں لگا جیسے یہ ایک ڈیڈ لیٹر تھا۔ مرنے والے ایسے خطوط سے بے نیاز ہوہی جایا کرتے ہیں۔

اے جون ایلیا: فقط تمہارے لیے محمد حمید شاہد

پیارے جون ! آداب

مرنا ہر کسی کو ہوتا ہے، اس لیے وہ مر جاتا ہے ….گذشتہ نومبر کے پہلے دہے میں تمہاری مدت حیات بھی تمام ہو گئی….مگر مجھے دیکھو کہ میں تمہیں خط لکھ رہا ہوں۔ ایک گزرے ہوئے شخص کو خط …. تم چاہو تو قہقہہ لگا سکتے ہو۔ مجھے بھی اپنی یہ حرکت بڑی احمقانہ لگتی ہے اور میں نہیں جانتا تمہیں یہ پرچہ عدم آباد کے پتے پر مل بھی پائے گا۔ ویسے سچ پو چھو تو اس کا تمہیں ملنا یا نہ ملنا میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ میں نے تمہارے وہ خطوط پڑھ لیے ہیں جن میں تمہاری روح حلول کر گئی ہے اور اب یہ صورت ہے کہ میں کوریا کے ان باشندوں جیسا ہو گیا ہوں جنہیں یقین تھا کہ درختوں کے نیچے مرنے والوں کی روحیں ہمیشہ کے لیے چھال کے اندر لکڑی میں اتر جاتی ہیں۔وہ درختوں کو کاٹتے ہوئے کیک شراب سور کا گوشت نذرانہ پیش کرتے تھے۔ میں نے تمہارے خط پڑھے تو مجھے یوں لگا جیسے نذرانے میں تمہاری روح مجھ سے الفاظ مانگتی تھی اور مجھے یہی مناسب معلوم ہوا کہ اس معاملے میں تمہارا تتبع کروں لہذا خط لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔

پیارے جون ، ذرا مڑ کر دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ مدتِ مدید سے جس نے خون تھوکنے کو اپنا وتیرہ کر لیا ہو ، کچھ ایسا وتیرہ کہ وہ اس کا پیشہ دِکھنے لگے تو اس کے ساتھ چلنے والوں کا اوب جانا انہونی کا ہونا نہیں ہوتا:

خون بھی تھوکا ، سچ مچ تھوکا، اور یہ سب چالاکی تھی

لہذا تمہارے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا جیسا ایسے میں ہوتا ہے …. حتی کہ تمہیں اپنوں کی اکتائی ہوئی آوازیں صاف صاف سنائی دینے لگیں :

جون: او خون تھوکنے والے !

اب دِکھانا تجھے ہے کرتب کیا؟

اور تم نے یہ کرتب دکھایا کہ موت کی بانہوں میں سمٹ کر مر گئے:

یارو ! کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا

وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں ، وہ تو مر جاتے ہوں گے

یہاں اس شعر کا محل کیا ہے؟ تم نے ہونٹوں میں ہنسی دابنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے، شعر فہمی کے معاملہ میں ، میرے ٹھوکر کھانے کی بابت گما ں باندھا ہو گا اور سوچا ہو گا کہ” موت” اور” محبوبہ” کو ہم مرتبہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے۔ تم ایسا سوچ سکتے ہو کہ تم بے پناہ محبت کی طلب میں مرتے رہنے کا چلن رکھتے تھے، مگر وہ جو” محبوبہ” کا عالی رتبہ پا لے اس کی محبت میں شاعرانہ انا کو مار دینے کا یارا شاید تم میں نہیں تھا۔ ایسے میں زاہدہ حنا کے نا م ۱۵ نومبر ۱۹۶۹ء کو لکھے گئے تمہارے خط کے یہ جملے یاد آتے ہیں :

"آج مجھے نہ جانے کیوں ایک بات ہمیشہ سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے اور وہ یہ کہ مجھے کسی نے چاہا نہیں ایسا چاہنا جسے واقعی چاہنا کہتے ہیں اور کسی قدر چاہا بھی تو اس کے ساتھ وہ سب کچھ بھی کیا جو بدخواہ اور دشمن ہی کر سکتا ہے۔ میری غیبت ، برائی ، میرے خلاف زبان اور وقت پر میرا ساتھ نہ دینا وغیرہ وغیرہ”

جسے اپنے چاہنے والے کی بابت ایسے وسوسے سنپولوں کی طرح ڈسنے لگیں وہ اکثر اپنے محبوب کو کھو دیتا ہے۔ رولومے نے کہا تھا کہ ایسے لوگ بہت جلد تنہا ہو جاتے ہیں اور یہ تنہائی خالی پن لے آتی ہے۔

وہ چھٹا خط جس پر کوئی تاریخ درج نہیں مگر جسے تم نے مقصود وفا کو دیتے ہوئے باقی خطوط کے ساتھ اس کے چھپنے کی خواہش کی تھی اسی خالی پن کا شاخسانہ لگتا ہے۔

اے جون !میں تمہارے حق میں لکھنے بیٹھا تھا خدا گواہ لکھنا بھی تمہارے حق میں چاہتا ہو ں کہ ہماری تہذیب میں مرنے والوں کی صرف نیکیاں گنوائی جاتی ہیں مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس قلم کو نہیں روک پا رہا جو فکشن نگار زاہدہ حنا اور تمہارے بچوں کی خاموش اذیت کو محسوس کر کے بہک گیا ہے۔ کاش تم نے یہ خط نہ لکھے ہوتے ، لکھے تھے تو چھپنے کو نہ دیئے ہوتے، چھپ گئے تھے تو میری آنکھیں پھوٹ گئیں ہوتیں اور میں نے نہ پڑھے ہوتے۔ مگر حیف کہ یہ سب کچھ ہوا ہے اور اس کے باوجود کہ تمہارے مجموعے ” یعنی” کی بعد از وفات کی اشاعت کی خبر نے مجھے چونکایا، ان خطوط کے لفظوں میں بھری آگ میں بھسم ہوتا رہا ہوں۔ اب یہ سطریں لکھ بیٹھا ہوں تو یوں ہے کہ میرے دل کا غبار چھٹ گیا ہے۔ میں تمہاری طرف دیکھ کر نادم ہو رہا ہوں کہ تم میری راہ روکے نہ جانے کب سے اپنی کھوکھلی رانوں پر استخوانی پنجے مارتے ہوئے دہرائے جاتے ہو:

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

پیارے جون، تم جانتے ہو کہ ادب کی طریقت میں کسی کے حق میں بولنے کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ اس کے فن اور اس کی فکر کو گفتگو کے لائق جانا جائے۔سو ان معنوں میں ، میں جو عین آغاز میں کہہ آیا ہوں اسے بھی اپنے حق میں کہا ہوا جانو۔ اور ہاں سنو میں تمہارے مزاج سے آگاہ ہوں اور جانتا ہوں کہ تم مزاج کے اعتبار سے ترقی پسند نہ تھے ترقی پسندوں کی صحبت میں بیٹھ کر خود کو ان جیسا سمجھ بیٹھے تھے۔ کون جانے کہ یہ ان کا بہکاوا تھا یا ان حلقوں تک سرایت کیے رکھنے کی تہاری للک کہ بظاہر تم "اعلان جنگ” سے کم پر راضی ہونے والوں میں سے نظر نہیں آتے تھے…. کم از کم تمہارے پہلے مجموعے "شاید” سے تو یہی پتہ چلتا ہے …. تاہم ادھر کان دھرو تو ایک بات کہوں کہ اس باب تم مجاز اور جالب کے بیچ بھٹکتے رہے ہو۔تمہارا المیہ تو وہ بھی نہیں بنتا جو فیض احمد فیض کا بن گیا تھا ، وہی دو آوازوں والا۔ تم نے لکھا تھا:

"…………………………..

الم نصیبو! بہادری سے، ستم نصیبو ! بہادری سے

صفوں کو اپنی درست کر  لو کہ جنگ آغاز ہو چکی ہے

…………………………..”

(اعلان جنگ)

مگر حرام ہے کہ ا لم نصیبوں اور ستم نصیبوں کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ تاہم جب تم نے یہ کہا کہ:

خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی

میں بھی برباد ہو گیا تو بھی

تو سب تڑپ اٹھے یوں جیسے بربادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں اور ایک خنجر سا دل میں اترتا محسوس کر رہے ہوں۔ تم ترقی پسندوں کے نرغے میں رہنے کے سبب جو "انقلابی ” شاعری کرتے رہے اس کی لپک نرغہ ڈالنے والوں تک رہی ہو تو رہی ہو اس سے آگے نہ بڑھی۔ میں نے ایسی شاعری کو پوری توجہ سے پڑھا ….شاعری کو بھی اور اس بحث کو بھی جو "شاید” کے مفصل دیباچے میں تم نے کی ہے۔ مگر طرفہ دیکھو کہ میں تمہاری ترقی پسندی کے باب میں جس قدر الجھتا جاتا تھا تمہاری رومانوی رویے کی صداقت پر اتنا ہی ایمان پختہ ہوتا جاتا تھا۔

جان من جون! "شاید” کے دیباچہ "نیاز مندانہ” کا ذکر چل نکلا ہے تو جی چاہنے لگا ہے کہ جنہیں تم نے اپنی فکری بنیادیں قرار دیا انہیں ذرا ترتیب سے دہرا لوں۔ کیا تم یہی کہنا چاہتے تھے نا!…. بقول تمہارے:

٭ …. تمہارا سب سے بڑا مسئلہ یقین سے محروم ہو جانے کی اذیت سے تعلق رکھتا تھا۔

٭ ….ارتیابیت تمہارے نزدیک خوش آئند کیفیت نہیں تھی۔

٭ ….کائنات کی ما بعد الطبیعاتی توجیہہ تمہارے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی تھی

٭ ….دلیل ولیل کچھ نہیں ہوتی یہ تو تاریخی ، سماجی اور نفسیاتی تکییف (conditioning) ہوتی ہے جو کسی رائے اور مسلک کو رجحان پیدا کرتی ہے۔

جس یقین کے ساتھ تم یقین سے محروم ہونے کی بات کرتے ہو اس سے تمہارے بے یقین ہونے کا معاملہ مشکوک ہو جاتا ہے۔ بس ہوا یہ ہے کہ تم عین اٹھتی عمر میں ہیوم کو پڑھ کر چونکے ، اس سے پہلے ترقی پسند تم پر وار کر چکے تھے بس پھر کیا تھا ، بقول تمہارے تم "دین دنیا سے جاتے رہے” یہ تم سمجھتے ہو …. یا شاید تم ہمیں یہی کچھ باور کرانا چاہتے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جس طرح تم چونکے تھے اسی طرح اوروں کو چونکانا چاہتے تھے۔ تمہاری شاعری کی روح کا یہ حصہ نہ ہو سکا تو تم نے دیباچے کا حصہ بنا دیا۔ مگر یہ تو ایسا ہی تل نکلا جو گوری چٹی خاتون نے سلیمانی سرمے سے عین گال پر لگایا تھا اور پہلے بوسے ہی میں اڑنچھو ہو گیا۔

میرا جی چاہنے لگا ہے جون کہ اب تمہاری شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ان جبری دھاروں کو نظر میں سمو لوں جو بہر طور تمہارے مقدر کا حصہ ہو گئے تھے۔ بے شک تم نے جب اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ” میں تو ایک جاہل ہوں۔ agnostic ہوں ” تو ساتھ ہی تقدیر کی نفی کی تھی۔ تم مقدر کے اس جبر کو شناخت کر رہے تھے جس کی سبب انسان ایک” سلسلہ واقعات” سے نہیں نکل سکتا مگر اسے تقدیر ماننے سے انکاری تھے اور کہتے تھے کہ "اس کا ماورائی ہونا ضروری نہیں "۔ مجھے تمہارے فکری الجھاووں کا سلسلہ تمہارے اس اعتراف سے جڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے جس کے مطابق تم ” تشکیک "کی” عذاب ناکی” سے دو چار تھے۔ ہاں تو میں اس جبر کی بات کر رہا تھا جو تمہارے نزدیک تقدیر نہیں اور میرے لیے تقدیر ہی کا درجہ رکھتی ہے کہ تم اس بارہ میں انتخاب کا کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے۔ مثلاً  یہ کہ

۔تم امروہہ میں پیدا ہوئے، ۱۹۳۶ کا سال تھا اور مارچ یا پھر دسمبر کا مہینہ۔

۔تمہیں علمی ماحول یوں میسر آیا کہ تمہارے دادا، پردادا شاعر تھے اور تمہارے والد شفیق حسن ایلیا بھی۔

۔تمہارے تینوں بھائی کمال امروہوی، رئیس امروہوی اور سید محمد تقی بھی شاعر یا فلسفی نکلے۔

تم امروہہ کے اس علمی ادبی فضا میں پیدا نہ ہوتے چیچوں کی ملیاں کی کسی تاریک گلی میں بسنے والے اس مفلس کے گھر پیدا ہوتے جس کے باپ داد سب ان پڑھ تھے اور جس کے نزدیک لفظ ، معنی اور جمال کی بحث بے ہودہ اور صرف چکی کی مشقت واجب ہو جاتی ہے تو کیا تم پھر بھی اس کینڈے کے شاعر بن کر نکل سکتے تھے ؟ اور کیا تم پھر بھی تقدیر کا یوں ہی انکار کر دیتے؟ …. میں جانتا ہوں تمہارا منطقی ذہن دونوں بار” نہیں "کہنے پر مجبور ہو گا …. مگر میرا حوصلہ دیکھو کہ میں دونوں سوالوں کا جواب” ہاں "میں دینا چاہتا ہوں …. اس لیے کہ میں مقدر پر یقین رکھتا ہوں ….اور جس کے مقدر میں ہوتا ہے الفاظ اس کا سینہ روشن کر دیتے ہیں اور منزلیں خود اس کے لیے بانہیں وا کیے چلی آتی ہیں تاہم اس تقدیر کی بھی ایک منطق ہے کہ اس کے لیے اپنا اپنا”خنجر تیز رکھنا” پڑتا ہے۔ تو جون جی تقدیر اور ماورا کے حوالے سے اپنے آپ کو agnostic کہہ کر تم جو تضاد کی دھند بنا گئے ہو کوشش سے بھی وہ صاف نہیں ہوتی خصوصاً وہ جو تمہارے شعروں میں در آئی ہے۔ مثلاً جب تم یہ کہتے ہو کہ :

اب فقط عادتوں کی ورزش ہے

روح شامل نہیں شکایت میں

یا پھر….

سلسلہ جنباں اک تنہا سے روح کسی تنہا کی تھی

ایک آواز ابھی آئی تھی ، وہ آواز ہوا کی تھی

تو میں نہیں جانتا اے میرے پیارے جون ، تمہارے agnostic ذہن میں اس "روح” کے کیا معنی نکلتے ہیں۔ فی الاصل ماورا تمہارے اندر کہیں یقین کی طرح موجود ہے تبھی تو روح کی روح تمہارے شعروں میں دندناتی پھرتی ہے۔ دیکھو جون ، یہ روح وہ خاص جوہر ہی تو ہے جو فکر و شعور اور عقل و تمیز کا اختیار رکھتا ہے۔ اس بارہ میں میرے خدا کا کہا سنو، جس کے اب تم مہمان ہو اور جس پر میں کامل ایمان رکھتا ہوں۔

"یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے ہوئے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا”

۔(القرآن۔ سورہ الحجر:۸۲، ۹۲)

….یوں میرے ایمان کے مطابق تمہارے شعروں میں در آنے والی روح اس خدا کا ہلکا سا پرتو ہی تو ہے جس کی بابت تم خود تشکیل کردہ شک کے ابتلا سے دوچار ہو کر کہنے لگے تھے۔

حاصل ’کن‘ ہے جہان خرابات

یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں

پھر بنایا خدا نے آدم کو

اپنی صورت پہ ایسی صورت میں

اور پھر آدمی نے غور کیا

چھپکلی کی لطیف صنعت میں

اے خدا (جو کہیں نہیں موجود)

کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں

لو ، یہیں اس الجھیڑے کا ذکر بھی ضروری ہو گیا ہے جسے تم نے دیباچے میں ملکتے ہوئے "تعقل کے خانوادے کی جدہ عالیہ منطق اور جد عالی تفلسف ” کا مسئلہ قرار دیا۔ تم نہ جانے کیوں اس بحث کو اٹھانے سے پہلے اوروں کے کندھوں باری باری بندوق رکھ رہے تھے۔

٭ …. تم نے بیکن کے منہ سے کہلوایا کہ یہ مسئلہ اتنا ہی پیچیدہ ہے کہ منطقی قیاس کے قابو میں نہیں آ سکتا۔

٭ …. کانٹ کے اس قول سے مدد چاہی کہ ما بعد الطبیعی امور کو منطقی استدلال کے ذریعے ثابت نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ مذہب اور خدا عقل کی دست رس سے باہر ہیں۔

٭ …. مسمی پلوٹی نس کا اسم نقل کر کے تم نے بتایا کہ خدا کے بارے میں یہ کہنا روا نہیں کہ وہ موجود ہے وہ تو وجود سے بر تر اور بر تر ہستی ہے

٭ ….پھر تم ہماری محبتوں کا محور دیکھتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول سنانے لگے کہ ” کمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ”

٭ …. حلاج، ارسطو، کانٹ اور ہیگل کا نام لے لے کر تم نے بتا یا کہ وجود اور موجود کی کوئی بھی تعریف متعین نہیں کر سکا۔

یوں تم نے استخراج کیا کہ وجود کا مترادف ماہیت کا خارج میں ہونا ہے اور یہ کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ خدا ہے تو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا شے ہے یہیں تمہارے منطقی ذہن نے پانسہ پلٹا اور دور کی کوڑی لایا کہ اگر خدا شے نہیں ہے تو لا شے ہے۔ لاشے کے تم نے ہمارا دل رکھنے کو دو مفہوم نکالے ورنہ تم تو ایک ہی مفہوم کی طرف ہمیں گھسیٹے جاتے تھے لاسے کا ایک مفہوم جو تم نہیں سجھانا چاہتے تھے ’لا موجود‘ تھا اور دوسرا جو ہمارے لیے تم نے نکالا وہ یہ تھا "وہ موجود جو شے نہ ہو کچھ اور ہو ” یہ سوال ایسا تھا جس کے سبب تمہاری سارے استدلال کی عمارت ڈھے رہی تھی لہذا تم نے کہہ دیا ” کچھ اور کیا؟”…. کاش تم نے اس بزرگ کا ڈھیلا کھایا ہوتا جس سے سوال کرنے والے نے اصرار کیا تھا کہ اسے خدا دکھایا جائے۔ جسے ڈھیلا کس کر مارا گیا تھا وہ چوٹ کھا کر درد سے بلبلا اٹھا تو بزرگ نے پوچھا کیوں روتے ہو۔ اس نے کہا "درد ہے”۔ بزرگ کا کہنا تھا درد موجود ہے تو دکھاؤ کیسا ہے ؟۔ اگر ڈھیلا تم نے کھایا ہوتا تو اس موجود کے معنی بھی پتہ چل جاتے جو شے نہیں ہوتا اور یہ پٹا ہوا سوال فلسفیوں کے سلجھانے (یا پھر مزید الجھانے )کے لیے نہ اٹھا رکھتے۔

اور ہاں میں تمہاری ایسے سوالات کی ایسی ویسی الجھی ہوئی شاعری پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں اور الجھتا ہوں کہ میرا محبوب شاعر جون کہاں ہے؟ …. معاملہ یہ ہے کہ تمہاری شاعری میں اس طرح کے فکری اور ایقانی معاملات ترقی پسندانہ موضوعات کی طرح تمہارا تخلیقی مسئلہ بن ہی نہیں پائے ہیں۔ سچ ہے کہ تخلیق صرف سچے وجود تک علاقہ رکھتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان مباحث سے کہیں زیادہ مجھے وہاں لطف آیا ہے جہاں تم نے لکھا تھا:

” ….اگر انسانی ناف کے اوپر بالوں کی لکیر نہ پائی جاتی تو آخر کس نظامیات بدنی کو نقصان پہنچ جاتا؟ میں نے اپنی بعض محبوبات کی پنڈلیوں پربالوں کی جھلک دیکھی ہے اور بعض کی پنڈلیاں بالکل صاف پائی ہیں۔ بعض محبوبات کا پیالہ ناف گہرا پایا ہے بعض کا اتھلا "

سنو جون پیارے ، اس کے باوجود کہ تم نے ایک انٹرویو میں اپنی جنسی زندگی کو قابل رحم حد تک کم بتایا اور حساب لگایا تو وہ پانچ برس نکلی، اس کے باوجود ناف پیالے اور پنڈلیوں والا تجربہ ما بعد الطبیعاتی سوال سی کہیں زیادہ رچاؤ کے ساتھ تمہاری شاعری کا حصہ ہو گیا ہے۔ لو اپنے کچھ اشعار سنو اور لذت لو:

تھا مست اس کے ناف پیالے کا میرا دل

اس لب کی آرزو میں مرا رنگ لال تھا

٭

اپنی ورزش کے دھیان ہی سے ہمیں

مار رکھتے ہیں صندلیں راناں

٭

میرا حق تو یہ تھا کہ گرد مرے

ہو اک انبوہ نار پستاناں

٭

تھا جون اس کا ناف پیالہ یا مے کدہ

بس لڑکھڑا کے تشنہ لباناں چلے گئے

٭

اتھلا سا ناف پیالہ ہماری نہیں تلاش

اے لڑکیو! بتاؤ بھنور کس کے پاس ہے

٭

یہ میرا جوش محبت فقط عبارت ہے

تمہاری چمپئی رانوں کو نوچ کھانے سے

٭

کیا بھلا ساغر سفال کہ ہم

ناف پیالے کو جام کر رہے ہیں

تو پیارے جون بے شک تم نعرے لگا کر چونکاتے رہے کہ "وہ یقیں ہے نہ گماں ہے تننا ھو یا ھو” مگر تن پر تمہارے ایسے تنتناتے شعروں کا طنطنہ ساری توجہ لے گیا۔

تاہم ان ساری معروضات سے یہ نہ سمجھ لینا کہ جس توجہ سے تم نے”شاید” کے دیباچے میں ان مباحث کو اٹھایا ہے اور پہلو بدل بدل کر مسلمات کے انہدام کی شعوری کوشش کی ہے مجھے وہ دلچسپ نہیں لگی۔ مجھے تو شروع ہی سے یہ کئی جہتوں کو زور دیتی بحث بہت لطف دیتی رہی حتی کہ میں ایک مرحلے پر یہ سمجھنے لگا تھا کہ بعد ازاں شاید یہ سب کچھ تمہارے شعری شعور کا حصہ ہو جائے گا…. مگر آہ کہ ایسا نہ ہوا…. واقعہ تو یہ ہے کہ دوسری کتاب تک آتے آتے ایسے سوالات کی شدت اور تمہاری ترقی پسندانہ بلند آہنگی دونوں عنقا ہو چکی تھیں۔

جون جی ، اب تک اس حوالے سے ہی بات ہو پائی ہے جو تم اپنے شعری واردات میں نہیں تھے مگر اپنی نثر اس کا دعوی رکھتے رہے۔ نفی کی بات طول پکڑ گئی ہے لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے ذرا ادھر کو ہو لیں جہاں تمہارا جیتا جاگتا وجود موجود ہے۔ میں نے جتنا بھی تمہیں پڑھا، میں تمہارے تہذیبی شعور سے سرشار ہوا۔ تمہاری غزل پوری طرح غزل کی روایت سے ہم آہنگ ہے۔ تم نئی نئی ردیفیں لا کر اس ہنر سے غزلیں کہتے آئے ہو کہ غزل کہنے والے بہت سے مقامات پر تمہاری تقلید پر مجبور ہوئے۔جی چاہتا ہے یہاں تمہاری ان غزلوں کی نشاندہی کی لیے کچھ اشعار درج کر دوں جن کی گونج تمہارے معروف ہم عصروں کی ہاں صاف سنائی دے رہی ہے:

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

٭

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

٭

جاؤ قرار بے دلاں ، شام بخیر شب بخیر

صحن ہوا دھواں دھواں ، شام بخیر شب بخیر

٭

ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھ

بے وفائی کی انتہا کیجے

٭

نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے

تیری مثال دے کے ہم تیری مثال ہو گئے

٭

نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر

جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو

٭

محبت کچھ نہ تھی جز بدحواسی

کہ وہ بند قبا ہم سے کھلا نئیں

مجھے تمہاری وہ غزلیں یاد آئے چلی جاتی ہیں جن کی خوشبو تمہاری گلی سے نکلی اور گلی گلی گئی اور جن سے ابھی تک سارا منظر نامہ مہکا ہوا ہے۔لو تمہاری کچھ اور ایسی ہی مقبول غزلوں کی نشاندہی کئے دیتا ہوں۔تم کہ گھٹنوں پر اوپر کو اٹھ کر ، ایک ادا سے لمبی زلفیں لہراتے اور ڈرامہ کرتے ہوئے اپنی ہی رانوں کو پیٹ کر انہیں سنانے کے لیے موجود نہیں ہو مگر انہیں سننے، پڑھنے اور ان کی دھمک سینوں پر سہنے والے موجود ہیں اور تا دیر موجود رہیں گے:

جا بھی فقیہ سبز قدم، اب یہاں سے جا

میں تیری بات پی گیا پر یار سرخ ہیں

٭

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے

روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

٭

کیا وہ بساط الٹ گئی؟ ہاں وہ بساط الٹ گئی

کیا وہ جواں گزر گئے ؟ ہاں وہ جواں گزر گئے

٭

ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ و بو، تم کہاں جاؤ گے ، ہم کہاں جائیں گے

ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو ، تم کہاں جاؤ گے ، ہم کہاں جائیں گے

٭

ہجر میں جل رہا تھا میں اور پگھل رہا تھا میں

ایک خنک سی روشنی مجھ کو بچھا کے لے گئی

تو جون جی، انہی غزلوں میں تو تم ہو ….اپنے سچے اور مکمل وجود کے ساتھ …. کہیں شک کا شائبہ نہیں ہے ، کہیں فکری الجھاوا نہیں ہے۔ اس لیے کہ تم فی الاصل فکری آدمی نہیں تھے…. فکری ، نہ انقلابی۔ تم تو چائے کی پیالی پیتے پیتے رو دینے والے تھے۔ روتے روتے ہنس دیتے ، گم صم ہو جاتے۔ تم پڑھتے بہت تھے مگر اس کی کوئی سمت نہ تھی لہذا تمہیں بھی خاص سمت نہ مل سکی ، الجھتے گئے۔ مربوط ہونا جانتے نہ تھے ، مبغوض ہو گئے ، اپنوں پر یوں بھڑکے جیسے آگ بھڑکتی ہے اور سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔تم ٹوٹ کر محبت کرنے والے تھے مگر پلٹ کر اپنی ہی محبت کو روند ڈالنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے والے۔ جس کیفیت میں ہوتے اسی کی انتہاؤں کو چھوتے۔ ایسا کیفیت والا آدمی غزل کو بہت بھاتا ہے۔ ہماری روایتی غزل کو…. اور تم تو غزل کے تغزل پر راسخ ایمان رکھتے تھے لہذا تمہارا فطری تخلیقی اظہار غزل کی گراں قدر روایت کا حصہ ہو کر تمہیں امر کر گیا۔ رہے یہ سب فلسفیانہ مسائل ، تو ان کا معاملہ یہ ہے کہ جان من ، یہ تمہاری تہذیبی روایت کے سبب تمہاری مجبوری بن گئے تھے۔تم امروہہ سے آئے تھے ایسی تہذیب سے کٹ کر اور بچھڑ کر جو ہند مسلم روایت کی زائیدہ تھی اور اس روایت کا یہ خاصہ بھی تھا کہ مروج علوم میں دسترس حاصل کی جائے۔ بقول تمہارے ’تم نے آنکھیں کھولیں تو اپنے گھر میں صبح سے شام تک شاعری، تاریخ، مذاہب، عالم، علم ہیئت(astronomy)اور فلسفے کا دفتر کھلا دیکھا اور بحث مباحثے کا ہنگامہ گرم پایا ، لہذا ان علوم پر اور ان علوم کی بات کرنا اور ان پر فخر کرنا تمہاری سرشت کا حصہ ہو گیا۔ تو تم فخر سے اور اعتماد سے جن مباحث کو اپنے دیباچے میں چھیڑ آئے ہو میں ان کو اسی ذیل میں رکھتا ہوں۔ اور جس طرح باپ، دادا، پردادا کے شاعر اور عالم ہونے پر تمہارے منجھلے بھائی سید محمد تقی شعر کہنے لگے تھے مگر شاعری کو اپنا تخلیقی مسئلہ نہ بنا پائے اور اپنے اصل میدان فلسفہ کی طرف نکل گئے بعینہ تم شاعری کے کوچے میں نکل آئے ہو اور یہی تمہارے تخلیقی وجود کا حصہ ہو گئی ہے۔تاہم تمہارے اٹھائے ہوئے مباحث توجہ کھینچتے ہیں ، تمہارے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر یہ جو تم ایک تہذیبی آدمی ہونے کے سبب فخر سے بات اٹھاتے ہو اس پر کوئی بات نہیں دھری جا سکتی۔

تمہاری وہ نثر ی تحریریں جو تمہیں بے پناہ چاہنے والے اور میرے عزیز دوست مقصود وفا نے تمہیں انشائیہ نگار ثابت کرنے کے لیے مجھے ارسال کی ہے ، وہ…. معاف کرنا…. تمہارے قد میں کوئی اضافہ نہیں کرتیں۔ مانتا ہوں کہ یہ اچھی تحریریں ہیں۔ ایک بہت ہی اچھے شاعر کی اچھی تحریریں …. مگر میں نے بہت جبر کر کے ان کو پڑھا ہے۔ ایسے میں ، میں نہیں جانتا، ان پر کیا لکھا جا سکتا ہے؟۔ ہاں یہ ایسی ضرور ہیں کہ ان سے بعض جملے تمثالیے بن جانے کی قدرت رکھتے ہیں۔کہیں کہیں چمکتے ہوئے اور تیز دھار والے جملے ہیں جو چبھتے ہیں ، کاٹتے ہیں اور لطف بھی دیتے ہیں۔اور یہ جو تم نے ہر کہیں منافقت پر خوب خوب ضربات لگائی ہیں تو انہوں نے مجھے تمہاری طرف یوں بار بار دیکھنے کو مجبور کیا ہے جیسے مجلس میں بیٹھا شخص منبر پر بیٹھے ذاکر اور عالم کو دیکھتا ہے۔ لو یوں کرتے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے دانش دانش کھیلتے ہیں۔ میں تمہاری تحریروں کا یہ پلندہ لے کر ذرا اوپر ہو بیٹھتا ہوں ….اور تم ذرا یہاں سے بیٹھ کر سنو جہاں سے میں نے منہ اٹھا اٹھا کے تمہیں دیکھا اور سنا ہے تمہیں میری بات پر خود بخود یقین آ جائے گا:

٭….”میں آزاد بدی کو زر خرید نیکی پر ترجیح دیتا ہوں۔نہ بکا ہوا جھوٹ میرے نزدیک بکے ہوئے سچ سے کہیں قابل قدر ہے”

٭….”اقتدار اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی، پر ایک بات دیکھی گئی ہے کہ عام طور پر اقتدار کی تائید وہی لوگ کرتی ہیں جو برے ہوتے ہیں۔”

٭….”زبان بندی زبانوں کو بڑے غضب ناک لہجے سکھاتی ہے۔”

٭….”ہاں انسان اپنے ہجوم میں کہیں گم ہو گیا ہے۔ ہاں سناٹوں کے اس انبوہ اور تنہائیوں کے اس جلوس میں وہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ہیں۔”

٭….”انسان کے سوا انسان میں اور کچھ نہ ڈھونڈیں۔”

٭….”اے بھائی! سچ یہ ہے کہ ہم سب کی زندگی دھاندلی اور دھوکے کا دھندا ہے۔”

٭….”اے خون کی گھونٹ پینے والو، تم سب اپنے ہی اوپر بھروسا کرو ….”

٭….”اپنا سچ خود بولو، پھر دیکھنا کہ یہ جھوٹ بولنے اور بکواس کرنے والے بھی تمہارے دباؤ میں آ کر سچ بولنے لگیں گے۔”

٭….”میں کہتا ہوں کہ اندر کی ہلاکت سے باہر کی ہلاکت ہزار گنا بہتر ہی۔ کسی بھی طرح اپنے آپ سے باہر نکلا چاہیے۔کسی بھی طرح۔”

٭….”بھلا وہ یقین ہی کیا جسے دانش کی فاحشہ اور دلیل کی حرافہ ورغلا سکے۔”

سو، اے میرے پیارے جون، میں تمہاری اس نثر کے ورغلاوے اور دبدبے میں نہیں آیا ہوں مگر مجھ سے وعدہ لیا گیا تھا کہ تمہاری نثر پر میں لکھوں گا۔ میں نے اس کی یہ صورت نکالی کہ بیشتر گفتگو "شاید” کے دیباچہ پر کروں مگر ہوا یہ کہ بات ادھر کی کرتا پھسل کر تمہاری شاعری تک پہنچ جاتی رہی۔ تمہاری شاعری میں یہ جو قوت اور کشش ہے تمہاری انشائی تحریروں میں کہاں۔ میں تمہاری ان کتابوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا جن کی فہرس دونوں کتابوں کی پس سر ورق پر موجود ہے۔ سنا ہے ان میں سے دو پمفلٹ شائع ہوئے تھے اور باقی مسودوں کی صورت اسماعیلی طریقہ والوں کے ہاں محفوظ ہیں۔ چھپ جانے والے کتابچے” جوہر صیقلی” اور "حسن بن صباح” کہیں دستیاب نہیں اور دوسرے مسودوں تک کسی کی رسائی نہیں۔ایسے میں تمہارے اس نثری سرمائے پر کیوں کر بات ہو سکتی ہے۔

کا ش تم نے "یعنی” کا دیباچہ ہی خود لکھ دیا ہوتا۔ یا حضرت شکیل زادہ عفی عنہ ہی کو اتنی ہمت میسر ہو جاتی کہ وہ تمہارے لکھے چار صفحے جوں کے توں نقل فرما دیتے اس طرح” حضرت” نے زور لگا لگا کر جو "معروضہ” لکھا ہے اس مشقت سے وہ بچ جاتے۔تم مقدمہ لکھتے یا تمہارا لکھا سامنے آ جاتا تو تمہاری نثر کے حوالے سے کچھ اور لکھنے کی سبیل نکل آتی۔ اور ہاں ایک اور کاش لگا لینے دو کہ’ تمہارا دوسرا مجموعہ ’ یعنی” زقند بھر کر تمہارے پہلے مجموعے”شاید” سے آگے نہیں جا سکا، کاش اسے بھی تم خود ہی مرتب کر جاتے…. انتخاب کر کے…. ان ۱۴ مجموعوں کے برابر غزلوں کو سامنے رکھتے ہوئے، جن کا تذکرہ "یعنی” کے دیباچے میں ہوا ہے۔( اس عرصے میں تیسرا شعری مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے مگر افسوس کہ اس کا اثر دوسرے سے مختلف نہ نکلا۔ نیا اضافہ)

آخر میں اس نظم کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو تم نے اپنے بیٹے زریون کو بار بار مخاطب کر کے لکھی۔ یہ نظم ایک مفصل تجزیہ چاہتی ہے ، میں یہ کسی اور وقت پر اٹھا رکھتا ہوں کہ یہاں صرف اس کا ذکر کر کے یہ بتانا مقصود ہے کہ میں نے اسے بار بار پڑھا ہے پڑھ پڑھ کر رویا ہوں …. رویا ہوں اور ہنسا ہوں :

"…. …………

میں تم کو یاد کر کے رونے لگتا ہوں تو ہنستا ہوں

ہمیشہ میں خدا حافظ ، ہمیشہ میں خدا حافظ

خدا حافظ

خدا حافظ

(درخت زرد)

اجازت دو تمہارے ہی الفاظ دہراتا ہوں "خدا حافظ”

تمہیں از حد چاہنے والا

محمد حمید شاہد

٭٭٭

ضیا جالندھری کی شاعری میں وقت اور زندگی کا تناظُر

کہتے ہیں دلی میں ایک تقریب کے بعد اپیندر ناتھ اشک نے اپنی نشست سے اٹھ کر کرسی کی پشت پر ہاتھ جمائے اور سب کو مخاطب کر کے کہا: دوستو میں آپ کو اس وقت کویتا سنا سکتا ہوں اور لطیفہ بھی۔ کہو کیا سناؤں ؟۔ راجندر سنگھ بیدی نے سنا ، قہقہہ لگایا، کہا : بھئی تم کویتا سناؤ ، خود بخود لطیفہ بن جائے گی۔

عین ایسے زمانے میں کہ جب شاعری حسیاتی اور معنیاتی سطح پر لطیف ہونے کی بجائے اپنے مضمون میں مضحک ہو کر لطیفہ ہو جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی، کبھی پھلجھڑی ہوتی ہے اور کبھی بجھارت، ضیا جالندھری جیسے گہرے شاعر پر بات کرنا بہت اہم ہو گیا ہے۔

ضیاء جالندھری کی تخلیقی شخصیت کو سمجھنے کے دورانئے میں میرا دھیان بار بار اس کی غزل کے کچھ اشعار کی طرف جاتا رہا ہے۔ یہ جانتے بوجھتے کہ غزل کبھی ضیا کی تخلیقی ترجیح نہیں رہی۔ مجھے یوں لگا ہے کہ اس نے کئی ایسے شعر کہہ رکھے ہیں جو اس کے تخلیقی بھید پر کھلنے والا دروازہ ہو سکتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس کی ایک ہی غزل کے دو اشعار:

میں ذرہ ہوں پہ خیال و نظر میں لامحدود

تو بے کنار، ترا عکسِ  بے کراں میں ہوں

=٭=

عدم میں رکھ مجھے یا حیطہ ´ وجود میں رکھ

یہ”ہے "”نہیں ” کی کشاکش نہ ہو جہاں میں ہوں

تویوں ہے کہ جہاں ضیا جالندھری ہے وہاں وقت ایک ڈھنگ سے اور ایک ڈھب پر نہیں چلتا۔ مجھے موقع ملا ہے کہ ضیا کو توجہ سے اور یکسو ہو کر پڑھوں۔ سچ یہ ہے کہ اسے توجہ کے بغیر پڑھا جا سکتا ہے نہ اس کیفیت سے لطف اٹھایا جا سکتا جس میں وقت کی کئی سطوح اپنی چھب دکھا کر معدوم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ معدوم ہونا تو میں نے ایک قاری کے نقطہ نظر سے لکھا ہے جب کہ ضیا کے ہاں آنے اور آ کر چلے جانے والے لمحات کی اس دھج میں بھی ایک عجب طرح کی نیاز مندی ہے میں نے محسوس کیا ہے کہ ضیا ایسے شاعروں میں سے نہیں ہے جو جا چکے لمحوں کو دفنا کر ہاتھ کی مٹی جھاڑ دیا کرتے ہیں۔ یہاں تو سب کچھ حاضر باش ہے ، جو ہے وہ تو ہے ہی اور جو نہیں ہے وہ بھی موجود اور دسترس میں ہے :

تخیل میں ہر طلب ہے تحصیل

جو بات کہیں نہیں ، یہاں ہے

ضیا کے تخلیقی مزاج کو سمجھنے کے لیے ایک اور غزل کا شعر درج کرنا چاہوں گا جس نے فوری طور پر میرا دھیان کھینچ لیا ہے :

یہ زیست ہے یا خواب کہ ہے اور نہیں ہے

اک عکس سرِ آب کہ ہے اور نہیں ہے

ضیا کی غزل میں ہونے اور نہ ہونے کے اس قضیے کو اگر خواب اور حقیقت کی صورت دیکھا جا سکتا ہے تو اس کی نظم میں اس کی کئی اور صورتیں بھی بنتی ہیں۔ ایسی صورتیں جنہیں وجودی سطح پر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کا سبب خود آزاد نظم کا مزاج ہو جو اوپر کی پرت پر اتنی تیز دھار ہو جاتی ہے کہ وجود کو چھیلتی اور چھیدتی چلی جاتی ہے۔ دیکھا جائے تو وجودیت کا فلسفہ ایک لحاظ سے غیریت اور بیگانگی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ یہ وہ بے گانگی ہے جو عالمی جنگوں کے بعد انسانی اقدار کی پسپائی کے نتیجے میں اس کا مقدر بنی۔ بعد میں انسان اپنی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اپنی ترکیب اور اپنی عقل پر انحصار کر کے ٹھوکر پر ٹھوکریں کھانے لگا۔ جب سارے معاملات میں خام عقل دخیل ہو گئی تو دیوار کے اس طرف کچھ نہ رہا۔ سارے لباس تار تار کر دیے گئے اور پھر بھی حقیقت ہاتھ نہ آئی تو آدمی بوکھلا گیا۔ اسے یہ شکست قبول نہیں تھی۔ انسانی وجود کی ناگہانیت اور وحشت باولے کتے کی طرح آدمی پر چڑھ دوڑی تھی۔ وہاں جو آدمی جھیل رہا تھا۔ وہی اس کی شاعری کے بھیتر میں بھی سما گیا۔ جب جدید نظم ادھر سے ادھر آئی تو ہمارے نظم نگاروں کو بھی ان موضوعات میں کشش محسوس ہونے لگی تھی۔ تاہم انہیں بہت جلد احساس ہو گیا کہ دیوار کے اس طرف تو ایک پوری کائنات موجود ہے جس جانب تمنا کا دوسرا قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں چوں کہ آدمی یوں اکیلا کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہاں تہذیبی حوالوں اور انسانی اقدار نے انسان کے وجدان اور ایقان کو سہارا دے رکھا تھا لہذا شکست نہ ماننے اور اپنے باطنی وجود کے مکمل انہدام کو قبول نہ کرنے کے لیے مزاحمت کا انوکھا سلسلہ چل نکلا جو صارفیت کے اس عہد رواں تک چلا آتا ہے۔ اس مزاحمت کو ضیا کے ہاں "سر شام ” سے "دم صبح ” تک بطور نمایاں عنصر کے دیکھا جا سکتا ہے۔

تاہم جاننا ہو گا کہ ضیا کے ہاں مزاحمت کی یہ لہر پر شور نہیں ہے اس نے جا بجا نئی زندگی کی یخ بستگی کو دکھا کر، اس کے مقابلے میں فرد سے فرد کے سماجی سطح پر رشتوں سے جڑی ہوئی قدیم زندگی کی شعلگی کو رکھا ہے اور اپنے قاری کے اندر ایک میزان قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس باب میں مجھے آپ کی توجہ ضیا کی پہلی کتاب "سر شام ” کی ایک نظم "ابو الہول ” کی طرف چاہئیے۔ یہ نظم اپنی تیکنیک ، مواد، احساس حتی کہ موضوع کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے نہ صرف ن م راشد اور میرا جی کے تخلیقی ضابطوں سے الگ دھج اختیار کرتی ہے ان ترقی پسندوں جیسا چلن بھی نہیں رکھتی جو ایسی نظموں کا عنوان "انسان عظیم ہے خدایا” رکھ کر اور اکہری بات کہہ کر آگے چل دیا کرتے ہیں۔ کیا یہ بات اہم اور قابل توجہ نہیں ہے کہ ضیا کی نظم میں تخاطب بھی جمالیاتی لہروں میں جذب ہو گیا ہے۔ تو یوں ہے صاحب کہ یہ نظم انسان کی عظمت کی تلاش سے جڑ نے کے دورانیے میں اس کے وجودی کرب کو ، کہ جو اپنی قامت اور جسامت میں ابو الہول سے کسی صورت کم نہیں ہے ، سے بھی پیوست رہتی ہے۔

کون نہیں جانتا کہ ابو الہول عجائب عالم میں شمار ہوتا ہے اور ہم تو یہ بھی گمان کیے بیٹھے ہیں کہ اس کائنات میں آدمی کا وجود بھی ابوالہول کی سی عظمت کی لیے ہوئے ہے۔ ضیا کی نظم کا قضیہ انسان کی عظمت نہیں بلکہ وہ زندگی ہے جس میں حرکت اور حرارت کو ہونا چاہیئے۔ یہی سبب ہے کہ وہ نظم کے پہلے حصے میں ابوالہول کو خواب گراں سے جگانے کی کوشش کر رہا ہے۔

جہانِ ریگ کے خوابِ گراں سے آج تو جاگ

ہزاروں قافلے آتے رہے، گزرتے رہے

تڑپ اٹھے ترے ہونٹوں پہ کاش اب کوئی راگ

جو تیرے دیدہ ¿ سنگیں سے درد بن کے بہے

یہ تیری تیرہ شبی بجلیوں کے ناز سہے

یوں ہی سلگتی رہے ترے دل میں زیست کی آگ

انسانی تاریخ کا جو حوالہ اس نظم میں ضیا کے سامنے ہے اس میں انسان نے بزعم خود اپنی عظمت کو اپنے وجود سے جوڑ رکھا ہے۔ آدمی جس جھونک میں اپنی اصل سے الگ ہو گیا ہے اس میں اس نشہ کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کئی سانحات انسانی وجود پر گزرے ہیں مگر یہ سنگی ابوالہول ایک خواب مسلسل کا اسیر ہے اور نہیں جانتا کہ وہ زندگی تو موت ہوا کرتی ہے جس میں لگن اور لاگ کا چلن نہ ہو۔ انسانی رشتوں کا یہ روپ خالص مشرق کی دین اور اپنی روایت سے جڑت کی عطا ہے۔ جس گوں کے آدمی کا تصور ضیا کی نظموں سے متشکل ہوتا ہے اس میں یہ عناصر انسانی وجود کا لازمی جزو ہو گئے ہیں۔

تو یوں ہے کہ ضیا نے زندگی کو اس سرمائے کی طرح نہیں دیکھا ہے جسے جمع کرتے کرتے اتنا بڑا ڈھیر بنا لیا جائے کہ دیکھنے میں وہ ابوالہول ہو جائے۔ سرمائے اور اشیا کا بارودی ڈھیر، جس کی تہہ میں نئی زندگی کو چمک عطا کرنے والے کارکنوں اور سرمائے کو نمو دیے چلے جانے والے صارفین کی خواہشات کی لاشیں دفن ہوں۔ کون نہیں جانتا کہ وہ ابوالہول جس کی عظمت دیکھنے والوں کے سینوں پر ہیبت بن کر چڑھ دوڑتی ہے کتنی انسانی لاشوں کے ڈھیر پر تعمیر ہوا تھا۔ ضیا کو اس ہیبت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ اس کی نظر تو اس تیرہ شبی پر گڑھی ہوئی ہے جسے بجلیوں کے ناز سہنے چاہییں اور اس کا معاملہ تو اس دل سے ہے جس میں زیست کی آگ سلگتی رہتی ہے۔

ضیا کی اس نظم کے دوسرے حصے میں عافیت والی زندگی کو اس زندگی کے مقابل رکھ کر دیکھا گیا ہے ، جس کی گھات میں فنا ہے۔ دل کا راز کہہ دینے کی تاہنگ میں مبتلا آدمی جن خطرات سے دوچار ہے ابوالہول کے دل سنگین کا وہ چوں کہ قضیہ نہیں بنتا لہذا خود اپنی آگ میں جل اٹھنا بھی یہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے۔

زندگی کے کئی روپ ضیا کا موضوع بنتے رہے ہیں۔ عظمت، ہمیشگی ، تحرک، لاگ ، لگاؤ، بے ثباتی غرض جہاں جہاں سے اس نے زندگی کو دیکھا ہے اس کی بالکل الگ سی تصویریں بنا کر رکھ دی ہیں۔ نظم "بے حسی ” میں زندگی کی لاش ایک سرد تودے کے سوا کچھ اور نہیں ہے تو "بہاگ ” میں شور ، ہنسی، باتیں ، گھومتے پہیئے، ہلتے ہاتھ اور پھر خدا حافظ کہتے ہونٹوں کے دورانیئے میں زندگی قضا ہو جاتی ہے۔ خالی سونی راہیں ، سرد ہوا ، پڑتی پھوا ر اور خشک ہوتے پتے، انتظار سے صورت پاتا شدید احساسِ تنہائی جو آج کے آدمی کا مقدر بنا دیا گیا ہے ضیا کی نظموں کا خاص موضوع ہے۔انسانی زندگی کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دینے والی یہ تنہائی اس کی اب تک کی آنے والی آخری کتاب "دم صبح ” تک پھیلی ہوئی ہے۔ تاہم یہاں تک پہنچتے پہنچتے ضیا اپنی نظموں میں باقاعدہ اپنا سینہ کھول کر دکھانے اور یہ بتانے بھی لگا ہے کہ آ دمی کو ایک ایسی روشنی چاہیے جو تاریکی کے اس خلا کو پاٹ دے۔ ضیا کی نظر میں یہ روشنی انسان کے وجود کے اندر سے پھوٹ سکتی ہے۔ بس اسے کرنا یہ ہو گا کہ فرد کو فرد کے قریب لانا ہو گا۔

….اس قدر یاد ہے چاہا تھا کہ تجھ تک پہنچوں

مرے رستے میں مگر

دانش شہرِ ہوس حائل تھی

دانش شہر ہوس

تہ بہ تہ سیل کی مانند بڑھی آتی تھی

دل گھٹا جاتا تھا

کون جانے تو کہاں ہے لیکن

میں یہ سینے کا خلا ساتھ لیے پھرتا ہوں

کو بہ کو ، شہر بہ شہر

پوچھتا پھرتا ہوں کیا تم نے کہیں

روشنی دیکھی ہے اور اس کا خلا دیکھا ہے۔

(نظم :خلا)

صاحب مانتا ہوں کہ میں ضیا جالندھری کی نظم کی طرف براہ راست متوجہ نہیں ہوا تھا۔ یوں نہیں تھا کہ میں نے اس نظمیں دیکھی تک نہ تھا۔ جرائد میں یہاں وہاں چھپنے والی نظمیں پڑھتا رہا تھا مگر یکسو ہو کر اور ذرا جم کر پڑھنے کی جانب حمید نسیم کی کتاب "پانچ جدید شاعر” نے متوجہ کیا۔ پہلے میں ضیا کو ایسا شاعر سمجھتا رہا جو اپنی نظموں میں زندگی کی سلگتی بجھتی تصویریں دکھا کر الگ ہو جاتا اور اس سلگنے سے اٹھتے دھوئیں کا ایک احساس چھوڑ جایا کرتا تھا۔ میں اب جو میں اس کی شاعری کے حصار میں ہوں تو یہ بھی تسلیم کرنے لگا ہوں کہ ضیا ان شاعروں میں سے نہیں ہے جو ہر مزاج کے آدمی کی راہ روک کر کھڑے ہو جایا کرتے ہیں۔ اس کی نظم تو اپنی تفہیم کے لیے آدمی کی ایک الگ تہذیب مانگتی ہے۔ حمید نسیم نے بجا طور پر ضیا کو ان شاعروں میں شمار کیا تھا جن کے کلام کا رنگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے اور جن کی شاعری نگاہوں کو خیرہ کرنے کے بجائے دل میں احساس و  آگہی کی قندیل روشن کرتی ہے۔ بقول حمید نسیم اس قندیل کی لو نرم و خوشتاب بھی ہے اور دائمی بھی۔

تو یوں ہے کہ اب جب کہ میں "سر شام” سے "دم صبح” تک کی نظمیں ، غزلیں اور گیت پڑھ چکا ہوں تو یہ بھی جان چکا ہوں کہ ضیا اپنے عہد کے شاعروں سے بالکل الگ اور نمایاں ہے ، وہ یوں کہ اس نے زندگی کو ایک تسلسل میں دیکھا ہے ٹکڑوں میں نہیں۔ جس طرح فکریات کا شعبہ اقبال کو مرغوب تھا بظاہر یہ شعبہ ضیا کا نہیں بنتا تاہم پورے اخلاص سے اس کے کلام کا ایک تسلسل میں مطالعہ کرنے والا اس کے اس فکری دھارے سے خود کو الگ نہیں رکھ پاتا جو اس کی نظموں میں احساس کے دھیمے سروں کی صورت بہہ رہا ہوتا ہے۔ ضیا کی فکریات کا سلسلہ ان امیدوں سے جڑا ہوا ہے جو اسے زندگی سے رہیں۔یہ امیدیں گھمبیر نہیں سادہ ہیں مگر لطف یہ ہے کہ اس سادگی میں ایک گھماؤ اور گھمبیرتا ہے اور طرفگی یہ ہے ان کا برا ٓنا سہل نہیں ہے :

کتنا پرکار ہو گیا ہوں ، کہ تھا

واسطہ تیری سادگی سے مجھے

اور ….

حیات خود ہے دہانِ  نہنگ لا یعنی

جو ہے عدم کا مسافر ہے ، میں چلا کہ میں ہوں

اپنے ہونے اور نہ ہونے کو وقت کے جس پیمانے سے ضیا نے ماپا ہے اس میں وقت سے جڑی زندگی کا تصور جامد اور ٹھٹھرا ہوا نہیں بلکہ حرکی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے ہاں بننے والے امیجز متحجر نہیں ہوتے اور ان کا معنوی تپاک قاری تک پہنچتا رہتا ہے۔ وقت اور زندگی کے اس حرکی تصور میں دن اور رات میں بٹے وقت کو مکان اور مکین سے جوڑ کر بھی دیکھا گیا ہے اور اس سے جدا کر کے بھی۔ تاہم جہاں جہاں زندگی کی بے معنویت ضیا کھلنے لگتی ہے وہاں وہاں وہ وقت کو ایک جبر کی صورت عین انسانی چھاتی کے اوپر نیزے کی انی صورت ٹھہرا لیا کرتا ہے۔ "سر شام” سے شاعری کو آغاز دینے والے نے وقت کو وہاں سے گرفت میں لینا چاہا ہے جہاں وہ اپنا ایک مرحلہ مکمل کر کے پڑاؤ ڈالتا ہے۔ دم صبح تک آتے آتے اس کا مکالمہ زندگی کے افق پر تنی طویل اور مسلسل شب سے رہا ہے۔ تاہم آپ دیکھیں گے کہ ضیا نے بالکل ابتداء ہی میں اپنی ایک نظم میں دن بھر کی زندگی کو "صبح سے شام تک” کی دھجی میں باندھ کر دکھا دیا تھا۔ اس نظم میں پہلے صبح کی تصویر کچھ یوں بنتی ہے:

مست آنکھوں سے برستا ہے صبوحی کا خمار

پھول سے جسم پہ ہے شبنمی زرتار لباس

کروٹیں لیتا ہے دل میں اسے چھونے کا خیال

آنکھیں ملتے ہوئے جاگ اٹھتے ہیں لاکھوں احساس

یہ حسینہ مجھے اکساتی ہوئی آتی ہے ……..

"صبح سے شام تک”

زندگی سے محبوبہ کے جمال کی صورت جڑے ہوئے وقت کے اس طلوع میں کمال کی نرمی اور بے پناہ جاذبیت ہے۔ ضیا کا انسان وقت کے اسی روپ کو عزیز رکھنا چاہتا ہے کہ اس کی طلب میں رہ کر اسے لمحوں کی پازیبوں کے نغمے گونجتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ اسی کے جسم کی لوچ میں لطف کی سیماب موجیں ہیں اور وقت کی یہی تو وہ حسینہ ہے جس کی نقرئی انگلیاں آفاق پہ لہراتی ہیں۔ تاہم مشرق سے اٹھا یہ وقت جونہی مغرب کی طرف جھک جاتا ہے تو ضیا کے مقابل زندگی کا ایک سلگتا ہوا منظر کھل جاتا ہے :

سر جھکائے ہوئے ، منہ پھیر کے ، خاموشی سے

دور مغرب کے دھندلکوں میں چلی جاتی ہے

میرے دل میں ہیں سلگتی ہوئی یادیں اس کی

انہی یادوں سے میری روح جلی جاتی ہے

کتنی تاریکیاں چپ چاپ سرک آئی ہیں ….

"صبح سے شام تک”

یہ سوال ضیا کے لیے بہت اہم ہو گیا ہے کہ آخر انسان وقت کے اس جبر سے کیوں بندھا ہوا ہے۔ اور جب رات ہی کو آدمی کا مقدر ہونا ہے تو اس پر زندگی کی نرمگیں صبح کا منظر کیوں کھولا گیا ہے۔ اس پر روشن دوپہریں کیوں مہربان رہتی ہیں اس پر افق سے لالی کیوں برستی ہے اور آخر اس پر رات تن کر کیوں مسلسل ہو جاتی ہے۔ ضیا نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں اس پر بہت سوچا ہے اور اپنے تئیں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ:

بساطِ ساکت کی وسعتوں میں

زمین ، اہل زمین، افلاک ، اہل افلاک

اپنی اپنی معینہ ساعتوں میں ایسے گزر رہے ہیں

کہ جیسے آنکھوں سے خواب گزریں

"ہم”

وقت کے تناظر میں ضیا کا زندگی سے یہ مکالمہ اتنا عظیم اور اتنا پر لطف ہو گیا ہے کہ اس میں چھوٹے بڑے غم اور خوشیاں جھوٹی ، بے معنی اور نا پائیدار دکھنے لگی ہیں۔ وہ جو میں نے اوپر کہہ دیا تھا کہ جن معنوں میں ہم فکریات سے وابستہ لوگوں کا تصور کیا کرتے ہیں ان معنوں میں ضیا فکریات کا آدمی نہیں ہے اور یہاں اس پر یہ اضافہ کرنے کا جواز نکل آیا ہے کہ فکر کو احساس کی سطح پر برتنا بسا اوقات زیادہ خالص اور زیادہ بامعنی ہو جایا کرتا ہے۔ اس خالص پن اور معنویت کو ضیا جیسا شاعر ہی گرفت میں لے سکتا تھا جس کے داخلی مسطر پر کاتب وقت جو کچھ لکھتا ہے اس کی معنویت کا بار امانت اس کے دل پر منتقل ہوتا رہتا ہے۔ ضیا چوں کہ معروف معنوں میں مفکر نہیں ہے لہذا اس کے ہاں تبدیلی کی خواہش کی شدت کٹاری کی تیز دھار بننے کی بجائے روایت ، جدت اور واردات کے بہم ہونے سے گہرے احساس کا روپ دھار گئی ہے میں نے دیکھا ہے کہ احساس کے ساتھ اس معاملے کے دوران بھی شاعر کا لاشعور بہت چوکس رہتا ہے۔ بظاہر منظر سامنے کا ہوتا ہے جس میں مختلف علامتیں سیال ہو کر بہ رہی ہوتی ہیں مگر لاشعور اسے انسان کی تہذیبی اور فکری تاریخ سے جوڑتا رہتا ہے۔ "بے حسی” "بھول” "آخرکار” "غم گسار”” ویرانے”، "اجالا”، "بجھی ہوئی آگ”، ” دکھاوا”، "یہ بہار”، ” زمستان کی شام””ساملی” "ٹایپسٹ” غرض کوئی نظم اٹھائیں بظاہر منظر سامنے کا ہے جس میں کہیں تو پتے پتے پر موتی مچل رہے ہیں اور کہیں ایسی سرخوشی ہے جو شگوفوں سے سنبھالے نہیں سنبھلتی تاہم سرشاری ، سرمستی اور سرفرازی کے ان مناظر پر محیط ہو جانے والے غم کا تسلسل اور افراط میں ہر دم کچرا بنتی ہوئی زندگی کو کسی نہ کسی بسنتی کی بہر حال ضرورت رہتی ہے۔

اور اب یوں ہے جیسے

ہمارے دلوں میں بھی کچرے کے انبار ہیں

ایسے انبار کوئی بھی جن کو اٹھاتا نہیں۔

"کچرا”

ایک طرف اگر زندگی کرنے کی للک سے کٹ کر اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جستجو میں مر چکے ابوالہول جیسے سنگی آدمی کو وقت جس طرح بھرا بھرا کیے جا رہا اس کی تصویریں دکھائی گئی ہیں تو دوسری طرف اس کی شاعری کا مرکزی موضوع وہ تاہنگ ہے جس میں بہر حال کسی نہ کسی بسنتی کو آ جانا ہوتا ہے۔ جو آئے اور ہمارے اندر سے اس بظاہر ہیبت اور عظمت والی مگر فی الاصل مردہ ہو چکی زندگی کو اٹھا  کر لے جائے جو کچرے کا ڈھیر بن چکی ہے۔

٭٭٭

علی محمد فرشی کی طویل نظم: علینہ : نئی اوڈیسی

علی محمد فرشی کی طویل نظم "علینہ” جب ٹکڑے ٹکڑے سامنے آ رہی تھی ، وقفے وقفے سے اور اپنے لئے مخصوص عنوانات پا کر ، تو یوں لگتا تھا یہ عشق مزاج نظمو ں کا ایک سلسلہ سا ہے ، الگ الگ اور مکمل۔ تاہم ہر نظم پہلی سے ذرا فاصلے پر۔

وہاں شام کا جھٹپٹا ہوتا …… یہاں ٹپیکل دوپہر…… ادھر کل کی سیاہی …… اور ادھر آج کا چمکتا پُل ……

اور "علینہ” یہاں وہاں اپنا مقام بدلتی نظر آتی۔

کبھی کبھی یوں لگتا کہ "علینہ” آسمانوں کی وسعتوں میں نور کی طرح پھیلی ہوئی ہے اور کبھی یوں کہ جیسے اس سیماب صفت کا قافلہ ہمارے اپنے قرب ہی میں بہتے سوال اور ٹھہر کر تعفن پھیلانے والے لئی کے کنارے پڑا ¶ ڈالے ہوئے ہے۔

خدا لگتی کہوں تو ماجرا یوں ہے کہ میں ایک مرحلے پر اس گماں سے بھی گزرا تھا ، ہو نہ ہو نظم کی تخلیق کا یہ تجربہ اپنی نہاد میں ٹی ایس ایلیٹ کی "دی ویسٹ لینڈ”کے زیر اثر ہو رہا ہے۔ نظم کا ایک سمت بہے جانا ، خارج کی ٹھوس اور کھردری زندگی کے نقوش ابھارتے ہوئے اور اپنے پہلو میں حسی ، جمالیاتی اور معنوی جہات کے مقدس اسرار کا دھند بھرا منظر بناتے ہوئے۔ جب درمیان میں ہی کہیں فرشی نے نظموں کے اس سلسلے کو ایک مسلسل نظم کے حصے کہنا شروع کیا تو مجھے وہ عنوانات الجھاتے تھے جو اس نے "ویسٹ لینڈ” کی طرح نظم کے ہر ٹکڑے پر قائم کر دیئے تھے۔ فرشی کی "علینہ” صحرا کے منظر پر کھلی ، ایلیٹ کے "خرابے کی پہلی چند سطروں میں بھی مردہ زمین ، بے حس اور سوکھی ہوئی جڑوں کا ذکر ہوتا ہے اور اس پتھر کا بھی جس میں پانی کی کوئی صدا نہیں گونجتی۔ فرشی کی نظم میں مذہبی احساس جھلک دینے لگا تو ایلیٹ پھر یاد آ یا۔ "Four Quarters”والا اور "ویسٹ لینڈ” والا بھی۔ایک میں بقول مظفر علی سید ، خدا سے کچھ پانے کے احساس کے سبب اس کے ہاں انکسار اور submission آ گیا تھا اور دوسری کا معاملہ یہ ہے کہ میں مذہبی احساس کی قوت سے کم از کم جس طرح کی توانائی پانے کی توقع رکھتا ہوں وہ بھی خرابے کی وسعت کا حصہ ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میرا اس طرف دھیان ہی نہ جاتا تھا کہ فرشی اس احساس سے گوئی قوت بھی پا سکتا تھا۔

حیف کہ عجلت میں آدمی کیسے کیسے گمان باندھ بیٹھتا ہے۔ بے شک ایسے گمانوں کا کچھ نہ کچھ محرک یا جواز تو ہوتا ہی ہو گا۔ ایسے ہی کہ جیسے "ویسٹ لینڈ” کے کچھ حصوں کو الگ کر کے اسے جنسی محبت اور ذہنی و جسمانی نامرادی کی نظم قرار دے ڈالنے والوں کے پاس بھی ایک جواز تھا۔ تاہم تخلیقی سچ تک پہنچنے کا یہ قرینہ نہیں ہے۔ مغالطوں کی عمر لمبی نہیں ہوتی ، ٹکڑے کل کا جزو تو ہوتے ہیں ، کُل کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ یہی سبب ہے کہ "علینہ” نے میرے ہاں جو ٹکڑوں کی صورت تصویر بنائی تھی ، اس نظم کی تکمیل کے ساتھ ہی وہ تحلیل ہو گئی۔ اب ایک اجلا ، روشن اور ماورائی پیکر میرے سامنے ہے۔ "علینہ” کا یہ ما بعد الطبیعاتی کردار پوری نظم میں کہیں بھی اپنے عالی منصب سے سبکدوش نہیں ہوتا۔

آخر "علینہ” ہی کیوں ؟ سلمیٰ ، سلیمہ ، زرینہ اور سفینہ کیوں نہیں ؟ جب تک "علینہ” مکمل صورت میں سامنے نہ آئی تھی مجھے اس سوال میں کوئی عیب محسوس نہ ہوتا تھا کہ سبع معلقہ کے ایک شاعر امراء اُلقیس نے اپنے قصیدے کو عنیزہ کے لقب سے معروف اپنی عم زاد اور محبوبہ "فاطمہ”کو "افاطم” کے تخاطب سے شروع کرتے ہوئے کہا تھا۔ "اے فاطمہ کج ادائیوں سے حذر کر ، اگر تو نے مجھ سے جدا ہونے کا قصد کر ہی لیا ہے تو اس کے لیے کوئی دلکش انداز اپنا”۔ یہاں "فاطمہ” نہ ہوتی تو امراء القیس کو کوئی بھی اور عورت مل سکتی تھی ، اور اسے تو ملی بھی تھیں ، تبھی تو اس کے قصیدے میں بدن کستوری سے خوشبو کی لپٹیں اٹھانے والی "ام الحویرث” اور اس جیسی حسینہ قبیلہ طے کی شاخ بنی۔ ینہان والی "ام الرباب” در آئی تھیں۔ اختر شیرانی کی "سلمیٰ” ہو یا ن م راشد کی "جہاں زاد” اور مصطفی زیدی کی "شہناز” سب ہی کا معاملہ ایک سا ہے۔ میونخ سے "شالا ط” کے بجائے کوئی اور آ جاتی تو اس کی کیا ضمانت تھی کہ اس پر مجید امجد کی نظم اور اس کے دل کے دروازے بند رہتے۔ عورتوں کے نام لے لے کر نظمیں لکھنا اور نسوانی ناموں کو عنوان بنا لینا ہماری شعری روایت میں ایک عمومی سا رویہ رہا ہے۔ فرشی اگر اس روایت کو نبھاتا تو اپنی پسند اور سہولت کا کوئی بھی نام استعمال کر سکتا تھا۔ مگر اب کہ جب میں اس نظم سے پوری طرح گزر چکا ہوں یہ سوال میرے لیے سرے سے ہی لا یعنی ، غیر متعلق

اور بے ہودہ ہو گیا ہے۔ نظم اس سوال سے کہیں اوپر اٹھ کر بہت بڑے سوالات اٹھانے لگی ہے اور "علینہ” کا اسم ان سوالات کے تقدس اور گمبھیر تا کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

میں نے "علینہ” کو سمجھنے کے لئے اسے شاعر کے نام سے جوڑا تو یوں لگا جیسے "علی” کی تکمیلی صورت "علینہ” ہو گئی ہے۔ اب جو دیکھتا ہوں تو علی فرشِ زمیں میں آدھا دھنسا "علی” اور "نہ” کو جوڑنے کے جتن کرتا دِکھتا ہے اور اوپر فلک کے کناروں سے "علینہ ” کا وجود چھلک رہا ہے۔

عربی قواعد کے مطابق کسی اسم کے آخر میں "ہ” کا ورود ہو تو وہ مونث قرار پاتا ہے۔ اب اسم ذات "اﷲ” پر غور کریں کہ اس کے آخر میں بھی تو "ہ” ہے۔ تاہم اس ذاتِ اولیٰ کا جلال ایسا با کمال ہے کہ تانیث کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ علی محمد فرشی نے جزو ہو کر کل کی جس شناخت سے تخلیقی رشتہ جوڑا ہے وہ اپنے کامل وجود میں ہیبت کی وہ لپک نہیں رکھتا جو دلوں تک بھڑکتے شعلوں کی آنچ پہنچاتا ہے۔ اس مقدس اور ماورائی کردار میں فقط نرمگیں جمال ہی جمال ہے۔ یوں اس کے کومل نام اور روشن بدن پر اپنے لئے پکارے گئے اسمِ ذات کا تانیثی پیرہن سج جاتا ہے۔

دیکھئے ……نام کے اس عقدے کو ایک اور طرح سے بھی سلجھایا جا سکتا ہے۔ وہ یوں کہ "علینہ” کے حروف کو وہ اعداد دے دیجئے جو علم الاعداد میں ان کے نام لکھے جا چکے ہیں۔ اس اسم کا ایک مفرد عدد حاصل ہو گا "۳”۔ یہی مفرد عدد "اﷲ” کا بھی ہے۔ کیا یہ سارے اشارے "علینہ” کے ما بعد الطبیعاتی وجود پر دال نہیں ہیں ؟

ساقی فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں "The Human Condition” جیسی "ہولناک کتاب”سے اپنی یادداشت کے بل بوتے پر حوالہ نقل کرتے ہوئے آدمی کو چار سطحوں پر مجاہدے سے دوچار دکھایا تھا۔ پہلی سطح وہ ہے جسے Labour کہتے ہیں۔ زندگی قائم رکھنے اور آسانیوں کے حصول کے لئے محنت۔ دوسری سطح Makingکہلائی۔ پہلی میں اگر روٹی کی طلب میں درانتی چلانے والا آتا ہے تو دوسری میں دستکار اور کاریگر۔ تیسری سطح Activityکی ہے ، وہی جو سیاست دانوں ، فوجیوں اور سائنس دانوں کے حصے میں آتی ہے ، جبکہ مجاہدے کی ارفع سطح وہ ہے جو Contemplationکہلاتی ہے ، فلسفیوں ، صوفیوں اور تخلیق کاروں کا وصف۔ فرشی کی "علینہ” اسی مراقبے میں در آنے والے ارفع سچ کے بھیدوں بھرے پانیوں پر منعکس ہے۔ پانیو ں کا وجود بے کنار وقت کی وسعتوں میں پھیلتا جا رہا ہے ، یوں کہ وقت کے معلوم کنگرے اس میں ڈوب گئے ہیں۔ اس طرح دیکھیں تو "علینہ” کا تخلیقی تجربہ نہ تو محض Poetic Labourہے ، نہ فقط Poem making کی کاریگری اور نہ ہی سماجی سطح پر شاعرانہ سرگرمی کہ یہ اس علاقے کی کہانی ہے جس میں سچے تخلیق کار اپنے زندہ لفظوں اور گہرے شعور کے سا تھ ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ اسی گہرے اور ہمہ جہت شعور نے اسے زمان و مکان کی نئی معنویت کے مقابل کر دیا ہے۔

چوبیس اجزاء(دیباچہ +۲۳ مناظر) اور ۹۹۹ مصرعوں پر مشتمل یہ طویل نظم اپنے patternکے اعتبار سے "علینہ” سے مخاطبہ ہے ، جزو کا کُل سے تخاطب۔ "علینہ” نظم میں یوں آئی ہے کہ اس کی آنکھوں میں آسمانوں کی وسعت سما گئی ہے۔ اس کی برجیوں تلے زمانہ دست بستہ کھڑا ہے۔ سب اس کے نقرئی اسم کا ورد کرتے ہیں۔ اس کی تجلی بھری لاٹ کو دیکھنے کے لئے زمانے زمین بوس ہیں اور جھکی ہوئی کائناتوں کی گردشیں تھم تھم گئی ہیں۔ تاہم اس نظم کے چوتھے منظر میں وہ مقام بھی آتا ہے کہ عسکری کی بات یاد آتی ہے……

آگے کیسے بڑھوں کہ پہلے عسکری کی بات بتانی ہے اور وہ یوں کہ ایک مرتبہ اس نے مولانا روم کا وہ شعر پڑھا تھا جو”من ز تن عریاں ……”سے شروع ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا تھا کہ”کون عریاں ہوا……اور”……او از خیال”میں خدا جو کپڑے پہنے ہوئے تھا، وہ خیال کس کا تھا۔جواب دیا گیا "انسان کا”۔محمد حسن عسکری نے ترنت کہا تھا”انسان ہی کا ہوا نا”تو صاحب ، یہی paradoxتو آدمی کے اندر ہے، لباس بھی دیتا ہے اور نہاں بھی دیکھتا ہے……اور ہاں بات چوتھے منظر کی ہو رہی تھی اور عسکری یوں یاد آیا تھا کہ اس منظر میں ایسا مرحلہ آگیا تھا جب ازل اور ابد کے کہیں وسط میں چند لمحوں کے لئے چمکنے والے نے”علینہ”کے سارے حجروں کو منور کر دیا تھا۔بائیسویں منظر کی ایک منزل کی بھی یہی منزلت ہے کہ اس میں ایک موہوم امید الوہی غرفوں میں سوئی ہوئی نیند بھری ساعتوں کو خوابوں سے بیدار ہونے کی خوشبو عطا کر دیتی ہے۔

"علینہ”کا ما بعد اطبیعیاتی وجود اور”میں "کا یہی زمینی کردار نظم کے شروع سے آخر تک ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔”میں "ایک دو مقامات پر”علیزے”ہو گیا ہے۔شاعر کے اپنے نام کے صوتی منبع سے پھوٹنے والے یہ دونوں اسماء نظم کے کینوس کو کائنات کی سی وسعت عطا کر دیتے ہیں۔

شاعر کی اپنی ذات”علینہ”کے ماورائی کردار سے امید کے ایک مضبوط رشتے میں گندھی ہوئی ہے۔اس کے دل سے”علینہ”کی کائناتوں کے اجڑے ہوئے قافلے گزرتے ہیں۔یہ صلصال کے سلسلوں سے جڑا ہوا ہے اور گرد میں ڈوبے ہوئے اس زمانے جیسا ہے جسے زرد ذروں کی آندھیوں سے باہر نکلنے کا اسم بھول چکا ہے۔جہاں جہاں "علیزے”آیا ہے وہ”میں "کے کردار کا شوخ مظہر بن گیا ہے۔شوخی کی دھج دیکھیئے کے وہ”علینہ”کی الماری سے خوبصورت دنوں کا راز چرا لیتا ہے۔

نظم کے کردار امیجز اور سمبلز میں معجزاتی نشانیاں بن کر وجود پذیر ہوتے ہیں۔یہ نشانیاں زندگی کے نامعلوم علاقوں کو اجالے چلی جاتی ہیں۔کہیں تو وقت کا محدود تصور، لامحدود تصور سے پسپا ہوتا ہے اور کہیں مکان کی قید سے زمانہ آزاد ہو جاتا ہے۔کہیں ہونے کا کرب نہ ہونے کی معرفت سے مصافحہ کرتا ہے اور کہیں دنی دنیا سے اوپر اٹھ کر اپنے وجود کو دائمی بقا کے ازلی نو ر سے اجالنے کی تمنا سارے زمانوں پر محیط ہو جاتی ہے۔

"علینہ”میں کچھ اور کردار بھی وقفے وقفے سے طلوع ہوتے ہیں اور ایک نئی معنویت کا استعارہ بن کر مجموعی منظر نامے کا حصہ ہو جاتے ہیں۔ان ہی میں سے ایک سدھا رتھ ہے، وہی جو زمینی کشش سے نکل کر زمانے کے زینے روشن ہو گیا تھا۔ایک اور کردار یشودھا کا بھی ہے جو حقیقی اور زمینی ہے۔تاہم اس کی راتوں میں پھیلی سرد تنہائی کو شاعر نے یوں اجال دیا ہے کہ سدھا رتھ کی ساری ریاضت اس کے درد سینے میں ڈوب گئی ہے۔اس نظم میں ابن مریم کی پوروں سے بیمار جسموں کا دکھ محسوس کرنے والی نرسیں بھی ہیں اور وہ دق زدہ لڑکیاں بھی جن کے لئے مائرن کی ننھی سی ٹکیا ایسی گلابی پری بن جاتی ہے جو زندگی کی سانسوں سے چھاتیوں کو لبالب کر دیتی ہے۔

خمینی خمینی کی تکرار کرنے والی خلقت ہو یا اپنی بغلوں میں اسناد کی ردی دبائے منتظر نوجوان اور پنشن کی کاپیوں کے خالی خانوں میں خواہشوں کا ماہانہ اندراج کرانے والی بیوائیں ، سبھی ایک لا متناہی دکھ کی عجیب کہانی سناتے ہیں ، ایسا دکھ جو اس محدود زمان و مکاں کی آلائش سے جڑے رہنے کے سبب اس دھرتی کے باسیوں کا مقدر ہو گیا ہے۔اسی محدود انسانی فکری کارکردگی کی وجہ سے مشینی دماغوں سے روندنے کچلنے والے روبوٹ نکل آئے ہیں۔خلائی شٹل اور اڑن طشتریوں سے ایٹمی روشنیوں کے جھماکے میں سیاہ موت برسنے لگی ہے۔آدم کی دائمی روایت سے منسلک "علیزے” نے جو روشن دنوں کے راز”علینہ”کی الماری سے چرائے تھے اسے مغربی ساحروں نے تباہ کن ایٹمی موت سے بدل دیا ہے۔ان بدوؤں کو جن کے پاؤں تلے تیل کی نہریں رواں ہیں بے خبر ہیں کہ بازار میں زندگی کس بھاؤ بک رہی ہے۔ڈالروں کی بانجھ توانائی نے ایک مفلوج اور فاقہ زدہ عہد کو جنم دے دیا ہے ، اور یہ ایسا عہد ہے جس میں نالیوں کے کناروں پر گن گن کر جیون کے قطرے بہانے والے ایک نئے سورج کی تمنا بھی رکھتے ہیں۔

یہ تمنا "علینہ”کے روشن وجود سے جڑی ہوئی ہے۔

پکارنے والے "علینہ، علینہ”…..، "علینا، علینا”…… "علی نہ ، علی نہ” اور ایلی ، ایلی”کی صدا لگاتے ہوئے اپنی تصدیق کے گنجلکے چیستان سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔

اسی تلاش پر یہ نظم اپنی تکمیلیت کو چھو لیتی ہے، یوں کہ امیجز اور سمبلز کا ایک روشن سلسلہ لطف و آگہی اور سرشاری سے ہمکنار کر دیتا ہے۔مرمریں برجیاں ، نقرئی اسم ، سرخ بوسے، سرد اقرار ، درد کی نیلگوں راکھ ، دیدار کی شربتی دھوپ ، شش دری ممٹیاں ، سونے چاندی کی دو روٹیاں ، بھوک کے بگولے ، زیر آب تیرتی مرگ مچھلیاں ، گرد سے گل میں تبدیل ہونے کی تمنا ، گھنی گاڑھی سیاہی، کم خواب گھاٹیاں ، لفظوں کی صندل خوشبو ، سوت کی انٹی میں تلنا، دردیلے دن، الو ہی الاؤ ، گلابی تجلی، نیندوں بھری ساعتیں …….. میں لکھتا جا رہا ہوں اور فرشی کی نئی بوطیقا "علینہ”کے بھید مجھ پر کھولتی چلی جاتی ہے۔

نطشے کے بقول ہر شخص اپنے اسلوب سے پہچانا جاتا ہے۔فرشی نے اپنے اسلوب کی اساس دانشورانہ جدوجہد کے بجائے داخلی تجربے سے حقیقت کی تخلیق اور توسیع پر رکھ کر خود کو دوسروں سے مختلف کر لیا ہے۔پھر وقت کے حوالے سے اس نے ایک بھر پور تصور کو”علینہ”کے سارے حصوں میں یوں اجال دیا ہے کہ ہر منظر آگے آنے والے منظر کی چوکھٹ بن جاتا ہے۔

رولومے نے ایک دلچسپ بات کہی تھی، دلچسپ بھی اور عجیب بھی۔اس کا کہنا تھا کہ "ایک کتے کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ایک اور مہینہ یا ایک اور سال بیت گیا لیکن ایک انسان تو یہ سوچ کر گھبرا جاتا ہے۔”فرشی کے یہاں یہی تشویش ایک خوبصورت تخلیق کا محرک بن گئی ہے، کچھ اس طرح کہ وقت نے بھی نئی معنویت کے گلابی بوسے لے لئے ہیں۔

مجموعی طور پر”علینہ”کا نور جس نقطے پر مرتکز ہو رہا ہے وہ انسانی وجود ہے، وہی جسے سقراط نے عظیم بلندیوں کا گہوارہ قرار دیا تھا۔کیرکے گارڈ نے سقراط کے کہے سے یہ بنیادی نکتہ نکالا تھا کہ "ساری کائنات اسی وجود انسانی پر مرتکز ہے۔اس کا عرفان حقیقت اولیٰ کا عرفان ہے۔” یوں "علینہ”اور "علیزے” کے دونوں کردار ان دو شفاف آئینوں جیسے دکھنے لگے ہیں جو عکس در عکس ایک دوسرے کو زنجیر کئے ہوئے ہیں۔

یہی وہ اسباب ہیں جن کے برتے پر مجھے اصرار ہے کہ "علینہ”کو اردو کی معدودے چند باقی رہ جانے والی نظموں میں شمار کیا جائے گا۔آپ نے دیکھا کہ اس میں فرشی کی قوت متخیلہ کوندے کی طرح ایک ہی ساعت میں کئی زمینوں اور کئی زمانوں پر سے لپک کر ابدیت کے کناروں کو چھو لیتی ہے۔وہ اپنے امیجز کی تعمیر کے لئے اس بے کنار زمانی و مکانی علاقے سے غیر مانوس مماثلتیں اور انوکھی تضادات اور پھر ان کے جواز برآمد کر کے نظم کے کینوس پر یوں بکھیر دیتا ہے کہ ایک مربوط بصری اور معنوی نظام ترتیب پا جاتا ہے۔اس طرح فن پارے کے بطن سے ایسا طلسماتی ماحول وجود پذیر ہوتا ہے جس میں زمان و مکاں ، قدیم و جدید، اساطیر و سائنس ، فلسفہ و تصوف، ارتقاء و فنا ، مذہب و تعقل ، مادہ و روح، موت اور محبت سب ایک دوسرے سے مربوط ہو کر براہ راست ترسیل کے بجائے امیجز کے ذریعے نئی بوطیقا تشکیل دے دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں نہ تو معنی کی مطلقیت اور قطعیت ہوتی ہے اور نہ شاعرانہ تصنع۔یوں وہ اپنی نظم کے لئے ایسا نظام وضع کر لیتا ہے جس کے ذریعے انسان اور فطرت کے نامیاتی تعلق سے پیدا ہونے والے معلوم تضادات کے کنگروں سے وراء منطقے دریافت ہونے لگتے ہیں اور نظم دانشورانہ ادراک اور ارادی شعور سے اگلی منازل کی  اوڈیسی بن جاتی ہے۔

****

حسن عابدی:جو حرف لکھے دور سے روشن نظر آئے

مجھے اعتراف کر لینے دیجئے کہ میں حسن عابدی کی طرف اس کی نظم ” کوئی چیز بے کار نہیں ” سے پہلے پوری طرح متوجہ نہ ہو پا یا تھا۔ میں نے یہ نظم آئندہ کراچی کی ۲۰۰۰ء میں چھپنے والی ایک اشاعت میں پڑھی تھی۔ بظاہر نظم ایک کباڑی کے دن بھر کے معمولات کے گرد گھومتی تھی مگر بیچ بیچ میں کوسوں کے اندر قدرے غیر متعلق بات کی طرف اشارہ کر کے اسے قومی سطح پر مجرمانہ بے عملی سے جوڑ دیا گیا تھا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی تھی ، اس میں کاٹھ کباڑ سے جو امیجز بنائے گئے تھے وہ حیرت انگیز طور پر اتنے شفاف ہو گئے تھے کہ ان میں سے معنی کے ایک سے زائد دھارے پھوٹ بہے تھے۔ اور جب میں نظم کے آخر میں پہنچا تھا، وہاں جہاں اس کباڑی کے گول مٹول بچے کو تختے والی اس ریڑھی پر بیٹھا دکھایا گیا تھا جس پر دن بھر گلی گلی گھوم کر اکٹھی کی جانے والی ناکارہ چیزیں دھری ہوئی تھیں تو میرا دوران خون بڑھ گیا تھا۔ نظم یہاں پر رکی نہیں تھی کہ آگے چل کر کاٹھ کباڑ کو ایک بڑے کباڑی نے خریدنا تھا …. کاٹھ کباڑ کو ، قومی ردی کو اور چھوٹے کباڑی کے گول مٹول بچے کو بھی، کہ اسی سے مال بنایا اور کمایا جانا تھا۔

یہ نظم میرے اندر دھرنا مار کر بیٹھ گئی۔ گہرے درد کی طرح ….، نہیں شاید ایک طیش کی طرح جو آپ کے دوران خون کو معمول پر نہیں آنے دیتا ، اسی رات میں نے خواب میں ایک کباڑی کو دیکھا تھا جو دروازوں پر دستک دے دے کر صدائیں لگاتا پھرتا تھا :

"ٹوٹا پھوٹا مال نکالو

بی بی خالی ہاتھ نہ ٹالو

لوہا لکڑی ، خالی ڈبے ، ناکارہ فرنیچر

کرنا کیا ہے گھر میں رکھ کر….”

میں نے نظر بھر کر اس کی تختے والی گاڑی کو دیکھا تھا ٹوٹی پھوٹی میز اور کرسی کے ساتھ بنیادی دفعات سے خالی آئین ، مالی منصوبے ، سرکاری اعلانات اور پتہ نہیں کیا کچھ ردی کی صورت بکھرا پڑا تھا۔ اسی کاٹھ کباڑ اور ردی کے پاس ہی ایک معصوم بچہ بھی بیٹھا ہوا تھا جس کے چہرے کی معصومیت کو اس ناکارہ اسباب سے اٹھنے والی دھول نے دھندلا دیا تھا۔

یوں کسی فن پارے کا اعصاب پر سوار ہو جانا میرے لیے بہت غیر معمولی تھا۔

پھر یوں ہوا کہ اس غیر معمولی فن کار کی نظمیں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھنے لگا اور لطف یہ ہے کہ ہر بار کوئی نہ کوئی پہلو مجھے دلکش دکھائی دے جاتا تھا۔ ان نظموں سے میں نے جس حسن عابدی کے خال و خد بنائے وہ اس بزرگ ترقی پسند صحافی کے طور پر معروف حسن عابدی سے قطعاً مختلف تھے جس کا ذکر گاہے گاہے میرے سننے میں آتا رہا تھا۔ ان نظموں میں جدید تر حسیات سے پوری تخلیقی سچائی کے ساتھ وابستہ ایسے شخص کا ہیولا بنتا تھا جس نے گذشتہ ربع صدی کے بدلے ہوئے تخلیقی لحن کو شعار کیا تھا اور یہی میری چوک تھی۔ جدید نظم پر مضمون لکھتے ہوئے اسی چوک نے مجھے ان بھائی لوگوں کی طرح منہ کے بل گرایا جو تخلیق کو مصنف سے بالکل الگ کر کے سمجھنے کے جتن کرتے ہیں اور آپ جانتے ہی ہیں کہ مصنف کو مردہ سمجھنے والوں کی تنقیدی تھیوریوں کے لاشے تھوڑے ہی عرصے میں تعفن چھوڑنے لگے ہیں۔

خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ، مجھے تو یہ بتانا ہے کوئی تین سال پہلے جب میں نے ایک مضمون میں نئی نظم کے کچھ اہم نام نشان زد کئے تھے تو حسن عابدی کو اسی تناظر میں اس نئی نسل میں شمار کر لیا تھا جس نے گزشتہ ربع صدی میں شناخت پائی تھی۔اس مضمون کے چھپنے پر آصف فرخی نے بجا طور پر میری گرفت کی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ چند ایسے نظم نگاروں کا میرے مضمون میں ذکر نہ آنے پر برہمی کا اظہار بھی کر دیا تھا، جو مجھے قطعاً متاثر نہ کر پائے تھے۔ لہذا آصف فرخی کے خط کی جذباتی عبارت بہت جلد ذہن سے محو ہو گئی حتی کہ ۲۰۰۳ کی وہ شام آ گئی جب میرے لیے کراچی میں کچھ احباب جمع ہوئے جن میں حسن عابدی بھی تھا۔ بوٹا قد، اکہرا جسم ، سفید بڑھے ہوئے بال جنہیں عدم دلچسپی سے کنگھی کیا گیا تھا ، موٹے فریم والی عینک ، وہ ملنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تھا مگر یوں کہ نگاہ پوری طرح اٹھی ہوئی نہیں تھی اس کے چہرے پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ تھی جو مزاج کی سنجیدگی نے دبا رکھی تھی۔ تعارف ہو چکا تو میں کھسیانا ہو رہا تھا مجھے آصف فرخی والی گرفت یاد آنے لگی۔ واقعی مجھ سے بہت خطا ہوئی تھی اور جب تک میں نے حسن عابدی سے اپنی خطا کی معافی نہیں مانگ لی میں بات آگے بڑھانے کے قابل نہیں ہوا…. مگر یوں تھا کہ میرے معذرت چاہنے پر وہ اور بھی زمین کے قریب ہو گیا تھا اس پیڑ کی ڈالیوں کی طرح جو رس بھرے پھلوں سے لد کر جھک جاتی ہیں۔

باقی کی ملاقاتیں بھی گنی چنی ہیں مگر اس عرصے کا فیضان یہ ہے کہ حسن عابدی نے مجھے اس وقت تک شائع ہو چکے اپنے دونوں شعری مجموعے عطا کر کے موقع فراہم کر دیا تھا کہ میں اس کی شاعری دل جمعی سے پڑھ سکوں۔ اس کا تیسرا مجموعہ کچھ عرصہ پہلے آصف فرخی لیتے آیا۔جن کے ہاں لکھنا مشغلہ نہیں ہوتا زندگی اور موت جیسا مسئلہ ہو جاتا ہے وہ لاکھ فاصلے پر ہوں قریب آ جاتے ہیں تو یوں ہوا کہ ہم بہت قریب ہو گئے تھے۔اب میں اس حسن عابدی کو جان گیا تھا جس کی ساری زندگی مشقت سے عبارت تھی مگر جس کا دل انسان کی محبت میں کناروں تک چھلک رہا تھا جو محبت کو دل کی دین، اور محبت ہی کو ہر ذی نفس پر فرض اور آدمی کا آدمی پر قرض سمجھتا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ اس سانحے پر رنجیدہ بھی تھا کہ شہر کی رسمیں جدا ہو گئی ہیں :

” یہاں کے آب و خاک و باد میں انکار کی خو ہے

شجر آغوش وا کرتے ہیں اور سائے نہیں ملتے

شناسائی کی خوشبو پر دریچے بند ہوتے ہیں

دعائیں در بدر پھرتی ہیں ماں جائے نہیں ملتے….”

محبت/حسن عابدی

عین ایسے عالم میں کہ جب بھونچال کی تباہ کاریوں کے بعد بچوں کی چیخوں کے سرخ پھول فضا کی چادر پر ہر کہیں نظر آتے ہیں مجھے اِس نامہربان منظر نامے کے طلسم سے نکلنے کے لیے وہ وظیفہ یاد آتا ہے جو حسن عابدی نے اپنی نظم "آنسو” میں بتایا تھا:

"بچوں کی آوازیں

آوازوں کے پھول

اور پھولوں کے ہار

کچھ بھی پاس نہ آئے

تب یہ سوچو

روح کی گرد آلود قبا میں ، چاک بہت ہیں

کب سے دھوئے نہیں تھے

کب سے روئے نہیں تھے

تنہا بیٹھو ، بیٹھ کے رو لو

دھول آنکھوں سے دھل جائے گی

دنیا نئی نظر آئے گی”

آنسو/حسن عابدی

جس روز حسن عابدی نے اپنی پہلی دو کتابیں "نوشت نے” اور جریدہ” دی تھی تو یوں نہیں تھا کہ کتابیں لا کر چھاتی پھلا ئی اور دھڑ سے مجھے تھما دی تھی۔ بلکہ یوں تھا کہ ہم مبین مرزا کے ہاں طویل نشست کے بعد بہت دیر ساتھ ساتھ رہے ، وہ بولتا کم اور سنتا زیادہ تھا۔ اس روز تو وہ بہت کم بول رہا تھا۔ اتنا کم کہ مجھے خدشہ ہونے لگا، کوئی بات ضرور ہے جو اسے کہنا ہے۔ اس خدشے نے مجھے بھی چپ لگا دی تھی۔ مجھے پوری طرح اپنی جانب متوجہ پا کر حسن عابدی نے اپنی لپیٹی ہوئی کتابیں میرے سامنے کیں اور کہا کہ قصور اُس کا اپنا تھا کہ ُاس کی کتابیں بہت کم لوگوں تک پہنچ پائی تھیں۔ میں نے اُن کتابوں کو تھام لیا اور پھر یوں ہوا کہ مجھے حسن عابدی کی محبت نے تھام لیا ، اُس کے خلوص سے بھرے ہوئے لفظوں نے ، اُس کے لہجے کے ٹھہراؤ نے اور اُس گہرے احساس نے جو اُس کی شاعری کا خاص وصف ہو گیا تھا۔

۱۹۵۵ء تک شاعر حسن عابدی ، صحافی حسن عابدی کے نرغے میں تھا۔ تاہم ’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ، والا کرشمہ ہوا اور جنوری ۱۹۵۵ میں اس کی پہلا شعری مجموعہ "نوشت نے "شائع ہو گیا۔ اس مجموعے کے آغاز میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ :

” میں نے صحافت کی، کالم نگاری کی، اخبار میں نوکری کی…. بے روزگاری کاٹی ….مشقت سے منہ نہ موڑا، دل شکستہ تو ہوا مایوس نہیں ہوا۔اب سوچتا ہوں تو نادم ہوتا ہوں کہ میں نے شاعری کو اپنا اسلوب زیست کیوں نہ بنایا”

گزارش، نوشت نے/حسن عابدی

یہ ندامت ایسی تھی کہ اس نے زندگی کا اسلوب بدل لیا۔ اب صحافت اس کی زندگی میں اس مقام پر آ گئی تھی جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔ یہی سبب ہے ۱۹۹۸ میں اس کا دوسرا مجموعہ "جریدہ” شائع ہو گیا جب کہ کچھ ہی عرصہ پہلے اس کا تیسرا مجموعہ "فرار ہونا حروف کا بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ لیکن میں بات کر رہا تھا اس زمانے کی جب وہ صرف صحافی ہو کر رہ گیا تھا، ایسا صحافی جو ترقی پسند تحریک کا انڈر گراؤنڈ ورکر تھا اور انہیں کے تقاضوں کے عین مطابق شاعری کر لیا کرتا تھا۔ تب وہ اس تحریک کا اتنا اہم ورکر تھا کہ ایک وقت کی حکومت نے اسے راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہونے والوں کی فہرست میں رکھا۔ یہ گرفتار ہوا، سی کلاس کی صعوبتیں برداشت کیں مگر اپنی روش ترک نہ کی حتی کہ وہ زمانہ آ لگتا ہے جب ترقی پسندی دوا کے طور پر کان میں ڈالنے کو بھی باقی نہیں بچتی اور بچے کھچے اکثر انقلابی اتنے روشن خیال اور سیانے ہو گئے ہیں کہ اس روشن خیالی کی جھونک میں سب سے بڑے سامراج اور اس کے مقامی ہرکاروں کے مکروہ چہروں پر بوسے دیتے ہوئے انہیں ذرا بھی لاج نہیں آتی۔ فیض کا وہ شعر یاد کیجئے جس میں ، پرورش لوح و قلم ، کی بات کی گئی تھی اور بدلے ہوئے تناظر میں حسن عابدی کا ایک شعر بھی سن لیجئے :

عابدی پرورش جاں کا خیال آتا ہے

ان دنوں پرورش لوح و قلم سے پہلے

سو عین ایسے زمانے میں جب عالمی سرمایہ کاری سب کچھ بہائے چلی جاتی ہے۔ نظریاتی وابستگیوں معزز وظیفہ بے وقت کا راگ بنا دیا گیا ہے ، ہم نے دیکھا کہ حسن عابدی سب سے الگ دھج سے کھڑا مسلسل سامراج کو للکارتا رہا ، بغیر کسی خوف کے ، پورے خلوص اور پورے تخلیقی رچاؤ کے ساتھ:

"ہلاکو اب جو تم بغداد آؤ گے

علی بابا کے سونے کے خریطے ، خیمہ و خرگاہ سارے لٹ چکے ہوں گے

جہاں عشوہ طراز و حیلہ گر مرجینا رہتی تھی

وہاں اک اور ہی دنیا کے نوسر باز بیٹھے ہیں

یہاں مٹی میں جادو ہے، زمیں سونا اگلتی ہے

ہوا میں تیل کی بو ہے

ہلاکو اب جو تم بغداد آؤ گے

تو پھر واپس نہ جاؤ گے۔

ہلاکو اب جو تم بغداد آؤ گے/حسن عابدی

حسن عابدی کے مرنے کی خبر میرے لیے بہت اچانک تھی۔ ایک صبح میں نے حسب معمول اپنا میل باکس کھولا تو اس خبر پر مشتمل کراچی سے آنے والی ای میل میرے سامنے آ گئی تھی یوں کہ میں بہت دیر تک اسے پڑھ نہ پایا تھا۔ اسی ای میل میں لکھا تھا کہ حسن عابدی کل تک ٹھیک ٹھاک تھے۔ کسی تقریب میں شرکت کی اس کی رپورٹ ڈان کو بھیجی تھی۔ میں نے جھٹ ڈان کا ویب ایڈیشن نکالا وہاں حسن عابدی کی بھیجی ہوئی رپورٹ موجود تھی۔ مگر وہاں حسن عابدی نہیں تھا بس اس کے قلم کی مشقت تھی

صحافت کی دنیا سے وابستہ رہتے ہوئے ، اس نے ۱۹۹۵ سے ۲۰۰۵ کے دورانئے میں اپنے آپ کو شاعری کے میدان میں یوں زندہ رکھا کہ اب وہ کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔بہت پہلے اس نے کہا تھا:

میں آبلہ پا دھوپ کے صحرا کا مسافر

سائے کا بھی احسان اٹھا کر نہیں رکھا

جو حرف لکھے دور سے روشن نظر آئے

رستے میں چراغوں کو بجھا کر نہیں رکھا

٭٭٭

فاطمہ حسن: کہانیاں گُم ہو جاتی ہیں

میں جس فاطمہ حسن سے آگاہ رہا ہوں وہ "دستک سے در کا فاصلہ” والی ہے حالانکہ آصف فرخی ، بہت دن گزرے اس کی کہانیوں کی کتاب مطالعہ کے لئے عطا کر گئے تھے۔

میں نے ساری کہانیاں تب ہی پڑھ ڈالی تھیں …. ایک ہی نشست میں۔

فاطمہ حسن کی کہانیاں ایک ہی ہلّے میں بڑھی جا سکتی ہیں۔

بالکل ایسے ہی جیسے ایک بھولی بھالی بچی ایک ہی وقت میں ایک ساتھ کئی کھلونوں سے لطف اندوز ہو سکتی ہے…. ایسے کھلونوں سے جو کترنوں سے بنائے جاتے ہیں۔

اپنے اصل کی چھانٹن لو کر بے وقعت ہو جانے والی کترنوں سے بچی کھیلتی ہے…. پہروں کھیلتی ہے۔

انہیں کچھ عرصہ سنبھال کر رکھتی ہے…. کچھ عرصہ ہی تو سنبھال کر رکھ سکتی ہے اور پھر یہ کترنیں گُم ہو جاتی ہیں۔ فاطمہ حسن کی ان گُم ہو جانے والی کہانیوں کی طرح جو بوسیدہ ڈائری سے برآمد ہو کر ایک کتاب میں سما گئی ہیں۔ ایک ہی ہلّے میں پڑھ لی جانے والی کتاب میں۔

میں نے وہ کتاب پڑھ تو لی تھی مگر ایک شاعرہ اپنے پورے وجود کے ساتھ میرے ساتھ موجود رہی۔ دستک سے در کا فاصلہ والی شاعرہ۔

"بہتے ہوئے پھول” اس کی شاعری کا پہلا مجموعہ تھا وہ میری نظر سے نہیں گزرا مگر "دستک سے در کا فاصلہ” ان جادوئی بادلوں کی طرح ہے جو اچانک پھٹ کر اپنا سارا پانی انڈیل دیتے ہیں آپ کے وجود کے Catchment ایریا میں …. یوں کہ آپ کے باطن میں موجود لئی کناروں سے چھلکنے لگتی ہے…. اُبلنے لگتی ہے…. طغیاں ہو جاتی ہے۔

…. اور وحشی ہو کر پھیل جاتی ہے۔

اتنی وحشت کہ محبت بھی سکوں دے نہ سکے

اتنی شدت کہ چٹختی ہو ہر اِک رگ جیسے

وہ تلاطم ہے کہ آنکھوں سے اُمنڈ آئے لہو

دل یہ لگتا ہے کہ جیسے کسی گرداب میں ہے

کیا کروں روؤں ، ہنسوں ، رقص کروں یا ماتم

جب وحشت میں جذبے کچھ اس طرح ٹھاٹھیں ماریں کہ روح اور بدن کے سارے طاس کا پانی لہو بن کر دل سے اور رگِ جاں سے اُمنڈ پڑے۔ اس شدت سے اور یوں دھاریں مار مار کر اُمنڈے کہ اندر سے خالی کر دے تو پہلی پناہ گاہ جی بھر کر رونا ہو سکت ہے…. ذرا فاصلہ زیادہ ہو تو ساری شدت کو قہقہوں میں بھی اُڑایا جا سکتا ہے…. بعن میں بغاوت کا غدر اُٹھے تو یہ تُندی رقص کی توانائی میں ڈھل سکتی ہے یا پھر عمر بھر کے لئے ماتمی علم تو اُٹھایا ہی جا سکتا ہے مگر فاطمہ حسن نے شعر کہے ہیں :

کہو تو نام میں دے دوں اسے محبت کا

جو اِک الاؤ ہے جلتی ہوئی رفاقت کا

یا پھر یوں کہ:

یہ جاگتی ہے تو پھر دیر تک جگاتی ہے

مرے وجود میں سوئی ہوئی جو وحشت ہے

وحشت کے ایسے عالم میں شاعری کے بھاگ جاگ اٹھا کرتے ہیں۔

ایسے میں غزلیں تو نوکِ قلم سے کاغذ پر اتر کر اہلے گہلے پھرنے لگتی ہیں۔

مگر کہانیاں …. جی ہاں کہانیاں گُم ہو جاتی ہیں …. شاعری کے دھارے کے بیچ میں اپنی بات روکتا ہوں کہ ژاں پال سارتر کی ایک بات یاد آ رہی ہے اس نے کچھ اس طرح کہا تھا:

"تخلیق حیوانی نفس کی وہ چیخ نہیں ہے جو درد سراسیمگی اور خوف کے عالم میں قضا ہو جاتی ہے۔”

مگر غزل تو ہے …. جذبوں سے بھری ہوئی رنگ پچکاری جیسی، دہشت سے نکلی ہوئی چیخ جیسی اور حیرت کے اس لمحے کی طرح جو عین صلیب پر اُترے اور زندگی کا جوہر کشید کرے۔

اگر ایسی نہ ہوتی تو افتخار عارف یہ کیوں کہتا:

جیسی لگی تھی دل میں آگ سیدی غزل ہوئی نہیں

لفظ سنبھل نہیں سکے درد کی تیز دھار میں

انتظار حسین کا کہنا ہے کہ شاعر تو ہمیشہ زندگی کا جوہر کشید کرنے والے لمحے کی تاک میں رہتا ہے اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کہانیاں ایسے لمحوں میں گم ہو جاتی ہیں ، شاعری میں یا پھر وقت کی چیزویں قبر میں۔

فاطمہ حسن نے یہ کہانیاں تب لکھی تھیں جب اس کی شاعری زندگی کا جوہر کشید کرنے میں طاق ہونے کے تیور دکھانے لگی تھی اور فاطمہ انہیں ایسے میں منظرِ عام پر لائی ہے جب شاعری کے لشکارے نے اسے اجال دیا ہے۔ ایک پہچان رکھنے والی شاعرہ پلٹ کر دیکھتی ہے تو گم ہو جانے والی کہانیوں کو تلاش کرتی ہے۔

مجھے اس کا یوں پلٹ کر دیکھنا کھَلتا نہیں ہے کہ ایسا ہونا بہت اچھا ہو سکتا ہے ، ایک عورت جب چھوٹ چکے آنگن کو مُڑ کر دیکھتی ہے تو یوں اس کی چال میں نیا اعتماد اور نئی تمکنت آ جایا کرتی ہے مگر ہوا یوں ہے کہ فاطمہ حسن نے کہانیوں کو بالکل ویسا ہی رہنے دیا ہے جیسے وہ تھیں۔

ان میں وہ بوسیدہ نعرہ بھی کہیں کہیں جھلک دے جاتا ہے جو بعد میں مغرب کے ہوس ہونٹوں سے نیو ورلڈ آرڈر کی رال بن کر ٹپک پڑا اور جس کو J. C. Brook نے مغربی بنیاد پرستی کَہ دیا تھا۔ ایسی بنیاد پرستی جو Consumerismاور Marketism کے تحت عورت کو ایسی خود مختاری دیتی ہے جس میں وہ فقط جسم ہو جاتی ہے، خوش نما اور لذیذ جسم …. آرائشی اور تہنیتی کاغذوں میں لپٹا ، بظاہر ہر کہیں موجود جسم مگر فی الوصل Consumersکی اشتہا بڑھاتا Commodityبن جاتا جسم، تاہم فاطمہ کی شاعری اور کہانیوں میں یہ نعرہ بہت دھیما ہے اور اس میں ویسی جھجک اور حیا ہے جو دستک کے لئے اُٹھے ہاتھ اور دستک کے لئے منتظر در کے درمیانی وقفے میں پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ تو فہمیدہ ریاض بنتی ہے نہ کشور ناہید …. وہ فاطمہ حسن ہی رہتی ہے اور اپنی الگ شناخت بناتی ہے۔

آصف نے کتاب کے آخر میں شامل مضمون میں لکھا کہ جب کہانی کے نام پر فاطمہ حسن نے اسے ڈائری تھما دی تھی ، تاریخیں بہت پرانی ہو چکی تھیں تو بیچ میں کئی صفحے سادہ تھے …. اس نے یہ بھی لکھا کہ کئی کہانیاں حاشئے پر تھیں ، گھبراہٹ یا بے زاری کے مارے تیز تیز بے طرح اتاری ہوئی۔

یوں لگتا ہے آصف نے ان کہانیوں کو ایسے ہی چھاپ دیا ہے۔ Separators کی صورت خالی رہ جانے والے اوراق کے بیچ۔ ورنہ اس ساری کتاب میں چار سے زیادہ کہانیاں نہیں ہیں۔ پہلی کہانی کے کرداروں میں تو وہ ہے جو دھیرے دھیرے کچھ کہے جاتی ہے اپنے آپ سے، اپنی سہیلی سے یا پھر اس سے جس کے بارے میں اس کا گما ن ہے کہ اس کے سبب وہ شناخت سے محروم ہے۔

اس ایک کہانی کو "بلیک آرٹ” ، "پری میچور برتھ”، "عام سی لڑکی” ، "چھوٹے رے لوگ”، "چھتیس نمبر” ، "وقت اور فاصلہ”، "چوتھے کونے کا آسیب” ، "سفر میں ” ، "جھوٹے پھل”، "بدلتی ہوئی جون”، "تلاش” اور "وہ مجھے دیکھتی رہی ” کی کترنوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔

کہیں کہیں یہ کترنیں سندھ کی چادر رلّی کی طرح ہو گئی ہیں …. دیر تک ساتھ دینے والی اور خوب صورت رنگوں کی پھوار چھوڑنے والی رلّی کی طرح۔

اور کہیں یہی کترن کہانیاں ان معصوم لڑکیوں جیسی ہو گئی ہیں جو کھیلنے کی عمر ہی میں جنسیاتی طور اس قدر بلوغت پا لیتی ہیں کہ ان پر "چھتیس نمبر” فٹ بیٹھتا ہے۔

چھتیس نمبر فاطمہ حسن کا افسانہ ہے، چونکانے والا مگر فی الاصل ایک کہانی بن جانے والی دوسری کہانیوں کا جزو بن جانے والا۔

تاہم وہ کہانیاں جو مختلف ہو گئی ہیں وہ صرف تین ہیں۔

کہانی ایک شہزادی کی

زمین کی حکایت

اور ….

ٹھہری ہوئی یاد

میں یہ مان لینے سے قاصر ہوں کہ یہ کہانیاں بھی اسی بوسیدہ ہو جانے والی ڈائری سے برآمد ہوئی تھیں کہ ان میں کہانی کا وہ بھید ہے جس کے سبب راہ گیر راستہ بھول جایا کرتے تھے۔

منشا یاد کہانیوں کے طویل یا مختصر رہ جانے سے دل چسپ نکتے برآمد کیا کرتے ہیں پھر اپنے نقطوں سے کسی بھی افسانہ نگا ر کے ہاں کامیاب افسانوں کی مناسب طوالت یوں تجویز کر دیا کرتے ہیں جیسے ایک ماہر نباض ماپ کر نسخہ تجویز کیا کرتا ہے۔

میں نہیں جانتا فاطمہ حسن کی کہانیوں کو پڑھ کر وہ کیا نسخہ تجویز فرمائیں گے تاہم اتنا جان گیا ہوں کہ شاعری کی چوندھ میں ڈھلتے جذبوں کو بھیدوں بھری رات میں زندگی سے جوڑنے والے شام سمے میں یہ کہانیاں تخلیق ہوئی ہیں۔

وقت کا اتنا کم وقفہ جب رکعتیں بھی سمٹ سمٹا کر کم رہ جاتی ہیں ، زندگی کی گمراہی کو کیسے سمیٹ سکتا ہے۔

لہٰذا ہر کہانی اتنی ان کہی رہ گئی ہے جتنی کسی علامت ، استعارے اور تمثیل نے بتانا تھی، جتنی کرداروں نے اپنی شباہت سے اجالنا تھی، واقعات نے اپنی ترتیب سے سمجھانا تھی اور کرافٹ نے جسے اپنے اندر گوندھنا تھا۔

تاہم وہ تین کہانیاں جنہیں فاطمہ حسن نے سنبھال لیا ہے ، اپنے افسانے "وہ بچہ” کی ماں کے رحم میں پلٹ جانے والے بچے کی طرح انہیں واپس نہیں پلٹ جانے دیا، روک لیا ہے، گود لے لیا ہے، شاعری سے وقت نکال کر پوری توجہ سے انہیں لکھا ہے۔ یوں کہ وہ الگ سے دِکھنے لگی ہیں ، گُم نہیں ہوئی ہیں۔

ایسی کہانیاں گُم ہونے کے لئے ہوتی ہی نہیں ہیں۔ چاہے زمینیں گُم ہو جائیں یا پھر زمین سے اُگنے والے رشتے گُم ہو جائیں ، اِن کہانیوں کو زندہ رہنا ہوتا ہے، لکھنے والے کے وجود کی گواہی بن کر اور اسے زندہ رکھنے کے لئے۔ مجھے یقین ہے فاطمہ حسن ایسی کہانیاں لکھ سکتی ہے اور ضرور لکھے گی۔ یوں وہ شاعری کی طرح اُردو فکشن کا بھی معتبر نام بن سکتی ہے۔

٭٭٭

جتندر بلو کی کہانیاں : ایک تاثر

جتندر بلو کے کہانی کہنے کے چلن کو جاننے کے لیے مجھے اس کی جس تازہ کہانی کا سہارا لینا پڑ رہا ہے ، وہ ہے "ماں ، بیٹی اور باپ”۔ اگرچہ میرا خیال ہے کہ یہ کہانی جتندر بلو کی نمائندہ کہانیوں میں شمار نہیں کی جا سکتی تاہم اپنے مواد ، کرداروں کے انتخاب، متن میں معنی کے بہاؤ ، ماحول اور موضوع کے معاملات پر ایسے مواقع ضرور فراہم کرتی ہے کہ ہم اس کے مجموعی تخلیقی مزاج پر بات کر سکیں۔ "ماں ، بیٹی اور باپ” کا عنوان قائم کر کے یہ آغاز ہی میں اعلان کر دیا گیا ہے کہ اس کہانی کا موضوع خاندان اور سماجی رشتے ہو گا اور یہ کہ اس کے نمایاں کرداروں کے لیے ان ہی تین رشتوں کو چنا گیا ہے۔ صاحب ، آپ نے درست اندازہ لگایا مگر بات کھلی ہوئی ہونے کے باوجود اتنی آسان نہیں ہے لہذا ایک ترتیب سے آگے بڑھنے کے لیے اس کہانی کو چند نقاط میں سمیٹنا چاہوں گا۔ یاد رہے جتندر بلو کی کئی کہانیوں میں جنس اور محبت کی تکون موضوع بنتی رہی ہے دو مرد ایک عورت یا پھر ایک مرد اور دو عورتیں اور ان کے درمیان نفسیاتی، جنسی اور تہذیبی الجھنوں میں سے راستہ بناتی ہوئی محبت۔ اس کہانی میں بھی مرکزی کردار ایک باربرا کا بنتا ہے جب کہ دو مرد وں میں سے ایک کا تعلق انڈیا سے اور دوسرے کا بنگلہ دیش سے ہے :

۱۔ کہانی واحد متکلم کے بیان سے شروع ہوتی ہے۔ یہ وہی فرد ہے جو انڈیا کا رہنے والا اور یہاں کی مذہبی کتابوں کو ماننے والا ہے۔

” میں نے اسے اپنی مذہبی کتابوں اور عقیدوں کا حوالہ دینا ضروری جانا۔ ….” میں جانتا ہوں تم ان باتوں پر یقین نہیں رکھتیں ؟ مگر ان میں بڑی سچائی ہے۔ کئی جنم تک آتماؤں کا ملن آپس میں رہتا ہے۔”….”ہاں ، اور تم کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ انڈیا کے چار بڑے مذہب ہندومت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت یقین رکھتے ہیں کہ منش مرنے کے بعد اگلا جنم ضرور لیتا ہے اور اس کی آتما کا فیصلہ اس کے پچھلے جنم کے کرم کرتے ہیں کہ وہ کس کوکھ میں پرویش کرے گی؟”

۲۔ ہندی مذاہب پر یقین رکھنے والا یہ بیان کنندہ انگریزوں کے ہاں اپنی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے گیا تھا مگر وہاں رہ بس کر وہ اس ماحول کا حصہ نہیں بن سکا۔ خوب محنت کر کے وسائل جمع کرنے کے بعد چاہتا ہے کہ جلد اپنے وطن لوٹ جائے۔

” میرا جیون تو پرندوں کی مانند تھا، جو بھور ہوتے ہی آب و دانہ کی تلاش میں پرواز کر جاتے ہیں اور سانجھ ڈھلنے پر ہی گھونسلوں میں لوٹا کرتے ہیں لیکن میں تو پرندوں سے بھی چند ہاتھ آگے نکل گیا تھا "….” میری سائیکی اور لاشعور میں یہ خوف بیٹھا ہوا تھا کہ اگر میں زندگی کے سفر میں باربرا کے ساتھ کہیں بھی اٹک گیا تو میرے وہ منصوبے ، جنہیں میں جلد یا بدیر عملی شکل دینا چاہتا ہوں ، ادھورے رہ جائیں گے اور مجھے آخری سانس بھی پردیس میں لینا ہو گی لہذا میں نے خود پر جبر کیا۔”….” میں خود کو تمہاری دھرتی پر اجنبی سمجھتا ہوں۔ مجھے یہاں کا جیون زیادہ راس نہیں آیا۔ یہاں پیسے ضرور ہیں مگر بھید بھاؤ بہت زیادہ ہیں۔ پورا معاشرہ لالچ ، خود غرضی اور استحصال کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ میری کوشش شروع سے رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ بنا کر یہاں سے چلا جاؤں۔ "….” وہیں جہاں میں نے شعور پایا تھا۔ جہاں میرے سب اپنے پرائے موجود تھے۔” ….” تمہارا مطلب ہے بامبے؟”….” ہاں وہاں ساگر کنارے ایک چھوٹی سی کاٹیج بنانے کا ارادہ ہے۔”….” کاٹیج تو یہاں بھی بن سکتی ہے؟”….” ہاں کیوں نہیں ….لیکن میں اپنے کلچر اور اپنی تہذیب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا….میرا دم گھٹتا ہے یہاں "

۳۔ اگرچہ وہ مشرقی اقدار کا دل دادہ ہے اور اپنی تہذیبی اقدار سے وابستہ رہنا چاہتا ہے مگر اسے مقامی ماحول نے بھی بہت تبدیل کیا ہے۔ افسانے میں اس کردار کی اس جہت کو بھی بہت نمایاں کیا گیا ہے۔

"میرے پلنگ کے قریب میلے کچیلے کپڑے، میز پر ان گنت بے ترتیب کتابیں ، رسالے ، ایک کونے میں بیئر کے خالی ڈبے ، خالی بوتلیں ، کوفی ٹیبل پر سگریٹوں کی بھی ہوئی ٹرے اور….” "سیکس بھی زیر گفتگو رہتا”

۴۔ سیکس کا موضوع یہاں باربرا کے حوالے سے زیر بحث آیا ہے۔ یہی وہ ماں عورت ہے جواس کہانی کے دو مردوں کے درمیان کہانی کے وسیلے سے جڑ گئی ہے۔ اس عورت کو میں نے ماں عورت کہا، تو اس کا سبب یہ ہے کہ کہانی میں اس کا بنیادی حوالہ یک ماں کا ہی بنتا ہے میگی کی بن بیاہی ماں۔ اس کردار کی شاندار شخصیت کا نقشہ افسانہ نگار نے یوں کھینچا ہے :

” باربرا نے شخصیت ہی کچھ ایسی پائی تھی کہ ہر کوئی اسے دیکھ کر پگھل جایا کرتا تھا….گورے چٹے بدن پر نیم سرخ چہرہ ، حساس بلوریں آنکھیں ، اٹھی ہوئی مخصوص برطانوی ناک، تنی ہوئی چھاتیاں اور گھنے بال۔ اس کا کسا ہوا بدن دیکھ کر گمان گزرتا کہ وہ اب تک کنواری ہے۔ ان چھوئی ہے اور کسی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہے”….” باربرا حسین عورت تھی۔ہوش مند، تعلیم یافتہ، متوازن ذہن رکھتی تھی۔ مگر اس کا جیون ایک ایسے خطرناک موڑ سے گزر چکا تھا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ون پیئرنٹ فیملی بن کر رہ گئی تھی۔ انجام یہ ہوا کہ اس کے آگے پیچھے ، دائیں بائیں اندھیرا ہی اندھیرا پھیل گیا۔ پریشان باربرا صبر، جبر، جھلاہٹ اور جستجو کا شکار ہو کر رہ گئی تھی۔”

۵۔ باربر کا کردار ایک ننھی منی بچی میگی کے ساتھ جڑ کر اپنے خال و خد یوں بدل لیتا ہے:

"وہ میرے کرسی پر بیٹھ گئی۔ خاموش ، سنجیدہ ، فکر مند۔ ٹکٹکی باندھے کبھی میگی کو دیکھتی اور کبھی مجھے۔” ….”باربرا نے سگریٹ سلگائی۔ کچھ سوچا اور پھر تلخی سے کہا : ” میں دنیا کی ذرا بھی پروا نہیں کرتی۔”….” وہ تیزی سے بڑی ہو رہی ہے۔سال دوسال میں اسکول جانا شروع کر دے گی تو بچے اسے لّو چائلڈ کہہ کر چھیڑا کریں گے؟ اس کا مذاق اڑائیں ہے؟”….شاید تم نہیں جانتے۔ ہماری سوسائٹی میں لّو چائلڈ کا مطلب ہے باسٹرڈ  چائلڈ آؤٹ آف ویڈ لاک)حرامی بچہ ، بنا شادی کے جنا ہوا(۔ میں اس خیال ہی سے کانپ اٹھتی ہوں جب کوئی میری بچی کو اس نظر سے دیکھے گا۔”….” میگی کو باپ کے نام کے ساتھ ایک باپ کی بھی ضرورت ہے۔”

۶۔ جتندر بلو نے کہانی میں اس خوب صورت کردار کی صورت کو وہاں تو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا جہاں اس نے میگی کے حوالے سے یہ سنگین صورت حال بیان کی جاتی ہے:

” اس کی شرارتیں بعض دفعہ اپنی ماں باربرا کے لیے وبال جان بن جاتیں۔اس سمے وہ مادرانہ پیار، محبت، ممتا غرضیکہ ہر جذبہ فرا، وش کیے اپنی بیٹی کو دیوانہ وار پیٹتی چلی جاتی۔ میگی چیختی چلاتی۔اس کا رونا دھونا سن کر میرا ایک ہی رد عمل ہوتا کہ باربرا اپنی بیٹی کو پیٹنے کے بجائے خود کو ، اپنے حالات کو اور اپنے مقدر کو پیٹ رہی ہے۔ راہ شوق میں اٹھایا ہوا قدم کتنا مہنگا پڑتا ہے اور اس کی کتنی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔”

۷ لیجئے صاحب اب ذرا اس تیسرے کردار کا ناک نقشہ بھی ملاحظہ ہو جو کہانی کے عین آغاز میں متن میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا مگر جسے افسانہ نگار لائق اعتنا نہ جانا تاہم آخر میں پھر وہ کہانی میں یوں داخل ہوا کہ اس کے مرکزی واحد متکلم کردار کی باربرا کا حق دار ٹھہرا تھا۔ کہانی کے بیان کنندہ کی طرح اس مکان کا لاجر اور سانولا سلونا ایشیائی بلکہ رنگت اس سے کہیں گہری، پھیلی ہوئی سرمئی آنکھیں ، گھنگھریالے بال اور درمیانہ قد۔ مصیبت کا مارا بنگلہ دیشی احمد جس کی ماں مر گئی تھی اور جس کے پاس ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے۔ یہی وہ شخص ہے جس سے باربرا نے شادی کا فیصلہ کیا تھا۔ کیوں کہ وہ دودھ میں نہائی ہوئی سفید حسین عورت بار برا کے نزدیک ، انتہائی مخلص ، ایماندار اور صاف گو آدمی تھا۔کہانی کے آخر میں ایک ایسا سوال آتا ہے جس کو درج کرنے کے لیے مجھے اوپر کئی اقتباسات دینا پڑے ہیں۔ یہ سوال کہانی کے واحد متکلم نے اپنی محبت باربرا کا گال چوم لینے اور اس کی آنکھوں میں اتر جانے کے بعد کیا تھا:

” کیا تم واقعی احمد کو دل سے پسند کرنے لگی ہو؟”

جتندر بلو نے کہانی کہنے کے جس چلن کو اپنا رکھا ہے اس میں سارے معاملات بیانیے میں چکائے جاتے ہیں اور سارے سوالوں کے جواب متن میں ہی دے دیئے جاتے ہیں۔ تو یوں ہے کہ اس باب میں یہیں باربرا کا جواب بھی موجود ہے :

” میگی کے جنم لینے پر میرے لیے پسند نا پسند اور چاہت کے دروازے بند ہو گئے تھے۔ ان کو کھولتے کھولتے میں تھک چکی ہوں۔ پھر زندگی میں کچھ پانے کو کچھ کھونا بھی تو پڑتا ہے نا”۔اس کے چہرے پر مفاہمت ہی مفاہمت تحریر تھی۔”

جتندر بلو نے جس وضاحت سے کہانی لکھی تھی اس سے کہیں زیادہ وضاحت اور فراخ دلی کے ساتھ میں نے کہانی کے بیان ہونے والے مسائل کو جتندر ہی کی زبانی بیان کر دیا ہے۔ مغرب انسانیت کی بنیادی اقدار سے دور جا رہا ہے۔ خاندان ٹوٹ رہے ہیں۔ رشتے معدوم ہو رہے ہیں اور وہاں کا انسان اندر سے تنہا ہوتا جا رہا ہے۔سارتر کے مطابق تنہا ہونے کا یہ عمل اتنا لطیف اور پراسرار ہے کہ مغرب کا انسان اس کے مقابل کوئی مزاحمت نہیں کر رہا ہے۔ اس نے امریکہ کے حوالے سے ایک جگہ لکھا تھا کہ کوئی جب سڑک پر نکلتا ہے، کسی دکان میں داخل ہوتا ہے، نشریات سنتا ہے، اشتہاروں کو دیکھتا ہے تو یوں محسوس کرتا ہے کہ سب اسی سے باتیں کر رہے ہیں۔ چمکتے دمکتے اشتہاروں کی لذیذ عورتوں سے باتیں کرنے والے آدمی کو جب یہی عورت بغیر رشتوں کے میسر آنے لگی تو اس المیے نے جنم لیا جسے جتندر بلو نے اپنی اس کہانی میں موضوع بنایا ہے۔ باسٹرڈ بچے جن کا کوئی جرم نہیں ہے۔ جو میگی کی طرح معصوم ہیں وہ کس کو باپ کہیں۔ کہانی کی باربرا اس حوالے سے مشرق کی طرف دیکھتی ہے۔ سانولے سلونے لوگوں کی طرح۔ جو ابھی تک ان رشتوں پر اعتقاد رکھتے ہیں۔

جتندر بلو نے یہ کہانی نہ صرف کہانی کے راوی کی کھال میں گھس کر لکھی ہے اس نے اپنی کھال بھی سلامت رکھی ہے۔ ایسے میں مجھے اس کی کئی ایسی کہانیاں یاد آ رہی ہیں جو اس نے اسی ڈھنگ سے لکھ رکھی ہیں۔ ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے کہیں کہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے وہ فکشن نہیں بلکہ اس سچ کو گرفت میں لینا چاہ رہا ہو جو اس نے دیکھ پرکھ رکھا ہوتا ہے یا پھر اسے بھگت رہا ہوتا ہے۔ جتندر کی مجموعی تخلیقی فضا کو سمجھنے کے لے میں نے جتندر بلو کی دوسری کہانیوں کی طرف رجوع کیا تو جی چاہنے لگا ہے کہ اس حوالے سے چند ٹکڑے آپ کی نذر کر دوں :

” کئی سالوں کے وقفے کے بعد میں اپنے وطن عزیز گیا تھا…. میرے رشتے دار اور دوست احباب بھی اپنے رویوں کے ساتھ بدلے بدلے سے تھے۔ وہ مجھ سے زیادہ مغرب زدہ ہو چکے تھے۔ صرف لباس کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ ان کے دیکھنے، سوچنے اور محسوس کرنے کا ڈھنگ بھی بدلا بدلا سا تھا۔ لیکن بعض دوست ایسے بھی تھے جو اپنی دیرینہ اخلاقی ، تہذیبی اور سماجی روایات سے جڑے ہوئے تھے۔ ان میں میرا ایک دوست انور بلگرامی بھی تھا۔” / افسانہ "چکر”

” میں اور میری بیوی ، جنہوں نے شادی کے روز رجسٹرار کے دفتر میں صدق دل سے یہ بول ادا کیے تھے کہ ہم امیری غریبی میں ، غمی خوشی میں ، بیماری تندرستی میں ، دکھ سکھ میں اور ہر اونچ نیچ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور آخری دم تک ساتھ بھی نبھائیں گے ، اب اپنے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیے یوں بیٹھے ہیں ، گویا ہم میاں بیوی نہ ہوں ، بلکہ کسی مکان کے کرایہ دار ہوں ، جن کا آپس میں کوئی رشتہ ، کوئی تعلق نہیں ہوتا۔” /افسانہ "انوکھا سمبندھ”

"یہ سن کر میں خوش ہو گیا کہ پردیس میں بیٹھے بٹھائے میری قسمت کھل رہی ہے۔ مجھے ایک سلجھی ہوئی، ذہین ، پڑھی لکھی اور سنجیدہ عورت کی صحبت نصیب ہو رہی تھی۔ اس کے محسوسات بھی کم و بیش یہی رہے ہوں گے۔ اسی کارن اس نے مجھے اگلے ہی ہفتے اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دی تھی۔”/افسانہ” تعلق”

” میں ان دنوں سترہ برس کی عمر کو پوری طرح نہ پہنچا تھا…. لیکن مجھے ہر دم احساس رہنے لگا تھا کہ میں پورا بالغ ہو چکا ہوں۔دن میں اگر کوئی ہوش ربا بدن دِکھ جاتا تو وہ گھنٹوں میرے ساتھ رہتا اور رات میں نیند بھی حرام ہو جاتی۔” /افسانہ "پہلا گناہ”

"ایک خوشگوار صبح میں ناشتے کے دوران چھری کانٹا پکڑے بیکن کا ٹکڑا کاٹ کر لبوں کی طرف بڑھا رہا رہا تھا کہ روتھ نے میرے قریب آ کر سرگوشی کی : ” خوش ہو جاؤ”

"کیوں ؟ کوئی خاص بات ہے؟”

"ہاں ! میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔” /افسانہ "فاصلہ”

"چتری صوفے سے اچھل پڑی۔ تیزی سے میرے قریب آئی اور اپنی بانہیں میری کمر میں ڈال کر میری پشت سے چپک گئی۔ پھر پوری طاقت سے مجھے بھینچ ڈالا۔ لگا کہ میں کسی اسٹیم رولر کی زد میں آگیا ہوں۔”/افسانہ "چتری والا کیلا”

"اس کے لہجے کی آگ تیز تھی کہ میرے شریر کے بال ساتھ چھوڑتے ہوئے محسوس ہوئے۔ میں نے مزید وہاں رکنا مناسب نہیں سمجھا ان کو دیکھے بغیر ریسٹورنٹ سے چلا آیا اور گیلری کی بیرونی سیڑھیوں پر آن بیٹھا۔ سگریٹ پھونکتا برابر سوچتا رہا کہ مایا کے ساتھ مجھ کو اپنا تعلق رکھنا چاہیے یا ختم کر لینا چاہیے ؟ ایسی ذلت میں نے کبھی برداشت نہ کی تھی۔ میری گردن سیڑھیوں میں دھنس چکی تھی اور میں پرورٹ، باسٹرڈ، فلتھی مائنڈ جیسے خطابات پر غور کر رہا تھا کہ آئے دن ان میں اضافہ ہو رہا تھا۔ /افسانہ "پرورٹ”

جتندر بلو کی ان ساری کہانیوں کے اسلوب میں دو باتیں آپ فوراً نوٹ کر لیں گے :

۱۔ کہانی کا واحد متکلم کے سہارے آگے بڑھنا

۲۔ وضاحتی اور واقعاتی بیان کا اسلوب

میں یہ نہیں کہتا کہ جتندر نے ساری کہانیاں واحد متکلم کے سہارے لکھی ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ اس طریقہ کار میں اسے سہولت محسوس ہوتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اس تیکنیک کو سہولت کے ساتھ کہانی کو چست بنا لینے یا پھر بہ انداز دگر اسے مفصل لکھنے کے لیے بہ یک وقت استعمال میں لایا جا سکتا ہے تاہم جتندر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اس تیکنیک سے کہانی کو پھیلا لیا کرتے ہیں۔ بالعموم دیکھا گیا ہے اس قدر وضاحتی بیان کہانی کے اندر کسی بھید کے امکانات معدوم کر دیتا ہے۔ جتندر بلو نے اس کمی کو اپنے کرداروں کی ان نفسیاتی الجھنوں سے پورا کر دیا ہے جو کہانی میں تہذیبی سطح پر، اتصال، انجذاب یا پھر انتشار اور ٹکراؤ سے پھوٹتی رہتی ہیں۔ مجموعی حوالے سے دیکھا جائے تو جتندر کی کہانی کے بنیادی سروکار مشرقی اور مغربی تہذیب کا ٹکراؤ بنتا ہے۔ وہ مغرب میں جا کر اپنی تہذیبی جڑوں کو بھول نہیں پایا ہے اور کئی حوالوں سے اسے یہ تہذیبی حوالے بہت مرغوب ہیں۔ وہ مغرب کی جدید زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی اسے قبول کرنے پر تیار ہیں ہے۔ جنس وہ دوسرا حوالہ جو جتندر کی کہانیوں میں واشگاف ہو گیا ہے۔ اکثر اوقات اس چیختی چنگھاڑتی اور اچھلتی کودتی جنس کے اظہار کے لیے اس کے ہاں عورت کا جو کردار منتخب کیا جاتا ہے وہ ادھیڑ عمر کا ہوتا ہے۔ کسی جنسی سانحے کو بھگت کر اس کی کہانیوں کا حصہ بننے والے ایسے کردار آخر کار جنسی آزادہ روی پر ایک ضرب لگاتے ہیں۔ ’

’ماں ، بیٹی اور باپ” نامی اس کہانی میں بھی آپ نے دیکھا ہو گا کہ باربرا بھی آزاد جنسی تجربے سے گزر چکی ہے۔ حتی کہ ایک المناک صورتحال پڑنے کے باوجود جنس سے اسی انداز کے حظ کو ضروری سمجھتی ہے۔ کہانی کے واحد متکلم کا بھی لگ بھگ یہی رویہ ہے۔ حالاں کہ دونوں میں سے ایک کردار باسٹرڈ اولاد کو تہمت سمجھتا ہے تو دوسرا ان تہذیب سے جڑا ہوا نظر آتا جس میں اس طرح کے حرامی بچوں کی پیدائش کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جتندر کے تخلیقی مزاج کو سمجھنے کے لیے میں ایک بار پھر اس کی ایک اور کہانی "چتری والا کیلا” کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ یہ جو میں نے کہا ہے کہ اسے نئی نویلی اور کنواری لڑکی سے کہیں زیادہ اپنی کہانی کے لیے جنسی سطح پر کچلی ہوئی عورت زیادہ مرغوب ہے تو اس کا ایک ثبوت اس کے اس افسانے کی عورتیں بھی ہیں۔ "چتری والا کیلا” کی مونا سنگھ چوہان بہت خوب صورت ہے، جوان اور پرکشش ہے، اور اس کا بدن اس کہانی کے واحد متکلم کے ہوش اڑا کر رکھ دیتا ہے مگر آخر کا ر کہانی جس عورت کے حق میں فیصلہ دیتی ہے ، اس کی جلد چتری والے کیلے جیسی ہے۔ اس نے بھی زیر نظر کہانی کی باربرا کی طرح ایک حرامی بچی نیشا کو جن رکھا ہے۔ یاد رہے کہ یہ نیشا ، ایملی یعنی چتری کی بیٹی بھی ہے اور بہن بھی۔ یوں دیکھا جائے تو ایک سطح پر ایملی کا یہی کردار جتندر کی اس تازہ کہانی میں باربرا کی صورت میں حک واضافہ کے ساتھ اسی جنسی مسئلے اوراس کے لوازمات کودہرا رہا ہے۔ صاحب دیکھا جائے تو انسانی رشتوں کی ٹوٹتی بنتی کہانی میں جنس مرکز میں ہی رہتی ہے۔ جتندر نے اپنی کہانیوں میں اس سے خوب خوب کام لیا ہے اور اسے تہذیبی حوالوں کے ساتھ جوڑ کراس کی تطہیر کا سامان بھی کر دیا ہے۔ ہمارے مشرق کے محبوب کرداروں کو جس طرح برطانوی معاشرے کی چکا چوند نے قدم قدم پر  رپٹایا ہے جتندر بلو نے اس کی سرگزشت اپنی کہانیوں میں بیان کر دی ہے۔ اردو کی مہجر کہانیوں کے سرمائے میں جتندر کی کہانیوں رکھ کر دیکھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اتنی بڑی تعداد میں ایسے مختلف کرداروں کی دریافت اور زندگی کی نفسیاتی الجھنوں کی دھنک کا بیان اسے بہت اہم بنا دیتا ہے۔

٭٭٭

٭٭٭

ماخذ:

http://hameedshahid.com

مصنف کی اجازت سے

ای بک اور پروف ریڈنگ: اعجاز عبید