FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

اقبال کے بعض حالات

 

 

 

               غلام بھیک نیرنگ

 

ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال

مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، وحید اختر عشرت

 

 

 

 

 

آغاز تعلقات

 

اللہ اکبر! وقت کی رفتار کس قدر سست اور بہ ایں ہمہ کس قدر تیز ہے۔ اقبال کی اور میری پہلی ملاقات بظاہر کل کی بات ہے، مگر حساب لگا کر دیکھیے تو یہ پورے پچاس سال کا واقعہ ہے، آدھی صدی گزر گئی اور کل کی بات ہے۔

میں نے ۱۸۹۵ء میں پنجاب یونی ورسٹی کا انٹرنس پاس کیا اور اسی سال گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا۔ چونکہ میں تمام یونی ورسٹی میں اول رہا تھا، اس لیے کالج میں داخل ہوتے ہی بہت سے قابل طلبہ میرے دوست بن گئے۔ انھی میں میرے مرحوم دوست چودھری جلال الدین(۱) بھی تھے جو ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور سیالکوٹ سے انٹرنس پاس کر کے لاہور آ کر گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے تھے۔ وہ اور میں بورڈنگ ہاؤس میں رہتے تھے۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ چودھری صاحب کو شعر سے خاص ذوق ہے اور انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے اس ذوق کی پرورش مولانا سید میر حسن کی صحبت میں ہوئی۔ انھوں نے اقبال کا ذکر بھی کیا، کہ وہ مولوی صاحب موصوف کے خاص تربیت یافتہ بھی ہیں اور شاعر بھی ہیں ، ابھی ابھی سیالکوٹ سے آ کر گورنمنٹ کالج کی بی۔ اے کلاس میں داخل ہوئے ہیں۔

ایک روز شام کے قریب میں اور چودھری جلال الدین مرحوم بورڈنگ ہاؤس سے شہر کو گئے۔ بھاٹی دروازہ کے قریب پہنچے تو سامنے سے ایک سادہ وضع گورے چٹے، کشیدہ قامت، جوان رعنا آتے ہوئے دکھائی دیئے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ شیخ محمد اقبال شاعر جن کا میں ذکر کیا تھا آرہے ہیں۔ جب ہم ایک دوسرے کے قریب پہنچ گئے تو سب ٹھہر گئے۔ چودھری صاحب سے اور شیخ محمد اقبال سے متعارفانہ ملاقات ہوئی اور چودھری صاحب نے میرا تعارف کرایا۔ اس کے بعد ہم اپنے اپنے راستے چلے گئے۔ معلوم ہوا کہ اقبال اس وقت بھاٹی دروازہ کے اندر شیخ گلاب دین مرحوم کے مکان پر رہتے تھے۔ شیخ صاحب موصوف بھی سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ عدالت ہائے لاہور میں عرصہ دراز سے مختار کی حیثیت سے پریکٹس کرتے تھے اور لاہور میں جائیداد حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد اقبال سے تعلق کی وجہ سے شیخ گلاب دین سے ہم لوگوں کا بھی تعارف اور تعلق ہوا اور کئی مرتبہ ان کے بالا خانے میں بیٹھ کر ہم نے محرم کا جلوس دیکھا۔

بھاٹی دروازے کے باہر جو اقبال سے سر راہ سرسری ملاقات ہوئی، تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ ان کا کلام سننا یا دیکھنا چاہیے، دیکھیں تو یہ کیسا شعر کہتے ہیں۔ میں نے چودھری جلال الدین سے کہا کہ ان سے ان کے کچھ اشعار لائیے، میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ دو ایک روز کے بعد چودھری صاحب ایک پرچہ لائے۔ اس پر اقبال کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک غزل تھی جس کے یہ دو شعر اس وقت تک یا د ہیں :

بر سر زینت جو شمع محفل جانانہ ہے

شانہ اس کی زلف پیچاں کا پر پروانہ ہے

پاے ساقی پر گرایا جب گرایا ہے تجھے

چال سے خالی کہاں یہ لغزش مستانہ ہے

میں دیکھتا ہوں کہ بانگ درا میں یہ غزل نہیں ہے۔ یہ بھی میرے علم میں ہے کہ اقبال یورپ سے واپس آنے کے بعد اپنی ابتدائے کار کے کلام سے بہت بیزار ہو گئے۔ ان کا معیار سخن بڑی بلندی پر پہنچ گیا تھا۔ انھوں نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ اس زمانے کے اپنے اشعار مجھے دیکھ کر اب شرم آتی ہے، میں اس تمام کلام کو تلف کر دینا چاہتا ہوں۔ علاوہ بریں بانگ درا میں جو غزلیں درج کی گئیں ، ان کے بھی بعض اشعار حذف کیے گئے۔ مثلاً اس غزل میں :

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

دو شعر تو ضرور کاٹے گئے ہیں ، ایک کا دوسرا مصرع تھا (پہلا مصرع یاد نہیں ،بادہ نوشی اور حالت نشہ کا مضمون تھا):

اور میں گروں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی

اور یہ قطع:

اقبال عشق نے مرے سب بل دیے نکال

مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی

ان حالات میں کوئی تعجب نہیں ، وہ غزل ’جانانہ ہے، پروانہ ہے، اب اقبال کے شائع شدہ مجموعہ کلام میں نہیں ، مگر جب میں نے یہ غزل دیکھی تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ میں نے اس وقت تک اہل پنجاب کی

اردو شاعری کے جو نمونے دیکھے تھے، ان کو دیکھ کر میں اہل پنجاب کی اردو گوئی کا معتقد نہ تھا، مگر اقبال کی اس غزل کو دیکھ کر میں نے اپنی رائے بدل لی اور مجھ کو معلوم ہو گیا کہ ذوق سخن کا اجارہ کسی خطۂ زمین کو نہیں دیا گیا۔ جب بندشوں کی ایسی چستی، کلام کی ایسی روانی اور مضامین کی یہ شوخی ایک طالب العلم کے کلام میں ہے،تو خدا جانے اسی پنجاب میں کتنے چھپے رستم پڑے ہوں گے جن کا حال ہم کو معلوم نہیں۔ خیر اوروں کو چھوڑیے، اقبال کا تو میں قائل ہوہی گیا۔

چودھری جلال الدین نے اقبال کا پرچہ مجھ کو دیا کہ اقبال بھی آپ کے کلام کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ان کو کچھ اشعار بھیجے۔ اب یاد نہیں کہ وہ کون سے اشعار تھے مگر یہ یاد ہے کہ ان میں ایک شعر یہ بھی تھا:

حرم کو جانا جناب زاہد یہ ساری ظاہر پرستیاں ہیں

میں اس کی رندی کو مانتا ہوں جو کام لے دیر سے حرم کا

یہ تو لکھ چکا کہ کلام کا نمونہ دیکھ کر میں نے اقبال کو کیا سمجھا، یہ معلوم نہیں کہ میرے اشعار دیکھ کر انھوں نے کیا رائے قائم کی، مگر بہر حال اس مبادلۂ اشعار سے میرے اور ان کے تعلق میں ایک خصوصیت ضرور پیدا ہوئی۔

 

بورڈنگ ہاؤس کی صحبتیں

 

اس ایک سرسری ملاقات کے بعد اقبال سے زیادہ صحبت کا موقع اس وقت ملا جب وہ بھی بورڈ نگ ہاؤس میں داخل ہو گئے۔ میں اس وقت ایف اے میں پڑھتا تھا، اس لئے جونیئر طلبہ کے زمرے میں ایک ڈارمیٹری میں رہتا تھا۔ ڈارمیٹری ایک بڑا کمرہ ہوتا تھا جس میں چھ چھ طلبہ  رہا کرتے تھے، اقبال چونکہ بی۔ اے کلاس میں سینیئر طلبہ کے زمرے میں تھے، وہ کیوبکل میں رہتے تھے۔ [کیوبکل چھوٹا کمرہ ہوتا تھا جس میں صرف ایک طالب علم رہتا تھا۔] بی۔ اے اور ایم۔ اے کے تمام طلبہ کو کیوبکل ملے ہوئے تھے، کھانے کا انتظام سینیئر اور جونیئر طلبہ کا ایک ہی مطبخ میں تھا،صرف اس قدر تفریق تھی کہ مسلمانوں کا مطبخ الگ تھا اور ہندوؤں اور سکھوں کا مطبخ الگ۔ اب تو گورنمٹ کالج کے بورڈنگ ہاؤس کی بڑی کایا پلٹ ہو گئی ہے۔خود کالج کی عمارت میں بھی بہت سے اضافے ہو گئے ہیں۔ ہمارے زمانے میں بورڈنگ ہاؤس میں کمروں کی تین قطاریں تھیں کے جنوبی قطار میں تمام کیوبکل ہی کیوبکل تھے۔ اس جنوبی قطار کے ساتھ زاویہ قائمہ بناتی ہوئی ایک قطار مشرق میں تھی، ایک مغرب میں۔ اس مشرقی و مغربی قطار کے دونوں سروں پر دو دو کیوبکل تھے۔ باقی تمام حصے میں ڈارمیٹری کی وضع کے کمرے تھے۔ جنوبی قطار کے وسط میں بورڈنگ ہاؤس کا پھاٹک تھا، اسی اوسطی حصے کے اوپر سپرنٹنڈنٹ کے لئے کمرے بنے ہوئے تھے اور جنوب مشرقی و جنوب مغربی گوشوں کے اوپر بھی ایک ایک کیوبکل بنا ہوا تھا، باقی تمام عمارت یک منزلہ تھی اور تینوں قطاورں کے آگے برآمدہ تھا۔ اقبال کو نیچے کی منزل میں مغربی قطار کے جنوبی سرے پر کیوبکل ملا۔ میں مشرقی قطار کی ایک ڈارمیٹری میں رہتا تھا۔ گویا بلحاظ سکونت ہم دونوں میں بعد المشرقین تھا۔ لیکن کالج کے اوقات درس کے سوا ہم دونوں کا وقت زیادہ تر ایک دوسرے کے ساتھ ہی گذرتا تھا اور اوقات مطالعہ کے بعد اور گرمی کے موسم میں رات کے وقت ان کا پلنگ ہماری ڈارمیٹری کے آگے ہمارے ہی پاس بچھتا تھا۔

اقبال کی طبیعت میں اسی وقت سے ایک گونہ قطبیت تھی اور وہ ’’قطب از جا نمی جنبد‘‘ کا مصداق تھا، میں اور کالج کے بورڈنگ ہاؤس میں جو جو اُن کے دوست تھے، سب انھی کے کمرے میں ان کے پاس جا بیٹھتے تھے، وہ وہیں میر فرش بنے بیٹھے رہتے تھے۔ حقہ جبھی سے ان کا ہمدم و ہم نفس تھا۔ برہنہ سر، بنیان دربر، ٹخنوں تک کا تہ بند باندھے ہوئے اور اگر سردی کا موسم ہے تو کمبل اوڑھے ہوئے بیٹھے رہتے تھے اور ہر قسم کی گپ اڑاتے رہتے تھے۔ طبیعت میں ظرافت بہت تھی، پھبتی زبردست کہتے تھے۔ ادبی مباحثے بھی ہوتے تھے۔ شعر کہے بھی جاتے تھے اور پڑھے بھی جاتے تھے۔ میں اس بورڈنگ ہاؤس میں چار سال رہا۔ ان میں سے تین سال ایسے تھے کہ اقبال بھی اسی بورڈنگ ہاؤس میں مقیم تھے۔ اس عرصہ میں میں نے بی اے پاس کر لیا اور قانون کا امتحان فرسٹ سرٹیفیکیٹ بھی پاس کر لیا۔ اس کے بعد مجھ کو قانون کا امتحان لائسنشیٹ (Licentiate in Law)پاس کرنا باقی تھا۔ مثل امتحانات سابقہ بی۔اے پاس کرنے پر بھی مجھ کو ایم۔ اے کے لئے وظیفہ ملا۔ میرے خانگی حالات میں اور خصوصاً دو چھوٹے بھائیوں کی تعلیم کی ضرورت نے مزید تحصیل علم کی تمناؤں کو دفن کر کے مجھ کو مجبور کیا کہ قانون کا یہ آخری امتحان پاس کر لوں اور وکالت شروع کر دوں۔ انھی حالات کی وجہ سے بی۔ اے کے ساتھ ساتھ میں نے قانون کے دو امتحان پاس کئے تھے اور بی۔ اے کی تعلیم پر بہت کم توجہ کر سکا تھا۔ اس لئے میں صرف اس مقصد سے کہ وظیفہ ملتا رہے، ایم۔ اے کلاس میں داخل تو ہو گیا، مگر مضمون وہ اختیار کیا جس میں اساتذہ کو میری بے توجہی محسوس نہ ہو یعنی عربی اور صرف قانون کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ انھی حالات کے ماتحت تخفیف مصارف کی غرض سے میں نے گورنمنٹ کالج کا بورڈنگ ہاؤس چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ ایک دوست کا شریک مکان و طعام ہو کر موری دروازہ میں ایک بالا خانہ میں رہتا رہا اور اِ س کے بعد اور یئنٹل کالج کے بورڈنگ ہاؤس واقع حضوری باغ (متصل شاہی مسجد و قلعہ )میں چلا گیا اور وہیں سے قانون کا یہ آخری امتحان دیا۔

میں اقبال کے حالات لکھتے لکھتے اپنا قصہ لکھنے بیٹھ گیا۔ مگر دکھانا یہ تھی کہ جب میں بی۔اے پاس کر چکا اور ادھر اقبال ایم۔ اے پاس کر چکے  تو ہم دونوں نے گورنمنٹ کالج کا بورڈنگ ہاؤس چھوڑ دیا اور جو صحبتیں وہاں تین سال تک رہیں وہ ختم ہو گئیں۔

ان سہ سالہ صحبتوں میں خاص بات کیا تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم کو اس وقت اتنا شعور ہی نہ تھا کہ اس زمانے کے اقبال میں زمانہ ما بعد کے اقبال کو دیکھ لیتے۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ ایک ذہین طالب العلم جس نے شاعرانہ طبیعت پائی ہے، اس کو مرزا غالب کی شاعری سے خاص ذوق بھی ہے اور غالب کے اسلوب بیان کی تقلید کا شوق بھی،وہ اگر شعر کا شغل کرتا رہا تو غالب کا سا لکھنے لگے گا اور بہر حال اسی قسم اور اسی معیار کا ایک شاعر بن جائے گا جیسے ہمارے یہاں کے شاعر ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس وقت یہ سمجھ سکتے کہ یہ شخص تو آگے چل کر اسرار خودی اور رموز بے خودی لکھے گا، اس کے قلم سے ضرب کلیم ارمغان حجاز اور جاوید نامہ نکلیں گے، یہ گوئٹے کے نام عالم ارواح میں پیام مشرق بھیجے گا، تو ہم اسی وقت سے اس کے حالات و ملفوظات کی یادداشتیں رکھنے لگتے۔ اس کے ایک ایک لفظ کو اس کے مستقبل کا آئینہ دار سمجھتے ہوئے محفوظ رکھتے اور آج جب اس کے کمالات کے دفتر دنیا میں موجود ہیں ، اس کا سوانح نگار دکھا سکتا کہ دیکھئے اس کے فلاں نظریہ کی اساس فلاں وقت کے فلاں واقعہ میں موجود ہے۔ مگر اس ابتدائی زمانہ میں کسی کو بھی اقبال میں ایک اچھے شاعر مگر عام معیار کے شاعر کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ یا اگر آپ اجازت دیں تو یہ کہوں کہ دیکھنے والوں کی کوتاہ نظری نہ تھی بلکہ اس وقت وہ چیز موجود ہی نہ تھی جو بعد میں بن گئی۔ شمس العلما سید میر حسن مرحوم و مغفور کی تربیت سراسر ادبی تھی، پروفیسر آرنلڈ (بعدہٗ سر طامس آرنلڈ) کا فیض تعلیم مطالعہ فلسفہ و تحقیق علمی کا رہنما ہوا، اس سے زائد کچھ نہیں۔ تصوف کی بنیاد گھر میں پڑ چکی تھی کہ اقبال کے والد ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ اصل سر چشمہ جہاں سے اقبال کے تلاش حق کی، کبھی نہ بجھنے والی پیاس کو بار بار تسکین دی، قرآن کریم ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوۂ حسنہ ہے۔

ہاں ایک بات ضرور لکھنے کے قابل ہے۔ ہماری ان سہ سالہ صحبتوں میں اقبال اپنی ایک سکیم بار بار  پیش کیا کرتے تھے۔ ملٹن کی مشہور نظم Paradise Lost  اور Paradise Regained کا ذکر کر کے کہا کرتے تھے کہ واقعات کربلا کو ایسے رنگ میں نظم کروں گا کہ ملٹن Paradise Regainedکا جواب ہو جائے، مگر اس تجویز کی تکمیل کبھی نہیں ہو سکی۔ میں اتنا اور کہہ دوں کہ اردو شاعری کی اصلاح و ترقی کا اور اس میں مغربی شاعری کا رنگ پیدا کرنے کا ذکر بار بار آیا کرتا تھا۔

بہر حال میں نے آخر ۱۸۹۹ء میں قانون کا آخری امتحان پاس کیا اور ابتدائے ۱۹۰۰ء میں انبالہ میں وکالت شروع کر دی۔ اقبال بدستور لاہور میں رہے اور گورنمنٹ کالج میں استاد فلسفہ مقرر ہو گئے۔ اب ہماری صحبتوں کا مسلسل دور ختم ہو گیا اور صرف کبھی کبھی کا ملنا رہ گیا۔

 

سیالکوٹ میں ملاقات

 

میں پیٹ کے دھندے میں لگا ہوا تھا اور اقبال اپنی ملازمت میں مبتلا تھے۔ دل چاہتا تھا کہ ان سے ملوں۔ آخر ستمبر کا مہینہ آیا اور دیوانی عدالتیں ایک ماہ کے لئے بند ہوئیں۔ اس وقت کالج میں تعطیل تھی اور اقبال گھر پر سیالکوٹ میں تھے۔ اس لئے ان سے ملنے کے لئے میں سیالکوٹ گیا اور ان کا مہمان ہوا۔ غالباً یہ ذکر ۱۹۰۱ء کا ہے۔ صبح کے وقت دو بچے میرے سامنے آئے۔ کالج کے زمانے میں اقبال سے بارہا سنا تھا کہ سیالکوٹ میں بعض ایسے مسلمان بھی ہیں جو اہل بیت رسول سے جلتے ہیں۔ ان کو جلانے کے لئے اقبال نے اپنے لڑکے کا نام آفتاب حسین رکھا ہے اور اپنے بھتیجے کا نام اعجاز حسین۔ [حالت یہ تھی کہ اقبال بارہا ایسے افسانے بھی گھڑ کر سنا دیا کرتے تھے، جن کی اصلیت کچھ نہ ہوتی تھی۔ اس لئے آفتاب حسین اور اعجاز حسین کے قصے کو بھی میں باور نہ کرتا تھا۔یہ بچے جو آئے تو اقبال نے ایک کا تعارف کرانے کے لئے پنجابی میں کہا کہ ’ایہہ آفتاب وانگوں سحر خیز اے‘ (یہ سورج کی طرح علی الصباح جاگ اٹھنے والا ہے)۔ میں نے سمجھ لیا کہ یہ ان کا بچہ آفتاب ہے اور بچے سے کہا کہ بھئی یہ تمھارا باپ ایسا ہی گپی ہے کہ اس نے تمھارا ذکر بارہا کیا مگر مجھ کو یقین نہیں آیا کہ تم کوئی واقعی ہستی ہو۔ آج تم کو دیکھ کر یقین آیا۔ اعجاز کا تعارف معمولی الفاظ میں تھا اور میں نے بھی اس سے اس قسم کی کوئی بات نہ کہی۔بعد میں آفتاب تعلیم کے لئے انگلستان گئے۔ وہاں سے ایم اے اور بیرسٹر ہو کر آئے اور اب وہ آفتاب اقبال ہیں۔ افسوس ہے کہ ان میں اور اقبال میں بعض وجوہ سے ان بن اور مغائرت رہی۔ اس خورد سالی کی ملاقات کے بع دوہ مجھے کلکتہ میں ملے۔ معلوم ہوا کہ وہاں کے اسلامیہ کالج میں پروفیسر ہیں۔ میں نے ان کو سیالکوٹ کی یہ ملاقات انھیں الفاظ میں یاد دلائی۔اعجاز اب اعجاز احمد اور پنجاب کی جوڈیشیل سروس میں سینیٔر جج ہیں۔ مگر ان سے اس روز کے بعد پھر کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ آفتاب کلکتہ کے بعد بھی کئی مرتبہ مل چکے ہیں۔

میں سیالکوٹ کے اسی چکر میں اقبال کے ساتھ جا کر حضرت علامہ میر حسن رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت سے بھی مشرف ہوا۔ عجب نورانی بزرگ تھے، بے حد شفقت سے پیش آئے۔ اقبال کے والد ماجد مرحوم کی زیارت ہوئی۔ بڑے بابرکت لوگ تھے، اقبال کے ایک خاص دوست جھنڈے خاں بھی ملے جن کے تذکرے بارہا سننے میں آئے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے قدیم طلبہ میں سے میرے دوست اور اقبال کے ہم جماعت،بی۔اے کلاس کے فلسفہ میں ہم سبق اور دوست میاں سر فضل حسین بھی (جو اس وقت صرف میاں اور بیرسٹر تھے) سیالکوٹ میں پریکٹس کرتے تھے، ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان دونوں کو ایک شرارت سوجھی۔ ایک سرخ رنگ کا ایریئیٹڈ پانی گلاسوں میں ڈال کر کچھ ایسے انداز سے پینا شروع کیا اور  مجھ کو پینے کو دیا کہ میں نے اس کو شراب سمجھا اور پینے سے انکار کیا۔ وہ دیر تک کہتے رہے کہ ایسی بھی کیا پارسائی ہے، پی لو،میں برابر انکار کرتا رہا۔ آخر مجھ کو خوب بنا چکے، تب بتایا کہ یہ کیا ہے اور تب میں نے پیا۔

 

مخزن، عبدالقادر اور اقبال

 

مخزن مرحوم کو محبت اور حسرت سے یاد کرنے والے تمام ہندوستان میں جا بجا موجود ہیں۔ اس رسالے کو جاری کر کے شیخ عبدالقادر نے اردو زبان و ادب کی نہایت گرا ں بہا خدمت کی، جس کی داد ملک کے تمام صاحب ذوق دیتے آئے ہیں۔ اجرائے رسالہ مخزن کے بعد شیخ عبدالقادر کو کارکنان قضا و قدر نے اپنی نا معلوم حکمتوں کے ماتحت جبراً اور یکایک انگلستان بھیج دیا۔ وہاں سے وہ بیرسٹر ہو کر آئے، پھر بیرسٹری کے کام میں منہمک ہو کر سرکاری وکیل ہوئے، خان بہادر ہوئے، ہائی کورٹ کے جج اور سر ہوئے۔ وزیر تعلیم پنجاب رہے اور بہت سے مناصب جلیلہ پر سرفراز رہنے کے بعد ریاست بہاولپور کے چیف جسٹس ہوئے۔ ان حالات میں  مخزن ان کے فیض سے محروم ہو گیا اور ان کے انگلستان سے واپس آنے کے بعد چند سال تک دوسرے ہاتھوں میں رہ کر آخر بند ہی ہو گیا۔ لیکن جو کام مخزن نے کیا وہ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔

اسی رسالے کے ذریعہ سے شیخ عبدالقادر بڑے بڑے قابل لوگوں کو منظر عام پر لے آئے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔فشی دیا نرائن نگم آنجہانی (بعدش رائے بہادر) اول اول  مخزن میں مضامین لکھنے لگے۔ پھر انھوں نے کانپور سے اپنا ماہانہ رسالہ زمانہ جاری کیا اور مدیر زمانہ کے فرائض بڑی قابلیت سے ادا کئے۔ حسرت موہانی نے مخزن میں مضامین لکھے، اس کے بعد اردوئے معلی جاری کیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی طفلانہ مشق اول اول مخزن ہی میں شائع ہوئی۔میں نے اپنی ماہانہ تنقید میں اس مضمون پر اعتراض کیا، مگر شیخ جوہر شناس نے لکھا کہ آپ ان کو دیکھیں گے تو ان کی حوصلہ افزائی ہی مناسب سمجھیں گے۔چنانچہ وہ آخر الہلال کے سحر طراز مدیر بنے اور ان کی جادو بیانی کو دنیا نے تسلیم کیا۔

شیخ عبدالقادر ہی کی جوہر شناسی اول اول اقبال کو بھی کشاں کشاں منظر عام پر لائی۔ شیخ صاحب اقبال سے کہہ سکتے تھے:

اول آں کس کہ خریدار شدت، من بودم

باعث گرمی بازار شدت، من بودم

شیح صاحب نے بانگ درا کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ اقبال سے ان کا تعارف ۱۹۰۱ء سے دو تین سال پیشتر ہوا یعنی ۱۸۹۸ء یا ۱۸۹۹ء میں۔ شیخ صاحب سے میرا تعارف اس سے بہت پیشتر ہو چکا تھا۔ اجرائے مخزن کے بارے میں جو مشورے ہوئے، ان میں مرزا اعجاز حسین اعجاز دہلوی مرحوم اور میں بھی شریک تھے۔ میں مخزن کا پرچہ پہنچنے پر ہر ماہ شیخ صاحب کو مفصل تنقید لکھا کرتا تھا اور جب شیخ صاحب نے یکایک قصد انگلستان کیا تو مجھے لاہور بلا کر مخزن میرے سپرد کیا۔ میں ان کی غیر حاضری میں بلا اظہار نام اس کا مدیر رہا۔ شیخ محمد اکرم مرحوم اسٹنٹ ایڈیٹر اور مینیجر رہے۔ وہ تمام مضامین ڈاک سے میرے پاس بھیج دیا کرتے تھے اور میں فیصلہ کیا کرتا تھا کہ کون سا مضمون یا نظم قابل اشاعت ہے، مگر یہ کرامت شیخ عبدالقادر ہی کی تھی کہ وہ انگلستان میں بیٹھے تھے اور رسالہ اس حسن و خوبی سے چل رہا تھا کہ گویا وہ لاہور میں موجود ہیں۔

لوگ شیخ عبدالقادر کو وسیع الا خلاق کہا کرتے ہیں ، مگر میں ان کو ہمیشہ وسیع المحبت سمجھتا رہا ہوں۔ اگر وہ وسیع الاخلاق ہوتے ہوئے وسیع المحبت بھی نہ ہوتے تو ان کا دائرہ احباب اس قدر وسیع نہ ہوتا۔ اخلاق ایک حد تک دوسروں کو گرویدہ کر لیتے ہیں۔ محبت اس گرویدگی میں گہرائی اور پائداری پیدا کرتی ہے۔ شیخ صاحب نے جس کسی میں ذرا بھی کچھ قابلیت دیکھی، اس کو اپنا بنا لیا اور ایسے راستے پر لگایا کہ اس کی قابلیت ترقی کرے۔

اقبال کے بارے میں بھی شیخ صاحب نے یہی کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اقبال کی وجہ سے مخزن کو چار چاند لگے اور مخزن کی وجہ سے اقبال کا جوہر روز بروز زیادہ ہی چمکتا گیا۔

اقبال شیخ صاحب کو شیخ عالم گنڈھ کہا کرتے تھے، یعنی دنیا بھر کو گانٹھ لینے والے، گرہ میں باندھ لینے والے، اپنا بنا لینے والے۔ اقبال نے عربی لفظ عالم کو پنجابی لفظ گنڈھ سے ملا کر باقاعدہ فارسی میں ایک اسم فاعل ترکیبی بنایا اور اس طرح اس لقب میں ایک رنگ ظرافت پیدا کر دیا۔ مگر ظرافت کے باوجود یہ لقب پھبتی یا تمسخر نہیں ہے، بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ تمسخر کا تو خیال بھی نہیں ہو سکتا۔ اقبال تو عبدالقادر کو وہ سمجھتے تھے جو بانگ درا میں ان کی نظم ’عبدالقادر کے نام‘ سے ظاہر ہے۔

 

سفر یورپ

 

۱۹۰۵ء کے موسم گرما میں اقبال نے مزید تعلیم کے لیے انگلستان جانے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے اپنی روانگی کی تاریخ مجھ کو لکھ دی تھی اور یہ طے ہو گیا تھا کہ میں ان کو خدا حافظ کہنے کے لئے دہلی میں ان سے ملوں گا۔ اتفاق کی بات کہ دہلی میں ان سے ملنے کی جو تاریخ تھی، اس سے پہلے روز شملہ میں میرا ایک مقدمہ برائے سماعت مقرر تھا۔ اس وقت تک شملہ اور کالکا کے درمیان ریل نہ تھی۔ محکمہ ڈاک کے انتظام سے دو اسپہ تانگے چلتے تھے، مسافر انھی تانگوں میں آتے جاتے تھے، لیکن مسافروں کے تانگے صرف دن میں چلتے تھے، ڈاک کا تانگہ شام کے چھ بجے شملہ سے روانہ ہو کر کالکا تک کا دو تہائی  یا نصف راستہ بعد غروب آفتاب طے کرتا تھا اور پہاڑ کی سڑک پر رات کا یہ سفر جس میں گھوڑے ڈاک کو بر وقت پہنچانے کے لئے فروٹ جاتے تھے، خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے اگر کوئی مسافر ڈاک کے تانگے میں سفر کرنا چاہتا تھا تو اس سے مطبوعہ اقرار نامے پر دستخط کرائے جاتے تھے، جس کا مضمون یہ تھا کہ اگر کوئی حادثہ ہو جائے گا تو گورنمنٹ کسی ضرر جسمانی یا نقصان جان کا ہرجانہ ادا کرنے کی ذمہ دار نہ ہو گی۔

میں اس روز عدالت کے کام کی وجہ سے دن کے تانگے میں سفر نہیں کر سکتا تھا، مگر اقبال سے ملنے کے لئے دہلی اسی شام کو جانا ضروری تھا، اس لئے میں نے اس اقرار نامہ پر دستخط کر دیے اور عدالت میں اپنا کام ختم کرنے کے بعد ڈاک کے تانگے میں کالکا کو روانہ ہو گیا۔ شاید آدھا ہی راستہ طے ہوا تھا کہ سورج چھپ گیا اور تھوڑی ہی دیر میں بالکل اندھیرا ہو گیا۔ جب کالکا تین چار میل رہ گیا تو ایک جگہ کھیت میں آگ جلتی دیکھ کر گھوڑے چمکے اور بے قابو ہو کر تانگے کو سڑک کے دائیں جانب کو لے چلے۔ آگے ایک چھوٹا سا پُل تھا۔ ایک پہیہ اس کی سینڈ پر چڑھ گیا اور تانگہ الٹ گیا، بم ٹوٹ گیا، گھوڑوں کی راسیں ڈرائیور کے ہاتھ سے چھوٹ گئیں اور تانگے کو وہیں چھوڑ کر ٹوٹے ہوئے بم کے ساتھ جتے ہوئے گھوڑے ہوا ہو گئے۔ ڈاک کے تھیلے سڑک پر پھیل گئے، ڈرائیور کو چوٹ آئی اور سواریوں کو بھی چوٹ آئی۔ چنانچہ میرا بھی گھٹنا چھل گیا اور خون جاری ہو گیا۔ یہ سب کچھ ہوا، مگر اس وقت سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اب دہلی جانے کے لیے ریل کیوں کر ملے گی۔آدھ گھنٹہ کے بعد کالکا کی طرف سے بگل سنائی دیا اور اس سے چند منٹ بعد ایک خالی تانگہ آ پہنچا۔ ڈاک کے تھیلوں اور سواریوں کو لے کر اس دوسرے تانگے والے نے ڈاک گاڑی کے چلنے سے پیشتر کالکا کے اسٹیشن پر پہنچا دیا اور سب نے خدا کا شکر ادا کیا۔ چنانچہ اپنا زخمی گھٹنا لیے ہوئے میں حسب وعدہ دہلی پہنچ گیا اور حضرت سلطان المشائخ محبوب الٰہی (قدس سرہ) کے آستانہ پر حاضر ہو گیا۔ وہاں اقبال مل گئے، ان کے ساتھ شیخ نذر محمد بی اے اسسٹنٹ انسپیکٹر مدارس تھے جو اقبال سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اقبال اور شیخ صاحب موصوف خواجہ حسن نظامی کے مہمان تھے۔

دہلی میں اقبال کے ٹھہرنے کا مقصد یہ تھا کہ حصول برکت کے لیے حضرت محبوب الٰہی کے مزار شریف پر حاضری دی جائے اور التماس دعا کی جائے۔ چنانچہ اقبال حاضر ہوئے، ہم لوگ ہمراہ تھے۔ اقبال نے حضرت محبوب الٰہی کو مخاطب کرتے ہوئے ایک نظم پڑھی جو بانگ درا میں ’التجائے مسافر‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ ایک اور نظم بھی اس وقت پڑھی تھی جس کا صرف یہ آخری مصرعہ یاد ہے:

لاج رکھ لینا کہ میں اقبال کا ہم نام ہوں

اس مصرع میں خواجہ اقبال کی طرف اشارہ تھا جو حضرت محبوب الٰہی کے خادم تھے اور اس وقت اس تلمیح کا خاص لطف اٹھایا گیا تھا، مگر اب وہ دو بسری نظم بانگ دار سے غائب ہے۔ شاید بعد میں غور کرنے پر اقبال نے اس کو اپنے معیار سے فروتر قرار دیا ہو اور شائع کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔

 

یورپ سے واپسی پر پہلی ملاقات

 

اقبال نے دوران قیام یورپ میں کیمبرج سے بی۔اے کی سند فضلیت حاصل کرنے کے علاوہ بیرسٹری کی سند بھی حاصل کی اور جرمنی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری لی۔ جب وہ یورپ سے واپس آئے تو انھوں نے لاہور میں بیرسٹری کی پریکٹس شروع کی۔ یورپ سے ان کی واپسی کے بعد ان سے میری پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی۔ محرم کی تعطیل تھی۔ میں انھیں سے ملنے کی غرض سے لاہور گیا تھا، انھوں نے اپنے قیام کے لیے چنگڑ محلہ میں مکان لیا تھا۔ میں دن کے وقت لاہور پہنچا اور سیدھا ان کے وہاں گیا۔ ملازموں نے میری پذیرائی کی، مگر معلوم ہوا کہ اقبال کہیں گھومنے گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے، اقبال نے بھی گھر سے نکلنا سیکھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ آئے تو میں نے دیکھا کہ نہایت نستعلیق سوٹ پہنے ہوئے ہیں۔ میں نے دوسرا شکر ادا کیا کہ اقبال نے لباس پہننا سیکھا۔ (اس سے پیشتر وہ لباس کے بارے میں صرف سادہ ہی نہیں ، بلکہ لا پروا تھے)خیر گلے ملے، مزاج پرسی ہوئی، اس کے بعد وہ سوٹ اتر گیا، وہی ہمیشہ کا تہبند بندھ گیا، وہی بنیان بدن پر رہ گیا، وہی کمبل شانوں پر سوار ہو گیا، ہم نفس (حقہ) حاضر ہو گیا۔ میں اور اقبال پہلے کی طرح فرش پر بیٹھ گئے، دنیا بھر کی باتیں چھڑ گئیں اور ہوتی رہیں۔ میرے قیام کے تین دن اسی ہیئت کذائی سے گزر گئے، کہاں اقبال اور کہاں گھر سے نکلنا اور کس کا سوٹ، یورپ ہو آئے،دماغ کو گو نا گوں فضائل علمی سے آراستہ کر لائے،سینے کو طرح طرح کی امنگوں اور عزائم سے بھر لائے، مگر رندی اور قلندری میں فرق نہ آیا۔ تین دن کی شبانہ روز صحبت کے بعد میں رخصت ہو کر انبالے چلا آیا۔

 

فلسفۂ خودی

 

اقبال نے ۱۹۱۵ء میں مثنوی اسرار خودی شائع کی تو مجھ کو بھی اس کا ایک نسخہ بھیجا۔ اس سے پہلے میں آگاہ نہ تھا کہ اس قسم کی کوئی کتاب لکھی جا رہی ہے۔ اس میں تصوف اور خواجہ حافظ پر جو سخت گیری کی گئی ہے، وہ مجھ کو نا گوار گزری اور میں نے اقبال کو ایک طومار اختلاف لکھ کر بھیجا اور اس خط میں یہ بھی لکھا کہ میں اس بارے میں مفصل مضمون لکھ کر شائع کروں گا۔ اقبال نے جواب میں لکھا کہ ابھی آپ اشاعت کے لیے کچھ نہ لکھیں ، پہلے مجھے آپ سے بالمشافہ مبادلہ خیالات ہو جائے، پھر اگر آپ ضروری سمجھیں تو اپنے خیالات کو لکھ کر شائع کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے یہ بھی لکھا کہ میں نے اس مرتبہ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ خیالات قائم کئے ہیں۔ اس سے میں متنبہ ہوا اور میں نے اپنی تنقید کو لکھ کر شائع کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ البتہ وقتاً فوقتاً خطوط میں اور زبانی اقبال سے مذاکرہ ہوتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب انھوں نے رموز بے خودی لکھنے کا ارادہ کیا تو پہلے سے اس کا ایک خاکہ لکھ کر چند احباب میں بغرض مشورہ بھیجا۔ ان میں راقم، مرزا اعجاز حسین مرحوم اعجاز دہلوی اور لسان العصر خان بہادر سید اکبر حسین الہ آبادی مرحوم۔ تین نام تو مجھے یاد ہیں ، شاید کسی اور کو بھی بھیجا ہو۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی رائے لکھ کر بھیج دی اور اس کے بعد مثنوی رموز بے خودی لکھی گئی۔ اس کے دیباچہ میں اقبال نے اس مشاورت کا ذکر اس پیرایہ میں کیا ہے کہ مجھ کو فلاں فلاں سے امداد ملی۔

اقبال کے مطالعہ قرآن کی کیفیت میرے مشاہدہ میں نہیں آئی، مگر ان کی تلاوت میں جو جذبہ ہوتا تھا، اس کا ایک نمونہ میں نے دیکھا ہے۔ چنگڑ محلے والے مکان کے باہر وہ بازار انار کلی میں ان بالا خانوں میں جا کر رہے، جن میں ہمارے ایام طالب علمی میں میاں محمد شفیع مرحوم رہتے تھے اور ان کی بیرسٹری کا دفتر تھا، اس کے بعد میاں صاحب موصوف ترقی کرتے کرتے لاہور بار کے لیڈر ہو گئے، سر کا خطاب پایا اور انھوں نے ہائی کورٹ کے عقب میں اقبال منزل کے نام سے (اقبال ان کے چھوٹے صاحبزادے کا نام ہے) ایک بڑی وسیع اور عالیشان کوٹھی بنوائی اور اس میں رہنے لگے۔ پھر اس کے بعد وائسرائے کی ایگزیکیوٹو کونسل کے ممبر ہو گئے۔ میاں صاحب جیسے مشہور و ممتاز بیرسٹر کا پرانا مسکن ایک عالمی شہرت حاصل کر چکا تھا، اس لیے قانون پیشہ لوگ اس میں رہنا اور اپنا دفتر قائم کرنا اپنے لیے موجب ترقی سمجھتے تھے، غالباً اسی خیال کے تحت کسی نے اقبال کو مشورہ دیا ہو گا کہ اپنی سکونت اور دفتر کے لیے یہ بالا خانہ لے لیں۔

اچھا تو جب وہ ان بالا خانوں میں رہتے تھے تو ایک مرتبہ میں لاہور گیا ٹرین ایسے وقت لاہور پہنچی کہ اقبال کے مکان پر پہنچنے کے بعد صبح کی نماز کا وقت باقی تھا۔ میں اوپر پہنچا تو ایک کمرے سے تلاوت کلام اللہ کی بلند مگر نہایت شیریں اور درد انگیز آواز میرے کانوں میں آئی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ میں نے فوراً جلدی جلدی وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے اس کمرے میں گیا۔ دیکھا کہ اقبال مصلے پر بیٹھے  قرآن حکیم پڑھ رہے ہیں۔ مجھ کو دیکھ کر انھوں نے مصلیٰ خالی کر دیا اور خود پاس کے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے اس مصلیٰ پر نماز پڑھی تو نماز میں خاص کیفیت محسوس کی اور میں نے اپنے دل میں اس وقت یہ کہا کہ یہ کیفیت وہ شخص یہاں چھوڑ گیا ہے، جو ابھی ابھی یہاں بیٹھا ہوا کلام اللہ پڑھ رہا تھا۔ یہ بات میرے علم میں تھی کہ اقبال صبح کی نماز بہت سویرے پڑھ کر تلاوت کیا کرتے ہیں مگر نمونہ اس روز دیکھا۔ اس روز سے میں اقبال کی روحانیت کا قائل ہو گیا اور دوسروں سے یہ کہنے لگا کہ اقبال بڑے بزرگ آدمی ہیں۔

 

اعزاز نائٹ ہڈ

 

جنوری ۱۹۲۲ء میں اقبال کو نائٹ ہڈ ملی اور وہ سر محمد اقبال ہوئے۔ میں اس اللہ کے قلندر کو خوب سمجھتا تھا، مگر یہ بھی معلوم تھا کہ شیطان اپنے داؤ پیچ سب پر چلاتا ہے اس لیے ضروری سمجھا کہ مبارکباد کے ساتھ ان کو یہ بھی یاد دلا دوں کہ اسلامی دنیا ان سے کیا کیا توقعات رکھتی ہے۔ میں نے خط لکھا۔ اس کا جواب جو انھوں نے دیا مکاتیب اقبال صفحہ ۲۰۶/۲۰۷پر درج ہے۔ اس کے ساتھ ان کی اصل تحریر کا فوٹو بھی ہے۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں :

’’میں آپ کو اس اعزاز کی خود اطلاع دیتا، مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں ، اس دنیا میں اس قسم کے واقعات احساسات سے فرو تر ہیں ، سینکڑوں خطوط اور تار آئے اور آرہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گرانقدر جانتے ہیں۔ باقی رہا وہ خطرہ جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے، سو قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضہ میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود کی جس کی وجہ سے مجھے ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں ، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ ان شأ اللہ! اقبال کی زندگی مومنانہ نہیں لیکن اس کا دل مومن ہے۔‘‘

 

مسلمانان الور کی امداد

 

ریاست الور کی حکومت عرصہ دراز سے وہاں کے مسلمانوں کو مٹانے کی فکر میں تھی۔ کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کے مکاتب تعلیم قرآن و اردو بند ہو جائیں۔ مسلمان بچے اگر پڑھیں بھی تو ریاست کے مدارس میں جن میں ذریعہ تعلیم ہندی تھی اور وہ بھی ایسی سنسکرت آمیختہ ہندی کہ مسلمان بچے اس کو پڑھنے کے بعد بھی عملاً اس سے کورے ہی رہیں اور ریاست کی کسی ملازمت کے قابل کبھی نہ بن سکیں۔ اس کے علاوہ مساجد کو منہدم کیا جاتا تھا، مسجدوں کو مندر بنایا جاتا تھا، قبرستانوں میں سڑکیں نکالی جاتی تھیں اور طرح طرح سے مسلمانوں کی مذہبی زندگی کو نا ممکن بنایا جا رہا تھا۔ اگر مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی جدو جہد کرتے تھے تو ان کو باغی اور مخالف ریاست اور ان کی قائم کردہ انجمنوں کو خلاف قانون قرار دیا جاتا تھا۔ یہ قصہ طویل ہے مگر اس سلسلہ میں ۲۹مئی ۱۹۳۲ء کو ریاست کی فوج نے بلا وجہ اور بالکل ناجائز طور پر مسلمانوں کے پر امن مجمع پر گولی چلائی۔ کئی مسلمان شہید ہوئے، کئی زخمی ہوئے اور اس کے بعد مسلمانوں پر گو نا گوں تشدد کیا گیا۔ آخر تنگ آ کر ہزار ہا مسلمانوں نے الور سے ہجرت کی۔ اس زمانے میں آل انڈیا مسلم کانفرنس قائم تھی اور اس وقت اس کے صدر اقبال تھے۔ جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام کے معتمد عمومی کی حیثیت سے میں نے معاملات الور کو اپنے ہاتھ میں لے کھا تھا اور میں نے مسلم کانفرنس مذکورہ سے معاونت کی درخواست کی۔ چنانچہ قرار پایا کہ مسلم کانفرنس کا ایک وفد وائسرائے کی خدمت میں پیش ہو کر مسلمانان الور کی داد رسی کے لیے وائسرائے کو توجہ دلائے۔ اس وفد کے ارکان کی تعداد تو زیادہ تھی مگر وائسرائے نے تاریخ اس قدر نزدیک مقرر کی کہ ہندوستان کے مختلف مقامات سے اکثر لوگ اس تاریخ پر شملہ نہ پہنچ سکتے تھے اور وائسرائے کا خیال یہ تھا کہ دو چار چیدہ آدمی آ جائیں ، زیادہ مجمع کرنا غیر ضروری ہے۔ چنانچہ اقبال بحیثیت صدر آل انڈیا مسلم کانفرنس اس وفد کی قیادت کے لیے لاہور سے شملہ تک کے سفر کی صعوبت گوارا کرتے ہوئے شملہ پہنچے۔ کالکا سے میں ان کے ہمراہ ہوا اور ہم دونوں نے کالکا سے شملہ تک کا سفر ایک ہی موٹر میں کیا۔ شملہ میں ان کا قیام لوئر بازار کے ایک بالا خانہ میں رہا۔ کیونکہ اس مرد خدا کی مزاج میں یہ بات تھی ہی نہیں کہ ہم بڑے آدمی ہیں ، وائسرائے سے ملنے کے لیے آئے ہیں ، ہمارے قیام کے لیے کسی بڑے ہوٹل یا کوٹھی میں پر تکلف انتظام ہو۔ اس کے بعد ۶اکتوبر ۱۹۳۲ء کو وفد وائسرائے کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حاضری وفد کے بعد کیا کیا ہوا، اس کو یہاں بیان کرنا مقصود نہیں۔ صرف دو یا تین باتیں دکھانے کے لیے مندرجہ بالا سلسلہ واقعات لکھا گیا۔ پہلی بات یہ کہ قومی ضرورتوں کے موقع پر اقبال جو عموماً غیر متحرک رہتے تھے، ایسے ہی متحرک بن جاتے تھے جیسے کوئی اور جوشیلا کارکن۔ دوسری بات یہ کہ جب میں اور وہ موٹر میں کالکا کو جا رہے تھے تو حسب معمول اسلامی موضوعات پر گفتگو چھڑ گئی۔ میں نے کہا کہ آپ نے قرآن کریم کا بہت مطالعہ کیا ہے اور اس زمانے کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے خیالات سے بھی آپ واقف ہیں ، یہ دیکھتے ہوئے کہ ابنائے زمانہ کو قرآن کی تعلیم سے بیگانگی اور بعد کیوں ہے، آپ ان کیلیے قرآن کی تفسیر یا قرآن پر حواشی لکھئے۔ انھوں نے اس کام سے اپنی معذوری ظاہر کی۔ اس اظہار معذوری کے سلسلہ میں جو انھوں نے ایک تقریر کی تو اس میں بعض نازک مسائل آ گئے، ان کو بیان کرتے کرتے ان پر ایک حالت جوش و جذبہ طاری ہو گئی اور ایسا معلوم ہوا کہ ان کا دل سینے سے نکل پڑے گا۔ مگر دو چار ہی سیکنڈ میں انھوں نے خاموش رہ کر پھر سلسلہ گفتگو کو جاری کر دیا اور دیر تک جاری کھا، اس حالت پر ضبط پا لیا اور ذرا کی ذرا اسی قسم کا جوش و جذبہ میں نے ایک اور موقع پر بھی دیکھا۔ اس ملاقات کی بھی کچھ تفصیل لکھ دوں۔

۱۹۳۴ء میں منٹگمری میں تعلیمی کانفرنس صوبہ پنجاب کا اجلاس ہوا۔ راقم بھی اس کانفرنس میں شریک ہوا۔ علی گڑھ سے سر راس مسعود مرحوم اور نواب صدر یار جنگ بہادر مولوی حبیب الرحمن خان شروانی بھی تشریف لا کر شریک اجلاس ہوئے۔ جب یہ اجلاس ختم ہو گیا تو واپسی میں نواب صدر یار جنگ اور راقم ایک دو روز کے لیے لاہور ٹھہر گئے اور شیخ سر عبدالقادر کے مہمان ہوئے۔ایک روز اقبال سے ملنے گئے۔ وہ اس وقت میکلوڈ روڈ پر اس بنگلے میں رہتے تھے جس کے عقب میں حضرت شاہ ابوالمعالی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے۔ بازار انار کلی کے بالا خانہ سے اٹھ کر وہ اسی بنگلہ میں آ گئے تھے اور جب تک ان کی کوٹھی جاوید منزل تعمیر نہ ہو گئی، اسی میں رہتے رہے۔ ہم جو گئے تو ان کو سامنے کے بڑے کمرے میں جس کے آگے برآمدہ تھا، بیٹھے ہوئے پایا کمرے میں نیچے چٹائی اور اس کے اوپر دری کا فرش تھا اور سامنے کی دیوار کی طرف کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ اقبال اپنے معمولی قلندرانہ لباس (بنیان، تہبند، کمبل) میں ملبوس بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ وہ ہم لوگوں سے مل کر بہت خوش ہوئے اور باتیں شروع ہو گئیں۔ میں نے دیکھا کہ اس کمرے میں ایک طرف دیوار کے قریب کئی قالین لپٹے ہوئے رکھے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ قالین کیوں رکھے ہوئے ہیں ، کہنے لگے کہ میں افغانستان گیا تھا، نادر شاہ نے یہ قالین بطور تحفہ دیے تھے، ان کو بچھانے کی کوئی جگہ نہیں ، یہ رکھے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ قلندر کو جو کوئی تحفہ دے، خواہ دینے والا بادشاہ ہی ہو، اس تحفہ کا یہی حشر ہوتا ہے۔ (لیکن ان قالینوں کی دعا آخر قبول ہوئی۔ جب جاوید منزل تعمیر ہو گئی تو یہ اس میں بچھائے گئے)۔

اس زمانے میں اقبال جاوید نامہ لکھ رہے تھے، مجھ کو اور شروانی صاحب کو اس کے کچھ حصے پڑھ کر سنائے۔ پڑھتے پڑھتے ان پر دو چار سیکنڈ کے لیے وہی جوش و جذبہ طاری ہو گیا، جو میں نے شملہ کے سفر میں دیکھا تھا اور اسی طرح انھوں نے اس جوش پر فوراً قابو پا لیا۔

میں اس بنگلہ میں کئی مرتبہ اقبال کا مہمان ہوا۔ جس کمرے میں میرا قیام ہوتا تھا، وہ پھاٹک میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ کو تھا، وہ اس کمرہ میں میری ضروری آسائش کا انتظام کرا دیا کرتے تھے، ویسے شاید وہ کمرہ ان کے منشی کی نشست کے لیے تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ وہ سامنے کے بڑے کمرہ کے برآمدے میں ایک پلنگ بچھوا کر اس پر بیٹھ جایا کرتے تھے، پلنگ کے ایک جانب اور سامنے کرسیاں ہوتی تھیں۔ جو لوگ ان سے ملنے کے لیے آتے تھے، وہ ان کرسیوں پر بیٹھتے تھے، وہ خود پلنگ پر بیٹھے حقہ پیتے رہتے تھے۔ ملاقات کے لیے آنے والوں میں ہر درجے کے لوگ ہوتے تھے۔طلبہ آتے تھے، عام معزز لوگ اور معمولی درجہ کے لوگ آتے تھے، ہائی کورٹ کے جج اور حکومت پنجاب کے منسٹر بھی آتے تھے۔ وہ اللہ کا قلندر سب کے ساتھ یکساں اخلاق کا برتاؤ کرتا تھا، مگر ایک شان استغنا برابر قائم رکھتا تھا، نہ بڑے آدمی کے سامنے جھکتا تھا، نہ چھوٹے سے بے اعتنائی کرتا تھا، بے تکلف، بے تصنع گفتگو کرتا تھا، اسی میں ہنسی مذاق بھی ہوتا رہتا تھا، پھبتیاں بھی اڑتی رہتی تھیں۔ تقدس کا جامہ کبھی پہنا ہی نہیں۔ میں ان کو رندِ بے ریا کہا کرتا تھا۔

 

مجدد صاحب کے مزار پر حاضری

 

اقبال نے جا بجا خانقاہوں اور خانقاہ نشینوں پر اعتراضات کئے ہیں۔ اسرار خودی کے شائع ہونے پر ان کو تصوف اور سلاسل تصوف کا مخالف سمجھا گیا تھا، مگر ان کے کلام کے وسیع مطالعہ سے یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ ان کا اعتراض ریا کار، دوکاندار، دنیا طلب صوفیوں پر ہے اور وہ تصوف سے ان دور از کار عقائد و مسائل کو خارج کرنا چاہتے ہیں جو عجمیت کے زیر اثر اسلامی تصوف میں داخل ہو گئے ہیں۔ میں لکھ چکا ہوں کہ ان کے تصوف کی بنیاد گھر میں پڑ چکی تھی۔ ان کے والد ماجد ایک صوفی منش بزرگ تھے، خود اقبال سلسلۂ قادریہ میں بیعت کئے ہوئے تھے۔ اکابر طریقت سے ان کی عقیدت کا حال اسی سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ وہ مولانا جلال الدین رومی کی نظم سے بے حد متاثر تھے۔ پیر رومی کا ذکر ہر جگہ بڑی تعظیم سے کرتے ہیں اور خود کو ان کا مرید ہندی کہتے ہیں۔ بزرگوں کے مزارات پر بالقصد بغرض زیارت و طلب برکت حاضر ہوتے تھے۔ بانگ درا میں ان کی نظم ’التجائے مسافر‘ کو دیکھیے۔ اس سے حضرت محبوب الٰہی سے انتہائی عقیدت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اقبال کی جوانی اور انگلستان جانے سے پیشتر کا واقعہ ہے۔ لیکن اگر بالفرض یہ جوانی کی خام کاری تھی تو بعد کی پختہ کاری بھی قابل غور ہے۔بال جبریل ملاحظہ ہو۔ اس کے صفحہ ۳۸پر ایک نظم درج ہے، جس کا پہلا شعر ہے۔

سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا

غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا

اس نظم کے شروع میں جو تمہیدی عبارت ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں : ’’نومبر ۱۹۳۳ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنوی کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی۔ یہ چند افکار پریشان جن میں کلیم ہی کے ایک مشہور قصیدہ کی پیروی کی گئی ہے، اس روز سعید کی یاد گار میں سپرد قلم کئے گئے۔‘‘ الفاظ ’مزارمقدس‘ اور ’روز سعید‘ اپنی کہانی خود کہہ رہے ہیں۔

اس پختہ کاری ہی کے زمانے میں غالباً ۱۹۳۴میں حضرت امام ربانی شیح احمد سہر ندی(۲) مجدد الف ثانی کے مزار پاک کی زیارت کے لیے اقبال لاہور سے چل کر سرہند آئے۔ مجھ کو لکھا کہ میں بھی پہنچوں۔ چنانچہ میں انبالے سے گیا اور وہ لاہور سے آئے، ہم دونوں سرہند جنکشن پر مل گئے اور پھر روضہ  شریف پہنچے۔ مزار پر اقبال کی حاضری میرے ہمراہ ہوئی اور فاتحہ خوانی کے بعد وہ دیر تک مراقبے میں رہے۔ زیارت کے بعد کچھ عرصہ روضہ شریف میں ٹھہرے۔ سجادہ نشین صاحب سے ملے اور پھر وہ لاہور کو روانہ ہو گئے اور میں انبالے چلا آیا۔ حالت مراقبہ میں اقبال نے کیا دیکھا اور کیا محسوس کیا؟ یہ ایک روحانی سر گزشت ہے جس کو نہ میں پوچھ سکتا تھا، نہ شاید اقبال بیان کر سکتے، لیکن ان کا لاہور سے اتنی دور چل کر آنا ہی ثابت کرتا ہے کہ ان کو حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ سے کس قدر عقیدت تھی۔ بال جبریل میں ایک نظم کا عنوان ہے ’پنجاب کے پیر زادوں سے‘ ۔ اس کے یہ شعر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مجدد صاحب کو کیا سمجھتے تھے۔

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر

وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار

اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے

اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار

وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

 

تحریک تبلیغ اور اقبال

 

ہندوستان میں ہندوؤں کی جانب سے کم از کم ستر سال سے کبھی خفیہ، کبھی اعلانیہ، کبھی انفرادی، کبھی منظم اور جماعتی سازشیں اور کوششیں ہوتی رہی ہیں کہ یہاں کے مسلمانوں کو مرتد کیا جائے۔ اس اجمال کی تفصیل طویل ہے۔ ۱۹۲۳ء کے آغاز میں اسی سلسلہ کی ایک منظم اور اعلانیہ تحریک شدھی آگرہ، متھرا، بھرت پور، ایٹا وغیرہ اضلاع میں جاری ہوئی اور مسلمانوں نے اس حملہ کی مدافعت کے لیے ان شدھی زدہ علاقوں میں اپنے واعظ اور مبلغ بھیجے۔ اس زمانے میں جو تجربات و مشاہدات ہوئے، ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے راقم نے یکم جولائی ۱۹۲۳ء کو بہ مشورہ و امداد بعض اکابر ملت مثل حاجی مولوی سر رحیم بخش مرحوم، مولانا عبدالماجد بدایونی، نواب عبدالوہاب خاں مرحوم ایک مرکزی جمعیت تبلیغ الاسلام قائم کی جو بفضلِ تعالیٰ اب تک قائم ہے اور راقم اب تک اس کا معتمد عمومی ہے چونکہ اقبال کو تبلیغ و اشاعت اسلام کا خاص شوق تھا، وہ ماہ اکتوبر ۱۹۲۳ء میں ہماری اس جمعیت کے ممبر ہو گئے۔

 

یورپین مسلم کانفرنس

جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام کے رجسٹر ہائے مراسلت میں یہ اندراج ہے کہ ۲۰جنوری ۱۹۲۷ء کو اقبال کا ایک خط میرے نام آیا، جس کا مضمون یہ تھا کہ چند احباب کی تجویز ہے کہ آئندہ سال لاہور میں یورپین مسلمانوں کی ایک کانفرنس کی جائے جس کا خرچ قریباً تیس ہزار روپیہ ہو گا۔ انھوں نے دریافت کیا کہ آیا ہماری جمعیت اس میں کچھ مدد کر سکے گی۔ میرے جواب مورخہ ۲۳جنوری ۱۹۲۷ء کا خلاصہ یہ لکھا ہے کہ یورپین کانفرنس کا ارادہ بہت اچھا ہے لیکن روپے کا انتظام ضروری ہے۔ مناسب ہو کہ کسی بڑے آدمی کو صدر بنایا جائے اور اس سے رقم وصول کی جائے۔ پراپیگنڈہ آپ کے نام سے میں کر لوں گا۔ میرے خط کے جواب میں ۲۴جنوری کو اقبال نے وہ خط لکھا جو مکاتیب اقبال کے صفحہ ۲۰۷/۲۰۸پر درج ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’آٹھ ہزار روپے جمع کر دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ باقی روپیہ بھی اس غرض کے لیے عام مسلمان دینے کو تیا رہو جائیں گے اور میں کہتا ہوں کہ رقم مطلوبہ کا بہت بڑا حصہ غالباً لاہور ہی سے جمع کر لوں گا۔ بلکہ میرا ارادہ یہ ہے کہ جب تک رقم مطلوبہ کے وعدے پرائیویٹ طور پر نہ ہو جائیں ، اس کانفرنس کے متعلق کوئی اعلان نہ کیا جائے۔ یورپ اور امریکہ سے کم از کم آٹھ دس آدمیوں کو دعوت دی جائے گی۔ باقی جو  یورپین مسلمان ہندوستان میں موجود ہیں ، ان کی فہرست تیار کی جائے گی۔ آپ فی الحال اس فہرست کی تیاری میں مدد دیں اور اپنے احباب کو خط لکھ کر ان کے مفصل پتے دریافت کریں۔ کم از کم سو یورپین مسلمان اس کانفرنس میں جمع ہو جائیں تو خوب ہو۔ کانفرنس کے اجلاسوں کے لیے ٹکٹ لگانے کا قصد ہے۔ آپ اپنے دوستوں سے کہیں کہ فی الحال یہ خیال کانفیڈنشل ہے۔ مسٹر پکٹ ہال کو میں نے حیدر آباد خط لکھا تھا۔ ان کو اس خیال سے نامعلوم کیوں ہمدردی نہیں ! میں انگلستان سے خط و کتابت کر رہا ہوں۔‘‘

 

میرے ایجنٹ

اقبال اپنے مشہور لیکچر دینے کے لیے مدراس جانے والے تھے۔ میں نے ان کو لکھا کہ دوران قیام مدراس میں وہاں کے مسلمانوں کو تبلیغ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائیں اور جمعیت مرکزیہ تبلیغ الا سلام کی مالی امداد کے لیے آمادہ کریں۔ میرے خط کے جواب میں انھوں نے مجھ کو ایک خط مورخہ ۵دسمبر ۱۹۲۸ء کو لکھا جو مکاتیب اقبال کے صفحہ ۲۰۹/۲۱۱پر درج ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں :

’’میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام تمام کاموں پر مقدم ہے۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظت اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے، جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رویہ سے معلوم ہوتا ہے تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے یہ بات میں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں اور سیاسیات حاضرہ کے تھوڑے سے تجربہ کے بعد ہندوستان کے سیاسیات کی روش جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، خود مذہب اسلام کے لیے ایک خطرہ عظیم ہے اور میرے خیال میں شدھی کا خطرہ اس خطرے کے مقابلے میں کچھ وقعت نہیں رکھتا، یا کم از کم یہ بھی شدھی ہی کی ایک غیر محسوس صورت ہے۔ بہر حال جس جانفشانی سے آپ نے تبلیغ کا کام کیا ہے اس کا اجر حضور سرور کائنات ہی دے سکتے ہیں۔ میں ان شاء اللہ جہاں جہاں موقع ملے گا، آپ کے ایجنٹ کے طور پر کہنے سننے کو حاضر ہوں ، مگر آپ اور مولوی عبدالماجد بدایونی جنوبی ہند کے دورہ کے لیے تیار رہیں۔‘‘

 

مصری وفد

 

۱۹۳۶ء میں اچھوتوں میں اشاعت اسلام کا ایک خاص موقع پیدا ہوا۔ اچھوتوں کی ایک کانفرنس نے جس کے حاضرین کی تعداد دس ہزار نفوس بیان کی گئی تھی، ایک ریزولیشن پاس کیا کہ اچھوتوں کو ہندو دھرم چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرنا چاہیے۔ اس کانفرنس اور اس ریزولیشن کا غلغلہ تمام ہندوستان میں پھیل گیا۔ ایک جانب تو ہندوؤں نے خاص کوشش کی کہ اچھوتوں کو کسی طرح اس ارادے سے باز رکھا جائے، دوسری جانب مسلمان، عیسائی، سکھ اور بدھ دھرم والے اس کوشش میں مصروف ہو گئے کہ اچھوتوں کو اپنے مذہب کی دعوت دیں۔ اس سلسلہ میں ہماری جمعیت نے بھی ڈھائی سال تک بہت کچھ جدو جہد کی، مگر اس کی تفصیل یہاں بیان  کرنا مقصود نہیں۔ یہاں صرف یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ اچھوتوں کے ریزولیشن دوبارہ تبدیل مذہب کی اطلاع مصر میں بھی پہنچی۔ جامعہ الازہر قاہرہ نے فیصلہ کیا کہ اچھوتوں میں تبلیغ الا سلام کا کام کرنے کے لیے الازہر کے علما کا ایک وفد ہندوستان بھیجا جائے۔ چونکہ اقبال کے علم و فضل کا شہرہ تمام ممالک اسلامی میں عرصہ دراز سے پہنچا ہوا تھا، اس لیے الازہر کے شیخ الجامعہ شیخ مصطفی مراغی نے اقبال کو خط لکھ کر ان کو وفد بھیجنے کے ارادہ سے مطلع بھی کیا اور ان کی رائے بھی دریافت کی کہ آیا ایسے وفد کا بھیجنا مناسب اور مفید ہو گا اور اگر اقبال کا جواب اثبات میں ہو تو ارکان وفد کن کن صفات کے آدمی ہوں۔ یہ بھی دریافت کیا کہ آیا علمائے ازہر کی تقریروں کی ترجمانی کیلیے ہندوستان میں آدمی مل جائیں گے، یا وفد اپنے ترجمان ہمراہ لائے۔ اقبال نے شیخ مصطفی مراغی کے اس خط کو اخبار احسان لاہور میں شائع کر دیا اور مجھ کو اپنے خط مورخہ یکم جولائی ۱۹۳۶ء میں لکھا:

’’مجھ سے شیخ صاحب نے مشورہ طلب کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس وفد کے متعلق آپ ضروری ہدایات دیں۔ مہربانی کر کے آپ لکھیں کہ ان کو کیا مشورہ دیا جائے۔ بعض باتیں میرے خیال میں ہیں ، مگر میں آپ کی رائے بھی معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس وفد کے ہمراہ ملک کا دورہ بطور پروپیگنڈا سیکریٹری کے کریں۔ اس سے بہت اچھے نتائج نکلیں گے اور وفد کو آپ کے معلومات اور مشوروں کے امیال و عواطف سے بے حد فائدہ پہنچے گا۔‘‘

لیکن اس خط کا جواب نہ لکھنے پایا تھا کہ اقبال نے ۴جولائی کو اسی موضوع پر مجھ کو دوسرا خط لکھا اور اس میں مجھ سے چند باتیں کرنے کے بعد لکھا۔

’’مصری وفد کی ہر طرح حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ اس کے نتائج نہایت دور رس ہوں گے، آپ ضرور ان کے ساتھ دورہ کریں۔ یہ واقعہ ہندوستان بلکہ اسلام کی تاریخ میں یاد گار ہو گا۔ آپ کا جواب آنے پر میں شیخ جامعہ ازہر کا اصل خط ارسال کروں گا، تاکہ آپ بھی ان کو ایک علیٰحدہ خط لکھ سکیں۔ میں اپنے خط میں ان کو لکھ دوں گا کہ وہ آپ کے خط کا انتظار کریں۔‘‘

ان کو تبلیغ اسلام سے اور مسلمانوں کے بین الممالک اشتراک عمل سے اس قدر گہری دلچسپی تھی کہ جب میرا جواب ان کو پہنچ گیا تو انھوں نے ۹جولائی کو پھر ایک خط لکھا، ان کا اقتباس درج کرتا ہوں :

’’آپ کا خط عین انتظار میں ملا۔ یہ تمام مشکلات میرے ذہن میں تھیں جو آپ نے خط میں لکھی ہیں۔ باوجود ان کے میرا خیال تھا کہ ان کا ہندوستان آنا عام طور پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں پر اور نیز خود مسلمانوں پر اچھا اثر ڈالے گا۔ ان کے آنے سے مسلمانوں کے تبلیغی جوش میں اضافہ ہونا بہت ممکن ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں پر عام اسلامی اخوت کا اثر پڑے گا۔ اس واسطے میرا خیال ہے کہ ان کو تمام مشکلات سے آگاہ کر دیا جائے اور جو فوائد ان کے وفد سے ممکن ہیں ، ان کا بھی ذکر کر دیا جائے اور فیصلہ ان پر چھوڑ دیا جائے۔‘‘

اس کے بعد مجھ کو اقبال کا کوئی اور خط اس سلسلے میں نہیں آیا، مگر یہ قرار پا چکا تھا کہ اقبال شیخ جامعہ الازہر کو میرے بارے میں لکھ دیں گے۔ انھوں نے ضرور لکھا ہو گا۔ میں نے اقبال کو اطمینان دلا دیا کہ میں وفد کو ہر امکانی امداد دوں گا۔میں نے شیخ جامعہ الازہر کو تار دے کر دریافت کیا کہ وفد کب ہندوستان پہنچے گا۔ ابھی مجھ کو اس تار کا کوئی جواب نہ ملا تھا کہ اخبار ایسٹرن ٹائمز لاہور مورخہ ۱۰نومبر ۱۹۳۶ء میں قاہرہ کا ایک پیغام جس کی نسبت لکھا تھا کہ ہوائی ڈاک سے آیا ہے، شائع ہوا۔ اس میں درج تھا کہ علمائے ازہر کا وفد اطالوی جہاز کانٹی راس میں روانہ ہو کر ۱۲نومبر کو بمبئی پہنچے گا۔ بمبئی میں جو ہمارے تبلیغی دوست تھے، ان سے دربارہ وفد مذکور میری مراسلت ہو چکی تھی۔ اخبار میں یہ خبر پڑھتے ہی میں نے بمبئی تار دیا اور خود بمبئی پہنچ گیا۔ جہاز کانٹی راس ۱۷نومبر ہی کو آیا۔ ہم نے تمام سواریوں کو اترتے ہوئے دیکھا اور بندر گاہ پر دریافت بھی کیا۔ مصری وفد اس میں نہ تھا۔ آخر کار یہ وفد ۱۱دسمبر۱۹۳۶ء کو بمبئی میں جہاز سے اترا۔ احباب بمبئی نے ۹دسمبر کو مجھ کو تار دیا تھا، وہ  ۱۰دسمبر کو ملا تھا، میں نے بذریعہ تار احباب بمبئی کو مطلع کر دیا تھا کہ میرا پہنچنا ممکن نہیں ، آپ وفد کا استقبال کریں۔ ان کا پروگرام معلوم کر کے بذریعہ تار اطلاع دیں۔ ۱۲دسمبر کو رئیس وفد نے مجھ کو خط لکھا۔ ۱۲نومبر کو وفد کے نہ پہنچنے کے وجوہ لکھتے ہوئے میری تکلیف کا شکریہ لکھا اور یہ لکھا کہ وفد مجھے انبالے میں ملنا چاہتا ہے۔ شیخ ازہر کے نام جو تار میں نے بھیجا تھا،اس کا جواب نہ دے سکنے کے لیے معذرت بھی لکھی میں نے جواب میں وفد کا خیر مقدم کیا اور لکھا کہ انبالے کی بجائے دہلی میں ملنا زیادہ مناسب ہو گا۔ آخر کار وفد نے بذریعہ تار اطلاع دی کہ وہ ۳۰دسمبر کو دہلی پہنچ گئے ہیں اور سیسل ہوٹل میں مقیم ہیں۔ میں ۳۱دسمبر کی شام کو دہلی پہنچا اور یکم جنوری ۱۹۲۸ء کو سیسل ہوٹل میں وفد سے ملا۔ اخباروں سے معلوم ہو چکا تھا کہ اس وفد نے اپنا مقصد ہندوستان کے مسلم ادارات تعلیم کا معائنہ اور مطالعہ اور مسلمانان ہند سے ثقافتی (cultural)تعلقات قائم کرنا بیان کیا ہے۔ دہلی میں ملاقات ہونے پر معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنے تبلیغی مقصد کو سب سے راز میں رکھا ہے اور اس بارے میں صرف مجھ سے اور اقبال سے بصیغۂ راز مبادلہ خیالات اور اخذ معلومات کریں گے۔ میں سیسل ہوٹل میں چار روز تک ارکان وفد سے گفتگو کرتا رہا۔ وفد کے سیکریٹری شیخ محمد حبیب احمد آفندی اور اسسٹنٹ سیکریٹری شیخ صلاح الدین التجار انگریزی دان تھے، رئیس وفد اور باقی دو ارکان وفد عربی میں سوالات کرتے تھے اور جو معلومات ان کو حاصل ہو چکی تھیں ، ان کو بیان کرتے تھے۔ شیخ حبیب ان کی اور میرے جوابات کی ترجمانی کرتے تھے۔ چار روز کے مسلسل مکالمات کے بعد رئیس وفد نے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں وہ تمام واقعات و خیالات جو میں بیان اور ظاہر کر چکا ہوں ، انگریزی میں لکھ کر دے دوں۔ چنانچہ میں نے بائیس صفحہ کی ایک ٹائپ شدہ  یادداشت مرتب کر کے وفد کو دے دی۔ اندریں اثنا ایک صاحب نے ناگپور سے وفد کو ایک چٹھی لکھی تھی۔ وفد نے چاہا کہ میں اس چٹھی پر بھی ایک تبصرہ لکھ دوں۔ چنانچہ پانچ صفحہ کا ٹائپ شدہ تبصرہ لکھ کر ان کے حوالے کیا گیا۔

دہلی میں مجھے ملنے سے پیشتر یہ وفد بمبئی، بھوپال اور آگرہ کا  دورہ کر چکا تھا، اس کے بعد علی گڑھ، رام پور،دیوبند اور پشاور کا دورہ کیا۔ میں علی گڑھ میں ان کے ہمراہ تھا۔ پشاور کے بعد وہ لاہور گئے اور میں بھی وہاں پہنچا۔ اقبال نے ۲۷جنوری ۱۹۳۷ء کو وفد کے اعزاز میں ایک لنچ دیا۔ اس وقت اقبال کی صحت کچھ عرصہ سے خراب تھی، لنچ ایک ہوٹل میں دیا گیا تھا، میزبان کی حیثیت سے اقبال کا موجود ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ وہ شریک ہوئے۔ اس وقت انھوں نے کہا کہ میں چھ مہینے کے بعد گھر سے نکلا ہوں ، جاوید بھی موجود تھے، لنچ کے بعد ایک گروپ فوٹو لیا گیا۔ جاوید اس فوٹو میں بھی ہیں۔ یہ گروپ ایک نہایت خاص یاد گار ہے۔

وفد کے مقصد سے متعلق وفد کی اقبال سے باتیں ہوئیں۔ میں جو کچھ کر چکا تھا، وہ میں نے بیان کیا۔ اقبال نے میرے خیالات سے اتفاق کیا۔ اقبال سے جو خاص مشورہ ہوا، اس کی ایک ٹائپ شدہ یادداشت مرتب کر کے میں نے وفد کو دے دی۔

وفد کے نقل و حرکت اور واپسی سے متعلق ابھی بہت سے واقعات باقی ہیں اور میرے فائل میں ان سے متعلق بہت سا مواد ہے۔ مگر یہاں اسی حد تک ان واقعات کا بیان کرنا مقصود تھا، جہاں تک اقبال کا تعلق تھا، وہ واقعات آ چکے اور اقبال نے علالت کے باوجود اس اہم اسلامی کام میں جو دلچسپی لی، وہ ظاہر ہو چکی۔ یہ وفد وسط مارچ ۱۹۳۷ء میں ہندوستان سے واپس ہوا۔ عرصہ دراز کے بعد جب میں نے ایک شکایتی خط لکھ کر دریافت کیا، تو جون ۱۹۳۸ء میں شیخ محمد حبیب احمد آفندی نے وفد کی عربی رپورٹ کی ایک کاپی مجھ کو بھیجی۔ اس میں میری تجاویز سے وفد نے اتفاق رائے کیا تھا، مگر اس وقت ازہر کی انتظامی کونسل نے اندریں باب کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد کوئی خبر نہیں آئی۔

 

تمنائے مدینہ

 

دنیا میں کون مسلمان ایسا ہو گا جس کو حج بیت اللہ کی آرزو نہ ہو اور جس کے دل کو مدینہ منورہ کی حاضری کی تمنا بے تاب نہ رکھتی ہو! اور پھر اقبال کے لیے تو یہ بات تصور میں بھی نہیں آسکتی کہ اس کا دل حضور رسالت مآب کے دربار میں حاضر ہونے کے لیے دن رات نہ تڑپتا ہو۔ ان کے کلام میں جا بجا اس کے شواہد موجود ہیں۔ مثال کے طور پر صرف دو شعر دیکھ لیجیے۔ حضور رسالت مآب کو وہ کیا سمجھتے تھے۔ ملاحظہ کیجیے:

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

مدینہ منورہ ان کے نزدیک کیا تھا، ملاحظہ ہو:

خاک یثرب از دو عالم خوشتر است

اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است

(اسرار خودی)

چنانچہ اپنی زندگی کے آخری تین چار سال میں وہ حج بیت اللہ اور  زیارت رسول اللہ کی تجویزیں سوچتے رہے۔ سو اتفاق سے یہی زمانہ ان کی صحت کی خرابی اور جسمانی کمزوری کا تھا۔ اسی عرصہ میں ان کی اہلیہ محترمہ کا بھی انتقال ہو گیا اور بچوں کی نگہداشت اور تربیت کی ذمہ داری تمام تر انھی پہ آ پڑی۔ تا ہم وہ اس فکر میں رہے کہ عراق سے ہوتے ہوئے براہ بیت المقدس مدینۂ منورہ پہنچیں اور وہاں سے حج کے لیے مکہ معظمہ جائیں۔ وہ عراق کی زیارات کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے، نجف اشرف میں ان کے لیے بڑی کشش تھی۔ اس کا اندازہ اسرار خودی کے ان اشعار سے ہو سکتا ہے جو انھوں نے ’در شرح اسمائے علی مرتضیٰؓ کے عنوان سے لکھے ہیں۔ ان کا یہ شعر ظاہر کرتا ہے کہ جناب شیر خدا سے ان کو خاص طور پر کس قدر عقیدت تھی:

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

انھوں نے مجھے لکھا کہ عراق کے راستہ سے سفر مدنیہ منورہ کے بارے میں معلومات فراہم کروں۔ چنانچہ میں نے بغداد خطوط لکھے اور مولانا سید حسن دین خاموش کو جو اسی زمانہ میں عرب سے براہ عراق واپس آئے تھے، خط لکھا اور جو اطلاعات حاصل ہو سکیں ، اقبال کو بھیجیں۔ بڑی مشکل یہ تھی کہ سب لوگ لاری کے سفر کو دشوار بیان کرتے تھے اور اقبال بہت کمزور تھے۔ ۱۹۳۷ء کے موسم سرما میں ایک روز جاوید منزل میں ان سے ملاقات ہوئی۔ دیر تک صحبت رہی۔ اور اس وقت بہت کمزور تھے۔ سفر مدینہ کا ذکر بھی رہا۔ کہنے لگے کہ جس قدر تھوڑی سی طاقت مجھ میں باقی رہ گئی ہے، میں اس کو مدنیہ کے سفر کے لیے بچا بچا کر رکھ رہا ہوں۔ افسوس کہ ان کی یہ تمنا پوری نہ ہوئی اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔

اقبال کا قلبی تعلق حضور سرور کائنات کی ذات قدسی صفات سے اس قدر نازک تھا کہ حضور کا ذکر آتے ہی ان کی حالت دگر گوں ہو جاتی تھی، اگرچہ وہ فوراً ضبط کر لیتے تھے۔ چونکہ میں بارہا ان کی یہ کیفیت دیکھ چکا تھا، اس لیے میں نے ان کے سامنے تو نہیں کہا، مگر خاص خاص لوگوں سے بطور راز ضرور کہا کہ یہ اگر حضور کے مرقد پاک پر حاضر ہوں گے، تو زندہ واپس نہیں آئیں گے، وہیں جان بحق ہو جائیں گے۔ میرا اندازہ یہی تھا۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔

 

مجلہ اقبال لاہور اکتوبر ۱۹۵۷ء

٭٭٭

 

حواشی

 

۱۔ چودھری جلال الدین میرے مخلص ترین دوستوں میں سے تھے۔ وہ چار سال تک گورنمنٹ کالج، لاہور میں میرے ساتھ پڑھتے رہے۔ میرے ساتھ بی۔ اے پاس کیا اور محکمہ ڈاک خانہ میں انسپیکٹر ہو گئے، پھر ترقی پا کر سپرنٹنڈنٹ ہوئے۔ خطاب ’خان صاحب‘ پایا۔ بے حد شریف انسان تھے، عمر نے دیر تک وفا نہ کی۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ ان کا ایک فرزند سیالکوٹ میں وکیل ہے۔ اس سے مل کر چودھری صاحب کی محبت اور شرافت یاد آ گئی۔

۲۔ سرہند کا نام استعمال میں بگڑ گیا ہے۔ صحیح نام سہرند تھا۔ عوام اس سرھند کہنے لگے، حرف  ر  کا تلفظ اس طرح کرتے تھے کہ  ھ  کو اس سے پہلے بولنے کے بجائے اس کے بعد اور اس سے مخلوط کر کے بولتے تھے۔ بالکل اس طرح جس طرح بھی اور تھی میں  ھ  ب  اور  ت سے مخلوط ہے۔ بعد کے زمانہ میں اس نام کو لفظ سر اور لفظ ہند سے مرکب سمجھ لیا گیا اور اسی طرح لکھا جانے لگا عوام اب بھی اسی طرح سرہند بولتے ہیں ، مگر پرانی نمرلی تحریروں میں سہرند صاف لکھا ہوا ہے۔

٭٭٭

تشکر: وسیع اللہ کھوکھر جن کےتوسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید