FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

تذکرۂ شعرائے تونسہ شریف

 

حصہ اول

 

                جسارؔت خیالی

 

 

 

انتساب

 

عظیم دانشوروں

ڈاکٹر خیال امروہوی

اسلم رسول پوری

اور

عاشق بزدار

کے نام!

 

 

 

مضامین

 

حرفِ آغاز

 

 

جس طرح امروہہ سید شرف الدین المعروف شاہ ولایت کے فیوض و برکات سے شاد و آباد ہی نہیں بلکہ اپنی تہذیبی، ثقافتی، علمی و ادبی منفرد شناخت بھی رکھتا ہے اور ایسی نابغہ روزگار ہستیاں پیدا کی ہیں جنہوں نے دنیائے ادب میں اپنی قاموسی علمیت کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

سرزمین تونسہ پر بھی خواجہ سلیمان تونسوی جیسے عظیم صوفی بزرگ کا سایہ ہمایوں ہے۔ تونسہ نے بھی علم و ادب کے حوالے سے ایسی عظیم ہستیاں پیدا کی ہیں جنہوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ فکری انقلاب کی راہیں ہموار بھی کرتے رہے ہیں۔ تذکرۂ شعرائے تونسہ لکھتے وقت مجھے کئی دشواریوں کا سامنا بھی رہا جن کا الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔

ریاض عصمت، شکیل احمد اور سعید سوہیہ جیسے مخلص احباب کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے مجھے تونسہ کے اردو، سرائیکی شعراء سے نہ صرف ملوایا بلکہ چلچلاتی دھوپ میں میرے ساتھ وہوا بھی گئے وہاں کے شعراء کے ساتھ ساتھ مضافاتی شعراء سے بھی میرا رابطہ کرایا۔ اس حوالے سے مجھے کئی مرتبہ پہاڑپور سے تونسہ اور وہوا کا تھکا دینے والا سفر کرنا پڑا۔ اس کے باوجود مجھے پچاس شعراء کے کوائف اور کلام مل پائے۔

ودیا پرکاش سرورتونسوی مرحوم، پروفیسرشریف اشرف، ڈاکٹر  اشرف شاہین قیصرانی، جاوید احسن مرحوم، غضنفر خاں تنگوانی، طائر تونسوی، غلام محمد محمودی مرحوم، فاروق فیصل، بربط تونسوی مرحوم، اور نگ زیب آزردہ مرحوم، حاجی محمد اقبال خان، زاہد دامانی مرحوم، مضطر تونسوی اور رفیق ہمراز کے کوائف اور کلام نہ ملنے کی وجہ سے تذکرۂ شعرائے تونسہ میں شامل نہ ہو سکے۔ جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔

چوں کہ میرا تعلق پہاڑپور  لیہ سے ہے۔ لیہ ایک دبستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے یہاں کے ادباء و شعراء کا ذکر نہ کرنا نا انصافی ہو گی۔ جنہوں نے ادبی مراکز سے دور بیٹھ کر اردو، سرائیکی ادب کی گراں بہا خدمت کی جس کا زمانہ معترف ہے۔

ان میں راجہ عبداللہ نیاز، مرید حسین راز، ڈاکٹر مہر عبدالحق، دامن اباسینی، ربنواز شکستہ، محمد حسین آزاد بزدار، ڈاکٹر خیال امروہوی، نسیم لیہ، غلام حیدر فدا، ارمان عثمانی، پروفیسر جعفر بلوچ، عدیم صراطی، شارق انبالوی، غافل کرنالی، کیف شکوری، شوکت ہاشمی، شہباز نقوی، مفتی رئیس قمر، اگرچہ دنیا میں نہیں رہے مگر اپنے تاریخ ساز کام کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے ہیں۔

موجودہ ادبی تناظر میں پروفیسر نواز صدیقی، اشو لال، ڈاکٹر ظفر عالم ظفری، پروفیسر مہر اختر وہاب، ڈاکٹر افتخار بیگ، ڈاکٹر ا میر محمد ملک، پروفیسر اکرم میرانی، ڈاکٹر مزمل حسین، ڈاکٹر انور نذیر علوی، ڈاکٹر گل عباس اعوان، پروفیسر ریاض راہی، پروفیسر شبیر نیر، شعیب جازب، واصف قریشی، پروفیسر افضل صفی، پروفیسر طارق گجر، پروفیسر کاشف مجید، پروفیسر جاوید اختر رامش، ناصر ملک، سعید سوہیہ، جمشید ساحل، منشی منظور، شمشاد سرائی، شاہد رضوان چاند، رضا کاظمی، احمد اعجاز بھلر، احسن بٹ، حکیم در، مشتاق ثمر، موسیٰ کلیم، شاکر کاشف، حنیف سحر خیالی، منظور بھٹہ، عبداللہ نظامی، شمشاد سرائی، مظہر یاسر، سلیم اختر ندیم، مظہر کھوکھر، صابر عطا، غلام رسول مسکین عطا محمد عطا، طاہرمسعود مہار، حبیب مظہر، قاضی راشد، ندیم سوہیہ، اقبال صحرائی، اصغر جام، ناصر خیالی عتیق خیالی، عارش گیلانی، رانا عبدالرب، عمران عاشر، قاسم عارض، عمر جی تنہا، خالد ندیم شانی سلیم آکاش، خالد بغدادی، بشیر ناظم، ڈاکٹر وقار خاں دستی، افتخار فلک کاظمی اور صغیر واصف، نے اردو اور سرائیکی ادب کی خدمت کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ دعا ہے کہ یہ سب سلامت با کرامت رہیں۔

ڈاکٹر طاہر تونسوی اور جاوید اختر بھٹی دنیائے ادب میں سچے، کھرے، نقاد، دانشور اور محقق کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے مجھ جیسے ادب کے ادنیٰ طالب علم کے کام کو سراہا ہے۔ یہ میرے لیے اعزاز سے کم نہیں۔ جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ ادارہ ’’رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی، کی محبتوں کا معترف بھی اور ادبی جریدہ ’’عالمی رنگِ ادب، کے مدیر: ’’جناب شاعر علی شاعرؔ،  کا شکر گزار بھی ہوں جنہوں نے اس کام میں بھرپور تعاون کیا۔

میں آخر میں مہر احمد علی واندر ایڈووکیٹ، میاں نور الٰہی ایڈووکیٹ، نعیم علی شاہ ایڈووکیٹ ملک مظاہر حسین ایڈووکیٹ، ملک حفیظ ندیم ایڈووکیٹ، پروفیسر اقبال ندیم، پروفیسر رمضان زاہد، مخدوم مجاہد حسین مجاہد، حکیم یامین انور، فیض بلوچ، پروفیسر عمران میر، قاسم راز، تنویر شاہد محمد زئی، محمد اکرام سنبل، محمد اقبال پتوار، عبدالعزیز نادر، عبدالاحد سنبل، حنیف سیماب، نوید عبداللہ سنبل اور عابد فرید جیسے محسن احباب کا بھی بے حد ممنون ہوں جو ہمیشہ مجھ جیسے سست اور کاہل کو نئی تحریک دیتے رہتے ہیں۔

جسارت خیالی

پہاڑپور لیہ

٭٭٭

 

 

 

تذکرۂ شعرائے تونسہ شریف -ایک روشن اور منور دستاویز

 

اردو ادب میں تذکرہ نگاری کی روایت بہت قدیم ہے میر تقی میر سے لے کر لمحہ موجود تک یہ روایت نہ صرف مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے بلکہ اس کی اہمیت اور افادیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں ایم اے اور ایم فل کی سطح پر مختلف علاقوں کے ادباء اور شعراء پر تحقیقی کام کرنے کی بنا ء پر مزید تقویت پیدا ہوئی ہے اور ادب کی تاریخ بھی محفوظ ہو کر پس منظر کے بجائے پیش منظر پر آ گئی ہے۔ یوں مختلف شہروں اور علاقوں یا خطوں میں بسنے والے شعراء کرام کا تفصیلی نہ سہی مختصر تعارف بھی ہو جاتا ہے جو تفصیلی کام کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتا ہے۔ اور ان کے نمونہ کلام و تنقیدی رائے کے حوالے سے ان کے تخلیقی کمالات کی ایک تصویر بھی سامنے آ جاتی ہے اور ان کے شاعرانہ لب و لہجے اور شناخت کا مرحلہ بھی طے ہو جاتا ہے اور اس طرح مختلف علاقوں، خطوں اور زبانوں کے شعراء کے بارے میں معلومات کا منظرنامہ بھی تشکیل پاتا ہے۔

میرے نزدیک یہ ایک خوش آئند اور مستحسن اقدام ہے کہ اس کی موجودگی میں مزید تحقیق کرنے والوں کے لیے مواد کی فراہمی کسی حد تک ممکن ہو جاتی ہے خاص طور پر ان علاقوں کے شعراء کی کاوشوں کی ایک تصویر بھی سامنے آ جاتی ہے جو بڑے ادبی مراکز سے دور اپنے تخلیقی سفر کو جاری وساری رکھے ہوئے ہیں اور یوں ایک ایسا تعارف بھی ابھرتا ہے جو ہر حوالے سے اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور یوں تاریخ شعرو ادب بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔

معروف ترقی پسند دانشور، شاعر اور نقاد جسارت خیالی کا مرتب کردہ ’’تذکرۂ شعرائے تونسہ شریف، ہر حوالے سے اہم ہے کہ انہوں نے اس خطے کے اردو اور سرائیکی شعراء کے حالات، تخلیقی کمالات اور نمونہ کلام کو کتا بی شکل میں پیش کر دیا ہے۔ اور تذکرہ نگاری کی قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے تنقیدی رائے کو بھی اہمیت دی ہے۔ اور اس کا کہیں کہیں مختصر اور کہیں کہیں تفصیل سے جائزہ بھی لیا ہے اور میرے نزدیک یہ بات بڑی اہم بھی ہے اور نئی روایت کی علمبردار بھی۔

بادِ شمال کا کمال یہ ہے کہ وہ جہاں سے گزرتی ہے ذہانتیں اور فطانتیں بکھیرتی چلی جاتی ہے اور وہاں کے ارباب نقد و نظر اور تخلیقی اپج رکھنے والوں میں وہ صلاحیتیں پیدا ہو جاتی ہیں یا ان کو اور بھی جلا ملتی ہے کہ جو باقی خطوں میں کم کم نظر آتی ہیں۔ اس پس منظر میں تاشقند سے لیکر تونسہ شریف تک اس کے اثرات نمایاں اور واضح نظر آتے ہیں تاہم تونسہ کو مزید فضیلت حاصل ہے کہ سلسلہ چشتیہ کے نامور صوفی بزرگ حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ کی وجہ سے اسے تونسہ شریف ہونے کا شرف حاصل ہے اور یوں یہ تونسہ مقدسہ بھی کہلاتا ہے۔ اس حوالے سے نامور دانشور اور شاعر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی نظم ’’ابد کے طاق میں رکھے ہوئے چراغ ‘‘ کا یہ طویل اقتباس ا س پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے اور ہر اعتبار سے باعث عزت بھی ہے اور وجہ توقیر بھی۔

وہ تونسہ ہے

جہاں اجمیر دہلی اور اجودھن کے سبھی موسم خیال و خواب کے رنگوں کی تجسیمی

فضائیں ڈھل گئی ہیں اور وہ خوش آ ثار بستی ہے

کہ جس کے سب گلی کوچے مہاراں شہر کی مہکار کی

ایسی علامت بن گئے ہیں

جو اپنی اک کہانی لکھ رہی ہے اور کہانی جس کا پس منظر ابد کے طاق پر رکھے

دیے کے نور سے روشن ہے اور اس کی یہ ضیا ساری کہانی کے مناظر کو اجودھن اور مہاراں

کی زمیں سے جوڑ کر

لکھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے

کہانی جو تحیر کا سراپا اوڑھ کر حسنِ عقیدت کے طلسماتی جہاں میں

طاق کے اوپر دھری ہے اور ابد کے طاق پر رکھے دیے کی لو مسلسل بڑھ رہی ہے

اور زمانہ دیکھتا جاتا ہے حیرانی کے موسم میں !

وہ تونسہ تھا

جسے غوث زماں شاہ سلیماں کے چرن چھونے کی

برکت سے ثریا تک رسائی مل گئی تھی

وہ تونسہ تھا

جو اس شاہ جہاں کے گرد رقصاں تھا

وہ گویا سانس لیتا ہے سلیمان جہاں کے سانس لینے سے

سلیمانِ زمانہ تھا

جو تختِ خواجگاں پر جلوہ فرما تھا

کتاب و خواب کے خوش رنگ موسم تھے

کہ جن میں کتنی صدیاں گیت گاتی رقص کرتی پھر رہی تھیں

رنگ اور خوشبو کے آنگن میں

وہ تونسہ ہے

جہاں طاقِ ابد پر خواجگان چشت نے اپنا چراغ جاوداں

روشن کیا ہے یہ چراغِ جاوداں صدیوں سے اک ایسی کہانی لکھ رہا ہے

اب جسے وہ جاودانی لکھ رہا ہے نور کی خوشبو سے اور احساس کے رنگوں کے موسم میں

وہ تونسہ ہے

جہاں اجمیر، دہلی اور اجودھن کے سبھی خوش رنگ موسم

ایک تجسیمی فضا کا استعارہ بن گئے ہیں

اور وہاں شہر مہاراں کا تمدن خواب رنگوں میں مجسم ہو گیا ہے

اور زمانہ دیکھتا جاتا ہے اور حیرت زدہ بھی ہے

وہ تونسہ ہے

ابد کے طاق پر رکھے دیے کی لو مسلسل بڑ ھ رہی ہے

اور زمانہ دیکھتا جاتا ہے حیرانی کے موسم میں

زمانے کا سفر شہرِ ابد کی سمت جاری ہے

اور اب کے یہ سفر تونسہ سے دہلی اور اجودھن اور مہاراں سے

دیارِ خواجہ اجمیر کی جانب رواں ہے

اور زمانہ دیکھتا جاتا ہے

اور حیرت زدہ بھی ہے

کہانی جو کہ مکے اور مدینے اور نجف کے راستے کتنے زمانوں کا

سفر کرتی ہزاروں بستیوں میں گھومتی پھرتی

دیارِشمس دیں میں آن اتری تھی

کہانی کے جلو میں خواب تھے حسنِ تمنا کے

یہ دو صدیوں کا قصہ ہے

مگراس میں کئی صدیوں کی خوشبو سانس لیتی ہے

یہ قصہ اس کہانی کے طلسماتی افق کا ایک حصہ ہے

جو صدیوں سے ابد کے طاق پر رکھی ہوئی دست ہنر ور کی

کرامت کا عجب منظر بناتی ہے

یہ دو صدیوں کا قصہ ہے

کہ اس بستی نے مغرب کی طرف اپنے سفر کی ابتدا کی تھی

وہ دریا کے کنارے چل کے تونسہ شہر پہنچی تھی

اور اپنی اس جبینِ شوق کو اس سرزمیں پر رکھ دیا تھا

پھر ابد کے طاق پر رکھے چراغ چشتیاں کے نور سے معمور

جب واپس وہ پلٹی تھی

تو پھر اس کے جلو میں اک زمانہ رقص کرتا آ رہا تھا

ہر طرف مہکار تھی اس کی

وہ بستی تھی سیالوں کی

جو تونسہ کے ابد آباد اور شاداب موسم میں مراقب تھی

یہ دو صدیوں کا قصہ ہے

اور اس قصے کے سارے منظروں میں ایک خوشبو ہے

اور اس خوشبو کے سارے رنگ اس موسم سے پھوٹے ہیں

وہ موسم جو کہ تونسہ میں ابد کے طاق پر رکھا ہوا ہے

اور اس میں تازگی کے سب قرینے جاگ اٹھے ہیں

وہ شادابی کہ جو اس شہر سے پھوٹی، کئی رنگوں میں بکھری اور زمانے بھر کو مہکاتی ہوئی

شہرِ محبت میں اتر آئی وہ جس شہرِ محبت میں اتر آئی

وہ شہر گولڑہ ہے اور محبت کی علامت ہے، وہ خوشبو کا نگر ہے

اور خیال و خواب کے موسم اسی شہرِ محبت کی

ہواؤں سے معطر ہیں

اوراس شہرِ محبت میں محبت رقص کرتی ہے

محبت خواب ہے

اور خواب کے موسم میں برگ و بار لاتی ہے

کبھی وہ خواب کے آنگن میں تجسیمی ردائیں اوڑھ لیتی ہے

کبھی وہ خواب کی خود خواب میں تجسیم کرتی ہے

کبھی تجسیم کے موسم میں پھیلی اس کہانی کے مناظر اک نئے

اسلوب کی خوشبو میں لہکتے ہیں

کبھی ایسی کہانی کا سراپا اوڑھ لیتی ہے

کہانی جو کہ صدیوں سے سفر کرتی ہزاروں بستیوں میں گھومتی پھرتی

دیارِ خواجہ اجمیر میں آ کر سکوں کا سانس لیتی ہے

کبھی دہلی سے ہانس اور اجودھن جا نکلتی ہے

تو ان صدیوں کے سارے منظروں کا پیش نامہ

ایک ہی موسم کے رنگوں کی علامت بن کے

ڈھل جاتا ہے اک ایسی کہانی میں

کہانی جو کہ مکے اور مدینے اور نجف کی خاک میں اگتی ہے

اور ان کے شہروں کی خوشبو سے مہکتی آ رہی ہے

کتنی صدیوں کا سفر کر کے !!

ا ور حقیقت بھی یہی ہے کہ تصوف کی خوشبو میں رچی بسی ہوئی اس بستی کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ ہند سندھ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں صدیوں کا سفر طے کرنے کے ساتھ ساتھ ا سکی خوشبو، افادیت اور اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح تخلیقی اور شعری حوالے سے بھی یہاں کی روایت مضبوط بھی ہے اور تصوف کے لحاظ سے توانا بھی کہ سیال شریف اور گولڑہ شریف کو منور کرتی ہوئی پوری دنیا کو فیض یاب کرتی اور یہ عمل جاری وساری ہے۔

جہاں تک تونسہ کی جغرافیائی صورتحال کا تعلق ہے تو شمال میں سرحد جو اب خیبر پختونخواہ ہے جنوب میں رودِسنگھڑ کے ساتھ ساتھ ریگستانی سلسلے مغرب میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے اور مشرق میں عظیم دریا دریائے سندھ جو اپنی عظیم روایات کا حامل ہے تاہم یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ روزگار کے مناسب وسائل نہیں اور اس کا ایک خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم و تعلم کا بڑا چرچا ہے۔ دینی تعلیم کا بھی اور دنیاوی تعلیم کا بھی۔ کہ اس کی وجہ سے تونسہ کا لٹریسی ریٹ سو فی صد ہے اور فیضِ سلیمانی کی وجہ سے دینی علوم کا بھی بڑا چرچا ہے اور دنیاوی علوم کا بھی اور پھر ایک خاص بات یہ ہے کہ تونسوی آخر تونسوی ہوتا ہے خواہ وہ زمین کے کسی خطے میں یا آسمانی فضاؤں میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہجرت کرنے کے باوجود فکر تونسوی، سرور تونسوی، کندن لال کندن تونسوی دہلی میں رہتے ہوئے سبھی تونسوی ہی ہیں اور شعری اور ادبی کائنات میں تونسہ ہی ان کا حوالہ رہے گا۔ اس پس منظر میں میرے خیال میں جسا رت خیالی کا یہ تذکرہ منفرد بھی ہے اور مواد کے لحاظ سے اہم بھی۔ اور تنقیدی اعتبارات سے جاندار بھی اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ صرف اور صرف نرے مرتب نہیں بلکہ ناقد بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تذکرے میں ان کی بصیرت و بصارت، انفرادی سوچ و فکر اور تخلیقی فعالیت کا واضح اور روشن منظر نامہ بھی ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ کہ انہوں نے مختصر سوانحی خاکے کے ساتھ ساتھ ہر شاعر کے تخلیقی عمل کے اظہارات کو بھی پیش نظر رکھا ہے اور جچی تلی رائے دے کر اس کی اہمیت میں اور بھی اضافہ کیا ہے بھلے سے مختصر طور پر ہی سہی اجمال میں تفصیل بیان کر دی ہے۔

’’تذکرۂ شعرائے تونسہ شریف، میں 50 شعراء شامل ہیں کہ جن پر جسا رت خیالی نے اپنی ماہرانہ تنقیدی رائے دی ہے اور عنوان بھی ایسا رکھا ہے جس سے ان کی تخلیقی اپج اور موضوعات کی نشاندہی بھی ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے ان کا کمال نقد و نظر یوں ابھرا ہے کہ جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے، کی واضح اور روشن مثال بن گیا ہے جیسے شاعرِ با کمال- استاد فیض تونسوی، بستی منگروٹھہ کی عظیم علمی و ادبی شخصیت -فکر تونسوی، روشن فکر دانشور اور انقلابی شاعر -اقبال سوکڑی، جمالیاتی حس کا انوکھا شاعر- رشید قیصرانی، شاعرِِ   ہفت زباں -ظہور احمد فاتح، سرائیکی کا نمائندہ شاعر- شاکر تونسوی، سرائیکی وسیب کا روشن فکر شاعر- شفقت بزدار، سر زمینِ تونسہ کا باغی شاعر -فریاد  ہیروی، کوہ سلیمان کا شاعر خوش گفتار – غلام قادر بزدار، خوش فکر شاعر – جلیل حیدر لاشاری، دبستانِ فاتح کا حرکی حوالہ – شبیر ناقد، انقلاب آفریں جذبوں کا شاعر – مالک اشتر اور دھو پ سروں تک آ پہنچی کا تخلیق کار – شکیل احمد

اس پس منظر میں دیکھیں تو تذکرۂ شعرائے تونسہ شریف میں شامل 50شعرا ء کے بارے میں جسارت خیالی نے جس ماہرانہ انداز اور تنقیدی شعور کے ساتھ ان کے تخلیقی سرمائے کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے وہ ان کے تعارف کے لیے کافی ہے۔ اس طر ح کے بہت سارے نوجوان شعراء کا تخلیقی سفرابھی جاری ہے اور ابھی انہیں اپنے کمالاتِ سخن دکھانے ہیں۔

میرے نزدیک یہ تذکرہ خوش آئند موسموں کی ایک ایسی نوید بن کر سامنے آتا ہے جو تونسہ کے شاعروں کے روشن مستقبل کی ضمانت بھی دے رہا ہے اور امید افزا لمحوں کی بشارت بھی کہ لمحہ موجود تک یہ تذکرۂ شعرائے تونسہ کی بے پنا ہ شعری صلاحیتوں اور فنی کمالات کی آئینہ داری کرتے ہوئے معتبر حوالہ بن گیا ہے۔

میرے نزدیک یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو ادبی تذکرہ نویسی میں ایک نئی مثال بن گئی ہے اس لیے کہ دوسرے خطوں اور شہروں میں بسنے والے ناقدین اور محققین کواس طرح کے تحقیقی و تنقیدی کارنامے سرانجام دینے کی جانب اکساتی بھی ہے اور ان کا فرض بھی یاد دلاتی ہے اس لیے کہ جسارت خیالی نے اپنا فرض بھی پورا کیا ہے اور اپنی دھرتی میں بسنے والے تخلیقی فن کاروں کا قرض بھی اتار دیا ہے اور جس خوشگوار روایت کا آغاز کر دیا ہے وہ مستقبل میں ایک مضبوط اور توانا شکل اختیار کرے گی اس لیے بھی کہ تذکرۂ شعرائے تونسہ شریف ٹھہرے ہوئے پانی میں پہلا پتھر ہے جو اپنے مندرجات آرا ء اور اسلوب کی بدولت اردو اور سرائیکی ادب کی تاریخ میں عام طور پر اور تذکرہ نویسی کے ضمن میں خاص طور پر بڑی اہمیت اور افادیت کا حامل ہو گا اور یہ سب ابد کے طاق پر رکھے ہوئے وہ چراغ ہیں جن کی روشنی اور ان کے کلام کی روشنائی رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی اور میرے نزدیک  جسارت خیالی کی اس عظیم کاوش کا جواز موجود ہے کہ انہوں نے اس خطے کی شعری تاریخ محفوظ کر دی ہے۔

ڈاکٹر طاہر تونسوی

۱۲نومبر ۲۰۱۴

العائشہ ۱۳

غالب سٹریٹ ۳۰

زکریا ٹاؤن بوسن روڈ ملتان

٭٭٭

 

 

مَیں دریا دی من ط تے کھڑا

 

اردو میں تذکرہ نویسی ایک زمانے سے ہے۔ بہت سے شاعر ان تذکروں کی وجہ سے زندہ ہیں۔ جب کوئی ان پر تحقیقی کام کرتا ہے تو ان کے لیے پہلا چراغ تذکرہ ہوتا ہے۔ جس کی روشنی میں کسی شاعر کا سراغ ملتا ہے۔ تذکرے کی اہمیت کسی طور ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ محمدحسین آزاد نے ’’آب حیات، لکھ کر اس فن کو لازوال بنا دیا۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتاکہ   ؎

کیا کیا خضر نے سکندر سے

اب کسے رہنما کرے کوئی

ہمارے ہاں عہد گذشتہ کی ادبی تاریخ تذکروں میں ملتی ہے۔ ایک اور بات یہاں کہنے کی ہے کہ تذکرہ ہمارے مزاج کا حصہ ہے آج بھی بہت شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ یہ ہمیشہ قائم رہنے والا کار خیر ہے۔

جسارت خیالی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں  ایک ’’لا زماں سے زماں تک، (ڈاکٹر خیال امروہوی کے حوالے سے )دوسری ’’شعاع فردا، (شعری مجموعہ )تیسری ’’ اقبال سوکڑی شخصیت اور فن، اور چوتھی ’’سطوتِ حرف، (شعری مجموعہ )شامل ہیں۔ انہوں نے پہاڑپور میں بیٹھ کر اپنے حصے کا ادب لکھا اور زبان و ادب کی خدمت کی ہے۔ ادب کے مخلص خادم وہی لوگ ہوتے ہیں جو ادبی مراکز سے دور اپنا آشرم بناتے ہیں، بغیر لالچ و حرص کے چراغ روشن کرتے ہیں تاکہ جب کوئی ان کی بستی میں آئے تو وہ منزل کی طرف بڑھتا چلا جائے۔

جسارت خیالی نے اپنے آشرم میں ایک نیا دیا روشن کیا ہے۔ ایک ’’تذکرۂ شعرائے تونسہ شریف، لکھا۔ تونسہ ایک مردم خیز خطہ ہے۔ یہاں تصوف، شاعری ہے، سیاست ہے، علم ہے، دانشوری ہے۔ یہاں کے لوگوں نے اپنی سیاست کو تسلیم کروایا ہے۔ سرائیکی سیاست کے بھرپور دفاع کرنے والوں کا تعلق تونسہ شریف سے ہے۔ میرے بہت سے دوستوں کا تعلق بھی تونسہ شریف سے ہے۔ اس لیے میں ان سے واقف ہوں اور ان کی علمی، سیاسی اور شعری صلاحیت کو تسلیم کرتا ہوں۔ سرزمینِ تونسہ نے اردو، سرائیکی کے بڑے شاعر پیدا کئے ہیں۔

اس کتاب میں 50شاعروں کا تذکرہ ہے۔ اس میں 18شاعراردو کے اور 28 کا تعلق سرائیکی سے ہے اور چار شاعر ایسے ہیں جو بیک وقت اردو اور سرائیکی میں لکھتے ہیں۔ اس لیے یہ تذکرہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

جسارت خیالی کا تذکرہ دوسرے تذکروں سے مختلف ہے۔ یہ دراصل تنقیدی اور تحقیقی کتاب بھی ہے۔ اس میں شاعروں کے فن پر بحث کی گئی ہے۔ اگر مصنف اسے تذکرہ نہ کہتے تو اسے مضامین کا مجموعہ کہا جاتا۔ مصنف نے اسے تذکرہ کہا ہے اس لیے ہمیں یہی نام سامنے رکھنا ہو گا اور احترام کرنا ہو گا ورنہ یہ تذکرے سے دوچار قدم آگے ہے۔ جسارت خیالی نے طویل فنی سفر کے بعد یہ تذکرہ تالیف کیا ہے وہ شاعروں کی اہمیت مقام اور مرتبے سے واقف ہیں اس لیے اس تذکرے کی اہمیت زیادہ ہو جاتی ہے۔ جسارت خیالی نے نہایت خلوص کے ساتھ ان شاعروں کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ خود بھی ایک نظریاتی شاعر اور  ادیب ہیں لیکن ان کا نظریہ انہیں کسی تعصب کی اجازت نہیں دیتا انہوں نے غیرجانبداری کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک متوجہ کرنے والا تذکرہ سامنے آیا ہے۔

جسارت خیالی ایک ترقی پسند شاعر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی فکری رہنمائی میں ان کے استاد ڈاکٹر خیال امروہوی کی تربیت کا بہت دخل ہے۔ انہوں نے برسوں اپنے استاد کی خدمت کی اور فیض حاصل کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر خیال امروہوی کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی جسے پسند کیا گیا۔

جسارت خیالی نے ہمیشہ مقصدی زندگی بسر کی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ان کی غزلوں کے چند اشعار پیش کرتا ہوں   ؎

ذات کی تخلیق کا مقصد سمجھ

عمر ساری یوں نہ رنگیں شغل کر

٭

سچ بولنے کی اجازت نہیں

کیسی آزادی ہے مرے شہر میں

٭

دکھوں میں ساتھ دینا ہر کسی کا

یہی مقصد رہا ہے زندگی کا

٭

کیا کہیں کیسے بسر ہم زندگی کرتے رہے

زخم جل جل کے ہی گھر میں روشنی کرتے رہے

٭

ایک قطعہ

کانٹوں پہ زندگی کو بسر کر رہا ہوں میں

تعمیر خار زار میں گھر کر رہا ہوں میں

 

اپنے لہو کو ٹوٹے چراغوں میں ڈال کر

پیدا شب الم کی سحر کر رہا ہوں میں

ان اشعار سے آپ کو جسارت خیالی کے نظریات اور خلوص کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ استاد کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر پورے کارواں کو متعارف کرایا ورنہ شاعروں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے سواکسی کا ذکر پسند نہیں کرتے۔

اب ہم تذکرے کی طرف آتے ہیں۔ اس میں اردو اور سرائیکی کے 50شاعر شامل ہیں پہلے شاعر استاد فیض تونسوی ہیں ان کے ایک شعر نے حیران کر دیا   ؎

ہم فیض ترکِ راہِ محبت کے باوجود

تا عمر ان کی راہگزر دیکھتے رہے

ایک مشہور شعر ہے   ؎

اے دوست ہم نے ترک تعلق کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

اگر یہ شعر فیض تونسوی نے پہلے لکھا ہے تو انہیں سلام پیش کرنا چاہیے۔

دوسرے شاعر فکر تونسوی ہیں۔ یہ نام سرزمین تونسہ کے لیے کافی ہے۔ اپنے وطن سے بے پنا ہ محبت کے باوجود انہیں 1947ء میں ہجرت کرنی پڑی۔ فکر نے تقسیم ہند پر ایک لازوال کتاب ’’چھٹا دریا، لکھی۔ میں نے یہ کتاب میٹرک میں پڑھی تھی۔ اور کئی دن تک پریشان رہا تھا۔ اس کے علاوہ وہ مزاح نگار ی میں سرفہرست ادیب تھے۔ اردو ادب میں بہت کم ایسے عظیم مزاح نگار نظر آتے ہیں۔

آخری وقت تک فکر تونسوی بیسویں صدی (دہلی )سے وابستہ رہے۔ جسارت خیالی نے ان کی زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس تذکرے میں وہ بطور شاعر شامل ہیں۔ ان کے چند اشعار دیکھیے   ؎

ان خاک کے ذروں پہ ہے دامانِ حرم تنگ

خود مٹ کے جو کرتے رہے تعمیر دلِ سنگ

٭

تجھے بھا گئی ہیں کیوں کر مری بے نماز نظریں

کہ امام شہر نے انہیں کفر گر پکارا

٭

مجھے کھوجنے کی جدت تجھے پردگی میں لذت

مجھے سوزِ غم نے لوٹا تجھے کیف و کم نے مارا

٭

فیض تبسم تونسوی تونسہ شریف میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ملتان میں تعلیم حاصل کی۔ روزگار کے سلسلے میں وہ ملتان، لاہور، کراچی میں رہے۔ جسارت خیالی لکھتے ہیں ’’ فیض تبسم تونسوی بے حد دکھی انسان تھے۔ عشق کے روگ اور زمانے کی سردمہری نے ان کی زندگی میں زہر گھول دیا تھا۔ ،   ؎

وہ تماشا ہوں کہ اک خلق تماشائی ہے

زندگی تو مجھے کس موڑ پہ لے آئی ہے

فیض تبسم تونسوی کی شاعری اثر رکھتی ہے۔

اقبال سوکڑی سرائیکی کے معروف شاعر ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج سرائیکی غزل کہنے والے ایک شاعر کا نام لیا جائے تو وہ اقبال سوکڑی کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ان کی غزل کو پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ یہ درویش شاعر کا تعاقب نہیں کرتا لیکن معروف ہے۔ ان کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں   ؎

اے خلقت ظلم دی ماری ایسی

سنئیں ہک ڈیہنہ خدائی ساری ایسی

ارشاد تونسوی جدید سرائیکی شاعری میں بڑا نام ہے ’’ندی ناں سنجوک، کے نام سے ان کی نظموں کا مجموعہ شائع ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں تصوف کا حسن ہے۔ ان کے ہاں زندگی کی بے نیازی نمایاں ہے لیکن وہ باخبر صوفی ہیں۔ ارشاد تونسوی نظم’’ پیر فرید، سے اقتباس:

میں سوچاں میں ہکو کلھا

نہ میں پارتیں نہ اروار

نہ ماضی نہ حال

نہ ورڈزورتھ نہ شیلے

نہ غالب نہ بھگت کبیر

نہ مومن نہ میر

نہ لندن نہ دلی میڈی

نہ کابل نہ قندھار

میں اروار نہ پار

میں دریا دی من ط تے کھڑا

پچھلے ویلھے گولاں

رشید قیصرانی اردو کے معروف شاعر تھے۔ ان کا کلام تمام بڑے ادبی رسائل میں شائع ہوا۔ ظہور احمد فاتح قادر الکلام شاعر ہیں۔ کندن لال کندن نے تقسیم کے وقت بھارت کے لیے ہجرت کی اور وہاں اردو کے معروف شاعروں میں شمار ہوئے۔ ان کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ سعداللہ کھتران، معروف شاعر اور نقاد فرخ درانی مرحوم کے بھائی ہیں۔ انہوں نے سرائیکی زبان کی لغت پر کام کیا ہے۔ وہ اردو میں شاعری کرتے ہیں۔

شفقت بزدار سے فضل سوکڑی تک تمام شاعر قابل ذکر ہیں۔ سرائیکی اور اردو میں ان کی شہرت ہے ان کا کلام شائع ہوتا اسے پذیرائی ملتی ہے۔ لیکن اس تذکرے کا مطالعہ کرنے کے بعد فرداً فرداً تمام شعراء کا ذکر ممکن نہیں۔ ان شاعروں پر بہت سے مضامین لکھے جا سکتے ہیں لیکن یہاں زیادہ گنجائش نہیں ہے اس تشنگی کو میں خود بھی محسوس کر رہا ہوں۔

دیکھیے سرزمین تونسہ میں کیسے کیسے باکمال صاحب قلم موجود ہیں، شفقت بزدار، امان اللہ کاظم، نذیر قیصرانی، شاکر تونسوی، بشیر غمخوار، مہینوال منگروٹھوی، مصطفی خادم، حمید الفت ملغانی، منور بلوچ، پرویز قیصرانی، فریاد ہیروی، ریاض عصمت، دمساز قیصرانی، اقبال نصرت تونسوی، شبیر ناقد، مالک اشتر، شکیل احمد، محمد رمضان نادار، جمشید ناشاد، ساجد مجید طاہر، محمد تنویرالزماں، طارق محسن قیصرانی، جلیل حیدر لاشاری، ریاض فاروق، غلام قادر بزدار، شاہد ماکلی، رشید احمد چچہ، احد بخش راکب، پروفیسر محمد خان ملغانی، اعظم لغاری، مہر اللہ بخش خان جوہر، شریف پردیسی، رضوان بابر، اصغر ساجد اور ممتاز گرمانی -یہ تذکرہ نہیں ہے ایک جہانِ حیرت ہے جس نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔

میں دیر تک سوچتارہا ایسے اچھے انداز میں شاعری کرنے والے سرزمین تونسہ میں موجود ہیں۔ ہر چند کہ تذکرے میں تمام شاعروں کا ذکر نہیں آیا۔ اور بہت سے باکمال ادیب اور شاعر اس دھرتی پر موجود ہیں۔

تونسہ اب صرف ایک شہر نہیں ہے یہ ایک تحریک ہے جو برصغیر پاک و ہند کے ہر شعبے میں موجود ہے۔

جسارت خیالی نے جو کام کیا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس مسودے کو دیکھ کر ہوا۔ انہوں نے تمام شاعروں کا مطالعہ کیا اور ان کے بارے میں مثبت رائے قائم کی۔ ایسے مخلص لوگ جب ادب پر کام کرتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے۔

فراق گورکھپوری سے انیتا (استاد الٰہ آباد یونیورسٹی) نے آخری انٹرویو کیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد فراق کا انتقال ہو گیا۔ انیتا نے کہا ’’پریم چند سے آپ کی ملاقاتیں ہوئیں، کوئی بات جو آپ کو یاد ہو۔ ،

فراق صاحب بولے ’’ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ایک نشست میں کچھ عشق پر بات چل رہی تھی۔ میں نے پلٹ کر پریم چند سے پوچھا کیا تم نے کبھی عشق کیا ؟ایسا کوئی خاص تو نہیں، پر ہاں ایک زمانے میں ایک گھاس چھیلنے والی مجھے بہت اچھی لگتی تھی۔ میں نے پوچھا پھر بات آگے بڑھی ؟ پریم چند بولے بس اتنی کہ جب اسے دیکھتا تو اس کے کندھے پر ہلکے سے ہاتھ رکھ کر کہتا کہ دیکھ گھاس یہاں ہے، اور یہاں بھی ہے، اور وہاں بھی گھاس ہے۔ وہ ہر بار دیر تک گھاس چھیلتی رہتی اور مجھے ایک عجیب سا سکھ ملتا (تھوڑے وقفے کے بعد ) کیا ایسا کوئی پریم چند ہمیں نہیں چاہیے جو کہے، دیکھ یہاں بھی گھاس ہے، اور یہاں بھی، یہی نہیں، دوسری سطح پر کیا ہم کبھی کسی سے ایسا کچھ کہہ پانے کی توفیق رکھتے ہیں ؟ یہ جذباتی اونچائی اپنے اندر پیدا کرسکیں گے۔

اپنی بات کہہ کر فراق صاحب خیالوں میں گم ہو گئے۔ پلنگ کے پاس لگے سوئچ سے پنکھا بند کیا، سگریٹ جلائی، پنکھا پھر چلا دیا، دیوار سے لگے ہی بیٹھے رہے۔ وہ بالکل ہل جل نہیں سکتے تھے۔ تعجب یہ ہے کہ بدن کا نچلا حصہ بے جان ہونے کے بعد بھی ان کی آواز میں کتنا دم تھا۔ اپنا یک شعر ’’تجھے اے زندگی ہم دورسے پہچان لیتے ہیں، گنگنا رہے تھے۔ نگاہیں جیسے دور کہیں سچ مچ زندگی کو دیکھ رہی تھیں۔ ،

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس بات کی یہاں کیا ضرورت تھی ؟ پریم چند کی یہ بات فراق صاحب نے نہ سنائی ہوتی تو مجھے اس کی اہمیت کا کبھی احساس نہ ہوتا۔ یہ بات مجھے اس وقت سمجھ آئی جب فراق صاحب نے کہا ’’کیا ایسا کوئی پریم چند ہمیں نہیں چاہیے ؟

پھر وہ مقام آیا کہ گھاس کاٹنے والی بھی دیوی بن گئی اور یہ مصرعہ دیر تک میرے ذہن میں گونجتا رہا۔

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں۔

جاوید اختر بھٹی

12اکتوبر 2014ء

ملتان

٭٭٭

 

 

 

 

تذکرہ

 

 

شاعرِ باکمال استاد فیض تونسوی

 

لوحِ جہاں استاد فیض تونسوی کاسرمایہ حیات ہے جو ان کے علم دوست اور سعادت مند بیٹے محمد ضرار فیض نے ان کی وفات کے بعد 1995ء میں شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپوا کر قارئینِ ادب اور نوآموز شعراء کو استفادے کا موقع فراہم کیا ہے۔

استاد فیض تونسوی ایک قادر الکلام شاعر تھے جنھیں اپنی زندگی میں بے حد پذیرائی ملی تھی کیونکہ ڈاکٹر طاہر تونسوی، عاصی کرنالی، رشید قیصرانی اور قتیل شفائی جیسے اربابِ  فن نے ان کی شاعرانہ عظمت کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔ انہوں نے اپنے کمالِ  فن سے اپنے ہم عصروں کو بے حد متاثر کیا۔ جدید غزل گو شاعر رشید قیصرانی کے بقول ’’اگر استاد فیض اپنے علاقہ میں ایک طویل عرصہ تک شعر و سخن کا دیا جلا کر نہ رکھتے تو اس دھرتی سے تعلق رکھنے والے بہت سے اہلِ قلم، اہلِ قلم نہ ہوتے کچھ اور ہوتے اور اس کلیے میں مَیں اپنے آپ کو بھی شامل سمجھتاہوں،۔

ان کی ولادت تو علم و ادب کے شہر تونسہ شریف میں 1909ء کو مولوی محمد یار کے گھر میں ہوئی۔ گھریلو نام فیض اللہ پایا لیکن ادبی دنیا میں استاد فیض تونسوی کے نا م سے شہرتِ دوام پائی۔

فن شعر کی رہنمائی خواجہ سلیمان تونسوی کے پوتے خواجہ محمد زکریا سے لی تھی جو فارسی، عربی زبان و ادب پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی نظموں کا مجموعہ ’’تجلیات، کے نام سے ان کی زندگی میں شائع ہوا تھا لیکن وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے اور فارسی روایات کے امین تھے۔ ان کے ہر اک شعر میں کومل سر قاری کو مسحور کر دیتے ہیں۔ فیض کے احساسات رومانوی ہیں۔ اس لیے ان کی غزل میں روح عصر نہیں ہے البتہ لب و رخسار اور گیسوئے یار کی باتیں ملتی ہیں۔ ان کے لہجے میں روانی ہی نہیں بلکہ زبان و بیان میں جمالیاتی چاشنی بھی ہے۔ جذبے کی صداقت خیال کی لطافت بھی نمایاں ہے۔ ان کی دکھ بھری ایسی داستان حیات ہے جو لوحِ  جہاں سے کبھی نہیں مٹ سکے گی۔ کیونکہ ان کے اجڑے دیار کو دشت سے نسبت ہی نہیں بلکہ زندگی ویرانیوں میں بہار دل کی جستجو میں گزری۔ اس لیے میر کی طرح زارزار رونا، آہ و فغاں اور وصالِ محبوب کی تمنا نے دلِ ناشاد کو مزید بیقرار کیے رکھا۔

انہوں نے تشبیہ و استعارے کے ساتھ ساتھ درج ذیل تراکیب موجِ  اضطراب مثالِ کفِ دل، تجلیِ محمل، رخسارِ  سحر، سازِجنوں، ہوائے یاس، بندشِ لیل و نہار، نجمِ عروساں پابندِ فغاں، دستِ  نقاشِ ازل، مقراضِ نظر، کف دستِ حِنا، طلسمِ گنبدِ شب، خوابِ ناز، پیراہنِ آغوش کا استعمال نہ صرف مہارت سے کیا بلکہ اپنے اشعار میں ہندی الفاظ کو بھی قرینے سے سمویا۔ انہوں نے زیادہ تر غزلیں بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف، بحرِ ہزج مسدس محذوف، بحر مضارع مثمن اخرب، مکفوف محذوف، بحرِ رمل، مثمن، مخبون محذوف مسکن، بحر رمل، مسدس محذوف، بحر محبتث، مثمن مجنون محذوف مسکن اور بحر متقارب میں ہیں۔ اس حوالے سے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

تر ہو گیا اشکوں سے ہی پیراہن آغوش

بادل کی طرح وسعتِ دامن پہ جوبرسے

٭

تغافل آشنا سے کوئی کہہ دے

کسی نے آج رو رو کر سحر کی

٭

ہے نگاہوں کی بس اتنی آرزو

جب بھی دیکھیں آپ کو دیکھا کریں

٭

تعلق ہے مرا اس داستاں سے

جو مٹ سکتی نہیں لوحِ جہاں سے

٭

میری شاعر ی تو رہنِ ستم ہے

طبیعت کی اس کو روانی نہ سمجھو

 

سطورِ ورق سے جو ہے رنگ ظاہر

فغاں ہے یہ رنگیں بیانی نہ سمجھو

٭

دستِ نقاشِ ازل سے وہ کھچی تصویرِ یا ر

رہ گئے سکتے میں جس سے  مانی و بہزاد  بھی

٭

میری آنکھیں ناظرِ رخسارِ جاناں ہو گئیں

لذتِ دیدار سے دست و گریباں ہو گئیں

٭

ہم فیض ترکِ راہِ محبت کے باوجود

تا عمر ان کی راہ گزر دیکھتے رہے

٭

متاعِ عشق سے ہیں فیضؔ جو تہی دامن

بقاءے زیست کی لذت گنوائے جاتے ہیں

٭

شبنم آلود جو رخسارِ سحر ہوتا ہے

گلشنِ دہر بھی فردوسِ نظر ہوتا ہے

ان کے سہل ممتنع کے اشعار بھی نظر سے گزرے ہیں جو اساتذہ شعراء کی پسندیدہ بحر میں ہیں ان میں گہرائی بھی ہے، فنی نزاکت و لطافت بھی اور سادگی وسلاست بھی، چند اشعار دیکھیے  ؎

عمر بھر کے لیے رُلا ڈالا

بے وفائی کی حد بھی ہوتی ہے

٭

ایک سیلابِ ناگہانی  ہے

آنکھ کھولوں تو پانی پانی ہے

٭

اوک بھی ہے  علاجِ تشنہ  لبی

خواہشِ ساغر و سبو  کیا ہے

٭

فیضؔ فرقت میں میری تنہائی

دل لبھانے کو پاس رہتی ہے

٭

آج زلفیں سنوار کر نکلو

حشر کا انتظار کون کرے

٭

کیا زمانے کی کج ادائی ہے

ہر بھلائی یہاں برائی ہے

٭

ان کے کہنے پہ جان دے دوں فیضؔ

بس یہی اختیار باقی ہے

٭

مختصر ان کی غزل میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اساتذہ شعرا میں نظر آتی ہیں مگر افسوس کہ ایسا باکمال شاعر مئی 1984ء کو ہم سے بچھڑ گیا اور تونسہ کی ادبی فضا ء کو ہمیشہ کے لیے سوگوار کر گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

بستی منگروٹھہ کی عظیم علمی و ادبی شخصیت-فکر تونسوی

 

مارکسی دانشور اور انقلابی شاعر ڈاکٹر خیال امروہوی مجھ سے اکثر فکر تونسوی کا ذکرِ خیر کرتے اور ان کی دکھ بھری زندگی کے بارے کڑھتے بھی تھے۔ لیکن ان کے پاس فکر تونسوی کی کوئی کتاب نہ تھی۔ بابائے ادب ڈاکٹر انور سدید سے پوچھا تو انہوں نے اتنا فرمایا کہ تقسیم کے وقت فکر تونسوی بیوی بچوں سمیت جان بچا کر ہندوستان چلے گئے تھے، ان کی کتابیں اب کہاں میسر، البتہ ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے ’’بیسویں صدی، کا فکر تونسوی نمبر نکالا تھا اگر وہ کہیں سے دستیاب ہو جائے تو کافی معلومات مل سکتی ہیں۔ اس حوالے سے میں نے تونسہ شریف کے تمام اہل قلم احباب سے پوچھا مگر کسی نے حوصلہ افزا جواب نہ دیا البتہ تنویر شاہد محمد زئی اور ڈاکٹر گل عباس اعوان جو اردو، سرائیکی کے روشن فکر ادیب، شاعر ہی نہیں بلکہ میرے محسن دوست بھی ہیں۔ ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بستی منگروٹھہ کے نوجوان ادیب شاعر مالک اشتر کا پتا بتایا۔ جب موصوف سے رابطہ کیا اور تذکرۂ شعرائے تونسہ شریف لکھنے کا خیال ظاہر کیا تو وہ بے حد خوش ہوئے اور مجھے بیسویں صدی کا فکر تونسوی خاص نمبر عطا کیا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس وقت یہ خاص ایڈیشن میرے سامنے ہے جسے شمع افروز زیدی نے 1988ء کو نئی دہلی سے نکالا تھا۔ انتساب کیلاش وتی بیگم فکر تونسوی اور ان کے بچوں کے نام ہے۔ فکر تونسوی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے نامور اہلِ قلم مرزا ادیب نریش کمار شاد، ظفر پیامی، کشمیری لال ذاکر، جوگندر پال، کرشن چندر، کنھیا لال کپور، ممتاز مفتی، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر گوپی چند نارنگ، دیوندر اسر، بلراج کومل، ڈاکٹرسلیم اختر، قتیل شفائی، دلیپ سنگھ، کے کے کھلر، ہرچرن چاولہ، بھگوان داس اسیر یوسف ناظم، مظفر حنفی، صہبا لکھنوی ساحر ہوشیار پوری، بیٹی رانی آہوجہ اور بیٹے پھول کمار وغیرہ کے مضامین اور گراں قدر تاثرات شامل ہیں۔

فکر تونسوی جس کا اصل نام رام لال سوہیٹہ تھا جو 7اکتوبر1918ء کو بستی منگروٹھہ تونسہ شریف میں پیدا ہوئے۔ لیکن محمد اعظم کے بقول اس کی پیدائش شجاع آباد ضلع ملتان میں ہوئی تھی۔ اس کے والد دھنپت رائے ایک زمیندار چوہدری نارائن سنگھ کے منشی تھے پھر اس کے والد دو تین ماہ بعد اپنے گاؤں منگروٹھہ واپس آ گئے تھے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کہتے ہیں کہ’’ فکر تونسوی نے دیوتاؤں سے اپنے کشیدہ تعلقات کو خوش گوار بنانے کی کبھی کوشش نہ کی تھی بلکہ اس نے اپنے قلم کا ناتا مٹی کے ان کھلونوں سے جوڑا جن کے بننے اور ٹوٹنے کا کسی کو علم نہیں ہوتا کیونکہ اس کے جنم پر دیوتاؤں نے آکاش سے پھول نہیں برسائے۔ کیونکہ حبشہ کے راج محل میں ایک شہزادے نے جنم لیا تھا وہ اس پر پھول برسانے میں مصروف تھے،۔

اس لیے فکر تونسوی اپنی پیدائش کے حوالے سے یوں کہتے ہیں ’’ میں جس گاؤں میں پیدا ہوا وہاں میرے پیدا ہونے کی خاص ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ وہاں بچوں کی خاصی تعداد پہلے سے موجود تھی۔ حتیٰ کہ کتوں، بلیوں تک کے بچے پیدا ہو جاتے جو بغیر ضرورت کے پیدا ہو کر مر جاتے۔ میں بھی اسی طرح کا ایک غیر ضروری بلونگڑا ہوں صرف اس لفظی فرق کے ساتھ کہ میں اشرف المخلوقات۔ بلونگڑا  مر جاتا تو غلیظ ڈھیری سے اٹھا کر جنگل میں پھینک دیا جاتا اور میں مر جاتا تو چیتھڑوں میں لپیٹ کر ندی میں پھینک دیا جاتا۔ تاریخ میں نہ جنگل کا ذکر آتا اور نہ ندی کا،۔

اس شدید احساسِ کمتری کے باوجودفکرتونسوی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی میٹرک ہائی سکول تونسہ سے کیا اس کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں داخلہ لیا لیکن ایک سال بعد والد کی وفات کے صدمے نے اس کا جینا دوبھر کر دیا۔ پھر مجبوراً اسے تعلیم چھوڑنا پڑی اور روزی روٹی کی فکر میں لگ گئے۔ اس حوالے سے ہفتہ وار رسالے کسان میں کام شروع کیا لیکن کم معاوضہ کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان کے ایک پرائمری سکول میں مدرس کے فرائض انجام دینا شروع کر دیئے۔ وہاں بھی حالات نے ساتھ نہ دیا تو لاہور چلے گئے اور کتب خانہ میں ملازم ہو گئے۔ اور مختلف موضوعات کی کتب سے استفادہ بھی کرتے رہے۔ اس کے بعد ’’من کی موج، رسالہ کی ادارت بھی سنبھالی۔ پھر 1942ء میں ادبِ لطیف سے وابستہ ہو کر کیلاش وتی کو اپنا شریکِ سفر بھی بنا لیا۔ لیکن مذہبی اور سیاسی تعصب کے کالے طوفان نے برصغیر کو اندھیروں میں دھکیل دیا۔ فکر تونسوی بھی اس تعصب سے نہ بچ سکے وہ بھی لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کے دلخراش مناظر دیکھ کر اپنے بیوی بچوں کے لیے فکر مند ہو گئے۔ اس حوالے سے ساحر لدھیانوی، قتیل شفائی اور احمد راہی تونسہ شریف آئے اور اس کے بچوں کو اپنی نگرانی میں لاہور لے گئے۔

فکرتونسوی نے اپنی ڈائری میں دو عظیم شخصیتوں کا ذکر یوں کیا ہے۔ ’’ تونسہ کے گدی نشیں اور صوفی بزرگ خواجہ نظام الدین کے بارے لکھتے ہیں کہ انہوں نے اعلان کرایا تھا کہ اگر کسی ہندو کا خون ہوا تو میں مسلمانوں کو بد دعا دوں گا۔ ادھر مہاتما گاندھی پرارتھنا کے جلسہ میں جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اور دہلی کی گلیوں میں یہ کہتے نظر آئے کہ ’’ مشلمان کو مت مارو وہ ہمارا بھائی ہے۔ ،

ممتاز مفتی نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ جب فکر تونسوی مجبوراً لاہور چھوڑ کر ہند کی طرف عازمِ سفر ہوا تو اس کے ہاتھ میں اپنی نظموں کے مجموعہ، ہیولے، کی ایک جلد تھی یہی اس کی زندگی کی کمائی تھی۔ تقسیم کے وقت رونما ہونے والے خونچکاں حالات و واقعات نے اسے چھٹا دریا لکھنے پر مجبور کیا کیونکہ فکر تونسوی کو اس کا بے حد دکھ تھا کہ ریڈکلف نے پنجاب کے نقشے پر نشان کھینچ دیا جو برطانوی سیاست کا آخری نشتر تھا جس نے پنجاب کی چھاتی کو چیر دیا۔ آنسوؤں اور خون کے سیلاب میں بربادیوں کے طوفان اٹھے۔ ظفر پیامی کے بقول جب فکر تونسوی آگ و خون کا چھٹا دریا عبور کر کے ہندوستان پہنچے تو بے سروسامان سڑک کے کنارے بیٹھے تھے نہ سر پہ کوئی سائباں تھا، نہ زندہ رہنے کا کوئی اور ساماں۔

اس کے باوجود غمِ  حالات سے گھبرانے کی بجائے عزم و حوصلے سے کام لیا اور روزنامہ ’’نیا زمانہ، میں طنزیہ کالم ’’آ ج کی خبر، کے عنوان سے لکھنا شروع کر دیا۔ 1955ء میں دہلی کے اردو روزنامہ ’’ملاپ، میں پیاز کے چھلکے کے عنوان سے سیاسی و سماجی مسائل پر طنزیہ کالم لکھنے کا ارادہ کر لیا۔ ریڈیو کے لیے ڈرامے بھی لکھے۔ کرشن چندر نے کیا خوب کہا کہ فکر تونسوی سوشلسٹ ہیں وہ اس گلے سڑے سماج کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہندوستانی معیشت کو تازہ اور توانا دیکھنا چاہتے ہیں۔ پرانے فیوڈل اسالیب کی جگہ انسانیت پرست اقدار کو رواج دینا چاہتے ہیں تاکہ نئی فکر و نظر اور نئے سائنسی علوم کی کامیابی ہو۔ کے۔ کے کھلر کے بقول کہ پطرس بخاری طنز نگار کم اور لطیفہ گو زیادہ تھے۔ اس کے ہاں سیاسی، سماجی شعور نظر نہیں آتا لیکن فکر تونسوی کے طنز میں سوز ہے تڑپ ہے، درد ہے اور سماجی شعور ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے مشاہد ہ کا ذکر یوں کیا ہے کہ جب میری فکر تونسوی سے ملاقات کے بعد خط و کتابت ہوئی تو انہوں نے خطوں میں اپنے اندر کے دکھ کو منکشف کیا تو میں لرز اٹھا کہ خلقِ  خدا کو ہنسانے والا یہ شخص اندر سے کس قدر تار تار ہے۔ ،

فکر تونسوی بنیادی طور پر ترقی پسند تھے۔ طبقاتی کشمکش سے پیدا ہونے والی صورتحال پر خون کے آنسو روتے تھے۔ اس کی تحریروں میں روح عصر نمایاں نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید نے سمندر کو کوزے میں یوں بند کیا ہے۔ ’’ فکر تونسوی معاشرے کے طبقاتی تضادات کو شدت سے محسوس کرنے والے ادیب تھے۔ ان کی آواز لرزنے لگتی اور الفاظ آنسوؤں میں بھیگے ہوئے نظر آتے۔ ، لیکن فکر تونسوی صلے کی پروا کیے بغیر چالیس برس تک پیاز کے چھلکے کے عنوان سے اردو ہندی اخبارات و رسائل میں نہ صرف لکھتے رہے بلکہ ہیولے، چھٹا دریا، پیاز کے چھلکے، چوپٹ راجہ، فکر نامہ، آدھا آدمی، چھلکے ہی چھلکے، بات میں گھات، گھر میں چور، میں، میری بیوی وارنٹ گرفتاری، ماڈرن الہ دین، ماؤزے تنگ، آخر ی کتاب، تیرِ  نیم کش، ہم ہندوستانی، راجہ راج کرے، ڈارلنگ اور گمشدہ کی تلاش وغیرہ کتابیں بھی دیں۔ اردو ہندی ادب کی گراں بار خدمت کرنے پر فکر تونسوی کو انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا جن کی تفصیل درج ذیل ہے :

1969 میں نہرو ایوارڈ

1973میں چوپٹ راجہ پر یو۔ پی اردو اکادمی ایوارڈ

1977میں فکر نامہ پر یو۔ پی اردو اکادمی ایوارڈ

1980میں آخر ی کتاب پر یو۔ پی اردو اکادمی ایوارڈ

1983میں میر اکیڈمی ایوارڈ

1985میں آخری کتاب پر بنگال اردو اکیڈمی ایوارڈ

1987میں غالب ایوارڈ دہلی

آخر ی عمر میں اس پر فالج کا حملہ ہو ا اور وہ 12ستمبر1987کو اس دارِ  فانی سے کوچ کر گئے۔

شکسپیئر، ٹیگور، براؤننگ اور غالب کی طرح فکر تونسوی یونیورسٹی کی ڈگری نہ رکھتے ہوئے بھی ادب میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئے جس پر بستی منگروٹھہ ہمیشہ نازاں رہے گی۔

 

منتخب اشعار

اعلان ہو چکا ہے طغیانِ پے بہ پے کا

ساحل دھڑک رہے ہیں، دریا سنبھل رہے ہیں

 

دیکھے ہیں پھڑپھڑاتے کچھ اہرمن فضا میں

اور کچھ صنم کدوں میں شکلیں بدل رہے ہیں

٭

تُو برف و سنگ پہ کب طنز کرسکا اے شیخ

کہ دیکھ پاتا جمود و ثبات کے شعلے

٭

ان خاک کے ذروں پہ ہے دامانِ حرم تنگ

خود مٹ کے جو کرتے ہیں تعمیرِ دلِ سنگ

٭

تجھے بھا گئی ہیں کیوں کر مری بے نماز نظریں

کہ امامِ شہر نے انہیں کفر گر پکارا

٭

مجھے کھوجنے کی جدت تجھے پردگی میں لذت

مجھے سوزوغم نے لوٹا تجھے کیف و کم  نے  مارا

٭

وہ  نوریِ  سرکش تُو ہے  مائل  بہ اطاعت

تُو ہے کہ رکھے جاتا ہے آدم کو سرفراز

٭

وہ سامنے منزل ہے مرے جوشِ جنوں کی

اے عقل! بس اک تیز قدم اور زیادہ

٭

یا اس کو نظر دے دے یا مجھ سے نظر لے لے

میں خضر سے نالاں ہوں اور خضر میرا شاکی

٭

اس کے علاوہ زندانِ ہراس، وہاں سے یہاں تک، بچھڑا ہوا گھر، ایک کہانی، ارتقائ، پچھتاوا، وہی پرانی ریت، بغاوت، عوام، احتجاج، چھکڑے، شکنتلا اور ہوا کی بیٹی اپنے طرز کی منفرد نظمیں ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

جمالیاتی حس کا انوکھا شاعر -رشید قیصرانی

 

کلاسیکی شعراء ہوں یا جدید، ان پر فارسی ادب کا گہرا اثر نظر آتا ہے لیکن رشید قیصرانی کا اچھوتا اسلوب ہی نہیں بلکہ اس نے اردو شاعری میں مروجہ استعاروں، تشبیہوں، تمثیلوں، تراکیب اور الفاظ ترک کر کے نئی طرز پر شاعری کی عمارت کھڑی کر کے یار لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اس لیے بابائے ادب ڈاکٹر انور سدید نے کھلے دل سے رشید قیصرانی کے بارے میں یوں کہا ہے ’’ رشید قیصرانی نے اردو غزل کو نئی زمینیں، نئی تماثیل اور نئے علام و رموز عطا کیے ہیں اور یوں اس نے ملتان میں بیٹھ کر دلی، لکھنو ء اور لاہور کو متاثر کر ڈالا۔ ،

رشید قیصرانی نے اپنے والد سردار شیر بہادر خان کی بسائی ہوئی بستی شیر گڑھ میں 13دسمبر 1930ء کو آنکھ کھولی، بچپن میں ریت کے ٹیلے، چلچلاتی دھوپ، سرخ کجاوے میں بیٹھی حسینہ، بانسری کی دل سوز آواز، اونٹوں کے گلوں اور پاؤں میں گھنگروؤں کی جھنکار نے اس کے دل و دماغ کو بے حد متاثر کیے رکھا۔ جب 1945ء میں قادیان سے میٹرک، ایف۔ اے ڈگری کالج ڈیرہ غازی خاں سے اور 1950ء میں ایس۔ ای کالج لاہورسے بی۔ اے کر لیا تو 1953ء میں پاک فضائیہ میں بطور ونگ کمانڈر تعینات ہو گئے۔ وہ بطور افسر کمانڈر بہادر، نیک دل، خوش اخلاق خوش لباس اور فرض شناس ہی نہ تھے بلکہ اس میں قائدانہ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ اپنے ایک مضمون میں سید ضمیر جعفر ی نے اسے ارد و شاعری کاF-16 کہا تھا۔

دوران ملازمت رشید قیصرانی کو خاص طور پر احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر خیال امروہوی، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر عاصی کرنالی، ڈاکٹر طاہر تونسوی، احمد فراز، سید ضمیر جعفری، پروفیسر شریف اشرف اور منور بلوچ جیسی نابغہ روزگار ہستیوں کی صحبتیں بھی میسر آئیں لیکن کسی کا اثر قبول نہ کیا بلکہ اردو شاعری کو اچھوتا پن بخشا۔ وہ ایک نفیس اور شائستہ مزاج انسان ہی نہ تھے بلکہ مروت و محبت کے پیکر بھی تھے۔ اس لیے اس کی شاعری میں مٹھاس ہی مٹھاس ہے۔ اس لیے پروفیسر انور جمال نے اسے اردو شاعری کا خواجہ فرید کہا ہے۔

جب رشید قیصرانی 1979ء میں اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے پھر نیوز ٹائمز میں بطور ایڈیٹر کام بھی کرتے رہے، 1965ء میں اس کی رزمیہ نظمیں بہت مشہور ہوئی تھیں۔ اس نے صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا تھا، شریف آدمی ہونے کی وجہ سے ہار گئے تھے۔ لیکن اس نے اپنا شعری سفر جاری رکھا۔ رشید قیصرانی ایسا مسافر تھا جو کائنات کی ساری سچائیوں کو دامن میں سمیٹ کر اپنے سانول کا قرب چاہتا تھا۔ ا س کی شاعری کا حرف حرف جذبوں کی صداقت کی گواہی دیتا ہے۔

فصیلِ لب، صدیوں کا سفر تھا، نین جزیرے، سجدے جیسے شعری مجموعے دے کر اردو شاعری میں اپنے اچھوتے پن کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔

اس کے علاوہ ”Thought of the day ”جو انگریزی کالموں اور مضامین کا مجموعہ ہے معروف مارکسی دانشور، انقلابی شاعر ڈاکٹر خیال امروہوی نے اپنے فلسفیانہ انداز میں یوں تبصرہ کیا تھا ’’ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں رشید قیصرانی کی برسوں کی سوچ، مشاہدہ، تاریخی اور فلسفیانہ تجزیات، معتقدات اور سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ،

بہر حال رشید قیصرانی کی غزلیں ہوں یا نظمیں ان میں سرائیکی کلچر کی خوشبو محسوس ہوتی ہے اس کی نظم درائی یعنی (وعدہ )ملاحظہ کیجیے جس میں وہ اپنے محبوب سے یوں گویا ہوئے   ؎

تیری خاطر میں تو سرمئی شام سے آ کر بیٹھا تھا

سب سے اونچے ٹیلے پر میں آگ جلا کر بیٹھا تھا

٭

تیرے لیے میں ڈیرہ غازی خاں سے جھمکے لایا تھا

اپنے گاؤں سے گنے اور مرونڈے لایا تھا

اس کے علاوہ رشید قیصرانی نے دوہے بھی کمال کے کہے لیکن دوہا نگاروں کی روش سے ہٹ کر مردف کہے اس لیے اس پر اعتراضات بھی کیے گئے۔ اس کے اسلوب بیاں میں ندرت اور لفظوں میں جادو کی سی تاثیر ہے۔ اس نے دوہوں میں سرائیکی اور ہندی الفاظ اجرک، تھلوچڑ، کجاوہ سمی، جھمر، مندری، نمانٹریں، سانول، سائیں، مہار، کنگال، روپ سروپ، دیپ، پنچھی، جوت، من وغیرہ کا استعمال ایسے قرینے اور سلیقے سے کیا کہ وہ غیر مانوس نہیں لگتے، اس کے دوہوں میں صوفیانہ اثر زیادہ نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے دوہے دیکھیے   ؎

تیرے در پہ آئے تھے کچھ لوگ بڑے ارمانوں سے

لسی پانی پوچھ تو لیتے گھر آئے مہمانوں سے

٭

آج تو گھنگرو باند ھ کے یارو اس محفل میں جانے دو

بلھے شاہ ؒ کی طرح مجھے بھی نچ کے یار منانے دو

٭

مفلس میری تن دھرتی کنگال ہے میرا من سائیں

اب تو مجھ پر برسے تیرے روپ سروپ کا دھن سائیں

٭

تو خود ایک مسرت میلہ کیسی مسکان دکھا وے کی

تو ہی بتا اب کون سنبھالے ایسی جھول کجاوے کی

٭

خاموشی کی جھیل میں سانول کوئی انوکھا پتھر ڈال

سمی کے دو بول سنا یا جھوم کے کوئی جھمر ڈال

٭

آخر میں رشید قیصرانی کے منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیے جن میں ندرتِ خیالات، سوز و گداز، داخلیت، موسیقیت، بندش الفاظ سے مرصع ہیں   ؎

سارا لہو نچوڑ کے لکھا جسے رشید

وہ حرفِ  رائیگاں ہو تو ہم کیا کہیں اسے

٭

سورہا ہے وہ مرے جسم کے سناٹے میں

کوئی دھڑکن تو صدا دے کہ وہ آنسو جاگے

٭

تشنگی اس کے قدم چھو کے پلٹ آئی رشید

بنتِ صحرا جو ملی تھی مجھے دریا بن کر

٭

قوسیں بدن کی آنکھ کی محراب دیکھتے

اس لفظ خوش معانی کی اعراب دیکھتے

٭

پڑھتا تھا میں نماز سمجھ کر اسے رشید

پھر یوں ہوا کہ مجھ سے قضا ہو گیا وہ شخص

٭

سب اشک پی گیا  میرے  اندر  کا آدمی

میں خشک ہو گیا ہوں ہرا ہو گیا وہ شخص

٭

خورشید کے چہرے پہ لکیریں ہیں لہو کی

خنجر سا کوئی رات کے سینے میں گڑا ہے

٭

کرن کرن تیرا پیکر کلی کلی چہرہ

یہ لخت لخت بدن اب کہیں بہم بھی تو ہو

میں کانچ کے ٹکڑوں کی طرح بکھرا پڑا ہوں

بھولے سے کبھی مجھ کو بھی پاؤں میں چبھو لو

٭

ہم خود سے جدا ہو کے تجھے ڈھونڈنے نکلے

بکھرے ہیں اب ایسے کہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں

٭

ہاں مجھ کو تیرے سرخ کجاوے کی قسم ہے

اس راہ میں پہلے کوئی گھنگرو نہ بجا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

محقق، نقاد اور منفرد لب و لہجے کے شاعر – ڈاکٹر طاہر تونسوی

 

تونسہ جسے ثانی یونان بھی کہا جاتا ہے اس نے علم و ادب کے حوا لے سے نابغہ روزگار ہستیاں پیدا کی ہیں جنہوں نے دنیائے ادب میں اپنی قاموسی علمیت کا لوہا منوایا ہے۔ ان میں ایک معتبر نام ڈاکٹر طاہر تونسوی کا بھی ہے جو روشن فکر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش مزاج، خوش لباس، جمال پسند اور ہر ایک سے محبت کرنے والے انسان ہیں۔ جو قائد اعظم کے لازوال اصول کام، کام اور کام پر عزم و استقلال کے ساتھ ایک عمر سے عمل پیرا ہیں۔ جنہوں نے تحقیق، تنقید تالیف اور شاعری میں بین الاقوامی سطح پر خوب نام کمایا ہے۔ یقیناً ان کا کام اور نام اردو، سرائیکی ادب میں معتبر حوالہ رہیں گے اور سرزمین تونسہ اپنے اس عظیم سپوت پر ہمیشہ نازاں رہے گی۔ وہ یکم جنوری 1948ء کو ملک خدا بخش کے گھر تونسہ شریف میں پیدا ہوئے۔ گھریلو نام حفیظ الرحمن پایا۔ ان کے والد علم و ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے جو محکمہ انہار میں اعلیٰ آفیسر تھے موصوف کو بچپن سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا۔ جس سے لکھنے پڑھنے اور شاعری کا ذوق پیدا ہوا۔ وہ شروع سے محنتی قابل اور وقت کے قدر داں طالب علم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پانچویں اور آٹھویں جماعتوں میں وظائف حاصل کیے تھے۔

یہ حقیقت ہے کہ حفیظ الرحمن کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں موصوف کے چچا ملک قادر بخش نے اہم کردار ادا کیا تھا جو سخن فہم اور سخن شناس ہی نہ تھے بلکہ محکمہ ایجوکیشن میں آفیسر بھی تھے، جب انہوں نے 1961ء میں میٹرک کیا تو فکر تونسوی جیسی عظیم علمی و ادبی شخصیت سے متاثر ہو کر حفیظ الرحمن کے بجائے طاہر تونسوی کے نام سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔

1964ء میں گورنمنٹ کالج ملتان سے ایف ایس سی کیا، پھر اسی کالج سے 1966ء میں بی اے کیا۔ بی ایڈ گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن ملتان سے کی پھر ڈاکٹر وحید قریشی کی نگرانی میں ایم اے کا مقالہ ’’ملتان میں اردو شاعری، لکھ کر پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے ڈگری لی اور اس طرح شعرائے ملتان کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ جو آج بھی ادبی حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ 1974ء میں بطور ایڈہاک لیکچرار گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان میں پڑھاتے رہے لیکن سلیکشن کے بعد گورنمنٹ کالج ملتان آ گئے۔ طاہر تونسوی تحقیق کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے مسعود حسن رضوی ادیب، حیات اور کارنامے، کے لیے انڈیا گئے وہاں جا کر دہلی، لکھنو، اور رام پور کی لائبریریوں سے استفادہ کیا۔ بڑے جتن کے بعد 1979ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر ڈاکٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر طاہر تونسوی نے درج ذیل کتب دے کر اردو ادب کی گراں بہا خدمت کی ہے۔

۱۔       شجر سایہ دار صحرا کا مکتبہ عالیہ لاہور 1977ء

۲۔      حیاتِ اقبال مکتبہ عالیہ لاہور 1977ء

۳۔     اقبال اور پاکستانی ادب (عزیر احمد کے مضامین )

۴۔     اقبال اور سید سلمان ندوی  طبع دوم اعتقاد پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی ۱۹۷۹ء، طبع سوم مکتبہ عالیہ لاہور ۱۹۸۷ء

۵۔      اقبال اور مشاہیر سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۱۹۷۸ء

۶۔      اقبال اور عظیم شخصیات تخلیق مرکز لاہور ۱۹۷۹ء

۷۔     تجزیے سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۱۹۷۹ء

۸۔     ہم سفر بگولوں کا سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۱۹۵۸ء

۹۔      طنزو مزاح، تاریخ، تنقید، انتخاب سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۱۹۵۸ء

۱۰۔      اردو اور بہاء الدین زکریاؒیونیورسٹی ملتان مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ۱۹۸۷ء

۱۱۔      رجحانات مکتبہ عالیہ لاہور ۱۹۸۷ء

۱۲۔      عرش صدیقی کے سات مسترد افسانے بیکن بکس ملتان ۱۹۸۸ء

۱۳۔    ہم سخن فہم ہیں یونیورسل بکس ملتان ۱۹۸۹ء

۱۴۔    مسعود حسن رضوی ادیب (کتابیات) مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ۱۹۸۶ء

۱۵۔    مسعود حسن رضوی ادیب، حیات اور کارنامے مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۸۹ء

۱۶۔      اقبال شناسی اور نخلستان بزمِ  اقبال لاہور ۱۹۸۹ء

۱۷۔     ملتان میں اردو شاعری احمر اکیڈمی ایبک روڈ لاہور ۱۹۷۲ء

۱۸۔    لکھنویات ادیب (مقالات مسعود حسن رضوی ادیب )مغربی پاکستان   اردو اکیڈمی ۱۹۸۹ء

۱۹۔     اقبال شناسی اور النخیل بزمِ اقبال لاہور ۱۹۸۹ء

۲۰۔    فیض کی تخلیقی شخصیت سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۱۹۸۹ء

۲۱۔     لمحہ موجود، ادب اور ادیب مقبول اکیڈمی لاہور ۱۹۹۲ء

۲۲۔     اقبال شناسی اور نیرنگِ  خیال بزمِ اقبال لاہور ۱۹۹۳ء  طبع دوم سرائیکی ادبی بورڈ ملتان ۲۰۱۰ء

۲۳۔    تحقیق و تنقید، منظر نامہ گورا پبلشرز لاہور ۱۹۹۵ء

۲۴۔    ڈاکٹر سلیم اختر، شخصیت و تخلیقی شخصیت گورا پبلشرز لاہور ۱۹۹۵ء

۲۵۔    صنفِ نازک کی شاعری گورا پبلشرز لاہور ۱۹۹۶ء

۲۶۔    صنفِ نازک کی کہانیاں الحمد پبلی کیشنز لاہور ۱۹۹۶ء

۲۷۔    اقبال شناسی اور نیاز و نگار الوقار پبلی کشنز لاہور ۱۹۹۷ء

۲۸۔    وہ میرا محسن وہ تیرا شاعر سطور پبلی کیشنز لاہور ۱۹۹۷ء

۲۹۔    ڈاکٹر فرمان فتح پوری، احوال و آثار  الوقار پبلی کیشنز ۲۰۰۲ء

۳۰۔    دنیائے ادب کا عرش مکتبہ عالیہ لاہور ۱۹۹۹ء

۳۱۔    شاعر لوحِ شیشہ دل مقبول اکیڈمی لاہور ۱۹۹۹ء

۳۲۔    خواجہ محمد ابراہیم یکپاسی اور ان کا خاندان سادات یکپاسی ٹرسٹ مستونگ ۲۰۰۰ء  طبع دوم سادات یکپاسی ٹرسٹ مستونگ ۲۰۰۰ء

۳۳۔     تو طے ہوا نا شعری مجموعہ بزمِ  علم و فن اسلام آباد ۲ ۲۰۰ء

۳۴۔    افکار و تجزیات ابلاغ پبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۲ء

۳۵۔    سرسید شناسی الفیصل ناشرین لاہور ۲۰۰۳ء  طبع دوم عاکف بک ڈپو نئی دہلی ۲۰۰۳ء

۳۶۔    جہت ساز قلمکار۔ ڈاکٹر سلیم اختر الفیصل ناشرین ۲۰۰۳ء

۳۷۔    جہت ساز دانشور۔ ڈاکٹر عرش صدیقی الفیصل ناشرین لاہور ۲۰۰۳ء

۳۸۔    جہت ساز تخلیقی شخصیت۔ ع س مسلم ا لقمر انٹر پرائزر لاہور ۲۰۰۳ء

۳۹۔    رزم نامہ انیس و دبیر تعارف و تقابل (تدوین ) اظہار سنز لاہور ۲۰۰۶ء

۴۰۔    غالب شناسی اور نخلستانِ  ادب مکتبہ الہام بہاول پور ۲۰۰۶ء

۴۱۔    جہانِ تخلیق کا شہاب شہاب دہلوی اکیڈمی بہاول پور ۲۰۰۶ء

۴۲۔     آئینہ خانہ شاہ لطیف محکمہ ثقافت حکومت سندھ کراچی ۲۰۱۰ء

۴۳۔     لطیف شناسی سرائیکی ادبی بور ڈ ملتان ۲۰۱۰ء

۴۴۔    فیض احمد فیض تنقیدی مطالعہ (بسلسلہ فیض صدی ) القمر انٹرپرائزر لاہور ۲۰۱۱ء

۴۵۔     شاعر خوشنوا، فیض احمد فیض (بسلسلہ فیض صدی ) نستعلیق مطبوعات لاہور ۲۰۱۱ء

۴۶۔    مطالعہ فیض کے ماخذات (اشاریہ ) مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ۲۰۱۱ء

۴۷۔    اردو شاعری کا صدر دروازہ۔ فیض۔ مرتبین۔ ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر طاہر  تونسوی ادارہ تصنیف و تالیف و ترجمہ جی۔ سی یونیورسٹی فیصل آباد ۲۰۱۲ء

۴۸۔    کیا آج اقبال کی ضرورت ہے ؟ (مرتبین ) ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر طاہر تونسوی ادارہ تصنیف و تالیف و ترجمہ جی۔ سی یونیورسٹی فیصل آباد ۲۰۱۳ء

۴۹۔     نیا افسانہ اور قاری القمر انٹر پرائزر اردو بازار لاہور ۲۰۱۳ء

۵۰۔    غالب شناسی اور الزبیر مقبول اکیڈمی لاہور ۲۰۱۴ء

۵۱۔     مضامین و مقالات شمع بک فیصل آباد ۲۰۱۴ء

۵۲۔     ارمغان ڈاکٹر سلیم اختر تہذیب و ترتیب ڈاکٹر طاہر تونسوی ڈاکٹر ذاکر حسین۔  ڈاکٹر طاہر تونسوی ادارہ تصنیف و تالیف و ترجمہ جی۔ سی یونیورسٹی فیصل آباد ۲۰۱۴ء

۵۳۔     شیوۂ گفتار نشریات اردو بازار لاہور ۲۰۱۴ء

ان کتب کی روشنی میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کی علمی و ادبی، تعلیمی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ان پر ایم اے، ایم فل، اور پی ایچ ڈی کے درج ذیل تھیسس لکھے جا چکے ہیں جس پر اہل تونسہ کے سر فخر سے بلند ہو گئے ہیں۔

۱۔      ڈاکٹر طاہر تونسوی، بحیثیت محقق و نقاد (مقالہ برائے ایم اے اردو )

سمیہ ناز اعوان نگراں۔ ڈاکٹر عقیلہ شاہین اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور ۱۹۶۶ء

۲۔       ادبیات اردو کے فروغ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کا کردار (مقالہ ایم اے اردو )

صدف سلطانہ نگران پروفیسر فہمیدہ شیخ سندھ یونیورسٹی جام شورو ۲۰۰۰ء

۳۔     شخصیت نگاری کے ذیل میں ڈاکٹر طاہرتونسوی کی قلمی خدمات (مقالہ ایم اے مطالعہ پاکستان ) صائمہ تبسم منصوری نگران ڈاکٹر ہلال نقوی کراچی یونیورسٹی ۲۰۰۳ء

۴۔     ڈاکٹر طاہر تونسوی کی تعلیمی خدمات(مقالہ بی ایڈ)طاہرہ بی بی نگران

پروفیسر شوکت مغل یونیورسٹی کالج آف ایجوکیشن ملتان۲۰۰۴ء

۵۔     اردو تحقیق و تنقید کی روایت میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کا ادبی مقام

(مقالہ ایم اے اردو ) نسرین بتول نگران عقیلہ جاوید بہاؤالدین زکریا

یونیورسٹی ملتان ۲۰۰۷ء

۶۔      ڈاکٹر طاہر تونسوی کی تحقیق تنقید کا تجزیاتی مطالعہ (مقالہ ایم فل اردو )

فاروق فیصل نگران ڈاکٹر شفیق احمد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ۲۰۰۷ء

۷۔     ڈاکٹر طاہر تونسوی کا منہج تنقید ( مقالہ پی ایچ ڈی )

ایمن عبدالعلیم مصطفی احمد نگران ڈاکٹر رملہ محمود غانم اور ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم الازہر یونیورسٹی۔ قاہر ہ مصر ۲۰۱۰ء

۸۔      ہمعصر اردو تنقید کے فروغ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کی خدمات (مقالہ پی ایچ ڈی ) محمد عاشق خان نگران ڈاکٹر جلیل اشرف ونوبا  بھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ جھاڑکھنڈ ۲۰۱۰ء

ا س کے علاوہ ڈاکٹر طاہر تونسوی کے اخبارات، رسائل میں گوشے اور خاص نمبر بھی نکالے گئے ہیں، جن میں خاص طور پر روزنامہ آفتاب ملتان، گل بکف انٹر نیشنل اسلام آباد، اہل قلم ملتان، سہ ماہی ہمعصر ملتان، ماہ نامہ شام و سحر لاہور، اور ماہ نامہ وجدان قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی مختلف کالجوں میں پڑھاتے بھی رہے۔ مختلف کالجز کے پرنسپل بھی رہے اور ڈائریکٹر کالجز بھی۔ ملکی اور غیرملکی کانفرنسوں میں شرکت بھی کی۔ مشاعرے بھی پڑھے، غیر ملکی اسفار بھی کئے۔ گویا موصوف نے زندگی کا ہر پل علم و ادب کی خدمت میں گزارا ہے۔ وہ جہاں سچل سرمت، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور خواجہ فرید جیسے عظیم صوفی شعراء سے متاثر ہیں تو وہاں اقبال اور غالب کے گرویدہ بھی ہیں۔ جمال پسندی میں تو غالب کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ چند حسینوں کے خطوط اور چند تصویر بتاں ان کی حسین یادیں ہی نہیں بلکہ ان کے سہارے زندہ بھی ہیں اور اس مستی میں ادب میں اپنا لازوال کردار ادا کر رہے ہیں۔

دنیائے ادب میں ایسے کم لوگ ملیں گے جو بیک وقت محقق، نقاد اور شاعر بھی ہوں۔ لیکن ٹی ایس ایلیٹ نقاد کے لیے شاعر ہونا ضروری سمجھتا ہے۔ ان لوگوں میں ڈاکٹر طاہرتونسوی کا نام بھی آتا ہے۔ جنہوں نے تحقیق و تنقید کی طرح چونکا دینے والی شاعری بھی کی ہے۔ اس لیے تو محسن نقوی نے کہا تھا میں اسے مرحوم اس لیے نہیں لکھتا کیونکہ وہ اپنی شاعری سے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے ہیں۔ ’’ڈاکٹر طاہرتونسوی شعر کبھی کبھی کہتے ہیں مگر سوچ سمجھ کر کہتے ہیں، کیونکہ موصوف تونسہ کے قادر الکلام شاعر استاد فیض تونسوی سے اصلاح جو لیتے رہے ہیں۔ اس لیے ان کا کلام فنون اوراق نگار، ماہِ نو، اقدار، ادبیات، تخلیق، گل بکف، اہل قلم اور قندیل جیسے موقر جریدے میں چھپتا رہا۔ ایسے شاعر بھی گزرے ہیں جو ان رسائل میں اپنا کلام چھپنے کی دل میں تمنا لیے دنیا سے اٹھ گئے۔ جب ڈاکٹر طاہرتونسوی کا پہلا شعری مجموعہ ’’تو طے ہوا نا، کے نام سے آیا جس میں حکمیہ انداز کے ساتھ ساتھ حجت بھی اور یقین کا پہلو بھی ہے۔ جس کی تفسیر کے لیے ایک زمانہ چاہیے۔ جس کو بزم علم و فن اسلام آبادپاکستان ۲۰۰۲ء میں بڑے اہتمام سے چھاپا تھا۔ اس بزم کے بانی رکن پروفیسر شوکت واسطی تھے جو اردو کے نمائندہ شعراء میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے بھی ڈاکٹر طاہرتونسوی کی شاعرانہ عظمت کا کھلے دل سے اعتراف کیا تھا۔ ڈاکٹر ثمینہ ندیم کی مرتب کردہ کتاب ’’ طاہر شناسی کا نگار خانہ، میں ڈاکٹر قاسم جلال، ڈاکٹر نواز کاوش، محمد عاشق خان ہزاری باغ انڈیا اور عابد خورشید کے مضامین بھی میری نظر سے گزرے ہیں جنہوں نے ’’تو طے ہوا نا، کو شعری ادب میں ایک گراں قدر اضافہ قرار دیا ہے۔ پھر احمد فراز اور اسلم انصاری کے نہ صرف تاثرات قابل صد تحسین ہیں بلکہ سند کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔

اس سے انکار ممکن نہیں کہ ڈاکٹر طاہر تونسوی کا ان غزل گو شعرا ء میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے غزل کو نیا لہجہ اور لفظوں کو معانی کے نئے پیرہن دیئے۔

’’تو طے ہوا نا، میں حمدیہ، نعتیہ غزلیہ کلام کے ساتھ ساتھ منقبت اور سلام کے حوالے سے بے پایاں عقیدت کی نظمیں بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی سچے عاشق رسول ہیں۔ اس لیے وہ پیغمبر انقلاب کی محبت میں سرشار ہو کر دنیاوی جاہ و حشمت اور سیم و زر کو ٹھکرا کر یہ تمنا کرتے ہیں۔ دو شعر دیکھیے   ؎

مال و دولت سیم و زر سب ہیچ تر سب ہیچ تر

مجھ کو تو مولا مرے بس شاہ بطحا چاہیے

٭

سبز گنبد ہی رہے میری نظر کے سامنے

نورِ احمد کا مری آنکھوں کو ہالہ چاہیے

٭

یہ بھی سچ ہے کہ ڈاکٹر طاہرتونسوی کا خمیر اس خطے سے اٹھا ہے جہاں علاقائی جاگیردار صدیوں سے غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ کیونکہ معاشرتی سماجی ناہمواری مذہبی جنونیت اور سیاسی لچر پن سے ایک ایسے معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے جہاں قدم قدم پر قتل گاہیں، درندگی، دہشت گردی، قتل و غارت، لاشوں کے انبار، ظلم و بربریت، بم دھماکے، خودکشیاں کلچر بن جاتا ہے۔ ا س کی ایک جھلک وطن عزیز میں دیکھی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر طاہر تونسوی چونکہ روشن فکر شاعر ہیں اس لیے نفرت کے تعفن بھرے ماحول کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور محبت سے معمور نظام کے لیے کوشاں ہیں جو روح پرورسماں پیدا کرے۔

ان کی شاعری کا مرکز و محور وسیب کے مکیں ہیں جن کی حالت زار دیکھ کر کڑھتے ہی نہیں بلکہ ان کو نئی طرز سے جینے کا حوصلہ بھی دیتے ہیں اور حقوق لینے کا احساس بھی۔

ڈاکٹر طاہرتونسوی کی شاعری میں داخلیت کا عنصر بھی نمایاں ہے جو ذاتی کرب کی شکل میں سامنے آ کر کائنات میں پھیلتا نظر آتا ہے۔ یہی ایک اچھے شاعر کی خوبی ہے کہ اس کا دل ہر دکھی انسان کے لیے دھڑکے۔ اس حوالے سے ان کے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

کس کس کو چڑھائے گا یہ سولی پہ زمانہ

میں آج بھی منصور کا نقشِ کف پا ہوں

٭

ہر بار مجھے زخم ملے وقت کے ہاتھوں

ہر بار ہی افلاس کی چکی میں پسا ہوں

٭

ہوا کے ماتھے پہ درج تحریر موسموں کی تمازتوں سے

جو مٹ گئی ہے تو کیا ہوا ہے، نئے سرے سے یہ باب لکھنا

٭

اذیتوں کے سفر میں میں نے بھرم رکھا پھر بھی حوصلوں کا

منافقت کے جہاں میں مجھ کو صداقتوں کا نصاب لکھنا

٭

یہ دور اہل قلم پہ بھاری کہ مصلحت کی سبیل جاری

گنا ہ کو بھی ثواب لکھنا، ببول کو بھی گلاب لکھنا

٭

دیارِ عشق کا طاہر سفر طویل سہی

محبتوں کی لغت میں سراب کیا رکھنا

٭

وجہ سکون خستہ جاں جو میرے دل کا چین تھی

وحشی ہوا کی برہمی اس کو بھی’’ نال، لے گئی

٭

تمازتِ شبِ ہجراں  ازل  نصیب  ہوئی

تمام عمر گزاری پہ ہم سفر نہ ملے

٭

شکستِ شب  سے اگرچہ اداسیاں سمٹیں

مگر ابھرتا اجالوں کا قافلہ نہ لگے

٭

وہ دھوپ ہے کہ مجھے سایہ بھی گراں گزرے

غموں کی لہر میں اب کوئی آسرا نہ لگے

٭

رزاقِ غم  نے مجھ کو عطا کی ہیں حسرتیں

جلتا ہوا چراغ ہوں میں خواہشات کا

٭

اندھی ہوا نے پھر سے کیا  زخمِ دل  ہر ا

میں نے چھپا رکھا تھا الم کائنات کا

میں اس سے وفا مانگ ہی لیتا دمِ آخر

صد حیف کہ پندارِ ہنر جاتا ہے سائیں

ڈاکٹر طاہر تونسوی کی فکر میں صداقت ہے مصلحت نہیں ہے۔ ان کی شاعر ی ولولے حوصلے بڑھاتی اور جذبے گرماتی ہے۔ وہ نام نہاد شعراء سے بھی نالاں ہیں کہ جو قلم کی حرمت بیچ کر مفادات کے کشکول بھرتے ہیں۔ ان کو فطرت کی طرف سے وجدان سلیم عطا ہوا ہے جو انہیں شعر کہنے میں رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے مشاہدات اور محسوسات کو قرطاس پر لانے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ وہ قوافی اور ردیفوں کے توازن کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں نئی تراکیب خیمہ زیاں، شکست دل، رزاق غم، شکست شب، پندار ہنر، تمازت شب ہجراں استعمال کر کے غزل کے فطری حسن میں مزید اضافہ کیا ہے اور بدن، ہوا، دھوپ، ریت، دشت، نال، خوف اور سائیں جیسے الفاظ اپنے وسیب اور کائنات کے دکھ اور مسائل کے غماز ہیں۔

ڈاکٹر طاہر تونسوی نے نظمیں بھی کہی ہیں جو اپنی طرز سے اچھوتی ہی نہیں بلکہ فکر انگیز بھی ہیں۔ موصوف محمدؐ و آل محمدؐ سے محبت کو ایمان کا درجہ دیتے ہیں۔ کربلا والوں کا ذکر ہویا ولایت کے اسم اول کی منقبت ہو، طاہر تونسوی کی پاکیزہ فکر اور مودت صاف نظر آتی ہے جنہوں نے ارفع اخلاقی اقدار کے لیے جاں لیوا عذاب سہے تھے۔ منقبت کا کچھ حصہ دیکھیے :

کہا فلک نے زمیں سے یہ ہم زبان ہو کر

ہمیں خبر ہے

کہ وہ نبوت کا اسم اول

تو یہ ولایت کا اسم اول

فقط علی ہے

سوا علی کے کوئی نہیں ہے

علی

ولایت کا اسم اول

سلام کے حوالے سے چند شعر دیکھیے جن میں صبر و استقلال، نئے ولولوں نئے حوصلوں کا احساس ملتا ہے   ؎

منظر وہ شامِ غم کا لہو منظروں میں تھا

کرب و بلا کا عکس سبھی آئینوں میں تھا

 

چھایا ہوا تھا خوف یزدانِ وقت پر

لیکن بلا کا حوصلہ  ان کمسنوں میں  تھا

 

اصغر نثار ہو گئے اکبر ہوئے فگار

پھر بھی مرا حسین بڑے حوصلوں میں تھا

 

ارض و سما کے پا س کہاں ایسی جراتیں

وہ صبر بے مثال کہ خیمہ زنوں میں تھا

آخر میں ڈاکٹر طاہرتونسوی کی اس نظم کا حوالہ بھی ضروری ہے جس میں موصوف نے اپنے محبوب کا سراپا ایسے دلکش انداز سے کھینچا ہے کہ جس سے حافظ شیرازی اور امراء القیس بے ساختہ یاد آ جاتے ہیں۔ لیجیے ’’ایک نظم اس کے لیے، نذر قارئین ہے   ؎

ترا لمسِ بدن اب بھی میری یادوں کا سرمایہ

ترے ہونٹوں کے رس کا ذائقہ تازہ بہ تازہ ہے

 

تری آنکھوں کی مستی کا ابھی نشہ نہیں اترا

ترے ہاتھوں کی گرماہٹ لہو میں سرسراتی ہے

 

ترے سینے کی چاندی چاند کو شرمائے جاتی ہے

ترا جوبن، جوانی، ناک نقشہ سب غضب کا ہے

ترا ما تھا سنہری دھوپ کی صورت چمکتا ہے

ترا چلنا مجھے تو ہرنیوں کی چال لگتا ہے

 

تری آواز کانوں میں رسیلے گیت گاتی ہے

ترے پاؤں گدازِ اطلس و کمخواب کا پیکر

 

ترے عشوے، ترے غمزے، ادا تیری، تری باتیں

مجھے بے چین کرنے کیلئے کافی ہیں اے جاناں

 

مجھے ان سے تعلق ہے نہ ان سے واسطہ جاناں

مجھے تو صرف تیرا پیار ہی کافی ہے اے جاناں

مجھے بس پیار ہی دے دو

ڈاکٹر طاہر تونسوی کی زبان شُستہ، اسلوب منفرد اور موثر ہے، خیالات کی ندرت، جدت اور جمالیاتی عنصر نمایاں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

لوحِ ایّام اور فیض تبسم تونسوی

 

فیض محمد 2فروری 1931ء کو محمد بخش کے گھر پیدا ہوئے تھے، ان کے والد اسکول میں نہ صرف مدرس تھے بلکہ عربی، فارسی کے ماہر بھی تھے، فیض محمد نے تونسہ شریف میں میٹرک کیا، 1952ء میں گریجویشن کر کے عام خاص باغ ہائی اسکول اور مسلم ہائی اسکول میں انگریزی پڑھاتے رہے انہیں زندگی بھر انگریزی اور اردو لٹریچر سے بے حد دلچسپی رہی پھر فیض تبسم تونسوی نے قلمی نام سے شاعری کو ایسا اوڑھنا بچھونا بنایا کہ لوگ فیض محمد کو بھول گئے۔ وہاں جابر علی جابر، عرش صدیقی، مذاق العیشی اور کیفی جام پوری جیسے قادر الکلام شعرا ء کی محفلیں میسر آئیں۔ محسن نقوی کے استاد شفقت کاظمی سے بھی مشورۂ سخن لیتے رہے، 1965ء میں سلیمانیہ پبلک ہائی اسکول سمن آباد لاہور کے پرنسپل بھی رہے، لیکن غمِ  حالات انہیں پھر ملتان لے آئے۔ 1971ء میں کراچی چلے گئے وہاں شور اکیڈمی نے فیض تبسم تونسوی کے شعری ذو ق کو مزید جِلا بخشی۔ وہ جوش ملیح آبادی، شور علیگ، اختر الایمان، احسان دانش اور اختر شیرانی جیسے قد آور شعراء سے بے حد متاثر تھے۔ شبیر حسن اختر اور فرخ درانی ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ رحمت اللہ خان روہیلہ بھی ان کے ہر دکھ سکھ میں شریک رہا ـ۔ جن کی شامیں کراچی میں رنگین گزریں۔ فیض تبسم تونسوی بے حد دکھی انسان تھے، عشق کے روگ اور زمانے کی سرد مہری نے ان کی زندگی میں زہر گھول دیا تھا۔ جو محبوبہ بوئے گل کی طرح ان کی روح میں اتری تھی وہ موجِ  ہوا کی صورت ساتھ چھوڑ گئی، وہ پھر ایسے بد دل ہوئے کہ اپنا آبائی گھر تونسہ چھوڑ کر دربدر رہے اور زندگی کے تپتے صحرا  میں ماتم زیست کرتے رہے، بے کسی اور آنسوؤں کی برسات میں تنہائیاں جن کی د مساز رہیں۔ انہوں نے سینے میں جو تمنا کے چراغ روشن کیے تھے وہ ہوائے ہجر نے بجھا دیئے۔ آخر وہ زلف معنبر کاسایہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بے آس اور بے سروساماں 1997ء کو اس دنیاسے اٹھ گئے۔ جب ان کے جسدِ  خاکی کو کراچی سے آبائی قبرستان تونسہ لایا گیا تو مجھے نہیں معلوم کہ ان کا آخری دیدار کرنے والوں میں وہ محبوبہ بھی شامل تھی یا نہیں، البتہ اختر شیرانی کا آخری دیدار کرنے ایک برقعہ پوش خاتون ضرور آئی تھی جسے سلمیٰ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

فیضؔ سے تم کو تعارف نہیں یارو تو سنو

وہ جو راتوں کو پھرا کرتے ہیں تنہا تنہا

٭

اب تک تو آنسوؤں کی جھڑی ہے لگی ہوئی

پھر کون جانتا ہے کہ برسات ہو نہ ہو

٭

یہ بے کسی کی رات غنیمت ہے فیضؔ جی

پھر سے یہ بے کسی کی کبھی رات ہو نہ ہو

٭

وہ تماشا ہوں کہ اک خلق تماشائی ہے

زندگی تو مجھے کس موڑ پہ لے آئی ہے

٭

مرقدِ  فیضؔ  پہ ہے ماہ وِشوں کا میلہ

بعد مرنے کے بھی ہنگامۂ رسوائی ہے

٭

در و دیوار پہنے بیٹھا ہوں

میری تنہائیاں میری دمساز

٭

مجھے زہر بھی گوارا نہ ملے جو  جامِ  صہبا

میں ہوں مدتوں سے تشنہ میں ہوں عمر بھر کا پیاسا

فیضؔ تبسم تونسوی عشق و محبت کے علاوہ زندگی کی مثبت قدروں کو نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ ایسے جذبوں کا فروغ بھی چاہتے تھے۔ وہ نفرت کے حبس زدہ ماحول میں خلوص و مہر و محبت کے جام چھلکانے اور وفا و صدق کی راہوں میں جذب ہونے کی بات بھی کرتے رہے تاکہ روح کی تازگی کے ساماں ہوں۔

ان کو اس بات کا بھی دکھ رہا کہ حرفِ حق کل کی طرح آج بھی صلیب پر ہے اور یزید تخت و تاج کے مزے لے رہے ہیں۔ ان کا دل تضاد رویوں پر تڑپ اٹھتا لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ انسان اور کائنات قوتِ تضاد پر قائم ہیں۔  مثال کے طور پر انسان آگ، ہوا، پانی اور مٹی سے مرکب ہے پھر ہاتھ میں تسبیح اور بغل میں خنجر کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کیونکہ یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے   ؎

حرفِ حق آج بھی ٹھہرا ہے سزا وارِ صلیب

وہ جو پہلے تھا یزیدوں کا چلن آج بھی ہے

٭

دل تڑپ سا اٹھتا ہے اس تضاد پر لوگو

ہاتھ میں تو ہو تسبیح اور بغل میں خنجر ہو

فیضؔ تبسم تونسوی بنیادی طور غزل کے شاعر تھے، اگر وہ نظم پر توجہ دیتے تو بڑے نظم گو شعراء کی صف میں شامل ہوتے، ان کی نظموں میں رجائیت ہے انقلاب آفریں پیغام ہے۔

انہیں ہمیشہ نظامِ کہنہ کو نظامِ نو میں بدلنے کی خواہش رہی تاکہ مہر و محبت کے ساز سے کوہ و دشت میں رعنائیاں سمٹ آئیں، حکمت و دانش سے جہل کی تاریکیاں مٹ جائیں، قومیت، رنگ و نسل کی قید سے انسان آزاد ہو جائے۔ سرمایہ جیسے مہیب عفریت کو موت آئے تاکہ ازل سے غربت کی بھٹی میں سلگتے انسانوں کو سکھ کا سانس ملے۔ وہ اپنی ایک نظم میں قوم کے بچوں سے یوں مخاطب ہوئے کہ زندگی تسخیر کا نام ہے، اس لیے ذرّہ ذرّہ متحرک ہی نہیں انقلاب کی راہ پر گامزن بھی ہے۔ تن من کی پاکیزگی حسنِ خصال ہے، مہر و الفت کو عام کیا جائے کہ یہ آبِ زلال سے کم نہیں ہے۔ انسانیت کی معراج کسی کی تقصیر معاف کر دینے میں ہے، ایسا کام مت کرو جو رنج و حزن و ملال کا باعث بنے۔ انہوں نے اپنی نظم ’’عفریت، میں روشنیوں کے شہر کراچی کی خونچکاں صورتِ حال کا یوں رونا رویا ہے   ؎

شہر کراچی کی گلیوں پر

شہر کراچی کی سڑکوں پر

نفرت کا عفریت مچل کر

خون کی ہولی کھیل رہا تھا

بچوں، بوڑھوں، نو عمروں کو

نوکِ سناں پر تول رہا تھا

شہرِ کراچی کے جیون میں

زہر قضا کا گھول رہا تھا

فیضؔ تبسم تونسوی مہاتما بدھ، حضرت عیسیٰ، حضرت خواجہ سلیمان تونسوی اور فیض احمد فیض جیسی عظیم ہستیوں سے بے حد متاثر تھے۔

’’مہاتما بدھ، نظم کا آخری حصہ دیکھیے :

کسی کو دکھ نہ دو کہ یہ گناہ ہے وبال ہے

جو اس سے منحرف ہوئے تو زندگی محال ہے

یہی ہے رازِ زندگی

طریق صلح و آشتی

یہی نجاتِ روح ہے

یہی ہے دل کی شانتی

مہاتما عظیم تھا

مہاتما نے سچ کہا

وہ چمن میں جس نے کلی کلی کو مزاجِ بادِ صبا دیا

وہ ہر ایک غنچے کے لب کو جس نے ہے اک شعورِ نوا دیا

 

رہا کج جبیں پہ سرکفن، وہی حوصلہ وہی بانکپن

پسِ مرگ میلا نہیں کفن، یہ اجل کو صاف بتا دیا

 

وہ جو چارہ ساز جہاں رہا، جو شریکِ  دردِ  نہاں رہا

جو وطن کی روحِ  رواں رہا اسے ہم نے کتنا بھلا دیا

بیادِ  فیض احمد فیض

آخر میں ان کی ایک نظم ’’پیغام، نوجوانوں کے نام نذرِ قارئین ہے جو ان کے بے ساختہ جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہے   ؎

روش روش پہ بہاروں کا اہتمام کرو

چمن میں لالہ و گل کی مہک کو عام کرو

 

بچا بچا کے چلو پستیوں سے نظروں کو

بلندیوں کو ہمیشہ اسیرِدام کرو

 

اٹھو کہ چاک کرو ظلمتوں کے پردوں کو

بڑھو کہ  صبحِ درخشاں  کا  انتظام  کرو

 

فضائے دہر میں الفت کے پھول برساؤ

جہاں کو حرفِ محبت سے زیرِ دام کرو

 

 

دلوں کو گردِ کدورت سے پاک صاف رکھو

زبانِ لطف سے انسانیت کو رام کرو

 

شراب  مہر و عنایت  کے  جام  چھلکاؤ

تمام خلق کو اپنا شریکِ جام کرو

 

سناؤ فیضؔ کو نغماتِ سرمدی ایسے

کہ اس گدائے محبت کو بھی غلام کرو

٭٭٭

 

 

 

 

روشن فکر دانشور اور انقلابی شاعر -اقبال سوکڑی

 

تاریخ شاہد ہے کہ ادب برائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر زبان و ادب کے ادباء و شعراء خرد افروزی کی تحریک کو موثر بنانے کے لیے لازوال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے اقبال سوکڑی کی زندگی بھر کی جدوجہد کا ذکر نہ کرنا بے انصافی ہو گی۔ وہ کتنے خوش نصیب ہیں کہ انہیں اپنی زندگی میں نہ صرف قدردان ملے بلکہ شہرتِ دوام بھی ملی ہے۔ حالانکہ اردو کے اکثر شعراء اپنی ناقدری کا رونا روتے روتے دنیا سے اٹھ گئے۔

اقبال سوکڑی ان شاعروں میں سے ہیں جو خلا کے بجائے سیاسی، معاشی، مذہبی، اور سماجی تناظر میں شاعر ی کرتے ہیں۔ ان کی نوا ماورائی حصار سے نکل کر زمینی حقائق کی آئینہ دار ہے، وہ مظلوم کے حامی اور ہر قسم کے استحصال سے نفرت کرتے ہیں، وہ ایک دیدۂ بینا شاعر ہیں ان کے افکار و نظریات کو سمجھنے کے لیے میری کتاب ’’اقبال سوکڑی -شخصیت اور فن، کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے جسے ناصر پبلی کیشنز ڈی جی خان نے 2008ء میں شائع کیا تھا۔

اقبال سوکڑی نے 1938ء کو بستی سوکڑ میں داد خاں ملغانی کے گھر میں آنکھ کھولی اور اپنی جنم بھومی سے بے پایاں محبت کی وجہ سے ’’سوکڑی، کا لاحقہ لگانا پسند کیا۔ ان کے والدملنسار، خود دار اور مہمان نواز ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ادب سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ محکمہ مال میں پٹواری تھے۔ لیکن سکھ تحصیلدار سے اختلاف کی وجہ سے ملازمت چھوڑ کر کاشتکاری شروع کر دی تھی اقبال سوکڑی نے ابتدائی تعلیم بستی سوکڑ سے حاصل کی، مڈل کرنے کے بعد جونیئر ورنیکلر کا امتحان پاس کیا، ان کا بچپن سے مزاج شاعرانہ تھا اس لیے روایتی ڈوہڑوں سے نہ صرف آغاز کیا بلکہ معروف شاعر امام بخش درویش کو اپنا محسن و مربی بھی سمجھا۔ جن کا استاد الشعراء میں شمار ہوتا ہے۔ مجھے بھی ان کی زیارت کا شرف نصیب ہوا ہے وہ واقعی درویش منش اور مرنجانِ  مرنج انسان ہیں۔ 1958ء میں اقبال سوکڑی کے ڈوہڑوں کو ایسی شہرت ملی تھی کہ اکثر نوجوانوں نے متاثر ہو کر شاعری شروع کر دی تھی جس میں نامور سرائیکی شاعر اقبال نصرت بھی شامل ہیں۔ اس نے اس کا اظہار اپنے شعری مجموعے ’’کلہی کونج، میں کیا ہے۔ اقبال سوکڑی نے 1961ء میں بطور جے وی مدرس بستی حیدر والا میں اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ اقبال سوکڑی نے سرائیکی کے نامور شعراء کشفی ملتانی، جانباز جتوئی، سائل ڈیروی، سرور کربلائی، مہجور بخاری، غلام حیدر تبسم اور فیض محمد دلچسپ کے ساتھ مانہ احمدانی میں پہلا مشاعرہ بھی پڑھا۔ موصوف شاعر ی بھی کرتے رہے اور مطالعہ بھی جاری رکھا۔ فلسفہ اور مارکسی لٹریچر کو بطورِ  خاص پڑھا۔ پھر سبطِ حسن، علی عباس جلال پوری اور ڈاکٹر خیال امروہوی کے فلسفیانہ افکار و نظریات سے بے حد متاثر ہوئے۔ موصوف کو جوش ملیح آبادی، احسان دانش، عبدالحمید عدم، فیض احمد فیض، ڈاکٹر خیال امروہوی، احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، طفیل ہوشیار پوری اور عاصی کرنالی جیسی نابغہ روزگار ہستیوں کے ساتھ اردو، سرائیکی کل پاکستان مشاعرے پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماسکو یونیورسٹی (روس )کے پروفیسر ڈاکٹر ثمر نوف اقبال سوکڑی کی شاعری سے بے حد متاثر تھے۔ ٹبی قیصرانی کے نوجوان شاہ نواز جو ماسکو یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، سرائیکی لٹریچر ان تک پہنچاتے تھے۔ اس حوالے سے جب خفیہ پولیس والوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے اقبال سوکڑی اور ڈاکٹر طاہر تونسوی پر کڑی نظر رکھ لی۔ اس دور میں سرائیکی کے ترقی پسند دانشور احسن واگھا نے ’’ سنیہا، کے نام سے رسالہ بھی نکالا تھا۔ ملازمت کے بعد جب رسالہ نکلنا بند ہو گیا تو اقبال سوکڑی اور ابنِ  قیصر نے مل کر بھٹو کے انقلابی مشن کو رسالے کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی تو ایسی ہلچل مچی کہ بات انکوائری تک آئی انکوائری آفیسر بھٹو کی طلسماتی شخصیت سے بے حد متاثر تھا۔ اس طرح اقبال سوکڑی اور ابن قیصر جیل جانے سے تو بچ گئے لیکن رسالہ بند ہو گیا۔

اقبال سوکڑی نے ڈوہڑہ، غزل، پابند نظم، آزاد نظم اور کافی پر طبع آزمائی کی ہے۔ موصوف نے جب پہلی بار غزل کہنے کا تجربہ کیا تو شعراء نے مخالفت کی، سرائیکی ادب میں جب غزل کو اعتبار ملا پھر سب شعراء نے غزل کہنے کو ترجیح دی اقبال سوکڑی کو غزل میں دلکش اسلوب اور منفرد لب و لہجہ سے جو عظمت و شہرت ملی وہ کسی دوسرے سرائیکی شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔

ان کے شعری مجموعوں میں ہنجوں دے ہار، ڈکھ دی جنج (دکھ کی بارات )کالے رو چٹی برف، ورقا  ورقا زخمی، لیرو لیر پچھاواں (تار تار سایہ )آٹھواں آسمان کے بعد حال ہی میں ساتواں شعری مجموعہ بے انت آیا ہے جو ان کی فکری بالیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہنجواں دے ہار میں حسن و عشق کے روایتی مضامین ملتے ہیں۔ اس حوالے سے دو شعر دیکھیے   ؎

لکا چا میکوں زلف دے ہیٹھ ماہی

وڈی تیز دھپ ئِ وڈا سخت ڈینہہ ہے

٭

توڑے توں کول نئیں تاں وی کوئی غم نئیں کلیہپے دا

ہے تیڈی یاد سنگتانی اکھیں دا یار پانی ہے

اس کے بعد موصوف کے جتنے بھی شعری مجموعے آئے ان میں مزاحمتی رنگ واضح نظر آتا ہے۔ جس طرح جوش، فیض، ظہیر کاشمیری، ڈاکٹر خیال امروہوی، حبیب جالب، حمایت علی شاعر، ساحر لدھیانوی، علی سردار جعفری اور مشتاق احمد مزاحمتی ادب کے معتبر حوالے ہیں۔ اس طرح اقبال سوکڑی بھی اپنی شاعری میں وسیب کی محرومیوں اور مظلوم طبقہ کے حقوق کے لیے علاقائی وڈیروں، استعماری قوتوں کے ایجنٹوں کے خلاف اپنے قلم کو تلوار بنا کر برسرپیکار ہیں۔ اقبال سوکڑی ظالمانہ و غاصبانہ نظام حیات کے سخت مخالف ہیں۔ جس سے طبقاتیت کو مزید تقویت ملتی ہے۔ ایسے بھیانک ماحول میں لوٹ کھسوٹ، کرپشن، قتل و غارت، دہشت گردی، بم دھماکے، اقرباء پروری، جھوٹ، منافقت، ریاکاری، اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ یہ وہ احساس بیگانگی ہے جو افراد معاشرہ کو اپنی تہذیب، ثقافت، مذہب اور ذات سے جد ا کر دیتا ہے جو معاشی عدم مساوات کا نتیجہ ہے جس کی بھیانک صورت وطنِ عزیز میں دیکھی جا سکتی ہے وہ اس کے بر عکس مساواتی نظام چاہتے ہیں جس طرح ہوا اور روشنی سے سب انسان مستفید ہوتے ہیں اسی طرح پیداواری وسائل پر بھی سب کا حق برابر ہونا چاہیے تاکہ مثبت اقدار کو فروغ ملے اور دکھ سکھ مشترک ہوں اس حوالے سے اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

خشک ساونط دی کوجھی کریہہ ڈیکھ کے

ایں دفعہ میڈے تونسے دے تل رو ڈِتے

٭

ایں نگر وچ تاں کریہہ دا ہے رواج عرصے توں

معجزہ ہے جو درختیں تے نمی ہے یارو

٭

خیالیں کوں جتھاں پھاشاں ملیاں ہن

میڈے غزلیں دیاں اُتھ لاشاں ملیاں ہن

٭

سڑیا  ہا  خون  مزدوریں د ا   مل  وچ

اوکوں تاں مفت عیاشاں ملیاں ہن

٭

کتاباں گل گیاں پستول ہن پئے

میڈے بالیں کو ایجھاں گھر ڈتا گئے

٭

مسیت  اِ چ  علم  دی  کوئی  گال  کوئنی

سکول اچ بے نصاباظلم تھیندے

٭

میں ایں ڈر توں نئی چولستان ویندا

سُکیاں بوٹیاں تے لائیاں منہ چڑھیندن

٭

جنیدیاں کرناں میڈے ہاں تیں کاتیاں لگن

ایجھیں سِجھ کوں چدھاروں چوانتیاں لگن

٭

بکھے تھئے ہئیں تاں پتھریں دی روٹی ملی

تسے تھئے ہئیں تاں تس دے چھلو کے ملے

٭

جاگسین تاں کر کے روٹی دا تقاضا چیکسین

ایں کولوں بہتر ہے بالیں کوں سمالی رہ ونجو

٭

اپنی ط اپنیط لاش تے روونط اپنیط اپنیط سوچ دا ماتم

یارکوں یار نہ سمجھن پگلے غیر کوں غیرنہ جانٹرن لوک

٭

نہ کھل الا ہے نہ شوخیاں نہ رل کرئیں کھیڈن

عجیب شہر ہے بالیں دے بال سنگتی نئیں

اقبال سوکڑی نے جہاں غزل میں چپاک، اوجھڑ، پٹھی گاہدی، ہمبا، آکا باکا، کُر کُر، رُنڑک، واجھلوڑا، حیل، سفیل، چچرا، بونبل، چنگیراں، کرِت کاری، مونگھر، پڑوٹی، بقل، چچلاند، گھُرگھُر، پلتھری آلی بھنوالی، تھنج جیسے ٹھیٹھ سرائیکی الفاظ کا استعمال کیا ہے تو وہاں صبا، منجدھار سوزِ دروں، فسوں چشمِ نگوں، رم جھم، قصرِ شیریں، کوہ کن، آبشار، حصار، خمار اور خواب و خیال جیسے اردو فارسی الفاظ و تراکیب کے ساتھ ساتھ صنعتِ تلمیح، صنعتِ تکرار، صنعتِ تضاد، صنعتِ اعداد کا بھی استعمال کیا ہے اور محاورات کا بھی۔

اقبال سوکڑی کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ موصوف کی شاعری میں قنوطیت کے بجائے رجائیت کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ وہ غمِ حالات میں گھبراتے نہیں بلکہ ولولوں کو گرماتے اور حوصلے بڑھاتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ اشعار دیکھیے   ؎

اے خلقت ظلم دی ماری ایسی

سنیئں ہک ڈینہہ خدائی ساری ایسی

٭

کیا تھیا اقبال جے پرلا کنارہ دور ہے

تر کے مر، مر مر کے تر، تر تر کے مرتے پار تھی

٭

اساں تاں اقبال دور ونجنے ط اساں ا تھاں اج ضرورونجنیط

توڑے سیالے دی رات سرتیں توڑے ہے پوہ دی لُری نماشاں

٭

ُُُُپچھدیں جے کامیابی دا میں توں کوئی اصول

بدلیے ہوئے حالات کوں پہلو غلام کر

اقبال سوکڑی غزل کے ساتھ ساتھ نظم بھی عمدہ کہتے ہیں۔ ان کی ایک نظم قومی سالمیت دیکھیے جو موصوف نے 1966ء میں کہی تھی۔ جس میں وطن سے بے پایاں محبت کے جذبے کار فرما ہیں اور استعماری قوتوں کے خلاف بغاوت کا لہجہ بھی، ناصحانہ انداز بھی ہے جس میں عالم اسلام کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ پیغمبر انقلاب اور ان کی آل کے نقشِ  قدم پر چل کر دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ موصوف اہل وطن کو، وطن دشمنوں یعنی جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور مذہبی اجارہ داروں کے سازشی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں جنہوں نے ملکی سالمیت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس طرح اپنی نظم اپیل میں نئی نسل کو خواب غفلت سے بیدار کر کے ملکی تعمیر و ترقی میں لازوال کردار ادا کرنے کا احساس دلاتے ہیں۔ اس طرح اپنی نظم ’’ تیڈے شہروچ، میں امیرِ  شہر کے جابرانہ، آمرانہ نظام پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔ ایک اور نظم دنیا دنیا داریں دی میں استحصالی نظام حیات سے سخت نفرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ جس سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ اقبال سوکڑی کی شاہکار نظم پنڑیں (بھیک مانگنے والی )کو تاریخی تناظر میں دیکھا گیا ہے کیونکہ جب ملکیت کا تصور ابھرا تو زر اور زمین کے ساتھ زن کو بھی ملکیت میں شامل کر لیا گیا اسی زمانے سے عورت کا استحصال شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ خدا ساختہ مذاہب نے بھی عورت کو سماجی حقوق سے محروم رکھا۔ اس طرح موصوف کی پاگل نظم بھی ایسا فن پارہ ہے جو عالمی ادب کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے اس کے علاوہ یاد گاراں اور چھیکڑی خط اپنے طرز کی منفرد نظمیں ہیں۔ اس حوالے سے ارشاد احمد تونسوی نے یوں کہا ہے ’’اقبال سوکڑی ایک ایسے معاشرے کا فرد ہے جس میں غربت اور افلاس اپنے عروج پر ہے اور انسانیت اپنا مقام کھو چکی ہے اقبال اس سے غافل نہیں اور قوم کے درد کو اپنا دکھ تصور کرتا ہے۔ اس کی نظمیں اس کا زندہ ثبوت ہیں،۔

اقبال سوکڑی کی آزاد نظمیں بھی فنکارانہ صلاحیتوں کی غماز ہیں بلکہ فکر انگیز بھی ہیں۔ ان کی نظم مشغلہ دیکھیے جس میں عورت کی زبان میں جذبات و احساسات کا اظہار کیا گیا ہے :

رات ہجر دی پینگھاں پا کے

تیڈی یاد ڈوا وے

 

کئی کئی سوچاں سوچ سوچ کے چیتا چکر کھاوے

سامنے رکھ کے بلدا ڈیوا

ہک ہک ونگ کوں تروڑاں بیٹھی

ونگ دا ہک ہک ٹوٹا چُن کے

لاٹ تے لولک جوڑاں بیٹھی

موصوف نے ایک اور نظم میں سرائیکی وسیب کے عوام کو قحط زدہ کونجوں سے تشبیہ دی ہے۔ جن کا صدیوں سے وڈیرے استحصال کرتے آ رہے ہیں۔ جس سے وسیب کی محرومیوں کا واضح ثبوت ملتا ہے   ؎

ساڈی تس تے کھمڑیں مسکدیاں

ساڈی بکھ تے کھلدے روہ

اساں کونجاں کال کریہہ دیاں

ساکوں بے شک نپ نپ کوہ

اس کے علاوہ اقبال سوکڑی کے شعری مجموعہ ’’آٹھواں آسمان، میں آسانول کے حوالے سے نظموں کا طویل سلسلہ ہے جو اپنے طرز کی اچھوتی اور خیال افروز نظمیں ہیں جن میں جدت بھی ہے اور ندرت بھی، اور سرائیکی وسیب کے سلگتے مسائل بھی۔ یہ نظم دیکھیے :

آ سانول اے دھرتی کالی

لہندے سجھ دیاں لولھیاں کرناں چمدین شام دی لالی

آسانول اے دھرتی کالی

سنویں سجھ دے ستیے لوکیں فجریں اکھ نہ بھالی

آسانول اے دھرتی کالی

وڈے درتوں پندیں یارو ہر ہک دے بک خالی

آسانول اے دھرتی کالی

جمدیوں ساڈے منہ تے رہ گئی ازلوں چپ دی تھالی

آسانول اے دھرتی کالی

یہ حقیقت ہے کہ سرائیکی کافی میں تصوف کا رنگ غالب رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر شعراء اپنی کافیوں میں وحدت الوجود کو موضوع بناتے رہے لیکن اقبال سوکڑی کی کافیاں عورتوں کے ساتھ ہونے والے ہر ناروا سلوک کی آئینہ دار ہیں۔

مختصر اقبال سوکڑی عہد ساز شخصیت ہی نہیں بلکہ بیدار مغز شاعر بھی ہیں۔ یقیناً  ان کا نام اور کام سرائیکی ادب میں معتبر حوالہ رہیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

شاعرِ ہفت زباں -ظہور احمد فاتح

 

مارکسی دانشور اور انقلابی شاعر ڈاکٹر خیال امروہوی کے بقول ’’ فطرت کے قوانین بھی عجب ہیں جسے بصیرت ملتی ہے وہ بصارت سے محروم ہوتا ہے جسے علم ملتا ہے اسے دولت نہیں ملتی اور جسے دولت نہیں ملتی اسے علم سے محروم رہنا پڑتا ہے۔ ،

دنیا میں ایسے بے شمار عظیم لوگ پیدا ہوئے جو بصارت سے محروم ہو کر بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے بصیرت افروزی کو عام کرتے رہے اور علم و ادب کے حوالے سے اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ میں نے جب پروفیسر ظہور احمد فاتح کو پہلی دفعہ دیکھا تو مجھے یونان کا اندھا شاعر ہو مر، معروف ترقی پسند شاعر ادیب مشتاق ا حمد اور ہیلن کیلر یاد آ گئے جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ ہیلن کیلر کا آرٹیکل ” Three days to See”کے مطالعہ سے تو دل رو پڑتا ہے۔

پروفیسر ظہور احمد فاتح نے بھی علم و ادب کے حوالے سے اتنی محنت و ریاضت کی ہے کہ آج اہل تونسہ ایسی عظیم نابغہ روزگار ہستی پر فخر کرتے ہیں جو بصارت سے محروم ہو کر بھی نئی نسل کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی ہے کیونکہ بقول اقبال   ؎

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ظہور احمد فاتح عبد اللطیف خان سکھانی کے گھر 21، مارچ 1954ء کو شہر تونسہ شریف میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کاشتکار ہی نہ تھے بلکہ خوش اخلاق، لطیف مزاج اور علم ادب کے رسیا بھی تھے۔ ظہور احمد فاتح نے اپنا بچپنا قصبہ شیران والا میں گزارا۔ ان کی پیدائشی طور پر بینائی کمزور تھی۔ اس لیے ان کے والد تعلیم میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے لیکن فاتح کے اصرار پر قریبی پرائمری سکول حیدر والا میں داخل کرا دیا گیا اور اقبال کمالی سے تیسری جماعت تک پڑھتے رہے جو اس وقت سرائیکی وسیب کے روشن فکر دانشور اور انقلابی شاعر اقبال سوکڑی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ظہور احمد فاتح نے اپنے استاد سے متاثر ہو کر عشقیہ ڈوہڑے بھی کہنے شروع کر دئے تھے۔ اس زمانے میں بالِ جبریل، کو اپنے سرہانے رکھتے بلکہ جھوم جھوم کر پڑھتے بھی تھے۔ اس دوران قرآن مجید کی تعلیم نہ صرف جاری رکھی بلکہ اپنی فطانت سے حفظ بھی کر لیا تھا۔ چوں کہ ظہور احمد فاتح کا گھرانہ مذہبی تھا اس لیے ان پر گہرے اثرات ہوئے۔

1964ء میں اپنے والدین کے ہمراہ تونسہ شریف آ گئے تھے ان کے والد نے تین شادیاں کیں تھیں لیکن والد کی دوسری چہیتی بیوی کے بطن سے ظہور احمد اکلوتے پیدا ہوئے تھے۔ موصوف نے سردار احمد خان سکھانی کے سایۂ ہمایوں میں پرائمری سکول کراڑیں والا سے پنجم کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔

1966ء میں گورنمنٹ ہائی سکول تونسہ میں داخلہ لیا۔ اس مختصر عرصہ میں بزم ادب میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ ’’میرے اساتذہ، اور’’ الوداع میرے سکول، جیسی یادگار نظمیں بھی کہی تھیں۔ جب گورنمنٹ ڈگری کالج ڈیرہ غازیخاں میں داخلہ لیا تو وہاں بھی تقریبات اور مباحث میں حصہ لیتے تھے لیکن بدقسمتی سے بینائی نے ساتھ چھوڑ دیاتو موصوف نے اس وقت کی حکومت سے مدد کی اپیل کی تھی جو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ذاتی دلچسپی لے کر ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھایا تھا لیکن انہوں نے رپورٹ میں یہ رائے دی تھی کہ اس طالب علم کا علاج ممکن ہی نہیں۔ اس لیے ظہور احمد فاتح ایف اے کرنے کے بعد مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ کشتہ روزگار ہونے کے باوجود 1976ء کو محترمہ خدیجہ ناہید جیسی وفا شعار اور پاکیزہ اطوار کو اپنی شریک حیات بنا لیا۔

پھر بے روزگاری کے عفریت کو مارنے کے لیے سب سے پہلے ان کی بیوی نے اپنے کنگن پیش کیے اور کوآپریٹو بینک کے مینجر شبیر نے پانچ سوروپے بینک سے دلوائے۔ اس طرح اڑھائی ہزار میں کاروبار شروع کیا تو خوشحالی سے گھر کے در و دیوار کھل اٹھے۔ ظہور احمد فاتح ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے رہتے۔

1980ء میں پہلا شعری مجموعہ ’’آئینہ دل، کے نام سے چھپا تو ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی۔ جب 1983ء میں پروفیسرشریف اشرف پرنسپل نے ڈگر ی کالج ڈی جی خان میں مشاعرے کا انعقاد کیا تو سید آفتاب احمد شاہ ڈپٹی کمشنر ڈی جی خان کو بطور مہمان اعزاز  بلایا تو اس میں ظہور احمد فاتح بھی مدعو تھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ مہمان کے آتے ہی بجلی چلی گئی تو موصوف نے صدر مجلس کے حضور یہ شعر نذر کیا   ؎

ایسا مانوس ہوا شبِ تاریک سے میں

تیری آمد پہ بھی قندیل جلائی نہ گئی

شاہ صاحب اتنے متاثر ہوئے کہ ان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مکتب سکول میں بطور مدرس آرڈر کرا دئے۔ اس دوران بی۔ اے کے ساتھ ساتھ ایم۔ اے اسلامیات بھی کر لیا۔

1986ء میں بطور لیکچرار اسلامیات گورنمنٹ ڈگری کالج بھکر میں تعینات ہو گئے۔ وہاں فاتح صاحب نے یاد گار وقت گزارا، جہاں ان کو اچھے دوست اور خدمت گزار شاگرد ملے، بھکر کے ایک مشاعرے میں ڈاکٹر خیال امروہوی اور بیدل حیدری جیسے قادر الکلام شعراء سے ملنے کا موقع بھی ملا تھا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت سے بھی رفاقت رہی اور خاص طور پر رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع میں شریک بھی ہوتے رہتے۔

1987ء میں گورنمنٹ کمرشل کالج تونسہ شریف آ گئے اور اپنی پیشہ وارانہ خدمات دیانتداری سے سرانجام دیتے رہے۔ بطور پرنسپل بھی اپنے فرائض کو بطریق احسن نبھایا۔ کالج سٹاف اور طلبا ء کے دلوں پر حکومت بھی کی۔ کیونکہ خوش اخلاقی، ملنساری اور بذلہ سنجی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ دورانِ  ملازمت احتیاج مندوں کی مدد بھی کرتے رہے اس حوالے سے سماجی ادارہ انجمنِ  فلاح و اصلاح معاشرہ بھی قائم کیا۔ اس طرح مرکز بیوگان بھی قائم کیا جس میں فنی تربیت کے ساتھ ساتھ سلائی مشینیں اور وظائف بھی دیئے جاتے تھے۔ ایک تنظیم انسدادِ مظالم بھی بنائی جس میں مظلوموں کی حق رسی اور ظالموں کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ بزمِ فروغِ ادب کے تحت مشاعرے بھی کرائے۔ موصوف نے ہر صنف میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ ہفت زباں شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ 1993ء میں معروف بلوچ شاعر علی محمد چگھا کے بلوچی کلام کا منظوم اردو ترجمہ ’’عکاسِ  فطرت، کے نام سے کیا۔ 2004ء میں شعری مجموعہ’’ساری بھول ہماری تھی، اور 2005ء ’’ میں سنہرے خواب مت دیکھو، شعری مجموعے چھپے۔ 2006ء میں حمدیہ مجموعہ ’’روح تیرے مراقبے میں ہے، دے کر توحید کی اصل روح کو اجاگر کیا۔ 2007ء میں نعتیہ مجموعہ ’’سلام کہتے ہیں، شائع کرا کے پیغمبر انسانیت سے اپنی بے پایاں عقیدت و محبت کا اظہار کیا۔ 2008ء میں شعری مجموعہ ’’کچھ دیر پہلے وصل سے، آیا۔ 2009ء میں پہلا سرائیکی شعری مجموعہ ’’اساں بہوں دور ونجناں اے، کے نام سے چھپا۔ 2010ء میں ’’ محرابِ  افق، اور 2013ء میں ’’ تصویرِ کائنات، مجموعے منظر عام پر آئے۔ اس کے علاوہ ظہور احمد فاتح منتخب اردو کتب سیرت کا تقابلی جائزہ کے عنوان سے ایم۔ فل کر چکے ہیں۔ آ ج کل سرسید کے خطباتِ احمدیہ کے حوالے سے پی ایچ ڈی کا تھیسس مکمل کرنے میں مصروف ہیں۔

پروفیسر ظہور احمد فاتح تونسہ شریف کے پہلے قادر الکلام شاعر اور ادیب ہیں جن کے سایہ ہمایوں میں اردو سرائیکی کے تقریباً ایک سو کے قریب نوجوان شعراء اور شاعرات پرورشِ  لوح و قلم پا رہے ہیں۔ اس حوالے سے موصوف نے امروہہ کے اظفر حسین منتظر امروہوی، علامہ شفیق حسن ایلیا، رئیس امروہوی اور ڈاکٹر خیال امروہوی جیسے مسلم الثبوت شعراء کی یاد تازہ کر دی ہے۔ موصوف کے تلامذہ میں ایک معتبر نام شبیر ناقد کا ہے۔ جس نے حال ہی میں اپنے محسن و مربی ظہور احمد فاتح کی زندگی میں ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا کیفِ  غزل جیسی خوبصورت کتاب دی ہے جو ان کے افکار و نظریات کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ غلام قادر بزدار نے اپنی کتاب ’’دبستانِ  فاتح، میں ان کے تلامذہ کا تعارف اور نمونہ کلام دیا ہے۔ شمع نورین نے زندگی ہے سعی پیہم شکر ہے شکوہ نہیں۔ موصوف پر اردو مقالہ تحریر کیا ہے۔ جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے تو مجھے موصوف کے رگ و پے میں رومانویت رچی نظر آئی ہے کیونکہ فاتح نے اپنی زبان اور تخیل سے غزلوں اور نظموں میں حسن و عشق کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ مجھے بے ساختہ امراء القیس حافظ شیرازی اور اختر شیرانی یاد آ گئے ہیں۔ ان کے ہاں جو کیف و مستی جوشِ جنوں اور ناز و انداز ہے وہ متاثر کن ہے۔ ظہور احمد فاتح کی یہ بھی خوبی ہے کہ انہوں نے زندگی بھر اپنے دکھوں اور غموں کو بھلانے کے لیے ساغر و مینا کی بات تو کی ہے مگر سہار انہیں لیا۔ چند شعر دیکھیے   ؎

وہ پاؤں چھونے کیلئے بچھ بچھ گئے گلاب

ان  کا  خرامِ ناز  تھا  رقصِ صبا  نہ  تھا

 

ڈھلتا ہوا عارض پہ یہ آنسو نہیں میں ہوں

اے جانِ وفا آج حزیں تُو نہیں میں ہوں

 

بن کے آنسو تیری پلکوں پہ اگر میں چمکوں

مثلِ شبنم گلِ عارض پہ سجا دے مجھ کو

 

انہیں ساز کہیں مضراب کہیں مطرب سمجھیں کہ رباب کہیں

ہیں شہد سے بھی بڑھ کر میٹھے یہ دلکش ہونٹ رسیلے

 

کیا سخن میں لائیں گے وہ حضرتِ فاتح کی تاب

شعر کہتے ہیں جو پی کے جامِ بادہ صبح و شام

اس طرح زلفِ عنبریں اور رشکِ گل بھی رومانویت کے حوالے سے عمدہ نظمیں ہیں۔ اپنی ایک اور نظم پیغام میں ستاروں کی معرفت اپنے احساسات کا اظہار یوں کیا ہے   ؎

میرا مہناز جو تم سے حسیں ہے

اسے تکلیف تو کوئی نہیں ہے

٭

جو ممکن ہو کرو اس کو اشارہ

خدارا اپنے فاتح کی خبر لے

ہماری کلاسیکی شاعری میں جو عشق کارفرما نظر آتا ہے اس میں ہجر و وصال سے پیدا ہونے والی کیفیات میں آہ و فغاں، رونا دھونا، اشکوں سے منہ دھونا واضح ہیں۔ جو قنوطیت کے ساماں پیدا کرتا ہے جس کی واضح مثال میر تقی میر کی ہے۔ میر کی طرح ظہور احمد فاتح بھی عشق کے جان لیوا مراحل سے گزرے جس کا ہر شعر غم و اندوہ میں ڈوبا نظر آتا ہے اس لیے رنجِ ہجراں، کنجِ عزلت، موصوف کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے جس نے ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اس لیے میر کی روح یوں بول اٹھتی ہے   ؎

میر کی روح بھی کہتی ہے واہ واہ فاتح

تیرے اشعار کو ہر اک نے سراہا ہو گا

کیونکہ ظہور احمد فاتح سچے عاشق ہی نہیں بلکہ خود کو سلطانِ عاشقین بھی سمجھتے ہیں۔ جن کے من میں صوفی چھپا بیٹھا ہے۔ موصوف بھی ان صوفیا کے گروہ میں شامل ہیں جو عشقِ  مجازی کو عشق حقیقی کا زینہ سمجھتے ہیں جو صلیب کو خوشی سے گلے لگاتے ہیں۔ جس کی روشن مثال منصور حلاج کی ہے۔ ظہور احمد فاتح بھی طوقِ  عشق پر ناز ہی نہیں کرتے بلکہ عقل و خرد کو چھوڑ کر جنوں میں محبوبِ  حقیقی کا وصال چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کا شمار ایسے ویسے عاشقوں میں نہیں وہ تو خود کو دانائے کل کا چیلا سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی حمدیہ، نعتیہ اور غزلیہ شاعری میں قرآنی تعلیمات اور اسوہ رسول ﷺ پر عمل کرنے پر زور دیتے ہیں   ؎

ہم زمانے میں کریں جھنڈا بلند اسلام کا

بول بالا ہو ہمارے دم سے تیرے نام کا

 

موڑ دیں ہم قوتِ بازو سے رخ آلام کا

کھول دے دروازہ ہم پر رحمت و انعام کا

 

کر قبول اے میرے اللہ!یہ دعائے اشک بار

ظہور احمد فاتح اقبال کے افکار و نظریات سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں اس لیے عالم اسلام کی بے حسی اور ان کو مسائل کی خندق میں کراہتے دیکھ کر پریشان ہی نہیں بلکہ اپنی نظم ’’مقام افسوس، میں ان کو طنزیہ انداز میں یوں کہتے ہیں کہ تم دنیا کی رعنائیوں میں کھو گئے ہو زباں پر خدا اوررسول ﷺ کا نام ہے مگر اطوار و کردار درندوں جیسے ہیں۔ چند شعر دیکھیے   ؎

اے مسلماں !اب مسلمانی پہ تو اتنا نہ پھول

آہ! تو نے توڑ ڈالے دینِ حق کے سب اصول

 

اب کہاں کرتا ہے تو تعمیلِ احکامِ خدا

اب کہاں ہے تیرے دل میں جلوہ گر حبِ رسولؐ

٭

آج ہے موجود تجھ میں دہر کا ہر ایک عیب

آج اپنایا ہوا ہے تو نے ہر شغلِ فضول

 

تیرا ہر اک فعل ہے جب حکمِ یزداں کے خلاف

کیسے ہوسکتا ہے تجھ پر اس کی رحمت کا نزول

ایک اور نظم ’’سیر دنیا، میں اپنے احساس کا یوں اظہار کرتے ہیں کہ یہاں ہر اک کا دل گناہوں سے سیاہ ہو چکا ہے۔

کوئی منزل سے نا آشنا ہے تو کوئی گردِ سفر میں گم یہاں کسی کو فکرِ  آخرت نہیں ہیں۔ دو شعر دیکھیے   ؎

نہیں کسی کو غمِ قیامت، نہ اپنے عصیاں پہ کچھ ندامت

جسے بھی میں نے جہاں میں دیکھا، اسی کو محو گناہ پایا

 

بنے ہیں شیطان کے اطاعت گزار اہلِ زمانہ اکثر

اسی کے نائب کو میں نے اہلِ  جہاں کا سربراہ پایا

ظہور احمد فاتح نے اپنی نظم ’’قائد اعظم، میں اس کے لازوال کردار کو نہ صرف خراج تحسین پیش کیا ہے بلکہ اربابِ  سیاست پر طنز بھی کیا ہے کہ سب رہنما کے روپ میں لٹیرے نکلے ہیں اور قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے نہ صرف لوٹا ہے بلکہ تعیش پرستی میں مغل شہزادوں کی یاد بھی تازہ کر دی ہے اور وطن کی سالمیت کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ موصوف کی یہ تمنا ہے کہ کوئی ثانی ء قائد آئے اور وطن کو داخلی اور خارجی مسائل کی دلدل سے نکال کر اپنا تاریخی کردار ادا کرے۔ اس لیے وہ اپنی نظم ’’تجدید عہد، میں وقت کے حکمرانوں اور اہلِ  وطن کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ احکامِ  خدا اور اسوہ رسول ؐ پر عمل کریں تاکہ ہمارے دل ایمان سے منور ہوں اور اپنے حسن عمل سے د و سروں کو متاثر کریں تاکہ کفر و شرک اور بدکاری کا خاتمہ ہو۔ ظہور احمد فاتح نے اسلامی جمعیت طلباء کے نام نیک تمناؤں کا اظہار یوں کیا ہے   ؎

اے میری جمعیت حق طلباء کا کارواں

بخش دے اللہ تجھے اک زندگی جاوداں

 

نیک ہیں تیرے مقاصد تیرا نصب العین پاک

دعوت حق کیلئے ہی وقف ہے تیری زباں

 

تیری کوشش ہے کہ اسلامی نظامِ  علم ہو

بے حیائی سے رہیں محفوظ مسلم نوجواں

ظہور احمد فاتح نوجوانوں کے لیے بھی فکرمند ہیں کیونکہ وہ کسی بھی قوم کا سرمایہ حیات ہوتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے موجودہ خونچکاں حالات کے تناظر میں نوجوانانِ وطن کو محنت کا احساس دلایا ہے تاکہ وہ اچھے انسان بن کر ملک و قوم کے لیے تاریخی کردار ادا کرسکیں   ؎

ایک کر دو  گے پڑھائی میں اگر لیل و نہار

تو سنہری کامیابی کا کرو گے انتظار

٭

ہر جگہ پر آپ کا چرچا بپا ہو جائے گا

نام روشن آپ کے ماں باپ کا ہو جائے گا

٭

کامیابی کیلئے تم رات دن محنت کرو

غفلتوں سے باز آؤ سستیاں رخصت کرو

ظہور احمد فاتح شعورو ادراک رکھنے والے حساس شاعر ہی نہیں بلکہ وہ محبت کے سفیر بھی ہیں جو انسانی اتحادو یگانگت کے لیے بے حد ضروری سمجھتے ہیں۔ شعر دیکھیے   ؎

زمانہ فاتح یہ جانتا ہے عدو بھی یہ بات مانتا ہے

محبتوں کے سفیر ہم ہیں محبتیں بانٹتے رہیں گے

وہ ارد گرد کے ماحول سے بے خبر نہیں بلکہ زندگی کے دیگر موضوعات کو بھی اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ وہ مصلح کے روپ میں کاہلوں کو کام کا خوگر بنانا، غافلوں کو خوابِ  غفلت سے جگانا اور نورِ  تیقن سے ظلمت اوہام و خرافات مٹانے کا احساس بھی دلاتے ہیں جو مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ ظہور احمد فاتح کی شاعری میں سوز و گداز، سلاست و روانی، المیہ پن، موسیقیت، جدت، طنزیہ و طربیہ انداز اور رجائیت کا بھرپور تاثر ملتا ہے۔

٭٭٭

 

 

؂

آفاقی قدروں کا امیں -ارشاد تونسوی

 

بیسویں صدی کو انقلابی اور جدید شاعری کی صدی کہا جاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک میں اس رجحان کو بے حد وقعت ملی، ن، م راشد، علی سردار جعفری، فیض احمد فیض، مجاز، جاں نثار اختر، احمد ندیم قاسمی، ساحرلدھیانوی، حمایت علی شاعر، عارف عبدالمتین وغیرہ نے نئے نئے نہ صرف تجربے کیے بلکہ داخلی و خارجی معاملات کو موضوع بنا کر نظم کا فکرو معنی سے دامن بھر دیا۔

سرائیکی ادب بھی اس تحریک سے بے حد متاثر ہوا، اگر چہ سرائیکی علاقائی زبان ہے مگر فصاحت و بلاغت میں کسی زبان سے پیچھے نہیں ہے۔ اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو اس کا شعری ادب، عالمی شعری ادب کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ سرائیکی کے ایسے عظیم شعرا ء بھی ہیں جو عالمی ادبیات، سیاسیات اور معاشیات کا نہ صرف گہرا مطالعہ رکھتے ہیں بلکہ ان کی شاعری آفاقی قدروں کی امیں بھی ہے۔ ان میں ایک معتبر نام ارشاد تونسوی کا بھی ہے جو 15اکتوبر 1946ء کو تونسہ شریف میں پیدا ہوئے۔ میٹرک ہائی سکول تونسہ سے کیا، ایف۔ اے، بی۔ اے گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازیخان سے کئے، اور ایم۔ اے ہسٹری 1968ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔ پھر بطور ڈسٹرک منیجر اوقاف میں ملازمت کا آغاز کیا اور مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو گئے۔ آج کل بہاول پور میں مقیم ہیں اور سرائیکی ادب کی خدمت کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔

ارشا دتونسوی ایک سچے، کھرے تخلیق کار ہیں اور آرنلڈ کے مقولے پر پورا اترتے ہیں کہ ’’فن میں بے ایمانی اور منافقت نہیں چلتی، یہی وجہ ہے کہ موصوف نے اپنے شعری مجموعہ ’’ ندی ناں سنجوک‘‘کا انتساب اس عظیم علمی و ادبی شخصیت جاوید اختر بھٹی کے نام کیا ہے۔ جس نے منافقت اور موقع پرستی کے خلاف لکھتے لکھتے عمر گزار دی ہے۔ جسے سرائیکی ریسرچ سینٹر بہأ الدین زکریایونیورسٹی ملتان نے 2006ء کو شائع کیا تھا۔

ارشاد تونسوی کے ندرتِ خیالات کے حامل اس فکر انگیز شعری مجموعہ کو صدارتی ایوار ڈ بھی مل چکا ہے، اور ڈاکٹر انوار احمد جیسے کھرے نقاد اور خوبصورت انسان نے موصوف کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف بھی دل کھول کر کیا ہے۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر تصوف کی سرزمین ہے۔ اس حوالے سے صوفیائے کرام نے اپنی تعلیمات، افکار و نظریات کو عام کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ارشاد تونسوی اس دھرتی کا عظیم سپوت ہی نہیں بلکہ ان کے سرپر اس عظیم صوفی شاعر خواجہ فریدؒ کا سایہ ہمایوں بھی ہے جس نے سامراجی دور میں بڑی جراءت سے یہ کہا تھا کہ ’’پٹ انگریزی تھانے،

ارشاد تونسوی کی نظم’’ پیر فرید، کا درمیانی حصہ نذرِ قارئین ہے جس میں شاعر تنہا خونچکاں حال میں درخشاں ماضی کی نہ صرف تمنا کرتے ہیں بلکہ ماضی کی عظیم ہستیوں کو یاد بھی کرتے ہیں۔ یہ وہ احساس تنہائی ہے جو شاعر کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے :

میں سوچاں میں ہکو کلھا

نہ میں پار تیں نہ اروار

نہ ماضی نہ حال

نہ ورڈر زورتھ نہ شیلے

نہ غالب نہ بھگت کبیر

نہ مومن نہ میر

نہ لندن نہ دلی میڈی

نہ کابل قندھار

میں اروار نہ پار

میں دریا دی من ط تے کھڑا

پچھلے ویلے گولاں

مگر پھر بھی وہ اپنے وسیب کے حوالے سے دنیا میں عیسیٰ کے پیرو بن کر اپنا تاریخ ساز کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، مظلوم طبقہ میں حریت فکر کا احساس جگانا چاہتے ہیں اور انسانی سماج میں تشخص برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ ہمہ قسمی استحصال سے بچا جا سکے۔ ان کی یہ نظم ’’عیسیٰ، موجودہ خونچکاں عہد کا نوحہ ہے :

ہر پاسے بے رحم صلیباں

ہرپاسے انط سونہے لوک

میڈے چار چدھارہن ا سریاں

میڈی بے وسی دیاں کندھاں

میں جیں پاسے دید بھنوینداں

موت دی کالی چادر ڈیہداں

چپ دا تار سمندر ڈیہداں

میں ہاں چیر تے سڈ مرینداں

کہیں پاسوں نہیں ولدا آندا

میڈے دشمن میڈے جائے

میڈے دشمن حق ہمسائے

میکوں آہدن تومجرم ہیں

کالی گھپ اندھاری رات اِچ

توں ماچس دی تیلی بال تیں سگریٹ لیندیں

توں عیسیٰ ہیں

ارشاد تونسوی کی شاعری فکر کا گہرا سمند رہے۔ اس لیے وہ معانی کے لعل و جواہر تلاش کرنے کے لیے قاری کو غواص دیکھنا چاہتے ہیں اس سے پہلے مارکسی دانشور اور انقلابی شاعر ڈاکٹر خیال امروہوی نے یوں کہا تھا   ؎

مشکل نہیں ایسا مرے لہجے کو سمجھنا

ہے شرط زمانہ میرے معیار تک آئے

عدم صورت میں سنگریزوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ارشاد تونسوی سچے اور کھرے انسان دوست شاعر ہیں ان کی شاعری تلخ حقائق کی آئینہ دار اور مصلحت پسندی سے پاک ہے۔ جس طرح دِلّتی شاعر ارجن ڈانکے نے اپنی انقلابی شاعری سے مجبور و مقہور طبقہ کاسیاسی سماجی شعور بیدار کر کے استحصالی طبقہ کے خلاف لا کھڑا کیا تھا۔ اسی طرح ارشاد تونسوی کی نظم’’ تریجھی دنیا دے لوک‘‘ کا بغور مطالعہ کریں تو تیسری دنیا کے داخلی و خارجی مسائل کو وسیبی علامات سے اجاگر کرنے کی کو شش کی گئی ہے اور استعماری قوتوں کے پنجۂ استحصال سے نکلنے کا احساس بھی دلایا ہے۔ اس حوالے سے نظم ’’تیسری دنیا دے لوک، دیکھیے   ؎

اساں آٹے لبڑیئے چوہے

اساں ونج لکئے مسوان ط

اساں پیٹ پلمے پئے کے

تے ڈیکھوں ترت اسمان

اساں ٹوبھے لدھڑ بن گئے

ساڈیاں اکھیں کڈھ گئے کاں

اساں منجھوں ننگے ٹر پئے

تے بھل گئے اپنا ناں

ساڈے ادھم سمے سُک گئے

ساڈے سینے وسمی بھا

ساڈے اتوں پانی ویہہ گیا

تے اندروں سک گئے گھا

اساں ہک واری ول جمدے

پر کینکوں آہدے ما

ارشاد تونسو ی کی شاعری میں تفکر و تعقل ہی نہیں بلکہ روح عصر بھی ہے اس لیے ان کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کی زندگی بھر خواہش رہی کہ مجبور و مقہور انسانوں کا سیاسی، سماجی شعور بیدار ہو تاکہ وہ سب دیواریں گرا کر باہر نکلیں اور  سکھ کا سانس لیں مگر ایسا نہ ہوسکا کیوں کہ وہ مقدر کی بھنگ پی کر نئی رت کے خواب دیکھتے رہے اور دیواریں مضبوط ہوتی رہیں۔ اس المیے کو شاعر نے یوں نظم کا روپ دیا ہے :

کندھاں ڈہن تاں رستے بنسن

کندھاں کون ڈھہاوے

اوجیڑھے اپنیط اپنیط کھڈیں وچ وڑ کے

رت بدلنط دی تانگھ وچ بیٹھے

جالے ونڈے رہ گئے

مکڑی انگوں جالیں دے وچ پھس گئے

باہر نہ آئے

یا او جنہاں پکے پھل تے وٹا مار نط دا وی آہر نہ کیتا

جھری ٹنگڑی ڈیکھ تے ہیٹھوں بہہ گئے

سوچنط لگے پکا پھل اے آخر ڈھہسی

رُت بدلی تاں کندھاں بیاں اچاں تھیساں

درختیں نویں کنڈے چائے

ارشاد تونسوی حقوق نسواں کے علم بردار بھی نظر آتے ہیں ان کو اس بات کا دکھ ہے کہ یونانی، رومی، مصری، ہندی، یہودی، عیسائی اور عربی معاشروں میں عورت سماجی حقوق سے محروم رہی ہے۔ اسلام نے عورت کو معاشرے میں با عزت مقام دیا لیکن مذہبی اجارہ داروں نے عورت کی سماجی حیثیت کو قبول نہ کیا وطن عزیز میں عورتوں کے ساتھ بھیانک سلوک دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس حوالے سے ارشادتونسوی کی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کہی گئی د و نظمیں ان کے ارمانوں کا نوحہ ہیں۔ کیونکہ مردوں کے اس بے رحم معاشرے میں ان کی چیخیں شگفتہ قہقہوں میں دب گئی ہیں۔ نظم دیکھیے   ؎

بابل تیں توں کجھ نئیں منگدے

نہ گھر بار نہ کنت نہ ڈھول

ساکوں ساڈے پیر ولا ڈے

ساڈے پیریں جھانجھر پاڈے

ہک واری ول ٹرن سکھا ڈے

اس کے علاوہ چوڑھیں کا گاون، کوئی خبر نئیں، کانفرنس ہونون دی آس، کویتا اور پہلے بھوئیں انب دے ویلھے، نظمیں اچھوتی اور فکر انگیز ہیں۔

مختصر ارشاد تونسوی کی شاعری تشبیہ و استعارے، علامات و تمثیلات اور محاورات سے مرصع ہے۔ ان کی شاعری میں تازگی بھی ہے اور جدت بھی، بے ساختگی بھی ہے شائستگی اور کلاسکیت بھی۔ اس لیے جمالیاتی پن نمایاں ہے۔ ان کے لہجے میں کھردرا پن نہیں بلکہ نفاست و لطافت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فکرو فن کے حوالے سے اور  شعور ی طورپر ان کی شاعری درجۂ کمال پر ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

سچے جذبوں کا شاعر -نذیر قیصرانی

 

 

ہمیں گنوا نہ زمانے تیرا اثاثہ ہیں

ہم ایسے لوگ بہت کم جہاں میں آتے ہیں

٭

افسوس کہ سمجھا نہ ہمیں اہلِ نظر نے

ہم وقت کی زنبیل میں ہیروں کی طر ح تھے

یہ دو شعر نذیر قیصرانی کے بے ساختہ جذبات و احساسات کے آئینہ دار ہی نہیں بلکہ یہ اس المیہ کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں کہ جہاں ہماری سوسائٹی جہالت پرستی کے فروغ کے لیے تن من دھن قربان کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آ ج دنیا میں جہالت سے پھوٹنے والی اقدار کا تسلط ہی نہیں بلکہ انسان سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ تو ایسے پراگندہ ماحول میں حکیم فقیر محمد کے گھر ایک بچے نذر محمد نے 24جون 1941ء کو قصبہ لکھانی وہوا تحصیل تونسہ میں آنکھ کھولی۔ وہیں سے میٹرک اور ایف۔ اے کیا۔ پھر وطن کی خدمت کے جذبوں سے سرشار پاک آرمی میں چلے گئے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس کے ساتھ ساتھ نذیر قیصرانی کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا تو لوگ نذر محمد کو ہمیشہ کے لیے بھول گئے، اور اپنے تلخ تجربات، مشاہدات، مجبوریوں، محرومیوں کا ایسا بھرپور اظہار کیا، تو اس کی بغاوت کی للکارنے وہوا کے وڈیروں، سیاسی اجارہ داروں کا جینا حرام کر دیا جو لات و منات کی شکل میں مفلسوں کا خون چوس رہے تھے۔ اس لیے نذیر قیصرانی نے مقہور طبقے کے فکر و شعور کو بیدار کرنا مناسب سمجھا۔ دو شعر دیکھیے   ؎

امیرِ شہر کا چہرہ اداس لگتا ہے

کسی غریب کے بچے نے پڑھ لیا ہو گا

٭

نذیر حلقۂ لات و منات میں رہ کر

ہر اک بت سے بغاوت بڑی عبادت ہے

وہ بنیادی طور پر درد مند انسان تھے۔ اس لیے ملازمت کے بعد سماجی کاموں میں لازوال کردار ادا کیا۔

نذیر قیصرانی پیشے کے اعتبار سے طبیب ہی نہ تھے بلکہ خوش گفتار، پاکیزہ اطوار، دیانتدار اور فرض شناس بھی تھے۔ اس لیے اہل وہوا کے لیے مسیحا سے کم نہ تھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ا س نے کسی سے اصلاح نہ لی، اپنی فطری صلاحیتیوں کو راہبر بنایا اور بڑے اعتماد سے چونکا دینے والی شاعری کی۔ البتہ ہدایت اللہ فکر جو اس زمانے کے گریجوایٹ تھے، اور وہوا سکول کے اولین اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ وہ شاعر تو نہیں تھے مگر شعری رموز سے واقف ضرور تھے۔ اس لیے نذیر قیصرانی اسے اپنی شاعری سنایا کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے دو شعری مجموعے ’’موسمِ گل تو استعارہ ہے، اور ’’بارش تو ہو، یکے بعد دیگرے منظر عام پر آئے تو ادبی حلقوں میں نہ صرف تہلکہ مچا دیا بلکہ نذیر قیصرانی نے ایسے دلکش اسلوب سے زندگی کی تفسیر کی تو اس کے شاعرانہ کمال کا بڑے بڑے شاعروں کو اعتراف کرنا پڑا۔ وہ علامہ اقبال، رشید قیصرانی اور محسن نقوی سے بے حد متاثر تھے۔ نذیر قیصرانی کا سعادت مند بیٹا ڈاکٹر عزیز احمد قیصرانی جو وہوا کی ہر دلعزیز شخصیت ہی نہیں بلکہ ادب دوست بھی ہے وہ اپنے والد کی طرح دکھی انسانیت کی خدمت کو عبادت سمجھتا ہے۔ اس نے مجھے نذیر قیصرانی کا تیسرا شعری مجموعہ ’’اپنا درد سلامت رکھنا، عنایت کیا جو معروف دانشور، نقاد اور یاروں کے یار حفیظ الرحمن خان کے تعاون سے حال ہی میں چھپا ہے اس کے مطالعے سے جو بات سامنے آتی ہے اس نے اپنی ہی شاعری کو قدیم و جدید رنگوں سے مزین کر کے تغزل کو برقرار رکھا۔ اس نے موجودہ سیاسی سماجی، معاشرتی اور معاشی تناظر میں جاندار شعر کہے۔ انسان سے محبت کے نغمے بھی گنگنائے وہ محب وطن بھی تھے اس لیے ملکی داخلی و خارجی مسائل کا حل مثبت اقدار سے چاہتے تھے۔ اس کی شاعری میں جدت، حسنِ بیاں، حسنِ خیال، تشبیہ و استعارات، بندشِ الفاظ، ندرتِ مضامین، فنی نزاکت و لطافت جیسی خوبیاں واضح نظر آتی ہیں۔ نمونہ کے طور پر منتخب اشعار ملاحظہ کیجیے   ؎

راستوں سے راستے نکلے، سفر کھلتے گئے

جب مسافر چل پڑے تو بحر و بر کھلتے گئے

٭

وہ دن کے اجالے کا بھی حقدار نہیں ہے

جو رات کے سینے میں سَحر بو نہیں سکتا

٭

ہر آنکھ پر آشوب ہے ہر گھر صفِ ماتم

اور جبر کچھ ایسا کہ کوئی رو نہیں سکتا

٭

جسے میں چشمِ تصور میں عکس کر بیٹھا

وہ ایک پردہ نشیں تھا خبر نہ تھی مجھ کو

٭

دو گھونٹ جن کو مل گئے تیرے ایاغ سے

وہ  سرمد و خیام  سے  آگے  نکل  گئے

٭

دھوپ اپنی ہے نہ اس شہر میں سائے اپنے

ہم نے خیمے بھی کہاں آ کے لگائے اپنے

٭

مسجدیں تو ویراں تھیں میکدے بھی اجڑے ہیں

رند ہیں نہ ساقی ہے جام ہیں نہ بادہ ہے

٭

بڑھ جائے گی رنگینی شب اور زیادہ

مہماں کوئی مہمان کرو موسم گل ہے

٭

کتنا سستا ہے انسانیت کا لہو

کتنی تیزی سیاست کے بھاؤ میں ہے

٭

کل اس کے جواں ہاتھ میں ہتھیار تو ہو گا

جس طفلک معصوم کو بستہ نہیں ملتا

٭

میں آج بھی اک دشتِ  تمدن میں کھڑا ہوں

منزل تو بڑی بات ہے رستہ نہیں ملتا

وہ اتنے بڑے شاعر ہو کر بھی زندگی بھر مشاعروں میں شرکت نہ کی بلکہ گوشہ نشینی میں اپنی عافیت محسوس کی۔ اس کے نزدیک آج کل کے مشاعروں میں تربیت کے بجائے تخریب کے ساماں ہوتے ہیں۔ خود نمائی اور خودستائی کو فروغ ملتا ہے، اس لیے نذیر قیصرانی نے ایک مشاعرے کا دعوت نامہ ملنے پر نہ صرف معذرت کی تھی بلکہ ایک نظم کہہ کر اپنے بے ساختہ جذبات و احساسات کا ا ظہار بھی کیا تھا۔ اس حوالے سے نظم کے چند اشعار دیکھیے   ؎

نشانِ حسرت و غم  ہوں چھپا ہی رہنے  دو

مجھے خدا کے لیے کم نما ہی رہنے دو

٭

دلوں سے دور زمانے کی آنکھ سے اوجھل

میں جس گلی میں پڑا ہوں پڑا ہی رہنے دو

٭

مجھے نہ دادوستائش سے خوش کرو یارو

دریدہ تن ہوں دریدہ قبا ہی رہنے دو

٭

تمہارے پاس تو شمس و قمر بھی وافر ہیں

جو بجھ گیا ہے دیا، بجھا ہی رہنے دو

اس طرح نذیر قیصرانی نے اپنی نظم ’’مہمان، میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں پر گہرا طنز کیا ہے کہ جس نے اپنے مفادات کے کشکول بھرنے کے لیے تیسری دنیا خاص طور پر مسلم ممالک کو اپنے پنجہ استحصال میں نہ صرف جکڑ رکھا ہے بلکہ ہر طرف لاشوں کے انبار بھی لگا رہا ہے، تعجب کی بات ہے کہ امن عالم کا دعویدار بھی ہے۔ نظم دیکھیے :

اک حسینہ۔ حسینۂ عالم

سرپہ چنری سفید ململ کی

زیب تن سرخ چھینٹ کا جوڑا

عنبریں زلف، نیلگوں آنکھیں

سرخ پکے انار سا چہرہ

لب رسیلے شراب سی باتیں

پھول سے لفظ ریشمی لہجہ

قد و قامت کسی قیامت کی

چال بے ساختہ غزالوں سی

ہر نظر میں شرارتیں رقصاں

ہر ادا میں سپردگی پنہاں

ہائے کس شانِ دلربائی سے

وہ رہی ویت نام پر مائل

اور کبھی مہرباں فلسطیں پر

جس کے ممنون بصرہ بغداد

جس کا احسان مند بوسنیا

جس کو پیارے ہیں کابل و کشمیر

اک حسینہ، حسینہ عالم

سرپہ چنری سفید ململ کی

زیب تن سرخ چھینٹ کا جوڑا

پاؤں میں تل ابیب کی پائل

ہاتھ میں ڈالروں کا گلدستہ

جیب میں میری موت کا فرمان

’’کوئی سچا شعر کہو، نظم میں شعرا ء کو ا س بات کا احساس دلایا ہے کہ گل و بلبل اور لب و رخسار کی باتیں کرنے کے بجائے حوصلوں اور ولولوں کو  گرانے کی شاعری کرو جو شبِ سیاہ کا سینہ چیر کر نئی سحر کا پیام دے۔ نظم دیکھیے :

سورج بھی جب کالا ہو

کالی کرنیں تاریکی کے جال بنیں

چاروں اور ہو قبضہ کالی قبروں کا

رات بھی ڈھل کر اور اندھیر ی رات جنے

چاند ستارے جگنوسارے

ظلمت کا پرچار کریں

دیپ بیچارے دفن ہوں اپنی کالک میں

ایسے میں ایک سچا شعر اجالا دے

کوئی سچاشعر کہو

نذیر قیصرانی کو آخری عمر میں جگر کا کینسر ہو گیا تھا۔ آغا خان ہسپتال کراچی تک علاج کرایا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آخر 3اکتوبر 2010ء میں اہل وہوا ہیرے کی چمک دمک سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کلہی کونج اور اقبال نصرت تونسوی

 

’’کلہی کونج، اقبال نصرت کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس میں عزیز شاہد، آزردہ درانی، مصطفی خادم اور سرور کربلائی جیسے نامور شعرا ء کے گراں قدر مضامین شامل ہیں جو اس کی شاعرانہ عظمت کا واضح اعتراف ہیں۔ سن اشاعت درج نہیں ہے البتہ وہ 1957ء میں درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ اقبال سوکڑی سے متاثر ہو کر شاعری شروع کی، اور پہلا گیت جس کا پہلا مصرعہ یہ تھا ’’پردیس تیکوں بھاط ناں ’’کہہ کر سرائیکی وسیب میں بطور شاعر مشہور ہوئے۔ اس کی پرورشِ  لوح و قلم میں استاد اللہ نواز شیرانی اور استاد فدا حسین تونسوی کا بڑا ہاتھ تھا۔ بچپن میں یتیم ہو گئے تھے یتیمی کا احساس اپنوں کی بے اعتنائی اور زمانے کے ناروا سلوک نے اسے تنہائی کا احساس دلایا جو کلہی کونج کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ وہ فلسفہ بیگانگی ہے جو معاشی عدم مساوات سے پھوٹتا ہے۔ جس سے انسان اپنے مذہب، تہذیب و ثقافت اور اپنی ذات سے کٹ جاتا ہے۔ شاعر بھی اسی خوفناک کیفیت میں مبتلا رہا، اس کی تصویر دیکھ کر تو مجھے بے ساختہ ساغر صدیقی یاد آ گئے، تصویر کے نیچے درج یہ شعراس کی دکھ بھری زندگی کا آئینہ دار لگتا ہے   ؎

ساری عمرہ رہ گئی سک سڑکدی

کاش ہوندے اپنڑیں غیریں جھئیں

وہ ایک بالغ نظر شاعر تھے اسے ظالمانہ نظام زندگی سے پیدا ہونے والے انسانی رویوں نے پریشان کیے رکھا   ؎

ذرا ہولیں الاوو لوک چندنط

کتھئیں نہ ڈکھ سناطؤ لوک چندنط

الاون جرم ہے مظلوم کیتے

میڈے  بھولے  بھراؤ  لوک  چندنط

اس کثیف ماحول میں بھی اقبال نصرت وسیب کے لوگوں کو ہمدردی اور مشکل وقت میں کام آنے کا احساس دلاتے رہے   ؎

ڈکھیں نال الاونط سکھو

ڈکھ دا حال ونڈاونط سکھو

کہیں دے تھی کے راہوو یارو

کہیں دے کہیں کم آونط سکھو

اقبال نصرت نے سرائیکی وسیب کے دیگر شعراء کی طرح عورت کی زبان میں دوہے بھی کہے ہیں جو اس کے بے ساختہ جذبات و احساسات کے ترجمان ہیں دو دوہے دیکھیے   ؎

ہک رسن تیڈا نمی سہہ سگدی بیا ہر شئے چن سِراکھیاں تے

تیڈے  ناز کھڈیساں ڈھاک تے چا پئے  لسنط   ونجن  توڑے  وکھیاں  تے

 

اویں تانگھ ئِ اکھیاں راہ تے ہن کر ترس اکھیں راہ رکھیاں تے

سجھ بھا ہ بنط گئے آچھاں کر چن سجھ سڑیاں تے بھا پکھیاں تے

٭

جند لب تے ہم پر چپ کر کے ودی درد سہاں متاں رس پووے

نت جھنکاطں جھل نت غوزاں پی نہ لب چولاں متاں رس پووے

 

ہرگال تے ضدہر عرض تے نہ نمی گھندی ناں متاں رس پووے

رٹھا نصرت ڈھول میں مر پوساں میں ڈردی ہاں متاں رس پووے

اقبال نصرت نے اپنی نظموں میں طبقاتی نظام کے خلاف آواز بھی اٹھائی جس سے غریب طبقہ تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتا ہے وہ وقت کے وڈیروں، سرداروں کا غلام رہ کر سانس لینے پہ مجبور ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقبال نصرت غریب طبقہ کے فکرو شعور کو بیدار کرتے اسے نئے عزم سے جینے کا حوصلہ دیتے لیکن اس نے مجبور ہو کر اپنی نظم ’’خبر لیندا نہیں کوئی، میں خدا سے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار یوں کیا ہے   ؎

اے کیا سنگت بنائی ہئی غریبیں تے صلیبیں دی

کتھائیں انج وسا دھرتی میڈا ربا غریبیں دی

 

ساڈے کیتے تیڈی دھرتی تے نت ڈکھ دے پچھاویں ہن

ساڈے کیتے اندھاریاں ہن ساڈے کیتے ننانویں ہن

 

ساڈا مقسوم ماریا ہوئے ساڈے منحوس نانویں ہن

ساڈے سر تے تتی دھپ ئِ ساڈے کیتے کناط نویں ہن

 

تے ماریئے مال دے وانگوں ساڈے گل کئی گلاویں ہن

خبر   لہند ا  نہیں  کئی  اساں جھئیں بد نصیبیں دی

 

اساں جیندے محلیں دیاں سد ا رکھیاں رکھیندے ہیں

اساں جیہڑے ایریں دیاں سد ا عزتاں کریندے ہیں

 

اساں جیہڑے رئیسیں دیاں سدا جتیاں جڑیندے ہیں

اساں جیہڑے نوابیں دیاں سدا کاریں دھویندے ہیں

 

اساں اجرت نسے گھندے تے گل دی رت چا ڈیندے ہیں

کہیں اج تائیں نہیں پچھی ساڈیں ماریں نصیبیں دی

ساڈی غربت تے ٹوکاں ہن مذاقاں ہن تے ہاسے ہن

ساڈی اولاد بھکی ہے ساڈے بچے پیاسے ہن

 

ا تھاں سچ کوڑ دا ناں ہے ا تھاں ہاسے دے پھاسے ہن

ا تھاں دِلیں تے زنگ آ گئے ا تھاں متھے دے گاسے ہن

 

نہ حاکم دیاں تسلیاں ہن نہ راہبر دے دلاسے ہن

ڈراکل شکل ہے نصرت حکیمیں دی طبیبیں دی

لیکن اقبال نصرت کی’’ اُٹھ (اونٹ) اور کتا، اپنے طرز کی اچھوتی نظمیں ہیں جو انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں۔

کسی صوفی بزرگ کا کہنا ہے کہ کتا وفادار، صابر شاکر، شب بیدار اور قناعت پسند ہوتا ہے لیکن یہ چار خوبیاں انسان میں نظر نہیں آتیں اس کے باوجود وہ افضل ہے۔ حیرت کی بات ہے اس لیے یہ نظم نذرِ  قارئین ہے اسے تعصب کی عینک اتار کر پڑھیے اور  سوچئے کیا انسان نے اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے اپنے مالک کو بھلا نہیں دیا   ؎

رات گزردی رہ گئی پوہ دی

ڈینہہ تھیو نط تے آیا

ہک آوازہ

بھوں، بھوں، بھوں دا وچ فضا دے ریہا

اے مالک دا مخلص راکھا

ایکوں کتا آہدن

ایندے پیار دے قصے پڑھوں

ایند ی پریت دیاں گالہیں سنوطں

دل آہداہے ایویں کروں

عزت کروں جے تائیں جیوے

ٹرونجے تاں ماتم کروں

ایندا ہک مزار بناطؤں

ایندے پیار دی پوجا کروں

ایکوں ول کتا نہ آکھوں

کتے کوں کتا چا آکھوں

اقبال نصرت نے دیگر شعراء کی طرح کافیاں بھی کہی ہیں لیکن ان کی اٹھارہ کافیوں میں تصوف کا رنگ نظر نہیں آتا بلکہ مردوں کے اس بے رحم معاشرے میں عورتوں کی چیخیں بھی سنائی نہیں دیتیں۔ اقبال نصرت کی ہرکافی عورتوں کی حالت زار کی غمازہے۔ اس نے سرائیکی الفاظ و محاورات کا استعمال بھی خوب کیا۔ اس کا اسلوب سادہ مگر پر درد ہے۔ یہ کافی تو عورتوں کے ارمانوں کا نوحہ ہے   ؎

جمدیوں دائی گھت درد دی گھٹی

ماتجویز کیتم سکھ لُٹی

نہ کہیں تلک تلولا لائم

نہ کہیں بدھڑاں بدھ سملائم

نہ کہیں جھولی پا کھڈلائم

ہک ہک دے تک منہد و ہُٹی

 

نہ گل ہار حمیلاں پائم

نہ پازیب ان وٹ ہنڈائم

چارے کر کر کن سوائم

بھل ہاں اج تائیں کنوں بُٹی

نت نویں سرآفت کڑکیم

نہ ہتھ ونگ سہاگ دی کھڑکیم

بے واہی تھی لِٹ لِٹ لڑکیم

ڈکھ سرکیتم جُٹی جُٹی

 

سجنیں ط جا نط کے در در رولئے

عمرہ ساری درد دھندولئے

مردیں تائیں لب نئیں چولئے

ایں مجبوریں گردن گھٹی

 

سوپنج ہارئم لہساں لانواں

بے سیتی گل تھیم گلانواں

ساریاں لٹن جتھ پت کھاواں

نہ موت آئی نہ جند چھٹی

اقبال نصرت واقعی سچا شاعر تھا۔ اُس نے زندگی بھر مظلوم طبقوں کے حقوق کے لیے قلم کا جہاد کیا مجھے امید ہے کہ اس کی شاعری کو آنے والی نسلیں ضرور زندہ و جاوید رکھیں گی۔

٭٭٭

 

 

 

سرائیکی کا نمائندہ شاعر -شاکر تونسوی

 

سرائیکی کے نامور دانشور اور انقلابی شاعر عاشق بزدار نے مجھے بتایا کہ شاکر تونسوی بہت اچھے شاعر تھے۔ ان کو تذکرۂ شعرا ء تونسہ میں ضرور شامل کریں اور ان کے گیت کا یہ شعر بھی سنایا جسے معروف لو ک گلوکار منصور ملنگی نے گایا ہے   ؎

ڈسا کے تیں ہجر دے تیر جھلڑن

میڈی رت پی کے پئے ڈکھ درد پلدن

اس حوالے سے میں نے جب شکیل احمد اور ریاض عصمت سے بات کی تو انہوں نے مجھے ان کے پوتے شاہد نواز سے ملوایا۔ اس نے مجھے دس غزلیں اور ایک بلا عنوان طویل نظم کی فوٹو کاپی عنایت کی لیکن کوائف نہ دیئے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ سب سے پہلے ڈاکٹر طاہر تونسوی نے اپنی کتاب سرائیکی ادب ریت تے روایت، میں شاکر تونسوی جیسے نمائندہ شاعر کو قعرِ گمنامی سے نکال کر ان کی شاعرانہ عظمت کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ صف اول کے شعراء میں شامل بھی کیا ہے۔ اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ وہ سرائیکی کے معروف شعراء بشیر غمخوار اور مصطفی خادم کے استاد جو تھے۔ اس کے بعد معروف محقق، نقاد اور روشن فکر دانشور اسلم رسول پوری نے اپنی کتاب ’’سرائیکی ادب وچ معنی دا پندھ، میں شاکر تونسوی کی شاعری پر ایک وقیع مضمون بھی شامل کیا ہے جو مارکسی فکر کی روشنی میں ہے۔ شاکر تونسوی کا مفلوک الحال طبقہ سے تعلق تھا وہ تونسہ شریف میں چھوٹی سی تمباکو کی دکان سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے، مالی بے وسیلگی کے باوجود بڑے مہمان نواز اور خوش اخلاق تھے۔ اس لیے ان کی دکان پر ہمہ وقت شعراء کا میلہ لگا رہتا تھا۔

شاکر تونسوی کی زندگی مصائب و آلام سے عبارت ہے اور غربت کے دکھ درد بھی نس نس میں سرائیت کیے ہوئے ہیں لیکن یہ حصار ذات توڑ کر کائنات میں پھیلے نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے انسانی سماج کا فرد ہوتے ہوئے دنیا کے مجبور و مقہور اور مظلوم طبقہ کی نمائندگی کی اور  ان کے ساتھ ہونے والی ہر نا انصافی اور ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی، اور ان کو سماجی شعور دے کر نئے عزم سے جینے کا حوصلہ دیا۔ جہاں ان کی شاعری میں دکھی انسانیت سے محبت کے جذبے فراواں ہیں وہاں انہوں نے اپنی شاعری میں جا بجا استحصالی طبقہ کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ ان کی شاعری میں جذبے کی صداقت، خیالات کی ندرت، سوزو گداز اور تغزل نمایاں ہے۔ شاکر تونسوی کا اسلوب سادہ مگر پر درد، پر تاثیر ہے۔ نمونہ کے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

لو ک پچھدن کیوں اکھیں توں خون آ جاری تھئی

کیا کراں میں بے وفا دے نال جو یاری تھئی

 

کیا کریسی ایں میڈے ڈکھ درد دا کوئی دوا

اٹ اکھیڑے رس رسیمے روز دی جو کاری تھئی

 

ہوش و حواس میڈے تاں ڈیہدیں خطا تھئے

چٹ تے کہیں لٹ گھدے میکوں ظالم ادا دے نال

٭

ایں واسطے ہنجوں دی ہے برسات اکھیں توں

بکھ توں کہیں بیکس دے وی بوچھنط نہیں سِرتے

٭

حیران تھیندا روز دے ایں ظلم قہرتے

بجلی وی جیکر ڈھاندی ہے مظلوم دے گھر تے

٭

جینکوں شاکر حق دی گال کراں

ڈکھ ڈیندے وارے وارے ہن

٭

ہر طرز ادا سوہنا تیڈی ناز بھری  ہے

مخمور اکھیں تیڈیں دے وچ جادو گری ہے

٭

جیندی لوں لوں وچ لہو کئی بے نوا لوکیںد اہے

خلد دا او شخص دعوے دار ہے ڈیہدے جلو

٭

گدیلیں تے سمن والے کہیں دے درد کیا جانن

پئے کئی پاند بوچھنط دے ہنجوں دے نال ترتھیندن

٭

ظالم کنوں انصاف دی کوئی آس نئیں شاکر

یار  اے  تجربہ  تساں  ہر  بار  کرو

٭

بس رہن ڈیو مخلوق کوں خالق دی زمیں تے

بے جرم نہ کہیں کوں ایویں سنگسار کرو

٭

کاں کوٹھے تے کرکئے میکوں کم کاروی بھل گئے

رو رو کے ہنجوں نال اے دامن میڈا تر تھئے

ان کی ایک بلا عنوان طویل نظم ہے جس کے تقریباً اڑتالیس بند ہیں جس میں ظالمانہ نظام حیات پر سخت تنقید کی گئی ہے جس میں غریب عوام بھوک، پیاس کی آگ میں نہ صرف سلگتے نظر آتے ہیں بلکہ ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ اور ظلم و بربریت سے ہلاکو اور چنگیز کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ا س حوالے سے دو بند دیکھیے   ؎

ڈس مالک مُلک حقیقی دا کیوں ظلم زمیں تے تھیندن

تیڈی دھرتی دے وچ دھن والے پئے خون غریب دا پیندن

نہیں ترس کھاندے بے کس تے اصلوں درد ایہے ڈیندن

اتھ کئی بے کس میں شاکر وانگوں روز پئے جھنکیندطن

٭

ایں زر دولت دے زور اتے پئے ظلم کرن ان پھرتے

بدمست نشے وچ مست ودے ہن نوٹیں دی کرفر تے

میکوں جھنکا طں ڈے کے ٹور چھڑیندن آہدن ونج گھر مرتے

پچھیں ونج شاکر فریاد کریساں لج پرور دے در تے

٭٭٭

 

 

 

 

وہوا کا درویش شاعر -سعداللہ خاں کھتران

 

سعداللہ خاں اردو، سرائیکی کے نامور شاعر و ادیب ہی نہیں بلکہ ملنساری خوش اخلاقی اور عجز و انکسار ی کے پیکر بھی ہیں۔ اتنے بڑے جاگیر دار ہوتے ہوئے فقرِ بوذر کے حامل ہیں اور ان کا تعلق علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد محترم سردار ربنواز خان قبیلے کے سردار ہونے کے ساتھ ساتھ آنریری مجسٹریٹ درجہ اول اور جرگہ کے ممبر بھی تھے۔ عربی، فارسی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی، سیدعطاء اللہ شاہ بخاری، علامہ عنایت اللہ مشرقی، ابوالکلام آزاد اور محمد علی جوہر جیسے نابغہ روزگار ہستیوں سے مراسم تھے۔ ان کے آٹھ بیٹوں میں سردار اللہ نواز خان (1909)تا (1967)اردو، فارسی کے بلند پایہ شاعر تھے۔ سردار کریم نواز خان 1911ء تا 1999ء ہوم سیکریٹری ریٹائرڈ ہوئے تھے اور دو انگریزی کتب کے مصنف بھی تھے۔ سردار عزیز جاوید خان 1928ء تا1974ء اردو، فارسی کے شاعر تھے۔ سردار اسد اللہ خاں بارڈر ملٹری پولیس میں رہے۔ سردار عبدالغفار خاں ’’فرخ درانی، انگریزی کے پروفیسر تھے۔ ان کا ’’نیلے پانیوں کی نیند، کے نام سے شعری مجموعہ بھی چھپ چکا ہے۔

سعداللہ خان 29اکتوبر 1933ء کو ’’وہوا، تحصیل تونسہ شریف میں پیدا ہوئے مگر سکول کے سرٹیفکیٹ کے مطابق 1935ء ہے۔ ان کی پرورش لوح و قلم ان کے والد محترم کے سایہ ہمایوں میں ہوئی اور اپنی ساری زندگی علم و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے وقف کر دی ہے۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ حلقہ دام خیال، کے نام سے 2000ء میں چھپا تو انتساب اپنی شریک حیات سلطانہ سعداللہ مرحومہ اور ننھی جمیلہ کے نام کیا۔ ڈاکٹر وفا راشدی نے حرف وفا میں ان کے شاعرانہ مقام کا نہ صرف تعین کیا بلکہ حرف وفا کو اعتبار بھی بخشا ہے۔

وفا راشدی کے بقول ’’محترم سعداللہ خاں کھتران نسلاً پٹھان، سچے صاحب ایماں اور پکے دیندار سخن ور ہیں۔ ان کی شرافت، وضع داری، حسن سلوک، ان کے حسنِ کردار کے شاہد ہیں۔ ان کے ہاں معبودو سجود کی بارگاہ میں بندگی اور سپردگی کی تڑپ جس شدت سے کارفرما ہے وہی اس کے عشق رسول ﷺ کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ خدا سے محبت، حبیب خدا سے محبت، محبوب الٰہی کی اتباع کی محویت کا رنگا رنگ عکس ان کے نعتیہ شاعری میں پوری رعنائی و توانائی کے ساتھ نمایاں ہے   ؎

فہم و ادراک تخیل کی حدوں میں محدود

عقل حیراں ہے کہ ہے نقطہ آغاز کہاں

 

تیری رفعت کی کہاں وسعتِ  افلاک کو تاب

تو جہاں پہنچے وہاں جا نہ سکے جبرائیل

دعائیہ انداز کے یہ اشعار دیکھیے   ؎

مظلوم کی آہوں پہ تڑپتا ہوا دل دے

انسان کی محبت کیلئے دیدہ تر دے

 

ہرسمت سے شیاطین ہیں فرشتوں کی قبا میں

اس غول بیاباں میں کہیں کوئی بشر دے

 

پھر بوذر وسلماں کی ضرورت ہے وطن کو

پھر کور نگاہانِ سیاست کو بصر دے

سعداللہ کی پندرہ نعتیہ نظموں میں عشق رسول ﷺ کی خوشبو ہی نہیں بلکہ انساں سے محبت اور ہمدردی کے جذبے بھی واضح ہیں۔

ان کی نظم ’’اس دور کا نوجواں، بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ موجودہ دور کے نوجوانوں کی تہذیب مغرب سے وابستگی دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں۔ ان کے بقول ان کے اذہان فالج زدہ، دل سرد اور نگاہیں بے کیف ہیں یوں لگتا ہے کہ وہ مٹی کے کھلونے ہیں جن کے ارادے بے روح ہیں۔ سعداللہ بھی اقبال کی طرح ایسی تعلیم و تربیت پر زور دینے کی بات کرتے ہیں کہ جس سے ذات کی تعمیر اور کردار کی تطہیر ہو اور عقابی روح بیدار ہو تاکہ اپنی سعی پیہم سے ارفع اخلاقی اقدار سے دنیا کو جنت کا نمونہ بنایا جا سکے۔

اس لیے وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیہ انداز میں یوں کہتے ہیں   ؎

نوجوانوں کے دلِ سرد میں آتش بھر دے

میرے مولا انہیں ہمدوشِ ثریا کر دے

اس طرح سعداللہ نے اپنی نظم ’’یہ دور ترقی، میں گہرا طنز کیا ہے کہ بظاہر تو انسان ترقی کے منازل طے کر کے چاند، ستاروں کو تسخیر کر رہا ہے۔ جدید سائنسی علوم سے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے لیکن انسان کو اب تک زمین پر رہنے کے آداب نہیں آئے۔ یہ اس کی روحانی موت ہے کہ ہر طرف قتل و غارت ہے لاشوں کے انبار دکھائی دیتے ہیں۔ قعرِ مذّلت میں موت کی سسکیاں لیتا نظر آتا ہے۔ سعداللہ کھری فکر رکھنے والے شاعر ہی نہیں بلکہ ظلم و بربریت کے خلاف سراپا احتجاج بھی نظر آتے ہیں   ؎

تاریخ کے اوراق پہ کیوں خوں کے نشاں ہیں

انساں کی عظمت کے ثنا خواں کہاں ہیں

 

سستا ہے یہاں اصغر و اکبر کا لہو کیوں

دو گھونٹ بھی پانی کے مگر کتنے گراں ہیں

 

اس دورِ ترقی میں بھی انساں کے مسائل

اس دورِ جہالت میں بھی جہاں پر تھے وہاں ہیں

ایک منظوم خط سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے نام بھی ہے۔ جو شعلہ بیاں مقرر اور عالم دین تھے۔ سعداللہ نے اپنے اس پیغام میں ان کو رسول ﷺ کے آفاقی پیغام کو عام کرنے کا احساس دلایا ہے کہ جس سے احترام آدمیت، رواداری اور عالمگیر محبت و اخوت کا درس ملتا ہے اور اس میں اہل دنیا کی ترقی، خوشحالی، امن و آشتی اور بقا کا راز مضمر ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار دیکھیے   ؎

دنیا بھلا چکی ہے محبت کی رسم و راہ

اس دورِ خود غرض میں محبت کو عام کر

 

مغرب کی روشنی سے ہے خیرہ ضمیرِ دہر

پھر دین مصطفی ﷺ کے طریقے کو عام کر

 

طبقات کا نہ رنگ و نسب ملک و قوم کا

ملت کی وسعتوں کو تو ہرگز غلام کر

 

اپنوں پہ اپنے لطفِ فراواں کو عام کر

غیروں کو اپنے حسنِ مروت سے رام کر

مردوں کے اس معاشرے میں عورتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جاتا رہا ہے اس کی گواہی تاریخ انسانی کے اوراق چیخ چیخ کر دیتے نظر آتے ہیں۔ سعداللہ ایک درد مند انسان ہیں اور فطرت شناس بھی۔ اس لیے وہ عورت کے وجود کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر زندگی کا سفر ادھورا ہے یہ شعر دیکھیے   ؎

تیرے وجود سے رونق ہے بزمِ ہستی میں

پیامِ شوق ہے جینے کی آرزو ہے تُو

یہی وجہ ہے کہ سعداللہ نے اپنی بیوی کے نام منظوم خط لکھا ہے جو ان کی محبت کا غماز ہے۔ دو شعر دیکھیے   ؎

گزرے ہوئے دنوں کا تصور تو کیجیے

اچھے ہیں یا برے ہیں مگر دل پذیر ہیں

 

تو میرے واسطے ہے میں ہوں تیرے واسطے

اک دوسرے کے واسطے ہم ناگزیر ہیں

اس طرح’’ وطن کے گیت، میں اہل وطن کو تمام فروعی اختلاف بھلا کر تعمیرو ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا احساس دلایا گیا ہے اور ایسے نظام کی بات بھی کی گئی ہے جہاں دکھ سکھ مشترک ہوں تاکہ گھر گھر خوشیاں رقص کریں۔

سعداللہ کی ایک اور نظم ’’دیس کو ہم مضبوط بنائیں ‘‘ نذر قارئین ہے جو ان کے بے ساختہ جذبات واحساسات کی ترجماں ہے   ؎

رشوت چھوڑیں، چوری چھوڑیں

مفت کی سینہ زوری  چھوڑیں

 

جھوٹ نہ بولیں پورا تولیں

پیار کا رس ہر کان میں گھولیں

 

غیبت، شکوہ، تہمت، گالی

ذہن ہو ہر بکواس سے خالی

 

اپنی دھرتی، اپنی فصلیں

اپنا کلچر، اپنی قدریں

 

نفرت کا ہر نقش مٹائیں

پیار کے دیپک دل میں جلائیں

قوم کے دشمن ڈھونڈ نکالیں

مات کریں سب مکر کی چالیں

 

محنت کر کے روٹی کھائیں

پیار کے گیت خوشی سے گائیں

 

آپس میں ہم سب ہیں بھائی

نفرت پھوٹ ہے اک گمراہی

 

باغِ وطن ہے ہم ہیں مالی

جو چاہے اس کی پامالی

 

اس موذی کو مار بھگائیں

دیس کو یوں مضبوط بنائیں

 

ہر گھر ہو قرآن کی بستی

دل میں ہو ایمان کی مستی

 

مکر، فریب، ملاوٹ، دھوکہ

جو بھی کرے دیں اس کو کچوکا

 

آؤ گیت خوشی کے گائیں

دیس کو ہم مضبوط بنائیں

آؤ ہم مل کر اس نظم کے تناظر میں اپنا احتساب کریں۔ کیا ہم اچھے انسان اور سچے پاکستانی ہیں ؟

سعداللہ نظم کے ساتھ ساتھ غزل بھی کہتے ہیں۔ وہ غزل کے مزاج سے آشنا ہی نہیں بلکہ زبان و بیان پر قدرت بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں کلاسیکیت اور جدیدیت کی آمیزش ہے ان کے ہاں انتظار کی شدت بھی ہے اور وصل کی تمنا بھی، تنہائی اور اداسی کا احساس بھی۔ وہ کبھی رنگ، کبھی احساس، کبھی جذبہ اور کبھی مہک کی صورت فطرت خاموش کی ادا لگتے ہیں تو کبھی موج نسیم کی صورت پھولوں کے دیس سے نکل جاتے ہیں تو کبھی بریشم سے نرم تر ہو کر نخوتوں کے شہر میں لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ انکساری کی دولت سے مالامال ہو کر تکبر کے بتوں کو گراتے بھی ہیں اور طبقاتی زندگی کے نوحہ گر بھی ہیں۔

مختصر ان کی شاعر ی سے مجموعی تاثر یہ ملتا ہے کہ وہ انسان سے بے پایاں محبت کا جذبہ رکھتے ہیں   ؎

انساں سے محبت رہی ہر حال میں مجھ کو

مجھ کو مرے نیک ارادے کی قسم ہے

٭

بیٹھے رہے ہم سایہ دیوار میں اک عمر

وہ شوخ کبھی بھی تو لبِ بام نہ آیا

٭

تنہا ہوں کیا خبر مری منزل کہاں پہ ہے

دشتِ وفا  میں  کوئی  میرا  ہمسفر  نہیں ـ

٭

زر دار کے دولت خانے میں مشکل سے اندھیرا ہوتا ہے

نادار کے مفلس خانے میں رو رو کے سویرا ہوتا ہے

ان کی شاعری زندگی کی غماز ہے اس لیے ہمیشہ شگفتہ رہے گی۔ اس کے علاوہ سعداللہ کا تاریخ ساز کام سرائیکی لغت کا ہے جس کے پچاس ہزار کے قریب لفظ ہیں اور سات سو چار صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر روبینہ ترین، ڈاکٹر نعمت الحق، اجمل مہار وغیرہ کی معاونت سے سرائیکی شعبہ بہأالدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے چھاپی ہے۔ اس حوالے سے موصوف کو صدارتی ایوارڈ بھی مل چکا ہے جو سرائیکی وسیب کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

سرائیکی وسیب کا روشن فکر شاعر-شفقت بزدار

 

سرائیکی وسیب میں شفقت بزدار کا ان چند روشن فکر شعرا ء میں شمار ہوتا ہے جو وسیب کی تاریخ، زبان و ادب، ثقافت، سیاست کا نہ صرف گہرا شعور رکھتے ہیں بلکہ معاشرتی، معاشی تعلیمی پسماندگی پر نوحہ کناں بھی نظر آتے ہیں۔ اس لیے وہ ایسا ادب تخلیق کرنے پر زور دیتے ہیں جو مقہور و مجبور لوگوں کے فکر و شعور کو بیدار کرے اور صدیوں کے وڈیرہ شاہی کے طلسمی حصار کو بھی توڑے۔ تعصب اور تنگ نظری کے بجائے فراخدلی، رواداری کے جذبوں کو فروغ دے جوکسی بھی معاشرے کی خوشحالی، امن و سلامتی کے لیے بے حد ضروری ہے تاکہ سرائیکی ادب کو عالمی ادب کے مقابلے میں رکھا جا سکے۔ ۔

شفقت بزدار 14دسمبر 1956ء کو بستی بزدار میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حاجی غلام رسول بزدار فوج میں ملازم تھے مگر خوددار اتنے تھے کہ ملازمت چھوڑ کر کاشتکاری کو ترجیح دی۔ وہ علم و ادب سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔ علم نجوم سے بھی واقف تھے۔

شفقت بزدار کی والدہ صاحبہ کا تعلق قیصرانی قبیلے سے تھا۔ شفقت بزدار نے ابتدائی تعلیم بستی بزدار میں حاصل کی پھر 1973ء کو ہائی سکول تونسہ شریف سے میٹرک کیا۔ 1974ء میں پی ٹی سی کا امتحان پاس کیا ہاسٹل میں وقت کیسے گزارا اس کا اندازہ درج ذیل اشعار سے کیا جا سکتا ہے   ؎

بورڈنگ دی رہائش دا میکوں حال نہ بھلسی

اے ریت نویں اے طور نویں اے چال نہ بھلسی

 

ہک گال میں افسوس بھلا گیا ہاں شفقتؔ

سو سال گزر ونجن، ایندی دال نہ بھلسی

1975ء میں رفیق خاور جسکانی کی زیر صدارت مشاعرہ پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا، جس میں سرائیکی کے نامور شعراء نے شرکت کی تھی۔ 1976ء میں ایف۔ اے 1978ء میں بی۔ اے کیا اسی دوران شاکر تونسوی، اقبال سوکڑی، فدا جعفری اور پرواز قیصرانی کی صحبتیں بھی میسر آئیں۔ پھر 1979ء میں اے ایس ایم ریلوے والٹن لاہور میں وقت گزارا۔ پھر بطور اے ایس ایم لیہ سیکشن کے سٹیشنوں پر دو ماہ گزارے۔ اسی دوران لیہ میں بزم تخلیق نو کے زیر اہتمام مشاعرے بھی پڑھے جس کے روح رواں نسیم لیہ تھے۔ خیال امروہوی، غافل کرنالی، نذیر چوہدری کے علاوہ کوٹ ادو سے بیاض سونی پتی اور کوٹ سلطان سے کیف شکوری بھی تشریف لاتے تھے۔ پھر 1984ء میں بلوچستان یونیورسٹی سے ایم۔ اے اردو کیا ا س وقت سید آفتاب حسین شاہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ڈیرہ غازیخان تھے جو اردو، پنجابی کے اچھے شاعر تھے۔ انہوں نے موصوف کو مشورہ دیا کہ ریلوے چھوڑ کر محکمہ تعلیم میں آ جاؤ پھر ذاتی دلچسپی لے کر 1986 ء میں بطور عارضی لیکچرار کے گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازیخاں میں آرڈر کرائے۔ اسی دوران پروفیسر محسن حیات اثر، پروفیسر شریف اشرف اور ڈاکٹر نجیب حیدر ملغانی جیسی عظیم علمی و ادبی شخصیات سے فیض یاب بھی ہوتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر طاہر تونسوی، رشید قیصرانی، عاشق بزدار، ڈاکٹر اشرف شاہین قیصرانی اور وقار عظیم کی محفلوں میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ پھر 1988ء میں ایڈہاک لیکچرار نکال دیئے گئے لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف نے سب متاثرین کو بحال کر دیا۔ شفقت بزدار غوثیہ سائنس کالج ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اردو کے لیکچرار تعینات ہوئے۔ ایک سال کے بعد انٹر کالج فتح پور ضلع لیہ میں آ گئے۔ پنجابی کے نامور شاعر لطیف فتح پوری سے بھی خوب محفلیں رہیں۔ پھر شفقت بزدار نے حمید الفت ملغانی، ریاض قیصر، امجد کلاچی، امین سہیل ملغانی جیسے احباب سے مل کر ’’تھل دمان سرائیکی سنگت، کی بنیاد رکھی۔ مشاعرے کرائے ’’سرت، کے نام سے رسالہ بھی نکالا جس میں نہ صرف اردو، سرائیکی کے نامور شعراء چھپتے تھے بلکہ نو آموز تخلیق کاروں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی لیکن بدقسمتی سے چار شماروں کے بعد ’’سنگت‘‘ میں دراڑیں پڑ گئیں اور رسالہ بند ہو گیا پھر امام بخش منصور، منظور بھٹہ، شاکر کاشف اور مظہر یاسر نے سنگت کو فعال رکھنے کی بے حد کوششیں کیں۔

شفقت بزدار تین سال بعد گورنمنٹ کالج لیہ میں آ گئے۔ تا حال لیہ کالج میں طلباء کی علمی تشنگی بجھانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ اور شاعری کی حوالے سے ان کے کئی شاگرد ہیں ان میں ایک نام ندیم سوہیہ کا بھی ہے۔ جوسرائیکی کا اچھا شاعر ہے جس کا تعلق اس قصبہ کوٹ سلطان سے ہے جو سرائیکی کے نامور شاعر کیف شکوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جب شفقت بزدار کا پہلا شعری مجموعہ ’’کریہہ دا قرض‘‘1995ء میں چھپا تو سرائیکی ادبی اور عوامی حلقوں میں خاص پذیرائی ملی ـ۔ انہوں نے باقاعدہ کسی استاد شاعر سے اصلاح نہیں لی لیکن وہ اقبال سوکڑی کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں۔ اس پہلے مجموعے میں ڈاکٹر طاہر تونسوی، اقبال سوکڑی، پروفیسر شہباز نقوی مرحوم، پروفیسر مہر اختر وہاب اور رفعت عباس کے گراں قدر تاثرات شامل ہیں جو مجموعے کے حسن کو مزید نکھارتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی کے بقول ’’شفقت بزدار نویں موضوع، نویکلے اسلوب تے سریلے رسیلے لہجے نال کریہہ دا اے قرض دیانتدا ری، سچائی، خلوص، محبت پیار دردمندی تے حوصلہ مندی نال اے آکھ کے لہا ڈتے،   ؎

ساریاں جھوکاں، وستیاں قصبے شہر اے شفقت اپنے ہن

او ڈینہہ آوے سکھ داپاوے دھرتی بھاگ بھری بو چھن ط

اس مجموعے میں تقریباً ساٹھ غزلیں شامل ہیں جن کا ہر اک شعر طبقاتی زندگی سے پیدا ہونے والے مسائل اور محرومیوں کا غماز ہے۔ شفقت بزدار سرائیکی وسیب کے سچے کھرے اور بے باک تخلیق کار ہیں جو استحصالی طبقے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں اور مظلوم طبقے کے فکر و شعور کو جگا کر ان کے ولولوں کو گرما کر استحصالی نظام حیات کے خاتمے کے لیے متحد ہو کر جد و جہد کا احساس دلاتے ہیں۔ اس لیے ان کو یقین کامل ہے کہ عوامی انقلاب اس کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا اور مساواتی نظام سے وسیب کے مکینوں کو تمام مسائل سے نجات ملے گی اور خوشیوں کا رقص دیدنی ہو گا۔ شفقت ایسے قلندر مزاج شاعر ہیں جو فیکٹریوں، کوٹھیوں کاروں، جاگیروں اور دولت و ثروت کے بجائے محبوب کی چند یادگار نشانیوں کو نہ صرف اپنی جائیداد تصور کرتے ہیں بلکہ ان کے سہارے زندہ بھی ہیں۔ وہی محبوب ان کی شاعری کا محرک بھی ہے۔ شعر دیکھیے   ؎

تیڈاہک رنگین فوٹو، خط، انگوٹھی، عیدکار ڈ

ان بنائی سے ایہاجائیداد تیڈے شہر وچ

اس صورت حال کے باوجود وہ اپنے وسیب کے قرض کو نہیں بھولے۔ کچھ اشعار نذر قارئین ہیں جو شاعر کے بے ساختہ جذبات واحساسات کے ترجمان ہیں   ؎

سرتے شفقت کریہہ دا قرض ہمی

ہن تاں ہنج دی فرات رستہ ڈے

٭

اجاں مزدور  دی میت تے رشتہ دار نئیں پہنچے

مکمل تھی گیا تیڈا پلازہ شام توں پہلے

٭

اساں پیونط  دے  پانی  لو  ترسدے  ہیں

تیڈے پاسے سمندر ہن تاں ہوون پئے

٭

اپنے مونڈھے اتے میں عزمد ا تیشہ رکھداں

ظلم رستے دا جے پتھر ہے تاں ڈلسی آخر

٭

روہی تے تھل دمان دی ظالم لوار ہے

آویں ہاں اپنے حسن دی مستی اچھال کر

٭

اکھ دا مقسوم خشک پپلیاں ہن

ہنج منگدا ہاں رت نہ آپووے

کریہہ دے حال سن کے کربلا دی یاد آندی اے

اساں کہنواں دی ریتڑ اچ ابوذر بن کے راہندے ہیں

اس کے علاوہ شفقت بزدار نے ’’غازہ، صبا، ڈوا، وحشت، زود رنج، گھل، مسیحا، سنگ باری، بھنور، پارسا، کہکشاں، رقیب، صنوبر، زناور، حزیج، اوس پوس، قفس، میخانہ، بھوگ، گاج، سیکل، نتھ، حمیل، شراب، برق، جوانہہ، صلیب جیسے اردو سرائیکی الفاظ فنکارانہ مہارت سے استعمال کر کے غزل کے فطر ی حسن کو مزید نکھارا ہے۔ شفقت بزدار نے فکر انگیز نظمیں بھی کہی ہیں جن سے افراد معاشرہ کے دکھ درد اور مسائل کا اندازہ ہوتا ہے۔ کچھ نظمیں عورتوں کی حالت زار کا احساس دلاتی ہیں مثلاً ’ساوی چیڑی(سبز چڑیا) شاعر کی نمائندہ نظم ہے جو عورتوں کی مظلومیت کی آئینہ دار ہے۔ دراصل یہ نظم وینا حیات کے المناک سانحے سے متاثر ہو کر کہی گئی ہے لیکن ا س کا کینوس بہت وسیع ہے۔ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یونانی، مصری، بابلی، رومی اور عربی معاشروں میں بھی لاکھوں کروڑوں وینائیں ظلم کا شکار ہوئی ہوں گی۔ نظم دیکھیے :

بے قرار رت وچ

کھنب رنگے بت نال

کتنی ہوندی اے محال

آنے بچیں دی خوراک

اپنے ساتھی دی تلاش

پیلی پیلی چنج نال

تند تند وُن کرائیں

ونط ونط پھر کرائیں

آن بنایا بھک اتے

ساوی چیڑی آلھناں

بارشیں دے زور نال

تے ہوادے شور نال

آلھناطں ہے گھر گیا

نانگ والی گھور نال

زندگی دی دوڑ وچ

ساوی چیڑی واسطے

اُڈ ونجنط عذاب ہا

چھن پرونط گھر دے وچ

بڈُ ونجنط عذاب ہا

صرف چلکنط دے سوا

ساوی چیڑی کیا کرے

کون ڈیکھے ونج بھلا

رات دے اے حادثے

مستقل عذاب ہن

نانگ ڈلی بھک دے

اپنے ایں جہان دو

ہک نظر تاں بھال توں

اس طرح جٹی نظم کو شفقت بزدار نے دھرتی کی محنت کش عورتوں کے نام کیا ہے۔ اور دلنشیں منظر کشی کر کے جٹی کے لازوال کردار کی تحسین کی ہے جو مشرقی تہذیب و ثقافت کی وارث ہے۔ اس نظم کے چھ بند ہیں۔ نمونہ کے طور پر دو بند نذر قارئین ہیں   ؎

نہ پوڈر شوڈر لیندی ہے

نہ فیشنی برقعے پیندی ہے

نہ اکھیں پھیرنط سکھی ہے

نہ نخرے ناز کریندی ہے

سٹ منہ تے پانی دا چھٹا

اے چھیٹ کوں کھڑ ٹھمکیندی ہے

ہس نفرت خاص بناوٹ توں

نہ رنگت غرق کریندی ہے

کھا چٹنی وقت گزاریا ہس

سرتاج کو نہ زلتیندی ہے

ایکوں شوق مدینہ ڈیکھن دا

نہ فلماں ڈیکھن ویندی ہے

ایندے حق ہمسائے سنجڑیندے نئیں

ایندی عادت محض پرانی ہے

جٹی دی ذات سیانی ہے

٭

پیغام اے سچا مچا ہے

جٹی دا درجہ اچا ہے

اوبخشیا ویسی جیں کھادا

ایں سئین دا بچا کھچا اے

میں اے سمجھینداں جنت تیں

حق ایندا نرا نچا ہے

ایں چپ چا کیتی مڑس ایندا

توڑے چندرا، چچرا، چچا ہے

ایں اپنے دل دے برتن کوں

ہنج پی کے مانجھا کچا اے

ناں ایندا پوپا کچا ہے

نہ ایندا لچھا لچا ہے

ہے شاباش جٹی کوں شفقت

ایں شرم دی تنی تانیط ہے

جٹی دی ذات سیانیط ہے

اس کے علاوہ مشورہ، اساں کون، شوقین سفردے، محاسبہ، دمان دا نوحہ، مسئلہ فقط محبت نئیں، ازلی تس، نظمیں فکر انگیز ہی نہیں بلکہ سرائیکی وسیب سے محبت کی غماز بھی ہیں۔

شفقت بزدار نے طنزو مزاح کے حوالے سے بھی یادگار نظمیں کہی ہیں جن میں خاص طور پر ’’نونہہ سس دا جھیڑا، (بہو اور ساس کا جھگڑا)نظم نہ صرف بے حد مشہور ہوئی ہے بلکہ عوامی حلقوں میں پسند بھی کی گئی ہے۔

شفقت بزدار کے دو اور شعری مجموعے ’’نکھیڑے، اور ’’ ریشم رستے، بھی چھپ چکے ہیں جو موصوف کی شاعرانہ عظمت کا واضح ثبوت ہیں۔ ان کی شاعری میں خیال کی جدت، جذبوں کی سچائی، فکر کی گہرائی، انقلابیت، رجائیت کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 کوٹ قیصرانی کا عظیم سپوت -کندن لال کندن

 

 

کندن لال کندن کا ان مشاہیر میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے سچی لگن اور بے پایاں محبت سے اردو ادب کی خدمت کو اپنا مقصد حیات جانا۔ وہ ایک عرصے سے شاعری کر رہے ہیں لیکن ان کی پسندیدہ صنف سخن رباعی ہے۔ اس حوالے سے ان کے کام کو ادب کی عظیم ہستیوں نے سراہا ہے۔ جن میں خاص طور پر پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر عراق زیدی اور ڈاکٹر ساحل احمد قابل ذکر ہیں۔ ان کا تعلق مردم خیز خطہ تونسہ شریف کے قصبہ کوٹ قیصرانی سے ہے۔

کندن لال نے لیکھورام مدان کے گھر میں 1936ء کو آنکھ کھولی، بچپن ہنسی خوشی گزارا لیکن سیاسی پنڈتوں نے اقتدار کی ہوس میں ہندو مسلم تعصب کو ہو ا دے کر برصغیر کودو لخت کر دیا۔

ایسی پر خوف فضا ء میں کندن لال کندن کو اپنی جنم بھومی اور احباب کو آہوں، سسکیوں کے ساتھ چھوڑ کر ہندوستان جانا پڑا۔ وہاں جا کر نئے عزم سے زندگی کا آغاز کیا۔ دہلی کالج سے بی۔ اے کر کے 1968ء میں دہلی یونیورسٹی سے ایم۔ اے کیا۔ 1971ء میں تاریخی مثنویوں پر ایم۔ لٹ کی ڈگری لی۔ ان کی درج ذیل کتب اس وقت ادبی حلقوں میں قبولیت پا چکی ہیں۔ ارمغان کندن، 1987ء میں شائع ہوئی تو بنگال اردو اکادمی نے انعام سے نوازا۔ رباعیات اختر 1989ء میں اور تاریخی مثنویاں 1990ء میں شائع ہوئیں ہیں ان پر خاص طور پر انعامات ملے۔ ان کا دوسرا ایڈیشن 1991ء اور تیسرا ایڈیشن 2001ء میں آیا۔ اس طرح ارمغان عروض 2000ء میں چھپی جو علمِ عروض کے حوالے سے چند مستند کتب میں شمار ہوتی ہے۔ سرائیکی کے معروف انقلابی شاعر دمساز قیصرانی کے بقول کندن لال 2006ء اور  2008ء میں کوٹ قیصرانی آئے تھے۔ وہ اپنے اساتذہ میں خاص طور پر سردار در محمد خان قیصرانی سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ اپنے احباب میں حاجی احمد حسین خان قیصرانی، ہوت خان قیصرانی اور میر ہزار خان قیصرانی سے بے حد پیار رکھتے ہیں۔ اس وقت قیصرانی قبیلہ کے میر بادشاہ قیصرانی چیف ہیں جو شیدائے علم و ادب ہی نہیں بلکہ ہر دلعزیز شخصیت بھی ہیں۔ اس وقت کندن لال کندن کی کتاب ’’رباعیات و ماہیئے، اور ماہیئے کی ہیئت میرے سامنے ہے جو مجھے سرائیکی کے انقلابی شاعر دمساز قیصرانی نے استفادے کے لیے عطا کی ہے۔ اس کتاب کا انتساب شری بھگوان چندر بھٹناگر حضرت سحر عشق آبادی اور شری اوم پرکاش اگروال زار علامی جیسی ماہر عروض ہستیوں کے نام ہے۔ کندن لال کندن نے بھی ان کے سایہ ہمایوں میں علم عروض سیکھا۔ معروف ادیب، شاعر مہندر پرتاپ چاند نے اپنی کتاب ’’اجالوں کے سفیر، میں زار علامی – کچھ یادیں کے حوالے سے نہ صرف بصیرت افروز بلکہ رباعی کے حوالے سے مباحث اور معرکوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس سے زار علامی کی قاموسی علمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

کندن لال کندن نے حرف مو لف میں اپنی اس کتاب رباعیات و ماہیئے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان کے بقول رباعی بحر ہزج مثمن میں کہی جاتی ہے بحر ہزج مسدس میں نہیں۔ موصوف نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ اقبال نے ارمغان حجاز اور بال جبریل میں بحر ہزج مسد س میں کہے گئے قطعات کو رباعیات کا نام دیا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اقبال پرست آج بھی ان قطعات کو رباعیات کا نام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال کا یہ قطعہ دیکھیے   ؎

کہا اقبال نے شیخِ حرم سے

تہِ محرابِ مسجد سو گیا کون

سدا مسجد کی دیواروں سے آئی

فرنگی بتکدے میں کھو گیا کون

اس کے علاوہ کندن لال نے بالِ جبریل کا یہ قطعہ بھی دیا ہے   ؎

رہ ورسمِ حرم نامحرمانہ

کلیسا کی ادا سوداگرانہ

تبرک ہے مرا پیراہنِ  چاک

نہیں اہل جنوں کا یہ زمانہ

موصوف کے بقول رودکی نے رباعی کے چوبیس آہنگ ایجاد کیے تھے اس کے بعد سحر عشق آباد ی نے بارہ آہنگوں کا مزید اضافہ کیا۔ لیکن زار علامی اپنے استاد سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئے۔ کندن لال کے حوالے سے گوپی چند یہ رائے دیتے ہیں۔ ’’خاموش طبع شخص کندن لال سے سچ مچ لعل بنتا چلا گیا اور انہوں نے عروض پر ایک سے ایک بہترین کتاب تحریر کی۔ فن شاعری کے لوازمات اوزان و بحور اور صنائع لفظی اور معنوی پر ان کی گہری نظر ہے۔ رباعی اور ا س کے نظام عروض پر بھی جو دسترس ہے اس کا کچھ اندازہ زیر نظر کتاب سے بھی ہو گا،۔

پروفیسر عراق زیدی کے بقول ابھی تک رباعی کے چوبیس اوزان پر رباعیاں تحریر نہیں کی گئی ہیں۔ خود رودکی نے بھی ایسا نہیں کیا۔ لیکن کندن لال کندن نے اس میدان میں ایساریکارڈ بنا یا ہے کہ صرف چوبیس اوزان میں ہی رباعیاں تحریر نہیں کیں بلکہ رباعیات کے جدید تیس اوزان کا بھی استعمال کیا اور رباعی کے چوّن اوزان پر تصرف کر کے تمام قدیم و جدید اوزان پر کامیابی سے رباعیاں قلمبند کر کے اپنی عروض دانی کا سکہ جمایا ہے،۔

پروفیسر قمر رئیس نے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا ہے ’’خداوند رباعی رودکی نے رباعی کے جو اوزان طے کر دیئے تھے کندن لال انہیں صحیفہ الہامی کا درجہ دیتے ہیں اور ان میں سرمُو تبدیلی کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے وہ اقبال کی دو بیتیوں کو رباعی ماننے کو تیا ر نہیں۔ اقبال تو کیا غالب کو بھی نہیں بخشتے اور ان کی عروضی غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ ،

ساحل احمد نے نہ صرف کندن لال کے کام کو سراہا ہے بلکہ اپنی گراں قدر رائے کا یوں اظہار کیا ہے ’’اس حالیہ کتاب میں انہوں نے رباعی کی اصالت شعریہ سے خاص عمدہ بحث کی ہے اور الگ الگ ارکان و آہنگ کے تعلق سے خامہ فرسائی کرتے ہوئے اپنی رباعیات کا جو خزانہ نادر مصور کیا ہے وہ فعل تحسینہ سے کہیں زیادہ خوش آئند ہے وہ رباعیاں رودکی کے تتبع میں کہی گئی ہوں یا پھر علامہ سحرعشق آبادی اور زار علامی کے آہنگوں میں ان سب میں کندن جی کی فکریہ احساس کی قوس قزح چمکتی ہی نہیں بلکہ مہکتی بھی ہے۔

کندن لال کندن خوش نصیب ہیں کہ ان چار نابغہ روزگار ہستیوں نے اپنی گراں قدر آراء سے ان کے کام کو نہ صرف خراج تحسین پیش کیا بلکہ عروض دانی کی سند بھی عطا کی۔

اب مفعول سے شروع ہونے والے بارہ آہنگوں میں کندن لال کندن کی رباعیاں نمونہ کے طور پر نذر قارئین ہیں   ؎

مفعول، مفاعلن، مفاعیل، فعول

تضمین کے شعر کا جہاں تک ہے سوال

کندن نے دکھا دیا ہے کر کے یہ کمال

رکھ کر کہ نگاہ میں ظفر، جو ش کے شعر

کیا خوب کیا ہے کھل کے اظہار خیال

٭

مفعول، مفاعیل، مفاعیل فعل

آ بیل مجھے مار کی عادت نہ بنا

اس راہ پہ چل کر کہ نہ کوئی ہے بچا

ہے راہِ فنا بس یہ تری راہِ فنا

جادہ بھی ترا اس سے رہے دور ذرا

٭

مفعول، مفاعیل، مفاعیل فعل

پاؤں جو بڑھایا ہے ہٹانا نہ حبیب

جو عہد کیا ہے وہ بھلانا نہ حبیب

وعدہ جو کیا یار نبھانا وہ ضرور

طوطے کی طرح آنکھ بدلنا نہ حبیب

٭

مفعولن والی رباعیاں

مفعولن، فاعلن، مفاعیل، فعل

کندن انسان کی نہ چلتی ہے کبھی

کب ’’منہ مانگی مراد ملتی ہے کبھی

بر آئے مراد بن دیر لگے

مولا کی ہو خوشی نہ ٹلتی ہے کبھی

٭

مفعولن، فاعلن، مفاعیل، فعول

کندن کیا منہ دکھاؤ گے روز حساب

ہاتف کھولے گا جب اعمالوں کی کتاب

اپنا ہر پل گزار در کارِ ثواب

جس سے اس روز کا بنے تم سے جواب

٭

مفعولن، فاعلن، مفاعیلن، فع

تن کو کپڑا نہ پیٹ کو ہے روٹی

دہقاں کے تن پہ اب نہیں ہے بوٹی

تم حاکم ہند سے جا کر یہ پوچھو

گردن کس نے کسان کی ہے گھوٹی

٭

مفعولن، مفعولن مفعولن، فاع

اپنے سر آفت لیتے ہیں جو لوگ

جیون میں کچھ کر جاتے ہیں وہ لوگ

اپنے سر لینا ہر اک مشکل کام

کندن آساں کر لیتے ہیں وہ لوگ

اس کے علاوہ کندن لال کندن نے ماہیئے کہنے والوں کی آسانی کے لیے سولہ آہنگوں کا گوشوارہ بھی دیا ہے۔

خدا کرے کندن لال کندن سلامت با کرامت رہیں اور اہل کو ٹ قیصرانی اپنے عظیم سپوت کی علمی و ادبی خدمات پر ہمیشہ فخر کرتے رہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

عزم و ہمت کا کہسار -حمید الفت ملغانی

 

اگر جذبے سچے اور ارادے پختہ ہوں تو بحر ظلمات میں بے خوف و خطر گھوڑے دوڑائے جا سکتے ہیں۔ تاریخ انسانی کا ہر اک ورق ایسے با ہمت، باکمال انسانوں کی گواہی دیتا نظر آتا ہے جنہوں نے غم حالات کا مردانہ وار مقابلہ کر کے زندگی کو حسین تر بنانے میں لازوال کردار ادا کیا۔ ان میں سے ایک معتبر نام حمید الفت ملغانی کا بھی ہے، جس نے امید کا دامن پھولوں سے بھرنے کے لیے اپنی پلکوں سے شوق کے کانٹوں کو چننا پسند کیا اور سرائیکی وسیب کا نمائندہ بن کر ہر ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی۔ وسیب کے وڈیروں، سرداروں کے بجائے غریبوں کی ہمنوائی کی۔ ان کے فکر و شعور کو جگایا اور نئے عزم سے جینے کا حوصلہ دیا۔ وہ  اِس وقت سرائیکی وسیب میں محقق، نقاد، ادیب، شاعر، مترجم، سفرنامہ نگار کے طور پر اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ حمید الفت ملغانی نے 1959ء کو تونسہ شریف کے قصبے سوکڑ میں الٰہی بخش خاں کے گھر دنیا میں پہلاسانس لیا۔ ان کے والد محترم درس و تدریس کے مقدس پیشے سے نہ صرف منسلک تھے بلکہ اپنے علاقے کی معتبر شخصیت بھی تھے اور شیدائے علم و ادب بھی۔ وہ تاریخ کا مطالعہ بھی رکھتے تھے اور ہجرت کے رموز سے آشنا بھی۔ اس کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بھی تھی کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ ، اس لیے اس نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔

حمید الفت ملغانی نے مڈل تو سوکڑ سے کیا پھر اپنے آبائی قصبہ کو چھوڑ کر لیہ آ گئے۔ ایم۔ سی۔ ہائی سکول لیہ سے میٹرک کیا۔ 1978ء کو گورنمنٹ کمرشل انسٹی ٹیوٹ سے ڈی کام کیا پھر 1979ء کو لیہ سے ہجرت کر کے بلوچستان اپنا مسکن بنایا۔ ایک انسان ہونے کے ناتے عشق بھی کیا ہو گا، عشق تو صوفیاء نے بھی کیا، عشق تو جذبہ صداقت و پاکیزگی کا نام ہے۔ میں حمید الفت ملغانی کو ایک عرصے سے جانتا ہوں وہ میرے محسن احباب میں سے ہیں وہ نہایت شرمیلے کم گو، نفاست و شرافت کے پیکر ہیں۔ اگر ایسا ہو بھی تو وہ میر اور اختر شیرانی کی طرح پیٹ کے ہلکے نہیں ہیں۔ لیکن پروفیسر نواز صدیقی کہتے ہیں کہ ان کے دل کے چمن میں الفت کے پھول کھلانے والا لا ابالی اور جوشِ جنوں کا زمانہ غم روزگار کی نذر ہو گیا۔ یہ بھی حقیقت ہو سکتی ہے کیونکہ اس نے اپنے ارمانوں کا گلا دبا کر حصول علم کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ اس لیے بلوچستان یونیورسٹی سے بی۔ اے کرنے کے بعد رکے نہیں بلکہ 1984ء میں ہجرت کر کے لاہور چلے گئے اور پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری کی ڈگری حاصل کی۔ اسی دوران حمید الفت ملغانی کو ایسی شریک سفر ملی جس نے اسے نئے عزم سے جینے کا نہ صرف حوصلہ دیا بلکہ سارے دکھوں کا مداوا بھی کیا۔ وہ ان کی نیک طینت، با وفا، شرم و حیا کی پیکر بیوی سعیدہ بانو ہے جو ادب میں بانو بلوچ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ ان کی تحریریں مختلف اخبارات و رسائل میں چھپتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے اردو میں ایم۔ فل بھی کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گھریلو ذمہ داریوں کے باوجود عبدالحمید خاں سے حمید الفت ملغانی بنانے میں ان کا اہم کردار ہے۔ حمید الفت ملغانی سرائیکی ادب کی گراں بہا خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ علم کی پیاس بھی بجھاتے رہے ا س لیے 1992ء میں اسلامی یونیورسٹی بہاول پور سے سرائیکی ادب میں ایم۔ اے کیا۔ پھر سرائیکی کتابیات کا تجزیاتی مطالعہ کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر تونسوی کی زیر نگرانی ایم۔ فل کیا۔ اس وقت سرائیکی افسانہ، ناول اور ڈرامہ کے ارتقاء پر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے زیر سایہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اپنا پی۔ ایچ۔ ڈی کا تھیسس مکمل کرنے میں مصروف ہیں۔

ان کی پہلی کتاب ’’گل گلانواں ریت دا، 1992ء میں چھپی جو ممتاز مفتی کے اردو ڈرامے لوک ریت کا سرائیکی ترجمہ ہے۔ ان کی دوسری کتاب سرائیکی لوگ ریت 1993 ء میں آئی جو سرائیکی وسیب کے رسم رواجات کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔ جو ایم۔ اے سرائیکی کے نصاب میں شامل ہے۔ ان کی ایک اور کتاب نازو 1995ء میں آئی جو ظفر لاشاری کے سرائیکی ناول کا اردو ترجمہ ہے۔ پاندھی، پچھاں واٹیں تکاں، ان کا سفر نامہ ہے جو 1998ء میں منظر عام پر آیا اس طر ح حمید الفت ملغانی کی ’’دھرتی قائد کا محابیو‘‘ اہم کتاب ہے جو تحریک پاکستان کی اصل روح کو اجاگر کرتی ہے۔ اور قائد اعظم کے لاثانی کردار کی غماز ہے اس کتاب میں حمید الفت ملغانی نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سرائیکی وسیب کے ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ ’’لکھت تے لکھاری، حمید الفت کی اہم سرائیکی تنقیدی کتب میں شمار ہوتی ہے۔ جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصے میں شاعری کے حوالے سے لغت، کافی، ڈوہڑہ، آزاد نظم اور غزل کو تاریخی تناظر میں دیکھا گیا ہے نثر کے حوالے سے فریدیات، ناول، افسانہ، بچوں کا ادب، کا مفصل جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ملتان میں سرائیکی ادب کا جائزہ بھی شامل ہے۔ بیسویں صدی میں چھپنے والی ان بیس انعام یافتہ کتابوں کا ذکر بھی ہے۔ سرائیکی ادب کے دس سالوں میں چھپنے والی نثری و شعری کتابوں کا احوال بھی ہے۔ اس طرح سرائیکی ادبی بورڈ کے دس سالوں کی کارگزاری کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں نثر کے حوالے سے ڈاکٹر مہر عبدالحق، دلشاد کلانچوی، ڈاکٹر طاہر تونسوی، شوکت مغل، صدیق طاہر، استاد فدا حسین گاڈی، اسلم قریشی اور ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز کی گراں قدر خدمات کو سراہا گیا ہے۔ اقبال سوکڑی، جانباز جتوئی، فاروق روکھڑی، مخدوم محمد بخش، حیدر گردیزی، شفقت بزدار، اشو لال، رفعت عباس، مصطفی خادم، خالد اقبال، خادم ملک ملتانی، اصغر عابد اور اقبال قریشی کی شاعری کا احاطہ کیا گیا ہے اس طر ح تریمت ادب ’’نسائی ادب، کے حوالے سے حمید الفت ملغانی نے بہار النساء بہار کی کافیوں کی کتاب ’’ چھل بل اکھیں، مسرت کلانچوی کی سرائیکی ڈراموں کی کتاب ’’سنجھ صباحیں، اور ڈاکٹر غزالہ احمدانی کا سرائیکی افسانوی مجموعہ ’’اج دی ماروی، کا خصوصی مطالعہ بھی شامل ہے اس کے علاوہ ملک سلوک فرید ی طاہر محمود کوریجہ فن اور شخصیت، جانباز جتوئی فن اور شخصیت بھی بڑی اہم کتابیں ہیں۔ اس طر ح سالانہ ادبی جائزے بھی تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حمید الفت ملغانی اچھے نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ شاعری بھی کرتے ہیں اور ان کا شمار سرائیکی وسیب کے نمائندہ شعراء میں ہوتا ہے۔

1995ء میں جب ان کاسرائیکی شعری مجموعہ ’’ سِک سوجھل، کے نام سے اقبال سوکڑی اور شفقت بزدار جیسے انقلابی شعرا ء کے گراں قدر تاثرات کے ساتھ منظر عام پر آیا تو ادبی اور  عوامی حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ وہ ایک روشن فکر شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں ان کی شاعر ی غربت و افلاس بھوک اور پیاس کے ماروں کو نئے عزم سے نہ صرف جینے کا حوصلہ دیتی ہے بلکہ ان کے ضمیرِ احساس کو جگاتی اور روشن مستقبل کی نوید بھی دیتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ خود داری کو شعار بنا کر سچ کا جرات و بے باکی سے علم لہرا کر یکجہتی سے علاقائی وڈیروں، سرداروں کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا کر (گودا سائیں )کی روایت کا خاتمہ کریں تاکہ خوفناک فضاء کا خاتمہ ہو۔ اس حوالے سے کچھ اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

ٹوبھیں تے او شمری پہرن

مال  و ی  پیندے لُک   لُک  پانیط

 

کال کریہہ کو گھول گھتیجے

تر تر  ڈیہدوں  بک  بک  پانیط

٭

حق آکھ کے سولی توں بچنط واسطے الفت

خودداری کوں سٹ کے میں کیوں سیس نواواں

٭

ایویں نہ ہر کہیں کوں جھک کے سلام کر

جتھاں ضمیر ہٹکی خود کو ملام کر

 

ایں شہر وچ تاں کوئی وی آزاد نئیں ریہا

اپنے بچا دا الفت بیا انتظام کر

حمیدا  لفت کی نظم ’’پاندھی ٹردا جل، (راہی مسلسل چل )دیکھیے۔ جس میں وہ زندگی کے مسافر کو حوصلہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دوران سفر سستی، کاہلی اور سستانہ چھوڑکر تمام مصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کر تاکہ منزل تجھے سلام کرے۔ نظم دیکھیے   ؎

گھپ اندھار دے پندھ وچالے

ٹردا رہ ہمراہی میڈا

 

تھک ترٹ کے باہون کوڑ اے

اکھلاون، کر لاون کوڑ اے

 

کیون جو اکثر ڈیہدے راہندوں

من دریادے نیڑے آکے

 

بیڑی ہے بھج کندھی لگدی

ڈیکھ ہاں ٹردیں ٹردیں ہن تاں

 

پرہ باکھ دا ویلا تھی گئے

بس منزل تے اجھو پجدوں

رات دا گزرن کون ڈکیسی

سجھ کو ڈاون کون گھتیسی

اس طرح ان کی یہ نظم ’’ونڈارا، یکجہتی اور اتحاد کی روشن مثال ہے۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا بنا، چھوٹے چھوٹے پتھر مل کر پہاڑبنے، بوٹے بوٹے نے جنگل کا روپ دھارا اور ریت کے ذرے مل کر روحی تھل بنا کی مثالیں دے کر شاعر نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک انسان اپنے مفادات کے کشکول بھرنے کے لیے وحدت کو ریزہ ریزہ کر کے قوموں اور نسلوں میں بٹ گیا جو اس کی تباہی کا سبب ہے۔ نظم دیکھیں   ؎

قطرہ قطرہ رل کرائیں دریا بنیا

رل کے پتھریں کالے چٹے روہ بنائے

 

بوٹا جے رلیا جنگل بنیا

دوبا دوبا بن گیا اچا محل

ذرہ ذرہ ریت روحی تھل بنیا

پنہ پنہ رل کتاباں بن گیاں

٭

دانے دنکے رل کے باریں ہن تھیاں

پکھ پکھیرو بن کے جھاراں ہن اڈیئے

 

مہگاں جئیں ویلھے چھڑیاں اجڑ بنئے

بیٹ دیاں منجھیں مہاگاں بن گیاں

بھل اساں انسان رل کے کیا بنئے ؟

بھل کرائیں انسانیت دے درس کوں

خودفریبی ساڈا اوچھن بن گئی

تے اساں رل مل راہون دی بجائے

قومیں نسلیں وچ نکھڑ کے رہ گئے

شاعر نے اپنی ایک اور نظم ’’یاس‘‘میں مردوں کے اس بے رحم معاشرے میں عورت کے سلگتے ارمانوں کو یوں بیان کیا ہے   ؎

موسم چیتر بہار جو آوے

باغ وچالے و نج تے باہواں

چٹے، پیلے، لال، گلابی

رنگ برنگے پھل جو ڈسن

ڈیکھ تے اے سوچیندی راہواں

کٹھے کرتے جھولی پاواں

گجرے جوڑاں ہار بناواں

وت کجھ سوچ کے دید بھنواواں

اکھیں پاڑ تکیندی راہواں

بھولیں وانگ الیندی راہواں

گجرے ہار بنا کے آخر

پاواں تاں میں کیں کوں پاواں ؟

آخر اپنی راند ونجا کے

بس پھلیں کوں ڈیہدی راہواں

ہتھ نہ لاواں

اس کے علاوہ حمید الفت کا نعتیہ مجموعہ ’’میم دے اولے، 2007ء شائع ہوا تھا۔ اس میں شاعر کی نعتوں کا ہر ہر مصرعہ سرکار دو عالم ﷺ کی بے پایاں عقیدت سے لبریز ہی نہیں بلکہ آپ ﷺ کے آفاقی پیغام کا غماز بھی ہے۔ نعتیہ مجموعے کی سب نظمیں معرا ہیں اور نو مصرعوں پر مشتمل ہیں کیونکہ نو کا عدد مکمل ہے اور آپ ﷺ کی ذات بھی اکمل ہے۔

شاعر نے فنکارانہ مہارت اور عقیدت سے آپ ﷺ کے صفاتی ناموں کو منظوم صورت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے جو کہ نعتیہ شاعری میں منفرد کاوش ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک بڑا انسان -منور بلوچ

 

ہمیشہ بڑے اور عظیم انسانوں کی پہچان یہ رہی ہے کہ وہ فلاح انسانی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔ وہ خود دکھ اٹھا کر دوسروں میں خوشیاں بانٹتے ہیں، وہ رونے والوں کے آنسو پونچھتے ہیں۔ وہ بلا امتیاز ہر کسی سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھ اور زبان سے سب محفوظ رہتے ہیں۔ وہ ارفع و اعلیٰ اقدار کے احیا ء کے لیے کوشاں رہتے ہیں وہ اپنے انسان دوست افکارو نظریات اور مثالی اطوار و کردار سے دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں ان میں سے ایک خوبصورت نام منور بلوچ کا بھی ہے جن کی زندگی کا واحد مقصد دکھی انسانیت سے پیار ہی نہیں بلکہ ’’انسان دوست، کے نام سے ادارہ بھی بنایا ہوا ہے جس کا ماٹو ہے ’’محبت ہر کسی سے نفرت کسی سے نہیں، محسن و مربی خیال امروہوی مرحوم بھی منور بلوچ کی بے حد تعریف کرتے تھے۔ خاکسار نے بھی ان کو انتہائی شفیق و مہربان اور خوبصورت دل و دماغ رکھنے والا انسان پایا ہے۔ منور بلوچ نے 21مارچ 1952ء کو بستی بزدار تونسہ شریف میں محمد عنایت اللہ خاں حیرت کے گھر آنکھ کھولی جو اچھے شاعر بھی تھے۔ اس حوالے سے منور بلوچ سے استدعا ہے کہ اگر عنایت اللہ خاں حیرت کا کلام میسر ہو تو اسے کتابی صورت میں ضرور لے آئیں۔ منور بلوچ نے ابتدائی تعلیم بستی کے مڈل سکول سے حاصل کی میٹرک لیہ سے کیا۔ پھر بی۔ کام کراچی یونیورسٹی سے، اور ایم۔ اے سیاسیات پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ بینکنگ لا ء کا ڈپلومہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے مطالعہ قرآن کی سند بھی حاصل کی جو ان کے اسلامی روشن فکر دانشور ہونے کی غماز ہے۔ منور بلوچ بینکاری سے منسلک رہنے کے ساتھ ساتھ خاص طور پر جرمنی، برطانیہ، سویٹزر لینڈ، فرانس اور انڈیا جیسے ممالک کی نہ صرف سیر و سیاحت کی بلکہ ان کی علم دوستی، انسان دوستی، فرض شناسی اور دیانتداری سے بے حد متاثر بھی نظر آتے ہیں۔ اس وقت منور بلوچ کی درج ذیل کتب شائع ہو کر ادبی اور عوامی حلقوں میں مقبولیت پا چکی ہیں۔

:1    عصر حاضر کے مسائل کا حل سیرت طیبہ کی روشنی میں 1995ء وزارت مذہبی نے اسلام آبادسے شائع کیا۔

:2     انسان کو بچایا جائے 1997ء

:3     زمین پر زندگی 2000ء

:4     بھوک کس کی اناج کس کا 2005ء

:5     شہرِ جاں کے عذاب 2007 ء

:6     رفاقتوں کا سفر2007ء

:7    برف میں لپٹی آگ 2010ء

:8     پیڑ پر لکھی محبت 2012ء

How to read banking

Banks must Know

منور بلوچ کی نثر کی دو کتابیں انسان کو بچایا جائے اور زمین پر زندگی فکر انگیز ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کو اپنی طرف متوجہ بھی کرتی ہیں۔ کیونکہ منور بلوچ جیسے خوبصورت فکر رکھنے والے ادیب و شاعر کو حکیم محمد سعید، سید افضل حیدر، ڈاکٹر خیال امروہوی، ڈاکٹر اسد عدیل، حسن نثار، ڈاکٹر گوہر نوشاہی، پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر عاصی کرنالی اور ڈاکٹر افتخار بیگ جیسی نابغہ روزگار ہستیوں نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ منور بلوچ انسانیت کے تین بڑے دشمن جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور مذہبی اجارہ داروں کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ وہ ایسے اسلامی سکالر ہیں جو مارکسی فلسفہ معاشیات کے بجائے معاشی، سیاسی، سماجی، معاشرتی تعلیمی اور اخلاقی نظام کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں دیکھتے ہیں تاکہ انسانی سماج میں توازن پیدا ہو۔ منور بلوچ کے اس وقت نثر ی نظم کے تین مجموعے آ چکے ہیں کیونکہ نثری نظم اوزان و بحور سے ماورا ہوتی ہے۔ اسے نثر لطیف بھی کہا جاتا ہے۔ مگر شاعری نہیں۔ اس حوالے سے اساتذہ شعراء نے بھی گراں قدر تجربے کر کے تخلیقی عمل کو آگے بڑھانے کی سعی کی ہے۔ منور بلوچ بھی نثر ی نظم کے باکمال شاعر ہیں۔ ان کے خیالات فطری حسن سے مالا مال ہی نہیں بلکہ ہر نظم لطافت و نزاکت کا مرقع بھی ہے۔ ان کے ہاں جذبے کی صداقت بھی ہے اور اسلوب کی سلاست بھی۔ موصوف درد انسانیت رکھنے والے حساس انسان ہیں۔ اس لیے انسان کی بے بسی، بے چارگی، غربت و افلاس اور جہالت پرستی کے بھیانک مناظر دیکھ کر نہ صرف خون کے آنسو روتے ہیں بلکہ اپنی نظم ’’مقامِ دعا، میں اپنے بے ساختہ جذبات و احساسات کا اظہار یوں کرتے ہیں   ؎

زمین پر کاشت کروں ربوبیت کے بیج

پرندوں کے بال و پر اگنے کے اسباب کروں

 

فضاء کو بھر دوں جگنوؤں کی اڑانوں سے

اور دھرتی کے ہر بچے کو کتابیں دے کر

 

جگنوؤں کی روشنی میں

پڑھنے کا شعور ا جا گر کروں

حیات نو کے اسباب پیدا کروں

منور بلوچ انسانی ضمیر احساس کو جگانا چاہتے ہیں۔ وہ محبت کے پھول اگا کر اس دھرتی کو اسلحہ سے پاک کرنا چاہتے ہیں وہ ایسا علم سیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں جو شعور ذات و کائنات دے۔ وہ ملکیتی نظام کے بھی خلاف ہیں کیونکہ ازل سے اللہ کی زمین پر غاصبوں کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے دھرتی بھوک، جنگ اور نفرت کے شعلوں میں گھری نظر آتی ہے، وہ کہتے ہیں یہ دنیاسب کی سانجھی ہے اس کو تقسیم نہ کیا جائے اور ایک دوسرے کا خون نہ بہایا جائے کیونکہ یہ شرفِ انسانی نہیں ہے۔

موصوف اپنی ایک نظم ’’تاج محل، میں محبوب سے یوں گویا ہوتے ہیں جس کا کچھ حصہ نذر قارئین ہے   ؎

بھوک اور بارود کی فصلیں اگاتے ہیں

میرے محبوب تاج محل کی تعمیر کا خواب

 

ماضی کی حماقت تو ہوسکتا ہے

آؤ آج کچھ درس گاہیں تعمیر کریں

 

اور تخلیق کریں پیا رکے نئے حروف

جن کے مفاہیم میں ترمیم نہ ہو

 

قرآن کے لفظوں کی طرح مقدس اور ابدی

آؤ اک نئی زندگی تراشیں مل کر

جس میں نغمے ہوں، ساز ہو، آواز ہو

منور بلوچ کی شاعری مسائل میں ڈوبے ہوئے انسان کا نوحہ ہے۔ وہ اہلِ قلم کو بھی یہ احساس دلاتے ہیں کہ اپنا لازوال کردار ادا کریں۔ وہ پرامن معاشرے کے لیے نظام ربوبیت پر زور دیتے ہیں۔ اس لیے اپنی نظم ’’آئینِ  نو، میں دھرتی کے ہر انسان کو مل کر رہنے کا احساس دلاتے ہیں کیونکہ اسی میں ہر انسان کی بقا کا راز مضمر ہے۔ اس حوالے سے ان کی نظم بقا کا کچھ حصہ دیکھیے   ؎

انسانوں کے درمیاں

ساری فصیلیں بھی گرانی ہیں

مجھے کچھ لوگ ایسے بھی تو ڈھونڈنے ہوں گے

جو سوچنے کا شعور رکھتے ہوں

روشنی سے ڈرنے والے لوگوں کو اکٹھا کرنا ہو گا

انہیں سمجھانا ہو گا

اندھیرے خوفناک ہوتے ہیں

منور بلوچ جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہاں تعفن سے دم گھٹتا ہے۔ آزادی اظہار پر پابندی ہے۔ معاشرتی قباحتوں سے زندگی کی رعنائی نظر نہیں آتی، ہر قدم پر مقتل سجے ہیں۔ انسانی روپ میں درندے دندناتے پھرتے ہیں۔ موصوف نے اپنی نظم ’’طاقتور انسان، کے نام پر یوں طنز کیا ہے   ؎

انسان کا رشتہ

آپس میں انسان کے ساتھ

صدیوں پر محیط

اتنی سچی بات کا راز

تم کیا جانو

تیرے ہاتھوں میں طاقت ہے

گولی اور بندوق

عقیدتوں کا اندھا پن

رنگوں کی پہچان تم کیا جانو

طاقتور انسان

منور بلوچ کو تاریخ انسانی کا مطالعہ کر کے اس بات پر دکھ ہے کہ ازل سے انسان کو مذاہب کے خانوں میں بانٹ کر نہ صرف قتل و غارت کی گئی بلکہ پیداواری وسائل پر قابض ہو کر ظلِ  الٰہی کے روپ میں استحصال بھی کیا جاتا رہا۔ ظلم یہ کہ غربت و افلاس اور جہالت کے مارے انسانوں کو مقدر کی بھنگ پلا کر ہمیشہ کے لیے سلا بھی دیا گیا ہے تاکہ وہ ان کے خلاف بغاوت نہ کرسکیں اور خدا کی مرضی پر چپ چاپ سلگتے رہیں۔ کیونکہ منور بلوچ روشن فکر دانشِور ادیب و شاعر ہیں وہ ایسے انسان سوز رویوں اور سازشی ہتھکنڈوں کو پسند نہیں کرتے اس حوالے سے ان کی نظم ’’تقسیم، دیکھیے جو منور بلوچ کے بے ساختہ جذبات و احساسات کی غماز ہے :

جدا انسان کو انسان سے کرتے چلے آئے

کبھی مندر، کبھی گرجا، کبھی سورج کی پوجا سے

لگا کر ہر جگہ بازار اسلحے کا

بچے، پھول، شبنم اور پھر سبزہ زمین کا

سب جلا ڈالا

عجب منڈی لگی ہے

ہر جگہ ہر شہر کونے میں

خریدے جا رہے ہیں

خواب، جگنو، تتلیاں اور پھول

بیچی جا رہی ہیں

ارمانوں کی سب شکلیں

لگی ہے آگ ہر سو آرزوؤں کی دنیا میں

پانی کون ڈالے

عجب رنگ میں کیا تقسیم دھرتی کے ہر ایک ذرے کو

عدل کے نام پر عجب انصاف کر ڈالا

ہاتھوں کی لکیروں سے مقدر کی گواہی پر

غریبی کے لکھے جاتے ہیں فیصلے سارے

جدا انسان کو انسان سے کرتے چلے آئے

منور بلوچ کی شاعری رنج ذات سے مرکب ہے۔ انہوں نے اپنی ہر نظم میں تشبیہوں، استعاروں، تمثیلوں اور اشاروں کے ذریعے انسانی دکھوں کا کھل کر اظہار کیا ہے ان کی درج ذیل نظمیں بھی خط مت لکھنا، ہجر ت، دلہن، تجارت، خسارے، زوال، مریخ کا انسان، میں نے سچ لکھ دیا ہے، شہر جاں کے عذاب، وطن، آئین نو، نئی ہیر، تیرے پانے کی خواہش، صلیب وقت وغیرہ محرومی، بے بسی بے چارگی جبرو استحصال ارمانوں اور امنگوں کی آئینہ دار ہی نہیں بلکہ نئے عزم سے جینے کا احساس بھی دلاتی ہیں۔ موصوف کا انداز بیاں مصلحانہ ہے کیونکہ ان کے من میں صوفی بھی چھپا بیٹھا ہے جو عصر بے چہرہ میں جمالیاتی رنگ بھرنے کی سعی کرتا نظر آتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

قندیلِ دل جلا کر شعر کہنے والا شاعر – امان اللہ کاظم

 

اس وقت اردو، سرائیکی ادب میں ایسے نام نہاد ادبا ء و شعراء کی کثیر تعداد موجود ہے جو قلم کی حرمت کو بیچ کر اپنے مفادات کے کشکول بھرنے، سستی شہرت حاصل کرنے اور بیساکھیوں کے سہارے بلند قامت بننے کی سعی لاحاصل کرتے نظر آتے ہیں تاکہ وہ ادب پر اجارہ داری قائم کر کے خود کو ارسطو دوراں کہلوا سکیں لیکن مارکسی دانشور اور انقلابی شاعر ڈاکٹر خیال امروہوی نے واضح انداز میں یہ کہہ دیا تھا   ؎

بغل میں بیساکھیاں لگا کر بلند قامت نہ بن سکو گے

بلند قامت وہی ہیں جن کو بلند قامت کہے زمانہ

چونکہ امان اللہ کاظم سچے، کھرے، درویش منش شاعر و ادیب ہیں جو خودپسندی، خود نمائی اور سستی شہرت کو پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے بھی ایسے قلمی، فنکاروں پر یوں طنز کیا ہے   ؎

کیوں نہ بک بک ودے روون شاعر تے ادیب

للمی فنکاریں دے فن تے جو اجارے تھئے ہن

تاریخ شاہد ہے کہ ایسے فنکار رسواہو کر ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔

امان اللہ کاظم کے جد امجد میاں خان محمد خان والی افغانستان احمد شاہ ابدالی کے ساتھ غزنی سے ہندوستان آئے تھے جو پٹھانوں کے معروف قبیلے سلیمان خیل کی ایک شاخ جلال زئی سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ جید عالم ہی نہ تھے بلکہ صاحبِ کشف بھی تھے۔ وہ بستی ٹبہ امام کے قریب حضرت شیخ ابراہیم کے مزار کے پہلو میں مسجد کے ہجرے میں رہ کر درس و تدریس میں مشغول ہو گئے تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو مزار کے سایہ میں دفن کر دیا گیا۔ امان اللہ کاظم کے دادا مولوی عبدالجبار خاں نے مکتبہ دیوبند سے نہ صرف دستارِ فضیلت حاصل کی تھی بلکہ طبِ  یونانی کے حاذق حکیم بھی تھے۔ فارسی، سرائیکی کے قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش الحان بھی تھے۔ امان اللہ کاظم نے 20مئی 1945ء کو عطا محمد خان کے گھر آنکھ کھولی، موصوف کے والد بھی عالم فاضل انسان تھے۔ امان اللہ کاظم پانچویں جماعت میں تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ پھر موصوف کو تعلیم کے لیے دربدر ٹھوکریں کھانا پڑیں، اپنے چھوٹے ماموں کے توسط سے چھٹی جماعت گورنمنٹ ہائی سکول جہانیاں منڈی ضلع ملتان اور ساتویں جماعت بڑے ماموں کے توسط سے گورنمنٹ ہائی سکول ترنڈہ سوائے خان ضلع رحیم یار خان سے پاس کی۔ پھر اپنے بھائی کی وساطت سے گورنمنٹ ہائی سکول ناران بلوچستان میں آٹھویں جماعت میں داخلہ لیا لیکن ان کے بھائی کا تبادلہ روجھان جمالی ضلع جیکب آباد سندھ ہو گیا پھر موصوف اپنی والدہ کے ساتھ گاؤں آ گئے اور اس طرح تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا لیکن موصوف نے غربت و افلاس سے تنگ آ کر مرغیوں کے انڈوں کی خرید و فروخت شروع کر دی۔ لیکن ان کی عظیم والدہ نے غمِ حالات کا نہ صرف خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا بلکہ اپنے لختِ جگر کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے اور آئیڈیل انسان بنانے کے لیے لازوال کردار بھی ادا کیا۔ اور موصوف کو گورنمنٹ مڈل سکول نتکانی میں داخل کرا دیا۔ جب آٹھویں جماعت کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا تو ان کو نیا عزم نیا حوصلہ ملا۔ پھر گورنمنٹ ہائی سکول وہوا سے میٹر ک کیا اس کے بعد زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں داخلہ لے لیا لیکن چند مجبوریوں کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر واپس آنا پڑا۔ 1940ء میں گورنمنٹ ٹیچرز ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں ہمت کر کے داخلہ لیا اور خدا خدا کر کے امتحان پاس کیا پھر حاجی امیر محمد مراد خان جمالی کے توسط سے پرائمری سکول روجھان میں بطور ایس وی ٹیچر تعینات ہو گئے لیکن جلد گورنمنٹ ہائی سکول نتکانی ضلع ڈیر ہ غازیخاں میں آ گئے۔ اس طر ح پانچ سال ہائی سکول نتکانی اور  پانچ سال ٹبی قیصرانی میں اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 1979ء میں گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول لیہ میں تبادلہ ہو گیا۔ 1980ء میں ایف۔ اے بی۔ اے اور بی۔ ایڈ کے امتحانات بھی پاس کر لیے۔ اس طرح 16دسمبر 1995ء تک اپنے تدریسی فرائض بطریق احسن سرانجام دیتے رہے تصنیف و تالیف اور شاعری کو بھی اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر خیال امروہوی مرحوم، نسیم لیہ مرحوم، ارمان عثمانی مرحوم، مسرور بدایونی مرحوم، کیف شکوری مرحوم، آذر تونسوی مرحوم، فیاض قادری مرحوم، نادر قیصرانی مرحوم، واصف حسین واصف قریشی، پروفیسر مہر اختر وہاب، پروفیسر شفقت بزدار، ڈاکٹر مزمل حسین، عدیم صراطی مرحوم، نذیر چوہدری مرحوم، پروفیسر ڈاکٹر افتخار بیگ، حمید الفت ملغانی، شہباز نقوی مرحوم، شعیب جاذب، احمد خان طارق، لطیف فتح پوری، جیسی عظیم علمی و ادبی شخصیات کی صحبتیں بھی میسر آئیں۔ ڈاکٹر خیال امروہوی کے فلسفیانہ افکار و نظریات کی وجہ سے لیہ پاکستان کا ایتھنز بھی کہلاتا ہے۔ موصوف نے نسیم لیہ، نادر قیصرانی اور واصف قریشی کے ساتھ مل کر نادر سرائیکی سنگت کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ اس طرح’’ پپلیں ہنج نہ ماوے ‘‘

سرائیکی شعری مجموعہ ’’رستہ رستہ اوجھڑ، قندیلِ دل اردو شعری مجموعہ کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔ کن بُر، کے نام سے سرائیکی ضرب الامثال کی اردو شرح بھی کی۔ منگولیا کا دجال چنگیز خاں، پیکر جلال و جمال ٹیپوسلطان شہید، فاتح اندلس، طارق بن زیاد، کم سن فاتح محمد بن قاسم، خونخوار بھیڑیا ہلاکو خاں، آفتابِ حریت سلطان صلاح الدین ایوبی، ابو سلیمان سیف اللہ خالد بن ولید کا بیٹا سکندر اعظم جیسے تاریخی ناول لکھ کر اپنی تاریخ دانی کا ثبوت بھی دیا ہے کہ جس سے سچے مسلمان کی خوشبو آتی ہے۔ اس کے علاوہ خوننابِ خُم، شرحِ دیوان حکیم مومن خان مومن، ما الحیات (شرح دیوان خواجہ میر درد)تلخابۂ شیریں (شرح دیوان ساغر صدیقی، شرح بالِ جبریل، شرح ضرب کلیم، شرح ارمغان حجاز، اردو ترجمہ، شرح بانگ درا، بھی ان کی علمیت کی غماز ہیں۔

حال ہی میں ان کی سرپرستی میں بزم دانش بھی قائم کی گئی ہے۔ جس کے تحت سہ ماہی مجلہ ’’سوجھل سویر، بھی نکلتا ہے۔ جس کے روح رواں ڈاکٹر گل عباس اعوان ہیں۔ جو انتہائی لطیف اور نفیس مزاج انسان ہی نہیں بلکہ یہ رنگ مجلے میں بھی نظر آتا ہے۔ جن میں ادبی معاشرتی ثقافتی مضامین شامل ہوتے ہیں۔ امان اللہ کاظم کو بوجہ شوگر اور عارضہ قلب کی وجہ سے دس سال پہلے ریٹائرڈ ہونا پڑا۔ اس لیے مزاج میں سست روی غالب آ گئی ہے۔ پھر بھی بیماری کو اپنے اوپر سوار نہیں کیا۔ بلکہ جواں ہمتی سے ادب کی گراں بہا خدمات میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ موصوف کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جنہوں نے اپنی اپنی تعلیم مکمل کر لی ہے۔ امان اللہ کاظم آج کل سرائیکی گرائمر پر کا م کر رہے ہیں۔ جس کی تین جلدیں ہوں گی۔ پہلی جلد میں سرائیکی زبان کی تاریخ اور اس کے حروف تہجی پر سیر حاصل بحث ہے۔ دوسری جلد میں سرائیکی افعال اور حروف کا مفصل بیان شامل ہے۔ تیسری جلد میں سرائیکی فن شاعری بلاغت اور علم العروض پر مفصل بحث شامل ہے۔ اس وقت امان اللہ کاظم کا اساتذہ شعرا ء میں شمار ہوتا ہے۔ اس لیے پپلیں ہنج نہ ماوے، کی شاعری قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے کیونکہ اس میں انسانی زندگی کے سلگتے مسائل کو سامنے لایا گیا ہے۔ موصوف کا سماجی شعور بیدار ہے وہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی سیاسی سماجی معاشی معاشرتی، مذہبی اور  ثقافتی تبدیلیوں کو جب شعور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں تو ان کو قدم قدم پر کربلا کے خونچکاں مناظر دکھائی دیتے ہیں اور بھوک وافلاس میں بلبلاتے عوام کی حالت زار رلا دیتی ہے جو خوف و ہراس کی فضا ء میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ چند شعر دیکھیے   ؎

اج دا انسان ایویں جیندا پئے

بکھ دی چکی دے وچ پنوھیندا پئے

 

سکی روٹی نصیب نئیں کئیں کوں

کہیں دا کتا وی کھیر پیندا پئے

٭

آپ قاتل وی ہے، مخبر وی ہے منصف وی ہے

حاکم شہر توں انصاف منگیجے کیویں

 

ہر نواں زردار ہے، اینہہ دور دا  ابنِ  زیاد

وستی وستی، ویڑھا ویڑھا کربلا لگدے میکوں

کاظم اج ہر پاسے طاری اے دہشت دی فضا

چہر ہ چہر ہ خوف توں وبلیا ہویا لگدے میکوں

امان اللہ کاظم دردمند انسان ہونے کے ناتے متوکل باللہ بھی ہیں جو استعمارانہ نظام زندگی سے دکھی انسانیت کا جی چھڑانے کے لیے قرآنی تعلیمات اور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے پر زور دیتے ہیں تاکہ امن و محبت، ترقی و خوشحالی کے جذبے پروان چڑھ سکیں اور سسکتی انسانیت کو اطمینان قلب نصیب ہو، لیکن شر ط یہ ہے کہ عشق کو عقل و خرد کا راہنما بنانا ہو گا۔ وہ عشق جو حضرت اویس قرنی اور حضرت بلال کا تاریخ سے ثابت ہے۔ عدم صورت میں دنیا سنور سکتی ہے اور نہ آخرت۔ چند شعر دیکھیے   ؎

دوام چہندیں جے زندگی دا تاں شرط ہے اپنی زندگی کوں

سدا بطرزِ اویس قرنی، سدا برنگ بلال رکھیں

٭

منزلاں چمن قدم کاظم تیڈے خود ودھ کرائیں

عشق کوں عقل وخرد دا راہنما تھیون تاں ڈے

٭

چہندیں اگر توں ڈوجہان وچ سربلند یاں

ہک ہک قدم تے آپ اپنا احتساب کر

٭

پارو نجڑی بہہ کرئیں کندھی تے منصوبے نہ لیک

پار ہن بیڑے توکل دے توں دریا وچ تاں پیہہ

اس طرح امان اللہ کاظم کا اردو شعری مجموعہ ’’قندیلِ دل، کلاسیکی روایت کا امیں ہی نہیں بلکہ اس میں جذبہ عشق کی شدت و فراوانی نظر آتی ہے، اس میں محبوب حقیقی کا عکس واضح ہے وہ دولتِ ایمان، حب رسول اور الفتِ قرآن کو متاع حیات سمجھتے ہیں اس لیے ان کے حمدیہ نعتیہ اشعار سے اک سچے مسلمان کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ دو شعر دیکھیے   ؎

نور مصطفوی نے ہر گوشہ منور کر دیا

دہر کو مشک نبوتؐ سے معطر کر دیا

لرزہ بر اندام  کاخِ قیصر و کسریٰ  ہوئے

بجھ گئے صدیوں سے سلگائے ہوئے آتشکدے

امان اللہ کاظم عربی، فارسی زبان و ادب کا مطالعہ رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے اپنی غزل میں اشہبِ  شب، اشکِ بے تاب، کنجِ قفس، رہروانِ شوق، حرفِ فغاں، عزمِ صمیم، رسمِ میکشی، شانِ سرمدی، صراطِ  عشق، چشمِ گریاں، قعرِ دریا، چشمِ عریاں، حدیثِ فرقت جاناں، سنانِ  چشم ہائے سرمگیں، کلاغِ حرص و آز، آتشِ ہجر، نقشِ کفِ پا جیسی عربی فارسی تراکیب کا استعمال کیا ہے بلکہ تشبیہات واستعارات تلمیحات کو جگہ دے کر غزل کے فطری حسن کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ ان کی غزل میں خیالات کی ندرت بھی ہے اور الفاظ کا طنطنہ بھی، جذبے کی صداقت بھی ہے، عشق کی شدت بھی، رجائیت بھی ہے اور تازگی بھی، ناصحانہ و خطیبانہ انداز بھی ہے اور حسن بیان بھی، مختصر امان اللہ کاظم کی غزل میں وہ تمام خوبیاں نظر آتی ہیں جو اساتذہ شعرا ء کا طرہ امتیاز ہیں۔ لیکن موصوف اپنی نظموں میں اقبال کی تقلید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے بھی اسلامی دنیا پر اقبال کے افکار و نظریات کی گہری چھا پ ہے۔ حال ہی میں ڈاکٹر مزمل حسین کی کتاب اقبال اور لیہ چھپ کر آئی ہے جو اقبالیت کے حوالے سے اہم کتاب ہے۔ امان اللہ کاظم بھی اقبال کے انداز میں اپنی نظم ’’کفرِ  تہذیب نو، میں مسلمانوں پر طنز کرتے ہیں جو اسلامی اقدار چھوڑ کر تہذیب نو کے پرستار ہو گئے ہیں جس سے ایمان کے چہرے نہ صرف جل گئے ہیں بلکہ مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اب انسانیت کے راستے مسدود اور علم و عمل کے دائرے محدود ہو گئے ہیں۔ اسلام رنگ و بو کے اندھیروں میں کھو گیا ہے، اب نہ رومی ہے نہ رازی، مساجد تو بہت ہیں مگر سچے نمازیوں کوترستی ہیں۔ دو شعر دیکھیے   ؎

مسلم ہوس کے خول میں محبوس ہو گئے

تہذیبِ نو کے کفر سے مانوس ہو گئے

رشتوں کی دل سے عزت و تکریم اٹھ گئی

فکرو نگاہ کے زاویے معکوس ہو گئے

موصوف نے اپنی نظم ’’شاعرِ فطر ت، میں اپنے روحانی پیشوا اقبال کو نہ صرف خراج تحسین پیش کیا ہے بلکہ مسلمانوں کی موجودہ خونچکاں صورت حال کا رونا بھی رویا ہے   ؎

اے کہ تُو مردِ قلندر، اے کہ تُو دانائے راز

طائرِ تخیل کا تیرے ہے سدرا پر قیام

 

قلبِ مومن کو تیرے افکار نے بخشا گداز

پھر مئے عرفانِ ہستی سے ہوا وہ شاد کام

 

آج وہ پھر ہے  اسیرِ دامِ تہذیبِ افرنگ

آ ج پھر اس کا مئے توحید سے خالی ہے جام

 

پھر وہی فرقہ پرستی، پھر وہی نسلی فریب

پھر اسی طوقِ غلامی کا ہے سارا اہتمام

امان اللہ کاظم نے اپنی نظم میں جوانوں کو فرنگی چالوں سے خبردار کرتے ہوئے روایتی جذبہ جہاد کی طرف مائل بھی کیا ہے   ؎

جوانو! ذرا خوابِ غفلت سے جاگو

فرنگی فسوں گر کے پیچھے نہ بھاگو

 

یہ تہذیبِ نو زہر سے کم نہیں ہے

تجھے اے جواں کچھ خبر ہی نہیں ہے

تو اسلام پر اپنی گردن کٹا دے

لٹا دے متاعِ دل و جاں لٹا دے

 

تو اسلاف کی جراتوں کا امیں ہے

تجھے اے جواں کچھ خبر ہی نہیں ہے

اس طر ح آہ   -مسجد اقصیٰ‘‘نظم بھی مسلمانوں کی بے حسی اور بے عملی کی غماز ہے۔ امان اللہ کاظم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے تین مصرعی’’ وائی، جسے سندھی زبان میں بیت بھی کہا جاتا ہے۔ شاہ بھٹائی کے بعد سندھی زبان کے شعرا ء نے وائی کی روایت کو زندہ رکھا جو جاپانی صنف ہائیکوسے ملتی جلتی ہے۔ مگر امان اللہ کاظم نے بھی اس خوبصورت صنفِ  سخن کو سرائیکی اور اردو میں متعارف کرایا ہے۔ چند بیت دیکھیے   ؎

چھریاں دابے بغل میں منہ سے جاپیں رام

ڈھونڈیں بن بن باولے زر کو صبح و شام

نرکھ ان کا انجام پیسہ جن کا دھرم ہے

 

من درپن میں یار کا دیکھا روپ سروپ

ہرگز جچا نہ آنکھ میں پھر کوئی بھی روپ

 

چھاؤں ہو یا دھوپ ہر سو دیکھوں یارکو

من میں سیندور پریم کا مجھ سے مانگ سنگھار

 

تیرے روپ کی چاندنی، روشن من کا دوار

امر ہمارا پیار، ہم سے بھرم پیار کا

ان تین بیتوں میں نہ صرف ہندی الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے بلکہ شاعر کے من میں چھپا صوفی بھی اپنے محبوبِ حقیقی کی محبت میں سرشار نظر آتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 سرائیکی وسیب کا نمائندہ شاعر-مصطفی خادم

 

مصطفی خادم کتنا خوش نصیب ہے کہ جس نے عبدالوہاب دین پنا ہ جیسے صوفی بزرگ کے سایہ ہمایوں میں آنکھ کھولی تو اسے زندگی کی حقیقتوں کا ادراک ہونا شروع ہو گیا۔ جب مشاہد ہ کی آنکھ سے وسیب کو دیکھا تو اس کے دل میں جاگیرداروں اور مذہبی اجارہ داروں سے نفرت پیدا ہوئی پھر اس مرد قلندر نے بد حال عوام کو ان کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے بچانے اور اوہام و خرافات، رسوم و رواجات کی خندق سے نکالنے کے لیے شاعری کو اظہار کا وسیلہ بنایا پھر اس وقت کے معروف سرائیکی کے استاد شاعر غلام محمد شاکر تونسوی سے اصلاح لینا شروع کی۔ وہ خوش اخلاق، خوش مزاج اور ہمدرد انسان تھے۔ وہ تنگ دست ہوتے ہوئے بھی دل کے امیر تھے اس لیے ہر وقت اس کے پاس شعراء کرام کی محفل صبح سے شام تک جمی رہتی وہ حسب توفیق خدمت بھی کرتے۔ وہ دن بھی غنیمت تھے کہ سینئرز کا احترام تھا آپس میں محبت پیار تھا۔ اب تو یہ جذبے مرتے جا رہے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ متشاعر بھی خود کو استاد سمجھتے ہیں اور خواجہ سراؤں کی طرح ٹولیاں بنا کر ایک دوسرے کی تعریفیں کر کے نہ صرف آسمان کے قلابے ملاتے ہیں بلکہ سینئرز کی غیبت اور ان کے کلام سے کیڑے بھی نکال کر خود کو دانشور اور قادر الکلام شاعر سمجھتے ہیں۔ شہروں کی نسبت اب مضافات میں ادبی خواجہ سراؤں کی بہتات نظر آتی ہے۔

مصطفی خادم ایک سچا اور کھرا شاعر ہے۔ اس نے شاعری کا آغاز تو روایتی انداز سے کیا، ریاضت اور مطالعہ بھی جاری رکھا۔ جس کی وجہ سے شاعر ی فطری حسن سے مالا مال ہوتی گئی، اب مصطفی خادم کا شمار اساتذہ شعراء میں ہوتا ہے اس لیے اُس کے شاگردوں میں حبیب مظہر نمایاں نام ہے۔

جب مصطفی خادم کا پہلا شعری مجموعہ ’’پارت، 1993میں چھپا تو ادبی اور عوامی حلقوں میں دھوم مچا دی، جس کادوسرا ایڈیشن 2005ء میں چھاپنا پڑا۔ اس نے نظمیں، گیت، کافیاں، قطعات اور دوہے بھی کہے لیکن غزلیہ شاعری کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ کیونکہ اس نے قدیم و جدید رنگ ایسی فنکارانہ مہارت سے یکجا کیے ہیں کہ مختلف ذوق رکھنے والے قارئین دلچسپی سے پڑھتے ہیں، وہ غم جاناں کی بات کرتے ہیں مگر غم دوراں اس کی شاعری کا اصل مقصد حیات ہے۔ مثال کے طور پر محبوب کے حوالے سے چند شعر ملاحظہ فرمائیں   ؎

خود بخود پیدا کریندن شوق شرمیلیاں اکھیں

شرط ہے ڈیکھے سہی کوئی مہ جبیں محمل کنوں

 

جیرھا اپنے رخ کنوں زلفاں ہٹا سگدا نئیں

کیا حفاظت تھیسی کہیں دے دل دی اوں غافل کنوں

٭

تیر دے وانگ جیندی اکھ دا اشارا لگدے

اومیڈی جان دا دشمن میکوں پیارا لگدے

٭

کھنڈگئے دید تے پھولا بن کے

عکس اوندے رخسار دے تِل دا

٭

آسرا ڈے کے بے آسرا کرڈتی

کیا ڈساواں سجن میکوں کیا کرڈتی

مصطفی خادم نے پنی شاعری میں ہجر وصال اور مونجھ کے الفاظ بار بار استعمال کر کے ناصر کاظمی کی یاد تازہ کر دی ہے، لیکن فیض کے بقول ’’ایک صحیح انقلابی شاعر اپنا انقلابی نظریہ محض انقلابی مضامین تک محدود نہیں رکھتا اس کے لیے حسن و عشق، مناظر فطر ت، شراب و ساغر سب ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر ہوتے ہیں چناں چہ وہ خالص عاشقانہ کیفیت کا ذکر کرتا ہے تو اس میں بھی انقلابی شعور کی کوئی نہ کوئی صورت پائی جاتی ہے۔ مصطفی خادم بھی درد انسانیت رکھنے والا سچا انقلابی شاعر ہے اس لیے اس کا شعری مجموعہ ’’لوار لہجے، ہو یا ’’پورھیا، اس کا ہر شعر انقلابی عزم اور نئی فکر کا غماز ہے اس کی شاعری انسانیت کے اعلیٰ و ارفع مقاصد کی ترجمان ہے۔ اس کے لہجے میں صداقت اور نگاہ میں بے باکی نظر آتی ہے وہ زندگی کے نشیب و فراز اور تلخ و شیریں حقائق کو چشم بینا سے دیکھتا ہے۔ وہ استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کی سخت مخالفت کرتا ہے۔ کیونکہ وہ معاشرتی قباحتیں پھیلا کر بھوک جیسے جاں لیوا عذاب سے گزار کر بے گناہ انسانوں کا قتل عام کرا کر اپنے مفادات کے کشکول بھرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کی شاعری ایسے نظام حیات کے لیے موت کا پیام ہے کیونکہ وہ ستم رسیدہ عوام کے حقوق کی بات کر کے ان کے فکرو شعور کو جگانا چاہتا ہے اور تمام امتیاز ات کو مٹا کر نسل انسانی کو وحدت کی لڑی میں پرونا چاہتا ہے تاکہ اخوت و محبت، امن و آشتی کے جذبے پروان چڑھیں اور زندگی فطری حسن سے مالا مال ہو۔ اس حوالے سے چند شعر نذر قارئین ہیں   ؎

مصطفی خادم کوں بند کر لو ہیٹی جال وچ

انقلابی ٹورڈسدی ہے ایندے اشعار دی

٭

قاصد ہے انقلاب دی خادم تیڈی غزل

پھاسی سزا ہے تئیں جھئیں حاضر جواب دی

٭

کون آکھے وقت دے جلاد کوں

مار نہ بے جرم آدم زاد کوں

٭

مفلسی دا خون شامل ہے تیڈی شہرت دے وچ

سل گواہ ہے قصر شاہی دے درودیوار دی

توں سرمایہ دار ستم دا

میں مزدور محبت مل دا

٭

اِتھا انسان زخمی ہے اُتھاں انسانیت مرگئی

اجوکے روز نامے وچ نہ ملسی بی خبر کوئی

٭

کہیں دا حق غصب تھیندے، کہیں دا خون خرچ تھیندے

ایویں تاں نئیں اُسرپوندے چٹی چٹ تے محل کوئی

مصطفی خادم ایک حساس اور بالغ نظر شاعر ہے وہ لوگوں کو خود داری اور وقار سے جینے کا احساس یوں دلاتا ہے   ؎

سچ الاون دے عوض ملے جے قدر

دار بہتر ہے سارے مقامیں کنوں

 

ہتھ قلم تھئے تاں خادم خدا جی چھڑائے

جی حضوری کنوں ست سلامیں کنوں

مصطفی خادم خونچکاں حالات و واقعات سے مایوس نہیں بلکہ پر امید ہو کر کہتا ہے کہ میری شاعری نئی نسل میں بغاوت کی تحریک دے گی اور خوابوں کے حسین جزیروں میں رہنے والوں کو بیدار کرے گی   ؎

سردار دا سر گھنی میڈی سوچ سجاکی

رسمیں دی بغاوت میڈی اولاد کریسی

 

جاگ پووے جینکوں سنط کے نندر پئی مخلوق

گیت کوئی ایجھاں سر محفل اداکیتا ونجے

صبر کریسوتاں صلب گھنسی صلاحیت بے محاب موسم

ہوادے ہیلک حسین پرندو، اڈن دی سوچوسبیل کوئی

خوشی کی بات ہے کہ مصطفی خادم نے محاورے، استعارے اور تشبیہات سرائیکی وسیب سے لیے ہیں۔ اس کی شاعری میں خیال کی ندرت، جذبے کی شدت اور فکر کی جدت نمایاں ہے۔

مصطفی خادم کی پنج کنیط ایسا شعری مجموعہ ہے جو محمد ﷺ و آل محمد ﷺ کی بے پایاں عقیدت کا غماز ہی نہیں بلکہ رسول اللہ کے آفاقی پیغام کا آئینہ دار بھی ہے جس پر عمل کر کے بنی نوع انسان کے داخلی و خارجی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ سبط نبی ﷺ نے بھی کربلا میں اس پیغام کو سربلند کرنے کے لیے خون کا نذرانہ پیش کر کے باطل کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا دیا تھا۔ مصطفی خادم نے دنیا والوں کو حسینی سینہا دیا ہے جو نذر قارئین ہے   ؎

سئیں دا پیغام انسانیت ساز ھ اساں انسانیت سوز کم نہ کروں

جے صحیح سچ عزادار مولا دے ہیں اپنے منصب دا مقصد ختم نہ کروں

 

اساں آدم دی عظمت دے نگران ہیں سرنگوں عظمتیں دا علم نہ کروں

صدق دل نال ثابت قدم رہ ونجوں ٹوربھل کے پچھوہیں قدم نہ کروں

 

ہر جفا کار ظالمدے باغی بنوطں سرکٹے کٹ ونجے آپ خم نہ کروں

حق تے باطل دا کھل کے نکھیڑا کروں چشم پوشی میڈا محترم نہ کروں

 

بہوں وڈا انقلابی ھ ابنِ علیؓ ایں حقیقت کنوں کہیں کوں انکار نئیں

وقت دی مصلحت جیکوں مُل گھن گھنے ا و میڈے پیشو ادا عزادار نئیں

اس کے علاوہ’’ ہنڑ کیا تھیسی، نظم میں شاعر کہتا ہے کہ معاشرتی قباحتوں سے زندگی کے حسین رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں۔ راستہ ہے نہ منزل کا پتہ ہے اب راہبر پر اعتبار جاتا رہا ہے۔ اس جھو ٹی دنیا میں سچ کہیں نظر نہیں آتا۔ نظم ’’آہدے ہاسے ساون آوے، میں بنیادی سہولیات سے محروم طبقے کی ترجمانی کی گئی ہے۔ اس طرح ناپھرائی، کیا کیا ڈیکھساں نظمیں بھی محرومیوں، پریشانیوں کی آئینہ دار ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

شاعرِ طرح دار -بشیر غمخوار

 

بشیر غمخوار اُن نمائندہ شعرا ء میں شمار ہوتے ہیں جو سرائیکی وسیب میں معتبر حوالہ ہیں۔ وہ سرائیکی ادب کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں۔ وہ قلندر مزاج انسان ہیں اس لیے خود نمائی اور خود ستائی کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور سستی شہرت کے لیے بیساکھیوں کا سہارا بھی نہیں لیتے بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کام لے کر خوب نام کمایا ہے۔ وہ شاعر اہل بیت بھی ہیں اس لیے ان کی شاعری کا مرکز و محور محمد ﷺ اور آلِ محمد ﷺ کی تعلیمات ہیں جن کو اپنائے بغیر دنیاوی و اخروی زندگی بے معنی ہے۔ ان کا خاندانی نام تو بشیر احمد ہے جو نور محمد خان چچہ کے گھر یکم اکتوبر 1951ء کو جھوک مبارک والی موجود ہ نام عباس نگر ’’تونسہ، میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ میٹرک ہائی سکول تونسہ سے کیا۔ ایف۔ اے کرنے کے بعد غم حالات کی وجہ سے مزید تعلیم حاصل نہ کرسکے اور محکمہ ایجوکیشن میں بطور پی ٹی سی چھ جون 1973ء کو پرائمری سکول جامپور میں ملازمت کا آغاز کیا۔ پھر بطور ای ایس ٹی 1985ء کو ہائی سکول مکول کلاں میں اپنے تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ ان کا انتہائی قابل، محنتی اور فرض شناس اساتذہ میں شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے 11مئی 2005ء کو ریٹائرمنٹ لے لی۔ وہ سرائیکی کے معروف استادشاعر شاکر تونسوی کے شاگرد ہیں۔ وہ اپنی کامیابی کا راز استاد کی دعاؤں میں سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہر نوجوان شاعر کو سرزمین ادب میں قدم رکھنے کے لیے یہ مشورہ دیتے ہیں   ؎

ادب دی سرزمیں اچ دست بستہ سربہ خم آنویں

اوبندہ ٹھوکراں کھاندے جیہڑا استاد نئیں رکھدا

بشیر غمخوار اشلوک کے نام سے -شعری مجموعہ بھی لا رہے ہیں۔ نام بھی خوب تجویز کیا ہے کیونکہ سنسکرت میں اشلوک کے معنی ایسی نظم یا شعر کے ہیں جو زبان زد عوام و خواص ہو یہی وجہ ہے کہ محسن نقوی، جانباز جتوئی اور سرور کربلائی کے بعد بشیر غمخوار مشاعرے کے کامیاب شاعر سمجھے جاتے ہیں لیکن وہ مزاجاً غزل کے شاعر نہیں ہیں کیونکہ غزل کی تہذیب، کلچر اور آہنگ جانے بغیر غزل کہنا بے حد مشکل ہے۔ ان کی غزلوں میں معاشرتی رویوں پر طنز تو ہے لیکن خیالات کی ندرت عنقا ہے۔ اس حوالے سے ان کے غزلیہ اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

میڈا یقین وی جیکوں گمان لگدا ھِ

اوندا ضمیر کرپشن دی کان لگدا ھِ

 

سوا حرام دے کوئی شئے جیکوں پسند کائینی

میڈے وسیب کوں او وڈا جوان لگدا ھِ

 

میکوں کل کڑکدی دھپ کھڑے ہوئے ہک یتیم آکھے

تیڈے حلقے دا ممبر چھوٹر ی اولاد نئیں رکھدا

 

روحیں دی عام شام ہے دھرتی دمان دی

مردا ہے بکھ توں مال کوئی زخم ڈے کے ونج

 

زباناں خشک تھی ویندن الا کہیں دا نکلدا نئیں

جیرھا مردے او پانی دا اشارہ ڈے کرائیں ویندے

بشیر غمخواراہل بیت کے در کے گدا ہیں اس لیے انسان دشمن قوتوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، تھیوکریسی کے خلاف قلم کو شمشیربنا کر برسرپیکار ہیں مگر ان کا مزاحمتی رویہ نعرہ بازی سے پاک ہے۔ وہ مجبور و مقہور عوام کا سیاسی، سماجی شعور بیدارکر کے طبقاتی دیوار گرانا چاہتے ہیں۔ موصوف نے دیگر شعرا ء کی طرح وسیب کے سلگتے مسائل کا رونا رویا ہے۔ ان کو اس بات کا دکھ ہے کہ مسائل سے سلگتی دمان کی دھرتی پر آج تک کسی نے توجہ نہیں دی۔ وہ صدیوں سے بے اماں ہے لیکن وہ وسیب کی محرومیوں اور پسماندگی پر دلبرداشتہ نہیں بلکہ پر امید ہیں کہ بیداری فکر سے انقلاب ضرور آئے گا۔ گنگ زبانوں کو قوتِ گویائی ملے گی اور ظالمانہ، غاصبانہ نظامِ زندگی کا خاتمہ ہو گا۔

بشیر غمخوار غزل سے نظم عمدہ کہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ترقی پسند تحریک نے روشن فکری کو نہ صرف عام کیا بلکہ اردو ادب کو پابند مسدس نظم کا گراں بہا سرمایہ بھی دیا۔ اس کے اثرات سرائیکی شعری ادب نے قبول بھی کئے۔ بشیر غمخوار کی مسد س نظمیں سرائیکی شعری ادب میں اتنی اہمیت کی حامل ہیں جتنی کہ اردو میں مسدس حالی، اقبال کی شکوہ اور جوش کی مسدس نظمیں ہیں۔

بشیر غمخوار کی ایک مسدس نظم ’’حُج دی حسرت، ہے جس میں خدا سے شکوہ کیا گیا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اقبال کا شکوہ مسلمانوں کی زبوں حالی کے تناظر میں ہے مگر بشیر غمخوار کا شکوہ مجبورو مقہور طبقہ کی نہ صرف ترجمانی کرتا ہے بلکہ زمینی خداؤں سے نفرت کا احساس بھی دلاتا ہے۔ ان کے لہجے میں بغاوت تو ہے مگر حجت کے انداز میں۔ انہوں نے منافقت کے بجائے دل کی بات صاف صاف کہہ دی ہے جو ان کے سچے پن کی غماز ہے۔ نظم کے چار بند ہیں اس لیے دو نذر قارئین ہیں   ؎

میں تیڈیں امتحانیں دے قابل نمہی امتحانیں دی کوئی انتہا ہوندی ھِ

سال تھی گئے زمانے دی نت عید ھِ میکوں کوئی علم نئیں عید کیا ہوندی ھِ

ڈینہہ نبڑ دے زمانے دی حرفت دے وچ رات زندہ رہن دی سزا ہوندی ھِ

زندگی نال وی میکوں کوئی پیار نئیں میکوں پک ئِ جو اے بے وفا ہوندی ھِ

٭

تیڈیاں بے مہریاں ڈیکھ کے سوچیمی تیڈا در چھوڑ کے بے نوا تھی ونجاں

نعوذ باللہ کڈاہیں اے خیال آویندے میں وی کہیں خان وانگوں خدا تھی و نجاں

٭

ایں نہ سمجھیں جو افلاس توں ڈر کراہیں میڈا بند ہ ھِ منگداخدائی کھڑے

تھی کے بے حوصلہ آکے جذبات و چ اپنی وقعت کنوں کم ودھائی کھڑے

 

سکھنی تڑی سہی دل وچ ہنیڑے تے نئیں اوخدا دے اگوں سچ الائی کھڑے

اوکوں باغی سمجھ یا مجاہد سمجھ حال دل دا تیکوں سنائی کھڑے

٭

توں سنا کیویں رنگ ان تیڈے عرش تے میڈی دھرتی تے تھیندا اندھارا ویندے

بہوں ڈیہاڑیں کنوں میکوں اے وہم ہا یا نظر ویندی ھِ یا نظارہ ویندے

موصوف اس طر ح اپنی ایک اور نظم ’’بتھاڑا ایہوہاسواری ایہا ہائی، میں جاگیرداروں کو ملک و قوم کا دشمن سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے ایک بے باک صحافی وکیل انجم کی کتاب ’’سیاست کے فرعون، یاد آ رہی ہے کہ جس میں جاگیرداروں کے چہروں کو بے نقاب کیا گیا جنہوں نے سازشی ہتھکنڈوں سے پارلیمنٹ جیسے مقدس ادارے کے وقار کو نہ صرف مجروح کیا ہے بلکہ اڑسٹھ برس سے غاصبانہ قبضہ کر کے غریب عوام کو مسائل کی آگ میں جھونک کر خود تعیش پرستانہ زندگیاں بسر کر رہے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے قومی دولت بھی لوٹ رہے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ بقول راقم    ؎

ہر دور میں قانون سے بالا ہیں وڈیرے

افلاس ہی سہتا ہے یہاں کرب سزا کا

شاعر کے بے ساختہ جذبات و احساسات کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے   ؎

ادیبیں دے امتی ایہے سامعین ہن رعایا کوں پیغمبریں رول چھوڑے

دیواریں کنوں ٹپ کرائیں چور نئیں آئے نشابر ہا پیرہ دریں رول چھوڑے

 

کسیرہ کسیرہ کمت قافلے دی جتھاں ہئی اوکوں رہبریں رول چھوڑے

نہ دریشک دلاسہ ڈتے نال کھڑ کے لغاریں لتاڑے کھریں رول چھوڑے

نہ خواجے کتھائیں جاہ ڈتی ھِ دمان ا چ مزاریں سکائے مہتریں رول چھوڑے

جے کوئی بیٹ بسیکے قلم کار کانہاں کوں اسمبلی دے اور ھوستریں رول چھوڑے

 

روئیندی ھِ روہ نال روہی زبانی ممھانی دا گھر بے گھریں رول چھوڑے

میڈے نال حساس حس ہائی تاں اونکوں ہواوچ حسیں منظریں رول چھوڑے

 

حقیقت کوں فارغ فسانہ بنا کے فجر نال دانشوریں رول چھوڑے

فصل چیڑیں ہاب ئِ اڈا جھار پہلے پچھیں ستر شہباز بازیں دے میلے

بشیر غمخوار کا اسلوب سادہ مگر ان کی شاعری میں فکر کی صداقت، جذبے کی شدت، جدت نمایاں ہے۔ موصوف کا باغیانہ شعری طرز اظہار مقبولیت کا آئینہ دار ہے۔

٭٭٭

تشکر: جلیل حیدر لاشاری جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید