FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ترجمہ قرآن

 

حصہ اول: فاتحہ تا النحل

 

                فرمان علی

 

 

 

۱۔ سورۃ الفاتحہ

 

۱۔خدا کے نام سے (شروع کرتا ہوں ) جو بڑا مہربان رحم والا ہے۔

۲۔سب تعریف خدا ہی کے لیے (سزاوار) ہے جو سارے جہاں کا پالنے والا

۳۔بڑا مہربان رحم والا (اور)

۴۔روز جزا کا حاکم ہے۔

۵۔خدایا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں

۶۔تو ہم کو سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھ۔

۷۔اُن کی راہ جنہیں تو نے (اپنی) نعمت عطا کی ہے نہ اُن کی راہ جن پر تیرا غضب ڈھایا گیا ہے اور نہ گمراہوں کی۔

٭٭٭

 

 

 

۲۔ سورۃ البقرۃ

 

۱۔الم

۲۔یہ وہی کتاب (خدا) ہے (جس کا تمہیں علم ہے ) اس میں (کسی قسم کے ) شک و شبہ کی گنجائش نہیں یہ اُن پرہیزگاروں کی رہنما ہے۔

۳۔جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور (پابندی سے ) نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اُس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں

۴۔اور جو کچھ تم پر (اے رسولؐ) اور تم سے پہلے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں اور وہی آخرت کا بھی یقین رکھتے ہیں۔

۵۔یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر (عامل) ہیں اور یہی لوگ اپنی دلی مراد پائیں گے۔

۶۔بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے برابر ہے (اے رسولؐ) خواہ تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

۷۔ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر خدا نے مہر (نشانی) لگا دی ہے (کہ یہ ایمان نہ لائیں گے ) اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور انہی کیلئے (بہت) بڑا عذاب ہے

۸۔اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو (زبان سے تو) کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے حالانکہ وہ (دل سے ) ایمان نہیں لائے۔

۹۔خدا کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے دھوکا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ آپ اپنے ہی کو دھوکا دیتے ہیں اور کچھ شعور نہیں رکھتے۔

۱۰۔ان کے دلوں میں مرض تھا ہی اب خدا نے ان کے مرض کو اور بڑھا دیا اور چونکہ وہ لوگ جھوٹ بولا کرتے تھے اس لیے ان پر تکلیف دِہ عذاب ہے

۱۱۔اور جب کہا جاتا ہے اُن سے کہ ملک میں فساد نہ کرتے پھرو (تو) کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرتے ہیں۔

۱۲۔خبردار ہو جاؤ بے شک یہی لوگ فسادی ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔

۱۳۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لائے ہیں تم بھی ایمان لاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جس طرح اور بے وقوف ایمان لائے۔ خبردار ہو جاؤ یہی لوگ بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے۔

۱۴۔اور جب ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لا چکے تو کہتے ہیں ہم تو ایمان لا چکے اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تخلیہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو (مسلمانوں کو ) بناتے ہیں۔

۱۵۔(وہ کیا بنائیں گے )۔ خدا ان کو بناتا ہے اور اُن کو ڈھیل دیتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں غلطاں و پیچاں رہیں۔

۱۶۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی پھر نہ ان کی تجارت ہی نے کچھ نفع دیا اور نہ ان لوگوں نے ہدایت پائی۔

۱۷۔ان لوگوں کی مثل (تو) اس شخص کی سی مثل ہے جس نے (رات کے وقت مجمع میں ) بھڑکتی ہوئی آگ روشن کی پھر جب آگ (کے شعلے ) نے اس کے گرد و پیش خوب اجالا کر دیا تو خدا نے ان کی روشنی لے لی اور انکو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چھوڑ دیا کہ اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

۱۸۔یہ لوگ بہرے، گونگے، اندھے ہیں کہ پھر اپنی گمراہی سے باز نہیں آ سکتے۔

۱۹۔یا (ان کی مثل ایسی ہے ) جیسے آسمانی بارش جس میں تاریکیاں، گرج، بجلی اور موت کے خوف سے کڑک کے مارے اپنے کانوں میں اُنگلیاں دینے لیتے ہیں حالانکہ خدا کافروں کو (اس طرح) گھیرے ہوئے ہے (کہ اُسک نہیں سکتے )۔

۲۰۔قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو چوندھیا دے۔ جب ان کے آگے بجلی چمکی تو اس روشنی میں چل کھڑے ہوئے اور جب ان پر اندھیرا چھا گیا (تو ٹھٹک کر) کھڑے ہو گئے اور اگر خدا چاہتا تو یوں بھی ان سے دیکھنے سننے کی قوتیں چھین لیتا۔ بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

۲۱۔اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور اُن لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے پیدا کیا ہے عجب نہیں تم پرہیز گار بن جاؤ۔

۲۲۔جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اسی نے تمہارے کھانے کے لیے پھل پیدا کیے۔ پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ حالانکہ تم خوب جانتے ہو

۲۳۔اور اگر تم لوگ اس کلام سے جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ) پر نا زل کیا ہے شک میں پڑے ہو پس اگر تم سچے ہو تو تم (بھی) ایک ایسا سورۃ بنا لاؤ اور خدا کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں (ان کو بھی) بلا لو۔

۲۴۔پس اگر تم یہ نہیں کرسکتے اور ہرگز نہیں کرسکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے

۲۵۔اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے ان کو (اے پیغمبرؐ) خوشخبری دے دو کہ ان کے لیے (بہشت کے ) وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جب انہیں ان (باغات) کا کوئی میوہ کھانے کو ملے گا تو کہیں گے یہ تو وہی میوہ ہے جو پہلے ہی ہمیں کھانے کو مل چکا ہے کیونکہ انہیں ملتی جلتی صورت و رنگ کے (میوے ) مِلا کریں گے۔ اور بہشت میں ان کے لیے صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور یہ لوگ اس (باغ) میں ہمیشہ رہیں گے۔

۲۶۔بے شک خدا مچھر یا اس سے بھی بڑھ کر (حقیر چیز کی) کوئی مثل بیان کرنے میں نہیں جھینپتا۔ پس جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ تو بالیقین جانتے ہیں کہ یہ (مثل) بالکل ٹھیک ہے اور ان کے پروردگار کی طرف سے ہے (اب رہے ) وہ لوگ جو کافر ہیں پس وہ بول اٹھتے ہیں کہ خدا کا اس مثل سے کیا مطلب ہے۔ ایسی مثل سے خدا بہتیروں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور ایسی ہی (مثل) سے بہتیروں کو ہدایت کرتا ہے۔ مگر گمراہی میں چھوڑتا بھی ہے تو ایسے بدکاروں کو

۲۷۔جو خدا کے عہد و پیمان کو مضبوط ہو جانے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں اور جن (تعلقات)کا خدا نے حکم دیا ہے ان کو قطع کر دیتے ہیں اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں یہی لوگ گھاٹا اٹھانے والے ہیں۔

۲۸۔(ہائیں ) کیونکر تم خدا کا انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم (ماؤں کے پیٹ میں بے جان تھے تو اسی نے تم کو زندہ کیا، پھر وہی تم کو مار ڈالے گا پھر وہی تم کو (دوبارہ قیامت میں )زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

۲۹۔وہی تو وہ (خدا) ہے جس نے تمہارے (نفع کے ) لیے زمین کی کل چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان (کے بنانے ) کی طرف متوجہ ہوا تو سات آسمان ہموار (و مستحکم) بنا دیے اور وہ (خدا) ہر چیز سے (خوب) واقف ہے

۳۰۔اور (اے رسولؐ) (اس وقت کو یاد کرو) جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں (اپنا) ایک نائب زمین میں بنانے والا ہوں تو (فرشتے تعجب سے ) کہنے لگے کیا تو زمین میں ایسے شخص کو بنائے گا جو زمین میں فساداور خونریزیاں کرتا پھرے حالانکہ (اگر خلیفہ بنانا ہے تو ہمارا زیادہ حق ہے کیونکہ) ہم تیری تعریف سے تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی ثابت کرتے ہیں (تب) خدا نے فرمایا اس میں شک ہی نہیں کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے

۳۱اور (آدمؑ کی حقیقت ظاہر کرنے کی غرض سے ) آدمؑ کو سارے نام بتا دیئے پھر ان لوگوں کو (جن کے نام بتائے تھے ) فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو ان لوگوں کے نام بتاؤ

۳۲(تب فرشتوں نے عاجزی سے ) عرض کی(تو ہر عیب سے ) پاک و پاکیزہ ہے ہم تو اس کے سوا کچھ نہیں جانتے جو تو نے ہمیں بتایا ہے تو بڑا جاننے والا (اور) مصلحتوں کا پہچاننے والا ہے۔

۳۳(اس وقت خدا نے ) آدمؑ کو حکم دیا کہ تم ان فرشتوں کو ان لوگوں کے نام بتا دو، پھر جب (آدمؑ نے ) فرشتوں کو ان لوگوں کے نام بتا دیئے۔ تو خدا نے (فرشتوں کی طرف خطاب کر کے ) فرمایا:کیوں میں تم سے نہ کہتا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے چھپے ہوئے راز کو جانتا ہوں اور جو کچھ تم اب ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے تھے (وہ سب) جانتا ہوں

۳۴اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو سب کے سب جھک گئے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آ گیا اور کافر ہو گیا

۳۵اور ہم نے (آدمؑ سے ) کہا اے آدم تم اپنی بیوی سمیت بہشت میں رہا سہا کرو اور جہاں تمہارا جی چاہے اس میں سے بہ فراغت کھاؤ (پیو) مگر اس درخت کے پاس بھی نہ جانا (ورنہ)پھر تم اپنا آپ نقصان کرو گے۔

۳۶تب شیطان نے آدمؑ و حواؑ کو (دھوکا دے کر) وہاں سے ڈگمگایا (اور) آخر ان کو جس(عیش و راحت) میں تھے اس سے نکال پھینکا اور ہم نے کہا (اے آدمؑ و حواؑ) تم (زمین پر)اتر پڑو تم میں سے ایک کا ایک دشمن ہو گا اور زمین میں تمہارے لیے ایک خاص وقت( قیامت) تک ٹھہراؤ اور ٹھکانا ہے۔

۳۷ پھر آدمؑ نے اپنے پروردگار سے (معذرت کے ) چند الفاظ سیکھے پس خدا نے (ان الفاظ کی برکت سے ) آدمؑ کی توبہ قبول کر لی بیشک وہ بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے

۳۸(اور جب آدمؑ کو) یہ حکم دیا تھا کہ یہاں سے اتر پڑو (تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ) اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو (اس کی پیروی کرنا کیونکہ) جو لوگ میری ہدایت پر چلیں گے ان پر (قیامت میں ) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے

۳۹اور (یہ بھی یاد رکھو کہ) جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو وہی جہنمی ہیں اور ہمیشہ دوزخ میں ہی پڑے رہیں گے۔

۴۰اے بنی اسرائیل (یعقوبؑ کی اولاد) میرے ان احسانات کو یاد کرو جو تم پر پہلے کر چکے ہیں اور تم میرے عہد و قرار (ایمان) کو پورا کرو تو میں بھی تمہارے عہد (ثواب) کو پورا کروں گا اور مجھی سے ڈرتے رہو

۴۱اور جو (قرآن) میں نے نازل کیا وہ اس کتاب (توریت) کی (بھی) تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم سب سے پہلے اس کے انکار کرنے والے نہ ہو جاؤ اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت (دنیوی فائدہ) نہ لو اور مجھی سے ڈرتے رہو

۴۲اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور حق بات کو نہ چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو۔

۴۳اور پابندی سے نماز ادا کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور جو لوگ (ہمارے سامنے ) عبادت کے لیے جھکتے ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھکا کرو۔

۴۴تم اور لوگوں سے تو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنی خبر نہیں لیتے حالانکہ تم کتاب خدا کو (برابر) رٹا کرتے ہو۔ تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے۔

۴۵اور (مصیبت کے وقت) صبر اور نماز کا سہارا پکڑو۔ اور البتہ نماز دو بھر تو ہے مگر ان خاکساروں پر (نہیں )

۴۶جو بخوبی جانتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے اور ضرور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے۔

۴۷اے بنی اسرائیل میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے پہلے تمہیں دیں اور یہ (بھی تو سوچو) کہ ہم نے تم کو سارے جہان کے لوگوں سے بڑھا دیا۔

۴۸اس دن سے ڈرو کہ (جس دن) کوئی شخص کسی کی طرف سے نہ فدیہ ہو سکے گا اور نہ اس کی طرف سے کوئی سفارش مانی جائے گی اور نہ اس کا کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ وہ مدد پہنچائے جائیں گے۔

۴۹اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم نے تمہیں (تمہارے بزرگوں کو) قومِ فرعون (کے پنجہ) سے چھڑایا جو تمہیں بڑے بڑے دُکھ دے کے ستاتے تھے۔ تمہارے لڑکوں پر تو چھری پھیرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو (اپنی خدمت کیلئے ) زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے (تمہارے صبر کی) سخت آزمائش تھی

۵۰اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لیے دریا کو ٹکڑے ٹکڑے کیا پھر ہم نے تم کو تو چھٹکارا دیا اور فرعون کے آدمیوں کو تمہارے دیکھتے دیکھتے ڈبو دیا

۵۱ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے ۴۰راتوں کا وعدہ کیا تھا اور تم لوگوں نے ان کے جانے کے بعد ایک بچھڑے کو (پرستش کے لیے خدا) بنا لیا حالانکہ تم اپنے اوپر ظلم جوت رہے تھے۔

۵۲پھر ہم نے اس کے بعد بھی تم سے درگزر کیا تاکہ تم شکر کرو۔

۵۳(اور وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰؑ کو کتاب (توریت)عطا کی اور حق و باطل کا جدا کرنے والا قانون( عنایت کیا) تاکہ تم ہدایت پاؤ۔

۵۴اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم تم نے بچھڑے کو (خدا) بنا کے اپنے اوپر بڑا سخت ظلم کیا تو اب (اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ) تم اپنے خالق کی بارگاہ میں توبہ کرو اور (وہ یہ ہے کہ) اپنے لوگوں کو قتل کر ڈالو۔ تمہارے پروردگار کے نزدیک تمہارے حق میں یہی بہتر ہے پھر جب تم نے ایسا کیا تو خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہ بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے۔

۵۵( اور وہ وقت بھی یاد کرو) جب تم نے موسیٰؑ سے کہا تھا کہ اے موسیٰؑ ہم تم پر اس وقت تک ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم خدا کو ظاہر بظاہر نہ دیکھ لیں۔ اس پر تمہیں بجلی نے لے ڈالا اور تم تکتے ہی رہ گئے۔

۵۶پھر تمہیں تمہارے مرنے کے بعد ہم نے جلا اٹھایا تاکہ تم شکر کرو۔

۵۷اور ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا اور تم پر من وسلویٰ اتارا (اور یہ بھی تو کہہ دیا تھا کہ) جوستھری نفیس روزیاں تمہیں دی ہیں انہیں (شوق سے ) کھاؤ اور ان لوگوں نے ہمارا تو کچھ بگاڑا نہیں مگر اپنی ہی جانوں پر ستم ڈھاتے رہے

۵۸اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے کہا کہ اس گاؤں ( ارحیجا) میں جاؤ اور اس میں جہاں چاہو فراغت سے کھاؤ (پیو) اور دروازے پر سجدہ کرتے ہوئے اور زبان سے حطہ (بخشش) کہتے ہوئے آؤ تو ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور ہم نیکی کرنے والوں کی نیکی (ثواب) بڑھا دیں گے۔

۵۹تو جو بات ان سے کہی گئی تھی اسے شریروں نے بدل کر دوسری بات کہنی شروع کر دی تب ہم نے ان لوگوں پر جنہوں نے شرارت کی تھی ان کی بدکاری کی وجہ سے آسمانی بلا نازل کی

۶۰اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا (اے موسیٰؑ ) اپنی لاٹھی پتھر پر مارو(لاٹھی مارتے ہی) اس میں بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔ اور سب لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ بخوبی جان لیا (اور ہم نے عام اجازت دے دی کہ) خدا کی دی ہوئی روزی سے کھاؤ پیو اور ملک میں فساد نہ کرتے پھرو۔

۶۱اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب تم نے (موسیٰؑ سے ) کہا کہ اے موسیٰؑ ہم سے ایک ہی کھانے پر رہا نہ جائے گا تو آپ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے دعا کیجیے کہ جو چیزیں زمین سے اُگتی ہیں جیسے ساگ، پات، ترکاری اور ککڑی اور گیہوں (یا لہسن) اور مسور اور پیاز (من و سلویٰ کی جگہ) پیدا کرے (موسیٰؑ نے ) کہا تم ایسی چیز کو جو ہر طرح بہتر ہے ادنیٰ چیز سے بدلنا چاہتا ہو تو کسی شہر میں اتر پڑو۔ پس تمہارے لیے جو تم نے مانگا ہے سب موجود ہے اور اُن پر رسوائی اور محتاجی کی مار پڑی اور ان لوگوں نے قہر خدا کی طرف پلٹا کھایا یہ اس سبب سے ہوا کہ وہ لوگ خدا کی نشانیوں سے انکار کرتے تھے، اور پیغمبروں کو ناحق شہید کرتے تھے۔ اور اس وجہ سے (بھی) کہ وہ نافرمانی اور سرکشی کیا کرتے تھے۔

۶۲بے شک مسلمانوں اور یہودیوں اور نصرانیوں اور لا مذہبوں میں سے جو کوئی خدا اور روز آخرت پر ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرتے رہے انہی کے لیے ان کا اجر و ثواب ان کے خدا کے پاس ہے اور نہ (قیامت میں ) ان پر کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ دل ہوں گے۔

۶۳اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے (تعمیل توریت کا) تم سے اقرار لیا اور ہم نے تمہارے سر پر طور سے (پہاڑ کو) لا کر لٹکا دیا اور کہہ دیا کہ (توریت) جو ہم نے تم کو دی ہے اس کو مضبوط پکڑے رہو اور جو کچھ اس میں ہے اس کو یاد رکھو تاکہ تم پرہیزگار بنو۔

۶۴پھر اس کے بعد تم (اپنے عہد و پیمان سے ) پھر گئے پس اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتا تو تم نے سخت گھاٹا اٹھایا ہوتا۔

۶۵اور اپنی قوم سے ان لوگوں کی حالت تو تم بخوبی جانتے ہو جو شنبہ کے دن اپنی حد سے گزر گئے (کہ باوجود ممانعت شکار کھیلنے نکلے ) تو ہم نے ان سے کہا کہ تم راندے گئے بندر بن جاؤ(اور وہ بندر ہو گئے )

۶۶پس ہم نے اس واقعہ کو ان لوگوں کے واسطے جن کے سامنے ہوا تھا اور جو اس کے بعد آنے والے تھے عذاب قرار دیا اور پرہیزگاروں کیلئے نصیحت

۶۷اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا تم لوگوں کو تاکیدی حکم کرتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو وہ لوگ کہنے لگے کیا تم ہم سے دل لگی کرتے ہو (موسیٰؑ نے ) کہا میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہل بنوں۔

۶۸(تب) وہ لوگ کہیں گے کہ (اچھا) تم اپنے خدا سے دعا کرو کہ ہمیں بتا دے کہ وہ گائے کیسی ہو۔ موسیٰؑ نے کہا بے شک خدا فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ بہت بوڑھی ہو نہ بچھیا بلکہ ان میں سے اوسط درجہ کی ہو۔ غرض جو تم کو حکم دیا گیا ہے اس کو بجا لاؤ۔

۶۹وہ کہنے لگے (واہ) تم اپنے خدا سے دعا کرو کہ ہمیں یہ تو بتا دے کہ اس کا رنگ آخر کیا ہو۔ (موسٰیؑ نے ) کہا بے شک خدا فرماتا ہے کہ وہ گائے خوب گہرے زرد رنگ کی ہو کہ دیکھنے والے (اسے دیکھ کر) خوش ہو جائیں۔

۷۰تب کہنے لگے تم اپنے خدا سے دُعا کرو کہ ہمیں ذرا یہ تو بتا دے کہ وہ (گائے ) اور کیسی ہو (وہ)گائے ہم پر مشتبہ ہو گئی ہے اور اگر خدا نے چاہا تو ہم ضرور (اس کا) پتہ لگا لیں گے۔

۷۱(موسیٰؑ نے ) کہا خدا ضرور فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ تو اتنی سدھائی ہوئی ہو کہ زمین جوتے اور نہ کھیتی سینچے بھلی چنگی یک رنگ کہ اس میں کوئی دھبہ تک نہ ہو۔ وہ بولے اب (جا کے ) ٹھیک ٹھیک بیان کیا۔ غرض ان لوگوں نے وہ گائے حلال کی حالانکہ ان سے امید نہ تھی کہ وہ ایسا کریں گے۔

۷۲اور جب تم نے ایک شخص کو مار ڈالا اور تم میں اس کی بابت پھوٹ پڑ گئی کہ ایک دوسرے کو قاتل بنانے لگا اور جو تم چھپاتے تھے خدا کو اس کا ظاہر کرنا منظور تھا

۷۳پس ہم نے کہا کہ اس گائے کو کوئی ٹکڑا لے کر اس (کی لاش) پر مارو یوں خدا مُردے کو زندہ کرتا ہے اور تم کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھا دیتا ہے تاکہ تم سمجھو۔

۷۴پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے۔ پس وہ مثل پتھر کے (سخت) تھے یا اس سے بھی زیادہ کرخت۔ کیونکہ پتھروں میں بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے نہریں جاری ہو جاتی ہیں۔ اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں دراڑ پڑ جاتی ہے اور ان میں پانی نکل پڑتا ہے اور بعض پتھر تو ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے خدا غافل نہیں ہے۔

۷۵(مسلمانو) کیا تم یہ لالچ رکھتے ہو کہ وہ تمہارا (سا) ایمان لائیں گے حالانکہ ان میں کا ایک گروہ (سابق میں ) ایسا تھا کہ خدا کا کلام سنتا تھا اور اچھی طرح سمجھنے کے بعد الٹ پھیر کر دیتا تھا حالانکہ وہ خوب جانتے تھے۔

۷۶اور جب ان لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں جو ایمان لائے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو ایمان لا چکے اور جب ان میں سے بعض بعض کے ساتھ تخلیہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جو کچھ خدا نے تم پر (توریت میں ) ظاہر کر دیا ہے کیا تم (مسلمانوں کو) بتا دو گے تاکہ اس کے سبب سے (کل) تمہارے خدا کے پاس تم پر حجت لائیں۔ کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے۔

۷۷لیکن کیا وہ لوگ (اتنا بھی) نہیں جانتے کہ وہ لوگ جو کچھ چھپاتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں خدا سب کچھ جانتا ہے۔

۷۸اور کچھ ان میں سے ایسے اَن پڑھ ہیں کہ وہ کتاب خدا کو اپنے مطلب کی باتوں کے سوا کچھ نہیں سمجھتے اور وہ فقط خیالی باتیں کیا کرتے ہیں۔

۷۹پس وائے ہو ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں پھر (لوگوں سے ) کہتے (پھرتے ) ہیں کہ یہ خدا کے یہاں سے (آئی) ہے تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی سی قیمت (دنیوی فائدہ) حاصل کریں۔ پس افسوس ہے ان پر کہ ان کے ہاتھوں نے لکھا اور پھر افسوس ہے ان پر کہ وہ ایسی کمائی کرتے ہیں۔

۸۰اور کہتے ہیں کہ گنتی کے چند دنوں کے سوا ہمیں آگ چھوئے گی بھی تو نہیں (اے رسولؐ ان لوگوں سے ) کہو کہ کیا تم نے خدا سے کوئی اقرار لے لیا ہے کہ پھر وہ کسی طرح اپنے اقرار کے خلاف ہرگز نہ کرے گا۔ یا بے سجھے بوجھے خدا پر طوفان جوڑتے ہو۔

۸۱ہاں (سچ تو یہ ہے کہ ) جس نے برائی حاصل کی اور اس کے گناہوں نے چاروں طرف سے اسے گھیر لیا ہے وہی لوگ تو دوزخی ہیں اور وہی (تو) اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

۸۲اور جو لوگ ایماندار ہیں اور انہوں نے اچھے کام کیے ہیں وہی لوگ جنتی ہیں کہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔

۸۳اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے (جو تمہارے بزرگ تھے ) عہد و پیمان لیا تھا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ اچھے سُلوک کرنا اور لوگوں کے ساتھ اچھی طرح (نرمی) سے باتیں کرنا اور برابر نماز پڑھنا اور زکوٰۃ دینا۔ پھر تم میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا (سب کے سب) پھر گئے اور تم لوگ ہو ہی اقرار سے منہ پھیرنے والے۔

۸۴اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم (تمہارے بزرگوں ) سے عہد لیا تھا کہ آپس میں خونریزیاں نہ کرنا اور نہ اپنے لوگوں کو شہر بدر کرنا تو تم (یعنی تمہارے بزرگوں ) نے اقرار کیا تھا اور تم بھی اس کی گواہی دیتے ہو(کہ ہاں ایسا ہوا تھا)۔

۸۵پھر وہی لوگ تو تم ہو کہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہو اور اپنوں میں سے ایک جتھے کے ناحق اور زبردستی حمایتی بنکر دوسرے کو شہر بدر کرتے ہو اور (لطف تو یہ ہے کہ) اگر وہی لوگ قیدی بن کر تمہارے پاس (مدد مانگنے ) آئیں تو ان کو تاوان دے کر چھڑا لیتے ہو۔ حالانکہ ان کا نکالنا ہی تم پر حرام کیا گیا تھا تو پھر کیا تم (کتاب خدا کی) بعض باتوں پر ایمان رکھتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو۔ پس تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ زندگی بھر کی رسوائی ہو، اور (آخر کار) قیامت کے دن بڑے سخت عذاب کی طرف لوٹا دیئے جائیں۔اور جو کچھ تم لوگ کرتے ہو خدا اس سے غافل نہیں ہے۔

۸۶یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خرید کی پس ان کے عذاب ہی میں تخفیف کی جائے گی اور نہ وہ لوگ کسی طرح کی مدد دیئے جائیں گے۔

۸۷اور یہ تحقیقی بات ہے کہ ہم نے موسیٰؑ کو کتاب (توریت)دی اور ان کے بعد بہت سے پیغمبروں کو ان کے قدم بہ قدم لے چلے اور مریم ؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کو(بھی بہت سے ) واضح اور روشن معجزے دیئے اور پاک رُوح (جبرئیل) کے ذریعے سے ان کی مدد کی۔ (کیا تم اس قدر بد دماغ ہو گئے ہو) کہ جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس تمہاری خواہش نفسانی کے خلاف کوئی حکم لے کر آیا تو تم اکڑ بیٹھے پھر تم نے بعض (پیغمبروں ) کو تو جھٹلایا اور بعض کو جان سے مار ڈالا۔

۸۸اور کہنے لگے کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھا ہوا ہے (ایسا نہیں ) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے خدا نے ان پر لعنت کی ہے پس کم ہی لوگ ایمان لاتے ہیں۔

۸۹اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب (قرآن) آئی اور وہ اس (کتاب توریت) کی جو ان کے پاس ہے تصدیق بھی کرتی ہے اور اس سے پہلے (اس کی امید پر) کافروں پر فتح یاب ہونے کی دعائیں مانگتے تھے پس جب ان کے پاس وہ چیز جسے پہچانتے تھے آ گئی، تو لگے انکار کرنے، پس کافروں پر خدا کی لعنت ہے۔

۹۰کیا ہی بُرا ہے وہ کام جس کے مقابلے میں (اتنی بات پر) وہ لوگ اپنی جانیں بیچے بیٹھے ہیں کہ خدا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنی عنایت سے کتاب نازل کیا کرے اس رشک سے جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے سب کا انکار کر بیٹھے۔ پس ان پر غضب پر غضب ٹوٹ پڑا۔ اور کافروں کیلئے (بڑی) رسوائی کا عذاب ہے۔

۹۱اور جب ان سے کہا گیا کہ جو (قرآن) خدا نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ تو کہنے لگے کہ ہم تو(اسی کتاب توریت) پر ایمان لائے ہوئے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی تھی اور اُس (کتاب قرآن) کو جو اس کے بعد (آئی) ہے نہیں مانتے حالانکہ وہ (قرآن) حق ہے اور (اس کتاب توریت) کی جو ان کے پاس ہے تصدیق بھی کرتی ہے (مگر اس کتاب قرآن کا جو اس کے بعد آئی ہے انکار کرتے ہیں ) (اے رسولؐ)ان سے یہ تو پوچھو کہ تم (یعنی تمہارے بزرگ) اگر ایماندار تھے تو پھر کیوں خدا کے پیغمبروں کو سابق زمانے میں قتل کرتے تھے

۹۲اور تمہارے پاس موسیٰؑ تو واضح و روشن معجزے لے کر آ ہی چکے تھے پھر بھی تم نے ان کے بعد بچھڑے کو (خدا) بنا لیا اور اس سے تم اپنے ہی اوپر ظلم کرنے والے تھے۔

۹۳اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہد لیا اور کوہِ طور کو (تمہاری عدول حکمی سے ) تمہارے سر پر لٹکایا۔ اور (ہم نے کہا کہ یہ کتاب توریت) جو ہم نے دی ہے مضبوطی سے لیے رہو اور (جو کچھ اس میں ہے ) سنو۔ تو کہنے لگے : سنا تو (سہی لیکن) ہم اس کو مانتے نہیں۔ ان کی بے ایمانی کی وجہ سے (گویا) بچھڑے کی الفت گھول کر ان کے دلوں میں پلا دی گئی تھی۔ (اے رسولؐ) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم ایماندار تھے تو تمہیں تمہارا ایمان کیا ہی بُرا حکم کرتا ہے۔

۹۴(اے رسولؐ) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر خدا کے نزدیک آخرت کا گھر (بہشت) خاص تمہارے واسطے ہے اور لوگوں کے واسطے نہیں ہے۔ پس اگر تم سچے ہو تو موت کی آرزو کرو(تاکہ جلدی بہشت میں جاؤ)۔

۹۵لیکن وہ ان (اعمال بَد) کی وجہ سے جن کو ان کے ہاتھوں نے پہلے سے آگے بھیجا ہے ہرگز موت کی آرزو نہ کریں گے اور خدا ظالموں سے خوب واقف ہے۔

۹۶اور (اے رسولؐ) تم ان (ہی) کو زندگی کا سب سے زیادہ حریص پاؤ گے اور مشرکوں میں سے ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ کاش اس کو ہزار برس کی عمر دی جاتی۔ حالانکہ اگر اتنی طولانی عمر دی بھی جاوے، تو وہ (خدا کے ) عذاب سے چھٹکارا دینے والی نہیں۔ اور جو کچھ وہ لوگ کرتے ہیں خدا اسے خوب دیکھ رہا ہے۔

۹۷(اے رسولؐ ان لوگوں سے ) کہہ دو کہ جو جبرئیل کا دشمن ہے (اس کا خدا دشمن ہے ) کیونکہ اس (فرشتے نے ) خدا کے حکم سے (اس قرآن کو) تمہارے دل پر ڈالا ہے اور وہ ان کتابوں کی بھی تصدیق کرتا ہے جو (پہلے نازل ہو چکی ہیں اور اب) اس کے سامنے موجود ہیں اور ایمانداروں کے واسطے خوشخبری ہے

۹۸جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور (خاص کر) جبرئیل و میکائیل کا دشمن ہو تو بیشک خدا بھی (ایسے ) کافروں کا دشمن ہے۔

۹۹اور (اے رسولؐ) ہم نے تم پر ایسی نشانیاں نازل کی ہیں جو واضح اور روشن ہیں اور ایسے نافرمانوں کے سوا ان کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

۱۰۰ اور (ان کی یہ حالت ہے کہ) جب کبھی کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک فریق نے توڑ ڈالا۔ بلکہ ان میں سے اکثر تو ایمان ہی نہیں رکھتے۔

۱۰۱اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے رسول (محمد ؐ) آیا اور وہ اُس (کتاب توریت) کی جو ان کے پاس ہے تصدیق بھی کرتا ہے تو ان اہل کتاب کے ایک گروہ نے کتابِ خدا کو اپنے پس پشت پھینک دیا گویا وہ لوگ کچھ جانتے ہی نہیں۔

۱۰۲اور (اس منتر کے ) پیچھے پڑ گئے جس کو سلیمانؑ کے زمانۂ سلطنت میں شیاطین جپا کرتے تھے۔ حالانکہ سلیمانؑ نے کفر اختیار نہیں کیا لیکن شیطانوں نے کفر اختیار کیا کہ وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور وہ چیزیں جو ہاروت و ماروت دونوں فرشتوں پر بابل میں نازل کی گئی تھیں حالانکہ یہ دونوں فرشتے کسی کو سکھاتے نہ تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم دونوں تو فقط (ذریعۂ) آزمائش ہیں۔ پس تو (اس پر عمل کر کے ) بے ایمان نہ ہو جانا۔ اس پر بھی ان سے وہ (ٹوٹکے ) سیکھتے تھے جن کی وجہ سے میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دیں حالانکہ بغیر اذن خداوندی وہ اپنی ان باتوں سے کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے۔ اور یہ لوگ ایسی باتیں سیکھتے تھے جو خود انہی کو نقصان پہنچاتی تھیں اور (کچھ) نفع نہ پہنچاتی تھیں باوجود یکہ وہ یقیناً جان چکے تھے کہ جو شخص ان (برائیوں ) کا خریدار ہوا وہ آخرت میں بے نصیب ہے۔ اور بے شبہ وہ (معاوضہ) بہت ہی بُرا ہے جسکے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا کاش (وہ اسے کچھ سوچے ) سمجھے ہوتے۔

۱۰۳اور اگر وہ ایمان لاتے اور (جادو وغیرہ سے ) بچ کر پرہیز گار بنتے تو خدا کی درگاہ سے جو ثواب مِلتا وہ اس سے کہیں بہتر ہوتا کاش یہ لوگ (اتنا تو) سمجھتے۔

۱۰۴اے ایماندارو تم (رسولؐ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہو تو) راعنا (ہماری رعایت کر) نہ کہا کرو بلکہ انظرنا (ہم پر نظر توجہ فرما) کہا کرو اور (جی لگا کر) سنتے رہو اور کافروں کیلئے دَرد ناک عذاب ہے۔

۱۰۵(اے رسولؐ) اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ، اور مشرکین یہ نہیں چاہتے ہیں کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے بھلائی (وحی) نازل کی جاوے۔ اور (ان کا تو اس میں کچھ اجارہ نہیں ) خدا جسکو چاہتا ہے اپنی رحمت کیلئے خاص کر لیتا ہے۔ اور خدا بڑا فضل (کرنے ) والا ہے۔

۱۰۶(اے رسولؐ ہم جب کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا (ذہن سے ) مٹا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی (اور) نازل بھی کر دیتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

۱۰۷ کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی سلطنت بے شبہ خاص خدا ہی کے لیے ہے۔ اور خدا کے سوا تمہارا نہ کوئی سرپرست ہے نہ مددگار۔

۱۰۸(مسلمانو) کیا تم چاہتے ہو کہ تم بھی اپنے رسولؐ سے ویسے ہی (بے ڈھنگے ) سوالات کرو جس طرح سابق زمانہ میں موسیٰؑ سے (بے تکے ) سوالات کیے گئے تھے اور جس شخص نے ایمان کے بدلے کفر اختیار کیا وہ تو یقینی سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔

۱۰۹(مسلمانو) اہل کتاب میں سے اکثر لوگ اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو ایمان لانے کے بعد پھر کافر بنا دیں (اور لطف تو یہ ہے کہ) ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے اس کے بعد (بھی یہ تمنا باقی ہے )پس تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا (کوئی اور ) حکم بھیجے۔ بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

۱۱۰اور نماز پڑھتے رہو اور زکوٰۃ دیتے جاؤ اور جو کچھ بھلائی اپنے لیے (خدا کے یہاں ) پہلے سے بھیج دو گے اُس (کے ثواب) کو موجود پاؤ گے جو کچھ تم کرتے ہو اسے خدا ضرور دیکھ رہا ہے۔

۱۱۱اور (یہود) کہتے ہیں کہ یہود (کے سوا) اور (نصاریٰ کہتے ہیں کہ) نصاریٰ کے سوا کوئی بہشت میں جانے ہی نہ پائے گا یہ ان کے خیالی پلاؤ ہیں (اے رسولؐ تم) ان سے کہو کہ بھلا اگر تم سچے ہو (کہ ہم ہی بہشت میں جائیں گے ) تو اپنی دلیل پیش کرو۔

۱۱۲ہاں البتہ جس شخص نے خدا کے آگے اپنا سر جھکا دیا اور اچھے کام بھی کرتا ہے تو اس کے لیے اس کے پروردگار کے یہاں اس کا بدلہ (موجود) ہے اور (آخرت میں ) ایسے لوگوں پر نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ ایسے لوگ غمگین ہوں گے۔

۱۱۳اور یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ کا مذہب کچھ (ٹھیک) نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود کا مذہب کچھ (ٹھیک) نہیں۔ حالانکہ یہ دونوں فریق کتابِ خدا پڑھتے رہتے ہیں۔ اسی طرح انہی کی سی باتیں وہ (مشرکین عرب) کیا کرتے ہیں جو(خدا کے احکام) کچھ نہیں جانتے توجس بات میں یہ لوگ پڑے جھگڑتے ہیں (دنیا میں تو طے نہ ہو گا) قیامت کے دن خدا ان کے درمیان ٹھیک فیصلہ کر دے گا۔

۱۱۴اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو خدا کی مسجدوں میں اس کا نام لیے جانے سے (لوگوں کو) روکے اور ان کی بربادی کے درپے ہو۔ ایسوں ہی کواس میں جانا مناسب نہیں مگر سہمے ہوئے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ایسے ہی لوگوں کیلئے آخرت میں بڑا بھاری عذاب ہے۔

۱۱۵اور (تمہارے مسجد میں روکنے سے کیا ہوتا ہے کیونکہ ساری زمین) خدا ہی کی ہے (کیا) پورب (کیا )پچھم پس جہاں کہیں ہو(قبلہ کی طرف) رخ کر لو وہیں خدا کا سامنا ہے بیشک خدا بڑا گنجائش والا (اور) خوب واقف ہے۔

۱۱۶اور (یہود) کہنے لگے کہ خدا اولاد رکھتا ہے حالانکہ وہ (اس بکھیڑے سے ) پاک ہے بلکہ جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اسی کے فرمانبردار ہیں۔

۱۱۷(وہی) آسمان و زمین کا موجد ہے۔ اور جب کسی کام کا کرنا ٹھان لیتا ہے تو اس کی نسبت صرف کہہ دیتا ہے کہ ہو جا پس وہ (خود بخود) ہو جاتا ہے۔

۱۱۸اور جو (مشرکین) کچھ نہیں جانتے کہتے ہیں کہ خدا ہم سے (خود) کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس (خود) کوئی نشانی کیوں نہیں آتی۔ اسی طرح انہی کی سی باتیں وہ لوگ کر چکے ہیں جو ان سے پہلے تھے۔ ان سب کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ جو لوگ یقین رکھتے ہیں انکو تو اپنی نشانیاں ہم صاف طور پر دکھا چکے۔

۱۱۹(اے رسولؐ) ہم نے تم کو دین حق کیساتھ (بہشت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذاب سے ) ڈرانے والا (بنا کر)بھیجا ہے اور دوزخیوں کے بارے میں تم سے کچھ نہ پوچھا جائے گا

۱۲۰اور (اے رسولؐ) نہ تو یہودی کبھی تم سے رضا مند ہوں گے نہ نصاریٰ یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی کرو۔ (اے رسولؐ) ان سے کہہ دو کہ بس خدا ہی کی ہدایت تو ہدایت ہے (باقی ڈھکوسلا ہے ) اور اگر تم اس کے بعد بھی کہ تمہارے پاس علم (قرآن) آ چکا ہے ان کی خواہشوں پر چلے تو (یاد رہے کہ پھر) تم کو خدا (کے غضب) سے بچانے والا نہ کوئی سرپرست ہو گا نہ مددگار۔

۱۲۱جن لوگوں کو ہم نے کتاب (قرآن) دی ہے وہ لوگ اسے اس طرح پڑھتے رہتے ہیں جو اس کے پڑھنے کا حق ہے یہی لوگ اس پر ایمان لائے ہیں۔اور جو اس سے انکار کرتے ہیں وہی لوگ گھاٹے میں ہیں۔

۱۲۲اے بنی اسرائیل میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم کو دی ہیں۔ اور یہ کہ میں نے تم کوسارے جہان پر فضیلت دی۔

۱۲۳اور اُس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص کسی کی طرف سے نہ فدیہ ہو سکے گا اور نہ اس کی طرف سے کوئی معاوضہ قبول کیا جاوے گا اور نہ کوئی سفارش ہی فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ وہ لوگ مدد دیئے جائیں گے۔

۱۲۴اور ( اے رسولؐ بنی اسرائیل کو وہ وقت بھی یاد دلاؤ) جب ابراہیمؑ کو ان کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمایا اور انہوں نے پورا کر دیا تو خدا نے فرمایا میں تم کو (لوگوں کا) پیشوا بنانے والا ہوں۔ (حضرت ابراہیمؑ نے ) عرض کی اور میری اولاد میں سے فرمایا (ہاں مگر) میرے اس عہد پر ظالموں میں سے کوئی شخص فائز نہیں ہو سکتا۔

۱۲۵اور (اے رسولؐ وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے ثواب اور پناہ کی جگہ قرار دیا۔ اور (حکم دیا) کہ ابراہیمؑ کی (اس) جگہ کو نماز کی جگہ بناؤ۔ اور ابراہیمؑ و اسماعیلؑ سے عہد و پیمان لیا کہ میرے (اس) گھرکو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے واسطے صاف ستھرا رکھو۔

۱۲۶اور (اے رسولؐ وہ وقت بھی یاد دلاؤ) جب ابراہیمؑ نے دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار اس شہر کو پناہ و امن کا شہر بنا اور اس کے رہنے والوں میں سے جو خدا اور روزِ آخرت پر ایمان لائے اس کو طرح طرح کے پھل کھانے کو دے۔ خدا نے فرمایا (اچھا مگر) جو کفر اختیار کرے گا اس کو دنیا میں چند روز (ان چیزوں سے ) فائدہ اٹھانے دونگا پھر (آخرت میں ) اس کو مجبور کر کے دوزخ کی طرف کھینچ لے جاؤنگا۔ وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔

۱۲۷اور (وہ وقت بھی یاد لاؤ) جب ابراہیمؑ و اسماعیلؑ خانہ کعبہ کی بنیادیں بلند کر رہے تھے (اور دعا مانگتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار ہماری (یہ خدمت) قبول کر بیشک تو ہی (دعا کا) سننے والا (اور نیت کا) جاننے والا ہے۔

۱۲۸(اور) اے ہمارے پالنے والے تو ہمیں اپنا فرمانبردار بندہ بنا اور ہماری اولاد سے ایک گروہ (پیدا کر) جو تیرا فرمانبردار ہو۔ اور ہم کو ہمارے حج کی جگہیں دکھا دے اور ہماری توبہ قبول کر۔ بیشک تو ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

۱۲۹(اور) اے ہمارے پالنے والے (مکہ والوں میں ) انہی میں سے ایک رسولؐ کو بھیج جو انکو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور آسمانی کتاب اور عقل کی باتیں سکھائے اور ان (کے نفوس) کو پاکیزہ کر دے۔ بیشک تو ہی غالب اور صاحب تدبیر ہے۔

۱۳۰اور کون ہے جو ابراہیمؑ کے طریقہ سے نفرت کرے مگر جو اپنے کو احمق بنائے اور بیشک ہم نے انکو دنیا میں بھی منتخب کر لیا۔ اور وہ ضرور آخرت میں بھی اَچھوں ہی میں سے ہوئیں گے۔

۱۳۱جب ان سے ان کے پروردگار نے کہا: اسلام قبول کرو۔ تو عرض کی: میں سارے جہاں کے پروردگار پر اسلام لایا۔

۱۳۲اور اسی طریقہ کی ابراہیمؑ نے اپنی اولاد سے وصیت کی اور یعقوبؑ نے (بھی) کہ اے فرزند و خدا نے تمہارے واسطے اس دین (اسلام) کو پسند فرمایا ہے پس تم ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان ہی۔

۱۳۳(اے یہود) کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوبؑ کے سر موت آ کھڑی ہوئی اس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا: میرے بعد کس کی عبادت کرو گے۔ کہنے لگے : ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ ۱ داداؤں ابراہیمؑ و اسماعیل و اسحاقؑ کے معبود یکتا خدا کی عبادت کریں گے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔

۱۳۴(اے یہود) وہ لوگ تھے جو چل بسے۔ جو انہوں نے کمایا ان کے آگے آیا اور جو تم کماؤ گے تمہارے آگے آئے گا۔ اور جو کچھ بھی وہ کرتے تھے اس کی پوچھ گچھ تم سے نہیں ہو گی۔

۱۳۵اور (یہودی،عیسائی مسلمانوں سے ) کہتے ہیں کہ یہودی یا نصرانی ہو جاؤ تو راہِ راست پر آ جاؤ گے (اے رسولؐ اُن سے ) کہہ دو کہ ہم ابراہیمؑ کے طریقہ پر ہیں جو باطل سے کترا کر چلتے تھے، اور مشرکین سے نہ تھے۔

۱۳۶(اور اے مسلمانو تم یہ)کہو کہ ہم تو خدا پر ایمان لائے ہیں اور اس پر جو ہم پر نازل کیا گیا (قرآن) اور جو(صحیفے ) ابراہیمؑ و اسماعیلؑ و اسحاقؑ و یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ پر نازل ہوئے تھے (اُن پر)۔ اور جو (کتاب) موسیٰؑ و عیسیٰؑ کو دی گئی (اُس پر) اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں دیا گیا (اُس پر) ہم تو ان میں سے کسی (ایک) میں بھی تفریق نہیں کرتے اور ہم تو خدا ہی کے فرمانبردار ہیں۔

۱۳۷پس اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لائے ہیں جس طرح تم تو البتہ راہ راست پر آ گئے اور اگر وہ اس طریقہ سے منہ پھیر لیں تو بس وہ صرف تمہاری ضد پر ہے۔ تو (اے رسولؐ ان (کے شر) سے بچانے کو) تمہارے لیے خدا کافی ہے اور وہ (سب کی) سنتا اور (سب کی حالت خوب) جانتا ہے۔

۱۳۸(مسلمانو ان سے کہو کہ ) رنگ تو خدا ہی کا رنگ ہے (جس میں تم رنگے گئے ) اور خدائی رنگ سے بہتر کون رنگ ہو گا اور ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں۔

۱۳۹(اے رسولؐ) تم ان سے پوچھو کہ کیا تم ہم سے خدا کے بارے میں جھگڑتے ہو حالانکہ وہی ہمارا (بھی) پروردگار ہے اور وہی تمہارا (بھی) پروردگار ہے ہمارے لیے ہیں ہماری کار گزاریاں اور تمہارے لیے تمہاری کارستانیاں اور ہم تو نرے کھرے اسی کے ہیں۔

۱۴۰کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیمؑ و اسماعیلؑ واسحاقؑ و اولاد یعقوبؑ یہ (سب کے سب) یہودی یا نصرانی تھے (اے رسولؐ ان سے ) پوچھو تو کہ تم زیادہ واقف ہو یا خدا اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جس کے پاس خدا کی طرف سے گواہی (موجود) ہو (کہ وہ یہودی نہ تھے ) اور پھر وہ چھپائے اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے بے خبر نہیں

۱۴۱یہ وہ لوگ تھے جو سدھار چکے۔ جو کچھ وہ کما گئے ان کے لیے تھا اور جو کچھ تم کماؤ گے تمہارے لیے ہو گا۔ اور جو کچھ وہ کر گزرے اس کی پوچھ گچھ تم سے نہ ہو گی۔

۱۴۲بعض احمق لوگ یہ کہہ بیٹھیں گے کہ مسلمان جس قبلہ (بیت المقدس) کی طرف (پہلے سے سجدہ کرتے تھے ) اس سے (دوسرے قبلہ کی طرف) مڑ جانے کا کیا باعث ہوا (اے رسولؐ تم ان کے جواب میں ) کہو مشرق و مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے

۱۴۳اور (جس طرح تمہارے قبلہ کے بارے میں ہدایت کی) اسی طرح تم کو عادل امت بنایا تاکہ اور لوگوں کے مقابلہ میں تم گواہ بنو اور رسول (محمدؐ) تمہارے مقابلہ میں گواہ بنیں اور (اے رسولؐ) جس قبلہ کی طرف تم پہلے (سجدہ کرتے ) تھے ہم نے اس کو صرف اس وجہ سے (قبلہ) قرار دیا تھا کہ (جب قبلہ بدلا جائے تو) ہم ان لوگوں کو جو رسولؐ کی پیروی کرتے ہیں ان لوگوں سے الگ دیکھ لیں جو الٹے پاؤں پھرتے ہیں اگرچہ یہ (الٹ پھیر) سوا ان لوگوں کے جن کی خدا نے ہدایت کی ہے سب پر شاق ضرور ہے اور خدا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے ایمان (نماز) کو (جو بیت المقدس کی طرف پڑھ چکے ہو) برباد کر دے بے شک خدا لوگوں پر بڑا ہی رفیق اور مہربان ہے۔

۱۴۴(اے رسولؐ قبلہ بدلنے کے واسطے ) بے شک تمہارا (بار بار) آسمان کی طرف منہ کرنا ہم دیکھ رہے ہیں تو ہم ضرور تم کو ایسے قبلہ کی طرف پھیر دیں گے کہ تم نہال ہو جاؤ (اچھا) تو (نماز ہی میں ) تم مسجد محترم (کعبہ)کی طرف منہ کر لو اور (اے مسلمانو) تم جہاں کہیں ہو اسی کی طرف اپنا (اپنا) منہ کر لیا کرو اور جن لوگوں کو کتاب (توریت وغیرہ) دی گئی ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ تبدیل قبلہ بہت بجا و درست (ہے اور ) اس کے پروردگار کی طرف سے ہے اور جو کچھ وہ لوگ کرتے ہیں اس سے خدا بے خبر نہیں

۱۴۵اور اگر اہل کتاب کے سامنے (دنیا کی) ساری دلیلیں پیش کرو گے تو بھی وہ تمہارے قبلہ کو نہ مانیں گے اور نہ تم ہی ان کے قبلہ کو ماننے والے ہو اور خود اہل کتاب بھی ایک دوسرے کے قبلہ کو نہیں مانتے اور جو علمِ (قرآن) تمہارے پاس آ چکا ہے اس کے بعد بھی اگر تم ان کی خواہش پر چلے تو البتہ تم نافرمان ہو جاؤ گے۔

۱۴۶جن لوگوں کو ہم نے کتاب (توریت وغیرہ) دی ہے وہ جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اسی طرح پیغمبر کو بھی پہچانتے ہیں اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دیدہ و دانستہ حق بات کو چھپاتے ہیں

۱۴۷(اے رسولؐ) تبدیل قبلہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے پس تم (کہیں ) شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جانا۔

۱۴۸اور ہر (فریق کے واسطے ) ایک سمت ہے اس کی طرف وہ (نماز میں ) اپنا منہ کر لیتا ہے پس (تم اے مسلمانو اس جھگڑے کو چھوڑ دو) اور نیکیوں میں (ان سے ) لپک کے آگے بڑھ جاؤ تم جہاں کہیں ہو گے خدا تم سب کو (اپنی طرف) لے آوے گا بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

۱۴۹اور (اے رسولؐ) تم جہاں سے جاؤ (حتیٰ کہ مکہ سے ) تو بھی نماز میں تم اپنا منہ مسجد محترم (کعبہ) کی طرف کر لیا کرو اور بے شک یہ (نیا قبلہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے اور تمہارے کاموں سے خدا غافل نہیں ہے۔

۱۵۰اور (اے رسولؐ!) تم جہاں سے جاؤ (حتیٰ کہ مکہ سے بھی) تو تم (نماز میں ) اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف کر لیا کرو اور (اے مسلمانو) تم (بھی) جہاں کہیں ہوا کرو (نماز میں ) اپنا منہ اسی (کعبہ) کی طرف کر لیا کرو (بار بار حکم دینے کا ایک فائدہ یہ ہے ) تاکہ لوگوں کا الزام تم پر نہ آنے پائے مگر ان میں سے جو لوگ ناحق ہٹ دھرمی کرتے ہیں (تو وہ ضرور الزام دیں گے ) تو تم لوگ ان سے ڈرو نہیں اور صرف مجھ سے ڈرو (اور دوسرا فائدہ یہ ہے ) تاکہ تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں اور (تیسرا فائدہ یہ ہے ) تاکہ تم ہدایت پاؤ

۱۵۱(مسلمانو یہ احسان بھی ویسا ہی ہے ) جیسے ہم نے تم میں تم ہی میں کا ایک رسولؐ بھیجا جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے اور تمہارے (نفوس کو) پاکیزہ کرے اور تمہیں کتاب (قرآن) اور عقل کی باتیں سکھائے اور تم کو وہ باتیں بتائے جن کی تمہیں (پہلے سے ) خبر بھی نہ تھی۔

۱۵۲پس تم ہماری یاد رکھو تو میں (بھی) تمہارا ذکر (خیر) کیا کروں گا اور میرا شکریہ ادا کرتے رہو اور نا شکری نہ کرو۔

۱۵۳اے ایماندارو! (مصیبت کے وقت) صبر اور نماز کے ذریعے سے (خدا کی) مدد مانگو بے شک خدا صبر کرنے والوں ہی کا ساتھی ہے

۱۵۴اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے انہیں کبھی مردہ نہ کہنا بلکہ (وہ لوگ) زندہ ہیں مگر تم (ان کی زندگی کی حقیقت کا) کچھ بھی شعور نہیں رکھتے۔

۱۵۵اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے۔ اور (اے رسولؐ) ایسے صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو

۱۵۶کہ جب ان پر کوئی مصیبت آ پڑی تو وہ (بے ساختہ) بول اٹھے ہم تو خدا ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

۱۵۷کہ انہیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے عنایتیں ہیں اور رحمت اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

۱۵۸بے شک (کوہِ) صفا اور (کوہ) مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں پس جو شخص خانہ (کعبہ) کا حج یا عمرہ کرے اس پر ان دونوں کے (درمیان) طواف (آمدورفت) کرنے میں کچھ گناہ نہیں (بلکہ ثواب ہے ) اور جو شخص خوش خوش نیک کام کرے تو پھر خدا بھی قدردان اور واقف کار ہے۔

۱۵۹بے شک جو لوگ (ہماری) ان روشن دلیلوں اور ہدایتوں کو جنہیں ہم نے نازل کیا اس کے بعد چھپاتے ہیں جب کہ ہم کتاب (توریت) میں لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کر چکے تو یہی لوگ ہیں جن پر خدا بھی لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔

۱۶۰مگر جن لوگوں نے (حق چھپانے سے ) توبہ کی اور اپنی (خرابی کی) اصلاح کر لی اور (جو کتاب خدا میں ہے ) صاف صاف بیان کر دیا پس ان کی توبہ میں قبول کرتا ہوں اور میں تو بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہوں۔

۱۶۱بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے انہیں پر خدا کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔

۱۶۲ہمیشہ اسی پھٹکار میں رہیں گے۔ نہ تو ان سے عذاب ہی میں تخفیف کی جائے گی اور نہ ان کو (عذاب سے ) مہلت ہی دی جائے گی۔

۱۶۳اور تمہارا معبود تو وہی یکتا خدا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں جو بڑا مہربان رحم والا ہے۔

۱۶۴بے شک آسمان و زمین کی پیدائش اور رات دن کے ادل بدل میں اور کشتیوں (جہازوں ) میں جو لوگوں کے نفع کی چیزیں (مال تجارت وغیرہ) دریا میں لے کر چلتے ہیں اور پانی میں جو خدا نے آسمان سے برسایا پھر اس سے زمین کو مردہ (بے کار) ہونے کے بعد جِلا دیا (شاداب کر دیا) اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے اور ہواؤں کے چلانے میں اور ابر میں جو آسمان و زمین کے درمیان (خدا کے حکم سے ) گھرا رہتا ہے (ان سب باتوں میں ) عقل والوں کے لیے (بڑی بڑی) نشانیاں ہیں

۱۶۵اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا کے سوا (اوروں کو بھی خدا کا) مثل و شریک بناتے ہیں (اور) جیسی محبت خدا سے رکھنی چاہیے ویسی ہی ان سے رکھتے ہیں اور جو لوگ ایماندار ہیں وہ ان سے کہیں بڑھ کر خدا کی اُلفت رکھتے ہیں اور کاش ظالموں کو اس وقت وہ بات سوجھتی جو عذاب دیکھنے کے بعد سوجھے گی کہ یقیناً یہ ہر طرح کی قوت خدا ہی کو ہے اور یہ کہ بے شک خدا بڑا سخت عذاب والا ہے۔

۱۶۶(وہ کیا سخت وقت ہو گا) جب پیشوا لوگ اپنے پیروؤں سے اپنا پیچھا چھڑائیں گے اور (بچشم خود) عذاب کو دیکھیں گے اور ان کے باہمی تعلقات ٹوٹ جائیں گے

۱۶۷اور پیرو کہنے لگیں گے کہ اگر ہمیں کہیں پھر دنیا میں پلٹنا ملے تو ہم بھی ان سے اسی طرح الگ ہو جائیں جس طرح (عین وقت پر) یہ لوگ ہم سے الگ ہو گئے یونہی خدا ان کے اعمال کو دکھائے گا جو انہیں (سرتاپا یاس ہی) یاسدکھائی دیں گے اور پھر بھلا کب وہ دوزخ سے نکل سکتے ہیں۔

۱۶۸اے لوگو جو کچھ زمین میں ہے اس میں سے حلال و پاکیزہ چیز (شوق سے ) کھاؤ اور شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو وہ تو تمہارا ظاہر بظاہر دشمن ہے۔

۱۶۹ وہ تمہیں بُرائی اور بدکاری ہی کا حکم دے گا اور یہ (چاہے گا) کہ تم بے جانے بوجھے خدا پر بہتان باندھو۔

۱۷۰اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (حکم خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو مانو کہتے ہیں (کہ نہیں ) بلکہ ہم تو اسی طریقے پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ داداؤں کو پایا ہے اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ سمجھتے ہوں اور نہ راہِ راست پر ہی چلتے رہے ہوں۔

۱۷۱اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کی مثل تو اس شخص کی مثل ہے جو ایسے (جانور) کو پکار کے اپنا حلق پھاڑے جو آواز اور پکار کے سوا سنتا (سمجھتا خاک) نہ ہو (یہ لوگ) بہرے گونگے اور اندھے ہیں کہ خاک نہیں سمجھتے۔

۱۷۲اے ایماندارو جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے ستھری چیزیں (شوق سے ) کھاؤ اور اگر خدا کی ہی عبادت کرتے ہو تو اسی کا شکر کرو۔

۱۷۳اس نے تو تم پر بس مردہ جانور اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جس پر (وقتِ ذبح) خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو حرام کیا ہے پس جو شخص مجبور ہو اور سرکشی کرنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو اور (ان ہی میں سے کوئی چیز کھا لے ) تو اس میں گناہ نہیں ہے بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۷۴بے شک جو لوگ ان باتوں کو جو خدا نے کتاب میں نازل کی ہیں چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت (دنیوی نفع) لے لیتے ہیں یہ لوگ بس انگاروں سے اپنے پیٹ بھرتے ہیں اور قیامت کے دن خدا ان سے بات تک تو کرے گا نہیں اور نہ انہیں (گناہوں سے ) پاک کرے گا اور ان ہی کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

۱۷۵یہی لوگ وہ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی اور بخشش (خدا) کے بدلے عذاب پس وہ لوگ دوزخ کی آگ کو کیوں کر برداشت کریں گے۔

۱۷۶یہ اس لیے کہ خدا نے برحق کتاب نازل کی اور بے شک جن لوگوں نے کتاب خدا میں رد و بدل کی وہ لوگ پرلے درجہ کی مخالفت میں ہیں۔

۱۷۷نیکی کچھ یہی تھوڑی ہی ہے کہ (نماز میں ) اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی تو اس کی ہے جو خدا اور روزِ آخرت اور فرشتوں اور (خدا کی) کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور اس کی الفت میں اپنا مال قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسوں اور مانگنے والوں اور لونڈی غلام (کی گلو خاصی) میں صرف کرے اور پابندی سے نماز پڑھے اور زکوٰۃ دیتا رہے اور جب کوئی عہد کرے تو اپنے قول کو پورا کرے اور فقر و فاقہ رنج سختی اور کٹھن کے وقت ثابت قدم رہے یہی لوگ وہ ہیں جو (دعویٰ ایمان میں ) سچے نکلے اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔

۱۷۸اے مومنو جو لوگ (ناحق) مار ڈالے جائیں ان کے بدلے میں تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت پس جس (قاتل) کو اس کے (ایمانی) بھائی (طالب قصاص) کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے تو اسے بھی اسی کے قدم بقدم نیکی کرنا اور خوش معاملگی سے (خون بہا) ادا کر دینا چاہیے یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے آسانی اور مہربانی ہے پھر اس کے بعد جو زیادتی کرے تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے

۱۷۹اور اے عقل مندو! قصاص (کے قواعد مقرر کر دینے ) میں تمہاری زندگی ہے (اور اسی لیے جاری کیا گیا ہے ) تاکہ تم (خونریزی) سے پرہیز کرو

۱۸۰(مسلمانو) تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھی وصیت کرے جو خدا سے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے

۱۸۱پھر جو سن چکا اس کے بعد اسے کچھ کا کچھ کر دے تو اس کا گناہ انہیں لوگوں (کی گردن) پر ہے۔ جواسے بدل ڈالیں بے شک خدا (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے۔

۱۸۲(ہاں البتہ) جو شخص وصیت کرنے والے سے بے جا طرف داری یا بے انصافی کا خوف رکھتا ہو اور ان (وارثوں ) میں صلح کرا دے تو اس پر (بدلنے ) کا کچھ گناہ نہیں ہے بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۸۳اے ایماندارو روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا تاکہ تم (اس کی وجہ سے بہت سے ) گناہوں سے بچو۔

۱۸۴(وہ بھی ہمیشہ نہیں بلکہ) گنتی کے چند روز اس پر بھی (روزہ کے دنوں میں ) جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دنوں سے (جتنے قضا ہوئے ہوں ) گن کے رکھ لے اور ان لوگوں پر جو(بہ مشقت) روزہ رکھ سکتے ہوں (اور نہ رکھیں تو ہر روزہ کے ) بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا واجب ہے اور جو شخص اپنی خوشی سے بھلائی کرے تو یہ اس کے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھ دار ہو تو (سمجھ لو کہ فدیہ سے ) روزہ رکھنا تمہارے حق میں (بہر حال) اچھا ہے۔

۱۸۵(روزوں کا) مہینہ رمضان ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کا رہنما ہے اور اس میں رہنمائی اور (حق و باطل کی) تمیز کی روشن نشانیاں ہیں (مسلمانو) تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں اپنی جگہ پر ہو تو اس کو چاہیے کہ روزہ رکھے اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اور دنوں سے (روزہ کی) گنتی پوری کرے خدا تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ سختی کرنا نہیں چاہتا اور (شمار کا حکم اس لیے فرمایا ہے ) تاکہ تم (روزوں کی) گنتی پوری کرو اور تاکہ خدا نے جو تم کو راہ پر لگا دیا ہے اس نعمت پر اس کی بڑائی کرو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔

۱۸۶(اے رسولؐ) جب میرے بندے میرا حال تم سے پوچھیں تو (کہہ دو کہ) میں ان کے پاس ہی ہوں اور جب مجھ سے کوئی دعا مانگتا ہے تو میں ہر دعا کرنے والے کی دعا (سن لیتا ہوں اور جو مناسب ہو تو) قبول کرتا ہوں پس انہیں چاہیے کہ میرا ہی کہا مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ سیدھی راہ پر آ جاویں۔

۱۸۷(مسلمانو) تمہارے واسطے روزوں کی راتیں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا عورتیں (گویا) تمہاری چولی اور تم گویا ان کے دامن ہو خدا نے دیکھا کہ تم (گناہ کر کے ) اپنا نقصان کرتے تھے (کہ آنکھ بچا کے اپنی بی بی کے پاس چلے جاتے تھے ) تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہاری خطا سے درگزرا پس تم اب ان سے ہم بستری کرو (اور اولاد سے ) جو کچھ خدا نے تمہارے لیے (تقدیر میں ) لکھ دیا ہے اسے مانگو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی کالی دھاری سے (آسمان پر مشرق کی طرف) تمہیں صاف نظر آنے لگے پھر رات تک روزہ پورا کرو اور (ہاں ) جب تم مسجدوں میں اعتکاف کرنے بیٹھو تو ان سے (رات کو بھی) ہم بستری نہ کرو یہ خدا کی (معین کی ہوئی) حدیں ہیں تو تم ان کے پاس بھی نہ جانا۔ یوں کھلم کھلا خدا اپنے احکام لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے تاکہ جو لوگ(نافرمانی سے ) بچیں

۱۸۸اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ مال کو (رشوت میں ) حکام کے یہاں جھونک دو تاکہ لوگوں کے مال میں سے (جو) کچھ ہاتھ لگے ناحق خورد برد کر جاؤ حالانکہ تم جانتے ہو۔

۱۸۹(اے رسولؐ) تم سے لوگ چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں (کہ کیوں گھٹتا بڑھتا ہے ) تم کہہ دو کہ اس سے لوگوں کے (دنیوی امور) اور حج کے اوقات معلوم ہوتے ہیں اور یہ کوئی بھلی بات نہیں ہے کہ گھروں میں پچھواڑے سے (پھاند کے ) آؤ بلکہ نیکی اس کی ہے جو پرہیزگاری کرے اور گھروں میں (آنا ہو تو) ان کے دروازوں کی طرف سے آؤ اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو

۱۹۰اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو (کیونکہ) خدا زیادتی کرنے والوں کو (ہرگز) دوست نہیں رکھتا

۱۹۱اور تم ان (مشرکوں ) کو جہاں پاؤ مار ہی ڈالو اور ان لوگوں نے جہاں (مکہ) سے تمہیں شہر بدر کیا ہے تم بھی انہیں نکال باہر کرو اور فتنہ پردازی (شرک) خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے اور جب تک وہ (کفّار)لوگ مسجد الحرام (کعبہ) کے پاس تم سے نہ لڑیں تم بھی اس جگہ ان سے نہ لڑو پس اگر وہ تم سے لڑیں تو ( بے کھٹکے ) تم بھی ان کو قتل کرو کافروں کی یہی سزا ہے۔

۱۹۲پھر اگر وہ لوگ باز رہیں تو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے

۱۹۳اور ان سے لڑے جاؤ یہاں تک کہ فساد (باقی) نہ رہے اور صرف خدا ہی کا دین (باقی) رہ جائے۔ پھر اگر وہ لوگ باز رہیں تو ان پر زیادتی نہ کرو کیونکہ ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی اچھی نہیں۔

۱۹۴حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے برابر ہے (اور کچھ مہینہ کی خصوصیت نہیں ) سب حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کے برابر ہیں پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو اور خدا سے ڈرتے رہو اور خوب سمجھ لو کہ خدا پرہیزگاروں کا ساتھی ہے۔

۱۹۵اور خدا کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھ (جان) ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بے شک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

۱۹۶اور صرف خدا ہی کے واسطے حج اور عمرہ کو پورا کرو پس اگر تم (بیماری وغیرہ کی وجہ سے ) مجبور ہو جاؤ تو پھر جیسی قربانی میسر آوے (کر دو) اور جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جاوے اپنے سر نہ منڈوانا۔ پھر جب تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو(سرمنڈوانے کا) بدلہ روزے یا خیرات یا قربانی ہے پس جب مطمئن ہو تو جو شخص حج تمتع کا عمرہ کرے تو اس کو جو قربانی میسر آوے کرنی ہو گی اور جس سے قربانی ناممکن ہو تو تین روزے زمانہ حج میں (رکھنے ہوں گے ) اور سات روزے جب تم واپس آؤ یہ پوری دہائی ہے یہ حکم اس شخص کے واسطے ہے جس کے لڑکے بالے مسجد حرام (مکہ) کے باشندے نہ ہوں اور خدا سے ڈرو اور سمجھ لو کہ خدا بڑا سخت عذاب والا ہے۔

۱۹۷حج کے مہینے تو (اب سب کو) معلوم ہیں (شوال،ذیقعد،ذی الحجہ) پس جو شخص ان مہینوں میں اپنے اوپر حج لازم کرے تو (احرام سے ) آخرِ حج تک نہ عورت کے پاس جائے نہ کوئی اور گناہ کرے اور نہ جھگڑے اور نیکی کا کوئی سا کام بھی کرو تو خدا اس کو خوب جانتا ہے اور (راستہ کے لیے ) زاد راہ مہیا کر لو اور سب سے بہتر زادِ راہ پرہیز گاری ہے اے عقلمندو مجھ سے ڈرتے رہو

۱۹۸اور اس میں کوئی الزام نہیں ہے کہ (حج کے ساتھ) تم اپنے پروردگار کے فضل (نفع تجارت) کی خواہش کرو پھر جب تم عرفات سے چل کھڑے ہو تو مشعر الحرام کے پاس خدا کا ذکر کرو اور اس کی یاد (بھی) کرو (تو) جس طرح تمہیں بتایا ہے اگرچہ تم اس کے پہلے تو گم راہوں سے تھے۔

۱۹۹پھر جہاں سے لوگ چل کھڑے ہوں وہیں سے تم بھی چل کھڑے ہو اور خدا سے مغفرت کی دُعا مانگو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۲۰۰پھر جب تم ارکان حج بجا لا چکو تو تم اس طرح ذکر خدا کرو جس طرح تم اپنے باپ داداؤں کا ذکر کرتے ہو بلکہ اس سے بڑھ کر پھر بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو (جو دینا ہے ) دنیا ہی میں دیدے حالانکہ (پھر) آخرت میں ان کا کچھ حصہ نہیں۔

۲۰۱اور بعض بندے ایسے ہیں۔ جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پالنے والے ہمیں دنیا میں نعمت دے اور آخرت میں ثواب دے اور دوزخ کی آگ سے بچا۔

۲۰۲یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے اپنی کمائی کا حصّہ (چین) ہے اور خدا بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

۲۰۳اور گنتی کے چند دنوں تک (تو) خدا کا ذکر کرو پھر جو شخص جلدی کر بیٹھے اور (منیٰ سے ) دو ہی دن میں چل کھڑا ہو تو اس پر (بھی) گناہ نہیں ہے اور جو (تیسرے دن تک) ٹھہرا رہے اس پر بھی گناہ نہیں (لیکن یہ رعایت) اس کے واسطے ہے جو پرہیز گار ہو اور خدا سے ڈرتے رہو اور یقین جانو کہ (ایک دن ) تم سب کے سب اس کی طرف قبروں سے اٹھائے جاؤ گے

۲۰۴(اے رسولؐ) بعض لوگ (منافقین سے ایسے بھی ہیں )جن کی (چکنی چپڑی) باتیں (اس ذرا سی) دنیوی زندگی میں تمہیں بہت بھاتی ہیں اور وہ اپنی دلی محبت پر خدا کو گواہ مقرر کرتے ہیں حالانکہ وہ (تمہارے ) دشمنوں میں سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔

۲۰۵اور جب حاکم بنا تو ادھر اُدھر دوڑ دھوپ کرنے لگا تاکہ ملک میں فساد پھیلائے اور زراعت اور مویشی کاستیاناس کرے اور خدا فساد کو اچھا نہیں سمجھتا۔

۲۰۶اور جب کہا جاتا ہے کہ خدا سے ڈرو تو اسے غرور گناہ پر ابھارتا ہے (پس ایسے کم بخت) کے لئے جہنم (ہی) کافی ہے اور بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

۲۰۷اور لوگوں میں سے (خدا کے بندے ) کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر بڑا ہی شفقت والا ہے۔

۲۰۸اے ایمان والو تم سب کے سب (اکبار) اسلام میں (پوری طرح) داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو وہ یقینی تمہارا ظاہر بہ ظاہر دشمن ہے۔

۲۰۹پھر جب تمہارے پاس روشن دلیلیں آ چکیں اس کے بعد بھی ڈگمگا گئے تو (اچھی طرح)سمجھ لو کہ خدا (ہر طرح) غالب اور تدبیر والا ہے۔

۲۱۰کیا وہ لوگ اسی کے منتظر ہیں کہ سفید ابر کے سائبانوں کی (آڑ) میں (عذاب) خدا اور (عذاب کے ) فرشتے ان پر آ ہی جاویں اور سب جھگڑے چک ہی جاویں حالانکہ (آخر) کل امورِ خدا ہی کی طرف رجوع کیے جاویں گے۔

۲۱۱(اے رسولؐ) بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے ان کو کیسی کیسی روشن نشانیاں دیں اور جب کسی شخص کے پاس خدا کی نعمت (کتاب ) آ چکی اس کے بعد بھی اس کو بدل ڈالے تو بے شک خدا سخت عذاب والا ہے۔

۲۱۲جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے دنیا کی (ذراسی) زندگی خوب اچھی کر دکھائی گئی ہے اور ایمانداروں سے مسخرہ پن کرتے ہیں حالانکہ قیامت کے دن پرہیز گاروں کا درجہ ان سے کہیں بڑھ چڑھ کے ہو گا اور خدا جس کو چاہتا ہے بے حساب روزی عطا فرماتا ہے۔

۲۱۳(پہلے ) سب لوگ ایک ہی دین رکھتے تھے پھر (آپس میں جھگڑنے لگے تب) خدا نے (نجات کی) خوشخبری دینے والے اور (عذاب سے ڈرانے ) والے پیغمبروں کو بھیجا اور ان (پیغمبروں ) کے ساتھ بحق کتاب بھی نازل کی تاکہ جن باتوں میں لوگ جھگڑتے تھے (کتاب خدا اس کا) فیصلہ کر دے اور پھر (افسوس تو یہ ہے کہ) اس حکم سے اختلاف کیا بھی تو اُن ہی لوگوں نے جن کو کتاب دی گئی تھی (اور وہ بھی) جب ان کے پاس خدا کے صاف صاف احکام آ چکے اس کے بعد (اور وہ بھی) آپس کی شرارت سے۔ تب خدا نے اپنی مہربانی سے (خالص) ایمانداروں کو وہ راہ حق دکھا دی جس میں ان لوگوں نے اختلاف ڈال رکھا تھا اور خدا جس کو چاہے راہِ راست کی ہدایت کرتا ہے۔

۲۱۴کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ بہشت میں پہنچ ہی جاؤ گے حالانکہ ابھی تک تمہیں اگلے زمانہ والوں کی سی حالت نہیں پیش آئی کہ انہیں طرح طرح کی تکلیفوں (فاقہ کشی، محتاجی) اور بیماری نے گھیر لیا اور زلزلہ میں اس قدر جھنجھوڑے گئے کہ آخر (عاجز ہو کے ) پیغمبر اور ایمان والے جو ان کے ساتھ تھے کہنے لگے (دیکھیے ) خدا کی مدد کب ہوتی ہے۔ دیکھو (گھبراؤ نہیں ) خدا کی مدد یقیناً بہت قریب ہے۔

۲۱۵(اے رسولؐ) تم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم (خدا کی راہ میں ) کیا خرچ کریں (تو تم انہیں ) جواب دو کہ تم اپنی نیک کمائی سے جو کچھ خرچ کرو تو وہ تمہارے ماں باپ اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسیوں کا حق ہے اور تم کوئی سا نیک کام کرو خدا اس کو ضرور جانتا ہے۔

۲۱۶(مسلمانو) تم پر جہاد فرض کیا گیا۔ اگرچہ تم پر شاق ضرور ہے اور عجب نہیں کہ تم کسی چیز (جہاد) کو ناپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بُری ہو اور خدا تو جانتا ہی ہے مگر تم نہیں جانتے ہو

۲۱۷(اے رسولؐ) تم سے لوگ حرمت والے مہینوں کی نسبت پوچھتے ہیں کہ (آیا) جہاد ان میں (جائز) ہے (تو) تم انہیں جواب دو کہ ان مہینوں میں جہاد بڑا گناہ ہے (اور یہ بھی یاد رہے ) کہ خدا کی راہ سے روکنا اور خدا سے انکار اور مسجد الحرام (کعبہ) سے (روکنا) اور جو اس کے اہل ہیں ان کا مسجد سے نکال باہر کرنا (یہ سب) خدا کے نزدیک اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے اور فتنہ پردازی کشت و خون سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور یہ (کفار) تم سے ہمیشہ لڑتے ہی چلے جائیں گے یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں اور تم میں جو شخص اپنے دین سے پھرا اور کفر ہی کی حالت میں مر گیا تو ایسوں ہی کا کیا کرایا سب کچھ دنیا اور آخرت (دونوں میں ) اکارت ہے اور یہی لوگ جہنمی ہیں (اور) وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔

۲۱۸بے شک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور خدا کی راہ میں ہجرت کی اور جہاد کیا یہی لوگ رحمتِ خدا کے امیدوار ہیں اور خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۲۱۹(اے رسولؐ) تم سے لوگ شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں تم ان سے کہہ دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے (کچھ) فائدے بھی ہیں اور ان کے فائدے سے ان کا گناہ بڑھ کر ہے اور تم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کیا خرچ کریں تم (ان سے ) کہہ دو کہ جو تمہاری ضرورت سے بچے یوں خدا اپنے احکام تم سے صاف صاف بیان کرتا ہے

۲۲۰تاکہ تم دنیا اور آخرت (کے معاملات) میں غور کرو۔ اور تم سے لوگ یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں تم (ان سے ) کہہ دو کہ ان کی اصلاح (و درستی) بہتر ہے اور اگر تم ان سے مل جل کر رہو تو (کچھ حرج نہیں ) آخر وہ تمہارے بھائی ہی تو ہیں اور خدا فسادی کو خیر خواہ سے (الگ خوب) جانتا ہے۔ اور اگر خدا چاہتا تو تم کو مصیبت میں ڈال دیتا۔ بے شک خدا زبردست حکمت والا ہے۔

۲۲۱اور (مسلمانو) تم مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرو، کیونکہ مشرکہ عورت تمہیں (اپنے حسن و جمال میں ) کیسی ہی اچھی معلوم کیوں نہ ہو مگر پھر بھی ایماندار عورت اس سے ضرور اچھی ہے اور مشرکین جب تک ایمان نہ لائیں اپنی عورتیں ان کے نکاح میں نہ دو اور مشرک تمہیں کیسا ہی اچھا کیوں نہ معلوم ہو مگر پھر بھی بندہ مومن ان سے ضرور اچھا ہے یہ (مشرک مرد یا عورت) لوگوں کو دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور خدا اپنی عنایت سے بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنے احکام لوگوں سے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں

۲۲۲اور (اے رسولؐ) تم سے لوگ حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں تم ان سے کہہ دو کہ یہ (نجاست اور گندگی کی) بیماری ہے تو (ایام) حیض میں تم عورتوں سے الگ رہو اور (جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ) ان کے پاس نہ جاؤ پس جب وہ پاک ہو جائیں تو جدھر سے تمہیں خدا نے حکم دیا ہے ان کے پاس جاؤ بے شک خدا توبہ کرنے والوں اور ستھرے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔

۲۲۳تمہاری بیبیاں (گویا)تمہاری کھیتی ہیں تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ اور اپنی آئندہ (کی بھلائی کے واسطے ) (اعمالِ صالح) پیشگی بھیجو اور خدا سے ڈرتے رہو اور یہ بھی سمجھ رکھو کہ (ایک نہ ایک دن) تم کو اس کے سامنے جانا ہے اور (اے رسولؐ) ایمانداروں کو(نجات کی) خوشخبری دے دو

۲۲۴اور ( تم مسلمانو) تم اپنی قسموں (کے حیلے )سے خدا (کے نام) کو (لوگوں کے ساتھ) سلوک کرنے اور خدا سے ڈرنے اور لوگوں کے درمیان صلح کرا دینے کا مانع نہ ٹھہراؤ اور خدا (سب کی) سنتا اور (اور سب کو) جانتا ہے

۲۲۵تمہاری لغو قسموں پر (جو بے اختیار زبان سے نکل جائیں ) خدا تم سے گرفت نہیں کرنے کا مگر ان قسموں پر ضرور تمہاری گرفت کرے گا جو تم نے قصداً دل سے کھائی ہوں اور خدا بخشنے والا برد بار ہے۔

۲۲۶جو لوگ اپنی بیبیوں کے پاس جانے سے قسم کھائیں ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے پس اگر (وہ اپنی قسم سے اس مدت میں باز آئیں اور ) ان کی طرف توجہ کریں تو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے

۲۲۷اور اگر طلاق ہی کی ٹھان لیں تو (بھی) بے شک خدا (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے

۲۲۸اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہے وہ اپنے آپ کو (طلاق کے بعد) تین حیض کے ختم ہو جانے کے بعد تک (نکاح ثانی سے ) روکیں اور اگر وہ (عورتیں ) خدا اور روزِ آخرت پر ایمان لائی ہیں تو ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ بھی خدا نے ان کے رحم (پیٹ) میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں اور اگر ان کے شوہر میل جول کرنا چاہیں تو وہ مدت (مذکورہ) میں ان کے واپس بلا لینے کے زیادہ حق دار ہیں اور شریعت کے موافق عورتوں کا (مردوں پر) وہی سب کچھ (حق) ہے جو (مردوں کا) عورتوں پر ہے، ہاں البتہ مردوں کو (فضیلت میں ) عورتوں پر فوقیت ضرور ہے اور خدا زبردست حکمت والا ہے۔

۲۲۹طلاق (رجعی جس کے بعد رجوع ہو سکتی ہے ) دو ہی مرتبہ ہے اس کے بعد یا تو شریعت کے موافق روک ہی لینا چاہیے یا حسنِ سلوک سے (تیسری دفعہ) بالکل رخصت اور تم کو یہ جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے پھر کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو اس کا خوف ہو کہ خدا نے جو حدیں مقرر کر دی ہیں ان کو دونوں (میاں بیوی) قائم نہ رکھ سکیں گے۔ پھر اگر تمہیں (اے مسلمانو) یہ خوف ہو کہ یہ دونوں خدا کی (مقرر) کی ہوئی حدوں پر قائم نہ رہیں گے تو اگر عورت مرد کو کچھ دے کر اپنا پیچھا چھڑائے (خلع کرائے ) تو اس میں ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں پس ان سے آگے نہ بڑھو اور جو خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے بڑھتے ہیں وہ ہی لوگ تو ظالم ہیں۔

۲۳۰پھر اگر (تیسری بار بھی) عورت کو طلاق (بائن) دے تواس کے بعد جب تک دوسرے مرد سے نکاح نہ کر لے اس کے لیے حلال نہیں ہاں اگر دوسرا شوہر (نکاح کے بعد) اس کو طلاق دیدے تب البتہ ان (میاں بیوی) پر باہم میل کر لینے میں کچھ گناہ نہیں ہے اگر ان دونوں کو یہ گمان ہو کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں جو سمجھدار لوگوں کے واسطے صاف صاف بیان کرتا ہے

۲۳۱اور جب تم اپنی بیبیوں کو طلاق دو اور ان کی مدت پوری ہونے آئے تو اچھے عنوان سے ان کو روک لو یا حسن سلوک سے بالکل رخصت ہی کر دو اور انہیں تکلیف پہنچانے کے لیے نہ روکو تاکہ (پھر ان پر) زیادتی کرنے لگو اور جو ایسا کرے گا تو یقیناً اپنے ہی پر ظلم کرے گا اور خدا کے احکام کو (کچھ) ہنسی ٹھٹھا نہ سمجھو اور خدا نے جو تمہیں نعمتیں دی ہیں انہیں یاد کرو اور اس نے جو کتاب اور عقل کی باتیں تم پر نازل کیں ان سے تمہاری نصیحت کرتا ہے اور خدا سے ڈرتے رہو اور سمجھ رکھو کہ خدا ہر چیز کو ضرور جانتا ہے۔

۲۳۲اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی مدّت (عدّہ) پوری کر لیں تو انہیں اپنے شوہروں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو جب آپس میں دونوں میاں بیوی شریعت کے مطابق اچھی طرح مل جل جائیں یہ اسی شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے خدا اور روز آخرت پر ایمان لا چکا ہو یہی تمہارے حق میں بڑی پاکیزہ اور صفائی کی بات ہے اور (اس کی خوبی) خدا خوب جانتا ہے اور تم (ویسا) نہیں جانتے ہو۔

۲۳۳اور (طلاق دینے کے بعد) جو شخص اپنی اولاد کو پورے دو برس دودھ پلوانا چاہے تو اس کی خاطر سے مائیں اپنی اولاد کو پورے دو برس دودھ پلائیں اور جس (باپ) کا وہ لڑکا ہے اس پر ماؤں کا کھانا کپڑا دستور کے مطابق لازم ہے۔ کسی شخص کو زحمت نہیں دی جاتی مگر اس کی گنجائش بھر۔ نہ ماں کا اس کے بچے کی وجہ سے نقصان گوارا کیا جائے اور نہ جس (باپ)کا لڑکا ہے اس کا (بلکہ دستور کے مطابق دیا جائے ) اور (اگر باپ نہ ہو تو دودھ پلانے کا حق) اسی طرح وارث پر لازم ہے پھر اگر (دو برس کے قبل) ماں باپ دونوں اپنی مرضی اور مشورے سے دودھ بڑھائی کرنا چاہیں تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے اور اگر تم اپنی اولاد کو (کسی انّا سے ) دودھ پلوانا چاہو تو (اس میں بھی) تم پر کچھ گناہ نہیں ہے بشرطیکہ جو تم نے دستور کے مطابق مقرر کیا ہے ان کے حوالے کر دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا ضرور دیکھتا ہے۔

۲۳۴اور تم میں سے جو لوگ بیبیاں چھوڑ کر مر جائیں تو یہ عورتیں چار مہینے دس روز (عدت بھر) اپنے کو روکیں (اور دوسرا نکاح نہ کریں ) پھر جب (عدۃ کی) مدت پوری کر لیں تو شریعت کے مطابق جو کچھ اپنے حق میں کریں اس بارے میں تم پر کوئی الزام نہیں ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے۔

۲۳۵اور اگر تم اس خوف سے کہ(شاید کوئی دوسرا نکاح کرے ) ان عورتوں سے اشارتاً نکاح کی (قبل عدۃ) خواستگاری کرو یا اپنے دلوں میں چھپائے رکھو تو اس میں بھی کچھ تم پر الزام نہیں ہے (کیونکہ) خدا کو معلوم ہے کہ (تم سے صبر نہ ہو سکے گا اور ) ان عورتوں سے نکاح کرنے کا خیال آئے گا لیکن چوری چھپے سے (نکاح کا) وعدہ نہ کرنا مگر یہ کہ ان سے اچھی بات کہہ گزرو (تو مضائقہ نہیں ) اور جب تک مقرر میعاد گزر نہ جائے نکاح کا قصد بھی نہ کرنا اور سمجھ رکھو کہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے خدا اس کو ضرور جانتا ہے تو اس سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ خدا بڑا بخشنے والا بردبار ہے۔

۲۳۶اور اگر تم نے اپنی بیبیوں کو ہاتھ نہ لگایا اور نہ مہر ہی معین کیا ہواس کے قبل ہی تم ان کو طلاق دے دو (تو اس میں بھی) تم پر کچھ الزام نہیں ہے ہاں ان عورتوں کے ساتھ (دستور کے مطابق) مالدار پر اپنی حقیقت کے موافق اور غریب پر اپنی حیثیت کے موافق (کپڑے روپے وغیرہ سے ) کچھ سلوک کرنا لازم ہے۔ نیکی کرنے والوں پر یہ بھی ایک حق ہے

۲۳۷اور اگر تم ان عورتوں کا مہر جو معین کر چکے ہو مگر ہاتھ لگانے (خلوتِ صحیحہ) کے قبل ہی طلاق دے دو تو ان عورتوں کو مہر معین کا آدھا دے دو مگر یہ کہ یہ عورتیں خود معاف کر دیں یا ان کا ولی جس کے ہاتھ میں ان کے نکاح کا اختیار ہو معاف کر دے تب کچھ نہیں اور اگر تم ہی (سارا مہر) بخش دو تو پرہیزگاری سے بہت قریب ہے اور آپس کی بزرگی کو مت بھولو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا ضرور دیکھ رہا ہے۔

۲۳۸اور (مسلمانو) تم تمام نمازوں کی اور (خصوصاً ) بیچ والی نماز(صبح یا ظہر یا عصر) کی پابندی کرو اور خاص خدا ہی کے واسطے (نماز میں ) قنوت پڑھنے والے ہو کر کھڑے ہو

۲۳۹پھر اگر تم خوف کی حالت میں ہو اور (پوری نماز نہ پڑھ سکو) تو سوار یا پیدل (جس طرح بن پڑے پڑھ لو) پھر جب تمہیں اطمینان ہو تو جس طرح خدا نے تمہیں (اپنے رسولؐ کی معرفت) ان باتوں کو سکھایا ہے جو تم نہیں جانتے تھے اسی طرح خدا کو یاد کرو

۲۴۰اور تم میں سے جو لوگ اپنی بیبیاں چھوڑ کر مر جائیں ان پر اپنی بیبیوں کے حق میں سال بھر تک کے نان و نفقہ اور (گھر سے ) نہ نکالنے کی وصیت کرنی (لازم) ہے پس اگر عورتیں خود نکل کھڑی ہوں تو جائز باتوں (نکاح وغیرہ) سے جو کچھ اپنے حق میں کریں اس کا تم پر کچھ الزام نہیں ہے اور خدا ہر شے پر غالب اور حکمت والا ہے۔

۲۴۱اور جن عورتوں کو (تعین مہر اور ہاتھ لگائے بغیر) طلاق دی جائے ان کے ساتھ (جوڑے، روپے وغیرہ سے ) سلوک کرنا لازم ہے (یہ بھی) پرہیزگاروں پر ایک حق ہے

۲۴۲اسی طرح خدا تم لوگوں (کی ہدایت) کے واسطے اپنے احکام صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو۔

۲۴۳(اے رسولؐ) کیا تم نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل بھاگے اور وہ ہزاروں آدمی تھے تو خدا نے ان سے فرمایا کہ سب کے سب مر جاؤ (اور وہ مر گئے ) پھر خدا نے انہیں زندہ کیا بے شک خدا لوگوں پر بڑا مہربان ہے مگر اکثر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔

۲۴۴اور (مسلمانو) خدا کی راہ میں جہاد کرو اور جان رکھو کہ خدا ضرور (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے۔

۲۴۵ہے کوئی جو خدا کو قرض حسنہ دے تاکہ خدا اس کے مال کو اس کے لیے کئی گنا بڑھا دے اور خدا ہی تنگدست کرتا ہے اور وہی کشائش دیتا ہے اور اسی کی طرف سب کے سب لوٹا دیئے جاؤ گے۔

۲۴۶(اے رسولؐ) کیا تم نے موسیٰؑ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں (کی حالت) پر نظر نہیں کی جب انہوں نے اپنے بنی (شموئیل) سے کہا کہ ہمارے واسطے ایک بادشاہ مقرر کیجیے تاکہ ہم خدا کی راہ میں جہاد کریں۔ (پیغمبر نے ) فرمایا: کہیں ایسا تو نہ ہو کہ جب تم پر جہاد واجب کیا جائے تو تم نہ لڑو۔ کہنے لگے : جب ہم اپنے گھروں اور اپنے بال بچوں سے نکالے جا چکے تو پھر ہمیں کون سا عذر باقی ہے کہ ہم خدا کی راہ میں جہاد نہ کریں۔ پھر جب ان پر جہاد واجب کیا گیا تو ان میں سے چند آدمیوں کے سوا سب نے لڑنے سے منہ پھیرا اور خدا تو ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

۲۴۷اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ بے شک خدا نے (تمہاری درخواست کے مطابق) طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا تب کہنے لگے اس کی حکومت ہم پر کیوں کر ہو سکتی ہے حالانکہ سلطنت کے حقدار اس سے زیادہ تو ہم ہیں کیونکہ اسے تو مال کے اعتبار سے بھی فارغ البالی(تک) نصیب نہیں (نبی نے ) کہا خدا نے اسے تم پر فضیلت دی ہے اور (مال میں نہ سہی مگر) علم اور جسم کا پھیلاؤ تو اسی کا خدا نے زیادہ فرمایا ہے اور خدا اپنا ملک جسے چاہے دے اور خدا بڑی گنجائش والا (اور) واقف کار ہے۔

۲۴۸اور اُن کے نبی نے ان سے یہ (بھی) کہا اس کے (منجانب اللہ) بادشاہ ہونے کی یہ پہچان ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آ جائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسکین دہ چیزیں اور ان تبرکات سے بچا کھچا ہو گا جو موسیٰؑ و ہارونؑ کی اولاد یادگار چھوڑ گئی ہے اور اس صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوں گے اگر تم ایمان رکھتے ہو تو بے شک اس میں تمہارے واسطے (پوری) نشانی ہے۔

۲۴۹پھر جب طالوت لشکر سمیت (شہر ایلیا) سے روانہ ہوا تو اپنے ساتھیوں سے کہا (دیکھو آگے ) ایک نہر (ملے گی اس) سے یقیناً خدا تمہارے (صبر کی) آزمائش کرے گا پس جو شخص اس کا پانی پئے گا وہ مجھ سے (کچھ واسطہ) نہیں رکھتا اور جو اس کو نہ چکھے گا وہ بے شک مجھ سے ہو گا مگر (ہاں ) جو اپنے ہاتھ سے ایک (آدھ) چلو بھر (کے پی) لے (تو کچھ حرج نہیں ! پس ان لوگوں نے نہ مانا) اور چند آدمیوں کے سوا سب نے اس کا پانی پی لیا (خیر) جب طالوت اور جو مومنین ان کے ساتھ تھے نہر سے پار ہو گئے تو (خالص مومنوں کے سوا سب کے سب کہنے لگے کہ ہم میں تو آج جالوت اور اس کی فوج سے لڑنے کی سکت نہیں مگر وہ لوگ جن کو یقین ہے کہ (ایک دن) خدا کو منہ دکھانا ہے (بے دھڑک) بول اٹھے کہ ایسا بہت ہوا ہے کہ خدا کے حکم سے چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آ گئی ہے اور خدا صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔

۲۵۰اور غرض جب یہ لوگ جالوت اور اس کی فوج کے مقابلے کو نکلے تو دعا کی اے ہمارے پروردگار ہمیں کامل صبر عطا فرما اور (میدانِ جنگ میں ) ہمارے قدم جمائے رکھ اور ہمیں کافروں پر فتح عنایت کر۔

۲۵۱پھر تو ان لوگوں نے خدا کے حکم سے دشمنوں کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کیا اور خدا نے ان کو سلطنت اور تدبیر تمدن عطا کی اور (علمِ و ہنر) جو چاہا انہیں (گویا) گھول کے پلا دیا اور اگر خدا بعض لوگوں کے ذریعے سے بعض کا دفعہ(شر) نہ کرتا تو تمام روئے زمین میں فساد پھیل جاتا مگر خدا تو سارے جہاں کے لوگوں پر فضل (و رحم) کرتا ہے۔

۲۵۲(اے رسولؐ) یہ خدا کی سچی آیتیں ہیں جو ہم تم کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کے سناتے ہیں اور بے شک تم ضرور رسولوں میں سے ہو۔

۲۵۳یہ سب رسولؐ (جو) ہم نے (بھیجے ) ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جن سے خود خدا نے بات کی اور بعض کے ان میں سے (اور طرح پر) درجے بلند کیے اور مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کو (کیسے کیسے ) روشن معجزے عطا کیے اور روح القدس (جبرائیلؑ) کے ذریعے سے ان کی مدد کی۔اور اگر خدا چاہتا تو جو لوگ ان(پیغمبروں ) کے بعد ہوئے وہ اپنے پاس روشن معجزے آ چکنے پر آپس میں نہ لڑ مرتے مگر ان میں پھوٹ پڑ گئی پس ان میں سے بعض تو ایمان لائے اور بعض کافر ہو گئے اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ آپس میں نہ لڑتے مگر خدا وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۵۴اے ایماندارو جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اُس دن کے آنے سے پہلے (خدا کی راہ میں ) خرچ کرو جس میں نہ تو (خریدو) فروخت ہو گی اور نہ یاری (اور نہ آشنائی) اور نہ سفارش (ہی کام آئے گی) اور کفر کرنے والے ہی تو ظلم ڈھاتے ہیں۔

۲۵۵خدا ہی وہ (ذات پاک) ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ) زندہ ہے (اور) سارے جہاں کا سنبھالنے والا ہے۔ اس کو نہ اُونگھ آتی ہے نہ نیند۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے کون ایسا ہے جو بغیر اس کی اجازت کے اس کے پاس (کسی کی) سفارش کرے۔ جو کچھ ان کے سامنے (موجود) ہے (وہ) اور جو کچھ ان کے پیچھے (ہو چکا) ہے (خدا سب کو) جانتا ہے اور لوگ اس کے علم میں سے کسی چیز پر بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر وہ (جسے ) جتنا چاہے (سکھا دے ) اس کی کرسی سب آسمانوں اور زمینوں کو گھیرے ہوئے ہے اور ان دونوں (آسمان و زمین) کی نگہداشت اس پر (کچھ بھی) گراں نہیں اور وہ (بڑا) عالی شان بزرگ مرتبہ ہے۔

۲۵۶دین میں کسی طرح کی زبردستی نہیں کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی تو جس شخص نے جھوٹے خداؤں (بتوں ) سے انکار کیا اور خدا ہی پر ایمان لایا تو اس نے وہ مضبوط رسّی پکڑ لی ہے جو ٹوٹ ہی نہیں سکتی اور خدا (سب کچھ)سنتا (اور) جانتا ہے۔

۲۵۷خدا ان لوگوں کا سرپرست ہے جو ایمان لا چکے کہ انہیں (گمراہی کی) تاریکیوں سے نکال کر (ہدایت کی) روشنی میں لاتا ہے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سرپرست شیطان ہیں کہ ان کو (ایمان کی) روشنی سے نکال کر (کفر کی) تاریکیوں میں ڈال دیتے ہیں یہی لوگ تو جہنمی ہیں (اور) یہی اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

۲۵۸(اے رسولؐ) کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر نظر نہیں کی جو صرف اس برتے پر کہ خدا نے اُسے سلطنت دی تھی ابراہیمؑ سے ان کے پروردگار کے بارے میں اُلجھ پڑا کہ جب ابراہیمؑ نے (اس سے ) کہا کہ میرا پروردگار تو وہ ہے جو (لوگوں کو) جلاتا اور مارتا ہے۔ تو وہ بھی (شیخی میں آ کر) کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں (تمہارے خدا ہی میں کون سا کمال ہے ) ابراہیمؑ نے کہا (اچھا) خدا تو آفتاب کو مشرق سے نکالتا ہے بھلا تم اس کو مغرب سے تو نکالو۔ اس پر وہ کافر ہکا بکا ہو کر رہ گیا (مگر ایمان نہ لایا) اور خدا ظالموں کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا

۲۵۹(اے رسول ؐ تم نے ) مثلاً اس(بندہ کے حال) پر بھی نظر کی جو ایک گاؤں پر سے (ہو کر) گزرا اور وہ ایسا اُجڑا تھا کہ اپنی چھتوں پر ڈھے کر گر پڑا تھا (یہ دیکھ کر) وہ بندہ کہنے لگا اللہ اب اس گاؤں کو (ایسی) ویرانی کے بعد کیوں کر آباد کرے گا اس پر خدا نے اس کو (مار ڈالا اور ) سو برس تک مردہ رکھا۔ پھر اس کو جلا اٹھایا (تب) پوچھا تم کتنی دیر پڑے رہے ؟ عرض کی ایک دن (پڑا رہا) یا ایک دن سے بھی کم۔ فرمایا نہیں تم (اسی حالت میں ) سو برس پڑے رہے۔ اب ذرا اپنے کھانے پینے (کی چیزوں ) کو دیکھو کہ ابھی تک خراب نہیں اور ذرا اپنے گدھے (سواری) کو تو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں ڈھیر پڑی ہیں اور سب اس واسطے کیا ہے تاکہ لوگوں کے لیے تمہیں قدرت کا نمونہ بنائیں اور (اچھا اب اس گدھے کی) ہڈیوں کی طرف نظر کرو کہ ہم کیوں کر ان کو جوڑ جاڑ ڈھانچہ بناتے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ پس (جب اُن پر یہ ظاہر ہوا تو بے ساختہ) بول اُٹھے کہ (اب) میں یہ یقین کامل سے جانتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے

۲۶۰اور (اے رسولؐ وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ابراہیمؑ نے (خدا سے ) درخواست کی کہ اے میرے پروردگار تو مجھے بھی تو دکھا دے کہ تو مردہ کو کیوں کر زندہ کرتا ہے۔ خدا نے فرمایا کیا تمہیں (اس کا) یقین نہیں ابراہیمؑ نے عرض کی (کیوں نہیں ) یقین تو ہے (مگر آنکھ سے دیکھنا اس لیے چاہتا ہوں ) کہ میرے دل کو پورا اطمینان ہو جائے۔ فرمایا (اچھا اگر یہ چاہتے ہو تو) چار پرندے لو اور ان کو اپنے پاس منگوا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو) پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو اس کے بعد ان کو بلاؤ (پھر دیکھو تو کیوں کر) وہ سب کے سب تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور سمجھ رکھو کہ خدا بے شک غالب اور حکمت والا ہے

۲۶۱جو لوگ اپنے مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے خرچ) کی مثل اس دانہ کی سی مثل ہے جس کی سات بالیاں نکلیں (اور) ہر بالی میں سو (سو) دانے ہوں اور خدا جس کے لیے چاہتا ہے دوگنا کر دیتا ہے اور خدا بڑی گنجائش والا اور (ہر چیز سے )واقف ہے۔

۲۶۲جو لوگ اپنے مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر خرچ کرنے کے بعد کسی طرح کا احسان نہیں جتاتے اور نہ (جن پر احسان کیا ہے ان کو) ستاتے ہیں ان کا اجر (و ثواب) اُن کے پروردگار کے پاس ہے اور نہ (آخرت میں ) ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

۲۶۳(سائل کو) نرمی سے جواب دے دینا اور (اس کے اصرار پر نہ جھڑکنا بلکہ) اس سے درگزر کرنا اس خیرات سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد (سائل کو) ایذا پہنچے اور خدا ہر شے سے بے پرواہ اور بردبار ہے

۲۶۴اے ایمانداروں اپنی خیرات کو احسان جتانے اور (سائل کو) ایذا دینے کی وجہ سے اس شخص کی طرح اکارت مت کرو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کے واسطے خرچ کرتا ہے اور خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی خیرات کی مثل اس چکنے چٹان کی سی ہے جس پر کچھ خاک (پڑی ہوئی) ہو پھر اس پر زور شور کا (بڑے بڑے قطروں والا) مینہ برسے اور اس کو (مٹی بہا کے ) چکنا چپڑا چھوڑ جائے (اسی طرح) ریاکار اپنی اس خیرات یا اس کے ثواب میں سے جو انہوں نے کی ہے کسی چیز پر قبضہ نہ پائیں گے (نہ دنیا میں نہ آخرت میں ) اور خدا کافروں کو ہدایت (کر کے منزل مقصود تک) نہیں (پہنچایا) کرتا

۲۶۵اور جو لوگ خدا کی خوشنودی کے لیے اور اپنے دلی اعتقاد سے اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثل اس (ہرے بھرے ) باغ کی سی ہے جو کسی ٹیلے (یا ٹیکرے ) پر لگا ہوا ہو اور اس پر زور سے پانی برساتو اپنے دوگنے پھل لایا اور اگر اس پر بڑے دھڑے کا پانی نہ بھی برسے تو اس کے لیے ہلکی پھوار (ہی کافی) ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے (ہمیشہ) باخبر ہے۔

۲۶۶بھلا تم میں کوئی بھی اس کو پسند کرے گا کہ اس کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اس کے نیچے نہریں جاری ہوں اور اس کے لیے اس میں طرح طرح کے میوے ہوں اور (اب) اس کو بڑھاپے نے گھیر لیا ہے اور اس کے (چھوٹے چھوٹے ) ناتواں کمزور بچے ہیں کہ اک بارگی اس باغ پر ایسا بگولا آ پڑا جس میں آگ (بھری) تھی کہ وہ باغ جل بھن کر رہ گیا۔ خدا اپنے احکام کو تم لوگوں سے یوں صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم غور کرو۔

۲۶۷اے ایمان دارو اپنی پاک کمائی اور ان چیزوں میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں (خدا کی راہ میں ) خرچ کرو اور بُرے مال کو (خدا کی راہ میں ) دینے کا قصد بھی نہ کرو حالانکہ اگر تم کو کوئی ایسا مال دے تو تم لینے والے نہیں ہو مگر یہ کہ (مروّت کی وجہ سے ) چشم پوشی کر جاؤ۔ اور جانے رہو کہ خدا بے شک بے نیاز (اور) سزاوارِ حمد ہے۔

۲۶۸شیطان تم کو تنگ دستی سے ڈراتا ہے اور بُری بات (بخل) کا تم کو حکم کرتا ہے۔ اور خدا تم سے اپنی بخشش اور فضل ( و کرم) کا وعدہ کرتا ہے اور خدا بڑی گنجائش والا (اور سب باتوں کا) جاننے والا ہے۔

۲۶۹وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جس کو (خدا کی طرف سے ) حکمت عطا کی گئی تو اس میں شک ہی نہیں کہ اُسے خوبیوں کی بڑی دولت ہاتھ لگی۔اور عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت مانتا ہی نہیں۔

۲۷۰اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو یا کوئی منّت مانو خدا اس کو ضرور جانتا ہے۔ اور (یہ بھی یاد رہے ) کہ ظالموں کو (جو خدا کا حق مار کر اوروں کی نذر کرتے ہیں قیامت میں ) کوئی مددگار نہ ہو گا۔

۲۷۱اگر خیرات کو ظاہر میں دو تو یہ (ظاہر کر کے دینا) بھی اچھا ہے۔ اور اگر اس کو چھپاؤ اور حاجت مندوں کو دو تو یہ (چھپا کر دینا) تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ اور (ایسے دینے کو) خدا تمہارے گناہوں کا کفارہ کر دے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے۔

۲۷۲(اے رسولؐ) ان کا منزل مقصود تک پہنچانا تمہارا فرض نہیں تمہارا کام صرف راستہ دکھانا ہے ) مگر ہاں خدا جس کو چاہے منزل مقصود تک پہنچا دے۔ اور (لوگو) تم جو کچھ نیک کام میں خرچ کرو گے تو اپنے لیے اور تم تو خدا کی خوشنودی کے سوا اور کام میں خرچ کرتے ہی نہیں ہو اور جو کچھ تم نیک کام میں خرچ کرو گے (قیامت میں ) تم کو بھرپور واپس ملے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔

۲۷۳(یہ خیرات) خاص ان حاجت مندوں کے لیے ہے جو خدا کی راہ میں گھر گئے ہوں (اور اگر) روئے زمین پر (جانا چاہیں تو ) چل نہیں سکتے ناواقف ان کو سوال نہ کرنے کی وجہ سے امیر سمجھتے ہیں (لیکن) تو (اے مخاطب) اگر ان کو دیکھے تو ان کی صورت سے تاڑ جائے (کہ یہ محتاج ہیں اگرچہ) لوگوں سے چمٹ کے سوال نہیں کرتے اور جو کچھ بھی تم نیک کام میں خرچ کرتے ہو خدا اس کو ضرور جانتا ہے۔

۲۷۴جو لوگ رات کو دن کو چھپا کے یا دکھا کے (خدا کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں تو ان کے لیے ان کا اجر (و ثواب) ان کے پروردگار کے پاس ہے اور (قیامت میں ) نہ ان پر کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے۔

۲۷۵جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں ) کھڑے نہ ہو سکیں گے مگر اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جس کو شیطان نے لپٹ کر مخبوط الجواس بنا دیا ہو۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ اس کے قائل ہو گئے کہ جیسا بِکری کا معاملہ ویسا ہی سُود کا معاملہ۔ حالانکہ بِکری کو تو خدا نے حلال اور سود کو حرام کر دیا۔ پس جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت (ممانعت) آئی اور وہ باز آ گیا تو (اس حکم کے نازل ہونے سے پہلے ) جو سود لے چکا وہ تو اس کا ہو چکا اور اس کا امر (معاملہ) خدا کی حوالے ہے اور جو منا ہی کے بعد پھر سود لے (یا بِکری اور سود کے معاملہ کو یکساں بتائے جائے ) تو ایسے ہی لوگ جہنمی ہیں (اور) وہ ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے

۲۷۶خدا سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور جتنے ناشکرے گنہگار ہیں خدا انہیں دوست نہیں رکھتا۔

۲۷۷(ہاں ) جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے اور پابندی سے نماز پڑھی اور زکوٰۃ دیا کیے ان کے لیے البتہ ان کا اجر (و ثواب) ان کے پروردگار کے پاس ہے اور (قیامت میں ) نہ تو ان پر کسی قسم کا خوف ہو گا اور وہ رنجیدہ دل ہوں گے۔

۲۷۸اے ایمان والوں خدا سے ڈرو اور جو سود لوگوں کے ذمّہ باقی رہ گیا ہے۔ اگر تم سچے مومن ہو تو چھوڑ دو۔

۲۷۹اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خدا اور اس کے رسولؐ سے لڑنے کے لیے تیار رہو۔ اور اگر تم نے توبہ کی ہے تو تمہارے لیے تمہارا اصل مال ہے، نہ تم کسی کا زبردستی نقصان کرو اور نہ تم پر زبردستی کی جائے گی۔

۲۸۰اور اگر کوئی تنگ دست (تمہارا قرض دار) ہو تو اسے خوش حالی تک کی مہلت دو۔ اور اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں یہ زیادہ بہتر ہے کہ (اصل بھی) بخش دو۔

۲۸۱اور اس دن سے ڈرو جس دن تم سب کے سب خدا کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر جو کچھ جس شخص نے کیا ہے اور اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہو گی۔

۲۸۲اے ایماندارو جب ایک میعاد مقرر تک کے لیے آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھا (پڑھی کر) لیا کرو۔ اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارے درمیان (تمہارے قول و قرار کو) انصاف سے (ٹھیک ٹھیک) لکھے اور لکھنے والے کو لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے (بلکہ) جس طرح خدا نے اسے (لکھنا پڑھنا) سکھایا ہے (اسی طرح) اس کو بھی (بے عذر) لکھ دینا چاہیے اور جس کے ذمّہ قرض عائد ہوتا ہے اسی کو چاہیے کہ (تمسک کی) عبارت بتاتا جائے اور خدا سے جو اس کا (سچّا) پالنے والا ہے ڈرتا رہے اور (بتانے میں اور ) قرض دینے والے کے حقوق میں کچھ کمی نہ کرے اور اگر قرض لینے والا کم عقل یا معذور یا خود (تمسک کا مطلب) لکھوا نہ سکتا ہو تو اس کا سرپرست (ٹھیک ٹھیک ) انصاف سے لکھوا دے اور اپنے لوگوں میں سے (کم سے کم) دو مردوں کی گواہی کرا لیا کرو۔ پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو (کم سے کم) جن کو تم گواہی کے لئے پسند کرو ایک مرد اور دو عورتیں (کیونکہ) ان دونوں میں سے اگر ایک بھُول جائے گی تو ایک دوسری کو یاد دلا دے گی۔ اور جب گواہ حکام کے سامنے (گواہی کے لیے ) بلائے جائیں تو حاضر ہونے سے انکار نہ کریں اور اس کی میعاد معین تک کا (دستاویز) لکھوانے میں کاہلی نہ کرو۔قرض کا معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا خدا کے نزدیک یہ (لکھا پڑھی) بہت ہی منصفانہ کارروائی ہے۔ اور گواہی کے لیے بھی بہت مضبوطی ہے۔ اور بہت ہی قرین قیاس ہے کہ تم آئندہ کسی طرح کے شک و شبہ میں نہ پڑو۔ مگر جب نقدا نقدی سودا ہو جو تم لوگ آپس میں اُلٹ پھیر کیا کرتے ہو تو اس کی دستاویز کے نہ لکھنے میں تم پر کچھ الزام نہیں ہے (ہاں ) اور جب (اس طرح کی) خرید و فروخت ہو تو گواہ کر لیا کرو۔ اور کاتب (دستاویز) اور گواہ کو ضرر نہ پہنچایا جائے اور اگر تم ایسا کر بیٹھے تو یہ ضرور تمہاری شرارت ہے۔ اور خدا سے ڈرو خدا تم کو (معاملے کی صفائی) سکھاتا ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔

۲۸۳اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ ملے (اور قرض دینا ہو) تو رہن یا قبضہ رکھ لو اور اگر تم میں سے ایک کا ایک کو اعتبار ہو تو (یوں ہی قرض دے سکتا ہے ) مگر پھر جس شخص پر اعتبار کیا گیا ہے (قرض لینے والا) اس کو چاہیے کہ قرض دینے والے کی امانت (قرض) پوری پوری ادا کر دے۔ اور اپنے پالنے والے خدا سے ڈرے (مسلمانو) تم گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو چھپائے گا تو بے شک اس کا دل گنہگار ہے۔ اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو خدا اس کو (خوب) جانتا ہے۔

۲۸۴جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی کا ہے۔ اور جو تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اس کو ظاہر کرو اُسے چھپاؤ خدا تم سے اس کا حساب لے گا پھر جس کو چاہے گا بخش دے گا اور جس پر چاہے گا عذاب کرے گا اور خدا ہر چیز پر قادر ہے

۲۸۵(ہمارے ) پیغمبر (محمدؐ) جو کچھ ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے اور ان کے (ساتھ) مومنین بھی۔ (سب کے ) سب خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے (اور کہتے ہیں کہ) ہم خدا کے پیغمبروں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے۔ اور (یہ بھی) کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم نے (تیرا ارشاد) سنا اور مان لیا۔ پروردگار ہمیں تیری ہی مغفرت (کی خواہش) ہے اور تیر ی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

۲۸۶خدا کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اس نے اچھا کام کیا تو اپنے نفع کے لیے اور بُرا کام کیا تو (اس کا وبال) اسی پر پڑے گا۔ اے ہمارے رب اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہماری گرفت نہ کر۔ اے ہمارے پروردگار ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈال جیسا کہ ہم سے اگلے لوگوں پر بوجھ ڈالا تھا (اور) اے ہمارے پروردگار اتنا بوجھ جس کے اُٹھانے کی ہمیں طاقت نہ ہو ہم سے نہ اٹھوا۔ اور ہمارے قصوروں سے دَرگزر کر، اور ہمارے گناہوں کو بخش دے، اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا مالک ہے تو ہی کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

٭٭٭

 

 

۳۔ سورۃ آلِ عمران

 

 

۱الٓ مٓ۔

۲اللہ ہی وہ خدا ہے جس کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں ہے۔ وہی زندہ (اور) (سارے جہان کا) سنبھالنے والا ہے۔

۳(اے رسولؐ) اسی نے تم پر برحق کتاب نازل کی جو (آسمانی کتابیں پہلے سے ) اس کے سامنے موجود ہیں ان کی تصدیق کرتی ہے۔اور اسی نے اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے واسطے توریت و انجیل نازل کی

۴اور حق و باطل میں تمیز دینے والی کتاب (قرآن) نازل کی۔ بے شک جن لوگوں نے خدا کی آیتوں کو نہ مانا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور خدا (ہر چیز پر) غالب بدلہ لینے والا ہے۔

۵بے شک خدا پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے (نہ) زمین میں اور نہ آسمان میں۔

۶وہی تو وہ (خدا) ہے جو ماں کے پیٹ میں تمہاری صورت جیسی چاہتا ہے بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی (ہر چیز پر) غالب (اور) دانا ہے۔

۷(اے رسولؐ وہی وہ (خدا) ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی اس میں کی بعض آیتیں تو محکم (بہت صریح) ہیں وہی (عمل کرنے کے لیے ) اصل (و بنیاد) کتاب ہیں اور کچھ (آیتیں ) متشابہ (گول گول جس کے معنی میں کئی پہلو نکل سکتے ہیں ) پس جن لوگوں کے دل میں کجی ہے (وہ) انہی آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں تاکہ فساد برپا کریں اور اس خیال سے کہ انہیں اپنے مطلب پر ڈھال لیں حالانکہ خدا اور ان لوگوں کے سوا جو علم میں بڑے پایہ پر فائز ہیں ان کا اصلی مطلب کوئی نہیں جانتا وہ لوگ (یہ بھی) کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے یہ سب (محکم ہو یا متشابہ) ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے اور عقل والے ہی سمجھتے ہیں۔

۸(اور دعا کرتے ہیں ) اے ہمارے پالنے والے ہمارے دلوں کو ہدایت کرنے کے بعد ڈانوا ڈول نہ ہونے دے اور اپنی بارگاہ سے ہمیں رحمت عطا فرما اس میں تو شک ہی نہیں کہ تو بڑا دینے والا ہے۔

۹اے ہمارے پروردگار بے شک تو ایک نہ ایک دن جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں لوگوں کو اکٹھا کرے گا (تو ہم پر نظر عنایت رہے ) بے شک خدا اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔

۱۰بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کو خدا(کے عذاب) سے نہ ان کے مال ہی کچھ بچائیں گے نہ ان کی اولاد (کچھ کام آئے گی) اور یہی لوگ جہنم کے ایندھن ہوں گے

۱۱(ان کی بھی) قومِ فرعون اور ان سے پہلے والوں کی سی حالت ہے کہ ان لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ تو خدا نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں لے ڈالا اور خدا سخت سزا دینے والا ہے۔

۱۲( اے رسولؐ) جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان سے کہہ دو کہ بہت جلد تم (مسلمانوں کے مقابلہ میں ) مغلوب ہو گے اور جہنم میں اکٹھے کیے جاؤ گے اور وہ (کیا) بُرا ٹھکانا ہے۔

۱۳بے شک تمہارے (سمجھنے کے ) واسطے ان دو (مخالف) گروہوں میں جوش (بدر کی لڑائی میں ) ایک دوسرے کے ساتھ گتھ گئے (رسولؐ کی سچائی کی) بڑی بھاری نشانی ہے کہ ایک گروہ خدا کی راہ میں جہاد کرتا تھا اور دوسرا کافروں کا جن کو مسلمان اپنی آنکھ سے دوگنا دیکھ رہے تھے (مگر خدا نے قلیل ہی کو فتح دی) اور خدا اپنی مدد سے جس کی چاہتا ہے تائید کرتا ہے بے شک آنکھ والوں کے واسطے اس (واقعہ) میں بڑی عبرت ہے

۱۴(دنیا میں ) لوگوں کو ان کی مرغوب چیزیں (مثلاً) بیویوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوئے ڈھیروں اور عمدہ عمدہ گھوڑوں اور مویشیوں اور کھیتی کے ساتھ الفت بھلی کر کے دکھا دی گئی ہے۔ یہ سب دنیاوی زندگی کے (چند روزہ) فائدے ہیں۔ اور (ہمیشہ کا) اچھا ٹھکانا تو خدا ہی کے ہاں ہے۔

۱۵(اے رسولؐ) ان لوگوں سے کہو کہ کیا میں تم کو ان سب چیزوں سے بہتر چیز بتا دوں (اچھا سنو) جن لوگوں نے پرہیزگاری اختیار کی ان کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں بہشت کے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (اور وہ) ہمیشہ اس میں رہیں گے اور اس کے علاوہ ان کے لیے صاف ستھری بیبیاں ہیں اور (سب سے بڑھ کر تو) خدا کی خوشنودی ہے اور خدا اپنے ان بندوں کو (خوب) دیکھ رہا ہے

۱۶جو (یہ) دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پالنے والے ہم تو (بے تامل) ایمان لائے ہیں پس تو بھی ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا۔

۱۷(یہی لوگ ہیں ) صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور (خدا کے ) فرمانبردار اور (خدا کی راہ میں ) خرچ کرنے والے اور پچھلی راتوں میں (خدا سے توبہ) استغفار کرنے والے۔

۱۸خدا نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور تمام فرشتوں نے اور صاحبانِ علم (انبیاء اولیاء)جو عدل پر قائم ہیں (یہی شہادت دی ہے ) کہ اس زبردست حکمت والے کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہی (ہر چیز پر) غالب (اور )دانا ہے

۱۹(سچّا) دین تو خدا کے نزدیک یقیناً بس یہی اسلام ہے اور اہل کتاب نے جو (اس دین حق سے ) اختلاف کیا تو محض آپس کی شرارت اور (اصلی امر) معلوم ہو جانے کے بعد (ہی کیا ہے )اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں سے انکار کیا تو (و ہ سمجھ لے کہ) یقیناً خدا (اس سے ) بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

۲۰(اے رسولؐ) بس اگر یہ لوگ تم سے (خواہ مخواہ) حجّت کریں تو کہہ دو کہ میں نے خدا کے آگے اپنا سرتسلیم خم دیا اور جو میرے تابع ہیں (انہوں نے بھی) اور (اے رسولؐ) تم اہل کتاب اور جاہلوں سے پوچھو کہ کیا تم بھی اسلام لائے ہو (یا نہیں ؟) پس اگر اسلام لائے ہیں تو بے کھٹکے راہِ راست پر آ گئے اور اگر منہ پھیریں تو (اے رسولؐ) تم پر صرف پیغام (اسلام) پہنچا دینا فرض ہے (بس) اور خدا (اپنے ) بندوں کو دیکھ رہا ہے۔

۲۱بے شک جو لوگ خدا کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں اور ناحق پیغمبروں کو قتل کرتے ہیں اور ان لوگوں کو (بھی) قتل کرتے ہیں جو (انہیں ) انصاف کرنے کا حکم کرتے ہیں تو (اے رسولؐ) اُن لوگوں کو درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔

۲۲یہی (وہ (بدنصیب) لوگ ہیں جن کا سارا کیا کرایا دُنیا اور آخرت (دونوں ) میں اکارت گیا اور کوئی ان کا مددگار نہیں۔

۲۳(اے رسولؐ) کیا تم نے ان (علماء یہود) کے حال پر نظر نہیں کی جن کو (فہم) کتاب (توریت) کا ایک حصّہ دیا گیا تھا (اب) ان کو کتاب خدا کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہی (کتاب) ان کے جھگڑے کا فیصلہ کر دے اس پر بھی ان میں کا ایک گروہ منہ پھیر لیتا ہے۔ اور یہی لوگ روگردانی کرتے ہیں۔

۲۴یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں گنتی کے چند دنوں کے سوا جہنم کی آگ ہرگز چھوئے گی بھی تو نہیں جو افترا پردازیاں یہ لوگ برابر کرتے آئے ہیں اسی نے انہیں ان کے دین کے بھی دھوکا دیا ہے۔

۲۵پھر ان کی کیا گت بنے گی جب ہم ان کو ایک دن (قیامت) جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں اکٹھا کریں گے اور ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان کی کسی طرح حق تلفی نہیں کی جائے گی

۲۶(اے رسولؐ) تم (تو یہ) دعا مانگو کہ اے خدا تمام عالم کے مالک تو ہی جس کو چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو ہی جس کو چاہے عزّت دے اور تو ہی جسے چاہے ذلّت دے۔ ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ بے شک تو (ہی) ہر چیز پر قادر ہے۔

۲۷تو ہی رات کو (بڑھا کے ) دن میں داخل کر دیتا ہے (تورات بڑھ جاتی ہے ) اور تو ہی دن کو (بڑھا کے ) رات میں داخل کرتا ہے (تو دن بڑھ جاتا ہے ) اور تو ہی بے جان (انڈا نطفہ وغیرہ) سے جاندار کو پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان (نطفہ وغیرہ) نکالتا ہے اور تو ہی جس کو چاہتا ہے۔ بے حساب روزی دیتا ہے

۲۸مومنین مومنین کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سرپرست نہ بنائیں۔ اور جو ایسا کرے گا تو اُس کا خدا سے کچھ سروکار نہیں مگر (اس قسم کی تدبیروں سے ) کسی طرح ان (کے شر) سے بچنا چاہو تو (خیر) اور خدا تم کو اپنے ہی سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

۲۹(اے رسولؐ) تم (ان لوگوں سے ) کہہ دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم خواہ اُسے چھپاؤ یا ظاہر کرو (بہرحال) خدا تو اُسے جانتا ہے۔اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ (سب کچھ) جانتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

۳۰اور (اس دن کو یاد رکھو) جس دن ہر شخص جو کچھ اس نے (دنیا میں ) نیکی کی ہے اور جو کچھ برائی کی ہے اس کو موجود پائے گا (اور) آرزو کرے گا کہ کاش اس کی بدی اور اس کے درمیان میں زمانہ ٔ دراز حائل ہو جاتا۔ اور خدا تم کو اپنے ہی سے ڈراتا ہے۔ اور خدا (اپنے ) بندوں پر بڑا شفیق (و مہربان) بھی ہے۔

۳۱(اے رسولؐ ان لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو کہ (خدا (بھی) تم کو دوست رکھے گا اور تم کو تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۳۲(اے رسولؐ) کہہ دو کہ خدا اور رسولؐ کی فرمانبرداری کرو پھر اگر یہ لوگ اس سے سرتابی کریں تو (سمجھ لیں کہ) خدا کافروں کو (ہرگز) دوست نہیں رکھتا۔

۳۳بے شک خدا نے آدمؑ اور نوحؑ اور خاندان ابراہیمؑ اور خاندانِ عمران کو سارے جہان سے برگزیدہ کیا ہے

۳۴بعض کی اولاد کو بعض سے اور خدا (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔

۳۵(اے رسولؐ وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی بیوی (حنہ) نے (خدا سے ) عرض کی کہ اے میرے پالنے والے میرے پیٹ میں جو (بچہ) ہے اس کو میں (دنیا کے کام سے ) آزاد کر کے تیری نذر کرتی ہوں تو میری طرف سے (یہ نذر) قبول فرمانا تو بے شک بڑا سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔

۳۶پھر جب وہ بیٹی جن چکیں تو (حیرت سے ) کہنے لگیں اے میرے پروردگار (اب میں کیا کروں ) میں تو یہ لڑکی جنی ہوں حالانکہ (اس کہنے کی ضرورت کیا تھی) جو وہ جنی تھیں خدا اس (کی شان و مرتبہ) سے خوب واقف تھا اور لڑکا لڑکی کے ایسا (گیا گزرا) نہیں ہوتا اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے فریب) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔

۳۷تو ان کے پروردگار نے (ان کی نذر) مریم کو خوشی سے قبول فرما لیا اور اس کی نشوونما اچھی طرح کی اور زکریا ؑ کو ان کا کفیل بنایا۔ جب کسی وقت زکریاؑ ان کے پاس (ان کے ) عبادت کے حجرے میں جاتے تو مریمؑ کے پاس (کچھ نہ کچھ) کھانے کو موجود پاتے تو پوچھتے کہ اے مریمؑ یہ کھانا) تمہارے پاس کہاں سے (آیا) تو مریم یہ کہہ دیتی تھیں کہ یہ خدا کے ہاں سے (آیا) ہے بے شک خدا جس کو چاہتا ہے۔ بے حساب روزی دیتا ہے۔

۳۸(یہ ماجرا دیکھتے ہی) اس وقت زکریاؑ نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور عرض کی اے میرے پالنے والے تو مجھ کو (بھی) اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔

۳۹ابھی زکریا ؑ حُجرے میں کھڑے (یہ) دعا کر ہی رہے تھے کہ فرشتوں نے ان کو آواز دی کہ خدا تم کو یحییٰؑ (کے پیدا ہوئے ) کی خوشخبری دیتا ہے جو کلمۃ اللہ (عیسیٰؑ ) کی تصدیق کرے گا اور (لوگوں کا) سردار ہو گا اور عورتوں کی طرف رغبت نہ کرے گا اور نیکوکار نبی ہو گا۔

۴۰زکریاؑ نے عرض کی پروردگار! مجھے لڑکا کیوں کر ہو سکتا ہے حالانکہ میرا بڑھاپا پہنچا اور (اس پر) میری بیوی بانجھ ہے۔ (خدا نے ) فرمایا اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

۴۱زکریاؑ نے عرض کی پروردگارا میرے (اطمینان کے ) لیے کوئی نشانی مقرر فرما۔ ارشاد ہوا تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے بات نہ کرسکو گے۔ مگر اشارہ سے۔ اور (اس کے شکریہ میں ) اپنے پروردگار کی اکثر یاد کرو۔ اور رات کو اور صبح تڑکے (ہماری تسبیح کیا کرو)

۴۲اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب فرشتوں نے (مریمؑ سے ) کہا اے مریمؑ تم کو خدا نے برگزیدہ کیا اور (تمام گناہ اور برائیوں سے ) پاک صاف رکھا اور ساری دنیا جہان کی عورتوں میں سے تم کو منتخب کیا ہے۔

۴۳(تو) اے مریمؑ (اس کے شکریہ میں ) اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرو اور سجدہ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔

۴۴(اے رسولؐ) یہ (خبر) غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تمہارے پاس وحی کے ذریعے سے بھیجتے ہیں (اے رسولؐ) تم تو ان (سر پرستان مریمؑ) کے پاس موجود نہ تھے جب وہ لوگ اپنا اپنا قلم (دریا میں بطور قرعہ کے ) ڈال رہے تھے (دیکھیں ) کون مریمؑ کا کفیل بنتا ہے۔ اور نہ تم اس وقت ان کے پاس موجود تھے۔ جب وہ لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔

۴۵اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب فرشتوں نے (مریمؑ سے ) کہا اے مریمؑ خدا تم کو صرف اپنے حکم (سے ایک لڑکے کے پیدا ہونے ) کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام عیسیٰ مسیحؑ ابن مریمؑ ہو گا (اور) دنیا اور آخرت (دونوں ) میں با عزت (آبرو مند) اور خدا کے مقرّب بندوں میں ہو گا

۴۶اور (بچپن میں ) جب جھولے میں پڑا ہو گا اور بڑی عمر کا ہو کر (دونوں حالتوں میں یکساں ) لوگوں سے باتیں کرے گا اور نیکو کاروں میں سے ہو گا۔

۴۷(یہ سن کر مریمؑ تعجب سے ) کہنے لگیں۔پروردگار مجھے لڑکا کیوں کر ہو گا حالانکہ مجھے کسی مرد نے چھوا تک نہیں۔ ارشاد ہوا اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے جب وہ کسی کام کا کرنا ٹھان لیتا ہے تو بس اسے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔

۴۸اور (اے مریمؑ ) خدا اس کو (تمام) کتب آسمانی اور عقل کی باتیں اور خاص کر توریت و انجیل سکھا دے گا۔

۴۹اور بنی اسرائیل کا رسول قرار دے گا (اور وہ اُن سے یوں کہے گا کہ) میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے (اپنی نبوت کی) یہ نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں گندھی ہوئی مٹی سے ایک پرندہ کی مورت بناؤں گا پھر اس پر (کچھ) دم کروں گا تو وہ خدا کے حکم سے اُڑنے لگے گا اور میں خدا ہی کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کروں گا اور مُردوں کو زندہ کروں گا۔اور جو کچھ تم کھاتے ہو اور اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں (سب) تم کو بتاؤں گا۔ اگر تم ایمان دار ہو تو بے شک تمہارے لیے ان باتوں میں (میری نبّوت کی بڑی)نشانی ہے۔

۵۰اور توریت جو میرے سامنے موجود ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور (میرے آنے کی) ایک غرض یہ بھی ہے کہ جو چیزیں تم پر حرام ہیں ان میں سے بعض کو (حکم خدا سے ) حلال کروں اور میں تمہارے پروردگار کی طرف سے (اپنی نبوت کی) نشانی لے کر تمہارے پاس آیا ہوں پس تم خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۵۱بے شک خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اس کی عبادت کرو (کیونکہ) یہی (نجات کا) سیدھا راستہ ہے۔

۵۲پھر جب عیسیٰؑ نے (اتنی باتوں کے بعد بھی) ان کا کفر (پر اڑے رہنا) دیکھا تو (آخر) کہنے لگے کون ایسا ہے جو خدا کی طرف ہو کر میرا مددگار بنے (یہ سن کر) حواریوں نے کہا ہم خدا کے طرف دار ہیں۔ اور ہم خدا پر ایمان لائے اور (عیسیٰؑ سے کہا) آپ گواہ رہیے کہ ہم فرمانبردار ہیں۔

۵۳(اور خدا کی بارگاہ میں عرض کی کہ) اے ہمارے پالنے والے جو کچھ تو نے نازل کیا ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے (تیرے ) رسول (عیسیٰؑ ) کی پیروی اختیار کی پس تو ہمیں (اپنے رسول کے ) گواہوں میں لکھ لے۔

۵۴اور (یہودیوں نے عیسیٰؑ سے ) مکاری کی اور خدا نے اس کے دفعیہ کی تدبیر کی اور خدا سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے

۵۵(وہ وقت بھی یاد کرو) جب عیسیٰؑ سے خدا نے فرمایا اے عیسیٰ میں ضرور تمہاری (ارضی سکونت) کی مدّت پوری کروں گا اور تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور کافروں (کی گندگی) سے تم کو پاکو پاکیزہ رکھوں گا اور جن لوگوں نے تمہاری پیروی کی ان کو قیامت تک کافروں پر غالب رکھوں گا پھر تم سب کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے تب (اس دن ) جن باتوں میں تم (دنیا میں ) جھگڑتے تھے ( ان کا) تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں گا۔

۵۶پس جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اُن پر دُنیا اور آخرت (دونوں ) میں سخت عذاب کرے گا۔ اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا

۵۷اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام کیے تو خدا ان کو ان کا پورا اجر و ثواب دے گا اور خدا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا

۵۸(اے رسولؐ) یہ جو ہم تمہارے سامنے بیان کر رہے ہیں (قدرتِ خدا) نشانیاں اور پر از حکمت تذکرے (ہیں )

۵۹خدا کے نزدیک تو جیسے عیسیٰؑ کی حالت ویسی ہی آدمؑ کی حالت کہ ان کو مٹی کا پتلا بنا کر کہا کہ ہو جا پس (فوراً ہی) وہ (انسان) ہو گیا

۶۰(اے رسولؐ یہ ہے ) حق بات (جو) تمہارے پروردگار کی طرف سے (بتائی جاتی) ہے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جانا۔

۶۱پھر جب تمہارے پاس علم (قرآن) آ چکا اس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی (نصرانی عیسیٰ کے بارے میں ) حجّت کرے تو کہو کہ (اچھا میدان میں ) آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنی جانوں کو بلائیں اور تم اپنی جانوں کو اس کے بعد ہم سب مل کر (خدا کی بارگاہ میں ) گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔

۶۲(اے رسولؐ) یہ سب یقینی سچّے واقعات ہیں اور خدا کے سوا کوئی معبود (قابل پرستش) نہیں۔ اور بے شک خدا ہی (سب پر) غالب اور حکمت والا ہے۔

۶۳پھر اگر (اس سے بھی) منہ پھیریں تو (کچھ پرواہ نہیں ) خدا فسادی لوگوں کو خوب جانتا ہے۔

۶۴(اے رسولؐ) تم (ان سے ) کہو اے اہلِ کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے۔ پھر اگر (اس سے بھی) منہ موڑیں تو کہہ دو کہ تم گواہ رہنا ہم (خدا کے ) فرمانبردار ہیں۔

۶۵اے اہلِ کتاب تم ابراہیمؑ کے بارے میں (خواہ مخواہ) کیوں جھگڑتے ہو (کہ کوئی ان کو نصرانی کہتا ہے کوئی یہودی) حالانکہ توریت و انجیل (جن سے یہود و نصاریٰ کی ابتداء ہے ) وہ تو ان کے بعد ہی نازل ہوئیں تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے ؟

۶۶ایلو (ارے ) تم وہی (احمق) لوگ تو ہو کہ جس کا تمہیں کچھ علم تھا اس میں تو جھگڑا کر چکے (خیر) پھر اب اس میں کیا (خواہ مخواہ) جھگڑنے بیٹھے ہو جس کی (سرے سے ) تمہیں کچھ خبر ہی نہیں اور (حقیقت حال تو) خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

۶۷ابراہیمؑ نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ نرے کھرے حق پر تھے (اور) فرمانبردار (بندے اور مشرکوں سے بھی نہ تھے۔

۶۸ابراہیمؑ سے زیادہ خصوصیّت تو ان لوگوں کو تھی جو خاص ان کی پیروی کرتے تھے اور اس پیغمبر اور ایمانداروں کو (بھی) ہے۔ اور مومنوں کا خدا مالک ہے۔

۶۹(مسلمانو!) اہل کتاب سے ایک گروہ نے بہت چاہا کہ کسی طرح تم کو راہِ راست سے بھٹکا دیں۔ حالانکہ وہ (اپنی تدبیروں سے ) تم کو تو نہیں مگر اپنے ہی کو بھٹکاتے ہیں اور اس کو سمجھتے (بھی) نہیں۔

۷۰اے اہل کتاب تم خدا کی آیتوں سے کیوں انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود گواہ بن سکتے ہو۔

۷۱اے اہل کتاب تم کیوں حق و باطل کو گڈمڈ کرتے ہو اور حق کو چھپاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو۔

۷۲اور اہل کتاب سے ایک گروہ نے (اپنے لوگوں سے ) کہا کہ مسلمانوں پر جو کتاب نازل ہوئی ہے اس پر صبح سویرے ایمان لاؤ اور آخر وقت انکار کر دیا کرو شاید مسلمان (اس تدبیر سے اپنے دین سے ) پھر جائیں

۷۳اور جو تمہارے دین کی پیروی کرے اس کے سوا کسی دوسرے کی بات کا اعتبار نہ کرو۔ (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ بس خدا ہی کی ہدایت تو ہدایت ہے (یہودی باہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ) اس کو بھی (نہ ماننا ) کہ جیسا (عمدہ دین) تم کو دیا گیا ہے ویسا کسی اور کو دیا جائے یا تم سے کوئی شخص خدا کے یہاں جھگڑا کرے (اے رسولؐ تم ان سے ) کہہ دو کہ (یہ کیا خام خیال ہے ) فضل و(کرم) خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہے دے اور خدا بڑی گنجائش والا ( اور ہر شے کو) جانتا ہے

۷۴جس کو چاہے اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا ہے اور خدا بڑا فضل (و کرم) والا ہے۔

۷۵اور اہل کتاب کچھ ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کے پاس روپے کے ڈھیر امانت رکھ دو تو بھی اسے (جب چاہو بعینہٖ) تمہارے حوالہ کر دیں گے اور بعض ایسے ہیں کہ اگر ایک اشرفی بھی امانت رکھو، تو جب تک تم برابر ان (کے سر) پر کھڑے نہ رہو گے تمہیں واپس نہ دیں گے یہ (بد معاملگی) اس وجہ سے ہے کہ ان کا تو یہ قول ہے کہ (عرب کے ) جاہلوں (کا حق مار لینے ) میں ہم پر کوئی(الزام کی) راہ ہی نہیں اور وہ جان بوجھ کر خدا پر جھوٹ (طوفان) جوڑتے ہیں۔

۷۶ہاں (البتہ) جو شخص اپنے عہد کو پورا کرے اور پرہیزگاری اختیار کرے تو بے شک خدا پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔

۷۷بے شک جو لوگ اپنے عہد اور (قسم) اقسام (جو) خدا (سے کیا تھا اس) کے بدلے تھوڑا (دنیاوی) معاوضہ لے لیتے ہیں ان ہی لوگوں کے واسطے آخرت میں کچھ حصّہ نہیں اور قیامت کے دن خدا ان سے بات تک تو کرے گا نہیں اور نہ ان کی طرف نظرِ (رحمت) ہی کرے گا۔ اور نہ ان کو (گناہوں کی گندگی سے ) پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

۷۸اور اہل کتاب سے بعض ایسے ضرور ہیں کہ کتاب (توریت) میں اپنی زبانیں مروڑ مروڑ کے (کچھ کا کچھ) پڑھ جاتے ہیں تاکہ تم یہ سمجھو کہ یہ کتاب کا جُز ہے حالانکہ وہ کتاب کا جُز نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ (جو ہم پڑھتے ہیں ) خدا کے یہاں سے (اترا) ہے حالانکہ وہ خدا کے یہاں سے نہیں ( اترا) اور جان بوجھ کر خدا پر جھوٹ (طوفان) جوڑتے ہیں۔

۷۹کسی آدمی کو یہ زیبا نہ تھا کہ خدا تو اسے (اپنی) کتاب اور حکمت اور نبّوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہتا پھرے کہ خدا کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ بلکہ (وہ تو یہی کہے گا کہ) تم اللہ والے بن جاؤ کیونکہ تم تو (ہمیشہ) کتاب خدا (دوسروں کو) پڑھاتے رہتے ہو اور تم خود بھی سدا پڑھتے رہے ہو۔

۸۰اور وہ تم سے یہ تو (کبھی نہ کہے گا کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا بنا لو بھلا (کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ) تمہارے مسلمان ہو جانے کے بعد تمہیں کفر کا حکم کرے گا۔

۸۱اور (اے رسولؐ وہ وقت بھی یاد دلاؤ) جب خدا نے پیغمبروں سے اقرار لیا کہ ہم تم کو جو کچھ کتاب اور حکمت (وغیرہ) دیں اس کے بعد تمہارے پاس کوئی رسولؐ آئے اور جو کتاب تمہارے پاس ہے اس کی تصدیق کرے، تو (دیکھو) تم ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا (اور) خدا نے فرمایا کہ تم نے اقرا ر کر لیا؟ اور ان باتوں پر جو ہم نے تم سے اقرار لیا تم نے میرے (عہد کا) بوجھ اُٹھا لیا؟ سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا ارشاد ہوا (اچھا) تو تم (آج کے قول و قرار کے ) آپس میں ایک دوسرے کے گواہ رہنا اور تمہارے ساتھ میں بھی ایک گواہ ہوں۔

۸۲پھر اس کے بعد جو شخص (اپنے قول سے ) منہ پھیرے تو وہی لوگ بد چلن ہیں۔

۸۳تو کیا یہ لوگ خدا کے دین کے سوا ( کوئی اور دین) ڈھونڈتے ہیں حالانکہ جو (فرشتے ) آسمانوں میں ہیں اور جو (لوگ، زمین میں ہیں۔ سب نے خوشی خوشی یا زبردستی اس کے سامنے اپنی گردنیں ڈال دی ہیں اور آخر سب اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔

۸۴(اے رسولؐ ان لوگوں سے ) کہہ دو کہ ہم تو خدا پر ایمان لائے اور جو (کتاب ) ہم پر نازل ہوئی اور جو (صحیفے ) ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور اولادِ یعقوب پر نازل ہوئے اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور دوسرے پیغمبروں کو (جو کتاب) ان کے پروردگار کی طرف سے عنایت ہوئیں (سب پر ایمان لائے ) ہم تو ان میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے اور ہم تو اُسی (یکتا خدا) کے فرمانبردار ہیں۔

۸۵اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کی خواہش کرے تو اس کا وہ دین ہرگز قبول ہی نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں سخت گھاٹے میں رہے گا۔

۸۶(بھلا) خدا ایسے لوگوں کی کیوں کر ہدایت کرے گا جو ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہو گئے حالانکہ وہ اقرار کر چکے تھے کہ پیغمبر (آخر الزماں ) برحق ہیں اور ان کے پاس (واضح و) روشن معجزے بھی آ چکے تھے اور خدا ایسے ہٹ دھرمی کرنے والے لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔

۸۷ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر خدا اور فرشتوں اور (دُنیا جہان کے ) سب لوگوں کی پھٹکار ہے

۸۸اور وہ ہمیشہ اسی پھٹکار میں رہیں گے۔ نہ تو ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی اور نہ اُن کو مہلت دی جائے گی

۸۹مگر (ہاں ) جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کر لی اور اپنی (خرابی کی) اصلاح کر لی تو البتہ خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۹۰جو لوگ اپنے ایمان کے بعد کافر ہو بیٹھے پھر (روز بروز اپنا) کفر بڑھاتے چلے گئے تو ان کی توبہ ہرگز نہ قبول کی جائے گی اور یہی لوگ (پرلے درجے کے ) گمراہ ہیں۔

۹۱بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر کی حالت میں مر گئے تو اگرچہ اتنا سونا بھی کسی کی گلو خلاصی میں دیا جائے کہ زمین بھر جائے تو بھی ہرگز نہ قبول کیا جائے گا۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہو گا اور ان کا کوئی مددگار (بھی) نہ ہو گا۔

۹۲(لوگو) جب تک تم اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ راہِ خدا میں خرچ نہ کرو گے ہر گز نیکی کے درجہ پر فائز نہیں ہو سکتے اور تم کوئی سی چیز بھی خرچ کرو خدا تو اس کو ضرور جانتا ہے۔

۹۳توریت کے نازل ہونے کے قبل یعقوب نے جو جو چیزیں اپنے اوپر حرام کر لی تھیں ان کے سوا بنی اسرائیل کے لیے سب کھانے حلال تھے۔ (اے رسولؐ ان یہود سے ) کہو کہ اگر تم (اپنے دعوے میں ) سچّے ہو تو توریت لے آؤ اور اس کو (ہمارے سامنے ) پڑھو۔

۹۴پھر اس کے بعد بھی جو کوئی خدا پر جھوٹ موٹ طوفان جوڑے تو (سمجھ لو کہ) یہی لوگ ظالم (ہٹ دھرم) ہیں۔

۹۵(اے رسُولؐ) کہہ دو کہ خدا نے سچ فرمایا۔ تو اب تم ملت ابراہیمؑ (اسلام) کی پیروی کرو (جو باطل سے کترا کے چلتے تھے ) اور مشرکین سے نہ تھے۔

۹۶لوگوں کی عبادت کے واسطے جو گھر سب سے پہلے بنایا گیا وہ تو یقیناً یہی (کعبہ) ہے جو مکّہ میں ہے بڑی (خیر و برکت والا ہے اور سارے جہان کے لوگوں کا رہنما۔

۹۷اس میں (حرمت کی) بہت سی (واضح و) روشن نشانیاں ہیں (منجملہ اس کے ) مقام ابراہیمؑ ہے (جہاں آپ کے قدموں کا پتھر پر نشان ہے ) اور جو اس گھر میں داخل ہوا امن میں آ گیا اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لیے خانہ کعبہ کا حج کریں جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت (قدرت) ہو اور جس نے باوجود قدرت حج سے انکار کیا تو (یاد رکھیے کہ) خدا سارے جہاں سے بے پرواہ ہے

۹۸(اے رسولؐ) تم کہہ دوکہ اے اہلِ کتاب تم خدا کی آیتوں سے کیوں منکر ہوئے جاتے ہو حالانکہ جو کام کاج تم کرتے ہو خدا کو اس کی (پوری) پوری اطلاع ہے۔

۹۹(اے رسولؐ) کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب دیدہ و دانستہ خدا کی (سیدھی) راہ میں (ناحق کی) کجی ڈھونڈھ (ڈھونڈھ) کے ایمان لانے والوں کو اس سے کیوں روکتے ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے بے خبر نہیں ہے۔

۱۰۰اے ایمان والو اگر تم نے اہلِ کتاب کے کسی فرقہ کا بھی کہنا مانا تو(یاد رکھو کہ) وہ تم کو ایمان لانے کے بعد (بھی) پھر دوبارہ کافر بنا چھوڑیں گے

۱۰۱ اور بھلا تم کیوں کر کافر بن جاؤ گے حالانکہ تمہارے سامنے خدا کی آیتیں (برابر)پڑھی جاتی ہیں اور اس کے رسولؐ (محمدؐ) بھی تم میں (موجود) ہیں اور جو شخص خدا سے وابستہ ہو وہ (تو) ضرور سیدھی راہ پر لگا دیا گیا۔

۱۰۲اے ایمان والو! خدا سے ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم (دین) اسلام کے سوا کسی اور دین پر ہرگز نہ مرنا۔

۱۰۳اور تم سب کے سب (مل کر) خدا کی رسی مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور اپنے حال (زار) پر خدا کے احسان کو (تو) یاد کرو جب تم آپس میں (ایک د وسرے کے ) دشمن تھے تو خدا نے تمہارے دلوں میں (ایک دوسرے کی) اُلفت پیدا کر دی تو تم اس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہو گئے اور تم (گویا) سلگتی ہوئی آگ کی بھٹی (دوزخ) کے لب پر (کھڑے تھے ) اور گرا ہی چاہتے تھے کہ خدا نے تم کو اس سے بچا لیا تو خدا اپنے احکام یوں واضح بیان کرتا ہے تاکہ تم راہِ راست پر آ جاؤ

۱۰۴اور تم میں سے ایک گروہ (ایسے لوگوں کا بھی) تو ہونا چاہیے جو (لوگوں کو) نیکی کی طرف بلائیں اور اچھے کام کا حکم دیں اور بُرے کاموں سے روکیں اور ایسے ہی لوگ (آخرت میں ) اپنی دلی مرادیں پائیں گے۔

۱۰۵اور تم (کہیں ) ان لوگوں کے ایسے نہ ہو جانا جو آپس میں پھوٹ ڈال کے بیٹھ رہے اور روشن دلیلیں آنے کے بعد بھی ایک منہ ایک زبان نہ رہے اور ایسے ہی لوگوں کے واسطے بڑا (بھاری) عذاب ہے۔

۱۰۶(اس دن سے ڈرو) جس دن کچھ لوگوں کے چہرے تو سفید نورانی ہوں گے اور کچھ (لوگوں ) کے چہرے سیاہ پس جن لوگوں کے منہ میں کالک ہو گی (ان سے کہا جائے گا) ہائیں کیوں تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے تھے ؟ اچھا تو (لو اب) اپنے کفر کی سزا میں عذاب (کے مزے ) چکھو

۱۰۷اور جن کے چہرے پر نور برستا ہو گا وہ تو خدا کی رحمت (بہشت) میں ہوں گے (اور) اسی میں سدا رہیں (سہیں ) گے۔

۱۰۸(اے رسولؐ) یہ خدا کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو ٹھیک (ٹھیک) پڑھ کر سناتے ہیں اور خدا سارے جہان کے لوگوں سے کسی پر ظلم کرنا نہیں چاہتا۔

۱۰۹اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) خدا ہی کا ہے اور (آخر) سب کاموں کی رجوع خدا ہی کی طرف ہے۔

۱۱۰تم کیا اچھے گروہ ہو کہ لوگوں کی ہدایت کے واسطے پیدا کیے گئے ہو تم (لوگوں کو) اچھے کام کا تو حکم کرتے ہو اور بُرے کاموں سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہلِ کتاب بھی (اسی طرح) ایمان لاتے تو ان کے حق میں بہت اچھا ہوتا ان میں سے کچھ ہی تو ایماندار ہیں اور اکثر بدکار۔

۱۱۱(مسلمانو) یہ لوگ معمولی اذیّت کے سوا تمہیں ہرگز ضرر نہیں پہنچا سکتے اور اگر تم سے لڑیں گے تو انہیں تمہاری طرف پیٹھ ہی کرنی پڑے گی اور پھر ان کو کہیں سے مدد بھی نہیں پہنچے گی۔

۱۱۲اور جہاں کہیں ہتّے چڑھے ان پر رسوائی کی مار پڑی مگر خدا کے عہد (یا) اور لوگوں کے عہد کے ذریعے سے (ان کو کہیں پناہ مل گئی) اور پھر ہِر پھر کے خدا کے غضب میں پڑ گئے اور ان پر محتاجی کی مار (الگ) پڑی (یہ کیوں ) اس سبب سے کہ وہ خدا کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو ناحق (ناحق) قتل کرتے تھے اور یہ سزا اس کی ہے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے گزر گئے تھے

۱۱۳اور یہ لوگ بھی سب کے سب یکساں نہیں ہیں (بلکہ) اہل کتاب سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ (خدا کے دین پر) اس طرح ثابت قدم ہیں کہ راتوں کو خدا کی آیتیں پڑھا کرتے ہیں اور وہ برابر سجدے کیا کرتے ہیں۔

۱۱۴خدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور اچھے کام کا (تو) حکم کرتے ہیں اور بُرے کاموں سے روکتے ہیں اور نیک کاموں میں دوڑ پڑتے ہیں اور یہی لوگ تو نیک بندوں سے ہیں

۱۱۵اور وہ جو کچھ بھی نیکی کریں گے اس کی ہرگز ناقدری نہ کی جائے گی اور خدا پرہیزگاروں سے خوب واقف ہے۔

۱۱۶بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا خدا (کے عذاب) سے بچانے میں ہرگز نہ ان کے مال ہی کچھ کام آئیں گے اور نہ ان کی اولاد اور یہی لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

۱۱۷دُنیا کی (چند روزہ) زندگی میں یہ لوگ جو کچھ (خلاف شرع) خرچ کرتے ہیں اسی کی مثل اندھڑ کی مثل ہے جس میں بہت پالا ہو اور وہ ان لوگوں کے کھیت پر جا پڑے جنہوں نے (کفر کی وجہ سے ) اپنی جانوں پر ستم ڈھایا ہو اور پھر پالا اُسے مار (کے ناس کر) دے اور خدا نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے آپ اپنے پر ظلم کیا۔

۱۱۸اے ایماندارو اپنے (مومنین کے ) سوا غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ (کیونکہ) یہ غیر لوگ تمہاری بربادی میں کچھ اُٹھا نہیں رکھیں گے (بلکہ) جتنا تم زیادہ تکلیف میں پڑو گے اتنا ہی یہ لوگ خوش ہوں گے دشمنی تو ان کے منہ سے ٹپکی پڑتی ہے اور جو (بغض و حسد)ان کے دلوں میں بھرا ہے وہ کہیں اس سے بڑھ کر ہے ہم نے تم سے (اپنے ) احکام صاف صاف بیان کر دیئے ہیں اگر تم سمجھ رکھتے ہو

۱۱۹(اے لوگو) تم ایسے (سیدھے ) ہو کہ تم تو ان سے الفت رکھتے ہو اور وہ تمہیں ذرا بھی نہیں چاہتے اور تم تو پوری کتاب (خدا) پر ایمان رکھتے ہو اور وہ (ایسے نہیں ہیں ) مگر جب تم سے ملتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لائے اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو تم پر غصّہ کے مارے انگلیاں کاٹتے ہیں (اے رسولؐ) تم کہو کہ (کاٹنا کیا) تم اپنے غصّے میں جل مرو۔ جو (باتیں ) تمہارے دلوں میں ہیں بے شک خدا ضرور جانتا ہے

۱۲۰(ایماندارو) اگر تم کو بھلائی چھو بھی گئی تو ان کو بُرا معلوم ہوتا ہے اور جب تم پر کوئی بھی مصیبت پڑتی ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو ان کا فریب تمہیں کچھ بھی ضرّر نہ پہنچائے گا (کیونکہ) خدا تو ان کی کارستانیوں پر حاوی ہے۔

۱۲۱اور (اے رسولؐ ایک وقت وہ بھی تھا) جب تم اپنے بال بچوں سے تڑکے ہی نکل کھڑے ہوئے اور مومنین کو لڑائی کے مورچوں پر بٹھا رہے تھے اور خدا (سب کچھ) سنتا جانتا ہے

۱۲۲(یہ اس وقت کا واقعہ ہے ) جب تم میں سے دو گروہوں نے ٹھان لیا تھا کہ پسپائی کریں اور پھر (سنبھل گئے ) کیونکہ خدا تو ان کا سرپرست تھا اور مومنین کو خدا ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

۱۲۳یقیناً خدا نے جنگ بدر میں تمہاری مدد کی باوجود یکہ تم دشمن کے مقابلے میں بالکل بے حقیقت تھے پھر بھی خدا نے فتح دی) بس تم خدا سے ڈرتے رہو تاکہ (اس کے ) شکر گزار بنو۔

۱۲۴(اے رسولؐ) اس وقت تم مومنین سے کہہ رہے تھے کہ کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے آسمان سے بھیج کر تمہاری مدد کرے۔

۱۲۵ہاں (ضرور کافی ہے ) بلکہ اگر تم ثابت قدم رہو اور (رسولؐ کی مخالفت سے ) بچو اور کفّار (اپنے جوش میں ) تم پر چڑھ بھی آئیں تو تمہارا پروردگار ایسے پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا جو نشان جنگ لگائے ہوئے ڈٹے ہوں گے

۱۲۶اور خدا نے یہ (امداد) صرف تمہاری خوشی کے لیے کی ہے اور تاکہ اس سے تمہارے دل کو ڈھارس ہو اور (یہ ظاہر ہے ) کہ مدد جب ہوئی ہے تو خدا ہی کی طرف سے جو سب پر غالب اور حکمت والا ہے

۱۲۷(اور یہ مدد کی بھی تو) اس لیے کہ کافروں کے ایک گروہ کو کم کر دے یا ایسا چوپٹ کر دے کہ (اپنا سا منہ لے کر) نامراد (اپنے گھر) واپس چلے جائیں

۱۲۸(اے رسولؐ) تمہارا تو اس میں کچھ بس نہیں چاہے خدا ان کی توبہ قبول کرے یا ان کو سزا دے کیونکہ وہ ظالم تو ضرور ہیں۔

۱۲۹اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے اور خدا (بڑا) بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۳۰اے ایماندارو (اپنے اصل مال میں اضافہ کے لیے ) بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور خدا سے ڈرو تاکہ تم چھٹکارا پاؤ

۱۳۱اور جہنم کی آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

۱۳۲اور خدا اور رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

۱۳۳اور اپنے پروردگار کے (سبب) بخشش اور جنت کی طرف دوڑ پڑو جس کی وسعت سارے آسمانوں ا ور زمین کے برابر ہے اور ان پرہیزگاروں کے لیے مہیّا کی گئی ہے

۱۳۴جو خوشحالی اور کٹھن کے وقت میں بھی (خدا کی راہ پر) خرچ کرتے ہیں اور غصّہ کو روکتے ہیں اور لوگوں کی خطا سے درگزر کرتے ہیں۔ اور نیکی کرنے والوں سے خدا اُلفت رکھتا ہے۔

۱۳۵اور وہ لوگ جب (اتفاقاً) کوئی بدکاری کر بیٹھتے ہیں یا آپ اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اور خدا کے سوا گناہوں کا بخشنے والا اور ہے کون۔ اور جو (قصور) وہ (ناگہانی) کر بیٹھے تو دیدہ دانستہ اس پر ہٹ نہیں کرتے۔

۱۳۶ایسے ہی لوگوں کو جزا ان کے پروردگار کی طرف سے بخشش ہے اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں کہ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور اچھے چلن والوں کی (بھی) کیا خوب (کھری) مزدوری ہے

۱۳۷تم سے پہلے بہتیرے واقعات گزر چکے ہیں پس ذرا روئے زمین پر چل پھر کر دیکھو تو کہ (اپنے اپنے وقت کے پیغمبروں کو) جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔

۱۳۸یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کے لیے تو صرف بیان (واقعہ) ہے (مگر) اور پرہیزگاروں کے لیے ہدایت و نصیحت ہے۔

۱۳۹اور (مسلمانوں ) کاہلی نہ کرو اور (اس اتفاقی شکستِ احد سے ) کڑھو نہیں (کیونکہ) اگر تم سچّے مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔

۱۴۰اگر (جنگِ اُحد میں ) تم کو زخم لگا ہے تو اسی طرح (بدر میں ) تمہارے فریق (کفّار)کو زخم لگ چکا ہے۔ (اس پر ان کی ہمت تو نہ ٹوٹی) یہ اتفاقاتِ زمانہ ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان باری باری اُلٹ پھیر کیا کرتے ہیں اور (یہ اتفاقی شکست اس لیے تھی) تاکہ خدا سچّے ایمانداروں کو (ظاہری) مسلمانوں سے الگ دیکھ لے اور تم سے بعض کو درجۂ شہادت پر فائز کرے۔ اور خدا (حکم رسولؐ سے ) سرتابی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا

۱۴۱اور اللہ کو یہ (بھی منظور تھا) کہ سچّے ایمانداروں کو ثابت قدمی کی وجہ سے (نرا کھرا) الگ کرے اور نافرمانوں (بھاگنے والوں ) کو ملیا میٹ کر دے

۱۴۲(مسلمانو)کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ (سب کے سب) بہشت میں چلے ہی جاؤ گے ؟ اور کیا خدا نے ابھی تک تم میں سے ان لوگوں کو بھی نہیں پہچانا جنہوں نے جہاد کیا اور نہ ثابت قدم رہنے والوں ہی کو پہچانا؟

۱۴۳اور تم تو موت کے آنے سے پہلے (لڑائی میں ) مرنے کی تمنا کرتے تھے پس اب تو تم نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور تم (اب بھی) دیکھ رہے ہو۔ (پھر لڑائی سے کیوں جی چراتے ہو)

۱۴۴اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) تو صرف رسولؐ ہیں (خدا نہیں ) ان سے پہلے اور بھی بہتیرے پیغمبر گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر (محمدؐ) اپنی موت سے مر جائیں یا مار ڈالے جائیں تو تم اُلٹے پاؤں (اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو اُلٹے پاؤں پھرے گا (بھی) تو (سمجھ لو کہ) ہرگز خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑے گا۔ اور عنقریب خدا شکر کرنے والوں کو اچھا بدلہ دے گا۔

۱۴۵اور بغیر حکم خدا کے تو کوئی شخص مر ہی نہیں سکتا۔ وقت معین تک (ہر ایک کی موت لکھی ہوئی ہے ) اور جو شخص (اپنے کیے کا) بدلہ دُنیا میں چاہے تو ہم اِس کو اس میں سے دے دیتے ہیں اور جو شخص آخرت کا بدلہ چاہے اُسے اس میں سے دیں گے اور (نعمت ایمان کے ) شکر کرنے والوں کو بہت جلد جزائے خیر دیں گے

۱۴۶اور (مسلمانو کچھ تم ہی نہیں ) ایسے پیغمبر بہت سے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ بہتیرے اللہ والوں نے (راہِ خدا میں ) جہاد کیا اور پھر ان کو خدا کی راہ میں جو جو مصیبت پڑی ہے نہ تو انہوں نے ہمت ہاری اور نہ بودا پن کیا اور نہ (دشمن کے سامنے ) گڑگڑانے لگے اور ثابت قدم رہنے والوں سے خدا اُلفت رکھتا ہے۔

۱۴۷(اور لطف یہ ہے کہ) ان کا قول اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ دعائیں مانگنے لگے کہ اے ہمارے پالنے والے ہمارے گناہ اور اپنے کاموں میں ہماری زیادتیاں معاف فرما اور دشمنوں کے مقابلے میں ہم کو ثابت قدم رکھ اور کافروں کا گروہ پر ہم کو فتح دے۔

۱۴۸تو خدا نے ان کو دُنیا میں بدلہ (دیا) اور آخرت میں اچھا بدلہ عنایت فرمایا۔ اور خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا (ہی) ہے۔

۱۴۹اے ایماندارو! اگر تم لوگوں نے کافروں کی پیروی کر لی تو (یاد رکھو کہ) وہ تم کو الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پھیر کر لے جائیں گے پھر اُلٹے تم ہی گھاٹے میں آ جاؤ گے۔

۱۵۰(تم کسی کی مدد کے محتاج نہیں ) بلکہ خدا تمہارا سرپرست ہے اور وہ سب مددگاروں سے بہتر ہے

۱۵۱(تم گھبراؤ نہیں ) ہم عنقریب تمہارا رعب کافروں کے دلوں میں جما دیں گے اس لیے کہ ان لوگوں نے خدا کا شریک بنایا (بھی تو) اس چیز (بت) کو جسے خُدا نے کسی قسم کی حکومت نہیں دی۔اور (آخر کار) ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا (بھی کیا) بُرا ٹھکانا ہے۔

۱۵۲اور بے شک خدا نے (جنگِ احد میں بھی) اپنا (فتح کا) وعدہ سچّا کر دکھایا تھا جب تم اس کے حکم سے (پہلے ہی حملہ میں ) ان (کفّار) کو خوب قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے (مالِ غنیمت دیکھ کر) بزدلا پن کیا اور حکمِ رسُولؐ ( یعنی مورچہ پر جمے رہنے ) میں باہم جھگڑا کیا اور (رسُولؐ کی) نافرمانی کی۔ بعد اس کے کہ تمہاری پسند کی چیز (فتح) تمہیں دکھا دی گئی تھی۔ تم میں سے کچھ تو طالبِ دنیا ہیں (کہ مالِ غنیمت کی طرف جھُک پڑے ) اور کچھ طالبِ آخرت (کہ رسُولؐ پر اپنی جان فدا کر دی) پھر (بزدلے پن نے ) تمہیں ان (کفّار) کی طرف سے پھیر دیا (اور تم بھاگ کھڑے ہوئے ) اس سے خدا کو تمہارا (ایمان اخلاص) آزمانا منظور تھا اور (اس پر بھی) خدا نے تم سے درگزر کی اور خدا مومنین پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔

۱۵۳(مسلمانو تم اس وقت کو یاد کر کے شرماؤ) جب تم (بدحواس) بھاگتے ہوئے پہاڑ پر چڑھے چلے جاتے تھے اور باوجود یکہ رسُولؐ تمہارے پیچھے (کھڑے ) تم کو بلا رہے تھے مگر تم (جان کے خوف سے ) کسی کو مُڑ کے نہ دیکھتے تھے پس (چونکہ تم نے رسُولؐ کو آزردہ کیا) خدا نے بھی تم کو (اس) رنج کی سزا میں (شکست کا) رنج دیا تاکہ جب کبھی تمہاری کوئی چیز ہاتھ سے جاتی رہے یا کوئی مصیبت پڑے تو تم رنج نہ کرو (اور صبر کرنا سیکھو) اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے۔

۱۵۴پھر خدا نے اس رنج کے بعد تم پر اطمینان کی حالت طاری کی کہ تم میں سے ایک گروہ کو (جو سچے ایماندار تھے ) خوب گہری نیند آ گئی اور ایک گروہ (جن کو اس وقت بھاگنے کی شرم سے ) جان کے لالے پڑے تھے خدا کے ساتھ (خواہ مخواہ) زمانہ جاہلیّت کی ایسی بدگمانیاں کرنے لگے ( اور ) کہنے لگے بھلا کیا یہ امر (فتح) کچھ بھی ہمارے اختیار میں ہے ؟ (اے رسُولؐ) کہہ دو ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے (زبان سے تو کہتے ہی نہیں ) یہ اپنے دلوں میں ایسی باتیں چھپائے ہوئے ہیں جو تم سے ظاہر نہیں کرتے ( اب سنو) کہتے ہیں کہ اس امر (فتح) میں اگر ہمارا کچھ بھی اختیار ہوتا تو ہم یہاں مارے ہی نہ جاتے (اے رسُولؐ ان سے ) کہہ دو کہ تم اگر اپنے گھروں میں رہتے تو جن کی تقدیر میں مر جانا لکھا تھا وہ (اپنے گھروں سے ) نکل نکل کے اپنے مرنے کی جگہ ضرور آ جاتے اور (یہ اس واسطے کیا گیا) تاکہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے خدا اس کا امتحان کرے (اور لوگ دیکھ لیں ) اور تاکہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے صاف کر دے اور خدا تو دلوں کا راز خوب جانتا ہے۔

۱۵۵بے شک جس دن (جنگ اُحد میں ) دو جماعتیں آپس میں گتھ گئیں اس دن جو لوگ تم (مسلمانوں ) میں سے بھاگ کھڑے ہوئے (اس کی وجہ سے یہ تھی کہ) ان کے بعض گناہوں (یعنی مخالفتِ رسولؐ) کی وجہ سے شیطان نے بہکا کے ان کے پاؤں اُکھاڑ دیئے اور (اس وقت تو) خدا نے ضرور ان سے درگزر کی۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا بردبار ہے۔

۱۵۶اے ایماندارو ان لوگوں کے ایسے نہ بنو جو کافر ہو گئے اور جو بھائی بند ان کے پردیس میں نکلے ہیں یا جہاد کرنے گئے ہیں (اور وہاں مر گئے ) تو ان کے بارے میں کہنے لگے کہ اگر وہ ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے اور (اور یہ اس وجہ سے ہے تاکہ خدا (اس خیال کو) ان کے دلوں میں (باعثِ) حسرت بنا دے اور (یوں تو) خدا ہی جلاتا اور مارتا ہے۔ اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو خدا اسے دیکھ رہا ہے۔

۱۵۷اور اگر تم خدا کی راہ میں مارے جاؤ یا (اپنی موت سے ) مر جاؤ تو بے شک خدا کی بخشش اور رحمت اس (مال و دولت) سے جس کو تم جمع کرتے ہو ضرور بہتر ہے۔

۱۵۸اور اگر تم (اپنی موت سے ) مرو یا مارے جاؤ (آخر کار) خدا ہی کی طرف (قبروں سے ) اٹھائے جاؤ گے۔

۱۵۹(تو اے رسولؐ یہ بھی) خدا کی ایک مہربانی ہے کہ تم (سا) نرم دل (سردار) ان کو ملا اور تم اگر بدمزاج اور سخت دل ہوتے تب تو یہ لوگ (خدا جانے کب کے ) تمہارے گرد سے تِتّر بتّر ہو گئے ہوتے پس (اب بھی) تم ان سے درگزر کرو اور ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگو اور (حسبِ سابق دستور ظاہراً) ان سے کام کاج میں مشورہ کر لیا کرو (مگر) اس پر بھی جب کسی کام کو ٹھان لو تو خدا ہی پر بھروسا رکھو (کیونکہ) جو لوگ خدا پر بھروسا رکھتے ہیں خدا ان کو ضرور دوست رکھتا ہے۔

۱۶۰(مسلمانوں یاد رکھو کہ) اگر خدا نے تمہاری مدد کی تو پھر کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور اگر تم کو چھوڑ دے تو پھر کون ایسا ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کو کھڑا ہو اور مومنین کو چاہیے کہ خدا ہی پر بھروسا رکھیں۔

۱۶۱اور (تمہارا گمان بالکل غلط ہے ) کسی نبی کی (ہرگز) یہ شان نہیں کہ خیانت کرے اور جو خیانت کرے گا تو جو چیز خیانت کی ہے قیامت کے دن وہی چیز (بعینہٖ خدا کے سامنے ) لانا ہو گا۔ پھر ہر شخص اپنے کیے کا پورا بدلہ بھر پائے گا اور ان کی کسی طرح حق تلفی نہیں کی جائے گی۔

۱۶۲(بھلا) جو شخص خدا کی خوشنودی کا پابند ہو کیا وہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو خدا کے غضب میں گرفتار ہو اور جس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا بُرا ٹھکانا ہے۔

۱۶۳وہ لوگ خدا کے ہاں مختلف درجوں کے ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں خدا اُسے دیکھ رہا ہے۔

۱۶۴خدا نے یقیناً ایمانداروں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں کے (خاندان) میں سے ایک رسُولؐ بھیجا جو انہیں خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا اور ان کی (طبیعت) کو پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب (خدا) اور عقل کی باتیں سکھاتا ہے اور اگرچہ یہ لوگ (بعثتِ رسُولؐ سے ) پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں گھرے ہوئے تھے۔

۱۶۵(مسلمانو!) کیا جب تم پر (جنگ احد میں ) وہ مصیبت پڑی جس کی دونی مصیبت تم (کفّار پر) ڈال چکے تھے تو (گھبرا کے ) کہنے لگے یہ (آفت) کہاں سے آ گئی (اے رسُولؐ) تم کہہ دو کہ یہ تو خود تمہاری ہی طرف سے ہے (نہ رسُولؐ کی مخالفت کرتے نہ سزا ہوتی) بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے

۱۶۶اور جس دن دو جماعتیں (جنگِ احد میں ) آپس میں گتھ گئیں اس دن تم پر جو مصیبت پڑی وہ (تمہاری شرارت کی وجہ سے ) خدا کے اذن سے (آئی) اور تاکہ خدا سچّے ایمان والوں کو دیکھ لے۔ (کہ کون ہیں )

۱۶۷اور منافقوں کو دیکھ لے (کہ کون ہیں ) اور منافقوں کو کہا گیا کہ آؤ خدا کی راہ میں جہاد کرو یا (یہ نہ سہی اپنے دشمن کو) ہٹا دو تو کہنے لگے (ہائے کیا کہیں ) اگر ہم لڑنا جانتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے یہ اُس دن بہ نسبت ایمان کے کفر سے زیادہ قریب تھے۔ اپنے منہ سے وہ باتیں کہہ دیتے ہیں جو ان کے دل میں (خاک) نہیں ہوتیں اور جسے وہ چھپاتے ہیں خدا اسے خوب جانتا ہے۔

۱۶۸(یہ وہی لوگ ہیں ) جو (آپ چین سے گھر) میں بیٹھے رہے اور اپنے (شہید) بھائیوں کے بارے میں کہنے لگے کاش ہماری پیروی کرتے تو نہ مارے جاتے (اے رسُولؐ ان سے ) کہو (اچھا) اگر تم سچّے ہو تو ذرا اپنی جان سے موت کو ٹال دو۔

۱۶۹اور جو لوگ خدا کی راہ میں شہید کیے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ لوگ جیتے (جاگتے موجود) ہیں اپنے پروردگار کے ہاں سے (وہ طرح طرح کی) روزی پاتے ہیں۔

۱۷۰اور خدا نے جو جو فضل و کرم ان پر کیا ہے اس (کی خوشی) سے پھولے نہیں سماتے اور جو لوگ ان سے پیچھے رہ گئے اور ان میں آ کر شامل نہیں ہوئے ان کی نسبت یہ (خیال کر کے خوشیاں مناتے ہیں کہ (یہ بھی شہید ہوں تو) ان پر نہ کسی کا خوف ہو گا اور نہ آزردہ خاطر ہوں گے۔

۱۷۱خدا کی نعمت اور اس کے فضل (و کرم) اور اس بات کی خوشخبری پا کر کہ خدا مومنین کے ثواب کو برباد نہیں کرتا نہال ہو رہے ہیں۔

۱۷۲(جنگ اُحد میں ) جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی خُدا اور رسُولؐ کا کہنا مانا ان میں سے جن لوگوں نے نیکی کی اور پرہیزگاری کی (سب کے لیے نہیں صرف) ان کے لیے بڑا ثواب ہے۔

۱۷۳یہ وہ ہیں کہ جب ان سے لوگوں نے (آ کر) کہنا شروع کیا کہ (دشمن) لوگوں نے تمہارے (مقابلہ کے ) واسطے (بڑا لشکر) جمع کیا ہے پس ان سے ڈرتے رہو (تو بجائے خوف کے ) ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا اور کہنے لگے (ہو گا بھئی) خدا ہمارے واسطے کافی ہے اور وہ کیا اچھا کارساز ہے۔

۱۷۴ پھر (یہ تو) ہمّت کر کے گئے مگر (جب لڑائی نہ ہوئی تو) یہ لوگ خدا کی نعمت اور فضل کے ساتھ (اپنے گھروں کو) واپس آئے اور انہیں کوئی برائی چھو بھی نہیں گئی اور خدا کی خوشنودی کے پابند رہے اور خدا بڑا فضل کرنے والا ہے۔

۱۷۵یہ (مخبر) بس شیطان تھا جو صرف اپنے دوستوں کو (رسُولؐ کا ساتھ دینے سے ) ڈراتا ہے۔ پس تم ان سے تو ڈرو نہیں اگر تم سچّے مومن ہو تو مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔

۱۷۶اور جو (اے رسُولؐ) لوگ کفر کی اعانت میں پیش قدمی کر جاتے ہیں ان کی وجہ سے تم رنج نہ کرو کیونکہ یہ لوگ خدا کو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے (بلکہ) خدا تو یہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کا کچھ حصّہ نہ قرار دے اور اُن کے لیے بڑا (سخت) عذاب ہے۔

۱۷۷بے شک جن لوگوں نے ایمان کے عوض کفر خرید کیا، وہ ہرگز خدا کا کچھ بھی نہیں بگاڑیں گے (بلکہ آپ اپنا) اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

۱۷۸اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے جو ان کو مہلت (و فارغ البالی) دے رکھی ہے۔ وہ ان کے حق میں بہتر ہے (حالانکہ) ہم نے مہلت (و فارغ البالی) صرف اس وجہ سے دی ہے تاکہ وہ اور خوب گناہ کر لیں اور (آخر تو) ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے

۱۷۹(منافقو) خدا ایسا نہیں ہے کہ بُرے بھلے کی تمیز کیے بغیر ہی جس حالت پر تم ہو اسی حالت پر مومنوں کو بھی چھوڑ دے اور خدا ایسا بھی نہیں ہے کہ تمہیں غیب کی باتیں بتا دے۔ مگر (ہاں ) خدا اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے (غیب بتانے کے واسطے ) چن لیتا ہے۔ پس خدا اور اس کے رسُولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور پرہیزگاری کرو گے تو تمہارے واسطے بڑی جزائے خیر ہے۔

۱۸۰اور جن لوگوں کو خدا نے اپنے فضل (و کرم) سے کچھ دیا ہے (اور پھر) بخل کرتے ہیں وہ ہرگز اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ ان کے لیے (کچھ) بہتر ہو گا۔ بلکہ یہ ان کے حق میں بدتر ہے (کیونکہ ) جس (مال) کا بخل کرتے ہیں عنقریب ہی قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان کے گلے میں پہنایا جائے گا اور سارے آسمانوں اور زمین کی میراث خدا ہی کی ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے۔

۱۸۱جو(یہود) لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا تو کنگال ہے اور ہم بڑے مالدار ہیں خدا نے ان کی یہ بکواس سُنی ان لوگوں نے جو کچھ کیا اس کو اور ان کا پیغمبروں کو ناحق قتل کرنا ہم ابھی سے لکھے لیتے ہیں۔ اور (آج تو جو جی میں آئے کہیں مگر قیامت کے دن) ہم کہیں گے کہ (اچھا تو لو اپنی شرارت کے عوض میں ) جلانے والے عذاب کا مزہ چکھو۔

۱۸۲یہ انہی کاموں کا بدلہ ہے جن کو تمہارے ہاتھوں نے (زادِ آخرت بنا کے ) پہلے سے بھیجا ہے ورنہ خدا تو کبھی (اپنے ) بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں

۱۸۳(یہ وہی لوگ ہیں ) جو کہتے ہیں کہ خدا نے تو ہم سے عہد کیا ہے اس وقت تک ہم ایمان نہ لائیں گے کہ جب تک کوئی (رسُولؐ) ہمیں یہ (معجزہ) نہ دکھا دے کہ وہ قربانی کرے اور اس کو (آسمانی) آگ آ کر چٹ کر جائے (اے رسُولؐ) تم کہہ دو کہ بھلا یہ تو بتاؤ) بہتیرے پیغمبر مجھ سے قبل تمہارے پاس واضح و روشن معجزات اور جس چیز کی تم نے (اس وقت ) فرمائش کی ہے (وہ بھی) لے کر آئے پھر تم( اگر اپنے دعویٰ میں ) سچّے ہو تو تم نے انہیں کیوں قتل کیا۔

۱۸۴(اے رسُولؐ) اگر وہ اس پر بھی تمہیں جھٹلائیں تو (تم آزردہ نہ ہو) کیونکہ تم سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر روشن معجزے اور صحیفے اور نورانی کتاب لے کر آ چکے ہیں (مگر) پھر بھی لوگوں نے آخر جھٹلا ہی چھوڑا۔

۱۸۵ہر جان کے لئے (ایک نہ ایک دن) موت کا ذائقہ ہے۔ اور تم لوگ قیامت کے دن (اپنے کیے کا) پورا پورا بدلہ بھر پاؤ گے پس جو شخص جہنم سے ہٹا دیا گیا اور بہشت میں پہنچا دیا گیا پس وہی کامیاب ہوا اور دنیا کی چند روزہ زندگی دھوکے کی ٹٹی کی سوا کچھ نہیں۔

۱۸۶(مسلمانو) تمہارے مالوں اور تمہاری جانوں کا تم سے ضرور امتحان لیا جائے گا اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب خدا دی جا چکی ہے (یہود و نصاریٰ) ان سے اور مشرکین سے بہت سی دُکھ (درد) کی باتیں تمہیں ضرورسننی پڑیں گی اور اگر تم (ان مصیبتوں کو) جھیل جاؤ گے اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو بے شک یہ بڑی ہمّت کا کام ہے۔

۱۸۷اور (اے رسُولؐ ان کو وہ وقت تو یاد دلاؤ) جب خدا نے ان اہلِ کتاب سے عہد و پیمان لیا تھا کہ تم کتاب خدا کو صاف صاف بیان کر دینا اور (خبردار) اس کی کوئی بات چھپانا نہیں مگر ان لوگوں نے (ذرا بھی خیال نہ کیا) اور اس کو پس پشت پھینک دیا اور اس کے بدلے میں (بس) تھوڑی سی قیمت حاصل کر لی۔ پس یہ کیا ہی بُرا (سودا) ہے جو یہ لوگ خرید رہے ہیں

۱۸۸(اے رسُولؐ) تم انہیں خیال میں بھی نہ لانا جو اپنی کارستانی پر اترائے جاتے ہیں۔ اور کیا کرایا خاک نہیں (مگر) تعریف کے خواست گار ہیں۔ پس تم ہرگز نہ یہ خیال کرنا کہ ان کو عذاب سے چھٹکارا ہے بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

۱۸۹اور آسمان اور زمین سب خدا ہی کا ملک ہے۔ اور خدا ہی ہر چیز پر قادر ہے۔

۱۹۰اس میں تو شک ہی نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے پھیر بدل میں عقلمندوں کے لیے (قدرتِ خدا کی) (بہت سی) نشانیاں ہیں۔

۱۹۱جو لوگ اُٹھتے بیٹھتے کروٹ لیتے (غرض ہر حال میں ) خُدا کا ذکر کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں غور و فکر کرتے ہیں اور (بے ساختہ) کہہ اُٹھتے ہیں کہ خداوندا تو نے اس کو بے کار پیدا نہیں کیا تو(فعل عبث سے ) پاک و پاکیزہ ہے۔ پس ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا۔

۱۹۲اے ہمارے پالنے والے جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا تو یقیناً اُسے رُسوا کر ڈالا اور ظلم کرنے والوں کا کوئی مددگار نہیں۔

۱۹۳اے ہمارے پالنے والے (جب) ہم نے ایک آواز لگانے والے (پیغمبر) کو سُنا کہ وہ ایمان کے واسطے یوں پکارتا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لائے۔ پس اے ہمارے پالنے والے ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے اور ہمیں نیکو کاروں کے ساتھ (دُنیا سے ) اُٹھا لے

۱۹۴اور اے پالنے والے اپنے رسولوں کی معرفت جو کچھ ہم سے وعدہ کیا ہے ہمیں دے اور ہمیں قیامت کے دن رُسوا نہ کر۔ تو تو وعدہ خلافی کرتا ہی نہیں۔

۱۹۵تو اُن کے پروردگار نے ان کی دُعا قبول کر لی (اور فرمایا کہ) ہم تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو اکارت نہیں کرتے مرد ہو یا عورت (اس میں کچھ کسی کو خصوصیّت نہیں کیونکہ) تم ایک دوسرے (کی جنس) سے ہو۔ جو لوگ (ہمارے لیے ) وطن آوارہ ہوئے اور شہر بدر کیے گئے اور انہوں نے ہماری راہ میں اذیتیں اٹھائیں اور (کفّار سے ) جنگ کی اور شہید ہوئے میں ان کی برائیوں سے ضرور درگزر کروں گا اور انہیں بہشت کے باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ خدا کے ہاں یہ ان کے کیے کا بدلہ ہے اور خدا (ایسا ہی ہے کہ اس) کے یہاں تو اچھا ہی بدلہ ہے۔

۱۹۶(اے رسُولؐ) کافروں کا شہروں شہروں چین کرتے پھرنا تمہیں دھوکہ میں نہ ڈالے۔

۱۹۷یہ چند روزہ فائدہ ہے۔ پھر تو (آخر کار) ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ اور کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔

۱۹۸مگر جن لوگوں نے اپنے پروردگار کی پرہیز گاری اختیار کی ان کے لیے (بہشت کے ) وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے یہ خدا کی طرف سے ان کی دعوت ہے اور جو (ساز و سامان) خدا کے ہاں ہے وہ نیکوکاروں کے واسطے (دُنیا سے ) کہیں بہتر ہے

۱۹۹اور اہل کتاب میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہیں جو خدا پر اور جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتاب) اُن پر نازل ہوئی (سب پر) ایمان رکھتے ہیں اور خدا کے آگے سرجھکائے ہوئے ہیں اور خدا کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت (دنیوی فائدے ) نہیں لیتے ایسے ہی لوگوں کے واسطے ان کے پروردگار کے ہاں اچھا بدلہ ہے۔ بے شک خدا بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔

۲۰۰اے ایماندارو (دین کی تکلیفوں کو) جھیل جاؤ اور دوسروں کو برداشت کی تعلیم دو (جہاد کے لیے ) کمریں کس لو اور خدا ہی سے ڈرو تاکہ تم اپنی دلی مرادیں پاؤ۔

٭٭٭

 

 

 

۴۔ سورۃ النساء

 

۱اے لوگو اپنے اس پالنے والے سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک شخص سے پیدا کیا اور (وہ اس طرح) کہ پہلے ان (کی باقی مٹی) سے ان کی بی بی (حوّا) کو پیدا کیا اور (صرف) انہیں دو (میاں بیوی) سے بہت سے مرد اور عورتیں دُنیا میں پھیلا دیئے اور اس خدا سے ڈرو جس کے وسیلے سے آپس میں ایک دوسرے سے سوال کرتے ہوا ور قطع رحم سے بھی (ڈرو) بے شک خدا تمہاری دیکھ بھال میں ہے۔

۲اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور بُری چیز (مال حرام) کو بھلی چیز (مال حلال) کے بدلے میں نہ لو۔ اور ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر نہ چکھ جاؤ (کیونکہ) یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے۔

۳اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ (نکاح کر کے ) تم یتیم لڑکیوں (کی رکھ رکھاؤ) میں انصاف نہ کرسکو گے تو عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دو دو اور تین تین اور چار چار نکاح کرو پھر اگر تمہیں اس کا اندیشہ ہو کہ تم (کئی بیبیوں میں ) انصاف نہ کرسکو گے، تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔ یا جو (لونڈی) تمہاری زر خرید ہو (اسی پر قناعت کرو) یہ (تدبیر)بے انصافی نہ کرنے کے بہت قرین قیاس ہے۔

۴اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی خوشی دے ڈالو پھر اگر وہ خوشی خوشی تمہیں کچھ چھوڑ دیں تو شوق سے کھاؤ پیو

۵اور اپنے وہ مال جن پر خدا نے تمہاری گزران قرار دی ہے بے وقوفوں (نا سمجھ یتیموں ) کو نہ دے بیٹھو۔ ہاں اس میں سے انہیں کھلاؤ اور ان کو پہناؤ (تو مضائقہ نہیں ) اور ان سے (شوق سے ) اچھی طرح بات کرو۔

۶اور یتیموں کو کاروبار میں لگائے رہو یہاں تک کہ بیاہنے کے قابل ہوں پھر (اس وقت) تم انہیں (ایک مہینے کا خرچ ان کے ہاتھ سے کرا کے ) اگر ہوشیار پاؤ تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو اور (خبردار) ایسا نہ کرنا کہ اس خوف سے کہ کہیں یہ بڑے ہو جائیں گے فضول خرچی کر کے جھٹ پٹ ان کا مال چٹ کر جاؤ۔ اور جو (ولی یاسر پرست) دولت مند ہو تو وہ (مالِ یتیم اپنے صرف میں لانے سے ) بچتا رہے۔ اور ہاں جو محتاج ہو وہ البتّہ (واجبی واجبی) دستور کے مطابق کھا سکتا ہے۔ پس جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو ان کا گواہ بنا لو اور (یوں تو) حساب لینے کو خدا کافی ہے۔

۷ماں باپ اور قرابت داروں کے ترکہ میں کچھ حصّہ تو خاص مردوں کا ہے اور (اسی طرح) ماں باپ اور قرابت داروں کے ترکہ میں کچھ حصّہ خاص عورتوں کا بھی ہے خواہ ترکہ کم ہو یا زیادہ (ہر شخص کا) حصّہ (ہماری طرف سے ) مقرر کیا ہوا ہے۔

۸اور جب (ترکہ کی)تقسیم کے وقت (وہ) قرابت دار (جن کا کوئی حصّہ نہیں ) اور یتیم بچّے اور محتاج لوگ آ جائیں تو انہیں بھی کچھ اس میں سے دے دو اور اُن سے اچھی طرح (عنوان شائستہ سے ) بات کرو۔

۹اور اُن لوگوں کو ڈرنا (اور خیال کرنا) چاہیے کہ اگر وہ لوگ خود اپنے بعد (ننھے ننھے ) ناتواں بچّے چھوڑ جاتے تو ان پر (کس قدر) ترس آتا پس ان کو (غریب بچوں پر سختی کرنے میں ) خدا سے ڈرنا چاہیے۔ اور ان سے سیدھی طرح بات کرنی چاہیے۔

۱۰جو لوگ یتیموں کے مال ناحق چٹ کر جایا کرتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس انگارے بھرتے ہیں اور عنقریب جہنم واصل ہوں گے۔

۱۱(مسلمانو) خدا تمہاری اولاد کے حق میں تم سے وصیّت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصّہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر (میّت کی اولاد میں صرف لڑکیاں ) ہی ہوں (دو یا) دو سے زیادہ تو ان کا (مقرر حصّہ) کل ترکہ کی دو تہائی ہے اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کا آدھا ہے۔ اور (میّت) کے باپ ماں ہر ایک کا اگر میّت کی کوئی اولاد موجود ہو تو مال متروکہ میں سے معیّن (خاص چیزوں میں ) چھٹا حصّہ ہے اور اگر (میّت) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے صرف ماں باپ ہی وارث ہوں تو ماں کا ایک معین (خاص چیزوں میں ) تہائی ہے اور باقی باپ کا لیکن اگر میّت کے (حقیقی یا سوتیلے ) بھائی بھی موجود ہوں تو(اگرچہ انہیں کچھ نہ ملے گا مگر) اس وقت ماں کا حصّہ چھٹا ہی ہو گا اور (اور وہ بھی) میّت نے جس کے بارے میں وصیّت کی ہے اس کی تعمیل اور (ادائے ) قرض کے بعد تمہارے باپ ہوں یا بیٹے۔ تم تو یہ نہیں جانتے ہو کہ ان میں سے کون تمہاری نفع رسانی میں زیادہ قریب ہے (پھر تم کیا دخل دے سکتے ہو) حصّہ تو صرف خدا ہی کی طرف سے (معین ہوتا) ہے (کیونکہ) خدا تو ضرور ہر چیز کو جانتا ہے اور تدبیر والا ہے

۱۲اور جو کچھ تمہاری بیبیاں چھوڑ کر (مر) جائیں پس اگر ان کے کوئی اولاد نہ ہو تو تمہارا آدھے آدھ ہے اور اگر ان کے کوئی اولاد ہو تو جو کچھ وہ ترکہ چھوڑیں اس میں سے بعض چیزوں میں چوتھائی تمہارا ہے (اور وہ بھی) عورت نے جس کی وصیّت کی ہو (ادائے ) قرض کے بعد اور اگر تمہارے کوئی اولاد نہ ہو تو تمہارے ترکہ میں سے تمہاری بیبیوں کا بعض چیزوں میں چوتھائی ہے اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو تمہارے ترکہ میں سے ان کا خاص چیزوں میں آٹھواں حصّہ ہے اور (اور وہ بھی) تم نے جس کے بارے میں وصیّت کی ہے اس کی تعمیل اور (ادائے ) قرض کے بعد اور اگر کوئی مرد یا عورت اپنی مادر جلو (اخیافی) بھائی یا بہن کو وارث چھوڑے تو ان میں سے ہر ایک کا خاص چیزوں میں چھٹا حصّہ ہے اور اگر اس سے زیادہ ہوں تو سب کے سب ایک خاص تہائی میں شریک رہیں گے (اور یہ سب) میّت نے جس کے بارے میں وصیّت کی ہے اس کی تعمیل اور (ادائے ) قرض کے بعد مگر ہاں وہ وصیّت (وارثوں کو خواہ مخواہ) نقصان پہنچانے والی نہ ہو (تب ) یہ وصیّت خدا کی طرف سے ہے اور خدا تو ہر چیز کا جاننے والا اور بردبار ہے۔

۱۳یہ خدا کی (مقرّر کی ہوئی)حدیں ہیں اور جو خدا اور رسُولؐ کی اطاعت کرے اس کو خدا آخرت میں ایسے (ہرے بھرے ) باغوں میں پہنچا دے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ (چین سے ) رہیں گے اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

۱۴اور جس شخص نے خدا اور رسُولؐ کی نافرمانی کی اور اس کی حدوں سے گزر گیا تو بس خدا اس کو جہنم میں داخل کرے گا اور وہ اس میں ہمیشہ (اپنا کیا بھگتتا) رہے گا۔ اور اس کے لیے بڑی رسوائی کا عذاب ہے۔

۱۵اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدکاری کریں تو ان کی بدکاری پر اپنے لوگوں میں سے چار کی گواہی لو پھر اگر چاروں گواہ اس کی تصدیق کریں تو (ان کی سزا یہ ہے کہ) ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت آ جائے یا خدا ان کی کوئی (دوسری) راہ نکالے۔

۱۶اور تم لوگوں میں جن سے بدکاری سرزد ہوئی ہو ان کو مارو پیٹو۔ پھر اگر وہ دونوں (اپنی حرکت سے ) توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو ان کو چھوڑ دو۔ بے شک خدا بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

۱۷(مگر) خدا کی بارگاہ میں توبہ تو صرف ان ہی لوگوں کی (ٹھیک) ہے جو نادانستہ بری حرکت کر بیٹھیں (اور) پھر جلدی سے توبہ کر لیں (تو البتہ) خدا بھی ایسے لوگوں کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور خدا تو بڑا جاننے والا حکیم ہے۔

۱۸اور توبہ ان لوگوں کے لیے (مفید) نہیں ہے جو (عمر بھر تو) بُرے کام کرتے رہے یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سر پر موت آ کھڑی ہوئی تو کہنے لگا اب میں نے توبہ کی اور (اسی طرح) ان لوگوں کے لیے (بھی توبہ مفید) نہیں ہے جو کفر ہی کی حالت میں مر گئے۔ ایسے ہی لوگوں کے واسطے ہم نے درد ناک عذاب مہیّا کر رکھا ہے۔

۱۹اے ایماندارو تم کو یہ جائز نہیں ہے کہ (اپنے مورث کی) عورتوں سے نکاح کر کے (خواہ مخواہ) زبردستی وارث بن جاؤ۔ اور جو کچھ تم نے انہیں (شوہر کے ترکہ سے ) دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لے لینے کی نیّت سے انہیں دوسرے کے ساتھ (نکاح کرنے ) سے نہ روکو ہاں جب وہ کھلم کھلا کوئی بدکاری کریں (البتہ روکنے میں مضائقہ نہیں ) اور بیبیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہو اور کسی وجہ سے انہیں ناپسند کرو (تو پھر صبر کرو) کیونکہ عجب نہیں کہ کسی چیز کو تم ناپسند کرتے ہو اور خدا تمہارے لیے اس میں بہت بہتری کر دے۔

۲۰اور اگر تم ایک بی بی (کو طلاق دے کر اس) کی جگہ دوسری بی بی (نکاح کر کے ) تبدیل کرنا چاہو تو اگرچہ تم ان میں سے ایک کو (جسے طلاق دینا چاہتے ہو) بہت سا مال دے چکے ہو تاہم اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ کیا (تمہاری یہی غیرت ہے کہ خواہ مخواہ) کوئی بہتان باندھ کر یا صریح جرم لگا کر (مال واپس لے لو)

۲۱اور تم کیوں کر اس کو واپس لو گے حالانکہ تم میں سے ایک دوسرے کے ساتھ خلوت کر چکا ہے اور بیبیاں تم سے (نکاح کے وقت نفقہ وغیرہ کا) پکا اقرار لے چکی ہیں۔

۲۲اور جن عورتوں سے تمہارے باپ داداؤں نے نکاح (جماع اگرچہ زنا) کیا ہو تم ان سے نکاح نہ کرو۔ مگر جو ہو چکا (وہ تو ہو چکا تاہم) وہ بدکاری اور (خدا کی) ناخوشی کی بات ضرور تھی۔ اور بہت بُرا طریقہ تھا۔

۲۳(مسلمانو! حسب ذیل) عورتیں تم پر حرام کی گئیں۔ (۱) تمہاری مائیں (دادی، نانی وغیرہ) (۲) اور تمہاری بیٹیاں (پوتیاں، نواسیاں )(۳) اور تمہاری بہنیں (۴) اور تمہاری پھوپھیاں (۵) اور تمہاری خالائیں (۶) اور تمہاری بھتیجیاں (۷) اور تمہاری بھانجیاں (۸) اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں کو دودھ پلایا ہے (۹) اور تمہاری دودھ شریک بہنیں (۱۰) اور تمہاری بیبیوں کی مائیں (۱۱) اور وہ مادر جلو لڑکیاں جو گویا تمہاری گود میں پرورش پاچکی ہیں اور ان عورتوں (کے پیٹ) سے (پیدا ہونی) ہیں جن سے تم ہم بستری کر چکے ہو ہاں اگر تم نے ان بیبیوں سے (صرف نکاح کیا ہو) ہم بستری نہ کی ہو تو (البتہ ان مادر جلو لڑکیوں سے نکاح کرنے میں ) تم پر کچھ گناہ نہیں ہے اور تمہارے (۱۲) صلبی لڑکوں (پوتوں نواسوں وغیرہ) کی بیبیاں (بہویں ) اور (۱۳) دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا۔ مگر جو ہو چکا (وہ معاف ہے )۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۲۴اور شوہر دار عورتیں مگر وہ عورتیں جو (جہاد میں کفار سے ) تمہارے قبضہ میں آ جائیں (حرام نہیں ) یہ خدا کا تحریری حکم (ہے جو) تم پر (فرض کیا گیا) ہے اور ان عورتوں کے سوا (اور عورتیں ) تمہارے لیے جائز ہیں بشرطیکہ بدکاری و زنا نہیں بلکہ تم عفت و پاک دامنی کی غرض سے اپنے مال (مہر) کے بدلہ (نکاح کرنا) چاہو۔ ہاں جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو تو انہیں جو مہر معین کیا ہے دے دو اور مہر کے مقرر ہونے کے بعد اگر آپس میں (کم و بیش پر) راضی ہو جاؤ تو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ بے شک خدا (ہر چیز سے ) واقف اور مصلحتوں کا پہچاننے والا ہے۔

۲۵اور تم میں سے جو شخص (آزاد) مومنہ عفت دار عورتوں سے نکاح کرنے کی مالی حیثیت سے قدرت نہ رکھتا ہو تو تمہاری ان مومنہ لونڈیوں سے جو تمہارے قبضہ میں ہیں نکاح کرسکتا ہے۔ اور خدا تمہارے ایمان سے خوب واقف ہے۔ (ایمان کی حیثیت سے تو) تم میں ایک دوسرے کا ہم جنس ہے پس (بے تامل) ان کے مالکوں کی اجازت سے لونڈیوں سے نکاح کرو اور ان کا مہر حسنِ سلوک سے دے دو مگر انہی (لونڈیوں ) سے (نکاح کرو) جو عفت کے ساتھ تمہاری پابند رہیں۔ نہ تو کھلے خزانے زنا کرنا چاہیں اور نہ چوری چھپے سے آشنائی۔ پھر جب تمہاری پابند ہو چکیں اس کے بعد کوئی بدکاری کریں تو جو سزا آزاد بیبیوں کو دی جاتی ہے اس کی آدھی (سزا) لونڈیوں کودی جائے گی (اور) لونڈیوں سے نکاح کر بھی سکتا ہے تو وہ شخص جس کو زنا میں مبتلا ہو جانے کا خوف ہو اور صبر کرو تو تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے اور خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۲۶خدا تو یہ چاہتا ہے کہ (اپنے احکام) تم لوگوں سے صاف صاف بیان کر دے اور جو (اچھے لوگ) تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے طریقہ پر چلا دے اور تمہارے توبہ قبول کرے اور خدا تو (ہر چیز سے ) واقف اور حکمت والا ہے

۲۷اور خدا تو چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے اور جو لوگ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم لوگ (راہِ حق سے ) بہت دُور ہٹ جاؤ۔

۲۸خدا چاہتا ہے کہ تم سے (بار میں ) تخفیف کر دے کیونکہ آدمی تو بہت کمزور پیدا ہی کیا گیا ہے۔

۲۹اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھا جایا کرو لیکن ہاں تم لوگوں کی باہمی رضامندی سے تجارت ہو (اور اس میں ایک دوسرے کا مال ہو تو مضائقہ نہیں ) اور اپنا گلا گھونٹ کے اپنی جان نہ دو کیونکہ خدا تو ضرور تمہارے حال پر مہربان ہے۔

۳۰اور جو شخص جور و ظلم سے ناحق ایسا کرے گا (خودکشی کرے گا) تو (یاد رہے کہ) ہم بہت جلد اس کو (جہنم کی) آگ میں جھونک دیں گے اور یہ خدا کے لیے آسان ہے۔

۳۱جن کاموں کی تمہیں منا ہی کی جاتی ہے اگر ان میں سے تم گناہان کبیرہ سے بچتے رہو تو ہم تمہارے (صغیرہ) گناہوں سے (بھی) درگزر کریں گے اور تم کو بہت اچھی عزّت کی جگہ پہنچا دیں گے۔

۳۲اور خدا نے جو تم میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہے اس کی ہوس نہ کرو (کیونکہ فضیلت تو اعمال سے ہے )مردوں کو اپنے کیے کا حصّہ ہے اور عورتوں کو اپنے کیے کا حصّہ اور (یہ اور بات ہے ) کہ تم خدا سے اس کے فضل (و کرم) کی خواہش کرو۔ خدا تو ہر چیز سے ضرور واقف ہے۔

۳۳اور ماں باپ (یا) اور قرابت دار(غرض) جو شخص جو ترکہ چھوڑ جائے ہم نے ہر ایک کا (والی) وارث مقرر کر دیا ہے۔ اور جن لوگوں سے تم نے مستحکم عہد کیا ہے ان کا مقررہ بھی تم دے دو۔ بے شک خدا ہر چیز پر گواہ ہے۔

۳۴مردوں کا عورتوں پر قابو ہے کیونکہ (ایک تو) خدا نے بعض آدمیوں (مرد) کو بعض آدمیوں (عورت) پر فضیلت دی ہے ا ور (اس کے علاوہ) چونکہ مردوں نے (عورتوں پر) اپنا مال خرچ کیا ہے پس نیک بخت بیبیاں تو (شوہروں کی) تابعداری کرتی ہیں (اور) ان کی پیٹھ پیچھے جس طرح خدا نے حفاظت کی وہ بھی (ہر چیز کی) حفاظت کرتی ہیں اور وہ عورتیں جن کے ناشزہ (سرکش) ہونے کا تمہیں اندیشہ ہو تو (پہلے ) انہیں سمجھاؤ اور (اس پر نہ مانیں تو) تم ان کے ساتھ سونا چھوڑ دو اور (اس پر بھی نہ مانیں تو) مارو (مگر اتنا کہ خون نہ نکلے اور کوئی عضو نہ ٹوٹے ) پس اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو تم بھی ان کے نقصان کی راہ نہ ڈھونڈو خدا تو ضرور سب سے برتر بزرگ ہے۔

۳۵اور (اے حکامِ وقت) اگر تمہیں میاں بیوی کی پوری نا اتفاقی کا طرفین سے اندیشہ ہو تو ایک ثالث (پنچ) مرد کے کنبہ میں سے اور ایک ثالث عورت کے کنبہ میں سے مقرر کرو اگر ہ دونوں ثالث دونوں میں میل کرا دینا چاہیں تو خدا ان دونوں کے درمیان اس کا اچھا بندوبست کر دے گا۔ خدا تو بے شک واقف و خبردار ہے۔

۳۶اور خدا ہی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں اور پہلو میں بیٹھنے والے مصاحبین اور پردیسیوں اور اپنے زر خرید لونڈی غلام کے ساتھ احسان کرو بے شک خدا اکڑ کے چلنے والوں اور شیخی بازوں کو دوست نہیں رکھتا۔

۳۷یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو بخل کرتے ہی ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں اور جو مال خدا نے اپنے فضل (و کرم) سے انہیں دیا ہے اُسے چھپاتے ہیں۔ اور ہم نے تو کفرانِ نعمت کرنے والوں کے واسطے سخت ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۳۸اور جو لوگ محض لوگوں کے دکھانے کے واسطے اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور نہ خدا ہی پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روزِ آخرت پر (خدا بھی ان کے ساتھ نہیں کیونکہ ان کا ساتھی تو شیطان ہے ) اور جس کا ساتھی شیطان ہو تو کیا ہی بُرا ساتھی ہے

۳۹اور اگر یہ لوگ خدا اور روزِ آخرت پر ایمان لاتے اور جو کچھ خدا نے انہیں دیا ہے اس میں سے (راہِ خدا میں ) خرچ کرتے تو اُن پر کیا آفت آ جاتی اور خدا تو اُن سے خوب واقف ہے۔

۴۰خدا تو ہرگز ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ بلکہ اگر (ذرہ برابر بھی کسی کی) کوئی نیکی ہو تو اس کو دُگنا کرتا اور اپنی طرف سے بڑا ثواب عطا فرماتا ہے۔

۴۱(خیر دُنیا میں تو جو چاہیں کریں ) بھلا اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر گروہ کے گواہ طلب کریں گے اور (اے محمدؐ) تم کو ان سب پر گواہ کی حیثیت میں طلب کریں گے۔

۴۲اس دن جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور رسولؐ کی نافرمانی کی یہ آرزو کریں گے کہ کاش (وہ پیوند خاک ہو جاتے اور ) اُن کے اوپر سے زمین برابر کر دی جاتی اور افسوس یہ لوگ خدا سے کوئی بات (اُس دن) چھپا بھی نہ سکیں گے۔

۴۳اے ایماندارو تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ تاکہ تم جو کچھ منہ سے کہو سمجھو بھی تو۔ اور نہ جنابت کی حالت میں یہاں تک کہ غسل کر لو مگر راہ کی روا روی میں (جب غسل ممکن نہیں ہے تو البتہ ضرورت نہیں ہے )بلکہ اگر تم مریض ہو (اور پانی نقصان کرے ) یا سفر میں ہو یا تم میں سے کسی کو پاخانہ نکل آئے یا عورتوں سے صحبت کی ہو اور تم کو پانی نہ میسّر ہو (کہ طہارت کرو) تو پاک مٹی پر تیمّم کر لو اور (اس کا طریقہ یہ ہے کہ) اپنے منہ اور ہاتھوں پر مٹی بھرا ہاتھ پھیر لو۔ بے شک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

۴۴(اے رسولؐ) کیا تم نے ان لوگوں (کے حال) پر نظر نہیں کی جنہیں کتابِ خدا کا کچھ حصّہ دیا گیا تھا (مگر) وہ لوگ (ہدایت کے بدلے ) گمراہی خرید کرنے لگے ان کی (عین) مراد یہ ہے کہ تم بھی راہِ راست سے بہک جاؤ۔

۴۵اور خدا تمہارے دشمنوں سے خوب واقف ہے اور دوستی کے لیے بس خدا کافی ہے اور حمایت کے واسطے (بھی) خدا ہی کافی ہے۔

۴۶(اے رسولؐ) یہود سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو باتوں میں ان کے محل و موقع سے ہیر پھیر ڈال دیتے ہیں اور اپنی زبانوں کو مروڑ کر اور دین پر طعنہ زنی کی راہ سے تم سے سمعنا اور عصینا (ہم نے سنا اور نافرمانی کی) اور اسمع غیرمسمع (تم میری سنو خدا تم کو نہ سنوائے ) اور راعنا (میرا خیال کرو) کہا کرتے ہیں اور اگر وہ اس کے بدلے سمعنا و اطعنا (ہم نے سنا اور مانا) اور (صرف) اسمع (میری سنو) اور راعنا کے عوض انظرنا (ہم پر نگاہ رکھو) کہتے تو ان کے حق میں کہیں بہترین اور بالکل سیدھی بات تھی مگر ان پر تو ان کے کفر کی وجہ سے خدا کی پھٹکار ہے پس ان میں سے چند لوگوں کے سوا اور لوگ ایمان ہی نہ لائیں گے۔

۴۷اے اہلِ کتاب جو (کتاب) ہم نے نازل کی ہے اور وہ (اس کتاب کی بھی) تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے اس پر ایمان لاؤ۔ قبل اس کے کہ ہم ( کچھ لوگوں کے ) چہرے بگاڑ کر ان کے پیچھے کی طرف پھیر دیں یا جس طرح ہم نے اصحاب سبت (ہفتہ والوں ) پر پھٹکار برسائی ویسے ہی پھٹکار ان پر بھی کریں اور خدا کا حکم کیا کرایا ہوا کام سمجھو۔

۴۸خدا اس (جرم) کو تو البتہ نہیں معاف کرتا ہے کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ہاں اس کے سوا جو گناہ ہو جس کو چاہے معاف کر دے۔ اور جس نے (کسی کو) خدا کا شریک بنایا تو اس نے بڑے گناہ کا طوفان باندھا۔

۴۹(اے رسولؐ) کیا تم نے ان لوگوں (کے حال)پر نظر نہیں کی جو آپ بڑے مقدس بنتے ہیں (مگر اس سے کیا ہوتا ہے ) بلکہ خدا جسے چاہتا ہے مقدس بناتا ہے اور ظلم تو کسی پر تاگے (بال) برابر ہو گا ہی نہیں۔

۵۰(اے رسولؐ) ذرا دیکھو تو یہ لوگ خدا پر کیسے کیسے جھوٹے طوفان جوڑتے ہیں اور کھلم کھلا گناہ کے واسطے تو بس یہی کافی ہے

۵۱(اے رسولؐ) کیا تم نے ان لوگوں (کے حال) پر نظر نہیں کی جنہیں کتابِ خدا کا کچھ حصّہ دیا گیا تھا (اور پھر) شیطانوں اور بتوں کا کلمہ پڑھنے لگے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے ان کی نسبت کہنے لگے کہ یہ تو ایمان لانے والوں سے زیادہ راہِ راست پر ہیں۔

۵۲(اے رسولؐ) یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جن پر اللہ نے لعنت کی تم اس کا مددگار ہرگز کسی کو نہ پاؤ گے۔

۵۳کیا (خدا کی) سلطنت میں کچھ ان کا بھی حصّہ ہے جس میں سے لوگوں کو (تل برابر) بھوسی بھر بھی نہ دیں گے۔

۵۴یا وہ (اللہ کے خاص) لوگوں سے اس فضل کی وجہ سے حسد کرتے ہیں جو انہیں اللہ نے دیا ہے (تو اس کا کیا علاج ہے ) ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور عقل کی باتیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے،

۵۵پھر ان میں سے کچھ (عطائے فضیلت پر) ایمان لائے اور کچھ اس سے انکار کر بیٹھے اور (اس انکارِ فضیلت کی سزا کے لیے ) جہنم کی دھکتی ہوئی آگ کافی ہے۔

۵۶(یاد رہے ) کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا ہم انہیں ضرور عنقریب جہنم کی آگ میں جھونک دیں گے۔ اور جب ان کی کھالیں (جل کر) گل جائیں گی تو ہم ان کے لیے دوسری کھالیں بدل کر پیدا کر دیں گے تاکہ وہ (اچھی طرح) عذاب کا مزہ چکھیں بے شک خدا(ہر چیز پر) غالب اور حکمت والا ہے

۵۷اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کیے ہم ان کو عنقریب ہی (بہشت کے ) ایسے ایسے (ہرے بھرے ) باغوں میں جا پہنچائیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور ان میں ہمیشہ ابد الآباد تک رہیں گے وہاں ان کی صاف ستھری بیبیاں ہوں گی اور ہم انہیں گھنی گھنی چھاؤں میں لے جا کر رکھیں گے۔

۵۸(اے ایماندارو) خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ لوگوں کی امانتیں امانت رکھوانے والوں کے حوالے کر دو۔ اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ خدا تم کو اس کی کیا ہی اچھی نصیحت کرتا ہے۔ اس میں تو شک نہیں کہ خدا (سب کی) سُنتا (اور سب کچھ) دیکھتا ہے۔

۵۹اے ایماندارو خدا کی اطاعت کرو۔ اور رسولؐ کی اور جو تم میں سے (رسول ہی کی طرح) صاحبانِ حکم ہوں ان کی اطاعت کرو۔ اور اگر تم کسی بات میں جھگڑا کرو پس اگر تم خدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس امر میں خدا اور رسولؐ کی طرف رجوع کرو۔ یہی (تمہارے حق میں ) بہتر ہے اور انجام کی راہ سے بہت اچھا ہے۔

۶۰(اے رسولؐ) کیا تم نے ان لوگوں (کی حالت) پر نظر نہیں کی جو یہ خیالی پلاؤ پکاتے ہیں کہ جو (کتاب) تجھ پر نازل کی گئی اور جو (کتابیں ) تم سے پہلے نازل کی گئیں (سب پر) ایمان لائے ہیں اور دلی تمنّا یہ ہے کہ سرکشوں کو اپنا حاکم بنائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کی بات نہ مانیں۔ اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کے بہت دُور لے جائے۔

۶۱اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ خدا نے جو (کتاب) نازل کی ہے اُس کی طرف اور رسُولؐ کی طرف رجوع کرو تو تم منافقین کو دیکھتے ہو کہ تم سے کس طرح منہ پھیر لیتے ہیں۔

۶۲پھر جب اُن پر اُن کے کرتوت کی وجہ سے کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کیوں کر تمہارے پاس خدا کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا مطلب تو نیکی اور میل ملاپ کے سوا کچھ نہ تھا۔

۶۳یہ وہ لوگ ہیں کہ کچھ خدا ہی ان کے دلوں کی حالت خوب جانتا ہے۔ پس تم ان سے درگزر کرو اور ان کو نصیحت کرو اور ان سے اُن کے دلوں میں اثر کرنے و الی بر محل بات کہو۔

۶۴اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں۔ اور (اے رسولؐ)جب ان لوگوں نے (نافرمانی کر کے ) اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اگر تمہارے پاس چلے آتے اور خدا سے معافی مانگتے اور رسولؐ (تم) بھی اُن کی مغفرت چاہتے تو بے شک وہ لوگ خدا کو بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے۔

۶۵(پس اے رسولؐ) تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے تاوقتیکہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم (نہ) بنائیں پھر (یہی نہیں بلکہ) جو کچھ تم فیصلہ کرو اس سے کسی طرح تنگدل بھی نہ ہوں بلکہ خوش خوش اس کو مان بھی لیں۔

۶۶(اسلامی شریعت سہلہ میں تو ان کا یہ حال ہے ) اگر ہم (بنی اسرائیل کی طرح)ان پر یہ حکم جاری کر دیتے کہ تم آپ اپنے لوگوں کو قتل کر ڈالو یا شہر بدر ہو جاؤ تو ان میں سے چند آدمیوں کے سوا یہ لوگ تو اس کو نہ کرتے اور اگر یہ لوگ اس بات پر عمل کرتے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو ان کے حق میں بہت بہتر ہوتا اور (دین میں بھی) بہت ثابت قدمی سے جمے رہتے

۶۷اور (اس صورت میں ) ہم بھی اپنی طرف سے ضرور بڑا (اچھا) بدلہ دیتے۔

۶۸اور ان کو راہ راست کی بھی ضرور ہدایت کرتے۔

۶۹اور جس شخص نے خدا اور رسولؐ کی اطاعت کی تو ایسے لوگ ان (مقبول) بندوں کے ساتھ ہوں گے۔ جنہیں خدا نے اپنی نعمتیں دی ہیں یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں۔

۷۰یہ خدا کا فضل (و کرم) ہے اور خدا تو واقف کاری میں بس ہے۔

۷۱اے ایمان دارو (جہاد کے وقت) اپنی حفاظت (کے ذرائع) اچھی طرح دیکھ لو۔ پھر (تمہیں اختیار ہے ) خواہ دستہ دستہ نکلو یا سب کے سب اکٹھے ہو کر نکل کھڑے ہو

۷۲اور تم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو (جہاد سے ) ضرور پیچھے ہٹیں گے پھر اگر (اتفاقاً) تم پر کوئی مصیبت آ پڑی تو کہنے لگا خدا نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان (مسلمانوں کے ساتھ ) موجود نہ ہوا

۷۳اور اگر تم پر خدا نے فضل کیا (اور دشمن پر غالب آئے ) تو اس طرح اجنبی بن گیا کہ گویا تم میں اور اس میں کبھی کی محبت ہی نہ تھی۔ یوں کہنے لگا کہ اے کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو میں بھی بڑی کامیابی حاصل کرتا۔

۷۴پس جو لوگ دنیا کی زندگی (جان تک) آخرت کے واسطے دے ڈالنے کو موجود ہیں ان کو خدا کی راہ میں جہاد کرنا چاہیے۔اور جس نے خدا کی راہ میں جہاد کیا پھر شہید ہوا یا غالب آیا تو (بہرحال) ہم تو عنقریب ہی اس کو بڑا اجر عطا فرما دیں گے۔

۷۵(اور مسلمانو) تم کو کیا ہو گیا ہے کہ خدا کی راہ میں ان کمزورو بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں (کو کفّار کے پنجہ سے چھڑانے ) کے واسطے جہاد نہیں کرتے جو (حالت مجبوری میں ) خدا سے دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پالنے والے کسی طرح اس بستی (مکّہ) سے جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں ہمیں نکال اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست بنا اور تو خود ہی کسی کو اپنی طرف سے ہمارا مددگار بنا۔

۷۶(پس دیکھو) ایمان والے تو خدا کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفّار شیطان کی راہ میں لڑتے مرتے ہیں۔ پس (مسلمانو) تم شیطان کے ہوا خواہوں سے لڑو (اور کچھ پرواہ نہ کرو) کیونکہ شیطان کا داؤ تو بہت ہی بودا ہے۔

۷۷(اے رسولؐ) کیا تم نے ان لوگوں (کے حال) پر نظر نہیں کی (جن کو جہاد کی آرزو تھی اور ) ان کو حکم تھا کہ (ابھی چندے ) اپنے ہاتھ روکے رہو اور پابندی سے نماز پڑھو اور زکوٰۃ دیئے جاؤ۔ مگر جب جہاد ان پر واجب کیا گیا تو ان میں سے کچھ لوگ(بودے پن میں ) لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے کوئی خدا سے ڈرے بلکہ اس سے کہیں زیادہ اور (گھبرا کر) کہنے لگے خدایا تو نے ہم پر جہاد کیوں واجب کر دیا،ہم کو کچھ دنوں کی اور مہلت کیوں نہ دی۔ (اے رسولؐ ان سے ) کہہ دو کہ دُنیا کی آسائش بہت تھوڑی ہے ا ور جو (خدا سے ) ڈرتا ہے اس کی آخرت اس سے کہیں بہتر ہے۔ اور (وہاں تو) ریشہ (بال) برابر بھی تم لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

۷۸تم چاہے جہاں ہو موت تو تم کو لے ہی ڈالے گی اگرچہ تم کیسے ہی مضبوط پکے گنبدوں میں جا چھپو اور ان کو اگر کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہنے لگتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر ان کو کوئی تکلیف پہنچی تو (شرارت سے ) کہنے لگتے ہیں کہ(اے رسولؐ) یہ تمہاری بدولت ہے (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ سب خدا کی طرف سے ہے پس ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ہی نہیں سمجھتے۔

۷۹حالانکہ (سچ تو یوں ہے کہ) جب تم کو کوئی فائدہ پہنچے تو سمجھو خدا کی طرف سے ہے اور جب تم کو کوئی تکلیف پہنچے تو (سمجھو کہ) خود تمہاری بدولت ہے اور (اے رسولؐ) ہم نے تم کو لوگوں کے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور (اس کے لیے ) خدا کی گواہی کافی ہے۔

۸۰جس نے رسولؐ کی اطاعت کی تو اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے روگردانی کی تو (تم کچھ خیال نہ کرو کیونکہ) ہم نے تم کو کچھ پاسبان (مقرر) کر کے تو بھیجا نہیں ہے۔

۸۱اور (یہ لوگ تمہارے سامنے تو) کہہ دیتے ہیں کہ ہم آپ کے فرمانبردار ہیں۔ لیکن جب تمہارے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو ان میں سے کچھ لوگ جو کچھ (تم سے ) کہہ چکے تھے اس کے خلاف (راتوں ) کو مشورہ کرتے ہیں حالانکہ (یہ نہیں سمجھتے ) یہ لوگ (راتوں ) کو جو کچھ بھی مشورہ کرتے ہیں اُسے خدا لکھتا جاتا ہے۔ پس تم ان لوگوں کی کچھ پرواہ نہ کرو اور خدا پر بھروسہ رکھو اور خدا کارسازی کے لیے کافی ہے۔

۸۲تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ خیال نہیں کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے۔

۸۳اور جب ان (مسلمانوں )کے پاس امن یا خوف کی خبر آئی تواُسے فوراً مشہور کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اس خبر کو رسولؐ یا اپنے (ایمانداروں ) میں سے صاحبانِ امر تک پہنچاتے تو بے شک جو لوگ ان میں سے اس کی تحقیق کرنے والے ہیں (پیغمبر یا اولی الامر) اس کو سمجھ لیتے (کہ مشہور کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں ) اور (مسلمانو) اگر تم پر خدا کا فضل (و کرم) اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند آدمیوں کے سوا تم سب کے سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے

۸۴پس (اے رسولؐ) تم خدا کی راہ میں جہاد کرو اور تم اپنی ذات کے سوا اور کسی کے ذمہ دار نہیں ہو۔ اور ایمانداروں کو (جہاد کی) ترغیب دو۔ عنقریب خدا کافروں کی ہیبت روک دے گا۔ اور خدا کی ہیبت سب سے زیادہ ہے اور اس کی سزا بہت سخت ہے۔

۸۵جو شخص اچھے کام کی سفارش کرے تو اس کو بھی اس کام کے ثواب سے کچھ حصّہ ملے گا۔ اور جو بُرے کام کی سفارش کرے تو اس کو بھی اسی کام کی سزا کا کچھ حصّہ ملے گا۔ اور خدا تو ہر چیز پر نگہبان ہے۔

۸۶اور جب تمہیں کسی طرح کوئی شخص سلام کرے تو تم بھی اس کے جواب میں اس سے بہتر طریقہ سے سلام کر و یا وہی لفظ جواب میں کہہ دو۔بے شک خدا ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے۔

۸۷جس کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں وہ تم کو قیامت کے دن جس میں ذرا بھی شک نہیں ضرور اکٹھا کرے گا۔ اور خدا سے بڑھ کر بات میں سچّا کون ہو گا

۸۸(مسلمانو) پھر تم کو کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں بھی دو فریق ہو گئے ہو (ایک موافق ایک مخالف) حالانکہ خود خدا نے ان کے کرتوتوں کی بدولت ان کی (عقلوں ) کو اُلٹ پلٹ دیا ہے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جس کو خدا نے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے تم اُسے راہِ راست پر لے آؤ۔ حالانکہ خدا نے جس کو گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اس کے لیے ( تم میں سے کوئی شخص) راستہ نکال ہی نہیں سکتا۔

۸۹ان لوگوں کی خواہش تو یہ ہے کہ جس طرح وہ کافر ہو گئے تم بھی کافر ہو جاؤ تاکہ تم ان کے برابر ہو جاؤ پس جب تک وہ خدا کی راہ میں ہجرت نہ کریں تم ان میں سے کسی کو دوست نہ بناؤ۔ پس اگر وہ اس سے بھی مُنّہ موڑیں تو انہیں گرفتار کرو اور جہاں پاؤ قتل کر دو اور ان میں سے کسی کو نہ اپنا دوست بناؤ نہ مددگار۔

۹۰مگر جو لوگ کسی ایسی قوم سے جا ملے ہوں کہ تم میں اور اُن میں (صلح کا) عہد و پیمان ہو چکا ہے یا تم سے جنگ کرنے یا اپنی قوم کے ساتھ لڑنے سے دل تنگ ہو کر تمہارے پاس آئیں (تو انہیں آزار نہ پہنچاؤ) اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر غلبہ دیتا تو وہ تم سے لڑ پڑتے پس اگر وہ تم سے کنارہ کشی کریں اور تم سے نہ لڑیں اور تمہارے پاس صلح کا پیغام دیں تو پھر تمہارے لیے ان لوگوں پر (آزار پہنچانے کی) خدا نے کوئی سبیل نہیں نکالی۔

۹۱عنقریب تم کچھ ایسے اور لوگوں کو بھی پاؤ گے جو یہ چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں (مگر) جب کبھی جھگڑے کی طرف بلائے گئے تواس میں اوندھے منہ کے بل گِر پڑے۔پس اگر وہ تم سے نہ کنارہ کشی کریں اور نہ تمہیں صلح کا پیغام دیں اور نہ لڑائی سے اپنے ہاتھ روکیں پس ان کو پکڑو اور جہاں پاؤں ان کو قتل کرو۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن پر ہم نے تمہیں صریحی غلبہ عطا فرمایا۔

۹۲اور کسی ایماندار کو یہ جائز نہیں کہ کسی مومن کو جان سے مار ڈالے۔ مگر دھوکے سے (قتل کیا ہو تو دوسری بات ہے ) اور جو شخص کسی مومن کو دھوکے سے (بھی) مار ڈالے تو (اس پر) ایماندار غلام کا آزاد کرنا اور مقتول کے قرابتداروں کو خون بہا دینا (لازم) ہے مگر جب وہ لوگ معاف کر دیں پھر اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہو جو تمہارے دشمن (کافر حربی) ہیں اور وہ (مقتول) مومن ہو تو (صرف ایک مسلمان )غلام کو آزاد کرنا اور اگر مقتول ان (کافر) لوگوں میں کا ہو جن سے تم سے عہد و پیمان ہو چکا ہے تو (قاتل پر) وارثانِ مقتول کو خون بہا دینا اور ایک بندہ مومن کا آزاد کرنا واجب ہے۔ پھر جو شخص (غلام آزاد کرنے کو) نہ پائے تو اس کا کفّارہ خدا کی طرف سے توبہ کرنے کے لئے لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں۔ اور خدا خوب واقف کار (اور) حکمت والا ہے۔

۹۳اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالے (تو غلام کی آزادی وغیرہ اس کا کفّارہ نہیں بلکہ) اس کی سزا دوزخ ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔ اس پر خدا نے (اپنا) غضب ڈھایا ہے اور اس پر لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۹۴اے ایماندارو جب تم خدا کی راہ میں (جہاد کرنے کو) سفر کرو تو (کسی کے قتل کرنے میں جلدی نہ کرو بلکہ) اچھی طرح جانچ لیا کرو اور جو شخص (اظہارِ اسلام کی غرض سے ) تمہیں سلام کرے تو تم (بے سوچے سمجھے ) نہ کہہ دیا کرو کہ تو ایماندار نہیں ہے (اس سے تو ظاہر ہوتا ہے ) کہ تم (فقط) دنیاوی اثاثہ کی تمنّا رکھتے ہو (کہ اسی بہانہ قتل کر کے لوٹ لو اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر یہی ہے ) تو خدا کے ہاں بہت سی غنیمتیں ہیں (مسلمانو!) پہلے تم خود بھی تو ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا کہ (بے کھٹکے مسلمان ہو گئے ) غرض (خوب) چھان بین کر لیا کرو بے شک خدا تمہارے ہر کام سے خبردار ہے۔

۹۵معذور لوگوں کے سوا (جہاد سے منہ چھپاکے ) گھر میں بیٹھنے والے اور خدا کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنے والے ہرگز برابر نہیں ہو سکتے (بلکہ) اپنے مال و جان سے جہاد کرنے والوں کو گھر بیٹھ رہنے والوں پر خدا نے درجہ کے اعتبار سے بڑی فضیلت دی ہے (اگرچہ) خدا نے سب ایمانداروں سے (خواہ جہاد کریں یا نہ کریں ) بھلائی کا وعدہ کر لیا ہے۔ مگر غازیوں کو خانہ نشینوں پر عظیم ثواب کے اعتبار سے خدا نے بڑی فضیلت دی ہے

۹۶(یعنی انہیں ) اپنی طرف سے بڑے بڑے درجے اور بخشش اور رحمت (عطا فرمائے گا) اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۹۷بے شک جن لوگوں کی قبض روح فرشتوں نے اس وقت کی ہے کہ (دار الحرب میں پڑے ) اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے (تو فرشتے قبض روح کے بعد حیرت سے ) کہتے ہیں تم کس حالت (غفلت) میں تھے تو وہ (معذرت کے لہجہ میں ) کہتے ہیں کہ ہم تو روئے زمین میں بے کس تھے تو فرشتے کہتے ہیں کہ خدا کی (ایسی لمبی چوڑی) زمین میں اتنی بھی گنجائش نہ تھی کہ تم (کہیں ) ہجرت کر کے چلے جاتے پس ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بُرا ٹھکانا ہے۔

۹۸مگر جو مرد اور عورتیں اور بچے اس قدر بے بس ہیں کہ نہ تو (دار الحرب سے نکلنے کی) کوئی تدبیر کرسکتے ہیں نہ ان کو اپنی رہائی کی کوئی راہ دکھائی دیتی ہے

۹۹تو امید ہے کہ خدا ایسے لوگوں سے درگزر کرے۔ اور خدا تو بڑا معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔

۱۰۰اور جو شخص خدا کی راہ میں ہجرت کرے گا تو وہ روئے زمین میں با فراغت (چین سے رہنے سہنے کے ) بہت سے کشادہ مقامات پائے گا اور جو شخص اپنے گھر سے جلا وطن ہوکے خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف نکل کھڑا ہوا پھر اُسے (منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ) موت آ جائے تو خدا پر اس کا ثواب لازم ہو گیا۔ اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہی ہے۔

۱۰۱(مسلمانو!) جب تم روئے زمین پر سفر کرو اور تم کو اس امر کا خوف ہو کہ کفّارسے (اثنائے نماز میں ) تم سے فساد برپا کریں گے تو اس میں تمہارے واسطے کچھ مضائقہ نہیں کہ نماز میں سے کچھ کم کر دیا کرو بے شک کفّار تو تمہارے کھلم کھلا دشمن ہیں۔

۱۰۲اور (اے رسولؐ) جب تم مسلمانوں میں موجود ہو اور (لڑائی ہو رہی ہو کہ) تم ان کو نماز پڑھانے لگو تو (دو گروہ کر کے ایک کو لڑائی کے واسطے چھوڑ دو اور ) ان میں سے ایک جماعت تمہارے ساتھ نماز پڑھے اور اپنے حربے ہتھیار اپنے ساتھ لیے رہے پھر جب (پہلی رکعت کے ) سجدے کر (کے دوسری رکعت جلدی فرادیٰ پڑھ) لیں تو تمہارے پیچھے پشت پناہ بنیں اور دوسری جماعت جو (لڑ رہی تھی اور ) اب تک نماز نہیں پڑھنے پائی ہے آئے اور (تمہاری دوسری رکعت میں ) تمہارے ساتھ نماز پڑھے اور اپنی حفاظت کی چیزیں اور ہتھیار (نماز میں ساتھ) لیے رہیں۔کفّار تو یہ چاہتے ہی ہیں کہ کاش اپنے ہتھیاروں اور اپنے ساز و سامان سے ذرا سی غفلت کرو تو یک بارگی سب کے سب تم پر ٹوٹ پڑیں۔ ہاں البتہ اس میں کچھ مضائقہ نہیں کہ اتفاقاً تم کو بارش (کے سبب) سے کچھ تکلیف پہنچے یا تم بیمار ہو تو اپنے ہتھیار (نماز میں ) اتار کے رکھ دو اور اپنی حفاظت کرتے رہو اور خدا نے تو کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر ہی رکھا ہے۔

۱۰۳پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اُٹھتے،بیٹھتے، لیٹے (غرض ہر حال میں ) خدا کو یاد کرو۔ پھر جب تم (دشمنوں سے ) مطمئن ہو جاؤ تو (اپنے معمول کے موافق) نماز پڑھا کرو۔ کیونکہ نماز تو ایمانداروں پر وقت معیّن کر کے فرض کی گئی ہے۔

۱۰۴اور (مسلمانو) دشمنوں کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرو۔ اگر (لڑائی میں ) تم کو تکلیف پہنچتی ہے تو جیسی تم کو تکلیف پہنچتی ہے ان کو بھی ویسی ہی اذیّت ہوتی ہے۔ اور (تم کو یہ بھی تقویت ہے کہ) تم خدا سے وہ وہ اُمیدیں رکھتے ہو جو ان کو (نصیب) نہیں اور خدا تو (سب سے ) واقف (اور) حکمت والا ہے۔

۱۰۵(اے رسولؐ) ہم نے تم پر برحق کتاب اس لیے نازل کی ہے کہ جس طرح خدا نے تمہاری ہدایت کی ہے اسی طرح لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اور خیانت کرنے والوں کے طرفدار نہ بنو

۱۰۶اور (اپنی امّت کے لیے ) خداسے مغفرت کی دُعا مانگو۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے

۱۰۷اور (اے رسولؐ) تم ان (بدمعاشوں ) کی طرف ہو کر (لوگوں سے ) نہ لڑو جو اپنے ہی (لوگوں ) سے دغا بازی کرتے ہیں۔ بے شک خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا۔ جو دغا باز گنہگار ہو۔

۱۰۸لوگوں سے تو (اپنی شرارت) چھپاتے ہیں اور خدا سے نہیں چھپاتے حالانکہ وہ تو اس وقت بھی ان کے ساتھ ساتھ ہے جب وہ لوگ راتوں کو (بیٹھ کر) ان باتوں کے مشورے کرتے ہیں جن سے خدا راضی نہیں اور خدا تو ان کے سب کرتوتوں کو (علم کے احاطہ میں ) گھیرے ہوئے ہے۔

۱۰۹(مسلمانو) خبردار ہو جاؤ بھلا دنیا کی (ذرا سی) زندگی میں تو تم ان کی طرف ہو کر لڑنے کھڑے ہو گئے (مگر یہ تو بتاؤ) پھر قیامت کے دن ان کا طرفدار بن کر خدا سے کون لڑے گا یا کون ان کا وکیل ہو گا۔

۱۱۰اور جو شخص کوئی برا کام کرے یا (کسی طرح) اپنے نفس پر ظلم کرے اس کے بعد خدا سے اپنی مغفرت کی دعا مانگے تو خدا کو بڑا بخشنے والا مہربان پائے گا۔

۱۱۱اور جو شخص گناہ کرتا ہے تو اس سے کچھ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ اور خدا تو (ہر چیز سے ) واقف (اور) بڑی تدبیر والا ہے۔

۱۱۲اور جو شخص کوئی خطا یا گناہ کرے پھر اُسے کسی بے قصور کے سرتھوپے تو اُس نے ایک بڑے افترا اور صریحی گناہ کو اپنے اُوپر لاد لیا۔

۱۱۳اور (اے رسولؐ) اگر تم پر خدا کا فضل (و کرم) اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو ان (بدمعاشوں ) میں ایک گروہ تم کو گمراہ کرنے کا ضرور قصد کرتا حالانکہ وہ لوگ بس اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں اور یہ لوگ تمہیں کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے اور خدا ہی نے تو (مہربانی کی کہ)تم پر اپنی کتاب اور حکمت نازل کی اور جو باتیں تم نہ جانتے تھے تمہیں سکھا دیں اور تم پر تو خدا کا بڑا فضل ہے۔

۱۱۴(اے رسولؐ) ان کے راز کی باتوں سے اکثر میں بھلائی (کا تو نام تک) نہیں۔ مگر (ہاں ) جو شخص کسی کو صدقہ دینے یا اچھے کام کرنے یا لوگوں کے درمیان میں ملاپ کرانے کا حکم دے (تو البتہ ایک بات ہے ) اور جو شخص (محض) خدا کی خوشنودی کی خواہش میں ایسے کام کرے گا تو ہم عنقریب ہی اُسے بڑا اچھا بدلہ عطا فرمائیں گے

۱۱۵اور جو شخص راہِ راست کے ظاہر ہونے کے بعد رسولؐ سے سرکشی کرے اور مومنین کے طریقہ کے سوا کسی اور راہ پر چلے تو جدھر وہ پھر گیا ہے ہم بھی اِسے اُدھر ہی پھیر دیں گے اور (آخر) اُسے جہنم میں جھونک دیں گے اور وہ تو (بہت ہی) بُرا ٹھکانا ہے۔

۱۱۶خدا بے شک اس کو نہیں بخشتا کہ اس کا کوئی اور شریک بنایا جائے۔ ہاں اس کے سوا (جو گناہ ہو) جس کو چاہے بخش دے اور (معاذ اللہ) جس نے کسی کو خدا کا شریک بنایا وہ تو بس بھٹک کے بہت دُور جا پڑا۔

۱۱۷یہ مشرکین خدا کو چھوڑ کر بس عورتوں ہی کی پرستش کرتے ہیں (یعنی بتوں کی جو ان کے خیال میں عورتیں ہیں ) اور (درحقیقت) یہ لوگ سرکش شیطان کی پرستش کرتے ہیں

۱۱۸جس پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس نے (ابتدا ہی میں ) کہا تھا کہ (خداوند) میں تیرے بندوں میں سے ایک مقرر حصّہ (تعداد کا) (اپنی طرف) ضرور لے لوں گا

۱۱۹اور (پھر) نہیں ضرور گمراہ کروں گا اور انہیں (بڑی بڑی) اُمیّدیں بھی ضرور دلاؤں گا۔ اور یقیناً انہیں سکھادوں گا۔ پھر وہ (بُتوں کے واسطے ) جانوروں کے کان ضرور چیڑ پھاڑ کریں گے اور (البتہ) اُن سے کہہ دوں گا۔ بس پھر وہ (میری تعلیم کے موافق) خدا کی بنائی ہوئی صورت کو ضرور بدل ڈالیں گے اور (یہ یاد رہے کہ ) جس نے خدا کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا سرپرست بنایا تو اس نے کھلم کھلا سخت گھاٹا اٹھایا۔

۱۲۰شیطان اُن سے (اچھے اچھے ) وعدے بھی کرتا ہے (اور بڑی بڑی) اُمیدیں بھی دلاتا ہے اور شیطان اُن سے جو کچھ بھی وعدے کرتا ہے وہ بس نِرا دھوکہ (ہی دھوکہ) ہے۔

۱۲۱یہی تو وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا بس جہنم ہے اور وہاں سے بھاگنے کی جگہ بھی نہ پائیں گے

۱۲۲اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام کیے انہیں ہم عنقریب (بہشت کے ) اُن (ہرے بھرے ) باغوں میں جا پہنچائیں گے جن کے (درختوں کے ) نیچے نہریں جاری ہوں گی اور یہ لوگ اس میں ابد ا لآباد تک رہیں گے۔ (یہ ان سے ) خدا کا پکا وعدہ ہے اور خدا سے زیادہ (اپنی) بات میں سچا کون ہو گا۔

۱۲۳نہ تم لوگوں کی آرزو سے (کچھ کام چل سکتا ہے ) نہ اہل کتاب کی تمنا سے (کچھ حاصل بلکہ جیسا کام ویسا دام) جو برا کام کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ اور پھر خدا کے سوا کسی کو نہ تو اپنا سرپرست پائے گا اور نہ مددگار

۱۲۴اور جو شخص اچھے (اچھے ) کام کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت اور ایماندار (بھی) ہو تو ایسے ہی لوگ بہشت میں (بے کھٹکے ) جا پہنچیں گے۔ اور اُن پر تل بھر بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔

۱۲۵اور اُس شخص سے دین میں بہتر کون ہو گا جس نے خدا کے سامنے اپنا سرتسلیم جھکا دیا۔ اور وہ نیکو کار بھی ہے اور ابراہیمؑ کے طریقہ پر چلتا ہے جو باطل سے کترا کے چلتے تھے۔ اور خدا نے ابراہیم کو تو اپنا خالص دوست بنا لیا

۱۲۶اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی کا ہے۔ اور خدا ہی سب چیز کو (اپنی قدرت سے ) گھیرے ہوئے ہے۔

۱۲۷(اے رسولؐ) یہ لوگ آپ سے (یتیم) لڑکیوں (سے نکاح) کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں آپ ان سے فرما دیں کہ خدا تمہیں ان (سے نکاح کرنے ) کی اجازت دیتا ہے اور جو (حکم مناہی کا) قرآن میں تمہیں (پہلے ) سنایا جا چکا ہے۔ وہ حقیقتاً ان یتیم لڑکیوں کے واسطے تھا جنہیں تم ان کا معین کیا ہوا حق نہیں دیتے اور چاہتے ہو کہ (یوں ہی) اُن سے نکاح کر لو اور ان کمزور ناتواں بچوں کے بارے میں حکم فرماتا ہے اور (وہ) یہ ہے کہ تم یتیموں کے حقوق کے بارے میں انصاف پر قائم رہو اور (یقین رکھو کہ)جو کچھ تم نیکی کرو گے تو خدا اس سے ضرور واقف ہے۔

۱۲۸اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی زیادتی و بے توجہی سے (طلاق کا) خوف رکھتی ہو تو میاں بیوی کے باہم(کسی طرح) ملاپ کر لینے میں دونوں میں سے کسی پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ اور صلح تو (بہرحال) بہتر ہے اور بخل تو قریب (قریب) ہر طبیعت کے ہم پہلو ہے۔ اور اگر تم نیکی کرو اور (خسّت سے ) بچے رہو تو خدا تمہارے ہر کام سے خبردار ہے (وہی تم کو اجر دے گا)

۱۲۹اور (اگرچہ) تم بہتیرا چاہو (لیکن) تم میں اتنی سکت تو ہرگز نہیں ہے کہ اپنی متعدد بیبیوں میں (پورا پورا) انصاف کرسکو (مگر) ایسا بھی تو نہ کرو کہ (ایک ہی کی طرف) ہمہ تن اتنا مائل ہو جاؤ کہ دُوسری کو ادھڑ میں، لٹکی ہوئی (معلّق) چھوڑ دو اور اگر باہم میل کر لو اور (زیادتی سے ) بچے رہو تو خدا یقیناً بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۳۰اور اگر دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے (بذریعہ طلاق) جدا ہو جائیں تو خدا اپنے وسیع خزانے سے (فارغ البالی عطا فرما کر) دونوں کو (ایک دوسرے سے ) بے نیاز کر دے گا۔ اور خدا تو بڑی گنجائش اور تدبیر والا ہے۔

۱۳۱اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی کا ہے اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب (خدا) عطا کی گئی ہے ان کو اور تم کو بھی اس کی ہم نے وصیّت کی تھی کہ خدا (کی نافرمانی) سے ڈرتے رہو اور اگر (کہیں ) تم نے کفر اختیار کیا تو (یاد رہے کہ) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی کا ہے (جو چاہے کرسکتا ہے ) اور خدا تو سب سے بے پرواہ اور (ہمہ صفت) موصوف ہے۔

۱۳۲اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سبھی) خاص خدا کا ہے اور خدا تو کار سازی کے لیے کافی ہے۔

۱۳۳اے لوگو اگر خدا چاہے تو تم کو (دُنیا کے پردے سے ) بالکل اُٹھا لے اور (تمہارے بدلے ) دوسروں کو لا (بسائے ) اور خدا تو اس پر قادر (و توانا) ہے۔

۱۳۴جو شخص (اپنے اعمال کا) بدلہ دنیا ہی میں چاہتا ہو تو خدا کے پاس دُنیا اور آخرت دونوں کا اجر موجود ہے۔ اور خدا تو (ہر شخص کی) سنتا اور (سب کو) دیکھتا ہے۔

۱۳۵اے ایمان والو مضبوطی کے ساتھ انصاف پر قائم رہو اور خدا لگتی گواہی دو اگرچہ (یہ گواہی) خود تمہارے یا تمہارے ماں باپ یا قرابت داروں کے لئے مضر (ہی کیوں ) نہ ہو خواہ مالدار ہو یا محتاج (کیونکہ) خدا تو (تمہارے بہ نسبت) ان پر زیادہ مہربان ہے تم (حق سے ) کترانے میں خواہش نفسانی کی پیروی نہ کرو اور گھما پھرا کے گواہی دو گے یا بالکل انکار کرو گے تو (یاد رہے جیسی کرنی ویسی بھرنی کیونکہ) جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خوب واقف ہے۔

۱۳۶اے ایمان والو خدا اور اس کے رسولؐ پر اور اس کی کتاب پر جو اس نے اپنے رسولؐ (محمدؐ) پر نازل کی ہے اور اس کتاب پر جو اُس نے پہلے نازل کی ایمان لاؤ۔ اور (یہ بھی یاد رہے کہ) جو شخص خدا اور اُس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت کا منکر ہوا تو وہ راہِ راست سے بھٹک کے بہت دُور جا پڑا۔

۱۳۷بے شک جو لوگ ایمان لائے اس کے بعد پھر کافر ہو گئے پھر ایمان لائے پھر اس کے بعد کافر ہو گئے اور پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے تو خدا نہ ان کی مغفرت کرے گا اور نہ انہیں راہِ راست کی ہدایت ہی کرے گا۔

۱۳۸(اے رسولؐ) منافقوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لیے ضرور دردناک عذاب ہے۔

۱۳۹جو لوگ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا سرپرست بناتے ہیں کیا ان کے پاس عزّت (و آبرو) کی تلاش کرتے ہیں ؟ عزّت تو ساری بس خدا ہی کے لیے خاص ہے۔

۱۴۰(مسلمانو) حالانکہ خدا تم پر اپنی کتاب (قرآن) میں یہ حکم نازل کر چکا ہے کہ جب تم سن لو کہ خدا کی آیتوں سے انکار کیا جاتا ہے اور اس سے مسخرا پن کیا جاتا ہے تو تم ان (کفّار) کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں غور کرنے لگیں ورنہ تم بھی اس وقت ان کے برابر ہو جاؤ گے۔ اس میں توشک ہی نہیں کہ خدا تمام منافقوں اور کافروں کو (ایک نہ ایک دن) جہنم میں جمع کرے گا

۱۴۱(وہ منافقین) جو تمہارے (مآلِ کار کے ) منتظر ہیں (کہ دیکھیے فتح ہوتی ہے یا شکست) تو اگر خدا کی طرف سے تمہیں  فتح ہوئی تو کہنے لگے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے اور اگر (فتح کا) حصّہ کافروں کو ملا تو (کافروں کے طرف دار بن کر) کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہ آ گئے تھے (مگر قصداً تم کو چھوڑ دیا) اور تم کو مومنین (کے ہاتھوں ) سے ہم نے بچایا نہیں تھا۔ (منافقو) قیامت کے دن تو خدا تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اور خدا ہرگز کافروں کو مومنوں پر غلبہ نہیں دے گا۔

۱۴۲بے شک منافقین (اپنے خیال میں ) خدا کو فریب دیتے ہیں اور درانحالیکہ وہ ان کے فریب کو (باطل کرنے والا) ہے۔ اور جب یہ لوگ نماز پڑھنے کھڑے ہوتے ہیں تو (بے دلی سے ) الکسائے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور فقط لوگوں کو دکھاتے ہیں اور دل سے تو خدا کو کچھ یوں ہی سا یاد کرتے ہیں

۱۴۳اس (کفر و ایمان) کے بیچ ادھڑ میں جھول رہے ہیں نہ ان (مسلمانوں ) کی طرف نہ اُن (کافروں ) کی طرف اور (اے رسولؐ) جسے خدا گمراہی میں چھوڑ دے۔ اس کی (ہدایت کی) تم ہرگز کوئی سبیل نہیں کرسکتے۔

۱۴۴اے ایماندارو مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو (اپنا) سرپرست نہ بناؤ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ خدا کا صریحی الزام اپنے اوپر قائم کر لو۔

۱۴۵اس میں تو شک ہی نہیں کہ منافقین جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں ہوں گے۔ اور (اے رسولؐ) تم وہاں کسی کو ان کا حمایتی بھی نہ پاؤ گے

۱۴۶مگر (ہاں ) جن لوگوں نے (نفاق سے ) توبہ کر لی اور اپنی حالت درست کر لی اور خدا سے لگے لپٹے رہے اور اپنے دین کو محض خدا کے واسطے نرا کھرا کر لیا تو یہ لوگ مومنین کے ساتھ (بہشت میں ) ہوں گے اور مومنین کو تو خدا عنقریب ہی بڑا اچھا بدلہ عطا فرمائے گا۔

۱۴۷اگر تم نے خدا کا شکر کیا اور اس پر ایمان لائے تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا بلکہ خدا تو (خود شکر کرنے والوں کا) قدر دان اور واقف کار ہے۔

۱۴۸خدا (کسی کے )ہانک پکار کر بُرا کہنے کو پسند نہیں کرتا۔ مگر مظلوم ظالم کی برائیاں بیان کرسکتا ہے۔ اور خدا تو (سب کی) سُنتا (اور ہر ایک کو) جانتا ہے۔

۱۴۹اگر کھلم کھلا نیکی کرتے ہو یا چھپا کر یا کسی کی برائی سے طرح دیتے ہو تو خدا بھی بڑا طرح دینے والا (اور) قادر ہے۔

۱۵۰بے شک جو لوگ خدا اور اُس کے رسولوں سے انکار کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض (پیغمبروں ) پر ایمان لائے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس (کفر و ایمان) کے درمیان ایک دوسری راہ نکالیں۔

۱۵۱یہی لوگ حقیقتاً کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے واسطے ذلت دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۱۵۲اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی سے تفریق نہیں کی تو ایسے ہی لوگوں کو خدا بہت جلد ان کا اجر عطا فرمائے گا۔ اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۵۳(اے رسولؐ) اہل کتاب (یہود) جو تم سے (یہ) درخواست کرتے ہیں کہ تم ان پر ایک کتاب آسمان سے اُتروا دو، تو (تم اس کا خیال نہ کرو کیونکہ)یہ لوگ موسیٰؑ سے تو اس سے کہیں بڑھ (بڑھ) کے درخواست کر چکے ہیں چنانچہ کہنے لگے کہ ہمیں خدا کو کھلم کھلا دکھا دو تب ان کو ان کی شرارت کی وجہ سے بجلی نے لے ڈالا پھر (باوجودیکہ) ان لوگوں کے پاس (توحید کی) واضح و روشن دلیلیں آ چکی تھیں اس کے بعد بھی ان لوگوں نے بچھڑے کو (خدا) بنا لیا۔پھر ہم نے اس سے (بھی) طرح دی۔ اور موسیٰ ؑ کو ہم نے صریحی غلبہ عطا کیا

۱۵۴اور ہم نے ان کے عہد (و پیمان) کی وجہ سے ان کے سر پر (کوہ) طور کو لٹکا دیا اور ہم نے ان سے کہا کہ(شہر کے ) دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو۔ اور ہم نے (یہ بھی) کہا کہ تم ہفتہ کے دن (ہمارے حکم سے ) تجاوز نہ کرنا۔ اور ہم نے اُن سے بہت مضبوط عہد (و پیمان) لے لیا۔

۱۵۵ پھر ان کے اپنے عہد توڑ ڈالنے اور احکام خدا سے انکار کرنے اور ناحق انبیاء کے قتل کرنے اور (اترا کر) یہ کہنے کی وجہ سے کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں (یہ تو نہیں ) بلکہ خدا نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر کر دی ہے تو چند آدمیوں کے سوا یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

۱۵۶اور (نیز) ان کے کافر ہونے اور مریمؑ پر بہت بڑا بہتان باندھنے

۱۵۷اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ مسیح خدا کے رسولؐ کو قتل کر ڈالا۔ حالانکہ نہ تو ان لوگوں نے اسے قتل ہی کیا اور نہ سولی ہی دی مگر ان کے لیے (ایک دوسرا شخص عیسیٰؑ کے ) مشابہ کر دیا گیا۔ اور جو لوگ اس بارے میں اختلاف کرتے ہیں یقیناً وہ لوگ اس(کے حالات) کی طرف سے دھوکے میں (پڑے ) ہیں ان کو اس (واقعہ) کی خبر ہی نہیں مگر فقط اٹکل کے پیچھے (پڑے ) ہیں اور عیسیٰؑ کو ان لوگوں نے یقیناً قتل نہیں کیا

۱۵۸بلکہ خدا نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور خدا تو بڑا زبردست تدبیر والا ہے۔

۱۵۹اور (جب عیسیٰؑ مہدی موعودؑ کے ظہور کے وقت آسمان سے اُتریں گے ) تو اہل کتاب میں سے کوئی شخص ایسا نہ ہو گا۔ جو ان پر ان کے مرنے کے قبل ایمان نہ لائے اور (خود عیسیٰؑ ) قیامت کے دن ان کے خلاف گواہی دیں گے۔

۱۶۰غرض یہودیوں کی (ان سب شرارتوں اور گناہ کی وجہ سے ) ہم نے اُن پر وہ صاف ستھری چیزیں جو ان کے لیے حلال کی گئی تھیں حرام کر دیں اور (نیز) ان کے خدا کی راہ سے بہت سے لوگوں کو روکنے

۱۶۱اور باوجود ممانعت سود کھا لینے اور ناحق زبردستی لوگوں کے مال کھانے کی وجہ سے اور ان میں جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے واسطے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۱۶۲لیکن (اے رسولؐ) ان میں سے جو لوگ علم (دین) میں بڑے مضبوط پایہ پر فائز ہیں وہ اور ایمان والے تو جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی ہے اور جو (کتاب ) تم سے پہلے نازل ہوئی ہے (سب پر) ایمان رکھتے ہیں اور پابندی سے نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور خدا اور روز آخرت کا یقین رکھتے ہیں ایسے ہی لوگوں کو ہم عنقریب بہت بڑا اجر عطا فرمائیں گے۔

۱۶۳(اے رسولؐ) ہم نے تمہارے پاس (بھی) تو اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوحؑ اور ان کے بعد والے پیغمبروں پر بھیجی تھی اور (جس طرح) ابراہیمؑ و اسماعیلؑ و اسحاقؑ و یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ و عیسیٰؑ و ایوبؑ و یونسؑ و ہارونؑ و سلیمانؑ کے پاس وحی بھیجی تھی۔ اور ہم نے داؤدؑ کو زبور عطا کی۔

۱۶۴اور (تم کو بھی ویسا ہی رسولؐ مقرر کیا جس طرح اور ) بہت سے رسول (بھیجے ) جن کا حال ہم نے تم سے پہلے ہی بیان کر دیا اور بہت سے (ایسے )رسول (بھیجے ) جن کا حال تم سے پہلے بیان نہیں کیا اور خدا نے تو موسیٰ ؑ سے (بہت سی) باتیں بھی کیں۔

۱۶۵اور (ہم نے نیکوں کو بہشت کی) خوشخبری دینے والے اور (بدوں کو عذاب سے ) ڈرانے والے پیغمبر بھیجے تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کی خدا پر کوئی حجت باقی نہ رہ جائے اور خدا تو بڑا زبردست حکیم ہے

۱۶۶(یہ کفّار نہیں مانتے نہ مانیں ) مگر خدا تو اس پر گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ تم پر نازل کیا ہے خوب سمجھ بوجھ کر نازل کیا ہے۔ (بلکہ) اس کی گواہی تو فرشتے تک دیتے ہیں حالانکہ خدا گواہی کے لیے کافی تھا۔

۱۶۷بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور خدا کی راہ سے (لوگوں کو) روکا وہ راہ راست سے بھٹک کے بہت دُور جا پڑے۔

۱۶۸بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور (اس پر) ظلم (بھی) کرتے رہے نہ تو خدا اُن کو بخشے ہی گا اور نہ انہیں کسی طرح کی ہدایت ہی کرے گا۔

۱۶۹مگر (ہاں ) جہنم کا راستہ (دکھا دے گا) جس میں یہ لوگ ہمیشہ(پڑے ) رہیں گے۔ اور یہ تو خدا کے واسطے بہت ہی آسان بات ہے۔

۱۷۰اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے رسول (محمدؐ) دین حق کے ساتھ آ چکے ہیں پس ایمان لاؤ (یہی) تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر انکار کرو گے تو (سمجھ رکھو کہ) جو کچھ زمین اور آسمانوں میں ہے سب خدا ہی کا ہے اور خدا بڑا واقف کار حکیم ہے۔

۱۷۱اے اہل کتاب اپنے دین میں حد (اعتدال) سے تجاوز نہ کرو اور خدا کی شان میں سچ کے سوا (کوئی دوسری بات) نہ کہو۔ مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ مسیح (نہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے بس)خدا کے ایک رسول اور اس کے ایک کلمہ (حکم) تھے جسے خدا نے مریمؑ کے پاس بھیج دیا تھا (کہ حاملہ ہو جا) اور خدا کی طرف سے ایک جان تھے پس خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور تین (خدا) کے قائل نہ بنو (اور) اپنی بھلائی (توحید) کا قصد کرو۔ اللہ تو بس یکتا معبود ہے وہ اس (نقص) سے پاک و پاکیزہ ہے کہ اس کا کوئی لڑکا ہو (اسے لڑکے کی حاجت ہی کیا ہے ) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب تو اسی کا ہے اور خدا تو کار سازی میں کافی ہے۔

۱۷۲نہ تو مسیح ہی خدا کا بندہ ہونے سے ہرگز عار رکھ سکتے ہیں اور نہ (خدا کے ) مقرب فرشتے اور (یاد رہے ) جو شخص اس کے بندہ ہونے سے عار رکھے گا اور شیخی کرے گا تو عنقریب ہی خدا ان سب کو اپنی طرف بلا لے گا (اور ہر ایک کو اس کے کام کی جزا سزا دے گا)۔

۱۷۳پس جن لوگوں نے ایمان قبول کیا ہے اور اچھے (اچھے ) کام کیے ہیں تو انہیں ان کا ثواب پورا (پورا) دے گا بلکہ اپنے فضل و کرم سے (کچھ اور )زیادہ ہی دے گا۔ اور جو لوگ (اس کا بندہ ہونے میں ) عار سمجھتے تھے اور شیخی کرتے تھے انہیں تو درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور (لطف یہ ہے کہ) وہ لوگ خدا کے سوا نہ اپنا سرپرست ہی پائیں گے اور نہ مددگار۔

۱۷۴اے لوگو ! اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے (دین حق کی) دلیل آ چکی اور ہم تمہارے پاس ایک چمکتا ہوا نور نازل کر چکے ہیں۔

۱۷۵پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اسی سے وابستہ رہے تو خدا بھی انہیں عنقریب ہی اپنی رحمت اور فضل (کے بے خزاں باغ) میں پہنچا دے گا اور انہیں اپنی حضوری کا سیدھا راستہ دکھا دے گا۔

۱۷۶(اے رسولؐ) تم سے فتویٰ طلب کرتے ہیں تم کہہ دو کہ کلالہ (بھائی بہن) کے بارے میں خدا تو خود تمہیں فتویٰ دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے کہ اس کے نہ کوئی لڑکا بالا ہو (نہ ماں باپ) اور اس کے صرف ایک بہن ہو تو اس کا ترکہ سے آدھا ہو گا (اور اگر یہ بہن مر جائے ) اور اس کے کوئی اولاد نہ ہو (نہ ماں باپ) تو اس کا وارث بس یہی بھائی ہو گا۔ اور اگر دو بہنیں (یا زیادہ) ہوں تو ان کو (بھائی کے ) ترکے سے دو تہائیاں ملیں گی اور اگر (کسی کے ورثے ) بھائی بہن دونوں (ملے جلے ) ہوں تو مرد کو عورت کے حصّہ کا دوگنا حصّہ ملے گا۔ تم لوگوں کے بھٹکنے کے خیال سے خدا اپنے احکام بہت واضح کر کے بیان فرماتا ہے اور خدا تو ہر چیز سے واقف ہے۔

٭٭٭

 

 

 

۵۔ سورۃ مائدہ

 

۱اے ایماندارو (اپنے ) اقراروں کو پورا کرو (دیکھو) تمہارے واسطے چوپائے جانور ان کے سوا جو تم کو پڑھ کر سنائے جائیں گے حلال کر دیئے گئے مگر جب تم حالت احرام میں ہو تو شکار کو حلال نہ سمجھنا بے شک خدا جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔

۲اے ایماندارو (دیکھو) نہ خدا کی نشانیوں کی بے توقیری کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کی اور نہ پٹے والے جانوروں کی (جو نذر خدا کے لیے نشان دے کر منیٰ میں لے جاتے ہیں ) اور نہ خانہ کعبہ (کے طواف و زیارت)کا قصد کرنے والوں کی جو اپنے پروردگار کی خوشنودی اور فضل (و کرم) کے جو یا ہیں اور جب تم (احرام سے ) محل ہو جاؤ تو شکار کرسکتے ہو۔ اور کسی قبیلہ کی یہ عداوت کہ تمہیں ان لوگوں نے خانہ کعبہ (میں جانے )سے روکا تھا اس جرم میں نہ پھنسوا دے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (تمہارا تو فرض یہ ہے کہ ) نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو (کیونکہ) خدا تو یقیناً بڑا سخت عذاب والا ہے

۳(لوگو) مرا ہوا جانور اور خون اور سُور کا گوشت اور جس (جانور) پر (ذبح کے وقت) خدا کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے اور گردن مروڑا ہوا اور چوٹ کھا کر مرا ہوا اور جو (کنویں وغیرہ میں ) گر کر مر جائے اور یا جو سینگ سے مار ڈالا گیا ہو اور جس کو درندے نے پھاڑ کھایا ہو مگر جسے (تم مرنے کے قبل) ذبح کر لو اور جو (جانور) بتوں (کے تھان) پر (چڑھا کر) ذبح کیا جائے اور جسے تم (پانسے کے )تیروں سے باہم حصّہ بانٹو۔ (غرض یہ سب چیزیں تم پر حرام کی گئی ہیں ) یہ گناہ کی بات ہے۔ (مسلمانو) اب تو کفّار تمہارے دین سے (پھر جانے سے ) مایوس ہو گئے تو تم اُن سے تو ڈرو ہی نہیں بلکہ صرف مجھی سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے (اس) دین اسلام کو پسند کیا۔ پس جو شخص بھوک میں مجبور ہو جائے (اور) گناہ کی طرف مائل بھی نہ ہو (اور کوئی چیز کھا لے ) تو خدا بے شک بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۴(اے رسولؐ) تم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ کون (کون سی) چیز ان کے لیے حلال کی گئی ہے۔ تم (ان سے ) کہہ دو کہ تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئیں اور شکاری جانور جو تم نے شکار کے لیے سدھار رکھے ہیں اور جو (طریقے ) خدا نے تمہیں بتائے ہیں ان میں سے کچھ تم نے ان جانوروں کو بھی سکھایا ہو تو یہ شکاری جانور جس شکار کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو (بے تامل) کھاؤ اور (جانور کو چھوڑتے وقت) خدا کا نام لے لیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

۵آج تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کی (خشک چیزیں گیہوں وغیرہ) تمہارے لیے حلال ہیں اور تمہاری خوراک ان کے لیے حلال ہے۔ آزاد پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں میں کی آزاد پاک دامن عورتیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی جا چکی ہے جب تم ان کو ان کے مہر دے دو (اور) پاک دامنی کا ارادہ کرو نہ تو کھلم کھلا زنا کاری کا اور نہ چوری چھپے سے آشنائی کا اور جس شخص نے ایمان سے انکار کیا تو اس کا سب کیا دھرا اکارت ہو گیا اور (لطف تو یہ ہے ) کہ آخرت میں بھی وہی گھاٹے میں رہے گا۔

۶اے ایماندارو جب تم نماز کے لیے آمادہ ہو تو دھو ڈالو اپنے منہ کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت اور اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کر لیا کرو اور اگر تم حالت جنابت میں ہو تو تم طہارت (غسل) کر لو (ہاں ) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کسی کو پاخانہ نکل آئے یا عورتوں سے ہم بستری کی ہو اور تم کو پانی نہ مل سکے تو پاک خاک سے تیمم کر لو (یعنی دونوں ہاتھ مٹی پر مار کر) اس سے اپنی منہ اور اپنے ہاتھوں کا مسح کر لو (دیکھو تو خدا نے کیسی آسانی کر دی) خدا تو یہ چاہتا ہی نہیں کہ تم پر کسی طرح کی تنگی کرے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک و پاکیزہ کر دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔

۷اور جواحسانات خدا نے تم پر کیے ہیں ان کو اور اس عہد (و پیمان) کو یاد کرو جس کا وہ تم سے پکا اقرار لے چکا ہے جب تم نے یہ کہا تھا کہ ہم نے (احکام خدا کو) سنا اور (دل سے ) مان لیا اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کیونکہ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ خدا دلوں کے اسرار سے بھی باخبر ہے۔

۸اے ایماندارو خدا کی خوشنودی کے لیے انصاف کے ساتھ گواہی دینے کے لیے تیار رہو۔ اور تمہیں کسی قبیلے کی عداوت اس جُرم میں نہ پھنسوا دے کہ تم نا انصافی کرنے لگو (خبردار) بلکہ تم (ہر حال میں )انصاف کرو۔یہی پرہیز گاری سے بہت قریب ہے۔ اور خدا سے ڈرو۔ کیونکہ جو کچھ تم کرتے ہو (اچھا یا بُرا) خدا اُسے ضرور جانتا ہے۔

۹اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام (بھی) کئے خدا نے اُن سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لیے (آخرت میں ) مغفرت اور بڑا ثواب ہے۔

۱۰اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔

۱۱اے ایماندارو خدا نے جو احسانات تم پر کیے ہیں ان کو یاد کرو (خصوصاً) جس وقت ایک قبیلہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا تھا تو خدا نے ان کے ہاتھوں کو تم (تک پہنچنے ) سے روک رکھا اور خدا سے ڈرتے رہو اور مومنین کو خدا ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے

۱۲اور اس میں بھی شک نہیں کہ خدا نے بنی اسرائیل سے (بھی ایمان کا) عہد و پیمان لے لیا تھا۔ اور ہم (خدا) نے ان میں بارہ سردار (ان پر) مقرر کیے۔ اور خدا نے بنی اسرائیل سے فرمایا تھا کہ میں تو یقیناً تمہارے ساتھ ہوں اگر تم بھی پابندی سے نمازیں پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو اور ہمارے پیغمبروں پر ایمان لاؤ اور ان کی مدد کرتے رہو اور خدا (کی خوشنودی کے واسطے لوگوں ) کو قرض حسنہ دیتے رہو تو میں بھی تمہارے گناہ تم سے ضرور دور کر دوں گا اور تم کو بہشت کے ان (ہرے بھرے ) باغوں میں جا پہنچاؤں گا جن کے (درختوں کے ) نیچے نہریں جاری ہیں پھر تم میں سے جو شخص اس کے بعد بھی انکار کرے تو یقیناً وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔

۱۳پس ہم نے ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو (گویا) ہم نے خود سخت بنا دیا کہ (ہمارے ) کلمات کو ان کے اصلی معنوں سے بدل کر دوسرے معانی میں استعمال کرتے ہیں اور جن جن باتوں کی انہیں نصیحت کی گئی تھی ان میں سے ایک بڑا حصّہ بھلا بیٹھے اور (اے رسولؐ) اب تو تم ان میں چند آدمیوں کے سوا ایک نہ ایک کی خیانت پر برابر مطلع ہوتے رہتے ہو تو تم ان (کے قصور) کو معاف کر دو اور (ان سے ) درگزر کرو کیونکہ خدا احسان کرنے والوں کو ضرور دوست رکھتا ہے

۱۴اور جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں ان سے (بھی) ہم نے (ایمان کا) عہد و پیمان لیا تھا مگر جن جن باتوں کی انہیں نصیحت کی گئی تھی ان میں سے ایک بڑا حصّہ (رسالت محمدؐ) بھلا بیٹھے تو ہم نے بھی (اس کی سزا میں ) قیامت تک ان میں باہم عداوت و دشمنی کی بنیاد ڈال دی اور خدا انہیں بہت جلد (قیامت کے دن) بتا دے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے۔

۱۵اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا پیغمبر (محمدؐ) آ چکا ہے جو کتاب (خدا) کی ان باتوں میں سے جنہیں تم چھپایا کرتے تھے بہتیری تو صاف بیان کر دے گا اور بہتیری سے (عمداً) درگزر کرے گا۔ تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک (چمکتا ہوا) نور اور صاف صاف بیان کرنے والی کتاب (قرآن) آ چکی ہے۔

۱۶جو لوگ خدا کی خوشنودی کے پابند ہیں ان کی تو اس کے ذریعے سے نجات کی ہدایت کرتا ہے اور اپنے حکم سے (کفر کی) تاریکی سے نکال کر (ایمان کی) روشنی میں لاتا ہے اور انہیں راہ راست پر پہنچا دیتا ہے۔

۱۷جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ مریمؑ کے بیٹے مسیحؑ بس خدا ہیں وہ ضرور کافر ہو گئے (اے رسولؐ) ان سے پوچھو تو کہ بھلا اگر خدا مریمؑ کے بیٹے مسیحؑ اور ان کی ماں کو اور جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کو مار ڈالنا چاہے تو کون ایسا ہے جس کا خدا سے کچھ بھی زور چلے (اور روک دے ) اور سارے آسمان اور زمین اور جو کچھ بھی ان کے درمیان میں ہے۔ سب خدا ہی کی سلطنت ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور خدا تو ہر چیز پر قادر ہے۔

۱۸اور یہودی اور نصرانی تو کہتے ہیں کہ ہم ہی خدا کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں (اے رسولؐ ان سے ) تم کہو کہ (اگر ایسا ہے تو) پھر تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے (تمہارا یہ خیال لغو ہے ) بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات سے ایک بشر ہو۔ خدا جسے چاہے گا بخش دے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا۔ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے سب خدا ہی کا ملک ہے اور (سب کو) اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

۱۹اور اے اہل کتاب جب پیغمبروں کی آمد میں بہت رکاوٹ ہوئی تو ہمارا رسولؐ تمہارے پاس آیا جو احکام خدا کو صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم کہیں یہ نہ کہہ بیٹھو کہ ہمارے پاس تو نہ کوئی خوشخبری دینے والا (پیغمبرؐ) آیا نہ (عذاب خدا سے ) ڈرانے والا۔ اب تو (یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ) یقیناً تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (پیغمبر) آ گیا اور خدا ہر چیز پر قادر ہے

۲۰(اے رسولؐ ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم جو نعمتیں خدا نے تم کو دی ہیں ان کو یاد کرو اس لیے کہ اس نے تم ہی لوگوں سے بہتیرے پیغمبر بنائے اور تم ہی لوگوں کو بادشاہ (بھی) بنایا اور تمہیں وہ دیا جو ساری خدائی میں کسی ایک کو بھی تو نہ دیا۔

۲۱اے میری قوم (شام کی) اس مقدس زمین میں جاؤ جہاں خدا نے تمہاری تقدیر میں (حکومت) لکھ دی ہے اور (دشمن کے مقابلہ میں ) پیٹھ نہ کرو (کیونکہ) اس میں تو تم خود اُلٹا گھاٹا اٹھاؤ گے۔

۲۲وہ لوگ کہنے لگے کہ اے موسیٰ ؑ اس ملک میں تو بڑے زبردست (سرکش) لوگ رہتے ہیں اور جب تک وہ لوگ اس میں سے نکل نہ جائیں۔ہم تو اس میں کبھی پاؤں بھی نہ رکھیں گے۔ہاں اگر وہ لوگ خود اس میں سے نکل جائیں تو البتہ ہم ضرور جائیں گے

۲۳(مگر)دو آدمی (یوشع و کالب) جو (خدا کا) خوف رکھتے تھے (اور) جن پر خدا نے اپنا فضل و کرم کیا تھا (بے دھڑک) بول اُٹھے کہ (ارے ) ان پر حملہ کر کے (بیت المقدس کے ) پھاٹک میں گھس تو پڑو پھر (دیکھو تو یہ ایسے بودے ہیں کہ) ادھر تم پھاٹک میں گھسے اور (یہ سب بھاگ کھڑے ہوئے اور ) تمہاری جیت ہو گئی اور اگر تم سچّے ایماندار ہو تو خدا ہی پر بھروسہ رکھو۔

۲۴وہ کہنے لگے اے موسیٰ ؑ (چاہے جو کچھ ہو) جب تک وہ لوگ اس میں ہیں ہم تو اس میں ہرگز (لاکھ برس) پاؤں نہ رکھیں گے۔ہاں تم جاؤ اور تمہارا خدا (جائے ) اور دونوں جا کے لڑو ہم تو یہیں جمے بیٹھے ہیں

۲۵(تب موسیٰؑ نے ) عرض کی خداوندا تو خوب واقف ہے کہ اپنی ذات اور اپنے بھائی کے سوا کسی پر میرا قابو نہیں بس اب ہمارے اور ان نافرمان لوگوں کے درمیان جدائی ڈال دے (ہمارا ان کا ساتھ نہیں ہو سکتا)

۲۶خدا نے فرمایا (اچھا تو ان کی سزا یہ ہے )ان کو چالیس برس تک وہاں کی حکومت نصیب نہ ہو گی اور اس مدّت دراز تک) یہ لوگ (مصر کے ) جنگل میں سرگرداں رہیں گے تو پھر ان بد چلن بندوں پر افسوس نہ کرنا۔

۲۷(اے رسولؐ) تم ان لوگوں سے آدمؑ کے دو بیٹوں (ہابیل قابیل) کا قصّہ بیان کر دو کہ جب ان دونوں نے خدا کی درگاہ میں نذریں چڑھائیں تو ان میں سے ایک (ہابیل) کی (نذر تو) قبول ہوئی اور دوسرے (قابیل) کی نذر نہ قبول ہوئی (مارے حسد کے ہابیل سے ) کہنے لگا میں تو تجھے ضرور مار ڈالوں گا۔ اس نے جواب دیا کہ (بھائی اس میں اپنا کیا بس ہے ) خدا تو صرف پرہیزگاروں کی نذر قبول کرتا ہے

۲۸اگر تم میرے قتل کے ارادہ سے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھاؤ گے (تو خیر بڑھاؤ مگر) میں تو تمہارے قتل کے خیال سے اپنا ہاتھ بڑھانے والا نہیں (کیونکہ) میں تو اس خدا سے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے ضرور ڈرتا ہوں۔

۲۹میں تو ضروریہ چاہتا ہوں کہ میرے گناہ اور تیرے گناہ دونوں تیرے سر جائیں تو (اچھا خاصا) جہنمی بن جائے اور ظالموں کی تو یہی سزا ہے،

۳۰پھر تو اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر اسے بھڑکا ہی دیا۔ آخر اس (کم بخت نے ) اس کو مار ہی ڈالا تو گھاٹا اٹھانے والوں سے ہو گیا۔

۳۱(تب اسے فکر ہوئی کہ لاش کو کیا کرے ) تو خدا نے ایک کوے کو بھیجا کہ وہ زمین کو کریدنے لگا تاکہ اسے (قابیل کو)دکھا دے کہ اسے اپنے بھائی کی لاش کیوں کر چھپانی چاہیے (یہ دیکھ کر) وہ کہنے لگا ہائے افسوس کیا میں اس سے بھی عاجز ہوں کہ اس کوے کی برابری کرسکوں۔ (بلا سے یہ بھی ہوتا ہے ) تو اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا الغرض وہ اپنی حرکت سے ) بہت پچھتایا

۳۲اسی سبب سے تو ہم نے بنی اسرائیل پر واجب کر دیا تھا کہ جو شخص کسی کو نہ جان کے بدلے میں اور نہ ملک میں فساد پھیلانے کی سزا میں (بلکہ ناحق) قتل کر ڈالے گا تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا۔ اور جس نے ایک آدمی کو جِلا لیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو جِلا لیا۔ اور ان (بنی اسرائیل) کے پاس تو ہمارے پیغمبر (کیسے کیسے ) روشن معجزے لے کر آ چکے ہیں (مگر) پھر اس کے بعد بھی یقیناً ان میں سے بہتیرے زمین میں زیادتیاں کرتے رہے۔

۳۳جو لوگ خدا اور اس کے رسولؐ سے لڑتے بھڑتے ہیں (اور احکام کو نہیں مانتے ) اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملکوں (ملکوں ) دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ (چُن چُن کر) یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ہیر پھیر کے (ایک طرف کا ہاتھ دوسری طرف کا پاؤں ) کاٹ ڈالے جائیں یا انہیں (اپنے وطن کی) سرزمین سے شہر بدر کر دیا جائے۔ یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہوئی اور پھر آخرت میں تو ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

۳۴مگر ہاں جن لوگوں نے اس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پاؤ توبہ کر لی تو (ان کا گناہ بخش دیا جائے گا۔کیونکہ) سمجھ لو کہ خدا بے شک بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۳۵اے ایماندارو خدا سے ڈرتے رہو اور اس کے (تقرب کے ) ذریعے اس کی جستجو میں رہو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ

۳۶اس میں شک نہیں کہ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اگر ان کے پاس زمین میں جو کچھ (مال خزانہ) ہے (وہ) سب بلکہ اتنا اور بھی اس کے ساتھ ہو کہ روز قیامت کے عذاب کا اسے معاوضہ دے دیں (اور خود بچ جائیں ) تب بھی (ان کا یہ معاوضہ) قبول نہ کیا جائے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

۳۷وہ لوگ تو چاہیں گے کہ کسی طرح جہنم کی آگ سے نکل بھاگیں۔ مگر وہاں سے تو وہ نکل ہی نہیں سکتے اور ان کے لیے تو دائمی عذاب ہے۔

۳۸اور چور خواہ مرد ہو یا عورت تم ان کے کرتوت کی سزا میں ان کا(داہنا) ہاتھ کاٹ ڈالو یہ (ان کی سزا) خدا کی طرف سے ہے۔ اور خدا تو بڑا زبردست حکمت والا ہے۔

۳۹ہاں جو اپنے گناہ کے بعد توبہ کر لے اور اپنے چال چلن درست کرے تو بے شک خدا بھی اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ کیونکہ خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے

۴۰(اے شخص) کیا تو نہیں جانتا کہ سارے آسمان و زمین (غرض دنیا جہان) میں خاص خدا کی حکومت ہے۔ جسے چاہے عذاب کرے اور جسے چاہے معاف کر دے اور خدا تو ہر چیز پر قادر ہے۔

۴۱اے رسولؐ جو لوگ کفر کی طرف لپک کے چلے جاتے ہیں تم ان کا غم نہ کھاؤ۔ ان میں بعض تو ایسے ہیں کہ اپنے منہ سے (بے تکلّف) کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ حالانکہ ان کے دل بے ایمان ہیں۔ اور بعض یہودی ایسے ہیں کہ (جاسوسی کی غرض سے ) جھوٹی باتیں بہت (شوق سے ) سنتے ہیں تاکہ کفّار کے دوسرے گروہ کو جو (ابھی تک) تمہارے پاس نہیں آئے ہیں سنائیں۔ یہ لوگ (توریت کے ) الفاظ کی ان کے اصلی معانی کے (معلوم ہونے کے ) بعد بھی تحریف کرتے ہیں (اور لوگوں سے ) کہتے ہیں کہ (یہ توریت کا حکم ہے ) اگر (محمدؐ کی طرف سے بھی) تمہیں یہی حکم دیا جائے تو اسے مان لینا اور اگر یہ حکم تم کو نہ دیا جائے تو اس سے الگ ہی رہنا اور (اے رسولؐ) جس کو خدا عذاب کرنا چاہتا ہے تو اس کے واسطے خدا سے تمہارا کچھ زور نہیں چل سکتا یہ لوگ تو وہی ہیں جن کے دلوں کو خدا نے (گناہوں سے ) پاک کرنے کا ارادہ ہی نہیں کیا (بلکہ) ان کے لیے تو دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑا (بھاری) عذاب ہو گا۔

۴۲یہ (کمبخت) جھوٹی باتوں کو بڑے (شوق سے ) سننے والے اور بڑے ہی حرام خور ہیں۔ تو (اے رسولؐ) اگر یہ لوگ تمہارے پاس (کوئی معاملہ لے کر) آئیں تو (تم کو اختیار ہے ) خواہ ان کے درمیان فیصلہ کر دو یا ان سے کنارہ کشی کرو اور اگر تم کنارہ کش رہو گے تو (کچھ خیال نہ کرو) یہ لوگ تمہارا ہرگز کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور اگر ان میں فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو کیونکہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

۴۳اور جب خود ان کے پاس توریت ہے اور اس میں خدا کا حکم (موجود) ہے تو پھر تمہارے پاس فیصلہ کرانے کو کیوں آتے ہیں اور (لطف تو یہ ہے کہ) اس کے بعد پھر (تمہارے حکم سے ) پھر جاتے ہیں اور (سچ تو یہ ہے کہ) یہ لوگ ایماندار ہی نہیں ہیں۔

۴۴بے شک ہم نے توریت نازل کی جس میں (لوگوں کی) ہدایت اور نور (ایمان) ہے اسی کے مطابق خدا کے فرمانبردار بندے (انبیائے بنی اسرائیل) یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور اللہ والے اور علماء (یہود) بھی کتاب خدا سے (حکم دیتے تھے ) جس کے وہ محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس کے عالم بھی تھے۔ پس (اے مسلمانو) تم لوگوں سے (ذرا بھی) نہ ڈرو (بلکہ) مجھی سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں (دنیا کی دولت جو درحقیقت بہت تھوڑی قیمت ہے ) نہ لو اور (سمجھ لو کہ) جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب) کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔

۴۵اور ہم نے اس (توریت) میں یہودیوں پر یہ (حکم) فرض کر دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخم کے بدلے (ویسا ہی) برابر کا بدلہ زخم ہے۔ پھر جو (مظلوم ظالم کی) خطا معاف کر دے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔ اور جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب) کے موافق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔

۴۶اور ہم نے انہیں پیغمبروں کے قدم بقدم مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کو چلایا اور وہ اس کتاب توریت کی بھی تصدیق کرتے تھے جو ان کے سامنے (پہلے سے ) موجود تھی اور ہم نے ان کو انجیل (بھی) عطا کی جس میں (لوگوں کے لیے ہر طرح کی) ہدایت تھی اور نور (ایمان) اور وہ اس کتاب توریت کی جو وقت نزول انجیل (پہلے سے ) موجود تھی تصدیق کرنے والی اور پرہیزگاروں کی ہدایت و نصیحت تھی۔

۴۷اور انجیل والوں (نصاریٰ) کو جو کچھ خدا نے (اس میں ) نازل کیا ہے اس کے مطابق حکم کرنا چاہیے اور جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے موافق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بدکار ہیں۔

۴۸اور (اے رسولؐ) ہم نے تم پر بھی برحق کتاب نازل کی کہ جو کتاب (اس کے پہلے سے ) اس کے وقت میں موجود ہے اس کی تصدیق کرتی ہے اور اس کی نگہبان (بھی) ہے تو جو کچھ تم پر خدا نے نازل کیا ہے اسی کے مطابق تم بھی حکم دو اور جو حق بات خدا کی طرف سے آ چکی ہے اس سے کترا کے ان لوگوں کے خواہش نفسانی کی پیروی نہ کرو اور ہم نے تم میں سے ہر ایک کے واسطے (حسب مصلحت وقت) ایک ایک شریعت اور خاص طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر خدا چاہتا تم سب کے سب کو ایک ہی (شریعت کی) اُمّت بنا دیتا۔ مگر (مختلف شریعتوں سے خدا کا) مقصود یہ تھا کہ جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں تمہارا امتحان کرے بس تم نیکیوں میں لپک کے آگے بڑھ جاؤ اور (یقین جانو کہ) تم سب کو خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب (اس وقت) جن باتوں میں تم اختلاف کرتے ہو وہ تمہیں بتا دے گا۔

۴۹اور (اے رسولؐ ہم پھر کہتے ہیں کہ) جو احکام خدا نے نازل کیے ہیں تم اس کے مطابق فیصلہ کرو اور ان کی بے جا خواہشاتِ نفسانی کی پیروی نہ کرو بلکہ تم ان سے بچے رہو (ایسا نہ ہو کہ) کسی حکم سے جو خدا نے تم پر نازل کیا ہے تم کو یہ لوگ بھٹکا دیں پھر اگر یہ لوگ (تمہارے حکم سے ) منہ موڑیں تو سمجھ لو کہ (گویا) خدا ہی کی مرضی ہے کہ ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے انہیں مصیبت میں پھنسا دے۔ اور اس میں تو شک نہیں کہ بہتیرے لوگ بد چلن ہیں

۵۰کیا یہ لوگ زمانہ ٔ جاہلیّت کے حکم کی (تم سے بھی) تمنا رکھتے ہیں حالانکہ یقین کرنے والے لوگوں کے واسطے حکم میں خدا سے بہتر کون ہو گا۔

۵۱اے ایماندارو یہودیوں اور نصرانیوں کو اپنا سرپرست نہ بناؤ (کیونکہ) یہ لوگ (تمہارے مخالف ہیں مگر) باہم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور (یاد رہے کہ) تم میں سے جس نے ان کو اپنا سرپرست بنایا پس پھر وہ بھی انہی لوگوں میں ہو گیا۔ بے شک خدا ظالموں کو راہ راست پر نہیں لاتا۔

۵۲تو (اے رسولؐ) جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے تم انہیں دیکھو گے کہ ان میں دوڑ دوڑ کے ملے جاتے ہیں۔ (اور تم سے اس کی وجہ یہ) بیان کرتے ہیں کہ ہم تو اس سے ڈرتے ہیں کہ (کہیں ایسا نہ ہو ان کے نہ ملنے سے ) زمانہ کی گردش میں مبتلا ہو جائیں تو عنقریب ہی خدا (مسلمانوں کی) فتح یا کوئی اور بات اپنی طرف سے ظاہر کر دے گا تب یہ لوگ اس (بدگمانی) پر جو اپنے جی میں چھپاتے تھے شرمائیں گے۔

۵۳اور مومنین (جب ان پر نفاق ظاہر ہو جائے گا تو) کہیں گے یہ وہی لوگ ہیں جو سخت سے سخت قسمیں کھا کر (ہم سے ) کہتے تھے کہ ہم ضرور تمہارے ساتھ ہیں۔ ان کا سارا کیا دھرا اکارت ہوا اور سخت گھاٹے میں آ گئے۔

۵۴اے ایماندارو تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو(کچھ پرواہ نہیں پھر جائے ) عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کر دے گا جنہیں خدا دوست رکھتا ہو گا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے۔ایمان داروں کے ساتھ منکسر (اور) کافروں کیساتھ کڑے۔ خدا کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کچھ پرواہ نہ کریں گے۔ یہ خدا کا فضل و کرم ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا تو بڑی گنجائش والا واقف کار ہے۔

۵۵(اے ایماندارو ) تمہارے مالک سرپرست بس یہی ہیں خدا اور اس کا رسولؐ اور وہ مومنین جو پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔

۵۶اور جس شخص نے خدا اور رسولؐ اور (ان ہی) ایمانداروں کو اپنا سرپرست بنایا تو (خدا کے لشکر میں آ گیا اور ) اس میں تو شک نہیں کہ خدا ہی کا لشکر ور رہتا ہے۔

۵۷اے ایماندارو جن لوگوں (یہود و نصاریٰ) کو تم سے پہلے کتاب (خدا توریت و انجیل) دی جا چکی ہے ان میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے ان کو اور کفّار کو اپنا سرپرست نہ بناؤ اور اگر تم سچے ایماندار ہو تو خدا ہی سے ڈرتے رہو

۵۸اور (ان کی شرارت یہاں تک پہنچی کہ) جب تم (اذان دے کر) نماز کے واسطے (لوگوں کو) بلاتے ہو تو یہ لوگ نماز کو ہنسی کھیل بناتے ہیں یہ اس وجہ سے کہ (یہ لوگ بالکل بے عقل ہیں اور ) کچھ نہیں سمجھتے

۵۹(اے رسولؐ!) اہل کتاب سے کہو کہ آخر تم ہم میں سوا اس کے اور کیا عیب لگا سکتے ہو کہ ہم خدا پر اور جو (کتاب) ہمارے پاس بھیجی گئی ہے اور جو ہم سے پہلے بھیجی گئی ایمان لائے ہیں اور یہ کہ تم میں کے اکثر بدکار ہیں۔

۶۰(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں تمہیں خدا کے نزدیک سزا میں اس سے کہیں بد تر عیب بتا دوں۔ (اچھا لو سنو) جس پر خدا نے لعنت کی ہو اور اس پر غضب ڈھایا ہو اور ان میں سے کسی کو (مسخ کر کے ) بندر اور (کسی کو) سور بنا دیا ہو اور اس نے (خدا کو چھوڑ کر) شیطان کی پرستش کی ہو۔ پس یہ لوگ درجے میں کہیں بدتر اور راہ راست سے بھٹک کے سب سے زیادہ دور جا پہنچے ہیں۔

۶۱اور (مسلمانو) جب یہ لوگ تمہارے پاس آ جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ کفر ہی کو ساتھ لے کر آئے تھے اور پھر نکلے بھی تو ساتھ لیے ہوئے۔ اور جو (نفاق) وہ چھپائے ہوئے تھے خدا اسے خوب جانتا ہے۔

۶۲(اے رسولؐ) تم ان میں سے بہتیروں کو دیکھو گے کہ گناہ اور سرکشی اور حرام خوری کی طرف دوڑ پڑے ہیں جو کام یہ لوگ کرتے تھے وہ یقیناً بہت ہی برا ہے۔

۶۳ان کو اللہ والے اور علماء جھوٹ بولنے اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے جو (درگزر) یہ لوگ کرتے رہے یقیناً بہت ہی بڑی ہے

۶۴اور یہودی کہنے لگے کہ خدا کا ہاتھ بندھا ہوا ہے (بخیل ہو گیا) انہی کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور ان کے (اس) کہنے پر خدا کی پھٹکار(بھلا خدا کا ہاتھ بندھنے کیوں لگا) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ اور جو (کتاب ) تمہارے پاس نازل کی گئی ہے (ان کا رشک و حسد) ان میں سے بہتیروں کی کفر و سرکشی کو اور بڑھا دے گا۔ اور (گویا) ہم نے خود ان کے آپس میں روز قیامت تک عداوت اور کینے کی بنیاد ڈال دی۔جب یہ لوگ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو خدا اس کو بجھا دیتا ہے اور روئے زمین میں فساد پھیلانے کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں اور خدا فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔

۶۵اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور (ہم سے ) ڈرتے تو ہم ضرور ان کے گناہوں سے درگزر کرتے اور ان کو نعمت و آرام (بہشت) کے باغوں میں پہنچا دیتے۔

۶۶اور اگر یہ لوگ توریت اور انجیل اور جو (صحیفے ) ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کیے گئے تھے (ان کے احکام کو) قائم رکھتے تو ضرور (ان کے ) اوپر سے (بھی) رزق برس پڑتا اور پاؤں کے نیچے سے بھی (اُبل آتا اور یہ خوب چین سے ) کھاتے ان میں سے کچھ لوگ تو اعتدال پر ہیں (مگر) ان میں کے بہتیرے جو کچھ کرتے ہیں بُرا ہی کرتے ہیں۔

۶۷اے رسولؐ جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے پہنچا دو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو کہ) تم نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا۔ اور (تم ڈرو نہیں ) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ خدا ہرگز کافروں کی قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔

۶۸(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اے اہل کتاب اس وقت تک تمہارا مذہب کچھ نہیں جب تک تم توریت اور انجیل اور جو (صحیفے ) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں ان (کے احکام) کو قائم نہ رکھو گے اور (اے رسولؐ) جو (کتاب) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے بھیجی گئی ہے (اس کا رشک و حسد)ان میں سے بہتیروں کی سرکشی و کفر کو اور بڑھا دے گا تو تم کافروں کے گروہ پر افسوس نہ کرنا۔

۶۹اس میں تو شک ہی نہیں کہ مسلمان ہوں یا یہودی، حکیمانہ خیال کے پابند ہوں، خواہ نصرانی (غرض کچھ بھی ہوں ) جو خدا اور روز آخرت پر ایمان لائے گا اور اچھے اچھے کام کرے گا اُن پر البتہ نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ لوگ آزردہ خاطر ہوں گے۔

۷۰ہم نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لے لیا تھا اور اُن کے پاس بہت رسولؐ بھی بھیجے تھے ( اس پر بھی) جب اُن کے پاس کوئی رسول ان کی مرضی کے خلاف حکم لے کر آیا تو ان (کم بخت) لوگوں نے کسی کو جھٹلا دیا اور کسی کو قتل (ہی) کر ڈالا۔

۷۱اور سمجھ لیا کہ (اس میں ہمارے لیے ) کوئی خرابی نہ ہو گی۔ پس (گویا) وہ لوگ (امر حق سے ) اندھے اور بہرے بن گئے (مگر باوجود اس کے ) کہ جب ان لوگوں نے توبہ کی، تو پھر خدا نے ان کی توبہ قبول کر لی (مگر) پھر (اس پر بھی) ان میں سے بہتیرے اندھے اور بہرے بن گئے اور جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے۔

۷۲جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ مسیح خدا ہیں وہ سب کافر ہیں۔ حالانکہ مسیح ؑ نے خود یوں کہہ دیا تھا کہ اے بنی اسرائیل صرف اسی خدا کی عبادت کرو جو ہمارا اور تمہارا پالنے والا ہے کیونکہ (یاد رکھو) جس نے خدا کا شریک بنایا اس پر خدا نے بہشت کو حرام کر دیا ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

۷۳جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ خدا تین میں کا (تیسرا) ہے وہ یقیناً کافر ہو گئے۔ (یاد رکھو کہ)خدائے یکتا کے سوا کوئی معبود نہیں اور (خدا کے بارے میں ) یہ لوگ جو کچھ بکا کرتے ہیں اگر اس سے باز نہ آئے تو (سمجھ رکھیں کہ) جو لوگ اس میں سے کافر (کے کافر) رہ گئے ان پر ضرور درد ناک عذاب نازل ہو گا۔

۷۴تو یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں توبہ کیوں نہیں کرتے اور (اپنے قصوروں کی) معافی کیوں نہیں مانگتے حالانکہ خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۷۵مریمؑ کے بیٹے مسیحؑ تو بس ایک رسول ہیں اور ان کے قبل (اور بھی) بہتیرے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی ماں بھی (خدا کی) سچّی بندی تھیں (اور آدمیوں کی طرح) یہ دونوں (کے دونوں بھی) کھانا کھاتے تھے (اے رسولؐ) غور تو کرو کہ ہم اپنے احکام ان سے کیسے صاف صاف بیان کرتے ہیں۔ پھر دیکھو تو کہ (اس پر بھی الٹے ) یہ لوگ کہاں بھٹکے جا رہے ہیں۔

۷۶(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا تم خدا (جیسے قادر و توانا) کو چھوڑ کر ایسی (ذلیل) چیز کی عبادت کرتے ہو جس کونہ تو تمہارے نقصان ہی کا اختیار ہے اور نہ نفع کا۔اور خدا تو (سب کی) سنتا (اور سب کچھ) جانتا ہے۔

۷۷(اے رسولؐ) تم کہو کہ اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق زیادتی نہ کرو اور نہ ان لوگوں (اپنے بزرگوں ) کی نفسانی خواہشوں پر چلو جو پہلے خود ہی گمراہ ہو چکے اور (اپنے ساتھ اور بھی) بہتیروں کو گمراہ کر چھوڑا اور راہ راست سے دُور بھٹک گئے۔

۷۸بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر تھے ان پر داؤدؑ اور مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کی زبانی لعنت کی گئی یہ (لعنت ان پر پڑی تو صرف) اس وجہ سے کہ (ایک تو) ان لوگوں نے نافرمانی کی اور (پھر ہر معاملہ میں ) حد سے بڑھ جاتے تھے۔

۷۹اور کسی بُرے کام سے جس کو ان لوگوں نے کیا باز نہ آتے تھے (بلکہ اس پر باوجود نصیحت اڑے رہتے ) جو کام یہ لوگ کرتے تھے کیا ہی بُرا تھا۔

۸۰(اے رسولؐ) تم ان (یہودیوں ) میں سے بہتیروں کو دیکھو گے کہ کفار سے دوستی رکھتے ہیں۔ جو سامان پہلے سے ان لوگوں نے خود اپنے واسطے درست کیا ہے کس قدر بُرا ہے (جس کا نتیجہ یہ ہے ) کہ (دُنیا میں بھی) خدا ان پر غصب ناک ہوا اور (آخرت میں بھی) ہمیشہ عذاب ہی میں رہیں گے۔

۸۱اور اگر یہ لوگ خدا اور رسولؐ پر اور جو کچھ ان پر نازل کیا گیا ہے ایمان رکھتے تو ہرگز (اُن کو اپنا) دوست نہ بناتے مگر ان میں بہتیرے تو بد چلن ہیں۔

۸۲(اے رسولؐ) تم ایمان لانے والوں کا دشمن سب سے بڑھ کر یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ایمانداروں کا دوست ہونے میں سب سے بڑھ کے قریب ان لوگوں کو پاؤ گے جو اپنے کو نصاریٰ کہتے ہیں۔ کیونکہ ان (نصاریٰ) میں سے یقینی بہت سے عالم اور عابد ہیں اور اس سبب سے بھی کہ یہ لوگ ہرگز شیخی نہیں کرتے۔

۸۳اور تو دیکھتا ہے کہ جب یہ لوگ اس (قرآن) کو سنتے ہیں جو ہمارے رسولؐ پر نازل کیا گیا ہے تو ان کی آنکھوں سے بے ساختہ (چھلک کر) آنسوجاری ہو جاتا ہے کیونکہ انہوں نے (امر) حق کو پہچان لیا ہے (اور) عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پالنے والے ہم تو ایمان لا چکے تو (رسولؐ کی) تصدیق کرنے والوں کے ساتھ ہمیں بھی لکھ رکھ

۸۴اور ہم کو کیا ہو گیا ہے کہ ہم خدا اور جو حق بات ہمارے پاس آ چکی ہے اس پر تو ایمان نہ لائیں اور (پھر) خدا سے یہ امید رکھیں کہ وہ اپنے نیک بندوں کے ساتھ ہمیں (بہشت میں ) پہنچا ہی دے گا۔

۸۵تو خدا نے انہیں ان کے صدق دل سے عرض کرنے کے صلہ میں انہیں وہ (ہرے بھرے ) باغات عطا فرمائے جن کے (درختوں کے ) نیچے نہریں جاری ہیں (اور) وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور (صدق دل سے ) نیکی کرنے والوں کا یہی عوض ہے۔

۸۶اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ یہی لوگ جہنمی ہیں

۸۷اے ایمانداروں جو پاک چیزیں خدا نے تمہارے واسطے حلال کر دی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا۔

۸۸اور جو حلال صاف ستھری چیزیں خدا نے تمہیں دی ہیں ان کو (شوق سے ) کھاؤ اور جس خدا پر تم ایمان لائے ہو اس سے ڈرتے رہو۔

۸۹خدا تمہاری بے کار(بے کار) قسموں (کے کھانے ) پر تو (خیر) گرفت نہ کرے گا مگر بالقصد پکی قسم کھانے (اور اس کے خلاف کرنے ) پر تو ضرور تمہاری لے دے کرے گا (لو سنو) اس کا جرمانہ تم جیسا خود اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو اسی قسم کا اوسط درجہ کادس محتاجوں کو کھانا کھلانا یا ان کو کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرانا ہے پھر جس سے یہ سب نہ ہو سکے تو تین دن کے روزے (رکھنا) یہ (تو) تمہاری قسموں کا جرمانہ ہے۔ جب تم قسم کھاؤ (اور پوری نہ کرو) اور اپنی قسموں (کے پورا کرنے ) کا خیال رکھو۔ خدا اپنے احکام کو تمہارے واسطے یوں صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔

۹۰اے ایماندارو شراب اور جوا اور بت اور پاسے تو بس ناپاک (بُرے ) شیطانی کام ہیں تو تم لوگ ان سے بچے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

۹۱شیطان کی تو بس یہی تمنا ہے کہ شراب اور جوئے کی بدولت تم میں باہم عداوت و دشمنی ڈلوا دے اور خدا کی یاد اور نماز سے باز رکھے تو کیا تم اس سے باز آنے والے ہو۔

۹۲اور خدا کا حکم مانو اور رسولؐ کا حکم مانو اور (نافرمانی سے ) بچے رہو۔ اس پر بھی اگر تم نے (حکم خدا سے ) منہ پھیرا تو سمجھ رکھو کہ ہمارے رسولؐ پر بس صاف صاف پیغام دینا فرض ہے۔ (پھر کرو چاہے نہ کرو تم مختار ہو)

۹۳جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام کیے ان پر جو کچھ کھا (پی) چکے اس میں کچھ گناہ نہیں جب انہوں نے پرہیزگاری کی اور ایمان لے آئے اور اچھے (اچھے ) کام کئے پھر پرہیزگاری کی اور ایمان لے آئے پرہیزگاری کی اور نیکیاں کیں اور خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

۹۴اے ایماندارو خدا تمہارا ضرور امتحان کرے گا کچھ شکار سے جن تک تمہارے ہاتھ اور نیزے پہنچ سکتے ہیں تاکہ خدا دیکھ لے کہ اس سے بے دیکھے بھالے کون ڈرتا ہے۔ پھر اس کے بعد بھی جو زیادتی کرے گا تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔

۹۵اے ایماندارو جب تم حالت احرام میں ہو تو شکار نہ مارو اور تم میں سے جو کوئی جان بوجھ کر شکار مارے گا تو جس (جانور) کو مارا ہے چوپاؤں میں سے اس کا مثل تم میں سے جو دو منصف آدمی تجویز کر دیں اس کا بدلہ (دینا) ہو گا (اور) کعبہ تک پہنچا کر قربانی کی جائے یا (اس کا ) جرمانہ (اس کی قیمت سے ) محتاجوں کو کھانا کھلانا یا اس کے برابر روزے رکھنا (یہ جرمانہ اس لیے ہے ) تاکہ اپنے کیے کی سزا کا مزہ چکھے جو ہو چکا اس سے تو خدا نے درگزر کی اور جو پھر ایسی حرکت کرے گا تو خدا اس کی سزا دے گا خدا زبردست بدلہ لینے والا ہے۔

۹۶تمہارے اور قافلہ کے فائدہ کے واسطے دریائی شکار اور اس کا کھانا تو (ہر حالت میں ) تمہارے واسطے جائز کر دیا ہے مگر خشکی کا شکار جب تم حالت احرام میں رہو تم پر حرام ہے اور خدا سے ڈرتے رہو جس کی طرف تم (مرنے کے بعد) اٹھائے جاؤ گے۔

۹۷خدا کے کعبہ کو جو (اس کا) محترم گھر ہے اور حرمت دار مہینوں اور قربانی کو اور اس جانور کو جس کے گلے میں (قربانی کے واسطے ) پٹے ڈال دیئے گئے ہوں لوگوں کے امن قائم رکھنے کا سبب قرار دیا یہ اس لیے کہ تم جان لو کہ خدا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے یقیناً (سب) جانتا ہے اور یہ بھی (سمجھ لو) کہ بے شک خدا ہر چیز سے واقف ہے۔

۹۸جان لو کہ یقیناً خدا بڑا سخت عذاب والا ہے اور یہ (بھی) کہ خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۹۹(ہمارے ) رسولؐ پر پیغام پہنچا دینے کے سوا اور کچھ (فرض) نہیں اور جو کچھ تم ظاہر بظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو خدا سب جانتا ہے۔

۱۰۰(اے رسولؐ) کہہ دو کہ ناپاک (حرام) اور پاک (حلال) برابر نہیں ہو سکتا اگرچہ ناپاک کی کثرت تمہیں بھلی کیوں نہ معلوم ہو۔ تو اے عقل مندو خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب رہو۔

۱۰۱اے ایماندارو ایسی چیزوں کے بارے میں (رسولؐ سے ) نہ پوچھا کرو کہ اگر تم کو معلوم ہو جائیں تو تمہیں بُری معلوم ہوں اور اگر ان کے بارے میں قرآن نازل ہونے کے وقت پوچھ بیٹھو گے تو تم پر ظاہر کر دی جائے گی (مگر تم کو بُرا لگے گا۔ جوسوالات تم کر چکے ) خدا نے ان سے درگزر کی۔ اور خدا بڑا بخشنے والا بُردبار ہے۔

۱۰۲تم سے پہلے بھی لوگوں نے اس قسم کی باتیں (اپنے وقت کے پیغمبروں سے ) پوچھی تھیں پھر (جب تحمل نہ ہو سکا تو) اس کے منکر ہو گئے۔

۱۰۳خدا نے نہ تو کوئی بحیرہ (کن پھٹی اونٹنی) مقرر کیا ہے نہ سائبہ (سانڈھ) نہ وصیلہ (جڑواں بچہ) نہ حام (بڈھا سانڈھ) مگر کفّار خدا پر خواہ مخواہ جھوٹ موٹ بہتان باندھتے ہیں اور ان میں کے اکثر نہیں سمجھتے۔

۱۰۴اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (قرآن) خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف اور رسولؐ کی طرف آؤ (اور جو کچھ کہیں سنومانو) تو کہتے ہیں کہ ہم نے جس (رنگ) میں اپنے باپ دادا کو پایا وہی ہمارے لیے کافی ہے۔ کیا (یہ لوگ لکیر کے فقیر ہی رہیں گے ) اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ جانتے ہی ہوں نہ ہدایت ہی پائی ہو۔

۱۰۵اے ایمان والو تم اپنی خبر لو۔ جب تم راہِ راست پر ہو تو کوئی گمراہ ہوا کرے تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا تم سب کے سب کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب (اس وقت نیک بد) جو کچھ (دنیا میں ) کرتے تھے تمہیں بتا دے گا۔

۱۰۶اے ایمان والو جب تم میں سے کسی (کے سر) پر موت آ کھڑی ہو تو وصیت کے وقت تم (مومنوں ) میں سے دو عادلوں کی گواہی ہونی ضروری ہے یادو گواہ غیر (مومن) ہی سہی (اس وقت) جب تم اتفاقاً کہیں کا سفر کرو اور تم کو موت کی مصیبت کا سامنا ہو جائے (اور) اگر تمہیں شک ہو تو ان دونوں کو نماز کے بعد روک لو پھر وہ دونوں خدا کی قسم کھائیں کہ ہم اس (گواہی) کے عوض کچھ دام نہیں لیں گے (اگرچہ ہم جس کی گواہی دیتے ہیں ہمارا) عزیز ہی (کیوں نہ) ہو اور ہم خدا لگتی گواہی نہ چھپائیں گے، اگر ایسا کریں تو ہم بے شک گنہگار ہیں۔

۱۰۷پھر اگر اس پر اطلاع ہو جائے کہ وہ دونوں (دروغ حلفی سے ) گناہ کے مستحق ہو گئے تو دوسرے دو آدمی ان لوگوں میں سے جن کا حق دیا گیا ہے اور (میت کے ) زیادہ قرابت دار ہیں (ان کی تردید میں ) ان کی جگہ کھڑے ہو جائیں پھر دو نئے گواہ خدا کی قسم کھائیں کہ پہلے دو گواہوں کی نسبت ہماری گواہی زیادہ سچّی ہے اور ہم نے (حق سے یک سر مو) تجاوز نہیں کیا ایسا کیا ہو تو اس وقت بے شک ہم ظالم ہیں۔

۱۰۸یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ اس طرح پر (آخرت کے ڈر سے ) ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا (دنیا کی رسوائی کا) اندیشہ ہو کہ کہیں ہماری قسمیں دوسرے فریق کی قسموں کے بعد رد نہ کر دی جائیں۔ مسلمانو خدا سے ڈرو اور (جی لگا کے ) سن لو اور خدا بد چلن لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔

۱۰۹(اس وقت کو یاد کرو) جس دن خدا (اپنے ) پیغمبروں کو جمع کر کے پوچھے گا کہ تمہیں (تمہاری امت کی طرف سے تبلیغ اسلام کا) کیا جواب دیا گیا تو عرض کریں گے کہ ہم تو(چند ظاہری باتوں کے سوا) کچھ نہیں جانتے تو تو خود بڑا غیب دان ہے۔

۱۱۰(وہ وقت یاد کرو) جب خدا فرمائے گا کہ اے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ ہم نے جو احسانات تم پر اور تمہاری ماں پر کیے انہیں یاد کرو جب ہم نے روح القدس (جبرئیلؑ ) سے تمہاری تائید کی کہ تم جھولے میں (پڑے پڑے ) اور ادھیڑ ہو کر (یکساں ) باتیں کرنے لگے اور جب ہم نے تمہیں لکھنا اور عقل و دانائی کی باتیں اور توریت و انجیل (یہ سب چیزیں ) سکھائیں اور جب تم میرے حکم سے مٹّی سے چڑیا کی مورت بناتے پھر اس پر (کچھ) دم کر دیتے تو وہ میرے حکم سے (سچ مچ) چڑیا بن جاتی تھی۔اور تم میرے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتے تھے اور جب تم میرے حکم سے مردوں کو (زندہ کر کے قبروں سے )نکال کھڑا کرتے تھے اور جس وقت تم بنی اسرائیل کے پاس معجزے لے کر آئے اور اس وقت میں نے ان کو تم (پردست درازی کرنے )سے روکا تو ان میں سے بعض کفّار کہنے لگے یہ تو بس کھلا ہوا جادُو ہے۔

۱۱۱اور جب میں نے حواریوں کو الہام کیا کہ مجھ پر اور میرے رسولؐ پر ایمان لاؤ تو عرض کرنے لگے ہم ایمان لائے اور تو گواہ رہنا کہ ہم تیرے فرماں بردار بندے ہیں۔

۱۱۲(وہ وقت یاد کرو) جب حواریوں نے (عیسیٰؑ سے ) عرض کی کہ اے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کیا آپ کا خدا اس پر قادر ہے کہ ہم پر آسمان سے (نعمت کا) ایک خوان نازل فرمائے عیسیٰؑ نے کہا اگر تم سچّے ایماندار ہو تو خدا سے ڈرو (ایسی فرمائش جس میں امتحان معلوم ہو نہ کرو)

۱۱۳وہ عرض کرنے لگے ہم تو (فقط) یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے (تبرکاً) کچھ کھائیں اور ہمارے دل کو (آپ کی رسالت کا پورا پورا) اطمینان ہو جائے اور یقین کر لیں کہ آپ نے ہم سے (جو کچھ کہا تھا) سچ فرمایا تھا کہ ہم لوگ اس پر گواہ رہیں۔

۱۱۴(تب) مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ نے (بارگاہِ خدا میں ) عرض کی خداوندا اے ہمارے پالنے والے ہم پر آسمان سے ایک خوان (نعمت) نازل فرما کہ وہ دن ہم لوگوں کے لیے ہمارے اگلوں کے لیے اور ہمارے پچھلوں کے لیے عید کا دن قرار پائے (اور ہمارے حق میں ) تیری طرف سے ایک بڑی نشانی ہو اور تو ہمیں روزی دے اور تو سب روزی دینے والوں سے بہتر ہے

۱۱۵خدا نے فرمایا میں خوان تو تم پر ضرور نازل کروں گا مگر (یاد رہے کہ) پھر تم میں سے جو شخص اس کے بعد کافر ہوا تو میں اس کو یقیناً ایسے سخت عذاب کی سزا دوں گا کہ ساری خدائی میں کسی ایک پر بھی ویسا (سخت) عذاب نہ کروں گا۔

۱۱۶اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب (قیامت میں عیسیٰؑ سے ) خدا فرمائے گا کہ (کیوں ) اے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنا لو؟ عیسیٰؑ عرض کریں گے سبحان اللہ میری تو یہ مجال نہ تھی کہ میں ایسی بات منہ سے نکالوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو۔ (اچھا) اگر میں نے کہا ہو گا تو تجھ کو تو ضرور معلوم ہی ہو گا کیونکہ تو میرے دل کی (سب بات) جانتا ہے ہاں البتہ میں تیرے جی کی بات نہیں جانتا۔ (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ تو ہی غیب کی باتیں خوب جانتا ہے۔

۱۱۷تو نے مجھے جو کچھ حکم دیا اس کے سوا تو میں نے ان سے کچھ بھی نہیں کہا (مگر) یہی کہ خدا ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پالنے والا ہے اور جب تک میں ان میں رہا ان کی دیکھ بھال کرتا رہا پھر جب تو نے مجھے (دنیا سے ) اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو تو خود ہر چیز کا گواہ (موجود) ہے

۱۱۸تو اگر ان پر عذاب کرے گا تو (تو مالک ہے ) یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے گا تو (کوئی تیرا ہاتھ نہیں پکڑسکتا کیونکہ) بے شک تو زبردست حکمت والا ہے۔

۱۱۹خدا فرمائے گا کہ یہ دن ہے کہ سچّے بندوں کو ان کی سچائی (آج) کام آئے گی ان کے لیے (ہرے بھرے بہشت کے ) وہ باغات ہیں جن کے (درختوں کے ) نیچے نہریں جاری ہیں (اور) وہ اس میں ابد الآباد تک رہیں گے۔ خدا ان سے راضی اور وہ خدا سے خوش۔ یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔

۱۲۰ سارے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب خدا ہی کی سلطنت ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر (و توانا) ہے۔

٭٭٭

 

 

 

۶۔ سورۃ انعام

 

۱سب تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جس نے بہتیرے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور اس میں مختلف قسموں کی تاریکی اور روشنی بنائی۔ پھر (باوجود اس کے ) کفّار (اوروں کو) اپنے پروردگار کے برابر کرتے ہیں۔

۲وہ تو وہی خدا ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر (تمہارے ) مرنے کا ایک وقت مقرر کر دیا اور (اگرچہ تم کو معلوم نہیں مگر) اس کے نزدیک (قیامت کا) ایک وقت مقرر ہے پھر (بھی) تم شک کرتے ہو

۳اور وہی تو آسمانوں میں (بھی) اور زمین میں (بھی) خدا ہے۔ وہی تمہارے ظاہر و باطن سے (بھی) خبردار ہے اور وہی جو کچھ بھی تم کرتے ہو جانتا ہے۔

۴اور (ان لوگوں کا عجب حال ہے کہ) ان کے پاس خدا کی آیات میں سے جب کوئی آیت آئی تو بس یہ لوگ ضرور اس سے منہ پھیر لیتے تھے۔

۵چنانچہ جب ان کے پاس (قرآن بر) حق آیا تو اس کو بھی جھٹلایا تو یہ لوگ جس کے ساتھ مسخرا پن کر رہے ہیں اس کی حقیقت انہیں عنقریب ہی معلوم ہو جائے گی۔

۶کیا انہیں سوجھتا نہیں کہ ہم نے ان سے پہلے کتنے گروہ (کے گروہ) ہلاک کر ڈالے جن کو ہم نے روئے زمین میں وہ قوتِ قدرت عطا کی جو ابھی تک تم کو نہیں دی اور ہم نے آسمان کو تو ان پر موسلادھار پانی برستا چھوڑ دیا تھا اور ان کے (مکانات کے ) نیچے بہتی ہوئی نہریں بنا دی تھیں (مگر) پھر بھی ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو مار ڈالا اور ان کے بعد ایک دوسرے گروہ کو پیدا کر دیا۔

۷اور (اے رسولؐ) اگر ہم کاغذ پر (لکھی لکھائی) کتاب (بھی)تم پر نازل کرتے اور یہ لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے پھر بھی کفّار (نہ مانتے اور ) کہتے کہ یہ تو بس کھلا ہوا جادُو ہے۔

۸اور (یہ بھی) کہتے کہ اس (نبی) پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا (جو ساتھ ساتھ رہتا) حالانکہ اگر ہم فرشتہ بھیج دیتے تو (ان کا) کام ہی تمام ہو جاتا (اور) پھر انہیں مہلت بھی نہ دی جاتی۔

۹اور اگر ہم فرشتہ کو نبی بناتے تو (آخر) اس کو بھی مرد صورت بناتے اور جو شبہے یہ لوگ کر رہے ہیں وہی (شبہے ) گویا ہم خود ان پر اس وقت بھی اوڑھا دیتے۔

۱۰(اے رسولؐ تم دل تنگ نہ ہو) تم سے پہلے (بھی) پیغمبروں کے ساتھ مسخرا پن کیا گیا ہے پس جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کو اس عذاب نے جس کی یہ لوگ ہنسی اڑاتے تھے گھیر لیا۔

۱۱(اے رسولؐ ان سے ) کہو کہ ذرا روئے زمین پر چل پھر کر دیکھو تو کہ (انبیاء) کے جھٹلانے والوں کا کیا (بُرا) انجام ہوا۔

۱۲( اے رسولؐ ان سے ) پوچھو تو کہ (بھلا) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے کس کا ہے ؟ (وہ کیا جواب دیں گے تم خود) کہہ دو کہ خاص خدا کا ہے۔ اس نے اپنی ذات پر مہربانی لازم کر لی ہے وہ تم سب کو قیامت کے دن جس کے آنے میں کچھ شک نہیں ضرور جمع کرے گا (مگر) جن لوگوں نے اپنا آپ نقصان کیا وہ تو (قیامت پر) ایمان نہ لائیں گے۔

۱۳حالانکہ (یہ نہیں سمجھتے کہ) جو کچھ رات کو اور دن کو (روئے زمین پر) رہتا (سہتا) ہے (سب) خاص اسی کا ہے اور وہی (سب کی) سنتا (اور سب کچھ) جانتا ہے۔

۱۴( اے رسولؐ ) تم کہہ دو کہ کیا خدا کو جو سارے آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے چھوڑ کر دوسرے کو (اپنا) سرپرست بناؤں اور وہی (سب کو) روزی دیتا ہے اور اس کو کوئی روزی نہیں دیتا ( اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والا میں ہوں اور (یہ بھی کہ خبردار) مشرکین سے نہ ہونا۔

۱۵(اے رسولؐ) تم کہو کہ اگر میں اپنے پالنے والے کی نافرمانی کروں تو بے شک ایک بڑے (سخت) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

۱۶اس دن جس (کے سر) سے عذاب ٹل گیا تو(سمجھو کہ) خدا نے اس پر (بڑا) رحم کیا اور یہی تو صریحی کامیابی ہے۔

۱۷اور اگر خدا تم کو کسی قسم کی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہیں ہے اور اگر تمہیں کچھ فائدہ پہنچائے تو بھی (کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ) وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۱۸وہی اپنے تمام بندوں پر غالب ہے اور وہ واقف کار حکیم ہے۔

۱۹(اے رسولؐ) تم پوچھو کہ گواہی میں سب سے بڑھ کر کون چیز ہے (تم خود ہی) کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا گواہ ہے۔ اور میرے پاس یہ قرآن وحی کے طور پر اس لیے نازل کیا گیا تاکہ میں تمہیں اور جسے (اس کی) خبر پہنچے اس کے ذریعے سے ڈراؤں۔ کیا تم یقیناً یہ گواہی دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور دوسرے معبود بھی ہیں۔ (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں تو اس کی گواہی نہیں دیتا (تم دیا کرو) تم ان لوگوں سے کہو کہ وہ تو بس ایک ہی خدا ہے اور جن چیزوں کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں تو ان سے بیزار ہوں۔

۲۰جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے (یہود و نصاریٰ) وہ تو جس طرح اپنے بال بچوں کو پہچانتے ہیں اسی طرح اس نبی (محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) کو بھی پہچانتے ہیں (مگر) جن لوگوں نے اپنا آپ نقصان کیا وہ تو (کسی طرح) ایمان نہ لائیں گے۔

۲۱اور جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا۔ اور ظالموں کو ہرگز نجات نہ ہو گی۔

۲۲اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر جن لوگوں نے شرک کیا ان سے پوچھیں گے کہ جن کو تم (خدا کا) شریک خیال کرتے تھے کہاں ہیں۔

۲۳پھر ان کی کوئی شرارت (باقی) نہ رہے گی بلکہ وہ تو کہیں گے قسم ہے اس خدا کی جو ہمارا پالنے والا ہے ہم کسی کو اس کا شریک نہیں بناتے تھے۔

۲۴(اے رسولؐ بھلا) دیکھو تو یہ لوگ اپنے ہی اوپر آپ کس طرح جھوٹ بولنے لگے اور یہ لوگ(دنیا میں ) جو کچھ افترا پردازی کرتے تھے وہ سب غائب ہو گئی۔

۲۵اور بعض ان میں کے ایسے بھی ہیں جو تمہاری (باتوں کی) طرف کان لگائے رہتے ہیں، اور (ان کی ہٹ دھرمی اس حد کو پہنچی ہے کہ گویا) ہم نے خود ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں بہرہ پن کر دیا ہے کہ اسے سمجھ نہ سکیں۔ اور اگر وہ (خدائی) کے معجزے بھی دیکھ لیں تب بھی ایمان نہ لائیں گے۔ یہاں تک (ہٹ دھرمی پہنچی) کہ جب تمہارے پاس تم سے الجھتے ہوئے آ نکلتے ہیں تو کفّار (قرآن کو لے کر) کہہ بیٹھتے ہیں (کہ بھلا اس میں رکھا ہی کیا ہے ) یہ تو اگلوں کی کہانیوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں،

۲۶اور یہ لوگ(دوسروں کو بھی) اس (کے سننے ) سے روکتے ہیں اور خود تو الگ تھلگ رہتے ہی ہیں۔ اور (ان باتوں سے ) پس آپ ہی اپنے کو ہلاک کرتے ہیں اور (افسوس) سمجھتے نہیں

۲۷اور (اے رسولؐ) اگر تم ان لوگوں کو اس وقت دیکھتے (تو تعجب کرتے ) جب جہنم (کے کنارے ) پر لا کر کھڑے کیے جائیں گے تو (اسے دیکھ کر) کہیں گے اے کاش ہم (دنیا میں ) پھر (دوبارہ) لوٹا دیئے جاتے اور اپنے پروردگار کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے اور ہم مومنین سے ہوتے۔

۲۸(مگر ان کی آرزو پوری نہ ہو گی) بلکہ جو (بے ایمانی) پہلے سے چھپاتے تھے آج (اُس کی حقیقت) ان پر کھل گئی اور (ہم جانتے ہیں کہ) اگر یہ لوگ (دنیا میں ) لوٹا دیئے جائیں تو بھی جس چیز کی منا ہی کی گئی ہے اسے کریں ( اور ضرور کریں )اور اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ ضرور جھوٹے ہیں

۲۹اور کفّار یہ بھی تو کہتے ہیں کہ ہماری اس دنیاوی زندگی کے سوا کچھ بھی نہیں اور (قیامت وغیرہ سب ڈھکوسلا ہے ) ہم (مرنے کے بعد) اٹھائے ہی نہ جاویں گے۔

۳۰اور (اے رسولؐ) اگر تم ان کو اس وقت دیکھو (تو تعجب کرو گے جب یہ لوگ خدا کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور خدا (ان سے ) پوچھے گا کہ کیا یہ (قیامت کا دن) اب بھی صحیح نہیں ہے وہ جواب میں کہیں گے کہ اپنے پروردگار کی قسم ہاں بالکل سچ ہے تب خدا فرمائے گا کہ تم چونکہ (دنیا میں اس سے ) انکار کرتے تھے اس کی سزا میں عذاب کے مزے چکھو۔

۳۱بے شک جن لوگوں نے قیامت کے دن خدا کی حضوری کو جھٹلا یا وہ بڑے گھاٹے میں ہیں یہاں تک کہ جب ان کے سر پر قیامت ناگہاں پہنچے گی تو کہنے لگیں گے اے ہے افسوس ہم نے تو اس میں بڑی کوتاہی کی (یہ کہتے جائیں گے ) اور اپنے گناہوں کا پشتا رہ اپنی اپنی پیٹھ پر لادتے جائیں گے۔ دیکھو تو (یہ) کیا بُرا بوجھ ہے جس کو یہ لادے (لادے پھر رہے ) ہیں۔

۳۲اور (یہ) دنیاوی زندگی تو کھیل تماشے کے سوا کچھ بھی نہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ آخرت کا گھر (بہشت) پرہیزگاروں کے لیے ہے اس سے بدر جہا بہتر ہے۔ تو کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔

۳۳ہم خوب جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی بک بک تم کو صدمہ پہنچاتی ہے تو (تم کو سمجھنا چاہیے کہ) یہ لوگ تم کو نہیں جھٹلاتے بلکہ (یہ) ظالم (حقیقتاً) خدا کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں

۳۴اور (کچھ تم ہی پر انحصار نہیں ) تم سے پہلے بھی بہتیرے رسولؐ جھٹلائے جا چکے ہیں تو انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے اور اذیت (و تکلیف) پر صبر کیا یہاں تک کہ ہماری مدد اُن کے پاس آئی۔ (اور کیوں نہ آتی) خدا کی باتوں کا بدلنے والا کوئی نہیں ہے۔ اور پیغمبروں کے حالات تو تمہارے پاس پہنچ ہی چکے ہیں۔

۳۵اگرچہ ان لوگوں کی رُوگردانی تم پر شاق ضرور ہے (لیکن) اگر تمہارا بس چلے تو زمین کے اندر کوئی سرنگ ڈھونڈھ نکالو یا آسمان میں کوئی سیڑھی لگاؤ اور انہیں کوئی معجزہ لا دکھاؤ (تو یہ بھی کر دیکھو) اگر خدا چاہتا تو ان سب کو راہِ راست پر اکٹھا کر دیتا (مگر وہ تو امتحان کرتا ہے ) پس(دیکھو) تم ہرگز جاہلوں میں (شامل) نہ ہونا۔

۳۶(تمہارا کہنا تو) صرف وہی لوگ مانتے ہیں جو (گوش دل سے ) سنتے ہیں۔ اور مردوں کو تو خدا (قیامت ہی میں ) اٹھائے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

۳۷اور کفّار کہتے ہیں کہ (آخر) اس نبی پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل ہوتا تو تم (ان سے ) کہہ دو کہ خدا معجزے کے نازل کرنے پر ضرور قادر ہے مگر ان میں کے اکثر لوگ (خدا کی مصلحتوں کو) نہیں جانتے۔

۳۸اور زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان) یا اپنے دونوں پروں سے اڑنے والا پرندہ ہے ان کی بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں (اور سب کے سب لوح محفوظ میں موجود ہیں ) ہم نے کتاب (قرآن) میں کوئی بات فروگزاشت نہیں کی ہے پھر سب کے سب (چرند ہوں یا پرند) اپنے پروردگار کے حضور میں لائے جائیں گے۔

۳۹اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا گویا وہ (کفر کے گھٹا ٹوپ) اندھیرے میں گونگے بہرے (پڑے ) ہیں۔ خدا جسے چاہے اسے گمراہی میں چھوڑ دے اور جسے چاہے اُسے سیدھے ڈھرّے پر لگا دے۔

۴۰(اے رسولؐ ان سے ) پوچھو تو کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اگر تمہارے سامنے خدا کا عذاب آ جائے یا تمہارے سامنے قیامت ہی آ کھڑی موجود ہو تو تم اگر (اپنے دعوے میں ) سچّے ہو تو (بتاؤ کہ مدد کے واسطے ) کیا خدا کو چھوڑ کر دوسرے کو پکارو گے۔

۴۱(دوسروں کو تو کیا) بلکہ اسی کو پکارو گے پھر اگر وہ چاہے گا تو جس کے واسطے تم نے اس کو پکارا ہے اسے دفع کر دے گا اور (اس وقت) تم دوسرے معبودوں کو جنہیں تم (خدا کا) شریک سمجھتے تھے بھول جاؤ گے۔

۴۲اور (اے رسولؐ) جو امتیں تم سے پہلے گزر چکی ہیں ہم ان کے پاس بھی بہتیرے رسولؐ بھیج چکے ہیں پھر (جب نافرمانی کی تو) ہم نے ان کو سختی اور تکلیف میں گرفتار کیا تاکہ وہ لوگ (ہماری بارگاہ میں ) گڑگڑائیں

۴۳تو جب ان (کے سر)پر ہمارا عذاب آ کھڑا ہوا تو وہ لوگ کیوں نہیں گڑگڑائے (کہ ہم عذاب دفع کر دیتے ) مگر ان کے دل تو سخت ہو گئے تھے اور ان کی کارستانیوں کو شیطان نے آراستہ کر دکھایا تھا (پھر کیوں کر گڑگڑاتے )

۴۴پھر جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی جب اس کو بھول گئے تو ہم نے ان پر (ڈھیل دینے کے لیے ) ہر طرح کی دنیاوی نعمتوں کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جو نعمتیں ان کو دی گئی تھیں جب ان کو پا کر خوش ہوئے تو ہم نے انہیں ناگہاں لے ڈالا۔ تو اس وقت وہ نا اُمید ہو کر رہ گئے۔

۴۵پھر ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اور سارے جہانوں کے مالک خدا کا شکر ہے۔ (کہ قصّہ پاک ہوا۔)

۴۶(اے رسولؐ ان سے ) پوچھو تو کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اگر خدا تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو خدا کے سوا اور کون معبود ہے جو (پھر) تمہیں یہ نعمتیں (واپس) دے (اے رسولؐ) دیکھو تو ہم کس طرح اپنی دلیلیں بیان کرتے ہیں اس پر بھی وہ لوگ منہ موڑے جاتے ہیں۔

۴۷(اے رسولؐ ان سے ) پوچھو کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اگر تمہارے سر پر خدا کا عذاب بے خبری میں یا آشکارا آ جائے تو کیا گنہگاروں کے سوا اور لوگ بھی ہلاک کیے جائیں گے۔ (ہرگز نہیں )۔

۴۸اور ہم تو رسولوں کو صرف اس غرض سے بھیجتے ہیں کہ (نیکوں کو جنّت کی) خوشخبری دیں اور (بدوں کو عذاب جہنم سے ) ڈرائیں پھر جس نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے ) کام کیے تو ایسے لوگوں پر (قیامت میں )نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

۴۹اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو چونکہ بدکاری کرتے تھے (ہمارا) عذاب ان کو لپٹ جائے گا۔

۵۰(اے رسولؐ ان سے ) کہہ دو کہ میں تو یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں (کہ ایمان لانے پر دے دوں گا) اور نہ میں غیب (کے کل حالات) جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو بس جو (خدا کی طرف سے ) میرے پاس وحی کی جاتی ہے اس کا پابند ہوں۔ (ان سے ) پوچھو تو کہ اندھا اور آنکھ والا برابر ہو سکتا ہے۔ تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سوچتے

۵۱اور اس قرآن کے ذریعے سے تم ان لوگوں کو ڈراؤ جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ وہ (مرنے کے بعد) اپنے خدا کے سامنے جمع کیے جائیں گے (اور یہ سمجھتے ہیں کہ) ان کا خدا کے سوا نہ کوئی سرپرست ہے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا تاکہ یہ لوگ پرہیزگار بن جائیں۔

۵۲اور (اے رسولؐ ) جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار سے اس کی خوشنودی کی تمنا میں دعائیں مانگا کرتے ہیں ان کو اپنے پاس سے نہ دھتکارو۔ نہ ان (کے حساب و کتاب) کی جواب دہی تمہارے ذمّہ ہے اور نہ تمہارے (حساب و کتاب کی) جوابدہی کچھ ان کے ذمّہ ہے تاکہ تم انہیں (اس خیال سے ) دھتکار بتاؤ تو تم ظالموں (کے شمار میں ) ہو جاؤ گے۔

۵۳اور اسی طرح ہم نے بعض آدمیوں کو بعض سے آزمایا تاکہ وہ لوگ کہیں کہ (ہائیں ) کیا یہ لوگ ہم میں سے ہیں جن پر خدا نے اپنا فضل و کرم کیا ہے (یہ تو سمجھتے ہیں ) کیا خدا شکر گزاروں کو بھی نہیں جانتا۔

۵۴اور جو لوگ ہماری آیتوں پر ایمان لائے ہیں تمہارے پاس آئیں تو تم سلام علیکم (تم پر پر خدا کی سلامتی) کہو تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم کر لی ہے بے شک تم میں سے جو شخص نادانی سے کوئی گناہ کر بیٹھے اس کے بعد پھر توبہ کرے اور اپنی حالت کی صلاح کرے ( تو خدا اس کا گناہ بخش دے گا کیونکہ) وہ تو یقینی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۵۵اور ہم (اپنی) آیتوں کو یوں تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ گنہگاروں کی راہ (سب پر) کھل جائے (اور وہ اس پر نہ چلیں )

۵۶(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ مجھ سے اس کی مناہی کی گئی ہے کہ میں خدا کو چھوڑ کر ان معبودوں کی عبادت کروں جن کو تم پوجا کرتے ہو۔ (یہ بھی) کہہ دو کہ میں تو تمہاری (نفسانی) خواہشوں پر چلنے کا نہیں (ورنہ) پھر تو میں گمراہ ہو جاؤں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہوں گا۔

۵۷تم کہہ دو کہ میں تو اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا۔ (تو) تم جس (عذاب)کی جلدی کرتے ہو وہ کچھ میرے پاس (اختیار میں ) تو ہے نہیں حکومت تو بس صرف خدا ہی کے لیے ہے۔ وہ تو حق (حق) بیان کرتا ہے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔

۵۸(ان لوگوں سے ) کہہ دو کہ جس (عذاب) کی تم جلدی کرتے ہو اگر وہ میرے پاس (اختیار میں ) ہوتا تو میرے اور تمہارے درمیان کا فیصلہ کب نہ کب چک گیا ہوتا اور خدا تو ظالموں سے خوب واقف ہے

۵۹اور اس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو کچھ خشکی اور تری میں ہے اس کو (بھی) وہی جانتا ہے اور کوئی پتّا بھی نہیں گِرتا مگر وہ اسے ضرور جانتا ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ اور اور نہ کوئی ہری اور نہ کوئی خشک چیز ہے مگر یہ کہ وہ نورانی کتاب (لوح محفوظ) میں موجود ہے۔

۶۰وہ وہی (خدا) ہے جو تمہیں رات کو (نیند میں ایک طرح پر دنیا سے ) اٹھا لیتا ہے اور جو کچھ تم نے دن کو کیا ہے جانتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا کھڑا کرتا ہے تاکہ (زندگی کی) وہ میعاد جو (اس کے علم میں ) معین ہے پوری کی جائے پھر (تو آخر) تم سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے پھر جو کچھ تم (دنیا میں بھلا یا بُرا) کرتے ہو تمہیں بتا دے گا۔

۶۱وہ اپنے بندوں پر غالب ہے وہ تم لوگوں پر نگہبان (فرشتے تعینات کر کے ) بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو ہمارے فرستادہ (فرشتے ) اِس کو (دنیا سے ) اٹھا لیتے ہیں اور وہ (ہمارے تعمیل حکم میں ذرا بھی) کوتاہی نہیں کرتے۔

۶۲پھر یہ لوگ اپنے سچّے مالک خدا کے پاس واپس بلا لیے گئے۔ آگاہ رہو کہ حکومت خاص اسی کے لیے ہے اور وہ سب سے زیادہ جلد حساب لینے والا ہے۔

۶۳(اے رسولؐ ان سے ) پوچھو کہ تم کو خشکی اور تری کے (گھٹا ٹوپ) اندھیروں سے کون چھٹکارا دیتا ہے جس سے تم گڑ گڑا کر اور چپکے (چپکے ) دعائیں مانگتے ہو۔ کہ اگر وہ ہمیں (اب کی دفعہ) اس (بلا) سے چھٹکارا دے تو ہم ضرور اس کے شکر گزار (بندے ہو کر) رہیں گے۔

۶۴تم کہو ان (مصیبتوں ) اور ہر بلا سے خدا تمہیں نجات دیتا ہے (مگر افسوس) اس پر بھی تم شرک کرتے ہی جاتے ہو۔

۶۵(اے رسول) تم کہہ دو وہی اس پر اچھی طرح قابو رکھتا ہے کہ (اگر چاہے تو) تم پر عذاب تمہارے (سر کے ) اوپر سے نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (اٹھا کر کھڑا کر دے ) یا ایک گروہ کو دوسرے سے بھڑا دے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو بعض آدمیوں کی لڑائی کا مزا چکھا دے۔ ذرا غور تو کرو کہ ہم کس کس طرح اپنی آیتوں کو الٹ پلٹ کے بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں۔

۶۶اور اسی (قرآن) کو تمہاری قوم نے جھٹلا دیا حالانکہ وہ برحق ہے۔ (اے رسولؐ) تم ان سے کہو کہ میں تم پر کچھ نگہبان تو ہوں نہیں۔

۶۷ہر خبر (کے پورا ہونے ) کا ایک خاص وقت مقرر ہے اور عنقریب ہی تم جان لو گے۔

۶۸اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں میں بے ہودہ بحث کر رہے ہیں تو ان (کے پاس) سے ٹل جاؤ یہاں تک کہ وہ لوگ اس کے سوا کسی اور بات میں بحث کرنے لگیں۔ اور اگر (ہمارا یہ حکم) تمہیں شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ ہرگز نہ بیٹھنا۔

۶۹اور ایسے لوگوں (کے حساب کتاب) کی جواب دہی کچھ پرہیزگاروں پر تو ہے نہیں مگر (صرف نصیحتاً) یاد دلانا (چاہیے ) تاکہ یہ لوگ بھی پرہیزگار بنیں۔

۷۰اور ایسے لوگوں کو چھوڑو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ اور (موقعہ موقعہ سے ) قرآن کے ذریعے سے ان کو نصیحت کرتے رہو (ایسا نہ ہو) کہ کوئی شخص اپنے کرتوت کی بدولت مبتلائے بلا ہو جائے (کیونکہ اس وقت تو) خدا کے سوا اس کا نہ کوئی سرپرست ہو گا نہ سفارشی اور اگر وہ (اپنے گناہ کے عوض) سارے جہان کا بدلہ بھی دے تو بھی ان میں سے ایک نہ لیا جائے گا جو لوگ اپنی کرنی کی بدولت مبتلائے بلا ہوئے ہیں ان کو پینے کے لیے کھولتا ہوا گرم پانی ملے گا اور ان پر دردناک عذاب ہو گا کیونکہ وہ کفر کیا کرتے تھے۔

۷۱(اے رسولؐ) ان سے پوچھو تو کہ کیا ہم لوگ خدا کو چھوڑ کر ان (معبودوں ) سے مناجات کریں جو نہ ہمیں نفع پہنچا سکتے ہیں نہ ہمارا کچھ بگاڑ ہی سکتے ہیں اور جب خدا ہماری ہدایت کر چکا اس کے بعد اُلٹے پاؤں کفر کی طرف اس شخص کی طرح پھر جائیں جسے شیطانوں نے جنگل میں بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران (پریشان) ہو (کہ کہاں جائے کیا کرے ) اور اس کے کچھ رفیق ہوں کہ اسے راہِ راست کی طرف پکارتے رہ جائیں کہ (ادھر) ہمارے پاس آؤ (اور وہ ایک نہ سنے ) (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ ہدایت تو بس خدا ہی کی ہے اور ہمیں تو حکم ہی دیا گیا ہے کہ ہم سارے جہان کے پروردگار خدا کے فرمانبردار بندے رہیں

۷۲اور یہ (بھی حکم ہوا ہے ) کہ پابندی سے نماز پڑھا کرو اور اسی سے ڈرتے رہو۔ اور وہی تو وہ (خدا) ہے جس کے حضور میں تم سب کے سب حاضر کیے جاؤ گے۔

۷۳اور وہی تو وہ (خدا ہی) جس نے ٹھیک بہتیرے آسمان و زمین پیدا کیے اور جس دن (کسی چیز کو) کہتا ہے کہ ہو جا تو (فوراً) ہو جاتی ہے اس کا قول سچا ہے اور جس دن صور پھونکا جائے گا (اُس دن) خاص اسی کی بادشاہت ہو گی (وہی) غائب و حاضر (سب) کا جاننے والا ہے۔ اور وہی دانا واقف کار ہے۔

۷۴(اے رسولؐ اس وقت کو یاد کرو) جب ابراہیمؑ نے اپنے (منہ بولے ) باپ آزر سے کہا کہ تم بتوں کو خدا مانتے ہو میں تو تم کو اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔

۷۵اور (جس طرح ہم نے ابراہیمؑ کو دکھایا تھا کہ بت قابل پرستش نہیں ) اسی طرح ہم ابراہیمؑ کو سارے آسمان اور زمین کی سلطنت کا انتظام دکھاتے رہے تاکہ وہ (ہماری وحدانیت کا) یقین کرنے والوں سے ہو جائیں۔

۷۶تو جب ان پر رات کی تاریکی چھا گئی تو ایک ستارہ کو دیکھا تو دفعتاً بول اٹھے۔ (ہائیں کیا) یہی میرا خدا ہے پھر جب وہ غروب ہو گیا تو کہنے لگے غروب ہو جانے والی چیز کو تو میں (خدا بنانا) پسند نہیں کرتا۔

۷۷پھر جب چاند کو جگمگاتا ہوا دیکھا تو بول اُٹھے (کیا) یہی میرا خدا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہنے لگے کہ اگر (کہیں ) میرا (اصلی) پروردگار میری ہدایت نہ کرتا تو میں ضرور گمراہ لوگوں میں ہو جاتا۔

۷۸پھر جب آفتاب کو دہکتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے (کیا) یہی میرا خدا ہے یہ تو سب سے بڑا (بھی) ہے پھر جب یہ بھی غروب ہو گیا تو کہنے لگے اے میری قوم جن جن چیزوں کو تم لوگ (خدا کا) شریک بناتے ہو ان سے میں بیزار ہوں۔ (یہ ہرگز خدا نہیں ہو سکتے )۔

۷۹میں نے تو باطل سے کترا کر اس کی طرف اپنا منہ کر لیا ہے جس نے بہتیرے آسمان اور زمین پیدا کیے اور میں مشرکین سے نہیں ہوں۔

۸۰اور ان کی قوم کے لوگ ان سے حجت کرنے لگے۔ تو ابراہیمؑ نے کہا تھا کیا تم مجھ سے خدا کے بارے میں حجت کرتے ہو حالانکہ وہ یقینی میری ہدایت کر چکا۔ اور تم جن بتوں کو اس کا شریک مانتے ہو میں ان سے ڈرتا (ورتا) نہیں (وہ میرا کچھ نہیں کرسکتے ) مگر ہاں میرا خدا خود (کرنا) چاہے تو البتہ (کرسکتا ہے )میرا پروردگار تو باعتبار علم کے سب پر حاوی ہے کیا اس پر بھی تم نصیحت نہیں مانتے

۸۱اور جنہیں تم خدا کا شریک بناتے ہو میں اُن سے کیوں ڈروں جب تم اس بات سے نہیں ڈرتے ہو کہ تم نے خدا کا شریک ایسی چیزوں کو بنایا ہے جن کی خدا نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی۔ پھر اگر تم جانتے ہو تو (بھلا بتاؤ تو سہی کہ) ہم دونوں فریق میں امن قائم رکھنے کا زیادہ حقدار کون ہے۔

۸۲جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اپنے ایمان کو ظلم (شرک سے ) آلودہ نہیں کیا انہی لوگوں کے لیے امن (و اطمینان) ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

۸۳اور یہ ہماری (سمجھائی بجھائی) دلیلیں ہیں جو ہم نے ابراہیمؑ کو اپنی قوم پر (غالب آنے کے لیے ) عطا کی تھیں۔ ہم جس کے مرتبے چاہتے ہیں بلند کرتے ہیں۔ بے شک تمہارا پروردگار حکمت والا باخبر ہے۔

۸۴اور ہم نے ابراہیمؑ کو اسحاقؑ و یعقوبؑ (سا بیٹا، پوتا) عطا کیا۔ ہم نے سب کی ہدایت کی اور ان سے پہلے نوحؑ کی (بھی) ہم ہی نے ہدایت کی اور ان ہی (ابراہیمؑ) کی اولاد سے داؤدؑ وسلیمانؑ و ایوبؑ و یوسفؑ و موسیٰؑ و ہارونؑ (سب کی ہم نے ہدایت کی) اور نیکوکاروں کو ہم ایسا ہی صلہ عطا فرماتے ہیں۔

۸۵اور زکریاؑ و یحییٰ و عیسیٰؑ و الیاس (سب کی ہدایت کی) اور یہ سب (خدا کے ) نیک بندوں سے ہیں۔

۸۶اور اسماعیلؑ و الیسع و یونسؑ و لوطؑ(کی بھی ہدایت کی) اور سب کو سارے جہانوں پر فضیلت عطا کی

۸۷اور (صرف انہی کو نہیں بلکہ) بلکہ ان کے باپ داداؤں اور ان کی اولاد اور ان کے بھائی بندوں میں سے (بہتیروں کو) اور ان کو منتخب کیا اور انہیں سیدھی راہ کی ہدایت کی۔

۸۸(دیکھو) یہ خدا کی ہدایت ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی وجہ سے راہ پر لائے اور اگر ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کا کیا(دھرا) سب اکارت ہو جاتا۔

۸۹یہ (پیغمبر) وہ لوگ تھے جن کو ہم نے (آسمانی) کتاب اور عقل کامل اور نبوت عطا فرمائی۔ پس اگر یہ لوگ اسے بھی نہ مانیں تو (کچھ پرواہ نہیں ) ہم نے تو ان پر ایسے لوگوں کو مقرر کر دیا ہے جو (ان کی طرح) انکار کرنے والے نہیں۔

۹۰(یہ اگلے پیغمبر) وہ لوگ تھے جن کی خدا نے ہدایت کی پس تم بھی ان کی ہدایت کی پیروی کرو (اے رسولؐ ان سے ) کہو کہ میں تم سے اس (رسالت)کی مزدوری کچھ نہیں چاہتا۔ یہ توسارے جہان کے لیے صرف نصیحت ہے اور بس

۹۱اور ان لوگوں (یہود) نے خدا کی جیسی قدر کرنی چاہیے نہ کی اس لیے کہ ان لوگوں نے (بیہودہ پن سے ) یہ کہہ دیا کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل ہی نہیں کیا (اے رسولؐ) تم پوچھو تو کہ پھر وہ کتاب سے جسے موسیٰ ؑ لے کر آئے تھے کس نے نازل کی جو لوگوں کے لیے روشنی اور (ازسرتاپا) ہدایت (ہی ہدایت) تھی جسے تم لوگوں نے الگ الگ کر کے کاغذی اوراق بنا ڈالے اور اس میں کا کچھ حصّہ (جو تمہارے مطلب کا ہے وہ) تو ظاہر کرتے ہو اور بہتیرے کو (جو خلاف مدعا ہے ) چھپاتے ہو حالانکہ (اسی کتاب کے ذریعے سے ) تمہیں وہ باتیں سکھائی گئیں جنہیں نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا۔ (اے رسولؐ وہ تو جواب دیں گے نہیں ) تم ہی کہہ دو کہ خدا نے (نازل فرمائی) اس کے بعد انہیں چھوڑ دو کہ (پڑے جھک مارا کریں اور ) اپنی تو تو مَیں مَیں میں کھیلتے پھریں

۹۲اور یہ قرآن بھی وہ کتاب ہے اسے ہم نے بابرکت نازل کیا ہے اور اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو اس کے سامنے (پہلے سے ) موجود ہے اور اس واسطے نازل کیا ہے تاکہ تم (اس کے ذریعے سے ) اہل مکہ اور اس کے اطراف کے رہنے والوں کو (خوف خدا سے ) ڈراؤ اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو اس پر (بے تامل) ایمان لاتے ہیں اور وہی اپنی اپنی نماز میں بھی پابندی کرتے ہیں

۹۳اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو خدا پر جھوٹ موٹ افترا کر کے کہے کہ میرے پاس وحی آئی ہے حالانکہ اس کے پاس وحی وغیرہ کچھ بھی نہیں آئی یا وہ شخص دعویٰ کرے کہ جیسا قرآن خدا نے نازل کیا ہے ویسا میں بھی (ابھی) عنقریب نازل کیے دیتا ہوں اور (اے رسولؐ) کاش تم دیکھتے کہ یہ ظالم موت کی سختیوں میں پڑے ہیں اور فرشتے ان کی طرف (جان نکالنے کے لیے ) ہاتھ لپکا رہے ہیں (اور کہتے جاتے ہیں ) کہ اپنی جانیں نکالو آج ہی تم کو رسوائی کے عذاب کی سزا دی جائے گی کیونکہ تم خدا پر ناحق (ناحق) جھوٹ جوڑا کرتے تھے اور اس کی آیتوں (کو سن کر ان) سے اکڑا کرتے تھے۔

۹۴اور آخر تم ہمارے پاس اسی طرح تنہا آئے (نا) جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور جو (مال اولاد) ہم نے تم کو دیا تھا وہ سب اپنے پس پشت چھوڑ آئے اور تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارش کرنے والوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کو تم خیال کرتے تھے کہ وہ تمہاری (پرورش وغیرہ) میں ہمارے ساجھے دار ہیں۔ اب تو تمہارے باہمی تعلقات منقطع ہو گئے اور جو کچھ تم خیال کرتے تھے وہ سب تم سے غائب ہو گئے۔

۹۵خدا ہی تو گٹھلی اور دانہ کو شگافتہ (کر کے درخت روئیدہ) کرتا ہے۔ وہی زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور وہی مردہ کو سے زندہ کو نکالنے والا ہے (لوگو) وہی تمہارا خدا ہے پھر تم کدھر بہکے جا رہے ہو۔

۹۶ اسی نے صبح کی پو پھاڑی اور اس نے آرام کے لیے رات اور حساب کے لیے سورج اور چاند بنائے یہ خدائے غالب و دانا کے مقرر کردہ (اصول) ہیں۔

۹۷اور وہی وہ خدا ہے جس نے تمہارے (نفع کے ) واسطے ستارے پیدا کیے تاکہ تم جنگلوں اور دریاؤں کی تاریکیوں میں ان سے راہ معلوم کرو۔ جو لوگ واقف کار ہیں ان کے لیے ہم نے (اپنی قدرت کی) نشانیاں خوب تفصیل سے بیان کر دی ہیں

۹۸اور وہ وہی خدا ہے جس نے تم لوگوں کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر (ہر شخص کے ) قرار کی جگہ (باپ کی پشت) اور سونپنے کی جگہ (ماں کا پیٹ) مقرر ہے ہم نے سمجھداروں کے واسطے (اپنی قدرت کی) نشانیاں خوب تفصیل سے بیان کر دی ہیں

۹۹اور وہ ہی (قادر و توانا) ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر ہم نے اس کے ذریعے سے ہر چیز کے کوئے نکالے پھر ہم ہی نے اس سے ہری بھری ٹہنیاں نکالیں کہ اس سے ہم باہم گتھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور چھوہارے کے بور (شجر) سے لٹکے ہوئے گچھے (پیدا کیے ) اور انگور اور زیتون اور انار کے باغات جو باہم صورت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے اور (مزے میں ) جدا جدا۔ جب یہ پھلے اور پکے تو اس کے پھل کی طرف غور تو کرو۔ بے شک اس میں ایماندار لوگوں کے لیے بہت سی (خدا کی) نشانیاں ہیں۔

۱۰۰اور ان (کم بختوں ) نے جنات کو خدا کا شریک بنایا حالانکہ جنات کو بھی خدا ہی نے پیدا کیا۔ اس پھر ان لوگوں نے بے سمجھے بوجھے خدا کے لیے بیٹے بیٹیاں گڑھ ڈالیں۔ جو جو باتیں یہ لوگ (اس کی شان میں ) بیان کرتے ہیں اس سے وہ پاک و پاکیزہ اور برتر ہے۔

۱۰۱سارے آسمان اور زمین کا موجد ہے اس کے کوئی لڑکا کیوں کر ہو سکتا ہے جب اس کو کوئی بیوی ہی نہیں ہے۔ اور اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا اور وہی ہر چیز سے خوب واقف ہے۔

۱۰۲(لوگو) وہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے تو اسی کی عبادت کرو اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔

۱۰۳اس کو آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں (نہ دنیا میں نہ آخرت میں )اور وہ (لوگوں کی) نظروں کو خوب دیکھتا ہے اور وہ بڑا باریک بین و خبردار ہے۔

۱۰۴تمہارے پاس تو سمجھانے والی چیزیں آ ہی چکی ہیں پھر جو دیکھے (سمجھے تو) اپنے دم کے لیے۔ اور جو اندھا بنے تو (اس کا ضرر بھی) خود اس پر ہے۔ اور (اے رسولؐ ان سے کہہ دو کہ) میں تم لوگوں کا کچھ نگہبان تو ہوں نہیں۔

۱۰۵اور ہم اپنی آیتیں یوں اُلٹ پھیر کر بیان کرتے ہیں (تاکہ حجت تمام ہو) اور تاکہ وہ لوگ زبانی بھی اقرار کر لیں کہ تم نے (قرآن ان کے سامنے ) پڑھ دیا اور تاکہ جو لوگ جانتے ہیں ان کے لیے (قرآن کو) خوب واضح کر کے بیان کر دیں

۱۰۶جو کچھ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے وحی کی جائے بس اسی پر چلو اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور مشرکوں سے کنارہ کش رہو

۱۰۷اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ شرک ہی نہ کرتے اور ہم نے تم کو ان لوگوں کا نگہبان تو بنایا نہیں ہے اور نہ تم ان کے ذمہ دار ہو۔

۱۰۸اور یہ (مشرکین) جن کی اللہ کے سوا (خدا سمجھ کر) عبادت کرتے ہیں انہیں تم بُرا نہ کہا کرو ورنہ یہ لوگ بھی خدا کو بے سمجھے عداوت سے بُرا بھلا کہہ بیٹھیں گے (اور لوگ اپنی خواہش نفسانی کے ) اس طرح (پابند ہوئے کہ گویا) ہم نے خود ہر گروہ کے اعمال ان کو سنوار کر اچھے کر دکھائے پھر انہیں تو (آخرکار) اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب جو کچھ دنیا میں کر رہے تھے خدا انہیں بتائے گا۔

۱۰۹اور ان لوگوں نے خدا کی سخت سخت قسمیں کھائیں کہ اگر ان کے پاس کوئی معجزہ آئے تو وہ ضرور اس پر ایمان لائیں گے (اے رسولؐ) تم کہو کہ معجزے تو بس خدا ہی کے پاس ہیں اور تمہیں کیا معلوم یہ یقینی بات ہے کہ جب معجزہ بھی آئے گا تو بھی یہ ایمان نہ لائیں گے۔

۱۱۰اور ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں اُلٹ پلٹ دیں گے جس طرح یہ لوگ قرآن پر پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں چھوڑ دیں گے کہ سرگرداں رہیں۔

۱۱۱اور (اے رسولؐ سچ تو یوں ہے کہ) ہم اگر ان کے پاس فرشتے بھی نازل کرتے اور ان سے مردے بھی باتیں کرنے لگتے اور تمام (مخفی) چیزیں (جیسے جنت و نار وغیرہ) گروہ گروہ ان کے سامنے لا کھڑے کرتے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر جب اللہ چاہے لیکن ان میں کے اکثر نہیں جانتے۔

۱۱۲اور اے رسولؐ جس طرح یہ کفّار تمہارے دشمن ہیں ) اسی طرح (گویا) ہم نے (خود آزمائش کے لیے ) شریر آدمیوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا وہ لوگ ایک دوسرے کو فریب دینے کی غرض سے چکنی چپڑی باتوں کی سرگوشی کرتے ہیں اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو یہ لوگ ایسی حرکت نہ کرنے پاتے تو ان کو اور ان کی افترا پردازیوں کو چھوڑ دو۔

۱۱۳اور (یہ سرگوشیاں اس لیے تھیں ) تاکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل ان (کی شرارت) کی طرف مائل ہو جائیں اور انہیں پسند کریں اور تاکہ جو جو افترا پردازیاں یہ لوگ خود کرتے ہیں وہ بھی کرنے لگیں۔

۱۱۴کیا (تم یہ چاہتے ہو کہ) میں خدا کو چھوڑ کر کسی اور ثالث کو تلاش کروں حالانکہ وہ خدا ہے جس نے تمہارے پاس واضح کتاب نازل کی اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ یقینی طور پر جانتے ہیں کہ یہ (قرآن بھی) تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق نازل کیا گیا ہے تو تم (کہیں ) شک کرنے والوں سے نہ ہو جانا۔

۱۱۵اور سچائی اور انصاف میں تو تمہارے پروردگار کی بات پوری ہو گئی۔ کوئی اس کی باتوں کا بدلنے والا نہیں اور وہی بڑا سننے والا اور واقف کار ہے۔

۱۱۶اور (اے رسولؐ)دنیا میں تو بہتیرے لوگ ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے کہنے پر چلو تو تم کو خدا کی راہ سے بہکا دیں یہ لوگ تو صرف اپنے خیالات کی پیروی کرتے ہیں اور یہ لوگ تو بس اٹکل پچو باتیں کیا کرتے ہیں۔

۱۱۷(تم کیا جانو) جو لوگ اس کی راہ سے بہکے ہوئے ہیں ان کو (کچھ) خدا ہی خوب جانتا ہے۔ اور وہ تو ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی خوب واقف ہے۔

۱۱۸تو اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو جس ذبیحہ پر (بوقت ذبح) خدا کا نام لیا گیا ہو اسی کو کھاؤ۔

۱۱۹اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جس پر خدا کا نام لیا گیا ہو اس میں سے نہیں کھاتے ہو حالانکہ جو چیزیں اس نے تم پر حرام کر دی ہیں وہ تم سے تفصیلاً بیان کر دی ہیں مگر (ہاں ) جب تم مجبور ہو تو البتہ (حرام بھی کھا سکتے ہو)اور بہتیرے تو (خواہ خواہ) اپنی نفسانی خواہشوں سے بے سمجھے بوجھے (لوگوں کو) بہکا دیتے ہیں اور تمہارا پروردگار تو حق سے تجاوز کرنے والوں سے خوب واقف ہے

۱۲۰(اے لوگو) ظاہری اور باطنی گناہ (دونوں ) کو بالکل چھوڑ دو۔ جو لوگ گناہ کرتے ہیں انہیں اپنے اعمال کا عنقریب ہی بدلہ دیا جائے گا۔

۱۲۱اور جس (ذبیحہ) پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو اس میں سے مت کھاؤ (کیونکہ) یہ بے شک بد چلنی ہے اور شیاطین تو اپنے ہوا خواہوں کے دل میں وسوسہ ڈالا ہی کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے (بے کار بے کار) جھگڑے کیا کریں اور اگر (کہیں ) تم نے ان کا کہنا مان لیا تو (سمجھ رکھو کہ) بے شبہ تم بھی مشرک ہو۔

۱۲۲کیا جو شخص پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور بنایا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں (بے تکلف) چلتا پھرتا ہے اس شخص کا سا ہو سکتا ہے جس کی یہ حالت ہے کہ(ہر طرف سے ) اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے کہ وہاں سے کسی طرح نکل نہیں سکتا (جس طرح مومنوں کے واسطے ایمان آراستہ کیا گیا ہے ) اسی طرح کافروں کے واسطے ان کے اعمال (بد) آراستہ کر دیئے گئے ہیں (کہ بھلا ہی بھلا نظر آتا ہے )

۱۲۳(اور جس طرح مکہ میں ہے ) اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے قصور واروں کو سردار بنایا تاکہ ان میں مکاری کیا کریں اور وہ لوگ جو کچھ بھی مکاری کرتے ہیں اپنے ہی حق میں (بُرا) کرتے ہیں اور سمجھتے تک نہیں۔

۱۲۴اور جب ان کے پاس کوئی نشانی(نبی کی تصدیق کے لیے ) آتی ہے تو کہتے ہیں اس وقت تک ہم ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم کو خود ویسی چیز (وحی وغیرہ) نہ دی جائے گی جو پیغمبرانِ خدا کو دی گئی ہے اور خدا جہاں (جس دل میں ) اپنی پیغمبری قرار دیتا ہے (اس کی قابلیت و صلاحیت) کو خوب جانتا ہے۔جو لوگ (اس جرم کے ) مجرم ہیں اُن کو عنقریب ان کی مکاری کی سزا میں خدا کے یہاں بڑی ذلّت اور سخت عذاب ہو گا۔

۱۲۵تو خدا جس کو راہِ راست دکھلانا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام (کی دولت) کے واسطے (صاف اور ) کشادہ کر دیتا ہے اور جس کو گمراہی کی حالت میں چھوڑنا چاہتا ہے اس کے سینہ کو تنگ دشوار گزار کر دیتا ہے گویا (قبول ایمان) اس کے لیے آسمان پر چڑھنا ہے جو لوگ ایمان نہیں لاتے خدا ان پر برائی کو اسی طرح مسلّط کر دیتا ہے۔

۱۲۶اور (اے رسولؐ) یہ (اسلام) تمہارے پروردگار کا (بنایا ہوا) سیدھا راستہ ہے۔ عبرت حاصل کرنے والوں کے واسطے ہم نے اپنے آیات تفصیلاً بیان کر دیئے ہیں۔

۱۲۷ان کے واسطے ان کے پروردگار کے یہاں امن اور چین کا گھر (بہشت) ہے۔ اور دنیا میں جو کار گزاریاں انہوں نے کی تھیں ان کے عوض خدا ان کا سرپرست ہو گا

۱۲۸اور (اے رسولؐ وہ دن یاد دلاؤ) جس دن خدا سب لوگوں کو جمع کرے گا (اور شیاطین سے فرمائے گا) اے گروہ جنات تم نے تو بہتیرے آدمیوں کو بہکا بہکا کر اپنی جماعت بڑی کر لی اور آدمیوں سے جو لوگ (ان شیاطین کے دنیا میں ) دوست تھے کہیں گے اے ہمارے پالنے والے (دنیا میں ) ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کیا اور (اپنے کیے کی سزا پانے کو) جو وقت تو نے ہمارے لیے معین کیا تھا اب ہم اپنے اس وقت (قیامت) میں پہنچیں گے خدا (اس کے جواب میں ) فرمائے گا تم سب کا ٹھکانا جہنم ہے اور اس میں ہمیشہ رہو گے مگر جسے خدا چاہے (نجات دے ) بے شک تیرا پروردگار حکمت والا واقف کار ہے۔

۱۲۹اور اسی طرح ہم بعض ظالموں کو بعض کا ان کے کرتوتوں کی بدولت سرپرست بنائیں گے۔

۱۳۰(پھر ہم پوچھیں گے ) کہ کیوں اے گروہ جن و انس کیا تمہارے پاس تمہی میں کے پیغمبر نہیں آئے جو تم سے ہماری آیتیں بیان کریں اور تمہیں تمہارے اس روز (قیامت) کے پیش آنے سے ڈرائیں۔ وہ سب عرض کریں گے (بے شک آئے تھے ) ہم خود اپنے اوپر آپ گواہی دیتے ہیں (واقعی) دنیا کی (چند روزہ) زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا اور ان لوگوں نے اپنے خلاف آپ گواہی دی کہ بے شک یہ سب کے سب کافر تھے۔

۱۳۱اور یہ (پیغمبروں کا بھیجنا صرف) اس وجہ سے ہے کہ تمہارا پروردگار کبھی بستیوں کو ظلم زبردستی سے وہاں کے باشندوں کو غفلت کی حالت میں ہلاک نہیں کیا کرتا۔

۱۳۲اور جس نے جیسا (بھلایا بُرا) کیا ہے اسی کے موافق ہر ایک کے درجات ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں تمہارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں۔

۱۳۳اور تمہارا پروردگار بے پروا رحم والا ہے۔ اگر چاہے تم سب کے سب کو (دُنیا سے اُڑا) لے جائے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہارا جانشین بنائے جس طرح آخر تمہیں دوسرے لوگوں کی اولاد سے پیدا کیا۔

۱۳۴جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور (ایک نہ ایک دن) آنے والی ہے اور تم اس کے لانے میں ) خدا کو عاجز نہیں کرسکتے۔

۱۳۵(اے رسولؐ) تم اُن سے کہو اے میری قوم تم بجائے خود جو چاہو کرو میں (بھی بجائے خود) عمل کر رہا ہوں۔ پھر (عنقریب تمہیں ) معلوم ہو جائے گا کہ دارِ آخرت (بہشت) کس کے لیے ہے (تمہارے لیے یا ہمارے لیے ) اور ظالم تو ہرگز کامیاب نہ ہوں گے۔

۱۳۶اور یہ لوگ خدا کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور چوپایوں میں سے حصہ قرار دیتے ہیں اور اپنے خیال کے موافق کہتے ہیں کہ یہ تو خدا کا (حصّہ) اور یہ ہمارے شریکوں کا (یعنی جن کو ہم نے خدا کا شریک بنایا) پھر جو خاص ان کے شریکوں کا ہے وہ تو خدا تک نہیں پہنچنے کا اور جو حصّہ خدا کا ہے وہ اس کے شریکوں تک پہنچ جائے گا یہ کیا ہی بُرا حکم لگاتے ہیں۔

۱۳۷اور اسی طرح بہتیرے مشرکوں کو ان کے شریکوں نے اپنے بچوں کے مار ڈالنے کو اچھا کر دکھایا ہے تاکہ انہیں (ابدی) ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے سچّے دین کو ان پر خلط ملط کر دیں۔ اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ (ایسا کام) نہ کرتے۔ تو تم (اے رسولؐ) ان کو اور ان کی افترا پردازیوں کو (خدا پر) چھوڑ دو۔

۱۳۸اور (یہ لوگ اپنے خیال کے موافق) کہنے لگے کہ یہ چوپائے اور یہ کھیتی اچھوتی ہے ان کو سوا اس کے جسے ہم چاہیں کوئی نہیں کھا سکتا اور (ان کا یہ بھی خیال ہے ) کہ کچھ چار پائے ایسے ہیں جن کی پیٹھ پر (سواری یا لادنا) حرام کیا گیا ہے اور کچھ چار پائے ایسے ہیں جن پر (بوقتِ ذبح) خدا کا نام تک نہیں لیتے (اور پھر یہ ڈھکوسلے خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں ) یہ سب خدا پر افترا و بہتان ہے خدا ان کی افترا پردازیوں کی بہت جلد سزا دے گا۔

۱۳۹اور کفار یہ بھی کہتے ہیں کہ جو بچہ (وقت ذبح) ان جانوروں کے پیٹ میں ہے (جنہیں ہم نے بتوں کے نام پر چھوڑا اور زندہ پیدا ہو تو) صرف ہمارے مردوں کے لیے حلال ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے اور اگر وہ مرا ہوا ہو تو سب کے سب اس میں شریک ہیں خدا عنقریب ان کی بات بنانے کی سزا دے گا بے شک وہ حکمت والا بڑا واقف کار ہے۔

۱۴۰بے شک جن لوگوں نے اپنی اولاد کو بے سمجھے بوجھے بے وقوفی سے مار ڈالا اور جو روزی خدا نے انہیں دی تھی اسے خدا پر افترا بہتان باندھ کے اپنے اوپر حرام کر ڈالا وہ سخت گھاٹے میں ہیں یہ یقیناً راہ حق سے بھٹک گئے اور ہدایت پانے والے تھے بھی نہیں۔

۱۴۱اَور وہ تو وہی خدا ہے جس نے بہتیرے باغ پیدا کیے جن میں مختلف اقسام کے درخت ہیں کچھ تو (انگور کی طرح ٹٹیوں پر) چڑھائے ہوئے اور (کچھ) بے چڑھائے ہوئے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جس کے پھل (مزے میں ) مختلف قسموں کے ہیں اور زیتون اور انار (بعض تو صورت رنگ مزے میں )ملتے جلتے اور (بعض) بے میل۔ (لوگو) جب یہ چیزیں پھلیں تو ان کا پھل کھاؤ اور ان چیزوں کے کاٹنے کے دن خدا کا حق (زکوٰۃ) دے دو اور خبردار فضول خرچی نہ کرو کیونکہ وہ (خدا) فضول خرچوں سے ہرگز اُلفت نہیں رکھتا۔

۱۴۲اور چار پایوں میں سے کچھ تو بوجھ اٹھانے والے (بڑے بڑے ) اور کچھ زمین سے لگے ہوئے (چھوٹے چھوٹے پیدا کیے ) خدا نے جو تمہیں روزی دی ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو (کیونکہ) وہ تو یقیناً تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔

۱۴۳(خدا نے نر و مادہ ملا کر) آٹھ (قسم کے )جوڑے پیدا کیے ہیں بھیڑ سے (نر و مادہ) دو اور بکری سے (نر و مادہ) دو۔ (اے رسولؐ ان کافروں سے ) پوچھو تو کہ خدا نے (ان دونوں بھیڑ بکری کے ) دونوں نروں کو حرام کر دیا ہے یا دونوں مادینوں کو یا اس بچہ کو جو ان دونوں مادینوں کے پیٹ اندر لیے ہوئے ہیں اگر تم سچّے ہو تو ذرا سمجھ کے مجھے بتاؤ

۱۴۴اور اونٹ کے (نر و مادہ) دو اور گائے کے (نر و مادہ) دو۔ (اے رسولؐ) تم ان سے پوچھو کہ خدا نے ان دونوں (اونٹ گائے ) کے نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادینوں کو یا اس بچّہ کو جو دونوں مادینوں کے پیٹ اپنے اندر لیے ہوئے ہیں کیا جس وقت خدا نے تم کو اس کا حکم دیا تھا تم اس وقت موجود تھے ؟ پھر جو خدا پر جھوٹ بہتان باندھے اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا تاکہ لوگوں کو بے سمجھے بوجھے گمراہ کرے خدا ہرگز ظالم قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔

۱۴۵(اے رسولؐ) تم کہو کہ میں تو جو (قرآن) میرے پاس وحی کے طور پر آیا ہے اس میں کوئی چیز کسی کھانے والے پر جو اس کو کھائے حرام نہیں پاتا مگر جب کہ وہ مردہ یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت ہو تو بے شک یہ چیزیں ناپاک (اور حرام) ہیں یا (وہ جانور) نافرمانی (کا باعث) ہو کہ (وقتِ ذبح) خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ پھر جو شخص (ہر طرح) بے بس ہو جائے اور نافرمان و سرکش نہ ہو (اور اس حالت میں کھائے ) تو البتہ تمہارا پروردگار بڑا بخشنے والا مہربان ہے

۱۴۶اور ہم نے یہودیوں پر تمام ناخن دار جانور حرام کر دیئے تھے اور گائے اور بکری دونوں کی چربیاں بھی ان پر حرام کر دی تھیں مگر جو چربی ان دونوں کی پیٹھ یا آنتوں پر لگی ہو یا ہڈی سے ملی ہوئی (وہ حلال تھی) یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا دی تھی اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ ہم ضرور سچّے ہیں۔

۱۴۷(اے رسولؐ) پس وہ اگر تمہیں جھٹلائیں تو تم (جواب میں ) کہو کہ (اگرچہ) تمہارا پروردگار بڑی وسیع رحمت والا ہے مگر اس کا عذاب گنہگاروں سے ٹلتا بھی نہیں۔

۱۴۸عنقریب مشرکین کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم لوگ شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کوئی چیز اپنے اُوپر حرام کرتے اسی طرح (باتیں بنا بنا کے ) جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں (پیغمبروں کو) جھٹلاتے رہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے ہمارے عذاب (کے مزے ) کو چکھا (اے رسولؐ) تم کہو کہ کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے (اگر ہے ) تو ہمارے (دکھانے کے ) واسطے اس کو نکالو (دلیل تو کیا پیش کرو گے ) تم لوگ تو صرف اپنے خیال خام کی پیروی کرتے ہو اور صرف اٹکل پچو باتیں کرتے ہو۔

۱۴۹(اے رسولؐ) تم کہو کہ (اب تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ) خدا تک پہنچانے والی دلیل خدا ہی کے لیے خاص ہے۔پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا۔

۱۵۰(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ (اچھا) اپنے گواہوں کو حاضر کرو جو یہ گواہی دیں کہ (یہ چیزیں ) جنہیں تم حرام بناتے ہو) خدا ہی نے حرام کر دی ہے پھر اگر (بالفرض) وہ گواہی دے بھی دیں تو (اے رسولؐ) کہیں تم ان کے ساتھ گواہی نہ دینا اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشات پر نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور دوسروں کو اپنے پروردگار کا ہمسر بناتے ہیں۔

۱۵۱(اے رسولؐ) تم ان سے کہو کہ (بس) آؤ جو چیزیں خدا نے تم پر حرام کی ہیں وہ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں (وہ ) یہ کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالنا (کیونکہ) ان کو اور (خود) تم کو رزق دینے والے تو ہم ہیں اور بدکاریوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور کسی جان والے کو جس کے قتل کو خدا نے حرام کیا ہے نہ مار ڈالنا مگر (کسی) حق کے عوض میں۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کا خدا نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو۔

۱۵۲اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ لیکن اس طریقہ پر کہ (اس کے حق میں ) بہتر ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کی حد کو پہنچ جائے۔ اور انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پوری کیا کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے۔ اور (چاہے کچھ ہو مگر) جب بات کہو تو انصاف سے اگرچہ وہ (جس کے تم خلاف کہو) تمہارا عزیز ہی (کیوں نہ) ہو۔ اور خدا کے عہد و پیمان کو پورا کرو۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کا خدا نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔

۱۵۳اور یہ (بھی سمجھ لو) کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے۔ اسی پر چلے جاؤ اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو خدا کے رستہ سے (بھٹکا کر) تتر بتر کر دیں گے یہ وہ باتیں ہیں جن کا خدا نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔

۱۵۴پھر ہم نے جو نیکی کرے اس پر اپنی نعمت پوری کرنے کے واسطے موسیٰ ؑ کو کتاب (توریت) عطا فرمائی اور اس میں ہر چیز کی تفصیل (بیان کر دی) تھی اور (لوگوں کے لئے ازسرتاپا) ہدایت و رحمت ہے تاکہ وہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہونے کا یقین کریں۔

۱۵۵اور یہ کتاب (قرآن) جس کو ہم نے (اب) نازل کیا ہے برکت والی کتاب ہے تو تم لوگ اسی کی پیروی کرو اور (خدا سے ) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

۱۵۶(اور اے مشرکین یہ کتاب ہم نے اس لیے نازل کی) کہ تم کہیں یہ کہہ بیٹھو کہ ہم سے پہلے کتاب خدا تو بس صرف دو ہی گروہوں (یہود و نصاریٰ) پر نازل ہوئی تھی۔ اگرچہ ہم تو ان کے پڑھنے (پڑھانے ) سے بے خبر تھے

۱۵۷یا یہ کہنے لگو کہ اگر ہم پر کتاب (خدا) نازل ہوتی تو ہم ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر راہ راست پر ہوتے تو (دیکھو) اب تو یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل (کتابِ خدا) اور ہدایت اور رحمت آ چکی تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو خدا کی آیات کو جھٹلائے اور اس سے منہ پھیرے جو لوگ ہماری آیتوں سے منہ پھیرتے ہیں ہم ان کے منہ پھیرنے کے بدلہ میں عنقریب ہی بُرے عذاب کی سزا دیں گے۔

۱۵۸(اے رسولؐ) کیا یہ لوگ صرف اس کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا تمہارا پروردگار خود (تمہارے پاس) آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آ جائیں (آخر کیوں کر سمجھایا جائے ) حالانکہ جس دن تمہارے پروردگار کی بعض نشانیاں آ جائیں گی تو اب اس شخص کا ایمان لانا اس کو کچھ بھی مفید نہ ہو گاجو پہلے سے ایمان نہیں لایا ہو گا یا اپنے مومن ہونے کی حالت میں کوئی نیک کام نہیں کیا ہو گا (اے رسولؐ) تم ان سے کہہ دو کہ (اچھا یہی سہی) تم بھی انتظار کرو ہم بھی یقیناً انتظار کرتے ہیں۔

۱۵۹بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فریق بن گئے تمہیں ان سے کچھ سروکار نہیں۔ ان کا معاملہ تو صرف خدا کے حوالے ہے پھر جو کچھ وہ (دُنیا میں نیک یا بد) کیا کرتے تھے وہ انہیں بتا دیا جائے گا۔

۱۶۰(اس کی رحمت تو دیکھو) جو شخص نیکی کرے گا تو اُس کو اس کا دس گنا ثواب عطا ہو گا اور جو شخص بدی کرے گا تو اس کی سزا اس کو بس اتنی ہی دی جائے گی اور وہ لوگ (کسی طرح) ستائے نہ جائیں گے۔

۱۶۱(اے رسولؐ) تم ان سے کہو کہ مجھے تو میرے پروردگار نے سیدھی راہ یعنی ایک مضبوط دین ابراہیمؑ کے مذہب کی ہدایت فرمائی ہے جو باطل سے کترا کے چلتے تھے اور مشرکین سے نہ تھے۔

۱۶۲(اے رسولؐ) تم (ان لوگوں سے ) کہہ دو کہ میری نماز میری عبادت میرا جینا میرا مرنا سب خدا ہی کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے

۱۶۳اور اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں۔

۱۶۴(اے رسولؐ) تم پوچھو تو کہ کیا میں خدا کے سوا کسی اور کو پروردگار تلاش کروں حالانکہ وہ تمام چیزوں کا مالک ہے۔ اور جو شخص کوئی برا کام کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے۔ اور کوئی شخص کسی دُوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھانے کا۔ پھر تم سب کو اپنے پروردگار کے حضور میں لَوٹ کر جانا ہے۔ تب تم لوگ جن باتوں میں باہم جھگڑتے تھے وہ (سب) تمہیں بتا دے گا۔

۱۶۵اور وہی تو وہ (خدا) ہے جس نے تمہیں زمین میں (اپنا) نائب بنایا اور تم میں سے بعض کے بعض پر درجے بلند کیے تاکہ جو (نعمت) تمہیں دی ہے اس میں تمہارا امتحان کرے۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارا پروردگار بہت جلد عذاب کرنے والا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

٭٭٭

 

 

 

۷۔ سورۃ الاعراف

 

۱ ا لٓ مٓ صٓ

۲(اے رسولؐ) یہ کتابِ خدا (قرآن) تم پر اس غرض سے نازل کی گئی ہے تاکہ تم اس کے ذریعے سے (لوگوں کو عذابِ خدا سے ) ڈراؤ اور ایمانداروں کے لیے نصیحت کا باعث ہو پس تمہارے دل میں اس کی وجہ سے کوئی تنگی نہ پیدا ہو

۳(لوگو) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا دوسرے (فرضی)سرپرستوں (معبودوں ) کی پیروی نہ کرو۔ تم لوگ تو بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو

۴(تمہیں خبر نہیں کہ) ایسی بہتیری بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر ڈالا تو ہمارا عذاب (ایسے وقت) آ پہنچا کہ وہ لوگ یا تو رات کو گہری نیند سو رہے تھے یا دن کو قیلولہ کر رہے تھے۔

۵تب جب ہمارا عذاب ان پر آ پڑا تو ان سے سوائے اس کے اور کچھ کہتے بن نہ پڑا کہ ہم بے شک ظالم تھے۔

۶پھر ہم تو ضرور ان لوگوں سے جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے تھے (ہر چیز کا) سوال کریں گے اور خود پیغمبروں سے بھی ضرور پوچھیں گے

۷پھر ہم ان سے حقیقت حال خوب سمجھ بوجھ کے (ذرا ذرا) دہرائیں گے اور ہم کچھ غائب تو تھے نہیں۔

۸اور اس دن (اعمال کا) تولا جانا بالکل ٹھیک ہے۔ پھر تو جن کے (نیک اعمال کے ) پلے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فائز المرام ہوں گے

۹اور جن کے (نیک اعمال کے ) پلے ہلکے ہوں گے تو انہیں لوگوں نے ہماری آیات سے نافرمانی کرنے کی وجہ سے یقیناً اپنا آپ نقصان کیا۔

۱۰اور (اے بنی آدم) ہم نے تو یقیناً تم کو زمین میں قدرت و اقتدار دیا اور اس میں تمہارے لیے اسباب زندگی مہیّا کیے (مگر) تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔

۱۱اس میں تو شک ہی نہیں کہ ہم نے تم (یعنی تمہارے باپ آدمؑ ) کو پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم سب کے سب آدمؑ کوسجدہ کرو تو سب کے سب جھک پڑے۔ مگر شیطان کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا۔

۱۲خدا نے (شیطان سے ) فرمایا جب میں نے تجھے حکم دیا تو پھر تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟کہنے لگا میں اس سے افضل ہوں۔ (کیونکہ) تو نے مجھے آگ (ایسے لطیف عنصر) سے پیدا کیا اور اس کو مٹی (ایسی کثیف عنصر) سے پیدا کیا۔

۱۳خدا نے فرمایا (تجھ کو یہ غرور ہے تو بہشت) سے ) نیچے اُتر جا کیونکہ تیری یہ مجال نہیں کہ تو یہاں رہ کر غرور کرے تو یہاں سے (باہر) نکل بے شک تو ذلیل لوگوں سے ہے۔

۱۴کہنے لگا تو(خیر) مجھے اس دن تک کی (موت سے ) مہلت دے جس دن ساری خدائی کے لوگ (دوبارہ جلا کر) اُٹھا کھڑے کیے جائیں گے

۱۵فرمایا (اچھا منظور) تجھے ضرور مہلت دی گئی

۱۶کہنے لگا چونکہ تو نے میری راہ ماری تو میں بھی بنی آدمؑ کے (گمراہ کرنے کے لیے )تیری سیدھی راہ پر تاک میں بیٹھوں گا تو سہی

۱۷پھر ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے داہنے سے اور ان کے بائیں سے (غرض ہر طرف سے ) ان پر آ پڑوں گا (اور ان کو بہکاؤں گا) اور تو ان میں سے بہتیروں کو شکر گزار نہیں پائے گا۔

۱۸خدا نے فرمایا یہاں سے بُرے حال میں راندہ ہو کر (دور) نکل جا ان لوگوں میں سے جو تیرا کہا مانے گا تو میں یقیناً تم (اور ان) سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔

۱۹اور (آدمؑ سے کہا) اے آدمؑ! تم اور تمہاری بیوی (دونوں ) بہشت میں رہا سہا کرو اور جہاں سے چاہو کھاؤ (پیو) مگر خبردار اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم اپنا آپ نقصان کرو گے۔

۲۰پھر شیطان نے ان دونوں کو وسوسہ دلایا تاکہ (نافرمانی کی وجہ سے ) ان کی ستر کی چیزیں جو ان (کی نظر سے بہشتی لباس کی وجہ) سے پوشیدہ تھیں کھول ڈالے کہنے لگا کہ (تمہارے پروردگار نے ) تم دونوں کو اس درخت (کے پھل کھانے ) سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ (مبادا) تم دونوں فرشتے بن جاؤ یا ہمیشہ (زندہ) رہ جاؤ۔

۲۱اور ان دونوں کے سامنے قسمیں کھائیں کہ میں یقیناً تمہارا خیرخواہ ہوں

۲۲غرض دھوکے سے ان دونوں کو اس (کے کھانے ) کی طرف مائل کیا۔ غرض جوں ہی ان دونوں نے اس درخت (کے پھل) کو چکھا (بہشتی لباس گر گیا اور سمجھ پیدا ہوئی اور ) ان پر ان کی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں اور بہشت کے پتّے (توڑ جوڑ کر) اپنے اوپر ڈھانپنے لگے۔ تب ان کے پروردگار نے ان کو آواز دی کہ کیوں میں نے تم دونوں کو اس درخت کے پاس (جانے ) سے منع نہیں کیا تھا اور (کیا) یہ نہ جتا دیا تھا کہ شیطان تمہارا یقینی کھلا ہوا دشمن ہے۔

۲۳یہ دونوں عرض کرنے لگے اے ہمارے پالنے والے ہم نے اپنا آپ نقصان کیا اور اگر تو ہمیں معاف نہ فرمائے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم بالکل گھاٹے ہی گھاٹے میں رہیں گے۔

۲۴حکم ہوا تم (میاں، بیوی، شیطان) سب کے سب بہشت سے نیچے اُترو۔ تم میں سے ایک کا ایک دشمن ہے اور ایک (خاص) وقت تک تمہارا زمین میں ٹھہراؤ (ٹھکانا) اور زندگی کا سامان ہے۔

۲۵خدا نے (یہ بھی) فرمایا کہ تم زمین میں زندگی بسر کرو گے اسی میں مرو گے اور (اسی میں سے (پھر دوبارہ) تم (زندہ کر کے ) نکالے جاؤ گے۔

۲۶اے آدمؑ کی اولاد ہم نے تمہارے لیے پوشاک نازل کی جو تمہارے ستر کو چھپاتی ہے اور زینت کے کپڑے اور (اس کے علاوہ) پرہیزگاری کا لباس (ہے ) اور یہ سب لباسوں سے بہتر ہے یہ (لباس بھی) خدا کی قدرت کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت و عبرت حاصل کریں۔

۲۷اے اولادِ آدمؑ (ہوشیار رہو) کہیں تمہیں شیطان بہکا نہ دے جس طرح اُس نے تمہارے باپ ماں (آدم و حوا) کو بہشت سے نکلوا چھوڑا۔ اسی نے ان دونوں سے (بہشتی) پوشاک اُترائی تاکہ ان دونوں کو ان کی شرمگاہیں دکھا دے۔ وہ اور اس کا کنبہ ضرور تمہیں اس طرح دیکھتا رہتا ہے تم انہیں نہیں دیکھ پاتے۔ ہم نے شیطانوں کو انہی لوگوں کا رفیق قرار دیا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔

۲۸اور وہ لوگ جب کوئی بُرا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اسی طریقہ پر اپنے باپ داداؤں کو پایا اور خدا نے (بھی) یہی حکم دیا ہے۔ (اے رسولؐ) تم صاف کہہ دو کہ خدا ہرگز بُرے کام کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم لوگ خدا پر (افترا کر کے ) وہ باتیں کہتے ہو جو تم نہیں جانتے۔

۲۹(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف کا حکم دیا ہے اور (یہ بھی فرمایا ہے ) کہ ہر نماز کے وقت اپنے اپنے منہ (قبلہ کی طرف) سیدھے کر لیا کرو اور اس کے لیے نری کھری عبادت کر کے اس سے دعا مانگو جس طرح اس نے تمہیں شروع (شروع) پیدا کیا تھا اسی طرح پھر (دوبارہ) زندہ کیے جاؤ گے۔

۳۰اسی نے ایک فریق کی ہدایت کی اور ایک گروہ (کے سر پر) گمراہی سوار ہو گئی ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا سرپرست بنا لیا۔ اور باوجود اس کے گمان کرتے ہیں کہ وہ راہِ راست پر ہیں۔

۳۱اولادِ آدمؑ ہر نماز کے وقت بن سنور کے نکھر جایا کرو۔ اور کھاؤ اور پیو اور فضول خرچی نہ کرو۔ (کیونکہ) خدا فضول خرچی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

۳۲(اے رسولؐ ان سے ) پوچھو تو کہ جو زینت (کے ساز و سامان) اور کھانے کی (صاف ستھری) چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں کس نے حرام کر دیں۔ تم خود کہہ دو کہ یہ سب پاکیزہ چیزیں قیامت کے دن اُن لوگوں کے لیے خاص ہیں جو دنیا کی (ذرا سی) زندگی میں ایمان لائے تھے۔ ہم یوں اپنی آیتیں سمجھ دار لوگوں کے واسطے تفصیل وار بیان کرتے ہیں۔

۳۳(اے رسولؐ) تم (صاف) کہہ دو کہ ہمارے پروردگار نے تو تمام بدکاریوں کو خواہ ظاہری ہوں یا باطنی اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے اور اس بات کو کہ تم کسی کو خدا کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی اور یہ بھی کہ بے سمجھے بوجھے خدا پر بہتان باندھو

۳۴اور ہر گروہ (کے ناپید ہونے ) کا ایک خاص وقت ہے۔ پھر جب ان کا وقت آ پہنچتا ہے تو نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

۳۵اے اولادِ آدمؑ جب تم میں کے (ہمارے ) پیغمبر تمہارے پاس آئیں اور تم سے ہمارے احکام بیان کریں تو(ان کی اطاعت کرنا کیونکہ) جو شخص پرہیزگاری اور نیک کام کرے گا تو ایسے لوگوں پر نہ تو (قیامت میں ) کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے

۳۶اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کر بیٹھے وہ ہی لوگ جہنمی ہیں کہ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

۳۷تو جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جنہیں ان (کی تقدیر) کا لکھا حصّہ (رزق وغیرہ) ملتا رہے گا۔ یہاں تک کہ جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے ) ان کے پاس آ کر ان کی قبض روح کریں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے اب وہ کہاں ہیں۔ تو وہ (کفّار) جواب دیں گے کہ وہ سب کے سب تو ہمیں چھوڑ کر چنپت ہوئے اور اپنے خلاف آپ گواہی دیں گے کہ وہ بے شک کافر تھے۔

۳۸(تب خدا اُن سے ) فرمائے گا کہ جو لوگ جن و انس کے تم سے پہلے چل بسے ہیں اُنہی میں مل جل کر تم بھی جہنم واصل ہو جاؤ۔ (اور اہل جہنم کا یہ حال ہو گا) کہ جب اس میں ایک گروہ داخل ہو گا تو اپنے ساتھی دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا یہاں تک کہ جب سب کے سب اس میں پہنچ جائیں گے تو ان میں کی پچھلی جماعت اپنے سے پہلی جماعت کے واسطے بد دعا کرے گی کہ پروردگارا انہی لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تو ان پر جہنم کا دوگنا عذاب فرما۔ (اس پر) خدا فرمائے گا کہ ہر ایک کے واسطے دوگنا عذاب ہے لیکن (تم پر تف ہے ) تم جانتے نہیں

۳۹اور ان میں سے پہلی جماعت پچھلی جماعت کی طرف مخاطب ہو کر کہے گی کہ اب تو تم کو ہم پر کوئی فضیلت نہ رہی پس (ہماری طرح) تم بھی اپنے کرتوت کی بدولت عذاب (کے مزے ) چکھو۔

۴۰بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی نہ ان کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہونے پائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں ہو کر نکل جائے اور ہم مجرموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔

۴۱اُن کے لیے جہنم (کی آگ) کا بچھونا ہو گا اور اُن کے اوپر سے (آگ ہی کا) اوڑھنا بھی اور ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔

۴۲اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے ہم تو کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دیتے ہی نہیں یہی لوگ جنتی ہیں کہ وہ ہمیشہ جنّت ہی میں رہا (سہا) کریں گے۔

۴۳اور ان لوگوں کے دل میں جو کچھ (بغض و کینہ) ہو گا وہ سب ہم نکال (باہر) کر دیں گے ان کے (محلوں کے ) نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اور کہتے ہوں گے شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں اس منزل مقصود) تک پہنچا دیا۔اور اگر خدا ہمیں یہاں نہ پہنچاتا تو ہم کسی طرح یہاں نہ پہنچ سکتے۔ بے شک ہمارے پروردگار کے پیغمبر دین حق لے کر آئے تھے اور ان لوگوں سے ہانک پکار کر کہہ دیا جائے گا کہ یہ وہ بہشت ہے جن کے تم اپنی کار گزاریوں کی جزا میں وارث و مالک بنائے گئے ہو۔

۴۴اور جنتی لوگ جہنم والوں سے پکار کر کہیں گے ہم نے تو بے شک جو ہمارے پروردگار نے ہم سے وعدہ کیا تھا ٹھیک ٹھیک پا لیا۔ تو کیا تم نے بھی جو تم سے تمہارے پروردگار نے وعدہ کیا تھا ٹھیک پایا (یا نہیں ) اہل جہنم کہیں گے کہ ہاں (پایا) تب ایک منادی ان کے درمیان ندا کرے گا کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے

۴۵جو خدا کی راہ سے لوگوں کو روکتے تھے۔ اور اس میں (خواہ مخواہ) کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ روز آخرت سے انکار کرتے تھے۔

۴۶اور بہشت و دوزخ کے درمیان ایک حد فاصل ہے اور کچھ لوگ اعراف پر ہوں گے۔جو ہر شخص کو (بہشتی ہو یا جہنمی) ان کی پیشانی سے پہچان لیں گے۔ اور وہ جنت والوں کو آواز دیں گے کہ تم پر سلام ہو۔ یہ (اعراف والے ) لوگ ابھی داخل جنت نہیں ہوئے ہیں مگر وہ تمنا ضرور رکھتے ہیں۔

۴۷اور جب اُن کی نگاہیں پلٹ کر جہنمی لوگوں کی طرف جا پڑیں گی (تو ان کی حالت خراب دیکھ کر خدا سے ) عرض کریں گے اے ہمارے پروردگار ہمیں ظالم لوگوں کا ساتھی نہ بنانا۔

۴۸اور اعراف والے کچھ (جہنمی) لوگوں کو جنہیں ان کا چہرہ دیکھ کر پہچان لیں گے آواز دیں گے اور کہیں گے اب نہ تو تمہارا جتھا ہی تمہارے کام آیا اور نہ تمہاری شیخی بازی ہی (سُود مند ہوئی) جو تم (دنیا میں ) کیا کرتے تھے۔

۴۹کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کی نسبت تم قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ان پر خدا (اپنی) رحمت نہ کرے گا۔ (دیکھو آج وہی لوگ ہیں جن سے کہا گیا کہ بے تکلف) بہشت میں چلے جاؤ نہ تو تم پر کوئی خوف ہے اور نہ تم کسی طرح آزردہ خاطر ہو گے۔

۵۰اور دوزخ والے اہل بہشت کو (بہ لجاجت) آواز دیں گے کہ ہم پر تھوڑا سا پانی ہی انڈیل دو یا جو (نعمتیں ) خدا نے تمہیں دی ہیں اس میں کچھ (دے ڈالو تو اہل بہشت جواب میں ) کہیں گے کہ خدا نے تو جنت کا کھانا پانی کافروں پر قطعی حرام کر دیا ہے۔

۵۱جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا تھا اور دُنیا کی (چند روزہ) زندگی نے ان کو فریب دیا تھا تو ہم بھی آج (قیامت) میں ) انہیں (قصداً) بھول جائیں گے جس طرح یہ لوگ (ہماری) آج کی حضوری کو بھولے بیٹھے تھے اور ہماری آیتوں سے انکار کرتے تھے۔

۵۲حالانکہ ہم نے ان کے پاس (رسولؐ کی معرفت) کتاب بھی بھیج دی جسے ہر طرح سمجھ بوجھ کے تفصیل وار بیان کر دیا ہے اور (وہ) ایماندار لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔

۵۳کیا یہ لوگ بس صرف انجام (قیامت ہی) کے منتظر ہیں (حالانکہ) جس دن اس کے انجام کا وقت آ جائے گا تو جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے بیٹھے تھے (بے ساختہ) بول اُٹھیں گے کہ بے شک ہمارے پروردگار کے سب رسول حق لے کر آئے تھے تو کیا (اس وقت) ہماری بھی سفارش کرنے والے ہیں جو ہماری سفارش کریں یا ہم پھر (دنیا میں ) لوٹا دیئے جائیں تو جو جو کام ہم کرتے تھے ان کو چھوڑ کر دُوسرے کام کریں۔ بے شک ان لوگوں نے اپنا سخت گھاٹا کیا اور جو افترا پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب غائب (غلّا) ہو گئیں۔

۵۴بے شک تمہارا پروردگار وہ خدا ہی ہے جس نے (صرف) چھ دنوں میں آسمان اور زمین کو پیدا کر دیا پھر عرش (کے بنانے ) پر آمادہ ہوا۔ اور وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے (تو گویا) رات دن کو پیچھے پیچھے تیزی سے ڈھونڈتی پھرتی ہے (اور اسی نے ) آفتاب اور مہتاب اور ستاروں (کو پیدا کیا) یہ سب کے سب اسی کے حکم کے تابعدار ہیں۔ دیکھو حکومت اور پیدا کرنا بس خاص اسی کے لیے ہے وہ خدا جو سارے جہان کا پروردگار ہے بڑا برکت والا ہے۔

۵۵(لوگو) اپنے پروردگار سے گڑ گڑا کے اور چپکے چپکے دعا کرو۔ وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا۔

۵۶اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ کرتے پھرو اور (عذاب کے ) خوف سے اور (رحمت کی) آس لگا کے خدا سے دعائیں مانگو (کیونکہ) نیکی کرنے والوں سے خدا کی رحمت یقیناً قریب ہے۔

۵۷اور وہی تو وہ (خدا) ہے جو اپنی رحمت (اَبر) سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب ہوائیں (پانی سے بھرے ) بوجھل بادلوں کو لے اُڑیں تو ہم نے ان کو کسی شہر کی طرف (جو پانی کی نایابی سے گویا) مر چکا تھا ہنکا دیا پھر ہم نے اس سے پانی برسایا پھر ہم نے ان سے ہر طرح کے پھل (زمین سے ) نکالے ہم یوں ہی (قیامت کے دن زمین سے ) مردوں کو نکالیں گے تاکہ تم لوگ نصیحت و عبرت حاصل کرو۔

۵۸اور عمدہ زمین اس کے پروردگار کے حکم سے اس کا سبزہ(اچھا ہی) اُگاتی ہے اور جو زمین بُری ہے اس کی پیداوار بھی خراب ہی ہوتی ہے۔ ہم یوں اپنی آیتوں کو اُلٹ پھیر کر شکر گزار لوگوں کے واسطے بیان کرتے ہیں۔

۵۹بے شک ہم نے نوحؑ کو ان کی قوم کے پاس (رسول بنا کر) بھیجا تو انہوں نے (لوگوں سے ) کہا کہ اے میری قوم خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اور میں تمہاری نسبت (قیامت کے سے ) بڑے (خوفناک) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

۶۰(تو) ان کی قوم کے چند سرداروں نے کہا کہ ہم تو یقیناً دیکھتے ہیں کہ تم کھلم کھلا گمراہی میں پڑے ہو۔

۶۱(تب نوحؑ نے ) کہا کہ اے میری قوم مجھ میں گمراہی (وغیرہ) تو کچھ نہیں بلکہ میں تو پروردگار عالم کی طرف سے رسول ہوں

۶۲تم تک اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچائے دیتا ہوں اور تمہارے لیے تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور خدا کی طرف سے جو باتیں میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔

۶۳کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہی میں کے ایک مرد (آدمی)کے ذریعے سے تمہارے پروردگار کا ذکر (حکم) آیا تاکہ وہ تمہیں (عذاب) سے ڈرائے اور تاکہ تم پرہیزگار بنو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

۶۴اس پر بھی لوگوں نے ان کو جھٹلا دیا تب ہم نے ان کو اور جو لوگ ان کے ساتھ کشتی میں تھے بچا لیا اور (باقی) جتنے لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا سب کو ڈوبا مارا۔ یہ سب کے سب یقیناً اندھے لوگ تھے۔

۶۵اور (ہم نے ) قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہودؑ کو (رسول بنا کر) بھیجا تو انہوں نے (بھی لوگوں سے ) کہا اے میری قوم خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو کیا تم (خدا سے ) ڈرتے نہیں ہو۔

۶۶(تو) ان کی قوم کے چند سردار جو کافر تھے کہنے لگے ہم تو بے شک تم کو حماقت میں (مبتلا) دیکھتے ہیں ا اور ہم یقینی تم کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔

۶۷ہودؑ نے کہا اے میری قوم مجھ میں تو حماقت کی کوئی بات نہیں بلکہ میں تو پروردگارِ عالم کا رسول ہوں

۶۸میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کے پیغامات پہنچائے دیتا ہوں۔اور میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں

۶۹کیا تمہیں اس پر تعجب ہے کہ تمہارے پروردگار کا حکم تمہارے پاس تمہی میں کے ایک مرد (آدمی) کے ذریعے سے آیا کہ تمہیں (عذاب سے ) ڈرائے۔ اور (وہ وقت) یاد کرو جب اس نے تم کو قومِ نوحؑ کے بعد خلیفہ (و جانشین) بنایا اور تمہاری خلقت میں بھی بہت زیادتی کر دی۔ تو خدا کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم دلی مرادیں پاؤ۔

۷۰تو وہ لوگ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ صرف خدائے واحد کی تو عبادت کریں اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے چھوڑ بیٹھیں۔ پس اگر تم سچّے ہو تو جس سے تم ہم کو ڈراتے ہو ہمارے پاس لاؤ۔

۷۱ہودؑ نے جواب دیا کہ (بس سمجھ لو) کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب نازل ہو چکا۔ کیا تم مجھ سے چند (بتوں کے فرضی) ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے (خواہ مخواہ) گھڑ لیا ہے حالانکہ خدا نے ان کے لیے کوئی سند نہیں نازل فرمائی۔ پس تم (عذاب خدا کا) انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔

۷۲ آخر ہم نے ان کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے ان کو اپنی رحمت سے نجات دی اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ہم نے ان کی جڑ کاٹ دی اور وہ لوگ ایمان لانے والے تھے بھی نہیں۔

۷۳(اور ہم نے قوم) ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (رسول بنا کر بھیجا) تو انہوں نے (ان لوگوں سے ) کہا اے میری قوم خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے تمہارے پاس تو تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح و روشن دلیل آ ہی چکی یہ خدا کی (بھیجی ہوئی) اونٹنی تمہارے واسطے ایک معجزہ ہے تو تم لوگ اس کو چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں جہاں چاہے چرتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ ورنہ تم درد ناک عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے۔

۷۴اور (وہ وقت) یاد کرو جب اس نے تم کو قوم عاد کے بعد (زمین میں ) خلیفہ (و جانشین) بنایا اور تمہیں زمین میں اس طرح بسایا کہ تم ہموار و نرم زمین میں (بڑے بڑے ) محل اُٹھاتے ہو اور پہاڑوں کو تراش (تراش) کے گھر بناتے ہو تو خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ اور روئے زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔

۷۵تو اس کی قوم کے بڑے بڑے لوگوں نے بے چارے غریبوں سے ان میں سے جو ایمان لائے تھے کہا کیا تمہیں معلوم ہے کہ صالحؑ(حقیقتاً) اپنے پروردگار کے سچّے رسول ہیں ان بے چاروں نے جواب دیا کہ جن باتوں کا وہ پیغام لائے ہیں ہمارا تو اس پر ایمان ہے۔

۷۶تب جن لوگوں کو (اپنی دولت دنیا پر) گھمنڈ تھا کہنے لگے ہم تو جس پر تم ایمان لائے ہو اُسے نہیں مانتے۔

۷۷غرض ان لوگوں نے اونٹنی کی کونچیں اور پَیر کاٹ ڈالے اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرتابی کی اور (بے باکی سے ) کہنے لگے اگر تم سچّے رسول ہو تو جس عذاب سے ہم لوگوں کو ڈراتے تھے۔ اب لاؤ۔

۷۸تب انہیں زلزلے نے لے ڈالا اور وہ لوگ زانو پر سر کیے (جس طرح تھے ) بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔

۷۹اس کے بعد صالحؑ ان سے ٹل گئے اور (اُن سے مخاطب ہو کر) کہا اے میری قوم (آہ) میں نے تو اپنے پروردگار کے پیغام تم تک پہنچا دیئے تھے اور تمہاری خیر خواہی کی تھی (اور اونچ نیچ سمجھا دیا تھا) مگر (افسوس) تم (خیرخواہ) سمجھانے والے کو اپنا دوست ہی نہیں سمجھتے۔

۸۰اور لوطؑ کو (ہم نے رسول بنا کر بھیجا تو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ (افسوس) تم ایسی بدکاری (اغلام)کرتے ہو کہ تم سے پہلے ساری خدائی میں کسی نے ایسی بدکاری نہیں کی تھی۔

۸۱(ہاں ) تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پرستی کے واسطے مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو (حالانکہ اس کی ضرورت نہیں ) مگر تم لوگ کچھ ہو ہی بے ہودہ صرف کرنے والے (کہ نطفہ کو ضائع کرتے ہو)

۸۲اور اس پر اس کی قوم کا اس کے سوا اور کچھ جواب ہی نہ تھا کہ وہ آپس میں کہنے لگے کہ ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو کیونکہ یہ تو وہ لوگ ہیں جو پاک صاف بننا چاہتے ہیں۔

۸۳تب ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو تو نجات دی مگر (صرف ایک) ان کی بیوی کہ وہ(اپنی بد اعمالی سے ) پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔

۸۴اور ہم نے ان لوگوں پر (پتھر کا) مینہ برسایا۔ پس ذرا غور تو کرو کہ گنہگاروں کا انجام آخر کیا ہوا۔

۸۵اور (ہم نے )مدین (والوں کے ) پاس ان کے بھائی شعیبؑ کو (رسول بنا کر بھیجا) تو انہوں نے (ان لوگوں سے ) کہا اے میری قوم خدا ہی کی عبادت کرواس کے سواکوئی دوسرا تمہارا معبود نہیں (اور) تمہارے پاس تو تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح و روشن معجزہ (بھی) آ چکا تو ناپ اور تول پوری کیا کرو۔ اور لوگوں کو ان کی (خریدی ہوئی) چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں اس کی اصلاح و درستی کے بعد فساد نہ کرتے پھرو۔اگر تم سچّے ایماندار ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔

۸۶اور تم لوگ راستوں پر نہ بیٹھا کرو جہاں پر (بیٹھ کر) جو خدا پر ایمان لایا ہے اس کو ڈراتے ہو اور خدا کی راہ سے روکتے ہو اور اس کی راہ میں (خواہ مخواہ) کجی ڈھونڈھ نکالتے ہو اور اس کو تو یاد کرو کہ جب تم (شمار میں ) کم تھے تو خدا ہی نے تم کو بڑھایا اور ذرا غور تو کرو کہ (آخر) فساد پھیلانے والوں کا انجام کار کیا ہوا۔

۸۷اور جن باتوں کا میں پیغام لے کر آیا ہوں اگر تم میں سے ایک گروہ نے ان کو مان لیا اور ایک گروہ نے نہیں مانا تو (کچھ پرواہ نہیں ) تم صبر سے بیٹھے (دیکھتے ) رہو یہاں تک کہ خدا (خود) ہمارے درمیان فیصلہ کر دے وہ تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

۸۸تو ان کی قوم میں سے جن لوگوں کو (اپنی حشمت دنیا پر) گھمنڈ تھا کہنے لگے کہ اے شعیبؑ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کر دیں گے مگر جب کہ تم بھی ہمارے اسی مذہب و ملت میں لوٹ کر آ جاؤ (تو خیر) شعیب نے کہا کیا ہم اگرچہ تمہارے مذہب سے نفرت ہی رکھتے ہوں۔

۸۹(تب بھی لوٹ جائیں معاذ اللہ) جب تمہارے باطل دین سے خدا نے ہمیں نجات دی اس کے بعد بھی اب اگر ہم تمہارے مذہب میں لوٹ جائیں تب تو ہم نے خدا پر جھوٹا بہتان باندھا (نا) اور ہمارے واسطے تو کسی طرح جائز نہیں کہ ہم تمہارے مذہب کی طرف لوٹ جائیں مگر ہاں جب میرا پروردگار اللہ چاہے (اور وہ کبھی نہ چاہے گا)ہمارا پروردگار تو اپنے علم سے تمام (عالم کی) چیزوں کو گھیرے ہوئے ہیں ہم نے تو خدا ہی پر بھروسہ کیا اے ہمارے پروردگار تو ہی ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تو تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

۹۰اور ان کی قوم کے چند سردار جو کافر تھے (لوگوں سے ) کہنے لگے کہ اگر تم لوگوں نے شعیبؑ کی پیروی کی تو اس میں شک ہی نہیں کہ تم سخت گھاٹے میں رہو گے۔

۹۱غرض ان لوگوں کو زلزلہ نے لے ڈالا بس تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

۹۲جن لوگوں نے شعیبؑ کو جھٹلایا تھا وہ (ایسے مر مٹے کہ) گویا ان بستیوں میں کبھی آباد ہی نہ تھے جن لوگوں نے شعیبؑ کو جھٹلایا وہ ہی لوگ گھاٹے میں رہے۔

۹۳تب شعیبؑ ان لوگوں کے سر سے ٹل گئے اور (ان سے مخاطب ہو کر) کہا اے میری قوم میں نے تو اپنے پروردگار کے پیغامات تم تک پہنچا دیئے اور تمہاری خیر خواہی کی تھی پھر اب میں کافروں پر کیوں افسوس کروں۔

۹۴اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو (کہنا نہ ماننے پر)سختی اور مصیبت میں مبتلا کیا تاکہ وہ لوگ (ہماری بارگاہ میں ) گڑگڑائیں۔

۹۵پھر ہم نے تکلیف کی جگہ کو آرام سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ لوگ بڑ ہانکنے لگے اور کہنے لگے کہ اس طرح کی تکلیف و آرام تو ہمارے باپ داداؤں کو بھی پہنچ چکا ہے تب ہم نے (اس بڑ ہانکنے کی سزا میں ) اچانک ان کو (عذاب میں ) گرفتار کیا اور وہ بالکل بے خبر تھے۔

۹۶اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور پرہیز گار بنتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں (کے دروازوں ) کو کھول دیتے مگر (افسوس) ان لوگوں نے (ہمارے پیغمبروں کو) جھٹلایا ہم نے بھی ان کی کرتوتوں کی بدولت ان کو (عذاب میں ) گرفتار کیا۔

۹۷تو کیا (ان) بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب راتوں رات آ جائے جب کہ وہ پڑے بے خبر سوتے ہوں۔

۹۸یا ان بستیوں والے اس سے بے خوف ہیں کہ ان پردن د ہاڑے ہمارا عذاب آ پہنچے جب کہ وہ کھیل کود میں مشغول ہوں

۹۹تو کیا یہ لوگ خدا کی تدبیر سے ڈھیٹ ہو گئے ہیں۔ تو (یاد رہے کہ) خدا کے داؤ سے صرف گھاٹا اٹھانے والے ہی نڈر ہو بیٹھے ہیں۔

۱۰۰کیا جو لوگ اہل زمین کے بعد زمین کے وارث (و مالک) ہوتے ہیں انہیں یہ معلوم نہیں کہ اگر ہم چاہتے تو ان کے گناہوں کی بدولت ان کو مصیبت میں پھنسا دیتے (مگر یہ لوگ ایسے ناسمجھ ہیں کہ گویا) ان کے دلوں پر ہم خود مہر کر دیتے ہیں کہ یہ لوگ کچھ سنتے ہی نہیں۔

۱۰۱(اے رسولؐ) یہ چند بستیاں ہیں جن کے حالات ہم تم سے بیان کرتے ہیں اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ ان کے پیغمبر ان کے پاس بہت واضح ا و روشن معجزے لے کر آئے مگر یہ لوگ جس کو پہلے جھٹلا چکے تھے اس پر بھلا کا ہے کو ایمان لانے والے تھے خدا یوں کافروں کے دلوں پر علامت مقرر کر دیتا ہے۔ (کہ یہ ایمان نہ لائیں گے )

۱۰۲اور ہم نے تو ان میں سے اکثروں کا عہد ٹھیک نہ پایا۔ اور ہم نے ان میں سے اکثروں کو بدکار ہی پایا۔

۱۰۳پھر ہم نے (ان پیغمبران مذکورین کے ) بعد موسیٰؑ کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس معجزے عطا کر کے (رسولؐ بنا کر) بھیجا تو ان لوگوں نے ان معجزات کے ساتھ (بڑی بڑی) شرارتیں کیں۔ پس ذرا غور تو کرو کہ آخر فسادیوں کا انجام کیا ہوا۔

۱۰۴اور موسیٰ ؑ نے (فرعون سے ) کہا اے فرعون میں یقیناً پروردگار عالم کا رسولؐ ہوں۔

۱۰۵مجھ پر واجب ہے کہ خدا پر سچ کے سوا (ایک حرف بھی جھوٹ) نہ کہوں۔ میں یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح و روشن معجزہ لے کر آیا ہوں۔ تو تو بنی اسرائیل کو میرے ہمراہ کر دے۔

۱۰۶(فرعون) کہنے لگا اگر تم سچے ہو اور واقعی کوئی معجزہ لے کر آئے ہو تو اسے دکھاؤ۔

۱۰۷(یہ سنتے ہی) موسیٰ ؑ نے اپنی چھڑی (زمین پر) ڈال دی پس یکایک (اچھا خاصا) بظاہر اژدھا بن گئی۔

۱۰۸اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ہر شخص کی نظر میں جگمگا رہا ہے۔

۱۰۹تب فرعون کی قوم کے چند سرداروں نے کہا یہ تو البتہ بڑا ماہر جادوگر ہے۔

۱۱۰یہ چاہتا ہے کہ تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کر دے تو اب تم لوگ اس کے بارے میں کیا صلاح دیتے ہو

۱۱۱(آخر) سب نے متفق اللفظ کہا کہ (اے فرعون) ان کو اور ان کے بھائی (ہارونؑ) کو چندے مقید رکھ اور (اطراف کے ) شہروں میں ہر کاروں کو بھیج

۱۱۲ کہ تمام بڑے بڑے جادوگروں کو جمع کر کے آپ کے دربار میں حاضر کریں

۱۱۳اور جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگے کہ اگر ہم (موسیٰ ؑ سے ) جیت جائیں تو ہم کو بڑا (بھاری) انعام ضرور ملنا چاہیے

۱۱۴فرعون نے کہا ہاں (ہاں انعام ہی نہیں ) بلکہ پھر تو تم ہمارے دربار کے مقربین سے ہو گے۔

۱۱۵اور (مقررہ وقت پر سب جمع ہوئے تو) بول اٹھے کہ اے موسیٰؑ یا تم اپنے منتر پھینکو یا ہم ہی (اپنے اپنے ) منتر پھینکیں۔

۱۱۶موسیٰؑ نے کہا (اچھا پہلے ) تم ہی پھینک (کے اپنا حوصلہ نکال) لو تب جونہی ان لوگوں نے (اپنی رسیّاں ) ڈالیں تو لوگوں کی نظر بندی کر دی (کہ سب سانپ معلوم ہونے لگیں )اور لوگوں کو ڈرا دیا اور ان لوگوں نے بڑا (بھاری) جادو دکھا دیا

۱۱۷اور ہم نے موسیٰ ؑ کے پاس وحی بھیجی کہ (بیٹھے کیا ہو) تم بھی اپنی چھڑی ڈال دو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ چھڑی ان کے بنائے ہوئے (جھوٹے ) سانپوں کو ایک ایک کر کے نگل رہی ہے۔

۱۱۸القصہ حق بات تو (جم کے ) بیٹھی اور ان کی ساری کارستانی ملیامیٹ ہو گئی

۱۱۹پس (فرعون اور اس کے طرف دار سب کے سب اس اکھاڑے میں ) وہیں ہارے اور ذلیل و رسوا ہو کر پلٹے

۱۲۰ اور جادوگر سب (موسیٰ ؑ کے سامنے ) سجدہ میں گر پڑے

۱۲۱اور (عاجزی سے ) بولے ہم سارے جہان کے پروردگار پر ایمان لائے۔

۱۲۲جو موسیٰ ؑ اور ہارونؑ کا پروردگار ہے۔

۱۲۳فرعون نے کہا (ہائیں ) تم لوگ میری اجازت سے قبل اس پر ایمان لے آئے یہ ضرور تم لوگوں کی مکاری ہے جو تم لوگوں نے اس شہر میں پھیلا رکھی ہے تاکہ اس کے باشندوں کو یہاں سے نکال باہر کرو پس تمہیں عنقریب ہی اس شرارت کا مزا معلوم ہو جائے گا۔

۱۲۴میں تو یقیناً تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا ڈالوں گا پھر تم سب کے سب کو سولی دیدوں گا۔

۱۲۵جادوگر کہنے لگے ہم کو تو (آخر ایک روز) اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا (مَر جانا) ہے۔

۱۲۶اور تو ہم سے اس کے سوا اور کاہے کی عداوت رکھتا ہے کہ جب ہمارے پاس خدا کی نشانیاں آئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے (اور اب تو ہماری یہ دعا ہے کہ ) اے ہمارے پروردگار ہم پر صبر (کا مینہ) برسا اور ہمیں اپنی فرمانبرداری کی حالت میں دنیا سے اٹھا لے۔

۱۲۷اور فرعون کی قوم کے چند سرداروں نے (فرعون سے ) کہا کہ کیا آپ موسیٰؑ اور اس کی قوم کو (ان کی حالت پر) چھوڑ دیں گے کہ ملک میں فساد کرتے پھریں اور آپ کو اور آپ کے خداؤں (کی پرستش) کو چھوڑ بیٹھیں فرعون کہنے لگا (تم گھبراؤ نہیں ) ہم عنقریب ہی ان کے بیٹوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کی عورتوں کو (لونڈیاں بناتے ہوئے ) زندہ رکھتے ہیں اور ہم تو ان پر ہر طرح قابو رکھتے ہیں

۱۲۸(یہ سن کر) موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ (بھائیو) خدا سے مدد مانگو اور صبر کرو ساری زمین تو خدا ہی کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کا وارث (و مالک) بنائے۔اور خاتمہ بخیر توبس پرہیزگاروں ہی کا ہے۔

۱۲۹وہ لوگ کہنے لگے کہ (اے موسیٰ ؑ ) تمہارے آنے کے قبل ہی سے اور تمہارے آنے کے بعد بھی ہم کو تو برابر تکلیف ہی پہنچ رہی ہے۔ (آخر کہاں تک صبر کریں ) موسیٰؑ نے کہا عنقریب ہی تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور تمہیں زمین میں (اس کا) جانشین بنائے گا۔ پھر دیکھے گا کہ تم کیسا کام کرتے ہو۔

۱۳۰اور بے شک ہم نے فرعون کے لوگوں کو برسوں سے قحط اور پھلوں کی کمی پیداوار (کے عذاب) میں گرفتار کیا۔ تاکہ وہ لوگ عبرت حاصل کریں۔

۱۳۱تو جب انہیں کوئی راحت ملتی تو کہنے لگتے کہ یہ تو ہمارے لیے سزا وار ہی ہے اور جب کوئی انہیں مصیبت پہنچتی تو موسیٰ ؑ اور ان کے ساتھیوں کی بد شگونی سمجھتے۔ دیکھو ان کی بد شگونی تو خدا کے ہاں (لکھی جا چکی) تھی مگر بہتیرے لوگ نہیں جانتے ہیں۔

۱۳۲اور (فرعون کے لوگ موسیٰ ؑ سے ایک مرتبہ) کہنے لگے کہ تم ہم پر جادو کرنے کے لیے چاہے جتنی نشانیاں لاؤ مگر ہم تو تم پر کسی طرح ایمان نہیں لائیں گے۔

۱۳۳تب ہم نے ان پر (پانی کے ) طوفان اور ٹڈیوں اور جوؤں اور مینڈکوں اور خون ( کا عذاب) بھیجا کہ سب جدا جدا(ہماری قدرت کی) نشانیاں تھیں اس پر بھی وہ لوگ تکبّر ہی کرتے رہے اور وہ لوگ گنہگار تو تھے ہی۔

۱۳۴اور جب ان پر عذاب آ پڑا تو کہنے لگتے اے موسیٰ ؑ تم سے جو خدا نے (قبول دعا کا) عہد کیا ہے اسی کی امید پر اپنے خدا سے دعا مانگو۔ اور اگر تم نے ہم سے عذاب کو ٹال دیا تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور تمہارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھی ضرور بھیج دیں گے۔

۱۳۵پھر جب ہم ان سے اس وقت کے واسطے جس وقت تک وہ ضرور پہنچتے عذاب کو ہٹا لیتے تو پھر فوراً بد عہدی کرنے لگتے۔

۱۳۶تب (آخر) ہم نے ان سے (ان کی شرارتوں کا) بدلہ لیا اور انہیں دریا میں ڈبو دیا چونکہ وہ لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے غافل رہتے تھے ہم نے انہیں دریا میں

۱۳۷اور جن بے چاروں کو یہ لوگ کمزور سمجھتے تھے انہی کو (ملک شام کی) زمین کا جس میں ہم نے (زرخیز ہونے کی) برکت دی تھی اس کے پورب پچھم (سب کا) وارث (و مالک) بنا دیا۔ اور چونکہ بنی اسرائیل نے (فرعون کے ظلموں پر) صبر کیا تھا اس لیے تمہارے پروردگار کا نیک وعدہ جو اس نے بنی اسرائیل سے کیا تھا پورا کیا۔ اور جو کچھ فرعون اور اس کی قوم کے لوگ کرتے تھے اور جو اونچی اونچی عمارتیں بناتے تھے سب ہم نے برباد کر دیں۔

۱۳۸اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا کے اس پار اتار دیا تو ایک ایسے لوگوں پر سے گزرے جو اپنے (ہاتھوں سے بنائے ہوئے ) بتوں (کی پرستش) پر جمے بیٹھے تھے (تو ان کو دیکھ کر بنی اسرائیل موسیٰ ؑ سے ) کہنے لگے اے موسٰیؑ جیسے ان لوگوں کے معبود (بت) ہیں ویسے ہی ہمارے لیے بھی ایک معبود بناؤ موسیٰ ؑ نے جواب دیا کہ تم تو بڑے جاہل لوگ ہو۔

۱۳۹(ارے کم بختو!) یہ لوگ جس مذہب پر ہیں وہ یقینی برباد ہو کر رہے گا اور جو عمل یہ لوگ کر رہے ہیں وہ سب ملیا میٹ ہو جائے گا۔

۱۴۰(موسیٰ ؑ نے یہ بھی) کہا کیا (تمہارا مطلب یہ ہے کہ) خدا کو چھوڑ کر میں دوسرے کو تمہارا معبود تلاش کروں حالانکہ اس نے تم کو ساری خدائی پر فضیلت دی ہے۔

۱۴۱(اے بنی اسرائیل وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جب وہ تمہیں بڑی بڑی تکلیفیں پہنچایا کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو تو چن چن کر قتل کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو (لونڈیاں بنانے کے واسطے ) زندہ رکھ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے (تمہارے صبر کی) سخت آزمائش تھی۔

۱۴۲اور ہم نے موسیٰ ؑ سے (توریت دینے کے لیے ) تیس راتوں کا وعدہ کیا اور ہم نے اس میں دس روز (بڑھا کر) پورا کر دیا غرض اس کے پروردگار کا وعدہ چالیس رات میں پورا (چلہ) ہو گیا اور (چلتے وقت) موسیٰ ؑ نے اپنے بھائی ہارونؑ سے کہا کہ تم میری قوم میں میرے جانشین رہو اور ان کی اصلاح کرنا اور فساد کرنے والوں کے طریقہ پر نہ چلنا۔

۱۴۳اور جب موسیٰ ؑ ہمارا وعدہ پورا کرنے (کوہ طور پر) آئے اور ان کا پروردگار ان سے ہمکلام ہوا تو موسٰیؑ نے عرض کی کہ خدایا تو مجھے اپنی جھلک دکھا دے کہ میں تجھے دیکھوں خدا نے فرمایا تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے مگر ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھو (ہم اس پر اپنی تجلی ڈالتے ہیں ) پس اگر پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہے تو سمجھنا کہ عنقریب مجھے بھی دیکھ لو گے (ورنہ نہیں ) پھر جب ان کے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو اس کو چکنا چور کر دیا اور موسیٰ ؑ بیہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے خداوندا تو (دیکھنے دکھانے سے ) پاک و پاکیزہ ہے میں نے تیری بارگاہ میں توبہ کی اور سب میں سے پہلے (تیری عدم روئت کا) یقین کرتا ہوں۔

۱۴۴خدا نے فرمایا اے موسیٰ ؑ میں نے تم کو تمام لوگوں پر اپنی پیغمبری اور ہم کلامی (کا درجہ) دے کر برگزیدہ کیا ہے تب جو (کتاب توریت) ہم نے تم کو عطا کی ہے اسے لو اور شکر گزار بنو۔

۱۴۵اور ہم نے (توریت کی) تختیوں میں موسٰیؑ کے لیے ہر طرح کی نصیحت اور ہر چیز کا تفصیل وار بیان لکھ دیا تھا تو (اے موسیٰ ؑ ) تم اسے مضبوطی سے لو (عمل کرو) اور اپنی قوم کو حکم دے دو کہ اس میں کی اچھی باتوں پر عمل کرو۔ اور میں بہت جلد تمہیں بد کرداروں کا گھر دکھا دوں گا (کہ کیسے اُجڑتے ہیں )

۱۴۶جو لوگ (خدا کی) زمین پر ناحق اکڑتے پھرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے بہت جلد پھیر دوں گا اور (میں کیا پھیروں گا خود ان کا دل ایسا سخت ہے کہ) اگر (دنیا جہان کے ) سارے معجزے بھی دیکھ لیں تو بھی یہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔اور اگر سیدھا رستہ دیکھ بھی لیں تو بھی اپنی راہ نہ بنائیں گے اور گمراہی کی راہ دیکھ لیں گے تو جھٹ پٹ اس کو اپنا طریقہ بنا لیں گے۔ یہ کج روی اِس سبب سے ہوئی کہ ان لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلا دیا اور ان سے غفلت کرتے رہے۔

۱۴۷اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو اور آخرت کی حضوری کو جھٹلایا ان کا سب کیا کرایا اکارت ہو گیا ان کو بس ان ہی کے اعمال کی جزا (یا سزا) دی جائے گی جو وہ کرتے تھے۔

۱۴۸اور موسیٰ ؑ کی قوم نے (کوہِ طور پر) ان کے جانے کے بعد (اپنے زیوروں کو گلا کر) ایک بچھڑے کی مورت بنائی (یعنی ایک جسم جس میں گائے کی سی آواز تھی) (افسوس) کیا ان لوگوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ وہ نہ تو ان سے بات ہی کرسکتا ہے اور نہ کسی طرح کی ہدایت ہی کرسکتا ہے (خلاصہ) ان لوگوں نے اسے اپنا معبود بنا لیا اور آپ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے

۱۴۹اور جب وہ پچھتائے اور انہوں نے اپنے کو یقینی گمراہ دیکھ لیا تب کہنے لگے کہ اگر ہمارا پروردگار ہم پر رحم نہیں کرے گا اور ہمارا قصّور نہ معاف کرے گا تو ہم یقینی گھاٹا اُٹھانے والوں میں ہو جائیں گے۔

۱۵۰اور جب موسیٰ ؑ پلٹ کر اپنی قوم کی طرف آئے تو (یہ حالت دیکھ کر) رنج و غصّہ میں (اپنی قوم سے ) کہنے لگے کہ تم لوگوں نے میرے بعد بہت بری حرکت کی۔ تم لوگ اپنے پروردگار کے حکم (میرے آنے ) میں کس قدر جلدی کر بیٹھے اور (توریت کی) تختیوں کو پھینک دیا اور اپنے بھائی (ہارونؑ) کے سر (کے بالوں ) کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے (اس پر ہارونؑ نے ) کہا کہ اے میرے ماں جائے میں کیا کرتا قوم نے مجھے حقیر سمجھا اور (میرا کہنا نہ مانا بلکہ) قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں تو مجھ پر دشمنوں کو نہ ہنسوایئے اور مجھے ان ظالم لوگوں کے ساتھ نہ قرار دیجیے۔

۱۵۱(تب) موسیٰؑ نے کہا اے میرے پروردگار مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

۱۵۲بے شک جن لوگوں نے بچھڑے کو (اپنا معبود) بنا لیا ان پر عنقریب ہی ان کے پروردگار کی طرف سے عذاب نازل ہو گا اور دنیاوی زندگی میں ذلت اور (اس کے علاوہ) ہم بہتان باندھنے والوں کو ایسی ہی سزا کیا کرتے ہیں۔

۱۵۳اور جن لوگوں نے بُرے کام کیے پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور ایمان لائے تو بے شک تمہارا پروردگار توبہ کے بعد ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۵۴اور جب موسیٰؑ کا غصّہ ٹھنڈا ہوا تو (توریت کی)تختیوں کو (زمین سے ) اٹھا لیا اور توریت کے نسخے میں جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔

۱۵۵اور موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے ہمارا وعدہ پورا کرنے کو (کوہ طور پر لے جانے کے واسطے ) ستر آدمیوں کو چنا پھر جب ان کو زلزلہ نے آ پکڑا تو حضرت موسٰیؑ نے عرض کی پروردگارا اگر تو چاہتا تو مجھ کو اور ان سب کو پہلے ہی ہلاک کر ڈالتا۔ کیا ہم میں سے چند بے وقوفوں کی کرنی کی سزامیں ہم کو ہلاک کرتا ہے یہ تو صرف تیری آزمائش تھی تو جسے چاہے اسے گمراہی میں چھوڑ دے اور جس کو چاہے ہدایت کرے تو ہی ہمارا مالک ہے تو ہی ہمارے قصور کو معاف کر اور ہم پر رحم کر اور تو تو تمام بخشنے والوں سے کہیں بہتر ہے۔

۱۵۶اور تو ہی اس دنیا (فانی) اور آخرت میں ہمارے واسطے بھلائی کو لکھ لے ہم تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں خدا نے فرمایا جس کو میں چاہتا ہوں (مستحق سمجھ کر) اپنا عذاب پہنچاتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ میں تو اسے بہت جلد خاص ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا (جو بُری باتوں سے ) بچتے رہیں گے اور زکوٰۃ دیا کریں گے اور جو لوگ ہماری آیتوں پر ایمان رکھا کریں گے

۱۵۷(یعنی) جو لوگ ہمارے نبی امی کے قدم بہ قدم چلتے ہیں (جس کی بشارت) کو اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں اور (وہ نبی) جو اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور بُرے کام سے روکتا ہے اور (جو) پاک و پاکیزہ چیزیں تو ان پر حلال اور ناپاک گندی چیزیں ان پر حرام کر دیتا ہے اور وہ (سخت احکام کا) بوجھ جو ان کی گردن پر تھا اور وہ پھندے جو ان پر (پڑے ہوئے ) تھے ان سے ہٹا دیتا ہے۔ پس (یاد رکھو کہ) کہ جو لوگ اس (نبی محمدؐ) پر ایمان لائے اور ان کی تعظیم (عزّت) کی اور ان کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اُن کے ساتھ نازل ہوا۔ ہے تو یہی لوگ اپنی دلی مراد پائیں گے۔

۱۵۸(اے رسولؐ) تم (ان لوگوں سے ) کہہ دو کہ لوگوں میں تم سب لوگوں کے پاس اس خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں جس کے لیے خاص سارے آسمان و زمین کی بادشاہت (حکومت) ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی زندہ کرتا ہے وہی مار ڈالتا ہے پس (لوگو) خدا اور اس کے رسولؐ نبی امّی پر ایمان لاؤ جو (خود بھی) خدا پر اور اس کی باتوں پر (دل سے ) ایمان رکھتا ہے اور اسی کے قدم بقدم چلو تاکہ تم ہدایت پاؤ۔

۱۵۹اور موسیٰ ؑ کی قوم کے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق بات کی ہدایت بھی کرتے ہیں اور حق ہی حق (معاملات میں ) انصاف بھی کرتے ہیں۔

۱۶۰اور ہم نے بنی اسرائیل کے ایک ایک دادا کی اولاد کو جدا جدا بارہ گروہ بنا دیئے اور جب موسیٰ ؑ کی قوم نے ان سے پانی مانگا تو ہم نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ تم اپنی چھڑی پتھر پر مارو (چھڑی کا مارنا تھا) کہ اس پتھر سے (پانی کے ) بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور (ایسے صاف الگ الگ کہ) ہر ایک قبیلہ نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا اور ہم نے بنی اسرائیل پر ابر کا سایہ کیا اور ان پر من و سلویٰ (سی نعمت) نازل کی (لوگو) جو پاک و پاکیزہ چیزیں تمہیں دی ہیں انہیں (شوق سے ) کھاؤ (پیو)اور ان لوگوں نے (نافرمانی کر کے ) کچھ ہمارا نہیں بگاڑا بلکہ اپنا آپ ہی بگاڑتے ہیں۔

۱۶۱اور جب ان سے کہا گیا کہ اس گاؤں میں جا کر رہو سہو اور (اس کے میوؤں کو) جہاں سے تمہارا جی چاہے شوق سے کھاؤ (پیو) اور (منہ سے ) حطّہ کہتے اور سجدہ کرتے ہوئے دروازہ میں داخل ہو تو ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو ہم کچھ زیادہ ہی دیں گے۔

۱۶۲تو ظالموں نے جو بات ان سے کہی گئی تھی اسے بدل کر کچھ اور کہنا شروع کیا تو ہم نے ان کی شرارتوں کی بدولت ان پر آسمان سے عذاب بھیج دیا۔

۱۶۳اور (اے رسولؐ) ان سے ذرا اس گاؤں کا حال تو پوچھو جو دریا کے کنارے واقع تھا جب یہ لوگ شنبہ کے دن زیادتی کرنے لگے کہ جب ان کا شنبہ (والا عبادت کا) دن ہوتا تب تو مچھلیاں سمٹ کے ان کے سامنے پانی پر ابھر کے آ جاتیں اور جب ان کا شنبہ (والا عبادت کا) دن نہ ہوتا تو مچھلیاں ان کے پاس ہی نہ پھٹکتیں اور چونکہ یہ لوگ بد چلن تھے اس وجہ سے ہم بھی ان کی یوں ہی آزمائش کیا کرتے تھے۔

۱۶۴اور جب ان میں سے ایک جماعت نے (ان لوگوں میں سے جو شنبہ کے دن شکار کو منع کرتے تھے ) کہا کہ جنہیں خدا ہلاک کرنا یا سخت عذاب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے انہیں (بے فائدہ) کیوں نصیحت کرتے ہو تو وہ کہنے لگے کہ فقط تمہارے پروردگار کی بارگاہ میں (اپنے کو) الزام سے بچانے کے لیے اور اس لیے کہ شاید یہ لوگ پرہیزگاری اختیار کریں۔

۱۶۵پھر جب وہ لوگ جس چیز کی انہیں نصیحت کی گئی تھی اسے بھول گئے تو ہم نے ان کو تو نجات دے دی جو بُرے کام سے لوگوں کو روکتے تھے اور جو لوگ ظالم تھے ان کو ان کی بد چلنی کی وجہ سے بڑے عذاب میں گرفتار کیا۔

۱۶۶پھر جس بات کی انہیں ممانعت کی گئی تھی۔ جب ان لوگوں نے اس میں سرکشی کی تو ہم نے حکم دیا کہ تم ذلیل اور راندے ہوئے بندر بن جاؤ (اور وہ بن گئے )۔

۱۶۷(اے رسولؐ وہ وقت یاد دلاؤ) جب تمہارے پروردگار نے ہانک پکار کے (بنی اسرائیل سے ) کہہ دیا تھا کہ وہ قیامت تک ان پر ایسے حاکم کو مسلط رکھے گا جو انہیں بُری بُری تکلیفیں دیتا رہے (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارا پروردگار بہت جلد عذاب کرنے والا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان (بھی ہے )

۱۶۸اور ہم نے ان کو روئے زمین میں گروہ گروہ تتر بتر کر دیا ان میں کے کچھ لوگ تو نیک ہیں اور کچھ لوگ اور طرح کے (بدکار)ہیں۔ اور ہم نے انہیں سکھ اور دُکھ (دونوں طرح) سے آزمایا تاکہ وہ (شرارت سے ) باز آئیں۔

۱۶۹پھر ان کے بعد کچھ نا خلف جانشین ہوئے جو کتاب خدا توریت کے وارث تو ہوئے (مگر ان کا حال یہ ہے کہ وہ) اس کمینی دنیا پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اور (لطف تو یہ ہے کہ) کہتے ہیں کہ ہم تو عنقریب بخش دیئے جائیں گے اور (جو لوگ ان پر طعن کرتے ہیں ) اگر ان کے پاس بھی ویسا ہی( د وسرا سامان آ جائے تو اسے یہ بھی نہ چھوڑیں اور ) لے ہی لیں گے کیا ان سے کتاب (خدا) (توریت) کا عہد و پیمان نہیں لیا گیا تھا کہ خدا پر سچ کے سوا (جھوٹ کبھی) نہیں کہیں گے اور جو کچھ اس کتاب میں ہے اسے انہوں نے (اچھی طرح) پڑھ لیا ہے اور آخرت کا گھر تو ان ہی لوگوں کے واسطے خاص ہے جو پرہیزگار ہیں تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے۔

۱۷۰اور جو لوگ کتاب (خدا) کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں اور پابندی سے نماز پڑھتے ہیں (انہیں اس کا ثواب ضرور ملے گا) کیونکہ ہم ہرگز نیکوکاروں کا ثواب برباد نہیں کرتے۔

۱۷۱تو (اے رسولؐ یہود کو یاد دلاؤ) جب ہم نے ان (کے سروں پر) پہاڑ کو اس طرح لٹکا دیا کہ گویا سائبان تھا اور وہ لوگ سمجھ چکے تھے کہ ان پر اب گرا (اب گرا اور ہم نے ان کو حکم دیا کہ) جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے یاد رکھو تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔

۱۷۲اور (اے رسول وہ وقت بھی یاد دلاؤ) جب تمہارے پروردگار نے آدمؑ کی اولاد سے یعنی پشتوں سے (باہر) نکال کر ان کی اولاد سے خود ان کے مقابلہ میں اقرار کرا لیا (پوچھا) کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں تو سب کے سب بولے ہاں ہم اس کے گواہ ہیں (یہ ہم نے اس لیے کہا کہ ایسا نہ ہو) کہیں تم قیامت کے دن بول اٹھو کہ ہم تو اس سے بالکل بے خبر تھے۔

۱۷۳یا یہ کہہ بیٹھو کہ (ہم کیا کریں ) ہمارے تو باپ داداؤں ہی نے پہلے شرک کیا تھا اور ہم تو ان کی اولاد تھے (کہ) ان کے بعد (دنیا میں ) آئے تو کیا ہمیں ان لوگوں کے جرم کی سزا میں ہلاک کرے گا جو پہلے ہی باطل کر چکے۔

۱۷۴اور ہم یوں اپنی آیتوں کو تفصیل وار بیان کرتے ہیں اور تاکہ وہ لوگ (اپنی غلطی سے ) باز آئیں۔

۱۷۵اور (اے رسولؐ) تم ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جسے ہم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑا اور آخرکار وہ گمراہ ہو گیا۔

۱۷۶اور اگر ہم چاہتے تو ہم اسے انہیں آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے مگر وہ تو خود ہی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن بیٹھا تو اس کی مثل اس کتے کی مثل ہے کہ اگر اس کو دھتکار دو تو بھی زبان نکالے رہے اور اس کو چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے یہ مثل ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اے رسولؐ یہ قصّے ان لوگوں سے بیان کر دو تاکہ یہ لوگ خود بھی غور کریں۔

۱۷۷جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے ان کی بھی کیا بُری مثل ہے اور اپنی ہی جانوں پر ستم ڈھاتے رہے۔

۱۷۸راہ پر بس وہی شخص ہے جس کی خدا ہدایت کرے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے تو وہی لوگ گھاٹے میں ہیں۔

۱۷۹اور گویا ہم نے (خود) بہتیرے جنات اور آدمیوں کو جہنم کے واسطے پیدا کیا اور ان کے دل تو ہیں (مگر قصداً) ان سے سمجھتے ہی نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں (مگر قصداً) ان سے دیکھتے ہی نہیں اور ان کے کان بھی ہیں (مگر) ان سے سننے کا کام ہی نہیں لیتے (خلاصہ) یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں گے گزرے ہوئے یہی لوگ (امور حق سے ) بالکل بے خبر ہیں۔

۱۸۰اور اچھے اچھے نام خدا ہی کے خاص ہیں تو اسے انہی ناموں سے پکارو اور جو لوگ اس کے ناموں میں کفر کرتے ہیں انہیں (ان کے حال پر) چھوڑ دو اور وہ بہت جلد اپنے کرتوت کی سزا پائیں گے۔

۱۸۱اور ہماری مخلوقات سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دین حق کی ہدایت کرتے ہیں اور حق ہی (حق) انصاف بھی کرتے ہیں۔

۱۸۲اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہم انہیں بہت جلد اس طرح آہستہ آہستہ (جہنم میں ) لے جائیں گے کہ انہیں خبر بھی نہ ہو گی

۱۸۳اور میں انہیں (دنیا میں ) ڈھیل دوں گا بے شک میری تدبیر بہت (پختہ اور ) مضبوط ہے۔

۱۸۴کیا ان لوگوں نے اتنا بھی خیال نہ کیا کہ آخر ان کے رفیق (محمدؐ) کو کچھ جنون تو ہے نہیں وہ تو بس کھلم کھلا (عذاب خدا سے ) ڈرانے والے ہیں۔

۱۸۵کیا ا ن لوگوں نے آسمان و زمین کی حکومت اور خدا کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں غور نہ کیا اور نہ اس بات میں کہ شاید ان کی موت قریب آ گئی ہو پھر اتنا سمجھانے کے بعد (بھلا) کس بات پر ایمان لائیں گے۔

۱۸۶جسے خدا گمراہی میں چھوڑ دے پھر اس کا کوئی رہبر نہیں اور انہیں ان کی سرکشی (و شرارت) میں چھوڑ دے گا کہ سرگرداں رہیں۔

۱۸۷(اے رسولؐ) تم سے لوگ قیامت کے بارے میں پوچھا کرتے ہیں کہ کہیں اس کا تھل بیڑا بھی ہے تم کہہ دو کہ اس کا علم بس فقط میرے پروردگار ہی کو ہے وہی اس کے وقت معین پر اس کو ظاہر کر دے گا وہ سارے آسمان و زمین میں ایک کٹھن وقت ہو گا وہ تمہارے پاس بس اچانک آ جائے گی تم سے لوگ اس طرح پوچھتے ہیں کہ گویا تم ان سے بخوبی واقف ہو تم (صاف) کہہ دو کہ اس کا علم بس خدا ہی کو ہے مگر بہتیرے لوگ نہیں جانتے

۱۸۸اے رسولؐ تم کہہ دو خود اپنا آپ تو اختیار رکھتا ہی نہیں نہ نفع کا نہ ضرر کا مگر بس وہی جو خدا چاہے اور اگر (بغیر خدا کے بتائے ) غیب کو جانتا ہوتا تو یقیناً میں اپنا بہت سا فائدہ کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی میں تو صرف ایماندار لوگوں کو (عذاب سے ) ڈرانے والا اور (بہشت کی) خوش خبری دینے والا ہوں۔

۱۸۹وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص (آدمؑ ) سے پیدا کیا اور اس (کی بچی ہوئی مٹی) سے اس کا جوڑا بھی بنا ڈالا تاکہ اس کے ساتھ رہے سہے پھر جب انسان اپنی بیوی سے ہمبستری کرتا ہے تو بیوی ایک ہلکے سے حمل سے حاملہ ہو جاتی ہے پھر اسے لیے لیے چلتی پھرتی ہے پھر جب وہ (زیادہ دن ہونے سے ) بوجھل ہو جاتی ہے تو دونوں (میاں بیوی) اپنے پروردگار خدا سے دعا کرنے لگے کہ اگر تو ہمیں نیک فرزند عطا فرمائے تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے۔

۱۹۰پھر جب خدا نے ان کو (فرزند) صالح عطا فرما دیا تو جو (اولاد) خدا نے انہیں عطا کیا تھا لگے اس میں خدا کا شریک بنانے تو (خدا کی) شان شرک سے بہت اونچی ہے۔

۱۹۱کیا وہ لوگ خدا کا شریک ایسوں کو بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے کہ وہ خود (خدا کے ) پیدا کیے ہوئے ہیں۔

۱۹۲اور نہ وہ ان کی مدد کی قدرت رکھتے ہیں۔اور نہ آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں۔

۱۹۳اور اگر تم انہیں ہدایت کی طرف بلاؤ گے بھی تو یہ تمہاری پیروی نہیں کرنے کے۔ تمہارے واسطے برابر ہے خواہ تم ان کو بلاؤ یا تم چپ چاپ بیٹھے رہو۔

۱۹۴بے شک وہ لوگ جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ (بھی)تمہاری طرح (خدا کے ) بندے ہیں بھلا تم انہیں پکار کے تو دیکھو تو اگر تم سچّے ہو تو وہ تمہاری کچھ سن لیں۔

۱۹۵کیا ان کے ایسے پاؤں بھی ہیں جن سے چل سکیں یا ان کے ایسے ہاتھ بھی ہیں جن سے (کسی چیز کو) پکڑ سکیں یا ان کی ایسی آنکھیں بھی ہیں جن سے دیکھ سکیں یا ان کے ایسے کان ہیں جن سے سن سکیں (اے رسولؐ)کہہ دو کہ تم اپنے بنائے ہوئے شریکوں کو بلاؤ پھر سب مل کر مجھ پر داؤ چلاؤ پھر مجھے مہلت نہ دو (پھر دیکھوں تو میرا کیا بنا سکتے ہو)

۱۹۶بے شک میرا مالک و مختار تو بس خدا ہے جس نے کتاب (قرآن) کو نازل فرمایا اور وہی (اپنے ) نیک بندوں کا حامی ہے۔

۱۹۷اور وہ لوگ (بت) جنہیں تم خدا کے سوا (اپنی مدد کو) پکارتے ہو نہ تو وہ تمہاری مدد کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ اپنی آپ مدد کرسکتے ہیں۔

۱۹۸اور اگر تُو انہیں ہدایت کی طرف بلائے گا بھی تو یہ سن ہی نہیں سکتے اور تو تو سمجھتا ہے کہ وہ تجھے (آنکھیں کھولے ) دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ دیکھتے نہیں۔

۱۹۹(اے رسولؐ) تم درگزر کرنا اختیار کرو اور اچھے کام کا حکم دو اور جاہلوں کی طرف سے منہ پھیر لو۔

۲۰۰اور اگر شیطان کی طرف سے تمہاری (امت کے ) دل میں کسی طرح کا دغدغہ پیدا ہو تو تم خدا سے پناہ مانگو (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ وہ بڑا سننے والا واقف کار رہے۔

۲۰۱بے شک جو لوگ پرہیزگار ہیں جب کبھی انہیں شیطان کا خیال بھی چھو گیا تو چونک پڑتے ہیں پھر فوراً ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔

۲۰۲اور ان کافروں کے بھائی بند شیطان ان کو (دھر پکڑ کے ) گمراہی کی طرف گھسیٹتے ہیں پھر کسی طرح کی کوتاہی (بھی) نہیں کرتے۔

۲۰۳اور جب تم ان کے پاس کوئی (خاص) معجزہ نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے اسے کیوں نہیں بنا لیا (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں تو بس اسی وحی کا پابند ہوں جو میرے پروردگار کی طرف سے میرے پاس آتی ہے یہ (قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے ( حقیقت کی دلیل ہے ) اور ایمانداروں کے واسطے ہدایت اور رحمت ہے۔

۲۰۴(لوگو) جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کے سنو اور چپ چاپ رہو تاکہ (اسی بہانے ) تم پر رحم کیا جائے۔

۲۰۵اور اپنے پروردگار کو اپنے جی ہی (جی) میں گڑ گڑا کے اور ڈر (ڈر) کے اور بہت چیخ کے نہیں (دھیمی)آواز سے صبح و شام یاد کیا کرو اور (اس کی یاد سے ) بالکل غافل نہ ہو جاؤ۔

۲۰۶بے شک جو لوگ (فرشتے وغیرہ) تمہارے پروردگار کے پاس مقرب ہیں اور وہ اس کی عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اسی کا سجدہ کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

۸۔ سورۃ انفال

 

 

۱(اے رسولؐ) تم سے لوگ انفال (مال غنیمت) کے بارے میں پوچھا کرتے ہیں تو تم کہہ دو کہ انفال مخصوص خدا اور رسولؐ کے واسطے ہے تو خدا سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کی اصلاح کرو اور اگر تم سچے ایماندار ہو تو خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔

۲سچے ایماندار تو بس وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے ) خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو اور بھی زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ بس اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔

۳نماز کو پابندی سے ادا کرتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے (راہِ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں۔

۴یہی لوگ تو سچے ایماندار ہیں انہی کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں (بڑے بڑے ) درجے ہیں اور بخشش اور عزت و آبرو کے ساتھ روزی ہے۔

۵(یہ مالِ غنیمت کا جھگڑا ویسا ہی ہے ) جس طرح تمہارے پروردگار نے تمہیں بالکل ٹھیک(مصلحت سے ) تمہارے گھر سے (جنگ بدر میں ) نکالا تھا اور مومنین کا ایک گروہ (اس سے ) ناخوش تھا

۶وہ لوگ حق کے ظاہر ہونے کے بعد بھی تم سے (خواہ مخواہ) سچّی بات میں جھگڑتے تھے اور اس طرح( کرنے لگے ) گویا وہ (زبردستی) موت کے منہ میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ اور اسے (اپنی آنکھوں سے ) دیکھ رہے ہیں

۷اور (یہ وہ وقت تھا) جب خدا تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ (کفّار مکّہ کی) دو جماعتوں میں سے ایک تمہارے لیے ضروری ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ کمزور جماعت تمہارے ہاتھ لگے (تاکہ بغیر لڑے بھڑے مال غنیمت ہاتھ آئے ) اور خدا یہ چاہتا تھا کہ اپنی باتوں سے حق کو ثابت (قائم) کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ ڈالے

۸تاکہ حق کو (حق) ثابت کر دے اور باطل کا ملیامیٹ کر دے اگرچہ گنہگار (کفّار) اس سے ناخوش ہی کیوں نہ ہوں۔

۹(یہ وہ وقت تھا) جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری سن لی اور جواب دیا کہ میں تمہاری لگاتار ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا۔

۱۰اور (یہ امداد غیبی) خدا نے صرف تمہارے خوشی خاطر کے لیے کی تھی اور تاکہ تمہارے دل مطمئن ہو جائیں اور (یاد رکھو کہ) مدد خدا کے سوا کسی اور کے ہاں سے (کبھی) نہیں ہوتی بے شک خدا غالب اور حکمت والا ہے۔

۱۱یہ وہ وقت تھا جب اپنی طرف سے اطمینان دینے کے لیے تم پر نیند کو غالب کر رہا تھا اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا تاکہ اس سے تمہیں پاک و پاکیزہ کر دے اور تم سے شیطان کی گندگی دفع کر دے اور تمہارے دل مضبوط کر دے اور پانی سے (بالو جم جائے ) اور تمہارے قدم (اچھی طرح) جمائے رہے۔

۱۲(اے رسولؐ یہ وہ وقت تھا) جب تمہارا پروردگار فرشتوں سے فرما رہا تھا کہ میں یقیناً تمہارے ساتھ ہوں تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو میں بہت جلد کافروں کے دلوں میں تمہارا رعب ڈال دوں گا (پس پھر کیا ہے اب) تو ان کفّار کی گردنوں پر مارو اور ان کی پور پور کو چٹیلی کر دو

۱۳یہ (سزا) اس لیے ہے کہ ان لوگوں نے خدا اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کی اور جو شخص (بھی) خدا اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرے گا تو (یاد رہے کہ) خدا بڑا سخت عذاب کرنے والا ہے۔

۱۴(کافرو! دنیا میں تو) لو پھراس (سزا) کا مزا چھکو اور (پھر آخرت میں تو) کافروں کے واسطے جہنم ہے۔

۱۵اے ایماندارو! جب تم سے کفّار سے میدان جنگ میں مقابلہ ہو تو (خبردار) ان کی طرف پیٹھ نہ پھیرنا

۱۶اور (یاد رہے کہ) اس شخص کے سوا جو لڑائی کے واسطے کترائے یا کسی جماعت کے پاس (جا کر) موقع پائے (اور) جو شخص بھی اس دن ان کفّار کی طرف اپنی پیٹھ پھیرے گا وہ یقینی (ہر پھر کے ) خدا کے غضب میں آ گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ اور وہ (کیا) بڑا ٹھکانا ہے۔

۱۷اور (مسلمانو) ان کفّار کو کچھ تم نے تو قتل کیا نہیں بلکہ ان کو تو خدا نے قتل کیا اور (اے رسولؐ) جب تم نے تیر مارا تو کچھ تم نے نہیں مارا بلکہ خود خدا نے تیر مارا اور تاکہ اپنی طرف سے مومنین پر خوب احسان کرے بے شک خدا (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔

۱۸یہ تو یہ ہے اور خدا تو کافروں کی مکاری کا کمزور کر دینے والا ہے

۱۹(کافرو) اگر تم یہ چاہتے تھے کہ (جو حق پر ہو اس کی) فتح ہو تو (مسلمانو کی) فتح بھی تمہارے سامنے آ موجود ہوئی (اب کیا عذر باقی ہے ) اور اگر تم (اب بھی مخالفت اسلام سے ) باز رہو تو تمہارے واسطے بہتر ہے اور اگر تم کہیں پلٹ پڑے تو ہم بھی پلٹ پڑیں گے (اور تمہیں تباہ کر چھوڑیں گے ) اور تمہاری جماعت اگرچہ بہت زیادہ بھی ہو ہرگز کچھ کام نہ آئے گی اور خدا تو یقینی مومنین کے ساتھ ہے۔

۲۰اے ایماندارو خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور اس سے منہ نہ موڑو جب تم سن رہے ہو۔

۲۱اور ان لوگوں کے ایسے نہ ہو جاؤ جو (منہ سے تو) کہتے تھے کہ ہم سن رہے ہیں حالانکہ وہ سنتے (سناتے خاک) نہ تھے۔

۲۲اس میں شک نہیں کہ زمین پر چلنے والے تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے (کفّار) ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے۔

۲۳اور اگر خدا ان میں نیکی (کی بو بھی) دیکھتا تو ضرور ان میں سننے کی قابلیت عطا کرتا (مگر یہ ایسے بدسرشت ہیں کہ) اگر ان میں سننے کی قابلیت بھی دیتا تو بھی منہ پھیر کر بھاگتے۔

۲۴اے ایماندارو جب تم کو (ہمارا) رسولؐ (محمدؐ) ایسے کام کے لیے بلائے جو تمہاری روحانی زندگی کا باعث ہو تو تم خدا اور رسولؐ کا حکم دل سے قبول کر لو اور جان لو کہ خدا (وہ قادر مطلق ہے کہ) آدمی اور اس کے دل (ارادے ) کے درمیان اس طرح آ جاتا ہے اور یہ بھی (سمجھ لو) کہ تم سب کے سب اس کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے۔

۲۵اور اس فتنہ سے ڈرتے رہو جو خاص انہی لوگوں پر نہیں پڑے گا جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا (بلکہ تم سب کے سب اس میں پڑ جاؤ گے ) اور یہ یقین جانو کہ خدا بڑا سخت عذاب کرنے والا ہے۔

۲۶اور (مسلمانو وہ وقت) یاد کرو جب تم سرزمین (مکّہ) میں بہت کم اور بالکل بے بس تھے اس سے سہمے جاتے تھے کہ کہیں لوگ تم کو اچک نہ لے جائیں تو خدا نے تم کو (مدینہ میں ) پناہ دی اور خاص اپنی مدد سے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاک و پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں تاکہ تم شکر گزاری کرو۔

۲۷اے ایماندارو نہ تو خدا اور رسولؐ کی (امانت میں ) خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو حالانکہ تم سمجھتے بوجھتے ہو۔

۲۸اور یقین جانو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہاری آزمائش کی چیزیں ہیں (کہ جو ان کی محبت میں بھی خدا کو نہ بھولے وہ دیندار ہے ) اور یقیناً خدا کے ہاں بڑی مزدوری ہے۔

۲۹اے ایماندارو اگر تم خدا سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہارے واسطے امتیاز پیدا کر دے گا اور تمہاری طرف سے تمہارے گناہ کا کفّارہ قرار دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور خدا بڑا صاحب فضل (و کرم) ہے۔

۳۰(اے رسولؐ وہ وقت یاد کرو) جب کفّار تم سے فریب کر رہے تھے تاکہ تم کو قید کر لیں یا تم کو مار ڈالیں یا تمہیں (گھر سے ) نکال باہر کریں وہ تو یہ تدبیر کر رہے تھے اور خدا بھی (ان کے خلاف) تدبیر کر رہا تھا اور خدا تو سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔

۳۱اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو بول اٹھتے ہیں کہ ہم نے سنا تو (لیکن) اگر ہم چاہیں تو یقیناً ایسا ہی(قرآن) ہم بھی کہہ سکتے ہیں یہ تو بس اگلوں ہی کے قصّے ہیں۔

۳۲اور (اے رسولؐ وہ وقت یاد کرو) جب ان کافروں نے دعائیں مانگی تھیں کہ خداوندا اگر یہ (دین اسلام) حق ہے اور تیرے پاس سے آیا ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر کوئی اور دردناک عذاب ہی نازل فرما۔

۳۳حالانکہ جب تک تم ان کے درمیان موجود ہو خدا ان پر عذاب نہیں کرے گا۔ اور اللہ ایسا بھی نہیں کہ لوگ تو اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہوں اور خدا ان پر عذاب نازل فرمائے۔

۳۴اور ان کے لئے کون سی بات باقی ہے کہ اللہ ان پر عذاب نازل نہ فرمائے جس حال میں وہ مسجد حرام سے روکتے ہیں اور یہ لوگ تو خانہ کعبہ کے متولی بھی نہیں (پھر کیوں روکتے ہیں ) اس کے متولی تو صرف پرہیزگار لوگ ہیں مگر ان کافروں میں سے بہتیرے نہیں جانتے۔

۳۵اور خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا ان کی نماز ہی کیا تھی تو (اے کافرو) جو تم کفر کیا کرتے تھے اس کی سزا میں (پڑے ) عذاب کے مزے چکھو۔

۳۶اس میں شک نہیں کہ یہ کفّار اپنے مال محض اس واسطے خرچ کرتے ہیں کہ لوگوں کو راہ خدا سے روک دیں۔ تو یہ لوگ اسے عنقریب ہی خرچ کریں گے پھر اس کے بعد ان کی حسرت کا باعث ہو گا۔ پھر آخر یہ لوگ ہار جائیں گے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا (قیامت میں ) سب کے سب جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے۔

۳۷تاکہ خدا پاک کو ناپاک سے جدا کر دے اور ناپاک لوگوں کو ایک دوسرے پر رکھ کے ڈھیر بنائے۔ پھر سب کو جہنم میں جھونک دے یہ لوگ گھاٹا اٹھانے والے ہیں۔

۳۸(اے رسولؐ) تم کافروں سے کہہ دو کہ اگر وہ لوگ (اب بھی اپنی شرارتوں سے ) باز رہیں تو ان کے پچھلے قصور معاف کر دیئے جائیں گے اور اگر پھر کہیں پلٹے تو یقیناً اگلوں کے طریقے گزر چکے (جو ان کی سزا ہوئی وہی ان کی بھی ہو گی)۔

۳۹مسلمانو! ان کافروں سے لڑے جاؤ یہاں تک کہ کوئی فساد (باقی) نہ رہے اور (بالکل ساری خدائی میں ) خدا کا دین ہی دین ہو جائے۔ پھر اگر یہ لوگ (فساد سے ) باز آئیں تو خدا ان کی کارروائیوں کو خوب دیکھتا ہے۔

۴۰اور اگر سرتابی کریں تو (مسلمانو) سمجھ لو کہ خدا یقیناً تمہارا مالک ہے اور وہ کیا اچھا مالک ہے اور کیا اچھا مددگار ہے۔

۴۱اور جان لو جو نفع تم کسی چیز سے حاصل کرو تواس میں کا پانچواں حصّہ خدا اور رسولؐ اور (رسولؐ کے ) قرابتداروں اور یتیموں اور مسکینوں اور پردیسیوں کا ہے اور اگر تم خدا پر اور اس (غیبی امداد) پر ایمان لا چکے ہو جو ہم نے اپنے (خاص) بندے (محمدؐ) پر فیصلہ کے دن (جنگ بدر میں ) نازل کی تھی جس دن (مسلمانوں اور کافروں کی)دو جماعتیں باہم گتھ گئی تھیں۔ اور خدا تو ہر چیز پر قادر ہے۔

۴۲(یہ وہ وقت تھا)جب (تم میدان جنگ میں مدینہ کے ) قریب کے ناکہ پر تھے اور وہ کفّار بعید کے ناکہ پر اور (قافلہ کے ) سوار تم سے نشیب میں تھے اور اگر تم ایک دوسرے سے (وقت کی تقرری کا) وعدہ کر لیتے تو اور وقت پر گڑبڑ کر دیتے مگر (خدا نے تم لوگوں کو اچانک اکٹھا کر دیا) تاکہ جو بات شدنی تھی وہ پوری کر دکھائے تاکہ جو شخص ہلاک (گمراہ) ہو وہ (حق کی)حجت تمام ہونے کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ ہدایت کی حجّت تمام ہونے کے بعد زندہ رہے اور خدا یقینی سننے والا خبردار ہے۔

۴۳(یہ وہ وقت تھا) جب خدا نے تمہیں خواب میں کفّار کو کم کر دکھلایا تھا اور اگر ان کو تمہیں زیادہ کر کے دکھلاتا تو تم یقیناً ہمت ہار دیتے اور لڑائی کے بارے میں آپس میں جھگڑنے لگتے مگر خدا نے اس (بدنامی) سے بچایا۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ وہ دلی خیالات سے واقف ہے۔

۴۴اور (یہ وہ وقت تھا) جب تم لوگوں نے مٹھ بھیڑ کی تو خدا نے تمہاری آنکھوں میں کفّار کو بہت کم کر کے دکھلایا اور ان کی آنکھوں میں تم کو تھوڑا کر دیا تاکہ خدا کو جو کچھ کرنا منظور تھا وہ پورا ہو جائے اور کل باتوں کا دارومدار تو خدا ہی پر ہے۔

۴۵اے ایماندارو جب تم کسی فوج سے مٹھ بھیڑ کرو تو خبردار اپنے قدم جمائے رہو اور خدا کو بہت یاد کرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

۴۶اور خدا کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو (ورنہ) تم ہمّت ہار دو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور جنگ کی تکلیف کو جھیل جاؤ (کیونکہ) خدا تو یقیناً صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔

۴۷اور ان لوگوں کے ایسے نہ ہو جاؤ جو اتراتے ہوئے اور لوگوں کے دکھلانے کے واسطے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جو کچھ بھی وہ لوگ کرتے ہیں خدا اس پر (ہر طرح سے ) احاطہ کیے ہوئے ہے۔

۴۸اور جب شیطان نے ان کی کارستانیوں کو عمدہ کر دکھایا اور ان کے کان میں پھونک دیا کہ لوگوں میں آج کوئی ایسا نہیں جو تم پر غالب آ سکے اور میں تمہارا مددگار ہوں پھر جب دونوں لشکر مقابل ہوئے تو شیطان اپنے الٹے پاؤں بھاگ نکلا اور کہنے لگا کہ میں تو تم سے بالکل الگ ہوں میں تو وہ چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تمہیں نہیں سوجھتی ہیں میں تو خدا سے ڈرتا ہوں اور خدا بہت سخت عذاب والا ہے۔

۴۹(یہ وہ وقت تھا) جب منافقین اور جن لوگوں کے دل میں (کفر کا) مرض ہے کہہ دیتے تھے کہ ان مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے (کہ اتراتے پھرتے ہیں ) حالانکہ جو شخص خدا پر بھروسہ کرتا ہے (وہ غالب رہتا ہے کیونکہ) خدا یقیناً غالب اور حکمت والا ہے

۵۰اور اگر (رسولؐ) تم دیکھتے جب فرشتے کافروں کی جان نکالتے تھے اور ان کے رُخ اور پشت پر (کوڑے ) مارتے جاتے تھے اور (کہتے جاتے تھے کہ) عذاب جہنم کے مزے چکھو

۵۱یہ سزا اس کی ہے جو تمہارے ہاتھوں نے پہلے کیا کرایا ہے۔ اور خدا بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا

۵۲(ان لوگوں کی حالت)قوم فرعون اور ان کے لوگوں کی سی ہے جو ان سے پہلے تھے اور خدا کی آیتوں سے انکار کرتے تھے تو خدا نے بھی ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں لے ڈالا۔ بے شک خدا زبردست اور بہت سخت عذاب دینے والا ہے

۵۳یہ سزا اس وجہ سے (دی گئی) کہ جب کوئی نعمت خدا کسی قوم کو دیتا ہے تاوقتیکہ وہ لوگ خود اپنی قلبی حالت (نہ) بدلیں خدا بھی اسے نہیں بدلے گا اور خدا تو یقینی (سب کی) سنتا(اور سب کچھ) جانتا ہے۔

۵۴(ان لوگوں کی حالت) قوم فرعون اور ان لوگوں کی سی ہے جو ان سے پہلے تھے اور اپنے پروردگار کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے تو ہم نے بھی ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو ہلاک کر ڈالا اور فرعون کی قوم کو ڈبو دیا اور (یہ) سب کے سب ظالم تھے۔

۵۵اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک جانوروں میں کفّار سب سے بدتر ہیں تو (باوجود اس کے ) پھر ایمان نہیں لاتے۔

۵۶(اے رسولؐ) جن لوگوں سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا پھر وہ لوگ اپنے عہد کو ہر بار توڑے ڈالتے ہیں اور پھر (خدا سے ) نہیں ڈرتے۔

۵۷تو اگر وہ لڑائی میں تمہارے ہتھے چڑھ جائیں تو (ایسی سخت گو شمالی دو کہ) ان کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی تِتر بتر کر دو جو ان کے پشت پر ہوں تاکہ یہ عبرت حاصل کریں۔

۵۸اور اگر تمہیں کسی قوم کی خیانت (عہد شکنی) کا خوف ہو تو تم بھی برابر ان کا عہد ان کی طرف پھینک مارو (عہد شکنوں کے ساتھ عہد شکنی کرو) خدا ہرگز دغا بازوں کو دوست نہیں رکھتا۔

۵۹اور کفّار یہ خیال نہ کریں کہ وہ (مسلمانوں سے ) آگے بڑھ نکلے (کیونکہ) وہ ہرگز (مسلمانوں کو) ہرا نہیں سکتے۔

۶۰اور (مسلمانو) ان کفار کے (مقابلہ کے ) واسطے جہاں تک تم سے ہو سکے (اپنے بازو کے ) زور سے اور بندھے ہوئے گھوڑوں سے (لڑائی کا) سامان مہیا کرواس سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن اور اس کے سوا دوسرے لوگوں پر بھی اپنی دھاک بٹھا لو گے جنہیں تم نہیں جانتے ہو۔ مگر خدا تو ان کو جانتا ہے۔ اور خدا کی راہ میں تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے۔ وہ تم پورا پورا بھر پاؤ گے اور تم پر کسی طرح ظلم نہیں کیا جائے گا۔

۶۱اور اگر یہ کفّار صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو اور خدا پر بھروسہ رکھو (کیونکہ) وہ بے شک (سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔

۶۲اور اگر وہ لوگ تمہیں فریب دینا چاہتے ہیں تو (کچھ پروا نہیں ) خدا تمہارے واسطے یقینی کافی ہے (اے رسولؐ) وہی تو وہ (خدا) ہے جس نے اپنی خاص مدد اور مومنین سے تمہاری تائید کی۔

۶۳اور اسی نے ان (مسلمانوں ) کے دلوں میں باہم ایسی اُلفت پیدا کر دی کہ اگر تم جو کچھ بھی زمین میں ہے سب کا سب خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے دلوں میں ایسی اُلفت پیدا نہ کرسکتے مگر خدا ہی تھا جس نے ان میں باہم اُلفت پیدا کی بے شک وہ زبردست حکمت والا ہے۔

۶۴اے رسولؐ تم کو بس خدا اور جو مومنین تمہارے تابع فرمان ہیں کافی ہیں۔

۶۵اے رسولؐ تم مومنین کو جہاد کے واسطے آمادہ کرو (وہ گھبرائیں نہیں خدا ان سے وعدہ کرتا ہے کہ ) اگر تم لوگوں میں سے ثابت قدم رہنے والے بیس بھی ہوں گے تو دو سو (کافروں ) پر غالب آ جائیں گے اور اگر تم لوگوں میں سے (ایسے ) سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے اس سبب سے کہ یہ لوگ ناسمجھ ہیں۔

۶۶اب خدا نے تم سے (اپنے حکم کی سختی میں ) تخفیف کر دی اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔تو اگر تم لوگوں میں سے ثابت قدم رہنے والے سَو ہوں گے تو دو سو (کافروں ) پر غالب رہیں گے اور اگر تم لوگوں میں سے (ایسے ) ایک ہزار ہوں گے تو خدا کے حکم سے دو ہزار (کافروں ) پر غالب رہیں گے اور (جنگ کی تکلیفوں کو) جھیل جانے والوں کا خدا ساتھی ہے۔

۶۷کوئی نبی جب تک کہ روئے زمین پر(کافروں کا) خون نہ بہائے اس کے یہاں قیدیوں کا رہنا مناسب نہیں۔ تم لوگ تو دنیا کے ساز و سامان کے خواہاں ہو اور خدا (تمہارے لیے ) آخرت (کی بھلائی) کا خواہاں ہے۔ اور خدا زبردست حکمت والا ہے۔

۶۸اور اگر خدا کی طرف سے پہلے ہی (اس کی معافی کا) حکم نہ آ چکا ہوتا تو تم نے جو (بدر کے قیدیوں کے چھوڑ دینے کا بدلہ) فدیہ لیا تھا اس کی سزا میں تم پر بڑا عذاب نازل ہو کر رہتا

۶۹(تو خیر جو ہوا سو ہوا)اب تم نے جو مال غنیمت حاصل کیا اسے کھاؤ (وہ تمہارے لیے ) حلال طیّب ہے اور خدا سے ڈرتے رہو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۷۰اے رسولؐ جو قیدی تمہارے قبضہ میں ہیں ان سے کہہ دو کہ اگر خدا تمہارے دلوں میں نیکی دیکھے گا، تو جو (مال) تم سے چھین لیا گیا ہے اس سے کہیں بہتر تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش بھی دے گا اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۷۱اور اگر یہ لوگ تم سے فریب کرنا چاہتے ہیں تو خدا سے پہلے ہی فریب کر چکے ہیں تو (اس کی سزا میں ) خدا نے ان پر تمہیں قابو دے دیا اور خدا تو بڑا واقف کار حکمت والا ہے۔

۷۲بے شک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے اپنے جان و مال سے خدا کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور (ہر طرح) ان کی خبر گیری کی یہی لوگ ایک دوسرے کے (باہم) سرپرست و دوست ہیں۔ اور جن لوگوں نے ایمان تو قبول کیا اور ہجرت نہیں کی تو تم لوگوں کو ان کی سرپرستی سے سروکار نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت اختیار کریں اور (ہاں مگر)دینی امر میں تم سے مدد کے خواہاں ہوں تو تم پر (ان کی) مدد کرنی لازمی و واجب ہے مگر ان لوگوں کے مقابلے میں نہیں جن میں اور تم میں باہم (صلح کا) عہد و پیمان ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ(سب کو ) دیکھ رہا ہے۔

۷۳اور جو لوگ کافر ہیں وہ بھی (باہم) ایک دوسرے کے سرپرست ہیں۔ اگر تم (اس طرح) مدد نہ کرو گے تو روئے زمین پر فتنہ برپا ہو جائے گا اور بڑا فساد ہو گا۔

۷۴اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور خدا کی راہ میں لڑے بھڑے اور جن لوگوں نے (ایسے نازک وقت میں مہاجرین کو) جگہ دی اور (ان کی) ہر طرح کی خبرگیری کی یہی لوگ سچّے ایماندار ہیں انہی کے واسطے مغفرت اور عزت و آبرو والی روزی ہے۔

۷۵اور جن لوگوں نے (صلح حدیبیہ کے ) بعد ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا وہ لوگ بھی تم ہی میں سے ہیں اور صاحبان قرابت خدا کی کتاب میں باہم ایک دوسرے کے (بہ نسبت اوروں کے ) زیادہ حقدار ہیں۔ بے شک خدا ہر چیز سے خوب واقف ہے۔

٭٭٭

 

 

 

۹۔ سورۃ توبہ

 

۱(اے مسلمانو)جن مشرکوں سے تم لوگوں نے (صلح کا) عہد و پیمان کیا تھا اب خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف سے ان سے (ایک دم) بیزاری ہے۔

۲تو (اے مشرکو) بس تم چار مہینے (ذیقعد، ذی الحجہ،محرم، رجب) تو چین سے بے خطر روئے زمین میں سیر و سیاحت کر لو اور یہ سمجھے رہو کہ تم (کسی طرح) خدا کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ بھی کہ خدا کافروں کو ضروررسوا کر کے رہے گا۔

۳اور خدا اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن (تم) لوگوں کو منا دی کی جاتی ہے کہ خدا اور اس کا رسولؐ مشرکوں سے بیزار (اور الگ) ہے تو (مشرکو) اگر تم لوگوں نے (اب بھی) توبہ کی تو تمہارے حق میں یہی بہتر ہے اور اگر تم لوگوں نے (اس سے بھی) منہ موڑا تو سمجھ لو کہ تم لوگ خدا کو ہرگز عاجز نہیں کرسکتے۔ اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔

۴مگر (ہاں ) جن مشرکوں سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا پھر ان لوگوں نے کبھی کچھ تم سے (وفا عہد میں ) کمی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی تو ان کے عہد و پیمان کو جتنی مدّت کے واسطے مقرر کیا ہے پورا کر دو خدا پرہیزگاروں کو یقیناً دوست رکھتا ہے۔

۵پھر جب حرمت کے (چاروں ) مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کرو اور ان کو گرفتار کر لو اور ان کو قید کرو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو پھر اگر وہ لوگ (اب بھی شرک سے ) باز آئیں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کی راہ چھوڑ دو (ان سے تعرض نہ کرو) بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۶اور (اے رسولؐ)اگر مشرکین میں سے کوئی تم سے پناہ مانگے تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ وہ خدا کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے امن کی جگہ واپس پہنچا دو۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ نادان ہیں۔

۷(جب) مشرکین (نے خود عہد شکنی کی تو ان) کا کوئی عہد و پیمان خدا کے نزدیک اور اس کے رسولؐ کے نزدیک کیوں کر (قائم) رہ سکتا ہے مگر جن لوگوں سے تم نے خانہ کعبہ کے پاس معاہدہ کیا تھا تو وہ لوگ (اپنا عہد و پیمان) تم سے قائم رکھنا چاہیں تو تم بھی ان سے (اپنا عہد) قائم رکھو بے شک خدا (بد عہدی سے ) پرہیز کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

۸(ان کا عہد) کیوں کر (رہ سکتا ہے ) جب (ان کی یہ حالت ہے ) کہ اگر تم پر غلبہ پا جائیں تو تمہارے بارے میں نہ تو رشتہ ناتے ہی کا لحاظ کریں گے اور نہ اپنے قول و قرار کا۔ یہ لوگ تمہیں اپنی زبانی (جمع خرچ سے ) خوش کر دیتے ہیں حالانکہ ان کے دل خوش نہیں ہیں اور ان میں کے بہتیرے تو بد چلن ہیں۔

۹اور ان لوگوں نے خدا کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت (دنیاوی فائدے ) حاصل کر کے (لوگوں کو)اس کی راہ سے روک دیا۔ بے شک یہ لوگ جو کچھ بھی کرتے تھے بہت ہی بُرا ہے

۱۰یہ لوگ کسی مومن کے بارے میں نہ تو رشتے ناتے ہی کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ قول و قرار کا اور (واقعی) یہی لوگ زیادتی کرتے ہیں

۱۱تو اگر (اب بھی شرک سے ) توبہ کریں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور ہم اپنی آیتوں کو واقف کار لوگوں کے واسطے تفصیلاً بیان کرتے ہیں۔

۱۲اور اگر یہ لوگ عہد کر چکنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں تم کو طعنہ دیں تو تم کفر کے سربرآوردہ لوگوں سے خوب لڑائی کرو ان کی قسموں کا ہرگز کوئی اعتبار نہیں تاکہ یہ لوگ (اپنی شرارت سے ) باز آئیں۔

۱۳(مسلمانو) بھلا تم ان لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا اور رسولؐ کا نکال باہر کرنا (اپنے دل میں ) ٹھان لیا تھا اور تم سے پہلے پہل چھیڑ بھی انہوں ہی نے شروع کی تھی۔کیا تم ان سے ڈرتے ہو تو اگر تم سچّے ایماندار ہو تو خدا ان سے کہیں بڑھ کر تمہارے ڈرنے کے قابل ہے۔

۱۴ان سے (بے خوف و خطر) لڑو خدا تمہارے ہاتھوں ان کی سزا کرے گا۔ اور نہیں رسوا کرے گا اور تمہیں اِن پر فتح عطا کرے گا۔ اور ایماندار لوگوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا

۱۵اور ان مومنین کے دل کی کدورتیں جو (کفّار سے پہنچی ہیں ) دفع کر دے گا اور خدا جس کی چاہے توبہ قبول کرے اور خدا بڑا واقف کار (اور) حکمت والا ہے۔

۱۶کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم (یونہی چھوڑ) دیئے جاؤ گے اور ابھی تک خدا نے ان لوگوں کو ممتاز کیا ہی نہیں جو تم میں کے (راہ خدا میں ) جہاد کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے سواکسی کو اپنا راز دار دوست نہیں بناتے اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو خدا اس سے بھی باخبر ہے۔

۱۷مشرکین کا کام یہ نہیں کہ جب وہ اپنے کفر کا خود اقرار کرتے ہیں تو خدا کی مسجدوں کو (جا کر) آباد کریں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا کیا کرایا سب اکارت ہوا۔ اور یہ لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

۱۸خدا کی مسجدوں کو بس صرف وہی شخص (جا کر) آباد کرسکتا ہے جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور نماز پڑھا کرے اور زکوٰۃ دیتا رہے اور خدا کے سوا (اور) کسی سے نہ ڈرے تو عنقریب یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں سے ہو جائیں گے۔

۱۹کیا تم لوگوں نے حاجیوں کی سقائی اور مسجد الحرام (خانہ کعبہ) کی آبادی کو اس شخص کے ہمسر بنا دیا ہے جو خدا اور روز آخرت پر ایمان لایا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا۔ خدا کے نزدیک تو یہ لوگ برابر نہیں ہیں اور خدا ظالم لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔

۲۰جن لوگوں نے ایمان قبول کیا ہے اور (خدا کے لیے ) ہجرت اختیار کی۔ اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا وہ لوگ خدا کے نزدیک درجہ میں کہیں بڑھ کر ہیں۔ اور یہی لوگ (اعلیٰ درجے پر) فائز ہونے والے ہیں۔

۲۱ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور خوشنودی اور ایسے (ہرے بھرے ) باغوں کی خوشخبری دیتا ہے جس میں ان کے لیے دائمی عیش (و آرام) ہو گا۔

۲۲اور یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ابد الآباد تک رہیں گے۔ بے شک خدا کے پاس تو بڑا اجر (و ثواب) ہے۔

۲۳اے ایماندارو اپنے (ماں ) باپ اور (بہن) بھائیوں کو اپنا خیر خواہ نہیں سمجھو اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کو ترجیح دیتے ہوں اور تم میں جو شخص ان سے اُلفت رکھے گا تو یہی لوگ ظالم ہیں

۲۴(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی بند اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبہ والے اور وہ مال جو تم نے کما کے رکھ چھوڑے ہیں اور وہ تجارت کہ جس کے مندا پڑ جانے کا تمہیں اندیشہ ہے اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر تمہیں خدا سے اور اس کے رسولؐ سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو تم ذرا ٹھہرو یہاں تک خدا اپنا حکم (عذاب) موجود کرے اور خدا نافرمان لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا۔

۲۵(مسلمانو) خدا نے تمہاری بہتیرے مقامات پر (غیبی)امداد کی اور (خاص کر) جنگِ حنین کے دن جب تمہیں اپنی کثرت( تعداد) نے مغرور کر دیا تھا پھر وہ کثرت تمہیں کچھ بھی کام نہ آئی اور (تم ایسے گھبرائے کہ) زمین باوجود اس وسعت کے تم پر تنگ ہو گئی تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔

۲۶تب خدا نے اپنے رسولؐ پر اور مومنین پر اپنی (طرف سے ) تسکین نازل فرمائی اور (رسولؐ کی خاطر سے فرشتوں کے ) لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھتے بھی نہیں تھے اور کفّار پر عذاب نازل فرمایا اور کافروں کی یہی سزا ہے۔

۲۷پھر اس کے بعد خدا جس کی چاہے توبہ قبول کرے اور خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۲۸اے ایماندارو مشرکین تو نرے نجس ہیں تو اب وہ اس سال کے بعد مسجد الحرام (خانہ کعبہ) کے پاس پھر نہ پھٹکنے پائیں اور اگر تم (ان سے جدا ہونے میں ) فقر و فاقہ سے ڈرتے ہو تو عنقریب ہی خدا تم کو اگر چاہے گا تو اپنے فضل (و کرم) سے غنی کر دے گا۔ بے شک خدا بڑا واقف کار اور حکمت والا ہے۔

۲۹اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ تو (دل سے ) خدا ہی پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روزِ آخرت پر اور نہ خدا اور اس کے رسولؐ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ سچّے دین ہی کو اختیار کرتے ہیں ان لوگوں سے لڑے جاؤ یہاں تک کہ وہ لوگ ذلیل ہو کر (اپنے ) ہاتھ سے جزیہ دیں۔

۳۰اور یہود تو یہ کہتے ہیں کہ عُزیر خدا کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح (عیسیٰؑ ) خدا کے بیٹے ہیں یہ تو ان کی بات ہے اور (وہ بھی خود) اُن ہی کے مُنہ سے یہ لوگ بھی ان ہی کافروں کی سی باتیں بنانے لگے جو ان سے پہلے (گزر چکے ہیں ) خدا ان کو قتل (تہس نہس) کرے (دیکھو تو) کہاں (سے کہاں ) بھٹکے جا رہے ہیں۔

۳۱ان لوگوں نے اپنے خدا کو چھوڑ کر اپنے عالموں کو اور اپنے زاہدوں کو اور مریمؑ کے بیٹے مسیحؑ کو اپنا پروردگار بنا ڈالا حالانکہ انہیں سوا اس کے اور حکم ہی نہیں دیا گیا کہ خدائے یکتا کی عبادت کریں۔ اس کے سوا (اور) کوئی قابل پرستش نہیں۔ جس چیز کو یہ لوگ اس کا شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک و پاکیزہ ہے۔

۳۲یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے (پھونک مار کر) خدا کے نور کو بجھا دیں اور خدا اس کے سوا کچھ مانتا ہی نہیں کہ اپنے نور کو پورا کر ہی کے رہے اگرچہ کفّار بُرا مانیں۔

۳۳وہی تو (وہ خدا) ہے جس نے اپنے رسولؐ (محمدؐ) کو ہدایت اور سچّے دین کے ساتھ (مبعوث کر کے ) بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرکین بُرا مانا کریں۔

۳۴اے ایماندارو اس میں شک نہیں کہ (یہود و نصاریٰ) کے بہتیرے عالم زاہد لوگوں کے مال ناحق (ناحق) چکھ جاتے ہیں اور (لوگوں کو) خدا کی راہ سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے جاتے ہیں اور اس کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو (اے رسولؐ) ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔

۳۵جس دن وہ (سونا چاندی) جہنم کی آگ میں گرم (اور لال) کیا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پشتیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ وہ ہے جسے تم نے اپنے لیے (دنیا میں ) جمع کر کے رکھا تھا تو (اب) اپنے جمع کیے کا مزہ چکھو

۳۶اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے جس دن آسمان و زمین کو پیدا کیا (اسی دن سے ) خدا کے نزدیک خدا کی کتاب (لوح محفوظ) میں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہے ان میں سے چار مہینے (ادب و حرمت) کے ہیں۔ یہی دین سیدھی راہ ہے تو ان چار مہینوں میں تم اپنے اوپر (کشت و خون کر کے ) ظلم نہ کرو اور مشرکین جس طرح تم سے سب کے سب مل کر لڑتے ہیں تم بھی اسی طرح سب کے سب مل کر ان سے لڑو۔اور یہ جان لو کہ خدا یقیناً پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

۳۷مہینوں کا آگے پیچھے کر دینا بھی کفر ہی کی زیادتی ہے کہ ان کی بدولت کفّار (اور) بہک جاتے ہیں ایک برس تو اسی ایک مہینہ کو حلال سمجھ لیتے ہیں۔ اور دوسرے سال اسی مہینہ کو حرام کہتے ہیں تاکہ خدا نے جو (چار مہینے ) حرام کیے ہیں ان کی گنتی ہی پوری کر لیں اور خدا کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر لیں۔ ان کی بُری (بُری) کارستانیاں انہیں بھلی کر دکھائی گئی ہیں اور خدا کافر لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا۔

۳۸اے ایماندارو تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لیے ) نکلو تو تم لدھڑ ہوکے زمین کی طرف جھکے پڑتے ہو۔ کیا تم آخرت کے بہ نسبت دنیا کی (چند روزہ) زندگی کو پسند کرتے ہو۔ تو (سمجھ لو کہ) دنیاوی زندگی کا ساز و سامان آخرت کے (عیش و آرام کے ) مقابلے میں بہت ہی تھوڑا ہے۔

۳۹اگر اب بھی تم نہ نکلو گے تو خدا تم پر درد ناک عذاب نازل فرمائے گا اور (خدا کچھ مجبور تو ہے نہیں ) تمہارے بدلے کسی دوسری قوم کو لے آئے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

۴۰اگر تم اس رسولؐ کی مدد نہ کرو گے تو (کچھ پرواہ نہیں خدا مددگار ہے ) اس نے تو اپنے رسولؐ کی اس وقت مدد کی جب اس کو کفّار (مکہ) نے (گھر سے ) نکال باہر کیا (اس وقت صرف دو آدمی تھے اور ) دوسرے (رسولؐ) تھے جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے جب اپنے ساتھی کو (اس کی گریہ و زاری پر) سمجھا رہے تھے کہ گھبراؤ نہیں خدا یقیناً ہمارے ساتھ ہے تو خدا نے ان پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور (فرشتوں کے ) ایسے لشکر سے ان کی مدد کی جن کو تم لوگوں نے دیکھا تک نہیں اور خدا نے کافروں کی بات نیچی کر دکھائی۔ اور خدا ہی کا بول بالا ہے اور خدا تو غالب حکمت والا ہے۔

۴۱(مسلمانو) تم ہلکے پھلکے (نہتے ) ہو یا بھاری بھرکم (مسلح) (بہر حال جب تم کو حکم دیا جائے تو فوراً) چل کھڑے ہو اور اپنی جانوں سے اور اپنے مالوں سے خدا کی راہ میں جہاد کرو اگر تم کچھ جانتے ہو تو (سمجھ لو کہ) یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔

۴۲(اے رسولؐ) اگر سردست فائدہ اور سفر آسان ہوتا تو یقیناً یہ لوگ تمہارا ساتھ دیتے مگر ان پر مسافت کی مشقت طولانی ہو گئی اور (اگر پیچھے رہ جانے کی وجہ پوچھو گے تو) یہ لوگ فوراً خدا کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں سکت ہوتی تو ہم بھی ضرور تم لوگوں کے ساتھ ہی چل کھڑے ہوتے (یہ لوگ جھوٹی قسمیں کھا کر) اپنی جان آپ ہلاک کیے ڈالتے ہیں اور خدا تو جانتا ہے کہ یہ لوگ بے شک جھوٹے ہیں۔

۴۳(اے رسولؐ) خدا تم سے درگزر فرمائے تم نے انہیں (پیچھے رہ جانے کی) اجازت ہی کیوں دی تاکہ (تم اگر ایسا نہ کرتے تو) تم پر سچ بولنے والے (الگ) ظاہر ہو جاتے اور تم جھوٹوں کو (الگ) معلوم کر لیتے۔

۴۴( اے رسولؐ) جو لوگ (دل سے ) خدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے جہاد (نہ) کرنے کی اجازت مانگنے کے نہیں۔(بلکہ وہ خود جائیں گے ) اور خدا پرہیزگاروں سے خوب واقف ہے۔

۴۵(پیچھے رہ جانے کی) اجازت تو بس وہی لوگ مانگیں گے جو خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل (طرح طرح کے ) شک کر رہے ہیں تو وہ اپنے شک میں ڈانوا ڈول ہو رہے ہیں۔ (کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں )۔

۴۶اور اگر یہ لوگ (گھر سے ) نکلنے کی ٹھان لیتے تو (کچھ نہ کچھ) سامان تو کرتے مگر(بات یہ ہے کہ ) خدا نے ان کے ساتھ بھیجنے کو ناپسند کیا تو ان کو کاہل بنا دیا اور (گویا) ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے (مکھی مارتے ) رہو

۴۷اگر یہ لوگ تم میں مل کر نکلتے بھی تو بس تم میں فساد ہی کو برپا کر دیتے اور تمہارے حق میں فتنہ انگیزی کی غرض سے تمہارے درمیان (اِدھر اُدھر) گھوڑے دوڑاتے پھرتے اور تم میں سے ان کے جاسوس بھی ہیں (جو تمہاری خبر اُن سے بیان کرتے ہیں )۔ اور خدا شریروں سے خوب واقف ہے۔

۴۸( اے رسولؐ) اس میں تو شک نہیں کہ ان لوگوں نے پہلے ہی فساد ڈالنا چاہا تھا اور تمہاری بہت سی باتیں الٹ پلٹ کیں یہاں تک کہ حق آ پہنچا اور خدا ہی کا حکم غالب رہا اور ان کو ناگوار ہوتا ہی رہا۔

۴۹اور ان لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ مجھے تو (پیچھے رہ جانے کی) اجازت دیجیے اور مجھے بلا میں نہ پھنسایئے (اے رسولؐ) آگاہ ہو کہ یہ لوگ خود بلا میں (اوندھے مُنہ) گر پڑے۔ اور جہنّم تو کافروں کو یقیناً گھیرے ہوئے ہی ہے۔

۵۰تم کو کوئی فائدہ پہنچا تو (ان کو بُرا معلوم ہوتا ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آ پڑی تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ (اسی وجہ سے ) ہم نے اپنا کام پہلے ہی ٹھیک کر لیا تھا اور (یہ کہہ کر) خوش (خوش تمہارے پاس سے اُٹھ کر) واپس لوٹتے ہیں۔

۵۱(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ ہم پر ہرگز کوئی مصیبت پڑ نہیں سکتی مگر وہی جو خدا نے ہمارے لیے (ہماری تقدیر میں ) لکھ دیا ہے وہی ہمارا مالک ہے۔ اور ایمانداروں کو چاہیے بھی کہ خدا ہی پر بھروسہ رکھیں۔

۵۲(اے رسولؐ) تم (منافقوں سے ) کہہ دو کہ تم تو ہمارے واسطے (فتح یا شہادت) دو بھلائیوں میں سے ایک کے (خواہ مخواہ) منتظر ہی ہو اور ہم تمہارے واسطے اس کے منتظر ہیں کہ خدا تم پر (خاص)اپنے ہاں سے کوئی عذاب نازل کرے یا ہمارے ہاتھوں سے۔ پھر (اچھا) تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ ساتھ) انتظار کرتے ہیں۔

۵۳(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم لوگ خواہ خوشی سے خرچ کرو یا مجبوری سے تمہاری خیرات تو کبھی قبول کی نہیں جائے گی تم یقیناً بدکار لوگ ہو۔

۵۴اور ان کی خیرات کے قبول کیے جانے میں اور کوئی وجہ مانع نہیں مگر یہی کہ ان لوگوں نے خدا اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی۔ اور نماز کو آتے بھی ہیں تو الکسائے ہوئے اور خدا کی راہ میں خرچ کرتے بھی ہیں تو بددلی سے۔

۵۵(اے رسولؐ) تم کو نہ تو ان کے مال حیرت میں ڈالیں اور نہ ان کی اولاد (کیونکہ) خدا تو یہ چاہتا ہے کہ ان کو آل و مال کی وجہ سے دنیا کی (چند روزہ) زندگی (ہی) میں مبتلائے عذاب کرے اور جب ان کی جانیں نکلیں تب بھی وہ کافر (کے کافر ہی) رہیں۔

۵۶اور (مسلمانو!) یہ لوگ تو خدا کی قسمیں کھائیں گے کہ وہ تم میں ہی کے ہیں۔ حالانکہ وہ لوگ تم میں کے نہیں ہیں۔مگر ہیں یہ لوگ بزدلے

۵۷کہ اگر کہیں یہ لوگ پناہ کی جگہ (قلعہ) یا چھپنے کے لیے غار یا گھس بیٹھنے کی کوئی (اور) جگہ پا جائیں تو اسی طرف رسیاں تُڑاتے بھاگ جائیں۔

۵۸(اے رسولؐ) ان میں سے کچھ تو ایسے بھی ہیں جو تمہیں خیرات (کی تقسیم)میں (خواہ مخواہ) الزام دیتے ہیں پھر اگر اس میں سے انہیں کچھ (معقول مقدار) دے دیا گیا تو خوش ہو گئے اور اگر (ان کی مرضی کے موافق) اس میں سے انہیں کچھ نہیں دیا گیا تو بس فوراً ہی بگڑ بیٹھے۔

۵۹اور جو کچھ خدا نے اور اس کے رسولؐ نے ان کو عطا فرمایا تھا اگر یہ لوگ اس پر راضی رہتے اور کہتے کہ خدا ہمارے واسطے کافی ہے (اس وقت نہیں تو) عنقریب ہی خدا ہمیں اپنے فضل و کرم سے اور اس کا رسولؐ دے ہی گا ہم تو یقیناً اللہ ہی کی طرف لو لگائے بیٹھے ہیں (تو ان کا کیا کہنا تھا)

۶۰خیرات تو بس خاص فقیروں کا حق ہے اور محتاجوں کا اور اس (زکوٰۃ وغیرہ) کے کارندوں کا اور جن کی تالیف قلب کی گئی ہے (اُن کا) اور جن کی گردنوں میں (غلامی کا پھندا پڑا ہے اُن کا) اور قرض داروں کا (جو خود سے ادا نہیں کرسکتے ) اور خدا کی راہ (جہاد) میں اور پردیسیوں کی کفالت میں (خرچ کرنا چاہیے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کیے ہوئے ہیں اور خدا بڑا واقف کار حکمت والا ہے۔

۶۱اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو (ہمارے ) رسولؐ کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بس کان ہی (کان) ہیں (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ (کان تو ہیں مگر) تمہاری بھلائی سننے کے کان ہیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین (کی باتوں ) کا یقین رکھتے ہیں۔ اور تم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے لیے رحمت اور جو لوگ رسولؐ خدا کو ستاتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

۶۲(مسلمانو!) یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کر لیں۔ حالانکہ اگر یہ لوگ سچے ایماندار ہیں تو خدا اور اُس کا رسولؐ کہیں زیادہ حقدار ہیں کہ اس کو راضی رکھیں۔

۶۳کیا یہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ جس شخص نے خدا اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کی تو اس میں شک ہی نہیں کہ اس کے لیے جہنم کی آگ (تیار رکھی) ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا بھنتا) رہے گا۔ یہی تو بڑی رسوائی ہے۔

۶۴منافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں (ایسا نہ ہو) ان مسلمانوں پر (رسولؐ کی معرفت) کوئی سورۃ نازل ہو جائے جو ان کو جو کچھ ان (منافقین) کے دل میں ہے بتا دے (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ (اچھا) تم مسخرا پن کیے جاؤ جس سے تم ڈرتے ہو خدا اُسے ضرور ظاہر کر دے گا۔

۶۵اور اگر تم ان سے پوچھو (کہ یہ کیا حرکت تھی) تو ضرور یوں ہی کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی بات چیت (دل لگی) بازی کر رہے تھے تم کہو کہ ہائیں کیا تم خدا سے اور اس کی آیتوں سے اور اس کے رسولؐ سے ہنسی کر رہے تھے۔

۶۶اب باتیں نہ بناؤ حق تو یہ ہے کہ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو بیٹھے اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کریں تاہم کچھ لوگوں کو سزا ضرور دیں گے اس وجہ سے کہ یہ لوگ قصوروار ضرور ہیں۔

۶۷منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے باہم جنس ہیں کہ (لوگوں کو) بُرے کام کا تو حکم کرتے ہیں اور نیک کاموں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ(راہ خدا میں خرچ کرنے سے ) بند رکھتے ہیں۔ (سچ تو یوں ہے کہ) یہ لوگ خدا کو بھول بیٹھے تو خدا نے بھی (گویا) انہیں بھلا دیا بے شک منافقین بد چلن ہیں۔

۶۸منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے خدا نے جہنم کی آگ کا وعدہ تو کر لیا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اور یہی ان کے لیے کافی ہے۔اور خدا نے ان پر لعنت کی ہے اور انہی کے لیے دائمی عذاب ہے۔

۶۹(منافقو تمہاری تو)ان کی مثل ہے جو تم سے پہلے تھے وہ لوگ تم سے قوت میں (بھی) زیادہ تھے اور مال اور اولاد میں بھی کہیں بڑھ کر تھے تو وہ اپنے حصّہ سے بھی بہرہ یاب ہو چکے تو جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصّہ سے فائدہ اٹھا چکے ہیں اسی طرح تم نے اپنے حصّہ سے فائدہ اٹھا لیا اور جس طرح وہ باطل میں گھسے رہے اسی طرح تم بھی گھسے رہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا سب کیا دھرا دنیا اور آخرت (دونوں ) میں اکارت ہوا۔ اور یہی لوگ گھاٹے میں ہیں۔

۷۰کیا ان منافقوں کو ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی ہے جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں نوح ؑ کی قوم اور عاد اور ثمود اور ابراہیمؑ کی قوم اور مدین والے اور الٹی ہوئی بستیوں کے رہنے والے کہ ان کے پاس ان کے رسولؐ واضح (و روشن) معجزے لے کر آئے تو (وہ مبتلائے عذاب ہوئے اور ) خدا نے ان پر ظلم نہیں کیا مگر یہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے

۷۱اور ایماندار مرد اور ایماندار عورتیں ان میں سے بعض کے بعض رفیق ہیں۔لوگوں کو اچھے کام کا حکم دیتے ہیں اور بُرے کام سے روکتے ہیں اور نماز پابندی سے پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولؐ کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر خدا عنقریب رحم کرے گا۔بے شک خدا غالب حکمت والا ہے۔

۷۲خدا نے ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں سے (بہشت کے ) ان باغوں کا وعدہ کر لیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور (بہشت) عدن کے باغوں میں عمدہ عمدہ مکانات کا (بھی وعدہ فرمایا ہے ) اور خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے۔ یہی تو بڑی (اعلیٰ درجہ کی) کامیابی ہے۔

۷۳اے رسولؐ کفار کے ساتھ (تلوار سے ) اور منافقوں کے ساتھ (زبان سے ) جہاد کرو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا تو جہنم ہی ہے۔ اور وہ (کیا) بُری جگہ ہے۔

۷۴یہ منافقین خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ (کوئی بُری بات نہیں ) نہیں کہی۔ حالانکہ ان لوگوں نے کفر کا کلمہ ضرور کہا اور اپنے اسلام کے بعد کافر ہو گئے اور جس بات پر قابو نہ پا سکے اسے ٹھان بیٹھے اور ان لوگوں نے (مسلمانوں سے ) صرف اس وجہ سے عداوت کی کہ اپنے فضل و کرم سے خدا نے اور اس کے رسولؐ نے دولت مند بنا دیا ہے تو ان کے لیے اسی میں خیر ہے کہ یہ لوگ اب بھی توبہ کر لیں۔ اور اگر یہ نہ مانیں گے تو خدا ان پر دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب نازل فرمائے گا اور تمام دنیا میں ان کا نہ کوئی حامی ہو گا نہ مددگار۔

۷۵اور ان (منافقین) میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو خدا سے قول و قرار کر چکے تھے کہ اگر ہمیں اپنے فضل و کرم سے (کچھ مال) دے گا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور نیکوکار بندے ہو جائیں گے۔

۷۶تو جب خدا نے اپنے فضل (و کرم) سے انہیں عطا فرمایا تو لگے اس میں بخل کرنے اور کترا کے مُنہ پھیرنے۔

۷۷پھر اس کے خمیازہ میں اپنی ملاقات کے دن(قیامت) تک ان کے دلوں میں (گویا خود) نفاق ڈال دیا اس وجہ سے کہ ان لوگوں نے جو خدا سے وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور اس وجہ سے کہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔

۷۸کیا وہ لوگ اتنا بھی نہ جانتے تھے کہ خدا ان کے (سارے ) بھید اور ان کی سرگوشی (سب کچھ) جانتا ہے اور یہ کہ خدا غیب کی باتوں سے خوب آگاہ ہے۔

۷۹جو لوگ دل کھول کر خیرات کرنے والے مومنین پر (ریاکاری کا) اور ان مومنین پر جو صرف اپنی مشقت کی مزدوری پاتے (شیخی کا) الزام لگاتے ہیں پھر ان سے مسخرا پن کرتے تو خدا بھی ان سے تمسخر کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

۸۰(اے رسولؐ) خواہ تم ان (منافقوں ) کے لیے مغفرت کی دعا مانگو یا ان کے لیے مغفرت کی دعا نہ مانگو (ان کے لیے برابر ہے ) تم ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت کی دعا مانگو گے تو بھی خدا ان کو ہرگز نہ بخشے گا یہ (سزا) اس سبب سے ہے کہ ان لوگوں نے خدا اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کفر کیا۔اور خدا بدکار لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا۔

۸۱(جنگ تبوک میں ) رسولؐ خدا کے پیچھے رہ جانے والے اپنی جگہ بیٹھ رہنے (اور جہاد میں نہ جانے ) سے خوش ہوئے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کرنا ان کو مکروہ معلوم ہوا اور کہنے لگے (اس) گرمی میں گھر سے ) نہ نکلو۔ اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ جہنم کی آگ (جس میں تم جلو گے ) اس سے کہیں زیادہ گرم ہے اگر وہ کچھ سمجھیں۔

۸۲جو کچھ وہ کیا کرتے تھے اس کے بدلے انہیں چاہیے کہ وہ بہت کم ہنسیں اور بہت روئیں۔

۸۳تو (اے رسولؐ) اگر خدا تم کو ان منافقین کے کسی گروہ کی طرف جہاد سے صحیح و سالم) واپس لائے پھر تم سے (جہاد کے واسطے )نکلنے کی اجازت مانگیں تو تم صاف کہہ دو کہ تم میرے ساتھ (جہاد کے واسطے ) ہر گز نہ کبھی نکلنے پاؤ گے اور نہ ہرگز دشمن سے میرے ساتھ لڑنے پاؤ گے۔ جب تم نے پہلی مرتبہ( گھر میں ) بیٹھ رہنا پسند کیا تو (اب بھی) پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ (گھر میں ) بیٹھے رہو۔

۸۴اور (اے رسولؐ) ان منافقین میں سے جو مر جائے گا نہ کبھی کسی پر نماز جنازہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر (جا کر) کھڑے ہونا۔ ان لوگوں نے یقیناً خدا اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کفر کیا اور بدکاری ہی کی حالت میں مر (بھی) گئے۔

۸۵اور ان کے مال اور ان کی اولاد (کی کثرت) تمہیں تعجب (حیرت میں ) نہ ڈالے (کیونکہ) خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں بھی ان کے مال و اولاد کی بدولت ان کو عذاب میں مبتلا کرے اور ان کی جان نکلنے لگے تو اس وقت بھی یہ کافر (کے کافر ہی) رہیں۔

۸۶اور جب کوئی سورۃ اس بارے میں نازل ہوئی کہ خدا کو مانو اور اس کے رسولؐ کے ساتھ (جا کر) جہاد کروتو جوان میں سے دولت والے ہیں وہ تم سے اجازت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں (یہیں )چھوڑ دیجیے کہ ہم بھی (گھر) بیٹھنے والوں کے ساتھ (بیٹھے ) رہیں۔

۸۷یہ اس بات سے خوش ہیں کہ پیچھے رہ جانے والوں (عورتوں، بچوں، بیماروں ) کے ساتھ بیٹھے رہیں اور (گویا) ان کے دل پر مہر کر دی گئی ہے تو یہ کچھ نہیں سمجھتے۔

۸۸مگر رسولؐ اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان لوگوں نے اپنے اپنے مال اور اپنی اپنی جانوں سے جہاد کیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے (ہر طرح کی) بھلائیاں ہیں۔ اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔

۸۹خدا نے ان کے واسطے (بہشت کے ) وہ (ہرے بھرے ) باغ تیار کر رکھے ہیں (جن کے درختوں کے ) نیچے نہریں جاری ہیں (اور)یہ اس میں (ہمیشہ) رہیں گے۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

۹۰اور تمہارے پاس کچھ حیلہ کرنے والے گنوار دیہاتی (بھی) آ موجود ہوئے تاکہ ان کو بھی (پیچھے رہ جانے کی) اجازت دی جائے اور جن لوگوں نے خدا اور اس کے رسولؐ سے جھوٹ کہا تھا وہ (گھر میں ) بیٹھ رہے (آئے تک نہیں ) ان میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا عنقریب ہی ان پر درد ناک عذاب آ پہنچے گا۔

۹۱(اے رسولؐ جہاد میں نہ جانے کا) نہ تو کمزوروں پر کچھ گناہ ہے نہ بیماروں پر اور نہ ان لوگوں پر جو کچھ نہیں پاتے کہ خرچ کریں بشرطیکہ یہ لوگ خدا اور اس کے رسولؐ کی خیر خواہی کریں نیکی کرنے والوں پر (الزام کی) کوئی سبیل نہیں۔ اور خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۹۲اور نہ ہی ان لوگوں پر کوئی الزام ہے جو تمہارے پاس آئے کہ تم ان کے لیے سواری بہم پہنچا دو اور تم نے کہا کہ میرے پاس (تو کوئی سواری) موجود نہیں کہ تم کو اس پر سوار کروں تو وہ لوگ (مجبوراً) پھر گئے اور حسرت (و افسوس) سے اس غم میں کہ ان کو خرچ میسّر نہ آیا ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے

۹۳(الزام کی) سبیل تو صرف انہی لوگوں پر ہے جنہوں نے باوجود مالدار ہونے کے تم سے (جہاد میں نہ جانے کی) اجازت چاہی اور ان کو پیچھے رہ جانے والے (عورتوں بچوں ) کے ساتھ رہنا پسند آیا اور خدا نے ان کے دلوں میں (گویا) مہر کر دی ہے تو یہ لوگ کچھ نہیں جانتے۔

۹۴جب ان کے پاس (جہاد سے لوٹ کر) واپس آؤ گے تو یہ (منافقین) تم سے (طرح طرح کی) معذرت کریں گے (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ باتیں نہ بناؤ ہم ہر گز تمہاری بات باور نہ کریں گے (کیونکہ) ہمیں تو خدا نے تمہارے حالات سے آگاہ کر دیا ہے عنقریب خدا اور اس کا رسولؐ تمہاری کارستانی کو ملاحظہ فرمائیں گے پھر تم ظاہر و باطن کے جاننے والے (خدا) کی حضوری میں لوٹا دیئے جاؤ گے تو جو کچھ تم (دنیا میں ) کرتے تھے (ذرا ذرا) بتا دے گا۔

۹۵جب تم ان کے پاس (جہاد سے ) واپس آؤ گے تو تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو تو تم ان کی طرف سے منہ پھیر لو۔بے شک یہ لوگ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے (یہ) سزا ہے اس کی جو یہ(دنیا میں ) کیا کرتے تھے۔

۹۶تمہارے سامنے یہ لوگ قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ تو اگر تم ان سے راضی ہو (بھی) جاؤ تو خدا بدکار لوگوں سے ہرگز کبھی راضی نہیں ہو گا۔

۹۷(یہ) عرب کے گنوار دیہاتی کفر و نفاق میں بڑے سخت ہیں۔ اور اسی قابل ہیں کہ جو کتاب خدا نے اپنے رسولؐ پر نازل فرمائی ہے اس کے احکام نہ مانیں اور خدا تو بڑا دانا حکیم ہے۔

۹۸اور کچھ گنوار دیہاتی ایسے بھی ہیں کہ جو کچھ (خدا کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں (زمانہ کی) گردشوں کے منتظر ہیں انہی پر (زمانہ کی) بُری گردش پڑے اور خدا تو (سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔

۹۹اور کچھ دیہاتی تو ایسے بھی ہیں جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے خدا کی (بارگاہ میں ) نزدیکی اور رسولؐ کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں آگاہ رہو واقعی یہ (خیرات) ضرور ان کے تقرب کا باعث ہے خدا انہیں بہت جلد اپنی رحمت میں داخل کرے گا بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۰۰اور مہاجرین و انصار میں سے (ایمان کی طرف) سبقت کرنے والے اور وہ لوگ جنہوں نے نیک نیتی سے (قبول ایمان میں ) ان کا ساتھ دیا، خدا ان سے راضی اور وہ خدا سے خوش اور ان کے واسطے خدا نے وہ (ہرے بھرے ) باغ جن کے نیچے نہریں جاری ہیں تیار کر رکھے ہیں وہ ہمیشہ ابد الآباد تک ان میں رہیں گے یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

۱۰۱اور (مسلمانو) تمہارے اطراف کے گنوار دیہاتیوں میں سے بعض منافق (بھی) ہیں اور خود مدینہ کے رہنے والوں میں سے بھی (بعض منافق ہیں ) جو نفاق پر اُڑ گئے ہیں (اے رسولؐ) تم ان کو نہیں جانتے (مگر) ہم ان کو خوب جانتے ہیں عنقریب ہم (دنیا ہی میں ) ان کی دوہری سزا کریں گے پھر یہ لوگ (قیامت میں ) ایک بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

۱۰۲اور کچھ لوگ اور ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا (تو) اقرار کیا (مگر) ان لوگوں نے بھلے کام کو اور کچھ بُرے کام کو ملا جلا (کر گول مال کر) دیا قریب ہے کہ خدا ان کی توبہ قبول کرے (کیونکہ)خدا تو یقینی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۰۳(اے رسولؐ) تم ان کے مال کی زکوٰۃ لو(اور) اس کی بدولت ان کو (گناہوں سے ) پاک صاف کر دو اور ان کے واسطے دعا خیر کرو کیونکہ تمہاری دعا ان لوگوں کے حق میں اطمینان (کا باعث) ہے اور خدا تو (سب کچھ) سنتا اور جانتا ہے۔

۱۰۴کیا ان لوگوں نے اتنا بھی نہیں جانا کہ یقیناً خدا ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہ ہی خیراتیں (بھی) لیتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ وہی توبہ کا بڑا قبول کرنے والا مہربان ہے

۱۰۵اور (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم لوگ اپنے اپنے کام کیے جاؤ ابھی تو خدا اور اس کا رسولؐ اور مومنین تمہارے کاموں کو دیکھیں گے اور بہت جلد (قیامت میں ) ظاہر و باطن کے جاننے والے (خدا) کی طرف لوٹائے جاؤ گے تب جو کچھ بھی تم کرتے تھے تمہیں بتا دے گا۔

۱۰۶اور کچھ لوگ ہیں جو حکم خدا کے امیدوار کیے گئے ہیں (اس کو اختیار ہے ) خواہ ان پر عذاب کرے یا ان پر مہربانی کرے اور خدا (تو) بڑا واقف کار حکمت والا ہے۔

۱۰۷اور (وہ لوگ بھی منافق ہیں ) جنہوں نے (مسلمانوں کے ) نقصان پہنچانے اور کفر کرنے اور مومنین کے درمیان تفرقہ ڈالنے اور اس شخص کی گھات میں بیٹھنے کے واسطے مسجد بنا کھڑی کی ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ سے پہلے لڑ چکا ہے (اور لطف تو یہ ہے ) کہ یہ لوگ ضرورقسمیں کھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا کچھ اور ارادہ ہی نہیں کیا اور خدا خود گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں۔

۱۰۸( اے رسولؐ) تم اس (مسجد) میں کبھی کھڑے (بھی) نہ ہو۔ وہ مسجد جس کی بنیاد روز اوّل ہی سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ ضرور اس کی زیادہ حقدار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو (کر نماز پڑھو کیونکہ)اس میں وہ لوگ ہیں جو پاک و پاکیزہ رہنے کو پسند کرتے ہیں اور خدا (بھی) پاک و پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

۱۰۹کیا جس شخص نے خدا کے خوف اور خوشنودی پر اپنی عمارت کی بنیاد ڈالی ہو وہ زیادہ اچھا ہے یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اس بودے کگارے کے لب پر رکھی ہو جس میں دراڑ پڑ چکی ہو اور گرا چاہتا ہو پھر وہ اسے لے دے کر جہنم کی آگ میں پھٹ پڑے اور خدا ظالم لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا۔

۱۱۰یہ (عمارت کی) بنیاد جو ان لوگوں نے قائم کی اس کے سبب سے ان کے دلوں میں ہمیشہ دھکڑ پکڑ رہے گی یہاں تک کہ ان کے دلوں کے پرخچے اڑ جائیں اور خدا بڑا واقف کار حکیم ہے۔

۱۱۱اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید کر لیے ہیں کہ (ان کی قیمت) ان کے لیے بہشت ہے (اسی وجہ سے ) یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو (کفار کو) مارتے ہیں تو (خود بھی) مارے جاتے ہیں (یہ) پکا وعدہ ہے (جس کا پورا کرنا) خدا پر لازم ہے (اور ایسا پکا ہے کہ) توریت اور انجیل اور قرآن (سب ) میں (لکھا ہوا) ہے اور اپنے عہد کا پورا خدا سے بڑھ کر اور کون ہے۔ تم تو اپنی (خرید) فروخت سے جوتم نے خدا سے کی ہے خوشیاں مناؤ یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

۱۱۲(یہ لوگ) توبہ کرنے والے عبادت گزار (خدا کی) حمد و ثنا کرنے والے (اس کی راہ میں ) سفر کرنے والے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے نیک کام کا حکم کرنے والے اور بُرے کام سے روکنے والے اور خدا کی مقرر کی ہوئی) حدوں کی نگاہ رکھنے والے ہیں اور (اے رسولؐ ان) مومنین کو (بہشت کی) خوشخبری دے دو۔

۱۱۳نبیؐ اور مومنین پر جب ظاہر ہو چکا کہ مشرکین جہنمی ہیں تو اس کے بعد مناسب نہیں کہ ان کے لیے مغفرت کی دعائیں مانگیں اگرچہ وہ مشرکین ان کے قرابت دار ہی (کیوں نہ) ہوں۔

۱۱۴اور ابراہیمؑ کا اپنے چچا (آزر) کے لیے مغفرت کی دعا مانگنا صرف اس وعدہ کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس سے کر لیا تھا پھر جب ان کو معلوم ہو گیا کہ وہ یقینی خدا کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے۔ بے شک ابراہیمؑ یقیناً بڑے درد مند بُردبار تھے۔

۱۱۵خدا کی یہ شان نہیں کہ کسی قوم کو جب ان کی ہدایت کر چکا ہو اس کے بعد انہیں گمراہ کر دے حتیٰ کہ وہ انہیں ان چیزوں کو بتا دے جس سے وہ پرہیز کریں بے شک خدا ہر چیز سے واقف ہے۔

۱۱۶اس میں شک ہی نہیں کہ سارے آسمان و زمین کی حکومت خدا ہی کے لیے خاص ہے وہی (جسے چاہے ) جلاتا ہے اور (جسے چاہے ) مارتا ہے اور تم لوگوں کا خدا کے سوا نہ تو کوئی سرپرست ہے نہ مددگار۔

۱۱۷البتہ خدا نے نبی اور ان مہاجرین و انصار پر بڑا فضل کیا جنہوں نے تنگ دستی کے وقت میں رسول کا ساتھ دیا اور وہ بھی اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل ڈگمگا جائیں پھر خدا نے ان پر (بھی) فضل کیا اس میں شک نہیں کہ وہ ان لوگوں پر بڑا ترس کھانے والا مہربان ہے۔

۱۱۸اور ان تینوں پر (بھی فضل کیا) جو (جہاد سے ) پیچھے رہ گئے تھے (اور ان پر سختی کی گئی) یہاں تک کہ زمین باوجود اس وسعت کے ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی جانیں (تک) ان پر تنگ ہو گئیں اور ان لوگوں نے سمجھ لیا کہ خدا کے سوا اور کہیں پناہ کی جگہ نہیں پھر خدا نے ان کو توبہ کی توفیق دی تاکہ وہ (خدا کی طرف) رجوع کریں بے شک خدا ہی بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

۱۱۹اے ایمان دارو خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

۱۲۰مدینے کے رہنے والوں اور ان کے گرد و نواح دیہاتیوں کو یہ جائز نہ تھا کہ رسولؐ خدا کا ساتھ چھوڑ دیں اور نہ یہ (جائز تھا) کہ رسولؐ کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جانوں کے بچانے کی فکر کریں یہ حکم اس سبب سے تھا کہ ان (جہاد کرنے والوں ) کو خدا کی راہ میں جو تکلیف پیاس کی یا محنت یا بھوک کی شدت کی پہنچتی ہے یا ایسی راہ چلتے ہیں جو کفار کے غیظ و غضب کا باعث ہو یا کسی دشمن سے کچھ یہ لوگ حاصل کرتے ہیں تو بس اس کے عوض میں (ان کے نامۂ عمل میں ) ایک نیک کام لکھ دیا جاتا ہے۔بے شک خدا نیکی کرنے والوں کا اجر (و ثواب) برباد نہیں کرتا،

۱۲۱اور یہ لوگ(خدا کی راہ میں ) تھوڑا یا بہت مال نہیں خرچ کرتے اور کسی میدان کو نہیں قطع کرتے مگر فوراً (ان کے نامۂ عمل میں ) ان کے نام لکھ دیا جاتا ہے تاکہ خدا ان کی کار گزاریوں کا انہیں اچھے سے اچھا بدلہ عطا فرمائے۔

۱۲۲اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ کل کے کل مومنین (اپنے گھروں سے ) نکل کھڑے ہوں۔ان میں سے ہر گروہ کی ایک جماعت (اپنے گھروں سے ) کیوں نہیں نکلتی تاکہ علم دین حاصل کرے اور جب اپنی قوم کی طرف پلٹ کے آوے تو ان کو (عذاب آخرت سے ) ڈرائے تاکہ یہ لوگ ڈریں۔

۱۲۳اے ایماندارو کفار میں سے جو لوگ تمہارے آس پاس کے ہیں ان سے لڑو اور (اس طرح لڑنا) چاہیے کہ وہ لوگ تم میں کرارا پن محسوس کریں اور جان رکھو کہ بے شبہ خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

۱۲۴اور جب کوئی سورۃ نازل کی گئی تو ان (منافقین میں سے ایک دوسرے سے ) پوچھتا ہے کہ بھلا اس سورہ نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا تو جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کا تو اس سورہ نے ایمان بڑھا دیا اور وہ (اس کی) خوشیاں مناتے ہیں۔

۱۲۵اور جن لوگوں کے دل میں (نفاق کی) بیماری ہے تو ان کی (پچھلی) خباثت پر اس سورۃ نے ایک خباثت اور بڑھا دی اور یہ لوگ کفر ہی کی حالت میں مر گئے۔

۱۲۶کیا وہ لوگ (اتنا بھی) نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک مرتبہ یا دو مرتبہ بلا میں مبتلا کیے جاتے ہیں پھر بھی نہ تو یہ لوگ توبہ ہی کرتے ہیں اور نہ نصیحت ہی مانتے ہیں۔

۱۲۷اور جب کوئی سورۃ نازل کیا گیا تو اس میں سے ایک کی طرف ایک دیکھنے لگا (اور یہ کہہ کر کہ) تم کو کوئی مسلمان دیکھتا تو نہیں ہے پھر (اپنے گھر) پلٹ جاتے ہیں (یہ لوگ کیا پلٹیں گے گویا) خدا نے ان کے دلوں کو پلٹ دیا ہے اس سبب سے کہ یہ بالکل ناسمجھ لوگ ہیں۔

۱۲۸لوگو تم ہی میں سے (ہمارا) ایک رسول تمہارے پاس آ چکا ہے (جس کی شفقت کی یہ حالت ہے کہ )اس پر شاق ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ اور اسے تمہاری بہبودی کا ہوکا ہے ایمانداروں پر حد درجہ شفیق مہربان ہے۔

۱۲۹اے رسولؐ اگر اس پر بھی یہ لوگ (تمہارے حکم سے ) منہ پھیریں تو تم کہہ دو کہ میرے لیے خدا کافی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اس پر بھروسا رکھا ہے وہی عرش (ایسے ) بزرگ (مخلوق) کا مالک ہے۔
٭٭٭

 

 

 

۱۰۔ سورۃ یونس

 

۱ا لٓ ر یہ آیتیں اس کتاب کی ہیں جو (از سرتاپا) حکمت سے مملو ہے۔

۲کیا لوگوں کو اس بات سے بڑا تعجب ہے کہ ہم نے انہیں لوگوں میں سے ایک آدمی کے پاس وحی بھیجی کہ (بے ایمان) لوگوں کو ڈراؤ اور ایمانداروں کو خوشخبری سنا دو کہ ان کے لیے ان کے پروردگار کی بارگاہ میں سچا (بلند) پایہ ہے (مگر) کفار (ان آیتوں کو سن کر) کہنے لگے کہ یہ (شخص) تو یقیناً صریحی جادوگر ہے۔

۳اس میں شک ہی نہیں کہ تمہارا پروردگار وہی خدا ہے جس نے سارے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر اس نے عرش کو بلند کیا وہی ہر کام کا انتظام کرتا ہے۔ (اس کے سامنے ) کوئی (کسی کا) سفارشی نہیں (ہو سکتا) مگر اس کی اجازت کے بعد۔ وہی خدا تو تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو تو کیا تم اب بھی غور نہیں کرتے۔

۴تم سب کو (آخر) اسی کی طرف لوٹنا ہے خدا کا وعدہ سچا ہے وہی یقیناً مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے پھر (مرنے کے بعد) وہی دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے ان کو انصاف کے ساتھ جزائے خیر عطا فرمائے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے ان کے کفر کی سزا میں پینے کو کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہو گا۔

۵وہی وہ (خدائے قادر) ہے جس نے آفتاب کو چمکدار اور ماہتاب کو روشن بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم لوگ برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو۔ خدا نے اسے حکمت و مصلحت سے بنایا ہے وہ (اپنی) آیتوں کو واقف کار لوگوں کے لیے تفصیل وار بیان کرتا ہے۔

۶اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ رات دن کے الٹ پھیر میں اور جو کچھ خدا نے آسمانوں اور زمین میں بنایا ہے (اس میں ) پرہیزگاروں کے واسطے بہتیری نشانیاں ہیں

۷اس میں بھی شک نہیں کہ جن لوگوں کو (قیامت میں ) ہماری (بارگاہ کی) حضوری کا کھٹکا نہیں اور دنیا کی (چند روزہ) زندگی سے نہال ہو گئے اور اسی پر چین سے بیٹھے ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں

۸یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا ان کے کرتوت کی بدولت جہنم ہے۔

۹بے شک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے انہیں ان کا پروردگار ان کے ایمان کے سبب سے منزل مقصود تک پہنچا دے گا کہ آرام و آسائش کے باغوں میں رہیں گے اور ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔

۱۰ان باغوں میں ان لوگوں کا بس یہ قول ہو گا اے خدا تو پاک و پاکیزہ ہے اور ان میں ان کی باہمی خیر صلّا ہی سلام سے ہو گی اور ان کا آخری قول یہ ہو گا کہ سب تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔

۱۱اور جس طرح لوگ اپنی بھلائی کے لیے جلدی کر بیٹھے ہیں اسی طرح اگر خدا ان کی شرارتوں (کی سزا میں ) برائی میں جلدی کر بیٹھتا تو ان کی موت ان کے پاس کب کی آ چکی ہوتی مگر ہم تو ان لوگوں کو جنہیں (مرنے کے بعد) ہماری حضوری کا کھٹکا نہیں چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں آپ سر گرداں رہیں

۱۲ اور انسان کو جب کوئی نقصان چھو بھی گیا تو اپنے پہلو پر لیٹا ہو یا بیٹھا ہو یا کھڑا (غرض ہر حالت میں ) ہم کو پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف کو دفع کر دیتے ہیں تو ایسا (آہستہ) کھسک جاتا ہے کہ گویا اس نے تکلیف کے (دفع کرنے کے )لیے جو اس کو پہنچی تھی ہم کو پکارا ہی نہ تھا جو لوگ زیادتی کرتے ہیں ان کی کارستانیاں یوں ہی انہیں اچھی کر کے دکھائی گئی ہیں۔

۱۳اور تم سے پہلی امت والوں کو جب انہوں نے شرارت کی تو ہم نے انہیں ضرور ہلاک کر ڈالا حالانکہ ان کے (وقت کے ) رسولؐ واضح و روشن معجزات لے کر آ چکے تھے اور وہ لوگ ایمان (نہ لانا تھا) نہ لائے۔ ہم تو گنہگار لوگوں کی یوں ہی سزا کیا کرتے ہیں۔

۱۴پھر ہم نے ان کے بعد تم کو زمین میں (ان کا) جانشین بنایا تاکہ ہم (بھی) دیکھیں کہ تم کس طرح کام کرتے ہو۔

۱۵اور جب ان لوگوں کے سامنے ہماری روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو (مرنے کے بعد) ہماری حضوری کا کھٹکا نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے اس کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن لاؤ یا اس کو رد و بدل کر ڈالو (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے میں تو اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو بڑے (کٹھن کے ) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

۱۶(اے رسولؐ) کہہ دو کہ اگر خدا چاہتا تو میں نہ تمہارے سامنے اس کو پڑھتا اور نہ وہ تمہیں اس سے آگاہ کرتا کیونکہ میں تو (آخر) تم میں اس سے پہلے مدتوں رہ چکا ہوں (اور کبھی وحی کا نام بھی نہ لیا)تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے۔

۱۷تو جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے اس سے بڑھ کر اور ظالم کون ہو گا۔ اس میں شک نہیں کہ (ایسے ) گنہگار کامیاب نہیں ہوا کرتے۔

۱۸اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیز کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان کو نقصان ہی پہنچا سکتی ہے نہ نفع اور کہتے ہیں کہ خدا کے ہاں یہی لوگ ہمارے سفارشی ہوں گے۔ (اے رسولؐ) تم (ان سے ) کہو تو کیا تم خدا کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جس کو وہ نہ تو آسمانوں میں (کہیں ) پاتا ہے اور نہ زمین میں۔ یہ لوگ جس چیز کو اس کا شریک بناتے ہیں اس سے وہ پاک و صاف اور برتر ہے۔

۱۹اور سب لوگ تو (پہلے ) ایک ہی امت تھے پھر انہوں نے اختلاف کیا اور (اے رسولؐ) اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات (قیامت کا وعدہ) پہلے نہ ہو چکی ہوتی جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں (تو) اس کا فیصلہ ان کے درمیان (کب نہ کب) کر دیا گیا ہوتا۔

۲۰اور کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر کوئی معجزہ (ہماری ہی خواہش کے موافق) کیوں نہیں نازل کیا گیا تو (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ غیب (دانی) تو صرف خدا کے واسطے خاص ہے تو تم بھی انتظار کرو اور تمہارے ساتھ میں (بھی) یقیناً انتظار کرنے والوں میں ہوں

۲۱اور لوگوں کو جو تکلیف پہنچی اس کے بعد جب ہم نے اپنی رحمت کا مزہ چکھا دیا تو یکایک ان لوگوں نے ہماری آیتوں میں حیلہ بازی شروع کر دی (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تدبیر میں خدا سب سے تیز ہے تم جو کچھ مکاری کرتے ہو وہ ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے ) لکھتے جاتے ہیں۔

۲۲وہ وہی خدا ہے جو تمہیں خشکی اور دریا میں سیر کراتا پھرتا ہے یہاں تک کہ جب (کبھی) تم کشتیوں پر سوار ہوتے ہو اور وہ ان لوگوں کو باد موافق کی مدد سے لے کر چلی اور لوگ اس (کی رفتار) سے خوش ہوئے (یکایک) کشتی پر ہوا کا ایک جھونکا پڑا اور (آنا تھا کہ) ہر طرف اس پر لہریں (بڑھی چلی) آ رہی ہیں اور ان لوگوں نے سمجھ لیا کہ اب گھر گئے (اور جان نہ بچے گی) تب اپنے عقیدے کواسی کے واسطے نرا کھرا کر کے خدا سے دعائیں مانگنے لگتے ہیں کہ (خدایا) اگر تو نے اس (مصیبت) سے ہمیں نجات دی تو ہم ضرور بڑے شکر گزار ہوں گے۔

۲۳پھر جب خدا نے انہیں نجات دی تو وہ لوگ زمین پر (قدم رکھتے ہی) فوراً ناحق سرکشی کرنے لگے۔ اے لوگو تمہاری سرکشی (کا وبال تو) تمہاری ہی جان پر ہے (یہ بھی) دنیاوی (چند روزہ) زندگی کا فائدہ ہے پھر آخر ہماری (ہی) طرف تم کو لوٹ کر آنا ہے۔ تو (اس وقت) ہم تم کو جو کچھ تم (دنیا میں ) کرتے تھے بتا دیں گے۔

۲۴دنیاوی زندگی کی مثل تو بس پانی کی سی ہے کہ ہم نے اس کو آسمان سے برسایا پھر زمین کے ساگ پات جس کو لوگ اور چوپائے کھاتے ہیں اس کے ساتھ مل جل کر نکلے یہاں تک کہ جب زمین نے (فصل کی چیزوں سے ) اپنا بناؤ سنگار کر لیا اور (ہر طرح) آراستہ ہو گئی اور کھیت والوں نے سمجھ لیا کہ اب وہ اس پر یقیناً قابو پا گئے (جب چاہیں گے کاٹ لیں گے ) یکایک ہمارا حکم (عذاب) رات یا دن کو آ پہنچا تو ہم نے اس کھیت کو ایسا صاف کٹا ہوا بنا دیا کہ گویا کل اس میں کچھ تھا ہی نہیں جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں ان کے واسطے ہم آیتوں کو یوں تفصیل وار بیان کرتے ہیں۔

۲۵اور خدا تو آرام کے گھر (بہشت) کی طرف بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے۔

۲۶جن لوگوں نے (دنیا میں ) بھلائی کی ان کے لیے (آخرت میں بھی) بھلائی ہے (بلکہ) اور کچھ بڑھ کر اور نہ (گنہگاروں کی طرح) ان کے چہروں پر کالک لگی ہو گی اور نہ(ان میں ) ذلت ہو گی یہی لوگ جنتی ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہا سہا کریں۔

۲۷اور جن لوگوں نے برے کام کیے ہیں تو گناہ کی سزا اس کے برابر ہے اور ان پر رسوائی چھائی ہوئی ہو گی خدا (کے عذاب سے ) ان کا کوئی بچانے والا نہ ہو گا (ان کے منہ ایسے کالے ہوں گے کہ) گویا ان کے چہرے شب دیجور کے ٹکڑے سے ڈھک دیئے گئے۔ یہی لوگ جہنمی ہیں کہ یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

۲۸(اے رسولؐ اس دن سے ڈرو) جس دن ہم سب کو اکٹھا کریں گے پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے (بنائے ہوئے خدا کے ) شریک ذرا اپنی جگہ ٹھہرو پھر ہم باہم ان میں پھوٹ ڈال دیں گے اور ان کے شریک ان سے کہیں گے کہ تم تو ہماری پرستش کرتے نہ تھے

۲۹تو (اب) ہمارے تمہارے درمیان گواہی کے واسطے خدا ہی کافی ہے۔ ہم کو تمہاری پرستش کی کچھ خبر ہی نہ تھی۔

۳۰(غرض) وہاں ہر شخص جو کچھ جس نے پہلے (دنیا میں )کیا ہے جانچ لے گا اور وہ سب کے سب اپنے سچے مالک خدا کی بارگاہ میں لوٹا کر لائے جائیں گے اور (دنیا میں ) جو کچھ افترا پردازیاں کرتے تھے سب ان کے پاس سے چل کر چنپت ہو جائیں گے۔

۳۱(اے رسولؐ تم ان سے ) ذرا پوچھو تو کہ تمہیں آسمان و زمین سے کون روزی دیتا ہے یا (تمہارے ) کان اور (تمہاری) آنکھوں کا کون مالک ہے اور کون مُردے سے زندہ کو نکالتا ہے اور زندہ سے مُردے کو نکالتا ہے اور ہر امر کا بندوبست کون کرتا ہے تو فوراً بول اٹھیں گے کہ خدا۔ (اے رسولؐ) تم کہو تو کیا تم اس پر بھی (اس سے ) نہیں ڈرتے ہو۔

۳۲پھر وہی خدا تو تمہارا سچا مربی ہے۔ پھر حق بات کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا ہے۔ پھر تم کہاں پھرے چلے جا رہے ہو۔

۳۳یوں تمہارے پروردگار کی بات بد چلن لوگوں پر ثابت ہو کر رہی کہ یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔

۳۴(اے رسول ان سے ) پوچھو تو کہ تم نے جن لوگوں کو (خدا کا) شریک بنایا ہے کوئی بھی ایسا ہے جو مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرے پھر ان کو (مرنے کے بعد) دوبارہ زندہ کرے (وہ تو کیا جواب دیں گے ؟) تمہی کہو کہ خدا ہی پہلے بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ زندہ کرتا ہے تو کدھر تم الٹے جا رہے ہو۔

۳۵(اے رسول ان سے ) کہو تو کہ تمہارے بنائے ہوئے ) شریکوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو تمہیں دین حق کی راہ دکھا سکے۔ تمہی کہہ دو کہ خدا (دین) حق کی راہ دکھاتا ہے تو جو شخص دین کی راہ دکھاتا ہے کیا وہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کے حکم کی پیروی کی جائے یا وہ شخص جو (دوسرے کی ہدایت تو درکنار)خود جب تک دوسرا اس کو راہ نہ دکھائے دیکھ نہیں پاتا۔ تو تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے تم کیسے حکم لگاتے ہو

۳۶اور ان میں سے اکثر تو بس اپنے گمان پر چلتے ہیں (حالانکہ) گمان یقین کے مقابلہ میں ہرگز کچھ بھی کام نہیں آ سکتا بے شک وہ لوگ جو (کچھ بھی) کر رہے ہیں خدا اسے خوب جانتا ہے۔

۳۷اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ خدا کے سوا کوئی اور اپنی طرف سے جھوٹ موٹ بنا ڈالے بلکہ (یہ تو) جو کتابیں پہلے کی) اس کے سامنے موجود ہیں اس کی تصدیق اور (ان) کتابوں کی تفصیل ہے۔ اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ سارے جہان کے پروردگار کی طرف سے ہے۔

۳۸کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کو (رسولؐ نے خود) جھُوٹ موٹ بنا لیا ہے (اے رسولؐ) تم کہو کہ (اچھا) تو تم اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو (بھلا) ایک ہی سورۃ اس کے برابر کا بنا لاؤ اور خدا کے سوا جس کو تمہیں (مدد کے واسطے بلاتے ) بن پڑے بلا لو۔

۳۹(یہ لوگ لاتے تو کیا) بلکہ (الٹے ) جس کے جاننے پر ان کا دسترس نہ ہوا لگے اس کو جھٹلانے حالانکہ ابھی تک ان کے ذہن میں اس کے معافی نہیں آئے اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے تھے تب ذرا غور تو کرو کہ (ان) ظالموں کا کیسا (بُرا) انجام ہوا۔

۴۰اور ان میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ اس قرآن پر آئندہ ایمان لائیں گے اور بعض ایسے ہیں جو ایمان لائیں گے ہی نہیں اور (اے رسولؐ) تمہارا پروردگار تو فسادیوں کو خوب جانتا ہے

۴۱اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارے لیے ہماری کارگزاری ہے اور تمہارے لیے تمہاری کارستانی۔ جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمّہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں۔

۴۲اور ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ تمہاری باتوں کی طرف کان لگائے رہتے ہیں تو (کیا وہ تمہاری سن لیں گے ہرگز نہیں ) تو کہیں بہروں کو کچھ سنا سکتے ہو اگرچہ وہ کچھ سمجھ بھی نہ سکتے ہوں

۴۳اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو تمہاری طرف (ٹکٹکی باندھے ) دیکھتے ہیں تو (کیا وہ ایمان لائیں گے ہرگز نہیں ) اگرچہ انہیں کچھ نہ سوجھتا ہو تو تم اندھے کو راہ راست دکھاؤ گے

۴۴خدا تو ہرگز لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا مگر لوگ خود اپنے اوپر (اپنی کرتوت سے ) ظلم کیا کرتے ہیں

۴۵اور جس دن خدا ان لوگوں کو (اپنی بارگاہ میں ) جمع کرے گا تو گویا یہ لوگ (سمجھیں گے کہ دنیا میں )بس گھڑی دن بھر ٹھہرے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچانیں گے جن لوگوں نے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونے کو جھٹلایا وہ ضرور گھاٹے میں ہیں اور ہدایت یافتہ نہ تھے۔

۴۶(اے رسولؐ) ہم جس جس (عذاب) کا ان سے وعدہ کر چکے ہیں ان میں سے بعض خواہ تمہیں دکھا دیں یا تم کو (پہلے ہی دنیا سے ) اٹھا لیں پھر (آخر) تو ان سب کو ہماری طرف لوٹنا ہی ہے۔ پھر جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں خدا تو اس پر گواہ ہی ہے

۴۷اور ہر امت کا خاص (ایک) ایک رسولؐ ہوا ہے۔ پھر جب ان کا رسولؐ (ہماری بارگاہ میں ) آئے گا تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر ذرّہ برابر ظلم نہ کیا جائے گا۔

۴۸یہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر تم سچّے ہو تو (آخر) یہ (عذاب کا) وعدہ کب پورا ہو گا۔

۴۹(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں خود اپنے واسطے نہ نقصان پر قادر ہوں نہ نفع پر مگر خدا جو چاہے ہر امت (کے رہنے ) کا (اس کے علم میں ) ایک وقت مقرر ہے۔جب ان کا وقت آ جاتا ہے تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

۵۰(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر اس کا عذاب تم پر رات کو یا دن کو آ جائے تو (تم کیا کرو گے ) پھر گنہگار لوگ (آخر) کا ہے کی جلدی مچا رہے ہیں۔

۵۱پھر کیا جب (تم پر) آ چکے گا تب اس پر ایمان لاؤ گے (اہا) کیا اب (ایمان لائے ) حالانکہ تم اس کی جلدی مچایا کرتے تھے۔

۵۲پھر (قیامت کے دن) ظالم لوگوں سے کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کے عذاب کے مزے چکھو۔ (دنیا میں ) جیسی تمہاری کرتوتیں تھیں (آخرت میں ) ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا۔

۵۳(اے رسولؐ) تم سے لوگ پوچھتے ہیں کیا۔ (جو کچھ تم کہتے ہو) وہ سب ٹھیک ہے تم کہہ دو ہاں (ہاں اپنے پروردگار) کی قسم ٹھیک ہے اور تم (خدا کو) ہرا نہیں سکتے۔

۵۴اور (دنیا میں ) جس جس نے (ہماری نافرمانی کر کے ) ظلم کیا ہے (قیامت کے دن) اگر تمام خزانے جو زمین میں ہیں اسے مل جائیں تو اپنے گناہ کے بدلے ضرور فدیہ دے نکلے اور جب وہ لوگ عذاب کو دیکھیں گے تو اظہار ندامت کریں گے اور ان میں باہم انصاف کے ساتھ حکم کیا جائے گا اور ان پر (ذرّہ برابر) ظلم نہ کیا جائے گا۔

۵۵آگاہ رہو کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی کا ہے آگاہ رہو کہ خدا کا وعدہ یقینی ٹھیک ہے مگر ان میں کے اکثر نہیں جانتے۔

۵۶وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے اور تم سب کے سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

۵۷لوگو تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت (کتاب خدا) آپ کی اور جو امراض (شرک وغیرہ) دل میں ہیں ان کی دوا اور ایمانداروں کے لیے ہدایت اور رحمت۔

۵۸(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ (یہ قرآن) خدا کے فضل (و کرم) اور اس کی رحمت سے تم کو ملا (ہے ) تو ان لوگوں کو اس پر خوش ہونا چاہیے اور جو کچھ وہ جمع کر رہے ہیں اس سے یہ کہیں بہتر ہے۔

۵۹(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ خدا نے تم پر روزی نازل کی تو اب اس میں سے بعض کو حرام اور بعض کو حلال بنانے لگے۔ (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یا تم خدا پر بہتان باندھتے ہو۔

۶۰اور جو لوگ خدا پر جھوٹ موٹ بہتان باندھا کرتے ہیں روز قیامت کو کیا خیال کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ خدا تو لوگوں پر بڑا صاحب فضل (و کرم)ہے مگر ان میں سے بہتیرے شکرگزار نہیں ہیں۔

۶۱اور (اے رسولؐ) تم (چاہے ) کسی حال میں ہو اور قرآن کی کوئی سی بھی آیت تلاوت کرتے ہو اور (لوگو) تم کوئی سا بھی عمل کر رہے ہو ہم (ہمہ وقت) جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو تم کو دیکھتے رہتے ہیں اور تمہارے پروردگار سے ذرّہ بھر بھی کوئی چیز غائب نہیں رہ سکتی نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز ذرّہ سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی چیز مگر وہ روشن کتاب (لوح محفوظ) میں ضرور ہے۔

۶۲آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر (قیامت میں ) نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے۔

۶۳یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (خدا سے ) ڈرتے تھے۔

۶۴ان ہی لوگوں کے واسطے دنیوی زندگی میں (بھی) اور آخرت میں (بھی) خوشخبری ہے۔ خدا کی باتوں میں ادل بدل نہیں ہوا کرتا۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

۶۵اور (اے رسولؐ) ان (کفّار) کی باتوں کا تم رنج نہ کیا کرو اس میں تو شک نہیں کہ ساری عزت تو صرف خدا ہی کے لیے ہے وہی سب کی سنتا جانتا ہے۔

۶۶آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ جو لوگ آسمانوں میں ہیں اور جو لوگ زمین میں ہیں (غرض سب کچھ) خدا ہی کے ہیں۔ اور جو لوگ خدا کو چھوڑ کر (دوسروں کو) پکارتے ہیں وہ تو (خدا کے فرضی) شریکوں کی راہ پر بھی نہیں چلتے بلکہ وہ تو صرف اپنی اٹکل پر چلتے ہیں اور وہ صرف وہمی و خیالی باتیں کیا کرتے ہیں۔

۶۷وہ وہی (خدائے قادر و توانا) ہے جس نے تمہارے نفع کے واسطے رات کو بنایا تاکہ تم اس میں چین کرو اور دن کو (بنایا) کہ اس کی روشنی میں دیکھو بھالو اس میں شک نہیں جو لوگ سن لیتے ہیں ان کے لیے اس میں (قدرت کی بہترین) نشانیاں ہیں۔

۶۸لوگوں نے تو کہہ دیا کہ خدا نے بیٹا بنا لیا ہے (یہ محض لغو ہے ) وہ (تمام نقائص سے ) پاک و پاکیزہ ہے۔ وہ (ہر طرح) بے پرواہ ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) اسی کا ہے (جو کچھ تم کہتے ہو) اس کی کوئی دلیل تو تمہارے پاس ہے نہیں کیا تم خدا پر (یوں ہی) بے جانے بوجھے جھوٹ بولا کرتے ہو۔

۶۹(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ بے شک جو لوگ جھوٹ موٹ خدا پر بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔

۷۰(یہ) دُنیا کے (چند روزہ) فائدے ہیں پھر تو آخر ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے تب اُن کے کفر کی سزا میں ہم ان کو سخت عذاب کے مزے چکھائیں گے۔

۷۱اور (اے رسولؐ) تم ان کے سامنے نوحؑ کا حال پڑھ دو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اگر میرا ٹھہرنا اور خدا کی آیتوں کا چرچا کرنا تم پر شاق و گراں گزرتا ہے تو میں صرف خدا ہی پر بھروسہ رکھتا ہوں تو تم اور تمہارے شریک سب مل کر اپنا کام ٹھیک کر لو پھر تمہاری بات تم (میں سے کسی) پر مخفی نہ رہے پھر(جو تمہارا جی چاہے ) میرے ساتھ کر گزرو اور مجھے (دم مارنے کی بھی)مہلت نہ دو۔

۷۲پھر بھی اگر تم نے (میری نصیحت سے ) منہ موڑا تو میں نے تم سے کچھ مزدوری تو نہ مانگی تھی۔ میری مزدوری تو صرف خدا ہی پر ہے اور (اسی کی طرف سے ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کے فرمانبردار بندوں سے ہو جاؤں۔

۷۳اس پر ان لوگوں نے ان کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو اور جو لوگ ان کے ساتھ کشتی میں (سوار) تھے (ان کو) نجات دی اور ان کو (اگلوں کا) جانشین بنایا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو ڈوبا مارا۔ پھر ذرا غور تو کرو کہ جو (عذاب سے ) ڈرائے جا چکے تھے ان کا کیا (خراب) انجام ہوا۔

۷۴پھر ہم نے (نوحؑ کے بعد) اور رسولوں کو ان کی اپنی قوم کے پاس بھیجا تو وہ پیغمبر اُن کے پاس واضح و روشن معجزے لے کر آئے اس پر بھی جس چیز کو وہ لوگ پہلے جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان (نہ لانا تھا) نہ لائے۔ ہم یوں ہی حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر (گویا خود) مہر کر دیتے ہیں۔

۷۵پھر ہم نے ان پیغمبروں کے بعد موسیٰ ؑ و ہارونؑ کو اپنی نشانیاں (معجزے ) دے کر فرعون اور اس (کی قوم) کے سرداروں کے پاس بھیجا تو وہ لوگ اکڑ بیٹھے اور یہ لوگ تھے ہی قصور وار۔

۷۶پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق بات (معجزے ) پہنچ گئے تو کہنے لگے کہ یہ تو یقینی کھلم کھلا جادُو ہے۔

۷۷موسیٰؑ نے کہا کیا جب (دین) حق تمہارے پاس آیا تو اس کے بارے میں کہتے ہو کہ کیا یہ جادُو ہے اور جادُوگر لوگ کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔

۷۸وہ لوگ کہنے لگے کہ (اے موسیٰ ؑ )کیا تم ہمارے پاس اس واسطے آئے ہو کہ جس دین پر ہم نے اپنے باپ داداؤں کو پایا اس سے تم ہمیں بہکا دو اور ساری روئے زمین میں بس تم ہی دونوں کی بڑائی ہو۔ اور ہم لوگ تو تم دونوں پر ایمان لانے والے نہیں۔

۷۹اور فرعون نے حکم دیا کہ ہمارے حضور میں تمام کھلاڑی (واقف کار) جادُوگروں کو تولے آؤ۔

۸۰پھر جب جادُوگر لوگ (میدان میں ) آ موجود ہوئے تو موسیٰؑ نے ان سے کہا کہ تم کو جو کچھ پھینکنا ہو پھینکو۔

۸۱پھر جب وہ لوگ (رسیوں کو سانپ بنا کر) ڈال چکے تو موسیٰؑ نے کہا جو کچھ تم (بنا کر) لائے ہو (وہ تو سب) جادو ہے۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا اسے فوراً ملیامیٹ کر دے گا (کیونکہ) خدا تو ہرگز مفسدوں کا کام درست نہیں ہونے دیتا۔

۸۲اور خدا سچی بات کو اپنے کلام کی برکت سے ثابت کر دکھاتا ہے اگرچہ گنہگاروں کو ناگوار ہو۔

۸۳الغرض موسیٰ ؑ پر ان کی قوم کی نسل کے چند آدمیوں کے سوا فرعون اور اس کے سرداروں کے اس خوف سے کہ (مبادا) ان پر کوئی مصیبت ڈال دیں، کوئی ایمان نہ لایا اور اس میں شک نہیں کہ فرعون روئے زمین میں بہت بڑھا چڑھا تھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ وہ یقیناً زیادتی کرنے والوں میں سے تھا۔

۸۴اور موسیٰؑ نے کہا اے میری قوم اگر تم (سچے دل سے ) خدا پر امان لا چکے تو اگر تم فرماں بردار ہو تو بس اسی پر بھروسہ کرو۔

۸۵اس پر ان لوگوں نے عرض کی ہم نے تو خدا ہی پر بھروسہ کر لیا ہے (اور دعا کی ہے کہ) اے ہمارے پالنے والے تو ہم ظالم لوگوں کا (ذریعۂ) امتحان نہ بنا،

۸۶اور اپنی رحمت سے ہمیں ان کافر لوگوں (کے پنجے ) سے نجات دے۔

۸۷اور ہم نے موسیٰ ؑ اور ان کے بھائی (ہارونؑ) کے پاس وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے (رہنے سہنے کے ) لیے گھر بنا ڈالو اور اپنے اپنے گھروں ہی کو مسجدیں قرار دے کر پابندی سے نماز پڑھو اور مومنین کو (نجات کی) خوشخبری دے دو۔

۸۸اور موسیٰؑ نے عرض کی اے ہمارے پالنے والے تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیوی زندگی میں (بڑی) آرائش اور دولت دے رکھی ہے (کیا تو نے یہ سامان اس لیے عطا کیا ہے ) تاکہ یہ لوگ تیرے راستہ سے لوگوں کو بہکائیں۔ پروردگارا تو ان کے مال (دولت) کو غارت کر دے اور ان کے دلوں پر سختی کر (کیونکہ) جب تک یہ لوگ تکلیف وہ عذاب نہ دیکھ لیں گے ایمان نہ لائیں گے۔

۸۹(خدا نے ) فرمایا تم دونوں کی دُعا قبول کی گئی تو تم دونوں ثابت قدم رہو اور نادانوں کی راہ پر نہ چلو۔

۹۰اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا کے اس پار کر دیا۔ پھر فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی کی اور شرارت سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ جس خدا پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں میں بھی اس پر ایمان لاتا ہوں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں فرمانبردار بندوں سے ہوں۔

۹۱اب (مرنے کے وقت ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو اس سے پہلے نافرمانی کر چکا اور تو تو فسادیوں میں سے تھا۔

۹۲تو آج ہم (تیری روح کو تو نہیں مگر) تیرے بدن کو (تہ نشین ہونے سے ) بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے عبرت (کا باعث) ہو اور اس میں تو شک نہیں کہ بہتیرے لوگ ہماری نشانیوں سے یقیناً بے خبر ہیں۔

۹۳اور ہم نے بنی اسرائیل کو (ملک شام میں ) بہت اچھی جگہ بسایا اور انہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں تو ان لوگوں کے پاس جب تک علم (نہ) آ چکا ان لوگوں نے اختلاف نہیں کیا اس میں تو شک ہی نہیں کہ جن باتوں میں یہ (دنیا میں ) باہم جھگڑ رہے ہیں قیامت کے دن تمہارا پروردگار اس میں فیصلہ کر دے گا۔

۹۴پس جو (قرآن) ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے اگر اس کے بارے میں تم کو کچھ شک ہو تو جو لوگ تم سے پہلے کتاب (خدا) پڑھا کرتے ہیں ان سے پوچھ دیکھو تمہارے پاس یقیناً پروردگار کی طرف سے برحق (کتاب) آ چکی تو تم نہ تو ہرگز شک کرنے والوں سے ہونا

۹۵اور نہ ہرگز ان لوگوں سے ہونا، جنہوں نے خدا کی آیتوں کو جھٹلایا (ورنہ)تم بھی گھاٹا اٹھانے والوں سے ہو جاؤ گے۔

۹۶(اے رسولؐ) اس میں شک نہیں کہ جن لوگوں کے بارے میں تمہارے پروردگار کی باتیں پوری اُتر چکی ہیں (کہ یہ مستحق عذاب ہیں )

۹۷وہ لوگ جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں گے ایمان نہ لائیں گے اگرچہ ان کے سامنے ساری (خدائی کے ) معجزے آ موجود ہوں

۹۸کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ ایمان قبول کرتی تو اس کو اس کا ایمان فائدہ مند ہوتا۔ ہاں یونسؑ کی قوم جب (عذاب دیکھ کر) ایمان لائی تو ہم نے دنیا کی (چند روزہ) زندگی میں ان سے رسوائی کا عذاب دفع کر دیا اور ہم نے انہیں ایک خاص وقت تک چین کرنے دیا۔

۹۹اور (اے پیغمبرؐ) اگر تیرا پروردگار چاہتا تو جتنے لوگ روئے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو تاکہ سب کے سب ایماندار ہو جائیں

۱۰۰حالانکہ کسی شخص کو یہ اختیار نہیں کہ بغیر اذن خدا ایمان لے آئے اور جو لوگ (اصول دین میں ) عقل سے کام نہیں لیتے ان ہی لوگوں پر خدا (کفر کی) گندگی ڈال دیتا ہے۔

۱۰۱(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ ذرا دیکھو تو سہی کہ آسمانوں اور زمین میں (خدا کی نشانیاں ) کیا کچھ ہیں (مگر سچ تو یہ ہے ) اور جو لوگ ایمان نہیں قبول کرتے ان کو ہماری نشانیاں اور ڈراوے کچھ بھی مفید نہیں۔

۱۰۲تو کیا یہ لوگ بھی انہیں سزاؤں کے منتظر ہیں جو ان سے قبل والوں پر گزر چکی ہیں (اے رسولؐ) ان سے کہہ دو کہ اچھا تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ یقیناً انتظار کرتا ہوں۔

۱۰۳پھر (نزول عذاب کے وقت) ہم اپنے رسولوں کو اور جو لوگ ایمان لائے ان کو (عذاب سے ) بچا لیتے ہیں یوں ہی ہم پر لازم ہے کہ ہم ایمان لانے والوں کو بھی بچائیں

۱۰۴(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اگر تم لوگ میرے دین کے بارے میں شک میں پڑے ہو تو (میں بھی تم سے صاف کہے دیتا ہوں کہ) خدا کے سوا تم بھی جن لوگوں کی پرستش کرتے ہو میں تو ان کی پرستش نہیں کرنے کا۔ مگر (ہاں ) میں اس خدا کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیں (اپنی قدرت سے دنیا سے ) اٹھا لے گا اور مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں مومنوں میں سے ہوں۔

۱۰۵اور (مجھے ) یہ بھی (حکم ہے ) کہ تو (باطل سے ) کترا کے اپنا رُخ دین کی طرف قائم رکھ اور مشرکین سے ہرگز نہ ہونا۔

۱۰۶اور خدا کو چھوڑ کرا یسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تمہیں نفع ہی پہنچا سکتی ہے۔ نہ نقصان ہی پہنچا سکتی ہے۔ تو اگر تم نے (کہیں ) ایسا کیا تو اس وقت تم بھی ظالموں میں (شمار) ہو گے۔

۱۰۷اور (یاد رکھو کہ) اگر خدا کی طرف سے تمہیں کوئی برائی چھو بھی گئی تو پھر اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہیں ہو گا۔ اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کے فضل (و کرم) کا پلٹنے والا بھی نہیں ہو گا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے (فائدہ) پہنچائے اور وہ تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۰۸(اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اے لوگو تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس حق (قرآن) آ چکا پھر جو شخص سیدھی راہ پر رہے گا تو وہ صرف اپنے ہی دم کے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہی اختیار کرے گا وہ تو بھٹک کر کچھ اپنا ہی کھوئے گا اور میں کچھ تمہارا ذمہ دار تو ہوں نہیں۔

۱۰۹اور (اے رسولؐ) تمہارے پاس جو وحی بھیجی جاتی ہے تم بس اسی کی پیروی کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ خدا (تمہارے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ فرمائے اور وہ تو تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔

٭٭٭

 

 

 

۱۱۔ سورۃ ہُود

 

۱ا لٓ رٰ۔ یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس کی آیتیں ایک واقف کار حکیم کی طرف سے (دلائل سے ) خوب مستحکم کر دی گئیں پھر تفصیل وار بیان کر دی گئی ہیں

۲یہ کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو میں تو اسی کی طرف سے تمہیں (عذاب سے ) ڈرانے والا اور (بہشت کی) خوشخبری دینے والا (رسول) ہوں

۳اور یہ بھی کہ اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعا مانگو پھر اس کی بارگاہ میں (گناہوں سے ) توبہ کرو وہی تمہیں ایک مقررہ مدت تک اچھے لطف کے فائدے اٹھانے دے گا اور وہی ہر صاحب بزرگی کو اس کی بزرگی (کی داد) عطا فرمائے گا اور اگر تم نے (اس کے حکم سے ) منہ موڑا تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے (خوفناک) دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

۴(یاد رکھو) تم سب کو (آخر کار) خدا ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اور وہ ہر چیز پر (اچھی طرح)قادر ہے۔

۵(اے رسولؐ) دیکھو یہ کفّار (تمہاری عداوت میں ) اپنے سینوں کو گویا دوہرا کیے ڈالتے ہیں تاکہ خدا سے (اپنی باتوں کو) چھپائے رہیں (مگر) دیکھو جب یہ لوگ اپنے کپڑے خوب لپیٹتے ہیں (تب بھی تو) خدا (ان کی باتوں کو ) جانتا ہے جو چھپا کر کرتے ہیں اور کھلم کھلا کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ وہ سینوں کے بھید تک کو خوب جانتا ہے۔

۶اور زمین پر چلنے والوں میں کوئی ایسا نہیں جس کی روزی خدا کے ذمہ نہ ہو اور خدا ان کے ٹھکانے اور (مرنے کے بعد) ان کے سونپے جانے کی جگہ (قبر) کو بھی جانتا ہے۔ سب کچھ روشن کتاب (لوح محفوظ) میں موجود ہے۔

۷اور وہ تو وہی (قادر مطلق) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور (اس وقت) اس کا عرش (فلکِ نہم) پانی پر تھا (اس نے آسمان و زمین کو اس غرض سے بنایا)تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں زیادہ اچھی کارگزاری والا کون ہے اور (اے رسولؐ) اگر تم (ان سے ) کہو گے کہ مرنے کے بعد تم سب کے سب دوبارہ (قبروں سے ) اٹھائے جاؤ گے تو کافر لوگ ضرور کہہ بیٹھیں گے کہ یہ تو بس کھلا ہوا جادو ہے۔

۸اور اگر ہم گنتی کے چند دنوں تک ان پر عذاب کرنے میں دیر بھی کریں تو یہ لوگ (اپنی شرارت سے ) بے تامل ضرور کہنے لگیں گے کہ (ہائیں ) عذاب کو کون سی چیز روک رہی ہے۔ سن رکھو جس دن ان پر عذاب آ پڑے گا تو (پھر) ان کے ٹالے نہ ٹلے گا اور جس (عذاب) کی یہ لوگ ہنسی اڑایا کرتے تھے وہ ان کو ہر طرف سے گھیر لے گا۔

۹اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھائیں پھر اس کو ہم اس سے چھین لیں تو (اس وقت) یقیناً بڑا بے آس اور نا شکرا ہو جاتا ہے۔ (اور ہماری شکایت کرنے لگتا ہے )

۱۰اور اگر ہم تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی تھی، راحت و آرام کا ذائقہ چکھائیں تو ضرور کہنے لگتا ہے کہ اب تو سب سختیاں مجھ سے دفع ہو گئیں اس میں شک نہیں کہ وہ بڑا (جلدی) خوش ہو جانے والا شیخی باز ہے۔

۱۱مگر جن لوگوں نے صبر کیا اور اچھے اچھے کام کیے (وہ ایسے نہیں ) یہ وہ لوگ ہیں جن کے واسطے (خدا کی) بخشش اور بہت بڑی (کھری) مزدوری ہے۔

۱۲تو جو چیز تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی ہے ان میں سے بعض کو (سنانے کے وقت) شاید تم فقط اس خیال سے چھوڑ دینے والے ہو اور تم تنگ دل ہوتے ہو کہ مبادا یہ لوگ کہہ بیٹھیں کہ ان پر خزانہ کیوں نہیں نازل کیا گیا یا (ان کی تصدیق کے لیے ) ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا۔ تم تو صرف (عذاب سے ) ڈرانے والے ہو۔ (تمہیں ان کا خیال نہ کرنا چاہیے ) اور خدا ہر چیز کا ذمہ دار ہے۔

۱۳کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص (تم) نے اس (قرآن) کو اپنی طرف سے گڑھ لیا ہے تو تم (ان سے صاف صاف) کہہ دو کہ اگر تم (اپنے دعوے میں ) سچّے ہو تو (زیادہ نہیں ) ایسی ہی دس سورتیں اپنی طرف سے گڑھ کے لے آؤ اور خدا کے سوا جس جس کو تمہیں بلائے بن پڑے مدد کے واسطے بلا لو۔

۱۴اس پر اگر وہ تمہاری نہ سنیں تو تم سمجھ لو کہ یہ (قرآن) صرف خدا کے علم سے نازل کیا گیا ہے اور یہ کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو کیا تم اب بھی اسلام لاؤ گے (یا نہیں )

۱۵نیکی کرنے والوں میں سے جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی رونق کا طالب ہو تو ہم انہیں ان کی کارگزار یوں کا بدلہ دنیا ہی میں پورا پورا بھر دیتے ہیں اور یہ لوگ دنیا میں گھاٹے میں نہیں رہیں گے۔

۱۶مگر (ہاں ) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں (جہنم کی) آگ کے سوا کچھ نہیں اور جو کچھ دنیا میں ان لوگوں نے کیا دھرا تھا سب اکارت ہو گیا اور جو کچھ یہ لوگ کرتے تھے سب ملیامیٹ ہو گیا۔

۱۷تو کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل روشن پر ہو اور اس کے پیچھے ہی پیچھے انہی کا ایک گواہ ہو اور اس کے قبل موسیٰ ؑ کی کتاب (توریت) جو (لوگوں کے لیے ) پیشوا اور رحمت تھی (اس کی تصدیق کرتی ہو وہ بہتر ہے یا کوئی دوسرا) یہی لوگ سچّے ایمان والے اور تمام فرقوں میں سے جو شخص اس کا انکار کرے تو اس کا ٹھکانہ بس آتش (جہنم) ہے تو تم کہیں اس کی طرف سے شک میں نہ پڑے رہنا۔ بے شک یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے مگر بہتیرے لوگ ایمان نہیں لاتے۔

۱۸اور جو شخص خدا پر جھوٹ موٹ بہتان باندھے اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا۔ ایسے لوگ اپنے پروردگار کے حضور میں پیش کیے جائیں گے اور گواہ اظہار کریں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ (بہتان) باندھا سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی پھٹکار ہے

۱۹جو خدا کے رستے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور اس میں کجی نکالنا چاہتے ہیں اور یہی لوگ آخرت کے بھی منکر ہیں۔

۲۰یہ لوگ روئے زمین میں نہ (خدا کو) ہرا سکتے ہیں اور نہ خدا کے سوا ان کا کوئی سرپرست ہو گا۔ ان کا عذاب دونا کر دیا جائے گا یہ لوگ (حسد کے مارے ) نہ تو (حق بات) سن سکتے تھے اور نہ دیکھ سکتے تھے۔

۲۱یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کچھ اپنا آپ ہی گھاٹا کیا اور جو افترا پردازیاں یہ لوگ کرتے تھے (قیامت میں سب انہیں چھوڑ کے ) چل چنپت ہو گئیں۔

۲۲اس میں شک نہیں کہ (چار) ناچار یہی لوگ آخرت میں بڑے گھاٹا اٹھانے والے ہوں گے۔

۲۳بے شک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے اور اپنے پروردگار کے سامنے عاجزی سے جھکے یہی لوگ جنتی ہیں کہ یہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے۔

۲۴(کافر مسلمان) دونوں فریق کی مثل اندھے اور بہرے اور دیکھنے والے اور سننے والے کی سی ہے۔ کیا یہ دونوں مثل میں برابر ہو سکتے ہیں تو کیا تم لوگ غور نہیں کرتے۔

۲۵اور ہم نے نوحؑ کو ضرور ان کی قوم کے پاس بھیجا (اور انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ) میں تمہارا (عذاب خدا سے ) صریحی دھمکانے والا ہوں اور )

۲۶یہ (سمجھاتا ہوں ) کہ تم خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو میں تم پر ایک دردناک دن (قیامت کے ) عذاب سے ڈرتا ہوں۔

۲۷تو ان کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ ہم تو تمہیں اپنا ہی سا ایک آدمی سمجھتے ہیں اور ہم تو دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیرو ہوئے بھی ہیں تو بس صرف ہمارے چند رذیل لوگ (اور وہ بھی بے سوچے سمجھے ) سرسری نظر میں اور ہم تو اپنے اوپر تم لوگوں کی کوئی فضیلت نہیں دیکھتے۔ بلکہ تم کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔

۲۸(نوحؑ نے ) کہا اے میری قوم کیا تم نے یہ سمجھا ہے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھ کو اپنی سرکار سے رحمت (نبوت) عطا فرمائی ہے اور وہ تمہیں سجھائی نہیں دیتی تو کیا ہم اس کو (زبردستی) تمہارے گلے منڈھ سکتے ہیں اور تم اس کو ناپسند کیے چلے جاؤ۔

۲۹اور اے میری قوم میں تو تم سے اس کے صلہ میں کچھ مال کا طالب نہیں میری مزدوری تو بس خدا کے ذمہ ہے اور میں تو (تمہارے کہنے سے ) ان لوگوں کو جو ایمان لا چکے ہیں نکال نہیں سکتا(کیونکہ) یہ لوگ بھی ضرور اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہوں گے مگر میں تو دیکھتا ہوں کہ کچھ تم ہی لوگ (ناحق) جہالت کرتے ہو۔

۳۰اور اے میری قوم اگر میں ان (بے چارے غریب ایمانداروں ) کو نکال دوں تو خدا (کے عذاب) سے (بچانے میں ) میری مدد کون کرے گا تو کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے

۳۱اور میں تو تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس خدائی خزانے ہیں اور نہ (یہ کہتا ہوں کہ) میں غیب دان ہوں اور نہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور جو لوگ تمہاری نظروں میں ذلیل ہیں انہیں میں یہ نہیں کہتا کہ خدا ان کے ساتھ ہرگز بھلائی نہیں کرے گا۔ ان لوگوں کے دلوں کی بات خدا ہی خوب جانتا ہے۔ اور اگر میں ایسا کہوں تو میں بھی یقینی ظالم ہوں۔

۳۲(وہ لوگ) کہنے لگے اے نوحؑ تم ہم سے یقیناً جھگڑے اور بہت جھگڑ چکے ہو۔ پھر اگر تم سچے ہو تو جس (عذاب) کی تم ہمیں دھمکی دیتے تھے ہم پر لا چکو۔

۳۳(نوحؑ نے ) کہا اگر چاہے گا تو بس خدا ہی تم پر عذاب لائے گا اور تم لوگ کسی طرح اسے ہرا نہیں سکتے۔

۳۴اور اگر میں چاہوں کہ تمہاری (کتنی ہی) خیر خواہی کروں اگر خدا کو تمہارا بہکانا نامنظور ہے تو میری خیر خواہی کچھ بھی تمہارے کام نہیں آ سکتی۔ وہی تمہارا پروردگار ہے اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے۔

۳۵(اے رسولؐ) کیا (کفّار مکّہ بھی) کہتے ہیں کہ قرآن کو اس (تم) نے گڑھ لیا ہے تم کہہ دو کہ اگر میں نے اس کو گڑھا ہے تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ہو گا اور تم لوگ جو (گناہ کر کے ) مجرم ہوتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں

۳۶اور نوحؑ کے پاس یہ وحی بھیجی گئی تھی کہ جو ایمان لا چکا (وہ لا چکا) ان کے سوا اب کوئی شخص تمہاری قوم سے ہر گز ایمان نہ لائے گا تو تم خواہ مخواہ ان کارستانیوں کا (کچھ) غم نہ کھاؤ

۳۷اور (بسم اللہ کر کے ) ہمارے روبرو اور ہمارے حکم سے کشتی بنا ڈالو اور جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے بارے میں مجھ سے سفارش نہ کرنا(کیونکہ) یہ لوگ ضرور ڈوبا دیئے جائیں گے۔

۳۸اور (نوحؑ) کشتی بنانے لگے اور جب کبھی ان کی قوم کے سربرآوردہ لوگ ان کے پاس سے گزرتے تھے تو ان سے مسخرا پن کرتے (نوحؑ) (جواب میں ) کہتے کہ اگر اس وقت تم ہم سے مسخرا پن کرتے ہو تو جس طرح تم (ہم پر) ہنستے ہو اسی طرح ہم (تم پر اک وقت) ہنسیں گے

۳۹اور تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب نازل ہوتا ہے کہ (دنیا میں ) اسے رسوا کر دے اور کس پر (قیامت میں ) دائمی عذاب نازل ہوتا ہے۔

۴۰یہاں تک کہ جب ہمارا حکم (عذاب) آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا تو ہم نے حکم دیا (اے نوحؑ) ہر قسم کے جانوروں میں سے (نر و مادہ کا) جوڑا (یعنی دو) لے لو اور جس (کی ہلاکت) کا حکم پہلے ہی ہو چکا ہے اس کے سوا اپنے سب گھر والے اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان سب کو کشتی میں بٹھا لو اور ان کے ساتھ ایمان بھی تھوڑے ہی لوگ لائے تھے۔

۴۱اور نوحؑ نے (اپنے ساتھیوں سے ) کہا بسم اللہ مجرہا و مرسہا (خدا ہی کے نام سے اس کا بہاؤ اور ٹھہراؤ ہے ) کشتی میں سوار ہو جاؤ بے شک میرا پروردگار بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۴۲اور کشتی پہاڑوں کی سی (اونچی) لہروں میں ان لوگوں کو لیے ہوئے چلی جا رہی ہے اور نوحؑ نے اپنے بیٹے کو جوان سے الگ تھلگ ایک گوشہ میں تھا آواز دی اے میرے فرزند (آ) ہماری کشتی میں سوار ہولے اور کافروں کے ساتھ نہ رہ۔

۴۳وہ بولا (مجھے معاف کیجیے ) میں ابھی کسی پہاڑ کا سہارا پکڑتا ہوں جو مجھے پانی (میں ڈوبنے ) سے بچا لے گا (نوحؑ نے اس سے ) کہا (ارے کمبخت) آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں مگر خدا ہی جس پر رحم فرمائے گا۔ اور (یہ بات ہو رہی تھی کہ) یکایک دونوں باپ بیٹے کے درمیان ایک موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوب کر رہ گیا۔

۴۴اور جب (خدا کی طرف سے ) حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی جذب کر لے اور اے آسمان (برسنے سے ) تھم جا اور پانی گھٹ گیا اور (لوگوں کا) کام تمام کر دیا گیا اور کشتی جُودی پہاڑ پر جا ٹھہری اور ہر (چہار) طرف پکار دیا گیا کہ ظالم لوگوں کو (خدا کی رحمت سے ) دُوری ہے۔

۴۵اور (جس وقت نوحؑ کا بیٹا غرق ہو رہا تھا) نوحؑ نے اپنے پروردگار کو پکارا اور عرض کی اے میرے پروردگار اس میں تو شک نہیں کہ میرا بیٹا میرے اہل میں شامل ہے اور (تو نے وعدہ کیا تھا کہ تیرے اہل کو بچا لوں گا اور ) اس میں تو شک نہیں کہ تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سارے (جہاں کے ) حاکموں سے بڑا حاکم ہے۔

۴۶(تو میرے بیٹے کو نجات دیدے خدا نے ) فرمایا اے نوحؑ (تم یہ کیا کہہ رہے ہو) ہرگز وہ تمہارے اہل میں شامل نہیں وہ بے شک بد چلن ہے تو (دیکھو) جس کا تمہیں علم نہیں ہے مجھ سے اس کے بارے میں درخواست نہ کیا کرو میں تمہیں سمجھائے دیتا ہوں کہ نادانوں کی سی باتیں نہ کیا کرو۔

۴۷نوحؑ نے عرض کی اے میرے پروردگار میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ جس چیز کا مجھے علم نہ ہو میں اس کی درخواست کروں اور اگر تو مجھے (میرے قصور) نہ بخش دے گا اور مجھے پر رحم نہ کھائے گا تو میں سخت گھاٹا اٹھانے والوں میں ہو جاؤں گا۔

۴۸(جب طوفان جاتا رہا تو) حکم دیا گیا اے نوحؑ ہماری طرف سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ کشتی سے اترو جو تم پر ہیں اور جو لوگ تمہارے ساتھ ہیں ان میں سے کچھ لوگوں پر اور (تمہارے بعد) کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں ہم تھوڑے ہی دن بعد بہرہ ور کریں گے پھر ہماری طرف سے ان کو (نافرمانی کی وجہ سے ) درد ناک عذاب پہنچے گا۔

۴۹(اے رسولؐ) یہ غیب کی چند خبریں ہیں جن کو ہم تمہاری طرف وحی کے ذریعے پہنچاتے ہیں (جو) اس کے قبل نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم ہی (جانتی تھی) تم صبر کرو۔ اس میں شک نہیں کہ آخرت (کی خوبیاں ) پرہیزگاروں ہی کے واسطے ہیں۔

۵۰اور (ہم نے ) قوم عاد کے پاس ان کے بھائی ہود کو (پیغمبر بنا کر بھیجا اور ) اور انہوں نے (اپنی قوم سے ) کہا اے میری قوم خدا ہی کی پرستش کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں تم بس نرے افترا پرداز ہو۔

۵۱اے میری قوم میں اس (سمجھانے ) پر تم سے کچھ مزدوری نہیں مانگتا میری مزدوری تو بس اس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے

۵۲اور اے میری قوم اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعا مانگو پھر اس کی بارگاہ میں (اپنے گناہوں سے )توبہ کروتو وہ تم پر موسلادھار مینہ آسمان سے برسائے گا (خشک سالی نہ ہو گی) اور تمہاری قوت میں اور قوت بڑھا دے گا اور مجرم بن کر اس سے منہ نہ موڑو۔

۵۳وہ لوگ کہنے لگے کہ اے ہودؑ تم ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر تو آئے نہیں اور ہم تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تم پر ایمان لانے والے ہیں۔

۵۴ہم تو بس یہ کہتے ہیں کہ ہمارے خداؤں میں سے کسی نے تمہیں مجنون بنا دیا ہے (اسی وجہ سے تم بہکی بہکی باتیں کرتے ہو)۔ ہودؑ نے جواب دیا بے شک میں خدا کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ تم خدا کے سوا (جن کو اس کا) شریک بناتے ہو اُن سے میں بیزار ہوں

۵۵تو تم سب کے سب میرے ساتھ مکاری کرو اور مجھے (دم مارنے کی) مہلت بھی نہ دو (تو بھی مجھے پرواہ نہیں )

۵۶کیونکہ میں تو صرف خدا ہی پر بھروسہ رکھتا ہوں جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے اور روئے زمین پر جتنے چلنے والے ہیں سب کی چوٹی اسی کے ہاتھ میں ہے اس میں تو شک ہی نہیں کہ میرا پروردگار (انصاف کی) سیدھی راہ پر ہے۔

۵۷اس پر بھی اگر تم (اس کے حکم سے ) منہ پھیرے رہو تو جو حکم دے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا تھا اُسے تو میں یقیناً پہنچا چکا اور میرا پروردگار (تمہاری نافرمانی پر تمہیں ہلاک کر کے ) تمہارے سوا دوسری قوم کو تمہارا جانشین کرے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے اس میں تو شک نہیں کہ میرا پروردگار ہر چیز کا نگہبان ہے

۵۸اور جب ہمارا (عذاب کا) حکم آ پہنچا تو ہم نے ہودؑ کو اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی مہربانی سے نجات دی اور سب کو سخت عذاب سے بچا لیا۔

۵۹(اے رسولؐ) یہ حالات قوم عاد کے ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں سے انکار کیا اور اس کے پیغمبروں کی نافرمانی کی اور ہر سرکش دشمن (خدا) کے حکم پر چلتے رہے۔

۶۰اور اس دنیا میں بھی لعنت ان کے پیچھے لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی (لگی رہے گی)دیکھو قوم عاد نے اپنے پروردگار کا انکار کیا۔ دیکھو ہودؑ کی قوم عاد (ہماری بارگاہ سے ) دھتکاری پڑی ہے

۶۱اور (ہم نے ) قوم ثمود کے پاس ان کے بھائی صالحؑ کو (پیغمبر بنا کر بھیجا) تو انہوں نے (اپنی قوم سے ) کہا اے میری قوم خدا ہی کی پرستش کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں اسی نے تم کو زمین (کی مٹّی) سے پیدا کیا اور تم کو اس میں بسایا تو اس سے مغفرت کی دعا مانگو پھر اس کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ بے شک میرا پروردگار (ہر شخص کے ) قریب (اور سب کی) سنتا اور دعا قبول کرتا ہے۔

۶۲وہ لوگ کہنے لگے اے صالحؑ اس کے پہلے تو تم سے ہماری امیدیں وابستہ تھیں تو کیا اب تم جس چیز کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے اس کی پرستش سے ہمیں روکتے ہو اور جس دین کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہم تو اس کی نسبت ایسے شک میں پڑے ہیں کہ اس نے متحیر کر دیا ہے۔

۶۳صالحؑ نے جواب دیا اے میری قوم بھلا دیکھو تو کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی (بارگاہ سے ) رحمت (نبوت) عطا کی ہے اس پر بھی اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو خدا (کے عذاب) سے (بچانے میں ) میری مدد کون کرے گا۔ پھر تم سوائے نقصان کے میرا کچھ بڑھا تو دو گے نہیں۔

۶۴اور اے میری قوم یہ خدا کی (بھیجی ہوئی) اونٹنی ہے تمہارے واسطے (میری نبوت کا) ایک معجزہ ہے تو اس کو (اس کے حال پر) چھوڑ دوکہ خدا کی زمین میں (جہاں چاہے ) کھائے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ (ورنہ پھر) تمہیں فوراً ہی (خدا کا) عذاب لے ڈالے گا۔

۶۵اس پر بھی ان لوگوں نے اس کی کوچیں کاٹ (کر مار) ڈالا تب (صالحؑ نے ) کہا اچھا تین دن تک (اور) اپنے اپنے گھر میں چین اڑا لو یہی (خدا کا) وعدہ ہے جو کبھی جھوٹا نہیں ہوتا۔

۶۶پھر جب ہمارا (عذاب کا) حکم آ پہنچا تو ہم نے صالحؑ اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لا چکے تھے اپنی مہربانی سے نجات دی اور اس دن کی رسوائی سے بچا لیا۔ اس میں شک نہیں کہ تیرا پروردگار زبردست غالب ہے۔

۶۷اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت چنگھاڑنے لے ڈالا تو وہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

۶۸اور ایسے مر مٹے کہ گویا ان میں کبھی بسے ہی نہ تھے تو دیکھو قوم ثمود نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی (اور سزا دی گئی) سن رکھو کہ قوم ثمود (اس کی بارگاہ سے ) دھتکاری ہوئی ہے

۶۹اور ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے ) ابراہیمؑ کے پاس خوشخبری لے کر آئے اور انہوں نے (ابراہیمؑ کو) سلام کیا (اور ابراہیمؑ نے ) سلام کا جواب دیا پھر ابراہیمؑ بلا توقف ایک بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے (اور ساتھ کھانے بیٹھے )

۷۰پھر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس کی طرف نہیں بڑھتے تو ان کی طرف سے بدگمان ہوئے اور جی ہی جی میں ان سے ڈر گئے (اس کو فرشتوں نے سمجھا اور ) کہنے لگے آپ ڈریئے نہیں ہم تو قوم لوطؑ کی طرف (ان کی سزا کے لیے ) بھیجے گئے ہیں۔

۷۱اور ابراہیمؑ کی بیوی (سارہ) کھڑی ہوئی تھیں وہ (یہ خبر سن کر) ہنس پڑیں تو ہم نے (انہیں فرشتوں کے ذریعے سے ) اسحاقؑ (کے پیدا ہونے ) کی خوشخبری دی اور اس اسحاقؑ کے بعد یعقوبؑ کی۔

۷۲وہ کہنے لگی اے ہے کیا اب میں بچہ جننے بیٹھوں گی میں تو بڑھیا ہوں اور میرے میاں (بھی) بوڑھے ہیں یہ تو ایک بڑی تعجب خیز بات ہے

۷۳وہ فرشتے بولے (ہائیں ) تم خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو اے اہلبیت (نبوت) تم پر خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں اس میں شک نہیں کہ وہ قابل حمد (و ثنا) بزرگ ہے۔

۷۴ پھر جب ابراہیمؑ (کے دل) سے خوف جاتا رہا اور ان کے پاس (اولاد کی) خوشخبری بھی آ چکی تو ہم سے قوم لوطؑ کے بارے میں جھگڑنے لگے (ناز سے سفارش کرنے لگے )

۷۵بے شک ابراہیمؑ بردبار نرم دل (ہر بات میں خدا کی طرف) رجوع کرنے والے تھے۔

۷۶(ہم نے کہا) اے ابراہیمؑ اس بات میں ہٹ مت کرو (اس بارے میں ) جو حکم تمہارے پروردگار کا تھا وہ قطعاً آ چکا اور اس میں شک نہیں کہ ان پر ایسا عذاب آنے والا ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا۔

۷۷اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے (لڑکوں کی صورت میں ) لوطؑ کے پاس آئے تو ان کے خیال سے رنجیدہ ہوئے اور ان کے آنے سے تنگ دل ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ (آج کا دن) سخت مصیبت کا دن ہے۔

۷۸اور ان کی قوم (لڑکوں کا آنا سن کر بُرے ارادے سے ) ان کے پاس دوڑتی ہوئی آئی اور یہ لوگ اس کے قبل بھی بُرے بُرے کام کیا کرتے تھے لوطؑ نے (جب ان کو آتے دیکھا تو) کہا اے میری قوم یہ میری (قوم کی) بیٹیاں (موجود) ہیں (ان سے نکاح کر لو) یہ تمہارے واسطے (جائز اور ) صاف ستھری ہیں تو خدا سے ڈرو اور مجھے میرے مہمان کے بارے میں رسوا نہ کرو کیا تم میں کوئی بھی سمجھ دار آدمی نہیں ہے

۷۹ان (کم بختوں ) نے جواب دیا تم کو تو خوب معلوم ہے کہ تمہاری (قوم کی) لڑکیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ہے اور جو بات ہم چاہتے ہیں وہ تم خوب جانتے ہو۔

۸۰لوطؑ نے کہا کاش مجھ میں تمہارے مقابلے کی قوت ہوتی یا کسی مضبوط قلعہ میں پناہ لے سکتا۔

۸۱وہ فرشتے بولے اے لوطؑ ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے (فرشتے ) ہیں (تم گھبراؤ نہیں ) یہ لوگ تم تک ہرگز دسترس نہیں پا سکتے تو تم کچھ رات رہے اپنے لڑکے بالوں سمیت نکل بھاگو اور تم میں سے کوئی ادھر مڑ کر بھی نہ دیکھے مگر تمہاری بیوی کہ اس پر بھی یقیناً وہی عذاب نازل ہونے والا ہے جو ان لوگوں پر نازل ہو گا اور ان (کے عذاب) کا وعدہ بس صبح ہے۔ کیا صبح قریب نہیں ہے۔

۸۲پھر جب ہمارا (عذاب کا) حکم آ پہنچا تو ہم نے (بستی کی زمین کے طبقے ) اُلٹ کر اس کے اُوپر کے حصّہ کو اس کے نیچے کا بنا دیا اور اس پر ہم نے کھرنجے دار پتھر تابڑ توڑ برسائے

۸۳جن پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ اور وہ بستی (ان) ظالموں (کفّار مکّہ) سے کچھ دُور نہیں

۸۴اور ہم نے مدین والوں کے پاس ان کے بھائی شعیبؑ کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا انہوں نے (اپنی قوم سے ) کہا اے میری قوم خدا کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو میں تو تم کو آسودگی میں دیکھ رہا ہوں (پھر گھٹانے کی کیا ضرورت ہے ) اور میں تم پر اس دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو (سب کو) گھیر لے گا۔

۸۵اور اے میری قوم پیمانہ اور ترازو انصاف کے ساتھ پورے پورے رکھا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور روئے زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔

۸۶اگر تم سچے مومن ہو تو خدا کا بقیہ تمہارے واسطے کہیں اچھا ہے اور میں تو کچھ تمہارا نگہبان نہیں۔

۸۷(وہ لوگ) کہنے لگے اے شعیب کیا تمہاری نماز (جسے تم پڑھا کرتے ہو) تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جن (بتوں ) کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے آئے انہیں ہم چھوڑ بیٹھیں یا ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں کر بیٹھیں تم ہی تو بس ایک بردبار اور سمجھ دار (رہ گئے ) ہو۔

۸۸شعیب نے کہا اے میری قوم کیا تم یہ سمجھے ہو کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے (حلال) روزی کھانے کو دی ہے (تو میں بھی تمہاری طرح حرام کھانے لگوں ) اور میں تو یہ نہیں چاہتا کہ جس کام سے تم کو روکوں تمہارے برخلاف آپ اس کو کرنے لگوں میں تو جہاں تک مجھ سے بن پڑے اصلاح کے سوا (کچھ اور ) چاہتا ہی نہیں اور میری تائید تو خدا کے سوا اور کسی سے ہو ہی نہیں سکتی۔ اسی پر میں نے بھروسا کیا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

۸۹اور اے میری قوم میری ضد کہیں تم سے ایسا جرم نہ کرا دے کہ جیسی مصیبت قوم نوحؑ یا قوم ہودؑ یا قوم صالحؑ پر نازل ہوئی تھی ویسی ہی مصیبت تم پر بھی آ پڑے اور لوطؑ کی قوم (کا زمانہ) تو (کچھ ایسا) تم سے دور نہیں (انہیں سے عبرت حاصل کرو)

۹۰اور اپنے پروردگار سے اپنی مغفرت کی دعا مانگو پھر اسی کی بارگاہ میں توبہ کرو بے شک میرا پروردگار بڑا مہربان اور محبت والا ہے

۹۱وہ لوگ کہنے لگے اے شعیب جو تم باتیں کہتے ہو ان میں سے اکثر تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور اس میں تو شک نہیں کہ ہم تمہیں اپنے لوگوں میں بہت کمزور سمجھتے ہیں اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تم کو (کب کا) سنگسار کر چکے ہوتے اور تم تو ہم پر کسی طرح غالب نہیں آ سکتے

۹۲(شعیب نے ) کہا اے میری قوم کیا میرے قبیلہ کا دباؤ تم پر خدا سے بھی بڑھ کر ہے (کہ تم کو اس کا یہ خیال ہے ) اور خدا کو تم لوگوں نے اپنی پس پشت ڈال دیا بے شک میرا پروردگار تمہارے سب اعمال پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔

۹۳اور اے میری قوم تم اپنی جگہ (جو چاہو) کرو میں بھی (بجائے خود کچھ) کرتا ہوں عنقریب ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب نازل ہوتا ہے جو اس کو (لوگوں کی نظروں میں ) رسوا کر دے گا (اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ) کون جھوٹا ہے تم بھی منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں

۹۴اور جب ہمارا عذاب کا) حکم آ پہنچا تو ہم نے شعیبؑ اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی مہربانی سے بچا لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک چنگھاڑنے لے ڈالا پھر وہ سب کے سب اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

۹۵(اور وہ ایسے مر مٹے کہ) گویا ان بستیوں میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔سن رکھو کہ جس طرح ثمود (خدا کی بارگاہ سے ) دھتکارے گئے اسی طرح اہل مدین کی بھی دھتکاری ہوئی۔

۹۶اور بے شک ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیاں اور روشن دلیل (دے کر)

۹۷فرعون اور اس کے امراء کے پاس (پیغمبر بنا کر) بھیجا تو لوگوں نے فرعون ہی کا حکم مان لیا (اور موسیٰ ؑ کی ایک نہ سُنی) حالانکہ فرعون کا حکم کچھ جنچا سمجھا ہوا نہ تھا۔

۹۸قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے چلے گا اور ان کو دوزخ میں لے جا کر جھونک دے گا اور یہ لوگ کس قدر بُرے گھاٹ اتارے گئے۔

۹۹اور (اس دنیا میں بھی) لعنت ان کے پیچھے پیچھے لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی (لگی رہے گی) کیا بُرا انعام ہے جو اُنہیں ملا۔

۱۰۰(اے رسولؐ) یہ چند بستیوں کے حالات ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں ان میں سے بعض تو (اس وقت تک) قائم ہیں اور بعض کا تہس نہس ہو گیا۔

۱۰۱اور ہم نے کسی طرح ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ ان لوگوں نے آپ اپنے اُوپر (نافرمانی کر کے ) ظلم کیا پھر جب تمہارے پروردگار کا (عذاب کا) حکم آ پہنچا تو نہ ان کے وہ معبود ہی کام آئے جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے اور نہ ان معبودوں نے ہلاک کرنے کے سوا کچھ فائدہ ہی پہنچایا (بلکہ انہی کی پرستش کی بدولت عذاب آیا)

۱۰۲اور (اے رسولؐ) بستیوں کے لوگوں کی سرکشی سے جب تمہارا پروردگار عذاب میں پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے۔ بے شک اس کی پکڑ تو بڑی درد ناک (اور) سخت ہوتی ہے۔

۱۰۳اس میں تو شک نہیں کہ اس میں اس شخص کے واسطے جو عذاب آخرت سے ڈرتا ہے (ہماری قدرت کی) ایک نشانی ہے۔ یہ وہ روز ہو گا کہ ہمارے (جہاں کے ) لوگ جمع کیے جائیں گے۔ اور یہی وہ دن ہو گا کہ (ہماری بارگاہ میں ) سب حاضر کیے جائیں گے۔

۱۰۴اور ہم بس ایک معیّن مدت تک اس میں دیر کر رہے ہیں۔

۱۰۵جس دن وہ آ پہنچے گا تو بغیر حکم خدا کوئی شخص بات بھی تو نہیں کر سکے گا۔ پھر کچھ لوگ ان میں سے بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔

۱۰۶تو جو لوگ بدبخت ہیں وہ دوزخ میں ہوں گے اور اسی میں ان کی ہائے وائے اور چیخ و پکار ہو گی۔

۱۰۷وہ لوگ جب تک آسمان اور زمین ہے ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ مگر جب تمہارا پروردگار (نجات دینا) چاہے۔ بے شک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے کر ہی کے رہتا ہے۔

۱۰۸اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ تو بہشت میں ہوں گے (اور) جب تک آسمان و زمین (باقی) ہیں وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ مگر جب آپ کا پروردگار چاہے یہ وہ بخشش ہے جو کبھی منقطع نہ ہو گی۔

۱۰۹تو یہ لوگ (خدا کے علاوہ) جس کی پرستش کرتے ہیں تم اس سے شک میں نہ پڑنا یہ لوگ تو بس ویسی عبادت کرتے ہیں جیسی ان سے پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے اور ہم ضرور (قیامت کے دن) ان کو (عذاب کا) پورا پورا حصّہ بلا کم و کاست دیں گے۔

۱۱۰اور ہم نے موسیٰ ؑ کو کتاب توریت عطا کی تو اس میں (بھی) جھگڑے ڈالے گئے اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے (تاخیر عذاب کا) حکم قطعی پہلے ہی نہ ہو چکا ہوتا تو ان کے درمیان (کب کا) فیصلہ یقیناً ہو گیا ہوتا اور یہ لوگ (کفّار مکّہ) بھی اس (قرآن) کی طرف سے بہت گہرے شک میں پڑے ہیں۔

۱۱۱اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارا پروردگار ان کی کارستانیوں کا بدلہ بھرپور دے گا (کیونکہ) جو ان کی کرتوتیں ہیں اس سے وہ خوب واقف ہے۔

۱۱۲تو (اے رسولؐ) جیسا تمہیں حکم دیا ہے تم اور وہ لوگ بھی جنہوں نے تمہارے ساتھ (کفّر سے ) توبہ کی ہے ٹھیک ثابت قدم رہو اور سرکشی نہ کرو(کیونکہ) تم لوگ جو کچھ بھی کرتے ہو اُسے یقیناً وہ دیکھ رہا ہے۔

۱۱۳اور (مسلمانو) جن لوگوں نے (ہماری نافرمانی کر کے ) اپنے اوپر ظلم کیا ہے ان کی طرف مائل نہ ہونا ورنہ تم تک بھی (دوزخ) کی آگ آ لپٹے گی۔ اور خدا کے سوا اور لوگ تمہارے سرپرست بھی نہیں ہیں۔ تو پھر تمہاری کوئی مدد بھی نہیں کرے گا۔

۱۱۴اور (اے رسولؐ) دن کے دونوں کنارے اور کچھ رات گئے نماز پڑھا کرو (کیونکہ) نیکیاں یقیناً گناہوں کو دُور کر دیتی ہیں۔ اور ہماری یاد کرنے والوں کے لیے یہ باتیں نصیحت و عبرت ہیں۔

۱۱۵اور (اے رسولؐ) تم صبر کرو کیونکہ خدا نیکی کرنے والوں کا اجر برباد نہیں کرتا۔

۱۱۶پھر جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے عقل والے کیوں نہ ہوئے۔ جو (لوگوں کو) روئے زمین پر فساد پھیلانے سے روکا کرتے (ایسے لوگ تھے تو) مگر بہت تھوڑے سے اور یہ انہیں لوگوں سے تھے جن کو ہم نے (عذاب سے ) بچا لیا اور جن لوگوں نے نافرمانی کی تھی وہ انہی (لذّتوں ) کے پیچھے پڑے رہے جو انہیں دی گئی تھیں اور یہ لوگ مجرم تھے ہی۔

۱۱۷اور تمہارا پروردگار ایسا (بے انصاف) کبھی نہ تھا کہ بستیوں کو زبردستی اجاڑ دیتا، جب کہ وہاں کے لوگ نیک چلن ہوں۔

۱۱۸اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو بے شک تمام لوگوں کو ایک ہی (قسم کی) اُمّت بنا دیتا (مگر اس نے نہ چاہا اسی وجہ سے ) لوگ ہمیشہ آپس میں پھوٹ ڈالا کریں گے۔

۱۱۹مگر جس پر تمہارا پروردگار رحم فرمائے۔ اور اس لیے تو اس نے ان لوگوں کو پیدا کیا۔ اور (اسی وجہ سے تو) تمہارے پروردگار کا حکم قطعی پورا ہو کر رہا کہ ہم یقیناً جہنّم کو تمام جنّات اور آدمیوں سے بھر دیں گے۔

۱۲۰اور (اے رسولؐ) پیغمبرانِ ماسلف کے حالات میں سے ہم ان تمام قصّوں کو تم سے بیان کیے دیتے ہیں جن سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کر دیں گے۔ اور ان ہی قصّوں میں تمہارے پاس حق (قرآن)اور مومنین کے لیے نصیحت اور یاد دہانی بھی آ گئی۔

۱۲۱اور (اے رسولؐ) جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان سے کہو کہ تم بجائے خود عمل کرو ہم بھی کچھ (بجائے خود) کرتے ہیں۔

۱۲۲اور (نتیجہ کا) تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں۔

۱۲۳اور سارے آسمان و زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم خاص خدا ہی کو ہے۔ اور اسی کی طرف ہر کام ہر پھر کر لوٹتا ہے تم بھی اسی کی عبادت کرو اسی پر بھروسہ رکھو اور جو کچھ تم لوگ کرتے ہو خدا اس سے بے خبر نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

۱۲۔ سورۃ یوسُفْ

 

۱ا لٓ رٰ یہ واضح و روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔

۲ہم نے اس کتاب (قرآن) کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھو۔

۳(اے رسولؐ) ہم تم پر یہ قرآن نازل کر کے تم سے ایک نہایت عمدہ قصّہ بیان کرتے ہیں اگرچہ تم اس کے پہلے (اس سے ) بالکل بے پروا تھے۔

۴(وہ وقت یاد کرو)جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا اے ابّا میں نے گیارہ ستاروں اور سورج چاند کو (خواب میں ) دیکھا ہے میں نے دیکھا ہے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔

۵یعقوبؑ نے کہا اے بیٹا (دیکھو خبردار) کہیں اپنا خواب اپنے بھائیوں سے نہ دُہرانا (ورنہ) وہ لوگ تمہارے لیے مکاری کی تدبیر کرنے لگیں گے۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ شیطان آدمی کا کھلا ہوا دشمن ہے۔

۶اور جو (تم نے دیکھا ہے ) ایسا ہی ہو گا کہ تمہارا پروردگار تم کو برگزیدہ کرے گا اور تمہیں خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔ اور جس طرح تم پر اور یعقوبؑ کی اولاد پر اپنی نعمتیں پوری کر چکا ہے اسی طرح اس سے پہلے تمہارے دادا، پردادا ابراہیمؑ اور اسحاق پر اپنی نعمت پوری کر چکا۔ بے شک تمہارا پروردگار بڑا واقف کار حکیم ہے۔

۷(اے رسولؐ) یوسفؑ اور ان کے بھائیوں کے قصّہ میں پوچھنے والے (یہودا) کے لیے (تمہاری نبوت کی) یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں

۸کہ (جب یوسف کے بھائیوں نے ) کہا کہ باوجودیکہ ہماری بڑی جماعت ہے تاہم یوسفؑ اور اس کا حقیقی بھائی (بنیامینؑ ) ہمارے والد کے نزدیک بہت زیادہ پیارے ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے والد یقیناً صریح غلطی میں پڑے ہیں۔

۹(خیر تو اب مناسب یہ ہے کہ یا تو) یوسفؑ کو مار ڈالو یا (کم از کم) اس کو کسی جگہ (چل کر) پھینک آؤ تو البتہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری طرف ہو جائے گی اور اس کے بعد تم سب کے سب (باپ کی توجہ سے ) بھلے آدمی ہو جاؤ گے۔

۱۰ان میں سے ایک کہنے والا بول اُٹھا کہ یوسف کو جان سے تو نہ مارو ہاں اگر تم کو ایسا ہی کرنا ہے تو اس کو کسی اندھے کنوئیں میں (لے جا کر) ڈال دو کوئی راہ گیر اُسے نکال کر لے جائے گا (اور تمہارا مطلب حاصل ہو جائے گا۔)

۱۱سب نے (یعقوبؑ سے ) کہا ابّا جان آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ یوسفؑ کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم لوگ تو اس کے خیر خواہ ہیں۔

۱۲آپ اس کو کل ہمارے ساتھ بھیج دیجیے کہ ذرا (جنگل کے ) پھل پھلاری کھائے اور کھیلے کودے اور ہم لوگ تو اس کے نگہبان ہیں ہی۔

۱۳یعقوبؑ نے کہا تمہارا اس کو لے جانا مجھے سخت صدمہ پہنچاتا ہے اور میں تواس سے ڈرتا ہوں کہ اور تم سب کے سب اس سے بے خبر ہو (مبادا) اُسے بھیڑیا پھاڑ کھائے

۱۴وہ کہنے لگے جب ہماری بڑی جماعت ہے (اس پر بھی) اگر اس کو بھیڑیا کھا جائے تو ہم لوگ یقیناً بڑے گھاٹا اٹھانے والے (نکمّے ) ٹھہریں گے۔

۱۵ غرض یوسفؑ کو جب یہ لوگ لے گئے اور اس پر اتفاق کر لیا کہ اس کو اندھے کنوئیں میں ڈال دیں اور (آخر یہ لوگ کر گزرے ) تو ہم نے یوسف کے پاس وحی بھیجی کہ (تم گھبراؤ نہیں ہم عنقریب تمہیں بڑے مرتبہ پر پہنچائیں گے ) (تب تم) ان کو اس فعل (بد سے ) متنبہ کرو گے جب انہیں کچھ دھیان بھی نہ ہو گا۔

۱۶اور یہ لوگ رات کو اپنے باپ کے پاس (بناوٹ سے ) روتے پیٹتے ہوئے آئے

۱۷اور کہنے لگے اے ابّا ہم لوگ تو جا کر دوڑ لگانے لگے اور یوسفؑ کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ دیا اتنے میں بھیڑیا آ کر اُسے کھا گیا اور ہم لوگ اگرچہ سچّے بھی ہوں مگر آپ کو تو ہماری بات کا یقین آنے کا نہیں۔

۱۸اور یہ لوگ یوسفؑ کے کُرتے پر جھُوٹ مُوٹ (بھیڑ) کا خون بھی (لگا کے ) لائے تھے۔ یعقوبؑ نے کہا (بھیڑیئے نے نہیں کھایا) بلکہ تمہارے دل نے تمہارے بچاؤ کے لیے ایک بات گھڑی(ورنہ کُرتا پھٹا ہوا ضرور ہوتا) پھر صبر و شکر ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو اس پر خدا ہی سے مدد مانگی جاتی ہے

۱۹اور (خدا کی شان دیکھو) ایک قافلہ (وہاں ) آخر اُترا تو ان لوگوں نے اپنے سقّے کو (پانی بھرنے ) بھیجا۔ غرض اس نے اپنا ڈول ڈالا (ہی تھا کہ یوسف اس میں ہو بیٹھے اور اس نے کھینچا تو نکل آئے ) وہ پکارا آہا یہ تو لڑکا ہے اور قافلہ والوں نے یوسف کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا رکھا حالانکہ جو کچھ یہ لوگ کرتے تھے خدا اس سے خوب واقف تھا۔

۲۰(جب یوسفؑ کے بھائیوں کو خبر لگی تو آ پہنچے اور ان کو اپنا غلام بتایا) اور ان لوگوں نے یوسفؑ کو گنتی کے کھوٹے چند درہم (بہت تھوڑے دام) پر بیچ ڈالا اور وہ لوگ تو (یوسف) سے بیزار ہو ہی رہے تھے (یوسفؑ کو لے کر مصر پہنچے اور وہاں اُسے بڑے نفع سے بیچ ڈالا)

۲۱اور مصر کے لوگوں سے (عزیز مصر) جس نے ان کو خریدا تھا اپنی بیوی (زلیخا) سے کہنے لگا اس کو عزّت و آبرو سے رکھو، عجب نہیں یہ ہمیں کچھ نفع پہنچائے یا (شاید) اس کو اپنا بیٹا ہی بنا لیں۔ اور یوں ہم نے یوسفؑ کو ملک (مصر)میں (جگہ دے کر) قابض بنایا اور غرض یہ تھی کہ ہم اسے خواب کی باتوں کی تعبیر سکھائیں اور خدا تو اپنے کام پر (ہر طرح غالب و قادر ہے مگر بہتیرے لوگ (اس کو) نہیں جانتے۔

۲۲اور جب یوسفؑ اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو حکم (نبّوت)اور علم عطا کیا اور نیکو کاروں کو ہم یونہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔

۲۳اور جس عورت کے گھر میں یوسفؑ رہتے تھے (زلیخا) اس نے اپنے (ناجائز) مطلب حاصل کرنے کے لیے خود ان سے آرزو کی اور سب دروازے بند کر دیئے اور (بے تابانہ) کہنے لگی لو آؤ۔ یوسفؑ نے کہا معاذ اللہ وہ (تمہارے میاں ) میرے مالک ہیں انہوں نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے (میں ایسا ظلم کیوں کر کرسکتا ہوں ) بے شک ایسا ظلم کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔

۲۴اور زلیخا نے تو ان کے ساتھ (بُرا) ارادہ کر ہی لیا تھا اور اگر یہ بھی اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھ چکے ہوتے تو قصد کر بیٹھتے (ہم نے اس کو یوں بچایا) تاکہ ہم اس سے بُرائی اور بدکاری کو دُور رکھیں۔ بے شک وہ ہمارے خالص بندوں سے تھا۔

۲۵اور دونوں دروازے کی طرف جھپٹ پڑے اور زلیخا نے پیچھے سے ان کا کُرتا (پکڑ کر کھینچا اور ) پھاڑ ڈالا اور دونوں نے زلیخا کے خاوند کو دروازے کے پاس (کھڑا) پایا۔ زلیخا جھٹ (اپنے شوہر سے ) کہنے لگی کہ جو تمہاری بیوی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے اس کی سزا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یا تو قید کر دیا جائے یا دردناک عذاب میں مبتلا کر دیا جائے۔

۲۶یوسفؑ نے کہا اس نے خود مجھ سے میری آرزو کی تھی اور زلیخا ہی کے کنبہ والوں میں سے ایک گواہی دینے والے (دودھ پیتے بچّے ) نے گواہی دی کہ اگر ان کا کُرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو تو یہ سچی اور وہ جھوٹے۔

۲۷اور اگر ان کا کُرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہو تو یہ جھوٹی اور وہ سچے۔

۲۸پھر جب عزیز مصر نے ان کا کُرتا پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا تو (اپنی عورت سے ) کہنے لگا یہ تم ہی لوگوں کے چلتر ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تم لوگوں نے چلتّر بڑے (غضب کے ) ہوتے ہیں۔

۲۹اور (یوسفؑ سے کہا) اے یوسفؑ اس کو جانے دو اور (عورت سے کہا کہ) تو اپنے گناہ کی معافی مانگ کیونکہ بے شک تو ہی ازسر تاپا خطاوار ہے۔

۳۰اور شہر (مصر) میں عورتیں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز (مصر) کی بیوی اپنے غلام سے (ناجائز) مطلب حاصل کرنے کی آرزو مند ہے بے شک غلام نے اُسے اُلفت میں لبھا لیا ہے ہم لوگ تو یقیناً اُسے صریحی غلطی میں (مبتلا) دیکھتے ہیں۔

۳۱تو جب زلیخا نے ان کے طعنے سُنے تو اُس نے ان عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کے لیے ایک مجلس آراستہ کی اور اُن میں سے ہر ایک عورت کے ہاتھ میں ایک چھری (اور ایک نارنج دی اور کہہ دیا کہ جب تمہارے سامنے آئے تو کاٹ کے ایک قاش اس کو دینا) اور یوسفؑ سے کہا کہ اب ان کے سامنے سے نکل تو جاؤ تو جب ان عورتوں نے اُسے دیکھا تو اس کو بڑا حسین پایا تو سب کے سب نے (بے خودی میں ) اپنے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور کہنے لگیں ماشاء اللہ یہ آدمی نہیں ہے یہ تو ہو نہ ہو بس ایک معزز فرشتہ ہے۔

۳۲(تب زلیخا ان عورتوں سے ) بولی کہ بس یہ وہی تو ہے جس کی بدولت تم سب مجھے ملامت کرتی تھیں اور ہاں بے شک میں اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی آرزو مند تھی مگر یہ بچا رہا۔ اور جس کام کا میں حکم دیتی ہوں اگر یہ نہ کرے گا تو ضرور قید بھی کیا جائے گا اور ذلیل بھی ہو گا۔

۳۳(یہ سب باتیں سُن کے یوسف نے میری بارگاہ میں ) عرض کی اے میرے پالنے والے جس بات کی یہ عورتیں مجھ سے خواہش رکھتی ہیں اس کی بہ نسبت قید خانہ مجھے زیادہ پسند ہے۔ اور اگر تو اُن عورتوں کے فریب مجھ سے دفع نہ فرمائے گا تو مبادا میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں اور جاہلوں سے شمار کیا جاؤں۔

۳۴تو ان کے پروردگار نے ان کی سن لی اور اُن سے ان عورتوں کے مکر کو دفع کر دیا اس میں شک نہیں کہ وہ بڑا سننے والا واقف کار ہے۔

۳۵پھر (عزیز مصر اور اس کے لوگوں نے ) باوجودیکہ (یوسف کی پاکدامنی کی) نشانیاں دیکھ لی تھیں اس کے بعد بھی ان کو یہی مناسب معلوم ہوا کہ کچھ میعاد کے لیے ان کو قید ہی کر دیں

۳۶اور یوسفؑ کے ساتھ اور بھی دو جوان آدمی (قید خانہ میں ) داخل ہوئے (چند دن کے بعد) ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب (بنانے کے واسطے انگور) نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں نے (خواب میں ) اپنے کو دیکھا کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوں اور اس میں سے چڑیاں کھا رہی ہیں (یوسف) ہم کو اس کی تعبیر بتاؤ کیونکہ ہم تم کو نیکو کاروں سے سمجھتے ہیں۔

۳۷یوسف نے کہا جو کھانا تمہیں (قید خانہ سے ) دیا جاتا ہے۔ وہ آنے بھی نہ پائے گا کہ میں اس کے تمہارے پاس آنے کے قبل ہی تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا یہ (تعبیر خواب بھی) منجملہ ان باتوں کے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے تعلیم فرمائی ہے میں ان لوگوں کا مذہب چھوڑے بیٹھا ہوں جو خدا پر ایمان نہیں لاتے اور وہ لوگ آخرت کے بھی منکر ہیں۔

۳۸اور میں تو اپنے باپ دادا ابراہیمؑ واسحاقؑ یعقوبؑ کے مذہب کا پیرو ہوں۔ ہمیں مناسب نہیں کہ ہم خدا کے ساتھ کسی چیز کو (اس کا ) شریک بنائیں یہ بھی خدا کی ایک مہربانی ہے ہم پر بھی اور تمام لوگوں پر مگر بہتیرے لوگ اس کا شکریہ (بھی) ادا نہیں کرتے۔

۳۹اے میرے قید خانہ کے دونو رفیقو! (ذرا غور تو کرو کہ) بھلا جُدا جُدا معبود اچھے یا خدائے یکتا زبردست۔

۴۰(افسوس) تم لوگ تو خدا کو چھوڑ کر بس ان چند ناموں ہی کی پرستش کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے گڑھ لیا ہے خدا نے تو ان کے لیے کوئی دلیل نہیں نازل فرمائی حکومت تو بس خدا ہی کے واسطے خاص ہے اس نے تو حکم دیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا دین ہے مگر (افسوس) بہتیرے لوگ نہیں جانتے ہیں۔

۴۱اے میرے قید خانہ کے دونوں رفیقو (اچھا اب تعبیر سنو) تم میں سے ایک (جس نے انگور دیکھا رہا ہو کر) اپنے مالک کو شراب پلانے کا کام کرے گا اور دوسرا (جس نے روٹیاں سر پر دیکھی ہیں ) تو سولی دیا جائے گا اور چڑیاں اس کے سر سے (نوچ نوچ) کر کھائیں گے جس امر کو تم دونوں دریافت کرتے وہ (یہ ہے ) اور فیصل ہو چکا ہے۔

۴۲اور ان دونوں میں سے جس کی نسبت یوسفؑ نے سمجھا تھا کہ وہ آزاد ہو جائے گا اس سے کہا کہ اپنے مالک کے پاس میرا بھی تذکرہ کرنا (کہ میں بے جُرم قید ہوں ) تو شیطان نے اُسے اپنے آقا سے ذکر کرنا بھلا دیا تو یوسفؑ قید خانے میں کئی برس رہے

۴۳اور اسی اثنا میں بادشاہ نے (بھی خواب دیکھا اور ) کہا میں نے دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں ان کو سات دُبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی سبز بالیاں (دیکھیں )اور پھر (سات) سوکھی بالیاں۔ اے (میرے دربار کے ) سردارو! اگر تم لوگوں کو خواب کی تعبیر دینی آتی ہو تو میرے (اس) خواب کے بارے میں حکم لگاؤ۔

۴۴ان لوگوں نے عرض کی یہ تو (کچھ) خواب پریشان (سا) ہے اور ہم لوگ ایسے خواب (پریشان) کی تعبیر تو نہیں جانتے ہیں

۴۵اور جس (ساقی) نے ان دونوں میں سے رہائی پائی تھی اور اس کو ایک زمانہ کے بعد (یوسفؑ کا قصّہ) یاد آیا بول اٹھا کہ مجھے (قید خانہ تک) جانے دیجیے تو میں اس کی تعبیر بتائے دیتا ہوں۔

۴۶(غرض وہ گیا اور یوسفؑ سے کہنے لگا) اے یوسفؑ اے بڑے سچّے (یوسف) ذرا ہمیں یہ تو بتایئے کہ سات موٹی تازی گایوں کو سات دُبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات بالیاں ہیں ہری کچوہ اور پھر (سات) سُوکھی مرجھائی (اس کی تعبیر کیا ہے ) تو میں لوگوں کے پاس پلٹ کر جاؤں (اور بیان کروں ) تاکہ ان کو بھی (تمہاری قدر) معلوم ہو جائے۔

۴۷ یوسفؑ نے کہا (اس کی تعبیر یہ ہے ) تم لوگ متواتر سات برس کاشت کاری کرتے رہو گے تو جو (فصل) تم کا ٹو اس (کے دانہ) کو بالیوں ہی میں رہنے دینا (چھڑانا نہیں ) مگر تھوڑا (بہت) جو تم خود کھاؤ۔

۴۸اس کے بعد بڑے سخت (خشک سالی کے ) سات برس آئیں گے کہ جو کچھ تم لوگوں نے ان سات سالوں کے واسطے پہلے سے جمع کر رکھا ہو گا سب کھا جائیں گے مگر قدر قلیل جو تم (بیج کے واسطے ) بچا رکھو گے۔

۴۹(بس) پھر اس کے بعد ایک ایسا سال آئے گا جس میں لوگوں کے لیے خوب مینہ برسے گا (اور انگور بھی خوب پھلے گا) اور لوگ اس سال انہیں شراب کے لیے نچوڑیں گے۔

۵۰اور (یہ تعبیر سنتے ہی) بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسفؑ کو میرے حضور میں تو لے آؤ پھر جب (شاہی) چوبدار (یہ حکم لے کر) یوسفؑ کے پاس آیا تو یوسفؑ نے کہا کہ تم اپنی سرکار کے پاس پلٹ جاؤ اور اُن سے پوچھو کہ (آپ کو) کچھ ان عورتوں کا حال بھی معلوم ہے جنہوں نے (مجھے دیکھ کر) اپنے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے (کہ آیا میں ان کا طالب تھا یا وہ میری) اس میں تو شک ہی نہیں کہ میرا پروردگار ہی ان کے مکروں سے خوب واقف تھا۔

۵۱چنانچہ بادشاہ نے (ان عورتوں کو طلب کیا اور ) پوچھا کہ جس وقت تم لوگوں نے یوسفؑ سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خود اُس نے تمنا کی تھی تو تمہیں کیا معاملہ پیش آیا تھا وہ سب کی سب عرض کرنے لگیں حاشا للہ ہم نے یوسف میں تو کسی طرح کی برائی نہیں دیکھی (تب) عزیز (مصر) کی بیوی (زلیخا) بول اٹھی اب تو ٹھیک ٹھاک حال سب پر ظاہر ہو ہی گیا (اصل بات یہ ہے ) کہ میں نے خود اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی تمنا کی تھی بے شک وہ یقیناً سچا ہے،

۵۲(یہ واقعہ چوبدار نے یوسف سے بیان کیا یوسف نے کہا) یہ (قصّہ میں نے اس لیے چھیڑا تاکہ) بادشاہ کو معلوم ہو جائے کہ میں نے عزیز کی غیبت میں اس کی امانت میں خیانت نہیں کی اور خدا خیانت کرنے والوں کی مکاری ہرگز چلنے نہیں دیتا۔

۵۳اور (یوں تو) میں بھی اپنے نفس کو (ترک اولیٰ سے ) بے لوث نہیں کہتا ہوں کیونکہ (بظاہر بشر ہوں ) اور نفس برابر برائی کی طرف ابھارتا ہی رہتا ہے مگر جس پر میرا پروردگار رحم فرمائے (اور گناہ سے بچائے ) اس میں شک نہیں کہ میرا پروردگار بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۵۴اور بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسفؑ کو میرے پاس لے آؤ تو میں ان کو اپنی ذاتی کام کے لیے خاص کر لوں گا۔ پھر جب اس نے یوسفؑ سے باتیں کیں (تو یوسف کی قابلیت اعلیٰ ثابت ہوئی اور ) اس نے حکم دیا کہ تم آج (سے ) ہماری سرکار میں یقیناً با وقار اور معتبر ہو

۵۵یوسف نے کہا (جب) آپ نے میری قدردانی کی ہے تو) مجھے ملکی خزانے پر مقرر کیجیے کیونکہ میں اس کا امانت دار خزانچی (اور اس کے حساب کتاب سے بھی) واقف ہوں

۵۶(غرض یوسفؑ شاہی خزانوں کے افسر مقرر ہوئے ) اور ہم نے یوں یوسفؑ کو ملک مصر کا قابض بنایا کہ اس میں جہاں چاہیں رہیں۔ ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکو کاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے۔

۵۷اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کے لیے آخرت کا اجر اس سے کہیں بہتر ہے

۵۸(اور چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا۔ اس وجہ سے ) یوسفؑ کے (سوتیلے ) بھائی (غلہ خریدنے کو مصر میں آئے ) اور یوسفؑ کے پاس گئے تو انہوں نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ لوگ ان کو نہ پہچان سکے۔

۵۹اور جب یوسفؑ نے ان (کے غلہ) کا سامان درست کر دیا (اور وہ رخصت ہوئے ) تو یوسفؑ نے (ان سے ) کہا کہ (اب کی آنا تو) اپنے سوتیلے بھائی کو (جسے گھر چھوڑ آئے ہو) میرے پاس لیتے آنا کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں یقیناً ناپ بھی پورا دیتا ہوں اور میں بہت اچھا مہمان نواز بھی ہوں۔

۶۰پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ لاؤ گے تو تمہارے لیے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہو گا نہ تم لوگ میرے قریب ہی آنے پاؤ گے۔

۶۱وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والدؑ سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے۔

۶۲ اور یوسفؑ نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع) پونجی ان کے بوروں میں (چپکے سے ) رکھ دو) تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لَوٹ کر جائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں ) شاید پھر پلٹ کے آئیں۔

۶۳غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کے آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے ابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کر دی گئی ہے تو آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجیے تاکہ ہم پھر غلہ لائیں اور اس کی پوری حفاظت کریں گے۔

۶۴یعقوبؑ نے کہا میں اس کے بارے میں تمہارا اعتبار نہیں کرتا مگر ویسا ہی جیسا اس سے پہلے اس کے ماں جائے بھائی کے بارے میں کیا تھا۔ تو خدا اس کا سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور وہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

۶۵اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہٖ واپس کر دی گئی ہے تو (اپنے باپ سے ) کہنے لگے ابا ہمیں (اور) کیا چاہیے (دیکھیے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دے دی گئی اور (غلّہ مفت ملا اب بن یامین کو جانے دیجیے تو) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لاد لائیں اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے (یہ جواب کی دفعہ لائے تھے )تھوڑا سا غلہ ہے

۶۶یعقوب نے کہا کہ جب تک تم لوگ میرے سامنے خدا سے عہد نہ کر لو گے کہ تم اس کو ضرور مجھ تک صحیح (سالم) لے آؤ گے مگر ہاں جب تم خود گھیرے میں آ جاؤ (تو مجبوری ہے ورنہ) میں تمہارے ساتھ ہرگز اس کو نہ بھیجوں گا جب ان لوگوں نے ان کے سامنے عہد کر لیا تو یعقوبؑ نے کہا کہ ہم لوگ جو کہہ رہے ہیں خدا اس کا ضامن ہے۔

۶۷اور یعقوبؑ نے (نصیحتاً چلتے وقت بیٹوں سے ) کہا اے فرزندو (دیکھو خبردار) سب کے سب ایک ہی دروازے سے نہ داخل ہونا (کہ کہیں نظر نہ لگ جائے ) اور متفرق دروازوں سے دخل ہونا اور میں تم سے اس (بلا)کو جو خدا کی طرف سے (آئے ) کچھ بھی ٹال نہیں سکتا۔ حکم تو (دراصل) خدا ہی کے واسطے ہے میں نے اسی پر بھروسا کیا ہے اور بھروسا کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

۶۸اور جب یہ سب بھائی جس طرح ان کے والد نے حکم دیا تھا اسی طرح (مصر میں ) داخل ہوئے۔ مگر جو حکم خدا کی طرف سے آنے کو تھا اُسے یعقوبؑ کچھ بھی ٹال نہیں سکتے تھے مگر (ہاں ) یعقوب کے دل میں ایک تمنا تھی جسے انہوں نے یوں پورا کر لیا کیونکہ اس میں تو شک نہیں کہ اسے چونکہ ہم نے تعلیم دی تھی صاحب علم ضرور تھا مگر بہتیرے لوگ (اس سے بھی) واقف نہیں

۶۹اور جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس (بغل میں ) جگہ دی اور (چپکے سے ) اس (بنیامین) سے کہہ دیا کہ میں تمہارا بھائی (یوسف) ہوں۔ تو جو کچھ (بدسلوکیاں ) یہ لوگ تمہارے ساتھ کر رہے ہیں اس کا کچھ رنج نہ کرو۔

۷۰پھر جب یوسفؑ نے ان کا ساز و سامان سفر (غلّہ وغیرہ) درست کرا دیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں پانی کا کٹورہ (اشارہ سے ) رکھوا دیا پھر ایک منا دی للکار کے بولا کہ اے قافلہ والو (ہو نہ ہو) یقیناً تمہی لوگ ضرور چور ہو۔

۷۱(یہ سُن کر) یہ پکارنے والوں کی طرف پھر پڑے اور کہنے لگے (آخر) تمہاری کیا چیز گم ہو گئی ہے

۷۲ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں ملتا اور میں اس کا ضامن ہوں کہ جو شخص اس کو حاضر کرے گا اس کو ایک بار شتر (غلّہ) انعام ملے گا۔

۷۳(تب) یہ لوگ کہنے لگے خدا کی قسم تم تو جانتے ہو کہ (تمہارے ) ملک میں ہم فساد کرنے کی غرض سے نہیں آئے تھے اور ہم لوگ کچھ چور تو ہیں نہیں۔

۷۴تب وہ ملازمین بولے اگر تم جھوٹے نکلے تو پھر چور کی کیا سزا ہو گی۔

۷۵یہ لوگ (بے دھڑک)کہہ اٹھے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے بورے میں وہ پیالہ نکلے تو وہی خود اس کا بدلہ ہے ( تو وہ مال کے بدلہ میں غلام بنا لیا جائے ) ہم لوگ تو اپنے یہاں ) ظالموں (چوروں ) کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔

۷۶غرض یوسفؑ نے اپنے بھائی کے شلیتہ کھلنے کے قبل دوسرے بھائیوں کی شلیتوں سے تلاشی شروع کی اس کے بعد (آخر میں ) اس کے پیالہ کو یوسفؑ نے اپنے بھائی نے شلیتہ سے برآمد کیا۔ یوسفؑ کو بھائی کے روکنے کی ہم نے یوں تدبیر بتائی ورنہ بادشاہ (مصر) کے قانون کے موافق اپنے بھائی کو روک نہیں سکتے تھے مگر ہاں جب خدا چاہے ہم جسے چاہتے ہیں اس کی درجے بلند کر دیتے ہیں اور (دنیا میں ) ہر صاحب علم سے بڑھ کر ایک اور عالم ہے۔

۷۷(غرض بنیامین روک لیے گئے یہ لوگ) کہنے لگے اگر اس نے چوری کی تو (کون تعجب ہے ) اس کے پہلے اس کا بھائی (یوسفؑ) چوری کر چکا ہے تو یوسفؑ نے (اس کا کچھ جواب نہ دیا) اس کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا اور ان پر ظاہر نہ ہونے دیا (مگر) یہ کہہ دیا کہ تم لوگ بڑے خاص خراب (بُرے آدمی) ہو اور جو (اس کے بھائی کا چوری کا) حال بیان کرتے ہو اس سے خدا خوب واقف ہے۔

۷۸(اس پر) ان لوگوں نے کہا اے عزیز (بنیامین) کے والد بہت بوڑھے (آدمی) ہیں (اور اس کو بہت چاہتے ہیں ) تو آپ اس کے عوض ہم سے کسی کو لے لیجیے (اور اس کو چھوڑ دیجیے )کیونکہ ہم آپ کو بہت نیکو کار بزرگ سمجھتے ہیں۔

۷۹یوسفؑ نے کہا معاذ اللہ (یہ کیوں کر ہو سکتا ہے ) ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے اسے چھوڑ کر دوسرے کو پکڑ لیں (اگر ہم ایسا کریں ) تو ہم ضرور بڑے بے انصاف ٹھہرے۔

۸۰پھر جب یوسفؑ کی طرف سے مایوس ہوئے تو باہم مشورہ کرنے کے لیے الگ کھڑے ہو گئے۔ تو جو شخص ان سب میں بڑا تھا (یہودا) کہنے لگا کہ (بھائیو) کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ تمہارے والد نے تم لوگوں سے خدا کا عہد کرا لیا تھا اور اس سے پہلے تم لوگ یوسفؑ کے بارے میں کیا کچھ تقصیر کر ہی چکے ہو۔ تو (بھائی) جب تک میرے والد مجھے اجازت (نہ) دیں یا خود خدا مجھے کوئی حکم (نہ) دے میں اس سر زمین سے ہر گز نہ ٹلوں گا اور خدا تو سب حکم دینے والوں سے بہتر ہے

۸۱تم لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کے جاؤ اور ان سے جا کر عرض کرو اے ابّا آپؑ کے صاحبزادے نے چوری کی اور ہم لوگوں نے تو اپنی دانست کے مطابق (اس کے لیے آنے کا) عہد کیا تھا اور ہم کچھ (راز) غیبی (آفت) کے نگہبان تو تھے نہیں۔

۸۲اور آپ اس بستی (مصر کے لوگوں سے جس میں ہم لوگ تھے دریافت کر لیجیے اور اس قافلہ سے بھی جس میں ہم آئے ہیں (پوچھ لیجیے ) اور ہم یقیناً بالکل سچّے ہیں۔

۸۳(غرض جب ان لوگوں نے جا کر بیان کیا تو) یعقوبؑ نے کہا (اس نے چوری نہیں کی) بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے گڑھ لی تو (خیر) صبر (خدا کا) شکر۔ خدا سے تو مجھے اُمید ہے کہ میرے سب (لڑکوں ) کو میرے پاس پہنچا دے۔ بے شک وہ بڑا واقف کار حکیم ہے۔

۸۴اور یعقوب نے ان لوگوں کی طرف سے مُنہ پھیر لیا اور (روکر) کہنے لگے ہائے افسوس یوسف پر اور (اس قدر روئے کہ) ان کی آنکھیں صدمہ سے سفید ہو گئیں وہ بڑے رنج کے ضبط کرنے والے تھے۔

۸۵(یہ دیکھ کر ان کے بیٹے ) کہنے لگے کہ آپ تو ہمیشہ یوسف کو یاد ہی کرتے رہیے گا یہاں تک کہ بیمار ہو جائیے گا یا جان ہی دے دیجیے گا۔

۸۶یعقوبؑ نے کہا (میں تم سے کچھ نہیں کہتا) میں تو اپنی بے قراری و رنج کی شکایت خدا ہی سے کرتا ہوں اور خدا کی طرف سے جو باتیں میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ہو۔

۸۷اے میرے فرزندو (ایک بار اور پھر مصر) جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو (جس طرح بنے ) ڈھونڈ کے لے آؤ اور خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہو کیونکہ خدا کی رحمت سے سوائے کافر لوگوں کے اور کوئی نا امید نہیں ہوا کرتا۔

۸۸پھر جب یہ لوگ (سہ بارہ) یوسف کے پاس گئے تو (بہت گڑ گڑا کر)غرض کی کہ اے عزیز ہم کو اور ہمارے (سارے ) کنبہ کو (قحط کی وجہ سے ) بڑی تکلیف ہو رہی ہے اور ہم کچھ تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں تو ہم کو (اس کے عوض) پورا غلّہ دلوا دیجیے اور (قیمت ہی پر نہیں ہم کو اپنا) صدقہ خیرات دیجیے اس میں تو شک نہیں کہ خدا صدقہ دینے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے

۸۹(اب تو یوسفؑ سے نہ رہا گیا) کہا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ جب تم جاہل ہو رہے تھے تو تم نے یوسفؑ اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا سلوک کیے

۹۰(اس پر وہ لوگ چونکے اور ) کہنے لگے ہائیں کیا تم ہی یوسف ہو (یوسف نے ) کہا ہاں میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ بے شک خدا نے ہم پر اپنا فضل (و کرم) کیا اس میں شک نہیں کہ جو شخص (اس سے ) ڈرتا رہے اور (مصیبت میں ) صبر کرے تو خدا ہر گز (ایسے ) نیکو کاروں کا اجر برباد نہیں کرتا۔

۹۱وہ کہنے لگے خدا کی قسم تمہیں خدا نے یقیناً ہم پر فضیلت دی ہے اور بے شک ہم ہی یقیناً (ازسرتاپا) خطا وار تھے۔

۹۲یوسفؑ نے کہا اب آج سے تم پر کچھ الزام نہیں۔ خدا تمہارے گناہ معاف فرمائے وہ تو سب سے زیادہ رحیم ہے۔

۹۳یہ میرا کُرتا لے جاؤ اور اس کو ابا جان کے چہرہ پر ڈال دینا کہ وہ پھر بینا ہو جائیں گے اور تم لوگ اپنے سب لڑکے بالوں کو لے کر میرے پاس چلے آؤ۔

۹۴اور جوں ہی قافلہ مصر سے چلا تھا کہ ان لوگوں کے والد (یعقوبؑ) نے کہہ دیا تھا کہ اگر مجھے سٹھایا ہوا نہ کہو تو (ایک بات کہوں کہ) مجھے یوسف کی بو معلوم ہو رہی ہے۔

۹۵وہ لوگ (کنبہ والے پوتے وغیرہ) کہنے لگے آپ یقیناً اپنے پرانے (خیال) محبت میں (پڑے ہوئے ) ہیں۔

۹۶پھر (یوسفؑ کی) خوشخبری دینے والا آیا اور اُن کے کرتے کو اُن کے چہرے پر ڈال دیا تو یعقوبؑ فوراً پھر دوبارہ آنکھ والے ہو گئے (تب یعقوبؑ نے بیٹوں سے ) کہا :کیوں میں تم سے نہ کہتا تھا کہ جو باتیں خدا کی طرف سے میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔

۹۷ان لوگوں نے عرض کی اے ابّا ہمارے گناہوں کی مغفرت کی (خدا کی بارگاہ میں ) ہمارے واسطے دعا مانگیے ہم بے شک ازسرتاپا گنہگار ہیں۔

۹۸یعقوبؑ نے کہا میں بہت جلد اپنے پروردگار سے تمہاری مغفرت کی دعا کروں گا۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۹۹(غرض) جب پھر یہ لوگ (مع یعقوبؑ کے چلے اور یوسفؑ شہر کے باہر لینے آئے تو) جب یہ لوگ یوسفؑ کے پاس پہنچے تو یوسفؑ نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور (ان سے ) کہا اب ان شاء اللہ بڑے اطمینان سے مصر میں چلیے۔

۱۰۰(غرض پہنچ کر) یوسفؑ نے اپنے باپ ماں کو تخت پر بٹھایا اور یہ سب کے سب (یوسفؑ کی) تعظیم کے واسطے ان کے سامنے سجدہ میں گر پڑے (اس وقت) یوسف نے کہا اے ابا یہ تعبیر ہے میرے اس پہلے خواب کی کہ میرے پروردگار نے اسے سچ کر دکھایا بے شک اُس نے میرے ساتھ احسان کیا جب اُس نے مجھے قید خانے سے نکالا اور آپ لوگوں کو گاؤں سے (شہر میں لے آیا اور مجھ سے ملا دیا)باوجودیکہ مجھ میں اور میرے بھائیوں میں شیطان نے فساد ڈال دیا تھا بے شک میرا پروردگار جو کچھ کرنا چاہتا ہے اس کی تدبیر خوب جانتا ہے بے شک وہ بڑا واقف کار حکیم ہے۔

۱۰۱(اس کے بعد یوسفؑ نے دعا کی) پروردگارا تو نے مجھے ملک بھی عطا فرمایا اور مجھے خواب کی باتوں کی تعبیر بھی سکھائی اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی میرا مالک سرپرست ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو مجھے (دنیا سے ) مسلمان اٹھا لے اور مجھے نیکو کاروں میں شامل فرمایا۔

۱۰۲(اے رسولؐ) یہ قصّہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم تمہارے پاس وحی کے ذریعے سے بھیجتے ہیں اور تمہیں معلوم ہوتا ہے (ورنہ) جس وقت یوسفؑ کے بھائی باہم اپنے کام کا مشورہ کر رہے تھے ) اور (ہلاک کی) تدبیریں کر رہے تھے تم ان کے پاس موجود نہ تھے

۱۰۳اور کتنا ہی چاہو مگر بہتیرے لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

۱۰۴حالانکہ تم ان سے (تبلیغ رسالتؐ کا)کوئی صلہ بھی نہیں مانگتے اور یہ (قرآن) تو سارے جہاں کے واسطے نصیحت (ہی نصیحت) ہے۔

۱۰۵اور آسمانوں اور زمین میں (خدا کی قدرت کی) کتنی نشانیاں ہیں جن پر یہ لوگ (دن رات) گزرا کرتے ہیں اور اس سے مُنہ پھیرتے رہتے ہیں۔

۱۰۶اور اکثر لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ خدا پر ایمان تو نہیں لاتے مگر شرک کیے جاتے ہیں۔

۱۰۷تو کیا یہ لوگ اس بات سے مطمئن ہو بیٹھے ہیں کہ اُن پر خدا کا عذاب آ پڑے جو ان پر چھا جائے یا ان پر اچانک قیامت ہی آ جائے اور ان کو کچھ خبر بھی نہ ہو۔

۱۰۸(اے رسولؐ) ان سے کہہ دو کہ میرا طریقہ تو یہ ہے کہ میں (لوگوں کو) خدا کی طرف بلاتا ہوں۔ میں اور میرا پیرو (دونوں ) مضبوط دلیل پر ہیں اور خدا (ہر عیب و نقص سے ) پاک و پاکیزہ ہے اور میں مشرکین سے نہیں ہوں۔

۱۰۹اور (اے رسولؐ) تم سے پہلی بھی ہم گاؤں کے رہنے والے کچھ مردوں کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا کیے ہیں کہ ہم ان پر وحی نازل کرتے تھے تو کیا یہ لوگ روئے زمین پر چلے پھرے نہیں کہ غور کرتے کہ جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کا انجام کیا ہوا اور جن لوگوں نے پرہیزگاری اختیار کی ان کے لیے آخرت کا گھر (دُنیا سے ) یقیناً بدر جہا بہتر ہے کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے۔

۱۱۰(پیغمبران ماسلف نے تبلیغ رسالت) یہاں تک کی کہ جب (قوم کے ایمان لانے سے ) پیغمبر مایوس ہو گئے اور ان لوگوں نے سمجھ لیا کہ وہ جھٹلائے گئے تو ان کے پاس ہماری (خاص) مدد آ پہنچی تو جسے ہم نے چاہا نجات دی اور ہمارا عذاب گنہگار لوگوں (کے سر) سے ٹالا نہیں جاتا۔

۱۱۱اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں کے قصّوں میں عقل مندوں کے واسطے (اچھی خاصی)عبرت (و نصیحت) ہے یہ (قرآن) کوئی ایسی بات نہیں جو (خواہ مخواہ) گھڑ لی جائے بلکہ (جوآسمانی کتابیں ) اس کے پہلے سے موجود ہیں ان کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمانداروں کے واسطے (ازسرتاپا) ہدایت و رحمت ہے۔

٭٭٭

 

 

 

۱۳۔ سورۃ الّرَعدْ

 

۱ا لٓ مٓ رٰ یہ کتاب (قرآن) کی آیتیں ہیں اور تمہارے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تمہارے پاس نازل کیا گیا ہے بالکل ٹھیک ہے مگر بہتیرے لوگ ایمان نہیں لاتے۔

۲خدا وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو جنہیں تم دیکھتے ہو بغیر ستون کے اٹھا کھڑا کر دیا۔ پھر عرش (کے بنانے ) پر آمادہ ہوا اور سورج اور چاند کو (اپنا) تابعدار بنایا کہ ہر ایک وقت مقرر تک چلا کرتا ہے وہی (دنیا کے ) ہر ایک کام کا انتظام کرتا ہے اس غرض سے کہ تم لوگ اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہونے کا یقین کرو (اپنی) آیتیں تفصیل وار بیان کرتا ہے۔

۳اور وہی وہ ہے جس نے زمین کو بچھایا اور اس میں (بڑے بڑے ) اٹل پہاڑ اور دریا بنائے اور اس نے ہر طرح کے میووں کی دو دو قسمیں پیدا کیں (جیسے کھٹے میٹھے ) وہ رات (کے پردہ) سے دن کو ڈھک دیتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں ان کے لیے اس میں (قدرت خدا کی) بہتیری نشانیاں ہیں۔

۴اور خود زمین میں (دیکھو) بہت سے ٹکڑے باہم ملے ہوئے ہیں اور انگور کے باغ اور کھیتی اور خرموں کے درخت۔ بعض ایک جڑ اور دو شاخیں اور بعض اکیلا (ایک ہی شاخ کا) حالانکہ سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں۔ اور پھلوں میں بعض کو بعض پر ہم ترجیح دیتے ہیں بے شک جو لوگ عقل والے ہیں ان کے لیے اس میں (قدرت خدا کی) بہتیری نشانیاں ہیں۔

۵اور اگر تمہیں (کسی بات پر) تعجب ہوتا ہے تو کفّار کا یہ قول تعجب کی بات ہے کہ جب ہم (سڑ گل کر) مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم (پھر دوبارہ) ایک نئی جنم میں آئیں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کیا۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں (قیامت کے دن) طوق پڑے ہوں گے اور یہی لوگ جہنمی ہیں کہ یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

۶اور (اے رسولؐ) یہ لوگ تم سے بھلائی کے قبل ہی برائی (عذاب) کی جلدی مچا رہے ہیں (حالانکہ ان کے پہلے (بہت سے لوگوں کی) سزائیں ہو چکی ہیں اور اس میں شک نہیں کہ تمہارا پروردگار باوجود ان کی شرارت کے لوگوں کے لیے بڑا بخشش (و کرم) والا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ تمہارا پروردگار بہت سخت عذاب والا ہے۔

۷اور جو لوگ کافر ہیں کہتے ہیں کہ اس شخص (محمدؐ) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی (ہماری مرضی کے موافق) کیوں نہیں نازل کی جاتی (اے رسولؐ) تم تو (صرف خدا سے ) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ہدایت کرنے والا ہے۔

۸ہر ماں جو کچھ پیٹ میں لیے ہوئے ہے اس کو خدا ہی جانتا ہے اور بچہ دانوں کا گھٹنا بڑھنا (بھی وہی) جانتا ہے اور ہر چیز اس کے نزدیک ایک اندازے سے ہے۔

۹(وہی) باطن و ظاہر کا جاننے والا (سب سے ) بڑا (اور) عالیشان ہے۔

۱۰تم لوگوں میں جو کوئی چپکے سے بات کہے اور جو شخص ہانک پکار کے بولے اور جو شخص رات (کی تاریکی) میں چھپا بیٹھا اوجو شخص دن دہاڑے چلا جا رہا ہو (اس کے نزدیک) سب برابر ہے۔

۱۱(آدمی کسی حالت میں ہو مگر) اس کے لیے اس کے آگے اس کے پیچھے اس کے نگہبان فرشتے مقرر ہیں کہ اس کی حکم خدا سے حفاظت کرتے ہیں جو (نعمت) کسی قوم کو حاصل ہو جب تک لوگ خود آپ اپنی نفسی حالت میں تغیّر نہ ڈالیں خدا ہر گز تغیر نہیں ڈالا کرتا اور جب خدا کسی پر برائی کا ارادہ کرتا ہے تو پھر اس کا کوئی ٹالنے والا نہیں اور نہ اس کا اس کے سوا کوئی والی (وسرپرست) ہے۔

۱۲وہ وہی تو ہے جو تمہیں ڈرانے اور لالچ دینے کے واسطے (بجلی کی) چمک دکھاتا ہے اور (پانی سے بھرے ) بوجھل بادلوں کو پیدا کرتا ہے۔

۱۳اور گرج اور فرشتے اس کے خوف سے اس کی حمد و ثنا کی تسبیح کیا کرتے ہیں۔ وہی (آسمان سے ) بجلیوں کو بھیجتا ہے۔ پھر اُسے جس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے اور یہ لوگ خدا کے بارے میں (خواہ مخواہ) جھگڑا کرتے ہیں حالانکہ وہ بڑا سخت قوت والا ہے

۱۴(مصیبت کے وقت) اسی کا (پکارنا) ٹھیک پکارنا ہے اور جو لوگ اسے چھوڑ کر (دوسروں کو) پکارتے ہیں وہ تو ان کی کچھ سنتے (تک) نہیں مگر جس طرح کوئی شخص (بغیر انگلیاں ملائے ) اپنی دونوں ہتھیلیاں پانی کی طرف پھیلائے تاکہ پانی اس کے منہ میں پہنچ جائے حالانکہ وہ کسی طرح پہنچنے والا نہیں اور اسی طرح کافروں کی دُعا گمراہی میں (پڑی بہکی پھرا کرتی ہے )

۱۵اور آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات سے ) جو کوئی بھی ہے خوشی سے یا زبردستی سب اللہ ہی کے آگے سر بسجود ہیں اور (اسی طرح) ان کے سائے بھی صبح و شام (سجدہ کرتے ہیں )۔

۱۶(اے رسولؐ) تم پوچھو کہ (آخر) آسمان اور زمین کا پروردگار کون ہے (یہ کیا جواب دیں گے ) تم خود کہو کہ اللہ ہے۔ (یہ بھی) کہہ دو کہ) کیا تم نے اس کے سوا دوسرے کار ساز بنا رکھے ہیں جو اپنے لیے آپ نہ تو نفع پر قابو رکھتے ہیں نہ ضرر پر۔ (یہ بھی تو) پوچھو کہ بھلا (کہیں ) اندھا اور آنکھوں والا برابر ہو سکتا ہے (ہرگز نہیں ) یا (کہیں ) اندھیرا اور اُجالا برابر ہو سکتا ہے (ہرگز نہیں ) ان لوگوں نے خدا کے کچھ شریک ٹھہرا رکھے ہیں کیا انہوں نے خدا ہی کی سی مخلوق پیدا کر رکھی ہے جس کے سبب مخلوقات ان پر مشتبہ ہو گئی ہے (اور ان کی خدائی کے قائل ہو گئے ) تم کہہ دو کہ خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی یکتا اور سب پر غالب ہے۔

۱۷اسی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنے اپنے انداز سے نالے بہہ نکلے پھر پانی کے ریلے پر (جوش کھا کر) پھُولا ہوا جھاگ (پھین آ گیا) اور اس چیز (دھات) سے بھی جسے یہ لوگ زیور یا کوئی اسباب بنانے کی غرض سے آگ میں تپاتے ہیں اسی طرح پھین آ جاتا ہے (پھر الگ ہو جاتا ہے ) یوں خدا حق و باطل کی مثل بیان فرماتا ہے۔ (کہ پانی حق کی مثال اور پھین باطل کی) غرض پھین تو خشک ہو کر غائب ہو جاتا ہے اور جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا ہے (پانی) وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے۔ یوں خدا لوگوں کے سمجھانے کے واسطے مثلیں بیان فرماتا ہے

۱۸جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا کہا مانا ان کے لیے تو (بہتری ہی) بہتری ہے۔ اور جن لوگوں نے اس کا کہا نہ مانا (قیامت میں ان کی یہ حالت ہو گی) کہ اگر انہیں روئے زمین کے سب خزانے بلکہ اس کے ساتھ اتنا اور مل جائے تو یہ لوگ اپنی نجات کے بدلے اس کو بخوشی دے ڈالیں (مگر پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ) یہی لوگ وہ ہیں جن سے بری طرح حساب لیا جائے گا اور آخر اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ (کیا) بُری جگہ ہے۔

۱۹(اے رسولؐ) بھلا وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے بالکل ٹھیک ہے کبھی اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو مطلق اندھا ہے (ہرگز نہیں اس سے تو) بس سمجھ دار ہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں

۲۰(یہ) وہ لوگ ہیں کہ خدا سے جو عہد کیا اسے پورا کرتے ہیں اور اپنے پیمان کو نہیں توڑتے

۲۱(یہ) وہ لوگ ہیں کہ جن (تعلقات) کے قائم رکھنے کا خدا نے حکم دیا انہیں قائم رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور (قیامت کے دن) بُری طرح حساب لیے جانے سے خوف کھاتے ہیں۔

۲۲اور (یہ)وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے جو مصیبت ان پر پڑی اسے جھیل گئے اور پابندی سے نماز ادا کی اور جو کچھ ہم نے انہیں روزی دی تھی اس میں سے چھپا کر اور دکھلا کر (خدا کی راہ میں ) خرچ کیا اور یہ لوگ بُرائی کو بھی بھلائی سے دفع کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کی خوبی مخصوص ہے

۲۳(یعنی) ہمیشہ رہنے کے باغ جن میں وہ آپ جائیں گے اور ان کے باپ داداؤں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو لوگ نیکوکار ہیں (وہ سب بھی) اور فرشتے (بہشت کے ہر) ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے۔

۲۴(اور) سلام علیکم (کے بعد کہیں گے ) کہ (دنیا میں ) تم نے صبر کیا (یہ اسی کا صلہ ہے دیکھو)تو آخرت کا گھر کیسا اچھا ہے

۲۵اور جو لوگ خدا سے عہد و پیمان کو پکا کرنے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں اور جن (تعلقات باہمی) کے قائم رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے انہیں قطع کرتے ہیں اور روئے زمین پر فساد پھیلاتے پھرتے ہیں ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے لعنت ہے اور ایسے لوگوں کے واسطے بُرا گھر (جہنم) ہے۔

۲۶اور خدا ہی جس کے لیے چاہتا ہے روزی کو بڑھا دیتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے ) تنگ کرتا ہے۔ اور یہ لوگ دُنیا کی (چند روزہ) زندگی پر بہت نہال ہیں حالانکہ دنیاوی زندگی (نعیمِ) آخرت کے مقابلہ میں بالکل بہت حقیقت چیز ہے۔

۲۷اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ کہتے ہیں کہ (اس شخص یعنی آپ پر) (ہماری خواہش کے موافق) کوئی معجزہ اس کے پروردگار کی طرف سے کیوں نازل نہیں ہوتا آپ ان سے کہہ دیں کہ اس میں شک نہیں کہ خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس نے اس کی طرف رجوع کی اسے اپنی طرف پہنچنے کی راہ دکھاتا ہے

۲۸یہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ان کے دلوں کو خدا کی یاد سے تسلی ہوا کرتی ہے یاد رکھو کہ خدا ہی کی یاد سے دلوں کو تسلّی ہوا کرتی ہے۔

۲۹جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے کام کیے ان کے واسطے (بہشت میں ) طوبی اور خوشحالی اور اچھا انجام ہے۔

۳۰(اے رسولؐ) جس طرح ہم نے اور پیغمبر بھیجے تھے اسی طرح ہم نے تم کو اس اُمّت میں بھیجا ہے جس سے پہلے اور بھی بہت سی اُمتیں گزر چکی ہیں تاکہ تم ان کے سامنے جو قرآن ہم نے وحی کے ذریعے سے تمہارے پاس بھیجا ہے انہیں پڑھ کر سُنا دو اور یہ (لوگ کچھ تمہارے ہی نہیں بلکہ سرے سے ) خدا ہی کے منکر ہیں تم کہہ دو کہ وہی میرا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرنا ہے۔

۳۱اور اگر کوئی ایسا قرآن (بھی نازل ہوا) ہوتا جس کی برکت سے پہاڑ (اپنی جگہ سے ) چل کھڑے ہوتے یا اس کی وجہ سے زمین (کی مسافت) طے کی جاتی اور اس کی برکت سے مُردے بول اٹھتے (تو بھی یہ لوگ ماننے والے نہ تھے ) بلکہ (سچ یوں ہے کہ) سب کام کا اختیار خدا ہی کو ہے تو ابھی تک ایمانداروں کو چین نہیں آیا کہ اگر خدا چاہتا تو سب لوگوں کی ہدایت کر دیتا اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان پر ان کی کرتوت کی سزا میں کوئی (نہ کوئی) مصیبت پڑتی رہی گی یا (ان پر نہ پڑی) تو ان کے گھروں کے آس پاس (غرض) نازل ہو گی (ضرور) یہاں تک کہ خدا کا وعدہ (فتح مکّہ) پورا ہو کر رہے اور اس میں تو شک نہیں کہ خدا ہرگز خلاف وعدہ نہیں کرتا۔

۳۲اور (اے رسولؐ) تم سے پہلے بھی بہتیرے پیغمبروں کی ہنسی اڑائی جا چکی ہے تو میں نے (چند روز) کافروں کو مہلت دی پھر آخر کار ہم نے انہیں لے ڈالا (پھر تو کیا پوچھنا ہے کہ) ہمارا عذاب کیسا تھا۔

۳۳تو کیا جو (خدا) ہر ایک شخص کے اعمال کی خبر رکھتا ہے (ان کو یونہی چھوڑ دے گا ہرگز نہیں ) اور ان لوگوں نے خدا کے (دُوسرے دوسرے ) شریک بنا لیے۔ (اے رسولؐ) تم ان سے کہہ دو کہ تم آخر ان کے نام تو بتاؤ یا تم خدا کو ایسے شریکوں کی خبر دیتے ہو جن کو وہ جانتا تک نہیں کہ وہ زمین میں (کدھر بستے ) ہیں یا نری اوپری باتیں بناتے ہو بلکہ (اصل یہ ہے کہ) کافروں کو ان کی مکاریّاں بھلی دکھائی گئی ہیں اور وہ (گویا) راہ راست سے روک دیئے گئے ہیں اور جس شخص کو خدا گمراہی میں چھوڑ دے تو اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں۔

۳۴ان لوگوں کے واسطے دنیاوی زندگی میں (بھی) عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو یقینی بہت سخت کھلنے والا ہی ہے اور (پھر) خدا (کے غضب) سے ان کا کوئی بچانے والا (بھی) نہیں۔

۳۵جس باغ (بہشت) کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے (اس کی صفت یہ ہے ) کہ اس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اس کے میوے سدا بہار، اور ایسے ہی اس کی چھاؤں بھی یہ انجام ہے ان لوگوں کا جو (دنیا میں ) پرہیزگار تھے اور کافروں کا انجام (جہنّم کی) آگ ہے۔

۳۶اور (اے رسولؐ) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ تو جو (احکام) تمہارے پاس نازل کیے گئے ہیں سب ہی سے خوش ہوتے ہیں اور بعض فرقے اس کی بعض باتوں سے انکار کرتے ہیں تم (ان سے ) کہہ دو کہ (تم مانو نہ مانو) مجھے تو یہ حکم دیا گیا کہ میں خدا ہی کی عبادت کروں کسی کو اس کا شریک نہ بناؤں میں (سب کو) اسی کی طرف بلاتا ہوں اور ہر شخص کو ہر پھر کر اسی کی طرف جانا ہے۔

۳۷اور یوں ہم نے اس قرآن کو عربی (زبان) کا فرمان نازل فرمایا اور (اے رسولؐ) اگر کہیں تم نے اس کے بعد کہ تمہارے پاس علم (قرآن) آ چکا ان کی نفسانی خواہشات کی پیروی کر لی تو یاد رکھو کہ پھر خدا کی طرف سے نہ کوئی تمہارا سرپرست ہو گا نہ کوئی بچانے والا۔

۳۸اور ہم نے تم سے پہلے اور (بھی) بہتیرے پیغمبر بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں بھی دیں اور اولاد (بھی عطا کی) اور کسی پیغمبر کی یہ مجال نہ تھی کہ کوئی معجزہ خدا کے اذن بغیر لا دکھائے ہر ایک وقت (موعود) کے لیے (ہمارے یہاں ) ایک (قسم کی) تحریر (ہوتی) ہے۔

۳۹(پھر اس میں ) سے خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے ) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ موجود ہے )

۴۰اور (اے رسولؐ) جو جو وعدے (عذاب وغیرہ کے ) ہم ان (کفّار) سے کرتے ہیں چاہے ان میں بعض تمہارے سامنے پورے کر دکھائیں یا تمہیں اس سے پہلے اٹھا لیں بہر حال تم پر تو صرف (احکام کا) پہنچا دینا فرض ہے اور ان سے حساب لینا ہمارا کام ہے۔

۴۱کیا ان لوگوں نے یہ بات نہیں دیکھی کہ ہم زمین کو (فتوحات اسلام سے ) اس کے تمام اطراف سے (سواد کفر میں ) گھٹاتے چلے آتے ہیں اور خدا جو چاہتا ہے ) حکم دیتا ہے اس کے حکم کا کوئی ٹالنے والا نہیں اور وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

۴۲اور جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے یقیناً تدبیر کیں مگر تدبیروں کا بدلہ دینا تو اللہ کا کام ہے۔ ہر نفس جو کچھ کرتا ہے اللہ اس سے واقف ہے اور عنقریب کفّار بھی جان لیں گے کہ آخرت کی خوبی کس کے لیے ہے۔

۴۳اور (اے رسولؐ) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر نہیں تو تم (اُن سے ) کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔

٭٭٭

 

 

۱۴۔ سُورۃ اِبْراہِیم

 

 

۱ ا لٓ رٰ (اے رسولؐ یہ قرآن وہ) کتاب ہے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ غرض اس کی راہ پر لاؤ جو سب سے غالب اور سزاوار حمد ہے

۲وہ خدا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے اور (آخرت میں ) کافروں کے لیے جو سخت عذاب (مہیّا کیا گیا) افسوسناک ہے۔

۳وہ کفّار جو دنیا کی (چند روزہ) زندگی کو آخرت پر (جو نعیم ابدی ہے ) ترجیح دیتے ہیں اور (لوگوں کو) خدا کی راہ (پر چلنے ) سے روکتے ہیں اور اس میں خواہ مخواہ کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ بڑی پرے درجے کی گمراہی میں ہیں۔

۴اور ہم نے جب کبھی کوئی پیغمبر بھیجا تو اس کو اس کی قوم کی زبان میں باتیں کرتا ہوا تاکہ ان کے سامنے (ہمارے احکام) بیان کرسکے تو یہی خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے۔

۵اور ہم نے موسیٰ ؑ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا (اور یہ حکم دیا) کہ اپنی قوم کو (کفر کی) تاریکیوں سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ اور انہیں خدا کے (وہ) دن یاد دلاؤ (جن میں خدا کی بڑی بڑی قدرتیں ظاہر ہوئیں ) اس میں شک نہیں کہ اس میں تمام صبر و شکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔

۶اور (وہ وقت یاد دلاؤ) جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا نے جو احسانات تم پر کیے ہیں ان کو یاد کرو جب اس نے تم کو فرعون کے لوگوں (کے ظلم) سے نجات دی کہ وہ تم کو بہت برے برے دکھ دے کے ستاتے تھے اور تمہارے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو (اپنی خدمت کے واسطے ) زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے (تمہارے صبر کی) بڑی سخت آزمائش تھی۔

۷اور (وہ وقت بھی) جب تمہارے پروردگار نے تمہیں جتا دیا کہ اگر میرا شکر کرو گے تو میں یقیناً تم پر (نعمت کی) زیادتی کروں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو یاد رکھو کہ یقیناً میرا عذاب سخت ہے

۸اور موسٰیؑ نے (اپنی قوم سے ) کہہ دیا تھا کہ اگر تم اور (تمہارے ساتھ) جتنے لوگ روئے زمین پر ہیں سب کے سب (مل کر بھی خدا کی) ناشکری کرو تو خدا (کو ذرا بھی پروا نہیں کیونکہ وہ تو بالکل) بے نیاز ہے اور سزا وار حمد ہے۔

۹کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے تھے (جیسے ) نوحؑ کی قوم اور عاد و ثمود اور (دوسرے لوگ) جو ان کے بعد ہوئے (کیوں کر خبر ہوتی) ان کو خدا کے سواکوئی جانتا ہی نہیں ان کے پاس ان کے (وقت کے ) پیغمبر معجزے لے کر آئے (اور سمجھانے لگے ) تو ان لوگوں نے ان پیغمبروں کے ہاتھوں کو ان کے منہ پر اُلٹا مار دیا اور کہنے لگے کہ جو (حکم لے کر) تم خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہو ہم تو اس کو نہیں مانتے اور جس (دین) کی طرف تم ہم کو بلاتے ہو ہم تو بڑے گہرے شک میں پڑے ہیں۔

۱۰(تب) ان کے پیغمبروں نے (ان سے ) کہا کیا تم کو خدا کے بارے میں شک ہے جو سارے آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ہے (اور) وہ تم کو اپنی طرف بلاتا بھی ہے تو اس لیے کہ تمہارے گناہ معاف کر دے اور ایک وقت مقرر تم کو (دنیا میں چین سے ) رہنے دے۔ وہ لوگ بول اُٹھے کہ تم بھی بس ہمارے ہی سے آدمی ہو (اچھا اب یہ سمجھے ) تم یہ چاہتے ہو کہ جن معبودوں کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے تھے تم ہم کو ان سے باز رکھو (اچھا اگر تم سچے ہو تو) کوئی صاف کھلا ہوا صریح معجزہ ہمیں لا دکھاؤ۔

۱۱ان کے پیغمبروں نے ان کے جواب میں کہا کہ اس میں شک نہیں کہ ہم بھی تمہارے ہی سے آدمی ہیں مگر خدا اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے اپنا فضل (و کرم) کرتا ہے (اور رسالت عطا فرماتا ہے ) اور ہمارے اختیار میں یہ بات نہیں کہ بے حکم خدا (تمہاری فرمائش کے موافق) ہم کوئی معجزہ تمہارے سامنے لا سکیں اور خدا پرسب ایمانداروں کو بھروسا رکھنا چاہیے۔

۱۲اور ہمیں (آخر) کیا ہے کہ ہم اس پر بھروسا نہ کریں حالانکہ ہمیں (نجات کی) یقیناً اسی نے راہیں دکھائیں اور جو جو اذیتیں ہمیں تم نے پہنچائیں (ان پر ہم نے صبر کیا اور ) آئندہ بھی صبر کریں گے اور تو کل کرنے والوں کو خدا ہی پر توکل کرنا چاہیے۔

۱۳اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا تھا اپنے (وقت کے ) پیغمبروں سے کہنے لگے ہم تم کو اپنی سرزمین سے ضرور نکال باہر کر دیں گے یہاں تک کہ تم ہمارے مذہب کی طرف پلٹ آؤ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ (تم گھبراؤ نہیں ) ہم ان سرکش لوگوں کو ضرور غارت کر دیں گے

۱۴اور ان کی (ہلاکت کے ) بعد ضرور تمہیں کو اس سر زمین میں بسائیں گے یہ وعدہ محض اس شخص سے ہے جو ہماری بارگاہ میں (اعمال کی جواب دہی میں ) کھڑے ہونے سے ڈرے اور میرے عذاب سے خوف کھائے۔

۱۵اور (ان پیغمبروں نے ہم سے اپنی فتح کی دعا مانگی) آخر وہ پوری ہوئی اور ہر ایک سرکش عداوت رکھنے والا ہلاک ہوا

۱۶(یہ تو ان کی سزا تھی) اور اس کے پیچھے ہی پیچھے جہنم ہے اور (اس میں ) اسے پیپ لہو بھرا ہوا پانی پینے کو دیا جائے گا۔

۱۷(زبردستی) اسے گھونٹ گھونٹ کر کے پینا پڑھے گا اور اسے حلق سے بآسانی نہ اتار سکے (اور وہ مصیبت ہے کہ) اسے ہر طرف سے موت ہی موت آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے حالانکہ وہ مارے نہ مرسکے گا اور پھر اس کے ہی پیچھے پیچھے عذاب سخت ہو گا۔

۱۸جو لوگ اپنے پروردگار سے کافر ہو بیٹھے ان کی مثل ایسی ہے کہ ان کے کارستانیاں گویا راکھ کا ایک ڈھیر ہے جسے انڈھر کے روز ہوا کا بڑے زوروں کا جھونکا اڑا لے گا جو کچھ ان لوگوں نے (دنیا میں ) کیا کرایا ہے اس میں سے کچھ بھی ان کے قابو میں نہ ہو گا۔ یہی تو پر لے درجے کی گمراہی ہے۔

۱۹کیا تو نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی نے سارے آسمان و زمین ضرور مصلحت سے پیدا کیے۔ اگر وہ چاہے تو سب کو مٹا کر ایک نئی خلقت (کی بستی) لا بسائے۔

۲۰اور یہ خدا پر کچھ بھی دشوار نہیں

۲۱اور قیامت کے دن سب کے سب خدا کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے تو جو لوگ (دنیا میں ) کمزور تھے بڑی عزّت رکھنے والوں سے (اس وقت) کہیں گے کہ ہم تو بس تمہارے قدم بقدم چلنے والے تھے تو کیا (آج) تم خدا کے عذاب سے کچھ بھی ہمارے آڑے آ سکتے ہو؟ وہ جواب دیں گے (اصلاحِ کار کجا دامن خراب کجا) کاش خدا ہماری ہدایت کرتا تو ہم بھی تمہاری ہدایت کرتے۔ ہم خواہ بے قراری کریں خواہ صبر کریں (دونوں ) ہمارے لیے برابر ہیں (کیونکہ عذاب سے ) ہمیں تو اب چھٹکارا نہیں

۲۲اور جب لوگوں کا (اخیر) فیصلہ ہو جائے گا (اور لوگ شیطان کو الزام دیں گے )تو شیطان کہے گا کہ خدا نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا (وہ تو پورا ہو گیا) اور میں نے بھی تو وعدہ کیا تھا پھر میں نے وعدہ خلافی کی اور مجھے کچھ تم پر حکومت تو تھی مگر اتنی بات تھی کہ میں نے تم کو (بُرے کاموں کی طرف) بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا تو اب تم مجھے بُرا (بھلا) نہ کہو بلکہ (اگر کہنا ہے تو) اپنے نفس کو بُرا کہو (آج) نہ تو میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرسکتے ہو میں اس سے پہلے ہی بیزار ہوں کہ تم نے مجھے (خدا کا) شریک بنایا بے شک جو لوگ نافرمان ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

۲۳اور جن لوگوں نے (صدق دل سے )ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے عمل کیے وہ بہشت کے ان باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ وہاں ان کی ملاقات کا تحفہ سلام ہو گا۔

۲۴(اے رسولؐ) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے اچھی بات (مثلاً کلمہ توحید) کی کیسی (اچھی) مثال بیان کی ہے کہ (اچھی بات) گویا ایک پاکیزہ درخت ہے کہ اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی ٹہنیاں آسمان میں (لگی) ہوں

۲۵اپنے پروردگار کے حکم سے ہمہ وقت پھلا (پھولا) رہتا ہے اور خدا لوگوں کے واسطے (اس لیے )مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ نصیحت (و عبرت) حاصل کریں۔

۲۶اور گندی بات (جیسے کلمہ شرک) کی مثال گویا ایک گندے درخت کی سی ہے (جس کی جڑ ایسی کمزور ہو) کہ زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ پھینکا جائے (کیونکہ) اس کو کچھ ٹھہراؤ تو ہے نہیں۔

۲۷جو لوگ پکی بات (کلمہ توحید) پر (صدق دل سے ) ایمان لا چکے ان کو خدا دنیا کی زندگی میں (بھی) ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں بھی ثابت قدم رکھے گا (اور انہیں سوال و جواب میں کوئی دقت نہ ہو گی) اور سرکشوں کو خدا گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

۲۸(اے رسولؐ) کیا تم نے ان لوگوں کے حال پر غور نہیں کیا جنہوں نے میرے احسان کے بدلے ناشکری اختیار کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں جھونک دیا

۲۹کہ سب کے سب جہنم واصل ہوں گے اور وہ کیا بُرا ٹھکانا ہے۔

۳۰اور یہ لوگ دوسروں کو خدا کا ہمسر بنانے لگے تاکہ (لوگوں کو) اس کی راہ سے بہکا دیں۔ (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ (خیر چند روز تو) چین کر لو پھر تو تمہیں دوزخ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

۳۱(اے رسولؐ) میرے وہ بندے جو ایمان لا چکے ان سے کہہ دو کہ پابندی سے نماز پڑھا کریں اور جو کچھ ہم نے انہیں روزی دی ہے اس میں سے (خدا کی راہ میں ) چھپا کر یا دکھلا کر خرچ کیا کریں۔ اس دن (قیامت) کے آنے سے پہلے جس میں نہ تو (خرید) و فروخت (ہی کام آئے گی) نہ دوستی و محبت۔

۳۲خدا ہی ایسا (قادر و توانا) ہے جس نے آسمان و زمین پیدا کر ڈالے اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے سے (مختلف درختوں سے ) تمہاری روزی کے واسطے (طرح طرح کے ) پھل پیدا کیے اور تمہارے واسطے کشتیاں تمہارے بس میں کر دیں تاکہ اس کے حکم سے دریا میں چلیں اور تمہارے واسطے ندیوں کو تمہارے اختیار میں کر دیا

۳۳اور سورج چاند کو تمہارا تابعدار بنا دیا کہ سدا پھیری کیا کرتے ہیں اور رات دن کو تمہارے قبضہ میں کر دیا (کہ ہمیشہ حاضر باش رہتے ہیں )

۳۴اور (اپنی ضرورت کے موافق) جو کچھ تم نے اس سے مانگا (اس میں سے بقدرِ مناسب) تمہیں دیا اور اگر تم خدا کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو گن نہیں سکتے ہو۔ اس میں تو شک نہیں کہ انسان بڑا بے انصاف ناشکرا ہے۔

۳۵اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیمؑ نے (خدا سے ) عرض کی تھی کہ پروردگاراس شہر (مکّہ) کو امن و امان کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے بچا لے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں۔

۳۶اے میرے پالنے والے اس میں شک نہیں کہ ان بتوں نے بہتیرے لوگوں کو گمراہ بنا چھوڑا تو جو شخص میری پیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی (تو تجھے اختیار ہے ) تو تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۳۷اے ہمارے پالنے والے میں نے تیرے معزز گھر (کعبہ) کے پاس ایک بے کھیتی (کے ویران) بیابان (مکّہ) میں اپنی (کچھ اولاد کو لا کر) بسایا ہے تاکہ اے ہمارے پالنے والے یہ لوگ برابر یہاں نماز پڑھا کریں تو تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر (تاکہ وہ یہاں آ کر آباد ہوں ) اور انہیں طرح طرح کے پھلوں سے روزی عطا کر تاکہ یہ لوگ (تیرا) شکر کریں۔

۳۸اے ہمارے پالنے والے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں تو (سب سے ) خوب واقف ہے اور خدا سے کوئی چیز چھپی نہیں (نہ) زمین میں اور نہ آسمان میں۔

۳۹اس خدا کا (لاکھ لاکھ) شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپا آنے پراسماعیلؑ و اسحاقؑ سے دو فرزند) عطا کیے اس میں شک نہیں کہ میرا پروردگار دُعا کا سننے والا ہے۔

۴۰اے میرے پالنے والے مجھے اور میری اولاد کو (بھی) نماز کا پابند بنا دے اور اے میرے پالنے والے میری دُعا قبول فرما۔

۴۱اے ہمارے پالنے والے جس دن (اعمال کا) حساب ہونے لگے، مجھ کو اور میرے ماں باپ اور (سارے ) ایمانداروں کو تو بخش دے۔

۴۲اور جو کچھ یہ ظالم (کفّار مکّہ) کیا کرتے ہیں اس سے خدا کو غافل نہ سمجھنا (اور ان پر فوراً عذاب نہ کرنے کی) صرف یہ وجہ ہے کہ اس دن تک کی مہلت دیتا ہے جس دن لوگوں کی آنکھوں کے ڈھیلے (خوف کے مارے ) پتھرا جائیں گے۔

۴۳اپنے اپنے سر اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں (ٹکٹکی بندھی ہے ) ان کی طرف ان کی نظر نہیں لوٹتی( جدھر دیکھ رہے ہیں دیکھ رہے ہیں ) اور ان کے دل ہوا ہو رہے ہیں۔

۴۴اور (اے رسولؐ) لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ (جس دن) ان پر عذاب نازل ہو گا تو جن لوگوں نے نافرمانی کی تھی (گڑ گڑا کر) عرض کریں گے کہ اے ہمارے پالنے والے ہم کو تھوڑی سی مہلت اور دے دے (اب کی بار) ہم تیرے بلانے پر (ضرور) اٹھ کھڑے ہوں گے اور سب رسولوں کی پیروی کریں گے (تو ان کو جواب ملے گا) کیا تم وہ لوگ نہیں ہو جو اس کے پہلے (اس پر) قسمیں کھایا کرتے تھے کہ تم کو کسی طرح کا زوال نہیں۔

۴۵اور (کیا تم وہ لوگ نہیں کہ) جن لوگوں نے (ہماری نافرمانی کر کے ) آپ اپنے اُوپر ظلم کیا انہی کے گھروں میں تم بھی رہے حالانکہ تم پر یہ بھی ظاہر ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا اور ہم نے تمہارے (سمجھانے کے ) واسطے مثلیں بھی بیان کر دی تھیں

۴۶اور وہ لوگ اپنی چالیں چلتے رہے (اور وہ کبھی باز نہ آئے ) حالانکہ ان کی سب حالتیں خدا کی نظر میں تھیں اور اگرچہ ان کی مکاریاں اس غضب کی تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے پلٹ جائیں (مگر سب ہیچ تھیں )

۴۷تو تم یہ خیال (بھی) نہ کرنا کہ خدا اپنے رسولوں سے خلاف وعدہ کرے گا اس میں شک نہیں کہ خدا (سب سے ) زبردست بدلہ لینے والا ہے۔

۴۸(مگر کب) جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین کر دی جائے گی اور (اسی طرح) آسمان (بھی بدل دیئے جائیں گے ) اور سب لوگ یکتا قہار خدا کے روبرو (اپنی اپنی جگہ سے نکل) کھڑے ہوں گے۔

۴۹اور تم اس دن گنہگاروں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔

۵۰ان کے (بدن کے ) کپڑے قطران کے ہوں گے اور ان کے چہروں کو آگ(ہر طرف سے ) ڈھانکے ہو گی۔

۵۱تاکہ خدا ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ دے (اچھا تو اچھا بُرا تو بُرا) بے شک خدا بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

۵۲یہ (قرآن) لوگوں کے لیے ایک قسم کی اطلاع ہے تاکہ لوگ اس کے ذریعے سے (عذاب خدا سے ) ڈرائے جائیں اور تاکہ یہ بھی بہ یقین جان لیں کہ بس وہی خدا ایک معبود ہے اور تاکہ جو لوگ عقل والے ہیں نصیحت (و عبرت) حاصل کریں۔

٭٭٭

 

 

۱۵۔ سورۃ الحجر

 

 

۱ا لٓ رٰ یہ کتاب (خدا) اور واضح و روشن قرآن کی (چند) آیتیں ہیں۔

۲(ایک دن وہ بھی آنے والا ہے کہ) جو لوگ کافر ہو بیٹھے ہیں اکثر دل سے چاہیں گے کہ کاش ہم بھی مسلمان ہوتے۔

۳(اے رسولؐ) انہیں ان کی حالت پر رہنے دو کہ کھا (پی) لیں اور (دنیا میں چند روز) چین کر لیں اور (ان کی) تمنائیں انہیں کھیل تماشے میں لگائے رہیں۔ عنقریب ہی(اس کا) نتیجہ انہیں معلوم ہو جائے گا۔

۴اور ہم نے کبھی کوئی بستی تباہ نہیں کی مگر یہ اس (کی تباہی) کے لیے (پہلے ہی سے سمجھی بوجھی ہوئی) میعاد لکھی ہوئی تھی

۵کوئی اُمّت اپنے وقت سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔

۶(اے رسولؐ) کفّار مکہ تم سے ) کہتے ہیں کہ اے وہ شخص (جس کو یہ سودا ہے ) کہ اس پر وحی و کتاب نازل ہوئی ہے۔ تُو تو (اچھا خاصا) سڑی ہے

۷اگر تو اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا۔

۸(حالانکہ) ہم فرشتوں کو کھلم کھلا بس عذاب کے ساتھ فیصلہ ہی کے لیے بھیجا کرتے ہیں اور اگر (فرشتے نازل) ہو جائیں تو پھر ان کو (جان بچانے کی) مہلت بھی نہ ملے۔

۹بے شک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔

۱۰اور (اے رسولؐ) ہم نے تم سے پہلے بھی اگلی امتوں میں (اور بھی بہت سے ) رسولؐ بھیجے

۱۱اور (ان کی بھی یہی عادت تھی کہ) ان کے پاس کوئی رسولؐ نہ آیا مگر ان لوگوں نے اس کی ہنسی ضرور اڑائی۔

۱۲ہم (گویا خود) اسی طرح اس (گمراہی) کو (ان) گنہگاروں کے دل میں ڈال دیتے ہیں۔

۱۳یہ کفّار اس (قرآن) پر ایمان نہ لائیں گے اور (یہ کچھ انوکھی بات نہیں ) اگلوں کی روش بھی (ایسے ہی) رہا کی ہے۔

۱۴اور اگر ہم (اپنی قدرت سے ) آسمان کا ایک دروازہ بھی کھول دیں اور یہ لوگ دن دیہاڑے اس دروازے سے (آسمان پر) چڑھ بھی جائیں

۱۵تب بھی یہی کہیں گے کہ ہو نہ ہو ہماری آنکھیں (نظر بندی سے ) متوالی کر دی گئیں (یا نہیں تو) ہم لوگوں پر جادو کیا گیا ہے۔

۱۶اور ہم ہی نے آسمان میں بُرج بنائے اور دیکھنے والوں کے واسطے ان کو (ستاروں سے ) آراستہ کیا

۱۷اور ہر شیطان مردود (کی آمدورفت) سے انہیں محفوظ رکھا۔

۱۸مگر جو شیطان چوری چھپے (وہاں کی کسی بات) پر کان لگائے تو شہاب کا دہکتا ہوا شعلہ اس کے (کھدیڑ نے کو پیچھے ) پڑ جاتا ہے

۱۹اور زمین کو (بھی اپنی مخلوقات کے رہنے سہنے کو) ہم ہی نے پھیلایا اور اس میں (میخ کی طرح) پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے اور ہم نے اس میں ہر قسم کی مناسب چیز اگائی۔

۲۰اور ہم ہی نے اس میں تمہارے واسطے زندگی کے ساز و سامان بنا دیئے اور (ان جانوروں کے لیے بھی) جنہیں تم روزی نہیں دیتے۔

۲۱اور ہمارے یہاں تو ہر چیز کے (بے شمار) خزانے (بھرے ) پڑے ہیں۔ اور ہم (اس میں سے ) ایک جچی تلی مقدار بھیجتے رہتے۔

۲۲اور ہم نے وہ ہوائیں بھیجیں (جو بادلوں کو پانی سے ) بھرے ہوئے ہیں۔ پھر ہم ہی نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم ہی نے تم لوگوں کو وہ پانی پلایا اور تم لوگوں نے تو کچھ اس کو جمع کر کے نہیں رکھا تھا۔

۲۳اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ ہم ہی (لوگوں کو) جلاتے ہیں اور ہم ہی مار ڈالتے ہیں اور (پھر) ہم ہی (سب کے والی و) وارث ہیں۔

۲۴اور بے شک ہم نے تم میں سے ان لوگوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا جو پہلے ہو گزرے اور ہم نے ان کو بھی جان لیا جو بعد کو آنے والے ہیں۔

۲۵اور اس میں شک نہیں کہ تیرا پروردگار وہی ہے جو ان سب کو (قیامت میں قبروں میں سے ) اٹھائے گا۔ بے شک وہ حکمت والا واقف کار ہے

۲۶اور بے شک ہم ہی نے آدمی کو (خمیر دی ہوئی) سڑی مٹی سے جو (سوکھ کر) کھن کھن بولنے لگے پیدا کیا۔

۲۷اور ہم ہی نے جنات کو آدمی سے بھی پہلے بے دھوئیں کی تیز آگ سے پیدا کیا۔

۲۸اور (اے رسولؐ وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک آدمی کو خمیر دی ہوئی مٹی سے جو (سوکھ کر) کھن کھن بولنے لگے پیدا کرنے والا ہوں۔

۲۹تو جس وقت میں اس کو ہر طرح سے درست کر چکوں اور اس میں اپنی (طرف سے ) روح پھونک دوں،تو سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔

۳۰غرض فرشتے تو سب کے سب سربسجود ہو گئے

۳۱مگر ابلیس (ملعون) کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کر دیا۔

۳۲(اس پر خدا نے ) فرمایا اے ابلیس آخر تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ شامل نہ ہوا۔

۳۳وہ (ڈھٹائی سے ) کہنے لگا میں ایسا گیا گزرا تو ہوں نہیں کہ ایک ایسے آدمی کو سجدہ کر بیٹھوں جسے تو نے سڑی ہوئی کھن کھن بولنے والی مٹی سے پیدا کیا ہے۔

۳۴(خدا نے ) فرمایا (نہیں تو) تو بہشت سے نکل جا(دُور ہو) بے شک تو مردود ہے۔

۳۵اور یقیناً تجھ پر روز جزا تک پھٹکار برسا کرے گی۔

۳۶(شیطان نے ) کہا اے میرے پروردگار خیر تو مجھے اس دن تک کی مہلت دے جبکہ (لوگ دوبارہ زندہ کر کے ) اٹھائے جائیں گے

۳۷خدا نے فرمایا

۳۸وقت مقررہ کے دن تک کی تجھے مہلت دی گئی

۳۹(شیطان نے کہا) اے میرے پروردگار چونکہ تو نے مجھے رستہ سے الگ کیا۔ میں بھی ان کے لیے دنیا میں (ساز و سامان کو) عمدہ کر دکھاؤں گا اور ان سب کو ضرور بہکاؤں گا

۴۰مگر ان میں سے تیرے نرے کھرے خاص بندے (کہ وہ میرے بہکانے میں نہ آئیں گے )

۴۱خدا نے فرمایا کہ یہی راہ سیدھی ہے کہ مجھ تک (پہنچتی) ہے۔

۴۲جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تجھے کسی طرح کی حکومت نہ ہو گی مگر ہاں گمراہوں میں سے جو تیری پیروی کرے (اس پر تیرا زور چل جائے گا)

۴۳اور (ہاں یہ بھی یاد رہے کہ) ان سب کے واسطے (آخری) وعدہ بس جہنم ہے

۴۴جس کے سات دروازے ہوں گے ہر دروازہ (میں جانے ) کے لیے ان گمراہوں کی الگ الگ ٹولیاں ہوں گی۔

۴۵اور پرہیزگار تو (بہشت کے ) باغوں اور چشموں میں یقیناً ہوں ہی گے

۴۶(داخلہ کے وقت فرشتے کہیں گے کہ) ان میں سلامتی کے ساتھ اطمینان سے چلے جاؤ

۴۷اور (دنیا کی تکلیفوں سے ) جو کچھ ان کے دل میں رنج تھا اس کو بھی ہم نکال دیں گے اور یہ باہم ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر اس طرح بیٹھے ہوں گے جیسے بھائی بھائی۔

۴۸ان کو بہشت میں تکلیف چھوئے گی بھی تو نہیں اور نہ کبھی اس میں سے نکالے جائیں گے۔

۴۹(اے رسولؐ) میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ بے شک میں بڑا بخشنے والا مہربان ہوں

۵۰مگر ساتھ ہی اس کے یہ بھی یاد رہے کہ بے شک میرا عذاب بھی بڑا درد ناک عذاب ہے۔

۵۱اور ان کو ابراہیمؑ کے مہمان کا حال سنا دو

۵۲کہ جب یہ ابراہیمؑ کے پاس آئے تو (پہلے ) انہوں نے سلام کیا۔ ابراہیمؑ نے (جواب سلام کے بعد) کہا ہم کو تو تم سے ڈر معلوم ہوتا ہے۔

۵۳انہوں نے کہا آپ مطلق خوف نہ کیجیے (کیونکہ) ہم تو آپ کو ایک دانا (و بینا) فرزند (کی پیدائش) کی خوشخبری دیتے ہیں۔

۵۴ابراہیمؑ نے کہا (بیٹے کے ہونے کی) کیا مجھے خوشخبری دیتے ہو جب مجھ پر بڑھاپا چھا گیا تو پھر اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو۔

۵۵وہ فرشتے بولے ہم نے آپ کو بالکل ٹھیک خوشخبری دی ہے تو آپ (بارگاہ خداوندی سے ) نا امید نہ ہوں۔

۵۶ابراہیمؑ نے کہا گمراہوں کے سوا اور ایسا کون ہے جو اپنے پروردگار کی رحمت سے نا امید ہو۔

۵۷(پھر) ابراہیمؑ نے کہا اے (خدا کے ) بھیجے ہوئے (فرشتو) تمہیں آخر کیا مہم درپیش ہے۔

۵۸انہوں نے کہا کہ ہم تو ایک گنہگار قوم کی طرف (عذاب نازل کرنے کے لیے ) بھیجے گئے ہیں،

۵۹مگر لوطؑ کے لڑکے بالے کہ ہم ان سب کو ضرور بچا لیں گے۔

۶۰مگر ان کی بیوی جسے ہم نے تاک لیا ہے کہ وہ ضرور (اپنے لڑکے بالوں کے ) پیچھے (عذاب میں ) رہ جائے گی۔

۶۱غرض جب (خدا کے ) بھیجے ہوئے (فرشتے ) لوطؑ کے بال بچوں کے پاس آئے۔

۶۲تو لوطؑ نے کہا تم تو (کچھ) اجنبی لوگ (معلوم ہوتے ) ہو۔

۶۳فرشتوں نے کہا (نہیں ) بلکہ ہم تو آپ کے پاس وہ (عذاب) لے کر آئے ہیں جس کے بارے میں آپ کی قوم کے لوگ شک رکھتے تھے کہ (آئے نہ آئے )

۶۴اور ہم آپ کے پاس (عذاب کا) قطعی حکم لے کر آئے ہیں اور ہم بالکل سچ کہتے ہیں۔

۶۵بس تو آپ کچھ رات رہے اپنے لڑکے بالوں کو لے کر نکل جایئے اور آپ سب کے پیچھے رہیے گا اور ان لوگوں میں سے کوئی مڑ کے پیچھے نہ دیکھے اور (شام) جدھر جانے کا حکم دیا گیا ہے اُدھر سیدھے چلے جاؤ۔

۶۶اور ہم نے لوطؑ کے پاس اس امر کا قطعی فیصلہ کہلا بھیجا کہ بس صبح ہوتے ہوتے ان لوگوں کی جڑ کاٹ ڈالی جائے گی

۶۷اور (یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ) شہر کے لوگ(مہمانوں کی خبر سن کر بُری نیت سے ) خوشیاں مناتے ہوئے آ پہنچے۔

۶۸(لوطؑ نے ان سے ) کہا کہ یہ لوگ میرے مہمان ہیں تو تم (انہیں ستا کر) مجھے رسوا بدنام نہ کرو۔

۶۹اور خدا سے ڈرو اور مجھے ذلیل نہ کرو۔

۷۰وہ لوگ کہنے لگے کیوں جی ہم نے تم کو سارے جہان کے لوگوں (کے آنے ) کی مناہی نہیں کر دی تھی۔

۷۱ لوطؑ ! کہا اگر تم کو (ایسا ہی) کرنا ہے تو یہ میری (قوم کی) بیٹیاں موجود ہیں (ان سے نکاح کر لو)

۷۲(اے رسولؐ) تمہاری جان کی قسم یہ لوگ (قوم لوطؑ ) اپنی مستی میں مدہوش ہو رہے تھے۔ (لوطؑ کی سنتے کاہے کو)

۷۳غرض سورج نکلتے نکلتے ان کو (بڑے زوروں کی) چنگھاڑنے لے ڈالا

۷۴پھر ہم نے (اسی بستی کو الٹ کر) اس کے اوپر کے طبقہ کواس کے نیچے کا طبقہ بنا دیا اور اس کے اوپر ان کے کھرنجے کے پتھر برسا دیئے۔

۷۵اس میں شک نہیں کہ اس میں (اصلی بات کے ) تاڑ جانے والوں کے لیے (قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں

۷۶اور وہ (الٹی ہوئی بستی) ہمیشہ (کی آمدورفت) کے راستہ پر ہے۔

۷۷اس میں تو شک ہی نہیں کہ اس میں ایمانداروں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔

۷۸اور ایکہ کے رہنے والے (قوم شعیبؑ ، قوم لوطؑ کی طرح) بڑے سرکش تھے۔

۷۹تو ان سے بھی ہم نے (نافرمانی کا) بدلہ لیا اور یہ دو بستیاں (قوم لوطؑ و شعیبؑ کی) ایک کھلی ہوئی شاہراہ پر (ابھی) تک موجود ہیں۔

۸۰ اور (اسی طرح) حجر کے رہنے والوں (قوم صالحؑ) نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا

۸۱اور (باوجودیکہ) ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دیں اس پر بھی وہ لوگ ان سے روگردانی کرتے رہے۔

۸۲اور بہت دل جمعی سے پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے رہے۔

۸۳ آخر ان کو صبح ہوتے ہوتے ایک بڑی (زوروں کی) چنگھاڑنے لے ڈالا

۸۴پھر جو کچھ وہ اپنی حفاظت کی تدبیریں کیا کرتے تھے (عذاب خدا سے بچانے میں ) کچھ بھی کام نہ آئیں

۸۵اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے حکمت و مصلحت سے پیدا کیا ہے اور قیامت یقیناً ضرور آنے والی ہے تو تم (اے رسولؐ) ان کافروں سے شائستہ عنوان کے ساتھ درگزر کرو۔

۸۶اس میں شک نہیں کہ تمہارا پروردگار بڑا پیدا کرنے والا (اور) بڑا دانا (و بینا) ہے

۸۷اور ہم نے تم کو سبع مثانی (سورۃ حمد) اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔

۸۸اور ہم نے جو ان کفّار میں سے کچھ لوگوں کو (دنیا کی مال و دولت سے ) نہال کر دیا ہے تم اس کی طرف ہرگز نظر بھی نہ اٹھانا اور نہ ان (کی بے دینی) پر کچھ افسوس کرنا اور ایمان داروں سے (اگرچہ غریب ہوں ) جھک کر ملا کرو۔

۸۹اور کہہ دو کہ میں تو (عذابِ خدا سے ) صریحی طور پر ڈرانے والا ہوں

۹۰(اے رسولؐ ہم ان کفّار پر اسی طرح عذاب نازل کریں گے ) جس طرح ہم نے ان لوگوں پر نازل کیا

۹۱جنہوں نے قرآن کو بانٹ (کر ٹکڑے ٹکڑے کر) ڈالا (بعض کو مانا اور بعض کو نہیں )۔

۹۲تو (اے رسولؐ) تمہارے ہی پروردگار کی (اپنی) قسم

۹۳کہ ہم ان سے جو کچھ یہ (دنیا میں ) کیا کرتے تھے (بہت سختی سے ) ضرور باز پرس کریں گے۔

۹۴بس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کر کے سنا دو اور مشرکین کی طرف سے منہ پھیر لو۔

۹۵جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں

۹۶اور خدا کے ساتھ دوسرے پروردگار کو (شریک) ٹھہراتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کے لیے کافی ہیں۔ تو عنقریب ہی انہیں معلوم ہو جائے گا

۹۷تم جو (ان کفار و منافقین) کی باتوں سے دل تنگ ہوتے ہو ہم اس کو ضرور جانتے ہیں۔

۹۸تو تم اپنے پروردگار کی حمد (و ثنا) سے اس کی تسبیح کرو اور (اس کی بارگاہ میں ) سجدہ کرنے والوں میں ہو جاؤ

۹۹اور جب تک تمہارے پاس موت آئے اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو۔

٭٭٭

 

 

 

۱۶۔ سورۃ النحل

 

۱(اے کفّار مکّہ) خدا کا حکم (قیامت گویا) آ پہنچا تو (اے کافرو بے فائدہ) تم اس کی جلدی نہ مچاؤ جس چیز کو یہ لوگ شریک قرار دیتے ہیں اس سے وہ خدا پاک و پاکیزہ اور برتر ہے۔

۲وہی اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے وحی دے کر فرشتوں کو بھیجتا ہے کہ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔

۳اسی نے سارے آسمان اور زمین مصلحت و حکمت سے پیدا کیے تو یہ لوگ جس کو اس کا شریک بناتے ہیں اس سے وہ (کہیں ) برتر ہے۔

۴اس نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا پھر وہ یکایک (ہم ہی سے ) کھلم کھلا جھگڑنے والا ہو گیا۔

۵اور اسی نے چار پایوں کو بھی پیدا کیا کہ تمہارے لیے ان (کی کھال اور اُون) سے جاڑوں (کا سامان) ہے۔ (اس کے علاوہ) اور بھی فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔

۶اور جب تم انہیں سرشام چرائی پر سے لاتے ہو اور جب سویرے ہی سویرے چرائی پر لے جاتے ہو، تو ان کی وجہ سے تمہاری رونق بھی ہے

۷اور جن شہروں تک بغیر بڑی جان کھپی کے پہنچ نہ سکتے تھے وہاں تک یہ چوپائے تمہارے بوجھ بھی اٹھائے لیے پھرتے ہیں اس میں شک نہیں کہ تمہارا پروردگار بڑا شفیق مہربان ہے۔

۸اور اسی نے گھوڑوں خچروں اور گدھوں کو (پیدا کیا) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (اس میں ) زینت (بھی) ہے (اس کے علاوہ) اور چیزیں بھی پیدا کرے گا جن کو تم نہیں جانتے ہو،

۹اور (خشک و تر میں ) سیدھی راہ (کی ہدایت) تو خدا ہی کے ذمّہ ہے اور بعض رستے ٹیڑھے ہیں اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا۔

۱۰ وہ وہی (خدا ہے ) جس نے آسمان سے پانی برسایا جس میں سے تم پیتے ہو اور اس سے درخت شاداب ہوتے ہیں جن میں تم (اپنے مویشیوں کو) چراتے ہو۔

۱۱اسی پانی سے تمہارے واسطے کھیتی اور زیتون اور خرمے اور انگور اگاتا ہے اور ہر طرح کے پھل (پیدا کرتا ہے ) اس میں شک نہیں کہ اس میں غور کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔

۱۲اسی نے تمہارے واسطے رات کو اور دن کو اور سورج اور چاند کو(تمہارا) تابع بنا دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم سے (تمہارے ) فرمانبردار ہیں کچھ شک نہیں کہ اس میں سمجھ دار لوگوں کے واسطے یقیناً (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔

۱۳اور جو طرح طرح کے رنگوں کی چیزیں اس نے زمین میں تمہارے نفع کے واسطے پیدا کیں کچھ شک نہیں کہ اس میں بھی عبرت و نصیحت حاصل کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔

۱۴اور وہی وہ خدا ہے جس نے دریا، سمندر کو (بھی تمہارے ) قبضہ میں کر دیا تاکہ تم اس میں سے (مچھلیوں کا) تازہ تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے زیور (کی چیزیں موتی وغیرہ) نکالو جن کو تم پہنا کرتے ہو اور تو کشتیوں کو دیکھتا ہے کہ (آمدورفت میں ) دریا میں (پانی کو) چیرتی پھاڑتی آتی جاتی ہیں اور (دریا کو تمہارے تابع) اس لیے کر دیا کہ تم لوگ اس کے فضل (نفع و تجارت) کی تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو

۱۵اور اسی نے زمین پر (بھاری بھاری) پہاڑوں کو گاڑھ دیا تاکہ (ایسا نہ ہو) زمین تمہیں لے کر کہیں جھک جائے (اور تمہارے قدم نہ جمیں ) اور (اسی نے ) ندیاں اور راستے بنائے تاکہ (تم اپنی اپنی) منزل مقصود تک پہنچو۔

۱۶(اس کے علاوہ رستوں میں ) اور بہت سی نشانیاں (پیدا کی) ہیں اور بہت سے لوگ ستارہ سے بھی راہ معلوم کرتے ہیں

۱۷تو کیا جو (خدا اتنی) مخلوقات کو پیدا کرتا ہے وہ ان (بتوں ) کے برابر ہو سکتا ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے تو کیا تم (اتنی بات بھی) نہیں سمجھتے۔

۱۸اور اگر تم خدا کی نعمتوں کو گننا چاہو تو (اس کثرت سے ہیں کہ) تم نہیں گن سکتے ہو۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (کہ تمہاری نافرمانی پر بھی نعمت دیتا ہے )

۱۹اور جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو کچھ ظاہر بظاہر کرتے ہو (غرض) خدا (سب کچھ) جانتا ہے۔

۲۰اور (یہ کفّار) خدا کو چھوڑ کر جن لوگوں کو (حاجت کے وقت) پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے (بلکہ) وہ خود (دوسروں کے ) بنائے ہوئے

۲۱ مردے (بے جان) ہیں۔ اور انہیں اتنی بھی خبر نہیں کہ (کب قیامت ہو گی، اور مردے ) کب اٹھائے جائیں گے (پھر کیا کام آئیں گے )

۲۲تمہارا پروردگار یکتا خدا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ہی (اس وضع کے ہیں کہ ہر بات کا) انکار کرتے ہیں اور وہ بڑے مغرور ہیں۔

۲۳یہ لوگ جو کچھ چھپا کر کرتے ہیں اور جو کچھ ظاہر بظاہر کرتے ہیں (غرض سب کچھ) خدا ضرور جانتا ہے۔ اور وہ ہرگز تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

۲۴اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ (اجی کچھ بھی نہیں۔ بس) اگلوں کے قصّے ہیں

۲۵(ان کو بکنے دو) تاکہ قیامت کے دن اپنے (گناہوں کے ) پورے بوجھ اور جن لوگوں کو انہوں نے بے سمجھے بوجھے گمراہ کیا ہے ان کے (گناہوں کے ) بوجھ بھی ان ہی کو اٹھانے پڑیں گے ذرا دیکھو تو کہ یہ لوگ کیسا بُرا بوجھ اپنے اوپر لادے چلے جا رہے ہیں۔

۲۶بے شک جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی مکاریاں کی تھیں تو خدا (کا حکم) ان (کے خیالات) کی عمارت کی جڑ بنیاد کی طرف سے آ پڑا (بس پھر کیا تھا) (اس خیالی عمارت کی) چھت ان پر ان کے اوپر سے دھم سے گر پڑی (اور سب خیالات ہوا ہو گئے ) اور جدھر سے ان پر عذاب آ پہنچا اس کی ان کو خبر تک نہ تھی۔

۲۷پھر (اسی پر اکتفا نہیں ) اس کے بعد قیامت کے دن خدا ان کو رسوا کرے گا اور فرمائے گا کہ (اب بتاؤ) جس کو تم نے میرا شریک بنا رکھا تھا اور جن کے بارے میں تم (ایمانداروں سے ) جھگڑتے تھے کہاں ہیں (وہ تو کچھ جواب دیں گے نہیں مگر) جن لوگوں کو (خدا کی طرف سے ) علم دیا گیا ہے کہیں گے کہ آج کے دن رسوائی اور خرابی (سب کچھ) کافروں ہی پر ہے۔

۲۸یہ وہ لوگ ہیں کہ جب فرشتے ان کی روح قبض کرنے لگتے ہیں (اور) یہ لوگ (کفر کر کے ) آپ اپنے اوپر ستم ڈھاتے رہے توا طاعت پر آمادہ ہوتے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو (اپنے خیال میں ) کوئی بُرائی نہیں کرتے تھے (تو فرشتے کہتے ہیں ) ہاں جو کچھ تمہاری کرتوتیں تھیں خدا اس سے خوب اچھی طرح واقف ہے۔

۲۹(اچھا تو لو) جہنم کے دروازوں میں جا داخل ہو اور اس میں ہمیشہ رہو گے۔ غرض تکبّر کرنے والوں کا بھی کیا بُرا ٹھکانا ہے۔

۳۰اور جب پرہیزگاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے تو بول اُٹھتے ہیں کہ سب اچھے سے اچھا۔ جن لوگوں نے نیکی کی ان کے لیے اس دنیا میں (بھی) بھلائی (ہی بھلائی) ہے۔ اور آخرت کا گھر تو (ان کے لیے اچھا ہی ہے اور پرہیزگاروں کا بھی (آخرت کا) گھر کیسا عمدہ ہے۔

۳۱وہ سدا بہار (ہرے بھرے ) باغ ہیں جن میں (بے تکلف ) جا پہنچیں گے ان کے نیچے (نیچے ) نہریں جاری ہوں گی۔ اور یہ لوگ جو چاہیں گے ان کے لیے مہیّا ہے۔ یوں خدا پرہیزگاروں کو (ان کے کیے ) کی جزا عطا فرماتا ہے۔

۳۲یہ وہ لوگ ہیں جن کی روحیں فرشتے اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (نجاستِ کفر سے ) پاک و پاکیزہ ہوتے ہیں تو فرشتے ان سے (نہایت تپاک سے ) کہتے ہیں سلام علیکم جو (نیکیاں دنیا میں ) تم کرتے تھے اس کے صلہ میں جنت میں (بے تکلف) چلے جاؤ

۳۳(اے رسولؐ) کیا یہ (اہل مکّہ) اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے (قبض روح کو) آ ہی جائیں یا (ان کے ہلاک کرنے کو)تمہارے پروردگار کا عذاب ہی آ پہنچے جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں وہ ایسی باتیں کر چکے ہیں اور خدا نے ان پر (ذرا بھی) ظلم نہیں کیا بلکہ وہ لوگ خود (کفر کی وجہ سے ) اپنے اوپر آپ ظلم کرتے رہے

۳۴پھر جو جو کرتوتیں ان کی تھیں ان کی سزا میں بُرے نتیجے ان کو ملے اور جس (عذاب) کو وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے اس نے انہیں (چاروں طرف سے ) آ گھیرا۔

۳۵اور مشرکین کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم ہی اس کے سوا کسی اور چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم بغیر اس (کی مرضی) کے کسی چیز کو حرام کر بیٹھتے۔ جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں وہ بھی ایسے (حیلہ حوالہ کی باتیں ) کر چکے ہیں تو (کیا کریں ) پیغمبروں پر تو اس کے سوا کہ احکام کو صاف صاف پہنچا دیں اور کچھ بھی نہیں۔

۳۶اور ہم نے تو ہر امت میں ایک (نہ ایک) رسول ضرور بھیجا (کہ وہ لوگوں سے کہے ) کہ خدا کی عبادت کرو اور بتوں (کی عبادت) سے بچے رہو غرض ان میں سے بعض کی تو خدا نے ہدایت کی، اور بعض (کے سر) پر گمراہی سوار ہو گئی تو ذرا تم لوگ رُوئے زمین پر چل پھر کر دیکھو تو کہ (پیغمبران خدا کے ) جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔

۳۷(اے رسولؐ) اگر تم کو ان لوگوں کے راہ راست پر لانے کا ہو کاہے (تو بے فائدہ ہے کیونکہ) خدا ہرگز اس شخص کی ہدایت نہیں کرے گا جس کو (نا اہل ہونے کی وجہ سے ) گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور نہ ان کا کوئی مددگار ہے۔ (کہ عذاب سے بچائے )

۳۸اور یہ کفّار خدا کی جتنی قسمیں ان کے امکان میں ہیں کھا کر کہتے ہیں کہ جو شخص مر جاتا ہے پھر خدا اس کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔ (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ) ہاں ! (ضرور ایسا کرے گا اس پر اپنے وعدہ (کی وفا) لازمی و ضرور ہے مگر بہتیرے آدمی نہیں جانتے ہیں

۳۹کہ (دوبارہ زندہ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ) جن باتوں پر یہ لوگ جھگڑا کرتے ہیں انہیں ان کے سامنے صاف واضح کر دے گا اور تاکہ کفّار یہ سمجھ لیں کہ یہ لوگ (دنیا میں ) جھوٹے تھے۔

۴۰ہم جب کسی چیز (کے پیدا کرنے ) کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارا کہنا اس کے بارے میں اتنا ہی ہوتا ہے کہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ ہو جا بس فوراً ہو جاتی ہے۔ (تو پھر مردوں کا جلانا بھی کوئی بات ہے۔)

۴۱اور جن لوگوں نے (کفّار کے ) ظلم پر ظلم سہنے کے بعد خدا کی خوشی کے لیے (گھر بار چھوڑا) ہجرت کی ہم ان کو ضرور دنیا میں بھی اچھی جگہ بٹھائیں گے اور آخرت کی جزا تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔

۴۲کاش یہ لوگ جنہوں نے (خدا کی راہ میں سختیوں پر) صبر کیا اور اپنے پروردگار ہی پر بھروسا رکھتے ہیں (آخرت کا ثواب) جانتے ہوتے۔

۴۳اور (اے رسولؐ) تم سے پہلے ہم آدمیوں ہی کو پیغمبر بنا بنا کر بھیجا کیے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے تو (تم اہل مکّہ سے کہو کہ) اگر تم خود نہیں جانتے ہو تو ابل ذکر سے پوچھو

۴۴(اور ان پیغمبروں کو بھیجا بھی تو) روشن دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ۔ اور تمہارے پاس قرآن نازل کیا ہے تاکہ جو احکام لوگوں کے لیے نازل کیے گئے ہیں تم ان سے صاف صاف بیان کر دو تاکہ وہ لوگ خود سے غور و فکر کریں۔

۴۵تو کیا جو لوگ بڑی بڑی مکاریاں (شرک وغیرہ) کرتے تھے ان کو اس بات کا اطمینان ہو گیا ہے (اور مطلق خوف نہیں ) کہ خدا انہیں زمین میں دھنسا دے یا ایسی طرف سے ان پر عذاب آ پہنچے کہ اس کی ان کو خبر بھی نہ ہو

۴۶یا ان کے چلتے پھرتے (خدا کا عذاب) انہیں گرفتار کر لے تو وہ لوگ اسے زیر نہیں کرسکتے

۴۷یا وہ عذاب سے ڈرتے ہوں تو (اسی حالت میں ) دھر پکڑ کرے اس میں تو شک نہیں کہ تمہارا پروردگار بڑا شفیق رحم والا ہے۔

۴۸کیا ان لوگوں نے خدا کی مخلوقات میں سے کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس کا سایہ کبھی داہنی طرف اور کبھی بائیں طرف پلٹا کرتا ہے کہ (گویا) خدا کے سامنے سربسجود ہیں اور سب اطاعت کا اظہار کرتے ہیں۔

۴۹اور جتنی چیزیں (چاند سورج وغیرہ) آسمانوں میں ہیں اور جتنے جانور زمین میں ہیں سب خدا ہی کے آگے سربسجود ہیں اور فرشتے تو (ہیں ہی) اور وہ حکم خدا سے سرکشی نہیں کرتے۔

۵۰اور اپنے پروردگار سے جو ان سے (کہیں ) برتر و اعلیٰ ہے ڈرتے ہیں اور جو حکم دیا جاتا ہے فوراً بجا لاتے ہیں

۵۱اور خدا نے فرمایا تھا کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود تو بس وہی یکتا خدا ہے۔ تو صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔

۵۲اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض) سب کچھ اسی کا ہے اور خالص فرمانبرداری ہمیشہ اسی کی لازم ہے تو کیا تم لوگ خدا کے سوا کسی اور سے بھی ڈرتے ہو۔

۵۳اور جتنی نعمتیں تمہارے ساتھ ہیں (سب) خدا ہی کی طرف سے ہیں پھر جب تم کو تکلیف چھو بھی گئی تو تم اسی کے آگے فریاد کرنے لگتے ہو۔

۵۴پھر جب وہ تم سے تکلیف کو دور کر دیتا ہے تو بس فوراً تم میں سے کچھ لوگ اپنے پروردگار کا شریک ٹھہراتے ہیں

۵۵تاکہ جو (جو نعمتیں ) ہم نے ان کو دی ہیں ان کی ناشکری کریں۔ تو خیر دنیا میں چند روز چین کر لو۔ پھر تو عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

۵۶اور ہم نے جو روزی ان کو دی ہے اس میں سے یہ لوگ ان (بتوں کا) حصہ بھی قرار دیتے ہیں جن کی حقیقت تک نہیں جانتے۔ تو خدا کی (اپنی) قسم جو افتر پردازیاں تم کرتے تھے (قیامت میں ) ان کی باز پرس تم سے ضرور کی جائے گی۔

۵۷اور یہ لوگ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں (سبحان اللہ) وہ اس سے پاک و پاکیزہ ہے۔ اور اپنے لیے (بیٹے ) جو مرغوب (دلپسند) ہیں۔

۵۸اور جب ان میں سے کسی ایک کو لڑکی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جائے تو رنج کے مارے اس کا منہ کالا ہو جاتا ہے۔ اور وہ زہر کا سا گھونٹ کر رہ جاتا ہے۔

۵۹(بیٹی کی) عار سے جس کی اس کو خوشخبری دی گئی ہے، اپنی قوم کے لوگوں سے چھپا پھرتا ہے (اور سوچتا رہتا ہے ) کہ آیا اس کو ذلت اٹھا کے زندہ رہنے دے یا (زندہ ہی) اس کو زمین میں گاڑ دے دیکھو تو یہ لوگ کس قدر برا حکم لگاتے ہیں

۶۰بُری بُری باتیں تو انہی لوگوں کے لیے زیادہ مناسب ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے۔ اور خدا کی شان کے لائق تو اعلیٰ صفتیں ہیں (الوہیت، ربوبیت) اور وہی تو غالب( اور ) حکیم ہے۔

۶۱اور اگر (کہیں ) خدا اپنے بندوں کی نافرمانیوں کی گرفت کرتا تو روئے زمین پر کسی ایک جاندار کو باقی نہ چھوڑتا۔ مگر وہ تو ایک مقرر وقت تک ان سب کو مہلت دیتا ہے پھر جب ان کا(وہ) وقت آ پہنچے گا تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

۶۲اور یہ لوگ خود جن باتوں کو پسند نہیں کرتے ان کو خدا کے واسطے قرار دیتے ہیں اور اپنی ہی زبان سے یہ جھوٹے دعوے بھی کرتے ہیں کہ (آخرت میں بھی) انہی کے لیے بھلائی ہے (بھلائی تو نہیں مگر) ہاں ان کے لیے جہنم کی آگ ضرور ہے اور یہی لوگ سب سے پہلے (اس میں ) جھونکے جائیں گے۔

۶۳(اے رسولؐ) خدا کی (اپنی) قسم تم سے پہلی امتوں کے پاس بہتیرے پیغمبر بھیجے تو شیطان نے ان کی کارستانیوں کو عمدہ کر دکھایا۔ تو وہی (شیطان) آج بھی ان لوگوں کا سرپرست بنا ہوا ہے۔ حالانکہ ان کے واسطے دردناک عذاب ہے۔

۶۴اور ہم نے تم پر کتاب (قرآن) تو اسی لیے نازل کی تاکہ جن باتوں میں یہ لوگ باہم جھگڑا کیے ہیں ان کو تم صاف صاف بیان کرو اور (علاوہ ازیں یہ کتاب) ایمان داروں کے لیے تو (ازسرتاپا) ہدایت اور رحمت ہے۔

۶۵اور خدا ہی نے آسمان سے پانی برسایا تو اس کے ذریعے سے زمین کو مردہ (پڑی) ہونے کے بعد زندہ (شاداب) کیا۔ کچھ شک نہیں کہ اس میں اُن لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں (قدرتِ خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔

۶۶اور اس میں شک نہیں کہ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت (کی بات) ہے کہ ان کے پیٹ میں (خاک بلا) گوبر اور خون (جو کچھ بھرا ہے ) اس میں سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔

۶۷اور اسی طرح ہم تم کو خرمے اور انگور کے پھل سے (شیرہ پلاتے ہیں ) جس کی (کبھی تو) تم شراب بنا لیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سر کہ وغیرہ) اس میں تو شک نہیں کہ اس میں بھی سمجھ دار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بڑی نشانی ہے

۶۸اور (اے رسولؐ) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچی ٹٹیاں (اور مکانات پاٹ کر) بناتے ہیں اس میں اپنے چھتے بنا۔

۶۹پھر ہر طرح کے پھلوں (کے بور) سے (ان کا عرق) چوس پھر اپنے پروردگار کی راہوں میں تابعداری کے ساتھ چلی جا۔ان( مکھیوں ) کے پیٹ سے ایک چیز پینے کی نکلتی ہے (شہد) جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں کی (بیماریوں کی) شفا (بھی ہے ) اس میں شک نہیں کہ اس میں غور فکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔

۷۰اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو (دنیا سے ) اٹھا لے گا اور تم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ذلیل زندگی (سخت بڑھاپے ) کی طرف لوٹا دیئے جاتے ہیں کہ (بہت کچھ) جاننے کے بعد (ایسے سڑیلے ہو گئے کہ) کچھ نہیں جان سکتے۔ بے شک خدا (سب کچھ) جانتا اور (ہر طرح کی) قدرت رکھتا ہے۔

۷۱اور خدا ہی نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (و دولت) میں ترجیح دی ہے۔ پھر جن لوگوں کو روزی زیادہ دی گئی ہے وہ لوگ اپنی روزی میں سے ان لوگوں کو جن پر ان کی دسترس ہے (لونڈی غلام وغیرہ) دینے والے نہیں (حالانکہ) اس مال میں تو سب کے سب (مالک غلام وغیرہ) برابر ہیں تو کیا یہ لوگ خدا کی نعمت کے منکر ہیں۔

۷۲اور خدا ہی نے تمہارے لیے تمہاری بیویاں تم ہی میں سے (تمہاری سی آدمی) بنائیں اور اسی نے تمہارے واسطے تمہاری بیویوں سے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمہیں پاک و پاکیزہ روزی کھانے کو دی۔ تو کیا یہ لوگ بالکل باطل (شیطان بت وغیرہ) ہی پر ایمان رکھتے ہیں اور خدا کی نعمت (وحدانیت وغیرہ) سے انکار کرتے ہیں۔

۷۳اور خدا کو چھوڑ کر ایسی چیز کی پرستش کرتے ہیں جوآسمانوں اور زمین میں سے ان کو رزق دینے کا کچھ بھی نہ اختیار رکھتے ہیں اور نہ قدرت حاصل کرسکتے ہیں۔

۷۴تو تم (دنیا کے لوگوں پر قیاس کر کے ) خدا کی مثالیں نہ گھڑو بے شک خدا (سب کچھ) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

۷۵ ایک مثل خدا نے بیان فرمائی ہے کہ ایک غلام ہے جو دوسرے کی ملک ہے (اور) کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا اور ایک شخص وہ ہے کہ ہم نے اسے اپنی بارگاہ سے اچھی (خاصی) روزی دے رکھی ہے تو وہ اس میں سے چھپا کے اور دکھا کے (غرض ہر طرح خدا کی راہ میں ) خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں (ہرگز نہیں ) الحمد للہ (کہ وہ بھی اس کے مقر ہیں ) مگر ان کے بہتیرے (اتنا بھی) نہیں جانتے۔

۷۶اور خدا (ایک دوسری) مثل بیان فرماتا ہے دو آدمی ہیں کہ ایک ان میں سے بالکل گونگا اس پر غلام جو کچھ بھی (بات وغیرہ کی) قدرت نہیں رکھتا اور (اس وجہ سے ) وہ اپنے مالک کو دوبھر ہو رہا ہے کہ اس کو جدھر بھیجتا ہے (خیر سے ) کبھی بھلائی نہیں لاتا۔ کیا ایسا غلام اور وہ شخص جو (لوگوں کو) عدل (میانہ روی) کا حکم کرتا ہے اور وہ خود بھی ٹھیک سیدھی راہ پر قائم ہے (دونوں ) برابر ہو سکتے ہیں (ہرگز نہیں )

۷۷اور سارے آسمان و زمین کی غیبت کی باتیں خدا ہی کے لیے مخصوص ہیں اور قیامت کا واقع ہونا تو ایسا ہے جیسے پلک کا جھپکنا بلکہ اس سے بھی جلد تر بے شک خدا ہر چیز پر قدرت کاملہ رکھتا ہے۔

۷۸اور خدا ہی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے نکالا (جب) تم بالکل ناسمجھ تھے اور تم کو کان دیئے اور آنکھیں (عطا کیں ) دل (عنایت کیے ) تاکہ تم شکر کرو۔

۷۹کیا ان لوگوں نے پرندوں کی طرف غور نہیں کیا، جو آسمانوں کے نیچے ہوا میں گھرے ہوئے (اڑتے رہتے ) ہیں۔ان کو تو بس خدا ہی (گرنے سے ) روکتا ہے۔ بے شک اس میں بھی (قدرت خدا کی) ایمان داروں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔

۸۰اور خدا ہی نے تمہارے گھروں کو تمہارا ٹھکانا قرار دیا ہے اور اسی نے تمہارے واسطے چوپایوں کی کھالوں سے تمہارے لیے (ہلکے پھلکے ) ڈیرے (خیمے ) بنائے جنہیں تم سبک پا کر اپنے سفر و حضر میں کام میں لاتے ہو اور ان (چار پایوں ) کی اُون اور روؤں اور بالوں سے ایک وقت خاص (قیامت) تک کے لیے تمہارے بہت سے اسباب اور کارآمد چیزیں (بنائیں )

۸۱اور خدا ہی نے تمہارے آرام کے لیے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے اسی نے تمہارے (چھپکے بیٹھنے کے ) واسطے پہاڑوں میں گھروندے (غار وغیرہ بنائے ) اور اسی نے تمہارے لیے کپڑے بنائے جو تمہیں سردی) گرمی سے محفوظ رکھیں اور (لوہے کے ) کُرتے جو تمہیں ہتھیاروں کی زد سے بچائیں یوں خدا اپنی نعمت تم پر پوری کرتا ہے تاکہ اس کی فرمانبرداری کرو۔

۸۲اس پر بھی اگر یہ لوگ (ایمان سے ) منہ پھیریں تو تمہارا فرض صرف (احکام کا) صاف صاف پہنچا دینا ہے (بس)۔

۸۳یہ لوگ خدا کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں پھر (دیدۂ دانستہ) ان سے مُکر جاتے ہیں اور ان میں کے بہتیرے ناشکرے ہیں۔

۸۴اور جس دن ہم ہر ایک اُمّت میں سے (اس کے پیغمبر کو) گواہ (بنا کر) (قبروں سے ) اٹھا کر کھڑا کریں گے پھر تو کافروں کو نہ (بات کرنے ) کی اجازت دی جائے گی اور نہ ان کا عذر ہی سنا جائے گا۔

۸۵اور جن لوگوں نے (دنیا میں ) شرارتیں کی تھیں جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو نہ ان کے عذاب ہی میں تخفیف کی جائے گی اور نہ ان کو مہلت ہی دی جائے گی۔

۸۶اور جن لوگوں نے (دنیا میں خدا کا دوسرے کو) شریک ٹھہرایا تھا جب اپنے (ان) شریکوں کو (قیامت میں ) دیکھیں گے تو بول اٹھیں گے کہ اے ہمارے پروردگار یہی تو ہمارے وہ شریک ہیں جنہیں ہم (مصیبت کے وقت) تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے تو وہ شریک (الٹ کے ) انہی کی طرف بات کو پھینک ماریں گے کہ تم تو بڑے جھوٹے ہو

۸۷اور اُس دن خدا کے سامنے سر نگوں ہو جائیں گے اور جو افترا پردازیاں (دنیا میں ) کیا کرتے تھے ان سے غائب (غلّا) ہو جائیں گی۔

۸۸جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکا ان کی مفسدہ پردازیوں کی پاداش میں ان کے لیے ہم عذاب پر عذاب بڑھاتے جائیں گے۔

۸۹اور (وہ دن یاد کرو) جس دن ہم ہر ایک گروہ میں سے انہی میں کا ایک گواہ ان کے مقابل لا کھڑا کریں گے اور (اے رسولؐ) تم کو ان لوگوں پر (ان کے ) مقابل گواہ بنا کر لا کھڑا کریں گے۔ اور ہم نے تم پر کتاب (قرآن) نازل کی جس میں ہر چیز کا (شافی) بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے (سرتاپا) ہدایت اور رحمت اور خوش خبری ہے۔

۹۰اس میں شک نہیں کہ خدا انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور قرابت داروں کو (کچھ) دینے کا حکم کرتا ہے اور بدکاری اور ناشائستہ حرکتوں اور سرکشی کرنے کو منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

۹۱اور جب تم لوگ باہم قول و قرار کر لیا کرو تو خدا کے عہد و پیمان کو پورا کرو اور قسموں کو ان کے پکا ہو جانے کے بعد نہ توڑا کرو۔ حالانکہ تم تو خدا کو اپنا ضامن بنا چکے ہو۔ جو کچھ بھی تم کرتے ہو خدا اسے ضرور جانتا ہے۔

۹۲اور تم لوگ (قسموں کے توڑنے میں )اس عورت کے ایسے نہ ہو جو اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کے توڑ ڈالے کہ اپنے عہدوں کو آپس میں اس بات کی مکاری کا ذریعہ بنانے لگو کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے (خواہ مخواہ) بڑھ جائے اس سے بس خدا تم کو آزماتا ہے اور جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے قیامت کے دن خدا تم سے صاف صاف بیان کر دے گا۔

۹۳اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک ہی (قسم کی) گروہ بنا دیتا مگر وہ تو جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور جو کچھ تم لوگ (دنیا میں ) کیا کرتے تھے اس کی باز پرس تم سے ضرور کی جائے گی

۹۴اور تم اپنی قسموں کو آپس کے فساد کا سبب نہ بناؤ تاکہ (لوگوں کے ) قدم جمنے کے بعد (اسلام سے ) اکھڑ جائیں۔ اور (پھر آخر کار قیامت میں ) تم ہی لوگوں کو خدا کی راہ سے روکنے کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھنا پڑے۔ اور تمہارے واسطے بڑا سخت عذاب ہو۔

۹۵اور خدا کے عہد و پیمان کے بدلے تھوڑی قیمت (دنیوی نفع) نہ لو۔ اگر تم جانتے (بوجھتے ) ہو تو (سمجھ لو کہ) جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے۔

۹۶(کیونکہ مال دنیا سے ) جو کچھ تمہارے پاس ہے (ایک نہ ایک دن) ختم ہو جائے گا اور جو (اجر) خدا کے پاس ہے وہ ہمیشہ باقی رہے گا اور جن لوگوں نے دنیا میں صبر کیا تھا ان کو (قیامت میں ) ان کے کاموں کا ہم اچھے سے اچھا اجر و ثواب عطا فرمائیں گے۔

۹۷مرد ہو یا عورت جو شخص نیک کام کرے گا اور وہ ایماندار بھی ہو ہم اسے (دنیا میں بھی) پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے، اور (آخرت میں بھی) جو کچھ وہ کرتے تھے اس کا اچھے سے اچھا اجر و ثواب عطا فرمائیں گے۔

۹۸اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود (کے وسوسوں ) سے خدا کی پناہ طلب کر لیا کرو،

۹۹اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایماندار ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں ان پر اس کا قابو نہیں چلتا۔

۱۰۰اس کا قابو چلتا ہے تو بس ان ہی لوگوں پر جو اس کو دوست بناتے ہیں اور جو لوگ اس کو (خدا کا) شریک بناتے ہیں۔

۱۰۱اور (اے رسولؐ) ہم جب ایک آیت کے بدلے دوسری آیت نازل کرتے ہیں تو حالانکہ خدا جو چیز نازل کرتا ہے اس (کی مصلحتوں ) سے خوب واقف ہے (مگر یہ لوگ (تم کو) کہنے لگتے ہیں کہ تم تو بس بالکل مفتری ہو بلکہ خود ان میں کے بہتیرے (مصالح کو) نہیں جانتے۔

۱۰۲(اے رسول) تم (صاف) کہہ دو کہ اس قرآن کو تو روح القدس (جبریلؑ) نے تمہارے پروردگار کی طرف سے حق حق نازل کیا ہے تاکہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کو ثابت قدم رکھے اور مسلمانوں کے لیے تو (ازسرتاپا) ہدایت اور خوشخبری ہے۔

۱۰۳اور (اے رسولؐ) ہم تحقیقاً جانتے ہیں کہ یہ کفّار (آپ کی نسبت) کہا کرتے ہیں کہ ان کو (آپ کو) کوئی آدمی قرآن سکھا دیا کرتا ہے۔ (حالانکہ بالکل غلط ہے کیونکہ) جس شخص کی طرف یہ لوگ نسبت دیتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ تو صاف صاف عربی زبان ہے۔

۱۰۴اس میں تو شک ہی نہیں کہ جو لوگ خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے خدا بھی ان کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

۱۰۵جھوٹ بہتان تو بس وہی لوگ باندھا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور (حقیقت امر یہ ہے کہ) یہی لوگ جھوٹے ہیں۔

۱۰۶اس شخص کے سوا جو (کلمۂ کفر پر ) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف مطمئن ہو جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرے بلکہ خوب سینہ کشادہ (جی کھول کر)کفر کرے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور ان کے لیے بڑا سخت عذاب ہے۔

۱۰۷یہ اس وجہ سے کہ ان لوگوں نے دنیا کی چند روزہ زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اور اس وجہ سے کہ خدا کافروں کو ہرگز منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا۔

۱۰۸یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر خدا نے علامت مقرر کر دی ہے۔ (کہ ایمان نہ لائیں گے ) اور یہی لوگ (پلے سرے کے ) بے خبر ہیں۔

۱۰۹کچھ شک نہیں کہ یہی لوگ آخرت میں بھی یقیناً گھاٹا اٹھانے والے ہیں۔

۱۱۰پھر اس میں شک نہیں کہ تمہارا پروردگار ان لوگوں کو جنہوں نے مصیبت میں مبتلا ہونے کے بعد گھر بار چھوڑے پھر (خدا کی راہ میں ) جہاد کیے اور (تکلیفوں پر) صبر کیا اس میں شک نہیں کہ تمہارا پروردگار ان سب باتوں کے بعد البتہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۱۱اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں جھگڑنے کو آ موجود ہو گا اور ہر شخص کو جو کچھ بھی اس نے کیا تھا اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ کیا جائے گا۔

۱۱۲خدا نے ایک گاؤں کی مثل بیان فرمائی جس کے رہنے والے ہر طرح کے چین و اطمینان میں تھے ہر طرف سے با فراغت ان کی روزی ان کے پاس چلی آتی تھی پھر ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے بھی ان کے کرتوتوں کی بدولت ان کو مزا چکھا دیا کہ بھوک اور خوف کو اوڑھنا (بچھونا) بنا دیا۔

۱۱۳اور انہی لوگوں میں کا رسولؐ بھی ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا پھر عذاب (خدا) نے انہیں لے ڈالا اور وہ ظالم تھے ہی۔

۱۱۴تو خدا نے جو کچھ تمہیں حلال طیّب (طاہر) روزی دی ہے اس کو (شوق سے ) کھاؤ۔ اور اگر تم خدا ہی کی پرستش (کا دعویٰ) کرتے ہو تو اس کی نعمت کا شکر ادا کیا کرو۔

۱۱۵تم پر اس نے مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جس پر (ذبح کے وقت)خدا کے سوا اور کا نام لیا جائے حرام کیا ہے۔ پھر جو شخص (مارے بھوک کے ) مجبور ہو اور نہ خدا سے سرتابی کرنے والا ہو اور نہ حد (ضرورت) سے بڑھنے والا ہو (اور حرام کھائے ) تو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۱۶اور جھوٹ موٹ جو کچھ تمہاری زبان پر آئے (بے سمجھے بوجھے ) نہ کہہ بیٹھا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ اس کی بدولت خدا پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو۔ اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔

۱۱۷(دنیا میں ) فائدہ تو ذرا سا ہے اور (آخرت میں ) اُن کی لیے دردناک عذاب ہے۔

۱۱۸اور یہودیوں پر ہم نے وہ چیزیں حرام کر دی تھیں جو تم سے پہلے بیان کر چکے ہیں اور ہم نے تو (اس کی وجہ سے ) ان پر کچھ ظلم نہیں کیا مگر وہ لوگ خود اپنے اوپر ستم توڑتے رہے

۱۱۹پھر اس میں شک نہیں کہ جو لوگ نادانستہ گناہ کر بیٹھے۔ اس کے بعد (صدق دل سے ) توبہ کر لی اور اپنے کو درست کر لیا تو (اے رسولؐ) اس میں شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اس کے بعد بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۲۰اس میں شک ہی نہیں کہ ابراہیمؑ (لوگوں کے ) پیشوا، خدا کے فرمانبردار بندے اور باطل سے کترا کے چلنے والے تھے اور مشرکین سے (ہرگز) نہ تھے۔

۱۲۱اس کی نعمتوں کے شکر گزار تھے۔ ان کو خدا نے منتخب کر لیا تھا اور (اپنی) سیدھی راہ کی انہیں ہدایت کی تھی۔

۱۲۲اور ہم نے انہیں دنیا میں بھی (ہر طرح کی) بہتری عطا کی تھی اور وہ آخرت میں بھی یقیناً نیکوکاروں سے ہوں گے۔

۱۲۳(اے رسولؐ) پھر ہم نے تمہارے پاس وحی بھیجی کہ ابراہیمؑ کے طریقہ کی پیروی کرو جو باطل سے کترا کے چلتے تھے اور مشرکین سے نہ تھے۔

۱۲۴(اے رسولؐ) ہفتہ (کے دن) کی تعظیم تو بس ان ہی لوگوں (یہود و نصاریٰ) پر لازم کی گئی تھی جو اس کے بارے میں اختلاف کرتے تھے۔اور کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار ان کے درمیان جس امر میں وہ جھگڑا کرتے تھے قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا۔

۱۲۵(اے رسولؐ) تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی راہ پر حکمت اور اچھی اچھی نصیحت کے ذریعے سے بلاؤ اور بحث و مباحثہ کرو بھی تو اس طریقہ سے جو (لوگوں کے نزدیک) سب سے اچھا ہو۔ اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا کی راہ سے بھٹک گئے ان کو تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے اور ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی خوب واقف ہے۔

۱۲۶اور اگر (مخالفین کے ساتھ) سختی کرو بھی تو ویسی ہی سختی کرو جیسی سختی ان لوگوں نے تم پر کی تھی اور اگر تم صبر کرو تو صبر کرنے والوں کے واسطے بہتر ہے۔

۱۲۷اور (اے رسولؐ) تم صبر ہی کرو اور خدا (کی مدد)کے بغیر تو تم صبر کر بھی نہیں سکتے اور ان مخالفین کے حال پر تم رنج نہ کرو اور جو مکاریاں یہ لوگ کرتے ہیں اس سے تم تنگ دل نہ ہو۔

۱۲۸اس میں شک نہیں کہ جو لوگ پرہیزگار ہیں اور جو نیکوکار ہیں خدا ان کا ساتھی ہے۔

٭٭٭

تشکر: غلام رسول فیضی جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں۔

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید