FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

صلیبِ شعور

 

               شبیر ناقد

 

انتساب

دھرتی ماتا کے نام

لہو دے کے دھرتی کو پالا ہے ہم نے

بڑی مشکلوں سے سنبھالا ہے ہم نے

دل و جان سے ہم کو پیاری ہے دھرتی

بڑی محنتوں سے سنواری ہے دھرتی

شب و روز ہم اس کی رکشا کریں گے

ہوا جس قدر اس کی سیوا کریں گے

کبھی آنچ اس پر نہ ہم آنے دیں گے

اسی کیلئے خون اپنے بہیں گے

یہی روح اپنی یہی جان اپنی

زمانے میں ہے اب یہ پہچان اپنی

پیش لفظ

حضرت انسان پر جہاں قدرت نے اور بہت سی نوازشات فرمائی ہیں وہاں ایک کرم یہ بھی کیا کہ اُسے بے پناہ ذہنی طاقت سے بہرہ ور فرمایا اور پھر قوتِ ناطقہ سے بھی متصف کر دیا انسان کو ایسا وِجدان عطا کیا جو اُس میں موزونیت طبع کا ضامن بنا یہی موزونیتِ قوتِ متخیّلہ کی مدد سے تخلیق شعر کا باعث بنی بعض لوگوں میں پیدائشی طور پر شعریت موجود ہوتی ہے۔ مگر اُس کی تربیت و نگہداشت نہیں ہو پاتی جس کے باعث وہ خام و نا تمام رہ جاتی ہے اور بعض خوش نصیب لوگوں کو جو ہر شناس اُستاد مل جاتے ہیں جن کی راہنمائی میں اُن کا فن خوب جلا پاتا ہے۔

شبیر ناقد کو اگر فطری شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ تھوڑے سے وقت میں جس ریاض اور ہونہاری سے اُن کا ہنر ارتقا پذیر ہوا ہے، وہ یقیناً باعثِ طمانیت ہے۔ اگرچہ جواں فکر اور جواں شوق ہونے کے ناطے اِن کی شاعری زیادہ تر جوانوں کے روایتی موضوع یعنی محبت کے گرد گھومنی چاہیے تھی لیکن یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ انہوں نے زیادہ تر دیگر موضوعات کو بھی ساتھ ہی ساتھ بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا ہے۔ غمِ دوراں، رنجِ ذات، امیدِ فردا، جرم و سزا،  مطالعۂ  کائنات، جوابی رویے، سیا سیات، حقیقت پسندی، خیر خواہی اور خود شناسی جیسے اوصاف شامل ہیں جن کے باعث شبیر ناقد کا شعری کینوس بہت وسیع ہو جاتا ہے لہٰذا ہر ذوق رکھنے والا قاری ان کی کشیدِ جاں سے خط اُٹھا سکتا ہے۔ ان کے فنی و فکری تجربے ہر گاہ مخصوص بہار دکھاتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں صرف موضوعاتی تنوع نہیں پایا جاتا بلکہ ان کی کاوشیں اصنافِ شعر میں اپنی پختگی کا لوہا منواتی نظر آتی ہیں۔ وہ غزلیں ہوں یا گیت ،پابند نظمیں ہوں یا آزاد نظمیں ، آزاد قطعات ہوں یا رباعیات، انہوں نے کہیں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تاہم اُن کی زیرِ نظر کتاب زیادہ تر غزلیات و منظومات پر مشتمل ہے جسے ہم ایک خوبصورت گلدستہ قرار دے سکتے ہیں۔

عصرِ حاضر جس میں مہنگائی کسی عذاب سے کم نہیں اس عذاب کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شمعِ شعر و ادب کا پروانہ پیٹ کاٹ کر کچھ رقم پَس انداز کرے اور پھر اُسے کتاب چھپوانے کے مصرف میں لائے تو یہ ایک بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ ایک مستحسن اقدام ہے۔ ایک عظیم ادبی خدمت ہے اور یہی کتاب مستقبل کیلئے ایک زبردست فکری و فنی ورثہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ہمیں شبیر ناقد کے مجموعہ کلام کے منظرِ عام پر آنے کی بیحد مسرت ہے۔ ہم انہیں ہدیہ ء تہنیت پیش کرتے ہیں اور بحیثیت اُستاد اس روحانی اولاد کی قبولیت و پذیرائی نیز مزید حسنِ زبان و بیان کے آرزو مند ہیں۔

کتاب کے مطالعہ سے مطلعِ ذہن پر خوبصورت اشعار کی قوسِ قزح اُبھرتی ہے اُس کے دلکش رنگوں میں سے کچھ رنگوں کی طرف ہم قارئین کرام کو متوجہ کراتے ہوئے خود اجازت چاہیں گے اور توقع رکھے گے کہ ہماری طرح وہ بھی شبیر ناقد کی فکری کاوش سے محفوظ ہوں گے۔

یہ کیسی اب کے ہوا چلی ہے

جہاں میں ہر سمت بے حسی ہے

جب لوگوں سے میں اُکتایا

اپنے میت بنائے پتھر

نہ ہو یاوری بے سہاروں کی جس میں

وہ غارت گری ہے سیاست نہیں ہے

بھلا کیا سکوں ہو میسر جہاں میں

یہ دنیا ہے یہ کوئی جنت نہیں ہے

گزارا ہے فٹ پاتھ پہ میں نے جیون

میری کوئی جائے سکونت نہیں ہے

حدودِ حیرت سے ماورا ہوں

رموزِ فطرت سے آشنا ہوں

بہت ٹھوکریں کھائیں دنیا میں ناقد

کہ یکجا نہیں تھا میرا آب و دانہ

چراغِ ہستی میں روشنی کا سبب وہی ہے

سکوں وہی ہے جنوں وہی ہے غضب وہی ہے

لاکھ تم دعوے کرو تہذیب کے

لطف کیا جب کارو کاری رہ گئی

اگر عدل سے نسل محروم ہو گی

تو پھر دیکھنا لوگ رہزن بنیں گے

نہیں ہم نصیبوں سے مایوس بالکل

جو ہم بن نہ پائے وہ بچے بنیں گے

دورغ چھوڑو صداقتوں کو فروغ بخشو

مثالِ فردوس پھر بنے گی خدا کی بستی

ظہور احمد فاتح (تونسہ شریف)

٭٭٭

 

تعارف

اصل نام غلام شبیر اور ادبی نام شبیر ناقد ہے۔ یکم فروری 1976؁ء کو ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف کے گاؤں ہیرو شرقی میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب کا نام اللہ وسایا ہے۔ میٹرک کا امتحان اپنے گاؤں ہیرو شرقی سے امتیازی نمبروں میں 1992؁ء میں پاس کیا اور 1994؁ء میں ڈی کام گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تونسہ شریف سے کیا ۔ ادبی فیض استاد ظہور احمد فاتح کے دبستان سے حاصل کیا۔

جولائی1999؁ء میں پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ 2001؁ء میں بی۔اے کا امتحان نجی طور پر بہا ؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیا۔ بعد ازاں 2003؁ء میں ایم اے اردو جامعہ ہذا سے نجی طور پر کیا ۔2007؁ء میں ایم اے پنجابی کا امتحان بھی یہیں سے نجی طور پر پاس کیا۔

مجھے اس بات پر فخر حاصل ہے کہ میری زندگی علمی ادبی اور عسکری خدمات میں صرف ہو رہی ہے۔ میں نے باضابطہ طور پر شاعری کا آغاز 1996؁ء میں کیا۔ بہت ہی کم عرصے میں مَیں نے اپنے آدرش میں وسعت پیدا کی۔ ہر قسم کے موضوعات و اصناف میں طبع آزمائی کر کے فکر و فن کا حسین امتزاج قائم کیا۔ مختصر اور طویل مشکل و سنگلاخ بحور میں طبع آزمائی کی۔

کلاسیکیت کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹا اور جدت کا بھی ساتھ نبھایا ہے۔ ایک طویل غزل بھی تخلیق کی ہے جسے ’’غزلیات‘‘سے موسوم کیا ہے۔ کسی بھی تصنیف پر حرفِ آخر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بہر حال اعتماد کی فضا میں اپنا پہلا مجموعہ کلام پیش کر رہا ہوں۔

تودانی حسابِ کم و بیش را

شبیر ناقد

 P/oہیرو شرقی تحصیل تونسہ شریف

ضلع ڈیرہ غازی خان

فون :0332-6224541

٭٭٭

تیرا نام اصلِ بیاض ہے تیرا نام ہی مرا مدعا

تیرے نام سے کروں ابتدا تیرے نام پر کروں انتہا

تیرا فیض ہے میرا ہر سخن تیرا رنگ و بو ہے چمن چمن

میں نے جو بھی حرفِ حسیں لکھا تیرا ذکر تھا تیرا نام تھا

ہے بہت بڑا یہ تیرا کرم کہ یہ تو نے رکھا میرا بھرم

میرے شعر کی جو اساس ہے وہ شعور سب ہے تیری عطا

تیری لاکھ مجھ پہ عنایتیں تیری روز و شب کی حمایتیں

تو ہے میرا منعمِ ذی حشم تیرا شکر کیسے کروں ادا؟

تو ہے مہرباں بھی رحیم بھی میرا رہنما بھی کریم بھی

تھا جو تیرا ناقدِ بے نوا اسے تو نے گویا امر کیا

٭٭٭

میں رتجگوں کا سفیر ٹھہرا تھا کتنی راتیں گزار آیا

ریاض تھا بار سوخ میرا میرے سخن میں نکھار لایا

کوئی بھی حالت نہیں دوامی کوئی بھی صورت نہیں مدامی

حیات اپنی ہے وہ خزانہ نہیں ہے جس میں قرار مایا

نہ مجھ پہ لطفِ سحر ہوا ہے نہ مجھ پہ وا کوئی در ہوا ہے

نہ میں نے دیکھی ہے رُت سُہانی نہ مجھ پہ ابرِ بہار چھایا

جسے میں سمجھا تھا یار اپنا جسے کہا غمگسار اپنا

بنایا تھا ہم جلیس جس کو ستم اُسی نے ہزار ڈھایا

جو میں نے چھیڑا ہے راگ ناقد وہ راگ بے وقت کا نہیں ہے

سحر کو چھیڑی ہے بھیر وی تو بسنت رُت میں ملھار گایا

٭٭٭

سنو زمیں کے شور سے حیات تنگ ہو گئی

سکوں سے ایک بار پھر ہماری جنگ ہو گئی

مصیبتوں کا ساتھ ہے بلائیں ہمرکاب ہیں

یہ ایک خصلتِ انا بھی اپنے سنگ ہو گئی

گِھرا ہوا تھا چار سو میں دشمنوں کے درمیاں

ملے جو تم قریب تر تو عقل دنگ ہو گئی

نگاہ نے نگاہ کو دیا پیامِ شوق تھا

ذراسی اک خبر تھی جو صدائے چنگ ہو گئی

123وس

تھے خواہشات کے ستم عجیب جانِ زار پر

غضب ہے ناقدِ حزیں جواں امنگ ہو گئی

٭٭٭

ہے زندگی رواں دواں وفا کی شاہراہ پر

رقم ہوئی ہے داستاں وفا کی شاہراہ پر

نہ بھول پاؤں گا کبھی رہیں گی یاد وہ سبھی

ہوئیں جو مہربانیاں وفا کی شاہراہ پر

عجب تھا اپنا بخت بھی جلا ہے وہ درخت بھی

جو بن چکا تھا سائباں وفا کی شاہراہ پر

فسانہ بن گیا کہیں ترانہ بن گیا کہیں

میری جو کھل گئی زباں وفا کی شاہراہ پر

جو ناقدِ حقیر پر اجل کا وقت آ گیا

وہ بولے تم چلے کہاں وفا کی شاہراہ پر

٭٭٭

سماج سارا سو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

سپردِ خاک ہو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

کسی کی دہشتوں کی داستاں بڑی عجیب تھی

ستم کے بیج بو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

بہت ہی وہ نحیف تھا بڑا ستم ظریف تھا

جو رونا اپنا رو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

چلا تو تھا بہشت کو مگر چُنا کنشت کو

وہ کشتیاں ڈبو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

وہ ناقدِ فگار پا کہ جس کا کوئی بھی نہ تھا

وہ منزلوں کو کھو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

٭٭٭

سعی و تقدیر

مقدر مقدر تو کہتے رہے ہو

ستم تم مقدر کے سہتے رہے ہو

مگر تم نے اس کے لئے کیا کیا ہے

اُٹھایا ہے ہتھیار یا ر کھ دیا ہے

یہ عالم ہے اعمال سے تم ہو عاری

کٹی زندگی عشر توں میں تمہاری

ملی تم کو افعال کی یوں کمائی

یہاں ہر قدم پر ہزیمت اُٹھائی

عیاں یہ زمانے کی تصویر میں ہے

تعلق سا اک سعی و تقدیر میں ہے

٭٭٭

ہے تشبیہ اک روزنِ آگہی بھی

خرد سے عبارت میری شاعری بھی

قناعت ملی ہے مشیت سے مجھ کو

کہ ہے میری دولت میری بے کلی بھی

الم سے میری زندگی ہے عبارت

غموں کی عطا ہے میری بے خودی بھی

رہوں اپنی ہستی سے بیزار کیسے

خدا کی عطا ہے میری زندگی بھی

بیاں میرا گرچہ ہے پرسوز ناقد

کروں کیا کہ ہر سمت ہے بے حسی بھی

٭٭٭

 

زندگی میں بیقراری رہ گئی

پاس میرے آہ و زاری رہ گئی

کیا ترقی کی ہوئیں تیاریاں

آئے دن مردم شماری رہ گئی

پیار تو دنیا سے رخصت ہو گیا

بس محبت کاروباری رہ گئی

کیا کروں اب رات کٹتی ہی نہیں

اس لیے اختر شماری رہ گئی

لاکھ تم دعوے کرو تہذیب کے

لطف کیا جب کارو کاری رہ گئی

اور سب سیلاب ناقد رُک گئے

ایک جوئے اشک جاری رہ گئی

٭٭٭

جہاں میں نشاں ہے شرافت کا عورت

حسیں استعارہ محبت کا عورت

یہ سکھ بھی ہے انسان کی آتما کا

تصور بہت خوب خدمت کا عورت

نفاست نزاکت فراست شرارت

مرقع ہے حُسن و صباحت کا عورت

اگر بے حیائی کی جانب رواں ہو

تو پھر ایک منظر قیامت کا عورت

ہیں مروائے ہابیل کتنے ہی اس نے

ہے آغاز جُرمِ بغاوت کا عورت

مقدس ہیں ناقد سبھی اس کے منصب

ہے اک روپ تسکین و راحت کا عورت

٭٭٭

فسانہ ایک لکھا آگہی کے پہلو میں

امر اُسی سے ہوا آگہی کے پہلو میں

کٹی حیات سدا آگہی کے پہلو میں

فقیر تیرا جیا آگہی کے پہلو میں

بیاں میں ایسا اثر تھا امر ہوئیں غزلیں

سُخن نے پائی بقا آگہی کے پہلوں میں

حیات جس پہ فدا کی وہ بے وفا نکلا

نبھایا عہدِ وفا آگہی کے پہلو میں

جلاتا رہتا ہے مجھ کو تو سوز جذبے کا

مجھے نہ اور جلا آگہی کے پہلو میں

وہ تیرا ناقد حساس لکھتا رہتا ہے

سُنی ہے اُس کی نوا آگہی کے پہلو میں

٭٭٭

بھوکی ہے زمیں بھوک اُگلتی ہی رہے گی

یہ بھوک میرے پیٹ میں پلتی ہی رہے گی

جیون بھی میرا دشت ہے مسکن بھی میرا دشت

ہونٹوں پہ میرے پیاس مچلتی ہی رہے گی

دل میں نہیں اب پاس رہا چین سکوں کا

اک آگ سی دل میں ہے اُبلتی ہی رہے گی

چہرے نئے انداز نئے طور نئے ہیں

دنیا ہے یہ سو رنگ بدلتی ہی رہے گی

سکھ چین الم ہو وہ مسرت ہو کہ غم ہو

دیکھا ہی تو ہے چھاؤں سی ڈھلتی ہی رہے گی

مذکور کریں کیا دلِ مجبور کا ناقد

اک ہوک ہے سینے سے نکلتی ہی رہے گی

٭٭٭

بہت کچھ لکھا ہے بہت کچھ لکھیں گے

یہ طے ہے کہ اہل قلم ہی رہیں گے

نہیں ہم نصیبوں سے مایوس بالکل

جو ہم بن نہ پائے وہ بچے بنیں گے

گنوائے ہیں اوقات اپنے جنھوں نے

وہی عمر بھر ہاتھ ملتے رہیں گے

رہے گا جو یونہی ستم کا تسلسل

تو تنگ آ کے ہم بھی بغاوت کریں گے

اگر عدل سے نسل محروم ہو گی

تو پھر دیکھنا لوگ رہزن بنیں گے

جو کہتے ہیں کہتے رہیں اہلِ دنیا

مگر ہم تو ناقد سدا سچ کہیں گے

٭٭٭

پالشی

قلم جس کے ہاتھوں میں لگنا تھا اچھا

جسے چاہیے تھا کتابوں کا بستہ

ہے کیوں ہاتھ میں اُس کے پالش کی ڈبیا

برش ہاتھ میں اُس نے تھاما ہوا ہے

ہے کاندھے پہ لٹکائے پالش کا تھیلا

مشقت ہے کیوں اس کی قسمت کی خاصہ

ہوئے اس کے حالات کیوں ایسے ابتر

نہ معصوم بچے سے محنت کراؤ

جہاں تک ہو ممکن اسے تم پڑھاؤ

کہ حاصل اسے بھی ہوں جیون کی خوشیاں

بنے پھر مسرت کی دولت مقدر

٭٭٭

 

ہماری صورت

ہو جیسے مورت

جو کیں وفائیں

ملی کدورت

اُنہیں کسی کی

نہیں ضرورت

قصور کیا ہے

ہمیں ہو گھورت

ہے وقت ناقد

بڑا مہورت

٭٭٭

یہ جفا کا جہاں

نفرتوں کا سماں

لب پہ میری فقط

نالہ خوں چکاں

کوئی مخلص نہیں

سب ہیں ظالم یہاں

ہے زباں پہ سدا

ایک حرفِ فغاں

مثلِ بلبل سدا

میں ہوں شکوہ کُناں

کوئی ناقد نہیں

سارے ہیں بے زباں

٭٭٭

یہ کیسی اب کے ہوا چلی ہے

جہاں میں ہر سمت بے حسی ہے

غریب فاقوں سے مر رہا ہے

یہ کیسی انسان دوستی ہے

کوئی بھی مخلص نہیں کسی کا

ادا میں یاروں کی کج روی ہے

اُسے کسی نے نہ دی محبت

جو سب کی نظروں میں اجنبی ہے

عوام مرنے لگے ہیں بھوکوں

مرض پرانا ادا نئی ہے

کوئی سُنے گا تو کیا کہے گا

عجیب ناقد غزل کہی ہے

٭٭٭

ہر جانب سے آئے پتھر

اشک آنکھوں میں لائے پتھر

اذن ملا جب گویائی کا

ہم بولے اور کھائے پتھر

جب بھی کوئے یار کو نکلے

استقبال کو پائے پتھر

کیسی یہ تقریب ہے یارو

تحفے میں تم لائے پتھر

جب لوگوں سے میں اُکتایا

اپنے میت بنائے پتھر

توڑ بھی دیتا ہے یہ ناقد

لیکن ٹوٹ بھی جائے پتھر

٭٭٭

نباض

وقت کی نبض پہ ہاتھ ہے میرا

عکس رویوں کا شعروں میں

کب ہوں اپنے عہد سے غافل

روند نہیں سکتا یہ مجھ کو

ہر دُکھ سکھ کا ہے اندازہ

کچھ مت پوچھو جور ہیں کیا کیا

ہاتھ قلم ہوں جائیں چاہے

میں نے تو ہے سچ لکھنا

لوگ صداقت سے ہیں عاری

٭٭٭

شب و روز مَیں آگہی بانٹتا ہوں

ہے ظلمت نگر روشنی بانٹتا ہوں

فقط بے حسی نے ہے مارا جہاں کو

میں مردوں میں اب زندگی بانٹتا ہوں

فسانے میرے عشق سے ہیں مزیّن

میں اخلاص لوگوں میں بھی بانٹتا ہوں

چمک میرے احساس میں ہے سمائی

میں ماحول میں تازگی بانٹتا ہوں

سُریلے میرے گیت ہیں سب سے ناقد

کہ گیتوں میں بھی چاشنی بانٹتا ہوں

٭٭٭

غزلنامہ

کسی کی بھی حاصل حمایت نہیں ہے

ہمیں پھر بھی کوئی شکایت نہیں ہے

ہے نعمت بڑی شادمانی دلوں کی

وہ کیا زیست جس میں مسرت نہیں ہے

ہوں میں تو محبت کا اک استعارہ

مجھے تو کسی سے بھی نفرت نہیں ہے

سمجھ لو کہ ویران ہے دل کی دھرتی

فراواں جو اس میں محبت نہیں ہے

یہ سب ماہ جبیں ہیں وفاؤں سے عاری

کسی کی میرے دل میں حسرت نہیں ہے

کروں ماہ رُخوں سے بھلا کیوں محبت

جو اِن میں محبت کی عادت نہیں ہے

مجھے ہر طریقے سے کچلا گیا ہے

یہ کیا میری خاطر قیامت نہیں ہے

جفاؤں کے بدلے وفائیں ہی کی ہے

کہو خود ہی کیا یہ شرافت نہیں ہے

جفاؤں کا بدلہ جفاؤں میں دیں وہ

یہ اہلِ وفا کی روایت نہیں ہے

سدا سچ کی کرتا رہا پاسداری

مجھے جھوٹ سے کوئی نسبت نہیں ہے

کروں گا میں نفرت کا اظہار کیسے

کوئی مجھ میں ایسی جبلت نہیں ہے

ہمیشہ میں رسیا رہا ہوں غموں کا

خوشی سے مجھے کوئی رغبت نہیں ہے

اگر بخش دے وہ گناہگار سارے

تو محدود کچھ اُس کی رحمت نہیں ہے

کسی کو بھلا کیسے ناراض کر دوں

کہ ایسی تو میری طبیعت نہیں ہے

کسی پر کیا ہو ستم اہل دل نے

سُنی کوئی ایسی حکایت نہیں ہے

سدا زندگی میں جسے یاد رکھوں

کوئی مجھ پہ ایسی عنایت نہیں ہے

لکھوں کیوں نہ حمد و تشکر کے کلمے

یہ ہستی بھی کیا رب کی نعمت نہیں ہے

مجھے جاذبیت نظر آئے جس میں

تصور میں اک ایسی صورت نہیں ہے

ہوئے ہاتھ میرے قلم لکھتے لکھتے

میری بات میں کیا صداقت نہیں ہے

صنائع بدائع رقم سب کیے ہیں

کوئی کم سخن میں بھی ندرت نہیں ہے

نہیں چیز کوئی بھی معدوم اس میں

حسیں کون سی اس میں صنعت نہیں ہے

جو سچ ہے اُسے دہر میں عام کر دوں

بھلا مجھ میں ایسی جسارت نہیں ہے

نہیں روندا کس کس طرح سے جہاں نے

رہی مجھ سے کیا کیا حقارت نہیں ہے

رہا ہوں میں غمخوار نِت غمزدوں کا

کوئی اور میری عبادت نہیں ہے

لکھے ہیں سدا میں نے الفت کے نغمے

کوئی اور اپنی ریاضت نہیں ہے

وفا کے چمن کو سنوارا ہے میں نے

یہی امر وجہِ شفاعت نہیں ہے

کیا سامنا ہنس کے دشواریوں کا

یہ کیا ہے اگر یہ شجاعت نہیں ہے

مصائب میرے ساتھ پیہم رہے ہیں

رہی ان سے کوئی کدورت نہیں ہے

بھلا شعر کیسے امر اُن کے ٹھہریں

وہ جذبات میں جن کے شدت نہیں ہے

مصر زندہ رہنے پہ ہے کیوں زمانہ

یہ جیون کوئی عیش و عشرت نہیں ہے

سدا سوزِ ہجراں میں سوزاں رہا ہوں

مقدر میں اپنے تو راحت نہیں ہے

خدا جانے کیوں اُس پہ میں مر مٹا ہوں

اگر اُس میں حسن و صباحت نہیں ہے

گریزاں ہو تم کیوں میری قربتوں سے

میں ناداں سہی مجھ میں وحشت نہیں ہے

گزارا ہے فٹ پاتھ پہ میں نے جیون

میری کوئی جائے سکونت نہیں ہے

ہمارا ہے معبود سب سے نرالا

وہ پتھر کی بے جان مورت نہیں ہے

کروں کیسے تقلید میں دوسروں کی

حسیں کیا محمدؐ کی سیرت نہیں ہے؟

گزارا ہے کرب مسلسل میں جیون

کہو کیا خدا کی مشیت نہیں ہے

رہوں زندگی سے بھلا کیوں گریزاں

اگر زندگی اک حقیقت نہیں ہے

مجھے کیوں رہے خوف بے راہروی کا

میرے ساتھ پیرِ طریقت نہیں ہے

میں کیوں چھوڑ دوں مہرو الفت کے نغمے

بظاہر کوئی اس کی علت نہیں ہے

مجھے جانئے انکساری کا پیکر

ذرا مجھ میں فخر و رعونت نہیں ہے

اگرچہ ہمیشہ وفائیں ہی کی ہیں

وفا کی یہاں قدر و قیمت نہیں ہے

ہو اخلاقِ عالی سے محروم یکسر

ذرا تم کو پاسِ شریعت نہیں ہے

ہوا نفرتوں کا چلن عام ایسا

کسی دل میں بالکل مودَّت نہیں ہے

جو ایماں کی دولت سے عاری رہا ہے

میسر اُسے اصل دولت نہیں ہے

کیا میں نے اعراض جس دن سے تجھ سے

اُسی روز سے پاس فرحت نہیں ہے

وہ مومن ہے پابندِ احکام جو ہے

تساہل نہیں اُس میں غفلت نہیں ہے

خرد سے عبارت ہیں اعمال میرے

سو اپنے کیے پر ندامت نہیں ہے

ہوا آج انساں پہ شیطان غالب

کسی کو بھی فکرِ ملامت نہیں ہے

خلوص و وفا بھی ہے صدق و صفا بھی

ہوا کیا اگر مال و ثروت نہیں ہے

عتاب و عذابِ خدا سے بچے ہیں

ہے یہ امرِ رحمت کہ لعنت نہیں ہے

بہت جلد کرتے ہو تم سچ کا سودا

کہ ایماں کی تم میں حرارت نہیں ہے

میرے رابطے منقطع ہو گئے ہیں

میری اُن سے خط و کتابت نہیں ہے

ستم میں نے دنیا میں بے حد سہے ہیں

مجھے پھر بھی خوفِ عقوبت نہیں ہے

کروں میں بھلا کیسے اعمالِ صالح

میری ذات میں اس کی طاقت نہیں ہے

رہی ہے گرانی ہی میرا مقدر

کہ پل بھر خوشی کی رفاقت نہیں ہے

شرافت سے میں نے گزارا ہے جیون

مگر کی زمانے نے عزت نہیں ہے

گزاری ہے گو پیار میں زندگانی

ہوئی طے وفا کی مسافت نہیں ہے

مناسب سبھی میں نے الفاظ برتے

میری شاعری میں غرابت نہیں ہے

قرینہ اگر آئے جینے کا یارو

تو ہستی میں کوئی اذیت نہیں ہے

مصائب سے بوجھل ہوئی زندگانی

کہ کردار میں استقامت نہیں ہے

حیاتِ گریزاں سے کترا رہا ہوں

کہ اب زندہ رہنے میں لذت نہیں ہے

فقط چار دن کی ہے آباد کاری

بہم زندگی کو طوالت نہیں ہے

کرے دستگیری سدا بے کسوں کی

کسی شخص کو اتنی فرصت نہیں ہے

کرے برملا کیسے حق بات کوئی

زمانے میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے

ہوئے ایسے بے حس تیرے اہلِ دنیا

کہ حاصل اُنھیں کوئی عبرت نہیں ہے

عدو اس لیے ہم کو للکارے پیہم

سمجھتا ہے ملت میں غیرت نہیں ہے

محبت نوازے سدا دوسرں کو

تمہیں پر یہ جذبہ ودیعت نہیں ہے

نہیں کارگر کوئی کاوش میری جاں

اگر اُس میں شامل نفاست نہیں ہے

پریشاں کرے جو غریبوں کو ہر دم

وہ مردم کشی ہے حکومت نہیں ہے

نہ ہو یاوری بے سہاروں کی جس میں

وہ غارت گری ہے سیاست نہیں ہے

حفاظت کرے جو سدا دوسروں کی

کسی شخص میں ایسی قوت نہیں ہے

ملے چین جس سے میری آتما کو

میرے بھاگ میں وہ سعادت نہیں ہے

نہیں تیرے سینے میں ایمان باقی

اگر تجھ میں پاسِ امانت نہیں ہے

بنے زخمِ انسانیت کا جو مرہم

وہ شفاف ذوقِ صحافت نہیں ہے

جہاں میں کرے عام آدرش میرا

سخن میں میرے کیا بلاغت نہیں ہے؟

سخن میں میرے وجہِ دشواری ٹھہرے

زباں میں میری وہ فصاحت نہیں ہے

پذیرائی ہو عندلیبوں کی جس میں

چمن میں میرے وہ قیادت نہیں ہے

بگاڑے میرے کام سارے کے سارے

کوئی مجھ میں ایسی نحوست نہیں ہے

مداوا کرے جو میری وحشتوں کا

کوئی ایسا کیا نیک طینت نہیں ہے؟

غم و سوز نے مار ڈالا ہے مجھ کو

یہ کیا جیتے جی میری رحلت نہیں ہے

بھلا کیا دلوں کو وہ گرما سکے گی

اگر شاعری میں تمازت نہیں ہے

ہماری نظر کیسے عقبیٰ کو سمجھے

ہمیں اتنی حاصل بصیرت نہیں ہے

کوئی کام مشکل نظر آئے مجھ کو

میرے جسم میں وہ نقاہت نہیں ہے

فقط بے حسی ہے میرے چاروں جانب

میرے واسطے کیا یہ ظلمت نہیں ہے؟

نئی باتیں ساری نئے طور سارے

بھلا اور کیا ہے جو جدت نہیں ہے

بہت مختصر وقت ہے زندگی کا

کوئی لمبی چوڑی یہ مدت نہیں ہے

وہ انسان شیطان کا ہے حواری

اگر جذبہ و شوقِ طاعت نہیں ہے

سکوں سے میں ایام کیسے گزاروں

میرے پاس راحت کی نعمت نہیں ہے

جو انسان ہے رب کے احکام مانے

یہی کیا اصولِ نیابت نہیں ہے

ملے شادمانی مجھے کیسے جاناں

جو حاصل مجھے تیری قربت نہیں ہے

میں جو چاہتا ہوں وہ ملتا ہے مجھ کو

نہیں تو فقط ایک عزلت نہیں ہے

نیا ولولہ ایک ہے میرے دل میں

بدن میں میرے اب علالت نہیں ہے

بھلا کیا سکوں ہو میسر جہاں میں

یہ دنیا ہے یہ کوئی جنت نہیں ہے

سمجھ کیا سکیں گے مجھ اہل دنیا

ذرا ان میں فہم و فراست نہیں ہے

بخیلی کا انداز ہے عام ان میں

کسی میں بھی خوئے سخاوت نہیں ہے

رسولِ مکرم کو ہم بھول بیٹھے

ہمیں پاس عہد رِسالت نہیں ہے

کرے سرد جذبات کو پھر سے تازہ

کسی کے سخن میں وہ حدت نہیں ہے

نہیں نکلا میں من کی دنیا سے باہر

کہو کیا یہی داخلیت نہیں ہے؟

زمانے کی کوئی نہیں بات چھوڑی

ہے دعویٰ کہ یہ خارجیت نہیں ہے

مجھے راہِ الفت میں پچھتاوا کیسا

محبت ہے کوئی شرارت نہیں ہے

جو دیوانہ کر دے جو مدہوش کر دے

بدن میں تیرے وہ ملاحت نہیں ہے

نبوت ہی توحید کا ہے تعارف

وہ کیا دین جس میں نبوت نہیں ہے

ہے تفریق فتنہ صفیں منتشر ہیں

کوئی باشریعت امامت نہیں ہے

ہزاروں ہی اشعار میں نے لکھے ہیں

سو دیوان کی کم ضخامت نہیں ہے

نہیں ہے جہاں میں کسی کا بھروسہ

کوئی معتبر اب ضمانت نہیں ہے

مجھے تو تفکر نے بخشی ہے عظمت

کسی کی بھی اس میں اعانت نہیں ہے

تڑپنے پہ اک فرد کے قوم تڑپے

زمانے میں ایسی اخوت نہیں ہے

بنے جو مروت کا مرکز ہمیشہ

کوئی ایسی مضبوط ملت نہیں ہے

جو پھیلائے نیکی بدی کو مٹائے

یہاں ایسی کوئی جماعت نہیں ہے

نہ لکھے ہوں اشعار توصیف جس پہ

تیری کوئی ایسی نزاکت نہیں ہے

سنور جائے جیون میرا جس کے باعث

میسر وہ دلکش رفاقت نہیں ہے

لگایا بھلا دل میں دنیا سے کیسے

کہ جگ میں ذرا جاذبیت نہیں ہے

کرے دور الفت کو جو میرے من سے

میرے دل میں ایسی کثافت نہیں ہے

بشر سلب جیون کرے اپنے ہاتھوں

کہو خود کشی کیا ہلاکت نہیں ہے؟

سدا کی قلم سے حقیقت نگاری

یہ سچے سخن کی دلالت نہیں ہے

پذیرائی دنیا میں کیا پائے گی وہ

اگر فکر میں کچھ نفاست نہیں ہے

کوئی خوف کھائے تو کیوں کھائے مجھ سے

طبیعت میں میری جلالت نہیں ہے

ہوا ہے اُسے سامنا ذلتوں کا

وہ انسان جس میں بسالت نہیں ہے

میں دھوتا رہا دل کو آنسو بہا کر

میرے من میں کوئی نجاست نہیں ہے

میں جس کا سزاوار تھا زندگی سے

میرے پاس وہ شان و شوکت نہیں ہے

کیا ہے ہمیں دنیا داری نے غافل

وہ صوم و صلوٰۃ و اقامت نہیں ہے

میں بگڑا ہوا روپ ہوں زندگی کا

میری کوئی بھی جاہ و حشمت نہیں ہے

نیا دور ہے اور باتیں نئی ہیں

کسی میں بھی رنگِ قدامت نہیں ہے

نہیں انت کوئی بھی حرص و ہوس کا

کسی کو ودیعت قناعت نہیں ہے

سدا کامیابی نے چومے ہیں پاؤں

میری زندگی میں ہزیمت نہیں ہے

یہی اب ہے میرا جوازِ تشکر

کہ کیا سانس لینا غنیمت نہیں ہے

الم سے عبارت میری زندگی ہے

خوشی سے مجھے کوئی نسبت نہیں ہے

یہ ہر بار مر مر کے پھر جی اُٹھا ہے

تجھے اپنے ناقد پہ حیرت نہیں ہے

٭٭٭

آسیب

کسی آسیب کا سایہ

ہمیشہ مجھ پہ رہتا ہے

جہاں جاؤں جہاں بیٹھوں

یہ میرے ساتھ رہتا ہے

سفر میں ساتھ رہتا ہے

حضر میں ساتھ رہتا ہے

کبھی راحت بھی دیتا ہے

وبالِ جاں بھی ہوتا ہے

اِسی کی ہی نحوست سے

در و دیوار لرزاں ہیں

اسی نے میرے جیون میں

دکھوں کا زہر گھولا ہے

یہ فردا سے گزارش ہے

چھڑائے میری جاں اِس سے

میں خود کوشش بھی کر لوں گا

کہ چھوٹے میری جاں اس سے

یہی میری تمنا ہے

یہ سایہ دور ہو مجھ سے

اگر یہ رہ گیا یونہی

تو جیون میرا دوزخ ہے

یہ کہنے کو تو سایہ ہے

مگر خوفِ مجسم ہے

مجرد سی نحوست ہے

یہ سایہ میرا دشمن ہے

میرے گھر بار کا دشمن

در و دیوار کا دشمن

دلِ بیمار کا دشمن

شعورِ زار کا دشمن

میرے اشعار کا دشمن

میرے افکار کا دشمن

کوئی تو عاملِ کامل

نکالے اس کے نرغے سے

٭٭٭

وہ ہو سانجھ ہو یا سویرے کا تڑکا

لیا جب تیرا نام تو نین پھڑکا

یہی میں نے سوچا کہ ہے تو ہی در پر

میرے گھر کا دروازہ جس وقت کھڑکا

تیرے نام سے ہے میری زندگانی

میرا دل تیری چاہتوں میں ہے دھڑکا

گراؤں گا رستے کی دیواریں ساری

میرے دل میں الفت کا جب جوش بھڑکا

اچانک تیرا روٹھ جانا ہے ایسے

میرے سر پہ جیسے ہو بجلی کا کڑکا

کہیں تو بھی مجھ سے نہ کھو جائے ناقد

میرے دل میں رہتا ہے اکثر یہ دھڑکا

٭٭٭

 

دشت میں ہوں اک تنہا پیڑ

ہوں جنموں سے پیاسا پیڑ

میں صدیوں سے بے کل ہوں

جانے ہوں میں کِس کا پیڑ

راہگیروں کا سایہ ہوں

چڑیوں کا ہوں پیارا پیڑ

جلتی دھوپ میں جلتا ہوں

سائے بانٹنے والا پیڑ

ناقد پاپی اُس کو جان

جس ظالم نے کاٹا پیڑ

٭٭٭

محبتوں کے سفر میں کھوئی متاعِ ہستی

میرا سکوں کر گئی ہے غارت صنم پرستی

نہیں ہے نسبت ذرا بھی تجھ کو کسی الم سے

نہ فقر و فاقہ نہ یاس و حسرت نہ سوز و مستی

دروغ چھوڑو صداقتوں کو فروغ بخشو

مثالِ فردوس پھر بنے گی خدا کی بستی

ستم تو یہ ہے کہ جبر مجھ پر رہا انا کا

ہمیشہ مجھ کو یہ کالی ناگن رہی ہے ڈستی

یہاں تو ناقد ہے سانس لینا بھی سخت مشکل

کہ ظلمتوں میں حیات مہنگی ہے موت سستی

٭٭٭

میں بھی روشن دماغ رکھتا ہوں

چاند جیسا چراغ رکھتا ہوں

میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہے

گرچہ سینے میں داغ رکھتا ہوں

مجھ سے کچھ تم چھپا نہ پاؤ گے

اہتمامِ سراغ رکھتا ہوں

کیا میرے پاس کام پت جھڑ کا

دل میں سر سبز باغ رکھتا ہوں

پیاس کیسے مجھ لگے ناقد

اک لبالب ایاغ رکھتا ہوں

٭٭٭

تمہیں کیا خبر کتنا مجبور ہوں

کہ میں اپنے من سے بہت دور ہوں

میری ذات پر پردۂ  تیرگی

میں مثلِ سحر شب سے مستور ہوں

مجھے ایک طرفہ طبیعت ملی

نہ میں خود غرض ہوں نہ مغرور ہوں

جو اپنی کمائی بھی پاتا نہیں

میں وہ ماندۂ  کار مزدور ہوں

میرا غم ہے آنے سے پہلے عیاں

میں ہر قصۂ  غم میں مذکور ہوں

خزاں سے نہ ٹوٹے تعلق میرا

میں برباد ہو کہ بھی مسرور ہوں

میرا منتظر موسیٰ ہر دور کا

میں وہ جلوۂ  حق سرِ طور ہوں

رہوں کیسے ناقد جہان سے نہاں

نہ پوشیدہ ہوں جو میں وہ نور ہوں

٭٭٭

احسان فراموش

شہر میں جا کر

پڑھنے والے

ما ں کی ممتا

باپ کی شفقت

گاؤں کی چھاؤں

مست بہاریں

شوخ نظارے

کیوں یہ سب کچھ

بھول گئے ہیں

٭٭٭

مجھ کو تنہا کر گیا ہے منفرد رہنے کا شوق

جاوداں سا ہو گیا ہے میرا دکھ سہنے کا شوق

میں نے جھیلے ہیں محبت میں مصائب بے شمار

پر ہوا رخصت نہ رو میں پیار کی بہنے کا شوق

میں نے گو دیکھا ہے سولی پہ چڑھا منصور کو

آج تک مجھ سے نہ چھوٹا پھر بھی سچ کہنے کا شوق

آرزو کیا آرزو تھی کر گئی رسوا اُسے

حُسن کے بازار میں لایا اُسے گہنے کا شوق

میرے درد و رنج کی کیفیتیں ناقد نہ پوچھ

آبِ نیساں کو ہے میری چشم سے بہنے کا شوق

٭٭٭

میں حرفِ غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتا

تعزیر میری مجھ کو سُنا کیوں نہیں دیتا

اے جانِ جہاں جرمِ وفا مجھ سے ہوا ہے

اس جرم پہ تو مجھ کو سزا کیوں نہیں دیتا

اے میرے خدا بوجھ اگر میں ہوں زمیں پر

تو مجھ کو سُنا حکمِ قضا کیوں نہیں دیتا

بخشی ہے جسے تو نے صباحت کی یہ دولت

کر اُس کو عطا حُسنِ وفا کیوں نہیں دیتا

گردش میں ہوں آوارہ پرندے کی طرح میں

کاشانہ میرا مجھ کو بتا کیوں نہیں دیتا

جو عبدِ خدا بے کس و مجبور ہیں ناقد

رنج اُن کے دلوں سے وہ اُٹھا کیوں نہیں دیتا

٭٭٭

نہ تھا جام و مینا نہ کوئی سبو تھا

ہماری نگاہوں میں پہلے ہی تو تھا

کیا میں نے اِعراض سارے جہاں سے

کہ جب جلوہ افروز تو روبرو تھا

زمانہ بھلا دے یہ ممکن نہیں ہے

وہی چارہ گر تھا وہی چارہ جو تھا

بہت سے خصائل تھے اُس میں سمائے

وہ دلدار کتنا دمِ گفتگو تھا

نہ تھی مجھ کو پرواہ کسی بھی ستم کی

فقط تو ہی جب حاصلِ آرزو تھا

اُسی سے تھی نسبت صباحت کو ناقد

وہ گل سارے گلزار میں خوبرو تھا

٭٭٭

میرے بس میں اب کے میرا دل نہیں ہے

مجھے مطلقاً ضبط حاصل نہیں ہے

کوئی شے محبت میں حائل نہیں ہے

میرے سامنے کوئی مشکل نہیں ہے

نہیں دل لگی کی جگہ یہ زمانہ

یہاں کچھ بھی الفت کے قابل نہیں ہے

مجھے ساتھ لے جا رہی ہیں وہ موجیں

کہ جن کے مقدر میں ساحل نہیں ہے

سروکار ہے تجھ کو جور و جفا سے

تیرا دل محبت پہ مائل نہیں ہے

ہے میری نگاہوں میں وہ شخص ادنیٰ

جو انساں کی عظمت کا قائل نہیں ہے

٭٭٭

مجھے ناروا کہیے آوارہ کہیے

میرے سامنے کوئی منزل نہیں ہے

جہاں مجھ کو حاصل ہو تسکینِ خاطر

تیرے شہر میں ایسی محفل نہیں ہے

تڑپنے میں آتا نہ ہو لطف جس کو

وہ راہِ عقیدت کا بسمل نہیں ہے

نہیں کچھ بھی مشکل نگاہوں میں ناقد

میرا کوئی مدِ مقابل نہیں ہے

٭٭٭

یہاں روز انساں کماتے ہیں روزی

بمشکل ہی ملتی ہے دو وقت روٹی

یہی آہیں بھرتے ہوئے ہم ہیں کہیں

کبھی ایسی قسمت ہماری نہ ہوتی

کیا ہم کو غربت نے بے کل ہے ایسا

سمجھتے ہیں پتلون کو ہم لنگوٹی

بھلا کیسے غربت سے پیچھا چھڑائیں

نہیں ہے بلا یہ کوئی ایسی ویسی

نہ چھوڑے گا دامن قناعت کا ناقد

تو کر میرے مولا تیری جیسے مرضی

٭٭٭

عرضی

لپٹ کے مجھ سے

یہ کہتی ہے

پتنی میری

مجھ کو چھوڑ کے

تم مت جاؤ

مجھ سے پیت کی

ریت نبھاؤ

گھر میں روزی دے گا مولا

٭٭٭

تماشا میرے ساتھ ہوتا رہا ہے

میں جاگا مقدر تو سوتا رہا ہے

بھرا نفرتوں سے اُسی کا ہی آنگن

محبت کے جو بیج بوتا رہا ہے

ملے گا ثمر اُس کی عقبیٰ میں جا کر

سکوں نیکیوں میں جو کھوتا رہا ہے

ستمگر میرا امتحاں لے رہا تھا

میں ہنستا رہا ہوں وہ روتا رہا ہے

یہاں عصمتوں کا کیا اُس نے سودا

جو پائل میں گھنگھرو پروتا رہا ہے

میرا ناخدا ہی تھا ناقد مخالف

سفینہ میرا جو ڈبوتا رہا ہے

٭٭٭

مجھے ستائے قصور میرا

نہ راس آئے شعور میرا

یہ میں جو سوزاں رہا ہوں ہر دم

ہے دوش اِس میں ضرور میرا

نہ میں ہوں منصور اس جہاں کا

نہ موسیٰ میرا نہ طور میرا

نہ آگ مجھ کو جلائے یا رب

جلا گیا ہے غرور میرا

میرا تو کچھ بھی نہیں جہاں میں

نہ نار میری نہ نور میرا

ستایا ناحق مجھے جہاں نے

نہ تھا اگرچہ قصور میرا

جو میں نہیں تھا تو کچھ نہیں تھا

پڑا ہے مہنگا ظہور میرا

جہاں سے میں بے خبر ہوں ناقد

بلائے مجھ کو حضور میرا

٭٭٭

دلوں میں جب بھی سرور جاگے

تو زندگی کا شعور جاگے

تمہیں نہ پھر مل سکے گی منزل

جو زندگی میں قصور جاگے

بدی سے پالا پڑے گا اُس کو

کسی میں جب بھی غرور جاگے

حقیقتوں کا ہے وہ پیامی

وہ جس کے ماتھے پہ نور جاگے

وہ جاگنا اُس کا کیا ہے ناقد

جو کوئی یومِ نشور جاگے

٭٭٭

میری تخلیق آہ و فغاں کے لیے

فن زمیں کے لیے آسماں کے لیے

بات محدود اپنی نہیں کوئی بھی

میرا پیغام ہے دو جہاں کے لیے

پائی جاتی ہے وسعت بڑی فکر میں

سوچ اپنی ہے کون و مکاں کے لیے

اپنا ہر اک سے رشتہ مودَّت کا ہے

اپنا اخلاص پیر و جواں کے لیے

اس نے لکھنے کی تحریک دی ہے مجھے

میں نے لکھا ہے سوزِ نہاں کے لیے

یہ غزل یہ سخن اپنا مستی بھرا

ایک تحفہ ہے پیرِ مغاں کے لیے

میرے فن میں سمائی ہے ناقد وفا

اس میں کچھ بھی نہیں بد گماں کے لیے

٭٭٭

وہ میرا ہمسفر ہوا مذاق ہی مذاق میں

پھر اپنا یار بن گیا مذاق ہی مذاق میں

نہ جس سے کوئی آس تھی نہ جس کی کوئی آرزو

وہ اپنا چارا گر بنا مذاق ہی مذاق میں

نہ راہ و رسم جس سے تھی نہ جس سے کوئی پیار تھا

قرار پایا دلربا مذاق ہی مذاق میں

نہ میں نے اُس کو دکھ دیا نہ اُس نے مجھ کو دکھ دیا

وہ مجھ سے ہو گیا خفا مذاق ہی مذاق میں

سفینہ اپنا تیرتا ہی جا رہا تھا اک طرف

ڈبو گیا وہ ناخدا مذاق ہی مذاق میں

میں راہ کھو چکا تھا اپنی ناقدِ شکستہ پا

وہ بن کے آیا رہنما مذاق ہی مذاق میں

٭٭٭

مٹتے ہیولے

بھوک سے چہرے بھیانک ہو گئے

خوف کی گردش ہے ہر اک خون میں

اُجلے اُجلے چہرے کالے پڑ گئے

خوف سے کیوں رنگ پیلے پڑ گئے

نقش دھندلے ہو گئے ہیں ذات کے

٭٭٭

اگرچہ جہاں میں تھا سب سے نرالا

سمجھ کر مجھے بوجھ دھرتی نے پالا

نہیں زندگی نے بھی انصاف برتا

عموماً ہوا ساتھ میرے گھٹالا

بصد سعی بھی میری قسمت نہ بدلی

لگا میرے مقسوم کو ایسا تالا

میری آگہی اُن پہ ہنستی رہی ہے

پڑا احمقوں سے مجھ جب بھی پالا

جہاں نے سدا جس سے اعراض برتا

ملا ہے اُسے اپنے رب سے سنبھالا

میں شبیر بن کر رہا کربلا میں

بہت کھائے نیزے لگا تن کو بھالا

غزل کہنا دشوار کیسے مجھے ہو

ہے پاتال سے قافیہ بھی نکالا

میری بات ہو بے اثر کیسے ناقد

نہیں شعر میرے یہ جادو ہے کالا

٭٭٭

بھول نہ جانا پیار سہیلی

اپنا قول قرار سہیلی

جب تنہائی میں مِل جائیں

پھر کرنا اظہار سہیلی

تم سے وابستہ اُمیدیں

مت کرنا انکار سہیلی

دو لمحوں کا اپنا جیون

دنیا کے دن چار سہیلی

تو میرے سپنوں کی رانی

میں تیرا غمخوار سہیلی

تو ہے میری پریم کہانی

میں تیرا دلدار سہیلی

مطلب کی ہے دنیا ساری

کون کسی کا یار سہیلی

ناقد ہستی ہار نہ جائے

نہ کرنا اصرار سہیلی

٭٭٭

ظالموں کے شہر میں اب زندگی کیسے کریں

ہم جنوں پیشہ علاجِ بے کلی کیسے کریں

آج حق کی پاسداری کوئی بھی کرتا نہیں

ظلمتوں کے دور میں ہم روشنی کیسے کریں

ہو گیا ہے بے حسی کا دور دورہ قوم میں

بات سمجھانے کی خاطر شاعری کیسے کریں

موت کے آنے سے بھی پہلے جو رحلت کر گئے

کیسے وہ مقتل کو جائیں خود کشی کیسے کریں

کوئی پہلو بھی مسرت کا نظر آتا نہیں

کیا ہنسیں ناقد کسی سے دل لگی کیسے کریں

٭٭٭

خطا عشق میں سب ہماری نہیں ہے

یہاں ہر بشر کیا پجاری نہیں ہے

زمانے میں ہم ایسے رُسوا ہوئے ہیں

یہاں کوئی عزت ہماری نہیں ہے

کسی کی انا کو نہ اب ٹھیس پہنچے

بھکاری بھی سمجھو بھکاری نہیں ہے

نہ دنیا سے الفت نہ عقبیٰ سے رغبت

کوئی شئے ہمیں تم سے پیاری نہیں ہے

میری قربتوں سے نہ تم خوف کھاؤ

میرے پاس کوئی کٹاری نہیں ہے

یہاں اب بھی تہذیب توبے اثر ہے

روا کیا یہاں کارو کاری نہیں ہے

کیا مسخ کردار تیرا غرض نے

تیرا پیار کیا کاروباری نہیں ہے

ہے مخلوق یکساں بڑا کوئی جگ میں

لغاری نہیں ہے مزاری نہیں ہے

ہمیشہ جو رہتے ہو ہم سے گریزاں

کہو ہم نے ہستی سنواری نہیں ہے

بھلا زندگی سے میں کیوں لو لگاؤں

بتاؤ یہ مایا اُدھاری نہیں ہے

میرے سر سجی ہے جو دستارِ عظمت

کبھی میں نے از خود اُتاری نہیں ہے

میری شاعری ہے جہاں سے نرالی

بھلی کیا یہ ندرت نگاری نہیں ہے ؟

ہیں دعوے عبث ذات و اثبات کے سب

کوئی شئے بھی ناقد تمہاری نہیں ہے

٭٭٭

اگر مجھ میں الفت کا یارا نہ ہوتا

تو تو بھی مجھے اتنا پیارا نہ ہوتا

چمن سے اگر مجھ کو چاہت نہ ہوتی

تو پھر ہر کلی کو سنوارا نہ ہوتا

جڑے ہیں جو موتی یہ نعمت ہیں بے شک

بصارت نہ ہوتی نظارا نہ ہوتا

مدد میری تم پہ بھی لازم نہ ہوتی

اگر میں نے تم کو پکارا نہ ہوتا

٭٭٭

مہنگائی

وہ کہرام کرتی ہے مہنگائی برپا

میرا روز ہوتا ہے بیگم سے جھگڑا

نہ جیتے ہیں بچے نہ مرتے ہیں بچے

کہ فاقے کڑاکے سے ڈر تے ہیں بچے

سدا مجھ پہ حاوی ہے جبرِ ضرورت

اُسے پورا کر لوں نہیں کوئی صورت

نہ دن کا سکوں ہے نہ شب کی ہے راحت

بنی زندگانی مسلسل اذیت

مسرت کی خواہش میں غم میں نے پائے

سکینت کے لمحے بھی کم میں نے پائے

مجھے راس آئی نہ غربت کی نگری

ستم ڈھا رہی ہے اذیت کی نگری

٭٭٭

اذیتوں کی آندھیوں میں جسم پاش پاش ہے

سکون جو گنوا چکے اُسی کی پھر تلاش ہے

تمہیں طلب ہے پیار کی کسی حسین یار کی

ہوں میں جنوں سے ماورا مجھے غمِ معاش ہے

میں آدمی شریف ہوں ذرا ستم ظریف ہوں

اگرچہ کامیاب ہے یہاں جو بدقماش ہے

یہ زندگی سزا بھی ہے یہ قہر بھی قضا بھی ہے

میری حیات کیا ہے جیسے چلتی پھرتی لاش ہے

تمہارے ناقدِ حزیں پہ پھر بھی لوگ خوش نہیں

اگرچہ پر خلوص ہے اگرچہ یار باش ہے

٭٭٭

جو سوز ہے گداز ہے

وہی میری نماز ہے

وہی میری بیاض ہے

جو غم کا ایک ساز ہے

جو بے خودی رہی سدا

ضرور اِس میں راز ہے

ملال مختصر نہیں

یہ سلسلہ دراز ہے

سخن وری کا راج ہے

یہ فیض وہ فراز ہے

میں ناقدِ حیات ہوں

یہی میرا جواز ہے

٭٭٭

غموں سے کیسے ہو مفر ملال کی صلیب پر

حیات ہو گئی بسر ملال کی صلیب پر

تمام عمر جس کے ہجر میں ہماری کٹ گئی

نہ بن سکا وہ چارہ گر ملال کی صلیب پر

بھٹک رہا ہوں چار سو کہ ہے کسی کی جستجو

نظر سے کیا ملے نظر ملال کی صلیب پر

غم و الم کا ساتھ کٹھن برہ کی رات ہے

نہیں ہے کوئی ہمسفر ملال کی صلیب پر

تمہیں سناؤں داستاں زباں میں اب سکت کہاں

لہو لہو ہوا جگر ملال کی صلیب پر

میں ناقد فگار ہوں بہت ہی سوگوار ہوں

رہا سدا میرا سفر ملال کی صلیب پر

٭٭٭

بنا اس قدر میں الم کا نشانہ

نہ آباد ہوں پایا ویران خانہ

بہت جبر میں نے سہا زندگی کا

تھا ظالم بہت وقت کا تازیانہ

مقدر میرا ماورا ہے سکوں سے

رہا گردشوں میں میرا آشیانہ

بھلا کیسے اعراض تم سے کروں گا

تمہیں ڈھونڈنے میں لگا ہے زمانہ

میں پھرتا ہوں گلیوں میں اب مارا مارا

نہ گھر ہے نہ کوئی ہے میرا ٹھکانہ

کسی سے نہیں ہے میری آشنائی

ہوا اس قدر میں جہاں سے بیگانہ

بہت ٹھوکریں کھائیں دنیا کی ناقد

کہ یکجا نہیں تھا میرا آب و دانہ

٭٭٭

نہ ہے دوست اپنا نہ ہے کوئی بھائی

نہیں فکر اپنی نہ مجھ کو پرائی

عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

مجھے زندگی سے بہت دور لائی

ملی رتجگوں کی ہے میراث مجھ کو

میرے من میں جب سے اذیت سمائی

زمانے کے ہر سکھ سکوں کو ہوں ترسا

جہاں کی مسرت ہے میں نے بھلائی

دیا ساتھ تو نے کبھی بھی نہ میرا

میری پارسائی بنی جگ ہنسائی

برائی کے میں پاس بھٹکا نہیں ہوں

نہیں راس ناقد مگر پارسائی

٭٭٭

ویرانۂ  ہستی

جسم میں جلی ہوئی تیلی

چشم جیسے مرے ہوئے جگنو

خواب کوئی نہ کوئی منظر ہے

دل کی دنیا بھی میری بنجر ہے

میرا ماحول بھی ستمگر ہے

٭٭٭

نہیں راس آیا سفر آگہی کا

کہ پایا نہیں کچھ ثمر آگہی کا

ہیں ناراض خوشیاں زمانے کی مجھ سے

بسایا ہے جب سے نگر آگہی کا

پذیرائی پائی نہیں اس جہاں میں

ہے اب گرنے والا شجر آگہی کا

ہے بے سود سب نقدِ احساس میرا

یہاں کچھ نہیں ہے اثر آگہی کا

مجھے جب نہ آئے سمجھ کچھ بھی ناقد

میرا ہاتھ تھامے خضر آگہی کا

٭٭٭

شب و روز کی بیقراری کا غم ہے

مجھے حالتِ اضطراری کا غم ہے

سخن میرا تہذیب نو کا ہے نوحہ

جہاں کی مجھے کاروکاری کا غم ہے

بھلا کیا سکوں سے میں جیون گزاروں

مجھے عالمِ آہ و زاری کا غم ہے

کسی دکھ سے میں مار کھاتا نہیں ہوں

جو پہلو میں ہے اُس کٹاری کا غم ہے

٭٭٭

راس نہ آیا وقت کا دھارا

جیون ٹھہرا برزخ سارا

اُس نے مجھ کو غم بخشا ہے

جو تھا میری آنکھ کا تارا

ہم نے کچھ یوں عمر گزاری

بے چینی تھی چین ہمارا

خوشیاں کیا دیتا اوروں کو

میں جو تھا اک درد کا مارا

دُکھ تھے میری قسمت ناقد

اس میں کیا ہے دوش تمہارا

٭٭٭

حدودِ حیرت سے ماورا ہوں

رموزِ فطرت سے آشنا ہوں

دیار میں تیرے اجنبی ہوں

میں اس نگر میں نیا نیا ہوں

میرا تو خود سے نہیں تعلق

میں خود سے بھی اب کٹا ہوا ہوں

تیری جدائی نے مار ڈالا

میں جی رہا ہوں کہ مر چکا ہوں

نہ چین آیا ہے پاس ناقد

غموں کے دوزخ میں جل رہا ہوں

٭٭٭

چراغِ ہستی میں روشنی کا سبب وہی ہے

سکوں وہی ہے جنوں وہی ہے غضب وہی ہے

جہاں میں جس کو کوئی بھی مطلق سمجھ نہ پایا

اے میرے دلدار میرا حالِ عجب وہی ہے

میرے شناسا گریز پا کیوں رہے ہیں مجھ سے

حسب وہی ہے نسب وہی ہے لقب وہی ہے

جہاں سے اوروں کو سکھ ملا ہے شفا ملی ہے

مگر مجھے سکھ نہیں ملا ہے مطب وہی ہے

اگرچہ تم بھی نہ پاس آئے اے میرے ناقد

میرے دروں میں مگر اے جاناں طلب وہی ہے

٭٭٭

آشوب

ہم ہیں چلتے پھرتے لاشے

جیون سے بیزار ہوئے ہیں

خوشیاں ہم سے دور ہوئی ہیں

کرب کا مسکن ہستی ٹھہری

جگ یہ ہم کو راس نہ آیا

دہر نے ہم کو خوب ستایا

٭٭٭

میرا اس جہاں میں سہارا نہیں ہے

وہ دریا ہوں جس کا کنارا نہیں ہے

فروغِ بدی ہے فقط کارِ شیطاں

سو مخلص وہ ہرگز ہمارا نہیں ہے

بصارت کو میری سکوں بخش دے جو

میرے روبرو وہ نظارا نہیں ہے

بھلا کیسے ملتی محبت کی منزل

کہ رُکتا کہیں بھی یہ دھارا نہیں ہے

ستایا مجھے دوستوں نے ہی ناقد

مجھے دشمنوں نے تو مارا نہیں ہے

٭٭٭

یہاں ہر نظر میں فقط کج روی ہے

کدورت سے یاروں کی اب دل لگی ہے

 زمانے کے غم سب مقدر اُسی کا

مروت سے جس کی ہوئی دوستی ہے

جسے میں نے سمجھا تھا اپنا مسیحا

سجن ہے وہی میرا دشمن وہی ہے

خوشی سے بھلا کیسے ہو آشنائی

مصائب کا مسکن میری زندگی ہے

میری عمر بیتی ہے جس کی طلب میں

مشیت سے ناقد مجھے وہ ملی ہے

٭٭٭

میں بنجارا اک آوارہ

درد کا مارا اک آوارہ

دنیا نفرت کرتی ہے اب

نام ہمارا اک آوارہ

مت اُس کی اَب آس لگاؤ

پیار تمہارا اک آوارہ

ساتھ سدا دیتا ہے کس کا

وقت کا دھارا اک آوارہ

ناقد ایک جگہ کیا ٹھہرے

گگن کا تارا اک آوارہ

٭٭٭

کوئی کسی کی کیا سُنے یہ بے حسی کا دور ہے

خوشی کسی سے کیا ملے یہ بے حسی کا دور ہے

ہیں ایک سب کی منزلیں ہیں راستے جدا جدا

نہ آپ ہم کو مل سکے یہ بے حسی کا دور ہے

مسافتوں کی دھوپ میں شرارتوں کے روپ ہیں

ہیں زخم سب ہرے ہوئے یہ بے حسی کا دور ہے

ستم ستمگروں کا تھا کسی نحیف جان پر

ہیں لوگ دیکھتے رہے یہ بے حسی کا دور ہے

اے ناقدِ ضعیف جاں لکھو نہ تم کہانیاں

زمانہ ان کو کیا پڑھے یہ بے حسی کا دور ہے

٭٭٭

مجھے کیسی دنیا میں مالک بسایا

جہاں ایک پل بھی سکوں کا نہ پایا

اگر تو نے ظالم بنانی تھی خلقت

تو پھر کیوں مجھے میرے خالق بنایا

شب و روز گزرے ہیں میرے دعا میں

پلٹتا نہیں پھر بھی تو میری کایا

بنا میری دھرتی کو فردوس جیسا

مٹا دے تو اس سے مظالم کا سایا

رہا تیری الفت سے محروم ناقد

میری جاں تجھے پیار کرنا نہ آیا

٭٭٭

Missed Call

فون کی جب گھنٹی بجتی ہے

یوں لگتا ہے جیسے تم نے

مجھ کو جاناں یاد کیا ہو

قبل ریسیور کو چھونے سے

کٹ جاتی ہے کال اچانک

٭٭٭

اداؤں سے میں دور ہونے لگا ہوں

مسلسل سکوں دل کا کھونے لگا ہوں

مجھے شوق آہ و فغاں کا نہیں ہے

رُلایا کسی نے سو رونے لگا ہوں

جہاں ایک دن مثلِ فردوس ہو گا

میں الفت کے وہ بیج بونے لگا ہوں

میرا من مودَّت کا آئینہ ہو گا

میں اشکوں سے اب اس کو دھونے لگا ہوں

گماں مجھ کو ناقد ہوا یہ بھنور میں

میں خود اپنی کشتی ڈبونے لگا ہوں

٭٭٭

ہے زندگی رواں دواں شعور کی صلیب پر

رقم ہوئی ہے داستاں شعور کی صلیب پر

حیات اپنی کٹ گئی اکیلے پن میں سوز میں

بنا نہ کوئی مہرباں شعور کی صلیب پر

صنم جو ساتھ ساتھ تھا توحسرتوں کا پاس تھا

بدل گیا ہے اب سماں شعور کی صلیب پر

یہ شاعری میری پیامِ عشق کی ہے شاعری

سوگنگ ہے میری زباں شعور کی صلیب پر

یہ قصہ بھی تمام ہو یہ غم نہ کاش عام ہو

نہیں رہا ہوں میں جواں شعور کی صلیب پر

کبھی جو پُر وقار تھے جو باعثِ بہار تھے

نہیں رہے ہیں وہ نشاں شعور کی صلیب پر

نہ پا سکے گا کوئی بھی میرا سراغِ پا کبھی

گیا ہوں میں کہاں کہاں شعور کی صلیب پر

میرا ہے نام مفلسی جہاں میں عام بے حسی

ہے میری بے اثر فغاں شعور کی صلیب پر

مصیبتوں کا ساتھ ہے طویل غم کی رات ہے

ستم ہوا ہے اب عیاں شعور کی صلیب پر

کوئی اُسے اُتار دے کسا ہوا ہے رات سے

یہ ناقدِ فگار جاں شعور کی صلیب پر

٭٭٭

ستم کبھی لکھے گئے ہیں زیست کے نصاب میں

مشقتوں کے بوجھ سے ہے جسم بھی عذاب میں

تمام عمر کی وفا مگر سدا ہوئی جفا

جہاں کو میں نے کیا دیا کیا ملا جواب میں

غم و الم اُٹھائے جاہے صبر تیرا پیشوا

سبق سدا یہی پڑھا حیات کی کتاب میں

اگر خلوص بھی نہیں کسی بھی اپنے فعل میں

تو فرق کچھ نہیں ہے پھر گناہ میں ثواب میں

ہے حُسن جلوہ گر تیرا یہی ہے چارہ گر میرا

میں پھر بھی تجھ کو دیکھ لوں رہے جو تو حجاب میں

جفاؤں کی ہے دوپہر حیات گو گئی گزر

کمی نہ آئی ذرہ بھر جناب کے عتاب میں

اب ناقد حزیں سنو یہ زندگی ہے بے وفا

کرو ضرور نیکیاں کہ وزن ہو حساب میں

٭٭٭

اب ظالموں کے شہر میں آہ فغاں بے سود ہے

جب ظلم ہی معمول ہے تو یہ جہاں بے سود ہے

روزِ ازل سے ہے میرے سَر پر بلاؤں کا نزول

یہ سر پہ ہے آکاش کا جو سائباں بے سود ہے

اب کیا بنائیں آشیاں اک سرنگوں سی شاخ پر

بجلی گرے جس پر سدا وہ آشیاں بے سود ہے

ہے چار سو بے راہروی اس قوم میں پھیلی ہوئی

ہم مان لیں کیسے کہ احساسِ زیاں بے سود ہے

میرا سفینہ ہو گیا ہے نذرِ طوفاں دوستو

اب ناخدا بے سود ہے اور بادباں بے سود ہے

قاصر ہوا ناقد حقیقت منکشف کرنے سے جو

حق بات جو کہتا نہیں اہلِ زباں بے سود ہے

٭٭٭

نہ مسجد ہے نہ مندر ہے کہیں پائیں نہ گھر اپنا

مسافت در مسافت ہے مسلسل ہے سفر اپنا

میرے ہر سو جو ظلمت ہے وہ آفت ہے قیامت ہے

اِدھر برہم سحر مجھ سے اُدھر تیرہ نگر اپنا

سفر ہے دھوپ کا پیہم مگر بے دست و پاہوں میں

چلا ہوں سوئے صحرا گو نہیں کوئی شجر اپنا

رہا کرتا ہوں خلوت میں کوئی ہو ہم سفر کیسے

نہ کوئی ہم نشیں اپنا نہ کوئی چارہ گر اپنا

نہ کوئی مہرباں مخلص نہ کوئی ہمدم و مونس

نہ کر لے سلب یہ دشتِ بلا نورِ نظر اپنا

گرانی ہے طبیعت میں سخن پر سوز ہے ناقد

نہیں ہوتا مگر ماحول پر کوئی اثر اپنا

٭٭٭

کج روی

آج کا انساں

زمیں و آسماں جس کیلئے

مصروفِ کار

جس کی خاطر ہیں مسخر بحر و بر

روح پر تھی جس کی عظمت کی اساس

مادیت کی زد میں کچھ آیا ہے یوں

کھو گیا ہے اِس کے اندر کا سکوں

ذہن پر اک بے حسی کا راج ہے

نفسا نفسی کا سماں ہے دہر میں

بن چکا ہے آہ انساں دو نوالوں کا غلام

 ٭٭٭

ازل سے وقفِ عذاب ہوں مَیں

مصیبتوں کا نصاب ہوں مَیں

سکون کیا میرے پاس آئے

کہ کشتہ ء اضطراب ہوں مَیں

پڑھا نہ پھر بھی کسی نے مجھ کو

اگرچہ دلکش کتاب ہوں مَیں

کبھی گناہوں سے میں ہوں بوجھل

کبھی سراپا ثواب ہوں مَیں

میں دیکھ پاؤں گا کیسے ناقد

کہ جب ورائے حجاب ہوں مَیں

٭٭٭

یہ جیون ہے تجھ بن عذاب اے پری وَش

تیرا ہجر لوٹے شباب اے پری وَش

تیرا نام ہے اصلِ دیوان میرا

لکھوں گا میں تجھ پہ کتاب اے پری وَش

سدا یوں ہی بے چین بے تاب رہنا

محبت کا ہے یہ نصاب اے پری وَش

بڑی ایک نعمت ہے دیدار تیرا

تیرا دیکھنا ہے ثواب اے پری وَش

تیرے عشق نے نشے بخشے ہیں کیا کیا

بھلا کیوں پئیں ہم شراب اے پری وَش

ہوں بسمل تمہاری جدائی میں ہر دم

میرے پاس آؤ شتاب اے پری وَش

تیرے پیار میں ہم نے کیا کیا نہ کھویا

لٹے شوق میں بے حساب اے پری وَش

ذرا دیکھے ناقد بہاروں کا منظر

ہٹا دینا رُخ سے نقاب اے پری وَش

٭٭٭

ادب کی ہے خدمت سدا کام میرا

ہے فن کے افق پہ نیا نام میرا

بشر کیلئے باعثِ آگہی ہوں

سو لازم ہے لوگوں پہ اکرام میرا

سبق اُس نے سیکھا نہیں اِس سے کوئی

سحر سے ملا اُس کو پیغام میرا

سدا سوز میں ہوں سدا کرب میں ہوں

غم انگیز لگتا ہے انجام میرا

مجھے کوئی شکوہ نہیں اس سے ناقد

بنایا قلم اس نے انعام میرا

٭٭٭

میں رہوں دھوپ میں یا رہوں چھاؤں میں

میری خواہش ہے کہ میں رہوں گاؤں میں

زندگی میں کبھی چین پایا نہیں

میں بھٹکتا رہا یوں ہی صحراؤں میں

میں تجھے بھول جاؤں یہ ممکن نہیں

تو کہ شامل ہے میری تمناؤں میں

زندگی سے غموں سے عبارت میری

آنکھ میری کھلی نیر دریاؤں میں

حسرتوں میں سدا تیرا ناقد رہا

اس لئے کرب ہے اس کی آشاؤں میں

٭٭٭

نظر میں جب کوئی خواب اترے

مصیبتوں کا نصاب اترے

سبق سکھا دے جو آشتی کا

کوئی تو ایسی کتاب اترے

قیامتوں کی قطار دیکھی

جو مہ وَشوں کے نقاب اترے

کہ یاد طوفانِ نوح آئے

کوئی نہ ایسا عذاب اترے

عجیب سا چین دل نے پایا

جو دل میں ناقد جناب اترے

٭٭٭

جدو جہد

مجھے کچھ سانس لینے دو

مجھے کچھ اور جینا ہے

ابھی ارمان باقی ہے

ابھی آشائیں زندہ ہیں

ابھی تک میں نہیں ہارا

ابھی تک جنگ جاری ہے

٭٭٭

ہے بے سود سب زندگانی گزاری

نہ عقبیٰ ہمارا نہ دنیا ہماری

مشیت نے احسان ایسا کیا ہے

ودیعت ازل سے ہوئی بیقراری

قدم رکھا روتے ہوئے اس جہاں میں

یہ سانسوں کی ڈوری بنی ہے کٹاری

سدا عیش و فرحت کو ترسے ہیں ہم بھی

لبوں پہ مسلسل رہی آہ و زاری

نہیں دونوں عالم میں حصہ ہمارا

وہ عقبیٰ تمہارا یہ دنیا تمہاری

یہ جیون ہمیں راس آیا نہ ناقد

بسر بے کلی میں ہوئی عمر ساری

٭٭٭

میرا زندہ رہنا گراں ہوں گیا ہے

کہ اب مثلِ دوزخ جہاں ہو گیا

غمِ زندگی نے بھی حیراں کیا ہے

گناہ مجھ سے ایسا کہاں ہو گیا ہے

ہوئی جب بھی تحقیر بیٹے سے میری

یہ سمجھا کہ بیٹا جوان ہو گیا ہے

میرے دل کی دنیا تھی جنموں سے ویراں

تو آیا تو روشن سماں ہو گیا ہے

نہیں اب مزا زندہ رہنے میں ناقد

کہ جیون بھی اک امتحان ہو گیا ہے

٭٭٭

محبت کا انجام رسوائی بھی ہے

مقدر میں عاشق کے تنہائی بھی ہے

میری شاعری سوز سے ہے مزیّن

سو حاصل سُخن کو پذیرائی بھی ہے

فقط غم نہیں زندگانی کا حصہ

کہ جیون میں شامل تو شہنائی بھی ہے

نہیں آگہی اپنی ہستی کی جس کو

وہ پاگل بھی ہے اور سودائی بھی ہے

بہت قرض ہیں زیست کے مجھ پہ ناقد

مگر مجھ کو درپیش مہنگائی بھی ہے

٭٭٭

بدن کرب سے کربلا بن گیا ہے

کہ جیون بھی اپنا سزا بن گیا ہے

کٹی عمر ہر چند آہ و فغاں میں

میرا نالہ پر نارسا بن گیا ہے

عبادت میں رہنا تھا مصروف اس نے

یہاں آ کے بندہ خدا بن گیا ہے

نہ جی بھر کے کیں اس نے مجھ پر جفائیں

ستم گر عجب بے وفا بن گیا ہے

مجھے اب کے ناقد کوئی غم نہیں ہے

کہ جینا شکیب آزما بن گیا ہے

٭٭٭

میرا شوق یا رب بڑھا دیجیئے

مجھے عشق بے انتہا دیجیئے

جو پیاسے ہیں ان کو پلا دیجیئے

جو بھوکے ہیں ان کو کھلا دیجیئے

میرے رتجگے کرب ٹھہرے میرا

سو کوئی مناسب صلا دیجیئے

پجاری میرا من نہیں جسم کا

نہ جذبات کو اب ہوا دیجیئے

میرے حزن کو استقامت ملے

غزل میر کی اک سنا دیجیئے

میری پیاس ناقد ہے لا انتہا

مجھے اک سبو بھر کے لا دیجیئے

٭٭٭

مرگِ اقدار

دے جاتا ہے ڈوبتا سورج یہ سندیسہ

ڈوب رہی ہیں ساتھ میرے اقدام کی نبضیں

پھیلے گی اغراض پرستی کی تاریکی

مزدوروں کا خون بکے گا ارزاں ارزاں

خوشیوں سے محروم رہیں گے درد کے مارے

اپنی موت ہی مر جائیں گے یہ دکھیارے

٭٭٭

جو الفتوں کے نصاب لکھے

عذاب ہی بَس عذاب لکھے

ستم ہوئے مجھ پہ حد سے بڑھ کر

کوئی جو لکھے کتاب لکھے

فقیہ اپنا بھی فتنہ گر ہے

گناہ کو بھی ثواب لکھے

میں لکھنا چاہوں قلم سے جب بھی

یہ نام تیرا جناب لکھے

یہی مقدر ہے فاقہ کرنا

تیرے لئے ہیں کباب لکھے

بسر ہوا کیسے میرا جیون

ستم کے ناقد ہیں باب لکھے

٭٭٭

زندگی خواہشوں کی پجاری لگی

اس لئے ہی مجھ کو پیاری لگی

سنگ باری ہوئی مجھ پہ جس راہ میں

میرے دلبر گلی وہ تمہاری لگی

جس کے گھاؤ نے سکھ سے نہ رہنے دیا

کوئی پہلو میں ایسی کٹاری لگی

جسے محشر ہو دنیا کے احباب کو

فکر اپنی لگی کب ہماری لگی

تم نے جانا ہے نغماتِ عشرت جنہیں

وہ تو ناقد ہمیں آہ و زاری لگی

٭٭٭

میری حیات کیا ہے جیسے اک کٹی پتنگ ہے

یہ سلسلہ عجیب ہے کہ قلب و جاں میں جنگ ہے

بسا ہوا ہے دل میں تو نہاں ہے دھڑکنوں میں تو

ہے میری جستجو بھی تو کہ تو میری اُمنگ ہے

اے جانِ جاں نہیں خیال جز تیرے کوئی مجھے

اگرچہ تیرے ہاتھ میں میرے لئے بھی سنگ ہے

خفا نہیں ہوں تجھ سے میں اے جانِ جاں اے دلربا

یہی تو تیرے پیار کا میرے دروں میں رنگ ہے

حضور پوچھئیے نہ حال ناقدِ فگار کا

وہ گا رہا ہے پاس گو رباب ہے نہ چنگ ہے

٭٭٭

کیے میں نے جِن جِن پہ احسان اکثر

اُنھوں نے کیے میرے نقصان اکثر

جفائیں بھی کرتے ہیں کچھ اس طرح وہ

کریں جیسے معصوم و نادان اکثر

ہو کم تو ہے لغزش معافی کے قابل

مگر کیوں کرے جرم انسان اکثر

میرے پیار کے آپ قابل نہیں ہیں

وہ کرتے ہیں مجھ سے یہ فرمان اکثر

اگرچہ بہت کوششیں میں نے کی ہیں

نہ پورے ہوئے میرے ارمان اکثر

ہے نازو ادا کی بہت اُس کو عادت

سو کرتا ہے مجھ کو پریشان اکثر

٭٭٭

سدا اہلِ حق تم جتاتے ہو خود کو

تو پھر کیوں بھٹکتا ہے ایمان اکثر

میری کاوشوں میں ہے فطرت سمائی

میرے کام کرتا ہے وجدان اکثر

میرا حکم حق بھی ہے راہِ عمل بھی

یہی بات کہتا ہے قرآن اکثر

وہ قادر بھی ہے اور غفار بھی ہے

مگر مجھ سے ہوتا ہے نسیان اکثر

سوا میرے قادر کسی کو نہ مانو

یہ فرمائے قرآں میں یزدان اکثر

ملے تم تو رونق ہی رونق ہے ناقد

تھی پہلے میری راہ ویران اکثر

٭٭٭

بندہ سب کچھ کر سکتا ہے

جیتے جی بھی مر سکتا ہے

ہنسنا بھی آتا ہے اس کو

وہ جو آہیں بھر سکتا ہے

گر چاہے صحرا میں انسان

کر آباد نگر سکتا ہے

مخلص ہے گر میرے حق میں

بن وہ چارہ گر سکتا ہے

میرا ہر اک شعر ہے ایسا

کر جو خوب اثر سکتا ہے

وہ لذت ہے ہر مصرعہ میں

دل کے پار اتر سکتا ہے

ناقد کون اسے روکے گا

دل پر پاؤں دھر سکتا ہے

٭٭٭

پیامِ الفت

کدورتوں کے جہاں میں یارو

محبتوں کی ضیا بکھیرو

یہ نفرتوں کے شجر ہیں پاتال سے بھی گہرے

جڑوں سے ان کو اُکھاڑ ڈالو

جو راستے میں بنے رکاوٹ

اسے محبت سے موم کر دو

اسے مروت سے رام کر دو

٭٭٭

تشکر:  حیدر لاشاری جن کے توسط سے اس کی فائل وصول ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید