FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

(مضامین، تبصرے و تذکرے)

 

تعارف و معیار

اسلم عمادی

کتاب کا نام     :  ’’تعارف و معیار‘‘

مصنف :  اسلم عمادی

ترتیب و تزئین   :  جعفر جری

رابطۂ مصنف    :  E-mail: aslamimadi@yahoo.com

حیدرآباد:  w # 12 -2-823/C47 ایس بی آئی کالونی، مہدی پٹنم، حیدرآباد۔  28 (تلنگانہ اسٹیٹ) انڈیا۔

امریکہ:  w # 550, Glen Ridge Drive, Bridgewater, NEW JERSEY – 08807. USA

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یَا عِمادُ مَن لَا عِماد لَہُ

انتساب

اُردو صحافت، رسائل اور جرائد کے نام

جو اس زبان کی بقاء اور ترویج کے لیے کوشاں ہیں

        (اسلم عمادی)

نکات و نقاط

       میرا پہلا نثری مضامین کا مجموعہ ’’ادبی گفتگو‘‘ ۲۰۰۷ء میں اشاعت پذیر ہوا۔  ادبی گفتگو کو میں نے کافی سوچ بچار کے بعد اربابِ ادب کی نذر کیا تھا۔  اس کتاب پر اتنے مضامین تبصرے، خطوط اور فون آئے کہ دل کو اطمینان سا محسوس ہوا۔  اپنا ایک مصرعہ سچ ہوتا ہوا لگا کہ:

’’ ہم بھی کچھ ہیں ہمیں اس طرح کا دھوکا سا لگے‘‘

        عزیزم جعفر جری کی کمپوزنگ، ترتیب و تزئین، اجرا و نشر میں سلیقہ مندی نے میری اس پیشکش کو خاطر خواہ کامیابی سے ہم کنار کیا۔

٭     ’’ادبی گفتگو‘‘ پر اکابرین، احباب اور مبصرین نے اظہار خیال کیا، تو یہ احساس قوی ہوا کہ کچھ تو ہے جو میری تحریروں کو اعتبار بخشتا ہے۔  نام ہی کچھ ایسے ہیں ؛ حسن فرخ (مرحوم)، مغنی تبسم (مرحوم)، قدیر زماں (مرحوم)، شمس الرحمن فاروقی، افتخار امام، مصحف اقبال توصیفی، مظہر امام (مرحوم)، علی ظہیر (مرحوم)، زبیر رضوی (مرحوم)، قطب سرشار، مرزا عمیر بیگ، مقصود الٰہی شیخ، سلیمان اطہر جاوید (مرحوم)، دیپک بد کی، شاہد حنائی، حامدی کاشمیری، قیوم راہی، سلام بن رزاق، عامر قدوائی، شکیل جمشید پوری، میمونہ علی چوگلے، حنیف کاتب اور بہت سے ہم سفر۔

٭     میں ان تمام مہربانوں کا بے حد ممنون ہوں اور جو راہی ملکِ عدم ہوئے اُن کی مغفرت کے لیے دعا گو ہوں۔  مجھے اس کا بھی اندازہ ہے کہ بہت سے اور لوگ بھی ہیں ؛ جو شاید بہ وجوہ لکھ یا کہہ نہ پائے یا، اُن تک ہماری رسائی راست نہ ہو سکی۔  وہ بھی میرا دِلی تشکر قبول فرمائیں۔

٭٭      دلکش اور معیاری نثر و نظم دونوں کا میں شائق رہا ہوں۔  اُردو، انگریزی اور کچھ حد تک عربی تحریروں میں اپنی پسند کے مطابق ذوقِ مطالعہ کی تسکین حاصل کرتا رہتا ہوں۔  جدید، قدیم، اساطیری، تجرباتی سب تحریریں پڑھتا رہتا ہوں کہ نہ جانے کون سی بات اچھی لگے۔  ہو سکتا ہے کہ میری پسند کا زاویہ سب کے جیسا ہی ہو یا پھر مختلف۔

٭     میں نے بعض ایسے عمدہ لکھنے والوں کو پڑھا ہے کہ جن کی تحریریں درِ دل پر دستک دیتی رہیں۔۔  باوجود اس کے کہ ہو سکتا ہے کہ میرا ذہن اُن کی ہر منطق سے متفق نہ رہا۔  کچھ ایسے بھی لکھنے والے ہیں جن کی تحریریں بوجھل، الفاظ و اصطلاحات سے لدی پھندی، فلسفہ اور منطق سے لیس بلکہ مسلح لیکن قاری کے لیے غیر دلچسپ۔  مجھے اس بات کا جلد ہی ادراک ہو گیا کہ کم از کم تحریر مقصود ترسیل کو واضح طور پر سر انجام دے کہ حقِ اظہار کچھ فیصد ادا تو ہو۔

       یہاں پر میں اُن مصنفوں اور مولفوں کا ذکر ضرور کروں گا کہ وہ ادب کے اُفق پر اُبھر آئے ہیں نجوم کی طرح۔  اُن میں طرح طرح کے ماہرین بلکہ اُستادانِ فن ہیں، بزعم خود یا بر زبان عام۔۔  مثلاً:  کچھ لائق فائق تنقید نگار اپنے مضمون کی ابتدا کے تین چار پیراگراف مغرب یا مشرق کی حوالوں سے مزین کر دیتے ہیں (فارسی اور عربی یا پھر انگلش، فرینچ، جرمن کے یا ایسی ہی غیر ملکی زبان کے) چاہے موضوع سے مطابقت رکھیں یا قریب قریب کے ہوں تو مضمون میں زورِ بیان پیدا کرنے اور اوّلین آرائش کے لیے ممد و معاون بنا لیتے ہیں، ان عظیم ناقدین کی علمیت کا ایک زمانہ قائل ہو جاتا ہے اس طریقۂ کار کے سبب۔

       ایک اور نوع ایسے ادیبوں کی ہے جو اپنے مضامین میں اپنی خدمات و علمیت کا ذکر بالواسطہ یا بلا واسطہ سے کر کے اوراق سیاہ کرتے ہیں عبارتوں میں یہ بھی ذکر ہوتا ہے کہ کسی کو کس طرح کام دلایا یا ترقی کروائی، یا کس مسئلہ کا حل کر دیا۔۔  ایسے مضامین عموماً آپ بیتی، سوانح اور خاکوں میں پائے جاتے ہیں۔

       کچھ ناقدین محاذ آرائی میں مہارت رکھتے ہیں وہ اپنے پسندیدہ موصوف شاعر یا ادیب کو گھڑ دوڑ میں سب سے آگے لے جانے میں بضد ہو تے ہیں، بار بار اپنے ارشادات کی تکرار و تاکید بھی کر تے جاتے ہیں، یہ ظالم کبھی کبھی اچھے خاصے قلم کار کو ناکام بنا نے کے لیے طرح طرح کے غیر متعلق جملے لکھ جاتے ہیں۔

       اس کے علاوہ کچھ رسائل کے مدیر یا اربابِ حل و عقد، جامعات اور کلیات، مذہب و مسلک، اداروں اور تحریکات سے وابستہ یا منسلک لوگ مخصوص مصلحتوں سے نثر نگاری کرتے ہیں۔  ان مطبوعات میں چند تود رجۂ اوّل کی ہو تی، مگر بیش تر اُصولی اور مخصوص ڈھانچہ پر ترتیب عمومی نوع کی ہوتی ہیں جو نصابی ڈھانچہ کے سبب لکھی جاتی ہیں۔

        گرچہ زمانۂ حاضر کی مطبوعات میں اُردو ادب کی نثری کتابوں کی بہتات ہے۔  لیکن عموماً جس معیار کی کتابیں سامنے آ رہی ہیں وہ دل کو نہیں بھاتیں۔  اُردو ادب کے میدان میں غالب کے بقول:  ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی، کچھ خام کار اپنی جبلت کی تسکین کے لیے بھی مصنف بنے پھر تے ہیں۔  اُن کی بھی کتابوں میں بھی کبھی کبھی کوئی چمکتا شرر مل جاتا ہے۔  ورنہ راکھ ہی راکھ۔

٭     اب بھلا اُس انبار میں اور طباعت و نشر و اشاعت کی اس دل شکن کیفیت میں مجھے ایک اور نئی نثری کتاب کو ترتیب دیتے ہوے عجیب سی بے دلی محسوس ہوتی رہی۔ لیکن کچھ حد تک مذکورہ بالا تبصروں اور تذکروں نے یہ احساس دلایا کہ میری تحریریں بھی کسی حد تک وجودی شناخت رکھتی ہیں۔  اور مجھے نثری اور تنقید مضامین لکھنے چاہئیں۔  چاہے یہ آواز پُر زور نہ ہو، پُر شور نہ ہو۔۔  لیکن آواز تو ابھرے۔۔  اچھی نثر کے سناٹے کو توڑنے کی کوشش تو ہو۔

        اس لیے ’’ادبی گفتگو‘‘ کے بعد ایک دہائی گذرنے پر میں نے دیکھا کہ خاصی تعداد میں میرے مضامین اور تحریریں جمع ہیں، جو اس قابل ہیں کہ کتابی شکل میں طبع ہو جائیں، شاید کوئی کبھی کسی طرح اس سے مستفید بھی ہو۔

       جب میں نے عزیزم جعفر جری سے اس بات کا ذکر کیا تو اُن کی رائے کو مثبت پایا۔  جعفر نے میری تحریروں کے انتخاب اور ترتیب میں بھی قابلِ ذکر مساعدت کی۔  اس طرح یہ کتاب کی تشکیل ہوئی۔

تو قارئین!! ان حالات و کوائف کے درمیان میں یہ کتاب ’’تعارف و معیار‘‘ آپ کی نذر کر رہا ہوں۔۔  ’’گر قبول افتد زہے عز و شرف‘‘

        ’’تعارف و معیار‘‘ میں فنِ شعر کی اہمیت پر ایک مضمون ہے، اس کے علاوہ اہم مطالعے، منتخب تحریریں، وفیات اور تبصرے شامل ہیں جو مختلف مراحل پر میں نے لکھے، حیدرآباد میں بھی اوراپنے کویت کے قیام کے دوران، اخبارات، رسائل اور مجلات کی اشاعتوں، مخاطبتوں، مشاعروں، ادبی محفلوں، سیمیناروں اور ادبی مجالس میں شرکت کے تناظر میں۔  ان میں سے بیش تر تحریریں اشاعت پذیر ہوئی ہیں۔

٭٭      میری محبتیں اور ممنونیت اُن تمام کے لیے جنھوں نے میری قدردانی کی:

       (۱) ادارے اور انجمنیں:  ادارۂ ادبیات اُردو، حیدرآباد لٹریری فورم، ارباب کویت آئیل کمپنی، انجمن تہذیب ادب کویت، حیدرآباد مسلم ویلفیر ایسوسی ایشن کویت، انڈین مسلم ویلفیر ایسوسی ایشن کویت، کوکن ادبی سرکل کویت، انجمن فروغِ ادب کویت، مجلس فخرِ بحرین برائے فروغ اُردو اور بہت سے ہند و پاک کے ادیب اور شعرائے کویت۔

       (۲) اخبارات، رسائل و جراید:  روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد، روزنامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد، روزنامہ ’’ اعتماد‘‘ حیدرآباد، ’’ذہن جدید‘‘ دہلی، ’’نئی کتاب‘‘ دہلی، ’’اسباق‘‘ پونا، ’’تحریک ادب‘‘ وارانسی، ’’لاریب‘‘ لکھنو، ’’سب رس‘‘ حیدرآباد، ’’شعر و حکمت‘‘ حیدرآباد، ’’برگِ آوارہ‘‘ حیدرآباد، ’’وقارِ ہند‘‘ حیدرآباد، ان کے علاوہ ’’ادبی گفتگو‘‘ می شامل مضامین جن رسائل میں شائع ہوئے جیسے ؛ ’’کتاب‘‘ لکھنو، ’’آہنگ‘‘ گیا، ’’مورچہ‘‘ گیا، ’’پیکر‘‘ حیدرآباد، ’’کتاب نما‘‘ دہلی، ’’ہماری زبان‘‘ دہلی، ’’آندھراپردیش‘‘ حیدرآباد۔ وغیرہ

٭     میرے لیے یہ موقع اُن محترم لوگوں کو بھی یاد کرنے کا ہے، جو اوائل زندگی میں مجھے نثری تحریروں کی سمت راغب بھی کرتے اور ہم نوائی بھی۔۔  اُن میں سے چند نام یہ ہیں جن کا میں ہمیشہ شکر گزار رہوں گا:  مولوی ابراہیم عمادی ندوی، مولوی سعید الحق عمادی، وقار خلیل، کلام حیدری، کنول پرشاد کنول، اختر حسن، عزیز قیسی، اکمل حیدرآبادی، محمود خاور، حسن فرخ، عابد سہیل، اکبر الدین صدیقی، نقی علی خان ثاقب، غیاث متین، اعظم راہی، صفدر حسین، راشد آذر اور بہت سے ایسے مہربان جو کسی نہ کسی مرحلے میں میرے قریب رہے۔  اس لمحہ ممنونیت میں میں اپنے اُن مہربان اساتذہ کو بھی یاد کرنا چاہوں گا جنھوں نے میرے ادبی اور علمی ذوق کو تازہ کار کیا، محترمان ؛ عبد الشکور، قدرت اللہ بیگ، مسعود مرزا، پروفیسر رام جی، پروفیسر سید سراج الدین، غلام جیلانی اور کئی۔  (اُن میں کئی فردوسِ مکاں ہو چکے ہیں، اللہ مغفرت کرے)

٭     ان مضامین کی تخلیق اور اشاعت کے دوران میری اہلیہ عالیہ تسنیم نے جس رفاقت اور ہم سفری سے ساتھ دیا وہ بے مثل ہے، وہ ہر طرح شکریے کی حقدار ہیں۔  وہ احباب جنھوں نے کویت کے زمانے میں میری ان تحریروں کو پہلے پہل پڑھا اُن میں جو نام مجھے قیمتی ہیں وہ ہیں نور پرکار، صابر عمر گالسولکر، میر راشد علی، جعفر جری، ڈاکٹر سید خواجہ مشتاق علی، عامر قدوائی، شکیل جمشید پوری، نذیر فتح پوری، جاوید انور، اقبال وانو، محبوب عالم اور جاوید مسعود۔۔ اور کئی۔

       … آخرِ کلام جو اوّلِ کلام ہے:

       میں ہر حال میں اور ہر لمحہ شکر بجا لاتا ہوں ربِ کریم اللہ تعالیٰ کا جس کا کرم ہمیشہ ہم پر رہا اور دِلی احسان مندی سر چشمۂ رُشد و ہدایت سرکارِ دو جہاں محمد مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جناب میں کہ جن پر میرا سب کچھ فدا۔۔۔

       اسلم عمادی

تعارف و معیار کا معروضی مطالعہ

       اسلم عمادی نے اپنے منتخب مضامین، تبصروں اور تذکروں پر مشتمل نثر پاروں کو ’’تعارف و معیار‘‘ میں یکجا کیا ہے۔  ’’تعارف و معیار‘‘ سے قبل موصوف کی نثری تحریروں کا پہلا مجموعہ ’’ادبی گفتگو‘‘ کے نام سے شائع اور مقبول ہو چکا ہے۔  یہ اُن کی نثری تحریروں کا دوسرا مجموعہ ہے لیکن مشمولات کے پیش نظر اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

       موصوف عمادی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔  آپ کے آباء و اجداد نے ہندستان میں اپنی علمی خدمات کے وصف فتوحات حاصل کیں۔  اسلم عمادی پیشہ کے اعتبار سے انجینئر ہیں لیکن بنیادی طور پر ایک سوچتے ہوئے ذہن کے مالک ہیں اور شاعری میں اپنی فکر کو پیش کرتے ہیں۔  چوں کہ تلمذ الرحمن ہیں اسی لیے کسی کو اپنا اُستاد نہیں بنایا، فکرِ صحیح اور وجدان کی رہنمائی میں کلام موزوں کرنا شروع کیا۔ ابتداء میں غزل پر توجہ دی چناں چہ پہلی غزل ۱۹۶۲ء میں حیدرآباد کے روزنامہ ’’رہنمائے دکن‘‘ کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوئی جب اسلم عمادی کی عمر صرف ۱۴ برس کی تھی۔  تا حال شاعری کے چار مجموعے اور غزل کا ایک مجموعہ شائع ہو کر اپنے قارئین سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔

       اسلم عمادی کو نثر لکھنے میں بھی خاص دل چسپی ہے۔  اُن کا پہلا نثری مضمون ادارۂ ادبیاتِ اُردو کے رسالہ ’’سب رس‘‘ میں ۱۹۶۵ء میں اشاعت پذیر ہوا اُس وقت صاحبِ موصوف کی عمر صرف ۱۷ برس کی تھی۔  ’’سب رس‘‘ اُس زمانے میں اپنے شباب پر تھا اور اُردو کے بڑے سے بڑے ادیب و محقق کی آرزو ہوتی تھی کہ اُس کی تخلیق ’’سب رس‘‘ کا حصہ بنے۔  نوجوان اسلم عمادی کے لیے یہ ایک کارنامہ سے کم نہ تھا کیوں نہ ہو، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔۔۔  اسلم عمادی شاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی ابتداء ہی سے اپنی تخلیقات پیش کرتے رہے ہیں۔  اس کتاب میں موجود اُن کی مختلف تحریروں پر موجود سنین اس کی سند پیش کرتے ہیں۔  اسلم عمادی نے اپنے اس مجموعہ میں چھ عنوانات ’’مطلعِ سخن‘‘، ’’خصوصی مطالعے‘‘، ’’مختصر اہم تحریریں‘‘، ’’بابِ کویت‘‘، ’’فردوسِ مکاں‘‘ اور ’’ چند اور تبصرے‘‘ کے تحت اپنی تخلیقات اکٹھا کی ہیں۔

        ’’مطلعِ سخن‘‘ میں اسلم عمادی نے شاعری اور شاعری کی اہمیت و افادیت سے بحث کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ انسانی جذبات و محسوسات کی کامیاب ترسیل کے باعث شاعری کے ساتھ ساتھ شاعر بھی زندہ رہے گا۔ فہرست کے دوسرے عنوان ’’خصوصی مطالعے‘‘ کے تحت اُنھوں نے جو مضامین یکجا کیے ہیں کتاب کا یہ حصہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔  پہلے دو مضامین اُردو کے دو جدید شاعر شکیب جلالی اور عرفان صدیقی کے کلام کو موضوع بنا کر لکھے گئے ہیں اور ان شاعروں کی فکر کو روشن کرنے کی سعی بلیغ کی گئی ہے۔

        ’’منجمد پُر شور دریا‘‘ حیدرآباد کے معروف جدید لب و لہجہ کے شاعر جناب مصحف اقبال توصیفی کی شاعری پر قابلِ ذکر مضمون ہے۔  مصحف اقبال نے شاعری کے پہلے دور میں روایتی موضوعات کو طبع آزمائی کے لیے اپنایا تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اُنھوں نے نظم و غزل میں نہ صرف ہیئت کے تجربے کیے بلکہ زندگی کی حقیقتوں کو پیش کیا۔  اسلم عمادی، مصحف اقبال توصیفی کے اس بدلتے ہوئے رویہ اور رجحان کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان دونوں ادوار میں شاعر کامیاب نظر آتا ہے۔  ایک اقتباس دیکھیے:

        ’’ وہی شاعر جو ابتدائی دور میں چاہتوں، دوست داریوں اور کارِ جہاں کی جہد میں مصروف ملتا ہے، اب حقائق سے روشناس ہو کر غیر رومانی فلسفیانہ صداقتوں سے دوچار ہے اور بکھرتی ہوئی زندگی کو سمیٹنے کے لیے کوشاں ملتا ہے اور کمال یہ کہ دونوں ادوار میں اسلوب کی مخصوص انفرادیت قائم ہے۔‘‘ (ص:  ۵۴)

       اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلم عمادی تخلیقات کے مطالعہ کے بعد متن میں پوشیدہ بین السطور میں موجود معنوں کی گرفت کرتے ہوئے اُن کی باز تخلیق کرتے ہیں جو اُن کے تنقیدی شعور کی دلیل ہے۔  اسلم عمادی نے ’’مجتبیٰ حسین کو سلام‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون اس مجموعہ میں شامل کیا ہے، اس مضمون میں اسلم صاحب کا تنقیدی شعور اپنی داد چاہتا ہے۔

       مجتبیٰ حسین نے نثر کی کئی اصناف میں اپنی تخلیقات پیش کیں ہیں، انشائیہ، کالم، خاکہ، سفرنامہ، مضامین وغیرہ وغیرہ۔  اسلم عمادی نے مجتبیٰ حسین کی ان تحریروں کا بغور مطالعہ کرنے بعد ان اصناف کی پیش کش کے پس منظر میں کارفرما مجتبیٰ حسین کے فن کے وسیلہ اور مزاج کو گرفت میں لیا ہے جو قابل تحسین ہے۔  ایک اقتباس دیکھیے:

        ’’ایک کامیاب انشائیہ نگار کی حیثیت سے مجتبیٰ حسین اپنی تحریروں میں وسیلہ اور مزاج اشاعت کی مناسبت سے مواد پیش کرتے ہیں۔  کالم نگاری میں صحافتی زبان کی سادگی ملتی ہے۔  تو خاکوں میں اختصار کے ساتھ اپنے نرالے انداز سے تعارف، ان کے مستقل مضامین مختلف طول کے ہوتے ہیں، بعض تشفی بخش حد تک موضوع کی مناسبت سے طول رکھتے ہیں اور دائرہ تحریر کشادگی رکھتا ہے تو بعض وسیلۂ اشاعت کے لحاظ سے مختصر لیکن مسکت۔‘‘ (ص:  ۵۷)

       مجتبیٰ حسین اور اسلم عمادی ہم عصر ادیب و فنکار ہیں دونوں نے تقریباً ایک ہی زمانہ بلکہ سالِ ادب کی دنیا میں قدم رکھا پھر دونوں حیدرآبادی پھر دونوں دوست۔  اسلم عمادی نے جس فنکارانہ ایمانداری سے مجتبیٰ حسین کی تحریروں پر اظہارِ کیا ہے اُسی طریقۂ کار سے اُنھوں نے نوجوان شاعرہ کے فن کو بھی تنقیدی شعور کی کسوٹی پر آنکہ ہے۔  چناں چہ کنیڈا کی متوطن پروین شیر کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:

        ’’ان کی زبان معیاری اور بیان بالراست ہے وہ ایک مہذب معاشرہ کی شاعرہ ہیں جو دنیا کے حسن و قباحت کو اپنے معیاراتِ صیقل پر پرکھتی ہیں۔  ان کی شاعری میں نیچرل شاعری کی طرح لفظیات ملتی ہیں مثلاً پہاڑ، چاند، تارہ، جھرنا، بچہ، بچی، ڈالی، پتّی، پھول، کیاری، بستی، وادی، دریا وغیرہ۔‘‘ (ص: ۶۹، ۷۰)

       بظاہر تو یہ ایک معمولی بیانیہ معلوم ہوتا ہے کہ نیچر شاعری کا حصہ ہوتا ہی ہے۔  لیکن اُردو شاعری کی روایت پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ سرسید تحریک کے تحت نیچرل شاعری کو فروغ ہوا لیکن بعد میں (اکبر الہٰ آبادی اور دوسروں کی تنقید کی وجہ سے) شعراء نے اس کو ترک کر دیا اب جب کہ بیسویں صدی کے آخر میں پروین شیر نے اس روایت کا احیاء کیا ہے تو یہ ایک اچھی تبدیلی کہی جائے گی۔  اسلم عمادی کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ اُنھوں نے نذیر فتح پوری کی فرمائش پر پروین شیر کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے اس عنصر کی نشاندہی فرمائی۔

       اس مجموعہ میں شامل آیندہ دو مضامین ’’نور پرکار کی نظم:  کہا اُس نے‘‘ اور ’’شاہد میر کی غزل سرائی‘‘ سے متعلق ہیں۔  محسن جلگانوی کی کتاب ’’جدید شاعری کی نمائندہ آوازیں‘‘ اور جعفر جری کی ایک نمائندہ تصنیف ’’غزلِ مسلسل روایت اور فن‘‘ اس مجموعہ میں شامل ایسے مضامین ہیں جن کی داد اسلم عمادی صاحب نے دل کھول کر دی ہے کہ مواد اور اُس کی پیش کش پڑے منضبط انداز میں کی گئی ہے۔  یہ دونوں ہی حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے اسکالر ہیں اور غالباً یہ دونوں کتابیں اُن کی ڈاکٹریٹ کی کاوشیں ہیں۔

        ’’تعارف و معیار‘‘ میں شامل مضامین کا تیسرا عنوان ’’بابِ کویت‘‘ ہے۔ اس میں آٹھ شاعر و ادیب کے فن کو موضوع بنایا گیا ہے۔  در اصل یہ حصہ اس کتاب کا حاصل ہے۔  (بات ’’مختصر اہم تحریریں‘‘ میں اس بابت شمار ہو سکتا تھا) ۱۹۸۰ء کے بعد مابعد جدے دیت کے تصورات جب تنقید کا حصہ بنے تو اُس مہاجر شعراء و ادیبوں کی تخلیقات کا مطالعہ خصوصی انداز میں کیا جانے لگا اور اس ادب کو مہجری ادب کا نام دیا گیا۔  ’’بابِ کویت‘‘ میں شامل مضامین اسی مہجری ادب کو پیش کرتے ہیں اس باب میں اسلم عمادی نے سات شاعر اور ایک افسانہ نگار اور اُن کے فن کا تعارف پیش کیا ہے۔  یہاں طوالت سے دامن بچانے کے لیے افسانے کا ایک مختصر اقتباس اور اسلم عمادی نے شعراء کے جن اشعار کا انتخاب کیا اُن میں سے چند شعر بلا تبصرہ و تعارف پیش کیے جاتے ہیں کہ یہ اقتباس اور یہ اشعار خود اپنا تعارف ہیں۔  افسانے کا اقتباس دیکھیے:

        ’’ اس سے پہلے یہاں میرا اپنا تھا کون؟ آج میں اکیلی کب ہوں تم بھی تو ہو۔  اپنا گھر بار چھوڑ آنے کے بعد ہم سب اس گھریلو ماحول کے لیے ترستے ہیں جو ہمارے کلچر کا خاصہ ہے، تم مجھے باتوں میں نہ اُلجھاؤ آج میں جانے بغیر نہ مانوں گی۔ آخر میرا بھی تو کچھ حق ہے؟‘‘ (افسانہ ’’ شام کا مسافر‘‘ از عمیر بیگ۔ ص:  ۱۱۶)

       اشعار ملاحظہ ہوں:

اب رنگ بھرے نہ کوئی مصور حیات میں

ہر لمحہ انتشار کا موسم ہے زندگی

جڑوں سے کاٹ دیئے ہیں وفاؤں کے رشتے

اثر کیا ہے یہاں تک جفا کے تیشے نے

 (عامر قدوائی)

خوش تھے کچھ ایسے تیری رفاقت کے شوق میں

منزل گنوا دی ہم نے مسافت کے شوق میں

ہمارے دل پہ کوئی نقش چھوڑ دو یارو

تمھارے شہر میں ہم ہیں مسافروں کی طرح

وہ جس کے عشق میں صحرا کی ہم نے خاک چھانی ہے

اسی کی یاد نے دل کا چمن شاداب رکھا ہے

       (رشید میواتی)

دشت و صحرا چھان کر اور سر پہ مٹی ڈال کر

میں بھی مجنوں ہو گیا ہوں اطلاعاً عرض ہے

 (فیاض وردگ)

تیرے سکھ کی خاطر جاناں

اپنے درد بھلا بیٹھے ہیں

 (بدر سیماب)

پا بریدہ شخص کی حاجت ہے گھر

اک مسافر کے لیے مسکن عبث

(مسعود حساس)

       اسلم عمادی کا کِیا ہوا کویت کے شعراء کا یہ انتخاب خاصے کی حیثیت رکھتا ہے اور انتخاب کنندہ کے شعری ذوق و شوق اور تنقید شعور کی داد طلب کرتا ہے۔  اسلم عمادی کویت کے شاعر مسعود حساس کے کلام کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں۔  اقتباس دیکھیے:

        ’’شاعر نیا نیا ہے، جذبۂ اظہار سے سرشار ہے، نئی زبان اور نئی تراکیب میں بات کرنا چاہتا ہے اسی لیے کبھی کبھی دائرہ احتیاط سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔  ان کی چند غزلیں جو شاید ردیف و قافیہ نبھانے اور برائے وزن بیت کی روش کے تحت لکھی گئی ہیں شاید قبولیت میں نہ آ سکیں۔‘‘   (ص:  ۱۴۷)

       مسعود حساس کے کلام پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اسلم عمادی نے کیسا نفیس طریقہ اختیار کیا ہے۔  آج کا کوئی نوجوان اسکالر نقاد ہوتا تو معیوب اشعار کی قطار لگا دیتا۔  در اصل جس انکساری سے مضمون نگار نے شاعر کو صلاح دی ہے وہ اسلم عمادی کا خاندانی وصف ہے کہ وہ عمادی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

       الغرض ’’تعارف و معیار‘‘ ادب کی ایک معتبر کتاب ہے۔  تمام مضامین انتخاب ہیں۔  کتاب میں جو مضامین شامل ہیں اُن کے پڑھنے سے اسلم عمادی کے تنقیدی شعور اور دقعتِ نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔  اسلم عمادی کا ہمیں شکر گذار ہونا چاہیے کہ اُنھوں نے تقریباً نصف صدی کے ادب کو پیش کیا ہے۔  جدے دیت، مابعد جدے دیت اور مہجری ادب کا یہ خوب صورت گلدستہ ہے۔

پروفیسر حبیب نثار

صدر شعبۂ اُردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد۔

گچی باؤلی، حیدرآباد۔ 

تلنگانہ اسٹیٹ (انڈیا)

یہ صبح و شام کا فتنہ کبھی تمام نہ ہو

خدا کرے کہ یہ دنیا کبھی تمام نہ ہو

نگاہیں دیکھتی جائیں بدلتے چہروں کو

ازل ابد کا تماشہ کبھی تمام نہ ہو

        (اسلم عمادی)

مطلعِ سخن …

شاعر زندہ رہے گا۔۔۔

       آج کل اکثر شاعروں کا یہ کہنا ہے کہ اُن کی شاعری عوام کے لیے نہیں بلکہ خواص کے لیے ہے، اور تمام شاعر الگ الگ رنگ کی غزلیں اور نظمیں کہتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے سے جداگانہ مزاج کے شعر کہتے ہیں، ایسی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے وہ ’’خواص‘‘ کون ہیں اور اُن کی خصوصیات کیا ہیں؟ یہ ایک دل چسپ سوال ہے۔۔۔

       ممتاز نقاد، ادیب و شاعر جناب شمس الرحمن فاروقی نے اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’گنجِ سوختہ‘‘ میں بدرچاچ کے اس بیان کو نقل کیا ہے کہ ’’جب کسی نے اس سے کہا کہ اُس کی شاعری مشکل سے دو آدمیوں کو محظوظ کر سکتی ہے، تو اُس نے کہا کہ وہ اُنھیں دو آدمیوں کے لیے لکھتا ہے۔‘‘ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ فاروقی صاحب کا ایک انقلابی مضمون تھا ’’ترسیل کی ناکامی کا المیہ‘‘ جو ’’نئے نام‘‘ میں پیش لفظ کے طور پر شریک ہے۔  اس مضمون کا اہم نکتہ یہ تھا کہ زباں و بیان اظہار مطلوب کے لیے ایک غیر مکمل واسطہ ہے۔  اس میں فاروقی صاحب نے بے حد مہارت کے ساتھ ترسیل کے موضوع کا جائزہ لیا ہے اور منتج ترسیل کے مختلف زاویے پیش کیے ہیں۔  میرے خیال میں اس کے تناظر میں اس دور کے مختلف جدید شعراء کے مجموعہ ہائے کلام کا مطالعہ کافی چشم کشا ہو گا۔

       شعراء جن کا مطالعہ وسیع ہے اور لغت دانی بھی۔۔۔  بعض اوقات لفظ پرستی کے سنگلاخ رجحان کی طرف نکل جاتے ہیں بلکہ تعقل پسندی، تعقید اور ارادی ابہام کے شوقین ہو جاتے ہیں۔  یہ سچ ہے کبھی کبھی ارادی ابہام شاعری کو خوب صورت بھی بنا سکتا ہے، لیکن بیش تر بد رنگی ہاتھ آتی ہے۔

       کامیاب نتائج کی چند مثالیں پیش ہیں:

۱۔  شمس الرحمن فاروقی

سطح پہ تازہ پھول ہیں، کون سمجھ سکا یہ راز۔۔

آگ کدھر کدھر لگی، شعلہ کہاں کہاں گیا

کرب کے اک لمحہ میں لاکھ برس گزر گئے۔۔

مالک حشر کیا کریں عمر دراز لے کے ہم

ان کا خیال ہر طرف، ان کا جمال ہر طرف

حیرت جلوہ روبرو، دست سوال ہر طرف

۲۔  ظفر اقبال

اک عمر ہوئی جس میں خسارے سے لگا ہوں

پکڑا ہے وہی کام دوبارے سے لگا ہوں

کون سے عکس عجب کا منتظر ہوں صبح سے

راہ پر بیٹھا ہوں آئینہ ہے چمکایا ہوا

خزاں کی شام تھی یا عکسِ نوبہار کوئی

کہ ابر شاخِ ہوا پر کھلا گلاب ایسا

۲۔  عادل منصوری

شہر سمجھے تھے جسے خون کا دریا نکلا

گھر کی دیوار گری موت کا سایہ نکلا

تالاب پر تھی پیڑ کی ٹہنی جھکی ہوئی

پانی پہ اپنا عکس جو دیکھا تو ہنس پڑی

اُس کے قریب جانے کا انجام یہ ہوا

میں اپنے آپ سے بھی بہت دور جا پڑا

       یہ شعراء خوب جانتے ہیں کہ الفاظ بڑے بیش قیمت مہرے ہیں اور ان سے خوب کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔۔  اور اس کھیل کو وہ مشاقی کے ساتھ کھیلتے ہیں مثلاً ترتیب کے رد و بدل سے جو ترکیبی اشکال وقوع پذیر ہوتی ہیں شاعری میں (اگر شاعر چابکدست ہو تو) کافی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جا سکتی ہیں۔

       تجرباتی شاعری میں کئی زاویے پیش نظر ہو سکتے ہیں، مثلاً تراکیب وضع کرتے ہوئے اگر کسی مستعملہ لفظ کو اضافی زور (stress) کے ساتھ پیش کیا جائے تو معنی میں ایک خاص ندرت آ جاتی ہے۔  اور شاعر اس نادر ترکیب پر نازاں بھی ہوتا ہے، لیکن اس طرح کے تجربے میں بعض اوقات یہ تشکیلات بے حد بدمزہ اور ناکام بھی ہو گئی ہیں، مثلاً:

۱۔  شمس الرحمن فاروقی

ہے اتنا حبس پھر بھی زباں کھولتے ہیں ہم

ائے ابرِ گرد سعیِ تکلم پہ مت برس

ہم سب اسی باد گرد میں عریاں ہیں

چندر بدن خوش لباسِ خوف نہیں کچھ

سرسوں کے پیلے کھیت پہ نیلا فلک کا رنگ

گویا شراب زرد تھی مینا کبود تھا

۲۔  ظفر اقبال

رسیلے بہت غضب تھے ظفرؔ اُس کے ہونٹ

وہ شہتوت منہ میں گھلا دیر تک

کڑک بجلی، بھڑک شعلہ، دھڑک دھوپ

بدل بادل اُمڈ کہسار نے کا۔۔۔

میرے نسخے میں ہے شامل ترے رخسار کا سیب

اور یہ ہونٹ کا جامن بھی مجھے چاہیے ہے

۳۔  عادل منصوری

بدن سنگ شہتیر کے درمیاں

لہو رنگ شعلے اُبلنے لگے

تے کے اوپر دو نقطے

بے کے نیچے اک نقطہ

جلنے لگے خلا میں ہواؤں کے نقشِ پا

سورج کا ہاتھ شام کی گردن پہ جا پڑا

       مندرجۂ بالا اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ حسن پیدا کرنے کی نیت سے انوکھی نوع اور مزاج کی تراکیب جب اشعار میں داخل کی گئیں تو بری طرح ناکامی ہاتھ آئی۔۔۔  غالبؔ کی بات کیا آتی، ذوقؔ والی کیفیت بھی نہیں!!

       میں یہاں پر یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ کسی شاعر کی شاعری کا تجزیہ اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک شاعری کی نفسیات، شعوری رو اور ماحول، زمان و مکاں کی اُن کیفیات کا بہ غور مطالعہ نہ کیا جائے، جن کے زیرِاثر اُس کے کلام کی تخلیق ہوئی ہے۔

       اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تنقید چاہے کیسی ہی تجزیاتی نگاہ سے مطالعہ کرے، کیسے ہی نتائج تک رسائی حاصل کرے، کامیاب فن پارے کے بنیادی عناصر کی نشان دہی کرے، صرف ادراک کی بناء پر کوئی اچھی تخلیق خلق کی جا سکتی ہے۔  تنقید نگار جو رہ رہ کر بہ ضد ہوتے ہیں کہ اُن کے پاس سخن بے مثال کی کلید ہے اور وہ واقفِ رازِ دروں ہیں، ہم نے دیکھا ہے کہ اُن کا کلام بھی اچھی شاعری کہے جانے کے قابل نہیں ہوپاتا۔  اسی طرح جو شاعر اس لسانی رویّہ سے متاثر ہیں کہ شاعری میں دور ازکار اور غیر عمومی زبان کا ارادی استعمال ہو، تو ایسی شاعری یا تو چیستان اور معمہ بن جاتی ہے یا پھر لغت کی محتاج ہو کر رہ جاتی ہے۔  اس طرح کی ثقیل و بے ربط تخلیق میرے خیال میں قابلِ قبول اُسلوب سے پرے اور اجنبی ہوتی ہے۔

       ایک اور اہم زاویہ یہ بھی ہے کہ شاعر کے کوائف اور اس کی شاعری کے عوامل کا جائزہ لیا جائے۔  یہ دیکھنا ہو گا کہ شاعر کس مقام پر شعر کہتا ہے، کیا وہ ماحول اس کی تخلیق کے ہم مزاج بھی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی صاحب جھیل ڈل کے کنارے بیٹھ کر مشینی زندگی کا کرب بیان کر رہے ہیں تو اُسے ذہنی انتشار یا مصنوعیت ہی کہا جا سکے گا۔  جدے دیت یا خالص شاعری کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ گرمی کے موسم میں خیالی تنہائی کا کمبل اوڑھ لیا جائے۔۔!!

       مذکورہ بالا مثالوں کے تناظر میں یہ سوال اُبھر کر آتا ہے کہ اگر کوئی قابل شاعر اپنے مرعوب طریقۂ اظہار سے ہٹ کر نامانوس اور بھاری بھرکم تراکیب کو اپنے کلام میں جگہ دے تو کیا یہ رویّہ قابلِ قبول ہو گا؟ میرے خیال میں اس کا جواب نفی ہی میں ہونا چاہیے۔  یعنی یہ رویّہ نظر ثانی کا مستحق ہے!

       اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ شاعر زندہ رہے گا اور تنقید نگار اوجھل ہو جائے گا۔  شاعری تنقید نگاری سے بہت بلند ہے، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تنقید ہی شعر کی قیمت کا تخمینہ لگاتی ہے۔ اور تنقید کے غیاب میں شاعری پرکھ سے محروم ہو جاتی ہے۔  یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ دبستانِ داغؔ کے کتنے شاعر اب ادبی طور پر زندہ ہیں؟ گنتی کے چند؟ کئی سو شاعر جو اشتراکی جھنڈے کے نیچے شاعری کر رہے تھے، اب قصۂ پارینہ بن گئے ہیں، فراموش گاری کی دھول اُن پر جم رہی ہے؟ کہاں گئے وہ بزمِ ادب کے شاہزادے؟ صرف چند ہی نام اب بھی تابندہ ہیں۔  عوام کی خواہش کے لیے غالبؔ کے لیے یہ نا ممکن تو نہ تھا کہ وہ حق نے دیے ہیں تجھے کان دو والی شاعری کر کے لمحاتی داد حاصل کر لیتے۔  لیکن شاید اُنھیں اس قسم کا تجرباتی رجحان کسی طور پسند نہ تھا۔  کیوں کہ اس قسم کی آسان شاعری کی حیات بہت مختصر ہوتی ہے۔

        ذرا غور تو کیجیے کہ وہ ساری نظمیہ تخلیقات جو نیچرل شاعری، جدید تجرباتی شاعری، ترقی پسند شاعری وغیرہ کے زیرِ اثر لکھی گئی تھیں آہستہ آہستہ بجھ گئی ہیں۔  ان کی دھندلی یاد ہی شاید بچی رہ گئی ہے!!

       اچھے شاعر کی شاعری کی زیریں رو اُس کی تخلیقی فکر کو جھٹلاتی نہیں۔  غالبؔ کا بہاریہ قصیدہ ہو یا نشاط انگیز کلام اُن سب سے رہ رہ کی فکری ترشیِ فکر، غم انگیزی اور لسانی ندرت چلمن ہٹا ہٹا کر جھانکتی ملتی ہیں۔  اس بات کو ہم صدقِ دل سے مانتے کہ شاعری کی زندگی خلوص اظہار سے معنون ہے۔  اور فن کوئی نعرہ نہیں ہے، یہ تو آمد ہی آمد ہے۔  آورد تو مخلوق کلام ہی میں ملے، شاید!!

       اس تناظر میں کسی شاعر کا یہ دعویٰ کہ اس کا کلام خواص ہی کے لیے ہے، شاید صحیح نہیں، ہاں آپ کا کلام کس حد تک اور کس حلقۂ اہلِ ذوق میں مقبولیت حاصل کرے یہ تو وہ بھی نہیں جانتا۔۔۔  ہاں قبولیت کے بعد ہی یہ سوچا جا سکتا ہے کہ رسائی کس حلقہ میں بہ آسانی ہوئی۔  اقلیدسی ضابطوں، فلسفیانہ نظریات کی بھرمار، جمالیات و جدلیات کے ارادی تحفظات کو راہ دینے اور فارم کے بے جا تجارب اسے کامیابی سے ہم کنار نہیں کر سکتے، اگر شاعری بنیادی حرارت نہ ہو تو!!

       یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اچھے کلام کی تخلیق کے لیے کسی تنقیدی فارم، فلسفیانہ پیمانے، اُسلوبیاتی سانچے کی پابندی قطعاً ضروری نہیں۔  یہ بھی سچ ہے کہ اگر کوئی اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے تنقید نگار سے یہ امید رکھے کہ وہ اپنے سخن گوئی کے استعمال سے شبانہ روز نت نئی وضع کے درجۂ اول کے کلام کا ڈھیر لگا دیگا امکان سے پرے کی سوچ ہے۔  اگر ایسا ممکن ہوتا تو اُردو تاریخ میں اتنے تنقید نگار شاعر گذرے ہیں کہ اُردو ایسے جید شعر و سخن سے مالا مال ہوتی۔۔۔  لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔

       نہ جانے کتنے عظیم اساتذہ اور ماہرانِ عروض گذر چکے ہیں کہ اُن کے تلامیذ گمان و شمار میں لامحدود کہے جا سکتے ہیں۔  لیکن اُن کی تعلیمات بھی مختلف تھیں، اُن کا زور بھی بالکل الگ الگ اہم نقاط پر رہا۔  بہت سے ایسے ماہرین نے بھی کوئی قابلِ ذکر تخلیق اب تک نہیں پیش کی اور مکمل طور سے کسی خاص ڈھانچہ پر لکھی تخلیق اعلیٰ اور ارفع مقام پر چمکتی ہوئی نہیں ملتی جو ہر طرح سے ناپ تول سے منطبق ہو۔۔  ہر کامیاب شاعر نے اپنا مخصوص لب لہجہ شناخت کر لیا اور اس طرح اس کی تخلیق اس کی پہچان بن کر اُبھری۔

       اس لیے شاعری تنقید کی پیرو تو بن نہیں سکتی۔  ہاں شاید شاعری کے غیاب میں بہرطور کوئی تنقید جو شاعری سے تعلق رکھے قطعاً خارج از امکان ہے۔  یعنی پہلے شاعری پھر اس پر تنقید وجود میں آتی ہیں۔  ہاں ایک اور امکان ہے کہ اچھی تنقید اچھی شاعری کو ضرور تحریک دے سکتی ہے، لیکن شاعری میں شاید ہی اس تحریر کی چھاپ ملے۔  کیوں کہ عمدہ شاعر کو مدتوں زندہ رہنا ہے۔  اس کی شاعری میں حیات کا ہونا لازم ہے۔۔۔

٭٭٭

(مطبوعہ ’’تحریکِ ادب‘‘ واراناسی)

خصوصی مُطالعے …

ایک نمائندہ مجموعۂ کلام ’’روشنی اے روشنی‘‘

        ’’روشنی اے روشنی‘‘ ایک ایسا مجموعۂ کلام ہے جسے میں اکثر تبدیلیِ احساس کے لیے رات کے اُس پہر جب نیند اور تخلیق میں کشاکش ہو، بہ شوق پڑھتا ہوں، جو نسخہ میرے پاس ہے اُس کا سنہ اشاعت ۱۹۷۲ء ہے۔

       شکیبؔ جلالی ان اہم شاعروں میں سے ہیں جو نئے لہجے اور نئے اسلوب کی ایجاد میں کامیاب ہوئے، نئی شاعری کے اولین، شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔  وہ ایک منفرد آواز بن کر ابھرے۔  ترقی پسندی سے جدے دیت کی طرف ہجرت کرتے ہوئے بالکل ایک نئی زمین پر آ پہنچے۔  ان کی غزل کو غزل کی تجدید حیات کی شہادتوں میں شمار کیا جانے لگا۔

       ان کا ایک شعر تو بے حد مشہور ہوا:

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے

       یہ لفظیات اُس دور کے لیے جب یہ شعر عام ہوئے، نئی اور نویلی تھیں، ادب کے اہلِ حکم کو چیں بہ جبیں کرنے کے لیے کافی تھیں۔

       شکیب کا یہ مجموعہ مجھے اس لیے قیمتی ہے کہ اس میں ندرت کے ساتھ ساتھ ایسا لگتا ہے کہ میرا آپا مجھ سے نکل کر اشعار کی روح میں حل ہے، کچھ کرب ہیں، کچھ ناتمامیاں ہیں، کچھ زاویۂ نظر، واہ کیا بات ہے!

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

       یہ بات تو واضح ہے کہ شکیب کسی خاص طبقہ کے نمائندہ نہیں بلکہ ہم جیسے ہی تھے۔  ان کی الجھنیں، آرزوئیں اور خواہشات، ان کے رنج و محن اور وہ تمام اجزاء ترکیبی جن پر ایک پیکر کی شناخت کی تشکیل ہوتی ہے وہ تمام نقاط شکیب کے ہوں کہ آج کے کسی فن کار کے ہوں، ان کا ارتکاز مختلف سطحوں پر ہو لیکن بہ حالت اجمالی یکساں ہے۔  اس لیے کہ اظہار کی قوتوں کو انگیختہ کرنے کے لیے خلاق ذہن کے لیے ضروری ہے۔  اسی لیے شکیب کے کلام میں جو جداگانہ نوع کی بے ساختگی ہے ان کی منتخبہ تشبیہات علامات کی جانب رجوع کرتی ہیں:

غم الفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہوا

آگ جب دل میں سلگتی تھی، دھواں کیوں نہ ہوا

       یہ آگ تو ہر شائق کے سینے میں جلتی ہے۔  لیکن شکیب نے دھوئیں کی خواہش بڑے انوکھے انداز میں کی ہے۔  ویسے بھی اگر جذبات کا اظہار ضابطوں کی طرح واضح اور بلاواسطہ ہو تو فن کاری کی آنچ کہاں سے آئے۔  فن کار تو کرب کے اظہار کے لیے ان عنوانات کی تلاش میں ہے! جو نا آفریدہ ہیں۔

       انسان جو کہ ایک مسافر بھی ہے۔  اس کی مسافرت قید مکان کے علاوہ کبھی زمان کے کوچہ میں ہے تو کبھی درون کے طویل غار میں تو کبھی فرار کی ٹوٹی ہوئی ویران منزل میں۔  زبان کے کوچہ میں وہ ہم دموں کے درمیان ایک تنہا رواں دواں راہی ہے، جو مقام اور منزل دونوں سے بے گانہ ہے شکیب کا شہر، ناصرؔ کاظمی کی زبان میں ’’شہر ستم گر‘‘ ہے جہاں کوئی ٹھہرتا ہی نہیں ہر ایک بے سمت آگے جا رہا ہے منزل کی شناخت کے لیے، لیکن کس نے منزل پائی ہے؟

بوجھ لمحوں کا ہر ایک سر پہ اٹھائے گزرا

کوئی اس شہر میں سستانے کو ٹھہرا ہی نہیں

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت

میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

ہم سفر چھوٹ گئے، راہ نما روٹھ گئے

یوں ہی آسان ہوئی منزل دُشوار یہاں

کس دشت کی ہوا ہو؟ اتنا مجھے بتا دو

ہر سو بچھے ہیں رستے آؤں تو میں کدھر سے

       ہائے، یہ تمنائے دشت نوردی اور بچھے ہوئے رستے بے سمت بے انتہا ذات کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو اتفاقاً منکشف ہوتے ہیں تو خود انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے۔  یہ کیا ہوا؟ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس طرح کیوں کر اضطراری اظہار برافگندہ نقاب ہوا؟ یہ الماسی منشور میں جھانکنے کا عمل ہے! اگر روشنی خارج سے داخل میں در آئے تو مختلف درپردہ رنگ باصرہ پر واضح ہوتے ہیں۔  اگر روشنی منھ موڑ لے تو تلاش و جستجو کے باوجود بھی بے رنگی اور بے حسی در پے، آزار ہوتی ہے۔

       خالص سخن کی ابتدائی محرک وہ خلش ہوتی ہے جو منتظر رہتی ہے کہ کوئی لہو چراغ روشن ہو۔  یہ لہو چراغ جو ذات کی گنجلک بو قلمونی کے مختلف خطوط متقاطعہ پر نصب ہیں اور جب لہو چراغ کی لویں آہستہ آہستہ تیز ہوتی ہیں تو ایک ایسا رنگ کئی رنگوں کا اختصار بن کر جھلکتا ہے اور شناخت کے امکان کو لب و لہجہ دیتی ہے اور:

غمِ الفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہوا؟

آگ جب دل میں سلگتی تھی، دھواں کیوں نہ ہوا؟

اُجڑا ہوا مکاں ہے یہ دل جہاں پہ ہر شب

پرچھائیاں لپٹ کر روتی ہیں بام و در سے

چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے

مصروف ہوں ابھی عمل انعکاس میں

       لگتا ہے کہ شکیبؔ ایک سنگلاخ اور بہت ہی پیچیدہ وادی کرب سے گزر کر وارد شہر اظہار ہوئے، ان کے پاس فرد کے المیوں اور اس کے ساتھ سماجی المیوں کا ایک مخلوط پس منظر ہے۔  اسی لیے کبھی کبھی فرد کے کرب کا اظہار سماج کی اجتماعی حسرتوں کا آئینہ لگتا ہے۔  پھر یہ صورت حال کچھ اور شکست و ریخت کا شکار ہوتی ہے۔  اس طرح فرد کا المیہ نطق / احساس / سامعہ / باصرہ اور ایسے ہی محسوسات کی انفرادی شہادتوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔  لیکن ارتکاز سراسر فرد کے محسوسات کی عکاسی کی سمت ہوتا ہے۔  شکیب نے ہر نقطۂ محسوس کو تکبیر و تلوین سے ایک نئی شعری کائنات کی تشکیل کا عنصر بنا دیا ہے۔  اس کے لیے ان کے منتخبہ پیکر قابل توجہ ہیں۔  مثلاً فصیل جسم، اپنے در و بام، آتش دان، نظر کی بلندی، دھوپ نگر، پردوں پر منقش آواز، اپنا دشت وغیرہ۔  ان پیکروں کا اصل لطف اشعار کی نشست میں روشن ملتا ہے۔  تجزیاتی فہرست تو صرف اشارہ کے لیے ہے۔

       لیکن فی الاصل اس طرح کی پیکر سازی ہی کافی نہیں۔  شکیبؔ کی شاعری کا دوسرا اہم عنصر خارج کی علامتوں کی داخلی فکر کے ساتھ شکست و ریخت ہے۔  ان کے ہاں بصری علامتیں نئے طرز توضیح سے نئے ادب میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔  شکیب خالص شاعر ہیں اس لیے احساسات و تجربات کے تند، تلخ و شیریں نکتوں کے لیے بحث و تمحیص کو اپنی غزلوں میں جگہ نہیں دیتے۔  وہ سہل اور بلاواسطہ اظہار کو پسند کرتے ہیں لیکن فن کاری کے ساتھ، ان کی فن کاری اختصارِ بیان اور اشارہ کی تخفیف میں ہے۔  اشارہ کو پیش پیش نہ رکھ کر ایک خاص موقع کے لیے مخصوص رکھتے ہیں۔  اشارہ اسی وقت سامنے آتا ہے جب قاری اسے خود بہ خود محسوس کر لے۔  یہ بڑا نازک مرحلہ ہوتا ہے ایسا مرحلہ کہ جب اعادہ و تکرار کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔  قاری انبساط بیان سے بیدار ہو کر کہتا ہے کہ ہاں ایک بار اور تو دیکھیں ہم کہاں سے ہو کر آئے ہیں۔

       یہ انوکھا پن تین مخصوص پردوں سے جھانکتا ہے۔  لفظیات کا انعطاف، پیکروں کی ندرت اور علامتی اشارہ کی نزاکت:

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح

دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

تازہ کوئی ردائے شب ابر میں نہ تھا

بیٹھا تھا میں اداس بیابان باس میں

اتریں عجیب روشنیاں، رات خواب میں

کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں

پانی نہیں کہ اپنے ہی چہرے کو دیکھ لوں

منظر زمیں کے ڈھونڈتا ہوں ماہتاب میں

گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا

ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے

چٹخ کے ٹوٹ گیا دل کا سخت ایسا تھا

اے روشنی کی لہر کبھی تو پلٹ کے آ

تجھ کو بلا رہا ہے دریچہ کھلا ہوا

       اگر شکیب کے ہاں مستعملہ و مذکورہ مضامین کا بہ دقت نظر مطالعہ کریں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ترقی پسند اشتراکیت کے عقیدے سے مسافرت کرتے ہوئے ذات کی وجودیت کے دائرے میں رجوع کر رہے تھے۔  ان کے پاس اس لیے زر و سیم اور اہل وفا کا ازلی تفاوت کشتی اور ناخدا، بے وفائی احباب، ستم گری، اہل کرم اور دار و رسن کے مضامین کے نقوش بھی ملتے ہیں۔

       اس نظریاتی پیش رنگی کے باوجود ان کے سارے تجربات اور بیان کردہ احساسات شخصی ہیں اور صداقتوں پر مبنی ہیں۔  ذات کے تجربے، ذاتی حوادث، ذات سے مقابلہ اور شخصی حسرتیں اور غالباً جدید تر شاعری کا یہ ابتدائی نقطہ تھا۔  وہ نقطہ کہ جب فرد، جو ملت کا نمائندہ بن گیا تھا یعنی ذرہ میں صحرا کی عکاسی آ گئی تھی۔  دوبارہ ملت کے اندر ایک منفرد وحدت بن گیا تھا یا بن رہا تھا۔

       مجھے لگتا ہے کہ شکیب کے اس ذاتی المیے میں ان کی مہاجرت، زندگی کی حسرت اور روز مرہ زندگی کی گرسنگی ضرور شریک تھیں۔  ان کی خودکشی اس کا منطقی لیکن انتہائی شدید کار آخر تھا۔  اس میں شک نہیں کہ خواب، واہمے اور امکانات کو نئے میزان پر تلتے دیکھ کر حقائق کی کڑواہٹ سے روبرو ہو کر ظاہر ہے کہ ایسے حساس شاعر کی سوچ پر ضرب کاری کی طرح محسوس ہوا ہو گا۔  مسئلہ یہ ہے کہ فن کار عموماً اپنی تصویر (تخلیق) کو اظہار کے نقطۂ عروج پر لے جاتا ہے۔  اس کے پاس کئی کہے اور ان کہے مفروضات ہوتے ہیں۔  اس لیے وہ تصور کردہ، نئی دنیا، نئی زمین اور نئے آدم کی تصویر میں کاملیت کے جس مفروضے کو پیش نظر رکھتا ہے اس نہج شکل کی دیکھ کر دھوکا بھی کھا جاتا ہے اور چوکنا بھی ہو جاتا ہے۔  اسی لیے حقیقی پیکر خود جب نعرہ بن کر سامنے آ جاتے ہیں تو یہ جان لیوا قسم کا تجربہ ہوتا ہے:

فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

دیار چشم سے آگے نکل گیا ہے کوئی

پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو

بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو

لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں

پہنچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا

اجنبی بن کے جی رہا ہوں میں

لوگ مانوس ہوتے جاتے ہیں

       شکیب کی شاعری کی زبان اپنے عہد کی نئی زبان تھی۔

       اُردو کا سب سے بڑا المیہ رہا ہے اس کی شعری زبان پر صرف و نحو، قواعد و مصطلحات کی گرفت ہمیشہ بہت سخت رہی ہے۔  اسی لیے جب بالواسطہ طرز پر شعری زبان میں لفظیات کے تجربے جب جدید ادب میں شروع ہوئے تو دِل آویز نئے پن کا احساس ہوا! ہاں کچھ مجاوران قدامت چوکنا بھی ہوئے فتوے بھی صادر ہوئے۔  شکیبؔ نے اس لسانی جدت کو قدرے اعتدال و تواضع سے برتا:

رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا

پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں

اک کرن تھام کے میں دھوپ نگر تک پہنچا

کون سا عرش ہے جس کا کوئی زینہ ہی نہیں

عالم میں جس کی دھوم تھی اُس شاہکار پر

دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

خلش غم سے مری جاں پہ بنی ہے جیسے

ریشمی شال کو کانٹوں پہ کوئی پھیلا دے

       لسانی تجربہ کا سب سے دشوار نکتہ یہ ہوتا ہے کہ نامانوس نہ لگے، مضحک یا مصنوعی نہ لگے۔  شکیب کی یہ کامیابی تھی ؛ ان کے رائج کردہ پیکر اور لفظیاتی مرکب شعر و سخن کی دنیا میں مسرت کے ساتھ قبول کیے گئے۔

       شکیب کے اس شعری مجموعے میں منظومات بھی ہیں جنھیں میں اس ذوق و شوق سے نہیں پڑھتا جس چاؤ سے ان کی غزل پڑھتا ہوں۔  شکیب کی نظموں میں درد اور انکشاف ذات کے لیے نیچرل شاعری کا پس منظر ملتا ہے۔  وہی منظر نگاری، وقت و ساعت کا ذکر موسم کی طرف اشارہ اور اس تمام مسرح (Dramatic Stage) میں کیفیتِ دل کا بیان اس لحاظ سے شکیب کی نظموں میں وہ مضبوطی نہیں جو ان کی غزلوں میں ہے۔  ان نظموں میں پلاننگ اور آورد کا دخل ملتا ہے۔  چند مثالیں پیش ہیں:

       (۱)     اس کے طاق شکستہ پر لرزتے دیپ

       میں نے پوچھا

       ہم نفس

       اب ترے بجھنے میں کتنی دیر ہے؟   (لرزتا دیپ)

       (۲)     دھیرے دھیرے گر رہی تھیں نخل شب سے

       چاندنی کی پتیاں

       بہتے بہتے ابر کا ٹکڑا کہیں سے آ گیا تھا درمیاں

       ملتے ملتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزہ پہ دو پرچھائیاں  (گریز پا)

       (۳)     جہاں پناہ:  سسکنے لگی چراغ کی لو

       شعاع تازہ سے چھلنی ہے چادر ظلمات

       بلند و بام ہراساں ہیں رہ نشینوں سے

       اک ایسے موڑ پر آئی ہے گردش حالات (نئی کرن)

       مطالعے کے تکرار کی اجازت لیتے ہوئے، میں اس تحریر کے خاتمے پر ایک بار پھر کہوں گا کہ شکیبؔ جلالی غضب کے ذہین اور خلاق شاعر تھے۔  ان کے کلام سے ایک عجیب سا داخلی انبساط محسوس ہوتا ہے۔  گویا لہو میں روشنیاں جلاتا ہے:

میں ساحلوں میں اُتر کر شکیب کیا لیتا؟

ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا

٭٭٭

 (مطبوعہ ’’برگِ آوارہ‘‘ حیدرآباد)

عرفانؔ صدیقی … غزل کا ایک نادر لہجہ

       گزشتہ پچاس برس کا دور اُردو غزل کے لیے تجرباتی دور میں شمار کیا جا سکتا ہے۔  اس دور میں اظہار کے اس تنگ راستہ میں نت نئے انداز کے آہنگ اور اسلوبیاتی پہلوؤں کو بدل بدل کر نہ جانے کتنے خوبصورت اور نادر پرتو پیش کیے گئے ہیں۔  ہر لہجہ اور ہر اُسلوب اپنے نئے نویلے پن کے سبب عجیب سی ساحری اور دِل فریب سی کشش رکھتا ہے۔  وہیں اس مدت میں اتنا یا بس اور فاضل کلام بھی شائع ہوا کہ اس خرمن سے سوزن کا چننا کارِ دارد ہے۔  اس تخلیقات کے طوفان بے کراں میں چند ہی قابلِ قدر شعری فکر کے نمائندہ جزیرے نظر آتے ہیں جس سے ادب کی زندگی پر ایقان باقی رہتا ہے۔  ایسا ہی تازہ کار فکر و نظریات سے آباد ایک جزیرہ عرفانؔ صدیقی کی شاعری ہے۔

       عرفانؔ صدیقی کے اشعار سے میرا تعلق دیر سے ہوا، لیکن دیرپا ہوا، ان کے اشعار ہمارے فکری نظام سے اس قدر مانوس کیفیات رکھتے ہیں کہ ذہن پر چسپاں ہو جاتے ہیں لیکن ان اشعار میں عمومی الفاظ بالکل جدا ملبوس اور مختلف رنگ و آہنگ میں ایسے ملتے ہیں کہ آپ جس مقصود معنی کی امید رکھ رہے تھے اس سے ہٹ کر بالکل نئی بات سے روشناس ہو جاتے ہیں۔  یہ تو بڑی خلاقیت ہے کہ سادہ الفاظ کو آپس میں ٹکرا کر یا پھر کبھی مدغم کر کے بالکل نئی ترسیلی زبان میں کچھ کہا جائے۔  عرفانؔ اس میں امید اور سامع کی تمنا سے بڑھ کر اپنی قادرالکلامی کی دلیل پیش کرتے ہیں۔  میرے خیال میں کچھ مثالیں شاید اس تجزیے کی بہتر تشریح کریں:

ابھی زمیں پہ نشاں تھے عذاب رفتہ کے

پھر آسماں پہ ظاہر وہی ستارہ ہوا

یہ موج موج کا اک ربط درمیاں ہی سہی

تو کیا ہوا میں اگر دوسرا کنارہ ہوا

اب اس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے

یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہم سفر میرے

ہیں اسی کوچہ میں اب تو مری آنکھیں آباد

صورتیں اچھی، چراغ اچھے، دریچہ اچھا

       ان اشعار میں نہ تو کوئی نو ساختہ ترکیب ہے نہ کوئی اجنبی استعارہ یا تشبیہ! بالکل صریح سی زبان ہے لیکن لفظوں سے جھلکنے والے مطالب یا اشارہ بن کر یا پھر حق و باطل کے رزم سے اٹھی ہوئی آواز بن کر سامنے آتا ہے۔  موج موج کے درمیان ربط کی موہوم سی تمنا حیات سے کس قدر انسیت کی آئینہ دار ہے۔  سوچیے تو ’’آنکھیں‘‘ کے ساتھ ’’آباد‘‘ کا لفظ ’’اور ’’گھنے جنگلوں‘‘ کی پیش گوئی کے غیر عمومی استعمال دونوں اشعار کس قدر تحیر آمیز لگتے ہیں۔

       میرا اندازہ ہے (یقین کے ساتھ تو کہنا مشکل ہے) کہ عرفانؔ اپنے اشعار میں قوت شامل کرنے کے لیے الفاظ کے انتخاب میں ان کی نشست اور مناسبت کو خوب پرکھتے تھے، بڑی محنت سے ہر شعر کو اظہار کا ایک کامران پیکر بنا کر پیش کرتے تھے۔  ان کی غزلوں میں کم زور، بھرتی کے اور فقط رسمی قسم کے اشعار مشکل ہی سے ملتے ہیں۔  ہر شعر ان کے زور بیاں اور منتخب اسلوب کی مثال بن گیا ہے۔

       ان کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ابھرتا ہے کہ اسی لفظ کو جو ہم سے عام ملبوس میں ملتا ہے تو مروجہ معنی سے آگے نہیں جاتا، شاعر نے اس لفظ کے حرف حرف اور صوت صوت کو خوش نمائی سے لکھ کر نئے آہنگ سے روشناس کر دیا ہے۔  وقف و تحرک کے ٹکراؤ سے اس میں ایک نئی کھنک آ گئی ہے۔  گویا یہ لفظ پھر ناطق بن گیا ہے۔  یہ فن کاری محض مشاقی سے نہیں بلکہ گہرے اسلوبیاتی مطالعہ سے ناتج ہو سکتی ہے۔  اس طرح ایسا فن پارہ سامع / قاری کو عجیب سی مسرت بخش دیتا ہے۔

       ان کی شاعری کے تقریباً تمام موضوعات ان کی ذات پر مرکوز ہیں وہ اکثر اشیا اور تجربوں کو اپنی ذات سے منسلک / متعلق کر کے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس میں خلوص بھی ہے اور داخلی حرارت بھی۔  اسی وجہ سے یہ شعر ہم خیالوں کو قریب تر لگتے ہیں۔  بہت سے لفظی استعمالات، دو لفظی ہوئے ہیں اور دو لفظوں کے واسطے سے ایک داخلی منظر نامے کا پردہ فاش ہوتا ہے۔  اس کی مثالیں بھی ملاحظہ فرمائیں:

یہ درد ہی مرا چارہ ہے تم کو کیا معلوم (مرا چارہ)

ترے سمند بھی میرے غزال بھی آزاد      (میرے غزال)

ہوا کی طرح نہ دیکھی مری خزاں کی بہار       (مری خزاں)

اس کو منظور نہیں ہے مری گم راہی بھی     (مری گم راہی)

عجب ہے میرے ستارہ ادا کی ہم راہی      (میرے ستارہ ادا)

       اگر ان کے کلام کی اس نقطۂ نگاہ سے تحلیل کی جائے تو ایسی مبنی بر متکلم تراکیب بے شمار ہیں اور ہر ترکیب ایک جدا پہلو لیے ہوئے ہے۔  مذکورہ بالا تراکیب ہی کو لیں تو ان میں ایک غیر محسوس سا ابہام بھی ہے اور دزدیدہ کنایہ بھی۔  ’’مرا چارہ‘‘ ایک قطعاً غیر مستعمل لیکن معنی خیز سی بات ہے۔  ’’مرے غزال‘‘ غالباً غزال تخیلات سے متعلق ہے اسی طرح ’’مری خزاں‘‘، ’’مری گم راہی‘‘ اور ’’میرے ستارہ ادا‘‘ خوب لفظی مرکبات ہیں جو اپنائیت کا رخ بھی رکھتے ہیں اور ندرت کا بھی۔  اردو شاعری میں ایسے الفاظ پر مرکوز لسانی روش بہت کم ملتی ہے۔  ظفر اقبال اور منیر نیازی نے بھی اس طرح کے لسانی تجربے کیے ہیں لیکن ان کا انداز کچھ اور ہی ہے۔  اپنے طرزِ اظہار کو عرفانؔ نے ارادی طور پر ممیز اور جداگانہ رکھا ہے۔  عین ممکن ہے کہ یہ رویّہ فطرتاً بھی ہو لیکن اس کی شناخت تو شاعر ہی کر سکتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار کے پڑھنے اور سننے والے وارفتگی کے زیر اثر آ جاتے ہیں۔  شاید یہ کلام ہمارے مزاج کی نوعی اور مخفی حرارت سے مطابقت رکھتا ہے۔

       ایک اہم رخ عرفانؔ کی شاعری میں رومانوی ماحول کا پس منظر ہے۔  عشق اور شوق جو کہ صدیوں اردو شاعری (بلکہ مشرقی شاعری) کی عنصری طاقت رہے ہیں۔  ان کی شاعری میں مختلف ڈرامائی سچویشن جیسے سین کے پیچھے بدلتی ہوئی روشنی کا کام کرتے ہیں۔  اس ڈرامے کے کردار شاید مخصوص نام اور شناخت نہیں رکھتے لیکن کسی منتخبہ جذبے کی غیر مرئی تجسیم ضرور کرتے ہیں۔  عاشق / معشوق / رقیب یہ تو پرانے کردار تھے جو اب بالکل نئے ظروف میں نظر آتے ہیں۔  ذرا عشق کے تناظر میں یہ بھی سنیں:

کسی اُفق پہ تو ہو اتصال ظلمت و نور

کہ ہم خراب بھی ہوں اور وہ خوش خیال بھی آئے

عجیب روشنیاں تھیں وصال کے اُس پار

میں اُس کے ساتھ رہا اور اُدھر چلا بھی گیا

میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جان مراد

خود کو زنجیر محبت سے رہا چاہتی ہے

مری عاشقی، مری شاعری ہے سمندروں کی شناوری

وہی ہم کنار اُسے چاہنا، وہی بے کراں اسے دیکھنا

       واہ بے حد قدیم موضوع کو بے حد تازہ اسلوب میں کس خوبی سے برتا گیا ہے۔  گویا عرفانؔ صدیقی نے ایک بے حد با وفا عاشق کے کردار کی تصویر کشی اس طرح کی ہے کہ ’’اک رنگ کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘ کا لطف آ گیا ہے۔

       عرفانؔ واقعات، حادثات اور مناظر کی عکاسی کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ منبع اور اصل کی طرف توجہ نہ جائے اور اصل کے مقصود کی تصویر ایک آرٹ کی طرح پیش ہو جائے۔  اس کے لیے انھوں نے اپنی بے شمار غزلوں میں تلمیحاتی اظہار کا استعمال کیا ہے۔  کبھی وہ کسی غزوہ یا جنگ کا ماحول وضع کرتے ہیں تو کبھی کسی خانہ بدوش بے سمت کے مسافر، قبیلہ کے فرد بن جاتے ہیں، کبھی وہ شہادت حسینؓ سے دِلی نسبت سے سوگوار ہوتے ہیں تو کبھی بزم عرفان میں حلقہ بدوش ہو جاتے ہیں۔  وہ اکثر اہلِ صفا کے قافلے کے ساتھ ہولیتے ہیں جو نشۂ ایماں میں مست و بے خود، تشنہ لب، ایقان بہ قلب، صدق بر لسان ظالم کے سامنے سینہ سپر ہے اس طرح حق و باطل کی جنگ میں شاعر حق کے لیے جہاد اور جستجو کر رہا ہے۔

       اکثر غزلوں میں عرفان حالات حاضرہ کو اسی تناظر میں رکھ کر، اس سے متناسب زیریں رو کے مدھم سر سے ابھر کر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔  ہر بار ان کی جذباتی صالحیت نعرہ فگن نظر آتی ہے تیر و تبر کے سامنے ان کی جری فکر سینہ سپر رہتی ہے۔  وہ اس مجسم خوبی پیمبر / امام / رہبر / مرشد / شیخ کے تابع ہیں جو محبوب تر ہے۔  ذرا شہادت حسینؓ واقعۂ کربلا کو ذہن میں لا کر عرفان کے یہ اشعار پڑھیں:

جو گرتا نہیں ہے اسے کوئی پامال کرتا نہیں

سو وہ سربریدہ بھی پشت فرس سے اترتا نہیں

ذرا کشتگاں صبر کرتے تو آج

فرشتوں کے لشکر اُترنے کو تھے

اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو

کنارے آب ہے پہرہ لگا ہوا کیسا

پانی پہ کس کے دوست بریدہ کی مہر ہے

کس کے لیے ہے چشمۂ کوثر لکھا ہوا

پانی نہ پائیں ساقی کوثر کے اہل بیت

موج فرات اشک ندامت کہاں سے لائے؟

       بلا شبہ عرفانؔ صدیقی ترسیل کی راہوں میں شمع جلا کرا پنے مسافروں کو غزل کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔  کوئی ناکام نامکمل ترسیل ان کے پاس نہیں ملتی۔  انھوں نے بنیادی طور پر کوئی قابل بیان فنی تجربہ نہیں کیا، نہ تو اسلوب میں نہ فارم میں۔  متوقع راستہ سے انحراف ان کا طریقہ نہیں۔  وہ زندگی کے حقائق سے قریب تر رہ کر غزل کی بنیادی تعریف اور مستند ڈکشن سے ہٹے بغیر نئی وضع اور نئی طرح سے یوں کہا ہے کہ سامع اور قاری کی توجہ نہیں ہٹتی۔

       تصوف اور عرفان ذات کی راہوں میں بھی وہ اسی قلندریتے چلے ہیں، جنون شوق سے سرشار، عشق، کو حسن کی تابناکی میں گم کرنے کے لیے کوشاں۔  یہ عارفانہ کلام بھی کچھ عام نہیں ہے اس میں بھی وہ ندرت اور قوت ملتی ہے۔  ان کی فکری کی خانقاہ بسیط اور وسیع ہے۔  ان کی بے نیازی بے مثل ہے۔  ان کی فنائیت بقا سے بلند تر ہے۔  مثلاً:

ان کا فقیر دولت عالم سے بے نیاز

کاسے میں کائنات کا ٹکڑا پڑا ہوا

شاخ کے بعد زمیں سے بھی فنا ہونا ہے

برگ افتادہ ابھی رقص ہوا ہونا ہے

کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرے شریک

مسند خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے

ابھی مرا کوئی پیکر نہ کوئی مری نمود

میں خاک ہوں ہنر کو زہ گر پہ راضی ہوں

       عرفانؔ کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے ہم ایک آراستہ پیراستہ گلشن سے گزر رہے ہیں جس کے درختوں، جھاڑیوں، فضاؤں میں مناظر کی طرح کمال فن کاری سے تخلیق شدہ پھل، پھول، پتے، شگوفے سجا دیے گئے ہیں۔

       اُمید کہ زود فراموش اُردو والے اس اہم شاعر کو فصیل فراموش گاری کے پیچھے نہیں بھیج دیں گے اور یہ کلام اُردو نئی شاعری کے ہر انتخاب میں مناسب مقام پائے گا۔

٭٭٭

(مطبوعہ ’’خاص نمبر:  عرفان صدیقی‘‘ مرتبہ:  عزیز نبیل

مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو)

منجمد پُر شور دریا (مصحفؔ اقبال توصیفی کی شاعری کی ایک جھلک)

       اُردو کی نئی شاعری اس معاملے میں بہت خوش بخت ہے کہ اس کے دامن میں کئی نمائندہ اور قابل ذکر شاعر اپنے اپنے منفرد لب و لہجہ (زبان، ڈکشن اور فکر) کے ساتھ رونق پذیر ہیں۔  یہ شاعر ہندوستان، پاکستان اور دوسرے ممالک میں رہتے ہوئے بھی ایک حد تک اسی فکری لہر سے ارتباط رکھتے ہیں جو جدید شاعری کی شناخت ہے۔  ایسے ہی ایک اہم شاعر جناب مصحفؔ اقبال توصیفی بھی ہیں۔  ہند و پاک میں جب بھی جدید شاعری کی بات ہو گی تو اس میں اہم ترین ناموں میں مصحفؔ کا ذکر ضرور آئے گا۔

       مصحفؔ نے شاعری کو سراسر اظہار ذات کے وسیلے کی طرح استعمال کیا ہے وہ اپنی سوچ کی ترسیل کے لیے ارتکاز کے ساتھ ایک مخصوص ڈکشن کو پسند کرتے ہیں اور یہی ڈکشن ان کی شاعری کی پہچان ہے۔

       ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ آپ ایک مانوس سے ماحول میں آ گئے ہیں، جہاں کے سارے کردار کچھ جانے پہچانے سے ہیں لیکن جہاں کے موسم اجنبی اور جداگانہ سے ہیں، یہ تحیر آمیز صورت حال مصحف نے غضب کی فن کارانہ صلاحیت سے پیدا کی ہے۔

       مصحفؔ کی شاعری کی اہم ترین قوت ان کی صداقت ہے وہ جذبات کے اظہار کے لیے کوئی غیر معمولی فطری ماحول نہیں گھڑتے بلکہ کچھ حد تک راست طور سے لیکن شاعرانہ تیور سے اپنا اصل مقصود بیان کرتے ہیں۔  ان کی نظمیں اور غزلیں دونوں ہی اس معاملے میں ان کے ذاتی تجربات، ذاتی شعور اور قریب ترین ماحول سے متعلق ہیں۔  اس لحاظ سے مصحفؔ کی شاعری بنیادی طور پر دونوں ہی فارم (نظم اور غزل) میں اپنی جداگانہ تخصیص رکھنے کے باوجود خلوص اظہار پر مرکوز ہیں۔  پھر بھی دونوں ہی اصناف میں ان کے دوبے حد الگ اور واضح طرز بیان سامنے آئے ہیں۔  جہاں ان کی نظمیں، بیش تر نیم مکالماتی یا خود کلامی یا بیانیہ میں سے کسی ایک لہجہ کو استعمال کرتی ہیں ان کی غزل سراسر شاعرانہ، سہل ممتنع اور راست اور کچھ حد تک روایتی انداز پر مائل ہے۔  ندرت تو ہے لیکن تجربہ اور علامتی اظہار (جو کہ جدید شاعری کا رویہ ہے) کا کم ہی تناسب ملتا ہے۔

       ایک اور بات جو مصحف کی شاعری کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ عمیق، گنجلک اور مجہول موضوعات سے شاعری کو بوجھل، دور افتادہ یا نارسا بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے شاعر آپ سے قریب تر ہے، وہ آپ کا شریک سفر ہے، وہ آپ کو وہ باتیں سناتا ہے جس سے آپ شاید مانوس ہیں لیکن ان کی پرتیں اور ان کی زیریں رو کی نشان دہی بھی کرتا ہے جو آپ کے لیے شاید نئی ہوں۔  کچھ حد تک ناصر کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی نے شاعر کے جس (Role) رول کے بارے میں اشارہ کیا تھا وہی منصب یا رول (زیرک فکر کے امتزاج کے ساتھ) مصحف نے نبھایا ہے۔

       ان کی نظمیں متوسط طول کی بلکہ کچھ حد تک مختصر طوالت کی ہوتی ہیں کسی موضوع کے ساتھ دیر تک، دور تک اور تکرار کے ساتھ چلنے سے گریز کیا گیا ہے۔  ایسا کبھی نہیں ہوا کہ شاعر موضوع کو برتنے کے لیے سطحیں تبدیل کرتا ہوا، پرتیں کھولتا ہوا، زاویے بدلتا ہوا، انحراف یا گریز کرتا ہوا طویل فکری اظہار کی طرف مائل ہو۔  اس کے لیے مختصر لمحہ کا اظہار زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ ایسے ہی کئی مختصر لمحے مل کر طویل زندگی کی آئینہ داری کر سکتے ہیں۔

       جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے ان کی نظموں میں عام طور سے مکالماتی (بلکہ نیم مکالماتی کہوں تو بہتر ہے) انداز کو منتخب کیا گیا ہے۔  شاعر عموماً اپنے کردار کے تعارف کے لیے اس کے اطراف و اکناف اور احباب سے تعلق و نسبت کو اجاگر کرتا ہے۔  ان نظموں میں کچھ حد ایک نا محسوس قسم کی کردار نگاری بھی ملتی ہے۔  یہ کردار بیش تر رائج الوقت اور ہم عصر (Contemporary) سماج کی تمثیل کی طرح ہیں۔  شاعر اس کردار کو اس کے لب و لہجے اور Approach کے تناظر میں پیش کر کے نئی زندگی کی عکاسی کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ عکاسی بالکل صریح اور راست بھی نہیں بلکہ کئی مائل سطحوں سے ہو کر ایک مقصود منظر کو پیش کرتی ہے۔

       غزلوں میں جہاں شاعر نے سہل ممتنع طرز بیان کو ترجیح دی ہے وہیں ان کا ہر شعر واضح اکائی کی طرح ایک خاص موضوع کا اظہار ہے۔  شعر کی زبان میں ایک خفیف سی پیاس، ایک غیر متوقع اچانک پن اور محتاط طور پر لفظوں کا انتخاب اور عام طرز سے ہلکا سا اعراض ان کی غزلوں کو جدید غزلوں میں ایک بین شناخت فراہم کرتے ہیں۔  ان کی غزلوں کی سب سے اہم جہت ’’غزل‘‘ پن ہے۔  ان کے موضوعات میں ’’ہم تم‘‘ کا تذکرہ (کچھ حد تک رومان)، ہم سفری کے تجربات، وقت گزاری کے اشغال اور ذاتی مشاہدات بہ درجہ اتم موجود ہیں۔  چند شعرا اس ضمن میں:

تو بھی مجھ سے روٹھی تھی

میں اک کروٹ لیٹا تھا

محفلوں میں کم نظر آتا ہوں میں

اپنی تنہائی سے گھبراتا ہوں میں

یہ آئینہ خانہ کیا کروں میں

میں تجھ کو کہاں رکھوں چھپا کر

ذرہ ذرہ مری لاکھوں آنکھیں

لمحہ لمحہ ترا جادو ہوتا

میری آنکھوں کے دروازے پر دستک دی

سوتے ہوئے اک غم کو جگایا کس نے؟ تم نے!

بھیڑ تھی کیسی دوکانوں پر!

کوئی نہ پہنچا اپنے گھر تک!

رات تم نے روشنی کے کھیل میں

کیوں مرے سائے پہ سایہ رکھ دیا

چار سو میں نے بچھا دیں آنکھیں

ہر طرف تو، تھی، نظارے تیرے

       مصحفؔ کا الفاظ سے رشتہ خالص طور پر ترسیل کے تناظر میں ہے، وہ لفظ کو ایک آلہ کی طرح (بلکہ ایک زنجیر کی کڑی کی طرح) استعمال کرتے ہیں، یہ آلہ سراسر اکہرا نہیں ہے، وہ ہر لفظ کو ایک منتخب سطح سے متشرح کرتے ہیں، کبھی وہ مناظر کو نیم بازحد تک کھولتے ہیں یا کبھی ان میں ایسا رنگ بھر دیتے ہیں جو نئی معنویت بخشے، جس سے ایک غیر عمومی حساس فضا پیدا ہو جاتی ہے ایسی فضا جو ہر غیر مرئی لہر سے اہتزاز انگیز اور مرتعش ہو جاتی ہے۔  کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ نجی زندگی کے کسی تجربے کو شاعر وسعت دے کر ایک عالمی تجربہ میں بدل دینا چاہتا ہے اور وہ بھی یوں کہ نجی محسوسات ضائع نہ ہوں۔

       مصحفؔ کی شعری زبان ان کی نظموں میں بہت حد تک نثری بیانیہ اسلوب میں ہیں جن میں مجید امجد اور اختر الایمان کی نظموں جیسا کھردرا پن ہے۔

       لب و لہجہ میں پُر فریب لفاظی اور نرم و شیریں تراکیب سے احتراز کیا گیا ہے تاکہ بات حقیقت سے بعید نہ ہو پائے اور اسی ارتکاز سے ترسیل ہو جس کو شاعر مرغوب سمجھے۔  نظموں میں ایک عمومی زندگی سے منتخب مناظر اور علامتیں پیش کیے گئے ہیں جو قریب تر محسوس ہوں مثلاً چائے، نکڑ، کافی ہاؤس، گیند، کھلونا، شیو (Shave)، سگریٹ، ریل، کھانے کی میز، ممی پپا، مائیکرو فلم، اسکوٹر وغیرہ۔

       جیسا کہ میں نے اس سے پہلے ایک مضمون میں اشارہ کیا تھا، مصحف کی نظموں میں وقت ایک اہم رکن ہے، وہ وقت پل پل سے لیکن صدیوں تک ناپتے ہیں۔  اس کے علاوہ، وہ تراکیب اور بندشوں میں ایک طویل بیان کو محو اور منجمد کر دیتے ہیں۔

       ان کی نظموں میں ذاتی کرب کو کلیدی اہمیت حاصل ہے، فرد کی گرسنگی، دوستوں کے بچھڑنے کا غم، معصوم زندگی سے دور ہو جانے کا الم، رشتوں میں مثبت و منفی تعلق، اظہار و ترسیل کے مسائل اور ایسے ہی کئی اہم موضوعات ہیں جو ان کی نظموں میں خصوصیت سے ملتے ہیں۔

       مصحفؔ کی نظموں کے ماحول اور کردار دونوں ہی متوسط درجہ کے سماج سے منتخب شدہ ہوتے ہیں، اس لیے آپ کو ان کا کلام پڑھتے ہوئے نا مانوسیت کا احساس نہیں ہوتا۔  ان کی نظموں کے چند گوشے نمونتاً پیش ہیں:

’’تم بڑے چالاک ہو

اور سفاک بھی

تم چاہتے ہو

میں اپنے ہونٹوں کی سیپیاں ضرور کھولوں

اپنے سینے کے راز

ایک گٹھری میں باندھ کر

تمھاری چوکھٹ پر رکھ دوں۔۔۔‘‘

(مجھے شاعری نہیں آتی)

’’میں ترے کرتے کا دامن تھاموں

آؤ ہم ریل بنائیں۔۔۔

آؤ ہم ریل کو پیچھے لے جائیں۔۔۔‘‘

(وقت کی ریل گاڑی)

’’ہوش میں آؤ۔۔۔  ہم کو

وقت کے دھارے پر بہنا ہے

ہم کو ان لوگوں میں

اس دنیا میں رہنا ہے‘‘   

(بند دروازے)

’’پھر ایک نرم ہوا کا جھونکا

اور منظر نے کروٹ لی

میرے جسم کے گملے میں اظہار کا پردا

ایک ٹہنی پر نطق کا پھول اپنی پلکیں جھپکاتا

پنکھڑیوں کی اوٹ سے آنکھیں کھول رہا تھا!!

(تو خاموش تھی)

       مصحفؔ کی نظموں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ایک بے حد حساس، دردمند اور بے لوث زندگی کا شاعر آپ سے ہم کلام ہے۔  وہ فرد کے قریب تر مسائل سے گہرے طور پر متاثر ہوتے ہیں۔  وہی معصوم زندگی کی رعنائیوں کے شائق ہیں۔  مصحفؔ نے اصولوں، عقائد اور اس قسم کے ناصحانہ موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ نہیں دی ہے لیکن ان کی تخلیقات کے پس منظر سے ایک ایسا فرد احساس پر ابھرتا ہے جو صالح سوچ، متوازن زندگی اور سادہ طرز حیات کی تجسیم ہے۔  آپ مصحفؔ کے کلام کے مختلف ادوار سے گزریں گے تو یہ ضرور محسوس کریں گے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ان کی شاعری کے تار و پود کی زیریں رو میں آہستہ آہستہ ایک نمائندہ تبدیلی بہت حد تک زندگی کی بدلتی ہوئی روش اور شاعر کے خالص تجربات حیات کے اکتساب سے منتج ہوتی ہے۔

       وہی شاعر جو ابتدائی دور میں چاہتوں، دوست داریوں اور کار جہاں کی جہد میں مصروف ملتا ہے اب حقائق سے روشناس ہو کر غیر رومانی فلسفیانہ صداقتوں سے دوچار ہے اور بکھرتی ہوئی زندگی کو سمیٹنے کے لیے کوشاں ملتا ہے اور کمال یہ کہ دونوں ادوار میں اسلوب کی مخصوص انفرادیت قائم ہے۔

       بلا شبہ مصحفؔ اقبال توصیفی جدید شاعری کا ایک اہم نام ہے اور ان کی شاعری ایک منجمد لیکن پُر شور دریا کی طرح ہے کہ رواں ہو جائے تو سیل در سیل اپنے مخاطب کو بہا لے جائے، اپنی جاری و ساری حسیت کی لہروں پر!

٭٭٭

        (مطبوعہ ’’سب رس‘‘ حیدرآباد)

مجتبیٰ حسین کو سلام۔۔۔

       تنقید نگاروں نے اچھے ادب کے کئی پیمانے وضع کر رکھے ہیں۔  یہ مقیاس و میزان بہرحال عمدہ تخلیق پارے کی مکمل شناخت نہیں فراہم کر سکتے، جس طرح بحور و اوزان کا کامیاب برتنا اچھی شاعری کے مماثل نہیں، اسی طرح نثر کی تشفی بخش تعریف کارِ دُشوار ہے۔

       مجتبیٰ حسین کی تحریریں ہر درجہ، ہر معیار اور ہر اسلوب کے لیے قابل قدر معیار کے سبب مقبول ہیں اور اپنی ادبی اہمیت کی دلیل بھی۔  ادبی رسائل و جرائد جو ادبیت و علمیت کے پیمانوں سے مضامین کو پرکھتے ہیں، صحافتی ذرائع اور تفریحی ادب کے وسائل جو عوامی ذوق و معیار کی بنا پر تحریروں کو جانچتے ہیں، دونوں کے پاس ان کی تحریروں / تخلیقات کو یکساں قدر و منزلت حاصل ہے۔  اس کامیابی پر مجتبیٰ کو خصوصی سلام پیش کرتا ہوں۔

       عثمانیہ یونیورسٹی انجینئرنگ کالج کے وہ پانچ سال (۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۰ء) بلا شبہ میرے زندگی کے مصروف ترین عرصوں میں ایک اہم عرصہ تھا۔  تعلیم اور ادبی تخلیق کے درمیان رواں دواں۔  انجینئرنگ کی پڑھائی ایک طرف، شعر و نثر اور تنقید کی مسلسل مشق دوسری طرف میں نے نہ جانے کتنے فن پارے چھپوائے، کتنی ادبی محفلوں، بحث و تمحیص کی محفلوں میں شرکت کی۔  اس مدت میں کئی وقیع شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔  مرحوم وقار خلیل ایک بیش قیمت بزرگ دوست تھے جو میری قدر بھی کرتے تھے اور مجھے اردو ادب کی طرف کھینچتے بھی رہتے، اردو ادب جو کہ بنیادی طور پر مجھے ہمیشہ محبوب رہا ہے۔

       انہی دنوں نہ جانے کب محترم مجتبیٰ حسین صاحب سے میری شناسائی ہو گئی۔  میرا خیال ہے کہ شاید آندھراپردیش (اردو) میگزین کے دفتر پر، جہاں ہم اپنی تخلیقات آں جہانی کنول پرشاد کنول صاحب کے حوالے کرنے جاتے اشاعت کے لیے۔  پھر یہ ملاقات گاہے بہ گاہے ہوتی رہی۔  خاص کر اعظم راہی صاحب کے ممتاز ادبی رسالہ پیکر میں میری شائع شدہ تخلیقات کے تناظر میں، ان کی تحریروں کی تحسین میں، لطیف کیفے کی بیٹھکوں میں۔  مجتبیٰ حسین اس وقت بھی اردو ادب کا ایک بڑا نام تھا اور آج بھی ہے۔  زندہ دلان حیدرآباد کے جلسوں اور مزاح نگاری کے جشنوں نے تو انھیں آفتاب تازہ کی طرح طلوع کر دیا تھا۔

       سلیمان اریب مرحوم کے آخری مجموعہ ’’کڑوی خوشبو‘‘ کی رسم اجرأ میں جس طرح عزیز قیسی اور مجتبیٰ حسین نے مجھ جیسے نئے لکھنے والے کی پذیرائی کی، اس سے میرے دل میں ان کی ادب دوستی نے خاص جگہ بنا لی۔

       ۲۰۰۸ء میں جب میری کتاب ’’ادبی گفتگو‘‘ (جو نثری مضامین پر مشتمل ہے) کا اجرا ہوا تو میری شدید خواہش تھی کہ یہ عمل مجتبیٰ کے ہاتھوں سے ہو کہ میری نگاہ میں اردو نثر کا (بلا تفریق صنف و فکر) حیدرآباد کا سب سے بڑا نام مجتبیٰ حسین ہے۔  فی زمانہ اے کاش ایک بزرگ ادیب نے یہ عمل ہونے دیا ہوتا۔  مجتبیٰ نے بڑے خلوص سے مثبت جواب دیا تھا لیکن وجوہ فی بطن شاعر ہی بہتر ہیں۔  جہاں یہ بات سچ ہے کہ آج عالم اردو میں جس خلوص و محبت کے ساتھ، ستائش و صلہ سے بے پروا ہو کر اردو حیدرآباد اور اس کے اطراف کے حلقوں میں لکھی جا رہی ہے۔  شاید ہی اس کی کہیں مثال ملے۔  یہ بات افسوس ناک ہے کہ اردو کے سینئر ادیب و ناقد بری طرح سیاست و گروہ بندی کا شکار ہو گئے ہیں۔  بہ ہر حال یہ موضوع جملہ معترضہ کی طرح ہے۔  مجتبیٰ حسین میرے خیال میں اس قسم کی ذیلی سیاستوں سے اپنے قد کی بناء پر بلند ہیں۔

       اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مجتبیٰ حسین اردو کے قلم کاروں میں ہمارے مقبول ترین ناموں میں سے ایک ہے، اہلِ حیدرآباد (بالخصوص) ان کی تحریروں کو بے حد ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں وہ تبسم زیر لب، خفیف مسکراہٹ اور بے ساختہ قہقہے ان تینوں خوش گوار کیفیتوں کو چھوتے ہوئے اور ان کے درمیان بڑے کام کی باتیں کہہ جاتے ہیں۔  ان کی گفتگو میں معزز سوچ کی نمائندگی ملتی ہے ان کے مضامین سے خود تنقیدی، اپنے چہرہ اور سلوک کو ایک مثبت زاویے سے آئینہ میں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

       ایک کامیاب انشائیہ نگار کی حیثیت سے مجتبیٰ اپنی تحریروں میں وسیلہ اور مزاج اشاعت کی مناسبت سے مواد پیش کرتے ہیں۔  کالم نگاری میں صحافتی زبان کی سادگی ملتی ہے تو خاکوں میں اختصار کے ساتھ اپنے نرالے انداز سے تعارف، ان کے مستقل مضامین مختلف طول کے ہوتے ہیں، بعض تشفی بخش حد تک موضوع کی مناسبت سے طول رکھتے ہیں اور دائرہ تحریر کشادگی رکھتا ہے تو بعض وسیلہ اشاعت کے لحاظ سے مختصر لیکن مسکت۔  اپنے طویل تصنیفی تجربہ کے نتیجہ میں انھوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ اخبارات، جرائد، کتب، رسائل (سرکاری، خانگی، ادبی، سیاسی، تفریحی) اور خطبات و تقاریر کے تناظر میں لکھا ہے اور ہر بار یہ احساس دیا ہے کہ انھوں نے موضوع سے اپنے قاری / سامع کے ظرف کے لحاظ سے انصاف کیا ہے۔

       یہ بات بھی سچ ہے کہ وہ صرف عوام یا اپنے مخاطب کو خوش کرنے یا انھیں بے جا تحسین کے ذریعہ مسرور کر کے دل جیتنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ برمحل نشتر زنی، قابل فکر نکتہ کے اظہار اور اختلافی نکتہ کے بیان سے بھی نہیں چوکتے۔  ان کے خاکوں سے یہ ضروری نہیں کہ صاحب موصوف صد فی صد ہر فقرہ سے متفق ہوں چند باتیں انھیں غیر مطمئن اور چیں بہ جبیں کرنے کے لیے بھی مل جاتی ہیں۔

       طنز و مزاج کا فن محض لطیفہ گوئی اور پھگڑ بازی سے معنون نہیں ہے یہ ایک انتہائی ذمہ دار طرز اظہار ہے جو فرد اور سماج کو گرسنگی، کمیوں اور خامیوں سے بھی آگاہ کرتا ہے۔  سنجیدہ موضوع کو سہل اور غیر مرتکز کر کے پیش کرتا ہے، مضحک کیفیت میں۔  مزاح نگار طنز نگار ایک دردمند دل رکھتا ہے، جو چاہتا ہے کہ مخاطب مسکراتے ہوئے اپنی زندگی کے تاریک یا سوالیہ پہلوؤں کی طرف بھی نگاہ غیر سے دیکھے اور اگر کوئی بات مناسبت محسوس ہو تو اس کے اصلاح بھی کر لے۔

       مثال کے طور پر جب مجتبیٰ نے مشاعرہ میں متشاعر قسم کی خواتین کو دادِ سخن اور جلوہ گریِ حُسن کے لیے پیش کرنے پر آواز اٹھائی اور ’’مشجرہ‘‘ کی ترکیب سے سخت وار کیا تو بہت سے منتظمین اور متاثرین تلملا اٹھے، لیکن بات واجب تھی بلکہ صحیح شکوہ تھا اس ابتذال کے خلاف۔  ہر صحت مند و صحیح فکر والے نے یہ تو محسوس کیا۔

       مجتبیٰ ایک معیاری اردو تہذیب کے نمائندہ ہیں اس لیے ان کی تحریروں میں وہی وقار ملتا ہے جو احترام آدمیت سے مملو ہے۔  ان کے کالم نادر انداز میں موضوعات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہیں، بات میں بات، موضوع در موضوع نکیلی باتیں لکھنے میں ان کی فن کاری اور ابھر کر سامنے آئی ہے کہ قاری گفتگو سے چٹخارہ بھی لیتا اور سوچنے پر بھی مائل ہوتا ہے۔  مثال کے طور پر ’’تھوکنا منع ہے‘‘ کا یہ حصہ دیکھیے:

        ’’ہمارے ایک جاپانی دوست ہمارے ساتھ ایک مشاعرہ میں چلے تھے۔  سامعین میں ہم دونوں بالکل پیچھے بیٹھے تھے، صدر مشاعرہ کے آگے ایک خوبصورت اگالدان بھی رکھا تھا، انھوں نے صدر مشاعرہ کو دو ایک بار اگالدان کو اپنے منھ تک لے جاتے ہوئے دیکھا تو نہایت رازدارانہ انداز میں ہم سے پوچھا ’’صدر مشاعرہ کون سے مشروب کا استعمال کر رہے ہیں‘‘ اس پر ہم نے تفصیل سے سمجھایا کہ صدر مشاعرہ اگالدان میں مشروب نہیں پی رہے ہیں بلکہ اگالدان میں مشروب منتقل کر رہے ہیں اور بر سر عام تھوکنا ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔‘‘

       اس تحریر میں ’’مشروب‘‘، ’’رازدارانہ انداز‘‘، ’’تفصیل‘‘ اور پھر مقطع میں مشغلہ مصنف کی ہنر مندی کی واضح دلیلیں ہیں۔

        ’’اردو شاعری اور آٹو رکشہ‘‘ کا یہ اقتباس بھی خوب ہے:

        ’’یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھار آٹو رکشا والوں سے ’’املا‘‘ کی غلطیاں یقیناً سرزد ہو جاتی ہیں لیکن ان کی ان غلطیوں سے بھی شعر میں نئے معنی اور مفہوم پیدا ہو جاتے ہیں۔  بہت عرصہ پہلے ہم نے ایک آٹو رکشا پر علامہ اقبال کا مشہور شعر اس طرح لکھا ہوا دیکھا تھا:

نہیں تیرا نشیمن ’’خسر سلطانی‘‘ کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

       آٹو رکشا والا جو کہ ’’قصر سلطانی‘‘ سے واقف نہیں تھا، اس لیے اس نے ’’خسر سلطانی‘‘ لکھا تھا۔  اور خسر سلطانی لکھ کر اور اپنے خسر کے گھر میں اپنا نشیمن نہ بنا کر یہ ثابت کر رہا تھا کہ وہ اپنی محنت کے بل بوتے زندہ رہنا چاہتا ہے اور گھر داماد، ہرگز نہیں بننا چاہتا۔‘‘

       واہ کیا خوبصورت تاویل ہے۔

٭

       مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری دوسرے خاکہ نگاروں سے کافی حد تک مختلف اور عمدہ تصویر کشی کی مثال ہے۔  ان کی خاکہ نگاری عموماً پلاٹ کی پابند نہیں ہوتی۔  وہ رواں دواں انداز میں چند نمائندہ نکات کے ذریعے اپنے ممدوح کی ذات کو متشرح کرتے ہیں وہ ایسے واقعات اور استعاراتی گوشے کو استعمال کرتے ہیں کہ خود بہ خود مقصود شخصیت کا نیم تعارف ہو جاتا ہے۔  کتنے ہی ادیب شعرا اور سماجی شخصیات ان کے خاکوں کے عنوان بنے ہیں۔  میرے خیال میں جتنے افراد کے خاکے مجتبیٰ نے لکھے ہیں اتنے شاید ہی کسی ادیب کے احاطہ تحریر میں آئے ہوں۔  ان خاکوں میں تنوع بھی شامل ہے، ندرت بھی، خلوص بھی۔  ان خاکوں میں دوست، احباب و اقارب بھی ہیں شناسا بھی۔

       مضمون کی طوالت کے با وصف میں ان کے خاکوں کے چند جملے ضرور پیش کروں گا کہ اس سے ان کی قوت اظہار کا کچھ اندازہ ہو:

(۱)    ’’اور اس کے ٹھیک ایک ہفتے بعد اعجاز صاحب سچ مچ ایک ایسے راستے پر چلے گئے، جس پر چل کر آدمی واپس نہیں آتا، میرا ما تھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا جب اعجاز صاحب نے ڈھائی گھنٹوں کی ملاقات میں ایک بار بھی اپنی خراب صحت کا ذکر نہیں کیا تھا۔  میں اس وقت تاڑ گیا تھا کہ اعجاز صاحب کی بیماری لفظوں سے آگے نکل گئی ہے جبھی تو وہ اس باب پر چپ سے ہیں۔‘‘ (اعجاز صدیقی)

(۲)    ’’بھئی تمھارا کیا نام ہے؟‘‘ مزدور نے کہا ’’تاؤ جی! میرا نام عبدالرحمن ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’بھئی ذرا رک جاؤ‘‘ وہ صاحب جن کی بڑی بڑی زلفیں ہیں اور جو تمھارے پیچھے آ رہے ہیں، تمھارا نام جاننا چاہتے ہیں۔‘‘

       مزدور سر پر پٹرومکس اٹھائے رک گیا۔  جب شاذ سے اس کا سامنا ہوا تو اس نے کہا ’’باؤ جی! میرا نام عبدالرحمن ہے۔‘‘ شاذ نے کہا، ’’اچھا تو تمھارا نام عبدالرحمن ہے۔  بڑی خوشی ہوئی تم سے مل کر۔  یہ بتاؤ چاہتے کیا ہو؟‘‘

       مزدور بولا ’’لو سنو! باؤ جی! میں آپ سے کیا چاہوں گا؟‘‘

       پھر میری طرف اشارہ کر کے بولا۔  ’’ان باؤ جی نے بتایا تھا کہ آپ میرا نام جاننا چاہتے ہیں۔  شاذؔ نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں میری طرف گھما کر پوچھا ’’اے مجو میاں میں نے کب اُن کا نام جاننا چاہا تھا۔  میں نے کہا، یار شاذؔ! میں تو تمھاری مشکل آسان کر رہا ہوں اور تم میری طرف حیرت سے دیکھے جا رہے ہو۔  پوچھ لو اُن کا نام، ورنہ بعد میں نہایت کرب کے ساتھ شعر کہو گے:

آگے آگے کوئی مشعل سی لیے چلتا تھا

ہائے کیا نام تھا اس شخص کا پوچھا بھی نہیں

       شاذؔ نے زوردار قہقہہ لگایا۔  اُس رات وہ اتنا ہنسا کہ آنکھیں بھیگ گئیں۔‘‘

        (شاذؔ تمکنت)

       مجتبیٰ کی تحریروں کے کئی رخ ہیں۔  ہر پرتو ادب کے طالب علم کے لیے جداگانہ تناظر میں قابل تحلیل و مطالعہ ہے، طنز و مزاح، لطیفہ گوئی، افسانہ نگاری، صحافی، تبصرہ سماجی تحریر سب اپنی طور پر منفرد اور مخصوص ہیں۔

       ان کی نثر لسانی لغزشوں اور خامیوں سے پاک ہے کوئی مقامی بول چال کی کمزور جھلک نہیں ملتی، محسوس ہوتا ہے وہ اپنے اسلوب اور اپنی تحریر کی پستی اور سلاست کا گہرا احساس کرتے ہیں۔

       چوں کہ ادب ایک فن پارہ ہے، وہ کسی صنف کا بھی ہو، کسی فارم اور نوع میں بھی ہو، اس کا فن کارانہ تخلیقی صلاحیت سے گہرا رشتہ ہوتا ہے، ہر ادب اپنی خاص شناخت خداداد صلاحیتوں کے بنا پر حاصل کرتا ہے۔  اس میں بڑا دخل اس کی مہارت زبان، اظہار کے رویہ اور ترسیل کے بارے میں مختص کردہ طریق کار سے بھی ہوتا ہے۔  لیکن ناطقہ کی سب سے بڑی خوبی سامعہ سے منطبق ہونا ہے۔  اس لیے وہ ادیب جو اپنے نقطہ نگاہ کی راست ترسیل چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ توجہ کو مرکوز رکھنا چاہتے ہیں وہ اپنے فن کو قبولیت کی مشعل سے روشن رکھتے ہیں کہ راہ آشنائی بھی ہو اور اس کے مقصود تک رسائی بھی۔

       ان تمام ملحوظات کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ادب کی سب سے بڑی طاقت صداقت ہے۔  وہ مزاحیہ ادب کوئی زندگی نہیں رکھتا جس کے کردار اور ماحول میں کسی حقیقی شخصیت اور کسی جانے بوجھے ماحول سے ہم آہنگی نہ ہو۔  جب تک قاری / سامع یہ نہ محسوس کرے کہ گفتگو اس کے مانوس تجربہ سے میل کھاتی ہے وہ خیالی لطیفہ کو مکمل طور پر قبول نہ کرے گا۔  مجتبیٰ حسین نے زندگی کے مختلف شعبوں سے کردار اور ماحول منتخب کیے ہیں اور انھیں بے حد نزاکت اور خوش اسلوبی سے اپنی تحریروں میں سجایا ہے کسی کردار یا ماحول کو وہ منفی طور پر نہیں اجاگر کرتے کہ آپ نفرت کرنے لگیں۔  اس سے تو گفتگو درمیان ہی میں شکستیدہ ہو سکتی ہے۔  ہاں ایسے منفی کردار کو وہ اس طرح مختلف رنگوں، شکلوں اور پہلوؤں سے آپ کے سامنے لاتے ہیں کہ آپ کو اس کی مکمل اصلی صورت مل جاتی ہے۔  حتمی فیصلہ آپ پر ہے۔

       ان تحریروں میں اجتماعی زندگی کے اثرات زیادہ ملتے ہیں مجلسی باتیں، مکالمے، رفاقتیں، محفلیں اور گفتگو کے ذریعے وہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ادیب / مزاح نگار سماج کا ایک متحرک اور معنی خیز کردار ہے اور اس کی فکر و نظر قابل اعتماد افادیت رکھتی ہے۔

       مجتبیٰ کی تحریریں جتنا ہنساتی ہیں اتنا ہی کبھی کبھی رلاتی بھی ہیں غور کرنے پر مجبور بھی کرتی ہیں۔  اگر آپ ان کے مضامین میں چھپے ہوئے درد کو محسوس کریں تو بلا شبہ آپ کی بھی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے۔  ان کی تحریر کردہ وفیات تو اس میں بہت کامیاب ہیں۔

       کبھی کبھی خاکہ نگاری کی زد میں وہ بے حد سخت وار بھی کر جاتے ہیں جس کو سہنے کے لیے کلیجہ چاہیے۔  کئی بار اس طرح شخصیت کے ایسے پہلو پیش کر دیتے ہیں جس میں ضم کا پہلو اجاگر ہو جاتا ہے۔  اے کاش وہ ایسا نہ کرتے۔  یہ بات نہیں معلوم کہ اس طرح کے جملہ ان کی گفتگو کی روانی سے وجود پذیر ہوتے ہیں یا بات سے بات نکالنے کی روش میں یا پھر مشق تیر اندازی کے لیے جو بھی ہو وار تو سخت ہوتا ہے۔

       مثال کے طور پر:

(۱)    ’’ہمارے مظہر امام کے بارے میں ایک بات اور بتا دوں کہ بلا کے حسن پرست واقع ہوئے ہیں۔  اتفاق سے کہیں حسن سچ مچ دستیاب ہو جائے اور مظہر امام ساتھ میں ہوں تو میں حسن کو نہیں مظہر امام کو دیکھتا رہ جاتا ہوں۔‘‘ (مظہر امام)

(۲)     دو دو گھنٹے نہانے کے ضمن میں:

        ’’کسی نے بتایا کہ مغنی تبسم نہاتے وقت اپنے اعضاء کو نہیں دھوتے بلکہ مختلف حیثیتوں کو دھوتے ہیں۔  ابھی اپنے اندر بیٹھے ہوئے شاعر کو نہلایا ہے تو ابھی ناقد کے سر پر پانی انڈیلا ہے۔  اس سے فرصت ملی تو اپنے ترقی پسند پیکر کو ابٹن سے مل رہے ہیں۔  ساتھ میں اپنے جدید ذہن کو بھی جھاویں سے رگڑتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘ … (مغنی تبسم)

       ایسی کچھ مثالیں ہیں جن میں شخصیات کی نجی زندگی اور لغزشوں کا بر سر عام تذکرہ کر دیا گیا جو پردہ خفا میں رہتیں تو بہتر تھا۔

       مجتبیٰ کی وہ تحریریں جو عام موضوعات سے متعلق اور کسی خاص عنوان کی پابند نہیں زیادہ کامیاب اور بے ساختہ ہیں ان میں سے موضوع کا انتخاب جس آزادی سے کرتے ہیں اسی آزادی سے ان کو برتتے بھی ہیں۔  اس نوع کے حسنِ بیان کی اچھی مثالیں اُن کے مجموعوں میں افراط ملتی ہیں۔  مثلاً ’’قصہ داڑھ کے درد کا‘‘، ’’مرزا کی یاد میں‘‘، ’’برف کی الماری‘‘ اور ایسے ہی بیسیوں مضامین۔

       ان کی زود گوئی اور بسیار ’’خاکہ نویسی‘‘ سے ایسا لگتا ہے کہ وہ دوست داری کے معاملے میں امیر کبیر ہیں، ان کے پاس سیکڑوں دوست ہیں، جن سے ان کا قریبی بلکہ خانگی حد تک تعلق ہے لیکن حقیقتاً شاید ہی ایسا ہو۔  اصل بات یہ ہے کہ مجتبیٰ اپنی لا شعاعی نظروں سے مختصر مدت اور تعارف سے ہی ممدوح کی ذات کا گہرا جائزہ لے لیتے ہیں اور بڑی مہارت سے اپنے خاکہ کے درد بست بنا لیتے ہیں۔

       مگر یہ بھی صحیح ہے کہ ان کے عزیز و قریب تر رفقاء کے خاکے کچھ زیادہ ہی بوقلمونی اور عمق رکھتے ہیں۔  یہ خاکے فرمائشی خاکوں یا حسب حال خاکوں سے جودت اور وصف میں برتر ہیں۔

       وہ دِلّی اور حیدرآباد کے قریبی احباب کے بارے میں جب لکھتے ہیں تو کھل کے لکھتے ہیں۔  ان کے بیان میں روانی بھی ہوتی ہے، آزادی بھی اور سرحد سے پار ہونے والی بے ساختگی بھی۔

       مجتبیٰ کی تحریریں اپنے مناسب اسلوب اور طرز بیان کے توازن کے سبب سے ممتاز مقام رکھتی ہیں۔  مشتاق احمد یوسفی کی طرح! ان کا طریقہ اظہار یکساں طور سے خواص اور عوام دونوں کے لیے قابل اعتبار اور پُر کشش ہے۔  وہ لفظیات، تراکیب اور تشبیہات کے انتخاب میں احتیاط برتتے ہیں۔  ایک خاص سچویشن اور شخصیت کی بے حد اختصار سے آئینہ گری کرنے کے لیے وہ چابک دستی سے مضحک مگر دلچسپ قصے اور پیکر تراش لیتے ہیں اور اس طرح ان کی تحریر کا لطف بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔  ان مضامین / تحریروں میں خود ساختہ حالات بھی ہیں، محاورے بھی ہیں اور مزہ بھی لفظوں کا کھیل بھی، بات سے بات نکالنے کا تماشہ بھی۔

       مجتبیٰ حسین شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں، اسی لیے وہ اپنی تحریروں کا معیار ہمیشہ بلند رکھتے ہیں۔  وہ رکیک، اسفل اور کم درجہ کی مزاح نگاری اور پھکڑ بازی سے اجتناب کرتے ہیں۔  دکن کے اکثر مزاح نگار بگڑی زبان، کم درجہ کی معاشرت، غربت اور مقامی سماجی خرابیوں کو اجاگر کر کے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو غیر دکنی قارئین کے سامنے پیش کرنے کے قابل نہیں۔  مجتبیٰ نے اس طرح کے مقامی ابتذال سے احتیاط برت کر اپنی تخلیقات کو عالمی ادبی سطح پر چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح رکھا ہے۔

       مجتبیٰ حسین اُن خوش نصیب ادیبوں میں سے ہیں جنھیں انعام و اکرام و اعزاز سے نوازا گیا ہے۔  سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے وطن اور بیرونِ وطن سب جگہ اُن کے چاہنے والے بسے ہیں اور قارئین کی یہ محبت اور قدردانی اُن کے لیے بڑا اعزاز ہے۔

       معاصر اُردو ادب میں مجتبیٰ حسین ایک بے حد اہم نام ہے جس پر اہل دکن کو بجا فخر ہے۔

٭٭٭

نوٹ:  یہ مضمون مجتبیٰ حسین کی حیات میں شائع ہو چکا ہے۔ اب وہ نہیں رہے، اُن کی یاد باقی ہے۔  اللہ رب العزت اُن کی مغفرت فرمائے۔۔۔  آمین

٭٭

پروینؔ شیر کی دلکش شاعری کا ایک منظر ۔۔ نہالِ دل پر سحاب جیسے

       پروین شیر جو کنیڈا کی ایک ممتاز شاعرہ ہیں ان کا مجموعہ کلام ’’نہال دل پر سحاب جیسے‘‘ ان کی دلکش شاعری کا ایک منظر بلکہ ایک پہلو پیش کرتا ہے۔  میں محترم نذیر فتح پوری صاحب کی عنایت کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے یہ مجموعہ مرحمت فرمایا۔

       اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اردو کی منتخب نظمیں اپنی انگریزی معنوی شکل کے ساتھ آئینہ داری کرتی نظر آتی ہیں۔  یہ ترجمے مشاق اور ماہر شاعروں نے کیے ہیں جن کے نام خود ان کی خوبی کی دلیل ہیں۔  کرامت غوری، ستیہ پال آنند، بیدار بخت، اظہار رضوی، عشرت رومانی، اس لیے تراجم بھی بہ ذات خود اچھی نظموں پر مبنی ہیں۔

       پروین شیر ایک ایسی شاعرہ ہیں جو شاعری کے وسیلہ کو محدب رنگین، عدسہ کی طرح استعمال کرتی ہیں۔  اسی واسطہ سے مناظر علامات اور احساسات کو دیکھتی ہیں بلکہ مشاہدہ کرتی ہیں۔  گویا یہ واسطہ ان کے جذبات کی ترنگوں اور ارتکاز کے تغیر کے ذریعہ ترسیل کا آلہ بن جاتا ہے۔  پروین کی شاعری زندگی کی قریب تر حقیقتوں، رشتوں کی حرارتوں اور تعلقات کی مناسبتوں کو بے حد سادگی سے تشبیہات و کنایات کے ذریعے علامات کے ماحول میں پیش کرتی ہے۔  اس طرح ہر نظم ایک نادر تصویر کی طرح وجود پذیر ہوتی ہے۔

       آرٹسٹ سوچ فن کار کو ہمیشہ نئے زاویے اور نئے رنگ میں ہر منظر، ہر تصور، ہر احساس کی تصویر کشی کی جانب مائل رکھتی ہے۔  وہ بالراست فوٹو نہیں کھینچتا بلکہ چاہتا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی تصویر کئی پرتیں، کئی پہلو، حسب منشا رکھے اس طرح وہ تصویر صرف پرچھائیں نہیں رہ جاتی بلکہ شاعر کے داخلی محسوسات کی ترجمان بن جاتی ہے۔  عین ممکن ہے کہ ایک ہی شے کو مختلف ذہنی جھکاؤ رکھنے والے فن کار مختلف اور بالکل جداگانہ طور پر پیش کریں۔  وہ بھی خوبصورت تصویریں ہیں جو پھولوں، پتیوں، انسانوں اور مناظر کے حسن کو بالکل کچھ کہے بغیر سراسر انداز میں پیش کر دیں۔  لیکن ایسی ہر تصویر زیب داستان کی حد تک ہی رہ جاتی ہے۔  وہ تصویریں جو اندرونی ارتعاش اور نامیاتی زندگی رکھتی ہیں ان کا تاثر دیرپا اور آلہ اظہار کی طرح ہوتا ہے۔

       پروین کی شعری تخلیقات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ مصوری (Art) سے خاص ربط رکھتی ہیں۔  اسی لیے وہ ہر منظر کو ایک خاص ترتیب میں سجا کر اس طرح سے پیش کرتی ہیں کہ ان کے واضح اور زیریں پہلو متوقع گہرائی اور معنی خیزی سے صورت گر ہوں، سماں باندھنا، موسم کا بیان، الفاظ کا رد و بدل، لہجے کا زیر و بم اس تصویری فن پارہ کو رواں رکھتا ہے اور اس طرح شاعر فن کار کے شوق بیان کو استکمال سے ہم کنار کرتا ہے۔

       پروین اپنی زندگی کے ہر رشتہ کو خلوص کے ساتھ فطری طور پر برتنا جانتی ہیں ان کے احساسات اور حسرتیں ایک چاہنے والے اور چاہے جانے والے فرد کی سوچ کا عکس ہیں۔  وہ ہر منظر میں پس پردہ تغیرات اور جھانکتی ہوئی شکلوں سے ایک معنی خیز صورت حال اخذ کرتی ہیں۔  ایسی تاویل و اخذ کی صلاحیت بلا شبہ ان کی ذہانت اور معنی آفرینی کی دلیل ہے۔  وہ ان کے ذریعے اپنے احساسات کی داخلی لہروں کے مد و جزر کو پڑھ لیتی ہیں۔  ان کی کامیابی اس آرٹسٹ عمل میں اور کھل کر سامنے آتی ہے جب طبعی مشاہدوں اور مناظر کو افسانوی فضا میں لے جا کر اس طرح برتتی ہیں کہ ہر شے اور ہر چہرہ شاعر کے اظہار کا آلہ بن جاتا ہے، چاہے وہ عام قدرتی اشیا جیسے سورج، چاند، تارے، شجر، پہاڑ، ندی، درخت، پانی، برگ و بار، گل و خار، برف و ریگ کسی بھی نام سے مذکور ملیں۔  سادہ اور سماجی شاعری کا یہ پہلو عام فہم سے ہٹ کر ہے۔  چند مثالیں لیجیے:

اب تم دھرتی کی بانہوں میں

جھلمل کرتا اک جھرنا ہو

جس کے میٹھے میٹھے نغمے

شور سے گھائل

میری سماعت کا مرہم بنتے رہتے ہیں

رفتہ رفتہ

نرم ملائم پھول اور کلیاں

خار و خس میں بدل گئے ہیں

ان کانٹوں نے

یادوں کے دامن کو

اپنی کاٹ سے

ایسا چھلنی کر ڈالا کہ

سارے خار و خس جھڑ جھڑ کر کھوسے جاتے ہیں  (نجات)

       پروین شیر جس ملک اور ماحول میں رہتی ہیں اس کا عکس ان کی شاعری میں مستعملہ مناظر میں بار بار ملتا ہے۔  وہ اپنی حقیقی شکل سے قریب رہ کر اور اسی پس منظر میں سب کچھ کہنا چاہتی ہیں اس لیے کہیں برف بکھری ہوتی ہے تو کہیں حرارت کی طلب اور اس کے لیے ہلکی ہلکی سی تڑپ۔  برف میں کھلے ہوئے پھول، بکھرے ہوئے پیڑ، پودے، ان کی نظموں میں بہت ساری باتیں کہہ جاتے ہیں۔

       رشتوں کی قدر اس شاعرہ کے کلام کی قوت ہے، وہ ماں، بیٹی، اولاد، دوست، اقربا اور اہل دنیا کے ساتھ اپنے رشتوں کو مضبوط رکھنا بہ ہر حال چاہتی ہیں۔  ان کے سارے رشتے سچائی اور انسانی جبلت سے مناسبت رکھنے والے ہیں وہ کسی فلسفہ زدہ رشتے کی پرچھائیں کا پیچھا نہیں کرتی ہیں۔

       ماں اور بچوں سے محبت تو ان کے مرغوب موضوعات ہیں اور ان رشتوں کی نسبت سے وہ ڈوب کر اظہار خیال کرتی ہیں۔  وہ کسی تحریک کے تحت یا کسی مقصدی منشور کے تحت ان رشتوں کی طرف راغب نہیں ہیں ان کی سب الفتیں سچی اور خالص ہیں۔  وہ رشتوں سے متعلق نظموں میں ایک بے حد سیال سی کیفیت پیدا کرتی ہیں جس میں گہرائی بھی ہے گیرائی بھی۔  مثلاً:

شعلہ بار رتوں میں

وہ تھی

ابر کرم کا عنواں

وقت کڑا جب مجھ پر پڑتا

وہ رہتی تھی

ہر پل قرباں

اس میں ڈوبی رہتی تھی میں

شفقت کا دریا تھی

اماں۔۔۔ (پار سمندر)

       وہ کس قدر تھی

       حسین ساعت، رحیم ساعت، کریم ساعت

       کہ جب مرے دامن دعا میں

       عطا کیا تھا تجھے خدا نے

       او میرے بچے!! (یہ چاند لمحے)

       ایسا لگتا ہے کہ پروین شیر نے ہر نظم ایک خاص موقع پر ایک منفرد تجربہ کے تناظر میں لکھی ہے۔  ہر نظم اگرچہ کہ گہرائی میں جاتی ہوئی لگتی ہے۔  لیکن جلد ہی ابھر کر وضاحت کی سطح پر آ جاتی ہے۔  اس طرح قاری کو شعر میں چھپے معانی کو محسوس کرنے میں دقت قطعاً نہیں ہوتی۔  میرا اندازہ ہے کہ پروین شیر چاہتی ہیں کہ سامع ان کی تخلیقات کو آسانی سے سمجھ لے لیکن ان کی شاعرانہ سوچ کی داد بھی دے۔  اسی لیے انھوں نے کسی صنعت کا استعمال نہیں کیا ہے۔  سادہ اور بیانیہ اسلوب میں اپنی مقصود رہ گزر پر سب کو ہم سفر لے جانے کی جستجو کرتی ہیں۔  وہ چاہتی ہیں کہ قدرتی مناظر اور ان کے تخلیق کردہ سین میں مدغم ہو کر ان کے شعری تصورات کا ادراک ہو سکے۔  ان کی شاعری اس لحاظ سے ایک خلاق شاعرہ کا کلام ہے جو ہر منظر کی معنی خیز تصویر کشی کرتا ہے۔

       بعض نظمیں تو اس فن کاری کا بہترین نمونہ ہیں۔  مثال کے طور پر ’’طیارہ‘‘، ’’بوڑھی بچی‘‘، ’’زمستاں کا سورج‘‘ اور ایسی چند منظومات تمثیل اور تصویر کے امتزاج سے بالکل نمائندہ نظمیں بن کر ابھرتی ہیں ان نظموں میں ایک طبعی فضا کو تخلیق کر کے اس منظر نامے کے ہر جز اور ہر شے میں غیر محسوس سا تحرک پیدا کیا گیا ہے اور اس طرح وہ ان کہی باتیں کہہ دی گئی ہیں جو راست اظہار میں شاید اتنا واضح اثر نہ دے پائیں، ان نظموں میں افسانوی کیفیت بھی ملتی ہے۔

       پروین شیر ایک زندگی سے پیار کرنے والی شاعرہ ہیں، وہ اپنی روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں ایک شعری رخ ڈھونڈ لیتی ہیں۔  اس لیے ان کی نظمیں گھر آنگن کی شاعری سے مماثلت رکھتی ہیں وہ اپنے اہل خاندان، دوست احباب سے ٹوٹ کر پیار کرتی ہیں اور ہر تعلق ان کے لیے بیش قیمت ہے اور دل سے جڑا ہوا ہے۔

       ان کی شاعری میں لفظیات، تراکیب اور علامات کا کوئی خاص کلیدی کردار نہیں ہے وہ ہر لفظ کو اس کے اصلی معنی سے قریب رکھتی ہیں الفاظ کے پردہ میں نئے مطالب نہیں چھپاتیں۔  اس کے باوجود وہ کبھی ترسیل کے کم تر درجہ کی جانب نہیں اترتیں۔  ان کی زبان معیاری اور بیان بالراست ہے وہ ایک مہذب معاشرہ کی شاعرہ ہیں جو دنیا کے حسن و قباحت کو اپنے معیارات کے صیقل پر پرکھتی ہیں۔  ان کی شاعری میں نیچرل شاعری کی طرح لفظیات ملتی ہیں مثلاً پہاڑ، چاند، تارہ، جھرنا، بچہ، بچی، ڈالی، پتے، پھول، کیاری، بستی، وادی، دریا وغیرہ۔

       ان کی نظمیں تاثیر بھی رکھتی ہیں اور رواں دواں بھی ہیں مثلاً قحط، ایک چھوٹی سی نظم ہے جو کچھ یوں ہے:

وہ جب سے گئی ہے

عجب خشک سالی کا موسم ہے آیا

دہکتی ہیں سورج کی انگار آنکھیں

فلک پر نہیں کوئی بھی ابر پارہ

کہ بارش کا اب کوئی امکاں نہیں ہے

سلگتے ہیں آنکھوں کے پیاسے علاقے

فقط خاک چاروں طرف اُڑ رہی ہے

کیاری بھی پلکوں کی سوکھی پڑی ہے

تو اس قحط میں

خواب کیسے اگاؤں؟

       اس نظم میں ’’خشک سالی کا موسم‘‘، ’’سورج کی انگار آنکھیں‘‘، ’’پلکوں کی سوکھی کیاری‘‘ جیسی تراکیب امیجیس کس قدر ترسیل کو آسان بنا دیتے ہیں اس کا اندازہ تو ہم کر سکتے ہیں۔  لیکن اس طرح کی تخلیقی تحریر ضرور ایک مشاق شاعرہ کے قلم سے ہی نکل سکتی ہے۔  میں پروین شیر کو ان کے کلام پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی فکر کے کینوس کو وسعت دے کرا سی طرح خوبصورت شاعری کرتی رہیں گی۔

٭٭٭

         (مطبوعہ ’’اسباق‘‘ پونے، مہاراشٹرا)

 

نور پرکار کی نظم ’’کہا اُس نے۔۔۔‘‘

(یہ تجزیہ اُس وقت کا ہے جب نور پرکار کویت میں مقیم تھے۔ اب تو وہ ممبئی میں رہتے ہیں)

تعارف:

       اسلوبیاتی مطالعہ کے لیے زمانۂ حال میں ایک اہم موضوع مقیم (Resident) اور غیر مقیم (Non-Resident) شعرا اور ادبا کی تخلیقات کا تقابلی موازنہ بھی ہو سکتا ہے۔  وطن اور دیار غیر میں بسنے والے فن کاروں کے تجربات، مسائل اور موضوعات میں واضح تفاوت ہے۔  شائع ہونے والی تخلیقات کا اگر بہ غور مطالعہ کیا جائے، ایک وقتی نقطہ پر دونوں ہی جانب دو جدا لب و لہجہ کے ادب و شعر فروغ پا رہے ہیں اور دونوں ہی اُردو کی بقا اور ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

       میرا ایک سطحی اندازہ یہ ہے کہ غیر مقیم شعرا جغرافیائی، فضائی اور بصری عناصر کے مقابل داخلی احساسات اور لفظیاتی واسطہ کی جانب زیادہ مائل نظر آتے ہیں۔

       غیر مقیم شاعر(اور ادیب) کی ایک مثال نور پرکار ہیں، جن کی زیر مطالعہ نظم اسی قسم کی داخلی کیفیت سے مملو ہے۔  نور پرکار برسوں سے کویت میں مقیم ہیں، یہاں کے ادبی اور ثقافتی حلقوں میں اردو کے ایک اہم نمائندہ ہیں، ادبی تحریکات، مشاعروں، محفلوں اور مجلّوں میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔  ان کی ادبی خدمات میں مراٹھی کے تراجم، افسانے، نثری مضامین، شاعری اور اہم ادبی رسائل کی ’’مہمان‘‘ ادارت سب شمار کیے جا سکتے ہیں۔  اگر ان کی مصروفیات کو دیکھا جائے تو بے حد خارج پسند (Extrovert) شخص ملے گا لیکن ان کی نظموں کی طرف دیکھیں تو احساس ذات کی ایک داخلی سمت ان میں نظر آئے گی۔  ایسا شخص جو اظہار ذات کے لیے عوام کی پسند اور رائج لب و لہجہ کی پروا نہیں کرتا، عموماً غیر ممالک کی ادبی محفلوں میں نثری شاعری پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھی جاتی۔  اکثر ذوقِ سخن سے بہرہ متشاعر اور نیم شاعر تو بدک جاتے ہیں۔  پھر محدود محفلوں میں گہرے ادب کا رواج نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے (’’زبانِ میر سمجھے۔۔۔‘‘ والی کیفیت ہے)۔  لیکن نور نے بڑی دلیری (بلکہ دیدہ دلیری) سے روایت سے انحراف کیا ہے۔  قصداً اور ارادتاً۔  نور پرکار کی نظم کا واحد متکلم بالکل منفرد ہے تنہائی پسند بلکہ فراریت کی طرف مائل، خارج کے مقابل داخل کی طرف راغب، اکھڑا اکھڑا سا ایک شخص بھیڑ سے الگ ہوتا ہوا۔۔۔  (یہ تو وہی نور پرکار نہیں۔۔۔) ایک جداگانہ سا احساسات سے بوجھل فرد نظموں کے مرکزی کردار میں ملتا ہے۔

نظم کا جائزہ:

       نور پرکار بنیادی طور پر افسانہ گو، بلکہ افسانہ گر ہیں۔  ان کی بیش تر نظمیں نثری آہنگ میں ہیں بلکہ بڑی حد تک شعری نثر پارے نظموں کے ظروف میں احساسات کے لباب چھلکتے ہوئے پیمانوں کی طرح ہیں جن کی ہر جھلک میں ایک تصویر کی لہر اٹھتی ہے۔

       نور کی زبان مکالمے کی زبان ہے وہ مکالمے بولتے ہیں۔  مکالمے سنتے ہیں اور مکالموں کے واسطے سے اظہار کو ترجیح دیتے ہیں۔  ان کی زیر تجزیہ نظم بھی ایک مکالماتی فن پارہ ہے۔  بالکل کسی افسانوی کردار کی زبان سے مدھم آہنگ میں خود کلامی سے قریب تر نہج پر سادہ اور عام زبان میں اظہار دروں ہے۔  اس نظم کا مرکزی کردار ایک ایسا شخص ہے جو ایک ایسی تشکیک کا شکار ہے جو تجربات کی تلخیوں اور رشتوں کی ناکامیوں سے منتج ہوئی ہے۔  لیکن یہ تشکیل سراسر شکست خوردنی نہیں ہے، اس کے پس پردہ بھی ایک ہلکی سی امید ہے جو سبزۂ خود رو کی طرح حالات کی گرد کے تلے سے ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

       نور نے اس نظم میں جو تراکیب استعمال کی ہیں وہ بیش تر نیم تشبیہی ہیں۔  مستعمل علامات محدود ہیں۔  لفظوں کو ان کے مروجہ مطالب سے قریب تر رکھا گیا ہے۔

       ان کی نظموں میں ایک عمومی رجحان یہ ہے کہ رواں دواں مکالماتی رو میں کہیں کہیں اچانک ایک ایسا ان مل (بے جوڑ سا) جملہ یا نعرہ داخل کر دیا گیا ہے۔  جو نہ صرف یہ کہ روانی کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے، اس کی فکری یکسانیت میں شکن پیدا کر کے معنویت کو نیا رخ دینے کی کوشش کرتا ہے۔  مثلاً ’’نہ جانے ان دنوں‘‘ سے ’’نہ راز داں میرا‘‘ تک ایک رواں جملہ ہے جو یکایک ’’نہ روایت نہ کوئی عجیب قصہ ہے‘‘ سے ٹوٹ جاتا ہے۔  لیکن تسلسل کو نبھاتے ہوئے شاعر فوراً ’’پھر بھی اسی سے برقرار ہر رشتہ ہے‘‘ کے مصرعے سے پورے بیان کو نفسِ مضمون کی باز آمد کی کوشش کرتا ہے۔

       اسی طرح دوسرے بند میں ’’یا نام کی یادہ گوئی میں‘‘ ایک ایسا ہی ان مل سا جملہ ہے۔  اس نظم کے پہلے دو بنود میں شاعر کا مقصود کردار ایک غائب سی شخصیت ہے۔  جس کی کوئی توصیف نہیں کی گئی ہے، کوئی رومانی نسبت نہیں بیان کی گئی ہے۔  ہاں ایسا ضرور لگتا ہے کہ وہ کوئی ایسی مونس شخصیت ہے جو شاعر کو اس کے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہے، بے تعلق ہوتے ہوئے قریب تر اور راز دار بھی۔  یہ غائب مقصود اپنی حرکات سے شاعر کی رفاقت کا کردار ادا کرتا ہے:

        ’’اسے یقین ہے کہ

       گنگناہٹ میں خاموشی بھی بولے گی۔۔۔

       بالوں میں انگلیاں ہزار زبانیں کھولیں گی۔۔۔‘‘

       یہ غیر ناطق طور پر ہم رازی نبھانے والا فرد سادہ بھی ہے کہ سنگلاخ حیات کا ادراک بھی نہیں رکھتا۔  بس بالکل بے سبب بے مطلب طور پر شاعر کے ساتھ ساتھ سفر میں مصروف ہے۔  وہ تو اس بات سے بھی واقف نہیں ’’کہ دوست اپنانے کی مٹی ہوا میں نہیں!‘‘

       (یہاں پر ’’مٹی‘‘ کا لفظ استعمال کر کے، شاعر نے بہ ظاہر ایک بے ربط لفظ کے ذریعے گہری معنویت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے)۔

       اور یہ کہ ’’کوئی سویرا آنگنوں میں پلتا ہی نہیں۔‘‘

       ایسے سماج میں جس میں آنگن ناپید بلکہ خیال سا جزو مکان ہو کر رہ گیا ہے۔  اس میں سویرا اتارنے یا پالنے کی امید شاعر میں چھپے ہوئے خواب آسا فن کار کی فکر سے نسبت رکھتی ہے۔  اپنے وطن سے دور ’’فلیٹوں کے (عمیق حنفی مرحوم کے بہ قول ’’بند کابک گھروں کے‘‘) مکین کچھ ایسے ہی کرب کا شکار ہیں جو وطن سے متعلق جغرافیائی، فکری اور اقداری رشتہ کی کمزوری اور بعد کے سبب ہے۔  نہ اس میں کوئی آنگن ہے نہ کوئی مانوس موسم۔  یہاں کی موقتی مسرتیں اور تسکین خانوں میں بٹی ہوئی ہیں۔  کیوں کہ بہ قول شاعر:

        ’’جسم کے خوش حال ہونے کا کوئی موسم نہیں‘‘

       نظم کے آخری بند میں پہنچتے ہی احساس ہوتا ہے کہ شاعر اپنے مقصود ہم راز کو گھر کے ابعاد سے نکلتے ہی اور باہر آتے ہی راستہ کی گرد میں فراموش کر چکا ہے۔‘‘ کیوں کہ اجنبی راستہ پر وہ بھی ان ہزارہا سفر کرنے والوں میں سے ایک ہے جو ایک سست رو خود کشی میں لگے ہوئے ہیں اور اس کا ان کو خود بھی علم ہے نہ اطلاع کیوں کہ:

’’کہ آتما سے پرماتما تک

کھلے راستوں پر

کوئی قاتل ہی نہیں

اور سبھی مقتول ہیں‘‘

       انجام کار شاعر حقائق اور حقائق کے اظہار سے دامن کشاں ہونا چاہتا ہے۔  اپنی تخلیقی دنیا سے فرار چاہتا ہے۔  اپنے احساسات کے بھیانک در و بام سے گریزاں ہو رہا ہے:

’’سجے سجائے کمروں میں

جب کبھی اپنے لکھے شبدوں سے ڈرتا ہوں

تو تنہا شہر کے گلی کوچوں میں

پھرا کرتا ہوں۔۔۔‘‘

       یہ شہر کے گلی کوچوں میں پھرنا، تھک جانے کے لیے ہے کہ اس کے سارے کریہہ کرب بھرے احساسات فراموش کاری کے پردے میں چھپ جائیں بلکہ کھو جائیں، تاکہ مفر نصیب ہو۔

       اس طرح نور پرکار کی یہ نظم اُن کے اُسلوب کی ایک نمائندہ نظم ہے، ملاحظہ فرمائیں:

٭٭

کہا اُس نے۔۔۔

نہ جانے ان دنوں

یہ کیا ہو گیا ہے مجھے

کہ سوا اس کے کچھ نظر ہی نہیں آتا

نہ وہ کوئی غم گسار، نہ راز داں میرا

نہ روایت نہ کوئی عجیب قصہ ہے

پھر بھی اسی سے برقرار ہر رشتہ ہے

کل پچھلے پہر کہا اس نے

کہ میری بخشش کی ضمانت میں

میں پھر کوئی نظم کہوں

بے سبب چلوں

کسی اور آئینے میں نہ چہرہ دیکھوں

اسے یقین ہے کہ

گنگناہٹ میں خاموشی بھی بولے گی

بالوں میں انگلیاں ہزار زبانیں کھولیں گی

کون سمجھائے اسے

کہ دوست اپنانے کی مٹی ہوا میں نہیں

کوئی سویرا آنگنوں میں پلتا ہی نہیں

صرف ہجرتیں ہیں، جو اظہار میں نہیں آتیں

جسم کے خوش حال ہونے کا کوئی موسم ہی نہیں

میں یہ بھی چاہتا ہوں

کہ محبت تو بڑا جھوٹ ہے

جس کے اطراف میں

اینٹ پہ اینٹ جمی ہے

بڑی دیوار بنی ہے

یا نام کی یا وہ گوئی میں

غزل سرائی یا فلسفہ طرازی

ہر ترجمانی پرانی ہے۔۔۔!

یہ بھی عجیب بات ہے

کہ آتما سے پرماتما تک

کھلے راستوں پر

کوئی قاتل ہی نہیں

اور سبھی مقتول ہیں

حقیقت تو صرف علم ہے

اور علم کی کس کو پہچان ہے؟

سجے سجائے کمروں میں

جب کبھی اپنے لکھے شبدوں سے ڈرتا ہوں

تو تنہا شہر کے گلی کوچوں میں

پھرا کرتا ہوں۔۔۔!!

٭٭٭

         (مطبوعہ ماہ نامہ ’’سب رس‘‘ حیدرآباد)

شاہد میرؔ کی غزل سرائی

       گزشتہ تین چار دہائیوں میں نئی غزل کے تناظر میں جو نام ابھر کر آئے ہیں ان میں شاہد میر کا نام بھی روشن ہے۔  شاہد میرؔ ان غزل گو شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے سراسر اظہار ذات کے لیے شعری وسیلہ کا استعمال کیا ہے۔  اشارت و علامت کے مقابل تشبیہات کا استعمال ان کے شعری رویہ کی شناخت ہے۔  فرد کے داخلی احساسات و تجربات کو واضح لب و لہجہ میں، مناسب لفظیات اور مانوس تراکیب سے آراستہ کر کے بے ساختگی کو ترجیح دے کر شاہد میرؔ نے بہت دلکش غزلیں اردو ادب میں اضافہ کی ہیں۔  غزل کے رواج عام کے باوجود، ردیف و قافیہ کی تکرار کے با وصف اس میں شک نہیں کہ آج بھی غزل کی صنف ہر دور میں تازہ دم شاعروں کی کھیپ پیش کر رہی ہے۔  مشاعرے ہوں، ادبی محافل ہوں کہ جرائد و رسائل، ان گنت غزلیں ستاروں کے جھرمٹ کی طرح آسمان سخن پر اپنے وجود کی دلیل کی طرح چمک رہی ہیں۔

       کچھ شاعروں نے لمحاتی شہرت اور امتیاز کے لیے انوکھے پن، غیر مروجہ زبان اور چونکانے والی باتوں کی ذریعہ کچھ مدت کے لیے یا کسی ماحول کے لیے شاید کامیابی حاصل کی ہو لیکن شعر وہی دوام کو حاصل کرتا ہے جس میں روح فن زندہ ہو۔  شاہد میر اسی لیے اپنے ہم عصروں میں ایک مناسب اور خاص مقام کے حامل ہیں کہ نہ تو وہ بھیڑ چال کی اندھی پیروی میں لگے نہ ہی وہ شاعروں کی اس فہرست میں آئے جو صرف شہرت کی شائق تھی۔  انھوں نے بامعنی، معیاری اور خیر الامور اوسطہا، کے رویّہ کے مصداق شاعری کی۔

       جب کویت کے ایک نمائندہ ادیب سعید روشن صاحب نے مجھے شاہد میر کی غزلیات میں سے چند دیں تو میں چند لمحے اس تصور میں رہا کہ پھر وہی غزلیں، وہی ردیف و قوافی۔

        غزلوں کی بہتات سے اکثر مجھے یہ احساس ہوتا رہا ہے کہ وہی موضوعات کی تکرار، وہی چند بندھے ٹکے معاملے، وہی ردیف نبھانے کی تگ و دو، آخر اس روندی ہوئی زمین کا سفر کیوں نہیں رکتا۔  آخر کوئی نیا موڑ کیوں نہیں آتا۔  لیکن شاہد کی غزلیں پڑھیں تو ملال کی گرد دھل گئی اور تازہ تر موسم کا احساس پیدا ہوا۔  شاہد واقعی ایک اچھے شاعر ہیں۔

       یہ شاعر جستجو کا شاعر ہے۔  صحرا میں امید کی تلاش کا شاعر ہے، ہجر میں وصل کے خواب دیکھنے والا شاعر ہے۔  مایوس نہیں پُر امید ہے لیکن ایک زخمی ہرن کی طرح، زخموں پر مرہم کا تمنائی ہے۔  اس کی شاعری کے موضوعات ہماری زندگی کے ہر راستے پر بکھرے پڑے ہیں۔  شاعر ان موضوعات کو گرد سے نکال کر الفاظ کے درمیان سنبھال کر پیش کرتا ہے ار اس طرح آپ کی توجہ ایک مانوس سی بات سے ایک ندرت بھرے شعر میں ہو جاتی ہے۔  آپ پہچان کے ایک نئے تجربہ سے گزرتے ہیں۔  شاہد کے چند ایسے اشعار پیش ہیں:

وہی سفاک ہواؤں کا ہدف بنتے ہیں

جن درختوں کا نکلتا ہوا قد ہوتا ہے

ہماری اپنی زباں اختیار میں کب ہے

کبھی الم، تو کبھی جوشِ بادہ بولتا ہے

کھارے پانی کے دامن میں

اک فصلِ شاداب سفینہ

شاہی احکامات ادھورے کیسے جائیں

پتھریلی دھرتی کو مخمل کہتے رہنا

شور برپا ہے سنائی نہیں دیتا کچھ بھی

شور بھی گویا نئے عصر کا سناٹا ہے

ہے ربط خاص ہمیں بھی دکھے ہوئے دل سے

بچھے جہاں صف ماتم شریک ہوتے ہیں

       ایسے ہی بہت سے اشعار آپ کو احساس دلاتے رہیں گے کہ شاعر آپ کے بہت قریب ہی کہیں موجود ہے، وہ مناظر کی ایک پرتو تصویر کشی کر رہا ہے، وہ صرف اور صرف ناظر اور مصر ہے وہ کسی فلسفہ اور حکمت سے مسائل اور مصائب کا حل بتانا نہیں چاہتا۔  وہ تو آپ کو اپنے انداز میں وہی دکھا رہا جو آپ دیکھتے رہے ہیں۔  ہاں کبھی کبھی آپ کو لگتا ہے کہ ردیف و قافیہ کے بہتے ہوئے دریا میں کوئی انوکھی بات بھی ابھر آتی ہے، ایسے اشعار کی تعداد کم ہے لیکن پھر بھی شاعرانہ فکر سے بہتے ہوئے دھارے سے بغاوت کر کے اپنی دلیل آپ بن جاتے ہیں۔  مثلاً:

دوست، دفتر، چائے خانے سب بچھڑتے جا رہے ہیں

رات سر پر آ گئی ہے اور مجھے گھر ڈھونڈنا ہے

دل کے انمول خزانے کی حفاظت کیجیے

پھر قریب آنے لگی سانپ کے پھن کی خوشبو

       شاہدؔ کی شاعری سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ ادبی محفلوں اور دوست احباب کے جھرمٹ میں رہنے والے شاعر ہیں وہ اپنے احباب کے تجربات کو بھی بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں گرچہ ایسے اشعار میں فنی عنصر نسبتاً گم اور غیر متناسب ہے۔  مثلاً:

شکستہ دل جوانوں شاعروں کے دکھ سے واقف ہے

کھلی جو نصف شب تک چائے کی دوکان رکھتا ہے

شمار کیسے کروں خوش لباس ہنسوں کا

بدل کے بھیس نکلنے لگے ہیں زاغ اپنا

       شاہد میرؔ کی غزلوں میں بحور کے انتخاب میں کوئی خاص اجتہاد نہیں ہے۔  تنوع بھی کم ہے۔  اسی طرح ان کی غزلوں کی طوالت پانچ اشعار سے آٹھ نو اشعار تک عموماً ہوتی ہے، ردیف و قافیہ نبھانے کے لیے بے وجہ اشعار خلق نہیں کیے گئے ہیں جتنے مناسب تھے اور بہ آسانی حیطہ تخلیق میں آئے اُتنے ہی شعر شریک غزل کیے گئے۔  عمق، دقت پسندی اور گہرے جذبات سے اجتناب برتا گیا ہے۔  سب دکھ واضح ہیں سب مضمون بین ہیں۔

       شاہدؔ کی غزلوں کی لفظیات، سفر اور اس سے متعلق مضامین مثلاً راستہ، رہ گزر، مسافر، راہبر، دشت، سمندر، ندی وغیرہ اسی طرح چمن، وطن اور عام زندگی سے متعلق موضوعات پر مبنی ہیں۔ شاہدؔ کی شاعری ایک معزز شہری فن کار کا کلام ہے جو حدود سے تجاوز بھی نہیں کرتا، حقائق سے روگردانی بھی نہیں لیکن ایک درد مند ناظر کی طرح ناگوارہ پر تبصرہ کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔

       میں شاہد میرؔ کی شاعری کو اُن کے ماحول اور اُن کے رویّہ کی نمائندہ شاعری سمجھتا ہوں اور اُن سے اسی طرح غزل گوئی کی خواہش کرتا ہوں، غزل کے شائقین کے لیے یہ کتاب ایک تحفہ ہے۔

٭٭٭

         (مطبوعہ ماہ نامہ ’’انتساب‘‘ شاہد میر نمبر)

محسن جلگانوی کی کتاب

(’’جدید شاعری کی نمائندہ آوازیں‘‘ پر پیش لفظ)

       محسن جلگانوی ایک صاحب نظر تنقید نگار، ایک عبقری جدید شاعر اور مشاق صحافی ہیں جنھوں نے تخصیص اور دقت نظری سے اردو ادب کے ادوار، ان کے مختلف پہلوؤں خصوصاً جدید اردو شاعری کے اسالیب و تجربات پر قابل قدر رائے قائم کی ہے۔  ان کی تحریریں متنوع موضوعات، ابعاد اور سمتوں کو متشرح کر کے ایک مرکوز نقطہ نظر پر منعکس کرتی ہیں۔  یہ فن آسان نہیں ہے۔  طویل زیرک تجربہ اور مشق سخن کی دین ہے جو ایک تربیت یافتہ تخلیق کار ہی کر سکتا ہے اور یہی اس سخن ور کے فکری ذوق کا واضح اشارہ ہے۔

       اردو زبان کے جدید تر عہد کی شاعری بڑے طمطراق سے ترقی پسندی کے سحر کو باطل کرتی ہوئی سامنے آئی۔  ہندوستان اور پاکستان کے مختلف گوشوں سے ایک ساتھ تازہ آوازوں کے جھونکے اٹھے۔  کئی بڑے نام سامنے آئے، ہر شاعر اپنے طرز کلام، اپنی لفظیات کے برتنے کے سبب شناخت اور قبولیت کے مختلف پیمانوں پر نمایاں ہوا۔

       اس دوران میں اردو کے کئی نئے رسالے، جریدے، انتھالوجی کے نہج پر مجموعے سامنے آئے جنھوں نے بہ بانگ دہل نئی آواز اور نئی شعری جہت کی آمد کا اعلان کیا۔  انتخابات کے اولین صفحات پر اس زمانے کے معتبر تنقید نگاروں اور ادبی اکابر کے مضامین ضرورہوتے جو زور و شور سے دعویٰ، دلیل اور وکالت کے طور پر جدید شاعری کی حمایت میں رطب اللسان ہوتے۔  یہ مضامین اہم اور مستقل تصنیف قسم کے تھے جو افہام و تفہیم، رہبری اور نئی شاعری کی سمت شناسی بھی کرتے لیکن ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اکثر مضامین اس مفروضے پر بھی مبنی ہوتے کہ جدید شاعری کی تائید کے لیے اہم ترین نکتہ ترقی پسند شاعری کی تردید ضرور ہو۔  اس کی خامی اور کمیوں کو اجاگر کیا جائے۔  یہ مفروضہ بے حد اضافی اور بے تکا تھا جو رائج ہو گیا۔

       آج وہ زور و شور اور تائید و تردید کا طوفان ریت کے غبار کی طرح بیٹھ گیا ہے۔  جدید شاعری کی عمر بھی پینتالیس پچاس برس کی ہو رہی ہے، سن رسیدگی جھلک رہی ہے۔  آج مناسب ترین وقت ہے کہ ٹھہراؤ، اعتدال اور توازن سے جدید شاعری کا سیر حاصل جائزہ لیا جائے اور اس کے مجموعی تاثر کی بازدید کی جائے اور اس طرح محسن صاحب کی یہ کتاب بہت بروقت بھی ہے اور ادبی مطالعہ کی راہ میں ایک سنگ میل بھی ہے۔

       محسن جلگانوی اپنے کلام کی ندرت اور تازگی کے لیے پہچانے جاتے ہیں ان کی شاعری جدید حسیت، ایمائیت اور اظہار ذات سے معنون ہے۔  انھوں نے اپنی آمد کا احساس ۱۹۷۰ء۔  ۱۹۸۰ء میں حیدرآباد کے جدید شعری حلقوں کو اپنی دلکش تخلیقات کے ذریعہ دلایا۔  اس کے بعد انھوں نے نثری میدان میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کیا تو کئی قابل ذکر کتابیں سپرد قلم کیں اور اپنے نقد و نظر کی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کیا۔

       محسن صاحب کی یہ کتاب بروقت بھی ہے اور موضوع کی بساطت کو محیط بھی۔  اس کتاب کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ یہ کتاب صرف تعارف و تبصرہ پر مشتمل مضامین کا مجموعہ نہیں بلکہ اس کے اہم ابتدائی اوراق جدید شاعری کا منظم اور سائنسی طرز تحلیل پر جائزہ لیتے ہیں۔  مباحث، موضوعات اور سوالات کے ذریعہ مقیاس و میزان کا عمل انجام دیتے ہیں۔  شاعری کے اسلوبیاتی لسانی اور مزاجی زاویوں پر ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے۔  تحلیل کے لیے منتخبہ اشعار اور اقتباسات کے ذریعہ نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے۔  اس طرح یہ کتاب جدید شاعری کی روح کی رسائی میں ممد و معاون ہو گی۔

       محسن جلگانوی کی یہ تصنیف ایک خاص ہیکل اور منصوبہ بند ترتیب کے تحت تشکیل دی گئی ہے۔  اس کے ابو اب کے عنوانات اور مشمولات میں لچک بھی ہے اور افراط خیال سے نقطہ مرکوز کی طرف متوجہ ہونے کا عمل خاصی سمت شناسی سے کام لے کر کیا گیا ہے۔  بہت سارے اقتباسات اور مثالوں کی فراوانی سے اپنے مقصود موضوع کا حصول کرنا مصنف کا ہی خاصا ہے اور اس میں وہ کافی کامیاب بھی ہوئے ہیں۔  اس طرح ان کی تقسیم ابو اب میں بھی غیر محدودیت ہے۔  تخصیص کے معاملہ میں وہ سختی کے پابند نہیں۔  ابو اب جدید شاعری کا منظر نامہ، جدید شاعری غزل اور نظم کے پیرائیوں سے ۱۹۵۵ء کی شاعری میں جدید حسیت، جدے دیت اور مابعد جدے دیت کے عنوانات سے معنون ہیں لیکن اگر بہ نظر غائر ان مشمولات اور امکانات پر نظر ڈالی جائے تو یہ سب ابو اب تانے بانے کی طرح بنے ہوئے ہیں کہ حریر سخن سے جو ملبوس سامنے آتا ہے وہ خاصا بوقلمون ہے۔  گویا ہر بات، ہر پہلو، ہر ممکن زاویہ پر آہستہ آہستہ نظر پڑتی جاتی ہے اور قاری سوچنے لگتا ہے کہ کہیں کوئی بات تشنہ تو نہیں رہ گئی۔  تحلیل و تجزیہ کا یہ طریقہ کار مثبت بھی ہے اور قابل اعتبار بھی۔  امید کہ محسن صاحب اس نہج پر کئی نئی تخلیقات اور کتب کے ذریعہ اردو کے دامن کو مالا مال کریں گے۔

       مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ طوالت سے اختصار کی جانب رجوع کرتے ہوئے، محسن کو کافی دشوار اور مشکل فیصلے کرنے پڑے ہوں گے۔  وقت نظر اور ارتکاز اظہار کے لیے پیمانوں کو اور حدود انتخاب کو تیکھا کرنا پڑا ہو گا جس کے لیے ادبی پس منظر کا عرفان لازم و ملزوم ہے۔  اسی لیے انھوں نے جن شاعروں کو نمائندہ طور پر منتخب کیا ہے وہ واقعی اہم ترین جدید ناموں میں سے ہیں۔  ان شاعروں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور ہر مضمون اس شاعر کے تعارف اور تذکرہ کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔  ان کی طرز تحریر نے ہر مضمون میں اپنی تخصیص کو زندہ رکھا ہے۔

       منظر نامہ کا احاطہ کرتے ہوئے مصنف نے بے حد خوش اسلوبی سے مختلف سمپوزیم، سمینار، مباحث اور کتب میں اٹھائے ہوئے سوالات اور تحقیقاتی نکتے اور ان کے جوابات اور نتائج کو ایک ترتیب سے متوازی انداز میں جمع کر کے متشرح کر دیا ہے۔  محسن جدید شاعری کا سنگ میل ۱۹۶۰ء سے ہٹا کر ۱۹۵۵ء تک لے گئے ہیں۔  اس طرح آخر آخر کے ترقی پسند شعرا اور ادیب بھی داخل گفتگو ہو گئے ہیں۔  یہی حال تنقید نگاری کا بھی ہے ترقی پسند عہد کے چند نامی تنقید نگاروں کی آرا بھی جدید فن کی شناخت کے لیے روبہ کار لائی گئی ہیں۔  مصنف نے کوشش کی ہے کہ اقتباسات کو اپنے تجزیے / تبصرے سے اسی طرح تسلسل میں لائے کہ ایک مجموعی نتیجہ قاری تک پہنچ سکے۔  یہی تصنیف و تالیف کی خوبی ہے۔  محسن صاحب نے اپنی پسند اور اپنی انتخابی نظر کے تحت بہت سے اشعار اور اقتباسات بھی اس کتاب میں جمع کیے ہیں۔

       محسن جلگانوی کی اس کتاب کی ایک خوبصورت خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کا سواد نظر وسیع تر ہے۔  ان کے طرز انتخاب میں اولاً، جدید شاعری، ناصر کاظمی اور اختر الایمان سے ابتدائی دور کی نشان دہی کرتی ہے۔  جدید شاعری چوں کہ جاری و ساری ہے اور نئے نام بھی آتے رہیں گے اور یہ فہرست کچھ دن اپنی چمک دمک دکھاتی رہے گی۔  نمائندہ مذکورہ جدید شاعروں میں ناصر کاظمی اور اختر الایمان دونوں ہی ترقی پسند شاعری کے دور کے اہم نام ہیں جن میں ان کی جدت طرازی اور اظہار ذات کے سبب جدید شاعری میں بھی اولیت دی گئی ہے، اس طرح میراجی، مخدوم، تصدق حسین خالد، ن۔ م۔ راشد، مجید امجد، جیلانی کامران، خلیل الرحمن اعظمی، بلراج کومل ایسے کئی شاعر گزرے ہیں جنھیں اپنی جداگانہ فکر اور ممتاز ڈکشن کی بنا پر اپنا الگ الگ مقام حاصل ہے۔  ناصر کاظمی اور اختر الایمان کا تذکرہ مختلف ادبا اور تنقید نگاروں کے فرمودات سے سجایا گیا ہے۔

       خورشید احمد جامی ایک بہت خوبصورت نام ہے جو ترقی پسندی سے جدید شاعری کی جانب مائل ہوئے اور اپنی تشبیہات اور علامات کے سبب ممتاز ہوئے۔  ان پر بہت سے جدید تنقید نگاروں نے بھی خوب لکھا ہے۔  میری تحریریں، محمود خاور، وقار خلیل اور کئی اہل ادب نے جامی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔  مصنف نے ان کی چند اہم آرا جو انھیں پسند آئیں پیش کر دی ہیں جن میں چوٹی کے ترقی پسند نقادوں کی آرا بھی ہیں۔  محسن جلگانوی کی زبان معیاری ہے اور ان کی تبصراتی تحریریں متوازی اور کافی دقت نظر سے لکھی گئی ہیں۔  جن دوسرے اہم جدید شاعروں کا تجزیہ اس کتاب میں تفصیل سے پیش کیا گیا ہے وہ ہیں محمد علوی، بانی، قاضی سلیم، بشیر بدر، ندا فاضلی وغیرہ۔  ہر شاعر کا تعارف و تذکرہ اپنے آپ ایک مستقل مضمون کی طرح ہے اور علاحدہ ہو کر بھی اتنا ہی اہمیت رکھے گا، جتنی اہمیت اس کتاب کے ہر حصہ کی طرح ہے۔  ہر شاعر کو اس کے انفرادی تاثر کے تناظر میں پڑھا گیا ہے۔  ہر شاعر کے بدلتے ہوئے لہجوں اور منتخبہ موضوعات کو ان کی عصری قیمت کے سیاق و سباق میں رکھ کر پرکھا گیا ہے۔  ہاں یہ بات بھی سچ ہے کہ کئی اور اہم نمائندہ شاعر شریک ذکر نہ ہو سکے، جو اپنی مخصوص شعری قد آوری کے سبب آ سکتے تھے۔  غالباً مصنف نے اختصار کی مناسبت سے تحدید قائم رکھی ہے۔  یہ کتاب ایک خوبصورت ادبی نقد و نظر کا مرقع بن کر ابھری ہے جس کے لیے مصنف لائق تحسین بھی ہے اور قابل تشکر بھی۔       ٭٭٭

جعفر جری کی ایک نمائندہ تصنیف ’’غزلِ مسلسل روایت اور فن‘‘

       اُردو زبان و ادب میں ابھی بھی تحقیق کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔  شاعری کے فن نے زمانۂ اوّل سے دور حاضر تک کئی اصناف، کئی تحریکیں، کئی رویے اور فکری نظام رواج پاتے رہے ہیں۔  ابھی تک ہر رخ کا خاطر خواہ تجزیاتی جائزہ نہیں ہوا ہے۔  اکثر تصانیف چند نام گن دیتی ہیں اور سرسری طور پر اس مرحلے سے گذر جاتی ہیں اللہ اللہ خیر صلّا۔

       اب آپ صنف غزل کو ہی لیجیے۔۔  اس میں کیسی کیسی تشکیلاتی اور داخلی تبدیلیاں آتی رہی ہیں؟ کبھی مثنویوں کے رواں دواں دریا میں خوش کلامی کے لیے غزل داخل کر دی جاتی جو پس منظر سے اُبھر آتی رومان یا موسم یا جذبات کا ایک سمبل بن کر۔  کبھی قصائد میں شاعر کے خلاقی اور حسن بیان کا نمونہ بن کر۔  کبھی مزاح کے لیے ہزل کی شکل میں، خود سر جدیدیوں نے اینٹی غزل اور آزاد غزل کے تجربے کر ڈالے۔

       غزل کبھی دربارِ معرفت میں حمد و نعت کی پر تقدیس روپ میں اور کبھی حبِ وطن و ادب برائے زندگی کے لیے چراغِ راہ رہی۔  کبھی سیاسی بانگِ درا، فلمی اور تفریحاتی ادب میں پیش پیش رہی۔  ان سارے بدلتے ہوئے رنگوں میں غزل کی صنف میں واضح ممیزات ملتے ہیں جن کا مطالعہ کارے دارد ہے۔

       اس تناظر میں ایک اہم عنوان ’’غزل مسلسل‘‘ بھی ہے جو ہمیشہ ہر دور میں اُردو ادب کے ہم راہ رہی ہے۔  اس کو علاحدہ طور سے پڑھنے کی کوشش بہت کم ہی کی گئی ہے۔  یہ گوشہ بہت حد تک تشنہ رہا ہے۔  بہت اچھا ہوا کہ جعفر جری اس جانب ملتفت ہوئے۔

       زیر نظر کتاب میں جعفر جری نے غزلِ مسلسل کا سیر حاصل جائزہ لیا ہے۔  غالباً اُردو میں اس موضوع پر یہ پہلی کتاب ہے۔  اب تک غزلِ مسلسل یا تو پس پردہ رہی یا مثنوی، قصیدہ یا کسی اور صنف میں مدغم ہو کر عیاں طور سے اُبھر نہیں آئی تھی۔  جعفر جری نے اس تصنیف کے واسطے سے غزلِ مسلسل کو پیش منظر لانے کی کوشش کی ہے، خوش آئند اقدام ہے

       جعفر جری ایک کامیاب اور تازہ کار ادیب و شاعر ہیں، جن کی تحریروں سے گہری تحقیق اور دیدہ وری عیاں ہوتی ہے۔  ہر مضمون کو وہ تجزیے اور منطق سے آراستہ کر کے قیمتی بنا دیتے ہیں، میں نے ہمیشہ ان کے مضامین شوق سے پڑھے ہیں۔ جعفر جری کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اپنی تحریروں میں کاملیت اور بہتری کے کوشاں رہتے ہیں، اُنھیں ترتیب و تالیف کا خاصا تجربہ ہے، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی کتابوں کا انداز دلکش ہو اور اُن کی نثر راست اور واضح رہے۔ بے جا عبارت آرائی اور غیر متعلق بحث و تمحیص سے احتراز برتا ہے۔  اس طرح اُن کی یہ کتاب ایک قابلِ ذکر اکائی بن کر اُبھری ہے۔

       اس کتاب کے مشمولہ مختلف عناوین، سطحوں اور مناسب مثالوں کے جائزوں سے معنون ہے، جس کی ترتیب میں جعفر جری نے توازن اور خوش اُسلوبی کو پیش نظر رکھا ہے۔  مضامین میں ان کے منتخب غزلیاتِ مسلسل، اشعار اور اقتباسات ان کے عمیق تحلیل و تجزیہ کے لیے ممد و معاون ثابت ہوئے ہیں۔  یہ ان کی قوت ترسیل کی صلاحیت کے دلیل ہیں۔

       جعفر جری کا تحقیقی طریقۂ کار اُن کی فکری منظم مزاجی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔  اپنے منتخبہ موضوع پر اطمینان بخش طرز سے گفتگو کرنے کے لیے میری دانست میں اُنھوں نے درجِ ذیل زاویوں سے نگاہ ڈالی ہے:

(۱)     اس تصنیف میں غزل اور غزلِ مسلسل کے تخلیقی عوامل اور اُن اصناف کا تحلیلی جائزہ اور شناخت کو خصوصی طور پر زیر بحث لایا گیا ہے۔  غزل کس طرح معرض وجود میں آ ئی اُس کے ارتقائی مدارج اور مراحل اس مقالہ میں زیرِ بیان آئے ہیں۔

(۲)     مصنف نے عہد قدیم سے لے کر امروز تک شعری سرمایے کا جائزہ لیا ہے غزلِ مسلسل اُردو شاعری میں اوائل سے کن کن صورتوں میں مستعمل اور جلوہ گر رہی ہے۔  اور اُن وجوہ و اسباب پر سرسری نظر ڈالی ہے جن کی بناء پر یہ صنف ہمیشہ سے شاعر کے جذبات کو رواں دواں انداز میں ترسیل کی راہ فراہم کرتی رہی ہے۔

(۳)     لب و لہجہ، ڈکشن، لسانی رویّہ، طوالت اور ردیف و قافیہ کے التزامات بھی اس جائزہ میں زیر بحث آئے ہیں۔  مختلف اہم نقاط پر مفصل اظہار اس کتاب میں شریک کیا گیا ہے۔  یہ سب نکتے مناسب اُسلوب سے عبارت میں مدغم کر کے اختصار سے پیش کر دئے گئے ہیں۔

(۴)     مصنف نے ادب کے ہر دور میں مروج غزلِ مسلسل کو مثالوں اور تشریحی جائزوں کے ذریعے واضح کیا ہے۔  شعر کی تفہیم کے لیے وہ فی بطن شاعر کی کیفیت اپنا لیتے ہیں اور بہت سہل اور دل چسپ انداز میں سلیس طور پر کرتے ہیں۔  مجھے اُن کا یہ انداز پسند آیا۔  مثال کے طور پر تحریر کے یہ گوشے دیکھیے:

       ۱۔  قلی قطب شاہ کی غزل مسلسل جس کا مطلع ہے:

مدن مست بدن مست کجن مست کنچن مست پری مست

ہوئی مست پون مست لگن مست پری مست

اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

        ’’قلی قطب شاہ نے اس غزل میں اپنی محبوبہ کے ناز و انداز اس کی مستیوں، اداؤں اور شیفتگیوں کا جائزہ لیتے ہوئے لفظ مست کی تکرار سے ایک سماں باندھ دیا ہے۔  ہر ایک مصرعے میں چار چار مرتبہ لفظ مست کا استعمال غزل کی ساری فضاء کو گویا مستیوں سے بھر دیتا ہے۔  لفظ مست کے استعمال سے جو فضاء تخلیق کی گئی ہے اس میں بہ تدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بعد کا تسلسل اس غزل کو غزلِ مسلسل کی صورت دے دیتا ہے۔ شاعر کو لفظ مست کی تکرار کچھ اتنی مرغوب ہے کہ اس کو مدن مست، پون مست، اور ڈولی ہی مست دکھائی نہیں دیتے گزک اور نقل بھی مست دکھائی دیتے ہیں حتیٰ کہ کنول اور بھنور بھی مست کا استعارہ بن جاتے ہیں۔  مقطع میں تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ قطبؔ بھی مست ہو جاتا ہے۔‘‘

       ۲۔  حالیؔ کی غزل مسلسل جس کا مطلع ہے:

اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا

جس گھر سے سر اُٹھایا اُس کو بٹھا کے چھوڑا

اس غزل کا خوبصورت تجزیہ دیکھیے:

        ’’اس غزلِ مسلسل میں حالیؔ نے عشق کو موضوع بنایا ہے بلکہ یوں کہیے کہ عشق بہ طور کردار کے یہاں اُبھر آتا ہے اور اس کی وجہ سے عام و خاص کو جن مصائب و آلام سے گزرنا پڑتا ہے، اُن کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔  حالیؔ کہتے ہیں کہ اس عشق کی وجہ سے کئی قومیں فنا ہو گئیں، جس گھر سے عشق کی ہنگامہ آرائی شروع ہوئی وہ گھر ویران ہو گیا، دوست دشمن سب عشق سے خوف زدہ ہیں اور جو بھی اس کے مقابل آیا گویا اُس کا خاتمہ ہو گیا۔ عشق وہ ہے کہ جس کی زد میں آ کر راجاؤں کے راج ختم ہوئے، بادشاہوں کے تاج گرے اور وہ لوگ جو فخر و غرور سے رہتے تھے، گردنوں کو اکڑی رکھتے تھے، اُن کی گردنیں جھک گئیں۔‘‘

       ۳۔  مخدومؔ محی الدین کی شہرہ آفاق غزل:

پھر چھڑی رات بات پھولوں کی

رات ہے یا برات پھولوں کی

اس غزل پر ان کی تحریر دیکھیے:

        ’’اس غزلِ مسلسل میں پھولوں کی رعایت سے مخدومؔ نے کئی کئی پہلو تراشے اور بات میں بات پیدا کی ہے۔  زبان اور اندازِ بیان انتہائی سہل و سادہ کہ غزل ادھر پڑھی اور اُدھر قاری کے دل میں جگہ بنا لی۔ یہاں مخدومؔ کہتے ہیں کہ رات کا وقت ہے پھولوں کی بات چھڑ گ ئی ہے، پھول بھی اتنے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ رات نہیں پھولوں کی بارات ہے۔  جدھر دیکھیے پھول کے گجرے ہیں، شام بھی پھولوں سے بھری ہے اور رات بھی پھولوں سے لدی ہوئی ہے۔  ایسے میں محبوب کا ساتھ نہیں پھول کا ساتھ معلوم ہوتا ہے اور محبوب کی بات بھی پھولوں کی بات لگتی ہے۔  محبوب سے نظریں ملتی ہیں، شراب کے دور چلتے ہیں گویا پھولوں کو یہ زندگی مل رہی ہے، کون ہے جو پھول پر جان دیتا ہے اور کون ہے جو پھولوں کی بات کرتا ہے۔  تہذیبی قدریں بھی اپنا رنگ بدل رہی ہیں، شریفانہ اندازِ دل کے ساتھ گویا پھولوں کی کائنات لٹ گئی۔  ایسے میں کون ہو گا جو تہمتِ عشق کی سوچے اور جو پھولوں کی بات سنے، لیکن میرے دل میں صبحِ بہار کے کیف و سرور کا عالم ہے اور محبوب کی آنکھوں میں پھولوں کی راتیں مہک رہی ہیں، جب پھول ہیں تو دنیا میں کھلتے رہیں گے اور روز پھولوں کی بات نکلے گی۔  آخر میں مخدومؔ کہتے ہیں کہ اُن کی یہ پھولوں سے مہکتی ہوئی غزل ایسی ہے جیسے صحرا میں پھولوں کی رات اُتر آئی ہو۔‘‘

       ان تینوں مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ جعفر جری نے توضیح کا طریقۂ کار بڑی خوبی سے منتخب کیا ہے سہل اور راست۔  میرے خیال میں اس طرح کتاب کی عبارت، پڑھنے والے کو جوڑے رکھتی ہے۔

       ہر عبارت میں مثالوں کو کافی جستجو سے منتخب کیا گیا ہے، ہر دور میں غزلِ مسلسل کی نوعیت اور روپ پیش نظر آ جا تے ہیں اور اس طرح بالواسطہ ہر دور کا تعارف جھلکیوں میں ہو جاتا ہے۔  اس کے علاوہ اس دوران زبان و بیان کے بدلتے ہوئے پہلو بھی واضح ہو جاتے ہیں۔

       جعفرجری نے ایک نو آمدہ ادیب اور محقق کے طور پر یہ کتاب کافی محنت، جستجو اور دیدہ ریزی سے لکھی ہے۔ ان کی یہ کاوش اُردو کے نئے قلم کاروں کے فنِ تحقیق سے خلوص کی ایک کامیاب مثال ہے۔  اور تحقیق و تصنیف کے مستقبل پر اعتبار پختہ تر ہو جاتا ہے۔

       یہ بات قابلِ غور ہے کے داستانوں سے لے کر آج کے عہد تک غزلِ مسلسل مختلف حیثیتوں سے شاعروں کے کلام میں پیوست رہی ہے، حالاں کہ زورِ بیان، پسِ منظر کی آئینہ داری اور شاعر کے بلاواسطہ اظہار کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔  جعفر جری کی یہ کاوش اس سمت کی مضبوط وکالت کرتی ہے، اور اس طرح شعر کے اُسلوبیاتی مطالعہ میں ایک مناسب اضافہ کر دیا ہے۔

       میرا مجموعی تاثر ہے کہ وہ اپنے مقصود موضوع کے ساتھ ممکنہ انصاف برتتے ہیں، ان کی تحریر سے غزلِ مسلسل کی ساری صفات اور خصوصیات واضح طور پر منشرح ہو جاتی ہے۔ میں جعفر جری کو اس کامیاب اُسلوب کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

       بلا شبہ غزلِ مسلسل کے اسکالرس کے لیے یہ کتاب عمدہ ریفرنس اور حوالہ کی تحریر ہے۔  جعفرجری اس اہم تحقیق کے لیے قابلِ تحسین ہیں، اُمید کہ معیاری کتابوں کے قارئین اس کتاب کو شوق و ذوق سے پڑھیں گے۔

٭٭٭

مختصر اہم تحریریں …

عظمتِ ذِکر مصطفیﷺ … ایک خطاب

(حیدرآباد مسلم ویلفیر ایسوسی ایشن کویت کی تقریب میں)

(محمدﷺ … منبعِ نور و مشام)

کمالِ مدح درود و سلام، ذکر اُنؐ کا

بیاں میں منبعِ نور و مشام، ذکر اُنؐ کا

اُنھیں کا نام تو ہے، فکر و علم و فن کی کلید

تمام سمتوں میں بس، صبح و شام، ذکر اُنؐ کا

اُنھیں کے فیض سے ہے، اہلِ حق کو جرأتِ شوق

کہ ارتقاء کا ہے حرفِ دوام، ذکر اُنؐ کا

اُنھیں کے رُشد و ہدایت سے، راہِ راست کھلی

ہے رہ نماؤں میں عالی مقام، ذکر اُنؐ کا

وہی ہیں سیدِ کونینؐ، شافعِ محشرؐ

ہے مشکلات کا حل صبح و شام، ذکر اُنؐ کا

وہ تاج دارِ رُسلؐ، خوب خوبیوں والے

مرے نبیؐ مرے سرکارؐ رحمتوں والے

٭٭

       سید المرسلین امام الانبیاء تاجدارِ دوجہاں سرکارِ کائنات خاتم النبین حضرت محمد ابنِ عبد اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ صفات کا ذکر ہر فرد بشر کے لیے چشمۂ ہدایت اور چراغِ راہ ہے۔

       حیدرآباد مسلم ایسوسی ایشن کی بلا شبہ خوش نصیبی اور نیک بختی ہے کہ انھوں نے ذکر رسول اور سیرت طیبہ کی محفل آراستہ کی ہے۔  خدا اس انجمن کے تمام متعلقین اور سارے عالم اسلام پر اپنی رحمتیں نازل کرے اور نبی کریم کے رشد و ہدایت سے ہم سب کی آنکھوں میں روشنی بھر دے، دلوں میں بصیرت کے چشمے جاری کر دے، آمین۔

       مجھے اپنی زندگی کے وہ تمام واقعات میلاد اور ذکر رسول کی محفلیں یاد آ رہی ہیں جن میں ایک سے ایک قابل، عالم اور فاضل شخصیات نے اپنی بساط، فکر اور دانش سے حتی المقدور مختلف گوشوں اور عنوانات سے عہدہ بر آ ہونے کا فریضہ ادا کیا اُس محفل میں عالم دین، شجر داعی اسلام جناب اسحاق زاہد کا بیان ان کی علمی گفتگو اسی سلسلہ حبِ رسولؐ کی ایک کڑی ہے۔

       حیدرآباد میں سیرت کی محفلوں کا رواج رہا ہے۔  یہ جلسے بے حد ذوق و شوق سے آراستہ ہوتے ہیں۔  لڑکپن میں جب میں مجلس تعمیر ملت کے آراستہ کردہ جلسہ رحمت اللعالمین کے جلسوں میں شریک ہوتا تو اس دوران ایک سے ایک عالم دین اور مسلم رہنما کا خطاب سنتا تو عجیب سا جذبۂ روحانی جسم اور روح میں موجزن ہو جاتا۔  مجھے یاد ہے کہ جب خلیل اللہ حسینی مرحوم (اللہ ان پر رحمتوں کی بارش کرے) علامہ اقبالؔ کے اشعار پڑھتے۔  خصوصاً:

وہ دانائے سبل، ختم رسل، مولائے کل جس نے

غبارِ کوہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا

       تو حاضرین جی اُٹھتے، ان میں تازہ حرارت بھر جاتی اور محفل درودِ پاک سے معطر ہو جاتی۔  اللھُم صلی علی محمد و علی آل محمد۔

       سیرت نبویؐ انتہائی پاکیزہ اور بلند پایہ موضوع ہے۔  اس سے ہم مسلمانوں کو یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ دین کن مراحل سے گزرا ہے۔  نبیؐ اور اصحاب نبیؐ پر کیا بیتی۔  اللہ تعالیٰ نے سرکارؐ کو کیوں یہ عزت بخشی اور آپؐ کے ذریعہ وحی کا احسانِ عظیم سارے بنی نوع انسان پر کیا۔  اس دعوتِ جلیلہ کے لیے حضورؐ نے کس طرح حالات کا مقابلہ کیا۔  انصاف کا نظام قائم اور شرک کا قلع قمع کیا۔

       حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بلا شبہ مجموعۂ خوبی تھے۔  ساری کائنات میں روزِ ازل تا ابد ساری مخلوقات جن اور انس میں اعلیٰ مرتبے پر فائز، سب میں سب سے عظیم، ممتاز، صادق اور بے مثال تھے۔  آپؐ سا نہ کوئی ہوا ہے نہ ہو گا۔  آپؐ پر ہم، ہماری جان و مال، ماں باپ اور سارے لواحقین قربان۔

       حضورؐ کی مدحت میں صائبؔ نے کیا خوب کہا ہے:

حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ یدِ بیضا داری

انچہ خوباں ہمہ تن تو چہ کہ تنہا داری

       واہ، واہ۔  کوئی شک نہیں کہ تمام انبیأ میں چند مخصوص خوبیاں فرداً فرداً تھیں لیکن حضورؐ میں سب ہی خوبیوں کا مظہر تھا کہ وہ اللہ کے نائب اور محسنِ انسانیت تھے۔

       نبی کریمؐ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے اس لیے نبی بنایا ہے کہ میں پاکیزہ اخلاق اور نیک اعمال کی تکمیل کروں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قرآن مجید اُنؐ کا خلق ہے۔

       حضورؐ کو قرآن مجید میں اللہ نے کس عظمت والے ناموں سے معنون کیا اور رحمت اللعالمین کے خطاب سے بھی نوازا۔  وہ ضلالت کے بعد ہدایت دینے والے اور جہالت کے اندھیروں کو اُجالوں سے روشناس کرنے والے تھے۔  اُنؐ کی اُمت جو اُنؐ کے اُسوۂ اُنؐ کے ارشادات اور ہدایت پر عمل پیرا ہے، بہترین اُمت ہے، جس کا کام لوگوں کو اچھے کاموں کی ہدایت اور بُرے کاموں سے روکنا ہے۔

٭     سرکارِ دو جہاں ختمی المرتبتؐ کی زندگی اور سیرت کے سب عناصر درس بھی دیتے ہیں۔

٭     طفلی میں حلیمہ سعدیہ کے گھر کے واقعات۔

٭     تجارت کے معاملات میں اُنؐ کا صادق اور امین پر تو اور وطیرہ۔

٭     دعوتِ دین کے لیے جد و جہد اور حکمت عملی، اذیت اور مخالفتوں سے برسر پیکار ہونا۔

٭     شعب ابی طالب کی تلخ زندگی۔

٭     معراج کے واقعہ سے شرف عروج حاصل کرنا۔

٭     غزوات اور جنگوں میں دُشمنوں کو ہزیمت دینا وہ بھی کم تر اسباب اور لشکر ہوتے ہوئے، مالِ غنیمت اور قیدیوں کی انصاف پسندانہ تقسیم اور رہائی۔  مکی اور مدنی زندگی کی معرکۃ الآرا میثاقِ مدینہ اور عدل گستری۔  سلطنت الٰہیہ کا قیام، دستور اور انتظامیہ، قاصدوں اور وفود سے دعوت اسلام کی نشر و اشاعت، حکمرانوں سے خط و کتابت۔

٭٭

       آپ جس رنگ میں دیکھیں، جس کردار میں دیکھیں، سرکارِ دو عالمؐ افضل ترین ملیں گے۔  اُستاد کی طرح، راہبر کی طرح، رعایا کی طرح، آقا کی طرح، غلاموں اور اسیروں کے سرپرست کی طرح، شوہر کی طرح، بیٹے کی طرح، باپ، رشتہ دار، دوست، یار غار، ہمدرد، شناس، مددگار، کمانڈر، سپاہی، منصف، وعدہ وفا کرنے والے، درد و مرض کا مداوا بتانے والے، مستقبل کی راہ دکھانے والے، جس روپ میں بھی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اُسوہ اور عمل کو دیکھیں گے، آپ اُنؐ کی عظمت کے دل سے معترف ہو جائیں گے۔  سیماب کی زبان میں:

وہ بے اہمال اسرار حقیقت کھولنے والا

خدا کے لفظ انسانی زباں میں بولنے والا

       غالب نے کیا خوب کہا ہے:

حق جلوہ گر زِطرزِ بیانِ محمدؐ است

آرے کلام حق، بزبان محمدؐ است!

       حضرت محمد مصطفیؐ کے صبر و علم کی ایک مثال واقعہ طائف ہے، جہاں طائف کے بدبختوں نے حضورؐ کو پتھر مار مار کر زخمی اور بے ہوش کر دیا تھا۔  حضورؐ نے تب بھی ان ظالموں پر آفت نازل کرنے روکا، فرشتے کو اس کی اجازت نہیں دی اس اُمید اور تمنا میں کہ ان ہی بدنصیبوں کی اولاد ایک دن ایمان لائے گی اور اُمتِ مسلمہ کا جزو بنے گی۔  اُنؐ کی دور اندیش نگاہ نے اس خوش آئند مستقبل کو دیکھ لیا تھا۔

       اُنؐ کے ظاہر وہ باطن بالکل آئینہ کی طرح یکساں تھے۔  وہ علم کے جویا تھے، اہلِ علم کو وقار بخشے اور اُنؐ کی وقعت کو نکھارتے تھے، وہ بہ ذاتِ خود سرچشمۂ علم و عرفان تھے۔

       اُنؐ کے رہنمایانہ فیصلوں، حکمت عملی، سوجھ بوجھ اور انصاف کی دلیلیں، غزوات، بیعت رضواں، میثاقِ مدینہ، فتحِ مکہ کے واقعات میں ملیں گے۔  اُنؐ کا طرزِ کلام راست، حق گوئی، غیر ژولیدہ زبان، فصاحت اور بلاغت کو توازن کے ساتھ استعمال، مثالوں اور تشابیہ سے مزین، خوش کلامی اور مہذب لب و لہجہ سے آراستہ تھا۔  اُنؐ کی خطابت نپی تلی، بے حد متوازن اور پُر مغز ہوتی جو جذبۂ دینی، شوقِ بندگی اور خرافات سے بیزار صالح فکر کی نمائندہ ہوتی۔

       ہم خود ہی سوچیں، عام زندگی میں شرک اور عقائدِ فاسدہ سے آزردہ ہو کر کون غار میں بیٹھ کو غور و فکر کر سکتا ہے، سرکارؐ کی غارِ حرا میں بار بار جا کر تنہائی میں یہ درد مند سوچ ہم سب کے لیے نادر قابلِ توجہ مثال ہے۔

       حضرت آسی غازی پوری نے کیا خوب کہا ہے:  ’’ محالِ خرد ہے مثالِ محمدﷺ‘‘

       سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے کسی میں یہ تاب و تواں یہ قوتِ گویائی یہ الفاظ کا خزینہ نہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کا ذکر و بیاں کامل طور پر کر سکیں۔

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے

٭٭٭

اُردو زبان… مستقبل اور اندیشے

(بزمِ فروغِ ادب کویت کی تحریک پر ایک جائزہ)

       آج اردو زبان اپنے وجود کے تقریباً پانچ سو سال مکمل کر رہی ہے۔  اس زبان کی پارینہ تحریروں کا بیش تر حصہ محفوظ ہے اور کچھ ایسا ہے کہ وقت کی تبدیلی مقام اور مرکز کے بدلنے کے باوجود بہت قیمتی اور قابل اعتناء ہے۔  اردو ادب نے مختلف اصناف میں ایسے سفر کیا ہے کہ ہر سفر واضح سنگ میل رکھتا ہے۔  جہاں اردو غزل اپنی موہنی صورت کے سبب ہمیشہ آسان طور پر حاصل ہونے والی محبوبہ کی طرح رہی، وہیں نظم، مثنوی، مرثیہ، قصیدہ، قصہ گوئی، انقلابی نعرہ بازی، نعت، حمد و ثنا، نغمہ اور قوالی، ڈراما اور مکالمہ نگاری ہر صنف میں اور ہر سطح پر اپنے نمایاں نقوش ابھارتی رہی ہے۔  اردو کا استعمال ادب سے ہٹ کر اور بھی کئی عمدہ ترسیل کے واسطوں میں کافی کامیابی سے ہوتا رہا ہے۔  صحافت اور ارسال و ترسیل کے کارگر ذریعہ کے طور پر اردو نے کئی رول ادا کیے ہیں اور اس کی کامیابی محسوس کی گئی ہے۔  اشتہار کی زبان ہو یا فلم اور ٹی وی کے پروگرام اردو شوق سے بولی اور سمجھی گئی ہے۔  اردو کے ساتھ یہ بھی شرارت خوب ہوئی کہ اس کی کامیابی اور شناخت کو دوسری زبانوں خصوصاً ہندی اور پنجابی کے سر منڈھ دیا گیا۔

       تو صاحب ہمیں نہ تو اردو کے مستقبل کے بارے میں کوئی مایوسی ہے نہ ہی دل سوز اندیشے۔  اردو کی تاریخ ہی کچھ ایسی ہے۔  جب معرض وجود میں آئی اور جوان ہوئی تو مغلیہ سلطنت اور اودھ کی نوابی مائل بہ زوال تھے، دربار کے قریب آئی تو دربار ناپید ہوتے چلے گئے۔  دکن میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔  اردو زبان ان متغیر حالات میں بھی دلوں میں اسی طرح جگہ کرتی رہی اور پھلتی، پھولتی رہی۔

       آج اردو کی عالمی صورت حال کچھ یوں ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔  ہندوستان کے کئی صوبوں کی سرکاری اول یا دوئم زبان ہے۔  کئی بین الاقوامی شہروں میں اس زبان کو چاؤ سے بولنے، لکھنے اور پڑھنے والے ملتے ہیں۔  اردو کا ایک بہت اہم مسئلہ یہ ہے کہ اردو کے بہت سے بولنے والے اور اردو شاعری کے رسیا اس زبان کے رسم الخط سے دور تر ہوتے جا رہے ہیں۔  گرچہ ہر شہر اور ادبی مرکز میں ادبی انجمنیں، اردو اکیڈیمی، فروغ اردو، ترقی اردو اور اس نوع کے ادارے ملتے ہیں۔  آج اُردو کمپیوٹر سے آراستہ کمپوزنگ بھی ہو رہی ہے اور اردو کمپیوٹر کے ٹریننگ کورس بھی ہو رہے ہیں۔  کتابیں، رسائل اور اخبارات بھی کمپوز ہو کر زیور طبع سے آراستہ ہو رہے ہیں لیکن اردو رسم الخط سے آشنائی ناپید اور بعید ہوتی جا رہی ہے۔

       الکٹرانک میڈیا کے فروغ سے مطبوعہ کتابوں اور تحریری مواد کی طرف سے رائج توجہ ہٹ جا رہی ہے۔  اسی لیے انگریزی ہو یا کوئی اور زبان ہو سب ہی اس صورت حال سے جوجھ رہے ہیں۔  اردو بھی اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔  چھپی ہوئی کتابیں اور اخبارات کا رواج بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔

       اردو کی شہرت کا ایک ذریعہ مشاعرہ بھی رہا ہے لیکن آج مشاعرہ ابتذال، سیاسی اکھاڑہ اور جملہ بازی کا مرکز بنتا جا رہا ہے جہاں سستی شہرت اور قبولیت عام کے لیے شاعر اور متشاعر دونوں ہی کوشاں ہیں۔  اچھی ادبی معیاری شاعری کے لیے آج نہ تو سامعہ راضی ہے نہ تو باصرہ موافق۔

       وطن سے باہر رہنے والے اردو کے قلم کار معاشی زاویہ سے بہتری کے سبب دھڑا دھڑ کتابیں تصنیف و تالیف کر رہے ہیں اور طلب، مروجہ ادبی رویہ سے مبرہ ہو کر، خریداروں کے شوق سے بے اعتنا اپنی بغلوں میں کتابوں کے پلندے دبائے اہل کتاب بنے پھرتے ہیں۔  تنقید کا میدان تو بری طرح متاثر ہوا ہے۔  ہر نثر نگار اپنے آپ کو بزعم خود تنقید نگار سمجھتا ہے اور چند دریافت شدہ تراکیب کے استعمال کے وسیلے سے لفاظی، مرکبات اور مصطلحات سے پُر بلکہ آلودہ نثر لکھنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ تنقید کے فن میں کوئی مقام رکھتا ہے۔  اس ڈھونگ میں ارباب وطن بھی کچھ پیچھے نہیں۔  یعنی سراب نے چشمہ ہونے کا تماشا رچا رکھا ہے۔

       اردو دنیا پر نظر ڈالیے تو اردو یونیورسٹیاں بھی ہیں کالج بھی، مدرسے اور ادارے بھی۔  لیکن ان کے زیرِ سایہ جس قسم اور معیار کی کتابیں سامنے آ رہی ہیں وہ کسی طرح اطمینان بخش نہیں۔  اردو کے ریسرچ اسکالر جن موضوعات پر ریسرچ کر رہے ہیں ان میں بیش تر از کار رفتہ، کرم خوردہ اور منہج ارتقا سے بعید تر ہیں۔  کسی مرحوم شاعر و ادیب پر ریسرچ ہو یا فراموش کردہ زبان یا لہجہ کی ساخت اور ہیکل پر بحث ہو یا سرسری نظر ڈالی تو بھلا اس سے مستقبل کا آرزو مند کیا پائے گا؟

       اردو زبان مختلف مقامات، مختلف علاقوں اور مقامی زبانوں کے درمیان سیال میڈیم کی طرح روپ بدل لیتی ہے۔  ان حالات اور مقام سے متاثر ہو کر مستعملہ تراکیب، لفظیات، بول چال اور روزمرہ بھی داخل ہو جاتے ہیں۔  اگر سلیقہ مندی اور احتیاط سے انھیں برتا جائے تو اردو ڈکشن اور لسانی نظام میں توسیع کی جا سکتی ہے۔  اگر تعصب اور تنگ نظری سے احتراز کیا جائے تو کافی افادہ کیا جا سکتا ہے۔

       اردو زبان کا مستقبل میرے خیال میں آج بھی تابناک ہے اور اس کا بھی وہی حال ہے جو دوسری سب زبانوں کا ہے جن کا ملازمت، دنیاوی کاروبار کے لیے ثانوی ہو گیا ہے۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ اس زبان کو اسی عز و شرف سے برتا جائے جس کی یہ حقیقی حق دار ہے۔  یہ زبان شہر کی اور تہذیب کی زبان ہے، اس زبان میں دینی اور تاریخی موضوعات پر بھی بڑا کام ہوا ہے۔  اس کام کی خاطر خواہ قدر کی جانی چاہیے۔

       یہ جو اُمید لگائی جاتی ہے کہ حکومتی نظام، سرکاری ادارے اس کی استعانت کریں تو میں اس طرح کی سوچ کو کچھ قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔

       آپ ہی سوچیے کہ سرکاری امداد تعاون بھلا کسی زبان اور تہذیب کے تحفظ کے لیے کبھی کامیاب ذریعہ بنے ہیں؟ ہاں حکومتیں اپنے سیاسی مفاد اور تماشہ گری کے لیے درپردہ مقصد کو شاید اس طرح پوری کر لیں، اس نوع کی امداد سے کس طرح کے قلم کار، ادیب اور رسائل وجود پذیر ہوتے ہیں، ان کی فہرست دیکھی جا سکتی ہے، جس کے بارے میں کوئی فیصلہ دینا نہیں۔

       میری رائے تو یہ ہے کہ اردو بولنے والے اور اس زبان میں ترسیل کو اہمیت دینے والے خود اس زبان کے ارتقا اور ترویج کے لیے دامے، درمے، قدمے، سخنے کام کریں۔  اپنے مصروف شب و روز اردو کے لیے ایک اہم اور مناسب وقفہ تفویض کر لیں اور پابندی سے کچھ نہ کچھ کام کرتے رہیں۔

       جس طرح فن کار، کوزہ گر، گہر سفتن کاری گر، ہنر مند اپنے اپنے فن کے لیے خلوص اور دلجمعی سے جتن کرتے ہیں اس طرح اُردو والوں کو اپنے گھروں کی اس روشنی کی حفاظت کرنی ہو گی۔

       مجھے یقین کامل ہے کہ اردو زبان یوں ہی زندہ و پائندہ رہے گی۔

٭٭٭    (مطبوعہ روزنامہ ’’اعتماد‘‘ حیدرآباد)

علامہ عبد اللہ العمادیؒ

(خراجِ عقیدت بصد ادب ’’تحریک ادب‘‘وارانسی کے’’عبد اللہ العمادی خاص نمبر کا مقدمہ‘‘)

       ہمارے عہد کی نابغۂ روزگار شخصیات میں علامہ عبداللہ العمادیؒ ہمارے لیے عزیز ترین سرمایۂ علم ہیں۔  وہ ہمارے خاندان کے اہم بزرگ تھے اور بلا شبہ فخر خاندان ہیں۔  بقول شاعر:  ’’فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص‘‘

       ان کی ولادت (غالباً) ۱۸۷۸ء مشرقی یوپی کے شہر جونپور کے ایک قصبے امرتوا میں ہوئی جیسا کہ سوانح نگاروں کی چند تحریروں میں ملتا ہے۔ سید سلیمان ندویؒ کی کتاب ’’یادِ رفتگاں‘‘ میں ان کی وفات کی تاریخ ۱۱ شوال ۱۳۶۶ھ (مطابق ۲۸ اگست ۱۹۴۷ء) ملتی ہے۔

       علامہ عمادی نے ایک عالمِ دین، محقق، ایڈیٹر اور ماہر علم و ادب کی طرح بہت کامیاب و کامران زندگی گذاری۔  وہ مختلف میادین کے کامل تھے۔ وہ خاندانِ عماد کے فرد تھے، خاندانِ عماد کے جدِ اول و امجد شیخ عماد الصدیقیؒ مدینہ منورہ سے یمن اور پھر ہند کے شمال مغربی علاقوں سے ہوتے ہوئے واردِ ہندستان ہوئے، یہ بنی تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔  صدیقی نسب تھے اور حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کی نسل سے تھے۔  یہ ایک قافلہ تھا جو اعلائے کلمۃ الحق کے لیے آنے والے قافلوں میں سے ایک تھا، جو چھ سو برس پہلے دیار ہند میں آ پہنچا تھا۔  دہلی سے ہوتے ہوئے مشرق کی جانب بڑھا اور اس طرح، شیخ عماد نے اپنے شیخِ طریقت کی ہدایت کے مطابق امرتوا کو اپنا مقر بنا لیا اور اس گاؤں کو اپنے علمی اور تدریسی مشاغل کے لیے مختص کر دیا۔

       عمادی گھرانا شرقی سلاطین کے زمانے میں آیا اور اُنھوں نے تغلق خاندان کے زمانے میں عروج حاصل کیا۔  علامہ عمادی اس خاندان کے فردِ فرید تھے، جس کی بول چال میں عربی اور فارسی کی فراوانی تھی، علومِ دینی اس خاندان میں اہم ترین تھے۔

       ان کی طلب علم اور جذبۂ تحقیق کے لیے مسافرت شہر شہر، بلاد بلاد اور درسگاہ سے درسگاہ بے شمار مقامات تگ و دو سے معنون ہے۔  ان کے اساتذہ، رفقاء، احباب اور ہم سفروں کے اسمائے گرامی اُس عہد کے تقریباً تمام سرکردہ شخصیات ہیں۔  مورخین، اکابرین اور علماء کے لکھے ہوئے مضامین، تحریریں، تبصرے، وفیات نامے ان کی شخصیت کی بوقلمونی اور نیرنگی کو کچھ حد تک منشرح کرنے کے کافی ہیں۔

       والدین اور خاندان کے بزرگوں سے اُن کی بنیادی تعلیم و تربیت جو امرتوا سے شروع ہوئی تو لکھنؤ پہنچ کر مولوی عبدالعلی آسی مدراسی اور عبدالحی فرنگی محلی کی شاگردی اور اُن کی رشد و ہدایت سے ایک مخصوص سمت پر گامزن ہوئی۔  جن مقامات میں اُنھوں نے اکتسابِ علم و فن اور ترسیل کے لیے جستجو کی اُن میں جونپور، اعظم گڑھ، شاہجہان پور، لکھنؤ، کانپور، آگرہ، امرتسر، لاہور، کلکتہ، دہلی، رامپور اور آخری قدم پر حیدرآباد قابلِ ذکر ہیں، بلادِ عرب اور ایران میں بھی طلب علم کے لیے اُن کا گذر ہوا۔

       حیدرآباد میں دربارِ نظام سے ۱۹۱۷ء سے جو رشتہ قائم ہوا وہ آخری دم تک قائم رہا۔  حیدرآباد میں دار الترجمہ، جامعہ عثمانیہ، کتب خانہ آصفیہ، دائرۃ المعارف، حکومت دکن کے اُمورِ مذہبی، نظامِ دکن سے علمی، ادبی اور فقہی مشاورت سب سے ان کا گہرا تعلق رہا۔  شعرو حکمت، ثقافت و صحافت، تراجم، مصطلحات، تنقیحات، علم الحدیث، علم الکلام، عرب و عجم کی تاریخ، ادبِ عرب (جاہلیہ و ہم عصر)۔  غرض کوئی میدانِ علم و ادب ایسا نہیں تھا جہاں ان کی مہارت اور عظمت عوام و خواص میں مستند نہیں تھی۔

       میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس عظیم شجر علم و دانش کے سائے اور بسائے ہوئے ماحول میں ان ہی کا ذکر تھا، ان ہی کا عکس اور ان ہی کی یادیں تھیں، ان ہی کی طرزِ زندگی کے نقوش مرتب تھے۔  میرے پھوپھا مولوی عثمان عمادی مرحوم جو علامہ کے فرزند تھے، ہر طرح اس بات کا خیال رکھتے کہ گھر کا رہن سہن، بود و باش، رعایت و روایت، اصول و براہین علامہ کے قائم کردہ طریق کار سے کسی طرح نہ ہٹے۔  بڑی محتاط لیکن دل پذیر روش تھی، جو کئی برسوں قائم رہی۔  گھر کے اندر ایسی ایسی نادر کتابیں، مخطوطات، محلات اور صحائف تھے کہ ہم سب پر ایک عجیب سا رعب اور احتیاط کا رجحان اثر انداز تھا۔  اس کیفیت کو اب ہم بہ آسانی بیان نہیں کر پاتے۔  علامہ عمادی میرے والد مرحوم محمد مسلم عمادی کے دادا کے چھوٹے بھائی تھے۔ لیکن ہم لوگ اپنے خاندان میں کچھ اس طرح ایک دوسرے سے قریب تر رہے ہیں کہ ہمیں علامہ عبداللہ العمادیؒ سے متعلق ہونے پر فخر ہے۔

       گھر میں علامہ عمادیؒ کے چاہنے والوں اور اُن کے رُفقاء کی آمد سے روشنی ہو جاتی تھی، خصوصاً شبلی یزدانی، یعقوب بزمی، یونس سلیم، محامد علی عباسی اور کئی معززین کے نام یاد آ رہے ہیں، جن کی فہرست بنانا مشکل ہے۔

       علامہ عمادی کے مضامین اور تخلیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جہاں علم کے اتھاہ سمندر تھے، وہیں وسیع المطالعہ بھی، عالمی ادب اور عصری علوم، بلکہ طب اور سائنس میں بھی دسترس رکھتے تھے۔

       علامہ عمادی کے احباب میں اس صدی کے منتخب اکابرین تھے، مثال کے طور پر شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، علامہ اقبال، شاہِ افغانستان، نظامِ حیدرآباد میر عثمان علی خان، جوشؔ ملیح آبادی، ابو الکلام آزاد، سید محمود، ابو الاعلیٰ مودودی، ظفر علی خاں، ابو الخیر مودودی، عبدالماجد دریابادی اور ایسے ہی ان گنت نام اس فہرست میں موجود ہیں۔

       علامہ عمادی کا طرزِ نگارش ممتاز تھا، ان کی تحریریں گنجلک لفاظی نہیں تھیں، عبارتیں واضح اور راست ہوتی تھیں۔  طرزِ بیان میں مثبت اعتماد تھا جو وقت نظر اور گہری تحقیق کی طرف اشارہ کرتیں۔  مثال کے طور پر ’’تاریخ عرب قدیم‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:

        ’’علم الآثار سے یہ بھی دریافت ہوتا ہے کہ اس قوم کے پہلو ان ممالک میں چند ترقی یافتہ قومیں آباد تھیں جن میں قوم اکادی و سومرہ کا نام خصوصیت کے ساتھ اہلِ فن کی زبان پر آتا ہے یہ قومیں سامی نہ تھیں، ان کے اخلاق و عادات و زبان سب چیزیں سامیوں سے جدا تھیں۔  اب تک جو آثار برآمد ہوئے ہیں اُن کی بنا پر یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ کسی نامعلوم زمانہ میں سامیوں کے فاتحانہ حملوں نے ان قوموں کو تباہ کر ڈالا، ان کی بستیاں چھین لیں، اور آخر اس مغلوب عنصر کا تجزیہ کر کے ہمیشہ کے لیے متفرق و پریشان کر دیا۔  اگر کچھ بچے بھی تو جیسا کہ امریکہ کے اصلی باشندے ریڈ انڈین، یورپین فاتحوں کے ساتھ مخلوط ہو کر اپنی اصلیت کھو بیٹھے ہیں۔‘‘

اسی طرح ’’ فلسفۃ القرآن‘‘ میں ان کے اندازِ بیان کی مثال ملاحظہ کیجیے:

        ’’اسلام بائبل کی تصدیق کرتا ہے اور اُس کو آسمانی کتاب مانتا ہے۔  عہد عتیق اور تاریک صدیوں کی تاریخ جہاں تک اجازت دیتی ہے اُس کو انجیل و تورات کے معنوں میں کوئی تامل نہیں۔  میرا اعتقاد ہے کہ جناب مسیح روح اللہ اور کلمۃ اللہ تھے۔  میں شریعت موسوی کو ہی صحیح مانتا ہوں کیوں کہ جناب مسیح نے بھی اس کو صحیح مانا ہے اور تورات کو برحق تسلیم کیا ہے۔  انجیل میں جناب مسیح کا ارشاد بہت صحیح ہے کہ ’’ماجئت لانقض الناموس‘‘ بیشک ان کی شریعت حضرت موسیٰ ؑ کی شریعت تھی اور وہ اپنے قبل کے تمام پیغمبروں کو نبی مرسل مانتے تھے اور اُن کی کتابوں کو واجب التسلیم سمجھتے تھے۔‘‘

       علامہ عمادیؒ کا تعلق شعر و ادب سے اُستادانہ معیار کا تھا۔  بہت اچھے شعر کہتے تھے۔  فارسی، عربی اور اُردو ان تینوں زبانوں کے بے شمار اشعار انھیں یاد تھے، وہ بہ ذاتِ خود عمدہ کلام لکھتے تھے۔  لیکن منظرِ عام پر شاعر کی طرح اپنے آپ کو کبھی پیش نہ کرتے۔  اُن کے کلام کی کچھ مثالیں مولوی ابو الخیر مودودی صاحب مرحوم کے مضمون میں ملتی ہیں۔

       اُردو کے لاجواب مصنف، ادیب اور نقاد مرحوم سید محی الدین قادری زورؔ اپنی کتاب ’’اُردو کے اسالیب بیان‘‘ میں خصوصیت سے علامہ عمادیؒ کے طرزِ نگارش کا ذکر کیا ہے اور اُن کے انداز کو علامہ تاجور نجیب آبادی کے ساتھ موضوع بحث بنایا ہے، اُن کی رائے درجِ ذیل ہے:

        ’’خصوصاً عمادی اور تاجور کا قلم اکثر رنگ برنگ کے بیل بوٹے اُتارتا جاتا ہے، اُن کا قلم نقاش ہے۔  عبدالماجد کی طرح مصور نہیں۔  عبدالماجد کی تحریریں عکسی تصویریں ہوتی ہیں۔  جن میں کسی چیز کا عکس بعینہ محفوظ ہو جاتا ہے۔  برخلاف اس کے عمادی اور تاجور پرانی طرز کے نقاش ہیں جن کی رنگ آمیزیاں یقیناً دلچسپ قابلِ قدر اور بے نظیر ہوتی ہیں۔  ’’فلسفی شاہ‘‘ (عبدالماجد) کی تحریروں میں اگرچہ عربی اور فارسی کے الفاظ کا فقدان نہیں۔  لیکن عمادی اور تاجور کی عبارتوں کی طرح ان میں جگہ جگہ مولویت نمایاں نہیں ہوتی۔

       علامہ عبداللہ العمادیؒ کی طرزِ تحریر کا نمونہ:

        لیکن اقبال کا دل وحی الٰہی کا آئینہ دار ہے۔  کشف عطاء نے اس کے سامنے سے آسمان و زمین کے پردے اُٹھا دئے ہیں۔  اور اس کو صاف نظر آ رہا ہے کہ ۵۷۰ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نظامی نے مخزن اسرار میں جو فریاد کی تھی اس چودھویں صدی میں وہ دعاء مستجاب ہونے کو ہے، توحید کی عنقریب آنے والی عظمت کا نظارہ اس کے روبرو ہے اور وہ محو حیرت ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔  ہر ایک اسلامی زبان کی شاعری میں یہ خصوصیت اقبال ہی کے لئے ودیعت تھی اور دنیا بھر میں یہی ایک حسان الہند سے جو گوری شنکر (ایورسٹ) سے لے کر پیر نیز تک کی چوٹیوں پر اعلائے نوائے نبوی کے لئے قوم کو آمادہ کر رہا ہے۔‘‘ (تقریظ ’’کلیاتِ اقبالؔ‘‘)

       جہاں تک میرا علم ہے علامہ عبداللہ العمادیؒ کے دست تاریخ ساز سے کئی کتابیں اور رسالے نکلے اور سبھی بے حد اہم ہیں۔  ان کی مستقل تصانیف کے جو نام مجھے معلوم ہیں وہ کچھ یوں ہیں:

       ۱۔  محکمات     

       ۲۔  علم الحدیث

       ۳۔  نمازِ اخلاص  

       ۴۔  الہلال کے خاص شمارے

       ۵۔  ’’وکیل‘‘ امرتسر کے شمارے

       ۶۔  صناعۃ العرب

       ۷۔  تاریخِ عرب قدیم     

       ۸۔  فلسفہ القرآن

       ۹۔  غم حسین اور محرم کی بدعتیں    

       ۱۰۔  کتاب الزکاۃ

       ۱۱۔  ابن عربی   

       ۱۲۔  البیان کے خاص شمارے

ان کے تراجم سے کئی لائبریریاں مالامال ہیں۔  اہم تراجم میں قابل ذکر ہیں:

       ۱۔  زاد المعاد     

       ۲۔  طبقات ابن سعد (۱۲ جلدیں)

       ۳۔  الملل و النحل  

       ۴۔  تنبہ الاشراف و مروج الذہب۔

        اور کئی اہم کتابیں جو ریکارڈ میں ہیں۔

        ’’تحریک ادب‘‘ وارانسی کا یہ شمارہ علامہ عبداللہ العمادیؒ مرحوم کی عظمتوں کو یاد کرنے کی ایک کوشش ہے۔  برادرم جاوید انور نے میری تجویز پر اس شمارہ کو ترتیب دیا ہے کہ لوگ اپنے اس عظیم بطلِ بے مثل کو یاد رکھیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمارے ملک کے علماء نے وہ ناقابلِ فراموش کارنامے انجام دیے ہیں جو سارے عالمِ فکر و نظر کے لیے قابلِ اعتراف ہیں۔

       اُمید کہ ہماری یہ کوشش قبولیت عام حاصل کرے گی۔

٭٭

پس نوشت:

       علامہ عبداللہ العمادیؒ کی پوتی محترمہ لطیفہ بیگم کے پاس علامہ سے متعلق کچھ ایسی تحریروں کے مسودات ہیں، جو اگر طبع ہو جائیں تو ریکارڈ میں محفوظ ہو جائیں۔

٭٭٭

بابِ کویت …

مرزا عمیر بیگ کا افسانہ … ایک توانا آواز

       کئی برسوں قبل کویت کی ایک ادبی محفل میں جب ڈاکٹر مرزا عمیر بیگ صاحب سے پہلی شخصی ملاقات ہوئی تو ذہن میں ان کا نام سنتے ہی ایک شناسائی برق سی دوڑ گئی۔  ان کے افسانے بیش تر مختصر، کئی بار نظر سے گزر چکے تھے۔

       اس کے بعد ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان کی شخصیت کی مقناطیسی کشش بار بار متاثر کرتی رہی۔  وہ جتنے اچھے ادیب ہیں، اتنے ہی باذوق اور سخن فہم ادب شناس بھی ہیں۔  ان کی فی البدیہہ تقاریر بھی بے حد متوازن اور معنی خیز ہوتی ہیں۔  اس طرح کویت میں ایک معتبر ادبی اور علمی نام ہے۔  ان کی کتابیں ’’یگ یگ کی بات‘‘ اور ’’سنگ ریزے‘‘ قبولیتِ عام حاصل کر چکی ہیں۔

       عمیر بیگ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، مہذب اور علومِ سائنس سے بہر مند ادیب ہیں اس لیے ان کی فکر کی گہرائی ان کی تخلیقات سے مترشح ہوتی ہے۔  انھوں نے نئی زندگی کا عکاسی کے لیے افسانہ کے فارم کو منتخب کیا ہے اور اس واسطہ اظہار سے اپنی سوچ کو قاری تک پہچانے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں بہ شرط یہ کہ ان کے قاری کا فکری نسب نما ان کے اظہار کے زاویہ سے مترادف ہو!

       عالمی ادب میں میرے خیال میں اردو افسانہ سب سے زیادہ فعال افسانہ ہے، دوسری زبانوں کے مقابلے میں تعداد، فارم اور تجربات کے حوالہ سے اردو افسانہ ممتاز بھی ہے اور ممیز بھی۔  صنف افسانہ کے تمام پرتو اردو کے دامن میں اپنی خوبیوں کے ساتھ موجود ہیں۔  ایسے افسانے بھی ہیں جو سراسر کہانی سے قریب اور پلاٹ کے تابع ہیں۔  تو وہ افسانے بھی ہیں جو تحریری فکر سے احساسات اور ترسیل کے درمیان پل باندھتے ہوئے ملتے ہیں۔  یا پھر وہ افسانے جو مختصر اور واحد سطح یا اکہرے واقعہ یا خیال پر مبنی ہیں۔

       عمیر بیگ کے افسانے سماجی حقائق اور اظہار ذات کے دشوار مراحل کو زیادہ کہانی کے انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہے۔  وہ بالکل غیر ژولیدہ پلاٹ پر سارے اظہار کے ڈھانچے کو حکیمانہ طور پر وجود میں لاتے ہیں۔  اس عمل میں نہ تو طویل تاثر انگیز منظر نگاری سے مدد لی جاتی ہے نہ ہی بے جا عمق پیدا کرنے کے لیے ڈرامائی پیچیدگی اور ابہام ارادہ کے ذریعے راست بیان کو بالواسطہ کرنے کی نہج اختیار کی جاتی ہے۔

       ایسا لگتا ہے کہ کہانی کار اپنے فکری ارژنگ میں کئی صورتیں وارداتیں اور منتج ہونے والے انجام کا ایک ذخیرہ رکھتا ہے۔  جب یہ ارژنگ کسی افسانہ کے طور پر کھلنے لگتا ہے تو لحظہ لحظہ اس ماحول ’’نام‘‘ کردار اور حالات ایک خاص ترتیب سے پیش ہوتے ہیں۔

       عمیر ایک خاص رفتار سے اپنے فن پارہ میں کرداروں اور ان پر محیط مناظر پر سے پردہ ہٹاتے ہیں۔  ان مناظر میں کئی متحرک اور ان کے ساتھ جامد علامتیں بھی ہیں جو اظہار کے تلازمہ کا کام کرتی ہیں۔

       ان کی ہر کہانی ایک سوانحی عنصر رکھتی ہے، وہ بھی آپ بیتی جیسا، یہ نہیں معلوم کہ مصنف نے یہ انداز اتفاقی طور پر اختیار کیا ہے یا اختیاری طور پر۔

       ان کی افسانوی نثر میں چھپی ہوئی نازک سی حسیت ایسے ہی قاری تک پہنچ سکتی ہے جو اس کی اصلیت سے آگاہ ہو اور اس احساس سے آشنا بھی ہو۔

       عمیر بیگ کے سب افسانے (بالعموم) نئی زندگی اور نئے ماحول کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔  انھوں نے قصہ گوئی اساطیری انداز اور مصنوعیت سے اجتناب برتا ہے۔  ساری کہانیاں عمومی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور اطراف و اکناف سے متعلق ہیں۔

       وہ اپنی عبقری صلاحیت سے ایسے موضوعات اور مناظر زندگی کے جنگل سے چن لیتے ہیں جو نا آسودہ شب و روز گرسنہ مزاج ماڈرن زندگی پر فرد کی وجودی نامکملیت اور اطوار کی بے ربطی کو اجاگر کرتے ہیں۔  یہ موضوعات اور مناظر مل کر ایک تخلیقی اکائی کی تشکیل کرتے ہیں جس میں کرب ایک زیریں رو کی طرح ساری رہتا ہے۔  وہ اس تمثیل یا استعارے کے دورانیہ میں کرداروں کا ربط و ضبط بھی دکھاتے ہیں اور ان کے درمیان قرب و فصل کی کیفیت کی تصویر کشی بھی کرتے ہیں۔

       اس طرح کہ ان کا افسانہ ایک متوازن ناظر کی زبان سے بیان ہوتا ہے جو کہانی کے اندر ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں پر ایک غیر محسوس سا تبصرہ بھی کرتا رہتا۔

       اس تمام عمل کے دوران تخلیق کار ایک خاص فکری مناسبت سے منظر کشی اور کلیدی افراد کے تعارف کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ واقعہ ہمارے بہت قریب سے ہو گزرا ہے!

       عمیر کا افسانہ بالکل راست طرز اظہار سے دامن نہیں بچاتا۔  وہ کوئی ایسا فنی تجربہ نہیں کرتے جو ترسیل اور ما فی الضمیر کی ادائیگی میں آڑے آئے۔  تکرار اور غیر ضروری حاشیہ آرائی سے کام نہیں لیا گیا ہے۔  وہ بلا کم و کاست گرانی کا تاثر دیے بغیر اپنے قاری تک پہنچنا چاہتے ہیں اور اس طریق کار میں کامیاب بھی ہیں۔

       ان کا مشاہدہ عمیق ہے وہ کردار کو تجزیہ کی مختلف سطحوں پر مختلف الوان میں منشرح کرتے ہیں۔  لفظوں اور عبارت کی سنگ و خشت میں کردار ان کے ہاں ایک زندہ جیتی جاگتی علامت بن کر ابھرتا ہے۔  جس سے قاری اپنے آپ کو منطبق اور متعلق کر پاتا ہے۔  اُنھوں نے زبان و بیان کو ان کی بنیادی معنویت سے پرے لے جانے کی کوشش نہیں کی ہے۔  وہ سلیس اور سہل بیانیہ عبارت سے ایک ایسا افسانوی ماحول بناتے ہیں جو قاری کے لیے محال نہ ہو۔  نرم و نازک جذبات کو اس ہی سبک انداز میں دکھاتے ہیں جو اس اظہار کے متحمل ہوں وہ اپنے منتخبہ انداز کے لیے کوئی تفصیلی بیانیہ یا مدافعتی سہارا نہیں پیش کرتے۔  یہ نرم و نازک جذبات سے مملو لمحہ مصنف بڑی مہارت سے وضع کرتا ہے۔  لیکن اس خوبی کے ساتھ کہ یوں لگے گویا یہ لمحہ از خود وقوع پذیر ہو گیا ہے۔  ایسے کچھ دلکش مناظر سے آپ بھی لطف اندوز ہوں:

       تمھیں کس نے روک رکھا ہے؟

       تو آؤ اس پتھر پر آج کے دن یاد نقش کر دیں۔

       اس نے خاموشی سے میرا نام پتھر پر لکھ دیا اور میں نے اس کا، اور وہ پھر اٹھی اور خدا حافظ کہہ کر چلی گئی (شام کا مسافر)۔

        ’’شام کتنی خوبصورت ہوتی وہ مجھے شرماتے ہوئے ٹہلتی اٹھ جاتیں۔  اب کام پر نہیں جانا؟ میں چونک اٹھا۔  سناٹے کا جگر چیرنے والی سرگوشی میرے اندر سے اٹھنے والی آواز تھی۔  ورنہ یہاں تو بیکراں سناٹا ہی چھایا تھا۔  مضمحل سا بستر سے اٹھا اور میز پر پڑے ہوئے کاغذ پر ان ٹکڑوں کو جوڑ کر پنسل سے اس کی ناپ بنائی۔‘‘ (چوڑی)

       عمیر کے افسانے روح کی طرح ایک سماجی حکمت پوشیدہ رکھتے ہیں گو کہ وہ ادب کو خالصتاً اظہاروں کا وسیلہ بنائے رکھتے ہیں۔  ایک اور بات جو ان کے افسانوں کو ممیز کرتی ہے وہ کلیدی کرداروں کا محدود ہونا، بے جا کرداروں کے آمد و رفت سے کہانی کو بے سمت نہیں کیا گیا ہے۔

       ان افسانوں میں ابتذال اور رکاکت کہیں بھی نہیں ملتی، نہ ہی تلذذ پرستی اور پُر اسراریت کے ذریعے عوامی دلچسپی کو پیش رکھا ہے نہ ہی سستی جذباتیت کو راہ دی ہے۔

       انھوں نے ایسے کردار چنے ہیں جو ایک خاص طبقہ کی بہ آسانی صورت گری کر سکیں کوئی کردار وطن سے باہر بسے ہوئے فرد کا استعارہ ہے تو کوئی دفتری طبقہ کا کوئی آزاد مزاج بے پروا معاشرہ کا نمائندہ ہے تو کوئی بے حد تنہا آزردہ فرد۔  ہر افسانہ اسی طرح منتخب طبقہ کی جھلک دکھاتا ہے بین طور پر بھی اور تشکیل اور لہجہ کے ذریعے بھی لیکن زبان و بیان کو منفی طور پر متاثر کیے بغیر وطن سے دور بسنے والوں کے تجربات و مسائل کو اور اس زندگی کی دو رنگی کو خوبصورتی اور کامیابی کے ساتھ منعکس کیا گیا ہے۔  یہ زندگی بھی عجیب ہے کہ اختیاری فراق اور معاشرتی اجنبیت کے درمیان معاشی جد و جہد اور بقا کے لیے ایک مجہول سرخروئی کے حصول میں رواں دواں ہے۔

       ہم اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ اپنے افسانے کے زماں و مکاں میں عموماً شریک محفل ہونے کے علاوہ مصنف / ناظر ایک اجنبی آنکھ سے سارے مناظر کو دیکھتا، برتا اور پرکھتا ہے۔  اس طرح افسانہ اس کے بنیادی تحلیل اور سوچ کا ترجمان رہتا ہے۔

       ان افسانوں میں رومانی نوع کے افسانے گہری وابستگی اور جنون کی حد تک بڑھتے ہوئے عشق کے مقابلہ میں قریبی مراسم، ذہنی یکسانیت اور مانوسیت سے پیدا شدہ تعلقات کو اور ان کے ثبات کی کمی کو بحث میں لاتے ہیں لیکن غیر محسوس طور پر اور اس سماجی سانحے کو غور سے دیکھتے ہیں۔  یہ سطحی الفتوں سے معنون زندگی بالکل عجیب سی پہچان رکھتی ہے، مثال کے طور پر شام کا مسافر میں انور آشی اور پھر شیریں کے تعلقات اور اس تناظر میں انور اور آشی کا یہ مکالمہ:

        ’’اس سے پہلے یہاں میرا اپنا تھا کون؟ آج میں اکیلی کب ہوں تم بھی تو ہو۔  اپنا گھر بار چھوڑ آنے کے بعد ہم سب اس گھریلو ماحول کے لیے ترستے ہیں جو ہمارے کلچر کا خاصہ ہے تم مجھے باتوں میں نہ الجھاؤ آج میں جانے بغیر نہ مانوں گی۔  آخر میرا بھی تو کچھ حق ہے؟‘‘

’’تم اس راکھ کو کیوں کریدنا چاہتی ہو جس کے نیچے چنگاریاں چھپی ہیں۔‘‘

ایک بوند پانی میں سریواستو اور سروج کا تعلق اور پھر یہ پیراگراف۔

        ’’دوسرے دن سروج جاتے وقت سرجن سریواستو سے ملنے گئی۔  وہ آپریشن تھیٹر جا رہے تھے ان کے چہرے پہ پھر سے اعتماد کی لکیریں ابھر آئی تھیں۔  معمول کے خلاف آج بے داغ سفید قمیض کی جگہ انھوں نے بڑے بڑے پھولوں والی شرٹ پہن رکھی تھی جیسے پیاسی دھرتی بارش کے پہلے چھینٹے سے سیراب ہو کر اپنے چہرے پر غنچے کھلا لے۔

       سورج کے ہونٹوں پر ایک مطمئن مسکراہٹ عود کر آئی اور وہ اپنے سفر پر چل پڑی‘‘

اور کچھ اسی طرح ’’گڈ بائی گرل‘‘ کا مکمل افسانہ بھی اس کیفیت کو کامیابی سے منشرح کرتا ہے۔

       مرزا عمیر کے افسانوں میں کردار سازی کے عمدہ نمونے ملتے ہیں انھوں نے عبارت کو گنجلک رکھ کر کچھ اس طرح کرداروں میں نفسیاتی اور سماجی عناصر پنہاں کر دیے ہیں کہ ان کی باریک بینی اور عمرانیات پر گہری نظر کا قائل ہونا پڑتا ہے۔

       عمومی زندگی میں ایسے کردار بکھرے پڑے ہیں جو عام نظر کی گرفت میں نہیں آتے۔  لیکن عمیر ان ہی کرداروں سے ایک غیر محسوس رنگ آمیزی کے ذریعے نادر علامات پیدا کر دیتے ہیں۔  مثال کے طور پر سفید ابوا کا کردار یہ ایک عجیب مادرانہ شفقت سے مالا مال ہستی ہے جو ملازمہ کی شکل میں وارد ہوئی ہے۔  جس کا بنیادی شوق مفید عمل کرنا اور بے لوث طور پر اپنے چاہنے والے مالک کے لیے کام کرنا ہے وہ کام کرنے میں ہی اپنے وجود کی شناخت پیدا کرتی ہے اور اس حد تک کام کرتی ہے جب تک اس کی شناخت قائم ہے جیسے ہی اس کی اہمیت کم ہوئی یا افادیت کم ہوئی وہ عضو معطل بننے کو قبول نہیں کرتی اور چپ چاپ اپنے موصوف سے (مالک سے) دامن کش ہو جاتی ہے مرزا عمیر کی افسانوں کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نرم و نازک رشتوں کو بے حد سبک انداز پیش کرتے ہیں مختصر اشارتی جملوں میں بڑی معنی خیز بات کہہ جاتے ہیں ان کا افسانہ ’’سکوں سے لکھی عید‘‘ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں ملک سے دور بسنے والے ایک شخص کی مختلف یادوں کے شذرات اور گوشے افسانے کے در و بست کو قائم کرتے ہیں۔

       اس افسانے میں (جس کو میں نے اتفاقی طور پر چنا ہے) مرزا عمیر بیگ نے کئی تصویریں مدغم کر کے ایک فن پارہ تخلیق کیا ہے۔  جس کے حسب ذیل کردار اور مشاہدے قابل غور کاری گر موت:  دس دس پیسے اور آٹھ آٹھ آنے کے عوض فن بیچنے والی شریف عورت فن کے لیے اہم ترین جس ’’آنکھ‘‘ کی کمزوری اور سوشیل سیکیوریٹی کا عدم اس کاری گر عورت سے متکلمہ کا حسی اور دلی ربط اور اس سے پیدا ہونے والی یادیں اس سارے تعلق میں بٹن اور کرتے کی غیر محسوس اہمیت جیسے ایک جامد اور بے جا سی شے متحرک ہو گئی ہو۔

       متکلم کی بیوی جو اس فن کے تناظر میں یاد کے پردہ پر چھا جاتی ہے (جو کاریگر عورت کی شناخت ہے) پھر بٹن کے تلازمے میں ہجر زدہ احساسات کا تموج۔

       خلیج کی زندگی دوست داری کی تہہ میں چھپی گرسنہ مزاجی وطن کی چھاؤں سے فاصلہ اور اس کی کسک وطن کی عید کی جھلکیاں۔

       فون اور مواصلاتی رابطہ سے نا آسودہ تعلق خاطر۔

       اور پھر افسانے کے مقطع کے طور پر مصنف کا یہ نکیلا جملہ کہ ’’اور سکوں سے لکھی ہوئی عید شاید اسی طرح گزرتی ہے۔‘‘ اس طرح یہ افسانہ ایک زُود تشکیلی (Multi-faceted) آرٹ کی طرح ابھرتا ہے۔

       بلا شبہ اس لحاظ سے مرزا عمیر بیگ کا افسانہ ہم عصر زندگی اور جدید حسیت کے حوالہ سے بے حد توانا تخلیقی سوچ کا آئینہ دار ہے اور ان سے اس طرح گہر سفتنی کے عمل کو جاری رکھنے کی امید ہے کہ اردو ادب کا قاری ان فن پاروں کا منتظر ہے۔

٭٭٭

         (مطبوعہ ماہ نامہ ’’لاریب‘‘ لکھنؤ)

مثبت سوچ اور امکانات کا شاعر… عامر قدوائی

       برادرم عامر قدوائی سے میرا تعارف میرے عزیز دوست نور پرکار کے ذریعہ ہوا۔ نور کویت میں ایک اہم مشاعرے کے انتظامات میں روحِ رواں تھے۔  ان سے معلوم ہوا کہ عامر صاحب ایک قابل ذکر شاعر ہیں جو کویت کے دہلی پبلک اسکول میں آئے ہوئے ہیں، کلام موزوں کہتے ہیں اور اچھے اردو سماج کے نمائندہ ہیں۔  ان کا کلام سنا تو واقعی دلکش لگا۔

       پھر ملاقاتیں ہوتی رہیں، کلام سنا بھی گیا اور سنایا بھی گیا۔  نور صاحب تو اپنی روشنی سمیٹ کر بمبئی روانہ ہو گئے، کویت کی ادبی محفلیں ویسی نہیں رہیں۔  بہر طور ملاقات کے نئے امکانات پھر نئے باب سے شروع ہوئے۔  اس طرح عامر صاحب سے جو ربط باہمی پیدا ہوا، وہ قائم ہے۔  وہ ایک سخن فہم، نکتہ رس اور متوازن فکر رکھنے والے ادیب ہیں اور ادب ان کی زندگی کے اہم ترین مشغلوں میں سے ہے۔

       عامر صاحب نے اپنا کچھ کلام مجھے دیا تو پڑھ کر ایسا لگا کہ ایک اچھے شاعر کے فکری ارژنگ سے آشنا ہوتا جا رہا ہوں، ایسا شاعر جو سماج میں مسرتیں اور خوش خوابی بانٹنا بھی چاہتا ہے اور حیات کی کرب انگیز کشاکش سے روبہ پیکار بھی ہے، مسیحائی کا شوق بھی رکھتا ہے اور درد کی گہرائی سے بھی واقف ہے۔

       اگر آپ اجمالی طور پر دیکھیں تو عامر قدوائی کی شاعری کا بنیادی عنصر بہ ہر طور عشق ہی ملے گا۔  یہ عشق کے پرتو ہی تو ہیں جو کبھی وصل کی مسرت بخشتے ہیں تو کبھی ہجر اور نارسائی کی کیفیتوں سے دوچار بھی کرتے ہیں۔  اس ہجر وصال کے زمان و مکان کے عرصہ میں دونوں حالتوں کے تفاوت کو شاعر مختلف پیرائے میں تصویریں بدل بدل کر پیش کرتا ہے اور اس طرح ہر بار آپ ایک جداگانہ زاویہ سے منظر دیکھتے ہیں۔  ان مناظر میں شاعر ایک خاص تناسب سے لمسیاتی اور حسیاتی رنگتوں کو شامل کر کے ایسے پیکر اجاگر کرتا ہے جو شعر کے پیمانے میں ڈھل جاتے ہیں انحراف بھی نہ ہو، حد ادب بھی قائم رہے اور وہ احساس بھی واضح طور پر سامنے آ جائے جو شاعر کے درون میں ہے۔  آپ عامر قدوائی کے ان اشعار میں ایک ایسے ہی معتبر عاشق سے مل سکتے ہیں:

نشہ میں ڈوب گیا ہے بدن کا ہر رگ و ریشہ

لبوں سے چھو کے تو پانی شراب کر دیا اس نے

حدود جسم سے باہر ہوئی ہے عریانی

سیاہ پھول کھلائے قبا کے تیشے نے

نظر رکی نہ کوئی لمس جاگتا پایا

میں ہو بھی آیا تری دل کی آخری حد تک

       عامر کائنات کو جولان گاہ فرو سمجھتے ہیں، اس لیے انھوں نے فرد کے تجربات، مسائل، موضوعات اور امکانات پر خصوصی توجہ دی ہے۔  انھوں نے بیم و رجا میں رجائیت کے پہلو کو اہمیت دی ہے اور اپنی شاعری میں ایسے ہی مضامین کو نمایاں طور پر برتا ہے۔  ان کا عمومی وسیلہ اظہار غزل کا فارم ہے۔  ایسا لگتا ہے کہ ایک فکر و فن سے لیس سیاح قافیوں اور ردیفوں کے جزیرے میں اپنے وجود کے نشانات ثبت کرتا جا رہا ہے وہ چاہے سنگ میل ہو یا راہرو کا نقش پا۔  قافیہ اور ردیف سے کامیابی کے ساتھ مناسب پیمانوں کے درمیان وہ اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔  بلا شبہ انھوں نے کوئی نئی راہ اپنائی ہے، نہ ہی کوئی اجنبی جہت منتخب کی ہے۔  غزل کے شعروں کو ان کے مروجہ اسلوب، مقبول عام لفظیات اور معتبر ڈکشن سے منطبق رکھا ہے، اسی لیے ان کا کلام یکساں طور پر سامع اور قاری دونوں کی پسندیدگی حاصل کر لیتا ہے۔  انھوں نے کئی عالمی مشاعروں میں شرکت کی ہے اور کئی مشاعرے برپا بھی کیے ہیں، کویت کی نمائندگی بھی کی ہے۔  ان کی گفتگو عوام اور خواص دونوں سے ہے ان کے متوسط اور متوازن کلام کے چاہنے والے بھی کافی ہیں۔

       عامر نے اپنی شاعری کے لیے مروجہ زندگی کے مانوس عناوین اور حالات کے حقیقی ماحول کو موضوعات کے طور پر برتا ہے۔  شاعر نے کوئی خیالی اور مجہول پس منظر نہیں پیدا کیا ہے جو سراسر مصنوعی اور خواب ناک ہو، انھوں نے خواب بھی دیکھے ہیں تو زندہ علامتوں کے وسیلے سے۔  شاعر زندگی کے سرد و گرم موسموں اور بین مناظر سے ربط اور رشتہ رکھنا چاہتا ہے۔  ان کا طریقہ کلام کبھی واحد متکلم کے طور پر ہے تو کبھی مخاطب سے مکالمہ کی شکل میں ہے۔  باہمی تعلقات، دوست اور دشمن سے مخاطبت، محبوب سے اشاراتی ترسیل اور کچھ اسی طرح کے سیناریو ان کی غزلوں کی جان ہیں۔  معاشی ترقی سے سماجی اقدار میں تفاوت، اس کے پس پردہ براہین میں قابل غور تبدیلیاں شاعر کو چوکنا بھی کرتی ہیں اور کبھی کبھی وحشت زدہ بھی۔  سیاست کے اسفل معیار کی طرف جھکاؤ اور خود غرضی کی زہر ناکی سے وہ مانوس تو ہے لیکن نئی نویلی زندگی کے خوش رنگ جلوؤں کا شائق بھی۔  ایسا شاعر جو سماجی شعور سے دلی تعلق رکھتا ہے، اس کا مطمح نظر فلاح اور ارتقا سے ممنون و متفق ہوتا ہے۔  عامر ایسے ہی شاعروں میں سے ہیں۔  ان کی شاعری زندگی کے ہمراہ متوازی اور اسی کی سمت میں چل رہی ہے اور اس تناظر میں ہی ان کا فریضہ عرض سخن ادا ہو رہا ہے۔  ہاں مسئلہ اس وقت درپیش ہوتا ہے جب شعر صرف اظہار خیال اور بیانیہ سا ہو جائے اور اس میں فن کاری کا جمال نہ ہو، حسن ادا عنقا ہو جائے۔  میرے خیال میں عامر قدوائی اس صورت حال سے کافی حد تک بالاتر رہے ہیں اور انھوں نے اپنے کلام میں شعری تلازمے کا خیال رکھا ہے۔

       کیوں نہ اس زاویہ نگاہ کو ان اشعار سے پہچانا جائے:

اب رنگ بھر نہ کوئی مصور حیات میں

ہر لمحہ انتشار کا موسم ہے زندگی

مسافت طے کیے جاتا ہوں ہنس کر زندگانی کی

میں ہر مشکل کو اپنی راہ کا رہبر بناتا ہوں

منزلیں تم کو بلائیں گی، پتہ پوچھیں گی

اپنی آنکھوں میں کوئی خواب سجائے رکھنا

       وحشت ناک خبریں، ماحول کی حقائق سے سرد مہری، بدلتے ہوئے فرقہ پرستی کے تیور، معاشی اخلاق کا فقدان اور ایسے کئی موضوعات ہیں جو آئے دن خبروں کا موضوع بنتے رہتے ہیں، عامر ایک کھلی ہوئی لیکن نمناک آنکھ سے یہ مناظر دیکھتے ہیں اور ان کی تہہ میں منافقت کی طرح ان دیکھی، چھپی زہریلی لہر کو محسوس کرتے ہیں اور ایک مہذب زندگی کے معلم کی طرح کراہ اٹھتے ہیں۔  سچ تو یہ ہے کہ اردو ادب کا ہر شاعر بے حد حساس ہوتا ہے۔  مثبت اقدار، سماجی انصاف اور آزادی اظہار اردو شاعری کا طرۂ امتیاز ہیں۔  عامر اپنے اشعار میں سادہ طور پر بڑی بات کہہ جاتے ہیں، مثلاً:

تمام چہرے پہ تھیں خراشیں، بدن دریدہ، حواس گم سم

غریب پیکر امیر زادوں سے مل کے لوٹا تو میں نے دیکھا

جڑوں سے کاٹ دیے ہیں وفاؤں کے رشتے

اثر کیا ہے یہاں تک جفا کے تیشے نے!

مہک اٹھی ہے لہو میں بہار کی خوشبو

عجیب قتل کیا ہے حیا کے تیشے نے

ہوا سے لڑکے آخر فائدہ کیا؟

اندھیرے گھر میں بیٹھا سوچتا ہوں

       عامر کا کلام سہل ممتنع کے زمرے میں آتا ہے۔  یہ غالباً اس لیے ہے کہ انھیں کلام سنانا ہے۔  سامع کے دل میں اترنا ہے اور اپنا پیام بھی پہچانا ہے۔  اشارت، علامت اور استعارہ کا بہت کم استعمال کیا گیا ہے۔  گفتگو بالراست ہے، واضح ہے اور ابہام سے پرہیز کیا ہے۔  الفاظ ان کے معتبر معنوں میں استعمال ہوئے ہیں، نئی لفظیات اور تراکیب کم ملتی ہیں۔

       ایک اور بات جو عامر کو اپنے ہم عصر شاعروں سے الگ رکھتی ہے وہ ان کا مرکوز بہ انا ہونا ہے۔  وہ ایک بے حد خوددار (کبھی کبھی خود پسند) متکلم کی طرح ملتے ہیں۔  ان کے اس زاویۂ اظہار سے آپ کبھی کبھی چونک پڑتے ہیں:

مرے بدن کو چھوا اور گلاب کر دیا اس نے

شاعر اپنے آپ کو گلاب کہتا ہے!! چند اور مثالیں لیجیے:

ہمیں تو فخر ہے اپنے نصیب پر عامر

کہ کچھ بزرگ ابھی اپنے خاندان میں ہیں

وراثت میں ملی ہے سرفرازی

کہ نیزوں پر ہمارا سر رہا ہے

ذرا سنبھل کے میاں ہم سے بات کیجیے گا

ہم اپنے سر پہ کئی آسمان رکھتے ہیں

       ردیف قافیہ نبھانے میں غزل کے شاعر کو عجیب سی کامیابی اور کامرانی محسوس ہوتی ہے۔  اس لیے برسوں سے روایت رہی ہے کہ شعرا بحور اور اوزان کو برتنے میں اپنی مہارت دکھاتے رہتے ہیں۔  یہ غزل کی دلکشی ہے کہ ایک سے ایک کامیاب اشعار اس کی زنبیل میں ہیں جو مختلف شعرا نے مختلف بحور میں لکھے اور طرحی مشاعروں میں نمایاں رہے۔  عامر صاحب کا معاملہ تھوڑا جدا ہے، وہ خود ایک خاص ردیف و قافیہ کا انتخاب کرتے ہیں، تجرباتی طور پر ان کے التزام میں اپنی شعری کاوش کو پیش کرتے ہیں۔  وہ بیش تر ایسے تجربے میں کامیاب ہوئے ہیں:

ہٹا دیے ہیں پڑے تھے جو راہ میں پتھر

کھٹک رہے ہیں مگر کچھ نگاہ میں پتھر

روز سکھانے آ جاتا ہے آداب فرہنگ مجھے

شہر انا کا پاگل بچہ کر دیتا ہے تنگ مجھے

جس قدر کر پائے کر، آوارگی پاگل ہوا

سونپ دی ہم نے بھی تجھ کو زندگی پاگل ہوا

       عامر کی نظمیں ان کی غزلوں کے مقابلے میں زیادہ نیا پن رکھتی ہیں۔  ان میں نئی ہندی اور اردو شاعری کا ایک طرح سے امتزاج ملتا ہے۔  ان کی نظمیں، خیالوں کی دنیا، آغاز سحر، کپڑوں کا پیڑ اور فون کال، ذاتی زندگی اور گھر آنگن کی شاعری کی طرح سادہ، راست اور دل پسند ہیں۔  ان میں شعریت بھی ہے اور قبول عام کی باتیں بھی۔  خواب اور ہوش کے درمیان خوب منظر کشی کی ہے۔  اس سے ہٹ کر ان کی کچھ نظمیں زندگی کے باطنی فلسفے سے میل کھاتی ہیں مثلاً آنکھوں کی گہرائی اور وقت، سچ تو یہ ہے کہ عامر نظموں کے میدان میں سنبھل سنبھل کر قدم بڑھا رہے ہیں اور ان کا اسلوب جلد ہی اپنی شناخت بنالے گا۔ آج کل وہ حالاتِ حاضرہ اور ملک کے مسائل کو بہت شدت سے پیش کر رہے ہیں۔

       مجموعی طور پر عامر قدوائی اردو شاعری کی نئی نسل میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔  وہ ایک پُر خلوص شاعر ہیں جو فن کاری میں جہد مسلسل کر رہے ہیں، خوب سے خوب تر کی طرف رواں دواں ہیں وہ زبان و بیان اور فن شعر پر اچھی نظر رکھتے ہیں اور سقم سے پاک شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نوٹ:

       ابھی ابھی ۲۰۱۹ء جناب عامر قدوائی صاحب کا مجموعۂ کلام ’’شورِ خاموشی‘‘ شائع ہوا ہے۔  یہ ایک قابلِ قدر سخن کا مجموعہ ہے جسے اُردو حلقوں میں خوش آمدید کہا گیا ہے۔

٭٭٭

 (مطبوعہ ’’اسباق‘‘ پونے، مہاراشٹرا)

میمونہ علی چوگلے – ایک با وضع آئینہ دارِ ادب (متاعِ فکر کے تناظر میں)

       خوبصورت کتابت و طباعت سے آراستہ میمونہ علی چوگلے کی یہ تازہ تصنیف نظر نواز ہے۔  میمونہ صاحبہ کی یہ کتاب ان کے اسلوب اور ادبی رویہ کی ایک واضح مثال ہے، جو عام خاکہ نگاروں اور تنقید نگاروں سے قدرے جداگانہ مزاج کی شاہد ہے۔  ان کی تحریر معیاری اور معتبر ہے، طرز بیان سادہ، سلیس، واضح اور راست ہے نہ تصنع، نہ بھاری بھرکم تراکیب اور مصطلحات، نہ بے جا لفظیات کی گھن گرج۔  بہ قول آتشؔ:

تکلف سے بری ہے حسنِ ذاتی

قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے

       ۱۹۸۹ء کے اواخر میں کویت میں مقیم اہم شاعر، افسانہ نگار اور مترجم نورپرکار صاحب سے میری ملاقات ہوئی۔  انھوں نے بڑی خوش دلی سے کویت کے ادبی افق پر روشنی ڈالی اور یہاں موجود تقریباً تمام قابل ذکر ادیبوں اور شاعروں کا بالراست یا غائبانہ تعارف کروایا۔  بہت اچھا لگا۔  ان میں میمونہ صاحبہ کا ذکر انھوں نے خاص طور پر کیا تھا کہ اچھی نثر نگار بھی ہیں اور آزاد شاعری میں تجربے بھی کر رہی ہیں۔  بعد ازاں جب ان سے مزید واقفیت ہوئی تو وہ تعارف سے بھی بڑھ کر نکلیں۔  یہ ایک ایسی ادیبہ ہیں جو شبانہ روز ادبی مطالعہ، تحریر و تصنیف میں منہمک رہنے والی، ان تھک جستجو میں مشغول اور شہرت کی دوڑ سے بے نیاز رواں دواں ہیں۔  ان کا اپنا نثری انشا کا طرز بیان ہے جو ان کی تحریروں کی پہچان بھی ہے۔  فضولیات سے پرے، اہمال سے کوسوں دور، ڈھکوسلے سے بے زاریہ ادیبہ ادبی جولاں گاہ میں ارتقا کی منزلیں طے کر رہی ہے۔

       گو ان کی تحریروں میں سے چند ہی میری نظر سے گزری ہیں لیکن ان کے سباق و سیاق سے ہر بار یہ احساس ہوا ہے کہ وہ موضوع کو مختصر طوالت کے مضامین کے ذریعہ کامیاب عکاسی کرنے کا فن جانتی ہیں۔  ان کی تحریریں منتخب شخصیت کے سوانحی کوائف، فن کی بین صفات کا اجمالی جائزہ، اشارتی طور پر فن کا تجزیہ، تحسین، عیب و ہنر، تبصرہ اور بے حد اخلاقی لب و لہجہ میں معیار کی جانب توجہ دہانی، یہ سب مختصراً اور خوبصورت طریقہ سے منجمد کر کے پیش کرتی ہیں۔  اس طرح موصوف سے اجمالی ملاقات ہو جاتی ہے۔

       کامیاب شخصیت نگاری / خاکہ نگاری کے چند اہم بنیادی التزامات ہیں جن سے میمونہ صاحبہ بہ خوبی واقف ہیں۔  یہ فن اصل میں بیش پہلو تصویر کشی کی طرح ہے، جس میں ذات کی عکاسی مصوری سے قریب تر ہوتی ہے ایسی مصوری جس میں رنگ بھی بھرا جا سکے اور منظر کو حسبِ ضرورت روشن اور مدھم دونوں طور پر رکھا جا سکے۔

       ہر فن کار ایک سماجی اکائی بھی ہوتا ہے جو دانش مندی اور عبقری صلاحیتوں کے سبب عوام سے مختلف اور نمایاں بھی ہے۔  اس فرد کی تخلیقی اور فن کارانہ انفرادیت کو ممیز کرنے میں اس کی ذہنی صلابت اور مشق سخن و ادب سے پیدا کردہ چابک دستی اور سماجی پس منظر سب کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے۔  شخصیت کا جائزہ نگار تب ہی کامیاب ہوتا ہے جب اس کے مضمون سے ایسا لگے کہ ممدوح و موصوف سے آپ بالمشافہ ملاقات کر رہے ہیں اور اس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔  اس ضمن میں میمونہ کافی کامیاب رہی ہیں۔

       اس کتاب کی مشمولات سے میمونہ کے ذوق ادب اور افق نگاہ کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔  مضامین میں تین اہم گوشوں پر توازن اور ترتیب کے ساتھ نظر ڈالی گئی۔  اس طرح ادب عالیہ کے نمائندہ شعرا اور ادبا جیسے آل احمد سرور، علی سردار جعفری، عصمت چغتائی، مجتبیٰ حسین، امرتا پریتم، زاہدہ حنا اور گلزار جیسے اہم نام مضامین کے موصوف و موضوع ہیں۔  اس کے ساتھ انھوں نے کوکن کے ادیبوں اور کویت کے ہم عصروں کو بھی بڑی تخصیص کے ساتھ پیش کیا ہے۔  یعنی ان کی نظر انتخاب ان پر پڑی جن سے انھیں ربط دلی بھی ہے، علمی تعلق بھی! اس سے ان کے کینوس کی وسعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

       ان مضامین کی بنیادی خصوصیت تعارف و تذکرہ کی ہے، ان میں تنقید و تحلیل سے حتی الامکان احتراز کیا گیا ہے اور یہ مضامین صلح کل قسم کی فکر کے تحت تخلیق کیے گئے ہیں، اس لیے اختلاف بحث و تمحیص اور اعتراض و تنقیص سے پہلو تہی کی گئی ہے۔  مقصد تعمیری سوچ کے تحت ہر قابل ذکر فن کار کو اس کے واضح تاثر کی بنا پر بیان میں لایا گیا ہے تاکہ قاری ادبی میدان میں اس کے مقام تک خود پہنچ کر بین طور پر تاثر لے سکیں۔  اس کے باوجود ان مضامین میں ایک قسم کی دروں بینی بھی ہے، راست عکاسی بھی اور فن کار کی تخلیق کو منشرح کرنے کی کوشش بھی۔  مثال کے طور پر میرے بارے میں ان کا مضمون جو ماہانہ ’’اسباق‘‘ کے خاص نمبر میں شریک تھا، بہت خوبصورتی سے میری ذات، کوائف، بنیادی نظریات، زبان و بیان کی خصوصیات کو دائرہ تحریر میں لاتا ہے، میری شاعری کے بدلتے رنگوں کی طرف بھی انھوں نے خوب اشارہ کیا ہے۔  یہ کئی ارباب ادب کو بے حد پسند آیا اور اس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔

       کویت کی سرزمین میں اردو ادب جس طرح پل رہا ہے اور نمو پا رہا ہے اس سے یہ احساس قوی ہوتا جا رہا ہے کہ اس طرح کی اردو کی نئی بستیوں میں معیار، تنوع اور تقریبات کی جہتوں میں ہماری زبان کامیابی کے ساتھ فروغ پارہی ہے۔

       میمونہ علی چوگلے صاحبہ کی خوش نصیبی ہے کہ انھیں ہم مزاج اور موافق ماحول ملا ہے۔  ان کے شوہر جناب علی چوگلے صاحب ایک بے حد نفیس اور معتبر ہم سفر ہیں ان کی دختر بھی ہم ذوق ہیں اسی وجہ سے میمونہ صاحبہ نے زبان و ادب میں یہ تحریری اضافے کیے ہیں۔

       میمونہ کی نثر سلجھی ہوئی، سہل پیرایہ پر اور واضح ہوا کرتی ہے جس میں مروجہ لفظیات، تراکیب اور مطلحات کا استعمال حسب ضرورت کامیابی کے ساتھ ترسیل کے عمل کو سر انجام دیتا ہے۔  ان کی نثر کی کچھ مثالیں پیش ہیں:

        ’’سردار جعفری کی شاعری اور شخصیت دونوں کی جڑیں ہندوستانی زمین میں گڑی ہوئی تھیں اور اس کی شاخیں بین الاقوامی ماحول میں سانس لے رہی تھیں۔  ان کے مزاج میں پرانی اور نئی تہذیبوں اور روایتوں کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔  انھوں نے بزرگوں کے اثرات بڑی حد تک قبول کیے لیکن اپنی شاعری کو ان کی بازگشت نہیں بننے دیا بلکہ جن کی شاعری میں ان کا اپنا لب و لہجہ، غنائیت و دل سوزی اور دردمندی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔  انھوں نے زیادہ تر حالات حاضرہ اور زندگی میں روز بہ روز ابھرنے والے نت نئے مسائل کو ہی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔‘‘

        ’’یعقوب راہی کی اکثر نظمیں مختصر ہیں اور غزلیں بھی، لیکن جذبے کی شدت ان میں نمایاں ہے۔  ان میں انقلابی جذبات کا اظہار بڑی خوبی سے کیا گیا ہے۔  اپنے ہم عصروں میں ان کی آواز نئی اور آہنگ نرالا ہے۔  ان کی شاعری موقع پرستی اور مصلحت کوشی سے انکار کرتی ہے۔  اسی لیے طرز احساس و اظہار ان کی شاعری میں اپنی ایک الگ شناخت بنا پایا ہے۔  ان کی نظموں میں علامتی انداز بیان کید ل کشی اور سچائی کی جھنکار ہے۔‘‘

       اب آپ خود ہی دیکھیے کہ کس خوبی کے ساتھ ادیبہ نے ان شاعروں کے رویہ اور تخلیقی مزاج کی آئینہ داری کی ہے۔

       میں میمونہ علی چوگلے صاحبہ کو اس معیاری کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔  مجھے یقین ہے کہ یہ تحریریں اردو ادبی ماحول میں قبولیت عام حاصل کریں گی۔

٭٭٭

(مطبوعہ ’’اسباق‘‘ پونے، مہاراشٹرا)

رشیدؔ میواتی – کویت کا ایک منفرد شاعر

       کویت بھی اُردو کی اُن آباد بستیوں میں سے ہے جہاں اُردو ادب چاؤ سے پڑھا لکھا جاتا ہے، اُردو شاعر نظمیں، غزلیں اور نعتیہ تخلیقات بڑے خلوص سے لکھ رہے ہیں، افسانہ نگار، انشائیہ نگار، مقالات لکھنے والے، خاکہ لکھنے والے اور صحافی سب ہی اس ضمن میں اپنا اپنا بہتر رول ادا کر رہے ہیں یہاں کی ادبی محفلیں بھی خوب ہوتی ہیں، شعر سنا جاتا ہے پڑھا جاتا ہے اور شعرا مشاعروں، طباعت و اشاعت، ان تمام سمتوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

       کویت آنے کے بعد مجھے نسبتاً کچھ کم ہی ان ادبی محفلوں میں شریک ہونے کا موقع ملا، لیکن میں یہاں کی ادبی محفلوں کو اُردو زبان کی اشاعت و ارتقا میں کامیاب پاتا ہوں۔  ان محفلوں میں کئی خلاق ادیبوں اور شاعروں سے ملنے کا موقع ملا۔

       ان محفلوں میں جن میں، میں شریک تھا ایک بھلے مانس، سادہ مزاج شخص نے مجھے متاثر کیا جو اچھی اردو لکھنے پڑھنے کی بنا پر ممتاز لگا۔  وہ شاعر رشید میواتی صاحب تھے۔

       رشید میواتی کا نام کویت کے ادبی حلقوں میں کافی معروف رہا۔  یہاں تک کہ ایک دن (غالباً ۱۹/ جنوری ۲۰۰۶ء) کو وہ اپنے وطن عزیز (پاکستان) میں کسی نابکار کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔  یہ ایک ادیب کی ناگہانی موت تھی، جس سے اُردو حلقوں کو مستقبل میں بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔

٭٭

       رشید صاحب سے میری ملاقات بس تکلفاتی حدود میں تھی، جب کسی ادبی محفل میں ان سے ملنے اور ان کو سننے کا موقع ملتا۔  وہ منکسر المزاج، بے پروا اور خوش گو شاعر تھے۔  جب تک اپنا کلام نہ سناتے، اس کا اندازہ ہی نہ ہو پاتا کہ یہ شخص کس قدر گہری فنی بصیرت اور شعری سوچ کا حامل ہے۔

       اس کے باوجود ان کی شعری صلاحیتوں کے پرتو بڑی حد تک عوام کے لیے مستور ہے، حالاں کہ ان کے تین خوبصورت گٹ اپ اور طباعت سے آراستہ مجموعے نکل چکے ہیں۔  ان مجموعوں کے نام کچھ یوں ہیں:  ’’وہ آنکھیں یاد آتی ہیں‘‘ ۲۰۰۳ء، ’’عقیدتوں کی مہک۔ نعتیہ کلام کا مجموعہ‘‘ ۲۰۰۵ء، ’’کٹے گی رات کیسے‘‘ ۲۰۰۳ء۔

       ان مجموعوں میں غزلیں ہیں اور نعتیں ہیں، اُسلوب وہی معیاری اور غزلیہ فارم پر مبنی۔  میں نے پہلے کبھی اپنی کسی تحریر میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ آج جب وطن سے دور بسے ہوئے، اردو دان حلقے، دنیا کے گوشے گوشے میں آباد ہیں اور ان غیر مقیم فن کاروں کی خاصی تعداد شعر و سخن اور ادب پاروں کے لائق ذکر نمونے پیش کر رہی ہے، ایک خصوصی تجرباتی مطالعہ ان تحریروں کا ان کے پس منظر اور عوامل کی مناسبت سے کیا جائے تو ایک اہم ادبی تحقیق ہو گی۔  مدیر شاعر افتخار امام صاحب اس سلسلہ میں کافی قابل قدر جستجو کی ہے کہ ان نئی اردو بستیوں کی شناخت کی جائے اور وہاں کے قابل ذکر ادبا کا فن اشاعت پذیر ہو۔  اس کے باوجود ایک مکمل تحقیقی کام اب بھی باقی ہے۔

       آج ہزاروں کی تعداد میں اردو کے قلم کار جو وطن سے دور ہیں اپنی سوچ اور حسیت کی دلیل کے طور پر روز و شب فن پاروں کی تخلیق میں مصروف ہیں۔  اس میں اچھا ادب بھی ہے، متوسط اور خام ادب بھی۔

       بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ادیب اپنے وطن سے دور، جدید تر ادبی تحریکات اور ہم عصر ادبی رویوں اور تجربات سے خاطر خواہ آشنا نہیں ہوتا۔  جو ادب اس تک پہنچتا ہے وہ چند محدود رسائل و جرائد کے ذریعہ ہی پہنچ پاتا ہے۔  یوں تو بہت سے میگزین و جرائد آتے ہیں لیکن وہ عموماً تجارتی، تفریحی اور عمومی تحریروں پر مشتمل ہوتے ہیں، اچھا ادب کل بھی عنقا تھا اور آج بھی عنقا ہے۔

       ان محدود وسائل کے تناظر میں اور ادبی محفلوں کی فضا سے جو ادب تخلیق پاتا ہے وہی فن کار کی پرواز اور فنی کاوشوں کا افق ہے۔

       ان تمام حد بندیوں کے باوجود آج جب ہم نئی اردو بستیوں میں مقیم ادبا کی تخلیقات کی جانب دیکھتے ہیں تو پھر میری زبان میں، بار بار اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ’’فن کار زندہ ہے‘‘ اور ’’فن اپنا جلوہ دکھا رہا ہے‘‘۔

       رشید میواتی بلا شبہ ایک خلاق شاعر تھے، وہ شعر گوئی میں زود گوئی کی حد تک محو تھے۔  ان کی شاعری قائم بالذات تھی، وہ جو دیکھتے، محسوس کرتے اور جس طرح ردیف و قافیہ کا ہیکل ان کو سہولت فراہم کرتا تخلیق کے کامیاب عمل سے عہدہ برا ہوتے۔  اس موقع پر ان کے چند اشعار ان کی شعری عبقریت کی مثال کے طور پر پیش ہیں:

خوش تھے کچھ ایسے تیری رفاقت کے شوق میں

منزل گنوا دی ہم نے مسافت کے شوق میں

اے شہر محبت ترے قانون عجب ہیں

مجرم بھی یہاں اپنی صفائی نہیں دیتا

ستم کی آندھیوں کا دور ہے لیکن تری خاطر

محبت کا دیا دیوار پر رکھنا ضروری ہے

ہوئے جو آشنا ان کی گلی سے

محبت بڑھ گئی ہے زندگی سے

       ان کے اشعار سے یہ واضح ہے کہ وہ کسی مخصوص نظریہ شعر کے پابند نہ تھے، نہ ہی انھوں نے کسی گہرے فلسفہ اور عمیق فکری نظام کو تحقیق دی تھی۔  وہ بنیادی طور پر کسی نادر مضمون کی تلاش کی بجائے اپنے قریب کے تجربات و خیالات کے اظہار کو ترجیح دیتے رہے۔  اس لیے ان کے شعری حیطہ اظہار کے مطالعہ کے لیے کسی خاص زاویہ نگاہ کی ضرورت نہیں رہتی۔  وہ جیسا محسوس کیا، جیسا تجربہ ہوا، ویسا ہی بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

       ان کے کلام میں جن باتوں کا خاص التزام برتا گیا ہے وہ کچھ یوں ہیں:

٭     ردیف و قافیہ کی پابندی (ہر ردیف جو دائرہ اظہار میں آ سکتی ہو، ضرور استعمال ہو!)

٭     اوزان و بحور کے انتخاب میں محدود تجربے ہوں۔

٭     غزل کے اشعار پانچ تا بارہ ہوں۔

٭     بیان سہل اور رواں ہو (اکثر مصرعے جملوں جیسے ہیں)

٭     زبان کے درست ہونے کا خاص خیال رکھا جائے۔

٭     لب و لہجہ عام طور پر مدھم ہو۔

       اور رشید اس معاملے میں کافی کامیاب رہے ہیں۔

       رشید کی شاعری کا واحد متکلم خود شاعر ہے جو الفتوں اور محبتوں کا اسیر ہے، ہجر زدہ ہے، خلوص کا خواہاں ہے اور جو ایک محنت کش کار گہ حیات کا فرد ہے۔

       ان کی شاعری بنیادی طور پر مروجہ مضامین کو معیاری طور پر برتنے سے وقوع پذیر ہوئی ہے۔  یہ شاعری دوست داری، تعلقات، انسانی رشتوں کی اہمیت اور ایسے ہی احساسات کو مختلف زاویوں میں سہل ممتنع انداز میں ترسیل کرتی ہے۔  یہ شاعری بتاتی ہے کہ کس طرح ایک پُر خلوص فرد نئے سماج میں وطن سے میلوں دور، تعلقات کے نئے وسیلوں، نئے سلسلوں اور نئی نسبتوں کا تلاش ہے۔  وہ کس طرح ایک اجنبی ماحول میں اس طرح ضم ہو جاتا ہے کہ گویا وہ اس سے مامور کی اکائی ہو۔  یہ ماحول، یہ سماج جو ایک طرح مختلف سمتوں، مختلف منزلوں اور مختلف راستوں کے مسافروں کا ایک جمگھٹا ہے۔  اس سماج کے ہر فرد (ہر اکائی) کی صورت حال منفرد ہے۔  ان میں تعلقات میں وہ گہرا ارتباط نہیں، یہ تعلقات اتنے (Binding) بھی نہیں جو باہم دگر انحصار کی بنا پر ہوں۔  تعلقات مراسم اور آشنائیوں سے ترقی کرتے ہوئے کچھ حد تک ہم دمی اور ہم رازی کی کیفیت پا جاتے ہیں۔  اس کے باوجود ان میں وہ حدت اور معنویت نہیں ہوتی جو اپنے وطن کے احباب میں ملتی ہے۔

       بے وطن شاعری میں بھی اس لیے الفتوں اور رفاقتوں کا اظہار شدید طور پر نہیں ہوتا۔  رشید میواتی کے اشعار بڑی خوبی کے ساتھ ان تعلقات کی بوقلمونی کو پیش کرتے ہیں۔  جن میں کہیں وفا کے وعدے ہیں، کہیں تغافل کا شکوہ، کہیں رشتوں کا درد تو کہیں ہم سفری کی لذت:

وفائیں کر کے تو دیکھو محبتیں دیں گے

تمھیں خبر ہے کہاں ہم ادھار رکھتے ہیں

ایک چھت کے نیچے بھی اختلاف رکھتے ہیں

کیا کریں کہ دونوں کی عادتیں نہیں ملتیں

یہ اختلاف تباہی کا پیش خیمہ ہیں

مجھے تو سب نے کہا، اس کو مشورہ نہ دیا

       رشید میواتی کی شاعری کا ایک اہم رخ وہ ذاتی تجربات ہیں جو انھوں نے زندگی بسر کرنے کے لیے ایک اجنبی دیار میں حاصل کیے۔  ان تجربات کی عکاسی کرتے ہوئے ان کی شاعری میں محرومیوں کی جھلک بھی ملتی ہے، اس طلب پر تنقید بھی نظر آتی ہے جو اسے وطن سے دور لے آئی اور مقاصد کے حصول میں اس کامیابی کا پرتو بھی ملتا ہے جو اس غیر واقف ماحول میں شاعر نے اپنی جستجو اور حکمت عمل سے حاصل کیے۔  وہ تجربات کچھ یوں ہیں:

گذرتے وقت کا احساس ہی نہیں جن کو

گئے دنوں کے لیے ہاتھ ملتے رہتے ہیں

ہمارے دل پہ کوئی نقش چھوڑ دو یارو

تمھارے شہر میں ہم ہیں مسافروں کی طرح

وہ جس کے عشق میں صحرا کی ہم نے خاک چھانی ہے

اسی کی یاد نے دل کا چمن شاداب رکھا ہے

       رشید نے نعتیں کم لکھی ہیں لیکن پھر بھی جو لکھی ہیں ان میں عشق رسولؐ و آلِ رسولؐ کی تپش سے روشنی ہے۔ بہ حیثیت مجموعی رشید میواتی کے کلام کے مطالعہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ شاعری کو زندگی کے ہم قدم لے کر چلتے رہے، کوئی ایسا تجربہ نہ کیا جو عام اصولوں سے ہٹ کر ہو۔  اُن کی زبان عام طور سے سقم سے پاک ہے، چہ جائے کہ ایک دو جگہ پر فروگزاشت کی مثالیں مل جاتی ہیں۔

       بلا شبہ ان کے انتقال سے کویت کی اردو دنیا ایک ابھرتے ہوئے شاعر سے محروم ہو گئی۔  خدا انھیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔  آمین۔

٭٭٭

فیاضؔ وردگ کا شعری آئینہ خانہ

       اُردو زبان غالباً عالمی زبانوں میں وہ سب سے مقبول واسطہ اظہار ہے جس کے نمائندہ شاعروں میں ایک طویل فہرست ایسے مشاق و ممتاز شعرا پر مشتمل ہے جن کی مادری زبان اردو نہیں لیکن جنھیں اردو میں درجہ افتخار حاصل ہے۔  فیاضؔ وردگ بھی ایک ایسے ہی شاعر ہیں جن کے کلام میں کوئی اجنبیت کا شائبہ نہیں ملتا بلکہ ان کا کلام بہت سے اردو والوں سے زبان و بیان کے معاملے میں بہتر اور صاف تر ہے۔

       فیاضؔ کی شاعری بنیادی طور پر ایک ایسے فرد کی شاعری ہے جو دیار غیر میں رہ کر وطن سے صادق اور خالص طور سے تعلق رکھتا ہے۔  یہ شاعری مسافرت، مہاجرت اور کار جہاں کے دورانیہ میں ہم سفروں سے تعلقات کی آئینہ دار ہے۔  جو وطن میں ہوتے ہوئے واقعات، حادثات اور انقلابات کا درد مند اظہار بھی ہے۔  وطن دوستی فیاضؔ کی شاعری کو ہم عصر زندگی سے قریب تر اور منسلک رکھتی ہے۔  وطن کے بارے میں انھوں نے بالکل صریح طور پر محبت میں ڈوب کر کہا ہے۔  ان کی باتیں بھی سنیں:

لوگ کچھ معصوم سے مارے گئے اس شہر میں

کرنا ہو گا قاتلوں کو سامنا تعزیر کا

کہ اب تو اہل سیاست بھی ہوش مندی سے

نئی امنگ سے معمور اپنی ذات کریں

خو کا پشتون ہوں میں دل کا مسلمان جاناں

مجھ کو آتا ہے نبھانا مرا پیماں جاناں

یہ چمن سینچا مرے آبا نے اپنے خون سے

اس لیے تازہ گلوں کی بھی ہے صورت دھوپ میں

       فیاضؔ راست گفتگو کو اہمیت دیتے ہیں اور ترسیل کو مقصد سخن مانتے ہیں، اس لیے تشبیہ سے استعارہ اور علامت کی جانب رجوع نہیں کرتے۔  ان کے پسندیدہ موضوعات ان کی ذات کی شافیت سے مملو ہیں، وہ اپنی شاعری میں ایک ایسے فرد کی طرح ابھرتے ہیں جو وفا کو اولیت دیتا ہے۔  منافقت اور سیاست کو دوستی کے لیے زہر سمجھتا ہے، رومان میں شدت التفات کے سبب غرق ہو جاتا ہے، ترچھی نگہہ سے بھی رنجیدہ ہو جاتا ہے، اقدار کی پامالی سے ملول بھی ہوتا ہے اور نعرہ حق بلند کرنے سے روگردانی نہیں کرتا۔  حاسدوں سے مبارزت طلبی سے پیچھے نہیں ہٹتا۔  ہم سفری، دوستی، آشنائی اور وفا و رقابت کے تناظر میں یہ اشعار دیکھیں:

میں کہ قابل ہی نہ تھا تیری محبت کے تو پھر

کیا گلہ ہے جو نظر آئے ہو اغیار کے ساتھ

میلی آنکھوں سے وہ دیکھے ہمیں، جرات اس کی؟

دیکھنا ہم اسے چنوائیں گے دیوار کے ساتھ

ہم نے جس جس کی ہم نوائی کی

اس نے ہم سے ہی بے وفائی کی

اپنی زلفوں کی سیاہی کو بڑھا دیجیے گا

روشنی مجھ کو نہیں کوئی گوارا جاناں

       گویا شعر ان کے منتخبہ موضوعات اور فکری در و بست کی راست تصویر ہے۔  فیاض نے غزل اور قطعہ دونوں ہی فارم میں شاعری کی اور دونوں ہی میں ان کا ڈکشن اور طرز بیان یکساں ہے، وہی لب و لہجہ وہی لفظیات اور مماثل موضوعات۔  ان کی شاعری ایک ایسے سخن گو کا کلام ہے جو ادبی مزاج دانی میں تربیت یافتہ ہے۔  جس نے باقاعدہ استاد سخن سے تلمذ کیا ہے۔  انھیں بحور، اوزان، ردیف و قافیہ اور سلاست کے التزامات کا ادراک ہے، وہ محتاط رہنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔  ان کے کلام میں سقم تقریباً ناپید ہیں، اسی لیے وہ بہتر راہوں کی طرف رواں دواں ہیں، زودگو ہو کر بھی حدود سے باہر قدم نہیں رکھتے۔  ایسا بھی لگتا ہے کہ وہ طرحیہ شاعری کی جانب خاص جھکاؤ رکھتے ہیں۔  انھوں نے کئی مروجہ زمینوں میں اچھے خاصے شعر کہے ہیں۔  اسی لیے پرانی زمینوں میں زور سخن دکھاتے ہوئے وہ خوب لگتے ہیں۔  جدید زندگی کے پس منظر میں مثلاً:

میں بات دل کی بتاؤں اگر برا نہ لگے

نہ کوئی حرف چھپاؤں اگر برا نہ لگے

بہت کٹھن ہے مگر دور یہ بھی گزرے گا

بس اتنی بات ہے، وعدے سبھی نبھاتے رہو

دشت و صحرا چھان کر اور سر پہ مٹی ڈال کر

میں بھی مجنوں ہو گیا ہوں اطلاعاً عرض ہے

ہم سوختہ حالت سہی اور چاک گریباں

ہم چادر غربت میں بھی پائندہ رہیں گے

       فیاضؔ نے جو بالراست اظہار کا راستہ منتخب کیا ہے وہ اس لیے کٹھن اور آزمائش طلب ہے اور اس سفر میں ترقی کے امکانات روشن ہیں۔

       ان کا ایک بے حد مرغوب موضوع مدحتِ اہلِ بیت ہے اور اُس پس منظر میں اُنھوں نے کئی تلمیحاتی شعر کہے ہیں، اُن کی یہ ارادت اور نسبت اُن کی مثبت سوچ کا منبع ہے۔  اس سلسلہ میں چند اشعار نذر ہیں:

کربلا کی دھوپ میں ابن علیؓ نے یہ کہا

آ گئی اللہ کی رحمت شہادت دھوپ میں

بھولیں نہ آپ جشن ولا میں غم حسینؓ

اس غم میں بے قرار محمدؐ کی ذات ہے

جب بھی کسی یزید نے یاں سر اٹھا لیا

اہلِ ولا نے سر کو سناں پر اٹھا لیا

       میں نے محسوس کیا ہے کہ جوشِ بیاں کی روانی میں کبھی اُن کے اشعار میں بحر اور وزن سے لغزش ہوتی نظر آتی ہے اگر وہ کلام کی نظر ثانی کر لیں تو یہ چھوٹی موٹی فروگزاشتیں بھی رفع ہو جائیں۔

       فیاضؔ کی شاعری ان کے مثبت نظریہ حیات کا آئینہ ہے اور اس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔  امید کہ وہ اس طرح تخلیق سخن کرتے رہیں گے اور ندرت اور نئے اسالیب کی جانب بھی رواں ہوں گے۔

       فیاضؔ کی شاعری کو پڑھتے ہوئے بے ساختہ شاذؔ تمکنت کا ایک مصرع یاد آتا ہے:

غزل کہنے سے جی کا بوجھ ہلکا ہو ہی جاتا ہے!

٭٭٭

لرزشِ لب۔۔۔ حنیف کاتب کی شاعری

(رائے برائے سرورق)

       محمد حنیف کاتب میرے قیمتی دوستوں میں سے ہیں جن سے میری ملاقات کویت میں ہوئی اور ہماری شناسائی ان کی شعری حسیت کے تناظر میں مضبوط تر ہوتی گئی۔  وہ ایک ایسے شاعر ہیں جس کے کلام میں ہم عصر سوچ بھی ہے، علامتی اظہار بھی، ملت کا درد بھی ہے اور علوم دینی و دنیاوی کا عرفان بھی۔  اس لیے ان کے شعر سراسر ذاتی تجربات کے پس منظر میں گہری معنی خیز بلکہ عمیق فلسفیانہ فکر کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔  ان کی شاعری بیش تر واحد متکلم لب و لہجہ میں اظہار کا وسیلہ بن کر ابھرتی ہے۔  ان کی زبان شستہ اور مستعمل لفظیات نئے پن کے سبب متوجہ کر لیتے ہیں۔

       محمد حنیف کاتب زبان برتنے میں بے حد احتیاط سے کام لیتے ہیں۔  بحور اور اوزان کے تجربوں کا شوق بھی ہے لیکن ہمیشہ مناسبت، معیار اور مقیاس کو پیش نظر رکھتے ہیں۔  زبان معرب بھی ہے اور مفرس بھی اور پھر اس میں ہندی کا رس بھی ہے۔  تراکیب، تشبیہات، علامات اور مصطلحات کا استعمال بے حد توازن سے کرتے ہوئے جدت کا زاویہ بھی خوب ملحوظ رکھا ہے۔  اس لیے ان کا کلام جدید تر شاعری کا آئینہ دار بن گیا ہے اور اس کے لیے شاعری کا کامیابی باعث تحسین ہے۔

       الفاظ کے اندر پوشیدہ جو صوتی، فکری اور معنوی قوتیں ہوتی ہیں ان کا ادراک ایک خلاق ادیب و شاعر کو اس کی عبقریت اور مہارت کے سبب بدر جہا بڑھ کر ہوتا ہے ایک عام قلم کار کے مقابل! اور شاعر تو افکار اور الفاظ میں اپنی فن کاری سے جان ڈال دیتا ہے۔  محمد حنیف کاتب کی شاعری کو پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس چونکا دینے کی حد تک ہوتا ہے کہ ان کی غزلیات میں تازہ کاری بھی ہے، ندرت بھی ہے اور کچھ کہنے کی کسک بھی اور یہی ان کی شاعری کی قبولیت کا جواز ہے۔  لب و لہجہ منفرد، ڈکشن جداگانہ اور تجربات اظہار ذات سے معنون!!

       حمد و نعت جذب کے عالم میں وہ ڈوب کر کہتے ہیں اور ان کی عقیدت اور حسن بندگی اس ضمن میں کچھ اس قدر خالص اور پر درد ہوتی ہے کہ قاری اس کی حدت محسوس کیے بغیر نہیں رہتا۔  وہ زندگی کے حقیقی تجربوں کو اپنی فکر کی فضا میں تحلیل کر کے بالکل نئے معانی اور نتائج کے ساتھ پیش کر دیتے ہیں۔  مثال کے طور پر اپنے دل کے آپریشن کے تجربے کو انھوں نے حیات و موت کے درمیان کشاکش اور اندھیرے اجالے کی بدلتی کیفیات سے متعلق کرتے ہوئے بڑی کامیابی سے اپنی فکر کی ترسیل کی ہے۔

       محمد حنیف کاتب اردو شاعری کی بساط پر ایک نیا اور معتبر نام ہیں اور میں ان کے اس مجموعہ کلام کو خوش آمدید کہتا ہوں۔  اہلِ نظر ضرور اس کی پذیرائی کریں گے۔

٭٭٭

بدر سیمابؔ – چاہنے اور سوچنے کے درمیان

       کویت میں مقیم شاعروں میں بدر سیمابؔ ایک قابلِ توجہ اور پُر کشش نام ہے۔  تازہ دم لب و لہجہ میں اپنی شاعری کے وسیلہ سے کچھ کہہ جانے کا حوصلہ اُن کو بہت سے شاعروں سے ممیز رکھتا ہے۔  آج جب کہ فرسودہ راہوں پر چلتے ہوئے ردیف و قافیہ کے درمیان کرتب بازی کرنے والے شاعر، الفاظ کو اوزان کی لڑی میں پرو کر بے جان اور روندی ہوئی شاعری کے مجموعے دھڑا دھڑ جنم دے رہے ہیں۔  بدر سیماب کا یہ مجموعہ ’’تمھیں سوچا تمھیں چاہا‘‘ ایک ہدیہ دل فریب کی طرح ہے۔  آج کے ایسے ماحول میں بدر سیماب ان فن کاروں میں سے ہیں کہ جو اپنی شعری پہچان تعلقات اور اشتہاری عمل سے بے پروا ہو کر ادبی ماحول میں بنانا چاہتے ہیں اور یہ بے حد خوش آئند بات ہے۔

       بدر سیماب کی شاعری میں پہلی نظر میں ہی شعلہ کی شناخت اجاگر ہوتی ہے۔  اس میں عبقری ذہن کی جھلک بھی ہے اور فکری اشارتیں بھی۔  ایسا لگتا ہے کہ وہ مطالعہ اور داخلی نکتہ رس سے اپنی ذکاوت کو ممیز کرتے ہیں۔  ان کی شاعری معصومیت سے انحراف بھی رکھتی ہے اور نئے لہجہ کو عمداً توجہ طلب بناتی ہے۔  راست گفتاری ان کا پیرایۂ اظہار ہے۔  ان کی شاعری میں رومانوی خواب پرستی بھی ہے، رسوم و قیود سے نبرد آزما ہونے کا جذبہ بھی شہادت کا احترام بھی ہے۔  ماں سے بے حد جذباتی رشتہ بھی۔  اُنھوں نے اپنی شاعری میں بلند آہنگ تراکیب و تلمیحات، علامات اور استعارات کی بیساکھیاں قوت بیان کے لیے منتخب نہیں کی ہیں بلکہ راست اسلوب بیان میں ایک خاص کاٹ کے ساتھ اپنی بات کہتے ہیں اس بات کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ ان کے شعر نثری بیان کی شکل نہ لے لیں بلکہ شعری اکائی بن کے ابھریں۔  چند اشعار بلا تبصرہ آپ کی نذر ہیں:

اب کسی اور کی جانب نہ اشارہ جائے

ہم کو ہر بار نہ مقتل سے پکارا جائے

میں نے سوچا تھا کوئی خواب نگر

ہاں مگر راہ گزر بھول گیا!

دل بے ربط کو احساس نہیں

عمر کیسے ہو بسر بھول گیا

تیرے سکھ کی خاطر جاناں

اپنے درد بھلا بیٹھے ہیں

       ان کی شعری کائنات جذبات کی حدت کو اپنے اندر سمو کر بے حد متفاعل (Interactive) ہو گئی ہے اور دل سے قریب ہونے کا نسب نما اس میں اپنے آپ آ گیا ہے۔  اس لیے ہر شعر سامع / قاری کی توجہ کا دامن کھینچتا ہے۔

       شدت اظہار کی ایک اچھی مثال ان کی نظم ’’ماں جی‘‘ ہے۔  جو آب دیدہ بھی کر دیتی ہے محبتوں سے لبریز شعر فلسفیانہ کائنات سے نکل کر ذات کے دائرہ میں تاثر داخل کر دیتے ہیں۔     بدر سیمابؔ اپنے اس مجموعۂ کلام سے جریدۂ عالم پر اپنے اثبات کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔  اس مجموعہ کے مطالعہ سے ایک ذہنی مسرت ہوتی ہے اور اس کے لیے میں اُنھیں دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

٭٭٭

سخن مسعود – مسعود حساس کے فن کا تعارف

       غالباً آٹھ یا دس برس پہلے کی بات ہے جب کویت کی ایک شعری مجلس میں نو آمدہ شاعروں میں مسعود حساس کا تعارف کچھ اس طرح کروایا کہ وہ مزاح نگاری اور طنز کے میدان میں کچھ لکھتے ہیں۔  کلام جس نے بھی سنا وہ ان کی مشاقی اور بات سے بات نکالنے کے فن کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکا۔  اس محفل میں انھوں نے اپنی ایک سنجیدہ غزل بھی سنائی وہ بھی خوب لگی۔  اس طرح مسعود حساس آہستہ آہستہ کویت کی شعری محفلوں میں ایک قابل قدر شاعر کی طرح لازم و ملزوم بن گئے۔

       مجھے لگتا ہے کہ چوں کہ ان کا ادبی ظرف تربیت یافتہ ہے اور ان کا زبان و بیان پر خاصا قابو ہے اس لیے انھوں نے ترسیل کے لیے سخن وری کو سنجیدگی سے برتنا شروع کیا۔  انھوں نے یہ بھی محسوس کیا ہو گا کہ کویت میں جہاں کچھ واقعی قابل اور ماہر شاعر موجود ہیں ان کے ساتھ ایک مشاعروں اور بزم خود مشاعروں کی ٹولی بھی ہے جو شاعروں اور ادیبوں کے ہم پلہ سمجھے (بلکہ باور) کیے جاتے ہیں۔  چوں کہ مسعود بہت سے شاعروں کے مقابلہ میں ممیز ہیں وہ تیز قدمی سے صفِ اوّل کی جانب رواں ہو گئے اور وہ جلد ہی اپنی نادر سوچ، جداگانہ لفظی رویہ اور قابل شناخت ڈکشن کی وجہ سے جلد ہی ادبی حلقوں میں پہچانے جانے لگے ہیں۔

       ردیف و قافیہ کے میدان میں انھوں نے بے حد سرعت کے ساتھ تجربے کیے اور غزل بہ غزل کا خاصا مواد تخلیق کر ڈالا اور اس طرح سنجیدہ لب و لہجہ کے میدان میں ان کا مجموعۂ کلام ’’جوشِ جنون‘‘ اشاعت پذیر ہو گیا۔  جو مدتِ تخلیق کے تناظر میں کافی ضخیم اور اس طرح زود گوئی (وہ بھی مثبت سمت میں) اور اُن کی خلّاقی کی دلیل ہے۔

       یہ خوبصورت مجموعہ جو ہمارے پیش نظر ہے کئی وجوہ سے زمانہ اوائل کے مجموعہ ہائے کلام (بلکہ کلیات) کے ہیکل پر مبنی کیا گیا۔  جدید شعری مجموعوں کے برعکس اس میں غزلیات کو مستعمل قافیہ کے اختتامی حروف تہجی کی ترتیب کے لحاظ سے دیوان کی طرح پیش کیا گیا ہے۔

       مجموعہ حمد و نعت سے شروع ہوتا ہے اس کے بعد دیوان کا اصلی مواد ہے اور آخری حصہ میں کچھ شخصیات کی تحسین میں قطعات ہیں۔  مفردات ہیں اور شاعر کی نسبت سے دوسرے اہل قلم کے ارشادات ہیں۔

       گویا یہ ایک مکمل ادبی محفلِ شعر ہے جو مطبوعہ ہے۔  جس کا میزبان خود شاعر ہے۔  اچھا لگتا ہے کہ شاعر نے بے حد دل جمعی سے کوشش کی ہے کہ حروفِ تہجی کا دامن خالی نہ ہو اور ان میں کم از کم ایک غزل تو ہو ہی۔  بعض بعید از قیاس اور دور ازکار قافیوں پر بھی اچھے شعر نکالے ہیں۔  بعض غزلیں اپنے ایک یا دو ایسے اشعار کے وسیلے سے پہچانی جائیں گی جو نشتر کی طرح ہیں۔  مثلاً:

پا بریدہ شخص کی حاجت ہے گھر

اک مسافر کے لیے مسکن عبث

میرا رشتہ کسی سے کچھ بھی نہیں

پھر بھی کتنا کھٹک رہے ہیں لوگ

چارسو تعمیر ہوتی جا رہی ہیں بستیاں

ورطہ حیرت میں ہے دو گز زمیں کا مسئلہ

       ان کی رواں دواں شعری کاوشیں ایک بے حد مصروف ذہن کا نتیجہ ہیں جو ہر پل نئی اشارت، نئی تشبیہہ یا نئی ترکیب صنع کرنے میں لگا رہتا ہے۔  ان کی ایجادات کا جائزہ مناسب وقت پر ضرور کوئی نہ کوئی ناقد کرے گا۔  اس وجہ سے ان کی شاعری ان صنعتوں کے سبب ہمیشہ نئی نویلی سی لگتا ہے اور قاری کی توجہ حاصل کر لیتی ہے:

میں بت گری سے کروں توبہ تو بتا کیسے

مری سرشت میں پیوست ایک آذر ہے

آئینہ گو کہ بول رہا تھا سفید جھوٹ

الزام آئینہ کے مقابل کے سر گئے

ہوا کے سر پہ ہی الزام بارہا کیوں کر

مرا چراغ ہی خود بجھنے کی کگار پر تھا

       مسعود حساسؔ کی زبان مفرس و معرب ہے، اس میں بہت ساری ترکیبوں، لفظیات کی نشست و برخاست اور سلاست کے ساتھ شعر میں داخل کرنے کا عمل ان کی لغت دانی اور زباں کی روح سے مناسبت ثابت ہوتی ہے۔  انھوں نے شاید ادب اور حکمت کی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے جو ان کی سوچ کی تار و پود میں رچ بس کر بالکل نئے پیراہن میں شعر کی تخلیق میں ممد و معاون ہوا ہے۔  وہ اپنی شاعری میں ایک دوست دار، خوش مزاج اور انسانیت پرست فرد کی طرح ابھرتے ہیں۔  ان کی شاعری میں شباب کے اثرات تازہ لمسیات بھی رکھتے ہیں تو سماجی فکر اور عقیدہ کی شہادت کے پرتو بھی ملتے ہیں۔  اس طرح مسعودؔ کی شاعری ان کی ذات کی رنگا رنگی کی عکاس ہے۔

       شاعر نیا نیا ہے، جذبۂ اظہار سے سرشار ہے، نئی زبان اور نئی تراکیب میں بات کرنا چاہتا ہے اسی لیے کبھی کبھی دائرہ احتیاط سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔  ان کی چند غزلیں جو شاید ردیف و قافیہ نبھانے اور برائے وزن بیت کی روش کے تحت لکھی گئی ہیں شاید قبولیت میں نہ آ سکیں مثلاً ان کی غزل جس کا مطلع ہے:

منسلک ہوتا ہے گر درد سے چہکار کا قد

شاعری اور بڑھا دیتی ہے گفتار کا قد

       عجیب و غریب تراکیب کا شکار ہو گئی ہے۔

کیا کروں اوڑھ کے ناصح ترے پندار کا قد

       پندار کے قد کا اوڑھنا؟ چہ معنی دارد؟

       ایک اور غزل میں کہتے ہیں:

شمیم زلف سی آئے گی رت جگوں میں خراش

       یہ خراش بھی خوب ہے؟

       مجموعی طور پر آج جب غزل ایک ایسے موڑ پر آ پہنچی ہے کہ بہت سے شاعر، مختلف ملکوں اور شہروں میں، شبانہ روز غزلوں کا انبار تخلیق کر رہے ہیں جب کہ توجہ منعطف کرنے والے غزل گو صرف چند ہی ہیں۔  ایسے ماحول میں مسعود حساس جیسے تازہ کار اور مختلف ڈکشن والے شاعر کی آمد ایک خوش آئند خبر ہے یہ ایک ایسے شاعر ہیں جو خلوص، تجربہ اور جستجو کے ساتھ شاعری کے میدان میں قدم جما رہے ہیں اور اپنے طرز بیان سے دل موہ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔  اس بنا پر امید ہے کہ ارباب ادب مسعود حساس کو خوش آمدید کہیں گے۔

٭٭٭

 

فردوسِ مکاں …

ناصرؔ کاظمی۔۔ فردوسِ مکاں ہوئے وہ پیارے

       ناصرؔ کاظمی ۸ دسمبر ۱۹۲۵ء کو پیدا ہوئے اور ۲ مارچ ۱۹۷۲ء کو انتقال کر گئے۔

       لیجیے۔۔۔  پوری داستان حیات مختصر ہو گئی، لیکن سچ مانیے تو ایک شاعر کی داستان اتنی مختصر نہیں ہو سکتی اور وہ بھی ناصرؔ کاظمی کی۔۔۔  جدید ذہن کی چادر پر پھر ایک قطرہ خون ٹپکا اور پھر ایک دیوار لرز گئی۔۔۔

       ناصرؔ کاظمی کی آواز اب تک گونج رہی ہے اس آواز میں کیسی بھینی بھینی خوشبو ہے کیسی گل بداماں شاعری ہے۔  میر کی آواز کا یہ نقیب اشارات کی دنیا کا یہ سفینہ چلتے چلتے درمیان راہ ہی سو گیا اور ایک بڑھتا ہوا برگد اس پر موت کا سایہ ڈال کر کتنا مطمئن ہے۔  موت کیوں ہوتی ہے؟ یہ سوال بے معنی ہے! لیکن بعض اوقات ہم بے معنی سوال بھی کر بیٹھتے ہیں شاید ہماری رگوں میں بھٹکا سا لگتا ہے۔

       جب ناصرؔ نے غزل کہنی شروع کی تو نظم والے اندر کا اکھاڑہ دیکھ رہے تھے جوشؔ انقلاب کے دھماکے میں شباب کا سوانگ رچا رہے تھے۔  اخترؔ شیرانی فنا فی العشق ہو چکے تھے اور وہیں پر کچھ نئے پرندے اقبال کی نظموں کا غزلوں میں ترجمہ کر رہے تھے۔  ناصرؔ کاظمی اور ایسے کئی تازہ ذہن والوں نے یکایک خوبصورت غزلیں سنانی شروع کر دیں لیکن ان غزلوں میں اردو تھی، اسی کا انداز تھا، اسی کی لچک تھی۔  ناصر کاظمی کی غزلوں میں فنی رچاؤ بھی ہے نادر تصور بھی ہے سوز و گداز بھی ہے۔

       ناصرؔ کاظمی پاکستان کے رہنے والے تھے لیکن اُردو کے شاعر تھے یعنی ہمارے شاعر۔۔۔  سرحدیں بڑی گہری ہو گئی ہیں۔  خبریں جلدی پار ہو کر نہیں آتیں لیکن جب کوئی ایسی خبر آ جاتی ہے تو سوچنا پڑتا ہے کہ کیا ہماری زبان بولنے والے اتنے بے حس ہیں کہ اس خبر کو شائع بھی نہیں کر سکتے۔۔۔  (سلیقہ سے)؟

       ناصرؔ کاظمی کی شاعری سے کون واقف نہیں:

پھر کسی گل کا اشارہ پا کر

چاند نکلا سر میخانہ گل

کل ترا دور تھا اے باد صبا

ہم ہیں اب سرخیِ افسانہ گل

تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے

چاندنی رات نے دیکھا ہو گا

شام سے سوچ رہا ہوں ناصرؔ

چاند کس شہر میں اُترا ہو گا

شعلے میں ہے ایک رنگ تیرا

باقی ہیں تمام رنگ میرے

کچھ پھول برس پڑے زمیں پر

کچھ گیت ہوا میں لہلہائے

کم فرصتیِ خوابِ طرب یاد رہے گی

گزری جو ترے ساتھ وہ شب یاد رہے گی

٭٭٭

 (مطبوعہ ’’برگِ آوارہ‘‘ حیدرآباد)

باقیؔ صدیقی

       غزل کو غزل کی روایات کے ساتھ برتنے میں باقی صدیقی کو بڑی کامیابی حاصل تھی اور یکایک اُن کے انداز نے لوگوں کو متاثر کیا تھا۔

       اور اب سننے میں آیا کہ وہ بھی جولائی ۱۹۷۴ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔

        باقیؔ صدیقی کا اسم مبارک محمد افضل تھا اور وہ راولپنڈی میں ۲۰ دسمبر ۱۹۰۹ء کو پیدا ہوئے تھے۔  ایک ہی مختصر وقفہ میں ایک کالی چٹان کے پیچھے تینوں چہرے (ناصرؔ کاظمی، باقیؔ صدیقی اور یوسف ظفرؔ) چھپ گئے اور ان کی آوازوں کی بازگشت آج بھی وادی وادی صحرا صحرا لہو لہان گھوم رہی ہے۔

       دھیمے دھیمے لہجے میں ابھرتی ہوئی کسک اور نہ کہہ کر بہت کچھ کہے جانے والی زبان سے باقیؔ صدیقی نے غزل کو بہت سوز و گداز بخشا تھا۔  باقیؔ صدیقی کی غزلیں یکایک ایسے پھیل گئیں جیسے ایک جگہ پر جمع عاشقانہ خطوط ہوا کے زور سے بکھر گئے ہوں اور پھر کاغذوں سے خون ٹپکنے لگا۔  ٹپ ٹپ۔

       خیالات کی نرمی اور سادہ گفتگو میں مومن کا انداز چھپانے والی باقیؔ صدیقی۔  ترقی پسندی والی غزلوں سے بہت دور تھے وہ اردو کے سرمایہ کو آتش دان میں ڈالنے کی بجائے اس کے نشاۃ ثانیہ میں مصروف رہے اور بالآخر ان کا زندگی سے رشتہ ٹوٹ گیا۔  کچھ اشعار دیکھیے:

زمانہ گم، زمیں گم، آسماں گم

خیال دوست میں سارا جہاں گم

منزل کے رہے نہ رہ گزر کے

اللہ رے حادثے سفر کے

دل کے لیے حیات کا پیغام بن گئیں

بے تابیاں سمٹ کے ترا نام بن گئیں

کون سے راستے پہ چل نکلے

جس نے دیکھا اسی نے سمجھایا

       اب بتائیے۔  ایسی غزلیں اور ایسے اشعار والا کہاں ملے گا۔  ماضی بڑا پیار کرنے والا ہوتا ہے۔  حال کو اپنے آغوش میں کھینچ لیتا ہے۔  لیکن حال کا کیا ہو گا؟ وہ کب تک ماضی کی یاد میں بیٹھا رہے گا۔۔۔!!!

٭٭٭

         (مطبوعہ ’’برگِ آوارہ‘‘ حیدرآباد)

یوسف ظفرؔ

       یوسف ظفرؔ بھی ۷ مارچ کو راہی ملک عدم ہوئے۔  راولپنڈی کی سر زمین پر ایک نظم اور بجھ گئی۔  وہ یکم دسمبر ۱۹۱۴ء کو پیدا ہوئے تھے۔  زخم خوردہ شاعری کرنے والا یہ شاعر اردو نظم کا ایک نرالا ہی شخص تھا جس نے جذبات بھی پیش کیے، احساس بھی تازہ کیے اور کمال یہ کہ نظموں کا ایسا لہجہ کہ معلوم ہوتا ہے اردوئے معلی کی ندی بہہ رہی ہو۔۔۔

       انداز بیان میں ڈرامائی زاویہ، ترنم اور کلاسیکی انداز۔۔۔  کالی داس کی طرح قدرت سے بے حد متاثر اچھی طرح منقش شاعری کرنے والا شاعر بھی فردوس کا سفر اتنی آسانی سے کر گیا کہ لوگ ایسا سوچ بھی نہ پائے تھے۔  چراغ جلتے ہیں، بلب چمکتے ہیں لیکن بجھنے والے چراغوں کی روشنی ابھی ہمارے سینوں میں محفوظ رہے گی۔

       یوسف ظفر کا طرز کلام دیکھیے:

ایک لفظ اور حکومت کی کڑی زنجیریں

ایک لفظ اور حقارت کے سمندر کا جلال

ایک لفظ اور سکوت مہ و انجم ٹوٹے

ایک لفظ اور چھلک جائے شراب مہ و سال

        (الفاظ)

ہر اک صدا میں گھلی ہوئی ہے ہر اک نفس میں بسی ہوئی ہے

یہ کون ہے، کون ہے جو یوں میری زندگی میں رچی ہوئی ہے

٭٭٭

 (مطبوعہ ’’برگِ آوارہ‘‘ حیدرآباد)

وقارؔ خلیل

(وقارؔ خلیل کا انتقال…ایک اُردو المیہ)

       ۲ نومبر ۱۹۹۸ء اردو دنیا کے لیے ایک نقصان دہ دن ثابت ہوا۔  ایک اردو سپاہی راہی ملک عدم ہوا۔  وقارؔ خلیل کے رحلت پانے کی خبر کویت میں مقیم ممتاز اردو دوست جناب احتشام الدین صاحب نے مجھے فون پر دی کہ روزنامہ ’’منصف‘‘ میں یہ اطلاع شائع ہوئی ہے (اور واقعی منصف نے سب سے زیادہ مناسب انداز سے یہ خبر ہم تک پہنچائی) وقارؔ خلیل کے انتقال سے اُردو کا جو نقصان ہوا وہ اپنی جگہ ہے میرا تو اکتیس برسوں سے ساتھ ساتھ چلنے والا ایک بزرگ پردۂ اجل میں جا چھپا۔  انا للہ و انا الیہ راجعون۔

       میرے احباب جانتے ہیں کہ جب بھی میں حیدرآباد میں رہا اتوار کا دن عموماً ایوانِ اُردو میں وقارؔ صاحب کے ہم راہ رہا۔  وہاں کتابیں تو کم دیکھیں، ان کے ساتھ ادبی گپ شپ زیادہ کی۔  وہیں حیدرآباد بلکہ دکن کے معروف اور مستند ادیبوں سے ملاقات بھی ہوئی۔  جہاں اُن میں مغنی تبسم، طیب انصاری، اکبر الدین صدیقی، منظور احمد، صلاح الدین نیر جیسے سینئر ادیب ملے وہیں ہم عصروں میں رحمن جامیؔ، رؤف خیرؔ، قطب سرشارؔ، غیاث متینؔ، اسحٰق ملک، شمیم نصرتی، محمد علی اثرؔ، مومن خاں شوقؔ اور ایسے ہی کئی اہم ناموں سے بھی ملاقات ہوئی۔  کبھی کبھی کلام بھی پڑھے اور سنے گئے، کبھی کبھی رواروی کی شناسائی بھی ہوئی۔  ۱۹۸۱ء سے میں زیادہ تر ہندوستان سے باہر رہا اور ہر اتوار کو اس موقع سے محرومی محسوس کرتا رہا ہوں۔  اب جب کہ وقارؔ صاحب نہیں رہے تو میں نہیں جانتا کہ اب حیدرآباد میں اتوار کس طرح گزرے گا۔

       وقارؔ صاحب سے میری ملاقات ۱۹۶۷ء میں ہوئی جب کہ ’’سب رس‘‘ کا غالب نمبر شائع ہونے والا تھا۔  وقارؔ صاحب نے میری غزل ’’پائے نئے نکات پرانی کتاب میں‘‘ کو پسند فرمایا اور اس رسالہ میں شائع کرنے کے لیے یہ غزل اکبر الدین صدیقی صاحب کو دی۔  اس ملاقات میں وقار صاحب نے مجھ سے میری بیاض مانگ کر دیکھی، چونک پڑے اور کہنے لگے کہ اتنا اچھا معیاری کلام ہے آپ اسے رسائل میں کیوں نہیں بھیجتے۔  اشاعت بھی تحریر کی طرح اہم ہے اور اس طرح اُن کی خواہش پر میں اُردو رسائل کی دنیا میں داخل ہوا۔

        اس سے پہلے حیدرآباد کے اخبارات یا اکے دُکے رسائل میں میرا کلام آیا تھا۔ یہاں پر یہ بھی وضاحت کر دوں کہ وقارؔ صاحب نے کبھی میرے کلام پر تصحیح وغیرہ نہیں کی، نہ ہی رائے دی۔  وہ میرے ایک معزز ادب دوست رفیق تھے۔

       وقارؔ صاحب دبستانِ زورؔ کے پروردہ ادیب تھے، زبان بیان اور تحریر کے ان اسرار سے واقف تھے جو کسی ادیب کو دوسرے ادیبوں سے ممیز کرتے ہیں۔  ان کا اسلوب ان کا اپنا منتخب شدہ تھا۔  وقار صاحب کو حیدرآباد کے صاحب طرز شاعر خورشید احمد جامیؔ کی شاگردی کا فیض بھی حاصل رہا۔  وقار صاحب زود گو بھی تھے اور بیش فکر بھی۔  انھوں نے ایسی نئی شاعری کی کہ جو انتخابوں میں بھی شریک رہی اور ہند و پاک کے تقریباً تمام اہم ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوئی۔  ان کی قومی شاعری سرکاری رسائل، ریڈیو اور بر موقع تقریبات میں پڑھی اور سنی گئی۔  ان کے بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظمیں اور نثر پیام تعلیم سے لے کر مقامی رسائل تک سب میں مقام پاتی رہیں۔  اس کے علاوہ مقصدی نظمیں، نعت و منقبت، مضامین و تبصرے اور بہت کچھ اُنھوں نے اپنے نام سے اور کبھی ابن نامی کے قلمی نام سے شائع کروائیں۔  اس کے علاوہ کئی رسائل، اخبارات اور ہفتہ وار جرائد کی ترتیب و تزئین میں اہم کردار ادا کیا۔  گھر آنگن، مزاج کی نظمیں، بصری علامتوں کے اژدہام والی غزلیں بھی لکھیں لیکن ان کے فن پر داخلی فکر کا عنصر اور ترقی پسند تحریک سے ہم آہنگی ہمیشہ اہم رہے۔

       حیدرآباد میں کچھ برس پہلے جو نام نہاد ادیب ’’Ghost Writing‘‘ یعنی ’’پس پردہ قلم کاری‘‘ کے سہارے منزہ شہود پر آئے، اُن کے لیے وقارؔ صاحب نے بھی مصحفیت کی۔  ان میں چند نام مجھے بھی معلوم ہیں جو ان شأ اللہ ہمیشہ پوشیدہ رکھوں گا کہ وقارؔ صاحب کی یہی خواہش تھی۔

       شاعرانہ تعلی، لب و لہجہ کی تلخی، چکنے اور ملائم الفاظ کا استعمال، صوتیاتی آہنگ کے تجربات یہ سب کہیں نہ کہیں ان کی شاعری میں جلوہ گر ملیں گے۔  معاشی اور سماجی تجربات کی تلخیوں نے جب اُن کے دل کو زخمی کیا تو کہہ اُٹھے:

دروغ مصلحت آمیز کی یہ بستی ہے

یہاں زبان ہی کھولو نہ لب کشادہ کرو

       اور

اُردو تحفظات کے خانوں میں بٹ گئی

دانشورانِ اُردو زبان سب مزے میں ہیں

اُن کی اس تلخ نوائی کا بنیادی سبب اُن کی اُردو اور اہلِ دکن سے بے انتہا محبت تھی:

بوجھو پہلیوں پر پہیلی کہ سر کھپاؤ

اُردو کا مسئلہ ہے معما بنا ہوا!!

’’جاگتے بھی رہو

سوچتے بھی رہو

دکن کا اُفق ملگجا ہو نہ پائے

کہ شیرازہ ملک و ملت نہ بکھرے‘‘

       وقارؔ صاحب نے کئی ادیبوں اور شاعروں کی وفیات بھی لکھیں اور یاد پر قطعات بھی کہے۔  وہ محل اور موقع پر اظہار سے نہ کترائے، آج وہ نہ رہے اُن کی وفات پر تحریریں آ رہی ہیں۔  اُمید کہ لوگ حق وفا ادا کریں گے۔

       وقار صاحب کو اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور نواسیوں پوتوں سے بے حد پیار تھا وہ ایک مکمل سماجی انسان تھے۔  سماج کے نشو و نما اور ارتقا کے لیے دعاگو بھی تھے، متفکر بھی جب سے ہندتوا کا سانپ ہندستان کے خزانے پر کنڈلی مار کر آ بیٹھا ہے، وہ انسان کی فطرت میں شر پسندی کی بو محسوس کرنے لگے تھے۔

’’اور پھر یوں ہوا

رقص ابلیس کرتا رہا

دھرم کے نام پر وہ ہوا شہر میں

آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا

سلسلہ روز و شب سے گزرنے لگا‘‘  (شہر جلتا رہا)

’’تم اپنے جلتے کواڑ دیکھو

تمام منظر بدل چکے ہیں

سلامتی خوف بن گئی ہے

وہ ایک شمع وفا

جو، محراب آرزو میں کھلی تھی روشن

وہ بجھ چکی ہے‘‘(کالی نظم)

       وقارؔ صاحب نے دکنی زبان میں بھی شاعری کے سنجیدہ تجربے کیے جو کافی حد تک کامیاب اور دلکش ہیں ان کی زندگی اور شاعری کے بارے میں لکھنے کو کافی تفصیل درکار ہے اور فی الوقت جو کچھ میں نے کہا ہے وہ اشارتاً ان کی ادبی اہمیت کی ایک جھلک ہے۔

       وقارؔ صاحب ایک بہت اچھے آدمی تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے (آمین) اور ان کے لواحقین و اقارب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

       وقارؔ صاحب کی غزلوں کے یہ شعر اُن کی یاد دلاتے رہیں گے:

پڑھتے ہیں لوگ ہجر کے لمحات میں کتاب

ہم بھی اچھالتے ہیں خرابات میں کتاب

سب ریت کی دیوار کا لیتے ہیں سہارا

کیا لوگ ہیں، کیا ریت ہے، کیا رسم فغاں ہے

دفتر سے فائلوں کی شکن کا مجاریہ

لوٹا ہے نصف رات سے پہلے تھکا ہوا

سخن رنگ مہکے وقارؔ خلیل

قطب شہ کی دکنی میں پیاراد سے

عاشقاں ہو تو روز دید کرو

خوب خوشیاں مناؤ عید کرو

٭٭٭

 (مطبوعہ روزنامہ ’’مصنف‘‘ حیدرآباد)

محمود ایاز ؔ… (ایڈیٹر ’’سوغات‘‘ محمود ایازؔ بھی فردوسِ مکاں)

٭٭

       بنگلورو۔  ۲۹ مارچ (یو این آئی) روزنامہ ’’سالار‘‘ بنگلور کے بانی مدیر جناب محمود ایاز کا مختصر سی علالت کے بعد آج ایک خانگی ہاسپٹل میں انتقال ہو گیا۔  اُن کی عمر ۶۸ سال تھی۔  پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو فرزند ہیں۔  جناب محمود ایاز دود ہوں تک اس اخبار سے وابستہ رہے اور اب وہ ادبی جریدہ ’’سوغات‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔  چیف منسٹر کرناٹک مسٹر جے ایچ پٹیل نے ان کے انتقال پر رنج و ملال کا اظہار کیا ہے۔

٭٭

       اور روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد کے ۳۰ مارچ ۱۹۹۷ء کے شمارہ میں بھی یہ خبر بے حد اندوہناک ملی کہ جدید اُردو شاعری کا یہ چمکتا ہوا ستارہ بھی غبارِ زماں میں گم ہو گیا۔

       محمود ایاز کے نام سے ’’سوغات‘‘ کا نام اسی طرح منسلک ہے جس طرح ’’نقوش‘‘ محمد طفیل، ’’شب خون‘‘ سے شمس الرحمن فاروقی، ’’افکار‘‘ سے صہبا لکھنوی، ’’اوراق‘‘ سے وزیر آغا اور ’’صبا‘‘ حیدرآباد سے سلیمان اریبؔ وغیرہ اُردو کی نئی تحریر کے لیے راہ کھولنے والے، نئی سمت کی تلاش کرنے والے اور نئی ادبی تنقید کو مروج کرنے والے رسائل میں اہم نام ہیں۔  سوغات تو چلتا رکتا، ٹھہرتا اور پھر چلتا رہا۔  آخر دنوں تک محمود ایاز نے اسے اسی طرح معنی خیز اور معیاری رکھا۔  میرے پاس ۱۹۹۵ء کے اواخر تک کا سوغات موجود ہے۔  وہی ضخامت، وہی متوازن طباعت۔

       محمود ایاز جیسے عمدہ مدیر اخبار و جریدہ تھے ویسے ہی ایک نمائندہ شاعر بھی تھے۔  ان کا ایک شعر جو میرے ذہن میں بازگشت کی صورت نقش ہے وہ کچھ یوں ہے:

بند آنکھوں سے سبک سیر زمانے دیکھے

جاگتی آنکھوں نے بس خواب کا چہرہ دیکھا

       ان کی ایک نظم جو ’’نمائندہ‘‘ جدید نظموں کے انتخاب ’’نئی نظم کا سفر‘‘ (مرتبہ خلیل الرحمن) میں شریک ہے، اس کا یہ بند تو غضب کا ہے:

’’سموم و ریگ کے صحرا میں اک نفس کے لیے

چلی ہے باد تمنا تو عمر بھر کی تھکن

سر مژہ سمٹ آئی ہے ایک آنسو میں

یہ وہ گہر ہے جو ٹوٹے تو خاک پا میں ملے

یہ وہ گہر ہے جو ٹوٹے تو شب چراغ ہے‘‘   (سب چراغ)

       مرحوم کا مجھ پر یہ ذاتی احسان تھا کہ میری تخلیقات کو سوغات میں اشاعت پذیر کیا، وہ بھی اُس وقت کہ جب میں ادبی فضا میں ایک نیا نام بھی تھا

       اُردو کا ایک اور سپاہی پردۂ اجل میں جا چھپا، خدا اُسے سایۂ رحمت میں اور اُردو والوں کو اس سانحہ پر صبر عطا فرمائے۔

٭٭٭

 (مطبوعہ ’’کویت ٹائمز‘‘ اُردو سکشن)

غیاث کی قبر پر ایک پھول (غیاث متینؔ مرحوم)

٭٭

ایسے پلٹے کہ کوئی حرفِ وداعی نہ کہا!

کیا مرے دوست یہی وعدۂ ہم سفری تھا؟

ایک چھنآکے سے تصویر یہ کیا ٹوٹ گئی

اک نفس روک کے بدمست ہے کیوں تند ہوا

ایک مضبوط سی آواز یہ کیا ڈھ گئی ہے

کیسا سیلاب تھا جو لے گیا امکاں کو بہا

تم تو کیا شعر سناتے تھے کہ جاں جاگتی تھی

تم نے کیوں رشتۂ ترسیل کو یوں قطع کیا

سب کو سننی تھیں بہت اور بھی نظمیں غزلیں

دفعتاً سامعہ کا ربط یہ کیوں ٹوٹ گیا

اب بھلا کیا ہے اسلمؔ اے مرے دوست غیاثؔ

کہنے سننے کا یہ در تم نے ہے خود بھیڑ دیا

باغِ جنت میں رہو، تم پہ ہو مولیٰ کا کرم

اب یہی ہے دل مہجور کی پُر درد دُعا!

٭٭٭

(مطبوعہ روزنامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد)

آہ! زبیرؔ رضوی

(ایڈیٹر ’’ذہنِ جدید‘‘ زبیرؔ رضوی کی رحلت پر ایک تحریر)

       زندگی کے معصوم مناظر سے معنی خیز بوقلموں، نثری پیکر تراشنے والا ایک اور شاعر فنا کے پردۂ خفا میں چلا گیا۔  زبیرؔ رضوی کا انتقال میرے لیے اس لیے ذاتی نقصان ہے کہ ان دنوں ان کی شاعری اور ان کے رسالے ’’ذہنِ جدید‘‘ سے مجھے عجیب سی رغبت ہو گئی تھی۔  زبیرؔ کے کلام اور ہر نئے شمارہ کا مجھے انتظار رہتا۔  کالج کے دنوں میں مَیں نے جب ان کا مجموعۂ کلام ’’خشتِ دیوار‘‘ حاصل کیا تھا تو ان کی شاعری کے تناظر میں سادگی اور پُر کاری، عمق اور دو بینی پر مبنی سخن کی ایک اور جہت سے میرا تعارف ہوا۔  ان کے اشعار کو گنگنانے میں عجیب سا سکون ملتا تھا۔  اس کلام میں کلاسیک کا توازن بھی تھا اور نئے پن کی جدت بھی اشعار اور اسٹانزے دل میں جاگزیں ہونے لگے۔

       ان کا انتقال مجھے اچانک صدمے کی طرح ہے۔  ابھی ابھی ’’ذہنِ جدید‘‘ کا ۷۱ واں شمارہ موصول ہوا تھا، اخترؔالایمان پر خوبصورت گوشہ اس شمارہ میں امتیازی خصوصیت رکھتا ہے۔  اب تک ذہن جدید کے کئی خاص نمبر شائع ہوئے لیکن اس گوشہ نے مجھے مجبور کیا کہ ان سے بات کی جائے۔

       مجھے ان کا موبائل نمبر بھی درکار تھا، فون اُنھوں نے ہی اُٹھایا، غالباً ۱۴ فروری ۲۰۱۴ء کی بات ہے۔  بہت خلوص سے بات کی، کہنے لگے میں اُس قسم کا آدمی نہیں کہ موبائل رکھوں۔  آپ ہمیشہ ’’ذہن جدید‘‘ کا خیال رکھتے ہیں، میں نے ایک گذشتہ اداریہ میں آپ کا ذکر بھی کیا ہے۔  میں نے ان کی شاعری اور تحریروں کا تذکرہ کیا اور سنگ صدا (اُن کے نئے کلیہ) حاصل کرنے کی تمنّا کا اظہار کیا۔  کہنے لگے آپ Email میں ایسی کتابیں لکھ دیں، روانہ کر دی جائیں گی۔  اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ ادب ہی اُن کا سب کچھ نہیں اُنھوں نے آرٹ اور کئی دوسرے موضوعات پر بھی لکھا ہے۔

       یہ سچ بات ہے کہ زبیر رضوی نے شعر و سخن پر بڑا قیمتی سرمایہ چھوڑا ہے، وہ جدید شعر و ادب کے رہنما شاعروں میں سے تھے۔  اس کے علاوہ اُنھوں نے فلم، فن، آرٹ، پینٹنگ، صنعت اور شخصیات پر خوب لکھا ہے۔  ان کے رسالے ذہنِ جدید کی نوے فیصد تحریریں ان کی ذاتی تحریریں ہوتیں۔  شاعروں، افسانہ نگاروں، ناقدوں، فن کاروں اور اداکاروں کے تعارف اور تذکرے ان کی تحریروں کے دائرہ میں آئے تھے۔  اپنے اداریوں میں کھل کر سامنے آتے تھے دانشوروں اور پُر خلوص ادیبوں کے احساسات کے ترجمان ہو جاتے تھے، اُردو کے اداروں اور محفلوں کی بے اعتدالیوں کے شاکی تھے۔  اردو کے اداروں میں ناقص لوگوں کے تعین پر غم زدہ بھی۔  ابن الوقت قسم کے اربابِ حل و عقد سے متنفر بھی۔

       بہ ہر حال بہت سی باتیں ہیں جو گفتنی ہیں۔  اب تو زبیر رضوی کی زندگی کا ادبی فنی اور قلمی فکر کا یہ سفر ۲۰ فروری ۲۰۱۴ء کو تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔

       ان کی شاعری بے حد دلآویز تھی، سقم اور لسانی خامیوں سے بالکل پاک، با وقار لب و لہجہ اور خود شناخت ڈکشن سے سجی ہوئی بھی تھی۔  گہر سفتنی کی طرح۔  اس شاعری کا ماحول زندگی کے قریب تر تجربوں کی آئینہ داری کرتا ہے، یہ کلام اس کرب کا بیانیہ بھی تھا جو ایک دردمند فن کار کے داخلی احساسات سے متعلق تھا۔  اُن کی نظم ’’علی بن متقی رویا‘‘ اُردو کی اہم نظموں میں گنی جاتی ہے۔  جب شاعر بے حد افسردہ ہو کر رکھتا ہے:

’’پرانی بات ہے

لیکن۔۔۔

یہ پہلا دن تھا مسجد میں کوئی عابد نہیں آیا

علی بن متقی رویا۔۔۔‘‘

       تو قاری کے دل میں ایک گہرا زخم ابھر آتا ہے۔

       زبیر رضوی کی خوبصورت غزلوں اور نظموں کے چند اقتباسات آپ کی آنکھیں نم اور روح تازہ کرنے کے لیے کافی ہیں:

پرندے

فضاؤں کی لہروں پہ

ننھے سفینے کی مانند بہتے ہوئے

وسعتیں ناپتے ہیں        (موسم کا المیہ)

تم کس سوچ میں ڈوب گئی ہو؟

ہاتھ کا پتھر

پانی کے سینے پر مارو

میں پانی ہوں (تم کس سوچ میں)

زندگی تجھ سے مل کر زمانہ ہوا

آ تجھے آج ہم میکدے لے چلیں

رات کے نام ہونٹوں کے ساغر لکھیں      (ایک نظم)

دونوں ہم پیشہ تھے، دونوں میں ہی یارانہ تھا

قاتلِ شہر سے پر ربط رقیبانہ تھا

وہ کھلے جسم پھرا شہر کے بازاروں میں

لوگ کہتے ہیں یہ اقدام دلیرانہ تھا

وضع اربابِ جنوں کھنچ کے ملے ہے ہم سے

پھول ٹانکے ہیں نئے ہم نے گریبانوں میں

چمکتی دھوپ تم اپنے ہی دامن میں نہ بھر لینا

میں ساری رات پیڑوں کی طرح بارش میں بھیگا ہوں

       بہت ساری نظمیں اور غزلیں اور سب ہی اپنی قدر و قیمت میں بیش بہا۔  اے کاش! اُردو کے چاہنے والے ان کی صحیح قدردانی کریں۔  زبیرؔ نے اپنے موقر رسالے ’’ذہنِ جدید‘‘ میں میری شاعری اور میرے شکیبؔ جلالی کی شاعری پر مضمون کو مناسب وقار سے شائع کیا۔  یہ اُن کی محبتیں تھیں۔  اُنھوں نے نثر میں بھی ایک وقیع سرمایہ چھوڑا ہے، اُن کی کتابیں اور مضامین ذہن و دل کے دروازے وا کرتے ہیں۔  ایم ایف حسین، زہرہ سہگل، محمد رفیع، ستیش گجرال، مناڈے، وارث علوی، خوشونت سنگھ، وحیدہ رحمن اور نہ جانے اور کئی ہستیاں ان کے مضامین کا موضوع بنیں۔  زبیرؔ رضوی اُردو کے ایک اہم ادیب و شاعر تھے، اللہ ان کو فردوسِ بریں میں مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل دے۔۔۔

٭٭٭

 (مطبوعہ روزنامہ ’’اعتماد‘‘ حیدرآباد)

چند اور تبصرے …

’’کتاب نما‘‘ کا خصوصی نمبر …نئی نظم کا سفر

مرتبہ:  خلیل الرحمن اعظمی

       مکتبہ جامعہ اس بات کے لیے قابل تحسین و آفریں ہے کہ مکتبہ علمی اور ادبی خدمات کو صحیح اور پُر خلوص انداز سے انجام دیتا ہے۔  اچھے اور معیاری ادب کی اشاعت اس کا وثیقہ رہی ہے۔  زیر نظر ’’کتاب نما‘‘ کا نئی نظم نمبر ہے۔  جس میں ادارہ نے اردو کی نئی نظم کا ایک خوش طبع انتخاب پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

       اس خاص نمبر کی ترتیب و تالیف خلیل الرحمن اعظمی نے وحید اختر اور منیب الرحمن کی مدد سے کی ہے اور اس کا ابتدائیہ بھی اعظمی صاحب نے لکھا ہے۔  اردو شاعری کا انتخاب شائع کرنا ایک مستحسن عمل ہے بہ شرط یہ کہ اصول انتخاب میں ایک خاص طرز کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ نئے رجحانات کو بھی پیش کیا جائے یعنی نہ صرف یہ کہ شاعری نئی ہو۔  شاعری کی ہیئت، اسلوب اور اندازِ اظہار میں بھی ندرت ہو! اس انتخاب سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرتب نے تمام مکاتیب کے نمائندوں کے گلوں میں ہار ڈال کر انھیں جدید بنانے کی کوشش کی ہے۔

       ابتدائیہ میں اعظمی صاحب نے اپنے ان ضابطوں کا اظہار کر دیا ہے جن کو وہ نئی نظم سمجھتے ہیں اور اردو کی نظموں پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔  سب سے پہلی بات تو یہ کہ انھوں نے نئی اُردو نظم کو اپنی نوجوانی سے ہم آہنگ کر دیا ہے اور کہا یہ کہ اُردو کی نئی نظم ۱۹۵۵ء سے نہیں ۱۹۳۶ء سے شروع ہوتی ہے۔  اس لیے کہ اعظمی صاحب کو اس امر پر اصرار ہے کہ نئے طور پر اور روایت سے ہٹ کر جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ سب نئی نظم ہے۔  ملاحظہ فرمائیے صفحہ ۱۳ ’’یعنی اگر ایک شاعر نے اس دور میں (۱۹۳۶ء کے بعد) بھی کچھ ایسی نظمیں لکھی ہیں جو مسائل اور موضوعات کے اعتبار سے نئی اور مختلف ہیں لیکن اسلوب، رویے، مزاج، لہجہ اور آہنگ کے اعتبار سے گزشتہ دور کے شعرا کی یاد دلاتی ہیں تو ہم نے ایسی نظموں سے قطع نظر کیا ہے۔‘‘

       اس اصول سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ اس مجموعہ میں شامل ۱۹۳۶ء کے بعد نئے شعرا میں کسی شاعر کی نظم پرانے دور کے شعرا کے اسلوب، رویے، مزاج، لہجہ اور آہنگ کی یاد نہیں دلاتی۔  اب آپ انتخاب اٹھائیے۔  اختر انصاری کی نظم ’’جبر حیات‘‘ اس کے بعد اقبال کی نظم ’’دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب‘‘ کو سامنے رکھیے۔

       اس سے پہلے ہم اس بات کو پیش رکھیں کہ ۱۹۳۶ء سے پہلے اردو کے گنتی کے چار پانچ شعراء اس مجموعہ میں قابلِ ذکر ہیں کیوں کہ نظم کا نشہ اتر رہا تھا۔  اس کے باوجود حفیظ جالندھری، اختر شیرانی اور قتیل شفائی کو نہ ہی پرانے موضوع پر نہ ہی پرانے اسلوب کے عنوان سے ناقابل اعتنا کہا جا سکتا ہے۔  لیکن ہمارا مقصد اگر نئی نظم کی نمائندگی ہے تو کچھ دیر کے لیے اپنی پسند و نا پسند کو پس پشت رکھ انتخاب کرنا ہو گا۔  ایسی حالت میں فراق، سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، مختار صدیقی، یوسف ظفر، سلام مچھلی شہری کو کسی بھی طرح نئی نظم کا شاعر نہیں کہا جا سکتا۔

       میرے خیال میں انتخاب کے لیے جس اصول کو پیش نظر رکھا گیا وہ جدید نظم ہی کے لیے نہیں، قدیم نظم کے لیے بھی موافق ہے اور اس طرح انتخاب ناقص ہو جاتا ہے۔  مثلاً کوئی وجہ نہیں کہ جوش کی نظمیں اور اختر شیرانی کی نظمیں رد کر دی جائیں۔  ان کے پاس بھی فراق اور سردار جعفری کی نظموں کے انداز کی ان نظموں سے بہتر نظمیں ہیں اور اگر غور کیا جائے تو ۱۹۳۶ء سے ۱۹۵۰ء تک جو نظمیں لکھی گئی ہیں وہ نظمیں موضوع و اسلوب کے اعتبار سے جدتِ مائل ہیں جدید نہیں سوائے چند شعراء کے۔  ایک اور بات اس انتخاب میں نظر آتی ہے وہ نمائندگی کا فقدان ہے۔  مرتب نے جن شاعروں کی نظمیں منتخب کی ہیں وہ نظمیں ان شاعروں کے نئے شاعر ہونے کو جھٹلاتی ہیں مثلاً سلام مچھلی شہری کی نظمیں جو کہ بہ ہر حال ان کی شاعری کے عام لہجہ سے مختلف ہیں۔  بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آپ افتخار جالب کو پڑھیں تو اس نظم کے ذریعہ جو اس کے عام لہجے سے مختلف ہو۔  احمد ہمیش کے ساتھ تو ایسا ظلم ہوا کہ بے چارہ مسخ ہو کر رہ گیا ہے۔  غالباً مرتبین کے دل میں کوئی دشمنی تھی نہ تو یہ نظم اس کو پوری طرح نمایاں کرتی ہے نہ ہی اس کا کھردرا لہجہ محسوس ہوتا ہے۔  شہریار کی نظموں میں اس کی نثری نظموں کی غیر موجودگی کھٹکتی ہے۔  صحیح بات تو یہ کہ مرتب نے نئے لہجوں اور نئے اسالیب کو اہمیت ہی نہیں دی ہے اور وہ ایک ہی طرح کی نظم جمع کرنے میں لگے رہے۔

       ڈاکٹر تاثیر کی نظم ’’لندن کی ایک شام‘‘ سے بہتر تو ان کی نظمیں ’’یدبیضا‘‘ اور ’’رس بھرے ہونٹ‘‘ تھیں۔  شاد عارفی اور راجہ مہدی علی خاں کی نظمیں نئی نظم سے مختلف ہیں۔ ساحر اور کیفی کی شاعری اس پیمانے کے مطابق ناقابلِ اعتنا ہے اور ان کو نیا کہنا ادبی سیاست ہے۔

       حیدرآباد کے شاعروں سے خاص احتیاط برتی گئی ہے ورنہ نئی نظم میں وقار خلیل، تاج مہجور، حسن فرخ اور رؤف خلش کا نام تو کم از کم آنا ہی چاہیے۔  صادق کی ایک ہی تخلیق لی گئی ہے۔  بشر نواز جیسے نئے شاعر کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔  ہاں پاکستان کا ہر شاعر جدید ہے اور قابل اعتنا ہے۔

       ان تمام خامیوں کے باوجود اس مجموعے کی اہمیت مسلمہ ہے کہ اس میں اردو کے ستر (۷۰) فی صد اچھے نظم گو شریک ہیں اور بہت ہی اچھی نظمیں موجود ہیں۔  اس لیے اس انتخاب کا مطالعہ ادب کے طالب علم کے لیے مفید بھی ہو سکتا ہے۔

        ناشر:  مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی۔  ضخامت:  ۳۶۰ صفحات۔  قیمت:  ۵۰/۶ روپے۔

انتخاب کی قیمت مناسب اور طباعت خوبصورت ہے۔ (مشمولہ ’’برگِ آوارہ‘‘ ۱۶ جنوری ۱۹۷۳ء)

٭٭٭

تنقیدی مضامین کا مجموعہ … ’’شعر، غیر شعر اور نثر‘‘

مصنف:  شمس الرحمن فاروقی

       احمد سلیم کے خوبصورت آرٹ کے سرورق سے آراستہ یہ کتاب عمدہ ہے۔  شمس الرحمن فاروقی گزشتہ دس پندرہ برسوں سے جس تندہی، خلوص اور باریک بینی سے تنقید و تبصرے کے میدان میں جولانیِ طبع دکھا رہے ہیں اُس سے ادب کا ہر رسیا واقف ہے۔

       فاروقی کے اندازِ تنقید میں حسب ذیل چھ خصوصیات کی ترکیب ہے:

۱۔  تجرباتی نگاہ سے ہر نکتہ کا مطالعہ اور شناخت۔

۲۔      دعویٰ اور دلیل۔

۳۔  مخالف نقطۂ نظر کا مطالعہ اور شدت سے اس کی تردید۔

۴۔     نظریاتی رجحان اور اخذ و تحصیلی طرز خصوصاً مغربی اُدبا سے ’’بے انتہا متاثر انداز‘‘۔

۵۔     ہیئت کی تفہیم اور ہیئتی تراکیب پر خصوصی نگاہ۔

۶۔     زبان اور تراکیب کی تربیت۔

       ان کے مضامین کا انداز منظم ہوتا ہے۔  پہلے وہ ابتدائیہ کے طور پر زیر بحث بات کی اہمیت اور بناطت پر نظر ڈالتے ہیں۔  پھر ان تمام اراکین کا جائزہ لیتے ہیں جو بحث کے لیے ضروری ہوں۔  پھر ایسے مفروضات کو لیتے ہیں جو اُن مضامین کے مطابق مقبول عام ہوں۔  ان مفروضات اور نظریات کی روشنی میں وہ ایک خاص زاویہ کی وکالت کرتے ہیں اور جتنے بھی مخالف نظریات ہوں ان کو شدید طور پر رد کر دیتے ہیں۔  اس تردید میں بھی بلا کا مدلل انداز اور ذہانت کی شعلگی ملتی ہے۔  فاروقی نے ہیئت اور لفظیات کو بہت اہمیت دی ہے۔  وہ الفاظ کے بناؤ سنگھار، تراش و خراش پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

       فاروقی کا انداز بیان ابتداً بہت تیز و ترش تھا جس سے تازگی جھلکتی رہتی ہے۔  اس مجموعہ میں ’’ادب کے غیر ادبی معیار‘‘ ایسا ہی مضمون ہے۔  اس قسم کے مضامین میں تحقیقی صلاحیت زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے بہ شرطیکہ انداز تحریر صحافتی نہ ہو جائے۔  آہستہ آہستہ فاروقی کے لہجے میں سنجیدگی پیدا ہو گئی اور جھکاؤ تجزیاتی اور کاملیت پسند گفتگو کی جانب ہو گیا ہے۔

       فاروقی کی تنقیدی زبان شستہ اور عمدہ ہے۔  وہ قاری کو رہ رہ کر نئے رخوں کی جانب موڑ دیتے ہیں۔  ایک مرکزی فکر کے تحت فاروقی ایک مباحثے کو ترتیب دیتے ہیں۔  لیکن وارث علوی کی طرح ہر اس بات کو جو جملہ میں آ گئی ہو ٹھونک ٹھونک کر بجاتے نہیں بلکہ کم الفاظ میں مختلف عکس رخوں کا جائزہ لیتے ہیں۔  اس کے باوجود ان کے پاس تجزیاتی نکات کی کمی نہیں ہوتی۔  اس طرح ایک طویل بیان سادہ اور سلیس نہیں رہ جاتا ہر جملہ میں ارتکاز پیدا ہو جاتا ہے۔

       فاروقی کے پاس بلا کی خود اعتمادی اور بے باکی ہے اور اس خود اعتمادی کے ساتھ وہ بات کو صاف اور بہترین طریقے پر پیش کرنے کے شائق ہیں۔  ادبی تنقید میں شخصی عناصر اور اخلاقیاتی فلسفہ کو نہیں الجھاتے۔  الفاظ کی پرکھ اور معانی کی تفہیم میں وہ زیر بحث ادیب سے ایک مختلف روپ میں ملتے ہیں۔  اس کا یہ مطلب نہیں کہ فاروقی ادیب کو کم تر سمجھتے ہیں لیکن ادب کی پرکھ کے لیے ایک غیر ملوث ذہن کی جس شدت سے ضرورت ہوتی ہے اس کا انھیں مکمل احساس ہے۔  اسی لیے وہ ادیب سے مرعوب ہو کر نہیں لکھتے اور نہ ہی وہ موضوع ادب پر بحث کرنے سے جان بچاتے ہیں۔  ہر دقیق موضوع پر سلجھے ہوئے انداز میں اپنی بات کہتے ہیں۔

       مثالیں دینے کا رویہ فاروقی تنقید کا ایک اہم رخ ہے۔  وہ اردو افسانے پر بات کرتے کرتے انگریزی، فرانسیسی اور جرمن افسانے کا ایک باذوق اور مکمل قاری کی طرح جائزہ لیتے ہے۔  اکثر مجھے یوں لگا ہے کہ فاروقی صاحب اختیاری (Intentional) طور پر عجمیت اور مغربیت کی جانب جھکاؤ پیدا کرتے ہیں۔

       شعر غیر شعر اور نثر، افسانے کی حمایت میں ن۔ م۔ راشد صوت و معنی کی کشاکش میں اور اکثر مضامین اسی مفروضے پر مبنی ہیں کہ قاری ادب کے بین الاقوامی نظریات سے نہ صرف واقف ہے بلکہ ہر زبان کا قاری ہے اورا یسی ہی صورت میں قاری ان مضامین میں شریک ہو سکتا ہے۔

       کتاب میں اکثر مضامین معرکۃ الآرا ہیں خصوصاً ’’علامت کی پہچان‘‘، ’’شعر، غیر شعر اور نثر‘‘، ’’نظم اور غزل کا امتیاز‘‘، ’’یے ٹس‘‘، ’’اقبالؔ اور ایلیٹ‘‘، ’’تبصرہ نگاری کا فن‘‘، ’’غالبؔ اور جدید ذہن‘‘ اور ’’برف اور سنگ مرمر‘‘۔

       اس کتاب کے اکثر مضامین ان عنوانات پر ہیں جن پر آج تک کسی اردو نقاد نے کھل کر بات نہیں کی۔  خصوصاً اس وضاحت کے ساتھ۔۔۔  اس کی ایک عمدہ مثال ’’صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ‘‘ ہے۔

       دوسری تنقیدی کتابوں کے مقابل فاروقی کی یہ کتاب با وزن اور صریح فکر سے مالا مال ہے۔  اس کے علاوہ کتاب کا انداز متوازن اور معلوماتی ہے۔  سطحی اور تعلیمی لہجے کی بد رنگی کہیں نہیں ملتی۔  ہر مضمون میں خوش بیانی کی رطوبت محسوس ہوتی ہے۔

       بلا شبہ یہ کتاب ایک عمدہ تنقیدی مجموعہ ہے اور ہر طالب علم اور خوش ذوق کے خزانہ میں اس کی موجودگی ضروری ہے۔ کتاب کی طباعت، کتابت اور گٹ اپ قابلِ تعریف ہیں۔

       ناشر:  شب خون کتاب گھر۔  ضخامت:  ۳۸۲ صفحات۔  قیمت:  ۱۸ روپے۔  (مشمولہ ’’برگِ آوارہ‘‘ ۸ جون ۱۹۷۴ء)

٭٭٭

مجموعۂ کلام ’’آئینہ در آئینہ‘‘

شاعر:  عزیز قیسی

       رسائی (Approach) کے کئی واسطے ہوتے ہیں۔  ہر ادیب و شاعر سے ایک ہی رنگ کا مطالعہ کرنا لایعنی ہے اور جدید شعر و ادب کا کوئی پیمانہ مقرر کرنا خال ہے۔  ہر اچھے شاعر کے پاس اس کا اپنا مزاج اور شعور ہوتا ہے اور شعور ہی اس میں تمیز و اعتبار کی خصوصی صلاحیت بخشتا ہے۔  اس وقت میرے سامنے مشہور شاعر عزیز قیسی کی نظموں کا مجموعہ ’’آئینہ در آئینہ‘‘ ہے جس پر ممتاز فن کار سعید بن محمد نقش کا عمل ہے جس کو میں ’’عکس مسلسل‘‘ کہہ سکتا ہوں۔  کتاب کا سرورق ہی اتنا معنی خیز اور سنجیدہ ہے کہ اس سے شاعر کے افکار کی عکاسی ہو جاتی ہے۔

       عزیز قیسی کی شاعری میں شعور ہے اور دانش ہے۔  وہ بہت ہی سوچے ہوئے طریقے سے منظر کو دیکھتے اور خیال کو زندہ کرتے ہیں۔  ان کی شاعری میں سوال ہی سوال ہیں۔  وہ ازل اور ابد میں انسانی زندگی کے طول کو ناپتے ہیں اور کھردرے اور باوزن لہجے میں (جو کہیں کہیں ٹوٹ بھی جاتا ہے) یہی سوچتے ہیں کہ ’’کاش ایسا ہوتا‘‘۔  ان کے پاس فکری تنوع ہے لیکن یہ سارا تنوع ایک خاص بنیادی لکیر پر ہے وہ بنیادی لکیر جو حیات و موت، ہستی زیستی، وجہ و نتیجہ کے درمیان سے گزرتی ہے۔  اس لکیر میں ان کے ترقی پسند اور مقصدی رجحانات کا بھی اثر ہے۔  قیسی نے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اظہار کے لیے کوئی سانچہ مقرر نہیں کیا ہے وہ جو سوچتے ہیں۔  اسے اسی طرح پیش کر دیتے ہیں۔  وہ اپنے اندر ہر مسرت سے ایک نیا عنصر پیدا کرتے ہیں اور جب سامنے چمکتی ہوئی روشنی آتی ہے تو جھلملاتے ہوئے آنسوؤں کو نہیں بھولتے لیکن اس میں یاسیت اور غم پسندی کا کوئی شائبہ نہیں۔  قیسی ایک باوضع ادیب ہیں ان کے پاس اعتماد ہے اور فکر میں نیرنگی۔  ان کا شعور سماجی شعور ہے وہ جانتے ہیں کہ ایک Establishment کی جگہ دوسرا Establishment ہی لیتا ہے اور اس لیے بستر گل کے خواب دیکھنے میں سوائے لذت کے کچھ نہیں مثلاً ان کی نظم ’’نئے لوگ‘‘ میں:

وہ ہم سے صدیوں پرانا چراغ چھین گئے

نئے چراغ پرانے، چراغ کے بدلے

وہ کاش اب کے بھی ایسا فریب دے جاتے

       ان کی شاعری میں علامات بھی بڑی ملفوظ ہیں۔  ملفوظ سے میری مراد یہ ہے کہ انھوں نے نئے الفاظ اور نئی علامات کو مدغم کیا ہے مثلاً ’’نالہ زن‘‘، ’’روئیدگی کی آس‘‘، ’’یکش نگری‘‘، ’’لا ولد بیج‘‘، ’’روح‘‘، ’’زندہ‘‘، ’’قرضِ مہتاب‘‘، ’’گواہ‘‘، ’’کفر‘‘ وغیرہ۔  اُنھوں نے اپنی نظموں میں واضح اداز کو بہت اہمیت دی ہے گرچہ کہ ابہام کی رمق سے ان کی کچھ نظموں میں وہ حسن آ گیا ہے کہ ایک باذوق ادیب ہی مزہ لے سکتا ہے۔  مثلاً ان کی نظمیں ’’ایک منظر، ایک عالم‘‘، ’’زہریلے پانیوں میں‘’، ’’قفس‘‘، ’’عہد نامۂ امروز‘‘، ’’چور بازار‘‘، ’’الف لیلیٰ کی آخری صبح‘‘، ’’یکش نگری‘‘، ’’کاواک‘‘، ’’مکان خالی ہے‘‘ فلسفیانہ رسائی ادب میں روکھا پن پیدا کر دیتی ہے اور اس سے ایک حد تک شاعری میں زردی آ جاتی ہے لیکن سماجی شعور ایک ادیب کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ جو دیکھ رہا ہے اس پر کچھ سوچے۔۔۔  عزیز قیسی کی شاعری نئے شاعروں پر بے حسی اور بے عقلی کا حرف لگانے والوں کے لیے ایک لمحۂ فکر ہے۔  ان کے پاس ’’زبان و بیان‘‘ کا اپنا انداز ہے۔  مثلاً:

وہاں زمیں پر جہاں میں رہتا ہوں

میرے پڑوس میں اک حسین دوشیزہ رہتی ہے

چھپ کے اک روز۔۔۔

روزنِ در سے اس کو خلوت کدے میں دیکھا تھا

’’میں نے‘‘

تو اس کا دوشیزہ جسم ایسا ہی لگ رہا تھا

ز کنار ما بہ کنار ما

پھر گئیں مرگ جذباتی کی ساعتیں

آنکھ میں ہیں جنازے سے اٹھتے ہوئے

ہم سفر ہاتھ پیوستہ باہم دگر

وقت کی تیرہ راہوں میں چھٹتے ہوئے

۔۔۔  چاندنی کے شہر میں

       عزیز قیسی کی نظموں میں بے نقاب چہرے ہیں اور کھلا ہوا مطلع ہے انھوں نے الہامیات کا انداز بھی اپنایا ہے اور اس انداز میں ان کے لہجے کی لفاظی نے بڑا مزہ بھی دیا ہے ان کی شاعری میں فن ہے لیکن تماشہ نہیں بے معنویت نہیں۔۔۔  اسی لیے ان کا مجموعۂ کلام اہم ہے۔  تعجب یہ ہے کہ کتابت میں جا بہ جا خوش نویس صاحب نے لغزش کی ہے اور پروف ریڈنگ اچھی نہیں کی گئی۔  اغلاط کی فہرست اگر آخر میں لگائی جاتی تو بہتر تھا۔۔۔

       وحید اختر صاحب نے خوبصورت اور عمیق پیش لفظ لکھا ہے۔  کتابت اور طباعت دیدہ زیب ہے۔  قیمت بہت مناسب ہے۔

       ناشر:  ’’مکتبہ صبا‘‘، حیدرآباد۔  ضخامت:  ۱۴۲ صفحات۔  قیمت:  ۴ روپے۔

       سول ایجنٹ:  مکتبہ جامعہ، دہلی۔  (مشمولہ ’’برگِ آوارہ‘‘ یکم اپریل ۱۹۷۱ء)

٭٭٭

مجموعۂ مضامین ’’گزرگاہِ خیال‘‘

مصنفہ:  ساجدہ زیدی

       گزرگاہ خیال اردو نظم کے جدید دور کی ایک اہم شاعرہ ساجدہ زیدی کے نمائندہ مضامین کا مجموعہ ہے۔  جس میں متنوع موضوعات (ادب اور شعر کے تناظر میں) زیر بحث لائے گئے ہیں۔

       ساجدہ زیدی کی یہ کتاب، تخلیق شعر کے اسرار و رموز سے شروع ہوتی ہے۔  شاعرہ نے کوشش کی ہے کہ شعر کی تخلیق میں جن عوامل اور عناصر کا بنیادی کردار ہوتا ہے ان کو سہل انداز میں سمجھا جائے۔  اس میں شک نہیں کہ ’’اسرار و رموز‘‘ کم ہی منکشف ہوئے ہیں، مضمون عام احساسات اور موضوعات کو چھو پاتا ہے اور اسرار اسی طرح پس پردہ رہ جاتے ہیں۔  ساجدہ کا یہ مضمون پھر بھی مروجہ تنقیدی مضامین سے الگ اور بالکل مختلف نہیں، لیکن شاعری کو سمجھنے کے لیے راہ بناتا ہے اور اس لیے اہم ہے۔  لب و لہجہ میں معلمانہ سنجیدگی بھی مضمون کو اعتبار بخشتی ہے۔  چند دعوے اور جملے آخر تک منشرح نہیں ہو پاتے۔  مثلاً ’’عریانی موضوعِ تخلیق نہیں محض عمومیت ہوتی ہے‘‘، ’’نوحہ و نالہ اور المیہ احساس میں فرق ہوتا ہے‘‘۔  ’’یہ وہ سب رموز ہیں جن کی بنا پر اعلیٰ شعری تخلیق کسی مخصوص و محدود نظریہ یا تحریک کی اسیر نہیں ہوتی‘‘ اور اس طرح کے کئی جملے اور دعوے قاری کو الجھا دیتے ہیں کیوں کہ ان کی دلیلیں کمزور ہیں۔  اس طرح یہ مضمون اپنی تشنگی کو قائم رکھتا ہے۔

       ساجدہ زیدی نے اپنے مضامین کی خاص نقطہ نگاہ، طرز شعر و ادب اور رویہ کو پیش نہیں کیا ہے۔  انھوں نے مختلف جہتوں بلکہ مخالف سمتوں سے شاعروں کو موضوع بنایا ہے۔  جن شعرا کو خصوصی مطالعہ کے لیے منتخب کیا گیا ہے وہ بھی ایک دوسرے سے ربط نہیں رکھتے۔  غالبؔ، اخترؔالایمان، جگن ناتھ آزادؔ، علیم اللہ حالیؔ، عنوانؔ چشتی اور رضا اشکؔ میں بہت کم کوئی مشترک قدر اور ہم مزاج نظریہ ملے گا۔

       کتاب کا پیش لفظ مصنفہ کی فکر، نظریہ تنقید اور ذاتی احساسات پر محیط ہے۔  مصنفہ نے صاف صاف اظہار کیا ہے کہ انھوں نے مغربی نقادوں کی تھیوریز کو اہمیت نہیں دی اور راست تخلیق کاروں سے تنقیدی شعور کا اکتساب کیا ہے۔  وہ اپنے آپ کو ’’سکہ بند‘‘ نقاد نہیں مانتیں۔  ان کے خیال میں ہیئت و موضوع میں دوئی نہیں ہوتی بلکہ ہیئت اور موضوع ایک دوسرے سے جدا نہیں۔  فیض کی شاعری کا آہنگ، ان کے مقبول، نظریاتی افق میں اس حد تک مضمر نہیں جس حد تک حرکی صوتی حسن میں شامل ہے جو نغمگی، بحروں اور استعارات و علائم کے غیر روایتی استعمال سے معنون ہے۔

       بہت دنوں کے بعد ایک ایسی ادبی تنقید کی کتاب ملی ہے جس کی مصنفہ اپنی سوچ کی ایک خاص سمت رکھتی ہے۔  اس بات سے بلند ہو کر کہ کس حد تک ان کے بیانات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔  یہ بات تو قابل تعریف ہے کہ مصنفہ نے بلا کسی تحفظ کے اپنے نقاط نظر کو سر عام پیش کیا ہے۔

       ساجدہ نے شاعروں کے کلام کا بھی مطالعہ اسی تنوع اور غیر عمومی طریقے سے کیا ہے۔  ان کی تحریروں کے چند اور نمونے پیش ہیں:

        ’’ ۱۔    غالبؔ کا غم دردِ محرومی سے پیدا شدہ مایوسی نہیں تھا۔  قویٰ کو مضمحل کرنے والی اداسی نہیں تھا۔  ایک منفعل کیفیت وجود نہیں تھا، زندگی سے بیزاری نہیں تھا، یہ ایک فعال خلاق، ہمہ گیر اور تحرکی قوت تھا، جو انسان کے اضطراب باطن سے روشنی کی طرح پھوٹتی ہے۔۔۔‘‘ (غالب کا تصور غم)

        ’’ ۲۔    ایک تصور وقت کا وہ بھی ہے جو راقم الحروف کی شعری تخلیقات کے پردے میں جھلکتا ہے۔  زماں جو رفتار و حرکت کا سفینہ ہے، جاری و ساری ہے، موجودات و مظاہر پر حاوی ہے، لا انتہا ہے، جو وجود خداوندی کا مظہر ہے اور جس سے انسانوں کی تقدیریں وابستہ ہیں۔  حیات کے پیچ و خم بنتے بگڑتے ہیں۔۔۔  (اختر الایمان)

       عبارتوں میں بڑی روانی ہے بات کے رخ بدلتے رہتے ہیں، لفظ پر لفظ، جملے پر جملے، انوکھے قرینے سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ساجدہ محو گفتگو ہیں، لکچر دے رہی ہیں، لیکن ساری بحث تصمیم کی تکرار سے قاری کو کہیں نہیں لے جا پاتی۔  کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔  پس پردہ ہی رہ جاتا ہے۔

        ’’گزرگاہِ خیال‘‘ ایک اچھی کتاب ہے اور اُردو کے قاری کو ضرور متوجہ کرے گی۔

       یہ کتاب دوسری تنقیدی کتابوں سے بالکل مختلف ہے اور اس لیے اُردو حلقوں میں پسند آئے گی۔  کتاب کی اہمیت کے لحاظ سے اس کی قیمت کم ہے، ضخامت مناسب ہے اور پیش کش بھی معیاری ہے۔

       زیر اہتمام:  تخلیق کار پبلیشرز، B /۱۰۴، یاور منزل، لکشمی نگر، دہلی۔  ۱۱۰۰۹۲

ضخامت:  ۲۳۶ صفحات۔ قیمت:  ۱۰۰ روپے (مشمولہ ’’سب رس‘‘ جون ۲۰۰۰ء)

٭٭٭

شعری مجموعہ ’’کتنی حقیقت، کتنا خواب‘‘

شاعر:  سید شکیل دسنوی

       سید شکیل دسنوی قبولیتِ عام کے شاعر ہیں، ان کا مجموعہ بنیادی طور پر غزلوں کا مجموعہ ہے۔  شکیل صاحب نے اردو شاعری کے روایتی موضوعات کو نئے لہجے میں کم تجرباتی طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح وہ حسن و عشق، خواب و تعبیر، سمندر و سفینہ، رہ گزر اور سفر ہجر و وصال کی داستانوں کو ایک بار اور اردو کے قاری اور سامع کے سامنے لے آتے ہیں۔  انھوں نے سہل، عام فہم زبان منتخب کی ہے، ان کی زبان مستعملہ روزمرہ سے قریب تر ہے اور اس طرح ان کی گفتگو عوام سے ہے۔

       اس کتاب کو ممتاز فلمی شخصیات کی آرا سے آراستہ کیا گیا ہے جن میں مجروح سلطان پوری کا اپنی ادا میں لکھا ہوا فکر انگیز پیراگراف ’’گلزار اور نوشاد صاحب کی ہمت افزا تحریریں بھی ہیں، یوسف ناظم صاحب کا پیش لفظ بھی خوب ہے۔  مخمور سعیدی، مظفر حنفی، کرامت علی کرامت نے ان کے کلام کا جائزہ لیا ہے۔  شکیل صاحب کی غزلوں میں ایک زندگی سے پیار کرنے والا شاعر سامنے آتا ہے جو رہِ حیات میں بھی اور رہ گزر وفا میں بھی جہدِ مسلسل کرتا ہوا ملتا ہے۔  ان کے اشعار کی چند مثالیں پیش ہیں:

جب تو نہیں تو آتی رہی اور تیری یاد

ہالہ بچھڑ گیا تو رہا چاندنی کے ساتھ

نظر نشیلی، حسیں روپ، چھاؤں زلفوں کی

بنائے رکھتا ہے یادوں کے سلسلے وہ بھی

جدھر بھی پھینکیے، مڑ کر، ادھر ہی آئے گا

لہو شناس ہے پتھر، ادھر ہی آئے گا

دل میں بسائے یادیں تیری

راہِ وفا سے تنہا گزرے

       اور ایسے ہی بہت سے اشعار۔ یہ کتاب سید شکیل دسنوی کے چاہنے والوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔ ناشر:  ایڈشاٹ پبلیکشنز، B / ۱۰۴، استما مکان III-، نیا نگر، میرا روڈ، ایسٹ ممبئی۔

ضخامت:  ۱۷۶ صفحات۔  قیمت:  ۱۵۰ روپے۔ (مطبوعہ ’’سب رس‘‘ ۲۰۰۵ء)

٭٭٭

غزلوں کا مجموعہ …شام ڈھلے سویرا

شاعر:  مصطفی شہاب

       یہ کتاب ایک خوش کن حیرت سے ہمیں روشناس کرتی ہے۔  اردو کے کیسے کیسے قادر الکلام اور پر مغز سوچ والے ادیب و شاعر کس طرح اپنے آپ کو یا تو پوشیدہ کیے ہوئے ہیں یا بُعد مکانی انھیں پردۂ غیب میں رکھے ہوئے ہیں۔  مصطفی شہاب نے اگر یہ سو غزلیں ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۲ء کی تین سال جیسی قلیل مدت میں لکھی ہیں تو بلا شبہ اُن کے اندر ایک انتہائی رواں سوچ کا دریا چھپا ہوا ہے۔  اُن کی فکر میں تازگی بھی ہے اور مضامین میں نیا پہلو بھی ہے۔

       مصطفی شہاب نے جب دکن سے سفر کیا تھا اُس وقت کی زبان و بیان کی تہذیب اُن کی شعری صلاحیتوں میں آج تک پس منظر کا کام کر رہی ہے۔  اس لیے تراکیب، تشبیہات اور شاعری کی زبان میں مستعمل موضوعات اُسی لب و لہجہ پر مبنی ہیں گرچہ نئی فکر اُن کو نئے زاویے عطا کرتی نظر آتی ہے۔

       مصطفی شہاب کی شاعری میں جو استعارے ہیں وہ تشبیہات سے قریب تر ہیں اور جو تشبیہات استعمال ہوئی ہیں وہ ترقی پسند تحریک میں اکثر و بیش تر رائج رہی ہیں۔  مثلاً سفر، منزلیں، فاصلہ، کھنڈر، بال و پر، سایہ شجر وغیرہ۔  اب آپ خود ہی دیکھیں کہ اس خلاق شاعر کے کلام میں ان موضوعات نے کیا روپ بدلے ہیں:

جب تک میں نہ ہو کے گزرا کتنی سنسان رہ گزر تھی

اب تو اک شور سا مچا ہے ہر طرف آہٹوں سے دیکھا

خالی خالی لگ رہا تھا اس کے جانے سے مکاں

ویسے تو سامان سے کمروں کے کمرے تھے بھرے

ہر دام رفاقت سے بچا لے گیا مجھ کو

تنہائی آدم کا وہ احساس پرانا

عمر اندھی تھی کہ اُس نے تیری

شوخیاں دیکھیں نہ زیور دیکھا

       مصطفی شہاب نے اپنے اندر شاعر کو بسا کر رکھا ہے لیکن لگتا ہے کہ انھوں نے سنجیدگی سے اپنے آپ کو شاعر کی طرح متعارف کرنے کی کوشش نہیں کی حالاں کہ مندرجہ بالا اشعار ان کی فکر کی ندرت کے گواہ ہیں۔  اچھا شاعر، ہمیشہ پہچانا جا سکتا ہے۔  مجھے قوی امید ہے کہ مصطفی شہاب اس فن میں اور ارتقائی منزلیں طے کریں گے۔  کتابت اور طباعت، گٹ اپ اور پیش کش معیاری ہیں۔

ناشر:  ’’مکتبۂ شعرو حکمت‘‘ سوماجی گوڑہ، حیدرآباد۔ ۵۰۰۰۸۲،

صفحات:  ۱۳۴، قیمت:  سو روپے، (مشمولہ ’’سب رس‘‘ ۱۹۹۷ء)

٭٭٭

شعری مجموعہ … ’’منظر بہ منظر‘‘

شاعر:  ڈاکٹر ذکاء الدین شایاں ؔ

       لب و لہجہ کی تازگی، استعارات و علامات کی جدت، ہم عصر شعری رویہ سے مطابقت، شایاں ؔ کے اس مجموعۂ کلام کی شناخت ہیں۔  شایاں کی شاعری میں ان کی فعال ادبی فکر کے علاوہ بصری علامتوں سے ان کی خصوصی دلچسپی جو غزلیات پر مشتمل ہے قاری کو متاثر کرتے ہیں۔  ان کی شاعری کے موضوعات ذاتی تجزیہ پر مرکوز ہیں۔  وہ دنیا میں ہوتی ہوئی سیاسی، سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کو بھی اپنے زاویہ سے دیکھتے ہیں۔  انھوں نے حتی الامکان ابہام اور دقتِ فکر سے پرہیز کیا ہے۔  ان کی باتیں صاف صاف ہیں اور ان کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔

       موضوعات کے لحاظ سے ایک خاص بات جو میں نے پائی ہے وہ یہ کہ منظر اور دید سے جو ذاتی تجربہ ہوتا ہے اُن کو اوّلیت دی گئی ہے۔  اس کے علاوہ بدن سے تعلق بھی اکثر غزلوں سے کم از کم ایک شعر ضرور مل جاتا ہے۔  بدن کے اعضاء میں زلف، لب، بازو، سنگھار، آنکھ، چہرہ، رُخ وغیرہ ہمیں بڑی فراوانی سے ملتے ہیں۔  اس کے علاوہ اُن کی غزلوں میں جن مناظر کا ذکر ملتا ہے، اُن کی کچھ مثالیں اشارتاً پیش ہیں:

خوش بو شب خوابی کے لباس میں تھی

ہر نفس کا بدن جلانے کو

نیلا پیلا خیال، سلگتا بجھتا جسم

بازو بازو، ہالا ہالا ہو جائے

غم بہ لب چپ چپ مہکتے جسم کا روشن حصار

نرگسی وہ آنکھ بھی کل رات بیماروں میں تھی

سلگتی ریت پر وہ آفتابی غسل کا منظر…!

مگر پرچھائیں سے جسموں کا سمجھوتا نہیں ہوتا

       ایک اور بات شایاں ؔ کے اسلوب میں واضح ہے کہ وہ غزل کے اوزان کو برتتے ہوئے ہر مصرعہ میں زیادہ الفاظ / عناصر کو اس طرح جڑ دیتے ہیں کہ وزن بھی قائم رہتا ہے اور الفاظ کی بوچھار بھی ہو جاتی ہے۔  ایسی صورت میں چوں کہ مصمتوں اور مصوتوں کا متناسب توازن قائم نہیں رہتا۔  بیان کی شریت کم تر ہو جاتی ہے اور روانی قائم نہیں رہتی۔  یہ بھی شایاں کی غزل کا ایک وصف ہی کہا جا سکتا ہے۔

       شایاں ؔ کا مجموعہ گرچہ یہ کہ سادہ انداز میں پیش کیا گیا ہے، نئی اردو شاعری کے قابلِ ذکر مجموعہ میں شمار کیا جائے گا۔

ناشر:  ذکاء الدین شایانؔ، نزد اولد سٹی پوسٹ آفس، پکریا، پیلی بھیت (یوپی) ۲۶۲۰۰۱

قیمت:  ۶۰ روپے۔  ضخامت:  ۸۲ صفحات (مشمولہ ماہ نامہ ’’سب رس‘‘)

٭٭٭

مجموعہ کلام… ’’ لاپتہ‘‘

شاعر:  من موہن تلخ

       نئے دور کی اُردو شاعری میں ثابت قدمی سے جن شعرا نے غزل گوئی کو منتخب کیا اُن میں آں جہانی من موہن تلخ صاحب بھی اہم ہیں۔  اُن کا یہ مجموعہ علاوہ ازیں کہ اُن کا آخری مجموعہ ہے اور کئی لحاظ سے تخصیص کا حامل ہے۔

       اولاً یہ کہ من موہن تلخ نے معیاری زبان کا استعمال کیا ہے، لسانی تجربوں، متنوع تراکیب اور نادر اصطلاحات کے مقابل، ایک معزز بول چال کی زبان کو ترجیح دی ہے۔  اس وجہ سے اس مجموعہ میں کوئی قابل گرفت لسانی تجربہ نہیں ملتا۔  ہاں کتاب کا عنوان تلخ کے اسلوب سے میل نہیں کھاتا کہ یہ ترکیب ہی غلط ہے ’’لاپتہ‘‘ کا پرتو اُن کی شاعری میں کہیں پر نہیں ملتا۔

       دوئماً من موہن تلخ کی شاعری ایک سماجی طور پر معتبر شخصیت کی شاعری ہے جس میں گھر آنگن کے تجربات و حوادث کا زیادہ ذکر ہے، عشق ہے تو اپنی پردہ داریوں کے ساتھ ہے، شکوہ ہے تو اپنی حدوں کا پابند، سارے موضوعات زندگی کے نارمل حالات سے اخذ کیے گئے ہیں۔

       سوئماً من موہن تلخ کے سارے تجربات عصری اور ذاتی ہیں، بناوٹ، تجرید اور تجربہ ان میں کہیں نہیں۔ مذکورہ بالا تین اہم شناختی معیارات سے آپ اگر اس مجموعہ کو دیکھیں تو پھر یہ مجموعہ کچھ اور ہی لطف دے جاتا ہے، کئی ان کہی باتیں، اشعار میں جھانکتی نظر آتی ہیں بار بار کہی باتیں، نئے اسلوب میں الگ الگ سی دکھائی دیتے ہیں۔  یہ گنگا جمنی اردو تہذیب کا اہم ورثہ ہیں۔  اردو کا اسلوب وہی ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کی منفرد روایت پر مصر ہے۔

       من موہن تلخ کی غزلوں کے لب و لہجہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی احساسات کو مدھم کر کے یاد کرتے ہیں، شدید مفعولیت کو اُن کا اُسلوب قبول نہیں کرتا۔  مجبور محض بن کر ہر منظر کو دیکھنے کے مقابلے میں دبی دبی زبان میں احتجاج کو ترجیح دیتے ہیں۔

       من موہن تلخ نے درد کی اذیت کو اپنی سوچ کے تجرباتی اسلوب سے کم تر کر کے برداشت کیا، جذبہ کی وارفتگی کو احتیاط کی پابندیوں سے باہر نہ آنے دیا۔  میانہ روی کو اپنایا، اس لیے ان کی شاعری میں وہی توازن اور ترتیب کا اثر نظر آتا ہے۔

       من موہن تلخ نے جس طرح زبان و بیان کو بہتر اور صحیح رکھنے پر محنت کی ہے اسی طرح زندگی کے مشاہدات کو ہلکے سے موڑ دے کر نا محسوس طور پر حسن آفرینی کی کوشش کی ہے۔

        ’’لاپتہ‘‘ کی غزلیں ردیف و قافیہ نئے طور سے برتنے کا ایک تجربہ ہیں، یہ تجربہ کامیاب بھی ہے، نمائندگی بھی۔  زبان و بیان کی مثالیں:

کہوں تو جب کہ ہو کہنے کو کچھ مرے اندر

نہیں ہے سہل جبھی اپنی بات بھی کہنا

جس طرح کی ہے اپنے کسی بھی خیال کی

اپنی تو اس طرح نہ کبھی دیکھ بھال کی

ہر لمحہ جو رد خود کو نہ کرنے کی صدا ہے

میں جان گیا میرے بکھرنے کی صدا ہے

دھوکا سا جو ہوتا ہے بلایا ہے کسی نے

یہ خود سے بنا بولے گزرنے کی صدا ہے

عجب کشتہ سعی تعبیر ہوں

ادھر کچھ بنایا، اُدھر ڈہ گیا

       تجربات و مشاہدات کی مثالیں:

ملا دیا ہمیں اپنوں سے شکریہ اے وقت

یہی ملے تھے ہمیں یوں تباہ دیکھنے کو

جب چھپانی ہو کوئی بات کسی سے اپنی

تب مجھے دیکھیے باتیں میں بناتا ہوں بہت

راہ چلتے ہی جسے دیکھتا ہوں لگتا ہے

جیسے بے وجہ سی آنکھیں ہیں کہ تکتی جائیں

       ان مثالوں سے واضح ہو گیا ہو گا کہ من موہن تلخ کی شاعری علامات و اشارات، استعارات و تشبیہہ سے گریز کرتے ہوئے راست گفتگو پر زور دیتی ہے، بیش تر اشعار مکالماتی لب و لہجہ میں ہیں۔

       من موہن تلخ کا یہ مجموعہ اُن کا آخری اہم ادبی تحفہ ہے جو اربابِ ادب میں خلوص کے ساتھ پڑھا جائے گا۔  اچھا گٹ اپ اچھی طباعت اس مجموعہ کو دیدہ زیب بناتے ہیں۔

ناشر:  ورشا من موہن تلخ۔  ملنے کا پتہ:  معیار پبلی کیشنز، ۳۰۲ تاج انکلیو، گیتا کالونی،

دہلی۔  ۱۰۰۳۱، قیمت:     ۱۵۰ روپے، ضخامت    :  ۱۷۶ صفحات (مشمولہ ماہ نامہ ’’سب رس‘‘)

٭٭٭

توقیت اسلم عمادی

نام     :  محمد اسلم عمادی

والدین :  محمد مسلم عمادی (مرحوم) و نوشابہ صدیقہ (مرحومہ)

تاریخ پیدائش :  ۱۵ ؍ دسمبر ۱۹۴۸ء

بیگم    :  عالیہ تسنیم

دختران و فرزندان :  لبنیٰ اسلم (ٹورنٹو)، شادان اسلم (نیو جرسی)، احمد کامران عمادی (نیو جرسی) احمد ایمن عمادی (ہم راہ)

وطن    :  حیدرآباد، انڈیا۔

خاندان :  عمادی (صدیقی)

تعلیم    :  ۱۔  بی ای میکانکل، یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ، عثمانیہ یونیورسٹی۔

        ۲۔  پی جی ٹریننگ، منی ایم بی اے، لرننگ ٹری انٹرنیشنل، لندن۔

        Learning tree International (London)

ملازمت :  اسپشلسٹ انجینئرنگ، کویت آئیل کمپنی، کویت۔ (ریٹائرڈ)

تصانیف       :  ۱۔  ’’نیا جزیرہ‘‘ مجموعۂ کلام ۱۹۷۴ء

        ۲۔  ’’اجنبی پرندے‘‘ مجموعۂ کلام ۱۹۷۹ء

        ۳۔  ’’اگلے موسم کا انتظار‘‘ غزل مجموعہ ۱۹۸۴ء

        ۴۔  ’’قریۂ فکر‘‘ مجموعۂ کلام ۱۹۹۵ء

        ۵۔  ’’ادبی گفتگو‘‘ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ۲۰۰۷ء

        ۶۔  ’’عرصۂ سفر خیال‘‘ مجموعۂ کلام ۲۰۱۷ء

اعزازات       :  بہار اُردو اکادمی

       :  مغربی بنگال اُردو اکادمی

       :  آندھرا پردیش اُردو اکادمی

       :  تلنگانہ اسٹیٹ اُردو اکیڈمی

رابطۂ مصنف    :  E-mail: aslamimadi@yahoo.com

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید