FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فکر اقبال

 

 

                ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

جلد۔ ۴

 

 

 

 

پندرھواں باب

 

گلشن راز جدید

 

 

اس سے قبل محمود شابستری کی کتاب ’’ گلشن راز‘‘ کا ذکر آ چکا ہے۔ اس کتاب میں فلسفے و تصوف سے پیدا شدہ سوال و جواب منظوم ہیں۔ اس کے متعلق روایت یہ ہے کہ محمود سے ایک شخص نے ایک مجلس میں کچھ سوالات پوچھے۔ محمود نے وہیں مختصراً ان کا جواب دیا، لیکن بعد میں ان کو زیادہ تشریح اور توضیح سے نظم میں بیان کیا۔ محمود کے زمانے میں فلسفے اور تصوف اور علم الکلام کے مسائل علماء کے لیے میدان مناظرہ بن گئے تھے۔ ’’ گلشن راز‘‘ میں جو ذات و صفات الٰہیہ اور حیات و کائنات کے متعلق نظریات ہیں ان میں سے اکثر اقبال کے نزدیک روح اسلام کے منافی ہیں اور ان میں غیر اسلامی تصوف اور فلسفے کو اسلام کے رنگ میں پیش کرنے کی کوش کی گئی ہے۔ مگر یہ کتاب ایک گروہ کے نزدیک آج تک مستند شمار کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے متصوفانہ افکار کسی حد تک اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اقبال نے یہ ضروری سمجھا کہ جن سوالوں کے جوابات محمود نے اپنے زاویہ نگاہ سے دیے ہیں، انہیں سوالوں کے جواب اب اس بصیرت سے دیئے جائیں جو اقبال کو قرآن کریم اور حیات نبویؐ سے حاصل ہوئی۔ گلشن راز جدید میں علم اور عشق اور مقصود حیات کو ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ گلشن راز جدید کا مطالعہ کرنے والوں کو چاہیے کہ پہلے محمود شابستری کے ’’ گلشن راز‘‘ پر اچھی طرح نظر ڈال لیں تاکہ اقبال کے افکار اور نظریات کا موازنہ اور مقابلہ ہو سکے۔

تمہید میں اقبال نے مشرق کی عقلی اور روحانی موت پر اظہار تاسف کیا ہے۔ وہی مشرق جو ادیان عالیہ کی جنم بھوم اور اس کا گہوارہ تھا اور جسے اب بھی اپنی روحانیت پر فخر ہے، اس کی کیفیت اب یہ ہے کہ اس کے تن کے اندر من نظر نہیں آتا۔ اس میں کوئی زندگی نہیں۔ زندگی کی ایک تصویر ہے جس میں جان اور حرکت نہیں۔ اب اس مشرق میں محمود کے نظریات نئی روح نہیں پھونک سکتے۔ زمانے کے انداز بدل گئے ہیں، اس کے ساتھ تفکر کے ساز بھی بدلنے چاہئیں :

ز جان خاور آں سوز کہن رفت

دمشق واماند و جان او زتن رفت

چو تصویرے کہ بے تار نفس زیست

نمی داند کہ ذوق زندگی چیست

دلش از مدعا بیگانہ گردید

نے او از نوا بیگانہ گردید

بطرز دیگر از مقصود گفتم

جواب نامہ محمود گفتم

تصوف کا زور شور فتنہ تاتار کے بعد نظر آتا ہے اور بعض مفکرین نے اس کا سبب یہی بتایا ہے کہ مسلمانوں کی تہذیب، ان کا تمدن، ان کے علوم و فنون ان کی سلطنتوں کا جاہ و جلال، سب اس عالم گیر غارت گری کے سیلاب میں بہہ گئے۔ اہل دل اور اہل فکر دنیا سے مایوس اور بیزار ہو گئے اور مسلمانوں کے اذہان نے عالم کی اس بے ثباتی کو دیکھ کر دل کی دنیا میں پناہ لی اور طبیعتیں اس طرف آ گئیں کہ:

گر گریزی با امید راحتے

ہم درآں جا پیشت آید آفتے

ہیچ کنجے بے دو و بے دام نیست

جز بخلوت گاہ حق آرام نیست

جلوت سے جب مایوسی ہوئی تو خلوت میں پناہ ڈھونڈی:

ستم است اگر ہوست کشد، کہ بہ سیر سرو و سمن در آ

تو ز غنچہ کم نہ دمیدۂ در دل کشا بہ چمن در آ

یہ تمام تباہی عارف رومی اور شمس تبریزی کی آنکھوں کے سامنے واقع ہوئی۔ محی الدین ابن عربی کا زمانہ بھی یہی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ان کی آنکھوں نے جو عالم اسلام کی تباہی دیکھی تھی اور جس کی وجہ سے اس زمانے میں خاص قسم کے نظریات حیات پیدا ہوئے، میرے سامنے اس سے کچھ کم انقلاب پیدا نہیں ہوا۔ گو اس انقلاب کی کیفیت مختلف ہے۔ ہر ظلمت انگیز انقلاب کے بعد ایک نیا آفتاب طلوع ہوتا ہے اور اختلاف احوال سے انسان میں ایک نئی نگاہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ نئی نگاہ خدا نے مجھ میں پیدا کی ہے اور میں اس بصیرت کی بدولت قدیم سوالات کے نئے جوابات پیش کرتا ہوں۔ میں اس بصیرت کو شعر کا جامہ پہناتا ہوں تاکہ بیان دلنشین ہو جائے، لیکن وہ شخص بڑا ظالم اور بدبخت ہو گا جس نے مجھے اس کی وجہ سے فقط شاعر سمجھ لیا۔ شاعری میرا مقصود نہیں ہے۔ اقبال کی قسم کی شاعری کے متعلق ایک اور شاعر کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ:

مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم

وراے شاعری چیزے دگر ہست

٭٭٭

گذشت از پیش آں دانائے تبریز

قیامت ہا کہ رست از کشت چنگیز

نگاہم انقلابے دیگرے دید

طلوع آفتابے دیگرے دید

نہ پنداری کہ من بے بادہ ستم

مثال شاعراں افسانہ بستم

نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست

کہ برمن تہمت شعر و سخن بست

میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ محض فن یا فلسفہ نہیں بلکہ روح کی گہرائیوں اور دل کی خلوتوں سے نکلی ہوئی نوا ہے:

دمے در خویشتن خلوت گزیدم

جہانے لا زوالے آفریدم

’’مرا زیں شاعری خود عار ناید

کہ در صد قرن یک عطار ناید‘‘

اقبال کہتا ہے کہ محمود شابستری کے جوابات میں تو خودی کی فنا کی تعلیم ہے، میرا جواب اس کے برعکس ہے۔ مجھ کو خدا نے اسرار خودی سے روشناس کیا ہے۔ اسی خودی کی استواری سے حیات جاودانی حاصل ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کا مقصود خدا میں جذب ہو کر فنا نہیں بلکہ خدا کو اپنے اندر جذب کرنا ہے۔ میرے پاس فنا کی بجائے بقا کی تعلیم ہے اور یہی تعلیم مشرق کے تن مردہ اور روح افسردہ میں جان پیدا کرے گی:

بجانم رزم مرگ و زندگنی است

نگاہم بر حیات جاودانی است

ز جاں خاک ترا بے گانہ دیدم

باندام تو جان خود میدم

مرا ذوق خودی چوں انگبیں است

چہ گویم واردات من ہمین است

نخستیں کیف اور ا آزمودم

دگر بر خاوراں قسمت نمودم

خودی کے احساس اور عرفان میں ایسی لذت ہے کہ اگر جبریل بھی اس سے آشنا ہو جائے تو وصال جاوداں کی بجائے اس فراق کو برقرار رکھنے کی آرزو کرے جو ناز و نیاز اور سوز و گداز پیدا کرتا ہے۔ یہی کیفیت آدم کو ملائکہ سے افضل بناتی ہے۔ جبریل پکارنے لگے کہ:

تجلی را چناں عریاں نخواہم

نخواہم جز غم پنہاں نخواہم

گذشتم از وصال جاودانے

کہ بینم لذت آۃ و فغانے

مرا ناز و نیاز آدمے دہ

بجان من گداز آدمے دہ

اس تمہید کے بعد پہلا سوال تفکر کے متعلق ہے۔ قرآن نے کبھی تفکر پر بہت زور دیا ہے۔ یہ تفکر یا کائنات و حیات کی حکمت پر غور و خوض کیا چیز ہے۔ بعض لوگ تفکر کو حقیقت نارس اور گمراہ کن تصور کرتے ہیں مگر قرآن اس کو طاعت و عبادت قرار دیتا ہے۔ تفکر کی ماہیت میں یہ تضاد تو نہیں ہو سکتا۔ ذرا اس گتھی کو سلجھاؤ کہ کس قسم کا تفکر طاعت اور کس انداز کا تعقل گناہ بن جاتا ہے۔ اقبال نے زیادہ تر اشعار عقل کی تحقیر ہی میں لکھے ہیں، اگرچہ کہیں کہیں اس کی وضاحت بھی کر دی ہے کہ محض محسوسات میں گھری ہوئی عقل جزئی ہوتی ہے اور کلیت وجود تک اس کی رسائی کا دعویٰ باطل ہوتا ہے۔ اگر انسان کی تنگ نظری اس کے عمل کو محدود نہ کر دے تو تفکر اسی حکمت تک پہنچا سکتا ہے جسے قرآن میں خدا نے خیر کثیر کہا ہے۔ غلط قسم کے متصوفانہ عقائد کی وجہ سے بعض لوگوں نے عقل و فکر کو بے کار سمجھ کر برطرف کر دیا اور خالی تاثرات سے اسرار حیات کی گرہ کشائی چاہی۔ اقبال نے اس سوال کے جواب میں صحیح تفکر کی ماہیت، اس کی قوت تسخیر اور حقیقت مطلقہ تک اس کی رسائی کو واضح کیا ہے۔ یہ تفکر وہی ہے جس کے متعلق اقبال اور مقامات پر کئی بار اس خیال کو دہرا چکا ہے کہ انسان کو کمال فقط عقل اور عشق کی ہم آغوشی ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔

پہلا سوال یہ ہے:

نخست از فکر خویشم در تحیر

چہ چیز است آنکہ گویندش تفکر

کہ امیں فکر مارا شرط راہ است

چرا گہ اطاعت و گاہے گناہ است

اقبال کے جواب کا لب لباب یہ ہے کہ غور و فکر کی صلاحیت سینہ آدم کا نور ہے۔ اس نور کے اشعاع سے غیب و حضور ایک ہو جاتے ہیں۔ اس کی بدولت حاضر سے غیب پر روشنی پڑتی ہے اور غیب کی روشنی حاضر کو منور کرتی ہے۔ اس میں دلیل و برہان کی نار بھی ہے اور جان جبریل کا نور بھی۔ نار، نور سے الگ ہو کر حقائق کو سوخت کر سکتی ہے، لیکن نور کے ساتھ وہ زندگی کی حرارت بن جاتی ہے۔ عالم محسوس کی وابستگی سے خاک آلود ہونے کے باوجود عقل کو ان حقائق کا عرفان بھی حاصل ہو سکتا ہے جو زمان و مکان کے ماوریٰ ہیں۔ کبھی وہ زندگی کو ساکن و جامد حیثیت سے دیکھتی ہے اور کہیں اس کا دریائے بے پایاں سر بسر حرکت و تموج ہوتا ہے۔ وہ خود دریا بھی ہے اور عصائے کلیم کی طرح دریا شگاف بھی، کیوں کہ تسخیر فطرت علم کی ایک اساسی صفت ہے۔ ’’ صدائے صور و مرگ و جنت و حور‘‘ یہ سب حکمت ہی کے تمثیلی احوال ہیں۔ ابلیس و آدم، خیر و شر دونوں کی نمود اسی سے ہے۔ ایک آنکھ سے عقل باطن کا مشاہدہ کرتی ہے اوردوسری آنکھ سے ظاہر کا۔ انفس و آفاق دونوں اس کے احاطے میں ہیں۔ حقیقی معرفت ظاہر و باطن دونوں کی بیک وقت بینش سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر وہ ایک آنکھ بند کر ے تو گناہ گار ہو جاتی ہے اور اس کی بصیرت گمراہ کن بن جاتی ہے۔ عقل حواس خمسہ کے مشاہدات سے گزر کر براہ راست حقائق سے روشناس ہوتی ہے۔ تمام روزگار اس کے ضمیر اور ممکنات میں مضمر ہے، لیکن اس کا ظہور بتدریج ہوتا ہے۔ معقولات کے اندر محسوسات کی ہیئت بدل جاتی ہے:

درو ہنگامہ ہائے بے خروش است

درو رنگ و صدا بے چشم و گوش است

درون شیشہ او روزگار است

ولے بر ما بہ تدریج آشکار است

زندگی نے عقل کو شکاری بنایا ہے۔ وہ ہر پست و بلند پر کمند اندازی کرتی رہتی ہے اور خود بھی اپنی مرضی سے گاہے گاہے اس کی زنجیروں میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ اگر اس کی ترقی جاری رہے تو کونین اس کی فتراک میں بندھ جائیں۔ جب کونین کی قوتیں اس کی گرفت میں آ جائیں تو اس کی حکمت کے مالک کو موت نہیں آ سکتی۔ کونین کی صیادی کے یہ معنی ہیں کہ تسخیر آفاق کے ساتھ تسخیر نفس بھی ہو، بلکہ تسخیر نفس تسخیر آفاق پر مقدم ہے:

اگر ایں ہر دو عالم را بگیری

ہمہ آفاق میرد تو نہ میری

بہ تسخیر خود افتادی اگر طاق

ترا آساں شود تسخیر آفاق

انسان حقیقت میں اس وقت آزاد ہو گا، جب وہ ظاہر و باطن اور کونین کی تسخیر کر چکے گا۔ اس دہر کہن میں عقل پھر بھی صورت گری کرے گی، لیکن انسان اپنی بنائی ہوئی صورتوں کی پرستش میں سر بسجود نہ ہو گا:

خنک روزے کہ گیری ایں جہاں را

شگافی سینہ نہ آسماں را

گزارد ماہ پیش تو سجودے

برو پیچی کمند از موج دودے

دریں دہر کہن آزاد باشی

بتاں را بر مراد خود تراشی

اقبال کے باقی کلام سے آشنا شخص کو فوراً یہ خیال پیدا ہو گا کہ یہ سب تعریف عقل کی تو معلوم نہیں ہوتی۔ اس میں تو وہی زور شور ہے جو اقبال کے اشعار میں عشق کی توصیف میں ملتا ہے۔ اس قسم کا تفکر جو عرفانی اور مسخر کائنات ہے اس میں اور عشق میں کیا حد فاضل باقی رہ جاتی ہے۔ اس کا جواب اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں مختصراً دیا ہے اور کہیں کہیں اشعار میں بھی اس کا اشارہ ہے کہ تفکر اور اس وجدان میں، جسے اقبال عشق کہتا ہے، کوئی اساسی تضاد نہیں۔ تفکر اپنی ترقی سے عشق و وجدان کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ البتہ محسوساتی، مکانی اور جسمانی تفکر، جو ہستی کے فقط ایک پہلو پر حاوی ہوتا ہے، اس کی رسائی حقیقت مطلقہ تک نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ وجدان کے لیے حجاب اکبر بن جاتا ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے:

چہ بحر است ایں کہ علمش ساحل آمد

ز قعر او چہ گوہر حاصل آمد

یہ سمندر کیا ہے کہ علم جس کا ساحل ہے اور اس سمندر میں غوطہ زنی سے کس قسم کا موتی ہاتھ آتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں اقبال نے بڑے گہرے فلسفے میں غوطہ لگایا ہے۔ اسے آسان زبان میں بھی بیان کیا جائے تو اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ ہر پڑھنے والے کے لیے قابل فہم ہو۔ بہرحال کوشش کی جاتی ہے۔

جسے ہستی کہتے ہیں اس کی ماہیت یہ ہے کہ وہ زندگی کا ایک قلزم بے پایاں ہے۔ شعور اور آگہی اس کے کنارے ہیں۔ مگر یہ کنارے، جو خود حیات آفریدہ ہیں، اس کو محدود نہیں کر سکتے۔ کوہ و صحرا ہوں یا شعور و آگہی، زندگی ان کو بناتی بھی ہے اور توڑتی بھی ہے۔ جو چیز اس کے سامنے آتی ہے وہ اس کے فیض و شعور سے منور ہو جاتی ہے۔ اس کی کیفیت باہمہ اور بے ہمہ ہے۔ خلوت پرست اور صحبت نا پذیر ہونے کے باوجود جلوت میں ہر چیز اس سے مستفید ہے۔ وہ اپنے پیدا کردہ مظاہر کو آئین میں بھی اسیر کرتی رہی ہے، جس کی بدولت اس کے مظاہر قابل فہم اور قابل تسخیر ہو جاتے ہیں۔ شعور زندگی کو جہاں سے قریب تر کر دیتا ہے۔ اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ جہان شناسی زندگی میں خود شناسی پیدا کرتی ہے۔ خود زندگی کی حقیقت سے نقاب اٹھاتی ہے، لیکن نطق، جو خرد ہی کا ایک ہی پہلو ہے، ماہیت حیات کو عریاں کر دیتا ہے۔ جسے جہان کہتے ہیں اس کی اپنی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ وہ زندگی کے سیرو سفر کے راستے میں ایک مقام ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ زندگی کے احوال میں سے ایک حالت کا نام ہے۔

حیات کی باطنیت اور ماہیت نفس انسانی ہے، جو زندگی کا بھی مرکز و ماخذ ہے اور یہ زمان و مکان کا جہان بھی اس کا مظہر ہے۔

قالب از ما ہست شد نے ما ازو

بادہ از ما مست شد نے ما ازو

(رومی)

تو سمجھتا ہے کہ جہاں مجھ سے باہر کوئی مستقل حیثیت رکھتا ہے اور دشت و یم، صحرا و کان کا وجود میرے ہونے یا نہ ہونے، یا میرے محسوس کرنے یا نہ کرنے سے بے نیاز ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی ہستی ایک لحاظ سے مجھ سے آزاد ہے اور دوسری حیثیت سے یہ میری محتاج ہے:

بروں از خویش می بینی جہاں را

در و دشت و یم و صحرا و کاں را

جہان رنگ و بو گلدستہ ما

زما آزاد و ہم وابستہ ما

جہان کی اپنی حقیقت جو کچھ بھی ہو، وہ ہمارے احساس و ادرک میں جس طرح آتا ہے، ہمارے شعور کے سانچوں میں ڈھل کر آتا ہے۔ جسے رنگ و بو کہتے ہیں وہ ہمارے محسوسات ہیں۔ ہمارے حواس نہ ہوں تو یہ بھی نہ ہوں۔ انگریزی فلسفی لاک نے پہلے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ عالم مادی کا ایک مستقل وجود ہے جو ہمارے شعور کا رہین منت نہیں۔ لیکن رنگ و بو اور سردی گرمی وغیرہ اس اثر کا نتیجہ ہیں جو عالم مادی ہمارے حواس پر کرتا ہے۔ بعد میں المانوی فلسفی کانٹ نے اس سے بڑھ کر ایک قدم اٹھایا کہ عالم مادی کی اپنی جو ماہیت ہے وہ ہم پر کبھی منکشف نہیں ہو سکتی۔ وہ جو کچھ ہے پہلے ہمارے محسوسات کے سانچوں میں ڈھلتا ہے اور اس کے بعد علت و معلول کے معقولی سانچے میں، جو مظاہر کو آئین میں منسلک کرتے ہیں۔ گویا کائنات میں جو تنظیم دکھائی دیتی ہے وہ ہماری عقل کی آفریدہ ہے۔ نفس انسانی عالم مادی کے وجود مطلق کا تو خلاق نہیں لیکن اس کے مظاہر کا شیرازہ بند ہے۔ یہ آئیڈیلزم کا ایک نظریہ ہے جو قانون تعطیل اور زمان و مکان کو آفاقی نہیں بلکہ نفسی قرار دیتا ہے۔ نظریہ کائنات کے لحاظ سے اقبال بھی آئیڈیلسٹ ہے۔ اس جواب میں اسی نظریے کی ترجمانی ہے۔

جہان رنگ و بو گلدستہ ما

زما آزاد و ہم وابستہ ما

خودی اور ا بہ یک تار نگہ بست

زمین و آسمان و مہر و مہ بست

دل ما را بہ او پوشیدہ راہے ست

کہ ہر موجود ممنون نگاہے ست

اگر جہان کو کوئی دیکھنے والا نہ ہو تو اس کا اپنا وجود کچھ ہو گا تو سہی لیکن بے حقیقت ہو گا۔ اجرام فلکیہ ہوں یا گل و گلزار، یا قلزم و کہسار، ان کی صورتیں ہمارے شعور اور حسی ادراک نے متعین کی ہیں۔ گویا ایک لحاظ سے انسان کا نفس ان کا آفرید کار ہے:

گر اور ا کس نہ بیند زار گرد

داگر بیند یم و کہسار گردد

یہ ناظر و منظور یا شاہد و مشہود کا قصہ ایک عجیب راز ہے، جہاں کا ہر ذرہ گویا زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ ہے کوئی دیکھنے والا جو مجھے مشہود و موجود کر دے۔ انسان کے فیض نظر کے بغیر ہستی نیستی کے برابر ہے۔ جسے جہان کہتے ہیں وہ نفس انسانی کی ایک تجلی ہے۔ انسان نہ ہو تو رنگ و بو اور نور و صدا معدوم ہو جائیں۔ اقبال کی اصطلاح میں خودی صیاد ہے اور کونین اس کے نخچیر ہیں :

خودی کی زد میں ہے ساری خدائی

عارف رومی جو ان نظریات میں اقبال کا معلم و مرشد ہے، اس کے نزدیک تو صرف خدائی نہیں بلکہ خدا بھی انسان کی لپیٹ میں آ سکتا ہے:

بزیر کنگرۂ کبریاش مردانند

فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر

اسی تصو رکو اقبال نے اپنے اس شعر میں ڈھالا ہے:

در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے

یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ

اس نظریہ علم و شہود کا لب لباب رومی کے اس شعر میں موجود ہے جس کا حوالہ پہلے آ چکا ہی:

قالب از ما ہست شد نے ما ازو

بادہ از ما مست شد نے ما ازو

تیسرا سوال یہ ہے:

وصال ممکن و واجب بہم چیست

حدیث قرب و بعد و بیش و کم چیست

امکان و وجوب کا مسئلہ فلسفے اور علم ا لکلام کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہستی باری تعالیٰ کو ذات واجب الوجود کہتے ہیں۔ یعنی اس کا ہونا لازم ہے۔ اس کے ماننے کے بغیر عقل کو چارہ نہیں۔ وہ ہستی مطلق ہے جو واجب بھی ہے اور قدیم بھی۔ اس کے ماسوا جو کچھ ہے وہ حادث ہے، یا ممکن ہے۔ یعنی اس کا ہونا لازمی نہیں۔ اس کی ہستی اور نیستی دونوں کا امکان ہے۔ اس کا جو کچھ وجود ہے وہ ہستی واجب الوجود سے مستعار ہے لیکن اشکال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ ماسوا یا حادث و ممکن کا ظہور بھی آخر ہستی مطلق اور واجب کی بدولت ہوتا ہے۔ خدا اپنی مخلوقات سے جو ممکنات پر مشتمل ہے، بالکل بے تعلق تو نہیں ہو سکتا، لیکن یہ تعلق منطقی عقل کے ادراک میں نہیں آتا۔ ہستی واجب و قدیم، حادث و ممکن سے قریب بھی ہے اور بعید بھی، یہاں وصل بھی ہے اور فراق بھی۔ از روئے منطق تو وصل اور فراق میں تضاد ہے، لیکن از روے حقیقت یہ دونوں کیفیتیں بیک وقت موجود ہیں۔ ’’ نخن اقرب الیہ من حبل الورید‘‘ حقیقت مطلقہ یعنی خدا کو انسان کی شہ رگ سے زیادہ نفس انسانی سے قرب بھی ہے اور دوسری طرف خالق و مخلوق میں ناقابل عبور خلیج بھی ہے۔ اس وصل و فراق کے سمجھنے میں عقل عاجز معلوم ہوتی ہے۔ اسی لیے عارف رومی فرماتے ہیں :

اتصالے بے تکنیف بے قیاس

ہست رب الناس را با جان ناس

کیفیت اور قیاس میں تو نہیں آتا لیکن یہ اتصال ایک حقیقت ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جس طرح جان یا نفس اور تن میں نہایت ہی قریبی رابطہ بھی ہے، حالانکہ نفس اور بدن کیفیت و صفات کے لحاظ سے نوعیت میں مختلف ہیں :

تن ز جان و جان ز تن مستور نیست

لیک کس را دید جاں دستور نیست

علامہ اقبال نے اپنے جواب میں اس اشکال کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ جواب کے پہلے حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں چوند و چندیہ تین پہلو کون سے ہیں، اس کی تشریح اقبال نے نہیں کی۔ لیکن آگے چل کر جو استدلال ہے اس سے یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ایک پہلو مادہ ہے، دوسرا زمان، تیسرا مکان علاقہ فرماتے ہیں یہ کیف و کم کا جہان ہے جسے فارسی میں چون و چند کہتے ہیں۔ خرد کا کام یہی ہے کہ وہ ایک طرف ریاضیات کی مدد سے طبعی مظاہر کو ناپے اور تولے اور دوسری طرف کمیت یا مقدار کے علاوہ کیفیت کی بھی توجیہہ کرے کہ کوئی چیز جیسی ہے، ویسی کیوں ہے؟ رنگ و بو کی کیفیات میں اختلاف کس وجہ سے ہے؟ علامہ کا ارشاد ہے کہ طوسیٰ اور اقلیدس کی عقل اسی ریاضیاتی دائرے میں گھومتی رہتی ہے۔ یہ زمین فرسا عقل ہے جو خاک سے حاصل کردہ آئین کا اطلاق اجرام فلکیہ اور ان کی حرکات پر بھی کرتی ہے۔ اس عقل کے پاس زمان اور مکان کے پیمانے ہیں، لیکن زمان اور مکان کوئی مستقل وجود نہیں رکھتے۔ وہ محض اضافی اور اعتباری ہیں۔ زمان و مکان محض زمین فرسا نظر کی پیداوار نہ ہوتے تو معراج کے تجزیہ نبوی میں دونوں کی نفی نہ ہو سکتی۔ اس تجربے میں لامتناہی دکھائی دینے والا مکان اور افلاک کی بے پایاں وسعتیں آنکھ جھپکنے کے لمحے میں کیسے طے ہو گئیں۔ جن تجربات کے لیے ایک طویل مدت درکار تھی وہ سمٹ کر ایک طرفۃ العین میں کیسے سما گئے۔ معلوم ہوا کہ زمان و مکان مطلق نہیں بلکہ اضافی ہیں۔ حقیقت مطلقہ میں مکان کی لامتناہی نہیں، اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ عالم خارجی بے کراں ہے۔ ہستی کی عینیت میں زیر و بالا نہیں اور ہمارے زمان مسلسل کا دیر و زور بھی نہیں۔ عارف رومی نے اس شعر میں معراج کی کیفیت بیان کی ہے:

عشق نے بالا نہ پستی رفتن است

عشق حق از جنس ہستی رستن است

یہاں جنس ہستی سے نجات پانے کے معنی زمان و مکان کے قیود سے ماوریٰ ہونا ہے۔ لامتناہی مکان کا نفس کے اندر ایک وجدانی لمحے میں سما جانا سرمد کے نزدیک بھی حقیقت معراج ہے:

آں را کہ سر حقیقتش باور شد

خود پہن تر از سپہر پہناور شد

ملا گوید کہ برشد احمد بہ فلک

سرمد گوید فلک بہ احمد درشد

اسی نظریے کو اقبال نے ان اشعار میں بیان کیا ہے:

حقیقت لا زوال و لا مکان است

مگو دیگر کہ عالم بے کران است

کران او درون است و بروں نیست

درونش پست و بالا کم فزوں نیست

درونش خالی از بالا و زیر است

ولے بیرون او وسعت پذیر است

زمان و مکان گویا ممکنات ہیں جنہیں حیات مطلقہ نے اپنے اظہار کے ایک پہلو کی خاطر پیدا کیا ہے۔ ذات واجب نے جو ممکنات اور حوادث کی کثرت پیدا کی ہے ریاضیاتی عقل اس کے شمار اور پیمائشوں میں الجھ جاتی ہے۔ حقیقت مطلقہ کا ادراک اس عقل کی رسائی سے باہر ہے۔ یہ عقل وحدت مطلقہ کو کثرت میں اور حرکت کو سکون میں تبدیل کر کے مظاہر کے باہمی روابط دریافت کرنا چاہتی ہے۔ ہستی کا باطن اس کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔

ابد را عقل ما ناسازگار است

یکی از گیر و دار او ہزار است

چو لنگ است او سکوں را دوست دارو

نہ بیند مغز و دل بر پوست دارو

خرد لامکانی حقیقت کو مکانی بنا کر سمجھتے ہے۔ اپنے ضمیر میں غوطہ زنی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں نہ مکانیت کے زیر و بالا اور چپ و راست ہیں اور نہ مکان آلودہ زمانیت کے دیر و زود، ماضی و حال و مستقبل۔ اس نظریے کی فلسفیانہ تشریح علامہ اقبال کے انگریزی خطبات میں ملتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن نے بھی زمان کو اعتباری قرار دیا ہے۔ محشر میں کروڑوں برس کے مرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ زندہ کر کے جب پوچھا جائے گا کہ تم کو دنیا سے رخصت ہوئے کتنا عرصہ گزرا ہے ’’ کم لبثتم‘‘ تو وہ اس کی مدت ایک آدھ دن ہی کی بتائیں گے۔ مکان کے اضافی ہونے کا ایکا ور ثبوت بھی قرآن میں ملتا ہے، جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کا دن تمہارے ایک ہزار سال کا ہوتا ہے۔ یہ اشارہ توریت میں بھی موجود ہے۔

علامہ اقبال آگے چل کر فرماتے ہیں کہ واجب اور ممکن کا ربط عقل کو اس لیے لاینحل معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی تن اور جان کو دو متضاد ہستیاں سمجھ لیتی ہے۔ ایسا سمجھنا گمراہ کن اور حرام ہے۔ تن، جان کے احوال میں سے ایک حالت کا نام ہے، اس کا کوئی الگ مستقل وجود نہیں ہو سکتا۔ ’’ قالب از ما ہست شد نے ما ازو‘‘

تن و جاں را دو تاگفتن کلام است

تن و جان را دو تا دیدن حرام است

بجاں پوشیدہ رمز کائنات است

بدن حالے ز احوال حیات است

جسم یا جہان حقیقت مطلقہ کا خود اپنے چہرے پر ڈالا ہوا پردہ ہے۔ یہ پردہ ذوق حجاب نے نہیں بنایا بلکہ ذوق اظہار و انکشاف نے بنایا ہے:

حقیقت روے خود را پردہ ہاف است

کہ اور ا لذتے از انکشاف است

واقف نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا

یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

(غالب)

اقبال کے جواب کا لب لباب یہ ہوا کہ جسے ممکن کہتے ہیں وہ ذات مطلق یا ذات واجب الوجود کے اظہار کی ایک کیفیت ہے۔ واجب اور ممکن دو متضاد الاصل یا متضاد النوع وجود نہیں جن کا رابطہ قابل فہم نہ ہو سکے۔ ریاضیاتی عقل کے لیے تو وہ ایک ناقابل حل مسئلہ ہے لیکن وجدانی اور عرفانی بصیرت کے لیے یہ کوئی لاینحل عقدہ نہیں۔

زندگی کی ناقابل تقسیم وحدت میں نفس و بدن کی دوئی کا فلسفہ گزشتہ دو تین سو سال میں فرنگ میں زیادہ ترقی پذیر ہوا اور اسی دوئی نے وہاں مذہب اور سیاست میں خلیج حائل کر دی۔ مذہب نفس کے لیے رہ گیا اور سیاست مادی اغراض کے لیے وقف ہو گئی۔ تن بے جان ہو گیا اور جان بے تن ہو کرنیست ہو گئی۔ ترکوں کے جدید انقلابی مصلحین تقلید فرنگ میں اسلام کے نظریہ حیات کو کھو بیٹھے اور تقلید فرنگ میں یہ روش اختیار کر لی کہ ملکی اور دینی معاملات کے دائرے الگ الگ ہیں :

بدن را تا فرنگ از جان جدا دید

نگاہش ملک و دیں را ہم دوتا دید

خرد را با دل خود ہم سفر کن

یکے ہر ملت ترکاں نظر کن

بہ تقلید فرنگ از خود رمیدند

میان ملک و دیں ربطے ندیدند

جسے تم کائنات سمجھتے ہو وہ ذات پاک کی سرگزشت کا ایک لمحہ اور ایک حال ہے۔ اس حال کو ایک مستقل کائنات سمجھ کر اس کا تجزیہ کرنا، مردے کا پوسٹ مارٹم کرنا ہے یا علوم طبعی میں اس کے نقطے بنانا ہے۔ ایسی حکمت میں نہ موسیٰ کا ید بیضا ہے اور نہ عیسیٰ کا دم حیات بخش۔ میں اس حکمت سے اس لیے بیزار ہو گیا کہ اس میں مجھے کہیں حقیقت حیات کا نشان نہ ملا۔ میں نے اس فلسفے اور اس سائنس کو برطرف کر کے اس حکمت کو ڈھونڈا جس کا سرچشمہ وجدان ہے اور جو مادیت میں پا بہ گل یا زمان و مکان میں پا بہ زنجیر نہیں :

حکیماں مردہ را صورت نگار اند

ید موسیٰ دم عیسیٰ ندارد

دریں حکمت دلم چیزے ندید است

براے حکمت دیگر طپید است

مجھے تو جہان کے باطن میں ایک انقلاب انگیز اور احوال خیز حیات ہی حیات نظر آتی ہے۔ ایک مسلسل ارتقاء اور مسلسل خلاقی ہے:

من ایں گویم جہاں در انقلاب است

درونش زندہ و در پیچ و تاب است

تم نے خرد کے دھوکے میں آ کر اپنے نفس کو لامتناہی عالم زمانی و مکانی کی کلیت کا ایک جزو سمجھ لیا ہے، لیکن اپنے ضمیر میں غوطہ لگاؤ تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ جزو اس خارجی کل سے افزوں ہے:

در جہانی و از جہاں بیشی

ہمچو معنی کہ در بیاں باشد

(انوری)

در آں عالم کہ جزو از کل فزوں است

قیاس رازی و طوسیٰ جنون است

لیکن یہ مظاہر پیما عقل بھی بالکل بے کار نہیں۔ زندگی نے اس کو بھی خاص ضرورتوں کے لیے پیدا کیا ہے کچھ عرصہ اس سے بھی آشنائی پیدا کرنی چاہیے۔ رازی اور طوسیٰ اور ارسطو اور بیکن کو تھوڑے عرصے کے لیے ہم سفر بنا لیا کرو۔ جس منزل تک وہ رک گئے ہیں انہیں وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جانے کی کوشش کرو اور اس حقیقت تک پہنچو جو لازمانی اور لامکانی ہے۔

چوتھا سوال یہ ہے:

قدیم و محدث از ہم چوں جدا شد

کہ ایں عالم شد، آں دیگر خدا شد

اگر معروف و عارف ذات پاک است

چہ سودا در سر ایں مشت خاک است

قدیم اور محدث کا سوال در حقیقت واجب و ممکن کے مابین ربط کے سوال کا ایک پہلو ہے، لیکن اس سوال کے جواب میں اقبال نے اپنا خودی کا فلسفہ پیش کر دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہستی قدیم اور ہستی حادث، یعنی خدا اور عالم، ایک دوسرے سے جدا کیوں ہوئے؟ خدا کو کیا ضرورت تھی کہ ماسوا کو بھی اپنے مقابل میں لا کھڑا کرے۔ بالفاظ دیگر وجہ تکوین عالم کیا ہے۔ اگر ناظر و منظور، عارف و معروف، شاہد و مشہود، ایک ہی ذات پاک ہے تو انسان کے سر میں یہ سودا کہاں سے پیدا ہو گیا ہے جو اس کو حیران اور مضطرب رکھتا ہے:

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

(غالب)

اقبال نے انگریزی خطبات میں استدلال سے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدا کی ہستی ایک بے مقصود سیلان و میلان حیات نہیں، بلکہ ایک نفس مطلقہ ہے اور نفس کے لیے مقصد آفرینی اور مقصد کوشی لازمی ہے۔ ایک خودی انسان کی ہے اور ایک خودی وہ ہے جو ذات الٰہی کی ماہیت ہے۔ خودی کو اپنے اظہار اور ارتقاء کے لیے اپنا غیر پیدا کرنا پڑتا ہے۔ بعض صوفیہ کا خیال ہے کہ انسان کی خودی خدا ہی کی خودی میں سے الگ ہو کر معروض شہود میں آئی ہے۔ ا رواح کی یہ کثرت خدا کی ازلی وحدت سے کیوں جدا ہوئی؟اس کی کوئی تشفی بخش توجیہہ صوفیانہ فلسفے میں نہیں ملتی۔ عارف رومی، جس کا نظریہ حیات وہی ہے جس کا اقبال بھی قائل ہے، اپنی مثنوی کو اس بیان سے شروع کرتا ہے کہ ارواح ذات الٰہی سے فراق محسوس کر رہی ہیں اور وصال کے لیے کوشاں ہیں۔ کیوں کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف عود کرنے کا امیلان رکھتی ہے۔ درد فراق اور ذوق وصال نہ صرف روح انسانی بلکہ کائنات کے ہر ذرے میں عشق اور اضطراب پیدا کر رہے ہیں۔ حیات و کائنات کے تمام مظاہر کی توجیہہ مولانا روم اسی نظریے سے کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ فراق پیدا ہی کیوں ہوا اور کیسے ہوا۔ علامہ اقبال ایک وجہ تکوین بتاتے ہیں اور آفرینش کو خودی کی ماہیت میں سے اخذ کرتے ہیں۔ خدا خیر مطلق اور خلاق ہے۔ نفس الٰہی کو نفس انسانی پر قیاس کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔ نفس انسانی کے لیے اگر اس کا غیر موجود و مشہود نہ ہو تو انسان کی خودی نہ بیدار ہو سکتی ہے اور نہ استوار۔ اسی طرح ذات الٰہی بھی اپنا غیر خود پیدا کرتی ہے۔ انسان کے لیے اس کا غیر خود آفریدہ نہیں، لیکن خدا کے لیے ماسوا خود آفریدہ ہے۔ انسان اور خدا کی خودی میں یہی ایک بین فرق ہے۔ اس پر استدلال بھی انگریزی خطبات میں ملتا ہے۔ خدا کی ذات میں سے عالم خیر آفرینی کے لیے الگ ہوتا ہے۔ خدا سراپا حیات ہے اور یہ ماہیت حیات میں داخل ہے کہ وہ اپنا غیر بھی پیدا کرے:

خودی را زندگی ایجاد غیر است

فراق عارف و معروف خیر است

اگر انسان کی خودی خدا سے الگ ہو کر فراق زدہ نہ ہوتی تو اس میں کوئی زندگی نہ ہوتی۔ کیوں کہ زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے اور آرزو کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں مقصود ایک لحاظ سے موجود ہوتا ہے اور دوسری حیثیت سے مطلوب ہوتا ہے۔ اگر انسان خدا کا عاشق ہو سکتا ہے تو فراق ہی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا کی ذات بھی تو عشق سے معرا نہیں، عشق اس کی ماہیت میں بھی داخل ہے۔ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ ہم خدا کے لیے بے تاب ہیں اور خدا ہمارے لیے بیتاب ہے۔ اگر ہم اس سے الگ نہ ہوئے ہوتے تو وہ ہمارے لیے بے تاب کیسے ہوتا۔ فراق عشق کی فطرت میں داخل ہے اور یہی وجہ آفرینش ہے۔ ’’ خدا ہم در تلاش آدمے ہست‘‘ خدا اور انسان کی محبت دو طرفہ ہے:

ازو خود را بریدن فطرت ماست

تپیدن نا رسیدن فطرت ماست

نہ ما را در فراق او عیارے

نہ اور ا بے وصال ما قرارے

نہ او بے ما نہ ما بے او! چہ حال است

فراق ما فراق اندر وصال است

خدا کا مقصود مخلوق میں عشق پیدا کرنا ہے اور اس عشق کا مقصود خود خدا ہے۔ اس لیے عشق کی بدولت انسان میں بصیرت اور معرفت پیدا ہوتی ہے۔

جدائی خاک را بخشد نگاہے

دبد سرمایہ کوہے بہ کاہے

خدا اور انسان کا یہ رشتہ ہی بقائے ذات انسانی کا ضامن ہے۔ نہ اس عشق کی انتہا ہو سکتی ہے اور نہ زندگی ختم ہو سکتی ہے۔ اگر خدا اور انسان کے درمیان عشق کا رابطہ نہ ہوتا تو انسانی نفس بھی مادی مظاہر کی طرح ایک آنی جانی چیز ہوتا:

من و او چیست؟ اسرار الٰہی است

من و او بر دوام ما گواہی است

زندگی خوا ہ خدا کی ہو اور خواہ انسان کی، اس کو خلوت و جلوت دونوں کی ضرورت ہے۔ ذوق جلوت نے ذات الٰہی کو انجمن آفرین اور انجمن آرا کر دیا:

پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر

چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر

محبت دیدہ ور بے انجمن نیست

محبت خود نگر بے انجمن نیست

انگریزی خطبات میں اقبال نے اپنے اس خیال کو بیان کیا ہے کہ خدا نے جامد و بے جان اشیاء پیدا نہیں کیں۔ وہ خود ایک نفس ہے، اس لیے اس سے نفوس ہی صادر ہوئے ہیں۔ جنہیں ہم ذرات کہتے ہیں، وہ بھی دل ہی ہیں یا دلوں کے اجتماعات ہیں۔ یہ نظریہ بھی اسلامی مفکرین اور صوفیہ کے ہاں قدیم سے چلا آتا ہے۔ یہ نظریہ جلال الدین رومی کے ہاں بھی ملتا ہے اور بعض اور صوفی یا متصوف شعراء کے کلام میں بھی:

از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ

طوطی کوشش بہت سے مقابل ہے آئینہ

(غالب)

آہستہ سے چل میان کہسار

ہر سنگ دکان شیشہ گر ہے

(میر درد)

خاک و باد و آب و آتش بندہ اند

بامن و تو مردہ با حق زندہ اند

(رومی)

قرآن بھی جب ’’ یسبح للہ ما فی السماوات وما فی الارض ‘‘ کہتا ہے تو تسبیح نفوس ہی کا فعل ہو سکتی ہے۔ خواہ ہم کائنات میں دیگر نفوس کے انداز حیات اور ان کی تسبیح کو نہ سمجھ سکیں۔ قرآن نے بھی یہ کہا ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔ بعض کم فہم حکما اور مفسرین نے اس کو جامد کائنات کی زبان حال کی تسبیح قرار دیا ہے۔ جیسے کوئی کھنڈر زبان سے یہ کہہ رہا ہو کہ میں بھی ایک شاندار عمارت تھا۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ توجیہہ درست نہیں معلوم ہوتی۔ اقبال کہتا ہے کہ اس عالم میں اور کسی چیز کا وجود نہیں۔ یا نفوس ہیں یا خدا کا نفس کلی:

کہ ایں جا ہیچ کس جز ما او نیست

خدا اور ہمارے درمیان فراق و وصل کی حالتیں یکے بعد دیگرے آتی رہتی ہیں۔ موجیں ساحل سے ٹکراتی بھی ہیں اور پھر اس سے دور بھی ہو جاتی ہیں :

گہے خود را ز ما بیگانہ سازد

گہے ما را چو سازے می نوازو

’’ چو سازے می نوازد‘‘ سے غالب کا ایک لطیف شعر یاد آ گیا:

شوریست نوا ریزی تار نفسم را

پیدا نہ اے جنبش مضراب کجائی

خدا ہی کی تلاش اور اس کے عشق میں انسان اپنے تصور سے پتھروں میں اس کی تصویریں بنا کر ان کی پرستش کرتا رہا ہے اور کبھی بن دیکھے بھی سجدہ پاشی کرتا ہے۔ کبھی پردۂ فطرت کو چاک کر کے جمال یار کی بیباکانہ دید کی ایک جھلک بھی اس کو دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ تھا کہ اس مشت خاک میں یہ سودا کیا ہے۔ اس کا جواب اقبال کے ہاں یہ ہے کہ یہ سودا نہیں، بلکہ سرچشمہ حیات ہے۔ اسی عشق سے انسان کو بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور نشوونما بھی:

چہ سودا سر ایں مشت خاک است

ازیں سودا درونش تابناک است

چہ خوش سودا کہ نالہ از فراقش

و لیکن ہم ببالد از فراقش

فراق او چناں صاحب نظر کرد

کہ شام خویش را بر خود سحر کرد

خدا کی محبت نے عالم اور زندگی کو پیدا کیا اور پھر اس محبت کو مخلوقات کے لیے ذریعہ ارتقاء بنایا:

محبت؟ درگرہ بستن مقامات

محبت؟ در گزشتن از نہایات

عالم کے مظاہر محبت ہی سے پیدا ہوتے اور محبت ہی سے ترقی پاتے ہیں۔ محبت باعث تکوین بھی ہے اور مقصود حیات بھی:

عشق ہم را ہست و ہم خود منزل است

خدا کی خودی میں گم یا فنا ہو جانے سے عشق کا خاتمہ ہو جائے گا۔ نہ خدا کی محبت کا کوئی محبوب رہے گا اور نہ محبت خدا کے لیے کوئی آرزو باقی رہے گی۔ فنا کے اس روایتی مفہوم سے خدا اور انسان دونوں کی خودی سوخت ہو جاتی ہے۔ خدا کے لیے بھی مشہود و معروف و محبوب مخلوق کی ہستی ضروری ہے اور انسان کے لیے بھی۔ حیات جاودانی کے حصول کا طریقہ یہی ہے کہ خودی کے ارتقاء اور عشق الٰہی میں ہزاروں عالم پیدا کرتا ہوا چلا جائے اور فطرت کی یہ خلاقی کہیں ختم نہ ہو۔ خدا میں گم ہو جانے سے تو انسان فنا ہو جائے گا، لیکن خدا کو اپنے اندر مسلسل جذب کرتے رہنے سے انسان ہمیشہ باقی رہے گا۔ انسان کا مقصود حیات یہ ہے کہ زندگی کی ہر پہلی صورت کو فنا کرتا ہوا ارتقاء یافتہ صورتوں کی آفرینش کرتا چلا جائے:

ہزاراں عالما فتد در رہ ما

بپایاں کے رسد جولانگہ ما

مسافر! جاوداں زی جاوداں میر

جہانے را کہ پیش آید فرا گیر

یہ بحرش گم شدن انجام ما نیست

اگر اور ا تو درگیری فنا نیست

زندگی دو گھڑی کا وقفہ ہے

یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

(میرتقی)

بڑھے جا زندگی ذوق سفر ہے

ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی

اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے

(اقبال)

اقبال کے تصوف اور اکثر صوفیہ کے تصوف میں یہ ایک بنیادی فرق ہے کہ اقبال کے نزدیک خدا کی بھی خودی ہے اور انسان کی بھی اور انسان کی خودی کا ارتقاء مسلسل صفات الٰہیہ پیدا کرنے سے ہوتا ہے۔ اس کا انجام یہ نہیں کہ انسان کی خودی خدا کی خودی میں اس طرح گم ہو جائے جس طرح بارش کا قطرہ سمندر میں اپنی انفرادیت کو فنا کر دیتا ہے۔ اس کے نزدیک خودی کی ماہیت ہی یہی ہے کہ وہ اپنی عینیت کو قائم و دائم رکھنے کی کوشش کرے۔ لہٰذا نہ خدا انسان میں گم ہو سکتا ہے اور نہ انسان خدا کی ذات میں :

خودی اندر خودی گنجد محال است

خودی را عین خود بودن کمال است

پانچواں سوال یہ ہے:

کہ من باشم مرا از، من، خبر کن

چہ معنی دارد اندر خود سفر کن

یہ سوال خودی کی مزید توضیح کے لیے کیا گیا ہے کہ ’’ میں ‘‘ ’’ من‘‘ یا’’ انا‘‘ کیا ہے اور خود اپنی ذات کے اندر سفر کرنے کے کیا معنی ہیں ؟

جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ خودی‘‘ حفظ و بقائے کائنات کی ضامن ہے۔ یہ نہیں کہ حیات میں ارتقاء کے ایک خاص درجے میں خودی پیدا ہوئی ہے، بلکہ ازلی حقیقت خودی ہے اور حیات اس کا پرتو ذات ہے۔ خودی کی وحدت جب مظاہر کی کثرت پیدا کرتی ہے تو اس سے زندگی بیدار ہو جاتی ہے۔ ذوق نمو کے بغیر مظاہر حیات پیدا نہ ہوتے اور نہ کشود حیات کے بغیر خودی کی نمود ہو سکتی تھی۔ زندگی سے اشیاء کی نہیں بلکہ افراد یا خودی کے مالک نفوس کی نمود ہوتی ہے۔ کثرت افزائی، انجمن آرائی، جلوت پسندی، غیر آفرینی اور غیر بینی کے باوجود خودی اپنی ماہیت میں خلوت نشیں ہی رہتی ہے۔ جلوت میں ظہور سے اس کی خلوت مستور میں فرق نہیں آتا۔ ضمیر فطرت جستجو آرزوئے رنگ و بو کے باوجود پوشیدہ رہتا ہے:

ز خود نا رفتہ بیروں غیر بیں است

میان انجمن خلوت نشین است

نہاں از دیدہا در ہائے و ہوئے

دما دم جستجوے رنگ و بوئے

اس کا باطنی پیچ و تاب پیکار حیات میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی پیکار سے ارتقا اور بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ کف خاک کو اسی ستیز اور جست و خیز نے آئینہ حقیقت بنا دیا ہے۔ پیکر خاکی خودی کا حجاب بن جاتا ہے، لیکن اسی کے اندر سے آفتاب طلوع ہوتا ہے:

طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا

(ناسخ)

خودی را پیکر خاکی حجاب است

طلوع او مثال آفتاب است

درون سینہ ما خاور او

فروغ خاک ما از جوہر او

اے سائل تو پوچھتا ہے یہ ’’ من‘‘ کیا ہے اور ’’ اندر خود سفر کردن‘‘ کے کیا معنی ہیں۔ اس کا جواب تو میں ایک انداز سے پہلے بھی دے چکا ہوں کہ ربط جان و تن کس قسم کا ہے۔ تو اپنے ضمیر میں ڈوب کر دیکھ لے کہ یہ من کیا ہے۔ اس ’’ سفر خوی‘‘ش میں جس خودی کا انکشاف ہوتا ہے وہ والدین کے اجتماع سے پیدا نہیں ہوئی، اس کی حقیقت ازلی ہے۔ کسی صوفی کا شعر ہے:

ما پرتو نور پادشاہ ازلیم

فرزند نہ ایم آدم و حوا را

اسی ’’ من‘‘ کے متعلق رومی کہتا ہے:

من آں روز بودم کہ اسما نہ بود

نشان از وجود مسمیٰ نہ بود

اور کسی صوفی نے ایک شوخ انداز میں کہا ہے:

می گفت در بیاباں رندے دہن دریدہ

صوفی خدا نہ دارو او نیست آفریدہ

اقبال کہتا ہے ’’ سفر در خویش؟ زاون بے اب و مام‘‘ یہاں تکوین فی الزمان کا سوال نہیں بلکہ ’’ابد بودن بیک دم اضطرابے‘‘

یا’’ طے شود جادۂ صد سالہ بہ آہے کاہے‘‘ کا مضمون ہے۔

خودی جب لازمانی اور لامکانی حالت سے شہود کی طرف واپس آتی ہے تو عالم مکانی اس کی مٹھی میں ہوتا ہے:

چناں باز آمدن از لا مکانش

درون سینہ او در کف جہانش

یہ مسئلہ دانش کا نہیں بلکہ بینش کا ہے۔ دیدن آئینہ کمال ہے اور اس حال کے مقابلے میں قال محض جام سفال ہے:

ولے ایں راز را گفتن محال است

کہ دیدن شیشہ و گفتن سفال است

اس کی حقیقت فہم قرآنی رکھنے والے انسان پر کسی قدر بے نقاب ہو جاتی ہے۔ وہ امانت کیا تھی جس کی بھاری ذمہ داری اور اضطراب آفرینی کو دیکھ کر موجودات خاک و افلاک نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ’’ انا عرضنا‘‘ کی معرفت آفرین آیت میں اسی خودی کی ماہیت کی طرف اشارہ ہے:

آسماں بار امانت نتوانست کشید

قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند

(حافظ)

بردہ آدم از امانت ہر چہ گردوں برتنافت

ریخت مے بر خاک چوں در جام گنجیدن نہ داشت

(غالب)

چہ گویم از من و از توش و تابش

کند ’’انا عرضنا‘‘ بے نقابش

فلک را لرزہ بر تن از فر او

زمان و ہم مکان اندر براو

یہ خودی ’’ غیر خود‘‘ سے وابستہ بھی ہے اور ماوریٰ بھی۔ ذرا اپنے خیال پر ہی غور کر لیجئے۔ دیکھئے سیر اندیشہ میں زمان مکان کہاں ہے۔ تفکر میں مکانیت نہیں ہے اور زمانیت کا یہ حال ہے کہ ایک لمحے میں خیال افلاک کو عبور کر جاتا ہے۔ جسم کے زنداں میں محبوس ہونے کے باوجود یہ آزادی، خود ہی کمند، خود ہی صید، خود ہی صیاد ہے۔ اور صیادی بھی ایسی جو یزداں گیر کا حوصلہ رکھتی ہے۔ یہی خودی تیرے باطن کا چراغ ہے جس کا تجھے امین بنایا گیا ہے کہ یہ بجھنے نہ پائے بلکہ اس کے نور میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔

چھٹا سوال یہ ہے:

چہ جزو است آنکہ او از کل فزون است

طریق جستن آں جزو چون است

یہ سوال بھی خودی کی ماہیت کی بابت ہے۔ پہلے جوابات میں خودی کی حقیقت بہت کچھ بیان ہو چکی ہے۔ لیکن علامہ اقبال کا یہ خاص مضمون ہے اس لیے ان کو بیان سے سیری نہیں ہوتی۔ انسان کی خودی کل موجودات کا ایک جزو معلوم ہوتی ہے لیکن اس پر جزو کل کی منطق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ لامتناہی زمان و مکان کا عالم اس کے اندر سما جاتا ہے:

خودی ز اندازہ ہائے ما فزون است

خودی زاں کل کہ تو بینی فزون است

شجر و حجر میں وہ بات نہیں جو انسان کے نفس میں ہے ہستی کے اندر خودی ہی خود نگر ہے، کسی اور ہستی کی یہ پرواز کہاں حاصل ہے۔ اس کا کام گر گر کر ابھرنا ہے۔ عالم مادی کے ظلمت کدے میں یہ چراغ منیر و مستیز ہے۔ خودی فطرت کی گہرائیوں میں غوطہ لگا کر معرفت کے موتی نکالتی ہے۔ اس کا ظاہر زمانی لیکن اس کا ضمیر جاودانی ہے۔ تمام ہستی اس کی تقدیر کے ساتھ وابستہ ہے۔ تقدیر کے احکام اس پر خارج سے نازل نہیں ہوتے۔ اس کی تقدیر اس کی اپنی نہاد میں مضمر ہے۔ یہ ظاہر میں مجبور ہے اور باطن میں مختار۔ اسی حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے اسلام نے یہ تعلیم دی کہ ایمان جبر و اختیار کے مابین ہے۔ اے انسان تو مخلوق کو مجبور دیکھتا اور مجبور سمجھتا ہے، لیکن تیری جان کو اس جاں آفرین نے پیدا کیا ہے جو خلاق و مختار ہے، اور یہی صفت اس نے تیری خودی میں بھی رکھ دی ہے۔ خلق الانسان علی صورتہ۔ جہاں جان کی ماہیت کا ذکر ہو، وہاں جبر کا تذکرہ بے معنی ہے کیوں کہ جان کے معنی ہی یہی ہیں کہ اس کی فطرت آزاد ہو:

تو ہر مخلوق را مجبور گوئی

اسیر بند نزد و دور گوئی

ولے جاں از دم جاں آفرین است

بچندیں جلوہ ہا خلوت نشین است

ز جبر او حدیثے درمیاں نیست

کہ جاں بے فطرت آزاد جاں نیست

شبیخون بر جہان کیف و کم زد

ز مجبوری بختاری قدم زد

زندگی کا مقصود اور اس کی راہ ارتقاء یہ ہے کہ وہ مسلسل گرد مجبوری کو دامن سے جھٹکتی چلی جائے۔ جو ہستی درجہ حیات میں جتنی بلند ہے اتنی ہی صاحب اختیار ہے۔ جب اختیار اور بڑھ جائے گا تو انسان صحیح معنوں میں مسخر کائنات اور مسجود ملائک ہو گا۔ خودی کی ترقی خرد سے عشق کی طرف ہوتی ہے۔ خرد کا کام محسوسات کا فہم ہے اور وہ اجزاء کے اندر روابط تلاش کرتی رہتی ہے۔ عشق کلیت حیات پر محیط ہو جاتا ہے۔ خرد مر سکتی ہے لیکن عشق کے لیے موت نہیں :

ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق

عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق

خرد را از حواس آید متاعے

فغاں از عشق می گیر شعاعے

خرد جز را فغاں کل را بگیرد

خرد میرو فغاں ہر گز نہ میرو

٭٭٭

فغان عاشقاں انجام کارے است

نہاں در یک دم اور وزگارے است

خودی پختہ ہونے سے ابد پیوند اور لازوال ہو جاتی ہے:

ازاں مرگے کہ می آید چہ باک است

خودی چوں پختہ شد از برگ پاک است

خودی کی موت عشق کے فقدان سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اصل موت یہی ہے اور اسی موت سے ڈرنا چاہیے:

ترا ایں مرگ ہر دم در کمین است

بترس از دے کہ مرگ ما ہمین است

ساتواں سوال یہ ہے:

مسافر چوں بود رہرو کدام است

کرا گویم کہ او مرد تمام است

سوال یہ ہے کہ مسافر اور رہرو کسے کہتے اور سفر کے کیا معنی ہیں۔ انسان کامل کی کیا نشانی ہے۔

اقبال نے جا بجا زندگی کو ایک لامتناہی سفر قرار دیا ہے اور اسے مرحلہ شوق کہا ہے، جس کو سکون منزل کی آرزو نہیں :

ہر شے مسافر ہر چیز راہی

کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی

بڑھے جا زندگی ذوق سفر ہے

لندن میں کہی ہوئی ایک غزل بال جبریل میں درج ہے۔ جس کا موضوع بھی یہی ہے کہ ہر حالت سے گزرتا چلا جا:

تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر

مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر

صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی مختلف احوال سے آگے نکلتا جا:

جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے

حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر

گرچہ ہے دل کشا بہت حسن فرنگ کی بہار

طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر

کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کشاد شرق و غرب

تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر

اب یہاں اسی سفر کے متعلق سوال ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کوئی خارجی عالم کی مسافت طے کرنا نہیں ہے۔ یہ سفر خودی کا باطنی ارتقائی سفر ہے۔ اس میں انسان خود ہی مسافر ہے، خود ہی راہ ہے اور خود ہی منزل ہے۔ یہ از خود تا بخود سفر ہے۔ یہ خودی کی مسلسل ترقی یافتہ صورتوں تک پہنچنے کی کوشش کا نام ہے:

اگر چشمے کشائی بر دل خویش

دروں سینہ بینی منزل خویش

سفر اندر حضر گردن چنین است

سفر از خود بخود کردن ہمین است

خودی کسی مکان کے اندر نہیں کہ اس کا کوئی مقام متعین کر سکیں۔ زمانی و مکانی عالم کے لحاظ سے اگر کوئی پوچھے کہ ہم کہاں ہیں تو اس کا جواب محال ہے۔ چشم مہ و اختر جو ہمارے ظاہر کو دیکھتی ہے اسے ہماری حقیقت کا کچھ علم نہیں :

کسے ایں جا نداند ما کجانیم

کہ در چشم مہ و اختر نیانم

اس سفر کی کوئی انتہائی منزل نہیں، کیونکہ اگر کوئی آخری منزل آ جائے تو ہماری جان ہی فنا ہو جائے۔ جان تو جستجو اور آرزو کا نام ہے، اگر کوئی انجام آ گیا تو آرزو ناپید اور اس کے ساتھ زندگی بھی ختم ہو جائے گی:

مجو پایاں کہ پایائے نداری

بپایاں تا رسی جانے نداری

خودی اپنی ترقی میں یقین اور بصیرت میں اضافہ کرتی رہتی ہے اور اس کے ساتھ تب و تاب محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نہ محبت کو فنا ہے اور نہ یقین و دید کی کوئی انتہا ہے۔ کمال زندگی دیدار ذات ہے، لیکن اگر حسن ذات بے پایاں ہے، تو عشق ذات کی بھی انتہا کہیں نہیں ہے۔ خدا کو دیکھتے ہوئے بھی شوق دیدار کا سفر جاری رہتا ہے:

چناں با ذات حق خلوت گزینی

ترا او بیند و اور ا تو بینی

لیکن خدا کے اندر گم ہو جانا مقصود نہیں۔ اگر ہم گم ہو گئے تو محب و محبوب کا امتیاز ہی مٹ جائے گا۔ اس لیے اگر تو خدا کے حضور میں بھی گزر رہا ہو تو خودی کو استوار کرتے ہوئے گزر۔ قطرے کی طرح سمندر میں ناپید نہ ہو جا:

بخود محکم گزر اندر حضورش

مشو ناپید اندر بحر نورش

جس شخص میں دید پیدا ہو جائے، یعنی اپنی اور خدات کی ذات کا بیک وقت دیدار، اور یہ دیدار اس کی خوشی کی سوخت نہ کر دے تو اسی شخص کو دنیا کا امام سمجھو۔ مرد کامل کا معیار یہی ہے:

کسے کو دید عالم را امام است

من و تو نا تمامیم او تمام است

آدمی دید است و باقی پوست است

دید آں باشد کہ دید دوست است

(رومی)

اگر ایسا شخص دکھائی نہ دے تو اس کی طلب کو جاری رکھ اور اگر خوش قسمتی سے مل جائے تو پھر اس کا دامن نہ چھوڑنا۔ یہ مرد کامل تجھے فقیہ و شیخ و ملا کے طبقوں میں نہ ملے گا۔ یہ لوگ انسانوں کے شکاری ہیں ان سے غافل نہ رہنا۔

فقیہ و شیخ و ملا را مدہ دست

مرد مانند ماہی غافل از شست

مرد کامل تو ملک اور دین دونوں میں اچھا رہنما ہوتا ہے، کیوں کہ وہ مرد راہ ہے۔ فرنگ سے بھی خبردار رہنا۔ وہاں جو جمہوریت انسانی اخوت و مساوات کی مدعی بن گئی ہے، یہ سب ابلہ فریبی ہے۔ ہوس پرست عوام کا ہجوم کہاں انسانیت کی ترقی اور بصیرت افزائی کا موجب بن سکتا ہے۔ ایک لاکھ جمہوریت کے ہنگامے بھی ایک مرد راہ کے برابر بصیرت نہیں رکھتے۔ اس جمہوریت میں امام عالم کہاں سے آئیں گے۔ مشرق اپنی جھوٹی روحانیت اور مذہبیت کے دعوے باطل میں مردان راہ سے خالی ہے اور مغرب مادہ پرستی میں اسیر کمند ہوا ہے۔ اب شرق و غرب میں کس کو کہوں کہ وہ ’’ مرد تمام‘‘ ہے:

بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو

کہ نیزو بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو

کیا یہ مرد راہ کہیں نہیں ؟ کیا یہ محض انسانیت کا ملہ کا ایک نصب العین ہے؟ ایک عرصے تک تو یہ عارف رومی کو بھی کہیں دکھائی نہ دیا:

گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما

گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست

آٹھواں سوال یہ ہے:

کدامی نکتہ را نطق است انا الحق

چہ گوئی ہرزہ بود آں رمز مطلق

ایقان ’’ انا الحق‘‘ تمام تصور کا محور ہے۔ اس کے متعلق آج تک بحث چلی آتی ہے۔ کہ منصور نے جو انا الحق کہا وہ کفر کا کلمہ تھا یا راز حیات کا افشا تھا۔ علمائے ظاہر نے اس جرم پر اس کو سولی پر چڑھا دیا، لیکن اکثر صوفی اس کو عارف باللہ اور امام سمجھتے ہیں اور تنگ نظر فقہا کو ایک معصوم کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہیں۔

چوں قلم در دست غدارے بود

لا جرم منصور بر دارے بود

(رومی)

محمود شابستری نے بھی ’’ گلشن راز‘‘ میں بڑے زور و شور سے منصور کی حمایت کی ہے:

را باشد انالحق از درختے

چرا نبود روا از نیک بختے

انا الحق کا عقیدہ ہندو تصوف کا بھی لب لباب ہے:

اہم برہم آسمی تت توم آسی

اقبال نے جو نظریہ خودی پیش کیا اس میں بھی جا بجا خودی اور خدا میں امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ خودی کے کثرت سے اشعار ایسے ہیں کہ بادی النظر میں دھوکا ہو سکتا ہے کہ یہ اشعار خدا کی ذات و صفات کے متعلق ہیں۔ اقبال مذکورہ صدر سوال میں انا الحق کے متعلق اپنے موقف کی تشریح کرتے ہیں، چونکہ یہ عقیدہ ہند اور ایران دونوں جگہ عام اور مسلم ہو گیا تھا اسی لیے پہلے شعر میں فرماتے ہیں :

من از رمز انا الحق باز گویم

دگر با ہند و ایراں راز گویم

پہلے یہ بیان کیا ہے کہ ایک ایرانی یہ کہہ گیا ہے کہ زندگی دھوکا کھا کر یہ ’’ من‘‘ کا تصور پیدا کر دیتی ہے مگر حقیقت میں تمام عالم، انسانی نفوس سمیت ایک سوتے ہوئے خدا کا خواب ہے۔ وہ شعر اقبال نے یہاں درج نہیں کیا لیکن اس قسم کی بحث کے دوران میں انہوں نے مجھے سنایا تھا۔ وہ شعر یہ ہے:

تا تو ہستی خداے در خواب است

تو نمانی چو او شود بیدار

مرزا غالب بھی عقلی طور پر وحدت وجود کے قائل تھے، اس لیے اس قسم کے تصورات غالب کے اردو اور فارسی کلام میں کثرت سے ملتے ہیں :

ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد

عالم تمام حلقہ دام خیال ہے

اس فارسی شعر کے تصور کو اقبال نے اپنے جواب میں ذرا پھیلا کر لکھا ہے، کیوں کہ اس کی تردید مقصود ہے:

خدا خفت و وجود ما ز خوابش

وجود ما نمود ما ز خوابش

مقام تحت و فوق و چار سو خواب

سکون و سیر و شوق و جستجو خواب

دل بیدار وو عقل نکتہ بیں، گمان و فکر، تصدیق و یقیں سب خواب ہی خواب ہے اور یہ خواب خدا دیکھ رہا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس زندگی کو اپنی چشم بیدار سے دیکھ رہا ہوں لیکن یہ بیداری بھی سپنا ہے اور ہمارے گفتار و کردار ہندو ویدانت کی اصطلاح میں مایا یا فریب ادراک ہیں۔ یہاں ایک ویدانتی گرو کے متعلق ایک لطیفہ یاد آ گیا جو ہم نے اپنے ہندو استاد فلسفہ سے سنا تھا۔ یہ گرو جنگل میں اپنے چیلوں کو حیات و کائنات کے مایا ہونے کی تعلیم دیا کرتا تھا۔ ایک روز ایک مست ہاتھی گرو اور چیلوں کی طرف لپکتا دکھائی دیا۔ چیلے جان بچا کر ادھر ادھر تتر بتر ہو گئے اور گرو جی بھی ایک درخت پر چڑھ گئے۔ ایک چیلے نے جرأت کر کے گرو جی سے پوچھا کہ اگر یہ ہاتھی اور اس سے جان کا خطرہ مایا تھا تو آپ اس طرح دم دبا کر کیوں بھاگے؟ گرو جی اپنی منطق میں طاق تھے۔ انہوں نے جواب دیا عجب احمق ہو کہ وہ میرا بھاگنا اور درخت پر چڑھ جانا بھی تو مایا ہی تھا۔ جیسے ہاتھی کی کچھ حقیقت نہ تھی اسی طرح ہمارے فرار کی بھی کچھ اصلیت نہیں۔ وہ بھی دھوکا یہ بھی دھوکا۔

اقبال کے نظریہ حیات میں خدا بھی حق ہے اور انسانی خودی، جو خدا کی حیات ابدی سے سر زد ہوئی ہے، وہ بھی حق ہے۔ وحدت وجود کا روایتی فلسفہ خدا کو حق قرار دیتا ہے۔ وہی حقیقت مطلقہ ہے، لیکن انسانی نفس یا خواب ہے، یا فریب ادراک، یا خدا کے لامتناہی قلزم ہستی کی ایک لہر۔ لہریں پیدا اور نا پید ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن قلزم ہستی مطلق اپنے تلاطم میں ان سے مستغنی رہتا ہے۔ وحدت وجود کے اکثر قائلوں نے انسانی نفس کو ایک وہمی ہستی قرار دیا ہے:

صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما

چوں حباب آئینہ بر طاق عدم داریم ما

(غالب)

اقبال کہتا ہے کہ تمام عالم کے وجود حقیقی ہونے پر شک ہو سکتا ہے لیکن شک کرنے والا نفس موہوم نہیں ہو سکتا۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری دانش قیاسی ہے اور قیاس کا مدار حواس پر ہے، حواس مختلف ہوں تو عالم بھی اور کا اور ہو جائے۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہان رنگ و بو محض اعتبار ہے، خواب ہے یا حقیقت کا حجاب ہے۔ لیکن اپنے نفس کے وجود کا انکار ناممکن ہے۔ (یہ بعینہ وہی بات ہے جہاں سے فرنگ کا فلسفہ جدید شروع ہوتا ہے۔ ڈیکارٹ کہتا ہے کہ میرا سوچنا یا تمام موجودات کے وجود پر شک کرنا ہی اس امر کی محکم دلیل ہے کہ اور کچھ ہو نہ ہو صاحب فکر نفس تو موجود ہے):

تواں گفتن ہمہ نیرنگ ہوش است

فریب پردہ ہاے چشم و گوش است

خودی از کائنات رنگ و بو نیست

حواس ما میلان ما و اس نیست

خودی کے حرم اور خلوت گاہ میں حواس و محسوسات کو بار حاصل نہیں ہے۔ سب احساس و ادراک بالواسطہ ہوتا ہے، لیکن انسان کو اپنے نفس کا موجود ہونا براہ راست محسوس ہوتا ہے۔ ظن اور شک کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ نفس کو اپنے ’’ حق‘‘ ہونے کا احساس ہے۔ حقیقت مطلقہ تو خدا کی ذات حق ہے، لیکن نفس کے حقیقی ہونے پر بھی کوئی شک نہیں :

خودی پنہاں ز حجت بے نیاز است

یکے اندیش و در یاب ایں چہ راز است

خودی را حق بداں باطل مپندار

خودی را کشت بے حاصل مپندار

خدا کی خودی اور انسان کی خودی میں یہ فرق ہے کہ خدا کا سرمدی دوام کوئی جزائے کار نہیں، بلکہ اس کی ماہیت میں داخل ہے۔ لیکن انسانی خودی کو لازوال کرنے کے لیے عمل اور عشق سے پائدار کرنا پڑتا ہے۔

اقبال کہتا ہے کہ شنکر اچاریہ اور منصور حلاج دونوں نے اپنے اپنے رنگ میں انا الحق کہا۔ تم ان کے نظریات کو برطرف کر کے عرفان خودی سے خدا کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ انا الحق کہتے ہوئے اپنی خودی کے راستے سے خدا کی مطلق خودی تک پہنچو۔ ’’ من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ‘‘ :

دگر از شنکر و منصور کم گوے

خدا را ہم براہ خویشتن جوے

بخود گم بہر تحقیق خودی شو

انا الحق گو و صدیق خودی شو

یہاں اقبال کے اردو اشعار کا درج کرنا بھی لازمی معلوم ہوتا ہے:

فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی

مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آش

حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر

اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش

نواں سوال یہ ہے:

کہ شد بر سر وحدت واقف آخر

شناساے چہ آمد عارف آخر

راز وحدت سے کون واقف ہوا اور عارف کو کس حقیقت کا عرفان حاصل ہوا، اس کے جواب میں پہلے دنیا کے ہر مظہر کی بے ثباتی پر کچھ اشعار کہتے ہیں۔ شجر و حجر، سنگ و شرر، شبنم و گہر، رنگ و نوائے چنگ، کسی کو ثبات حاصل نہیں۔ انسان کا دم بھی آنی جانی چیز ہے:

مپرس از من ز عالم گیری مرگ

من و تو از نفس زنجیری مرگ

عرفان میں پہلا انکشاف ہر شے کی فنا پذیری ہے:

فنا را بادۂ ہر جام گردند

چہ بیدردانہ اور ام عام کرند

لیکن خودی کا چراغ صر صر فنا سے نہیں بجھتا:

خودی در سینہ چاکے نگہ دار

ازیں کوکب چراغ شام کردند

جہاں کا کوئی حصہ فنا کی دستبرد سے باہر نہیں۔ ہر صورت فانی اور آفل ہے۔ لیکن خودی آرزو اور جستجو سے قائم و دائم ہو جاتی ہے۔ فنا کا قانون اس پر عائد نہیں ہوتا:

نگہ دارند ایں جا آرزو را

سرور ذوق و شوق جستجو را

خودی را لازوالے می تواں کرد

فراقے را وصالے می تواں کرد

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کو لا تعدادنفوس کی خودی کو برقرار رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خدائے زندہ دوسرے نفس سے رابطہ رکھنے کا ذوق رکھتا ہے، اسے خود تنہائی پسند نہیں :

خدائے زندہ بے ذوق سخن نیست

تجلی ہاے او بے انجمن نیست

’’ الست بربکم قالو ابلے‘‘ خود خدا کے ذوق سے سرزد ہوا۔ اسی نے نفوس میں عشق کی چنگاری رکھ دی۔ ’’ چہ آتش عشق در خاکے برا فروخت‘‘ خدا کی گرمی محفل تو ہمیں سے ہے۔ ہمیں فنا کر دے گا تو وہ تنہا رہ جائے گا:

اگر مائیم گرداں جام ساقی است

بیزمش گرمی ہنگامہ باقی است

ہمیں بھی اپنی خودی کو اس لیے لازوال بنانا چاہیے کہ خدا کی بزم آرائی باقی رہے:

مرا دل سوخت بر تنہائی او

گنم سامان بزم آرائی او

مثال دانہ می کارم خودی را

براے او نگہ دارم خودی را

٭٭٭

 

 

 

 

سولہواں باب

 

فنون لطیفہ

 

 

شروع میں اس امر کی کسی قدر وضاحت درکا ہے کہ کن فنون کو فنون لطیفہ کہتے ہیں اور دیگر فنون سے ان کو کون سے صفت ممتاز کرتی ہے۔ کچھ فنون ایسے ہیں جو انسان نے محض زندہ رہنے کی کوشش میں خاص ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیدا کیے ہیں۔ انسان کو غذا چاہیے۔ شروع میں وہ غذا یا خود رو پھلوں سے حاصل کرتا تھا یا دوسرے جانوروں کا شکار کر کے۔ انسان کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ وہ آلات ساز حیوان ہے۔ دوسرے حیوانوں کو فطرت ان کے اعضا ہی میں آلات مہیا کر دیتی ہے۔ لیکن انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فطرت کے عطا کردہ اعضاء کے اعمال میں آلات سے اضافہ کرتا ہے تاکہ ان کی افادیت بڑھ جائے۔ ہزار ہا برس قبل کے تمدن حجری میں پتھر کے نوک دار ٹکڑے ملتے ہیں جو انسان کے اولین آلات جارحہ ہیں۔ غاروں اور درختوں کی پناہوں سے نکل کر انسان کو سر چھپانے اور موسم کی شدت سے اور دام و دد کی حملہ آوری سے محفوظ رہنے کے لیے کاشانے بنانے پڑے۔ جیسے جیسے انسان کی حاجتیں بڑھتی گئیں اور اس کی طبیعت کی لطافتوں میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے حیاتیاتی افادیت کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا۔ خالی مادی افادیت کے علاوہ اس کے ذوق جمال کو بھی ترقی ہوئی۔ یہ امر غور طلب ہے کہ یہ ذوق جمال انسان میں کب پیدا ہوا۔ اس کے ماخذ اور اس کی ابتداء پر غور کرنے کے لیے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ آیا ذوق جمال انسان ہی کی خصوصیت ہے یا حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے۔ بلکہ حیوانات سے بھی اور آگے جا کر دیکھنا پڑے گا کہ نباتات میں بھی ذوق جمال کے مظاہر موجود ہیں یا نہیں۔ بعض حکماء اس کو اور دور تک لے گئے ہیں۔ ان کے نزدیک جمادات میں بھی حسن آفرینی موجود ہے۔ بعض کیمیائی عناصر یا مرکبات میں جو کرسٹل ہیں ان میں جیومیٹری کے بہت دلکش نقشے دکھائی دیتے ہیں اور ہر کرسٹل کا ایک ڈیزائن مقرر ہے جس سے وہ سر مو تجاویز نہیں کرتا۔ اکثر حکماء طبیعین کا عقیدہ ہے کہ زندگی جمادات کے اندر ہی سے مخصوص تراکیب عناصر کے پیدا ہونے کے بعد ظہور میں آئی ہے۔ زندگی جمادات میں خارج سے داخل نہیں کی گئی۔ بعض مفکرین ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ جمادی اور میکانکی مادے میں سے زندگی کا ظہور کسی طرح قابل فہم نہیں۔ اس کا کوئی ماخذ جمادات سے خارج ہی نہیں ہو گا۔ فیثا غورسی کہتے تھے کہ زندگی ہم آہنگی اور توازن کی ایک خاص صورت کا نام ہے اور ہم آہنگی اجرام فلکیہ کی حرکات اور گردشوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ان گردشوں سے موسیقی پیدا ہوتی ہے، جسے ہمارے کان نہیں سن سکتے۔ فلسفہ مسلمانوں کے افکار میں بھی داخل ہو گیا تھا۔ اس کے زیر اثر غالب نے یہ شعر کہا ہے:

پیکر عشاق ساز طالع ناساز ہے

نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے

صوفیہ خدا یا ہستی مطلق کو حسن مطلق بھی کہتے ہیں، جس کا موجودات کے تمام مدارج اور تمام مظاہر میں بفرق مراتب ظہور ہوتا ہے۔ ’’ اللہ جمیل ویحب الجمال‘‘ خدا خود جمیل ہے اور جمال سے محبت رکھتا ہے۔ خدا کائنات میں جو صورت گری کرتا ہے اس میں حسن آفرینی کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا۔

اس سوال کا جواب کہ انسان میں ذوق جمال کب اور کیوں کر پیدا ہوا، تمام فطرت کے مشاہدے سے مل سکتا ہے۔ حسن آفرینی اگر جمادات، نباتات اور حیوانات سب میں پائی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسانیت کا دور اولیں بھی اس سے معرا ہو۔ انسان کے بچے آغاز طفولیت ہی میں اچھی آواز اور دلکش رنگوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ لوریاں، جن میں موسیقی ہوتی ہے ان کے لیے سکون آفرین اور خواب خوش کا ذریعہ بنتی ہیں۔ تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ جانوروں پر بھی موسیقی کا اثر ہوتا ہے۔ یورپ میں بعض جگہ یہ تجربہ کیا گیا کہ اگر دودھ دوہتے ہوئے ریڈیو لگا دیا جائے جس سے اچھی موسیقی نکل رہی ہو تو گائے دودھ زیادہ دیتی ہے۔ ذوق جمال سے موجودات کا کوئی درجہ اور کوئی پہلو مطلقاً معرا دکھائی نہیں دیتا۔ فرانس میں بعض مقامات پر ایسے غار برآمد ہوئے ہیں جن میں دیواروں پر اعلیٰ درجے کی تصویریں ان جانوروں کی بنی ہوئی ہیں جنہیں ناپید ہوئے کوئی پچاس ہزار برس گزرے ہوں گے۔ یہ زمانہ اس خطے میں سیلاب برف کا دور تھا۔ اور دور وحشت کا انسان ان غاروں میں رہتا تھا۔ تلاش غذا میں بعض جانوروں کا شکار کرتا تھا۔ اس کے ذہن میں ان جانوروں کے نقشے مرتسم ہو گئے تھے اور اپنی طویل فرصت میں اس کا یہ شغل تھا کہ جو سامان بھی میسر تھا اور جو آلات بھی وہ بنا سکا تھا، ان کی مدد سے ان جانوروں کی تصویریں بناتا رہتا تھا۔ ان تصویروں میں نقش و نگار اس کمال اتقان سے بنائے گئے ہیں کہ یقین نہیں آ سکتا کہ دور وحشت کا بے تمدن انسان ایسی کاریگری کر سکتا تھا۔ بعض حکماء کا خیال ہے کہ حیوانی زندگی میں جمال جنسی جذبے نے پیدا کیا ہے۔ نر اور مادہ میں جنسی کشش کی شدید ضرورت تھی اس لیے فطرت جانوروں میں اس غرض کو پورا کرنے کے لیے جمال پیدا کرتی تھی۔ یہ نظریہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء میں بھی ملتا ہے اور اس کی نہایت ترقی یافتہ صورت فرائڈ کی نفسیات ہے۔ جس نے انسانی تہذیب و تمدن، مذاہب اور فنون لطیفہ، تمام کا ماخذ جنسی شہوت ہی کو قرار دیا ہے، جو ان تمام مظاہر میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ فرائڈ کے پاس ہر مظہر حیات کی توجیہہ جنسی جذبہ ہے جسے وہ لبیڈو کہتا ہے۔ ہر قسم کا حسن بھی لبیڈو ہی سے پیدا ہوتا ہے اور ہر قسم کے عشق کا پروردگار بھی یہی جذبہ ہے:

بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش

من انداز قدرت را می شناسم

فنون لطیفہ شروع سے ہر قسم کے مذہب کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ انسان کا بہترین فن تعمیر، جس میں حسن و عظمت کی آمیزش ہو، جو جمیل بھی ہو اور جلیل بھی، اس کے معبدوں میں نظر آتا ہے۔ سنگ تراشی، صنم تراشی اور مصوری بھی شروع سے مذہب کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔ مذہب کے تصورات میں بھی فن لطیف موجود ہے۔

اقبال کا نظریہ حیات اسلامی ہے، اس لیے اقبال کے کلام میں سے ان افکار کا انتخاب کرنا پڑے گا جہاں اس نے فنون لطیفہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور ان خیالات کو اسلامی نظریہ حیات سے وابستہ کیا ہے۔ اقبال خود ایک فن لطیف میں صاحب کمال تھا۔ شاعر ہونے کے علاوہ وہ حکیم بھی تھا اور فن لطیف کے ماخذ اور مقصود پر حکیمانہ نظر بھی ڈال سکتا تھا۔ اکثر بڑے شعراء ایسے گزرے ہیں جو اپنے فن میں کامل تھے، لیکن اس کی ماہیت کے متعلق انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ خوش قسمتی سے اقبال ان چند باکمالوں میں سے تھا جن کی طبیعت میں شعر اور حکمت کی ایسی لطیف آمیزش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے سے الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں شاعر کے کلام پر یہ قول صادق آتا ہے کہ:

’’ان من الشعر لحکمۃ و ان من البیان لسحرا‘‘

زاہدان خشک اور فقہائے بے ذوق نے اسلام کے عقائد کو اس انداز سے پیش کیا کہ معترضین کے لیے اس اعتراض کی گنجائش پیدا ہو گئی کہ اسلام میں قریباً تمام فنون لطیفہ حرام ہیں۔ اچھی شاعری کے متعلق تو ان کی زبان بند تھی کیوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود اچھے اشعار کی داد دیتے تھے اور اچھے اشعار کہنے پر شاعروں کی انعام و اکرام سے ہمت افزائی کرتے تھے۔ لیکن باقی فنون لطیفہ زہد خشک کی زد میں آ گئے۔ موسیقی جیسی روح پرور چیز مطلقاً حرام ہو گئی یا مکروہ، جس سے اجتناب تقوے کا تقاضا بن گیا۔ مسلمانوں میں بڑے بڑے صاحب کمال موسیقار گزرے ہیں لیکن یہ شغل ان کا فطری اور ذوقی تھا۔ راسخ الاعتقاد مذہبی طبقہ زیادہ تر اس سے گریز ہی کرتا رہا۔ روحانی طبقے میں بعض صوفیہ کی بدولت سماع حلال ہو گیا، لیکن اس کے حلال و حرام ہونے کے متعلق اب تک بحث جاری ہے۔ ہم نے بعض محفلوں میں دیکھا ہے کہ جہاں موسیقی شروع ہوئی وہاں سے کوئی خشک ملا سر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ موسیقی سے گریز کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک رفیع الشان عمارت میں چھت سے جھاڑ آویزاں تھے جن سے لٹکتے ہوئے بلور کے ٹکڑے جنبش ہوا سے ٹکرا ٹکرا کر دلآویز آواز پیدا کرتے تھے۔ ایک ملا وہاں موجود تھے، وہ لپک کر اس نغمہ زا جھاڑ کی طرف گئے اور اسے دونوں ہاتھوں سے ساکن کرنے کی کوشش کی تاکہ اس نغمے سے ان کی شمع خراشی اور دل خراشی نہ ہو۔ ایک اسی قسم کی محفل عروسی میں سے موسیقی شروع ہوتے ہی ایک شیخ الشیوخ جو ایک بڑی یونیورسٹی میں دینیات کے پروفیسر تھے، بیزار ہو کر فرار ہو گئے۔ اسی یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے ایک اور پروفیسر جو جید عالم دین ہونے کے باوجود ذوق جمال سے معرا نہ تھے، وہ وہیں بیٹھے رہے۔ میں نے دریافت کیا کہ مفتی صاحب آپ کو موسیقی سے گریز نہیں ؟ اس کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ان کا نام بھی عبداللطیف تھا اور انہوں نے جواب بھی نہایت لطیف دیا کہ بھائی موسیقی اگر سریلی ہو تو حلال اور اگر بے سری ہو تو حرام ہے۔

سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے علمائے ظاہر میں فنون لطیفہ سے یہ بے تعلقی کیوں پیدا ہوئی؟ اس کا جواب مشکل نہیں۔ جواب کا پہلا حصہ یہ ہے کہ موسیقی ایک قسم کی نہیں ہوتی اور اس کا ذوق رکھنے والے انسان بھی ایک قسم کے نہیں ہیں۔ موسیقی جذبات انگیز چیز ہے۔ ہر قسم کے جذبات موسیقی کے ذریعے سے ابھارے جا سکتے ہیں۔ دنیا میں اکثر عشرت پسندوں نے اس کو ادنیٰ جذبات کی انگیخت کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ ایک چیز جس کا نہایت عمدہ استعمال بھی ممکن تھا، زیادہ تر شہوائی جذبات کا آلہ بن گئی۔ ادنیٰ انسانوں کی صحبت نے موسیقی کو غذائے روح بنانے کی بجائے غذائے شہوت بنا دیا۔ پرہیز گاروں کا ایسی صحبتوں سے اجتناب لازمی ہو گیا مگر صوفیہ نے جب اس کو روحانیت میں استعمال کیا تو نوائے نے روح کی دمساز بن گئی۔ اخوان الشیاطین کے سازوں میں شیطان مضراب زن تھا، مگر خدا مست انسانوں کو چنگ و رباب میں سے آواز دوست سنائی دینے لگی۔ مولانا روم کا رباب کے متعلق مشہور شعر ہے:

خشک تار و خشک چوب و خشک پوست

از کجا می آید ایں آواز دوست

کسی اور کا صوفیانہ شعر ہے:

کسانیکہ یزداں پرستی کنند

بر آواز دولاب مستی کنند

اقبال کہتا ہے:

مہجور جناں حورے نالد بہ رباب اندر

اکثر علماء اسلام کی فنون لطیفہ سے گریز کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کی نظر طلوع اسلام کے دور پر تھی۔ اس دور تک عربوں کا یہ حال تھا کہ فنون لطیفہ میں سے ان کے ہاں نہ مصوری تھی اور نہ حسین و جمیل صنم تراشی۔ لات و عزیٰ، ہبل اور دیگر دیوتاؤں کے بت یونانیوں کے بتوں کی طرح جمیل نہ تھے۔ نہایت بھدے قسم کی سنگ تراشی تھی۔ اور یہ تمام فن جو ابھی لطیف ہونے کی بجائے زیادہ تر کثیف ہی تھا، ان کے مشرکانہ عقائد کا مظہر تھا۔ وہاں مصوری یا صنم تراشی نے مشرکانہ مذہب سے الگ ہو کر کوئی مستقل حیثیت اختیار نہ کی تھی۔ مصوری اور بت تراشی کا مشرکانہ مذہب سے ایسا گہرا رابطہ تھا کہ ان دونوں کا الگ کرنا محال تھا۔ ا سی وجہ سے توحید کی تلقین کرنے والے انبیاء بنی اسرائیل نے جانداروں کی صورتیں بنانا حرام کر دیا تھا، کیوں کہ بنی اسرائیل کے گردا گرد بڑے زور کی صنم تراشی اور دیوتا پرستی تھی اس کا قلع قمع اسی طرح ہو سکتا تھا کہ صورت گری کو قیا جائے۔ حضرت سلیمان ؑ کو شاید اپنے زمانے میں یہ خطرہ اس شدت کے ساتھ محسوس نہ ہوا اس لیے انہوں نے تماثیل بنوانے سے پرہیز نہ کیا، جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ دور حاضر میں جب کہ فنون لطیفہ بہت حد تک مشرکانہ عقائد سے آزاد ہو گئے ہیں انسانی فطرت اور اس کی آرزوؤں کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں، فنون لطیفہ کے متعلق مہذب قوموں کا زاویہ نگاہ بدل گیا ہے۔ لیکن آرٹ کے اندر غیر معمولی قوت اظہار کے ساتھ ساتھ ایک یہ آفت لگی رہتی ہے کہ ایک خطرے سے اس کو نجات ہوتی ہے تو کوئی دوسری قسم کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، مگر یہ کیفیت مذہب کی بھی ہے کہ وقتاً فوقتاً انبیاء اور صلحا و مجددین اس کو آلائشوں سے پاک کر کے خالص بناتے ہیں، لیکن کچھ زیادہ عرصہ گزرنے نہیں پاتا کہ مذہب کے اندر مخرب حیات عناصر دین کا روپ دھار کر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ جس طرح ادیان کی اس مسلسل تخریب سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان مذہب کو یکسر ترک کر دے، کیوں کہ حقیقی زندگی کے تمام سرچشمے بھی صحیح دینی عقائد ہی کے اندر ہیں، اسی طرح فنون لطیفہ سے بھی انسانیت قطع تعلق نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ فنون لطیفہ حسن و عشق کے بہترین مظاہر اور اخلاق عالیہ کے موثر عوامل بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ہر زمانے کا مصلح اعظم، خواہ وہ سقراط و افلاطون کی طرح حکیم ہو یا انبیاء کی طرح گہرے روحانی وجدان سے بہرہ اندوز، اپنے زمانے کے فنون لطیفہ پر نظر ڈال کر دیکھتا ہے کہ آیا فن لطیف روح کی پرورش کر رہا ہے یا قلب و نظر کے لیے سامان موت ہے۔ یونانی علوم عقلیہ کے علاوہ فنون لطیفہ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ لیکن سقراط کے زمانے میں ان کے فنون لطیفہ میں بھی ایسی باتیں پیدا ہو گئی تھیں کہ سقراط و افلاطون نے ’’ جمہوریہ‘‘ میں جو ایک نصب العینی مملکت اور معاشرت کا خاکہ تجویز کیا اس میں سے شعراء کو خارج کر دینے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ ان کے نزدیک شعراء کی شاعری حکمت کش ہو گئی تھی۔ ہومر کی شاعری یونانیوں کے ہاں فن لطیف کا ایک شاہکار تھی، لیکن اس کے اندر بھی صنمیات سموئی ہوئی تھی۔ اس میں جن دیوتاؤں کا ذکر تھا ان میں سے بعض معمولی انسانی شریفانہ اخلاق سے بھی عاری تھے۔ بعض دیوتا چور اور رہزن تھے اور بعض بے پناہ قسم کے زانی۔ لیکن ہومر کے ہاں اچھی باتیں بھی ملتی تھیں، اس لیے سقراط و افلاطون نے یہ تجویز کیا کہ ہومر کے فقط منتخب حصے بچوں کو پڑھائے جائیں اور بد اخلاق دیوتاؤں سے ان کو آشنا نہ کیا جائے۔ حالی کے زمانے تک مسلمانوں کی شاعری کا جو حال تھا اس کے متعلق مسدس میں ان کے اشعار سقراط و افلاطون سے بھی زیادہ غصے سے لبریز ہیں :

یہ شعر و قصابر کا ناپاک دفتر

عفونت میں سنڈاس سے ہے جو بدتر

عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے

تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے

گنہگار واں چھوٹ جائیں گے سارے

جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

دیکھئے حالی خود شاعر ہے اور شعر ہی میں شاعروں کی مذمت کر رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شعر کی اصلاح چاہتا ہے۔ اسے مطلقاً حرام کرنا نہیں چاہتا۔ اسی غرض سے اس نے شعر و شاعری پر ایک بلیغ اور محققانہ مقدمہ لکھا اور خود سید احمد خاں علیہ الرحمۃ کے زیر اثر اپنی شاعری کا رخ بدل دیا۔ اچھی شاعری دین و اخلاق کی بھی ایسی خدمت گزار ہو سکتی ہے کہ سید صاحب نے مسدس حالی کی نسبت فرمایا کہ یہ میری تحریک سے لکھی گئی اور یہ ایسا نادر کارنامہ ہے کہ خدا نے روز قیامت میں اگر مجھ سے پوچھا کہ دنیا سے تو عمل صالح کا کیا تحفہ ہمارے لیے لایا تو یہ عرض کروں گا کہ میرا سب سے بڑھ کر قابل انعام و اجر عمل یہ ہے کہ میں نے حالی سے مسدس لکھوایا۔

حالی حیات انگیز شاعری میں اقبال کا پیش رو ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ اگر حالی نے شاعری کا رخ نہ بدل دیا ہوتا تو شاید اقبال کا بھی ظہور نہ ہوتا۔ اقبال میں حالی کا درد ملت موجود ہے، مگر اس کی حکیمانہ نظر حالی سے بہت زیادہ اور وسیع اور گہری ہے۔ غالب کی حکمت پسندی اور پرواز تخیل بھی اقبال کے اندر ترقی یافتہ صورت میں موجود ہے۔ غالب نے فیضان الٰہی کا اپنے کلام میں ہر جگہ استعمال نہیں کیا وہ بہت کچھ قدیم انحطاطی روایات کا شکار رہا۔ لیکن اقبال کے ہاں تفکر و تاثر غلط روایات کے خس و خاشاک سے پاک ہو گئے۔

اقبال بھی ایک مصلح و مبلغ شاعر ہے اور چونکہ فن لطیف کی ماہیت، اس کے حسن و قبح، اس کے صحیح اور غلط استعمال سے خوب واقف ہے اس لیے فنون لطیفہ پر اس کی تنقید بہت حکمت آموز اور اصلاح گوش ہے۔ اقبال کا زاویہ نگاہ دینی ہے، اس لیے وہ ضروری سمجھتا ہے کہ وہ دین اور فنون لطیفہ کے باہمی روابط کو واضح کرے۔ ضرب کلیم میں چار اشعار کی ایک نظم کا عنوان دین و ہنر ہے:

سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر

گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ

ضمیر بندۂ خاکی سے ہے نمود ان کی

بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ

اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات

نہ کر سکیں تو سراپا فنون و افسانہ

ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی

خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ

اقبال کے پاس زندگی کے ہر شعبے اور ہر شغل کو جانچنے کا ایک ہی معیار ہے۔ اس کے پاس نفس انسانی کی ماہیت اور اس کے ممکنات کا ایک تصور ہے جس کی وضاحت کے لیے اس نے کم و بیش ہزار اشعار کہے ہیں۔ انسان کی خودی ایک لطیفہ ازلی ہے وہ صفات الٰہیہ سے بہرہ اندوز ہو سکتی ہے ’’ تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کی تعلیم اسی خودی کی بیداری اور استواری کی تلقین ہے۔ انسان کی خودی میں تسخیر النفس و آفاق کی لامتناہی قوتیں مضمر ہیں اور مقصود حیات ان مضمرات کو معرض وجود میں لانا ہے۔ اس کے ارتقاء کی کوئی انتہا نہیں۔ یہی مقصود حیات خیر و شر کا بھی پیمانہ ہے۔ انسان نے اپنے ارتقاء میں جو کچھ پیدا کیا ہے اس کا اصلی مقصد خودی کی ترقی ہی تھی۔ ادیان کا ظہور بھی اسی سے ہوا۔ تمام علوم و فنون اسی سے پیدا ہوئے۔ سیاست اور معاشرت کے تمام ادارے اسی سے ظہور میں آئے۔ انسان کبھی بھٹکا بھی تو اسی کوشش میں غلط روی سے بھٹکا، لیکن ہمیشہ گر کر سنبھلتا رہا۔ کبھی کبھی خودی کی غلط روی اس کو خود کشی کی طرف بھی لے آتی ہے اگرچہ وہ اس خود کشی کو بھی اپنی خودی ہی کا مظہر سمجھ لیتا ہے۔ انساں کے تمام مشاغل، تمام تصورات اور تمام اداروں کی تہ میں خودی کا لعل بے بہا پوشیدہ ہے۔ اسی گوہر کے متعلق اقبال کا ایک شعر ہے:

گوہر کو مشت خاک میں رہنا پسند ہے

بندش اگرچہ مست ہے مضموں بلند ہے

مندرجہ صدر چار اشعار میں اقبال نے فنون لطیفہ کے ساتھ انسان کے تمام دیگر مشاغل کو بھی شامل کر کے سب کے متعلق ایک ہی مختصر فتویٰ دیا ہے کہ اگر ان سے انسان کے نفس کی تمام قوتوں میں اضافہ ہو تو یہ سب عین حیات ہیں۔ اور ادب، دین و سیاست اگر انسان کو تخریب اور پستی کی طرف لائیں تو سب ڈھکوسلا رہ جاتے ہیں اور امتیں اس سے ذلیل و خوار ہو جاتی ہیں۔

اسی نظم کے ساتھ ایک دوسری نظم ’’ تخلیق‘‘ پر ہے جس کا موضوع بھی یہی ہے کہ افکار تازہ سے جہان نو پیدا ہوتا ہے اور جب فن و ادب میں تازہ آفرینی نہ رہے اور لوگ اگلے ہوئے نوالوں ہی کو بار بار نگلنا اور چبانا شروع کریں تو سمجھ لیجئے کہ خودی پر موت وارد ہو گئی۔ مشرق کے دین اور فن دونوں میں اقبال کو زندگی کے آثار نظر نہیں آتے:

خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں

ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا

آگے چل کر ہم اقبال کے کئی اشعار اس موضوع پر مشتمل پیش کریں گے کہ فن برائے فن ایک بے ہودہ نظریہ ہے۔ علامہ نہ علم برائے علم کے قائل تھے اور نہ فن برائے فن کے۔ کوئی مسجد بھی اگر نفاق کی خاطر بنائی جائے تو وہ تقلید اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قابل انہدام ہے۔ فرانسیسیوں نے پیرس میں ایک مسجد بنائی جس کے لیے کچھ رقم شمالی افریقہ کی مسلمان رعایاسے حاصل کی گئی تھی اور کچھ رقم کا اضافہ حکومت نے کیا ہو گا۔ راقم الحروف کو اس مسجد کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ فرانسیسیوں کا جو سلوک مسلمانوں سے ہے وہ دنیا کو معلوم ہے۔ یہ آزادی و برادری کے علم بردار مسلمانوں کو مغلوب اور مفتوح بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ریاکاری سے اپنی ملوکیت کی استواری کے لیے انہوں نے یہ مسجد بنائی تاکہ مسلمان انہیں اپنا ہمدرد سمجھیں۔ اس مسجد کی بناء نفاق اور ریا تھی اس لیے اس کی صناعی کے باوجود اس کا احساس مسلمان کو روح فرسا محسوس ہوتا ہے۔ خاکسار کی طبیعت پر بھی یہی اثر ہوا۔ اقبال کی روح کو بھی اس سے ٹھیس لگی۔ اس اثر کو بیان کرتے ہوئے وہ ہنر کے متعلق ایک بصیرت افروز بات بھی کہہ گئے ہیں کہ محض کمال ہنر کوئی چیز نہیں جب تک کہ وہ خلوص کی پیداوار نہ ہو:

مری نگاہ کمال ہنر کو کیا دیکھے

کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ

حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ بازوں نے

تن حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ

یہ بت کدۂ انہیں غارت گروں کی ہے تعمیر

دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ

اس کے مقابلے میں مسجد ’’ قوت الاسلام‘‘ پر ضرب کلیم میں چند اشعار اور ’’ مسجد قرطبہ‘‘ پر اقبال کی وہ لاجواب تاثر خیز اور حیرت انگیز نظم پڑھیے جس کے متعلق ایک صاحب نے جو فنون لطیفہ کی تقلید میں کچھ درک رکھتے ہیں، لیکن خدا سے مسجود و سجود کے متعلق مائل بہ الحاد ہیں، ایک روز مجھ سے کہا کہ مسجد قرطبہ پر اقبال کی نظم فن شعر کا ایک شاہکار ہے۔ یہ صاحب فن کی بحیثیت فن داد دے رہے تھے۔

اقبال مسجد قوت الاسلام کو یا مسجد قرطبہ کو محض فن کی نظر سے نہیں دیکھ رہا بلکہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ یہ تعمیریں قوت حیات کے مظاہر ہیں۔ اور اصلی فن وہی ہے جو زندگی کا مظہر ہو، زندگی کے انفعالی اور انقلابی یاس آفرین پہلوؤں کا نہیں، بلکہ اس کی فعال قوتوں کا، جو ارتقائی اور انقلابی ہیں۔ مسجد قرطبہ نے اقبال کے دل میں جو تاثرات اور افکار پیدا کیے لازم تھا کہ ان کے اظہار کے لیے اقبال اپنا نظریہ فن بھی اس ضمن میں بیان کر دے کیونکہ مسجد قرطبہ فن تعمیر کا ایک عظیم الشان نمونہ ہے۔ فن لطیف کے متعلق حکماء کے جو بلند پایہ نظریات ہیں ان میں سے ایک نظریہ بھی ہے کہ فن لطیف آنی کو جاودانی بنا دیتا ہے اور دریچہ زمان سے جھانک کر انسان لازمانی حقائق سے روشناس ہوتا ہے۔ ایک اچھے شاعر میں بھی یہ بات ہوتی ہے:

مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم

وراے شاعری چیزے دگر ہست

یہ چیزے دگر انہیں حقائق کا ادراک ہے جو سرمدی ہیں۔ زمانی و مکانی نہیں بلکہ الوہیت مطلقہ کا پرتو ہیں۔ اہل دل کے لیے روحانی موسیقی میں بھی یہی صلاحیت ہوتی ہے۔ کہ نفس کو ہستی کے باطن میں غوطہ دے کر اس حقیقت مطلقہ سے براہ راست ہم آغوش کرتی ہے جس کو اگر الفاظ میں بیان کیا جائے تو بعض کوتاہ بین گمراہ ہو جائیں اور عالم کے تمام لوگوں کا زاویہ نگاہ الٹ پلٹ ہو جائے:

سر پنہان است اندر زیر و بم

فاش اگر گویم جہاں برہم زنم

بعض تصویروں میں بھی یہ اثر ہوتا ہے کہ ان کو دیکھ کر صورت پرستی کی بجائے انسان کسی اور عالم میں گم ہو جاتا ہے اور تصویر حقیقت مطلقہ کی طرف محض ایک اشارے کا کام دیتی ہے۔ عالم رنگ و بو اور جہان آب و گل میں تصویر، مصور اور معمار سے زیادہ پائدار ہوتی ہے لیکن کمال پائداری کے باوجود آخر کار زمانہ اس کو فنا کر دیتا ہے۔ فن لطیف کی جاودانی اس کے مظاہر میں نہیں بلکہ اس تاثیر میں ہے جو انسان کو زمان و مکان ا ور حوادث کے عالم سے ماوریٰ لے جاتی ہے۔ اقبال پہلے یہ کہتا ہے کہ:

آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر

کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات

انسانی تاریخ میں بڑے بڑے عظیم الشان معجزہ ہائے ہنر مرور ایام سے ناپید ہو گئے۔ کہیں کھنڈر باقی ہیں اور کہیں نشان بھی نہیں ملتا، لیکن فلاسفہ فن لطیف نے فن کی خوبی اور کمال کو جانچنے کے لیے ایک یہ معیار بھی قائم کیا ہے کہ فن جس قدر حقیقی مظہر حیات ہوتا ہے اسی قدر اس کو ثبات حاصل ہوتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے ہزار ہا تعمیر کے اعلیٰ نمونے پیدا کیے، اب ان میں سے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں، لیکن سارا جہان تاج محل کو دیکھنے آتا ہے اور اسے معجزہ فن سمجھتا ہے۔ مادی اور زمانی حیثیت سے لازوال وہ بھی نہیں، لیکن مقابلتاً اس میں ثبات زیادہ ہے۔ دنیا میں ہزار ہا شعراء پیدا ہوئے جن کا اب نہ کوئی نام جانتا ہے اور نہ ان کے کلام کا نمونہ ملتا ہے لیکن ہومر، حافظ، سعدی، شیکسپیئر، گوئٹے پر زمانے کی دستبرد کا کوئی اثر نہیں۔ اس ثبات میں مطلقیت اور ابدیت کا پرتو ہے۔ ا قبال کے نزدیک اعجاز فن کے یہ نمونے ان مردان خدا کی خلاقی کا نتیجہ ہیں، جن کے باطن میں زندگی کا وہ سرچشمہ تھا جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ عشق کو موت نہیں اس لیے وہ اپنے زمانی و مکانی مظاہر کو بھی ثبات بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔

ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام

جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام

مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ

عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام

عشق کی بدولت جو اعجاز حسن پیدا ہوتا ہے اس کی بقا میں فطرت کس قدر کوشاں ہے، اس کا ثبوت اس سے مل سکتا ہے کہ پھول جو پروردگار حسن و عشق کے رسول ہیں، چند روز اپنی بہار دکھا کر مرجھا کر خاک ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے مصادر حیات تخم فنا نہیں ہوتے۔ روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد کا تسکین بخش جواب فطرت کے پاس یہ ہے کہ اگلی بہار میں ایک مرجھائے ہوئے پھول کے بیج اپنی قسم کے سو پھول پیدا کر دیتے ہیں۔ فطرت بھی اپنے فن لطیف کے مظاہر کو ثبات بخشتی ہے لیکن یہ انداز ثبات ایک خاص نوعیت کا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ معجزۂ فن کی نمود زندگی کی باطنی بے تابیوں کا اظہار ہے۔ خون جگر سے نمود کے یہی معنی ہیں۔ مرزا غالب کا بھی یہی نظریہ تھا کہ اچھا شعر محض صناعی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ قلب و جگر کے سوز و گداز کا نتیجہ ہوتا ہے:

حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد

پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی

غالب ایک ولولہ انگیز اور بصیرت افروز غزل کے مقطع میں آفرینش شعر کی نفسیات کو بیان کرتا ہے:

بینی ام از گداز دل در جگر آتشے چو سیل

غالب اگر دم سخن رہ بضمیر من بری

اگر ایسے اشعار کہتے ہوئے میرے باطن پر نگاہ ڈال سکو تو تمہیں نظر آئے کہ گداز دل سے آتش سیال جگر کی طرف بہ رہی ہے۔ عرفی نے بھی اسی کیفیت کو بیان کیا ہے:

بحفظ گریہ مشغولم اگر بینی درونم را

ز دل تا پردۂ چشمم دو شاخ ارغوان بینی

اقبال نے کمال فن سے تمام فنون لطیفہ کی حقیقت کو دو شعروں میں سمیٹ لیا ہے:

رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صورت

معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود

قطرۂ خون جگر سل کو بناتا ہے دل

خون جگر سے صدا سوز و سرود و سرود

مصوری، سنگ تراشی، تماثیل سازی، موسیقی، شاعری سب کو یہاں کس حسن اختصار سے جمع کیا ہے:

’’قطرۂ خون جگر سل کو بناتا ہے دل‘‘

ایسا بلیغ مصرع ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہو سکتا۔ فطرت خارجی ہو یا فن لطیف اس میں یا جلال پایا جاتا ہے یا جمال۔ بے پایاں سمندر اور فلک بوس سلسلہ کہسار میں جلال طبیعت کو متاثر کرتا ہے اور ایک نازک پھول جلال کا نہیں بلکہ جمال کا مظہر ہوتا ہے۔ بعض تعمیریں ایسی ہیں جن میں جلال کو جمال سے ہم آغوش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ تاج محل کی تعمیر میں بڑی وسعت اور رفعت ہے، لیکن فن کار کا کمال یہ تھا کہ اس نے جلال کو جمال میں چھپا دیا ہے اور پوری تعمیر ایک خوش نما، لطیف اور ہلکی پھلکی چیز معلوم ہوتی ہے کہ اس کو شیشے کے ایک فانوس کے اندر ہونا چاہیے۔ صفات الٰہیہ میں بھی ایک پہلو جمال کا ہے، دوسرا پہلو جلال کا۔ قہاری، جباری اور جبروت جلال کے مظاہر ہیں اور مخلوق سے محبت اور اس پر رحمت از روئے قرآن تمام موجودات پر محیط ہے، جمال ایزدی کا اظہار ہیں۔ خدا کی ذات میں جلال و جمال کی صفات میں کوئی تضاد نہیں۔ اسی طرح فن کا کمال یہ ہے کہ اس میں بھی یہ دونوں پہلو اس طرح ایک دوسرے میں سموئے ہوں کہ ان کا ظاہری تضاد ایک وحدت میں رفع ہو جائے۔ مسجد قرطبہ میں اقبال کو یہی اعجاز فن نظر آیا:

تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل

وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل

یہاں پر یہ بات کہنا بے جا نہ ہو گا کہ خود اقبال کے بہترین کلام میں یہ خوبی موجود ہے۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اقبال کے کلام میں جلال جمال پر غالب ہے۔

یہ غلط خیال اس لیے پیدا ہوا کہ اقبال نے خود کہیں کہیں جوش بیان میں جلال کو جمال پر غالب کر دیا ہے اور جمال کی حیثیت وہاں ثانوی دکھائی دیتی ہے:

مرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی

ترے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک

مری نظر میں یہی ہے جمال زیبائی

کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک

نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر

نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک

مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ

کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بیباک

٭٭٭

گفتند جہان ما آیا بتو می سازد

گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن

٭٭٭

چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن

٭٭٭

خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر

تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر

٭٭٭

باغباں زور کلامم آزمود

مصرعے کارید و شمشیرے درود

اس جلالی جذبی کے سینکڑوں اشعار اقبال کے کلام میں ملتے ہیں اور یہ اس کے نظریہ حیات کی ایک امتیازی خصوصیت ہے، لیکن کون صاحب ذوق سلیم کہہ سکتا ہے اس کے نظریے اور پیرایہ بیان میں جمال نہیں۔ وہ بعض اوقات ایک ہی شعر میں جلال و جمال دونوں کی یکجا تلقین کرتا ہے۔ رزم حیات کے لیے سیل کہسار ہو جا، لیکن بزم میں جوئے خیاباں کی طرح نرم رو ہو:

نرم دم گفتگو گرم دم جستجو

رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز

٭٭٭

اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری

اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی

اس کے ہاں شہسوار کی صفت غارت گری اور چنگیز خانی نہیں۔ شہسوار کو ہمت و قوت کے ساتھ خلق عظیم کا بھی مالک ہونا چاہیے جو ایک جمالی صفت ہے:

آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار

حامل خلق عظیم صاحب صدق و یقین

اس مضمون کے بے شمار آپ کو اقبال کے کلام میں ملیں گے جہاں وہ جمال و جلال کی ہم آہنگی کو زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہے۔ جلال اگر بے جمال ہو جائے تو اس میں ابلیس کی صفت پیدا ہو جاتی ہے جس طرح زیرکی اگر عشق سے معرا ہو جائے تو وہ شیطان کی حیلہ گری رہ جاتی ہے:

زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است

رفتہ رفتہ مسلمانوں کے ادبیات میں ذوق جمال زیادہ تر انفعالی ہو گیا تھا جس سے ایک ادنیٰ قسم کی لذت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے خلاف رد عمل لازمی تھا تاکہ جلال اور ہستی فعال کے پہلو کو نمایاں کیا جائے۔ انحطاط کی وجہ سے قرآن میں بھی مسلمانوں کو تقدیر کا وہ مفہوم نظر آیا جس سے انسان کا اختیار اور اس کی جدوجہد نفس کا دھوکا بن جاتی ہے۔ یہ عقیدہ کہ زاہد کا زہد اور عاصی کا گناہ سب ازل سے مقدر ہے اور انسان کو تن بہ تقدیر عجز اختیار کرنا چاہیے۔ اشاعرہ کا علم الکلام، صوفیہ کی وحدت وجود، حکماء کی جبر پرستی سب انسان کو بے بس کرنے میں متحد ہو گئے۔ صوفیہ میں فقط عارف رومی نے اس کے خلاف جہاد کیا اور زمانہ حال میں اقبال نے مسلمانوں کو قرآنی تقدیر کا مفہوم بتایا۔ مسلمانوں کی ادبیات میں غلط نظریہ حیات کی بدولت عجز اور قناعت اور رضا و تسلیم کی تعلیم ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھنے کی تلقین بن گئی۔ اقبال اس قسم کے مذہب اور اس قسم کے ادب کو انحطاط کی پیداوار سمجھتا ہے:

اسی قرآن میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم

جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر

’’تن بہ تقدیر‘‘ ہے آج ان کے عمل کا انداز

تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتی ہے قوموں کا ضمیر

فن لطیف کا ایک شعبہ ڈراما بھی ہے جس کے لیے تھیٹر قائم کیے جاتے ہیں۔ ہر ڈرامے میں مختلف کردار ہوتے ہیں اور اداکار ان کرداروں کو اس طرح اپنی شخصیت میں سموتے ہیں کہ اگر شیطان کا پاٹ ادا کر رہے ہیں تو مجسم ابلیس نظر آئیں۔ اچھے صاحب کمال اداکار وہ شمار ہوتے ہیں جو نہایت کامیابی سے اپنی شخصیت کسی دوسرے کردار کی نقالی میں ہنگامی طور پر ختم کر دیں۔ اس کمال آفرینی کا رفتہ رفتہ یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اداکار اپنی خو کو کھو بیٹھتا ہے۔ اچھا ڈراما دیکھنے والوں کو نفسی اور اخلاقی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں، لیکن اداکار کی نفسیات خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ مغرب میں بھی بعض نقادان فن نے اس تخریب کا اقرار کیا ہے:

حریم تیرا خودی غیر کی معاذ اللہ

دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے!

رہا نہ تو تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات

مغربی تہذیب میں ڈرامے کا رواج بہت عام ہے۔ بعض ڈرامے اصلاح معاشرت کی خاطر لکھے جاتے ہیں، جیسے برناڈشا کے ڈرامے اور بعض محض تفریح و تفنن کے لیے۔ لیکن یہ عجب بات ہے کہ مغرب میں بھی کوئی سنجیدہ شخص اداکاروں کے اخلاق کا قائل نہیں بلکہ یہ ایک مسئلہ بن گیا ہے کہ اداکاری کے فن کو اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہالی وڈ کے ستاروں کی جو اخلاقی زندگی ہے وہ عوام و خاص کے نزدیک ایک مضحکہ خیز چیز ہے۔ ایک طرف تو اداکاروں کو یہ داد ملتی ہے کہ بے پایاں دولت ان کو اجرت میں دی جاتی ہے اور دوسری طرف یہ مشتہر ہوتا ہے کہ نکاح کے معاملے میں :

از یک بگستی بہ دگر پیوستی

فارسی شاعر نے تو یوں ہی تفریحاً کہا تھا کہ ہر موسم بہار میں ایک نئی شادی کیا کر، کیوں کہ پچھلے سال کا کیلنڈر بے کار ہو جاتا ہے:

زن نو کن اے مرد در ہر بہار

کہ تقویم پاریں نیاید بکار

لیکن امریکہ کے مشہور اداکار مرد و زن دوسری بہار کی آمد کا بھی انتظار نہیں کرتے۔ کیا اقبال کی تنقید غلط ہے کہ خودی میں جو سرور و سوز و ثبات حیات ہے وہ کاملاً تمثیل میں ناپید ہو جاتا ہے؟ یہ درست ہے کہ ڈراما بعض اوقات اصلاح خلق کے لیے لکھا جاتا ہے، لیکن اس اصلاح کی تمثیلی تلقین کرنے والے اپنی زندگی میں کیا مثالیں پیش کرتے ہیں۔ فن برائے فن کے قائل کہتے ہیں کہ فن لطیف کا کام اصلاح کوشی نہیں ہے اور فن کاروں کو عام اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھنا درست نہیں۔

اقبال نے اہل ہنر کے عنوان سے جو نظم کہی ہے اس میں بھی اچھے ہنر کو خودی کے احساس کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ ادبیات میں فکر و ذکر یا دین و دانش کی جو پیکار نظر آتی ہے وہ خودی کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ اگر خودی بیدار ہو تو فکر و ذکر میں کوئی تضاد نہ ہو۔ یہ چپقلش خودی کا غیاب پیدا کرتی ہے اور خودی کے حضور سے روح پرور شعر و سرود کا عالم پیدا ہوتا ہے، مگر یہ ہمارے غزل گوؤں کی شاعری اور ہمارے پیشہ ور مطربوں اور حسن فروشوں کا سرود نہیں :

تیری خودی اک غیاب معرکہ ذکر و فکر

تیری خودی کا حضور عالم شعر و سرود

٭٭٭

گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر

وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود!

اقبال رومی کی طرح ’’ سماع راست‘‘ کا دلدادہ ہے، لیکن ان معنوں میں سماع راست کہاں ؟ روح انسانی کے جتنے بلند اقدار ہیں وہ پیشہ وروں کی بدولت اپنی روح کو کھو بیٹھتے ہیں۔ مذہب کو بھی انہیں لوگوں نے خراب کیا جنہوں نے اس کو پیشہ بنا لیا۔ اسلام تو کوئی مذہب پیشہ جماعت پیدا نہ کرنا چاہتا تھا جو برہمنوں کی طرح ملت اسلامیہ پر مسلط ہو جائے، لیکن اب پیشہ ور فقیہ اور ملا کہتے ہیں کہ مذہب کا علم ہمارا اجارہ ہے۔ اسی اجارہ داری نے ہمیشہ روحانیت اور اخلاق حسنہ کو فنا کیا ہے۔ فنون لطیفہ کی بھی یہی حالت ہے کہ پیشہ ور شاعروں نے شاعری کو ہوس پرستی کا سنڈاس اور دروغ بافی کا ایک طومار بنا دیا۔ موسیقی پیشہ بن کر میراثیوں اور ارباب نشاط کے حوالے ہو گئی۔ کرشن کی بانسری اور عارف رومی کی نے، مطرب و مغنی کے ساز بن گئے۔ ایک صوفی نے کیا خوب کہا ہے کہ سڑک کے کنارے قرآن کی آیات پڑھ کر بھیک مانگنے والے گداگر کے دل میں اگر قرآن کا ایک حرف بھی اتر جائے تو وہ گداگری کی بجائے دنیا و مافیہا سے مستغنیٰ ہو جائے۔ ا قبال کہتا ہے کہ مغنی بھی اگر دل کے رمز سمجھ جائے تو اس کا ہنر کمال کو پہنچ جائے:

جس روز دل کے رمز مغنی سمجھ گیا

سمجھو تمام مرحلہ ہاے ہنر ہیں طے

آیا کہاں سے نالہ نے میں سرور مے

اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے؟

اس سے قبل ثبات ہنر کا تذکرہ ہو چکا ہے اور بعض صوفیہ و حکماء کا یہ نظریہ بھی بحث میں آ چکا ہے کہ ہنر مند انسان اپنی فطرت کو زمانی و مکانی حدود و قیود سے آزاد کرنا چاہتا ہے۔ فن لطیف کے متعلق ایک ادنیٰ قسم کا نظریہ یہ ہے کہ فن لطیف فطرت کی نقالی کا نام ہے۔ یہ خیال ارسطو میں بھی ملتا ہے جو اپنی خشک حکمت کی وجہ سے ذوق جمال سے محروم تھا۔ اسی لیے وہ فن لطیف کا اصلی مقصود نہ پا سکا۔ اس کے ہاں ابدیت اور حقیقت مطلقہ کا پرتو فقط منطقی تصورات میں پایا جاتا ہے۔ اقبال فن لطیف کی ماہیت سے خوب واقف ہے۔ انسان اپنے فنون میں ہمیشہ فطرت کی نقالی نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا فن ادنیٰ درجے کا ہوتا ہے فن لطیف کا اصل کام فطرت کی کثافتوں میں لطافت پیدا کرنا ہے اور بقول ورڈز ورتھ اس نور کی جھلک دکھانا ہے جو خشکی اور تری میں نظر نہیں آتا مگر روح انسانی کو روشن کرتا ہے۔ انسان کا وظیفہ حیات فطرت کی ترمیم و تزئین ہے:’’ تو شب آفریدی چراغ آفریدم‘‘ اسی عقیدے کا اظہار ہے۔ اہرام مصر پر اقبال نے جو اشعار کہے ہیں ان میں بھی اسی خیال کو واضح کیا ہے کہ دیکھو فطرت نے توریت کے ٹیلے بنائے جو صحرا کی طوفانی ہواؤں سے ہر روز اپنا مقام بدلتے رہتے ہیں، اسی ریگ رواں کے صحرا میں فراعنہ مصر نے وہ اہرام کھڑے کر دیے جو دس ہزار سال سے حوادث فطرت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس زمانی مکانی عالم میں ابدیت کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ فطرت کا مقابلہ ہے، اس کی نقالی نہیں :

اس دشت جگر تاب کی خاموش فضا میں

فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر

اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک

کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر؟

فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو

صیاد ہیں مردان ہنر منہ کہ نخچیر؟

اچھے اہل ہنر ایسا فردوس نظر تعمیر کرتے ہیں جو نہاں خانہ ذات کو چشم تماشا پر فاش کر دیتا ہے۔ ہنر کا کام نو آفرینی ہے۔ پرانے بتوں کو مندروں یا عجائب خانوں میں رکھ کر ان کی پرستش کرنا اور زندگی کا نئی ہنر مندی میں اظہار نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہنر کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اس ہنر کے جنازے سے اورنگ زیب کے سوانح کا ایک مشہور واقعہ یاد آ گیا۔ عالمگیر کے زمانے میں سیاست، معاشرت اور ہنر سب زوال پذیر تھے۔ اس کی مسلسل کوشش بھی زوال کو نہ روک سکی۔ موسیقی عیاشی کا آلہ بن گئی تھی۔ اس نے ارباب نشاط اور مطربوں پر کچھ قدغن لگائی۔ احتجاج میں انہوں نے مرحوم موسیقی کا ایک جنازہ نکالا اور قلعے کے سامنے سے ماتمی جلوس کو گزارا تاکہ بادشاہ کو بھی اطلاع ہو جائے۔ عالمگیر نے دیکھا تو کہا کہ ان سے کہ دو کہ اس کی قبر ذرا گہری کھودیں تاکہ آسان سے اس کا حشر نہ ہو سکے۔

ضرب کلیم میں ایک نظم کا عنوان فنون لطیفہ ہے۔ ان اشعار میں تصورات اور نظریات زیادہ تر وہی ہیں جنہیں اقبال نے بالتکرار مگر انداز بیان کی بوقلمونی کے ساتھ بے شمار اشعار میں بیان کیا ہے:

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

فن لطیف کے متعلق یہ نظریہ بعض بڑے بڑے حکمائے فرنگ کے جمالیاتی نظریات کے خلاف ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ فن لطیف کا کام دلکش نفسیاتی دھوکا پیدا کرنا ہے۔ شاعری ہو یا مصوری، ڈراما نویسی ہو یا ناول نگاری، ان سب کا مقصود زندگی کے تلخ حقائق سے گریز ہے۔ فرائڈ کے نزدیک حقیقت آشنائی صرف طبعی اور فرائڈ کی پیدا کردہ نفسیاتی سائنس میں پائی جاتی ہے۔ فقط انہیں میں حوادث حیات و کائنات کا کماھی مشاہدہ ہوتا ہے۔ سائنس کا کام جذبات اور تمناؤں کی فریب آفرینی سے بچنا ہے، مگر اس کے نزدیک دین اور فن لطیف دونوں فرار کے راستے ہیں۔ خدا کے تصور کے غیر حقیقی اور سیمیائی ہونے پر اس  نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے وہ کہتا ہے دین انسان کی عاجزی اور بیکسی کی پیداوار ہے۔ جب حقیقی دنیا میں کوئی سہارا اور جائے پناہ نظر نہیں آتی اور یہاں کوئی ہستی تمام آرزوؤں کو پورا کرنے کی کفیل نہیں ہوتی تو انسان ایک ایسے عالم کا تصور قائم کر لیتا ہے جو مصائب سے پاک ہے اور جہاں اس دنیا کی تمام نا انصافیوں اور تلخیوں کی تلافی کی توقع ہے۔ جہلا کے لیے تو یہ سارا کچھ مفید ہی معلوم ہوتا ہے لیکن کسی حقیقت پسند کے لیے اس دھوکے میں زندگی بسر کرنا حکمت کے شایان شان نہیں۔ مذہب کے مقابلے میں وہ فنون لطیفہ کی مخالفت نہیں کرتا۔ ان کے دلکش دھوکوں کو وہ بے ضرر تفریح خیال کرتا ہے۔ فن لطیف کا کام دلآویز مگر موہوم چیزوں کو ہنگامی طور پر موجود بنا دینا ہے۔ اس کے مقابلے میں رسکن یا ورڈز ورتھ جیسے مفکر اور شاعر فن لطیف کی بابت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ زندگی کے بہت سے حقائق تلخ ہیں۔ لیکن ان کا علاج دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ ہمت اور صبر اور روحانی زاویہ نگاہ سے ان تلخیوں کے نیش کو نوش سے بدلا جائے۔ بروننگ کا نظریہ حیات زیادہ تر یہی ہے، لیکن ورڈز ورتھ صوفی مزاج شاعر ہے وہ اس حقیقت کو محسوس کرتا ہے کہ زمانی و مکانی عالم سے گریز انسان کو ایک موہوم دنیا میں نہیں لے جاتا۔ فن لطیف دھوکوں سے مسرت آفریں نہیں ہوتا بلکہ نفس انسانی کو ضمیر فطرت سے آشنا کرتا ہے۔ کسی بالغ نظر شاعر کی شاعری میں ’’ ورائے شاعری چیزے دگر‘‘ جو کچھ ہے وہ حقیقت حیات کا اظہار ہے جو خالی طبعی سائنس کے بس کی چیز نہیں۔ اعلیٰ درجے کی شاعری ہو یا روح پرور نغمہ اس میں اس روحانی گروہ کے لیے وہی کچھ ہے جس کے متعلق رومی کہتا ہے:

سر پنہان است اندر زیر و بم

فن لطیف کا کا مسرت آفرینی نہیں۔ ا گرچہ روح کو اس سے ایک گہری تسکین حاصل ہوتی ہے۔ فن لطیف میں لذت و الم کا تضاد مٹ جاتا ہے۔ سوز ساز بن جاتا ہے اور وہ آفرین نغمے مسرت انگیز ترانوں کے مقابلے میں روح کے تاروں کو زیادہ مرتعش کرتے ہیں۔ یہ محض غم غلط کرنے کا سامان نہیں :

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ ہو

جو مے و نغمہ کو اندوہ رہا کہتے ہیں

(غالب)

اگر فن لطیفہ کا وظیفہ مسرت آفرینی نہیں تو الم آفرینی بھی اس کا مقصود نہیں۔ زندگی میں افسردگی اور یاس پیدا کرنے والا ہنر اپنے مقصد میں ناکام ہے۔ جو سوز حیات مقصود ہنر ہے وہ زندگی کے مصائب پر نالہ فغاں کا نام نہیں۔ سوز حیات زندگی کی ماہیت میں داخل ہے، مگر یہ وہ سوز نہیں جو حوادث سے مغلوب ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ محض طبعی حکمت مظاہر کے سطحی روابط سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور وجدان حیات کی زبان طبیعات کی قانونی زبان نہیں۔ استدلالی فلسفہ بھی اگرچہ بعض اوقات سائنس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ بھی طبیعیات میں الجھا رہتا ہے:

رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست

ایک گتھی کو سلجھاؤ تو دو پیچاک اور پیدا ہو جاتے ہیں۔ وجدان حیات کی زبان فن لطیف ہے، جو محض فن نہیں بلکہ حقیقت رس نظر اور عرفانی تاثر کا اظہار ہے۔ یہ محض ذوق نظر سے پیدا نہیں ہوتا اس کا ماخذ وہ کیفیت ہے جسے اقبال خون جگر کہتا ہے۔ انسان کے نفس کی گہرائیوں میں سے نکلی ہوئی بات کبھی شعر بن جاتی ہے، کبھی نغمہ اور کبھی اس کا اظہار رنگ و سنگ کے واسطے سے ہوتا ہے، مگر وہ ضمیر حیات کا انکشاف ہوتا ہے۔ ضمیر حیات میں امید ہی امید ہے یاس نہیں۔ یاس انسان کے لیے بھی کفر ہے اور عام فطرت کے لیے بھی۔ مشرقی شاعری، ہندی بھاشا کے دوہے ہوں یا اردو اور فارسی شاعری کی یاس انگیز غزلیں، اس قسم کا سب ہنر زندگی کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر شاعر کی غزل گو یا اس کی اپنی زندگی کا مرثیہ ہوتی ہے۔ کربلا کے عظیم الشان مجاہدانہ حوادث کو بھی مسلمانوں نے ماتم میں تبدیل کر دیا، حالانکہ قوم میں اگر زندگی ہوتی تو انہیں واقعات سے انقلاب انگیز اور ہمت خیز شاعری پیدا ہو سکتی تھی۔ حالی اور اقبال سے پہلے اردو شاعری کا کمال انیس و دبیر کے مرثیوں میں ظاہر ہوا۔ لیکن یہ زوال کا کمال تھا یہ قول میرا نہیں بلکہ علامہ اقبال کا ہے۔

اقبال کے کلام پر آپ نظر ڈال کر دیکھئے اس میں کہیں مرثیہ نظر نہ آئے گا۔ والدہ مرحومہ کی یاد میں جو ایک طویل اور حکمت و تاثیر سے لبریز نظم کہی ہے اس میں بھی آہ و زاری کہیں نہیں۔ دنیا میں ہر چیز کی بے ثباتی کا ذکر کر کے فوراً اس حقیقت حیات کی طرف اپنا رخ بدلتا ہے جس میں زندگی موت پر غالب آتی رہتی ہے۔ ہمارے غزل گووں میں میر تقوی بڑا استاد گزرا ہے اور اکثر بڑے بڑے شعرا نے اسے داد دی ہے:

نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب

ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

ریختے کے تمہیں استاد نہی ہو غالب

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

میر کے نشتر بہتر ہوں یا ہزار، سب میں ایک شکست خوردہ اور انفعالی کیفیت ہے:

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے

دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

٭٭٭

عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند

یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

غالب کے ظلمت کدے میں بھی شب غم ہی کا جوش ہے۔ شمع جو دلیل سحر ہے وہ بھی خاموش ہے۔ اس ظلمت کی وجہ سے دن اور رات یکساں ہو گئے ہیں :

چوں صبح من زسیاہی بہ شام مانند است

چہ گویمت کہ ز شب چند رفت و تا چند است

عصر حاضر میں فانی بدایونی غزل کا استاد تھا۔ اس کی تمام شاعری میں حرمان و حسرت و یاس کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے دوست جوش ملیح آبادی نے اس کے سامنے ایک روز کہا کہ بھائی تمام دنیا تمہارے لیے ایک امام باڑا ہے جس کے اندر تم ایک تعزیہ معلوم ہوتے ہو۔ ایسے شعراء کے لیے زندگی کی حقیقت دکھ کے سوا کچھ نہیں۔ اس شاعری پر ہندی فلسفے اور مذہب کا گہرا اثر ہے جو تمام زندگی کو ایک سزا یا دھوکا سمجھتا ہے۔ حکمت اور گیان کا کام راہ گریز دریافت کرنا ہے جو راہ عمل نہیں، کیوں کہ نیک و بد دونوں اعمال کی بدولت انسان آواگون کے چکر میں سے نہیں نکل سکتا۔ اقبال جیسے شاعر جب سوز حیات ابدی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ میر اور فانی کی نالہ کشی نہیں ہوتی۔ اقبال نے تمام اردو اور فارسی شاعری کا رخ پلٹ دیا اور یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ اگر اس نے حکمت کے اور بیش بہا موتی اپنے کلام میں نہ بھی بکھیرے ہوتے تو بھی یہ اکیلا کارنامہ اپنی ملت اور نوع انسان پر ایک بڑا احسان شمار ہوتا۔ اچھا ہنر وہ ہے جس سے بقول ٹینی سن ملتوں کے قلوب استوار ہوں اور جو قوموں کا رخ انحطاط سے عروج کی طرف پلٹ دے۔ فنون لطیفہ کے عنوان سے جو پانچ اشعار ہیں اسی نظریہ ہنر کا لب لباب پیش کرتے ہیں :

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے

یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا

جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا

اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو

جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

بے معجزۂ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

اردو اور فارسی کا ایسا برا حال کیوں ہوا۔ موضوع سخن کے لحاظ سے شاعری کا زوال ایران سے شروع ہوا۔ وہاں قصیدہ گوئی میں ایک طرف جھوٹ کا طوفان پیدا ہوا۔ اہل ہنر نے اپنا ہنر اور اپنی خودی زر ے عوض بیچ ڈالی۔ اس کے بعد شاعری میں ہوس پرستی اور امرد پرستی کا سیلاب آیا۔ تصوف نے بہت کچھ اس کی اصلاح کی اور صوفیانہ شاعری میں عشق جنسی جذبات سے بلند ہو گیا لیکن اعلیٰ افکار اور جذبات کے ساتھ ساتھ حیات گریز نظریات بھی متصوفانہ شاعری میں داخل ہو گئے، اس لیے وہاں بھی انفعالی کیفیت کا غلبہ ہو گیا۔ اردو شاعری کو یہ سب کچھ ورثے میں ملا اور ادھر ہندی فلسفہ تھا جو تمام زندگی کو دکھ اور دھوکا قرا ر دیتا تھا۔ یہ وراثت بھی اردو شاعروں کے حصے میں آئی۔ تمام شاعری اور موسیقی اندوہ گینی سے لبریز ہو گئی۔ اکثر شاعر جو زندگی کا ماتم کرتے تھے وہ ان کا کوئی ذاتی تجربہ نہ تھا۔ یہ زیادہ تر شاعرانہ روایات کی تقلید تھی، جیسے شراب کو نہ چھونے پر بھی شاعر خواہ مخواہ شرابی بنتا ہے، اسی طرح عاشق نہ ہونے پر بھی بہ تکلف و تصنع بازاری عشق کا دعویٰ کرتا ہے۔ تصوف کے جو افکار تھے وہ بھی سب روایتی تھے۔ کئی شاعر زندگی کو ابھارنے کی کوشش کرتے تھے لیکن افکار و تاثرات میں کوئی جدت نہ تھی۔

نظیر اکبر آبادی نے روایتی شاعری کو بالائے طاق رکھ کر گرد و پیش کی زندگی کو اپنی نظر سے دیکھ کر شاعری کی تو تذکرہ نویسوں نے اس کو قابل اعتنا ہی نہ سمجھا۔ اس کی نظر بہت حکیمانہ یا صوفیانہ نہ سہی لیکن جو کچھ کہتا ہے وہ نظر سے دیکھ کر کہتا ہے اور وہی کچھ کہتا ہے جو محسوس کرتا ہے۔ متقدمین اور متاخرین میں سے کوئی شاعر اس کے لیے قابل نظر تقلید نمونہ نہیں۔ دور حاضر میں حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری حالی سے قبل نظر نہیں آتی، مگر اس کو بھی صناع اور مقلد شاعری نے استاد نہ مانا۔ اقبال نے زندگی کو اپنی نظر دیکھ کر شاعری شروع کی تو عرصہ دراز تک روایت پسند اساتذہ اور زبان کے اجارہ داروں کا یہی مشغلہ رہا کہ اس کے کلام میں تذکیر و تانیث اور محاورے کے سقم تلاش کئے جائیں۔ اقبال کہتا ہے کہ ہنر میں جدت زندگی کو اپنی نظر سے دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ مقلد محض، خواہ دین میں ہو اور خواہ ہنر میں، چشمہ حیات سے سیراب نہیں ہوتا، وہ دوسروں کی زندگی میں کی آبیاری کر سکتا ہے:

دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے

افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے

خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے

ظاہر تری تقدیر ہو سیماے قمر سے

دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے

شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے

اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی

کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟

شاعری کے علاوہ مصوروں کے متعلق بھی اقبال کو یہی شکایت ہے کہ یہ بھی مقلد ہی نظر آتے ہیں۔ یہ خیال درست ہے کہ آرٹ کسی قوم کی زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی ہماری مصوری کو دیکھے تو اس کی ملت کا زاویہ نگاہ، اس کی تمنائیں اور آرزوئیں کہیں نظر نہیں آتیں۔ مغرب میں نشاۃ ثانیہ سے قبل کلاسیکی آرٹ موجود تھا جس میں عیسوی تصورات کی آمیزش ہو گئی تھی۔ نشاۃ ثانیہ میں جب حیات فرنگ نے ایک نئی کروٹ لی تو ایک نیا آرٹ پیدا ہو گیا۔ مائیکل انجیلو اور ریمبرانٹ وغیرہ اس نئی زندگی کا اظہار رنگ و سنگ میں کرتے ہیں۔ اسلامی تہذیب و تمدن میں مصوری کو زیادہ فروغ حاصل نہ ہو سکا۔ جس کے اسباب اس سے قبل بیان ہو چکے ہیں۔ عصر حاضر میں جب یہاں مصوری کی طرف توجہ ہوئی تو زیادہ تر اس میں فرنگ کے مختلف اسکولوں کی کورانہ تقلید تھی۔ کچھ ایسے تھے جنہوں نے راجپوت اسکول کی پیروی کی، کچھ قدیم مغل روایات کے مقلد ہو گئے، جن کی ابتداء اکبر و جہاں گیر کے ذوق سے ہوتی ہے۔ اس دور میں بھی کچھ ایرانی اساتذہ کی نقالی نظر آتی ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی جن مصوروں نے نام پیدا کیا ہے ان کی تصویروں میں بھی اپنے وطن اور اپنی قوم کے جذبات کہیں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ گذشتہ نصف صدی میں مغرب میں مصوری کے کچھ انوکھے اسکول پیدا ہوئے، جن میں سے بعض اہل مغرب کے لیے بھی قابل فہم نہ تھے۔ وہ مصوری اپنی جنم بھوم میں بھی معما تھی۔ نقالی سے وہ معما ہمارے ہاں اور مضحکہ خیز بن گیا۔ کسی قنوطی شاعر کا شعر ہے:

اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کیا ہے کوئی خواب ہے دیوانے کا

بہت سی تصویریں جواب نمائشوں میں لٹکائی جاتی ہیں دیوانوں کے خواب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن تقلید کی انتہا یہ ہے کہ یہ سپنے بھی یہاں کے دیوانوں کے اپنے سپنے نہیں ہیں، بلکہ مغربی دیوانوں کے خوابوں کے خاکے ہیں۔ انسانوں کے جو نقشے ان میں نظر آتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت ہے کہ ’’ سر لون کا، منہ پیاز کا، امچور کی گردن‘‘ کسی زمانے میں ہمارے ہاں شاعری مہمل گوئی پر اتر آئی تھی اور شعر کو معما یا گورکھ دھندا بنانا استادی کا کمال شمار ہوتا تھا۔ مرزا غالب بھی ایام شباب میں اس بے راہ روی کے شکار ہوئے لیکن پختگی کے بعد سنبھل گئے۔ لوگ ایسے شعر بھی کہتے تھے اور نکتہ آفرین شارح ان کی شرح میں داد ذہانت دیتے تھے:

ٹوٹی دیا کی کلائی زلف الجھی بام میں

مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں

قبر تھی بام فلک پر اور سمندر جام میں

٭٭٭

پہلے تو روغن گل بھینس کے انڈے سے نکال

پھر دوا جتنی ہے کل بھینس کے انڈے سے نکال

مغرب کی مصوری پر اب ایسا ہی دور آیا ہے اور ہمارے ہاں کے مصوروں نے اس کی نقالی شروع کر دی ہے۔ ایک فرنگی نقاد نے ہمارے مصوروں کی ان تصویروں کو دیکھا اور کہا کہ یہ فرنگ کے فلاں فلاں اسکولوں کی کامیاب یا ناکام نقالی ہے۔ تمہارا پاکستانی آرٹ کہاں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قوم کو اپنی خودی کا احساس نہ ہو اور ہنر اس کی مخصوص تمناؤں اور زاویائے نگاہ کا آئینہ دار نہ ہو، تب تک مصوری زندگی کی ترجمان نہیں بن سکتی۔ اقبال نے ہماری موجودہ مصوری پر پانچ اشعار میں جو تنقید کی ہے اس سے ہمارے مصوروں کو اپنی حقیقت معلوم ہو جانی چاہیے:

کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگ تخیل

ہندی بھی فرنگی کا مقلد عجمی بھی

مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد

کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلیٰ بھی

معلوم ہیں اے مرد ہنر تیرے کمالات

صنعت تجھے آتی ہے پرانی بھی نئی بھی

فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے

آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی

سرود حلال اور سرود حرام کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی اقبال کے پاس معیار وہی خودی کی بیداری اور استواری ہے۔ سرود بھی علم اور فطرت کی دیگر قوتوں کی طرح ایک بے طرف اور غیر جانبدار چیز ہے۔ مختلف قسم کی موسیقی مختلف تاثرات پیدا کرتی ہے اس لیے علی الاطلاق موسیقی کو نہ حلال کہہ سکتے ہیں اور نہ حرام۔ سرود حلال وہ ہے جس سے دل میں محض کوئی عارضی تموج ہی پیدا نہ ہو بلکہ وہ ایک پائدار اثر چھوڑ جائے، جس سے زندگی کا رنگ بدل جائے۔ عارضی طور پر تو ایک جرعہ شراب سے بھی انسان غم و خوف سے پاک ہو جاتا ہے، لیکن ’’ لاخوف علیھم ولاھم یحزنون‘‘ جو اولیاء کی ایک مستقل کیفیت ہے، وہ ایمان ہی کی پختگی سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے ایمان کو کئی راستوں سے تقویت پہنچتی ہے۔ اس کا ایک راستہ سرود حلال ہے:

جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک

بعض صوفیائے کرام نے اسی انداز کے سماع کو حلال قرار دیا ہے:

بر سماع راست ہر کس چیر نیست

طعمہ ہر مرغکے انجیر نیست

(رومی)

اقبال اس کا منظر ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایسے نے نواز پیدا ہوں جن کے نغموں سے دل میں ایسی کشود ہو جو زندہ و پائندہ رہے:

جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی

منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود

جو نغمہ زندگی کی قوتوں کو لوریاں دے کر سلا دے یا حسرت و حرماں سے لبریز ہو وہ سرود حرام میں داخل ہے۔ ارباب نشاط کی ہوس انگیز موسیقی بھی مخرب خودی ہی ہے:

اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام

حرام میری نگاہوں میں ناے و چنگ و رباب

اقبال نے فکر و تاثر اور فن شعر کے بہت سے سانچے فارسی شاعری سے حاصل کیے اور جا بجا اس نے فراخدلی سے اس کا اقرار بھی کیا ہے۔ فارسی شاعری نے اپنے ہزار سالہ ارتقاء میں انداز بیان میں بڑی لطافتیں اور نزاکتیں پیدا کیں۔ نظریات حیات اور افکار کی ثروت کے لحاظ سے بھی یہ سارا دفتر ایسا نہیں جس کے متعلق کوئی منصف مزاج شخص یہ کہہ سکے کہ ’’ ایں دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ‘‘ تصوف کی شاعری جتنی لطیف اور بلند فارسی میں ملتی ہے اتنی دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں، لیکن خاص حالات اور روایات کی وجہ سے اور کچھ عجمی طبیعت کی بدولت اس کے اندر کچھ ایسے تصورات اور تاثرات بھی ظہور پذیر ہوئے جنہوں نے انسان کی فعلی قوتوں کو سلا دیا۔ فارسی شاعری پر کہیں لذتیت طاری ہو گئی اور کہیں سکون طلبی اور کہیں زندگی کے متعلق قنوط پیدا ہو گیا۔ اقبال نے جو اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں اپنی قوم کو حافظ کے تغزل سے پرہیز کی تلقین کی اس کی وجہ یہی تھی کہ حافظ میں کہیں جبر کی تعلیم ہے اور کہیں کھلم کھلا ابیقوری قسم کی لذت پرستی۔ وہ کہیں ہمت سے زندگی کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا۔ وہ تمام مصائب کا علاج آب طرب ناک سے کرنا چاہتا ہے۔ حافظ کے کلام میں مجاز کا پہلو حقیقت پر غالب دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اگر اس کے سب مجاز کو استعارہ سمجھ لیا جائے تو الگ بات ہے۔ چنانچہ اکثر مسلمان شارحین نے ایسا ہی کیا ہے اور کہا ہے کہ حافظ کی شراب شراب معرفت ہے، لیکن کھینچ تان کر بھی ایسے اشعار کو کوئی کیسے تصوف بنائے گا:

مے دو سالہ و معشوق چار دہ سالہ

ہمین بس است مرا صحبت صغیر و کبیر

آن تلخوش کہ ساقی الم الخبائش خواند

اشھی لنا واحلی من قبلتہ العذارا

یہاں وہ کھل کر کہتا ہے کہ میں اسی شراب کا ذکر کر رہا ہوں جسے اسلام نے ام الخبائث کہا ہے۔ مجھے تو وہ بوسہ معشوق سے زیادہ شیریں معلوم ہوتی ہے۔ حافظ کے متعلق مولانا شبلی کا بھی یہی خیال ہے کہ اس کے ہاں خیام والی لذت پرستی ہے۔ زندگی کے معمے سمجھ میں نہیں آتے تو انہیں جام شراب میں غرق کر دو۔ تنگ دستی ہو تو اس کو کوشش سے رفع کرنے کی بجائے مستی سے اس کا علاج کرو۔ مفلس بھی ہو گے تو اپنے تئیں قارون سمجھو گے:

ایام تنگ دستی در عیش کوش و مستی

کایں کیمیائے ہستی قاروں کند گدا را

حدیث از مطرب و مے گو و راز دہر کمتر جو

کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را

سکون طلبی اور لا ادریت کے ساتھ وابستہ ہے کہ زندگی کے اسرار کوئی نہ سمجھا لہٰذا جہاں تک ہو سکے اس چپقلش میں مت پڑو۔ اگر زندگی کے متعلق اس قسم کے تصورات اور اطمینان قلب کی تلاش کے ساتھ ساتھ حوادث حیات پر غلبہ پانے کی مجاہدانہ تلقین بھی ہو تو زندگی میں ایک اعتدال اور توازن پیدا ہو سکتا ہے:

اسرار ازل را نہ تو دانی و نہ من

ایں حرف معما نہ تو خوانی و نہ من

یہاں تک تو انبیاء اور اولیا بھی عجز ادراک میں شریک ہو سکتے ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ خیر و شر کی ماہیت بھی واضح نہیں لہٰذا جدوجہد کا ہے کوکی جائے، زندگی کو مفلوج کر دیتا ہے۔ فن لطیف میں طرب ناکی اور دل آویزی بھی ہوتی ہے، اور اس عنصر کو کون خارج کر سکتا ہے، لیکن زندگی فقط لطف اندوزی کا نام نہیں۔ یہ کوئی نہ کہہ سکے گا کہ اقبال خود عجمی شاعری سے لطف اندوز نہ ہوتا تھا۔ عجم کا حسن طبیعت اس کی فارسی غزلوں میں جھلکتا ہے۔ بہت سی غزلیں اور متفرق اشعار ایسے ہیں کہ انہیں دیوان حافظ میں رکھ دو تو کسی صاحب ذوق سلیم کو بھی مزاج حافظ سے اجنبیت کا احساس نہ ہو، لیکن فرق یہ ہے کہ اقبال نے انہیں الفاظ کو اور معنی پہنا دیے ہیں اور حافظ شیراز کے ساتھ خالد جانباز کا رنگ بھی بعض اوقات ایک ہی غزل میں جھلکتا ہے۔

گورستان شاہی کی نظم میں اقبال نے یہ کہا تھا کہ قوم کی شان جلالی کا ظہور تاریخ اسلام میں ہو چکا ہے، اب شان جمالی کے ظہور کا زمانہ ہے:

ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور

ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور

لیکن فکر و تاثر میں ترقی کرتے ہوئے اور تقدیر امم کا جائزہ لیتے ہوئے بعد میں اس کا زاویہ نگاہ بدل گیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جمال کو جلال سے الگ نہیں کر سکتے۔ جلال موجود نہ ہو تو نبوت بھی بے اثر ہو جائے:

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد

یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ طلب طرب کا نتیجہ ہمیشہ مایوس کن ہوتا ہے۔ لذت پرستی خود اپنے محدود مقصود میں بھی کامیاب نہیں ہوتی۔ دنیا میں خود کشی کرنے والے انسانوں کی نفسیات کو اگر ٹٹولا جائے تو اس کی تہ میں یہی حقیقت ملے گی کہ ایک شخص زندگی سے لذت و راحت کا طالب تھا اور جب زندگی اس کو کانٹوں کا بستر محسوس ہونے لگی تو اس نے ناقابل علاج سمجھ کر اس کا خاتمہ کر دیا۔ عجمی شاعری میں اور اس کی تقلید میں اردو شاعری میں، آپ کو دونوں چیزیں بہم ملیں گی۔ ہوس پرستی اور لذت طلبی میں انہماک کے ساتھ ساتھ زندگی کی مرثیہ خوانی بھی ہے۔ لذتیت کے دوش بدوش افسردگی بھی ہے۔ زندگی کی لطافتوں اور خوش باشی کا انجام دیکھ کر انشا جیسے ہنسوڑے لذت پرست اور بذلہ سنج نے جو اپنی آخری کیفیت بیان کی ہے اسے پڑھ کر دل پر کس قدر افسردگی طاری ہوتی ہے:

نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی

تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں

بسان نقش پاے رہرواں کوے تمنا میں

نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں

یہ شاعر کسی بلند نصب العین کے فقدان کی وجہ سے زندگی کے حوادث کا حریف نہ بن سکا۔ اقبال کی اصطلاح میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی خودی استوار نہ تھی۔

ہمارا تغزل ہوس پرستی کے ساتھ ساتھ افسردگی اور یاس سے لبریز ہے۔ جب فن لطیف میں یہ بات پیدا ہو جائے تو اس کی سرسری طرب ناکی اور دل آویزی سے بھی پرہیز لازم ہو جاتا ہے۔ اقبال کا نصب العین یہ تھا کہ عجم کے حسن طبیعت میں عرب یعنی اسلام کا سوز دروں داخل کر کے زندگی کے لیے اکسیر سعادت تیار کی جائے۔ اس مقصد کے حصول میں اقبال کی شاعری ایک کامیاب تجربہ ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اقبال کے اشعار طرب ناک اور دل آویز نہیں ہیں۔ یہ دل آویزی اس کو عجم سے حاصل ہوئی ہے۔ مگر اقبال کے ہاں یہ دل آویزی شمشیر خودی کو کند نہیں کرتی۔ اس کے ہاں نیام مرصع اور خوبصورت ہے لیکن اس کے اندر تلوار بھی تیغ دو دم ہے ’’مصرعے کارید و شمشیرے درود‘‘ :

ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دل آویز

اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز

افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستان

بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز

فن لطیف کے متعلق ایک نظریہ یہ ہے کہ اس کو فطرت خارجی اور فطرت انسانی کا آئینہ ہونا چاہیے۔ آئینے کا کام تنقید نہیں، آئینہ سب کچھ دیکھ کر خاموش رہتا ہے۔ وہ مبلغ نہیں ہوتا۔ مدح و ذم سے اس کو واسطہ نہیں۔ اقبال کا کمال دیکھئے کہ شیکسپیئر پر جو اشعار اس نے کہے ہیں ان کی ردیف ہی آئینہ ہے۔ شیکسپیئر کا کمال فن یہ ہے کہ زندگی کا جو پہلو اس کے سامنے آتا ہے اور کسی کردار کے جو خد و خال ہیں ان کو بعینہ آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اسی لیے کسی کو آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ شیکسپیئر کا مذہب کیا تھا۔ وہ مومن کو بحیثیت مومن اور کافر کو بحیثیت کافر پیش کرتا ہے، فتویٰ اور تنقید پڑھنے والے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ شیکسپیئر کے پچاس ڈرامے پڑھ کر انسان خود ایک قسم کا آئینہ بن جاتا ہے کسی خاص نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کا میلان پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ شیکسپیئر کے کلام میں بھی حقیقت کا اظہار ہے لیکن اقبال کا نظریہ حیات حقائق حاضرہ میں انقلاب چاہتا ہے۔ انسان کی اصل حقیقت وہ نہیں جو اب ہے، بلکہ وہ ہے جو اسے ہونا چاہیے اور یہ چاہیے آئینے کی عکاسی میں نہیں آتا، مگر شیکسپیئر کی امتیازی خصوصیت کو کس عمدگی سے بیان کیا ہے:

شفق صبح کو دریا کا خرام آئینہ

نغمہ شام کو خاموشی شام آئینہ

برگ گل آئینہ عارض زیبائے بہار

شاہد مے کے لیے حجلہ جام آئینہ

حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن

دل انساں کو ترا حسن کلام آئینہ

اس کے بعد اقبال کی شعر عجم پر تنقید کے آخری شعر کا مطلب اچھی طرح واضح ہو جائے گا:

اقبال یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ

از ہرچہ بآئینہ نمایند پرہیز

عجمی شاعری میں عاشق فقط اپنے سینے پر تیشہ چلاتا رہتا ہے ’’ چھاتی پہ رات ہجر کی کالا پہاڑ ہے‘‘ اور اسی پہاڑ پر کوہ کنی میں مبتلا رہتا ہے۔

کاو کاو سخت جانی ہاے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوے شیر کا غالب

(غالب)

ہمچو فرہاد بود کوہ گئی پیشہ ما

کوہ ما سینہ ما ناخن ما تیشہ ما

بہر یک جرعہ مے منت ساقی نہ کشیم

اشک ما بادۂ ما دیدۂ ما شیشہ ما

اقبال فن لطیف کو جس خارہ تراشی کا آلہ اور وسیلہ بنانا چاہتا ہے وہ ایک الگ قسم کی ہے:

زمانہ بات ونسازد تو با زمانہ ستیز

٭٭٭

چوں پختہ شدی خود را بر سلطنت جم زن

٭٭٭

گفتد جہان ما آیا بت می سازد

گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن

اقبال کو اپنے وطن کے معاصرانہ فن لطیف میں کہیں خارہ تراشی نظر نہیں آتی۔ زیادہ تر غزلیں کسی اصلی یا تخیل کی پیداوار عورت کے متعلق اظہار ہوس ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ بھی غنیمت ہے کہ ایرانی امرد پرستی رفتہ رفتہ یہاں اردو کی شاعری میں ناپید تو نہیں لیکن کمیاب ہو گئی۔ اردو میں شاعری نے فعل میں جمع کا صیغہ استعمال کرنا شروع کر دیا تاکہ یہ بات گول ہی رہے کہ معشوق مرد ہے یا عورت:

نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے

پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے

زمانہ حال میں عشقیہ شاعری میں کھلم کھلا تانیث کا صیغہ استعمال ہونے لگا ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ انسانی نفسیات میں ایک عملی تلطیف ہے جس کی بدولت جنسی عشق کی قوتیں غیر جنسی مقاصد عالیہ کا روپ اختیار کر لیتی ہیں، لیکن ہمارے غزل نویسوں کا عشق جنسی میلان سے آگے قدم ہی نہیں رکھتا۔ ان کا دل زلف پیچاں کے پیچاک سے نکلتا ہی نہیں، کیوں کہ نکلنا چاہتا ہی نہیں :

زلف پر پیچ میں دل ایسا گرفتار ہوا، چھٹنا دشوار ہوا

کچھ افسانے اخلاقی اور معاشرتی بھی ملتے ہیں، لیکن زیادہ تر افسانوں میں عورت کا عشق ہی محور داستان ہوتا ہے اور یہی افسانے زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ جنسی عشق کی تخریبی کارروائیاں، بہت کچھ جدید نفسیات تحت الشعور سے اخذ کردہ اکثر افسانہ نویسوں کا کل سرمایہ ہیں۔ جس قدر عریاں نویسی ہو اسی قدر افسانہ نویس، صاحب کمال شمار ہوتا ہے اور اسی قدر اس کو قوم سے داد ملتی ہے۔ اگر شراب نوشی کا شکار ہو کر جوانا مرگ ہو جائے تو سارے ادیب اور پڑھنے والے اس کا ایسا ماتم کرتے ہیں کہ گویا حالی یا شبلی یا سرسید یا اقبال ثانی جہان فانی سے گزر گیا۔ مصوروں کی تصویروں میں بھی زیادہ تر عورتیں ہی نظر آئیں گی۔ برہنگی کو تو فرنگ کی مصوری اور سنگ تراشی نے فن کا لازمہ بنا دیا ہے۔ مصوروں اور بت تراشوں کے سامنے متناسب اعضا اور حسین چہروں والی عورتیں برہنہ ہو کر بطور موڈل کئی روز تک مادر زاد برہنگی میں فن کار کے بتائے ہوئے انداز میں روبرو موجود رہتی ہیں اور اس کی اجرت وصول کرتی ہیں۔ پاکستان میں نیوڈ آرٹ کا زیادہ رواج نہیں ہوا کیوں کہ مشرق میں نسوانی شرم و حیا ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ لیکن اکثر باکمال ہندی اور پاکستانی مصوروں کی تصویروں میں بھی متنوع لباس میں ملبوس عورتیں ہی نظر آتی ہیں۔ اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو عورتیں سمجھ کر دیکھنے والے نقاد ذوق فن سے محروم ہیں۔ یہ عورتیں نہیں بلکہ اعلیٰ تصورات کی آیات یا علامات ہیں۔ ایسی تصویروں میں عورت عورت نہیں بلکہ ایک رمز ہے اور یہ رمز شناس یا خود مصور ہے یا معدودے چند نقادان فن۔ راقم الحروف نے ایک نقاد فن کے شبستان میں ایک برہنہ عورت کی تصویر آویزاں دیکھی اور اس سے کہا کہ میں فن مصوری کے رمز کو سمجھنا چاہتا ہوں، مجھے اس تصویر میں جن تصورات کا اشارہ ہے ذرا سمجھا دیجئے۔ آخر میں ذوق جمال سے ایسا محروم نہیں ہوں اور نفسیات سے بھی اتنا بے بہرہ نہیں ہوں کہ آپ کے سمجھانے سے بھی کچھ نہ سمجھ سکوں۔ اس نقاد کی قوت بیان بھی غیر معمولی تھی، لیکن اس کے باوجود اس نے کہا کہ میں کیا سمجھاؤں تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ میں اس کے سوا اور کیا نتیجہ نکالتا کہ یہ تصویر جذبہ جنسی نے شبستان میں آویزاں کر رکھی ہے۔ اس کے سوا کچھ معنی ہوتے ہیں تو سمجھانے کی کچھ تو کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے ہی ہنر وروں کے متعلق اقبال نے کہا ہے:

عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا

ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کے مزار

چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند

کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

لیکن اب کچھ اشتراکی صاحبان فن ایسے بھی پیدا ہو گئے ہیں کہ ان کے اعصاب پر مزدور و کسان سوار ہو گئے ہیں اور یہ بوجھ اس پہلے بوجھ کے مقابلے میں زیادہ وزنی اور زیادہ کثیف ہے۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ کسی کامل الفن فنکار میں فن لطیف وہبی ہوتا ہے یا کسبی، انگریزی میں ایک مثل ہے کہ بننے سے کوئی شاعر نہیں بن سکتا۔ شاعر بطن مادر ہی سے شاعر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تلمیذ الرحمان ہونے کا بھی یہی مفہوم ہے اور شاعری کے جزو پیغمبری ہونے کے بھی یہی معنی ہیں۔ اس کا جواب اقبال نے مختصراً تین اشعار میں دیا ہے کہ ایجاد معانی کی غیر معمولی صلاحیت خدا داد ہوتی ہے لیکن فن کا کمال بے حساب محنت طلب بھی ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ قیمتی پتھر تو کانوں میں فطرت ہی پیدا کرتی ہے لیکن کوئی ہیرا تراشنے کے بغیر پوری طرح حسین اور نور افشاں نہیں بنتا:

نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا

سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا

نابغہ یا جینیس کے متعلق کسی انگریز مفکر کا قول ہے کہ جینیس کے کمال میں ایک قلیل اساس فطری ہوتی ہے، جو مصدر الہام ہوتی ہے لیکن اس گنجینہ سینہ سے زیادہ محنت کا پسینہ کمال پیدا کرتا ہے۔ بعض لوگوں نے نبوت کے متعلق بھی اس قسم کی بحث کی ہے کہ وہ وہبی ہوتی ہے یا کسبی۔ خدا جس کو چاہے بغیر کسی استحقاق کے نبی بنا دیتا ہے یا کسی شخص کی روحانی ترقی اس کو اس درجے تک پہنچا دیتی ہے؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اس کی اساس وہبی ہے لیکن نبی کو اپنا وظیفہ نبوت ادا کرنے کے لیے دوسرے انسانوں سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے یہ جدوجہد نبوت سے قبل بھی ہوتی ہے اور بعثت کے بعد بھی مسلسل جاری رہتی ہے۔ حافظ نے اپنی استعداد کے وہبی ہونے کے متعلق کہا ہے:

چہ رشک می بری اے سست نظم بر حافظ

قبول خاطر و لطف سخن خدا داد است

لیکن خالی خدا داد صلاحیت سے حافظ حافظ نہ بن سکتا۔ اس کے کلام سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ فن تغزل میں اس نے فطری کے علاوہ مسلسل محنت اور مشق سے کام لیا ہے۔ فن میں باریکیاں مطالعے، مشاہدے اور محنت سے پیدا ہوتی ہیں۔ خود اقبال کو دیکھئے۔ اس کی شاعری کے ابتدائی دور میں بعض لوگوں نے زبان اور محاورے پر اعتراضات کیے، ان اعتراضات کا ایسا تفصیلی اور مسکت جواب حوالوں اور مثالوں سے دیا گیا کہ معترض حیرت زدہ ہو گئے کہ اس شخص کو فن کے تمام پہلوؤں پر کتنا عبور ہے۔ یہ معلومات آسمان سے تو نازل نہیں ہوتیں، یہ علم مطالعے اور تفکر اور محنت کا نتیجہ تھا۔ یہ درست ہے کہ خالی محنت اقبال کو اقبال نہ بنا سکتی، اگر فطرت کی طرف سے غیر معمولی بصیرت ودیعت نہ ہوتی۔ خالی محنت سے صناعی میں ترقی ہو سکتی ہے لیکن صناعی اور قافیہ پیمائی شاعری نہیں۔ مانی ہو یا بہزاد ان کی محنتوں اور کاوشوں کا کیا ٹھکانا ہے۔ فن کی طرف سے غفلت برتتے تو خام رہ جاتے۔ اقبال کا فیصلہ اس کے متعلق یہ ہے:

ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خدا داد

کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد

خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر

مے خانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد

بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

روشن شرر تیشہ سے ہے خانہ فرہاد

جس شاعری کو اقبال حیات افروز سمجھتا ہے اس کی وہ دو قسمیں قرار دیتا ہے۔ ایک کو نغمہ جبریل کہتا ہے اور دوسری کو بانگ اسرافیل۔ یہ تقسیم قابل غور ہے۔ حکیم المانوی نطشے نے آرٹ کو اسی طرح دو انواع میں تقسیم کیا ہے اور یونانی صنمیات کی اصطلاحوں میں ایک کو وہ دیوتا اپولو سے وابستہ کرتا ہے اور دوسری نوع کو ڈیوانیسیس سے۔ یہ تقسیم اقبال کی تقسیم سے بہت مماثل ہے۔ اپولو عقلی اور جمالی پہلو کا نمائندہ ہے اور ڈایونیسیس میں حرکت و ہیجان اور جوش و مستی ہے۔ جبریل کو بھی بعض مسلمان شعراء، حکما و صوفیہ نے خدا کی طرف سے انکشاف حقائق پر مامور تصور کیا، مگر اس میں عشق کی گرمی اور فراق کی تپش نہیں۔ جبریل و ابلیس کے مقابلے میں بھی ابلیس نے جبریل کو یہی طعنہ دیا کہ تجھ میں اضطراب حیات نہیں۔ معراج شریف کے قصوں میں بھی جو بہت کچھ تمثیلی ہیں جبریل ایک حد پر پہنچ کر رک جاتا ہے کہ اگر آگے پرواز کی جرأت کروں تو میرے پر چل جائیں۔ جس کی یہ تعبیر کی گئی ہے کہ جبریل عقل کا نمائندہ ہے اور عقل آستانے تک تو پہنچا دیتی ہے لیکن اس کی تقدیر میں حضور نہیں :

اگر یک سر موے بر تر پرم

فروغ تجلی بسوزد پرم

اپولو والا آرٹ ہم آہنگی، توازن اور جمال پیدا کرتا ہے لیکن ڈایونیسیس والا آرٹ زندگی کی جامد صورتوں کو درہم برہم کر کے اضطراب اور پیچ و تاب سے جدید مقاصد کی طرف بڑھتا ہے جو ابھی وجود پذیر نہیں ہوئے۔

جبریل کے مقابلے میں اسرافیل کا کام ایسا صور پھونکنا ہے جس سے پہلا تمام نظام عالم درہم برہم ہو جائے، تمام زندہ ہستیاں موت سے لرزاں ہوں اور تمام مردے قبروں سے نکل پڑیں۔ قیامت سے بڑھ کر انقلاب عظیم اور کیا ہو سکتا ہے۔ قیامت کی ماہیت خدا ہی کو معلوم ہے، لیکن بہر حال وہ حیات و موت کا ایک انقلابی تصور ہے۔ افلاطون اور ارسطو دونوں جدوجہد کی زندگی کو جس میں اخلاقی کوششیں بھی داخل ہیں، تفکر محض کی زندگی سے ادنیٰ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں تغیر ثبات کے مقابلے میں ا ور سکون و سکوت ازلی حرکت کے مقابلے میں زیادہ حقیقی ہیں۔ وہ ’’الان کما کان‘‘ بھی ہے اور ’’ کل یوم ہو فی شان‘‘ بھی۔ آفرینش میں افزائش بھی حیات ابدی کا وظیفہ ہے۔ شعر میں کبھی یہ پہلو نمایاں ہوتا ہے اور کبھی وہ یہ تفریق بھی کسی حد تک جمال و جلال کے امتیاز سے مماثلت رکھتی ہے۔

اقبال نے پہلے مصرع میں تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے مگر اس کے بعد فوراً اپنا نظریہ فن پیش کر دیا ہے:

میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن

یہ نکتہ ہے تاریخ امم جس کی ہے تفصیل

وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے

یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل

تاریخ امم اس نکتے کی تفصیل کیوں کر ہے اس کا صاف جواب یہ ہے کہ ملتوں کے فنون لطیفہ میں کبھی یہ پہلو نمایاں ہوتا ہے اور کبھی وہ، لیکن اپنی ملت کے لیے اس وقت اقبال کو نغمہ جبریلس ے زیادہ صور اسرافیل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس سے ایک محشر بپا ہو کر نیا عالم ظہور میں آئے۔

رقص بھی فنون لطیفہ میں داخل ہے اور یہ بھی موسیقی کی طرح ایک فطری چیز ہے۔ رقص تو بعض جانوروں میں بھی ہوتا ہے۔ طاؤس کے رقص کی دل آویزی مشہور ہے۔ بغیر سیکھنے سکھانے کے بچے بھی رقص کرتے ہیں ذرا سا موسیقی کا اشارہ کافی ہوتا ہے۔ موسیقی کی طرح رقص کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ جلال الدین رومی بھی بے اختیار ہو کر رقص کرنے لگتے تھے۔ ان کی تقلید میں ان کے نام لیوا مریدوں نے اس کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ وہ دف و نے کے ساتھ بے اختیار ہو کر زور زور سے گھومنے لگتے ہیں۔ اقبال نے کسی چینی حکیم کا قول نقل کیا ہے:

شعر سے روشن ہے جان جبرئیل و اہرمن

رقص و موسیقی سے ہے سوز و سرور انجمن

فاش یوں کرتا ہے اک چینی حکیم اسرار فن

شعر گویا روح موسیقی ہے رقص اس کا بدن

مگر اہل فرنگ نے رقص کو جنسی تسکین کا سامان بنا لیا ہے۔ یہ رقص اقبال کو پسند نہیں، جس میں زیادہ تر مرد و زن کی آہم آغوشی ہوتی ہے۔ اس میں جنسی جذبے کی آمیزش ہوتی ہے۔ اقبال وہ رقص چاہتا ہے جس میں روح کا ارتعاش بدن کی حرکات میں ظاہر ہو۔

فنون لطیفہ کا باہمی تعلق کس قسم کا ہے ؟ یہ بھی جمالیات کا ایک دلچسپ مسئلہ ہے۔ بعض حکما نے فنون لطیفہ میں فرق مراتب پیدا کیا ہے لیکن اس میں وہ متفق الرائے نہیں۔ کسی کے نزدیک موسیقی شعر سے افضل ہے اور کسی کے ہاں شعر کو موسیقی پر فضیلت حاصل ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

سترہواں باب

 

ابلیس

 

 

ابلیس یا شیطان کی ماہیت کیا ہے؟ یہ بھی اسرار حیات میں سے ایک سر بستہ راز ہے۔ صوفیہ، حکما اور مفکر شعراء نے طرح طرح سے اس کی گرہ کشائی کی کوشش کی ہے۔ کیا ابلیس زندگی کے کسی مظہر کا نام ہے یا وہ کوئی آمادہ بہ شر شخصیت ہے؟ کیا وہ کوئی زوال یافتہ باغی فرشتہ ہے یا اس جناتی مخلوق کا امام ہے جسے قرآن نے ناری قرار دیا ہے؟ لیکن خود نار کیا ایک استعارہ ہے یا دنیا کی آگ کی طرح جلانے اور بھسم کرنے کا ایک عنصر ہے۔ اسی طرح ملائکہ کی ماہیت کے متعلق بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ پروں والی، مابین السماء والارض پرواز کرنے والی اور احکام الٰہی بجا لانے والی مخلوق ہے یا وہ بھی حیات و کائنات میں مخصوص قسم کی قوتوں کا نام ہے؟ ملائکہ اشخاص ہیں یا قوائے حیات، جو فطرت کو خیر کی طرف مائل کرتے ہیں ؟ یہ سب باتیں متشابہات میں سے ہیں، جن کا علم اللہ ہی کو ہے۔ راسخون فی العلم، ان حقائق پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی تاویل خلاق فطرت ہی کو معلوم ہے۔

متصوفانہ ادب میں ابلیس کے متعلق طرح طرح کے تصورات ملتے ہیں۔ کسی نے اس کو ملعون ہونے کی بجائے سب سے بڑا موحد قرار دیا ہے، جس نے حکم الٰہی کے باوجود غیر خدا کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ کسی نے اس کو مادیت کا امام گردانا ہے کہ آدم کا خاکی عنصر تو اس کو نظر آیا اور اس کے عرفان اور روحانی ممکنات اس کو نظر نہ آ سکے۔ آج بھی فلسفیانہ مادیت انسان کے متعلق وہی زاویہ نگاہ رکھتی ہے جسے قرآن نے ابلیس کی طرف منسوب کیا ہے۔ بعض فرنگی محققین کی یہ رائے ہے کہ شیطان کا تصور وہی ایرانی ثنویت میں اہرمن کا تصور ہے اور بنی اسرائیل نے جلا وطنی کے زمانے میں جو ایرانی تصورات قبول کر کے ان کو مذہب میں داخل کر لیا، شیطان کا تصور بھی انہیں تصورات میں سے ہے، کیونکہ بنی اسرائیل کے قدیم انبیاء میں یہ عقیدہ کہیں نہیں ملتا۔ قرآن و حدیث میں شیطان کے متعلق جو تصورات ملتے ہیں ان کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور حکمت آموز بھی۔ ابلیس کی اگر کوئی ایک شخصیت ہو تو وہ ایک وقت میں ایک جگہ عمل کرتی ہوئی نظر آئے، لیکن حدیث شریف میں ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اس کا شیطان لگا ہوا ہے۔ اس پر ایک صحابی نے ذرا جرأت سے پوچھا کہ کیا حضور کے ساتھ بھی ؟ فرمایا کہ ہاں، میرے ساتھ بھی ہے مگر میں نے اسے مومن بنا رکھا ہے۔ حضور کا شیطان تو مومن ہو گیا لیکن کفار کے ساتھ لگا ہوا شیطان کافر ہی رہا۔ اور پھر شیطان ایک تو نہ ہوا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان انسان کی رگ و پے میں اور اس کی روح کی گہرائیوں میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ اس بیان میں شیطان کوئی شخصیت معلوم نہیں ہوتا بلکہ زندگی میں ایک تخریب انگیز میلان کا نام ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا جو خیر مطلق ہے اس نے ایسی ہستی کو پیدا ہی کیوں کیا اور انسانوں کو ورغلانے کے لیے اس کو ایسی کھلی اجازت کیوں دی؟ ازروئے قرآن حیات اور کائنات کی کوئی قوت خدا کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتی۔ سب جگہ آئین الٰہی کار فرما ہیں اور مخلوقات میں سے ہر شے خدا کی مطیع ہے۔ یہ اطاعت طوعاً ہو یا کرہاً، اختیار سے ہو یا جبر سے۔ عارف رومی کے نزدیک شیطان اس زیرکی کا نام ہے جو عشق سے معرا ہو کر ادنیٰ مقاصد کے حصول میں حیلہ گری کرتی ہے:

می شناسد ہر کہ از سر محرم است

زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است

قرآں کریم نے استکبار کی وجہ سے انکار کو اس کی امتیازی صفت قرار دیا ہے۔

دراصل ابلیس کی ماہیت کا مسئلہ خیر و شر کا مسئلہ ہے۔ حیات و کائنات میں شر کے وجود سے کون انکار کر سکتا ہے۔ حکماء نے شر کے دو بڑے اقسام قرار دیے ہیں۔ ایک شر طبعی ہے جیسے آندھیاں، طوفان، زلزلے، اور ہزاروں قسم کی بیماریاں جن سے انسانوں کو ضرر پہنچتا ہے لیکن وہ انسانی ارادوں کی پیداوار نہیں۔ دوسری قسم نفسی یا اخلاقی شر ہے، جو انسان کے اختیار کے غلط استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔ المانی حکیم لائبنیز کے نزدیک شر کی ایک قسم ما بعد الطبعی بھی ہے۔ اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ خدا ہی ہستی لامحدود ہے جو خیر مطلق ہے۔ خدا کے سوا ہر مخلوق میں کچھ نہ کچھ کمی ہونا لازمی ہے۔ یہ کمی یا نقص خیر کا ایک گونہ فقدان ہے۔ چونکہ کوئی مخلوق، خدا نہیں بن سکتی اس لئے ہر ہستی میں کم و بیش نقص کا ہونا لازمی ہے اور ہر نقص ایک قسم کا شر ہے، قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ خیر و شر سب خدا کی طرف سے ہے، لیکن بایں ہمہ سب کچھ خدا کے دست خیر سے صادر ہوتا ہے۔

انسان کے لیے شر کی ماہیت کا سمجھنا اور ہستی میں اس کا مقام متعین کرنا ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ خیر کی ماہیت کو سمجھنا۔ کیونکہ خیر و شر باہمی تقابل ہی سے سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ شرق و غرب میں بعض اکابر صوفیہ، حکما اور شعر نے ابلیس کو المیہ (ٹریجڈی) کا ایک زبردست کردار بنا دیا۔ ملٹن کے فردوس گم شدہ کی دینی نظم میں شیطان ایک زبردست کریکٹر ہے اور اس کی تشکیل میں ملٹن نے اپنی قوت تخیل کو پورے زوروں پر استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے بعض نقادوں کے رائے ہے کہ ملٹن کا شیطان اس کے خدا کے مقابلے میں زیادہ قوی اور لبریز حیات معلوم ہوتا ہے۔ گوئٹے کے حکیمانہ ڈرامے فوسٹ میں زندگی کے گہرے اسرار اور اس کی باطنی قوتوں کی گرہ کشائی کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس ڈرامے کا ہمپایہ اور روحانی بصیرت والا مفکر شاعر ہے، اس نے بھی ابلیس کی حقیقت کو کئی جگہ بیان کر کے اس تصور کو ایک نئے رنگ میں پیش کیا ہے۔ اقبال کے ہاں ابلیس کا تصور اس کے فلسفہ خودی کا ایک جزو لاینفک ہے۔ خودی کی ماہیت میں ذات الٰہی سے فراق اور سعی قرب و وصال دونوں داخل ہیں۔ اقبال کے فلسفہ خودی کی جان اس کا نظر عشق ہے۔ عشق کی ماہیت آرزو، جستجو اور اضطراب ہے۔ اگر زندگی میں موانع موجود نہ ہوں تو وہ خیر کوشی بھی ختم ہو جائے جس کی بدولت خودی میں بیداری اور استواری پیدا ہوتی ہے۔ اگر انسان کے اندر باطنی کشاکش نہ ہو تو زندگی کی جامد ہو کر رہ جائے۔ اقبال نے شیطان کی خودی کو بھی زور و شور سے پیش کیا ہے اور کئی اشعار میں تو شیطان کی تذلیل کی بجائے اس کی تکریم کا پہلو نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال جدوجہد کا مبلغ ہے، اور جدوجہد باطنی اور خارجی مزاحمتوں کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ خودی اپنے ارتقاء کے لئے خود اپنا غیر پیدا کرتی ہے۔ تاکہ اس کو جذب کرنے اور اس پر غالب آنے سے انسان روحانی ترقی کر سکے۔ زندگی کی مزاحمتوں کے اندر تو کوئی روح محبت نہیں، لیکن روح محبت ان کی بدولت قوت حاصل کرتی ہے۔ قرآنی ابلیس انکار مجسم ہے جسے نفی حیات سمجھنا چاہیے، لیکن زندگی ہر قدم پر اپنی نفی کر کے بہتر اثبات کی طرف قدم اٹھاتی ہے۔ اثبات کے لیے نفی مقدم ہے:

لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا

شیطان زندگی کے مراحل میں اس وقت غالب معلوم ہوتا ہے جب انسان نفی کی منزل میں رک جانے اور آگے اثبات کی طرف اس کے قدم نہ اٹھ سکیں۔ اگر نفی کا عنصر بھی انسان کے لیے اثبات سے کم اہمیت نہیں رکھتا تو اس سے گریز ناممکن بلکہ ناواجب ہے۔ جذبات اگر عقل و عشق کے کنارہ کش ہو کر عنان گسیختہ مصروف عمل ہوں تو ان میں وہی انداز پیدا ہوتا ہے جسے قران نفس امارہ کہتا ہے، لیکن زندگی میں کوئی اچھا کام بھی جذبات کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ افلاطون نے نفس انسانی کو ایک رتھ سے تشبیہہ دی ہے جس میں جذبات کے گھوڑے لگے ہوتے ہیں۔ ان کی عناس نفس عاقلہ کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اگر عقل کی گرفت ڈھیلی ہو جائے تو یہ گھوڑے رتھ کو ٹکرا کر تباہی پیدا کر دیں۔ لیکن اگر گھوڑے نہ ہوں تو رتھ اپنی جگہ سے جنبش ہی نہ کر سکے۔ غرضیکہ مقصود حیات جذبات کشی نہیں بلکہ ان جذبات کو عقل و عشق و ایمان کے زیر عنان رکھنا ہے۔ مندرجہ صدر حدیث کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اسوہ نبوت یہ ہے کہ شیطان کی گردن مارنے کی بجائے اس کو مومن بنا کر اس سے مومنوں والے کام لیے جائیں۔ خارجی اور باطنی زندگی کی قوتیں اور کائنات میں کام کرنے والی طاقتیں جیسے برق و طوفان، تخریب و تعمیر دونوں میں کام آ سکتی ہیں۔ ان قوتوں کی تخریب کو دیکھ کر انہیں خیر مطلق کا منافی سمجھنا بے بصری کا نتیجہ ہے۔ انہیں قوتوں کی تسخیر انسان کا مقصود حیات ہے۔ لیکن تسخیر کے لیے زبردست مزاحم قوتوں کا وجود لازم ہے۔ اگر یہ مزاحم قوتیں نہ ہوتیں تو ارتقائے حیات نا ممکن تھا۔ اس تصور کے مطابق شیطان کائنات میں بھی کار فرما ہے اور ہر شعبہ حیات میں بھی وہی انسان کے جسم میں بھی ہے، اس کے شعور میں بھی اور اس کے تحت الشعور میں بھی۔ وہ حرکت اور تخلیق کا مصدر ہے۔ لیکن اگر عقل و عشق کی قوتیں اس پر قابو نہ پا سکیں تو زندگی میں کوئی نظم و ضبط پیدا نہ ہو سکے۔

اقبال کی نظم، تسخیر فطرت میں ابلیس سجدۂ آدم سے انکار کی وجہ بڑے زور شور سے بیان کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو حرکت کا سرچشمہ بناتا ہے، زندگی میں جو برکت ہے وہ حرکت کی وجہ سے ہے، اس لیے وہ زندگی کی برکتوں کو بھی اپنی طرف منسوب کر لیتا ہے۔ وہ ذات باری کو کہتا ہے کہ سب ہنگامہ حیات اور زندگی کی تمام ہماہمی اور گہما گہمی میری وجہ سے ہے۔ میں نہ ہوتا تو نہ کائنات میں جنبش نظر آتی اور نہ زندگی میں سوز و ساز ہوتا۔ وہ تخریبی حرکات کے ساتھ ترکیبی عناصر اور مظاہر کو بھی اپنا رہین منت سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے خواہ مخواہ بدنام کرتے ہو کہ میں نفی و تخریب ہی کے درپے رہتا ہوں۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہر نئی تعمیر پہلی تعمیر کو ڈھانے کے بعد ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ تخریب کو مجھ سے منسوب کرتے ہو تو تعمیر کو بھی میری طرف منسوب کرو، جو تخریب کے بغیر نہ ہو سکتی تھی:

ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند

اول آں تعمیر را ویراں کنند

شیطان کے آتش نژاد ہونے کے بھی یہی معنی ہیں کہ موجودات کا وجود حرارت سے ہے۔ اس سلسلے میں ابن عربی نے ایک نہایت حکیمانہ اور عارفانہ بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جنت کے پھل دوزخ کی حرارت سے پکتے ہیں۔ بات ایسی گہری سے کہ ایک طویل مضمون اس کی شرح کے لیے درکار ہے۔ اس سے جنت اور دوزخ کی ماہیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ فرشتوں کو نوری کہتے ہیں اور شیاطین و جنات کو ناری۔ شیطان کہتا ہے کہ ناری کو نوری پر ترجیح ہے، کیونکہ نار میں حیات آفرینی اور نور، نار ہی کا ایک مظہر ہے۔ نور بحیثیت نور کوئی حرکت پیدا نہیں کر سکتا:

نوری ناداں نیم سجدہ بہ آدم برم

او بہ نہاد است خاک من بہ نژاد آذرم

می تپد از سوز من، خون رگ کائنات

من بہ دو صرصرم، من بہ غور تندرم

رابطہ سالمات، ضابطہ امہات

سوزم و سازے دہم آتش مینا گرم

ساختہ خویش را در شکنم ریز ریز

تا ز غبار کہن پیکر نو آورم

پیکر انجم ز تو، گردش انجم ز من

جاں بہ جہاں اندرم زندگی مضمرم

تو بہ بدن جاں وہی شور بہ جان من دہم

تو بہ سکوں رہ زنی، من بہ تپش رہبرم

آدم خاکی نہاد دوں نظر و کم سواد

زاد در آغوش تو، پیر شود در برم

خدا کے سامنے اپنی مدح سرائی کرنے کے بعد وہ آدم کو بہکاتا ہے کہ تیری اس جنت میں کیا مزہ ہے۔ ایک مسلسل سکون و نشاط و سرور کی یک آہنگی۔ نہ ضرورت عمل، نہ نشاط کار، نہ مقصد کوشی، ایسی جنت میں تیرا ساز بے سوز ہے۔ بقول مرزا غالب:

دراں پاک مے خانہ بے خروش

چے گنجائی شورش نا و نوش

سیہ مستی ابر و باراں کجا

خزاں چوں نباشد بہاراں کجا

شیطان آدم کو کہتا ہے کہ تو یہاں کیا فاختہ بن کر شاخ طوبیٰ پر بیٹھا ہے۔ انجیل میں ہے کہ روح القدس حضرت مسیح کو فاختہ کی صورت میں نازل ہوتی دکھائی دی۔ ابلیس کہتا ہے کہ اس عالم قدس میں روحیں فاختہ بن جاتی ہیں۔ نہایت معصوم، بے ضرر، لیکن لیکن مزہ شاہین بننے میں ہے۔ اس کے لیے شکار کا شوق اور جذبہ چاہیے۔ جنت میں جھپٹنے کی کیا گنجائش ہے۔ سجود و نیاز میں عجز کے سوا کیا رکھا ہے۔ کوثر و تسنیم کے کنارے شراب طہور پیتے رہنا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ جنت اگر تمام آرزوؤں کے حصول کا نام ہے تو ایسی زندگی موت کے برابر ہے۔ وصل کے بعد شوق مر جاتا ہے، حیات دوام تو فراق و وصل کی کشمکش ہی سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اٹھ یہاں سے نکل۔ تجھے ایک ایسے عالم کی سیر کرتا ہوں جہاں زندگی سوختن ناتمام ہے۔ زندگی کا تیر جگر میں نیم کش ہی رہے تو خلش کا لذت باقی رہ سکتی ہے:

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

سکونی جنت میں تو جمادی اور نباتی کیفیت ہے۔ چل تجھے آرزو اور جستجو کے عالم میں سرگرم عمل کرتا ہوں :

زندگی سوز و ساز بہ ز سکون دوام

فاختہ شاہین شود از تپش زیر دام

ہیچ نیامد ز تو غیر سجود نیاز

خیز چوں سرو بلند اے بعمل نرم گام

کوثر و تسنیم برد از تو نشاط عمل

گیر ز میناے تاک بادۂ آئینہ فام

خیز کہ بنایمت مملکت تازۂ

چشم جہاں بیں کشا بہر تماشا خرام

تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیروز وصل

چیست حیات دوام سوختن نا تمام

قرآن نے بھی بعض آیات میں آدم کو نوع انسان کے مترادف قرار دیا ہے۔ ’’ فتلقی آدم من ربہ کلمت فتاب علیہ۔۔۔۔۔ قلنا اھبطو منہا جمیعاً فاما یاتینکم من ھدی‘‘ آدم نے اپنے رب سے چند کلمے اخذ کیے اور اس نے اس کی توبہ قبول کر لی۔۔۔ ہم نے کہا تم یہاں سے کھسک جاؤ۔ اس کے بعد تمہارے پاس اگر میری طرف سے ہدایت آ جائے۔۔۔۔ یہاں آدم کے ذکر کے بعد ہی پوری نوع بشر سے یہ صیغہ جمع خطاب کیا گیا ہے۔ اقبال کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قرآن نے آدم کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ کسی ایک فرد کا ذکر نہیں بلکہ نوع انسان کی نفسیات اور اس کے ممکنات کا بیان ہے۔ علامہ اقبال نظریہ ارتقاء کے قائل تھے۔ لیکن یہ نظریہ ڈاروینی نہیں تھا بلکہ عارف رومی اور حکیم برگسان کے نظریات کے مماثل تھا۔ ان کا خیال تھا کہ نوع انسان ایک درجہ ارتقاء میں حیات کی ایک خاص منزل میں تھی جس سے اس کا نکلنا مزید ترقی کے لیے لازمی تھا۔ اور متیقوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ اس جنت کی طرف عود نہیں ہے جسے نوع انسان بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ آئندہ زندگی کی پیکار اور تسخیر سے جو جنت حاصل ہو گی وہ پہلی جنت سے افضل ہو گی اور اسی طرح آگے جو جنتیں آئیں گی ان میں کہیں ایک حالت پر قیام نہ ہو گا۔ ’’ تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کی سعی مسلسل ہر مرحلے میں جاری رہے گی۔ ہر جنت ایک نئے انداز کا دار العمل ہو گی۔ عمل اور زندگی ایک ہی چیز ہے۔ از روئے قرآن بھی تکریم آدم پہلی جنت سے نکلنے کے بعد ہی ظہور میں آئی۔ آدم پہلی جنت سے نکلنے کے بعد ہی خلیفتہ اللہ فی الارض بنا۔ قرآن نے ہبوط آدم کے تصور کو عروج آدم کا نظریہ بنا دیا۔ آدم کے متعلق عیسوی اور اسلامی نظریے میں یہ ایک بنیادی فرق ہے۔ عیسائیت کے مطابق آدم کی نافرمانی کا گناہ اس کی فطرت میں پیوست ہو گیا۔ خدا نے اسے معاف نہ کیا بلکہ سزا کے لیے پہلے دنیا میں بھیج دیا اور قیامت تک اس کی تمام ذریت ناکردہ گناہ میں ملوث ہی پیدا ہوتی رہے گی اور ملوث ہی مرتی رہے گی۔ یہ سزا کا لامتناہی سلسلہ حضرت مسیح کے کفارے پر ختم ہوا جس نے تمام نوع انسان کے گناہ اپنی گردن پر لے لیے اور لعنت کی موت قبول کی۔ اب بھی فقط ان انسانوں کی نجات ہو سکتی ہے جو اس کفارے کے قائل ہوں، ورنہ ناکردہ گناہ پیدائش، آدم کی عصیانی وراثت کی وجہ سے جاری رہے گی۔ قرآن نے آدم کی ایک سرسری لغزش کو صاف کر کے اسے انعام و اکرام کا مستحق بنا دیا۔ جس کے بعد آدم کی اولاد میں سے ہر ایک معصوم پیدا ہوتا ہے اور زندگی اور اس کے بعد اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ کسی ایک فرد کا گناہ دوسرے کے ذمے نہیں لگ سکتا۔ لا تزرر وازرۃ وزراء اخری

آدم اس نئے عالم میں آکر حسرت و حرمان کا شکار نہیں ہوا۔ خلافت ارضی کے عطا ہونے کے بعد وہ کیوں پریشان ہوتا۔ لیکن یہ نیا بار امانت خطرے سے خالی نہ تھا۔ اس امانت میں خیانت سے ظلوماً جہولا ہونے کا بھی کھٹکا تھا۔ اس امانت اور خلافت کو نبھانے کے لیے اسے بڑی دشوار گزار گھاٹیوں میں سے گزرنا پڑا۔ لیکن تگ و دو میں ایک لذت ہے، آرزو و جستجو میں زندگی ہے۔ پہلی زندگی میں زندگی کے حقائق کے متعلق ایک غیر شعوری یقین تھا، اب گمان و یقین کی کشمکش پیدا ہو گئی، لیکن اس تمام کشاکش کو آدم نے اپنے پہلے سکون پر قابل ترجیح سمجھا اور پھر پہلی جنت میں واپس جانے کی آرزو دل سے نکل گئی۔ شیطان کے بہکانے اور آدم کے دنیا میں بھیجے جانے سے کچھ فائدہ ہی ہوا۔ اپنے آپ کو اور کائنات کو مسخر کرنے کا ایک شغل ہاتھ آ گیا:

چہ خوش است زندگی را ہمہ سوز و ساز کردن

دل کوہ و دشت و صحرا بہ دمے گداز گردن

ز قفس درے کشادن بہ فضاے گلستانے

رہ آسماں نودن، بہ ستارہ راز کردن

بہ گدازہاے پنہاں، بہ نیازہاے پیدا

نظرے ادا شناسے بہ حریم ناز کردن

ہمہ سوز ناتمامم ہمہ درد آرزویم

بگماں وہم یقیں را کہ شہید جستجویم

بال جبریل میں بھی جبریل و ابلیس کے مکالمے میں ابلیس اپنی کار گزاری پر فخر کرتا ہے۔ ابلیس جبریل کو محض طاعت گزار اور بے چون و چرا فرمانبردار ہونے کی وجہ سے لذت آرزو سے محروم سمجھتا ہے۔ جبریل پوچھتا ہے کہ عالم رنگ و بو کی کیا حالت ہے۔ ابلیس جواب دیتا ہے سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو جبریل پوچھتا ہے کہ کہو اب بھی توبہ کرتے ہو یا نہیں ؟ ابلیس کہتا ہے کہ ہرگز تائب ہونے کو تیار نہیں۔ مجھے معلوم نہیں مردود و مطرود ہونے میں مجھ کو کیا مزہ آیا۔ میں کائنات کا سوز دروں بن گیا۔ اس کے مقابلے میں افلاک کی خاموشی کی کیا وقعت ہے۔ زندگی میں فراق کی بناء میرے انکار نے ڈالی اور اس وجہ سے کائنات کا ہر ذرہ طلب وصال میں ارتقا گوش ہوا۔ اور انسان جو محض ایک مشت خاک تھا اس میں ذوق نمو پیدا ہو گیا۔ ملائکہ کی اطاعت غیر مشروط اور جنت کی بے پیکار زندگی میں عقل کی کیا ضرورت تھی۔ (اکثر اہل الجنتہ ہلہ) میرے فتنے کی وجہ ہی سے عقل کی ضرورت پیش آئی۔ تم ملائکہ تو سبک ساران ساحل ہو، تمہیں پتا نہیں کہ طوفان میں تھپیڑے کھانے میں کیا لذت ہے۔ اگر کبھی خدا سے خلوت میں کچھ پوچھنے کا موقع ملے تو ذرا دریافت کرنا کہ آیا یہ واقعہ ہے یا نہیں کہ قصہ آدم کی تمام رنگینی اسی مردود کی رہین منت ہے۔ استکبار میں یہ تعلیٰ ملاحظہ ہو:

میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح

تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو

شیطان نے کہا کہ آدم کو مسجود ملائک بنا کر اس کی فضیلت کا ڈنکا خدا نے بجا دیا، ہماری تعریف کسی نے نہ کی اس لیے ہم خود ہی اپنے صفات بیان کرنے پر مجبور ہو گئے:

لائق مدح در زمانہ چو نیست

خویشتن را ہمی سپاس کنم

(غالب)

آدم کا کمال اس کی سعی پیہم سے وابستہ ہے۔ اگر شیطان اس کو پہلی سکونی جنت سے نہ نکالتا تو اس کو یہ تگ و دو کہاں سے نصیب ہوتی۔ پہلی جنت جس سے شیطان نے نکلوایا وہ بے کوشش یونہی بخشی ہوئی جنت تھی۔ اب آدم اپنی مساعی سے جو جنت بنائے گا وہ اس کے خون جگر کی پیداوار ہو گی۔ وہ اس کی اپنی کمائی ہو گی:

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں

آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں

ہے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں

جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں

اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ

مفت میں بخشی ہوئی جنت کے متعلق یہاں اقبال کا ایک قطعہ یاد آ گیا:

بہشتے بہر پاکان حرم ہست

بہشتے بہر ارباب ہمم ہست

بگو ہندی مسلمان را کہ خوش باش

بہشت فی سبیل اللہ ہم ہست

جاوید نامہ میں سیر افلاک کے دوران میں اقبال کی ملاقات ہر اس انسان سے ہوئی جو انسانیت کی کسی صفت کا ممتاز نمائندہ تھا۔ خواہ وہ صفت علوی ہو یا سفلی۔ اگر اس سیر کائنات میں کہیں ابلیس نظر نہ آتا تو ایک بڑا اہم نمائندہ حیات اور زندگی کے ڈرامے کا ایک اہم کردار نظر سے اوجھل رہتا۔ حقیقت حیات کا اہم پہلو تشنہ تعبیر رہ جاتا۔ ابلیس کا تصور اقبال اور نظموں میں بھی بلیغ اور دلکش انداز میں پیش کر چکا تھا لیکن یہ تصور اس کے ہاں اس قدر حکیمانہ اور دلآویز ہے کہ جاوید نامہ میں اس کی مزید تشریح کی کوشش کی گئی ہے۔ ابلیس اس سے پہلی نظموں میں بھی اپنی بابت جو کچھ کہہ گیا ہے اس میں تعلی اور تفاخر اور تکبر کے باوجود وہ ایسے صفات بیان کر گیا ہے جنہیں اقبال ارتقائے حیات کا لازمہ سمجھتا ہے اسی لیے بعض اشعار میں ستائش کا پہلو مذمت پر غالب نظر آتا ہے۔ جاوید نامہ میں ابلیس کے متعلق دو نظمیں ہیں۔ ایک عنوان ہے ’’ نمودار شدن خواجہ اہل فراق ابلیس‘‘ اور دوسری نظم کا عنوان ’’ نالہ ابلیس‘‘ ہے۔ ان دونوں نظموں میں بھی کہیں ابلیس کی تحقیر نظر نہیں آتی اور اس میں اکثر باتیں اس نے ایسی کہی ہیں جو اقبال کے فلسفہ خودی اور نظریہ ارتقاء کا اہم جزو ہیں۔ اقبال نے کئی جگہ متفرق اور منتشر اشعار میں اپنے اس نظریے کو بیان کیا ہے کہ زندگی اضطراب مسلسل، جستجوے پیہم اور منزل کی خواہش سے بیگانہ ذوق سفر ہے۔ وہ خدا کے ساتھ بھی وصال کامل کا خواہش مند معلوم نہیں ہوتا جو عام طور پر صوفیہ کا مقصود ہے۔ اقبال اس عقیدے میں نہایت پختہ ہے کہ ’’ شوز بمیرد ز وصل‘‘ اور اگر انسان خدا میں اس طرح گم اور ضم ہو جائے جس طرح قطرۂ باراں دریا میں ٹپک کر اپنی خودی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، تو اس قسم کی فنا حیات ابدی کا حصول نہیں بلکہ عدم ہے۔ بالفاظ دیگر خدا کی ذات سے انسان کی خودی کا فراق ابداً قائم و دائم رہنا چاہیے۔ یہ فلسفہ فراق اقبال کا ایک امتیازی نظریہ ہے جاوید نامہ میں اقبال نے ابلیس کو اس نظریہ حیات کا مبلغ بنا دیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سے ہم نوا ہو گیا ہے۔

ہم ذرا آگے چل کر اقبال اور ابلیس کے زاویہ نگاہ کا ایک اساسی فرق بیان کریں گے، مگر پہلے ابلیس کا نظریہ اس کی اپنی زبانی سن لیں کہ وہ اپنے لیے کیا جوا ز پیش کرتا ہے۔ عنوان ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو اس بیان میں ابلیس کی مذمت مقصود نہیں۔ ’’ خواجہ اہل فراق‘‘ کوئی طنزی و تحقیری لقب نہیں ہے۔ بہرحال چونکہ شیطان کا عالم عالم ظلمت ہے اس لیے اس کے نمودار ہوتے ہوئے پہلے تمام جہان میں اندھیرا ہو جاتا ہے۔ ابلیس اس میں ایک شعلے کی طرح ابھرتا ہے لیکن یہ شعلہ بھی دھوئیں سے سیاہ پوش ہے۔ اقبال بادی راہ رومی سے پوچھتا ہے کہ یہ کون ہے؟ مرشد نے کہا کہ یہ خواجہ اہل فراق ہے جو سراپا سوز ہے۔ دیکھنے میں بہت سنجیدہ معلوم ہوتا ہے، مرد حکیم کی طرح کم خندہ و کم گو ہے؟ بہت باریک بیں ہے۔ عارف رومی نے مثنوی میں کہا تھا کہ:

تن ز جان و جاں ز تن مستور نیست

لیک کس را دید جاں دستور نیست

لیکن اس معاملے میں شیطان باطن بینی میں عارفوں سے بھی بڑھ کر ہے کہ بدن کے اندر جو غیر مرئی جان ہے اسے بھی دیکھ لیتا ہے اس کے اہل نظر ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔

کہنہ کم خندہ اندک سخن

چشم او بینندہ جاں در بدن

لیکن اس میں کئی متضاد قسم کے صفات بھی جمع ہیں۔ وہ رند بھی دکھائی دیتا ہے اور ملا بھی! حکیم نکتہ رس بھی اور صوفی خرقہ پوش بھی۔ وہ زاہدوں کی طرح عمل میں بھی سخت کوش ہے۔ اس نے جو نظریہ حیات اختیار کر لیا ہے اس کے مطابق بڑی جانفشانی سے مصروف عمل رہتا ہے۔ لیکن ابلیس اور زہاد و صوفیہ میں ایک بنیادی فرق ہے۔ زاہد تو عاقبت کی خاطر دنیا کو ترک کرتے ہیں، تاکہ آخرت میں جنت اور رویت الٰہی نصیب ہو لیکن ابلیس کے ترک و ایثار کا کمال یہ ہے کہ وہ جمال لایزال کا بھی آرزو مند نہیں۔ اقبال نے ترک کے متعلق ابتدائی اردو غزلوں میں ایک شعر کہا تھا:

واعظ! کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد

دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے

اور کسی متصوف شاعر نے کمال ترک کو زندگی کا نصب العین بنا کر کہا ہے کہ دنیا اور عقبیٰ اور خدا کو ترک کر کے اس جہان کو بھی دل سے نکال دو کہ ہم نے سب کچھ ترک کر دیا ہے:

ترک دنیا ترک عقبیٰ ترک مولیٰ ترک ترک

ابلیسکی کیفیت بھی کچھ اس کے مماثل ہی معلوم ہوتی ہے:

فطرتش بیگانہ ذوق وصال

زہد او ترک جمال لایزال

ترک جمال لایزال کمال درجے کے ایثار اور نفس کشی کا طالب تھا۔ ابلیس نے اس کٹھن مرحلے کو طے کرنے کے لیے سوچا کہ حکم سجود آدم کو ماننے سے انکار کر دوں، خدا سے ایسا ناراض ہو گا کہ ہمیشہ کے لیے اطاعت و محبت کے راستے مسدود ہو جائیں گے۔ اس کے اس ثبات کی داد دیجئے کہ اس ارادے میں آج تک متزلزل نہیں ہوا۔ اس نے اس انکار سے تمام کائنات میں خیر و شر کی پیکار شروع کر دی۔ اس جنگ میں یکہ و تنہا چومکھیا لڑ رہا ہے۔ مجروح ہوتا ہے لیکن ہمت نہیں ہارتا۔ سینکڑوں پیغمبروں کو دیکھ چکا ہے لیکن ابھی تک کافر کا کافر ہے۔ کہتے ہیں کہ شاہ جہاں کے دربار میں ایک برہمن نے فخر سے یہ شعر پڑھا:

مرا دلیست بہ کفر آشنا کہ چندیں بار

بہ کعبہ بردم و بازش برہمن آوردم

شاہ جہاں کی رگ حمیت جوش میں آئی اور سر دربار کہا ’’ کسے ہست کہ جوابش دبد‘‘ ایک درباری نے کہا کہ اس کا جواب بہت پہلے سے ایک شاعر دے چکا ہے:

خر عیسیٰ اگر بمکہ رود

چوں بیاید ہنوز خر باشد

شیطان کی بھی یہی حالت ہے:

غرق اندر رزم خیر و شر ہنوز

صد پیمبر دیدہ و کافر ہنوز

اقبال کے دل میں اس کافر ثابت قدم اور شائق سوز و فراق سے بہت ہمدردی ہے، کیونکہ اقبال خود بھی سوز و گداز کا دلدادہ ہے اور عمل کا مبلغ ہے۔ یہ دونوں باتیں ابلیس میں بھی موجود ہیں، اگرچہ ان کا مصدر و مقصود جداگانہ ہے:

جانم اندر تن ز سوز او تپید

برلبش آہے غم آلودے رسید

گفت و چشم نیم وا بر من کشود

در عمل جز ما کہ برخوردار بود

مومنون کو ہفتے میں ایک دن جمعے کے روز تو کچھ فراغت اور فرصت حاصل ہوتی ہے، ابلیس کہتا ہے کہ مجھے آج تک کبھی چھٹی نہ ملی:

آن چناں بر کارہا پیچیدہ ام

فرصت آدینہ را کم دیدہ ام

خدا کے پاس کاروبار کائنات میں مدد کے لیے فرشتے ہوتے ہیں اور بعض انسانوں کے پاس بھی نوکر چاکر ہیں۔ پیغمبروں کو وحی سے ہدایت مل جاتی ہے، لیکن یہ خاکسار بے یار و مددگار تنہا سب کچھ کرتا ہے۔ حدیث و کتاب تو میرے پاس کوئی نہیں ہوتی لیکن میری کار گزاری کا کمال دیکھئے کہ حدیث و کتاب والے فقیہوں کے اندر سے روح دین کو سلب کر لیتا ہوں۔ فقیہ یا ملا جو پیراہن دین بننے کے لیے سوت کاتتے ہیں، اس کو تار عنکبوت سے زیادہ بودا کر دیتا ہوں اور کعبے کے اندر بھی فرقوں کے مختلف مصلے بچھوا دیتا ہوں :

رشتہ دیں چو فقیہاں کس نرشت

کعبہ را گردند آکر خشت خشت

میرے مذہب میں فرقہ سازی اور تفرقہ بازی نہیں (الکفر ملتہ واحدہ) انسانیت میں تفرقہ پیدا کرنے والے جہاں بھی ہیں اورجس رنگ میں بھی ہیں وہ سب میرے مرید ہیں۔ اس کے بعد اپنے جواز میں ابلیس کچھ اس انداز کی باتیں کہنے لگتا ہے جو اقبال کے فلسفہ خودی اور نظریہ ارتقاء کے اندر بھی پائی جاتی ہیں۔ کہتا ہے کہ میں وجود حق کا منکر تو نہیں۔ دیکھے ہوئے خدا کا انکار میں کیسے کر سکتا ہوں۔ اس لیے اور کافروں کی طرح کوئی مجھے منکر خدا تو نہیں کہہ سکتا۔ میرے انکار میں اقرار کا پہلو پوشیدہ ہے۔ اس کے بعد اقبال ہی کا نظریہ ارتقائے آدم ابلیس کی زبان سے بیان ہوا ہے۔ کہتا ہے کہ میں نے آدم کو بہکا اور بھڑکا کر مجبوری سے مختاری تک پہنچا دیا۔ جس جنت میں وہ پہلے تھا اور جہاں سے میں نے اسے نکلوایا، اس میں سکون اور راحت تو تھی لیکن اختیار ناپید تھا۔ میں نے اختیار برت کر انکار کیا اور آدم نے بھی میری تلقین سے نافرمانی کا ایک قدم اٹھایا۔ اس کو لغزش مت کہو۔ اسی نافرمانی نے اس کے اختیار کا ثبوت مہیا کیا۔ ملائکہ کی قسم کی بے چون و چرا اطاعت اور جبر میں کیا فرق ہے۔ و ہاں اختیار کا نام و نشان نہیں۔ اختیار تو لغزش آدم سے پیدا ہوا جو اس کے طویل ارتقاء کے لیے ایک لازمہ تھا:

شعلہ با از کشت زار من دمید

او ز مجبوری بہ مختاری رسید

زشتی خود را نمودم آشکار

با تو دادم ذوق ترک و اختیار

اب آدم سے کہتا ہے کہ میں نے تیرے لیے اتنا عظیم الشان کام کیا اور اتنی قربانی کی، اب تو میری خلاصی کر۔ جب تک تو ایسا بے وقوف رہے گا اور اندھا دھند میرے دام عصیاں میں گرفتار ہونے پر ہر دم آمادہ رہے گا، مجھے بھی خواہ مخواہ تیرا شکاری بننا پڑے گا۔ میرے لیے بھی یہ ایک مصیبت ہی ہے میں چاہتا ہوں کہ تو از راہ کرم میری غم گساری اور یاری کو ترک کر دے۔ تو خواہ مخواہ اپنے اعمال کے ساتھ میرا نامہ اعمال بھی اور زیادہ تاریک کرتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ میں انسانوں کا شکاری ہوں، لیکن جب تک نخچیر شکار ہونے پر خود آمادہ رہیں گے، صیادی بھی باقی رہے گی اور مجھے تجھ پر تیرا فگنی کرنی پڑے گی۔ اگر تو زیرک ہو جائے اور تجھ میں پرواز کی قوت ترقی کر جائے تو نہ تو صید رہے اور نہ میں صیاد رہوں۔ تیری بھی خلاصی ہو اور میری بھی خلاصی:

در جہاں صیاد ہا نخچیر ہاست

تا تو نخچیری بکیشم تیر ہاست

صاحب پرواز را افتاد نیست

صید اگر زیرک شود صیاد نیست

اقبال اس سے کہتا ہے کہ چھوڑ اس مسلک فراق کو جو پیچ و تاب اور اضطراب پیدا کرتا ہے۔ اب یہاں پھر لطیفہ یہی ہے کہ ابلیس کا جواب بھی وہی ہے جو خود اقبال کا فلسفہ ہے اور جسے اس نے سینکڑوں اشعار میں دہرایا ہے کہ فراق ہی سے آرزو اور جستجو اور سوز و گداز ہے۔ خود حیات الٰہی بھی مبتلائے فراق نفوس کے ساتھ وابستہ ہے۔ خالق اور مخلوق میں وصل کامل کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نہ یہ رہے نہ وہ۔ من و تو کا فرق ہی تو زندگی کی اساس ہے:

گفت، ساز زندگی سوز فراق

اے خوشا سر مستی روز فراق

بر لبم از وصل می ناید سخن

وصل اگر خواہم نہ او ماند نہ من

حرف وصل اور ا ز خود بیگانہ کرد

تازۂ شد اندر دل او سوز و درد

اندکے غلطید اندر دود خویش

باز گم گردید اندر دود خویش

نالہ زاں دود پیچاں شد بلند

اے خنک جانے کہ گردد درد مند

دیکھئے اس آخری میں پھر ستائش ہی کا پہلو ہے اور ابلیس کے اس زاویہ نگاہ سے ہم نگاہی اور ہم دردی ہے۔

نالہ ابلیس، میں ابلیس کی آہ و فغاں ہے۔ یہ بھی اقبال کا ایک انوکھا مضمون ہے۔ عام مومنوں کا یہ حال ہے کہ وہ شیطان سے پناہ مانگتے ہیں، لیکن یہاں شیطان انسان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایسے صید زبوں کی صیادی سے مجھے نجات مل جائے۔ ایسے انسانوں کا شکار کرنا یوں ہی جھک مارنا ہے۔ عام عقیدہ یہ ہے کہ آدمی کو شیطان نے خراب کیا مگر یہاں شیطان ’’اعوذ باللہ من الانسان‘‘ کہہ رہا ہے کہ یہ خودی ناشناس انسان بے چون و چرا میری حکم برداری پر تیار رہتا ہے ذرا مقابلہ کرے تو مجھے بھی زور آزمائی کا موقع ملے:

اے خداوند صواب و ناصواب

من شدم از صحبت آدم خراب

ہیچ کہ از حکم من سر برتنافت

چشم از خود بست و خود رادر نیافت

میں ملعون و مردہ اس لیے ہوا کہ میں نے قادر مطلق کے سامنے بی ابا یا انکار کی جرأت کی۔ میری خودی میں استکبار کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اگر میری مریدی میں وہ بھی یہ سیکھ لیتا کہ میری نافرمانی کی جرأت پیدا کرے اور ذوق کبریائی میں کسی کا مطیع و منقاد نہہو تو میں بھی ایسے مرید کی داد دیتا، لیکن یہ نالائق تو بہت بودا نکلا۔ یہ کیسا صید ہے کہ خود چلا آتا ہے گردن ڈالے:

ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ بر کف

باصید این کہ روزے بہ شکار خواہی آمد

(حافظ)

خدا سے یہ کہتا ہے کہ اس ذلیل شکار سے میری خلاصی کرا:

خاکش از ذوق ابا بیگانہ

از شرار کبریا بیگانہ

صید خود صیاد را گوید بگیر

الاماں از بندۂ فرمان پذیر

شکار کی پست ہمتی اور زود گرفتاری سے خود شکاری بھی سست عمل ہو جاتا ہے۔ ایسے سست عناصر انسانوں کی بدولت میرا بھی یہی حال ہوا ہے۔ اے خدا میری طاعت دیرینہ کو یاد کر کے مجھے اس عذاب سے نجات دلوا:

از چنیں صیدے مرا آزاد کن

طاعت دیروزۂ من یاد کن

پست ازو آں ہمت والاے من

وائے من، اے وائے من، اے وائے من

کوئی صاحب نظر حریف پختہ ہو تو اس سے کشتی لڑنے میں مزہ بھی آئے۔ یہ موجودہ انسان کیا ہیں ؟ مٹی کے کھلونے ہیں اور میں ہوں مرد پیر۔ بھلا کسی بڈھے کو یہ زیب دیتا ہے کہ مٹی کے کھلونوں سے کھیلا کرے۔ یہ آدم تو ایک مشت خس رہ گیا ہے جس کے لیے ایک چنگاری کافی ہے۔ میرے اندر جو عالم سوز آگ ہے، مجھے اتنی آگ تو نے کاہے کو دے رکھی ہے۔ اس کا تو کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ کوئی ایسا پہلوان نکال جو میری گردن مروڑ سکے اور جس کی ایک نگاہ ہی سے میں لرزہ بر اندام ہو جاؤں۔ جو مجھے دیکھتے ہی سر تسلیم خم کرنے کی بجائے پکار اٹھے کہ ’’ دور ہو یہاں سے‘‘ اور جس کے نزدیک میری قیمت دو جو کے برابر نہ ہو۔ ایسا مرد حق اگر مجھے پچھاڑ دے تو اس شکست میں وہ لذت محسوس ہو جو میرے بندۂ فرمان کی اطاعت گزاری سے مجھے حاصل نہیں ہوتی:

اے خدا یک زندہ مرد حق پرست

لذتے شاید کہ یابم در شکست

نالہ ابلیس میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اس کے اپنے خیالات ہیں۔ انسان کی تاریخ اصلاح کا بغور مطالعہ کیجئے تو اس میں شروع سے آ کر تک ایک کیفیت یکساں نظر آئے گی اور وہ یہ ہے کہ ہر بلند نظر مصلح، نبی ہو یا حکیم اپنے گرد و پیش کے انسانوں سے ہمیشہ بیزار رہا ہے۔ ہر مصلح کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ میرے زمانے کے انسان نہایت ذلیل ہیں۔ حافظ شیرازی کو تو مصلح ہونے کا دعویٰ نہیں ہے لیکن اپنے زمانے کے لوگوں کی نسبت کہتا ہے :

ایں چہ شوریست کہ در دور قمر می بینم

ہمہ آفاق پر از فتنہ و شر می بینم

دختراں را ہمہ جنگ است و جدل با مادر

پسران را ہمہ بد خواہ پدر می بینم

امام غزالی نے اپنے زمانے کے عوام کے علاوہ علماء کا جو حال لکھا ہے وہ پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی صورت بالکل مسخ ہو چکی ہے۔ دین دار اور دنیا دار سب ادنیٰ اغراض میں مبتلا ہیں۔ یونان کی تہذیب میں سقراط و افلاطون کا زمانہ علوم و فنون کے لحاظ سے تاریخ انسانی کا ایک زریں ورق ہے، لیکن اسی عہد میں سوفسطائی بھی تھے جو حقیقت و صداقت کے منکر تھے۔ وہ دین و اخلاق کو توہمات سمجھتے اور لوگوں میں تشکیک پھیلا تے تھے۔ اسی حکمت پسند قوم نے سقراط جیسے حکیم ناصح کو زہر پلا دیا۔ جمہوریہ افلاطون اسی دور کے عوام و خواص کی کم عقلی پر ایک مفصل تنقید ہے۔ عارف رومی کا زمانہ ہمارے نزدیک تو صوفیہ کرام اور صلحا کا عہد تھا لیکن مولانا اپنے معاصر انسانوں کو سست عناصر اور دام و دو سمجھتے ہیں اور مردان خدا کو ڈھونڈتے ہیں جو کہیں نظر نہیں آتے:

گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما

گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست

ہر دور میں انسانوں کے متلعق ایسی خراب رائے حکما اور صلحا کیوں رکھتے تھے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہر بلند نظر انسان میں انسانیت کا نصب العین بہت بلند ہوتا ہے اور اکثر انسان اس معیار پر کم عیار ثابت ہوتے ہیں۔ مشہور انگریزی ادیب ڈاکٹر جونسن نے بوس ول سے کہا کہ میری رائے انسانوں کی نسبت بہت خراب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے عام طور پر لوگ اچھا سمجھتے ہیں لیکن میں خود اپنی نسبت جانتا ہوں کہ میں کیسا ذلیل ہوں۔ ایسے ذلیل آدمی کو اچھا سمجھنے والوں کی اپنی کیا حالت ہو گی۔ وہ مجھ سے کچھ بدتر ہی ہوں گے۔

اقبال کے ذہن میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت کا نقشہ تھا۔ اس نے انسانی خودی، انسانی بصیرت اور ہمت کا ایک نصب العین قائم کر لیا تھا۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر اب جو وہ گرد و پیش نظر دوڑاتا ہے تو اسے انسان ایسے نظر آتے ہیں جن کی نسبت خدا سے شکایت کرتا ہے:

یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا؟

کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا

نہ خود بین، نے خدا بیں نے جہاں بیں

یہی شہ کار ہے تیرے ہنر کا؟

اوروں کو چھوڑیے خود اپنے آپ سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ اپنے تئیں تن آسان اور سست عمل کہتا ہے اور اپنی سیرت کا تجزیہ کرتے ہوئے بیباکی سے ایسی ایسی باتیں کہہ جاتا ہے کہ اس کے بعض معتقدین اس کو فرقہ ملامتیہ کا ایک ممتاز فرد گردانتے ہیں۔ نالہ ابلیس میں شیطان نے جو انسانوں کے متعلق رائے قائم کی ہے وہ اقبال کی اپنی رائے ہے اور یہ رائے اس کے نصب العین کی بلندی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ انسان ہمیشہ زیادہ تر ایسے ہی تھے اور ایسے ہی رہیں گے۔ مختلف ادوار میں اچھوں اور بروں کے تناسب میں فرق پڑتا رہتا ہے۔ کبھی اچھوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور کبھی بروں کی کثرت ہو جاتی ہے اور قوموں کا عروج و زوال اسی سے متعین ہوتا ہے لیکن نصب العینی انسان دنیامیں کتنے ہوئے اور کتنے ہو سکتے ہیں۔

اقبال کے ابلیس کے تصور میں ایک اشتباہ کو رفع کرنا لازمی معلوم ہوتا ہے۔ آپ دیکھ چکے ہیں کہ اکثر نظریات حیات ابلیس نے بھی وہی پیش کیے ہیں جو اقبال کی تعلیم میں نمایاں طور پر موجود ہیں۔ اقبال کے نزدیک زندگی نفی و اثبات دونوں پر مشتمل ہے۔ ارتقائے حیات میں ایک حالت کی نفی سے دوسری حالت کا اثبات ہوتا ہے اور آگے بڑھتے ہوئے بھی اس اثبات کی نفی ہو جاتی ہے۔ ابلیس کو اقبال خواجہ اہل فراق کہتا ہے کہ وہ فراق کو آرزو و جستجو اور ترقی نفس انسانی کا سرچشمہ قرار دیتا ہے:

بگو جبریل را از من پیامے

مرا آں پیکر نوری نداند

ولے تاب و تب ما خاکیاں بیں

بنوری ذوق مہجوری نداند

نفس کے اندر اگر پیکار نہ ہو تو اس کی ترقی ممکن نہیں۔ زندگی خیر و شر کی پیکار کا نام ہے۔ شر نفی اور انکار کے مترادف ہے اور یہی صفت ابلیس کے تصور میں مشخص ہو گئی ہے۔ لیکن خالی نفی اور انکار سے تو زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔ جہاں تک نفی و انکار کے لزوم کا تعلق ہے، اور جس حد تک اقبال اس کو معاون حیات سمجھتا ہے، اس حد تک انکار مجسم ابلیس کی زبان سے بھی حکیمانہ کلمات نکلواتا ہے۔ لیکن ابلیس کی خودی محض ایک سلبی خودی ہے۔ اس میں ایجابی پہلو کا فقدان ہے۔ ابلیس کے تصور میں بھی ایسے صفات موجود ہیں جو قلب ماہیت سے خودی کی تکمیل میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اور ابلیس کی ستائش گری انہی صفات کی وجہ سے جن میں زندگی کا ارتقاء مضمر ہے اور ان صفات کے فقدان سے زندگی تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔ یہ وہی بات ہے جو حدیث شریف میں کہی گئی ہے کہ شیطان کی گردن مارنے کی ضرورت نہیں، اسے مسلمان کرنے کی ضرورت ہے، اور یہی تصور ابن عربی کا بھی ہے جو اوپر درج ہو چکا ہے کہ جنت کے پھل دوزخ کی گرمی سے پکتے ہیں۔ ابلیس کے آتش نژاد ہونے کے یہی معنی ہیں اقبال اس کو آتش حیات کہتا ہے۔ لیکن اس نار کو دور آفریں نہیں بلکہ نور آفریں ہونا چاہیے۔ زندگی کا قیام اور اس کا ارتقاء نفی کے پہلو کے بغیر نہیں ہو سکتا، لیکن نفی فی نفسہ قصور نہیں ہو سکتی۔ نفی سے اعلیٰ تر اثبات کے طرف یا اقبال کی اصطلاح میں استحکام خودی کی طرف مسلسل قدم اٹھنا چاہیے۔ اثبات مسلسل نفی مسلسل کے بغیر نہیں ہو سکتا، لہٰذا نفسی بھی خیر مطلق کے حصول کے لیے لازمی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اٹھارواں باب

 

 

رموز بے خودی

 

 

اقبال کی کتاب اسرار خودی کے بعض نظریات کو سطحی فم رکھنے والے نقادوں نے نظر تحسین سے نہ دیکھا۔ روایتی تصوف کے دل داد گان کو اس سے جا بجا ٹھوکر لگی۔ ہمارے ادب میں تو خودی ایک مذموم چیز تھی اور تصوف و اخلاق اس کو ابلیسانہ چیز سمجھتے تھے۔ فارسی اور اردو ادب میں نفس انسانی کے ایزدی جوہر کے متعلق تو بہت کچھ ملتا ہے لیکن ہر جگہ تلقین یہی ہے کہ انسان اپنی خودی کو سوخت کر کے ہی اس جوہر کو اجاگر کر سکتا ہے۔ خودی کی پرستش گناہ ہے اور خدا پرستی کے مخالف ہے:

تجھ کو خودی پسند ہے مجھ کو خدا پسند

تیری جدا پسند ہے میری جدا پسند

اس تصور میں یہ انا یا نہیں یا ہم پندار کا ایک بت ہے اور تمام بتوں کا قلع قمع کرنے کے بعد آخر میں یہی سنگ گراں معرفت میں سنگ راہ بن جاتا ہے۔

گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور

وحدت وجود کا فلسفہ، جو اسلامی شاعری اور تصوف کا مرکز و محور بن گیا، زیادہ تر خودی سوز ہی ہے۔ کیونکہ اس کے اندر مخلوقات کی حیثیت محض ظلی ہے۔ اقبال نے روایتی تصوف کے خلاف جہاد اسرار خودی ہی سے کیا اور عمر کے آخری لمحوں تک یہ جہاد جاری رہا۔ مابہ النزاع خودی ہی کا مسئلہ تھا۔ ا قبال خدا کو خودی میں جذب کرنے کی تلقین کرتا تھا اور تصوف خودی کو خدا میں گم کرنے کی تعلیم دیتا تھا۔ اسرار خودی سے بہت سے قارئین نے دھوکا کھایا اور سمجھا کہ یہ قوت اور تکبر کی تعلیم ہے اور اس میں انسان کی خودی کو خدا بنا دیا گیا ہے۔ اسرار خودی میں خدا کہیں نمایاں معلوم نہیں ہوتا، انسانی خودی وہاں خلاق بن گئی ہے۔ ان نقادوں کو یہ علم نہ تھا کہ اقبال اس سے اچھی طرح آشنا تھا کہ بے خودی بھی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ اگرچہ بے خودی کا مفہوم فقط ایک پہلو اسرار خودی میں پیش ہوا تھا۔ اس کی تکمیل کے لیے دوسرے پہلو کو پیش کرنا لازمی تھا۔ رموز بے خودی، اسرار خودی کا تکملہ ہے۔ اقبال کے نظریات حیات میں بحیثیت مجموعی ایک توازن موجود ہے۔ اگرچہ کلام کے بعض حصوں کو الگ الگ کر کے دیکھیں تو بعض اوقات فقط ایک پہلو کسی قدر شدت اور مبالغے کے ساتھ نظر کے سامنے آتا ہے۔

رموز بے خودی کی تمہید میں ربط فرد و ملت کے متعلق اقبال اپنا زاویہ نگاہ پیش کرتا ہے۔ یہ مسئلہ نفسیات، اخلاقیات، سیاسیات اور معاشیات کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے متعلق اختلاف زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ فرد کو ایک ایٹم سمجھ کر جو نفسیات لکھی گئی وہ حقیقت حیات سے بہت دور ہو گئی۔ سادہ اخلاقی تصورات بھی اس کے لیے ناقبال فہم ہو گئے اور سجوک جیسے اخلاقیات پر ضخیم تصنیف کرنے والے فلسفی آخر میں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ کیوں ایک فرد اپنی ذاتی مسرت کو دوسروں کے لیے قربان کرے۔ کانٹ کی اخلاقیات بھی آخر میں بے بنیاد ہو گئی اور اس نے اس عقیدے کا سہارا لیا کہ اگر تلافی کرنے والے خدا اور بعد الموت کا عقیدہ نہ ہو تو فرد کی فرض شناسی اور جماعت کے اغراض کے لیے اس کی ذاتی سعادت و مسرت کی قربانی کی کوئی عقلی تاسیس ممکن نہیں۔ جرمن فلسفی شٹیرنر اور نطشے کی طرح بعض حکما نے فرد کو مطلق العنان کرنے کی تلقین کی تاکہ جماعت کے حدود و قیود اور اوامر و نواہی اس کی شخصیت کے بے روک ارتقاء میں خلل انداز نہ ہوں۔ دوسری طرف ہیکل جیسے فلاسفہ نے جماعت اور مملکت کو معبود بنا دیا اور فرد کی انفرادیت وہاں ایک بے حقیقت سا مظہر رہ گئی۔ اس کا اثر معاشیات و سیاسیات پر بہت گہرا پڑا۔ کارل مارکس نے اپنے فلسفے کا ڈھانچا ہیگل سے اخذ کیا اور اس کا عملی نتیجہ وہ اشتراکیت ہے جہاں فرد کی آزادی ضمیر اور آزادی عمل ایک گناہ کبیرہ ہے مغرب میں حقوق طلبی کے جوش و خروش میں فرد نے جماعت کو اپنا حریف سمجھا رفتہ رفتہ وہ مذہب سے بھی برگشتہ ہو گیا جو فرد کو جماعت کے ساتھ وابستہ رکھنا چاہتا تھا۔ یہ تمام کشاکش افراط و تفریط کا نتیجہ تھی۔

اسلام اعتدال اور توازن کا نام ہے۔ ادیان میں فرد و ملت کے ربط کا مسئلہ عمدہ طور پر اسلام نے حل کیا تھا۔ اسلام فرد کے نفسیات کے کسی پہلو کو جماعت کے مفاد سے الگ نہیں کرتا۔ اس کی تمام عبادات میں اجتماعی عنصر بہ نمایاں ہے۔ نماز ہو یا روزہ، حج ہو یا زکوٰۃ، سب میں فرد جماعت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس کے باوجود اسلام نے بڑے زور و شور سے آزادی ضمیر کی تلقین کی اور کہا کہ دین، جس میں عقیدہ اور طریق زندگی شامل ہے، کسی جبر کو گوارا نہیں کرتا۔ جو چیز اختیار سے قبول نہیں کی گئی اس کی کچھ قدر و قیمت نہیں۔ رہبانی مذاہب میں اخلاق اور روحانیت انفرادی رہ گئے تھے۔ ایک طرف خدا اور دوسری طرف فرد جو غار میں یا صحرا میں جماعت سے بے نیاز ہو کر خدا کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔

اقبال کے ہاں ربط فرد و ملت کا نظریہ اسی اسلامی زاویہ نگاہ سے اخذ کردہ ہے۔ جماعت کے ساتھ تمام نفسیاتی روابط کو ساقط کر کے اگر نفس انسانی کی باقی ماندہ حیثیت کو دیکھیں تو وہ صفر رہ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ ’’ وجود افراد کا مجازی‘‘ ہے یعنی فرد کی جماعت سے ربط کے بغیر کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن جماعت کا یہ ہمہ گیر رابطہ انسان کی انفرادی خودی کو سوخت نہیں کرتا، بلکہ اس کی پرورش کرتا ہے۔ ہر شاخ اور ہر پتے کی اپنی بھی ایک مخصوص حیثیت ہے، لیکن شجر سے منقطع ہو کر نہ شاخ میں روئیدگی رہ سکتی ہے اور نہ پتا سرسبز رہ سکتا ہے:

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

تمام نوع انسان کی وحدت کی تعلیم قرآن میں موجود تھی کہ سب انسان ایک نفس واحدہ سے سر زد ہوئے ہیں۔ گویا تمام نوع انسان ایک جسم ہے اور مختلف افراد اس کے اعضا ہیں۔ اسی قرآنی تصور کو ان اشعار میں ادا کیا گیا ہے:

بنی آدم اعضاے یک دیگر اند

کہ در آفرینش زیک جوہر اند

چو عضوے بدرد آورد روزگار

دگر عضو ہا را نہ ماند قرار

اگر کسی عضو میں ایسی انانیت پیدا ہو جائے کہ وہ دوسرے اعضاء سے تعاون کو لا حاصل ایثار سمجھے تو خود وہ عضو معطل ہو جائے گا۔ یہ تمثیلی حکایت نہایت حکمت آموز ہے کہ انسانی جسم کے اعضا میں بے بصری سے ایک مرتبہ یہ خیال پیدا ہو گیا کہ ہم تو سب جدوجہد کرتے رہتے ہیں لیکن یہ پیٹ نکھٹو، ناکردہ کار ہماری محنت سے پیدا شدہ رزق کو اپنے اندر ڈال کر خود لطف اٹھاتا ہے۔ اس نکھٹو کا کامل مقاطعہ کرنا چاہیے۔ تمام اعضا نے رزق کی کوشش چھوڑ دی پیٹ میں کچھ نہ گیا تو سب کی حالت زار و نزار ہو گئی۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ ہم بیجان کیوں ہو رہے ہیں۔ آخر دماغ نے ان بے وقوفوں کو سمجھایا کہ شکم سمیت تم سب ایک ہی جان کے مظاہر اور اس کے خدمت گزار ہو۔ ہر ایک کا کام اسے خود بھی نفع پہنچاتا ہے اور کل جسم کو بھی۔ جماعت کے ساتھ ہی ربط رکھنے سے عضو میں زندگی اور قوت ہے۔ فرد و جماعت کے ربط کی اس سے بہتر مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ علامہ اقبال بھی اسی تصور سے آغاز کرتے ہیں :

فرد را ربط جماعت رحمت است

جوہر اور ا کمال از ملت است

تا توانی با جماعت یار باش

رونق ہنگامہ احرار باش

اس کے بعد ایک حدیث نبوی کے حوالے سے کہا ہے کہ شیطان جماعت سے دور رہتا ہے فرد و قوم ایک دوسرے کا آئینہ ہیں۔ فرد و ملت کا احترام و نظام ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے۔ فرد کا جماعت میں گم ہونا خودی کو سوخت کرنا نہیں بلکہ قطرے کا قلزم بننا ہے۔ زندگی کے اقدار کا سرمایہ ملت ہی کے گنجینے میں ہوتا ہے۔ نوع انسان جو کچھ قرون میں یہ دوران ارتقاء پیدا کرتی رہی ہے، فرد اس تمام ثروت کا مالک بن جاتا ہے اور انسانیت کے مستقبل کی طرف بھی جماعت ہی قدم بڑھاتی ہے۔ ماضی اور مستقبل اس کی ذات میں ہم آغوش ہیں۔ افراد پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ لیکن جماعت باقی رہتی ہے۔ فرد کے اندر ترقی کی خواہش بھی جذبہ ملی سے پیدا ہوتی ہے اور خیر و شر کا معیار بھی حیات ملی کی پیداوار ہے۔ انسان کو حیوان ناطق کہتے ہیں لیکن فرد بے جماعت ناطق نہیں ہو سکتا۔ زبان جو ہزار ہا سال کے انسانی تجربات کی سرمایہ دار ہے، کسی ایک فرد کی پیدا کردہ چیز نہیں۔ یہ قیمتی ورثہ جماعت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ گرمی صحبت سے فرد میں ملت کی وسعت آ جاتی ہے۔ تمام کثرت وحدت میں منسلک ہو جاتی ہے۔ لفظ کے اندر معنی کی ثروت جملے یا مصرعے کے دوسرے الفاظ سے متحد ہو کر اظہار پذیر ہوتی ہے۔ تنہا فرد کے مقاصد خور و نوش کے علاوہ اور کیا ہو سکتے ہیں۔ فرد کے مضمرات و ممکنات اگر معرض شہود میں آتے ہیں تو محض ملت کے ربط سے ضبط و نظم سے زندگی کو نشوونما حاصل ہوتا ہے۔ حقیقی آزادی جو معاون حیات و ارتقاء ہے، وہ جماعتی پابندیوں ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح کہ ندی کے اگر کنارے نہ ہوں، جو اس کی روانی کو حدود کے اندر رکھتے ہیں، تو وہ ندی ہی نہیں بن سکتی۔ علامہ فرماتے ہیں کہ تو نے خودی اور بے خودی کے باہمی ربط کو نہیں پہچانا، اس لیے وہم و گمان میں مبتلا ہو گیا ہے اور ان کو باہم متضاد سمجھنے لگا ہے۔ تیری ذات کے اندر ایک جوہر نور ہے۔ اس نفس واحدہ میں دوئی نہیں۔ لیکن مظاہر حیات میں یہ وحدت من و تو کا امتیاز پیدا کر لیتی ہے۔ اس کی فطرت آزاد خود اپنی تکمیل کے لیے آئین کی زنجیریں بناتی ہے۔ اس جزو کے اندر ہمہ گیر قوت ہے۔ پیکار حیات اس  شمشیر کے لیے سنگ فساں ہے:

غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا

اسی کو خودی کہتے ہیں اور اسی کا نام زندگی ہے۔ جماعت کے اندر گم ہو کر، یعنی بے خودی ہے، یہ خودی اپنے آپ کو استوار کرتی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئین کے جبر نے اختیار فرد کو سوخت کر دیا ہے، لیکن محبت اسی کا نام ہے کہ محبت محبوب کی ذات سے ہم آہنگ ہو جائے۔ خود شکنی سے کس طرح خودی مضبوط ہوتی ہے؟ استدلال کے لیے یہ نکتہ آسانی سے قابل فہم نہیں، اس میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے:

نکتہ ہا چوں تیغ پولاد است تیز

گر نمی فہمی ز پیش ما گریز

اس تمہید کے بعد اقبال نے اس نکتے کی وضاحت کی ہے کہ انسان کی فطرت میں یکتائی کا جوہر بھی ہے لیکن اس کی حفاظت انجمن آرائی سے ہی ہوتی ہے۔ افراد خود اپنی تکمیل ذات کے لئے اپنے آپ کو ایک لڑی میں پرو لیتے ہیں۔ پیکار حیات میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ا فلاک پر نظام انجم بھی جذب باہم سے قائم ہے۔ انسانی افراد بھی اسی آئین سے قیام و ثبات حاصل کرتے ہیں۔ ابتدائی حالت میں انسان جب دشت و جبل میں آوارہ تھے تو زندگی کی قوتیں خوابیدہ تھیں، آرزوئیں محدود تھیں :

گو شمال جستجو ناخوردہ

زخمہ ہائے آرزو نا خوردہ

خون میں گرمی نہیں تھی۔ دیو و پری کے اندیشے سے لرزاں تھے۔ عقل و فکر نے بھی ماحول پر غلبہ حاصل نہ کیا تھا۔ برق و رعد سے خائف تھے۔ خود رو چیزیں کھا کر گزارہ کر لیتے تھے۔ اپنی کوشش سے فطرت سے کچھ نہ حاصل کر سکتے تھے۔ ایک انفعالی کیفیت تھی۔ جو کچھ میسر آ گیا اس پر قناعت کر لی۔ اس حالت میں سے انسان اس وقت نکلا جب کسی جماعت میں ایک مرد صاحب دل پیدا ہوا۔

یہ قرآنی تصور ہے کہ آدمیت کا آغاز نبوت سے ہوا ہے۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ہر علم و فن کا آغاز بھی وحی ہی کی بدولت ہوا۔ ایسا شخص انسانوں کو انتشار سے نکال کر ان میں وحدت پیدا کرتا ہے۔ ’’ تا دوئی میردیکی پیدا شود‘‘ ایسے مرد صاحب دل کا انداز نظر بالکل تازہ ہوتا ہے۔ وہ ہر شے کو ایک نئی بصیرت سے دیکھتا ہے اور اس سے نئے نتائج اخذ کرتا ہے۔ اس کے اندر زندگی کی حرارت ہوتی ہے جس کی چنگاریاں بے شمار قلوب میں شعلے پیدا کرتی ہیں۔ اس کی بدولت عقل کو بھی ایک نیا پیرایہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو کھوٹے اور کھرے میں تمیز کرنا سکھاتا ہے۔ وہ زندگی کے اقدار کی نئی تقدیر کرتا ہے۔ وہمی معبودوں کی پرستش سے انسان کو نجات دلاتا ہے۔ مادی فطرت کی قوتوں کا خوف دلوں سے زائل کرتا ہے اور انسان میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ تو خدائے خلاق واحد کے سوا کسی کا بندہ نہیں۔ اس کے طفیل میں انسان ایک جماعت بن جاتے ہیں اور توحید الٰہی وحدت انسانی میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ تاہم زندگی کے لیے ایک مقصود معین ہو جاتا ہی:

تا سوئے یک مدعایش می کشد

حلقہ آئیں بپایش می کشد

نکتہ توحید باز آموزدش

رسم و آئین نیاز آموزدش

اس قسم کے توحید آموز اور وحدت آفریں تلمیذ الرحمان کو اسلامی اصطلاح میں نبی کہتے ہیں۔ از آدم تا ایں دم نوع انسان نے جو ترقی کی ہے اور انسان کی بصیرت اور قوت میں جو اضافے ہوئے ہیں، سب کا سرچشمہ نبوت ہی ہے۔

اس کے بعد ارکان اساسی ملیہ اسلامیہ کے عنوان کے تحت رکن اول توحید کی شرح ہے۔ انسانی عقل ابتدائی کوششوں میں اپنے ماحول میں اشیاء و حوادث کا فرداً فرداً ادراک کر کے ان کے ساتھ کوئی ہنگامی توافق پیدا کرتی رہی۔ ابھی تک ایسا شعو رپیدا نہ ہوا تھا جو مظاہر کی گوناگونی اور کثرت کو کسی وحدت میں منسلک کر سکے۔ عقل کا پہلا ارتقائی قدم توحید کی بدولت اٹھا، ورنہ عقل کے لیے خود اپنا مقصود واضح نہ تھا۔ فطرت کی تسخیر فہم فطرت کے ساتھ وابستہ ہے اور اس فہم کا کام حوادث کی کثرت میں آئین کی وحدت تلاش کرنا ہے:

در جہان کیف و کم گردید عقل

پے بہ منزل برو از توحید عقل

ورنہ این بے چارہ را منزل کجاست

کشتی ادراک را ساحل کجاست

کم فہم لوگ دین اور دانش کو الگ الگ بلکہ متضاد چیزیں سمجھتے ہیں۔ اگر نکتہ توحید ان کی سمجھ میں آ جائے تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہو کہ توحید کی پیدا کردہ وحدت کوشی ہی دین اور حکمت دونوں کا سرچشمہ ہے اور تمام قسم کی قوتیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں :

دین ازو، حکمت ازو، آئیں ازو

زور ازو، قوت ازو، تمکیں او

عالموں کی حیرت اور عاشقوں کی قوت عمل اسی زاویہ نگاہ کا نتیجہ ہیں۔ یہی عقیدۂ خاک کو اکسیر بناتا ہے۔ اس سے انسان کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے۔ انسان راہ حق میں گرم رو ہو جاتا ہے۔ شک اور خوف کی جگہ یقین محکم پیدا ہوتا ہے، چشم بصیرت پر ضمیر کائنات کا انکشاف ہوتا ہے۔

کلمہ توحید ہی ملت بیضا کے تن میں بطور جان ہے۔ یہی عقیدہ ملت کا شیرازہ بند ہے۔ اسی سے زندگی میں قوت کا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی سے تودۂ گل دل بن جاتا ہے اور دل میں سے اگر یہ نکل جائے تو دل مٹی ہو جاتا ہے۔ مسلمان کی اصلی دولت یہی ہے کہاسی توحید نے اسود و احمر کی تمیز مٹائی اور بلال حبشی (رضی اللہ عنہ) فاروق (رضی اللہ عنہ) اور ابو ذر (رضی اللہ عنہ) کا ہمسر ہو گیا۔ ملت نہ جغرافیائی چیز ہے اور نہ نسلی یا لسانی۔ بقول شاعر ’’ نیم دلی از ہم زبانی بہتر است‘‘ ملت دلوں کی یک رنگی اور ہم آہنگی سے پیدا ہوتی ہے اور یہ بات توحید ہی کی برکت سے ظاہر ہوتی ہے:

ملت از یک رنگی دلہاستے

روشن از یک جلوۂ سیناستے

قوم را اندیشہ ہا باید یکے

در ضمیرش مدعا باید یکے

ملت اسے کہتے ہیں جس میں خیر و شر اور خوب و زشت کا معیار یکساں ہو۔ یہ اتحاد خدائے واحد ہی کی بخشی ہوئی بصیرت کا نتیجہ ہو سکتا ہے، ورنہ ہر شخص خود اپنے لیے معیار بن جائے اور انسانی وحدت کا شیرازہ بکھر جائے۔ بعض ملتوں نے اپنی تقدیر کو وطن کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ بعض نے اتحاد ملت کی تعمیر نسل و نسب کی بنیادوں پر قائم کی ہے۔ لیکن وطن پرستی خدا پرستی نہیں۔ وہ ایک خطہ ارض کی پرستش ہے، اسی طرح نسب کا مدار جسمانی توارث پر ہے، لیکن انسان کی ماہیت جسم نہیں بلکہ روح ہے۔ ملت اسلامیہ کی اساس نفسی ہے۔ یہ ایک غیر مرئی رشتہ ہے۔ جس طرح تجاذب انجم کے تار کسی کو نظر نہیں آتے مگر وہی نظام انجم کے قوام ہیں۔ اس قسم کی وحدت نفسی توحید پرستوں کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتی۔

قرآن نے جہاں نفس مطمئنہ اور نجات یافتہ، خدا رس انسان کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے دو ہی صفات بالتکرار بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسا انسان یاس و حزن و غم سے پاک ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ کسی قسم کا خوف اس کے دل میں نہیں رہتا۔ اسی صفت کا نام حریت ہے اور یہ توحید ہی کا ثمر ہے۔ مرد موحد کبھی نا امید نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کے نزدیک نا امیدی کفر ہے۔ امید سے زندگی کی قوتیں بیدار اور استوار ہوتی ہیں اور یاس سم قاتل کا کام کرتی ہے۔ قطع امید سے انسان خود کشی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مایوس انسان کے عناصر سست ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے چشمے خشک ہو جاتے ہیں۔ غم انسان کی جان کو کھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لا تحزن کی تعلیم دی ہے اور نصب العین لا خوف علھم ولاہم یحزنون قرار دیا ہے:

گر خدا داری ز غم آزاد شو

از خیال بیش و کم آزاد شو

اسی قوت سے موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے مقابل میں کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کو غرقاب کرتا ہے۔ غیر اللہ کا خوف عمل کا دشمن ہے لیکن خدا پر یقین ہمت عالی کا منبع ہے۔ خوف سے فکر و عمل کی تمام قوتیں بے کار ہو جاتی ہیں اور انسان خود مسخر و مغلوب ہو جاتا ہے۔ جس شخص کو سست عمل دیکھو سمجھ لو کہ اس کے دل میں خوف نے جگہ کر لی ہے۔

جدید نفسیات نے کوئی پچاس قسم کے فوبیا یعنی خوف کی قسمیں دریافت کی ہیں جو انسان کے تحت الشعور میں داخل ہو کر اس کے نفس میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔ نفسیات تحلیلی، ان چوروں کو قلب کے تہ خانوں سے نکالنے کی تجویزیں کرتی رہتی ہیں۔ لیکن خود ایک بڑا ماہر نفسیات جدید، ینگ اس کا اقرار کرتا ہے کہ خدا پر راسخ عقیدہ رکھنے والے ان خوفوں اور نفسی پیچیدگیوں سے بری ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا علاج عقیدۂ توحید ہے:

ہر شر پنہاں کہ اندر قلب تست

اصل او بیم است اگر بینی درست

لابہ و مکاری و کین و دروغ

ایں ہمہ از خوف می گیرد فروغ

موحد کے دل بے ہراس کے متعلق ایک تمثیل پیش کی ہے کہ حزن و خوف سے بری انسان میں ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ حوادث کے تیر اس پر بے اثر ہو جاتے ہیں۔ تیر شمشیر سے کہتا ہے کہ میں کسی کے سینے میں داخل ہونے سے پہلے یہ دیکھ لیتا ہوں کہ اس کے اندر دل یاس و بیم میں مبتلا ہے یا نہیں۔ جہاں میں نے دیکھا کہ یہ شخص مایوس اور ڈرپوک معلوم ہوتا ہے، وہاں میں دھڑلے سے اس کی خوں ریزی کرتا ہوں۔ لیکن اگر سینے کے اندر قلب مومن نظر آئے تو میں اس کی حرارت سے پگھل کر پانی ہو جاتا ہوں :

در صفائے او ز قلب مومن است

ظاہرش روشن ز نور باطن است

از تف او آب گردد جان من

ہمچو شبنم می چکد پیکان من

اس نظم میں بے خودی کا مفہوم اس لحاظ سے داخل ہے کہ جب خودی میں سے خوف و حزن کے عناصر ناپید ہو جائیں تو اس قسم کی بے خودی کی حالت مستی و مدہوشی کے مماثل نہیں ہوتی بلکہ حوادث کے مقابلے میں ناقابل شکست حصن مدافعت بن جاتی ہے۔ خودی اور بے خودی میں کوئی تضاد نہیں رہتا۔ اسی خیال کو حکایت شیر و شہنشاہ عالمگیر میں ایک تاریخی واقعے سے استوار کیا ہے۔ نماز عاشقاں میں ایک بے خودی کی کیفیت ہوتی ہے کیوں کہ نفس انسانی اپنے تئیں کلیتاً خدا کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس سپردگی کی بدولت اس میں بے حد قوت اور بے نیازی پیدا ہو جاتی ہے۔ شیر نے عالمگیر پر دوران نماز میں حملہ کیا۔ کوئی معمولی انسان خوف زدگی میں شیر کا شکار ہو جاتا یا بے اختیار فرار کی کوشش کرتا لیکن عالمگیر کی بے خودی میں خودی کی طاقت دیکھئے:

دست شہ نادیدہ خنجر برکشید

شرزہ شیرے را شکم از ہم درید

دل بخود را ہے نداد اندیشہ را

شیر قالیں کرد شیر بیشہ را

ایسے نفس میں خود نمائی کے ساتھ خود شکنی ہوتی ہے، لیکن یہی خود شکنی الٰہی قوتوں کی جاذب بن جاتی ہے:

ایں چنیں دل خود نما و خود شکن

دارد اندر سینہ مومن وطن

بعض اوقات لوگوں کو لا خوف علیھم ولاہم یحزنون کی صفت پڑھتے ہوئے یہ گمان گزرتا ہے کہ ماسوا کا خوف معدوم ہونے پر بھی خدا کا خوف تو باقی رہتا ہے، اس لیے بندۂ مومن مطلقاً لا خوف تو نہ ہوا۔ لیکن یہ دھوکا انسانی زبان کی کوتاہی سے پیدا ہوتا ہے۔ خدا کے خوف کے وہ معنی نہیں جو ماسوا کے خوف کے معنی ہیں۔ خدا کوئی ڈراؤنی چیز نہیں ہے جسے دیکھ کر انسان کانپنے لگے۔ وہ تو سراپا رحمت و شفقت ہے۔ خوف خدا کے معنی ہیں حکم خداوندی اور آئین الٰہی کی خلاف ورزی کے درد ناک نتائج فطری ہیں۔ انہیں معنوں میں خوف خدا کو حکمت کا سرچشمہ کہا گیا ہے۔ ماسوا کا خوف تو انسان کو حواس باختہ اور عقل سوختہ کر دیتا ہے۔ خوف خدا کا نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ ایک فرمان بردار بچہ سراپا شفقت ماں باپ کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے سے گریز کرتا ہے تاکہ محبت کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ یہاں سزا کا خوف نہیں ہوتا بلکہ محبت کے فقدان کا خوف ہوتا ہے۔ ان معنوں میں خدا ہی کا خوف انسان کو ہر قسم کے خوف حوادث سے نجات دلوا سکتا ہے:

عشق را آتش زن اندیشہ کن

روبہ حق باش و شیری پیشہ کن

خوف حق عنوان ایمان است و بس

خوف غیر از شرک پنہاں است و بس

خدا کے سوا کسی چیز سے خائف انسان کلمہ لا الٰہ الا اللہ زبان سے پڑھنے کے باوجود اندر سے شرک خفی میں مبتلا ہوتا ہے۔

رموز بے خودی میں اقبال پہلے اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ انسانوں میں ملت آفریں وحدت ان مردان حق کی بدولت پیدا ہوئی ہے جنہیں اصطلاحاً نبی کہتے ہیں۔ اس سے قبل اس عنوان کے تحت اشعار درج ہو چکے ہیں کہ ملت از اختلاط افراد پیدا می شود و تکمیل تربیت او از نبوت است، اسلام کا ’’ رکن دوم‘‘ رسالت ’’ ایک مخصوص تشریح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ انبیاء تو آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم تک لا تعداد ہوئے ہیں لیکن قرآن کریم نے مسلمانوں کو ملت ابراہیم ؑ کہا، اس لیے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا توحید کی تعمیر اور شرک کی بیخ کنی میں جہاد تاریخ دین کا ایک اہم واقعہ ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا زمانہ توریت و انجیل سے پہلے کا زمانہ ہے، اس لیے توحید رموزی میں ان کو تمام انبیائے بنی اسرائیل پر زمانی سبقت حاصل ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے توحید کی بنیادیں قائم کیں تو اس وقت نہ کوئی یہودی تھا اور نہ کوئی نصرانی۔ یہ سب بعد کے کم و بیش بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔ اس لیے توحید کو بھی خالص کرنے کے لیے موحد قدیم حضرت ابراہیم ؑ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ پہاڑ میں سے نکلتے ہوئے چشمے کا پانی صاف ہوتا ہے، بعد میں بہتی ہوئی ندیوں میں خس و خاشاک اور کثافت کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ رسالت کی توضیح میں علامہ اقبال، ابراہیم ؑ خلیل اللہ ہی سے آغاز کرتے ہیں :

تارک آفل براہیم خلیل

انبیاء را نقش پاے او دلیل

جس طرح توحید وحدت آفریں ہے، اسی طرح رسالت کا بھی یہی وظیفہ ہے کہ ہزار با انسان ایک عدل عام اور رحمت عامہ کی سلک میں منسلک ہو جائیں :

از رسالت در جہاں تکوین ما

از رسالت دین ما آئین ما

از رسالت صد ہزار ما یک است

جزو ما از جزو ما لا ینفک است

ابراہیمی رسالت نے جن بنیادوں کو استوار کیا اور رسالت محمودی نے ان پر جو عظیم الشان تعمیر انسانیت کھڑی کی، اسی کی بدولت توحید پرستوں کی ایک ملت بن گئی جو اہل عالم کے لیے پیام رحمت ہے۔ رسول کی محبت خدا کی محبت کا وسیلہ ہے۔ کوئی فرد شاید براہ راست بھی راہبوں کی طرح خدا سے رابطہ پیدا کرے، لیکن ملت کی شیرازہ بند تو رسالت ہی ہے:

فرد از حق، ملت از وے زندہ است

از شعاع مہر او تابندہ است

رسالت کی بدولت لاتعداد انسان ہم نوا اور ہم مدعا ہو جاتے ہیں۔ کثرت اس وحدت میں آ کر زندہ تر ہو جاتی ہے۔ دین فطرت کا تقاضا اسی قسم کی وحدت آفرینی ہے۔ رسالت محمدی کی پیدا کردہ وحدت اگر ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے تو ہم ابد پیوند ہو سکتے ہیں۔ افراد پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں لیکن ایسی عالمگیر ملت قائم و دائم رہ سکتی ہے محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر رسالت کے مقصد کی تکمیل ہو گئی۔ اس پر اب کوئی انسان بنیادی حقائق کا اضافہ نہیں کر سکتا۔ جس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خاتم النبیین ہیں اسی طرح ان کی امت خاتم الامم ہے۔ اس کے علاوہ جو ملتیں قائم ہوں گی وہ آئین فطرت کے خلاف ہوں گی یا جغرافیائی ہوں گی، یا نسلی، یا لسانی۔ ان میں سے کسی کو بقا حاصل نہیں ہو سکتی۔ حق کے مقابل میں باطل کی عمر نہایت قلیل ہوتی ہے۔ اب کوئی نئی نبوت اس سے وسیع تر وحدت پیدا نہیں کر سکتی۔ البتہ کسی جدید دعوائے نبوت سے انسانوں میں مزید تفریق و تفرقہ پیدا ہو سکتا ہے :

لا نبی بعدی ز احسان خدا است

پردۂ ناموس دین مصطفی است

قوم را سرمایہ قوت ازو

حفظ سر وحدت ملت ازو

دل ز غیر اللہ مسلمان می کند

نعرۂ لا قوم بعدی، می زند

اس عقیدے کی نسبت یہ اعتراض پیدا ہو سکتا ہے کہ مسلمان تمام نوع انسان تو نہیں۔ مسلمانوں کی باہمی اخوت رنگ و نسل و وطن سے بالاتر سہی، لیکن دنیا کی کثیر آبادی تو ان سے باہر ہے، اس لیے اسلام کی اخوت عالم گیر اخوت تو نہ ہوئی۔ یہی اعتراض اسرار خودی کے انگریز مترجم پروفیسر نکلسن نے کیا تھا۔ اس کا جواب اقبال نے نہایت مدلل اور مسکت دیا تھا کہ اسلام کا مقصود عالم گیر محبت و اخوت ہے لیکن جب تک ایک ملت اس کی مثال قائم نہ کرے اور دوسروں کے لیے نمونہ نہ بنے، تب تک اخوت کی حدیں وسیع نہیں ہو سکتیں۔ اقبال نے اس جواب میں اپنا پختہ یقیں بیان کیا کہ میرے نزدیک امت محمدیہ کا خاص مشن یہی ہے کہ وہ عالم گیر اخوت کے اصول کو عملی جامہ پہنائے۔ چنانچہ رموز بے خودی میں اس مضمون کے لیے ایک خاص عنوان قائم کیا ہے، در معنی ایں کہ مقصود رسالت محمدیہ تشکیل و تاسیس حریت و مساوات و اخوت بنی نوع آدم است۔ اس عنوان کے تحت یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام کا پیغام تمام نوع انسان کے لیے آزادی، برابری اور برادری کا پیغام ہے۔ اسلام نے جو کچھ تلقین کی اور اپنی خالص حالت میں جو معاشرت، معیشت اور سیاست پیدا کی اس نے تمام انسانوں کی گردنوں میں سے طوق اور دست و پا سے غلامی اور استبداد کی زنجیریں توڑ دیں۔ انسان انسانوں کی پوجا کرتے تھے۔ ارباب من دون اللہ معبود بنے ہوئے تھے۔ لا قیصر و کسریٰ کا اعلان اسلام نے کیا۔ کاہن و پایا و سلطان و امیر سب مل کر انسانوں کا شکار کرتے۔ کلیسا جنت کے پروانے ابلہان فریب خوردہ کے ہاتھ بیچتا تھا۔ برہمن نجات کے کمیشن ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ مذہب استحصال جاہ و مال کا آلہ بن گیا تھا۔ فطرت انسانوں کو آزاد پیدا کرتی تھی، لیکن وہ مہد سے لحد تک طرح طرح کے توہمات اور استبداد کی زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے۔ خدا نے جو امانت آدم کے سپرد کی تھی وہ اس سے چھن چکی تھی۔ جب زبونی حال اس درجے کو پہنچی تو رحمت حق جوش میں آئی اور حق بحق دار سپردن کا دور شروع ہوا۔ یہ اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ہوا جس کو اس کے ہم وطن لوگ نبوت سے قبل بھی امین کہتے تھے:

تا امینے حق بہ حق داراں سپرد

بندگان را مسند خاقان سپرد

اب مکرم و معظم ہونے کا ایک ہی معیار رہ گیا، ان اکرمکم عندا للہ اتقاکم، جو سیرت میں افضل ہے وہی سردار ہے، خواہ وہ ایک نادار حبشی ہی ہو۔ انسانیت کے لیے یہ کام اور کس نے کیا؟ فقط حریت و اخوت و مساوات کے نعرے لگاتے رہے تاکہ اس دھوکے سے عوام کا شکار کرتے رہیں۔ محنت کش کسان اور مزدور کے لیے الکاسب حبیب اللہ کس نے کہا؟ یہ تمام اصنام کہن اسلام نے توڑے۔ یہ کسی ایک ملت پر احسان نہ تھا بلکہ تمام انسانیت میں ایک تازہ جان آفرینی تھی:

تازہ جان اندر تن آدم دمید

بندہ را باز از خداونداں خرید

اسلام صحیح معنوں میں انقلاب تھا، وہ دنیائے کہن کی موت اور عالم جدید کی تکوین تھی۔ دین اور ضمیر کے معاملے میں ہر قسم کا جبر ممنوع ہو گیا۔ حریت و مساوات کی تحریکیں عصر نو میں بھی پیدا ہوئی ہیں، لیکن تاریخ انسانی میں یہ تمام تقاضے اسلام کے منشور میں داخل ہو کر پہلے پہل منصہ شہود پر آئے:

حریت زاد از ضمیر پاک او

ایں مے نوشیں چکید از تاک او

عصر نو کایں صد چراغ آوردہ است

چشم در آغوش او وا کردہ است

جس اسلام نے کل مومن اخوۃ کہا، اسی نے تمام نوع انسان کی وحدت کی حقیقت کا بھی انکشاف کیا کہ تمام انسان، مرد و زن گورے کالے، امیر و غریب ایک نفس واحد کے اعضا ہیں۔ اخوت اور مساوات اسلام کی نہاد میں ہیں۔ جو کوئی جس حد تک اخوت، مساوات اور حریت کو لائحہ عمل بناتا ہے اسی قدر وہ مسلم و مومن ہے۔

اس کے بعد تاریخ اسلام سے مساوات ورزی کی کچھ مثالیں بیان کی ہیں۔ ایرانیوں کے خلاف جنگ میں ان کا سپہ سالار جابان گرفتار ہو گیا۔ اس نے یہ نہ بتایا کہ میں کون ہوں اور ایک معمولی سپاہی سے امان طلبی کی۔ اس نے اسے امان دی اور وعدہ کیا کہ تمہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ جنگ کے ختم ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ اول نمبر کا جنگی مجرم ہے۔ سب نے ابوعبیدہ سپہ سالار سے کہا کہ اس کو قتل کرنا لازمی ہے۔ ابوعبیدہ سپہ سالار عسکر اسلامی نے کہا کہ اے مسلمانو! ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ ایک کا وعدہ سب کا وعدہ ہے۔ امان دینے والا معمولی سپاہی سہی لیکن ہماری ملت کا فرد ہے۔ ہمیں اس کا پاس ہونا چاہیے۔ ملت کی یک آہنگی بڑے سے بڑے جبار قاتل کے قتل کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے:

نعرۂ حیدر نوائے بوذر است

گرچہ از حلق بلال و قنبر است

ہر یکے از ما امین ملت است

صلح و کینش صلح و کین ملت است

اس کے بعد سلطان مراد اور معمار کا قصہ بیان کیا ہے۔ ایک معمار کی تعمیر سلطان کو پسند نہ آئی اور خشم گین ہو کر اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس نے قاضی کے ہاں نالش کی۔ قاضی نے سلطان کو عدالت میں طلب کیا۔ ایک طرف معمار دست بریدہ و ستم رسیدہ فریادی ہے اور دوسری طرف ایک وسیع مملکت کا شہنشاہ شرمندہ کھڑا ہے۔ سلطان نے جرم کا اقبال کیا۔ قاضی نے کہا کہ از روئے قرآن قصاص واجب ہے۔ شریعت سلطان اور معمولی انسان کے حقوق و فرائض میں فرق روا نہیں رکھتی:

عہد مسلم کمتر از احرار نیست

خون شہ رنگیں تر از معمار نیست

سلطان نے اپنا ہاتھ پیش کیا کہ قصاص میں اس کو کاٹ دیا جائے۔ مدعی نے کہا کہ خدا نے قصاص کا حکم بھی دیا ہے لیکن عدل و احسان کو افضل قرار دیا ہے:

گفت از بہر خدا بخشیدمش

از براے مصطفیؐ بخشیدمش

یافت مورے رب سلیمانے ظفر

سطوت آئین پیغمبر نگر

پیش قرآن بندہ و مولا یکے ست

بوریا و مسند دیبا یکے ست

حریت کی مثال میں اقبال نے امام الشہداء حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے جگر گداز واقعے کو نظم کیا ہے۔ اسلام نے شہنشاہی اور سلطانی کا خاتمہ کر کے انسانوں کی حریت کو محفوظ کیا تھا، کیوں کہ مطلق العنان سلطانی جو عادل و ظالم، عاقل و احمق کو ورثے میں ملتی رہے ہر قسم کے استبداد کا مسموم سرچشمہ ہوتی ہے۔ خلافت راشدہ تک حریت کا یہ عالم تھا کہ معمولی فرد بھی خلیفہ پر نالش کر کے اس کو عدالت میں پیش ہونے پر مجبور کر سکتا تھا اور عورتیں مجمع عام میں امیر المومنین سے معمولی باتوں میں بھی باز پرس کرتی تھیں اور اس کے کسی غیر قرآنی فتوے کے خلاف احتجاج کرتی تھیں۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) جیسے با رعب خلیفہ سے بھی کوئی مرعوب نہ ہوتا تھا بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھے۔ مساوات و حریت کا یہ نمونہ چشم آفتاب نے اس دنیا کی سطح پر پھر کبھی نہ دیکھا۔ اس نظام حریت پر سب سے کاری ضرب امیر معاویہ نے لگائی اور یہ ضرب ایسی تھی کہ آج تک مسلمانوں کی سیاست اس سے مجروح ہے۔ امیر معاویہ اپنے سے یزید کو جس کے عاقل و عادل یا منطقی ہونے کی ملت قائل نہ تھی اور جسے اکابر ملت کبھی اس کی سیرت کی وجہ سے امیر المومنین منتخب نہ کرتے، ولی عہد مقرر کر دیا اور جبر و زجر سے اس کی جانشینی کو تسلیم کرایا۔ خلافت سلطنت میں تبدیل ہو گئی اور تھوڑے ہی عرصے میں وہی قیصریت واپس آ گئی جس کی بیخ کنی اسلام کا فرض اولین تھا۔ ایک مرد مجاہد و حق پرست، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) و بتول کا پروردہ آغوش اور حیدر کرار کا فرزند ارجمند، اس حریت کشی اور اسلام سوزی کو برداشت نہ کر سکا۔ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے استبدادی سیاست کے خلاف حق کا علم بلند کیا اور حریت کی حفاظت میں اپنی اور اہل و عیال کی جانیں قربان کر دیں۔ مسلمانوں کا ایک گروہ آج تک اس پر ماتم کرتا ہے۔ لیکن اس امام احرار کی حریت پروری اور استبداد کشی کو کسی نے اپنا مسلک نہ بنایا۔ حریت کی حفاظت کے لیے سینہ زنی نہیں بلکہ سینہ سپر ہونے کی ضرورت ہے۔

عقل و عشق کا موازنہ اقبال کا ایک خاص مضمون ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے ذکر میں بھی شروع میں پندرہ اشعار عقل حیلہ جو کی تحقیر اور عشق کی مدح میں ہیں۔ اس موازنے میں نہایت لطیف نکات پیدا کیے ہیں۔ اقبال کا مقصود یہ ہے کہ حضرت امام حسینؓ کے اندر عشق کی جذبہ انگیزی اور قوت ایثار کا نقشہ کھینچا جائے۔ اگر حضرت امام حسینؓ میں صرف عقل مصلحت اندیش ہوتی تو کمزور ایمان والے مسلمانوں کی طرح وہ بھی خاموشی سے یزید کی ولی عہدی کو تسلیم کر لیتے۔ حریت اور عشق ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ حضرت سید الشہداء حریت کی حمایت میں انتہائی قربانی پر آمادہ ہوئے۔ یہ جذبہ بھی زندگی کے اعلیٰ اقدار کے عشق ہی کا مظہر ہے:

عشق را آرام جاں حریت است

ناقہ اش را سارباں حریت است

دنیا ہمیشہ خیر و شر کی قوتوں کا میدان کار زار رہی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام و فرعون اور حسین (رضی اللہ عنہ) و یزید زندگی کی دو مختلف قوتوں کے نمائندے ہیں۔ خلافت کو سلطنت بنا دینا گویا موسیٰ علیہ السلام کے خلاف فرعون کی حمایت کے مترادف تھا:

چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

حریت را زہر اندر کام ریخت

حریت کا علم بردار سربکف اٹھا: وہ انسانیت کے لیے ایک سحاب رحمت تھا:

بر زمین کربلا بارید و رفت

لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت

تا قیامت قطع استبداد کرد

موج خون او چمن ایجاد کرد

ماسوا اللہ را مسلمان بندہ نیست

پیش فرعونے سرش افگندہ نیست

علامہ اقبال اپنی شاعری کی ابتداء میں وطنیت کے ترانے الاپ کر بصیرت اندوزی کے بعد اس بت پرستی سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ اس انقلاب نظر کے بعد انہوں نے فارسی اور اردو میں وطن پرستی کے خلاف ایک مسلسل جہاد کیا۔ رموزبے خودی میں بھی یہ مضمون ایک خاص انداز میں موجود ہے۔ اس سے پہلے وہ کہہ چکے ہیں کہ ملت اسلامیہ ایک ابد قرار ملت ہے کیونکہ اس کی تعلیم حیات ابدی کی تعلیم ہے اور اس کے اصول فطرت کے اصول ہیں جن کی نسبت قرآن میں ارشاد ہے:

’’ فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیہا۔ لا تبدیل لخلق اللہ‘‘

اس سے لازم آتا ہے کہ اس ملت کی کوئی نہایت زمانی نہ ہو۔ اس کے بعد علامہ فرماتے ہیں کہ لازمانی ہونے کی طرح یہ ملت لامکانی بھی ہے یہ کسی خطہ ارض کے ساتھ وابستہ نہیں :

پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا

تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا

قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا

غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

یہ بانگ درا وہی ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ ہے جس سے ماوریٰ کوئی حقیقت نہیں۔ مسلمان کا وطن اسلام ہے جس طرح ایک مقتدر اصحابی نے اپنا نسب اسلام بتایا تھا۔ علامہ فرماتے ہیں کہ اسلام ایک روحانی نظریہ ہے اور اس خاک دان سے اس کا کوئی لازمی رشتہ نہیں :

قلب ما از ہند و روم و شام نیست

مرزبوم او بجز اسلام نیست

رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حضرت کعب نے قصیدے میں سیف الہند کہا جو فولاد کی خوبی اور تیزی کے لیے مشہور تھی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا کہ سیف الہند نہیں سیف اللہ کہو۔ اس سے اقبال نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور اسلام کو کسی خطہ ارض کے ساتھ وابستہ کرنا پسند نہ فرماتے تھے۔ اسی طرح اس دنیائے ارض کو ایک مشہور حدیث میں دنیا کم یعنی دنیا کہا ہے۔ جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ اپنے تئیں اس عالم خاکی کا باشندہ نہ سمجھتے تھے۔ وہ یہاں چند روزہ مہمان اور مسافر تھے۔ ہجرت میں بھی یہ تعلیم مضمر تھی کہ اسلام کے مقابلے میں وطن کوئی چیز نہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تمام روئے زمین کو مسجد کہا۔ زمین کا کوئی مخصوص ٹکرا یا مخصوص معبد ہی خدا کا گھر نہیں۔ جس طرح خدا کسی خطے میں محصور نہیں اسی طرح بندۂ خدا کے لیے شرق و غرب برابر ہیں۔ ’’ للہ المشرق والمغرب‘‘ فاینما تولو افثم وجہ اللہ خدا نے جس کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا اس کو مکے سے بھاگنے کی کیا ضرورت تھی۔ مکے میں رہتے ہوئے بھی خدا دشمنوں کا قلع قمع کر سکتا تھا۔ ہجرت فقط وطن پرستی کے خلاف ایک موثر تلقین تھی:

صورت ماہی بہ بحر آباد شو

یعنی از قید مقام آزاد شو

ہر کہ از قید جہات آزاد شد

چوں فلک درشش جہت آباد شد

اسلام کا مقصود نوع انسان کی وحدت ہے۔ مغرب کی قومیت پروری اور وطن پرستی نے جغرافیائی حدود کے ادھر اور ادھر رہنے والوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا۔ اب مجلس اقوام بنا کر اس مہلک بیماری کا علاج کرنا چاہتے ہیں لیکن اصل علاج تب ہو گا جب مجلس اقوام کی جگہ مجلس انسان بنے گی۔ موجودہ مجلس میں تو اقوام ہی کی رسہ کشی اور حیلہ سازی نظر آتی ہے اور ظاہری کوشش صلح گرگ آشتی ہے۔ اصل خلل زاویہ نظر میں ہے:

آں چناں قطع اخوت کردہ اند

بر وطن تعمیر ملت کردہ اند

مردی اندر جہان افسانہ شد

آدمی از آدمی بیگانہ شد

روح از تن رفت و ہفت اندام ماند

آدمیت گم شد و اقوام ماند

مغرب میں دین کو کچھ مادیت نے سوخت کیا اور کچھ وطنیت نے جو مادیت ہی کی ایک صورت ہے۔ وطن پرستی اور مملکت پرستی نے مغرب میں شیطان کا ایک مرسل بھیج دیا۔ جس کا نام میکیا ویلی ہے۔ اس نے یہ تلقین کی کہ وطن اور مملکت کی حمایت اور قوت افزائی کے لیے عدل و اخلاق کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ فرنگ اسی مرسل شیطان کے صحیفے کا معتقد اور اسی پر عامل ہے۔ فرنگیوں کے ہاں مملکت معبود بن گئی ہے۔ مسلمانوں نے بھی اگر اس کی تقلید کی تو وہ بھی دین سے بیگانہ ہو جائیں گے۔

اس کے بعد اقبال پھر اس خیال کی طرف عود کرتا ہے کہ ملت اسلامیہ کبھی زمانے کی دستبرد سے کالعدم نہیں ہو سکتی۔ قرآن کریم نے امتوں کے متعلق ایک کلیہ بیان کیاہے ’’ ولکل امۃ اجل۔ اذا اجلھم لا یستاخرون ساعتہ ولا یستقد مون‘‘ اقبال کہتا ہے کہ ملت اسلامیہ اس کلیہ سے مستثنیٰ ہے۔ جن امتوں کو از منہ ماضیہ میں اجل آئی یا آئندہ اجل کا شکار ہونگی ان کی اساس ابدی حقائق پر نہ تھی۔ اگر اسلام کا چراغ کفر کی پھونکوں سے بجھ نہیں سکتا تو لازم ہے کہ اس پر کاربند امت کا چراغ حیات بھی ہمیشہ روشن رہے:

گرچہ ملت ہم بمیرد مثل فرد

از اجل فرماں پذیرد مثل فرد

امت مسلم ز آیات خداست

اصلش از ہنگامہ قالو بلی است

از اجل ایں قوم بے پرواستے

استوار از نحن نزلناستے

تیرہ چودہ صدیوں میں ملت اسلامیہ پر قیامت خیز آفتیں آئیں، کبھی اپنے اعمال کی پاداش میں اور کبھی حوادث روزگار سے، لیکن اس کی راکھ میں جو چنگاریاں تھیں ان کی بدولت پھر نئے سرے سے حرارت حیات پیدا ہوتی رہی۔ یورش تاتار سے نہ صرف بغداد بلکہ عالم اسلامی کے بیشتر حصے میں ایسی قیامت نازل ہوئی جو روما پر وحشی اقوام کے حملوں سے بھی طاری نہ ہوئی تھی۔ کفار، خلافت کے جذبے اور روح کو ٹھکرا کر مسند نشین ہو گئے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کا چراغ بجھ گیا ہے، لیکن دیکھتے دیکھتے یہی آتش تاتار گلزار ابراہیم بن گئی:

آتش تاتاریاں گلزار کیست

شعلہ ہاے او گل دستار کیست

تاریخ اسلام میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ مسلمان ایک طرف کمزور اور بے بس ہوئے تو دوسری طرف ان کا غلبہ ہو گیا۔ اندلس میں ان کا دور دورہ ختم ہو گیا تو مشرقی فرنگ میں ترکوں نے اسلام کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ادھر ترک مشرقی یورپ میں سے نکلے تو دور حاضر میں ایک طرف پاکستان جیسی عظیم الشان اسلامی مملکت قائم ہو گئی، دوسری طرف مشرق اقصیٰ میں انڈونیشیا میں ایک کثیر التعداد اسلامی ملت آزاد ہو گئی:

شعلہ ہائے انقلاب روزگار

چوں بباغ ما رسد گردد بہار

تاریخ عالم نے کئی عظیم القوت ملتوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا لیکن:

در جہاں بانگ اذاں بود است و ہست

ملت اسلامیاں بود است و ہست

ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق

ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما

(حافظ)

اس کے بعد یہ مضمون ہے کہ ملت کی صورت بندی آئین سے ہوتی ہے اور ملت اسلامیہ کے آئین کا مخزن قرآن حکیم ہے:

دہر میں عیش دوام آئین کی پابندی سے ہے

موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں

٭٭٭

ملتے را رفت چوں آئین ز دست

مثل خاک اجزائے او از ہم شکست

قرآن نے اسلام کو دین فطرت قرار دے کر ’’ لا تبدیل لخلق اللہ‘‘ کے اصولوں کے مطابق جو سرمدی حقائق حیات بیان کیے ہیں وہ زمانے کے تغیرات کی پیداوار نہیں اور نہ مرور ایام سے ان میں کہنگی پیدا ہو سکتی ہے اسی آئین کو قرآن حکمت بھی کہتا ہے، اور حکمت کے مفہوم میں کلیت اور زمان و مکان سے ماورائیت داخل ہے:

آں کتاب زندہ قرآن حکیم

حکمت او لا یزال است و قدیم

اس کی تعلیم غلاموں کو احرار بنا دیتی ہے اور ضعیفوں کو قوت بخشتی ہے۔ اس نے ارتقاء کی راہیں کشادہ کر دی ہیں۔ اسی کی بدولت ان پڑھ صحرائیوں نے دنیا میں علوم و فنون کا چراغاں کر دیا۔ موحد بچوں کے سینے بھی اس امانت کے امین ہیں جسے دست و جبل نے زہرہ گداز سمجھ کر قبول نہ کیا تھا۔ تاریخ عالم میں صحرائی اور کوہستانی وحشیوں کے ٹڈی دل کئی مرتبہ متمدن دنیا پر نازل ہوئے۔ مگر پرانی تہذیبوں کے تاخت و تاراج کے بعد حیات انسانی میں کوئی وسعت اور ثروت افکار و اقدار پیدا نہ کر سکے۔ لیکن ان صحرائیوں نے قرآن سے فیض اور قوت حاصل کر کے قیصر و کسریٰ کے تخت ہی نہیں الٹے بلکہ انسانوں کو غلامی کی زنجیروں اور توہمات کے طوق سے آزاد کیا۔ اس وقت جو ملت اسلامیہ میں ضعف نظر آتا ہے تو اس کی وجہ قرآن سے تغافل ہے۔ اب قرآن سے کسی کو وجد نہیں آتا لیکن جامی اور عراقی کی غزلیں قوامی میں چنگ و رباب کے ساتھ گائی جائیں تو ایک جھوٹا جوش اور مستی پیدا ہو جاتی ہے:

گر تو می خواہی مسلمان زیستن

نیست ممکن جز بقرآن زیستن

صوفی پشمینہ پوش حال مست

از شراب نغمہ قوال مست

آتش از شعر عراقی دل دلش

در نمی سازد بقرآن محفلش

خطیب کا کام اب فروعات کی جنگ ہے۔ ضعیف و شاذ و مرسل حدیثوں کی بحث میں قرآن طاق نسیاں پر دھرا رہتا ہے۔ احادیث میں غلو نے یہاں تک نوبت پہنچائی ہے کہ بعض احادیث کو نصوص قرآنی کا ناسخ بنا دیا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک:

از خطیب و دیلمی گفتار او

با ضعیف و شاذ و مرسل کار او

قرآن اب یابے سمجھے طوطے کی طرح رٹا جاتا ہے یا کسی مسلمان کی وفات پر ملا حلوا مانڈا اجرت میں لے کر اس کے دو ایک سپارے بڑی سرعت سے پڑھ جاتا ہے یا پھرل فال کے لیے استعمال ہوتا ہے یا تبر کا بیمار کو اس کے اوراق کی ہوا دی جاتی ہے۔ ’’ فاعتبرو یا اولیٰ الابصار‘‘

اس کے بعد ایک مضمون ہے جو بظاہر اقبال کی عام تلقین کے منافی معلوم ہوتا ہے، لیکن در حقیقت اس میں کوئی تضاد نہیں۔ اقبال نے بالتکرار سینکڑوں اشعار میں تقلید کی مذمت کی ہے اور تحقیق کی رغبت دلائی ہے۔ اجتہاد کے متعلق اقبال کے تصورات خطبات اور اشعار میں ایسے ملتے ہیں جن کو پڑھ کر مقلدوں کو اس کی جرأت پر حیرت ہوتی ہے۔ لیکن اقبال جب ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے کوئی گروہ ایسا دکھائی نہیں دیتا جو اسلامی روح کے مطابق اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو، اور جو لوگ اجتہاد کی جرأت کرتے ہیں وہ آزاد خیالی میں یا تقلید فرنگ میں اسلام سے دور جا پڑتے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں ایسے خام مدعیان اجتہاد کی بجائے اسلاف کی تقلید بہتر ہے۔ بچوں کی عقل جب تک علم اور تجربے سے پختہ نہیں ہوتی تب تک ان کی تربیت کا مدار تقلید پر ہوتا ہے۔ اس انحطاط کے دور میں بھی اقوام عقل و حکمت کے بارے میں طفل نابالغ بن جاتی ہیں یا پیر فرتوت کی طرح جدت افکار و اعمال کے ناقابل ہو جاتی ہیں۔ جب قوم میں زندگی کے چشمے خشک ہو جائیں تو وہ روایت پرست اور مقلد ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ تقلید اور روایت پرستی میں کسی ہمت اور جرأت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مسلمانوں میں اس وقت ایک طبقہ جامد اور کورانہ تقلید اسلاف میں زندگی کی ارتقائی کوششوں کے لیے نااہل ہو گیا ہے اور دوسرا طبقہ مغرب زدہ روشن خیالوں کا ہے، جن کے لیے تہذیب جدید کا ہر نظریہ اور ہر طرز عمل سند ہے۔ یہ آزاد خیالی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن در حقیقت یہ بھی مقلد ہی ہیں۔ جب تک قوم میں نئی زندگی ابھرنے کے سامان پیدا نہ ہوں تب تک ہر طرف مقلد ہی مقلد نظر آئیں گے۔ اگر تقلید ہی کو شیوہ بنانا ہے تو پھر اپنے اسلاف کی تقلید اغیار کی تقلید سے بہتر ہے۔

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ عہد حاضر کے فتنوں نے ہماری ملت کو اپنے جلوؤں سے چند ھیا دیا ہے اور ہمارے باطن کی آگ ٹھنڈی ہو گئی ہے:

جلوہ اش ما را ز ما بیگانہ کرد

ساز ما را از نواپیگانہ کرد

ازل دل ما آتش دیرینہ برو

نور و نار لا الٰہ از سینہ برو

مضمحل گردد چو تقویم حیات

ملت از تقدیر می گیرد ثبات

ماضی کی معتقدانہ تقلید سے جوے کم آب ہی ملے گی جو ہماری زندگی کو پوری طرح سیراب نہیں کر سکتی لیکن جب دریا ریگستان میں گم ہو گیا تو بچی کھچی چھوٹی سی نہر ہی کی حفاظت کریں :

بحر گم کر دی زیاں اندیش باش

حافظ جوے کم آب خویش باش

تقلید کی یہ تلقین ایک مردہ قوم کے لیے ہے۔ اقبال ملت اسلامیہ کو دور حاضر میں مردہ ہی سمجھتا ہے، اگرچہ اس کے احیا سے نا امید نہیں۔ اب یہی بہتر ہے کہ اللہ اللہ کرو اور طرز فکر و عمل میں کسی گذشتہ امام کی تقلید ہی کر لو، لیکن یہ تقلید خدائے روح نہیں بلکہ مریض میں جو جان کی رمق باقی دکھائی دیتی ہے، اس کو سنبھالنے کے لیے ایک دوا ہے:

اے پریشان محفل دیرینہ ات

مرد شمع زندگی در سینہ ات

نقش بر دل معنی توحید کن

چارۂ کار خود از تقلید کن

یہ نصیحت عوام کے لیے ہے جن میں ہمارے کم علم اور بے بصیرت علماء کا ایک طبقہ بھی داخل ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ اس نصیحت کو اقبال اپنے لیے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا اپنا ذوق تو یہ ہے کہ اجتہاد اور جدت و قدرت میں اگر غلطی بھی سر زد ہو تو وہ اس کی مقلدانہ نیکی پر ترجیح دیتا ہے:

تراش از تیشہ خود جادۂ خویش

براہ دیگراں رفتن عذاب است

گر از دست تو کار نادر آید

گنا ہے ہم اگر باشد ثواب است

٭٭٭

چہ خوش بودے اگر مرد نکو پے

ز بند پاستان آزاد رفتے

اگر تقلید بودے شیوۂ خوب

پیمبرؐ ہم رہ اجداد رفتے

اتباع آئن کی تلقین پر ایک اور نظم ہے جس میں شریعت اسلام کی ماہیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ شریعت اور عشق دونوں کی ماہیت سے ناواقف لوگوں نے ان کو باہم بر سر پیکار سمجھ رکھا ہے۔

درکفے جام شریعت درکفے سندان عشق

یہ بحث اسلام سے زیادہ قدیم ہے۔ موسوی شریعت رفتہ رفتہ اس قدر پیچ در پیچ اور زندگی کے لیے جنجال بن گئی کہ اس کی تفصیل پابندیوں میں روح دین غائب ہو گئی۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اس ظاہر پرستی اور شعائر پرستی کی شدت کے اخلاف احتجاج کیا۔ یہودی علماء نے ان پر مخالف شروع ہونے کا الزام لگایا اور ان کو مصلوب کرانے کے درپے ہو گئے۔ ہرچند کہ حضرت مسیح ؑ کہتے رہے کہ میں شریعت کو منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ اس کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔ میں تمہیں شریعت کے ظاہر کی نسبت اس کے باطن کی طرف متوجہ ہونے کی تعلیم دیتا ہوں۔ حضرت مسیح ؑ کے بعد پولوس نے شریعت موسوی سے تنگ آ کر یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ مسیح ؑ کی آمد سے محبت نے شریعت کو منسوخ کر دیا ہے۔ عیسوی تاریخ میں اس کے اچھے نتائج نہ نکلے۔ کسی نہ کسی شریعت کی ضرورت تو زندگی کے لیے لابدی ہے۔ جب قسطنطین کے عیسائی ہونے سے مملکت غار نشیں راہبوں کے ہاتھ آ گئی تو ان کو آئین و قوانین وضع کرنے پڑے اور مسیح (علیہ السلام) کی بجائے کلیسا شریعت گر ہو گیا۔

اسلامی شریعت کی نسبت اقبال کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص اسلامی شریعت کے حقائق سے اچھی طرح آشنا ہو تو اس پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ یہاں شریعت اور محبت میں کوئی تضاد نہیں اور شریعت کے ہر حکم کی تہ میں محبت ہی کا جذبہ ہے:

علم حق غیر از شریعت ہیچ نیست

اصل سنت جز محبت ہیچ نیست

اب ہمارے ہاں شریعت کے علم بردار اور مدعی ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ ان کے فروعی مناقشات میں محبت کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ غیر مسلموں اور عام انسانوں سے محبت تو درکنار اپنوں میں تفرقہ اندازی حامیان شریعت کا شیوہ بن گیا ہے۔ لعن و طعن اور تشنیع کا بازار گرم رہتا ہے۔ شریعت اسلامی کی اساس حکمت بھی ہے اور محبت بھی اور اس کا مقصد انسانوں کی قوتوں میں اضافہ کرنا ہے:

قدرت اندر علم او پیداستے

ہم عصا و ہم ید بیضاستے

اگر مستحب کی ادائیگی میں کوئی شخص یا گروہ مزاحم ہو تو اس کو ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ دشمن اگر مطمئن اور جنگ کے لیے تیار نہ ہو تو اس کو بے خبر اور کمزور پا کر اس پر حملہ آور ہونا حرام ہے۔ چنانچہ سلطان صلاح الدین نے یروشلم پر حملہ کرنے سے پیشتر دشمن کو پیغام بھیجا کہ اگر تم جنگ چاہو تو میں تم کو اپنی قوتوں کو مستحکم اور منظم کرنے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں مہیا کروں گا، لیکن میں صلح کو اپنے لیے اور تمہارے لیے جنگ کے مقابلے میں بہتر سمجھتا ہوں۔ کمزور جانوروں کے شکار سے شکاری خود سست اور پست ہمت ہو جاتا ہے۔ دشمن کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا اصول شجاعت کے خلاف ہے:

نیست میشے ناتوانے لاغرے

در خور سر پنجہ شیر نرے

باز چوں با صعود خوگر می شود

از شکار خود زبوں تری شود

اسلامی شریعت نے رہبانیات کو اس لیے مزموم قرار دیا کہ اسلام سراپاپیغام عمل ہے :

ہست دین مصطفیؐ دین حیات

شرع او تفسیر آئین حیات

صیقلش آئینہ سازد سنگ را

از دل آہن رباید زنگ را

مسلمان جب عجم میں پہنچے تو ذوق قوت نزاکت اور لطافت میں منتقل ہو گیا۔ شیرافگن مسلمان نواے عندلیب سے بیتاب ہونے لگے، یارگ گل سے بلبل کے پر باندھنے لگے:

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

آنکہ کشتے شیر را چوں گو سفند

گشت از پامال مورے درد مند

آنکہ از تکبیر او سنگ آب کشت

از صفیر بلبلے بیتاب کشت

عجمی تصورات میں لطافت افکار بھی ہے اور پرواز تخیل بھی اور اس کے فن میں ذوق جمال بھی ہے، لیکن اسلام کی شریعت، بصیرت اور قوت سے اس کو لگاؤ معلوم نہیں ہوتا۔ بیچارے مرزا غالب نے صاف طور پر اقبال کیا کہ میں عجمی نہاد ہوں اس لیے دین عربی میرے دل و دماغ میں نہیں گھستا:

رموز دیں نشناسم عجب مدار ز من

کہ دین من عربی نہاد من عجمی است

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ احمد رفاعی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے ایک مرید کونصیحت کی کہ عجمی افکار سے پرہیز کرنا:

با مریدے گفت اے جان پدر

از خیالات عجم باید حذر

زانکہ فکرش گرچہ از گردوں گذشت

از حد دین نبی بیروں گذشت

ایک نظم میں اپنے بچپن کے ایک واقعے کو نظم کیا ہے کہ میں نے ایک سائل کو تنگ آ کر زد و کوب کی۔ والد صاحب کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے عجیب موثر انداز میں مجھے تنبیہہ کی کہ اسلام تو شفقت بر خلق کا نام ہے اور اس کا نبی رحمۃ للعالمین ہے۔ جب روز محشر میں سب کے سامنے مجھ سے پوچھا جائے گا کہ اپنے بیٹے کی تو نے یہی تربیت کی تھی کہ وہ ایک سائل بے نوا کو مارے پیٹے تو میں کس قدر شرمندہ ہوں گا۔ قرآن و سنت رحمت و شفقت کی تعلیم ہے:

فطرت مسلم سراپا شفقت است

در جہاں دست و زبانش رحمت است

اقبال نے شمع و شاعر میں ایک شعر کہا تھا:

زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات

یہ کبھی شبنم کبھی گوہر کبھی آنسو ہوا

اب اقبال یہ کہتا ہے کہ شبنم اور آنسو بننے سے بہتر ہے کہ قطرہ گوہر بن جائے، لیکن قطرہ آغوش تلاطم میں گوہر بنتا تھا، اس لیے شریعت اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ مزاحمتوں اور خطروں پر غالب آ کر انسان اپنے نفس کو قوی بنائے:

قطرۂ نیساں کہ مہجور از یم ست

نذر خاشاکے مثال شبنم است

طینت پاک مسلماں گوہر است

آب و تابش از یم پیغمبرؐ است

اس کے بعد ایک نظم میں اس خیال کی توضیح کی ہے کہ حیات ملیہ کے لیے کوئی مرکز محسوس بھی ہونا چاہیے۔ مسلمان کعبے کے سنگ و خشت کی پرستش نہیں کرتا، لیکن یہ مرکز محسوس شرق و غرب اور شمال و جنوب کے لاتعداد مسلمانوں کے لیے ایک نقطہ جاذب ہے جو حیات ملت میں ہم آہنگی اور وحدت کو ترقی دیتا ہے۔

پہلے زندگی کی ماہیت کے متعلق نہایت حکیمانہ اشعار کہے ہیں کہ حیات رم پیہم ہے مادہ ہو یا نفس اس میں مسلسل روانی اور تغیر احوال ہے۔ زندگی سراپا پرواز ہے، لیکن نشیمن بھی خود ہی بناتی ہے۔ عارضی طور پر سکون و جمود کی آفرینش کا مقصد بھی یہی ہے کہ ذوق خرام میں افزائش ہو:

پا بگل گردد حیات تیز گام

تا دو بالا گردوش ذوق خرام

زندگی دو گھڑی کا وقفہ ہے

یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر

(میر)

زندگی خود اپنے رشتے میں گرہیں ڈالتی ہے تاکہ گرہ کشائی کی لذت حاصل ہو:

دمبدم مشکل گر و آشان گزار

دمبدم نو آفرین و تازہ کار

جس طرح حیات رواں کچھ عرصے کے لیے بدن میں اپنے آپ کو محدود کرتی ہے اسی طرح روح ملت کے لیے بھی ایک بدن کی ضرورت ہے۔ بیت الحرام اسی روح کا ایک مادی مرکز و مسکن ہے۔ مختلف قومیں اپنے جھنڈوں کو اقتدار و وقار کا مرئی مرکز بنا لیتی ہیں اور جنگ و صلح میں جھنڈے کے وقار کو قومی وقار کی علامت سمجھتی ہیں، حالانکہ مادی حیثیت میں جھنڈا محض ایک لکڑی کا ٹکڑا اور دو چار گز کپڑا ہوتا ہے۔ بیت الحرام اپنی روایات کے لحاظ سے ان جھنڈوں سے بہتر مرکز عقیدت ہے:

قوم را ربط و نظام از مرکزے

روزگارش را دوام از مرکزے

راز دار و راز ما بیت الحرام

سوز ما ہم ساز ما بیت الحرام

امتیں جمعیت ہی سے قائم و استوار رہتی ہیں۔ بیت الحرام جمعیت میں ایک قوی معاون ہے۔ امت موسوی کی جمعیت اس لیے پریشان ہوئی کہ اس کا مرکز اس کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ اس کا معبد منہدم ہو گیا جس کی باقی ماندہ ایک دیوار پر اس تمام دنیا کے زائر یہودی سر ٹکرا کر گریہ و زاری کرتے ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ سے ملت مسلمہ کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ اپنی جان سے زیادہ اس مرکز کی حفاظت کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ ایک روز علامہ مجھ سے فرمانے لگے کہ صلوٰۃ کا لفظ نماز کے علاوہ معبد کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور قرآن جو صلوٰۃ وسطیٰ کی خاص حفاظت پر زور دیتا ہے میرے نزدیک اس کے معنی بیت الحرام کی حفاظت ہیں۔ معلوم نہیں کہ دیگر مفسرین کہاں تک علامہ کی اس تاویل سے متفق الرائے ہوں گے۔

لیکن کعبہ مسلمانوں کی نظر گاہ نہیں۔ مسلمانوں کا حقیقی نصب العین حفظ و نشر توحید ہے۔ تمام دین توحید کی تشریح ہے اور تمام عبادات و شعائر اسی کو قائم رکھنے کے ذرائع ہیں۔ توحید ہی ملت اسلامیہ کا امتیازی جوہر ہے اور توحید ہی اس کی جمعیت کی شیرازہ بند ہو سکتی ہے۔

زندگی کی حقیقت مقصد کوشی ہے۔ توحید و وحدت آفرینی سے زیادہ بلند اور کوئی مقصود نہیں ہو سکتا۔ تمام مقاصد اسی کے زیر نگیں ہونے چاہیں۔ ادنیٰ مقاصد ادنیٰ وحدتیں پیدا کرتے ہیں، اعلیٰ ترین مقصد وسیع ترین وحدت حیات پیدا کر سکتا ہے:

چوں حیات از مقصدے محرم شود

ضابط اسباب ایں عالم شود

راہ پیمائی کسی منزل ہی کی طرف ہو سکتی ہے۔ اگر منزل معین نہ ہو تو دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان جامد و ساکن ہو کر رہ جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ہرزہ گرد ہو جائے۔ ’’بسکہ دراز او فتد جادہ ز گمراہیم‘‘ (غالب)۔ قیس صحرا میں آوارہ دکھائی دیتا ہے لیکن وہ محمل لیلیٰ کی تلاش میں گرم رو ہے۔ جسم انسانی کے اندر بھی بے انتہا اور گوناگوں اعمال و وظائف بقائے حیات کے واحد مقصود سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں :

گردش خونے کہ در رگ ہائے ماست

تیز از سعی حصول مدعا ست

جس قدر کسی کا مقصد بلند ہوتا ہے، اسی قدر اس کی ہمت اور قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بقول شاعر:

ہمت بلند دار کہ نزد خدا و خلق

باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو

جب کسی قوم میں شدید جدوجہد دکھائی دیتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی شاہد مقصود کی طرف دیوانہ وار بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مقصود کو ہر دم پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ایک قدیم صوفیانہ محاورہ ہے کہ جو دم غافل سو دم کافر۔ پاؤں کا کانٹا نکالنے کے لیے ایک مسافر کارواں سے ذرا الگ ہوا اتنے میں محمل نظر سے اوجھل ہو گیا اور وہ سو سال تک صحرا میں اس کی تلاش میں حیران و سرگرداں رہا:

رفتم کہ خار از پا کشم محمل نہاں شد از نظر

یک لحظہ غافل گستم و صد سالہ راہم دور شد

زندگی مقاصد کی جستجو اور تگ و دو میں قرنہا سے تجربے کرتی چلی آ رہی ہے۔ کئی معبود ان باطل بنائے اور پھر ان کو توڑ ڈالا، آخر کار اس پیکار حیات نے ارتقاء کی آخری منزل میں انسان کو توحید سے آشنا کیا جو منتہائے حیات ہے۔ ’’ والیٰ ربک المنتہیٰ‘‘ :

مدتے پیکار با احرار داشت

با خداوندان باطل کار داشت

تخم ایماں آخر اندر گل نشاند

با زہانت کلمہ توحید خواند

توحید کے عرفان ہی سے زندگی میں تمام جمال و جلال پیدا ہوتا ہے۔ اس سرچشمہ حیات کی حفاظت مقصود حیات ہے۔ جب تک عالم پر یہ راز افشا نہ ہو تب تک مسلمان کو دم نہ لینا چاہیے:

زانکہ در تکبیر راز بود تست

حفظ و نشر لا الٰہ مقصود تست

تا نہ خیزد بانگ حق از عالمے

گر مسلمانی نیاسائی دمے

اسی عقیدے نے انسانوں کو توہمات سے پاک کیا ہے اور ہر قسم کے خوف کو اس کے دل سے دور کیا ہے۔ فکر انسانی بار بار بت گری اور بت پرستی کی طرف عود کرتا ہے۔ پہلے اصنام کو توڑتا ہے تو دوسرے اصنام تراش لیتا ہے۔ عصر حاضر میں فرنگ کی بدولت رنگ و ملک و نسب کی پرستش ہو رہی ہے اور خدا پر عقیدہ توہم پرستی شمار ہوتا ہے۔ ان بتوں کو توڑنے کے لیے پر ایمان ابراہیمی اور توحید محمدیؐ کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان نے یہ کام نہ کیا تو اور کون کرے گا؟ اس عرفان کا جائز وارث تو وہی ہے، لیکن میراث پدر خواہی علم پدر آموز۔ علامہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس خیال سے لرزہ آتا ہے کہ روز شمار میں جب خدا تم سے پوچھے گا کہ تمہیں پیغام حق دیا تھا کہ اسے دوسروں تک پہنچا دو، یہ کام تم لوگوں نے کیوں نہ کیا، تو مسلمان کس قدر شرمندہ اور ذلیل ہو گا۔ دوسروں تک پہنچانا تو درکنار یہاں اپنے اندر ہی سے توحید غالب ہو گئی ہے، کلمہ لا الٰہ زبان پر رہ گیا ہے، باقی سب کچھ یا شرک جلی ہے یا شرک نفی:

او خویشتن گم است کرا رہبری کنہ

اس کے بعد اقبال کا خاص موضوع آتا ہے کہ عالم کی قوتوں کی تسخیر کے بغیر حیات ملی میں وسعت اور قوت پیدا نہیں ہو سکتی۔ قرآن نے آدم کو مسجود ملائک اور مسخر کائنات بنایا تاکہ تمام ارضی اور سمادی، مادی اور روحانی قوتوں کی تسخیر سے وہ نائب الٰہی بن سکے۔ رہبانیت نفسی احوال میں مبتلا ہو گئی اور حکمت فرنگ نے تمام قوتیں تسخیر عالم محسوس میں صرف کر دیں۔ دونوں طریقوں سے زندگی کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ہستی کا ظاہر اور باطن دونوں حیات الٰہی کا انکشاف ہیں۔ ’’ ہو الظاہر ہو الباطن‘‘ حاضر کو غیب کے حقائق کے مطابق ڈھالنا اور دنیا کو دین بنانا مقصود اسلام اور غایت حیات ہے۔ با آسمان پرداختن کے ساتھ ساتھ کار زمین رانکو ساختن کا عمل بھی جاری رہنا چاہیے۔ فقط بانادیدہ پیمان بستن سے حیات گریز رہبانیت ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ ہندو مت، بدھ مت اور عیسائیت کی ابتداء میں ایسا ہی ہوا۔ اسلام نے حاضر کا پیوند غیب سے لگایا اور انفس و آفاق کو ہم آغوش کرنے کی تلقین کی۔ ماسوا نہ فریب ادراک ہے اور نہ حقیقت ابدی ہے۔ اس کی آفرینش کا مقصود ہی یہی ہے کہ اس کی تسخیر سے نفس ترقی کریں :

اے کہ با نادیدہ پیمان بستہ ای

ہمچو سیل از قید ساحل رستہ ای

چون نہال از خاک ایں گلزار خیز

دل بغائب ہند و با حاضر ستیز

ہستی حاضر کند تفسیر غیب

می شود دیباچہ تسخیر غیب

ماسوا از بہر تسخیر است و بس

سینہ او عرصہ تیر است و بس

ملت اسلامیہ کے انحطاط کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ فرنگ تسخیر آفاق میں لگا رہا اور اس کی بدولت غیر معمولی قوتیں پیدا کر لیں، مگر مسلمان فقط بے حضور نمازیں پڑھتے رہے۔ یا ظواہر و شعائر کی پابندی میں لگے رہے۔ قرآن نے مشاہدہ کائنات کو عبادت قرار دیا تھا، مسلمان قرآنی آیات کی تلاوت کرتے رہے لیکن عمل دوسروں نے کیا۔ جن قوموں نے خارجی فطرت کی قوتوں کو مسخر کیا انہوں نے مسلمانوں کو بھی آ دبوچا۔ مسلمان بے بس اور مغلوب ہو کر خدا سے شکوہ کرنے لگے کہ یہ کیا بات ہے کہ دوسری امتیں تیرا نام بھی نہیں لیتیں اور با وقار ہیں۔ توحید کی امامت ہمارے سینوں میں ہے لیکن ہم ہی ذلیل ہیں :

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

(غالب)

امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں

عجز والے بھی ہیں مست مے پندار بھی ہیں

ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں

سینکڑوں ہیں جو ترے نام سے بیزار بھی ہیں

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

اس کا جواب خدا نے یہی دیا کہ تمہاری شکایت بے بنیاد ہے۔ کافر کو جو کچھ ملا وہ کفر کا اجر نہیں ہے بلکہ کافر کی زندگی میں اسلامی عناصر کی جزا ہے:

مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

ابھی تک کثرت سے مسلمان اس وہم میں مبتلا ہیں کہ فرنگ مادہ پرست ہے اور اس کی تمام ترقی مادی ہے۔ روحانیت اور نجات کے اجارہ دار ہم ہی ہیں۔ یہ چند روزہ دنیا کا عیش کافروں کے لیے ہے، ابد الآباد تک رہنے والی جنت کے ہم حقدار ہیں۔ قرآن نے کیا خوب کہا ہے کہ یہود و نصاریٰ بھی روحانی اور اخلاقی تنگ نظری سے اسی قسم کے دعوے کیا کرتے تھے:

ہر کہ محسوسات را تسخیر کرد

عالمے از ذرہ تعمیر کرد

عقدۂ محسوس را اول کشود

ہمت از تسخیر موجود آزمود

کوہ و صحرا دست و دریا بحر و بر

تختہ تعلیم ارباب نظر

لیکن مسلمانوں کے لیے مذہب افیون بن گیا، دنیا اعتنا کے قابل نہ رہی۔ خدا نے ’’ فی الدنیا حنستہ و فی الاخرۃ حسنتہ ‘‘ کی سکھائی تھی اور اس دعا میں دنیا کو درست کرنا آخرت پر مقدم رکھا تھا اس لیے کہ دنیا ہی مزرعہ آخرت ہے۔ اگر کوئی ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے تو اس فردا میں ناکردہ کار کو کیا ثمر ملے گا؟ مسلمان نے آخرت پر نظر جمائے ہوئے دنیا کو کفار کے حوالے کر دیا:

اے کہ از تاثیر افیون خفتہ

عالم اسباب را دوں گفتہ

خیز و واکن دیدۂ مخمور را

دوں مخواں ایں عالم مجبور را

غایتش توسیع ذات مسلم است

امتحان ممکنات مسلم است

اگر ملت اسلامیہ آفاقی قوتوں کو مسخر نہ کر سکے گی تو آفاقی قوتوں کی تسخیر سے غیر مسلم اقوام اس کو مغلوب کر لیں گی:

گیر اور ا تا نہ او گیرد ترا

ہمچو مے اندر سبو گیرد ترا

زندگی میں حاجات اندیشہ و عمل کے توسن کے لیے تازیانہ ہیں۔ آدم کو عناصر پر حاکم بنایا گیا تھا۔ اگر وہ عناصر کی ماہیت سے آشنا نہ ہو اور ان سے کام نہ لے سکے، تو وہ نیابت الٰہی کا کیا حق ادا کرے گا؟

تا ز تسخیر قواے ایں نظام

ذو فنونیہاے تو گردد تمام

نائب حق در جہاں آدم شود

ہر عناصر حکم او محکم شود

اسی ظاہری فضا میں کئی عالم پوشیدہ ہیں۔ ہر ذرے کے اندر ایک خورشید کی قوت پنہاں ہے۔ اسرار موجودات کی گرہ کشائی سے بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور قوت بھی۔ باد و باراں اور برق و رعد مطیع و فرماں بردار ہوتے ہیں۔ سیلابوں میں بجلیاں ظہور کے لیے بیتاب ہیں۔ اقوام کہن ستاروں کی پرستش کرتی تھیں لیکن حکمت کی ترقی نے انسان کے ادراک کو ان پر محیط کر دیا:

جستجو را محکم از تدبیر کن

انفس و آفاق را تسخیر کن

عرفان حکمت اشیاء کی بدولت ناتواں قومیں غیر معمولی قوت حاصل کر کے بڑی بڑی جابر قوموں کی گردن مروڑ دیتی ہیں۔ شجاعت بے حکمت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور اقوام حکیم کی باج گزار ہو جاتی ہیں :

تا نصیب از حکمت اشیا برو

ناتواں باج از توانایاں خورد

خدا نے مجھے بار بار تاکید کی کہ فطرت کو غور سے دیکھ۔ نباتات، حیوانات، جمادات سب میں آئین الٰہی تلاش کر۔ تو فقط ’’ انظر‘‘ والی آیات ہی دہراتا رہا۔ دیکھا دکھایا کچھ نہیں۔ قرآن حکیم فقط تلاوت کے لیے تو نہ تھا، اس کا اصل مقصود صحیفہ فطرت کے مطالعے سے حقائق الٰہیہ کا اخذ کرنا تھا۔ تو نے مشاہدۂ کائنات کو کوئی عبادت ہی نہ سمجھا اور اسے دنیائے دوں کا ایک شغل قرار دیا۔ اب اس کی سزا بھگت رہا ہے:

تو کہ مقصود خطاب ’’انظری‘‘

پس چرا ایں راہ چوں کوران بری

سید احمد خان اور مرزا غالب جن کے انداز فکر، طرز زندگی اور مقصود حیات میں بے حد تفاوت نظر آتا ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کو محض ایک عسکری کامیابی کا نتیجہ نہ سمجھتے تھے۔ ان دونوں کی بالغ نظری پر یہ منکشف ہو گیا تھا کہ یہ نئی حکمران قوم محض تاجر اور کشور کشا نہیں بلکہ طبعی سائنس کی بدولت فطرت کی قوتوں کو مسخر کر کے بے بصر اقوام پر غالب آ گئی ہے۔ اب مشرقیوں کو ان سے کچھ سیکھنا ہے۔ سید احمد خان کو لوگ قابل اعتراض حد تک مداح و مقلد فرنگ سمجھتے تھے لیکن مرزا غالب کی ترقی پسندی کی یہ کیفیت تھی کہ جب سید صاحب نے آئین اکبری کی تصحیح اور حواشی کے ساتھ پسندیدہ انداز میں شائع کیا اور مرزا غالب کو تقریظ کے لیے یہ کتاب بھیجی تو مرزا صاحب اس قدر برہم ہوئے کہ سید صاحب سے قدیم دوستی بھی مخالفانہ تنقید پر غالب نہ آ سکی۔ تعریف کی بجائے اس تقریظ میں جو غالب کے کلیات فارسی میں شامل ہے، وہ سید صاحب کے اس کارنامے پر افسوس کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مردہ پروری تو عقلمندوں کا کام نہیں۔ یہ پرانے آئین اب فرسودہ ہو چکے ہیں۔ ’’ زمانہ دگر گونہ آئین نہاد، اب اس حکمت اور اس قانون پر غور کرو جو حکمت پسند ملت فرنگ اپنے ساتھ لائی ہے۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ اس قوم نے فہم فطرت سے تسخیر فطرت کا کام کیا ہے۔ الفاظ ہوا میں اڑ کر دور دراز مقامات تک پیغام پہنچا دیتے ہیں۔ اس قوم نے حروف کو پیامبر کبوتر بنا دیا ہے اور ان کے ساز دیکھو کہ بے زخمہ و مضراب بجتے ہیں۔ ‘‘ تسخیر فطرت کے مضمون میں علامہ اقبال نے مرزا غالب کے حوالے سے دو چار اشعار لکھے ہیں۔ غالب کے اشعار میں ایک یہ شعر تھا:

حرف چوں طائر بہ پرواز آورند

نغمہ را بے زخمہ از ساز آورند

علامہ فرماتے ہیں :

آنگہ بر اشیا کمند انداخت است

مرکب از برق و حرارت ساخت است

حرف چوں طائر بہ پرواز آورد

نغمہ را بے زخمہ از ساز آورد

سید صاحب جب اپنے دو بیٹوں حامد و محمود کو ہمراہ لے کر انگلستان گئے تو وہاں ہر طبقے میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر نے بھی ان کے اعزاز میں ایک ڈنر دیا جس میں زیادہ تر ماہر انجینئرز ہی مدعو تھے۔ سید صاحب کو وہاں کچھ تقریر کرنا پڑی اس تقریر میں سید صاحب نے کہا کہ تمہاری قوم کو اپلائڈ سائنس اور انجینئرنگ کی بدولت عروج اور غلبہ حاصل ہوا ہے۔ برق اور بھاپ سے کام لینے والے اور ریلیں، تلغراف اور پل بنانے والوں نے تمہاری سلطنت کو قوت بخشی ہے۔ اپنے وطن میں سید صاحب کی کوششوں کا محور بھی یہی تصور تھا کہ اسلام بھی مسلمانوں سے یہی تقاضا کرتا تھا لیکن افسوس ہے کہ وہ اس سے غافل ہو کر ضعیف اور مغلوب ہو گئے۔ عقائد و اخلاق کو تو مغرب سے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، اس کا قیمتی سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے۔ لیکن تسخیر فطرت سے رو گردانی کی وجہ سے یہ کیفیت ہو گئی ہے کہ زندگی کی دوڑ میں ہم لنگڑے بن گئے ہیں۔ حکمت اشیاء سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ہم اس آدم کے وارث نہیں رہے جس کی نسبت قرآن نے ’’ علم آدم الاسمائ‘‘ کہا تھا۔ یہ اسما محض نام اور الفاظ نہ تھے بلکہ صفات اشیا و حوادث کا علم تھے۔ جن اقوام نے اس حقیقت کو پا لیا وہ ہم سے آگے نکل گئیں اور ہم پس ماندہ قوم رہ گئے:

اے خرت لنگ از رہ دشوار زیست

غافل از ہنگامہ پیکار زیست

ہمر ہانت پے بہ منزل بردہ اند

لیلیٰ معنی ز محمل بردہ اند

تو بصحرا مثل قیس آوارۂ

خستہ واماندہ بیچارہ

علم اسماء اعتبار آدم است

حکمت اشیاء حصار آدم است

اقبال فرنگ کی سائنس اور اس  سے پیدا شدہ تسخیر فطرت کا مخالف نہیں، وہ جس حکمت فرنگ کے خلاف احتجاج کرتا ہے وہ مادیت کا نظریہ حیات ہے جو خارجی فطرت کے ایک غلط تصور سے پیدا ہوا۔ خود فرنگ کے اکابر حکما اور سائنس دان اس فلسفے پر ویسی ہی تنقید کرتے ہیں جو اقبال کے کلام میں ملتی ہے اور اپنے انگریزی خطبات میں اقبال نے زیادہ تر انہیں حکمائے فرنگ کی بالغ نظری کے نمونے پیش کیے ہیں۔

اس کے بعد رموز بے خودی میں یہ مضمون ملتا ہے کہ جس طرح تکمیل ذات کے لیے فرد کو احساس خودی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح ملت کی بھی ایک خودی ہے جو افراد کی خودی سے وسیع تر اور قوی تر ہے۔ اس کی تکمیل بھی لازمی ہے اور یہ تکمیل تسخیر فطرت کے علاوہ ضبط روایات ملیہ ہی سے ہو سکتی ہے۔ پہلے کچھ اشعار میں یہ بتایا ہے کہ فرد کی خودی کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ بچہ اپنی حقیقت سے کچھ واقف نہیں ہوتا، اس کا کام کھانا سونا اور بات کرنا سیکھنے کے بعد ہر چیز کے متعلق سوالات کرنا ہے: یہ کیا ہے؟ یہ کیوں ہے؟ اور یہ کیسے ہے؟ ان سوالات کی کثرت سے ماں باپ زچ آ جاتے ہیں۔ زندگی کا یہی آئین ہے۔ پہلے تمام توجہ غیر خود پر مبذول ہوتی ہے اور اپنے من کا کوئی احساس نہیں ہوتا کسی قدر فہم ماسوا کے بعد بچے میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں میں ہوں۔ تمام دیگر نفوس اور اشیاء سے الگ ایک ہستی رکھتا ہوں، ماضی حال اور مستقبل سب اس میں کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ مسلسل جسمانی تغیرات اور بدنی نشوونما کے باوجود وہ اپنی خودی کو ایک غیر متغیر اور مستقل چیز سمجھتا ہے:

یاد او با خود شناسایش کند

حفظ ربط دوش و فردایش کند

گرچہ ہر دم کاہد افزاید گلش

نمن ہما نستم کہ بودم در دلش

ایں نمن، نوزادہ آغاز حیات

نغمہ بیداری ساز حیات

ملت نوزائیدہ بھی کمسن بچے کی طرح ہوتی ہے اس کا نہ کوئی ماضی ہوتا ہے اور نہ اسے مستقبل کا کوئی واضح احساس ہوتا ہے۔ ویروز و امروز و فردا کا شیرازہ بند انا ابھی اس میں نہیں ہوتا، بستہ با امروز او فرداش نیست اس کی ہستی جسمانی آنکھ کے مماثل ہوتی ہے جو ہر شے کو دیکھتی ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی:

چشتم ہستی را مثال مردم است

غیر را بینندہ و او خود گم است

جب کوئی ملت حوادث و افکار کی پیکار میں کچھ عرصہ بسر کر چکتی ہے تو اس کے اندر ایک ملی انا کا شعور ترقی کرتا ہے۔ قوم اپنی سرگزشت سے افکار و تاثرات کی ثروت حاصل کرتی ہے۔ اگر کوئی قوم اپنے ماضی کو فراموش کر دے یا کوتاہ بینی سے عملاً اپنا رشتہ اس سے منقطع کر لے تو وہ نابود ہو جاتی ہے:

سر گزشت او گر از یادش رود

باز اندر نیستی گم می شود

حفظ روایت کی سوزن سے ربط ایام کا پیرہن تیار ہوتا ہے جو ناموس ملت کا محافظ بھی ہوتا ہے اور اس کے لیے باعث تزئین بھی۔ نافہم لوگ تاریخ کو محض پرانی داستانیں سمجھتے ہیں اور ’’ ہذا اساطیر الاولین‘‘ کہہ کر اس کی حقیقت سے غافل رہتے ہیں۔ تاریخ تو ایک ملت کا حافظہ ہے؟ فرد میں سے حافظہ غائب ہو جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ قوم بھی اگر اپنی تاریخ سے غافل ہو جائے تو اس کا بھی یہی حال ہو گا۔

تاریخ ایک ساز ہے جس کے تاروں میں تمام نغمہ ہائے رفتہ اسیر ہوتے ہیں۔ صدیوں کی پرانی شراب اس کے خم و مینا میں ہوتی ہے، اس کی کہنگی مستی میں اضافہ کرتی ہے:

بادۂ صد سالہ در مینائے او

مستی پارینہ در صہبائے او

زندہ قوموں کو دیکھو کہ کمال جدت پسندی کے ساتھ ساتھ اپنی روایات کے متعلق کس قدر قدامت پرست ہوتی ہیں۔ دوش و امروز کا پیوند نفس ملت میں لذت اور قوت پیدا کرتا ہے۔ ہر قوم کا حال اس کے ماضی کی پیداوار ہے اور اس کا مستقبل اس کے ماضی و حال کا نتیجہ ہو گا۔ یہ وسعت زمانی اور ہزار سالہ حوادث کی حافظے میں یکجائی حیات ملی کی کفیل ہوتی ہے:

سر زند از ماضی تو حال تو

خیزد از حال تو استقبال تو

مشکن از خواہی حیات لازوال

رشتہ ماضی ز استقبال و حال

لیکن قوی روایات کی حفاظت اس انداز کی نہیں ہونی چاہیے کہ ملت ماضی پرست ہو کر جامد ہو جائے اور زندگی کے ہر نئے اقدام کو یہ کہہ کر ٹھکرا دے کہ ہمارے قدیم عقائد و اعمال ہمارے لیے کافی ہیں۔ ’’ ما وجد نا علیہ آبا ننا‘‘ ہر نبی کے مخالفوں نے یہی راگ الاپا۔ قرآن نے اس روایت پرستی کی شدید مذمت کی ہے اور تاریخ سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ اقبال جیسے جدت پسند اور انقلاب آفریں انسان کے ہاں حفظ روایات کا کوئی جامد مفہوم نہیں ہے۔ زندگی اپنے کسی انداز کو جوں کا توں نہیں دہراتی۔ ماضی سے صحت مندانہ ربط حیات آفرین ہوتا ہے لیکن ماضی کی مقلدانہ پرستش حیات ملی کو جامد کر دیتی ہے۔

غیر مسلم اور متعصب مخالفین اسلام نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ اسلام نے عورت کو بہت ادنیٰ مرتبہ دیا ہے۔ اس اعتراض کا نشانہ مسلمان اس لیے بنے کہ انہوں نے اپنی معاشرت میں اسلام سے بیگانہ ہوتے ہوئے عورتوں کو رسوم و رواج اور مردانہ خود غرضی کے پیدا کردہ غلط آئین کی بدولت بہت کچھ بے بس بنا دیا۔ اسلام نے جو حقوق عورتوں کو عطا کیے تھے۔ مسلمانوں نے رفتہ رفتہ ان کو سلب کر لیا اور ان نادانوں اور ہوس پرستوں کی وجہ سے اسلام بدنام ہو گیا۔ اسلام میں عورت اور ماں کا جو رتبہ ہے اس پر اقبال نے رموز بے خودی میں ایک بلیغ نظم لکھی ہے۔

خدا نے مرد و زن کو ایک دوسرے کا لباس بنایا، ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بغیر اقدار حیات کے لباس سے عریاں ہو جاتا ہے۔ عشق حق کا آغاز ماں کی محبت سے ہوتا ہے:

عشق حق پروردۂ آغوش او

رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خوشبو، نماز اور عورت کی مثلث مقدس کو اس دنیا کی پسندیدہ چیزیں قرار دیا ہے۔ یہ تینوں جسمانیا ور روحانی لطافتوں کا جوہر ہیں۔ جس مسلمان نے عورت کو محض اپنا پرستار اور اپنے ادنیٰ اغراض کا تختہ مشق سمجھ لیا وہ قرآن کی حکمت سے بے بہرہ رہا :

مسلمے کو را پرستارے شمرد

بہرۂ از حکمت قرآن نہ برو

اسلام نے جنت کا مقام ماں کے قدموں کے نیچے قرار دیا۔ امت اور امومت میں گہرا معنوی ربط ہے۔ نبی کی شفقت اپنی امت پر بھی مادرانہ شفقت ہوتی ہے۔ سیرت اقوام انبیاء کی تعلیم اور مثال سے بنی ہے یا اچھی ماؤں کی شفقت اور تربیت سے:

شفقت او شفقت پیغمبر است

سیرت اقوام را صورتگر است

ہست اگر فرہنگ تو معنی رسے

حرف امت رازبا دارو بسے

انسانی روابط میں محبت کا رشتہ قائم کرنے کے لیے قرآن تکریم ارحام کی تعلیم دیتا ہے۔ انسانی زندگی میں امومت کا یہ مقام ہے کہ اگر کوئی بے علم ماں جو ظاہری حسن و جمال نہ رکھتی ہو، سادہ اور کم زبان ہو لیکن ایک غیور مسلمان حق پرست اس کے بطن سے پیدا ہو اور اس کی آغوش میں پرورش پائے تو بقا و احیائے ملت کے لیے ایک اتنا عظیم الشان کارنامہ ہے کہ بڑے بڑے تعمیری کام اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں جن پر مرد فخر کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر کوئی نازک اندام، پری وش بعض مغربی عورتوں کی تقلید میں تہی آغوش رہے اور بار امومت کو اپنے لیے بار خاطر سمجھے تو اسے عورت نہیں کہنا چاہیے؟ ایسی عورت انسانیت کے لیے باعث شرم ہے۔ حیا نا آشنا آزادی ملت کشی کا سامان ہے۔ بے شمار ارواح جو وجود پذیر ہونے کے لیے مضطرب ہیں وہ امہات کی بدولت عالم ممکنات سے عالم وجود میں آتی ہیں۔ کسی قوم کا سرمایہ نقد و قماش و سیم و زر نہیں بلکہ اچھے انسان ہیں جو خیابان ریاض مادر سے گل و لالہ کی طرح چمن افروز ہستی ہوتے ہیں۔

جس قوم میں عورتوں کی زندگی احترام سے محروم ہے وہاں مردوں کو بھی حیات صالح نصیب نہیں ہو سکتی۔ ایک حکیم کا قول ہے کہ کسی قوم کی تہذیب کو جانچنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں عورت کا کیا مقام ہے اگر عورت ذلیل ہے تو قوم بھی ذلیل اور تہذیب سے عاری ہے:

بردمد ایں لالہ زار ممکنات

از خیابان ریاض امہلات

قوم را سرمایہ اے صاحب نظر

نیست از نقد و قماش و سیم و زر

مال او فرزند ہائے تندرست

تر دماغ و سخت کوش و چاق و چست

حافظ رمز اخوت مادراں

قوت قرآن و ملت مادراں

مسلمان عورتوں کے لیے اسوۂ کاملہ سیرۃ النساء فاطمۃ الزہرا (رضی اللہ عنہا) ہیں۔ عیسوی دنیا مریم طاہرہ و صدیقہ کی پرستش کرتی ہے، مسلمانوں کے دلوں میں بھی حضرت مریم کا بڑا احترام ہے اور یہ فقط اس نسبت سے ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں ہیں اور ان کی عفت کا خدا شاہد ہے۔ لیکن فاطمۃ الزہرا تین بلند پایہ نسبتوں کا مرکز ہیں : ایک عظیم المرتبت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی، علی (رضی اللہ عنہ) جیسے جلیل القدر انسان کی بیوی اور امام الشہداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی ماں۔ تمام دنیا کی تاریخ کو ٹٹولیے اس قسم کی تین نسبتیں ایک عورت میں کبھی جمع نہ پاؤ گے۔ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی حریت آموز سیرت کا سرچشمہ اخلاق پدر بھی ہے اور اخلاق مادر بھی لیکن ماں کی سیرت فرزند میں زیادہ موثر ہوتی ہے اس لیے کہ بیداری شعور سے پہلے اس کے اثرات تحت الشعور میں مرتسم ہو جاتے ہیں :

سیرت فرزند ہا از امہات

جوہر صدق و صفا از امہات

فاطمۃ الزہرا ایک یہودی محتاج کی مدد کے لیے اپنی چادر فروخت کر ڈالتی ہیں، عرب کے بادشاہ کی بیٹی ہیں لیکن کوئی خدمت گار نہیں۔ قرآن کی آیات دہراتی ہوئی چکی پیستی رہتی ہیں :

آں ادب پروردۂ صبر و رضا

آسیا گردان و لب قرآن سرا

رشتہ آئین حق زنجیر پاست

پاس فرمان جناب مصطفیؐ ست

ورنہ گرد تربتش گردیدمے

سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمے

اس کے بعد مسلمان عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال ان کو دور حاضر کے فتنوں سے آگاہ کرتا ہے جو عورت کی طینت پاک کی تخریب کے درپے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تقلید فرنگ پر مسلمان عورت دین و اخلاق سے کنارہ کش ہو کر جھوٹی آزادی کے چسکے میں اپنی پاکیزہ فطرت کو خیر باد کہہ دے:

دور حاضر تر فروش و پرفن است

کاروانش نقد دیں را رہزن است

کور و یزداں ناشناس ادراک او

ناکساں زنجیری پیچاک او

ہوشیار از دستبرد روزگار

گیر فرزندان خود را در کنار

نسوانی فطرت میں خدا نے بلند جذبات رکھے ہیں، ان کی حفاظت فاطمۃ الزہرا کے نمونے پر زندگی بسر کرنے ہی سے ہو سکتی ہے۔ اگر اس فطرت کو پاک رکھا گیا تو حسین (رضی اللہ عنہ) منش انسان آغوش مادر میں تربیت حاصل کر سکتے ہیں :

تا حسینے شاخ تو بار آورد

موسم پیشیں بگلزار آورد

سورۂ اخلاص توحید کی تعلیم کا لب لباب ہے۔ قرآنی فصاحت کا کمال ہے کہ چار مختصر جملوں نے توحید کے قلزم زخار کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ تمام قرآن مجید ہی کی تشریح ہے اور تمام حکمت بھی توحید ہی کے اندر پنہاں ہے۔ دین کی اصل توحید ہے باقی جو کچھ ہے وہ اس کی فرع ہے اس لیے مثنوی رموز بیخودی کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال نے سورۂ اخلاق ہی کی مختصر مگر بلیغ شرح لکھی ہے۔

فرماتے ہیں کہ مجھے خواب میں حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا دیدار نصیب ہوا، میں نے عرض کیا کہ آپ نے اسلام کی اساس کو پختہ کرنے میں غیر معمولی بصیرت و ہمت و ایثار سے کام لیا، اب اس ملت کی بنیادیں متزلزل ہو رہی ہیں، اس تعمیر کو سنبھالنے کے لیے کوئی علاج تجویز فرمائیے:

پختہ از دستت اساس کار ما

چارۂ فرما پے آزار ما

اس کا جواب یہ ملا کہ مسلمان اس توحید سے بیگانہ ہو گئے جو وحدت آفرین تھی۔ اسلام نے نسلی اور قبائلی امتیازات کو مٹا کر ایک ملت بنائی تھی لیکن اب تمہارا یہ حال ہے کہ تم پھر قبائل پرستی پر اتر آئے ہو۔ گویا اسلام سے قبل کے زمانہ جاہلیت کی طرف عود کر آئے ہو جس میں سب سے زیادہ موثر جذبہ قبیلوی عصبیت تھا:

خویشتن را ترک و افغان خواندہ

وائے بر تو آنچہ بودی ماندہ

با یکی ساز از دوئی بردار رخت

وحدت خود را مگرداں لخت لخت

زبان سے وحدت کا کلمہ پڑھتے ہو اور عمل سے ملتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہو۔ توحید اگر وحدت ملت میں مشہود نہ ہوئی تو وہ محض ایک لفظ بے معنی رہ گئی۔ جو ایمان عمل میں منعکس نہ ہو وہ ایمان ہی مردہ ہے:

صد ملل از ملتے انگیختی

بر حصار خود شبیخون ریختی

یک شو و توحید را مشہود کن

غائبش را از عمل موجود کن

لذت ایمان فزاید در عمل

مردہ آں ایمان کہ ناید در عمل

اللہ الصمد

صمد کے معنی ہیں وہ ہستی جو کسی غیر اور ماسوا کی محتاج نہ ہو مگر تمام مخلوقات و موجودات اپنے وجود کے لیے اس کے محتاج ہوں۔ ’’ تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کی تعلیم کے مطابق مسلمان کو بھی اپنے اندر یہ بے نیازی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انسان کو حاجات کا شکار نہیں ہونا چاہیے، احتیاج انسان کے نفس کو کمزور کر دیتی ہے اور تمام قوت و محبت اور ایثار کو سلب کر لیتی ہے۔ بے نیازی مال و جاہ سے حاصل نہیں ہوتی ’’ آنانکہ غنی تراند محتاج تراند‘‘ یہ طبیعت کا ایک انداز ہے جو نادار کو قارون پر فضیلت بخشتا ہے۔ اسی بے نیازی کی بدولت انسان راست باز ہوتا ہے، خود دار ہوتا ہے اور نشتر لا و نعم اس کے سینے میں نہیں چبھتا۔ دنیا عالم اسباب ہے لیکن انسان کو بندۂ اسباب نہیں بننا چاہیے:

بندۂ حق بندۂ اسباب نیست

زندگانی گردش دولاب نیست

مسلم استی بے نیاز از غیر شو

اہل عالم را سراپا خیر شو

رزق کے لیے دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا خودی کو سوخت کر دیتا ہے۔ دانا مسافر کو جب دشوار گزار راستوں سے دور دراز کا سفر درپیش ہوتا ہے تو اشد ضروری چیزوں کے علاوہ فالتو سامان اپنے اوپر نہیں لادتا۔ سفر زندگی میں بھی فراوانی سامان سے آسائش کی کوشش نہ کرو یہ سامان تمہارے لیے گلے کا طوق اور زنجیر پا ہو جائے گا۔ فراوانی کی کوشش تم کو حقیر انسانوں کے سامنے نیاز مند بنا دے گی:

گرچہ باشی مور و ہم بے بال و پر

حاجتے پیش سلیمانے مبر

راہ دشوار است سامان کم بگیر

در جہاں آزاد زی آزاد میر

حکیم سقراط کا بھی ایک قول مشہور ہے کہ کم احتجا انسان الوہیت کے صفات سے بہرہ اندوز ہوتا ہے کیونکہ خدا بھی بے احتیاج ہونے کی وجہ سے بے نیاز ہے۔ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) بھی یہی نصیحت فرماتے تھے اور اس کا بہترین نمونہ خود تھے:’’ اقل من الدنیا تعش حرا‘‘ دنیاوی حاجتوں کو کم سے کم کرو، آزادی اور حریت کی زندگی اسی طرز عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ مرد حر کو فقط اتنے ہی مال کی ضرورت ہے جو اس کو سائل اور گداگر ہونے سے محفوظ رکھے۔ مال کا مصرف یا خدمت خلق ہے یا اپنی خود داری کی حفاظت مگر مال کی محبت کے بغیر منعم ہونا سائل ہونے سے بہتر ہے:

تا توانی کیمیا شو گل مشو

در جہاں منعم شو و سائل مشو

بے نیاروں کی جائز ضرورتیں پورا کرنے کا مشیت الٰہی میں ایک پنہاں قانون موجود ہے:

خود بخود گردد در میخانہ باز

برتہی پیمانگان بے نیاز

رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ مال سے بے نیاز شخص کون ہو گا لیکن خدا نے ان کی ہر ضرورت بڑی ہو یا چھوٹی، بے منت غیرے ہمیشہ پوری کی۔ جو شخص چاہے کاہلانہ بے پروائی نہیں بلکہ عارفانہ بے نیازی کو شیوہ بنا کر اس کو اپنی زندگی میں آزما کر دیکھ لے۔ یہاں بو علی قلندر کا ایک شعر علامہ اقبال نے نقل کیا ہے:

پشت پا زن تخت کیکاؤس را

سربدہ از کف مدہ ناموس را

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

خلیفہ ہارون الرشید کے سوانح حیات میں لکھا ہے کہ اس نے امام مالک سے درخواست کی کہ دار الخلافت بغداد میں آ کر اپنی مسند بچھائیے، یہاں بڑی رونق اور زندگی کی گہما گہمی ہے۔ یہاں ہر قسم کی قدر دانی ہو گی۔ اس مرد خود دار اور عاشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مدینے سے ہلنا گوارا نہ کیا۔ فرمایا کہ میں یہاں بندۂ آزاد ہوں اور میرا سر آستانہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ہے۔ عشق خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کہتا ہے کہ تو بادشاہوں کو اپنا خدمت گزار بھی نہ بنا، چہ جائیکہ میں بادشاہوں کا ملازم ہو جاؤں۔ اگر علم دین کا شوق ہے تو یہیں مدینے میں تشریف لائیے: پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے، کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا:

تو ہمہ خواہی مرا آقا شوی

بندۂ آزاد را مولا شوی

بہر تعلیم تو آیم بر درت

خادم ملت نگردد چا کرت

بہرۂ خواہی اگر از علم دیں

درمیاں حلقہ درسم نشیں

٭٭٭

بے نیازی رنگ حق پوشیدان است

رنگ غیر ازپیرہن شوئیدن است

اے مسلمان تیری ذات کا سبب یہی ہے کہ تجھ میں خود داری کا فقدان ہے۔ اغیار کے علوم پڑھتے ہو اور مقلدانہ فطرت کی وجہ سے ہر خیال کو بے چون و چرا قبول کر لیتے ہو۔ اغیار کے شعار سے ارجمند ہونا چاہتے ہو۔ تمہاری عقل افکار غیر سے پا بزنجیر ہے تمہاری زبان پر جو باتیں ہیں وہ تمہارے اپنے دل و دماغ کی پیداوار نہیں ؟ تمہاری آرزوئیں بھی دوسروں سے مستعار لی ہوئی ہیں۔

بر زبانت گفتگوہا مستعار

در دل تو آرزو ہا مستعار

اے مسلمان تو اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان بھول گیا ہے جو شخص دوسری اقوام سے مشابہت پیدا کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہو جاتا ہے۔ اور ملت اسلامیہ کا فرد نہیں رہتا۔

لست منی گویدت مولاے ما

واے ما اے واے ما اے واے ما

تو نے اپنی حقیقت سے غافل ہو کر کیمیا کے بدلے مٹی خریدی ہے:

بر دل خود نقش غیر انداختی

خاک بردی کیمیا در باختی

فرد فرد آمد کہ خود را وا شناخت

قوم قوم آمد کہ جز با خود نساخت

لم یلد و لم یولد

خدا کے ہاں صلبی پیدائش کا کوئی سوال نہیں، علامہ فرماتے ہیں کہ مرد موحد خدا کی اس صفت سے بھی ایک سبق حاصل کر سکتا ہے۔ جسمانی لحاظ سے تو ہر انسان کسی کا بیٹا اور کسی کا باپ ہے لیکن یہ جسمانی ولدیت بہت ثانوی چیز ہے۔ حضرت سلمان فارسی سے لوگوں نے ان کا شجرۂ نسب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا ’’ سلمان ابن اسلام‘‘ مسلمان کی اصل نسبت اسلام سے ہے، اب دام سے نہیں۔ توحید پر ایمان لانے سے ایمان کی کیفیت شہد کی سی ہو جاتی ہے جس میں ہزاروں پھولوں کا رس اس طرح آمیختہ ہے کہ کوئی قطرہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری اصل لالہ ہے یا گلاب یا نگرس۔ لم یلد و لم یولد کا پر تو اگر مومن کی زندگی پر پڑے تو اس کے احساس ملی میں نسب کو کوئی مقام نہ ہو:

قوم تو از رنگ و خوں بالاتر است

قیمت یک اسودش صد احمر است

قطرۂ آب وضوے قنبرے

در بہا بر تر ز خون قیصرے

گر نسب را جزو ملت کردۂ

رخنہ درکار اخوت کردہ

مسلمان کا نہ کوئی وطن ہے اور نہ کوئی رشتہ نسب اس کے لیے کوئی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا وطن بھی اسلام اور اس کا نصب بھی اسلام۔ عشق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس تمام ملت کا شیرازہ بند ہے جو اطراف و اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں عقائد اور فقہ میں بہت سے اختلاف پائے جاتے ہیں اور ہر فرقہ وجہ اختلاف کو اس قدر اساسی تصور کر لیتا ہے کہ اس کو کفر و اسلام کا معیار بنا لیتا ہے۔ خدا کی ذات و صفات کے متعلق بھی تصورات میں بے حد تفاوت پایا جاتا ہے۔ لیکن شاید ہی کوئی شخص اسلامی دنیا میں ایسا مل سکے جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا دل بالکل خالی ہو۔ راقم الحروف کو ایسے مسلمانوں سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا ہے جو جدید الحادی تعلیم کی بدولت دین کے بنیادی عقائد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے کو تیار تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ نفسیات اس بارے میں کیا کہتی ہے کہ بے دین ہونے کے باوجود ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ عقائد سے معرا ہونے کے باوجود یہ شخص ملت اسلامیہ کے مفاد کے لیے سراپا ایثار تھا۔ مسلمان کی اسی نفسیات کو، جسے الحاد بھی بدل نہ سکا۔ اقبال نے ان اشعار میں پیش کیا ہے:

دل بہ محبوب حجازی بستہ ایم

زین جہت بایک دگر پیوستہ ایم

عشق او سرمایہ جمعیت است

ہمچو خون اندر عروق ملت است

ترک فرنگ آلودہ ہو جائے یا چینی اشتراکیت کی لپیٹ میں آ جائے لیکن جب کبھی نسل و نسب میں مختلف کسی مسلمان سے ملتا ہے تو اس کے دینے میں اخوت کے جذبے کی ایک لہر پیدا ہوتی ہے۔ یہ سب اس رشتے کی بدولت ہے جو عشق محمدی نے پیدا کیا:

باشیر اندرون شد و با جاں بدر شود (حافظ)

عشق در جان و نسب در پیکر است

رشتہ عشق از نسب محکم تر است

عشق و رزمی از نسب باید گذشت

ہم ز ایران و عرب باید گذشت

ہر کہ پا در بند اقلیم و جد است

بے خبر از لم یلد لم یولد است

ولم یکن لہ کفواً احد

تمام موجودات میں خدا کا کوئی ہمسر نہیں۔ یہ صفت بھی مرد مومن میں پیدا ہو جاتی ہے۔ لالہ سر کوہسار کی طرح وہ کسی گلچیں کے دامن میں نہیں پڑتا۔ وہ جہاں کے اندر ہے لیکن جہاں سے الگ اور بالاتر ہے۔ مومنوں کی ملت اسی طرح بے ہمتا ہو سکتی ہے کہ اس انداز کی کوئی اور ملت نہ ہو:

رشتہ با لم یکن باوید قوی

تا تو در اقوام بے ہمتا شوی

آنکہ ذاتش واحد است ولا شریک

بندہ اش ہم در نسازد با شریک

مومنوں کے متعلق جو ’’ انتم الاعلون‘‘ کی بشارت دی گئی ہے، اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ نہ صرف دوسری ملتوں بلکہ فطرت کی تمام قوتوں سے بالاتر ہے۔ جس مومن اور جس مومن کے یہ صفات بیان کئے گئے ہیں وہ اس وقت تو پردہ عالم پر کہیں نظر نہیں آ رہی۔ مرد مومن کی پرواز تو ایسی فلک رس ہونی چاہیے کہ اس کا طائر روح ستاروں میں دانہ چینی کرے بلکہ اپنی بلند پروازی میں افلاک کو پیچھے چھوڑ جائے۔ لیکن اس وقت مسلمان کا یہ حال ہے جیسے مٹی کے اندر بسنے والا کیڑا ہو جو فضائے ارضی سے بھی نا آشنا ہے۔ اپنے آپ کو پسماندہ اور ذلیل پا کر گردش ایام کا شکوہ کرتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ قرآن کو ترک کرنے کی وجہ سے اس کی یہ گت بنی ہے۔ مرد مومن کی پرواز کا تو یہ حال ہے کہ:

طائرش منقار بر اختر زند

آنسوے ایں کہنہ چنبر پر زند

تو بہ پروازے پرے نکشودۂ

کرمک استی زیر خاک آسودہ

خوار از مہجوری قرآں شدی

شکوہ سنج گردش دوراں شدی

مثنوی کے اختتام میں بحضور سرور کائنات مصنف کی عرض حال ہے۔

ویسے تو اقبال کا کلام خلوص سے لبریز ہے اور اس کی دلدوز تاثیر اسی خلوص کی بدولت ہے۔ محض فن اور صناعی سے یہ دل رسی پیدا نہیں ہو سکتی لیکن اس عرض حال میں خلوص اور عشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک ایسا ولولہ ہے کہ پڑھنے والے حساس انسان کی آنکھیں نمناک ہو جاتی ہیں۔ اقبال کی صحبت سے فیض یاب احباب سب نے یہ دیکھا کہ شباب غفلت انگیز کے دور سے لے کر شیب عرفان اندوز تک اس عاشقی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی یہی کیفیت رہی کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام سنتے ہی طبیعت پر رقت طاری ہو گئی۔ خواہ اقبال اس وقت رندوں کی محفل ہی میں ان کا ہم مشرب بن کر بیٹھا ہو۔ اس  عرض نیاز میں پہلے لبریز عشق کچھ اشعار کہے ہیں، اس کے بعد اپنی داستان درد بیان کی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ اقبال کے معتقدین اس کو عارف باللہ اور مجدد عصر سمجھنے لگے تھے اور اس کی خامیوں کا ذکر اس کی توہین شمار ہوتا تھا لیکن لوگوں کی عقیدت سے ناجائز فائدہ اٹھانا کبھی اقبال کا شیوہ نہ تھا دام واپسیں میں وہ اپنی تمام حالت کو طشت از بام کرتا ہے اور اپنی تمام عمر پر ایک نظر ڈالتا ہے۔ اپنا نامہ اعمال اس ہستی کے سامنے رکھتا ہے جو ناگفتہ بھی اس کے حال سے آشنا ہے۔ اپنی حالت کے ساتھ ساتھ ملت کی خستہ حالت کو بھی پیش کرتا ہے۔ نہ اپنے متعلق کسی غلط تفاخر سے کام لیتا ہے اور نہ ملت اسلامیہ کو اس کی موجودہ حالت میں وہ اسلام پر عمل پیرا سمجھتا ہے۔ اقبال کے نزدیک ملت کا حال اس زمانے میں ایک جسد بے روح کی طرح ہے۔

شروع یہاں سے کرتا ہے کہ جب سے میری نظر کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہستی آئی ہے تب سے میری یہی کیفیت ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے ماں باپ سے زیادہ محبوب ہو گئے:

عقل در من آتشے افروخت است

فرصتش باوا کہ جانم سوخت است

میری یہ کیفیت اس زمانے میں بھی تھی جب میں حسینوں سے عشق بازی کرتا تھا، ان کی صحبت میں شراب پیتا تھا:

مدتے با لالہ رویاں ساختم

عشق با مرغولہ مویاں باختم

بادہ ہا ہا ماہ سیمایاں زدم

بر چراغ عافیت داماں زدم

شباب کی ان ہوس رانیوں کے ساتھ ساتھ میرے تفکر اور عقائد کی یہ حالت تھی کہ عقل صنم تراش نے مجھے پجاری بنا لیا تھا۔ مگر خالی عقل و ظن انسان کو کسی یقین تک تو نہیں پہنچاتے، چنانچہ میں بھی یقین و ایمان سے خالی حقائق حیات کے بارے میں شک میں گرفتار تھا اور یہ تشکیک میرے تفکر کا جزو لاینفک بن گئی تھی۔ ظن و گمان کے سوا میرے پاس کچھ نہ تھا۔ ایک طرف حسینوں کا عشق ہوس پرور اور دوسری طرف عقل آزر پیشہ، ان دو بجلیوں نے میرا حاصل سوخت کر دیا تھا، میرا متاع خیال و دماغ ان دو ڈاکوؤں کی دست برد سے نہ بچا:

برق با رقصید گرد حاصلم

رہزتاں بردند کالاے دلم

عقل آزر پیشہ ام زنار بست

نقش او در کشور جانم نشست

سالہا بودم گرفتار شکے

از دماغ خشک من لا ینفکے

ترفے از علم الیقین ناخواندہ

در گمان آباد حکمت باندہ

ایک عرصے تک اس ظلمت عقل و ہوس میں گمراہ رہنے کے بعد مجھے توفیق الٰہی سے ایمان و یقین حاصل ہوا اور اسرار قرآن مجھ پر منکشف ہونے لگے۔ مجھے جو بصیرت حاصل ہوئی میں نے اسے آب حیواں سمجھ کر اس مردہ قوم کے حق میں ٹپکایا، مبدء فیاض نے نوا گری عطا کی تھی، میں نے شمع نوا سے محفل میں روشنی پیدا کی:

مردہ بود، از آب حیواں گفتمش

سرے از اسرار قراں گفتمش

محفل از شمع نوا افروختم

قوم را رمز حیات آموختم

لیکن افسوس کہ اس مردہ قوم کو زندہ نہ کر سکا، اب اس کی نعش کو میں حضور کے سامنے لایا ہوں کہ آپ ؐ ہی اس کے احیاء کا کوئی سامان پیدا کریں۔ مجھے اسرار قرآنی پیش کرنے کا اس مردہ قوم سے یہ صلہ ملا کہ لوگ کہنے لگے کہ یہ شخص فرنگستان سے کچھ باتیں سیکھ آیا ہے، اپنی شاعری سے وہی جادو ہم پر کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ساز میں سے جو آواز نکلتی ہے وہ حکمت قرآنی نہیں بلکہ ساز فرنگ کی غوغا آرائی ہے:

گفت برما بندد افسون فرنگ

ہست غوغایش بہ قانون فرنگ

جس قوم کا یہ حال ہو اس کو میرے جیسا نوا گر بے عمل کیا زندگی بخشے گا۔ مسلمان توحید و نبوت کے اسرار سے بیگانہ ہو گیا ہے۔ اس نے بیت الحرام کو بت خانہ بنا دیا ہے آپ کو موجد اور برہمن کو مشترک اور بت پرست کہتا ہے لیکن ہمارا شیخ، برہمن سے زیادہ کافر ہے۔ ایک پورا سومنات اس کے مغز کے اندر موجود ہے۔ کچھ عجمی تصورات کو اسلام سمجھ کر اپنے فکر و عمل کو انہیں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ اس کے اندر قلب زندہ نہیں رہا، وہ کافر کی طرح موت سے ترسان و لرزاں ہے۔ یہ کافر مسلم نما مجھ پر یہ الزام لگاتا ہے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ قرآن کی تعلیم کا ثمرہ نہیں ہے۔ اگر اس بارے میں میں نے اپنے آپ کو اور قوم کو دھوکا دیا ہے تو اسے محبوب خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی سزا یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں سب کے سامنے رسوا کیا جاؤں :

گر دلم آئینہ بے جوہر است

در بجرفم غیر قرآں مضمر است

پردۂ ناموش فکرم چاک کن

ایں خیاباں را ز خارم پاک کن

روز محشر خوار و رسوا کن مرا

بے نصیب از بوسہ پا کن مرا

ملت کی اس خستہ حالت کو بیان کرنے کے ساتھ ہی اپنی اس کوتاہی کو بھی حضور سرور کائنات ؐ میں پیش کیا ہے۔ کہ میری زندگی میں میرا عمل اس عشق و عرفان کا مظہر نہیں جو مجھے عطا ہوا اور جس سے میں نے دوسروں کو بھی زندہ کرنے کی کوشش کی۔ میری یہ عرض خدائے عز و جل کے سامنے پیش کر دیجئے کہ عشق اور علم کی دولت دی ہے تو عمل کی توفیق بھی عطا ہو:

عرضن کن پیش خداے عزوجل

عشق من گردد ہم آغوش عمل

دولت جان حزیں بخشندہ ای

بہرۂ از علم دیں بخشندہ ای

در عمل پایندہ تر گرداں مرا

آب نیسانم گہر گرداں مرا

ایک آرزو میرے دل میں ہمیشہ چٹکی لیتی رہی، لیکن میں شرم کے مارے اس کا اظہار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میرے اعمال میرے علم و عشق کے مقابلے میں نہایت پست تھے:

زندگی را از عمل ساماں نبود

پس مرا ایں آرزو شایاں نبود

شرم از اظہار او آید مرا

شفقت تو جرأت افزاید مرا

آرزو یہ تھی اور ہے کہ میری موت حجاز میں واقع ہو۔ تیرے دیار کے باہر تو مجھے دیر ہی نظر آتا ہے۔ بہت افسوس ہو گا کہ اگر میرے جسم کو بت خانے میں گاڑا جائے۔ اگر میں جوار روضہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں مدفون ہوں اور قیامت کے روز میرا حشر وہیں سے ہو تو میں اسے کمال سعادت سمجھوں گا:

حیف چوں اور ا سر آید روزگار

پیکرش را دیر گیرد در کنار

از درت خیزد اگر اجزاے من

واے امروزم خوشا فرداے من

کوکبم را دیدۂ بیدار بخش

مرقدے در سایہ دیوار بخش

افسوس ہے کہ اقبال کی اس آرزو کا اس انداز میں پورا ہونا تقدیر الٰہی میں نہ تھا، لیکن اس ہیچمدان کے نزدیک اس کی آرزو پوری ہوئی۔ اقبال کی تعلیم یہ تھی کہ مومن کا پیوند کسی خاک سے نہیں ہوتا۔ مومن کے تمام روابط روحانی ہوتے ہیں۔ اقبال کو عالم گیر کی عظیم الشان شاہی مسجد کے سایہ دیوار میں مرقد نصیب ہوا۔ ہر مسجد خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا گھر ہے۔ یہ مسجد لاتعداد مسلمانوں کے درود و سجود کا محل ہے۔ روحانی لحاظ سے یہ بھی روضہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا قرب ہے۔

اقبال جو اپنی بے عملی کا مسلسل اعلان کرتے رہے راقم الحروف اس سے متفق نہیں۔ کیا انسانوں کی بصیرت افروزی، ملت کی ہمت افزائی، عشق کی فراوانی اور ارزانی، تفکر کی وسعت اور ثروت، اعمال صالحہ میں داخل نہیں ؟ میرے نزدیک یہ عمل ہزار عالموں، عابدوں، زاہدوں اور صوفیہ کی ریاضتوں سے زیادہ با قیمت ہے۔ معلوم نہیں کہ علامہ اقبال اس کو کیوں عمل شمار نہ کرتے تھے۔ میرے نزدیک اقبال کے عارفانہ اور عاشقانہ کلام کا ہر شعر عبادت میں داخل ہے۔ اس سے زیادہ خدمت خلق اور کیا ہو سکتی ہے کہ رہتی دنیا تک لوگ اس کے کلام سے بلند ترین افکار اور تاثرات حاصل کرتے رہیں گے۔ یہ صدقہ جاریہ ہے۔ مومن کی زندگی کا نصب العین علامہ اقبال کے نزدیک اتنا بلند تھا کہ وہ اس عرش بوس بلندی کے مقابلے میں اپنے تئیں پستی میں محسوس کرتے تھے۔ مقصود کی بلندی کسی اعلیٰ درجے کے محسن انسان کو بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہیں رہنے دیتی۔ خوب تر کے مقابلے میں خوب بھی ناخوب دکھائی دیتا ہے۔ اقبال کے کلام سے بعض افراد کی زندگی میں ایک انقلاب آفریں ہیجان پیدا ہوا۔ آئندہ بھی ملت اسلامیہ کے ہر انقلاب میں اقبال موجود ہو گا۔ جس شخص کا پیغام سراپا پیغام عمل ہو، کیا وہ سرچشمہ عمل خود عمل سے محروم ہے؟ لوگوں نے جس چیز کو عمل سمجھ رکھا ہے وہ اس حیات افزا پیغام و تلقین کے مقابلے میں اکثر پست ہی ہوتا ہے۔ اقبال کو اپنی بے عملی پر جو افسوس ہے وہ اس کی علو ہمت اور رفعت مقاصد کا نتیجہ ہے۔ جن لوگوں کے مقاصد پست ہوتے ہیں وہ ان مقاصد کے حصول میں سرگرم عمل رہتے ہیں اور جو کچھ حاصل ہو جائے اس سے مطمئن بھی ہو جاتے ہیں لیکن گناہوں سے پاک اور اگلی پچھلی خطائیں بخشا ہوا نبی اپنی روحانی ترقی میں کسی موجودہ حالت پر قانع نہیں ہوتا اور گنہگاروں سے زیادہ استغفار اس کا صبح و شام کا وظیفہ ہوتا ہے۔ عمل میں کوتاہی کا احساس ایمان کی قوت اور مقصد کی بلندی کا شاہد ہے۔ ادنیٰ درجے کے لوگ جن اعمال کو حسنات شمار کرتے ہیں، بلند مقصد اور بلند حوصلہ انسانوں کو ان میں سیئات کا رنگ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

انیسواں باب

 

اقبال پر تین اعتراضات کا جواب

 

علامہ اقبال کے کلام اور پیام کی ایک امتیازی خصوصیت ہے، جو اس سے قبل نہ شعراء میں ملتی ہے اور نہ صوفیہ میں باستثناے چند نظر آتی ہے۔ مسلمان فقہا کی مرتب کردہ فقہ میں بھی یہ پہلو نمایاں نہیں۔ اقبال کی سب سے پہلی شائع شدہ مثنوی اسرار خودی ہے جو بانگ درا کے مجموعے سے بھی پیشتر شائع ہوئی۔ ان کے فلسفیانہ تفکر کا آغاز بھی خودی ہے، وسط بھی خودی اور انجام بھی خودی۔ سوال یہ ہے کہ اقبال نے زندگی کے اس پہلو اور اس نظریے کو مرکزی مقام کیوں دیا اور اسے اپنی تبلیغ کا محور کیوں بنایا؟ اس کے کئی وجوہ تھے۔ ایک یہ کہ اقبال کو نفس انسانی میں ایک زوال نا پذیر اور ابد کوش حقیقت محسوس ہوتی تھی۔ اکثر فلسفیوں اور مذاہب نے تکریم آدم کی بجائے ابطال ہستی انسانی کو عقائد کا محور و مقصود بنا لیا تھا۔ تکریم آدم کی تعلیم مخصوص اسلامی اور قرآنی تعلیم تھی انسان کو قرآن ہی نے نائب الٰہی اور خلیفۃ اللہ، مسخر کائنات اور مسجود ملائکہ قرار دیا تھا۔ اس تعلیم میں انسانی ممکنات حیات کی لامتناہی مضمر تھی اور مقصود حیات ممکن کو موجود بنانا تھا۔ اسی میں لا محدود ارتقاء کا راز پوشیدہ تھا۔ چونکہ انسان کبھی خدا یا ہستی مطلق نہیں بن سکتا اس لیے اس کی ترقی کی رفتار رک نہیں سکتی۔ خواہ وہ کسی عالم میں ہو۔ اس تعلیم کو خود مسلمانوں نے بھی پس پشت ڈال دیا تھا اور زندگی کا مقصود رسمی عبادت کے ذریعے سے جنت کا حصول رہ گیا تھا جو ایک محدود زندگی کے اعمال کا اجر ہے۔ اس کے بعد نہ کوئی عمل ہے، نہ ترقی، نہ آرزو، نہ جستجو، اقبال اس سکونی اور عشرتی تصور کو ایک جامد تصور سمجھتا تھا۔ اس تصور سے اخلاقی زندگی پر بھی اچھا اثر نہیں پڑتا کیونکہ اس نظریے میں اعمال کے نتائج ان کی ماہیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ثواب و عذاب اعمال پر خارج سے عائد ہوتے ہیں۔ نیکی آپ اپنا اجر اور بدی آپ اپنی سزا نہیں رہتی اور خیر و شر کے لیے کوئی داخلی معیار بھی قائم نہیں ہو سکتا۔

اقبال نے دیکھا کہ کچھ رہبانی نظریات کی بدولت جو مسلمانوں کی روحانی زندگی کا ایک جزو بن گئے تھے اور کچھ تکریم آدم کی تعلیم سے غافل ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی دینی، اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی حالت میں شدید انحطاط پیدا ہو گیا ہے جہاں کہیں اخلاق کی تعلیم ہے وہاں ایجابی پہلو کی نسبت سلبی پہلو غالب ہے۔ تقدیر کا غلط مفہوم انسانوں کو جری ہونے کی بجائے اپاہج بنا دیتا ہے۔ جبر و اختیار کے مسئلے میں مسلمانوں کی تعلیم میں جبر کا عنصر غالب ہو گیا تھا اور انسانی اختیار محض دھوکا رہ گیا تھا۔ لیکن جبر و اختیار اور خودی و بے خودی زندگی کے دو پہلو ہیں : ماہیت حیات کے اندر ان میں کوئی تضاد نہیں یہ تضاد استدلالی منطق کی پیداوار ہے۔ اقبال نے دیکھا کہ دین اور بے دینی دونوں انسان کی خودی کو سوخت کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ مادیت کے فلسفے نے نفس انسانی کی مستقل حیثیت ہی سے انکار کر دیا اور اسے مادی مظاہر میں سے ایک بے ثبات مظہر قرار دیا۔ خدا کے طالبوں کی نظر سے بھی انسان کی حقیقت اوجھل ہو گئی۔ عارفوں نے عرفان نفس کو عرفان الٰہی کا وسیلہ بنایا تھا لیکن اکثر صوفیہ اپنے نفس کو بے حقیقت بنا کر خدا کو تلاش کرنے لگے۔ ہستی مطلق کے تصور اور اس کی تلاش میں انسان کی ہستی گم ہو گئی۔ اقبال نے دیکھا کہ خودی کی موت سے فرد اور ملت دونوں پر موت طاری ہوتی ہے۔ اس لیے اقبال نے خدا پر کم لکھا ہے اور خودی پر بہت زیادہ، کیوں کہ اس کے نزدیک خودی ہی کی استواری سے خدا کے ساتھ رابطہ مستحکم ہوتا ہے۔ خودی کا لفظ ہماری ادبیات میں ایک بدنام لفظ تھا۔ اب یک بیک اس کی ستائش گری سے اکثر مسلمانوں کے اذہان کو ٹھوکر لگی۔ خودی کے قدیم مذموم مفہوم کو دماغوں سے نکالنا آسان نہ تھا اس لیے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال فرد اور ملت کے لیے ایک بے عنان آزادی اور جارحانہ زندگی کی تلقین کرتا ہے۔ قدیم تعلیم یہ تھی کہ تو خاک ہو کر اکسیر بن سکتا ہے:

نہ مارا آپ کو جو خاک ہو اکسیر بن جاتا

اگر پارے کو اے اکثیر گر مارا تو کیا مارا

(ذوق)

اس لیے عجز اختیار کر، تن بہ تقدیر ہو کر زندگی بسر کی، جو کچھ ہے وہ ازل سے مقرر ہے۔ اقبال نے کہا کہ انسان آپ اپنی تقدیر کو بناتا یا بگاڑتا ہے۔ کافر ہو تو انسان تابع تقدیر ہوتا ہے اور مومن ہو تو وہ خود تقدیر الٰہی بن جاتا ہے۔ مشیت الٰہی یہی ہے کہ انسان بھی خلاق قدرت کی طرح دوسرے درجے پر خالق بننے کی کوشش کرے۔ اقبال نے کہا کہ ہر طرح سے خودی کو استوار کرنے کی کوشش کرو۔ کہیں جلال سے کہیں جمال سے، جدوجہد سے، تسخیر نفس سے، تسخیر فطرت سے۔ خیر و شر کا معیار یہی ہے جو طرز نگاہ ا ور طریق عمل انسان کی ظاہری اور باطنی قوتوں میں اضافہ کرے وہ خیر ہے، جو ان کو کمزور کرے وہ شر ہے۔

اقبال کو عجمی شاعری، صوفیانہ شاعری اور مسلمانوں کی عام شاعری میں زیادہ تر انفعال ہی نظر آیا اور انفعال کی نسبت اقبال غالب کا ہم نوا تھا جو کہہ گیا تھا کہ انفعال سے زبونی ہمت پیدا ہوتی ہے اور زمانے سے عبرت حاصل کر کے زندگی کے متعلق قنوطی نظر پیدا کر لینا نفس کو کمزور کر دیتا ہے:

ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال

حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو

(غالب)

اسلامی روحانیت کی حیات افزا تعلیم یہ تھی کہ آرزوؤں کو فنا نہ کرو بلکہ ان کا مقصود بدل دو، دنیا کو ترک نہ کرو بلکہ دنیا کو دین بناؤ۔ مگر رفتہ رفتہ روحانیت نفس کشی کا نام ہو گیا۔ اسلام نے محنت مزدوری سے رزق حاصل کرنے والے کو محض رسمی عبادت گزار سے افضل قرار دیا تھا اور ’’ الکاسب حبیب اللہ‘‘ کہہ کر محنت کشوں کی ہمت افزائی کی تھی مگر اب اہل ظاہر کے لیے دین ظواہر کی پابندی اور اہل باطن کے لیے دین محض روحانی مشقوں اور اذکار کا نام رہ گیا تھا۔ اقبال نے جب اس نظریہ حیات کے خلاف جہاد کیا تو صوفی بھی اس کے خلاف ہو گئے اور ملا بھی اور دوسری طرف، مادہ پرستوں نے بھی اس کو رجعت پسند سمجھا۔

کسی صاحب کے ایک مضمون کا اقتباس مولانا عبدالسلام ندوی نے اپنی کتاب اقبال کامل میں نظام اخلاق کے باب میں دیا ہے جو کسی کوتاہ فہم نقاد کی تنقید ہے جسے ہم یہاں نقل کرتے ہیں :

’’ صوفی کہتے ہیں کہ چیونٹی بنو تاکہ لوگ تمہیں پاؤں کے نیچے روند کر زندان ہست و بود سے نجات دلوائیں۔ بھڑ نہ بنو کیوں کہ اگر بھڑ بنو گے تو خواہ مخواہ کسی کو ڈنک مارو گے اور وہ بے چارہ درد سے چیخنے چلانے لگے گا اور ممکن ہے کہ تم قہر الٰہی کا مستوجب بن جاؤ۔ بھیڑ بنو تاکہ تمہارے بالوں سے لوگ گرم کپڑے بنائیں اور تمہارے گوشت سے اپنا پیٹ بھریں۔ بھیڑیا نہ بنو کہ ناچار کئی جانوروں کو ہلاک کرو گے اور ان کی بد دعائیں لو گے۔ مچھلی بنو تاکہ لوگ تمہیں کھائیں نہنگ نہ بنو جو مچھلیوں کی ہلاکت کے درپے ہوتا ہے۔ ‘‘

لیکن اس کے برعکس علامہ اقبال کہتے ہیں کہ چیونٹی نہ بنو ورنہ لوگ تجھے روند ڈالیں گے۔ بھڑ بنو اور جو سامنے آئے اسے ڈنک مارو۔ بھیڑ نہ بنو بھیڑیا بنو۔ شبنم کا قطرہ نہ بنو، شیر کا چیتا بنو، سانپ بنو، اژدہا بنو، عقاب بنو، شہباز بنو، اگر جمادی زندگی پسند ہو تو پتھر بنو تاکہ کسی کا سر توڑ سکو۔ حیوانی جامے میں رہنا چاہتے ہو تو کسی قسم کا درندہ بنو۔ سست عناصر صوفیوں کی باتیں نہ سنو۔ وہ اپنی جان کے بھی دشمن ہیں اور تمہاری جان کے بھی۔

اس اقتباس کو پڑھ کر ’’ یھدی بہ کثیر و یضل بہ کثیرا‘‘ کی آیت یاد آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کی غلط فہمی کم فہم نقادوں کے ذہن میں کیوں پیدا ہوئی؟اس کی وجہ یہ ہے کہ قوت اندوزی کی تعلیم پر اقبال نے بہت زور دیا ہے۔ زندگی بقائے قوت اور ارتقائے قوت کا نام ہے۔ قوت کی بقا کے لیے مزاحم قوتوں پر غالب آنا لازمی ہے۔ زندگی ہر جگہ خیر و شر کی پیکار ہے یا ادنیٰ حالت سے نکل کر اعلیٰ حالت میں جانے کی کوشش ہے۔ زندگی نہ فکر محض کا نام ہے اور نہ لطیف تاثرات سے لطف اندوزی مقصود حیات ہے اور نہ ہی خدا کے ساتھ لو لگا کر گوشہ نشین ہونے سے نفس انسانی کا ارتقاء ہو سکتا ہے۔ مذہب، تہذیب، تمدن سب مسلسل پیکار کی بدولت پیدا ہوئے ہیں۔ اضداد کا تضاد رفع کر کے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش زندگی کی قوتوں میں نشوونما پیدا کرتی ہے۔ اقبال توسیع مملکت، نفع اندوزی یا غارت گری کے جذبے سے جنگ کرنے کا شدید مخالف ہے۔ وہ نوع انسان کی وحدت کا طالب ہے اور کہتا ہے یہ وحدت محبت کی جہانگیری اور اخوت کی وسعت سے پیدا ہوتی ہے۔ زمانہ حال کی اقتصادی جنگوں، جوع الارض کی جنگوں اور ضعیف اقوام کو مغلوب کرنے کی جگنوں کے خلاف اقبال نے جا بجا نفرت کا اظہار کیا ہے۔ اسلام صلح جوئی کا نام ہے مگر صلح جوئی شدید مجاہدانہ جدوجہد کی طالب ہے۔

ایک خط کے جواب میں اقبال نے اپنا نظریہ جنگ بہت صفائی سے واضح کیا ہے (اقبال نامہ صفحہ ۲۰۳) اس کو پڑھنے کے بعد کوئی شخص اقبال کو مسولینی اور ہٹلر کا ہم نوا نہیں سمجھ سکتا۔

معترض کا یہ کہنا کہ اقبال اس دور ترقی میں جنگ کا حامی ہے غلط ہے۔ ’’ میں جنگ کا حامی نہیں ہوں اور نہ کوئی مسلمان شریعت کے حدود معینہ کے ہوتے ہوئے جنگ کا حامی ہو سکتا ہے۔ قرآن کی تعلیم کی رو سے جنگ یا جہاد سیفی کی صرف دو صورتیں ہیں، محافظانہ اور مصلحانہ پہلی صورت میں یعنی اس وقت میں جب کہ مسلمانوں پر ظلم کیا جائے اور ان کو گھروں سے نکالا جائے، مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت ہے (نہ حکم) اور دوسری صورت جس میں قتال کا حکم ہے آیات ۴۹:۹ میں بیان ہوئی ہے۔ ان آیات کو غور سے پڑھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ چیز جس کو سیموئل ہور جمعیت اقوام کے اجلاس میں اجتماعی سلامتی کہتا ہے قرآن نے اس کا اصول کس سادگی اور فصاحت سے بیان کیا ہے۔ جنگ کی مذکورہ بالا دو صورتوں کے سوا میں اور کسی جنگ کو نہیں جانتا (جسے اسلام نے جائز سمجھا ہو) جوع الارض کی تسکین کے لیے جنگ کرنا دین اسلام میں حرام ہے۔ علیٰ ہذا القیاس دین کی اشاعت کے لیے تلوار اٹھانا بھی حرام ہے۔ جنگ ایک ناخوش آئند، زندگی کی مجبوری ہے۔ تشدد کے بغیر تو کوئی جنگ نہیں ہو سکتی، لیکن اسلام نے ایسی صورتوں میں بھی تاکید کی ہے کہ عدل اور رحم کو فراموش نہ کرو۔ جنگ اسلام کے نزدیک امراض اقوام کے لیے ایک عمل جراحی ہے، الم آفرینی اس کا مقصود نہیں۔ قرآن جہاد کی تعلیم کے ساتھ ساتھ نرمی کی تلقین کرتا ہے۔ کسی قوم کے خلاف جنگ کرتے ہوئے بھی محاربین کے سوا اور کسی پر تلوار نہ اٹھاؤ، بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو کوئی ضرر نہ پہنچے، مذہبی پیشواؤں کو کچھ نہ کہو، دیگر مذاہب کے معبدوں کو محفوظ رکھو، دشمن کی فصلوں کو مت جلاؤ ایسا نہ ہو کہ صلح کے بعد خلق خدا بھوکی مرنے لگے۔ ‘‘

عصر حاضر میں مسلمانوں میں ہر قسم کی جد و جہد غائب ہو گئی تھی۔ امیر ہو یا غریب کوئی حال مست، کوئی قال مست، کوئی مال مست، اور کثیر گروہ مصائب کا مقابلہ کرنے کی بجائے آفات ارضی و سماوی اور دستبرد حکام ظلام کو مشیت الٰہی سمجھ کر صابر یا آسودہ رسوائی۔ ایسی حالت میں سلبی اور انفعالی اخلاق کی بجائے ایجابی اور فعالی اخلاق کی ضرورت تھی۔ اقبال نے اس ضرورت کو بڑی شدت سے محسوس کیا اور بڑے زور و شور سے ایجابی نفسیات و اخلاقیات کی تلقین کی۔ اخلاق کا انفعالی پہلو اگر خاص حدود کے اندر رہے اور حیات فعال کے ساتھ اپنا توازن قائم رکھے تو اس سے بھی زندگی میں خصائل محمودہ پیدا ہوتے ہیں۔ توکل، قناعت، تواضع، خاکساری، عفو و در گذر، تسلیم و رضا، حلم، بردباری یہ بھی اخلاقی زندگی کے لیے لازمی اور پاکیزہ عناصر ہیں۔ لیکن افراد اور اقوام کی خاص حالتوں میں ان کے مقابلے میں ایجابی اخلاقیات کی تلقین ضروری ہو جاتی ہے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے کہ تواضع اچھی چیز ہے مگر عاجزوں کے مقابلے میں گردن کشوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے:

تواضع ز گردن فرازان نکوست

گدا گر تواضع کند خوئے اوست

چپ چاپ ظلم سہنے والا ہی ظالم کو ظالم بناتا ہے۔ دنیا میں اگر کوئی مظلوم بننے پر تیار نہ ہو تو ظالموں کا وجود بھی نہ رہے۔ ہماری قوم میں لوگ اپنے مظلوم ہونے اور بد طینت امرا یا حکام کے ظالم ہونے کی شکایت کرتے رہتے ہیں لیکن یہ عام شکایت لوگوں کو ظالموں کے خلاف جہاد کرنے پر آمادہ نہیں کرتی۔ یہ خودی کے ضعف کا نتیجہ ہے اگر مظلوموں کی خودی بیدار اور آمادہ بہ ایثار ہو جائے تو چشم زدن میں ظلم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اقبال مغلوب و مظلوم و مفتوح و مایوس کو خود داری کا پیغام دیتا ہے جو افراد کے اخلاقی ضعف اور تمام امراض ملی کا علاج ہے۔ ایسی حالت میں مسکینی کی تلقین مرض میں اور اضافہ کر دے گی۔ اقبال مسلمانوں کو کہتا ہے کہ فطرت کی قوتوں کی تسخیر سے اسباب حیات میں فراوانی پیدا کرو۔ حدیث شریف میں ہے کہ منعم محتاج سے افضل ہے اور اوپر والا ہاتھ یعنی دینے والا لینے والے کے ہاتھ سے اشرف ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے لیے اور اپنی امت کے لیے محتاجی سے پناہ مانگی ہے اور فرمایا ہے کہ محتاجی انسان کو کفر سے بہت زیادہ قریب لے آتی ہے۔ قرآن پوچھتا ہے کہ خدا کی نعمتوں اور آرائشوں کو نے حرام کیا ہے۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ زمین کے نہاں خانوں میں سے رزق نکالنے کی کوشش کرو۔ اہل فرنگ کی یہ ہمت کی تو اس کی بدولت وہاں ہماری طرح کے بھوکے اور ننگے ناپید ہو گئے۔ بہت سی بیماریاں ناپید ہو گئیں۔ ہمارے ہاں کے سست عناصر مذہبی پیشوا اس کو محض مادی ترقی کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور اپنے آپ کو روحانیت اور نجات کا اجارہ دار سمجھتے ہیں۔ خدا نے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کو سنوارنے کی تلقین کی کیوں کہ انسان آخر اس دنیا میں رہتا ہے۔ ایک مادی جسم رکھتا ہے اور مادی ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے۔ انسان خالی روح کا نام نہیں جو جسم اور عالم سے بے تعلق ہو کر بھی تزکیہ اور قوت پیدا کر سکے۔ مسلمانوں میں غیر اسلامی راہبانہ تصوف کا ایسا غلبہ ہوا کہ جدوجہد غائب ہو کر خالی انفعال رہ گیا اور اس عقیدے کی تعلیم دل نشین بن گئی کہ احتیاج دولتمندی سے اور بھوک پیٹ بھر کر کھانے سے بہتر ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ بھوکے سے نہ عبادت ہو سکتی ہے اور نہ خدمت خلق:

خداوند روزی بحق مشتغل

پرا گندہ روزی پرا گندہ دل

٭٭٭

شب چو عقد نماز بر بندم

چہ خورد بدامداد فرزندم

(سعدی)

خدا نے مومن کی معراج ’’ لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون‘‘ بتائی تھی کہ مومن اپنے کمال میں خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے، لیکن ہمارے ہا ں غم کی مدح سرائی سے تمام شاعری بھر گئی اور اردو شاعری کے کمال میں مرثیہ پیدا ہوا۔ اکثر شاعروں کا تغزل بھی اپنی اپنی زندگی کا مرثیہ ہی ہے۔ غم روزگار نہیں تو غم عشق ہی سہی۔ تمام زندگی غم کدہ بن گئی۔ ایسے ماتم کدوں میں خودی کا کیا احساس باقی رہ سکتا ہے؟ ہماری شاعری میں اقبال سے قبل زیادہ تر یا غم ہے یا غلامی، خواہ امراء کی غلامی ہو اور خواہ ہوس کی غلامی۔ اور عشق ہیں کہ ’’ آوارہ و مجنونے رسوا سر بازارے‘‘ ہونا قابل فخر سمجھ رہے ہیں۔ کوئی مصلح جو احیائے ملت کا خواہاں ہو اس کے لیے لازم ہو گیا کہ اس تمام حیات کش میلان کے خلاف شدید رد عمل پیدا کرے۔ اسی رد عمل نے اقبال کو خودی کا مبلغ بنا دیا۔ اس کی خودی میں نہ تکبر ہے اور نہ نخوت اور نہ ہی وہ محبت کے منافی ہے۔ اقبال کے ہاں خودی زندگی کا سرچشمہ ہے اور اس کی ماہیت وہ عشق ہے جو انسان کو رسوا نہیں کرتا بلکہ خود دار بناتا ہے اور اپنے نور و نار سے تمام زندگی کو حرارت اور فروغ بخشتا ہے۔ اقبال زندگی کی ہمہ سمتی جدوجہد کے لیے قوت کا طالب ہے مگر اس جدوجہد کا مقصود عشق کی فراوانی ہے۔ عجمی شاعری کا اثر اردو شاعری پر پڑا تو اس میں بھی وہی غلامانہ اور قنوطی تصورات پیدا ہو گئے، اسی لیے اقبال اس سے گریز کی تلقین کرتا ہے:

تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم

اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے

مولانا شبلی نے شعر العجم کی چوتھی جلد میں لکھا ہے:’’ عرب میں قوم کی باگ شعراء کے ہاتھ میں تھی وہ قوم کو جدھر چاہتے تھے جھونک دیتے تھے، جدھر سے چاہتے تھے روک لیتے تھے۔ افسوس ہے کہ ایران نے کبھی یہ خواب نہیں دیکھا۔ یہاں شعراء ابتدا سے غلامی میں پلے اور ہمیشہ غلام رہے۔ وہ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ ‘‘

اقبال نے فارسی اور اردو شاعری کا رخ بدل دیا اور اس سے وہی کام لیا جو عربی شاعر لیا کرتے تھے۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری۔

ایک دوسرا اعتراض اقبال پر یہ کیا گیا ہے کہ اس کا پیغام تمام بنی نوع انسان کے لیے نہیں بلکہ محض ملت اسلامیہ تک محدود ہے۔ کہ وہ مغربی قومیت پر معترض ہے لیکن خود بھی ملت پرست ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اسلامی قومیت کو جغرافیائی، لسانی اور نسلی حدود و قیود میں مقید کرنا نہیں چاہتا۔ وہ دوسروں کو برطرف کر کے فقط اپنی قوم کو ابھارنا چاہتا ہے۔ بعض ہندوؤں اور بعض فرنگیوں نے اس پر یہی اعتراض کیا، لیکن یہ اعتراض بھی کوتاہ بینی پر مبنی ہے۔ اقبال تو خیر ایک مفکر اور صاحب بصیرت شاعر ہی ہے، اگر کوئی نبی بھی ہو تو اس کی براہ راست اور اولین مخاطب اس کی اپنی قوم ہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی قوم کی اصلاح کو فرض اولین اس لیے قرار دیتا ہے کہ اس قسم سے اس کا گہرا نفسی رابطہ ہوتا ہے۔ وہ اس کے مزاج کو خوب سمجھتا ہے، اس کے جذبات سے آشنا ہوتا ہے، اس کے امراض کا داخلی علم رکھتا ہے۔ اس لیے ان کی حکیمانہ تشخیص کر کے ان کا محبوب علاج تجویز کر سکتا ہے۔ وہ ایک گروہ کو صالح بنا کر تمام انسانوں کے لیے اس کو نمونہ بنانے میں کوشاں ہوتا ہے۔ جو مصلح مسلمانوں کی جماعت میں پیدا ہوا ہے۔ اس کا فطری وظیفہ یہی ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ مسلمانوں کی زندگی کو صالح بنانے کی کوشش کرے۔ ’’ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘ فقط کہنے کی بات ہے ورنہ انسانی فطرت یہ ہے کہ ان افراد سے انسان کو جتنا قرب ہوتا ہے اسی نسبت سے اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے۔ ہر مصلح کی مخاطب پہلے اس کی اپنی قوم ہوتی ہے لیکن اس کی اصلاح میں عالمگیر عناصر ہوتے ہیں جو زمان و مکان اور حدود ملل سے ماوریٰ ہوتے ہیں۔ سقراط کو اخلاقی حکمت کا نبی کہتے ہیں مگر وہ ایشیا کا شہری تھا اس لیے تمام عمر اپنے شہر والوں کی عقلی اور اخلاقی اصلاح میں کوشاں رہا لیکن اصلاح کے جو اصول بیان کرتا تھا وہ انسان کی عام نفسیات پر حاوی تھے، اسی لیے آج تک فلسفہ اخلاق میں تمام دنیا اس کو امام سمجھتی ہے۔ وہ ایشیا سے باہر جانا نہ چاہتا تھا۔ جب خود غرض اقتدار پسندوں نے عوام کو بھڑکا کر اس کے لیے موت کا فتویٰ صدر کیا تو اس کے معتقدوں نے اس کو زندان سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہم نے انتظام کر لیا ہے کہ تم بے روک ٹوک کسی اور شہر میں جا سکو گے۔ اس نے فرار سے انکار کر دیا کہ میرا مشن اپنے شہر والوں سے وابستہ تھا میں غیر اقوام میں رہ کر کیا کروں گا؟ یہی حال اقبال کی تعلیم کا ہے وہ توحید اور عشق اور خودی کی تعلیم اپنی قوم کو دیتا ہے اور اسے اپنے دین کی فراموش شدہ حقیقت یاد دلاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ قوم اصلاح یافتہ ہو کر تمام نوع انسان کو توحید اور عالمگیر اخوت کا سبق دے۔ وہ اپنی قوم کو دوسری اقوام کے خلاف ابھرتا نہیں، نہ ہی دوسروں سے نفرت برتنے کو کہتا ہے۔ وہ در حقیقت ایک نظریہ حیات کا مبلغ ہے۔ جو قوم اس پر جتنی کاربند ہے اتنا ہی وہ اسے اسلام سے قریب سمجھتا ہے۔ ایسے شخص کو کسی تنگ معنوں میں ملت پرست نہیں کہہ سکتے۔ جس ملت کے وہ راگ الاپتا ہے، وہ اس کو اس وقت تو کہیں نظر نہیں آتی۔ وہ نوع انسان کے لیے ایک نصب ا لعین پیش کرتا ہے اور مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے کہ آئندہ وہ اس کو اپنا لائحہ عمل بنا کر دنیا کے سامنے انسانیت کا اچھا نمونہ پیش کریں تاکہ اخوت و محبت کو عالمگیر بنا دیں۔ محض اسلام کے نام لیواؤں کی ملت اس کے نزدیک وہ نصب العینی ملت نہیں۔ اسلام ایک زاویہ نگاہ ہے جس میں بھی وہ پیدا ہو جائے وہ مسلم ہے۔ ملتوں میں تفریق محض نظریہ حیات سے پیدا ہو سکتی ہے باقی تمام تفریقیں یوں ہی تفرقہ ہیں۔

تیسرا اعتراض اقبال کے کلام پر یہ کیا گیا ہے کہ اس کے اندر ہم آہنگی نہیں۔ زندگی کے اہم مسائل میں دو یا اس سے زیادہ باہم متخالف پہلوؤں میں سے ہر پہلو کی حمایت میں اقبال کے کلام کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کا اعتراض ہر بڑے مفکر کی نسبت ہو سکتا ہے۔ جس کے نظریات حیات میں مزید غور و فکر یا نئے حالات نے وقتاً فوقتاً تبدیلی پیدا کی ہو۔ وطن پرستی پر ولولہ انگیز نظمیں اقبال کے ابتدائی کلام میں موجود ہیں۔ لیکن وسعت فکر اور ترقی عرفان نے بعد میں اقبال کو اس کا شدید مخالف بنا دیا۔ یہ تو کوئی خوبی کی بات نہیں کہ انسان کے افکار میں تغیر اور ترقی دکھائی نہ دے۔ اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اقبال نبی نہیں ہے بلکہ ایک بلند پایہ شاعر ہے اور شاعر کی طبیعت میں جس وقت جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ اس کو موثر انداز میں پیش کر دیتا ہے، لیکن تاثرات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ انسان پر کبھی غم طاری ہوتا ہے اور کبھی مسرت موجزن ہوتی ہے۔ کبھی یاس کا اندھیرا ہوتا ہے اور کبھی آس کی روشنی۔ ایک بلند پایہ شاعر یا وسیع النظر مفکر میں یہ امتیازی خصوصیت پائی جاتی ہے کہ زندگی کا کوئی پہلو اس سے اوجھل نہیں ہوتا۔ اقبال نے جن اہم مسائل حیات کو اپنا موضوع سخن بنایا کم نظر لوگ ان کے متعلق تعصب اور طرف داری سے کام لیتے ہیں۔ یہ جاہلوں کا شیوہ ہے کہ ان کے رد و قبول میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہوتا۔ اقبال سے یہ توقع کرنا بے جا ہے کہ وہ کسی ایک مشرب کی موافقت اور دوسرے مشرب کی مخالفت میں ایسا غلو کرے کہ ایک طرف سفیدی ہی سفیدی نظر آئے اور دوسری طرف سیاہی ہی سیاہی۔ اقبال وطن سے محبت رکھتا ہے جو ایک فطری چیز ہے لیکن وطن پرستی کا مخالف ہے۔ وہ عشق کا ثنا خواں ہے لیکن عقل کا دشمن نہیں۔ وہ اسلام اک راسخ العقیدہ معتقد ہے لیکن ملت اسلامیہ سے باہر خدا کے موحد اور نیک بندوں کو کافر نہیں سمجھتا۔ وہ شریعت اسلامیہ کے اساسی حقائق کو حقائق ازلی سمجھتا ہے لیکن فقط ظواہر کی پابندی کو اسلام نہیں سمجھتا۔ وہ شریعت کا حامی ہے لیکن اس کے نزدیک اکثر مدعیان حمایت شریعت روح دین سے بیگانہ ہیں۔ وہ ایک نصب العینی جمہوریت کا حامی ہے لیکن اس کی موجودہ صورتوں کو ابلہ فریبی تصور کرتا ہے۔ وہ اشتراکیت کے بہت سے کارناموں کا مداح ہے لیکن اس کے ساتھ جو الحاد اور مادیت وابستہ ہے، اس کا شدید مخالف ہے وہ کورانہ تقلید کو خود کشی کے مرادف خیال کرتا ہے اور بڑی شدت سے تحقیق کی تلقین کرتا ہے لیکن قوم کی موجودہ حالت میں اس کو اچھے اجتہاد کی صلاحیت دکھائی نہیں دیتی تو مشورہ دیتا ہے کہ ایسی حالت میں بے بصر مجتہدوں کے اجتہاد سے یہی بہتر ہے کہ مسلمان ائمہ قدیم ہی کی تقلید کریں۔ وہ صلح جو انسان ہے لیکن پست بینی اور رسوائی میں آسودہ رہنے کا قائل نہیں۔ وہ رزم میں گرمی اور بزم میں نرمی دونوں کی تلقین کرتا ہے۔ انسانی زندگی کے ارتقاء کے لیے خلوت و جلوت دونوں کی ضرورت ہے اس لیے وہ کبھی تنہائی سے لطف اٹھاتا ہے اور کبھی انجمن آرائی سے وہ خودی اور بے خودی دونوں کا مبلغ ہے وہ ان کے ظاہری تضاد کو رفع کر کے ان میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے لیکن جب وہ ایک پہلو کو نمایاں کرنا چاہتا ہے تو دوسرا پہلو اس وقت پس پشت اور نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ اقبال جیسے وسیع النظر، وسیع التجربہ اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو دیکھنے اور ان کا حق ادا کرنے والے شاعر کے کلام کا بھی وہی حال ہے جو مذہبی صحیفوں کا ہے ایک ہی مذہبی صحیفے میں سے فرقہ ساز اور تفرقہ انداز ہفتاد و دو ملت پیدا کر لیتے ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ کسی ایک جزو کو لے کر کل بنا دیتے ہیں اور اس کو دوسرے اجزاء کے ساتھ ملا کر کوئی متوازن رائے قائم نہیں کرتے۔ انگریزی زبان میں ایک مقولہ ہے کہ شیطان بھی اپنی حمایت میں مذہبی صحیفے کی کچھ آیات پیش کر سکتا ہے۔ زندگی میں جبر و اختیار دونوں موجود ہیں لیکن فقط ایک طرف دیکھنے والے یا جبری ہو جاتے ہیں یا قدری اور اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ’’ الایمان بین الجبر والاختیار‘‘ اگر اقبال کے کلام کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے اور ایک حصے کو دوسرے حصے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو بظاہر نظر آنے والا تضاد رفع ہو جائے۔ یہ اقبال کے کلام اور اس کے انداز فکر کی خوبی اور وسعت ہے کہ اس میں یک طرفگی نہیں۔ انسانی زندگی کے خواہ وہ انفرادی ہو اور خواہ اجتماعی، کئی پہلو ہوتے ہیں۔ اقبال نے خود اپنی بابت کہا ہے کہ میں ایک ترشا ہوا ہیرا ہوں جس کے مختلف پہلوؤں میں شعاعیں مختلف انداز سے منعکس ہوتی ہیں۔ ایک روز علامہ مجھ سے فرمانے لگے کہ ذہنی لحاظ سے ایک شخص پر اس وقت موت طاری ہوتی ہے جب نئے افکار کو قبول کرنے کی صلاحیت اس میں نہ رہے۔

آج کل اکثر تحریروں اور تقریروں میں اقبال کے کلام کے حوالے نظر آتے ہیں لیکن کہنے والا اپنی حمایت میں کچھ اشعار چن لیتا ہے اور اقبال کو اپنا ہم نوا بنا لیتا ہے:

متفق گردید راے بو علی با راے من

اقبال میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے وہ یا ارتقائے فکر کا نتیجہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف عبور کر گیا ہے، جس طرح انسان طفولیت سے شباب اور شباب سے شیب کی جانب بڑھتا ہے۔ علامہ خود فرماتے ہیں کہ میں تشکیک اور تفلسف کی ظلمات میں سے ہوتا ہوا ایمان و یقین کے آب حیات تک پہنچا ہوں۔ اسے تضاد نہیں کہہ سکتے، یہ ارتقاء کوش زندگی ہے۔ اقبال نے زندگی کے کسی پہلو کو چھوڑا نہیں اس لیے ہر شخص کے لیے یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی باتیں اس سے اخذ کر کے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کر دے۔ مثلاً تصوف کوئی ایک ہی چیز نہیں ہے۔ جس کی وہ بیک وقت موافقت بھی کر رہا ہو اور مخالفت بھی۔

حیات و کائنات میں گوناگونی اور کثرت بھی ہے لیکن اس تنوع کی تہ میں وحدت بھ پائی جاتی ہے۔ بظاہر مظاہر میں تضاد نظر آتا ہے لیکن علم و بصیرت کے مسلسل اضافے سے وحدت پنہاں کا انکشاف ہوتا رہتا ہے۔ جس شخص کا کلام حیات و کائنات کے حقائق کا مظہر ہو اس کے سطحی اور سرسری مطالعے سے جا بجا تضاد بیانی کا شبہ پیدا ہو گا لیکن صحیح جائزہ لینے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی وسیع الفکر انسان کے افکار اور نظریات پر ایک ہمہ گیر نظر ڈالی جائے۔ جوں جوں اقبال کے افکار میں پختگی پیدا ہوتی گئی ویسے ویسے وحدت فکر نمایاں ہوتی گئی۔ کسی شاعر نے اپنے متعلق یہ دعویٰ کیا ہے:

من نہ آنم کہ دو صد مصرع رنگین گویم

مثل فرہاد یکے گویم و شیریں گویم

لیکن اس سے بہتر دعویٰ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک قادر الکلام شاعر دو صد مصرع رنگین کہے لیکن اس تمام بو قلمونی میں وحدت فکر، وحدت نظر اور تاثر ناپید نہ ہو۔ اقبال کی متضاد بیانی پر جو اعتراض بعض سطحی مطالعہ کرنے والوں کو سوجھتا ہے اس کے بالکل برعکس ایک دوسرا گروہ اس پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ حضرت اقبال اپنی شاعری کے آخری اور تبلیغی دور میں فقط ایک ہی راگ الاپتے ہیں۔ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کا محور ان کا نظریہ خودی یا نظریہ عشق ہی ہوتا ہے جس کے ساتھ احیاء سے ملت کا جذبہ موجود رہتا ہے۔ اس خیال میں بہت کچھ حقیقت ہے لیکن بطور اعتراض ایسی تنقید وہی لوگ کرتے ہیں جن کے نزدیک شاعر کو علی الاطلاق ہمیشہ ایک فنکار ہی رہنا چاہیے جو آخر تک نہ کسی پختہ یقین اور زاویہ نگاہ تک پہنچے اور نہ اس کی تبلیغ کو اپنا فرض جانے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک نامعقول تقاضا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بیسواں باب

 

 

خلاصہ افکار

 

اقبال کے افکار میں اتنا تنوع اور اتنی ثروت ہے کہ اگر اس کے تفکر و تاثر کے ہر پہلو کی توضیح و تشریح اختصار سے بھی کی جائے تو ہزار ہا صفحات بھی اس کے لیے کافی نہیں۔ وہ مشرق و مغرب کے کم از کم سہ ہزار سالہ ارتقائے فکر کا وارث ہے۔

اقبال سے کئی صدیاں پیشتر، مسلمان حکما، صوفیاء، شعراء اور مفکرین نے انسان کے ماضی کی تمام دولت علم و ہنر کو سمیٹ کر اس کو کیمیائے اسلام سے اکسیر حیات بنا دیا تھا۔ اسلام ادیان عالیہ کی آخری ارتقائی شکل تھی۔ اسلام کے بعد مذاہب تو ابھرتے رہتے تھے اور ابھرتے رہیں گے لیکن اسلام کے بعد کوئی دین اپنی وسعت زمانی اور مکانی میں عالمگیر نہیں ہو سکا۔ تاریخ ادیان خود ختم نبوت کی سب سے قوی شہادت ہے۔ شانتی نکیتن میں ٹیگور کے کتب خانہ دار نے راقم الحروف سے کہا کہ اسلام کی توحید اور اخلاقیات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ختم نبوت کا عقیدۂ سمجھ میں نہیں آتا۔ نبوت کی ضرورت جیسے پہلے تھی ویسے اب بھی ہے اور ہمیشہ انسانوں کو خدا سیہدایت یافتہ انسانوں کی ہدایت کی ضرورت رہے گی۔ اس فیضان الٰہی کے کسی ایک انسان پر ایک زمانے میں ختم ہو جانے کے کیا معنی؟ میں نے اسے اپنے فہم کے مطابق کچھ سمجھانے کی کوشش کی؟ معلوم نہیں میرے دلائل اس کے لیے دل نشین ہوئے یا نہیں لیکن وہ خود ہی بول اٹھا کہ تاریخ نے تو اس عقیدے کو سچ ہی کر دکھایا ہے کیوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد نوع انسان پر اتنا اثر انداز نبی تو کہیں پیدا نہیں ہوا۔

اسلام نے جامع حقائق ہونے کے باوجود مسلمانوں کو تلقین کی کہ مسلسل مشاہدۂ فطرت کرتے رہو تاکہ تم پر انفس و آفاق کے لامتناہی حقائق بتدریج منکشف ہوتے رہیں۔ کلمات الٰہی جو اعیان مظاہر ہستی ہیں، از روئے قرآن لامتناہی ہیں، ان کو لکھتے لکھتے تمام سمندروں کی روشنائی ختم ہو جائے پیشتر اس کے کہ ان کا شمار انجام کو پہنچے۔

مسلمانوں نے ترقی کے دور میں ’’ اطلب العلم و لو کان بالصین‘‘ پر عمل کرتے ہوئے اور ہر قسم کے علم کو اپنا گم شدہ مال سمجھتے ہوئے، ہر قوم کے علوم و فنون کو سمیٹ لیا اور پھر اس ورثے میں گراں بہا اضافہ کیا لیکن تیرہویں صدی عیسوی کے قریب ان قوموں میں انحطاط آ گیا اور اس کے بعد وہ یا ساکن و جامد ہو گئیں اور یا گرتی چلی گئیں کیوں کہ زندگی کا عالم گیر قانون یہی ہے کہ اگر آگے نہ بڑھو تو ضرور پیچھے ہٹو گے رفعت کی طرف نہ اٹھو گے تو پستی میں گرو گے۔ یہ کہنا دشوار ہے کہ یہ زوال پذیری کا دور ابھی ختم ہوا یا نہیں، بہرحال بیداری کے کچھ آثار نمایاں ہیں۔

جب مسلمان بیدار تھے تو مغربی اقوام خفتہ تھیں۔ جب مسلمانوں پر خفتگی طاری ہوئی تو مغربی اقوام صدیوں کی نیند سے چونکیں اور تب سے اب تک مسلسل ترقی کی راہوں پر تیزی سے گامزن ہیں۔ بیداری کے آغاز میں بہت سا فیض ان اقوام نے مسلمانوں کے سرمایہ افکار سے حاصل کیا لیکن اس کے بعد اس میں مسلسل اضافہ کرتی چلی گئیں، بقول اکبر الٰہ آبادی:

رہی رات ایشیا غفلت میں سوتی

نظر یورپ کی کام اپنا کیا کی

دور انحطاط میں مسلمانوں کی تعلیم کا یہ حال ہو گیا کہ پرانے قیمتی سرمائے میں سے بھی فقط جامد چیزوں کا الٹ پھیر کرتے رہے۔ تفکر میں اجتہاد ختم ہو گیا اور فقہا نے کہنا شروع کر دیا کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے:

دروازہ میکدے کا نہ کر بند محتسب

ظالم خدا سے ڈر کہ در توبہ باز ہے

(ذوق)

در توبہ تو باز رہا لیکن در اجتہاد بن ہو گیا۔ فکر و عمل سے تسخیر کائنات عبادت کا جزو نہ رہی۔ طبعی علوم، فلسفہ، دینیات، سب ایک مقام پر پہنچ کر رک گئے۔ علم کلام کی فرسودہ اور دور از کار موشگافیاں در سیات کا جزو بن گئیں۔

اقبال نے مسلمانوں کے علمی اور روحانی ورثے کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور اس میں سے حیات افزاء عناصر کو حیات کش عناصر سے الگ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مغربی علوم کا بھی ماہر تھا جس سے نہ ہمارے فقہا آشنا تھے اور نہ ہمارے شعراء کو ان کی ہوا لگی تھی۔ مغربی علوم اور تہذیب و تمدن کو بھی اس نے حکیمانہ اور مجددانہ نظر سے دیکھا۔ اس کی خوبیوں کا اعتراف کیا اور مسلمانوں کو ان کے حصول کی تلقین کی لیکن اس تعمیر میں جو خرابی کی صورت مضمر تھی وہ بھی اس کی چشم بصیرت سے اوجھل نہ رہی۔ حکمت فرنگ میں جو مادہ پرستی اور محسوسات پرستی پیدا ہو گئی تھی، اس نے انسانی ترقی کو یک طرفہ کر کے انسانیت کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا تھا۔ اقبال نے ان میلانات کا تجزیہ کیا اور اس کے مسموم عناصر سے گریز و پرہیز کا مشورہ دیا۔

تمام ملت اسلامیہ میں دور حاضر میں کوئی مفکر ایسا نہیں گزرا جو ماضی و حال اور شرق و غرب کے افکار کا جامع ہو۔ اس جامعیت کے ساتھ وہ ایک تلمیذ الرحمن شاعر بھی تھا۔ اس تمام دولت کو اس نے اپنی شاعری میں بھر دیا۔ وہ خالی مرد حکیم ہوتا تو ملت کے نفوس میں اثر انداز نہ ہو سکتا۔ ایک باکمال شاعر ہونے کی وجہ سے اس نے حکمت میں سوز دل کو سمو دیا اور عقل و عشق کی آمیزش نے اس کو عارف رومی کا مرید اور جانشین بنا دیا۔ کیونکہ جلال الدین رومی میں بھی یہی کمالات اور محاسن جمع ہو گئے تھے۔ مگر تفکر اور تاثر کی جو وسعت اور گہرائی اقبال کے کلام میں نظر آتی ہے، وہ اس سے قبل کہیں نہیں ملتی:

حق اگر سوزے ندارد حکمت است

شعر می گردد چو سوز از دل گرفت

بو علی اندر غبار ناقہ گم

دست رومی پردۂ محمل گرفت

معارف کے بیان میں اقبال جا بجا اپنے مرشد سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ یہ ایک پڑھنے والے کا تاثر ہے اگرچہ اقبال خود اپنے تئیں رومی سے فیض یافتہ اور مرشد سے کسی قدر کم ہی سمجھتا تھا۔ اقبال جہاں آگے نکل گیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ زمانہ بھی رومی کے بعد چھ سو برس آگے بڑھ چکا تھا۔ اس  دوران میں زندگی نے نئے اطوار اور نئے مسائل پیدا کیے اور انسان اپنے فکر و عمل سے ان کے نئے نئے حل تلاش کرتا گیا۔ اقبال اگر کہیں رومی سے اونچا دکھائی دے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ رومی اس سے پہلے عقل و عشق کی بہت سی گتھیاں سلجھا چکا تھا۔ برناڈشا نے ایک مرتبہ کسی قدر تعلی سے کہا کہ میں اپنے تئیں شیکسپیئر سے اونچا سمجھتا ہوں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس کے کندھوں پر سوار ہوں۔ اقبال نہ صرف رومی کے کندھوں پر سوار ہے بلکہ شرق و غرب کے تمام حکما و صوفیہ کے افکار پر قدم رکھ کر ان سے اونچا ہو گیا ہے۔ ایران کے ملک الشعراء بہار نے فراخ دلی سے اقبال کے کمال کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہماری ہزار سالہ اسلامی فکر و نظر کا ثمر ہے۔ لیکن مغربی حکماء کے بھی بہترین افکار سے اقبال نے فائدہ اٹھایا ہے۔ کہیں ان کا نام لیا ہے اور کہیں ان کے انداز تفکر کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔ مگر وہ کسی کا مقلد اور خوشہ چین نہیں، اس نے جس کو بھی دیکھا اپنی محققانہ نظر سے دیکھا جو کچھ پسند آیا لے لیا اور جو کچھ جادۂ حقیقت سے ہٹا ہوا دکھائی دیا اس کی تردید کر دی۔ کتاب کو ختم کرتے ہوئے اس مختصر تلخیص میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ دیکھیں کہ یہ محقق و مفکر اور اہل دل مبصر آخر میں کس یقین و ایمان اور کس زاویہ نظر کو پہنچا اور سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی کا ثمرہ اس کو کیا ملا جس میں اس نے بقول خود زندگی کی راتیں بسر کیں۔

آئیے اقبال کے افکار و تاثرات کے بحر بے پایاں کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کریں۔

اقبال کے نظریہ حیات کا لب لباب ہمارے نزدیک مفصلہ ذیل ہے:

۱۔ تمام حیات و کائنات توحید کا مظہر ہے۔ اس کی ماہیت نہ مادی ہے اور نہ نفسی۔ اس کی کنہ حیات ابدی ہے۔ جو خلاق اور ارتقاء کوش ہے۔ مادہ اور نفس حیات کے مظاہر ہیں۔

۲۔ حقیقت مطلقہ خدا ہے جو حی و قیوم اور ازلی اور ابدی طور پر خلاق ہے۔ اس کی خلقت اور تجلی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ اضافہ نقص سے کمال کی طرف نہیں ہے بلکہ لامتناہی اور مسلسل خلاقی کمال ہی کمال ہے۔ تجلی میں تکرار نہیں اور خدا اپنی آفرینش میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔

۳۔ مادی عالم خود حیات سرمدی کی پیداوار ہے۔ مادی عالم کی اپنی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ وہ فقط ان معنوں میں حقیقی ہے کہ وہ زندگی کا ایک مظہر ہے۔ وہ باطل نہیں بلکہ حق کا ایک پہلو ہے۔

۴۔ زمان و مکان کی بھی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ یہ خاص مراحل میں زندگی کے اپنے پیدا کردہ زاویہ نگاہ ہیں اور اس عالم میں ادراک ان سانچوں میں ڈھل جاتا ہے۔

۵۔ خدا فرد مطلق ہے اسے ایک مقصد کوش نفس تصور کر سکتے ہیں۔ اگرچہ فرد مطلق اور نفس مطلق کی ماہیت ادراک میں نہیں آ سکتی۔ خدا انائے مطلق ہے۔

۶۔ تمام مخلوقات خدا کی ہستی مطلق میں سے سرزد ہوئی ہے لیکن خدا چونکہ خود ایک ’’ انا‘‘ ہے اس لیے وہ اناؤں ہی کا خالق ہے۔ تمام کائنات نفوس ہی پر مشتمل ہے جو مختلف مدارج ارتقاء میں ہیں۔

۷۔ نفوس کے عالم میں انسانی نفس درجہ ارتقاء میں سب سے افضل ہیں۔ سب سے زیادہ انسان کی خودی خدا سے ہم آغوش ہے۔

۸۔ قرآن میں آدم کا تصور اس حقیقت کا انکشاف ہے کہ حیات ابدی کے تمام ممکنات انسان میں مضمر ہیں۔ انسانی زندگی کا مقصد ان ممکنات کو مسلسل مرض وجود میں لانا ہے۔

۹۔ تمام ارتقاء کا مدار آرزو اور جستجو پر ہے۔ آرزو کی شدت کا نام عشق ہے۔

۱۰۔ خدا کی ذات اور انسان کی خودی نت نئے عوالم پیدا کرتی ہے۔ انسان اسی لحاظ سے خدا کا نائب یا خلیفہ ہے کہ اس کا وظیفہ حیات بھی عوالم کو پیدا کرنا اور ان کو مسخر کرنا ہے۔

۱۱۔ تکمیل و ارتقائے حیات کے لیے عقل ایک اعلیٰ درجے کا وسیلہ ہے۔ عقل کا مقصود کلیت حیات کا احاطہ کرنا ہے مگر استدلالی عقل جزوی حقائق میں الجھ جاتی ہے اور جزو کو کل سمجھنے لگتی ہے۔ عقل جزوی محسوس پرست اور ہوس پرست ہو جاتی ہے لیکن عقل اگر اپنی پوری قوت و وسعت سے کام لے تو وہ بھی حقیقت رس ہو سکتی ہے۔ عقل اجزائے حیات کا تجزیہ کر کے ان کے روابط تلاش کرتی رہتی ہے اور جزئیات کو استقراء اور استخراج سے کلیات کے تحت لانے میں کوشاں رہتی ہے۔

۱۲۔ عقل کے مقابلے میں انسان کے اندر براہ راست بھی ماہیت حیات کا وجدان ہے، جس میں نہ زمان و مکان کو دخل ہے اور نہ منطقی استدلال کو۔ اسی وجدان سے عشق پیدا ہوتا ہے جو عقل سے زیادہ منکشف ماہیت حیات ہے۔ زمان و مکان کی لامتناہی اس میں غرق ہے۔ اس کی وحدت اجزا سے مرکب نہیں۔ ایک دوسرے سے خارج اجسام و اجزاء مکانیت کے تصور کی پیداوار ہیں۔

۱۳۔ عشق اور وجدان اگرچہ باطن حیات کے چشمے ہیں لیکن عقل کو برطرف کر کے وہ بھی تکمیل حیات کا باعث نہیں بن سکتے۔ زندگی کا تقاضا عقل اور عشق کی ہم آغوشی ہے۔

۱۴۔ جسم اور نفس کی کوئی الگ الگ مستقل حیثیت نہیں۔ روح جسم کے اندر اس طرح نہیں جس طرح کہ کوئی طائر قفس عنصری میں بند ہو۔ جسم اور نفس دونوں حیات کے توام مظاہر ہیں۔ خودی کا مقام ان دونوں سے عمیق تر ہے۔ حیات ابدی کی ماہیت خودی کے اندر ہے۔

۱۵۔ خدا کے سامنے ازل سے ابد تک کی حیات و کائنات کا کوئی تفصیلی نقطہ نہیں۔ حقیقت یہ نہیں ہے کہ سرمدیت میں تمام حوادث لوح محفوظ پر مثبت ہیں اور وہ مرور ایام میں یکے بعد دیگرے معرض شہود میں آتے ہیں۔ خدا کی خلاقی آزاد ہے وہ فعال لما یرید ہے۔ وہ پہلے سے بنے بنائے خاکوں کے مطابق عمل نہیں کرتا اگر ایسا ہوتا تو خدا آزاد نہ ہوتا بلکہ پابند ہوتا۔

۱۶۔ مسلمانوں نے عام طور پر تقدیر کا مفہوم غلط سمجھا۔ خدا صاحب اختیار ہستی ہے۔ انسان جو حیات الٰہی کا بہترین مظہر ہے وہ بھی اختیار سے بہرہ اندوز ہے۔ اختیار کے بغیر زندگی ایک میکانکی چیز ہے۔ جبر کا تصور مادیت کی پیداوار ہے۔ انسان کے ممکنات کے آئندہ مظاہر انسان کی خودی کے ارتقاء میں سرزد ہوں گے، جب تک وہ وجود میں نہ آ جائیں تب تک نہ وہ انسان کے علم میں آ سکتے ہیں اور نہ خدا کے علم میں۔

۱۷۔ حیات ابدی خود اپنے ارتقاء کے لیے مزاحم قوتیں پیدا کرتی ہے کیوں کہ رکاوٹوں پر غالب آنے اور عمل تسخیر ہی سے زندگی ترقی کر سکتی ہے۔ اس لحاظ سے ابلیس جو نفی و افکار کا ایک تمثیلی تصور ہے، تکمیل حیات کے لیے ایک لابدی حقیقت ہے۔ ترقی کا ہر قدم نفسی سے اثبات کی طرف اٹھتا ہے اور پھر آگے بڑھنے کے لیے اس بات کی نفی کرنا لازم ہوتا ہے۔ مسلسل فنا کے بغیر زندگی بقا کوش نہیں ہو سکتی۔ مقصود و منزل سے فراق ہی زندگی کا تازیانہ ہے قوت نفی کا ابلیس جسے اقبال خواجہ اہل فراق کہتا ہے، ارتقائے حیات کے لیے معاون ہے۔ لیکن اگر نفی و افکار کا پہلو غائب ہو جائے تو زندگی جامد ہو کر رہ جائے۔

۱۸۔ سکونی جنت جس میں عشرت دوام ہو اور جس میں تمام جستجو و آرزو ختم ہو جائے، مقصود حیات نہیں ہو سکتی۔ عروج کوش زندگی کو بادہ و جام اور حور و خیام سے گزر جانا چاہیے:

مزی اندر جہان کور ذوقے

کہ یزداں وارد و شیطان ندارد

٭٭٭

ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی

اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے

اس مرحلہ شوق میں جستجو اور آرزو اور نفی و افکار کے بغیر کوئی تگ و دو نہیں ہو سکتی۔ فقط دنیا ہی دار العمل نہیں، بلکہ آخرت بھی دار العمل ہے۔ زندگی اور عمل ایک ہی چیز ہیں۔ زندگی کا مقصود ہر درجہ حیات سے آگے گزرتے رہنا ہے۔

۱۹۔ فرد کی خودی کے علاوہ ملت کی بھی ایک خودی ہے۔ فرد کی خودی رہبانی تنہائی میں محض خدائے واحد کی طرف رجوع کر کے ترقی نہیں کر سکتی، اس لیے اسلام نے رہبانیت کو ممنوع قرار دیا۔

۲۰۔ خدا اسلام کی تلقین سے ایک نصب العینی ملت کو وجود میں لانا چاہتا ہے جو مذکورہ صدر حقائق حیات سے آشنا ہو کر تمام نوع انسان کے لیے نمونہ بن سکے۔

۲۱۔ اس ملت کی امتیازی خصوصیت یہ ہو گی کہ وہ رموز توحید کی عارف ہو کر زندگی کی کثرت کو وحدت میں منسلک کرے گی۔

۲۲۔ تمام نوع انسان از روئے قرآن ایک نفس واحدہ کے شجر کی شاخوں پر مشتمل ہے۔ انسانوں نے جغرافیائی، نسلی، لسانی اور قبائلی قومیتوں کو معبود بنا کر نوع انسان کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، اس کی وجہ سے اخوت و محبت عالم گیر نہیں بن سکی۔ اس وحدت آفرینی کی واضح تعلیم اسلام میں ملتی ہے جس کو معروض وجود میں لانے کی ایک جھلک طلوع اسلام کے زمانے میں ملتی ہے۔ رفتہ رفتہ مسلمان خود اس حقیقت سے غافل ہو گئے، قوموں اور فرقوں میں بٹ گئے اور فرنگ کی تقلید میں نسلی اور لسانی قومیتوں کے شعائر اختیار کرنے لگے۔

۲۳۔ مومنوں کی جو ملت خدا کا مقصود تھی وہ اس وقت نظر نہیں آتی لیکن اگر اسلام کی تعلیم صفحہ ہستی سے مٹ نہ جائے تو اسی تعلیم کی بدولت ایک نصب العینی ملت وجود میں آ سکتی ہے۔ خدا خود اسلام کا کفیل و محافظ ہے اس لیے اس گری ہوئی ملت اسلامیہ پر موجودہ حالت کی وجہ سے مایوسی طاری نہیں ہونی چاہیے۔ تمام اقوام کے صالح مفکرین اور مفسرین کا رخ اس وقت انہیں حقائق کی طرف پھر رہا ہے جو تعلیم اسلامی کا اہم جزو تھے۔

۲۴۔ اس وقت مسلمانوں کو خالص قرآنی اسلام اور سنت نبویؐ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی تہذیب و تمدن کی کورانہ تقلید اور کسی انداز فکر و عمل کی نقل سے وہ دوبارہ زندگی حاصل نہیں کر سکتے۔ روحانیت کے لحاظ سے مشرق بھی مردہ اور مغرب بھی مردہ۔ اس وقت امت وسطیٰ اور ملت بیضا نہ شرق کی جامد زندگی کی تقلید سے پیدا ہو سکتی ہے اور نہ فرنگ کی نقالی سے:

بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو

کہ نیرزد بجوے ابن ہمہ دیرینہ و نو

۲۵۔ اقبال اسلامی شریعت کی اساسی چیزوں کو لازوال حقائق سمجھتا ہے جو ہر دور میں تمام انسانوں کے لیے سرچشمہ حیات بن سکتی ہیں۔ لیکن اس کے نزدیک فقہ کا تمام دفتر نظر ثانی کا محتاج ہے، زندگی کے سانچے بہت بدل گئے ہیں، فقہی مسائل میں سے بعض مسائل اب بھی دیگر اقوام کی شریعتوں اور قوانین سے افضل ہیں، لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جسے کچھ بدلتی ہوئی زندگی نے منسوخ کر دیا ہے۔ تشکیل فقہ جدید کا کام بہت ضروری ہے لیکن اس کے لیے ایسے مجتہدوں کی ضرورت ہے جو اسلامی شریعت کی روح سے بخوبی آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ تہذیب و تمدن، سیاست و معاشرت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں۔ افسوس ہے کہ اس کام کے اہل لوگ کہیں نظر نہیں آتے۔

۲۶۔ فقہ کے علاوہ اسلام کے بنیادی عقائد اور نظریات حیات کو بھی قدیم فلسفے اور علم الکلام کے انداز میں پیش کرنا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ زمانے کا عقلی مزاج بدل گیا ہے۔ فرنگ کے طبعی علوم اور فلسفے نے مسائل کا رخ بدل دیا ہے۔ خود اہل مغرب میں بعض مفکرین میں گہری بصیرت پیدا ہو گئی ہے۔ جس سے مسلمان بھی استدلال میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مغرب کی ہر چیز سے گریز کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ خود اس کی نشاۃ ثانیہ میں اسلامی افکار کے محرکات موجود تھے۔ تجربی سائنس کی ابتداء مسلمانوں نے کی اور جس عادلانہ معیشت کے لیے مغرب میں جمہور جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے بہت سے عناصر اسلامی ہیں۔ کورانہ تقلید فرنگ تو یقیناً نفع سے زیادہ نقصان رساں ہو گی لیکن علم کے معاملے میں مسلمان کا رویہ ’’ خذ ما صفا ودع ماکدر‘‘ ہونا چاہیے۔ خود فرنگ کی زندگی میں اسلامی محرکات بھی موجود ہیں۔

۲۷۔ محض نقالی سے فرد اور ملت دونوں کی زندگی بے روح ہو جاتی ہے۔ اسلام کا ایک مخصوص اور جامع نظریہ حیات ہے۔ وہی مومن کی خودی اور خود داری کو استوار کر سکتا ہے، آج تک کوئی بلند پایہ ملت محض نقالی کی بدولت پیدا نہیں ہوئی۔ ملت اسلامی کا احیاء اسی سے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی خودی میں غوطہ زن ہو اور زندگی کو دوسروں کی نگاہ سے نہ پرکھے۔ اس وقت اسلامی ملتیں نقل فرنگ پر آمادہ معلوم ہوتی ہیں اور اسی کو ترقی سمجھتی ہیں لیکن:

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی

کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

٭٭٭

 

 

 

 

سخنے چند

 

استاد مکرم جناب ڈاکٹر وحید قریشی مدظلہ العالی کی خواہش تھی کہ مرحوم ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم وقیع کتاب فکر اقبال کی اشاعت نو کے ساتھ حواشی و تعلیقات کا بھی اضافہ کر دیا جائے تو کتاب کی اہمیت دو چند ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں قرعہ فال خاکسار کے نام پڑا۔ بلاشبہ یہ استاد مکرم کی محبت و شفقت اور میری خوش بختی ہے کہ انہوں نے مجھے اس لائق جانا۔

راقم نے طالبعلمی کے زمانے میں فکر اقبال کا مطالعہ کیا تھا۔ اب مذکورہ کام کے لیے دوبارہ اس کا مطالعہ کرنا پڑا تو کتاب میں بعض ایسی باتیں نظر آئیں جن کی طرف توجہ، اس کی صحت کے ساتھ طباعت و اشاعت کے لیے از بس ضروری تھی۔ سب سے پہلے تو یہ کہ کتاب میں طباعت کی بعض فاحش غلطیاں رہ گئی تھیں، کہیں کہیں جملے بے ربط تھے، ظاہر ہے یہ بھی طباعت ہی کا نقص تھا کہ کوئی ایک آدھ لفظ ویسے ہی رہ گیا یا پوری ایک سطر غتر بود ہو گئی۔ راقم نے کوشش کی ہے کہ اب اس قسم کی اغلاط کتاب میں رہنے نہ پائیں، اس کے لئے کتاب کو لفظاً لفظاً پڑھنا ضروری تھا اور راقم نے ایسا ہی کیا ہے۔

ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم مرحوم نے اس کتاب میں بہت سے فارسی و اردو اشعار کے علاوہ آیات قرآنی کے بھی حوالے دئیے ہیں۔ جیسا کہ حواشی کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے صحیح حوالہ (شعر یا آیت کی صورت میں ) دینے کے لیے متعلقہ کتاب یا مجموعہ کلام سے براہ راست استفادہ کرنے کی بجائے حافظے سے کام لیا اور یہی امر استناد کے معاملے میں رکاوٹ بن گیا۔ مرحوم نے اشعار میں الفاظ بدلنے کے علاوہ مصرعوں کی ترتیب بھی بدل دی، اور ایسا کئی ایک اشعار میں ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ چند ایک آیات میں بھی، اسی حافظے کی بناء پر انہوں نے الفاظ آگے پیچھے کر دیے۔ ان تمام کوتاہیوں کو بفضلہ تعالیٰ دور کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حواشی وغیرہ کے سلسلے میں ’’فکر اقبال‘‘ کا پانچواں ایڈیشن راقم کے پیش نظر رہا ہے۔

فکر اقبال میں حضرت علامہ کے جو جو اشعار بطور مثال آئے ہیں، حواشی میں ان کے متعلقہ مجموعہ کلام کا نام دے دیا گیا ہے (اور متن میں شعر کی صورت متعلقہ مجموعہ کلام ہی کے حوالے سے درست کر دی ہے) تاکہ قاری مزید تفصیل و مطالعہ کے لیے وہاں سے رجوع کر سکے۔ دیگر شعراء کے جو اشعار متن میں آ گئے ہیں ان کی صحیح صورت حواشی میں دینے کے علاوہ متعلقہ شاعر کا نام دے دیا ہے اس سلسلے میں راقم کو اس بات کا اعتراف ہے کہ پوری کوشش کے باوجود چند ایک اشعار کا حوالہ معلوم نہ ہو سکا، تاہم یہ کوشش ہنوز جاری ہے، ممکن ہے آئندہ ایسے اشعار کا حوالہ بھی دستیاب ہو جائے۔ کتاب کے آغاز میں خلیفہ مرحوم کے مختصر حالات زندگی دے دیے ہیں کہ کسی بھی کتاب کے مصنف کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش ہر قاری کو ہوتی ہے۔ نیز اس پس منظر کے ساتھ متعلقہ کتاب کو اور خود مصنف کے ذہن کو سمجھنے میں کسی حد تک مدد ملتی ہے۔

راقم کو اپنے اس کام کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں ہے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ راقم نے پورے خلوص اور کمال لگن کے ساتھ یہ کام انجام دیا ہے، اور امید ہے قارئین کرام میرے اس خلوص اور لگن سے ضرور اعتنا فرمائیں گے۔

آخر میں راقم اپنے استاد گرامی کا بے حد ممنون و متشکر ہے کہ انہوں نے اس اہم خدمت کے لیے راقم کو منتخب فرما کر راقم کی بیحد حوصلہ افزائی فرمائی۔

خواجہ حمید یزدانی

لاہور

نومبر ۱۹۸۸ء

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم

 

                (مختصر سوانح)

 

ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا تعلق کشمیریوں کی مشہور گوت ’’ ڈار‘‘ سے تھا۔ ان کے بزرگ ہندو راجوں کی افواج میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔ سکھوں کے عہد میں ان کے دادا کشمیر سے ہجرت کر کے لاہور (پنجاب) میں سکونت پذیر ہوئے۔ لاہور میں ان کی رہائش محلہ چہل بیبیاں اندرون اکبری دروازہ میں تھی۔ کشمیر میں حکیم صاحب کے بزرگ پشمینے وغیرہ کا کام کرتے تھے اور اکثر لوگ اس ضمن میں ان سے اکتساب فن کی بناء پر انہیں ’’ خلیفہ‘‘ (استاد) کے لفظ سے پکارتے۔ یوں یہ لفظ اس خاندان کے افراد کے ناموں کا پہلا جزء ٹھہرا۔

حکیم صاحب کے والد خلیفہ عبدالرحمن ایک نیک دل اور متقی شخص تھے، انہیں گلستان و بوستان سعدی ایسی اخلاقی کتب سے دلی شغف تھا اور اپنے بچوں کی تربیت میں وہ ان سے کام لیتے۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ حکیم مرحوم کی والدہ رحیم بی بی دوسری بیوی تھیں۔ حکیم مرحوم کی ولادت ان کے آبائی مکان (محلہ چہل بیبیاں ) میں ۱۸۹۳ یا ۱۸۹۴ء میں ہوئی۔ بارہ برس کی عمر میں باپ کے سائے سے محروم ہو گئے۔ چار برس کی عمر میں قریبی مسجد میں پڑھنے بیٹھے۔ پھر اندرون موچی دروازہ کے کوچہ لال کھوہ کے سکول میں داخل ہوئے۔ تیسری جماعت سے اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ جانے لگے اور وہیں سے انہوں نے ۱۹۱۰ء یا ۱۹۱۱ء میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ ان کے والد کی وفات کے بعد ان کے چچاؤں نے جائیداد میں سے انہیں کچھ نہ دیا۔ جس کے سبب ان کی زندگی عسرت میں بسر ہونے لگی۔ ان کی والدہ کو ان کی تعلیم و تربیت کے لیے خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ہر طرح کی مصیبت جھیلی۔ خلیفہ مرحوم نے بھی دل لگا کر محنت کی اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا۔

سکول ہی کے زمانے میں انہوں نے شاعری شروع کی اور سکول کی ادبی مجالس میں حصہ لیا جس سے اساتذہ کی نظروں میں ہر دلعزیز ہوئے۔ سکول سے فراغت پائی تو ایف سی کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا لیکن سائنس سے رغبت نہ ہونے کے سبب سلسلہ تعلیم منقطع کر کے علی گڑھ میں سال اول (آرٹس) میں داخل ہو گئے۔ یہاں بھی ان کی قابلیت کے جوہر نمایاں ہوئے یہ ۱۹۱۲ء میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۱۵ء میں بی اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں آ کر فلسفہ میں ریکارڈ قائم کیا۔

میاں فضل حسین نے (جو اس وقت انجمن حمایت اسلام اسلامیہ کالج کے سیکرٹری تھے) انہیں لیکچر شپ پیش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ۱۹۱۷ء میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے فلسفہ میں ایم اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ان کے ممتحین میں علامہ اقبال بھی تھے۔ ان کا ایم اے میں مقالہ مولانا جلال الدین رومی پر تھا۔ اس دوران میں وہ شعر و شاعری بھی اور مشاعروں میں شرکت بھی کرتے رہے۔ کچھ عرصہ انگریزی اخبار ’’ آبزرور‘‘ کی ادارت کی، جس میں انہوں نے بڑے تند لہجے میں مسلمانوں سے متعلق انگریز حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی، جس کے نتیجے میں اخبار کی ضمانت ضبط ہوئی اور وہ بند کر دیا گیا۔

۱۹۱۹ء میں حکیم مرحوم، حضرت علامہ کی سفارش پر، عثمانیہ یونیورسٹی میں فلسفے اور منطق کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۰ء میں ان کی شادی خدیجہ بیگم سے ہوئی اور ۱۹۲۲ء میں وہ جامعہ عثمانیہ کے وظیفے پر ہائیڈل برگ یونیورسٹی (جرمنی) میں داخل ہوئے، جہاں انہوں نے ’’ ما بعد الطبیعیات رومی‘‘ پر مقالہ لکھا۔ (یہ مقالہ ۱۹۳۳ء میں شائع ہو گیا۔ ) ۱۹۲۵ء میں وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر وطن لوٹے۔ ۱۹۲۵ء سے ان کی ملازمت کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے اور اب وہ صدر شعبہ فلسفہ بنا دیے گئے، حیدر آباد میں ان کی زیادہ تر سرگرمیاں علمی اور تدریسی حد تک ہی رہیں۔ اس عرصے میں وہ یونیورسٹی کے جریدے ’’ مجلہ عثمانیہ‘‘ میں وقیع مقالے لکھتے رہے۔ انہوں نے فلسفے کی بعض کتب کے اردو تراجم بھی کیے۔ اپنی انہی علمی، ادبی اور تدریسی سرگرمیوں کی بناء پر وہ یونیورسٹی کے چوٹی کے اساتذہ میں شمار ہونے لگے۔

۱۹۴۳ء سے ۱۹۴۷ء تک خلیفہ مرحوم نے کشمیر میں ملازمت کی۔ دراصل ۱۹۴۳ء میں وہاں کے امر سنگھ کالج میں پرنسپل کی اسامی خالی ہوئی اور خلیفہ مرحوم کی خدمات حکومت کشمیر نے نظام دکن سے مستعار لے لیں۔ یہاں کچھ عرصہ وہ ناظم تعلیمات بھی رہے۔

خلیفہ مرحوم کی ملازمت کا تیسرا دور ۱۹۴۷ء یا ۱۹۴۹ء کا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں کشمیر چھوڑنے کے بعد خلیفہ مرحوم دوبارہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدر آباد) پہنچے، جہاں انہیں ڈین آف آرٹس بنا دیا گیا۔ دو سال بعد وہ پاکستان چلے آئے اور لاہور میں اقامت گزیں ہو گئے۔

۱۹۵۰ء میں انہوں نے اپنے پرانے رفیق اور دوست اور اس وقت کے گورنر جنرل پاکستان ملک غلام محمد کی مدد سے ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کی بنیاد رکھی جو آج بھی کلب روڈ کی ایک عمدہ عمارت میں کام کر رہا ہے۔

خلیفہ مرحوم دس برس تک اس ادارے سے منسلک رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے اقبال اور اسلام کے موضوعات پر کئی لیکچر بھی دیے۔ پھر بیرون ملک بھی سفر کیے، بالخصوص ایران کے سفر میں انہوں نے حضرت علامہ سے متعلق لیکچر دے کر ایرانیوں کو متاثر کیا۔ ۱۹۵۴ء میں لبنان میں ایک بین الاقوامی مجلس مذاکرہ میں شریک ہوئے۔ ۱۹۵۶ء میں امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی نے انہیں کانووکیشن ایڈریس پڑھنے کی دعوت دی۔ اس ایڈریس کو امریکہ کے علمی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ ۱۹۵۷ء کے کانووکیشن میں یونیورسٹی نے انہیں ایم ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ ان کے ایسے علمی سفروں کی فہرست کسی حد تک طویل ہے۔

گوناگوں علمی صفات اور ہمہ پہلو خصائص کی حامل اس شخصیت نے اپنی زندگی کے آخری سال انتہائی مصروفیت میں گزار کر ۳۰ جنوری ۱۹۵۹ء کو دل کے دورے کے باعث اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ اس وقت وہ کراچی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے سلسلے میں اپنے دوست ڈاکٹر ممتاز حسن کے یہاں مقیم تھے۔ دل کے دورے نے اتنی بھی مہلت نہ دی کہ ڈاکٹر ان کا کوئی علاج کر سکتا۔ آخری وقت جب ان کی سانس پھولی ہوئی تھی، دایاں ہاتھ دل پر رکھ کر کہہ رہے تھے:

Oh my heart, this has never happened before.

انا للہ وانا الیہ راجعوان

۔۔۔۔۔۔

1؎ یہ مختصر سوانح ڈاکٹر وحید عشرت صاحب (نائب ناظم اقبال اکادمی پاکستان لاہور) کے ڈاکٹریٹ کے مقالہ سے ماخوذ ہیں۔

۔۔۔۔۔

 

                حکیم مرحوم کی تصنیفات: حکمت رومی، فکر اقبال، افکار غالب، تشبیہات رومی

 

علاوہ ازیں بہت سے خطبات جو انہوں نے مختلف تقاریب میں پڑھے، یا ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوئے۔ بیسیوں مقالات جو ملک کے موقر مجلات میں شائع ہوئے اور اب ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے انہیں کتابی صورت میں مقالات حکیم (تین جلدیں ) کے نام سے شائع کر دیا ہے۔ خلیفہ مرحوم نے کئی ایک انگریزی کتب و مقالات کو بھی اردو میں ڈھالا،

جن میں دیبر کی کتاب History of Philosophy کو تاریخ فلسفہ کے نام سے اور ہیرلڈ ہونڈنگ کی کتاب ہسٹری آف ماڈرن فلاسفی کو تاریخ فلسفہ جدید کے نام سے اردو کا روپ دیا۔ ان کے علاوہ ان دو کتابوں کا بھی انہوں نے ترجمہ کیا:

Outline of Greak Philosophy کا ترجمہ مختصر تاریخ فلسفہ یونان کے نام سے کیا۔

Varieties of Religious Experience از ولیم جیمز کا اردو نام: نفسیات واردات روحانی رکھا۔

کئی مقالات کو بھی اردو میں ڈھالا۔ پھر بھگوت گیتا کا منظوم اردو ترجمہ کیا اور اردو منظومات کا ایک مجموعہ کلام حکیم کے نام سے بھی ان سے یادگار ہے۔

٭٭٭

تشکر: فرخ منظور جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید