FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

حاضر جوابیاں

               مظفر حنفی

 

 

بچپن کا ایک واقعہ

            بچپن میں مظفر ( اس وقت حنفی نہیں تھے) بڑی بہن ( عزیز فاطمہ) کی پنڈلی پر گرم چمٹا چپکا کر بھاگے تو ٹھوکر لگی،گرے، کہنی سے خون نکلنے لگا اور پیشانی پر گومڑ نکل آیا۔  آپا (والدہ) نے سمجھایا ’’ دیکھا ایسی شرارتیں اللہ میاں کو پسندنہیں ہیں۔ گر پڑے خون نکل آیا کہنی سے۔ ‘‘

            ’’ یہ خون نہیں ہے ٹماٹر کی چٹنی ہے۔ ‘‘

            ’’اچھا۔ ۔ ۔ پھر یہ گومڑ کیسے نکل آیا ہے؟‘‘ ماں ہنس کر بولیں۔

            ’’ ہمارے منہ میں ڈبل روٹی ہے۔ ‘‘ مظفر بولے۔

            ’’ واہ بھئی واہ‘‘ انھوں نے بیٹے کو گلے لگا لیا ’’ ہمارے مظفر میاں ڈبل روٹی کھاتے ہیں تو گالوں کی جگہ اُن کی پیشانی پھول جاتی ہے!‘‘

مجذوب کی پیش گوئی

            ہسوہ ( فتح پور) کے مشہور صوفی بزرگ مولانا عبد القادر نیازی نظامی چشتی وغیرہ وغیرہ، مظفرؔ حنفی کے رشتہ دار تھے۔ ایک دن ان کے کچے آبائی مکان میں گھُستے ہی بولے۔

            ’’چچی! جلدی سے پان کھلاؤ تو بھاگوں۔ ‘‘

            پان لگاتے ہوئے مظفرؔ کی بھولی بھالی ماں نے کہا۔ ’’ بھاگنا بعد میں پہلے میری بات سُنو۔ یہ بدمعاش مظفرؔ، دوپہر کی لُو میں آوارہ لڑکوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتا ہے، ٹھاکر بچوں کے ساتھ دھینگا مشتی کرتا ہے، رانی کے تالاب میں بُرجیوں سے چھلانگ لگاتا ہے، آم کے باغ میں شرارتیں کرتا ہے۔ ہمارا تو ایک ہی انڈا ہے وہ بھی گندا۔ بھیّا اس کے لیے تعویذ لکھو کہ پڑھنے لکھنے میں جی لگائے۔ ‘‘

            عالم جذب میں پان کی پیک چکن کے کُرتے پر بہاتے ہوئے قادر مولانا نے مظفرؔ کے بازو پر چُٹکی کاٹی۔ ’’ چچی ہمارے بھائی کو کسی تعویذ کی ضرورت نہیں ہے، یہ عبدالحلیم شررؔ بنے گا۔ ‘‘

لاؤ ہماری اکنّی

            بڑی بہن شفیق فاطمہ کو اُن کی ایک سہیلی نے خط میں شکایتی شعر لکھا تھا:

نہ کاغذ کی گرانی ہے نہ سیاہی بیش قیمت ہے

اسی سے صاف ظاہر ہے کہ ہم سے کم محبت ہے

            بیچاری جواب شعر کی فکر میں تھیں۔ پانچویں جماعت کے طالب علم چھوٹے بھائی نے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ’’ ایک آنہ دو تو ہم کتاب سے چھانٹ کر عمدہ شعر لا دیں گے۔ ‘‘

            بہن نے حامی بھر لی اور بھائی نے فی الفور شعر گڑھ دیا:

سیاہی بیش قیمت ہے نہ کاغذ کی گرانی ہے

عدیم الفرصتی لیکن گناہ کامرانی ہے

            ’’ بہت محنت لگی ہے شعر کہنے میں ‘‘ مظفر حنفی نے بہن کو گھیرا۔ ۔ ۔ ۔ ’’ لاؤ ہماری اکنّی۔ ‘‘

جج کے مال کا سرقہ

            ہسوہ مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر مولوی شبراتی نے اُردو کی ساتویں جماعت کے طلبہ کو اس مرتبہ شعر کی تقطیع کرنے کی جگہ مصرع طرح پر پانچ پانچ اشعار کہنے کا فرمان جاری کیا۔ دوسری جنگ عظیم انھیں دنوں ختم ہوئی تھی چنانچہ طرح کا مصرعہ تھا:

’’ سمندر میں گرے گا خون کا دریا رواں ہو کر‘‘

            اگلے ہفتے صرف دو لڑکے طرحی مصرعہ پر تین تین شعر کہہ کر لائے۔ پہلے شریف الحسن عرف مچّھن نے غزل سرائی فرمائی اور داد پائی۔ پھر مظفر حنفی کا نمبر آیا۔ حضرت نے اپنے دو شعروں کے ساتھ وہ شعر بھی جوڑ رکھا تھا جو کبھی اپنے والد محترم سے سنا تھا:

جوانی کی دُعا بچوں کو ناحق لوگ دیتے ہیں

یہی بچے مٹاتے ہیں جوانی کو جواں ہو کر

            شعر سن کر مولوی صاحب نے خوب گوشمالی کی ’’ واہ میاں چیں پٹاخ۔ جج کے یہاں سرقہ۔ یہ اکبرؔ الٰہ آبادی کا مال ہے۔ ‘‘

انعام کی گوشمالی

            آزادیِ ہند سے پہلے یو پی (اس وقت ممالک متحدہ آگرہ و اودھ) ورنا کیولر مڈل اسکولوں میں ساتویں جماعت کا امتحان بورڈ لیتا تھا۔ نتیجے گزٹ میں شائع ہوئے تو ہسوہ مڈل اسکول کے دو طالب علم، مچھّن (شریف الحسن ) اور میاں چِیں پٹاخ ( مظفرؔ حنفی) صوبے کے سرفہرست کامیاب ہونے والے پچیس امیدواروں کی صف میں شامل تھے۔ والد ( عبد القدوس صاحب ) کے سامنے مظفرؔ حنفی نے سینہ پھُلا کر مارک شیٹ رکھی۔ ’’ دیکھیے چچا میاں۔ سات مضامین میں ڈسٹنکشن ( امتیازی نمبر) آئی ہے۔ ‘‘

            ’’آٹھویں سبجیکٹ میں کیوں نہیں ہے ‘‘ باپ نے مسکرا کر بیٹے کا کان پکڑ لیا۔

کھوٹی دُوَنّی ڈیڑھ روپے کی

            بہت کم لوگوں کو یقین آئے گا لیکن یہ بات صد فیصد سچ ہے۔ اُس وقت ملک میں سولہ آنے والا روپیہ چلتا تھا اور ایک آنے میں چار پیسے ہوتے تھے۔ بھائی جان نے مظفر کو جیب خرچ کے لیے چوَنی دی تو انھوں نے دو آنے کے چلغوزے خریدے،( نیکر کی جیبیں لبالب بھر گئیں ) اور ٹہلتے ہوئے پرکاش ٹاکیز پر پہنچے جہاں اُن کی پسندیدہ ہیروئن ناڈیا اور ہیرو، جان کاؤس کی فلم ہنٹر والی لگی تھی۔

            اب دیکھا تو دونی کھوٹی تھی۔ بکنگ کی کھڑکی پر بے پناہ رَش تھا، گھس پِل کر ہاتھ کھڑکی میں پہنچایا کہ شاید دونی چل جائے۔ جو نہ صرف چل گئی بلکہ ٹکٹ سے چپک کر ایک اور ٹکٹ آ گیا۔ بے پناہ رش کی وجہ سے ٹکٹوں کا بلیک چل رہا تھا۔ ان کا فاضل ٹکٹ تین آنے میں بک گیا۔ اب سنیما ہال میں داخلے کی باری تھی۔ گیٹ پر اپنا ٹکٹ دربان کو دینے لگے تو پیچھے سے ریلا آیا اور یہ حضرت ہال میں تھے، ٹکٹ بچ گیا۔ ایک تماش بین کو بنچ پر اپنی جگہ محفوظ رکھنے کی درخواست کی اور پاس لے کر کر باہر آئے،اب دوسرا ٹکٹ چار آنے میں بکا۔

            شو ختم ہو گیا تو چلغوزے چھیلتے ہوئے اپنی کامرانیوں کا قصہ سلطان ( کلاس فیلو) کو سنایا۔ وہ گلے پڑ گیا کہ اتنی کمائی ہوئی ہے سیخ کباب کھلاؤ۔

            چنانچہ دونوں دوست مقیم کبابچی کے منڈوے میں داخل ہوئے اور چھوٹی ڈبل روٹی میں پروئے املی کی چٹنی میں لت پت دو دو سیخ کباب کھائے اور دوَنی کبابچی کے ہاتھ پر رکھّی تو اس نے گاہکوں کے دھوم دھڑکے میں ایک آنے کی جگہ ان کو پندرہ آنے لوٹائے۔

پانچ بٹا نو

            مظفر حنفی نے ایک مشہور لیڈر کے بارے میں سنا تھا کہ اکثر امتحان کے ایسے پرچوں میں جہاں آٹھ نو میں سے پانچ سوال کر نے کی اجازت تھی وہ سب سوالوں کے جواب لکھا کرتے تھے اور نوٹ لگاتے تھے کہ آٹھ میں سے کوئی پانچ سوال جانچ لیجیے۔ آٹھویں جماعت میں ریاضی کے پرچے میں یہ حضرت بھی ایسا ہی نوٹ لگا کر آئے کہ نو میں سے کوئی پانچ سوال جانچیے۔ کھنڈوا میں اردو، ہندی، انگریزی اور مراٹھی میڈیم کے طلبہ میں سے ضلع بھر میں اول آنے والے کو بی بی سونی پرائز سے نوازا جاتا ہے۔ ایک بڑے جلسے میں ڈپٹی کمشنر سے انعام لے کر مظفر حنفی گھر پہنچے تو ریاضی کے استاد عبد الرحمان صاحب مزاج پرسی کے لیے آ گئے۔ مظفر کی کنپٹی پر ایک نرم ہاتھ رسید کرتے ہوئے پیار سے استاد نے فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ’’ نا معقول نو میں سے ایک سوال بھی غلط ہو جاتا تو یہ انعام کیسے ملتا؟ ایں !‘‘

تُرت دان

            منشی جناب( عبد القدوس صاحب) نے سالانہ امتحان کے زمانے میں اپنے اکلوتے بیٹے کو مچّھر دانی میں چھُپ کر طلسمِ ہوشربا، پڑھتے ہوئے پکڑ لیا۔ سرزنش کرتے ہوئے موصوف نے صاحبزادے کو سمجھایا:

            ’’امتحان چل رہے ہیں اور تم اتنی لمبی چوڑی داستان میں سر کھپا رہے ہو۔ میاں محنت کر کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرو، اس لائق بنو کہ تمھاری لکھی ہوئی داستانیں دوسرے پڑھیں !‘‘

            مظفرؔ حنفی نے’ تُرت دان مہا کلیان‘ پر عمل کرتے ہوئے دوسرے ہی دن سے دوسروں کے لیے کہانیاں لکھنے کا آغاز کر دیا۔

دو تبصرے ایک کتاب

            ۱۹۵۲ء میں گورنمنٹ انٹر کالج فتح پور کے طالب علم نے لائبریری سے ایک کتاب حاصل کی۔ یہ پریم چند کا ناول تھا’’ گؤ دان‘‘۔ اس کے ہاف ٹائٹل پر تحریر تھا:

            ’’ مہاجن کی توند جیسی پھولی ہوئی ایک بے کار کتاب۔ ‘‘

                                                                        ( بشیر بدرؔ)

            طالب علم نے اس کے نیچے اپنا ریمارک درج کیا:

            ’’ چوہے جیسا دماغ رکھنے والے کی بکواس۔ ‘‘

                                                               ( مظفرؔ حنفی ہسوی)

نہ سہی کچھ نہ سہی

            ہسوہ ( فتح پور ) میں حباب ہاشمی، محمد علی شاہ،کپور سنگھ، محبوب بانہہ کٹا اور بچپن کے کئی دوست مظفر حنفی کے ساتھ خوش گپیاں کر رہے تھے۔ اچانک انھوں نے بانہہ کٹا کا ہاتھ تھام کر کہا:’’ میں کوئی آٹھ سال بعد وطن آیا ہوں۔ اس عرصے میں تم نے بہت سی غزلیں کہی ہوں گی،کچھ شعر سناؤ نا۔ ‘‘

            ’’ جی میاں عرض کیا ہے ’’ محبوبِ بانہہ کٹا ہسوی شروع ہو گئے۔

            خط خون سے، سیاہی نہ سمجھنا  ٭  زندہ ہوں تری یاد میں مردہ نہ سمجھنا

( تالیاں ) شعر ملاحظہ ہو:

  ارے پیالہ تو بھر چکا ہے چھلکنے کی دیر ہے  ٭   میاں موت تو  آ چکی ہے مگر مرنے کی دیر ہے

      ’’ یار وہ کاش والا شعر سناؤ۔ ‘‘ مظفر حنفی بولے۔

      محبوب نے خوش ہو کر کہا ’’ فرماتا ہوں۔

      کاشت کہ ترے مکاں کے پاس ہوتا ٭ نہ سہی کچھ نہ سہی کم از کم تری آواز تو آیا کرتی‘‘

شاعرِ بے بدل

            شوخ اور تیز طرار نوجوانوں پر مشتمل ’’یارانِ نئے چراغ‘‘ اپنے سابق سرپرست سے خفا تھے۔ موصوف شہر کے بڑے ڈاکٹر اور میونسپل کمیٹی کے نائب صدر تھے اور سیاسی مصلحتوں کے تحت اردو تحریک کے مخالف ہو گئے تھے۔ کئی برسوں سے ہر منگل کو باقاعدگی سے اپنے دولت کدے پر شعری نشستوں کا بندوبست کرتے تھے۔ نوجوان اردو دوستوں نے مذکورہ مشاعروں کا زور توڑنے کے لیے ان کے مکان کے عین مقابل واقع نیشنل اردو لائبریری میں ہر منگل کو ’’پاگلوں کے مشاعرے‘‘ شروع کر دیے۔ ایک دوست کی لاؤڈاسپیکر کی دکان تھی۔ اس لیے دو تین مائک مفت مل جاتے تھے۔ جلد ہی مدمقابل کے جلسوں میں شریک ہونے والے شاعروں کی تعداد صفر ہو گئی کہ پاگلوں سے مقابلہ آرائی کون کرتا۔ لطف یہ رہا کہ دوسرے مشاعرے کے درمیان ہی نارمل مڈل اسکول کے پرنسپل عبد الحمید صدیقی صاحب سوٹ بوٹ میں ملبوس لائبریری میں وارد ہوئے اور ڈپٹ کر بولے۔ ۔ ۔ ’’ تم لوگوں میں سے دو آدمی میرے شاگرد ہیں، مشاعرہ کرتے ہو اور اپنے استادکو نہیں بلاتے۔ ‘‘

            ’’ سر آپ کو معلوم نہیں یہ پاگلوں کا۔ ۔ ۔ ‘‘

            ’’تو کیا ہوا، مشاعرہ تو ہے‘‘ پرنسپل صاحب نے فرمایا’’ وہ سامنے والا ڈاکٹر بھی مجھے شاعر نہیں مانتا۔ ‘‘

            ’’ بے شک آپ شاعر بے بدَل ہیں ‘‘مظفر حنفی نے لہک کر کہا۔ ’’ آپ ان مشاعروں کے مستقل صدر ہوں گے۔ ‘‘

مکھی نے مارا

            عہدِ جوانی کا آغاز تھا۔ احباب نے گھاٹم پور گھاٹ پر کشتی اور جال سے مچھلی کے شکار کا پروگرام بنایا۔ امراؤ صاحب ( ٹھیکیدار)، فصیح اختر اور مظفر حنفی ٹرین سے مکن پور پہنچے تو تیز دھوپ اور لُو کے تھپیڑوں نے بُرا حال کر دیا۔ طے ہوا کہ عاشق بلوری کے یہاں دوپہر گزار کر شام کو دریا پر جائیں گے۔ اپنے کشادہ کمرے میں دوستوں کو بٹھا کر میزبان نے اندرونِ خانہ سے شربت روح افزا کے چار گلاس منگوائے۔ اتنے میں ایک مکھّی نے مظفر کے گلاس میں چھلانگ لگا دی۔ مظفر کا خیال تھا کہ عاشق بلوری کی نگاہ اس پر پڑے گی تو شربت کا دوسرا گلاس پیش کریں گے لیکن مکھی لوٹ پوٹ کر پھُر سے اُڑ گئی۔ اب عاشق بلوری نے پوچھا:

            ’’ ارے مظفر صاحب آپ نے شربت نوش نہیں فرمایا؟‘‘

            ’’ جی نہیں۔ ‘‘مظفرؔ نے جواب دیا: ’’ مجھے شربت پینے سے زکام ہو جاتا ہے۔ ‘‘

معذرت، معذرت

            اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی دنوں میں بشیر بدر پی اے سی کی چوتھی بٹالین میں کانسٹبل تھے۔ بٹالین الٰہ آباد میں متعین تھی۔ انھوں نے مدیر ’’نئے چراغ‘‘ کو خط لکھا:

            ’’نئے چراغ‘‘ کے لیے فراقؔ صاحب اپنی دو غیر مطبوعہ غزلیں بھجواتے ہیں۔ اُن کی ہدایت پر اپنی چار غزلیں بھی برائے اشاعت ارسال کرتا ہوں۔ ‘‘

            رسالے کے مدیر اعلیٰ ( مظفر حنفی ) نے جواباً لکھا’’ فراقؔ گورکھپوری کی دونوں غزلیں ’’شعور‘‘ کراچی میں شائع ہو چکی ہیں اور آپ کی غزلیں لائقِ اشاعت نہیں ہیں۔ معذرت! معذرت!‘‘

فراق ہنسے

            ’’ یہ کیا طوفان بد تمیزی ہے؟‘‘ فراقؔ گورکھ پوری بڑے بڑے دیدے گھما کر بولے ’’ارے یہ کمبخت اتنے بڑے بڑے بم پٹاخے کیوں چھوڑ رہے ہیں ؟‘‘

            ’’ حضور‘‘ مشاعرے کے کنوینر مظفر حنفی نے پچکارنے کی کوشش کی ’’ کھنڈوا والے آپ کی آمد پر اظہار مسرت کر رہے ہیں۔ ‘‘

            ’’ یہ کیسا اظہارِ مسرت ہے؟‘‘ فراقؔ نے ران پر زور سے ہاتھ مارا ’’ ہمارا دم نکل گیا تو۔ ۔ ۔ ؟‘‘

             ’’ تو ہمارے شہر کا نام بھی تاریخ ادب میں درج ہو جائے گا۔ ‘‘

             فراق ہنسنے لگے۔

 غنڈے کا جواب

            اُس دن اطلاع ملی تھی کہ مخدومؔ  جابر کے بیٹے ہاں بچہ ہوا ہے۔ قاضی حسن رضا اپنے اسکول کے حالات بیان کرتے ہوئے کہنے لگے:

            ’’ یار مظفرؔ، سمجھ میں نہیں آتا اس غنڈے عہدہ دار کو کیسے سمجھاؤں۔ کل پھر انتظامیہ کی میٹنگ ہے؟‘‘

            ’’ سیدھی ترکیب ہے‘‘ مظفرؔ حنفی نے فیصلہ سنایا۔ ’’ مخدوم جابر کو بُلا لو، تمہیں تو کہہ رہے تھے کہ وہ دادا بن گئے ہیں۔ ‘‘

کچھ تو کر

            ڈاکٹر خورشید احمد صدیقی کے دولت کدے میں ظوئے انصاری کے ساتھ قاضی حسن رضا، حسن بشیر، قاضی انصار اور مظفر حنفیؔ باہمی صلاح مشورے میں مشغول تھے، انجمن ترقی اردو کی مقامی شاخ کی سہ روزہ تقریبات کے سلسلے میں لائحہ عمل مرتب کیا جا رہا تھا۔ اسی دوران اختر قریشی پسینے میں شرابور کمرے میں داخل ہوئے۔

            ’’بھائی جان، میں نے کھنڈوا کا کونہ کونہ چھان مارا، انگریزی شراب کہیں نہیں مل سکی۔ ‘‘

            ظؔ۔ انصاری کے چہرے پر شدید کرب کے آثار دیکھ کر مظفرؔ حنفی نے قاضی انصار (نائب مدیر’’ نئے چراغ‘‘)  سے کہا:

’’ قاضی ظوئے پیاسے ہیں

 ٹھرّا ہی لا،کچھ تو کر‘‘

گھٹیا اور بڑھیا

۱۹۵۹ء کی بات ہے۔ مظفر حنفی اپنے افسانوں کے مجموعے پر پیش لفظ قلمبند کرنے کی درخواست کے ساتھ الٰہ آباد یونیور سٹی کے کوارٹر میں مقیم فراق گورکھپوری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہندی کے مشہور نقاد،رام کمار ورما، موصوف کے ساتھ محوِ گفتگو تھے۔ فراقؔ نہایت جارحانہ انداز میں ہندی کے گنوارپن اور اردو کی شائستگی کے بارے میں دیر تک بولتے رہے تو مظفر حنفی نے نہایت ادب کے ساتھ کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ حضور، اس کے باوجود اردو میں ہندی کے بہت سے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ‘‘

            ’’ سچ ہے‘‘ فراقؔ آنکھیں نچا کر بولے ’’ لیکن صاحبزادے! ورما صاحب کو بتاؤ۔ اگر کسی چیز کو بہت خراب کہنا ہوتا ہے تو ہم اردو والے اسے گھٹیا کہتے ہیں لیکن چیز اچھی ہو تو بڑھیا نہیں کہتے۔ ہم کہتے ہیں عمدہ ہے،نفیس ہے۔ ‘‘

شاندار پانی

            کھنڈوہ میں غالب صدی تقریبات کے ضمن میں مشاعرہ تھا۔ ظؔ انصاری مسند صدارت پر متمکن تھے۔ گرمی کی شدت میں شاعروں اور سامعین نے پانی کے ڈرم خالی کر دیے تھے۔ جو بھی شاعر مائک پر آتا،پانی طلب کرتا۔ منتظمین جلسہ نے ریلوے اسٹیشن کے کینٹین سے پانی فراہم کرنے کی درخواست کی۔ مائک پر ناظر خیامی اپنے مخصوص انداز میں مزاحیہ نظم سنا رہے تھے کہ پنڈال کے باب داخلہ پر ستار کھنڈوی پانی چھلکاتے بڑا سا بھگونا سر پر رکھے نمودار ہوئے۔ ظؔ انصاری کا چہرہ کھل اُٹھا، لہک کر اعلان کیا۔

            ’’ سامعین اور شعرائے کرام ! انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ پانی آ رہا ہے!‘‘

            اُدھر پانی کے بوجھ سے لہراتے ہوئے ستار کھنڈوی نے قدم بڑھایا تو ڈگمگا کر چھلکاؤ سے شرابور ہو گئے۔

            ’’ جی ہاں، پانی آ رہا ہے ‘‘ مظفر حنفی نے مائک پر کہا ’’ اور ملاحظہ فرمائیے کس شان سے آ رہا ہے۔ ‘‘

 

 

مُرغا ہوتا تو؟

            اپنے برادر نسبتی، ظہور احمد کاظمی کے ساتھ مظفر حنفی فتح پور سے الٰہ آباد جا رہے تھے۔ راستے میں بس سَینی میں رُکی تو دونوں اُتر کر ڈھابے میں چائے پینے لگے۔ دوسری بنچ پر براجمان بڑی بڑی مونچھوں والے ایک صاحب آملیٹ کھا رہے تھے، جب بھی لقمہ توڑتے، چمچ پلیٹ میں کھٹ سے ٹکراتا۔ ظہور صاحب سے نہیں رہا گیا۔ کہنے لگے:

            ’’ بھیّا، انڈا اس طرح کھا رہے ہو، مرغا کھاؤ گے تو پلیٹ ہی توڑ دو گے!‘‘

کبھی ناؤ کبھی گاڑی

            یارانِ ’نئے چراغ‘ کی جان توڑ کوششوں کے نتیجے میں انجمن ترقی اردو کی شاخ، کھنڈوا میں اردو میڈیم بوائز ہائی اسکول قائم کرنے میں کامیاب ہوئی تو بلڈنگ کا مسئلہ در پیش ہوا۔ یتیم خانے کی بلڈنگ خالی پڑی تھی، اس کے ٹرسٹی خان بہادر حفاظت علی، لطیف سیٹھ وغیرہ سے گزارش کی گئی کہ پوری ملت کو یتیم ہونے سے بچائیں۔ اسکول چل نکلا، مظفر حنفی کے اکثر ساتھی کسی معاوضے کے بغیر درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے لگے۔  ایک سخت گیر وظیفہ یاب استاد اقبال صاحب کو پرنسپل مقرر کیا گیا۔ ایک سال بعد شکایت ملنے پر مظفر حنفی نے انھیں پکڑا:۔ ۔ ۔ ۔ ’’سر آپ نے ساتویں آٹھویں جماعت میں ہم لوگوں کو بہت چھڑیاں جمائی ہیں۔ اب بھی آپ جس استاد سے خفا ہوں اُسے اپنے چیمبر میں بلا کر سرزنش کر سکتے ہیں، سبھی آپ کے شاگرد رہے ہیں لیکن پلیز کسی استاد کو اس کی کلاس میں جا کر ڈانٹنے سے پرہیز کیجیے۔ ‘‘

            ’’ ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘ انہوں نے دریافت کیا

            ’’ ورنہ سر، معاف کیجیے، میں اسکول مینجمنٹ کا منیجر ہوں !‘‘

جابر پر جبر

            اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے عزیز اندوری کھنڈوا آئے تھے۔ حسن بشیر، منشی جلیس شیخ عبد اللہ، قاضی انصار، علی احمد قریشی، حسن رضا وغیرہ کے ساتھ بصرہ ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے مظفر حنفی نے پوچھا: ’’ یار عزیز، کہیں ملازمت کر رہے ہو یا ابھی بیکاری کا دور ہی چل رہا ہے؟‘‘

            ’’ بھیا نوکری تو ابھی نہیں لگی۔ ‘‘ عزیز اندوری نے اپنے کارپٹ بیگ سے ایک ڈبہ نکال کر کہا ’’ البتہ ایک کمپنی میں کمیشن ایجنٹ کے طور پر کام شروع کیا ہے۔ ‘‘

            انھوں نے دو دو گولیاں ڈبے سے نکال کر چھ سات دوستوں کی خدمت میں پیش کر دیں ’’ انھیں ایک گلاس پانی میں ڈالو تو عمدہ اور ہاضم شربت بن جاتا ہے۔ ‘‘

            اُن کا جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ مخدوم جابر برہانی نے گولیاں پھانک کر پانی پینا شروع کر دیا۔ ۔ ۔ ’’ یہ کیا غضب کیا آپ نے؟‘‘ عزیز کا رنگ اڑ گیا’’ ایک بے وقوف نے اندور میں یہی حرکت کی تھی۔ اس کے پیٹ میں اتنی گیس بن گئی کہ ہارٹ فیل ہو گیا۔ ‘‘

            مظفر حنفی بوکھلا کر کھڑے ہو گئے ’’ ارے بھائی، یہ تو جابر کے ساتھ جبر ہو گیا۔ چلو اسپتال۔ ‘‘

غلطی در غلطی

            ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ کا پہلا شمارہ چھپنے کے لیے آگرہ اخبار پریس جانے والا تھا۔ مسودہ منظوری کے لیے سرپرست ( ڈاکٹر ممتاز احمد خوشترؔ) کو بھیجا گیا تو موصوف نے مظفر حنفی کو طلب کیا جو رسالے کے چیف ایڈیٹر تھے۔ انھیں دیکھتے ہی خوشتر برہم ہو گئے:

            ’’ یہ آپ نے ہماری غزل میں اصلاح کر دی ہے۔ اچھا خاصہ مصرع تھا ( بہت کم کر دیا ہے قصۂ غم مختصر میں نے) آپ نے ’’ کم‘‘ کی جگہ ’’ کچھ‘‘ کر دیا ہے۔ بھیا یہ غزل علامہ ناطق گلاؤٹھی کی اصلاح کردہ ہے۔ ‘‘

            غلطی درست کر کے مسودہ آگرہ بھیج دیا گیا۔ پرچہ چھپ کر آیا تو پہلا نسخہ سرپرست کی خدمت میں پیش کر تے ہوئے مدیر اعلیٰ نے معذرت کی:

            ’’ ڈاکٹر صاحب، کم عقل کاتب نے اس مصرع میں ’ کم‘ کو پھر ’کچھ‘ کر دیا ہے، اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ‘‘

ایک نہ شد، دو شد

            ٹرین بھوپال اسٹیشن سے روانہ ہوئی تو بڑی دیر سے افسردہ بیٹھے ہوئے مظفر حنفی نے برتھ کے نیچے سے اپنی ایک چپل اٹھا کر پلیٹ فارم پر پھینک دی اور مسکرانے لگے۔

            ’’ یہ کیا پاگل پن ہے یار؟‘‘ ان کے ہم سفر اور بے تکلف دوست قاضی حسن رضا نے الجھ کر کہا:’’ اچھی خاصی نئی چپل باہر اچھال دی اور خوش بھی ہو رہے ہو!‘‘

            ’’ یہ حماقت نہیں، دانشمندی تھی!‘‘ مظفر بولے: ’’ ناشتے کا بل ادا کرو تو ثابت بھی کر سکتا ہوں۔ ‘‘

            شرط طے ہو گئی تو مظفر نے کہا: ’’ بات یہ ہے کہ جب گاڑی بھوپال اسٹیشن پر رکی ہوئی تھی اُس وقت میں باتھ روم گیا۔ وہاں میری ایک چپل پائپ کی راہ سے نیچے پٹری پر گر گئی۔ مجبوراً ایک ہی چپل کے ساتھ سیٹ پر واپس آنا پڑا۔ اب گاڑی کے چھوٹتے ہی خیال آیا کہ دوسری چپل بھی یہیں چھوڑ دی جائے تو جوڑی کسی کے کام آ جائے گی چنانچہ۔ ۔ ۔ ‘‘

            ’’ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے!‘‘ حسن رضا منہ بنا کر کہنے لگے: ’’ ناشتے کے پیسے بہر حال تمھیں دو گے۔‘‘

کہاں ہے مسودہ؟

            اپنے بے تکلف دوست اور بچپن کے ساتھی حباب ہاشمی کے ساتھ مظفرؔ حنفی ایک دن الٰہ آباد میں فراق گورکھپوری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کچھ دیر رسمی باتیں ہوئیں پھر موقع پا کر مظفرؔ نے فراقؔ گورکھپوری کو اپنی آمد کے مقصد سے آگاہ کرتے ہوئے کہا:

            ’’ حضور! یہ ہمارے دوست حباب ہاشمی اپنے زیر طبع مجموعہ کلام پر آپ کا پیش لفظ چاہتے ہیں۔ ‘‘

            ’’پھر۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ فراقؔ آنکھیں گھما کر بولے

            ’’ آپ سے عرض کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ کہتے ہیں فراقؔ  صاحب لکھیں وِکھیں گے نہیں۔ گالیاں الگ دیں گے۔ ‘‘

            ’’ پھر۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ فراقؔ نے مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ پوچھا

            ’’میں انھیں ساتھ لے کر حاضر ہو گیا ہوں۔ ‘‘ مظفر حنفی نے کہا’’ گالیاں آپ مجھے دے سکتے ہیں، انھیں پیش لفظ سے نواز دیجیے۔ ‘‘

            ’’ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ فراقؔ نے آنکھیں اور بانچھیں کشادہ کرتے ہوئے فیصلہ سنایا۔ ’’ ہمیں جتنی بھی گالیاں دینی ہوں گی پیش لفظ میں ہی دیں گے۔ کہاں ہے مسودہ؟‘‘

انعام پہ دُشنام

            مظفرؔ حنفی کے تایا زاد بڑے بھائی مظہر الدین کھنڈوا کے نگر سیٹھ تھے۔ پانچویں تک پڑھے ہوئے بھولے بھالے آدمی تھے۔ اُونچا سنتے تھے۔ ایک مرتبہ دلؔ لکھنوی کے شعروں سے خوش ہو کر انھوں نے ملازم سے بیس روپیے بطور انعام بھیجے اور شاعر نے آداب کر کے رکھ لیے تو صدر مشاعرہ ناطق گلاؤٹھی بپھر گئے۔ ’’ دِلؔ صاحب! پیسے واپس کیجیے، یہ مشاعرہ ہے قوّالی کی محفل نہیں ہے۔ ‘‘

            پیسے واپس آئے تو مظہر سیٹھ بگڑ گئے۔ ’’ واہ بھئی،شاعر انعام لیتا ہے تو ان بڑے میاں کا کیا جاتا ہے۔ ‘‘ مظفرؔ نے سمجھانا چاہا تو بگڑ کر بولے’’ بھیا تو چُپ رہ، ڈاکٹر ممتاز خوشتر اِن بُڑھؤ کے آنے جانے اور نذرانے کا چندہ ہم سے ہی لے کر گئے تھے، واہ بھئی واہ!‘‘

پنڈت جی کے دوست

            بیسویں صدی کے چھٹے عشرے کی بات ہے انجمن ترقی اردو شاخ کھنڈوا نے بہت سے شاعروں کو مشاعرے میں بُلایا۔ ان میں نریش کمار شاؔد بھی تھے۔ عین موقع پر حضرت دغا دے گئے۔ شعر خوانی کے لیے ناظم مشاعرہ نے انھیں بار بار آواز دی لیکن وہ گدھے کے سینگ کی طرح غائب رہے۔ خیر۔ مشاعرہ ختم ہوا، مہمان اپنے لفافے لے کر رخصت ہو گئے۔ تین دن بعد مظفرؔ حنفی اور ’’ نئے چراغ‘‘ کے نائب مدیران حسن بشیر، قاضی انصار، حسن رضا وغیرہ رسالے کے دفتر میں کام کر رہے تھے کہ ایک سپاہی نے آکر کہا ’’ تھانیدار صاحب نے آپ کو بُلایا ہے۔ جل تو جلال تو کا وظیفہ پڑھتے ہوئے یہ لوگ تھانے پہنچے تو پولیس انسپکٹر نے کہا:

            ’’ ذرا حوالات میں دیکھ لیجیے۔ ایک پاگل تین دن سے رٹ رہا ہے کہ وہ ’ نئے چراغ‘ والوں کا مہمان ہے۔

             دیکھا گیا تو نریش کمار شادؔ داڑھی بڑھائے،چکٹ کپڑوں میں ملبوس زمین پر دراز تھے۔

            ’’ ارے بھئی!‘‘ مظفر بولے‘‘ انھیں کیوں ڈال رکھا ہے حوالات میں ؟‘‘

            ’’ آپ لوگوں کو معلوم ہے‘‘ تھانیدار نے کہا۔ ’’ہمارے علاقے میں شراب بندی ہے۔ یہ پارک میں بیٹھ کر ٹھرّا چڑھا رہا تھا۔ سپاہی نے منع کیا تو کہنے لگا میں پنڈت نہرو کا دوست ہوں۔ ہم نے کہا پھر تو ان مہاشے کو سرکاری مہمان ہونا چاہیے۔ ‘‘

ناظم کا پینترا

            کانپور کی اقبال لائبریری کا بڑا مشاعرہ تھا، مظفر حنفی اور اُن کے برادرِ نسبتی بشارت حسین قیوم ناشادؔ

کے پریس میں بیٹھے محظوظ ہو رہے تھے۔ بشارت میاں نے تازہ تازہ شعر کہے تھے اور مصر تھے کہ مظفرؔ حنفی کسی طرح انھیں مشاعرہ پڑھوا دیں۔ قیوم ناشادؔ نے بھی سفارش کی تو مظفر حنفی نے رقعہ ناظم مشاعرہ ملک زادہ منظور احمد کو بھجوایا کہ ہمارے بہنوئی کو بھی اسٹیج پر بلا لیں۔ ملک زادہ نے پرچہ پڑھ کر چاک کر دیا اور مائک پر بولے’’ حضرات، شاعروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ میں کسی کی سفارش ہرگز ہرگز قبول نہیں کروں گا۔ اب آپ لوگ اچھے، بہت اچھے نئے شاعر کا استقبال کیجیے۔ تشریف لائیے محترم بشارت حسین بشارتؔ فتح پوری!‘‘

مجموعے کا چندہ

            ڈاکٹر ممتاز خوشتر ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘( کھنڈوا )کے سرپرست تھے اور مظفر حنفی اس کے مدیر اعلیٰ۔ دونوں پرچے کی توسیعِ اشاعت کے سلسلے میں محو گفتگو تھے کہ ایک صاحب زیر تعمیر مسجد کا چندہ لینے آ گئے۔ سر پرست نے مدیر اعلیٰ سے دریافت کیا:

            ’’ ان کی خدمت میں کیا پیش کیا جائے؟‘‘

            ’’ڈھائی سو روپے مناسب رہیں گے۔ ‘‘مظفرؔ بولے

            ’’ مولانا دو سو پچاس روپے کی رسید کاٹ دیجیے‘‘ خوشتر صاحب نے فرمایا اور میز کی دراز سے اپنے مجموعۂ کلام کے دس نسخے نکال کر انھیں تھما دیے جن کی قیمت ۲۵ روپے فی جلد تھی۔

گُر دفتی چڑھانے کا

            ۱۹۵۵ء میں ریاست بھوپال کے محکمہ تعلیمات میں ملازمتیں جیسے لُٹ رہی تھیں۔ صرف بے روزگاری کے دفتر روزگار میں رجسٹریشن کرانا پڑتا تھا۔ ہر جمعرات کو ڈائریکٹر تعلیمات انٹرویو لے کر سیکڑوں ٹیچر بھرتی کرتے تھے۔ مظفر حنفی اپنے تقرر کا پروانہ لے کر باہر نکلے تو عمیق حنفی مل گئے اور مبارک باد دے کر دریافت کیا’’ کہاں پوسٹ کیا گیا ہے آپ کو؟‘‘

            ’’ مڈل اسکول لاڑکوئی میں۔ ۔ ۔ اور آپ کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘

            ’’ کہیں نہیں۔ ‘‘ عمیق حنفی نے آزردگی کے ساتھ کہا ’’ ہمارا نمبر ہی نہیں لگا۔ ‘‘

            ’’تو کیا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ مظفر بولے ’’اگلی جمعرات کو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

            ’’ نہیں بھائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ عمیقؔ نے بات کاٹی۔ ۔ ۔ ۔ ’’اگلی جمعرات کے لیے دفتر روزگار سے امیدواروں کی نئی کھیپ آئے گی۔ اس میں ہمارا رجسٹریشن کیسے ہو گا۔ سر ٹیفکیٹ پر تو مہر لگا دی گئی ہے اور آج کی تاریخ لکھ دی گئی ہے۔ کوئی گُر بتائیے نا۔ ۔ ۔ ‘‘

            ’’مظفر حنفی نے سرٹیفکیٹ کی پشت پر لگی ہوئی مہر اور اندراج کو دیکھ کر قہقہہ لگایا۔ ۔ ۔ ۔

             ’’ بھائی جان اب اسے فریم کر ا لیجیے اور جب تک آپ کا تقرر نہیں ہو جاتا فریم کی پشت پر نئی دفتی چڑھاتے رہیے۔ ‘‘

 

 

پدھاریے

            لاڑکوئی کے سیٹھ سُوا لال جین کے اکلوتے بیٹے کا مُنڈن تھا۔ مظفر حنفی اپنے دوست بخشش عباس کے ساتھ مبارکباد دینے گئے۔ سیٹھ نے لڈوؤں اور لسّی سے مہمانوں کی خاطر تواضع کی۔ تھوڑی دیر بعد مظفر نے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ اچھا تو سیٹھ صاحب، اب اجازت دیجیے۔ ‘‘

            ’’ جی پدھاریے۔ ‘‘ سوا لال بولے۔

            ’’ کچھ دیر پدھارنے کے بعد مظفر حنفی نے پھر کہا ’’ جین صاحب! اب تو کافی دیر بیٹھ لیے۔ اجازت ہو تو چلیں ؟‘‘

            اس بار سیٹھ نے ہاتھوں سے اشارہ کیا اور آنکھوں سے تقریباً دھکیلتے ہوئے فرمایا۔ ۔ ۔ ۔

            ’’جی ہاں،، پدھاریے۔ ‘‘

            بخشش عباس نے جل کر کہا۔ ۔ ۔ ۔ ’’ سیٹھ جی کا حکم ہے کہ چلتے بنو۔ ‘‘

            معاملہ یہ تھا کہ اُس علاقے میں ’ پدھاریے‘‘ تشریف لائیے کے لیے بھی کہا جاتا ہے اور تشریف لے جائیے کے لیے بھی!

بھاری بھرکم

            اس زمانے میں مظفر حنفی لاڑکوئی ( بھوپال) میں اسکول ٹیچر تھے۔ نسیم انہونوی اُن کے ترجمہ کردہ دو تین ناول شائع کر چکے تھے۔ ۱۹۵۵ء میں موصوف نے اگا تھا کرسٹی کا ایک ناول اُنھیں بھیجا کہ جلد اس کا ترجمہ اردو میں کر دیں۔ مظفر نے دو مہینوں میں ترجمہ مکمل کر لیا۔ گرمی کی تعطیلات میں انھیں اپنے آبائی وطن ( ہسوہ فتحپور) میں والدین سے ملنے جانا تھا۔ ’’ دُہری سازش‘‘ کا مسودہ ساتھ لے گئے اور وقت نکال کر نسیم بکڈپو ( لکھنؤ) میں پہنچ کر کتاب نسیمؔ انہونوی کی میز پر اُن کے سامنے رکھی لیکن وہ اُن کی طرف نگاہِ غلط انداز ڈال کر پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔

            ’’قبلہ نسیم صاحب!‘‘ مظفرؔ نے کھنکارتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ’’ترجمہ دیکھ لیجیے۔ ‘‘

            ’’ کس لیے؟‘‘ نسیم انہونوی نے چشمہ پیشانی پر چڑھا کر پوچھا۔ ’’ شائع کرنے کے لیے۔ ‘‘

            ’’ جو بھی لڑکا انٹرنس پاس کر لیتا ہے ایک ناول چھپوانے آ جاتا ہے، میاں جائیے، ابھی پڑھنے کی عمر ہے‘‘۔ نسیم انہونوی نے ناک چڑھا کر کہا۔

            ’’ یہ خوب رہی‘‘۔ مظفر بھنّا گئے’’ آپ ہی نے اگا تھا کرسٹی کا ناول ترجمے کے لیے مجھے بھیجا تھا۔ ‘‘

            ’’ اخاہ ‘‘نسیم انہونوی نے جلدی سے اُٹھ کر انھیں گلے لگا لیا ’’ بھائی خان محبوب طرزی!۔ ۔ ۔ ان سے ملیے، یہ ہیں جناب مظفرؔ حنفی ہسوی، جنھیں اُن کے نام سے مغالطہ کھا کر ہم لوگ عمررسیدہ تصور کرتے تھے۔ ‘‘

شکر کا پیمانہ

            نسیم بک ڈپو میں گپ شپ چل رہی تھی۔ پیالیوں میں چائے کا پانی ڈال کر مظفر حنفی نے سوالیہ نظروں سے خان محبوب طرزی کو دیکھا تو موصوف بولے ’’ دو چمچے۔ ‘‘

            ’’اور آپ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

            مظفر نے شکر گھلاتے ہوئے نسیمؔ انہونوی سے پوچھا۔

            ’’ ڈیڑھ چمچ ڈال دیجیے۔ ‘‘

            ’’ بھائی شمیم انہونوی آپ کتنی لیتے ہیں ؟‘‘

            ’’ ان کی چائے تو مظفر میاں شکر دانی میں ہی انڈیل دیں۔ ‘‘ نسیم صاحب نے قہقہہ لگا کر کہا۔

منظوم استعفیٰ

            پپلیا خاص کے ٹیچر نے اپنا منظوم استعفیٰ جادو رائے ( ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولس) کی میز پر پھینکا:

پڑھانے جائیں سلوانی سے آگے

وہ کالا پانی ہے ٹیچر اَبھاگے

کہیں دریا کہیں دلدل کہیں بن

پھٹے پتلون ہووے چاک دامن

کہیں جھاڑی کہیں نالا کہیں گھاس

پپلیا خاص تو آئی نہیں راس

یہ ماناسب سے اوپر روپیہ ہے

ہمیں پیارا مظفرؔ روپیہ ہے

پہ یہ شرط اٹھتّرروپیہ ہے

’’ تو استعفیٰ مرا با حسرت و یاس‘‘

اپنے برہانپور میں

            کافی انتظار کے بعد مالوہ ایکسپریس بھوپال اسٹیشن پر رکی تو کیف بھوپالی اور مظفر حنفی جموں جانے کے لیے لپک کر اپنی بوگی میں داخل ہوئے۔ ان کی ریزرو  برتھوں پر دو سکھ نیم دراز تھے، ایک صاحب کہنے لگے: ’’ مظفر صاحب، ہم آپ کو پہچانتے ہیں، آپ کھنڈوا کے ہیں نا؟‘‘

            ’’ ہاں کھنڈوا کا ہوں، پھر؟‘‘

            ’’ سر! ہم لوگ برہانپور کے ہیں ‘‘

            ’’ تو پھر اپنے برہانپور جا کر لیٹو۔ ہماری برتھیں خالی کرو، فوراً۔ ‘‘

کون پہچانے گا

            غلام مرتضیٰ راہیؔ حیران تھے۔ سیہور میں منعقدہ ایک شعری محفل میں ایک مقامی شاعر ایڈوکیٹ خلیل نے احسان دانش کی پوری غزل اپنی بنا کر پڑھ دی تھی۔ مظفر حنفی نے کہا:

            ’’ یہ تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ دو تین برس پہلے ہندو پاک جنگ کے موقع پر میں نے ایک نظم کہی تھی۔ خلیلؔ صاحب نے چوراہے پر ایک جلسے میں اچھل اچھل کر اپنے نام سے سنا دی۔ ‘‘

            ’’ پھر آپ نے انھیں کچھ کہا نہیں ؟‘‘

            ’’ میری فریاد سن کر خلیل صاحب نے اعتراف کیا کہ انھوں نے میری نظم پڑھ دی تھی اور عذر داری کے طور پر فرمایا تھا:’’ مظفر حنفی کو سیہور میں پہچانتا کون ہے؟‘‘

باپ اور انڈے

            بھوپال امپرومنٹ ٹرسٹ کے افسر اعلیٰ مجتبیٰ خاں اپنے پولٹری فارم میں مرغیوں کو انجکشن لگوا رہے تھے کہ مظفر حنفی نے انھیں پکڑ لیا۔ ’’ مجتبیٰ صاحب، میں آپ کے کرائے دار کی حیثیت سے تو کوئی حق نہیں رکھتا لیکن دوست ہونے کے ناتے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ’’فرمائیے‘‘ خاں صاحب نے کہا۔

             ’’ بھائی جان! آپ کے بوڑھے باپ رات بھر کراہتے ہیں اُن کے علاج کا بھی کچھ بندوبست فرما دیجیے۔ مانا کہ وہ انڈے نہیں دیتے لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

کتابیں بیچتے ہو!

            سیہور میں عبد المتین نیاز نے مظفر حنفی کو شرف ملاقات بخشا تو گفتگو کے دوران اُن کی نگاہ رسالوں اور کتابوں کی الماریوں پر جا پڑی۔ کہنے لگے:’’ مظفر صاحب میں نے نئی اور پرانی کتابوں کا کار و بار شروع کیا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں یہ کتابیں اور رسالے مناسب قیمت پر نکال سکتا ہوں۔ البتہ پیسے آپ کو فروخت کرنے کے بعد دوں گا۔ ‘‘

            ’’ کوئی بات نہیں۔ ‘‘ مظفر حنفی نے کہا۔ ’’دس بج رہے ہیں میں دفتر جا رہا ہوں۔ سادہ کاغذ،کاربن وغیرہ میز کی دراز میں ہیں۔ آپ ان تمام مطبوعات کی فہرست اور دیگر تفصیلات درج کر کے رکھیں۔ بقیہ باتیں دفتر سے واپسی پر ہوں گی۔ ‘‘

             شام کو پانچ بجے مظفر حنفی دفتر سے لوٹے تو متین نیاز گرد و غبار میں اٹے ہوئے سامنے طول طویل فہرست رکھے بیٹھے تھے۔ مظفر حنفی نے اپنے بیٹے کو آواز دی:’’ ارے فیروز چائے ناشتہ وغیرہ لے کر آؤ جلدی، تمھارے انکل  تھک گئے ہوں گے۔ ‘‘ پھر وہ مہمان شاعر سے مخاطب ہوئے ’’ بہت بہت شکریہ، متین نیازؔ، یہ چیزیں بیچنے کی نہیں ہیں۔ البتہ بہت دن سے چاہتا تھا کہ ان کی فہرست تیار ہو جائے۔ خدا کا شکر ہے آج یہ کام مکمل ہو گیا۔ ‘‘

سوا سو نقد

            پروفیسر عبدالباقی اور مظفر حنفی سیہور کے بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک بزرگوار نے ان لوگوں کو بیچ سڑک پر روک لیا:

            ’’ حضرات، آپ لوگ پڑھے لکھے اور اُردو جاننے والے نظر آتے ہیں۔ میں اس علاقے کا مشہور شاعر عمران انصاری ہوں۔ میرا مجموعۂ کلام کلکتہ کی ایک مشہور بک ایجنسی چھاپ رہی ہے۔ قیمت دس روپے ہو گی۔ ایڈوانس بکنگ کرانے والوں کو آٹھ میں مل سکتی ہے آپ لوگ چاہیں تو۔ ۔ ۔ ‘‘

            ’’ ضرور،ضرور‘‘ مظفر حنفی نے کہا:’’ ہم آپ کو جانتے ہیں، غریب خانے پر تشریف لے چلیے اور چائے پیجیے۔ کتاب کی بکنگ بھی وہیں ہو جائے گی!‘‘

            گھر پر چائے سے فارغ ہو کر مظفر حنفی نے اپنی اٹھارہ مطبوعہ کتابوں کا گٹھّا اور آٹھ روپے میز پر رکھتے ہوئے عمران انصاری سے کہا :’’ یہ رہے آپ کی زیر طبع کتاب کی ایڈوانس بکنگ کے پیسے۔ میری مطبوعہ کتابیں سامنے ہیں، ان کی مجموعی قیمت ڈیڑھ سوروپے ہے، آپ نقد خریدیں گے اس لیے سوا سو ہی قبول کر لوں گا!‘‘

قیافہ شناسی کی ایک مثال

            وکیل عبد الشکور نے دوسری شادی کی تو مظفرؔ حنفی انھیں مبارکباد دینے گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پچھلی مرتبہ جن مونچھوں کو سفید دیکھ کر گئے تھے وہ اب کوّے کے پروں سے بھی زیادہ سیاہ تھیں۔ دوست کو چھیڑتے ہوئے انھوں نے کہا:

            ’’ کیا بات ہے یار! بھابی کا رنگ کچا نکل گیا کیا؟‘‘

            ’’ کمال ہے‘‘ وکیل صاحب نے مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’ تم کو کیسے پتہ چل گیا کہ ہماری دوسری بیگم کالی ہیں !‘‘

آلہ لگا لیجیے

            بمبئی سے بزرگ شاعر ساحر بھوپالی کی سیہور آمد پر ابرار شاہجہانپوری نے ایک اعزازی نشست منعقد کی۔ مہمان شاعر اونچا سنتے تھے اور آلہ سماعت لگا رکھا تھا۔ انھیں زیادہ سننے کے لیے التزام یہ کیا گیا کہ میزبان شاعروں میں سے کوئی اپنی غزل پڑھتا اور اس کے بعد ساحرؔ بھوپالی اپنی تین چار غزلیں سناتے پھر دوسرا میزبان شاعر اور از سر نوساحرؔ کی تین چار غزلیں۔

            لطف یہ تھا کہ مہمان شاعر اپنا کلام سنا کر آلہ سماعت اتار دیتے تھے۔ مظفر حنفی کی باری آنے تک دس مقامی شاعر غزل سرائی کر چکے تھے۔ اپنا کلام پیش کرنے سے پہلے انہوں نے چشمہ اتارا اور ساحر صاحب کے سامنے رکھا ہوا آلہ سماعت اٹھا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔

            ’’ مہمان محترم آلہ کان میں لگائے رکھیے، آپ کی تقریباً چالیس غزلیں سنی ہیں اب کم از کم دس غزلیں تو سناؤں گا، مطلع عرض ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

چھپّر پھاڑ کر بوٹی

            سیہور کے رینج آفیسر وجے سنگھ رانا گوشت کے بے حد شوقین تھے۔ مظفر حنفی نے انھیں کھانے پر مدعو کیا۔ اُن کے برادرِ نسبتی محمد یعقوب گاؤں سے تازہ وارد ہوئے تھے اور شریک طعام تھے۔ قورمے سے محظوظ ہوتے ہوئے انھوں نے ایک مچرب بوٹی اُٹھانی چاہی تو وہ پھسل کر رانا کی پلیٹ میں جا پڑی۔ یعقوب صاحب نے خفت کے ساتھ ان کی طرف دیکھا تو رانا نے ہنس کر کہا:’’ اب یہ چانپ آپ کو نہیں ملنے کی خلیفہ! یہ مجھے چھپّر پھاڑ کر دی گئی ہے!‘‘

خوفزدہ علامہ

            غلام مرتضیٰ راہی اور مظفر حنفی کے ساتھ باتیں کرتے کرتے ’’ ارے باپ رے‘‘ کا نعرہ لگا کر کوثر جائسی جھپٹ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔

            لیکن تھوڑی ہی دیر بعد شربت لے کر اُن کے صاحبزادے مہمانوں کے پاس آئے۔

             ’’ ابو چوہوں سے بہت ڈرتے ہیں، اب کل تک اس کمرے میں نہیں آئیں گے۔ ‘‘

آج کی تازہ غزل

            مولانا شعری بھوپالی، عشرت قادری ار مظفر حنفی بھوپال کی ایک شاہراہ پر چلے جا رہے تھے۔ اچانک مولانا جھجک کر کھڑے ہو گئے اور منہ میں پان کی پیک کو سنبھالتے ہوئے فرمایا:

            ’’ عشرت،بھئی شعر ہو گیا‘‘ اور ساتھ ہی اپنے مخصوص رنگ میں ایک شعر پڑھا۔ دونوں سامعین نے مناسب داد و تحسین کا خراج ادا کر دیا تو تینوں آگے چلے۔ کچھ قدم چل کر مولانا پھر موڈ میں آ گئے۔ ’’ مظفر ذرا دیکھنا، مطلع بھی ہو گیا۔ ‘‘ چنانچہ مطلع بھی سنا گیا اور داد سے نوازا گیا۔ اس طرح ۱۵ ؍منٹ تک راستہ چلتے چلتے مولانا کی تازہ غزل کے ۸۔ ۹ شعر ہو گئے۔ اگلے چوراہے پر مولانا شعریؔ رخصت ہو گئے تو مظفرحنفی نے کہا:’’ عشرت بھائی اشعریؔ صاحب کی اس غزل کا مقطع ملاحظہ ہو۔ ‘‘ اورجب مقطع سن کر عشرت قادری نے اظہار حیرت کیا تو مظفر ہنس کر بولے ’’بھائی مولانا کی یہ غزل ہم نے بچپن میں پڑھی تھی۔ ‘‘

گنتی کے پانچ ہیں

            حمیدیہ کالج کی کسی نصابی کمیٹی میں شرکت کے لیے پروفیسر احتشام حسین، گیان چند جین کے یہاں مقیم تھے۔ فضل تابش انھیں ’’ فنکار‘‘ کی ادبی نشست میں کھینچ لائے۔ پروفیسر جین میزبان کی حیثیت سے ہمراہ تھے۔ ابھی پروفیسر احتشام حسین جدیدیت سے متعلق چند جملے ہی کہہ سکے تھے کہ نوجوان لکھنے والوں نے بیک زبان بولنا شروع کر دیا۔ گیان چند جین نے سمجھانا چاہا کہ احتشام صاحب کو سنانے کی جگہ اُن سے سننے میں فائدہ ہے لیکن اکرام اشعر بگڑ گئے:

             ’’ جین صاحب،آپ بیچ میں نہ بولیے آپ کو بھوپال میں گنتی کے پانچ دس آدمی جانتے ہیں۔ اصل فنکار تو شعریؔ ہیں جنھیں پورا بھوپال پہچانتا ہے۔ ‘‘

             ’’اشعر صاحب ‘‘ مظفر حنفی نے دست بستہ عرض کیا ’’ یہ ہمارا گھریلو معاملہ ہے۔ پروفیسر احتشام حسین کو یہ کیوں بتائیں کہ بھوپال میں گنتی کے پانچ دس لوگ ہی پڑھے لکھے ہیں ؟‘

 

تیسرا کون؟

            محمود الحسینی ( مدیر ’ الحمراء)کے گلے میں کچھ نقص تھا،بولتے بولتے آواز ایک دم باریک ہو جاتی اور تھوڑی دیر بعد پھر اصل حالت پر آ جاتی تھی۔ ایک دن موصوف اخبار کی توسیعِ اشاعت کے سلسلے میں مظفر حنفی کے یہاں سیہور تشریف لائے تو مظفر نے بیگم کو چائے کے لیے آواز دی۔ تھوڑی دیر بعد بیٹھک کے اندرونی دروازے پر آہٹ ہوئی تو مظفر حنفی نے پاس جا کر ٹرے سنبھالی اور دریافت کیا، ’’ یہ تیسرا کپ کس کے لیے ہے؟‘‘

            عاصمہ مظفر( بیوی) نے کہا:’’ کیوں ؟ آوازیں تو تین آدمیوں کی آ رہی ہیں !‘‘

غزل کے کان پکڑو

چند دنوں کے لیے مظفرؔ حنفی اپنے آبائی وطن فتح پور (ہسوہ) میں مقیم تھے۔ ایک دن اُن کے میزبان مولانا شریف الحسن نے کہا:

            ’’ مظفرؔ، مڈل اسکول میں تم ہمارے ہم جماعت تھے لیکن دوست بنا رکھا ہے ہمارے چھوٹے بھائی حباب ہاشمی کو۔ ‘‘

            ’’ کیا کروں مچھّن بھائی‘‘ مظفرؔ نے مولانا کی چُگّی داڑھی میں محبت سے ہاتھ ڈال کر جواب دیا  ’’ جماعت والوں نے آپ کو پھونک ڈالنے کے علاوہ اور کسی کام کا نہیں رکھا۔ ‘‘

            ’’ خیر‘‘ مولانا نے ہنس کر بات کا رُخ موڑا۔ ’’ یہاں غلام مرتضیٰ راہیؔ اور بیتابؔ پیلی بھیتی میں ٹھنی ہوئی ہے دونوں ایک غزل پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ ‘‘

             شام کو شعری نشست میں ان لوگوں سے ملاقات ہوئی تو مظفر حنفی نے مخلصانہ مشورہ دیا’’ آپ دونوں اس نامعقول غزل کو کان پکڑ کر اپنی بیاضوں سے نکال پھینکیے۔ ‘‘

خدمتِ استاد

            شفا گوالیاری نے سیکڑوں شاگرد بنا رکھے تھے۔ کہتے تھے ’’ میرے شاگرد بہت کام کے ہیں، کوئی بال بنا دیتا ہے،کوئی کپڑے سی دیتا ہے،کسی کے ذمے دُھلائی کی خدمت ہے، کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

            ’’ لیکن یہ خاکروب؟‘‘ مظفر حنفی نے دریافت کیا۔

            کیوں میاں ؟‘‘ شفا صاحب نے جواب دیا’’ میرے گھر کا نابدان خراب ہو گیا تو کیا فرشتے ٹھیک کرنے کے لیے آئیں گے؟‘‘

گھلانا خود کو آم کے ساتھ

            شادؔ عارفی پر اپنے تحقیقی کام کو مکمل کرنے کے لیے مظفر حنفی رام پور گئے۔ قیام ایک ہوٹل میں تھا لیکن سلطان اشرف بضد ہو کر انھیں سامان سمیت اٹھا لے گیے اور اپنے بھائی مسرت حسین آزاد کے عمدہ مکان میں ٹھہرایا جہاں  وہ شاد عارفی لائبریری بھی چلا رہے تھے۔ آموں کا موسم تھا۔ شام کو آنگن کی دھلائی کی گئی، کرسیوں اور صوفوں پر میزبان کے ساتھ مہمان بھی براجمان ہوئے۔ میز پر طشت میں بہت خوبصورت نظر آنے والے انواع و اقسام کے آم سجے تھے۔ مہمان نے سلطان اشرف کے اصرار پر ایک چھوٹا آم گھلایا اور چوسنے لگے۔ مسرتؔ بولے:’’ رام پور کا مشہور ثمر بہشت ہے۔ تراش کر کھاتے ہیں۔ ‘‘

            ’’ بھائی آم قلمی ہو یا تخمی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مظفر حنفی نے اپنی غلطی کو نبھانے کے لیے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’میں ہمیشہ گھُلا کر چوستا ہوں۔ ‘‘

            پھر اگلے تین چار دنوں تک حضرت قلمی آموں کو گھلاتے رہے اور خود بھی گھُلا کِیے!

ہم پیالگانِ بانگے

            نادرہ میڈیکل ہال( بھوپال) کے پٹیوں پر رات کو بھوپالی احباب کا جمگھٹا تھا۔ حسبِ عادت معروف کامریڈ شاکر علی خاں کے دست راست واحد علی بانگے مختلف شعراء کے ساتھ اپنی ہم پیالگی کا بکھان کر رہے تھے:

            ’’ خاں، خدا جھوٹ نہ بُلوائے، ساحرؔ ہو یا مجازؔ، مجروحؔ ہو یا سردارؔ، اپن نے سبھوں کے جام سے جام لڑائے ہیں۔ آج آپ لوگوں کو جگرؔ  کے ساتھ ایک کلاری میں بلانوشی کا قصہ سناتا ہوں۔ ‘‘

            ’’اسے رہنے دو بھائی بانگے‘‘ مظفر حنفی بولے’’ آج ہم لوگ وہ واقعہ سننا چاہیں گے جب آپ نے مرزا غالبؔ کے ساتھ شراب پی تھی!‘‘

دوسرے نمبر پر آنا

            سیہور میں نجیب رامش نے حال ہی میں شاعری سے شوق کیا تھا لیکن انا کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمیشہ چاہتے تھے کہ انھیں سینئر شاعروں کے ساتھ دعوتِ کلام دی جائے۔ کئی نشستوں میں یہ دیکھ کر کہ انھیں مبتدیوں کے ساتھ پڑھنے کو کہا جاتا ہے، موصوف نے دوسری ترکیب نکالی۔ انجمن ترقی اردو کی مقامی شاخ کے سکریٹری وہاب عندلیب کی قیام گاہ پر شعری نشست تھی میاں سلطان محمد خاں صدارت کر رہے تھے، کئی شاعر غزلیں سُنا چکے تھے اور نقیب مشاعرہ نے خوش گلو شاعر یعقوب سلیم کو بُلانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ نجیب ہانپتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔

            ’’ معاف کیجیے ہمیں آنے میں دیر ہو گئی۔ ‘‘ انھوں نے گزارش کی۔ ’’ سلیم صاحب! ہم سے سینئر ہیں ہمیں پڑھ لینے دیجیے۔ ‘‘

            مظفرؔ حنفی نے صدر جلسہ سے مشورہ کرنے کے بعد کہا۔ ’’ نجیب رامش صاحب، آپ سے سینئر بارہ شاعر اپنا کلام سُنا چکے ہیں اب موقع نہیں ہے۔ اپنے دوسرے نمبر پر آیا کیجیے۔ ‘‘

باسطؔ کو صرف تین

            ’’ کیا اچھا مطلع کہہ گئے ہیں باسطؔ صاحب‘‘ مظفرؔ نے جھوم کر پڑھا،’’ ابھی آدابِ نظر آپ کو کم آتے ہیں = آئینہ ہاتھ سے رکھ دیجیے ہم آتے ہیں۔ ‘‘

            ’’ تمھاری کبھی اُن سے ملاقات ہوئی تھی؟‘‘مولانا شعریؔ نے دریافت کیا۔

            ’’ جی نہیں، میں اُن کی رحلت کے کچھ عرصے بعد بھوپال آیا تھا۔ ‘‘

            ’’ بڑے مزے کے آدمی تھے۔ ایک مرتبہ گرو تیغ بہادر کے سلسلے میں سکھوں نے مشاعرہ کیا اور داد کی جگہ شاعروں کو روپیے دیے۔ مشاعرے کے بعد باسطؔ نے مجھ سے کہا۔ عجب بے ڈھب لوگ ہیں۔ مشاعرے میں روپے دینے کا رواج ڈال رہے ہیں۔ نا معقول کہیں کے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کل کے چھوکرے شاعر کو سترہ روپیے دیے اور مجھے صرف تین!‘‘

ناک پر چُٹکی

            ڈیویژنل فارسٹ آفیسر پی۔ این۔ مولے عجیب اور دلچسپ حرکتیں کرتے تھے۔ کوئی ماتحت یا آدی واسی اُن کے پاس درخواست لے کر جاتا تومیز پر گھونسا مار کر کہتے:

             ’’ ضرور، ہم انصاف کروں گا۔ کگّد ( کاغذ) لاؤ۔ ‘‘

            ایک بار حضرت نے کگّد پر دستخط کیے اور اپنے پیشکار سے کہا ’’ مسٹرحنپھی! یہ کام کل تک ہونا مانگتا نہیں تو۔ ۔ ۔ ‘‘ اُنھوں نے چٹکی بجائی۔ ’’ تم کو یوں ڈسمس کر دے گا۔ کیا سمجھا؟‘‘

            ’’ جی سر، میں سمجھ گیا، کل تک کام نہیں ہوا تو آپ مجھے یُوں چلتا کر دیں گے؟‘‘

            مظفرؔ حنفی نے اُن کی ناک پر چُٹکی بجائی۔

جوابِ آں غزل

            ماہنامہ ’’ شب خون‘‘ کے زیرِ اثر اُن دنوں لکھنے والوں پر جدیدیت کا جنون طاری تھا۔ اس رسالے کے ابتدائی دور میں عادل منصوری کی غزل چھپی جس کا پہلا مصرع تھا:

غزل کی غین کا نقطہ کہاں ہے؟

            مظفرؔ حنفی نے فی الفور جوابی غزل کہہ کر ’’ شب خون ‘‘ کو اشاعت کے لیے ارسال کی، اس کا مطلع تھا:

            غزل کی غین کا نقطہ لگا دوں

            کُھلے بندوں کہ دروازہ لگا دوں

افشائے راز کا ردِّ عمل

            سیہور میں مظفر حنفی کو جموں یونیورسٹی سے سلکشن کمیٹی کے رو برو انٹرویو کے لیے پیش ہونے کا مراسلہ ملا۔ اُن کے بھوپالی دوست اخلاق اثر کو بھی طلب کیا گیا تھا جو گیان چند حین کے شاگرد رہ چکے تھے۔ جین صاحب سادہ مزاج آدمی تھے اور جموں میں شعبۂ اردو کے صدر تھے انھوں نے اپنے شاگرد کو خط لکھ کر بتا دیا تھا کہ یونیورسٹی آمد و رفت کا کرایہ دے رہی ہے، گھومنے آ جاؤ،لکچرر تو ظہور الدین کو ہونا ہے۔ ان دونوں دوستوں نے جموں پہنچ کراسلم آزاد اوردوسرے امید واروں کو بھی اس راز سے آگاہ کر دیا چنانچہ کئی لوگوں نے بڑی بے باکی سے کمیٹی کا سامنا کیا،مثلاً پوچھا گیا: ’ در و دیوار پہ حسرت کی نظر کرتے ہیں =خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں۔ ‘ کس کا شعر ہے؟‘‘

            جمال الدین ساحلؔ نے مُنہ بنا کر کہا: ’’ یہ کوئی شعر ہے۔ جاہل ڈرائیور ٹرکوں پر لکھواتے ہیں۔ ‘‘

            ’’ مظفرؔ صاحب! آپ کا جواب طالب علمانہ نہیں ہے‘‘ خواجہ احمد فاروقی نے اُن کے گستاخانہ جواب پر غرّا کر کہا۔

            جواب ملا۔ ’’ جناب ! میں یہاں پڑھنے نہیں پڑھانے کے لیے آیا ہوں !‘‘

سادہ لوح مصنف

            عتیق احمد عتیقؔ کے ہمراہ مظفرؔ حنفی مالیگاؤں کے شکیل سیٹھ کے گھر گئے۔ عتیق کی فرمائش پر سیٹھ شکیل کی خدمت میں ترقیم لکھ کر اپنی دستخط شدہ کتاب ’’ اینٹ کا جواب‘‘ پیش کی۔ سیٹھ صاحب نے جھک کر سو روپیے کا نوٹ ان کے سامنے میز پر رکھا تو مظفر سادگی سے بولے۔ ’’کتاب چار روپے کی ہے، بقیہ چھیانوے روپیے نوٹ تُڑا کر۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

            ’’ ارے صاحب نہیں۔ ‘‘ عتیق احمد عتیق نے ہاتھ ہلا کر کہا۔ ’’ ہمارے نگر سیٹھ کو ذلیل مت کیجیے۔ شکیل بھائی ! کم از دو سو ایک روپیے نذر کیجیے مصنف کو، یہ کتاب کا پہلا نسخہ ہے۔ ‘‘

 

یہ نظم میری نہیں

            بھوپال میں تبلیغی جماعت کا سالانہ اجلاس چل رہا تھا۔ عشرت قادری، ساجد پریمی، وفا صدیقی اور مظفرؔ حنفی وغیرہ تاج المساجد کے نواحی علاقے میں گھوم رہے تھے اچانک عادل منصوری بہت سے مولویوں کے ساتھ سامنے سے آتے ہوئے مل گئے۔ دریافت حال پر معلوم ہوا احمد  آباد سے جماعت لے کر اجتماع میں شرکت کے لیے آئے ہیں اور اُن کی حیثیت امیرِ جماعت کی ہے۔ مظفر حنفی نے مولویوں سے مخاطب ہو کر کہا:

            ’’حضرات۔ پچھلے دنوں ’ شب خون‘ میں ایک نظم چھپی تھی، چھوٹی سے ہے۔ عنوان ہے ’خدا‘:

                        آسماں کی کھوکھلی دیوار کے پیچھے

                        کہاں تک چھُپ رہے گا

                        ایک دن تنہائی کی دیمک تجھے کھا جائے گی‘‘

            پوری جماعت نے گھور کر مظفر حنفی کو دیکھا تو وہ سہمنے کی اداکاری کرتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹ کر بولے:

            ’’ نظم میری نہیں آپ کے امیر جماعت مولانا عادل منصوری کی ہے!‘‘

استاد پرستی کا معاوضہ

            ندا فاضلی اور مظفر حنفی بزرگ شاعر شفاؔ گوالیاری کے مطب میں بیٹھے تھے۔ شفا گوالیاری تقریباً چار سو شاگردوں کے استاد تھے، انھیں میں سے ایک شاگرد اُن کی خدمت میں موجود تھا جسے شفاؔ، استاد کے بلند مراتب اور عظمت کا احساس دلا رہے تھے اتنے میں اوجّین کے عطاؔ صدیقی آ گئے جو ہر سال بڑے پیمانے پر اپنے شہر میں مشاعرے برپا کرتے تھے۔ شفاؔ تو اپنے شاگرد میں اُلجھے ہوئے تھے۔ مظفر حنفی اور ندا فاضلی نے اتنی دیر میں سادہ لوح عطا صدیقی کو اس نکتے کا احساس دلا دیا کہ سیمابؔ صاحب کے ( ایک اچھے خاصے) مطلع میں ایطا ہے اور پھر شفا گوالیاری کو اُن کی طرف متوجہ کر دیا۔

            ’’اچھا تو عطا صاحب!‘‘ شفا گوالیاری نے آنکھوں سے چنگاریاں برساتے ہوئے فرمایا۔ ’’اب آپ اتنے بڑے عروضی ہو گئے ہیں کہ استاد الاساتذہ حضرت سیمابؔ کے یہاں خامیاں نظر آنے لگیں آپ کو۔ ‘‘

            بات بڑھ گئی اور عطا صدیقی پاؤں پٹکتے ہوئے مطب سے چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد شفاؔگوالیاری کا غصّہ فرو ہوا تو کہنے لگے۔ ’’ مظفر صاحب! بڑا نقصان ہو گیا ہمارا۔ عطا صدیقی ہرسال ہمیں کافی معاوضہ دے کر اوجّین بلایا کرتے تھے، اب وہ مشاعرے گئے۔ ‘‘

پیپسی کی مالش

            گھٹنے میں درد تھا مظفرؔ حنفی کے ڈاکٹر نے انھیں دو مختلف قسم کے تیل ملا کر مالش کرنے کی ہدایت کی۔ شام کو ان کے بیٹے نے ایک پلاسٹک کی خالی بوتل میں دونوں شیشیوں کے تیل اچھی طرح حل کرنے کے بعد مالش شروع کی۔ تیلوں کی کاک ٹیل کا رنگ کتھئی ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مظفرؔ حنفی کی چار پانچ سال کی پوتی اقراء کمرے میں آئی تو ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئی۔ مالش کا سلسلہ منقطع کیا گیا اور مظفرؔ حنفی نے پچکار کر پوتی سے پوچھا:

            ’’ اقراء بیٹی، اتنی زور زور سے کیوں ہنس رہی ہو؟‘‘

            بچی نے بمشکل ہنسی پر قابو پا کر کہا:

            ’’ دادا حضور، ابّو آپ کے گھُٹنے پر پیپسی کیوں انڈیل رہے تھے؟‘‘

مقام کا خیال

            میاں سلطان محمد خاں کی صدارت میں ایک مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ بھوپال سے شعریؔ بھوپالی،وکیل بھوپالی، شاہد بھوپالی، عشرت قادری، ارشد ساگری اور بہت سے دوسرے ممتاز شاعر بُلائے گئے۔ عمران انصاری از خود تشریف لے آئے۔ انھیں اپنے مقام کا بہت خیال رہتا تھا سب کے بعد پڑھنے کی خواہش تھی اس لیے بس مشاعرہ گاہ میں جھلک دکھا کر غائب ہو گئے اور عین اس وقت وارد ہو گئے جب بزرگ ترین شاعر شعری بھوپالی غزل پڑھ چکے۔ مائک پر آ کر عمران انصاری نے فرمایا:

            ’’ حضرات،معاف کیجیے گا، سفر کی تکان کے باعث مجھے ذرا جھپکی آ گئی تھی۔ اب مطلع عرض کرتا ہوں۔ ‘‘

            مظفرؔ حنفی بولے ’’عمران صاحب!ذرا ٹھہریے۔ ہم میں سے بہتوں کو نیند آ رہی ہے ذرا اُٹھ لیں تو آپ اطمینان سے پڑھ لیجیے گا۔ ‘‘

            ظاہر ہے، مظفرؔ کے ساتھ بقیہ شاعر بھی اُٹھ گئے۔

پِٹ جائیں گے

            آصف شاہمیری انجمن ترقی پسند مصنفین کی تنقیدی نشست میں افسانہ پڑھ رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

            ’’ اس کے ہاتھ ٹائپ رائٹر پر تیزی سے چل رہے تھے۔ ‘‘

            ’’ آصف صاحب ‘‘ مظفر حنفی بولے ’’ ہاتھ کی جگہ انگلی کر دیجیے!‘‘

            ’’ ہرگز نہیں ‘‘ عشرت قادری نے فی الفور کہا:

            ’’ کیوں بھائی؟‘‘

            ’’ ایسا کیا تو پِٹ جائیں گے!!‘‘

بھابی کے نام

            آخر کافی بحث مباحثے کے بعد زیبؔ غوری جدیدیت کے قائل ہوئے تو کہنے لگے:

            ’’ یار مظفر وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن پرانے رنگ کی غزلوں کے دو مجموعے جو تیار ہیں، ان کا کیا ہو گا؟‘‘

            ’’ اگر انھیں آگ نہیں دکھا سکتے‘‘ مظفر حنفی بولے’’ تو نجمہ بھابی ( بیگم زیب غوری) کے نام سے چھاپ دو۔ ‘‘

            ’’ چپ رہو بد معاش‘‘ زیبؔ  نے سہم کر کہا ’’ نجمہ نے سن لیا تو چائے بھی نہیں ملے گی!‘‘

جہالت کا اعتراف

            ایم۔ اے ( اردو ) کا نتیجہ نکلا تو اُن تمام پرچوں میں جو بیرونی ممتحنین کے پاس تھے،مظفر حنفی نے یونیورسٹی میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے لیکن ایک پرچہ مقامی ممتحن کا تھا اور اس میں نمبر بہت کم تھے۔ شہر میں یہ خبر عام ہو گئی کہ سیفیہ اور حمیدیہ کالجوں کی سیاست اور معاصرانہ چشمک کی وجہ سے نمبر دینے میں دانستہ منافقت برتی گئی ہے۔ متعلقہ ممتحن صفائی پیش کرنے کے لیے اپنے ساتھی ڈاکٹر عبد الودود کے پاس گئے:

            ’’ ڈاکٹر صاحب، قسمیہ کہتا ہوں میں نے کوئی بے انصافی نہیں کی۔ میں نے تو مظفرؔ حنفی کا نام تک نہیں سُنا ہے اُن کے ساتھ زیادتی کیوں کروں گا۔ ‘‘

            ’’ انصاف اور زیادتی کی بات تو آپ جانیں البتہ ایک دوستانہ مشورہ ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ڈاکٹر ودود نے کہا۔

            ’’ جی فرمائیے!‘‘

            ’’ خدا را یہ نہ کہیے کہ آپ نے مظفر حنفی کا نام نہیں سنا۔ لوگ سمجھیں گے آپ لکھتے پڑھتے نہیں ہیں۔ کالج لائبریری میں مظفرؔ کی ایک درجن سے زیادہ کتابیں موجود ہیں !‘‘

ماہرِ فن کی کسوٹی

            مولانا شعری اور مظفرؔ حنفی بھوپال کے ایک دلچسپ شاعر کے ساتھ بازار سے گزر رہے تھے اور شاعر صاحب حسبِ روایت چالیس پچاس شعر والی غزل سُنا رہے تھے۔ اچانک ایک شعر پر شعریؔ جھُر جھری لے کر کھڑے ہو گئے۔

            ’’ میاں،خدا کی قسم یہ تمھارا شعر نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

            ’’مولانا!‘‘ مظفرؔ حنفی نے گزارش کی۔ ’’ قسم تو نہ کھائیے، آپ کو کیا معلوم یہ شعر کس کا ہے؟‘‘

            ’’ کسی کا بھی ہو، ان کا نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ شعریؔ صاحب نے فرمایا۔ ’’ اپنی غزل کے اچھے شعروں کو تو یہ حضرت خراب سمجھ کر خارج کر دیتے ہیں۔ ‘‘

 شرمیلے ایکسپرٹ

            سیفیہ کالج ( بھوپال ) میں ایم۔ اے ( اردو ) کے سالِ آخر میں زبانی امتحان ( وائیوا) کا سلسلہ جاری تھا۔ مظفرؔ حنفی اس منزلِ دشوار سے گزر کر واپس اپنے ہم جماعت طلبہ کے جھنڈ میں آئے تو دیکھا شیریں بیگم کی حالت غیر تھی۔ آنکھیں سُرخ، ہونٹ پر پپڑیاں، چہرہ پیلا۔ لرزتی ہوئی آواز میں بولیں :

            ’’ بھیّا، ہمیں تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘

            ’’ اس میں خوفزدہ ہونے کی کیا بات ہے‘‘ مظفر حنفی نے کہا۔ ’’ہم ایک نسخہ آپ کو بتائے دیتے ہیں۔ ‘‘

            ’’ بتاؤ۔ بتاؤ۔ ‘‘ چاروں طرف سے آوازیں بلند ہوئیں

            ’’ اپنے بیرونی ممتحن شیخ فرید صاحب پیدائشی کنوارے ہیں اور صنفِ نازک سے لرزتے ہیں۔ ‘‘ مظفر بولے۔ ’’  بس لڑکیاں انھیں مسلسل اور براہ راست دیکھتی رہیں حضرت سوال سوچ ہی نہیں پائیں گے۔ ‘‘

پنجہ بیگم کا

            ایک بار موڈ میں آ کر مظفر حنفی نے اپنی بیگم سے کہا:

            ’’ دنیا بھر کے رسالوں میں ہماری غزلیں چھپتی ہیں، دُور دُور کے لوگ تعریفی خط لکھتے ہیں کبھی تم نے نہیں بتایا کہ ہمارے شعر تمھیں کیسے لگتے ہیں ؟‘‘

            نکتہ شناس بیگم نے بھولپن سے جواب دیا:

            ’’اب کیا بتائیں، ہماری سمجھ میں تو آپ کے شعر آتے نہیں۔ کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں ‘‘۔ انھوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر پنجہ ٹیڑھا کر دیا!

راون اور تیمور لنگ

            بھوپال میں روزنامہ ’’ آفتاب جدید‘‘ کے مدیر اقبال مسعود نے اپنے ہاں دعوت پر کئی لوگوں کو مدعو کیا۔ دسترخوان پر مرغ کا قورمہ بھی تھا لیکن پروفیسر عبد القوی دسنوی کے علاوہ (جنھیں مرغ کی ایک ران مل گئی تھی) جو شخص بھی ڈونگے میں چمچہ ڈالتا اس کے حصے میں مرغ کا سر ہی آتا۔ خالد محمود نے کہا: ’’ حضرات، سمجھ میں نہیں آتا اقبال مسعود نے یہ کیسا مرغ پکوایا ہے جس کی صرف ایک ٹانگ تھی اور اتنے بہت سے سر۔ ‘‘

            ’’ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟‘‘ مظفر حنفی نے اپنی پلیٹ کے سر کو لڑھکاتے ہوئے کہا: ’’ یہ بیک وقت مرغوں کا راون بھی ہے اور تیمور لنگ بھی۔ ‘‘

بولتی بند کرنے کا طریقہ

            پروفیسر عبد الباقی کہہ رہے تھے: ’’ مظفر صاحب آج کل آپ کے پاس آنے میں تکلف ہوتا ہے۔ ‘‘

            ’’ کیوں بھائی؟ ایسی کیا غلطی ہو گئی مجھ سے؟‘‘

            ’’ جی، ایسا کچھ نہیں ہے۔ ‘‘ عبد الباقی نے کہا: ’’ در اصل آپ کے پاس اکثر مجتبیٰ خاں تشریف فرما ہوتے ہیں، انگریزی میں عبور رکھتے ہیں، قدم قدم پر شیکسپیئر اور ٹی ایس ایلیٹ کے حوالے دیتے ہیں۔ میری انگریزی واجبی سی ہے۔ خفت ہوتی ہے۔ ‘‘

            ’’اس میں خفیف ہونے کی کیا بات ہے۔ ‘‘ مظفر حنفی نے مشورہ دیا۔ ’’ آپ فارسی کے عالم ہیں، خاقانی اور عرفی کے اشعار سنا کر اُن کی بولتی کیوں نہیں بند کر دیتے!‘‘

چھوٹی سی غلطی

            سیہور سے نجیب رامش سفر پر نکلے تو مظفر حنفی سے تعارفی پرچہ ساتھ لے گئے۔ اُن کی سفر سے واپسی کے چند دن بعد ہی حسن بشیر کا خط آیا۔ ’’ تمھارے خط کے احترام میں ہم لوگوں نے مہمان کے اعزاز میں شعری نشست کا اہتمام کیا۔ تمھارے دوست نے غالباً کھنڈوا والوں کو ناواقفِ ادب سمجھا اور احمد ندیم قاسمی کی چیزیں سُنا کر چلے گئے۔ ‘‘

            مظفرؔ نے وہ خط صاحبِ اعزاز کی خدمت میں پیش کیا تو وہ عزیز ہنس کر بولا:

            ’’ یار تمھارے جنم استھان میں اپنی ٹوٹی پھوٹی شاعری کیا سُناتا، اچھی سی غزل اور خوبصورت سی نظم پڑھ آیا ہوں۔ بس چھوٹی سی غلطی یہ ضرور ہو گئی کہ احمد ندیم قاسمی کا نام بتانا بھول گیا۔ ‘‘

ہلکا لفافہ

            جاورہ کے ثقافتی میلے میں مشاعرہ برپا تھا،مظفرؔ حنفی اور شعری بھوپالی کو کنوینر مشاعرہ نے الگ لے جا کر معاوضے کے لفافے جیب میں ڈالتے ہوئے کہا:

            ’’پلیز، یہ بہت حقیر سی رقم آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے، شرمندگی ہے، ہمارا بجٹ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتا۔ آئندہ سال معقول خدمت کی جائے گی۔ ‘‘

             مظفرؔ حنفی نے لفافے میں جھانکا تو اس میں خاصی معقول رقم تھی۔ انھوں نے کنوینر کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ ’’ اتنے پیسے تو ہمیں پوری کتاب کی رائلٹی میں بھی نہیں ملتے بھائی۔ ‘‘

            مولانا شعری نے بات کاٹ کر کہا ’’ مظفر میاں، انہیں زیادہ شرمندہ مت کیجیے لفافہ جیب میں رکھیے۔ ‘‘

             کنوینر چلے گئے تو سرزنش کی: ’’ آپ بھی اناڑی ہیں۔ مشاعروں میں معاوضہ کتنا بھی ملے ہمیشہ کہا کیجیے، کم ہے!‘‘

کب یہ مجھ نا تواں سے اُٹھتا ہے

            فتح پور سے غلام مرتضیٰ راہی بھوپال آئے تو مظفر حنفی انھیں پروفیسر سحرؔ سے ملانے لے گئے، مصافحہ کرنے کے بعد صوفے پر بیٹھتے ہوئے پروفیسر صاحب نے سگار کیس سے ایک موٹاسا چرٹ نکال کر منہ سے لگا لیا اور کیس مظفر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:’’ لیجیے!‘‘

            ’’ جی شکریہ!‘‘مظفر نے غلام مرتضیٰ راہی کے پیکٹ سے سگریٹ نکالتے ہوئے کہا : ’’اتنا بھاری سگار مجھ ناتواں سے نہیں اُٹھے گا۔ ‘‘

             تیج تیوہار پر کبھی کبھار مسکرانے والے ابو محمد سحر ہنسنے لگے۔

کھانا کھلانے کے آداب

            ایک زمانے میں مظفر حنفی بھوپال میں کوثر چاند پوری کے پڑوس میں رہتے تھے۔ کم و بیش روزانہ شام کو کوثر صاحب کے مطب میں دونوں کی ملاقات ہوتی۔ انھیں ملاقاتوں کے دوران ایک بار کوثر چاند پوری نے بتایا کہ چند برس قبل انھوں نے دلاور فگار کی دعوت کی تھی اور دلاور فگار نے کس طرح روٹیوں پر بوٹیاں رکھ کر کھانا کھایا تھا اور شریکِ طعام مہذب جاگیرداروں نے کتنا منہ بنایا تھا۔ اس واقعے کے چند ماہ بعد مظفر حنفی کا تبادلہ سیہور ہو گیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مظفر حنفی کسی کام سے بھوپال آئے تو کوثر چاند پوری سے ملنے اُن کے مطب میں پہنچے۔ مختلف اُمور پر گفتگو کرنے کے بعد جب وہ رخصت ہونے لگے تو کوثر چاند پوری نے دریافت کیا:

            ’’ کیا آج ہی سیہور لوٹ جائیں گے؟‘‘

            ’’ کیوں ؟‘‘

            ’’ اگر بھوپال میں قیام کر رہے ہوں۔ ‘‘ کوثر چاند پوری نے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ تو شام کو کھانا میرے ساتھ کھائیے۔ ‘‘

            ’’ معاف کیجیے، میں حاضر نہ ہو سکوں گا۔ ‘‘ مظفر بولے

            ’’ کیا آج ہی واپسی ہے؟‘‘

            ’’ جی نہیں۔ ‘‘مظفر کا جواب تھا۔ ‘‘ٹھہروں گا تو بھوپال ہی میں، لیکن آپ کے ساتھ کھانے کی ہمت نہیں پڑتی۔ ‘‘

            ’’ وہ کیوں ؟‘‘ کوثر چاند پوری نے بعجلت پوچھا تو مظفر نے جواب دیا:’’ چند روز بعد بھوپال میں یہ خبر بھی عام ہو جائے گی کہ مظفر حنفی کو کھانے کے آداب نہیں آتے۔ ‘‘

ایک سیرکُولر

            آر ایس مصرا ( کنزرویٹر آف فاریسٹ) نے سیہور سے بھوپال جاتے ہوئے اپنے آفس انچارج سے کہا : کتنی گرمی ہے، بھوپال میں کولر کس اسٹور میں ملیں گے؟‘‘

            ’’ وہیں پہنچ کر معلوم کر لیں گے۔ ‘‘مظفر حنفی نے جواب دیا۔

            ’’ سرکار مجھے پتہ ہے، لے چلتا ہوں۔ ۔ ۔ ‘‘رمضانی ڈرائیور نے انکشاف کیا۔

            تھوڑی دیر بعد منگل وارا کے چوراہے پر گاڑی روک کر اُس نے کہا۔ ۔ ۔ ’’ حجور، آپ اس گندی گلی میں کہاں جائیں گے۔ میں لے آتا ہو۔ کتنے لاؤں ؟‘‘

            ’’ بس دو چاہئیں۔ ‘‘

            ’’ ارے سر، سیر بھر لاتا ہوں۔ دو گولر مانگنے میں بھی شرم آئے گی۔ ‘‘ رمضانی نے پان کو چونے سے تازہ کرتے ہوئے آنکھیں گھمائیں۔

شاعری اور افسانے کا تصادم

            مظفر حنفی اس زمانے میں بھی منٹو کو کرشن چندر سے بڑا افسانہ نگار مانتے تھے جب تمام نقاد کرشن کو ایشیا کا سب سے بڑا افسانہ نگار کہتے تھے۔ اس ضمن میں ’ افکار‘ کراچی کے ایک سوالنامے کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا کہ کرشن چندر بے جا طوالت سے کام لیتے ہیں، ان کی تحریر میں عبارت آرائی اور رنگینی بہت ہوتی ہے، لگتا ہے وہ نثر میں شاعری کرتے ہیں۔

            کرشن چندر نے لکھا ’’ مظفر حنفی کا افسانہ ’’ الماس کا محبوب‘‘ مجھے اس لیے پسندہے کہ اس میں رنگینی اور عبارت آرائی سے کام لیا گیا ہے ورنہ اُن کے بعض افسانے تنگ دامانی کا شکار ہو گئے ہیں ( پیش لفظ ’دو غنڈے ‘)۔ ’ شب خون‘ میں مظفر حنفی کی نظم پڑھ کر موصوف نے مظفرؔ کو خط لکھا ’’ آپ کہتے ہیں میں افسانوں میں شاعری کرتا ہوں اور ’’ جھولنا حاتم کے سر کا‘‘ میں خود افسانہ نگاری کر ڈالی ہے۔ ‘‘

نمک کی ادائیگی

            محکمہ جنگلات کی ملازمت کے زمانے میں ہرن کے کباب کھا کر مظفرؔ حنفی دفتر چلے گئے۔ شام کو گھر آئے تو بیگم نے رسان کے ساتھ کہا:

            ’’ دوپہر میں کھانا کھایا تو معلوم ہوا ہم کباب میں نمک ڈالنا ہی بھول گئے تھے۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں، بتایا بھی نہیں۔ ‘‘

            ’’ بی بی جی!‘‘ مظفرؔ حنفی نے کہا’’ آپ روزانہ لذیذ کھانے پکا کر کھلاتی ہیں تو ہم کون ساتمغہ دیتے ہیں آپ کو۔ آج بغیر نمک کے کباب کھا کر آپ کا نمک ادا کر دیا!‘‘

کرسی ہی ایسی ہے

            دلّی میں نیشنل کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت (NCERT) میں اردو کے اسسٹنٹ پروڈکشن آفیسر کا تقرر ہونا تھا۔ مظفر حنفی سلکشن کمیٹی کے سامنے تھے۔ خواجہ احمد فاروقی،نور الحسن ہاشمی،آل احمد سرور وغیرہ اکسپرٹ ممبران تھے۔ ایک سوال پر مظفرؔ حنفی کو تذبذب میں مبتلا دیکھ کر پروفیسر سرورؔ نے پان چباتے ہوئے کہا ’’ مظفر صاحب! آپ کے علمی اور ادبی کام سے ہم لوگ بخوبی واقف ہیں، اطمینان سے جواب دیجیے۔ نروَس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘

            ’’ حضور!‘‘مظفرؔ حنفی نے دست بستہ عرض کی۔ ’’ جہاں میں بیٹھا ہوں یہ کُرسی ہی ایسی ہے اس پر بیٹھ کر تو آپ بھی نروَس ہو جائیں گے۔ ‘‘

باقیات کے لیے

            این سی ای آر ٹی میں بحیثیت اسسٹنٹ پروڈکشن افسر ( اردو ) مظفر حنفی کو آئے ہوئے چند مہینے ہی گزرے تھے۔ نثار احمد فاروقی بٹلہ ہاؤس میں ان کے پڑوسی تھے۔ انھیں دنوں مظفر کی مرتب کردہ کتاب ’’کلیاتِ شادؔ عارفی‘‘ منظرِ عام پر آئی تھی۔ ایک دن فاروقی صاحب بطور خاص ملاقات کے لیے آئے اور بضد ہوئے کہ اس کتاب کی تقریب رونمائی ایک بڑے آڈیٹوریم میں منعقد کرنے کی رضا مندی دی جائے۔ مظفر حنفی نے حیرت سے پوچھا۔ ۔ ۔ ۔

            ’’ اس کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟‘‘

            ’’ اس کی پروا مت کیجیے ‘‘ نثار فاروقی ہنس کر بولے ’’ہم کہیں سے بندوبست کر لیں گے۔ ‘‘

            ’’بھائی جان! ایسا کیجیے۔ ‘‘ مظفر حنفی نے کہا ’’ وہ پیسے محفوظ کر لیجیے ’ باقیاتِ شاد عارفی‘ کی اشاعت میں کام آئیں گے۔ ‘‘

لطیفوں سے بچاؤ

            این سی ای آرٹی کی ملازمت کے دوران ایک دن ایمانداری کے جوش میں مظفر حنفی نے سرکاری گاڑی کو گیریج واپس بھیج دیا اور خریداری کر کے گھر واپس آ رہے تھے کہ بس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ڈرائیور اور دو مسافر لقمۂ اجل بن گئے۔ مظفر حنفی کو بے ہوشی کے عالم میں اسپتال پہنچایا گیا جہاں ان کے مسوڑھوں میں بہت سے ٹانکے لگائے گئے۔ دوسرے دن عیادت کے لیے مجتبیٰ حسین آئے جو این سی ای آر ٹی میں مظفر حنفی کے ساتھ ملازم تھے۔ یوسف ناظم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ دو دو طنز و مزاح نگاروں کو دیکھ کر مظفر حنفی نے جلدی سے پرچے پر لکھا :

             ’’ بھائی مجتبیٰ، خدا کے لیے کوئی لطیفہ مت سنانا ورنہ میرے ٹانکے ٹوٹ جائیں گے۔ ‘‘

جبرئیلؑ سے یاد اللہ

            فکر تونسوی اپنے ایک کام کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔ مظفر حنفی سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا:

            ’’ کسی دن این سی ای آر ٹی (NCERT) چلے آیئے۔ مجتبیٰ حسین کو پکڑیں گے۔ ‘‘

            ’’وہ کیا کر لیں گے؟‘‘

            ’’ سفارش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کوئی راستہ ضرور نکالیں گے۔ ‘‘

            ’’ بھیا اس معاملے کا تعلق چیف سکریٹری حکومت پنجاب سے ہے وہاں بے چارے مجتبیٰ حسین کیا کر لیں گے؟‘‘

            مظفر حنفی نے زور دار قہقہہ لگایا۔

            ’’فکر صاحب! آپ نے مجتبیٰ حسین کو ٹھیک سے پہچانا نہیں۔ جناب اگر آپ کو اللہ میاں سے بھی کچھ کام ہو تو مجتبیٰ حسین کی جبرئیلؑ سے یاد اللہ ہے۔ ‘‘

تیکھا مشورہ

            اس دن پبلی کیشن ڈیویژن میں مجتبیٰ حسین نے بتایا کہ دہلی میں کوئی ذہین ٹھگ آیا ہوا ہے۔ سردار جعفری کا بیٹا بن کر مخمور سعیدی سے پچاس روپے جھٹک لے گیا،فکرتونسوی کے یہاں ساحر لدھیانوی کا بھانجہ بن کر مدد کا خواستگار ہوا، انھوں نے معذرت چاہی تو ’ نقوش‘ کا طنز و مزاح نمبر ہی مانگ لیا۔

             شام کو مظفر حنفی دفتر کے نزدیک ہی ایم ایم ٹی سی کالونی میں واقع اپنے فلیٹ پر پہنچے تو ڈرائنگ روم میں ایک نوجوان اُن کا انتظار کر رہا تھا۔ اپنے آپ کو اختر الایمان کا بیٹا ظاہر کیا۔ کہنے لگا۔

            ’’ انکل! علی گڑھ میں جدید شاعری پر ریسرچ کر رہا ہوں۔ اسی کام سے دہلی آیا تھا ویٹنگ روم میں میری اٹیچی چوری ہو گئی۔ جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ کرائے کا بندوبست کر دیجیے۔ ‘‘

            ’’ میاں، اختر الایمان کا کوئی بیٹا تو ہے ہی نہیں تم اُن کے منہ بولے بیٹے ہو سکتے ہو۔ ‘‘ مظفر حنفی بولے۔ ’’ خیر، یہ بتاؤ اگر کرایہ نہیں ملا تو کیا کرو گے؟‘‘

            ’’ مجبوراً علی گڑھ پیدل جانا پڑے گا۔ ‘‘

            ’’ شام ہو رہی ہے‘‘ مظفر حنفی نے گھڑی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ اُٹھو اور فوراً چلنا شروع کر دو!‘‘

دست برداری کی درخواست

            عبد اللہ کمال انجمن ترقی اردو (ہند) کے ہفت روزہ ’’ ہماری زبان‘‘ میں کام کرتے تھے۔ ایک دن مظفرؔ حنفی کے پاس آئے کہنے لگے آنند نرائن ملّا کے حکم پر حاضر ہوا ہوں۔ کہہ رہے تھے مظفر حنفی لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر انٹرویو دینے گئے تھے وہاں اقبالؔ مجید کے لیے اُوپر سے گھنٹی بج گئی اب انجمن میں جنرل سکریٹری کا تقرر ہونا ہے، اُن سے درخواست لے آؤ۔ مظفرؔ حنفی کو معلوم تھا کہ وہ بساط بہت پہلے سے بچھی ہوئی تھی اور سارے مہرے چاق و چوبند تھے۔ بہر حال انہوں نے درخواست لکھی:

            ’’ صدر انجمن! آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ میں احترام کے ساتھ درخواست کرتا ہوں کہ خلیق انجم صاحب جنرل سکریٹری کی جگہ کئی مہینوں سے عارضی طور پر کام کر رہے ہیں اور مستقل تقرری کے خواہشمند ہیں، اُن سے بہتر امیدوار اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ میں اُن کے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔ ‘‘

فکر کی نمازیں

            پاکستان سے دو نوجوان شاعر ہندوستان آنے لگے تو ان کے استاد احمد ندیم قاسمی نے خاص طور پر ہدایت کی کہ یہ لوگ اُن کے قریبی دوست فکر تونسوی سے ضرور ملاقات کریں۔ یہ دونوں دہلی آ کر قطب ہوٹل میں مقیم ہوئے اور وہیں سے فکر تونسوی کو فون کر کے ملاقات کے لیے وقت لینا چاہا۔ فکر تونسوی اپنی فطری شرافت اور سادہ طبیعت کے مطابق خود قطب ہوٹل کے لیے روانہ ہو گئے اور راستے میں این سی ای آر ٹی سے مجتبیٰ حسین اور مظفرؔ حنفی کو ساتھ لے لیا۔ ہوٹل میں نوجوان پاکستانی شعراء ان تینوں سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے کرتے اچانک اُن میں سے ایک نے اپنی آواز دبا کر سرگوشی کے انداز میں مظفر حنفی سے پوچھا ’’کیوں صاحب! آپ لوگوں کو یہاں نماز وغیرہ پڑھنے کی اجازت ہے کہ نہیں ؟‘‘

            ’’ بھئی ہم اور مجتبیٰ حسین تو گناہگار آدمی ہیں ‘‘ مظفرؔ نے انتہائی سنجیدگی سے کہا ’’ آپ فکرؔ صاحب سے پوچھ لیں ‘‘۔

            موصوف نے وہی سوال رازدارانہ لہجے میں فکر تونسوی سے کیا تو جواب ملا:

            ’’ ہاں۔ ہم پنچ وقتہ نمازی ہیں اور کھُلے عام پڑھتے ہیں۔ اپنے استادسے پوچھ لینا۔ ‘‘

            بیچارے مہمانوں کو معلوم نہیں تھا کہ فکر تونسوی مسلمان نہیں ہیں۔

کردار کا صفایا

            این سی ای آر ٹی کے پبلی کیشن ڈپارٹمنٹ میں مولانا عبد الوحید پروف ریڈر تھے۔ ایک دن موصوف بزعمِ خودافسانہ لکھ کر لائے اور مجتبیٰ حسین اور مظفرؔ حنفی کو سُنانے بیٹھے۔ افسانے  کے پہلے پیراگراف میں ہی رام لال دھوبی کی موت واقع ہو گئی چند سطروں کے بعداُس کی ماں چل بسی پھر تھوڑی دیر بعد اُس کاپڑوسی شیو کمار ہیضے کا شکار ہو گیا اور آگے چل کر شانتی دیوی نے خود کشی کر لی۔ الغرض دو صفحوں کے میدان میں مولانا نے کُشتوں کے پُشتے لگا دیے تو مظفر حنفی نے گھبرا کر کہا :

            ’’ وحید صاحب! آخر یہ بیس پچیس کردار اتنی تیزی سے مار دینے کی کیا تُک تھی۔ ‘‘

            ’’ یار، دیکھتے نہیں ‘‘ مجتبیٰ حسین نے ہنس کر کہا ’’ مولانا نے کتنی آسانی سے اتنے سارے کافر مار گرائے ہیں۔ ‘‘

حنفی کا وزن

            مظفر حنفی اور شمیم حنفی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں بطور لکچرر جوائن کیا اور صدر شعبہ گوپی چند نارنگ انھیں عمائدینِ جامعہ سے متعارف کرانے نکلے۔ کرنل بشیر حسین زیدی سے ملاقات ہوئی تو موصوف نے دونوں کے نام سُن کر قہقہہ لگایا اور ازر اہِ تمسخر فرمایا:

            ’’ نارنگ صاحب، اب آپ ابو حنیفہ ہو گئے۔ ‘‘

            ’’ حضور، آپ نے غور سے نہیں سنا‘‘ مظفرؔ حنفی نے مودّبانہ عرض کیا۔ ’’ ہم لوگ متحرک نُون والے حَنَفی نہیں ہیں۔ حنْفی ہیں بر وزن منفی۔ ‘‘

بوڑھا گدھا جوان گھوڑا

            ڈاکٹر محمد ذاکر نے نو وارد لکچرر عبدالوحید کو شعبۂ اردو کے لان پر روک رکھا تھا۔

            ’’ میاں جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں تم نے جامعہ میں قدم رکھا ہے اور اتنے سینئر  استاد، فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین، ضیاء الحسن فاروقی پر اعتراض کرتے ہو۔ ‘‘

            ’’ ذاکر صاحب۔ ۔ ۔ سنیے تو‘‘ عبدالوحید ہکلا کر کچھ کہنے جا رہے تھے کہ مظفر حنفی آ گئے۔

             ’’ چلو وحید اپنے کمرے میں ‘‘ انھوں نے کہا ’’ذاکر بھائی کی نظر میں بوڑھا گدھا، جوان گھوڑے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ‘‘

نازک خیالی کے نمونے

            انیسؔ صدی تقریب کے اختتام پر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مظفرؔ حنفی کار سے سردارجعفری کولے کر اُن کے ہم زلف کرتار سنگھ دُگل کے گھر جا رہے تھے۔ سردار جعفری تقریب کے زیر اثر، انیسؔ کی محبت میں سرشار تھے۔ کہنے لگے:

            ’’ انیسؔ واقعی عظیم تھے۔ کیا شاندار ہے مرثیے کا وہ بند، جس کا مصرع ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑ جائیں لاکھ آبلے پائے نگاہ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنی نازک خیالی عالمی ادب میں کہیں نظر نہیں آتی‘‘۔

            ’’ صاحبو! عالمی ادب پر تو میری ناچیز نظر نہیں ہے ‘‘مظفر حنفی نے دست بستہ عرض کیا ’’البتہ غالبؔ کا یہ شعر مجھے زیادہ شعریت اور نازک خیالی کا حامل نظر آتا ہے:

مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے

پُر گل خیالِ زخم سے دامن نگاہ کا‘‘

            نارنگ نے زور سے مظفر حنفی کا ہاتھ دبایا۔

 چوتھا نام

            انیسؔ صدی سمینار میں شرکت کے لیے مہذّب لکھنوی تشریف لائے تھے۔ لنچ کے لیے جامعہ ملیہ کے شعبہ اُردو میں تشریف فرما تھے۔ بر سبیل تذکرہ ایک اُستادنے دریافت کر لیا ’’ آپ کے کتنے بیٹے ہیں ؟‘‘ جواب ملا :’’ چار۔ ‘‘ ’’ کیا نام ہیں اُن کے ؟‘‘ فرمایا’’ مؤدب لکھنوی، مقرب لکھنوی،مرتب لکھنوی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘بوڑھے شاعر کا حافظہ کمزور تھا، چوتھے کا نام بھول گئے۔

             ’’ مچرّب لکھنوی تو نہیں ؟‘‘ مظفر حنفی نے بھولپن سے پوچھا۔

شاعر کی بانچھیں

            پروفیسر گوپی چند نارنگ نے شعبۂ اردو میں جون ایلیا کو لنچ پر بلایا لیکن لنچ تو حقیقتاً اساتذہ نے ہی کیا۔ جانے کیوں وہ بانکا شاعر پلیٹ میں دو چمچے دہی کے انڈیل کر دس پندرہ منٹ تک چکھتا رہا۔ کھانے کے لیے اصرار کیا گیا تو جواب ملا کہ یہی اُن کی خوراک ہے۔ اب موقع تھا گفت شنید کا۔ صدر شعبہ نے مہمان سے فرمائش کی کہ وہ پاکستان کی ادبی صورت حال پر روشنی ڈالیں۔ جون ایلیا پسینے میں شرابور ہو گئے۔ مظفر حنفی نے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ’’حضرات! ہرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس؟ طلبہ و طالبات ہال میں منتظر ہیں وہیں چل کر جون ایلیا سے غزلیں سنتے ہیں۔ کچھ طالبات ان کے آٹو گراف بھی لینا چاہتی ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘ شاعر کی بانچھیں کھل گئیں۔