FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

اردو انشائیہ اور بیسویں صدی کے اہم انشائیہ نگار

               ڈاکٹر ہاجرہ بانو

حصہ دوم

 (حصہ اول کے لئے  یہاں کلک کریں)

 

               ۱۱۔ سید آوارہ

            سید آوا رہ نے بھی کئی انشائیے لکھے ہیں۔ ان کی عام فہم زبان قاری کا دل موہ لیتی ہے۔ مندرجہ ذیل خوبصورت انشائیہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس رسم نے گویا اعلان کر دیا کہ صاحبزادے نام خدا جوان ہو گئے۔ چڑھتا خون، مونچھوں کی فصل دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگی اور میں سوچتا رہا کہ انہیں کس سانچے میں ڈھال لوں، اور چہرے کا کینڈا بدلتے ہوئے کس فیشن کی پالوں۔ پڑوس میں ڈولی کا اڈا تھا۔ مونچھوں کے فرق سے اپنی اور ایک کہار کے چہرے کی کاٹ ملتی جلتی پائی۔ دس پندرہ دن کی لگاتار اینٹھن میں اپنی مونچھوں کا روپ بھی وہی بن گیا، میری اور للتوا کہار کی مونچھیں جڑواں بہنیں دکھائی دینے لگیں۔ وہی کڑوے تیل سے چکنائے چمکیلے بال، وہی نوکیں چھلے دار۔

            کچھ دن بعد ایکا ایکی ان سے جی بھر گیا۔ جانتے ہیں اب کیا کیا میں نے؟ ان چھلوں کو ریورس گیئر میں ڈال دیا۔ انگلیوں کے پورے سن پڑ گئے تب کہیں ان کے بل نکلے۔ نئے نمونے کی تلاش میں تھا جو اپنے ایک اسکول ماسٹر کی مونچھیں پسند آئیں۔ ماسٹر صاحب پڑھاتے کم تھے، کاسمیٹک کی پٹ دی ہوئی چوہیا کی دم مونچھوں کا رعب زیادہ جماتے تھے۔ یہ وضع نبھ نہ سکی۔ کاسمیٹک کی بو سے بار بار چھینکوں کی ڈاک بیٹھنے لگی۔ آچھیں ! آچھیں ! کی باڑھ چلنے لگی اور زکام نے ناک میں دم کر دیا۔ ناچار انہیں سلام کرنا پڑا۔ اب جو فیشن میں نے بدلا اس سے مونچھوں کی شکل مڈل بریکٹ جیسی بنتی تھی۔ اس کے لیے دونوں کونیں اٹھا کر کلوں پر چپکانا، اوپر سے پٹی باندھنی پڑی۔ یہ تو کسی نے جانا نہیں کہ پٹی تلے کیا بھید تھا، ہونٹ بال توڑ نکال سمجھ کر کسی نے پلٹس باندھنے کی صلاح دی تو کسی نے آپریشن کرنے کی۔ پٹی بندھتی رہی۔ کھلی تو نئے ٹھپے کی مونچھیں تیار تھیں۔ نہایت شاندار بڑے رعب داب کی۔ قیصر ولیم کی مونچھوں سے ٹکر لینے والی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔ مونچھیں۔ سید آوا رہ۔ آزادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ۔ نصیر احمد خاں۔

 

               ۱۲۔ محمد حسن

            محمد حسن نے اردو ادب کو گراں قدر سرمایہ عطا کیا ہے۔ مندرجہ ذیل انشائیہ میں الفاظ کا انتخاب، میٹھا طنز اور شگفتگی اپنی مثال آپ ہیں۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات ہماری انفرادی زندگیوں کے لیے اسی طرح باون رتی اور پاؤ رتی کی ہے۔ اور باتوں کی طرح یہ بھی بہت بڑی حد تک اپنے اپنے عقل و شعور پر منحصر ہے۔ جب تک زندگی کے کارخانے کو اپنے ہاتھ سے اپنی پوری تازگی اور شادابی کے ساتھ چلایا جائے چلائیے۔ جب تک آپ اس کھیل میں ذرا بھی دلچسپی اور دل بستگی محسوس کرتے ہوں کام چلاتے رہیے۔ مقابلہ کیے جائیے حالات و حادثات کے مقابلے میں سینہ سپر ہو جائیے۔ سینہ تو بہرحال آپ ہی کا ہو گا لیکن سپر کسی کو بھی آپ بنا سکتے ہیں جی چاہے تو بادہ کہن اور بت نوخیز کا انتخاب کیجیے یا آرزو مندی کے جہاد کو بہرحال جب تک زندگی کرسکیں اور جب تک اپنے کو سر منزل محسوس کرسکیں کیجیے اور پھر ان گھروندوں کو مٹا کر کائنات کے اس ڈرامے کا بھی ڈراپ سین کر ڈالیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔  نئی زندگی۔ محمد حسن۔ آزادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ۔ نصیر احمد خان

 

               ۱۳۔ اندر جیت لال

            اندر جیت لال ایک بہترین ادیب ہیں۔ ان کے لکھے انشائیے نہایت ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ’’جانور سے انسان تک‘‘ ملاحظہ کیجیے۔

            ’’انجیل مقدس میں لکھا ہے کہ خدا نے آدمی کو اپنی مثل بنایا۔ اور اس میں زندگی کی روح پھونک دی۔ ‘‘ مگر اس اشرف المخلوقات کی شکل و صورت تو دیکھنا۔ وہ کتے سے زیادہ شہوت پرست، لومڑی سے زیادہ مکار، شیر سے زیادہ خونخوار، ہاتھی سے زیادہ پیٹو، گدھے سے زیادہ بے دماغ، خچر سے زیادہ ضدی، سانپ سے زیادہ زہریلا، اونٹ سے زیادہ کینہ ور، مگر مچھ سے زیادہ نسل کش، بلی سے زیادہ چور، بکری سے زیادہ بزدل اور بچھو سے زیادہ پیش زن ہے۔ ان جانوروں میں یہ برائیاں انفرادی ہیں۔ کسی میں ہیں، کسی میں نہیں، مگر یہ اشرف المخلوقات خدا کا بیٹا سب برائیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اور نسلاً بعد نسلاٍ اپنی اولاد کو ورثے میں دے جاتا ہے۔ خدائے کریم نے دوسرے جانوروں کے لیے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ کوئی پیامبر۔ ان کے گناہوں کے کفارے کے لیے نہ کوئی مصلوب ہوا نہ کوئی شفاعتی آیا۔ مگر اس لاڈلے کے لیے خدا نے نہ جانے کتنے پیغمبر بھیجے۔ یہاں تک کہ خود بھی اس نے انسانی جامے میں آنے کی زحمت گوارا کی اور اپنے ’’اکلوتے بیٹے‘‘ کو بھی دار پر کھنچوایا۔ اس اشرف المخلوقات نے دنیا کی ہر برائی کو فروغ دیا۔ زمین و آسمان کو زیر و زبر کیا اور سمندروں کو متھ کر رکھ دیا۔ اس کے ہاتھ چرند، پرند اشجار حتیٰ کہ کل ارض و سما بہ گریاں و نالاں ہے خود زمانہ بھی اس کے ہاتھوں تنگ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔جانور سے انسان تک۔ اندر جیت لال۔ آزادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ۔ نصیر احمد خاں۔

               ۱۴۔ ڈاکٹر آدم شیخ

            ڈاکٹر آدم شیخ انشائیے پر کئی کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔ اپنے انشائیوں میں فکر تونسوی اور پطرس بخاری کی یاد دلاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ان کا نہایت ہی خوبصورت انشائیہ ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے منہ اپنی تعریف کرنے کا اس سے زیادہ قابل تعریف اور کوئی گر نہیں ہے کہ آدمی لوک لاج کا خیال کیے بغیر تبصرہ نگاری شروع کر دے۔ بعض حضرات تو کتاب شناسی کی پگڈنڈیوں سے گزرکر ہی خود ستائی کی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایک جدید تبصرہ نگار نے تبصروں میں اپنی قصیدہ خوانی کر کے انعام بھی حاصل کر لیا ہے۔ اس یکتائے روزگار مبصر کے تبصرے پڑھ کر قاری کو کتاب سے زیادہ کتاب شناس سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ موصوف نے بزعم خود تبصرہ نگار کی پامال راہوں سے گریز کر کے اپنے لیے ایک نئی راہ نکالی جس کا خاطر خواہ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیم جاں رسالہ جو بڑی مشکل سے سسک سسک کر پانچ سو کی تعداد میں نکلتا تھا ان کے تبصروں کو شائع کرنے کے بعد پانچ لاکھ کی تعداد میں نکلنے لگا اور شہر کے بیشتر لوگ ان کے پیچھے پڑ گئے (آٹو گراف کے لیے) اور تو اور دھوبی، بڑھئی، نانبائی جیسے کم خواندہ قارئین بھی سر بازار ان کی مزاج پرسی کرنے لگے۔ اس حقیقت سے انکار اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ممدوح ہر تبصرے کے ساتھ اپنی تصویر لگوانا تبصرہ نگاری کی بنیادی ضرورت سمجھتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔  کتاب شناسی۔ ڈاکٹر آدم شیخ۔ ماہنامہ شگوفہ اگست ۱۹۹۴ء

               ۱۵۔ جوگندر پال

            جوگندر پال ۱۹۲۵ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ بہت سادگی سے اپنی بات قارئین کے دل میں اتارنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ اور دانستہ و دانستہ طریقے سے پند و نصائح کے دفتر بھی کھول لیتے ہیں۔ ان کے تحریر کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’کوئی چار پانچ دہے پہلے میرے لڑکپن کا ذکر ہے کہ بعض لوگوں کو ہماری روزمرہ کی قیام اور خوابناکی کی کیفیات بے حد کھلتی تھیں۔ اپنی گرجدار تقریروں میں وہ موقع بموقع ہمیں تیز تیز چلنے کی تلقین کرنا نہ بھولتے اور ہر دوسرے تیسرے فقرے پر اس بات پر زور دیتے کہ خدا کے لیے آنکھیں ہمیشہ کھلی رکھو، جاگتے رہے، ورنہ جہاں پڑے ہو وہیں پڑے رہ جاؤ گے۔ اور انہیں سنتے ہوئے ہم اپنے گرم جوش انہماک میں بار بار ہڑبڑا کر نعرہ بلند کرتے انقلاب زندہ باد!

            سن سن کر آخر ایک مقام آ ہی جاتا ہے کہ ہمارے پاؤں رکنے میں نہیں آتے اور اس دوران چلتے چلتے ہم اپنے ٹھکانوں سے اتنا آگے نکل آئے ہیں کہ سمتوں کا تعین کھو بیٹھے ہیں اور تھک ہار کر جب سونے کے لیے گر جاتے ہیں تو آنکھیں چوپٹ کھول کر سوتے ہیں۔ چند ہی روز ہوئے میری بیوی اسی حالت میں پڑی تھی اور اپنی دانست میں اسے اس قدر منہمک پا کر ست مولا باتیں کیا جا رہا تھا۔ مجھے نا معلوم کیا سوجھی کہ یکلخت میں بڑی ملائمت سے اس پر جھک آیا اور عین اسی وقت وہ چیخ مار کر بیٹھ گئی ’’نہیں ‘‘۔ ’’کیا ہوا ہے بھلی لوگ؟‘‘ میں شرمندہ ہو کر پرے ہٹ گیا وہ ابھی تک بوکھلائی ہوئی تھی۔ ’’میں خواب دیکھ رہی تھی کہ کوئی پرایا مرد مجھ پر جھکا چلا آ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ۱

۔۔۔۔

۱۔  اے ہوش مندو۔ جوگندر پال

               ۱۶۔ حسنین محمد اسلم عظیم آبادی

            حسنین محمد اسلم عظیم آبادی ۱۲/ اکتوبر ۱۹۲۰ء کو عظیم آباد پٹنہ بہار میں پیدا ہوئے۔ ان کی تحریر میں بلا کی شگفتگی اور لطافت پائی جاتی ہے۔ روانی بھی دیکھتے ہی بنتی ہے۔ دور قدیم کو دور جدید میں دھنک کے رنگوں کی آمیزش سے ملانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کا مندرجہ ذیل انشائیہ ’’ہیرو‘‘ پڑھنے سے اس بات کی بخوبی شناخت ہو جائے گی۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھٹے اور میٹھے آم کی طرح ہیرو بھی خالصتاً دو ہوتے ہیں۔ مثالی اور موسمی۔ اسے اپنے ملک کی خوش قسمتی کہیے کہ ہمارے پھلوں میں جتنی شکل اور سواد کے آم ملتے ہیں اتنی اقسام کے ہیرو بھی۔ مثال کے طور پر فلمی ہیرو، قومی ہیرو، کلاس کا ہیرو اور بازار کا ہیرو، محلہ کا ہیرو اور میچ کا ہیرو وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہیرو کسی جگہ اداکاری کرتا ہے کہیں سودا بازی۔ کہیں یہ کامریڈ کہلاتا ہے کہیں رنگدار۔ کہیں سرداری کرتا ہے کہیں سواری۔ کہیں اس کا شغل پہلوانی ہوتا ہے اور کہیں عاشقی۔ جہاں زندگی کی علامت ہے وہاں ہیرو ازم کی علت۔ یہاں زندگی کا سوز و ساز ہے وہاں ہیرو ازم کی تب و تاب۔ کوئی جگہ ہیرو سے خالی نہیں۔ ہر دل میں ہیرو شپ کا جذبہ اور رجوع موجود ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔  ہیرو۔ حسنین محمد اسلم عظیم آبادی۔ انشائیہ اور انشائیہ۔ پروفیسر سید محمد حسنین

               ۱۷۔ ابن انشاء

            ابن انشاء کا حقیقی نام شیر محمد خان ہے اور ابن انشاء ان کا قلمی نام ہے۔ ۱۰ جون ۱۹۲۶ء کو جالندھر کے ایک قصبہ میں پیدا ہوئے۔ کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ان کو ملازمت اختیار کرنی پڑی۔ لیکن علم کی پیاس اور لگن ہمیشہ رہی۔ اسی لیے جب بھی موقع ملا، تعلیم مکمل کرتے رہے اور اسی طرح ایم۔ اے۔ کا امتحان پاس کیا۔

            ابن انشاء آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ ملک کی تقسیم کے بعد پاکستان میں بود و باش اختیار کی اور وہاں مختلف مقامات اور مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۵۰ء میں قومی اسمبلی کے مترجم مقرر ہوئے۔ یونیسکو کے تعاون سے قائم شدہ کراچی کے بک سینٹر میں ملازم ہوئے اور ترقی کر کے ڈائرکٹر جنرل کے اعلیٰ عہدے پر پہنچے۔ اسی حیثیت سے دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا۔ انہوں نے اپنے سفر کی روداد بہت دلچسپ اور نہایت شگفتہ انداز میں بیان کی ہے۔ ان کے کئی ایک سفر نامے اب تک شائع ہو کر بیحد مقبول ہو چکے ہیں۔ جیسے ’’دنیا گول ہے‘‘، ’’چلتے ہیں تو چین کو چلئے‘‘، ’’آوا رہ گرد کی ڈائری‘‘ اور ’’ابن بطوطہ کے تعاقب میں ‘‘ وغیرہ۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں اور ان کے دو مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے انشائیوں کے بھی دو مجموعے ’’خمار گندم‘‘ اور ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ ہیں۔ ایک کالم نگار کی حیثیت سے بھی انہیں غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے کالم پاکستان کے کئی کثیر الاشاعت روزناموں میں چھپا کرتے تھے۔ ۱۱ جنوری ۱۹۷۸ء کو لندن میں ان کا انتقال ہوا۔

            ابن انشاء کا اسلوب بہت شگفتہ اور مزاح کا رنگ لیے ہوتا ہے۔ ان کی انشائیہ نگاری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ خود اپنے ہی کو ہدف ملامت بنا کر لطف اور مزاح کا پہلو پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے بہت لکھا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے اسلوب کی دلکشی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ان کا ایک خوبصورت انشائیہ ’’خطبہ صدارت حضرت ابن انشاء‘‘ کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے اور ان کی بہترین انشاء پردازی کا اندازہ لگائیے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک زمانہ تھا ہم قطب بنے گھر میں بیٹھے رہتے تھے اور ہمارا ستا رہ گردش میں رہا کرتا تھا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم خود گردش میں رہنے لگے اور ہمارے ستارے نے کراچی میں بیٹھے بیٹھے آب و تاب سے چمکنا شروع کیا۔ پھر اخبار شاعر میں ’’آج کا شاعر‘‘ کے عنوان سے ہماری تصویر اور حالات چھپے۔ چونکہ حالات ہمارے کم تھے لہٰذا ان لوگو ں کو تصویر بڑی کرا کے چھاپنی پڑی اور قبول صورت، سلیقہ شعار، پابند صوم و صلوٰۃ اولادوں کے والدین نے ہماری نوکری، تنخواہ اور چال چلن کے متعلق معلومات جمع کرنی شروع کر دیں۔ یوں عیب بینوں اور نکتہ چینوں سے بھی دنیا خالی نہیں۔ کسی نے کہا یہ شاعر تو ہیں لیکن آج کے نہیں۔ کوئی بے درد بولا آج کے تو ہیں لیکن شاعر نہیں۔ ہم بد دل ہو کر اپنے عزیز دوست جمیل الدین عالی کے پاس گئے۔ انہوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اور کہا دل میلا مت کرو۔ یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں۔ ہم تو نہ تمہیں شاعر جانتے ہیں نہ آج کا مانتے ہیں۔ ہم نے کسمسا کر کہا۔ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ بولے میں جھوٹ نہیں کہتا اور یہ رائے میری تھوڑی ہے سب ہی سمجھدار لوگوں کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔

۱۔خطبۂ صدارت حضرت ابن انشاء۔ ابن انشاء۔

 

               ۱۸۔ مجتبیٰ حسین

            اردو کے ممتاز مزاح نگار اور ادیب مجتبیٰ حسین ۱۵ جولائی ۱۹۳۶ء کو سابق ریاست حیدر آباد اور موجودہ ریاست کرناٹک کے ضلع گلبرگہ کی تحصیل چنچولی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ ۱۹۵۳ء میں گلبرگہ انٹر میڈیٹ کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان کامیاب کیا پھر آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ۱۹۵۵ء میں بی۔ اے۔ کی سند حاصل کی اسی کے ساتھ ایوننگ کالج حیدر آباد سے پبلک ایڈمنسٹریشن کا ڈپلوما کورس کامیاب کیا۔ تعلیم ختم کرنے کے بعد کچھ دنوں محکمہ مال میں ملازمت کی۔ پھر یہ ملازمت چھوڑ دی اور روزنامہ سیاست سے وابستہ ہو گئے۔ جہاں ان کے بڑے بھائی محبوب حسین جگر جوائنٹ ایڈیٹر تھے۔ ۳۱ جولائی ۱۹۶۲ء کو سیاست کے کالم نگار مشہور شاعر شاہد صدیقی کا انتقال ہو گیا۔ سیاست کا یہ مزاحیہ کالم مجتبیٰ حسین کے تفویض کیا گیا اور یہیں سے ان کی مزاح نگاری کی ابتداء ہوئی۔ ابتداء میں کوہ پیما کے فرضی نام سے یہ کالم لکھتے رہے پھر اپنے اصلی نام سے پہلا مزاحیہ مضمون ’’ہم طرفدار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں ‘‘ شائع ہوا۔ یہ مضمون بہت مقبول ہوا۔ انہیں دنوں زندہ دالان حیدر آباد کا قیام عمل میں آیا۔ مجتبیٰ حسین اس کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے اور سات برس تک اس خدمت پر فائز رہے۔ ۱۹۶۲ء میں حکومت آندھرا پردیش کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں ملازم ہوئے اور ۱۹۷۲ء تک اس محکمے سے وابستہ رہے۔ نومبر ۱۹۷۲ء میں حکومت ہند نے اردو کے مسائل کا جائزہ لینے کے لیے گجرال کمیٹی تشکیل دی۔ مجتبیٰ حسین کااس کمیٹی کے شعبہ ریسرچ میں تقرر کیا گیا۔ ۱۹ ستمبر ۱۹۷۴ء میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ کے پبلی کیشن ڈپارٹمنٹ میں شعبہ اردو کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔

            مجتبیٰ حسین نے مزاحیہ کالم نگاری میں اپنے ادبی سفر کی ابتدا کی بعد ازاں انہوں نے کئی مزاحیہ مضامین، خاکے اور سفر نامے لکھے۔ چند اہم تصنیف کی تفصیل ذیل میں درج ہے۔

            تکلف برطرف ۱۹۶۸ء، قطع کلام ۱۹۶۹ء، قصہ مختصر ۱۹۷۲ء، بہرحال ۱۹۷۴ء، آدمی نامہ ۱۹۸۱ء، بالآخر ۱۹۸۲ء، جاپان چلو جاپان چلو ۱۹۸۳ء، الغرض ۱۹۸۷ء، سو ہے وہ بھی آدمی ۱۹۸۷ء، چہرہ در چہرہ ۱۹۹۳ء، سفر ہمت ۱۹۹۵ء، آخر کار ۱۹۹۷ء، ہوئے ہم دوست جس کے ۱۹۹۹ء، میرا کالم ۱۹۹۹ء مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں (تین جلدیں ) اور آپ کی تعریف ۲۰۰۵ئ۔ اس کے علاوہ ہندی میں پانچ مجموعے شائع ہو چکے ہیں ہندوستان کی کئی علاقائی زبانوں میں تراجم۔ ان کا سفر نامہ جاپانی، چینی زبان میں بھی شائع ہوا۔

            اعزازات: اڑیسہ ادیبوں کی تنظیم سرس ساہیتہ سمیتی کٹک کی جانب سے ہاسیہ رتن کا خطاب ۱۹۸۰۔ غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کا پہلا غالب ایوارڈ برائے طنز و مزاح ۱۹۸۴ء۔ ایوارڈ برائے تخلیقی نثر اردو اکادمی دہلی ۱۹۹۰۔ کل ہند مخدوم محی الدین ادبی ایوارڈ۔ آندھرا پردیش اردو اکادمی ۱۹۹۹۔ کل ہند کنور مہندر سنگھ بیدی ایوارڈ برائے اردو طنز و مزاح ہریانہ اردو اکادمی ۱۹۹۹۔ علاوہ ازیں ساری تصانیف و ملک کی مختلف اکادمیوں کے انعامات مل چکے ہیں۔

            مجتبیٰ حسین نے بے شمار شخصیتوں کے خاکے لکھے ہیں۔ انہوں نے مہور آرٹسٹ اور خطاط صادقین پر نہایت دلچسپ خاکہ تحریر کیا ہے۔ مجتبیٰ حسین نے ادب کی کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ انہوں نے خاکے، رپورتاژ، مضمون اور کئی انشائیے لکھے ہیں۔ ان کی تحریروں میں طنز و مزاح کا مزہ بہت تیکھا ہوتا ہے۔ ان کا مزاح تہہ دار ہے ار طنز اپنے مکمل سانچے میں ڈھلا ہوا نظر آتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر طنز و مزاح نگار واقع ہوئے ہیں۔ مجتبیٰ حسین زندگی کے مسائل اور حقیقتوں کو اپنی ظرافت کا تڑکا دے کر نہایت شگفتگی کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں اور ہم انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں۔ انہیں موضوع اور سماجی مسائل کے صحیح مفہوم و تفہیم کو ابھارنے اور بات سے نئی بات پیدا کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ رمزیت، الفاظ کا ٹکراؤ اور بے ساختگی و برجستگی ان کی تحریروں کے خاص رنگ ہیں۔

            ان کے ایک انشائیہ ’’قصہ داڑھ کے درد کا‘‘ ملاحظہ کیجیے:

            ’’اور ایک دن اچانک ہماری داڑھ میں یوں درد شروع ہو گیا جیسے آسمان پر یکایک قوس قزح نکل آتی ہے اور قوس قزح کا نکل آنا تھا کہ ساتوں طبق روشن ہو گئے۔ یوں تو ہم انواع و اقسام کے ’’دردوں ‘‘ سے گزر چکے تھے۔ پیٹ کا درد، سر کا درد، کمر کا درد، دل کا درد، قوم کا درد اور اولاد کے درد سے لے کر خواجہ میر دردؔ تک ہم سبھی دردوں سے آشنا تھے لیکن داڑھ کا درد ہمارے لیے بالکل نیا تھا۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔  قصہ داڑھ کے درد کا۔ مجتبیٰ حسین۔

               ۱۹۔ ڈاکٹر سید عابد حسین

            ڈاکٹر سید عابد حسین جامعہ ملیہ میں استاد کی حیثیت سے کئی سال تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ’’مضامین عابد‘‘ ان کے بہترین مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کے علاوہ قومی تہذیب کا مسئلہ، بزم بے تکلف، پردہ، غفلت اور ہندوستانی مسلمان آئینہ ایام ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ان کی ایک خوبصورت تحریر ہے ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظرافت یا خوش طبعی جو انسان کو ہنسنے ہنسانے پر اکساتی ہے، قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ دراصل یہ احساس تناسب کی صفت ہے اور اسے تہذیب یا کلچر کی بنیاد سمجھا جاتا ہے جس میں احساس ظرافت ہوتا ہے اس کی نظر میں ہر قسم کی بے اعتدالی، بے تکا پن، بھونڈا پن فوراً کھٹکتا ہے۔ وہ ان چیزوں پر خود ہنستا ہے اور دوسروں کو ہنساتا ہے اس طرح وہ ایک طرف الم ہستی کے بوجھ کو ہلکا کرتا ہے اور دوسری طرف لوگوں کو ان کے عیوب کی طرف توجہ دلا کر اصلاح کا موقع دیتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ظرافت کا استعمال بے دردی سے نہیں ہمدردی سے کیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ جس پر ہم ہنسیں اسے رلا دیں۔ اس سے تو ضد اور عداوت پیدا ہوتی ہے۔ ظرافت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ جس کی ہنسی اڑائی جائے وہ خود بھی ہنس پڑے اور جھینپ کر کہے ’’بھئی بات تو ٹھیک ہے‘‘ یہ ہمدردی کا جذبہ اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب ہم اپنے آپ کو اپنی ظرافت کا نشانہ بناتے ہیں۔ اپنے اوپر ہنسنے میں ہمارا اندازہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری یہ حرکت تو واقعی بے تکی تھی مگر یوں ہم آدمی اچھے ہیں۔ یہی انداز سب کے ساتھ ہونا چاہیے۔ صحیح احساس ظرافت یا احساس تناسب رکھنے والا جانتا ہے کہ دنیا سراسر اچھا یا سراسر برا کوئی نہیں ہوتا۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔  حضرت انسان۔ سید عابد حسین۔

               ۲۰۔ پروفیسر خورشید جہاں

            پروفیسر خورشید جہاں جھارکھنڈ کی اہل قلم خواتین میں سے ہیں۔ ان کا ذہنی میلان انشائیہ نگاری اور تنقید نگاری کی طرف تھا۔ انہوں نے متعدد انشائیے اور کئی اہم تنقیدی و تحقیقی مضامین لکھے۔ بقول پروفیسر علیم اللہ حالی جب ہم ان کی تنقیدی تحریروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس خاکستر میں بہت سی دبی ہوئی چنگاریاں مل جاتی ہیں۔ ان کے ادبی سفر کا آغاز انشائیہ نگاری سے ہی ہوا تھا۔ پھر دھیرے دھیرے ان کا ذہن تنقید و تحقیق کی طرف مائل ہو گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب کسی انشائیہ نگار کا ذہن تنقید کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی تنقید نگار پر بھی کھلے پن کا اور کھلی فضا کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ ’’جدید اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات‘‘ کافی اہمیت اور افادیت کا حامل ہے۔ جس کے دو ایڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں۔

            پروفیسر ڈاکٹر خورشید جہاں نے کئی انشائیے لکھے۔ ان کی تحریر میں لطافت اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ ان کی تحریر کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب شوگر کی بیماری ہاتھ دھوکر ہماری پیچھے پڑ گئی تو کچھ لوگوں نے مبارکباد دی کہ یہ امیروں کی بیماری ہے گویا آپ کو امیری کی سند مل گئی۔ کسی نے کہا یہ اٹیلیکچوئیل کی بیماری ہے۔ آپ کا شمار بھی انٹکیچولس میں ہونے لگا۔ کسی نے کہا یہ کوئی بیماری ہے ہی نہیں۔ اگر آپ پرہیز سے رہیں تو بالکل صحت مند ہیں۔ اس بیماری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی جتنی قسمیں ہیں ان سے کہیں زیادہ اس کے معالج ہیں۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ آپ کو یہ روگ لگتے ہی جس شخص سے آپ کی ملاقات ہو گی وہ بطور ہمدردی ایک تیر بہدف علاج بتا دے گا۔ غرض جتنے منہ اتنی دوائیں۔ اور آپ اس پر عمل کرنے پر مجبور ہوں گے۔ کیونکہ آپ ہر قیمت پر اس سے چھٹکا رہ چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر نے شکر کا استعمال بالکل بند کرا دیا۔ ہم پہلے بھی میٹھی چیزیں کم کھاتے تھے اس لیے شکر چھوٹنے کا غم نہیں ہوا۔ لیکن چاول، آلو وغیرہ چھوڑنا تکلیف دہ ثابت ہوا۔ اس لیے پورے طور پر انہیں نہ چھوڑسکے۔

            ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق ہم دوائیں کھاتے رہے اور شوگر بڑھتی رہی۔ جب بھی خون ٹیسٹ کروایا یہی رپورٹ آئی کہ شکر اور بڑھ گئی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا پیدل چلئے۔ خوب ٹہلئے۔ ہم نے پیدل چلنا شروع کر دیا، میلوں پیدل چلتے چلے جاتے مگر شوگر کم نہ ہوتی۔ ڈاکٹر نے پوچھا ’’پیدل چلتی ہیں ؟‘‘ ہم نے کہا ’’ہاں خوب چلتے ہیں ‘‘۔ ’’کس وقت؟‘‘ ہم نے کہا ’’جب بھی موقع ملتا ہے۔ دوپہر شام‘‘۔ ’’آپ صبح سویرے ٹہلئے۔ تب فائدہ ہو گا۔ ‘‘ ڈاکٹر نے ’’سویرے‘‘ پر زور دے کر کہا۔

            اندھیرے منہ جب ساری دنیا محو خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی۔ ہم سڑکوں پر بھاگنا شروع کر دیتے جب تک لوگ سوکر اٹھتے ہم گھوم ٹہل کر واپس آ جاتے۔ پسینے میں شرابور ہانپتے کانپتے گھر میں داخل ہوئے ہی بستر پر ڈھیر ہو جاتے۔ مہینے دو مہینے بعد یہ سوچ کر خون ٹیسٹ کروایا کہ اس بار کو رپورٹ میں شوگر نارمل ہی ہو گی اور ڈاکٹر ہمیں پرہیز کم کرنے کو کہہ دے گا۔ مگر رپورٹ دیکھتے ہی دماغ بھک سے اڑ جاتا۔ شوگر گھٹنے کی بجائے اور بڑھی ہوئی ملی یا خدا کیا کریں۔ کیسے اس مرض سے چھٹکارا پائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔  شوگر نامہ۔ پروفیسر خورشید جہاں۔

               ۲۱۔ ثریا صولت حسین

            ثریا صولت حسین کی پیدائش ۲۶ اکتوبر کو ہوئی۔ کئی بار اصرار کرنے کے باوجود انہوں نے اپنا سن پیدائش نہیں بتایا جیسے کہ ایک عام روایت رہی ہے خواتین اپنی عمر چھپایا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی اس روایت کو قائم رکھنا چاہتی ہوں۔ حال مقیم ممبئی اپنے نام کی ہی طرح جگمگاتی ہوئی شخصیت ہے۔ ان کا مقام پیدائش ناگپور مہاراشٹر ہے۔ اپنی تعلیم حیدر آباد دکن اور ناگپور میں مکمل کی۔ احمد نگر کے انگلو انڈین چاند سلطانہ ہائی اسکول میں ملازمت بھی کی۔ ثریا صولت حسین کے افسانوں، انشائیوں اور خاکوں کا مجموعہ ۱۹۸۶ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کتاب پر انہیں مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی اور بہار اسٹیٹ اردو اکادمی سے انعامات بھی ملے۔ ان کے علاوہ ’’ٹکڑے ٹکڑے چاند‘‘ اور ’’اشک رواں ‘‘، ’’شیشہ و سنگ‘‘ افسانوں کے اور شعری مجموعے ہیں۔ یہ بھی مہاراشٹر اردو اکادمی کی جانب سے اعزازات سے نوازے گئے۔ ان کی تحریر میں طنز کی آمیزش کے ساتھ ساتھ مزاح بھی پایا جاتا ہے۔ طنز کا پہلو کم ہی محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ ثریا صولت حسین اچھی طرح جانتی ہیں کہ ایک بہترین انشائیہ نگار کا بنیادی مقصد قاری کو مسرت بہم پہنچانا بھی ہے۔ وہ اپنے ہلکے پھلکے انداز میں فکر و فلسفے کے دقیق نکات بیان کرتی چلی جاتی ہیں اور اشاروں ہی اشاروں میں معنویت کی تہہ داریاں کھولتی جاتی ہیں۔ ان کی تحریر سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ دونوں بھی کافی وسیع ہیں۔ اسی لیے وہ معمولی بات کو بھی اپنے زور قلم سے غیر معمولی بنانے کی قدرت رکھتی ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’نیند پری‘‘ سے لیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کریں :

            ’’بظاہر کس قدر سادہ اور معصوم سا لفظ ہے ’’نیند‘‘ دو چار جمائیاں لیں اور ہاتھ پاؤں ڈھیلے کر کے بستر پر لیٹے اور سوگئے! لیکن ہرگز نہیں دراصل نیند بے شمار ننھی منی پریوں کے ایک جمگھٹ کا نام ہے یہ پریاں بے حد شوخ، فتنہ پرور اور عشوہ طراز ہوتی ہیں۔ ان کی شکل صورت سے تو کوئی آشنا نہیں۔ کیونکہ یہ عالم غنودگی میں موندتی ہوئی آنکھوں میں پتہ نہیں کب آ دھمکتی ہیں کہ ان کے نازک قدموں کی آہٹ بھی کوئی محسوس نہیں کرسکتا البتہ ان کی فطرت سے تقریباً ہر شخص واقف ہوتا ہے۔ یہ نیند پریاں بہت ہی متضاد طبیعتوں کی مالک ہوتی ہیں۔ مہربان نامہربان، وفا شعار ستم شعار! کوئی خرگوش کی طرح تیز طرار اور چست تو کوئی کچھوے کی طرح دھیمی اور سست کوئی سنجیدگی کا مکمل مجسمہ تو کوئی شرارت کی جیتی جاگتی پتلی! ان کی فطرت میں بچپنا بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ وقت بے وقت جگہ بے جگہ اور اندھیرے اجالے کی تو گویا ان کو تمیز ہی نہیں ہوتی۔ چند ذمہ دار پریوں کو چھوڑ کر باقی زیادہ تر نیند پریاں خود مختاری اور آزادی کی دلدادہ ہوتی ہیں لیکن اپنے موڈ کی غلام ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔  نیند پری۔ ثریا صولت حسین۔

               ۲۲۔ دلیپ سنگھ

            دلیپ سنگھ کی پیدائش ۱۹۳۲ء میں بمقام ضلع گوجرانوالہ پاکستان میں ہوئی۔ لیکن آباء و اجداد نے ہندوستان ہی میں سکونت اختیار کرنا پسند کیا۔ دلیپ سنگھ وزارت خارجہ حکومت ہند میں اپنی خدمات انجام دیتے تھے۔ ساتھ ہی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی اپنی ادبی خدمات انجام دیتے تھے۔ ان کے ایک دو سیریل بھی آ چکے تھے۔ فکر تونسوی اور مجتبیٰ حسین کی حوصلہ افزائی پر مزاحیہ مضامین برائے اخبارات و ماہناموں کے لیے لکھنا شروع کیا جو کافی پسند کیے جانے لگے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اردو ادب کے لیے خود کو وقف کرنا شروع کیا۔ نتیجتاً ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آئیں جیسے سارے جہاں کا درد (مضامین کا مجموعہ) ۱۹۹۰، گوشے میں قفس کے (مضامین کا مجموعہ) ۱۹۹۳ء، آوارگی کا آشنا (سفر نامہ) ۱۹۹۴ء، موم کی گڑیا (ڈرامہ)، دل دریا (ناول) جنم دن کی تلاش (مزاحیہ مضامین ہندی میں )۔ ان کی وفات ۸ / اگست ۱۹۹۴ء کو ہوئی۔

            ان کی تحریر میں پنجاب کے دیہات کی زندگی اور وہاں کے رسم و رواج کی مستند چھاپ ملتی ہے۔ لیکن وہ فطرتاً مزاح نگار تھے۔ ان نیچرل رائٹر اپنے یا دوسروں کے معمولی سے تجربے کو بہت شگفتہ انداز میں پیش کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ عبارت کا حسن اور مزاح کا لطف خود بخود ان کے فقروں سے فطری طور پر ابھرتا تھا۔ مندرجہ ذیل انشائیے سے اس بات کا اندازہ ہو جائے گا۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرزا ہنسے اور کہنے لگے کہ آپ مغالطے میں ہیں۔ بادشاہت اکے زمانے میں لے دے کے کل دو شخص ہوتے تھے۔ جن کی شان میں قصیدے لکھے جا سکتے تھے۔ ایک بادشاہ سلامت خود اور دوسرے ان کے ولی عہد۔ ملکہ معظمہ کا قصیدہ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا کیونکہ ان کا صرف حسن ہی تعریف کے لائق ہوتا تھا اور بادشاہ سمجھتا تھا کہ اس حسن کا قصیدہ کہنے کا حق صرف اسی کو تھا لیکن آج کل ایسے لوگوں کی بھرمار ہے جو اپنا قصیدہ سننے کے خواہشمند ہیں۔ میں نے پوچھا مثلاً۔ کہنے لگے ’’مثلاً وہ جن کے ہاتھوں میں انعامات تقسیم کرنے کی قوت ہے وہ جو آپ کو مشاعروں میں بلوا سکتے ہیں۔ وہ جو آپ کی کتابیں چھپوانے کا بندوبست کرسکتے ہیں۔ وہ جو آپ کی کتابیں خریدنے کا حکم صادر کرسکتے ہیں۔ وہ جو آپ کو ایک ایسے ملک میں اپنا کلام سنانے کو بھیج سکتے ہیں جہاں کوئی آپ کا شعر تو کجا آپ کی زبان بھی نہیں سمجھتا۔ وہ جب آپ کے لیے اتنا اہم کام کرسکتے ہیں تو آپ کیا اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ ان کی شان میں ایک عدد قصیدہ ہی لکھ دیں۔ ‘‘

            مجھے یکایک احساس ہوا کہ مرزا کی بات میں وزن ہے۔ تھوڑا سا افسوس بھی ہوا کہ میرا دھیان ادب کی اس فائدہ مند صنف کی طرف کیوں نہیں گیا۔ لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ ایسے لوگوں کی شخصیت میں کہاں ایسی صفات ہوتی ہیں جن پر قصیدے لکھے جا سکیں۔ بادشاہت کے دنوں میں قصیدہ گو شاعر کبھی بادشاہ کو لنگڑاتے ہوئے دیکھ کر یہ کہہ سکتا تھا کہ آپ کی رگوں میں یقیناً تیمور لنگ کا خون ہے۔ یا جب شاعر نے دیکھا کہ بادشاہ سلامت کی ایک آنکھ کسی حادثہ کا شکار ہو گئی ہے تو قصیدہ گو کہہ دیتا تھا کہ تیری ایک آنکھ میں ہی جلال اسقدر ہے کہ کوئی تیری نگاہ کی تاب نہیں لا سکتا۔ اگر دوسری رہتی تو خدا جانے رعایا پر کیا گزرتی۔ یا جب شاعر کو پتہ چلا کہ بادشاہ سلامت اپنے سگے بھائی کا محل ہڑپ کرنا چاہتے ہیں تو وہ کہہ اٹھتا تھا کہ آپ کی فتوحات کا جذبہ سکندر اعظم کا سا ہے۔ کسی نواب نے اپنی بیوی اور اس کی ایک باندی کے معمولی سے جھگڑے میں فیصلہ باندی کے حق میں دے دیا تو قصیدہ گو اٹھتا کہ آپ کا انصاف عدل جہانگیری کی یاد دلاتا ہے لیکن ایک سدھارن آدمی کی تعریف میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ ایسے آدمی کی قصیدہ گوئی کوئی کیا کرے جسے دیکھ کر خدائے برتر سے شکوہ کرنے کو جی چاہے کہ کچھ لوگوں کی تشکیل میں اس نے غیر ضروری عجلت سے کام لیا ہے۔‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔  ایمان کی یہ ہے۔ دلیپ سنگھ۔ شگوفہ ستمبر ۱۹۹۶ء۔ دلیپ سنگھ نمبر۔

               ۲۳۔ معین اعجاز

            نئے انشائیہ کے دور میں ایسے ایسے برگ و بار نظر آنے لگے جنہوں نے اردو ادب میں سنہری اوراق کا اضافہ کیا ہے۔ ہم مختصر طور پر ان انشائیہ نگاروں اور ان کی خوبصورت تحریروں کا بھی جائزہ لیں گے۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انشائیہ کا مستقبل کتنا درخشاں اور تابندہ ہے۔

            معین اعجاز آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس نئی دہلی سے منسلک ہیں۔ ان کی تحریر میں انشائیہ نگاری کے تمام اوصاف پائے جاتے ہیں۔ ان کے کئی انشائیے منظر عام پر آئے ہیں۔ یہاں ہم ان کا انشائیہ ’’ہماری عینک کی پہلی سالگرہ‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ کرتے ہیں۔

            ’’ہوا یہ کہ پچھلے سال اسی مہینے ہم نے یہ عینک خریدی تھی۔ اس سے پہلے عینک لگانے والے ہر شخص کو ہم شک اور ایک حد تک ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ کبھی کبھی تو یہ محسوس کرتے کہ عینک ہمیشہ مذاق کا موضوع بنتی جا رہی ہے۔ ہمارے اس خیال کو اپنے ایک بزرگ شاعر پنڈت آنند نرائن ملا کے ایک شعر سے مزید تقویت اور تائید حاصل ہوئی جو بقول ان کے، ان کا پہلا شعر تھا اور جو انہوں نے اسکول میں اپنے ایک ہم جماعت کے بارے میں کہا تھا:

یہ کیا اندھیر ہے یارو یہ کیا طرفہ تماشہ ہے

کہ آہو چشم نے بھی آنکھ پر عینک لگائی ہے

            لیکن عینک لگانے والا ہر شخص ’’آہو چشم‘‘ نہیں ہوتا۔ ہم سنتے آئے تھے کہ عینک وہی لوگ لگاتے ہیں جن کی بینائی کمزور ہو جاتی ہے۔ لیکن اس بات کا یقین کبھی نہیں آیا تھا۔ جب بھی ہم نے کسی کی عینک کا مذاق اڑایا اس نے مسکرا کر یہی کہا ’’گھبراؤ نہیں ! آج ہم کل تمہاری باری ہے۔ ‘‘ لیکن اپنی ’’مجوزہ باری‘‘ سے ہم قطعی بے نیاز تھے کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ جن آنکھوں سے آج سب کچھ صاف دکھائی دیتا ہے ان سے کل بھلا دھندلا اور کم کیوں دکھائی دے گا؟ اس بے نیازی کی سزا ہمیں اس وقت ملی جب ہم نے اپنی عمر عزیز کے تقریباً چالیس سال پورے کر لیے۔ اچانک ہمیں یہ محسوس ہوا کہ اخبارات اور کتابوں کے حرف ہم سے آنکھ مچولی کرنے لگے ہیں۔ اس آنکھ مچولی میں کبھی ہم اخبار آنکھوں کے قریب لاتے اور کبھی کچھ دور لے جاتے۔ کبھی کبھی تو آنکھوں سے لگا بھی لیتے تھے۔ اس موقع پر آنکھوں سے لگانے کا محاورہ ایک قطعی نئے مفہوم کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ گر ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔ ہماری عینک کی پہلی سالگرہ۔ معین اعجاز۔

               ۲۴۔ عابد معز

            ماہنامہ ’’شگوفہ‘‘ کے مطابق عابد معز کا تعارف کچھ اس طرح ہے :

            ’’عابد معز پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور نبض شناس ڈاکٹر، ان کی ’’نبض شناسی‘‘ تخلیقی سفر میں بڑی کام آئی۔ کیونکہ ذہانت و فطانت کے ساتھ مزاح نگار نبض شناس ہو تو اس کے مزاح میں گہرائی اور طنز میں گیرائی پیدا ہوتی ہے۔ عابد معز مسلسل لکھ رہے ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’’واہ حیدر آباد‘‘ حیدر آباد شہر کے مختلف سماجی اور معاشرتی پہلوؤں پر لکھی گئی۔ یہ اپنے طرز کی واحد کتاب ہے۔ پھر انشائیوں کا مجموعہ ’’سگ گزیدہ‘‘ شائع ہوا جس کے بعد وہ پابندی کے ساتھ لکھتے اور چھپتے رہے۔ اخباروں کے کالم بھی لکھے جن میں بیشتر موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اور خاص ٹریٹمنٹ کے نتیجہ میں موقتی اہمیت کے حامل نہیں بلکہ کسی بھی دور کے قاری کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر معز کی سائنٹفک نگاہ نے زندگی کے عام معمولات کو جدید نکتہ نگاہ عطا کرتے ہوئے اس کے مضحک پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ باتیں روزمرہ کی ہیں لیکن حقیقت پسندی اور واقعیت پسندی کے تناظر میں مزاح کو انگیز کرنے والے نئے نئے دلچسپ منظر ان کی تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ عابد معز نے مشرق وسطیٰ میں طنز و مزاح کے فروغ کے لیے بے مثال کارنامے انجام دئیے ہیں۔ ماہنامہ شگوفہ کی اوورسیز کمیٹی کے وہ کنوینر ہیں۔ ریاض اور جدہ میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر طنز و مزاح کی تقاریب کے انعقاد میں وہ بنیادی اور اہم حصہ لے چکے ہیں۔ ‘‘۱

            عابد معز بھی الفاظ پر قدرت رکھتے ہیں اور قاری کو کئی آسمانوں کی سیر کروا کر زمین پر لا پٹختے ہیں۔ ماہنامہ ’’شگوفہ‘‘ نے ان کے مضامین اور انشائیوں پر مبنی ’’عابد معز‘‘ نمبر نکالا۔ یہ نمبر ۲۰۰۸ء ماہ نومبر میں شائع ہوا تھا۔ ان کے انشائیے ’’فارغ البال‘‘ میں ان کی شگفتہ تحریر کی جھلک دیکھئے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ یونہی راتوں رات فارغ البال نہیں ہو جاتے! یہ ایک درد بھری داستان ہے۔ ہر فارغ البال شخص کا سر ماضی میں سرسبز و شاداب ہوا کرتا ہے۔ اس نے بھی کبھی بالوں میں تیل ڈالا، کنگھی کی اور بالوں کو مختلف فلمی ستاروں کی طرح سجایا ہو گا۔ باد صبا اس کے بالوں سے اٹکھیلیاں کر چکی ہو گی۔ بال ماتھے پر گرائے ہوں گے۔ محبوبہ نے اپنی انگلیوں سے اس کے بال بھی سنوارے ہوں گے۔

            زندگی کے کسی موڑ پر گدھے کے سر سے غائب ہونے والے سینگ کی مانند سر سے بال ایسے اڑنے لگتے ہیں جیسے پہلے کبھی تھے ہی نہیں۔ نئی نویلی دلہن صبح اٹھ کر جس طرح کان کا بالا بستر میں تلاش کرتی ہے ایسے ہی یہ حضرت، داغِ مفارقت دئیے گئے بالوں کو تکیہ سے جمع کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جوں جوں بال گرتے جاتے ہیں تشویش بڑھتی جاتی ہے۔ بال گرنے کی وجہ پانی کا کھارا یا کڑوا ہونا سمجھی جاتی ہے تو کبھی تیل، کریم، صابن یا شیمپو کی خرابی قرار پاتی ہے۔ ‘‘۲

۔۔۔۔۔

۱۔  ماہنامہ شگوفہ خلیج نمبر۔ جون ۲۰۰۴ء

۲۔  فارغ البال۔ عابد معز۔ عابد معز نمبر۔ شگوفہ ماہ نومبر ۲۰۰۸ء

               ۲۵۔ احمد جمال پاشا

            احمد جمال پاشا اردو کے مزاح نگاروں میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ آخر میں وہ کچھ بجھ سے گئے تھے۔ لیکن اپنے بہترین دور میں انہوں نے اردو کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں قابل قدر اضافے کیے۔ مندرجہ ذیل مضمون مرحوم نے انتقال سے چند روز پہلے ماہنامہ ایوان اردو دہلی کو ارسال کیا تھا۔ ادا رہ لکھتا ہے کہ عجب نہیں کہ یہ ان کی آخری تحریر ہو:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمانہ طالب علمی میں جب ہمیں شاعروں سے کوئی شکوہ نہ تھا، ایک ایسے ہاسٹل میں ہمارا داخلہ ہو گیا جو ہاسٹل کم اور شعرستان زیادہ تھا۔ مالک ہاسٹل، بیرے، چپراسی، دھوبی اور رہنے والے ایک سرے سے شاعر تھے۔ جو صاحب ہاسٹل چلاتے تھے، صاحب دیوان تھے۔ ذرہؔ تخلص فرماتے۔ ہمارے ہپی بالوں پر دھوکہ کھا گئے اور شاعر سمجھ کر ہاسٹل میں داخلہ منظور کر لیا۔ جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے، ہاسٹل ضرور ذرہؔ کا تھا۔ لیکن ہمہ خانہ آفتاب تھا۔ اس میں غیر شاعر کا گزر نہ تھا۔ ہمارے روم پارٹنر شبابؔ کافری شاگرد کافر عدم آبادی تھے۔ شاعری سے جو وقت بچتا احباب کی ٹوپیاں چرانے میں گزار دیتے۔ دراصل ان کے والد کی ٹوپیوں کی دکان تھی۔ اس لیے ہر نئی ٹوپی کے آدھے دام مل جاتے۔ مزے میں گزارا ہو جاتا بلکہ پس انداز کر کے ایک آدھ مشاعرہ بھی اسی رقم سے کر ڈالتے۔ روزانہ کئی ٹوپیاں پارکر دیتے۔ جس دوست کو ریل پر پہنچانے جاتے ادھر ریل چلی اور انہوں نے اس کی ٹوپی اچک لی۔ ٹوپی اتارنے کو پگڑی اچھالنا کہتے۔ خیر شبابؔ صاحب تو مجسم شاعر تھے۔ برابر والے کمرے میں نحیف صاحب رہتے۔ پیشے کے اعتبار سے پہلوان تھے۔ بزور بازو کلام سناتے۔ تیسرے کمرے میں نخیچر صاحب رہتے زیادہ تر نثر میں کلام سناتے۔ ہم سے خفا رہتے۔ ادھر انہوں نے نظم سنائی اور ہم نے اس کی نثر کر دی۔ ایک دن انہوں نے ایک نظم سنائی ہم نے اسی روانی سے حکیم لقمان کی ’’سارس اور لومڑی‘‘ والی کہانی سنادی اس کے بعد انہوں نے ہمارے کمرے میں اپنا داخلہ بند کر دیا۔ چوتھے کمرے میں صلیب ؔ صاحب رہتے تھے جو دیکھنے میں اس قدر مہیب نظر آتے کہ یقین تھا کہ ضرور کسی دن ہمیں مصلوب کر دیں گے۔ صلیبؔ صاحب بے حد پڑھے لکھے مگر سوائے شاعر کے سب کچھ تھے۔ بھیڑ میں تنہائی اندر کے آدمی اور رقیق اشیاء جیسے پگھلتے ہوئے احساسات، بہتے ہوئے خیالات اور جمتے ہوئے جذبات پر الجبرا جومیٹری قسم کے اشعار سناتے۔ پانچویں کمرے میں گنہگاؔر توبہ پوری رہا کرتے جن پر مذہب کے شدید دورے پڑا کرتے۔ شعر پڑھتے تو معلوم ہوتا کہ خطائیں بخشوا رہے ہیں انہیں کے برابر چھٹے کمرے میں پہیا ؔ غریب آبادی رہتے اس شدت سے بھوک پیاس کا ذکر کرتے کہ بھوکے تک بھاگ کھڑے ہوتے۔ کبھی وہ ریل کا پہیا جام کرتے کبھی ہوائی جہاز کا غرض ان کی شاعری بالکل جام تھی۔ ساتویں کمرے میں نقادؔ دہلوی رہا کرتے۔ بڑے نستعلیق، شین قاف اور نک سنک سے درست ہر طرحی غزل میں قفس کی تیلیوں اور صیاد کا ذکر کچھ اس انداز سے کرتے کہ ڈر لگتا کہیں شعر خوانی کے دوران پھڑپھڑا کر دم نہ توڑ دیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔

۱۔  ماہنامہ ایوان اردو۔ دہلی۔ ماہ جولائی ۱۹۸۹ء

               ۲۶۔ رضا نقوی ماہی

            رضا نقوی ایک ابھرتے ہوئے انشائیہ نگار ہیں۔ انہوں نے کئی مضامین بھی لکھے اور ان کی تحریر میں کہیں کہیں پطرس بخاری کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے لیکن افسوس ہے کہ ان کے زیادہ مضامین و انشائیہ منظر عام پر نہیں آئے۔

            مندرجہ ذیل انشائیہ طرحی مشاعروں پر لکھا گیا ہے جو ماہ جولائی ۱۹۸۹ء میں ماہنامہ ایوان ِ اردو دہلی میں شائع ہوا تھا۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہرکیف ان طرحی مشاعروں سے اتنا فائدہ تو ضرور ہوا کہ لغت مرتب کرنے والوں کی آمدنی میں اضافے کی صورت نکل گئی۔ غزل کی قبائے تنگ کے لیے ہر قسم کے قافیے اور کہاں ملتے؟ دوسرے یہ کہ شعراء میں جذبۂ تقابل و تسابق کی وجہ سے مشاعروں میں گہما گہمی، سامین کی دلچسپی کا سبب بھی بنی۔ شعراء کے ساتھ ساتھ سامعین بھی مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے۔ کبھی ایطائے جلی اور ایطائے خفی کی بحثیں ہیں تو کبھی شتر گرے پر گرفت، کبھی کسی لفظ کے گرنے پر اعتراض تو کبھی تقطیع کی گردان، یہ سب مناظر جنہیں عرف عام میں شاعرانہ چشمک کہتے ہیں اور کہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات یہ چشمکیں میدان کارزار کا نمونہ پیش کرتیں۔ کبھی مصرعے لڑ جاتے، کبھی اشعار لڑ جاتے اور کبھی کبھی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ غزلیں بھی لڑ جاتیں۔ کبھی یہ بھی ہوا کہ آپس میں شعراء لڑ جاتے۔

            ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب دوسرے مشاعرے کا حال سنیے۔ ایک مشاعرے میں حضرت جگر مراد آبادی کی غزل سے ایک نوجوان شاعر کی پوری غزل لڑ گئی۔ جب سر محفل جگر صاحب نے ٹوکا کہ یہ تو میری غزل پڑھی جا رہی ہے جو دہلی ریڈیو سے ایک ماہ قبل نشر کی جاچکی ہے تو نوجوان شاعر نے ابروؤں پر بل ڈال کے کہا کہ خاموش رہیے، آپ مجھے درمیان میں ٹوک کر میری توہین کر رہے ہیں۔ اس کے بعد پوری غزل ترنم سے سنائی اور یہ کہتا ہوا مشاعرہ گاہ سے واک آؤٹ کر گیا کہ آج کل کے پرانے شعراء نئے شاعروں کے منہ آتے ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ ان کے چراغ کے مقابل دوسروں کا چراغ جلے۔ اصل واقعہ یہ تھا کہ نوجوان شاعر کے ایک دوست نے ریڈیو پر جگر کی غزل سنی تھی۔ جس کے تقریباً کل اشعار انہیں یاد تھے۔ اس غزل کو لکھ کر نوجوان شاعر کو یہ کہتے ہوئے دے دیا تھا کہ تازہ غزل ہے ذرا جم کر مشاعرے میں پڑھنا۔ جب دوسرے دن بے چارے شاعر کو اصل حقیقت معلوم ہوئی تو پھر کی تھا اپنے دوست کے گھر جا کر زبانی تکرار کے بعد دھینگا مشتی پر اتر آیا۔‘‘۱

 ۔۔۔۔

۱۔ ماہنامہ ایوان اردو۔ دہلی۔ ۱۹۹۰ء

               ۲۷۔ عبدالرحیم نشترؔ

            عبدالرحیم نشترؔ نے کئی انشائیے لکھے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیہ ’’دال‘‘ سے لیا گیا ہے۔ جو ماہنامہ ایوان اردو دہلی ماہ نومبر ۱۹۸۹ء میں سے لیا گیا ہے۔

            ’’دال غریبوں کی من پسند خوراک ہے اسے روٹی یا چاول کے ساتھ کھایا جاتا ہے لیکن جس دن روٹی یا چاول ندارد ہو تو صرف دال بھی کھائی جا سکتی ہے(اگر موجود ہو!) ویسے حقیقت یہ ہے کہ دال کھانے سے زیادہ پینے کی چیز ہے۔ دالوں میں دال توہر کی دال۔ جو اپنی مٹھاس اور لذت کی وجہ سے بے حد مقبول اور غریبوں کا من بھاتا کھانا ہے۔ توہر کی دال کے بغیر نہ چاول مزا دیتا ہے اور نہ ہی روٹی۔ بچے تو دال کے بغیر نوالہ بھی نہیں اٹھاتے مگر جب سے دال کے داموں نے آسمان چھوٹا شروع کیا ہے بچوں کیا بوڑھوں کو بھی وہ دکھائی نہیں دیتی۔ پہلے دال کو گوشت پر ترجیح دی جاتی تھی۔ اب گوشت کو دال پر ترجیح دی جاتی ہے۔ ویسے بعض لوگ گوشت تو گوشت گھر کی مرغی کو بھی دال کے برابر ہی سمجھتے ہیں۔ آخر دال بھی تو گلانی پڑتی ہے اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ دال ہر جگہ گلا نہیں کرتی۔ لیکن وہ جو خدا کے فضل سے ہوشیار بندے ہوتے ہیں وہ کہیں بھی اپنی دال گلا لیتے ہیں اور دال روٹی کھا کر پر بھو کے گن گاتے ہیں۔ پہلے یوں تھا کہ دال گلانے کے لیے گھر کی فضا کافی تھی۔ مگر اب یہ گھریلو فضا سڑکوں پر، بازاروں میں، گلیوں میں، تھیٹروں میں، سرکاری اسپتالوں اور سٹی بسوں تک میں در آتی ہے۔ چاہے آپ خریدیں، اچک لیں، یا چپکے سے دبا لیں۔ بس تھوڑا سا حوصلہ ضروری ہے، دال گلتے دیر نہیں لگتی۔ بہت سے نوجوان گلاتے گلاتے بگھار بھی لیتے ہیں اور نہیں جانتے کہ بگھارنے کے دائمی حقوق بحق نسواں محفوظ ہیں۔ چنانچہ اس بھول کی پاداش میں تا عمر بگھار چلتا رہتا ہے اور انجام کار دال پتلی ہو جاتی ہے اور اتر جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   دال۔ ماہنامہ ایوان اردو دہلی۔ نومبر۱۹۸۹ء

 

               ۲۸۔ عظیم اقبال

            عظیم اقبال نے بھی کئی انشائیے لکھے ہیں۔ ان کی روانی اور سلاست ادب میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ ان کی تحریر کا یہ شگفتہ نمونہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’ویسے تو داڑھی کو مردانگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور کچھ لوگوں کے چہرے پر یہ پھبتی بھی خوب ہے۔ لیکن ہر زمانے میں ہر ملک میں داڑھی کے دشمن موجود رہے ہیں جو داڑھی اور داڑھی والوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ جہاں تک داڑھی کی تاریخ کا سوال ہے انگریزی اور فرانسیسی ادب میں تو داڑھی پر متعدد کتابیں لکھی گئیں۔ لیکن ہندوستان میں داڑھی کے بارے میں کوئی کتاب نہیں ہے۔ ہندوستان کے زیادہ تر مسلم حکمراں داڑھی والے تھے۔ اس بات کی شہادت موجود ہے کہ پہلی بار شاہ آباد میں ہمایوں کی داڑھی پر استرے کا استعمال کیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے یہ جشن کا موقع تھا۔ کیونکہ بادشاہ کبھی داڑھی بناتے ہی نہ تھے۔ اکبر نے جب داڑھی نہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ تب ہی سے داڑھی نہ رکھنے کا بھی چلن عام ہو گیا۔ داڑھی کے دشمن ہر زمانے میں رہے ہیں۔ سکندر اعظم داڑھی نہیں رکھتا تھا اور اس کا کوئی سپاہی داڑھی نہیں رکھ سکتا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا کوئی سپاہی دشمنوں کے ہاتھوں میں پڑ کر اپنی داڑھی نچوائے۔ اس کی فوج میں متعدد حجام تھے جو پوری فوج کی داڑھی بنایا کرتے تھے۔ روم کا ایک شہنشاہ بھی داڑھی کے خلاف تھا۔ اس نے پوری ریاست میں کسی بھی فرد کے داڑھی بڑھانے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ داڑھی سے چڑنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کا باورچی داڑھی والا تھا اور اس وجہ سے اکثر اس کے کھانے میں داڑھی کے بال نکلا کرتے تھے۔ کسی بات پر ایک بار کھانا کھاتے وقت شہنشاہ اتنا ناراض ہوا کہ اس نے فوراً باورچی کو بلوایا اور اس کی داڑھی میں آگ لگا دی۔ بعد میں اسے ملک بدر کر دیا۔ جب شاہ داؤد نے داڑھی کی یہ رسوائی دیکھی تو انہیں بہت برا لگا اور انہوں نے حناط کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔

۱۔   داڑھی۔ عظیم اقبال۔ ماہنامہ ایوان اردو دہلی۔ ماہ جون ۱۹۸۹ء

               ۲۹۔ اقبال مجید اللہ

            اقبال مجید اللہ نے کئی مضامین لکھے ہیں۔ چند ایک انشائیے بھی لکھے جنہیں مختلف رسالوں نے جگہ دی ہے۔ مندرجہ ذیل انشائیے میں مضمون کا انداز زیادہ محسوس ہوتا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے ایک قریبی دوست جنہیں ہم نہایت عزیز رکھتے ہیں جو اپنے مزاج کے اعتبار سے اپنے حلقہ احباب میں شمشیر بے نیامی کے نام سے جانے جاتے ہیں کہ گراں قدر مشوروں کا بڑا دخل ہے۔ شمشیر بے نیامی کے ہر  مشورہ کا ہم اپنی زندگی اور بالخصوص ادب کے معاملات میں نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ مقدور بھر اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ چونکہ ان سے ہمارا رشتہ کافی پرانا ہے اور وہ ہمارے بچپن اور لڑکپن کے ساتھی ہیں اور اسی وجہ سے ہم ان کی کوئی بھی بات ٹال نہیں سکتے اور اس بات کا انہیں بھی بخوبی احساس ہے۔ شمشیر بے نیامی ہماری اس عادت سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمیں مطالعہ کا بے حد شوق ہے اور ہم اپنا زیادہ وقت اسی کی نذر کرتے ہیں۔ اپنے اس شوق کو پورا کرنے کی خاطر ہم نے کثیر تعداد میں کتابیں اور رسائل جمع کر رکھے ہیں اور اپنے چھوٹے سے کمرہ میں ان کا انبار لگا رکھا ہے۔ ان کتابوں سے ہمارا چالیس سال کا تعلق ہے۔ یہ کتابیں زندگی میں بہترین رفیق ثابت ہوئی ہیں اور ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ شمشیر اس حقیقت سے بھی واقف ہیں انہیں کتابوں کو لے کر اکثر شریک حیات سے ہماری ٹھنی رہتی ہے جنہیں اب ان کتابوں کا کوئی مصرف نہیں سمجھ آتا وہ ان کتابوں سے ہمارا جو جذباتی لگاؤ ہے اس کا انہیں خاطر خواہ احساس نہیں بلکہ وہ اس ڈھنگ سے سوچتی ہیں کہ کیسے ان کتابوں کو ہٹا کر دوسری ضروری اشیاء رکھنے کے لیے جگہ بنائی جائے اور کیونکر ان کتابوں کے انبار سے چھٹکا رہ حاصل کیا جا سکے۔ اس بار نئے سال کے شروع میں شمشیر بے نیامی نے یہ مخلصانہ مشورہ دیا کہ تم عمیق مطالعے اور کتب بینی کے بجائے لکھنے کی طرف توجہ دو اور اپنی صلاحیتیں ں جو کچھ باقی رہ گئی ہیں اس کے لیے استعمال کرو۔ اپنی اس رائے کو اور زیادہ مستحکم بنانے کے لیے انہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ ہماری ادبی تاریخ میں سنجیدہ قاری کی نہ کوئی شناخت ہوتی ہے اور نہ ہی اسے کسی عنوان سے یاد رکھا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے اس حیثیت سے جانا جاتا ہے یا اس کا تعارف ادبی حلقوں میں اس طرح کروایا جاتا ہے کہ یہ ادب کے سنجیدہ قاری ہیں اور ادب و شاعری پر ان کی گہری نظر ہے۔ برخلاف اس کے اگر تمہاری کوئی تحریر خواہ وہ کسی بھی معیار کی ہو کسی رسالہ یا اخبار میں شائع ہو جاتی ہے تو اس کے ہزاروں پڑھنے والے تمہارے نام سے واقف ہو جاتے ہیں اور تمہارا شمار بحیثیت ایک تخلیقی فنکار کیا جانے لگتا ہے تم یہ بخوبی جانتے ہو کہ سنجیدہ قاری اور تخلیقی فنکار میں کیا فرق ہوتا ہے۔ شمشیر بے نیامی کے اس گراں قدر مشورہ کو سن کر تھوڑی دیر کے لیے ہم بھی ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار ہو گئے جسے لفظوں میں بیان کرنے سے ہم قاصر ہیں ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔   بس ذرا انتظار کیجیے۔ اقبال مجید اللہ۔ ماہنامہ بیباک۔ مارچ ۲۰۱۰ء

 

               ۳۰۔ ڈاکٹر طارق کفایت

            ڈاکٹر طارق کفایت نئے لکھنے والوں میں ایک نئے ابھرتے انشائیہ نگار ہیں۔ ان کی تحریروں میں شگفتگی، لطافت اور روانی پائی جاتی ہے۔ ان کا یہ خوبصورت انشائیہ ’’ادب سے راہ فرار‘‘ ملاحظہ کیجیے اور دیکھئے کہ آج بھی ان کی تحریر میں کتنی شگفتگی پائی جاتی ہے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے فالج زدہ ذہن کے ساتھ ہی ہم نے اردو اکادمی کے ممبر سے فوراً سے پیشتر اپنا ہاتھ چھڑایا اور پوچھا ’’یہ اردو اکادمی کیا بلا ہے بھائی؟‘‘ ارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اردو اکیڈمی کا ممبر اچھنبے میں آ گیا۔ کہنے لگا۔ آپ کیسے اردو شالا کے مکھیہ ادھیاپک (اردو اسکول کے صدر مدرس) بن گئے۔ یہ نہیں جانتے کہ اردو اکیڈمی کیا ہوتی ہے۔ ہمارا پا رہ اتنا چڑھ گیا کہ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ یکدم اولے برسانے والے بادل کی طرح برس پڑے۔ ’’آپ کیسے اردو اکیڈمی کے ممبر بن گئے یہ جانتے کہ ادیب کسے کہتے ہیں۔ ادب سے آپ کا واسطہ کیا ہے۔ کیا آپ نے اردو ادب کے لیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

            ’’ابے او۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادب سے بات کر۔ ‘‘ ممبر آف اردو اکیڈمی اپنی اوقات پر آ گیا۔ اور ہماری طرف شہادت کی انگلی اٹھا کر ہمیں اپنی اوقات اس انداز سے دکھانے لگا کہ ہم گھبرا کر کہہ اٹھے۔ ’’بے شک آپ کے سوا کوئی اردو اکادمی کا ممبر نہیں بن سکتا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ ہی اردو اکادمی کے ممبر ہیں۔ آپ کے سوا کوئی بھی اردو اکادمی کی ممبر شپ کے لائق ہو ہی نہیں سکتا۔ ‘‘

            اتنا کہہ کر ادیب نے ’’ادب‘‘ سے سر جھکا کر نہیں جان بچا کر راہ فرار اختیار کی۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔   ادب سے راہ فرار۔ محمد طارق۔ ماہنامہ شگوفہ مئی ۲۰۱۰ء

               ۳۱۔ ناوک حمزہ پوری

                        ناوک حمزہ پوری کی تحریر شگفتگی کا آئینہ ہوتی ہے۔ مختلف موضوعات پر اپنا قلم اٹھاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کیجیے:

            ’’بیشتر لوگ یہی کہتے سنے جاتے ہیں کہ روزگار آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ فی الواقع یہ صحیح نہیں۔ روزگار کا حصول کوئی مسئلہ نہ کل تھا نہ آج ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اگر واقعی کچھ ہے تو وہ عقل کی کمی کا ہے۔ عقل ہو تو ہمارے آس پاس روزگار کے بہتیرے مواقع ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم خود تو کچھ کرتے نہیں سرکار کے بھروسے بیٹھے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر پارٹی چناؤ سے پہلے یہ وعدہ کرتی ہے کہ وہ روزگار کے مواقع پیدا کرے گی۔ لیکن جیسے ہی کسی پارٹی کی یا مختلف و متعدد پارٹیوں کی ملی جلی سرکار شپتھ گرہن کر لیتی ہے اسی لمحے چناؤ سے پہلے کئے گئے اس کے تمام وعدوں کو گرہن لگ جاتا ہے۔ اب یہ قصور تو آپ کی عقل کا ہے نا کہ آپ نے شپتھ پر تو بھروسہ کر لیا گرہن کا مفہوم ہی نہیں سمجھا۔

            ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو میرے عزیز! کہنا یہ چاہتا ہوں کہ آپ ’’جی کے‘‘ کی موٹی موٹی کتابوں میں سر کاہے کو کھپا رہے ہیں ؟ یہ کتابیں اسی لیے بنائی گئی ہیں، یہ امتحانات اسی لیے لئے جاتے ہیں کہ آپ کو پیدا شدہ مواقع سے بھی محروم رکھا جائے۔ اور پھر یہ سوچئے تو اس ملک میں جہاں وزیر اعظم کے لیے جی کے کا کوئی نصاب مقرر ہے اور نہ وزیر اعلیٰ کے لیے، تو وہاں کلرکی کی نوکری کے لیے جینے کی کیا تک ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ۱

۔۔۔۔

۱۔   کیرئیر گائیڈنس۔ ناوک حمزہ پوری۔

               ۳۲۔ حمید عادل

            حمید عادل نے کئی انشائیے لکھے اور ہمیشہ حالات حاضرہ کو مد نظر رکھا۔ ان کی تحریروں نے کئی سچے واقعات کی گہرائیوں کو قارئین کے سامنے پیش کیا۔ مندرجہ ذیل انشائیہ وزیر اعظم مرحوم نرسمہا راؤ کو مد نظر رکھ کر لکھا گیا۔ ان کی تحریر میں بلا کی ظرافت اور نشتریت پائی جاتی ہے۔

            ’’زو کی ایک شیرنی کی کھال ادھیڑنے کے دل دہلا دینے والے واقعے کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ملک میں ایک اور شیر کی کھال ادھیڑنے کا واقعہ پیش آیا۔ مگر اس بار یہ شیر کسی زو کا بے قصور و بے زبان شیر نہیں تھا۔ بلکہ یہ ایک بے زبان اور قصور وار سیاسی شیر تھا۔ جی ہاں ! ہمارا اشا رہ نرسمہا راؤ جی کی طرف ہی ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ’’نرسمہا‘‘ کے معنی شیر کے ہیں اور یہ سیاسی شیر آدم خور کی طرح ’’اقتدار خور‘‘ بن چکا تھا۔ چنانچہ اس سنگین جرم کے تحت اس شیر کی کھال بر سر عام ادھیڑ دی گئی اور شیرنی ساکھی کی طرح اس شیر کی بھی سیاسی موت واقع ہو گئی۔

            یقیناً سیاست میں کب کس کا منہ کالا ہونے والا ہے اور کب کس کے گھر اجالا ہونے والا ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔ دوستو ایک وقت تھا ہمارے بزرگ سیاست داں محترم عزت مآب وی پی نرسمہا راؤ جی ہندوستان پر راج کیا کرتے تھے۔ ان کے اشارے پر پاٹی ورکرس سر دھڑ کی بازی لگانے تیار ہو جاتے تھے۔ ان کی کار کے آگے پیچھے ان کے چمچے شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنایا کرتے تھے۔ اور خود راؤ صاحب اپنے مخصوص انداز بیاں کے ذریعہ جس میں وہ بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر پھیر کر تقریر کیا کرتے تھے، آج اس قدر ذلیل و رسوا ہو چکے ہیں کہ ان کی بولتی بند ہو چکی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   ایک اور شیر کی کھال ادھیڑی گئی! حمید عادل

               ۳۳۔ محمد بدیع الزماں

            محمد بدیع الزماں زبان پر بہت عبور رکھتے ہیں۔ الفاظ کی مناسب جماوٹ اتنی خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ لگتا ہے مانو کسی مالے میں موتی خود بخود پرونے کے لیے چلے آ رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو ان کی تحریر محمد حسین آزاد کی نیرنگ خیال سے میل کھاتی ہے۔ مندرجہ ذیل انشائیہ میں انہوں نے غزل کی تاریخ اتنے انوکھے انداز سے بیان کی ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ وہ غزل کسی صنف ادب کی پوری معلومات دے رہے ہیں۔ ان کی تحریر کی خوش اسلوبی اور روانی بھی ملاحظہ کیجیے:

            ’’بندہ نواز مجھے غزل کہتے ہیں۔ میں ذہن ملی کی آئینہ دار ہوں۔ میں عالم رنگ و بو میں پروان چڑھی۔ عطر سہاگ و حنا تن بدن میں بسا، خو خصلت میں رچا، بانکی، ترچھی، البیلی، کج، کلاہ، دلربا، عشوہ گر، غمزہ تراش، میرے ہر بول میں کہروے کا رنگ، ہر قول میں جھمکے کی تال، پکھواج کی گمک، طبلہ کی گونج، طاؤس مورچھل، سازنگی کے رنگ، تان پورہ کے ھنگ، دھن کی پکی، ٹھاٹ کی پوری، قول کی جان، ترانہ کا ایمان، چمکاریوں سے یہ آہو چشم لڑائے، محفل کی رونق، بزم کی زینت، ہر دلعزیز، تیکھی چتون، اونکھیاادا، نظریں منہ سے بولے میری توصیف میں تو یہ سب ہی کے کہے ہوئے ہیں۔

            ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ میں ایک انداز دلیری اور طرز دلربائی ہے۔ اس انداز دلبری او طرز دلربائی سے میں نے ہر دور میں دلوں کو لبھایا ہے۔ ہر فرد پر ان کے اثرات یکساں ہوا کیے ہیں۔ عوام و خواص، غریب و امیر سب کے دامن دل کو ہم نے ایک مخصوص انداز میں اپنی طرف کھینچا ہے۔ صوفیوں کی محفلوں میں میں نے ہنگامے برپا کیے۔ رندوں اور قلندروں کو میں نے اپنا گرویدہ بنایا۔ زاہدوں اور پاکبازوں کے دلوں میں بھی میں محل نشیں ہوئی ہوں۔ یہ سب صرف میری تاثیر اور ہمہ گیری کی وجہ سے ممکن ہوسکا۔ ایک ایسی ہمہ گیری جو قومی ذہانت و فطانت کے ہاتھوں میں وجود میں آتی ہے۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔   غزل کی کہانی۔ غزل کی زبانی۔ محمد بدیع الزماں

               ۳۴۔ شرون کمار ورما

            شرون کمار ورما اپنی تحریر کی سلاست سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل تحریر میں انہوں نے کھچڑی جیسے روزمرہ کے کھانے کو اس طرح بیان کیا کہ اس کی لذت دوگنی ہو گئی اور پڑھنے والے انگلیاں چاٹتے رہ گئے۔

            ’’کھچڑی وہ چیز ہے جو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں پکتی رہتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ کھائی بھی جائے۔ کچھ کھچڑیاں صرف پکائی جاتی ہیں کھائی نہیں جاتی۔ یہ تاریخ میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔

            کھچڑی کسی کے فائدے کے لیے پکائی جائے یا کسی کے خلاف، ہانڈی میں پکے یا ذہن میں، بس پکتی رہتی ہے۔ کوئی سماج، کوئی معاشرہ ایسا نہیں جہا ں کھچڑی نہ پکتی ہو۔ جسمانی خاص طور پر عارضہ شکم میں وید، حکیم اور ڈاکٹر کھچڑی تجویز کرتے ہیں۔ ذہنی طور پر بیمار معاشرے میں تو یہ ہر وقت پکتی رہتی ہے۔ پکانے والے خود ہی یہ نسخہ تجویز کرتے ہیں۔ ذہنوں میں پکنے والی کھچڑی سے کبھی کسی کو فائدہ یا افاقہ نہیں ہوا۔ یہ دراصل دوسروں کو نقصان پہنچانے اور ذہنی تلذذ کے لیے پکائی جاتی ہے۔ اکثر پکانے والے خود ہی اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۲۔  کھچڑی۔ شرون کمار ورما۔

               ۳۵۔ فضل حسنین

            فضل حسنین نے کئی انشائیے لکھے۔ ذیل کے انشائیہ میں انہوں نے ادبی حلقوں میں صرف نام کمانے کی غرض سے آئے حضرات کا دل کھول کر مذاق اڑایا ہے۔ ساتھ ہی سیمینار منعقد کرانے والوں اور اس میں شرکت کرنے والوں کی بھی ٹانگ کھینچی ہے۔ ظرافت اور طنز کے تیر و نشتر نے ان کے اس انشائیے کو بہت حسین بنا دیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادبی سیمینار یا سمپوزیم کے انعقاد کے سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ موضوع کے انتخاب کا ہوتا ہے کیونکہ ماہرین سیمینار کا عقیدہ ہے کہ عنوان جس قدر خشک ہو گا سیمینار کی کامیابی کے امکانات اسی قدر روشن ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سیمینار کا موضوع منتخب کرتے وقت ماہرین ادب اپنی تمام تر لیاقت صرف کر دیتے ہیں۔ خدا خدا کر کے جب یہ منزل سر ہو جاتی ہے تو ایسے مقالہ نگاروں اور مقررین کی تلاش شروع ہوتی ہے جو خشک سے خشک تقریر کرنے میں مہارت رکھتے ہوں۔ چونکہ خالصتاً خشک قسم کی تقریر کرنا اتنا آسان بھی نہیں اس لیے ان مخصوص مقررین کے دستیاب نہ ہو پانے کی صورت میں اکثر سیمینار ملتوی ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ اس معاملے میں اگر ذرا بھی چوک ہوئی اور کسی مقرر نے مغالطے میں ذرا بھی دلچسپ قسم کی تقریر کر دی تو سمجھئے کہ بس سیمینار گیا اور منتظمین کی نا اہلی کا بھانڈا پھوٹا۔ اس کام کے لیے عموماً اعلیٰ درسگاہوں کے اساتذہ کی خدمات لی جاتی ہیں جو ایک ہی طرح کا کورس بیس تیس برس تک مسلسل پڑھاتے رہنے کے باعث کسی موضوع پر ایک ہی تقریر بار بار دہرانے میں ذرا سی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ جس طرح مشاعروں کے لیے شعراء کو مدعو کرنے میں گروہ بندی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اسی طرح اس کام میں بھی اب اس پہلو پر بھی خصوصی توجہ دی جانے لگی ہے۔ ان محفلوں کا تعلق بھی بہرحال ادب سے ہی ہوتا ہے۔ ان محفلوں کے مقررین کے لیے دوسری بات جس کا لحاظ رکھنا اشد ضروری ہے وہ یہ کہ ان میں ایک دوسرے کی نفی کرنے کا فن باہم عروج پر ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر ان کا پیش رو کسی مخالفت کے بغیر صاف بچ کر نکل گیا تو پھر سیمینار اور سمپوزیم کا مقصد ہی کیا رہ جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔  محفل خواب۔ فضل حسنین

               ۳۶۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی

            ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اپنی تحریر میں لطافت پر عبوریت رکھتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ میں انہوں نے بالوں کے جھڑنے کی پریشانی کو نہایت خوبصورت پیرایہ میں پیش کیا ہے۔ قارئین کے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ کیونکہ تقریباً ہر دو سرا شخص اس مسئلہ سے پریشان ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

            ’’گزشتہ دو ڈھائی سال سے میرے سر کے بالوں نے اپنے مادر وطن یا جنم بھومی کے خلاف بغاوت شروع کر دی ہے وہ آہست آہستہ ناطہ توڑ رہے ہیں۔

            شروع شروع میں جھڑتے ہوئے بالوں سے ہو رہے گیپ کو ڈھکنے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن جلد ہی میں سمجھ گیا کہ چاند سا مکھڑا چھپانا تو آسان ہے مگر چاند سا سر چھپانا مشکل ہے۔ اپنے بالوں کا جھڑنا شروع ہونے کے بعد یہ راز کھلا کہ بال بڑھاؤ ی بال اگاؤ تیل والے ہمیشہ یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے بال جھڑیں۔

            میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ جب سے میرے بالوں میں جھڑنے کا مقابلہ شروع ہوا ہے میرے جاننے والے کرانہ اسٹور کے مالک بہت خوش نظر آنے لگے ہیں۔ انہیں اپنی دکان کی الماریوں میں رکھے بال بڑھاؤ تیلوں کا مستقبل تابناک نظر آنے لگا ہے۔ لیکن بال بڑھانے کے ایسے طریقے کے جنجال میں اب تک میں پھنسا نہیں ہوں۔ بالوں کی ایسی ہی خوراک کے اشتہار میں میں نے ایک نصیحت بھی پڑھی تھی۔ ’’اپنے بالوں میں زور سے کنگھی کیجیے۔ اگر آپ کی کنگھی میں بال آ جائیں تو سمجھ جائیے کہ آپ کے بال جھڑ رہے ہیں۔ ‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اس طریقے کے بعد ان ہی لوگوں کے بال نہیں جھڑیں گے جن کے بالوں کی جڑ میں سیمنٹ جما ہوا ہے۔ ایسا کون مائی کا لال ہو گا جو سر کے بالوں میں پوری قوت اور طاقت سے کنگھی کرے اور کنگھی میں ایک بال نہ آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔   داستان بال جھڑنے کی۔ مناظر عاشق ہرگانوی

 

               ۳۷۔ محسن انصاری

            محسن انصاری اپنے انشائیوں میں پند و نصیحت کے سہارے چلتے ہیں۔ ان کی زبان مں ے سلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔ شگفتگی اور لطافت کے احساسات کم نظر آتے ہیں۔ حسب ذیل اقتباس ان کے ایک انشائیہ ’’پھول‘‘ سے لیا گیا ہے۔ جس میں کہیں کہیں مولانا الطاف حسین حالی اور سرسید احمد خان کی تحریروں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

            ’’اے ننھے پھول میں تیری لطافت کے قربان۔ تیری بھینی بھینی مہک سے میرا دل مست ہو جاتا ہے۔ تیرا رنگ دیکھ کر میری نظر کی زندگی ہو جاتی ہے۔ کتنی حیرت ہوتی ہے کہ تو لکڑی کے سینے سے پھوٹتا ہے۔ زمین سے پیدا ہوتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ سب سے پہلا وہ کون سا پھول ہو گا وہ کرۂ زمین پر کھلا ہو گا۔ ہوائیں اس کی پاک خوشبو کو اپنے دامن میں لے کر اطراف و اکناف عالم میں پھیلا آئی ہوں گی۔ آہ کیا وقت ہو گا جب ہوا کے پیارے ہاتھ زمین کے پہلے پھول کو توڑنے کے لیے بڑھے ہوں گے۔ انسان نے اپنی ضروریات کے موافق ایجادات کیں۔ اپنا طرز معاشرت بدلا۔ پرانے اوزار موقوف کیے نئے آلات سے کام لیا۔ تہذیب کا معیار درجہ بدرجہ اونچا ہوتا گیا۔ تفریحات و  تعیشات بڑھتے رہے۔ مگر اے پھول تو ہر زمانے اور ہر ملک میں اسی عزت کا مستحق رہا۔ جو آج تیری ہے۔ تو ہمیشہ اسی نگاہ سے دیکھا گیا جس نگاہ سے آج کا شاعر تجھے دیکھتا ہے۔ تیرے دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگا۔ تیری رعنائی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ تو ہمیشہ اسی طرح حسین، نازک، شاداب اور رنگین رہا۔ کسی تہذیب اور کسی معاشرے نے تیرے وجود کو بیکار نہیں ٹھہرایا۔ ترا پیام مسرت لازوال ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔   پھول۔ محسن انصاری

               ۳۸۔ انوار انصاری

            انوار انصاری (رائچی بہار) کی تحریر سبک رفتاری، شگفتگی، روانی اور تحریر کی گہرائی لیے ہوئے ہے۔ ان کے انشائیے پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ انشائیہ نگار کی خوش مزاجی اور شگفتہ طبعی اس کے باطن سے نکل کر ساری کائنات میں پھیل گئی ہے۔ ان کی تحریر کی لطافت اور شگفتگی ایک الگ ہی مزہ دیتی ہے۔ ’’بچ کے رہیے۔ خود سے‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:

            ’’جس طرح جھوٹ بولنے کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے بچ بچ کر رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سچ پوچھا جائے تو آج کا دور ہی بچ کر رہنے کا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گھر میں باپ بیٹے سے بچ کر رہتا ہے، بیوی شوہر سے بچ کر رہتی ہے، اور پیچ و خم کے درمیان زندگی گزارتی ہے۔ پڑوسی اپنے پڑوسی سے بچ کر رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ ڈاکٹر مریض، وکیل موکل، استاد شاگرد، مالک مکان کرایہ دار، وزیر امیر، عاشق معشوق سبھی اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ بچ بچ کر چلاجائے اور پھونک پھونک کر قدم بڑھایا جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کے دام میں گرفتار نہ ہوسکیں۔ دور حاضر میں جہاں الکٹرانک اور سائنسی ترقی نے انسانوں کو بے پناہ سہولتیں فراہم کی ہیں وہیں صاحب عقل لوگوں کے لیے خود سے بچ کر رہنے کی تلقین و ہدایت بھی کی گئی ہے۔ اب انسان کو دوسروں سے زیادہ ڈر نہیں، بلکہ خود اپنے آپ ہی سے اس کو خطرہ زیادہ ہے۔ اگر انسان خود سے نہ بچے اور اپنے آپ کی حفاظت نہ کرے تو اس کا جینا دشوار ہے۔ اگر زندہ رہنا ہے تو دوسروں کی غلطیوں پر نگاہ نہ ڈالیے بلکہ خود اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھئے اور خود ہی سے بچ بچ کر رہیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔   بچ کر رہیے۔ خود سے۔ انوار انصاری۔ ماہنامہ شگوفہ۔ اگست ۱۹۸۹ء

               ۳۹۔ اختر بانو ناز

            اختر بانو بیڑ سے لکھتی ہیں۔ انہوں نے بہت کم انشائیے لکھے۔ ان کی تحریر میں شگفتگی کم اور طنز زیادہ ملتا ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیہ ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’آہ کو ایک عمر درکار ہوتی ہے بار آور ہونے کے لیے۔ اس بات سے اگر سبھی اتفاق کرتے ہیں تو بے چارے غالبؔ (وہ بھی غالب خستہ) پر ہی کیوں حرف آئے۔ یہ بات الگ ہے کہ دشنام طرازی غالبؔ کا شیوہ نہ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر کہہ دیا تھا۔ ع: گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہوا۔ یوں تو ’’زلف‘‘ نشانہ ستم ہر شاعر کے لیے ضرور بنی لیکن ہم فی الحال غالب ؔکے محبوب کی زلفوں میں الجھے ہوئے ہیں اس لیے ع: کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔ اجنتا آرٹ کا تصور ہمارے ذہن سے محو نہیں ہو پاتا جیسے غالبؔ کا یہ شعر ہمارے شعور کے کینو س سے چپک گیا۔

بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا

اگر اس طرہ پر پیچ و خم کے پیچ و خم نکلے

            بس ہمہ وقت ہماری نظروں کے سانے اجنتا آرٹ کی وہ حسینہ رقصاں رہتی ہے جس نے اپنے سر پر نہ جانے کتنا اونچا جوڑا باندھا ہو گا؟ غور و فکر کا مرحلہ ہے کہ وہ زلفیں کتنی دراز ہوں گی کہ اس طرہ پر پیچ و خم کے اگر سارے پیچ و خم کھل جائیں تو محبوب کے قد میں زبردست کمی واقع ہو گی۔ یہاں غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ غالب کا محبوب حسین تو ہے ہی (اس کے حسن کرشمہ ساز پر بھلا کس کافر کو شبہ کی گنجائش ہے) مگر اس نے اپنے قد کو ’’دراز‘‘ کر دکھانے کے لیے کتنی ہنر مندی سے طرہ پر پیچ و خم باندھا۔ آج کل کی پستہ قد حسینائیں اپنا قد دراز دکھانے کے لیے پینسل ہیل سینڈل پہنتی ہیں لیکن ان میں وہ ذہانت و فطانت کہاں جو غالبؔ کے محبوب میں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔   کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ اختر بانو ناز

               ۴۰۔ غلام محمد انصاری

            غلام محمد انصاری نے ہمیشہ سماج کے سلگتے مسائل پر اپنے انشائیے تحریر کیے ہیں۔ ان کی تحریر میں طنز و ظرافت کے ساتھ شگفتگی بھی پائی جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس میں ان کی تحریر میں جھلکتا طنز اور لطافت محسوس کیجیے جو ان کے انشائیے ’’بھیک مانگنا۔ ایک فن‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان نے جہاں زندگی کی کئی جہتیں طے کیں کئی قلعے فتح کیے۔ کئی منازل کو شرمندہ تعبیر کیا وہیں بھیک مانگنے والا انسان ہی رہا۔ دنیا میں زندہ رہنا جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل ثابت ہوا ہے۔ زندہ رہنے کے لیے انسان نے مختلف پیشے اور طریقے اختیار کیے۔ بھیک مانگنا بھی ان ہی مجبوریوں میں سے ایک رہا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس دھندے میں پیسے لگانے کی سابقہ طور سے ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ زندہ رہنا انسان کی ایک مجبوری ہے اور جب بات مجبوریوں کی آ جائے تو انسان اس کے اشاروں پہ ناچتا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی با وقار تجارت، پیشہ ہو یا پھر بھیک مانگنا ہو۔ تینوں صورتوں میں انسان زندگی کی مجبوریوں سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ اور یہی مجبوریاں اس کے لیے ’’قدم بڑھاؤ‘‘ کا کردار ادا کرتی ہیں۔

            جس طرح ایک اہل ہنر اپنے فن کا استاد ہوتا ہے بالکل اسی طرح بھکاری بھی اپنے فن میں انتہائی درجے کی استادانہ صلاحیتیں رکھتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ مختلف انداز کی آوازیں لگاتا ہے بلکہ مختلف اوقات اور نوعیتوں کے تعلق سے وہ مختلف کلمے بھی رٹے رہتا ہے اور جس طرح ایک شاطر تاجر اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ گاہک سے پیسہ کس طرح چھینا جا سکتا ہے بالکل اسی طرح ایک بھکاری سماج میں اپنا رول ادا کرتا ہے اور جب بات اس کی انا کی آ جائے تو انتہائی کنجوس آدمی کا بٹوہ بھی خالی کرانے کی طاقت رکھتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   بھیک مانگنا۔ ایک فن۔  غلام محمد انصاری

               ۴۱۔ ایلاف خیری

            ایلاف خیری اپنی خوش مزاج تحریر کے ذریعہ قارئین کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے ہر ممکن جتن کرتے ہیں۔ آج فریج ہر گھر کی ضرورت ہے۔ لیکن فریج کی خریدی پر مشتمل تجربات کو جس دلچسپی کے ساتھ ایلاف خیری نے بیان کیا ہے یہ صرف ان ہی کا خاصہ ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیر گئی رات ایک پڑوسن صاحبہ تشریف لائیں۔ بتایا کہ وہ اپنے بھائی کی شادی سے لوٹی ہیں دعوت میں مرغ بہت بچ گیا تھا وہ ایک بڑی ڈش لے آئی ہیں اور یہ کہ ہم امانتاً اس مرغ کو اپنے فریج کی پناہ گاہ میں آرام فرمانے کا موقع دیں۔ وقتاً فوقتاً وہ اس مرغ سے استفادہ کرتی رہیں اور ہم اپنی ایمانداری سے مجبور یوں اس مرغ کی کسمپرسی کا حشر دیکھتے رہے۔ ایک صاحبہ ایک دعوت ولیمہ سے لوٹیں تو کھیر کی ایک بڑی ڈش لے کر آئیں اور حکم دیا کہ امانتاً اسے اپنے فریج کی زینت بنا لیں۔ یہ بڑی ٹیڑھی کھیر تھی ہم بری نظر کے قائل تو نہیں پھر بھی دعا کرتے رہے کہ اللہ کرے انہیں یہ کھیر پچ جائے۔ ابھی ہم فریج کے اندرونی مسائل سے ہی دوچار تھے کہ فریج کی کمپنی سے نوٹس ملا کہ ہم نے چونکہ فریج کی باقی اقساط ادا نہیں کیں لہٰذا دس تاریخ سے پہلے یہ رقم ادا کر دی جائے ورنہ فریج واپس لے لیا جائے گا اور عدالتی کاروائی کی جائے گی۔ اور ہم بہت پچھتائے فریج خرید کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔  بہت پچھتائے فریج خرید کے۔ ایلاف خیری۔

               ۴۲۔ مانک ٹالہ

            مانک ٹالہ نے ممبئی شہر سے اپنے انشائیوں کی پھلجڑیاں چھوڑ رکھی ہیں۔ ان کی تحریر کی شگفتگی لاجواب ہے۔ وہ ساتھ ہی ظرافت اور طنز کا میدان بخوبی سنبھالے رکھتے ہیں۔ ’’مالکی اوتار‘‘ ان کا ایک بہترین انشائیہ ہے۔ اس کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ادھر آنے سے پہلے کیلاش پربت بھی گیا تھا۔ گنگوتری پر پاروتی میا اپنی ساڑھی دھو رہی تھیں اور گنگنا رہی تھیں۔ ’’جے جے شیو شنکر۔ کانٹا لگے نہ کنکر‘‘ تو میں اپنی ہنسی روک نہ سکا اور کھلکھلا کر بولا۔ ’’میا آج آپ پتی بھکتی کے رس میں اتنی مگن ہیں کہ اس بے کار و ناکا رہ وجود کے آنے کا آپ کو پتہ بھی نہ چلا۔ ‘‘ میری بات سن کر پاروتی میا کے چہرے پر حیا کی سرخی دوڑ گئی، شرما کر بولیں۔ ’’ارے نہیں نارد مہاراج۔ یہ پھکتی بھجن نہیں ہے بلکہ کسی فلم کا گانا ہے۔ برسوں پہلے آپ کے بھولے شنکر ضد کر کے مجھے اس پربت سے نیچے اتار کر ایک بڑے سے نگر میں لے گئے تھے۔ ہم دونوں نے گنواروں کا بھیس بدل لیا تھا اور ’’نندی بیل‘‘ (شیو جی کی سواری) کو ٹوٹی پھوٹی سائیکل کے روپ میں ڈھال دیا گیا تھا۔ (نوٹ: نارد منی کے مکالموں کا تسلسل ہی ہے) اس پر سوار ہو کر پہنچے اور بلیک میں ٹکٹ خرید کر سینما ہال میں داخل ہوئے۔ وہاں ہیرو ہیروئن فلم کے پردے پر بھانگ پی کر یہ گانا گا رہے تھے اور ڈانس بھی کر رہے تھے۔ اسی دن سے تمہارے بھولے شنکر تانڈو برت بھول گئے ہیں۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   کالکی اوتار۔ مانک ٹالہ (ممبئی) شگوفہ۔ اپریل ۱۹۹۷ء۔

               ۴۳۔ وجاہت علی سندیلوی

            وجاہت علی سندیلوی کی تحریر سادہ اور پرکشش ہے۔ قاری کا ذہن وہ پوری طر ح قابو میں رکھتے ہیں۔ ان کے انشائیوں میں دلچسپی پوری طرح برقرار رہتی ہے۔ ان کے درج ذیل انشائیے ’’ہم کو مکان مل گیا‘‘ میں ان کی تحریر کی شگفتگی ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا تھا اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ۔ مہینوں کالج میں لکھائی پڑھائی بند رہی۔ ٹیچر گھر میں سوئے اور خوابوں میں انہوں نے پرنسپل کے لیے مکان ڈھونڈا۔ لڑکوں نے گلی گلی، گلی ڈنڈا اور کرکٹ کھیلی اور اگر کسی نے ٹوکا کہ کیا شور مچا رکھا ہے تو انہوں نے فوراً سوال کا جواب سوال ہی سے دیا ’’کیا آپ ہمارے پرنسپل صاحب کو اپنا مکان کرائے پر اٹھا سکتے ہیں ؟‘‘

            پرنسپل کو مکان نہ ملنا تھا نہ ملا۔ انتظار کے اس زمانے میں وہ باری باری ہر ٹیچر کے یہاں ٹھہر رہے تھے۔ جب میری باری آئی تو انہیں میرا مکان کچھ ایسا پسند آیا کہ انہوں نے دوڑ دھوپ کر کے وقت سے پروموشن دلوا کر مجھے لکھنؤ بھجوا دیا۔ میں شہر پہنچ کر بے گھر ہو گیا۔ اور پرنسپل میرے خالی کیے ہوئے مکان میں براجمان ہو کر گھر والے بن بیٹھے۔ مالک مکان جو پہلے میری بیوی کو بہن جی کہتا اب ان کی بیوی کو بوا جی کہہ کر اپنے کالج میں پڑھنے والے لڑکوں کا مستقبل روشن کرنے لگا۔ ۔ ‘۱

۔۔۔۔

۱۔   ہم کو مکان مل گیا۔ وجاہت علی سندیلوی۔ ماہنامہ شگوفہ جون ۱۹۹۶ء

               ۴۴۔ پرویز ید اللہ مہدی

            پرویز ید اللہ مہدی زبان کی سادگی اور انشائیوں کی تحریر کی روانی کے لیے خاصے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی یہ خوبصورت تحریر ملاحظہ فرمائیے:

            ’’شادی سے پہلے ہمیں راتوں میں اٹھ اٹھ کر لکھنے کی عادت تھی۔ جس طرح کچھ لوگوں کو نیند میں چلنے کی بیماری ہوتی ہے۔ شادی کے ابتدائی زمانے میں چونکہ ہر نوبیاہتا جوڑے کا ازدواجی ٹائم ٹیبل امنگوں کی راتوں اور مرادوں کے دونوں سے مزین ہوتا ہے لہٰذا دور ہنی مون کے دوران ہم اس بیماری سے پوری طرح محفوظ رہے لیکن جیسے ہی ٹائم ٹیبل بدلا۔ یعنی رات کے آنچل سے امنگوں اور دن کے دامن سے مرادوں نے اپنا رخت سفر باندھا ہمارے پرانے مرض نے ڈبل نمونیا کی طرح پلٹ کر یلغار کر دی۔ تاہم دو چار راتوں تک تو ہم محض اس خیال سے کہ کہیں بیگم صاحبہ کی میٹھی نیند میں خلل نہ پڑے لیکن جب مرض شدت برداشت سے باہر ہو گیا تو ایک رات ہم نے اندھیرے ہی میں ٹٹول کر کاغذ قلم سنبھال لیا مگر لکھنے کے لیے صرف روشنائی کی نہیں روشنی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ بڑی احتیاط سے لائٹ کا سوئچ آن کیا۔ ادھر کمرے میں چمک سے روشنی ہوئی اور ادھر پٹ سے بیگم صاحبہ کی آنکھ کھل گئی۔ پہلے تو حیرت سے ہمیں دیکھتی رہیں۔ پھر جھنجھلا کر بولیں۔ ’’اتنی رات گئے یہ الوؤں کی طرح کاغذ قلم ہاتھ میں لیے کیا کر رہے ہیں آپ؟‘‘

            ہم نے فوراً تصحیح کی ’’کاغذ قلم الوؤں کے ہاتھ میں نہیں بیگم، شاعروں اور ادیبوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے !‘‘ منہ بنا کر بولیں ’’ہوتا ہو گا! ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ شاعر، ادیب اور الو تینوں رات میں جاگتے اور دن میں سوتے ہیں، چلئے لائٹ آف کر کے سوجائیے!۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   صلائے عام ہے مظلوم شوہروں کے لیے۔ پرویز ید اللہ مہدی۔ شگوفہ جون ۱۹۹۴ء

               ۴۵۔ سید طالب حسین زیدی

            سید طالب حسین زیدی نے حیدر آباد کی سرزمین سے کئی انشائیے لکھے۔ ان کی شگفتہ تحریر میں ان کے الفاظ کسی مالے کے پروئے ہوئے موتی معلوم ہوتے ہیں۔ اپنی طرز تحریر میں وہ اپنی ثقافت، کلچر کا بھی پورا پورا خیال رکھتے ہیں۔ ان کا مندرجہ ذیل انشائیہ ’’نور بی کا جوائیں ‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔

            ’’کوئی چالیس برس ادھر کا واقعہ ہے۔ رمضان کا مہینہ تھا کہ مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد مصری قاری عبدالباسط، عبدالصمد کی قرأت کلام پاک کی محفل تھی۔ ہم اور ہمارے ایک دوست بھی قرأت سننے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے مسجد میں موجود تھے۔ ٹھیک نو بجے قاری صاحب منبر پر تشریف لے آئے۔ جلو میں حیدر آباد کے ایک مشہور صاحب سجادہ بزرگ بھی ’’چپکے‘‘ ہوئے تھے اور ’’میں کون؟ تو خواہ مخواہ‘‘ کے مصداق قاری صاحب کے بازو ہی منبر پر جلوہ گر ہو گئے۔ قاری صاحب کے بیٹھتے ہی لوگوں نے گلپوشی شروع کر دی اور قاری صاحب جیسے ہی ان کے گلے میں ہار ڈالا جاتا اس کو نکال کر بازو بیٹھے ہوئے پیر و مرشد کے گلے میں معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ڈال دیتے اور وہ بلا کسی تکلف اور ہچکچاہٹ کے پھول پہن کر لوگوں کی طرف ’’مرس‘‘ ’’مرس‘‘ کر دیکھتے جاتے۔ موصوف کی یہ حرکت لوگوں کو کھٹک رہی تھی اور ہمارے دوست کو کچھ زیادہ ہی کھٹکی۔ جل بھن کر کہنے لگے۔ ’’کیسا بیٹھا ہے دیکھو۔ نو ر بی کا جوائیں !۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۲۔  نور بی کا جوائیں۔ سید طالب حسین زیدی۔ شگوفہ جون ۱۹۹۶ء

               ۴۶۔ بابو آر کے

            بابو آر کے اچل پور سے اپنی تحریروں کے ذریعہ انشائیہ نگاری کی رونق بڑھاتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کی تحریر کی لطافت سے پڑھنے والوں کے ذہنوں کی ترنگوں میں ایک نیا جوش امڈتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ان کی ظرافت سے مزین چٹکیاں سونے پر سہاگہ کا کام انجام دیتی ہیں۔ شادی پر مبنی ان کا ایک انشائیہ ملاحظہ فرمائیے:

            ’’شادی کا خیال آتے ہی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ ہائے!وہ بھی کیا دن تھے اپنی نیند سونا اپنی نیند جاگنا۔ آدھوکا لینا نہ مادھو کا لینا۔ رات میں کبھی بھی گھر لوٹو کسی کے بھونکنے کا خوف نہ کاٹنے کا ڈر۔ ہم تو اس دن کو روتے ہیں جس دن ہماری شادی کا تذکرہ گھر میں چھڑا۔ جس دن ہمارے گھر کی بڑی بوڑھیوں کو ہمارے کمزور وجود میں گبرو جوان دکھائی دیا۔ اور ہمارے انگ انگ سے انہوں نے جوانی ٹپکتی دیکھی۔ یہاں تک کہ ہمارے دھان پان سے ہاتھ پاؤں انہیں کڑیل بھی لگے۔ الغرض ہماری ان تمام کارگزاریوں کے جواب میں ہمارے ہاتھ پیلے کرنے کی سزا تجویز ہوئی۔ ہماری سونی پسلی کو ادھر ادھر لے جا کر اس کو جوڑ ڈھونڈا گیا۔ پسلی کے جوڑے کے ساتھ ساتھ جوڑے گھوڑے اور جہیز کے ایٹم بھی دیکھے گئے۔ لینا دینا کھرا کھرا دو ٹوک طے ہو جانے کے بعد شادیانے بجے، منہ میٹھے ہوئے اور اعلان ہوا کہ ہمارا رشتہ پکا ہو گیا گویا یہ منادی تھی کہ ہم نیلام ہو گئے۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   شادی نامہ۔ بابو آر کے۔ شگوفہ جون ۱۹۹۶

 

               ۴۷۔ ڈاکٹر اعجاز علی ارشد

            ڈاکٹر اعجاز علی ارشد۔ بی این کالج پٹنہ، بہار کے صدر شعبہ اردو ہیں۔

            مندرجہ ذیل انشائیہ ’’دعوت اور عداوت‘‘ نہایت ہی خوبصورت انشائیہ ہے۔

            ’’دعوت اور عداوت دونوں ہی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دنیا میں ہونے والی پہلی دعوت کا تو پتہ نہیں مگر پہلی عداوت کا حال معلوم ہے جو آدم کے بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان ہوئی تھی۔ ممکن ہے پہلی دعوت بھی اسی زمانے میں ہوئی ہو چونکہ ان دونوں کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ یہ دکھ کی بات ہے کہ اب تک کوئی ریسرچ اسکالر اس موضوع پر تحقیق کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حال نہیں کرسکا مگر یہ خوشی کی بات ہے کہ آدم کے بیٹے تب سے اب تک ہر زمانے کے دعوت اور عداوت دونوں سے اپنا رشتہ قائم کیے ہوئے ہیں۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   دعوت اور عداوت۔ ڈاکٹر اعجاز علی ارشد۔ ماہنامہ شگوفہ مارچ ۱۹۹۶

               ۴۸۔ ڈاکٹر محمد کوثر اعظم

            ڈاکٹر محمد کوثر اعظم پٹنہ سے انشائیہ کے میدان میں اپنا مقام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی تحریر میں بلا کی تازگی پائی جاتی ہے۔ وہی نئی بیخ سے معاشرہ کو ازسر نو صحتمند کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ان کے انشائیہ لطیف ترین کروٹوں اور کیفیتوں سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ’’وائیفوبیا اور لویریا‘‘ ان کا بہترین انشائیہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

            ’’وائیفوبیا کے مریض کی خاص علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے تنہا نیند نہیں آتی اگر آ بھی گئی تو نیند کی حالت میں بار بار چونک جاتا ہے اور بڑبڑانے لگتا ہے اکثر نیندکی حالت میں بستر پر کچھ ٹٹولتا ہے۔ بار بار تکیہ کو سینے سے لگاتا ہے۔ عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے۔ ویسے وہ دیکھنے میں چست و درست نظر آتا ہے لیکن اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔ اسے بھوک کم لگتی ہے خود کم کھاتا ہے لیکن بیگم کو زیادہ کھلاتا ہے۔ ہمت اور حوصلے کے معاملے میں وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح ہوتا ہے۔ قوت فیصلہ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس بیماری کی وجہ سے رفتہ رفتہ کم ہوتی جاتی ہے اور وہ صد فیصد زن مرید ہو جاتا ہے (آپ مرید کی زندگی سے اچھی طرح واقف ہیں )۔

            وائیفوبیا سے ملتا جلتا ایک مرض ’’لویریا‘‘ یا عاشقی بھی ہے جس نے لیلی مجنوں، ہیر رانجھا اور رومیو جویلیٹ کے علاوہ نہ جانے آج تک کتنے گھروں کو اس چنگاری سے خاکستر کر دیا ہے۔ خود غالبؔ نے اپنی زبان میں اس مرض کی سنگینی سے متعلق کہا تھا کہ : لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے۔ ۔۔‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔   وائیفوبیا اور لویریا۔ ڈاکٹر محمد کوثر اعظم۔ شگوفہ جون ۱۹۹۶ء

               ۴۹۔ مرزا کھونچ

            مرزا کھونچ ببیتا بہار سے انشائیہ نگاری کے میدان میں سالوں سے گل گزار بکھیر رہے ہیں۔ ان کا انشائیہ مرکز کے چاروں طرف پوری دنیا کی سیر کرا دیتا ہے۔ وہ بھاری بھرکم الفاظ استعمال نہیں کرتے، نہایت ہی سادہ زبان میں اپنی بات کہہ جاتے ہیں جو اپنا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ ان کے ایک انشائیہ کا اقتباس ملاحظہ کیجیے جو ’’ڈاگ لینڈ‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھائیو اور بہنو ہم نے آپ کو ایک خاص مقصد عظیم کے تحت یہاں بلایا ہے۔ آج ہمارے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور ہماری انفرادی شناخت پر ضرب لگنے لگی ہے۔ اب ہماری صورت کتے کی طرح رہ گئی ہے مگر خصلت انسانوں جیسی ہوتی جا رہی ہے۔ کبھی ہم زمانے کو وفاداری کا درس دیا کرتے تھے مگر کتنی شرم کی بات ہے کہ ہمارے اندر سے وفاداری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ چور جب چوری کر کے چمپت ہو جاتے ہیں تو ہم مالک کو بھونک بھونک کر جگاتے ہیں تاکہ چور کا دھندا بھی چلے اور مالک کی نظروں میں بھی ہم سرخرو رہیں۔ یہ دوغلی پالیسی ہماری وفاداری پر بدنما داغ ہے۔ یہ عادت ہم نے انسانوں سے سیکھی ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے مگر یہاں تو انسان کو دیکھ کر کتا رنگ پکڑ رہا ہے۔ جو ہماری سراسر توہین ہے۔ انسانوں کی طرح ہم بھی کمیشن کھا کر بے موقع بھونکنے لگے ہیں اور موقع پر دم دبائے دبکے پڑے رہنے لگے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ۱

۔۔۔۔

۱۔  ڈاگ لینڈ۔ مرزا کھونچ۔ ماہنامہ شگوفہ مئی ۱۹۹۵ء

               ۵۰۔ دلشاد رضوی

            دلشاد رضوی حیدر آباد سے نہایت ہی شگفتگی کے ساتھ اپنے انشائیے تحریر کرتے آ رہے ہیں۔ ان کی زبان سادہ اور پرکشش ہوتی ہے۔ حالات حاضرہ پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے جسے وہ بڑی عمدگی کے ساتھ اپنے انشائیوں میں سمیٹتے ہیں۔ انہوں نے پالتو جانوروں پر بھی انشائیے لکھے اور انہیں ادب میں غیر معمولی مقام عطا کیا۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’کہاں گئے وہ دن‘‘ سے لیا گیا ہے۔ جس میں انہوں نے بکرے کو غیر معمولی شہرت عطا کی۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بار بقر عید میں ہم نے جب چار ہزار روپے نقد خرچ کیے اور اوسط قسم کے دو عدد بکروں کی قربانی دی تو گزرے ہوئے دن انہیں آنکھوں میں پھر گئے وہ تب بھی تھیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب ان پر چشمہ لگا ہے جو پہلے نہیں تھا۔ ویسے تو بیتا ہوا وقت اور گزرا ہوا انسان بھلا کہاں واپس آتا ہے لیکن بالفرض محال اگر والد مرحوم اتفاقاً کبھی لوٹ آئیں تو اور کچھ نہ سہی لیکن قیمتوں کی ان نیرنگیوں کو دیکھ کر انہیں ملک عدم سے واپسی کا غم ضرور ستائے گا۔ لیکن ہم بہت ہمت والے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک بھلا جیتے کیسے رہتے۔ یہ اور بات ہے کہ شاعر ہونے کے ناطے اناپ شناپ مصرعے گنگناتے رہتے ہیں ’’یاد ماضی عذاب ہے یا رب‘‘ وغیرہ وغیرہ لیکن اس کی پرواہ ہم نے کبھی نہیں کی کہ ایک سو دس روپے فی کلو کے حساب سے گوشت کیسے کھائیں۔ چنانچہ پابندی سے منگواتے اور ڈٹ کر کھاتے ہیں۔ البتہ ٹائم ٹیبل میں معمولی سی تبدیلی کر لی ہے وہ آپ مہربانی کر کے کسی غیر کو نہ بتائیں۔ ہم کرتے یہ ہیں کہ ہر آٹھویں دن آدھا کلو گوشت منگوا کر اپنے فریج میں رکھ لیتے ہیں اور روزانہ بلا ناغہ چکھ لیا کرتے ہیں تاکہ کوئی ہم پر خالص ویجیٹرین ہونے کا لیبل نہ چسپاں کر دے۔ ہاں البتہ یہ ضرور سوچتے ہیں کہ کہاں گئے وہ دن!‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   کہاں گئے وہ دن۔ دلشاد رضوی۔ شگوفہ جون ۱۹۹۶ء

               ۵۱۔ مختار احمد منو

                مختار احمد منو گلبرگہ سے انشائیہ نگاری کے میدان میں اپنے جوہر دکھائے جا رہے ہیں۔ ان کے انشائیے وقتاً فوقتاً مختلف رسائل اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی زبان صاف اور سیدھی ہوتی ہے۔ زبان کی شگفتگی اور سلاست قابل داد ہے۔ ان کا مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’شناختی کارڈ‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’شناختی کارڈ کی اجرائی کو ضروری قرار دینے پر ہم سابق الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کو یاد رکھیں گے۔ ویسے بھی سیٹن کو ان کے اپنے عجیب و غریب احکامات، حرکات و بیانات پر بھی یاد رکھا جا سکتا ہے۔ فی الحال ہم ان کے شناختی کارڈ کے ضروری قرار دینے پر ہی اکتفا کریں گے۔ سیاسی لیڈر سیشن کے اس غیر متوقع اور سخت گیر موقف پر کہ شناختی کارڈ کے بغیر انتخابات نہیں ہوں گے۔ حیران و پریشا ہیں اس لیے کہ انتخابات میں لیڈروں کی کامیابی کا انحصار زیادہ تر بوگس ووٹنگ پر ہی ہوتا ہے۔ بوگس ووٹنگ ہمہ اقسام سے کی اور کروائی جاتی ہے۔ ہم نے ایک ایسے لیڈر کو بھی دیکھا ہے جو زندوں کے تو کجا مرحومین کے ووٹ بی اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ ورکرس گروپ میٹنگوں میں خاص طور پر یہ ہدایت کرتے ہیں کہ ایک ووٹ بھی ضائع نہ ہونے پائے۔ خاص طور پر دان کے ووٹ سے بھرپور استفادہ کریں۔ یہاں دان کے ووٹ سے مراد سرگواشی ووٹ یعنی کہ مرحومین کا ووٹ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   شناختی کارڈ۔ مختار احمد منو۔ شگوفہ اپریل ۱۹۹۷ء

               ۵۲۔ ڈاکٹر حبیب ضیاء

            ڈاکٹر حبیب ضیاء کی تحریر نہایت شگفتہ ہوتی ہے۔ باتوں ہی باتوں میں مانو پھلجڑیاں چھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ قاری کو پوری طرح باندھ کر رکھنے کی صلاحیت ان کے پاس بدرجہ اتم موجود ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیہ ’’ڈینگ بازی‘‘ سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

            ’’ایک ہندوستانی گھرانہ جس کی مادری زبان اردو ہے۔ انگریزی زبان اس کی بہت بڑی اور بری کمزوری ہے۔ اس گھر کے ہر فرد کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ انگریزی کا ماہر ہے۔ اس گھر کا ایک لڑکا دسویں جماعت کامیاب ہے۔ انہیں کی زبانی سنا کہ انگریزی میں اس کی قابلیت اتنی زیادہ بڑھی ہوئی ہے کہ وہ بی۔ اے۔ کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا سکتا ہے۔ ماں باپ شاکی ہیں کہ ہندوستان میں اس کی قدر نہیں اس لیے امریکہ کے لیے پر تول رہا ہے۔

            اس خبط اور ڈینگ بازی نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا۔ لڑکی کی شادی کی بات چل رہی تھی لڑکے بارے میں دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ شرابی اور جواری ہے۔ ہم نے مشورہ دیا کہ لڑکی کی زندگی اور اس کے مستقبل کا معاملہ ہے ایسے لڑکے سے رشتہ ہرگز طے نہ کریں۔ والدہ صاحبہ نے کہا۔ ہاں ہم نے معلومات لے لی ہیں۔ لڑکا واقعی شرابی ہے۔ کبھی کبھی جوا بھی کھیل لیتا ہے۔ لیکن اس کی انگریزی بہت اچھی ہے۔ ایسے لڑکے ملتے کہاں ہیں۔ بہرحال دھوم دھام سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں اس لڑکے کو خرید لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ لڑکی کے والدین بہت خوش ہیں کہ ان کی لڑکی مار اور گالیاں دونوں انگریزی میں کھا رہی ہے۔ انہیں اس بات کا بھی اطمینان ہے کہ اس جوڑے کی اولاد انگریزوں کے بھی کان کاٹے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔   ڈینگ بازی۔ ڈاکٹر حبیب ضیاء۔ ماہنامہ شگوفہ سالنامہ جنوری فروری۔ ۱۹۹۶ء

               ۵۳۔ سید رحیم الدین توفیق

            سید رحیم الدین توفیق اپنی زندہ دل تحریر سے اپنے وطن کی خامیوں اور خوبیوں کو ایک انوکھے انداز سے اپنے انشائیے میں پیش کرتے ہیں۔ یہ انشائیہ نہایت خوبصورت انشائیہ ہے۔

            ’’نظام عالموں اور دانشوروں کے بڑے قدردان تھے ان کی علم دوستی کی شہرت سن کر ہندوستان کے گوشے گوشے سے شاعر دانشور اور علما کھنچے کھنچے چلے آتے اور نظام کے دربار سے وابستہ ہو جاتے۔ جہاں ان کی قدردانی بھی ہوتی اور سرپرستی بھی۔ اس محبتوں کے شہر نے باہر سے آنے والے ہر دانشور، عالم اور شاعر کا فراخدلی اور کھلی باہوں سے استقبال کیا اور وہ اس کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ آج کل اعلیٰ دماغ اپنی ناقدری سے دل برداشتہ ہو کر غیر ملکوں کی راہ لے رہے ہیں اور نااہل سفارشی ٹٹو ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   حیدر آباد مرحوم۔ سید رحیم الدین توفیق۔ ماہنامہ شگوفہ نومبر ۱۹۹۴ء

               ۵۴۔ ڈاکٹر سید عباس متقی

            ڈاکٹر سید عباس متقی حیدر آباد کی سرزمین سے انشائیہ نگاری کے ادب میں اضافہ کر رہے ہیں۔ بات بات میں چٹکلے لینا ان کی پہچان ہے۔ اس کی شگفتہ پھلجڑیوں کی بدولت وہ شوکت تھانوی کی تحریر کے قریب دکھائی دیتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیہ ’’بستر‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’غریبوں کا بسترکوئی لائق ذکر شے ہے نہ اس کا سر نہ پاؤں۔ کبھی یہاں پڑ گئے کبھی وہاں۔ گرما تو ان کے بستر پر زیادہ مہربان نہیں ہوتا لیکن برسات اور جاڑوں کے موسم ان پر نہایت مہربان ہوتے ہیں۔ کچھ اس انداز سے ان کا مزاج پوچھتے ہیں کہ حکومت کو ان کا مزاج پوچھنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ان کا بستر ان کے دستر کا بھی آئینہ دار ہوتا ہے۔ نہ دستر پر گوشت نہ بستر پر پوست محض ہڈیاں ہیں کہ چٹختی رہتی ہیں اور چیخ چیخ کر قومی ترانہ سناتی ہیں۔ مائیں اپنے نونہالوں کو اپنے سینے سے چپکائے برسات بتا دیتی ہیں تو باپ ٹپکوں کے طفیل جاگ جاگ کر ساری گزار دیتا ہے۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔۔

۱۔   بستر۔ ڈاکٹر ید عباس متقی۔ ماہنامہ شگوفہ سالنامہ جنوری ۱۹۹۶

               ۵۵۔ یوسف امتیاز

            یوسف امتیاز کی نظر آج کل کے حالات پر زیادہ رہتی ہے۔ وہ خود ٹورنٹو کینیڈا میں مقیم ہیں لیکن ہندوستان کے حالات کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ اور اکثر و بیشتر یہاں کے رسائل و اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریر نہایت خوبصورت ہے۔ مندرجہ ذیل انشائیہ اس کی مثال ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اونگھنا ایک صحت مند علامت ہے۔ یہ کوئی افیون کی گولی نہیں ہے اور نہ گانجہ کا سرور کہ دنیا و مافیہا کی خبر ہی نہیں ہوتی جس کو مئے سے نشاط غرض نہیں ہے اور یک گونہ بے خودی کی تلا ش ہے اس کے لیے اونگھنے سے بہتر سستا اور کامیاب نسخہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ جیسے انسان سو برس سو کر اٹھا ہو پھر محبوب کے سینے پر سر رکھ کر سارے خلاؤں اور آسمانوں کی سیر ہو جاتی ہے۔ موجودہ خلائی جہاز بھی ایسی سیر کروانے سے محروم ہیں۔ اس کے لیے نہ فرصت کے دن کی ضرورت ہے اور نہ چار کی۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   اللہ کرے زور اونگھائی اور زیادہ۔ یوسف امتیاز۔ ٹورنٹو کینیڈا۔ ماہنامہ شگوفہ اگست ۱۹۹۶ء

 

               ۵۶۔ انیس سلطانہ

            انیس سلطانہ مدھیہ پردیش سے اپنے انشائیوں کا جادو بکھیرتی ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ان کا خوبصورت انشائیہ ہے:

            ’’اڑائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے کچھ گل نے

            آج پھر انجمن آراء اپنا محاسبہ کرنے بیٹھی تھیں، کیا کھویا، کیا پایا۔ پتہ چلا جو کچھ پایا تھا وہ تو سرد خانے میں پڑا ہے لیکن جو کھویا ہے اس کی کہانیاں دوست دشمن سب کی زبان پر ہیں۔

            عرصہ سے وہ خود بیمار تھیں۔ زندگی سے تو خیر پرانا یارانا تھا، لیکن صحت کو ان سے سداکا بیر۔ بری بھلی گزر ہوہی رہی تھی کہ ان کے مجازی خدا (جو خیر سے ریٹائر بھی ہو چکے ہیں۔ پڑھنے پڑھانے، نیز لکھنے لکھانے کو شغل بیکاراں سمجھتے ہیں ) سخت بیمار ہو گئے۔ ادھر خود انجمن آراء کی ٹیڑھی ترچھی چالیں (کہ ٹانگ کے فریکچر کے بعد یہی کچھ بچ رہا تھا) اور ادھر جناب کے صاحب، صاحب فراش۔ لکھیں تو کیا اور یکسوئی ہو تو کیسے۔

            اپنے کو بہلاتی رہیں۔ پہلے بھی کون سا اچھا لکھتی تھیں، اب تو انداز میں کچھ اور اکھڑ پن آ گیا ہے۔ جملے بنانے سنوارنے کی کوشش کرتیں کہ ان کی توجہ ادھر سے ہٹا لی جاتی۔ بھلا کس حکیم نے کہا ہے کہ وہ ضرور لکھیں ؟ آج کل پڑھتا ہی کون ہے؟ لو بھلا اردو، اردو کرتے ان کی ساری عمر گزر گئی، بچوں کو جب تک وہ بچے تھے (واقعی) انہوں نے اردو لکھنا بھی سکھایا اور پڑھنا بھی، لیکن اب وہ سب یا تو سماچار سنتے یا نیوز ٹریک۔ خبروں سے کسی کو سرکسی کو سروکار نہ تھا!۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   کیا کھویا کیا پایا؟ انیس سلطانہ۔ ماہنامہ شگوفہ اگست ۱۹۹۴ء

               ۵۷۔ شیخ سلیم

            شیخ سلیم حیدر آباد سے انشائیہ نگاری میں کئی سالوں سے طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ ن کی تحریر میں سادگی اور روانی پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی طنز و ظرافت کا میدان بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مندرجہ ذیل اقتباس اسی سے اخذ کیا گیا ہے۔

            ’’ایک روز ایسے ہی ماہر نفسیات فقیر سے سابقہ پڑا۔ ہم تو خیرات دے کر دل ہی دل میں بڑے نازاں تھے اور اس کا رنگ ہمارے چہرے سے چھلکنے لگا تھا جسے دیکھ کر فقیر نہایت تدبر اور دانشمندانہ لہجے میں ہم سے کہنے لگا کہ آپ مجھے خیرات دے کر اتنا خوش نہ ہوں اور نہ یہ سمجھیں کہ آپ نے مجھ پر کوئی احسان کیا ہے بلکہ میں نے ہی آپ پر احسان عظیم کیا ہے۔ ہم نے نہایت تعجب سے اس سے پوچھا کیسے؟ فقیر نے ناصحانہ انداز میں کہا کہ اگر ہم لوگ خیرات لینے سے انکار کر دیں تو پھر تمہارے پاس ثواب حاصل کرنے کے کون سے وسیلے رہ جائیں گے۔ ہم تو یہ جواب سن کر نہایت خجل ہوئے اور اپنی کم علمی و کم مائیگی پر شرمندہ بھی کیونکہ ہم نے تو بہت سارے وسیلوں کے متعلق معلوم کر رکھا تھا مگر فقیر کے بتائے ہوئے وسیلے کی طرف کبھی ذہن گیا ہی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے فقیروں کے۔ شیخ سلیم۔ ماہنامہ شگوفہ سالنامہ جنوری ۱۹۹۶ء

 

               ۵۸۔ فیاض احمد فیضی

            فیاض احمد فیضی کے انشائیے سادہ تحریر کے ساتھ ظرافت اور شگفتگی کے فوارے چھوڑتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریر میں بلا کی سادگی پائی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے مانو کوئی بہت پرانا دوست ہم سے گفتگو کر رہا ہو۔ ان کے انشائیے ’’برسات کے مزے‘‘ کا مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادھر بادل گرجے، بجلی چمکی اور برش کی پہلی پھوار پڑی، برسات کے لاتعداد مزے ایک کے بعد ایک آسمان سے اترنے لگے۔ سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ شہر میں غزل، قوالی، مشاعرہ اور کلاسیکی موسیقی کے پروگرام جو موسم گرما میں شبا ب پر ہوتے ہیں، بارش شروع ہوتے ہی ایکدم سے تھم جاتے ہیں۔ گائیکوں، شاعروں، اور قوالوں کو قرار آ جاتا ہے اور وہ بھری برسات میں گھر میں بند ہو کر نئی تخلیقات میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فنکاروں کے بچوں کی تاریخ پیدائش اکثر مارچ، اپریل، اور مئی کے مہینوں کی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہ نکالا جائے کہ جو بچے مارچ، اپریل اور مئی کے مہینوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کے والدین محض فنکار ہی ہوتے ہیں۔

            ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرانے زمانے میں جب حسن قدرتی ہوا کرتا تھا بھیگی ہوئی عورت جہاں قلوپطرہ نظر آنے لگتی تھی وہیں بھیگا ہوا مرد راتوں کا مشہور پرندہ معلوم ہوتا تھا۔ آج کل میک اپ کے بوجھ تلے دبی خواتین کا چہروں کا اچھا خاصہ حصہ بھیگنے کے بعد دھل کر بہہ جاتا ہے اور وہ حسن بیمار اور کبھی صرف بیمار دکھائی دیتی ہیں مرد البتہ آج بھی بھیگنے کے بعد اسی مشہور پرندے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   برسات کے مزے۔ فیاض احمد فیضی۔ بمبئی۔ ماہنامہ شگوفہ اگست ۱۹۸۹ء

               ۵۹۔ شاہد رشید

            شاہد رشید (امراوتی) کی تحریر میں وہ چاشنی ہے جس کی وجہ سے قاری بار بار ان کے انشائیوں کو پڑھنا چاہتا ہے۔ سیدھے سادے الفاظ کو وہ بڑی خوبی کے ساتھ سطروں میں پروتے ہیں۔ اور آہستگی سے بڑی گہری بات کہہ جاتے ہیں۔ ان کی خوبصورت تحریر کا یہ نمونہ ملاحظہ کریں جو ان کے انشائیے ’’خیر خواہان قوم‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’ایک علم شناس بزرگ نے مجھ سے کہا۔ ’’میاں ہمارے زمانے میں درسگاہوں سے بچے انسان بن کر نکلا کرتے تھے۔ آج باپ انسان کا بچہ لا کر چھوڑتا ہے لیکن دانش گاہوں سے بندر باہر نکلتے ہیں۔ ‘‘ پتہ نہیں مذکورہ بزرگ کی بات میں کتنی سچائی ہے لیکن یہ بات ببانگ دہل کہی جا سکتی ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں بچہ بجز علم کے عملی زندگی کا ہر ہنر سیکھتا ہے۔ مثلاً چاپلوسی، خود غرضی، رشوت خوری، ناانصافی، غرض کہ ہر وہ کام جو بچہ اپنے استادوں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے خود اختیار کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بچہ آدمی کا باپ ہوتا ہے اس لیے ہر وہ چیز جس کا مشاہدہ کرتا ہے ضرور بالضرور اپنے تجربے میں لاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کا بچہ کاغذ کا سگریٹ بنا کر پی رہا تھا۔ اس کی ماں نے اس سے کہا۔ ’’بیٹا بری بات ہے۔ سگریٹ نہیں پیتے۔ ‘‘ اس نے کہا ’’لیکن ابو تو پیتے ہیں ‘‘ ماں نے سمجھایا ’’بیٹا وہ بڑے ہیں۔ ‘‘ بچے نے کاغذ پھینکتے ہوئے کہا  ’’اچھا تو جب میں بھی بڑا ہو جاؤں گا تو سگریٹ پیوں گا۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   خیر خواہان قوم۔ شاہد رشید۔ امراوتی۔ ماہنامہ شگوفہ اپریل ۱۹۹۵ء

               ۶۰۔ نعیم زبیری

            نعیم زبیری حیدر آباد سے اپنی انشائیہ نگاری کی پھلجڑیاں چھوڑنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے طرز تحریر میں کہیں کہیں کنہیا لال کپور کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ مزاح کے ساتھ ساتھ اپنے نشتر لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’یا اللہ مجھے شلوار سے بچا‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے حیرانی یہ تھی کہ دھان پان شخصیت کے مالک عبد الغفور یہ شلوار پہنتے کیسے ہوں گے اور پھر اسے پہن کر کھڑے کیسے رہتے ہوں گے۔ ایک دوست نے میری مشکل آسان کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کمر بند کو پہلے دو دوستوں کی مدد سے ایک پینل درمیان میں رکھ کر کسا جاتا ہو گا اور وہ سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر اس سوراخ میں کود پڑتے ہوں گے جو پینل کھینچ لینے کے بعد بچ رہتا ہو گا۔ اور پھر وہ قدم آدم قمیص جو کندھوں سے شروع ہو کر ٹخنوں تک جھولتی رہتی ہے اس طرح پہنی جاتی ہو گی کہ وہ اسے فرش پر بچھا دیتے ہوں گے اور وہ دامنوں کے درمیان گھس کر رینگتے رینگتے گریباں تک پہنچ جاتے ہوں گے۔ میں نے ان سے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا کہ ’’بھائی آپ یہ اتنا تکلیف دہ پہناوا کیوں استعمال کرتے ہیں ‘‘ تو انہوں نے میری طرف ایک نہایت قہر آلود نگاہ ڈل کے کہا ’’میری مرضی‘‘ مجھے اس طرح منہ کی کھا کر چپ ہو جانا چاہیے تھا لیکن جنرل نالج کی متلاشی طبیعت کو کیا کیا جائے۔ میں نے پھر پوچھ لیا۔ ’’رات میں آپ سوتے بھی یہی چیز پہن کر ہیں۔ ‘‘ ’’جی ہاں ‘‘ انہوں نے نہایت پر وقار انداز میں جواب دیا۔ میرے تصور میں بستر پر سوتے ہوئے عبدالغفور کچھ اس طرح ابھرے کے نیفے کی ہزاروں چنتوں کے ابھار میں سے کمر سے اوپر کا دھڑ نکل کر بستر پر لٹکا ہوا ہے اور تقریباً شر ش شاسن کا سا سماں ہے۔ ۔۔۔‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱ ۔   یا اللہ مجھے شلوار سے بچا۔ محمد نعیم زبیری۔ ماہنامہ شگوفہ دسمبر ۱۹۹۴ء

               ۶۱۔ سید مکرم نیاز

            سید مکرم نیاز ایک بہترین انشائیہ نگار سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے انشائیوں میں ایک گہری فکر پائی جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’کتاب کی واپسی‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’روایت ہے جدید زمانے کی کہ شیطان کے ایک ماہانہ اجلاس میں بہترین ’’کارکن‘‘ کا ایوارڈ دئیے جانے کا فیصلہ ہو رہا تھا۔ معتقدین اپنے اپنے کارنامے بیان کر رہے تھے کہ کس طرح انہوں نے اپنے شاگردوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور تا حال کیے جا رہے ہیں۔ آخر میں جب سب سے کم عمر مرید کی باری آئی تو وہ چند لمحے شرماتا رہا پھر مدھم لہجے میں سر جھکا کر بولا ’’میں نے اس تمام عرصے میں صرف ایک شاگرد بنایا۔ ‘‘ اجلاس میں اچانک خاموشی چھا گئی اور تمام شرکاء حیرت زدہ ہو کر اس نوآموز معتقد کو گھورنے لگے جس نے ہچکچاتے ہوئے دو با رہ اپنی زبان یوں کھولی ’’اور میں نے اپنے شاگرد کو کتاب لے کر نہ لوٹانے کا عادی بنا ڈالا۔ ‘‘ شیطان اعظم کے تالیاں پیٹنے کی آواز آئی اور اسی نو عمر مرید کو ’’بیسٹ ورکر‘‘ کا حقدار قرار دیا گیا۔ اجلاس میں دائیں بازو کی بنچوں سے حزب مخالف نے اعتراض کیا کہ یہ کون سا عظیم کام ہوا؟ ہوسکتا ہے کتاب لے کر نہ لوٹانا شاگرد کی اپنی مجبوری رہی ہو یعنی غریبی یا مفلسی کے سبب وہ کتاب خریدنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ جواباً شیطان نے فرمایا ’’نادار یا مالدار طالب علم اگر با ذوق اور با مروت ہو اور حصول علم کی سچی لگن رکھتا ہو تو وہ کبھی علم کا ذریعہ اپنے پاس روکے نہیں رکھتا۔ مانا کہ تم سب دریا کا بہاؤ غلط سمت میں موڑتے رہے مگر میرے اس نوخیز چیلے نے کمال یہ کیا کہ دریا کے درمیان ڈیم تعمیر کر ڈالا۔ اس وضاحت نے شاید سبھی کو مطمئن کر دیا۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   کتاب کی واپسی۔ سید مکرم نیاز۔ ماہنامہ شگوفہ دسمبر ۱۹۹۴ء

               ۶۲۔ ضامن علی حسرت

            ضامن علی حسرت نظام آباد سے اپنی انشائیہ کی تحریروں کے ذریعہ گل بوٹے کھلاتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں ایک الگ ہی دلکشی نظر آتی ہے۔ وہ قاری کا تجسس بھی پوری طرح برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ’’کرایہ دار‘‘ کا اقتباس پڑھنے سے آپ بخوبی اندازہ لگا لیں گے۔

            ’’آج کل مکاندار متذکرہ بالا صدمات کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ آج کا مکاندار اپنے کرایہ دار سے ٹھیک ویسا ہی سلوک روا رکھتا ہے جس طرح ایک روایتی ساس اپنی معصوم بہو سے۔ آج مکاندار کو صرف اور صرف کرایہ سے غرض ہوتی ہے۔ اپنا ایک ذاتی مکان ہو یہ ہر شخص کا ایک سنہرا خواب ہوتا ہے لیکن صاحب ہمارے لیے ذاتی مکان صرف خواب ہی رہا۔ خواب کی تعبیر نہ بن سکا۔ اسے حالات کی ستم ظرفی کہیے یا گردش ایام کی فتنہ پردازی کہ پچھلے پچیس سال سے ہمیں ایک سعادت مند کرایہ دار کا کردار نبھانا پڑ رہا ہے۔ اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں رہا کہ ہمارا تعلق سماج کے مڈل کلاس سے رہا ہے اور یہ مڈل کلاس بھی عجیب شے ہے۔ اس میں آدمی ایک شوپیس بن کر رہ جاتا ہے۔ زندگی میں اگر ہم نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہے تو صرف یہ کہ لباس کی طرح کرایہ کے مکانوں کو تبدیل کرتے آ رہے ہیں اور اس وقت ہم گیارہویں مکان میں بحیثیت کرایہ فار مقیم ہیں یعنی اس سے قبل ہم ۱۰ عدد مکان تبدیل کر چکے ہیں۔ صاحب مکان چھوڑنا اور نئے مکان سے تعلق جوڑنا ہماری ہابی نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ جس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً کسی مکاندار کو ہم پسند نہیں آتے۔ کسی مکاندار کو ہم سے یہ شکایت رہتی ہے کہ ہم بجلی اور پانی کو پانی کی طرح خرچ کرتے ہیں یا پھر مکاندار کی بکریوں کا ٹھیک طرح سے دھیان نہیں رکھ پاتے۔ ۔۔‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   کرایہ دار۔ ضامن علی حسرت۔ ماہنامہ شگوفہ دسمبر ۱۹۹۴ء

 

               ۶۳۔ شکیل شاہجہاں

            شکیل شاہجہاں کامٹی سے اپنے انشائیے تحریر کرتے رہتے ہیں اور زمانہ قدیم کو جدید سے ملانے میں کمال رکھتے ہیں۔ ان کی یہ تحریر میں سادگی اور شوخی پائی جاتی ہے اور یہی ان کی خاصیت ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’چھتری‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بارش کے موسم میں برسات کے پہلے ہلے کے بعد بہت سے لوگ مکان کی چھت پر نظر آتے ہیں۔ ٹپکا سدھارنے کے لیے۔ بہت سے لوگ بازار جاتے ہوئے نظر آتے ہیں چھتری خریدنے کے لیے۔ ایسے لوگ دور اندیش نہیں ہوتے ہیں کیونکہ چھتری کے سہارے ٹپکتے ہوئے مکان میں بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے لوگ بارش کے مومس میں اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بسوں میں چھتری کھول کر سفر کرتے ہیں۔ آخر کب تک اور کہاں تک ٹپکا سدھارتے رہیں گے۔ کیا سرکاری، کیا نیم سرکاری اور کیا غیر سرکاری ہر جگہ ٹپکا ہی ٹپکا ہے۔ کہیں بارش کا پانی ٹپک رہا ہے کہیں غریبوں کے آنسو ٹپک رہے ہیں کہیں مزدوروں کا پسینہ ٹپک رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   چھتری۔ شکیل شاہجہاں۔ ماہنامہ شگوفہ اکتوبر ۱۹۹۶ء

               ۶۴۔ فاطمہ تاج

            فاطمہ تاج  نے حیدر آباد سے انشائیہ نگاری کا مورچہ سنبھالا ہوا ہے اور ان کی تحریر میں روانی اور سلاست ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے خوبصورت انشائیہ ’’گفتگو قسطوں میں ‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچپن سے ہمیں یہی تربیت دی گئی کہ کسی کی بھی گفتگو چوری چھپے سننا انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں سمجھایا گیا کہ ٹیلی فون پر اگر دوسری لائن مل جائے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ فون پر دوسروں کی گفتگو ہم نے با رہا سنی ہے لیکن صرف چند واقعات ہی ہم آپ کو سنائیں گے۔ ہوا یہ کہ ہم نے اپنی کسی دوست کا نمبر ڈائل کیا اور پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیلو جان! کیسی ہو تم؟ مردانہ آواز نے ہمیں اچھال ہی دیا۔ ٹھیک ہوں۔ نسوانی آواز کے جواب نے ہماری فطری دلچسپی بڑھا دی۔ ہم یہ سمجھے کہ ہماری دوست جس کا نمبر ہم نے ملایا تھا شاہد وہ اپنے ’’وہ‘‘ سے بات کر رہی ہے۔ لیکن فلمی مکالموں کا سیلاب زوروں پر تھا۔ ’’ایک عرصہ سے دلی مراد پوری ہونے کی کوئی صورت نہ تھی حالانکہ کب سے میں تمہارے بارے میں سوچا کرتا تھا۔ ‘‘ جی۔ ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نسوانی آواز میں پس و پیش تھا۔ اب ہمیں یقین ہو گیا کہ کسی فلم اسٹوڈیو کی لائن سے ہمارے فون کی لائن مل گئی ہے۔ ہم یہ گفتگو مزید سننا چاہتے تھے مگر رابطہ خود ہی منقطع ہو کر ٹوں۔ ۔ ۔ ۔ ٹوں کی آواز ہمارے کانوں کو جھنجھوڑنے لگی۔ ہم نے اس بار دوسری دوست کا نمبر ملایا۔ ’’کیا کر رہے ہیں آپ؟‘‘ بڑی پاٹ دار آواز میں کوئی محترمہ کسی سے محو گفتگو تھیں۔ آج آفس کا حساب کتاب ہو رہا ہے۔ بڑی مصروفیت ہے کوئی ضروری بات ہو تو کہو۔ سنجیدہ لہجہ بتا رہا تھا کہ حضرات واقعتاً بہت مصروف ہیں۔ ’’آپ کو میرا خیال ہے نہ بچوں کا۔ آج چھوٹو کی سالگرہ ہے۔ بھول گئے کیا؟‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   گفتگو قسطوں میں۔ فاطمہ تاج حیدر آباد۔ ماہنامہ شگوفہ اکتوبر ۱۹۹۶ء

               ۶۵۔ علیم فلکی

            ماہنامہ شگوفہ کے مطابق (۱) ان کا تعارف کچھ اس طرح ہے کہ حیدر آباد دکن محلہ فلک نما کی پیداوار ہیں اس لیے برانڈ نیم فلکی رکھا ہے۔ اس کی وجہ اور بھی ہے ناموں کے شارٹیج کی وجہ سے ہر محلے میں دو علیم تین کلیم اور چار نعیم صاحب عام طور پر ہوتے ہیں اس لیے لوگ اپنی سہولت کے لیے ٹخلو نعیم بھائی، پٹیلے نعیم بھائی وغیرہ کے القابات کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں اکثر سسرالیوں کے سامنے شرمندگی ہوتی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے خود کو فلکی کہلوانا پسند کیا۔ دو چار سال میں ایک دو لاکھ روپے کما کر وطن لوٹ جانے کے ارادے سے ۲۶ سال پہلے سعودی عرب آئے تھے۔ عمر اور قد میں بیوی سے بڑے ہیں۔ پیشہ تجارت۔ سنجیدہ ہوں تو مزاحیہ مضامین لکھتے ہیں اور مزاحیہ موڈ میں ہوں تو سنجیدہ، سیاسی اور سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ قارئین کو عنقریب اپنی دو کتابیں منظر عام پر لانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ سیاست، منصف، شگوفہ، اردو نیوز، اردو میگزین اور دیگر کئی اخبارات و رسائل کو اکثر آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا پھر مارکٹنگ پھر میریج کونسلنگ سے ڈپلوما کور س کیے۔ مختلف علمی ادبی و سماجی فروغ میں مصروف اداروں اور انجمنوں سے وابستہ۔ صرف اپنے شعر کہنے کی ضد میں کوئی دیوان اب تک مکمل نہیں کرسکے۔ کچھ کرنے کی تگ و دو میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ امید ہے کہ ان کی تعزیت پر کہنے والے مقررین کو بہت کچھ مواد ہاتھ آئے گا۔

            علیم خان فلکی حال مقیم جدہ۔ اپنے انشائیوں کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا انداز تحریر بڑا انوکھا اور دلچسپ ہے۔ اپنے عنوان اور موضوع کو کہا ں سے کہا ں لے جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’قصہ بیوی کا‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’بیویوں سے انتقام لینے کے واقعات تو بے شمار سنے تھے لیکن جو واقعہ ’’اردو نیوز‘‘ کے ذریعہ ہم تک پہنچا وہ نہ صر ف انوکھا بلکہ تمام شوہروں کے لیے سبق آموز اور بیویوں کے لیے عبرت ناک ہے۔ وہ یہ کہ امریکہ میں ایک شخص نے دوا خانے پر مقدمہ دائر کر دیا صرف اس لیے کہ ڈاکٹروں نے اس کی بیوی کا جو کئی ماہ سے کوما (Coma) میں تھی لائف سپورٹ سسٹم منقطع کر دیا تھا۔ شوہر چاہتا تھا کہ اس کی بیوی سکون کی موت مرے۔ اس واقعہ نے ہر سمجھدار شوہر کی آنکھیں کھول دیں۔ نئی حکمت عملی کے دروازے کھول دئیے۔ واقعی بیویوں کے لیے اس سے سے دردناک سزا اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ سکون سے موت آنے تک زندہ رہیں۔ شوہر صبر و تحمل کے ہتھیار سے ہمیشہ ان کو اذیت میں مبتلا رکھے جہاں بے چاری نے بات بے بات پر چلانا شروع کیا شوہر نے ’’خاموشی‘‘ کی گولی داغ دی۔ ادھر محترمہ نے طعنے تشنے شکایتوں کے دہانے کھولے شوہر نے میدان خالی کر دیا اور باہر کی راہ لے لی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۲

۔۔۔۔۔

۱۔   ماہنامہ شگوفہ خلیج نمبر۔ جون ۲۰۰۴

۲۔   قصہ بیوی کا۔ علیم خاں فلکی جدہ۔ ماہنامہ شگوفہ اکتوبر ۱۹۹۶ء

               ۶۶۔ فیض احمد انصاری

            فیض احمد انصاری آکولہ سے اپنی انشائیہ نگاری کی پھلجڑیا ں چھوڑتے رہتے ہیں۔ ان کا انداز بیان نہایت دلکش اور اچھوتا ہوتا ہے۔ تحریر سادہ لیکن بامعنی ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیہ ’’کان‘‘ سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

            ’’کان تو تقریباً جانداروں کو ہوتے ہی ہیں۔ لیکن کچھ جاندار ایسے بھی ہیں جنہیں کان کی جگہ سوراخ ہوتے ہیں جن سے وہ سن سکتے ہیں۔ کان والوں کے کانوں کی الگ الگ بناوٹ ہوتی ہے۔ چھوٹے کان والوں کے بارے میں ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی عمریں کم ہوتی ہیں۔ اسی طرح بڑے کان والوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ بات کہاں تک صحیح ہے یہ تو بولنے والے اور سننے والے ہی جانیں۔ مگر اللہ نے تو سب کی عمر مخصوص کر دی، مطلب یہ کہ اوپر والے کا ویزا آیا کہ بس چلے۔ پھر بھی میں کہوں گا کان بھی اللہ ہی نے بنائے ہیں۔ شاید اس لیے بڑے کان والے زیادہ ہی عمر پاتے ہیں۔ مثلاً گاندھی جی کی ہی مثال لے لیجیے، اور مرار جی دیسائی کو دیکھ لیجیے، یا پھر مدر ٹریسا کو۔ اس طرح کے کچھ ایسے کان والے بھی ہوتے ہیں جن کی قوت سماعت بہت تیز ہوتی ہے۔ فوراً ہی بات سن لیتے ہیں چاہے بات کرنے والا کتنی ہی کم آواز میں بات کیوں نہ کر رہا ہو۔ اسی طرح چند ہوتے ہیں کچے کان کے۔ جو بات سنی اسے سچ سمجھ لیا اور اس کا افسانہ بنا دیا اور بنا تحقیق کے فیصلہ بھی کر لیا۔ ایسے لوگ بعد میں ضرور پشیمان ہوتے ہیں اور نظروں سے گر جاتے ہیں۔ چند ہوتے ہیں پکے کان کے۔ یہ لوگ کبھی کوئی بات بتاتے نہیں۔ ایسے اپنے پیٹ کا پانی بھی نہیں ہلنے دیتے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سنتے کچھ ہیں اور اس پر لگائی بجھائی کر کے بیان کرتے پھرتے ہیں۔۔۔۔۔‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   کان۔ فیض احمد انصاری۔ شگوفہ مئی ۱۹۹۶ء

               ۶۷۔ تمنا مظفر پوری

            تمنا مظفر پوری نے شاعری کے علاوہ چند انشائیے بھی لکھے ہیں۔ ان کی زبان سادہ اور مفہوم والی ہوتی ہے۔ انداز بیان جداگانہ ہے۔ مندرجہ ذیل انشائیہ کا اقتباس ان کے ’’مشورہ لینے والے‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی کبھی مشورہ لینے کے لیے ایسے لوگ بھی میرے پاس آ جاتے ہیں جو ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک نسیم صاحب بھی ہیں۔ جب ملیں گے تو اپنے کو ایک بڑے اور اہل ثروت ہونے کا اظہار کریں گے۔ ان کے گھر میں سبزی بھی نہیں بنی ہو گی مگر وہ مرغ کی بات کریں گے۔ ایک ماہ میں چھ انڈے خریدیں گے اور جس دن خریدنے بازار جائیں گے وہ کوشش کریں گے کہ ان کے انڈے محلے والے دیکھ لیں۔ اور اسے اتفاق کہیے کہ محلے کے لوگ دیکھ بھی لیتے ہیں کہ نسیم صاحب انڈے لے جا رہے ہیں۔ پھر وہ فرمائیں گے کہ چھ انڈے کا روزانہ خرچ ہے بڑی پریشانی ہے صاحب۔ اگر کہیں اتفاق سے نسیم صاحب آپ کو بازار کی طر ف مل گئے اور آپ مچھلی کی خریداری کر رہے ہوں تو وہ فرمائیں گے اونہہ میرے لیے آدھ کلو مچھلی سے کام نہیں چلنے کا۔ دو کلو سے کم کا خرچ نہیں ہے۔ اچھا میں کل خریدوں گا اور کل کبھی نہیں آتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   مشورہ لینے والے۔ تمنا مظفر پوری۔ ماہنامہ شگوفہ جولائی ۱۹۸۹ء

 

               ۶۸۔ ڈاکٹر حلیمہ فردوس

            ڈاکٹر حلیمہ فردوس بنگلور سے ادب کے مقام کو کلاسیکل دور میں لے جانے کی کوشش میں لگی ہیں۔ ان کے انشائیہ مقصد میں وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کا تازہ انشائیہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’دعاؤں میں یاد رکھیے‘‘ یہ گزارش اکیسویں صدی کے اسی دہے کی دین ہے۔ اب اکیسویں صدی کے بارے میں کیا کہیں مفکرین نے اسے Information Explosion یعنی اطلاعاتی دھماکے کی صدی قرار دیا ہے۔ مصلحین کے نزدیک یہ اخلاقی زوال کی صدی ہے شاعروں کی نظر میں یہ بیمار صدی ہے مگر ہمارے ناقص خیال میں یہ صدی بیماروں کی صدی ہے۔ شاید آپ بھی ہمارے خیال سے متفق ہوں گے کہ بابرکت صدی میں جتنے انسان پیدا ہوئے اتنی بیماریاں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔ کوئی شکر سے منہ میٹھا کیے بنا الحمد اللہ کہنے پر مجبور ہے۔ کوئی اپنی خون کی نالیوں کی صفائی کی غرض سے منہ اٹھائے دوڑنے میں مصروف ہے، کوئی نمک کے بنا پھیکی پھیکی غذا کھانے میں عافیت سمجھ رہا ہے اور کوئی چربی کے بیش بہا خزانے کو گھٹانے میں فکر میں مبتلا ہے۔ ان مستقل شکایتوں کے علاوہ سات سمندر پار سے نازل ہونے والی موسمی بیماریوں کا نقصان علیحدہ۔ کبھی ڈینگو تو کبھی چکن گنیا اور کبھی H1N1 جیسی جان لیوا بیماریوں نے حضرت انسان کا جینا حرام کر دیا ہے۔ بھلا ایسے میں وہ قسمت کا مارا دعاؤں کا سہارا نہ لے تو اور کیا کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   دعاؤں میں یاد رکھیے۔ ڈاکٹر حلیمہ فردوس۔ ماہنامہ شگوفہ دسمبر ۲۰۱۰

               ۶۹۔ فیروز حیدر

            فیروز حیدر حیدر آباد سے اپنے انشائیوں کا جلوہ بکھیرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کی زبان میں بے ساختگی اور ایک مخلص دوست کا جذبہ موجود ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’ردی نامہ‘‘ سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

            ’’یقین کیجیے کہ نہ تو ہم ردی فروش ہیں اور نہ ہی پیشہ ور شاعر۔ ردی سے ہمارا تعلق اتنا ہی ہے جتنا کہ اکثر شرفاء کا ہے۔ ہم بھی ردی کو وقت ضرورت بھوک پیاس کا لڈو سمجھ کر اس پر نظر رکھتے ہیں۔

            کاغذ کا المیہ ردی ہے۔ گویا کہ کاغذ پیدائشی مذکر ہے لیکن ردی کا خطاب پاتے ہی اس کی جنس بدل جاتی ہے۔ بغیر کسی آپریشن کے تبدیلی جنس کے معمہ کو حل کرنے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ قواعد کی رو سے تذکیر و تانیث کے قاعدے لوازمات سے کماحقہ واقفیت حاصل کر لی جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   ردی نامہ۔ فیروز حیدر ماہنامہ شگوفہ اپریل ۱۹۹۶ء

 

               ۷۰۔ جہاں قدر چغتائی

            جہاں قدر چغتائی بھوپال سے اپنے انشائیے تحریر کرتے ہیں۔ ان کا انداز نہایت دلکش ہے اور الفاظ اتنے بر وقت و مناسب استعمال کرتے ہیں کہ ان سے جملوں کا مزہ دوگنا ہو جاتا ہے۔ وہ بڑی مہارت سے موضوع کو طنز و مزاح کے ساتھ سنجیدگی کی طرف لے جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے ایک انشائیے ’’قہقہہ گر‘ ‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’ اس زمانے میں پچاس لڑکوں کی کلاس میں ایک ہی آوا ز سنائی دیتی تھی اور وہ صرف استاد کی آواز تھی۔ استاد نے شعر پڑھا مطلب سمجھایا اور سب شعر کا مطلب سمجھ گئے مگر ہم شاید کم فہم تھے۔ ہم نے استاد سے ہمت کر کے اتنا پوتھا جناب یہ نوحہ گر کون ہوتا ہے جس کو غالب صاحب اے ڈی سی کی طرح اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔ استاد کو غصہ آ گیا۔ نویں جماعت میں آ گیا اتنی سی بات نہیں جانتا۔ رونے پیٹنے والے کو نوحہ گر کہتے ہیں۔ سمجھ گیا جناب کہہ کر میں اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ محض اتفاق ہے کہ خود ہمارے گھر میں دو نوحہ گھر تھے۔ ہم کو خبر نہ تھی۔ دوسری طرف بے چارے غالبؔ تھے کہ ایک نوحہ گر کو ترستے رہے۔ والد کی بات پر والدہ نوحہ گری کرتی تھیں تو والدہ کی باتوں پر والد صاحب نوحہ گر بن جاتے تھے۔۔۔۔‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   قہقہہ گر۔ جہاں قدر چغتائی۔ ماہنامہ شگوفہ اپریل ۱۹۹۵ء

 

               ۷۱۔ عاتق شاہ

            عاتق شاہ کے انشائیے کے موضوعات روزمرہ کی استعمال کی چیزیں ہوتی ہیں۔ لیکن اپنے طنز و ظرافت کے نشتر اور پند و وعظ سے وہ انہیں غیر معمولی بنا دیتے ہیں۔ ان کے انشائیوں میں بلا کی شگفتگی پائی جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’جھاڑو‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’جھاڑو ایسی کہ جس پر نظر پڑتے ہی زمانے بھر کا افلاس، اندر باہر کی نحوست اور ساری عمر کی کلفت دور ہو جائے۔ ایسی پکی اور مضبوط جھاڑو صرف ناریل کے درختوں کے پتوں کو چھیل چھیل کر ناکلی ہوڈی موٹی موٹی کاڑیوں یا تیلیوں کو جوڑ جوڑ کر بنائی جاتی ہے۔ اور وہ اس طرح کہ اپنی ضرورت کے مطابق کاڑیوں کے سرے کو یوں کس کر باندھا جاتا ہے کہ ایک کاڑی یا تیلی بھی الگ نہ ہونے پائے۔ اور مٹھی کی گرفت میں پوری طرح اس کا سرا آ جائے۔ غسل خانوں اور بیت الخلاؤں میں یہ جھاڑو چھپاک کے ساتھ وہ وہ کارنامے انجام دیتی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ گندگی اور غلاظت یوں غائب ہو جاتی ہے جیسے وہ کہیں اور کبھی تھی ہی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔۔

۱۔۔  جھاڑو۔ عاتق شاہ۔ ماہنامہ شگوفہ سالنامہ ۱۹۹۵ء

 

               ۷۲۔ ممتاز مہدی

            ممتاز مہدی (حیدر آباد) اپنی انفرادی تحریر کے لیے حیدر آباد میں خاصے مشہور ہیں۔ ان کی زندہ دل تحریر رسالوں کی جان ہوتی ہے۔ ان کی تحریر کی روانی کا ثبوت یہ مندرجہ ذیل انشائیہ ’’مرنا ‘‘ ہے۔

            ’’دہلی دو درشن کے ’’ڈی ڈی ون چینل‘‘ پر ہر روز صبح ایک گھڑی دکھلائی جاتی ہے جسے ’’پالولیشن کلاک‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں ملک میں ہر سکنڈ میں کتنے بچوں کا اضافہ ہوا یہ دکھایا جاتا ہے۔ چینلوں کی تعداد میں بھی آبادی کی طرح اضافہ ہو رہا ہے اور یہ چینل باہم مقابلہ بازی میں مرے جا رہے ہیں۔ ہمارا لطیف سا مشورہ ہے کہ DDI کے جواب میں Zee TV والے مرنے والوں کی گھڑی ’’کلاک آف ڈیتھ‘‘ کسی مقررہ وقت پر بتلائیں اور سامعین کو مشورہ دیں کہ وہ اس کی رفتار میں تیزی لائیں اور ناظرین سے التجا کریں کہ وہ جلدی جلدی مریں چونکہ جوں جوں اس دم توڑتی دنیا کی حقیقت اور مغرور انسان کی کمزوریاں آشکار ہوتی جا رہی ہیں، انسان کے مرنے کا غم بہت ہی ہلکا پھلکا ہوتا جا رہا ہے بلکہ پسماندگان اپنی مسرت چھپانے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   مرنا۔ ممتاز مہدی۔ ماہنامہ شگوفہ مارچ ۱۹۹۶ء

 

               ۷۳۔ رزاق اثر شاہ آبادی

            رزاق اثر شاہ آبادی کے انشائیے اکثر رسالوں میں نظر آتے ہیں۔ ان کی زندہ دل تحریر قاری کی زندگی میں ایک نئی توانائی لہرا دیتی ہے۔ مندرجہ ذیل انشائیہ اس کی ایک مثال ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی حال ہی میں ہماری ملاقات ایک ایسے سرفروش سے ہوئی جو حالاتِ زندگی سے گھبرا کر کم اور اپنی دو عدد بیویوں اور نو عدد بچوں کی ذمہ داریوں سے تنگ آ کر گھر سے بھاگ نکلا تھا۔ اس کے بیان کے مطابق ریل گاڑی میں اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو مختلف خیراتی اداروں کے لیے کمیشن پر چندہ وصول کرنے کا کام کرتا تھا اور خیراتی ادارے اپنی ضرورت اور مجبوری حالات کے مطابق ہراج پر اس کے پاس سے چندہ حاصل کیا کرتے تھے۔ بقول حضرت سلیمان خطیب مرحوم اس کام کے لیے گھر سے روپیہ نہیں لگانا پڑتا ہے۔ اس لیے اس کے کاروبار میں اتنی برکت ہوئی کہ چند ہی برسوں میں اس نے چندہ وصول کرنے کے لیے ملازم رکھ لیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   ذکر ایک چندہ فروش کا۔ رزاق شاہ اثر شاہ آبادی۔ ماہنامہ شگوفہ مارچ ۱۹۹۶ء

 

               ۷۴۔ منظور الامین

            منظور الامین حیدر آباد سے اپنے انشائیے لکھ کر اردو ادب کے خزانے میں گراں قدر اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریر ایک نئی تازگی اور توانائی بخشتی ہے۔ مندرجہ ذیل انشائیہ اس کی خوبصورت مثال ہے۔

’’نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا

پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا

            عرض یہ ہے کہ گو راقم کا نام بھی منظور ہے لیکن واضح ہو کہ شاعر نے اس خاکسار کو مخاطب کر کے یہ شعر تحریر نہیں کیا تھا۔

            اسی شعر سے یہ پہلو بھی نکلتا ہے کہ پل کا بنانا عوام الناس کو فیض پہنچانے کے زمرے میں آتا ہے۔ حکومتیں پل بناتی ہیں تو جنتا کو فائدہ پہنچانا تو وہ چاہتی ہی ہیں لیکن جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے وہ اپنی پارٹی کا Image اونچا اٹھانے کی خاطر بھی ایسا کیا کرتی ہیں کہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں کہ فلاں پارٹی کے دور حکومت میں فلاں زرین پل بنایا گیا تھا۔ یہ بھی ایک طرح سے لفظوں کا کھیل ہے۔ لفظ ایک شکتی مثالی شے ہے لفظ کو Bridge of matter بھی کہا جاتا ہے یعنی لفظ دو روحوں کے درمیان مادے کا پل ہوتا ہے، مگر یہ ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   پل۔ منظور الامین۔ ماہنامہ شگوفہ اگست ۱۹۹۶ء

               ۷۵۔ حامد لطیف حامدؔ

            حامد لطیف حامدؔ کی زندہ دل تحریر محترم جناب یوسف ناظم کی یاد دلاتی ہیں۔ ہنسی ہنسی میں وہ بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ اس بات کی زندہ مثال ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میر ہمارا کرتا، پاجامہ پہن کر سامنے آئے تو بالکل Scare Crow یعی کوا ہکنی لگ رہے تھے۔ اب بحث یہ چھڑی کہ فلم کون سی دیکھی جائے۔ ہم نے کہا ویڈیو گھر پر ہے۔ بیگم نے ہونے والی مسلسل بارش کی طرف توجہ دلائی تو میر کچھ ٹھنڈے پڑے۔ ہم نے کہا آپ فلم کا نام بتائیں۔ ہم کیسٹ منگوا لیتے ہیں۔ میر پان کے بیڑے کو تیسری بار دائیں سے بائیں کلے میں منتقل کرتے ہوئے تمباکو کی پیک کا ایک مہکتا گھونٹ نگل کر بولے۔ ’’ایک فلم کا نام ہے ’’اگر تیری شادی مجھ سے نہ ہو تو میں تیرے باپ کو جلا کر راکھ کر دوں گا‘‘۔ ’’لاحول و لا قوۃ‘‘ ہم نے کہا۔ بولے ’’یہی منگوا لو۔ کوئی گویا کہ خودبخود مسلم سوشیل کمرشیل فلم معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘ میں نے کہا ’’یہ کسی فلم کا نام نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

            ’’یقین کرو، اس فلم کا نام یہی ہے‘‘ میر بولے ’’عرصہ ہوا، میں دو ماہ کے لیے مدراس گیا تھا۔ گویا کہ خودبخود گیا تھا۔ وہاں ایک دوست کے ہمراہ ہوٹل سے اسٹوڈیو جا رہا تھا کہ دیکھا راستے میں ایک سنیما پر گویا کہ خودبخود لوگ حال سے بے حال ٹکٹ کی کھڑکی کو ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا۔ یہ کون سی فلم ہے۔ جواب ملا ’’کہیے حضور، اب کیسے مزاج ہیں ؟میں نے سنا تھا آپ کی طبیعت کچھ دنوں سے خراب چل رہی ہے‘‘ میں نے گھبرا کر کہا۔ جناب آپ اچانک میری طبیعت کا حال کیسے پوچھنے لگے۔ میں نے تو گویا کہ خود بخود آپ سے فلم کا نام پوچھا تھا۔ وہ صاحب ہنس کر بولے۔ یقین کریں یہی ہے اس فلم کا نام۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   آئیے فلم دیکھیں۔ ۔ حامد لطیف حامد۔ ماہنامہ شگوفہ اگست ۱۹۹۶ء

               ۷۶۔ محمد اظہر حیات

            محمد اظہر حیات ناگپور سے اپنی شگفتگی پورے بھارت میں پھیلاتے رہتے ہیں۔ ان کے انشائیے اکثر اخبارات اور رسالوں میں نظر آتے ہیں۔ نہایت سادگی سے سماج کی برائیوں پر چوٹ کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ان کا ایک خوبصورت انشائیہ ہے۔

            ’’لیڈر صاحب اردو میڈیم کی تیسری جماعت میں فیل ہو گئے تھے۔ انگریزی کیا اردو بھی ٹھیک سے لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے۔ مگر سیاسی بصیرت اور لیڈرانہ مہارت گویا ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ اسی لیے شہر کے ادیب و شاعر اپنی کتابوں کا اجراء ان کے دست مبارک سے کروانا باعث فخر سمجھتے۔ لیڈر صاحب معاملہ فہمی اور حاضر دماغی کی وجہ سے بھی مقبول خاص و عام ہیں۔ کئی انجمنوں اور اداروں کے صدر اور ذمہ دار بھی ہیں۔

            لیڈر صاحب عام طور پر سفید کتا پاجامہ ہی زیب تن کرتے ہیں۔ مگر خاص خاص موقعوں پر شیروانی اور ٹوپی کو بھی موقع فراہم کرتے ہیں (اس لباس میں وہ زیادہ پر وقار اور منفرد نظر آتے ہیں۔ ویسے شیروانی پہننے میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ دعوتوں میں نظر بچا کر شیروانی کی بڑی بڑی جیبوں میں بچوں کے لیے بھی حصہ رکھ لیتے ہیں۔ )

            لیڈر صاحب بڑے بے باک نڈر اور منہ پھٹ ہیں۔ کسی سے نہیں ڈرتے۔ مگر اپنی بیگم کے سامنے بھیگی بلی نظر آتے ہیں۔ ایک دفعہ ٹیلی فون پر کسی شخص نے دھمکی دی اور کہا کہ میں خوب سمجھتا ہوں کہ تم کس کے اشارے پر ناچتے ہو۔ لیڈر صاحب نے عاجزانہ طور پر کہا دیکھو سیاسی معاملات میں میری بیوی کو نہ کھینچو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   محبوب لیڈر۔ محمد اظہر حیات۔ ماہنامہ شگوفہ اگست ۱۹۹۶ء

               ۷۷۔ سید محمود حسینی

            سید محمود حسینی نے حیدر آباد کے مزاح نگاروں میں اپنے انشائیوں کے ذریعے اپنا ایک الگ ہی مقام بنایا ہے۔ ان کی تحریر ایک انفرادی کشش رکھتی ہے۔ یہ انشائیہ اسی بات کی تصدیق کرتا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دولہا آہستہ سے دلہن کے والد کے قریب آیا اور کہا بابا اب رسم جلوہ کا انتظام فرمائیں۔ مجھے اندر لے چلیں۔ دلہن کے والد حیران ہوئے اور کہا کہ بیٹے ابھی تو سوا آٹھ ہی بجے ہیں یہ کبھی جلوہ کا وقت ہے۔ دولہا نے کہا کہ آپ نے رقعہ میں تو وقت جلوہ ساڑھے آٹھ بجے ہی لکھا ہے۔ وقت پر نیک کام ہوہی جانا چاہیے اور وہ یہ کہہ کر چلا زنانے میں جہاں دولہے کی بہنیں پہلے سے ہی دلہن کو منڈپ میں لے آئیں تھیں۔ بس پھر کیا تھا کچھ ہی دیر میں جلوہ کی رسم بھی پایہ انجام کو پہنچی اور دولہا سب سے ملتے قدم بوسی کرتے مردانے میں واپس۔ پھر کوئی دس بجے کا وقت تھا دولہا پھر اپنے سسر کے پاس چلا آیا اور کہا کہ اب رخصتی کی تیاری کروائیں۔ دلہن کے والد نے فوراً کہا کہ میاں شادی کے رقعہ میں رخصتی کا وقت میں نے نہیں دیا ہے۔ آپ اپنی دلہن کو لے جانے میں جلدی نہ کریں۔ اب دولہا میاں کی باری تھی کہا کہ بابا میں آپ کی دختر نیک اختر کا شوہر ہوں اور اس کو لے جانا میرا بنیادی حق ہے اور آپ مجھے میرے بنیادی حق سے باز نہیں رکھ سکتے۔ دلہن کے والد نے یہ سنتے ہی ایک فلک شگاف آواز بلند کی۔ اف میرے خدا میرا داماد تو بنیاد پرست نکلا۔۔۔۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   بنیاد پرست۔ سید محمود حسینی۔ ماہنامہ شگوفہ ممبئی ۱۹۹۵ء

               ۷۸۔ جمیل صدیقی بدایونی

            جمیل صدیقی بدایونی کی تحریر بہت ہلکی پھلکی اور خوبصورت معلوم ہوتی ہے۔ سادگی میں سماج کے عناصر پر چوٹ کر جاتے ہیں۔ یہ انشائیہ ان کی ایک دلچسپ تحریر ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانی جسم پر پتلون بظاہر مقام اسفل السافلین پر نظر آتی ہے۔ لیکن اہل ذوق کے نزدیک اس کا مقام علین پر ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کیساتھ شرٹ کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن جس باریک بینی اور تنقیدی شعور کے ساتھ پتلون کا کپڑا خریدا جاتا ہے اتنا بے چاری شرٹ کا نہیں۔ پتلون کا کپڑا قمیص سے دو گنا مہنگا ہوتا ہے اسی طرح اس کی سلائی بھی قمیص کی سلائی سے دو گنی مہنگی ہوتی ہے۔ لیکن شائقین پتلون اس مصرف بے جا کو برضا و رغبت برداشت کرتے ہیں۔ کیونکہ پتلون میں آدمی کی شخصیت ایکدم فائیو اسٹار ہو جاتی ہے۔ بوڑھا ہو یا جوان، نوعمر ہو یا بچہ حتیٰ کہ صنف نازک کو بھی جب سے اس راز کا پتہ چلا ہے انہوں نے بھی اس روگ کو بخوشی گلے لگا لیا ہے۔ اس کا سب سے مایوس کن پہلو یہ ہے کہ یہ روگ لاعلاج ہے اور جو لوگ ابھی تک اس کی لپیٹ میں نہیں آئے ہیں ان کے خون کی جانچ کرنے پر مرض پتلون کے مثبت جراثیم پائے گئے ہیں جس سے اس مرض کا ان کی اولادوں میں منتقل ہونے کا پورا پورا خطرہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   پتلون۔ جمیل صدیقی بدایونی۔ ماہنامہ شگوفہ مئی ۱۹۹۵ء

               ۷۹۔ محمد برہان حسین

            محمد برہان حسین بہت خوبصورت انشائیے لکھتے ہیں۔ ان کی زندہ دل تحریر قاری کے ذہن و دل کو بیدار کرتی ہے۔ یہ انشائیہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ایک دن مرزائن نے مرزا سے کہا کہ ادبی مجلس کی خواتین نے انکی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور مرزا کو عورتوں کے مسائل پر لکھی گئی تحریروں پر ’’خیراتی بیگم‘‘ انعام دیا جائے گا۔

            مرزا نے کہا ’’ارے بھئی میں نے اپنی بعض تحریروں میں عورتوں کی بعض حرکات کا مذاق ضرور اڑایا ہے لیکن حقیقت میں کبھی کوئی تحریر میں نے خواتین کی خدمت کے خیال سے نہیں پیش کی۔ ‘‘

            مرزائن نے کہا ’’مجھے معلوم ہے میں تو تمہاری تحریریں پڑھتی ہوں اور کون پڑھتا ہے۔ خصوصیت سے ہماری ادبی مجلس خواتین کی کسی رکن نے تمہاری تحریر کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ دراصل ہماری انجمن کی خواتین اس قدر مصروف رہتی ہیں کہ انہیں پڑھنے لکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ حتیٰ کہ ان کی تقاریر بھی دوسروں سے لکھوائی جاتی ہیں اور انہی حالات کی وجہ سے جب میں نے تمہارا نام ایوارڈ کے لیے پیش کیا تو کسی نے کوئی مخالفت نہیں کی بلکہ اکثریت نے حامی بھری اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تائید کی کہ واقعی تمہاری تحریروں نے ملک کی خواتین میں ایک نئی بیداری پیدا کی ہے۔ ‘‘

            مرزا نے کہا ’’مرزائن جی! جب انعام دلا رہی ہو تو اچھے نام کا دلاؤ۔ یہ کیا ’’خیراتی بیگم انعام‘‘

            مرزائن نے کہا۔ ’’لو۔ ارے تم ہی زندگی بھر کہتے رہے ہو کہ شیکسپیئر نے کہا تھا ’’گلاب کو کسی بھی نام سے پکارو۔ کیا فرق پڑتا ہے اور نام میں کیا رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   انعام نے رسوا کیا مجھے۔ محمد برہان حسین۔ ماہنامہ شگوفہ سالنامہ ۱۹۹۵ء

               ۸۰۔ ڈاکٹر راہی قریشی

            ڈاکٹر راہی قریشی (گلبرگہ) کی خوبصورت تحریروں سے کرناٹک اور دکن کے رسالے جگمگاتے رہتے ہیں۔ ان کا مندرجہ ذیل انشائیہ ایک بہترین انشائیہ کہلائے جانے کا مستحق ہے۔

            ’’رفتہ رفتہ احسان رائیگاں ؔ کی آمدنی گھٹنے لگی اور معاوضہ استاد بڑھنے لگا۔ جب کافی مقدار میں کلام اصلاح شدہ جمع ہو گیا تو ان کے بدخواہ پھر آن موجود ہوئے اور اس دفعہ یہ مشورہ دیا کہ کسی نہ کسی طرح ایک مجموعہ کلام شائع کر دیا جائے کیونکہ جس طرح عشق کے لیے محبوبہ ضروری ہے اسی طرح شاعر کے لیے مجموعہ لازمی ہے۔

            اس مشورے کے تحت احسان رائیگاں اپنی بیگم سے (حسب عادت) رجوع ہوئے اور اپنے آپ کو اس کا حقیقی زیور ثابت کر کے اس کا آخری طلائی زیور فروخت کر دیا۔ ایک با ذوق کاتب مامور کیا گیا جس کے تحت تازہ کلام اصلاح یافتہ ہو کر کاتب کی اجرت اور مجموعے کی ضخامت میں اضافے کا سبب بنا۔ تکمیل طباعت کے بعد ایک مطبع نے بادل نخواستہ ذمہ داری طباعت بایں شرط قبول کی کہ جملہ اخراجاتِ طباعت احتیاطاً پیشگی ادا کر دئیے جائیں۔

            غرض ان ہمت شکن حالات میں احسان رائیگاں کے پہلے مجموعہ کلام ’’متاعِ رائیگاں ‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی۔ مصور بھی چونکہ ذوق لطیف سے عاری نہ تھا اس لیے سرورق کے ڈیزائن میں اس نے مجموعے کے نام کے لحاظ سے اڑتے ہوئے اوراق غزل کے ساتھ ساتھ کرنسی نوٹ بھی محو پرواز دکھائے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   تلاشِ گمشدہ۔ ڈاکٹر راہی قریشی۔ ماہنامہ شگوفہ جولائی ۱۹۸۹ء

               ۸۱۔ مسیح انجم

            مسیح انجم کی دور رس نگاہیں  انشائیہ نگاری میں نئے دروازے وا کرتی ہیں۔ ان کے تجربات و حادثات سے وہ قاری کو دوچار کراتے ہوئے پند و نصائح کا فرض بھی بخوبی ادا کرتے ہیں۔

            ’’ایک عمر تک ہم اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ قرض مانگنا اور دوسروں سے پیسے ادھار لینا نہایت ہی معیوب بات ہے۔ کتابوں میں قرض کی مخالفت میں بڑے بڑے دانشوروں کے اقوال پڑھ رکھے تھے جو ہمیں زبانی یاد تھے۔

            ٭ جو شخص کسی سے قرض نہیں لیتا، وہی حقیقی بہادر ہے۔

            ٭ عزت گنوا کر آب حیات بھی ملے تو نہیں لینا چاہیے۔

            ٭ قرض کے فتنے سے بھوکا سوجانا (بلکہ فاقے کر کے مر جانا) بہتر ہے۔

            ٭ قرض دوستی کی مقراض ہے ( قینچی) وغیرہ وغیرہ۔

            ابتدا میں یہ اقوال ہمیں بڑے بھلے لگے۔ لیکن جوں جوں ہم نے ان اقوال پر عمل کرنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ ’’اقوال زرین‘‘ نہیں بلکہ لوہے کے چنے ہیں۔ اور قرض لیے بغیر زندگی گزرنا نہایت دشوار ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے اکثر دانشور دوسروں کی عملی دشواریوں کا اندازہ لگائے بغیر اقوال گھڑتے رہتے ہیں۔ اب آپ ہی سوچئے کہ موجودہ دور میں جو شخص ان اقوال پر عمل کرے گا وہ اپنی خاندانی ضروریات، ضروریات سے کہیں زیادہ خواہشات اور خواہشات سے کہیں زیادہ بیوی کی فرمائشات اور فہمائشات کو کس حد تک پورا کرسکے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان اقوال اور موجودہ دور کے درمیان اے بہت بڑا گیپ (Gap) ہے جو جنریشن گیپ (Generation Gap) کہلاتا ہے۔ اور جو شخص بھی اس گیپ کو پاٹنے کی کوشش کرے گا۔ وہ کھڈ میں گر جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   قرض کی مدح میں ! مسیح انجم۔ ماہنامہ شگوفہ سالنامہ ۱۹۹۵ء

               ۸۲۔ رشید الدین

            رشید الدین اپنی انفرادی تحریر کے ذریعے حیدر آباد کے ادیبوں میں اپنا مقام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے انشائیے اکثر اخبارات اور رسالوں کی رونق بنے ہوتے ہیں۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب جو انہیں دیکھتے ہیں تو الف کا نام بھالا نہیں آتا۔ بڑی کوفت ہوئی کہ آخر اسکول میں ٹیچر کیا پڑھاتے ہیں۔ اور خصوصاً چھوٹے بچوں کو پڑھانا کتنا کار داد ہے۔ یہ ہمیں اب معلوم ہوا۔ ایک لڑکے نے سوال کیا ’’پپا جب بی یو ٹی بٹ ہوتا ہے تو پی یو ٹی پَٹ کیوں نہیں ہوتا پُٹ کیوں ہوتا ہے‘‘ بھلا اب ہم اس بات کا کیا جواب دیتے۔ صرف اس کا کان مروڑ کر رہ گئے کہ یہ کیا غیر ضروری بکواس ہے۔ ایک بچے نے پنسل چھیلتے چھیلتے انگلی کاٹ لی۔ اسے پٹی باندھنی پڑی۔ گوشمالی بھی کرنا چاہتے تھے لیکن ڈر تھا کہ وہ کہیں رونا نہ شروع کر دے۔ اس لیے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔ ایک صاحب زادے میز پر سر رکھے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ انہیں پنسل مار کر جگایا۔ جس سے پنسل کے دو ٹکڑے ہو کر دو طرف گر گئے۔ نقصان ہمارا ہی ہوا۔ اب صبح دوسری پنسل لے کر دینی ہو گی۔ عجیب مصیبت ہے۔ طبیعت میں جھنجھلاہٹ پیدا ہونے لگی تھی کہ خواہ مخواہ یہ درد سر مول لیا۔ جب بچے پیدا کیے تو کیا یہ ضروری ہے کہ انہیں پڑھایا بھی جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   ہم نے اپنے بچوں کو پڑھایا۔ رشید الدین۔ ماہنامہ شگوفہ جولائی ۱۹۸۹ء

               ۸۳۔ محمد باقر

            محمد باقر ممتاز عثمانین ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔ ریاض کی مشہور تعمیراتی کمپنی سعود کنسلٹ میں چیف کوالٹی کنٹرول انجینئر ہیں۔ المنائی آف اوؤر سیز عثمانیس اور بیروی ممالک میں کام کرنے والے ہندوستانیوں کی انجمن کے صدر ہیں۔ علاوہ ازیں انڈیا فورم قونصل خانہ ہند جدہ کے صدر رہ چکے ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی سیمیناروں میں ملک کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ غیر مقیم ہندوستانی کے مسائل اور تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ اردو کی ترقی و فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ محمد باقر اپنے انشائیوں کے ذریعے اردو ادب کے خزانے میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ان کی تحریر کی روانی دیکھتے ہی بنتی ہے۔ اپنے مخصوص انداز سے سماج کی برائیوں پر چوٹ کرتے رہتے ہیں۔

            ’’مختلف انجینئرنگ کمپنیاں بھی برین واش کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے نایاب قسم کی مشینیں ایجاد کر پائیں گے اس طرح زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے اصحاب کی ترقی کے روشن امکانات پائے جاتے ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ ابتداً تجرباتی طور پر برین واشنگ کا کام سیاسی میدان کے تمام لیڈروں سے شروع کیا جائے جہاں سب سے پہلے ان کے برین کو واشنگ مشین میں ڈال کر دھویا جائے تاکہ بنی نوع انسان کے لیے یہ لیڈر کارآمد ثابت ہوسکیں۔ اگر اتنا کام ہو گیا تو ڈاکٹروں میں پھیلی ہوئی بے روزگاری دور کرنے کے لیے برین واش کے بجائے کوئی ایسی تجویز پیش کی جا سکے گی جسے سن کر پچھلے سو سال سے مردہ پڑا ہوا بقراط جی اٹھے گا!‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   برین واش۔ محمد باقر۔ ماہنامہ شگوفہ دسمبر ۱۹۹۴ء

               ۸۴۔ وحید اشرفؔ

                        وحید اشرف کی شگفتہ تحریر قاری کا من موہ لیتی ہے اور ایک دیرپا تاثر قائم کر جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ’’تالیاں ‘‘ملاحظہ کریں :

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شارجہ میں ایک اسٹیج پروگرام کے اختتام پر میں نے اناؤنسر کو روک لیا، جو اپنے چمچوں میں گھرے ہوئے تھے اور پوچھا آپ حضرات سامعین و ناظرین حضرات سے اتنی زیادہ تالیاں کیوں بجواتے ہیں۔ تالیوں کا اتنا شوق اور طلب کیوں ہے؟ آپ نے تو تالیوں کا لطف اور ذوق ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے خشمگیں نظروں سے پہلے تو گھورا اور اچانک تالی بجانے لگے۔ کہنے لگے یہ خوشی و شکر کا اظہار ہے۔ آپ تالیوں کی اہمیت و افادیت سے واقف نہیں۔ ہم ہیں۔ پھر ایک بے ربط سوال مجھ سے کیا۔ یہ بتاؤ انسان پہلے آیا ہے تالی۔ تو چمچے تالی بجانے لگے۔ ایک نے کہا بھئی واہ کیا جدت ہے۔ پہلے سنتے تھے مرغی پہلے آئی یا انڈا۔ اور یہ بھی بتاؤ تالی کہاں نہیں بجائی جاتی، جواب دو، جواب۔ وہ سب میرے پیچھے یوں پڑ گئے کہ میں حواس باختہ بھاگنے لگا۔ آواز آئی تالی تو بجاتے جاؤ۔ پھر اچانک مجھے کچھ یاد آ گیا اور غیر ارادی طور پر خوشی سے تالی بجا دی۔ پیچھے مڑ کر چلایا۔ ’’تالی صرف دو جگہ نہیں بجائی جاتی۔ شکر ہے، زندہ دلان حیدر آباد اور ادبی ٹرسٹ کے مشاعروں میں۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   تالیاں۔ وحید اشرف۔ ماہنامہ شگوفہ دسمبر ۱۹۹۴ء

               ۸۵۔ سنجر ہلال بھارتی

سنجر کا انداز بیان گفتگو والا ہے۔ طرز اسلوب نہایت شگفتہ و سادہ ہے۔ سادگی سے سماج کی برائیوں پر چوٹ کر جاتے ہیں۔ ان کا مندرجہ ذیل انشائیہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ترقی پسند شاعری کیا ہوتی ہے؟‘‘ میں نے کریدا۔

            ’’یہی کہ دنیا میں ہر آدمی برابر ہے۔ یہاں کوئی کسی سے برتر اور کمتر نہیں۔ آدمی کے پیدا ہونے کی نوعیت، تو پھر کوئی سرمایہ دار اور کوئی بیگار کیوں ؟ کوئی امیر اور کوئی غریب کیوں ؟ کوئی مجبور اور کوئی مسرور کیوں ؟ لہٰذا فاقہ مستوں کو چاہیے کہ وہ امیروں کے سینے پر چڑھ کر ان کی دولت اور مال و متاع چھین لیں۔ ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا ہے۔

تیرگی اپنے مقدر کی مٹانے کے لیے

چھین کر چاند ستاروں سے اجالے لے لو

زندگی بھیک میں نہیں ملتی

زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے

اپنا حق سنگدل زمانے سے

چھین پاؤ تو کوئی بات بنے‘‘

            ’’مگر انکل۔ ‘‘ میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔

            ’’یہ شاعر تو لوٹ مار کی ترغیب دے رہا ہے۔ شاعر تو وہی ہے جو انسان کو انسانیت، محبت، ہمدردی، اتحاد اور سچائی کا پیغام دے۔ ‘‘

            ’’بھتیجے! تم نرے احمق ہو، اگر انسانیت، خلوص، ہمدردی اور محبت کی بات کرو گے تو پیچھے رہ جاؤ گے۔ وقت کے ساتھ بدلنا سیکھو۔ آدمی کو احمق بناؤ اور ترقی کرو۔ ہر قدم پر اپنا مفاد پیش نگاہ رکھو۔ انسانیت کا بورڈ لگا کر آگے کبھی نہیں بڑھ سکتے۔ ایڈوانی جی کو دیکھو! اگر وہ انسانیت اور ہمدردی کے لفڑے میں الجھے رہتے تو یہ آفاقی شہرت آج اسے نصیب نہ ہوتی۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے۔ سنجر ہلال بھارتی۔ ماہنامہ شگوفہ اکتوبر ۱۹۹۵ء

               ۸۶۔ انیس صدیقی

            انیس صدیقی (حیدر آباد) نے بہت محنت سے اپنا مقام بنایا ہوا ہے۔ ان کی سادہ تحریر میں سماج کے لیے مشکل پیغام چھپا ہوتا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایٹم بم سے پہلے دوسری جنگ عظیم کے دوران بمباری کے خطرات سے بچنے کے لیے زیر زمین پناہ گاہیں بنائی گئی تھیں۔ اور ساتھ ہی آگ لگ جائے تو  بجھانے کے لیے پانی کے حوض بھی۔ چنانچہ آج بھی محلہ مغلپورہ کا ایک علاقہ اے آر پی حوض کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ذوق شاعری کی تسکین کے لیے ہمیں آخری پناہ گاہ فلمی گانوں میں ملی۔ مجازؔ، ساحرؔ، اور شکیل بدایونی وغیرہ نے فلمی گانوں کا رخ تک بندی سے موڑ کر شعریت کی طرف پھیر دیا اور ان کے کلام کو جب کسی ماہر میوزک ڈائرکٹر نے اپنی دھنوں سے سنوارا تو بامعنی فلمی گانوں نے جنم لیا جن کو سن کر انسان نہ صرف سات سروں کے سحر میں ڈوب جاتا ہے بلکہ اس کے ذوق سخن کی تسکین بھی ہوتی ہے۔۔۔۔‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   بہت پچھتائے شعر سمجھ کے۔ انیس صدیقی۔ ماہنامہ شگوفہ اکتوبر ۱۹۹۵۔

 

               ۸۷۔ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم

            ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم (جگتیال اے پی) کسی معمولی عنوان کو لے کر غیر معمولی بنا دینے کو ہنر رکھتے ہیں۔ انشائیہ نگاری میں یہ اکبر الہ آبادی کی شبیہ رکھتے ہیں۔ ان کی تحریر عام فہم ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ان کے بہترین انشائیوں میں سے ایک ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس طرح ہر قوم میں ایک سے زائد فرد قوم کی تعمیر و تخریب میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی طرح شاعروں میں بھی ایک گروہ موجود ہے جس نے شعوری و لاشعوری طور پر چشم یاہو کو مشق سخن کا ذریعہ بنایا ہے۔ میر و سودا سے لے کر تا حال شاعری کا ہر قسم کا جائزہ (بشمول ساختیاتی رد ساختیاتی وغیرہ) لیا جائے تو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ چشم یاہو کو چشم آہو سے بہتر طور پر برتا گیا ہے۔ سودا جاہ و حشمت کے شاعر تھے اور چشم یاہو کے قائل تھے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو جو چشم یاہو کی کیفیات کا احاطہ کرتا ہے۔

کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ

ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

            ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غالبؔ کے تعلق سے کیا کہا جائے وہ ہر وہ چیز قبول کر لیتے تھے جو مفت میں ملتی ہو۔ ایسے میں وہ چشم یاہو سے بے پروا کیسے ہوسکتے تھے۔ چشم یاہو کے تعلق سے لکھتے ہیں۔

بخشے ہے جلوۂ گل ذوق تماشا غالبؔ

چشم کو چاہیے ہر حال میں وا ہو جانا

            الغرض شعراء و ادباء کا ایک خاص طبقہ ایسا ہے جو چشم یاہو کا قائل ہے۔ ریسرچ اسکالر کے لیے یہ ایک بہترین موضوع ہے جس پر مقالہ لکھ کر یا لکھوا کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود اگر ہمارے کچھ تنگ نظر اور کوتاہ بیں شعراء و ادباء چشم یاہو کے لیے اپنے ذوق کی کھڑکیاں و دروازے بند رکھیں گے تو جی چاہے گا کہ ہم اپنی آنکھیں پھوڑ لیں اور زار زار رو کر آنسوؤں سے ہاتھ منہ دھولیں تاکہ ان لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   بہت پچھتائے شعر سمجھ کے۔ انیس صدیقی۔ ماہنامہ شگوفہ اکتوبر ۱۹۹۵۔

               ۸۸۔ محمد عظیم الدین

            محمد عظیم الدین (گلبرگہ) کی تحریر نہایت لطیف ہوتی ہے۔ سادگی اور عام فہمی کی وجہ سے قاری کو اپنا دوست بنانے کا ہنر رکھتے ہیں۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرزا کی ملاقات سے پہلے ہم نے مصافحہ کی دنیا کواس قدر قریب سے نہیں دیکھا تھا۔ ہمیشہ کسی نہ کسی خاص شخص سے ملاقات کرنے اور کرانے کا ان پر ایک خبط سا سوار تھا۔ بخدا ہمیں ان مصافحوں سے کوئی اعتراض یا چڑ نہیں جو صرف مصافحے ہی ہوا کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں اور ہاں وہ با تصویر مصافحے بھی ہمیں بڑے بھلے لگتے ہیں جو کہ آئے دن اخباروں یا رسائل میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آپ سبھی نے ٹیلی ویژن پر بھی دیکھا ہو گا کہ جب کسی دو مختلف ملکوں کے سربراہ آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو ان کے چہروں پر کیسی بھلی اور دلفریب مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے ا ور ان کا مصافحہ بھی کس قدر جامع اور طویل ہوتا ہے لیکن خاص کر وہ منظر بڑا ہی دلچسپ دکھائی دیتا ہے جب کسی ملک کا سربراہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے ایک با وقار انداز سے ہوائی جہاز کی سیڑھیوں پر اپنے قدم رکھتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور بعض سربراہ تو مسکراتے ہوئے اتنی تیز رفتاری سے جہاز کی سیڑھیاں پھلانگنے لگتے ہیں کہ ان کا بس چلے تو وہ ساری سیڑھیوں کو یکلخت پھاند کر سیدھے نیچے ہی کود پڑیں۔ یہاں پر ہمارا مقصد کہیں بھی سربراہ مملکت کی مسکراہٹ یا استقبالیہ پر تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ مسکراہٹ اور مصافحہ ان دونوں کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور ہاں اگر کسی کو رنجیدہ یا کبیدہ خاطر کرنا ہی مقصود ہو تو سپاٹ چہرے کے ساتھ ایک عدد مصافحہ کافی ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   چشم یاہو۔ فضل اللہ مکرم۔ ماہنامہ شگوفہ نومبر ۱۹۹۶ء

               ۸۹۔ منظور عثمانی

            منظور عثمانی دہلی سے انشائیہ نگاری کی رفتار میں اضافہ کیے ہوئے ہیں۔ الفاظ کے استعمال پر پوری قدرت رکھتے ہیں اور سماج پر طنز کے نشتر بھی چلاتے جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’عید الاضحی بکروں اور سفید پوشوں کے سروں پر ڈیمو کلس کی تلوار کی طرح لٹکی ہوئی تھی۔ دونوں کو چھریاں دکھائی دینے لگی تھی۔ بکروں کی قیمتیں اور آوازیں آسمان کی خبر لا رہی تھیں۔ ہم جیسے ’’اجلے غریب‘‘

کبھی ان کو کبھی اپنی جیب کو دیکھتے تھے

            ہم کہ باہر پہنے اوڑھے پر اندر سے ڈھول کی طرح خالی، میر کی طرح دونوں ہاتھوں سے دستار تھامنے کی فکر میں غلطاں، تنخواہ اوسط درجے کے بکروں کی قیمت سے بھی کم، لیکن بچوں کا پیہم اصرار کہ بکرے آئیں اور فوراً سے پیشتر آئیں کیونکہ ہمارے دیوار شریک پڑوسی کے یہاں دو بربرے وہ دن پہلے سے ہی ’’ہماری غیرت کو ممیا رہے تھے‘‘ سوئے اتفاق کہ یہ بغلی ہمسائے دفتر میں ہمارے ماتحت بھی واقع ہوئے تھے۔ ہمارے ڈنکے کی چوٹ منکوحہ نے ہمیں ایڑیانے کی خاطر فرمایا ’’بھلا اپنے بچوں کی خاطر کیا کیا نہیں کرتا۔ کیا آپ اس موئے کلرکے سے بھی گئے گزرے ہو گئے۔ یوں بھی دانشمندوں کا قول ہے کہ ’’کل کرے سو اب‘‘ اب ہم ان سے کیا کہتے ’’نیک بخت اس کی طرح ہم پر فضل ربی کہاں ہے؟‘‘

            بہرحال اپنا سا منہ لے کر جیب میں وہی رقم ڈال جس کا جیسے تیسے جتن کر پائے تھے مرے مرے قدموں سے سوئے وار چلے۔ عجیب ایمان افروز نظارہ تھا۔ بکروں پر بکرا اور مومن پر مومن پڑ رہا تھا۔ ایک سے ایک طرح دار بکرا دعوت نگاہ دے رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   ترے ہاتھ میں مرا ہاتھ ہو۔ محمد عظیم الدین۔ ماہنامہ شگوفہ نومبر ۱۹۹۶ء

               ۹۰۔ محمد عمران اعظمی

            محمد عمران اعظمی کو حالات و تحریر کے ارتباط میں کمال حاصل ہے۔ اور یہی صحیح انشائیہ نگار کی پہچان ہے۔ ان کی شگفتہ تحریر والا یہ انشائیہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’زباں درازی، سخت کلامی، بد کلامی، دریدہ دہنی، فحش گوئی، دشنام طرازی، بد گوئی اور تیز گفتاری کا سیدھا سادا نام ہماری روزمرہ کی زبان میں ’’گالی‘‘ ہے۔ اس گالی کو لوگ ’’ادب عالیہ‘‘ یا ’’ملفوظات عالیہ‘‘ یا ’’مغلظات‘‘ بھی کہا کرتے ہیں۔ ہر زہ سرائی اور یاوہ گوئی تو بکواس کا نام ہے مگر کبھی کبھار ان کی سرحدیں بھی گالی سے مل جاتی ہیں۔ شرفاء عام طور سے گالی سے اجتناب کرتے ہیں لیکن نچلے طبقے کے لوگ، بی پی سے متاثر لوگ، تنک مزاج، غصہ ور اور درون خانہ قیامت برپا کرنے والی خواتین اس فن کا بر محل و بے محل استعمال کرتی ہیں۔ بالا نشینان عالم بھی جب غصے میں آتے ہیں تو وہ اپنی سطح سے نیچے گر جاتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء کی عراق کویت جنگ کے دوران مادام تھیچر اور برادر صدام حسین کے درمیان مغلظاتی مشاعرے ہوتے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے جواب میں اس مظلوم جانور کی عزت بڑھاتے تھے جسے ہم کتا یا کتیا کہتے ہیں۔ خوبصورت انگریز خواتین اپنے نکھٹو شوہروں کو ’’ڈرٹی سوائن‘‘ کے لقب پر افتخار سے نوازتی ہیں اور تند خو عرب بیویاں اپنے عباپوش شوہروں کو ’’کلب‘‘ (کتا) سے مخاطب کر کے بڑی مسرت اور سرشاری محسوس کرتی ہیں۔ بہت سے اردو، فارسی اور عربی شعراء نے بھی اپنی محبوباؤں کی دریدہ دہنی کو اپنے کلام میں باندھا ہے۔ اس فن دشنام طرازی کا عصری پرتو ہمیں پارلیمنٹ میں بھی نظر آتا ہے لیکن معیار ضرور اونچا رہتا ہے۔ مقامی اسمبلیوں میں یہ فن جب برپا ہوتا ہے یا کیا جاتا ہے تو معیار انتہائی پست ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا۔ محمد عمران اعظمی۔ ماہنامہ شگوفہ نومبر ۲۰۱۰ء

 

               ۹۱۔ اسد رضا

            اسد رضا اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ جدیدیت سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں کیونکہ رسالہ بزم سہارا کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ کئی مختلف عنوانات پر وقتاً فوقتاً اپنی تحریر کی چھاپ چھوڑتے ہیں اور حالات حاضرہ پر چوٹ بھی لگاتے ہیں۔ ان کی یہ تازہ تحریر ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل ہم بازار سے کچھ خریدی کر رہے تھے کہ استاد سے ملاقات ہو گئی۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ ایک نئی سرمئی شیروانی میں کافی جچ رہے تھے، پچکے ہوئے گال بھر گئے تھے، جیب کے ساتھ ساتھ ان کا جسم بھی بھاری لگا۔ بڑی محبت سے ہمیں گلے لگایا۔ اپنی اے اسٹار کار دکھائی اور پھر کار میں بٹھا کر ہی ہمیں شہر کے ایک مہنگے ریستوران میں چائے پلانے لے گئے۔ ہم نے کہا ’’استاد ایسا لگتا ہے کہ ملک میں اردو کی حالت چاہے جتنی خراب ہو لیکن اردو ادیبوں کا حال بہرحال اچھا ہونے لگا ہے۔ ‘‘ مسکرا کر فرمایا۔ ’’ارے جناب! آپ کا ای اصلاح شعر کا نسخہ بہت کامیاب ثابت ہوا۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں آپ کی اور اس نسخہ کی بدولت ہی ہوں۔ ‘‘ ہم نے شرارتاً کہا:

اردو کے کاروبار نے تم کو بنا دیا

            استاد نے فوراً گرہ لگائی:

میخوار ورنہ شہر میں کچھ بھی نہیں تھے تم

            اور پھر ہماری جانب پستے والی برفی کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے مسکرا کر نعرہ لگایا۔ ’’ای اصلاح شعر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندہ باد‘‘ ہم نے برفی کا ایک ٹکڑا اٹھا کر جب منہ میں رکھ لیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے ہم برفی نہیں ’’ای اصلاح شعر‘‘ کا مزا لے رہے ہیں۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱۔   ای۔ اصلاح شعر۔ اسد رضا۔ ماہنامہ شگوفہ نومبر ۲۰۱۰ء

               ۹۲۔ نسیمہ تراب الحسن

            نسیمہ تراب الحسن حیدر آباد سے اپنی شگفتگی کی پھلجڑیاں چھوڑتی رہتی ہیں۔ ان کی تحریر مرکز کے اطراف برابر گردش کرتی رہتی ہے۔ ’’غلط فہمی‘‘ ان کا یہ انشائیہ اس خیال کی تصدیق کرتا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مذہبی لوگوں کی غلط فہمی انہیں جنت کا پاسبان بنا دیتی ہے۔ عبادت الٰہی بے شک اہم اور بنیادی فرض ہے لیکن اللہ نے دوسرے جو احکامات دئیے ہیں ان کی تعمیل کا ان عبادت گزاروں کو خیال ہی نہیں رہتا۔ وہ بیوی کے ساتھ بدسلوکی، حق تلفی، ناانصافی کی سب روایتیں جائز سمجھتے ہیں۔ جب دل چاہے طلاق، دوسری پھر تیسری شادی کرنے کی سند انہیں مذہب سے حاصل رہتی ہے، بچے پیدا کرنا تو مردانگی کا ثبوت ہے لیکن بیوی بچوں کو لا وارث بنا کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑنے والوں کو یہ غلط فہمی رہتی ہے کہ عبادتوں کے سہارے ہم اللہ سے اپنے گناہ معاف کروالیں گے۔ اس خوش فہمی میں مبتلا افراد چند عبادتوں کی بنیاد پر زہد و تقویٰ کا سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

            ۔ ۔ ۔ ۔ غلط فہمی سے کبھی پر لطف باتیں بھی ظہور پذیر ہو جاتی ہے۔ ایک مرتبہ میں اپنے شوہر کے ساتھ پیدل آ رہی تھی۔ وہ تیز چلتے ہیں اور اکثر میں پیچھے رہ جاتی ہوں۔ لاکھ سمجھایا ذرا آہستہ چلا کیجیے اگر مجھے ٹھوکر لگی، گر پڑی تو سڑک والے اٹھائیں گے آپ کو خبر بھی نہ ہو گی مگر انہوں نے اس پر دھیان نہ دیا۔ اس دن بھی وہ آگے نکل گئے لیکن تھوڑی دیر میں واپس آ کر کہنے لگے ’’آپ سڑک پر مجھے جوتے کھلوائیں گی۔ میں اسی خیال میں تھا کہ آپ ساتھ چل رہی ہیں اور میں نے کچھ کہا تو ساتھ والی خاتون کو غلط فہمی ہوئی کہ میں انہیں چھیڑ رہا ہوں، وہ مجھ پر برس پڑیں، تب مجھے احساس ہوا کہ آپ نہیں ہیں ‘‘ اب میں ہنسنے کے سوا کیا کرتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   غلط فہمی۔ نسیمہ تراب الحسن۔ ماہنامہ شگوفہ دسمبر ۲۰۱۰ء

               ۹۳۔ سکندر حمید عرفان

            سکندر حمید عرفان کھنڈوہ مدھیہ پردیش سے اپنی انشائیہ نگاری کی پھلجڑیاں بکھیرتے رہتے ہیں۔ ان کا تازہ انشائیہ ’’سفر ملاحظہ فرمائیے۔

            ’’انسان کی زندگی کا دوسرا نام سفر ہی تو ہے۔ اپنی پیدائش سے لے کر موت کی منزل تک وہ سانسوں کے رتھ پر سوار سفر کرتا ہے۔ سانسوں کا یہ رتھ دھیمی دھیمی رفتار سے چلتا ہوا زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔ اور اس سفر کا اختتام موت کی منزل پر ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں سانسوں کا سفر ختم ہو گیا۔ سفر کا یہ فلسفہ بھی عجیب ہے۔ سفر کا یہ سلسلہ ازل سے لے کر بدستور چلتا رہے گا۔ جب سے حضرت آدم اور بی بی حوا نے جنت سے نکل کر دنیا تک کا طویل سفر کیا تھا تب سے لے کر آج تک سفر انسان کا مقدر بن چکا ہے۔ انسان پیدائش سے جب اپنا سفر شروع کرتا ہے تب ہی سے وہ ریٹرن ٹکٹ بھی ریزرو (Reserve) کروا کر آتا ہے۔ یہ ریزرویشن انتہائی ضروری ہوتا ہے کیونکہ زندگی کا سفر جہاں سے شروع ہوتا ہے اس کا اختتام بھی وہیں پر ہوتا ہے۔

            دنیا ایک مسافر خانہ ہے۔ لوگ مسافر بن کر یہاں دیر دیر ٹھہرتے ہیں اور پھر اس جگہ واپس ہو جاتے ہیں جہاں سے آئے تھے۔ زندگی صرف ایک راستہ کا سیدھا سادا سفر ہے۔ اس راستہ سے ملحق کئی پگڈنڈیاں ہیں۔ خوبصورت حسین پگڈنڈیاں جنہیں ہم آسودگی، سکھ چین اور خوشی کا نام دیتے ہیں۔ کئی خاردار ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں جنہیں دکھ درد، غریبی، بدحالی، بیماری اور تکالیف سے معنون کیا جاتا ہے۔ انسان اپنے حالات کے موافق ان راستوں کا سفر اپنے حساب سے کرتا ہے۔ یوں کہیے کہ بہرحال اسے طے کرنا پڑتا ہے۔ ۔۔‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   سفر۔ سکندر حمید عرفان۔ دو ماہی گلبن لکھنؤ نومبر/دسمبر ۲۰۱۰ء

               ۹۴۔ ڈاکٹر شاہدہ صدیقی

            ڈاکٹر شاہدہ صدیقی سونے بہادرہ یو پی سے اپنی تحریر کی جھلکیاں پیش کرتی رہتی ہیں۔ ان کے انشائیہ اختصار میں بھی سمندر کی وسعت رکھتے ہیں۔ سماج کے فرسودہ رسومات پر چوٹ کرتے ہوئے ان کا یہ انشائیہ ملاحظہ فرمائیے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دائرہ دوستی وسیع ہونے پر قرعہ اندازی بھی کرنی پڑتی ہے۔ پھر جنہیں باراتی بننے کی سعادت حاصل ہوتی ہے ان کے لیے دعوت ولیمہ کے کارڈ کے ساتھ برات میں شرکت کے لیے ننھا سا دعوت نامہ بھی منسلک کر دیا جاتا ہے۔ جس سے وہ عام مدعوئین کی فہرست میں اولین صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایسے براتیوں کی تیاریاں بھی خصوصی ہوتی ہے جیسے جوتے، کپڑے، ٹائی، سوٹ، عطر وغیرہ مانگ کر یا خرید کر استعمال کرنا۔ خواتین کی تیاریوں میں مزید اہتمام شامل ہوتے ہیں جیسے میک اپ اور سجاوٹ کے مختلف لوازمات، زیورات (اصلی، نقلی)، ملبوسات، مہندی وغیرہ۔ پھر بیوٹی پارلر کے چکر یعنی جو بوڑھی کو جوان، جوان کو اور جوان، معمولی شکل کو خوبصورتی میں ڈھال دے۔

            اب ہم بیسویں صدی سے اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں اس لیے ہر چیز کا معیار بدل گیا۔ لوگوں کی اہمیت بدل گئی۔ رشتوں کے معنی بدل گئے۔ ضرورتوں کے حالات بدل گئے۔ وقت کی اوقات بدل گئی۔ پہلے لوگوں کے پاس دوسروں سے ملنے کے لیے سیروں نہیں ڈھیروں وقت ہوا کرتا تھا۔ شادی اور غمی میں شرکت کرنے کے لیے دنوں نہیں ہفتوں صرف کیے جاتے۔ سلام دعا کے بہانے ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کا تانتا لگا رہتا۔ لیکن اب تو، نہ سلام کرنے کو موقع۔ نہ دعا کرنے کی فرصت۔ ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، کیبل، ڈش، ساری مشینوں نے انسانوں کو نظر بند کر لیا کہ ان چیزوں سے نظریں ہٹیں تو پاؤں باہر پڑیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔   براتی حاضر ہوں۔ ڈاکٹر شاہدہ صدیقی۔ ماہنامہ سہارا اکتوبر ۲۰۱۰ء

               ۹۵۔ طالب زیدی

            طالب زیدی میرٹھ اتر پردیش سے وقتاً فوقتاً اپنی شگفتہ تحریریں شائع کرواتے رہتے ہیں اور انشائیہ کے ادب میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کا یہ مندرجہ ذیل انشائیہ نہایت عمدہ ہے۔

            ’’خدا جانے وہ کون سی ساعت سعید رہی ہو گی جب لوٹا معرض وجود میں آیا ہو گا۔ اس کے موجد کا نام اج بھی پردہ اخفاء میں ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ اگر لوٹا ایجاد نہ ہوتا تو دنیائے ہست و بود میں کیا کیا بے لطفی رہتی۔ لوٹے کے ساتھ ساتھ اس کی ٹونٹی بھی کم اہمیت کی حامل نہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ:

یہیں پر ختم ہو جاتی ہیں بحثیں کفر و ایماں کی

            اور واقعی یہ ٹونٹی ہی ہے جو اسے سائنسی ایجاد تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے اور اسی کے سبب مونث کو مذکر کا درجہ عطا ہوتا ہے یعنی لٹیا سے لوٹے تک کا سفر اس کی ٹونٹی کا مرہون منت ہے۔

            جب قومیں زمین ہار جاتی ہیں، سلطنتیں کھو بیٹھتی ہیں تو زبان کے سہارے احساس تفاخر کو زندہ رکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہمارا لوٹا ان کی لٹیا کے مقابلہ میں مذکر، اصل اور دبنگ ہے۔ اور تو اور ملبوسات میں بھی باریکیاں نکالی جاتی ہیں کہ ہمارا تہبند ان کی دھوتی بر بنائے صیغہ مذکر اولی ہے۔ شاید ایسی باتیں سن کر اقبال نے قوم کو ڈانٹ لگائی تھی:

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔۔۔۔‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   براتی حاضر ہوں۔ ڈاکٹر شاہدہ صدیقی۔ ماہنامہ سہارا اکتوبر ۲۰۱۰ء

 

               ۹۶۔ انجم عثمانی

            انجم عثمانی کی جاندار اور شگفتہ تحریر میں بہت حد تک انشائیہ کی خصوصیات بھری ہوتی ہیں لیکن اس میں ایک نئی خوشبو بھی پائی جاتی ہے جو قاری کو ایک رپورتاژ کا بھی پتہ دیتی ہے۔ ان کا یہ تازہ انشائیہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غالب اکیڈمی ہو، دور درشن ہو یا اسی طرح کا کوئی اور بغیر چشم، بنا شہر کا آشوب، ایسی جگہوں پر کام کرنے والے کو اتنے مشاعرے سننے پڑتے ہیں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اچھا خاصا غبی اور شقی الذہن بن جاتا ہے۔ نتیجہ میں اس کے معمولات کا ردیف و قافیہ اکثر تنگ اور خود زندگی بحر سے خارج ہونے کے اندیشے سے دوچار رہتی ہے۔ ایسے اندیشوں کے درمیان رزق حاصل کرنے والے شخص سے غلطیاں سرزد ہونے کے امکانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ توقع کے عین مطابق شگفتہ نگاری کا صحیح حکم نامہ غلط آدمی پر صادر ہو گیا۔ کہاں ہم پیدائشی افسردگی کہاں شگفتگی؟ مگر اس کو کیا کیجیے کہ فی زمانہ شگفتگی اور افسردگی کے درمیان اتنا کم فرق رہ گیا ہے کہ کسی کا خط کسی کے پتے پر بھی جا سکتا ہے۔

            دراصل ہر شہر اور ہر علاقے میں دو ایک لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جنہیں ادبی ہنگاموں کا کبھی ضرورتاً کبھی عادتاً غلغلہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہ ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر پھینک کر کنارے ایسے کھڑے ہو جاتے ہیں جیسے انہوں نے کچھ کیا ہی نہ ہو۔ لہریں آپس میں سر پھوڑتی رہتی ہیں، یہ غیر متعلق سے کھڑے مسکراتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ کسی کو ورکشاپ پر بٹھا دیتے ہیں، کسی کے پیچھے سیمینار لگا دیتے ہیں غرض کہ اتنا ادب پلاتے ہیں کہ تخلیق کی پتھری اپنے مرکز سے ہٹ کر اخراج کے مختلف راستے تلاش کرنے لگتی ہے۔ چنانچہ فی الحال ہم بھی اسی کرب میں مبتلا ہیں اور عادتاً اس کرب میں آپ کو بھی شریک کر لیا ہے۔ اب یہ آپ کی قوت برداشت اور سامعانہ نگہداشت پر منحصر ہے کہ آپ کس حد تک پتھری کو پتھر میں متبدل ہونے سے روک پاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘۱

۔۔۔۔۔۔۔

۱۔   شگفتگی کی تلاش میں۔ انجم عثمانی۔ ماہنامہ شگوفہ نومبر ۲۰۱۰ء

               ۹۷۔ پروفیسرمقبول فاروقی

            پروفیسر مقبول فاروقی اردو ادب کے مایہ ناز ادیب ہیں۔ اکثر ان کے مضامین نظر آتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ان کی خوبصورت تحریر کی زندہ  مثال ہے۔ ملاحظہ کریں۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک زمانہ تھا جب انگریزوں کی اقبال ویسا ہی بلند تھا جیسا آج امریکہ کا ہے۔ سنتے آئے ہیں کہ انگریزوں کی سلطنت پر کہیں سورج غروب ہی نہیں ہوتا تھا۔ آج امریکہ کا آفتاب اقبال بھی کہیں غروب ہونا نظر آتا نہیں۔ ویسے لوگ اس ’’غروب آفتاب‘‘ کا دلفریب منظر دیکھنے کے لیے بڑی بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ جہاں تک اپنی اصلی سرحدوں میں محصور ملک امریکہ کا سوال ہے تو وہاں پر ہر روز سورج غروب ہوتا ہے لیکن امریکی فوجوں پر اور اس کے میزائل بردار بحری بیڑوں پر جو کسی مہلک مرض کے جراثیم کی طرح دنیا کے گوشے گوشے میں بلکہ رگ ر ریشے میں سرایت کر گئے ہیں، سورج کیسے غروب ہوسکتا ہے؟ دراصل امریکہ کرہ ارض کے ان تمام دفینوں پر پہنچنا چاہتا ہے جہاں تک انگریز نہیں پہنچ پائے تھے۔ اس سلسلے میں امریکہ بالکل سنجیدہ ہے اور اپنی راہ میں کسی رکاوٹ کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ جب انگریزوں کا آفتاب اقبال نصف النہار پر تھا تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دن دہاڑے انہوں نے اپنے محکوم ممالک میں لوٹ مار مچا دی اور جب سب کنگال ہو گئے اور دہائیاں دینے لگے تو واپسی کی ٹھانی اور جاتے جاتے انگریزی زبان، انگریزی لباس اور کرکٹ کا تحفہ دے کر گئے کہ لو تم بھی کیا یاد کرو گے۔ خاص طور پر انگریزی زبان اور کرکٹ کی روایت کو اس قدر مستحکم کر دیا کہ اب ان دونوں پر کہیں سورج غروب ہوتا نظر نہیں آتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔
۱۔   امریکہ کرکٹ کے میدان میں۔ پروفیسر مقبول فاروقی۔ ماہنامہ شگوفہ نومبر ۲۰۱۰ء

               ۹۸۔ واجد ندیم

            واجد ندیم گو کہ حیدر آباد سے تعلق رکھتے ہیں لیکن فی الحال شکاگو امریکہ میں مقیم ہیں لیکن وہاں رہ کر بھی ہندوستان کے ادبی سرمائے میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان کا یہ انشائیہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’مہربان کس کے نہیں ہوتے؟ آپ کے بھی ہوں گے ہمارے بھی ہیں۔ معاشرہ میں رہتے ہیں تو مختلف لوگوں سے ملنا جلنا اور اٹھنا بیٹھنا پڑتا ہے۔ ان کے خلوص اور محبت نے ہمیں ان کا گرویدہ بنالیا اور شاید ذہن کے پردہ پر ان ہی کی تصویر ہے جس نے ہم سے یہ شعر کہلوایا ہے:

ان سے مل کر آپ بھی دیکھیں ذرا

ہو گئے ہم بندہ بے دام کیوں

            چند ایک کو تو اردو ادب اور شاعری کا بڑا شوق ہے۔ ہمارے افسانے اور مضامین پڑھتے ہیں تو تعریف کے پل باندھتے ہیں اور شاعری پر تو سر دھنتے ہیں۔ کچھ تو اسی شہر میں رہتے ہیں اور کچھ شکاگو کے باہر دوسرے شہروں میں۔ جو اسی شہر میں رہتے ہیں ان کو تو ہماری نگارشات، جو مقامی اخباروں میں شائع ہوتی ہیں پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جو دوسرے شہروں میں رہتے ہیں ان میں ہمارے ایک ایسے مہربان ہیں جن کا تقاضا یہ رہتا ہے کہ کسی اخبار میں ہماری کوئی چیز شائع ہو تو انہیں وہ اخبار یا اس کا تراشہ بھیجا جائے۔ ایسا ہم کرتے بھی ہیں، کون نہیں چاہتا کہ لوگ ان کی تحریر پرھ کر یا ان کی شاعری پڑھ کر یا سن کر داد نہ دیں ( چاہے وہ کتنی ہی غیر معیاری کیوں نہ ہو) اپنی اولاد سبھی کو پیاری ہوتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ یہاں اولاد کا کیا ذکر؟ کہتے ہیں کہ یہ جو نظم و نثر کی شکل میں تخلیقات ہیں وہ اولاد معنوی ہیں اور یہ اس کے خالق کو بے حد پیاری ہوتی ہیں۔ کسی کالے کلوٹے اور واجبی شکل و صورت کے بچے کو دیکھ کر آپ کہیں بہت کیوٹ Cute ہے تو اس کی ماں کا چہرہ مسرت سے کھل اٹھتا ہے۔ تو پھر ہم اپنی اولاد معنوی ( وہ چاہے کتنی ہی بھونڈی کیوں نہ ہو) کی تعریف سن کر کیو ں نہ خوشی سے پھولے سمائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے۔ واجد ندیم۔ ماہنامہ شگوفہ ستمبر ٍ۲۰۱۰ء

               ۹۹۔ رؤف خوشتر

            رؤف خوشتر گزشتہ کئی سالوں سے ادب کے میدان کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ان کے انشائیے اور مضامین سادگی کے ساتھ ساتھ گہری معنویت سے بھرے ہوتے ہیں۔ ان کا تازہ انشائیہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندر کی بات یہ ہے کہ باہر ہونے کا عمل آدم اور حوا کے مشترکہ طور ثمر ممنوعہ کے چکھنے کے دن سے ہی شروع ہوا۔ اور وہ دونوں جنت سے باہر ہو گئے۔ باہر ہونے کے اس پہلے ایک روزہ میچ کا کوچ ظاہر ہے شیطان تھا جو اپنی ایک نافرمانی کی وجہ سے ہمیش ہمیشہ کے لیے جنت سے باہر ہو گیا تھا۔ وہ آج بھی جبر ی کوچ بن کر نسل آدم کو صراط مستقیم سے بھٹکا کر جنت سے باہر رکھنے کے درپے ہے۔ گویا باہر ہونا آدم اور پھر آدم کی اولاد کا مقدر ٹھہرا۔ اور اس مقدر کو مقدور بھر بروئے کار لانے کے لیے انسان کبھی بے جگری سے، کبھی بے خبری اور کبھی بے صبری میں ایسی ایسی حرکتیں کر بیٹھتا ہے کہ اس کو باہر ہونا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ خالق نے ہابیل اور قابیل کے زمانہ سے ہی اس دنیا کا نظام مسابقتی سطح پر رکھا ہے جس میں دو میں سے ایک کو باہر ہونا پڑتا ہے۔ خواہ خوشگواری سے ہو یا ناخوشگواری سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔    باہر ہونا۔ رؤف خوشتر۔ ماہنامہ شگوفہ ستمبر ۲۰۱۰ء

               ۱۰۰۔ سلیم مقصود

            سلیم مقصود کا خاندانی نام مرزا فرحت اللہ بیگ اور قلمی نام سلیم مقصود ہے۔ عثمانیہ سے ایم۔ اے مکمل کیا۔ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ حال مقیم جدہ سے اپنے ادب کی چنگاریاں بکھیرتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریر سادہ اور شگفتہ ہوتی ہے۔ ان کا یہ انشائیہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’خواجہ صاحب خود کشی کے لیے سای چیزوں سے لدے پھندے تیار ہو گئے۔ انہیں دیکھ کر مشتاق احمد یوسفی کے مرزا کی یاد ذہن میں تازہ ہو گئی جو کرکٹ کا میچ دیکھنے ایسی ہی سج دھج سے جایا کرتے تھے۔ خواجہ صاحب سر سے پاؤں تک کھانے کی چیزوں میں لدے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی چائے کا تھرماس اور ٹیپ ریکارڈر بھی رکھ لیا تھا۔ بیوی اور بچوں نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ بلکہ بیوی نے تو آج اسی خوشی کے موقع پر صدہا قسم کے پکوان بنائے تھے۔ گھر میں عید کا سا سماں تھا۔ کسی نے خواجہ صاحب کو روکا نہیں۔ بلکہ رشتہ داروں نے انہیں گھر سے ایسے رخصت کیا جییس وہ ترقی پر ایک مقام سے دوسرے مقام کو جا رہے ہوں۔ میرے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ میں نے ان کی بیگم سے پوچھا ’’بھئی خیر! خواجہ صاحب خود کشی کیوں  کرنا چاہتے ہیں ؟‘‘ ان کی اہلیہ نے الٹا سوال داغ دیا ’’آپ جینا کیوں چاہتے ہیں ؟‘‘

            ہم کوئی جواب نہ دے سکے۔ کیونکہ ہم جس دور میں جی رہے ہیں اس میں زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بچوں سے بھی ہم نے وہی سوال پوچھ لیا۔ جو خواجہ صاحب کی بیگم سے پوچھ چکے تھے۔ جواب ملا۔ ’’ابا یہ کوشش کوئی دس سال سے کر رہے ہیں۔ آج تک نہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ سیدھا ریلوے لائن پر جاتے ہیں۔ اور پٹریوں کے درمیان شطرنجی بچھا کر لیٹ جاتے ہیں۔ مگر بھلا ہو ان ٹرینوں کا آج تک کوئی ٹرین وقت پر نہیں آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   احتجاج۔ سلیم مقصود۔ ماہنامہ شگوفہ خلیج نمبر جون ۲۰۰۴ء

               ۱۰۱۔ سید نصرت

            سید نصرت کا تعلق حیدر آباد دکن کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے زندہ دالان حیدر آباد کے ادبی اجلاسوں میں مضامین سناچکے ہیں۔ مزاج میں حد درجہ شوخی و بذلہ سنجی ہے۔ پچھلے کئی سال سے ابو ظبی میں مقیم ہیں۔

            ’’رونا ہر انسان کا پیدائشی حق ہے جسے وہ پیدا ہونے سے پہلے لے کر ملک الموت سے مصافحہ کرنے تک بے تحاشہ استعمال کرتا ہے! رونے کی بنیادی وجہ ایک نومولود کے پاس بھوک، نوجوان کے پاس شادی شدہ زندگی اور بوڑھوں کے پاس یاد ایام جوانی ہوتی ہے! بچوں کے رونے دھونے کے انداز سے ہم اس بات کا بخوبی انداز لگا سکتے ہیں کہ اس بچے کا مستقبل کیا ہو گا، چنانچہ جو بچے اوزان میں روتے ہیں، یعنی سر تال میں آواز کے اتار چڑھاؤ اور مرکبوں سے اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ رونا نہ صرف ایک آرٹ ہے بلکہ دوسروں کو متوجہ کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے تو سمجھ لیں کہ ایسے بچے بڑے ہو کر ضرور مترنم شاعر بننے والے ہیں یا ’’موسیقی‘‘ کے شعبے سے وابستہ ہوں گے۔ اسی طرح جو بچے دھیمے سروں اور ہلکے ہلکے احتجاجی طریقوں سے رو رو کر اپنی ماؤں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بڑے ہو کر ناول نگار یاافسانہ نگار بن جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔۔

۱۔   یوں ہی گر روتا رہا۔ سید نصرت آرکیٹیکٹ۔ ماہنامہ شگوفہ خلیج نمبر جون ۲۰۰۴ء

               ۱۰۲۔ شاہین نظر

            شاہین نظر گیا بہار سے لکھتے ہیں۔ اپنا تعارف خود کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔

            ’’شاہین نظر ولد قیوم اثر (مرحوم) ساکن گیا (بہار)پیشے کے اعتبار ے ’’ورکنگ جرنلسٹ‘‘ اور مزاجاً ادیب (نان ورکنگ!) لکھنے لکھانے (موقعہ ملے تو بولنے) کا شوق خاندانی (بیماری) ہے۔ اسکول کے زمانے سے مضامین اور کہانیاں لکھ رہا ہوں۔ طبیعت مزاح کی طرف مائل ہے۔ حسرت ہے کہ شاعری بھی کروں مگر کوشش کے باوجود ایک شعر بھی موزوں نہیں ہوسکا۔ اپنے ’’غیر شاعر‘‘ ہونے کی اطلاع ہر نئے ملنے والے کو ضرور دیتا ہوں تاکہ اپنے تعلق سے اس کی پریشانی دور کرسکوں۔ تقریباً بیس سالوں سے انگریزی صحافت سے جڑا ہوں لہٰذا ٹائمز آف انڈیا، خلیج ٹائمز وغیرہ سے ہوتا ہوا سعودی گزٹ پہنچا ہوں۔ پچھلے دس سالوں سے جدہ میں مقیم ہوں اور یہاں کی علمی اور ادبی محفلوں میں شرکت (اور زیادہ تر دوسروں کو خاموشی سے سننے) کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہوں۔ ‘‘

            ان کا یہ انشائیہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’آدمی اور گدھے میں فرق یہ ہے کہ گدھا صرف گدھا ہوتا ہے جبکہ آدمی ’’اشرف الگدھا‘‘ ہوتا ہے۔ کسی کو یہ اصطلاح ثقیل معلوم ہو تو سمجھانے کے لیے آسان اردو میں ’’سوپر گدھا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ آدمی کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ جب چاہے گدھا بن سکتا ہے جبکہ گدھا کسی بھی حالت سے آدمی نہیں بن سکتا۔

            آدمی کو ذرا بھی موقع ملے تو دوسرے کو گدھا بنانے سے نہیں چوکتا۔ بے چارے گدھے کی کیا مجال کہ کسی گدھے کو آدمی بنا سکے۔ آدمی جب چاہے کسی گدھے کو اپنا باپ بنا سکتا ہے (بلکہ بنا ہی لیتا ہے) گدھا چونکہ بالکل ہی گدھا ہوتا ہے اس لیے بھی کسی آدمی کو اپنا باپ نہیں بنا پاتا۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   آدمی اور گدھا۔ شاہین نظر۔ ماہنامہ شگوفہ خلیج نمبر جون ۲۰۰۴ء

 

               ۱۰۳۔ نعیم جاوید

            نعیم جاوید کا تعلق حیدر آباد دکن سے ہے۔ طالب کے دور سے ہی لکھنے پڑھنے کا چسکا ہے۔ انشائیے، ڈرامے، افسانے، خاکے، تاثرات، ہر طرح کے نثری مضامین لکھتے رہے ہیں۔ مزاج میں شگفتگی ہے اور طنز و مزاح کی جانب مائل ہیں۔ بہت اچھے کمپیئرر بھی ہیں۔ جدہ کی ادبی محفلوں میں اکثر شریک رہتے ہیں۔ کبھی کوئی مضمون سنائیں گے اور کبھی تقریر یا نظامت پر اکتفا کریں گے۔ ان کی تحریریں سماجی شعور کی حامل، علامتی اور غور و فکر کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ فرش کی صفائی کے بعد ہم نے سنجیدگی سے انڈا تلا جس سنجیدگی سے مرغی نے بھی انڈا نہیں دیا ہو گا۔ انڈے کو مٹھیوں میں بھینچ کر سیاہ Pan کے سر پر دے مارا پھر سہولت سے انڈے میں تیرتی ہوئی کافوری پیاکنگ کو انگلیوں سے چن چن کر الگ کیا۔ پھر بڑے حوصلے سے چولہا سلگایا لیکن حیرت ہوئی کہ انڈے کی زردی کا رقص اس انداز کا نہیں تھا جس انداز کا رقص بیگم کے اشارے پر کبھی انڈے اور کبھی ہم کیا کرتے تھے۔ پھر ہم نے ایک سڈول کفگیر لے کر انڈے کے پہلو کو بدلنے کی کوشش کی لیکن انڈا عجیب بدقماش تھا وہ سالم کفگیر سے چمٹ جاتا تھا۔ ہمیں احساس ہونے لگا کہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔ غالباً اس میں گھی تیل کی کمی رہ گئی۔ پھر آناً فاناً پورے انڈے کی بو سارے گھر میں پھیل گئی۔ سفید چمکتا ہوا انڈا سیاہ Pan کے سینے سے چمٹ گیا۔ غالباً اسے کہتے ہیں تہذیبی انضمام وہ بھی جبری۔ اس دوران ہمیں شدید احساس ہوا کہ برہمن کو انڈے کی بو اسی لیے بری لگتی ہو گی یقیناً رواداری میں کوئی فنی کھوٹ ضرور رستا ہے جس کے نتیجے میں آپسی بدبو دور تک پھیلتی ہے۔ اب ہم نے اس تباہ حال انڈے کو زندہ پانی میں سیراب کیا۔ اس زخمی انڈے نے ہمیں تلگو اور ہندی کے برہمن اساتذہ کی یاد دلا دی۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   نئی نویلی گر گرہستی۔ نعیم جاوید۔ ماہنامہ شگوفہ خلیج نمبر جون ۲۰۰۴ء

               ۱۰۴۔ ڈاکٹر مرزا کلیم اللہ بیگ

            ڈاکٹر مرزا کلیم اللہ بیگ کی تحریر نہایت صاف و شستہ رہتی ہیں۔ انشائیہ کے تمام اوصاف ان کی تحریر میں نظر آتے ہیں۔ گاگر میں ساگر کو سمونے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ ان کا یہ انشائیہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کرسی کبھی کسی کو اعلی مقام دیتی ہے، رتبہ دیتی ہے تو کبھی موت سے بھی دوچار کرتی ہے۔ عام طور سے آدمی کو کرسی میں آرام ملتا ہے زندگی ملتی ہے مگر مجرموں کو الیکٹرک کرسی سے موت ملتی ہے بلکہ نجات حاصل ہوتی ہے۔ ٹرین کی کرسی یا کرسیوں کی بڑی مانگ رہتی ہے۔ بغیر ریزرویشن کے کرسی چاہیے تو قلی کو رشوت دینی پڑتی ہے۔ ایک کرسی پر دو دو تین تین آدمی بیٹھتے ہیں۔ ایک بار نینی تال جانا ہوا۔ متھرا سے ہمارا ریزرویشن نہیں تھا۔ کمپارٹمنٹ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ٹی ٹی جب اس ڈبے میں آیا تو وہ ہر اس آدمی سے جس کے پاس ریزرویشن نہیں تھا ۴ روپے لیتا اور ۲ گھنٹے بیٹھنے کی اجازت دیتا۔ جیسے ہی دو گھنٹے ہو گئے وہ کہتا بھائی صاحب آپ کا وقت ہو گیا۔ آپ اٹھ جائیے۔ دوسرے بھائی صاحب کو بٹھانا ہے۔ یہ ٹی ٹی مجھے ان بروکر عورتوں کی طرح لگا جو گھنٹوں کے حساب سے عورتوں کا دھندا چلاتی ہیں یا اس مذہبی ایجنٹ (مقرر) سیوگاٹ کی طرح جو مومنٹ کے حساب سے اپنی فیس وصول کرتا ہے۔

            کہتے ہیں کہ اگر کوئی بڑا آدمی اپنی کرسی خالی کر دے تو کوئی دوسرا بیٹھ جاتا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ رام کی کرسی ۱۴ سال تک خالی رہی۔ دسرتھ نے اس جگہ پر رام کے جوتے رکھے اور بھائی کا انتظار کرتا رہا۔ جب کہ ْ کل یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک بھائی کرسی پر بیٹھ جائے تو دوسرا بھائی اس کرسی کی ٹانگ کھینچنے میں لگا رہتا ہے۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔   کرسی۔ ڈاکٹر مرزا کلیم اللہ بیگ۔ ماہنامہ شگوفہ خلیج نمبر جو ن ۲۰۰۴ء

               ۱۰۵۔ ہاجرہ بانو

            راقم الحروف نے انشائیہ لکھنے کا آغاز اس وقت کیا جب ذہن میں انشائیہ کا تصور اور مفہوم بھی غیر واضح تھا۔ رفتہ رفتہ اس صنف کی پہچان ہوئی اور تحریر منضبط ہوتی گئی۔ کئی مضامین اور انشائیے لکھے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بسیار خور کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ اول قسم کے تو وہ ہوتے ہیں جو صحیح معنوں میں سو فیصدی بسیار خور ہونے کا حق ادا کرتے ہیں۔ ان کے سامنے کسی بھی قسم کے کھانے کی پلیٹ یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اس کے ذائقے میں کسی قسم کا کوئی نقص یا مین میخ نہیں نکالا جائے گا۔ اسے صرف ہاضمہ کے عمل سے گزرنا ہے۔ اور دنیا میں آنے کے بعد آدم و حوا کے لیے اس کے تمام فرائض کی اب تکمیل ہو چکی ہے۔ مرزا صاحب اس معاملے میں ہمارے محلے کی ناک اونچی کیے ہوئے ہیں۔ وہ نہایت سرخروئی کے ساتھ ہر دعوت میں براجمان ہوتے ہیں اور پہلی صف سے آخری صف تک نہایت ہی خوش اسلوبی سے تمام مہمانوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ ساتھ ہی غذا کے مختلف فوائد پر ان کے مفید لیکچرس سے سب کی معلومات میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ آخری صف میں اچھی طرح تناول طعام کے بعد لمبی سی ڈکار لیکر آسمان کی طرف بلند آواز میں ’’الحمد للہ‘‘ کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ دعوت ہال میں موجود وہ تمام نا شکرے بندے بھی سن لیں جنہوں نے سورہ رحمن کی با غور و با ترجمہ تلاوت نہ کی ہو۔ مرزا صاحب نے یہ طریقہ شکرانہ بچپن ہی میں چڑیوں اور مرغیوں سے اپنایا تھا جسے وہ آج تک صدق دل سے بجاتے آئے ہیں۔ اس طریقہ کار کا حسن اثر یہ ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کا شمار اللہ تعالیٰ کے نیک سیرت بندوں میں ہو جاتا ہے اور ان آنے والی دعوتوں کے رقعہ جات پر ان کا اسم بامسمم ابھرنا شروع ہو جاتا ہے جو وہاں موجود مہمانان کے گھروں میں عنقریب ہونے والی ہیں۔

            بسیار خوروں کی دوسری قسم ان افراد کی ہے جو صرف لذیذ کھانوں کے شوقین ہوتے ہیں۔ وہ حفظان صحت کو ملحوظ رکھنے والے گھاس پھوس جیسے کھانوں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی شناخت کے لیے آپ کو اتنا ہی کرنا ہو گا کہ ان کے سامنے باورچی برادران کا ذکر صرف ایک بار چھیڑ دیجیے پھر دیکھئے۔ وہ کس طرح ایک سے بڑھ کر ایک باورچی کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرتے ہیں۔ کیونکہ شہر کے تمام خوش ذائقہ باورچیوں کے دست فن سے وہ بحسن خوبی واقف ہوتے ہیں۔ ہمارے نہایت دور کے ایک چچا محترم بیگ صاحب اس زمرے میں آتے ہیں۔ وہ جہاں بھی جائیں گے تو سب سے پہلے تو ناک منہ چڑھا کر باورچی خانے کا جائزہ لیں گے پھر اس کے بعد تمام مصالحوں کی تفصیل پوچھیں گے اور پھر اپنی دانست میں خود ہی اطمینان کر لیں گے کہ باورچی نے تمام مصالحوں کو اچھی طرح بھونا اور تلا ہو گا۔ با وقت طعام اپنی پلیٹ سے صرف با مغز، با صحت اور با رونق اشیاء کو نوش فرما کر باقی کو پرے رکھ دیں گے جس طرح امریکہ اقوام متحدہ میں صرف ان مسائل پر تبادلہ خیال کرتا ہے جو صرف اس کے مفاد کے حق میں سینہ سپر ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔   بسیار خوری۔ ہاجرہ بانو۔ ماہنامہ بزم سہارا دہلی ادبی میگزین۔ اکتوبر ۲۰۱۰ء

 

باب پنجم: انشائیہ پاکستان میں

            تقسیم کے فوراً بعد انشائیہ نے پاکستان کے عوام و خواص کو بھی حقیقت کی دنیا کی سیر کرا دی۔ جن میں وزیر آغا، نصیر آغا، داؤد رہبر، جاوید صدیقی، ممتاز مفتی اور امجد حسین وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔

            سماج کے سلگتے مسائل، تقسیم کے بعد کے دکھ درد، اپنوں کے بچھڑنے کا غم، زن، زر، زمین کے کھونے کا چبھتا احساس، مصیبتوں کے پہاڑ سہتے سہتے مشکور حسین یاد، مشتاق قمر، جمیل آذر، غلام جیلانی اصغر نے عوام کو ایک نئی اصلاحی تحریک میں جھونک دیا۔ یہ تمام قدیم روایات کے تابع تھے۔ دوسرے ان کے ہاں منطقی انداز بڑی حد تک پایا جاتا تھا۔ جس کی مدد سے وہ ادب کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔

            ان کے بعد نئے لکھنے والوں میں رام لعل نابھوی، محمد اسعد اللہ، حیدر قریشی، عبدالقیوم، حامد برگی، انجم نیازی، بشیر سیفی، جان کاشمیری، شمیم ترمذی، محمد اقبال انجم، خالد پرویز صدیقی، حنیف باوا، خیرالدین انصاری، پرویز عالم، طارق عباسی، رشید گوریحہ، محمد یونس بٹ، مشتاق احمد، ناصر عباس نیر، ڈاکٹر نعیم احمد، منور عثمانی، محمد بصیر رضا، جاوید اصغر، مختار پارس، صفدر رضا صفی، جاوید حیدر جوئیہ، رعنا صدیقی، اظہر ادیب، راجہ ریاض الرحمان، محمد عامر رعنا، عذرا اصغر، شفیع بلوچ، پروین طارق، یاسین یونس وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں۔

            وقت کے ساتھ ساتھ اصناف کی ہیئت اور اس کے موضوعات بدلتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں انشائیہ اپنی ایک علیحدہ شناخت بناتا ہے اور نہ صرف بناتا ہے بلکہ وہاں اس کی اپنی حیثیت منفرد اور عوام میں شرف قبولیت اس کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ ہم پاکستان میں اس صنف نثر کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں تو جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ وہاں اردو انشائیہ کو ۱۹۸۸ء میں یوں فروغ ملا کہ اس صنف کی ایک کانفرنس لودھرا میں اور ایک سیمینار اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور میں منعقد ہوا۔ انشائیہ کے موضوع پر ٹیلی ویژن نے ایک مذاکرہ کرایا۔ ماہنامہ اردو زبان نے انشائیہ نمبر اور اوراق نے انشائیہ کی بیلو گرافی شائع کی جو ڈاکٹر بشیر سیفی نے بڑی محنت سے مرتب کی ہے۔ ڈاکٹر شفیق احمد نے بھاولپور یونیورسٹی سے انشائیے کی ایک کتاب ’’انتخاب‘‘ شائع کی۔ محمد اقبال انجم کے انشائیوں کا مجموعہ ۲۱ دسمبر ۱۹۸۸ء میں منظر عام پر آیا۔ خیر الدین انصاری، سعید خاں، بہزاد سحر، محمد ہمایوں خان، سلیم ملک، عابد صدیقی، قمر اقبال اور علی اختر کو انشائیہ کے میدان میں ابتدائی تعارف کے بعد استحکام ملا۔ اس اجمال میں مزید یہ عرض کرنا ہے کہ اردو کے ممتاز شاعر شہزاد احمد نے ایک ’’درخت‘‘ کے عنوان سے ایک معرکے کا انشائیہ لکھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی خیال انگیزی ’’پل‘‘ اور جمیل آذر کی نکتہ آفرینی ’’نیکی‘‘، ’’دریا سمندر‘‘ میں ظاہر ہوئے۔ اس سال متعدد اچھے انشائیہ لکھے گئے۔ ان میں سے اکبر حمیدی کا ضمیر کی مخالفت میں اور ’’موڑ‘‘ ارشد میر کا ’’ٹوپی‘‘ اور ’’موڈ‘‘۔ حامد برگی کا ’’عام آدمی‘‘ اور سہ پہر‘‘، انجم نیازی کا ’’فل اسٹاپ‘‘ اور ’’سوچنا‘‘ اظہر ادیب کا ’’گھڑا‘‘ محمد اسد اللہ کا ’’تیسری شادی‘‘ امجد طفیل کا ’’تنہائی‘‘ رشید احمد گوریچہ کا ’’ضرب تفریق‘‘ علی اختر کا ’’گرگٹ‘‘ خیر الدین انصاری کا ’’قاری‘‘ اس صنف کے اچھے اور نمائندہ انشائیے ہیں۔ سلیم آغا قزلباش کا ’’نام میں کیا رکھا ہے‘‘ اس موضوع کا انوکھا زاویہ ابھارتا ہے۔ سلیم آغا نے اس سال انگریزی انشائیوں کے تراجم پر مشتمل ایک کتاب مرتب کی ہے جس کا عنوان ’’مغرب کے انشائیے‘‘ ہیں۔

            مزاح کا ایک بڑا مقصد ہنسی، یا مسکراہٹ پیدا کرنا ہے اور ہنسی کی تحریک کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ۱۹۸۸ء کے ادبی منظر کو دیکھیں تو پیروڈی، رعایت لفظی، ضلع جگت، پھبتی، تضحیک، بذلہ، رمز طنز اور صورت واقعہ سے مزاح پیدا کرنے اور پڑھنے والوں کو بہجت و مسرت کا سامان فراہم کرنے کی کوشش نمایاں نظر آتی ہے اور اظہار کے اس انداز کو جن لوگوں نے زیادہ استعمال کیا ان میں سید ضمیر جعفری، ارشد میر، اقبال ساغر صدیقی، محمد کبیر خاں منظر، نیاز سواتی، سرفراز شاہد، رشید احمد گوریچہ، عاصی کرنالی، سلیمان عبداللہ، مظفر بخاری، ضیاء الحق قاسمی، انور مسعود، دلاور فگار، محمد طہٰ خان، عاصی سعید، ابن الامام شیفتہ، دلیپ سنگھ اور مشفق خواجہ نصر اللہ خان کے نام بہت اہم ہیں اور یہ ۱۹۸۸ء میں قہقہہ بار نظر آتے ہیں۔ راولپنڈی کے ایک رسالہ ’’اردو بنچ‘‘ حیدر آباد پاکستان کے رسالہ ’’ظرافت‘‘ نے بھی انشائیوں کے ذریعے مسکراہٹیں بکھیری ہیں۔

            پاکستان میں اردو انشائیہ آج اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ رخشندہ ستارے کی طرح اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔ حالانکہ اسے وہاں کے ادب میں اپنا مقام بنائے ہوئے صرف چالیس برس کا ہی مختصر عرصہ گزرا ہے لیکن اس کم عرصے میں ہی وہاں کے دور اندیش انشائیہ نگاروں نے اردو ادب کو ایسے نادر موتیوں سے نوازا ہے جنہیں ہم مغرب کے بہترین انشائیوں کی صف میں کھڑا کر کے فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھی بہترین انشاء پردازی کا وصف رکھتے ہیں۔ پاکستان میں انشائیہ کی کامیابی کا اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ انشائیہ کی صنف کے خلاف بالعموم اور اردو انشائیہ کے خلاف بالخصوص ایک اخباری مہم چلائی گئی۔ جواب اردو کے بعض سرکاری ادبی جریدوں میں بھی نظر آنے لگی ہے۔ کسی بھی صنف ادب کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہیے کہ اس کے خلاف رد عمل کی شدت کس قدر ہے۔ انشائیہ اور اردو انشائیہ نے جو شدید رد عمل پیش کیا ہے وہ اب سامنے کی بات ہے۔ تاہم اس رد عمل میں مضمر یا نفرت کی زیریں لہر کا احساس ابھی زیادہ لوگوں کو نہیں ہے۔ لیکن اب وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب رد عمل کا یہ شخصی پہلو قاری پر عیاں ہو گا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو حقیقت میں صنف انشائیہ نگاری کے فروغ کے راستے میں آخری رکاوٹ بھی باقی نہیں رہے گی۔ اور وہ دن دونی رات چوگنی ترقی کے منازل طے کرے گا۔ کیونکہ انشائیہ سے بڑھ کر کوئی دوسری صنف نہیں ہے جو انسان کے بکھرے ہوئے خیالات و تصورات کی بہترین تربیت کاری میں مدد کرسکے۔ جو ہجوم افکار کی سلیقہ مندانہ ترجمانی کرسکے اور ذہنی انتشار کو طمانیت اور آسودگی میں بدل دے۔ یہی اور صرف یہی وہ صنف ادب ہے جہاں بے ترتیب خیالات قوس قزح کے رنگوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جو کمال فن انشائیہ ہے۔

            جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ انشائیہ کے افق پر پہلے صرف وزیر آغا کا ہی نام جگمگاتا نظر آتا تھا۔ یہ تقریباً ۱۹۵۸ء کی بات ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس افق پر کئی اور ستارے جگمگانے لگے۔ محمد اسد اللہ کے ستارے کی چمک دوسروں سے زیادہ تھی۔ جبکہ کئی ستارے بہت جلد اپنی تابناکی بکھیر کر ماند پڑ گئے۔ مثلاً مشتاق قمر، راحت بھٹی، محمود شام، انجم انصاری، پرویز عالم وغیرہ۔ ۱۹۸۴ء انشائیہ کی شعاعیں مزید تابناکی لیے ہوئے نظر آنے لگیں۔ ان شعاعوں میں ڈاکٹر وزیر آغا سے لے کر اظہر ادیب نے اپنی کرنیں بکھیریں۔ انشائیوں کی پہلی باضابطہ کتاب ’’خیال پارے‘‘ کا نیا ایڈیشن پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہوا۔ اپنے خاص منتخب انشائیوں کا ایک نمائندہ مجموعہ سلیم آغا قزلباش نے مرتب کیا اور اسے مکتبہ اردو زبان سرگودہا نے زیور طبع سے آراستہ کیا۔ اس کے بعد رام لعل نابھوی نے اپنے انشائیوں کا مجموعہ ’’آم کے آم‘‘ بھارت سے شائع کیا جو بے حد مشہور اور مقبول ہوا۔ اسی دوران انشائیہ کے افق پر مزید نئے ستارے نظر آنے لگے۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ پرانے ستاروں میں سے غلام جیلانی اصغر نے اپنا انشائیہ ’’تسخیر کائنات‘‘ لکھ کر انشائیہ نگاری کی ایک نئی جہت کی طرف پیش قدمی کی۔ جس کے بارے میں خیر الدین انصاری نے لکھا ہے کہ:

            ’’یہ ایک ایسی تحریر ہے جو ذہن کے گوشوں کو مدتوں تک منور رکھے گی۔ ‘‘

            جمیل آذر کے اظہار کی بنیادی صنف انشائیہ ہی ہے۔ انہوں نے ’’آرٹس سٹوڈنٹس‘‘ اور ’’غیر معروف شہری‘‘ کے عنوان سے دو نہایت ہی عمدہ انشائیے پیش کیے۔ سلیم آغا قزلباش نے ’’آمنا سامنا‘‘، ’’ناریل‘‘ اور ’’انگلیاں ‘‘ یہ تین خیال انگیز انشائیے لکھے۔ ان تینوں میں ’’ناریل‘‘ کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ اکبر حمیدی کا ستا رہ اتنی چمک و تابناکی کے ساتھ سامنے آیا کہ اب غزل ان کے اظہار کی ثانوی صنف نظر آتی ہے۔ انہوں نے ’’گولڈن چانس‘‘، ’’خزاں ‘‘، ’’چھوٹا آدمی‘‘، ’’اترن‘‘ اور ’’پرانے کپڑے‘‘ جیسے بہترین انشائیے پیش کیے اور اپنے انشائیوں کا مجموعہ بھی مرتب کر لیا۔ بشیر سیفی نے اسی موضوع پر اپنا مقالہ لکھا اور ساتھ ہی ’’پھول‘‘ اور ’’کتابیں ‘‘ لکھ کر اپنی تخلیقات بھی پیش کیں۔ تقی حسین خسرو انشائیہ کے افق کا گمشدہ ستا رہ ہیں۔ لیکن چند سال پہلے انہوں نے انشائیہ ’’فٹ پاتھ‘‘ لکھ کر اپنی کرنیں بکھیرنی شروع کر دی۔ پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ سے جان کاشمیری نے اپنی تخلیقات کے ذریعے اسے ’’شہر انشائیہ‘‘ بنا دیا۔ کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے وہاں پہلوانوں کی تعداد کم اور انشائیوں کی تعداد زیادہ نظر آنے لگی ہے۔ جان کاشمیری کا نام یہاں پر سرفہرست ہے۔ جنہوں نے ’’شادی‘‘، مسکراہٹ‘‘ اور ’’لاگ شیٹ‘‘ جیسے دلچسپ انشائیے پیش کیے۔ گوجرانوالہ کا دوسرا درخشندہ ستا رہ یونس بٹ ہے۔ انہوں نے ’’ڈرنا‘‘، ’’کالج کینٹین‘‘، ’’جیل‘‘، ’’سنسنی‘‘ اور ’’کاغذ‘‘ وغیرہ انشائیے لکھے۔ یونس بٹ نے صنف انشائیہ کو روزانہ اخبارات میں مقبول بنانے کا بیڑہ بھی اٹھا رکھا ہے۔ ان کے متعدد انشائیے اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں میں شائع ہوئے۔ اسی شہر کے اورنگ نورنگ ستارے محمد اقبال انجم کا انشائیہ ’’برسوں کی فصل‘‘ اور ’’کتاب‘‘ جیسے انشائیے لکھ کر اپنے رنگوں میں اضافہ کیا۔ گوجرانوالہ سے ہی ممتاز مزاح نگار ارشد مہر نے ’’دھوتی‘‘ جیسا انشائیہ لکھ کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ راولپنڈی سے جمیل آذر اور مشتاق قمر جیسے بڑے ستارے اپنی چمک بکھیر ہی رہے تھے کہ ان کی کرنوں میں نئے ستارے اپنی شعاعوں کے ساتھ نمودار ہوئے جیسے بشیر سیفی، حامد برگی، اکبر حمیدی اور راجہ ریاض الرحمان۔ راجہ ریاض الرحمان نے کئی انشائیے لکھے ان میں ’’کاہلی‘‘، ’’تاش کے پتے‘‘، ’’روح کی غذا‘‘، ’’باتونیوں کے حق میں ‘‘ اور ’’بڑھاپا‘‘ کافی پسند کیے گئے۔ حامد برگی کئی سالوں سے چھپ گئے۔ ان کی کمی امجد طفیل نے پوری کر دی۔ انہوں نے ’’گرفتاری‘‘، ’’موسم‘‘ اور ’’بے تکلفی‘‘ جیسے بہترین انشائیے تخلیق کر کے انشائیے کے افق پر ستاروں کی چمک کو ماند نہیں پڑنے دیا۔ اظہر ادیب جیسا ننھا منا ستا رہ ’’خوشامد‘‘ اور نذیر احمد راہی نے ’’پیدل چلنا‘‘ لکھ کر اس نئی دنیا میں قدم رکھا۔ ان نئے ٹمٹماتے ستاروں میں انور جمال اور تصدق حسین الم بھی شامل ہیں۔ ان کا انشائیہ ’’اخبار بینی‘‘ اور ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘‘ بہت دلچسپی سے پڑھے گئے۔ اسی دوران شمیم ترمذی جیسے دمدار ستارے نے ’’پھوار‘‘ لکھ کر اپنی دم سے کئی ستاروں کی پھوار کر دی۔ اس کے بعد ایک نہایت ہی خوبصورت انشائیہ ’’جھوٹ بولنا‘‘ لکھ کر انہوں نے اس صنف میں اپنا مقام متعین کر لیا۔ محمد اسد اللہ کا انشائیہ ’’ڈائر‘‘ اس صنف میں بھارت کی نمائندگی کرتا ہے۔ سلمان بٹ نے اس دوران اپنی مصروفیات کے باوجود کئی سنجیدہ مضامین لکھے اور ایک بہترین مضمون ’’کچھ عزت کے بارے میں ‘‘ لکھا جس میں انشائیہ کے جوہر موجود ہیں۔ انہیں موضوع منتخب کرنے کا اچھا ملکہ ہے۔ انہیں اگر تھوڑی فرصت ملے تو وہ رابرٹ لینڈ جیسا اخباری انشائیہ تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

            اب ہم چند پاکستانی انشائیہ نگاروں کی تحریریں ملاحظہ کریں گے۔

٭٭٭

 

 

نمبر شمار

بیسویں صدی کے چند اہم انشائیہ نگار

مقام پیدائش

تاریخ پیدائش

تاریخ وفات

۱

وزیر آغا

سرگودھا، پنجاب

۱۸ مئی ۱۹۲۲ء

۲۰۱۰

۲

خامہ بگوش

لاہور پاکستان

۱۹ دسمبر ۱۹۳۵ء

۲۱ فروری ۲۰۰۵ء

۳

ایس ایم معین قریشی

کراچی

۴

مشتاق احمد

۵

جمیل آذر

۶

انور سدید

۴ دسمبر ۱۹۲۸ء

۷

اکبر حمیدی

۱۹۳۶ء

۸

اظہر حسن صدیقی

۹

ڈاکٹر محمد یونس بٹ

۱۰

منیزہ جمال

۱۱

خادم حسین مجاہد

۱۲

سلیم آغا قزلباش

۱۳

حامد برگی

۱۴

حیدر قریشی

۱۳ جنوری ۱۹۵۲ء

۱۵

جان کاشمیری

۱۶

انجم نیازی

۱۰  اکتوبر ۱۹۹۹

۱۷

ناصر عباس نیر

۱۸

جاوید حیدر جوئیہ

۱۹

عطیہ خان

۲۰

انجم انصار

۲۱

رعنا تقی

۲۲

پروین طارق

۲۳

منور عثمانی

۲۴

عبدالقیوم

۲۵

شاہد شیدائی

۲۶

قاضی اعجاز محور

۲۷

محمد بصیر رضا

۲۸

شفیع ہمدم

۲۹

حنیف باوا

۳۰

شجاع الدین غوری

کراچی

 

 

                 ۱۔ وزیر آغا

            وزیر آغا ( ۱۸/مئی ۱۹۲۲ء۔ ۲۰۱۰ء ) کی مشہور تصانیف ہیں : دستک۔ اس دروازے پر۔ گھاس پر تتلیاں۔ اردو شاعری کا مزاج۔ غالب سے اقبال تک۔ صوفی اور تناظر۔ شام کی منڈیر سے۔ لکیریں اور دائرے۔

            وزیر آغا نے انشائیہ کے ادب میں کافی سنگ میل رکھ چھوڑے ہیں لیکن پتہ نہیں ڈاکٹر سلیم اختر ان سے اتفاق نہیں رکھتے۔ ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ:

            ’’پاکستان میں انشائیہ کے فروغ میں ڈاکٹر وزیر آغا خاصا اہم کردار ادا کرسکتے تھے۔ لیکن ان کا Complex یہ ہے کہ وہ صرف اپنی تکنیک میں لکھے گئے انشائیوں کو ہی انشائیہ مانتے ہیں۔ کیونکہ مشتاق قمر اور جمیل آذر نے صرف ان ہی کے رنگ میں لکھا۔ اس لیے وہ تو بہت اچھے انشائیہ نگار ٹھہرے۔ جبکہ نظیر صدیقی (شہرت کی خاطر) اور مشکور حسین یاد کو وہ انشائیہ نگار ہی تسلیم نہیں کرتے۔ حالانکہ اپنے اپنے انداز میں یہ دونوں ہی صاحب اسلوب انشائیہ نگار ہیں۔ مشکور حسین یاد کی ’’جوہر اندیشہ‘‘ میں بہت اچھے انشائیے ہیں۔ وہ عجب لا ابالی انداز سے زندگی اور افراد کی کوتاہیوں کی پردہ دری کرتا ہے۔ اسے زبان پر بھی بہت عبور ہے۔ یہ بلاشبہ انشائیہ میں اہم ترین نام ہے اور اسے ہر لحاظ سے ڈاکٹر وزیر آغا پر فوقیت دی جا سکتی ہے۔ ‘‘

            وزیر آغا، نام ہی اتنا عظیم الشان لگتا ہے تو کام کیوں نہ شایان شان ہو گا۔ یوں تو ہم تعارف میں بہت ساری باتیں لکھتے ہیں لیکن وہ گھسی پٹی ہی ہوتی ہیں اور ہوں گی کیوں نہیں، کیونکہ سارے ہی ادباء کے کوائف تقریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ مقام پیدائش و تاریخ۔ خاندانی پس منظر اور ادبی کارنامے۔ بس یہی کچھ تو سب کے تعارف میں ہم پڑھتے اور لکھتے آئے ہیں۔ لیکن وزیر آغا کا تعارف واقعی نہایت مختلف ہے۔ انہیں انشائیہ کا باوا آدم یونہی نہیں کہا گیا۔ جب میں نے ان کی کتاب ’’شام کی منڈیر سے‘‘ پڑھی تو ان کا دیا گیا تعارف خود ان کے قلم سے پڑھا تو واقعی یہ سمجھ میں آیا کہ ان کی رگ رگ میں انشائیہ نگاری کی خصوصیات بدرجہ اتم رچی بسی ہیں۔ اسی لیے یہ شخص اتنا عظیم الشان انشائیہ نگار بنا ہے۔ میں ان کا تعارف ان کی ہی زبان میں یہاں درج کروں گی جو ان کی اسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے۔

            ’’میرا سفر ۱۸ مئی ۱۹۲۲ کو شروع ہوا۔ میں ضلع سرگودھا (پنجاب) کے ایک دورافتادہ گاؤں میں رات کے پچھلے پہر نازل ہوا۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس وقت کونسا ستا رہ کس برج میں تھی اور کیا واقعی ان ستاروں نے میری قسمت رقم کر دی تھی۔ میرے جنم پر والد صاحب نے ایک پنڈت جی سے میری پتری نکلوائی تھی جسے میری ماں نے محفوظ کر لیا تھا مگر کسی نے اس جنم پتری کو (دیوناگری لپی میں تھی) پڑھوانے کی کوشش نہ کی۔ بعد ازاں خود میں نے بھی کبھی اس بات کی ضرورت محسوس نہ کی۔ حالانکہ جوانی میں مستقبل کے بارے میں جاننے کے لیے انسان بے چین ہوتا ہے۔ یہ جنم پتری آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ اس کے کچھ حصے دیمک نے چاٹ لیے ہیں۔ کچھ حصے کاغذ کا رنگ بدل جانے کے باعث ناقابل مطالعہ ہیں۔ مگر کچھ حصے آج بھی پڑھے جا سکتے ہیں مگر اب مجھے مستقبل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ البتہ یہ جنم پتری مجھے میرے ماضی کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتی ہے۔ مگر جتنا اپنے ماضی کے بارے میں خود مجھے علم ہے اتنا جنم پتری کو کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر آج اسے پڑھوا لوں تو اسے کا مقصد بجز اس کے اور کیا ہو گا کہ پنڈت جی کو سچا یا جھوٹا ثابت کیا جا سکے۔ اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ پنڈت جی کو پرلوک سدھارے اب کتنے ہی جگ بیت چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

            ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی عمر کے پانچویں برس سے پہلے کا کوئی واقعہ میرے ذہن میں محفوظ نہیں ہے۔ میں نے پانچ سالوں پر پھیلے ہوئے اس تاریک بر اعظم میں اترنے کی ہزار کوشش کی ہے مگر مجھے کبھی کچھ دکھائی نہیں دیا۔ البتہ پانچویں برس کے تین واقعات تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سنگ ہائے میل کی طرح ایستادہ ہیں۔ اور میں آج بھی اپنی چشم تصور میں انہیں دیکھ سکتا ہوں۔ پہلا واقعہ تو میرے چھوٹے بھائی کی پیدائش تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ میری ماں سخت بیمار ہے میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میں ماں کے کمرے میں جانے کے لیے ضد کرنے لگا مگر میری خالہ نے مجھے جھڑک دیا اور میں رونے لگا۔ اور روتے روتے سوگیا۔ اگلی صبح میں جاگا تو ماں موجود نہیں تھی۔ میں لپک کر گیا اور اس کمرے کے بند دروازے کو پیٹنے لگا جس کے اندر میری ماں بیمار پڑی تھی۔ تب کسی نے دروازہ کھول دیا اور میں بھاگ کر اندر چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ میری ماں بستر پر دراز تھی۔ اس کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا مگر وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی تب اس نے ہاتھ بڑھا کر مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور مجھے اپنے سینے سے لگا کر میری پیشانی کو چوم لیا اور مجھے جیسے قرار سا آ گیا۔

            دوسرا واقعہ حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ہوا یہ کہ ہمارے گاؤں کے ترکھان نے میرے لیے لکڑی کی ایک چھوٹی سی بیل گاڑی بنائی۔ بالکل اسی طرح کی جیسی اپاہج فقیر گلی گلی بھیک مانگنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پھر کسی نے مجھے اس گاڑی میں بٹھا دیا اور گاڑی کے آگے ایک بچھڑا جوت دیا۔ اس کے بعد مجھے اتنا یاد ہے کہ گاڑی اڑی جا رہی تھی اور لوگ چیختے چلاتے گاڑی کے تعاقب میں بھاگ رہے تھے کیونکہ بچھڑا اپنے پیچھے بوجھ سا بندھا دیکھ کر بے قابو ہو گیا تھا اور دو لتیاں جھاڑتا اور پھنکارتا سرپٹ دوڑ رہا تھا۔ اس واقعہ کی بس اتنی سی یاد میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ برسوں بعد مجھے میرے بڑے بھائی نے بتایا کہ اس روز میں معجزانہ طور پر بچ گیا تھا کیونکہ کسی نوجوان نے برق رفتاری سے دوڑتے ہوئے مجھے گاڑی میں سے اچک لیا تھا اور دوسرے ہی لمحے گاڑی اور بچھڑا گاؤں کے گہرے جوہڑ میں گر گئے تھے۔ تیسرا واقعہ میری شدید علالت کا تھا۔ مجھے دراصل ٹائیفائڈ ہو گیا تھا اور ان دنوں ٹائیفائڈ کا کوئی علاج نہیں تھا۔ بیمار پڑنے سے پہلے میری صحت بہت اچھی تھی۔ سرخ و سفید اور گول مٹول! گھر والے مجھے اٹھائے اٹھائے پھرتے تھے۔ لیکن ٹائیفائڈ کے بعد میری صحت بگڑتی ہی چلی گئی۔ معدے کا روگ مستقل صورت اختیار کر گیا اور میں سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ بعد ازاں جوانی بھی اس شاخ کو پوری طرح ہرا نہ کرسکی۔ میرے جسم کی ہڈیاں کمزور ہو گئیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ میں بچپن میں بہت شرمیلا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس کی بڑی وجہ جسمانی کمزوری تھی۔ جسم توانا ہو تو انسان باہر کی دنیا کو فتح کر لینے کے لیے مستعد ہوتا ہے۔ ہر جوان اور صحت مند جسم کے اندر کوئی نہ کوئی سکندر اعظم ضرور موجود ہوتا ہے جو پوری دنیا کو زیر پا لانے کے خواب دیکھتا ہے اگر جسم کمزور ہو تو انسان خود میں سمٹ جاتا ہے۔ یہ ایک طرح کا فرار ہے جسے شرمیلے پن کا نام دیا جاتا ہے۔ میرے معاملے میں یہ صورتحال اسکول اور پھر کالج کے ایام تک جاری رہی۔ چنانچہ میں نے ان ایام میں اپنا کوئی دوست نہ بنایا۔ ہمیشہ خلق خدا سے دور ہی رہا۔ البتہ کالج سے فارغ ہونے کے بعد تلافی کی ایک صورت پیدا ہوئی اور میں نے متعدد دوست بنائے مگر یہ ایک الگ داستان ہے۔ بہرحال علالت کا یہ واقعہ میری یادداشت میں آج بھی محفوظ ہے۔ ‘‘

            یہ انوکھا انداز تھا خود کا تعارف پیش کرنے کا۔ لیکن اس تعارف میں انشائیہ نگاری کے وصف خاص کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ اس کی اس پوری سوانح حیات میں ہر جگہ حقیقت، شگفتگی، لطافت، تجربہ کی عکاسیت، پند و نصیحت کا پوشیدہ انداز، طنز و مزاح، وطن پرستی، قوم پرستی، ترقی یافتہ قوموں کی انوکھی سیکھ، افراد خاندان سے محبت، دوستوں سے پیار و محبت، رشتہ داروں کے بدلتے روئیے کا دکھ، وطن کی مٹی کی کشش، اردو ادب کی خدمت، سفر کے تجربات، اساتذہ کی عظمت، شاعری کا تجربہ، شریک حیات کا سکھ، بیٹی اور بیٹے کی محبت، خود کی پدرانہ محبت کی جھلکیاں، فسادات کے ہولناک مناظر، سیاسی اتار چڑھاؤ والے حالات، کتب خانوں سے رغبت، اداسی اور خوشی کی جڑوں کی کھوج، مذہب کی حقیقت پسندی، ملک کی ترقی، دیہاتی و شہری زندگی کا فرق اور تعلیم یافتہ افراد کی صحیح قابلیت کی جانچ، غرض کوئی پہلو انہوں نے اپنی کتاب میں باقی نہیں رکھا۔ کسی قسم کی تشنگی ان کی ذات سے جدا محسوس نہیں ہوتی۔

            آئیے ان کے انشائیوں کے چند نمونے دیکھتے ہیں :

            ’’کل میری چالیسویں سالگرہ تھی۔ کرکٹ کے اس کھلاڑی کی طرح جس نے ایمپائر سے ساز باز کر کے کسی نہ کسی طرح چالیس رنز بنا لیے ہوں۔ اور اب اپنی سبز ٹوپی سر سے اٹھا کر خلق خدا سے داد وصول کر رہا ہو۔ میں نے بھی بڑے فخر سے اپنے احباب کو خط، ٹیلی فون اور اشارے کنائے سے اپنے اس عظیم کارنامے کی خبر پہنچا دی اور پھر دن بھر اس ’’داد‘‘ کو وصول کرتا رہا جو ٹیلی فون کے تاروں، کمرے کے دروازوں، خط کی لکیروں، استہزائیہ قہقہوں اور نصیحت آمیز جملوں کے ذریعے مجھ پر نازل ہوتی رہی۔ میری چالیسویں سالگرہ کی روح فرسا خبر نے میرے احباب کو گویا جھنجھوڑ کر بیدار کر دیا اور انہوں نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے دیکھ رہے ہوں ’’اچھا! تو تم بھی متحرک تھے۔ تمہارے انداز سے معلوم نہ ہوتا تھا۔ ‘‘ حضرت ’’ش‘‘ جو کم از کم تین بار اپنے ہاتھوں آپ ہی خودکشی کی کوشش کر چکے ہیں اور پھر بھی شاخ نازک پر بنے ہوئے آشیانے کو نا پائیدار ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس خبر کو سنتے ہی آگ بگولہ ہو گئے اور ایک آندھی کی طرح چنگھاڑتے ہوئے میرے کمرے میں آ دھمکے۔ کہنے لگے ’’یعنی شرم نہیں آتی تمہیں ؟ آخر اس میں فخر کی بات ہی کیا ہے؟ سمجھاؤ نا! چالیس سال یعنی چار سو اور اسی مہینے، ساڑھے چودہ ہزار دن، تین لاکھ پینتالیس ہزار گھنٹے! دو کروڑ سات لاکھ منٹ، اتنا عرصہ زندہ رہنے کے بعد کیا ابھی تمہیں مزید زندہ رہنے کی حسرت ہے!‘‘ اور میں کہ اپنی چالیسویں سالگرہ پر ابھی خود کو بالکل تازہ اور زندہ محسوس کر رہا تھا مجھے یکایک اس بات کا احساس ہوا کہ تقدیر نے دھکا دے کر مجھے شانگری لا سے باہر نکال دیا ہے۔ جیسے میرا جسم مٹھی بھر ہڈیوں میں بدل گیا ہے اور اس پر وقت کی لاتعداد جھریاں نمودار ہو گئی ہیں۔

            لیکن یہ کیفیت زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکی۔ حضرت ’’ش‘‘ رخصت ہی ہوئے تھے کہ میرے عزیز ترین دوست اور بزرگ جناب ’’ص‘‘ نے ٹیلی فون پر مجھے مبارک باد دی اور کہا ’’عزیز من! چالیسویں سالگرہ مبارک ہو! اب گویا تم نے ذہنی پختگی کے دور میں اپنا پہلا قدم رکھا!‘‘ رسیور میں نے رکھ دیا اور سوچنے لگا کہ چار کتابیں، دو بچے، ایک مکان اور لا تعداد دوست پیدا کرنے کے بعد بھی اگر میں اب تک محض ذہنی نا پختگی کے دور میں تھا تو آنے والے ذہنی پختگی کے ایام میں کیا ہو گا؟ اس کا تصور کرتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا لیکن دوسرے ہی لمحے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میں نے تو ابھی زندگی میں قدم ہی نہیں رکھا (بقول حضرت ص) اس لیے ش کی بات بالکل غلط ہوئی نا! یکایک جیسے میں تقدیر کو دھکا دے کر شانگری میں دوبارہ داخل ہو گیا۔ جھریاں مٹ گئیں۔ ہڈیاں گوشت کی تہوں کو گھونگھٹ بنا کر چھپ گئیں۔ اور زندگی میرے ہربن موسے پسینہ بن کر چھلکنے لگی۔ میں نے سوچا یہ بھی اچھا ہوا کہ اس ٹیلی فون کال سے پہلے ہی حضرت ش رخصت ہو چکے تھے ورنہ آج میرے ہاتھوں میں اتنی ضرور سکت پیدا ہو گئی تھی کہ میں ان کے نازک آشیانے کو نا پائیدار ثابت کرسکتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

            ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر سالگرہ کا دن ختم ہو گیا اور رات ہی رات میں اس پر صدیوں کی برف جم گئی آج صورت حال یکسر مختلف ہے۔ آج میں نے ایک نئی مملکت خداداد میں اپنا پہلا قدم رکھا ہے اور میرے دوستوں کے خیالات کسی قدر نا پختہ اور غلط تھے (جناب ص متوجہ ہوں ) شاید ہم نے زندگی کے اس دور کو بچپن کی آنکھ سے دیکھا تھا اور اس لیے ہمیں اس کی ہر شئے فرسودہ، بوڑھی اور ’’کائی زدہ‘‘ نظر آتی تھی۔ ۔۔۔‘‘۱

            ایک اور اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے ملازم کی یہ ایک نہایت بری عادت ہے کہ جیسے ہی میں کہیں باہر جاتا ہوں وہ بے جھجک میرے کمرے میں داخل ہو جاتا ہے اور آناً فاناً میرے پھیلائے ہوئے انتشار کو ترتیب اور سلجھاؤ میں بدل دیتا ہے۔ میں نے اسے کئی بار سمجھایا ہے کہ بھلے آدمی یہ کوئی قبرستان تو ہے نہیں کہ قبروں کی طرح میزیں کرسیاں اور کتابیں بھی ایک خاص ترتیب میں قطار در قطار نظر آئیں۔ لیکن نہ جانے کیوں بات اس کی سمجھ میں آتی ہی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

            ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فطرت کا سارا حسن تو اس کی بے ترتیبی میں ہے۔ سیدھے خط تو صرف انسان خود کھینچتا ہے اور بزعم خود سمجھتا ہے کہ اس نے کوئی بڑا تیر مار لیا ہے۔ انسان کے اگائے ہوئے باغوں اور ترتیب دئیے ہوئے پارکوں کا احسن قاعدے اور اصول کا رہین منت ہے لیکن فطرت کا حسن ان باتوں کا محتاج نہیں۔ جو پاگل کر دینے والی خوبصورتی جو نشیلی کیفیت ایک خود رو جنگل میں ہے ایک صاف ستھرے بنے ٹھنے ہوئے باغیچے میں کہاں ؟ لیکن جنگ ترتیب کا محتاج نہیں۔ اس کا سارا حسن بے ترتیبی میں ہے۔ پہاڑوں کے سلسلے، دریاؤں کے پیچ و خم، سمندر کے کٹے پھٹے کنارے اور آسمان کے نیلگوں فرش پر پڑی بے پروائی سے بکھیرے ہوئے ان گنت ستارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی چیز بھی تو ترتیب کے حصار میں قید نہیں۔ انسان کی ساری عمر اشیاء کو ترتیب دینے میں بیت جاتی ہے اور ہر بار فطرت کی لازوال بے ترتیبی کا عمل بڑھ کر اس ترتیب کو ختم کر دیتا ہے اس لیے کہ ترتیب ایک خلاف فطرت عمل ہے۔ تہذیب کی گرینیڈ ٹرنک روڈ، سماج کی دائرہ در دائرہ تنظیم نقطہ نظر کی سیدھی لکیر۔ یہ سب انسان نے اپنی سوچ بچار سے ترتیب دئیے ہیں فطرت سے اخذ نہیں کیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۲ وغیرہ۔

            انشائیہ ’’پگڈنڈی‘‘ کا ایک خوبصورت اقتباس ملاحظہ کیجیے:

            ’’پگڈنڈی اختیار کرنے میں بڑا لطف ہے۔ آپ کے سامنے زمین کا ایک طویل و عریض خطہ ہے جس میں آپ اپنے قدموں سے ایک نئی راہ تراشتے ہیں۔ سڑک کو تو ایک دوسرے کے تعاقب میں بڑھتے ہوئے قدموں نے روند روند کر سیدھا کر دیا ہے حتیٰ کہ جب آپ ان قدموں کے نشانوں پر چلتے ہیں تو سڑک کی ہیئت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ لیکن جب آپ پگڈنڈی اختیار کرتے ہیں تو اپنی فطری تلون مزاجی کا بین ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے پگڈنڈی سڑک کی طرح سیدھ نہیں ہوتی۔ اس میں انسانی مزاج کے سارے پیچ و خم نمودار ہو جاتے ہیں۔ یہ چلتی ہے، رکتی ہے، ہٹتی ہے، سیدھی ہوتی ہے اور پھر یکلخت مڑ جاتی ہے۔ درختوں سے خود بچا کر، چٹانوں سے کترا کر، کھیتوں کو چیر کر، ہر قسم کے نشیب و فراز سے ہمکنار ہوتی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ سڑک پر چلتے ہوئے آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ تنہا نہیں ہیں۔ آپ کے ساتھ ایک مشغول ہجوم ہے۔ دوست احباب، عزیز و اقارب، اپنے بیگانے سب لوگ ہمراہ ہیں۔ ترشا ترشایا ہوا راستہ ہے۔ ڈھلی ڈھلائی گھاتیں ہیں اور ضابطے کے تابع نہیں۔ آپ گویا پہلے انسان ہیں، جو ملاء اعلی سے جھگڑ کر فرشتہ پن سے مایوس ہو کر اس خطہ ارضی پر اتر آئے ہیں اور اب آپ کے سامنے نہ کوئی منزل ہے نہ نشان منزل، اوپر آسمان کی بے کنار وسعتیں ہیں۔ نیچے زمین کا فراخ سینہ ہے۔ آپ کے ہاتھ میں چھڑی اور لبوں پر سیٹی ہے اور آپ کسی ذی روح کا سہارا لیے بغیر خراماں خراماں بڑھے چلے جا رہے ہیں۔ سڑک آپ کو راستہ دکھاتی ہے، منزل کا نشان بتاتی ہے، ہمراہیوں کا سہارا دلاتی ہے لیکن پگڈنڈی کو آپ خود راستہ دکھاتے، اور خود سہارا دیتے ہیں۔ پگڈنڈی اختیار کرنے میں یہی سب سے بڑا لطف ہے!‘‘۳

            ان کی تحریر کی زندہ دلی یہاں دیکھئے جس میں انہوں نے ان کے دوست قدرت اللہ شہاب کے بارے میں ایک پرچہ میں لکھا تھا۔

            ’’قدرت اللہ شہاب اگرچہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے مگر اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے ان میں عہدے داروں والی خو بو پیدا نہ ہوسکی۔ سول سروس کے اراکین انہیں ہمیشہ آؤٹ سائڈ سمجھتے رہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ان کی زندگی میں جو مجلسی خلا پیدا ہوا اسے انہوں نے ادب سے پر کرنے کی کوشش کی۔ ادب ان کی زندگی میں آیا تو اہل ادب سے بھی شناسائی ہوئی۔ یوں تو متعدد ادیبوں سے ان کے تعلقات تھے لیکن ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور ابن انشاء ادب کے راستے ان کی ذاتی زندگی میں شامل ہو گئے۔ ان تینوں کی وجہ سے قدرت اللہ شہاب کی تنہائی ختم ہوئی اور شہاب کی وجہ سے ان تینوں کی بہت سی محرومیوں کا ازالہ ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔۔۔۔۔

۱۔  میری چالیسویں سالگرہ۔ وزیر آغا۔ دو ماہی گلبن۔ انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

۲۔ بے ترتیبی۔ وزیر آغا

۳۔  پگڈنڈی۔ وزیر آغا۔

               ۲۔ مشفق خواجہ خامہ بگوش

            مشفق خواجہ خامہ بگوش ۱۹ دسمبر ۱۹۳۵ء کو لاہور پاکستان میں پیدا ہوئے اور ۲۱ فروری ۲۰۰۵ء کو ان کا انتقال ہوا۔ مشفق خامہ بگوش ایک دیانت دار، مہذب اور شائستہ زبان لکھنے والے قلمکار تھے۔ جن کی تحقیقی کاوشوں کو ادبی دنیا میں ایک بلند مقام حاصل ہے۔ تحقیق کے ساتھ ساتھ انہوں نے انشائیہ والی شگفتگی برقرار رکھی جس سے عام طور پر محققین محروم ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ انہوں نے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی سے ’’سخن در سخن‘‘ کے نام سے کالم لکھنے کی ابتدا کرتے ہوئے قائم کیا اور جب مولانا اصلاح الدین احمد ’’جسارت‘‘ سے علیحدہ ہوئے اور انہوں نے ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ نکالنا شروع کیا تو خواجہ صاحب نے ’’تکبیر‘‘ میں مستقل کالم نگاری شروع کر دی۔ انہوں نے مجموعے لکھے ہیں۔ ۷۰ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ انہوں نے مولوی عبدالحق کے ساتھ انجمن ترقی اردو میں ۱۹۵۷ء سے لے کر ۱۹۷۳ء تک کام کیا۔ ’’قومی زبان‘‘ کے ایڈیٹر بھی تھے۔ تذکرہ خوش مرقع زیبا مجلس ترقی ادب آبیات مخطوطات اردو غالب اور سفیر بلگرامی اور تحقیق نامہ جیسے اردو ادب کو گراں قدر سرمایہ دیا ہے۔

            خامہ بگوش پاکستان میں انشائیہ نگاری کی صنف میں چار چاند لگا چکے ہیں۔ ان کی تحریر میں ایک طرح کی تراوٹ محسوس ہوتی ہے۔ قاری کو وہ ایک گہرے دوست کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ روزمرہ کے معمولات اس طرح بیان کرتے چلے جاتے ہیں مانو طلسماتی دنیا کے واقعات بیان کر رہے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’شاعری اور ڈپریشن‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’اگر کوئی شخص اپنی محنت اور ذاتی جدوجہد سے بے پناہ دولت کمائے اور اس دولت کو سامان عیش و عشرت کے بجائے رفاہ عامہ کے کاموں میں صرف کر دے اور خود پوری زندگی ایک شیروانی، ایک پاجامے اور کرائے کے مکان میں بسر کر دے تو ایسے شخص کو دیوانہ کہا جائے گا یا حکیم محمد سعید۔

            حکیم صاحب نے قوم کی جسمانی صحت کے لیے ہمدرد کی دواؤں کو اتنا عام کر دیا ہے کہ غریب سے غریب آدمی بھی ان دواؤں کے استعمال کی قدرت رکھتا ہے بلکہ بعض دوائیں تو اتنی لذیذ ہوتی ہیں کہ انہیں شوقیہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں شوقیہ دواؤں میں روح افزاء بھی شامل ہے جسے لوگ شربت سمجھ کر پیتے ہیں۔ اس کی تاثیر یہ ہے کہ جو اسے ایک دفعہ پی لیتا ہے وہ پھر کسی دوسرے مشروب کے قریب نہیں جاتا۔ گویا یہ دافع منشیات دوا ہے۔ جوشؔ صاحب کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ زندگی بھر بادۂ ناب سے غم غلط کرتے رہے لیکن جو روح افزاء سے واسطہ پڑا تو پھر کسی دوسرے مشروب کو ہاتھ نہ لگایا۔ اس کا ثبوت ان کے کلام سے بھی ملتا ہے۔ اسی وقت ایک رباعی یاد آ رہی ہے۔

ساقی خس کو مزاج دریا دے دے

پیاسا ہوں بہت جوہر مینا دے دے

ہاں اس لب جاں بخش کی خوشبو کی قسم

ہمدرد کا جام روح افزا دے دے

            مختصر یہ کہ ہمدرد کی دوائیں اس کثرت سے استعمال کی جاتی ہیں کہ خدا کے فضل سے قوم کا بڑا حصہ صحتمند ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ملک کے ہر پانچویں شہری کے ہاتھ میں کلاشنکوف ہے جس کے ذریعے وہ اپنی صحتمندی کا مظاہرہ اور غیر صحتمند لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘۱

۔۔۔۔۔

  ۱۔  شاعری اور ڈپریشن۔ خامہ بگوش۔ ماہنامہ شگوفہ اپریل ۱۹۹۵ء

               ۳۔ ایس۔ ایم۔ معین قریشی

            ایس۔ ایم۔ معین قریشی کراچی پاکستان سے اپنے انشائیوں کی پھلجڑیاں چھوڑتے ہیں۔ ان کی تحریر میں تازگی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ الفاظ کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک دو پیراگراف میں ہی قاری کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’کتے۔ دو ہی اچھے‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’غالباً کتا آپ کا وہ واحد مخلص دوست ہے جسے آپ بازار سے خرید سکتے ہیں۔ اہل مغرب تو اس کے اتنے گرویدہ ہیں کہ پہلے پیار سے اس کو گود میں بٹھاتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ خود اس کی گود میں بیٹھنے لگتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی بعض ’’بیگم گزیدہ‘‘ لوگ اپنی پوری زندگی کتوں کی ناز برداری میں گزار دیتے ہیں۔ چنانچہ کچھ عرصہ قبل ایک سیاسی رہنما کے نصف درجن کتوں میں سے ایک نے انہیں داغ مفارقت دیا تو انہوں نے آنجہانی کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ایک نامور مصور سے ۵۰ ہزار روپے میں اس کا پورٹریٹ تیار کروایا اور اسے اپنا خوابگاہ میں انتقاماً اس جگہ رکھوایا جہاں اصولاً کسی اور کی تصویر ہونی چاہیے تھی۔ اب کی زبان پہ یہی ورد ہے کہ:

نام لے لے کہ تیرا ہم تو جئے جائیں گے

لوگ یونہی ہمیں بدنام کیے جائیں گے

۔۔۔۔۔

  ۱۔  کتے دو ہی اچھے۔ ایس۔ ایم۔ معین قریشی۔ دو ماہی گلبن۔ جنوری تا اپریل: انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

               ۴۔ مشتاق احمد

            مشتاق احمد کی تحریر میں بلا کی دلکشی پائی جاتی ہے۔ وہ قاری کو اپنے ساتھ ان کی تخیلی دنیا کی سیر کرواتے ہیں اور اسے اپنا گہرا دوست سمجھتے ہیں کہ درمیان میں کوئی فاصلہ باقی نہیں رکھتے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’حسرت دید‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے اور میری بینائی کے مابین تعلقات کی کشیدگی کا یہ سلسلہ بھی کئی سال تک قائم رہا۔ لیکن مجھے ایسا کبھی گمان بھی نہ ہوا کہ ایک دن میری بصارت مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائے گی۔ میں سمجھتا تھا کہ تعلقات اگرچہ کشیدہ رہیں گے لیکن ساتھ موت تک بہرحال رہے گا۔ مگر ایک دن اچانک یہ ہوا کہ میری بصارت نے ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہا اور خود نہ جانے کہاں غائب ہو گئی اس دن سے آج تک میری دنیا تاریک ہے اور اس دن سے یکہ و تنہا ہوں ہر وقت ہر جگہ تنہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

            ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے پاس بہت سی کتابیں ہیں جو میں نے اپنی غربت کے باوجود جمع کی ہیں۔ ان کے لیے میں نے اپنی بہت سی خواہشوں کو اور بہت سے دوسروں شوقوں کو تیاگا ہے۔ یہ کتابیں ایک لاجواب انتخاب ہیں اور مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں۔ لیکن اب میں انہیں نہیں دیکھ سکتا۔ ان کا وجود میرے لیے اب محض تصوراتی ہے، ذہنی ہے، جسمانی لحاظ سے وہ معدوم ہو چکی ہیں۔ اب ان میں اور لکڑی کے کسی چھوٹے سے تختے میں میرے لیے کوئی فرق نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔  حسرت دید۔ مشتاق احمد۔ دو ماہی گلبن۔ جنوری تا اپریل: انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

               ۵۔ جمیل آذر

            جمیل آذر پاکستان کے عظیم انشائیہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی تحریر میں غضب کی گہرائی پائی جاتی ہے۔ الفاظ کا انتخاب بہت چن چن کر کرتے ہیں۔ معمولی الفاظ کی مدد سے بھی ایک گہری فکر کا پردہ وا کرتے چلے جاتے ہیں۔ جمیل آذر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف انشائیہ کے لیے زمین ہموار کی بلکہ بے حد خوبصورت انشائیے لکھ کر آنے والوں کے لیے ایک درخشاں مثال بھی قائم کر دی۔ یہ انشائیے کو نثر کی دیگر اماثل اصناف سے الگ کرنے پر پوری طرح سے قادر ہیں۔ وہ فکر اور اسلوب کو انشائیے کے مقتضیات کے تابع کرنا جانتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے ہاں فکر اپنے بوجھل اجزاء کو تج کر عام فہم کومل اور سبک اندام ہو گئی ہے اور اسلوب ایک ایسی لفظی کیفیت کا مظاہرہ کرنے لگا ہے جو انشائیہ نگاری کے لیے اولین شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ انگریزی زبان اور ادب سے پوری طرح آشنا ہونے کے باعث وہ انشائیے کے مزاج سے آشنا بھی ہیں اور یوں نئی پود کو بہ آسانی راستہ دکھا سکتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’انشائیہ اور انفرادی سوچ‘‘ میں انہوں نے انشائیہ فہمی کا حق ادا کر دیا ہے۔ وزیر آغا نے بھی ان کی انشائیہ نگاری کی تعریف کئی جگہ کی ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیہ ’’شاخ زیتون‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ شاید یہ خیال کریں کہ میں سحر انگیز ہوں اور سیر کرنے کا عادی ہوں۔ نہیں یہ بات نہیں الحمد للہ میں نہ تو بیمار ہوں اور نہ کسی ڈاکٹر کے مفت مشورے پر عمل کرتے ہوئے صبح سویرے اٹھ کر سیر کرنے کی فضول عادت میں مبتلا ہوں۔ بھلا آج کل کے مادی اور صنعتی دور میں اور وہ بھی شہر میں رہ کر سیر کرنے کا وقت کس شریف آدمی کے پاس ہے۔ ایک سمے تھا جب واقعی لوگ صبح نور کے تڑکے اٹھ کر سیر کے لیے کسی پارک میں، کسی باغ میں، کسی نہر کے کنارے یا دریا کے ساحل پر جاتے، ورزشیں کرتے اور جسم بناتے۔ مگر آج کل تو ہم دن بھر کی مشقت جھیل کر رات کے با رہ بجے تک ٹیلی ویژن پر تھرل اور سسپنس سے بھرپور ڈرامے دیکھ کر اس قدر تھک ہار کر سوجاتے ہیں کہ صبح اٹھ کر سیر کرنا تو کجا دفتر، اسکول، کالج اور کام کاج پر پہنچنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی یہاں ہمارے شہروں میں پارک ویران ہیں اور باغوں کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا۔ اب تو صرف سڑکیں ہی سڑکیں اور عمارتیں ہی عمارتیں ہی عمارتیں رہ گئی ہیں۔ جیسے لوگوں کو صرف ایک ہی شوق ہو گیا ہو، نہیں جنون ہو گیا ہو کہ عمارتیں بناؤ، پلازے بناؤ اور خوب روپے بناؤ۔ گویا نقطۂ پرکار حق روپیہ ہی تو ہے۔ ویسے بھی ہم اور سیر دو متضاد چیزیں ہیں۔ میرا تعلق تو دراصل زیتون کے پیڑوں کے اس جھنڈ سے ہے جن کی ناقابل تسخیر کشش مجھے بستر استراحت سے اٹھنے پر مجبور کر دیتی ہے اور میں ان کے پراسرار افسوں کے زیر اثر کشاں کشاں ان کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہوں۔ اپنے آپ کو زیتون کے درختوں کے زیر اثر مابین پا کر میں ایک نامعلوم ہی روحانی خوشی کے لمس سے آشنا ہوتا ہوں۔ میری سوچ کی زبان ان سے ہمکلام ہوتی ہے۔ میری روح کے سرتال ان کی روح کے جل ترنگ سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ پھر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا اور میرا ساتھ بہت ہی قدیم ہے ازل سے ابد تک۔ ہماری روحیں ایک دوسرے کے ساتھ ناقابل بیان میں سرگوشی کرتی ہیں ہم ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ہاں یہ وہی درخت ہے جس کا ذکر آسمانی کتابو ں میں ملتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

  ۱۔  شاخ زیتون۔ جمیل آذر۔ دو ماہی گلبن۔ جنوری تا اپریل: انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

               ۶۔ انور سدید

            انور سدید ۱۹۲۸ء میں پاکستان میں پیدا ہوئے۔ کئی میگزین کی اشاعت میں ان کی خدمات شامل تھیں۔ بالخصوص نیرنگ خیال اور ہمایوں میں ان کے مضامین اور رہنمائی برائے ادب ہوا کرتی تھیں۔

            انور سدیداپنے موضوع کے ذریعے کائنات کے حقائق بیان کرنے میں ماہر ہیں۔ وہ جو بھی لکھتے ہیں سیدھے قاری کے دلوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ پڑھنے والا نہایت آسانی سے ان کے مطلب کو اخذ کر لیتا ہے۔ انور سدید قاری کے ذہن پر بار گراں نہیں ہونا چاہتے اس لیے وزیر آغا نے ان کے کئی انشائیوں کو ’’لائٹ ایسے‘‘ کا نام دیا ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیہ ’’مچھر کی مدافعت میں ‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’مچھر خون پیتا ہے اس لیے بعض لوگ اسے درندہ کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ پرندہ ہے اور ہمیشہ اپنے پروں سے اڑتا ہے۔ دوسری طرف حقیقت یہ بھی ہے کہ مچھر کی بہت سی عادتیں انسان سے ملتی جلتی ہیں۔ اس لیے اسے اشرف المخلوقات کہلانے کا حق بھی حاصل ہے۔ مثال کے طور پر انسان کی طرح مچھر بھی ہر وقت پیٹ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ افزائش نسل کے اعتبار سے بھی مچھر انسان کے مماثل ہے اور یہ بھی انسان کی طرح فکر فرد سے آزاد ہو کر بکثرت تخلیق اولاد کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ فطرت نے اس کے ہونٹوں کو خون لگا دیا ہے۔ اس لیے بالعموم شراب کے قریب بھی نہیں جاتا۔ تاہم کسی محفل میں عفت کی مل جائے تو انسان ہی کی طرح بربنائے انکسار انکار نہیں کرتا۔ بعض لوگ اسے انسان کا ازلی اور ابدی دشمن قرار دیتے ہیں اور بہت سی بیماریوں کو اس چھوٹی سی حقیر و فقیر مخلوق سے منسوب کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

  ۱۔  مچھر کی مدافعت میں۔ ڈاکٹر انور سدید۔ دو ماہی گلبن جنوری تا اپریل انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

               ۷۔ اکبر حمیدی

            اکبر حمیدی پاکستان کے دوسری کھیپ کے انشائیہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے انشائیے وزیر آغا کے رنگ میں لکھتے ہیں۔ بات سے بات پیدا کرنا ان کا خاصہ رہا ہے۔ سادہ اور دقیق الفاظ کا سنگ میل ان کے انشائیوں میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ بات کی گہرائی اور معنویت میں وہ بازی مار لے جاتے ہیں۔ اکبر حمیدی کا غیر مطبوعہ انشائیہ ’’وال کلاک کے پیچھے‘‘ سے لیا گیا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے نفرت تو مجھے شروع سے ہی تھی۔ بھلا چھپکلی سے کون محبت کرسکتا ہے؟ خصوصاً اس صورتحال میں جب یہ بد شکل بد ہیئت مخلوق بیڈ کے عین سامنے والی کلاک کے پیچھے رہتی ہو اور اپنا رخ زیبا وقت بے وقت ظاہر بھی کرتی رہتی ہو۔ میرا خیال تھا کہ وال کلاک کا عقب اس کی عارضی قیام گاہ ثابت ہو گا اور میں جلد ہی اس مد منظر ڈرامے سے نجات حاصل کر لوں گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس بد صورت مخلوق کو یہ خوبصورت جگہ شاید کچھ زیادہ ہی پسند آ گئی ہے۔ ایسے خاصے دن میں نے اس خوش گمانی میں امن و سکون سے گزارل یے تھے اور خوش گمانی کو میں نے ہمیشہ مفید خیال کیا ہے۔ لیکن جب آہستہ آہستہ خوش گمانی بد گمانی میں تبدیل ہونے لگی کہ یہ مخلوق جلدی پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہے تو یہ نفرت غم و غصے میں تبدیل ہونے لگی اور جب غم و غصے سے بھی مجھے کچھ افاقہ نہ ہوا تب مجھے اس بدمعاش سے ڈر سا آنے لگا۔ شاید نفسیاتی طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ اول اول نفرت سر اٹھاتی ہے پھر نفرت کی کوکھ سے غم و غصہ جنم لیتا ہے اور جب اس تمام دوران میں صورتحال تبدیل نہیں ہوتی تو انسان ایک انجانے سے خوف میں مبتلا ہونے لگتا ہے اسے آپ اظہار بے بسی ہی جانئے۔ ایسا بھی نہیں کہ میں کوئی بزدل شخص ہوں یا چھپکلی سے اپنے بے خوف ہونے کا دعویٰ کر کے اپنی بہادری ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔  وال کلاک کے پیچھے(غیر مطبوعہ)۔ اکبر حمیدی۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

               ۸۔ اظہر حسن صدیقی

            اظہر حسن صدیقی کی تحریر میں انور سدید کی جھلک نظر آتی ہے۔ اپنی شگفتگی قائم رکھتے ہوئے سماج کی برائیوں پر چوٹ کر جاتے ہیں۔

            ’’ہر قوم و ملک کے مختلف رسم و رواج اور عادات ہوتی ہیں جو ان کے قومی مزاج کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ویسے یہ قطعی ضروری نہیں کہ اس ملک اور قوم کے ہر آدمی میں وہ عادات ہوں یا اس کا مزاج بھی ویسا ہی ہو۔ یہ قومی تشخص برسہا برس کے مطالعہ اور غور و فکر کے بعد جنم لیتا ہے۔ لیکن جب ایک دفعہ کسی قوم پر ایک ٹھپہ لگ جائے تو اس کو اتارنے کے لیے قومی سطح پر بڑی محنت اور منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر برسوں سے سنتے آئے ہیں کہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے بہت کنجوس ہوتے ہیں۔ اب وہ ہوں یا نہ ہوں لیکن شہرت ایسی ہو گئی ہے جس سے مفر نہیں۔ حالانکہ اسکاٹ لینڈ والوں کا کہنا ہے کہ اس میں زیادہ دخل انگریزوں کا ہے جنہوں نے انہیں بدنام کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا اتنے منظم اور موثر انداز میں کیا ہے کہ آج ساری دنیا اسکاٹ لینڈ کے باسیوں کو سچ مچ کنجوس سمجھنے لگی ہے۔ اس کے برعکس چین کو دیکھئے جنہیں کافی عرصہ تک لوگ افیمی کہتے تھے مگر انہوں نے آزاد ہوتے ہی اپنی قوم کی کایا پلٹ دی اور اس قدر محنت اور ترقی کی کہ کل تک ان کو افیمی کہنے والے آج خود افیمی لگتے ہیں۔ ویسے اس میں شک نہیں کہ:

کچھ تو ہوتے میں محبت میں جنوں کے آثار

اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں

            کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہوتی ہے جس سے بدخواہ پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور قوم کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

۹۔ ڈاکٹر محمد یونس بٹ:

            ڈاکٹر محمد یونس بٹ پاکستان کے رسالوں میں اکثر اپنی تحریر سے جادو جگاتے ہیں۔ ان کی تحریر لطافت، شگفتگی اور پھلجڑیوں کے ساتھ بیش قیمتی معلومات بھی بہم پہنچاتی ہے۔

            ’’صاحب جس بندے کو یہ پتہ ہو کہ اسے کس دن اور کس وقت مرنا ہے وہ یا تو کوئی ولی اللہ ہوتا ہے یا کوئی قاتل ڈاکو جسے یہ صحیح پتہ ہوتا ہے جبکہ شاعروں کو تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کہاں کہاں مرے تھے اور کس کس پہ مرے تھے۔ ہم نے ایک ماہر اموات سے پوچھا شاعروں میں ڈیتھ ریٹ کیا ہے؟ کہا وہی جو دوسروں میں ہے ایک موت فی فرد۔ ہم نے ایک آمر کے بارے میں لکھا تھا کہ اس نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے جو کچھ کیا اس میں سب سے اہم اس کا مرنا تھا ایسے ہی ادب کی خدمت کرنے کے لیے سانگلہ حل کے شاعر نعمت سانگلوی صاحب نے پچھلے دنوں اپنی دوسری برسی منائی یہ واحد شاعر ہیں جن کی برسی ان کی زندگی میں منائی جاتی ہے۔ یہ ان کی دوسری برسی تھی حالانکہ ان کا کلام پڑھ کر لگتا ہے یہ برسی کئی برس پہلے ہی شروع ہو جانا چاہیے تھی۔ اخبار کے مطابق ان کا کلام بوروں میں بھر کر محفوظ کیا گیا ہے ہمیں یہ تو پتہ نہیں ایک بور کا کلام کتنے بوروں کو بھر سکتا ہے بہرحال کلام کو بروقت بوروں میں بھر کر لوگوں کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ موصوف کو ہم پہلے سے نہیں جانتے لیکن پتہ چلا ہے کہ ان میں شروع ہی سے مرحوموں والی خوبیاں پائی جاتی ہیں غربت کی وجہ سے ان کی شاعری کی کتابیں نہ چھپی۔ صاحب اگر ان کی کوئی کتاب ابھی نہیں چھپی تو پھر ان کی برسی کی کوئی وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

۱ ۔ بیگانی شادی میں۔ اظہر حسن صدیقی۔ ماہنامہ شگوفہ جولائی ۱۹۸۹ء

               ۱۰۔ منیزہ جمال

            منیزہ جمال پاکستان کی ایک خوش تحریر انشائیہ نگار ہیں۔ ان کے انشائیے وقتاً فوقتاً مختلف رسالوں اور انٹرنیٹ پر پڑھنے ملتے ہیں۔ ’’پان کا پتہ‘‘ ان کا ایک خوبصورت انشائیہ ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہماری جہالت اور نادانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس روز تو حد ہی ہو گئی جب بڑے ابا سفید اجلے کپڑے پہن کر جمعہ پڑھنے مسجد کے لیے نکلے اور جب واپس آئے تو ہائے کہہ کر ہم نے ایک زوردار چیخ ماری اور دوڑ کر ان کے قریب گئے۔ ’’یہ خون کیسا ہے بڑے ابا؟ کہیں مسجد میں بم دھماکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اور بڑے ابا نے ہنستے ہوئے ہمارے سر پہ اس طرح چپت رسید کی گویا کہہ رہے ہوں کہ بیوقوف اتنا بھی نہیں معلوم کہ پان کھانے والوں کے ساتھ ایسا اکثر ہو جاتا ہے۔ لو جاؤ تو ذرا دھو ڈالوں اس کرتے کو۔ اور ہم کرتا دھوتے ہوئے پان کی مستحکم حیثیت اور اٹل حقیقت کے فلسفے پہ غور کرتے جاتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

            ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گویا پان نہ صرف تہذیب و روایت کا امین ہے بلکہ ہماری ثقافت کا اظہار بھی۔ بس پان کھاتے ہوئے خیال رکھیے۔ کہیں جو اگر تمباکو  والا پان غلطی سے کھا لیا تو وہی ہو گا جو ہمارے ساتھ ہوا کہ چکرا کے جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے اور اس پر غضب یہ کہ کئی روز منہ پکتا رہا۔ نہ جانے کون بھلا مانس اس محفل میں چونا لگا گیا تھا۔ ۔۔‘‘۱

۔۔۔۔۔

  ۱۔  پان کا پتہ۔ منیزہ جمال (انٹرنیٹ)

               ۱۱۔ خادم حسین مجاہد

            خادم حسین مجاہد پاکستان سے اپنے انشائیوں کی پھلجڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ ان کے اکثر انشائیے مختلف رسالوں میں نظر آتے ہیں مندرجہ ذیل چھوٹے چھوٹے انشائیے بڑا پیغام دیتے ہیں۔

            ’’ذرا:

            ذرا یوں تو ذرا سا لفظ ہے لیکن اس کی کارستانیاں اف توبہ۔ ہر بڑی بات پہلے ذرا سی بات ہوتی ہے اکثر لڑائیاں ذرا سی بات پر ہوتی ہیں۔ برسوں کے یارانے ذرا سی بات پر چلے جاتے ہیں۔ خودکشی تک محبوبہ کی ذرا سی بات پر ہو جاتی ہے۔ لیکن ذرا ذرا مل کر ’’بہت‘‘ ہو جاتا ہے جو لوگ ذرا ذرا سی بات پر دل لگالیتے ہیں۔ ذرا ذرا میں ان کا ذرا سا منہ نکل آتا ہے اور وہ گاتے پھرتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو‘‘ لیکن اس سے دوسرے لوگوں کو ذرا بھی فرق نہیں پڑتا۔

            ذرا کی خطرناک صورتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب بیگم شوہر سے کہتی ہے ذرا دس ہزار روپے دے دیں مجھے شاپنگ کرنی ہے۔ یا شوہر بیوی سے کہتا ہے کہ بیگم ذرا اجازت دے دو مجھے دوسری شادی کرنی ہے۔ با اختیار جب اپنے لاڈلوں کو حوالات سے نکلوا لاتے ہیں تو فرمایا کرتے ہیں کہ چھوڑیں جی بچہ ہی تھا نا جی ذرا ایک لڑکی اغوا کر لی ذرا شغل کر لیا اور ان لوگوں نے رنگ میں بھنگ ڈال دی تو ذرا سا قتل کر دیا۔

            کوئی لڑکا یا لڑکی جب پہلی بار ایک دوسرے سے مخاطب ہونا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں ذرا سنیے!بعد میں یہ ذرا کافی لمبی ہو جاتی ہے حتیٰ کے شادی کے بعد ایک فریق صرف سننے کے لیے رہ جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

  ۱۔  لفظی پوسٹ مارٹم۔ خادم حسین مجاہد۔ ماہنامہ شگوفہ اگست ۱۹۹۴ء

               ۱۲۔ سلیم آغا قزلباش

            سلیم آغا قزلباش اپنے انشائیوں میں گہری معنویت پوشیدہ رکھتے ہیں۔ قاری کو اپنے بیانیہ طریقے سے ماضی کی دنیا میں لے جاتے ہیں اور ہلکے پند وعظ کے ساتھ اسے واپس حال میں لے آتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیہ ’’گلی‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’ایک دن میں راستہ بھول کر موت کے کنویں میں پھیرے لگانے والے کسی موٹر سائیکل سوار کی طرح گلیوں کی گھمن گھیریوں میں کئی گھنٹوں تک چکر لگاتا رہا۔ منزل تک کیسے پہنچا اس کا مجھے قطعاً اندازہ نہ ہوسکا۔ بس اتنا اتنا یاد ہے کہ جب مایوسی برہمی سے معانقہ کرنے والی تھی تو منزل عالم غیب سے نکل کر میرے سامنے آ گئی۔ وہ ایک چھوٹی سی خستہ حال پرانی کتب کی دکان تھی جہاں سے مجھے کچھ کتابوں کا پتہ کرنا تھا۔ مطلوبہ کتابوں کو ڈھونڈنے کے لیے جو ذہنی چستی درکار تھی وہ ایک اس منزل کی تلاش میں تقریباً صرف کر چکا تھا۔ بفرض محال دکان میں کچھ تلاش کرتا بھی تو بجز مایوسی اور گرد کے میرے شاید کچھ نہ لگتا۔ سو میں نے مزید کاروائی کا پروگرام ملتوی کر دیا اور واپس آ گیا۔ مگر واپسی کا سفر جیمس بانڈ کی واپسی سے کم مشکل نہ تھا۔ جتنا گلیوں کے اندر ’’منزل خفی‘‘ تک پہنچنے میں صرف ہوا تھا اس سے دگنا وقت ’’منزل جلی‘‘ یعنی مین روڈ تک پہنچنے میں لگا۔ وہ دن میرے لیے ’’یوم گلی’‘ کے مترادف تھا۔ اور یوم چاہے کوئی بھی ہو اس کا رنگ گلی میں ہی دوبالا ہوتا ہے۔ مانا کہ آج کل گلی کا کلچر تین منزلہ رہائشی اسکیم کی طرف تیزی سے ہجرت کر رہا ہے لیکن اصلی اور ملاوٹ سے پاک کلچر ہنوز گلیوں میں ہی دستیاب ہے۔ پوش علاقہ کا بدیسی طرز بد و باش تو زبیر میں لپٹا مال ہے۔ بجہ گلی کا دیسی رہن سہن بلکہ طرز کہن سودیشی گھریلو صنعت کا نمونہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

  ۱۔  گلی۔ سلیم آغا قزلباش۔ دو ماہی گلبن جنوری تا اپریل انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

 

               ۱۳۔ حامد برگی

            حامد برگی پاکستان کے سرفہرست انشائیہ نگارو میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی تہہ در تہہ تحریر اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ الفاظ کی بندش قاری کو نظریں ہٹانے نہیں دیتی۔ ان کی یہی صفت انہیں وزیر آغا کے ہم پلہ بناتی ہے۔ حامد برگی کا یہ اقتباس ان کے انشائیے ’’لڑائی جھگڑا‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’ میرے نہایت ہی قریبی عزیز اور بے تکلف دوست اپنی بیگم کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے جن کا حال ہی میں انتقال ہوا تھا بتایا کہ ’’مرحومہ سے میرا کبھی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا۔ مرحومہ نے کبھی میرے آگے زبان درازی نہیں کی مرحومہ نے کبھی مجھ سے اختلاف رائے نہیں کیا۔ مرحومہ ہمیشہ جو میں چاہتا وہی کرتی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سن کر میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ’’مرحومہ دل کی دل میں ہی لے کر چلی گئیں۔ ‘‘ میں نے سوچا واقعی جہاں محبت ہوتی ہے وہاں برابری کا احساس بھی ہوتا ہے۔ محبت کرنے والے دونوں ہی ایک دوسرے کی نظر میں یکساں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس مساوات کا تقاضا ہے کہ وہ جب غصہ میں آئیں تو یکساں اس کے اظہار کا حق رکھیں۔ میاں بیوی کے جھگڑے میں اگر میاں کو اپنی بات منوانے کا حق ہے تو بیوی کو بھی بات ماننے یا نہ ماننے کا حق ہے۔ اسی طرح میاں کو بھی بیوی کی کوئی نہ کوئی مرضی قبول کرنے کا یا رد کرنے کا حق ہے۔ رد کرنے کی صورت میں لڑائی جھگڑے کی فضا پیدا ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں میاں بیوی کے جھگڑے کو خود اختیاری سمجھتا ہوں اور معقول قرار نہیں دیتا۔ ٹھنڈے دل سے غور کرنے پر وہ یہی سمجھتے ہیں۔ یہ اور بات کہ ان کا پندار انہیں جھکنے نہیں دیتا۔ ان کی انا آڑے آتی رہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایک اچھے پیار کرنے والے میاں بیوی میں لڑائی جھگڑا ضروری ہے۔ لڑائی جھگڑا نہ ہو تو سمجھئے وہ مثالی میاں بیوی ہی نہیں۔ میاں بیوی ہی کیا لڑائی جھگڑا ہر قسم کے انسانی تعلقات کے آئینی تقاضوں میں سے ہے۔ لڑائی جھگڑا انہیں کے مابین ہوتا ہے جن میں آپس سے پہلے سے تعلق موجود ہو۔ کوئی شخص کسی لا تعلق سے جھگڑا مول نہیں لیتا۔ میاں بیوی کے لڑائی جھگڑے میں اگر نوبت علیحدگی تک آ جائے تو یہ فرار کی راہ ہے اور فرار انتہائی بزدلانہ فعل ہے۔ لہٰذا فریقین میں جو بھی علیحدگی کا نعرہ بلند کرے اسے ہی مفرور گرداننا چاہیے اور بزدل قرار دینا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اختلاف کی اس صورتحال کو اپنے تعلق کے نئے عہد و پیمان کے ساتھ استوار کیا جائے۔ اور جان کی بازی لگا کر بھی زندگی بھر کا عہد و وفا نبھایا جائے اس لیے کہ یکبارگی ہتھیار ڈال کر پسپا ہو جایا جائے۔ اور مزید جنگوں کے لیے نئے میدانوں کے انتخاب کا سوچا جائے۔ جنگ لڑنی ہی ہے تو اپنے دیرینہ دشمن سے کیوں نہ لڑی جائے اور پھر اسی کے ساتھ نئے عہد نامہ کی توثیق کیوں نہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

  ۱۔  لڑائی جھگڑا (غیر مطبوعہ) حامد برگی۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر ۲۰۰۲ء

               ۱۴۔ حیدر قریشی

            حیدر قریشی کی تحریر سادہ اور سلیس ہے۔ انداز بیان نہایت دلکش اور حسین ہے۔ قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور طلسماتی پردوں کو چاک کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’نقاب‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانی جسم بھی ایک نقاب ہے جسے روح نے اوڑھ رکھا ہے۔ روح جسم سے نکل کر فنا نہیں ہوتی بلکہ موت کا نقاب اوڑھ کر اس میں زندگی بن کے دھڑکنے دینے والی لگتی ہے۔ زمانے کی ماہیئت پر سنجیدگی سے غور کریں تو ماضی سے مستقبل ت زمانہ نقاب اوڑھے نظر آتا ہے۔ مستقبل کے پورے مگر باریک نقاب سے ہر لحظہ جھانکتا ہوا ’’حال‘‘ پلک جھپکتے ہی ماضی کے آدھے نقاب کی اوٹ میں چلا جاتا ہے۔ اور ہم اس لمحے کو چھونے کی پوری طرح دیکھنے کی خواہش دل میں ہی لیے رہ جاتے ہیں۔

            ڈپلومیسی کا نقاب آج کل بہت عام ہے۔ عام زندگی سے لے کر بین الاقوامی سطح پر ہر شعبہ حیات میں اس نقاب کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

  ۱۔  نقاب۔ حیدر قریشی۔ دو ماہی گلبن جنوری تا اپریل انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

               ۱۵۔ جان کاشمیری

            جان کاشمیری اپنے انشائیوں میں حقیقت کو زیادہ مد نظر رکھتے ہیں۔ روزمرہ کی باتیں کرتے کرتے وہ فکر کی گہرائیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے پاس روانی اور سلاست ہے۔ عام فہم اور دقیق الفاظ دونوں استعمال کرتے ہیں۔ باتیں کرتے کرتے نصیحت بھی کر دیتے ہیں جو قاری کو بالکل گراں نہیں گزرتی۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’لاگ شیٹ‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’کبھی کبھار انسانی کج تدبیری کی وجہ سے لاگ شیٹ روٹھ کر میکے چلی جاتی ہے جس سے اس کی نایابی کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس ہنگامی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک سادہ اور بڑے کاغذ کے ٹکڑے پر لکیریں کھینچ کر اس کو الگ شیٹ کا ہمشکل بنا دیا ہے۔ لاگ شیٹ اس کو سوکن خیال کرتے ہوئے فوراً واپس لوٹ آتی ہیں پھر اصل لاگ شیٹ کو ہمیش ہمیشہ کے لیے رام کرنے کی خاطر نقلی لاگ شیٹ کا لفظ لفظ من و عن اس کے سینے میں اتار دیا جاتا ہے۔ اس طرح معمولات معلومی پر آ جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے سرد و گرم جذبات میں اس پر انڈیلتا رہتا ہے کہ چوبیس گھنٹوں کے بعد اس کے ارد گرد دائرہ در دائرہ حاشیہ جنم لیتا ہے اور لاگ شیٹ اس حاشئے میں اس طرح فٹ بیٹھتی ہے کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔ البتہ اس کی روح روز اول کی مانند سر مست و سرشار نظر اتی ہے۔ درحقیقت لاف شیٹ جہازی سائز کا نصف ٹکڑا ہوتا ہے جن کو واپڈا کے ارباب بست و کشاد نے بہ اہتمام خاص کالی روشنائی سے مختلف خانوں میں تقسیم رکھا ہے تاکہ بوقت ضرور عوام الناس کو چراغ تلے اندھیرے کی حقیقت سے روشناس کرایا جا سکے۔ با لفاظ دیگر لاگ شیٹ کی فکریں روشنی کے گھر میں تیرگی کے احساس کو زندہ رکھے ہوئے ہیں کہ انسان متکبر نہ ہونے پائے۔۔۔‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

  ۱۔  لاگ شیٹ۔ جان کاشمیری۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر جنوری اپریل ۲۰۰۱ء

               ۱۶۔ انجم نیازی

            انجم نیازی ایک جانے مانے انشائیہ نگار ہیں۔ موضوع کا انتخاب بہت دلکش انداز میں کرتے ہیں۔ الفاظ کو موتیوں کی طرح پروتے جاتے ہیں۔ ان کے ہر جملے میں گہرا فہم پوشیدہ ہوتا ہے۔ انشائیہ ختم ہونے تک قاری کی دلچسپی برقرار رکھتے ہیں۔ ان کے انشائیے ’’صفر‘‘ سے مندرجہ ذیل اقتباس لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

            ’’جب کسی خط کا ایک سرا قوس سی بناتے ہوئے اس کے دوسرے سرے سے جا ملے تو عرف عام میں اسے صفر کہا جاتا ہے۔ یہ دائرہ ٹچ بٹن سے چھوٹا ہو خواہ پورے کرۂ ارض سے بڑا ہو۔ اس کی صفریت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گنتی کا کوئی مسئلہ اس کے بغیر حل نہیں ہوسکتا۔ اس کے بغیر نہ گنتی شروع ہوسکتی ہے نہ ختم۔ ایک کے عدد سے پہلے بھی صرف آتا ہے اور ایک سو کھرب کے آخر میں بھی صفر ہی آتا ہے۔ گنتی کی کوئی حد صفر سے آگے جاکے ختم نہیں ہوتی اور نہ کوئی حد اس سے پہلے شروع ہوتی ہے۔ کوئی طالب علم کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں صفر سے اس کی بالمشافہ ملاقات ہو کر ہی رہتی ہے۔ کبھی احساس برتری کے ساتھ اور کبھی احساس کمتری کے ساتھ! صفر کے ساتھ میری ذات کا تعلق بلکہ بے تکلفی بہت پرانی ہے۔ اسی دیرینہ تعلقات کی بنا پر میں علامہ مشرقی بنتے بنتے رہ گیا۔ میں زندگی کی ہر سطح پر کبھی شعوری طور پر اور کبھی لاشعوری طور پر صفر کے ارد گرد گھومتا رہا ہوں۔ اور صفر بھی میرے احترام میں میری ذات کا طواف کرتا رہا ہے۔ میری ذات صفر سے اور صفر میری ذات سے کئی ظاہری اور کئی باطنی مماثلتیں رکھتا ہے۔ میری ذات کا دائرہ صفر کی طرح میرے دل کو گھیرے ہوئے ہے۔ جس نے مجھے دو حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ذات کے دائرہ کے اندر میرا داخل اور اس کے باہر میرا خارج ہے۔ میری ذات کے یہ دونوں ٹکڑے ناقابل تقسیم ہیں جو پہلے سے طے شدہ فاصلے برقرار رکھتے ہیں۔۔۔۔‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

  ۱۔  صفر۔ انجم نیازی۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر جنوری اپریل ۲۰۰۱ء

               ۱۷۔ ناصر عباس نیر

            ناصر عباس نیر کی انشائیہ نگاری میں انسانی نفسیات کا کافی عمل دخل ہے۔ اور تحریر کی سلاست غضب ڈھاتی ہے۔ وہ موضوع کو ہمیشہ مد نظر رکھ کر لکھتے ہیں۔ اپنی ذات میں قاری کو اتنا الجھا کر رکھتے ہیں کہ وہ کسی اور طرف دیکھ ہی نہیں پاتا۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے ایک خوبصورت انشائیہ ’’معنی’‘ سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

            ’’زوروں کی گرمی پڑ رہی تھی، خیال کا جسم بھی جلنے لگا تھا۔ تصور کا طائر آوا رہ منقار زیر پر تھا۔ مجھے کالج سے گھر پہنچنا جلتے ہوئے صحراء کو عبور کرنے کے برابر لگ رہا تھا۔ زمین آگ اور آسمان آتش فشاں تھا۔ مگر آدمی کو بعض سفر ماحول کی نا موافقت اور وسائل کی کمی کے باوجود شروع کرنے اور جاری رکھنے پڑتے ہیں۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ آدمی کی اسی مجبوری سے انسان کا ارتقاء ہوا ہے۔ مگر اس وقت فلسفہ ارتقاء کی گتھی کو سلجھانے کی فکر تھی نہ سمائی۔ میں بس یہ چاہتا تھا کہ جلدی سے اور آرام سے اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاؤں۔ انسان کے ایک لمحے میں جو اور جتنا چاہتا ہے اس کے فکر و احساس اگر اسی پر مرتکز اور قانع رہیں تو زندگی سکھ سے گزرتی ہے یا کم از کم نئے دکھ کے وار سے زندگی محفوظ رہتی ہے۔ مشکل تو یہ ہے کہ ایک لمحے کی خواہش کی تہہ میں اور نجان کتنی حسرتیں دم سادھے پڑی ہوتی ہیں جو کبھی تو اس لمحے کا دھڑن تختہ کر کے اپنے وجود کا اعلان کرتی ہیں۔ اور کبھی آنے والے لمحے کی سیج پر انگڑائی لے کر بیدار ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ عجب تماشا ہے میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا میں اگلے ہی لمحوں میں عجلت اور اطمینان سے گھر پہنچنے کی خواہش کے دام سے آزاد ہو چکا تھا۔ خیال کے جسم سے گرمی کی شدت کا خوف زائل ہو چکا تھا اور تصور کے آوا رہ پرندے نے اپنے پر کھول دئیے تھے۔ ۔۔۔‘‘۱

۔۔۔۔۔۔۔

  ۱۔  معنی۔ ناصر عباس نیر۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر جنوری اپریل ۲۰۰۱ء

 

               ۱۸۔ جاوید حیدر جوئیہ

            جاوید حیدر جوئیہ کی تحریر بڑی دلچسپ ہوتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات سناتے ہوئے وہ اپنے انشائیہ کو خوبصورت بناتے ہوئے آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ قاری کو اپنا جگری دوست سمجھتے ہوئے وہ ساری باتیں بتاتے ہوئے راستے پر چلتے ہیں اور نہایت مفید مشورے بھی دیتے جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے ایک خوبصورت انشائیہ ’’جبر و اختیار‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’ہمارے ہمسائے اس بلی سے تنگ آ چکے تھے جو ہر روز دیگچی میں رکھے دودھ پر ’’شب خون‘‘ مارتی۔ ایک رات گھر کے سارے لوگ ہاتھوں میں ڈنڈے اور لاٹھیاں لے کر چھپ گئے اور بلی کو آتے ہی گھیرے میں لے لیا۔ اب وہ بیچاری ایک طرف بھاگتی تو ڈنڈا برستا۔ اور دوسری جانب رخ کرتی تو لٹھ! ایک طویل کشمکش کے بعد جان کو خطرے میں دیکھا تو بلی ایک دہشتناک آواز میں غرائی اور قریبی ’’دشمن‘‘ پر اپنے تیکھے ناخنوں اور دانتوں سے یوں جھپٹی کہ مد مقابل کا چہرہ لہولہان ہو گیا۔ کسی کو دودھ یاد نہ رہا۔ بلی آناً فاناً غائب ہو گئی۔

            آپ اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ آزادی کی خواہش انتہائی کمزور کو بھی بہادر بنا دیتی ہے۔ میں آپ سے متفق ہوں مگر سوچنے کی بات ہے کہ آزادی کے جذبات کیونکر امڈ آتے ہیں۔ ذرا غور کیجیے کیا یہ جبر کی فضا کا نتیجہ نہیں ہوتے؟ کیا جبر کا ماحول فریق مخالف کی مخفی توانائی کو متحرک کر کے غیر معمولی افعال کی انجام دہی کا فریضہ ادا نہیں کرتا؟ کبھی کبھی تو میں سوچتا ہوں کہ اگر جبر نہ ہوتا تو آدمی زندگی کے افضل ترین منصب پر کبھی بھی فائز نہ ہوسکتا۔ بلکہ اپنی ازلی جبلت کا ادنیٰ غلام بن کر کہیں جنگلوں میں جانوروں کی معیت میں رہ رہا ہوتا اور یونہی ’’گھسٹ گھسٹ‘‘ کر فنا ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

  ۱۔  جبر و اختیار۔ جاوید حیدر جوئیہ۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر جنوری اپریل ۲۰۰۱ء

               ۱۹۔ عطیہ خان

            عطیہ خان ایک وسیع النظر انشائیہ نگار ہیں۔ ان کی ذہنی وسعت ان کی تحریروں میں صاف جھلکتی ہے۔ خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے والے ان کے الفاظ ایک نئے قسم کا ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’عمر دراز‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’جیتے رہو۔ خدا تمہاری عمر دراز کرے۔ خدا نومولود کو عمر خضر عطا کرے۔ خدا حضور کو تا قیامت زندہ رکھے۔ یہ سب دعائیں اس وقت کے لیے تھیں جب کہ زندگی اور موت کے سارے معاملات خدا کے اختیار میں تھے۔ عرصہ حیات مختصر تھا۔ دنیا کی آبادی کم تھی۔ عورتیں زندگی بھر بچے پیدا کرتیں لیکن ان میں سے صرف چند ہی بقید حیات رہتے۔ ہر بچے کے مرنے پر تعزیتی خطوں میں دعا دی جاتی تھی کہ خدا جلد ہی اس کا نعم البدل دے۔ غالبؔ سات بار باپ بنے لیکن ہر بچہ بچپن ہی میں ساتھ چھوڑ گیا۔ پھر عارف کو بیٹا بنا لیا تو وہ جوانی میں داغ مفارقت دے گیا۔ غالب یہ شکایت کر کے رہ گئے۔

ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کون دن اور

            جو خوش قسمت بچپن اور جوانی کی موت سے بچ نکلتے اور بڑھاپے تک زندہ رہتے ان کی بڑی عزت ہوتی تھی۔ گھر میں بوڑھوں کی موجودگی باعث برکت سمجھی جاتی تھی۔ مشترکہ خاندانوں میں بزرگوں سے بڑے فائدے بھی تھے۔ بچوں کی تربیت اور جوانوں کو اپنی کڑی نگرانی میں رکھ کر غلط راستے پر جانے سے بچانے کا کام یہ بزرگ اپنے ذمے لے لیتے تھے۔ گھر میں کوئی بوڑھا کھانستا کھنکھارتا تو چوروں کو گھر میں گھسنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ ‘‘۱

۔۔۔۔

  ۱۔  عمر دراز۔ عطیہ خان۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر جنوری اپریل ۲۰۰۱ء

               ۲۰۔ انجم انصار

            انجم انصار نہایت ہی سیدھے سادے انشائیے لکھتی ہیں۔ ان کے عام فہم اور دلکش انداز بیان کی وجہ سے وہ جانی پہچانی جاتی ہیں۔ اپنی سادگی ہی میں وہ قاری کی اصلاح بھی کر دیتی ہیں اور پتہ بھی نہیں چلتا کہ انہوں نے کب چوٹ کر دی ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیہ ’’بھول‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’انسان فطرتاً بہت ہی بھولا بھالا اور معصوم سا ہے۔ شاید اسی لیے اس کے خمیر میں بھول  جانے کی عادت خوب رچی ہوئی ہے۔ یاد دل میں کسک اور ذہن میں قیامت بپا کرتی ہے مگر بھول احساس کے سبزہ زار میں غنودگی کا چھڑکاؤ کر کے طمانیت کے جذبے سے روشناس کراتی ہے۔ اور میں تو یہ بتاتی ہوں کہ بھول ایک ایسی عادت ہے جو انسان کو یکسوئی کا پیغام دیتی ہے۔ آپ اپنی تمام پریشانیوں کو بھول کر اس کائنات پر ایک نظر ڈالیں تو اس کے پر اسرار نظارے آپ کو یوں پکڑ لیں گے کہ آپ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جائیں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جو اقوام اپنے آباء و اجداد کے اطوار بھول جاتی ہیں وہ اپنے حال میں شاذ و نادر ہی کسی غلطی کی مرتکب ہوتی ہیں۔ انسان کو اس کی یاد کی سزا تو ہر روز ملتی ہے لیکن بھول کی اللہ تعالیٰ کے ہاں عام معافی ہے۔ اسی لیے روزے میں اگر کوئی بھول کر کچھ کھا لے تو روزہ نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی کوئی کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ بھول ایک عطیہ خداوندی ہے۔ یہ انسان کی بدقسمتی ہو گی کہ وہ اپنے اس جوہر کو بھول جائے۔ دنیا میں بھول جانے والے عظیم انسانوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ کوئی وعدہ کر کے بھول جاتا ہے تو کوئی وعدہ کرنا ہی بھول جاتا ہے۔ میں تو اکثر سوچتی ہوں کہ اگر وعدے کے ساتھ بھول کا ازلی و ابدی رشتہ نہ ہوتا تو ہماری اردو شاعری کبھی کی بانجھ ہو گئی ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

  ۱۔  بھول۔ انجم انصار۔ دو ہامی گلبن جنوری اپریل انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

               ۲۱۔ رعنا تقی

            رعنا تقی کے انشائیے بہت عام فہم اور گہری فکر والے ہوتے ہیں۔ باتوں ہی باتوں میں وہ زندگی کے تلخ حقائق بیان کر جاتی ہیں۔ ان کی زبان میں سادگی اور روانی نظر آتی ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے خوبصورت انشائیے ’’ماسک‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید مرنے والوں کو عالم نزع میں اتنے کرب و ذہنی کشمکش کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جتنا مجھے کسی کی تعزیت کے دوران کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کے تمام عوامل میں سائیکل چلانے سے چپلی کباب کھانے تک۔ تعزیت کرنا میری زندگی کا سب سے ناپسندیدہ اور دشوار ترین عمل ہے۔ زندگی کی پگڈنڈی پر چلتے چلتے ہم نہ جانے کتنے مراحل طے کر جاتے ہیں کسی کو کیا ہمیں خود سن گن نہیں ہوپاتی۔ حتیٰ کہ اکثر اوقات کسی قسم کے رد عمل کا اظہار کیے بغیر ہم بعض اساتذہ کی تربیت دی گئی موسیقی کی دھنوں کو بھی بخیریت ہضم کر جاتے ہیں۔ (انسانی شکتی واقعی لائق صد تحسین ہے) لیکن تعزیت کا عمل ہمیشہ رسی پر چل کر کرتب دکھانے کے مماثل کہا گیا ہے۔ شاید اسی لیے مجھے ہنستے مسکراتے روتے یا آنسو بہاتے ہوئے گردن کا ایک خاص انداز میں ڈھلک جانے کا عمل تعزیت کے فن سے کہیں زیادہ شائستہ اور سہل و پختہ نظر آتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو شاید یہی ہے کہ پیدا ہونا چلنا پھرنا یا پھر اس دنیا کو خیر باد کہہ دینا زندگی کی کتاب کے وہ اوراق ہیں جو فطری طور پر از خود ہی پلٹتے جاتے ہیں۔ جبکہ تعزیت کرنے کا عمل اس کے برعکس ایک غیر فطری رجحان ہے۔ رجحانات فطری ہوں یا غیر فطری زندگی کے کینوس پر اپنے اپنے رنگوں کے دو شالے اوڑھنے میں کچھ وقت تو لیتے ہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔  ماسک۔ رعنا تقی۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر جنوری اپریل ۲۰۰۱ء

               ۲۲۔ پروین طارق

            پروین طارق کے انشائیے ماضی کے جھروکے سے جھانکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنی حسین یادوں سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتیں اور کبھی لگتا ہے کہ اپنے ماضی سے مستقبل کے دروازو ں پر دستک دے رہی ہوں۔ اور حال کو سنوارنے کا ذمہ اٹھا رہی ہوں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’لاؤنج اور آنگن‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’ہر گزرا دن اور ہر گزری رات جب انسان کو یاد آتی ہے تو دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ اور اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ وقت کی تیز ندی کو روک دے اور پھر۔ ایسا کرنا بھی تو اس کے بس میں نہیں ہے۔ انسان اپنی سی کوشش بھی کر رہا ہے کہ وقت کے بدلتے ہوئے دھارے کے ساتھ بہہ جائے۔ ہر چیز تبدیل ہو رہی ہے۔ رہن سہن، پہناوے، چال ڈھال، لب و لہجہ، سب ہی ترقی کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں اور روز بروز بدلتے جا رہے ہیں۔ وہ گھر جس میں آنگن ہو اس میں قدیم طرز بود و باش نظر آتی ہے مگر نجانے کیوں مجھے اپنا چھوٹا سا گھر اچھا لگتا ہے جس میں ضروریات زندگی کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ مگر مجھے ان سب میں زیادہ عزیز اور پرسکون جگہ گھر کا آنگن لگتا ہے۔ یہ آنگن نہ تو بہت بڑا ہے اور نہ بہت چھوٹا۔ بس سمجھ لیجیے! یہی کوئی چند مربع فٹ جگہ ہو گی جس کے چاروں طرف رہنے کے کمرے ہیں۔ ایک طرف باورچی خانہ ہے۔ جہاں سارا دن چولہا جلتا رہتا ہے اور گرم گرم کھانوں کی مہک۔ آنگن میں بکھر جاتی ہے۔ اس آنگن میں میری بیٹیوں نے بڑی دلچسپی لے کر چھوٹی چھوٹی کیاریاں بنائی ہوئی ہیں اور سبھی گھر والوں کے من پسند پودے لہلہاتے رہتے ہیں اور موسم بہار میں جب پھول کھلتے ہیں تو سارا آنگن مہک جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

  ۱۔  لاؤنج اور آنگن۔ پروین طارق۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

 

               ۲۳۔ منور عثمانی

            منور عثمانی اختصار میں پوری بات کہنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ اپنی تحریر کے ذریعے قاری کے ساتھ باتوں میں منہمک نظر آتے ہیں۔ موضوع کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’قائل کرنا‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یوں بھی قائل کرنے اور قائل ہو جانے کا کوئی ٹھوس منطقی جواز نہیں ہوتا حتیٰ کہ قائل کرنے یا قائل ہو جانے میں دلائل و براہین کا بھی کھلا یا خفیہ ہاتھ نہیں ہوتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس عمل میں ہماری پسندیدگی کا بڑا دخل ہوتا ہے ہم عموماً اس شخصیت سے متاثر ہو جاتے ہیں جو ہماری نظر میں کسی بھی حوالے سے پسندیدہ ہوتی ہے اور جو بیچاری ناپسندیدہ ہو وہ اپنے تمام دلائل و براہین کے باوجود اپنی بات ہمارے دل میں اتارنے سے قاصر رہتی ہے۔ گیا قائل کرنے کا تعلق منطق سے نہیں۔ جمالیات سے ہے۔ مسئلہ صرف پسندیدہ شخصیت تک محدود نہیں کوئی حلقہ یا قبیلہ بھی جب تک ہمارے جمالیاتی معیار پر پورا نہ اترے ہم اس سے متاثر نہیں ہوتے۔ (بعینہ اسی طرح وہ حلقہ یا قبیلہ بھی ہم سے متاثر نہیں ہوتا) گیا خیالاتِ عالیہ کی پذیرائی کا تعلق خیال سے ہے نہ عالیہ سے، بس ذاتی پسند سے ہے اور پسندیدگی کی بیاند جوہر نہ گوہر بس طرز و ادا ہے۔

            اب آپ خود بتائیے کہ قائل کرنے یا قائل ہو جانے کے عمل کو منطق یا دلائل سے جوڑنے والے بے ذوق اور بے عقل نہیں تو اور کیا ہیں ؟ اس منزل فکر پہ تو میں یہ عرض کرنے کی بھی جسارت کر رہا ہوں کہ قائل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود منطق اور دلائل ہیں۔ دیکھئے نا! دلائل رد عمل کو جنم دیتے ہیں۔ رد عمل کے بطن سے بحث پھوٹتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

  ۱۔  قائل کرنا۔ منور عثمانی۔ گلبن ۲۰۰۱ء

               ۲۴۔ عبد القیوم

            عبد القیوم کی تحریر میں انشائیہ کی ساری خوبیاں تو ہیں لیکن ان پر سنجیدگی کی تہہ نظر آتی ہے۔ لیکن میں اس ظرافت کا تڑکا لگا کر اسے بوجھل ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے غیر مطبوعہ انشائیے ’’مانگنے کا فن‘‘ سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو ایک استثنائی مثال تھی مگر آن مانگنا ایک فن بن چکا ہے مگر میں سوچتا ہوں کہ مانگنے کی ابتداء یا کسی عاجز و مسکین بندے نے کی ہو گی جو کوشش پیہم کے باوجود دامن طلب میں مطلوبہ شے پانے میں ناکام رہا ہو گا۔ یا پھر اس کا خالق وہ شخص ہو گا جو بزور بازو اپنی طلب میں ناکام رہنے پر بیچارگی کی تصویر بن کر آنکھوں میں نمی چہرے پر مایوسی کی پرچھائیں اور آواز میں لرزشی کیفیت طاری کر کے مانگنے کے لیے گڑگڑایا ہو گا۔ چھین جھپٹ کر کھانے کی لذت سے انسان پہلے پہل آشنا ہوا تھا لیکن چھین کر کھانے میں ناکامی نے اسے مانگنے کا فن سکھایا۔ انسانی اطوار اور خصلتوں سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ پہلے پہل ایسا ہی ہوا ہو گا۔ میں جب بھی مانگنے کے فن پر سوچتا ہوں تو میرے ذہن میں انسانی بے جا خواہشیں اور چادر باہر پاؤں پھیلانے کی عادتیں ضرورت بن کر انسان کے اخلاق و کردار کے در پہ آزار نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر مانگنے اور لینے دینے کا سلسلہ اس دنیا میں نہ ہوتا تو اس کی گہماگہمی اور رونق گہنا کر رہ جاتی۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

۱۔  مانگنے کا فن (غیر مطبوعہ)۔ عبدالقیوم۔ دو ماہی گلبن جنوری اپریل انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

               ۲۵۔ شاہد شیدائی

            شاہد شیدائی مرکز پر کائنات کو گھمانے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ عام فہم، آسان اور فوری دلنشین جملے بنانے میں انہیں خاصہ کمال حاصل ہے۔ ان کے انشائیے بہت پسند کیے جاتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ہر رسالہ و اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’پہیہ‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرد اور عورت کو زندگی کی گاڑی کے دو پہئے کہا گیا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ زندگی کا پہیہ بڑی تیزی سے گھوم رہا ہے۔ گویا زن و مرد کے ساتھ زندگی کی شکل بھی گول ہے مگر گولائی ان کے ظاہری خال و قد میں نہیں اندر کہیں تہوں میں موجود ہے۔ پہئے میں اس طرح کی علامت کا ڈھونڈ نکالنا بھی مجھ جیسے کسی شاعر کا ہی کمال ہوسکتا ہے۔ ورنہ پہیہ تو سیدھا سادا گول سا ایک پرزہ ہے جو زیست کی گاڑی کو رواں رکھنے پر مجبور ہے۔ فائلوں کے نیچے لگ جائے تو سائلوں کی مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ حکومتوں کی اتھل پتھل میں بھی تمام تہمتیں اسی پہئے نے اپنے سر لی ہیں جبکہ کئی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ یہی پہیہ کہ جسے پاؤں کا چکر کہیے سر پر تاج کی طرح سج جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ دوسرے ہی لمحے تاج پھر سے پہئے کی صورت پاؤں سے چپک جائے۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

  ۱۔  پہیہ (غیر مطبوعہ) شاہد شیدائی۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر جنوری تا اپریل ۲۰۰۱ء

 

               ۲۶۔ قاضی اعجاز محور

            قاضی اعجاز محور اپنے انشائیوں میں وضاحت کے ساتھ اپنی باتیں پیش کرنے کے عادی ہیں۔ وہ معمولی موضوعات لے کر اپنی خوشنما تحریر قاری کے پاس پیش کرتے ہیں۔ انسانی نفسیات اور ماحول کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’تبدیلی‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’لیکچرار سے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر ترقی پاتے ہی جب میری تبدیلی ہو گئی، میری پروموشن کی ساری خوشی کافور ہو گئی۔ اس سے پہلے مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ تبدیلی کے ایسے خوفناک اثرات بھی ہوتے ہیں۔ میں تبدیلی کو بڑے خوشگوار معنوں میں لیا کرتا تھا۔ جیسے بیمار کو تبدیلی آب و ہوا کے لیے کسی صحت افزا مقام پر جانے کے لیے کہا جاتا ہے یا پھر سخت گرمی کے موسم میں بادلوں کی آمد سے موسم میں خوشگوار تبدیلی مگر تبدیلی کی اس صورت نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ کسی گھر والے نے مجھے مبارکباد تک نہ دی۔ دیتے بھی کیسے، منہ پر اڑتی ہوائیاں، آنکھوں میں اداسی، بیمار سی چال دیکھ کر ان کا میرا حال پوچھنے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ ترقی کے ساتھ اس تبدیلی نے مجھے تبدیل کر کے رکھ دیا۔ پھر رفتہ رفتہ یہ راز بھی کھلا کہ میں اکیلا ہی اس آفت کا شکار نہیں ہوا۔ بلکہ بہت سے ملازمین متوقع ترقی کی خبر سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ کم ہی خوش قسمت ہوتے ہیں جو تبدیلی پر کھل اٹھتے ہیں۔ ویسے اس تبدیلی کا دوسرا رخ بھی سامنے آیا جو خاصا دلچسپ تھا۔ یعنی جب میں لیکچرار تھا تو نام کے ساتھ پروفیسر لکھا کرتا تھا۔ اب ترقی پا کر اسسٹنٹ پروفیسر ہو گیا۔ گویا یہ ترقی معکوس ٹھہری یعنی ایسی تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں کہ ہم قدم تو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ ہم پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

  ۱۔  تبدیلی (غیر مطبوعہ)۔ قاضی اعجاز محور۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر جنوری اپریل ۲۰۰۱ء

 

               ۲۷۔ محمد بصیر رضا

            محمد بصیر رضا اپنی شگفتہ اور سنجیدہ تحریر کے امتزاج کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو نہایت ہی اپنا سمجھ کر اپنے جذبات کو اس کے ساتھ بانٹتے جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کے انشائیے ’’تعاقب‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ میں مسلسل خوشیوں کے تعاقب میں ہوں اور میری ان تک رسائی نہیں ہو رہی لیکن اب اچانک مجھ پر یہ منکشف ہوا ہے کہ دراصل خوشیاں مجھے ڈھونڈ رہی ہیں اور میں انہیں مل نہیں رہا۔ میرے ہمیشہ خوشی کی خبر میری غیر موجودگی میں آتی ہے اور جب تک میں گھر لوٹتا ہوں تب تک میرے اہل خانہ اس خبر میں موجود مسرت کا سارا رس کشید کر چکے ہوتے ہیں اور مجھ تک یہ خبر ہزار خدشات اور وسوسوں کی بوسیدگی میں لپٹی ہوئی پہنچتی ہے۔ اس طرح مجھ تک کسی خوشی کی خبر کا پہنچنا نہ پہنچنے کے برابر ہوتا ہے بلکہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ میری غیر موجودگی میں کوئی اچھی خبر مجھ سے ملنے آئی تھی اور مجھے گھر میں نہ پا کر مایوس ہو کر چلی گئی اور جو ’’خوشیاں ‘‘ میرے گھر کے باہر و چہار طرف میری تلاش میں سرگرم عمل ہوتی ہیں تب میں اپنے کمرے میں بند ہو کر کسی انتہائی فضول کتاب کا بڑے انہماک سے مطالعہ کرنے میں مصروف ہوتا ہوں یا کسی بور فلم کو غیر معمولی دلچسپی سے دیکھ رہا ہوتا ہوں حتیٰ کہ جملہ مسرتیں حسب توفیق مجھے ڈھونڈ کر اور نہ پا کر کسی نامعلوم سمت میں رخصت ہو جاتی ہیں اور ان کے چلے جانے کے بعد میں بغیر کسی وجہ سے گھر سے باہر آ جاتا ہوں۔ فضا میں ان خوشیوں کی مہک ابھی تک موجود ہوتی ہے جو میرے دل کو زیاں کے شدید احساس میں مبتلا کر دیتی ہے اور میں روایتی جملہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دینے کی ناکام کوشش کرتا ہوں۔ ’’میری بہتری شاید اسی میں تھی۔ ‘‘۱

۔۔۔۔۔

  ۱۔  تعاقب (غیر مطبوعہ)۔ محمد بصیر رضا۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

               ۲۸۔ شفیع ہمدم

            شفیع ہمدم موضوع کو باندھ کر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پوری کائنات کی سیر کرنے کے بعد اپنے محور پر واپس آتے ہیں۔ آسان اور عام فہم الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں۔ قاری کی معلومات میں ہر وقت اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اقتباس ان کے غیر مطبوعہ انشائیے ’’بلیک بورڈ‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلیک بورڈ اور چاک کا آپس میں شمع اور پروانے کا تعلق ہے۔ چاک ایک پروانے کی مانند دیوانہ وار اس کے گرد منڈلاتا اور ایک عاشق صادق کی طرح آہستہ آہستہ اپنے وجود کو اس کے اندر ضم کرتا رہتا ہے اور آخر کار ریزہ ریزہ ہو کر اس کے قدموں میں بکھر جاتا ہے۔

            ایک درویش کی طر تختہ سیاہ اپنا سینہ سب کے لیے کشادہ رکھتا ہے۔ ریاضی کے دقیق سوالوں اور سائنس کے پیچیدہ فارمولوں کو بڑی خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہتا ہے۔ اس کے سینے پر جو چاہیں نقش کرتے جائیں اس کی پیشانی پر کبھی بل نہیں پڑتے۔ گورے گورے حنائی ہاتھوں کی مخروطی اور نرم و نازک انگلیوں کا وہ جس خوشدلی سے استقبال کرتا ہے اسی شگفتہ روئی سے کالے کلوٹے ہاتھو ں کی موٹی موٹی اور بد وضع انگلیوں کا بھی خیر مقدم کرتا ہے۔

            مجھے تختہ سیاہ اس لیے بھی پسند ہے کہ استقلال اور استحکام کا مادہ بدرجہ اتم اس میں موجود ہے۔ یہ طالب علم کا ابتدا سے انتہا تک نہایت مستقل مزاجی سے ساتھ دیتا ہے اور اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ ‘۱

۔۔۔۔

  ۱۔  بلیک بورڈ (غیر مطبوعہ)۔ شفیع ہمدم۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

               ۲۹۔ حنیف باوا

             حنیف باوا  کا انداز نہایت انوکھا اور دلکش ہے۔ ان کے انشائیے فوری دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔ گاہے ماہے ہندی زبان کے خوبصورت الفاظ ان کے انشائیوں میں سلمیٰ ستاروں کا کام کر دیتے ہیں ساتھ میں لطافت، سلاست اور شگفتگی سونے پر سہاگہ کا کام کرتی ہے۔ یہ اقتباس ان کے ایک غیر مطبوعہ انشائیے ’’ہاں ‘‘ سے لیا گیا ہے۔

            ’’اس نے کن کہا اور آن واحد میں یہ سندر دھرتی خلق ہو گئی۔ اس کن میں ’’ہاں ‘‘ کی پوری شبیہ موجود ہے ’’ہاں ‘‘ میں ’’نہیں ‘‘ کا تھوڑا سا بھی عنصر ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ یہ سب کچھ وجود ہی میں نہ آتا۔ بیشک ’’ہاں ‘‘ اور ’’نہیں ‘‘ نہیں بعد القطبین ہے یعنی اگر ’’ہاں ‘‘ مشرق ہے تو ’’نہیں ‘‘ کو مغرب کا نام دیا جا سکتا ہے۔ مشرق جہاں سے صبح سویرے سورج کا ظہور ہوتا ہے اس سورج کا جس کا چہرہ سرسبز شاداب پیڑوں کے جھروکوں سے ایک نوخیز بچے کی مانند دھلا دھلا سا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے وہ مغرب کی جانب سفر کرتا ہے اس میں وہ تمام آلائشیں در آتی ہیں جو رفتہ رفتہ اس کے چہرے کو داغ دار کر دیتی ہیں۔ اس کے اندر کی یہ تبدیلی مشرق اور مغرب کے مزاج کے بعد کی عکاس ہے۔ مرق جو پیار اور محبت کا گہوارہ ہے کس قدر فطرت کے قریب ہے۔ یہاں کے تمام علوم روحانیت کی مٹھاس بانٹتے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مغرب کی مادہ پرستی کی تند و تیز ہوا وہاں کی زندگی کو برہنگی کے حوالے کرنے پر ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ساری کرشمہ بازیاں صرف ’’ہاں ‘‘ اور ’’نہیں ‘‘ کی پیدا کردہ ہیں۔ جو دو ایسی تلواروں کے مشابہ ہیں جو ایک میان میں سمانہیں سکتیں۔ اگر ایک کا اندر آنے کو جی چاہے تو دوسری کا پاؤں دہلیز سے باہر ہو گا۔ جیسے دو متوازی خطوط کبھی ایک دوسرے کے گلے نہیں مل سکتے۔‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

۱۔  ہاں (غیر مطبوعہ)۔ حنیف باوا۔ دو ماہی گلبن انشائیہ نمبر ۲۰۰۱ء

               ۳۰۔ شجاع الدین غوری

            شجاع الدین غوری (کراچی) روزمرہ کے عنوانات کو منتخب کر کے بڑے ہی دلکش پیرائے میں اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ سادگی سے زندگی کے سسٹم پر چوٹ کر جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انشائیہ ملاحظہ کیجیے:

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے آئے دن اخبارات میں شائع ہونے والی یہ خبر تو ضرور پڑھی ہو گی کہ کھانے پکانے میں دیر ہو جانے پر یا بد مزہ کھانا پکانے پر ناراض ہو کر شوہر یا تو بیوی کا سر پھاڑ دیتا ہے یا جان ہی لے بیٹھتا ہے۔ غالباً یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ سے عورتیں شوہروں سے پوچھتی ہیں کہ ’’آج کیا پکے گا؟‘‘

            ’’اجی سنتے ہو۔ ‘‘ دوسرے کمرے سے بیگم نے آواز دی۔ ’’ہر وقت لکھنا پڑھنا ایک ہی کام رہ گیا ہے۔ اگر نوجوانی میں اتنا لکھ پڑھ لیا ہوتا تو آج آپ کا نام بھی NRO (جس کے تحت زرداری جیسے ممنوعہ افراد کو الیکشن کا اہل قرار دیا گیا) میں ہوتا۔ لندن کی ایجواء روڈ پر اپنا بھی ایک گھر ہوتا۔ ہندوستانی، پاکستانی اور عربی کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔ خیر چھوڑئیے ان باتوں کو۔ آج صبح سے یہ سوچتے سوچتے میرا سر بھاری ہو گیا ہے اور کچھ نہ سہی یہ بتا کر میرے سر کا بوجھ ہلکا کریں کہ آج کیا پکے گا؟‘‘ قارئین و سامعین کرام کیا آپ اس سلسلے میں ہماری بیگم کی کچھ مدد کرسکتے ہیں ؟‘‘۱

۔۔۔۔۔۔

  ۱۔  آج کیا پکے گا؟ شجاع الدین غوری۔ شگوفہ مئی ۲۰۱۰ء

٭٭٭

 

باب ششم: انشائیہ نگاری۔ مغرب میں

            انشائیہ کا تخم فرانس میں مونتین نے بویا تھا۔ اس حقیقت سے تمام ناقدوں نے اتفاق کیا ہے۔ ڈاکٹر آدم شیخ نے اپنی کتاب ’’اردو انشائیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ:

            ’’انشائیہ نگاری کا آغاز فرانس میں مونتین Montaigne سے ہوا۔ جسے عام طور پر اس صنف کا موجد اور باوا آدم کہا جاتا ہے۔ انگلستان میں یہ سلسلہ سر فرانس بیکن سے شروع ہوتا ہے۔ مونتین کے ساتھ ساتھ انشائیہ نگاری کے میدان میں بیگن کی حیثیت آج بھی ایک اہم متوازی رویہ کی حیثیت ہے۔ چارلز اسمتھ نے مونتین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بڑے سے بڑا انشائیہ نگار بھی مونتین کے اثرات سے نہیں بچ سکتا۔ یہی بات بیکن کے بارے میں بلا خود و تردید کہی جا سکتی ہے۔ مغرب کا کوئی بھی ایسا انشائیہ نگار نہیں ہے جو بیکن کے اثرات سے یکسر آزاد ہو۔ خواہ وہ خود چارلز لیمب ہی کیوں نہ ہو۔ مونتین اور بیکن دونوں عہد وسطیٰ کے اختتام یعنی سولہویں صدی کی پیداوار تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغرب میں لوگوں کو اچانک یہ احساس ہوا کہ انہیں اب قدیم داستانوں، پند ناموں اور رزم ناموں کی مزید ضرورت باقی نہیں رہ گئی۔ اس طرح اب ادب، متعلقہ ادیب کے ذاتی غم یا خوشی یا محبت یا پھر نفرت کا اظہار بن گیا۔ تاریخ اور داستانوں کو الگ رکھ دیا گیا اور فنکار مختلف مسائل پر خود اپنی بات کہنے کے لیے یعنی دوسروں لفظوں میں اظہار ذات کے لیے بے چین ہو اٹھا۔ Essay یا فرانسیسی لفظ Essais کے لغوی معنی ہوتے ہیں کوشش کرنا۔ To try یا تولنا To Wieght یہ بے چینی جو بعد میں انشائیہ کا جزو لاینفک بنی۔ انسان کی فطرت کے زیرو بم کا نتیجہ تھی جسے کوئی بھی فنی اصول یا ادبی مسلک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پابند نہیں بنا سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

            اس میں کوئی شک نہیں کہ جذبات کے اظہار کی نثری شکل انشائیہ ہے۔ لیکن یہ نثری شکل دوسری ادبی اصناف سے بہت مختلف تھی۔ بیکن نے بھی اپنے ایسیز کو ’’افکار پریشاں ‘‘ کا نام دیا ہے۔ یعنی Dispersed Meditation۔ مونتین نے اپنی تحریر کے ذریعے تنقید اور اخلاقیات کا درس دیا ہے۔ انگریزی ادب میں مونتین اور بیکن کا موازنہ کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ:

            ’’مونتین نے اپنے ایسیز آتشدان کے سامنے آرام کرسی پر لیٹے لیٹے لکھے ہیں اور بیکن نے بڑے غور و خوض کے بعد اپنے خیالات کو مرتب کر کے جیسے دفتر میں بیٹھ کر باقاعدگی سے لکھے ہیں۔ ‘‘۱

            اٹھارہویں صدی میں انشاء پردازی یا ایسیز نگاری کا عروج کا دور تھا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ پہلے تو اس صدی کے آغاز میں ہی اہل انگلستان میں سیاسی، سماجی اور اخلاقی شعور بیدار ہونا شروع ہو گیا تھا۔ کئی اخبارات نے بھی اپنی اشاعت سے جوہر دکھانے شروع کر دئیے تھے۔ جیسے Tetlon اور Spectator۔ ان اخبارات نے بھی انشائیہ یا ایسیز کو فروغ دیا۔ اور ایڈیسن Adison اور اسٹیل Steal جیسے رائٹر مشہور ہونے شروع ہوئے۔ ایڈیسن، یبکن اور مونتین کی روایتوں کے بہترین مزاح داں اور مؤثر ترین امتزاج تھے۔ ان کی بدولت انشائیے کی دو قسمیں وجود میں آئیں۔ (۱) سنجیدہ انشائیے Serious Essays (۲) لمحاتی انشائیے Occasional Papers۔

            ڈاکٹر آدم شیخ ’’اردو انشائیہ‘‘ میں ان دونوں اقسام کی صراحت کچھ اس طرح کرتے ہیں۔

            ’’پہلی قسم میں اولین فلسفہ، منطق، تاریخ اور تحقیق سے دامن بچاتے ہوئے پر تکلف اور عالمانہ انداز میں موت، دوستی، شادی اور تعلیم جیسے اہم مسائل پر اپنے ذاتی تاثرات پیش کرنا۔ جس کو ایڈیسن نے بخوبی پیش کیا ہے اور دوسری قسم میں ایڈیسن بے حد بے تکلف، پرمزاح موڈ اور نجی ترنگ میں نظر آتا ہے۔ اور لیمپ کے مداح جو اسے پہلا حقیقی انشائیہ نگار قرار دیتے ہیں دراصل یہ بھول جاتے ہیں کہ بیکن اور اس کے بعد ایڈیسن نے ہی لیمب کے لیے راستہ بنایا تھا۔

            سوزن کوپر نے ان ہی لوگوں کے متعلق تحریر کیا تھا کہ :

            ’’انشائیہ نثر میں میں سانیٹ کا نعم البدل نہیں ہے کہ اس کی ہیئت میں کسی قسم کی تبدیلی ہی نہ ہوسکے اور جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک روایتی اور جامد ڈھانچے سے بندھا رہے۔ انشائیہ ایک ایسا فنی ڈھانچہ ہے جو زبان و ادب کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ خود بھی بدلتا رہتا ہے جو لوگ اس تبدیلی کو قبول نہیں کرت ان کے یہاں ناقابل برداشت یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ‘‘

            آنے والے انشائیہ نگاروں نے بھی انشائیہ میں زندگی کی داخلیت پر زور دیا ہے۔ بیلاک Bellock نے مذہبی اور روحانی مسائل کو بھی اس صنف سے جوڑا ہے اور چسٹرٹن Chestorton نے اخلاقی اور معاشی مسائل کو اپنا موضوع تحریر بنایا۔ اس طرح یہ لوگ اپنے ذاتی عناصر کو انشائیہ کی ہیئت بدلتے بدلتے اس زندگی سے قریب کرتے گئے۔ اپنے ذاتی عناص ر کو صنف انشائیہ میں سمولینے کے بعد لطافت بیانی کی ملمع کاری نے ان کے ہنر میں چار چاند لگائے۔

            اب ہم چند مغربی انشائیہ نگاروں کو مختصر تعارف کی روشنی میں دیکھیں گے جن کی تحریر نے انگریزی ادب کے سرمایہ میں گراں قدر اضافہ کیا۔

 

               مونتین Montaign

            فرانسیسی ادیب مونتین انگریزی اسے رائیٹنگ کا باوا آدم ہے۔ تو وہیں دوسری طرف اس کے ایسیز تمام مغربی نثر نگاروں سے مختلف ہیں۔ کسی نے اس کی نثر کو لطیف ادب سے تعبیر کیا تو کسی نے نثر کے ٹکڑے کہے۔ بہت ساروں نے تو صرف پیرائے گفتگو بھی کہا۔ ۱۵۷۱ء میں فارغ البالی کے بعد اس نے مشغلے کے طور پر جو تحریریں پیش کیں وہی بہترین مضامین کہلائے جانے لگے۔ مونتین کے مضامین میں نہ کوئی علمی ادبی نظریہ یا دعویٰ ہے اور نہ ہی یہ کوئی منظم و مرتب مضامین ہیں۔ ان میں اس نے مختلف موضوعات پر ہلکے فلسفیانہ رنگ میں اپنے تاثرات بیان کیے ہیں جن سے کوئی نہ کوئی درس اخلاق ملتا ہے اور انداز بیان کے لحاظ سے بے ساختہ پن اس کا وصف خاص ہے۔ جب مونتین کے یہ ایسیز منظر عام پر آئے تو ارباب ذوق نے انہیں بہ نظر استحسان دیکھا۔ اس طرح ایک ادیب کے قلم سے اتفاقی طور پر ’’ایسے‘‘ نے جنم لیا جو آگے چل کر ایک اہم وصف قرار پایا۔

            مونتین کی تحریر کی شگفتگی، اختصار اور جامعیت نے اسے انشائیہ کا درجہ دے دیا۔

               فرانِس بیکن  Jan 1561 –  April 1626

            فرانس بیکن اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم اور ذہین ادیب تھا اور فلسفہ سائنس اور ادب میں کئی حیثیتوں سے اسے انگلستان میں اولیت کا شرف حاصل رہا۔ جدید مغربی فلسفہ میں بھی بیکن کو تاریخی شہرت حاصل ہوئی۔ اگرچہ مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہ کر اس نے بد عنوانیاں کیں اور پوپ کے اس فقرہ ’’عاقل ترین، ذہین ترین اور کمینہ ترین‘‘ کا سزاوار بھی ٹھہرا۔ لیکن اس کی معرکہ الآراء تصانیف کے سامنے ان لغزشوں کی کوئی اہمیت نہیں۔

            کیمبرج میں طالب علمی کے زمانے سے ہی بیکن کو قدیم فلسفہ کی بے ثمری کا یقین ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کے ذریعے عالمانہ بحث کو طوالت ضرور دی جا سکتی ہے لیکن حقیقت تک رسائی ممکن نہیں۔ چنانچہ اس نے معلمین کے طریقہ کار کو چھوڑ کر استقرار Induction کو زیادہ اہمیت دی۔ اس نے اپنے نصب العین کا اعلان کچھ اس طرح کیا:

            ’’مجھے حقیقت کا ذاتی ادراک ہوا جس کے لیے مجھے تحقیق و تفحص سے کام لینا پڑا۔ میں غور و فکر کی کٹھن وادیوں سے گزر کر نتائج اخذ کرتا رہا۔ میرے نزدیک جدت کی کوئی قدر نہ تھی اور نہ قدامت کے لیے کوئی خاص اہمیت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے بالآخر تمام علوم کو اپنے دائرہ میں سمیٹ لیا۔ ‘‘

            اس نظریہ کی مزید توصْح بیکن نے اپنی مشہور تصنیف Novum Onganum میں کی۔ جس میں اس نے تمام علوم کے باہمی رشتے پر زور دیا ہے۔ اس نے انسانی کمزوریوں اور علم دشمن عناصر کو طبقاتی فرقہ آرائی رجعت اور سوقیت میں تقسیم کیا ہے۔ اس کا نظریہ تحقیق فطرت کے خارجی مطالعہ اور باقاعدہ تجربے پر مبنی ہے۔

            The Adventure of Learning اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔

            بیکن کی بیشتر تصانیف لاطینی زبان میں ہیں لیکن ان کی اہمیت اور انگریزی ذہن پر ان کے اثرات سے کسی کو انکار نہیں۔ انگریزی ادب میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ وہ انشائیے ہیں جن کی بدولت وہ انگریزی انشائیہ کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ ان انشائیوں سے ہمیں فرانسیسی مصنف مونتین کی یاد آتی ہے جس نے اپنے تجربوں اور مشاہدوں کو مختصر مضامین میں سمودیا ہے۔ لیکن جو بات مونتین کے یہاں فراوانی اور انسیت دیتی ہے وہ بیکن کے ہاں مفقود ہے۔ انگریز انشاء پرداز نے اپنے ذاتی تجربے فلسفیانہ انداز میں پیش کیے۔ ان مضامین کی خصوصیت اختصار اور جامعیت ہے۔ یہاں اس کا خطاب درباریوں اور شہزادوں سے تھا۔ اسی لیے نفس مضمون کی حد تک ہم بیکن کو اطالوی مدبر میکاولی سے زیادہ نزدیک پاتے ہیں۔ بیکن انگریزی زبان میں افادی ادب کا سب سے پہلا نمائندہ ہے۔

               وان برگ Vanbragh  1664 – 1726

            وان نے اپنی تحریر میں طنز و مزاح کو فوقیت دی لیکن اس دور کی تہذیب اور اخلاقی اقدار کا پورا پورا خیال رکھا۔ اس کی تحریر انفرادیت کی حامل تھی۔ وہ قاری کے ذہن کی تعمیر کا کام اپنے الفاظ سے کرتا تھا۔ حالانکہ وہ پیشے سے ایک آرکیٹکٹ تھا۔ مزاح کے ذریعے اس نے اپنی ایک انمٹ چھاپ چھوڑی ہے۔

               چارلس لیمب Charles Lamb 1775 – 1834

            لیمب کا طرز تحریر نہایت دلکش تھا۔ وہ کولرج نقاد کا ہمعصر تھا۔ لیکن اس کے مقاصد جداگانہ تھے۔ 1820 میں لکھے گئے ایسیز آف ایلیا (Essays of Elia) اس کے مشہور ایسیز ہیں۔ گو کہ اس نے دوسری اصناف سے بھی انگریزی ادب کو مالامال کیا لیکن اس کی خوبصورت اور دلکش تحریریں نثر نگاری کی جان ہیں۔

               گارڈنرAlfred George Gardiner A.G 1865-1946

            صحافی انشاء پردازوں میں گارڈنر کا نام صف اول میں آتا ہے۔ اس کے ابتدائی مضامین بالخصوص Prophets, Priests & Kings میں ’’نئی دنیا کی ترقیوں کا ایک درد مند احساس ملتا ہے لیکن یوروپ کی پہلی جنگ عظیم اور اس کی تباہ کاریوں نے اس کے خیال میں بڑا انقلاب پیدا کیا۔ صحافت کے میدان میں گارڈنر نے Alpha of the Plough کے نام سے ادبی مضامین لکھنا شروع کر دئیے تھے جن میں اس نے مختلف موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے۔ یہ مضامین مختلف موقعوں پر اس کی ذہنی زندگی کی آئینہ داری کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر مضامین میں شخصی رنگ نمایاں ہے۔

            گارڈنر کے مجموعہ مضامین میں Pebbles on the Shore اور Leans in the Wind سے اس کی شخصیت کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ اس کے مضامین اور موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ وہ ’’افواہ‘‘ اور ’’بس کا سفر‘‘ سے لے کر ’’چھانے کا اخلاق‘‘، ’’لمبے چھوٹے پیر‘‘ اور ’’ہیٹ کا فلسفہ‘‘ تک کو اپنے مضامین کا موضوع بناتا ہے۔ ان مختصر انشائیوں میں اکثر حیات و کائنات سے متعلق بلیغ اشارے بھی ملتے ہیں جو بیحد دلکش انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔

               ای۔ وی۔ لوکس Edward Verral Lucas , June 1868 – June 1938

            چارلس لیمب کی جانشینی کا حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو وہ لوکس ہے۔ اگرچہ پریس کی پابندیوں اور اخباری کالم نگاری کی وجہ سے اس کے مضامین میں لیمب کی دلنشینی نہیں ملتی۔ لیکن ایک خاص سانچے میں ڈھلے ہوئے اس کے مضامین بے حد دلچسپ ہوتے ہیں۔ اسلوب کی دلکشی کے علاوہ لوکس کے یہاں ہمدردی اور رواداری کا جذبہ بھی ملتا ہے اور یہی اس کی مقبولیت کا راز ہے۔

            لوکس نے زود نویسی اور بسیار نویسی دونوں میں اپنا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اسی لیے اسے اپنے انتخابات The Open Reed کے علاوہ Variety Love اور Honest Home میں پیش کرنا پڑا۔ لندن یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد لوکس مختلف اخباروں میں کام کرتا رہا اور بالآخر لندن کے مشہور جریدہ ’’پنچ‘‘ کا معاون ایڈیٹر ہو گیا۔ اس نے چارلس لیمب کے خطوط اور مضامین کا مجموعہ شائع کیا اور اس کی سوانح عمری بھی لکھی۔ اس کی دوسری تصانیف میں انشائیہ مصوری اور ناول نگاری سے متعلق مضامین ہیں۔

            لوکس نے لیمب کے متعلق کہا تھا کہ وہ انفرادیت اور خلوص کے باعث زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ یہی بات اس پر بھی صادق آتی ہے مگر ان دونوں انشاء پردازوں میں بنیادی فرق ہے۔ جہاں لیمب کے یہاں تخیل کا سحر اور ماضی کو حال میں ڈھالنے کا ملکہ ملتا ہے وہاں لوکس نفاست خیالی، ادبی شعبدہ بازی اور فراح کی بناء پر ممتاز ہے۔ اس کے مضامین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان سے ہماری دلچسپی کے لیے مختلف گوشے روشن ہوتے ہیں اور ہم جدھر نگاہ اٹھاتے ہیں ہمیں ایک نئی کائنات نظر آتی ہے۔

               ہیلری بیلک  July 1870- July 1953

            بیلک کے مضامین میں ایک خاص قسم کی تازگی اور شگفتگی ہے جو ان مضامین کا جوہر ہے۔ وہ ’’حسن ارضی‘‘ کا قائل ہے اور اسی دنیا کی رنگا رنگیوں سے اپنے فن کے لیے مواد فراہم کرتا ہے۔ اس کے ہم عصر پرسیٹیلے کا انداز بالکل جداگانہ ہے۔ اس نے زندگی کے مشاہدات کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ جس سے کبھی کبھی چارلس لیمب کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

               رابرٹ لینڈ

            رابرٹ لینڈ بھی معاصرین میں اپنی گوناگوں ادبی دلچسپیوں کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتا ہے۔ مختلف عنوانات پر نثری ٹکڑے لکھنے میں اسے بڑا ملکہ حاصل ہے۔ اس کے انشائیوں میں حسن ادا کے ساتھ ناقدانہ بصیرت کا بھی پتہ چلتا ہے۔

            گارڈنر کی طرح رابرٹ لینڈ بھی صحافت کے راستے سے ادب میں داخل ہوا اور New Statesman قلمی تعاون کی حیثیت سے اس نے جلد ہی اپنی جگہ بنا لی۔ وہ Y.Y. کے فرضی نام سے ہفتہ وار عالمی حالات کا جائزہ لیتا رہا جس کا سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ ان مضامین میں بیک وقت سادگی، گہرائی اور سنجیدگی اور مزاح کی خصوصیات بڑی خوبصورتی کے ساتھ ملی جلی ملتی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ لینڈ نے معمولی واقعات اور تاثرات کو ایک فن لطیف بنا دیا ہے اس لیے کہ وہ معمولی واقعات اور تاثرات کو شاعرانہ رنگ میں پیش کرنے کی قابل رشک صلاحیتیں رکھتا ہے۔ پریسٹیلے نے ایک دفعہ اس کے متعلق کہا تھا کہ ’’ہم اس کی صحبت سے خوش ہو کر اٹھتے ہیں۔ ‘‘

 

               چسٹرٹن Gilbert Keith Chesterton 1874 – 1936

            جدید انگریزی نثر میں چسٹرٹن اپنے خاص مقام پر ہے۔ وہ اکبر الہ آبادی کی طرح قدامت اور رجعت پسندی کا علمبردار ہے۔ اگر انداز فکر اور طریقہ اظہار دونوں میں اس نے آسکر وانلڈ کے بعد آنے والی نسل سے بہت کچھ سیکھا لیکن اپنی بات کو چونکا دینے والا انداز میں کہنا اس نے نئے لکھنے والوں سے ہی حاصل کیا۔ بحیثیت انشاء پرداز کے چسٹرٹن کا فن ’’اجتماع ضدین‘‘ Paradoy ہے۔ قدیم اقدار اور روایات کی پاسداری اس کا مزاج ہے۔ اسی لیے وہ تجدید و اصلاح سے ’’گمراہ‘‘ ہونے کی بجائے روایت اور ترکہ اسلاف کے احترام کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ چاہے آکسفورڈ یونیورسٹی پر لکھے یا جدید شاعری پر اظہار خیال کرے اس کا مخصوص لب و لہجہ ہر جگہ نمایاں ہے۔ ذیل میں ایک اقتباس اس کے مشہور مضمون ’’فرانسیسی اور انگریز‘‘ (French & English) سے ماخوذ ہے جس سے اس کی شخصیت اور فن کا کچھ اندازہ ہوسکے گا۔

            ’’یہ تو صاف ظاہر ہے کہ بین الاقوامی (International) اور آفاقی (Cosmopolitan) کے درمیان بڑا فرق ہے۔ سارے بھلے آدمی بین الاقوامی ہوتے ہیں اور تقریباً تمام برے لوگ آفاقی۔ اگر ہمیں ’’بین الاقوامی‘‘ ہونا ہے تو پہلے National ہونا پڑے گا۔ بین الاقوامی صلح کا مقصد قوموں کے درمیان صلح ہے نہ کہ قوموں کی بربادی کے بعد کی صلح جیسے بدھ مذہب والوں کی صلح جو شخصیت کے خاتمہ کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ اچھے یوروپین کا عہد زرین عیسائی تصور بہشت سے مشابہ ہو گا جہاں لوگ ایک دوسرے سے محبت کریں گے نہ کہ ہندوؤں کے بہشت کی طرح جہاں وہ اسی طرح رہیں گے۔ قومی کردار کے معاملہ میں یہ مشاہدہ کم دلچسپ نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایک شخص دوسری قوم کا دل سے جس قدر مداح ہو گا اسی قدر اس کی تقلید سے احتراز کرے گا۔ اس کو ہمیشہ اس کا احساس ہو گا کہ ان کے یہاں کچھ ناقابل تقلید عناصر ہیں۔ وہ انگریز جسے فرانس سے دلچسپی ہو گی فرانسیسی ہونے کی کوشش کرے گا لیکن جو اس کا مداح ہے وہ کٹر انگریز رہے گا۔ اس کا اندازہ فرانسیسیوں سے ہمارے تعلقات کے مطالعہ سے بآسانی ہوسکتا ہے کیونکہ فرانسیسیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی برائیاں سطح پر ہوتی ہیں مگر ان کی اچھائیاں چھپی رہتی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی برائیاں ان کی اچھائیوں کا پھل ہیں۔ ‘‘

               مام ولیم سامرسٹ Maugham, William Somerset 1874-1965

            ولیم سامر سٹ بیسویں صدی کا ایک اہم انگریزی ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، و انشاء پرداز تھا۔ موجودہ دور میں اس سے بہتر کہانی لکھنے والا اور دوسرا کوئی نہیں ہوا ہے۔ اس کی تحریروں میں ہلکا طنز و مزاح موجود ہے۔ بعض وقت وہ زندگی پر بڑے طنزیہ انداز میں نگاہ ڈالتا ہے اور سماجی مسائل پر بڑی وسیع نظری کا حامل ہے۔ ہیومن بانڈیج Human Bondage، ریزرس ایج Razon’a Edge وغیرہ مشہور ناول ہیں۔

               مان تھامس Mann, Thomas 1875-1955

            تھامس مان جرمن ناول (وینس میں موت، جادوئی پہاڑ) اور انشائیہ نگار ہے۔ وہ بیسویں صدی کا جرمنی کا چوٹی کا ادیب کہلاتا تھا۔ اس کی تحریروں میں بڑی علمی وسعت ہے 1929 میں اسے لٹریچر کا نوبل انعام بھی ملا تھا۔ مان اپنی تحریروں میں نہ صرف انسانوں کی اندرونی ذہنی حالت کا تجزیہ پیش کرتا ہے بلکہ اس کا رشتہ یوروپ کی بدلتی ہوئی تہذیبی قدروں سے بھی قائم کرتا ہے۔ اس طرح اس کے مرکز توجہ دوہرے ہوتے تھے اور بعض صورتوں میں وہ رمزی طریقے بھی اختیار کرتا تھا۔

               میکس بیرلوم

            بیرلوم نے انیسویں صدی میں آخری دہائی سے ہی نثر نگاری شروع کر دی تھی اور اس کا پہلا مجموعہ ۱۸۹۶ء میں شائع ہو چکا تھا لیکن اس کے نثری کارنامے بیسویں صدی میں ہی منظر عام پر آئے۔ ۱۹۱۱ء میں ’’زلیخا ڈابسن‘‘ لکھ کر اس نے بڑی شہرت حاصل کر لی۔ یہ تصنیف ایک ساحرہ زلیخا کی داستان محبت ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی کے بیشتر اساتذہ و طلباء اور ارباب کار کی خودکشی کا باعث ہوتی ہے اور پھر اس دنیا کو اجاڑ کر کیمبرج یونیورسٹی کا رخ کرتی ہے۔

            بیرلوم کا سب سے دلچسپ اور زندہ یادگار Christmas Garland ہے جس میں اس نے ’’پیروڈی‘‘ کے فن کو معراج پر پہنچا دیا ہے۔ اس کے یہاں یہ فن محض نقالی نہیں ’’متوازن مبالغہ آرائی‘‘ کے ذریعہ تنقید کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ مصنفوں پر محض رائے نہیں دیتا بلکہ انہیں نئے زاوئیے سے پیش بھی کرتا ہے۔ اس کتاب میں سترہ ابواب کے تحت بیرلوم نے اپنے معاصرین مثلاً بنسن، ویلس، کازیڈ بیسینیٹ اور شا وغیرہ کی اسلوب نگارش کا چربہ اتارا ہے۔

            ۱۹۲۰ء میں بیرلوم کے مضامین کا دوسرا مجموعہ And elen now شائع ہوا۔ جس میں شوخی اور ظرافت اسلوب کی پختگی کے ساتھ نازک احساسات بھی ملتے ہیں۔ وقت گزرنے پر اس کے یہاں ابتدائی دور کی تصنع کی جگہ مواد میں گہرائی اور نظریات میں توازن آنے لگا۔ بیرلوم بیسویں صدی کے انشاء پردازوں میں اپنی جدت کی بدولت زیادہ ممتاز ہے اس لیے کہ جب اس کے دوسرے معاصرین انیسویں صدی کے انشاء پردازوں کی راہ پر چل رہے تھے اس وقت اس نے فن انشائیہ میں نئی راہ نکالی۔

               آرول جارج Orwell George 1903-1950

            انگریزی کا ناول نگار اور انشاء پرداز۔ موجودہ دور کا اہم ادیب جس کی تصنیفات میں موجودہ عہد کے تمام مسائل بڑی شدت کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ آرول کا اصل نام ایرک بلیر تھا۔ ہندوستان میں پیدا ہوا۔ ابٹن میں تعلیم حاصل کی۔ 1923 سے 1927 میں انڈین امپیریل پولیس میں ملازمت کی اور برما میں رہا۔ 1927 میں نوکری چھوڑ دی۔ پہلے پیرس میں اور پھر لندن میں رہا اور غربت کی زندگی بسر کی۔ ملک کی فاشسٹ دشمن تحریکوں کے ساتھ اس کا گہرا تعلق رہا۔ 1936 میں وہ اسپین میں جمہوریت پسندوں کے ساتھ فاشسٹوں کے خلاف لڑا۔

            آرول کی شروع کی تصنیفات مثلاً ’’بریز ڈیز‘‘  Burmese Days، ڈاؤن اینڈ آؤٹ ان پیرس اینڈ لندن Down and Out in Paris and London وغیرہ زیادہ تر اس کے شخصی تجربات پر مبنی ہیں۔ آرول کو سب سے زیادہ مقبولیت اس کے ناول انیمل فارم (1945) سے حاصل ہوئی۔ یہ فطرت انسانی اور معاشرے کی ناہمواریوں اور کجی پر زبردست تنقید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے سیاسی اہداف بھی قابل ذکر ہیں۔ اپنے ناولوں اور تحریروں میں اس نے اپنے دور کے سیاسی اور سماجی حالات کا تجزیہ کیا ہے۔ انسانی آزادی کو اس نے خاص طور پر جگہ دی ہے۔ 1949 میں شائع ہونے والا اس کا ناول ’’انیس سو چوراسی‘‘ اس کا بہت مشہور ناول ہے۔ جس میں اس نے بتایا ہے کہ اس میکانیکی سماج میں کس طرح انسان اپنی انسانیت کھوتے جا رہے ہیں۔ اس کے مضامین کے بھی کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں۔         ٭٭٭

 

 

ماحصل

            جس طرح لفظ انشاء کے معنی ہیں وہ اپنا تاثر بھی اسی طرح رکھتا ہے جیسے حسین ترین او ر امنگ بھرے جذبات کی تخلیق کرنا۔ جو دوڑتی بھاگتی زندگی میں کہیں نہ کہیں خود ہم نے ہی ان کا گلا گھونٹ دیا ہو۔ مختلف ادیبوں کے پا س انشائیہ کی تعریف الگ الگ الفاظ میں ہے لیکن مجھے بیکن کے الفاظ نے زیادہ متاثر کیا ہے۔ وہ یہ کہ ’’نثری اصناف میں انشائیہ ایک ایسی مختصر تحریر کا نام ہے جس میں بغیر کسی تجسس اور کھوج کے حقیقت کا اظہار ہو۔ ‘‘ انشائیہ کے بانی مونتین نے تو اس صنف کو انسانی شخصیت کے اظہار کا لازمی جزو قرار دیا ہے کیونکہ انشائیہ نگار میں قاری اپنا ایک دوست تلاش کرتا ہے۔

            ملا وجہی نے سب رس کے انشائیوں میں قاری کو اپنا دوست بنا کر زندگی کے نشیب و فراز سمجھائے ہیں۔

            محمد حسین آزاد نے نیرنگ خیال میں انشاء پردازی کی حدوں کو چھو لیا اور زبان و بیان کا نیا رنگ لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ ان کی کلاسیکی تحریر میں انشائیہ کے بہترین نقوش کی عکاسی کی وجہ سے انہیں بہترین انشائیہ نگار کا شرف بخشا گیا۔ اسی وجہ سے طرز انشاء دوسری اصناف سے مختلف ہے۔ اس کے اصول و ضوابط اور دلکشی نے اپنی انفرادیت کے باوجود اسے ممتاز بنائے رکھا۔ جبکہ آزاد روی تو انشائیہ کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن پھر بھی اس کی شباہت نہ مضمون میں نظر آتی ہے اور نہ ہی مقالہ، طنز و مزاح اور نہ کسی اور صنف میں۔ وقت اور حالات کی گردش میں نئے پیرہن تو اس نے اپنائے لیکن اس کی جدت کے ساتھ فن محاسن کو ہر قیمت پر بچائے رکھا۔ یہی انشائیہ نگار کا حسن اور خوبصورتی ہے۔ اور یہی بات وزیر آغا نے نہایت خوبصورتی سے بیان کی:

            ’’انشائیہ معنی خیز مسکراہٹ سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ یہ مسکراہٹ اصلاً ایک عارفانہ مسکراہٹ ہے جو سدھارتھ کے ہونٹوں پر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب اس پر اچانک کائنات کا راز فاش ہو جاتا ہے اور مونالیزا کے ہونٹوں پر اس وقت جب اسے اپنی تخلیقی حیثیت کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ انشائیہ نگاری کو معنی خیز تبسم عطا کرنے کے اہم کام سے روک کر محض فرقہ بازوں اور لطیفہ گویوں کی صف میں لا کھڑا کرنا کفران نعمت نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘

            وقت اور اصناف ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہر صنف نے اپنے صحیح وقت میں پرورش پائی ہے۔ اسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو انشائیہ بھی اپنے زمانے اور حالات کے ساتھ ہی ہم آہنگ ہو کر فضاؤں میں منتشر ہوا ہے۔ لیکن باوجود اس کے اس نے خود کو دوسری اصناف سے علیحدہ رکھ کر اپنی خوبصورتی کو انفرادیت کا تاج پہنا کر رکھا۔ اسی لیے مضمون، مقالہ، طنز و مزاح، افسانے، رپورٹ وغیرہ سے الگ اسی سرزمین پر اپنے وجود کو تسلیم کرایا۔ جس طرح ہم بھی جاندار ہیں مگر اس کائنات میں اشرف المخلوقات کہلانے کے حقدار صرف ہم ہی ہیں جبکہ جاندار تو بہت سارے ہیں لیکن یہ درجہ صرف انسان کو ہی ملا۔ بالکل اسی طرح ادب کے کئی زمرہ ہونے کے باوجود صرف انشائیہ ہی لطافت اور شگفتگی کے مقام تک پہنچ سکا ہے۔

            جیسا کہ زندگی نشیب و فراز کا دوسرا نام ہے۔ انشائیہ کی زندگی میں بھی بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ترقی پسند تحریک کے شروع ہونے سے انشائیہ کی صنف کو تھوڑا بہت نقصان ضرور پہنچا۔ ادب کے لیے یہ ایک انقلابی دور تھا۔ ادباء نے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے کے ساتھ ایک با مقصد اور روشن زندگی کا خواب دیکھا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے انہیں اپنے تخلیقی افکار کا رخ سماجی تعمیرات کے لیے موڑ دینا پڑا۔ نتیجتاً انشائیے کی روشنی مدھم نظر آنے لگی۔ لیکن اس کے بعد بھی انشائیے کے گلوں کی خوشبو کم ہوتی ہوئی نہیں محسوس ہوئی۔

            اپنی آزاد روی کے باوجود انشائیے نے ادب کے مختلف گوشوں یعنی تاریخی، سیاسی، سماجی، جغرافیائی اور اخلاقی وغیرہ کا بخوبی احاطہ کیا ہے۔ شبلی نعمانی، مولانا الطاف حسین حالی اور سرسید احمد خاں کے کئی مضامین جن میں انشائیہ نگاری کی رمق موجود تھی، لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی۔ نصیر احمد خاں کے مطابق اگر انشائیہ کا دور دیکھا جائے تو اردو ادب کے ٹیگوریت کے دور میں انشائیہ ادب لطیف یا انشائیہ لطیف کا درجہ رکھتا تھا۔ اس کی اہمیت اور افادیت اس دور کی نثری کاوشوں میں اسلوب کی تازگی، تدبیر کاری کی نزاکت اور قلبی تاثرات کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر جلوہ افروز ہوتی نظر آتی ہے۔ عبدالحلیم شرر، رتن ناتھ سرشار، سجاد حیدر یلدرم، عبدالقادر، خواجہ حسن نظامی، ذکاء اللہ، فرحت اللہ بیگ، ملا واحدی، اختر تلہری، سلامت اللہ، قمر رئیس، محمد حسن، خلیقی دہلوی، نیاز فتح پوری، مہدی افادی، سجاد انصاری، عبدالماجد دریابادی اور احمد جمال پاشا وغیرہ نے انشائیہ کے پودے کی پرداخت کی۔ ساتھ ہی برصغیر میں بھی ادباء نے اس کی آبیاری میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ جس کے نتیجے میں کئی انشائیے اور انشائیے نمبر، سمپوزیم وغیرہ وجود میں آئے اور اس جاندار صنف کے لیے کئی نئے گوشے نمودار ہونے شروع ہوئے اور آج پورے بر صغیر میں سیکڑوں انشائیہ نگار اپنی خدمات سے اس صنف کا دامن بھر رہے ہیں۔

            اس میں کوئی شک نہیں کہ بہ نسبت انگریزی یا کوئی اور دوسری غیر ملکی زبانوں اور ادب کے انشائیہ نے اپنی ترقی نہیں کی۔ لیکن جو بھی ہوئی وہ بھی اردو ادب کے سرمائیے میں گراں قدر اضافے کے مماثل ہے۔ وقت کی کمی اور شعور کی پختگی یہ دو عناصر صنعتی ترقی کے سبب وجود میں آئے۔ جہاں زمین سکڑتی گئی تو انشائیہ نے مقبولیت حاصل کرنی شروع کی۔ آج داستان، ناول، مضامین میں وہ کشش باقی نہیں ہے۔ آج کا انسان کم وقت میں زیادہ پڑھنا اور جاننا چاہتا ہے اور مقصد کی برآوری کے لیے انشائیہ سے بہتر کوئی دوسری صنف ہوہی نہیں سکتی۔ اس لیے مجھے انشائیہ کا مستقبل بہت روشن نظر آتا ہے۔

٭٭٭

کتب

  ۱۔    اردو انشائیہ۔ سید صفی مرتضی ۱۹۶۹ء۔ ص۱۴، ۱۵، ۴۷

  ۲۔   انشائیہ کے خد و خال۔ وزیر آغا، نئی آواز، جامعہ نگر نئی دہلی۔ ۲۵۔  ص ۸۴، ۲۱

  ۳۔   سب رس۔ ملا وجہی۔  ص ۱۲، ۸، ۹

  ۴۔   سب رس کا تنقیدی جائزہ۔ منظر اعظمی۔ ص ۷۱، ۷۵، ۱۱۶، ۹۸، ۹۹، ۱۱۵

  ۵۔   قطب مشتری۔ ملا وجہی

  ۶۔   مقدمہ سب رس۔ مولوی عبدالحق۔  ص ۱۶، ۱۷

  ۷۔   اردو نثر کا آغاز و ارتقائ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ۔  ص ۲۵۴، ۲۶۶

  ۸۔   نثری داستانیں۔ ڈاکٹر گیان چند۔  ص ۱۲۷، ۱۲۹

  ۹۔    قصہ حسن و دل۔  جاوید وششٹ۔  ص۹۱

  ۱۰۔   سب رس کی تنقیدی تدوین۔ ڈاکٹر حمیرہ جلیلی۔  ص ۷۴

  ۱۱۔    اردو مضمون نگاری کا ارتقائ۔ سیدہ جعفر۔  ص ۱۵

  ۱۲۔   نیر ٔنگ خیال۔ گلشن امید کی بہار۔ محمد حسین آزاد۔ دیباچہ

  ۱۳۔   اردو اسالیب نثر۔ ص ۳۲۰

  ۱۴۔   مقالاتِ شبلی۔ شبلی نعمانی

  ۱۵۔   انشائیہ اور انشائیہ نگاری۔ وزیر آغا

  ۱۶۔   عہد سرسید میں مضمون نگاری۔ محمد شمس اقبال۔ باب دوم ص ۱۵

  ۱۷۔   اردو کے بہترین انشائیے۔  ص ۲۱۲

  ۱۸۔   انشائیہ اور انشائیے۔ سید محمد حسنین

  ۱۹۔    تعلیم و تربیت۔ سرسید احمد خاں

  ۲۰۔    انشائیہ اردو ادب میں۔ انور سدید

  ۲۱۔    انتخاب مضامین شبلی۔ رشید حسن خان

  ۲۲۔   ادب کا تنقیدی مطالعہ۔ ایڈیشن دوم۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی

  ۲۳۔  اردو ایسیز۔ مقدمہ۔ مولوی ذکاء اللہ۔ عبدالحلیم شرر

  ۲۴۔   انشائیہ اور انفرادی سوچ۔ جمیل آذر۔  ص ۱۱۔ ۱

  ۲۵۔   اردو اصناف (نظم و نثر) کی تدریس۔ اومکار کول۔ مسعود سراج

         قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔ نئی دہلی۔ ایڈیشن جنوری۔ مارچ ۲۰۰۳ء؁

  ۲۶۔   آزادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ۔ ۱۹۹۱ء؁ پروفیسر نصیر احمد خان۔ ص ۱۹

  ۲۷۔   سب رس۔ ملا وجہی۔ ڈاکٹر قمر الہدی فریدی

  ۲۸۔   ادب نما۔ فخر الاسلام اعظمی

  ۲۹۔   خطوط غالب۔ مرزا غالب

۳۰۔   نثر پارے۔ شبلی نعمانی۔

 ۳۱۔   ادبی شیرازے (حصۂ  نثر ) سرسید احمد خاں

 ۳۲۔  خطوط شبلی۔ شبلی نعمانی

 ۳۳۔  آب حیات کا تنقیدی و تحقیقی مطالعہ۔ ڈاکٹر محمد صادق۔ سید سجاد

 ۳۴۔  ادبی اشارے۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی۔ ۱۹۶۰ء؁

 ۳۵۔  اردو ادب اور مقالہ نگاری۔ نیاز فتح پوری۔ ص ۳۸۔ ۳۷

 ۳۶۔  میر امن سے عبدالحق تک۔ سید عبداللہ۔ دہلی۔ ص ۳۰، ۱۲۹

 ۳۷۔  مقاماتِ ناصری۔ کراچی۔ ۱۹۶۹ء؁۔ میر ناصر علی۔ ص ۲۹، ۳۰، ۲۳۸، ۲۳۷، ۱۴۰

 ۳۸۔  تنقید و احتساب۔ لاہور۔

       مضمون انشائیہ کیا ہے؟ وزیر آغا۔ ص ۲۴۲، ۲۴۱

 ۳۹۔  مولانا ابوالکلام آزاد۔ عرش ملیسانی

 ۴۰۔  افاداتِ مہدی۔ مہدی افادی (مہدی بیگم مرتب) حیدر آباد۔ ۱۹۷۵؁ء۔  ص ۷۸۔ ۷۳، ۱۶۷

 ۴۱۔  طنزیات و مضحکات۔ رشید احمد صدیقی۔ ص ۲۳۳، ۲۳۲

 ۴۲۔  محشر خیال۔ سجاد انصاری۔ دہلی ۱۹۵۸؁ء  ص ۹۵۔ ۹۳

 ۴۳۔  اردو افسانے، انشائیے اور ڈرامے۔ محمد قاسم صدیقی

        شعبہ تعلیم علی گڑھ۔ مسلم یونیورسٹی۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ

 ۴۴۔  خیالستان۔ سجاد حیدر یلدرم

 ۴۵۔  مضامین شرر۔  عبدالحلیم شرر

 

رسائل

  ۱۔    مجلہ عثمانیہ۔ دکنی ادب نمبر۔ نورالسعید اختر۔ ص ۷۴

  ۲۔   شاعر۔ بمبئی۔ مئی ۱۹۷۰ء؁ اردو کا پہلا انشائیہ نگار۔ ص ۵۱

  ۳۔   سب رس۔ محمود شیروانی۔ اورینٹیل کالج میگزین نومبر ۱۹۳۴ء؁۔ ص ۳

  ۴۔   انشائیہ نثری غزل۔ آل احمد سرور۔ علی گڑھ شما رہ ۴

  ۵۔   اردو ادب۔ بشیر بدر۔ علی گڑھ شما رہ ۴۔ ص ۱۲۱

  ۶۔   نئی قدریس شما رہ ۵۔ ۴۔ ۱۹۷۲ء؁

       انشائیہ سرسید کے عہد میں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی

 ۷۔   مہر نیم روز۔ کراچی، پاکستان۔ اختر اورینوی نمبر۔ ۱۹۷۷؁ء

 ۸۔   مقامات ناصری۔ ۲۴۸۔ رسالۂ ناصری شما رہ اول  ص ۲۷۔ ۱

 ۹۔    ماہنامہ شگوفہ خلیج نمبر جون ۲۰۰۴ء

۱۰۔   بزم سہارا دہلی۔ ماہ اکتوبر ۲۰۱۰ء۔

٭٭٭

تشکر: مصنفہ  جنہوں ن

لیں  فراہم کیں

ان پیج سےتبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید