FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

آس کی رنگین تتلی

 

                اسلم کولسری

                جمع و ترتیب: چوہدری لیاقت علی، اعجاز عبید

 

 

 

 

نعت

 

ہلکی سی حرارت پوروں کی، چن لیتی درد جہانوں کے

ان ہونٹوں کی اک جنبش سے کھل جاتے بھید زمانوں کے

 

ملبوس پہ سو پیوند لگے اور کالی کملی کاندھوں پر

اس حال میں بھی مسمار کئے دربار کئی سلطانوں کے

 

ہر شخص پہ وحشت غالب تھی، ہر تیغ لہو کی طالب تھی

اس لہجے کی نرماہٹ نے دل موم کئے حیوانوں کے

 

انگلی کے ایک اشارے سے مہتاب اگر دو نیم کیا

پلکوں کی ذرا سی لرزش سے رخ پھیر دئے طوفانوں کے

 

اک ہول بھری تاریکی میں یوں شمع محبت روشن کی

پر کھول دئے پروانوں کے، دن پھیر دئے دیوانوں کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یار کو دیدۂ خونبار سے اوجھل کر کے

مجھ کو حالات نے مارا ہے مکمل کر کے

 

جانبِ شہر فقیروں کی طرح کوہِ گراں

پھینک دیتا ہے بخارات کو بادل کر کے

 

دل وہ مجذوب مغنی کہ جلا دیتا ہے

ایک ہی آہ سے ہر خواب کو جل تھل کر کے

 

جانے کس لمحۂ وحشی کی طلب ہے کہ فلک

دیکھنا چاہے مرے شہر کو جنگل کر کے

 

یعنی ترتیبِ کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے

اس نے پتھر بھی اٹھایا مجھے پاگل کر کے

 

عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلم

اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے

٭٭٭

 

 

 

 

میں‌جب اپنے گاؤں سے باہر نکلا تھا

ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا

 

مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی

اوپر سے بادل کا ٹکڑا گزرا تھا

 

شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لی

بس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا

 

اس نے اکثر چاند چمکتی راتوں میں

میرے کندھے پر سر رکھ کر سوچا تھا

 

میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئیے

بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا

 

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

 

لوگوں نے جس وقت ستارے بانٹ لیے

اسلم اک جگنو کے پیچھے بھاگا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

سپنوں کے شرمیلے سائے، رات کا نیلا شور، من ساگر کی اور​

دور کھڑا مہکائے، مسکائے، البیلا چت چور، من ساگر کی اور​

رنگ برنگ امنگ پتنگ کی بادل سنگ اڑان، سورج کی مسکان​

کرنوں کی رم جھم سے کھیلے، مست نظر کی ڈ ور، من ساگر کی اور​

 

​خوں ریزوں پر کندہ کر کے، تیرا اجلا نام، جھومیں خواب تمام​

اسی لئے شب بھر رہتی ہے بھیگی بھیگی بھور، من ساگر کی اور​

 

​کس لمحے کی اوٹ سے پھوٹی، رت انگاروں کی، فصل شراروں کی​

ابھی ابھی تو رقص میں تھے، ہر سمت سنہرے مور، من ساگر کی اور​

 

​سارا دن جلتا رہتا ہے خوں شریانوں میں، حسرت خانوں میں​

رات ڈھلے پر میٹھا میٹھا درد لگائے زور، من ساگر کی اور​

 

​جب تک اشکوں سے پورا ماحول نہیں دھلتا، ذرا نہیں کھلتا​

پچھلی رات کا چندا ہے یا سمے کی زخمی پور، من ساگر کی اور​

 

​لہروں لہروں ڈوبے ابھرے، ایک صدا گم سم، جان کہاں ہو تم ؟​

دھیرے دھیرے بن جاتی ہے، جلتی بجھتی گور، من ساگر کی اور​

 

​ان آنکھوں کا حال نہ پوچھو، یارو، اسلم سے، ہے جن کے دم سے​

ہری ہری شمعوں کی جھلمل، ساتھ گھٹا گھنگھور، من ساگر کی اور​

٭٭٭

 

 

 

 

جب بھی ہنسی کی گرد میں چہرہ چھپا لیا

بے لوث دوستی کا بڑا ہی مزہ لیا

 

اک لمحہء سکوں تو ملا تھا نصیب سے

لیکن کسی شریر صدی نے چرا لیا

 

کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گُل

یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا لیا

 

اسلم بڑے وقار سے ڈگری وصول کی

اور اُس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا

٭٭٭

 

 

 

 

آرزوئے دوام کرتا ہوں

زندگی وقف عام کرتا ہوں

 

آپ سے اختلاف ہے، لیکن

آپ کا احترام کرتا ہوں

 

مجھ کو تقریب سے تعلق کیا

میں فقط اہتمام کرتا ہوں

 

درس و تدریس، عشق، مزدوری

جو بھی مل جائے کام کرتا ہوں

 

جستجو ہی مرا اثاثہ ہے

جا۔ اسے تیرے نام کرتا ہوں

 

ہاں مگر، برگ زرد کی صورت

صبح کو میں بھی شام کرتا ہوں

 

وقت گزرے پہ آئے ہو اسلم

خیر کچھ انتظام کرتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

تو کیا جانے

 

 

ڈھل گئی رات پھر دسمبر کی

شیلف میں سو گئیں کتابیں تک

ایک تیر ا خیال روشن ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کیا گئے تم

 

کیا گئے تم کہ پھر نہیں گذرا

میرے ویران گھر کے اوپر سے

قافلہ د ودھیا چراغوں کا

٭٭٭

 

 

 

 

دل میں جمنے لگا ہے خوں شاید

آج کی رات سو سکوں شاید

 

اس کا ملنا محال ہے، پھر بھی

اس طرف سے گزر چلوں، شاید

 

اور تھوڑا سا زہر دے دیجے

اور تھوڑا سا جی اٹھوں شاید

 

پردہ چشم جلنے لگتا ہے

ورنہ آنسو تو پونچھ لوں شاید

 

ایک دن خود کو فاش کر دیکھوں

جان لوں اس کا راز یوں شاید

 

اب زباں ذائقے سے عاری ہے

اب کسی کو صدا نہ دوں شاید

 

بے در و بام گھر بھی ہے اسلم

محرم قصر بے ستوں شاید

٭٭٭

 

 

 

 

خوامخواہ کا مشیر مر جائے

کاش میرا ضمیر مر جائے

 

سازشی ہے، سکون دشمن ہے

آرزو کا سفیر مر جائے

 

قتلِ احساس یاد آتا ہے

جب بھی کوئی فقیر مر جائے

 

رشوت جاں بھی تو غنیمت ہے

چھوڑ دو جو اسیر مر جائے

 

زندگی بخش ہے یہ حسرت بھی

حسرتوں کی لکیر مر جائے

 

خواہش ناگزیر ہے اسلم

خواہش ناگزیر مر جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

روٹھ کر نکلا تو وہ اس سمت آیا بھی نہیں

اور میں نے عادتاً جا کر منایا بھی نہیں

 

آن بیٹھی ہے منڈیروں پر خزاں کی زرد لو

میں نے کوئی پیڑ آنگن میں اگایا بھی نہیں

 

پھر سلگتی انگلیاں کس طرح روشن ہو گئیں

اس نے میرا ہاتھ آنکھوں سے لگایا بھی نہیں

 

اپنی سوچوں کی بلندی اور وسعت کیا کروں

آسماں کا سائباں کیا، جس کا سایا بھی نہیں

 

پھر گلی کوچوں سے مجھ کو خوف کیوں آنے لگا

جگمگاتا شہر ہے اسلم، پرایا بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دیارِ ہجر میں خود کو تو اکثر بھول جاتا ہوں

تجھے بھی میں، تیری یادوں میں کھو کر بھول جاتا ہوں

 

عجب دن تھے کہ برسوں ضربِ خوشبو یاد رہتی تھی

عجب دن ہیں کہ فوراً زخمِ خنجر بھول جاتا ہوں

 

گزر جاتا ہوں گھر کے سامنے سے بے خیالی میں

کبھی دفتر کے دروازے پہ دفتر بھول جاتا ہوں

 

اسی باعث بڑی چاہت سے ملتا ہوں کہ میں اکثر

جدا ہوتے ہی چہرہ، نام، پیکر بھول جاتا ہوں

 

مجھے پتھر کی صورت ہی سہی، زندہ تو رہنا ہے

سو، میں ہر واقعہ منظر بہ منظر بھول جاتا ہوں

 

وہ سب کچھ یاد رکھتا ہوں بھلانا جس کا بہتر ہو

مگر جو یاد رکھنا ہو سراسر بھول جاتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بنے کس طرح آشیانہ کہیں

مرے پاس کرنیں ہیں، تنکے نہیں

 

اسے گنگنایا تو چاروں طرف

حسیں تتلیاں جھلملانے لگیں

 

گلی میں بکھرتی ہوئی چیخ سے

چمکتی ہوئی کھڑکیاں بجھ گئیں

 

سبھی خوشنما خواب خوں ہو گئے

ذرا بھی نہ مہکی غزل کی زمیں

 

اندھیرے کی دہلیز میں دفن ہے

وہی دل کہ تھا روشنی کا امیں

 

دیار بدن سے دھوئیں کی طرح

جوانی کی صبحیں گزرتی رہیں

 

اچانک یہ کس نے پکارا مجھے

کہ اسلم مری کرچیاں جل اٹھیں

٭٭٭

 

 

 

 

خیال خام تھا یا نقش معتبر، نہ کھلا

دلوں پہ اس کا تبسم کھلا، مگر، نہ کھلا

 

محیط چشم تمنا بھی تھا وہی، جس پر

کسی طرح بھی مرا نقطہ نظر نہ کھلا

 

عجیب وضع سے بے اعتباریاں پھیلیں

غریب شہر کی دستک پہ کوئی در نہ کھلا

 

نہیں کہ خندۂ مفلس ہے باب شنوائی

کبھی کھلے گ اگر مدعی کا سر نہ کھلا

 

قدم قبول ہوئے، راستوں کی دھول ہوئے

سفر تمام ہوا، مقصد سفر نہ کھلا

 

بڑی طویل کہانی ہے دل کے بجھنے کی

کہ ایک شخص تھا اور قصہ مختصر، نہ کھلا

 

متاع شب تھے، سو، اسلم فگار آنکھوں کے

چراغ داغ ہوئے، روزن سحر نہ کھلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر چند بے نوا ہے کورے گھڑے کا پانی

دیوان میر کا ہے ، کورے گھڑے کا پانی

 

اپلوں کی آگ اب تک ہاتھوں سے جھانکتی ہے

آنکھوں میں جاگتا ھے کورے گھڑے کا پانی

 

جب مانگتے ہیں سارے انگور کے شرارے

اپنی یہی صدا ہے کورے گھڑے کا پانی

 

کاغذ پہ کیسے ٹھہریں مصرعے مری غزل کے

لفظوں میں بہہ رہا ہے کورے گھڑے کا پانی

 

خانہ بدوش چھوری، تکتی ہے چوری چوری

اس کا تو آئنہ ہے کورے گھڑے کا پانی

 

چڑیوں سی چہچہائیں ، پنگھٹ پہ جب بھی سکھیاں

چپ چاپ رو دیا ہے کورے گھڑے کا پانی

 

اس کے لہو میں شاید، تاثیر ہو وفا کی

جس نے کبھی پیا ہے کورے گھڑے کا پانی

 

عزت ، ضمیر ، محنت ، دانش ، ہنر ، محبت

لیکن کبھی بکا ہے کورے گھڑے کا پانی؟

 

دیکھوں جو چاندنی میں ، لگتا ہے مجھ کو اسلم

پگھلی ہوئی دعا ہے کورے گھڑے کا پانی

٭٭٭

 

 

 

 

وہی خوابیدہ خاموشی وہی تاریک تنہائی

تمہیں پا کر بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی

 

اگر جاں سے گزر جاؤں تو میں اوپر ابھر آؤں

کہ لاشوں کو اگل دیتی ہے دریاؤں کی گہرائی

 

کھڑا ہے دشتِ ہستی میں اگرچہ نخلِ جاں، لیکن

گلِ گویائی باقی ہے نہ کوئی برگِ بینائی

 

محبت میں بھی دل والے سیاست کر گئے اسلم

گلے میں ہار ڈالے، پاؤں میں زنجیر پہنائی

٭٭٭

 

 

 

 

 

بکھرے بکھرے بال اور صورت کھوئی کھوئی

من گھائل کرتی ہیں آنکھیں روئی روئی

 

ملبے کے نیچے سے نکلا ماں کا لاشہ

اور ماں کی گودی میں بچی سوئی سوئی

 

ایک لرزتے پل میں بنجر ہو جاتی ہیں

آنکھوں میں خوابوں کی فصلیں بوئی بوئی

 

سرد ہوائیں شہروں شہروں چیخیں لائیں

مرہم مرہم ، خیمہ خیمہ ، لوئی لوئی

 

میں تو پہلے ہی سے بار لئے پھرتا ہوں

تن کے اندر اپنی جندڑی موئی موئی

 

جیون کا سیلاب امڈتا ہی آتا ہے

لیکن ڈھور ہزاروں ، بندہ کوئی کوئی

 

رات آکاش نے اتنے اشک بہائے اسلم

ساری ہی دھرتی لگتی ہے دھوئی دھوئی

٭٭٭

 

 

 

 

اگرچہ پیکرِ حسنِ وفا تھا، وہ بھی گیا

میرا شریکِ غزل اک دِیا تھا، وہ بھی گیا

 

امیدِ وصل تو بے چین مہماں تھی، گئی

مکینِ دل میرا حوصلہ تھا، وہ بھی گیا

 

چمکتے شہر میں آئے تھے قُمقُموں کے لیے

اور اک چراغ کہ ماں نے دیا تھا، وہ بھی گیا

 

پھر آج چاند کہیں چھپ گیا، مگر اب کے

وہ چاند میں جو کوئی چاند سا تھا، وہ بھی گیا

 

وہی ہوا، کہ چرائے ہوئے گلاب کے ساتھ

جو اپنے ہاتھ میں تنکہ اگا تھا، وہ بھی گیا

 

جمالِ یار کے خیر اپنے مسئلے ہوں گے

خیالِ یار تو کچھ بے ریا تھا، وہ بھی گیا

 

لہو کا ایک ہی قطرہ تھا دل میں، جو اسلمؔ

کسی کے لطف سے آنسو بنا تھا، وہ بھی گیا

٭٭٭

 

 

 

بھیگے شعر اگلتے جیون بیت گیا

ٹھنڈی آگ میں جلتے جیون بیت گیا

 

یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی

لیکن چلتے چلتے جیون بیت گیا

 

شام ڈھلےاس کو ندیا پر آنا تھا

سورج ڈھلتے ڈھلتے جیون بیت گیا

 

ایک انوکھا سپنا دیکھا، نیند اڑی

آنکھیں مَلتے مَلتے جیون بیت گیا

 

آخر کس بہروپ کو اپنا روپ کہوں

اسلمؔ روپ بدلتے جیون بیت گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سن ری شیش محل کی مہلا! آیا رمتا جوگی

اک میٹھی مسکان کے بدلے من کا منکا لو گی

 

دیکھ رہا ہوں دن کو بھی آکاش پہ سبز ستارہ

یوں لگتا ہے، شام سے پہلے ٹوٹ کے بارش ہو گی

 

آج بھی من تن ڈولے سن کر، سب کا تن من ڈولے

تیرے نینوں میں سنولاہٹ سی ہے، بین سنو گی

 

کاہے پیڑ اور پنچھی جانیں، تجھ کو بُت مرمر کا

یونہی، مجھ سے کوئی ٹھنڈی میٹھی بات کرو گی

 

اچھا، پتھر پل میں ٹھنڈی میٹھی باتیں چھوڑو

مجھ کو مری اوقات بتانے شعلہ سی بھڑکو گی

 

دیکھ ذرا جوبن مہکا لے، من میں جوت جگا لے

لوٹ گئے پردیسی تو اس لہجے کو ترسو گی

 

رات گئے، اجڑے کمرے کی بے کس تنہائی میں

کس سے اتنی پیار کی باتیں، ھا ھا، اسلمؔ روگی

٭٭٭

 

 

 

 

صرف میرے لئے نہیں رہنا

تم مرے بعد بھی حسیں رہنا

 

پیڑ کی طرح جس جگہ پھوٹا

عمر بھر ہے مجھے وہیں رہنا

 

مر نہ جائے تمہاری پھلواری

کون سمجھے مرا غمیں رہنا

 

مشغلہ ہے شریف لوگوں کا

صورت مار آستیں رہنا

 

دلی اجڑی اداس بستی میں

چاہتے تھے کئی مکیں رہنا

 

مر نہ جائے تمہاری پھلواری

قریۂ زخم کے قریں رہنا

 

مسکراتا ہوں عادتاً اسلمؔ

کون سمجھے مرا غمیں رہنا

٭٭٭

 

 

 

 

سینے میں سلگتے ہوئے جذبات کا جنگل

کس طرح کٹے تاروں بھری رات کا جنگل

 

ہاں دست شناسی پہ بڑا ناز تھا اس کو

دیکھا نہ گیا اس سے مرے ہات کا جنگل

 

امید کا اک پیڑ اگائے نہیں اگتا

خود رو ہے مگر ذہن میں شبہات کا جنگل

 

دے طاقت پرواز کہ اوپر سے گزر جاؤں

کیوں راہ میں حائل ہے مری ذات کا جنگل

 

خوابیدہ ہیں اس میں کئی عیار درندے

بہتر ہے کہ جل جائے یہ جذبات کا جنگل

 

کچھ اور مسائل مری جانب ہوئے مائل

کچھ اور ہرا ہو گیا حالات کا جنگل

 

تصویر غزل میں سے جھلکتا ہوا اسلمؔ

یہ شہر سخن ہے کہ خرافات کا جنگل

٭٭٭

 

 

 

 

ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں

بچھڑ کے ہم نے کئی رات دن گزارے ہیں

 

ہنوز سینے کی چھوٹی سی قبر خالی ہے

اگرچہ اس میں جنازے کئی اتارے ہیں

 

وہ کوئلے سے مرا نام لکھ چکا تو اسے

سنا ہے دیکھنے والوں نے پھول مارے ہیں

 

یہ کس بلا کی زباں آسماں کو چاٹ گئی

کہ چاند ہے نہ کہیں کہکشاں نہ تارے ہیں

 

مجھے بھی خود سے عداوت ہوئی تو ظاہر ہے

کہ اپنے دوست مجھے زندگی سے پیارے ہیں

 

نہیں کہ عرصۂ گرداب ہی غنیمت تھا

مگر یقیں تو دلاؤ یہی کنارے ہیں

 

غلط کہ کوئی شریک سفر نہیں اسلمؔ

سلگتے عکس ہیں جلتے ہوئے اشارے ہیں

٭٭٭

 

 

بھیگے شعر اگلتے، جیون بیت گیا

ٹھنڈی آگ میں جلتے، جیون بیت گیا

 

یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی

لیکن چلتے چلتے، جیون بیت گیا

 

ایک انوکھا سپنا دیکھا، نیند اڑی

آنکھیں ملتے ملتے، جیون بیت گیا

 

شام ڈھلے اس کو ندیا پر آنا تھا

سورج ڈھلتے ڈھلتے، جیون بیت گیا

 

آخر کس بہروپ کو اپنا روپ کہوں

اسلمؔ روپ بدلتے، جیون بیت گیا

٭٭٭

 

 

 

منڈیروں پر دیے سے جل اٹھے ہیں

اندھیروں میں، چلو ہم ڈوبتے ہیں

 

برابر ہے گھٹا برسے نہ برسے

کہ صحرا کی طرح ترسے ہوئے ہیں

 

بہت مشکل ہے کچھ کہنا یقیں سے

چمکتے ہیں کہ تارے کانپتے ہیں

 

جسے پتھر سمجھتا ہے زمانہ

ترے سودائیوں کو آئنے ہیں

 

مناسب ہے کہانی ختم کیجیے

اگرچہ قافیے ہی قافیے ہیں

 

ہمیں اسلمؔ نہ کچھ بھی راس آیا

ہمیشہ ٹھنڈے پانی سے جلے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دل و نگاہ کے سب رابطے ہی توڑ گیا

وہ میرے ہوش کو دیوانگی سے جوڑ گیا

 

ذرا سی بات ہے لیکن ذرا نہیں کھُلتی

کبھی نہ ساتھ رہا جو، کبھی کا چھوڑ گیا

 

ہم اپنے کھیت کے ٹیلے رفو بھی کر لیتے

مگر وہ شخص تو دریا کا رخ ہی موڑ گیا

 

برس پڑے ہری شاخوں کے سبز پتے بھی

غزل میں ڈوبی ہوئی رُت کو یوں جھنجھوڑ گیا

 

وہ سی گیا، کہ یہ آنکھیں بھی زخم تھیں جیسے

یہ دل بھی جیسے کوئی آبلہ تھا، پھوڑ گیا

 

الجھ الجھ گئے منظر کہ اپنی پلکوں سے

وہ مہر زاد، شعاعیں سبھی مروڑ گیا

 

لہو کی لہر صدا کی طرح نکلتی ہے

مرے لبوں پہ عجیب سانحے نچوڑ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

دل سلگنے لگا دعا بن کر

پھر وہ گزرا، مگر ہوا بن کر

 

مضمحل تھے مرے خیالوں میں

لفظ مر ہی گئے صدا بن کر

 

خود فریبی سی خود فریبی ہے

باہر آنا بہت بھلا بن کر

 

بوجھ صدیوں کا ڈال دیتے ہیں

ایک دو پل کا آسرا بن کر

 

اب کہاں تک، تمہی کہو، کوئی

ٹوٹ کے بنتا، ٹوٹتا بن کر

 

پتھروں میں بدل گئیں آنکھیں

کیا ملا دل کو آئینہ بن کر

 

بن پڑے گر، تو دیکھنا اسلمؔ

خود کبھی اپنا آشنا بن کر

٭٭٭

 

 

 

دل دریا

صلح کے زمانے میں

مجھ کو ایسا لگتا ہے

وہ اگر بچھڑ جائے

صرف اتنا دکھ ہو گا

جتنا آنکھ کھلنے پر

خواب ٹوٹ جانے کا

۔۔۔۔۔۔

پر عجب تماشا ہے

وہ اگر کبھی مجھ سے

یونہی روٹھ جاتی ہے

کائنات کی ہر شے

ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

نظر کو وقف حیرت کر دیا ہے

اسے بھی دل سے رخصت کر دیا ہے

 

برائے نام تھا آرام، جس کو

غزل کہہ کر مصیبت کر دیا ہے

 

سمجھتے ہیں کہاں پتھر کسی کی

مگر اتمامِ حجت کر دیا ہے

 

گلی کوچوں میں جلتی روشنی نے

حسیں شاموں کو شامت کر دیا ہے

 

بصیرت ایک دولت ہی تھی آخر

سو دولت کو بصیرت کر دیا ہے

 

کئی ہمدم نکل آئے ہیں جب سے

زباں کو صرفِ غیبت کر دیا ہے

 

سخن کے باب میں بھی ہم نے اسلمؔ

جو کرنا تھا بہ عجلت کر دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہوائیں تیز ہیں، بجھتا دیا ہے

تمھارا نام پھر دل نے لیا ہے

 

ابھی کہتا ہوں میں تازہ غزل بھی

ابھی تو زہر کا ساغر پیا ہے

 

تبسم ۔۔۔۔۔۔ یہ غریبانہ تبسم

فقط رودادِ غم کا حاشیہ ہے

 

کوئی سویا ہوا صدمہ ہی جاگے

ہجومِ دوستاں ہے، تخلیہ ہے

 

پرو کر دیکھ لو کانٹے میں جگنو

کوئی اس شہر میں یوں بھی جیا ہے

 

ہوا ہے چاک جو لمحہ اچانک

تمھاری یاد نے آ کر سیا ہے

 

تمہی کہہ دو جو تم کہتے ہو اسلمؔ

غزل ہے یا غزل کا مرثیہ ہے؟

٭٭٭

 

 

 

زخم سہے، مزدوری کی

سانس کہانی پوری کی

 

جذبے کی ہر کونپل کو

آگ لگی مجبوری کی

 

چپ آیا۔۔۔۔ چپ لوٹ گیا

گویا بات ضروری کی

 

اس کا نام لبوں پر ہو

ساعت ہو منظوری کی

 

کتنے سورج بیت گئے

رُت نہ گئی بے نوری کی

 

پاس ہی کون تھا اسلمؔ جو

کریں شکایت دوری کی

٭٭٭

 

 

 

جب دل ہی نہیں باقی، وہ آتشِ پارا سا

کیوں رقص میں رہتا ہے پلکوں پہ شرارا سا

 

وہ موج ہمیں لے کر، گرداب میں جا نکلی

جس موج میں روشن تھا سرسبز کنارا سا

 

اک بام پہ، شام ڈھلے، رنگین چراغ جلے

کچھ دور اک پیڑ تلے، راگی تھکا ہارا سا

 

تارا سا بکھرتا ہے، آکاش سے یا کوئی

ٹھہرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارا سا

 

تنکوں کی طرح ہر شب، تن من کو بہا لے جائے

اک برسوں سے بچھڑی ہوئی آواز کا دھارا سا

 

جیسے کوئی کم کم ہو، شاید وہی اسلمؔ ہو

اس راہ سے گزرا ہے اک ہجر کا مارا سا

٭٭٭

 

 

 

 

ایک نظم

 

کسی بھی وقت

کسی سے

کوئی توقع بھی رکھو

کہ عین ممکن ہے

صبا چٹکتے شگوفوں کو راکھ کر جائے

پون چلے تو درختوں میں آگ لہرائے

گھٹا سلگتے بنوں کو لہو سے بھر جائے

پہاڑ رونے لگیں

بحر خشک ہونے لگیں

عجیب عہدِ پریشاں ہے، کچھ خیال رہے

کسی بھی وقت کوئی شخص روٹھ سکتا ہے

وفا کا رشتہ کسی وقت ٹوٹ سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

اجنبیت کے نئے ذائقے بخشے اب کے

اس کے ہاتھوں میں تو پتھر بھی نہیں تھے اب کے

 

بستیوں پر کسی آسیب کا سایہ ہی سہی

جنگلوں میں بھی پرندے نہیں چہکے اب کے

 

گلی کوچوں میں بہت روشنیاں پھرتی ہیں

پھر بھی در بند ہوئے شام سے پہلے اب کے

 

کپکپانا تو سدا ہی سے تھی فطرت ان کی

لڑکھڑاتے ہوئے لگتے ہیں ستارے اب کے

ٹوٹنا اور کسی طور سمٹ بھی جانا

کیجئے کیا کہ ہوا لے اڑی ریزے اب کے

 

وقت نے ہاتھ ہی کچھ ایسا دکھایا اسلمؔ

آج تک جو نہیں سمجھے تھے وہ سمجھے اب کے

٭٭٭

 

 

 

 

دل پُر خوں کو یادوں سے الجھتا چھوڑ دیتے ہیں

ہم اس وحشی کو جنگل میں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں

 

نہ جانے کب کوئی بھیگے ہوئے منظر میں آ نکلے

دیارِ اشک میں پلکیں جھپکنا چھوڑ دیتے ہیں

 

اسے بھی دیکھنا ہے اپنا معیارِ پذیرائی

چلا آئے تو کیا کہنا، تقاضا چھوڑ دیتے ہیں

 

غموں کی بھیڑ جب بھی قریۂ جاں کی طرف آئے

بلکتے خواب خاموشی سے رستہ چھوڑ دیتے ہیں

 

کسی کی یاد سے دل کو منور تک نہیں کرنا

اسی کا نام دنیا ہے، تو دنیا چھوڑ دیتے ہیں

 

ہمیں خوشبو کی صورت دشتِ ہستی سے گزرنا تھا

اچانک یوں ہوا، لیکن یہ قصہ چھوڑ دیتے ہیں

 

ذرا سے اشک میں چھپ کر ان آنکھوں میں نہیں رہنا

چلو اسلمؔ ہمی کوئے تمنا چھوڑ دیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

آرزوئے دوام کرتا ہوں

زندگی وقف عام کرتا ہوں

 

آپ سے اختلاف ہے، لیکن

آپ کا احترام کرتا ہوں

 

مجھ کو تقریب سے تعلق کیا

میں فقط اہتمام کرتا ہوں

 

درس و تدریس، عشق، مزدوری

جو بھی مل جائے کام، کرتا ہوں

 

ہاں مگر، برگِ زرد کی صورت

صبح کو میں بھی شام کرتا ہوں

 

وقت گزرے پہ آئے ہو اسلمؔ

خیر، کچھ انتظام کرتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

روٹھ کر نکلا تو وہ اس سمت آیا بھی نہیں

اور میں نے، عادتاً جا کر منایا بھی نہیں

 

آن بیٹھی ہے منڈیروں پر خزاں کی زرد لو

میں نے کوئی پیڑ آنگن میں اگایا بھی نہیں

 

پھر سلگتی انگلیاں کس طرح روشن ہو گئیں

اس نے میرا ہاتھ آنکھوں سے لگایا بھی نہیں

 

اپنی سوچوں کی بلندی اور وسعت کیا کروں

آسماں کا سائباں کیا، جس کا سایہ بھی نہیں

 

پھر گلی کوچوں سے مجھ کو خوف کیوں آنے لگا

جگمگاتا شہر ہے اسلمؔ، پرایا بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

دل میں جمنے لگا ہے خوں شاید

آج کی رات سو سکوں شاید

 

اس کا ملنا محال ہے، پھر بھی

اس طرف سے گزر چلوں، شاید!

 

اور تھوڑا سا زہر دے دیجے

اور تھوڑا سا جی اٹھوں شاید

 

پردۂ چشم جلنے لگتا ہے

ورنہ آنسو تو پونچھ لوں شاید

 

بے در و بام گھر بھی ہے اسلمؔ

محرمِ قصرِ بے ستوں شاید

٭٭٭

 

 

 

زلزلے کا خوف طاری ہے در و دیوار پر

جبکہ میں بیٹھا ہوا ہوں کانپتے مینار پر

 

ہاں اسی رستے میں ہے شہرِ نگارِ آرزو

آپ چلتے جائیے میرے لہو کی دھار پر

 

پھر اڑا لائی ہوا، مجھ کو جلانے کے لیے

زرد پتے، چند سوکھی ٹہنیاں، دو چار پر

 

طائرِ تخیل کا سارا بدن آزاد ہے

صرف اک پتھر پڑا ہے شیشۂ منقار پر

 

وقت کا دریا تو ان آنکھوں سے ٹکراتا رہا

اپنے حصے میں نہ آیا لمحۂ دیدار پر

 

سارا پانی چھاگلوں سے آبلوں میں آ گیا

چلچلاتی دھوپ کے جلتے ہوئے اصرار پر

٭٭٭

 

 

 

 

سوچ کی الجھی ہوئی جھاڑی کی جانب جو گئی

آس کی رنگین تتلی،خوں کا چھینٹا ہو گئی

 

اس کی خوشبو تھی؟ مری آواز تھی؟ کیا چیز تھی؟

جو دریچہ توڑ کر نکلی، فضا میں کھو گئی

 

آخرِ شب، دور کہساروں سے برفانی ہوا

شہر میں آئی۔ مرے کمرے میں آ کر سو گئی

 

چند چھلکوں اور اک بوڑھی بھکارن کے سوا

ریل گاڑی آخری منزل پر خالی ہو گئی

 

اس قدر میلا نہ تھا، جس پر کسی کا نام تھا

پھر بھی اسلمؔ آنکھ چھلکی، اور کاغذ دھو گئی

٭٭٭