FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دیدۂ دل

 

 

 

                اجمل سراج

جمع و ترتیب: اعجاز عبید، چوہدری لیاقت علی

 

 

 

 

ہم اپنے آپ میں رہتے ہیں دم میں دم جیسے

ہمارے ساتھ ہوں دو چار بھی جو ہم جیسے

 

کسے دماغ جنوں کی مزاج پرسی کا

سنے گا کون گزرتی ہے شام غم جیسے

 

بھلا ہوا کہ ترا نقش یا نظر آیا

خرد کو راستہ سمجھے ہوئے تھے ہم جیسے

 

مری مثال تو ایسی ہے جیسے خواب کوئی

مرا وجود سمجھ لیجیے عدم جیسے

 

اب آپ خود ہی بتائیں یہ زندگی کیا ہے

کرم بھی اس نے کیے ہیں مگر ستم جیسے

٭٭٭

 

 

 

تیرے سوا کسی کی تمنا کروں گا میں

ایسا کبھی ہوا ہے جو ایسا کروں گا میں

 

گو غم عزیز ہے مجھے تیرے فراق کا

پھر بھی اس امتحان کا شکوہ کروں گا میں

 

آنکھوں کو اشک و خوں بھی فراہم کروں گا میں

دل کے لیے بھی درد مہیا کروں گا میں

 

راحت بھی رنج، رنج بھی راحت ہو جب تو پھر

کیا اعتبار خواہش دنیا کروں گا میں

 

رکھا ہے کیا جہان میں یہ اور بات ہے

یہ اور بات ہے کہ تقاضا کروں گا میں

 

یہ رہ گزر کہ جائے قیام و قرار تھی

یعنی اب اس گلی سے بھی گزرا کروں گا میں

 

ہاں کھینچ لوں گا وقت کی زنجیر پاؤں سے

اب کے بہار آئی تو ایسا کروں گا میں

٭٭٭

 

 

 

 

گزر گئی ہے ابھی ساعت گزشتہ بھی

نظر اٹھا کہ گزر جائے گا یہ لمحہ بھی

 

بہت قریب سے ہو کر گزر گئی دنیا

بہت قریب سے دیکھا ہے یہ تماشا بھی

 

وہ دن بھی تھے کہ تری خواب گیں نگاہوں سے

پکارتی تھی مجھے زندگی بھی دنیا بھی

 

جو بے ثباتیِ عالم یہ بحث تھی سر بزم

میں چپ رہا کہ مجھے یاد تھا وہ چہرا بھی

 

کبھی تو چاند بھی اترے گا دل کے آنگن میں

کبھی تو موج میں آئے گا یہ کنارا بھی

 

نکال دل سے گئے موسموں کی یاد اجملؔ

تری تلاش میں امروز بھی ہے فردا بھی

٭٭٭

 

 

 

 

دشوار ہے اس انجمن آرا کو سمجھنا

تنہا نہ کبھی تم دل تنہا کو سمجھنا

 

ہو جائے تو ہو جائے اضافہ غم دل میں

کیا عقل سے سودائے تمنا کو سمجھنا

 

اک لمحۂ حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

کچھ اور نہ اس تندیِ دریا کو سمجھنا

 

کچھ تیز ہواؤں نے بھی دشوار کیا ہے

قدموں کے نشانات سے صحرا کو سمجھنا

٭٭٭

 

 

 

 

گھوم پھر کر اسی کوچے کی طرف آئیں گے

دل سے نکلے بھی تو ہم لوگ کہاں جائیں گے

 

کبھی فرصت سے ملو تو تمہیں تفصیل کے ساتھ

امتیازِ ہوس و عشق بھی سمجھائیں گے

 

ہم کو معلوم تھا یہ وقت بھی آ جائے گا

ہاں مگر یہ نہیں سوچا تھا کہ پچھتائیں گے

 

کہہ چکے ہم ہمیں اتنا ہی فقط کہنا تھا

آپ فرمائیے، کچھ آپ بھی فرمائیں گے

 

ایک دن خود کو نظر آئیں گے ہم بھی اجملؔ

ایک دن اپنی ہی آواز سے ٹکرائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

میں وہ درخت ہوں کھاتا ہے جو بھی پھل میرے

ضرور مجھ سے یہ کہتا ہے ساتھ چل میرے

 

یہ کائنات تصرف میں تھی رہے جب تک

نظر بلند مری، فیصلے اٹل میرے

 

مجھے نہ دیکھ، میری بات سن، کہ مجھ سے ہیں

کہیں کہیں متصادم بھی کچھ عمل میرے

 

بچا ہی کیا ہوں، میں آواز رہ گیا ہوں فقط

چُرا کے رنگ تو سب لے گئی غزل میرے

 

یہ تب کی بات ہے جب تم سے رابطہ بھی نہ تھا

ابھی ہوئے نہ تھے اشعار مبتذل میرے

 

یہ خوف مجھ کو اُڑاتا ہے وقت کی مانند

کہ بیٹھنے سے نہ ہو جائیں پاؤں شل میرے

 

وہ دن تھے اور نہ جانے وہ کون سے دن تھے

ترے بغیر گزرتے نہیں تھے پَل میرے

 

کبھی ملے گا کہیں شہرِ خواب سے باہر

اگر نہیں تو خیالوں سے بھی نکل میرے

 

میں کس طرح کا ہوں یہ تو بتا نہیں سکتا

مگر یہ طے ہے کہ ہیں یار بے بدل میرے

 

جلا ہوں ہجر کے شعلوں میں بارہا اجملؔ

مگر میں عشق ہوں جاتے نہیں ہیں بل میرے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمارے حال پہ وہ شادماں نظر آیا

ہمیں بھی اس سے زیادہ کہاں نظر آیا

 

رہی سہی وہ تب و تاب پیرہن بھی گئی

کہ آئینے کے مقابل دھواں نظر آیا

 

میں جی رہا تھا شب و روز کے تسلسل میں

وہ ماہتاب مجھے ناگہاں نظر آیا

 

میں چاہتا تھا مجھے زندگی نظر آئے

سو میں نے دیکھ لیا تو جہاں نظر آیا

 

پھر ایک رات مجھے روشنی نظر آئی

پھر ایک رات مجھے آسماں نظر آیا

٭٭٭

 

 

 

 

سو طرح کے غم اور ترے ہجر کا غم بھی

کیا زندگی کرنے کے لئے آئے ہیں ہم بھی

 

ہاں اس کا تقاضہ تو فقط ایک قدم تھا

افسوس بڑھا پائے نہ ہم ایک قدم بھی

 

اک رنجِ تعلق ہے کہ جتنا ہے بہت ہے

اک درد محبت جو زیادہ بھی ہے کم بھی

 

یہ ذکر ہے جس شہر کا ا ب کس کو بتائیں

کچھ وقت گزار آئے ہیں اس شہر میں ہم بھی

 

اس روز جب اس شہر میں اک جشن بپا تھا

ہم نے تو سنا ہے کہ کوئی آنکھ تھی نم بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں

یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں

 

نگاہِ دل کو جو رنگِ ثبات سے بھر دے

ابھی وہ پھول کسی شاخ پر کھلا ہی نہیں

 

جو دیکھتا ہے، کسی کو نظر نہیں آتا

جو جانتا ہے، اُسے کوئی جانتا ہی نہیں

 

نظر جہان پہ ٹھہرے تو کس طرح ٹھہرے

اس آئینے میں کوئی عکسِ دلربا ہی نہیں

 

لئے پھرا ہوں نہ جانے کہاں کہاں اِس کو

مگر یہ دل ہے کہ وہ راہ بھولتا ہی نہیں

 

وہ خواب ہوں جو کسی کو نظر نہیں آتا

وہ آئینہ ہوں جسے کوئی دیکھتا ہی نہیں

 

سُنا ہے ہجر بہت بے قرار کرتا ہے

ہمارے ساتھ تو ایسا کبھی ہوا ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تیرے سوا کسی کی تمنا کروں گا میں

ایسا کبھی ہوا ہے جو ایسا کروں گا میں

 

گو غم عزیز ہے مجھے تیرے فراق کا

پھر بھی اس امتحان کا شکوہ کروں گا میں

 

آنکھوں کو اشک و خوں بھی فراہم کروں گا میں

دل کے لیے بھی درد مہیا کروں گا میں

 

راحت بھی رنج، رنج بھی راحت ہو جب تو پھر

کیا اعتبار خواہش دنیا کروں گا میں

 

رکھا ہے کیا جہان میں یہ اور بات ہے

یہ اور بات ہے کہ تقاضا کروں گا میں

 

یہ رہ گزر کہ جائے قیام و قرار تھی

یعنی اب اس گلی سے بھی گزرا کروں گا میں

 

ہاں کھینچ لوں گا وقت کی زنجیر پاؤں سے

اب کے بہار آئی تو ایسا کروں گا میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دشوار ہے اس انجمن آرا کو سمجھنا

تنہا نہ کبھی تم دل تنہا کو سمجھنا

 

ہو جائے تو ہو جائے اضافہ غم دل میں

کیا عقل سے سودائے تمنا کو سمجھنا

 

اک لمحۂ حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

کچھ اور نہ اس تندیِ دریا کو سمجھنا

 

کچھ تیز ہواؤں نے بھی دشوار کیا ہے

قدموں کے نشانات سے صحرا کو سمجھنا

٭٭٭

 

 

 

 

بجھ گیا رات وہ ستارہ بھی

حال اچھا نہیں ہمارا بھی

 

زندگی ہے تو جی رہے ہیں ہم

زندگی ہے تو ہے خسارہ بھی

 

یہ جو ہم کھوئے کھوئے رہتے ہیں

اس میں کچھ دخل ہے تمھارا بھی

 

ڈھونڈنا آپ کو ہر اک شے میں

دیکھنا وسعت نظارہ بھی

 

ڈوبنا ذات کے سمندر میں

یہ ہے طوفان بھی کنارہ بھی

 

اب مجھے نیند ہی نہیں آتی

خوب تھا خواب کا سہارا بھی

 

لوگ جیتے ہیں کس طرح اجمل

ہم سے ہوتا نہیں گزارا بھی

٭٭٭

 

 

 

یہ خطّۂ آراستہ، یہ شہرِ جہاں تاب

آ جائے گا ایک روز یہ ساحل بھی تہہِ آب

 

تصویرِ عمل، ذوقِ سفر، شوقِ فنا دیکھ

اک موج کہ ساحل کی طلب میں ہوئی سیماب

 

شاید یہ کوئی ریز ہ ٴ دل ہے کہ سرِ چشم

مانندِ مہ وہ مہر چمکتا ہے تہہِ آب

 

اک عمر ہوئی پستیِ ظلمت میں پڑا ہوں

دیکھو مجھے میں ہوں وہی ہم قریہ ٴ مہتاب

 

دنیا تو نہیں ہے مگر آغوشِ طلب میں

اک بھولی ہوئی شکل ہے کچھ ٹوٹے ہوئے خواب

 

جُز دیدۂ دل کون تجھے دیکھ سکے ہے

محروم تری دید سے ہیں منبر و محراب

 

اے ناظرِ ہر ذرّہ تری ایک نظر کو

آنکھیں ہیں سو بے نور ہیں، دل ہے سو ہے بے تاب

٭٭٭