FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

۔۔۔

غضنفر کا فکشن

 

 

                   صفدر امام قادری

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

 

 

 

غضنفر کا افسانہ ’سانڈ‘: ایک تجزیہ

 

 

ناول ہویا افسانہ، غضنفر کے یہاں بنیادی سوال سیاست یا سماج کے مرکزی کار پردازوں سے متعلّق ضرور ہوتا ہے۔ غالبؔ بادہ وساغر کے بغیر اپنی گفتگو مکمل نہیں کر سکتے تھے۔ غضنفر سیاسی کھیل تماشے کے دوچار پُرزوں کو اُکھاڑے بغیر اپنے قصّے نہیں بُن سکتے۔ ’’پانی‘‘ سے لے کر ’’وِش منتھن‘‘ تک، اور ’’حیرت فروش‘‘ کے بیشتر افسانوں میں سیاست اور سیاسی کھیل بہت باریکی سے ہماری توجّہ کا حصّہ بنائے گئے ہیں۔ اس کے باوجود افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ انھیں سیاسی افسانہ لکھنے والا نہیں سمجھا جاتا۔ شوکت حیات، سلام بن رزّاق، عبدالصمد یا ساجد رشید کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ وہ ہم عصر اردو فکشن میں سیاست کو مرکزیت عطا کرتے ہیں لیکن غضنفر کے ناولوں کے بارے میں بھی یہ برائے نام کہا گیا کہ لکھنے والا سیاست کو مرکز میں رکھ کر اپنی بات سوچتا ہے۔ پہلی نظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نقّادوں نے غضنفر کے سیاسی اشاروں کو سمجھنے میں زیادہ غور و فکر سے کام نہیں لیا۔ ممکن ہے ‘یہ بات درست بھی ہو۔ لیکن اصل سبب شاید کچھ اور ہے۔ غضنفر کا مخصوص افسانوی اسلوب اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ اُن کی علامتیں اور ادبی اشارے اس قدر واشگاف ہوں جس سے سیاسی منشا آسانی سے سمجھا جا سکتا ہو۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ اُن کے سارے قصّے اپنے سیاسی اشاروں کے بغیر مکمل ہو جاتے ہیں اور اپنا علاحدہ معنوی نظام بھی قائم کر لیتے ہیں۔ سیاست کہے بغیر یہاں بہت ساری سیاست ہے اور شفّاف حقیقت پسندی سے گریز کر کے فنّی اقدار کے لیے اپنی توجّہ کا ثبوت دیا گیا ہے۔

غضنفر کا افسانہ ’سانڈ‘ ایک سیاسی افسانہ ہے —–از اوّل تا آخر۔ پریم چند کے ’دو بیل‘ سے اسے جوڑیے تو اس اعتبار سے یہاں یکسانیت ملے گی کیوں کہ دونوں افسانے جانوروں کے سہارے مکمل ہو جاتے ہیں۔ آپ اُن میں کوئی دوسرا مفہوم نہ ڈالیں ‘تب بھی یہ افسانے مکمل ہیں۔ لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ غضنفر نے ۴۱؍ برس کی عمر یعنی ۱۹۹۴ء میں اور ۵۳؍ برس کی عمر میں پریم چند نے جانوروں کی کہانیاں محض معصوم بچّوں کی دلچسپی اور دل جوئی کے لیے نہیں لکھی ہوں گی۔ اگر اِن کہانیوں میں جانور ہیں تو اُن جانوروں کی معنوی سطحیں بھی بالکل علاحدہ ہوں گی۔ اسی لیے ’دو بیل‘ یا ’سانڈ‘ صرف تفریحِ طبع کی کہانیاں نہیں ہو سکتیں بلکہ ان کے سیاسی اور سماجی متعلّقات بھی اہم ہیں اور انھیں سمجھے بغیر یہ کہانیاں ادھوری تفہیم کے لیے ہم سے شکوہ سنج ہوں گی۔

غضنفر اپنے کسی بھی افسانے یا ناول کا پلاٹ پیچیدہ نہیں بناتے۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ بہت ساری فلموں کی طرح اُن کے یہاں ناول اور افسانے کا ایک ذاتی سانچا تیار رہتا ہے۔ اپنے واقعات اور کرداروں کو بس انھیں فِٹ کر دینا ہے۔ ایک تخلیق کار کے طور پر یہ اُن کی سب سے بڑی حد ہے۔ ’’سانڈ‘‘ افسانہ اس سے مبّرا نہیں۔ مسئلہ جیسے قائم ہوتا ہے اور دھیرے دھیرے اُس کے اجزا پھیلتے ہیں، اُس سے محدود پیمانے پر افسانے کے اگلے پڑاؤ کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔ اُن کا ناول ’وِش منتھن‘ یا مشہور افسانہ ’تانا بانا‘ تو اسی فریم ورک کی وجہ سے اپنے سانچے کو متعیّن کرتا ہے۔ سانچا تیار ہو جانے کے بعد افسانہ اپنے آپ کھڑا ہو جاتا ہے۔ مشّاق لکھنے والے کے لیے ڈھانچے کو گوشت پوست جسم میں تبدیل کر دینا کوئی مشکل امر نہیں۔

اس افسانے میں بھی سانڈ کا نکل آنا، تباہی پھیلا نا، پھر اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے لوگوں کا پریشان ہونا—-انھی بنیادوں پر غضنفر نے کہانی بُنی ہے۔ دھام پور اور سورج پور گانو کے نام اور اُس میں رہنے والے افراد، کانجی ہاؤس کے افسران اور دونوں گانو کے تھوڑے سے باشندے، انھی کرداروں میں یہ کہانی مکمّل ہو جاتی ہے۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے غضنفر کی وہ حد یہاں بھی موجود ہے۔ وہ سادہ سا ڈھانچا کھڑا کرتے ہیں۔ جس طرح اکثر و بیش تر پریم چند کے افسانوں میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ غضنفر کا کارنامہ یہ ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ اُن کا پڑھنے والا اکیسویں صدی میں کا باشندہ ہے۔ اس لیے وہ سادہ پلاٹ کے باوجود ایک نہایت اشاراتی اور ساتھ ہی ساتھ ایک  ڈرامائی اسلوب قائم کرتے ہیں۔ غضنفر کے فکشن کی یہ دونوں ایسی خوبیاں ہیں جنھیں اُن کے اکثر ہم عصروں میں نہیں پایا جا سکتا۔ ایک مختصر سے فقرے یا چند لفظوں سے غضنفر قصّے کی داخلی دنیا کو پورے طور پر بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ طنز آمیز جملوں سے وہ افسانے میں ایجاز پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح وہ منٹو اور عصمت چغتائی کے بیچ کی کوئی شکل بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہانی کے بیچ وہ چھوٹے چھوٹے ڈرامے بھی قائم کرتے چلتے ہیں۔ یہ ڈرامے افسانے کے اسٹیج پر ہر چار قدم پر رونما ہوتے ہیں اور اکثر و بیش تر المیہ کی اثر آفرینی میں اضافے کے باعث ہوتے ہیں۔ کئی بار چند لفظوں سے ہی یہ ڈراما مکمّل ہو جاتا ہے اور پورے قصّے کو ایک نیا تناظر عطا کر دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ غضنفر نثر کے جملوں کو شعر کے مصرعوں کی طرح استعمال میں لے آتے ہیں۔

مذہب کے سیاسی استعمال پر اخبار کے سیاسی کالموں میں تو اکثر لکھا جا تا ہے لیکن فی زمانہ ان دونوں کے خطرناک گٹھ جوڑ کا پردہ فاش کرنا تخلیق کاروں کے لیے اس وجہ سے آسان نہیں ہے کیوں کہ سیاست اور مذہب کے کئی ایسے پہلو بھی ہوتے ہیں جن پر ایک لفظ زیادہ کہہ دیا جائے تو کیا سے کیا ہو جائے۔ حقیقت سے ہر آدمی واقف ہے مگر الزام پورے طور پر کس پر عائد کیا جائے، اِسے بہ بانگِ دہل کہتے ہوئے لوگوں کے جسم پہ لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ غضنفر نے اس افسانے میں مذہب کے اجتماعی اور بالآخر سیاسی استعمال کے پردے میں خوف اور دہشت کا ماحول قائم کر کے سماج میں انتشار پیدا کر دینے کے عوامل کی خوب خبر لی ہے۔ یہ بھی خوب ہے کہ تخلیق کار کمالِ ناوابستگی کو قائم رکھتے ہوئے آسانی سے کسی مرحلے میں یہ پتا بھی چلنے نہیں دیتا کہ وہ دھام پور کی طرف ہے کہ سورج پور کی طرف۔ اس طرح افسانہ اپنے فطری رنگ میں آگے بڑھتا ہے اور نتائج تک پہنچنے کے لیے مصنّف کی طرف سے کسی ہدایت نامے کا اجرا بھی نہیں ہوتا۔ یہی ناوابستگی تھی جس کی وجہ سے اس افسانے کا عنوان ’سانڈ‘ قائم ہوا ورنہ افسانہ نگار چاہتا تو کسی غیر منفی شَے کو اس کا سرنامہ بنا دیتا۔

افسانہ ایک مختصر ڈرامائی کیفیت کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور بوڑھا آدمی بھاگنے والے لوگوں سے پوچھتا ہے کہ بھگدڑ کیوں مچی ہوئی ہے ؟ جواب میں پتا چلتا ہے کہ پھر سانڈ گانو میں گھُس آیا ہے۔ جواب نوجوان کی طرف سے ہے اور بوڑھے چاچا کو نقصانات کا سلسلے وار بیورا دیا جاتا ہے۔ اِن تفصیلات میں گانو کی چہار طرف تباہی کے اشارات موجود ہیں۔ اِس حصّے میں یہ تو پتا نہیں چلتا کہ سانڈ کا کام کوئی سیاست یا سازش کا حصّہ ہے۔ محض اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مشکلات قائم ہیں اور چارہ جوئی کی صورت نہیں نکل رہی ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ سانڈ دھام پور کا ہے اور نقصان سورج پور والوں کو اُٹھانا پڑ رہ ہے۔ اسی لیے بوڑھے نے نوجوان سے کہا کہ دھام پور والوں سے ہی یہ کہنا چاہیے کہ وہ اپنے سانڈ کو روکیں۔ سب سے آسان علاج یہی ہے کہ جس چیز سے پریشانی ہو رہی ہے، اُسے اُس کی حد میں رکھا جائے۔

بوڑھے کے اس سوال کا نوجوان نے جو جواب دیا، اُسی سے کہانی کا مذہبی بُعد اُبھرتا ہے۔ دھام پور والوں کا بھی یہ کہنا درست تھا کہ جب دیوی دیوتا کے پرساد کے طور پر اِس سانڈ کو کھُلا چھوڑا گیا، تب اِسے کیسے روکا جا سکتا ہے ؟ بھگوان کے نام کی چیز اُس کی بنائی ہوئی دنیا میں کھُلے عام اور بغیر روک ٹوک کے کیوں نہیں گھومے پھرے ؟ یہ مسئلہ اور بھی مشکل ہے کہ سانڈ کو روک کر ایشور کی نگاہ میں پاپ کا بھاگی دار کیوں بنا جائے ؟ کہانی کے اِس موڑ کو واضح کرنے میں غضنفر نے دھیرے دھیرے مذہب کے نام پر ہونے والی بد اعتقادیوں پر بھی نشانہ سادھنا چاہا ہے۔ بیان میں اشارے اس انداز کے بھی موجود ہیں جن سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ افسانہ نگار مذہب کے نام پر چلنے والے اس کھیل کی تمام باریکیوں سے واقف ہے۔ اسی لیے طنز یہ اشارے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ ابھی پلاٹ کو کسی دوسری منزل پر فیصلہ کُن موڑ تک پہنچنا ہے۔ لیکن ایسے جملے ابتدائی حصّے میں ہی ملنے لگتے ہیں:

٭ ’’بھگوان کے نام کا سانڈ بھگوان کی بنائی ہوئی اس دنیا میں کہیں بھی بِنا روک ٹوک جا سکتا ہے ——-وہ جو چاہے کھا سکتا ہے ‘‘

٭ ’’آزادی اور بے فکری سے خوب کھا پی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن جاتا ہے۔ ‘‘

افسانے کے اگلے حصّے میں غضنفر سماج کی صحت مند اقدار کی پہچان کرتے ہیں۔ حالات مذہب یا سیاست، کسی بھی جبر کے تحت بے قابو ہو جائیں لیکن مشکلات اور بد اندیشیوں سے مقابلہ آرا ہونے کی ہمارے سماج میں بہر صورت صلاحیت ہوتی ہے۔ اِسی لیے سورج پور کے نوجوانوں کو للکارتے ہوئے بوڑھا غضب ناک انداز میں گویا ہوتا ہے: ’کوئی اپنی بربادی کو چپ چاپ نہیں دیکھ سکتا۔ اپنے بچاؤ کے لیے اُسے بھی تو کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ ‘ اب دھام پور والوں سے کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہونا تھا۔ اس لیے کا نجی ہاؤس کے افسران سے سانڈ کی تباہ کاریوں کی شکایت کی جاتی ہے۔ بوڑھے نے سرکاری اداروں کے سامنے فردِ جرم کیسے عائد کی جاتی ہے، اس سلسلے سے اپنے تجربوں سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے گانو کے نوجوانوں کو بتایا کہ کانجی ہاؤس کے اہل کاروں سے یہ کہنا ہے کہ سانڈ پاگل ہو گیا ہے اور وہ دوسرے گانو کو بھی اپنے دائرے میں کب لے لے گا، اس کا کیا پتا؟

گانو والوں کو کانجی ہاؤس کی طرف سے کوئی علاج نصیب نہیں ہوتا ہے۔ غضنفر نے سادہ سے لفظوں میں طنز کے ہرے بھرے زخم اُبھارتے ہوئے سرکاری کام کاج کے غیر جذباتی یا غیر انسانی ہونے کی بھرپور وضاحت کر دی ہے۔ لا وارث سانڈ کے لیے سرکاری کانجی ہاؤس میں کوئی گنجایش نہیں۔ سرکاری افسروں کے نَپے تُلے جواب کو سُن کر گانو والے اپنی قسمت کو پیٹتے ہوئے لوٹ آئے۔ یہ عوامی بیداری کی مہم کی پہلی پسپائی تھی۔ ظالم کی نکیل کسنے کے لیے اجتماعی کا وشوں کا انجام اس قدر ناکامی سے بھرا ہو گا، یہ غیر متوقع تھا۔ لیکن اگلی بار جب پھر سانڈ نے تباہی مچائی، اُس وقت بوڑھے نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ کانجی ہاؤس کے اوپر کے افسروں سے رابطہ قائم کیا جائے، شاید وہ ہماری مدد کریں۔ غضنفر نے کہانی میں اس مرحلے میں کامیابی کی ایک صورت پیدا کر دی ہے۔ شاید وہ سرکاری دفاتر میں دباؤ بنانے اور کام کرانے کی تکنیک کو یہاں اُبھارنا چاہتے ہیں، اسی لیے افسروں نے وعدہ کیا کہ اگر آپ لوگ سانڈ کو پکڑ کر لائیے، تواُسے کانجی ہاؤس میں بند کر دیا جائے گا۔ سانڈ کو پکڑنے کے لیے نوجوانوں کی ٹولی سرگرم ہوئی لیکن آخر کار سانڈ بھاگ نکلا۔ کئی نوجوان زخمی بھی ہو گئے لیکن اُس کا پیچھا کرتے رہے۔ سانڈ جان بچا کر محفوظ علاقے یعنی اپنے گانو دھام پور کی طرف بھاگ گیا۔

سانڈ کو پیچھے سے دوڑاتے ہوئے نوجوان دھام پور پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی دھام پور والوں کو لاٹھیوں کے ساتھ سانڈ کو مارنے کے درپے سورج پور کی آبادی دکھائی دیتی ہے، فوراً دھام پور کے لوگ بھی لاٹھی اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر اپنے سانڈ کو بچانے اور سانڈ کو مارنے والوں سے مقابلہ کرنے کے لیے نکل آتے ہیں۔ سورج پور کے لوگ پھر نامراد واپس ہوتے ہیں۔ لیکن کئی بار کی کوششوں میں ناکامی انھیں فیصلہ کُن موڑ تک لے آتی ہے۔ جنھیں مشکلات کا سامنا ہے، انھیں کسی نہ کسی صورت اپنے مسائل سے مقابلہ کرنا ہی ہوتا ہے۔ آخر آخر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ سانڈ سے مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بھی اپنے دیوتا کا سانڈ تیار کرنا ہو گا جو دھام پور والوں کے ساتھ ویساہی سلوک کرے گا جیسا دھام پور والوں کا سانڈ سورج پور والوں کے ساتھ متواتر کر رہا ہے۔ یہ نسخۂ کیمیا بہ ظاہر جتنا معصوم ہے، اُسی قدر تباہ کُن اور غیر انسانی بھی ہے۔ سانڈ کا جواب سانڈ ہو سکتا ہے، یہ انتقامی جذبہ تھا جسے عوامی فیصلے میں تبدیل کر کے طاقت ور کو کمزور پر فتح یاب ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

غضنفر نے کہانی کے اس موڑ پر یہ واضح کر دیا ہے کہ دونوں سانڈوں نے دونوں گانو کو الگ الگ تباہ کیا۔ جس کے ہاتھ میں طاقت ہے، اُس نے عوام کو بہر صورت مشکلات میں مبتلا رکھا۔ کہانی اس موڑ پر بھی ختم ہو سکتی تھی اور غضنفر انسان کے اس تصوّر کو واضح کرنے میں کامیاب ہو سکتے تھے کہ شَر کو شَر سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن غضنفر اس تصوّر کے طرف دار نہیں، اس لیے انھوں نے کہانی کے انجام سے ذرا قبل ایک ڈراما پیدا کیا اور وہ یہ کہ لوگوں نے اچانک دیکھا کہ دونوں دشمن سانڈ ایک ساتھ مِل جُل کر گھوم رہے ہیں اور باری باری دونوں جگہ تباہیاں پھیلانے لگتے ہیں۔ اس منظر سے سب کی آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں۔ یہاں غضنفر سیاسی اور سماجی گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کی پُشت پر اصل میں کوئی اصول یا انسان دوستی کا بالعموم تصوّر نہیں ہوتا۔

اس کلائمکس کے بعد بھی غضنفر کے پاس ایک اور ڈراما بچا ہوا ہے۔ اب دونوں گانو کے لوگ یک رائے ہیں کہ دونوں سانڈوں کو مار دیا جانا چاہیے۔ لیکن ٹھیک اِسی مرحلے میں محکمۂ تحفّظِ وحشیان کے افراد پہنچ جاتے ہیں جن کے نزدیک جانوروں کا مارنا بڑا جُرم ہے اور اُن سانڈوں کو وہ اپنی حفاظت میں لے لیتے ہیں۔ اس مختصر ڈرامائی کیفیت سے افسانہ نگار کو حالات کے جبر اور اُس کی بوالعجبیوں کو واشگاف کرنے کا موقع ہاتھ آ گیا ہے جس کے نتیجے میں گانو والوں کے لیے اپنے سرپیٹ لینے کے علاوہ کوئی چارۂ کار بھی نہیں رہتا ہے۔

اس افسانے کی دو باتوں کی طرف مزید توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ مذہب اور سیاست کے اشتراک سے سماج میں کیا کچھ ہو رہا ہے، اس کا صاف صاف اشارہ اس افسانے میں موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ آخر جانور کو بنیاد بنا کر انسانی زندگی کی کہانی کیوں لکھی گئی ہے ؟ پہلے دوسرے پہلو پر غور کریں تو محسوس ہو گا کہ غضنفر جانوروں کے ارد گرد رہ کر بار بار اپنے افسانے بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے افسانوی مجموعے میں ’سانڈ‘، ’کڑوا تیل‘، ’ایک اور ققنس‘، ’پہچان‘، ’بھیڑ چال‘، ’ڈوبرمین‘، ’ہَون کنڈ‘، ’اس نے کیا دیکھا‘، ’مٹھائی‘، ’ڈگڈگی‘، ’کلہاڑا‘ اور ’اصلاح الوحشیان؛ یعنی کُل بارہ افسانے جانوروں کے آس پاس کی زندگیوں سے عبارت ہیں۔ ان کے مجموعے کا ہر تیسرا افسانہ جانوروں یا پرندوں سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ کیا وہ جانوروں کی کہانیاں سنانا چاہتے ہیں ؟ انھیں انسانی زندگی کے پیچ و خم کی وضاحت کے لیے جانوروں کی مدد کی ضرورت ہے ؟ یا جانور ان کے ہاں انسانی تشخّص حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ؟

جانوروں کی زندگیوں کی تفصیل بتاتے ہوئے انسانی کائنات کے تمام نشیب و فراز واضح کرنے کا غضنفر نے کوئی بالکل نیا اور ذاتی سلیقہ ایجاد کیا ہو، ایسا نہیں ہے۔ ’پنچ تنتر‘، ’منطق الطیر‘سے لے کر’ Animal Farm ‘تک؛ جانوروں کے ساتھ ساتھ ہماری قصّہ گوئی اپنی بھرپور مقصدیت واضح کرتی رہی ہے۔ غضنفر بار بار جانوروں کے سہارے آخر کیوں اپنی بات ہم تک پہچانا چاہتے ہیں اور وہ بھی جانوروں کی کم، انسانی سماج کی زیادہ۔ کم سے کم انھیں سیاسی اور معاشرتی کہانیاں تو جانوروں کے سہارے نہیں ہی کہنی چاہیے تھیں۔

ایک فن کار کی حیثیت سے غضنفر نے اس معاملے میں شاید بہت سوچی سمجھی حکمتِ عملی اختیار کر رکھی ہے۔ جانوروں کے سہارے طنز واستہزا کو وہ بآسانی بڑھا دیتے ہیں۔ انسانی جبر کے مظاہر دکھانے میں بھی انھیں جانوروں کا ذکر کر کے ایک تقابلی منظریہ قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جہاں انھیں انسانی سماج کے کھیل تماشے دکھانے ہوتے ہیں، وہاں وہ من چاہے طریقے سے جانوروں کے واقعات بتاتے ہوئے انسانوں کے حال چال پس منظر میں دکھاتے چلتے ہیں۔ ہر جگہ انسان کی وہ جیسی شکل چاہتے ہیں، آسانی سے اُسے پیش کر سکتے ہیں۔ یہ غور کا مقام ہے کہ ’’کڑوا تیل‘‘ کے کولھو کا بیل مظلوم صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے اور کولھو کے مالک شاہ جی استحصال اور ظلم کے نمائندہ بن کر جانور کے مقابلے خود کم تر دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے مختلف افسانہ ’سانڈ‘ کا سانڈ ظالم ہے اور استحصال کا خود نمائندہ معلوم ہوتا ہے لیکن افسانہ نگار کا کمال دیکھیے کہ پھر بھی وہ انسانوں کو ہی ظلم اور استحصال کا کارندہ بتانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں جانور اگر ظلم کرتا ہے تو اس لیے کہ وہ انسانوں کے ہاتھوں کا کھلونا ہے۔ اس طرح بے زبان جانوروں سے افسانہ نگار کی محبت لائق توجّہ ہے جس کا عروج افسانے کے آخر میں اس طرح سامنے آتا ہے کہ سانڈوں کو مارنے سے پہلے تحفّظِ وحشیان کے افراد ان سانڈوں کو اپنی حفاظت میں لے کر انھیں مارے جانے سے بچا لیتے ہیں۔ جذبوں کی سطح پر یہ معصومیت اور نرمی غضنفر کی ادبی شخصیت کی اصل روح ہے۔

اس افسانے کے سیاسی پہلو کی طرف ہم واپس آتے ہیں۔ گائے تقدیس اور معصومیت کا اشارہ ہے، بیل محنت کا اور سانڈ ظلم اور طاقت کا۔ غضنفر نے اس عام تصوّریے کو بدلنے اور بگاڑنے کی کوئی حکمت نہیں آزمائی۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ عنوان دیکھتے ہی پڑھنے والا سانڈ کے عوام مخالف رویّے کو ذہن میں سمیٹ لیتا ہے۔ قاری کے جذبات اور دل پر افسانہ نگار کس قدر حاوی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہیے کہ افسانہ شروع ہوتے ہی سانڈ کی ظالمانہ حرکتوں کا اشارہ ملنے لگتا ہے۔ پہلے جملے میں ہی افسانہ نگار عوامی یادداشت کو اوّلیت دے کر پڑھنے والے کا بھرپور اعتماد حاصل کر لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ غضنفر سانڈ کو ظلم کا نمائندہ نہیں بنانا چاہتے بلکہ سانڈ کے پالنے اور نچانے والوں پر نشانہ سادھتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ایک ہوش مند قصّہ گو کا یہ فرض ہے کہ پہلے وہ قاری کو اپنا بنائے اور پھر اُس کے ذہن میں وہ سب کچھ ڈال دے جس کے لیے وہ افسانہ لکھ رہا ہے۔ اس اعتبار سے سانڈ کے تصوّر کو قائم کرنے اور پھر غائب کر دینے میں غضنفر نے خاصی مہارت دکھائی ہے۔

غضنفر نے چوں کہ یہ طے کیا تھا کہ وہ سیاسی اور سماجی افسانہ لکھنے جا رہے ہیں، اس لیے انھوں نے سانڈ کا بار بار ذکر تو کیا لیکن ہر بار انھوں نے سانڈ کے پیچھے انسانی جماعتوں کی طاقت کا کھیل بھی لازمی طور پر دکھایا۔ اس کھیل میں نہ جانے کتنے فریق ہیں اور سب موقع بہ موقع اپنا کام کرتے جاتے ہیں لیکن نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ انسانی شکست کی کہانی میں چند اوراق پھر سے جوڑ دیے جاتے ہیں۔ غضنفر چلتے پھرتے یہ دکھا دیتے ہیں کہ سانڈ تو پکڑ لیا جائے یا مار دیا جائے لیکن اُسے بچانے والوں کا کیا ہو گا؟ کبھی گانو کے نام پر، کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی تحفّظِ وحشیان کے نام پرسانڈ تو بچ ہی جاتا ہے، اس قدر مدد سماج کی صالح قدروں کو کسی موڑ پر نہیں مل رہی ہے۔ واقعتا یہ لمحۂ فکر یہ ہے۔ غضنفر کوئی اعلان تو نہیں کرتے لیکن افسانے کو نہایت پُرسوز مقام پر اسی لیے چھوڑ دیتے ہیں تا کہ پڑھنے والے سماج، سیاست اور مذہب کے اس کھیل کو سمجھ سکیں کہ کہیں کوئی مددگار یا طرف دار نہیں ہے اور انسانیت کو سفّاک جبڑوں میں برباد کرنے کا ارادہ ہے۔

’سانڈ‘ میں نئی اور پرانی نسل میں کسی بڑی آویزش کو نہیں دکھایا گیا ہے۔ سورج پور کے نوجوانوں اور بزرگ کے تعلّقات پر غور کریں تو پتا چلے گا کہ دونوں کے بیچ اچھا خاصا تال میل ہے اور ایک دوسرے سے صلاح و مشورہ کا سلسلہ قائم ہے۔ دونوں کے درمیان ترسیل کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور سماجی مسئلوں میں دونوں مل جُل کر غور و فکر سے کام لے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس افسانے میں Synthesisکا عمل چل رہا ہے۔ پرانے اور نئے لوگوں میں نہ کوئی ضد ہے اور نہ مقابلہ آرائی۔ ایک دوسرے سے کسی بڑی شکایت کا بھی پتا نہیں چلتا۔ آنے والے دور میں شاید ایسا ہی سماج بنے جہاں نہ کسی کو احساسِ برتری ہو اور نہ احساسِ کمتری سے کوئی پسپا ہونے کے لیے مجبور ہو۔ حالاں کہ یہ غم انگیز صورت ہے کہ پرانی اور نئی نسل کے ایک ساتھ سرگرمِ عمل ہونے کے باوجود ہمارے مسئلے حل نہیں ہوتے اور ہم بہ تدریج ختم ہوتے جانے کے لیے مجبور ہیں۔

اس افسانے میں اسطور کا بہت خوبی سے استعمال ہوا ہے۔ سانڈ یعنی ظالم قوت اسطور کے سہارے ہی جو از حاصل کرتا ہے۔ اصلاً مذہب اسی قدر اس افسانے میں اوپری سطح پر دکھائی دیتا ہے۔ لیکن افسانہ نگار کا یہ کارنامہ ہے کہ ایک ذرا سی بات سے اُس نے پورے افسانے میں استحصال کے قائم ہونے والے ڈھانچے کی پہچان کر لی اور ہمارے ذہن میں یہ سوال بھی بھر دیا کہ کس طرح مذہب اور دھرم کرم کے نام پر سماج دشمن تصوّرات استعمال میں لائے جاتے ہیں اور دھیرے دھیرے ہمارا سماج آپس میں لڑ کر بہ تدریج کمزور ہوتا جاتا ہے۔ اسطور کے استعمال سے یہاں سیاست کا اعلانیہ انداز بھی نہیں اُبھرا اور مذہب کے نام پر قائم غیرانسانی رواجوں کا بھی پردہ فاش ہو گیا۔

اپنی نسل میں زبان کی سطح پر غضنفر کے ہاں سب سے زیادہ تجرباتی ذہن دکھائی دیتا ہے۔ غضنفر کے ذریعہ وضع کی جا رہی رنگ برنگی زبان کی طرف زبان کے ادا شناسوں کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سادہ سے افسانے میں یوں تو انشا پردازی دکھانے، زبان کے گُل بوٹے ٹانکنے کی گنجایش نہیں تھی۔ اس کے باوجود اُن کے ہر جملے میں اُن کا مخصوص طریق کار ابھرتا نظر آتا ہے۔ بالخصوص جزئیات نگاری میں انھوں نے اپنی مہارت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ حالات اور کیفیت کو پوری اثر آفرینی کے ساتھ ابھارنے میں انھیں اپنی اسی قوت سے مدد ملتی ہے۔ ’سانڈ‘ میں طنز کی کیفیت، بیان میں اجمال اور بُنت میں استحکام اسی زبان دانی سے پیدا شدہ ہیں۔ اپنے اکثر افسانوں یا ناولوں میں غضنفر اپنی انشا پردازانہ صلاحیتوں سے قصّے کو پھیلانے کا کام کرتے ہیں جسے انھوں نے یہاں کسی بھی طور پر نہیں آزمایا ہے۔ یہاں زبان کے صرف تاثیری پہلو کو ہی انھوں نے ملحوظ رکھا ہے اور اس میں انھیں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

تو کیا ’سانڈ‘ ہمارے زمانے کا بڑا افسانہ ہے ؟ کیا اسے اردو کے عظیم مختصر افسانوں میں جگہ دی جا سکتی ہے یا کیا اسے شہہ کار قرار دیا جا سکتا ہے ؟ کیا یہ ’کفن‘، ’عیدگاہ‘، ’ہتک‘، ’لاجونتی‘ کی صف میں شامل ہو سکتا ہے ؟ ان سوالوں کے جواب میں مجھے ’ہاں ‘ نہیں کہنا چاہیے۔ غضنفر نے بڑی تخلیق لکھنے کے لیے بنیادی مسالہ جمع کر لیا ہے۔ ان کا مطالعۂ کائنات، زبان اور تکنیک پر قدرت ایسے جوہر ہیں جن کے بَل پر انھیں نہ صرف اپنے عہد کا بڑا ناول لکھنا ہے بلکہ ان پر کئی یاد گار افسانوں کا لکھنا بھی قرض ہے۔ انھیں اپنے عہد کا رزمیہ لکھنا ہے لیکن اس کے لیے غضنفر کو اپنی تخلیقی شخصیت کو شاید مزید صیقل کرنا پڑے۔

[سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز، میسور کے سے می نار منعقدہ ۱۵-۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۷ء واقع حلیم پی۔ جی۔ کالج، کان پور میں پیش کیا گیا۔ ]

٭٭٭

 

 

 

 

مانجھی-نئی دیومالا گڑھنے کی کوشش

 

 

اپنے مختصر ناولوں کے لیے مشہور غضنفر کا تازہ ناول ’’مانجھی ‘‘ رسالہ ’آمد‘ پٹنہ میں چھپنے کے بعد فوری طور پر ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی کے زیر اہتمام شائع ہو کر منظرِ عام پر آ گیا ہے۔ ’پانی‘(1989)کے بعد ’کینچلی‘، ’کہانی انکل‘، ’مم‘، ’دویہ بانی‘، ’فُسوں ‘، ’وش منتھن‘، اور ’شوراب‘ کے بعد ’مانجھی‘ میں لازمی طور پر غضنفر کی مشق اور قصہ گوئی کی مہارت بڑھی ہے ورنہ یہ آسان نہیں تھا کہ دو تین گھنٹے کے ناؤ کے سفرپر ناول کے مکمل 140صفحات صرف ہو جائیں اور پڑھنے والا سانس روک کر اس کا مطالعہ کرنے کے لیے مجبور ہو۔

ناول کو اپنے زمانے کا رزمیہ مانا جاتا ہے۔ مطالعۂ کائنات کی صلاحیت کے بغیر کوئی ناول نگار بہتر تخلیقی شہ پارہ پیش نہیں کر سکتا۔ زندگی کی پیچیدگی اور بوقلمونی کی تہہ در تہہ کیفیت اگر ناول کا حصہ نہیں بنے تو لکھنے والا راندۂ درگاہ ہو جاتا ہے۔ غضنفر نے ناول کا عرصۂ حیات اتنا مختصر رکھا کہ زندگی کی پرت در پرت صورت حال کو ناول میں شامل کرنے کے لیے بہ ظاہر زیادہ گنجائش تھی ہی نہیں۔ ناول کا تقریباً پورا پورا معاملہ ناؤ پر بیٹھنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ناؤ سے اترنے کے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ناول کے دونوں مرکزی کردار زمین پر آتے ہی کہاں ہیں۔ ندی میں تیرتی کشتی تک ہماری دنیا بھلا کیسے پہنچے لیکن غضنفر’ شعور کی رَو‘ کی تکنیک کا اگر جگہ جگہ استعمال نہیں کرتے تب یہ ناول گنگا، جمنا اورسرسوتی کی یاترا یا بہت ہوتا تو انتر یاترا تک مقید ہو کر رہ جاتا۔ لیکن شعور کی روسے انھوں نے اس ناول کو بحر سے بَر میں اتار دیا ہے۔

اس ناول میں قصہ، اگر ہے تو اس کی دوسطحیں ہیں۔ پہلی سطح پر قصہ کشتی پر تیار ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے وی۔ ان۔ رائے کا کوئی مختصر سا سوال ویاس نام کے ملّاح سے ہوتا ہے اور جواب میں تفصیل سے ویاس محوِ گفتگو ہوتا ہے۔ یہ باتونی ناوِک اپنے جواب میں اکثر ہندو صنمیات یا دنت کتھاؤں کو پیش کرتا ہے۔ کبھی کبھی ویاس ان ہزاروں سال پرانی کہانیوں کے ہم عصر مطالب بھی بیان کر دیتا ہے۔ لیکن یہ کام زیادہ مستعدی سے وی۔ ان۔ رائے کی مختصر باتیں یا سوال سے تکمیل کو پہنچتا ہے۔ ایک ہی ناؤ پر بیٹھے یہ دو کردار قصے کو ایک طرف عہد قدیم تک کھینچ کر لے جاتے ہیں تو دوسری جانب عہد حاضر اورمستقبل تک کے اشارات اسی مرحلے میں فراہم ہو جاتے ہیں۔ اطلاق کا یہ عمل یا کھینچ تان ناول کے پہلے صفحے سے لے کر آخری صفحے تک جاری رہتا ہے۔ ناول نگار کا فائدہ یہ ہے کہ نئے کردار اور پرانے کی کشمکش میں قاری بڑی آسانی سے بغیر کسی اضافی صبر کے مطالعے کے شوق کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دیتا ہے۔

غضنفر کے ناولوں میں ہندو اسطور رفتہ رفتہ بہت گہرائی سے جگہ بنا رہے ہیں۔ ’دویہ بانی‘ اور ’وش منتھن‘ کے بعد ’مانجھی‘ میں انھیں دوبارہ یہ موقع ملا ہے کہ ہندو صنمیات کا پھر سے استعمال کریں۔ ’مانجھی‘ میں سب سے قدیم اسطور کی بحث شروع ہوئی ہے۔ ندیوں کے کنارے ہی پہلی آبادی کا تصوّر رہا ہے اور شیو کی جَٹا سے نکلی گنگا پریاگ میں جمنا اور سرسوتی میں ملتی ہے۔ سرسوتی دکھائی نہیں دیتی، آج گنگا اور جمنا کا وجودِ ظاہری آنکھوں کے سامنے بچا ہوا ہے۔ غضنفر نے اپنے تینوں ناولوں میں ہندو صنمیات کا استعمال اطلاع، تعارف یا زندگی کی ایک قدیم شکل میں دکھانے کے لیے ہر گز نہیں کیا ہے بلکہ استعجاب تجسّس اور کشمکشِ حیات کو ابتدائی منظر کے طور پر استعمال کر کے وہیں سے عصری معنویت کے پَروں سے وہ Take-off کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے یہاں صنمیات کی بوسیدگی کے بجائے ایک دانشوارانہ طَورسامنے آتا ہے۔ یہ کیفیت نہ ہو تو ان کے پڑھنے والے انھیں اتنی محبّت اور اپنائیت سے کیوں کر پڑھتے۔

دیومالا کی تعبیرو تشریح کے لیے غضنفر صرف نئے نئے تناظر پیش کرنے پر قانع نہیں ہیں۔ ایک ماہر قصہ گو کے لیے سچے قصے کو جھوٹا اور جھوٹے قصے کو سچّا بنا کر پیش کرنے میں کون سی بڑی پریشانی ہوتی ہے۔ غضنفر نے ’مانجھی‘ سے پہلے جو ناول لکھے، ان میں دیومالا کی تعبیرات اور نتائج میں ذرا ہیر پھیر اور تغیر  و تبدل تو کیا تھا لیکن ’ مانجھی ‘ میں تو خود ساختہ دیومالائیں ہی کھڑی ہو گئیں۔ انتظارحسین کے علاوہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غضنفر ہی ایسے واحداردوافسانہ نگار، ناول نگار ہیں جنھیں اپنے طور پر دیومالائی کہانیاں گڑھنے کا ایسا فن آتا ہے کہ پڑھنے والا یقین کر لے اور انھیں ’مہابھارت‘، ’رامائن‘، ’پنچ تنتر‘ اور منواسمرتی وغیرہ سے لازمی طور پر متعلق مان لے۔ یہ فنّی ریاضت کی نہایت ارفع منزل ہے۔ یہ نئی دیومالا مشق اور قدرت بیان دکھانے کا حربہ نہیں ہے بلکہ غضنفر اس کے سہارے اپنے قصّوں میں انسانی زندگی کی کشمکش اور جبر مسلسل کے زخموں کو ابھار کر اس انسانی سوز کی تلاش میں کامراں ہوتے ہیں جس کے بغیر تاریخ و تہذیب کا ارتقا اورانسانی جد و جہد کی منزلوں کی سیر ہی نہیں ہو سکتی۔

غضنفر نے آٹھ ناول لکھنے کے بعد نواں ناول ’ مانجھی‘ لکھا ہے۔ غور کریں کہ اس کا موضوع کیا ہے تو ذہن کام نہیں کرتا۔ آغاز میں کچھ اندازہ بھی ہوتا ہے لیکن آگے بڑھتے ہوئے قصّے میں اتنے پینچ اور موڑ شامل ہوتے جاتے ہیں جن کی وجہ سے کسی مرکزی موضوع کی طرف ہمارا ذہن ٹھہر ہی نہیں پاتا۔ دیومالائی گفتگو سے لے کر قاضی افضال حسین اورسید محمد اشرف اور کئی جانے انجانے کرداروں اور واقعات کی شمولیت مزید پیچ و خم میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ اسی طرح اس ناول کے کرداروں پر بھی غور کریں تو ایسا لگے لگا کہ جس وی۔ ان۔ رائے کو ہم آغاز میں مرکزی کردار سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ سنگم یاترا کے دوران مانجھی کی گفتگو میں دھوئیں کی طرح اڑ ج               اتا ہے۔ ہر جگہ مانجھی ویاس ہی دکھائی دیتا ہے اور ظاہری سطح پر یہ یک کرداری ناول بن جاتا ہے جس کی وجہ سے مصنف نے بجا طور پر اس ناول کا نام ’مانجھی‘ رکھا۔ وی۔ ان۔ رائے تو تصورات میں، توجیحات میں اور غیاب میں دکھائی دیتا ہے۔

’مانجھی‘ کسی طے شدہ موضوع کو سامنے رکھ کر لکھنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ناول نگاروں پر غیر ضروری طریقے سے زمانے نے یہ لا دیا ہے کہ وہ ناول کے موضوع کا کسی نہ کسی جہت سے اعلان کریں۔ کسی غزل گو سے ایسے سوالات کہاں دریافت کیے جاتے ہیں۔ موہن راکیش کے ناول’ اندھیرے سے بند کمرے ‘میں مختصر پیش لفظ میں مصنف نے یہ باور کرایا ہے کہ اس کا موضوع دلّی ہے۔ اسی طرح غضنفر کے ناول ’مانجھی‘ کا موضوع دنیا ہے۔ گنگا، جمنا اورسر سوتی یا ناؤ کی سیر، دیومالائی حکایات وہ بھول بھلیاں ہیں جن کے پار گئے بغیر اس ناول کا ’ جہانِ دیگر‘ سامنے نہیں آ سکتا۔ ایک مشاق ناول نگار کے طور پر غضنفر کو یقیناً یہ حق پہنچتا ہے کہ موضوع، کردار یا زبان کے سلسلے سے ایسے حیرت انگیز یا انقلاب آفریں تجربے کریں۔ تجربوں کی کامیابی یا ناکامی سے بڑی دولت وہ تخلیقی حوصلہ ہے جس کی وجہ سے ’مانجھی’ جیسی کوئی تحریر سامنے آتی ہے۔

غضنفر کے فکشن کا مجموعی طور پر جائزہ لیتے ہوئے ان کی چار ایسی خصوصیات کا پتا چلتا ہے جو شاید ہی ان کے ہم عصروں میں کسی ایک کے پاس ایک ساتھ ملیں۔ دیو مالاؤں سے خاص رغبت، اشاراتی مناظر کا جگہ جگہ قائم کرنا، زبان کی تخلیقی جہات روشن کرنے کے لیے جانے انجانے تجربے کرنا اور ہر موقعے سے قومی یا بین الاقوامی سیاست کے بنیادی سوالوں سے نبرد آزما ہونا ——- غضنفر کے فکشن کی یہ چہار دیواری ہے جس میں وہ ضرورت کے اعتبار سے زاویے یا اطلاع کی کمی بیشی سے اپنی پسند کا ماڈل تیار کرتے ہیں۔ ’پانی‘ سے لے کر ’مانجھی‘ تک ان کی ہر تحریر کم و بیش انھی مداروں پر گردش کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ غضنفر کی مہارت یہ ہے کہ انھوں نے الگ الگ موضوعات یا تکنیک کو برتتے ہوئے اس چوکھٹے کو ضرورت کے مطابق Re-adjustکیا جس کی وجہ سے ان کا ہر ناول ایک دوسرے سے علاحدہ ہوتا ہے۔

دیو مالاؤں سے غضنفر کید ل چسپی تو ’پانی‘ میں ہی سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ غضنفر نے دیو مالاؤں کو اُن کی مذہبی صداقت روشن کرنے کے لیے کہیں بھی استعمال نہیں کیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دیو مالاؤں کے نام پر غضنفر اپنے متعدد ناولوں میں جو صنمیاتی قصے پیش کر رہے ہیں، ان کا مذہبی تعلق برائے نام ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کبھی یہ ہندو مذہب سے متعلق ہیں۔ ایسی زبان لکھ کر غضنفر یہ ثابت بھی کرنا چاہتے ہیں کہ یہ قصے ہندو صنمیات کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ’دو یہ بانی‘، ’وش منتھن‘ اور ’مانجھی‘ میں بھی مصنف کے زبان کے داؤ پیچ چلتے رہتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان قصوں کا تعلق کہیں نہ کہیں ہندو مذہب سے ہی ہے لیکن شاید یہ مکمل سچائی نہیں ہے۔

غضنفر کے پاس قصہ گوئی کی ایک بھر پور ماہرانہ صلاحیت ہے لیکن ایک تخلیق کار کے طور پر ان کا ذہن نہایت ہی اختراعی ہے۔ اسی کے ساتھ ان کی ہندو مذہب سے متعلق معلومات بھی کام آتی رہتی ہیں۔ یہ سب مل کر ان کے دیو مالائی قصے تیار ہوتے ہیں۔ ان کے تخلیقی نمونوں میں یہ باتیں اس طرح سے شیرو شکر ہو کر آتی ہیں کہ کوئی ایک صورت یا کسی ایک جہت سے اس کی پہچان تقریباً نا ممکن ہے۔ اس لیے وہ دیو مالا ہے بھی اور نہیں بھی۔ اس کا ہندو دھرم سے تعلق ہے بھی اور نہیں بھی۔

یہ سوال کسی کے ذہن میں بھی آ سکتا ہے کہ دیو مالائی قصوں کو اُن کے سیاق سے الگ کر کے آخر غضنفر کیوں قصوں کی بنی بنائی دنیا سے محاربہ کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر دروازے سے غضنفر دیو مالاؤں کو شامل کرتے ہیں تاکہ پڑھنے والے قصے کید ل چسپی میں تجسس کے تحت بڑھتے چلے جائیں۔ مقصد یہ ہے کہ پڑھنے والے کو کسی رخنہ یا رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے، لیکن اتنے صفحات پڑھ کر اگر پڑھنے والے کو وہی پرانا قصہ حاصل ہو گیا تو سب اکارت جائے گا۔ غضنفر قدیم قصوں کی شمولیت کے اس خطرے کو بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ اسی لیے قصوں میں انھوں نے چھیڑ چھاڑ بہت کیا یا انھیں ایسے بدل دیا کہ وہ نئے ہو جائیں۔ یہاں آخری حربہ ایسے قصوں کے اطلاقی پہلو کا ہوتا ہے جب وہ کوئی چھوٹی سی بات جوڑ کر ان قصوں کے عصری مفاہیم روشن کر دیتے ہیں۔ ایک لمحے میں ہمارا ذہن ہزاروں سال کا فاصلہ طے کر لیتا ہے اور ہم قدیم سے عہد جدید میں فوراً چلے آتے ہیں۔

غضنفر کا ہر ناول مختصر ہوتا ہے۔ انھوں نے اتنے سارے ناول لکھے لیکن پانچ سو یا ہزار صفحے کا کوئی ناول ابھی تک نہیں لکھا۔ ’گؤدان‘، ’ میدان عمل‘، ’آگ کا دریا‘، اداس نسلیں ‘ سے لے کر ’ فائر ایریا‘ تک اردو کے بیش تر بڑے ناول ضخیم ہیں۔ ’فسوں ‘، ’ وش منتھن‘ اور شوراب میں انھوں نے جو موضوعات قائم کئے ‘ان کی بنیاد پر ہزاروں صفحات لکھنے میں شاید انھیں کچھ زیادہ پریشانی بھی نہیں ہوتی۔ لیکن انھوں نے کسی ناول کو بھی بے وجہ طویل نہیں بنایا۔ ناول کے اختصار میں غضنفر کی یہ خصوصیت چھپی ہوئی ہے۔ ’ایک چادر میلی سی ‘کو راجندر سنگھ بیدی چاہتے تو پھیلا کر طویل ناول بنا سکتے تھے۔ تب وہ شاید ہی ہمارے لیے ایک یادگار تخلیق ثابت ہوتی۔ کچھ لکھنے والے اپنی زبان میں ایسے طلسمات پوشیدہ رکھتے ہیں جن کے استعمال سے وہ غزل کے شعر کی طرح اپنی باتیں اختصار میں کہہ کر پڑھنے والوں کو ضخیم شرحیں لکھنے کے لیے مجبور کر سکتے ہیں۔ غضنفر اپنی نثر میں اشاروں کنایوں کی وہی طاقت رکھتے ہیں جن سے ان کے ابو اب مناظر میں اور مناظر جملوں میں سمٹ کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔

’مانجھی‘ میں غضنفر کی زبان کی اشاراتی جہات سب سے زیادہ اس کے کردار وی۔ ان رائے کے ذہن میں ابھرنے والے سوالوں سے مخصوص ہے۔ کشتی پر سیر کرتے ہوئے قریب اور دور کے جو مناظر قائم ہوتے ہیں ‘ وہاں بھی اشاروں اور کنایوں میں جو اطلاعات یا مشاہدات درج کرتے ہیں وہاں ایک ایک لفظ یا ایک ایک منظر طول طویل واقعات کا نمائندہ بن کر سامنے آتا ہے۔ جدید قصہ گوئی کا یہ ایسا ہنر ہے جہاں سینکڑوں صفحوں میں قید ہونے والی باتیں محض چند جملوں یا چند صفحات میں کامیابی کے ساتھ سمٹ آتی ہیں۔ غضنفر نے ’پانی‘ میں ہی اختصار اور ایجاز کی یہ تکنیک سیکھ لی تھی جس کی وجہ سے چاہے وہ کسی موضوع پر لکھیں، ان کا ناول سو سوا سو صفحات میں اپنا سارا کام مکمل کر لیتا ہے۔ ’مانجھی‘ میں بھی وہ چاہتے تو قصے کی ڈور کھینچتے چلے جاتے ‘ غنیمت سے انھیں ایسا ماہر قصہ گو ’مانجھی‘ بھی ہاتھ آ گیا تھا جس کے تاروں کو بس چھیڑنے کی دیر ہے ؛ قصے اپنے آپ پھوٹنے لگتے ہیں۔ اس پر مستزاد کہ ناول میں دیو مالائی اثرات بہت ہیں۔ یہ سب قصے کو پھیلانے کے اوزار ہو سکتے تھے لیکن غضنفر نے قصے کو پھیلانے کے بجائے اختصار پسندی کا اپنا پرانا سبق یاد رکھا۔ اسی لیے ’مانجھی‘ کا قصہ بے وجہ طویل نہیں ہوا۔

غضنفر کے ہر ناول میں ایک دانشورانہ لہر آتی جاتی رہتی ہے جو اُن کے تخلیقی سوتے کو استحکام دیتی ہے۔ ’فُسوں ‘ میں ان کی یہ صفت شرح وبسط کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ ’مانجھی’ میں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دانشوارانہ شخصیت وی۔ ان۔ رائے اور ویاس میں منقسم ہو گئی ہے۔ یہ دونوں کردار اپنی ہر بات میں دانش کا کوئی نہ کوئی سرمایہ ضرور لُٹاتے ہیں۔ عام موضوع ہویا خاص لیکن ان کے تاثرات اپنے اندر گہری معنویت رکھتے ہیں۔ فنکاری تو وہاں اجاگر ہوتی ہے جہاں یہ کردار بولنے کے بجائے چپ ہو جاتے ہیں۔ کبھی پانی کی لہریں، کبھی ہوا میں اڑتے پرندے اور پانی میں پھینکے جانے والے دانے سب اپنی اپنی علاحدہ کہانی، پس منظر اور نئی کہانیوں کا ذخیرہ کھولتے چلتے ہیں۔ کہانی اور کرداروں کو متعین نہیں کرنے کی وجہ سے اس ناول میں ایک عجیب بوقلمونی پیدا ہو گئی ہے۔

غضنفر نے یہ اچھا کیا کہ اس ناول میں پیغام، نپا تلا تصوّرِ زندگی اور کائنات کے راز کو سمجھ لینے والا کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا۔ موجودہ عہد میں فکر وفلسفہ کے چوکھٹے اتنے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں کہ انسانی زندگی کے لیے نجات کا کوئی ایک راستہ صاف صاف دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ مذاہب آپس میں گتھّم گتّھا ہیں اور گاندھی واد سے لے کر پونجی واد تک سب کہیں نہ کہیں ہمیں راستے میں چھوڑ دے رہے ہیں۔ ایک ادعّایت ہے جس میں نجات کی معصوم چڑیا اپنے زخموں سے کراہ رہی ہے۔ ’ مانجھی‘ میں یہ آہیں اور غم کے آنسو اپنے تخلیقی تاثّر کے ساتھ کبھی آسمان کے کسی منظر میں، کبھی پانی کی لہروں میں اور کبھی سنگم استھان پر گنگا اور جمنا کے پانی کے نیچے سرسوتی کے روپ میں پوشیدہ ہیں۔

’مانجھی’ ایک دل چسپ، قابل مطالعہ اور فکر وفلسفہ سے بھرپور ناول ہے۔ ایک بار شروع کر دینے پر اسے ختم کرنے سے قبل آسانی سے ادھورا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ لکھنے والے کی پہلی کامیابی ہے۔ پڑھنے کے دوران مافوق الفطرت کہانیاں بار بار آتی ہیں لیکن ان کی عصری معنویت قائم رہتی ہے۔ یہ ناول نگار کی دوسری کامیابی ہے۔ جانے پہچانے واقعات کی بالکل علاحدہ تاویلیں پیش کر کے غضنفر نے پڑھنے والوں کے قوتِ استعجاب کا بھر پور امتحان لے لیا ہے۔ ناول کی کامیابی میں یہ اضافہ ہے۔ ضروری اور غیر ضروری، چھوٹی یا بڑی اور متعلق یا غیر متعلق واقعات اور اشاروں کو غضنفر نے پورے ناول میں اس طرح پھیلا دیا ہے جیسے یہ ہمارا ملک اور یہ پھیلی ہوئی کائنات یا ہماری مکمل زندگیاں ہیں۔ اس سے ناول کی موضوعاتی کائنات کی توسیع ہوتی ہے۔ ناول کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے غضنفر نے زبان کا آخری سحر کارانہ حربہ استعمال کیا ہے۔ یہ بحث کا موقع نہیں کہ ’ہندستانی‘ ہندی یا اردو میں یہ کون سی زبان ہے لیکن اس ناول میں یہ جسم و جان کی طرح سے پیوست ہے۔ اسی لیے ’مانجھی‘ ایک بھر پور ناول بن گیا ہے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ غضنفر کے پڑھنے والے اسے ان کے پرانے ناولوں سے زیادہ دل چسپی اور محبّت کے ساتھ مطالعہ کریں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

غضنفر کی افسانوی تکنیک

 

 

غضنفر اردو کے اُن تخلیق کاروں میں سرفہرست ہیں جن کے لکھنے کی رفتار تیز تر ہے۔ ’’پانی‘‘ کی ۱۹۸۹ء میں اشاعت سے اُن کے تخلیقی سلسلے پر توجہ دیں تو معلوم ہو گا کہ گذشتہ اٹھارہ برسوں میں انھوں نے سات ناول پیش کیے۔ افسانے، تنقید، خاکے اور تدریس کے تعلق سے اُن کی تحریریں اس سے الگ ہیں۔ ’’پانی‘‘ سے تقریباً دو دہائی قبل سے وہ شاعری کے کوچے کی سیّاحی میں بھی مبتلا ہیں اور اب بھی متواتر غزلیں اور نظمیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ خدا نے انھیں جو تخلیقی قوّت عطا کی، اس کے استعمال میں غضنفر نے بخل سے کام نہیں لیا اور خاصے فیاضانہ انداز میں انھوں نے اظہار کی باہیں پھیلائیں۔ شاعری میں اِسے قدرتِ کلام کہتے ہیں جسے آپ غضنفر کی تخلیقی شخصیت کا سب سے بڑا عنصر تصوّر کر سکتے ہیں۔

لگاتار ناولوں کی اشاعت نے معاصر تخلیقی فضا میں غضنفر کو ایک معتبر ناول نگار کے بہ طور ملک گیر شناخت عطا کی ہے۔ اس دوران اُن کے افسانے وقفے وقفے سے شائع ہوتے رہے۔ ناول نگاری سے قبل بھی ان کے افسانے شائع ہوتے رہے۔ افسانہ نگار کا ناول کی طرف متوجہ ہو جانا اور ناول نگار کا افسانوی دنیا کی طرف آ جانا ایک عام بات ہے لیکن غضنفر کے حوالے سے یہ خاص بات اس طور پر بن گئی کہ انھوں نے جس قدر اپنی ناول نگار شخصیت کے اُبھرنے کے لیے مستعدی دکھائی، اس قدر افسانہ نگار اور شاعر کے تئیں بے اعتنائی بھی برتی۔ جس شخص کے سات ناول شائع ہو چکے ہوں، اس کے افسانوں کی ایک جلد منظر عام پر نہیں آئے، یہ تعجب کی بات ہے۔ خدا خدا کر کے غضنفر نے اپنے ۳۳؍ افسانوں کو ’’حیرت فروش‘‘ کے نام سے شائع کرا دیا۔ امید کی جانی چاہیے کہ شاعری کی بھی جِلد بند اشاعت جلد ہی ممکن ہو گی۔

غضنفر کو عام طور پر ایک ایسے نثر نگار کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے جسے افسانوی نثر میں استعاراتی اور علامتی زبان کے ساتھ ساتھ مختلف انداز کے اسلوبیاتی خاکے تیار کرنے کا ہنر آتا ہے۔ ان کے ناولوں میں ایک شاعرانہ لَے ابھرتی ہے جسے کم از کم انشاپردازانہ تو کہا ہی جا نا چاہیئے۔ یہ بحث کسی اگلی صحبت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ نثر میں شاعری کے لوازم کی شمولیت کس حد تک مناسب ہے۔ بس اس سچائی کو نظر میں رکھیں کہ غضنفر کا یہ ایک بڑا تخلیقی حربہ ہے کہ وہ اپنے فکشن کو شاعرانہ عناصر اور انشاپردازانہ متعلقات سے آراستہ کرتے ہیں۔ کرشن چندر کے افسانوں میں اس انشاپردازانہ جو ہر کا اطلاق صرف منظر نگاری کے حوالے سے سامنے آتا ہے اور قرۃ العین حیدر کے ہاں ماضی کی یادوں میں نثر جمالیاتی رنگ لیے ہوئے شاعرانہ فضا خلق کرتی ہے۔ شفیع جاوید رومانی لَے سے شعری سوز ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زاہدہ حنا کے افسانوں میں یہ شاعرانہ فضا تیز رو مثنویوں کی طرح ابتدا سے آخر تک ہے اور حسین الحق کے فکشن میں شاعری اپنی زبردست اشاراتی وجود قائم کرتی ہوئی ملتی ہے۔

شاعری اور انشا پردازی کے امکانات نثر میں تلاش کرنے والوں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گننے میں بھی پوری نہیں ہوتی۔ مقابلہ مقصود نہیں لیکن غضنفر کے فکشن میں انشا پردازانہ جوہر یا شاعرانہ ٹکڑے دوسرے لکھنے والوں کی طرح فکشن کو مصنوعی نہیں بناتے۔ حدتو یہ ہے کہ جہاں یہ شاعری الگ سے، آزادانہ وجود کے طور پر اُن کی تخلیقات میں موجود ہے، وہاں بھی وہ نثر اور قصّے کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر اپنا فریضہ ادا کرتی ہے۔ مجھے محمد حسین آزاد کی یاد آتی ہے جن کی شاعرانہ نثر کا چرچا تو بہت ہے لیکن جب اُن کی تخلیقات کے متن میں اس عنصر کو تلاش کیجیے تو ایسا معلوم ہو گا کہ کتاب میں سادہ سے لفظ، ہندوی آہنگ اور مقدور بھر نثریت کے جوہر نمایاں ہیں۔ شاعری یا آزادانہ طور پر انشا پردازی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں ملے گی لیکن مکمل متن کا اثر ایک جادو نگار شاعر کی طرح قائم ہوتا ہے۔ غالب اسے سادگی میں پُرکاری کہتے تھے اور بے خودی کے ساتھ ہوشیاری کی کیفیت بتاتے تھے۔

غضنفر کی افسانوی نثر کا بنیادی مزاج یہی ہے۔ اس میں تمام شاعرانہ جوہر اور انشاپردازانہ حربے تیرتے چلتے ہیں لیکن ان کے علاحدہ وجود یا آزادانہ پہچان کی ساری کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ یہ ایسی شاعری ہے جو نثر کے شہسوار کے قدموں میں پڑی رہتی ہے اور اپنا تازہ خون دے کر موجودہ عہد کے فکشن کی سب سے پُر اثر، روشن، چمکدار اور زندہ نثر پیدا کرتی ہے جسے غضنفر اپنے فکشن میں استعمال کر رہے ہیں۔

غضنفر کے فکشن کے موضوعات پر توجّہ دیں تو کبھی کبھی حیرت ہو گی کہ وہ اپنے عہد کے اُن تمام مسائل سے نبرد آزما ہیں جو اُن کے عہد میں رونما ہو رہے ہیں۔ ’’فسوں ‘‘ اور ’’وش منتھن‘‘ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فرقہ واریت اور مذہبی اعتبار سے بکھراؤ کے عمل میں مُلک کن نفسیاتی تبدیلیوں سے دوچار ہے، اِن پر غضنفر کی گہری نظر ہے۔ سیاست اور معیشت کے منچ پر جو کھیل کھیلے جا رہے ہیں، اُن کی بنیاد نفسیاتی سطح پر اور زیادہ گہری ہے۔ اسے سرسری طور پر سمجھنا خطرناک بات ہے۔ یوں بھی سماجی ماہرین نے فرقہ واریت کی بدلتی شکلوں پر بڑی باریکی سے نگاہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ ۱۹ ویں صدی کے نو جاگرن، جنگ آزادی کے دوران ہندومسلم کشاکش، ۴۷۔ ۱۹۴۶ اور اس کے بعد کے فرقہ وارانہ فسادات اور ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کے انہدام کے احوال پر توجّہ دیں تو ایسا محسوس ہو گا کہ ہر موڑ فرقہ واریت کی ایک بدلتی ہوئی شکل کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔

غضنفر فرقہ واریت کو نہ سرسری طور پر دیکھتے ہیں اور نہ ہی ترقی پسند افسانہ نگاروں کی طرح کوئی اسٹیریو ٹائپ خلق کر کے قانع ہو جاتے ہیں۔ اُن کا نقطۂ نظر بدلتی ہوئی فرقہ وارانہ صورت حال کے داخلی اور خارجی دونوں پہلوؤں سے جوجھنے میں قائم ہوا ہے۔ یہاں مختلف رنگ ابھرتے ہیں۔ غضنفر کے اسلوب اور پیش کش میں جتنی سادگی دکھائی دیتی ہے، بالکل اس کے برعکس موضوعاتی سطح پر وہ پیچ در پیچ مسائل سے ہمیں آشنا کراتے ہیں۔ مذکورہ دونوں ناولوں کے ساتھ ساتھ اُن کے تین افسانوں ’’خالد کا ختنہ‘‘، ’’ملبے پر کھڑی عمارت‘‘ اور ’’تانا بانا‘‘ پر غور کریں تو محسوس ہو گا کہ وہ پرانے افسانہ نگاروں سے کس حد تک مختلف ہیں۔ ’’تانا بانا‘‘ اور ’’ملبے پر کھڑی عمارت‘‘ میں صراحت ہے۔ میں ذاتی طور پر غضنفر کے نمائندہ اسلوب کو میں اشاراتی سمجھتا ہوں۔ اس لیے دونوں افسانوں سے قطعِ نظر کر کے تیسرے افسانے ’’خالد کا ختنہ‘‘ پر مختصراً گفتگو کرنا چاہوں گا۔

ناولوں کی بھیڑ میں غضنفر کے جن چند افسانوں نے انھیں افسانہ نگار کے بہ طور واضح شناخت دی، اُن میں ’’خالد کا ختنہ‘‘ سرِ فہرست ہے۔ یہ افسانہ اردو اور ہندی کے کئی رسائل کی زینت بنا اور سراہا گیا ہے۔ اگر ادب کو زندگی کی ہمہ گیر ترجمانی کہتے ہیں تو یہ تقاضا بھی فرض ہے کہ زندگی کی اہم اور غیر اہم تمام صورت حال لکھنے والے کے پیش نظر ہو۔ سعادت حسن منٹو جیسے افسانہ نگار کے ذہن میں بھی یہ موضوع نہیں آ سکا۔ Subalternism یا عام زندگیوں کی شناخت کے اس دور میں شاہوں اور عزّت مآبوں سے پرے موضوعات پر بھی نگاہ جانی چاہیے۔ طوائفوں کے کوٹھوں تک تو ترقی پسند افسانہ نگار پہنچے اور وہاں انسانی چہرے تلاش کرنے میں کامیاب رہے لیکن ’’ختنے ‘‘ کی محفل تک آنے میں اُن کا اشرافیہ مزاج رکاوٹ بن گیا۔

غضنفر کے اس افسانے کا ماحول کسی اِفلاس زدہ یا بھو کے ننگے کے گھر کا نہیں ہے۔ یہاں بھی عرب والے ماموں ممانی اور پاکستان والے خالہ خالو ہیں۔ اہتمام بتاتے ہیں کہ یہ ختنہ واقعتاً شادی کی طرح تقریباتی ہے۔ چار صفحے کے مختصر سے افسانے میں سوا صفحات تو ماحول سازی میں نکل گئے۔ اچھی خاصی تیار یاں ہیں، یہ موقع شادی کا بھی ہے، اسے ظاہر کرنے میں ابتدائی حصّہ پورا کیا گیا ہے۔ پھر خالد گُم ہو جاتا ہے، اس کی تلاش اس کی طرف سے ختنہ نہیں کرانے کی بات۔ جا بجا اسے رضامند کرنے کی کوشش جیسی سرگرمیوں میں اس مختصر سے افسانے کے دو صفحات مزید نکل گئے۔ کہنا یہ ہے کہ افسانے کا اسّی (۸۰) فیصد حصّہ پڑھا جا چکا ہے لیکن یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اسے کیوں لکھا گیا ہے۔ مجھے ’’عیدگاہ‘‘ کی یاد آتی ہے کہ افسانے کا تین حصّہ تو میلے ٹھیلے کی کہانی معلوم ہوتا ہے لیکن جیسے ہی حامدؔ چمٹا خریدتا ہے، اس کی شخصیت میں انقلابی تبدیلی رونما ہوتی ہے اور وہی نا تواں بے کس حامد میلے سے واپسی میں پریم چند کی کہانی کو عظمت کے ستارے عطا کر دیتا ہے۔

غضنفر کے افسانے میں ساری منظر کشی، پیش بندی اور ننّھے دولہے کی تلاش، مِنّت سماجت اور ختنہ کرا لینے کے لیے دباؤ سے جو تصویر قائم ہوتی ہے، اُسے ختنہ نہیں کرانے کی وجہ بیان کرنے میں خالد ایک فقرے میں مسمار کر دیتا ہے۔ پریم چند کے حامد ہی کی طرح خالد بھی چھوٹا سا بچّہ ہے اور زندگی یا زمانے کی پیچیدگیوں سے ناواقف۔ اسی لئے کمال ساد گی سے اس نے اپنے والد کے کسی خاص لمحے میں ادا کیے گئے جملے کو پیش کرتے ہوئے کیسا معصومانہ جواب دیا۔ .. ’’ابّو آپ ہی نے تو ایک دن کہا تھا کہ جن کا ختنہ ہوتا ہے، بدمعاش انھیں جان سے مار دیتے ہیں۔ ‘‘ یہ افسانہ کہاں سادہ سی تقریب یا ایک سنّت کی ادائیگی تک محدود دکھائی دے رہا تھا لیکن خالد کے ایک جملے نے حامد کے چمٹے کی طرح کام کیا اور ہندستانی سماج کا سیاسی ارتقا اپنی تمام بداعمالیوں کے ساتھ ہمارے سامنے آ گیا۔

غضنفر پڑھنے والوں کو اسی جھٹکے پر نہیں چھوڑتے۔ منٹوؔ کے افسانے ’’کھول دو‘‘ میں ایک کلائمکس تو سکینہ کے ازاربند کھولنے سے قائم ہوا لیکن اس کے باپ عبداللہ نے جب خوشی کے ساتھ یہ کہا ’’اَہا میری بیٹی زندہ ہے ‘‘ تو ایک سفّاک کلائمکس اور سامنے آتا ہے۔ غضنفر خالد کے جملے کے بعد پاکستان والے خالو کے ذریعے ایک اور جملہ ادا کراتے ہیں۔ یہاں زندگی کا ایک دوسرا المیہ پھر سے ہمارے سامنے کھڑا ہے، ملاحظہ کیجیے خالو جان نے خالد کو کس اپنائیت سے سمجھا یا ہے: ’’خالد بیٹے ! اگر تم ختنہ نہیں کراؤ گے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟ تمہارا ختنہ نہ دیکھ کر تمہیں ختنہ والے بدمعاش ماڑ دالیں گے ‘‘۔ اس بات پر خالد ختنہ کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ غضنفر چاہتے تو خالد کی رضامندی پر ہی افسانے کو ختم کر سکتے تھے لیکن یہاں اشاراتی زبان میں معنوی گہر ڈالنے کا اُن کا مخصوص حربہ انتہائی موثر انداز سے کام کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ واقعہ طرازی، ماحول سازی قصّے کو آگے بڑھانے کی فکر، انجام اور افسانہ نگار کا نجی تاثر اتنے سارے کام اب بھی باقی ہیں لیکن غضنفر کے پاس چھے سات مختصر جملوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ خالد کے سرپر سہرا نہیں بندھا۔ کسی نے اُسے نئے کپڑے نہیں پہنائے۔ نائی کے تھال میں پیسے نہیں گرے۔ ختنہ ہوتا ہے لیکن ماحول ایسا بدل چکا ہے کہ افسانے کا آخری حصّہ سوز کی گہرائیوں سے اس طرح مکمل ہوتا ہے۔ ’’خاموشی سے اس نے مسلمانی میں راکھ بھری، کمانی فِٹ کی، چمٹے میں چمڑے کو کَسا اور اس پر لرز تا ہوا استرا رکھ دیا جیسے ختنہ نہیں گردن کاٹنے جا رہا ہو۔ ‘‘

میرانیس نے مختصر پڑھ کر رُلا دینے کو فنکاری بتایا تھا۔ ’’خالد کا ختنہ‘‘ میں غضنفر نے یہی ہنر آزمایا ہے۔ علم، فکر جب اصول کا اعتبار حاصل کرتے ہیں تو ایسے جملے خلق ہوتے ہیں جن میں مذہبی کتابوں کی تاثر آفرینی اور اجمال جیسی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ غضنفر اپنی نثر میں ایجاز کی اس بھٹّی میں تپ کر ہمارے لیے تخلیقی بُت تراش رہے ہیں۔ لاکھ لوگ کہیں کہ فکشن صراحت کا فن ہے لیکن غضنفر کا بس چلے تو وہ شاعری سے بھی زیادہ ایجاز اور اجمال کو نثر کا تن بدن بخش دیں۔ اُن کا افسانہ ’’خالد کا ختنہ‘‘ اس کی ایک بہترین مثال ہے ۔

٭٭٭

ماخذ: ہماری ویب ڈاٹ آرگ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل