FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

بکھرے پڑے ہیں خواب

 

سعد اللہ شاہ

 

 

ایک افسانہ جو حقیقت بن گیا

(دیباچہ)

مومن نے کہا تھا    ؎ میں نہ کہتا تھا مصوّر! کہ وہ ہے شعلہ عذار دیکھ تُو صفحۂ قرطاس پہ تصویر نہ کھینچ وہ کہتا ہے ’’یہ کیا بات ہوئی ۔۔ آپ نے تو لمحے میں کہانی بنا ڈالی‘‘ اسے کیا خبر کہ کہانی لمحے ہی میں بنتی ہے اور بنی بنائی کہانی ایک لمحے ہی میں ختم بھی ہو جاتی ہے مگر اپنے اَنمٹ نقوش چھوڑ کر ۔۔گھاؤ لگا کر۔۔ عبرت بنا کر میں اسے اپنے دل کا زخم کیسے دکھاؤں اپنا حال کیسے بتاؤں ۔۔ اپنی کتھا کیسے سناؤں جہاں ہر بات پر زبان کٹے ۔۔وہاں کوئی کیا کہے بہتر ہے کہ ایسے میں انسان خاموش رہے وہ مجھ سے بات نہیں کرتا وہ کہتا ہے میں خطرناک شخص ہوں اس کی باتوں سے شاعری بناتا ہوں بھلا ایسے شاعری کیسے بن سکتی ہے شاعری تو کہیں موجود ہوتی ہے جیسے خوشبو پھول کے باطن میں ۔۔جیسے چاندنی چاند کے دامن میں جیسے شجر بیج میں ۔۔اور پھل شجر کے اندر کس کو خبر کہ شہتوت میں ریشم پڑا ہے ! کون جانے کہ پھول کے من میں شہد بھرا ہے ! کس کو بتائیں، تختِ دل پر کس نے پاؤں دھرا ہے ! کس کو معلوم کہ پانی میں آگ چھپی ہے ۔۔ اور آگ میں زندگی زندگی ۔۔ جو کہ ایک معمہ ہے یہ معمہ بھی عجیب و غریب ہے وہی ذرہ تعمیر ہے وہی تخریب ہے کون جانے کہاں سے چشمہ پھوٹے ۔۔اور کہاں جا کر خواب ٹوٹے کس کو خبر کہ ابر کہاں برسے ۔۔کون جل تھل ہو جائے اور کون بوند بوند کو ترسے کون سا قطرہ گہر بنے ۔۔ اور کون سا سمندر کون جھانکے آنکھ کے اندر آنکھ میں رُکے ہوئے آنسو کی قیمت کون جانے گا صحرا میں بھٹکتے ہوئے آہو کی وحشت کون جانے گا اندر کا ادراک تو اسے ہوگا جس کو طلب ہوگی اور طلب تو صرف محبت کے سبب ہو گی زیادہ کھوج لگانا بھی اچھا نہیں وگرنہ چاند کے دامن میں بھی کچھ نہیں قطرے سے قطرے کی محبت ہی تو سمندر ہے ذرے سے ذرے کی رغبت ہی تو صحرا ہے اس سے آگے سب کچھ ذہن سے ماورا ہے ۔۔ اسرار سے بھرا پڑا ہے معلوم صرف یہی ہے کہ ہمارا رزق مٹی میں ہے ۔۔اور ہم مٹی کا رزق اللہ بس۔۔ باقی ہوس مگر مٹی ہوا کے دوش پر محوِ پرواز ہے ۔۔اور یہی زندگی کا راز ہے وہ کہتا ہے میں اس کی باتوں سے شاعری بناتا ہوں کوئی بتائے کہ باتوں سے شاعری کیسے بنتی ہے باتیں تو میں ہزار ہا لوگوں سے کرتا ہوں اور بے بہا کرتا ہوں باتیں تو آوازیں ہیں ۔۔ بے ہنگم شور ہے باتوں کے اس شور میں سے اس کی بات کو پہچاننا شاعری ہے میں یہ فن جانتا ہوں ۔۔ اس کی آواز کو پہچانتا ہوں مگر اس کے خیال میں مَیں خاک چھانتا ہوں اسے کیا خبر کہ خاک چھاننے سے موتی بھی ملتے ہیں اس کی باتیں تو برساتیں ہیں ۔۔ اور انہی برساتوں میں موتی ہیں اس کی باتیں ۔۔ حسیں سنہرے خوابوں کی طرح ہیں دلفریب سرابوں کی طرح ہیں ۔۔ دلکش سرخ گلابوں کی طرح ہیں باتیں۔۔ اس کے چاروں اور تتلیوں کی طرح اڑتی ہیں باتیں ۔۔اس کے گرد روشنی کا رنگین ہالہ بناتی ہیں باتیں۔۔ اس کے ہونٹوں پہ پھولوں کی طرح مہکتی ہیں باتیں۔۔ اس کے آس پاس پرندوں کی طرح چہکتی ہیں باتیں۔۔ اس کی چمکدار آنکھوں میں تیرتی ہیں ۔۔ بطِ مے کی طرح اس کی باتیں ہواؤں کو مرتعش رکھتی ہیں ۔۔ نغمہ و نَے کی طرح اس کی باتیں ریشم و کمخواب کی نرماہٹ ہیں ۔۔مخمل سے بنی آہٹ ہیں اس کی باتیں سخت گرمی میں بارش کی پھوار ہیں سخت جاڑے میں آگ کا شرار ہیں اور خزاں میں بہار ہی بہار ہیں ۔۔ سکون ہیں، قرار ہیں چاندنی میں دھلی ہوئی اس کی باتیں مٹھاس میں گھلی ہوئی اس کی باتیں پلکوں کے ترازو پہ تلی ہوئی اس کی باتیں کہاں رکھی جائیں ۔۔ شاید سوچ کی زریں طشتری میں یا پروئی جائیں احساس کی ریشمی ڈوری میں وہ باتیں۔۔ بکھرے ہوئے برگ ہائے گل کی طرح ہیں یا غالبؔ کے دامِ ہوائے گل کی طرح ہیں مجھے اس کی باتوں کو یکجا کر کے اس کی تصویر بنانا ہے شاید اسے پھر طاقِ دل پہ سجانا ہے اور پھر اس کو دنیا سے بھی چھپانا ہے یہ شناخت شناسائی سے ملتی ہے اور شناسائی صرف محسوس کرنے کا نام ہے ۔۔ چھونے کا نہیں کہ جہاں خامشی سنائی دینے لگے جہاں اندھیرا دکھائی دینے لگے اور جہاں خیال سجھائی دینے لگے باتوں سے شاعری نہیں بنتی ۔۔خیال سے بنتی ہے وہ میرا خیال ہے مجھ سے وابستہ ہے ۔۔ میرے دل سے پیوستہ ہے جیسے پھول سے خوشبو ۔۔جیسے لفظ سے معنیٰ جیسے روشنی سے رنگ ۔۔جیسے ساز سے آہنگ ۔۔جیسے دل سے امنگ جیسے کوئی شام سہانی جیسے مہکتی ہوئی رات کی رانی جیسے آنکھوں میں رکھی ہوئی کہانی جیسے محبت کی کوئی بھولی ہوئی نشانی جیسے صحراؤں میں نخلستان کا پانی یا جیسے کوئی خوشی انجانی ٭ وہ کہتا ہے میں اس کی باتوں سے شاعری بناتا ہوں بالکل جھوٹ ۔۔ روڈن نے کہا تھا کہ وہ مجسمہ کب بناتا ہے وہ تو صرف اضافی پتھر ہٹا دیتا ہے مجسمہ تو پتھر کے اندر موجود ہوتا ہے میں تو اس سے کچھ بھی نہیں ہٹاتا ۔۔ کچھ بھی نہیں مٹاتا وہ تو فطرت کی اک تصویر ہے ۔۔پانی پہ لکھی ہوئی تحریر ہے وہ خود مجسم شاعری ہے ۔۔ غزل ہے۔۔ غزال ہے خوش نظر، با حیاء و خوش خصال ہے ۔۔ آپ اپنی مثال ہے میں اسے بیان کروں تو لفظ بولنے لگتے ہیں۔۔ معنی کے در کھولنے لگتے ہیں میں اسے سوچوں تو سوچیں مہکنے لگتی ہیں ۔۔ رُتیں بہکنے لگتی ہیں پلکوں پہ شبنم اتر آتی ہے ۔۔ دل میں پھول کھلنے لگتے ہیں زمین اور آسمان آپس میں ملنے لگتے ہیں اور وقت کے زخم سلنے لگتے ہیں اصل میں وہ وہی ہے جو مجھے نظر آتا ہے جو میرے تصور میں اُتر آتا ہے ۔۔ اور پھر حریمِ جاں میں در آتا ہے تصویر کی خوبصورتیاں مصور کی آنکھ میں ہوتی ہیں اور اس کے خدوخال اس کے ہاتھ میں میں اس کے لیے پھولوں جیسے لفظ چنتا ہوں ان کو پروتا ہوں اور نظم بنتا ہوں میں اس کے لیے استعارے ڈھونڈتا ہوں تشبیہات اکٹھی کرتا ہوں ۔۔تصویریں بناتا ہوں اور ان میں تخیل کے رنگ بھرتا ہوں وہ رنگوں کا اک جہاں ہے۔۔ راحتِ جسم و جاں ہے ۔۔ دشتِ تنہائی میں میرے لیے اماں ہے وہ کہتا ہے ’’آپ کا تخیل بہت زور دار ہے ‘‘ میں کہتا ہوں میرا تخیل خوبصورت بھی بہت ہے ۔۔ اس کے باطن کی طرح اگر وہ میرا تخیل آئینے میں دیکھے تو شرما جائے وہ شرما جائے تو وقت پتھرا جائے ۔۔ ہاں ایسے بھی ہوا تھا جب عکسِ یار سے آئینہ ٹوٹا تھا جب اس نے پہلی بار مجھے دیکھا تھا میرے اندر بجلی چمکی تھی ۔۔بادل گرجے تھے ۔۔زور دار چھناکا ہوا تھا وہ مجھے بارش کی طرح ملا تھا ۔۔ موسلا دھار بارش کی طرح وہ بارش جو سب کچھ دھو دیتی ہے ۔۔ سب کچھ بھگو دیتی ہے وہ بارش جو سب کچھ سیراب کر دیتی ہے ۔۔ صحراؤں کو پُر آب کر دیتی ہے وہ بارش جو  زمین پر روئیدگی لاتی ہے ۔۔ ذہنوں میں بالیدگی لاتی ہے وہ بارش جو قحط زدوں کی قسمت جگاتی ہے جو ان کے سامنے اناج کے ڈھیر لگاتی ہے اس دن سارے بادل کھل کر برسے تھے ۔۔ میرے اندر ندی نالوں کا شور تھا اور ہوائے تند کا زور تھا اس دن میں کھِل اٹھا تھا زیادہ خوشی بھی انسان کو بدحواس کر دیتی ہے اس دن میں نے اس سے کتنی باتیں کی تھیں فضول اور بے ربط باتیں نہ کوئی آغاز نہ کوئی انجام ۔۔ بس لفظوں کا ازدہام وہ وقت آج تک ٹھہرا ہوا ہے وہ خوشبو ۔۔ وہ روشنی ۔۔اور وہ رنگ میرے ذہن پر نقش ہیں ٭ وہ کہتا ہے میں اس کی باتوں سے شاعری بناتا ہوں میرے لیے تو اس کی باتیں بھی اہم نہیں رہیں وہ خاموشی میں بھی گویا ہے اس کی خاموشی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے وہ جو میرے آس پاس ہے ۔۔ نہ تو وہم ہے نہ ہی قیاس ہے سِرَس کے پھولوں کی بھینی بھینی باس ہے میرے دل کی آس ہے اور ایک مدھ بھرا احساس ہے یہ ایک نشہ ہے ۔۔ رات کی خنکی میں بھیگا ہوا ایک خیال ہے۔۔ روشنی میں لپٹا ہوا ایک تصور ہے حیا سے سمٹا ہوا اور اس خیال کے ساتھ تنہا اور ویران سڑک پر ایک دیوانہ ہے ۔۔ جو دنیا سے یکسر بیگانہ ہے یہ کون ہے ۔۔ دنیا سے بے نیاز ۔۔اور دنیا اس سے لاتعلق یہ میں ہوں ۔۔یا مرا احساس ہے۔۔ یا سعد یہ میرا ہمزاد ہے کوئی باغی ہے ۔۔ جو اس طرح آزاد ہے کوئی میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے مگر خاموش اپنے غرور میں مدہوش میں تو اس کی خاموشی سے بھی باتیں کرتا ہوں اس کی خاموشی شام کی طرح حسیں ہے رات کی طرح دلنشیں ہے ۔۔اور سحر کی طرح روشن جبیں ہے وہ لب وا کرے تو چڑیاں چہچہانے لگتی ہیں اس کی سانسیں سوچیں مہکانے لگتی ہیں اور میری تنہائی میں اس کی یادیں جذبوں کی آگ دہکانے لگتی ہیں وہ اپنے ہونے کا احساس شدت سے دلاتا ہے۔۔ خوب ستاتا ہے بے ارادہ یاد کی صورت آ کر مجھے گدگداتا ہے غیر موجودگی کی اپنی ایک شکل ہوتی ہے ۔۔جیسے کوئی ہیولہ ۔۔ جیسے کوئی سناٹا کسی کی غیر موجودگی کو محسوس کرنا ایک عجیب عمل ہے قیامت خیز عمل ۔۔ جہاں انسان کا چیخنے کو جی چاہتا ہے مگر چیخ نہیں سکتا وہ یہیں کہیں موجود ہوتا ہے۔۔ نظر نہیں آتا میری بے بسی پر ہنستا ہے۔۔ قہقہے لگاتا ہے اور جشن مناتا ہے ۔۔ بے رحم۔۔ بے لحاظ ۔۔ بدتمیز وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے !۔۔ وہ ہے کیا! شاید وہ ہوا کی طرح ہے ہوا سے مکالمہ کون کرے ۔۔ہوا کی مرضی جب چاہے دروازے اور کھڑکیاں بجانے لگے اور جب چاہے انہیں بند کر دے ہوا کی مرضی ہے ۔۔رُکے یا چلے اسے اس سے کیا ۔۔ کہ کوئی دیپ بجھے یا جلے شاید وہ روشنی کی طرح ہے کہ جب چاہے چھوٹی چھوٹی درزوں سے اندر در آئے بند آنکھوں پر شفق بن جائے شاید وہ پانی کی طرح ہے۔۔کہ ہر جگہ سے اپنا راستہ بناتا جائے بام سے اساس میں اُتر آئے شاید وہ مٹی کی طرح ہے جو ہر سفر پر پاؤں سے جھڑتی ہے جب اڑتی ہے تو سر پر پڑتی ہے ٭ اس کی عدم موجودگی زیادہ منہ زور ہے کہ جس میں حواس فعال ہو جاتے ہیں ۔۔سوچ اس کو تلاشتی ہے تخیل اس کا پیکر تراشتا ہے اور آنکھیں اس کے خدوخال اٹھاتی ہیں ۔۔ تصویر بناتی ہیں اور خود حیرت میں کھو جاتی ہیں وہ کہتا ہے ۔۔وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتا میں اسے کب ملنا چاہتا ہوں ’’دور بیٹھا غبارِ میر اس سے عشقِ بِن یہ ادب نہیں آتا‘‘ مگر دوری کی اپنی مصیبت ہے ۔۔یہ سراسر کشش ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی خلش ہے یہ ایک خود کار عمل ہے ۔۔مکمل بے بسی کے ساتھ گویا یہ اذیت ہی اذیت ہے ۔۔ اور ودیعت ہے یہ درد میری زندگی ہے ۔۔میری خواہش ہے ۔۔میرا سپنا ہے اس سپنے میں سب کچھ اپنا ہے یہاں وقت کے مخالف چلنا پڑتا ہے یہاں اپنی آگ میں جلنا پڑتا ہے یہاں پل پل کفِ افسوس بھی ملنا پڑتا ہے یہاں رسوائی بھی ہے یہاں تنہائی بھی ہے یہاں جگ ہنسائی بھی ہے مگر اپنے آپ سے شناسائی بھی ہے عشق کسی کے ساتھ بانٹا نہیں جا سکتا ۔۔گانٹھا نہیں جا سکتا یہ کیا نہیں جاتا، ہو جاتا ہے جیسے سمندر کو ماہِ کامل سے سمندر اپنا دکھ کسی سے نہیں بانٹتا وہ پیچ و تاب کھاتا ہے تلملاتا ہے۔۔بے کل ہوتا جاتا ہے ۔۔مگر آسمان سے شکوہ نہیں کرتا آسمان تو اس کے اندر ہے ۔۔اور چاند آسمان کی پیشانی پر یہی زمین اور آسمان کا رابطہ ہے دیکھو! دیکھو! کس طرح ! آسمان نے سمندر کو نیلا کر دیا ہے چاند نے آسمان کو پیلا کر دیا ہے اور دونوں نے آنکھوںکو نشیلا کر دیا ہے عشق سمندر ہے ۔۔ چاند حسن عشق آنکھ ہے ۔۔ اور حسن جمال اس عشق کا عجیب حال ہے نہ مآل ہے نہ اندمال ہے نہ جواب ہے نہ سوال ہے نہ خوشی نہ کوئی ملال ہے نہ عروج ہے نہ زوال ہے حسن عشق سے وابستہ ہے ۔۔حقیقت سے پیوستہ ہے چاند سمندر پر اترا ہے ۔۔ حسن عشق پر چاند اور حسن کے لیے بہت وسعت درکار ہے دشت کی وسعت نہیں۔۔ آسمان کی وسعت یا پھر وہم و گماں کی وسعت حسن کشش ہے عشق اسے محور بنا کر اس کے گرد گھومتا ہے انسان کو کسی نہ کسی کشش نے چکر میں ڈالا ہوا ہے اسی لیے تو وہ جنت سے نکالا ہوا ہے اسی کشش کے ساتھ سب کچھ بندھا ہوا ہے اس کا شاد ہونا بھی۔۔ ناشاد ہونا بھی اس کا آباد ہونا بھی۔۔ برباد ہونا بھی کشش ہی سب کچھ ہے وگرنہ سب کچھ بے بنیاد ٹھہرے ۔۔ اڑنے لگے۔۔ ریزہ ریزہ ہو جائے اور پوری کائنات سو جائے یہی کشش تو زندگی ہے اسی لیے تو عشق حسن سے بیگانہ نہیں ۔۔اسی لیے تو شمع بِن پروانہ نہیں ٭ وہ کہتا ہے میں خطرناک شخص ہوں خطرناک تو وہ خود ہے جو محرک ہے، تحریک ہے ۔۔ سراپا رازہے۔۔ میری شاعری کا جواز ہے عشق کی تاثیر ایک جادو ہے اور جادو برحق یہ وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے دریا کے پار بھی اپنا اثر رکھتا ہے وہ ایک لطیف خیال ہے جیسے خیامؔ کی رباعی ۔۔جیسے حافظؔ کی غزل جیسے میرؔ کا شعر۔۔جیسے غالبؔ کا سخن اور جیسے اقبالؔ کی نظم وہ حسنِ با کمال ہے اک پل جمال ہے ۔۔اور اک پل جلال ہے گلِ بہار پہ شبنم اور شبنم پہ کرن کی طرح ۔۔ دو انتہاؤں کا امتزاج وہ کہتا ہے میں خطرناک ہوں نہیں، نہیں ۔۔خطرناک تو وہ خود ہے ۔۔جو مجھے تخلیق کے کرب سے گزارتا ہے سوچ کی اتھاہ گہرائیوں میں اتارتا ہے ۔۔میرے شوقِ اظہار کو ابھارتا ہے مجھے بلندیوں سے پکارتا ہے ۔۔مجھے آنسوؤں سے نکھارتا ہے اور پل پل مجھے پلکوں سے سنوارتا ہے جو مصرعِ تر کی صورت مصحفِ ذہن پر اترتا ہے جو بادِ صبا کی طرح مجھے چھو کر گزرتا ہے جو میٹھی گہری نیند کی صورت میری پلکوں کو چومتا ہے جو خواب بن کر میرے چاروں اور گھومتا ہے جو خزاں کی رس بھری فضا میں خوابیدہ ہے اور بہار میں حسنِ رنگِ نم دیدہ ہے جو سرسوں کے کھیت کی طرح بھرپور ہے جو سرو کے درخت کی طرح مغرور ہے اور جو کھجور کے پھل کی طرح دور ہے نارسائی ہی کثرتِ نظارہ ہے یہی سمندر ہے ۔۔ یہی کنارہ ہے ٭ وہ اپنی تعریف پر تلملاتا ہے پیچ و تاب کھا تا ہے ۔۔ سٹپٹاتا ہے تو اور بھی خوبصورت ہوتا جاتا ہے بل کھاتی ہوئی ندی کی طرح نظر آتا ہے ٭ وہ سنگدل میرا مسئلہ ہے ۔۔نہ جانے کیوں ؟ خدا جانے انسان ناممکنات کو ممکن بنانے کی طرف کیوں نکلتا ہے براؤننگ کےChild Roland کی طرح جو Dark Towerپہنچا ضرور مگر Dark Towerاس پر کھلا نہیں اس کے دامن سے داغِ لا علمی دھلا نہیں زندگی بھی ایک ڈارک ٹاور ہے ۔۔ایک معمہ ہے ڈارک ٹاور ہر جنگجو کا خواب ہے ۔۔خواہش ہے ڈارک ٹاور ایک چیلنج ہے ۔۔ایک انا ہے ۔۔ شاید ایک سزا بھی    ؎ عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا ٭ وہ کہتا ہے مجھے کوئی ملا نہیں وہ ٹھیک ہی تو کہتا ہے ۔۔ مگر اس کا لہجہ کتنا تلخ ہے دل کہتا ہے ۔۔    ؎ زبانِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکر خارا دل بھی عجیب ہے ۔۔ میرا رقیب ہے ۔۔مگر عقل نہیں مانتی عقل کہتی ہے ۔۔ اس کی حیثیت ہی کیا ہے؟ اسی لیے عقل معتوب ٹھہری ہے کہ اس کی رائے معیوب ٹھہری ہے مگر میں اس کے بارے میں کیوں جاننا چاہتا ہوں میں اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتا ڈرتا ہوں ۔۔ تنہا ہونے سے ۔۔ صحرا ہونے سے ڈرتا ہوں۔۔ اس لمحے سے ۔۔جو تخلیق سے خالی ہوگا ہاں ہاں میں بالکل بے کار ہو جاؤں گا سچ یہی ہے کہ وہ میری زندگی ہے مگر یہ دقیانوسی سوچ ہے ۔۔اور یہ سوچ بھی دلِ کمبخت کی ہے جو بھی ہے، میں ہار نہیں مانوں گا کس کی ہار اور کس کی جیت ۔۔وہ مجھے ہار کے قابل ہی کب سمجھتا ہے ہر شخص ڈارک ٹاور پہنچنے کے قابل تو نہیں ہوتا اسی ڈارک ٹاور میں میری روشنی ہے پتہ نہیں میں ایسے کیوں سوچتا ہوں میری بے چینی۔۔ میرا اضطراب ۔۔ میری بے قراری! یہ سب کیا ہے؟ شاید یہی عشق ہے ۔۔ یا یہ خود فریبی ہے وہ کہتا ہے ’’یہ کتنی بری بات ہے! عشق کا اظہار نہیں کیا کرتے ‘‘ جانتا ہوں میاں بے بسی ہے ۔۔بے کسی ہے اور ایسے میں نہ کوئی چارہ سازی ہے ۔۔ نہ کوئی داد رسی ہے جانتا ہوں   ؎ دوست دشمن می شود صائب بوقتِ بے کسی خونِ زخمِ آہواں رہبر شود صیاد را اسے کیا معلوم کہ میں کتنے کرب میں ہوں کوئی کیا جانے ۔۔ نظر انداز ہو جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے انسان بے معنی ہو جاتا ہے ۔۔گھر کے غیر ضروری سامان کی طرح اور اک راز ہو جانے کا المیہ کیا کم ہے ؟ ٭ مجھے یاد ہے پہلی بار اس نے پوچھا تھا ’’آپ کا ستارہ کون سا ہے؟ ‘‘ میں اسے کیا بتاتا ۔۔کہ میرا ستارہ کون سا ہے ! میں تو خود قسمت کا مارا ہوا ستارا ہوں ۔۔ اور دور کا نظارہ ہوں کاش وہ مجھے میرے چاند کے بارے میں پوچھتا تو میں آنکھیں وا کر دیتا ۔۔ کہ پتلیاں عکسِ جمالِ یار سے جگمگاتی ہیں مگر کیا کریں ۔۔وہ خود بھی خود سے آشنا نہیں کہ وہ کتنے اشکوں میں جھلملاتا ہے کتنی جھیلوں میں مسکراتا ہے ۔۔کتنے بادلوں میں تیرتا ہے کتنے چناروں کو آگ لگاتا ہے ۔۔اور کتنے منظروں میں لہراتا ہے وہ تنہا اور بے بدل ہے۔۔ خجستہ گام ۔۔مدام محوِ خرام نہ پڑاؤ نہ کہیں قیام وہ تو ستارے کا مطلوب ہے، محبوب ہے جو تحفظات کے حصارِ بے در و دیوار میں ہو اسے کون دیکھے ۔۔کون جانے ! ۔۔ کون پہچانے ایک محبت کئی افسانے ۔۔ سب کے اپنے اپنے پیمانے میں اس سے ملتا نہیں ۔۔ اسے دیکھتا نہیں وہ پھر بھی نظروں کے سامنے رہتا ہے یہ ایک عجیب مرض ہے خدا جانے اس مرض کا کیا نام ہے ؟ اپنے آپ پہ غصہ بھی آتا ہے ۔۔ اور ترس بھی کہاں گئی قوتِ ارادی ۔۔ کہاں گیا اعتماد ٭ میں اس کی یادوں کے زریں غبار میں ہوں میں اس کی خوشبو کے حصار میں ہوں ۔۔ یہ کوئی آسیب ہے ۔۔ یا کوئی ایسی ہی شے ہر وقت حواس پر سوار آنکھوں کو رنگین کرتے ہوئے کانوں میں شیریں سخن بھرتے ہوئے مشام جاں کو معطر کرتے ہوئے ٭ وہ کہتا ہے میں اس سے کیوں متاثر ہوتا ہوں کیوں لکھتا ہوں کمال ہے! بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے کہ تارے کیوں نکلتے ہیں جذبے کیوں مچلتے ہیں چاند کیوں چمکتا ہے دل کا داغ کیوں دمکتا ہے ہوائیں کیوں چلتی ہیں آنکھیں راز کیوں اگلتی ہیں بادل کیوں برستے ہیں سپنے کیوں کر ڈستے ہیں یہ سب طے ہے بابا ۔۔ سیاروں کی روشنی تک مستعار ہے میری تحریر بھی کسی اثر کے تابع ہے وہ کہتا ہے ۔۔میں بہت اچھا لکھتا ہوں نہیں نہیں ۔۔اچھا تو وہ ہے ۔۔جو اس تحریر کے پیچھے ہے جو پسِ پردہ ہے وہ شیریں دہن جب Beautiful کہتا ہے تو "B”پر Beeکا گمان ہوتا ہے اور کانوں میں شہد ٹپکنے لگتا ہے وہ سراپا حسن ہے جسے میں اپنی نظر سے اور لوگوں کی نظروں سے بچانا چاہتا ہوں دل کی گہرائیوں میں چھپانا چاہتا ہوں اور اپنی تحریر میں رچانا چاہتا ہوں وہ کہتا ہے آپ لاحاصل کام کیوں کرتے ہیں میں کہتا ہوں لا حاصلی بھی کسی نہ کسی کام کا حاصل ہے ویسے بھی کلام، مکالمہ اور شاعری ان چیزوں سے ماورا ہے یہ کوئی الجبرا یا حساب نہیں ۔۔ یہ کوئی نصاب کی کتاب نہیں میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ حاصل اور لاحاصل کچھ نہیں ان میں حدِ فاصل کچھ نہیں بات تو تخیل اور وجدان کی ہے بات تو گیان دھیان کی ہے وہ زیرِ اثر آنے کو نہیں مانتا ۔۔حیرت ہے ۔۔سائنس کے اس دور میں بھی ! میں اسے کہتا ہوں اگر ایسا نہ ہوتا تو سُر اور لَے سے شیشہ نہ ٹوٹتا آہٹ اور سرگوشی پر دل ہاتھ سے نہ چھوٹتا وہ کہتا ہے یہ نہیں ہو سکتا ۔۔ یہ نہیں ہو سکتا یہ کبھی نہیں ہو سکتا میں کہتا ہوں کیا نہیں ہو سکتا پتھر میں خلا کیوں نہیں ہو سکتا درد صدا کیوں نہیں ہو سکتا عجائبات کی گنجائش سے کون انکار کر سکتا ہے فرض کریں کچھ بھی نہ ہو تو پھر کیا ہے ۔۔ ہر کام ہونے کے لیے نہیں ہوتا مقدر جاگ بھی سکتا ہے مقدر صرف سونے کے لیے نہیں ہوتا ٭ وہ کہتا ہے ’’آپ کی باتیں صرف مبالغہ آرائی ہے اور اس میں چھپی ہوئی صرف خود ستائی ہے ‘‘ وہ جھوٹ کہتا ہے میں کہتا ہوں اِسے وہ پڑھے گا ۔۔ جو کسی کا تمنائی ہے جس کے پاس روح کی بینائی ہے جس کے دل میں گہرائی ہے اور سوچ میں گیرائی ہے یہی تخلیق ہے ۔۔ ورنہ تو سب قافیہ پیمائی ہے ٭ میں نے اسے بتایا کہ لوگ نیلے پھولوں کا وہ درخت دیکھنے کے لیے آئے تھے جس پر میں نے کتاب کا نام رکھا تھا ۔۔ ’’نیلے پھولوں کی بارش میں‘‘ اس نے کہا کہ لوگ تو مایوس ہوئے ہوں گے میں نے کہا۔۔نہیں، نہیں مایوس نہیں ہوئے ۔۔ خوش ہوئے تھے میں جس شے سے متاثر ہوا ۔۔ اسے بیان کر دیا اصل چیز بیان سے کہیں خوبصورت ہے اور وہ اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے ٭ وہ کہتا ہے کہ میں اس کے حصار سے نکل جاؤں مگر کیسے ؟ یہاں تو دعا بھی کارگر نہیں ’’دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں‘‘ چاہت کے حصار سے نکلنا کس کے بس میں ہے دل کسی کی نہیں مانتا ۔۔اس کی اپنی منطق ہے۔۔ اپنی مرضی ہے جس میں نہ کوئی دلیل ہے ۔۔نہ کوئی سبیل ہے نہ کوئی گنجائش ہے نہ کوئی ڈھیل ہے ٭ وہ چاند ہے، میں اس کا ستارا ہوں ستارا آسمان پر جگمگائے یا پلکوں پر جھلملائے ایک دلکش اور روشن تمنا بن کر چمکتا ہے چاند، فلک پر آشکارا ہو یا آنکھ میں جلوہ آرا محبتوں اور جذبوں کا استعارا ہے اور وسعتوں کی سمت اک اشارا سائنس جو بھی کہے ۔۔دنیا جس جانب بھی بہے ایک بات تو طے ہے کہ ستارہ گردش میں ہے اور چاند ٹھہرا ہوا یہاں اصول اور قانون نہیں چلتا یہاں منظر نہیں ڈھلتا ۔۔ یہاں محبت کے سوا کوئی سکہ نہیں چلتا اور دل کے سوا کوئی چراغ نہیں جلتا فلک نورد یہ شرارہ شوق کا استعارا ہے اور ہالہ نشیں نقرئی مکھڑا اس کا نظارا چاند سے کہو کہ اپنے طلسم سے باہر آئے ستارے کو اپنے قریب لائے مگر ستارہ اس کا قرب کیوں چاہے گا وہ چاند کو اپنے سامنے ماند پڑتے نہیں دیکھ سکتا وہ تو اس کی محبت میں ٹوٹ بھی سکتا ہے ستارہ اور چاند لازم و ملزوم ہیں ایک دوسرے کا مقسوم ہیں ٭ اسے ہمارا برملا اظہار اچھا نہیں لگتا لیکن کیا کریں کہ وہ ہمیں پھر بھی اچھا لگتا ہے دامنِ کوہ کے پہلو میں بیٹھی ہوئی حسیں رات کی طرح پہاڑ کے نشیب میں سوئے ہوئے باغات کی طرح دور تک ستارہ وار چمکتے ہوئے آسمان کی طرح اتھاہ خاموشی میں پھیلے ہوئے کسی میدان کی طرح موجیں مارتے ہوئے دریا کی طرح ریت اڑاتے ہوئے صحرا کی طرح سیٹیاں بجاتی ہوئی ہوا کی طرح کوہساروں سے ٹکراتی ہوئی صدا کی طرح آسمان پر تیرتے ہوئے بادلوں کی طرح بار با ربھیگتے ہوئے ساحلوں کی طرح چوکڑیاں بھرتے ہوئے ہرنوں کی طرح شبنم پر پڑتی ہوئی کرنوں کی طرح وہ ’’خود بین و خود آرا‘‘ ہے وہ چاند ہے ۔۔اور ہم نے ’’آسماں سے اُسے اتارا ہے‘‘ چلیں ہم اس سے آگے کچھ نہیں کہتے مگر وہ یہ تو تسلیم کرے ۔۔کہ بات بنائے بنتی نہیں بگڑ جاتی ہے اس کی بات کو کائنات تک پھیلایا جا سکتا ہے اور کائنات کو سمیٹ کر اس کی ذات تک لایا جا سکتا ہے مگر ’’وہ اور کائنات‘‘ الگ نہیں اگر وہ نہیں تو امتحان کس بات کا وہ ہے تو امتحاں بھی ہے وہ ہے تو مجھے احساس جسم و جاں بھی ہے اپنے آپ سے فراق و وصال بھی اسی کے باعث ہیں چلیں ہم بات ختم کر دیتے ہیں وگرنہ وہ ابھی پوچھ لے گا کہ کیا مطلب!    ؎ ’’کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا!‘‘ وہ ہر بات پہ مطلب پوچھتا ہے۔۔ بے مطلب بات نہیں کرتا مجھے اب بھی یاد ہے میں نے اس کے سامنے بیٹھ کر بہت زیادہ باتیں کیں تھیں وہ مسلسل مسکراتا رہا مونا لیزا کی طرح ایک پراسرار انداز میں ۔۔ ایک شانِ بے نیازی کے ساتھ وہ میرے اندر کی بدحواسی پر خندہ زن تھا اور اس کے سامنے میرا دیوانہ پن تھا اس دن میں بہت خوش تھا یہ خوشی تند ہوا کی طرح تھی جس نے مجھے بادل کی طرح اٹھا کر دوشِ ثریّا پر بٹھا دیا تھا مرے اندر ایک عجیب ہلچل تھی ایک ہیجان۔۔ ایک طوفان ۔۔ ایک ارمان جس میں ۔۔ نہ عقل تھی نہ وجدان ۔۔نہ کوئی عہد نہ پیمان شاید یہ ایک ایبنارمل سوچ تھی وہ بھی یہی کہتا تھا وہ کہتا تھا ’’مجھے کچھ نہیں پتہ، آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘ میری تجریدی سوچ کو معنی مل چکے تھے وہ کتنا پرسکون تھا ۔۔ مرمر کی سِل کی طرح بِن برسے بادل کی طرح آنکھ میں گہرے کاجل کی طرح ٹھہرے ہوئے گہرے پانی کی طرح مہکتی ہوئی رات کی رانی کی طرح برف سے اَٹی ہوئی جھیل کی طرح یا جھیل پر اڑتے ہوئے کسی ابابیل کی طرح پہلی ملاقات بھی کتنی عجیب ہوتی ہے شاید امیر خسرو بھی اسی کیفیت سے گزرا تھا کہ اسے کہنا پڑا بہ یک آمدن ربودی دل و دین و جان و خسرو چہ شود اگر بدانساں دو سہ بار خاہی آمد حافظ نے کہا اگر آن ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ مارا بہ خالِ ہندوش بخشم ثمر قند و بخارا را اس کے پاس تھا بھی یہی کچھ ۔۔وگرنہ وہ اس سے آگے جاتا ٭ اصل میں یہ مقام ہی ایسا ہے کہ جہاں سرِ تسلیم خم کرنا پڑتا ہے اپنے آپ سے لڑنا پڑتا ہے اپنی بات پہ اڑنا پڑتا ہے کہ مسئلہ مزاجِ یار کا ہوتا ہے۔ مزاحمت اور ممانعت ہی تو دل کشی ہے مخالف ہوا سے لڑنا ہی تو سر خوشی ہے اور مشکلات کا سامنا کرنا ہی تو زندگی ہے یہ کیفیتوں کی بات ہے کوئی میرے کان میں کہتا ہے ’’کیا بچوں جیسی باتیں کرتے ہو‘‘ وہ ٹھیک ہی تو کہتا ہے انسان انتہائی خوشی کے لمحے میں ایک بچہ کیسے بن جاتا ہے ! اور انتہائی غم کی ساعت میں یکدم بڑا کیسے ہو جاتا ہے ! حالات انسان کی حالت بدل دیتے ہیں چلیں چھوڑیں ۔۔چلیں ہم بات ختم کیے دیتے ہیں وگرنہ وہ ایک دفعہ پھر جھلا کر کہے گا ’’کیا مطلب !‘‘ جو ہر مطلب سمجھتا ہو اسے مطلب کون سمجھائے دو مصرعوں میں بندھی بات کو کھول کر کون دکھائے اختصار سے معنی کا اک جہان آباد ہو جاتا ہے وضاحت سے بات کا حسن برباد ہو جاتا ہے خواہ آپ ان میں جتنا مرضی حقیقت کا رنگ بھر دیں کہیں نہ کہیں کمی ضرور رہ جاتی ہے یہی کمی خوبصورتی ہے ۔۔یہی تشنگی دلکشی ہے ۔۔ یہی دل لگی ہے یہ کمی اور تشنگی ہی زندگی ہے ۔۔ یہی روح کی تابندگی ہے محرومیاں اور مجبوریاں زندگی کی توانائیاں ہیں Keats کی Unheard Melodies کی طرح میری خواہش ایک خواب ہے خواب کہ جس میں اک مہتاب ہے اسے اچھا لگے یا برا ۔۔وہ مجھے خواب دیکھنے سے نہیں روک سکتا اسے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے وہ اپنے آپ کو میری چاہت سے کبھی نہیں بچا سکتا وہ اپنے ردِ عمل کو بھی نہیں چھپا سکتا وہ عشق کا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتا اپنا درد دنیا کو بھی نہیں بتا سکتا اور وہ اپنے جذبے کو بھی نہیں دبا سکتا میری بے بسی پر ہنسنے والا، خود بھی لاچار ہے اور اپنی خواہش میں گرفتار ہے اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی کہ میں اس سراپا خواب کو آنکھ بھر کر دیکھوں میں تو اس خواب کو سراپا دے چکا ہوں میں تو سانس بھی آہستہ لیتا ہوں کہ خیال آلودہ نہ ہو جائے وہ کہتا ہے کہ ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا ! اسے کیا خبر کہ ایسا پہلی بار ہی ہوا ہے اگرچہ وہ نخوت سے بھرا ہوا ہے مگر وہ اندر سے ڈرا ہوا ہے ٭ وہ کہتا ہے۔۔ ’’یہ سب جھوٹ ہے ۔۔ کہانی ہے اُسے کسی سے سرو کار نہیں وہ کسی بھی خواہش میں گرفتار نہیں ‘‘ اُسے سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں یہ فسانہ ہی سہی۔۔ یہ کہانی ہی سہی سر بسر اشک فشانی ہی سہی مگر یہ میری خواہش ہے ۔۔میری تمنا ہے خواہش جب پوری نہ ہو تو خواب بن جاتی ہے ٭ ابھی تو وہ میرا مقروض ہے کہ اس نے میرا پہلا شعر گم کر دیا تھا میں اب وہ شعر کہاں ڈھونڈوں ۔۔غزل کیسے مکمل کروں مجھے شعر نہیں ڈھونڈنا ۔۔کہ اب اس کے معنی تو اس کے پا س ہیں اور مجھے شعر سے کچھ غرض نہیں کاش میں ایک مصور ہوتا میں اس کے کاندھے پر اپنا ہاتھ بنا دیتا اس کے بالوں میں پھول سجا دیتا اس کے ماتھے پر مہتاب لگا دیتا اس کی پلکیں اپنی سمت اٹھا دیتا اور پھر سب کچھ ۔۔بادلوں میں چھپا دیتا مگر خواہش کب پوری ہوتی ہے چلیں بقول اس کے "It is enough” اب اسے یقین آ جانا چاہیے کہ اس کے حصار میں مَیں نہیں ۔۔وہ خود ہے یہ حصار روشنی کا وہ ہالہ ہے ۔۔کہ جس کے رنگ میں نے چنے ہیں اور قوسِ قزح بنائی ہے وہ کہتا ہے "God bless you.” "Yes, God has blessed me.” وگرنہ وہ مجھے کبھی دعا نہ دیتا اب وہ آدھا سچ تو مان جائے میں نے تو آدھا جھوٹ تسلیم کر لیا ہے اس نے کہا ’’آپ اتنے ٹچی کیوں ہو جاتے ہو۔۔ فون کیوں بند کردیتے ہو‘‘ میں نے کہا ۔۔ تمہارے دل میں میرے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں اس نے قہقہہ لگایا وہ قہقہہ آئینے کی طرح ٹوٹ کر میرے ارد گرد بکھر گیا اب میں یہ کرچیاں کیسے چنوں یہ کرچیاں ہی میرے بکھرے ہوئے خواب ہیں جنہیں مجھے پلکوں سے چننا ہے اور اُن سے شاعری بنانا ہے وہ کہتا ہے "I would love to know about your writings” وہ کس قدر ظالم اور سنگ دل ہے

سعد اللہ شاہ

٭٭٭

غزلیں

میں جانتا ہوں کہ ایمان میرا کامل ہے مرے خدا! تُو مرے خون میں بھی شامل ہے

حمد

میں خطا کار و سیہ کار ہوں میرے مولا تیری رحمت کا طلبگار ہوں میرے مولا تُو جو چاہے تو بنا دے مجھے سنگِ اسود ورنہ میں سنگِ گراں بار ہوں میرے مولا دست بستہ ہوں، جبیں ریز ہوں، نادم بھی ہوں دستِ شفقت کا سزاوار ہوں میرے مولا مجھ کو دنیا کی اسیری سے رہائی مل جائے خود فریبی میں گرفتار ہوں میرے مولا تیرے پرتو سے ستارہ بنا ہر ذرۂ خاک ورنہ میں خاکِ شبِ تار ہوں میرے مولا درِ ادراک پہ دستک ہیں حواسِ خمسہ ہر نفس حیرتِ اظہار ہوں میرے مولا ٭٭٭

نعت

اے شاہا کہے کون بھلا تیرا سراپا ہے معجزۂ ربِ علیٰ تیرا سراپا کہنا وہ خدا کا وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ لاریب کہ قرآن بنا تیرا سراپا ہر وصف ترا وصف کی تکمیل ہے گویا اخلاص و وفا، صدق و صفا تیرا سراپا وہ خلقِ مثالی کہ نہ دیدہ نہ شنیدہ ہے مہر و محبت کی ردا تیرا سراپا منشور، کہ جس میں کوئی ادنیٰ ہے نہ اعلیٰ باراں کی طرح سب پہ کھلا تیرا سراپا انسان کی معراج نہیں اس کے سوا کچھ منزل ہو خدا، راہنما تیرا سراپا اے والیِ کوثر، شہِ بطحا، مرے آقا ؐ ہے شانِ خدا، نورِ خدا، تیرا سراپا پہچان ہوئی تجھ سے فقط، گلشنِ حق کی خوشبو تری سیرت تو صبا تیرا سراپا ٭٭٭

کنجِ دلِ تباہ میں کیا ہے بچا ہوا

اک نقشِ پائے یار ہے حیرت بنا ہوا سچ مچ نفس زدہ ہے چراغِ مزارِ دل کچھ کچھ جلا ہوا ہے تو کچھ کچھ بجھا ہوا شوقِ نمودِ حسن کو سمجھا نہیں کوئی کس کو دکھائیں اپنا کلیجہ کٹا ہوا کہتا ہے کون آنکھ میں اترا نہیں تھا چاند سینے پہ ایک داغ ہے اب تک سجا ہوا ہم نے برائے آمدِ وہم و گماں یونہی رکھا درِ نیاز برابر کھلا ہوا مت پوچھ ایسے لوگ کہاں تک پہنچ گئے جن کو کہ اک ستارہ خسارا نما ہوا پانی میں گرچہ برق لگاتی نہیں ہے آگ لیکن ہے پانیوں میں جو شعلہ چھپا ہوا ! اے سعدؔ تیری آنکھ میں بننے لگے گہر تجھ کو بنامِ گریہ یہ جوہر عطا ہوا ٭٭٭

خیال کچھ بھی نہیں ہے خیال کیا کچھ ہے

ملال ہونے لگے تو ملال کیا کچھ ہے سوال کچھ بھی نہیں ہے اگر جواب نہ ہو جواب ملنے لگے تو سوال کیا کچھ ہے گلِ بہار پہ شبنم بھی ہے کرن بھی ہے جمال کیا نہیں اس کا ! جلال کیا کچھ ہے عجیب شعبدہ بازی ہے کارِ دنیا بھی محال کچھ بھی نہیں ہے محال کیا کچھ ہے کسی بھی سمت سے دیکھو یہ بات ایک سی ہے عروج کچھ بھی نہیں تو زوال کیا کچھ ہے ؟ صبا، کرن، گلِ نو، چاندنی، ستارہ، چراغ! میں سوچتا ہوں کہ اس کی مثال کیا کچھ ہے ردائے خواب، مہِ تاب، چشمِ آوارہ برائے دشت نورداں غزال کیا کچھ ہے خیالِ یار ہے، ہم ہیں، عجب اداسی ہے ہمارے عشق کا دیکھو مآل کیا کچھ ہے ہر ایک آن بدلتا ہے رنگ دنیا کا جو آئنے میں پڑا ہے وہ بال کیا کچھ ہے ہر ایک سمت کھِلے پھول سعدؔ یادوں کے فراق لمحے سے اپنا وصال کیا کچھ ہے ٭٭٭

اپنا مزاجِ کار بدلنے نہیں دیا

دل نے کوئی نظام بھی چلنے نہیں دیا اے ماہتابِ حسن ہمارا کمال دیکھ تجھ کو کسی بھی رنگ میں ڈھلنے نہیں دیا گردش میں ہم رہے ہیں تو اپنا قصور کیا تُو نے ہمیں کشش سے نکلنے نہیں دیا گِریہ کیا تو آنکھ میں بھرتا گیا دھواں دل نے متاعِ درد کو جلنے نہیں دیا نظروں سے اپنی آپ ہی گرتے گئے ہیں ہم اے عشق تُو نے ہم کو سنبھلنے نہیں دیا ممکن بنانے چل پڑے ناممکنات کو اس زعم نے بھی جی کو بہلنے نہیں دیا تھوڑی سی وضعداری تو اس دل کے واسطے تُو نے تو اس میں وہم بھی پلنے نہیں دیا تہذیب اپنی کی ہے محبت نے سعدؔ یوں اس دل کو ہم نے حد سے نکلنے نہیں دیا ٭٭٭

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو

کیا یہ کافی نہیں ظالم تری حیرانی کو کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو شیشۂ شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو تُو رُکے یا نہ رُکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا دل نے در کھول دئیے ہیں تری آسانی کو دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو ہاں مجھے خبط ہے، سودا ہے، جنوں ہے شاید دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں کون سمجھے گا محبت کی پریشانی کو جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل سعدؔ جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو ٭٭٭

تلخیِ زیست کے عذاب کے ساتھ

ہم کو رکھا گیا حساب کے ساتھ ہم کوئی خواب سی حقیقت تھے یا حقیقت جُڑی تھی خواب کے ساتھ اختتامِ سفر کھلا ہم پر وسعتِ دشت تھی سراب کے ساتھ اے شبِ آگہی ستارے چن بام روشن ہیں ماہتاب کے ساتھ دشتِ امکاں میں کیا ٹھہرتے ہم سایہ چلتا رہا سحاب کے ساتھ رنگ و بو پر نظر سبھی کی گئی کون بکھرا مگر گلاب کے ساتھ سعدؔ سود و زیاں کی بستی میں کون کتنا چلے جناب کے ساتھ ٭٭٭

رشتۂ باد کیا حباب کے ساتھ

آب ملتا ہے آخر آب کے ساتھ وہ گنہگار ہیں جو رکھتے ہیں نشۂ چشم کو شراب کے ساتھ میں نے سیکھا خزاں کے موسم سے رنگ و بو ہے فقط شباب کے ساتھ دیکھو کیسے رواں ہے صدیوں سے ایک کچا گھڑا چناب کے ساتھ عشق والوں کی اپنی دنیا ہے مت چلاؤ انہیں نصاب کے ساتھ سعدؔ وہ بھی تو سچ ہی کہتا ہے کون اچھا رہے خراب کے ساتھ ٭٭٭

روئے نگارِ مہر گلِ خواب سا ہوا

در دیدہ رنگِ تیغ بھی خونناب سا ہوا پھر کاوشِ گرفت نے بکھرا دیا اسے وہ حسنِ سیم رنگ تو سیماب سا ہوا کیا کیا نہ نذرِ گردشِ گردوں ہوا یہاں آنکھوں میں یہ جہان بھی گرداب سا ہوا بے ساختہ عمل نے سبک کر دیا مجھے میں کیوں کسی کے نام پہ بیتاب سا ہوا ماہِ کرشمہ ساز ہوا زر فشاں تو پھر پانی تمام جھیل کا زرناب سا ہوا شفاف پانیوں میں نظر کا فریب تھا ورنہ یہ بحرِ دل کہاں پایاب سا ہوا اے سعدؔ خود کو دیکھنا لیکن یہ سوچنا آیا ہے جو بھی آنکھ میں وہ خواب سا ہوا اے سعدؔ یہ عجیب ہے تعبیرِ خواب بھی دیکھو تو اب کے خواب بھی نایاب سا ہوا ٭٭٭

ہم ترے زیرِ اثر ٹوٹ گئے

مرغِ تخئیل کے پر ٹوٹ گئے ایک جنگل میں چلی تیز ہوا اور پھر سارے شجر ٹوٹ گئے ہم ستاروں کی طرح جاگے تھے اس لئے تابہ سحر ٹوٹ گئے کیا خبر اُس پہ اُدھر کیا گزری ہاں مگر ہم تو اِدھر ٹوٹ گئے آخری وار پہ وہ گر ہی پڑا ساتھ ہی ہم بھی مگر ٹوٹ گئے آئنہ خانہ تھی تمثالِ انا کرتے کیا اہلِ ہنر، ٹوٹ گئے تیری یادوں کی ہوا اور یہ دل ایسی دستک تھی کہ دَر ٹوٹ گئے دوستی جن کی سمندر سے تھی ان کو شکوہ ہے کہ گھر ٹوٹ گئے! سعدؔ چھوڑو یہ غزل اب اپنی اس کو پڑھ کر وہ اگر ٹوٹ گئے ٭٭٭

اے حسنِ دلنواز! تجھے کیا کہوں کہ بس

تو ہے سراپا ناز، تجھے کیا کہوں کہ بس دیکھا ہے جب سے میں نے تجھے دل بکف ہوں میں اے جانِ سوز و ساز! تجھے کیا کہوں کہ بس اس شاعری میں ذکر سے تیرے اے جانِ من آیا ہے وہ گداز، تجھے کیا کہوں کہ بس یہ اضطراب میرا یونہی بے سبب نہیں دل ہے متاعِ راز، تجھے کیا کہوں کہ بس ملتا نہیں ہے کیا مجھے شہرِ طلسم سے لیکن ہوں بے نیاز، تجھے کیا کہوں کہ بس تجھ کو خبر کہاں کہ مرا مسئلہ ہے تو اے سعدؔ پاکباز، تجھے کیا کہوں کہ بس ٭٭٭

دعا کرو میں تمہارے حصار سے نکلوں

رہِ جمال کے زریں غبار سے نکلوں یہ جسم و جاں تو کسی نشۂ نمود میں ہیں خزاں کو قید کروں تو بہار سے نکلوں سمندروں کی گہر باریاں تہوں میں ہیں میں ٹوٹ کر ہی نہ چشمِ فشار سے نکلوں نظر بھی آئے وہ محمل ہر ایک سمت مجھے مگر یہ خُو ہے کہ دشتِ خمار سے نکلوں میں کائنات سے کرتا ہوں زندگی کو کشید کہ اوس بن کے بُنِ خار خار سے نکلوں میں اَبر بن کے کسی دشت پر کبھی برسوں یا مثلِ چشمہ کسی ریگزار سے نکلوں میں گرم جوش ہوں نفرت میں اور محبت میں میں کیسے جذبۂ جاں کے بخار سے نکلوں ٭٭٭

تم چشمِ طلسماتِ گہر بار تو کھولو

گل ہائے سحر خیز کی صورت کبھی بولو اک درد ہے ہونے کا جو سونے نہیں دیتا اے چشمِ تماشائے جنوں تم بھی تو سو لو اے صاحبِ وابستگیِ حسنِ بلا خیز ! اب شعلۂ جاں سوزیِ پروانہ پہ رو لو اے وائے سُبک گامی پئے دشتِ تمنا دو چار قدم ساتھ ہمارے بھی جو ہو لو ظلمت کدۂ  بخت ہے یا تیرہ شبی ہے اے صبحِ درخشاں، مرے دامن کو تو دھو لو چاہت ہے متاعِ سخنِ دیدۂ حیراں تم میری محبت کو ترازو میں نہ تولو مہکے گا کوئی خواب بھی آنکھوں میں تمہاری اے سعدؔ سبھی خارِ مژہ دل میں چبھو لو ٭٭٭

تمہارے نام گلِ جانِ رنگ و بو کر کے

ملال رُت میں ہیں دیکھو تو دل لہو کر کے ہم اپنے آپ سے پہلے ہی مل نہ پائے کبھی تمہیں بھی ہاتھ سے کھویا ہے آرزو کر کے محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئنہ نہ رہے تم کو روبرو کر کے سخن طرازیاں چلتی نہیں محبت میں یقین آیا ہمیں تم سے گفتگو کر کے یہ کیا ہوا کہ بہاروں نے پھر سے آن لیا ابھی تو بیٹھے تھے دامن کو ہم رفو کر کے حصولِ عیشِ تمنا تو اک تماشا ہے کھلا یہ ہم پہ شب و روز جستجو کر کے اسے کہو کہ نہیں ہم بھی پھول کی صورت کہ پھینک دے وہ ہمیں زینتِ گلو کر کے ٭٭٭

یوں تری آنکھ جو بھر آئی ہے

یہ محبت کی پذیرائی ہے اک سمندر ہے دلِ وحشی بھی چاندنی جس میں اُتر آئی ہے ہم کو منزل سے زیادہ ہے عزیز یہ عجب راہگزر آئی ہے ایک خوشبو ہے مرے چاروں طرف تیرے آنے کی خبر آئی ہے تجھ کو معلوم نہیں بادِ صبا کر کے خوشبو کا سفر آئی ہے میں جو رویا ہوں تو تیری صورت مثلِ گل اور نکھر آئی ہے ٭٭٭

ترے اثر سے نکلنے کے سو وسیلے کیے

مگر وہ نین کہ تو نے تھے جو نشیلے کیے ترے خیال نے دل سے اٹھائے وہ بادل پھر اس کے بعد مناظر جو ہم نے گیلے کیے ابھی بہار کا نشّہ لہو میں رقصاں تھا کفِ خزاں نے ہر اک شے کے ہات پیلے کیے اُدھر تھا جھیل سی آنکھوں میں آسمان کا رنگ اِدھر خیال نے پنچھی تمام نیلے کیے ترے سخن میں عجب اک مٹھاس تھی اے دوست ترے لبوں نے تو موسم سبھی رسیلے کیے محبتوں کو تم اتنا نہ سرسری لینا محبتوں نے صف آرا کئی قبیلے کیے یہ زندگی تھی کہ تھی ریت میری مٹھی میں جسے بچانے کے دن رات میں نے حیلے کیے کمالِ نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کیے ٭٭٭

دو شعر

مگس کو کس نے خبر دی مٹھاس کی مولا یہ کس کے لمس نے لب ہائے گل رسیلے کیے یہ کس کے اذن سے جاگا بہار میں سبزہ یہ کس کے لطف نے سارے سمے رنگیلے کیے

ایک شعر

یاد کرتا نہیں کسی کو میں یاد آتا ہے خود مجھے کوئی

بات ہے جب کہ بِن کہے دل کی اُسے سنا کہ یوں

خود ہی دھڑک دھڑک کے دل دینے لگے صدا کہ یوں میں نے کہا کہ کس طرح جیتے ہیں لوگ عشق میں اس نے چراغ تھام کے لَو کو بڑھا دیا کہ یوں سوچا تھا سنگ دل کو ہم موم کریں تو کس طرح آنکھ نے دفعتاً وہاں اشک گرا دیا کہ یوں آگ لگا نہ دے کہیں درد دل و دماغ میں شعلۂ حسن کو نہ دے، یار کبھی ہوا کہ یوں اس نے کہا کہ زندگی پھولوں کی سیج کس طرح میں نے کہا کہ اے حسیں! پھول سے لب ہلا، کہ یوں اُس نے کہا کہ سعدؔ جی لگتے ہیں زخم کس طرح میں نے کہا کہ جانِ من! تھوڑا سا مسکرا کہ یوں ٭٭٭

عشق سے آشنا تو ہو اور ہو آشنا کہ یوں

چاروں طرف ہو روشنی خود کو ذرا جلا کہ یوں ایسا نہ ہو کہ پھر کبھی ہم نہ قریب آ سکیں صورتِ ممکنات میں ہو نہ کبھی خفا کہ یوں کیسے بہم ہوئے ہیں ہم یار انہیں بتا ہی دے زانو بزانو بیٹھ کر دستِ دعا اٹھا کہ یوں اس کو نہ اپنا کہہ سکوں اور نہ دور رہ سکوں وہ بھی تو چاہتا تھا یہ مجھ کو ملے سزا کہ یوں میرے ہر اک سوال پر اُس کی وہی تھی خامشی یعنی کہ میں بھی دیکھ لوں ٹوٹتی ہے اَنا کہ یوں غالبِ نکتہ سنج کی کیسے ہو ہمسری مگر اُس نے ہر ایک شعر پر بارِ دگر کہا کہ یوں ٭٭٭

دھوپ اتری اشجار سے بھی

دھوکا کھایا یار سے بھی چھوڑ دیا جب دنیا کو کیا رشتہ دلدار سے بھی دل میں پھول کھِلا تو پھر چبھنے لگے کچھ خار سے بھی پاؤں پکڑنے لگتے ہیں کچھ رستے ہموار سے بھی حسن کا جادو چلتا ہے دریا کے اس پار سے بھی شب بھر چاند چمکتا ہے یادوں کے انبار سے بھی ٭٭٭

پردہ اٹھا اسرار سے بھی

غم ہی ملا غمخوار سے بھی یہ ہے نشہ سرداری کا بل نہ گئے دستار سے بھی کیا کیا ہم نے سیکھا ہے جیت سے بھی اور ہار سے بھی ہم تصویر بناتے ہیں پھولوں کی مہکار سے بھی سیکھو دنیا داری تم دیکھو ہمیں کبھی پیار سے بھی یاروں سے اک یار ملا بچھڑی کونج اک ڈار سے بھی سعدؔ زبان کو منہ میں رکھ تیز ہے یہ تلوار سے بھی ٭٭٭

کسی کی نیند اڑی اور کسی کے خواب گئے

سفینے سارے اچانک ہی زیرِ آب گئے ہمیں زمیں کی کشش نے کچھ اس طرح کھینچا ہمارے ہاتھ سے مہتاب و آفتاب گئے اُداسیاں ہی وہ ہر سو بکھیر کر آئے جدھر جدھر بھی ترے خانماں خراب گئے کسے خبر تھی کہ بارود بھی پڑا ہے کہیں ہوا چلی تو سلگتے سبھی گلاب گئے یہ تشنگی تھی ہماری کہ سحر صحرا کا کہ دور تک ہمیں کھینچے لیے سراب گئے تم اپنے آپ کو اے سعدؔ مت ہوا دینا ہوا کی زد میں جو آئے تو پھر حباب گئے ٭٭٭

سحرِ گلِ شگفتہ برنگِ صبا نہ پوچھ

صورت گرِ خیالِ مئے دلکشا نہ پوچھ بیٹھے ہیں سر بزانو دلِ بے صدا لیے احساسِ نا رسائیِ اہلِ وفا نہ پوچھ بعد از شکستِ آئنہ بکھرے پڑے ہیں خواب اک پیکرِ جمال تھی چشمِ انا نہ پوچھ رنگِ طلوعِ شمس و قمر روز و شب کی بات رنجِ فراقِ ساعتِ گل آشنا نہ پوچھ سعیِ کمالِ کارِ سخن کاروبارِ عقل لطفِ گدازِ سوزِ دلِ شعلہ سا نہ پوچھ وابستۂ خیالِ رمِ آہوانِ شوق پھوٹے ہے پائے دید سے ہر آبلہ نہ پوچھ بیداریِ سحر بھی ہے خوابیدگیِ شام ہم سے حیات و موت کا یہ سلسلہ نہ پوچھ ٭٭٭

چلو کہ ساتھ زمانے کے چل کے دیکھتے ہیں

تمہاری سوچ کے سانچے میں ڈھل کے دیکھتے ہیں وہی ہیں لوگ زمانے میں روشنی کی طرح چراغ بن کے جو راہوں میں جل کے دیکھتے ہیں سفر کے لطف میں منزل سے بے نیاز ہیں ہم وہ اور ہیں کہ جو راہیں بدل کے دیکھتے ہیں تمام شہر میں رسوائیاں یونہی تو نہیں یہ شعبدے تو ہم اپنے عمل کے دیکھتے ہیں ابھی تو ہوش نہیں ہے جنوں شعاروں کو جو ہوش ہو بھی تو کب یہ سنبھل کے دیکھتے ہیں تُو احترام کے قابل ہے اس لیے تجھ کو ہم اپنی ذات سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں ٭٭٭

دو شعر

نہ ان کا وقت ہے کوئی نہ ان کا کوئی وطن محبتوں میں زمان و مکاں کی کیا قدغن کسے خبر تھی کہ یہ پھول سانس لیتے ہیں چلی صبا تو مہکنے لگا چمن کا چمن

دو شعر

چاند سے مکھڑے پر اترا تھا کالی زلف کا بادل میں نے اس کو ہوتے دیکھا اپنی خوشی میں پاگل اپنا صبر تو اپنی جگہ ہے اپنے بس میں کچھ بھی نہ تھا لیکن جانے کیسے چھلکی اپنی آنکھ کی چھاگل

جھیل پر برف سی جمی کیا ہے

بے بسی ہے کہ دلکشی کیا ہے جن کی آنکھیں اداس رہتی ہیں اُن سے پوچھو کہ زندگی کیا ہے کیا دکھائیں فگار سینہ انہیں وہ جو کہتے ہیں شاعری کیا ہے یہ مفادات کی ہے جنگ فقط دشمنی کیا ہے، دوستی کیا ہے ایک طوفاں دبائے بیٹھے ہیں ورنہ اپنی یہ خامشی کیا ہے اپنے ہاتھوں ہی ہو گئے برباد سعدؔ اپنی یہ دل لگی کیا ہے ٭٭٭

آگہی بِن یہ زندگی کیا ہے

کرب و غم ہے یہ آگہی کیا ہے کیسا جینا ہے تنہا جینا بھی مرگِ انبوہ کی خوشی کیا ہے جو گزاری ہے پاس کس کے ہے گر نہیں ہے تو پھر بچی کیا ہے گر وفا کا نہیں یقین انہیں ہاتھ کنگن کو آر سی کیا ہے ظرف رکھتے ہیں آسمانوں کا جو سمجھتے ہیں عاجزی کیا ہے سعدؔ بکھرا پڑا یہ پھول ہے کیا اور کھِلتی ہوئی کلی کیا ہے ٭٭٭

لوگ کہتے ہیں کہ تُو اتنا حسیں بھی تو نہیں

میں یہ کہتا ہوں ترے جیسا کہیں بھی تو نہیں دل بضد ہے کہ کریں ترکِ تعلق اب کے بات پر دل کی مگر ہم کو یقیں بھی تو نہیں یہ بھی سچ ہے کہ وہ گردوں کو نہیں چھُو سکتی ہاں مگر اڑتی ہوئی خاک زمیں بھی تو نہیں نہ تپائی، نہ گھڑا ہے نہ وہ مٹی کی مہک ان مکانوں میں وہ پہلے سے مکیں بھی تو نہیں کیا کریں چاند چمکتا ہے جو ان آنکھوں میں اک ستارے کے لیے پاس جبیں بھی تو نہیں بس اسی بات کا ہے رنج مجھے اے سعدؔ وہ جو اس دل کے قریں ہے وہ قریں بھی تو نہیں ٭٭٭

یہ گنہ اور ثواب کیسا ہے

زندگی کا عذاب کیسا ہے آگ لگنے لگی چناروں کو موسموں کا شباب کیسا ہے نہ برستا ہے اور نہ چھٹتا ہے اب کے سر پر سحاب کیسا ہے پاس وہ ہے نہ خود ہی ہم موجود گفتگو کا یہ باب کیسا ہے میں فقط دیکھتا رہا اس کو کیا بتاتا گلاب کیسا ہے آئنہ دیکھ کر بتائے وہ سعدؔ کا انتخاب کیسا ہے ٭٭٭

ہو اگر دل سے رابطہ دل کا

تب ہی بنتا ہے قافلہ دل کا عقل کے ساتھ چل نہیں سکتا ماورائی ہے ضابطہ دل کا آنکھوں آنکھوں میں پوچھتا ہے کوئی کیسا ٹوٹا ہے آئنہ دل کا کرچی کرچی پڑا ہے سینے میں کون جانے گا سانحہ دل کا حلقۂ چشم میں نہیں آتا کیا عجب ہے مشاہدہ دل کا کچھ طلب ہی نہیں ہے اب اُس کو منہ لگا جس کے ذائقہ دل کا بات بے بات کیوں دھڑکتا ہے سعدؔ کیا ہے معاملہ دل کا ! ٭٭٭

نہ پوچھ کیسا لگا تھا وہ مسکراتا ہوا

کہ جیسے برق میں لپٹا ہو ابر کا ٹکڑا میں جانتا ہوں کہ کچھ حیثیت نہیں ہے مری مگر خیالِ گلِ خواب جو کہ تجھ سا تھا یہ تیری آنکھ کا نشہ نہیں تو پھر کیا ہے کہ میری آنکھ میں کچھ بھی نہیں ہے تیرے سوا تُو ایک خواب نہیں ہے تو پھر حقیقت کیا میں ایک عالمِ حیرت میں کب سے ہوں بیٹھا یہ آگ بھی تو تمہی نے لگائی تھی اے دوست اب اس کی زد میں اگر تُو بھی آ گیا ہے تو کیا ہوا، شجر، یہ پرندے اور آسمانِ بسیط تری نظر کے ہیں طالب ذرا تو آنکھ اٹھا سخن کِیا تھا فقط دل کی بات کہنے کو سخنوروں کی طرح تو بھی شعر کب سمجھا ٭٭٭

شام بالوں میں تو آنکھوں میں سحر رکھتا ہے

وہ بدلتے ہوئے موسم پہ نظر رکھتا ہے تم پسِ عہدِ وفا کشتۂ غم مت ہونا کون پوچھے گا تمہیں کون خبر رکھتا ہے دھیان تیرا جو بھٹکتا ہے سرِ دشتِ خیال اک جنوں ساز محبت کا اثر رکھتا ہے باس رکھتا ہے وہ دامن میں ہر اک موسم کی اپنے دل سے جو ہواؤں کا گزر رکھتا ہے بس اسی کارِ مخالف نے بگاڑا منظر ہم اِدھر رکھتے ہیں منظر، وہ اُدھر رکھتا ہے ہم نے مانا کہ محبت نہیں اس کو اے سعدؔ کوئی احساس تو دل میں وہ مگر رکھتا ہے ٭٭٭

یہ قصور ہے مری آنکھ کا ترا رنگ ڈھنگ چرا لیا

تجھے اپنے من میں بکھیر کر یونہی مسئلہ سا بنا لیا یہ محبتوں کا جو کھیل ہے یہ کبھی کسی پہ کھلا نہیں جسے جانتے ہی نہ تھے کبھی اسے دل میں اپنے سجا لیا بھلا اس میں تیرا قصور کیا کوئی سوز میرے ہی دل میں تھا وہ جو آگ میں نے لگائی تھی میں نے خود کو اس میں جلا لیا یہ خیال بھی ہے ہوا صفت کہ جب اپنی موج میں آ گیا کبھی کوہسار گرا دیئے، کبھی بادلوں کو اٹھا لیا تجھے کیا بتائیں کہ کس طرح ہمیں مار ڈالا ہے ضبط نے وہی درد بن گیا لا دوا جسے دل میں ہم نے دبا لیا ٭٭٭

دو شعر

نہ وہ سنتا ہے کسی کی نہ وہ کچھ کہتا ہے وہ جو اک شخص تری یاد میں گم رہتا ہے درد لذت کشِ تنہائی ہے اس کو اے دوست جو عذابِ شبِ بے مہر کا دُکھ سہتا ہے

اک سمت اس کی جیت تھی اک سمت اپنی ہار

ہم نے لکیر کھینچ دی اس دل کے آر پار دیکھو کہاں کہاں یہ جلاتے ہیں باغ و بن تارے تو اپنی آنکھ سے ٹوٹے تھے بے شمار نکلے ہیں دشت و بحر سے ہم جانبِ فلک دیکھو کہاں کہاں ابھی اڑتا ہے یہ غبار سنتا ہے کون دیکھیے اب باز گشت کو حائل ہوئے ہیں راہ میں کتنے ہی کوہسار کیا کیا تغیرات ہیں بادِ نمو کے ساتھ پلکوں سے ہم اٹھاتے ہیں بکھری ہوئی بہار اے سعدؔ راکھ اڑتی ہے دل میں ہر اک طرف جنگل جلا گیا کوئی اڑتا ہوا شرار ٭٭٭

اشکِ گردوں صدف میں پالتے ہیں

تب سمندر گہر اچھالتے ہیں خود فراموشیاں نہ پوچھ اپنی زندگی کا عذاب ٹالتے ہیں اپنی منزل سے بے خبر ہی سہی پر نیا راستہ نکالتے ہیں خاک اڑنے لگے جب آنکھوں میں لوگ دنیا پہ خاک ڈالتے ہیں اتنا کافی ہے زندگی کے لیے جو ہے مقسوم اسے سنبھالتے ہیں اپنے چہروں پہ گرد پڑتی ہے جب بھی ہم آئنے اجالتے ہیں خارِ مژگاں سے خوں ٹپکتا ہے سعدؔ دل پر نظر جو ڈالتے ہیں ٭٭٭

وہ ملاقات ہے برات مری

جس میں منہا ہو سعدؔ ذات مری چاند تارے چمکتے ہیں ان میں تیری آنکھیں ہیں کائنات مری اپنی اپنی سنا رہے ہیں لوگ کوئی سنتا نہیں ہے بات مری میں تصور میں تیرے بیٹھا ہوں دن ہے میرا نہ کوئی رات مری تو مجھے حوصلے کی داد تو دے مجھ کو اچھی لگی ہے مات مری خوف مجھ کو نہیں کسی سے بھی خود ہے اپنے خلاف گھات مری ٭٭٭

جھیل کے پانیوں میں جب چپکے سے چاند اتر گیا

آنکھ بھی جگمگا اٹھی دل بھی خوشی سے بھر گیا میری تو بات بات سے آتی ہے اک عجب مہک کوئی مرے وجود میں بن کے گلاب اتر گیا دنیا کے حادثات میں ایسا بھی بارہا ہوا کوئی تو غم سے جی اٹھا، کوئی خوشی سے مر گیا پیار بھی ایک کھیل ہے جیسے کہ دھوپ چھاؤں کا کوئی بکھر بکھر گیا کوئی نکھر نکھر گیا تجھ پہ حدود کھینچ کر ڈرتا ہوں اپنے آپ سے پھر تو نہیں بچے گا کچھ حد سے جو میں گزر گیا حلقۂ اختیار میں سعدؔ کسی کے کیا تھا، بس ہم بھی اُدھر اُدھر گئے، رستہ جدھر جدھر گیا ٭٭٭

بعد مدت کے میں جو رویا ہوں

ابر پاروں پہ جیسے سویا ہوں چشمِ تر نے اسے بجھا ڈالا گویا میں خامشی میں گویا ہوں یہی منزل نہ ہو کہیں میری میں ترے راستوں میں کھویا ہوں ٭٭٭     ہم صحرا میں گھومنے والے

اپنی آنکھ میں ایک سمندر

جن کو محبت مل جاتی ہے وہ ہیں دارا اور سکندر چشمِ نم کی دستک پر پھر کھول دیا اس دل نے من در ایک جہان چھپا رکھا ہے سعدؔ جی ہم نے من کے اندر ٭٭٭

ہم سے نفرت ہے تو نفرت کی وجوہات کوئی!

رکھ تصادم میں محبت کی نئی بات کوئی ہم جو گردش میں ستاروں کی طرح رہتے ہیں ہو نہ جائے گی کہیں تجھ سے ملاقات کوئی ! کیا بتاؤں کہ مہک اٹھتا ہوں میں مثلِ گلاب تیری یادوں سے لدی آتی ہے جب رات کوئی ایک اک قطرہ ڈبو دیتا ہے عالم سارا تُو نے دیکھی ہی نہیں آنکھ کی برسات کوئی تم فقط اس بُتِ کافر کو نہ دشمن جانو اپنے اندر ہی سے لگتی ہے کبھی گھات کوئی نہ کوئی حرفِ تسلی نہ کوئی حرفِ گریز کیا بتائیں کہ نہیں اپنی شروعات کوئی دیکھ کر اس کو میں پتھرایا مگر پھر برسا ہاں دکھاتا ہے ہمیں اپنی کرامات کوئی ٭٭٭

میرا سایہ جب مرے قد کے برابر ہو گیا

ایسے لگتا تھا کہ میں بھی مہر پیکر ہو گیا کیا خبر ہے کس پہ یک دم کون سی آفت پڑی کون جانے کون کیسے ایک پتھر ہو گیا ظلم کی تشہیر بھی ظالم نے کی کچھ اس طرح گویا اس کا ظلم بھی میرا مقدر ہو گیا پہلے پہلے اک ادا تھی پھر یہ عادت ہو گئی ناز برداری سے اپنی وہ ستمگر ہو گیا اس زمیں کے ساتھ گویا ہم بھی گردش میں رہے اپنا جینا مرنا گویا ایک چکر ہو گیا اپنی چاہت نے بگاڑا ہے اسے اے سعدؔ جی عشق ظاہر ہو گیا تو حسن خود سر ہو گیا ٭٭٭

دو شعر

روز تیرے سامنے جو ہار آتا ہے مجھے یہ مرا ہمزاد ہے جو مار آتا ہے مجھے جگ ہنسائی کے سوا تو کچھ نہیں چاہت تری سعدؔ تیری بے بسی پر پیار آتا ہے مجھے

دو شعر

ہے محبت تو چھپائیں کیسے ہم اداکاری نہیں کر سکتے ہم برے ہیں یا بھلے جو بھی ہیں بس ریاکاری نہیں کر سکتے

نظمیں

کتنا خوش ہے وہ اپنی آنکھوں پر

جس کو دیکھا اسی کو مار دیا

ایک نظم جوMessageنہ ہو سکی

(۱) آندھی تیری یاد کی صورت ہے اندھی، پاگل خود سر، بے گھر اندھا کر دیتی ہے ہم کو یکسر سب کچھ مٹی مٹی گرد سے بوجھل سانسیں اور تاریکی میں بجتے بام و در دور منڈیروں پر سے گھورتا اک اَن دیکھا ڈر   (۲) اور پھر اس کے بعد کی بارش میرے پیار کی صورت ہے جھومتا، گاتا، شور مچاتا بادل بڑھتا جائے پل پل اور پھر کر دے سب کچھ جل تھل   (۳) اس کے بعد تو ایک مکمل سناٹا ہے دل کے اندر تیری یاد میں بیٹھا ہوا اک پاگل۔۔ بے کل جس کی آنکھ میں قوسِ قزح ہے جس کے پس منظر میں اک تصویر سی بنتی ہے اک تصویر کہ جس میں رنگ دھنک کے اوڑھے کھڑی ہے اک دوشیزہ لے کر ہاتھوں میں پانی کی چھاگل اور قریب اک وحشی، پیاسا پاگل ٭٭٭

تیری یاد اور میں

کتنے لوگ ہیں جن کو خوشی کا ایک بھی لمحہ نہیں ملتا ہے لیکن میں نے کتنے لمحے تیرے ساتھ گزارے ۔۔ پیارے اور پھر ان لمحوں کی یادیں۔۔ رنگ برنگ غبارے سارے یادیں بھی کیا چیز ہیں توبہ۔۔ توبہ توبہ وصل کے لمحے اک اک لمحہ اک اک دن ہے اک اک دن ہے ایک مہینہ یہ برسوں اور صدیوں کی چھت کا زینہ کیسے زمان و مکاں نے کیا ہے کشادہ اپنا سینہ آؤ دکھاؤں تجھ کو اپنے دل کا دفینہ جس کے ساتھ ہے اپنا مرنا جینا خوش رہنا اور غم کے آنسو پینا ٭٭٭

عقل اور دل

عقل سے جو دور ہیں دل کے حکمران ہیں اور جو دل سے دور ہیں عقل کے غلام ہیں اہلِ دل کہیں نہیں اہلِ عقل عام ہیں ٭٭٭

محبت کا شجر

میں ایسے لمحے سے ڈر رہا ہوں کہ جب تعلق کی نرم مٹی سے بیج پھوٹے گا چاہتوں کا تو ننھی کونپل شجر بنے گی شجر بھی ایسا کہ جس کے اوپر نہ پھول ہوگا نہ پھل ہی کوئی میں ایسے لمحے سے ڈر رہا ہوں مگر یہ کیا ہے کہ بے بسی میں میں پاؤں کس سمت دھر رہا ہوں میں کس کی چاہت میں مر رہا ہوں ٭٭٭

ہمارا دل سمندر ہے

ہمارا دل سمندر ہے کبھی طوفاں جو آ جائے تو آنکھوں تک چھلکتا ہے ان آنکھوں کے کناروں پر جو موتی ہیں اسی دل کی عنایت ہیں ٭٭٭

صلہ

میں اس خوشی ہی میں مر گیا ہوں کہ زندگی کی دعائیں دی ہیں کسی نے مجھ کو مجھے تو اب کوئی غم نہیں ہے صلہ یہ چاہت کا کم نہیں ہے ٭٭٭

کہیں تو آخر سراب ٹوٹے

یہ زندگی بھی عجیب شے ہے یہ دشتِ امکاں کی اک مسافت نہ کوئی رستہ، نہ کوئی منزل نہ آئے اس کے کوئی مقابل عجیب سا ہے یہ سلسلہ بھی نہ روز و شب کا طلسم ٹوٹے نہ واہموں سے یہ جان چھوٹے عجیب ہے یہ جہانِ فانی بس اک فسانہ بس اک کہانی نہ آنکھیں اپنی نہ خواب اپنے سوال صورت جواب اپنے جو ہوش آئے تو خواب ٹوٹیں کہیں تو آخر سراب ٹوٹیں ٭٭٭

جانتے ہوئے بھی کیوں

جانتے ہوئے بھی کیوں میں نے اپنے جسم میں آگ سی اتار لی بے اماں و رائیگاں زندگی گزار لی ٭٭٭

اسے مجھ سے محبت تھی

میں خود کو اس کے قابل کب سمجھتا تھا نہیں تھا حوصلہ مجھ میں کہ اپنے خواب کو چھو لوں عجب اک خوف تھا مجھ میں تذبذب میں رہا میں تو مگر اک بے صدا آہٹ پہ جب یہ خواب ٹوٹا تو مناظر اور ہی کچھ تھے نہ وہ گلنار سا چہرہ، نہ وہ خوابیدہ سی آنکھیں نہ سایہ دار وہ پلکیں، نہ شہد آگیں وہ لب اس کے مکمل اک نئی دنیا مکمل اک نئی صورت وہی لمحہ تھا میری زیست کا حاصل کسی کا یوں کھڑے پاؤں بدل جانا۔۔ قیامت تھا مگر اس دم کھلا مجھ پر کہ اس کے پاس جینے کی فقط یہ ایک صورت تھی وگرنہ اس میں کیا شک ہے اسے مجھ سے محبت تھی ٭٭٭

کہی اور ان کہی

ان کہی کی الگ اذیت ہے اور کہی کا عذاب مت پوچھو ٭٭٭

ایک نظم

تیرے پیار نے زندہ کیا تھا ہم کو اور تری نفرت نے پھر سے مار دیا اپنا کیا ہے ہم نے سب کچھ تیرے سامنے ہار دیا اپنا ایک اثاثہ دل کی صورت تجھ پر وار دیا ٭٭٭

شاعر کی اجازت اور تشکر کے ساتھ، عمران شناور کا  شکریہ جنہوں نے فائل عطا کی۔ ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل۔ اعجاز عبید