FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

محمد حمید شاہد کے افسانے

 

 

 

حصہ اول

 

محمد حمید شاہد

 

 

سورگ میں سور

 

جب سے تھوتھنیوں والے آئے ہیں، دکھ موت کی اَذِیّت سے بھی شدید اور سفاک ہو گئے ہیں۔

تاہم ایک زمانہ تھا۔۔۔ اور وہ زمانہ بھی کیا خوب تھا کہ ہم دُکھ کے شدید تجربے سے زندگی کی لذّت کشید کیا کرتے۔ اس لذّت کا لپکا اور چسکا ایسا تھا کہ خالی بکھیوں کے بھاڑ میں بھوک کے بھڑبھونجے چھولے تڑتڑاتے بھنتے رہتے مگر ہم حیات افروز لطف سے سرشار ہوتے تھے۔ بجا کہ ہم بے بسی کے مقابل رہتے تھے لیکن ہمیں اپنی بے بسی کا اس شّدت سے احساس نہیں ہوتا تھا۔ ہمت بندھی رہتی اور ہم موت کا مقابلہ بھرپور زندگی کے دلنواز حوصلے سے کرتے تھے۔

وہ پھِڑکی والا سال بھلا کوئی کیسے بھول پائے گا کہ جس میں بیتلیں، کجلیاں، کموریاں اور ناچیاں ایک ایک کر کے موت کی اوڑھ لے رہی تھیں، بہ ظاہر قدرے سخت جان نظر آنے والی بربری نسل کی ٹیڈی ٹھگنیاں بھی اسی موت کی وادی میں کودنے کے بہانے تلاش کرنے لگی تھیں۔۔۔ تب جس طرح ہم نے اپنے ڈوبتے دلوں پر قابو پایا تھا وہ کچھ ہم ہی جانتے تھے۔اسی برس چھوٹی پتلی دُم اور بڑے حوانے والی وہ سرخ بیتل، کہ جسے ہم سب رتی کہتے تھے، پِھڑکی سے پَھڑک گئی تھی اور کچھ ہی گھنٹوں کے اندر اندر موٹے سینگوں والی چِتری، لٹکے ہوے کانوں والی بھوری اور تکون جیسے تھنوں والی لنگڑی پل کی پل میں بے سُدھ ہو گئی تھیں۔ تب ہم پے در پے صدمات کے کَلَکتے تیل میں تَلتے تھے مگر ہماری روحوں پر حیاتی اپنے من موہنے پھولوں کی کلیاں بناتی تھی۔ ایسے میں آوازوں کا میلہ سا لگ جاتا۔۔۔ اوئے فضلو! دیکھ اس نمانی کا پِنڈا گرم ہے اسے اُدھر لے جا۔۔۔ اوئے شریفے وہاں چتری ماں کو کیوں ٹوہے جاتا ہے ادھر آ اور اس بگّی کے کھُروں کو دیکھ، ان کے اندر ورم آ گئے ہیں۔ میرو، نظاماں، خیرا، شوقی، ناماں، چھونی۔۔۔ ہم سب بھاگ بھاگ کر ایک ایک کے پاس پہنچتے تھے، ہر ایک کا منھ کھول کھول کر دیکھتے، بدن ٹٹولتے، حوانے ٹوہ کر اندازے لگاتے، ٹانگیں دہری کر کے کھروں کو کریدتے، دُمیں اُٹھاتے اور اُنگلیاں گھسیڑ گھسیڑ کر موت کی اُن علامتوں کو بھی تلاش کر لیا کرتے تھے جو بہ ظاہر نظر نہ آتی تھیں۔۔۔

پِھڑکی کی نشانیاں ہمیں کبھی نہ ملتیں۔۔۔ اِس موذی مرض کی علامتیں ہیں بھی کیا، ہم کبھی نہ جان پائے۔۔۔ جب تک اندازے اس طرف جاتے پھِڑکی اپنا وار چل چکی ہوتی اور ہم پھڑکنے والی کو چھوڑ دوسریوں کو بچانے میں لگ جاتے تھے۔ جس کا تھوڑا سا جثہ گرم ہوتا، جس کے اُٹھے کان ڈھلکنے لگتے یا پھر جو دانتوں کو باہم پیس رہی ہوتی، ہم اُسے الگ کر دیا کرتے تھے۔اُس برس ہمیں پھِڑکی کی موتوں نے لتاڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔ مگر ہم اُس برس بھی اتنے بے بس نہیں ہوے تھے جتنا کہ بعد میں تھو تھنیوں والوں کے سبب ہو گئے تھے۔

پہلے بے بسی ضرور تھی لیکن ہمت ہی ٹوٹ جائے ایسی لاچاری اور بے کسی نہ تھی۔ نہ پھِڑکی والے سال نہ ہی آنے والے برسوں میں۔۔۔ ہم کوئی نہ کوئی سبیل کر ہی لیا کرتے تھے۔ جب بکریوں میں سے کسی کی چال بگڑ جاتی اور اگلے دن پہلے سے بھی زیادہ لنگڑانے لگتی، کوئی اپنے کھُر زمین پر جَھٹک جَھٹک کر مارتی یا کسی کا بدن ڈھلکنے لگتا، کسی کے منھ میں سفید سفید چھالے نکل آتے یا تھنوں کے سفید دانے پھٹ کر سرخ ہو جاتے، کسی کے منھ سے جھاگ اور رالیں بہنے لگتیں یا کسی کے حوانے کے غدود سوج جاتے، دودھ کم نکلتا یا پھر دودھ کی پھٹکیاں بن جاتیں، منھ اور آنکھوں کی جھلیاں زرد ہونے لگتیں یا پھر ناک منھ اور پیچھے سے لیس دار مادہ نکلنے لگتا، کسی کا پھل گر جاتا یا اُن میں سے کسی کا پہلا میمنا اگلی ٹانگوں کے بہ جائے پہلے پیچھا نکالنے لگتا، کوئی سوئے کی پِیڑوں سے چیخے جاتی یا جھلی پھٹ جاتی اور ہم ترکیبیں کر کر کے پھل چھوڑنے میں مدد دے رہے ہوتے یا تروہنے والی کی زندگی بڑھانے کے کیکھن کر رہے ہوتے تو ہمیں دُکھ، موت اور زندگی دونوں کے مقابل کرتا تھا۔مرنے والیاں مر جاتیں۔۔۔ جنہیں زندہ رہنا ہوتا تھا اُنہیں ہم بچا لیتے تھے۔ اکثر بہت زیادہ نقصان ہو جاتا۔۔۔ اتنا زیادہ کہ ہماری کمریں ٹوٹ جاتیں مگر یہی تو ہماری زندگی تھی۔۔۔ ہمیں یاد رہتا تھا کہ کس سال پِھڑکی کا حملہ ہوا تھا، کب منھ کھُر آیا، گل گھوٹو اور ماتا نے کب پھیرا ڈالا تھا، ُچاندنی سے چشمک کب ہوئی تھی، سنگ رھنی کے سبب کس کس نے چر نا چگنا چھوڑ دیا تھا، کسے خارش ہوئی تھی، کون نمونئے سے مری تھی، کِس کے پھیپھڑوں میں کِرم پَڑ گئے تھے اور ناک مکّھی نے کسے اوندھایا تھا۔

سردیوں کی یخ بستہ راتیں ہوتیں یا گرمیوں کی کھڑی دوپہریں، ہم ایک ایک لمحے کو۔۔۔ ایک ایک واقعے کو۔۔۔ اور ہر ایک متاثر ہونے والی یا مر جا نے والی کو یاد کرتے تھے۔۔۔ اور اسی موت کے کھیل میں سے زندگی کا چہچہا برآمد ہو جایا کر تا تھا۔

یہ ٹھیک سے بتانا تو بہت مشکل ہے کہ بکریوں کے یہ اَجڑ اور ہم کب سے ساتھ ساتھ تھے تاہم چٹے دودھ جیسی اجلی داڑھی اور نورانی چہرے والے بابا جی، جنہیں ہمیشہ بکریوں کے اجڑ کے درمیاں لرزتے ہاتھوں میں اپنی کمر جیسا خم لیتی لاٹھی کے ساتھ ہی دیکھا گیا تھا، نے بتایا تھا کہ ہمارے گاؤں سورگ کی زمین اور ہمارے بدنوں کی مٹی کے اجزاء کا مطالبہ ہی یہی تھا کہ ہم اس پاک فریضے میں مشغول رہتے۔ بابا جی کا وجود اور ان کی باتیں ہمیں ایمان جیسی لگا کرتی تھیں لیکن جب انہوں نے یہ بتایا تھا تو اس وقت تک ہم خاصے ہوشمند ہو چکے تھے لہذا ہمیں پاک فریضے کے لفظوں نے چونکا دیا تھا اور ہم میں سے کئی ایک نے دہرایا تھا۔۔۔:

’’ بابا جی پاک فریضہ؟۔۔۔‘‘

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے صرف اتنا کہا تھا:

’’اُچیاں شاناں والے کے صدقے یہ دھندا پاک فریضہ ہی تو ہے‘‘

پھر اُن کی آنکھیں محبت کے پانیوں سے بھر گئی تھیں۔انہوں نے دونوں ہاتھوں میں نہاں عقیدت کی کپکپاہٹ اور لرزتی اُنگلیوں کی ساری پوروں کو باہم ملا کر خیال ہی خیال میں بوسہ لیتے ہونٹوں پر تھراتی سسکاری کو چھو لیا اور ہم سے یوں بے نیاز ہو گئے کہ اُن کی چھاتی کے اندر گونجتی آواز ہم تک پہنچنے لگی تھی۔

بابا جی کے چل بسنے کے بعد ہم مونگ پھلی کی کاشت کی طرف راغب ہو گئے۔

یہ لگ بھگ وہی برس بنتا ہے جب اُدھر کی ایک بڑی بادشاہی میں ایک مونگ پھلی والے کو حکمرانی مل گئی تھی۔ یہ بات ہمیں شہر سے آنے والے بیوپاریوں نے بتائی تھی۔ اُنہوں نے ہمیں اُدھار بیج دیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ مونگ پھلی تو سونے کی ڈلی ہوتی ہے۔ اُس سال ہم نے بے دلی سے تھوڑا سا بیج زمین میں دبا دیا تھا اور باقی بھون کر مزے لے لے کر گڑکے ساتھ کھا گئے تھے۔۔۔ تاہم جب فصل تیار ہوئی اور کھڑی فصل کا سودا کرنے بیوپاری پہنچ گئے تو ہمیں مونگ پھلی واقعی سونے کی ڈلی جیسی لگنے لگی تھی۔

سورگ کی زمین کی دو روپ تھے۔۔۔ اوپر کے جنوب مشرقی حصّے کی ساری زمین ریتلی تھی، ہم اُسے اُتاڑ کہتے۔ اُتاڑ کی زمین ایسی ریتلی بھی نہ تھی کہ مٹھی میں بھریں تو ذرّے پھسلنے لگیں۔۔۔ ریتلی میرا کہہ لیں۔۔۔ مگر اُسے میرا یوں نہیں کہا جا سکتا تھا کہ بارش کا جھبڑا پڑتا تو پانی سیدھا اُس کے اندر اُتر جاتا، اوپری تہوں میں ٹھہرتا ہی نہیں تھا۔ کئی دھوپیں جو لگاتار پڑ جاتیں تو وتر کا نشان تک نہ ملتا۔نیچے شمال مغربی حّصے کی زمین رکڑ تھی۔۔۔ رکڑ بھی نہیں، شاید پتھریلی کہنا مناسب ہو گا۔۔۔ پتھریلی اور کھردری۔ اس پر بھی پانی نہ ٹھہرتا، فوراً پھسل کر گاؤں کو دو لخت کر تے نمیلی کَس میں جا پڑتا تھا۔ اس حّصے کے ڈھلوانی علاقوں میں کہیں کہیں ایسے ٹکڑے تھے جن میں وَتر ٹھہر جاتا تھا اور زمیں بیج بھی قبول کر لیتی تھی۔ایسے قطعات اتنا اناج اور چارا اُگا ہی لیتے تھے کہ گاؤں والوں کے معدوں میں بھڑکتی آگ کے شعلے بجھتے تو نہ تھے تا ہم مدھم ضرور پڑ جاتے۔۔۔ اور لہاریاں بھی بھوکی نہ رہتی تھیں۔

سارے اُتاڑ میں بکریاں خوب چرتی تھیں۔ یہاں ہر نسل اور ہر مزاج کی بکریوں کی بھوک مٹانے اور اُن کے بدنوں کو فربہ بنانے کا سامان موجود تھا۔ اپنے کھروں کو درختوں کے تنوں پر جما کر اوپر کی شاخوں سے رزق نوچنے والیوں کے لیے لذت بھرے پتوں والے مختلف النوع درختوں کے جھنڈ تھے، تھوڑا سا گردن کو خم دے کر چرے جانے اور آگے ہی آگے بڑھے جانے والیوں کے لیے جھاڑیاں اور بیلیں تھیں۔ بچھی ہوئی اور پھیلتی ہوئی نرمو شیریں گھاس بھی ہر کہیں تھی کہ جسے بربریاں شوق سے کھاتیں اور اپنی نسل تیزی سے بڑھاتی تھیں۔۔۔۔۔۔ مگر جس تیزی سے تھوتھنیوں والے پلیدوں نے نسل بڑھائی تھی اُس نے سورگ والوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔

اُتاڑسے پرے اُدھر جہاں ہموار زمین پر سرکاری رکھ تھی، تھوتھنیوں والے وہاں سے غول در غول آتے تھے اور ہماری زمینوں پر تباہی مچا کر واپس رکھ میں جا چھپتے تھے۔ جب تک بکریاں ہمارے التفات کا محور رہیں، تباہی مچا کر چھپ جانے والوں کی تعداد بھی محدود رہی۔۔۔ یا پھر۔۔۔ شاید اُن کا پھیرا ہی اِدھر کم کم لگتا ہو گا۔ تا ہم ہم احتیاط بھی تو کیا کر تے تھے۔۔۔ بیری، کنیر اور کیکر کے درختوں کی خاردار ٹہنیوں کے چھاپوں کی کِھتیاں جوڑ کر ہم بکریوں کے باڑوں کو چاروں طرف سے محفوظ بنا لیا کرتے تھے۔ جب کبھی تھوتھنیوں والے ادھر آ نکلتے اور اپنی تھو تھنیوں کو ان چھاپوں پر مارتے تو کانٹوں کی چبھن اُنہیں اُلٹا بھاگنے پر مجبور کر دیتی تھی۔۔۔ لیکن جب ہمیں مونگ پھلی کی فصل نے لگ بھگ بکریوں سے غافل ہی کر دیا تو وہ اندر تک گھس آتے۔ اُن کی تعداد اِس قدر بڑھ چکی تھی کہ ناچار ہم سورگ والوں کو اُنہیں بھگانے کے لیے پالتو کتوں کی تعداد بڑھا دینا پڑی تھی۔

یوں نہیں تھا کہ پہلے سورگ والے کتے نہیں رکھتے تھے۔۔۔ گاؤں کے مستقل مکینوں پر ہی کیا موقوف، وہاں مختصر عرصے کے لیے آنے والے خانہ بدوشوں کی جھونپڑیوں میں بھی کتے ہوتے تھے۔خانہ بدوشوں کے پاس عموماً گدی نسل کے کتے ہوتے جبکہ سورگ والوں میں سے جنہیں خرگوش کا شکار مرغوب تھا وہ جہازی اور تازی رکھا کرتے تھے۔ایک دو شوقین مزاجوں کے پاس السیشن تھے جبکہ گاؤں کے کھوجیوں کے پاس پوائنٹر تھا۔۔۔ تاہم باقی سب گھروں میں وہ عام نسل کے کتے تھے جو اجنبیوں کو دیکھ کر اُچھل اُچھل کر بھونکتے تھے یا پھر بکریوں کو شام پڑنے پر دوڑ دوڑ کر اکٹھا کرتے تھے۔

سورگ والوں نے کتوں کی تعداد بڑھائی ضرور تھی مگر یہ تعداد کبھی کافی نہ ہو پاتی تھی کہ لائن لگانے والا یہ بے شرم جانور بڑھتا بھی بڑی سرعت سے تھا۔ ہر اڑھائی مہینے کے بعد ان کی حرام زادیوں کی بکھّیاں بھر جاتیں اور سال بعد پتہ چلتا کہ پچھلے برس کے مقابلے اس بار تین گنا زائد آئے اور مونگ پھلی کے کھیتوں کو کھود کر پلٹ گئے۔

شروع شروع میں اپنے ایمانوں کو بچانے کے لیے ہم اِس پلید نسل کا نام بھی زبان پر نہ لاتے تھے۔انہیں مارنے کو جی بھی نہ چاہتا کہ انہیں دیکھتے ہی کراہت ہونے لگتی تھی مگر جب یہ بہت زیادہ زیاں کرنے لگے تو ہم نے بندوقیں اُٹھا لیں۔ خوب منصوبہ بندی کر کے ان کا شکار کرتے۔۔۔ اور پھر جب سرکار نے کسی سرکاری مصلحت کے تحت اسلحہ رکھنے پر پابندی لگا دی تو ہمیں شکاری کتوں کی تعداد بڑھا دینا پڑی۔

ہم ان کتوں کو لے کر شکار پر نکلتے تو ہمارے ہاتھوں میں کلہاڑیاں، برچھیاں اور بلم بھی ہوتے۔ کتے انہیں دوڑ دوڑ کر گھیرتے اور ہماری جانب دھکیلتے جاتے۔۔۔ ہم اُن پر حملہ آور ہو جاتے اور اُن کی تکا بوٹی کر دیتے تھے۔ تاہم یہ ایسا موذی تھا کہ ہم میں سے کسی نہ کسی کو ہر بار ضرور زخمی کر دیتا تھا۔

ہم ان کا شکار کھیلتے تھے مگر ان کی تعداد روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ جس تیزی سے وہ بڑھ رہے تھے اس کے مقابلے میں ہمارے ہاتھ لگنے والوں کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر تھا۔لہذا تشویش ہمارے بدنوں کے خُون کا حصہ ہو گئی تھی۔

تھوتھنیوں والوں کی بڑھتی تعداد ہمیں مونگ پھلی کی کاشت سے نہ روک پائی کہ اس فصل کے طفیل بھوک ہماری بکھیوں سے نکل کر اُنہیں فربہ بنا گئی تھی۔ بیوپاری کھڑی فصل کا اتنا عمدہ بھاؤ لگاتے اور نقد رقم سے ہماری جھولیاں بھر دیتے کہ ہمارے دیدے حیرت سے باہر کو اُبلنے لگتے تھے۔ یہ حیرت تب بھی کم ہونے میں نہ آئی جب ہمیں یہ پتہ چلا تھا کہ بیوپاری تو ادھر شہر میں کارخانے والوں سے کہ جو اس کا تیل نکالتے تھے یا اسے مزے مزے کے کھانوں کا حصہ بناتے تھے، ہمیں دیئے جانے والے بھاؤ سے کئی گنا کماتے تھے۔۔۔ کہ۔۔۔ کوئی اور جنس ہمیں اتنا بھاؤ نہ دیتی تھی۔۔۔ شاید اسی بھاؤ کی لشک نے ہمیں بکریوں سے بِدکا دیا تھا۔

دھیرے دھیرے سارے اُتاڑ پر مونگ پھلی ہی کاشت ہونے لگی۔یہ علاقہ اس کی کاشت برداشت کے لیے خوب موزوں نکلا۔ اس فصل کو نسبتاً لمبا اور گرم موسم چاہئے، تو وہ اس علاقے والوں کا ازلی مقّدر تھا۔ کم از کم جتنی بارش اس فصل کی طلب تھی اتنی خشک سالی کے موسم میں بھی ہوہی جایا کرتی تھی۔ زمین بھاری ہو تو بہت سا پھل وہی دبائے رکھتی ہے، سارا اُتاڑ ریتلا میرا تھا، اُدھر پودے پر ہاتھ رکھا جاتا اِدھر ہلکی پھلکی زمین پھلیوں کے گچھے اُگل دیتی۔ ہم سردیوں کے خاتمے سے پہلے پہلے ہل چلا کر مونگ پھلی کی کاشت کے لیے وتر محفوظ کر لیا کر تے تھے۔ انگریزی حساب سے تیسرے مہینے کے آدھے میں اس کی گریاں بوئی جاتیں۔ یہ بوائی کبھی کبھار چوتھے کے آدھے تک چلتی تھی۔ جب پھلیاں بننے پر آتیں تو ہم ان کے بچاؤ کے لیے جنگلی چوہوں کے بِل ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان میں زہر کی گولیاں ڈالا کر تے۔ چوہے اور سہہ پھلیوں کے خاص دشمن تھے مگر ہمیں شہر والے بیوپاریوں نے سائنو گیس، کہ جسے ہم پہلے پہل سینو گیس کہتے تو شہر والے ہنسا کرتے تھے، اور زہر کی گولیاں لا دی تھیں یہ ان کے تدارک کے لیے خوب موثر تھیں اور ہم خُوش تھے کہ ہم نے تقریباً ان پر قابو پا ہی لیا تھا۔۔۔ مگر تھوتھنیوں والوں نے ہمارے سارے حوصلے چھین لیے تھے۔ ایک ایک بکری کو بیماری سے۔۔۔ بگھیاڑوں سے۔۔۔ اور موت کے منھ سے بچانے والے ہم سب بے بس ہو چکے تھے۔ کبھی ہم مستقل دکھوں سے مقابل ہونے میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔۔۔ اور اب بے بسی کی فرصت ساری مصروفیت پر غلبہ پا گئی تھی۔

مونگ پھلی کی کاشت بہ جائے خود زیادہ مصروفیت کا مشغلہ نہ نکلا۔ پہلے برس جب اُتاڑ کو ہموار کرنا پڑا تھا، اپنے اپنے نام کھتوئے گئے خسروں کے حسا ب سے کھیتوں کے گرد حدیں بنائی تھیں۔ کھیتوں کے اندر آ جانے والے کیکروں، بیریوں، جھڑبیریوں اور کنیروں کو کاٹ کاٹ کر بالن بنا نے کے لیے اُن کے ٹوٹے ٹوٹے کئے تھے۔ ہل چلا کر کھبل اور مروا کو جڑوں سے اکھیڑا گیا اور گھاڑا ایک جگہ اکٹھا کیا تھا۔۔۔ بس وہ پہلا برس ہی شدید مصروفیت والا نکلا۔ یہی پہلا برس بکریوں کے پیٹ بھر کر چرنے کا آخر ی سال بن گیا تھا۔ وہ درختوں سے اترنے والے سبز پتوں سے لدی چھانگوں پر منھ مارتے ہوے یا اُکھڑی ہوئی نرم نرم جھاڑیوں کو جبڑوں میں چباتے اور ڈھیروں کی صورت پڑے گھاڑے کو چرتے ہوے ہمیں اس بات کا احساس تک نہ دلا پائی تھیں کہ آنے والے برسوں میں ان کی بکھیاں خالی بھبھان رہیں گی حتیٰ کہ وہ خود بھی نہ رہیں گی۔تاہم ہمارے پیٹ چربیلے ہونے شروع ہو گئے اور عجب طرح کی فرصت نے ہمارے وجودوں میں کاہلی کا بے لذّت پانی بھر دیا تھا۔

مونگ پھلی کی کاشت کے بعد سے لے کر زمین رنگ پھلیاں بننے تک ہم فارغ رہنے لگے۔ پھلیاں بنتیں تو ہم بِلوں کو تلاش کر کے اُن میں زہریلی دوا ڈالتے۔ یہ بھی کوئی ایسی مصروفیت نہ نکلی تھی کہ ہمارے وجودوں میں زندگی کی ہمک بھر دیتی لہذا بہت جلد اُوب جایا کرتے، کھاٹیں لمبی کرتے اور اب تک پکّے ہو چکے گھروں کے دبیز سایوں میں دراز ہو جاتے۔

ہمیں کسالت نے جکڑے رکھا۔۔۔ اور تھوتھنیوں والے اس قدر بڑھ گئے کہ کتوں کی خاطرخواہ تعداد بڑھا دینا پڑی۔

اور اب یہ ہو چکا ہے کہ کتے بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔۔۔ بہت زیادہ اور بہت قوی۔۔۔ اتنے زیادہ کہ ہمارے حصے کا رزق بھی کھا جاتے ہیں۔۔۔ اور اتنے قوی کہ اُن کی زنجیریں ہماری ہتھیلیوں کو چھیل کر ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں۔یہ کتے ہمارے کھیت اجاڑنے والوں کے عادی ہو گئے ہیں۔۔۔ عادی، خوفزدہ یا پھر ان ہی جیسے۔۔۔ ممکن ہے ان پلیدوں کے بار بار بدن تان کر کھڑا ہو جانے کے سبب کوئی سہم ان کے دلوں میں سما گیا ہو۔ معاملہ کچھ بھی ہو، صورت احوال یہ ہے کہ تھو تھنیوں والوں کو غراہٹوں کی ا وٹ میسر آ گئی ہے۔ کتے دور کھڑے فقط غرائے جاتے ہیں۔ ہم سے زخمی ہتھیلیوں میں بلم، برچھیاں اور کلہاڑیاں تھامی ہی نہیں جا رہیں لہذا ہم خوف اور اندیشوں سے کانپے جاتے ہیں۔۔۔ اور کچھ یوں دکھنے لگا ہے کہ جیسے اس بار تھو تھنیوں والے، انہی کتوں کی غراہٹوں کی محافظت میں ہمارے سارے کھیت کھود کر ہی پلٹیں گے۔

 

ٍ

برف کا گھونسلا

 

وہ غُصے میں جلی بھُنی بیٹھی تھی۔

اِدھر اُس نے چٹخنی کھولی، میں نے گھر کے اندر قدم رکھا، اُدھر وہ مجھے پر برس بڑی۔

بچیاں جو مجھے دیکھ کر کھِل اُٹھی تھیں اور میری جانب لپکنا ہی چاہتی تھیں، اِس متوقع حملے میں عدم مداخلت کے خیال سے، جہاں تھیں وہیں ٹھہری رہیں۔

’’اِس سے بہتر تھا ہم اُسی دور افتادہ مَقام پر پڑے رہتے کم از کم آپ شام کو تو وقت پر گھر پلٹ آیا کرتے تھے۔‘‘

بچیاں مسکراتی رہیں۔۔۔ وہ پیچو تاب کھاتی رہی۔۔۔ اور میں اپنے حق میں وہ دلیل جو مسلسل کئی روز سے دہرا رہا تھا، ایک مرتبہ پھر دہرانے سے ہچکچا رہا تھا۔

جس وقت مجھے مری میں تعینات کیا گیا تھا وہ بہت خُوش تھی۔ اسے ہنی مون والے دن یاد آ رہے تھے جن کے سحر سے وہ ابھی تک نہ نکلی تھی۔ وہی گہرے بادلوں کا زمین پر اُترنا، ٹھنڈی ہواؤں کا بدن چوم کر گزرنا، گیلی سڑک پر پھسل کر گرنا، چوٹ لگنا اور چوٹ سہلانے کے لیے ہیئر ڈرائر کا اِستعمال کرنا۔ محض ایک گرم بالٹی پانی کا ملنا اور دونوں کا نہانے کو اکٹھے باتھ روم میں گھس جانا کہ کہیں ایک کو ٹھنڈے پانی سے نہ نہانا پڑے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مال روڈ پر چہل قدمی کرنا۔ پہروں Lintottsمیں یا پھر پوسٹ آفس کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر آتے جاتے لوگوں کا نظارہ بھی وہ نہ بھول پائی تھی۔

مگر اب اکتاہٹ اُس کے بدن کے خلیے خلیے میں اتر رہی تھی۔ میں جانتا تھا، ایسا کیوں تھا۔ مگر میں کیا کرتا؟ سیزن ختم ہونے کو تھا، لیکن لوگ تھے جو پھر بھی جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔ دفتر سرکاری مہمانوں سے بھرا رہتا تو گھر دوستوں اور عزیزو اقارب سے۔۔۔ جو بھی آتا اس خواہش کے ساتھ آتا کہ ایک تو اس کے قیامو طعام کا بندوبست کیا جائے گا اور دوسرا اسے گھمانے پھرانے لے جایا جائے گا۔ اور یوں نہ چاہتے ہوے بھی، میں گھر وقت پر نہ پلٹ سکتا تھا۔ جب کہ وہ بے چاری صبح صبح مہمانوں کے بستر سنبھالتی، صفائیاں کرتی، پانی گرم کر کے باتھ روم میں رکھتی، ناشتہ تیار کرتی، دن بھر کبھی کھانا پکاتی، دستر خوان پر سجاتی، تو کبھی چائے اور سموسوں سے مہمانوں کی تواضع کرتی۔ اُن کے بچوں کے منھ صاف کرتی، اپنی بچیوں کو سمجھاتی بجھاتی، مہمانوں کے جوٹھے برتن دھوتی، پھر جب شام کے دراز سائے چھتنار درختوں سے اُتر کر رات کے روپ میں ڈھلنا شروع ہو جاتے تو وہ بستر بچھا دیتی اور مہمانوں کی واپسی کا بیٹھے بیٹھے انتظار کرتی کہ وہ سیر سے پلٹیں تو اُسے بھی کمر سیدھی کرنے کو موقع ملے۔۔۔ ایسے میں اس کی اکتاہٹ اور چڑچڑا پن بجا تھا۔

اسے ہول آ رہے تھے کہ ہواؤں میں یخ بستگی بڑھ گئی تھی اور یہ سن سن کر، کہ یہاں کی برفانی سردیاں تو ناقابل برداشت حد تک سرد ہوتی ہیں، بہت زیادہ متفکر تھی۔

’’دیکھے ہیں لحاف آپ نے، جگہ جگہ سے روشن دان بن گئے ہیں۔۔۔ اوڑھو نہ اوڑھو ایک برابر۔۔۔ دسمبر ہے کہ بھاگا چلا آ رہا ہے۔۔۔ اِن کا کچھ کرو جی، ان کا۔۔۔‘‘

اُن دنوں مری میں بنے بنائے لحاف نہیں ملتے تھے اور نہ ہی دھنیا یا ایسا فرد ملتا جو ان کو ادھیڑ کر روئی نکالتا، اسے دھنکتا اور پھر لحاف بھر کر سی دیتا۔ پھر ہمارے پاس اتنے لحاف بھی نہ تھے جو اپنے اور مہمانوں کے لیے انہیں اِستعمال کرتے اور یہ میں اس مقصد کے لیے پنڈی دے آتا۔

’’لکڑیوں کا بندوبست کرو جی۔۔۔ خشک لکڑیاں نہ ہوں گی تو ان ننھی جانوں کو سردی سے کیسے بچاؤ گے ؟۔۔۔ دیکھو ساتھ والوں نے لوہے کی انگیٹھی بنوائی ہے، بارہ سو میں۔ اس کے اوپر پائپ لگوا کر روشن دان سے ایک سرا باہر نکال دیا ہے کہ دھواں کمرے میں نہ بھر جائے۔ میرے مانو تو ویسی ہی بنوا لو کہ برفیلی راتوں میں لکڑیاں نہیں جلائیں گے تو کمرا گرم نہیں ہو گا۔۔۔‘‘

وہ ٹھیک کہتی تھی۔۔۔ مگر بارہ سو روپئے !۔۔۔ مہمانوں نے بجٹ اس قدر متاثر کر دیا تھا کہ انگیٹھی بنوانے کی تجویز کو میں نے سنا اَن سنا کر دیا۔ رات ایسی بے شمار تجاویز کے ساتھ شروع ہوتی۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ نہ میں اس کے بدن کے گداز پن کو محسوس کر سکتا، نہ وہ میرے بازو پر سر رکھتی، نہ ہی میرے سینے کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی۔۔۔ وہ بولتے بولتے تھک جاتی اور میں ’ہاں، ہوں‘ کرتا رہتا۔ وہ غصے سے پہلو بدل کر سو جاتی اور میں دیر تک اس کے بدن کی جاگتی مہک سونگھتا سونگھتا بدن توڑ بیٹھتا۔۔۔ پھر نہ جانے کب مجھے نیند آتی تو صبح ہونے تک رات کی ساری تجاویز اور باتیں بھول چکا ہوتا۔

ابھی پو نہ پھٹی ہوتی کہ میری آنکھ چڑیوں کی چہکار سے کھلتی۔ میں نے ایسی چڑیا میدانی علاقے میں نہ دیکھی تھی۔ لمبوترا سا بدن، دل کش رنگت، سر پر سیاہ کلغی، گردن گانی سے مزین، لمبی دُم، مٹکتی آنکھیں۔۔۔ میری آنکھ کھلتی تو وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ میرے بستر پر ہی پھدک رہی ہوتی۔

’’یقیناً انہیں بھوک لگی ہو گی۔۔۔ راتیں بھی تو لمبی ہو رہی ہیں‘‘

میں سوچتا اور اٹھ کر کچن سے ان کے لیے چو گا تیار کر کے کمرے میں ہی ایک طرف رکھ چھوڑتا۔ کچن کا ایک دروازہ صحن میں کھلتا تھا اور دوسرا اسی سونے والے کمرے میں۔۔۔ اور میری بیگم اس پر گھر بنانے والے کو داد دیتی کہ یوں وہ کچن میں رہتے ہوے بھی بچیوں اور گاہے گاہے مجھ پر نظر رکھ سکتی تھی۔ کچن کے دونوں دروازوں والی دیواریں جہاں چھت سے جا ملتیں، بالکل وہیں اس چڑیا نے ایک گھونسلا بنا رکھا تھا۔ ادھر میدانی علاقوں میں، میں نے ایسا گھونسلا بھی نہیں دیکھا۔ گندھی ہوئی مٹی، جو چڑیا اپنی چونچ میں بھر کر لاتی رہی تھی، اس کے چھوٹے چھوٹے دانوں کو ایک ترتیب سے باہم چپکا کر، اس نے ایک مضبوط سا گھر چھت اور دیواروں کے سنگم پر بنا لیا تھا۔

ابھی صبح صادق کا وقت ہوتا اور ثوبیہ دونوں بچیوں کو بازوؤں میں سمیٹے خواب کے مزے لے رہی ہوتی کہ چڑیا اپنے ننھے منے بچوں کے ساتھ چوں چوں کرتے ہوے میرے سرہانے آ بیٹھتی۔ میں مسکرا کر آنکھیں کھول دیتا۔ یوں یہ چڑیا میری محسن بھی تھی کہ جب سے میں اس گھر میں آیا تھا میری فجر کی ایک بھی نماز قضا نہ ہوئی تھی۔ ایک دن بھی میں نے سیر کا ناغہ نہ کیا تھا۔ فجر کی نماز اور صبح کی سیر اور وہ بھی مری جیسے پر فضا مَقام پر، یہ وہ دو عوامل تھے کہ جن کے لیے میں اپنی حیات کے عناصر منتشر ہونے تک مری میں رہ سکتا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ پتوں نے رنگ بدلنے شروع کر دئیے۔ قرمزی، جامنی کلیجی، پیلے، سرخ۔۔۔ غرض عجب عجب رنگ تھے جو ان پر آ رہے تھے۔ جب یہی رنگ شاخوں سے ٹوٹ کر قدموں تلے چر مر کرنے اور یخ بستہ ہواؤں کے سنگ اِدھر اُدھر ڈولنے لگے تو مہمانوں کی آمد میں بھی وقفے پڑنے شرو ع ہو گئے۔

اگرچہ اب وہ میرے ساتھ گھومنے پھرنے کے لیے نکل سکتی تھی، مال پر شاپنگ کر سکتی تھی، میری مصروفیات بھی کم ہو گئی تھیں اور میں اس کے لیے وقت نکال سکتا تھا۔ لہٰذا مزاجوں سے چڑچڑا پن نکل رہا تھا اور زندگی معمول پر آ رہی تھی۔ مگر برا یہ ہوا کہ دونوں بچیاں یکے بعد دیگرے بیمار پڑ گئیں۔۔۔

اور یہ اُس وقت ہوا، جب پہلی برف پڑ چکی تھی۔ برف پڑنے کا عمل بچیوں کے لیے بالکل نیا تھا۔ خود میں بھی مسحور ہو رہا تھا۔ ثوبیہ کی خُوشی تو دیدنی تھی۔ وہ بچیوں کے ساتھ برف پر دوڑتی، ہنستی، ان کے پھسل پھسل کر گرنے پر قہقہے لگاتی ہوئی خود پھسلتی اور چیخیں مارتی۔ وہ اس قدر خُوش تھی کہ خُوشی اس کے سارے بدن سے چھلک رہی تھی۔ ہنستے ہنستے آنکھوں سے آنسو امنڈ آتے، بدن ہلکورے کھانے لگتا اور سرخ ناک رگڑ رگڑ کر مزید سرخ کر لیتی۔ اور مجھے یوں لگ رہا تھا مری کا حسن ثوبیہ کے حسن کی آمیزش سے مکمل ہو گیا تھا۔۔۔ مگر برا ہو، یخ بستہ ہواؤں کا کہ دونوں بچیاں یکے بعد دیگرے بیمار پڑ گئیں۔

اس سے پہلے کہ ثوبیہ پر پھر چڑچڑے پن کا دورہ پڑتا، میں لوہے کی انگیٹھی بنوا لایا۔ لکڑیوں کا بندوبست کیا، لحاف پنڈی سے بھروا لایا۔ مگر کمرا تھا کہ رات کے کسی پہر پھر بھی گرم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ بچیاں شروع ہی سے علیحدہ بستر پر سونے کی عادی تھیں مگر اب وہ بھی ہمارے بستر میں گھس آتی تھیں اور یوں ہم پہلو بہ پہلو ایک دوسرے سے لپٹ کر سو جاتے اور رات بھر پہلو بدلنے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا کہ پہلو بدلنے سے یوں لگتا، جیسے برف کے یخ بستر پر ننگا بدن دھر دیا ہو۔

یہ وہ دن تھے جب کئی کئی فٹ برف پڑ چکی تھی۔ شاخساروں سے پتے ٹوٹ کر کب کے برف تلے دب چکے تھے۔ حد نظر تک دودھ جیسی سفیدی تھی۔ مکانوں کی ڈھلوان چھتوں پر، آنگنوں میں، پتھروں اور گھاس پر، درختوں کی ننگی شاخوں پر۔۔۔ اور سارا منظر یوں لگتا تھا، جیسے مر مر میں تراشا گیا ہو۔۔۔ ایسے میں مجھے اس چڑیا اور اس کے بچوں پر رحم آ رہا تھا جو مجھے اپنے گیتوں سے ہر سحر اسی طرح جگاتی آ رہی تھی۔ حالاں کہ اس ٹھٹھرے ہوے ماحول سے ان کے ساتھ بھرا مار کر اڑنے والے سبھی پرندے ہجرت کر گئے تھے۔

بچیاں سارا سارا دن کمرے کے اندر گھسے رہنے پر مجبور ہو گئیں۔ ثوبیہ انگیٹھی میں لکڑیاں ٹکڑے کر کے گھسیڑتی رہتی، پھکنی سے آگ دہکاتی اور بچیوں کو کھینچ کھینچ کر آگ کے پاس بٹھاتی رہتی۔ اگرچہ دھواں پائپ کے ذریعے باہر پھینکنے کا بندوبست تھا مگر پھر بھی کمرے میں دھواں بھر جاتا اور اسے نکالنے کے لیے وہ دروازے کھول دیتی۔ ادھر کمرے سے دھواں نکلتا، ٹھنڈی مرطوب ہوائیں اندر آ گھستیں۔ پھر انگیٹھی دہکتی اور کمرا گرم کیا جاتا۔

پھر یوں ہوا کہ مصروفیات کے اسی سلسلے میں سے ایک کالی صبح طلوع ہو گئی۔۔۔

وہی کہ جسے میں ابھی تک بھلا نہیں سکا۔

مجھے مری چھوڑ دینا پڑی۔ نہ چھوڑتا تو راتوں کو یوں ہی ہڑبڑا کر اٹھتا رہتا، سانس گھٹتی رہتی۔ وہ خواب مسلسل دیکھتا رہتا کہ مری نے برف کا سفید کفن لپیٹ رکھا ہے اور اس کفن میں ثوبیہ بچیوں کو بازوؤں میں لپیٹے سو رہی ہے۔۔۔ یہ تھا وہ خواب، جو اس کالی صبح کے بعد آنے والی کئی راتوں کو میں نے مسلسل دیکھا تھا، ہڑبڑا کر اٹھا تھا اور سانسیں گھٹتی ہوئی محسوس کی تھیں۔۔۔ اور پھر۔۔۔ اس سے چھٹکارا پانے کے لیے مری چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

اس کالی صبح کو میں حسب معمول بہت پہلے جاگ چکا تھا۔ چڑیا اپنے بچوں کے ساتھ چو گا چگ کر اپنے گھونسلے میں جا چکی تھی اور مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ ثوبیہ کیوں نہیں اٹھ رہی؟ جب بچیاں بھی اٹھ گئیں اور ننھّی مُنّی ناکوں کو رگڑ رگڑ کر انہیں سرخ تر کرنے لگیں تو ثوبیہ نے پہلو بدلا۔ کہنے لگی:

’’میرا بدن ٹوٹ رہا ہے۔۔۔‘‘

میں نے تشویش سے اسے چھوا، جسم بخار میں تپ رہا تھا۔۔۔ کہا:

’’تمہیں تو بخار ہے۔۔۔‘‘

وہ اٹھ کھڑی ہوئی، کپڑے دُرُست کئے، دوپٹے سے ناک کو رگڑتے ہوے شوں شڑاک کی آواز نکالی اور کہنے لگی:

’’بس معمولی سا ہے، اللہ کرے بچیاں ٹھیک ہو جائیں‘‘

جب میں ناشتہ کر چکا اور دفتر جانے کے لیے باہر نکل کھڑا ہوا تو وہ دوڑتے دوڑتے میرے پیچھے آئی، میں رکا، پلٹ کر پوچھا:

’’خیریت تو ہے نا؟‘‘

کہنے لگی:

’’وہ کچن کے صحن والا دروازہ ہے نا، اس کے اوپر والے روشندان کا ایک شیشہ، جب سے ہم آئے ہیں، ٹوٹا ہوا ہے۔ پہلے تو خیریت رہی مگر اب رات بھر ایسی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں کہ کمرا ٹھنڈا ٹھار ہو جاتا ہے۔ آج ہو سکے تو وہاں شیشہ لگوا دیں۔۔۔‘‘

میں نے اس کی جانب دیکھا، بخار سے اس کا چہرہ مرجھا گیا تھا۔

’’کیوں نہیں، کیوں نہیں، شیشہ آج ہی لگ جائے گا۔۔۔‘‘

میں نے اس کے چہرے کو انگلی کی پوروں سے چھوتے ہوے کہا اور آگے بڑھ گیا۔

اگلی صبح مری کی وہ پہلی صبح تھی جب میں فجر کی نماز کے لیے نہ اٹھ سکا تھا۔ پھر جب میں ہڑبڑا کر اٹھا تو صبح کا اجالا کمرے کے اندر کونے کھدروں تک گھس آیا تھا۔ میں جلدی سے بستر سے نیچے اترا۔ ثوبیہ بچیوں کو بازوؤں میں لیے ویسے ہی سوئی ہوئی تھی۔ اِدھر اُدھر دیکھا چڑیا اور اس کے بچے نظر نہ آ رہے تھے۔

’’خدا کرے سب ٹھیک ہو‘‘

میں بڑبڑاتا لپک کر کچن تک گیا۔ گھونسلے سے بھی کوئی آواز نہ آ رہی تھی۔ دفعتاً نگاہ اس روشن دان پر پڑی جس میں کل ہی نیا شیشہ لگوایا گیا تھا۔ اس پر باہر کی جانب برف کے گالے جمے ہوے تھے۔ دل زور زور سے دھڑک اٹھا کچن کا دروازہ کھول کر جَھٹ باہر نکلا۔ مری سفید دوشالہ اوڑھے لیٹی ہوئی تھی۔ نظریں پھسلتے پھسلتے کچن کی دہلیز کے پاس ابھری ہوئی سطح پر ٹھہر گئیں۔ میں وہیں دو زانو بیٹھ گیا اور انگلیوں سے برف کی ڈھیری کھرچنے لگا۔۔۔ اور جب میں برف کھرچ چکا تو مجھے لگا، مری نے دوشالہ نہیں سفید کفن لپیٹ رکھا تھا اسی کفن میں چڑیا کے پر کھلے ہوے تھے اور دو ننھے منے بچے اس کے پروں تلے دبے کب کے اپنی ماں کی طرح زندگی کی سانسیں ہار چکے تھے۔

میرا سر گھومنے لگا۔ وہی انگلی کہ جس سے اگلی صبح میں نے ثوبیہ کے تپتے چہرے کو چھوا تھا اور جس سے ابھی ابھی برف تلے سے تین بے جان لاشوں کو برآمد کیا تھا، میرے چھاتی میں گھسی چلی جاتی تھی۔۔۔ اندر بہت ہی اندر۔۔۔ میں تیزی سی کمرے میں بھاگا۔ ثوبیہ اسی طرح بچیوں کو بازوؤں میں لیے سو رہی تھی۔۔۔ اور۔۔۔ جب میں اسے دیوانہ وار زور زور سے جھنجھوڑ رہا تھا تو میری آنکھیں ابل پڑی تھیں اور حلق ہچکیوں سے بھر گیا تھا۔

ٍ

 

 

بَرشَور

’’اُس نے اپنی بیوی کے نام پر بیٹی کا نام رکھا۔۔۔۔۔

اور بیٹی کے نام پر مسجد بنا ڈالی۔۔۔۔

چھی چھی چھی‘‘

جب عبدالباری کاکڑ کی چھی چھی میرے کانوں میں پڑی، میں فضل مراد رودینی کی طرف متوجہ تھا اور یہ جان ہی نہ پایا، وہ افسوس کر رہا تھا، اس پر نفرین بھیج رہا تھا یا اس کا تمسخر اڑاتی اپنی ہنسی دبا رہا تھا۔

رودینی چال ڈھال اور لہجے کا پکا بلوچ تھا۔ بات کرتے ہوے آدھا جملہ منھ ہی میں گھما کر نگل لیا کرتا یا یوں ہونٹ سکیڑ لیتا کہ اَدھ کہی بات بھی گرفت میں نہ آتی تھی لہذا اس کی بات سمجھنے کے لیے صرف اس کی طرف متوجہ رہنا پڑتا تھا۔

رودینی یہاں بلوچستان سے اس کمیٹی کا ممبر تھا جس نے وفاقی حکومت کی ہدایت پر لگ بھگ سارے صوبے کے قحط کی سی کیفیت سے دوچار علاقوں کا دورہ کر کے متاثرین کی بحالی کے لیے موزوں حکمت عملی تجویز کرنا تھی۔ ہم اسلام آباد سے تین آئے تھے، نور نشان خان ہماری کمیٹی کا کنوینئر تھا۔ وہ تھا توچار سدے کا پٹھان، مگر اسلام آباد میں مستقل قیام اور وفاقی دار الحکومت کے سب سے بڑے کلب کی ممبر شپ نے اسے بڑے رکھ رکھاؤ والا بنا دیا تھا۔ وہ ہر فرد کو پورا پورا پروٹوکول دینے کا قائل تھا اور دیتا بھی تھا۔ اس کا ایسا کرنا شروع شروع میں اچھا لگتا، مگر جب وہ بدلے میں ایسے ہی پروٹوکول کا متمنی نظر آنے لگتا تو بہت کوفت ہوتی۔ عمر اور مرتبے میں وہ ہم سب سے بڑا تھا، لہذا سب اس کی خواہش کا جیسے تیسے احترام کر لیا کرتے، تاہم ہوا یوں کہ جونہی ہماری فلائیٹ کوئٹہ پہنچی اسے ایسا کمال کا پروٹو کول ملا کہ وہ ہمارے بادل ناخواستہ والی عزت افزائی سے بے نیاز ہو گیا۔

اِسلام آباد سے کمیٹی کا تیسرا ممبر عابد وسیم تھا، بلا کا ہنسوڑ۔ وقفے وقفے سے اُسے کوئی نہ کوئی پُر لطف بات یاد آ جایا کرتی تھی، جسے وہ بڑے اِہتمام سے شروع کرتا مگر کنوینئر کے چہرے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہی سب کچھ بھول جایا کرتا تھا۔ کوئٹہ آنے اور کنوینئر کے پروٹو کول سمیٹنے کی مصروفیت نے اُس کی زبان کی گرہ کھول دی تھی، اَب اُسے کوئی شگفتہ بات یاد آتی تو وہ مجھے کہنی مار کر ایک طرف لے جاتا، اپنی کہتا اور اِتنا منھ کھول کر ہنستا کہ اُس کے منھ کے اندر تالو کے عقب میں لٹکتا کتا کھؤں کھؤں پر جھولنے لگتا تھا۔

کنوینئر ضرورت پڑنے پر بلوچستان سے کسی اور آفیسر کو کمیٹی کا غیر مستقل ممبر بنا نے کا اختیار رکھتا تھا۔ کوئٹہ اِئیر پورٹ پر ہمیں ریسیو کرنے والوں میں عبدالباری کاکڑ، صحبت خان پانیزئی اور غوث بخش لشاری بھی موجود تھے، اور تینوں نے ہوٹل پہنچنے سے لے کر اگلی صبح پہلی میٹنگ تک وہ پر لطف پروٹوکول دیا تھا کہ کنوینئر نے پہلی ہی میٹنگ میں انہیں بطور کو آپٹڈ ممبر بٹھا لیا تھا۔

برشور کا لفظ میں نے کاکڑ کی زبان سے سنا تھا۔ اس کی باتوں سے میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ پشین بازار سے آگے اُوپر پہاڑوں کے اندر اس گاؤں کا نام تھا جو خشک سالی سے شدید متاثر ہوا تھا۔ ہمارے پاس جو رپورٹس تھیں ان کے مطابق ڈیرہ مراد جمالی کی تین تحصیلوں، کہ جن کے رقبے نہری تھے، کو چھوڑ کر سارا ہی بلوچستان متاثرہ تھا لہذا کمیٹی کے دیگر ممبران اس کی باتوں پر بہت زیادہ توجہ نہ دے رہے تھے۔۔۔ مگر برشور نام کا صوتی تاثر ایسا تھا کہ میرے اندر کہیں گہرائی تک اتر گیا۔

تاج محمد ترین کے بیوی کے نام پر بیٹی کا نام رکھنے اور بیٹی کے نام سے ایک وسیع اور عالیشان مسجد تعمیر کرنے کی بات اس نے غالباً چوتھے روز تب بتائی تھی جب کمیٹی مختلف علاقوں کے مشاہدے کے لیے نکلنا چاہتی تھی۔ اس نے اصرار کیا تھا کہ پہلے ہمیں برشور چلنا چاہیئے مگر رودینی نے اسے سختی سے ٹوک دیا ;کیوں کہ اس نے سارا شیڈول پہلے سے بنا کر مختلف علاقوں کے مَقامی افسران کو تقسیم کر رکھا تھا۔ ویسے بھی رودینی کمیٹی کا مستقل ممبر تھا، بے شک اب کاکڑ کنوینئر کا چہیتا ہو گیا تھا، مگر دورے کے انتظامی معاملات کے حوالے سے رودینی کا استحقاق ایسا تھا کہ جس کا احترام بہ ہر حال ہمیں کرنا تھا اور کرنا بھی پڑا۔ کاکڑ کے برشور کے لیے اصرار نے رودینی کو کچھ ایسا بدمزہ کیا کہ وہ دورے کے آخر تک کاکڑ اور کنوینئر سے کھچا کھچا رہا تاہم عابد وسیم ایک اور سامع میسر آنے پر خُوش تھا۔

تربت ہم فوکر سے گئے۔ نوشکی اور خاران جیسے علاقوں کا زمینی سفر تھکا دینے والا تھا۔ واپسی پر اس حصے کی اُجڑی ہوئی وسعت ہمارے دلوں میں دُکھ اور بے بسی بن کر گھُس چکی تھی۔ نصیرآباد کے نہری علاقے حوصلہ دیتے رہے جبکہ باقی ضلعوں میں وہی سنسان تباہی سنسنا رہی تھی۔ سب علاقے یوں اُجڑے ہوے تھے جیسے ہر جگہ کوئی بھوت پھر گیا تھا۔ زیارت قدرے سرسبز تھا مگر آسمان کی ناراضی یہاں بھی صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ چمن بس نام کا چمن رہ گیا، اِدھر اُدھر دھول اُڑتی تھی۔ لورا، ٹِٹی کلی، مہول، پونگہ، قلعہ سیف اللہ اور مسلم باغ کی ساری کاریزیں سوکھ چکی تھیں، خضدار، درہ مولا، لندھاوا، کچھی کے میدان، درہ بولان، ڈھاڈرا ور سبی جیسے علاقوں سے ہم لگ بھگ گاڑیاں بھگاتے ہوے گزر گئے مگر اِن کے اُجاڑپن نے پھر بھی ہمیں آ لیا تھا۔ اِس دوران ہم کئی بار کوئٹہ آئے اور سستا کر پھر نکل کھڑے ہوئے۔ ہر بار کا کڑ نے کہا :

’’آپ برشور دیکھ لیتے تو جتنی تباہی آپ دیکھ آئے ہیں، وہ سب کم تر لگتی۔‘‘

جو تباہی ہم دیکھ آئے تھے اس سے زیادہ کا تصور ہمارے لیے ممکن ہی نہ تھا مگر کاکڑ کا کہنا تھا:

’’برشور کی بلندیوں سے دکھ شور مچاتا اترتا ہے اور سیدھا دلوں میں گھس جاتا ہے۔‘‘

جب وہ اِس طرح بات کر رہا ہوتا تورودینی اور لاشاری کے چہروں پر اُکتاہٹ سی آ جاتی۔ یوں جیسے کاکٹر ایسے معاملے کو اُٹھا رہا ہو جو کمیٹی کے ٹی او آر سے باہر کا ہو۔ کاکٹر اور پانیزئی دونوں کوئٹہ میں مقیم تھے اور اُن کی دل چسپی ایسے علاقوں میں زیادہ تھی جہاں سیب، بادام، انار، اخروٹ اور انگور کے باغات بہ کثرت تھے۔ کئی برس کی خشک سالی کے باعث اِن باغات سے بارہ سے بائیس لاکھ سالانہ کمانے والے بھی کنگال ہو کر یوں اجڑے تھے کہ یقین نہ آتا تھا۔ جب ہماری ٹیم پٹھان کوٹ کی کاریز کا خشک ہوتا منبع دیکھ کر نکلی تو ایک سفید پوش یک دم عین سڑک کے بیچ ہمارا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا; یوں کہ ڈرائیور بہ مشکل گاڑی روک پایا تھا۔ مجھے اس کے اس طرح سڑک پر آ جانے پر شدید غصہ آیا اور شاید زبان سے کوئی نازیبا جملہ بھی نکل گیا تھا۔ کاکڑ نے سنا تو بتا یا کہ وہ کلی سگر کا عبداللہ جان تھا، چار ہزار درختوں والے کالا کلو سیبوں کے باغ کا مالک۔ اس کا باغ سات برس پہلے پہلی بار سترہ لاکھ میں بکا تھا۔ جب سے آسمان سے رحمت برسنا بند ہوئی، اس نے باغ بچانے کے لیے ہر سال نیا بور لگایا مگر پانی اتنا نیچے چلا گیا کہ ہر سال آٹھ دس لاکھ اسی پر اُٹھ جاتے۔ پانی ہر بار نکلا ضرور مگر اتنا کہ دو چار مہینے پائپ کا منھ بھرا ہوا ہوتا پھر کم ہوتا چلا جاتا حتی کہ ڈوبتی نبض کی طرح جَھٹکے کھاتے کھاتے ختم ہو جاتا۔ زمین کی گہرائی میں پانی تلاش کرتے کرتے کنگال ہونے والا شخص پشتو میں ہمارے کنوینئر کو کچھ کہہ رہا تھا۔ جب وہ بات کر چکا تو کنوینئر نے جیب سے پرس نکالا، پانچ سو کا نوٹ الگ کیا اور اس کی کھلی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ سیبوں کے باغ کا مالک مٹھی بھینچ کر تیزی سے سڑک سے اترا، اور لورالائی کی سمت بھاگ کھڑا ہوا۔ کاکڑ نے گاڑی میں بیٹھتے ہوے بتایا کہ وہ ہمیں امدادی سامان تقسیم کرنے والی ٹیم سمجھ بیٹھا تھا۔ لورا، قلعہ سیف اللہ اور مسلم باغ میں باغوں کے ایسے ہی مالک آٹے کے لیے امداد مانگتے پائے گئے۔ کا کٹر کا اصرار تھا:

’’ بر شور کے تاج محمد ترین، کہ جس نے بیٹی کے نام سے مسجد بنائی تھی، کا قصہ بھی اتنا ہی تکلیف دہ تھا۔۔۔ اور شاید اس سے بھی زیادہ۔‘‘

جب ہم سفر کر کر کے اُکتا چکے تو رودینی نے بتایا کہ طے شدہ پروگرام کے مطابق ابھی ہمیں سراواں کے پہاڑی اور جھلاواں کے میدانی علاقے دیکھنے تھے۔ اِس پروگرام میں برشور نہ آتا تھا۔ رودینی کوشش کر کے اِس طرف نکلنے کی گنجائش نکال سکتا تھا مگر یوں لگتا تھا جیسے وہی نہ چاہتا تھا۔۔۔ اور اب یہ بات کاکڑ کو مشتعل کیے دیتی تھی; تاہم اس کا بس ہی نہ چل رہا تھا۔

اگلے روز جب ہم نیچائی اور مستونگ سے گزر کر نوشکی کی طرف جا رہے تھے تو وہ ہمیں اس صحرا نما علاقے کی طرف لے گیا جہاں جگہ جگہ جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہوے تھے۔ رودینی نے ایک جگہ گاڑیاں رکوا لیں وہ نیچے اُترا، اُنگلیاں سیدھی کر کے زمین میں دبائیں اور مٹھی میں مٹی بھر کر اپنے قدموں پر گھوما، یوں کہ اُس کی مٹھی کھل کر چاروں طرف مٹی پھینکتی چلی گئی۔ پھر وہ تقریباً چیختے ہوے کہنے لگا:

’’کاکڑ تمہیں ان لوگوں کا دُکھ بڑا نظر آتا ہے جن کے باغ اجڑ گئے، جنہوں نے بہت کچھ دیکھا اور اَب بھوک دیکھ کر بوکھلائے پھرتے ہیں۔ دیکھو، ذرا اِن لوگوں کا دُکھ دیکھو۔ اِنہوں نے بھوک کی گود میں جنم لیا ہے۔۔۔ اِنہوں نے بھوک کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں ہے۔‘‘

وہ بھاگتا ہوا تھوڑا سا دُور گیا، جھکا اور ایک ڈھانچے سے ہڈی کو جَھٹکا دے کر الگ کر کے پلٹا، اُسے کاکڑ کے چہرے کے سامنے لہراتے ہوے کہا :

’’یہ ہڈیاں اِنہی بھیڑ بکریوں کی ہیں جن کے تھنوں سے یہاں والے بھوک دوہتے رہے ہیں، اس خشک سالی کے ہلے میں تمہیں جتنی ہڈیاں زمین کے اوپر نظر آ رہی ہیں نا، اتنی ہی زمین میں دفنا دی گئی ہیں۔ جانتے ہو کس لیے ؟‘‘

اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی نگاہیں کاکڑ کے چہرے سے الگ نہ کی تھیں۔ کا کڑ اس اچانک سوال پر بوکھلا سا گیا تھا۔ اسے کچھ سوجھ نہ رہا تھا۔ رودینی نے اس کے چہرے سے نظریں الگ کیں اور انہیں اپنے قدموں والی زمین پر گاڑ کر کہا:

’’ تم جو باغوں کے اُجڑنے کا قصہ بار بار لے بیٹھتے ہو تم کیا جانو کہ زمین میں دبائی گئی ہڈیاں صرف بھیڑ بکریوں کی نہیں ہیں۔۔۔ تیرے میرے جیسے انسانوں کی بھی ہیں۔۔۔ ان انسانوں کی، جنہوں نے بھوک کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔۔۔ اور۔۔۔ جو بھوک ہی سے مر گئے ہیں۔‘‘

یہ کہتے ہوے وہ زمین پر بیٹھ گیا تھا۔

ہم کوئٹہ سے کراچی کو نکلنے والی سڑک پر سفر کر رہے تھے۔ مستونگ کے بعد قلات آیا قلات سے مسلسل تین گھنٹے سفر کرنے کے بعد خضدار۔ پڑنگ آباد، سوراپ، کھڈکوچہ، باغبانہ، زہری، وڈھ، توتک، مغلئی، ہر کہیں وہی دل جکڑنے والی ویرانی تھی۔ ہمیں آگے جانا تھا مگر آگے جا نہ سکے۔ سب چپ تھے۔ ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوے، مسلسل باہر پھیلی ویرانی کو اپنی آنکھوں میں سمیٹ چکے تھے۔ اِسی دوران نہ جانے کب رودینی نے کہا تھا:

’’ واپس پلٹتے ہیں۔۔۔ آ۔۔۔ آگے بھی یہی کچھ ہے۔‘‘

ایسا کہتے ہوے اس کا گلا رندھا گیا تھا۔ کسی نے کوئی جواب نہ دیا مگر سب نے گویا رودینی کی تجویز مان لی تھی۔

کوئٹہ پہنچنے پر بھی سب چپ رہے۔ ہمارے پاس ایک پورا دن بچ گیا تھا۔ کاکڑ اب برشور کا نام تک نہ لے رہا تھا۔ ہم سب کے بیچ اتنی خاموشی حائل ہو گئی تھی کہ ایک دوسرے سے بات کرنا از حد دشوار ہو رہا تھا اور ہم محسوس کرنے لگے تھے کہ ایک لمحہ مزید اسی جگہ پر یوں گم صم بیٹھے رہنے سے ہمارے سینے پھٹ جائیں گے لہذا کاکڑ اور لاشاری کو اپنے اپنے گھر اور باقیوں کو ہوٹل میں اپنے اپنے کمروں کے لیے اٹھ جانا چاہئے۔

تقریباسب اُ ٹھ چکے تھے، کنوینئر، کاکڑ، لشاری، پانیزئی اور عابد وسیم گھٹنوں پر ہاتھ رکھے کھڑے ہونے کے عمل میں تھے میں پوری طرح کمر سیدھی کر چکا تھا بس ایک رودینی اپنی نشست سے ہلا تک نہیں تھا۔ ہمیں یوں اُٹھتے دیکھا تو کہا:

’’ میری تجویز ہے کہ کل برشور چلتے ہیں۔‘‘

ہم سب نے پہلے رودینی کو اور پھر کاکڑ کو دیکھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ آن کی آن میں سارا سناٹا شور مچاتا ہمارے اندر سے بہتا دور ہوتا چلا گیا۔ ہم دن بھر کے تھکے ہوے تھے اور ہمیں آرام کے لیے جدا ہونا تھا مگر ہم کہیں نہیں جا رہے تھے۔

کاکڑ نے ہمیں بتایا کہ تاج محمد ترین اس کے بچپن کا دوست تھا۔ دونوں کوئٹہ کے پبلک سکول میں اکٹھے پڑھتے رہے تھے اور تب دونوں کی کئی خُوشگوار شامیں ہنہ جھیل پر یوں گزری تھیں کہ اسے ابھی تک یاد آتی تھیں۔

اس نے یہ بھی بتایا کہ کیسے اسے کلی سر خانزئی کے میر ثنا اللہ ترین کی بیٹی اچھی لگی اور کیسے اُس نے ایک شام اس کے گھر کے باہر کلاشنکوف سے مسلسل فائرنگ کر کے اپنی محبت کا اعلان کیا۔ کن مشکلوں سے کلی سر خانزئی والے رشتہ دینے پر آمادہ ہوے۔ کیسے اُس کی بیوی ایک بیٹی جنم دیتے ہوے مر گئی اور کیسے اُس نے عین جنازہ گاہ میں اِعلان کیا کہ اُس نے اپنی بیٹی کا نام اپنی بیوی کے نام پر نور جان رکھ دیا ہے۔

کاکڑ جو بغیر سانس لیے بولے جا رہا تھا یہاں پہنچ کر دم لینے کو رکا تو ہمارا تجسس اِتنا بڑھا کہ ہم اُس کے بولنے کا بے چینی سے اِنتظار کر رہے تھے تاہم حوصلہ مجتمع کرنے کے لیے جتنا وقت اُسے چاہیئے تھا وہ اُس نے لے لیا اور پھر بتا یا :

’’ اسی برس اس کا باغ گیارہ لاکھ میں کراچی کے ایک بیوپاری نے خریدا۔

ایک سال درختوں پر زیادہ پھل لگتے اور اس سے اگلے سال کم۔‘‘

اس نے ہمیں یہ بات ایسے لہجے میں بتائی جیسے ہمیں پہلے سے معلوم ہو پھر اس پر اضافہ کیا :

’’ اس کی قسمت دیکھئے کہ ہر سال اس کا باغ پہلے سے بھی زیادہ قیمت دیتا بس فرق یہ تھا کہ کم پھل والے سال میں باغ پچھلے سال سے ہزاروں میں اوپر جاتا اور بھاری پھل والے سال لاکھوں کا اضافہ دیتا۔ انہی برسوں میں اس نے اپنے لیے اور اپنی بیٹی کے رہنے کے لیے قلعہ بنایا۔ آپ نے دیکھا ہی ہے کہ یہاں ہرتمن کا میر اور صاحب حیثیت فرد قلعہ بنا کر رہتا ہے۔ وہ جدی حیثیت والا تھا، بندوق، تلوار، خنجر کمان، گھوڑا اور قلعہ مُدّتوں اس خاندان کی دل چسپیوں کا سامان رہے تھے۔۔۔ مگر اس نے قلعہ نئے سرے سے بنوایا، گھوڑے کی جگہ پجارو آ گئی۔ میں نے اس کے پاس بڑھیا سے بڑھیا کلاشنکوف دیکھی۔۔۔ وہ بڑا شوقین مزاج ہے اس سلسلے میں۔‘‘

ایک مرتبہ وہ پھر چپ ہو گیا۔ شاید اسے اپنی کہی ہوئی بات کی تصحیح کی ضرورت پڑ گئی تھی، منھ ہی منھ میں بڑبڑایا:

’’ شوقین مزاج ہے کہاں ؟، کبھی تھا۔‘‘

گلا صاف کرنے کو تھوڑا سا کھانسا اور اپنی بات کو آگے بڑھا تے ہوے کہا:

’’ جس سال قلعہ مکمل ہوا اُسی برس اُس نے بیٹی کے نام سے مسجد بنوانی شروع کی۔ ہم نے کبھی نہ سنا تھا کہ کسی نے اپنی ہی بیوی کا نام یوں سر عام لیا ہو۔۔۔ اُس نے قبرستان میں سب کے سامنے لیا تھا۔ اس سارے علاقے میں آج تک گھر کی کسی خاتون کے نام پر کسی نے مسجد کا نام بھی نہیں رکھا تھا۔۔۔ مگر۔۔۔ اس نے رکھا۔۔۔ جب رکھ دیا تو لوگ تعجب کا اظہار کرتے تھے۔۔۔ تاہم جب عالیشان مسجد مکمل ہو گئی تو سب اُس کی بیٹی نور کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔‘‘

کاکڑ نے اِدھر اُدھر خالی نظروں سے دیکھا، لمبی سانس لی تو ’آہ، نکل گئی کہا:

’’ بدقسمت‘‘

اور پھر بولتا چلا گیا:

’’ جس برس مسجد نور مکمل ہوئی تھی نا، اس سے اگلے برس بارش کی ایک بوند نہ پڑی تھی اور اس سے اگلے سات سال بھی خالی چلے گئے۔              پہلے پہل اس کے ہاں پانی کی کمی نہ تھی اس کے باغ کی سیرابی کے لیے آٹھ ٹیوب ویل تھے پانچ نیچے، تین اوپر۔۔۔ مگر جوں جوں زمین کے اندر پانی کی سطح گرتی چلی گئی توں توں وہ بوکھلا کر جو سمجھ آیا، یا جس نے جو صلاح دی کرتا چلا گیا۔ مسلسل خشک سالی نے اس کا سب کچھ نگل لیا۔ ایک ایک کر کے ٹیوب ویل خشک ہوتے رہے۔ وہ سوکھتے باغ کو بچانے کے لیے ہر برس دو تین نئے بور لگواتا رہا مگر زمین کا پیٹ بانجھ عورت کے رحم کی طرح خالی نکلتا۔ اس کے پاس جو جمع جتھا تھا اسی میں اٹھ گیا پھر وہ مقروض ہوتا چلا گیا۔۔۔ مگر وہ باغ نہ بچا پایا۔‘‘

اگلے روز جب ہم خد خانزئی، میاں خانزئی، طور مرغہ، کڑی درگئی اور کِلی سرخانزئی کے علاقوں سے گزرے تو حد نظر تک درختوں کے کٹے تنے نظر آئے، صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہاں کبھی سیبوں کے باغ تھے، گھروں پر پڑے تالے مکینوں کی نقل مکانی کا نوحہ سناتے تھے۔ یوں لگتا تھا ایک عذاب الہی تھا جو پوری بستی کو روند کر نکل گیا تھا۔ بند خُوشدل خان خشک پڑا تھا، پانیزئی نے بتایا کہ ہمارے بزرگوں میں سے بھی کسی نے اس بند کو پہلے خشک ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ گاڑی تِرائی سے اُوپر نکلی تو پانیزئی نے اِطلاع دی :

’’ ہم برشور کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔‘‘

کاکڑ نے خشمناک آنکھوں سے پانیزئی کو دیکھا جیسے اس نے یہ اطلاع قبل از وقت دے دی تھی یا جیسے یہ اطلاع یوں نہیں دی جانی چاہئے تھی۔ تاہم وہ چپ رہا حتی کہ مسجد کے مینار نظر آنے لگے۔ اُس نے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی رک گئی ہم سب اس کے پیچھے پیچھے سڑک پر اُتر آئے۔ اُس نے اوپر پہاڑیوں کی تنی چھاتیوں کی سمت اُنگلی اُٹھائی اور کہا:

’’ آسمان سے ایک بوند بھی ٹپکے۔۔۔ اُن دو چوٹیوں کے بیچ سے پھسلتی نیچے دامن میں آ جاتی ہے۔‘‘

اُس کی انگلی پہاڑی کی ناف تک چلی آئی تھی، وہاں تک، جہاں زمین ہموار کر کے اُوپر تلے کئی تختے بنا دیئے گئے تھے۔ انہی تختوں پر سیدھی قطاروں میں سیاہ لمبوترے نقطے سے نظر آتے تھے جو نیچے دامن تک چلے گئے تھے۔ کاکڑ نے بتایا تھا کہ وہ درختوں کے باقی رہ جانے والے ٹھنٹھ تھے۔ اُس نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب باغ آباد تھا تو پوری وادی میں زمین کے ایک چپے پر بھی نگاہ نہ پڑتی تھی مگر ہم نے جدھر دیکھا اُدھر جہنم کے شعلوں جیسی مٹی ہی نظر آتی تھی۔

اسی جہنم کے بغلی حصے میں گاؤں کی آبادی تھی۔ گھروں کا سلسلہ جہاں ختم ہوتا تھا وہیں وہ مسجد تھی جس کا ہم مسلسل ذکر سنتے آئے تھے۔ مسجد واقعی عالیشان تھی۔ میں نے اندازہ لگایا اس آبادی کے گھروں میں بسنے والے سارے مرد، عورتیں اور بچے بھی اس کے صحن میں جمع ہو جاتے تب بھی اس کا تین چوتھائی حصہ دوسری بستیوں سے آنے والے نمازیوں کے لیے بچ رہتا اور دوسری آبادیوں والے آ جاتے تو بھی شاید سارا صحن نہ بھر پاتا۔

’’وہ نور مسجد ہے نا۔‘‘

مجھے پوچھنے کی ضرورت نہ تھی مگر میں نے پوچھ لیا۔ اس بار پانیزئی بولا:

’’ یقیناً‘‘۔۔۔

’’اتنی بڑی‘‘

میرا اگلا سوال تھا۔

کاکڑ بولا :

’’ تب وہ کہتا تھا، مجھے جنت میں اتنا ہی بڑا گھر چاہیئے۔‘‘

ہم چلتے چلتے نیچے تک آ گئے تھے، اتنے میں ڈرائیور اوپر سے گاڑی گھما کر لے آیا۔ اب ہم اُس راستے پر تھے جو باغ کی چاردیواری کے ساتھ ساتھ آبادی تک چلتا تھا۔ کاکڑ نے بتایا :

’’اب یہ باغ ترین کا نہیں ہے۔‘‘۔۔۔

’’ کیا مطلب‘‘

کنوینئر نے پوچھا:

’’ ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ یہ باغ تاج محمد ترین کا ہے ؟۔‘‘

’’ یہ باغ ترین ہی کا تھا مگر اِسے تباہی سے بچانے کے لیے اس نے زر گل سے جو قرض اٹھایا تھا اس میں یہ باغ، وہ قلعہ اور اس کا سارا اسباب بک چکا ہے۔۔۔ اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ابھی اسے آدھے سے زیادہ قرض دینا ہے۔‘‘

زرگل کے بارے میں ہمیں پہلے ہی بتایا جا چکا تھا کہ وہ سرحد کے اِدھر اُدھر آتا جاتا رہتا اور خوب کماتا تھا۔ سارے علاقے میں پے منٹ کے نام کے حیلے سے سود پر قرض دیتا تھا۔

زر گل کا نام آیا تو کاکڑ نے بتایاکہ کل جب وہ ہوٹل سے اپنے گھر گیا تھا تو ترین وہاں اس کا پہلے سے منتظر تھا اور اس نے بتایا تھا کہ قرض کی واپسی کے لیے زرگل بہت دباؤ ڈال رہا تھا۔ زرگل کے لمبے ہاتھ تھے۔ اخروٹ آباد کے چند تلنگے ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے۔ اس کا دباؤ کوئی بھی برداشت نہ کر پاتا تھا لہذا ترین کا یوں پریشان ہونا بجا تھا۔ کاکڑ نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوے اضافہ کیا تھا:

’’ میں اس کی کتنی مدد کر سکتا تھا۔۔۔ چالیس پچاس ہزار حد سے حد ایک لاکھ۔۔۔ جتنا اس نے اٹھایا تھا، اسے ہم جیسے سفید پوشوں کی مدد سے نہیں اتارا جا سکتا تھا۔‘‘

گاڑی عین مسجد کے سامنے رک گئی تھی کہ پچیس تیس آدمی مسجد سے نکل رہے تھے۔ کاکڑ یک دم گاڑی سے اترا، لمبے لمبے قدم اٹھاتا لوگوں کے وسط میں سر نیوڑھائے کھڑے اس شخص کے پاس پہنچا، جس کے بارے میں پانیزئی نے بتا یا کہ وہ ترین تھا۔

ابھی ہم گاڑیوں سے اتر ہی رہے تھے کہ ہمیں دھاڑیں مار مار کر رونے کی آواز سنائی دی۔ دیکھا تو ترین کا کڑکی چھاتی سے لگا ’’ہائے نور، ہائے نور‘‘ کہتا پچھاڑیں کھا رہا تھا۔ اس سے دگنی عمر والے تسبیح اُٹھائے دودھ جیسی سفید ریش والے معزز نظر آنے والے شخص نے اس کے کندھے پر اپنی تسبیح والا ہاتھ رکھا اور کہا:

’’ترین کیوں تماشا بناتے ہو تم نے پچھلے سات سالوں میں جتنی پے منٹ مانگی میں نے دی۔۔۔ میں نے دی نا؟۔۔۔ دیکھو میں نے تمہاری بیٹی سے اتنے شریف لوگوں کے سامنے نکاح کیا ہے۔۔۔ اب باقی قرض میں خدا رسولؐ کے نام پر تمہیں معاف کرتا ہوں۔‘‘

ترین چپ ہونے کے بہ جائے اور شدت سے چیخا:

’’خدا رسولؐ کے نام پر۔۔۔ ؟‘‘

پھر وہ ’’ ہائے نور‘‘ کہتا مسجد کی سمت بڑھا اور ایک ستون کو دونوں ہاتھوں میں جکڑ کر یوں جھنجھوڑنے لگا جیسے پوری مسجد کو کھسکا کر کہیں لے جانا چاہتا ہو، حتی کہ وہ نڈھال ہو گیا۔ بے بسی سے سر ستون کے ساتھ ٹکرایا اور کہا:

’’ کاش میں تمہیں بیچ کر نور، اپنی نور کو بکنے سے بچا لیتا۔‘‘

’’کیا کفر بکتے ہو‘‘

زرگل چیخا۔ اس کا ہاتھ فضا میں یوں ناچا کہ موٹے دانوں والی لمبی تسبیح دائرہ بناتی دائیں بائیں جھولنے لگی۔ اس کے ساتھ کھڑے ہٹے کٹے دو آدمیوں نے اشارہ پا کر اسے مسجد کے ستون سے زبردستی الگ کیا اور کھینچتے ہوے قلعے میں لے چلے ;مگر وہ مسلسل کہہ رہا تھا :

’’کاش میں تمہیں بیچ سکتا نور‘‘۔۔۔

آواز دور ہوتی جا رہی تھی، ہم گاڑی میں بیٹھے تو ایک دفعہ پھر ایک دوسرے سے آنکھیں چرا رہے تھے۔ ہم جلد ہی برشور کی حدود سے نکل آئے مگر برشور ہمارا پیچھا کرتا رہا۔

 

 

ٍ

کیس ہسٹری سے باہر قتل

 

سب ڈاکٹر ایک دوسرے سے کسی نہ کسی بحث میں جتے ہوے تھے سوائے ڈاکٹر نوشین کے، جس کے پورے بدن میں دوڑنے والی بے کلی اتنی شدت سے گونج رہی تھی کہ وہ بلانے والوں کو’ ہیلو ہائے، سے آگے کچھ نہ کہہ پاتی تھی۔ اس نے قصداً اپنی اس کیفیت پر قابو پایا اور ایک نظر بیضوی میز کو گھیرے اپنے کولیگز پر ڈالی جو سرکتی، پھسلتی سامنے کینوس کی دیوار پر پہنچی اور وہیں ٹھہر گئی۔ اسے یوں لگا جیسے وہاں اس کے اپنی کیس ہسٹری کی سلائیڈز چل رہی تھیں۔

وہ مصروف عورت تھی، صبح پنڈی والی شاخ میں اور شام یہاں۔ اس کا شوہر بھی مصروف آدمی تھا جس نے اپنے ہنر اور فرض کو کمال نفاست اور عجب ہوشیاری سے سرمایہ کاری بنا ڈالا تھا۔ شروع شروع میں دونوں کی یہ بے پناہ مصروفیت کام کی لگن کی وجہ سے تھی پھر اس میں بہت سارے خواب شامل ہو گئے۔ دونوں ان خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے میں یوں الجھے کہ ایک دوسرے کے لیے جینے کا تصور ان کے ہاں سے معدوم ہوتا چلا گیا۔ حتی کہ انہیں بھول ہی گیا کہ ایک دوسرے کے لیے پریشان کیسے ہوا جاتا ہے، بے نتیجہ باتوں سے لطف کیسے کشید کیا جاتا ہے اور بلا سبب کیسے ہنسا جاتا ہے۔

ان کا ایک ہی بیٹا تھا نبیل۔ اس کی ایجوکیشن کا مرحلہ آیا تو اس وقت تک کوالٹی ایجوکیشن کی ڈھنڈیا پڑ چکی تھی۔ اس نئی وبا کی اپنی ضروریات اور تقاضے تھے، جو دونوں کو پورے کرنا تھے اور جس نے انہیں اس قدر الجھایا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بے فکری سے بات کرنے کو بھی ترس گئے، حتی کہ یہ مصروفیت ان کے وجود میں اتر گئی۔ گھر بن گیا، خوب صورت اور بڑا، ویسا ہی جیسا وہ چاہتے تھے۔ کلینک بنا جو بعد ازاں کئی بستروں کے ہسپتال میں کنورٹ ہو گیا، اس کی ایک شاخ پنڈی میں بھی کھل گئی اور بیٹا پڑھنے کے لیے ملک سے باہر چلا گیا۔

شروع شروع میں نبیل سے فون پر بات ہو جاتی تھی، بعد میں وقفے پڑنے لگے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ رابطہ معطل ہو کر رہ گیا۔ جب اسے وہیں اپنی مرضی کی جاب اور لڑکی دونوں مل گئیں تو یہ سلسلہ بہت جلد موقوف ہو گیا۔ اِدھر سے فون چلا جاتا تو کرنے کو کوئی بات ہی نہ ہوتی۔ اگر اِدھر سے کوئی کرید کی جاتی، یا اس کی آواز سننے کو یوں ہی بات بڑھائی جاتی تو نبیل یہ کہہ کر بات ختم کر دیتا تھا کہ اس بارے میں وہ اِی میل کر دے گا۔

اس کا میل باکس ہر روز رنگ رنگ کی میلز سے بھر جاتا تھا جن میں چند ہی اس کے اپنے پروفیشن سے متعلق ہوتیں۔ بیشتر کو اَن وانٹڈ (unwanted) کے زمرہ میں ڈالا جا سکتا تھا۔ اس نے شروع میں اپنے بیٹے کی اِی میلز لینے کے لیے ہاٹ میل پر جا کر یہ اکاؤنٹ بنایا تھا، اور روز ہی اسے کھول کر دیکھتی تھی۔ اس پر اس نے بیٹے کی کچھ اِی میلز وصول بھی کیں مگر جب یہ باکس زیادہ تر خالی کنستر کی طرح بجنے لگا تو اس نے اس پر اپنے شعبے سے متعلق الیکٹرانک جریدے منگوانے شروع کر دیئے۔ اس کے ساتھ ہی بہت سی آلائشیں بھی آنے لگیں جنہیں وہ پہلے تجسس سے دیکھا کرتی مگر بعد میں دیکھے بغیر ہی ڈیلیٹ کر دیتی کہ اِن میں دکھایا جانے والا ہر جسم اسے اپنے شوہر کے جسم کی طرح بے ہودہ اور پھسپھسا لگتا، جب کہ ہر عورت کا وجود بالآخر اس کے اپنے وجود کی طرح باسی ہو جاتا تھا۔

’’جی ڈاکٹر نوشین‘‘

ایک آواز نے براہ راست اسے مخاطب کر کے چونکا دیا تھا۔

یہ ڈاکٹر نعمان تھا، جس کے آتے ہی سب اپنی باتوں سے نکل آئے تھے اور اب تعظیم کے لیے اٹھنا چاہتے تھے، مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا تو رکوع ہی سے لوٹ گئے تھے۔

ڈاکٹر نوشین کو اپنے دھیان سے نکلنے اور سنبھلنے میں کچھ وقت لگا تاہم اس اثنا میں وہ اپنی سیٹ سے کھڑی ہو چکی تھی اور اندازہ لگا چکی تھی کہ اسے کیس کی پریزنٹیشن کا کاشن دیا جا چکا تھا۔

یہ کیس ڈاکٹر نوشین نے بورڈ کو ریفر کیا تھا لہذا اس کا نام لے کر ڈاکٹر نعمان کا ’’جی‘‘ کہنا اس کے لیے اِتنا غیر متوقع نہ ہونا چاہیے تھا۔ شاید ڈاکٹر نعمان پوری طرح بیٹھ چکنے کے بعد، حسب عادت مسکرا کر اور سب کی طرف دیکھنے کے بعد ایسا کہتا تو تب تک وہ سنبھل چکی ہوتی اور یوں نہ بوکھلاتی۔اس نے بہت جلد بھانپ لیا کہ اس کا ’’جی‘‘ کہہ کر فوراً ہی میٹنگ شروع کر دینے کا مطلب یہ تھا کہ وہ بہت جلدی میں تھا۔

یہ جلدی دونوں کے وجود میں اتری ہوئی تھی مگر اِس کیس کے بارے میں ڈاکٹر نوشین کا خیال تھا کہ یہ جلدی کا نہ تھا، پوری توجہ چاہتا تھا۔

اِس امید پر کہ شاید آنے والے لمحات میں ڈاکٹر نعمان، طبیعت سے چھلک پڑنے والی عجلت کو جَھٹک کر اِس کیس کو انہماک دینے کے قابل ہو جائے، اپنی الجھن کو جَھٹک دیا۔ سب جانتے تھے کہ معمولی اور غیر معمولی باتوں کی تفصیلات، جو مریض یا پھر کنسلٹ کرنے والا کوئی ڈاکٹر کسی کیس کے بارے میں دینا چاہتا تھا، ڈاکٹر نعمان اسے سننے کو پوری توجہ سے تیار ملا کرتا تھا کہ بقول اس کے اِسی میں بہت سی پیچیدگیوں کی کنجی ہوتی تھی۔ وہ اپنے جونیئرز کو بھی کیس ہسٹری توجہ سے لینے اور اس پر بھر پور توجہ دینے کی تلقین کیا کرتا تھا جن میں سے اکثر عام سی، بے رس یا پھر غیر متعلق باتوں سے جلد ہی اُوب جایا کرتے تھے۔

’’ عین آغاز میں صرف سننا ہی ایک مفید کیس ہسٹری کی بنیاد بن سکتا ہے‘‘

یہ ڈاکٹر نعمان کا نقطہ نظر تھا۔ سوالات کی اہمیت سے اسے انکار نہیں تھا مگر اس کا خیال تھا کہ عموماً عصبی مریض اپنی خالص ذہنی پراگندگی کو تشخیص سے پہلے ہی اِنہی سوالات کے نتیجے میں کوئی اور جہت دے کر الجھا سکتے تھے۔ اس کا اپنا تجزیہ تھا کہ سائیکو انیل سز(Psychoanalysis) کے دورانئے میں بہت سے پے شنٹ اپنے معالج کے بے جا سوالات سے کانشی ایس ہو کر نفسی لذتیت میں پناہ گزیں ہو جاتے تھے یا پھر نفسیاتی اِیذا پرستی کو وتیرہ کر کے سائیکو ڈرامے پر اتر آتے تھے۔

ڈاکٹر نعمان نے اس کیس کی ساری ہسٹری پڑھ ڈالی تھی اور اسے بورڈ کے سامنے رکھنے سے ہچکچا رہا تھا کہ اس کیس میں کوئی کمپلی کیشن تھی نہ سوئیرٹی۔ مریض کو صرف پراپر کونسلنگ اور میڈیسن تھراپی چاہیے تھی۔ اس نے ڈاکٹر نوشین کو بلا کر اس حوالے سے کچھ مشورے بھی دینا چاہے مگر وہ اس روز لگ بھگ اتنی ہی اکتائی ہوئی تھی جتنا کہ ڈاکٹر نعمان میٹنگ والے روز نظر آ رہا تھا۔ وہ ٹیم ورک کا حامی تھا، لہذا اس کی ساری ٹیم اسے باس کی بہ جائے ایک محترم دوست کی طرح سمجھتی تھی اور یہ طرز عمل اس ہسپتال کے حق میں خوب جا رہا تھا۔ ڈاکٹر نوشین کا اکھڑا ہوا مزاج دیکھ کر اس کی تجویز کو تب تو مان لیا گیا مگر وہ اندر سے اچٹا ہوا تھا اور اِس کا سبب یہ تھا کہ یہ مریض اِتنی توجہ اور ڈاکٹرز کے قیمتی ٹائم کو افورڈ اسی صورت میں کر سکتی تھی کہ اسے ڈاکٹر نوشین کے علاوہ کوئی اور فالو کرتا۔ ڈاکٹر نوشین اِس کیس میں اموشنلی انوالو ہو گئی تھی۔ اس نے ڈاکٹر نعمان کو بتایا تھا کہ یہ یونیورسٹی کے زمانے میں اس کی کلاس فیلو رہی تھی۔

سامنے والی اس نشست تک جاتے جاتے کہ جہاں سے اسے پریزنٹشن دینا تھی، وہ بے طرح چمٹ جانے والی اس بے اطمینانی کو دل سے کھرچنے کے جتن کرتی رہی جو ڈاکٹر نعمان کے اکتائے ہوے چہرے کو دیکھتے ہی اس کے اندر اتر گئی تھی۔ اِس کے لیے اس نے یہ حیلہ کیا کہ اس نے ڈاکٹر نعمان کے چہرے کی طرف دیکھنا ہی موقوف کر دیا۔ اس کے سامنے ٹیبل پر وہ لیپ ٹاپ پڑا تھا جس کے سی پی یو سے ملٹی میڈیا کوکنکٹنگ لیڈ کے ذریعے جوڑ دیا گیا تھا۔ اس نے گھوم کر دیوار سے لگے اپنے اسسٹنٹ کو دیکھا توا س نے ہال کی باقی روشنیاں مدھم کر دیں۔ اب ڈاکٹر نوشین میں حوصلے اور خود اعتمادی کا تحرک پیدا ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر نعمان کے چہرے سے جو عجلت اس نے بہتی دیکھی تھی اب وہ کہیں نہیں تھی۔ ہال کی مدھم روشنی نے، ملٹی میڈیا سے نکل کر کینوس کی دیوار پر پڑتی دودھیا تصویر نے، یا پھر اس کے اپنے تصور نے جو اب پوری طرح مربوط ہو گیا تھا سب کے چہروں پر دھندلاہٹ مل دی تھی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ ایک ایسی لمبی تصویر دیکھ رہی تھی جس میں ابھرے ہوے سارے نقوش اس نے میلی روشنی کے ریزر سے رگڑ رگڑ کر خود ہی مٹا ڈالے تھے۔

سامنے کینوس پر پڑنے والی روشنی کے اندر سے انگریزی کے حروف زوم اِن ہوے۔ پاور پوائنٹ میں بنی ہوئی پریزنٹیشن کی پہلی سلائیڈ کے متحرک الفاظ جونہی پوری طرح ساکت ہوے ڈاکٹر نوشین نے ذرا سا کھانس کر سب کی توجہ چاہی اور امید ظاہر کی کہ ان کی دل چسپی اور توجہ سے وہ اِس کیس کو پوری طرح اِیکس پلین کر پائے گی۔

سب کی نظریں اب سامنے اجلے کینوس کی دیوار پر جمی ہوئی تھیں۔ پہلی سلائیڈ صرف اس عنوان کی تھی :

’’معالجین کے بورڈ کے لیے کیس ہسٹری کی تلخیص‘‘

دوسری سلائیڈ میں ابتدائی نوعیت کی معلومات کے با وصف، خلاف معمول قدرے کم طاقت کے ڈجیٹل کیمرے سے کھینچی گئی ایک عورت کی رنگین تصویر بھی تھی۔ معصوم سا چہرہ، نیچے دی گئی عبارت کی طرف متوجہ ہونے سے روک رہا تھا۔

ڈاکٹر نوشین کی آواز سارے میں ایک لذت بھری سسکاری کی طرح گونج رہی تھی :

’’یہ ہے وہ عورت جس کی کیس ہسٹری آج ہماری پریزنٹیشن کا موضوع ہے۔‘‘

اس نے اضافہ کیا :

’’یہ تصویر میں نے اپنے سیل کیمرے سے لی ہے‘‘

ایسا کہتے ہوے اس کی آواز میں ایک عجب طرح کی اپنائیت بھر گئی تھی۔ تصویر کے نیچے کی معلومات کو ڈاکٹر نوشین نے ویسے ہی پڑھ دیا جیسے کہ وہ سلائیڈ پر دی گئی تھیں :

نام :                 نفیسہ بیگم

عمر:                   سینتالیس سال

جسمانی ساخت:    قد پانچ فٹ پانچ انچ، وزن ایک سو سینتالیس پونڈ،

رنگ سنہری مائل گورا، جلد صاف اور چمکدار

جسمانی صحت:      بہ ظاہر کسی بیماری کے آثار نہیں، بل کہ قابل رشک حد تک صحت مند

بدن

ازدواجی حیثیت:   بیوہ

کیس کی نوعیت:   دل کے دورے سے مر جانے والے اپنے شوہر کے بارے میں

مریضہ کو یقین کی حد تک وہم ہو گیا ہے کہ اسے اس نے قتل

کیا ہے۔

عین آخری سطر کو پڑھتے ہوے اس نے ایک سرگوشی سنی:

’’مورونزم (moronism) کا کیس لگتا ہے‘‘

اسے جان لینے میں قطعاً دیر نہ لگی تھی کہ یہ آواز ڈاکٹر انیس کی تھی۔

ڈاکٹر انیس کے مزاج میں پارہ بھرا ہوا تھا۔ فیصلہ دینے اور اندازے قائم کرنے میں ہمیشہ پھرتی دکھاتا اور اپنا فیصلہ بدلنے میں بھی اسے کوئی تردُّد نہ ہوتا تھا۔ ڈاکٹر نوشین بالعموم اُس کی اِس طرح کی باتوں کو اِگنور کر دیا کرتی تھی مگر اُس روز اسے نظر انداز نہ کر سکی اور لفظ چبا چبا کر کہا:

’’نو، ڈاکٹر انیس، ناٹ ایٹ آل یہ کیس طفل دماغی کا نہیں ہے۔ اور خدارا را بچوں کی سی جلد بازی سے گریز کیجئے۔‘‘

ڈاکٹر انیس نے اسے خود پر براہ راست حملہ جانا تاہم وہ اِس حملے سے پوری طرح سنبھل نہ پایا تھا۔ اِدھر اُدھر دیکھا اُسے لگا جیسے سب اُس کی طرف دیکھ رہے تھے کھسیانا ہو کر فوری طور پر اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہی۔

’’ڈاکٹر نوشین، میں فزیانومی ( physiognomy) کو بھی قابل اِعتماد علم مانتا ہوں اور آپ کی کھینچی ہوئی تصویر میں اِس عورت کا چہرہ بچے کی طرح معصوم لگتا ہے ’ ایسے بچے کی طرح جس نے بلوغت نہ دیکھی ہو۔ یہ تصویر اِس عورت کی ذہنی کیفیت بھی واضح۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘

’’ نو کمنٹس ڈاکٹر انیس‘‘

ڈاکٹر نعمان نے اُسے بات پوری نہ کرنے دی اور کیس کو مکمل طور پر سن لینے کی تلقین کی۔ ڈاکٹر نوشین نے سر جَھٹکا اور اگلی سلائیڈ پر آ گئی۔ بعد میں آنے والی ہر سلائیڈ پر بلٹ فارم میں اِنفرادی جملوں کی صورت اَہم اشارے دے دیئے گئے تھے تاہم اِن نامکمل جملوں سے ڈاکٹر نوشین نے ایک کہانی مکمل کر دی۔

ڈاکٹر نعمان کے لیے یہ کہانی وہ کیس ہسٹری نہیں تھی جو ڈاکٹر نوشین کی آواز سنا رہی تھی۔ وہ تو اس آواز میں اُترا ہوا تھا جو ایک اور عورت کے وجود میں پوری طرح اُتری ہوئی تھی۔ اور جب ڈاکٹر نوشین نے عین آغاز میں یہ کہا تھا کہ یہ آج کے عہد کی ایک متروک مگر ناگزیر عورت کا کیس ہے تو وہ بہت دیر تک اِن جملوں کو معنی دینے میں الجھا رہا۔

گھر کی جھاڑ پونچھ سے جونہی وہ فارغ ہوتی اُسے ہانڈی روٹی کا اِہتمام کرنا ہوتا تھا کہ اُس کا شوہر انور عین دو بجے گھر کھانے پر پہنچ جایا کرتا تھا۔

یہ شروع ہی سے اُس کا معمول تھا اور اِس معمول کے ساتھ اُس نے خود کو یوں ڈھال لیا تھا جیسے گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کرتی ہر بار ایک خاص وقت پر اپنے لیے مخصوص مَقام پر پہنچتی تھی۔

دو بجے کھانا، پانچ بجے چائے اور ٹھیک آٹھ بجے پھر کھانا اور کھانے کے بعد باہر سڑک پر کچھ دور تک چلنا، جی بھر کر باتیں کرنا، کسی بھی موضوع پر یا پھر بے سبب ہنسنا اور قہقہے لگانا، واپسی پر انور کے پہلو میں ڈھے جانا حتّی کہ وہ اسے یوں ہی لیٹے رہنے پر مجبور کر دے یا پھر خود ہی آنکھیں بند کر کے حلقوم سے خرخراہٹیں اگلنے لگے۔ دوسری صورت میں وہ بغیر آہٹ کیے پھر کچن میں گھس جاتی گندے برتن صاف کر کے سلیقے سے رکھتی اور اس کے ساتھ نیند میں اُس کی شریک ہو جاتی۔ جب کہ پہلی صورت میں اگلی صبح اُسے اس کے جاگنے سے بہت پہلے اٹھنا پڑتا تھا۔ غسل، نماز اور اس کے بعد انور کے لیے لمبی دعائیں۔۔۔ پھر وہی کچن۔۔۔ حتی کہ رات اِدھر اُدھر ہو جانے والی ساری ترتیب صحیح صحیح اپنے مَقام پر بیٹھ جاتی تھی۔

یہ سب اس کے لیے عبادت کا سا ہو گیا تھا تب ہی تو اس گھر کی ایک ایک چیز سے انور کو اس کی محبت خُوشبو اور نور کی طرح پھوٹتی محسوس ہوتی تھی۔ اس کے سارے معمولات اس کے اندر سیکنڈ ظاہر کرنے والے نشانات کی طرح سما گئے تھے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے ایک ہی محور پر گھومتی رات دن کی مسافت کو تین پہروں میں بانٹ رکھا تھا جو ایک خاص رفتار اور ڈھنگ سے گزرتے۔ اِن پہروں کے دورانئے میں یکسوئی سے اپنے معمولات کا حصہ ہو جاتی اور سانس لینا بھی بھول جاتی تھی۔ تاہم ایک پہر کٹتا اور پلٹ کر دیکھتی تو سرشاری کی مہک اس کے بدن کو اجال دیتی تھی۔ ہر پہر کے آخر میں انور کو ایک ٹک بے ریا محبت سے دیکھتے رہنا، سانسوں کو پوری طرح سینے میں ہموار کر لینے کے لیے کافی تھا۔ اس طرح وہ ایک اور نئے پہر کو اپنے کامل اِنہماک سے کاٹ ڈالنے کے لیے تیار ہو جاتی تھی۔

وہ انور کے بارے یقین کی جس دولت سے مالا مال تھی اسی یقین کو ایمان بنائے رکھنا چاہتی تھی۔

جب اس کے آنے کا وقت ہو جاتا تھا تو وہ اپنے اِس ایمان کو تازہ رکھنے یا پھر اپنے خوابیدہ ماحول کو اِستقبال کے لیے کچوکے لگا کر تیار کرنے کو دھیرے سے کہہ دیا کرتی تھی۔

’’دھوپ، بارش، آندھی، طوفان ناس مارے کس میں ہمت ہے کہ انہیں روک لے‘‘

مگر اس روز جب وہ اپنے آپ یہ بڑبڑائی تھی اس کی آواز میں ایک نامانوس سی تلخی بھی شامل ہو گئی تھی جس نے اُس کی آواز کو قدرے بلند کر دیا تھا۔ اپنی ہی اَجنبی سی آواز اُس کے کانوں میں پڑی تو وہ چونک کر کھسیانی ہو ئی۔ اُس نے بے اختیار باہر کی سمت نگاہ کی۔ ابھی انور نہیں آیا تھا۔اس نے اپنے آپ کو کوسا اور اپنے کام میں پہلے کی طرح مگن ہو گئی۔

اُسے اب کچھ زیادہ وقت نہیں چاہیے تھا۔

جب سے وہ اِس گھر میں آئے تھے، وہ اِسے سیدھا کرنے میں جتی ہوئی تھی۔ چیزیں یہاں وہاں ڈھنگ سے رکھتے رکھتے وہ بے سُدھ سی ہو جاتی تھی تاہم ہمت کر کے اُسے اُٹھ کھڑا ہونا پڑتا کہ اپنے مزاج کے مطابق اَشیاء کو نہ دیکھ کر وہ چین سے لیٹ بھی تو نہ سکتی تھی۔ وہ چیزیں گھسیٹ گھسیٹ کر اُن کی ترتیب بدلتی رہی، حتی کہ اس کی اپنی کمر دُہری ہونے لگی۔ اور وہ نہ چاہتے ہوے بھی بستر پر گر گئی۔ اگرچہ اُسے اُونگھ آ گئی تھی مگر خواب میں بھی وہ ایک ہی اِیڑھی پر گھومتی رہی اور اُسے اندازہ ہی نہ ہو پایا کہ کتنا وقت گزر چکا تھا۔

باہر  کسی کی گاڑی نے ہارن دیا تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھی، چونک کر گھڑی کو دیکھا، اُس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اُس کے شوہر کے آنے میں محض بیس منٹ رہ گئے تھے۔

وہ خوفزدہ نہیں تھی یہ تو سِدھائی ہوئی محبت کا شاخسانہ تھا کہ معمول کے ٹھیک نہ بیٹھنے سے اُس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔

ایک چولہے پر کُکر دھرا تھا۔ دوسرے کا برنر ٹھیک طرح سے کام نہ کرتا تھا۔ ذرا سی گیس کم کھولو تو شعلہ بھبھک مارکر بجھ جاتا۔ شعلہ بڑھائے رکھو تو توے کا وسطی حصہ، جو کثرت اِستعمال سے پتلا ہو گیا، بہت تپ جاتا تھا، اِتنا کہ، اِدھر چپاتی ڈالو اُدھر رنگ سنہرا ہوا اور چپاتی درمیانی حصے سے پھولنا شروع ہو جاتی۔ کنارے اِتنا جلدی پکتے نہ تھے لہذا اُسے ایک ہاتھ بار بار توے کے تپتے ہوے کڑے پر رکھنے کے لیے ٹاکی اُٹھانا پڑتی، جو ہر بار چولہے کے نیچے کھسک جاتی۔ اُسے اِس کا اندازہ ہو جاتا تھا لہذا وہ اُنگلیاں لڑھکا کر اُسے تلاش کر لیا کرتی تھی۔ کڑے سے توا کھینچ کر روٹی کے کچّے رہ جانے والے حصوں کو سینکتے ہوے اُسے اپنے دونوں ہاتھوں کے یوں مصروف رہنے اور ٹاکی کے بار بار اِدھر اُدھر ہو جانے پر طیش آ رہا تھا۔ اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اَب کُکر کے سیفٹی والوو کو اوپر کھول کر گھومتے ہوے ویٹ کو ہٹا دینا ہے، کہ اُسے بوٹیاں کھڑی کھڑی رکھنا ہی اچھا لگتا تھا۔ اُس نے اپنے تجربے سے اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر یہ کچھ اور وقت گلتی رہیں تو آخر میں خود ہی ہڈی چھوڑ کر مزا کِرکِرا کر دیں گی۔

ایسے ہی ایک لمحے میں اُس کی نظر اپنے ہاتھوں پر پڑی تھی اور اُسے لگا تھا جیسے اُس کی ہڈیوں نے گوشت چھوڑ دیا تھا۔

کھانا پکاتے پکاتے یوں اپنے وجود کے بارے میں سوچنا، اُسے دھیان ٹوٹنے جیسا لگا تھا ایسی مکروہ حرکت، جس سے اُس کی ریاضت میں رخنے پڑ گئے تھے۔ اُس نے پھر سے دھیان جوڑنا چاہا۔ اُس کی نظر بار بار کُکر کے جھوم جھوم کر گھومتے اور چھوں چھاں کر کے بھاپ چھوڑتے ویٹ پر پڑتی تھی مگر جب وہ ٹاکی کی تلاش میں اُنگلیاں چولہے کے نیچے گھسیڑ رہی تھی تو یہ فیصلہ ہی نہ کر پاتی تھی کہ پہلے وہ کُکر کے سیفٹی والوو کو کھولے گی، اس کا اپنے ہی محور پر گھومتا اور جھومتا ویٹ اُتارے گی یا توے کے کڑے کو پکڑ کر اُسے ایک جانب کرتے ہوے چپاتی کے کچے کنارے سینکے گی کہ اُس کی نظروں کو ہاتھ کی ہڈیوں سے اُچھلتے ہوے گوشت نے جکڑ لیا تھا۔

وہ شروع سے ایسی نہ تھی۔ اسے کوئی فیصلہ کرنا ہوتا تو اپنا دھیان باندھ لیتی تھی۔ یوں سب مخمصے دھواں ہو جاتے تھے۔ چوں کہ وہ اَندر سے اَڑیل اور خود سر نہ تھی لہذا بہت جلد اُسے، سب ہو چکے فیصلے اپنے کیے ہوئے لگنے لگتے۔ اِس روّیے نے اُسے اِس قدر سہل اور اِتنا میٹھا بنا دیا تھا کہ اُس کا شوہر انور اس کے وجود سے بندھ سا گیا تھا، اُس پالتو جانور کی طرح جو ایک کھو نٹے پر باندھ باندھ کر اِس قدر سدھا لیا جاتا ہے کہ بعد ازاں گردن میں پڑی ہوئی رسی کھلی بھی رہے تو وہ خود کو اِسی سے بندھا ہوا جان کر ہمیشہ وہیں آ کر کھڑا ہو جایا کرتا ہے۔

جب انور نے کار عین گیٹ کے سامنے روکی ہو گی تو معمول کے مطابق اُسے نیوٹرل کرنے، اور ہینڈ بریک کھینچنے کے بعد ایکسی لیٹر پر دباؤ بڑھایا ہو گا کہ اُس روز بھی یہ آواز ہر روز کی طرح اُس تک پہنچ گئی تھی۔ یہ آواز اِدھر اُدھر خطا ہو گئی کہ اُس کی نظر کو ہڈیاں چھوڑنے والے گوشت نے جکڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ نہیں جانتی تھی کہ انور نے کتنی بار ایکسی لیٹر پر پاؤں کا بوجھ بڑھایا تھا، تاہم وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ انور نے ہارن نہ دیا ہو گا۔ عین گیٹ پر کار کھڑی کر کے ہارن دینا اُسے بہت معیوب لگتا تھا اور ویسے بھی اُس نے اسے کبھی اِتنا اِنتظار کرنے ہی نہ دیا تھا کہ وہ اُکتا کر ہارن بجانے لگے۔ انور نے ہارن نہیں بجایا ہو گا مگر اس کا دل وَسوسوں سے بھر کر زور زور سے ضرور بجنے لگا ہو گا۔

اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ وہ کار کے اِنجن کی آواز پر نہیں چونکی تھی بل کہ ڈھلکے ہوے گوشت نے خود ہی اُس کی نظروں کو چھوڑ دیا تھا۔ اُس نے جلدی سے اَدھ پکّی روٹی کو گھسیٹ کر توے سے ہٹا لیا اور مُڑتے مُڑتے کُکر کے ویٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ پہلے تو اُس کے اردگرد سے نکلتی بھاپ نے اُس کا ہاتھ جلایا اور پھر ویٹ کے لمس نے۔ اُس نے ارادہ بدل دیا اور چولہے کا شعلہ مدھم کرنے کو ناب گھما کر باہر نکل گئی۔

باہر اُس کا شوہر اپنی کار میں یوں مَرا پڑا تھا کہ اُس کی طرف والا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا، ایک پاؤں نیچے جھول رہا تھا اور دوسرا ابھی تک ایکسی لیٹر پر جما تھا۔

ڈاکٹر اِتنی محویت سے ایک ایک تفصیل بتا رہی تھی کہ اُس کا سارا وجود ہال کی یخ بستگی کے با وصف پسینے میں بھیگ گیا تھا۔ محبت اور موت کے اِس تذکرے نے ماحول کے پیالے میں ایک نامانوس سا لطف اور عجب سی بے کلی اُنڈیل دی تھی۔ سب اپنی اپنی نشستوں پر ساکت ہو گئے تھے سوائے ڈاکٹر نعمان کے جو مسلسل پہلو بدل رہا تھا۔

مدھم روشنیاں جیسے خود ہی معمول پر آ گئی تھیں۔

’’بورڈ کے معزز ممبران‘‘

ڈاکٹر نوشین نے اپنی منّی سی ناک کے نیچے جمع ہو جانے، اور شفاف پیشانی سے پھسل پھسل کر آنے والے پسینے کو ٹشو میں جذب کرتے ہوے کہا:

’’ایک عورت اپنے وجود میں ہی زندہ رہتی ہے۔ اس کاکام کرنا بھی دراصل اس کے اسی وجود کی ایکسٹنشن ہوتا ہے اور ایک مرد۔۔۔‘‘

اُس نے جان بوجھ کر لمبا سانس لیا تھا، کسی بوجھ کو دل سے اُتارنے کے لیے۔

’’ جی مرد تو اپنے اِختیار اور اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی دنیا سے نکلتا ہی نہیں ہے۔ عورت کا وجود بھی اس کے اختیار کی دنیا کا علاقہ ہے۔

مگر نفیسہ اور اس کا شوہر انور ان معمولی مردوں اور اُتھلی عورتوں میں سے نہیں تھے۔ یہی سبب ہے کہ مرد اپنی عورت کی محبت میں مر گیا۔۔۔

اور عورت اسے ایسا قتل گردان رہی ہے جو اس نے اپنے ہاتھوں سے کیا تھا۔۔۔

اپنے آپ کو اَذِیّت دینے کے لیے وہ بار بار اپنے ہاتھوں کا گوشت دانتوں سے کاٹ کاٹ کر زخمی کر ڈالتی ہے‘‘

ڈاکٹر نوشین کی سانسوں کی بے ترتیبی اُسے مزید کچھ کہنے سے روک رہی تھی۔

’’ فوری شاک کے بعد کا منٹل ڈس آرڈر، ڈپریشن یا پھر زیادہ سے زیادہ بیک ہسٹری کی بنیاد پر(Schezo)شیزو کیس بنتا ہے‘‘

ڈاکٹر انیس نے ایک بار پھر عجلت میں تخمینے لگائے۔ ڈاکٹر نوشین نے اپنی سانسوں کی پروا نہ کی اوراس بار بھی برسنے میں ایک لمحے کا توقف نہیں کیا:

’’نہیں ڈاکٹر انیس یہ ڈپریشن، منٹل ڈس آرڈر یا Schizophrenia کا معمولی کیس ہے نہ idiocy کا، بل کہ یہ تو۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’ایک منٹ ڈاکٹر نوشین پلیز، ابھی آپ کو اپنی رائے نہیں دینا چاہیے۔‘‘

ڈاکٹر نعمان نے نوشین کو مزید کچھ کہنے سے روک دیا اور خیال ظاہر کیا:

’’ اَبھی اِس کیس ہسٹری میں کچھ خلا باقی ہیں۔‘‘

ڈاکٹر نوشین نے ایک بھر پور نظر ڈاکٹر نعمان پر ڈالی جو ریوالونگ چئیر میں دھنس کر کچھ اور چھوٹا ہو گیا تھا۔ڈاکٹر نعمان نے نوشین کی نظروں کو پرے دھکیلتے ہوے کہا:

’’ پہلے سوالات کا سیشن ہو جانا چاہیے‘‘

’’ جی ضرور، موسٹ ویل کم‘‘

وہ بول پڑی، جیسے پہلے ہی سے اس کے لیے تیار ہو۔ ممبران کے چہرے چغلی کھا رہے تھے کہ وہ اسے غیر معمولی کیس ماننے کو تیار نہ تھے۔ اُن کے سوالات سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ ایک عمومی کیس پر اپنے وقت کے ضیاع پر بھی نا خُوش تھے تاہم اُنہوں نے اَب تک کی گئی کونسلنگ اور میڈیسن تھراپی کے حوالے سے کئی سوالات کئے۔ ڈاکٹر نوشین نے سب سوالوں کے جوابات نہایت تحمل سے دیے۔ تاہم پریذنٹیشن کے خاتمے تک اُس کا وجود ٹوٹنے لگا اور اُسے اَندازہ ہو گیا کہ بہت جلد بخار اُسے آ لینے والا تھا۔ اُس نے ڈاکٹر نعمان کے آفس چل کر کافی پینے کی دعوت کو نظر انداز کیا، گاڑی نکالی اور سیدھا گھر چلی آئی۔

اَگلے ایک گھنٹے تک اُس کا بدن بخار میں پھنکتا رہا۔ اُسے سینے کے اَندر اُوپر کی طرف ایک چبھن سی محسوس ہوئی جو بہت گہرائی میں اُتر تی تو تھی پوری طرح معدوم نہ ہوتی تھی۔ بخار اور بھی تیز ہوا تو وہ اپنے بدن کی تپش اور سینے کی دُکھن سے بے نیاز ہو گئی۔ اِسی کیفیت کے کسی لمحے میں وہ اُٹھی، چاروں طرف دیکھا تھا، سارے کمرے میں ایک خلا سا گونج رہا تھا۔ اس نے بغیر کسی پیش بندی کے اپنے آپ کو اِس خلا میں جھونک دیا۔ حتّی کہ باہر اُسے کسی کار کے رُکنے کا اِحساس ہوا۔ آنے والے نے کار کا اِنجن بند کیا، نہ ہارن بجایا تھا۔ اُسے اِشتیاق ہوا تاہم اُس نے حیرت سے اس تصویر کو دیکھا جس میں وہ اپنے بیٹے اور شوہر کے ساتھ مل کر اتنی بے ریا ہنسی ہنس رہی تھی کہ پوری تصویر روشن ہو گئی تھی۔ تصویر میں بیٹے کے چہرے کا رُخ ماں کی طرف تھا اور وہ خود اپنے شوہر کو گوشہ چشم سے دیکھتے ہوے پورا منھ کھول کر ہنس رہی تھی۔ اُس کے شوہر کے بھیگے ہوے ہونٹوں میں سے دب دب کر مسکراہٹ یوں نکل رہی تھی جیسے گیلے ہاتھوں سے تڑپتی ہوئی مچھلی پھسلتی ہے، زور لگا کر اور اپنے وجود کی چمک اُچھال کر۔ عین اُس لمحے اسے کا فی پیئے بغیر گھر چلے آنا ایک فاش چُوک لگا تھا۔

جب آنے والے نے ایکسی لیٹر پر پاؤں رکھ کر اِنجن کی آواز پیدا کی تو اُس کا ہاتھ تصویر کو تھام چکا تھا۔ اَب تو وہ باقاعدہ خود کو کوس رہی تھی کہ اِتنی عجلت میں کیوں نکل آئی تھی۔ دوسری بار کارکے اِنجن کی آواز نے اُسے اِس قدر حیرت اور بوکھلاہٹ سے دوچار کیا کہ اُسے خود کو کوسنا موقوف کرنا پڑا مگر اِس اَثنا میں تصویر پھسل کر نیچے گر گئی تھی۔ وہ تصویر اُٹھانے کو جھکی اور اُسے تھاما ہی تھا کہ ایک بار پھر ویسی ہی آواز آئی۔ اِس بار اُس کا دل اُس کے حلقوم تک یوں اُچھلا کہ واپس اپنے ٹھکانے پر بیٹھ نہ سکا۔ وہ باہر کی سمت لپکی مگر وسطی میز سے اُلجھ کر وہیں ڈھیر ہو گئی۔ پہلے تصویر کے فریم پر جمی اُنگلیاں ڈِھیلی پڑیں اور جب فریم دبیز قالین پر بغیر آواز پیدا کئے گر گیا تو اس کا ہاتھ میز سے ڈھلک کر عین تصویر کے اوپر یوں جا پڑا، کہ اس کے نیچے ڈاکٹر نعمان کی دبی دبی ہنسی پوری طرح دفن ہو گئی تھی۔

ٍ

 

 

نئی الیکٹرا

 

وہ کہتی ہے، وہ یوری پیڈیرز کی الیکڑا جیسی ہے۔

فر ق ہے تو اِتنا سا کہ پرانے والی الیکٹرا کو اُس کی بے وفا ماں اور اُس کے بد طینت عاشق کی وجہ سے سب کچھ چھوڑنا پڑا، جب کہ اُسے یعنی نئی الیکٹرا کو، جن لوگوں کی وجہ سے گھر بدری پر مجبور ہونا پڑا اُن میں ایسے لوگوں کے نام آتے ہیں جن کا وہ بتانا نہیں چاہتی۔

لوگ کہتے ہیں۔

وہ الیکٹرا نہیں خود کلائٹمنسٹرا ہے۔

شاطرہ، بے وفا، بدکردار۔۔۔

گھر بدری محض ایک ڈرامہ تھا۔۔۔ اور جب وہ یہ کہتی ہے کہ وہ لوگوں کے نام بتانا نہیں چاہتی تو دراصل اُس کے ذِہن میں ایک نام بھی نہیں ہوتا۔۔۔ وہ تو محض ڈرامے کا جملہ بولتی ہے۔

لوگ یہ بھی کہتے ہیں۔

پرانے والی کائٹمنسٹرا نے اپنے شوہر ایگمنان کو اپنے عاشق سے مل کر قتل کرایا تھا جب کہ اِس شاطرہ نے اپنے بد طینت شوہر سے مل کر اُن سب کو تلوار کی دھار پر رکھا ہوا ہے جو اُس کی طرف نظر اُٹھانے کا جرم کرتے ہیں۔

وہ بتاتی ہے۔

جب نئے والے ایگمنان کو قتل ہوے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا تو اُس نے چال چلی تھی ویسی ہی چال جیسی پرانی والی الیکٹرا نے چلی تھی۔

بس فرق اِتنا تھا۔۔۔

پرانی والی الیکٹرا نے یہ پیغام بھیجا تھا کہ اُس کے ہاں بچہ ہو چکا ہے جب کہ اُس نے، یعنی نئی الیکٹرا نے، ڈھونگ رچایا تھا کہ اُس کے پیٹ میں بچہ ہے اور بچہ اس قدر نیچے کھسک آیا ہے کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہے۔

لوگ کہتے ہیں :

وہ الیکٹرا نہیں، کلائٹمنسٹرا ہے۔

دغا باز، فریبی، مکار۔۔۔

یوں بھی حمل کسی قسم کا ڈھونگ رچانے سے بھلا کب باز رکھ سکتا ہے۔ عمر ریوابیلا کے ناول ’’ری کوئیم فار اے وومین، زسول‘‘ میں ریاستی جبر کا شکار ہونے والی سوزانا کی بے ربط یادداشتوں میں جس اَیلیشیا کا ذکر ملتا ہے وہ بھی حاملہ تھی۔

وہ پاگل نہیں تھی، مگر خود کو پاگل ظاہر کرتی تھی۔ اِس لیے کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہو چکا تھا اس کے نتیجے میں اُسے پاگل ہو جانا چاہیے تھا۔

جب وہ عجیب و غریب حرکتیں کرتی تھی تو اُس پر تشدد کرنے والے یقین کر لیتے تھے کہ وہ دیوانگی میں ایسا کر رہی ہے۔ جب کہ سوزانا اپنی بے ربط یادداشتوں میں لکھتی ہے کہ وہ اِس طرح کوئی اَہم پیغام اُن تک منتقل کیا کرتی تھی۔

اُس نے بچے کا ڈھونگ نہیں رچایا تھا بچہ اس کے پیٹ میں تھا۔

پھر یوں ہوا، کہ وہ آ گئی۔

جب وہ آئی تو اس کے ہونٹوں پر گئے دنوں کے عذاب لمحوں کے تذکرے تھے۔

وہ کہتی۔۔۔

اُس نے ایک ایک لمحہ رو رو کر گزارا ہے کیوں کہ اُسے اپنے باپ یعنی نئے والے ایگمنان کے قتل کا دُکھ سہنا پڑا تھا اور اُسے ساری آسائشیں چھوڑنا پڑی تھیں جو اُس کے بدن میں حرارت، جلد میں چمک اور گالوں پر سرخی لا سکتی تھیں۔

جب وہ یہ کہتی تو لوگ اُس کے حُسن کی تعریف کرتے اور کہتے۔۔۔ نام نہاد سختیوں نے تو اُس کے بدن کو گداز، ہونٹوں اور گالوں کو سُرخ جب کہ جلد کو مزید شفاف بنا دیا ہے۔

وہ کہتی۔۔۔

جہاں وہ گھر بدری کے دن کاٹتی رہی تھی وہاں کے لوگ بہت اچھے تھے۔

پرانے والی الیکٹرا کا قصہ بھی ملتا جلتا ہے۔

جس کے ساتھ اُس کی شادی ہوئی تھی اُس نے اُسے چھوا تک نہ تھا۔

اور جس نے نہیں چھوا تھا، وہ چاہتا تھا الیکٹرا آرام سے رہے مگر وہ پرانی آسائشوں کو نہ بھول پائی تھی۔۔۔ وہ روتی رہتی تھی۔

وہ جو خود کو نئی الیکٹرا کہتی ہے وہ گھر بدری کے دنوں کو یاد کر کے دُکھی ہو جاتی ہے۔۔۔ اور کہتی ہے کہ۔۔۔

وہ بہت اَچھے لوگ تھے۔۔۔ مگر پھر بھی وہ روتی رہتی تھی۔

لوگ کہتے ہیں۔

وہ الیکٹرا نہیں، کلائٹمنسٹرا ہے۔۔۔

دغا باز، فریبی، عیار، مکار۔۔۔

کچھ اور لوگ بھی ہیں، جو ذرا پرے کھڑے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔

یہ اِدھر ہیں نہ اُدھر۔

اِن میں سے ایک کہتا ہے۔

وہ کالی داس کی شکنتلا ہے۔

ایسی شکنتلا کہ جسے کوئی راجہ دُشینت نہیں ملا۔

وہ، جو خود کو راجہ دُشینت سمجھتا ہے، اُس کے ہاتھ میں کوئی انگوٹھی نہیں ہے۔

خود کو راجہ دُشینت کہنے والا دعویٰ کرتا ہے۔

اُس کی انگوٹھی مچھلی کے پیٹ میں ہے۔

وہ لوگ جو نہ اِدھر ہیں نہ اُدھر۔۔۔ اُن میں سے ایک اور کہتا ہے۔۔۔

یہی دعویٰ اس کے راجہ دُشینت نہ ہونے کا ثبوت ہے۔

وہ مزید کہتا ہے۔

نہ تو مدعی دُشینت ہے نہ اُس کے بازوؤں میں بازو ڈالنے والی شکنتلا۔۔۔ وہ تو بس راسین کی فَیدرا جیسی ہے۔

جوانی، حسن اور جذبات سے بھری ہوئی۔

جو جذبات سے آگ بھڑکاتی ہے اور سب کو راکھ بنا ڈالتی ہے۔

وہ لوگ جو اُدھر ہیں، نہ اِدھر، اُن میں سے تیسرا کہتا ہے۔

وہ سارے لوگ جو اِدھر بھی ہیں اور اُدھر بھی بالزاک کے اُس بوڑھے گوریو جیسے ہیں، جو کامیڈی ہیوسن میں اپنی بیٹیوں کے لیے سب کچھ قربان کر سکتا ہے۔

وہ کہتی ہے۔

وہ تو سب کی بیٹی ہے۔

لوگ کہتے ہیں۔

وہ چھنال ہے۔

وہ ہنستی ہے اور تکرار کرتی ہے کہ

وہ تو سب کی بیٹی ہے۔

تیسرا آدمی اپنی بات آگے بڑھاتا ہے۔

لوگ بوڑھے گوریو کی طرح ہیں اُسے اپنی بیٹی نہ سمجھتے ہوے بھی اُس پر سب کچھ قربان کرتے چلے جا رہے ہیں۔

وہ اُسے جھوٹا کہتے ہوے بھی اُس سے محبت کرتے ہیں کیوں کہ وہ کہتی ہے کہ وہ ان کی بیٹی ہے۔

لوگ چوں کہ بوڑھے گوریو جیسے ہیں لہٰذا چھنال کے عاشقوں کو بھی دعا دے رہے ہیں۔ وہ دعا کے لیے اٹھے ان ہاتھوں سے لمبی مہلت کے دانے اٹھا کر نفاست سے بٹے ہوے دھاگے میں ڈال لیتی ہے۔

یہ دانے اس کی انگلیوں سے پھسلتے ہیں اور ہونٹوں پر عجب سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔

لوگ اُس وقت سے دعا کرنے کے عادی ہو گئے ہیں جب سے اس نے مظلومیت کا سوانگ بھرا ہوا تھا۔

لوگ کہتے ہیں۔

اس کی گھر بدری محض ڈھونگ تھا، آنکھوں میں دھول تھی، ایک فریب تھا، ڈرامہ تھا وہ چاہتی تو واپس آ سکتی تھی۔

لیکن لوگ پھر بھی دُعا کرتے آتے رہے، اس لیے کہ لوگ بوڑھے گوریو جیسے ہیں۔

وہ جو نہ اِدھر ہیں نہ اُدھر، وہ کہتے ہیں۔

لوگوں کی یہی سادگی کبھی کبھی بے وقوفی کی حدوں کو بھی چھونے لگتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں۔

اُس نے الہ دین کا جادوئی چراغ رگڑا تھا اور اپنی ساری آسائشیں وہاں منتقل کر دی تھیں جہاں وہ گھر بدری کے دن گزر رہی تھی۔ وہیں وہ خُون اور پیپ کے پیالے لنڈھاتی تھی، یہ پیالے اُسے اُس کے چاہنے والے فراہم کرتے تھے۔

الہ دن کا چراغ الیکٹرا والے اصل قصے میں نہیں ہے۔۔۔ مگر حیرت ہے کہ وہ خود سارے قصوں میں ہے اور سارے ہی قصے اُس کے آگے بے بس ہیں کہ اس کے تذکرے کے بغیر نامکمل رہ جاتے ہیں۔

پھر یوں ہوا کہ ایگمنان قتل ہو گیا۔

وہ کہتی ہے۔

اَب قتل ہونے والا ایگمنان نہیں بل کہ ایجس تھیس تھا۔

غاصب، ظالم اور اصل ایگمنان کا قاتل۔

اصل ایگمنان سے اُس کی مراد یوری پیڈیز والا نہیں بل کہ اُس کا اپنا باپ ہے۔

مگر کچھ لوگوں کا اصرار ہے۔

اِس بار قتل ہونے والا ایگمنان ہی تھا۔

وہ کہتی ہے۔

جو قتل ہوا ہے اُسے قتل ہو جانا چاہئے تھا، ا گرچہ اِس قتل میں اُس کے بھائی یعنی نئے والے لیسٹس کا کوئی ہاتھ نہیں، مگر جو ہوا اچھا ہوا اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔

لوگ کہتے ہیں۔

بہت ظلم ہوا اور اِس ظلم کے پیچھے اُس شاطرہ، اُس کے بھائی اور اُن چالیس چوروں کا بھی ہاتھ ہے جو مرجینا والے نئے قصے میں اپنے دروازے مرجینا کے لیے کھلے چھوڑ دیتے ہیں۔

الیکٹرا اور کلائٹمنسٹرا کے قصے میں چور نہیں ہیں۔

مگر اِس قصے میں چوروں کا تذکرہ تواتر سے آتا ہے۔

وہ کہتی ہے۔

اگر اُسے چوروں والے قصے کی مرجینا سمجھ لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔

وہی مرجینا جو بے حد حسین تھی اور عقل مند بھی۔

لوگ کہتے ہیں۔

وہ چوروں والے نئے قصے کی دغا باز اور فریبی مرجینا ہے، ایسی مکار ار حرافہ کہ اپنے ہی مالک کی آنکھوں میں دھُول جھونکتی ہے۔

جب ہنہناتے گھوڑے بندھ چکتے ہیں اور اُس کا مالک اِعتماد کے نشے میں لڑھک چکتا ہے تو چپکے سے اٹھتی ہے۔

اور باری باری اُن چوروں کے بستروں میں جا گھستی ہے جو اُس کے مالک کے جاگتے ہوے اُسے دیکھنے کا حوصلہ بھی نہ کر پاتے تھے۔

مگر جوں ہی اُس کا مالک جاگتا ہے۔

وہ پاک دامن اور عفیفہ بن جاتی ہے۔

اُس کے ہاتھوں میں مضبوط بٹے ہوے دھاگے میں پروئے ہوے دانے ہوتے ہیں۔

یہ دانے اس نے دعا کے لیے اُٹھے ہاتھوں سے اُچکے تھے۔

دُعا کے لیے اٹھے ہاتھ اُن لوگوں کے تھے جو اپنی نہیں بل کہ بوڑھے گوریو کی جون میں تھے۔

لوگ کہتے ہیں، وہ جھوٹی ہے۔

مگر وہ دانے گن گن کر اسم اعظم کا ورد کرتی ہے۔

اور جب وہ ورد کرتی ہے تو چالیس کے چالیس چور اس کے لیے کھل جا سم سم کہتے ہیں۔

وہ لوگوں کی طرف مسکرا کر دیکھتی ہے اور کہتی ہے۔

وہ الیکٹرا ہے۔

نظروں کے سامنے جتنی بھی تصویریں متحرک ہیں سب ایک ہی جاپ جپ رہی ہیں۔

وہ الیکٹرا ہے۔

گلیوں کا خُون پکارتا ہے۔

وہ کلائٹمنسٹرا ہے۔

دغا باز، فریبی، مکار۔۔۔

مگر لوگ اسے دیکھنے اور سننے پر مجبور ہیں۔

اِس لیے کہ اس کے پاس مرجینا والی چمکتی جلد، فیدرا جیسے بھڑکتے جذبات، الیکٹرا جیسی بلند ہمتی کلائٹمنسٹرا جیسی عیاری، ایلیشیا جیسا ڈھونگ، شکنتلا جیسا حسن اور چالیس چوروں کی طاقت ہے۔

 

 

ٍ

رُکی ہوئی زندگی

 

وہ کھانے پر ٹوٹ پڑا ندیدہ ہو کر۔

عاطف اُسے دیکھ رہا تھا ہک دک۔ کراہت کا گولا پیٹ کے وسط سے اُچھل اُچھل کر اُس کے حلقوم میں گھونسے مار رہا تھا یوں کہ اُسے ہر نئے وار سے خود کو بچانے کے لیے دھیان اِدھر اُدھر بہکانا اور بہلانا پڑتا۔

وہ بھوکا تھا۔

شاید بہت ہی بھوکا، کہ سالن کی رکابی اور روٹیوں کی چنگیر پر پوری طرح اوندھا ہو گیا تھا۔

جتنی دیر وہ چپڑ چیک چپڑ چپاک کر کے کھاتا رہا عاطف اُس کے پراگندہ بالوں کے نیچے اور پیچھے چھپ جانے والے چہرے کو ڈھنگ سے دیکھنے کے جتن کرتا رہا اور اُن معصوم لکیروں کو تلاش کرتا رہا جو کبھی تھیں  اَب کہیں نہیں تھیں۔ وقت کی سفاکی نے سب کچھ مِٹا کر ایک نئی تحریر لکھ دی تھی۔

ایسی تحریر جو پورے بدن میں اِضمحلال بھر رہی تھی۔

وہ پوری طرح جھکا ہوا تھا۔

اور اُس کے جبڑوں اور ہونٹوں کے باہم ٹکرانے کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں۔

وہ بہاول پور سے عاطف کے ہاں پہنچا تھا۔ کیوں ؟ یہ اُس نے نہیں بتایا تھا۔

شاید اس کا ابھی موقع بھی نہیں آیا تھا کہ وہ تو دفتر سے گھر واپسی پر اُسے گیٹ پر ہی مل گیا تھا۔

عاطف جس دفتر میں کام کرتا تھا وہاں کوئی اور اصول ضابطہ ہو نہ ہو چھٹی وقت پرمِل جایا کرتی۔ وہ سیدھا گھر پہنچتا کہ شائستہ اُس کی منتظر رہتی تھی۔

شروع شروع میں عاطف کو یقین تھا کہ یہ سچ مچ کا اِنتظار تھا اَندر سے اُٹھتی تاہنگ والا تبھی تو اُسے سیدھا گھر آنے کی عادت ہو گئی تھی مگر بعد اَزاں یہ ہوا کہ سب کچھ اُس کے معمولات کا حصہ ہو گیا۔

شائستہ کو بھی پہلے پہل اِنتظار میں لطف آتا تھا۔ کھٹا میٹھا لطف۔

اگرچہ اوجھ جیسے وجود نے پہلے ہی دن اُس کے اَندر کراہت کی ایسی گولی سی رکھ دی تھی جو اُسے دیکھتے ہی خود بخود دھواں چھوڑنے لگتی مگر کہیں نہ کہیں سے لذت کی مہک بھی اٹھتی رہتی۔ دوسرے بدن کو چھو لینے کی لذت یا پھر اُسے دیکھنے اور دیکھے چلے جانے کی لذّت۔

وہ جیسا بھی تھا، اُس پر نظر ڈالتا تھا۔ ایک تار نہ سہی، جھجک جھجک کر سہی اور لُکنت زدہ لفظوں سے اتنی پھسلن بنا ہی لیتا کہ وہ اُس پر کوشش کر کے ہی سہی پہروں پھسل سکتی تھی اور دُور تک، بہت دُور تک جا سکتی تھی۔

مگر رفتہ رفتہ عجب اُفتاد آن پڑی کہ پہر سُکڑنے لگے۔

اور یُوں لگتا تھا کہ وہ دونوں لذّت کے زور سے جتنی دُور جا سکتے تھے  جا چکے، کہ اَب تو بدن میں کساوٹ اُترنے لگتی اور شائستہ کو کوفت ہوتی تھی۔

جب اُس نے آ ہی جانا ہوتا تو اِنتظار کیوں ؟ اور اضطراب کیسا؟؟

غیر مانے  عادت نہ مانے۔ عادت نہ کہیں بدن کہہ لیں۔

عادت کی ڈوری میں بندھا بدن دُکھتا تھا۔ دُکھتا تھا اور ٹوٹتا تھا۔

اس ٹوٹتے بدن کو پھر بھی اِنتظار کی گرہ دی جاتی رہی حتّی کہ عادت معمول ہو گئی۔

دونوں میں ہمت نہ تھی کہ وہ معمول کے اِس دائرے کو توڑ ڈالیں۔

یوں نہیں تھا کہ عاطف گھر آتا تو پھر باہر نکلتا ہی نہیں تھا۔ لاہور ایسا شہر تھا جو کئی کئی گھنٹوں کے لیے مصروف رکھ سکتا تھا۔ بے تکلف دوستوں سے ملتا۔ اِحباب کی مہذب مجالس میں بیٹھتا  یا پھر اُس سے ملتا جو سارے فاصلے ختم کر ڈالنے کے ہنر جانتی تھی۔

وہ فاصلے یوں ختم کرتی تھی، جیسے کہ وہ ہوتے ہی نہیں تھے۔

پہلے وہ اُن موضوعات کو چھیڑتی جو عاطف کی کم زوری تھے یا پھر عاطف جن پر سہولت اور رغبت سے کچھ کہہ سکتا تھا۔ وہ اپنی بات کہہ رہا ہوتا تو وہ چپکے سے اپنے جذبوں کے دھاگے کا سرا، اُس کی چلتی بات کے ساتھ باندھ دیتی اور پھر گِرہ پر گِرہ دیے چلی جاتی۔

یہ جذبے اُس فتنے کی خیزش سے بندھے ہوتے جو عاطف کو گھر پلٹنے تک برف کا تودہ بنا دیا کرتے تھے۔

اکثر یوں ہوتا کہ عاطف گھر لوٹتا تو شائستہ کا بدن خفگی کے تناؤ کی لہریں چھوڑ رہا ہوتا۔

بدن کی کوسوں کے اُوپر ہی اُوپر تیرتی یہ لہریں ایسے لمس کی تھپکی مانگتی تھیں جو عاطف کے اَندر رُوبی نے باتوں کے کھانچے میں کہیں یخ بستہ کر دی تھی۔

جب کہ شائستہ غصے سے کھولتی تھی۔ کھولتی تھی اور کچھ نہ بولتی تھی۔

کہ وہ پہل کر کے بولے چلے جانے کی عادی نہیں ہوئی تھی۔

عاطف کبھی کبھی چاہتا کہ وہ اُس پر برس پڑے  لڑے جھگڑے اور جو کچھ اُس کے بدن کی سطح مرتفع پر لہریں سی چھوڑ رہا تھا اُسے چیختے چنگھاڑتے لفظوں میں ڈال دے۔ یوں کہ عاطف کے لیے اپنی بات کہنے کی گنجائش پیدا ہو۔

وہ بات جس سے خیزش کی تانت بندھی ہوتی ہے۔

مگر اس کا بدن سمندر کی بھوکی بپھری لہروں کی طرح اُوپر نیچے ہوتا رہتا اور ایسا شور چھوڑتا جو ماحول کا حصہ ہو کر سکوت میں ڈَھل جاتا ہے یا پھر ایسا شور جواَپنی دہشت سے پَرے دھکیل دیتا ہے اور سماعتوں کو بند کر دیتا ہے۔

وہ سننا چاہتا مگر کچھ بھی سُن نہ پاتا تھا کہ ایک سکوت تنا ہوا تھا۔ گاڑھا گمبھیر اور گھمس والا سکوت۔ یا پھر شاید ایک دہشت کا تناؤ تھا دل کھینچ لینے والی دہشت کا طالح تناؤ۔

معمول کبھی کبھار ٹوٹ بھی جاتا تھا۔ ایسے کہ جیسے کوئی بے دھیانی میں ایک ہاتھ دُوسرے ہاتھ کی طرف لے جاتا ہے۔ دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں بائیں کی اُنگلیوں میں بٹھاتا ہے  ہتھیلیوں کو سامنے کر کے دونوں کہنیوں کوتان لیتا ہے اور پھر عین انگلیوں اور ہتھیلیوں کے جوڑ سے چٹخارے نکال دیتا ہے۔

احباب کے دائرے میں وہ ایک مثالی جوڑا جانے جاتے تھے۔ جب کبھی تقاریب میں اُنہیں اکٹھے شریک ہونا پڑتا تو وہ ایک دوسرے کے آس پاس ہی رہتے۔

شاید اُس فاصلے کو پرے دھکیلنے کے لیے  جو دونوں کے بیچ تھا۔

وہ ایک دوسرے کو احتیاطاً دیکھ لیا کرتے  کھسیانے ہوتے  ہنس دیتے اور لوگ اُن کا یوں مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھنا حسرت اور لطف سے دیکھا کرتے تھے۔

مگر کچھ تو تھا جو دونوں کے بیچ تھا اور کچھ اَیسا بھی تھا جو دونوں کے بیچ نہیں تھا۔

مرد اپنی عورت سے چھپ چھپا کر باہر جو کچھ کرتا ہے  عورت اُسے جان لیا کرتی ہے۔

شاید اِس لیے کہ باہر کی ساری کارگزاری وہ بے خبری میں اپنے تن پر لکھ لایا کرتا ہے، یوں کہ وہ خود تو اُس تحریر سے بے خبر ہوتا ہے مگر عورت اُسے پڑھ لیتی ہے۔ ایک ایک لفظ کو۔ ایک ایک شوشے اور نقطے کو اور اُن وقفوں کو بھی جو اِن لفظوں اور سطروں کے بیچ پڑتے ہیں۔

شائستہ نے عاطف کے بدن کے اوراق پر لکھے متن کو جب پڑھا تھا تو وہ رُوبی کی خُوشبو تک سے آگاہ ہو گئی تھی۔

اس کی جگہ کوئی بھی اور ہوتی تو وہ بِپھر جاتی مگر وہ ایسی عورتوں میں سے تھی ہی نہیں  جو کسی بھی بات کو خود ہی آغاز دے لیا کرتی ہیں۔

اُسے تو خود آغاز چاہیے تھا۔ بھیگا ہوا آغاز۔

ایسا کہ جس کا اَنجام بھی بھیگا ہوا ہو۔

عاطف کے پاس اَیسے الفاظ کہاں تھے جو پہل قدمی کا ہنر جانتے ہوں کہ ایسے اَلفاظ تو ہر بار اُس کے بدن کی جھولی میں رُوبی ڈالا کرتی تھی۔

اور وہ اسی کا عادی تھا۔

اِس عادت نے شائستہ کے بدن میں کسمساہٹ بے قراری اور اِضطراب کی موجیں رکھ دی تھیں۔ وہ سارے گھر میں اِدھر اُدھر بکھرے تعطل کو باہر دھکیلتی رہتی شاور لیتی تو پانی کی پھوار تلے سے نکلنا جیسے بھول ہی جاتی حتیٰ کہ اُسے یوں لگنے لگتا جیسے جسم کے اُوپر ایک جِھلی سی نمودار ہو گئی ہو۔ وہ لرزتے ہاتھوں کی لمبی پوروں سے اُس جِھلی کو چھوتی تو لمس بدن کے اُوپر ہی اُوپر تیرتا رہتا۔ اِدھر سے اُوب کر باہر نکلتی تو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر آئینے میں خود کو دیکھے جاتی۔ پورا کمرا، اِمپورٹیڈ باڈی لوشنز اور پرفیومز سے مہکنے لگتا۔ اِسی مہک میں کپڑوں کی سرسراہٹیں جاگتیں، ویکسنگ اور پفنگ کے بعد بلش آن اور کاسمیٹکس کے اِنتخاب میں ایک مُدّت گزر جاتی۔ جب وہ اپنے اطمینان کی آخری حد تک سنور چکی ہوتی تو وہ آئینے میں خود کو پہلو بدل بدل کر دیکھتی۔ دیکھتی اور دیکھے چلے جاتی حتیٰ کہ آئینہ وہ منظر دکھانے لگتا تھا جِس میں وہ نہیں ہوتی تھی۔

اِسی اَثنا میں کام کاج میں ہاتھ بٹانے والی آ جاتی تو اُسے کئی کام سوجھ جاتے۔ جلدی جلدی ٹشو پیپرز سے چہرے پر جمی میک اَپ کی تہیں اُتار دیتی۔ جب ٹشو پیپرز کا ڈھیر لگ جاتا تو اُس کی مصروفیت کا ڈھنگ بدل جاتا۔ گھر کو خوب چمکایا لشکایا جاتا۔ صاف ستھری چادروں کو پھر سے بدلا جاتا۔ اِدھر اُدھر دیواروں پر چھینٹے ڈھونڈ ڈھونڈ کر صاف کیے جاتے۔

یہاں تک کہ وہ نڈھال ہو جا تی۔

ایک اِنتظار کے لیے موزوں حد تک نڈھال۔

پھر وہ آ جاتا تو اُس کے بدن پر لہریں سی اُٹھتیں۔

لہریں اُٹھتی رہتیں اور اُس کا بدن ٹوٹ جاتا، اُن لفظوں کی چاہ میں جو آگے بڑھ کر اُس کی ساری تھکن چُوس سکتے تھے۔

مگر عاطف تو خود پہل قدمی والے الفاظ کہیں سے مُستَعار لینے کا عادی تھا۔

رُوبی سے اور رُوبی سے پہلے ایک اور لڑکی تھی فرحانہ اُس سے۔

وہ بھی تو رُوبی جیسی ہی تھی۔

شائستہ بہت بعد میں اُس کی زندگی میں آئی۔ تب جب دونوں نے اُس کا بدن اوجھ جیسا بنا دیا تھا۔

کچوکوں سے بیدار ہونے والا۔

یوں جیسے اس کا بدن نہ ہو مٹی میں مٹی ہو کر اور مکر مار کر پڑرہنے والا وہ لسلسا کیڑا ہو جسے پھل سنگھی اپنی لمبی چونچ کے ٹھونگوں سے جگاتی ہے۔

جب بہاولپور سے آنے والا میلا کچیلا شخص اُسے دروازے پر ملا تب تک شائستہ کا ساتھ ہوتے ہوے بھی کچوکوں سے بیدار ہونے کی عادت کو ساتواں برس لگ چکا تھا۔

اِس سارے عرصے میں وہ دو سے تین ہو چکے تھے۔ ڈیڑھ برس پہلے ہی اُن کے ہاں ننھے فرخ نے جنم لیا تھا جو اَب پوری طرح شائستہ کو اپنی جانب متوجہ کیے رکھتا۔

بہ ظاہر گھر مکمل تھا۔ مکمل اور پرسکون دکھنے والا۔

سب کچھ ایک ڈَھنگ سے ہوتا نظر آتا تھا۔

مگر وقت کی ڈِھینگلی کے سرے سے بندھا معمولات کا بوکا جو پانی باہر پھینکتا تھا وہ دونوں کی زبانوں پر پڑتے ہی کھولتا رصاص ہو جاتا تھا آبلے بنا دینے والا۔

ایسا کیوں ہوتا ہے ؟

یہ سوال دونوں کے سامنے آتا رہا مگر وہ اِس کا صحیح صحیح ادراک کر سکنے اور اِس پر قابو پا لینے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ وہ تو شاید اِس ساری صورتحال کے مقابل ہونے کو تیار ہی نہ تھے۔ تب ہی تو عاطف کے ہوتے ہوے بھی شائستہ ننھے فرخ ہی سے مصروف رہے چلے جانے کو ترجیح دیا کرتی۔

وہ جانتا تھا کہ وہ کیوں فرخ کو گھٹنوں پر اوندھا کیے مالش کیے جاتی ہے ؟ کس لیے اُس کے پاؤں کے تلو وں پر گال رگڑ رہی ہے ؟ اُس کے پیٹ پر منھ رکھ کر پھوکڑے مارتی ہے تو کیوں ؟ اُس سے باتوں میں مگن رہنا لاڈ سے ہونٹوں میں لوچ ڈال لینا اور وہ کہے جانا جس میں کوئی ربط نہ ہو عاطف کی سماعت سے ٹکرا کر مربوط ہو جاتا مگر عاطف تو صرف اپنے اوجھ بدن پر کچوے چاہتا تھا لہذا ننھے وجود کی نازک جلد پر نرم نرم چکنے ہاتھوں کا یوں پھسلنا اُسے گیلے ہونٹوں کی لرزش دبا کر بوسے دینا ہونٹ جما کر اور پٹاخ کی آواز پیدا کرتے ہوئے  ماتھے پر، ہونٹوں، گردن، ناف اور رانوں پر، حتیٰ کہ دائیں یا بائیں پاؤں کے انگوٹھے کے گرد ہونٹوں کو رکھ کر گھما لینا سب کچھ رائیگاں چلا جا رہا تھا۔

تاہم فرخ اِس پیار کی بوچھاڑ سے کھل کھل ہنستا غوں غوں کرتا اور زور زور سے اپنے پاؤں مارنے لگتا تھا۔

جس روز بہاولپور سے اُن کے ہاں مہمان آیا اس روز شائستہ پروگرام بنائے بیٹھی تھی کہ عاطف کے آتے ہی وہ ننھے فرخ کو نیم گرم پانی سے نہلائے گی کہ وہ اُسے قدرے مَیلا مَیلا لگ رہا تھا مگر جب وہ مہمان ڈرائنگ روم میں داخل ہوتا نظر آیا جو اَز حد مَیلا تھا تو وہ اپنا پروگرام بھول چکی تھی۔

اُس کے وجود میں لسلسلے وجود کی پہلے سے موجود کراہت کے ساتھ عجب طرح کی باسی گِھن بھی گھُس بیٹھی تھی۔

عاطف اپنے مہمان کو بٹھا کر ذرا فاصلے پر کھڑی شائستہ کے پاس آیا بوکھلایا ہوا۔

جب اُسے کچھ کہنا ہوتا اور شائستہ کسی دوسری کیفیت کو چہرے پر سجائے ہوتی تو وہ یوں ہی بوکھلا جایا کرتا تھا۔

شائستہ کچھ سننے کے مُوڈ میں نہ تھی۔ اُس نے مہمان کے سلام کا بھی کوئی نوٹس نہ لیا تھا کہ اِس نئے وجود سے اُمنڈتی گھِن کو اپنے بدن میں موجود کراہت کے پہلو میں بٹھا چکی تھی، حتیٰ کہ سب کچھ نفرت میں ڈَھل کر اُس کے چہرے سے چھلکنے لگا۔ شائستہ کے لیے اپنے اِن شدید جذبوں کے ساتھ وہاں رُکنا ممکن نہ رہا تو وہ اپنے قدموں پر گھومی اور ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئی۔ اِسی اثنا میں عاطف کچن میں خود کو معمول پر لاتا رہا۔ اگرچہ وہ مہمان کے لیے پانی لینے آیا تھا مگر ریفریجریٹر سے بوتل نکالنے کے بہانے اُسے پوری طرح کھول رکھا تھا۔ یوں کہ اُس کاسینہ اور چہرہ دونوں یخ جھونکوں کے سامنے رہیں۔

اُسے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ کب شائستہ اُس کے عقب میں آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ وہ تو تب بدحواس ہو کر ایک طرف ہو گیا جب اُس نے اپنے دائیں ہاتھ سے اُس کے بائیں کندھے کو قصداً ذرا زور سے دبا کر اُسے ایک جانب دھکیلا تھا۔

وہ وہیں کھڑا دیکھتا رہا جہاں بوکھلا کر پہنچا تھا۔ شائستہ نے پانی کی بوتل نکالتے ہی قدرے جَھٹکے سے ریفریجریٹر کا دروازہ بند کیا تھا۔

پھر اُس نے سینک کے کونے میں پڑا وہ گلاس نکالا جو دونوں کے اِستعمال میں نہیں آتا تھا اور اس چنگیر کی جانب لپکی جس میں پہلے سے روٹیاں لپٹی ہوئی پڑی تھیں۔ شائستہ بچ جانے والی روٹیوں کو اِسی چنگیر میں رکھتی تھی کہ صفائی والی ماسی آتی تو لے جایا کرتی۔

رکابی میں سالن بھی پہلے سے موجود تھا شوربا جس کی سطح پر ایک جھلی سی بن گئی تھی۔ شوربے کے بیچ میں پڑا ہوا اکلوتا آلو اپنی رنگت بدل کر گہرا بھورا ہو گیا تھا۔ یقیناً ماسی آج نہیں آئی تھی۔ اُس نے اپنے یقین کے استحکام کے لیے اِدھر اُدھر دیکھا۔ اِس سے پہلے کہ وہ کوئی اور نشانی تلاش کر لیتا شائستہ نے اُسے پھر چونکا دیا۔ وہ ایک ٹرے میں پانی کی بوتل گلاس چنگیر اور رکابی رکھ کر اُس کی سمت بڑھانے کے بعد لفظوں کو چبا چبا کر کہہ رہی تھی۔

’’جب وہ کھانا کھا چکیں تو اصرار کر کے انہیں روک نہ لیجئے گا۔‘‘

اُس نے اُسے نہیں روکا تھا مگر وہ خود ہی رُک گیا تھا۔

شائستہ سارا وقت اپنے بیڈ روم میں اُوندھی پڑی رہی اور بہت دیر بعد جب عاطف کمرے میں آ کر آنے والے مہمان کی بابت اُسے بتا رہا تھا تو اس کی سانسیں دھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔ اُسے کچھ بھی سنائی نہ دے رہا تھا۔ ’’ضرورت مند‘‘۔ ’’پرانا کلاس فیلو‘‘ اور ’’مدد‘‘ جیسے الفاظ اُس کے کانوں میں پڑے تھے۔ ایک میلے کچیلے شخص کی اوقات کے لیے یہ کافی تھے لہذا اُس نے اپنی سماعتوں کو بند کر لیا پہلو بدل کر لیٹ گئی اور سارے بدن کو موج در موج اُچھل جانے دیا۔

اَگلے روز ناشتے تک وہ نہیں اُٹھا تھا۔ دفتر کے لیے تیار ہونے کے بعد اور ناشتے کے لیے بیٹھنے سے پہلے  عاطف نے ڈرائنگ روم میں جھانکا۔ وہ وہیں صوفے پر عین اُسی رُخ لیٹا ہوا تھا، رات اصرار کر کے جس رخ لیٹ گیا تھا۔ مہمانوں کے لیے بیڈ روم اوپر تھا مگر وہ وہیں صوفے پر لیٹنا چاہتا تھا۔ لیٹ گیا اور اَب اُٹھنے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔ عاطف نے دل ہی دل میں اسے وہی گالی دی جو اُسے بچپن میں دیا کرتا تھا اور ناشتے میں مگن ہو گیا۔

جب وہ دفتر کے لیے نکلنے لگا تو عاطف میں ہمت نہ تھی کہ وہ شائستہ کو مہمان کے حوالے سے کوئی ہدایت دیتا یا فرمائش کرتا۔ کوٹ کی جیبوں کو ٹٹول کر اپنا چرمی پرس نکالا اُس میں سے اپنا وزیٹنگ کارڈ الگ کیا اور اُس میز پر رکھ دیا جس کے قریب پڑے صوفے پر وہ یوں بے خبر سو رہا تھا کہ سارا ڈرائنگ رُوم اُس کے خراٹوں سے گونجتا تھا۔

بے اِختیار وہی گالی عاطف کے ہونٹوں پر پھر سے گدگدی کرنے لگی۔

اُس کے ہونٹ بے اختیار پھیلتے چلے گئے۔ وہ منھ ہی منھ میں بڑبڑایا اور باہر نکل گیا۔

دفتر میں وقفے وقفے سے اُسے مہمان کا خیال آتا رہا۔

رات اُس نے جو دلچسپ باتیں کی تھیں  اُنہیں یاد کرتا تو مسکرانے لگتا۔ شائستہ کے روّیے کے باعث اُسے جو خفت اُٹھانی پڑی تھی وہ اُسے ملول کرتی تھی لہذا اُس نے اپنے تئیں طے بھی کر لیا تھا کہ وہ اُس کی کیا مدد کرے گا۔

جب بھی ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی اُسے گماں گزرتا کہ گھر سے کال ہو گی حتیٰ کہ اُسے تشویش ہونے لگی۔ پھر وہ چاہنے لگا کہ خود فون کر کے مہمان کی بابت پتا کرے۔ اُس نے دو بار نمبر گھمایا بھی مگر اِس خیال سے کہ فون شائستہ اُٹھائے گی اُس نے اِرادہ ملتوی کر دیا۔ تیسری بار وہ گھر کا نمبر ملاتے ملاتے نہ جانے کیوں رُوبی کو ڈائل کر بیٹھا۔

وہ تو جیسے اُسی کے فون کی منتظر تھی۔

پہلے تو باتوں میں اُلجھا لیا پھر جذبوں کی ڈوری سے اُسے یوں باندھا کہ وہ دفتر سے غائب ہو کر سیدھا اُس کے پاس پہنچ گیا۔ حتیٰ کہ چھٹی کا وقت ہو گیا۔

جب وہ گھر میں داخل ہو رہا تھا تو نہ جانے کیوں اُسے یقین سا ہو چلا تھا کہ مہمان جا چکا ہو گا مگر وہ تو وہیں تھا۔

اُس نے مدھم مدھم آواز کو سنا تو اُسے یقین نہ آتا تھا۔

شوخ سی آواز مسلسل بولنے کی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے دے کر۔ اور الفاظ یوں شباہت بناتے تھے کہ جیسے انہیں اَدا کرنے والے ہونٹ لوچ دار ہو گئے ہوں۔ باتوں کے وقفوں میں قہقہے اُمنڈتے تھے۔ شائستہ کے شیریں حلقوم سے۔ اس جھلی کو توڑتے ہوے جو ایسے قہقہوں سے الگ رہنے کے سبب اُس کی آواز کے اوپر بن گئی تھی۔

یہی قہقہے سننے کی اُسے حسرت رہی تھی۔ اُسے اَچنبھا ہوا کہ شائستہ ایسے رسیلے قہقہے اُچھال سکتی تھی اور اُچھال رہی تھی۔

وہ تقریباً بھاگتا ہوا ڈرائنگ روم کے دروازے تک پہنچا اور اُسے لگا کہ جیسے سارا ڈرائنگ روم مہمان کی دھیمی، مسلسل باتوں سے اور شائستہ کے بے اختیار قہقہوں سے کناروں تک بھر چکا تھا اور اَب چھلکنے کو تھا۔

مہمان نے اپنے گیلے کھچڑی بالوں کو سلیقے سے یوں پیچھے سنوارا ہوا تھا کہ کنپٹیوں کی سفیدی دب گئی تھی اور اُس کی آنکھوں میں چمک تھی جو اُس کے سارے چہرے پر ظاہر ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ جبڑوں کی مسلسل نمایاں نظر آنے والی ہڈیاں بھی اِسی چمک میں کہیں معدوم ہو گئی تھیں۔

جو شخص بول رہا تھا اس کے بدن پر عاطف کا پسندیدہ لباس تھا جو اگرچہ اُس پر چست نہ بیٹھا تھا مگر اُسے با رعب بنا گیا تھا۔

دھُلا دھُلایا صاف ستھرا شخص اُس شخص سے بالکل مختلف ہو گیا تھا جسے وہ صبح صوفے پر خراٹے بھرتا چھوڑ گیا تھا۔

وہ مسلسل بول رہا تھا اور اُس کے ہونٹ ایک طرف دائرہ سا بنا رہے تھے۔

وہ عاطف کی نظر آنے تک بولتا رہا۔

شائستہ کے قہقہے اُچھلتے رہے۔

عاطف کے نظر آنے پر بھی وہ کسی رخنے کے بغیر اُچھلتے رہے  حالاں کہ بولنے والا شخص خاموش ہو چکا تھا۔ عاطف کو لگا شائستہ قہقہے نہیں اُچھال رہی تھی ننھا فرخ اُس کے گھٹنوں پر اُوندھا پڑا کلکاریاں مار رہا تھا جب کہ نرم ملائم جلد پر مخروطی اُنگلیاں پھسل رہی تھیں اور پھسلے ہی جاتی تھیں۔

ٍ

 

 چَٹاکا شاخِ اِشتہا کا

 

اِسے قریب نظری کا شاخسانہ کہیے یا کچھ اور کہ بعض کہانیاں لکھنے والے کے آس پاس کلبلا رہی ہوتی ہیں مگر وہ اِن ہی جیسی کسی کہانی کو پا لینے کے لیے ماضی کی دھُول میں دفن ہو جانے والے قِصّوں کو کھوجنے میں جُتا رہتا ہے۔ تو یُوں ہے کہ جِن دنوں مجھے پُرانی کہانیوں کا ہَوکا لگا ہوا تھا، مارکیز کا ننھّا مُنَا نیا ناول میرے ہاتھ لگ گیا۔ پہلی بار نہیں، دوسری بار۔ اگر میرے سامنے مارکیز کا یہ مختصر ناول دُوسری بار نہ آتا تو شاید میں اپنے پاس مکر مار کر پڑی ہوئی اِس جنس میں لتھڑی ہوئی کہانی کو یوں لکھنے نہ بیٹھ گیا ہوتا۔

مارکیز کے ناول کو دُوسری بار پڑھنے سے میری مراد میمن کے اس اُردو ترجمے سے ہے جو مجھے ترجمے کا معیار آنکنے کے لیے موصول ہوا تھا۔ یہ وہی ناول ہے جس کی خبر آنے کے بعد میں انگریزی کتابوں کی دکانوں کے کئی پھیرے لگا آیا تھا۔ پھر جوں ہی اِس کتاب کا انگریزی نسخہ دستیاب ہوا تو میں نے اسے ایک ہی ہلّے میں پڑھ ڈالا تھا۔ میں نے اپنے تئیں اِس ناول کو پڑھ کر جو نتیجہ نکالا وہ مُصنِّف کے حق میں جاتا تھا نہ اس کتاب کے حق میں۔ خدا لگتی کہوں گا میرا فیصلہ تھا ایک بڑے لکھنے والے نے بُڑھاپے میں جنس کے سستے وسیلے سے اس ننھّی مُنّی کتاب میں جھک ماری تھی۔

ممکن ہے یہی سبب ہو کہ جب میمن کا ’’ اپنی بیسواؤں کی یادیں‘‘ کے عنوان سے چھپا ہوا ترجمہ ملا تو میں خود کو اُسے فوری طور پر پڑھنے کے لیے تیار نہ کر پایا اور پیپر بیک میں چھپا یہ مختصر سا ناول کہیں رکھ کر بھول گیا۔ گزشتہ دنوں کسی اور کتاب کی تلاش میں، جب کہ میں بہت زیادہ اُکتا چکا تھا، یہ ناول اچانک سامنے آ گیا۔ میں نے اپنی مطلوبہ کتاب کی تلاش کو معطل کر کے اُکتاہٹ کو پَرے دھکیلنا چاہا۔ اِسی ناول کو تھامے تھامے اپنے بیڈ تک پہنچا، جِسم کو پشت کے بَل بستر پر دھپ سے گِرنے دیا اور اسے یوں ہی یہاں وہاں سے دیکھنے لگا۔ جب میری نگاہ مارکیز کے ہاں بے باکی سے در آنے والے اُن ننگے لفظوں پر پڑی جنہیں مترجم نے ایسے دلچسپ الفاظ میں ڈھال لیا تھا جو فوری طور پر فحش نہیں لگتے تھے، تو میں نے ناول کو ڈَھنگ سے پڑھنا شروع کر دیا۔ ناول کو اِس طرح پڑھنے کے دو غیر متوقع نتائج نکلے۔ ایک یہ کہ میں جسے مارکیز کی کھاتے میں جھک مارنا سمجھ بیٹھا تھا اُس میں سے میرے لیے معنی کی ایک مختلف جہت نکل آئی اور دوسرا یہ کہ مجھے اپنا کنّی کاٹ کر نِکل جانے اور پھر بھول جانے والا ایک کردار شکیل رہ رہ کر یاد آنے لگا۔ ایک ناول جس کے مرکزی کردار نے اپنی نوے وِیں سالگرہ کی رات ایک با کرہ کے ساتھ گزارنے کا اہتمام کیا، میرے لیے اِس میں سے زندگی کے کیا معنی برآمد ہوئے، میں ٹھیک ٹھیک بتانے سے قاصر ہوں۔ ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ بار دگر پڑھنے پر نہ صرف اِس ناول کا جنس کا رسیا مرکزی کردار میرے لیے ایک سطح پر قابلِ اِعتنا ہوا، میں اپنے ایک متروک کردار شکیل کے بارے میں بھی ڈَھنگ سے سوچنے پر مجبور ہوا۔۔۔ اور یہ کوئی کم اَہم بات نہیں تھی۔

شکیل اور مارکیز کے ناول کے مرکزی کردار میں کوئی خاص مشابہت نہیں ہے۔ بتا چکا ہوں کہ وہ نوّے برس کا ہے جب کہ میرا شکیل بھر پور جوانی لیے ہوے ہے۔ وہ مرد مجرد اپنی مثالی بدصورتی کی وجہ سے خاکہ اُڑانے والوں کا مرغوب، جب کہ جس شکیل کی میں بات کر رہا ہوں وہ محض نام کا شکیل نہیں ہے اور یہ شادی شدہ اور بال بچے دار ہے۔ تاہم ایک بات دونوں میں مشترک ہے کہ دونوں جنس زَدہ ہیں اور شکیل تو اِسی جنس زدگی کی وجہ سے دوستوں میں تضحیک کا سامان ہو گیا ہے۔ ایک مُدّت کے بعد شکیل جیسے کردار کی طرف لوٹنے کا سبب مارکیز کے ناول کے بوڑھے کی وہ جنسی خر مستیاں ہیں جنہیں ناول میں بہت سہولت سے لکھ لیا گیا ہے، مگر ہمارے ہاں ایسی حرکتوں کو لکھنا چوں کہ فحاشی کے زمرہ میں آتا ہے، لہذا مجھے شکیل کو لکھنے کے لیے بار بار مارکیز کی طرف دیکھنا پڑرہا ہے۔ ہاں تو میں مارکیز کے بوڑھے کی خر مستیوں کا ذِکر کر رہا تھا اور بتانا چاہ رہا تھا کہ اس بوڑھے کی ہوس کاریوں کے باب میں جہاں اس کی اُجڈ لارنڈھی والی ملازمہ کا ذِکر آتا ہے، وہی عقب سے جانے کا، وہیں مجھے اس وقت کے شکیل کا، اس کریانہ اسٹور کے مالک کا شکار بننا یاد آیا جس کے پاس اس شہر میں آ کر وہ پہلے پہل ملازم ہوا تھا۔ جہاں ناول کے مرکزی کردار نے اپنے پچاس سال کی عمر کو پہنچنے پر اُن پانچ سو چودہ عورتوں کا ذِکر کیا ہے جن سے اُس کا جنسی تعلق قائم ہوا، اور اِس گنتی میں وہ بعد ازاں مسلسل اِضافہ کیے جا رہا تھا، تو میرے دھیان میں شکیل کی زندگی میں آنے والی وہ چٹ پٹی لڑکیاں آ گئیں جن کی وجہ سے وہ شہر بھر میں جنسی بلے کے طور پر مشہور ہو ا۔ تاہم جس لڑکی کی وجہ سے شکیل کو نظروں سے گرا ہوا اور بعد میں اُسے شہر چھوڑتے ہوے دکھایا جانا ہے وہ بہ ظاہر ان چٹ پٹی لڑکیوں جیسی نہ تھی۔

اوہ ٹھہرے صاحب ! مارکیز کے بوڑھے بدصورت کردار طرح قابلِ قبول ہو جانے والے جواں سال شکیل کی کہانی کو یوں شروع نہیں ہونا چاہیے، جیسا کہ میں اِسے آغاز دے چکا ہوں۔ اس کردار کو عجلت میں یا یہاں وہاں سے ٹکڑوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اِسے ڈھنگ سے لکھنے سے پہلے مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو میں اپنی اِس خفت سے آگاہ کرتا چلوں جو مجھے کسی جنس مارے آدمی سے مل کر اور اُس کی لذّت میں لتھڑی ہوئی باتیں سن کر لاحق ہو جایا کرتی ہے۔ اِسی خفت کا شاخسانہ ہے کہ مجھے اپنا حوالہ جنس مارے کرداروں سے بھی کَھلنے لگتا ہے۔ شکیل جیسا کِردار میری دست رس میں رہا مگر اِسی خفت نے ہمارے درمیان بہت سے رخنے رکھ دیئے تھے۔ حتی کہ میں نے یہ بھی بھلا دیا کہ شروع میں یہ کردار ایسا نہ تھا۔ یہ تو بہت بعد میں ہوا تھا کہ وہ نہ صرف لوگوں کی تضحیک کا سامان بنا میری نظروں سے بھی گر گیا تھا۔ لیجئے اَب مارکیز کے بوڑھے نے مجھے بہلا پھسلا کر اس مردود کہانی کے قریب کر ہی دیا ہے تو میں اسے شکیل سے اپنی پہلی ملاقات سے شروع کرنا چاہوں گا۔

شکیل سے میری پہلی ملاقات کسی تقریب میں ہوئی تھی۔ وہ وہاں دوسرے شاعروں کی طرح اپنی غزل سنانے آیا تھا۔ صاف اور گورا رنگ جو ناک کی پھُنگی، کانوں کی لوؤں اور چمک لیے نرم نرم گالوں سے قدرے شہابی ہو گیا تھا۔ مجھے اس کا ٹھہر ٹھہر کر شعر پڑھنا اور پڑھے ہوے مصرعے کو ایک اَدا سے دُہرانا اَچھا لگا تھا۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ پہاڑیا ہے تو اور بھی اَچھا لگا کہ وہ اس کے باوجود نہ صرف ہر مصرع میں ٹھیک ٹھیک لفظ باندھنے کا اہتمام کر لایا تھا ان کی ادائیگی میں بھی کوئی غلطی نہیں کر رہا تھا۔ جو غزل اُس نے وہاں سنائی اس نے خوب سلیقے سے کہی تھی۔ اس کی فنی مہارت کا میں یوں قائل ہو گیا تھا کہ ساری غزل ایک روندی ہوئی بحر میں مگر بہت عمدگی سے کہی گئی تھی۔ ا س میں ایک دو غیر شاعرانہ اور کھردرے لفظوں کو اِتنا ملائم بنا کر رواں مصرعوں میں پیوست کر دیا گیا تھا کہ اَب وہ غزل کے ہی الفاظ لگتے تھے۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ وہ لگ بھگ ہر شعر کے مصرع اُولی میں اپنے خیال کی کچھ اِس طرح تجسیم کر رہا تھا کہ ہر بار لہجہ کے نئے پن کا اِحساس ہوتا اور ایک ایسا مُقدمہ بھی بنتا تھا جس کی طرف سننے والے کا متوجہ ہونا لازم ہو جاتا۔

جب وہ شعر مکمل کر کے سانس لیتا تو بات بھی مکمل ہو جاتی۔

ذَرا گماں باندھیے کہ ایک نوخیز شاعر ہے۔ آپ اُس سے بالکل نئے لہجے کی غزل سُن رہے ہیں۔ ایک ایسا لہجہ، جس میں عصر موجود کا تناظر اُس کی اپنی لفظیات کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔ اس غزل میں اِس کا اِہتمام بھی ہے کہ کوئی لفظ فن پارے کے مجموعی مزاج میں اَجنبی نہیں لگتا۔ سلیقہ ایسا کہ ہر لفظ کی اَدائیگی کا مخرج ضرورتِ شعری کی وجہ سے کہیں بھی بدلا نہیں گیا۔ ہر لفظ ٹھیک اپنی نشست پر، اور وہ بھی یوں کہ ایک لفظ کی صوتیات اَگلے لفظ کو ٹہوکا دینے کی بہ جائے اس میں سما کر اُس کی اپنی صوتیات میں منقلب ہو جاتیں۔ سچ پوچھیے تو ایسی باریکی سے غزل کہنے والے کا گمان ہی باندھا جا سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ میرے سامنے تھا اور پورے قرینے سے غزل کہہ رہا تھا۔

لہذا میں اس کے قریب ہو گیا۔ اتنا قریب کہ ہم دونوں کے درمیان سے سارا حجاب اُٹھ گیا۔

جب وہ اسی شہر میں رہ کر خُوب خُوب داد، بے پناہ حسد اور بہت ساری نفرت اور تضحیک سمیٹ چکا تو بھی میں اُس کے قریب رہا۔ پہلے پہل شکیل کے بارے میں شہر کے شاعروں نے یہ شوشا چھوڑا، ہو نہ ہو اُسے کوئی لکھ کر دیتا ہے۔ جب لوگ تجسس سے پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے جو اُسے لکھ کر دیتا ہو گا تو ایک ایسے بزرگ شاعر کا نام چلا دیا گیا جو کہنے کو شعر خوب سلیقے سے کہتے اور عادت ایسی پائی تھی کہ خُوش شکل لونڈوں میں اُٹھنے بیٹھنے کو اِس گئے گزرے زمانے میں بھی چلن کیے ہوے تھے۔ کسی کو ایسی باتوں پریوں یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ حضرت زُبان کے روایتی اِستعمال تک محدود رہتے تھے اور اچھا اور پکا مصرعہ کہنے کے باوجود خیال کو نیا بنا لینے پر قادر نہ تھے۔ ایسا کیوں کر ہو سکتا تھا کہ کوئی خود تو فنی طور پر بے عیب مگر بوسیدگی کا اِحساس جگانے والا مصرعہ کہنے کو وتیرہ کیے ہو اور اپنے لونڈے کو حرفِ تازہ سے فیض یاب کرے۔ جب شکیل ایک سے بڑھ کر ایک تازہ غزل لا نے لگا تو اُس کے خلاف فضا باندھنے والوں کی جیبھیں خود بخود اپنے اپنے تالو سے بندھ گئیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اُس نے اپنے جیسے شاعروں سے آگے نکل کر حاسدین کا گروہ پیدا کر لیا تھا۔ جو لوگ شعر میں اُسے مات نہیں دے سکتے تھے، اُس کی شخصی کمزوریوں کو اُچھال کر تسکین پاتے تھے۔

مجھے شکیل سے یہ شکایت تھی کہ آخر وہ اِس باب میں اُنہیں خُوب خُوب مسالا کیوں فراہم کر رہا تھا۔ وہ میری بات سنتا اور ڈِھٹائی سے ہنسی میں اُڑا دیتا تھا۔

وہ بارہ کہو سے پَرے پہاڑوں کے اُدھر جس گاؤں سے آیا تھا، اُس کا نام تنگ گلی تھا جو بول چال میں مختصر ہو کر تنگلی ہو گیا تھا۔ جبو ہاں اُس نے دس جماعتیں پڑھ لیں تو آگے کرنے کو کچھ نہ تھا۔ اُس کے باپ کے پاس جو تھوڑی سی موروثی زمین تھی، اُسے گزشتہ سال کی مسلسل بارشوں میں لینڈ سلائیڈ کھا گئی تھی۔ میٹرک کر لینے کے بعد اُس کے لیے دو ہی راستے تھے۔ باپ کی طرح مری چلا جائے اور وہاں سیزن کھلنے پر ہوٹلوں میں بیرا گیری کرے یا اِدھر شہر میں کسی دکان پر سیلز مین ہو جائے، جیسا کہ اس کے گاؤں کے کئی اور لڑکوں نے کیا تھا۔ اُس نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ تنگلی کا ایک شخص دل محمد ادھر شہر میں ایک کریانے کے اسٹور پر ملازم تھا۔ وہ بقرعید پر گاؤں آیا تو شکیل کے باپ نے اُس سے بات کی۔ اس نے فوری طور پر تو اسے یہ کہہ کر مایوس کر دیا کہ وہاں شہر میں کام کرنے کے خواہش مند لڑکے ہر روز آتے رہتے تھے جو کم اُجرت پر کام کرنے کو تیار ہو جاتے لہذا شکیل کو وہاں بھیجنا، لڑکے کو ایک لحاظ سے ضائع کرنا ہی ہو گا۔ اُس کے باپ نے دل محمد کی نصیحت کو محض ٹالنے کا بہانہ سمجھا۔ وہ اپنے مالک کو بڑا خسیس اور گھٹیا کہہ رہا تھا جو کم اُجرت دیتا اور کام زیادہ لیتا تھا۔ یہ سب کچھ درُست ہو سکتا تھا مگر دل محمد کے گھر والوں کی گزر بسر ٹھیک ٹھاک ہو رہی تھی لہذا اُس نے خوب مِنّت سماجت کر کے اُسے مجبور کر لیا کہ وہ شکیل کو شہر لے جائے اور اپنے مالک سے مِلا دے، آگے رہی اُس کی قسمت۔ دل محمد نے جو کہا، وہ جھوٹ نہیں تھا۔ اس کا مالک نام کا گل زَادہ تھا، نکلا پورا حرام زادہ۔ اُسے دیکھتے ہی اُس کی رالیں ٹپکنے لگی تھیں۔

شکیل نے پہلے روز اُس کی رالیں نہیں دیکھی تھیں کہ وہ تو اپنی ضرورت اور اپنی مجبوریوں کو دیکھ رہا تھا۔

گل زادہ نے شکیل کی رہائش کا بندوبست دل محمد کے ساتھ دکان کے پچھواڑے میں کرنے کی بہ جائے اُوپر والے فلیٹ میں اپنے ساتھ کیا تھا۔ اُس نے اپنے ساتھ اپنے مالک کو یوں مہربان پایا تو اُس کے قریب ہوتا چلا گیا۔ دوسری تنخواہ تک وہ اُس پر خوب مہربان رہا اور جب اس بار بھی تنخواہ کی رقم کا منی آرڈر گھر بھیج چکا تو ایک رات وہ اُس کے بستر میں گھس گیا۔ سردیوں کے دن تھے، پہلے پہل اُس کا یوں لحاف میں گھس آنا شکیل کو بُرا نہ لگا تھا تاہم رفتہ رفتہ شکیل اس حرام زادے کی نیت اور وہ خود کھلتے اور اُسے بھی کھولتے چلے گئے۔ بعد میں وہ یہ واقعہ اپنے آپ کو اَذِیّت دینے کے لیے قہقہہ لگا کر سنایا کرتا۔ تاہم وہ یہ بھی کہتا تھا کہ وہ جس مشکل میں پڑ گیا تھا اس سے ہمت کر کے نکل آیا تھا۔ جب میں نے شکیل سے اس کا یہ قِصّہ سنا تھا تو بات ایک قہقہے پر نہیں رُکی تھی۔ قہقہے کی آواز اَبھی معدوم نہیں ہوئی تھی کہ فوراً بعد اُس کے حلقوم میں ہچکیوں کی باڑھ اُمنڈ پڑی تھی۔ اُس نے اپنی اِس کیفیت پر قابو پانے کے لیے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دے کر کاٹ ہی ڈالا تھا۔ شکیل نے ذَرا سنبھلنے کے بعد یہ بھی بتایا تھا کہ اُس کا مالک اس پر ایسے میں کھُل رہا تھا جب وہ ان سہولتوں کا عادی ہوتا جا رہا تھا جو اُس نے گاؤں میں دیکھی تک نہ تھیں۔ اُس کے باپ کے پاس بھی ایک معقول رقم پہنچنے لگی تھی۔ اس مختصر سے عرصے میں اس نے اپنے باپ کو اِتنی رقم بھیج دی تھی، جتنی اُس نے کبھی اپنے باپ کے پاس یک مُشت دیکھی ہی نہ تھی۔ اپنے ہی باپ کا کفیل بننے میں اُسے لطف آنے لگا تھا۔ یہی لطف تھا کہ جس نے اُسے فوری طور پر بے روزگار ہونے کے لیے تیار نہ ہونے دیا۔ بعد میں جب راتیں مسلسل لذّت اور کراہت کے بیچ گزر نے لگیں تو اُس کا دل شدّت سے اُلٹنے لگا۔ وہ وہاں ٹھہرا رہا، یہاں تک کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اُس شخص سے شدید نفرت محسوس کرنے لگا۔ یہ نفرت اِتنی شدید تھی کہ ایک رات، جب کہ وہ اُوندھا پڑا اُس کا اِنتظار کر رہا تھا، وہ چپکے سے باہر نکل آیا۔

جس روز وہ گل زادہ کے فلیٹ سے باہر نکلا تھا، اُس روز اُس نے صاف صاف ایک لذیذ سنسناہٹ کو اُس کی ریڑھ کی ہڈّی سے دُمچی کی طرف بہتے ہوے پایا تھا۔

مارکیز کا ناول دوسری بار پڑھنے کے بعد اَب اگر میں اُس دن کی بابت سوچوں، جس روز شکیل نے مجھے اپنا یہ قصّہ سناتے ہوے قہقہہ لگایا اور فوراً بعد اپنے دم کوہچکیوں کا پھندا لگا لیا تھا تو مجھے شکیل کی جگہ مارکیز کے ناول کی وہ با کرہ لڑکی یاد آ جاتی ہے جسے نوّے سالہ بوڑھے نے دیلگدینہ کا نام دیا تھا۔ دیلگدینہ، جو پانچ دسمبر کو محض پندرہ سال کی ہو رہی تھی مگر جسے اپنے گھر کے اخراجات چلانے کے لیے شہر سے باہر دن میں دو بار بٹن ٹانکنے جانا پڑتا تھا۔ اُس لڑکی کو ایک دن میں جب سوئی اور انگشتانے سے سو سو بٹن ٹانکنا پڑتے تو وہ اَدھ موئی ہو جاتی۔ دیلگدینہ اور شکیل کو میں ایک ساتھ یوں دیکھ رہا ہوں کہ دن بھر اپنے مالک گل زادہ کا کریانہ بیچتے اور گاہکوں کے نہ ٹوٹنے والے رش سے نبٹتے نبٹتے شکیل بھی بالکل اس لڑکی کی طرح اَدھ موا ہو جاتا تھا۔ تاہم ان دونوں کو کہانی کے اِس مرحلہ پر ایک جیسی مشقت میں پڑا دکھانے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ یہ دونوں کہانی کے باقی مراحل میں بھی ایک جیسے ہوں گے۔ شکیل، جو اپنے مالک کی دُمچی میں سنسناہٹ چھوڑ کر نکل آیا تھا، بعد میں بہت خوار ہوا۔ تاہم ایک روز آیا کہ ایک دوسرے شخص نے نہ صرف اُسے اپنے ہاں ملازمت دی، اُس کے نکاح میں اپنی بیٹی صفیہ بھی دے دی تھی۔

شکیل ملازمت کے لیے آیا اور گھر داماد ہو گیا تھا۔

وہ خوب رُوتھا اور سلجھا ہوا بھی۔ ہمت کی بھی اُس میں کمی نہ تھی۔ وہ ضرورت مند تھا اور ایک لحاظ سے دیکھیں تو شرفُ اللہ بھی ضرورت مند تھا، اُس کی بیٹی کنواری رہ گئی تھی۔ یہ ایسی ضرورت تھی، جس کے لیے شکیل کی کسی بھی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا تھا۔ لہذا اس نئے گھر میں اُس کے بارے میں بھی ویسا ہی سوچا جانے لگا جیسا کہ ایک بیٹے کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا۔ صفیہ، شرفُ اللہ کی اکلوتی اولاد تھی۔ اُس کے پاس جو کچھ تھا، اُسی کا تھا۔ دونوں کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری سمجھا گیا کہ شکیل کالج میں داخلہ لے لے۔ سال بھر کی ملازمت اور خواری کے بعد شکیل فوری طور پر مزید پڑھنے کی طرف راغب نہ ہو پایا۔ جب اسی کی بیوی صفیہ نے ایک شفیق ماں کی طرح اُس کا حوصلہ بڑھایا اور سسر نے یقین دلایا کہ تعلیم پر اُٹھنے والے سارے اِخراجات وہ خود اٹھائیں گے تو اُس نے کالج میں داخلہ لے لیا۔

یہیں وہ شاعری کی طرف راغب ہوا تھا۔

جن دنوں میں شکیل کی طرف متوجہ ہوا اُس نے ایم اے کر لیا تھا اور ایک غیر سرکاری کالج سے وابستہ تھا۔ شام کو وہ اسی کالج میں چلنے والی اکیڈمی میں پڑھا کر خوب کما بھی رہا تھا، تاہم اس بارے میں مطمئن نہ تھا اور کچھ نیا کرنے کی بابت مسلسل سوچا کرتا۔ ان دنوں اس شہر میں پراپرٹی کا کاروبار بہت عروج پر تھا۔ اُس نے دو ایک ایسے سودے کمیشن کی بہ جائے ٹاپ یعنی پلاٹ نقد اُٹھا کر بیچنے کی بنیاد پر کیے۔ اِن سودوں نے اُسے اِتنا مارجن دیا کہ وہ یکسوئی سے اس کاروبار میں جُت گیا۔ پھر تو ٹاپے پر ٹاپا اُترنے لگا اور اس کے حالات بدلتے چلے گئے۔

اس کے حالات ہی نہیں بدلے، وہ خود بھی بدلتا چلا گیا۔

شہر بھر کے اُن شاعروں نے سُکھ کا سانس لیا جو مشاعروں میں اُس کی ساری توجہ سمیٹ لینے پر اس سے نالاں رہتے تھے، کہ اَب وہ اِدھر آتا ہی نہیں تھا۔ ایسا نہیں ہوا کہ اُس نے تقاریب میں آنا یک دم موقوف کر دیا تھا۔ پہلے پہل اس میں تعطل کے وقفے پڑے۔ پھر جب کبھی وہ آتا تو مجھے بھی ساتھ اُچک کر باہر لے جاتا کہ اُسے سننے سنانے سے کوئی دل چسپی نہ رہی تھی۔ گاڑیاں بدلنا اُس کا معمول ہوتا جا رہا تھا کہ اِس کاروبار میں بھی اُس نے اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔

یہ بدلا ہوا شکیل دیکھ کر میں اُس شکیل کی بابت سوچنے لگتا تھا جسے پہاڑوں سے آتے ہی مجبور پا کر گل زَادہ نے پچھاڑ لیا تھا۔

شروع شروع میں، میں سمجھتا رہا تھا کہ وہ صفیہ سے شادی کر کے مطمئن ہو گیا تھا۔ اُس کی زندگی میں جس طرح آسائشیں آ رہی تھی ان کے جھانسے میں وہ خود بھی ایک مُدّت تک یوں ہی سمجھتا رہا تھا۔ اس عورت کے بطن سے اُس نے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں پیدا کیں۔ بقول اُس کے اُسے اپنے بچوں سے بہت محبت تھی۔ یہ بعد کی بات ہے کہ اس نے گاڑیاں اور لڑکیاں بدلنا مشغلہ بنا لیا تھا۔ اُن دنوں اُس نے نہ صرف صفیہ کا بل کہ اپنے تینوں بچوں کا ذِکر بھی چھوڑ دیا تھا۔ میں نے کہا نا کہ میں شکیل کے بہت قریب تھا۔ یہ بھی بتادوں کہ اُس کے بیوی بچے مجھ سے بہت مانوس ہیں، تاہم کہتا چلوں کہ جس تیزی سے وہ اُن سے دُور ہوا تھا، میں بھی انہیں ملنے سے کترانے لگا تھا۔ میں نے اَندازہ لگا لیا تھا کہ وہ شکیل کے سب لچھن جان گئے ہوں گے۔ میں نے اُن کے سامنے جاتا تو ممکن تھا کہ صفیہ ا س حوالے سے بات چھیڑ کر میری مدد مانگ لیتی۔ میں جانتا تھا جس لذّت کی دلدل میں وہ اُتر چکا تھا کوئی بھی اُسے نکال نہیں سکتا تھا۔ حتی کہ میں بھی۔ میں اپنے تئیں ایک آدھ بار بچوں اور صفیہ کا ذِکر کر کے اُسے اس دلدل سے نکالنا چاہا تھا۔ بچوں کے نام پر تو وہ چپ ہو گیا مگر صفیہ کا ذِکر آتے ہی اُس نے ویسا ہی قہقہہ لگایا جیسا کہ وہ گل زَادہ کا نام آنے پر لگایا کرتا تھا۔

گل زادہ اور صفیہ میں اگر کوئی مشابہت ہو سکتی تھی تو وہ دونوں کا بھاری بھرکم وجود تھا جو تھل تھل کرتا تھا۔

ایک اور بات جو مجھے ہمیشہ اُلجھن میں ڈالتی رہی ہے، وہ شکیل کا صفیہ کے ذکر پر عجب طرح کا قہقہہ لگانا تھا، ایسا قہقہہ کہ بات محض اس مشابہت تک محدود نہ رہتی تھی۔

صفیہ شکیل سے عمر میں نو دس سال بڑی ہو گی۔ بچوں کی پیدائش کے بعد تو وہ اُس کے مقابلے میں کہیں بوڑھی دکھائی دیتی تھی۔ تاہم وہ اُس کے بچوں کی ماں تھی اور اس کا یوں اس کی توہین کرنا مجھے بہت کَھلتا۔ جس روز وہ ایک قیمتی گاڑی پر آ کر مجھے تقریب سے اُٹھا کر ایک ہوٹل لے گیا تھا، اس نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس کی عمر کے آدمی کے لیے ایک جوان عورت کے وجود کی کیا اہمیت تھی، اُسی روز اُس نے اپنے موبائل کے قدرے زیادہ پکسل والے کیمرے سے لی گئی پانچ مختلف لڑکیوں کی تصاویر دکھائی تھیں، جن میں سے ایک تصویر تو ایسی تھی جس میں وہ خود بھی موجود تھا۔ موبائل کا ڈسپلے بڑا، اور تصویریں خوب شوخ، شفاف اور روشن تھیں۔ جس تصویر میں وہ خود موجود تھا، اُس کے آگے کو جھکے ہوے دائیں کندھے سے میں نے اَندازہ لگایا کہ اسی سمت کے بازو کو آگے بڑھا کر یہ تصویر اس نے اپنے موبائل سے خود کھینچی تھی۔ اس کے ساتھ ایک ایسی لڑکی تھی جس کی عمر ہو نہ ہو اُس کی اپنی بڑی بیٹی سونیا جتنی تھی۔ لڑکی اور وہ خود بھی، جہاں تک تصویر میں نظر آ رہے تھے، لباس کی تہمت سے پاک تھے۔ اگر چہ تصویر میں سے لذّت اُبلی پڑ رہی تھی مگر سونیا سے اُس تصویر والی لڑکی کی مشابہت قائم کرتے ہوے میں سارا مزا کِرکِرا کر بیٹھا تھا۔

مجھے سونیا سے اُس لڑکی کا موازنہ نہیں کرنا چاہیے تھا، جس کے ساتھ بقول شکیل کے، اس نے نوٹوں میں تولنے کے بعد ایک رات کی رفاقت پائی تھی۔

ماننا پڑے گا کہ مارکیز کی کہانی کا بوڑھا عورتوں کی گنتی کے بارے میں کہیں آگے تھا۔ تاہم یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ان عورتوں پر خرچ کے معاملے میں )اگر فی کس عورت کے حساب سے خرچ کا تخمینہ لگایا جائے تو( شکیل کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ یہ بھی بجا کہ مارکیز کا بوڑھا صحافی، جسے چکلا چلانے والی روسا کبرکس ’’ اے میرے اسکالر‘‘ کہہ کر مخاطب کرتی تھی، جس عورت سے بھی (اس ناول کے ترجمہ کار کی اصطلاح میں جفتی کا) تعلق بنانا چاہتا، اُسے معاوضہ ضرور ادا کیا کرتا تھا، لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ وہ تھا پَرلے درجے کا کنجوس۔ اگر آپ نے یہ ناول مکمل طور پر پڑھ رکھا ہے تو آپ کی نظر میں اسی مرکزی کردار کا اعترافی بیان ضرور گزرا ہو گا جس کے مطابق وہ بخیل آدمی تھا۔ اس مَقام پر پہنچ کر تو ہو نہ ہو آپ کی ہنسی ضرور خطا ہو گئی ہو گی، جہاں اس جنس زدہ بوڑھے نے اپنی نوے ویں سالگرہ کی رات ایک باکرہ کے ساتھ گزارنے کے لیے خرچ کا حساب چودہ پیسو لگایا تھا۔ یعنی اخبار سے ملنے والے پورے ایک ماہ کی کالم نویسی کے معاوضے کے برابر۔ پھر جس طرح اس بوڑھے نے پلنگ کے نیچے کے مخفی خانوں سے عین حساب کے مطابق ریزگاری نکالی تھی، دو پیسو کمرے کا کرایہ، چار مالکہ کے لیے، تین لڑکی کے واسطے، پانچ رات کے کھانے اور اوپر کے خرچے کے لیے، سچ پوچھیں تو یہ پڑھ کر میری ناف سے ہنسی کا گولا اُٹھا اور میرے جبڑوں کو اِتنا دُور اُچھال گیا تھا کہ وہ بہت دیر بعد واپس اپنی جگہ پر آ پائے تھے۔ میری کہانی کا شکیل اُن لوگوں میں سے نہیں تھا جو اِس معاملے میں بھی گِن گِن کر خرچ کرتے ہیں۔ یہ جو اُس نے لڑکی کو نوٹوں میں تولنے کی بات کی تھی تو اِس سے قطعاً اُس کی یہ مراد نہیں تھی کہ اُسے اپنا بہت سا روپیہ خرچ ہو جانے کا احساس تھا۔

وہ تو اُس لڑکی کے دام بالا بتا کر اُس کی قدر و قیمت کا احساس دلانا چاہتا تھا۔

’’اَپنی سوگوار بیسواؤں کی یادیں‘‘ نامی کتاب میں عین وہاں سے کہانی جنس کا چلن چھوڑ کر محبت کی ڈگر پر ہو لیتی ہے، جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ قحبہ خانے کے ایک اَہم گاہک کو پویلین کے پہلے کمرے میں کوئی چاقو مار کر قتل کرنے کے بعد فرار ہو گیا تھا۔ کہانی کے بوڑھے اسکالر نے جب خُون سے لت پت بستر پر اُبلے ہوے مرغ کی طرح پیلے ہو جانے والے اُس لحیم شحیم آدمی کی لاش کو پڑے دیکھا تھا تو اُس کے جسم پر کپڑے کی ایک دھجی تک نہ تھی۔ کہانی کا یہ حصّہ پڑھ کر پہلے تو میرے وجود میں سنسنی دوڑی مگر جب یہ بتایا گیا کہ اس ننگی لاش نے جوتے پہن رکھے تھے تو میری ایک بار پھر ہنسی چھوٹ گئی تھی۔ مارکیز نے کہانی کے اس حصے میں جنس کا میٹھا اُس مُردے پر مَل کر اُسے لذّیذ بنا تے ہوے بتایا ہے کہ مقتول کا جسم اَبھی اَکڑا نہیں تھا۔ اُس کی گردن پر ہونٹ کی شکل کے دو زخم تھے اور یہ کہ موت کے باعث اُس کے سکڑے ہوے عضو پر ایک کونڈم ہنوز چڑھا ہوا تھا۔ کہانی لکھنے والے نے یہ وضاحت کرنا بھی ضروری جانا تھا کہ کونڈم غیر اِستعمال شدہ دکھائی دے رہا تھا۔

یہاں مجھے مُترجِم سے اپنی ایک شکایت ریکارڈ پر لانی ہے اور اُسے داد بھی دینی ہے۔ شکایت کا یہ موقع وہاں وہاں نکلتا رہا ہے جہاں اُس نے اُردو جملوں کو بھی ترجمہ کیے جانے والے مَتن کے قریب رکھ کر اُنہیں پیچیدہ بنا دیا۔ ناول کے نام کے ساتھ بھی یہی روّیہ روا رکھا گیا ہے جب کہ اِسے تھوڑا سا بدل کر رواں کرنے کے لیے ’’اَپنی بیسواؤں کی یاد میں‘‘ کر دیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ اور اَب مجھے بَرملا اس جرات اور سلیقے کی داد دینی ہے جس کو رو بہ عمل لا کر اُس نے ان لفظوں کا ترجمہ کر لیا ہے، جو بالعموم ہمارے ہاں شائستگی کے تقاضے کے پیش نظر زُبان پر نہیں لائے جاتے ہیں۔ تاہم اِسے کا کیا کیجئے کہ کونڈم کا ترجمہ کرنا اُس نے ضروری نہیں سمجھا۔

شاید اِس لفظ کا ترجمہ کرنا اُس کے بس میں تھا ہی نہیں۔

یہاں شکیل سے متعلق دو واقعات کہانی میں گھسنے کو بے تاب ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پہلا واقعہ خود بخود آگے چل کر دوسرے واقعے سے جُڑ جاتا ہے۔ پہلے واقعہ کا تعلق اُن دنوں سے ہے، جن دنوں اس کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے مڈل اسٹنڈرڈ اِمتحان کی تیاری کے لیے یونین کونسل مسیاڑی کے دفتر میں اضافی پڑھائی کا اِہتمام کیا تھا۔ امتحانوں تک اُسے اور اُس کے ہم جماعتوں کو وہیں رہنا، پڑھنا اور رات گئے وہیں سونا تھا۔ یہ قصّہ شکیل بہت مزے لے لے کر اور خُوب کھینچ تان کر سُنایا کرتا مگر مختصرا ً یوں ہے کہ جب ماسٹر صاحب چلے جاتے اور دن بھر پَڑھ پَڑھ کر اُکتائے ہوے لڑکوں کو کچھ نہ سوجھتا، تو وہ ملحقہ کمرے میں منصوبہ بندی والی دواؤں کے ساتھ پڑے ہوے چمکیلے لفافوں میں بند سفید غبارے چوری کر کے خُوب پھُلایا کرتے تھے۔ یہ غبارے اَگرچہ اس طرح رنگین نہ تھے، جیسے تنگلی میں سُودے کی ہٹی پر مِلتے تھے مگر ان میں ایک ایسی خوبی تھی جو ان رنگین غباروں میں بھی نہ تھی کہ یہ ہوا بھرنے پر بہت پھُولتے تھے۔ اُن دنوں دیہی علاقوں کے اس عمر کے بچوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان چِٹّے خمور غباروں کا اصل مصرف کیا تھا۔ وہ سب اس پر خُوش تھے کہ اُن کے ہاتھ بہت سے غبارے لگ گئے تھے اور رات گئے ان میں اِس پر مقابلہ لگا رہتا تھا کہ کون انہیں سب سے زیادہ پھُلائے گا۔ شکیل کے مطابق اُن دنوں اِن غباروں پر سفید رنگ کا سفوف مَلا ہوتا تھا جس سے ان کے ہونٹ اور گال یوں ہو جاتے تھے جیسے اُن پر آٹا مَل دیا گیا ہو۔ اِسی سفیدی نے اُن کی شرارتوں کا پول ہیڈ ماسٹر صاحب پر کھول دیا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کو پہلے تو غصہ آیا پھر کچھ سوچتے ہوے ہنس پڑے اور کہا ’’ نامعقولو! یہ ناپاک ہوتے ہیں کہ اِن میں بیمار پیشاب کیا کرتے ہیں۔‘‘

اَگلے روز ساتھ والے کمرے پر تالا نہ پڑ گیا ہوتا تو وہ ضرور تجربہ کرتے کہ اِن غباروں کو بیمار کیسے اِستعمال کرتے تھے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کی بات اُنہیں مزید اُلجھا گئی تھی۔

اِسی شکیل نے، کہ جسے ہیڈ ماسٹر صاحب نے ایک زمانے میں اُلجھا دیا تھا، اَب اس اُلجھن سے پوری طرح نکل آیا تھا۔ اُس نے مجھے لگ بھگ ویسے ہی کھُلے مُنّھ والے غبارے کی اپنے موبائل کے قدرے زیادہ پکسل والے کیمرے سے کھینچی ہوئی تصویر تب دکھائی تھی، جب میں اجلاس سے اُٹھ کر اُس کے ساتھ ہوٹل آ گیا تھا اور جب وہ اپنی دوست لڑکیوں کی پانچوں تصویریں دکھا چکا تھا۔ مجھے اُس کا سنایا ہوا اوپر والا واقعہ عین اِس موقعے پر یوں یاد آیا تھا کہ تصویر میں بھی لگ بھگ ویسا ہی غبارہ تھا۔ تصویر والا غبارہ بالکل سفید نہ تھا، ایسی جلد کی رنگت لیے ہوے تھا جس میں چمک بھی آ گئی تھی۔ میں نے کراہت کو اپنے حلقوم تک آتے پا کر اُس کا موبائل اسے لوٹانا چاہا تو نہ چاہتے ہوے بھی پھسلتی ہوئی ایک نظر اُس غبارے پر ڈال لی۔ مجھے صاف دکھ رہا تھا کہ اس میں کسی بیمار نے پیشاب تو نہ کیا تھا، تاہم کچھ تھا جس سے وہ ذرا سا پھول کر ایک طرف کو ڈھلک گیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ رفتہ رفتہ وہ ساری لڑکیاں جن کی اس نے تصویریں بنا رکھی تھیں یا ان جیسی دوسری لڑکیاں جو کیمرے والا موبائل دیکھتے ہی بِدک جاتی تھیں، ایک ایک کر کے اس کی زندگی سے نکل گئیں اور ان سب کی جگہ عاتکہ لے لی تھی۔

بتایا جا چکا ہے کہ مارکیز کے لذّت مارے بوڑھے کی دیلگدینہ پانچ دسمبر کو پندرہ برس کی ہوئی تھی اور کہانی میں جب سالگرہ والی رات آتی ہے تو بوڑھے اسکالر کی حرکتیں پڑھ کر گمان سا ہونے لگتا ہے کہ جیسے اُسے اس لڑکی سے محبت ہو گئی ہو گی، مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ اسے پورا گانا سنا کر اور اس کے پورے بدن پر بوسے دے کر ایک بے قابو مَہک کو جگانا چاہتا تھا۔

اُس روز وہ اس بے قابو مہک کو جگا کر اور خوب تھک کر سو گیا تھا۔

اس کی محبت تو تب جاگی تھی جب قتل والی رات کے بعد دیلگدینہ اور اُس کا مِلنا ایک عرصے تک ممکن نہ رہا تھا۔ اس کے بعد کے صفحات بوڑھے اسکالر کی اس لڑکی کی محبت میں تڑپ کا احوال سمیٹے ہوے ہیں۔ شکیل کی کہانی میں عاتکہ لگ بھگ اِسی طرح کی تڑپا دینے والی محبت کے لیے موزوں ٹھہرتی ہے جس طرح کی محبت مارکیز کے مرکزی کردار کو اس پندرہ سالہ لڑکی سے تھی، تاہم اتنی ساری مشابہتوں کے باوجود شکیل کی کہانی بہت مختلف ہو جاتی ہے۔

عاتکہ کو لے کر شکیل نے یہ شہر چھوڑ دیا تو مجھے اُس کی اِس حرکت پر شدید صدمہ پہنچا۔

جس خاندان نے اس شخص کو شہر میں آسرا دیا تھا، اس خاندان سے اُس نے وفا نہ کی تھی۔ شکیل سے قربت کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ صفیہ نے اپنی ذات مٹا کر اُس کی خدمت اور محافظت کی تھی۔ جس طرح مائیں اپنی اولاد کے عیب چھپا کر اور اُن کی خطاؤں کو بھول کر اُنہیں اپنی محبت کی چادر سے باہر نہیں نکالتیں، بالکل اسی طرح کی مسلسل اور بے ریا محبت اُسے صفیہ سے ملی تھی۔ جب کئی روز بعد شکیل کے یوں شہر چھوڑنے کی خبر ملی تو میں بھابی کا دُکھ بانٹنے اُس کے گھر پہنچ گیا، اس خدشے کے باوجود کہ مجھے وہاں جا کر اپنے دوست کے حوالے سے ناحق خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہاں پہنچ کر مجھے اَندازہ ہوا کہ شکیل کی ساری حرکتوں کا اَندازہ صفیہ کو تھا۔ دونوں بچیاں مجھے دیکھتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گئیں، تاہم صفیہ یوں حوصلے میں تھی جیسے وہ شکیل سے جدائی اور بے وفائی کا وار سہہ گئی تھی۔ میں نے اَندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو اس کا سبب کچھ اور تھا۔ شاید دونوں کی عمر کا وہ تفاوت جس نے عین آغاز ہی سے دونوں کے بیچ شدید اور تند جذبوں والا تعلق قائم نہ ہونے دیا تھا۔ تاہم وہ پریشان تھی، اتنا کہ جتنا کوئی اپنی بے اِنتہا قیمتی شے کے کھو جانے پر پریشان ہو سکتا تھا۔ اب ماں کے پیار والا سارا احساس مجھے تب محسوس ہوا تھا جب اُس نے اپنے بیٹے شہباز کو دیکھا تھا۔ شہباز لگ بھگ اس عمر کو پہنچ گیا تھا جس عمر میں شکیل اس شہر آیا تھا۔ جب اُس کی ماں نے یہ بتایا کہ شہباز نے کالج جانا چھوڑ دیا تھا اور کسی دکان پر کام کر کے اس گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں تو میں نے دیکھا، شکیل کے دل گرفتہ بیٹے کا چہرہ غصے سے تمتمانے لگا تھا اور اُس نے اپنی مٹھیاں اور ہونٹ سختی سے بھینچ لیے تھے۔

مارکیز نے آخری پیراگراف لکھتے ہوے بوڑھے اسکالر کے گھر کے باورچی خانے میں دیلگدینہ کو اپنی پوری آواز سے گاتا دکھا کر اپنی کہانی کو رومانوی جہت دے دی تھی۔ مگر میری اس کہانی کا المیہ یہ ہے کہ اپنے خاتمے پر اس سے سارا رومان اور ساری لذّت منہا ہو گئی ہے۔ شکیل اپنے ساتھ بھاگ جانے والی لڑکی سے بھی اُوب چکا ہے۔ جس عمر میں اُسے یہ سیکھنا تھا کہ شدید اور الہڑ جذبوں کو طول کیسے دیا جاتا ہے، وہ سدھائے ہوے جذبوں سے نبٹتا رہا تھا۔ وہ واپس آیا تو سیدھا گھر نہیں گیا میرے پاس آیا، شاید وہ اپنے گھر کی دہلیز ایک ہی ہلے میں پار کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا۔ میں اُسے رات بھر حوصلہ دیتا رہا اور سمجھاتا رہا کہ اُس کے بیوی بچوں کو اُس کی ضرورت تھی اور یہ کہ اُس کے اپنے گھر میں اُس کا اِنتظار ہو رہا تھا مگر اَگلے روز جب میں اُس کے ساتھ اُس کے گھر گیا تو اُس کے بیٹے نے اُس پر پستول تان لیا تھا۔ صفیہ نے واقعی اپنے شکیل کو معاف کر دیا تھا، تب ہی تو اُس نے یوں پستول تاننے پر اپنے بیٹے کی چھاتی پیٹ ڈالی تھی۔ شہباز نڈھال ہو کر دہلیز پر ہی بیٹھ گیا۔ صفیہ نے اُس کی طرف دیکھے بغیر اُسے اُلانگھا اور اپنے شوہر کی طرف لپکی۔ دہلیز پر بیٹھے نوجوان کے ہاتھ میں جنبش ہوئی اور اگلے ہی لمحہ گولی چلنے کی آواز کے ساتھ ایک کربناک چیخ میرا وجود چیر گئی تھی۔

 

ٍ

لوتھ

 

اُس کی ٹانگیں کولہوں سے بالشت بھر نیچے سے کاٹ دی گئی تھیں۔

ایک مُدّت سے اُس نے اپنے تلووں کے گھاؤ اپنے ہی بیٹے پر کھُلنے نہ دئیے تھے . . . .ضبط کرتا رہا اور اُونچی نیچی را ہوں پر چلتا رہا تھا ……مگر کچھ عرصے سے یہ زخم رسنے لگے تھے اور چڑھواں درد گھٹنوں کی جکڑن بن گیا تھا …. حتیٰ کہ دردوں کی تپک اس کے حواس معطل کرنے لگی۔ اُسے سمتوں کا شعور نہ رہتا تھا۔ جدھر جانا ہوتا اُدھر نہ جاتا بل کہ اُلٹ سمت کو نکل کھڑا ہوتا۔

اُسے بار بار ڈھونڈ کر لایا جاتا۔

ہر بار اُس کے زخم رس رہے ہوتے تھے۔

زخم تھے تو بہت پرانے مگر بیٹے پر اُن کے کھُلنے اور حواس پر شب خُون مارنے کا واقعہ ایک ساتھ ہوا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ اس کا بیٹا ٹی وی کے سامنے بیٹھا بار بار دکھائے جانے والے وقت کے عجوبہ سانحے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ پہلے ایک طیارہ آیا قوس بناتا ہوا …… اور …… ایک فلک بوس عمارت سے ٹکرا گیا شعلے بھڑک اُٹھے …… اور اَبھی آنکھیں پوری طرح چوپٹ ہو کر حیرت کی وسعت کو سمیٹ ہی رہی تھیں کہ منظر میں ایک اور طیارہ نمودار ہوا۔ پہلے طیارے کی طرح …… اور پہلی عمارت کے پہلو میں اُسی کی سی شان سے کھڑی دوسری عمارت کے بیچ گھس کر شعلے اُچھال گیا۔

وہ اپنے بیٹے کے عقب میں بیٹھا یہ سارا منظر انوکھے اطمینان سے دیکھتا رہا جیسے یہی کچھ ہونا تھا …… یا پھر جیسے یہی کچھ ہونا چاہیے تھے۔ اَگلے روز اطمینان کی جگہ بے کلی نے لے لی …… حتّی کہ کچھ ہی دنوں میں وہ دہشت زدہ ہو چکا تھا۔

جب پہلی بار یہ منظر سکرین پر دکھائی دیا تھا انوکھی طمانیت کی بھبک کے باعث اُس نے اپنے ہی تلو وں کے زخمی حصے کو سختی سے دبا لیا تھا جس کے سبب اس کے ہونٹوں سے سسکاری نکل گئی تھی۔

بیٹے نے پلٹ کر باپ کو دیکھا اور فوری طور پر اس سسکاری کے کچھ اور معنی نکالے تھے۔۔۔ تاہم جب اُس کی نظر رستے ہوے تلووں پر پڑی تو بہت پریشان ہو گیا تھا۔

اُسے گلہ تھا کہ آخر اُس سے ان زخموں کو اوجھل کیوں رکھا گیا تھا؟

وہ اَز حد فکر مندی ظاہر کرنے لگا تھا۔۔۔ اور شاید فکر میں مبتلا ہو بھی گیا تھا۔۔۔ لگ بھگ اِتنا ہی فکر مند، جتنا کہ دونوں فلک بوس عمارتوں کے ساتھ طیاروں کے ٹکرانے کے بعد ہوا تھا۔

بعد کے دنوں میں درد اور تشویش میں اِضافہ ہوتا چلا گیا حتّی کہ دونوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے۔

پھر یُوں ہوا کہ بیٹے نے مختلف ہسپتالوں کا دورہ کرنے والی ملٹی نیشنل اداروں کے ڈاکٹروں کی ٹیم سے رابطہ کیا۔ غیر ملکی ڈاکٹروں نے یہاں کے ڈاکٹروں کو مشورہ دیا اور اُن صورتوں پر غور ہونے لگا جو اُس کے باپ کے علاج کے لیے ممکن تھیں۔

مگر اُس کا باپ اِن ڈاکٹروں کے نام ہی سے بِد کنے لگا تھا۔ اُسے نہ جانے کیوں اُن کی صورتیں اس کمپنی کے کارپردازان کی سی لگنے لگتی تھیں، جنہوں نے اپنے پراجیکٹ ایریا تک بہ سہولت رسائی کے لیے سامنے کی پھلواری بھی ایکوائر کروا لی تھی۔ اُس کے باپ کا خیال تھا کہ تب جو زمین کو زخم لگے تھے اُس کے پاؤں کے تلووں نے سنبھال لیے تھے۔ اُس کا بیٹا کورآباد کو نکلتی سراب اُچھالتی شاہراہ پر لمبی ڈرائیو کرتے ہوے اُن باتوں کی بابت سوچتا اور قہقہے مار کر ہنستا تھا۔

وہ قہقہے مار مار کر ہنستا رہا حتّی کہ قہقہوں کے تسلسل سے اُس کی آنکھوں میں کسیلا پانی بھر گیا۔

جب اُس کا باپ رفتہ رفتہ اپنے حواس کھوتا چلا جا رہا تھا، تب بھی اُس کی آنکھوں میں ایسا ہی کسیلا پانی تھا۔

پہلے پہل یوں ہوا تھا کہ ٹی وِی پر دونوں عمارتوں سے جہاز ٹکراتے دیکھ کر وہ بھی قہقہہ بار ہوا اور ہوتا چلا گیا۔۔۔ حتّی کہ آنکھیں کڑوے پانیوں سے بھر گئیں۔ جب اُس کی آنکھیں، بار بار نشر کیا جانے والا منظر، دیکھنے کے قابل ہو گئیں تو وہ عجیب طرح سے سوچنے لگا تھا۔ منظر میں تو جہاز جڑواں فلک بوس ٹاورز کے بیچ گھستے تھے مگر اُسے یوں لگتا، جیسے وہ دونوں ٹاورز لوہے اور سیمنٹ کے نہ تھے، اُس کی اپنی ہڈیوں اور ماس کے بنے ہوے تھے۔

اُدھر سے جب بھی شعلے اُٹھتے تھے اِدھر اس کے درد کی چاہنگیں اُسے جکڑ لیتی تھیں۔

درد بڑھتا گیا اِس قدر۔۔۔ جس قدر کہ وہ بڑھ سکتا تھا۔

جِن ڈاکٹروں کے ساتھ بیٹے نے رابطہ کیا تھا، اُن سب کا کہنا تھا، بہت دیر ہو چکی تھی۔ ٹانگوں کا کٹ جانا اُس کے باقی بدن کی بقا کے لیے ضروری ہو گیا تھا

اُس کے باقی بدن کو بچا لیا گیا۔

اس بدن کو، جس کے زندہ یا مردہ ہونے کے بیچ کچھ زیادہ فاصلہ نہ تھا۔

خود اُسے بھی اَندازہ نہ ہو پایا کہ آپریشن کے بعد وہ کتنے عرصہ تک بے سُدھ پڑا رہا … تاہم اس سارے دورانیے میں اُس درد کی شدت کا سلسلہ شاید ہی معطل ہوا ہو گا، جو اَندر یوں گونجتا تھا کہ باہر کی سمت چھلک مارنے لگتا تھا۔

درد کی کَسمَساہَٹ جب ہونٹوں تک پہنچی تو اُس نے نچلے ہونٹ کو دانتوں سے جکڑ لیا .. درد چہرے کے خلیے خلیے کو تھرّانے لگا …… حتّی کہ پورے بدن پر لرزہ سا تَیر گیا۔

اور یہ وہ آخری لَرزَہ تھا جو اُس نے اپنے پورے بدن پر بکھر جانے دیا تھا۔

بدن پر لوٹتی تھراہٹ کے سبب اُس کے چاروں طرف بھگدڑ سی مچ گئی۔ سب سے زیادہ فکر بیٹے کو لاحق تھی۔ بدن سے باہر چھلکتے درد کے با وصف اَبھی تک وہ باہر کی دنیا سے بہت دور تھا ….. کہ وہ تو وہاں تھا جہاں درد کے دھارے کے ساتھ بسین نالے کا پانی تھا۔

اس پانی کے بہاؤ کی شوریدگی تھی اور وہ ساری دہشت بھی تو وہیں تھی جسے پرے دھکیلنے کے وہ عمر بھر جتن کرتا رہا تھا۔

بسین نالہ جہاں وہ رہتا تھا وہاں سے سات میل ادھر پڑتا تھا۔ اپنے اُن دنوں کے دوستوں کے ساتھ وہ برسوں اس نالے پر جاتا رہا تھا۔ وہ عمر کے اس مرحلے میں تھا کہ جب بہتے پانیوں کو دیکھ کر خواہ مخواہ نہانے کو جی کرتا ہے۔ وہ اپنی شلوار نیفے میں اُڑس لیا کرتا تھا بڑے پَلّوں والی بھاری شلوار کو اِتنے بَل دیئے جاتے کہ اُس کا آسن کاٹنے لگتا تھا۔ وہ بسین میں گھس جاتا تو اُس وقت تک پانی سے باہر نہ نکلتا تھا جب تک کہ اُس کا آخری دوست بھی باہر نہ نکل آتا۔ بسین کا پانی اُچھالنا اُس کی ریت پر ننگے پاؤں چلنا اور پانی کے بہاؤ کی آواز سننا مَدّھم سی اور مَدھُر سی اُسے اَچھا لگتا تھا۔

وہ اپنے دوستوں سے اِس قدر وابستہ ہوتے ہوے بھی اُن جیسا نہ ہو سکا تھا۔ اُس کے ساتھی عین اس وقت کہ جب وہاں سے ریل کو گزرنا ہوتا تھا اُسے کھینچ کر اُدھر اوپر لے جاتے …… وہاں جہاں تنگ سے پُل کے اُوپر سے ریل گزرتی تھی تو سارے میں ریل کے گزرنے کی گڑگڑاہٹ بھر جاتی تھی۔ ریل گزرنے کے لمحات میں وہ سب پُل کے نیچے سے اُوپر کا نظارہ کرتے اور قہقہے مارتے تھے …. مگر وہ دہشت زَدہ ہو کر وہاں سے بھاگ نکلتا تھا۔ قہقہے مزید بلند ہوتے  وہ ساری قوت مجتمع کر کے قدم اُٹھاتا اِتنی بھرپور قوت سے کہ جیسے اُس کا اگلا قدم وہاں پڑے گا جہاں نالہ دم توڑ دیتا تھا۔

بعد کے زمانے میں وہ اس چھوٹے سے نالے کی بابت سوچتا تھا تو اُس کا دم ٹوٹتا تھا۔

وہ کوشش اور ہمت سے اس کی یادوں کو حافظے پر سے پرے دھکیلتا رہا۔

جب تک وہ حواس میں رہا، اپنی اِس کوشش میں کام یاب بھی رہا۔

مگر بسین کے اِس معصوم اور بے ضرر حوالے کو بعد ازاں وقوع پذیر ہونے والے سانحوں نے ثانوی بنا دیا تھا۔ اب تو اُس کی یادوں میں بسین کے اَندر بپھرے پانیوں کا شراٹا بہہ رہا تھا اور وہ ایک ایک منظر پوری جزئیات کے ساتھ دیکھتا تھا۔

پہلے پہل کا دھیرے دھیرے بہنے والا بسین نالہ، بپھر کر دریا بن چکا تھا۔

وہ پُل، جس کے نیچے کی چھاجوں برسنے والی دہشت، اسے پَرے پھینک دیتی تھی پانیوں کی تندی میں بہہ گیا تھا۔

اور وہ فاصلہ جو وہ بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ پیدل ہی طے کر لیا کرتا تھا ٹرین پر طے ہوا تھا۔

ٹرین پراُس کے لٹے پٹے مسافروں سے کہیں زیادہ خوف لدا ہوا تھا

دہشت میں گندھا خوف چیخیں اور سسکیاں اُچھالتا ہوا۔

پُل ٹوٹ جانے کے سبب پٹڑی اُکھڑ کر پانیوں کے سنگ بہہ رہی تھی …… اور ریل گاڑی کو، کوس بھر پہلے ہی روک لیا گیا تھا۔

ریل کے رُکتے ہی دہشت کا منھ زور ریلا اُمنڈ پڑا، جو بسین کے کِنارے کِنارے دور تک پھیل گیا تھا۔ اُوپر کہیں شدید بارشیں ہوئی تھیں  یہاں بھی مینہ کم نہ برسا تھا اور ابھی تک پھوار سی پڑ رہی تھی مگر اُوپر کی بارشوں نے نالے کو دریا بنا دیا تھا۔ حوصلے تو پہلے کے ٹوٹے ہوے تھے، آگے کا پُل ٹوٹ گیا تھا اور بلوائی کسی بھی وقت ان تک پہنچ سکتے تھے۔ بسین کا بپھرا ہوا پانی سامنے تھا بلوائی نہیں پہنچے تھے مگر اُن کی دہشت پہنچ گئی تھی۔

شُوکتی ہوئی اور خوخیاتی ہوئی دہشت۔۔۔

خوف سینوں سے سسکاریاں کشید کرتا تھا۔۔۔ اتنی زیادہ اور اس تسلسل سے کہ یہ سسکاریاں بسین کے پانیوں کے شور شرابے پر حاوی ہو رہی تھیں۔

وہاں کچھ ہمت والے بھی تھے جو خوف کو پرے دھکیلتے دھکیلتے اُکتا گئے تھے۔ اب اُنہیں اُن کے حوصلے اُکساتے تھے لہذا، اُنہوں نے بپھرے پانیوں میں اپنے قدم ڈال دیے۔

کئی پار چڑھ گئے تو اسے بھی یقین سا ہونے لگا کہ وہ بھی پار نکل جائے گا۔ اس نے اپنی بیوی کا ہاتھ تھاما ننھّی بیٹی کو کندھے سے لگایا اور ہمت والوں کے ساتھ ہو لیا۔ اُس نے بیوی کو نگاہ سامنے کنارے پر جمائے رکھنے کی تلقین کی اور خود بھی پار دیکھ کر آگے بڑھنے لگا۔

اُس کی بیوی کو آٹھواں آدھے میں تھا۔ پانی دیکھ کر اُسے چکر آنے لگتے تھے  ایک قدم آگے بڑھاتی تھی تو دو پیچھے کو پڑتے تھے۔ وہ سامنے کنارہ دیکھتی تھی مگر اُچھلتا چھل اُچھالتا منھ زور پانی اس کا دھیان جکڑ لیتا تھا۔۔۔ حتی کہ وہ چکرا گئی پاؤں اُچٹ گئے اور وہ پانیوں پر ڈولنے لگی۔

اُس نے بیوی کو چکرا کر پانی پر گرتے ہوے دیکھا تو اُسے سنبھالنے کو لپکا۔ ننھی بیٹی جو کندھے سے لگی تھی اس پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ بیوی کو سنبھالتے سنبھالتے بیٹی پانیوں نے نگل لی۔ اُس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر وہ چند ہی لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

وہ عین بسین کے وسط سے دُکھ سمیٹ کر واپس پہلے کنارے پر پلٹ گئے۔ وہیں انہیں رات پڑ گئی اسی کنارے پر قافلے کی عورتوں نے رات کے کسی سمے اپنی اپنی اوڑھنیوں سے اوٹ بنائی اور سسکیوں کے بیچ ایک معصوم کی ننھی چیخوں کا استقبال کیا۔

یہ وہی معصوم تھا جو اَب اِتنا بڑا ہو گیا تھا کہ اُس نے خود ہی باپ کی ٹانگیں کٹوانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بیٹا ڈاکٹروں کے پینل سے پوری طرح متفق ہو گیا تھا کہ پاؤں کا گھاؤ پھیلتے پھیلتے اوپر تک پہنچ چکا تھا۔ وہ چلنے سے باز نہ آتا تھا…..یوں بقول اُن کے  زخم تازہ ہو جاتے تھے۔ ان زخموں سے اُٹھنے والا سلسلاہٹ جیسا مسلسل درد اُس کے نچلے دھڑ میں اِتنا شدید ہو جاتا کہ اس کی چیخیں نکلتی رہتیں۔ اِتنی بلند اور اِتنے تسلسل کے ساتھ کہ پڑوسی اُدھر ہی متوجہ رہتے تھے۔

ڈاکٹروں کے مطابق گھاؤ زہر بن گئے تھے لہذا آپریشن ضروری تھا۔ بیٹا بھی قائل ہو گیا تھا کہ اس ضمن میں باپ سے رائے لینا مناسب نہیں تھا اور وہ سمجھنے لگا تھا کہ اس کا باپ کوئی معقول رائے دینے کے اہل نہیں رہا تھا۔

بیٹے کو یقین ہونے لگا تھا کہ وہ ساری صورتحال کو بہتر طور پر سمجھ سکتا تھا لہذا اپنے طور پر ہی ڈاکٹروں سے متفق ہو گیا۔ آپریشن خاصا طویل تھا آپریشن ہو گیا تو ڈاکٹروں نے حسب عادت اُسے تسلی دیتے ہوے کہا، اس کا باپ بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔

مگر جب باپ کو ہوش آیا تو وہ اپنے ہی بیٹے سے ایک اور گھاؤ پوری طرح چھپا لینے کے جتن کر رہا تھا۔

یہ اس کے دل کا گھاؤ تھا۔

ایسا گھاؤ جس کے اندر سے درد کا عجب غراٹا اٹھتا تھا …..

وہ غراٹا، جو بدن کو تھرانے کے بہ جائے اسے لوتھ کا سا بنا دیتا تھا۔

 

 

ٍ

 

آدمی کا بکھراؤ

 

 

سی سی یو میں کامران سرور کو کئی گھنٹے قبل لایا گیا تھا مگر اَبھی تک اُس کے دل کی اُکھڑی ہوئی دھڑکنیں واپس اپنے معمول پر بیٹھ نہ پائی تھیں۔ وہ اپنے حواس میں نہیں تھا تاہم ڈاکٹر قدرے مطمئن ہو کر یا پھر اُکتا کر دوسرے مریضوں کی جانب متوجہ ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر کے ایک طرف ہو جانے کے بعد عالیہ نے اُس کے نتھنوں پر ایک جنبش کو سرسراتے پایا۔ صدمے کی وہ دبیز تہ جو اس کے اَندر دھول کی طرح جم چکی تھی، اسے جھاڑنے کی خواہش نے اُس کے دل میں انگڑائی لی تو وہ فوری صدمے کے اثر سے نکل آئی۔ ایک ہی لمحے میں وہ اِس قابل ہو گئی تھی کہ ذہنی تناؤ کو جھٹک کر پہلے تو پھیپھڑوں میں محبوس ساری ہوا کو ایک ہی ہلے میں کھینچ کر باہر پھینک دے اور پھر لمبا سانس لے کر نئی ہوا کو اس کی جگہ لینے بھیج دے۔ سانس کے اس اَدل بدل سے اعصابی تناؤ ٹوٹ گیا اور تعطل میں پڑا کسل اس پر چڑھ دوڑا تو اُس کے اندر جھپکی لے لینے کی خواہش جاگ اُٹھی۔ وقفے وقفے سے اُس کی آنکھیں مندنے لگیں اور وہ بینچ پر بیٹھے بیٹھے ایک طرف کو لڑھکنے لگی۔ اسی کیفیت میں عین اس وقت کہ جب اس کا گرنا یقینی ہو رہا ہوتا وہ جھٹکا کھا کر سنبھلتی اور جم کر بیٹھ جاتی تھی۔ جب وہ کئی بار جھٹکے کھا چکی تو اُس نے اس کے بیڈ کے قریب کھڑے ہو کر اپنے بازوؤں کو فضا میں اُچھالا، ٹانگوں کو تان کر سیدھا کیا، کمان کی طرح جھول کھا چکی کمر کے بل نکالے اور ایک بار پھر ایک لمبی مگر بے روک سانس کو بھر لینے کی پوری گنجائش پیدا کرنے کے لیے اس نے کونوں کھدروں میں اُلجھی ہوئی سانسوں کو بھی کھینچ کھانچ کر باہر نکال پھینکا۔

عین اس لمحہ کہ جب دوسری بار اُس کے پھیپھڑے سانسوں کی تازگی سے آباد ہو رہے تھے، ایک لطیف گداز اس کے سینے سے پورے منظر نامے میں بھر گیا۔۔۔ یوں، کہ مرتے ہوے مریضوں نے بھی اس لمحے میں مرنا معطل کر دیا تھا۔ عالیہ ابھی لمبی سانس کی تانت کا لطف پوری طرح نہ لے پائی تھی کہ اسے اپنے بدن کو چھیدتی بہت ساری نگاہوں کی جانب متوجہ ہونا پڑا۔ اُس کے جسم کا گداز کس قدر حشر اُٹھا سکتا تھا، اس کا وہ اندازہ لگا سکتی تھی لہٰذا جھینپ کر اُس نے ایک جھٹکے سے بازوؤں کو نیچے گرا دیا۔ کھسیانی ہو کر چور نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا، چھاتیوں پر چڑھ آئی قمیض کی تہ کو کھینچ کر سیدھا کیا، ان پر آنچل کو جمانے کی کوشش میں انھیں مزید نمایاں کر دیا اور پوری کوشش کر کے اپنے آپ کو اِدھر اُدھر کے دھیان سے الگ کیا۔ اِحساس اور توجہ کی حاضری کے ساتھ کامران کو دیکھنے کے قابل ہوئی تو اندر کی جھینپ سے چھٹکارا پا چکی تھی لہٰذا کامران کے پاؤں کی جانب بیڈ پر ہی بیٹھ گئی۔

اگرچہ ابھی تک کامران اِسی طرح بے سدھ پڑا ہوا تھا تاہم زندگی کے ننھے منے آثار اس کے نتھنوں سے اُس کے پپوٹوں پر منتقل ہونا شروع ہو گئے تھے۔ خو د کامران کو اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کتنی دیر گہری تاریکی میں ڈوبا رہا تھا۔ تاہم اب اُسے محسوس ہو رہا تھا کہ ایک نامعلوم سی سرسراہٹ، دبیز تاریکی کے ٹھہرے ہوے پانیوں کو چھو کر گزر رہی تھی، یوں کہ اس گاڑھے اندھیرے میں جا بہ جا لہریں اُٹھنے لگی تھیں۔ یہ لہریں، بیربہوٹی کی طرح مکر مار کر بے سدھ پڑے اس کے دل میں ایک اٹھان سی بھر رہی تھیں۔ چھاتی کی گہری کھائی میں لڑھکا ہوا اس کا دل اب واپس اپنے ٹھکانے پر آنے کے جتن کر رہا تھا۔ لگ بھگ یہی وہ دورانیہ بنتا ہے جب کامران کے پورے وجود پر زندگی سے اس کی محبت ایک تھرتھری کی صورت تیر گئی۔ اس حیات اَفزا تھرتھری کو اُس کے قدموں کی سمت بیٹھی عالیہ کے نا زک دل نے بھی بھانپ لیا تھا۔ اس نے بدلے ہوے اس شخص سے اُنس محسوس کیا اور اِطمینان کی ایک نظر اُس کے بدن پر ڈالی، ٹانگوں کو سکیڑ کر اوپر کیا اور وہیں قدموں میں گچھ مچھی ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔

اُس کے دماغ میں یوں گونج دار شور پیدا ہو رہا تھا جیسے کوئی بڑا اِنجن گڑگڑا کر چل رہا ہو۔ اس گڑگڑاہٹ اور شور کو اس نے ایک بہت بڑے خالی کنٹینر سے جوڑ لیا جسے وہ خود کھلی طویل اور خالی سڑک کے بیچوں بیچ مسلسل دوڑا رہا تھا۔ اس نے اپنے پہلو میں دیکھا سیٹ خالی تھی۔ پلٹ کر اپنی سیٹ کے پیچھے جھانکا وہاں ایک دیوار اُگ آئی تھی۔ اسی دیوار کے چورس روزن سے کنٹینر پر لدا اُچھلتا کودتا خالی پن اُس کے چہرے پر تیز بوچھاڑ کی طرح پڑنے لگا۔ اس نے پیچھے دیکھنا موقوف کر دیا۔ جوں ہی اُس کی بل کھاتی گردن سیدھی ہوئی اور وہ سامنے دیکھنے کے لائق ہوا تو اس کے حواس جاتے رہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے اِس قلیل دورانیے میں سڑک نعرے لگاتے اور چیختے چلاتے لوگوں سے بھر چکی تھی اور اس نے نہ جانے کتنوں کو روند ڈالا تھا۔ سڑک کا کھلا پن سمٹ گیا تھا۔ کامران نے بوکھلا کر اپنا پورا زور بریک پر ڈال دیا۔ پاؤں بریک پیڈل پر جھول کر رہ گیا تھا کہ بریک کام ہی نہیں کر رہے تھے۔ لوگ مسلسل کنٹینر کے نیچے یوں گھسے چلے آتے تھے جیسے انھیں پیچھے سے دھکیلا جا رہا تھا۔ اُس نے بے بسی سے ایک بار پھر چورس شگاف میں دیکھا، وہاں سڑک کے درمیان دور تک کچلی ہوئی لاشیں بچھی ہوئی تھیں۔ اُس سے یہ منظر دیکھا نہ گیا گردن سیدھی کر لی۔ سامنے کی سڑک ایک دم خالی ہو گئی تھی۔ وہاں کچھ بھی نہ تھا، لوگ نہ نعرے۔ اگر وہاں کچھ تھا تو ایک خالی پن تھا جو اس کے بدن کے عین وسط میں گونج رہا تھا۔ کامران کو اپنا دل ایک بار پھر ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا دینے کی کوشش کی تو اس کا وجود جھٹکے کھانے لگا۔ عالیہ نے تو جیسے اس کی بگڑتی حالت کو خواب میں دیکھ لیا تھا، ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی، ایک نظر کامران پر ڈالی جس کی سانسیں اُکھڑی ہوئی تھیں اور بدحواس ہو کر ڈاکٹر کو بلانے جانا ہی چاہتی تھی کہ وہ مانیٹر پر اُچھلتی لکیر دیکھ کر خود ہی چلا آیا۔ بہت دیر تک کامران ڈاکٹر اور نرسوں کے گھیرے میں رہا۔ عالیہ کا دل بھی ڈوبنے لگا تھا۔ ڈاکٹر کی نگاہ عالیہ کے زرد ہوتے چہرے پر پڑی تو اُس نے اسے باہر بھجوانے کی ہدایت کی۔

کامران کی حالت کو اِس بار سنبھلنے میں بھی کچھ زیادہ وقت لگ گیا تھا۔ ڈاکٹر نے جاتے جاتے خود سی سی یو سے باہر کاری ڈور میں جھانکا اور عالیہ کو حوصلہ دیا کہ سب کچھ ٹھیک تھا اور یہ بھی کہ وہ چاہے تو اندر آ سکتی تھی۔ وہ اندر آئی تو کامران کی آنکھیں پوری طرح کھلی ہوئی نہیں تھیں تاہم اس نے دھند میں بھی عالیہ کی موجودگی کا اندازہ لگا لیا تھا۔ اپنی جواں سال بیوی کی طرف دھیان کا یوں جانا اسے اچھا لگا تھا۔

عالیہ کی طرف دھیان جاتے ہی وہ اپنی سوچ کو ایک ربط میں لانے پر قادر بھی ہو گیا۔ وہ صاف صاف محسوس کر رہا تھا کہ یہ گھر کا بستر نہ تھا، وہ ہسپتال میں پڑا تھا۔ کندھوں کا عقبی علاقہ، ریڑھ کی ہڈی کا نچلا حصہ، چوتڑوں کی گولائیاں اور پنڈلیاں وہیں پڑے پڑے سن ہو گئی تھیں۔ وقفے وقفے سے ایک نئے اور الگ سے میٹھے سے درد کی لہر اُٹھتی جو بدن کے ایک سرے سے دوسرے سرے میں دوڑ جاتی۔ اُس نے پہلو بدلنا چاہا مگر جسم نے اس کا کہنا ماننے سے اِنکار کر دیا۔

بدن نے انکار نہیں کیا تھا، وہ تو کوئی حکم ماننے کی سکت ہی نہیں رکھتا تھا۔ ایسے میں عالیہ کے دھیان نے گرفت سے نکل جانا چاہا۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ وہ ایک بار پھر اپنے وجود کو یوں دیکھ رہا تھا جیسا کہ وہ محض ایک لاش تھا۔

بہت ساری لاشوں کے نیچے دبی ہوئی ایک لاش۔

اس کی سوچ بہک رہی تھی لہٰذا اُس نے دھیان کے بکھراؤ کو سمیٹنے کے لیے اپنے دن بھر کی مصروفیات کو ایک ترتیب میں لانا چاہا۔ صبح وہ اپنے معمول کے مطابق جاگا تھا۔ ٹیکسلا یونی ورسٹی میں ایک تقریب تھی، وہ وہاں گیا تھا۔ وہاں بھی سب کچھ معمول کے مطابق جا رہا تھا کہ ساتھ بیٹھے شخص کو اپنے سیل فون پر ایک ایس ایم ایس موصول ہوا۔ اس نے اِن باکس میں جا کر اس میسج کو پڑھا تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگی تھیں۔ کامران کو تشویش ہوئی عادتاً اس سے خیریت دریافت کی تو اس نے میسج سامنے کر دیا۔ جبراً اَپنی ذمہ داریوں سے الگ ہونے والے عدالتی نظام کے چیف کے کراچی پہنچنے پر گولی چلنے سے کئی لوگ مارے گئے تھے۔ یہ پیغام پڑھنے کے بعد وہ وہاں نہیں ٹھہر سکا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ فوراً گھر پہنچ جائے مگر واپسی پر حکومتی ریلی میں پھنس گیا۔ وہ آگے نکلنا چاہتا تھا مگر ریلی کے آگے آگے چلنے والی پولیس کی گاڑیاں کچھ یوں ساری سڑک کو روک کر دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھیں جیسے ساری ریلی کو انہی کی قیادت میں چلنا تھا۔ کئی بار کی کوشش کے بعد وہ اگلی گاڑیوں کو غچہ دینے میں کام یاب ہو گیا اور گھر پہنچا تو نجی ٹی وی چینل کراچی کی سڑکوں پر لاشیں گرانے کا منظر دکھا رہے تھے۔ اس نے چینل بدل دیا۔ سرکاری ٹی وی پر اس ریلی کا منظر دکھایا جا رہا تھا جس میں وہ پھنس گیا تھا۔

ٍ وہ ایک مُدّت سے شہری زندگی کے ہنگاموں میں کچھ اِس طرح مشغول تھا کہ اسے ٹھیک طرح سے اندازہ نہیں تھا کہ دیہات کتنی تیزی سے بدل گئے تھے اور مسلسل بدل رہے تھے۔ گندم کٹنے کا جو منظر اُس کے دھیان میں چل رہا تھا، کٹائی اور گہائی کی مشینوں کے آنے کے بعد اُس میں بہت زیادہ ترمیم ہو چکی تھی۔ تاہم اس کی اپنے گاؤں کے حوالے سے ٹھہری ہوئی نفسیات کا شاخسانہ تھا کہ اُس نے کسانوں کے دائیں ہاتھوں میں چمکتی ہوئی درانتیاں دیکھی تھیں۔ یہ درانتیاں ایک ترتیب سے اُوپر کو اُٹھتی تھیں، عین ایسے لمحے میں جب وہ اپنی چھاتیوں کا سارا زور لگا کر ’شاوا بھئی شاوا، کا نعرہ لگاتے ہوے بائیں ہاتھوں کی مٹھیاں کھڑی فصل کے اگلے ردّے پر جما لیتے تھے۔ درانتاں کوندے اُچھالتی فصل کی جڑوں کے قریب جمی ہوئی مٹھیوں اورسطحِزمین کے درمیان بہنے لگتیں اور اس کے ساتھ ہی فصل اپنے ہی کھیت میں ڈھیر ہوتی جاتی، وہی کھیت جس میں ابھی ابھی وہ لہرا رہی تھی۔

کیا وہ کھیت میں بچھتی فصل تھی؟ اور کیا وہ لاشیں نہیں تھیں ؟؟۔۔۔ وہ مخمصے میں پڑ گیا۔ خالی طویل سڑک۔۔۔ کئی ٹائروں والا لمبا چوڑا کنٹینر۔۔۔ دھڑا دھڑ گرتی ہوئی لاشیں۔۔۔ اور آدمیوں کا سیلاب جو موت سے نہیں ڈرتا تھا۔۔۔ وہ سب کیا تھا؟؟؟۔۔۔ اس نے کبھی کوئی کنٹینر نہیں چلایا تھا، بل کہ یوں تھا کہ جب وہ اپنی کار میں کہیں جا رہا ہوتا اور اس طرح کے کسی کنٹینر کو او ور ٹیک کرنا ہوتا تو اس لمحے جب وہ نصف کے لگ بھگ او ور ٹیک کر چکا ہوتا، بو کھلا جایا کرتا تھا۔ ایسے میں نہ جانے کیوں، اسے یہ وہم ہونے لگتا تھا کہ کنٹینر کبھی ختم نہ ہو گا۔ اس کی انگلیاں اسٹیئرنگ پر اور مضبوطی سے جم جاتیں اور بغیر کسی ارادے کے پاؤں ایکسیلیٹر پر اپنا دباؤ بڑھا دیتا۔ اس کے پاس نئے ماڈل کی ایسی کار تھی جس کے شاک بہت اچھے تھے۔ اتنے اچھے کہ کار سڑک پر بچھ کر اور جم کر چلتی تھی اور آدمی کے دھیان کو بھی جھٹکا نہیں لگتا تھا۔

اس نے دھیان جھٹک کر ایک نئی ترتیب میں لانا چاہا۔ اب وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ اپنی یادداشت میں اس کنٹینر کے چلے آنے کو اس منظر کے ساتھ جوڑ سکے جو اس نے ایک ٹی وی چینل پر رات ہی کو دیکھا تھا۔ ایک سنسان سڑک کو بند کرنے کے لیے یہی کنٹینر کچھ اس طور کھڑا کیا گیا تھا کہ کوئی بھی سڑک عبور نہ کر پائے۔اس کے سارے ٹائروں سے ہوا بری طرح نکال دی گئی تھی اور اب اس کے ساتھ چلنے کا تصور باندھنا ممکن نہیں رہا تھا۔۔۔ مگر۔۔۔ کامران نے جو دیکھا تھا وہ کنٹینر تو اپنے پاور فل انجن کے زور پر پوری رفتار سے کھلی سڑک پر، بل کہ لوگوں کے بدنوں پر بھاگ رہا تھا اور اس کی پشت میں، چورس روزن، اور کنٹینر کے عقبی اچھال سے پرے کچلی ہوئی لاشیں بچھ رہی تھی۔ دفعتاً ایک نیا منظر پہلے فریم کے اندر سے اُبھرا۔ اسی ٹرک کی اگلی نشست پر ایک شخص جھول رہا تھا۔ گولی اس کی گردن میں پیوست ہو گئی تھی۔ جہاں گولی کا چھید تھا وہاں سے خُون دھار بنا کر بہ رہا تھا۔ کامران نے اسے پہچاننا چاہا تویہ دیکھ کر بوکھلا گیا کہ بری طرح مضروب شخص کوئی اور نہیں وہ خود تھا۔

اپنی گردن میں دھنسی گولی کے خیال نے اس کی بوکھلاہٹ کے ساتھ اس الجھن کو بھی نتھی کر رکھا تھا کہ وہ اس گولی کو کیسے نکالے گا؟ اس نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے گردن کے چھید سے اُبلتے لہو میں راستہ بنایا اور اُسے اندر تک گھسیڑتا چلا گیا۔ اُسے اس پر بھی حیرت نہیں ہو رہی تھی کہ ایسا کرتے ہوے اسے کوئی درد کیوں نہیں ہو رہا تھا۔ زخم ٹٹولتے ٹٹولتے اس کی شہادت والی انگلی کا ناخن گولی کے چپٹے سرے سے ٹکرایا۔ اس نے ہمت کر کے ساتھ والی دوسری انگلی بھی زخم میں ٹھونس لی۔ دوسرے ہی لمحے میں گولی اس کے ہاتھوں میں ناچ رہی تھی۔ خون اُبلنے لگا تھا۔ گولی اس کی انگلیوں کی گرفت سے نکل گئی۔ اس کے ساتھ ہی لاشیں گرنے اور مدد مدد پکارنے کے وہ سارے مناظر جو اس نے رات بھر اپنے ٹی وی پر دیکھے تھے، ایک ترتیب میں ڈھل گئے۔

ٍ عالیہ نے کامران کی ہتھیلی کی پشت میں کھُبّے ہوے کینولا کو دیکھا۔ اس سے جڑی پلاسٹک کی نالی میں کچھ وقت پہلے تک قطرہ قطرہ گلوکوز بہ رہی تھی۔ اسی پلاسٹک کی تھیلی میں ڈاکٹر نے کئی قسم کی دوائیاں انجیکٹ کر دی تھیں جو، اب کامران کے خُون کا جز ہو چکی تھیں۔ اڑنے کے لیے پر تولتی تتلی کی طرح کینولا کے دونوں پر پھیلے ہوے تھے اور عین وہاں جہاں تتلی کا سر ہونا چاہئے، وہاں گلو کوز ختم ہونے کے بعد ایک ڈھکن لگا کر خُون کو بہنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس نے ڈھکن کی تمام اطراف سے خُون کو جمے ہوے دیکھا تو بے چین ہو گئی۔ نہ جانے اسے یہ کیوں لگنے لگا تھا کہ کامران کے بدن میں بس اتنا ہی خُون تھا جو باہر ابل کر جم گیا تھا۔۔۔ اور۔۔۔ اب اس کے زرد ہو چکے وجود میں خُون نہیں خالی پن دوڑتا تھا۔

جس خالی پن کو وہ ساری عمر پرے دھکیلتی رہی تھی وہ کسی نہ کسی بہانے اس کے اپنے وجود کا حصہ ہو جاتا تھا۔ وہ اپنے باپ کے ہاں تھی تو وہیں سے اس خالی پن کو اپنے وجود کا حصہ بنا لیا تھا۔ اس کی ماں جب تک زندہ رہی ایک عجب طرح کے خاندانی زعم میں مبتلا رہی۔ وہ شہر میں پلی بڑھی اور اس ماحول میں جوان ہوئی تھی جس میں آسائشیں مزاج کا حصہ ہو جاتی ہیں۔ اس ترنگ میں احساس کی سطح پر جڑنے سے کہیں زیادہ یہ اَہم ہوتا کہ وقت کے ایک ایک لمحے کو پھلجھڑی کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ جل کر تماشا دکھانے، بجھنے اور پھر معدوم ہو جانے والی پھلجھڑی۔ ماں مر کر معدوم ہو گئی۔ عالیہ اپنی ماں کے جتنا قریب ہو جانا چاہتی تھی اس کی کسک دل میں پالتی جوان ہو گئی تو گھر خالی پن سے گونج رہا تھا۔ کامران جو اس کے سامنے پڑا تھا اس کے باپ کا دوست تھا جو اپنی پہلی بیوی سے الگ ہو گیا تھا۔ کیوں ؟ یہ سوال اس کے باپ کے لیے اَہم نہ تھا۔ اس کے لیے سب سے اَہم بات یہ تھی کہ اپنے اثاثوں کے اعتبار سے وہ بہت مستحکم تھا۔

استحکام آدمی کے اندر کہاں سے آتا ہے ؟۔۔۔ کامران نے اپنے کانپتے دل کو تھا ما اور سوچا مگر یہ سوال اس کے اندر چکراتا اور بدن کی باطنی دیواروں سے دیر تک ٹکراتا رہا۔ وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔ اسے ایسا تہذیبی آدمی کہا جا سکتا تھا جسے ثقافتی بارشوں کی بوچھاڑ نے پس پا کر دیا تھا۔ اس کی پہلی بیوی فائزہ کو ہمیشہ شکایت رہی تھی کہ اس کے اندر گاؤں کا ضدی اور اکھڑ کسان دھرنا مارے بیٹھا ہوا تھا۔ زمین سے اگا ہوا اور اپنے ایمان کے ساتھ جڑا ہوا آدمی۔ زمین پیچھے گاؤں میں رہ گئی تھی اور وہ ایمان ساتھ لیے پھرتا رہا۔ فائزہ چاہتی تھی کہ وہ تیزی سے ترقی کر کے سوسائٹی میں مَقام بنا لے مگر جس بوجھ کو وہ اٹھائے پھرتا تھا وہ اس کی چال میں رخنے ڈال رہا تھا۔ وہ اس پر مسلسل کام کرتی رہی حتیٰ کہ اسے بدلنا پڑا۔ اس نئی دنیا اور نئی چال کا اپنا ہی آہنگ تھا۔ پہلا قدم طعنے سن سن کر طے کیا تھا۔ پھر یوں بدلا کہ فائزہ بھی اسے، بالکل بدل جانے سے نہ روک پائی تھی۔

کامران جیسے دیہاتی آدمی کا بے ہنگم بدلنا کہ جس کی زندگی ایک خاص آہنگ میں چل رہی ہوتی ہے اپنی جگہ ایک واقعہ تھا مگر اس سریع تبدیلی نے اس کے اندر خلا پیدا کر دیا تھا۔ ایک ایسا خلا جو اس کی پچھلی زندگی کو اندر سے کاٹ کر پھینک دینے سے بن گیا تھا۔ فائزہ میں اتنی ہمت، فراست اور صلاحیت نہ تھی کو وہ اس خالی پن کو کسی اور ادا سے پاٹ سکتی کہ وہ تو ڈھنگ سے نہ وہ لطف دے پاتی جو اس کا وجود مانگتا تھا اور نہ ہی اس رفتار سے چل پا رہی تھی جس سے اب اس کا شوہر چل رہا تھا۔ وہ راستے کی دھول ہو گئی تو عالیہ اس کی زندگی میں آ گئی جو اس نے پہلے تو نئے پن کے جوش میں اسے بہت قریب کر لیا۔ اس نے بھی اس عرصے میں کئی رخنے پاٹ دیے ہوں گئے مگر وہ ایک اور ہی طرح کا خالی پن ساتھ لے کر آئی تھی جو سارے میں دندناتا پھرتا تھا۔

گوشت پوست کے آدمی کے اندر کیا کچھ سما سکتا تھا اس کا اندازہ کامران کو صحیح طور پر تب بھی نہ ہو سکا جب وہ اس میں بہت کچھ گھسیڑ چکا تھا کہ اب بھی وہ خالی کنستر کی طرح بجتا تھا۔ وہ ڈھنگ سے اس خاموشی اور خلا کی اس گونج کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہتا کہ وہ مسلسل ایک کیفیت میں رہنے سے احساس کی اس سطح سے بھی محروم ہو گیا تھا۔ ایسے میں اس پر جھلاہٹ طاری ہو جاتی۔ اس نے اس جھلاہٹ سے چھٹکارے کے لیے خود کو خوب تھکانے اور مسلسل مصروف رکھنے کا حیلہ کیا اور اس حیلے ہی کو اپنی عادت بنا لیا۔ شروع شروع کا وہ زمانہ جو اس نے اڑیل بیل کی طرح ٹھہر ٹھہر کر گزارا تھا اس کے تمام ہوتے ہی وہ محسوس کی دنیا سے جست لگا کر طلب کی دنیا میں داخل ہو گیا تھا۔ احساس کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اس کے ناتے رشتوں کے ساتھ جڑ جاتا اور روحانی طہارت کے دریچے بدن پر کھول لیا کرتا تھا جب کہ طلب کے تقاضے کچھ اور تھے کہ یہ پہلے تو ضرورت بنتی اور پھر ہوس ہو کر حواس پر چھا جاتی گئی تھی۔ کامران کے جسم میں ہوس ہی ہوس بولنے لگی تو اس کے مطالبے فائزہ پورا کر سکنے کی سکت نہ رکھتی تھی۔ اگرچہ اس خلا کو عالیہ نے بھر دیا تھا مگر جو خالی پن وہ اپنے بدن میں چھپا کر لائی تھی اسے کامران کے بدن کا ضعف پاٹنے سے قاصر تھا۔ اس کی مصروفیات اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ وہ احساس کی وہ سطح چھونے کا جھنجھٹ ہی نہ پال سکتا تھا جس میں تعلق گہرا ہو کر روحانی چھب دینے لگتا ہے۔ پہلے پہل آسائشوں اور بدنوں کی تندی تیزی نے معاملے کی نزاکت کو پرے دھکیلے رکھا پھر عالیہ خود ہی اپنے اندر سمٹ گئی اور کامران کی طنابیں ڈھیلی چھوڑ دیں وہ تو جیسے یہی کچھ چاہتا تھا جلد ہی اپنے آہنگ پر لوٹ گیا۔

ٍ جب تک اسے فرصت میسر آتی تب تک عالیہ اپنا بدن توڑ کر ایک پہلو پر یوں ڈھے جاتی کہ اگلے صبح ہی اٹھا کرتی۔ کامران ریموٹ ہاتھ میں لیے ٹیلی وژن کے چینل بدلتا رہتا۔ کبھی تو وہ اتنی تیزی سے چینل بدلتا کہ پورا بیڈ روم پلکیں جھپکتا ہوا محسوس ہوتا۔ ایسے میں اس کا ہاتھ ان ہاٹ چینلز پر بھی نہ رکتا جو ایک عرصہ تک اسے بہت مرغوب رہے تھے، ننگی رانیں اور کھلے سینے دکھانے والے ان چینلز کو دیکھتے دیکھتے وہ فائزہ سے اُوب گیا تھا اور اب جب کہ عالیہ اس کے بالکل پاس تھی اسے نیلے پانی میں نہاتی، ریت پر دوڑ دوڑ کر اپنے اعضا نمایاں کرتی عورتوں والے مناظر دیکھتے ہی اپنی چھاتی بیٹھتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ وہ جب تک آسائشوں کے لیے ترستا اور فائزہ کے طعنے سنتا رہا تھا اسے خبروں والے چینلز میں دل چسپی رہا کرتی تھی۔ دنیا جس طرف جا رہی تھی اس پر وہ کڑھتا تھا۔ مگر جب وہ دنیا کی رفتار کے آہنگ میں آیا تو وہاں پہنچ گیا جہاں فائزہ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔

جن دنوں اسے معمول کی خبروں سے کوفت ہونے لگی تھی ان دنوں اس نے ایسے چینلز ٹیون کر لیے تھے جن کے ذریعے وہ بریکنگ نیوز کی تھرل سے جڑے ہوے تھے۔ ٹکڑوں میں آنے والی خبروں میں بہت کچھ ٹوٹ رہا تھا۔ حتیٰ کہ وہ لاشیں گرائے جانے والے مناظر سے لطف لینے لگا، بالکل یوں کہ جیسے عالیہ مضبوط جسم والے ریسلرز کی ان کشتیوں سے لطف اٹھاتی تھی جن میں کوئی قانون اور ضابطہ کام نہ کرتا تھا۔ کچھ عرصے سے آدمیوں کے گم ہونے یا پھر ان کے مارے جانے، دھماکے ہونے اور بدنوں کے چیتھڑے اڑنے کی خبروں کا تانتا بندھ گیا تھا۔ اس تسلسل نے اس کی نفسیات کو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا۔ ہاٹ چینلز سے اس کے دل کے اوبنے کی وجہ عورت کے وجود سے وابستہ اگر چٹ پٹے اور لذیذ مناظر کی بہتات تھی تو دھماکوں میں بدنوں کے اڑتے چیتھڑوں کی متواتر خبروں نے اس کے اندر سے انسانی وجود کی وقعت ہی ختم کر دی تھی۔

جس روز ٹیکسلا سے آتے ہوے وہ سرکاری جلوس میں پھنس گیا تھا اسی روز وہ دیر تک وہ کراچی میں گرائی جانے والے لاشوں کے مناظر بہت دل چسپی سے دیکھتا رہا تھا۔ اس کا دل معمول کے مطابق دھڑکتا رہا۔ عالیہ اس کی توجہ پانے کے لیے کوئی نہ کوئی بات چھڑتی رہی۔ یہ باتیں ’’ہاں، ہوں‘‘ سے زیادہ پر اسے مائل نہیں کر پا رہی تھیں۔ ایک چینل جس کے لوگ اپنی عمارت میں پھنس کر رہ گئے تھے اس کی خاص توجہ پا گیا۔ اس چینل کی عمارت کے دونوں طرف گولیاں چل رہی تھی لہٰذا وہ تھرل سے بھرے ہوے مناظر فراہم کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ ایک گروہ نے نیچے پارک کی گئی گاڑیوں کو توڑنا شروع کر دیا تھا۔ جیسے جیسے ہجوم گاڑیوں کی چھتوں پر لوہے کی سلاخیں برساتا یا ونڈسکرین کے ٹکڑے فضا میں اچھلتے تو اسے اپنے خُون میں عجب طرح کی تیزی محسوس ہوتی۔ اس چینل کا کیمرہ مین بڑا جی دار نکلا۔ وہ عمارت کے اوپر کہیں پاؤں ٹکائے سارا منظر براہ راست دکھانے کے قابل ہو گیا تھا۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی کہ پولیس والے وہاں ہونے کے باوجود کچھ بھی نہ کر رہے تھے۔ جب سے سیاسی کارکنوں کو پولیس میں بھرتی کرنے اور مخالفین کو دبانے کے لیے سرکاری وسائل کے بے دریغ اِستعمال کی ریت چلی تھی ایسے مناظر تواتر سے نظر آنے لگے تھے۔ بھاگ بھاگ کر آگے آنے اور گولیاں برسا کر عمارتوں کی آڑ لے لینے والے ان کی پروا تک نہ کرتے تھے۔ گویا ان کے لیے سب کچھ ٹھیک ہو رہا تھا۔ اس نے پلٹ کر کمرے میں پھیلے خلا کو ماپا اور پھر اپنے پہلو میں پڑے جوان سال خوب صورت جسم کو دیکھا۔دہشت کے ان لمحات نے اس کی کشش قضا کر دی تھی۔ عالیہ نے اپنے مرد کو متوجہ پا کر جلدی میں کچھ کہا۔اس نے جو کچھ کہا تھا اس میں کامران کے لیے کوئی دل چسپی کا سامان نہیں تھا۔ عالیہ اپنے تئیں جس پہلو سے نیم دراز تھی اس میں اس کے ابھار نمایاں ہو کر اسے متوجہ کر سکتے تھے مگر اس ادا نے بھی اس کی توجہ کو گرفت میں نہ لیا کہ اس نے دل ہی دل میں اس منظر کو بھی ایسے معمولی مناظر سے مماثل سمجھ لیا تھا جو انگلش میوزک نشر کرنے والے چینلز پر ہر دوسرے فریم میں دکھاتے تھے۔ کامران نے اپنی نظریں پھر ٹی وی کیا سکرین پر مرکوز کر دیں۔ وہاں اب ایسی لاش دکھائی جا رہی تھی جس کی چھاتی سے خُون ابلتا تھا۔ چھاتی۔۔۔ وہ بوکھلا گیا اور پلٹ کراس چھاتی کو دیکھنا چاہا جس سے خُون نہیں ابل رہا تھا۔ وہاں منظر بدل گیا تھا۔ عالیہ نے کامران کی توجہ پانے میں ناکام ہو پورے بدن کو اوندھایا اور آنکھیں موند لیں تھیں۔

ٍ  جب کامران کی سماعتوں میں باہر کی سرسراہٹیں بھی رسنے لگیں تب تک عالیہ کی سانسوں کی پھوار نیند کے غلبے سے آہنگ پا کر اس کے دائیں پاؤں کے ٹخنے پر پڑنے لگی تھی۔ اسے پہلے پہل سمجھ نہیں آیا کہ اس کے ٹخنے پر کیا ہو رہا تھا تاہم عالیہ کے سینے کا گداز اور گرمی لیے سانس کے ان جھونکوں نے اس کے حواس کی طرف پلٹنے کے عمل میں سرعت پیدا کر دی۔

کامران کا اپنے وجود میں اپنے آپ کو ریزہ ریزہ ڈالنے کے باقاعدہ جتن کرنا اور عالیہ کا سانسوں کے آہنگ کی تاثیر سے اپنے بدن کو ڈھیلا چھوڑتے ہوے ٹانگوں کو پھیلائے چلے جانا، ایک ساتھ شروع ہوا تھا۔ جب ایک ہی رخ پڑے رہنے کی وجہ سے عالیہ کا ایک پہلو دکھنے لگا تھا اور اس نے چِت لیٹ جانے کے لیے نیند ہی نیند میں اپنے پورے وجود کو حرکت دی، تب ایک نوجوان ڈاکٹر، جو اس کے قریب سے گزر رہا تھا، وہاں ٹھہر جانے پر مجبور ہو گیا۔ ڈاکٹر تب تک وہاں رکا رہا جب تک عالیہ کا جسم پشت پر جم کر جھولتا رہا۔ اس نے پیشہ ورانہ احساس کے تحت قصداً ایک اچٹتی ہوئی نگاہ مریض پر ڈالی اور اس مانیٹر پر بھی جس میں سے کوئی فوری خطرہ نہیں جھانک رہا تھا۔ مریض کے جسم میں حرکت پا کر ڈاکٹر بلا سبب کھسیانا ہو ا، منھ سیدھا کیا اور وہاں سے کھسک گیا۔

سی سی یو کے وسط میں شیشے کی دیواروں والے احاطے میں ڈاکٹر اور نرسیں ڈیوٹی کے لیے موجود رہتیں۔ چاروں طرف دیوار کے ساتھ ساتھ لکڑی کے تختوں سے آڑ بنا کر کیبن بنا لیے گئے تھے۔ یہ سارے کیبن سامنے سے کھلے تھے۔ہر کیبن میں ایک بیڈ اور ایک ہی بینچ تھا جس پر دو آدمی بہ مشکل بیٹھ سکتے تھے۔ کیبن کے اندر سامنے والی دیوار پر اوپر سے آنے والی آکسیجن کی نالی اور ایک چوکور باکس میں نصب سبز لکیر اچھالتا مانیٹر نمایاں تھا۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر وہیں شیشے کی دیوار سے پرے کھڑے وقفے وقفے سے انھی مانیٹرز پر اچھلتی لکیروں کو دیکھ لیتے تھے۔ جس وقت ڈاکٹر کھسیانا ہو کر واپس ہو رہا تھا غالباً یہ وہی وقت تھا جب گھنٹوں بے سدھ پڑے رہنے کے بعد پہلی بار کامران کو اپنے ٹخنے پر پڑنے والی عالیہ کے سانسوں کی پھوار کا خُوش گوار احساس ہوا تھا۔ نرم، ملائم اور بھیگی بھیگی پھوار جو اس کے اندر اس کے لہو کا حصہ ہو کر اس میں آنچ بھر رہی تھی۔

جب وہ پوری طرح ہوش میں آ گیا اور اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ گھر کی بہ جائے ہسپتال میں تھا اور عالیہ عین اس کے قدموں میں نہ جانے کب سے پڑی تھی تو اسے عالیہ کے وجود نے گرفت میں لے لیا جو اس کی نظر میں پوری طرح نہ آ رہا تھا۔ اس نے سرا چک کر دیکھنا چاہا مگر ناکام رہا۔ اسے گردن اٹھانے کے لیے ٹانگوں کو قدرے دہرا کر کے زور لگانا پڑا تھا جس سے نہ صرف اس کا چہرہ اس کے گھٹنوں کی اوٹ میں آ گیا تھا، سانسوں کی پھوار کا وہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا جو اس کے اندر توانائی بھر رہا تھا۔ اس ذرا سی کوشش میں نقاہت نے اس پر ہلہ بول دیا۔ وہ اتنی ہمت والا تھا کہ ایک اور کوشش کرتا مگر سانسوں کی پھوار کا یوں ٹوٹنا اسے اچھا نہ لگا تھا۔ اس ایک لمحے میں اس نے ہمکتی سانسوں سے معمور چھاتیوں والی ایسی عورتوں کو بھی دیکھا تھا جو کبھی اسے پچھاڑ دینے اور اوندھا کر رکھ دینے والی لذت کا باعث ہو جاتی تھیں مگر اب وہ اوپر سے گرتی ہوئی لاشوں میں کہیں گم ہو رہی تھیں۔ انھی لاشوں کے ڈھیر میں اس نے اپنے آپ کو بھی دیکھا اور یقین کرنا چاہا کہ وہ زندہ تھا۔ کنٹینرز، ۔۔۔ لوگوں پر اس کا دوڑنا، ۔۔۔ گولی کا اس کے بدن میں پیوست ہونا، ۔۔۔ عالیہ کا منھ موڑ کر لاش کی طرح پرے ڈھے جانا، سب جھوٹ تھا۔ سچ یہ تھا کہ اس کا دل دھڑک رہا تھا اس آہنگ میں جس سے اس کا تہذیبی وجود مانوس تھا۔ اس کے پاؤں پر پڑتی سانسوں کی پھوار اس کے اندر کٹ چکے احساس کی پنیری پھر سے کاشت کر رہی تھی۔ یہ کیفیت ایسا اعلامیہ تھی کہ وہ نئے سرے سے زندگی کو آغاز دے سکتا تھا۔ اس نے سکون سے آنکھیں موند لیں اور ہاتھ کھسکا کر عالیہ کے گورے چٹے پاؤں پر رکھ دیا جو اس نے نیند میں ابھی ابھی اس کی بغل میں گھسیڑ دیا تھا۔

 

***

ماخذ:

http://hameedshahid.com

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

تدوین اور ای بک: اعجاز عبید

اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش