FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

         گلزار(سمپورن سنگھ کالرا):ایک مطالعہ

 

 

                غلام شبیر رانا

 

 

 

گلزار نے ۱۸۔ اگست ۱۹۳۴کو دینہ (جہلم، پنجاب۔ پاکستان)میں ایک ممتاز سکھ خاندان مکھن سنگھ کالرا  اور سر جان کور کے گھر جنم لیا۔ بر صغیر سے جب ظالم و سفاک، موذی و مکار برطانوی استعمار کی نوے سال پر محیط شب تاریک کا خاتمہ ہو ا تو گلزار اپنے خاندان کے ہمراہ امرتسر پہنچا اس کے بعد مستقل طور پر ممبئی میں سکونت اختیار کر لی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کر نے کے بعد گلزار نے کچھ عرصہ ایک گیراج میں موٹر مکینک کی حیثیت سے کا م کیا۔ ادب اور فنون لطیفہ سے والہانہ محبت اور قلبی وابستگی رکھنے والے اس حساس تخلیق کار نے۱۹۵۶ میں فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے بمل رائے کی فلم ’’بندنی‘‘ سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس فلم میں مو سیقار سجن دیو بر من کی مو سیقی اور گلزار کے پر سوز گیتوں نے شائقین فلم کے دل موہ لیے۔ اس کا گیت ’’مورا  گورا  رنگ لے لے‘‘  جسے نا مور مغنیہ لتا منگیشکر نے گایا بہت مقبول ہوا۔ یہ مقبول نغمہ نوتن پر فلمایا گیا۔ یہیں سے گلزار کی مستقبل کی کامرانیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ ۱۹۶۸ میں گلزار نے فلم ’’آشیر واد‘‘ کے مکالمے اور نغمے لکھے۔ اگلے برس فلم ’’خاموشی‘‘ میں اس کے گیتوں کی دھو م مچ گئی۔ اس کا  گیت ’’ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو‘‘اپنے عہد کا مقبول ترین گیت تھا جو زبان زد عام تھا۔ گلزار کے متعدد فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں ان میں ’’مسافر ہوں یارو‘‘ جو کشور کمار نے گایا، فلم آندھی کا نغمہ ’’تیرے بن زندگی سے کوئی شکوہ نہیں‘‘اسے لتا منگیشکر اور کشور کمار نے گایا، آشا بھوسلے کے گائے ہوئے گیت’’ گھر جائے گی‘‘ (خوشبو) اور ’’میرا کچھ سامان‘‘ (اجازت) لتا منگیشکر کا گایا ہوا گیت’’ تجھ سے ناراض نہیں زندگی حیران ہوں میں۔ تیرے معصوم سوالوں سے پریشان ہوں میں‘‘(معصوم) کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ سلیل چودھری کے ساتھ فلم ’’آنند‘‘ کے نغموں پر گلزار کو ایوارڈ ملا۔ مدن مو ہن کے ساتھ فلم ’’موسم‘‘کے لیے بھی نغمات لکھے۔ ۱ ۱۹۷ میں فلم ’’گڈی‘‘ میں بھی گلزار کی فنی مہارت کا جادو سرچڑھ کر بولا۔ بیسویں صدی عیسوی کی ساتویں اور آٹھویں دہائی میں گلزار نے فلم ڈائریکٹر، ڈرامہ نویس، نغمہ نگار، سکرپٹ رائٹر، شاعر، نثر نگار، مصنف اور زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کیا  اور پوری دنیا سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس کی کئی فلموں کو بے حد پذیرائی ملی ان میں ’’ آندھی‘‘ اور ’’موسم‘‘کو سدا بہار سمجھا جاتا ہے۔ جب گلزار نے موسیقی کے شعبے میں اپنے فن کا جادو جگایا تو اس وقت فنون لطیفہ کے افق پر اپنے عہد کے با کمال فن کاروں کی جو کہکشاں جلوہ فگن تھی اس کے تابندہ ستاروں میں آر ڈی برمن، سلیل چودھری، وشال بھردواج، اے آر رحمٰن، راہل دیو برمن، سجن دیو بر من، شنکر جے کشن، ہیمنت کمار، لکشمی کانت پیارے لال، مدن مو ہن اور راجیش روشن کے نام قابل ذکر ہیں۔ گلزار نے فلم سٹار راکھی سے شادی کی اور اس کی زندگی میں مسلسل نکھار آتا چلا گیا۔ فکری اعتبار سے گلزار کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب رہا۔ اردو ادب کی ترقی پسند تحریک سے گلزار نے جو اثرات قبول کیے وہ اس کے اسلوب میں نمایاں ہیں۔ اس نے اپنی شاعری میں استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہیں کیا۔ زندگی کے بارے میں گلزار نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہیں۔ معاشرتی زندگی میں سیلِ زماں کے تھپیڑوں اور آلامِ روزگار کے مہیب بگولوں کو موضوع بنا کر گلزار نے جہد و عمل کی تلقین کی ہے۔ بادی النظر میں یہ شاعری عام آدمی کی زندگی اور ادب کے فکر پرور خیالات کے درمیاں ایک پُل کا کردار ادا کرنے کی سعی ہے۔

 

زندگی خاک تھی۔ اور خاک اُڑا تے گزری

تجھ سے کیا کہتے ترے پاس جو آتے گزری

 

دن جو گزرا تو کسی یاد کی رو میں گزرا

شام آئی تو کوئی خواب دکھاتے گزری

 

اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں

وقت ایسا تھا کہ بس ناز اُٹھاتے گُزری

 

رات کیا آئی کہ تنہائی کی سر گوشی میں

غم کا افسانہ  مگر سنتے سناتے گزری

 

معاشرتی زندگی کے حالات جس برق رفتاری کے ساتھ بدل رہے ہیں اس کے نتیجے میں زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ گلزار کی شاعری میں انسانی رویوں اور رشتوں کے تغیر و تبدل، علم بشریات اور معاشرتی زندگی کے ارتعاشات کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔ زندگی کی بو العجبی دیکھ کر انسان کو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ کبھی تو زندگی گل و گلزار کا منظر پیش کرتی ہے اور کبھی اس کی نار سے انسان بیزار دکھائی دیتا ہے۔ ۱۹۴۷ کے بعد سے بھارت میں اردو زبان و ادب پر جان کنی کا جو عالم ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے گلزار نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اردو زبان کو  ہمیشہ تہذیب کی آواز سے تعبیر کیا۔ تخلیق فن کے لمحوں میں گلزار نے اپنے متنوع اور منفرد تخلیقی تجربات سے اپنے اسلوب کو نکھار عطا کیا۔ اس کے تخلیقی تجربات اس کی ذہنی اپج،، منفرد سوچ، معاشرتی اور سماجی زندگی کے مشاہدات کے آئینہ دار ہیں۔ اپنے تخلیقی تجربات کے اعجاز سے اس نے شعور و ادراک کو دھنک رنگ منظر نامے سے متعارف کرایا۔ اپنے تخلیقی تجربات کو اپنے قلبی جذبات، احساسات اور مشاہدات سے مزین کر کے گلزار نے جس فنی مہارت سے اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دردمندی اور خلوص کی اساس پر استوار گلزار کے خیالات جب صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتے ہیں تو قاری ان کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ اس نے نئی صنف شاعری ’’تروینی‘‘ کو متعارف کرایا جو اس کے فنی تجربوں کی عمدہ مثال ہے۔ تین مصرعوں پر مشتمل تروینی ایک ایسی نظم ہے جسے گلزار نے اپنے شعری مزاج اور ذوق سلیم سے صیقل کر کے افکار تازہ کی مشعل تھا م کر جہانِ تازہ کی جانب پیش قدمی کی راہ دکھائی ہے۔ تروینی میں تیسرا مصرعہ اظہار و ابلاغ کے اعتبار سے گنجینہ معانی کا طلسم ثابت ہوتا ہے۔ تروینی کا تیسرا مصرعہ نہ صر ف پہلے دو مصرعوں کی توضیح و تشریح کرتا ہے بل کہ پہلے دو مصرعوں کے معانی و مطالب کو وسعت عطا کر کے قاری کو اس تخلیق کے استحسان کی صلاحیت سے بھی متمتع کرتا ہے۔ تروینی کے مطالعہ سے گلزار کی افتاد طبع، جدت پسندی اور فکری، فنی اور ذہنی سفر کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے گلزار نے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے بارے میں نہایت موثر انداز اپنایا ہے۔ اس کی دلی تمنا ہے کہ درخشاں اقدار و روایات کے دوام اور بقا کے لیے جد جہد کو شعار بنایا جائے۔ قارئین ادب کے دل میں ایثار، انسانی ہمدردی بے لوث محبت، بے باک صداقت، حسن و جمال کی قدر افزائی اور فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کو اس نے ایک با وقار ادیب کے لیے نا گزیر سمجھا ہے۔ انسان کے لا شعور میں پائے جانے والے اندیشوں اور اضطراب کے بارے میں گلزار نے اپنے جذبات کو نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ پیرایہ اظہار عطا کیا ہے۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو ادب میں مرزا اسداللہ خان غالب کی عظمت کا راز ان کے منفرد اسلوب میں پوشیدہ ہے۔ اردو نثر اور شاعری کو جو نیا سانچہ غالب کی گل افشانیِ گفتار سے نصیب ہوا وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ غالب کی عظمت کا تاج محل اسی منفرد سانچے کی اساس پر استوارہے۔ گلزار نے بھی تروینی کے ذریعے اُردو شاعری میں ایک نئی صنف نظم کو متعارف کر اکے اپنی منفرد سوچ کا مظاہرہ کیا۔ تروینی کی چند مثالیں پیش ہیں :

 

سب پہ آتی ہے سب کی باری سے

موت منصف ہے کم و بیش نہیں

زندگی سب پہ کیوں نہیں آتی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

ہاتھ ملا کے دیکھا اور کچھ سوچ کے میرا نام لیا

جیسے یہ سر ورق کسی ناول پہ پہلے دیکھا ہے

رشتے کچھ بس بند کتابوں میں ہی اچھے لگتے ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

زندگی کیا ہے جاننے کے لیے

زندہ رہنا بہت ضروری ہے

آج تک کوئی بھی رہا تو نہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

پر چھائیاں بٹ رہی ہیں گلیوں میں

اپنے قاتل کا انتخاب کرو

وقت یہ سخت ہے چناؤ کا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

گیسو جب بھی باتیں کرتے ہیں

الجھی الجھی سی وہ باتیں ہوتی ہیں

میری اُنگلیوں کی مہمانگی اُنھیں پسند نہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

مجھے آج کوئی اور نہ رنگ لگاؤ

پرانا لا ل رنگ اک ابھی بھی تازہ ہے

ارمانوں کا خون ہوئے زیادہ دن نہیں ہوا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

ایک سے بکھرے ہیں رات دِن جیسے

موتیوں والا ہار ٹُوٹ گیا

تم نے مُجھ کو پرو کے رکھا تھا

 

گلزار کی شاعری میں تہذیبی، ثقافتی، علمی، ادبی اور معاشرتی پس منظر میں حسن و رومان اور بے لوث محبت کے مظہر رنگ، خو شبو اور حسن و خوبی کے جملہ استعارے دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ اس شاعر ی میں انسانی زندگی کے نشیب و فراز، افراد کے جذبات واحساسات، تجربات و مشاہدات کے مد و جزر کی حسین کیفیات کی جس مہارت کے ساتھ لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا۔ گلزار کی شاعری  میں زندگی کے خارجی حالا ت کے بارے میں متعدد چشم کشا حقائق کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔ اس کی دلی تمنا ہے کہ زندگی کے تضادات اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی تامل نہ کیا جائے۔ اس کا ہر انداز فکر انسانی نفسیات کی اہم اقدار کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر فہم و ادراک پر دور رس اثرات مرتب کرتا ہے۔ زندگی کے جتنے بھی موسم اس نے دیکھے ہیں ان کے اثرات اس کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ زمانے میں فنون لطیفہ کی اہمیت اور افادیت میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اس کی ہمہ گیر افادیت اور اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اس کے فروغ کی مقدور بھر سعی کی ہے۔ عالمی شہرت کے حامل دانش وروں کی دقیقہ سنجی نے فروغ علم و ادب اور فنون لطیفہ کے ارتقا کو تہذیبی اور معاشرتی معائر کے فروغ کے لیے نا گزیر قرار دیا ہے۔ گلزار کے اسلوب میں زندگی کی اہمیت اور بو قلمونی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ معاشرتی زندگی میں افراد کے اعمال و افعال زندگی کی تاب و تواں کے مظہر ہیں۔ گلزار کی شاعری میں زندگی کے ان تمام مظاہر کو نہایت موثر اور دلنشیں انداز میں پیرایۂ اظہار عطا کیا گیا ہے۔ اس کی شاعری کے موضوعات معاشرتی زندگی کے روز مرہ معمولات سے اخذ کیے گئے ہیں۔ زندگی کے واقعات، سانحات، تجربات اور مشاہدات کا یہ دلنشیں احوال اپنی مثال آپ ہے۔ دینہ سے دہلی تک مسافت اور دنیا کا بدلتا ہو ا منظر نامہ نہ صرف اس کی شاعری میں سمٹ آیا ہے بل کہ اس کے اسلوب میں ان تمام مشاہدات، تجربات اور تاثرات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ گلزار کی تخلیقی فعالیت میں مقصدیت کی شمع اس طرح فروزاں ہے کہ اس کی ضیا پا شیوں سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا۔ واقعیت، حقیقت اور حریت فکر و عمل کو ادب اور فنون لطیفہ کی اساس بنانے کے سلسلے میں گلزار کی مساعی کو پو ری دنیا میں اُردو داں طبقے کی طرف سے قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ مکالمہ نگاری میں گلزار نے کرداروں کی نفسیاتی ساخت پر بھر پور توجہ دی ہے، مکالمے اس قدر بے ساختہ اور بر جستہ ہوتے ہیں کہ رنگ متکلم ہو کر اپنی گفتگو کی مہکار سے قریۂ جاں کو معطر کر دیتے ہیں۔ تمام کر داروں کو گلزار نے اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کے بشری تقاضے اور حالات کھل کر سا منے آ جا تے ہیں۔ کسی بھی فرد کو دیو تا بنا کر پیش کر نا گلزار کا منصب نہیں رہا  بل کہ کر داروں کی خامیاں، کوتاہیاں، سیاسی اور نفسیاتی پیچیدگیاں بیان کر کے اس نے کرداروں حقیقی زندگی کا عکاس بنا دیا ہے۔ مکالموں کی روانی، بے ساختگی اور بے تکلفی تخلیق کار کے ذوق سلیم کی مظہر ہے۔ ان مکالموں سے تخلیق کار کی شخصیت کے اہم گوشوں کی جو تصویر سا منے آتی ہے وہ دلوں کو مسخر کر لیتی ہے۔

عالمی ادبیات اور اردو کے کلا سیکی ادب کا گلزار نے بڑی توجہ اور دلچسپی سے مطالعہ کیا۔ عالمی کلاسیک کے ساتھ اس کی دلچسپی اور وسیع مطالعہ کے اعجاز سے اس کے اسلوب میں نکھار پیدا ہوا۔ مثال کے طور پر اس کی تخلیق ’’انگور‘‘ کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ اس کی اساس شیکسپئیر کی تخلیق Comedy of Errorsپر ہے۔ گلزار نے بچوں کے لیے بھی کئی ٹی وی سیریل لکھے۔ ان میں ’’ جنگل کتاب‘‘ کو بے حد سراہا گیا۔ ۱۹۸۸میں گلزار نے مرزا اسداللہ خان غالب کی زندگی پر ایک یادگار فلم بنائی۔ اس فلم میں بھارت کے ممتاز اداکار نصیر الدین شاہ نے مرزا غالب کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم جب بھارتی دور درشن پر پیش کی گئی تو پوری دنیا میں اُردو زبان کے کلاسیک ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی طرف سے اس کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ مرزا غالب کی زندگی پر بنائی جانے والی اس فلم نے مرزا غالب کی زندگی کے کئی اہم پہلوؤں سے قارئین ادب کو متعارف کرایا۔ یہ فلم دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم غالب کے عہد میں سانس لے رہے ہیں اور ہم غالب کو  اس کے اپنے عہد کے ماحول میں فعال کردار اد ا کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ تاریخی حقائق، کر دار نگاری اور مکالمہ نگاری کے اعتبار سے یہ فلم ناقابل فراموش ہے۔ ’’تحریر منشی پریم چند کی‘‘ بھی اسی نوعیت کا ایک تخلیقی تجربہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حال کے شعور کے سوتے ایام گزشتہ کے حالات و واقعات سے کامل آگہی ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ جہاں تک زمانہ آئندہ کے بارے میں پیش بینی کا تعلق ہے اسے زمانۂ حال کے احساسات، تجربات اور مشاہدات سے وابستہ سمجھنا چاہیے۔ جو لوگ اپنی بے بصری اور کور مغزی کے باعث ماضی سے اپنا ناتا توڑ لیتے ہیں وہ اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں کوئی ٹھوس اور واضح لائحہ عمل مرتب کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اپنے ماضی سے بے تعلق ہونے والے سرابوں میں ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں اور ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ گلزار نے ماضی کے واقعات سے اپنے تخلیقی عمل کے لیے مواد کشید کیا۔ دنیا بھر میں گلزار کے مداح کثیر تعداد میں موجود ہیں جو اسے اردو کا شیکسپئیر اور ملٹن قرار دیتے ہیں۔ اس کے مداحوں کا کہنا ہے کہ گلزار کو اردو ادب میں وہی مقبولیت حاصل ہوئی جو انگریزی ادب میں ورڈز ورتھ اور ملٹن کے حصے میں آئی۔ گلزار کی شاعری میں جذبوں کی صداقت کی جو کیفیت ہے وہ قاری کے دل میں اتر تی چلی جاتی ہے۔

 

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے

وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے

 

جس کی آواز میں سلوٹ ہو، نگاہوں میں شکن

ایسی تصویر کے ٹکڑ ے نہیں جو ڑا کرتے

 

لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اسے بہنے دو

ایسے دریا کا کبھی رُخ نہیں موڑا کرتے

 

جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں

اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے

 

شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا

جانے والوں کے لیے دِل نہیں تھوڑا کرتے

 

جمع ہم ہوتے ہیں تقسیم بھی ہو جاتے ہیں

ہم تو تفریق کے ہندسے نہیں جوڑا کرتے

 

جا کے کہسار سے سر مارو کہ آواز تو ہو

خستہ دیواروں سے ما تھا نہیں پھوڑا کرتے

 

گلزار کی شاعری کی سادگی، سلاست اور سہل ممتنع  انداز ادب کے قاری کے قلب اور رو ح کی گہرا ئیوں میں اتر کر اسے مسحورکر دیتا ہے۔ اس نے بالعموم نظم معر یٰ کو و سیلۂ اظہار بنا یا ہے۔ اس کے شعری تجربوں میں تر وینی کو خاص اہمیت حا صل ہے۔ گلزار ہی نظم کی اس طرزِ خاص کا مو جد ہے۔ تین مصرعوں پر مشتمل یہ نظم اپنے اختصار اور جا معیت کی بدولت اثر آفرینی میں اپنی مثال آپ ہے۔ گلزار کی بصیرت اور حس مزاح کا امتزاج اس کی شاعری کا امتیازی وصف ہے۔ مو جو دہ دور کی زندگی میں جو ناگہانی مصائب آ تے ہیں، انہیں گلزار نے پورے خلوص، فنی مہارت اور درد مندی کے ساتھ اپنی شاعری کا مو ضو ع بنا یا ہے۔ سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں نے زند گی کی تمام رتیں بے ثمر، کلیاں شرر، آہیں بے اثر، بستیاں پُر خطر، آبادیاں خوں میں تر، عمریں مختصر اور نگاہیں بے بصر کر دی ہیں۔ ہر طرف خوف، دہشت اور افراتفری کا سما ں ہے، گلزار نے اس غیر یقینی صورت حال اور ہو ائے جو رو ستم میں بھی حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی ہے۔ تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوتا ہے، گلزار کے اسلوب میں تاریخ کے مسلسل عمل کے ہمہ گیر اثرات نمایا ں ہیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اقوام و ملل کا عروج، تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے، جاہ و جلال اور سب کرو فر تو سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتا ہے لیکن تہذیب اس کی دستبرد سے محفوظ رہتی ہے۔ گلزار کے اسلوب میں تاریخ اور تہذیب کو ماضی کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تخلیقی عمل میں ایک تخلیق کار جب اپنے ماضی سے اپنی دلچسپی کا اظہار کرتا ہے تو اس کے اثرات اس کی سوچ پر بھی مرتب ہوتے ہیں تخلیق کار کے فکر و خیال میں ارتقا کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک جری تخلیق کار جب اپنی ذات کے ماضی کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے یکسانیت سے اکتا جاتا ہے تو وہ اس سے آگے نکلتا ہے اور اپنی جنم بھومی، وطن، اہل وطن بل کہ پوری دنیا کی اقوام و ملل کے ماضی سے اس کی د لچسپی بڑھنے لگتی ہے۔ اُسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان سب کا ماضی تو اس کا اپنا ہی ماضی ہے جو اسے ہر وقت جہد و عمل کی راہ دکھاتا ہے۔ اس کے خیالات میں وسعت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور خوب سے خوب تر کی جستجو بھی جاری رہتی ہے۔ معاشرتی زندگی کی اقدار، روایات اور حالات و واقعات کے سوتے در اصل زیرک تخلیق کار کی ذات کے تو سیعی عمل ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ گلزار کے اسلوب میں ماضی کے واقعات کو ایک علامت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ گلزار کے اسلوب میں ماضی کے واقعات سے دلچسپی کی یہ علامت ایک ایسے نفسیاتی کُل کی مظہر ہے جس سے لا شعور کی فعالیت ایک منفرد روپ میں فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہے۔ اس کی شاعری میں محبت کے بارے میں جن تجربات کو اشعار کے قالب میں ڈھالا گیا ہے وہ قاری کو حیرت اور مُسرت کے ایک جہانِ تازہ کی سیر کراتے ہیں :

 

وقت کے تِیر تو سینے پہ سنبھالے ہم نے

اور جو نِیل پڑے ہیں تری گُفتار کے ہیں

 

آئینہ دیکھ کر تسلی ہوئی

ہم کواِس گھر میں جانتا ہے کوئی

 

کتنی لمبی خاموشی سے گُزرا ہوں

اُن سے کتنا کچھ کہنے کی کوشش کی

 

آدمی خود ہی دوڑے جاتا ہے

خود ہی چابک بہ دست ہے بھائی

 

خالی کرگھے میں عمر بُنتا رہا

اب گِرہ کے لیے بھی دھاگہ نہیں

 

ایک پل دیکھ لوں تو اُٹھتا ہوں

جل گیا گھر، ڈرا سا رہتا ہوں

 

میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری

شوخ پتے نے کہا شاخ سے، مُرجھاتے ہوئے

 

تنکا تنکا کانٹے توڑے، ساری رات کٹائی کی

کیوں اتنی لمبی ہوتی ہے، چاندنی رات جُدائی کی

 

ذکر آئے تو مرے لب سے دعائیں نکلیں

شمع جلتی ہے تو لازم ہے شعاعیں نکلیں

 

گلزار کی نظموں میں تنہا ئی کا جو احساس پا یا جاتا ہے وہ اس کے جذبات و احسا سا ت کا مظہر ہے۔ اسے ہر طر ف لو گو ں کا انبوہ تو دکھا ئی دیتا ہے مگر وہ کسی ایسے محرم کو تلاش نہ کر سکا جسے وہ حال دل سنا سکے۔

ہم اپنے گھر میں اجنبی سے ہو کر رہ گئے ہیں۔ فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا  مسئلہ روز بہ روز گھمبیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ سب سہارے تجارتی نوعیت اختیار کر گئے ہیں۔ آرزوئیں مات کھا کر رہ گئی ہیں، تمنائیں عنقا ہونے لگی ہیں۔ مرادیں حسرتوں کا روپ دھا ر کر دہلیز پر سر رکھ کر دم توڑ چکی ہیں۔ منزلوں کی جستجو نے ہمیں سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور بے بس انسان در بدر اور خاک بسر ہو گئے ہیں۔ جب مسافت کٹ جا تی تو محسوس ہو تا ہے کہ سفر کی دھول ہی ہما را پیر ہن ہے۔ بیتے لمحات کی تمثیلوں کا جو احوال سا منے آتا ہے، ہاتھوں کی ریکھائیں اس کی عکاسی کر نے سے قا صر ہیں۔ لا وے سے کہساورں کا سینہ تو پھٹ جا تا ہے مگر مسلسل شکست دل کے باعث انسان پر جو بے حسی طاری ہے وہ اس سے کو ئی اثر قبول نہیں کرتا اور نہ ہی عبرت کے یہ سبق اس کی اصلاح کرتے ہیں۔ جامد و ساکت چٹانیں اور سنگلاخ کو ہساروں کے درد سے عاری بے حس پتھر کبھی موم نہیں ہوتے۔ اپنی جنم بھومی سے گلزار کو بہت محبت ہے اور اس محبت کو وہ اپنے دل میں بسائے رکھتا ہے۔ پاکستان میں گلزار کے اسلوب کے مداح  بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ کئی ادبی نشستوں میں گلزار کے اسلوب پر مضامین پڑھے گئے اور اس کی ادبی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے منفرد اسلوب کو جن ممتاز پاکستانی ادیبوں اور دانش وروں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ان میں کبیر انور جعفری، سید جعفر طاہر، محمد شیر افضل جعفری، غلام علی چین، سید مظفر علی ظفر، محمد فیروز شاہ، عبد الحلیم انصاری، صابر کلوروی، بشیر سیفی، صابر آفاقی، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، سیف الدین سیف، رشید عطرے، غفار بابر، اطہر ناسک، اسحاق ساقی، عطا شاد، عاشق حسین فائق، دیوان الیاس نصیب، بشارت خان، سجاد بخاری، محسن بھوپالی، عتیق احمد، اقبال زخمی، سمیع اللہ قریشی، سلطان محمود، شیر محمد، منیر حسین، رحیم بخش شاہین، نظیر صدیقی، الیاس عشقی اور گدا حسین افضل کے نام قابل ذکر ہیں۔ گلزار کی شاعری، افسانہ نگاری، ڈراموں، گیتوں اور فلموں نے گزشتہ کئی عشروں سے فکر و خیال کی جو انجمن سجا رکھی ہے اس کی دل کشی کا ایک عالم معترف ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اپنے افسانوں کے بارے میں گلزار نے کیا خوب کہا ہے:

ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانوں کا

صدر دروازہ سا کھُلتا ہے کُتب خانوں کا

قحط الرجال کے موجودہ دور میں مسلسل شکستِ دِل کے باعث بے حسی کا عفریت ہر سُو مسلط ہے۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کرنے والے درندوں نے مجبوروں کی امیدوں کی فصل غارت کر دی ہے اور ان کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کے باعث دکھی انسانوں کی صبح و شام کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ آج ہما را المیہ یہ ہے کہ ہم کھنڈروں کی سنگلا خ زمین پر سر گرداں ہیں ہم آئینہ ایام میں جب اپنی ادا پر نظر ڈالتے ہیں اور ایام گز شتہ کی کتا ب کی ورق گرد نی کر تے ہیں تو لیل و نہار کے مر قد پر نصب ہماری ماضی کی تاریخ کے تمام کتبے ابلق ایام کے سموں کی گرد میں او جھل ہوتے محسوس ہو تے ہیں۔ صدیاں بیت گئیں اور تاریخ کے اس مسلسل عمل کے نتیجے میں سارا منظر نامہ ہی دھندلا گیا ہے، زندگی کی حقیقی معنویت، حسن و جمال سے وابستہ قلب اور روح کی وابستگی کے تمام مفاہیم رخشِ حیات کی برق رفتاری کے دوران تاریک راہوں میں کہیں گر گئے۔ اب ان کا اتا پتا معلوم نہیں اور گردش لیل و نہار کے کھنڈرات تاریخ کے طوماروں میں دبے ماضی کے بیش بہا خزانوں کے بارے میں حسرت و یاس کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ وقت کے ستم بھی عجیب ہوتے ہیں انسان کی معمولی سی لغزش غیر معمولی سانحات، لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات پر منتج ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھ سانحہ یہ ہوتا ہے کہ بیگانگی کے اس دور میں رشتوں، ناتوں اور تعلقات کی پہچان ہی عنقا ہونے لگی ہے۔ ہم اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ شام الم میں جا نگسل تنہائیوں کا زہر ہمارے رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے۔ ایک تخلیق کار معاشرتی زندگی کو جس روپ میں دیکھتا  ہے اس کے اثرات اس کے ذہن پر انمٹ نقوش مرتب کرتے ہیں۔ اپنے تخلیقی عمل کے دوران وہ معاشرتی زندگی کی وہی تصویر صفحہ قرطاس پر منتقل کرتا ہے جو اس کے ذہن میں پہلے سے محفوظ ہے۔ اس لحاظ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ معاشرتی زندگی جس سمت رواں دواں ہے ادب کا رخ بھی اسی سمت ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارے عہد کے تمام واقعات، ارتعاشات اور معاشرتی زندگی کے تمام نشیب و فراز ہمارے عہد کے ادب میں مسلسل محفوظ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انسانیت کو اس عالمِ آب و گِل کی اہم ترین قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ جب کوئی معاشرہ بے حسی کا شکار ہو جائے تو وہاں انسانیت کی توہین، تذلیل، بے حرمتی اور بے توقیری کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن واقعات عام ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد المیہ یہ ہوتا ہے کہ شامت اعمال کے نتیجے میں وہاں ہر طرف ذلت، تخریب، نحوست، بے بر کتی، بے توفیقی، بے ضمیری، بے غیر تی، بے حیائی، بے ایمانی، بد حالی اور بد بختی کے کتبے آویزاں ہو جاتے ہیں۔ خوف و دہشت کی اس فضا میں آبادیاں ویرانوں میں بدل جاتی ہیں، در و دیوار حسرت و یاس کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ غربت و افلاس کے مارے انسانوں کا کوئی پرسان حال موجود نہیں ہوتا۔ جہاں پہلے سرو و صنوبر، گلاب، مو تیا، چنبیلی اور یاسمین کی فراوانی ہوتی تھی وہاں زقوم، حنظل تھوہر، جنڈ، پوہلی، دھتورا، کریر، بھکڑا  اور ا کڑا کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اثمار و اشجار اور بُور لدے چھتنار اس مسموم ماحول میں سوکھ کر ٹنڈ منڈ ہو جاتے ہیں اور قاتل تیشے ان ساونتوں کے جسم چیر کر رکھ دیتے ہیں اور ان کا ایندھن بن جاتا ہے۔ گلشنِ ہستی میں نسیم اور صبا کے بجائے باد سموم کے بگولے اُٹھتے ہیں۔ اس مسموم ماحول میں طائران خوش نوا وہاں سے کُوچ کر جاتے ہیں اور چار سُو زاغ و زغن، بُوم و شپر اور کرگسوں کے غول دکھائی دیتے ہیں۔ جن آبادیوں میں جھُٹ پُٹے کے وقت سرِ راہ چراغ فروزاں ہو جاتے تھے اب وہاں چراغِ غول کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اس کے بعد آفاتِ نا گہانی ان بد قسمت آبادیوں کا مقدر بن جاتی ہیں۔ اس اعصاب شکن اور لرزہ خیز صور ت میں بے یقینی  بڑھنے لگتی ہے۔ اس قسم کی بے یقینی کو غلامی سے بھی بد تر سمجھا جاتا ہے بے یقینی کے اس ماحول میں تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی اقدار و روایات کو شدید ضعف پہنچتا ہے سب سے  بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ ان تشویش ناک حالات کے نتیجے میں تمدن کا سورج گہنا جاتا ہے۔ زندگی کی اقدار عالیہ کی تفہیم عقل کے بجائے جذبات کی مر ہون منت ہے۔ عقل تو محض چراغِ  راہ ہے، عشق کی معجز نما دست گیری سے انسان جذبات کی اہمیت اور اقدار کی ہمہ گیر افادیت سے آگہی حاصل کرتا ہے۔ گلزار کی شاعری میں معاشرتی زندگی کے ان تمام آلام کو موضوع بنایا گیا ہے جن کے باعث زندگی کی اقدار عالیہ کو شدید ضعف پہنچا ہے اور جانگسل تنہائیوں کا زہر معاشرتی زندگی کے رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے۔

 

زندگی ہو گئی بسر تنہا

قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

 

اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں

عمر گُزری ہے اس قدر تنہا

 

رات بھر بولتے ہیں سناٹے

رات کاٹے کوئی کدھر تنہا

 

ڈوبنے والے پار جا اُترے

نقشِ پر ا پنے چھوڑ کر تنہا

 

ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا

پھر نہ جانے گئے کدھر تنہا

 

ایک زیرک تخلیق کار دِل کے آئینے میں مو جود زندگی کی تصاویر کو جب عالمِ تنہائی میں دیکھتا ہے تو ایک انفعالی نوعیت کی فعالیت اسے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی صلاحیت سے متمتع کرتی ہے۔ اپنے افسانوں میں گلزار نے معاشرتی زندگی کے مسائل کو موضوع بنایا  ہے۔ گلزار کے افسانوی مجموعے ’’راوی پار‘‘ اور ’’دھواں‘‘ عصری آگہی کا بلند معیار پیش کرتے ہیں۔ اس کے افسانوی مجموعے ’’دھواں‘‘ کو سال ۲۰۰۲ میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا۔ اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے گلزار نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی اساس پر فکر و خیال کی جو عمارت تعمیر کی ہے اُسے دیکھ کر قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ اپنے عہد کے واقعات اور حالات کے بارے میں اس نے کبھی کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی اور نہ ہی کسی مصلحت کی پروا کی۔ اس نے سماجی زندگی کے مسائل کو اپنے افسانوں میں پوری دیانت داری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ گلزار کی تخلیقی فعالیت اور عصری آگہی کی ہمہ گیر قوت کے امتزاج سے ان افسانوں میں جو واحد تاثر پیدا ہو ہے وہ فن افسانہ نگاری میں منفرد انداز ہے۔ اپنی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی جومساعی گلزار نے کی ہیں وہ ثمر بار ثابت ہوئیں اور اردو افسانے میں زندگی کے حقیقی روپ سامنے لانے میں مدد ملی۔ بھارت میں گلزار کو پدما بھوشن ایوارڈ، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ اور بھارتی سنیما کے سب سے بڑے ایوارڈ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نواز گیا۔ زندگی کے تلخ حقائق کو گلزار نے جس فنی مہارت اور دلکشی کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے و ہ زبان و بیان پر اُس کی خلاقانہ دسترس کی دلیل ہے۔ اپنی زندگی میں اس نے ہر شخص کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک روا رکھا۔ اس کی شاعری میں بھی مروت، اخلاق اور اخلاص کی فراوانی ہے۔ اس کے اسلوب میں تذبذب یا گو مگو کی کیفیت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ دل کی بات لبوں پر لانے میں اس نے کبھی تامل نہیں کیا۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اس نے ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ اس کی شاعری میں اخلاقیات اورانسانیت کے مسائل کے بارے میں جو زاویۂ نگاہ اپنایا گیا ہے اس کے سوتے تہذیبی، ثقافتی اور علمی و ادبی اقدار و روایات سے پھُوٹتے ہیں۔ اگرچہ اس کی شاعری اس کے شخصی اور انفرادی اندازِ فکر کی مظہر ہے لیکن اس شاعری میں متعدد اجتماعی مسائل کے بارے میں بھی حقائق کی گرہ کشائی کی گئی ہے۔ اپنے نہاں خانۂ دل میں موجزن جذبات و احساسات کو شاعری کے قالب میں ڈھالتے وقت گلزار نے ہر عہد کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ ا س  نے ماضی کے واقعات سے جو نتائج اخذ کیے ہیں انھیں حال کے لیے زاد راہ بناتے ہوئے مستقبل کی پیش بینی کے لیے نا گزیر سمجھتے ہوئے بڑی جگر کاوی اور گہرے تفکر سے کام لیا ہے۔ گلزار کی شاعری میں ہر عہد کی آواز کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ یہ شاعری معاشرتی زندگی کے جُملہ نشیب و فراز کا احاطہ کرتی ہے اور اقتضائے وقت کے مطابق یہ سماج اور معاشرے کے ساتھ کبھی نہ ختم ہونے والے ربط کی مظہر بھی ہے۔ ان نظموں میں اجتماعی شعور اور اجتماعی لاشعور کو مربوط اور ہم آہنگ کرنے کی جو سعی کی گئی ہے وہ ایک منفرد تجربے کی صورت میں قارئین ادب کے فکر و خیال کو مہمیز کر نے کا وسیلہ ہے۔ گلزار کی شاعری میں وجدان اور متخیلہ کی اثر آفرینی قارئین ادب کے لیے ایک انوکھا تجربہ ہے۔ اس کے تخلیقی عمل میں مواد اور ہئیت کا جو حسین امتزاج پایا جاتا ہے وہ قارئین ادب کے لیے تسکینِ قلب کا موثر وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ گلزار کی شاعری کے پس پردہ کار فرما لا شعوری محرکات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ تخلیق کار نے اپنے داخلی جذبات کو پیرایہ ء اظہار عطا کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ ثمر بار ثابت ہوئی ہے۔

 

       سکیچ

 

یاد ہے اک دن

میرے میز پہ بیٹھے بیٹھے

سگریٹ کی ڈبیا پر تم نے

چھوٹے سے اک پودے کا

ایک سکیچ بنایا تھا

آ کر دیکھو

اس پودے پر پھول آیا ہے

 

     احتیاط

 

دیکھو آہستہ چلو

اور بھی آہستہ

دیکھنا سوچ سمجھ کر ذرا پاؤں رکھنا

زور سے بج نہ اُٹھے پیروں کی آواز کہیں

کانچ کے خواب ہیں بکھرے ہوئے تنہائی میں

خواب ٹُوٹا تو کوئی جاگ نہ جائے دیکھو

کوئی جاگا تو وہیں خواب بھی مر جائے گا

 

      عادتیں

 

سانس لینا بھی کیسی عادت ہے

جیے جانا بھی کیا روایت ہے

کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں

کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں

پاؤں بے حس ہیں، چلتے جاتے ہیں

اک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے

کتنے برسوں سے کتنی صدیوں سے

جیے جاتے ہیں، جیے جاتے ہیں

عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں

 

        رخصت

 

جیسے جھنا کے چٹخ جائے کسی ساز کا تار

جیسے ریشم کی کسی ڈور سے اُنگلی کٹ جائے

ایسے اِک ضرب سی پڑتی ہے کہیں سینے میں

کھینچ کے توڑنی پڑتی ہے جب تجھ سے نظر

تیرے جانے کی گھڑی سخت گھڑی ہے جاناں

 

         پت جھڑ

 

جب جب پت جھڑ میں پیڑوں سے پیلے پیلے

پتے میرے لان میں آ کر گرتے ہیں

رات کو چھت پر جا کر میں

آکاش کو تکتا رہتا ہوں

لگتا ہے کم زور سا پیلا چاند بھی شاید

پیپل کے سُوکھے پتے سا

لہراتا لہراتا میرے لان میں آ کر اُترے گا

ایک پشیمانی رہتی ہے

ایک پشیمانی رہتی ہے

اُلجھن اور گرانی بھی

آؤ پھر سے لڑ کر دیکھیں شاید

اس سے بہتر کوئی اور سبب مِل جائے ہم کو

پھر سے الگ ہو جانے کا

 

      شام سے آنکھوں میں نمی سی ہے

 

شام سے آنکھوں میں نمی سی ہے

آج پھر آپ کی کمی سی ہے

دفن کر دو ہمیں کہ سانس ملے

نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

وقت رہتا نہیں کہیں چھُپ کر

اُس کی عادت بھی آدمی سی ہے

کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی

اِک تسلیم لازمی سی ہے

 

   نظم اُلجھی ہوئی ہے

 

نظم اُلجھی ہوئی ہے سینے میں

مصرعے عطا ہوئے ہیں ہونٹوں پر

اُڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح

لفظ کا غذ پہ بیٹھتے ہی نہیں

کب سے بیٹھا ہوں میں جانم

سادے کاغذ پہ لکھ کے تیرا نام

بس تیرا نام ہی مکمل ہے

اِس سے بہتر بھی نظم کیا ہو گی

 

کھلونے

 

منو اکثر یہی کچھ پُوچھتی ہے دائی اماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں

کھلونے بھی بڑے ہوتے

اُنھیں بھی عمر لگ جاتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا ہوتا؟

 

گلزار کے اسلوب میں خیالات کی ندرت اور رفعت  قاری کو ایک جہانِ تازہ کی سیر کراتی ہے۔ اس کی شاعری میں جذبات واحساسات جس شدت اور قوت کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں وہ قاری کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایک با کمال تخلیقی فن کار اپنی تخلیقات کے وسیلے سے قارئین کے ذوقِ سلیم کی تسکین کا اہتمام کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتا ہے۔ تخلیقی عمل کواس معجز نما تاثیر کا حامل ہونا چاہیے جو قارئین کے اضطراب، ہیجانات، یاس وہراس اور حزن و ملال کی کیفیات میں تسکین قلب کا اہتمام کرے۔ عالمی ادب کے نباض اس حقیقت سے واقف ہیں کہ عمدہ تخلیقات اپنے دامن میں حسن  و صداقت کے گوہرِ نا یاب لیے ہوتی ہیں۔ ایک جری، فعال، مستعد اور زیرک تخلیق کار اپنے طویل تخلیقی سفر کے دوران ہمیشہ خلوص اور درد مندی کو زاد راہ بناتا ہے اور حق و صداقت کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کی سعی کرتا ہے۔ روشنی کے اس سفر میں وہ کسی مشکل سے پریشان نہیں ہوتا۔ پرورش لوح و قلم کے دوران جو کچھ اس کے دل پر گزرتی ہے وہ اس کا احوال بیان کرنے میں پوری دیانت داری سے کا م لیتا ہے۔ تخلیقی عمل ایک ریاضت ہے اور اس کے لیے تخلیق کار کو متعدد کٹھن مراحل سے گزرنا  پڑتا ہے۔ جب ایک ادیب قلم تھام کر اپنے تخلیقی عمل کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں قلم و قرطاس میں مرتکز ہو جاتی ہیں۔ اس کے الفاظ جمود کا خاتمہ کر کے قاری کو جہد و عمل اور غور و فکر کی تحریک دیتے ہیں۔ اس کی تحریروں سے فہم و ادراک اور فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس تخلیقی عمل کے اعجاز سے قاری وادی ء خیال کو مستانہ وار طے کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ زندہ اور جان دار تخلیقات نہ صرف اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کرتی ہیں بل کہ ان کے معجز نما اثر سے قارئین کے قلوب کو مرکزِ مہر و وفا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ تحریریں قارئین کے جذبات، احساسات اور افکار کو ایک کیف پرور روحانی اور وجدانی کیفیت سے سر شار کر دیتی ہیں۔ گلزار نے اپنے تخلیقی عمل میں فکری، روحانی اور تخلیقی اعتدال پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ اپنی گل افشانیِ گفتار سے اس نے سدا خلوص و مروت، دردمندی و ایثار، عدل و انصاف، اخوت ومساوات، حق گوئی و بے باکی اور انسانی ہمدردی کی نمو کو اولیت دی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی کی اقدارِ عالیہ کو استحکام بخشنے کے لیے حرفِ صداقت کے ساتھ پیمان وفا باندھنا اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے۔ فطرت کے مقاصد کی ترجمانی کی جو مساعی جاری ہیں وہ لفظ کی حرمت اور حرفِ صداقت کی مر ہون منت ہیں۔ حرفِ صداقت سے لبریز زندہ اور جان دار تخلیقات کے اعجاز سے معاشرتی زندگی میں توازن اور اعتدال پیدا ہوتا ہے اوراسے فطرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ا فراتفری، بیگانگی، ہوس اور قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ایثار، وفا اورانسانی ہمدردی کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ کسی بھی شخصیت کے بارے میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے خلوص، دردمندی، انسانی ہمدردی اور انسانیت شناسی نا گزیر ہے۔ معاشرتی زندگی میں مشاہدات اور تجربات کی مثال بھی سیل رواں کی سی ہے۔ ان میں تلاطم اور مد و جزر کی کیفیت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ کسی شخصیت کے مطالعہ احوال کے لیے الفاظ کو وسیلہ بنایا جاتا ہے۔ اس لیے الفاظ کا انتخاب نہایت احتیاط کا متقاضی ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کا ذخیرہ ء الفاظ سبدِ گُل چیں کے ما نند ہے جس میں خوب صورت الفاظ گُل ہائے رنگ رنگ کی صورت میں موجود ہوتے ہیں اور ان کی عطر بیزی قریۂ جاں کو معطر کر دیتی ہے۔ گلزار نے لفظ کی حرمت اور قلم کے احترام کو ہمیشہ اہمیت دی اور اپنی تحریروں کو رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کا استعارہ بنانے کی سعی کی۔ اپنی زندگی میں گلزار نے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق مختلف مواقع پر ہمیشہ مناسب طرز عمل اختیار کیا اور اپنے کردار سے یہ ثابت کیا کہ اس نے جو فیصلے کیے وہ مناسب اور بر محل تھے۔ یہ طرزِ عمل اس کی صحت مند اور مستحکم شخصیت کا غماز ہے۔ گلزار کی شاعری میں اس کی دروں بینی قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ ثابت ہوتی ہے:

 

آنکھوں میں جل رہا ہے یہ بُجھتا نہیں دھواں

اُٹھتا تو ہے گھٹا، برستا نہیں دھُواں

 

ایک پرواز دکھائی دی ہے

تیری آواز سنائی دی ہے

 

جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں

اُس نے صدیوں کی جُدائی دی ہے

 

خوشبو جیسے لوگ مِلے افسانے میں

ایک پُرانا خط کھولا ان جانے میں

 

جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں

درد مزے لیتا ہے جو دُہرانے میں

 

شام کے سائے با لشتوں سے ناپے ہیں

چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں

 

گرم لاشیں گِریں فصیلوں سے

آسماں بھر گیا ہے چِیلوں سے

 

سُو لی چڑھنے لگی ہے خاموشی

لوگ آئے ہیں سُن کے مِیلوں سے

 

پھُولوں کی طرح لب کھول کبھی

خوشبو کی زباں میں بول کبھی

 

اُردو شاعری کی درخشاں روایات کو زادِ راہ بنا کر گلزار نے جو طویل تخلیقی سفر طے کیا ہے وہ ہر دور میں دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتا رہے گا۔ اس کے اسلوب کی ندرت، تنوع اور انفرادیت جامد و ساکت  پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ اس کے مقبول ترین شعری مجموعے ’’چاند پکھراج کا‘‘ میں اس کی نظم نگاری قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے۔ ایک زیرک، حساس اور دردمند تخلیق کار کی جا ن کو دوہرے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ حالات کی تلخی کو دیکھ کر نہ صرف کرب سے دو چار ہوتا ہے بل کہ اس کے مسموم اثرات کے بارے میں سوچ کر وہ شدید اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔ گلزار کی شاعری کا عمیق مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ تخلیقِ فن کے ایک لمحے کی خاطر تخلیق کار کو اپنے گرد و نواح کے حالات اور روزمرہ زندگی کے لاکھوں مسائل کے تجربات سے گُزرنا پڑتا ہے۔ ’’چاند پُکھراج کا‘‘ ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں اسلوب کا تنوع قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ اس شعری مجموعے میں ۱۲۳ نظمیں، ۳۶ غزلیں اور ۱۶  موثر تروینیاں شامل ہیں۔ اپنی شاعری میں گلزار نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کے سلسلے میں متعدد علامات کو اپنے منفرد اسلوب میں جگہ دی ہے۔ اس کی دل کش و حسین شاعری میں رات، دن، شام، سحر، چاند، سورج، پتھر، چاندنی، دھُوپ، کرنیں، بارش، ساون، اثمار و اشجار، کوہسار، ابر، پتے، شگوفے، کلیاں، کرگھے، بالشت، چابک، دھاگہ، تنکا، ہار، شمع، نمک اور تتلی کی علامات کو ایک ایسے نفسیاتی کُل کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے جس کے اعجاز سے لا شعور کی جملہ حرکت و حرارت متشکل ہوتی ہے۔ مناظر فطرت کی لفظی مرقع نگاری اور فطرت کے مقاصد کی ترجمانی کو گلزار کے اسلوب کا امتیازی وصف سمجھا جا سکتا ہے۔ اُس کی شاعری میں بے لوث محبت، وفا، خلوص اور دردمندی کے جذبات رچ بس گئے ہیں۔ ایک سراپا شفقت و خلوص تخلیق کار کی حیثیت سے محبت اس کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے۔ محبت کے وسیلے سے وہ خود کو فروغ دینے کی سعی کرتا ہے، اس لیے وہ آغازِ سفر ہی سے محبوب کو  ٹُوٹ کے چاہتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محبت دل و نگاہ پر انمٹ نقوش ثبت کرتی ہے۔ گلزار کی شاعری کی تاثیر کا کرشمہ دیکھیے:

 

ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو

ہاتھ سے چھُو کے اسے رشتوں کا الزام نہ دو

صر ف احساس ہے یہ، روح سے محسوس کرو

پیار کو پیار ہی رہنے دو کوئی نام نہ دو

 

نام گُم ہو جائے گا، چہرہ یہ بدل جائے گا

میری آواز ہی پہچان ہے، گر یاد رہے

 

وقت کے ستم کم حسیں نہیں

آج ہیں یہاں، کل کہیں نہیں

 

اپنے ماضی کی جستجو میں بہار

پیلے پتے تلاش کرتی ہے

ایک اُمید بار بار آ کر

اپنے ٹکڑے تلاش کرتی ہے

 

لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں

اُڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح

 

ترے غم کا نمک چکھ کر

بڑا میٹھا لگا ہے زندگی کا ذائقہ مجھ کو

 

ہونٹ کچھ کہتے نہیں، کانپتے ہونٹوں پہ مگر

کتنے خاموش سے افسانے رُکے رہتے ہیں

 

عالمی ادبیات کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر تخلیقی کام کرنے والوں نے جریدہ ء عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ تخلیق ادب کے وسیلے سے قارئین کے ساتھ خلوص اور دردمندی کا لا زوال رشتہ استوار کرنے والے تخلیق کاروں نے معاشرے کے منفی روّیوں کو اپنے مثبت انداز فکر کے وار سے منہدم کر دیا۔ تخلیق فن کے لمحوں میں انھوں نے اپنے قلم کو سپر اور تلوار کے طور پر استعمال کیا۔ فہم و ادراک، جذبات و احساسات، فکر و خیال اور تکنیک و تجربات کی بو قلمونی اور تنوع اُن کے تخلیقی فن پاروں کی شان بڑھاتا ہے۔ گلزار کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالیں تو یہ تمام امور وہاں جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں۔ گلزار کی تحریریں اس کی مستحکم شخصیت اور ہمدردانہ مزاج کی آئینہ دار ہیں۔ ایک وسیع المطالعہ ادیب کی حیثیت سے گلزار نے اپنے اسلوب میں تنوع اور دلکشی پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ ادب اور فنون لطیفہ میں اس نے اپنی محنت، لگن اور انہماک سے ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ اس کی تخلیقی فعالیت سے اردو زبان و ادب کی ثروت میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ حریت فکر کا علم بلند  رکھنے والے ا دیب ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ حریتِ ضمیر سے جینا ہی زندگی کا ثمر ہے۔ گلزار نے اپنی تخلیقی فعالیت سے اُمیدوں کی جو سدابہار فصل کاشت کی ہے پُوری زندگی خون جگر سے اس کی آبیاری کی ہے۔ اس کی زندگی کے مہ و سال گلشنِ ادب کو نکھارنے میں بیتے ہیں۔ مستقبل میں اس کی تخلیقات کی عطر بیزی کی کیفیت کیا ہو گی اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم  کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید