FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ماں

 

منوّر رانا

 

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے

ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

 

ہر  اس بیٹے کے نا م

جسے ماں یاد ہے

 

اپنی بات

غزل ہمیشہ تنقید کے نشانے پہ رہی ہے ۔ زیادہ تر ناقدین ادب نے اس کی بے پناہ مقبولیت کے با وجود اسے منہ نہیں لگا یا ۔ ہمیشہ اس کی کم مائگی اور سہل پسندی کا رونا روتے رہے ۔ یہ حقیقت  ہے کہ غزل مدتوں کچھ بندھے ٹکے موضوعات کی امر بیل میں جکڑی رہی۔ حالانکہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس عہد کے مطابق غزل درباری آداب کے پیش نظر لکھی جاتی تھی ۔ اس لیے شاعر ہمیشہ میخانے سے نکلتا ہوا، اور کوٹھوں سے اتر تا دکھائی دیتا تھا ۔ اس حقیقت سےبھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت کے نوابین حضرات اور راجے مہا راجے شاعروں کی پرورش ہی نہیں ناز برداری بھی کرتے رہتے تھے ۔ تاریخ سے آنکھ مچولی کرتی ہوئی غزل جیسے ہی گلی کے موڑ ، شہر کے چوراہوں ، قصبات کے چبوتروں، گاؤں کی پگڈنڈیوں اور کھیت کھلیانوں میں بھی موضوعات کی تلاش میں بھٹکنے لگی تو اس نے نئے نئے منظر نامے تلاش کر لیے ۔ خاص طور سے آزادی کے بعد تقسیم کی تلوار سے کٹے پھٹے رشتوں کی بنتی بگڑتی تصویروں ، بھرے گھر میں تنہا ہونے کے احساس، بے سمتی کی طرف جاتی ہوئی تیز رفتار زندگی اور گھر آنگن میں ابھرے ہوئے لا تعلقی کے صحراؤں نے غزل کے لیے نئے نئے موضوعات کے ڈھیر لگا دیے۔

 ہر خاص و عام لغت  کے مطابق غزل کا مطلب محبوب سے باتیں کرنا ہے۔ اگر اسے سچ مان لیا جائے تو محبوب ’ماں‘ کیوں نہیں ہوسکتی !کیا دنیا کے سب سے مضبوط، سدا بہار اور پاکیزہ رشتے کو غزل بنانا گناہ ہے، کیا تقدس کے ’’پھول بستر‘‘ پر غزل کو سلانا جرم ہے ۔ میری شاعری پر اکثر زیادہ پڑھے لکھے لوگ جذباتی استحسال کی الزام لگاتے رہے ہیں۔ اگر اسے درست مان لیا جائے تو پھر محبوب کے حسن و شباب، اس کے تن و توش، اس کے لب و رخسار ، اس کے رخ و گیسو، اس ک سینے اور کمر کی پیمائش کو عیاشی کیوں نہیں کہا جاتا ہے !

اگر میرے شعر Emotional Blackmailing  ہیں تو پھر ؎

’’جنت ماں کے پیروں کے نیچے ہے۔ ‘‘

’’ موسیٰ اب تو تیری وہ ماں بھی نہیں رہی جس کی دعائیں تھے بچا لیا کرتی تھیں۔‘‘

’’ اگر مرد کو دوسرے سجدے کی اجازت ہوتی تو ماں کے قدموں پر ہوتی ۔‘‘

’’ میدان حشر میں تمہیں تمہاری ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا ۔‘‘ جیسے جملے کیا بے معنی ہیں ؟

میں پوری ایمانداری سے اس بات کا تحریری اقرار کرتا ہوں کہ میں دنیا کے سب مقدس اور عظیم رشتے کا پرچار صرف اس لیے کرتا ہوں کہ اگر میرے شعر پڑھ کر کوئی بھی بیٹا اپنی ماں کا خیال کرنے لگے، رشتوں کی نزاکت کا احترام کرنے لگے تو شاید اس کے اجر میں میرے کچھ گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔

یہ کتاب بھی آپ کی خدمت تک صرف اس لیے پہنچا نا چاہتا ہوں کہ آپ میری اس چھوٹی سی کوشش کے گواہ بن سکیں اور مجھے بھی اپنی دعاؤں میں شامل کرتے رہیں۔

ذرا سی بات ہے لیکن ہوا کو کون سمجھائے

دیئے سے میری ماں میرے لئے کاجل بناتی ہے

طالب دعا

منورؔ  رانا

….۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تمام عمر یہ جھولا نہیں اترتا ہے

میری ماں بتاتی ہے کہ بچپن میں  مجھے سوکھے کی بیماری تھی، ماں کو یہ بتانے کی ضرورت کیا ہے ، مجھے تو معلوم ہی ہے کہ مجھے کچھ نہ کچھ بیماری ضرو ہے کیونکہ آج تک میں بیمار سا ہوں ! دراصل میرا جسم بیماری سے رشتے داری نبھانے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے ۔ شاید اسی سوکھے کا اثر ہے کہ آج تک میری زندگی کا ہر کنواں خشک ہے ، آرزو کا، دوستی کا، محبت کا، وفاداری کا ! ماں کہتی ہے بچپن میں مجھے ہنسی بہت آتی تھی، ہنستا تو میں آج بھی ہوں لیکن صرف اپنی بے بسی پر، اپنی ناکامی پر، اپنی مجبوریوں پر اور اپنی تنہائی پر لیکن شاید یہ ہنسی نہیں ہے، میرے آنسوؤں کی بگڑی ہوئی تصویر  ہے، میرے احساس کی بھٹکتی ہوئی آتما ہے۔ میری ہنسی ’’ انشاء‘‘ کی کھوکھلی ہنسی ، ’’میرؔ‘‘ کی خاموش اداسی اور غالبؔ کے ضدی پھکڑ پن سے بہت ملتی جلتی ہے۔

میری ہنسی تو میرے غموں کا لباس ہے ۔ لیکن زمانہ اتنا کہاں غم شناس ہے ۔

پیوند کی طرح چمکتی ہوئی روشنی ، روشنی میں نظر آتے ہوئے بجھے بجھے چہرے ، چہروں پر لکھی داستانیں ، داستانوں میں چھپا ہوا ماضی، ماضی میں جھپا ہوا بچپن ، جگنوؤں کو چنتا ہوا بچپن ، تتلیوں کو پکڑتا ہوا بچپن ، پیڑ کی شاخوں سے جھولتا ہوا بچپن ، کھلونوں کی دکانوں کو تکتا ہوا بچپن ، باپ کی گود میں ہنستا ہوا بچپن ، ماں کی آغوش میں مسکراتا ہوا بچپن ، مسجدوں میں نمازیں پڑھتا ہو بچپن ، مدرسوں میں سِپارے رٹتا ہوا بچپن ، جھیل میں تیرتا ہوا بچپن ، دھول مٹی سے سنورتا ہوا بچپن ، ننھے ننھے ہاتھوں سے دعائیں مانگتا بچپن، غلیل سے نشانے لگاتا ہوا بچپن ، پتنگ کی ڈور میں الجھا ہوا بچپن ، نیند میں چونکتا ہوا بچپن، خدا  جانے کن بھول بھلیوں میں کھو کر رہ گیا ہے، کون سنگ دل ان سنہرے دنوں کو مجھ سے چھین لے گیا ہے۔ ندی بھی ناگنوں کی طرح  بل کھا کر گزرتی ہے لیکن میرے یہ ہاتھ جو محل تعمیر کر سکتےہیں ، اب گھروندے کیوں نہیں بنا پاتے ، کیا پراٹھے روٹیوں کی لذت چھین لیتے ہیں ، کیا پستی کو بلندی اپنے پاس نہیں بیٹھنے دیتی ، کیا امیری غریبی کا ذائقہ نہیں پہچانتی، کیا جوانی بچپن کو قتل کر دیتی ہے ؟

مئی اور جون کی تیز دھوپ میں ماں چیختی رہتی تھی اور بچپن پیڑ کی شاخوں پر جھولا کرتا تھا، کیا دھوپ چاندنی سے زیادہ حسین ہوتی ہے، ماجس کی خالی ڈبیوں سے بنی ریل گاڑی کی پٹریاں چرا کر کون لے گیا ، کاش کوئی مجھ سے کاروں کا یہ قافلہ لے لے اور اس کے بدلے میں میری وہی چُھک چُھک کرتی ہوئی ریل گاڑی مجھے دے دے ، کیونکہ لوہے اور اسٹیل کی بنی ہوئی گاڑیاں وہاں نہیں رکتیں جہاں  بھولی بھالی خواہشیں مسافروں کی طرح انتظار کرتی ہیں، جہاں معصوم تمنائیں ننھے ننھے ہونٹوں سے بجنے والی سیٹیوں پر کان لگائے رہتی ہیں۔

کوئی مجھے میرے گھر کے سامنے والا کنواں لادے جو میری ماں کی طرح خاموش اور پاک رہتا تھا ، میری خالہ جب مجھے اپنے گاؤں لے کر چلی جاتیں تو ماں خوفزدہ  ہو جاتی تھی کیونکہ میں   سوتے میں چلنے کا عادی تھا ۔ ماں ڈرتی تھی کہ میں کہیں آنگن کے کنویں میں نہ گر پڑوں ، ماں رات بھر رو رو کر کنویں سے کہتی رہتی کہ اے پانی ! میرے بیٹے کو ڈوبنے مت دینا ۔ ماں سمجھتی تھی کہ شاید پانی سے پانی کا رشتہ ہوتا ہے، میرے گھر کا کنواں بہت حساس تھا، جتنی دیر کنویں سے باتیں کرتی تھی کنواں اپنے ابلتے ہوئے پانی کو پُر سکوت رہنے کا حکم دیتا تھا، شاید وہ میری ماں کی بھولی بھالی خواہشوں کی آہٹ کو احترام سے سننا چاہتا تھا ، پتہ نہیں یہ پاکیزگی اور خاموشی ماں سے کنویں نے سیکھی تھی یا کنویں سے ماں  نے ؟

گرمیوں کی دھوپ میں جب ٹوٹے ہوئے ایک چھپر کے نیچے ماں لُو اور دھوپ سے ٹاٹ کے پردوں کے  ذریعے مجھے بچانے کی کوشش کرتی تو مجھے اپنے آنگن میں دانا چگتے ہوئے چوزے بہت اچھے لگتے جنہیں ان کی ماں ہر خطرے سے بچانے کے لیے اپنے نازک پروں میں چھپا لیتی تھی۔ ماں کی محبت کے آنچل نے مجھے تو ہمیشہ محفوظ رکھا لیکن غریبی کے تیز جھکڑوں نے ماں کے خوبصورت چہرے کو جھلسا جھلسا کر سانولا کر دیا ۔ گھر کے کچے آنگن سے اڑنے والی پریشانی کی دھول نے میری ماں کا رنگ مٹ میلا کر دیا ۔ دادی بھی مجھے بہت چاہتی تھیں وہ ہر وقت مجھے ہی تکا کرتیں، شاید وہ میرے بھولے بھالے چہرے میں اپنے اس بیٹے کو تلاش کرتی رہتی تھیں جو ٹرک ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھا ہوا شیر شاہ سوری کے بنائے ہوئے راستوں پر ہمیشہ گرم سفر رہتا تھا۔

شیر شاہ سوری کی بنوائی ہوئی وہ تاریک سڑک گناہ گار دلوں کی طرح رہ رہ کر ٹرک اور کاروں کی ہیڈ لائٹوں سے یوں چمکنے لگتی ہے جیسے اس بے ایمان زمانے میں کہیں کہیں ایمان داری کی کرن دکھائی پڑ جاتی ہے۔ شیر شاہ سوری کی وہ طویل سڑک جس کے سینے پر روزانہ ہزاروں گاڑیاں گزرتی رہتی ہیں لیکن یہ بے جان سڑک بہار کے کسی ہریجن قبیلے کی طرح دکھوں کا بوجھ اٹھائے چپ چاپ مسکراتی رہتی ہے۔ نہ جانے کتنے ہی ڈرائیور اپنے پھول سے بچوں کا مسقبل سنوارنے کے لیے تیوہاروں کو بھلاتے ہوئے ، موسموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، زندگی کو داؤں پر لگاتے ہوئے اس پرانی سڑک سے گزرتے رہتے ہیں۔ تھکی تھکی اور پر اسرار سی یہ سڑک آئے دن انسانوں کا خون پی کر اپنی پیاس بجھاتی رہتی ہے۔ سرخ انسانی خون جو تارکول کی کالی سڑک پر ذرا سی دیر میں خشک ہو کر سیاہ ہو جاتا ہے ۔ خون کے اس دھبے کو بھی ذرا سی دیر میں وہاں سے گزرنے والی گاڑیوں کے نرم اور کالے ٹائر چاٹ جاتے ہیں۔ وہ دھبے جن میں کسی سہاگ کی سرخی ، کسی ماں کا انتظار اور کسی بہن کے میلے سے دوپٹے کے آنسو بھی شامل ہوتے ہیں۔

خبر نہیں مجھے یہ زندگی کہاں لے جائے ۔ کہیں ٹھہر کے مرا انتظار مت کرنا

ایک سیاسی لکیر نے سب کچھ تقسیم کر دیا، ملک کو ، قوم کو، رشتوں کو ، مجرموں کو، ندیوں نالوں کو، ایک گھونسلے کے کئی حصے ہو گئے ، ایک گھر کے کئی ٹکڑے ہو گئے، کسٹوڈین کی چکّی میں اجداد کی عمارتیں پس گئیں ، خاندانوں کی مٹھیوں سے زمینداری کی بالو سرک گئی ، جاگیرداری کے چہرے سے وقار اور اعتماد کا رنگ و روغن اڑ گیا، خاندانی زیورات (جنہیں غیر مردوں نے دیکھا تک نہیں تھا ) ساہوکاروں کی تجوریوں میں قید ہو گئے ، پاکستان بن گیا، علامہ اقبالؔ کی پیشن گوئی ، جناح کا خواب تعبیر کی جستجو میں بھٹکتا ہوا پنجاب کے اس پار پہنچ گیا، رفتہ رفتہ ہر گھر میں پاکستان تعمیر ہونے لگا۔ میرے سبھی رشتہ دار اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے پاکستان روانہ ہو گئے ۔ پنجاب میل جو ہر زمانے میں جدائی کی کہانے میں ایک نیا رول ادا کرتا ہے میرے گھر کے مردوں اور سفید کالے برقعوں میں  سہمی سمٹی ہوئی عورتوں کو لے کر اس مہاجر خانے کی طرف روانہ ہو گیا جسےلوگ پاکستان کہتے ہیں ۔ میں چپ چاپ اپنی دادی سے چمٹا رہا ۔ میرے چچا نے دادی سے پاکستان چلنے کو کہا اور وہ بھی مہاجرین کے خیمے کی طرف جانے کو تیار ہو گئیں ۔ میں دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھا ہوا یہ سوچتا ہی رہ گیا کہ میری دادی مجھے چھوڑ کر نہیں جائے گی اور شاید  پہلی بار یہ محاورہ غلط ہو گیا کہ اصل سے زیادہ سود پیارا ہوتا ہے۔

ریل گاڑی کے کوئلے والے انجن سے نکلتے ہوئے دھوئیں نے میرے والد کی بھیگی ہوئی آنکھوں کو میلا کر دیا ۔ اب وہ اس ملک میں اکیلے رہ گئے تھے ۔ بالکل اس پرندے کی طرح جس کے سب ساتھی جال میں پھنس گئے ہوں ۔ پھر جیسے ہی ریل گاڑی کیسیٹینے سسکیاں لین، کارواں اپنی انجانی سی منزل کی طرف روانہ ہو گیا، پلیٹ فارم کے کنارے کھڑے ہوئے میرے والد لڑکھڑائے ، میں نے لپک کر سہارا دینا چاہا ، انہوں نے اپنا جسم میرے حوالے کر دیا اور میں اسی دن جوان ہو گیا۔ ضرورت کی ریل گاڑی میں بیٹھ کر میرا بچپن جوانی کے شہر میں آگیا ، کوئلے سے دیواروں پر نام لکھنے کا موسم چلا گیا ۔ تختی پر کھریا مٹی سے سبق لکھنے کے دن چلے گئے ، روٹی کی ڈلیا کے سہارے چڑیاں پکڑنے کا کھیل ختم ہو گیا ۔ اب ماں سر میں سفید نہیں کالے بال ڈھونڈتی ہے۔ یہ تلاش و جستجو کا طویل سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا، کبھی کوکھ اولاد کو تلاش کرتی ہے، کبھی اولاد ماں کی مقدس آغوش کو۔

میرا بچپن تھا مرا گھر تھا کھلونے تھے مرے  ۔ سر پہ ماں باپ کا سایہ بھی غزل جیسا تھا

……………………………………………………………..


عمر بھر دھوپ میں پیڑ جلتا رہا

زخم کیسا بھی ہو کُریدئیے تو اچھا لگتا ہے ۔ ماضی کیسا بھی رہا ہو سوچئے تو مزہ آتا ہے ۔ بچپن جیسا بھی گزرا ہو راج سنگھاسن سے اچھا ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم زمینداری کیسی ہوتی ہے کیونکہ میں نے بارہا ماں کو بھوکے پیٹ سوتے دیکھا ہے ۔ مجھے کیا پتہ زمیندار کیسے ہوتے ہیں، کیونکہ میں نے مدتوں اپنے ابو کے ہاتھوں میں ٹرک کا اسٹئیرنگ دیکھا ہے ۔ میں نے بہت سے خواب دیکھے ہیں ۔ ممکن ہے میرے ابو نے بھی خواب دیکھے ہوں کیونکہ ایک تھکا ماندا ٹرک ڈرائیور بہت بے خبری کی نیند سوتا ہے ۔ لیکن جب مجھے معلوم ہے میری ماں نے کبھی خواب نہیں دیکھا تھا کیونکہ خواب تو وہ آنکھیں ہمیشہ گھر کی دہلیز پر اور جسم جانماز پر رکھا دیکھا ہے اور جوانی اس ٹرک ڈرائیور کے انتظار میں قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھی ہے جو میرے ابو بھی تھے اور امی کے سر کا انچل بھی۔

رائے بریلی سے میرا نانہال صرف بیس میل کے فاصلے پر تھا لیکن غربت فاصلے بڑھا دیتی ہے، لفافے اور پوسٹ کارڈ کو چھوٹا کر دیتی ہے۔ غربت میں رشتے دار بھی دور کا چراغ معلوم ہوتے ہیں ۔ غربت میں وہ نشہ ہے جس میں خدا بھی رشتہ دار  معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے خدا آسمان پر بہت بڑے گھر میں رہتا ہو لیکن زمین پر وہ صرف غریب آدمی کے دل میں رہتا ہے۔ غربت میں کروندے اور بیر کے کانٹے انگلیوں سے خون نکال کر اس کی جانچ کر لیتے ہیں ۔ خون کی بوندوں کے جانچنے اور پرکھنے کے لیے کسی لیبوریٹری میں بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑتی، غربت کے وہ دن بھی کیا ہوتے ہیں جب شو کیس میں رکھی ہوئی گڑیا کو دیکھنے کے لیے غریبی احتیاطاً ہاتھ منہ دھو لیتی ہے۔

ایک دن میرے ابو گھر آئے۔ میری امی نانی کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ میرے دو چھوٹے بھائی بھی امی کے ساتھ چلے گئے تھے (ایک چھوٹا بھائی یحیٰ رانا تقریباً بارہ برس پہلے عین نوجوانی کے عالم میں جبپ کے حادثے میں مالک حقیقی سے جا ملا)۔ میں گھر پر اپنی دادی کے پاس تھا۔ کیونکہ دادی مجھے بہت چاہتی تھیں ۔ پتہ نہیں لڑکوں سے دادی کو اور لڑکیوں سے نانی کو اتنی محبت کیوں ہوتی ہے۔ شاید نانی دختر زادی میں اپنی بیٹی تلاش کر لیتی ہے اور دادی پوتے میں اپنا بیٹا ڈھونڈ لیتی ہے۔ ابو مجھے ٹرک پر بٹھا کر نانہال کی طرف چل دیے ۔ جہاں تک ٹرک جاسکتا تھا ابو ٹرک چلا کر لے گئے پھر ایک جگہ ٹرک روک دیا اور مجھے ساتھ لے کر پیدل ہی گاؤں کی طرف چل دیے ۔ غالباً دو ڈھائی میل کا فاصلہ رہا ہو گا۔ پگڈنڈیوں پر چلنے کی عادت نہ ہونے سے مجھے یوں بھی تکلیف ہو رہی تھی۔ پھر سفر بھی لمبا تھا، چلتے چلتے میں ابو سے بہت پیچھے ہو جاتا ۔ وہ مڑ کر دیکھتے تو میں پھر دوڑ کر ان کے پاس پہنچ جاتا۔ بچپن میں باپ بھی خضر علیہ السلام معلوم ہوتا ہے۔ قدرت یہ احساس صرف بچپن کو ہی عطا کرتی ہے۔ اچانک ابو ایک جگہ اکڑوں بیٹھ گئے اور بولے تم میرے کندھے پر بیٹھ جاؤ، میں نے کہا نہیں ابو جان ! آپ تھک جائیں گے۔ میں آپ کے ساتھ چلوں گا آپ کے کندھے پر نہیں بیٹھوں گا ۔ ابو نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولے تم بوجھ نہیں ہو میرے بیٹے ہو، میں تھکوں گا نہیں ۔ یہ کہہ کر انہوں نے زبردستی مجھے اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور کہنے لگے ٹھیک ہے میں تمہیں اپنے کندھے پر بٹھا کر چل رہا ہوں۔ جب تم بڑے ہونا تو مجھے کار لا کر دینا ۔ اس وقت میری عمر  مشکل سے سات آٹھ برس رہی ہو گی۔

بچپن خوشبو کی طرح ہوتا ہے بہت دیر نہیں ٹھہر تا یا بچپن کو پر لگ جاتے ہیں۔ دن مہینوں میں اور مہینے برسوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ کچھ ہی برسوں بعد سارا خاندان پاکستان چلا گیا۔ جیسے طاعون میں گاؤں صاف ہو جاتے ہیں ، جیسے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے، جیسے رنگت کو دھوپ کھا جاتی ہے جیسے کردار کو شہر کھا جاتے ہیں، جیسے ایمان کو ہوس نگل لیتی ہے، جیسے حویلیوں کو انا کھا جاتی ہے، جیسے آئینے کو ویرانی کھا لیتی ہے۔ شاید آئینہ چہرہ دیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ اور ڈھال میدان میں تنہا چھوڑ کر جاتے ہوئے لشکر کو دیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ سیاست کی بساط پر دنیا کی سب سے ذہین قوم مہرا بن کر رہ گئی ۔ تقسیم کے کھیل میں پاکستان جیت گیا مگر مسلمان ہر گئے ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ کیسی شکست تھی جس کا احساس باون برس گزر جانے کے بعد بھی باقی ہے۔ یہ کیسا زخم تھا جس کی کسک ہر مرنے والے کے چہرے سے اتر کر پیدا ہونے والے کے چہرے پر چپک جاتی ہے۔ یہ کیسی ندامت تھی جسےتین نسلوں کے آنسو بھی نہیں دھو سکے۔ یہ کیسی تقسیم تھی جس کا حصہ آج تک نہیں لگ سکا۔ یہ کیسا فیصلہ تھا جس نے تاج محل کے دو ٹکڑے کر دئے ، کشمیر کے دو حصے ہو گئے ، جامع مسجد آدھی ہو گئی ۔غزل نے مرثیے کا روپ دھار لیا ، اردو زبان سرحد کی سولی پر لٹکا دی گئی اور فرار کو ہجرت کا لقب دے دیا گیا۔

ایک ٹوٹے سے گھر میں بارشوں میں ٹپکتے ہوئے چھپر کے نیچے  ابو نے اپنی گیلی مٹی جسیے بچوں کو اس سیدھی سادی پردہ دار خاتون کے سپرد کر دیا جو میری ماں تھی اور خود اللہ کا نام لے کر اپنے بازوؤں کے بھروسے روزی کی تلاش میں شب و روز شیر شاہ سوری کی بنوائی سڑک کے پیچ و خم سے کھیلنا شروع کر دیا ۔ اب کبھی ہفتے بھر بعد آتے ، کبھی دس دنوں بعد واپسی ہوتی کبھی تھوڑی دیر ٹھہر تے ، کبھی تھوڑے دن ٹھہرتے اور پھر ہم لوگوں کے روشن مستقبل کی تلاش میں ٹرک کا اسٹیرنگ تھام لیتے۔ وہساری زندگی ونڈ اسکرین گلاس سے سڑک کے بجائے ہمارے مستقبل کا خواب دیکھتے رہتے تھے۔ مستقبل کا خواب بھی وہ نشہ ہوتا ہے جو ساری عمر نہیں اترتا، وہ الہڑ شباب ہوتا ہےجس سے بڑھاپا کترا کے گزرتا ہے ۔ وہ طوفان ہوتا ہے جسے باندھا نہیں جاسکتا۔

ابو ہم لوگوں کے بارے میں سوچتے بہت تھے ۔ انہیں کوئی بھی موسم ڈرا نہیں پاتا تھا ۔ وہ لُو دھوپ کی شدت کے زمانے میں انگوچھا بھگو کر سر پر لپیٹ لیتے تھے۔ بارہا انہوں نے رائے بریلی سے کلکتہ تک پنجاب میل کے ڈرائیور کو آگے نہیں نکلنے دیا۔ رفتہ رفتہ گاڑی چلانا ان کا پیشہ ہی نہیں شوق بن کر رہ گیا ۔ وہ زیادہ سے زیادہ وقت ٹرک چلانے میں گزار دیتے تھے لیکن وہ ہم لوگوں سے غافل نہیں ہو پاتے تھے۔ وہ اس خیال سے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے یہ پتہ نہیں گھر پر چولہا جلا بھی ہو گا یا نہیں ؟ اور اکثر ایسا ہوتا بھی تھا کہ میرے گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا۔ امی ہم لوگوں کو رشتے کی ایک پھوپھی کے گھر بھیج دیتیں اور خود خالی پیٹ سوجاتی تھیں یا جا نماز پر کھڑی ہو جاتی تھیں ۔ ابو آگ سے بہت ڈرتے تھے، راستے میں اگر  کہیں آگ لگی دیکھ لیتے تھے تو فوراً یہ خیال پریشان کرنے لگتا تھا کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اگر خدانخواستہ گھر میں آگ لگ گئی تو کیا ہو گا ؟ میری امی میرے گھر کی روایتی پردہ داری کی طرفدار بھی تھیں اور نگہبان بھی ۔ ہم لوگوں کے کپڑے خواہ پھٹے ہوئے کیوں نہ ہوں لیکن گھر کے دروازے پر ہمیشہ ایک مضبوط پردہ جھولتا رہتا تھا۔

وقت کو دبے پاؤں چلنے کی اتنی عادت ہے کہ محسوس ہوئے بغیر گزر جاتا ہے ۔ غالباً 1964 ء میں ابو نے کلکتہ میں ٹرانسپورٹ کا چھوٹا سا کام شروع کیا۔ 1967ء میں امی اور چھوٹے بھائی بہن  بھی کلکتہ چلے گئے ۔ ہم تین بھائی ابو کے خالہ زاد بھائی یونس صوفی(جنہیں ہم لوگ چچا جان کہتے تھے) کے گھر میں رہ کو تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ 1968ء میں ابو ہم لوگوں کو بھی لے کر کلکتہ چلے آئے ۔محمد جان اسکول سے ہائر سکنڈری کرنے کے بعد میرا داخلہ امیش چندر کالج میں بی کام میں ہو گیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کی نوبت نہیں آئی ۔ کیونکہ ایک تو مجھے شاعری، ڈرامہ نگاری اور اسٹیج پروگرام کا چسکہ لگ گیا ، دوسرے اچانک ابو بیمار ہو کر اسلامیہ اسپتا ل میں بھرتی ہو گئے ۔ تقریباً پچیس دنوں تک اسپتال میں رہے۔ پڑھائی سے میرا جی اچاٹ ہو گیا اور میں ابو کے ساتھ ٹرانسپورٹ کے آفس میں بیٹھنے لگا ۔ ابو کو شاعری بہت پسند تھی ۔ سوزؔسکندر پوری، پروفیسر اعزاز افضل ، رازؔ الہٰ آبادی اور نازشؔ پرتاپ گڑھی سے ان کے بہت گہرے مراسم تھے۔ اپنے آخری دنوں میں اعزاز افضل کا یہ شعر پڑھتے رہتے تھے۔

افضلؔ کا مقدر ہے حق گوئی و بے باکی ۔ سچ بات کہی ہو گی جھٹلائے گئے ہوں گے

لیکن وہ اس بات پر قطعی راضی نہیں تھے کہ میں شاعر بنوں۔ لیکن تقدیر کے لکھے کو کیسے ٹالا جاسکتا ہے ۔ میں بگڑتے بگڑتے ایک دن شاعر بن گیا لیکن ابو کے خون پسینے سے سینچے ہوئے کاروباری پودے پر کبھی دھوپ چھاؤں کا اثر نہیں ہونے دیا۔ کاروباری گڈی پر بٹھاتے وقت ابو نے پندرہ بیس ہزار روپیوں کے ساتھ ایمانداری ، بے باکی ، حق گوئی اور شرافت کی جو پونجی میرے حوالے کی تھی خدا کا شکر ہے کہ میں نے اس میں اضافہ ہی کیا ہے۔ 1987ء میں ابو کلکتہ سے واپس رائے بریلی آ گئے:

مہاجر و یہی تاریخ ہے مکانوں کی ۔ بنانے والا ہمیشہ برآمدوں میں رہا

چھوٹے بھائی کی موت کے بعد ابو ٹوٹ پھوٹ گئے ، لیکن وہ کبھی اس کا اظہار نہیں ہونے دیتے تھے لیکن اندر اندر دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھلنے لگے ۔ ہم سب بھائی ان کو کسی بھی طرح خوش رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ۔ ہر طرح ان کی دل جوئی میں مصروف رہتے ، لیکن اب ایک طرح سے وہ اس بچے کی طرح ہو گئے تھے جو بہت ڈرا ہوا ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کو رات کے سفر سے منع کرتے تھے لیکن چونکہ ٹرانسپورٹ کے کام میں جب تک ہیڈ لائٹ ساتھ دے رات کو نہیں کہا جا تا ۔ لہذا  اس مجبوری کی وجہ سے  ہمارا ر ا توں  کا سفر ابو کو بھی گھر میں جگائے رکھتا تھا ۔ ہفتوں گھر   کا منہ نہ دیکھنے والے ابو اب کہیں بھی جاتے تو کو شش یہی کرتے کہ رات ہونے سے پہلے پہلے   وہ رائے  بریلی واپس آ جائیں ۔ سمندر کی لہروں پر چلنے والا مسافر اب ندی کے کنا رے بیٹھ کر وضو کر تے ہوئے تھک جاتا تھا  ۔ ابو اپنے چہرے سے اور خاص طور پر اپنی آواز کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے مجھے دیر  رات میں فون کر نے والے اکثر دھوکہ کھا جاتا تھے ۔ اگر چہ یحییٰ کی موت کے بعد ابو بالکل ٹوٹ پھوٹ چکے مگر ان کی آواز میں کبھی لوچ نہیں آیا تھا ۔

1999ء کے بعد ابو بالکل کمزور ہو گئے تھے ۔ دونوں گردوں نے کام کرنا تقریباً  بندر کر دیا تھا ۔ ہفتے میں دو با رائے بریلی سے لکھنو ڈاکسس کے لئے لائے جاتے ۔ اس کے باوجود ان کی خود اعتمادی میں کمی نہیں آئی تھی بلکہ کبھی کبھی تو ان کے چہرے پر زندگی کی چمک دیکھ کر موت بھی ما یوسی کا  شکار ہو جا تی رہی ہو گی ۔

ایک دن میں نے سو چا کہ ابو کی ‘زین ‘ کا ر پرانی ہو گئی ہے ۔ نئی کار لائی جائے تو ممکن ہے کہ ابو کہ زندہ رہنے کی امنگ بڑھ جائے ۔ میں کلکتہ گیا تو ان کے لئے ایک "ٹاٹا سفاری ” خریدی ۔ جب کسی نے ابو کو چچا آپکے لئے بھیا نے سفاری خریدی ہے تو بستر پر ا ٹھ کر بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح پوچھا ” شہر میں یہ گاڑی کسی کے پاس ہے؟ ” جب یہ بتا یا گیا کہ ابھی یہ گاڑی پورے ضلع میں کسی کے پاس نہیں ہے تو سن کر مسکرائے اور پھر بچوں کی طرح لیٹ کر سو گئے ۔ جس دن کلکتہ سے سفاری آئی ابو ڈاکسس کے لئے لکھنو گئے ہوئے تھے۔

شام کو کچہری والوں کی طرف سے ‘ ہندی دوس ‘ کے موقعہ پر فیروز گاندھی کالج کے آ ڈیٹوریم میں ایک کوی سمیلن تھا ۔ رائے بریلی کے ضلع جج محترم پی ڈی کوشک صاحب اردو سے محبت کرتے تھے، اسی نسبت  سے وہ میرا بھی خیال کر تے تھے انھوں نے مجھے دعوت نا مہ اس تاکید کے ساتھ بھجوا یا تھا کہ آ پ کو شر یک ہو نا ہے ۔ میں شام کو کوی سمیلن میں جانے کے لئے نکلا ۔ کا ر ابو کو لیکر ابھی لو ئی نہیں تھی ۔ ڈر ئیو ر چنے خاں جو سفاری کلکتہ سے چلا کر لائے تھے ، کہنے لگے چلئے میں آ پکے ساتھ کوی سمیلن میں چلتا ہوں ۔ میں نے منع کیا تو بو لے میں آ پ چھو ڑ کر چلا جاؤں گا ۔ میں نے انہیں سمجھا یا یہ میں ابھی سفاری پر نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ  ابھی تک اس گاڑی کا اصلی مالک اس گاڑی پر نہیں بیٹھا ہے ۔ یہ سن کر  چنے خاں بھی رنجیدہ ہو گئے اور میں چپ چاپ سر جھکائے سڑک  پر آگیا اور رکشے پر بیٹھ کر فیروز گاندھی ڈگری کالج کی طرف روانہ ہو گیا۔ اتفاق سے آڈیٹوریم کے صدر دروازے پر ضلع جج صاحب مل گئے۔ انہوں نے مجھے رکشے سے اترتے دیکھ لیا تھا۔ وہ میرے پاس آئے اور شکایتی لہجے میں بولے کہ آپ نے فون کر دیا ہوتا۔ کوئی بھی گاڑی چلی جاتی اور آپ کو لے آتی۔ میں نے اٹکا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کو  یاد دلایا کہ آپ ایک بار یہ قصہ سنایاتھا کہ الہ آباد کے کسی مندر میں ایک راجہ پہنچا اور اس نے مندر پر چڑھاوے میں دوسیر سونا چڑھایا ہے؟ پجاری جی بولے نہیں مہاراج ابھی تک تو ایسا کوئی بھی دانی ادھر سے نہیں گزرا۔ راجہ نے مسکراکر کہا تو سمجھ لیجئے  وہ دانی شہر میں آ چکا ہے۔ کل میں مندر میں دوسیر سونا چڑھاؤں گا۔ پنڈت جی نے مسکراتے ہوئے ہاتھ جوڑ لیئے اور بولے لیکن مہاراج میں یہ چڑھاوا لینے سے انکار کرتا ہوں۔ راجہ نے پوچھا پنڈت جی آپ یہ چڑھاوا لینے سے انکار کیوں کر رہے ہیں؟ پنڈت جی نے پھر ہاتھ جوڑ لیئے اور بولے مہاراج ، مندر میں دوسرے سونا چڑھانے والے تو ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے لیکن ممکن ہے میرے بعد کوئی انکار کرنے والا نہ پیدا ہو۔ ضلع جج   صاحب نے مجھے الجھ ہوئی سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو میں نے بھی ہاتھ جوڑ لیئے کہ جناب میں اپنے دروازے پر سفاری چھوڑ کر اس لیے آیا ہوں کہ ہر دور میں سفاری جیسی مہنگی اور اس سے بھی مہنگی گاڑیوں پر بیٹھ کر لوگ کوی سملین میں آتے رہیں گے لیکن ممکن ہے میرے بعد قیمتی کار چھوڑ کر رکشے پر بیٹھ کر آنے والا نہ پیدا ہو۔

ابو صرف ایک  بار اس گاڑی پر بیٹھ سکے کیونکہ اگلے ہفتے امی نے اپنی کلائی کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ تقریباً 6 مہینے تک گاڑی یوں ہی کھڑی رہی۔ میں کوشش کرتا تھا کہ اس پر نگاہ نہ پڑنے پائے۔ پھر ایک دن میرے ایک محسن نے مجھ سے وہ گاڑی کچھ دنوں کے لیے مانگ لی۔ میں نے ڈرائیور سے گاڑی ان کے گھر پر کھڑی کروا دی اور آج تک واپس لانے کی ہمت نہیں کرسکا۔

مجھ معلوم نہیں روایتی شاعری، ترقی پسند ادب، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کسے کہتے ہیں۔ میں تو آپ بیتی کو جگ بیتی اور جگ بیتی کو آپ بیتی کو آپ بیتی کے لباس سے آراستہ کر کے غزل بناتا ہوں ۔ آپ کو اچھی لگے تو شکریہ، نہ اچھی لگے تو بھی شکریہ۔

دکھ بزرگوں نے کافی اٹھائے مگر میرا بچپن بہت ہی سہانا رہا

عمر بھر دھوپ میں پیڑ جلتے رہے،اپنی شاخیں ثمر دار کرتے رہے

0 0 0 0 0 0 0 0 0

 

ماں

ہنستے ہوئے ماں باپ کی گالی نہیں کھاتے

بچے ہیں تو کیوں شوق سے مٹی نہیں کھاتے

 ہو چاہئے جس علاقے کی زباں بچے سمجھتے ہیں

سگی ہے یا کہ سوتیلی ہے ماں بچے سمجھتے ہیں

ہوا دکھوں کی  جب آئی کبھی خزاں کی طرح

مجھے چھپا لیا مٹی نے میری ماں کی طرح

 سسکیاں اس کی نہ دیکھی گئیں مجھ سے راناؔ

رو  پڑا میں بھی اسے پہلی کمائی دیتے

 سر پھرے لوگ  ہمیں دشمن جاں کہتے ہیں

ہم جو اس ملک کی مٹی کو بھی ماں کہتے ہیں

مجھے بس اس لیے اچھی بہار لگتی ہے

کہ یہ بھی ماں کی طرح خوشگوار لگتی ہے

میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو

مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا

بھیجے گئے فرشتے ہمارے بچاؤ میں

جب حادث ماں کی دعا سے الجھ پڑے

 لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی

 بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی

 تار  پر بیٹھی ہوئی چڑیوں کو سو تا دیکھ کر

فرش پر سوتا ہوا بیٹا بہت اچھا لگا

اس چہرے میں پوشیدہ  ہے اک قوم کا چہرہ

چہرے کا اتر جانا مناسب نہیں ہو گا

اب بھی چلتی ہے جب آندھی کبھی غم کی رانا

ماں کی ممتا مجھے باہوں میں چھپا لیتی ہے

مصیبت کے دنوں میں ماں ہمیشہ ساتھ رہتی ہے

پیمبر کیا پریشانی میں اُمّت چھوڑ سکتا ہے

 

پرانا پیڑ بزرگوں کی طرح ہوتا ہے

یہی بہت ہے کہ تازہ  ہوائیں دیتا ہے

کسی کے پاس آتے ہیں تو دریا سوکھ جاتے ہیں

کسی کی ایڑیوں سے ریت میں چشمہ نکلتا ہے

جب تک رہا ہوں دھوپ میں چادر بنا رہا

میں اپنی ماں کا آخری زیور بنا رہا

 دیکھ لے ظالم شکاری ماں کی ممتا دیکھ لے

دیکھ لے چڑیا ترے دانے تلک تو آ گئی

مجھے بھی اس کی جدائی ستاتی رہتی ہے

اسے بھی خواب میں بیٹا دکھائی دیتا ہے

مفلسی گھر میں ٹھہر نے نہیں دیتی اس کو

اور پردیس میں بیٹا نہیں رہنے دیتا

اگر اسکول میں بچے ہوں گھر اچھا نہیں لگتا

پرندوں کے نہ ہونے سے شجر اچھا نہیں لگتا

گلے ملنے کو آپس میں دعائیں روز آتی ہیں

ابھی مسجد کے دروازے پہ مائیں روز آتی ہیں

کبھی کبھی مجھے یوں بھی اذاں بلاتی ہے

شریر بچے کو جس طرح ماں بلاتی ہے

کسی کو گھر ملا حصّے میں یا کوئی دکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کا لا ہو گیا

ماں نے آنکھیں کھول دیں گھر میں اجالا ہو گیا

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھوتی ہے

ماں بہت غصّے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

میری خواہش ہے کہ میں پھر سے فرشتہ ہو جاؤں

ماں سے اس طرح لپٹ جاؤں کہ بچہ ہو جاؤں

مرا خلوص تو پو رب کے گاؤں جیسا ہے

سلوک دنیا کا سو تیلی ماؤں جیسا ہے

 

روشنی دیتی ہوئی سب لالٹینیں بجھ گئیں

خط نہیں آ یا جو بیٹوں کا تو مائیں بجھ گئیں

وہ میلا سا بو سیدہ سا آنچل نہیں دیکھا

برسوں ہوئے ہم نے کوئی پیپل نہیں دیکھا

کئی باتیں محبت سب کو بنیادی بتاتی ہے

جو پر دادی بتاتی تھی وہی دادی بتاتی ہے

حادثوں کی گرد سے خود کو بچا نے کے لئے

ماں ہم اپنے ساتھ اب تیری دعا لے جائیں گے

ہوا اڑائے لئے جار ہی ہے ہر چادر

پرانے لوگ سبھی انتقال کرنے لگے

اے خدا پھول سے بچوں کی حفاظت کرنا

مفلسی چاہ رہی ہے مر ے گھر میں رہنا

ہمیں حریفوں کی تعداد کیوں بتاتے ہو

ہمارے ساتھ بھی بیٹا جوان رہتا ہے

خود کو اس بھیڑ میں تنہا نہیں ہو نے دینگے

ماں تجھے ہم ابھی بوڑھا نہیں ہونے دینگے

پیڑ  امیدوں کا یہ سوچ کے کاٹا نہ کبھی

پھل نہیں آئیں گے اس میں تو ہوا ہی دے گا

سکھ دیتی ہوئی ماؤں کو گنتی نہیں آتی

پیپل کی گھنی چھاؤں کو گنتی نہیں آتی

لپٹ کے روتی نہیں ہیں کبھی شہیدوں سے

یہ حوصلہ بھی ہمارے وطن کی ماؤں میں ہے

یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں

اس پیڑ کا سایہ مرے بچوں کو ملے گا

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا

میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے

جہاں پچھلے کئی برسوں سے کالے ناگ رہتے ہیں

وہاں اک گھونسلہ چڑیوں کا تھا دادی بتاتی ہے

 

یاروں کو مسرت میری دولت پہ ہے لیکن

اک ماں ہے جو بس میری خوش دیکھ کے خوش ہے

سمجھو کہ صرف جسم ہے اور جاں نہیں رہی

وہ شخص جو کہ زندہ ہے اور ماں نہیں رہی

پردیس جا رہے ہو تو تعویذ باندھ لو

کہتی ہیں مائیں بچوں سے اپنے پکار کے

نکلنے ہی نہیں دیتی ہیں اشکوں کو مری آنکھیں

کہ یہ بچے ہمیشہ ماں کی نگرانی میں رہتے ہیں

تیرے آگے ماں بھی موسی جیسی لگتی ہے

تیری گود میں گنگا میّا اچھا لگتا ہے

تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہونگے اے فلک

مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی

لپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے

میں اردو میں غزل کہتا ہوں، ہندی مسکراتی ہے

جو بھی دولت تھی وہ بچوں کے حوالے کر دی

جب تلک میں نہیں بیٹھوں یہ کھڑے رہتے ہیں

جب بھی دیکھا مرے کردار پہ دھبہ کوئی

 دیر تک بیٹھ کے تنہائی میں رویا کوئی

 خدا کرے کہ امیدوں کے ہاتھ پیلے ہوں

ابھی تلک تو گزاری ہے عدّتوں کی طرح

گھر کی دہلیز پہ روشن ہیں وہ بجھتی آنکھیں

مجھ کو مت روک مجھے لوٹ کے گھر جانا ہے

یہیں رہوں گا کہیں عمر بھر نہ جاؤں گا

زمین ماں ہے اسے چھوڑ کر نہ جاؤں گا

 اسٹیشن سے واپس آ کر بوڑھی آنکھیں سوچتی ہیں

پتّے دیہاتی رہتے ہیں پھل شہری ہو جاتے ہیں

اب دیکھئے کون آئے جنازے کو اٹھانے

یوں تار تو میرے سبھی بیٹوں کو ملے گا

اب اندھیرا مستقبل رہتا ہے اس دہلیز پر

جو ہماری منتظر رہتی تھیں آنکھیں بجھ گئیں

اگر کسی کی دعا میں اثر نہیں ہوتا

تو میرے پاس سے کیوں تیر آ کے لوٹ گیا

ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہو گا

میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے

جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے

ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے

کہیں بے نور نہ ہو جائیں وہ بوڑھی آنکھیں

گھر میں ڈرتے تھے خبر بھی مرے بھائی دیتے

کیا جانے کہاں ہوتے مرے پھول سے بچے

ورثے میں اگر ماں کی دعا بھی نہیں ملتی

کچھ نہیں ہو گا تو آنچل میں چھپا لیگی مجھے

ماں کبھی سر پہ کھلی چھت نہیں رہنے دیگی

 

قدموں میں لا کے ڈال دیں سب نعمتیں مگر

سو تیلی ماں کو بچے سے نفرت وہی رہی

دھنستی ہوئی قبروں کی طرف دیکھ لیا تھا

ماں باپ کے چہروں کی طرف دیکھ لیا تھا

کو ئی دکھ ہو کبھی کہنا نہیں پڑتا اس سے

وہ ضر و ت کو طلبگار سے پہچانتا ہے

کسی کو دیکھ کر روتے ہوئے ہنسنا نہیں اچھا

یہ وہ آنسو ہیں جن سے تخت سلطانی پلٹتا ہے

دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن

ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے

دعائیں ماں کی پہنچا نے کو میلوں میل جاتی ہیں

کہ جب پردیس جانے کے لئے بیٹا نکلتا ہے

دیا ہے ماں نے مجھے دودھ بھی وضو کر کے

محاذ جنگ سے میں لوٹ کر نہ جاؤں گا

کھلونوں کی طرف بچے کو ماں جانے نہیں دیتی

مگر آگے کھلونوں کی دکاں جانے نہیں دیتی

دکھا تے ہیں پڑوسی ملک آنکھیں تو دکھا نے دو

کہیں بچوں کے بوسے سے بھی ماں کا گال کٹتا ہے

بہن کا پیار ماں کی مامتا دو چیختی آنکھیں

یہی تحفے تھے وہ جن کو میں اکثر یاد کرتا تھا

برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر

ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے

بڑی بیچا رگی سے لوٹتی بارات تکتے ہیں

 بہادر ہو کے بھی مجبور ہوتے ہیں دلھن وا لے

میرا بچپن تھا مرا گھر تھا کھلونے تھے مرے

سر پہ ماں باپ کا سایہ بھی غزل جیسا تھا

مقدس مسکراہٹ ماں کے ہونٹوں پر  لرزتی ہے

کسی بچّے کا جب پہلا سپارہ ختم ہوتا ہے

 

کھانے کی چیزیں ماں نے جو بھیجی ہیں گاؤں سے

باسی بھی ہو گئی ہیں تو لذّت وہی رہی

میں وہ میلے میں بھٹکتا ہوا ایک بچہ ہوں

جسکے ماں باپ کو روتے ہوئے مر جانا ہے

ملتا جلتا ہے سبھی ماؤں سے ماں کا چہر ا

گردوارے کی بھی دیوار نہ گرنے پائے

منتظر ہونگی وہ پاکیزہ سی آنکھیں گھر میں

گھر کی دہلیز پہ نشّے میں کبھی مت جانا

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں

صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ’ماں‘ رہنے دیا

گھیر لینے کو مجھے جب بھی بلائیں آ گئیں

ڈھال بن کر سامنے ماں کی دعائیں آ گئیں

میدان چھوڑ دینے سے میں بچ تو جاؤں گا

لیکن جو یہ خبر مر ی ماں تک پہونچ گئی

منوّ ر ماں کے آ گے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا

جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی

مٹی لپٹ لپٹ گئی پیروں سے اسلئے

تیّار ہوکے بھی کبھی ہجرت نہ کر سکے

مفلسی بچّے کو رونے نہیں دینا ورنہ

ایک آنسو بھرے بازار کو کھا جائیگا

مجھے خبر نہیں جنت بڑی کہ ماں لیکن

بزرگ کہتے ہیں جنت بشر کے نیچے ہے

مجھے کڑھے ہوئے تکیئے کی کیا ضرورت ہے

کسی کا ہاتھ ابھی میرے سر کے نیچے ہے

بزرگوں کا مرے دل سے ابھی تک ڈر نہیں جاتا

کہ جب تک  جاگتی رہتی ہے ماں میں گھر نہیں جاتا

محبت کرتے جاؤ بس یہی سچّی عبادت ہے

محبت ماں کو بھی مکّہ مدینہ مان لیتی ہے

 

ماں یہ کہتی تھی کہ موتی ہیں ہمارے آنسو

اسلئے اشکوں کا پینا بھی برا لگتا ہے

پردیس جانے والے کبھی لوٹ آئیں گے

لیکن اس انتظار میں  آنکھیں چلی گئیں

شہر کے رستے ہوں چاہے گاؤں کی پگڈنڈیاں

ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا

میں کوئی احسان مانوں بھی تو آخر کس لئے

شہر نے دولت اگر دی ہے تو بیٹا لے لیا

اب بھی روشن ہیں تری یاد سے گھر کے کمرے

روشنی دیتا ہے اب تک ترا سایہ مجھ کو

مرے چہرے پہ ممتا کی فراوانی چمکتی ہے

میں بوڑھا ہو رہا ہوں پھر بھی پیشانی چمکتی ہے

وہ جا رہا ہے گھر سے جنازہ بزرگ کا

آنگن میں اک درخت پرانا نہیں رہا

وہ تو لکھا کے لائی ہے قسمت میں جاگنا

ماں کیسے سو سکے گی کہ بیٹا سفر میں ہے

شاہزادے کو یہ معلوم نہیں ہے شاید

ماں نہیں جانتی دستار کا بوسہ لینا

آنکھوں سے مانگنے لگے پانی وضو کا ہم

کاغذ پہ جب بھی دیکھ لیا ‘ماں’ لکھا ہوا

ابھی تو میری ضرورت ہے میرے بچوں کو

بڑے ہوئے تو یہ خود انتظام کر لیں گے

میں ہوں مرا بچہ ہے کھلونوں کی دکاں ہے

اب کوئی مرے پاس بہنا بھی نہیں ہے

اے خدا تو فیس کے پیسے عطا کر دے مجھے

میرے بچوں کو بھی یو نیو رسٹی اچھی لگی

بھیک سے تو بھوک اچھی گاؤں کو واپس چلو

شہر میں رہنے سے یہ بچہ برا ہو جائے گا

 

کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے

تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے

ممتا کی آبرو کو بچا یا ہے نیند نے

بچہ زمین پہ سو بھی گیا کھیلتے ہوئے

میر ے بچے نامرادی میں جواں بھی ہو گئے

میری خواہش صرف بازاروں کو تکتی رہ گئی

بچوں کی فیس ، ان کی کتا بیں ، قلم، دوا ت

میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا

وہ سمجھتے ہی نہیں ہیں مری مجبور ی کو

اسلئے بچوں پہ غصہ بھی نہیں آتا ہے

کسی بھی رنگ کو پہچاننا مشکل نہیں ہوتا

مرے بچوں کی صورت دیکھ اس کو  زرد  کہتے ہیں

دھوپ سے مل گئے ہیں پیڑ ہمارے گھر کے

میں سمجھتی تھی کہ کام آئے گا بیٹا اپنا

چلو مانا کہ شہنائی مسرت کی نشانی ہے

مگر وہ شخص جسکی آ کے بیٹی بیٹھ جاتی ہے

پھر اس کو مر کے بھی خود سے جدا ہونے نہیں دیتی

یہ مٹی جب کسی کو اپنا بیٹا مان لیتی ہے

تمام عمر سلامت رہیں دعا ہے یہی

ہمارے سر پہ ہیں جو ہاتھ برکتوں والے

ہماری مفلسی ہم کو اجازت تو نہیں دیتی

مگر ہم تیری خاطر کوئی شہزادہ بھی دیکھیں گے

ماں باپ کی بوڑھی آنکھیں میں ایک فکر سی چھائی رہتی ہے

جس کمبل میں سب سو تے تھے اب وہ بھی چھوٹا پڑتا ہے

دوستی دشمنی دونوں شامل رہیں دوستوں کی نوازش تھی کچھ اس طرح

کاٹ لے شوخ بچہ کوئی جس طرح ماں کے رخسار پر پیار کرتے ہوئے

ماں کی ممتا گھنے بادلوں کی طرح سر پہ سایہ کیے ساتھ چلتی رہی

ایک بچہ کتابیں لئے ہاتھ میں خامشی سے سڑک پار کر تے ہوئے

 

دکھ بزرگوں نے کافی اٹھائے مگر میرا بچپن بہت ہی سہا نا رہا

عمر بھر دھوپ میں پیڑ جلتے رہے اپنی شاخیں ثمر دار کرتے ہوئے

ابھی موجود ہے اس گاؤں کی مٹی میں خو داری

ابھی بیوہ کی غیر ت سے مہاجن ہار جاتا ہے

معلوم نہیں کیسی ضرورت نکل آئی

سر کھو لے ہوئے گھر سے شرافت نکل آئی

اس میں بچوں کی جلی لاشوں کی تصویریں ہیں

دیکھنا ہاتھ سے اخبار نہ گر پائے

اوڑھے ہوئے بدن پہ غریبی چلے گئے

بہنوں کو روتا ہوا چھڑ کے بھا ئی چلے گئے

کسی بوڑھے کی لاٹھی چھن گئی ہے

 وہ دیکھو ایک جنازہ جا رہا ہے

آنگن کی تقسیم کا قصہ

میں جانوں یا بابا جانے

ہماری چیختی آنکھوں نے جلتے شہر دیکھے ہیں

برے لگتے ہیں اب قصے ہمیں بھا ئی بہن والے

اس لئے میں نے بزرگوں کی زمینیں چھوڑ دیں

میرا گھر جس دن بسے گا تیرا گھر گر جائے گا

بچپن میں کسی بات پہ ہم روٹھ گئے تھے

اس دن سے اسی شہر میں ہیں گھر نہیں جاتے

بچھڑ کے تجھ سے تری یاد بھی نہیں آ ئی

ہمارے کام یہ اولاد بھی نہیں آئی

مجھ کو ہر حال میں بخشے گا اجالا اپنا

چاند رشتے میں نہیں لگتا ہے ماما اپنا

میں نرم مٹی ہوں تم روند کر گزر جاؤ

کہ میرے ناز تو بس کوزہ گر اٹھا تا ہے

مسائل نے ہمیں بوڑھا کیا ہے وقت سے پہلے

 گھر یلو الجھنیں اکثر جوانی چھین لیتی ہیں

 

اچھلتے کھیلتے بچپن میں بیٹا ڈھونڈتی ہو گی

تبھی تو دیکھ کر پوتے کو دادی مسکراتی ہے

کچھ کھلو نے کبھی آنگن میں دکھائی  دیتے

کاش ہم بھی کسی بچے کو مٹھائی دیتے

دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن

بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا

جسم پر میرے بہت شفاف کپڑے تھے مگر

دھول مٹی میں اٹا بیٹا بہت اچھا لگا

کم سے کم بچوں  کے ہونٹوں کی ہنسی کی خاطر

ایسی مٹی میں ملانا کہ کھلو نا ہو جاؤں

قسم دیتا ہے بچوں کی بہا نے سے بلاتا ہے

دھواں چمنی کا ہم کو کار خانے سے بلاتا ہے

بچے بھی غریبی کو سمجھنے لگے شاید

اب جاگ بھی جاتے ہیں تو سحری نہیں کھا تے

انہیں فرقہ پر ستی مت سکھا دینا کہ یہ بچے

زمیں سے چوم کر تتلی کے ٹوٹے پر اٹھاتے ہیں

سب کے کہنے سے ارادہ نہیں بدلا جاتا

ہر سہیلی سے دوپٹہ نہیں بدلا جاتا

بچھڑتے وقت بھی چہرا نہیں اتر تا ہے

یہاں سروں سے دوپٹہ نہیں اترتا ہے

کانوں میں کوئی پھول بھی ہنس کر نہیں پہنا

اس نے بھی بچھڑ کر کبھی زیور نہیں پہنا

محبت بھی عجب شے ہے کوئی پردیس میں روئے

تو فورا ہاتھ کی اک آدھ چوڑ ی ٹوٹ جاتی ہے

بڑ ے شہروں میں بھی رہ کر برابر یاد کرتا تھا

میں اک چھوٹے سے اسٹیشن کا منظر یاد کرتا تھا

کس کو فرصت اس محفل میں غم کی کہانی پڑھنے کی

سونی کلائی دیکھ کے لیکن چوڑ ی والا ٹوٹ گیا

 

مجھے بلاتا ہے مقتل میں کس طرح جاؤں

کہ میری گود سے بچہ نہیں اترتا ہے

کہیں کوئی کلائی ایک چوڑ ی کو ترستی ہے

کہیں کنگن کے جھٹکے سے کلا ئی ٹو ٹ جاتی ہے

اس وقت بھی اکثر تجھے ہم ڈھونڈ نے نکلے

جس دھوپ میں مزدور بھی چھت پر نہیں جاتے

شرم آ تی ہے مزدوری بتا تے ہوئے ہم کو

اتنے میں تو بچوں کا غبارہ نہیں ملتا

ہم نے بازار میں دیکھے ہیں گھر یلو چہرے

مفلسی تجھ سے بڑے لوگ بھی دب جاتے ہیں

بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں میں

غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال دیتی ہے

امیر شہر کا رشتے میں کوئی کچھ نہیں لگتا

غریبی چاند کو بھی اپنا ماما مان لتی ہے

تو کیا مجبوریاں بے جان چیزیں بھی سمجھتی ہیں

گلے سے جب اتر تا ہے تو زیور کچھ نہیں کہتا

کہیں بھی چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے

ہمیں بلاتی ہے دنیا ہمیں نہیں جاتے

زمیں بنجر بھی ہو جائے تو چاہت کم نہیں ہوتی

کہیں کوئی وطن سے بھی محبت چھوڑ سکتا ہے

ضرورت روز ہجرت کے لئے آواز دیتی ہے

محبت چھوڑ کر ہندوستاں جانے نہیں دیتی

­­­­­

پیدا یہیں ہوا ہوں یہیں پر مروں گا میں

وہ اور لوگ تھے جو کراچی چلے گئے

میں مروں گا تو یہیں دفن کیا جاؤں گا

میری مٹی بھی کراچی نہیں جانے والی

وطن کی راہ میں دینی پڑے گی جان اگر

خدا نے چا ہا تو ثابت قدم ہی نکلیں گے

وطن سے دور بھی یا رب وہاں پہ دم نکلے

جہاں سے ملک کی سر حد دکھائی دینے لگے

بزرگ

خود سے چل کر نہیں یہ طرز سخن آیا ہے

پاؤں دابے ہیں بزرگوں کے تو فن آیا ہے

ہمیں بزرگوں کی شفقت کبھی نہ مل پائی

نتیجہ یہ ہے کہ ہم لوفروں میں رہنے لگے

ہمیں گرتی ہو ئی دیوار کو تھامے رہے ورنہ

سلیقے سے بزرگوں کی نشانی کون رکھتا ہے

روش بزرگوں کی شامل ہے میری گھٹی میں

ضرورتاً بھی سخی کی طرف نہیں دیکھا

سڑک سے جب گزرتے ہیں تو بچے پیڑ گنتے ہیں

بڑے بوڑھے بھی گنتے ہیں وہ سو کھے پیڑ گنتے ہیں

حویلیوں کی چھتیں گر گئیں مگر اب تک

مرے بزرگوں کا نشّہ نہیں اتر تا ہے

 

بلک رہے ہیں زمینوں پہ بھوک سے بچے

مرے بزرگوں کی دولت کھنڈ ر کے نیچے ہے

مرے بزر گوں کو اس کی خبر نہیں شاید

پنپ نہیں سکا جو پیڑ برگدوں میں رہا

عشق میں رائے بزر گوں سے نہیں لی جاتی

آگ بجھتے ہوئے چولہوں سے نہیں لی جاتی

مرے بزرگوں کا سایہ تھا جب تلک مجھ پر

میں اپنی عمر سے چھوٹا دکھائی دیتا تھا

بڑے بوڑھے کنوئیں میں نیکیاں کیوں پھینک آتے ہیں

کنویں میں چھپ کے آخر کیوں یہ نیکی بیٹھ جاتی ہے

مجھے اتنا ستا یا ہے مرے اپنے عزیزوں نے

کہ اب جنگل بھلا لگتا ہے گھر اچھا نہیں لگتا

 

خود

ہمارے کچھ گناہوں کی سزا بھی ساتھ چلتی ہے

ہم اب تنہا نہیں چلتے دوا بھی ساتھ چلتی ہے

کچے ثمر شجر سے الگ کر دیے گئے

ہم کمسنی میں گھر سے الگ کر دیے گئے

گوتم کی طرح گھر سے نکل کر نہیں جاتے

ہم رات میں چھپ کر کہیں باہر نہیں جاتے

ہمارے ساتھ چل کر دیکھ لیں یہ بھی چمن والے

یہاں اب کوئلہ چنتے ہیں پھو لوں سے بدن والے

اتنا روئے تھے لپٹ کر در و دیوار سے ہم

شہر میں آ کے بہت دن رہے بیمار سے ہم

میں اپنے بچوں سے آنکھیں ملا نہیں سکتا

میں خالی جیب لیے اپنے گھر نہ جاؤں گا

ہم ایک تتلی کی خاطر بھٹکتے پھر تے تھے

کبھی نہ آئیں گے وہ دن شرارتوں والے

مجھے سنبھالنے والا کہاں سے آئے گا

میں گر رہا ہوں پرانی عمارتوں کی طرح

پیروں کو میرے دیدۂ تر باندھے ہوئے ہے

زنجیر کی صورت مجھے گھر باندھے ہوئے ہے

دل ایسا کہ سیدھے کیے جو تے بھی بڑوں کے

ضد اتنی کہ خود تاج اٹھا کر نہیں پہنا

چمک ایسے نہیں آ تی ہے خود داری کے چہرے پر

انا کو ہم نے دو دو وقت کا فاقہ کر ا یا ہے

ذرا سی بات پہ آنکھیں برسنے لگتی تھیں

کہاں چلے گئے موسم وہ چاہتوں والے

میں اس خیال سے جاتا نہیں ہوں گاؤں کبھی

وہاں کے لوگوں نے دیکھا ہے بچپنا میرا

ہم نہ دلّی تھے نہ مزدور کی بیٹی لیکن

قافلے جو بھی ادھر آئے ہمیں لوٹ گئے

اب مجھے اپنے حریفوں سے ذرا بھی ڈر نہیں

میرے کپڑے بھائیوں کے جسم پر آ نے لگے

تنہا مجھے کبھی نہ سمجھنا مرے حریف

ایک بھا ئی مر چکا ہے مگر ایک گھر میں ہے

میدان سے اب لوٹ کے جانا بھی ہے دشوار

کس موڑ پہ دشمن سے قرابت نکل آئی

مقدر میں لکھا کر لائے ہیں ہم دربدر پھر نا

پرندے کوئی موسم ہو پریشانی میں رہتے ہیں

میں پٹریوں کی طرح زمیں پر پڑا رہا

سینے سے غم گزرتے رہے ریل کے طرح

میں ہوں مٹی تو مجھے کوز ہ گروں تک پہنچا

میں کھلونا ہوں تو بچوں کے حوالے کر دے

 

ہماری زندگی کا اس طرح ہر سال کٹتا ہے

کبھی گاڑی پلٹتی ہے کبھی ترپال کٹتا ہے

شاید ہمارے پاؤں میں تل ہے کہ آ ج تک

گھر میں کبھی سکون سے دو دن نہیں رہے

میں وصیت کر سکا کوئی نہ وعدہ لے سکا

میں نے سوچا بھی نہیں تھا حادثہ ہو جائے گا

ہم بہت تھک ہا ر کے لوٹے تھے لیکن جانے کیوں

رینگتی، بڑھتی ، سرکتی چیونٹیاں اچھی لگیں

مدتوں بعد کوئی شخص ہے آ نے والا

اے مرے آنسوؤ تم دیدۂ تر میں رہنا

تکلفات نے زخموں کو کر دیا ناسور

کبھی مجھے کبھی تا خیر چا رہ گر کو ہوئی

اپنے بکنے کا بہت دکھ ہے ہمیں بھی لیکن

مسکراتے ہوئے ملتے ہیں خریدار سے ہم

ہمیں دن تاریخ تو یاد نہیں بس اس سے اندازہ کر لو

ہم اس موسم میں بچھڑے تھے جب گاؤں میں جھولا پڑتا ہے

میں اک فقیر کے ہونٹوں کی مسکراہٹ ہوں

کسی سے بھی مری قیمت ادا نہیں ہوتی

ہم تو اک اخبار سے کاٹی ہوئی تصویر ہیں

جس کو کاغذ  چننے والے کل اٹھا لے جائیں گے

انا نے میرے بچوں کی ہنسی بھی چھین لی مجھ سے

یہاں جانے نہیں دیتی وہاں جانے نہیں دیتی

جانے اب کتنا سفر باقی بچا ہے عمر کا

زندگی ابلے ہوئے کھانے تلک تو آ گئی

ہمیں بچوں کا مستقبل لئے پھر تا ہےسڑکوں پر

نہیں تو گرمیوں میں کب کوئی گھر سے نکلتا ہے

سونے کے خریدار نہ ڈھونڈو کہ یہاں پر

 اک عمر ہوئی لوگوں نے پیتل نہیں دیکھا

میں اپنے گاؤں کا مکھیا بھی ہوں بچوں کا قاتل بھی

جلا کر دودھ کچھ لوگوں کی خاطر گھی بنا تا ہوں

بہن

کس دن کوئی رشتہ مری بہنوں کو ملے گا

کب نیند کا موسم مری آنکھوں کو ملے گا

میری گڑیا سی بہن کو خود کشی کرنی پڑی

کیا خبر تھی دوست میرا اس قدر گر جائے گا

کسی بچے کی طرح پھوٹ کے روئی تھی بہت

اجنبی ہاتھ میں وہ اپنی کلائی دیتے

جب یہ سنا کہ ہار کے لوٹا ہوں جنگ سے

راکھی زمیں پہ پھینک کے بہنیں چلی گئیں

چاہتا ہوں کہ ترے ہاتھ بھی پیلے ہو جائیں

کیا کروں میں کوئی رشتہ ہی نہیں آتا ہے

ہر خوشی بیاج پہ لا یا ہوا دھن لگتی ہے

اور اداسی مجھے منہ بولی بہن لگتی ہے

دھوپ رشتوں کی نکل آئے گی یہ آس لیے

گھر کی دہلیز پہ بیٹھی رہیں بہنیں میری

اسلئے بیٹھی ہیں دہلیز پہ میری بہنیں

پھل نہیں چاہتے تا عمر شجر میں رہنا

نا امید ی نے بھر ے گھر میں اندھیرا کر دیا

بھائی خالی ہاتھ لوٹے اور بہنیں بجھ گئیں

 

بھائی

میں اتنی بے بسی سے قیدِ دشمن میں نہیں مرتا

اگر میر ابھی اک بھائی لڑکپن میں نہیں مرتا

کانٹوں سے بچ گیا تھا مگر پھول چبھ گیا

میرے بدن میں بھائی کا ترشول چبھ گیا

اے خدا تھوڑی کرم فر مائی ہو نا چاہیئے

اتنی بہنیں ہیں تو پھر اک بھائی ہو نا چاہیئے

باپ کی دولت سے یوں دونوں نے حصہ لے لیا

بھائی نے دستا ر لے لی میں نے جوتا لے لیا

نہتا دیکھ کے مجھ کو لڑا ہے

جو کام اس نے کیا ہے وہ بھائی کرتا ہے

یہی گھر تھا جہاں مل جل کے سب اک سا تھ رہتے تھے

یہی گھر ہے الگ بھا ئی کی افطاری نکلتی ہے

وہ اپنے گھر میں روشن سار ی شمعیں گنتا رہتا ہے

اکیلا بھائی خاموشی سے بہنیں گنتا رہتا ہے

میں اپنے بھائیوں کے ساتھ جب باہر نکلتا ہوں

مجھے یوسف کے جانی دشمنوں کی یاد آ تی ہے

مرے بھا ئی و ہاں پانی سے روزہ کھو لتے ہوں گے

ہٹا لو سامنے سے مجھ سے افطاری نہیں ہو گی

جہاں پر گن کے روٹی بھائیوں کو بھا ئی دیتے ہیں

سبھی چیزیں وہاں دیکھیں مگر برکت نہیں دیکھی

رات دیکھا ہے بہاروں پہ خزاں کو ہنستے

کوئی تحفہ مجھے شاید مرا بھائی دے گا

تمھیں اے بھائیو یوں چھوڑ نا اچھا نہیں لیکن

ہمیں اب شام سے پہلے ٹھکانا ڈھونڈ لینا ہے

غم سے لچھمن کی طرح بھائی کا رشتہ ہے مرا

مجھ کو جنگل میں اکیلا نہیں رہنے دیتا

 

جو لو گ کم ہوں تو کاندھا ضرور دے دینا

سر ہا نے آ کے مگر بھا ئی بھائی مت کرنا

محبت کا یہ جذبہ جب خدا کی دین ہے بھائی

تو میرے راستے سے کیوں یہ دنیا ہٹ نہیں جاتی

یہ قربِ قیامت ہے لہو کیسامنور

پانی بھی تجھے تیرا برادر نہیں دیگا

آپنے کھل کے محبت نہیں کی ہے ہم سے

آپ بھائی نہیں کہتے ہیں میاں کہتے ہیں

 

بچے

فرشتے آ کے ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل کے ڈبے میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

ہمکتے کھیلتے بچوں کی شیطانی نہیں جاتی

مگر پھر بھی ہمارے گھر کی ویرانی نہیں جاتی

اپنے مستقبل کی چادر پر رفو کر تے ہوئے

مسجدوں میں دیکھیئے بچے وضو کرتے ہوئے

مجھے اس شہر کی سب لڑکیاں آداب کر تی ہیں

میں بچوں کی کلائی کے لئے راکھی بنا تا ہوں

گھر کا بوجھ اٹھا نے والے بچے کی تقدیر نہ پوچھ

بچپن گھر سے باہر نکلا اور کھلو نا ٹو ٹ گیا

جو اشک گو نگے تھے وہ عرض حال کر نے لگے

ہمارے بچے ہمیں سے سوال کر نے لگے

جب ایک واقعہ بچپن کا ہم کو یاد آیا

ہم ان پرندوں کو پھر گھونسلے میں چھوڑ آئے

بھرے شہروں میں قربانی کا موسم جب سے آیا ہے

مرے بچے کبھی ہولی میں پچکاری نہیں لاتے

مسجد کی چٹا ئی پہ یہ سوتے ہوئے بچے

ان بچوں کو دیکھو کھبی ریشم نہیں دیکھا

بھوک سے بے حال بچے تو نہیں روئے مگر

گھر کا چولہا مفلسی کی چغلیاں کھانے لگا

تلوار تو کیا میری نظر تک نہیں اٹھی

اس شخص کے بچوں کی طرف دیکھ لیا تھا

ریت پر کھیلتے بچوں کو ابھی کیا معلوم

کوئی سیلاب گھروندا نہیں رہنے دیتا

دھواں بادل نہیں ہوتا کہ بچپن دوڑ پڑتا ہے

خوشی سے کون بچہ کار خانے تک پہنچتا ہے

 

میں چاہوں تو مٹھائی کی دکانیں کھول سکتا ہوں

مگر بچپن ہمیشہ رام دانے تک پہنچتا ہے

ہو ا کے رخ پہ رہنے دو یہ جلنا سیکھ جائے گا

کہ بچہ لڑکھڑائے گا تو چلنا سیکھ جائے گا

اک سلگتے شہر میں بچہ ملا ہنستا ہوا

سہمے سھمے سے چراغوں کے اجالے کی طرح

میں نے اک مدت سے مسجد بھی نہیں دیکھی مگر

ایک بچے کا اذاں دینا بہت اچھا لگا

انہیں اپنی ضرورت کے ٹھکانے یاد رہتے ہیں

کہاں پر ہے کھلونوں کی دکاں بچے سمھتے ہیں

زمانہ ہو گیا دنگے میں اس گھر کو جلے لیکن

کسی بچے کے رونے کی صدائیں روز آتی ہیں

 

وہ

کسی بھی موڑ پر تم سے وفاداری نہیں ہو گی

ہمیں معلوم ہے تم کو یہ بیماری نہیں ہو گی

نیم کا پیڑ تھا برسات تھی اور جھولا تھا

گاؤں میں گزرا زمانہ بھی غزل جیسا تھا

ہم کچھ ایسے ترے دیدار میں کھو جاتے ہیں

 جیسے بچے بھرے بازار میں کھو جاتے ہیں

تجھے اکیلے پڑھوں کوئی ہم سبق نہ رہے

میں چاہتا ہوں کہ تجھ پر کسی کا حق نہ رہے

وہ اپنے کاندھوں پہ کنبہ کا بوجھ رکھتا ہے

اسی لئے تو قدم سو چ کر اٹھا تا ہے

آنکھیں تو اسے گھر سے نکلنے نہیں دیتیں

آنسو ہیں کہ سامان سفر باندھے ہوئے ہیں

 

سفید ی آ گئی بالوں میں اس کے

وہ با عزت گھر انا چاہتا تھا

نہ جانے کون سی مجبور یاں پردیس لائی تھیں

وہ جتنی دیر تک زندہ رہا گھر یاد کرتا تھا

تلاش کرتے ہیں ان کو ضرورتوں والے

کہاں گئے وہ پرانی شرافتوں والے

وہ خوش ہے کہ بازار میں گالی مجھے دے دی

میں خوش ہوں کہ احسان کی قیمت نکل آئی

اسے جلی ہوئی لاشیں نظر نہیں آتیں

مگر وہ سوئی سے دھاگا گزار دیتا ہے

وہ پہروں بیٹھ کر طوطے سے باتیں کرتا رہتا ہے

چلو اچھا ہے اب نظریں بدلنا سیکھ جائے گا

اسے حالات نے روکا مجھے میرے مسائل نے

وفا کی راہ میں دشوار یاں دونوں طرف سے ہیں

تجھ سے بچھڑا تو پسند آ گئی بے ترتیبی

اس سے پہلے مرا کمرا بھی غزل جیسا تھا

کہاں کی ہجرتیں کیسا سفر کیسا جدا ہونا

کسی کی چا ہ پیروں پر دوپٹہ ڈال دیتی ہے

غزل وہ صنف نازک ہے جسے اپنی رفاقت سے

وہ محبوبہ بنا لیتا ہے میں بیٹی بنا تا ہوں

وہ ایک گڑیا جو میلے میں کل دکان پہ تھی

دنوں کی بات ہے پہلے مرے مکان پہ تھی

لڑکپن میں کیے وعدے کی قیمت کچھ نہیں ہوتی

انگوٹھی ہاتھ میں رہتی ہے منگنی ٹو ٹ جاتی ہے

وہ جسکے واسطے پر دیس جا رہا ہوں میں

بچھڑتے وقت اسی کی طرف نہیں دیکھا

 

متفرقات

ہم سایہ دار پیڑ زمانے کے کام آئے

جب سوکھنے لگے تو جلانے کے کام آئے

کوئل بولے یا گوریا اچھا لگتا ہے

اپنے گاؤں میں سب کچھ بھیّا اچھا لگتا ہے

خاندانی وراثت کے نیلام پر آپ اپنے کو تیا ر کرتے ہوئے

اس حویلی کے سارے مکیں رو دیئے اس حویلی کو باز ار کرتے ہوئے

اڑ نے سے پرندے کو شجر روک رہا ہے

گھر والے تو خاموش ہیں گھر روک رہا ہے

وہ چاہتی ہے کہ آنگن میں موت ہو میری

کہاں کی مٹی ہے مجھ کو کہاں بلاتی ہے

نمائش پر بدن کی یوں کو ئی تیار کیوں ہوتا

اگر سب گھر کے ہو جاتے تو یہ بازار کیوں ہوتا

کچا سمجھ کے بیچ نہ دینا مکان کو

شاید کبھی یہ سر کو چھپا نے کے کام آئے

اندھیری رات میں اکثر سنہری مشعلیں لیکر

پرندوں کی مصیبت کا پتہ جگنو لگاتے ہیں

تو نے ساری باز یاں جیتی ہیں مجھ پر بیٹھ کر

اب میں بوڑھا ہو رہا ہوں اصطبل بھی چاہئیے

مہاجرو  یہی تاریخ ہے مکانوں کی

بنانے والا ہمیشہ برآمدوں میں رہا

تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو

تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے

کسی دکھ کا کسی چہرے سے اندازہ نہیں ہوتا

شجر تو دیکھنے میں سب ہرے معلوم ہوتے ہیں

ضرورت سے انا کا بھاری پتھر ٹوٹ جاتا ہے

مگر پھر آدمی بھی اندر اندر ٹوٹ جاتا ہے

 

حبت ایک ایسا کھیل ہے جس میں مرے بھائی

ہمیشہ جیتنے والے پریشانی میں رہتے ہیں

پھر کبوتر کی وفاداری پہ شک مت کرنا

وہ تو گھر کو اسی مینار سے پہچانتا ہے

انا کی مو ہنی صورت بگاڑ دیتی ہے

بڑے بڑوں کو ضرورت بگاڑ دیتی ہے

بنا کر گھونسلہ رہتا تھا اک جوڑا کبوتر کا

اگر آندھی نہیں آتی تو یہ مینار بچ جاتا

ان گھروں میں جہاں مٹی کے گھڑے رہتے ہیں

قد میں چھوٹے ہوں مگر لوگ بڑے رہتے ہیں

پیاس کی شدت سے منہ کھولے پرندہ گر پڑا

سیڑھیوں پر ہانپتے اخبار والے کی طرح

وہ چڑیاں تھیں دعائیں پڑھ کے جو مجھ کو جگاتی تھیں

میں اکثر سوچتا تھا یہ تلاوت کو ن کرتا ہے

 

پرندے چونچ میں تنکے دبائے جاتے ہیں

میں سوچتا ہوں کہ اب گھر بسا لیا جائے

اے میرے بھائی مرے خون کا بدلہ لے لے

 ہاتھ میں روز یہ تلوار نہیں آئے گی

نئے کمروں میں اب چیزیں پرانی کون رکھتا ہے

پرندوں کے لیئے شہروں میں پانی کون رکھتا ہے

جسکو بچّوں میں پہنچنے کی بہت عجلت ہو

اس سے کہیے نہ کبھی کار چلانے کے لئے

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

پیٹ کی خاطر فٹ پاتھوں پر بیچ رہا ہوں تصویریں

میں کیا جانوں روزہ ہے یا میرا روزہ ٹوٹ گیا

جب اس سے گفتگو کر لی تو پھر شجرہ نہیں پوچھا

ہنر بخیہ گری کا ایک تر پائی میں کھلتا ہے

غربت

گھر کی دیوار پہ کوّے نہیں اچھے لگتے

مفلسی میں یہ تماشے نہیں اچھے لگتے

مفلسی نے سارے آنگن میں اندھیرا کر دیا

بھائی خالی ہاتھ لوٹے اور بہنیں بجھ گئیں

امیری ریشم و کمخواب میں ننگی نظر آئی

غریبی شان سے اک ٹاٹ کے پردے میں رہتی ہے

اسی گلی میں وہ بھوکا کسان رہتا ہے

یہ وہ زمیں ہے جہاں آسمان رہتا ہے

دہلیز پہ سر کھو لے کھڑی ہو گی ضرورت

اب ایسے میں گھر جانا مناسب نہیں ہو گا

عید کے خوف نے روزوں کا مزہ چھین لیا

مفلسی میں یہ مہینہ بھی بر ا لگتا ہے

 

اپنے گھر میں سر جھکائے اسلئے آیا ہوں میں

اتنی مزدوری تو بچے کی دوا کھا جائے گی

اللہ غریبوں کا مددگار ہے راناؔ

ہم لوگوں کے بچے کبھی سردی نہیں کھاتے

بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے

رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں

 

بیٹی

گھروں میں یوں سیانی لڑکیاں بے چین رہتی ہیں

کہ جیسے ساحلوں پر کشتیاں بے چین رہتی ہیں

یہ چڑ یا بھی مری بیٹی سے کتنی ملتی جلتی ہے

کہیں بھی شاخِ گل دیکھے تو جھولا ڈال دیتی ہے

رو رہے تھے سب تو میں بھی پھوٹ کر رونے لگا

ورنہ مجھ کو بیٹیوں کی رخصتی اچھی لگی

بڑی ہونے لگی ہیں مورتیں آنگن میں مٹی کی

بہت سے کام باقی ہیں سنبھا لا لے لیا جائے

تو پھر جا کر کہیں ماں باپ کو کچھ چین پڑتا ہے

کہ جب سسرال سے گھر آ کے بیٹی مسکرا تی ہے

ایسا لگتا ہے کہ جیسے ختم میلہ ہو گیا

اڑ گئیں آنگن سے چڑیاں گھر اکیلا ہو گیا

 

***

ٹائپنگ: مخدوم محی الدین

تدوین أور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید